You are on page 1of 1071

‫محبت کے بعد (مکمل کہانی)‬

‫قسط_نمبر_‪01‬‬

‫ہیلو دوستو کیسے ہو آپ؟ امید ہے سب لوگ‬


‫ٹھیک ہی ہوں گے ‪ .‬دوستو آج جو کہانی‬
‫میں آپ لوگوں کےساتھ شئیر کرنے جا رہا‬
‫ہوں۔اس کے بارے میں عرض ہے کہ یہ کہانی‬
‫بہت عرصہ قبل ہی آپ کی خدمت میں‬ ‫میں‬
‫بوجہ ایسا نہ کر‬ ‫تھا لیکن‬ ‫پیش کرنا چاہتا‬
‫میں کوئی نہ کوئی ایسی بات‬ ‫سکا کہ بیچ‬
‫ضرور آن پڑتی تھی کہ نا چاہتے ہوئے بھی میں‬
‫اس کہانی کو ادھورا چھوڑ کر کسی دوسری‬
‫کہانی کی طرف متوجہ ہو جایا کرتا تھا ۔۔۔لیکن‬
‫اس کہانی کو ۔۔کہ جو دراصل مجھ پر گزرے‬
‫ایک رئیل واقعہ پر مشتمل ہے میں نے‬ ‫ہوئے‬
‫ہر صورت لکھنا تھا – چنانچہ آج کچھ فرصت‬
‫ملی تو میں نے اس کو لکھنا شروع کر دیا ہے‬
‫۔ یوں تو یہ کہانی مجھ پہ بیتا ہوا ایک واقعہ‬
‫ہےیعنی کہ کہانی کا مرکزی خیال بلکل اصلی‬
‫ہے ۔۔۔لیکن سیکس فورم ہونے کی وجہ سے اور‬
‫آپ لوگوں کے منورنجن کے لیئے میں نے اس‬
‫میں کافی سارے سیکس سین بھی ڈال دیئے‬
‫ہیں تا کہ آپ کو مزہ آئے اور ۔۔۔۔۔۔۔۔کہانی کو‬
‫شوق سے پڑھیں ۔۔۔ ۔۔۔۔‬
‫دوستو! اس کہانی کا ایک ایک لفظ ‪،‬ایک‬
‫ایک کردار مجھے آج بھی کل کی طرح یاد ہے‬
‫کیونکہ یہ ایک ایسی داستان ہے جسے جب بھی‬
‫میں یاد کرتا ہوں تو کبھی خوشی کبھی غم کا‬
‫امتزاج بن جاتا ہوں ایسا کیوں ہوتا ہے ؟ یہ تو‬
‫آپ کو کہانی پڑھ کر ہی پتہ چلے گا۔۔۔۔ ہاں ایک‬
‫درخواست کہ کہانی کے بارے میں مجھے اپنی‬
‫رائے سے ضرور نوازیئے گا۔ تو آیئے کہانی‬
‫شروع کرتے ہیں۔۔۔‬

‫دوستو اردو کا ایک محاورہ ہے بندر کی‬


‫سزا طویلے کے سر ۔۔۔یا اسی قسم کا ایک‬
‫محاورہ پنجابی میں بھی بوال جاتا ہے۔۔ کھان پی‬
‫نوں رحمتے ۔۔۔ تے کُٹ کھان نوں جمعہ ( ویسے‬
‫بعض لوگوں سے میں نے کُٹ کھان کی جگہ‬
‫بُنڈمروان نوں جمعہ بھی سنا ہے ) یا پھر ایک اور‬
‫محاورہ بھی یاد آ رہا ہے کہ یےن‬ ‫پنجابی کا‬
‫والے نس گئے تو نہان والے پھنس گئے ( مطلب یہ‬
‫کہ چودنے والے بھاگ گئے اور جو ویسے ہی‬
‫میں پکڑے‬ ‫نہا رہے تھے وہ چودنے کے الزام‬
‫اس کہانی میں مجھے بھی کچھ اسی‬ ‫گئے)‬
‫سامنا کرنا پڑا ہے‬ ‫ت حال کا‬
‫قسم کی صور ِ‬
‫یہ میری بے روزگاری کے عروج کے دن تھے‬
‫کا یہ واقعہ‬ ‫۔۔۔۔اور خاص طور پر جس وقت‬
‫ہے اس وقت مجھ پر بے روزگاری کا سورج‬
‫اپنے نصف النہار پر تھا ۔۔۔بہار کا موسم تھا لیکن‬
‫ہم پہ خزاں چھائی ہوئی تھی وہ ایسے کہ ہم نے‬
‫جیسے تیسے اپنے پڑھائی والے دریا کو تو‬
‫جو دریا‬ ‫اس سے آگے‬ ‫عبور کر لیا تھا لیکن‬
‫لگ رہا‬ ‫ناقاب ِل عبور‬ ‫مجھے‬ ‫وہ‬ ‫تھا‬ ‫پڑتا‬
‫واال تھا ۔۔۔۔۔یعنی‬ ‫نوکری‬ ‫دریا‬ ‫تھا ۔۔۔اور وہ‬
‫کہ پڑھائی کے بعد اب ما بدولت نوکری کی‬
‫تالش میں تھے ۔۔۔ لیکن نوکری تھی کہ مل ہی نہیں‬
‫رہی تھی ۔۔۔ اس لیئے دن بدن اپنے حاالت خراب‬
‫سے خراب تر ہوتے چلے جا رہے تھے ۔۔ میری‬
‫اس بات کا مطلب وہ لوگ اچھی طرح سے سمجھ‬
‫گئے ہوں گے کہ جنہوں نے بے روزگاری کا‬
‫چلہ کاٹا ہے یا جو کاٹ رہے ہیں۔۔یہ وہ دن‬
‫ہوتے ہیں کہ جب ہر طرف آپ کے لیئے صرف‬
‫اور صرف " نو" کا بورڈ ہی لگا ہوتا ہے‬
‫بندہ سارا دن مختلف دفتروں میں نوکری کی‬
‫تالش میں جوتیاں چٹخانے کے باوجود بھی جب‬
‫شام کو گھر آ کر یہ اطالع دیتا ہے کہ کام نہیں‬
‫بنا ۔۔۔تو اس وقت جو گھر والوں سے جلی کٹی‬
‫سننا پڑتی ہیں ۔۔۔۔ وہ بندے کا مزید دماغ خراب‬
‫کرنے کے لیئے کافی ہوتی ہیں ۔لیکن مرتا کیا نہ‬
‫کرتا کے مصداق ۔۔۔ یہ باتیں سننی اور برداشت‬
‫کرنا ہی پڑتی ہیں ۔۔مجھے ابھی تک یاد ہے کہ‬
‫میری یہ موجودہ سروس مجھے کم از کم سو‬
‫(محاورتا ً نہین بلکہ حقیقتا ً نجی و سرکاری )‬
‫محکموں میں ( جی ہاں سچ مچ سو مختلف‬
‫جگہوں پر ) درخواستیں دینے اور ذلیل و خوار‬
‫ہونے کے بعد ملی ہے ۔ (اسی لیئے مجھے اس‬
‫نوکری کی بڑی قدر ہے ) ہاں تو میں کہہ رہا‬
‫تھا کہ دن کے غالبا ً گیارہ بجے تھے اور میں‬
‫میں‬ ‫لمبی تان کر سویا ہوا تھا کہ میرے کانوں‬
‫امی کی غضب ناک ڈانٹ گونجی کہ اگر تم اب بھی‬
‫نہ اُٹھے تو میں تم پر پورا جگ پانی کا ڈال‬
‫دوں گی ۔۔۔چنانچہ امی کی غضب ڈانٹ سن کر میں‬
‫شرافت سے اُٹھ بیٹھا ۔۔۔اور چونکہ آج کسی جگہ‬
‫ٹیسٹ انٹرویو کے لیئے بھی نہیں جانا تھا اس‬
‫لیئے ۔۔۔۔۔ ناشتہ کرنے کے بعد۔۔۔میں نے اپنے‬
‫پرانے رجسٹر سے ڈھونڈ کر ایک سفید کاغذ‬
‫پھاڑا اور اسے احتیاط سے تہہ کر کے اپنی جیب‬
‫میں ڈال کر گھر سے باہر نکل گیا میری منزل‬
‫راولپنڈی کے ساتھ واقع میونسپل‬ ‫لیاقت باغ‬
‫۔۔۔‬ ‫الئیبریری تھی ۔۔جب میں وہاں پہنچا تو‬
‫انجمن بے روزگاراں‬
‫ِ‬ ‫مجھ سے پہلے ہی وہاں پر‬
‫کے نوجوان الئیبریری کی کرسیوں پر بیٹھ کر‬
‫اپنے سامنے مختلف اخبارت پھیالئے بڑے ہی‬
‫انہماک سے " آسامیاں خالی ہیں " کے اشتہار‬
‫وہاں جا کر‬ ‫ات نوٹ کر رہے تھے ابھی میں‬
‫بیٹھا ہی تھا کہ اصغر نے اپنے ہاتھ میں‬
‫بڑھایا‬ ‫پکڑا ہوا ڈان کا ایک صفحہ میری طرف‬
‫اور سرگوشی کرتے ہوئے بوال ۔۔۔ اس میں‬
‫تمہارے مطلب کی ایک اسامی کا اشتہار موجود ہے‬
‫۔۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے جلدی سے اخبار‬
‫پکڑا اور جیب سے کاغذ‬ ‫کو اس کے ہاتھ سے‬
‫نکال کر متعلقہ اسامی کے کوائف وغیرہ نوٹ‬
‫کرنے لگا۔۔۔ پھر اس کے بعد جب ہم نے سارے‬
‫اخبارات کو اچھی طرح کھنگال کر دیکھ لیا تو‬
‫ہم لوگوں نے آنکھوں ہی آنکھوں میں ایک‬
‫اشارہ کیا ۔۔۔‬ ‫کا‬ ‫دوسرے کو اُٹھنے‬
‫اور کچھ ہی دیر بعد ہم لوگ لیاقت باغ کے‬
‫پارک میں بیٹھے ایک دوسرے کے ساتھ آج‬
‫کے اخباروں میں دیئے ہوئے " آسامیاں خالی‬
‫ہیں " کے اشتہارات کے بارے میں ڈسکس کر‬
‫رہے تھے۔۔ کچھ دیر بعد گھاس پر بیٹھے‬
‫بے زاری کے ساتھ‬ ‫فہیم نے بڑی‬ ‫بیٹھتے‬
‫لی اور کہنے لگا۔۔ یار یہاں تو‬ ‫انگڑائی‬
‫نوکری کے حاالت بہت پتلے ہیں ۔۔۔ میں تو سوچ‬
‫رہا ہوں کہ کیوں نہ کسی باہر کے ملک چال جاؤں کہ‬
‫بے‬ ‫روز روز گھر اور دفتروں میں ہونے والی‬
‫برداشت نہیں ہوتی ۔۔ فہیم کی بات سنتے‬ ‫عزتی‬
‫ہی اصغر نے اسے ایک موٹی سی گالی دیتے‬
‫ہوئے کہا کہ سالے یہاں پاکستان میں رہ کر تو‬
‫تم کو نوکری ملی نہیں اور تم باہر جانے کے‬
‫خواب دیکھ رہے ہو۔۔ پھدی کے باہر جا کر کیا‬
‫لن پکڑ لو گے؟ ۔۔۔۔۔پھر اس نے فہیم کی طرف‬
‫دیکھ کر اسے ایک نہایت ہی فُحش اشارہ‬
‫کرتے ہوئے کہا کہ یاد رکھ بیٹا ۔۔۔ جیہڑے‬
‫ایتھے بھیڑے ۔۔۔او الہور وی بھیڑے (مطلب یہ کہ‬
‫ہر‬ ‫جو اپنے ہوم ٹاؤن میں ناکام ہیں وہ‬
‫ناکام ہی ہوں گے )۔۔۔اصغر کی بات سن‬ ‫جگہ‬
‫کر ہم سب دوستوں نے ایک فرمائیشی سا قہقہہ‬
‫لگایا ۔۔۔ ادھر اصغر کے منہ سے گالی ۔۔۔ اور اس کا‬
‫بے مزہ‬ ‫فحش اشارہ دیکھ کر فہیم ۔۔۔۔۔۔۔زرا بھی‬
‫نہ ہوا بلکہ اسی قہقہہ کے دوران اس نے‬
‫آواز‬
‫با ِ‬ ‫اپنی گھڑی کی طرف دیکھا اور پھر‬
‫بلند ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ اوکے‬
‫دوستو۔۔۔میں چال کہ میری معشوق کی چھٹی کا‬
‫ٹائم ہو گیا ہے شام کو ملیں گے یہ کہتا ہوا‬
‫غائب‬ ‫اپنی جگہ سے ا ُٹھا اور وہاں سے‬ ‫وہ‬
‫ہو گیا ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے جانے کے تھوڑی دیر بعد‬
‫اصغر مجھ سے مخاطب ہوتے ہوئے بوال یار‬
‫شاہ کافی دنوں سے تمھارا پڑوسی امجد نظر‬
‫نہیں آ رہا ۔ خیریت تو ہے نا ؟؟؟؟ ۔۔ اصغر کی بات‬
‫سن کر میں نے چونک کر اس کی طر ف دیکھا‬
‫اور بوال ۔۔۔ یار کہہ تو ۔۔۔تُو ٹھیک ہی رہا ہے‬
‫کافی دنوں امجد کہیں دکھائی نہیں دے‬ ‫واقعی‬
‫رہا ۔۔۔ کہیں بیمار شمار نہ ہو گیا ہو۔۔۔پھر اس کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے میں تشویش بھرے لہجے‬
‫میں بوال۔۔ چلو یار آج واپسی پر میں اس کے‬
‫گھر سے ہوتا ہوا جاؤں گا ۔۔۔ میری بات سن‬
‫اکرم نے برا سا منہ‬ ‫کر پاس بیٹھے ہوئے‬
‫بنایا اور کہنے لگا ۔۔۔ کوئی ضرورت نہیں اس‬
‫مادر چود بلکل ٹھیک اور‬ ‫کے گھر جانے کی وہ‬
‫فِٹ ہے تو میں نے اس کی طرف دیکھتے‬
‫تجھے کیا الہام ہوا ہے کہ‬ ‫گانڈو‬ ‫ہوئے کہا‬
‫وہ بلکل ٹھیک ہے ؟؟۔۔۔ یا تینوں کی ُبنڈ تار‬
‫آئی سی؟ ۔میری بات سن کر وہ مسکرایا اور‬
‫کہنے لگا۔۔۔یار اس میں بنڈ تار والی کون سی‬
‫بات ہے ۔‬

