Professional Documents
Culture Documents
عشقِ مومن
عشقِ مومن
عش ِ
تحریر :فیض عالم
کراچی پاکستان
چمکی ایک خواجہ سرا تھا۔۔ 21سال پہلے سردی کی سخت ترین رات میں جب
اماں فریدہ اپنے دوسری خواجہ سرا بیٹیوں کے ساتھ شادی کی ایک تقریب میں
محفل سجا کر واپس آ رہی تھیں تو راستے میں انہیں ایک کچرے خانے کے پاس
۔۔۔
ایک نومولود خوبصورت بچہ پالسٹک کے شاپر میں رکھا ہوا مال ۔۔۔۔ یہ عام بچہ
نہیں تھا ۔۔۔
یہ ایک خواجہ سرا بچہ تھا اور شاید والدین نے بدنامی کے خوف سے اسے
کوڑے دان میں پھینک دیا تھا۔
اماں فریدہ ایک گرو خواجہ سرا تھیں اور بہت رحم دل بھی۔۔۔ اس بچے کو دیکھا
تو اپنے ساتھ گھر لے آئیں۔
تب سے آج تک اماں فریدہ نے اسے اپنی بیٹی بنا کر پاال ۔۔۔۔
مگر وہ یہ بات بہت پہلے جان چکی تھیں کہ یہ بچہ بڑا ہو کر عام ناچنے گانے
واال خواجہ سرا نہیں بنے گا۔
اس کے عادات و اطوار سب سے مختلف تھے ۔۔۔
اماں نے اور باجی نگینہ نے اسے ڈانس سیکھانے کی بہت کوشش کی مگر یہ نا
سیکھ پایا ۔۔۔
سو اماں نے بھی ہار مان لی ۔۔۔
چمکی اس لیے نام رکھا کہ اس بچے کے آنے سے اماں فریدہ اور اس پاس کے
بہت سے خواجہ سراؤں کے مالی حاالت بہتر ہوئے۔۔۔
اماں کو لگتا تھا کہ اس بچے کے آنے سے ہمارے بخت کا ستارہ چمک اٹھا ہے
لہذا اس کو چمکی کے کہہ کر پکارا جانے لگا ۔۔۔۔
چمکی نے کچھ ہوش سنبھاال تو اسے مسجد جانے اور قرآن پڑھنے کا شوق ہوا
۔۔۔۔
اماں چمکی سے بہت پیار کرتی تھیں اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل نا ہونے
دیتیں ۔۔۔
پانچ وقت نماز کے لیے گھر میں ہی علیحدہ جگہ بنا دی اور قرآن پاک پڑھنے
کے لیے قاری صاحب کا انتظام کرنا چاہا مگر خواجہ سراؤں کے عالقے میں آ
کر کوئی بھی پڑھانے پر راضی نہ ہوا۔
تو اماں نے ایک مسجد کے امام صاحب سے بات کی ۔۔۔۔
وہاں خود چھوڑنے اور لینے جاتیں ۔۔۔ اماں کسی صورت چمکی کو خود سے
دور کرنا نہیں چاھتی تھیں ۔۔۔ انہیں لگتا تھا اس بچے میں ان کی جان ہے۔
جس دن چمکی نے قرآن مجید مکمل پڑھا اس دن اماں نے بہت بڑی تقریب کا
اہتمام کیا ۔۔۔
امام صاحب نے اماں فریدہ سے اس دن کہا کے آپ اس کو چمکی نہیں مومن کہا
کریں ۔۔۔
اور یوں چمکی ۔۔۔۔ چمکی سے مومن بن گیا ۔۔۔
جیسے جیسے مومن بڑا ہوتا گیا اس کی نیک خصلتیں مزید ابھرنے لگیں ۔۔۔
اماں فریدہ کو لگتا جیسے گھر میں کوئی چاند اتر آیا ہے ۔۔۔ وہ صبح شام اس کی
بالئیں لیتیں ۔۔۔
اکثر سوچتیں اگر میں مر گئی تو میرے مومن کو اتنی محبت سے کون رکھے گا
۔۔۔ اماں فریدہ خود ایک نیک فطرت خواجہ سرا گرو تھیں ۔۔۔
انہیں مومن کو دیکھ کے کسی انہونی کا خدشہ رہتا تھا ۔۔۔ اس لیے ہر حال میں
مومن کو اپنے ساتھ رکھتیں۔
۔۔۔۔۔۔۔@۔۔۔۔۔۔۔@۔۔۔۔۔۔۔۔@......@.........
