You are on page 1of 27

‫ق مومن‬

‫عش ِ‬
‫تحریر ‪ :‬فیض عالم‬
‫کراچی پاکستان‬

‫جشن آمد رسول صلی ہللا علیہ وسلم ہللا ہی ہللا۔۔۔۔‬


‫بی بی آمنہ کے پھول ہللا ہی ہللا۔۔۔۔‬
‫مومن بہت عقیدت سے نعت کا یہ شعر دہرائے جا رہا تھا اور ساتھ ہی صحن میں‬
‫لگے درخت کو ہری بتیوں سے سجا رہا تھا کہ پیچھے سے شمع نے آواز‬
‫لگائی۔۔۔‬
‫او چمکی بند کر اپنی بھانڈ جیسی آواز ۔۔۔۔اس سے اچھا تو کیسٹ لگا لے۔۔۔۔۔توبہ‬
‫ہے کانوں میں درد کر دیا۔۔۔۔‬
‫مومن چیخ کر بوال۔۔۔۔ میں تجھے آخری بار کہہ رہا ہوں مجھے چمکی مت بوال‬
‫کر ۔۔۔۔میرا نام مومن ہے۔۔۔۔۔‬
‫اوہو۔۔۔ایا بڑا مومن نام رکھنے سے تو مرد نہیں بن جائے گا۔۔۔۔اور ہاں نعت‬
‫پڑھنے کے لئے ڈھنگ کی آواز چاہیے ہوتی ہے۔۔۔تیری طرح پھٹا ہوا باجا‬
‫نہیں۔۔۔۔۔‬
‫مومن نے آسمان کی جانب دیکھا اور کہا۔۔۔۔ارے پگلی۔۔۔نعت آواز سے نہیں دل‬
‫سے پڑھی جاتی ہے۔۔۔اور میرے نبی جی بہت نرم دل ہیں۔۔۔‬
‫وہ سب کی سنتے ہیں۔۔۔۔‬
‫لو جی شروع ہوگیا اس کا بیان۔۔۔۔۔‬
‫جی تو موالنا چمکی مومن صاحبہ۔۔۔۔۔۔میں تو چلی ۔۔۔ بھی اپنا تو کام کا وقت ہے۔۔‬
‫مومن نے اندر آ کر گھڑی دیکھی شام کے پانچ بج رہے تھے۔مومن نے عصر‬
‫کی نماز کے لیے وضو کیا اور نماز پڑھنے کے بعد درود شریف پڑھنے بیٹھ‬
‫گیا۔۔۔‬
‫دروازے ہے آھٹ ہوئی اور برابر والی حسینہ باجی اندر آئیں۔۔‬
‫ارے مومن وہ شمع کا الل واال جوڑا ہے نہ مجھے دے دے ایک جگہ سے‬
‫دعوت آئی ہے پوری رات جم کے ناچونگی۔۔۔تیرے لیے بھی کھانا لے آؤں‬
‫گی۔۔۔۔سنا ہے لڑکی والوں نے دس کھانے کیے ہیں برات میں۔‬
‫مومن نے تسبیح ایک طرف رکھ کر کہا۔۔۔۔‬
‫جوڑا میں تمہیں دے دیتا ہوں لیکن ایک شرط پر ابھی وضو کرکے نماز پڑھو‬
‫۔۔۔۔۔۔‬
‫آئے ہائے کیا پاگل ہو گیا ہے۔۔۔۔میرے پاس وقت نہیں ہے نا۔۔۔۔میں نے تیار بھی‬
‫ہونا ہے۔۔۔‬
‫حسینہ باجی میں نے کتاب میں پڑھا ہے کہ جو لوگ عصر کی نماز ضائع کر‬
‫دیتے ہیں ان کا مال اور اوالد تباہ ہو جاتی ہے۔۔مومن نرم لہجے میں بوال۔‬
‫لو جی۔۔۔۔اور سن لو۔۔۔بھال ہمارے ہاں کونسی اوالد ہوگی۔۔۔۔اور مال۔۔۔۔ایسا کون سا‬
‫خزانہ چھپا ہے ہمارے پاس۔۔۔۔دس ٹھمکے لگاؤ تو پچاس روپے ملتے ہیں۔۔۔۔‬
‫مومن حسینہ باجی کی یہ بات سن کر اک دم افسردہ ہو گیا۔۔۔۔‬
‫خاموشی سے جوڑا ال کے حسینہ باجی کو دے دیا ۔۔۔۔‬
‫نیم کے درخت کے نیچے بچھے مصلے پے بیٹھ کر درود شریف کی تسبیح‬
‫پڑھنے لگا ۔۔۔وہ روز عصر کے بعد درودشریف پڑھتا تھا آج تین ربیع االول تھی‬
‫۔۔۔۔ اور بارہ ربیع االول تک مومن نے سوا الکھ درودشریف کی گنتی پوری کرنی‬
‫تھی۔۔۔‬
‫وہ آنکھیں بندھ کیے درودشریف پڑھتا جارہا تھا۔۔۔۔‬
‫مومن کی آنکھوں سے بہتے آنسو اس کا چہرہ طر کر رہے تھے ۔۔۔۔۔ اسے حسینہ‬
‫باجی کی یہ بات بہت تکلیف دے لگی کہ ہمارے پاس کون سی اوالد یا مال ہے‬
‫جس کے تباہ ہونے کا ڈر ہو ۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔@‪......@...........@.........‬‬

‫چمکی ایک خواجہ سرا تھا۔۔ ‪ 21‬سال پہلے سردی کی سخت ترین رات میں جب‬
‫اماں فریدہ اپنے دوسری خواجہ سرا بیٹیوں کے ساتھ شادی کی ایک تقریب میں‬
‫محفل سجا کر واپس آ رہی تھیں تو راستے میں انہیں ایک کچرے خانے کے پاس‬
‫۔۔۔‬
‫ایک نومولود خوبصورت بچہ پالسٹک کے شاپر میں رکھا ہوا مال ۔۔۔۔ یہ عام بچہ‬
‫نہیں تھا ۔۔۔‬
‫یہ ایک خواجہ سرا بچہ تھا اور شاید والدین نے بدنامی کے خوف سے اسے‬
‫کوڑے دان میں پھینک دیا تھا۔‬
‫اماں فریدہ ایک گرو خواجہ سرا تھیں اور بہت رحم دل بھی۔۔۔ اس بچے کو دیکھا‬
‫تو اپنے ساتھ گھر لے آئیں۔‬
‫تب سے آج تک اماں فریدہ نے اسے اپنی بیٹی بنا کر پاال ۔۔۔۔‬
‫مگر وہ یہ بات بہت پہلے جان چکی تھیں کہ یہ بچہ بڑا ہو کر عام ناچنے گانے‬
‫واال خواجہ سرا نہیں بنے گا۔‬
‫اس کے عادات و اطوار سب سے مختلف تھے ۔۔۔‬
‫اماں نے اور باجی نگینہ نے اسے ڈانس سیکھانے کی بہت کوشش کی مگر یہ نا‬