‫پتہ‬ ‫۔۔مجھے ویسے ہی اس کے بارے میں‬


‫ہےکہ ۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ وہ کچھ مزید کہتا‬
‫۔۔ میں اس کی بات کو درمیان سے ہی اُچک کر‬
‫بوال ۔۔اور اگر بالفرض وہ تمہارے مطابق ٹھیک‬
‫بھی ہے تو اتنے دنوں سے ہمیں نظر کیوں‬
‫۔۔تو اکرم نے میری طرف‬ ‫نہیں آ رہا ؟؟؟؟‬
‫طنزیہ لہجے میں‬ ‫دیکھتے ہوئے بڑے ہی‬
‫کہا۔۔اعلی حضرت اس کے نظر نہ آنے کی دو‬
‫ٰ‬
‫ہماری طرح‬ ‫وجوہات ہیں۔۔۔ نمبر ایک یہ کہ وہ‬
‫سے کوئی ویال اور بے روزگار نہیں ہے‬
‫۔۔اور دوسری وجہ اس کے یہاں نہ آنے کی یہ‬
‫ہے کہ موصوف کو آج کل عشق بخار چڑھا ہوا‬
‫ہے۔۔ اکرم کی دوسری بات سن کر ہم سب دوست‬
‫ایک دم سے چونک گئے ۔۔۔پھر میں نے بڑی‬
‫حیرانی سے اکرم کی طرف دیکھتے ہوئے سے‬
‫ہتھ ہوال رکھو یار۔۔۔۔۔۔۔۔ امجد جیسے‬ ‫کہا ۔۔‬
‫شریف بچے کے بارے میں اتنی ڈس انفارمیشن‬
‫اچھی نہیں ہے ۔۔۔جبکہ ہم سب یہ بات اچھی‬
‫ہر گز‬ ‫طرح سے جانتے ہیں کہ امجد ایسا لڑکا‬
‫ہے ۔ میری بات سن کر اکرم نے باری‬ ‫نہیں‬
‫باری ہم سب کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔ بین‬
‫( بہن چودو) مجھے پہلے ہی یقین تھا کہ‬ ‫یکو‬
‫اس محفل کے سارے گانڈو میری بات کا ہرگز‬
‫یقین نہیں کریں گے۔۔لیکن یہ بات سچ ہے‬
‫دوستو کہ شاہ جی کا بیسٹ فرینڈ اور ہماری‬
‫مجلس کا سب سے شریف بچہ مسٹر امجدآج کل‬
‫ایک لڑکی کے ساتھ بھونڈی کرتے ہوئے دیکھا‬
‫گیا ہے وہ روز صبع اس کے ساتھ گھر سے‬
‫نکلتا ہے اور لیاقت باغ تک اس کے ساتھ ساتھ‬
‫آگے پیچھے چلتا ہے اور موقعہ دیکھ کر بات‬
‫اپنے‬ ‫بھی کرلیتا ہے ۔۔۔ پھر لیاقت باغ سے وہ‬
‫کالج (گورڈن) کی طرف چال جاتا ہے اور وہ لڑکی‬
‫اپنے کالج یعنی کہ وقار النساء کی طرف چلی‬
‫لیاقت باغ‬ ‫جاتی ہے اس لیئے گھر سے وہ‬
‫تک اس کے ساتھ آتا ہے۔۔۔۔ اس کی بات سن کر‬
‫میں نے اکرم کو ایک موٹی سی گالی دی اور‬
‫کہنے لگا ۔۔پھدی کے ۔۔۔ تمہیں اچھی طرح سے‬
‫معلوم ہے کہ وہ گورڈن کالج میں پڑھتا ہے اس‬
‫لیئے تم نے اسے گھر سے آتے ہوئے بائی‬
‫چانس کسی لڑکی کے پیچھے دیکھ کر اتنا‬
‫بڑا اسکینڈل بنا لیا ہے ۔۔۔۔ابھی ہم یہ باتیں کر‬
‫ہی رہے تھے کہ سامنے سے امجد آتا ہوا‬
‫دکھائی دیا اسے دیکھ کر ہم سب ایک دم ُچپ‬
‫ہو گئے اور ایک دوسرے کا منہ دیکھنے لگے‬
‫ہمارے پاس آ کر بیٹھ گیا‬ ‫اتنے میں امجد بھی‬
‫اور پھر جلد ہی اس نے ہماری خاموشی کو‬
‫محسوس کر لیا اور ہم سب سے مخاطب ہو کر‬
‫یارو ۔۔۔ یہ تم لوگ میرے‬ ‫کہنے لگا ۔۔ کیا بات‬
‫ہو ؟اس‬ ‫آنے پر ایک دم ُچپ کیوں ہو گئے‬
‫پر میں نے اس سے کہا ہم لوگ تمہارے ہی‬
‫بارے میں باتیں کر رہے تھے ۔۔۔ اور پھر اسے‬
‫کڑی نظروں سے دیکھتے ہوئے بوال ۔۔۔۔ سنا ہے‬
‫کہ آج کل تم کسی لڑکی کے ساتھ ُگل چھڑے‬
‫اس کی‬ ‫اُڑا رہے ہو۔۔پھر اس کے بعد میں‬
‫آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بوال ۔ کیا یہ بات‬
‫سچ ہے؟ میرا جارحانہ ُموڈ دیکھ کر امجد ایک‬
‫دم گڑ بڑا سا گیا ۔۔۔ اور اپنی نظریں نیچی کر‬
‫کے کہنے لگا جی بھائی یہ بات سچ ہے۔۔۔‬
‫بات سنتے ہی اکرم نے ایک نعرہ‬ ‫امجد کی‬
‫لگایا اور خاص کر میری طرف دیکھ کر بوال ۔۔۔‬
‫لے بیٹا۔۔۔ اب تو میری بات کا تم کو یقین آ گیا‬
‫ہے نا ۔۔۔میں نے اکرم کی بات کو نظر انداز کرتے‬
‫ہوئے امجد سے پوچھا کہ ۔۔۔ ہاں تو بتا یار وہ‬
‫کون سے ایسی پری ہے جس کی وجہ سے تم‬
‫چھوڑ دیا تھا۔۔۔ میری‬ ‫نے ہماری محفل میں آنا‬
‫بات سن کر امجد نے بڑی مجروح سی نظروں‬
‫سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔ ایسی بات‬
‫نہیں ہے بھائی۔۔۔۔ وہ اصل میں میرے کچھ‬
‫ٹیسٹ آ گئے تھے اس لیئے میں کچھ دنوں‬
‫سے آپ کی کمپنی کو جوائین نہ کر سکا۔۔۔۔۔‬
‫امجد کی بات ختم ہوتے ہی اصغر نے اس کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ چلو مان لیتے ہیں‬
‫کہ تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔۔۔۔۔ پر یہ بتا وہ لڑکی‬
‫ہے کون؟؟ اور اس کا حدود دربہ کیا ہے؟ اس پر‬
‫امجد نے ایک نظر ہم سب پر ڈالی اور کہنے‬
‫لگا اس کا نام نبیلہ ہے اور وہ وقار النساء کالج‬
‫(اب یونیورسٹی) میں پڑھتی ہے اس پر میں‬
‫نے اس سے پوچھا کہ وہ رہتی کہاں ہے؟ تو‬
‫سنیاروں‬ ‫امجد نے میری طرف دیکھ کر کہا وہ‬
‫کے محلے میں رہتی ہے۔۔۔ امجد کی بات ختم‬
‫ہوتے ہی اکرم کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ اور سب سے اہم‬
‫بات یہ ہے کہ وہ شیدے سنیارے کی بہن ہے۔۔۔‬
‫اور یہ بات کرتے ہوئے اس نے امجد کی طرف‬
‫دیکھا تو امجد نے ہاں میں سر ہال دیا۔۔۔ شیدے‬
‫سنیارے کا نام سنتے ہی ہم سب کو ایک دم‬
‫شاک سا لگا ۔۔۔ کیونکہ ہم شیدے کو اچھی طرح‬
‫سے جانتے تھے عمر میں وہ ہم سب سے‬
‫بڑا اور ایک نمبر کا حرامی لڑکا تھا جو کام‬
‫دن‬ ‫تھا بس سارا‬ ‫کچھ نہیں کرتا‬ ‫کاج تو‬
‫تھا ۔۔ اس کے باپ کی‬ ‫گردی کرتا رہتا‬ ‫آوارہ‬
‫دکان تھی اور اس کے ساتھ‬ ‫صرافہ بازار میں‬
‫اور بھی تھے اور‬ ‫ساتھ اس کے تین چار بھائی‬
‫بیٹھتے تھے ۔۔‬ ‫وہ بھی صرافہ بازار میں ہی‬
‫شیدے سمیت ۔۔۔ باپ بیٹے سب حرام کے تخم تھے‬
‫کے پاس پیسہ بہت‬ ‫۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔چونکہ ان لوگوں‬
‫تھا اس لیئے رشید سنیارا حرامی سے حرامی‬
‫تر ہوتا جا رہا تھا اور اب تو وہ اپنے‬
‫محلے کا ایک چھوٹا موٹا ڈان بن گیا تھا ۔۔‬
‫اور‬ ‫نبیلہ اسی حرامی کی سب سے چھوٹی‬
‫بہن تھی ۔۔۔۔۔۔اور امجد کے بقول اپنے‬ ‫اکلوتی‬
‫بہت ہی اچھی اور‬ ‫گھر والوں کے برعکس وہ‬
‫ڈیسنٹ لڑکی‬ ‫بہت ہی‬ ‫ان سے الگ تھلگ اور‬
‫تھی۔۔۔‬

‫ہمیں یوں پریشان دیکھ کر‬


‫امجدبھی پریشان ہو گیا اور کہنے لگا۔۔ یہ آپ‬
‫سب کو کیا ہو گیا ہے ؟ شیدے سنیارے کا نام‬
‫سن کر آپ لوگوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا‬
‫ہے ؟؟۔۔۔۔ امجد ہم لوگوں کا رویہ دیکھ کر ٹھیک‬
‫ہی حیران ہو رہا تھا اور وہ اس لیئے کہ‬
‫ہماری طرح امجد اس الئین کا بندہ نہیں تھا‬
‫بلکہ وہ ایک سیدھا سادھا اور پڑھاکو قسم کا‬
‫لڑکا تھا ۔۔۔ اور دوسری بات یہ کہ ان کو ہمارے‬
‫محلے میں آئے ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن ہی‬
‫ہوئے تھے۔۔۔ جبکہ ہم لوگ تو انہی محلوں میں‬
‫کھیل کود کر جوان ہوئے تھے اور ایک دوسرے‬
‫کو بڑی اچھی طرح سے جانتے تھے۔۔۔۔ امجد‬
‫ہمارا‬ ‫کے بارے میں تھوڑا مزید بتا دوں کہ وہ‬
‫ہمسایہ تھا ۔۔۔اس کا والد اسالم آباد کی کسی‬
‫کا خاصہ‬ ‫منسٹری میں سیکشن آفیسر ٹائپ‬
‫امجد کی چار‬ ‫کڑک بندہ تھا۔۔۔۔ کہنے کو تو‬
‫بہنیں تھیں لیکن اس وقت ان کے ساتھ دو ہی رہتی‬
‫مہرالنساء‬ ‫تھیں ۔۔۔ ایک اس سے بڑی‬
‫جسے سب مہرو باجی کہتے تھے جو کہ شادی‬
‫شدہ تھی جس کی عمر تیس بتیس سال ہو گی‬
‫خاوند سپین میں ہوتا تھا۔۔ان کی‬ ‫مہرو باجی کا‬
‫شادی کو چھ سات سال ہو گئے تھے لیکن ابھی‬
‫تک ان کے ہاں کوئی اوالد نہ ہوئی تھی ۔۔۔‬
‫اس لیئے وہ اپنے سسرال کے طعنوں سے بچنے‬
‫میکے میں ہی‬ ‫زیادہ تر اپنے‬ ‫کے لیئے‬
‫پائی جاتی تھی ۔۔ جبکہ امجد کی دوسری بہن‬