مومن آج کئی دنوں بعد عبدہللا شاہ غازی کے مزار پر حاضری دینے آیا تھا۔۔
نگینہ باجی اور پارو آپا نے محلہ کے چند دوسرے خواجہ سراؤں کے ساتھ مل
کر سمندر پر جانے کا پروگرام بنایا تھا۔۔۔۔
اماں فریدہ کے بہت اصرار کرنے پر مومن بھی ساتھ جانے کے لیے راضی ہوا
مگر اس شرط پر کہ وہ سمندر پر نہیں جائے گا بلکہ عبدہللا شاہ غازی کے مزار
پر بیٹھ کر ان سب کی واپسی کا انتظار کرے گا۔۔۔
مومن مزار کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کوئی یہاں اوالد
مانگنے آتا ہے تو کوئی صاحب مزار کے وسیلے سے مال و دولت مانگنے آتا
ہے ۔۔۔۔۔
میں کیا مانگوں۔۔۔۔۔۔اسی سوچ میں مومن مزار تک پہنچ گیا اپنے ساتھ الئے ہوئے
پھول مزار پر ڈالے اور فاتحہ پڑھ کر ایک طرف کونے میں بیٹھ کر آنے جانے
والے لوگوں کو دیکھنے لگا۔۔۔۔
کپڑے تو وہ مردوں والے ہیں پہنتا تھا۔۔۔۔مگر اکثر اس کی چال ڈھال اور بات
کرنے کے انداز سے لوگ اندازہ لگا لیا کرتے تھے کہ وہ خواجہ سرا ہے۔۔
آج مومن اندر سے بہت افسردہ تھا ۔۔۔اور ایسا اکثر ہی ہوتا تھا جب وہ گھر
سےباہر۔۔۔کسی پبلک پلیس پر جاتا تھا تو خود کو بہت کم تر محسوس کرتا تھا۔۔۔۔
مومن حسب معمول اپنی جیب سے تسبیح نکال کر درود شریف پڑھنے لگا۔۔۔
اس کو بس ایک ہی عبادت آتی تھی نماز اور درود شریف پڑھنا۔۔۔
درود شریف پڑھتے پڑھتے تقریبا ً دو گھنٹے گزر گے۔۔۔ مومن کو شدید نیند آئی
اور وہی کونے میں ہاتھ سر کے نیچے رکھ کر سیدھے ہاتھ کی کروٹ سے لیٹ
گیا۔۔۔۔
مومن کی آنکھ لگ گئی۔۔۔۔
لیکن قسمت کی آنکھ کھل گئی۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
وہ مسجد نبوی کے صحن میں۔۔۔۔
گنبد خضرا کے سامنے بیٹھا ہوا ہے۔۔۔۔
سر پر عمامہ باندھے۔۔۔۔۔سفید لباس پہنیں۔۔۔عطر لگائے۔۔۔۔وہ بہت خوبصورت لگ
رہا ہے۔۔۔اپنی مخصوص تسبیح ہاتھ میں لیے درود شریف پڑھ رہا ہے۔
اتنے میں ایک بزرگ آے اور مومن سے کہنے لگے کہ آپ یہاں صحن میں
کیوں بیٹھے ہیں آئیے میرے ساتھ اندر چلیں۔۔۔۔مسجد کے اندر بیٹھ کر درود پاک
پڑھتے ہیں۔۔۔۔
آپ کون میں آپ کو پہچانا نہیں۔۔۔مومن حیران ہو کر کہا۔
آپ مجھے نہیں جانتے لیکن یہاں سب آپ کو جانتے ہیں۔۔۔
آئے ہائے۔۔۔
لو جی۔۔
اس کو دیکھو بڑا موالنا بن کے آیا تھا مزار پے اور یہاں آکر سو گیا۔۔۔۔
مومن کی آنکھ اچانک نگینہ باجی کے زور سے بولنے پر کھلی۔۔۔۔
وہ ایک دم گھبرا کر اٹھ گیا۔۔۔۔
ہم تمیں کتنی دیر سے تالش کر رہے ہیں۔۔۔۔
تم اماں فریدہ سے بول کر آئے تھے کہ یہاں بیٹھ کر عبادت کرو گے۔۔۔۔اور یہاں
اکر سو گئے۔۔۔۔
نہیں وہ میں۔۔۔مومن کچھ بول ہی نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔۔
اس نے خواب میں جو منظر دیکھا۔۔۔۔۔
وہ ابھی تک اسی منظر میں گم تھا۔
۔۔۔۔۔@۔۔۔۔۔۔۔۔@
مومن نے گھر اکر اپنا خواب اماں فریدہ کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ کسی سے
زکر نہ کرنا ۔۔۔۔
تم نبی جی صلی ہللا علیہ وسلم پر درود پڑھتے ہو نا اس لیے ایسا خواب دیکھا
ہے تم نے ۔۔۔
مومن بھی دو دن بعد ہونے والی بارہ ربیع االول کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا
۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔@.....@.......