‫سیکھ پایا ۔۔۔‬
‫سو اماں نے بھی ہار مان لی ۔۔۔‬
‫چمکی اس لیے نام رکھا کہ اس بچے کے آنے سے اماں فریدہ اور اس پاس کے‬
‫بہت سے خواجہ سراؤں کے مالی حاالت بہتر ہوئے۔۔۔‬
‫اماں کو لگتا تھا کہ اس بچے کے آنے سے ہمارے بخت کا ستارہ چمک اٹھا ہے‬
‫لہذا اس کو چمکی کے کہہ کر پکارا جانے لگا ۔۔۔۔‬
‫چمکی نے کچھ ہوش سنبھاال تو اسے مسجد جانے اور قرآن پڑھنے کا شوق ہوا‬
‫۔۔۔۔‬
‫اماں چمکی سے بہت پیار کرتی تھیں اسے اپنی آنکھوں سے اوجھل نا ہونے‬
‫دیتیں ۔۔۔‬
‫پانچ وقت نماز کے لیے گھر میں ہی علیحدہ جگہ بنا دی اور قرآن پاک پڑھنے‬
‫کے لیے قاری صاحب کا انتظام کرنا چاہا مگر خواجہ سراؤں کے عالقے میں آ‬
‫کر کوئی بھی پڑھانے پر راضی نہ ہوا۔‬
‫تو اماں نے ایک مسجد کے امام صاحب سے بات کی ۔۔۔۔‬
‫وہاں خود چھوڑنے اور لینے جاتیں ۔۔۔ اماں کسی صورت چمکی کو خود سے‬
‫دور کرنا نہیں چاھتی تھیں ۔۔۔ انہیں لگتا تھا اس بچے میں ان کی جان ہے۔‬
‫جس دن چمکی نے قرآن مجید مکمل پڑھا اس دن اماں نے بہت بڑی تقریب کا‬
‫اہتمام کیا ۔۔۔‬
‫امام صاحب نے اماں فریدہ سے اس دن کہا کے آپ اس کو چمکی نہیں مومن کہا‬
‫کریں ۔۔۔‬
‫اور یوں چمکی ۔۔۔۔ چمکی سے مومن بن گیا ۔۔۔‬
‫جیسے جیسے مومن بڑا ہوتا گیا اس کی نیک خصلتیں مزید ابھرنے لگیں ۔۔۔‬
‫اماں فریدہ کو لگتا جیسے گھر میں کوئی چاند اتر آیا ہے ۔۔۔ وہ صبح شام اس کی‬
‫بالئیں لیتیں ۔۔۔‬
‫اکثر سوچتیں اگر میں مر گئی تو میرے مومن کو اتنی محبت سے کون رکھے گا‬
‫۔۔۔ اماں فریدہ خود ایک نیک فطرت خواجہ سرا گرو تھیں ۔۔۔‬
‫انہیں مومن کو دیکھ کے کسی انہونی کا خدشہ رہتا تھا ۔۔۔ اس لیے ہر حال میں‬
‫مومن کو اپنے ساتھ رکھتیں۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔@۔۔۔۔۔۔۔@۔۔۔۔۔۔۔۔@‪......@.........‬‬

‫مومن آج کئی دنوں بعد عبدہللا شاہ غازی کے مزار پر حاضری دینے آیا تھا۔۔‬
‫نگینہ باجی اور پارو آپا نے محلہ کے چند دوسرے خواجہ سراؤں کے ساتھ مل‬
‫کر سمندر پر جانے کا پروگرام بنایا تھا۔۔۔۔‬
‫اماں فریدہ کے بہت اصرار کرنے پر مومن بھی ساتھ جانے کے لیے راضی ہوا‬
‫مگر اس شرط پر کہ وہ سمندر پر نہیں جائے گا بلکہ عبدہللا شاہ غازی کے مزار‬
‫پر بیٹھ کر ان سب کی واپسی کا انتظار کرے گا۔۔۔‬
‫مومن مزار کی سیڑھیاں چڑھ رہا تھا اور سوچ رہا تھا کہ کوئی یہاں اوالد‬
‫مانگنے آتا ہے تو کوئی صاحب مزار کے وسیلے سے مال و دولت مانگنے آتا‬
‫ہے ۔۔۔۔۔‬
‫میں کیا مانگوں۔۔۔۔۔۔اسی سوچ میں مومن مزار تک پہنچ گیا اپنے ساتھ الئے ہوئے‬
‫پھول مزار پر ڈالے اور فاتحہ پڑھ کر ایک طرف کونے میں بیٹھ کر آنے جانے‬
‫والے لوگوں کو دیکھنے لگا۔۔۔۔‬
‫کپڑے تو وہ مردوں والے ہیں پہنتا تھا۔۔۔۔مگر اکثر اس کی چال ڈھال اور بات‬
‫کرنے کے انداز سے لوگ اندازہ لگا لیا کرتے تھے کہ وہ خواجہ سرا ہے۔۔‬
‫آج مومن اندر سے بہت افسردہ تھا ۔۔۔اور ایسا اکثر ہی ہوتا تھا جب وہ گھر‬
‫سےباہر۔۔۔کسی پبلک پلیس پر جاتا تھا تو خود کو بہت کم تر محسوس کرتا تھا۔۔۔۔‬
‫مومن حسب معمول اپنی جیب سے تسبیح نکال کر درود شریف پڑھنے لگا۔۔۔‬
‫اس کو بس ایک ہی عبادت آتی تھی نماز اور درود شریف پڑھنا۔۔۔‬
‫درود شریف پڑھتے پڑھتے تقریبا ً دو گھنٹے گزر گے۔۔۔ مومن کو شدید نیند آئی‬
‫اور وہی کونے میں ہاتھ سر کے نیچے رکھ کر سیدھے ہاتھ کی کروٹ سے لیٹ‬
‫گیا۔۔۔۔‬
‫مومن کی آنکھ لگ گئی۔۔۔۔‬
‫لیکن قسمت کی آنکھ کھل گئی۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫وہ مسجد نبوی کے صحن میں۔۔۔۔‬
‫گنبد خضرا کے سامنے بیٹھا ہوا ہے۔۔۔۔‬
‫سر پر عمامہ باندھے۔۔۔۔۔سفید لباس پہنیں۔۔۔عطر لگائے۔۔۔۔وہ بہت خوبصورت لگ‬
‫رہا ہے۔۔۔اپنی مخصوص تسبیح ہاتھ میں لیے درود شریف پڑھ رہا ہے۔‬
‫اتنے میں ایک بزرگ آے اور مومن سے کہنے لگے کہ آپ یہاں صحن میں‬
‫کیوں بیٹھے ہیں آئیے میرے ساتھ اندر چلیں۔۔۔۔مسجد کے اندر بیٹھ کر درود پاک‬