‫چھوٹی تھی جس کا اصل نام تو مجھے معلوم نہ‬


‫تھا لیکن سب اسے مینا مینا کہتے تھے۔۔۔۔۔ وہ‬
‫میٹرک کی سٹوڈنٹ تھی۔۔۔۔ اور خاصی شوخ و شنگ‬
‫قسم کی لڑکی تھی۔۔۔۔ دونوں بہنیں بہت حسین تھیں ۔۔۔۔‬
‫لیکن مجھے ذاتی طور پر ان کی والدہ بہت‬
‫اچھی لگتی تھی ان کی عمر فورٹی پلس یا اس‬
‫سے زیادہ ہو گی ۔۔۔ لیکن وہ اپنی عمر سے‬
‫بہت ہی کم دکھتی تھیں ۔ تینوں ماں بیٹیوں کی‬
‫رنگت بہت صاف اور سینہ درمیانہ تھا یعنی ان کی‬
‫چھاتیاں نہ بہت بڑی اور نہ ہی بہت چھوٹی‬
‫تھیں ۔ اگر تینوں کہیں آ جا رہیں ہوں تو ایسا لگتا‬
‫تھا کہ وہ سب آپس میں بہنیں ہیں۔۔۔۔تینوں ماں‬
‫بیٹیاں خاصی تیز تھیں لیکن ان کے بر عکس امجد‬
‫بہت ہی شریف اور ۔۔۔۔۔ سیدھا سادھا سا لڑکا‬
‫تھا۔اور ان خواتین سے خاصہ دب کر رہتا تھا‬
‫۔جبکہ یہ تینوں ماں بیٹیاں امجد کے والد سے‬
‫بہت دبتی تھیں ۔۔۔امجد اتنا شریف اور اچھا لڑکا‬
‫تھا کہ اس کے عشق کا سن کر ہم سب کو‬
‫یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ اس حضرت کو بھی‬
‫عشق ہو سکتا ہے یہاں میں ایک اور بات‬
‫دل کرنے کے باوجود‬ ‫واضع کرتا چلوں کہ‬
‫بھی ابھی تک میں نے امجد کے گھر کی کسی‬
‫خاتون پر کوئی ٹرائی نہیں ماری تھی ۔۔۔۔اور‬
‫کہ اس کے باپ نے مجھے‬ ‫اسکی وجہ یہ تھی‬
‫الرا لگایا ہوا تھا کہ جیسے ہی اس کی منسٹری‬
‫میں کوئی ویکینسی نکلی تو وہ مجھے کہیں‬
‫ایڈجسٹ کروا دے گا ۔۔۔ اس کے عالوہ بھی جب‬
‫میں کسی جگہ انٹرویو وغیرہ کے لیئے جاتا تھا‬
‫پر فون بھی‬ ‫وہ متعلقہ جگہ‬ ‫تو بعض اوقات‬
‫کروا دیتا تھا ۔۔۔ لیکن شاید میری قسمت میں ہی‬
‫کچھ گڑ بڑ تھی کہ ابھی تک میرا کام نہ بنا تھا‬
‫بات‬ ‫۔۔۔۔ اور میں اس اللچ میں کہ کبھی تو میری‬
‫بنے گی ۔۔۔بڑی ہی شرافت سے ان لوگوں ۔۔۔ خاص‬
‫کر اس کے ابا اماں کے آگے پیچھے پھرا کرتا‬
‫تھا ۔ اس کے ساتھ ساتھ امجد چونکہ ایک‬
‫پڑھاکو اور برگر ٹائپ کا بچہ تھا اس لیئے‬
‫اکثر ان کے گھر کے چھوٹے موٹے کام بھی میں‬
‫ہی کر دیا کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور اسی نوکری کے‬
‫چکر میں ۔۔۔ میں نے امجد کی ماں بہنوں پر‬
‫ابھی تک کسی قسم کی کوئی ٹرائی نہیں ماری‬
‫تھی ۔۔۔ اور ایک طرح سے یہ چیز میرے حق میں‬
‫گئی تھی کہ میرے دوستانہ اور‬ ‫بہت اچھی‬
‫شریفانہ رویے کی وجہ سے میرا خاص کر امجد‬
‫پر بہت اچھا اثر پڑا تھا‬ ‫کے والد اور والدہ‬
‫۔۔۔اور ان کی نظروں میں۔۔۔ ۔۔۔۔ میں ایک بہت شریف‬
‫اور اچھا لڑکا تھا اسی لیئے وہ امجد کی‬
‫اپنے بچے کی طرح‬ ‫مجھے بھی‬ ‫طرح‬
‫ٹریٹ کرتے تھے۔۔۔‬
‫سوری امجد لوگوں کا تعارف تھوڑا لمبا ہو گیا‬
‫۔لیکن چونکہ اس کہانی سے ان کا گہرا تعلق‬
‫میں نے مناسب سمجھا کہ تھوڑا‬ ‫ہے اس لیئے‬
‫ان کا بھی تعارف کروا دوں ۔۔۔ ۔۔۔۔ہاں تو میں‬
‫کہہ رہا تھا کہ جب امجد نے ہم سے سوال کیا‬
‫سن کر آپ‬
‫شیدے کا نام ُ‬ ‫کہ کیا ہوا ؟؟؟؟‬
‫لوگوں کو سانپ کیوں سونگھ گیا ہے؟ امجد کے‬
‫پہلے‬ ‫کہ اصغر جو‬ ‫سوال کرنے کی دیر تھی‬
‫امجد پر چڑھ‬ ‫ہی کافی بھرا بیٹھا تھا ایک دم‬
‫۔۔۔ سالے تم کو بھی دل‬ ‫دوڑا ۔۔۔اور کہنے لگا‬
‫لگانے کے لیئے اور کوئی لڑکی نہیں ملی‬
‫تھی؟ پھر پھنکارتے ہوئے بوال ۔۔۔تم کو پتہ‬
‫ہے کہ یہ شیدا مادر چود ہے کون؟ اور یہ‬
‫کس قدر حرامی اور کمینہ آدمی ہے۔۔۔اور پھر اس‬
‫کے بعد اس نے شیدے کے حرامی پن کے‬
‫لمبی چوڑی تقریر کی ۔اور‬ ‫بارے میں کافی‬
‫بھی‬ ‫اس کے ساتھ ساتھ بے چارے امجد کو‬
‫ب معمول کسی سعادت‬
‫خوب سنائیں ۔۔۔۔۔۔۔ امجد حس ِ‬
‫باتوں‬ ‫اصغر کی جلی کٹی‬ ‫مند بچے کی طرح‬
‫کو سر جھکا کر ُچپ چاپ سنتا رہا ۔۔۔۔ پھر جب‬
‫تقریر ختم کر کے اصغر کا پارہ کچھ کم ہوا‬
‫۔۔۔تو امجد نے سر اُٹھا کر ہم سب کی طرف‬
‫بغور دیکھا اور کہنے لگا ۔۔۔۔۔سوری دوستو۔۔‬
‫میں تو آپ لوگوں سے اپنی داستان شئیر کرنے‬
‫اور کچھ مدد لینے آیا تھا ۔۔۔ لیکن یہاں آ کر‬
‫بڑا حرامی اور کمینہ‬ ‫مجھے پتہ چال کہ شیدا‬
‫آدمی ہے اور آپ سب اس سے بہت ڈرتے‬
‫ہیں ۔۔ اس لیئے میں سمجھ گیا ہوں کہ اس کھیل‬
‫یا کسی اور کے ساتھ‬ ‫میں ۔۔ مجھے ۔ شیدے‬
‫جو کرنا ہو گا اکیلے کو ہی کرنا ہو گا اور‬
‫میرے دوستوں میں سے میرے کوئی کام نہیں‬
‫آئے گا۔۔۔ یہ کہہ کر امجد اپنی جگہ سے اُٹھا ۔۔۔۔۔‬
‫ہی چلنے کے لیئے آگے بڑھا‬ ‫اور جیسے وہ‬
‫۔ ۔۔۔ میں نے اسے بازو سے پکڑ کر دوبارہ‬
‫اپنی جگہ پر بٹھا لیا اور اس سے بوال ۔۔۔ کس‬
‫بہن چود نے تم کو کہا ہے کہ ہم لوگ شیدے‬
‫۔۔۔مادر چود سے ڈرتے ہیں؟؟؟ ۔۔۔۔ میری بات سن‬
‫کر امجد نے میری طرف دیکھا اور بڑی تلخی‬
‫سے کہنے لگا ۔۔ابھی جو اصغر بھائی نے اتنا‬
‫لمبا لیکچر دیا ہے اس سے تو یہ بات صاف‬
‫ظاہر ہو رہی تھی کہ آپ سب اس سے بہت ڈرتے‬
‫ہیں ۔۔۔تو میں نے اس کہا ۔۔۔ او نہیں یار تقریر‬
‫کرتے ہوئے اصغر کچھ زیادہ ہی جزباتی ہوگیا‬
‫تھا ۔لیکن یقین کرو اس کی تقریر کا مطلب صرف‬
‫اور صرف تم کو شیدے کے کردار کے بارے میں‬
‫اور اس سے ہوشیار کرنا تھا ۔۔۔۔ تا‬ ‫آگہی دینا‬
‫کہ تم آنے والے وقت کے لیئے خود کو تیار کر‬
‫لو۔۔ورنہ شیدے جیسے بندے سے ہمارا لن ڈرتا‬
‫ہے۔۔۔پھر اس کے بعد میں نے اس کو کہا ہاں‬
‫اب تو بتا کہ تیرا کیا مسلہ ہے؟ اور تم کو ہم‬
‫سے کس قسم کی مدد درکار ہے۔۔۔میری بات سن کر‬
‫امجد بڑی افسردگی سے کہنے لگا رہنے دو یار‬
‫۔۔۔۔۔۔ میں خود ہی ہینڈل کر لوں گا۔۔۔۔۔ اس پر میں‬
‫نے اسے ایک موٹی سی گ الی دی اور بوال۔۔۔ چل‬
‫سیدھی طرح بتا کہ بات کیا ہے ؟۔میری بات‬
‫سن کر امجد کا چہرہ کھل سا گیا اور و ہ بڑی‬
‫بے یقنی سے میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫لگا ۔۔۔آ۔۔آ۔۔آپ سچ کہہ رہے ہو نا بھائی؟‬ ‫کہنے‬
‫پھر اس کے بعد وہ تھوڑے تشویش بھرے‬
‫لہجے میں ۔۔کہ جس میں تھوڑا سا طنز بھی شامل‬
‫تھا ۔۔۔ کہنے لگا ۔۔۔۔بھائی آپ کو پتہ ہے نا کہ‬
‫شیدا کس قدر خطرناک اور حرامی بندہ ہے اس‬
‫کے باوجود بھی ؟ امجد کی یہ بات سن کر‬
‫مجھے تھوڑی سی تپ چڑھ گئی اور میں نے‬
‫ہوئے قدرے غصے‬ ‫اس کی طرف دیکھتے‬
‫سے کہا ۔۔۔ ۔۔۔ شیدے کی ماں کا پھدا ۔۔۔۔ وہ‬
‫تم سے ابھی اصغر نے کیں تھیں ۔۔۔وہ‬ ‫باتیں جو‬
‫محض تم کو ہوشیار اور خبردار کرنے کے لیئے‬
‫بہن کے لن سے محتاط رہنے کے‬ ‫اور اس‬
‫لیئے کہیں تھیں ۔۔ لیکن تمہاری حالت دیکھ کر‬
‫ہم نے تمہارے بارے میں حساب لگا لیا ہے کہ‬
‫نبیلہ کے عشق میں کافی آگے‬ ‫میاں مجنوں تم‬
‫تک نکل چکے ہو اور ہمارے سمجھانے سے‬
‫بھی تم باز نہیں آؤ گے اس لیئے دوست ۔۔۔۔۔۔۔اب‬
‫جبکہ پانی سر سے بہت اونچا ہو چکا ہے‬
‫دوستی کے ناطے ہم‬ ‫۔۔۔۔۔۔ اس لیئے تم سے‬
‫تم کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے باقی رہی شیدے‬
‫جب اوکھلی میں سر‬ ‫کی بات تو ۔۔۔ میری جان‬
‫دینے لگے ہیں تو پھر موصلوں سے کیا ڈرنا‬
‫۔۔۔۔۔۔ امجد سے یہ بات کرنے کے بعد ہم سب‬
‫دوستوں نے آپس میں سر جوڑ لیئے اور‬
‫طے کرنے لگ گئے‬ ‫عمل‬ ‫الحہء‬ ‫کا‬ ‫شام‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫یہ اسی دن کی بات ہے کہ جیسے ہی‬
‫شام ہوئی تو ہم لوگ مقررہ وقت پر پروگرام‬
‫شیدے کی گلی سے زرا پیچھے‬ ‫کے مطابق‬
‫ایک اور گلی میں اکھٹے ہو گئے ۔۔۔ طے یہ‬
‫تھا کہ امجد اکیال ہی اس گلی میں جائے‬ ‫ہوا‬
‫گا اور اس کے پیچھے کچھ فاصلے پر میں‬
‫اور پھر مجھ سے کچھ فاصلے پر باقی دوست‬
‫ہوں گے ۔۔۔ شیدے پر ظاہر یہ کرنا تھا کہ ہم‬
‫لوگ اتفاقا ً ہی مل گئے ہیں ۔۔۔ چنانچہ پروگرام‬
‫دیر‬ ‫کے مطابق امجد آگے چال گیا اور کچھ‬
‫انتظار کے بعد میں بھی اس کے پیچھے‬
‫شیدے کی گلی کی طرف چال گیا۔۔۔ دیکھا تو‬
‫شیدا ۔۔۔۔ امجد کا راستہ روکے کھڑا تھا۔ اور ان‬
‫دونوں میں کسی بات پر تکرار ہو رہی تھی۔۔۔۔‬
‫جیسے ہی میں ان کے نزدیک پہنچا تو شیدا‬
‫امجد سے کہہ رہا تھا ۔۔۔ اوئے ۔۔۔ باؤ ۔۔کل بھی میں‬
‫کیا تھا ۔۔۔۔ کہ آئیندہ تم نے اس‬ ‫نے تم کو منع‬
‫باز نہیں‬ ‫گلی کا چکر نہیں لگانا ۔۔لیکن تم‬
‫آئے ۔۔۔اور آج پھر سے منہ اُٹھا کر چلے آئے‬
‫دیتے‬ ‫ہو ۔۔۔۔ اس لیئے میں تم کو آخری وارنگ‬
‫ہوئے کہہ رہا ہوں کہ شرافت سے واپس‬
‫چلے جاؤ ۔۔ورنہ۔۔۔۔۔ابھی شیدے نے اتنی ہی بات‬
‫۔۔۔۔۔‬ ‫کی تھی کہ ۔۔۔میں ان کے سر پر پہنچ گیا‬
‫اور میں نے امجد کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔۔ کیا‬
‫تو‬ ‫حال ہے امجد ؟ کہاں جا رہے ہو ؟‬
‫امجد نے مجھ سے کہا ۔۔ بھائی میں کسی‬
‫ضروری کام کے سلسلہ میں اس گلی سے گزر‬
‫رہا تھا مگر یہ صاحب مجھے آگے جانے‬
‫سے منع کر رہے ہیں اور کہہ رہے ہیں کہ میں‬
‫ان کی گلی سے نہیں گزر سکتا ۔۔ اس پر میں‬
‫نے شیدے کی طرف دیکھا اور بوال۔۔۔۔بچہ ٹھیک‬
‫کہہ رہا ہے؟ تو شیدے نے میری طرف دیکھ‬
‫کر قدرے درشت لہجے میں کہا۔۔۔۔۔۔۔۔ شاہ ۔۔ میں‬
‫تمہارا بڑا لحاظ کرتا ہوں ۔۔۔ اس لیئے تم ۔۔۔۔ اس‬
‫معاملے میں نہ پڑو ۔۔۔اور ۔۔ چلتے پھرتے نظر‬
‫میں نے شیدے کی طرف دیکھتے ہوئے‬ ‫آؤ۔۔ اس‬
‫بھی‬ ‫کیا کہہ رہے ہو تم؟؟؟؟؟؟ تو شیدا‬ ‫کہا ۔۔۔۔‬
‫میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔‬
‫شاہ !!!!!!۔۔۔اپنا راستہ ناپو ۔۔۔۔۔اور پرائے‬
‫پھڈے میں ٹانگ مت اڑاؤ۔۔۔۔۔۔اس کی بات سن کر‬
‫میں تھوڑا آگے بڑھا اور شیدے کی آنکھوں‬
‫میں آنکھیں ڈال کر سخت لہجے میں بوال ۔۔۔۔ شیدا‬
‫جی تم کو معلوم ہے نا کہ ۔امجد میرا دوست‬
‫اور پڑوسی ہے اس لیئے اس کا پھڈا میرا‬
‫پھڈا ہے۔۔۔ اتنے میں ہماری ٹیم کے باقی ممبر‬
‫بھی اس جگہ پر پہنچ گئے اور کہنے لگے ۔۔۔ کیا‬
‫بات ہے شاہ جی؟ تو میں نے ان سے کہا کہ‬
‫یار یہ بندہ (شیدا) امجد کو کہہ رہا ہے کہ وہ‬
‫اس کی گلی میں نہیں جا سکتا ۔۔۔ میری بات‬
‫اور ۔۔شیدے‬ ‫اصغر تھوڑا آگے بڑھا‬ ‫سن کر‬
‫لہجے‬ ‫کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔ درشت‬
‫میں بوال۔۔۔ کیوں نہیں جا سکتا ؟ یہ اس کے‬
‫باپ کی گلی ہے کیا۔۔۔ اس پر شیدے نے بھی‬
‫اصغر کی طرف غصے سے دیکھا اور کہنے‬
‫لگا اوئے۔۔۔ ۔۔۔گھر تک نہیں جانا ۔۔۔۔ ورنہ بڑا‬
‫روال ہو جائے گا۔۔۔ اس سے پہلے کہ اصغر کچھ‬
‫کہتا ۔۔۔ پیچھے سے فہیم کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔۔ وہ‬
‫روال ہوتا ہے تو ہونے‬ ‫کہہ رہا تھا ۔۔۔ کہ‬
‫ایک دم سے‬ ‫دو۔۔۔۔۔۔۔۔ فہیم کی بات سن کر شیدا‬
‫چونک گیا ۔۔۔۔۔۔اور پھر ہماری طرف دیکھتے‬
‫ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ اچھا تو تم لوگ پروگرام‬
‫بنا کر آئے ہو۔۔۔ پھر ایک دم گرم ہو کر اونچی‬
‫آواز میں کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ ہاں یہ میری باپ کی‬
‫گلی ہے۔۔۔ اس لڑکے میں ہمت ہے تو زرا جا‬
‫کر دکھائے۔‬
‫(جاری ھے)‬

‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_نمبر_‪02‬‬

‫چونکہ ہم لوگ پہلے سے ہی پروگرام بنا کر‬


‫شیدے کی بات سنتے‬ ‫آئے تھے اس لیئے‬
‫ہی میں نے اس کو بازو سے پکڑ ا ۔۔۔۔اور‬
‫سنبھلنے کا موقع دیئے بغیر ۔۔۔اس کے بازو‬
‫کو پیچھے کی طرف کر کے پورے زور سے‬
‫مروڑ دیا ۔۔۔ جس کی وجہ سے شیدے کے‬
‫ہلکی سے آہ نکلی اور وہ‬ ‫منہ سے ایک‬
‫گھوم کر میرے ساتھ لگ گیا ۔۔۔۔ اور اس طرح‬
‫۔۔۔۔اس کی بیک میرے فرنٹ کے ساتھ لگ گئی‬
‫۔۔۔۔ جیسے ہی میں نے شیدے کو قابو کیا ۔۔۔۔۔۔‬
‫باقی سب دوست شیدے‬ ‫پروگرام کے مطابق‬
‫گھیرا ڈال کر‬ ‫کے آگے کچھ اس طرح سے‬
‫کھڑے ہو گئے کہ دور سے دیکھنے واال یہی‬
‫ہم سب لوگ شیدے کے‬ ‫سمجھتا کہ جیسے‬
‫آس پاس کھڑے اس کے ساتھ گپیں لگا رہے ہیں‬
‫چند ہی سیکڈز میں ہو‬ ‫۔۔۔۔ یہ ساری کاروائی‬
‫گئی۔۔۔ اور پھر میں نے امجد کی طرف دیکھا اور‬
‫کہنے لگا۔۔۔ امجد یار ۔۔۔ زرا ۔۔۔۔ شیدا جی کی باپ‬
‫کی گلی کا ایک چکر تو لگا کر آ۔۔ میری بات‬
‫سن کر امجد کہنے لگا۔۔۔ ابھی لو استاد ۔۔۔اور اس‬
‫شیدے کی طرف دیکھتا ہوا ۔۔۔وہ‬ ‫کے ساتھ ہی‬
‫اس کی گلی کی طرف چال گیا ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی‬
‫امجد نے شیدے کی گلی کی طرف قدم بڑھایا‬
‫۔۔۔شیدے نے پیچھے سے اپنا بازو چھڑانے کی‬
‫بھر پور کوشش کی ۔۔۔ لیکن چونکہ میں اس سے‬
‫اس قسم کے اقدام کی پہلے سے ہی توقع کر‬
‫تھا اس لیئے میں نے اس کے بازو کو‬ ‫رہا‬
‫ایک اور مروڑا دیا ۔۔۔اور پیچھے سے اس کی‬
‫گانڈ پر اپنا گھٹنا مارتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔ نہ میری‬
‫جان ابھی تم بچے ہو۔۔۔۔۔۔ پھر اس کا بازو کو‬
‫مزید ٹائیٹ کرتے ہوئے بوال ۔۔۔آرام سے کھڑے‬
‫رہو ۔۔۔۔ اب اگر اور زور لگانے کی کوشش کی تو‬
‫۔۔۔۔ تمھارا یہ بازو ٹوٹ بھی سکتا ہے۔۔۔۔ میری‬
‫پھنکارتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔ شاہ‬ ‫بات سن کر شیدا‬
‫یہ تم اچھا نہیں کر رہے ہو۔۔۔ مجھے چھوڑ دو‬
‫ورنہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔لیکن میں نے اس کی بات سنی ان‬
‫سنی کر کرتے ہوئے ۔۔۔۔ اس کے بازو پر اپنی‬
‫ٹائیٹ کر دی۔۔۔۔ یہ دیکھ کر شیدا‬ ‫گرفت مزید‬
‫میری گرفت سے نکلنے کے لیئے تھوڑا سا‬
‫کسمایا ۔۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔ میری مضبوط گرفت دیکھ کر‬
‫۔۔۔۔۔۔ وہ بس کسمسا کر رہ گیا ۔۔۔۔اور پھر اپنا منہ‬
‫پیچھے کی طرف کر کے بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ بات تمہیں‬
‫بہت مہنگی پڑے گی۔۔۔۔ شیدے کی بات سن کر‬
‫میں نے ایک بار پھر اپنا گھٹنا ۔۔۔ عین اس کی‬
‫گانڈ کے بیچ میں دے مارا ۔۔اور پھر اس سے‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ بھونک نہ کتے۔۔۔‬
‫اتنی دیر میں امجد اس گلی کا ایک چکر لگا‬
‫کر واپس آ گیا تھا۔۔اور میں نے اسے آتے‬
‫ہوئے دیکھا تو وہ خاصہ خوش نظر آ رہا تھا‬
‫ہی مطلب تھا‬ ‫کا ایک‬ ‫اس کی خوشی‬
‫دیدار یار ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔‬
‫ِ‬ ‫یہ کہ اسے‬ ‫وہ‬ ‫اور‬
‫جیسے ہی امجد میرے قریب آیا۔۔۔ میں نے اس‬
‫سے کہا ۔۔ ۔۔ کہاں تک گئے تھے تم؟؟؟؟۔۔تو وہ‬
‫شیدے کی طرف دیکھتے ہوئے بوال ۔۔۔۔۔۔ شاہ‬
‫جی پوری گلی کا ایک چکر لگا کر آ رہا ہوں‬
‫۔۔۔ اس پر میں نے اس سے کہا۔۔۔ اب میری‬
‫لگا کر آ۔۔۔۔ میری‬ ‫چکر اور‬ ‫طرف سے ایک‬
‫بات سن کر امجد چہکتے ہوئے بوال۔۔۔۔ جو حکم‬
‫میرے آقا ۔۔۔۔اور پھر سے شیدے کی گلی میں‬
‫چال گیا۔۔جیسے ہی امجد گلی کا چکر لگانے‬
‫شیدے نے ایک دفعہ پھر سے‬ ‫کے لیئے ُمڑا ۔۔۔‬
‫اپنے آپ کو چھڑانے کی بھر پور ۔۔کوشش کی۔۔۔‬
‫لیکن بے سود۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس کے‬
‫بازو کو تھوڑا اور مروڑا دیا ۔۔۔جس کی وجہ‬
‫سے وہ میرے ساتھ بلکل چپک سا گیا اور اس‬
‫کے اس طرح چپکنے کی وجہ سے اس کی‬
‫ساتھ ُجڑ گئی اور ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اس کی‬ ‫گانڈ میرے‬
‫گانڈ میرے ساتھ لگنے کی دیر تھی کہ ۔۔۔۔۔۔ نہ‬
‫ہلکا سا کھڑا ہو گیا‬ ‫جانے کیسے ۔۔۔ میرا لن‬
‫۔۔اور میں نے اس کی گانڈ پر اپنے نیم‬
‫کھڑے لن کو رگڑتے ہوئے کہا ۔ ہل مت میری‬
‫جان۔۔۔۔۔زیادہ ہل ُجل کی نا۔۔۔۔ تو یہ نیم جان لن‬
‫۔۔۔۔ فُل کھڑا ہو جائے گا۔۔۔۔اور اگر یہ کھڑا ہو‬
‫گیا ۔۔۔۔۔تو پھر میں اسے کپڑوں کے اوپر سے ہی‬
‫تیری گانڈ میں گھسیڑ دوں گا۔۔میری بات سن کر‬
‫وہ غضب ناک آواز میں بوال ۔۔۔ اس بات کے‬
‫شاہ۔۔۔!!!!!!!۔۔۔‬ ‫بہت پچھتائے گا‬ ‫تُو‬ ‫لیئے‬
‫میں نے جان بوجھ کر اس کی بات کو سنی ان‬
‫سنی کرتے ہوئے کہا ۔۔ جو ہو گا۔۔۔دیکھا جائے‬
‫گا۔۔ابھی تُو۔۔۔اپنی گانڈ پر میرے لن کو انجوائے‬
‫کر۔۔‬