بارہ ربیع االول کا دن تھا اماں فریدہ نے مومن کے کہنے پر بریانی بنا کر بٹوا
ڈی ۔۔۔
عید مالدنبی والے دن مومن کے رنگ ہی الگ ہوتے تھے۔۔۔
وہ دین کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا بس اتنا ہی جانتا تھا جتنا اسے امام
صاحب نے بتایا تھا۔۔۔
وہ امام صاحب سے مل کر واپس آیا تو
اس کا بہت دل چاہا کہ وہ بھی کسی طرح عید میالد النبی کے جلسے میں شامل
ہو۔۔۔
مگر ہمیشہ کی طرح اماں فریدا اسے منا کر چکی تھیں۔۔۔
دیکھ میرے بچے تجھے جو کرنا ہے گھر میں کر لے ۔۔۔
تجھے عادت نہیں بھیڑ بھاڑ میں جانے کی ۔۔۔
اور پھر ہم جیسے جب جلسے جلوس میں جاتے ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ
شاید ہم مانگنے آئے ہیں ۔۔۔
باجی نگینہ کہنے لگیں ۔۔۔ ہاں تو اماں سہی تو کہہ رہی ہیں تجھے مانگنا تو اتا
نہیں ہے یہ کام ہم لوگ اچھا کر لیتے ہیں اس لئے تو گھر میں بیٹھ ۔۔۔۔
اگر تو ہمارے ساتھ جائے گا تو ہم تیری رکھوالی کریں گے یا پھر لنگر لوٹنگے؟
۔۔۔۔۔۔۔@...@......
اس دن اماں نے سب کی ایسی کالس لی کے آئندہ کسی نے بھی مومن کو اپنے
ساتھ لے جانے سے توبہ کر لی ۔۔۔۔
مون اس دن کے بعد سے بہت چپ سا رہنے لگا ۔۔۔
اماں فریدہ بھی چپ سی رہتیں ۔۔۔ان کے زہن میں وہ خواب بار بار آتا ۔۔۔۔۔
مومن اپنی پسندیدہ نعت سن رہا تھا ۔۔۔
ٰ
مصطفی کو چلیں ۔۔۔ کھوٹے سکے وہیں پہ چلتے ہیں ۔۔۔۔ او بازار
اماں فریدہ نے پہلی بار اسے کہا مومن بیٹا ۔۔۔
مجھے تجھ سے خوف آتا ہے تو۔۔۔ ہر وقت خاموش سا رہتا ہو ۔۔۔
کوئی بات ہے دل میں تو ماں کو بتا ۔۔۔ میرے بچے ۔۔۔ تیری مسکراہٹ دیکھنے
کو ترس گئی ہے تیری ماں ۔۔۔۔
مومن کہنے لگا ۔۔۔
اماں میں جان بوجھ کر نہیں کرتا ۔۔۔
میرا دل نہیں چاہتا ۔۔۔
دیکھو نا ۔۔۔ اماں۔۔۔۔ میرے نبی جی کی شان میں گستاخی ہوئی ۔۔ اس دن جلسے
میں موالنا صاحب یہی بتا رہے تھے ۔۔۔ اور دیکھو ۔۔ ہم مسلمان کچھ نہیں کر
سکے ۔۔۔
بیٹا ہم کیا کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ ہمارے آقاؤں نے ہی چپ سادہ لی ہے ۔۔۔
کیوں نہیں کر سکتے اماں ۔۔۔
کم از کم حق کے لیے آواز تو اٹھا سکتے ہیں۔۔۔۔
مومن نے ایک دم نعت کی آواز ہلکی کر دی اور اماں سے کہنے لگا۔۔۔۔
اماں کیوں نا ہم خواجہ سرا مل کر ایک جلوس نکالیں ؟
بیٹا کیا کہہ رہے ہو ۔۔
ایسا کبھی ہوا ہے کیا ۔۔
کیوں اماں ۔۔۔ بھیک مانگ لیتے ہیں ہم ہللا نبی کے نام کی ۔۔۔۔
آج جب ان کے لیے آواز اٹھانے کا وقت آیا تو ہم چپ کر جائیں ؟...
بیٹا نا ہمارے پاس اس کام کے لیے سرمایا ہے نا کوئی ہماری بات مانے گا ۔۔۔
ہٹے کٹے۔۔۔۔ پورے مرد نہیں جاتے ان ریلیوں اور جلوسوں میں ۔۔۔ ہم ھجڑے جا
کر کون سا تیر مار لینگے ۔۔۔
اماں ۔۔۔ کیا نبی جی صرف ۔۔۔ پورے مردوں اور پوری عورتوں کے ہیں۔۔۔۔ کیا ہم
ہیجڑوں کے نہیں ہیں ۔۔۔۔ نبی جی ؟
مومن کی آواز بھرا گئی۔ ۔۔
اماں فریدہ کی آنکھوں سے بھی انسو بہنے لگے۔۔
نہیں بیٹا ۔۔۔ ہمیں دنیا میں کوئی منہ لگائے نا لگائے۔۔۔۔۔ نبی جی ہمارے بھی ہیں ۔۔۔
وہ تو سب کے ۔۔۔ وہ تو رحمت ہیں۔۔۔۔ تو صحیح کہتا ہے ۔۔۔
ہمیں بھی جلوس نکالنا چاہے ۔۔۔
ہمارے پاس اتنا سرمایا نہیں کے اپنی الگ ریلی نکل سکیں ۔۔۔
لیکن 19تاریخ کی ریلی میں شرکت کر سکتے ہیں ۔۔۔
ہاں اماں تم محلے میں سب کو اکھٹا کرو ۔۔۔
ہم سب کو ساتھ لے کر جائنگے ۔۔۔۔
مومن کی آنکھوں کی چمک اتنی بڑھ گئی ہے ۔۔۔ اماں فریدہ واری صدقے ہونے
لگیں ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔@.....@.......