‫پڑھتے ہیں۔۔۔۔‬
‫آپ کون میں آپ کو پہچانا نہیں۔۔۔مومن حیران ہو کر کہا۔‬
‫آپ مجھے نہیں جانتے لیکن یہاں سب آپ کو جانتے ہیں۔۔۔‬
‫آئے ہائے۔۔۔‬
‫لو جی۔۔‬
‫اس کو دیکھو بڑا موالنا بن کے آیا تھا مزار پے اور یہاں آکر سو گیا۔۔۔۔‬
‫مومن کی آنکھ اچانک نگینہ باجی کے زور سے بولنے پر کھلی۔۔۔۔‬
‫وہ ایک دم گھبرا کر اٹھ گیا۔۔۔۔‬
‫ہم تمیں کتنی دیر سے تالش کر رہے ہیں۔۔۔۔‬
‫تم اماں فریدہ سے بول کر آئے تھے کہ یہاں بیٹھ کر عبادت کرو گے۔۔۔۔اور یہاں‬
‫اکر سو گئے۔۔۔۔‬
‫نہیں وہ میں۔۔۔مومن کچھ بول ہی نہیں پا رہا تھا۔۔۔۔۔‬
‫اس نے خواب میں جو منظر دیکھا۔۔۔۔۔‬
‫وہ ابھی تک اسی منظر میں گم تھا۔‬

‫۔۔۔۔۔@۔۔۔۔۔۔۔۔@‬
‫مومن نے گھر اکر اپنا خواب اماں فریدہ کو بتایا تو انہوں نے کہا کہ کسی سے‬
‫زکر نہ کرنا ۔۔۔۔‬
‫تم نبی جی صلی ہللا علیہ وسلم پر درود پڑھتے ہو نا اس لیے ایسا خواب دیکھا‬
‫ہے تم نے ۔۔۔‬
‫مومن بھی دو دن بعد ہونے والی بارہ ربیع االول کی تیاریوں میں مصروف ہوگیا‬
‫۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔@‪.....@.......‬‬

‫بارہ ربیع االول کا دن تھا اماں فریدہ نے مومن کے کہنے پر بریانی بنا کر بٹوا‬
‫ڈی ۔۔۔‬
‫عید مالدنبی والے دن مومن کے رنگ ہی الگ ہوتے تھے۔۔۔‬
‫وہ دین کے بارے میں زیادہ نہیں جانتا تھا بس اتنا ہی جانتا تھا جتنا اسے امام‬
‫صاحب نے بتایا تھا۔۔۔‬
‫وہ امام صاحب سے مل کر واپس آیا تو‬
‫اس کا بہت دل چاہا کہ وہ بھی کسی طرح عید میالد النبی کے جلسے میں شامل‬
‫ہو۔۔۔‬
‫مگر ہمیشہ کی طرح اماں فریدا اسے منا کر چکی تھیں۔۔۔‬
‫دیکھ میرے بچے تجھے جو کرنا ہے گھر میں کر لے ۔۔۔‬
‫تجھے عادت نہیں بھیڑ بھاڑ میں جانے کی ۔۔۔‬
‫اور پھر ہم جیسے جب جلسے جلوس میں جاتے ہیں تو لوگ سمجھتے ہیں کہ‬
‫شاید ہم مانگنے آئے ہیں ۔۔۔‬
‫باجی نگینہ کہنے لگیں ۔۔۔ ہاں تو اماں سہی تو کہہ رہی ہیں تجھے مانگنا تو اتا‬
‫نہیں ہے یہ کام ہم لوگ اچھا کر لیتے ہیں اس لئے تو گھر میں بیٹھ ۔۔۔۔‬
‫اگر تو ہمارے ساتھ جائے گا تو ہم تیری رکھوالی کریں گے یا پھر لنگر لوٹنگے؟‬

‫مومن اس وقت تو چپ چاپ افسردہ ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔‬


‫جیسے ہی ظہر کی نماز پڑھ کر اماں فریدہ کھانا کھانے کے بعد سونے گئیں ۔۔۔‬
‫مومن خاموشی سے باہر نکل گیا ۔۔۔۔۔‬
‫لیکن مومن نے یہ پلین اکیلے نہیں بنایا تھا بلکہ ۔۔۔‬
‫نگینہ باجی ‪ ،‬گلزار آپا اور شمع باجی کی ملی بھگت اس پلین میں شامل تھی ۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔@‪...@.....@.......‬‬
‫گلی کے کونے پر ہی نگینہ باجی اس کا انتظار کر رہیں تھیں ۔۔۔‬
‫دیکھ مومن بس جلدی سے جلوس دیکھ کر واپس آجانا ۔۔۔۔‬
‫میں تجھے یہیں گلی کے کونے پر چھڑونگی سیدھا گھر جانا ۔۔۔۔‬
‫اماں کو پتا نا چلے ورنہ مجھے تو گھر سے ہی نکال دینگی وہ ۔۔۔۔‬
‫باجی بس تھوڑی دیر جلوس دیکھوں گا پھر پکا وعدہ کبھی ضد نہیں کرونگا ۔۔۔‬
‫نگینہ باجی اسے اپنی دوست پارو آپا کے گھر کی چھت پر لے آئیں تھیں جو کہ‬
‫ان کے گھر سے کچھ ہی فاصلے پر تھی ۔۔۔‬
‫لیکن یہاں سے مین روڈ بلکل صاف نظر آتا تھا اور کچھ ہی دیر میں جلوس اس‬
‫روڈ پر پہنچنے واال تھا ۔۔۔۔‬
‫آج مومن کی خوشی دیکھنے والی تھی۔۔۔۔ بچپن سے آج تک ۔۔۔۔ اس نے جلوس‬
‫بس ٹی وی پر دیکھ رکھا تھا۔۔۔‬
‫بہت گرج دار آوازیں آنا شروع ہوئیں ۔۔۔۔‬
‫تاجدار ختم نبوت زندہ باد زندہ باد ۔۔۔۔‬
‫ِ‬
‫پھر کوئی نعرہ لگاتا ۔۔۔‬
‫دلدار کی آمد مرحبا ۔۔۔‬
‫آقا کی آمد مرحبا ۔۔۔۔‬
‫مومن کو لگا اس کے جسم میں ہزار واٹ کا کرنٹ دوڑ گیا ہے ۔۔۔۔‬
‫مومن نے ایسا منظر پہلے کبھی نہیں دیکھا تھا ۔۔۔‬
‫اس بار چونکہ نبی جی کی ناموس پر انگلیاں اٹھانے والوں کو جواب بھی دینا تھا‬
‫۔۔۔ تو جلوس کے شرکاء کا والہانہ جوش دیدنی تھا ۔۔۔‬