‫اتنے میں سامنے سے امجد آتا ہوا دکھائی دیا‬


‫تو دوستوں نے مجھے چلنے کا اشارہ کیا ۔۔۔‬
‫تو‬ ‫چنانچہ جیسے ہی امجد ہمارے پاس آیا‬
‫میں نے شیدے کے ہاتھ پر اپنی گرفت ڈھیلی‬
‫کر دی ۔۔۔ اور اسے مخاطب کر تے ہوئے بوال ۔۔‬
‫تعاون کے لیئے بہت شکریہ رشید بھائی۔۔۔ میری‬
‫وہ خونخوار لہجے میں‬ ‫سنتے ہی‬ ‫بات کو‬
‫کہنے لگا ۔۔۔یاد رکھنا شاہ ۔۔۔۔ میں اپنی اس بے‬
‫عزتی کو کبھی نہیں بھولوں گا ۔۔اس کی بات‬
‫سن کر میں نے اس کو چڑانے کے لیئے خواہ‬
‫مخواہ خود پر غصہ طاری کیا اور دانت‬
‫پیستے ہوئے اس سے بوال ۔۔ میں بھی یہی‬
‫چاہتا ہوں کہ تم اس بے عزتی کو مت بھولو۔۔۔اور‬
‫جاتے جاتے اس کو ایک اور چرکہ لگاتے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔ اور ہاں شیدا جی ۔۔ آئیندہ کسی‬
‫سے بھی پنگا لیتے ہوئے یہ ضرور سوچ‬
‫لینا ۔۔ کہ۔۔۔۔ ہر بِل میں چوہا نہیں ہوتا کسی کسی‬
‫میں سانپ بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔ اور پھر اس کو‬
‫ٹا ٹا کرتے ہوئے ہم لوگ واپس اپنے محلے میں‬
‫آ گئے۔۔۔‬
‫اگلے دن میرا ایک جگہ انٹرویو تھا جو کہ‬
‫ہوا۔۔۔۔۔سو انٹرویو دے کر میں سیدھا‬ ‫خاصہ بُرا‬
‫میونسپل الئیبرئیری پہنچا تو وہاں کوئی بھی‬
‫نہ تھا اس لیئے نے جلدی‬ ‫دوست موجود‬
‫جلدی اس دن کی اخباروں میں " آسامیاں خالی‬
‫دیکھے لیکن اتفاق سے‬ ‫ہیں " کے اشتہارات‬
‫اس دن میرے مطلب کی کسی اسامی کا اشتہار‬
‫نہ آیا تھا اس لیئے میں نے اخباروں کی جان‬
‫اپنی‬ ‫چھوڑی اور باہر نکل کر لیاقت باغ میں‬
‫مخصوص جگہ پر پہنچ گیا۔۔۔اور دیکھا تو‬
‫سبھی دوست وہاں براجمان تھے میرا اترا ہوا‬
‫ب معمول‬
‫چہرہ دیکھ کر اصغر بوال۔۔۔ لگتا ہے حس ِ‬
‫انٹرویو اچھا نہیں ہوا ؟؟ تو میں تقریبا ً‬
‫ہونا‬ ‫۔۔۔انٹرویو کیا لن‬ ‫روہانسا ہو کر بوال‬
‫ہے یار ان لوگوں نے پہلے سے ہی اپنے‬
‫ہوتے ہیں انٹرویو‬ ‫بندے سلیکٹ کیئے ہوئے‬
‫تو بس ایک ڈھکوسال ہوتا ہے۔۔۔ میری بات سن‬
‫مہاراج!!!۔۔۔ جب آپ کو اس‬ ‫کر اکرم کہنے لگا‬
‫بات کا پہلے سے ہی علم تھا تو آپ وہاں کیا‬
‫اس پر اصغر نے‬ ‫"امب" لینے گئے تھے ؟‬
‫گرہ لگاتے ہوئے نیم مذاحیہ لہجے میں کہا ۔۔یا‬
‫یوں کہہ لو کہ اس انٹرویو لینے والے کا لن‬
‫لینے گئے تھے ؟ ۔۔۔تو میں نے ان سے کہا‬
‫۔۔کیا کروں یار ۔۔۔۔ جانا تو پڑتا ہے۔۔۔۔ پھر میری‬
‫نظر امجد پر پڑی۔۔۔ جو مزے لے لے کر ہماری‬
‫سن رہا تھا ۔۔۔ تو میں نے اس سے‬
‫گفتگو ُ‬
‫پوچھا ۔۔ ہاں بھائی شام کتنے بجے چلنا ہے ؟‬
‫میری بات سن کر وہ کہنے لگا ۔۔۔ نہیں یار اب‬
‫اس گلی میں نہیں جانا تو میں نے اس کی‬
‫طرف دیکھ کر کہا اس کی کوئی خاص وجہ؟‬
‫تو وہ کہنے لگا یار نبیلہ نے بڑی سختی کے‬
‫ساتھ منع کر دیا ہے۔۔۔اس پر اصغر بوال۔۔۔ جیسے‬
‫تمہاری‬ ‫تیری مرضی باس ۔۔۔ ہم تو ہر وقت‬
‫ہیں ۔۔۔۔ پھر کچھ دیر‬ ‫سروس کے لیئے حاضر‬
‫گپ شپ کے بعد ہماری یہ مجلس برخواست ہو‬
‫گئی اور سب دوست اپنے اپنے گھروں کو روانہ‬
‫ہو گئے ۔۔۔۔جبکہ میں اور امجد پڑوسی ہونے کی‬
‫چل‬ ‫وجہ سے اکھٹے ہی اپنے گھر کی طرف‬
‫پڑے ۔۔‬

‫باتوں باتوں میں‬ ‫گھر کی طرف جاتے ہوئے‬


‫امجد مجھ سے کہنے لگا ۔۔۔ بھائی کل آپ نے‬
‫شیدے پر کچھ زیادہ ہی بھاری ہاتھ رکھ دیا تھا‬
‫۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا یہ تم سے کس نے‬
‫کہہ دیا ؟؟ تو وہ کہنے لگا آج محفل میں‬
‫اسی موضوع پر بات ہو رہی تھی۔۔۔پھر وہ‬
‫تشویش بھرے لہجے میں بوال۔۔ بھائی ہوشیار‬
‫رہنا ۔۔۔ شیدا بڑا ہی خبیث آدمی ہے وہ کسی‬
‫بات کا جواب‬ ‫بھی وقت آپ کو کل والی‬
‫دینے کے لیئے آپ پر حملہ آور ہو سکتا تھا‬
‫تو میں نے اس سے کہا کہ میرا نہیں خیال کہ‬
‫وہ ایسا کرے گا۔۔۔ میری بات سن کر امجد‬
‫رک گیا اور پھر‬ ‫چلتے ہوئے‬ ‫اچانک ہی‬
‫بوال۔۔۔۔ آپ یہ بات‬ ‫ہوئے‬ ‫میری طرف دیکھتے‬
‫کیسے کہہ سکتے ہو؟ تو میں نے اس کو جواب‬
‫دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ بات یہ ہے دوست کہ شیدا‬
‫مجھے اور میں شیدے کو بڑی اچھی طرح‬
‫سے جانتا ہوں۔۔۔ ۔۔۔۔وہ ایک دم سے ایسی کوئی‬
‫حرکت نہیں کرے گا بلکہ آج کے بعد وہ میری‬
‫تاک میں رہے گا۔۔۔ اور جیسے ہی اسے میری‬
‫طرف سے کوئی لُوز پوائینٹ مال۔۔۔۔تو اس نے‬
‫وار کرنے سے دریغ نہیں کرنا ۔۔۔۔اور‬ ‫ایک دم‬
‫جتنی کل ہم‬