دوسرے دن اماں فریدہ نے اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی تقریب منعقد کی جس
میں محلے اور جان پہچان والے تمام خواجہ سراؤں کو بالیا گیا اور مومن کا
پیش کردہ مؤقف سب کے سامنے رکھا گیا۔۔۔۔
اماں فریدہ کی باتوں نے سب کو قائل کیا اور سب خواجہ سرا انیس تاریخ کے
تحفظ ختم نبوت کے جلوس میں جانے کے لیے تیاریاں کرنے لگے۔
مومن کے دل کی تڑپ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی تھی ۔۔۔
۔۔۔۔۔@۔۔۔۔۔@@....
مومن صاحب کیسے ہیں آپ ؟
جی میں وہ آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہوا ؟
مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھا مومن ۔۔۔ گھبرا گیا۔۔۔
یہاں تو سب جانتے ہیں آپ کو ۔۔۔
آپ کا زکر تو اکثر یہاں ہوتا رہتا ہے ۔۔۔
میں ۔۔۔ میں تو ایک عام سا خواجہ سرا ہوں ۔۔۔ بھال مجھے کون جانے گا ۔۔
مومن ۔۔۔۔
او مومن ۔۔۔۔۔
جلدی ادھر ا۔۔۔
پانی ال کے پال ۔۔۔
میرا حلق سوکھ رہا ہے ۔۔۔۔
مومن اماں فریدہ کی آواز پر ہڑبڑا کر جاگ گیا۔۔۔
جلدی سے اٹھا اماں کو پانی دیا ۔۔۔
بیٹا دیکھ کے سوچ لے ابھی بھی ۔۔۔
نیو کراچی والوں کے ہاں گئی تھی دعوت دینے ۔۔۔
سب ایسا مزاق بنا رہے تھے ۔۔
دیکھ لے ۔۔۔ ایسا نہ ہو ہم جلوس میں جائیں اور ہمارا مزاق بن جائے۔۔۔۔
اماں کیا نبی جی کے نام پر نکلنے سے مزاق بنتا ہے ؟
اگر بنتا ہو تو پھر ایسا مزاق سو دفع بنے ۔۔۔ ہمیں پرواہ نہیں کرنی چاہے ۔۔۔۔
ارے تو نے تو ٹھان لی ہے نا بس ۔۔۔ اس بڑھاپے میں اپنی اماں کو تنگ کرنے
کی۔۔
ہاں ہاں اماں دیکھنا تم ۔۔۔۔
تمھارا مومن کیا کرتا ہے ۔۔۔
مومن نے پیار سے اماں کے گلے میں باہیں ڈال دیں ۔۔۔ اور اسی خواب کے
بارے میں سوچنے لگا
۔۔۔۔۔۔۔@@....@......
رات کا کھانا کھا کر
آج مومن نے عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد درود شریف کا دیر تک ورد کیا۔۔
ابھی اور ورد کرنا باقی تھا کہ اماں نے اپنے پاس بال لیا ۔۔
چندا ۔۔۔
ماں کی جان ادھر آنا میرے پاس ۔۔۔
تیرے سے باتیں کرنے کا دل چاہا رہا ہے ۔۔۔
مومن نے جائے نماز لپیٹی اور قرآن مجید کے پاس رکھ کر درخت کے نیچے
بچھی چارپائی پر آکر اماں کے پاس بیٹھ گیا اور پیر دبانے لگا۔۔۔۔
نہ بیٹا آج پیر نا دبا ۔۔۔
میرے پاس آکر لیٹ جا ۔۔۔
جیسے بچپن میں لیٹا کرتا تھا ۔۔۔۔
پتا نہیں کیوں آج اماں فریدہ کو مومن پر بہت پیار سا آرہا تھا ۔۔۔
تو حقیقت میں چمکی ہے تم نے میری قسمت کا ستارہ چمکا دیا ۔۔۔ میں نے تو
کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایسے کسی جلوس میں شرکت کروں
گی۔۔۔
صرف تیرے ہمت دالنے پر ہی میں نے یہ اقدام اٹھایا۔۔۔
کچھ بول نا بیٹا ۔۔۔
کیا بولوں اماں میں ؟
دل پر بہت بوجھ ہے میرے ۔۔۔۔
کاش میں پورا مرد ہوتا ۔۔۔
کسی مدرسے میں تعلیم حاصل کرتا ۔۔۔
عالم دین بنتا حافظ قرآن بنتا ۔۔۔
دین کے لیے کچھ کرتا ۔۔۔
نہ میری جان ۔۔۔ ایسا نہیں سوچتے ۔۔ ہللا سہونے نے تو ہر مخلوق کو مکمل بنایا
ہے یہ تو دنیا دار لوگ تفرقہ ڈالتے ہیں ۔۔۔
اور تو تو میرے لیے کسی عالم دین سے کم نہیں۔ ۔۔۔ تو نے بیٹھے بٹھائے ایسا
کام کرنے کو کہا جو آج تک ہم نے سوچا نہ تھا ۔۔۔۔
ہللا پتہ ہے میرا دل چاہتا ہے کہ میں دین کے لئے کوئی ایسا کام کروں کہ ۔۔۔
نبی جی مجھے بھی اپنے خادموں کی فہرست میں شامل کر لیں ۔۔۔
اماں کی آنکھوں میں یکا یک ۔۔ آنسو آگئے۔۔۔ خواب واال منظر ان کی آنکھوں میں
گھومنے لگا۔۔
چل اب تو جا کر اپنے کپڑے استری کر لے صبح کی تیاری کر لے صبح جلدی
اٹھنا ہے۔۔ یہ کہہ کر امامہ نے مومن کو وہاں سے ہٹا تو دیا لیکن ان کا دماغ کسی
گہری سوچ میں تھا ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔@..@.....