‫مومن نے ٹرک پر سوار ایک مشہور عالم دین کبیر علی شاہ کو گرجدار آواز میں‬
‫تاجدار ختم نبوت کا نعرہ بلند کرتے دیکھا تو اس کی آنکھوں میں اندھیرا سا‬
‫ِ‬ ‫جو‬
‫چھا گیا ۔۔۔۔‬
‫مومن بے ہوش ہو گیا تھا ۔۔۔‬
‫باجی نگینہ تو سب چھوڑ چھاڑ مومن کو ہوش میں النے میں لگ گئیں تھیں۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔@۔۔۔۔۔۔@‪....@......‬‬
‫اماں فریدہ نے گھبرا کر آنکھ کھولی ۔۔۔۔‬
‫پسینہ پسینہ ۔۔۔۔‬
‫خواب میں انہوں نے مومن کا جنازہ گنب ِد خضرا کے صحن میں دیکھا ۔۔۔‬
‫اماں مومن کو آواز دینے لگیں ۔۔۔‬
‫جب نہ مال تو گھبرا کر محلے میں مومن کے بارے میں پوچھنے کے لیے دوڑ‬
‫لگا دی ۔۔۔۔‬
‫ادھر سے باجی نگینہ اور پارو آپا مومن کو سہارا دے کر گھر کی طرف‬
‫بڑھیں۔۔۔۔‬
‫اماں فریدہ نے جو گلی کے کونے سے اس قافلے کو آتا دیکھا تو سیخ پا ہوگئیں۔‬
‫اب باجی نگینہ کی تو خیر نا تھی ۔۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔@‪...@......‬‬
‫اس دن اماں نے سب کی ایسی کالس لی کے آئندہ کسی نے بھی مومن کو اپنے‬
‫ساتھ لے جانے سے توبہ کر لی ۔۔۔۔‬
‫مون اس دن کے بعد سے بہت چپ سا رہنے لگا ۔۔۔‬
‫اماں فریدہ بھی چپ سی رہتیں ۔۔۔ان کے زہن میں وہ خواب بار بار آتا ۔۔۔۔۔‬
‫مومن اپنی پسندیدہ نعت سن رہا تھا ۔۔۔‬
‫ٰ‬
‫مصطفی کو چلیں ۔۔۔ کھوٹے سکے وہیں پہ چلتے ہیں ۔۔۔۔‬ ‫او بازار‬
‫اماں فریدہ نے پہلی بار اسے کہا مومن بیٹا ۔۔۔‬
‫مجھے تجھ سے خوف آتا ہے تو۔۔۔ ہر وقت خاموش سا رہتا ہو ۔۔۔‬
‫کوئی بات ہے دل میں تو ماں کو بتا ۔۔۔ میرے بچے ۔۔۔ تیری مسکراہٹ دیکھنے‬
‫کو ترس گئی ہے تیری ماں ۔۔۔۔‬
‫مومن کہنے لگا ۔۔۔‬
‫اماں میں جان بوجھ کر نہیں کرتا ۔۔۔‬
‫میرا دل نہیں چاہتا ۔۔۔‬
‫دیکھو نا ۔۔۔ اماں۔۔۔۔ میرے نبی جی کی شان میں گستاخی ہوئی ۔۔ اس دن جلسے‬
‫میں موالنا صاحب یہی بتا رہے تھے ۔۔۔ اور دیکھو ۔۔ ہم مسلمان کچھ نہیں کر‬
‫سکے ۔۔۔‬
‫بیٹا ہم کیا کر سکتے ہیں ۔۔۔۔۔ ہمارے آقاؤں نے ہی چپ سادہ لی ہے ۔۔۔‬
‫کیوں نہیں کر سکتے اماں ۔۔۔‬
‫کم از کم حق کے لیے آواز تو اٹھا سکتے ہیں۔۔۔۔‬
‫مومن نے ایک دم نعت کی آواز ہلکی کر دی اور اماں سے کہنے لگا۔۔۔۔‬
‫اماں کیوں نا ہم خواجہ سرا مل کر ایک جلوس نکالیں ؟‬
‫بیٹا کیا کہہ رہے ہو ۔۔‬
‫ایسا کبھی ہوا ہے کیا ۔۔‬
‫کیوں اماں ۔۔۔ بھیک مانگ لیتے ہیں ہم ہللا نبی کے نام کی ۔۔۔۔‬
‫آج جب ان کے لیے آواز اٹھانے کا وقت آیا تو ہم چپ کر جائیں ؟‪...‬‬
‫بیٹا نا ہمارے پاس اس کام کے لیے سرمایا ہے نا کوئی ہماری بات مانے گا ۔۔۔‬
‫ہٹے کٹے۔۔۔۔ پورے مرد نہیں جاتے ان ریلیوں اور جلوسوں میں ۔۔۔ ہم ھجڑے جا‬
‫کر کون سا تیر مار لینگے ۔۔۔‬
‫اماں ۔۔۔ کیا نبی جی صرف ۔۔۔ پورے مردوں اور پوری عورتوں کے ہیں۔۔۔۔ کیا ہم‬
‫ہیجڑوں کے نہیں ہیں ۔۔۔۔ نبی جی ؟‬
‫مومن کی آواز بھرا گئی۔ ۔۔‬
‫اماں فریدہ کی آنکھوں سے بھی انسو بہنے لگے۔۔‬
‫نہیں بیٹا ۔۔۔ ہمیں دنیا میں کوئی منہ لگائے نا لگائے۔۔۔۔۔ نبی جی ہمارے بھی ہیں ۔۔۔‬
‫وہ تو سب کے ۔۔۔ وہ تو رحمت ہیں۔۔۔۔ تو صحیح کہتا ہے ۔۔۔‬
‫ہمیں بھی جلوس نکالنا چاہے ۔۔۔‬
‫ہمارے پاس اتنا سرمایا نہیں کے اپنی الگ ریلی نکل سکیں ۔۔۔‬
‫لیکن ‪ 19‬تاریخ کی ریلی میں شرکت کر سکتے ہیں ۔۔۔‬
‫ہاں اماں تم محلے میں سب کو اکھٹا کرو ۔۔۔‬
‫ہم سب کو ساتھ لے کر جائنگے ۔۔۔۔‬
‫مومن کی آنکھوں کی چمک اتنی بڑھ گئی ہے ۔۔۔ اماں فریدہ واری صدقے ہونے‬
‫لگیں ۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔@‪.....@.......‬‬
‫دوسرے دن اماں فریدہ نے اپنے گھر میں ایک چھوٹی سی تقریب منعقد کی جس‬
‫میں محلے اور جان پہچان والے تمام خواجہ سراؤں کو بالیا گیا اور مومن کا‬
‫پیش کردہ مؤقف سب کے سامنے رکھا گیا۔۔۔۔‬
‫اماں فریدہ کی باتوں نے سب کو قائل کیا اور سب خواجہ سرا انیس تاریخ کے‬
‫تحفظ ختم نبوت کے جلوس میں جانے کے لیے تیاریاں کرنے لگے۔‬