‫اس کی گلی میں اس کے گھر کے سامنے اس‬


‫کی بے عزتی کی ہے وہ اس سے ڈبل یا اس‬
‫سے بھی زیادہ ۔۔۔۔۔ مجھے بے عزت کرنے کی‬
‫کوشش کرے گا۔۔۔ اور کل کے بعد وہ ہر وقت‬
‫موقع کی تاڑ میں رہے گا۔۔۔۔ بات کرتے کرتے‬
‫اچانک ہی میرے دل میں ایک خیال آیا ۔۔۔۔اور‬
‫میں نے امجد کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ اچھا‬
‫یار یہ تو بتاؤ کہ ۔۔ نبیلہ نے تم کو اپنی گلی‬
‫میں آنے سے کیوں منع کیا ہے؟ تو اس پر وہ‬
‫کہنے لگا ۔۔۔ اس کی ایک خاص وجہ ہے اور‬
‫وہ یہ کہ وہ نہیں چاہتی کہ ہمارے عشق کی‬
‫کے کانوں تک‬ ‫بھنک بھی اس کے بھائیوں‬
‫پہنچے ۔۔۔۔۔ پھر وہ کہنے لگا کہ اسی لیئے بھائی‬
‫ہم نے فیصلہ کیا ہے کہ آج کے بعد ہم شام کو‬
‫ُمکھا سنگھ اسٹیٹ والے پارک میں مال کریں‬
‫ہوئے‬ ‫گے۔۔۔ پھر اس نے کچھ ہچکچاتے‬
‫میری طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔ بھائی اس‬
‫کے لیئے مجھے آپ کی مدد درکار ہو گی۔۔۔۔تو‬
‫میں نے اس کی طرف سوالیہ نظروں سے‬
‫دیکھتے ہوئے کہا کہ کس قسم کی مدد؟ ؟؟‬
‫تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ کہ آپ کو بھی میرے ساتھ‬
‫پارک میں چلنا پڑے گا۔۔۔۔ اس پر میں نے اس‬
‫سے کہا ۔۔۔رہنے دو یار۔۔۔ میں تمہارے ساتھ‬
‫کباب میں ہڈی بن کر کیا کروں گا ؟ تو وہ‬
‫جلدی سے بوال ۔۔۔ نہیں نہیں ۔۔۔۔ آپ ہمارے ساتھ‬
‫بلکہ آپ کی ڈیوٹی یہ ہو گی‬ ‫نہیں ہوں گے‬
‫دور سے ہمیں واچ کریں گے اور اگر‬ ‫کہ آپ‬
‫کوئی ایسی ویسی بات ہوئی تو آپ نہ صرف‬
‫یہ کہ ہمیں مطلع کریں گے بلکہ۔۔۔ اسے سنبھال‬
‫بھی لیں گے۔۔۔ امجد کی بات سن کر میں نے اس‬
‫سے کہا ۔۔۔ کہ سالے صاف کیوں نہیں کہتا کہ‬
‫مجھے بطور باڈی گارڈ تمہارے ساتھ چلنا ہے؟‬
‫میری بات سن کر امجد کھسیانی سی ہنسی ہنس‬
‫کر بوال۔۔۔ ایسے ہی سمجھ لو بھائی۔۔۔۔شام رات میں‬
‫ڈھل رہی تھی کہ جب میں اور امجد مکھا سنگھ‬
‫اسٹیٹ کے چھوٹے سے پارک میں پہنچے۔۔۔پارک‬
‫میں الئیٹ نہ ہونے کی وجہ سے ہلکہ ہلکہ‬
‫اندھیرا چھا رہا تھا ۔لیکن یہ اندھیرا ابھی اتنا‬
‫گہرا نہیں ہوا تھا کہ کسی کی شکل ہی دکھائی‬
‫نہ دے ۔۔۔ میرے ساتھ چلتے ہوئے امجد نے‬
‫پارک کے اس طرف اشارہ کیا۔۔۔‬ ‫اچانک ہی‬
‫کہ جہاں پر ٹیوب ویل لگا ہوا تھا اور کہنے‬
‫لگا ۔۔۔۔ بھائی ۔۔۔ وہ کھڑی ہے۔۔۔ اور پھر اس نے‬
‫تیز تیز قدموں سے چلنا شروع‬ ‫اسی طرف‬
‫کر دیا ۔کہ جدھر اس کی معشوقہ کھڑی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میں بھی اسی رفتار سے اس کے‬ ‫مجبوراً‬
‫ٹیوب‬ ‫پیچھے پیچھے چلتا گیا۔۔تھوڑی دور آگے‬
‫تاریک سے ٹریک پر‬ ‫ویل کے پاس ایک نیم‬
‫دو لڑکیاں ٹہل رہیں تھیں ۔ ۔۔۔۔ ان لڑکیوں نے‬
‫ہمیں اپنی طرف بڑھتے ہوئے دیکھ لیا‬ ‫بھی‬
‫دونوں چلتے ہوئے ُرک کر‬ ‫تھا اور اب وہ‬
‫ہمیں دیکھنے لگ گئیں تھیں ۔۔۔ کچھ ہی دیر میں‬
‫ہم لوگ ان کے نزدیک پہنچ گئے تھے۔پاس‬
‫پہنچتے ہی امجد نے بڑی بے تابی سے ایک‬
‫لڑکی کو ہیلو کہا ۔۔۔اور جوابا ً اسی بے تابی سے‬
‫اس لڑکی نے بھی اس کی ہیلو کا جواب دیا۔۔‬
‫پھر امجد نے میری طرف اشارہ کرتے ہوئے‬
‫اس کہا ۔۔۔ نبیلہ ۔۔ یہ میرا بیسٹ فرینڈ شاہ‬
‫اچھا‬ ‫ہے۔۔جس نے کل تمھارے بھائی کو‬
‫خاصہ زیر کر لیا تھا۔۔۔ پھر اس نے اپنا منہ میری‬
‫طرف کیا اور بوال ۔۔۔ شاہ۔۔۔ یہ نبیلہ ہے اور پھر‬
‫ساتھ کھڑی لڑکی کا تعارف کراتے ہوئے کہنے‬
‫لگا۔۔۔۔ جس طرح تم میرے بیسٹ فرینڈ ہو‬
‫اسی طرح یہ نبیلہ کی بیسٹ فرینڈ عذرا ہے۔۔‬
‫امجد کی بات ختم ہوتے ہی میں نے اس لڑکی‬
‫۔۔کہ جس کا نام عذرا تھا کی طرف دیکھا اور‬
‫بڑے تپاک سے اسے ہیلو کہا۔۔۔۔۔ لیکن اس لڑکی‬
‫جواب میں کوئی گرم جوشی نہیں دکھائی‬ ‫نے‬
‫انداز سے‬ ‫نے بڑے ہی رسمی‬ ‫بلکہ اس‬
‫میری ہیلو کا جواب دیا۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ‬
‫امجد‬ ‫میں اس لڑکی سے مزید کوئی بات کرتا‬
‫اور نبیلہ نے ا یک دوسرے کی طرف دیکھ کر‬
‫آنکھوں ہی آنکھوں میں کوئی اشارہ کیا اور وہ‬
‫دونوں ہمیں یہ کہتے ہوئے چھوڑ کر آگے‬
‫ٹیوب ویل کی طرف جاتے ہوئے سنسان سے‬
‫ٹریک کی طرف چل پڑے کہ آپ دونوں باتیں کرو‬
‫۔۔۔ ہم ابھی آئے ۔۔ ۔۔۔۔ان کے جاتے ہی میں نے‬
‫اس لڑکی کی طرف غور سے دیکھا ۔۔۔۔۔۔ تو وہ‬
‫ایک چھوٹے سے قد کی بھرے بھرے جسم والی‬
‫بہت ہی پیاری سی لڑکی تھی‬ ‫گوری چٹی اور‬
‫تو اس کا قد چھوٹا تھا ۔۔۔ لیکن‬ ‫۔۔۔ کہنے کو‬
‫بڑا۔۔ بڑا لگا ہوا‬ ‫سامان اس کے ساتھ کافی‬
‫تھا ۔۔۔ میرے ٹھرکی بھائی سمجھ گئے ہوں کہ‬
‫سے میری ُمراد اس کی چھاتیوں ۔۔اور‬ ‫سامان‬
‫گانڈ سے ہے ۔۔۔ جو بہت بڑی تھیں لیکن اس‬
‫لڑکی نے اپنی ان بھاری چھاتیوں اور موٹی گانڈ‬
‫کو کمال سلیقے کے ساتھ ایک بڑی سی چادر‬
‫آپ تو‬ ‫ڈھانپ رکھا تھا ۔۔۔ لیکن‬ ‫کے ساتھ‬
‫ہیں کہ تاڑنے والے بھی قیامت‬ ‫جانتے ہی‬
‫کی نظر رکھتے ہیں ۔۔۔۔۔ ۔ سو اس کی بڑی سی‬
‫چادر جتنا مرضی ہے اس کی موٹی گانڈ اور‬
‫مموں کو کور کر لے۔۔۔۔۔ ہماری ایکسرے نگاہوں‬
‫سے ہر گز نہیں بچ سکتی تھی ۔ اس کی‬
‫بہت بڑی اور رنگ ان کا کاال تھیں‬ ‫آنکھیں‬
‫اور ہونٹ‬ ‫گالبی‬ ‫کے گال‬ ‫۔۔ جبکہ اس‬
‫امجد لوگوں کے جانے‬ ‫تھے چنانچہ‬ ‫شرابی‬
‫کے فوراً بعد جب میں نے اس کو مخاطب‬
‫کر کے کوئی بات کی ۔۔۔۔۔۔ اس نے میری بات‬
‫کا جواب تو کچھ نہ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ البتہ ۔۔۔۔ جب‬
‫اُٹھا کر اپنی‬ ‫اس نے اپنی پلکوں کی چلمن‬
‫بڑی بڑی آنکھوں کے ساتھ میری اورھ‬
‫مجھے پنجابی کا‬ ‫دیکھا تو ۔۔۔۔۔ بے ساختہ‬
‫ایک شعر یاد آ گیا –‬
‫نئیں‬ ‫اُوہنے تکیئے اے بس ‪ ،‬ساڈا چلیا‬
‫َوس‬

‫رہیا ککھ نئیں‬ ‫گیا ککھ نئیں ۔۔۔ ساڈا‬ ‫اودا‬


‫۔۔۔اسکے ساتھ ساتھ اسکی بڑی بڑی آنکھوں‬
‫اور‬ ‫حیرانی‬ ‫میں ہرنی کی آنکھوں جیسی‬
‫نظر آئی تھی۔۔ ۔۔ اور یہ‬ ‫گہرائی‬ ‫جھیل سی‬
‫حیرانی نے‬ ‫جھیل سی گہرائی اور ہرنی جیسی‬
‫بے پناہ کشش اور‬ ‫اس کی آنکھوں میں‬
‫نشہ سا بھر دیا تھا جس کو دیکھ کر‬ ‫ایک‬
‫لہرا گیا‬ ‫بندہ بن پیئے‬ ‫مجھ جیسا ٹھرکی‬
‫تھا۔۔ ۔۔۔ ۔۔ شاعر نے اس کے بارے میں ٹھیک‬
‫ہی کہا تھا ۔۔۔ کہ گالب آنکھیں ‪ ،‬شراب‬
‫آنکھیں۔۔۔۔۔۔۔یہی تو ہیں الجواب آنکھیں ۔۔۔۔‬
‫‪ ،‬آنکھوں کے بعد اس کے دلکش چہرے پر جو‬
‫چیز سب سے نمایاں تھیں وہ اس کے ہونٹ‬
‫تھے ۔۔ گالبی رنگت والے اس کے ہونٹ اور ان‬
‫ہونٹوں کے آس پاس قدرتی طور پر الئینگ لگی‬
‫ہوئی تھی اور اسکے ہونٹوں کے آس پاس لگی یہ‬
‫الئینگ اس کے ہونٹوں کو مزید دل کش بنا رہی تھی‬
‫۔۔۔۔ اس کے ہونٹ اتنے رسیلے تھے کہ۔ایسے‬
‫لگ رہا تھا کہ جیسے اس کے ہونٹوں سے‬
‫رس ٹپک رہا ہو ۔۔اتنی پیاری لڑکی دیکھ کر‬
‫ہی وج گئی تھی ( عقل گم ہو‬ ‫میری تو َمت‬
‫گئی ) چنانچہ امجد لوگوں کے جاتے ہی میں‬
‫نے آگے بڑھ کر اس سے کوئی بات کرنا‬
‫چاہی لیکن اس نے بُری طرح سے مجھے‬
‫نظر انداز کر تھوڑا آگے ٹہلنا شروع کر دیا۔۔۔۔ اس‬
‫کی اس ادا سے میں زرا بھی پریشان نہ ہوا ۔‬
‫اس‬ ‫ہوا‬ ‫اور ڈھیٹوں کی طرح رالیں ٹپکاتا‬
‫کے پیچھے پیچھے چلتے ہوئے بوال ۔۔۔ بات‬
‫سنیئے ۔۔ نبیلہ اور آپ کب سے فرینڈ ہیں؟ تو اس‬
‫نے میری طرف دیکھے بغیر بڑے ہی روکھے‬
‫کہا ۔۔ بچپن سے۔۔۔۔۔ اور‬ ‫ہی‬ ‫لہجے میں بس اتنا‬
‫پھر آگے بڑھ گئی ۔۔۔۔اس پر میں مزید آگے بڑھا‬
‫اوراس سے بوال۔۔۔۔ ۔۔۔۔ آپ دونوں ایک ہی کالس‬
‫میں پڑھتی ہیں ؟؟ ۔۔۔ میری بات سن کر وہ رک‬
‫گئی اور بڑے ہی روکھے لہجے میں کہنے لگی‬
‫۔۔۔۔ جی۔۔۔ اور پھر آگے بڑھ گئی۔۔۔۔ اس طرح اس‬
‫راہ و رسم‬ ‫شام میں نے اس حسینہ سے‬
‫ہر ممکن کوشش لیکن ۔۔۔ ا ُن لبوں‬ ‫بڑھانے کی‬
‫نے نہ کی مسیحائی ۔۔۔۔۔۔۔( حاالنکہ ) ہم نے سو‬
‫سو طرح سے مر دیکھا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔اس کے‬
‫باوجود میں نے ہمت نہیں ہاری ۔۔۔۔اور اپنے‬
‫سارے حیلے کر لیئے۔۔۔ لیکن وہ حسینہ ٹس‬
‫سے مس نہ ہوئی ۔۔ ہر طرح کی ٹرائیاں مارنے‬
‫کے بعد میں نے خود سے انگور کھٹے ہیں‬
‫کہا ۔۔۔۔۔اور ایک طرف ہو کر سامنے پڑے بینچ پر‬
‫بیٹھ گیا۔۔۔ جبکہ وہ میرے سامنے بڑی بے نیازی‬
‫جب امجد‬ ‫کے ساتھ ٹہلتی رہی ۔۔۔ ۔۔۔ اسی دوران‬
‫اور نبیلہ کی میٹنگ ختم ہوئی تو واپسی پر میرا‬
‫اترا ہوا چہرہ دیکھ کر امجد کہنے لگا ۔۔۔خیریت‬
‫تو ہے بھائی۔۔۔ آپ اتنے زیادہ ُچپ کیوں ہیں؟‬
‫تو میں نے جل کر اس کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ اور‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جاری ہے‬
‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_نمبر_‪03‬‬