فجر کی نماز پڑھ کر باجی نگینہ نے سب کے لیے جلدی جلدی ناشتا بنایا ۔۔۔۔
محلے میں بھی سب جاگ گئے۔۔۔۔
نعتیں فل والیوم کے ساتھ لگا دی گئیں ۔۔۔
بھئی آج تو ہمارے محلے کی شان ہی الگ ہے ۔۔۔ یہاں تو رات دیر تک گانے
گائے جاتے تھے ۔ لیکن ایک مومن نے اپنا رنگ سب پر چڑھا دیا ۔۔۔۔
محلے کے عمر رسیدہ خواجہ سرا آپس میں بات چیت کر رہے تھے ۔۔۔
حقیقت میں آج اس محلے کے رنگ ہی الگ تھے ۔۔۔
کون جانتا تھا کہ اب ہونے کیا واال ہے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔@@.......@......۔۔۔۔
سب خواجہ سرائوں نے آج سفید مردانہ کپڑے پہن رکھے تھے ظہر کی نماز
کے بعد سب نے جلوس میں شرکت کرنے کے لئے نکلنا تھا۔۔۔۔
سب تیار ہو کر اماں فریدہ کے گھر کے باہر ان کے آنے کا انتظار کر رہے
تھے۔۔۔۔
اماں فریدہ کے ساتھ باہر آنے واال مومن آج دولہا لگ رہا تھا ۔۔۔ اس کی آواز اور
بات کرنے کے انداز کو اگر چھوڑ دیا جائے تو حقیقت میں وہ آج ایک
خوبصورت مرد لگ رہا تھا۔۔۔
نور بھرا چہرا ہاتھ میں تسبیح ۔۔
سر پر امامہ ۔۔۔ سنت کے مطابق مردانہ کرتا شلوار۔۔۔
کاندھے پر براؤن چادر ۔۔۔۔
مومن کو دیکھ کر ہر آنکھ ہی خیرا ہو رہی تھی ۔۔۔ اماں فریدہ بار بار اس کی نظر
اتار رہی تھیں ۔۔۔
جلوس میں شرکت کے لیے جب مومن اور اماں فریدہ کی سرکردگی میں یہ قافلہ
۔۔۔۔
جلوس میں شامل ہونے لگا تو وہاں موجود ہر شخص حیرت سے اس قافلے کو
دیکھتا ۔۔۔
جن آمام صاحب نےمومن کو قرآن مجید پڑھایا تھا وہ بھی اس جلوس میں شامل
تھے ۔۔۔ جب انہوں نے یہ منظر دیکھا تو اپنی مسجد کی انتظامیہ کے افراد سے
کہا کہ یہ ہمارے بھائی ہیں انہیں اپنے بینر کے ساتھ آگے لے کر چلو ۔۔۔۔
یوں مومن عام عوام سے نکل کر ۔۔۔
فرنٹ الئن میں آگیا ۔۔۔ اماں فریدا جو کہ بوڑھی تھیں اور تیز نہیں چل سکتی تھی
اس لیے باجی نگینہ کے ساتھ پیچھے پیچھے آنے لگیں ۔۔
انہوں نے باجی شمع اور پارو آپا کو خاص تاکید کی کہ مومن کا ہاتھ نہ
چھوڑیں۔۔۔۔
یہ منظر آسمان نے پہلی بار دیکھا۔۔۔۔
مسلمان مردوں کے شانہ بشانہ یہ خواجہ سرا۔۔۔۔
چلتے ہوئے ثابت کر رہے تھے کہ ۔۔۔ عشق رسول صرف زبانی کالمی باتوں کا
نام نہیں ۔۔۔ بلکہ نبی جی کی ناموس کے لیے جب باہر نکلنے کی بات آئے تو اس
امت کے مرد و عورت ہی کیا ۔۔۔ خواجہ سرا بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔۔۔۔
یہ منظر ان لوگوں کے منہ پر زود دار طمانچہ تھا جن کو ۔۔۔ ریلی میں جانا یا
ناموس رسالت کے لیے جلوس میں جانا ایک بے وقوفی کا کام لگتا ہے ۔۔۔ بھال