‫مومن کے دل کی تڑپ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ بڑھتی جارہی تھی ۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔@۔۔۔۔۔@‪@....‬‬
‫مومن صاحب کیسے ہیں آپ ؟‬
‫جی میں وہ آپ کو میرا نام کیسے معلوم ہوا ؟‬
‫مسجد نبوی کے صحن میں بیٹھا مومن ۔۔۔ گھبرا گیا۔۔۔‬
‫یہاں تو سب جانتے ہیں آپ کو ۔۔۔‬
‫آپ کا زکر تو اکثر یہاں ہوتا رہتا ہے ۔۔۔‬
‫میں ۔۔۔ میں تو ایک عام سا خواجہ سرا ہوں ۔۔۔ بھال مجھے کون جانے گا ۔۔‬
‫مومن ۔۔۔۔‬
‫او مومن ۔۔۔۔۔‬
‫جلدی ادھر ا۔۔۔‬
‫پانی ال کے پال ۔۔۔‬
‫میرا حلق سوکھ رہا ہے ۔۔۔۔‬
‫مومن اماں فریدہ کی آواز پر ہڑبڑا کر جاگ گیا۔۔۔‬
‫جلدی سے اٹھا اماں کو پانی دیا ۔۔۔‬
‫بیٹا دیکھ کے سوچ لے ابھی بھی ۔۔۔‬
‫نیو کراچی والوں کے ہاں گئی تھی دعوت دینے ۔۔۔‬
‫سب ایسا مزاق بنا رہے تھے ۔۔‬
‫دیکھ لے ۔۔۔ ایسا نہ ہو ہم جلوس میں جائیں اور ہمارا مزاق بن جائے۔۔۔۔‬
‫اماں کیا نبی جی کے نام پر نکلنے سے مزاق بنتا ہے ؟‬
‫اگر بنتا ہو تو پھر ایسا مزاق سو دفع بنے ۔۔۔ ہمیں پرواہ نہیں کرنی چاہے ۔۔۔۔‬
‫ارے تو نے تو ٹھان لی ہے نا بس ۔۔۔ اس بڑھاپے میں اپنی اماں کو تنگ کرنے‬
‫کی۔۔‬
‫ہاں ہاں اماں دیکھنا تم ۔۔۔۔‬
‫تمھارا مومن کیا کرتا ہے ۔۔۔‬
‫مومن نے پیار سے اماں کے گلے میں باہیں ڈال دیں ۔۔۔ اور اسی خواب کے‬
‫بارے میں سوچنے لگا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔@‪@....@......‬‬
‫رات کا کھانا کھا کر‬
‫آج مومن نے عشاء کی نماز پڑھنے کے بعد درود شریف کا دیر تک ورد کیا۔۔‬
‫ابھی اور ورد کرنا باقی تھا کہ اماں نے اپنے پاس بال لیا ۔۔‬
‫چندا ۔۔۔‬
‫ماں کی جان ادھر آنا میرے پاس ۔۔۔‬
‫تیرے سے باتیں کرنے کا دل چاہا رہا ہے ۔۔۔‬
‫مومن نے جائے نماز لپیٹی اور قرآن مجید کے پاس رکھ کر درخت کے نیچے‬
‫بچھی چارپائی پر آکر اماں کے پاس بیٹھ گیا اور پیر دبانے لگا۔۔۔۔‬
‫نہ بیٹا آج پیر نا دبا ۔۔۔‬
‫میرے پاس آکر لیٹ جا ۔۔۔‬
‫جیسے بچپن میں لیٹا کرتا تھا ۔۔۔۔‬
‫پتا نہیں کیوں آج اماں فریدہ کو مومن پر بہت پیار سا آرہا تھا ۔۔۔‬
‫تو حقیقت میں چمکی ہے تم نے میری قسمت کا ستارہ چمکا دیا ۔۔۔ میں نے تو‬
‫کبھی خواب میں بھی نہیں سوچا تھا کہ ایسے کسی جلوس میں شرکت کروں‬
‫گی۔۔۔‬
‫صرف تیرے ہمت دالنے پر ہی میں نے یہ اقدام اٹھایا۔۔۔‬
‫کچھ بول نا بیٹا ۔۔۔‬
‫کیا بولوں اماں میں ؟‬
‫دل پر بہت بوجھ ہے میرے ۔۔۔۔‬
‫کاش میں پورا مرد ہوتا ۔۔۔‬
‫کسی مدرسے میں تعلیم حاصل کرتا ۔۔۔‬
‫عالم دین بنتا حافظ قرآن بنتا ۔۔۔‬
‫دین کے لیے کچھ کرتا ۔۔۔‬
‫نہ میری جان ۔۔۔ ایسا نہیں سوچتے ۔۔ ہللا سہونے نے تو ہر مخلوق کو مکمل بنایا‬
‫ہے یہ تو دنیا دار لوگ تفرقہ ڈالتے ہیں ۔۔۔‬
‫اور تو تو میرے لیے کسی عالم دین سے کم نہیں۔ ۔۔۔ تو نے بیٹھے بٹھائے ایسا‬
‫کام کرنے کو کہا جو آج تک ہم نے سوچا نہ تھا ۔۔۔۔‬
‫ہللا پتہ ہے میرا دل چاہتا ہے کہ میں دین کے لئے کوئی ایسا کام کروں کہ ۔۔۔‬
‫نبی جی مجھے بھی اپنے خادموں کی فہرست میں شامل کر لیں ۔۔۔‬
‫اماں کی آنکھوں میں یکا یک ۔۔ آنسو آگئے۔۔۔ خواب واال منظر ان کی آنکھوں میں‬
‫گھومنے لگا۔۔‬
‫چل اب تو جا کر اپنے کپڑے استری کر لے صبح کی تیاری کر لے صبح جلدی‬
‫اٹھنا ہے۔۔ یہ کہہ کر امامہ نے مومن کو وہاں سے ہٹا تو دیا لیکن ان کا دماغ کسی‬
‫گہری سوچ میں تھا ۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔@‪..@.....‬‬
‫فجر کی نماز پڑھ کر باجی نگینہ نے سب کے لیے جلدی جلدی ناشتا بنایا ۔۔۔۔‬
‫محلے میں بھی سب جاگ گئے۔۔۔۔‬
‫نعتیں فل والیوم کے ساتھ لگا دی گئیں ۔۔۔‬
‫بھئی آج تو ہمارے محلے کی شان ہی الگ ہے ۔۔۔ یہاں تو رات دیر تک گانے‬
‫گائے جاتے تھے ۔ لیکن ایک مومن نے اپنا رنگ سب پر چڑھا دیا ۔۔۔۔‬
‫محلے کے عمر رسیدہ خواجہ سرا آپس میں بات چیت کر رہے تھے ۔۔۔‬
‫حقیقت میں آج اس محلے کے رنگ ہی الگ تھے ۔۔۔‬