‫جیسے ہی امجد نے مجھ سے میرے موڈ کے‬


‫بارے میں پوچھا ۔۔۔ مجھے ایک دم سے اس پر‬
‫غصہ آ گیا اور میں نے عذرا کا سارا غصہ اس‬
‫ہوئے بوال ۔۔۔۔۔ سالے خود تو تم اپنی‬ ‫پر اتارتے‬
‫معشوقہ کے ساتھ گل چھڑے اُڑا رہے تھے اور‬
‫۔۔ادھر اس ( اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے) غریب‬
‫دے بال نے تمہاری معشوق کی دوست سے‬
‫بات کرنے کی ہر ممکن کوشش کی لیکن اس‬
‫سالی نے کسی طور بھی مجھے گھاس نہ ڈاال‬
‫ہے ۔ میری بات سن کر امجد نے بڑی ہی رحم‬
‫بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور بوال‬
‫۔۔چچ۔۔چچ ۔۔ بھائی پھر تو آپ کے ساتھ بڑی‬
‫بُری ہوئی ہے۔۔ اس پر میں نے اس کی طرف‬
‫دیکھ کر آنکھیں نکالتے ہوئے کہا ۔۔۔کوئی ایسی‬
‫ویسی ۔۔!!!!!۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگا‬
‫۔۔۔فکر نہ کرو بھائی ۔۔۔میں صبع کالج جاتے‬
‫دونوں سے ہی کہہ دوں‬ ‫ہوئے نبیلہ اور عذرا‬
‫گا۔۔۔ امید ہے کہ کل شام جب آپ اس سے ملو‬
‫کم از کم آج واال‬ ‫گے تو وہ آپ کے ساتھ‬
‫سلوک ہر گز نہیں کر ے گی۔۔۔۔۔۔۔اگلے دن شام کو‬
‫پارک کی طرف جاتے ہوئے میں نے امجد سے‬
‫پھدی کے ۔۔۔ صبع اس لڑکی اور نبیلہ‬ ‫کہا۔۔۔ اوئے‬
‫سے بات کی تھی؟ تو امجد ہنستے ہوئے‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔ جی بھائی ۔۔ نہ صرف بات کی تھی‬
‫سالی کو ڈانٹ بھی دیا‬ ‫بلکہ اپنی ہونے والی‬
‫میرے بھائی کے ساتھ ایسا‬ ‫ہے کہ کل اس نے‬
‫سلوک کیوں کیا؟۔۔۔۔۔۔اس پر میں نے بڑے‬
‫سے پوچھا کہ تو پھر کیا کہا اس‬ ‫اشتیاق‬
‫بوال ۔۔۔۔ اس‬ ‫ہوئے‬ ‫ہنستے‬ ‫وہ‬ ‫نے ؟ تو‬
‫بھائی ۔۔۔آج آپ کا مسلہ‬ ‫کے کہنے کو چھوڑو‬
‫کر‬ ‫حل ہو جا ئے گا۔۔۔۔ چنانچہ پارک پہنچ‬
‫ہائے کے بعد جیسے ہی نبیلہ اور امجد‬ ‫ہیلو‬
‫اسی کارنر کی طرف گئے تو ۔۔۔ ان‬ ‫پارک کے‬
‫کے جانے کے بعد ۔۔۔ میں عذرا کی طرف متوجہ‬
‫میرے پاس‬ ‫ہوا ۔۔ کل کے برعکس آج وہ‬
‫ہی کھڑی رہی تھی ۔لیکن اس نے اپنا منہ‬
‫دوسری طرف کیا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔کافی دیر تک وہ‬
‫یونہی کھڑی رہی ۔۔۔۔۔‬ ‫میری طرف پشت کیئے‬
‫کر کے اسے دیکھتا رہا‬ ‫میں بھی ُچپ‬ ‫اور‬
‫محسوس کر لیا تھا‬ ‫دوران میں نے‬ ‫۔۔ اسی‬
‫بھی کن اکھیوں‬ ‫عذرا‬ ‫کچھ دیر بعد‬ ‫کہ‬
‫میری طرف دیکھ لیتی تھی لیکن جونہی‬ ‫سے‬
‫میں اس کی طرف دیکھتا ۔۔۔۔۔تو وہ فوراً ہی‬
‫منہ کو دوسری طرف کر لیتی تھی ۔۔۔آخر‬ ‫اپنے‬
‫توڑا اور اس سے‬ ‫اس ُچپ کو میں نے ہی‬
‫بات ہے عذرا جی آپ اتنی ُچپ‬ ‫بوال ۔۔۔ کیا‬
‫کیوں ہیں ؟‬
‫میری بات سن کر اس نے قہر بھری نظروں سے‬
‫میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔کچھ نہیں۔۔۔‬
‫اس کی آنکھوں میں غصہ دیکھ کر میں نے اپنے‬
‫چہرے پر سخت قسم کی مسکینی طاری کی اور‬
‫سے بوال۔۔۔ آپ کچھ غصے میں‬ ‫لجاجت‬ ‫بڑی‬
‫ہو؟ میری بات سن کر وہ پھٹ‬ ‫رہی‬ ‫لگ‬
‫پڑی اور میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے‬
‫درشت لہجے میں بولی ۔۔۔آپ نے امجد بھائی‬
‫سے میری شکایت کیوں لگائی تھی؟؟؟ ۔۔۔ اس‬
‫کے بعد وہ بدستور قہر آلود نظروں سے میری‬
‫طرف دیکھتے ہوئے مزید کہنے لگی ۔۔۔ آپ کی‬
‫اطالع کے لیئے عرض ہے کہ میری منگنی بچپن‬
‫سے طے ہو چکی‬ ‫میں ہی میرے تایا زاد‬
‫ہے ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے بے اختیار‬
‫اس سے کہا پھر تو آپ کو مبارک ہو !!! ۔۔۔‬
‫میری اس بات پر وہ پری چہرہ ایک دم‬
‫سے حیران رہ گئی اور مجھ پر اپنی بڑی‬
‫بڑی آنکھیں گاڑتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔مبارک ؟؟‬
‫۔۔لیکن۔۔۔۔ کس بات کی مبارک دے رہے ہو آپ ؟‬
‫تو میں نے بڑی معصومیت سے اس کو جواب‬
‫کہ میں تو آپ کو ۔۔۔۔ آپ کی‬ ‫دیتے ہو ئے کہا‬
‫دے رہا تھا ۔۔۔ میری اس‬ ‫منگنی کی مبارک باد‬
‫بات پر وہ ایک دم سے مسکرائی ۔۔۔ اسے‬
‫میں نے اس کی‬ ‫مسکراتے ہوئے دیکھ کر‬
‫خوشامد کرتے ہوئے کہا کہ۔۔۔ مسکراتے ہوئے آپ‬
‫بہت اچھی لگتی ہیں۔۔۔پھر اس کے بعد میں نے‬
‫اس سے دو چار اور مزاحیہ قسم کی باتیں کیں ۔۔۔‬
‫جنہیں ُسن کر وہ بہت محظوظ ہوئی۔۔۔ اور اس‬
‫کافی‬ ‫کے چہرے کے تنے ہوئے عضالت‬
‫ڈھیلے پڑ گئے۔۔۔اس کو نرم پڑتے‬ ‫حد تک‬
‫اس‬ ‫دیکھ کر میں نے دل میں سوچا کہ اب‬
‫کڑک لڑکی کی مٹی کافی حد تک ہموار ہو‬
‫لڑکی‬ ‫دھیرے دھیرے اس‬ ‫گئی ہے اس لیئے‬
‫کے دل میں اپنی ۔۔۔۔۔عاشقی کا بیج بونا دینا‬
‫چاہیئے۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی میں تھوڑا اس‬
‫کی طرف کھسک گیا اور ۔۔۔ اس کے ساتھ اس‬
‫طرح کی باتیں شروع کر دیں ۔۔۔ کہ جس میں‬
‫زیادہ تر اس کی تعریف کا پہلو نکلتا‬
‫تھا۔۔۔۔۔میرے منہ سے اپنی اتنی زیادہ تعریفیں سن‬
‫کر ۔۔۔ وہ خاصی خوش ہوئی ۔۔۔۔۔اور اسے خوش‬
‫دیکھ کر میں بہت خوش ہوا۔۔۔۔۔۔ پھر اس طرح‬
‫عذرا کے ساتھ میری علیک سلیک شروع ہو‬
‫گئی۔۔۔ ۔۔۔ چونکہ وہ ایک شریف اور گھریلو‬
‫قسم کی لڑکی تھی اس لیئے شروع شروع میں‬
‫۔۔۔۔ میں نے خود ہی اس سے ایک خاص قسم‬
‫فاصلہ رکھا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ اس قسم‬ ‫کا‬
‫کی ایسی کوئی بات نہ کی کہ جو اسے‬
‫ناگوار گزرے ۔۔۔ یا جس کو سن کر وہ بھڑک‬
‫آخر کار‬
‫ِ‬ ‫اُٹھے۔۔۔۔اس کا نتیجہ یہ نکال کہ‬
‫پر اعتبار‬ ‫مجھ‬ ‫(آہستہ آہستہ ہی سہی ) اسے‬
‫آنا شروع ہو گیا۔۔۔۔ادھر جیسے ہی میں نے‬
‫میرے ساتھ‬ ‫محسوس کیا کہ اب عذرا کا‬
‫میں‬ ‫ہے ۔۔۔۔۔۔تو‬ ‫رویہ کافی دوستانہ ہو گیا‬
‫پاؤں پھیالنے شروع کر‬ ‫اپنے‬ ‫نے‬
‫سے اس‬ ‫غیر محسوس طریقے‬ ‫دیئے۔۔۔ اور‬
‫ہونے کے ساتھ ساتھ آگے‬ ‫کے ساتھ فری‬
‫بڑھنا‬ ‫غیر محسوس طریقے سے اس کی طرف‬
‫کچھ میرے شریف اور‬ ‫ہو گیا ۔۔۔ادھر‬ ‫شروع‬
‫کام آ گئی ۔۔۔‬ ‫ڈیسنٹ ہونے کی اداکاری بھی‬
‫چنانچہ چند ہی دنوں کے بعد وہ مجھ سے‬
‫ہمارے ہاں عید‬ ‫کچھ ایسے گھل مل گئی ۔۔ جیسے‬
‫وزیر اعظم عوام کے‬
‫ِ‬ ‫کے دن ملک کا صدر یا‬
‫میرے‬ ‫ساتھ گھل مل جاتا ہے۔۔ پھر اس کی‬
‫اچھی خاصی دوستی ہو گئی ۔۔۔ لیکن ان‬ ‫ساتھ‬
‫سب باتوں کے۔۔۔۔اور میری کوششوں کے‬
‫میرے‬ ‫باوجود بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اس نے ابھی تک‬
‫فاصلہ رکھا ہوا تھا ۔۔۔۔‬ ‫ساتھ ایک خاص قسم کا‬

