You are on page 1of 2

‫عورت پر تشدد کے واقعات میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے کہیں عورت پرعزت کے نام پر تشدد کیا جاتا ہے تو کہیں

اپنا حق‬
‫سمجھ کر جس کی وجہ سے اکثر اوقات عورت کو اپنی زندگی سے بھی ہاتھ دھونا پڑتا ہے۔دارالحکومت اسالم آباد میں یکے بعد‬
‫دیگرے خواتین کے ساتھ ایسے کئی واقعات پیش آئے۔‬

‫جوالئی ‪ 2021‬کو اسالم آباد میں ایک دل دہال دینے واال واقعہ ہوا جس میں پاکستانی سفیر شوکت علی مقدم کی بیٹی نور مقدم ‪20‬‬
‫کو اس کے دوست نے بے دردی سے قتل کر دیا۔نور مقدم کے گھر والوں ‪ ،‬اور دوستوں سے یہ معلوم ہوا کہ نور مقدم اور ظاہر‬
‫جعفر لیونگ ریلیشن شپ میں رہ رہے تھے‪ ،‬لیکن دو ماہ سے ان کے درمیان ناراضگی چل رہی تھی اور تب سے دونوں میں‬
‫کوئی رابطہ نہیں ہوا تھا۔ ‪ 18‬جوالئی کو رات نو بجے نور مقدم ظاہر جعفر کو ایک ٹیکسٹ کرتی ہے جس کے جواب میں ظاہر‬
‫جعفر انہیں کال کرتا ہے۔جس کے بعد نور مقدم رات نو بجکر پانچ منٹ پر گھر سے نکلتی ہے اور ظاہرسے ملنے کے لئے بلیو‬
‫ایریا اسالم آباد پہنچتی ہے۔جب وہ وہاں پہنچتی ہے تو اس پہ یہ انکشاف ہوتا ہے کہ اسے اچھی نےت سے نہیں بالیا گیا کیونکہ‬
‫نورمقدم کے پہنچتے ہی ظاہر جعفر اس پہ گن تان لیتا ہے اور اسے کہتا ہے کہ وہ اپنے گھر والوں کو کہے کہ وہ اس وقت الہور‬
‫میں کسی اجتماع میں موجود ہے ۔ظاہر ہے گن پوائنٹ پہ ہونے کی وجہ سے نور مقدم اس کی بات مان کے اپنے گھر والوں کو‬
‫کال کر کے یہی سب بتاتی ہے۔ جس کے بعد ظاہر جعفر نور مقدم پہ ریلیشن شپ میں دھوکہ دینے کا الزام لگاتا ہے اور اسے‬
‫اپنے گھر میں گارڈز کی موجودگی میں بہیمانہ تشدد کا نشانہ بناتا ہے۔ نور مقدم اپنی جان بچانے کیلئے اوپر سے کودنے کی‬
‫کوشش بھی کرتی ہے لیکن ظاہر اسے دوبارہ اندر کھینچ لیتا ہے ۔ان دونوں کے درمیان یہ کشمکش جاری ہوتی ہے لیکن اس وقت‬
‫اسی جگہ کچھ تماشائی بھی موجود تھے جو یہ سارا منظر اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے لیکن وہ اپنے مالک کے خالف جا کر‬
‫ایک لڑکی کو اس حیوان سے نجات نہیں دلوا سکے ۔ان گارڈز نے ظاہر جعفر کے والد کو فون کیا اور اس کے والد نے اس کی‬
‫میڈیکل ٹیم کو ۔اس وقت بھی پولیس کو کال نہیں کی گئی تاکہ اپنے بیٹے کو بچایا جا سکے۔اس تمام وقت میں ظاہر نور مقدم کو‬
‫تشدد کا نشانہ بناتا رہا اور آ خر اس بے رحم انسان نے اس کا سر تن سے جدا کردیا اور اس کے ایک کزن کی جانب سے یہ بھی‬
‫بتایا گیا ہے کہ جب میڈیکل ٹیم اس کے کمرے میں دروازہ توڑ کر پہنچی تو وہ سفاک انسان جسے انسان کہنا بھی انسانیت کی‬
‫توہین ہے وہ نور مقدم کے سر کو ٹھوکریں مار رہا تھا ۔ یہ دیکھ کر جب اس ٹیم نے اسے روکنا چاہا تو اس نے انہیں بھی تشدد کا‬
‫نشانہ بنا یا جس کے بعد اس ٹیم نے اسے وہیں باندھ دیا۔بعض میں پولیس کو ایک نامعلوم شخص کی جانب سے ایک کال موصول‬
‫ہوئی جس میں پولیس کو اس واقع کی اطالع دی گئی۔۔ پولیس نے موقع پر پہنچ کرظاہر جعفر کو نور مقد م کے قتل کے الزام میں‬
‫جائے وقوعہ سے گرفتار کر لیا اورپھر آلہ قتل بھی برآمدکر لیا تھا۔ اس کے بعدمقتولہ کی ڈیڈ باڈی کا پوسٹ مارٹم ہوا جس میں دل‬
‫کو دہال دینے والے انکشافات سامنے آئے رپورٹ میں یہ انکشاف کیا گیا کہ مقتولہ کا سر دھڑ سے الگ کیا گیا تھا جبکہ تشدد کے‬