اس جلوس میں جانے سے کیا ہوگا ۔۔۔ الٹا روڈ بالک ہوگا تو عوام کو تکلیف ہوگی
۔۔ مگر آج یہ منظر بتا رہا تھا کہ امت تکلیف اٹھا سکتی ہے مگر نبی جی کی
ناموس پر سمجھوتہ نہیں کر سکتی ۔۔۔
امام صاحب نے مائک مومن کے ہاتھ میں دیا اور کہا مومن آج ایسا نعرہ لگانا کہ
میرے شاگرد ہونے کا حق ادا کر دینا ۔۔۔۔
مومن کے ہاتھ میں مائیک آنے کی دیر تھی کہ ۔۔۔
پورے جلوس میں برقی رفتار سے گویا جوش و ولولہ پھیل گیا ہو ۔۔۔
مومن نے پوری جان سے نعرہ لگایا ۔۔۔۔
تاجدار ختم نبوت ۔۔۔۔
ِ
تاجدار ختم نبوت۔۔۔۔
ِ
عوام کے سمندر سے آواز آئی زندہ باد ۔۔۔۔ زندہ باد ۔۔۔
اماں فریدہ یہ منظر دیکھ کر ۔۔۔ زارو قطار رونے لگیں ۔۔
ایک ایکس سالہ خواجہ سرا نے۔۔۔۔
امت کے بے شرم مردوں کو شرمندہ کر دیا ۔۔۔۔
اچانک ۔۔۔۔
پولیس کی جانب سے اعالن ہونے لگے ۔۔۔
اس جلوس کو اسی وقت یہاں روکا جائے۔۔۔
بڑے جلوس میں شرکت کرنے نہیں دی جائے گی ۔۔۔
۔۔۔۔۔@....@......
حکومت کی طرف سے اس جلوس کو روکنے اور منتشر کرنے کے احکامات
مل چکے تھے ۔۔۔
گویا پولیس نے وفا داری کے ریکارڈز قائم کرنا شروع کر دیے ۔۔۔۔
خطرناک شیلنگ شروع ہوگی ۔۔۔
ہوائی فائرنگ ۔۔۔۔
دن کا منظر گویا رات میں تبدیل ہوگیا۔۔۔۔
اوپر سے آرڈر آئے ۔۔۔ فرنٹ الئن کے کارکنوں اور علماء کو گرفتار کیا جائے ۔۔۔
باجی شمع اور پارو آپا اس بھگ دڑ میں مومن سے بچھڑ گئیں ۔۔۔ اماں فریدہ تو
آنسو گیس کی شیلنگ سے فورا بے ہوش ہوگی تھیں ۔۔۔۔
فرنٹ الئن میں موجود۔۔۔۔
علماء کرام کارکنان اور امام صاحب کے ساتھ کھڑے مومن کو بھی گرفتار کر لیا
گیا ۔۔۔۔۔
امتحان تو اب شروع ہونا تھا۔۔۔۔
کہ اصل مرد مون ہے کون۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔@....@......
اماں فریدہ۔۔۔ بیہوشی کے عالم میں باقی خواجہ سراؤں سمیت اپنے محلے واپس
آگیئں ۔۔۔
ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے انہوں نے مومن کے بارے میں پوچھا۔۔۔
اور جب انہیں پتا چال کہ وہ تھانے میں بندھ ہے تو انہوں نے پارو آپا اور نگینہ
باجی کو مومن کی خیریت لینے بھیجا۔۔۔
مگر سب بے سود کیوں کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا ان سے ملنے کی
اجازت نہیں دی جارہی تھی۔۔۔۔
اماں فریدہ تھانے کے سامنے جا کر فٹ پاتھ پر بیٹھ گئیں ۔۔۔
نگینہ باجی اور دیگر خواجہ سراؤں نے انہیں بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانیں ۔۔۔
انہیں تو بس اپنے مومن سے ملنا تھا ۔۔۔
۔۔۔۔۔۔@.....@......