‫کون جانتا تھا کہ اب ہونے کیا واال ہے ۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔@‪@.......@......‬۔۔۔۔‬
‫سب خواجہ سرائوں نے آج سفید مردانہ کپڑے پہن رکھے تھے ظہر کی نماز‬
‫کے بعد سب نے جلوس میں شرکت کرنے کے لئے نکلنا تھا۔۔۔۔‬
‫سب تیار ہو کر اماں فریدہ کے گھر کے باہر ان کے آنے کا انتظار کر رہے‬
‫تھے۔۔۔۔‬
‫اماں فریدہ کے ساتھ باہر آنے واال مومن آج دولہا لگ رہا تھا ۔۔۔ اس کی آواز اور‬
‫بات کرنے کے انداز کو اگر چھوڑ دیا جائے تو حقیقت میں وہ آج ایک‬
‫خوبصورت مرد لگ رہا تھا۔۔۔‬
‫نور بھرا چہرا ہاتھ میں تسبیح ۔۔‬
‫سر پر امامہ ۔۔۔ سنت کے مطابق مردانہ کرتا شلوار۔۔۔‬
‫کاندھے پر براؤن چادر ۔۔۔۔‬
‫مومن کو دیکھ کر ہر آنکھ ہی خیرا ہو رہی تھی ۔۔۔ اماں فریدہ بار بار اس کی نظر‬
‫اتار رہی تھیں ۔۔۔‬
‫جلوس میں شرکت کے لیے جب مومن اور اماں فریدہ کی سرکردگی میں یہ قافلہ‬
‫۔۔۔۔‬
‫جلوس میں شامل ہونے لگا تو وہاں موجود ہر شخص حیرت سے اس قافلے کو‬
‫دیکھتا ۔۔۔‬
‫جن آمام صاحب نےمومن کو قرآن مجید پڑھایا تھا وہ بھی اس جلوس میں شامل‬
‫تھے ۔۔۔ جب انہوں نے یہ منظر دیکھا تو اپنی مسجد کی انتظامیہ کے افراد سے‬
‫کہا کہ یہ ہمارے بھائی ہیں انہیں اپنے بینر کے ساتھ آگے لے کر چلو ۔۔۔۔‬
‫یوں مومن عام عوام سے نکل کر ۔۔۔‬
‫فرنٹ الئن میں آگیا ۔۔۔ اماں فریدا جو کہ بوڑھی تھیں اور تیز نہیں چل سکتی تھی‬
‫اس لیے باجی نگینہ کے ساتھ پیچھے پیچھے آنے لگیں ۔۔‬
‫انہوں نے باجی شمع اور پارو آپا کو خاص تاکید کی کہ مومن کا ہاتھ نہ‬
‫چھوڑیں۔۔۔۔‬
‫یہ منظر آسمان نے پہلی بار دیکھا۔۔۔۔‬
‫مسلمان مردوں کے شانہ بشانہ یہ خواجہ سرا۔۔۔۔‬
‫چلتے ہوئے ثابت کر رہے تھے کہ ۔۔۔ عشق رسول صرف زبانی کالمی باتوں کا‬
‫نام نہیں ۔۔۔ بلکہ نبی جی کی ناموس کے لیے جب باہر نکلنے کی بات آئے تو اس‬
‫امت کے مرد و عورت ہی کیا ۔۔۔ خواجہ سرا بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔۔۔۔‬
‫یہ منظر ان لوگوں کے منہ پر زود دار طمانچہ تھا جن کو ۔۔۔ ریلی میں جانا یا‬
‫ناموس رسالت کے لیے جلوس میں جانا ایک بے وقوفی کا کام لگتا ہے ۔۔۔ بھال‬
‫اس جلوس میں جانے سے کیا ہوگا ۔۔۔ الٹا روڈ بالک ہوگا تو عوام کو تکلیف ہوگی‬
‫۔۔ مگر آج یہ منظر بتا رہا تھا کہ امت تکلیف اٹھا سکتی ہے مگر نبی جی کی‬
‫ناموس پر سمجھوتہ نہیں کر سکتی ۔۔۔‬
‫امام صاحب نے مائک مومن کے ہاتھ میں دیا اور کہا مومن آج ایسا نعرہ لگانا کہ‬
‫میرے شاگرد ہونے کا حق ادا کر دینا ۔۔۔۔‬
‫مومن کے ہاتھ میں مائیک آنے کی دیر تھی کہ ۔۔۔‬
‫پورے جلوس میں برقی رفتار سے گویا جوش و ولولہ پھیل گیا ہو ۔۔۔‬
‫مومن نے پوری جان سے نعرہ لگایا ۔۔۔۔‬
‫تاجدار ختم نبوت ۔۔۔۔‬
‫ِ‬
‫تاجدار ختم نبوت۔۔۔۔‬
‫ِ‬
‫عوام کے سمندر سے آواز آئی زندہ باد ۔۔۔۔ زندہ باد ۔۔۔‬
‫اماں فریدہ یہ منظر دیکھ کر ۔۔۔ زارو قطار رونے لگیں ۔۔‬
‫ایک ایکس سالہ خواجہ سرا نے۔۔۔۔‬
‫امت کے بے شرم مردوں کو شرمندہ کر دیا ۔۔۔۔‬
‫اچانک ۔۔۔۔‬
‫پولیس کی جانب سے اعالن ہونے لگے ۔۔۔‬
‫اس جلوس کو اسی وقت یہاں روکا جائے۔۔۔‬
‫بڑے جلوس میں شرکت کرنے نہیں دی جائے گی ۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔@‪....@......‬‬
‫حکومت کی طرف سے اس جلوس کو روکنے اور منتشر کرنے کے احکامات‬
‫مل چکے تھے ۔۔۔‬
‫گویا پولیس نے وفا داری کے ریکارڈز قائم کرنا شروع کر دیے ۔۔۔۔‬
‫خطرناک شیلنگ شروع ہوگی ۔۔۔‬
‫ہوائی فائرنگ ۔۔۔۔‬
‫دن کا منظر گویا رات میں تبدیل ہوگیا۔۔۔۔‬
‫اوپر سے آرڈر آئے ۔۔۔ فرنٹ الئن کے کارکنوں اور علماء کو گرفتار کیا جائے ۔۔۔‬

‫باجی شمع اور پارو آپا اس بھگ دڑ میں مومن سے بچھڑ گئیں ۔۔۔ اماں فریدہ تو‬
‫آنسو گیس کی شیلنگ سے فورا بے ہوش ہوگی تھیں ۔۔۔۔‬
‫فرنٹ الئن میں موجود۔۔۔۔‬
‫علماء کرام کارکنان اور امام صاحب کے ساتھ کھڑے مومن کو بھی گرفتار کر لیا‬