‫نشانات بھی مقتولہ کے جسم پر موجود تھے۔مقتولہ نورمقدم کی داہنی کنپٹی اورسینے پرخنجر گھونپا گیاتھا۔ دوسری جانب جو ملزم‬
‫ظاہر جعفر ہے وہ ایک بڑی کمپنی کا سی ای او ہے امریکہ سے بھی وہ تعلیم حاصل کر کے آیاہے اور اس کے جاننے والوں کا‬
‫یہ کہنا ہے کہ یہ بچپن سے ایک پر تشدد انسان تھا اور پہلے بھی یہ کچھ لوگوں کو نقصان پہنچا چکا تھا۔ظاہرجعفرایک نفسیات‬
‫کے شعبے سے تعلق رکھنے واال ڈاکٹر بھی ہے جو کہ اسالم آباد میں اپنا بہت بڑا کلینک بھی چال رہا ہے۔ظاہر جعفر کے ایک‬
‫مریض نے بتایا ہے کہ عالج کے نام پر اسے بہت جسمانی طورپرتکلیف دی گئی اور اسے بالخر وہاں سے بھاگنا پڑا۔ملزم کے‬
‫حوالے سے یہ بات بھی سننے کو ملی کہ اس کا ذہنی توازن خراب ہے اور اس کا عالج چل رہا ہے اور ملزم نے خود بھی یہ‬
‫ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ وہ ذہنی مریض ہے جبکہ ایس ایس پی انوسٹی گیشن عطا الرحمان کا کہنا ہے کہ ملزم ظاہر‬
‫جعفر کو جب وقوعہ سے گرفتار کیا گیا تو اس کی ذہنی حالت مکمل طور پر نارمل تھی اور وہ پوری طرح اپنے ہوش و حواس‬
‫میں تھا۔اس کے عالوہ ملزم ظاہر امریکہ کی شہریت بھی رکھتا ہے اور ایک دولتمند انسان ہے اور اسے ان تمام باتوں کا زعم بھی‬
‫بہت ہے اور اسے لگتا ہے کہ وہ اس طرح سزا سے بچ سکے گا۔‬
‫نور مقدم قتل کیس میں نور کے والد نے جو ایف آئی آر درج کرائی ہے اس میں انہوں نے کہا کہ جو ملزم ظاہر جعفر ہے اس کے‬
‫والد سے ان کی فیملی کی ذاتی واقفیت ہے اور دونوں خاندان ایک دوسرے کو جانتے بھی تھے ۔ انھوں نے بتایا کہ ان کی بیٹی‬
‫‪ 19‬جوالئی کو گھر سے گئیں تھیںاور کہا تھا کہ وہ دوستوں کے ساتھ الہور جا رہی ہیں۔ جبکہ ظاہر جعفر نے ‪ 20‬تاریخ کو انھیں‬
‫کا ل کر کے بتایا کہ نور ان کے ساتھ نہیں ہیں۔جس کے بعد رات دس بجے انھیں تھانے سے کال آئی کہ آپ کی بیٹی نور مقدم کا‬
‫قتل ہو گیا ہے آپ تھانہ کوہسار آ جائیں۔نور کے والد کا کہنا ہے کہ جب وہ پویس کے ہمراہ ظاہر جعفر کے گھر پہنچے تو انہوں‬
‫نے دیکھا کہ ’ گھر کے اندر ان کی بیٹی کو بے دردی سے تیز دھار آلے سے قتل کر کے اس کا سر جسم سے کاٹ کر الگ کر‬
‫دیا گیا ہے۔‬
‫ملزم کئی دن تک ریمانڈ پر رہا اور اب کیس کے تفتیشی افسر کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ملزم کی حد تک تفتیش مکمل ہو چکی‬
‫ہے اور اب ملزم کو جوڈیشل ریمانڈ پر جیل بھیجا گیا ہے جبکہ اب جو اگلی سماعت ہے وہ ‪ 16‬اگست کو ہے۔اب دیکھنا یہ ہے کہ‬
‫اس سفاک انسان کو جس نے اتنی بےدردی سے قتل کیا کب سزا ملے گی اور کب وہ اپنے انجام کو پہنچے گا یا یہ کیس بھی پہلے‬
‫کی طرح کسی امیرزادے کے حق میں چال جائے گا۔ اور نورمقدم کو انصاف ملے گا یا نہیں؟ کب تک عورت ظلم کا نشان بنتی‬
‫رہے گی؟؟اور کب تک اسی طرح ہمارے معاشرے میں نورکی طرح مزید قتل ہوتے رہیں گے۔‬
‫یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم اتنے بے حس ہو چکے ہیں کہ ہمارے سامنے کسی انسان کو بے رحمی سے قتل کیا جارہا ہو‬
‫اور ہم خاموشی سے تماشہ دیکھتے رہیں ۔اس وقت جو گارڈز یہ سب دیکھ رہے تھے وہ اس سب کو کیوں نہ روک سکے اورا س‬
‫کے والد جنہوں نے پولیس کو اطالع کرنے کے بجائے میڈیکل ٹیم کو بال لیا۔ کہ کہیں پولیس ان کے بیٹے کو گرفتار نہ کر لے۔‬
‫اور جس طرح ملزم کو ذہنی مریض بنا کر کیس کا رخ موڑا جا رہا ہے وہ بھی قابل غور ہے کہ کیا ملزم اس بات کا فائدہ عدالت‬
‫سے حاصل کر سکے گا۔‬