تھانے میں حزب دستور اور خاطر تواضع کا دور شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔
کارکنان پر تشدد کرکے انہیں معافی نامے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔۔۔۔
مومن سب کچھ دیکھ رہا تھا امام صاحب کے ساتھ کھڑا وہ دیکھ رہا تھا ۔۔۔ کہ
بڑے بڑے علماء نے نام ظاہر نہ کرنے پر معافی نامہ لکھ کر دے دیا اور اپنے
گھر کی راہ لی۔۔۔ بھال ایسی ٹھکائی کون برداشت کرتا ۔۔۔
پھر پیچھے اہل و عیال کو بھی چھوڑ کر آئے تھے۔۔۔
سو سب کے پاس تاویلیں موجود تھینں۔۔۔
لیکن وہیں کچھ اصلی عاشق رسول بھی موجود تھے جو ٹس سے مس نہیں ہو
رہے تھے اور ان میں امام صاحب اور مومن بھی شامل تھے۔۔۔
ان کو الگ الگ ٹارچر سیلز میں بندھ کر دیا گیا ۔۔۔
مومن بس درود شریف کا ورد کرتا رہا ۔۔۔ کئی افسر آئے ۔۔۔
اور کہہا کہ اگر تم یہ بیان دے دو کہ تحفظ ختم نبوت کی ریلی میں تمہیں
زبردستی شامل کیا گیا ہے تو ہم تمہیں نہ صرف باعزت بری کریں گے بلکہ
ایک خطیر رقم بھی دیں گے۔۔۔۔
مومن نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا ۔۔۔
اعلی تھا۔۔۔۔ اگر یہ بات مان کر یہ بیان دے دیتا
ٰ مون حکومت کے لیے ایک بڑا
کہ۔۔۔
مجھے زبردستی شامل کیا گیا ہے تو ۔۔۔ تحفظ ختم نبوت ریلی والے معاملے سے
لوگوں کی توجہ ہٹ کر اس بات پر چلی جاتی کے دیکھو بچارے ہیجڑے تک کو
نہیں چھوڑا اور اپنی سیاست چمکانے کے لئے ہجڑوں کا بھی استعمال کیا۔۔۔
اور ساتھ ہی ساتھ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بھی فعال ہوجاتیں
۔۔۔۔
ان۔سب کے ہاتھ ایک نیا موضوع لگ جاتا ۔۔۔
ایک تیر سے کئی شکار کھیلے جا سکتے تھے ۔۔۔۔
۔۔۔۔۔@....@......
مومن کے پاس گاہے بگاہے کئی آفیسرز آتے رہے ۔۔۔
اسے اس بات کو ماننے پر ملنے والے بینفٹس کے بارے میں بتاتے رہے مگر۔۔۔۔
مومن کچھ سوننے کو راضی نا ہوا ۔۔۔ بآلخر انہوں نے ذہنی تشدد کے بعد
جسمانی تشدد شروع کیا۔۔۔۔
مومن کو کئی طریقوں سے مارا گیا ۔۔۔
ایزا پہنچائی گئی۔۔۔۔۔
مار کھاتے کھاتے مومن پر غشی طاری ہو گئی۔۔۔۔۔
خواب میں پھر مسجد نبوی کا صحن دیکھا ۔۔۔
جنازہ پڑھا جا رہا ہے ۔۔۔ لوگ دور دور سے جنازہ پڑھنے کے لیے آرہے ہیں ۔۔۔
اماں فریدہ بھی اس جنازہ میں شامل ہیں ۔۔۔
مومن نے پوچھا یہ کس کا جنازہ ہے ۔۔۔
مسجد نبوی کے خادم نے بتایا کہ۔۔۔۔ یہ جنازہ آغا مؤمن کا ہے پاکستان سے آیا
ہے۔۔۔۔۔۔
مومن کی آنکھ کھول گئی ۔۔۔ افسر نے پانی کی چھنٹے منہ پر مارے ۔۔۔ آٹھ جا ۔۔۔۔
او ہیجڑے ۔۔۔
دیکھ اتنے فائدے کی ڈیل ہے ۔۔۔ اتنا پیسہ ملے گا کہ پوری زندگی بھی ٹھمکے
لگائے گا تو اتنا پیسہ نہیں کما سکتا۔۔۔۔
مومن نے زور سے کہا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔
میں نہیں مانوں گا ۔۔۔
وہاں موجود آفیسر اور اہلکاروں کو کو اپنی پانچ دن کی محنت جب بےکار ہوتی
نظر آئیں تو اس قدر غصہ ہوئے کہ سب ایک ساتھ مومن پر تشدد کرنے لگے۔۔۔
وہ پھولوں سا ۔۔۔ اماں فریدہ کی گود میں ۔۔۔ پلنے واال مومن ۔۔۔۔ جس نے ارد گرد
کی دنیا بھی پوری نہ دیکھی تھی بھال یہ یہ سب کیسے برداشت کر پاتا۔۔۔۔۔
آخری الفاظ جو مومن کے لبوں سے نکلے ۔۔۔۔
وہ تھے ۔۔۔۔
یا رسو ِل ہللا انظر حالنا۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔@.....@......