‫گیا ۔۔۔۔۔‬
‫امتحان تو اب شروع ہونا تھا۔۔۔۔‬
‫کہ اصل مرد مون ہے کون۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔@‪....@......‬‬
‫اماں فریدہ۔۔۔ بیہوشی کے عالم میں باقی خواجہ سراؤں سمیت اپنے محلے واپس‬
‫آگیئں ۔۔۔‬
‫ہوش میں آتے ہی سب سے پہلے انہوں نے مومن کے بارے میں پوچھا۔۔۔‬
‫اور جب انہیں پتا چال کہ وہ تھانے میں بندھ ہے تو انہوں نے پارو آپا اور نگینہ‬
‫باجی کو مومن کی خیریت لینے بھیجا۔۔۔‬
‫مگر سب بے سود کیوں کہ جن لوگوں کو گرفتار کیا گیا تھا ان سے ملنے کی‬
‫اجازت نہیں دی جارہی تھی۔۔۔۔‬
‫اماں فریدہ تھانے کے سامنے جا کر فٹ پاتھ پر بیٹھ گئیں ۔۔۔‬
‫نگینہ باجی اور دیگر خواجہ سراؤں نے انہیں بہت سمجھایا لیکن وہ نہ مانیں ۔۔۔‬
‫انہیں تو بس اپنے مومن سے ملنا تھا ۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔@‪.....@......‬‬
‫تھانے میں حزب دستور اور خاطر تواضع کا دور شروع ہو چکا تھا۔۔۔۔‬
‫کارکنان پر تشدد کرکے انہیں معافی نامے پر مجبور کیا جا رہا تھا۔۔۔۔‬
‫مومن سب کچھ دیکھ رہا تھا امام صاحب کے ساتھ کھڑا وہ دیکھ رہا تھا ۔۔۔ کہ‬
‫بڑے بڑے علماء نے نام ظاہر نہ کرنے پر معافی نامہ لکھ کر دے دیا اور اپنے‬
‫گھر کی راہ لی۔۔۔ بھال ایسی ٹھکائی کون برداشت کرتا ۔۔۔‬
‫پھر پیچھے اہل و عیال کو بھی چھوڑ کر آئے تھے۔۔۔‬
‫سو سب کے پاس تاویلیں موجود تھینں۔۔۔‬
‫لیکن وہیں کچھ اصلی عاشق رسول بھی موجود تھے جو ٹس سے مس نہیں ہو‬
‫رہے تھے اور ان میں امام صاحب اور مومن بھی شامل تھے۔۔۔‬
‫ان کو الگ الگ ٹارچر سیلز میں بندھ کر دیا گیا ۔۔۔‬
‫مومن بس درود شریف کا ورد کرتا رہا ۔۔۔ کئی افسر آئے ۔۔۔‬
‫اور کہہا کہ اگر تم یہ بیان دے دو کہ تحفظ ختم نبوت کی ریلی میں تمہیں‬
‫زبردستی شامل کیا گیا ہے تو ہم تمہیں نہ صرف باعزت بری کریں گے بلکہ‬
‫ایک خطیر رقم بھی دیں گے۔۔۔۔‬
‫مومن نے یہ بات ماننے سے انکار کر دیا ۔۔۔‬
‫اعلی تھا۔۔۔۔ اگر یہ بات مان کر یہ بیان دے دیتا‬
‫ٰ‬ ‫مون حکومت کے لیے ایک بڑا‬
‫کہ۔۔۔‬
‫مجھے زبردستی شامل کیا گیا ہے تو ۔۔۔ تحفظ ختم نبوت ریلی والے معاملے سے‬
‫لوگوں کی توجہ ہٹ کر اس بات پر چلی جاتی کے دیکھو بچارے ہیجڑے تک کو‬
‫نہیں چھوڑا اور اپنی سیاست چمکانے کے لئے ہجڑوں کا بھی استعمال کیا۔۔۔‬
‫اور ساتھ ہی ساتھ پوری دنیا میں انسانی حقوق کی تنظیمیں بھی بھی فعال ہوجاتیں‬
‫۔۔۔۔‬
‫ان۔سب کے ہاتھ ایک نیا موضوع لگ جاتا ۔۔۔‬
‫ایک تیر سے کئی شکار کھیلے جا سکتے تھے ۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔@‪....@......‬‬
‫مومن کے پاس گاہے بگاہے کئی آفیسرز آتے رہے ۔۔۔‬
‫اسے اس بات کو ماننے پر ملنے والے بینفٹس کے بارے میں بتاتے رہے مگر۔۔۔۔‬
‫مومن کچھ سوننے کو راضی نا ہوا ۔۔۔ بآلخر انہوں نے ذہنی تشدد کے بعد‬
‫جسمانی تشدد شروع کیا۔۔۔۔‬
‫مومن کو کئی طریقوں سے مارا گیا ۔۔۔‬
‫ایزا پہنچائی گئی۔۔۔۔۔‬
‫مار کھاتے کھاتے مومن پر غشی طاری ہو گئی۔۔۔۔۔‬
‫خواب میں پھر مسجد نبوی کا صحن دیکھا ۔۔۔‬
‫جنازہ پڑھا جا رہا ہے ۔۔۔ لوگ دور دور سے جنازہ پڑھنے کے لیے آرہے ہیں ۔۔۔‬
‫اماں فریدہ بھی اس جنازہ میں شامل ہیں ۔۔۔‬
‫مومن نے پوچھا یہ کس کا جنازہ ہے ۔۔۔‬
‫مسجد نبوی کے خادم نے بتایا کہ۔۔۔۔ یہ جنازہ آغا مؤمن کا ہے پاکستان سے آیا‬
‫ہے۔۔۔۔۔۔‬
‫مومن کی آنکھ کھول گئی ۔۔۔ افسر نے پانی کی چھنٹے منہ پر مارے ۔۔۔ آٹھ جا ۔۔۔۔‬
‫او ہیجڑے ۔۔۔‬
‫دیکھ اتنے فائدے کی ڈیل ہے ۔۔۔ اتنا پیسہ ملے گا کہ پوری زندگی بھی ٹھمکے‬
‫لگائے گا تو اتنا پیسہ نہیں کما سکتا۔۔۔۔‬
‫مومن نے زور سے کہا نہیں ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میں نہیں مانوں گا ۔۔۔‬
‫وہاں موجود آفیسر اور اہلکاروں کو کو اپنی پانچ دن کی محنت جب بےکار ہوتی‬
‫نظر آئیں تو اس قدر غصہ ہوئے کہ سب ایک ساتھ مومن پر تشدد کرنے لگے۔۔۔‬