‫یہاں یہ بات بھی قابل غور ہے کہ والدین کو اپنے بچوں کی سرگرمیوں پر نظر رکھنی چاہئیے ۔ کیونکہ والدین اپنے بچوں کی‬
‫سرگرمیوں پر نظر نہیں رکھتے جس کی وجہ سے ایسے واقعات رونما ہوتے ہیں۔ساالنہ رپورٹ کے مطابق پاکستان کے چاروں‬
‫صوبوں‪ ،‬گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر کے صرف ‪ 25‬منتخب اضالع میں جنوری سے دسمبر ‪ 2020‬تک ‪ 2‬ہزار ‪ 297‬کیسز‬
‫رپورٹ کیے گئے۔‬
‫یہ اعداد و شمار صرف ملک کے ‪ 25‬اضالع کے ہیں اور یہ واقعات نہ صرف ملک کے اخبارات میں شائع ہوئے بلکہ ان واقعات‬
‫کی تصدیق متعلقہ تھانوں نے بھی کی ہے۔حکومت ان تمام واقعات کا نوٹس لے تاکہ انصاف کا حصول ممکن ہو سکے۔ اور‬
‫عورتیں گھروں سے نکلتے ہوئے خود کو محفوظ تصور کر سکیں۔‬

You might also like