اماں فریدہ پچھلے پانچ دنوں سے تھانے کے باہر تھیں ۔۔۔
ہر آنے جانے والے اہلکار سے مومن کا پوچھتیں ۔۔۔۔
ایک دم آفسر صاحب کو باہر آتے دیکھا تو دوڑ لگا دی ۔۔۔
صاحب جی ایک بار بس ایک بار ۔۔۔ میرے بیٹے کو دیکھا دو ۔۔۔۔۔
افسر نے اہلکار سے کہا کہ چپ چاپ انہیں اندر لے جاؤ ۔۔۔
انھیں دیکھا دو ۔۔۔
الش ان کے حوالے نہ کرنا ۔۔۔
یہ لوگ ایک تماشہ کھڑا کر دینگے ۔۔۔۔
اماں فریدہ اہلکار کے اشارے پر بھاگی ہوہی تھانے کے اندر آئیں اور ایمبولینس
کو دیکھ کر وہیں ٹھٹھک کے روک گئیں۔۔۔۔
اماں کے پیر جیسے زمین نے پکڑ لیے ۔۔۔
جب کپڑا ہٹا کر ۔۔۔ اپنے چاند کو دیکھا ۔۔۔۔ تو اماں فریدہ کی تو دنیا ویران ہو گئی
۔۔۔
۔۔۔۔۔ @....@......
پولیس کسٹڈی میں موجود علماء کرام اور کارکنان میں ایک خواجہ سرا بھی
شامل تھا ۔۔۔۔
یہ خبر تھانے سے نکل کر پورے ملک اور پھر پوری دنیا میں پھیل چکی تھی۔۔۔
سوشل میڈیا نے اپنی طاقت دیکھا دی ۔۔۔ حکومت کو فلفور تحفظ ختم نبوت
مومنٹ کے مطالبات ماننے پڑے اور تمام علمائے کرام اور کارکنان کو رہا کرنا
پڑا۔۔۔۔۔
وہ ہللا نے کہا ہے نا کہ۔۔۔۔ ایک تم چال چلتے ہو اور پھر ہللا چال چلتا ہے۔۔۔۔
ہللا نے اپنی چال چلی تو سب شیطانوں کی چال الٹی پڑ گئی ۔۔۔
وہ لوگ جو ختم نبوت کے جلوس کی وجہ سے گھر میں گھسے ۔۔۔ فیملی ٹائم منا
رہے تھے ۔۔۔
وہ لوگ جو سیاسی اور غیر سیاسی کے جھگڑے میں پڑے تھے ۔۔۔
وہ لوگ جو پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دینے کے لیے ۔۔۔ حکومت کی ٹیبل ٹاک
والی حکمت عملی کو سپورٹ کر رہے تھے۔۔۔۔ ان کے سامنے ایک ہیجڑے کی
موت نے ۔۔۔ جھوٹے عشاق اور حکومت کے دوغلے پن کا پردہ فاش کر دیا تھا ۔۔۔
وہ جشن آمد رسول کی صدای بلند کرنے واال خواجہ سرا۔۔۔
وہ مصطفی جانے رحمت کی صدائیں بلند کرنے واال نا مرد۔۔۔
وہ آؤ بازار مصطفی کو چلیں پڑھنے واال ہیجڑا آج ۔۔۔
امت کے بہت متقی پرہیزگاروں اور عشق رسول کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کو
پھالنگتا ہوا مدینے کی سر زمین پر اپنا جنازہ پڑھوانے پہنچ گیا تھا۔
۔۔۔۔۔@....@......
جس کو آج سے پہلے کوئی نا جانتا تھا ۔۔۔
ایک بے کار و بے ضرر سا خواجہ سرا ۔۔۔
آج اس کے نماز جنازہ میں شرکت کرنے کے لیے ۔۔۔ دور دور سے جید علماء
کرام اور عام و خاص عوام ۔۔۔ موجود تھے ۔۔
اماں فریدہ ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں تھیں ۔۔۔
جنازہ پڑھنے کے لیے رکھا جا چکا تھا ۔۔۔
خواجہ سرا کمیونٹی کے التعداد افراد اس جنازے میں شرکت کرنے کے لیے
آئے تھے۔۔۔۔
تاریخ عالم نے آج سے پہلے یہ منظر کبھی نہ دیکھا تھا۔۔۔
ایک خواجہ سرا کی نماز جنازہ اتنی شایان شان۔۔۔۔
اماں فریدہ ۔۔۔ بھاگتی ہوئی جنازے کے پاس آئیں ۔۔۔
اور کہا۔۔۔۔
آخری خواب میں تو نے ۔۔۔۔۔
مدینے میں ۔۔۔ اپنے جنازے میں مجھے بھی تو کھڑا دیکھا تھا۔۔۔۔
اور یہ کہہ کر زمین پر گر پڑیں ۔۔۔
مومن اور اماں فریدہ کی روحیں۔۔۔۔
نبی جی کی دربار کی طرف پرواز کر چکی تھیں ۔۔۔۔
کہ وہ پڑھتا رہتا تھا نہ ۔۔۔۔
ٰ
مصطفی کو چلیں۔۔۔۔ او بازار
کھوٹے سکے ۔۔۔
وہیں پہ چلتے ہیں۔۔۔۔۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔©©©©©©۔۔۔۔۔۔۔۔
ختم شد
یہ کہانی کاپی پیسٹ کی جا سکتی ہے مگر مصنف کے نام کے ساتھ ۔۔۔ کے یہ
ہے ۔ آپ کی ایمانداری پر منحصر