‫وہ پھولوں سا ۔۔۔ اماں فریدہ کی گود میں ۔۔۔ پلنے واال مومن ۔۔۔۔ جس نے ارد گرد‬
‫کی دنیا بھی پوری نہ دیکھی تھی بھال یہ یہ سب کیسے برداشت کر پاتا۔۔۔۔۔‬
‫آخری الفاظ جو مومن کے لبوں سے نکلے ۔۔۔۔‬
‫وہ تھے ۔۔۔۔‬
‫یا رسو ِل ہللا انظر حالنا۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔@‪.....@......‬‬
‫اماں فریدہ پچھلے پانچ دنوں سے تھانے کے باہر تھیں ۔۔۔‬
‫ہر آنے جانے والے اہلکار سے مومن کا پوچھتیں ۔۔۔۔‬
‫ایک دم آفسر صاحب کو باہر آتے دیکھا تو دوڑ لگا دی ۔۔۔‬
‫صاحب جی ایک بار بس ایک بار ۔۔۔ میرے بیٹے کو دیکھا دو ۔۔۔۔۔‬
‫افسر نے اہلکار سے کہا کہ چپ چاپ انہیں اندر لے جاؤ ۔۔۔‬
‫انھیں دیکھا دو ۔۔۔‬
‫الش ان کے حوالے نہ کرنا ۔۔۔‬
‫یہ لوگ ایک تماشہ کھڑا کر دینگے ۔۔۔۔‬
‫اماں فریدہ اہلکار کے اشارے پر بھاگی ہوہی تھانے کے اندر آئیں اور ایمبولینس‬
‫کو دیکھ کر وہیں ٹھٹھک کے روک گئیں۔۔۔۔‬
‫اماں کے پیر جیسے زمین نے پکڑ لیے ۔۔۔‬
‫جب کپڑا ہٹا کر ۔۔۔ اپنے چاند کو دیکھا ۔۔۔۔ تو اماں فریدہ کی تو دنیا ویران ہو گئی‬
‫۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔ @‪....@......‬‬
‫پولیس کسٹڈی میں موجود علماء کرام اور کارکنان میں ایک خواجہ سرا بھی‬
‫شامل تھا ۔۔۔۔‬
‫یہ خبر تھانے سے نکل کر پورے ملک اور پھر پوری دنیا میں پھیل چکی تھی۔۔۔‬
‫سوشل میڈیا نے اپنی طاقت دیکھا دی ۔۔۔ حکومت کو فلفور تحفظ ختم نبوت‬
‫مومنٹ کے مطالبات ماننے پڑے اور تمام علمائے کرام اور کارکنان کو رہا کرنا‬
‫پڑا۔۔۔۔۔‬
‫وہ ہللا نے کہا ہے نا کہ۔۔۔۔ ایک تم چال چلتے ہو اور پھر ہللا چال چلتا ہے۔۔۔۔‬
‫ہللا نے اپنی چال چلی تو سب شیطانوں کی چال الٹی پڑ گئی ۔۔۔‬
‫وہ لوگ جو ختم نبوت کے جلوس کی وجہ سے گھر میں گھسے ۔۔۔ فیملی ٹائم منا‬
‫رہے تھے ۔۔۔‬
‫وہ لوگ جو سیاسی اور غیر سیاسی کے جھگڑے میں پڑے تھے ۔۔۔‬
‫وہ لوگ جو پڑھے لکھے ہونے کا ثبوت دینے کے لیے ۔۔۔ حکومت کی ٹیبل ٹاک‬
‫والی حکمت عملی کو سپورٹ کر رہے تھے۔۔۔۔ ان کے سامنے ایک ہیجڑے کی‬
‫موت نے ۔۔۔ جھوٹے عشاق اور حکومت کے دوغلے پن کا پردہ فاش کر دیا تھا ۔۔۔‬
‫وہ جشن آمد رسول کی صدای بلند کرنے واال خواجہ سرا۔۔۔‬
‫وہ مصطفی جانے رحمت کی صدائیں بلند کرنے واال نا مرد۔۔۔‬
‫وہ آؤ بازار مصطفی کو چلیں پڑھنے واال ہیجڑا آج ۔۔۔‬
‫امت کے بہت متقی پرہیزگاروں اور عشق رسول کا جھوٹا دعوی کرنے والوں کو‬
‫پھالنگتا ہوا مدینے کی سر زمین پر اپنا جنازہ پڑھوانے پہنچ گیا تھا۔‬
‫۔۔۔۔۔@‪....@......‬‬
‫جس کو آج سے پہلے کوئی نا جانتا تھا ۔۔۔‬
‫ایک بے کار و بے ضرر سا خواجہ سرا ۔۔۔‬
‫آج اس کے نماز جنازہ میں شرکت کرنے کے لیے ۔۔۔ دور دور سے جید علماء‬
‫کرام اور عام و خاص عوام ۔۔۔ موجود تھے ۔۔‬
‫اماں فریدہ ایک ٹرانس کی سی کیفیت میں تھیں ۔۔۔‬
‫جنازہ پڑھنے کے لیے رکھا جا چکا تھا ۔۔۔‬
‫خواجہ سرا کمیونٹی کے التعداد افراد اس جنازے میں شرکت کرنے کے لیے‬
‫آئے تھے۔۔۔۔‬
‫تاریخ عالم نے آج سے پہلے یہ منظر کبھی نہ دیکھا تھا۔۔۔‬
‫ایک خواجہ سرا کی نماز جنازہ اتنی شایان شان۔۔۔۔‬
‫اماں فریدہ ۔۔۔ بھاگتی ہوئی جنازے کے پاس آئیں ۔۔۔‬
‫اور کہا۔۔۔۔‬
‫آخری خواب میں تو نے ۔۔۔۔۔‬
‫مدینے میں ۔۔۔ اپنے جنازے میں مجھے بھی تو کھڑا دیکھا تھا۔۔۔۔‬
‫اور یہ کہہ کر زمین پر گر پڑیں ۔۔۔‬
‫مومن اور اماں فریدہ کی روحیں۔۔۔۔‬
‫نبی جی کی دربار کی طرف پرواز کر چکی تھیں ۔۔۔۔‬
‫کہ وہ پڑھتا رہتا تھا نہ ۔۔۔۔‬
‫ٰ‬
‫مصطفی کو چلیں۔۔۔۔‬ ‫او بازار‬
‫کھوٹے سکے ۔۔۔‬
‫وہیں پہ چلتے ہیں۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔©©©©©©۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ختم شد‬

‫یہ کہانی کاپی پیسٹ کی جا سکتی ہے مگر مصنف کے نام کے ساتھ ۔۔۔ کے یہ‬
‫ہے ۔‬ ‫آپ کی ایمانداری پر منحصر‬

You might also like