‫یہ ہماری فرینک نس کے کچھ دنوں کے بعد‬


‫پارک‬ ‫کی بات ہے کہ ایک دن میں اور عذرا‬
‫بیٹھے خوش گپیاں لگا‬ ‫کے بینچ پر ُجڑ کر‬
‫آپ‬ ‫رہے تھے یہاں میں ایک بات بھی‬
‫لوگوں پر واضع کرتا چلوں کہ ۔۔۔۔ چونکہ ہم‬
‫دونوں کااصل مقصد نبیلہ اور امجد کی چوکیداری‬
‫بات چیت کے دوران‬ ‫ہوتا تھا اس لیئے‬
‫منہ پارک کے مین گیٹ کی‬ ‫ہی ہمارا‬ ‫ہمیشہ‬
‫تھا اس دن بھی یہی سین‬ ‫طرف ہوا کرتا‬
‫تھا ۔۔۔ ہم گیٹ کی طرف منہ کئے باتیں کر رہے‬
‫تھے ۔۔۔۔۔۔۔ کہ۔۔ باتیں کرتے کرتے عذرا نے اچانک‬
‫میرے ہاتھ کو‬ ‫کے ساتھ‬ ‫ہی بڑی سختی‬
‫بار ہوا تھا کہ اس نے‬ ‫پکڑ لیا۔۔۔ ایسا پہلی‬
‫میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا تھا ۔۔۔ اس لیئے‬
‫میں نے چونک کر عذرا کی طرف دیکھا تو اس‬
‫چہرہ دھواں دھواں ہو رہا تھا ۔۔۔ اور وہ‬ ‫کا‬
‫میرے‬ ‫پارک کے گیٹ کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫دبائے جا رہی تھی ۔۔۔ یہ‬ ‫ہاتھ کو مسلسل‬
‫میں نے بھی پارک کے مین گیٹ کی‬ ‫دیکھ کر‬
‫طرف دیکھا تو اس وقت پارک کے مین‬
‫گیٹ سے دو مرد آپس میں باتیں کرتے‬
‫ہوئے آہستہ آہستہ ہمارے والے ٹریک کی‬
‫طرف بڑھ رہے تھے۔۔۔۔ ان کو دیکھ کر میں‬
‫عذرا کے کوئی‬ ‫سمجھ گیا کہ یہ ضرور‬
‫اور ابھی میں اس‬ ‫رشتے دار ہوں گے‬
‫سے ان بندوں کے بارے میں پوچھنے ہی واال‬
‫خوف ذدہ آواز میں‬ ‫بڑی ہی‬ ‫تھا کہ وہ‬
‫کہنے لگی۔۔ ۔۔۔شاہ ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔وہ۔۔۔۔ ٹوپی والے کے‬
‫ساتھ بھائی جان ہیں۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی‬
‫وہ تھر تھر کانپنے لگی۔۔‬ ‫خوف کے مارے‬
‫اس کی بات سن کر مجھے بھی حاالت کی سنگینی‬
‫کا احساس ہوا اس لیئے میں نے اس سے‬
‫کہا کہ عذرا ۔۔اپنے منہ کو دوپٹے سے اچھی‬
‫لو۔۔۔ وہ میری بات سمجھ گئی اور‬ ‫ڈھانپ‬ ‫طرح‬
‫دوپٹہ کو اس طرح اوڑھا کہ‬ ‫اس نے جلدی سے‬
‫سے‬ ‫دوپٹے‬ ‫چہرہ‬ ‫جس سے اس کا سارا‬
‫ڈھپ گیا جب میں نے اس کی طرف دیکھا‬
‫نیچے زمین کی طرف سر جھائے‬ ‫تو وہ‬
‫کی‬ ‫جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔عذرا‬ ‫کانپے‬ ‫ہوئے مسلسل‬
‫کانپنا‬ ‫یہ حالت دیکھ کر میں نے اس کہا ۔۔کہ‬
‫کے ساتھ‬ ‫تو بند کرو ۔۔۔تو وہ بے چارگی‬
‫کانپتے ہوئے بولی ۔۔۔ میں اپنی مرضی سے‬
‫ہی‬ ‫خود بخود‬ ‫کانپ رہی ہوں ۔۔یہ تو‬ ‫تھوڑی‬
‫ہے ۔۔۔اندر کی بات یہ ہے کہ‬ ‫ایسا ہو رہا‬
‫اپنے‬ ‫میرے‬ ‫عذرا کے بھائی کا سن کر خود‬
‫تھے ۔۔۔ لیکن‬ ‫ہو گئے‬ ‫ہوائی‬ ‫بھی‬ ‫ٹٹے‬
‫میں نے اس پر اپنی یہ حالت ظاہر نہیں‬
‫ڈر‬ ‫عذرا‬ ‫ہونے دی تھی ۔جبکہ دوسری طرف‬
‫میرے ساتھ چپکے‬ ‫ہوئے‬ ‫کے مارے کانپتے‬
‫کانپتی‬ ‫جا رہی تھی ۔۔اور ساتھ ساتھ وہ ۔۔۔‬
‫رہی‬ ‫مانگ‬ ‫دعا‬ ‫ہوئی آواز میں مسلسل یہی‬
‫بھائی جان ادھر نہ آئیں ۔۔۔۔‬ ‫تھی کہ ۔۔۔ یا ہللا‬
‫۔۔۔۔۔۔ہللا کرے بھائی جان ادھر نہ آئیں‬
‫۔…‪.......‬بھائی جان ادھر نہ آئیں ۔۔۔۔۔۔…… بھائی‬
‫کی قبولیت‬ ‫اس کی دعا‬ ‫جان ادھر۔۔۔۔۔شاید وہ‬
‫کا وقت تھا۔ یا اس کی قسمت کچھ اچھی تھی‬
‫ہی آگے آئے‬ ‫وہ لوگ ابھی تھوڑا‬ ‫کہ‬
‫تھے کہ اچانک ہی عذرا کا بھائی اور وہ‬
‫دم ُرک گئے ۔۔۔شاید‬ ‫سے‬ ‫ٹوپی واال بندہ ایک‬
‫ان کو کوئی بات یاد آ گئی تھی ۔۔ چنانچہ وہ‬
‫دونوں کچھ دیر تک کھڑے کھڑے کسی بات پر‬
‫بحث کرتے رہے اور پھر تیز تیز قدموں سے‬
‫واپس چلے گئے ۔۔ان کو واپس جاتے ہوئے‬
‫دیکھ کر ۔۔۔ میری جان میں جان آئی اور میں‬
‫عذرا کی طرف متوجہ ہو گیا جس کی اس وقت‬
‫اس کا‬ ‫ڈر کے مارے‬ ‫آنکھیں بند تھیں ۔۔اور‬
‫تھا‬ ‫ہوا‬ ‫میں نہایا‬ ‫بدن پسینے‬ ‫سارا‬
‫ساتھ چپکی ہوئی ابھی‬ ‫میرے‬ ‫وہ‬ ‫۔۔۔۔اور‬
‫تھر تھر کانپ بھی رہی تھی ۔۔۔اور اس‬ ‫تک‬
‫کے ہونٹ بھی مسلسل ہل رہے تھے ۔۔۔ میں نے‬
‫مانگتے ہوئے‬ ‫اس کی طرف دیکھا ۔۔۔تو۔۔۔ دعا‬
‫عذرا بہت معصوم اور سویٹ ۔۔۔لگ رہی تھی‬
‫اس سمے مجھے اس پر اتنا پیار آیا کہ میں‬
‫جھک گیا۔۔۔۔ اور پھر‬ ‫بے اختیار اس کی طرف‬
‫اس کو تھوڑی سے پکڑ کر اس‬ ‫میں نے‬
‫کا منہ اوپر کی طرف کیا ۔۔۔۔۔ دیکھا تو اس کی‬
‫آنکھیں بند تھیں اور اس کے ہونٹ مسلسل ہل‬
‫رہے تھے۔۔عذرا کا یہ انداز دیکھ کر مجھے‬
‫اس پر بے تحاشہ پیار آیا ۔۔۔۔اور پھر پتہ‬
‫مجھے کیا ہوا کہ ایک انجان سے‬ ‫نہیں‬
‫گالوں کی طرف‬ ‫جزبے کے تحت ۔۔۔۔میں اس کے‬
‫نے اپنے ہونٹ‬ ‫جھکتا چال گیا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر میں‬
‫گالوں پر لگائے ۔۔۔۔۔اور اس کا‬ ‫اس کے نرم‬
‫منہ چوم کر بڑے ہی پیار سے اس کی طر ف‬
‫جان‬ ‫دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ آنکھیں کھولو میری‬
‫خطرہ ٹل گیا ہے۔میری بات سن کر عذرا نے ایک‬
‫دم سے اپنی آنکھیں کھولیں اور میری طرف‬
‫دیکھ کر بولی ۔سچ۔۔!!!!!‬

‫۔۔پھر اس نے پارک کے گیٹ کی طرف دیکھا ا س‬


‫وقت اس کا بھائی اور وہ شخص باہر کی طرف‬
‫مین گیٹ سے نکل‬ ‫پارک کے‬ ‫جاتے ہوئے‬
‫رہے تھے انہیں باہر نکلتے دیکھ کر وہ‬
‫خوشی کے مارے اچھلی ۔۔ اور پھر کسی سوچ‬
‫کے تحت اچانک ُرک گئی اور پھر اس نے بڑی‬
‫اور‬ ‫ہی سنجیدگی سے میری طرف دیکھا‬
‫کہنے لگی ۔۔۔ یہ ابھی ابھی تم نے میرے ساتھ‬
‫کیا بے ہودہ حرکت کی تھی؟ ۔۔۔ اس سے قبل کہ‬
‫۔۔۔ اس کی بات کا جواب دیتا ۔۔۔۔۔۔ وہ اسی‬
‫مجھے‬ ‫سنجیدگی سے بولی ۔۔۔۔۔اور ہاں ۔۔۔تم نے‬
‫"میری جان" کیوں اور کس خوشی میں کہا‬
‫ہے۔؟؟؟؟؟ (چومنے والی بات کو وہ سرے سے‬
‫ہی گول کر گئی تھی )۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف‬
‫دیکھ کر کہا ۔۔ غلطی ہو گئی ہے جی۔۔آپ اسے‬
‫جھوٹ بھی سمجھ سکتی ہو ۔۔۔میری بات سن کر‬
‫وہ میرے قریب آ گئی ۔۔۔ اور ۔۔پھر بڑے ہی‬
‫لہجے میں کہنے لگی۔۔۔ اور اگر میں‬ ‫رومینٹک‬
‫اسے جھوٹ نہ سمجھوں تو۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔ اس‬
‫کچھ کہتا ۔۔۔وہ نبیلہ کی‬ ‫سے پہلے کہ میں اسے‬
‫طرف بھاگ گئی۔۔۔۔ بے شک وہ میری بات سنے‬
‫بھاگ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔لیکن اس کی اس‬ ‫بغیر ہی‬
‫مجھے اپنے مقصد‬ ‫ادا نے‬ ‫خوبصورت‬
‫گرین سگنل دے دیا تھا‬ ‫کا‬ ‫کامیابی‬ ‫میں‬
‫۔۔۔۔‬
‫پارک‬ ‫خاص طور پر عذرا‬ ‫واقعہ کے بعد‬ ‫اس‬
‫میں آنے سے بہت ڈر گئی تھی اور اس دن کے‬
‫بعد اس نے پارک میں آنے سے صاف انکار‬
‫کر دیا تھا – اس لیئے کچھ دونوں کے لیئے‬
‫نبیلہ اور امجد کا ملنا موقوف ہو گیا تھا۔۔۔وہ‬
‫دونوں تو پھر بھی صبع کے وقت کالج جاتے‬
‫ہوئے مل لیتے تھے اس لیئے ان کو کچھ نہ‬
‫عذرا سے ملے بنا‬ ‫کچھ قرار تو تھا ۔۔۔ لیکن‬
‫میرا حال بے حال ہوتا جا رہا تھا۔۔لیکن میں‬
‫مجبور تھا کہ کچھ کر بھی نہیں سکتا تھا ۔۔۔ بس‬
‫جاتا تھا لیکن مجھے اس‬ ‫دل مسوس کر رہ‬
‫بات کا بھی قوی یقین تھا کہ جتنی شدت سے‬
‫نبیلہ اور امجد کو آگ لگی ہوئی تھی ۔۔ یہ لوگ‬
‫کوئی نہ کوئی‬ ‫ملنے کے لیئے‬ ‫آپس میں‬
‫سبیل نکال ہی لیں گے۔۔۔ اور پھر وہی ہوا۔۔۔‬

‫کی بات ہے‬ ‫یہ اس واقعہ سے ایک ہفتہ بعد‬


‫سے واپسی پر امجد مجھ سے‬ ‫باغ‬ ‫کہ لیاقت‬
‫رات کو آپ فری ہیں؟‬ ‫کہنے لگا ۔۔ بھائی ۔۔۔ آج‬
‫تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا‬
‫ہے؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ یار وہ‬ ‫کیوں خیریت‬
‫رات کو چلنا ہے ۔۔ امجد کی بات سن کر ۔۔ میں‬
‫سمجھ تو گیا تھا کہ وہ کہاں چلنے کا کہہ رہا‬
‫رہا اور اس‬ ‫بنا‬ ‫ہے ۔۔۔ لیکن پھر بھی مچال‬
‫جانا کہاں ہے کچھ وضاحت تو‬ ‫سے بوال کہ‬
‫ہوئے‬ ‫وہ میری طرف دیکھتے‬ ‫کر ؟ اس پر‬
‫عذرا کے گھر ۔۔۔ عذرا کا‬ ‫کہنے لگا۔۔۔ بھائی‬
‫نام سن کر میرے اندر ایک دم سنسنی سی‬
‫پھر میں نے بڑی مستی‬ ‫پھیل گئی ۔۔۔۔ اور‬
‫سے اس کی طرف دیکھ کر بوال ۔۔ اس کا‬
‫گھر خالی ہے کیا؟ میری بات سن کر امجد نے‬
‫برا سا منہ بنایا اور کہنے لگا نہیں یار‬
‫۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں ہے۔۔پھر کہنے لگا ۔۔۔ ایک‬
‫تو تیرے سر پر ۔۔۔۔ ہر وقت پھدی ہی سوار‬
‫رہتی ہے۔۔۔۔۔ تو اس پر میں نے اس کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔۔ کیوں میں اپنے سر‬
‫پر پھدی کو سوار نہ کروں تو کیا ۔۔۔۔۔کسی گائے‬
‫بھینس کو سوار کر لوں ؟؟؟ ۔۔۔۔ میری بات سن کر‬
‫برا سا منہ بنایا‬ ‫نے ایک بار پھر‬ ‫اس‬
‫اور کہنے لگا۔۔۔۔ بھائی تُو نہیں سدھرے گا۔۔۔۔‬
‫اس کے بعد خود ہی کہنے لگا۔۔۔۔۔ ۔۔۔ یو نو‬ ‫پھر‬
‫پارک میں‬ ‫بھائی۔۔۔۔ اس دن کے واقعہ کے بعد‬
‫آنے سے عذرا اتنی ڈری ہوئی ہے کہ نبیلہ‬
‫کے الکھ سمجھانے پر بھی اس نے دل نہیں رکھا۔۔‬
‫اب بڑی مشکلوں سے وہ اس بات پر راضی‬
‫ہوئی ہے کہ رات ‪ 9/10‬بجے ہم اس کے گھر‬
‫عذرا‬ ‫کے پچھلے الن میں مل سکتے ہیں‬
‫سے ملنے کا سن کر میرے تو من میں۔۔۔۔الکھوں‬
‫لڈو پھوٹ گئے۔۔۔۔۔اور دل گارڈن گارڈن‬ ‫من‬
‫ہو گیا۔۔۔۔ لیکن میں نے اس پر یہ بات ظاہر‬
‫نہیں ہونے دی اور بوال ۔اس کے گھر ملنے سے‬
‫یار ؟؟؟۔۔۔ میری‬ ‫کوئی رسک تو نہیں ہے نا‬
‫بات سن کر وہ قدرے فکر مندی سے بوال ۔۔۔۔۔‬
‫ویسے تو کوئی خاص رسک نہیں ہے ۔۔۔ لیکن‬
‫۔۔۔۔۔۔۔ ان کاموں میں ۔۔ تھوڑا بہت رسک تو لینا‬
‫ہی پڑتا ہے بھائی۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اس کی بات سن کر‬
‫میں نے ہاں میں سر ہالیا اور ۔۔۔۔اس کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔بات تو تمہاری ٹھیک ہے‬
‫۔۔۔۔ چل جیسے کہو گے کر لیں گے یار ۔اسی دن ۔۔۔۔‬
‫رات کا ذکر ہے کہ میں اور امجد مکھا سنگھ اسٹیٹ‬
‫کی طرف جا رہے راستے میں ۔۔۔ میں نے اس‬
‫سے کہا پر یار ہم ان کے گھر کے اندر کیسے‬
‫جائیں گے تو وہ کہنے لگا ۔۔ بس بھائی‬
‫دیکھتے جائیں ۔۔۔ پھر سیریس ہو کر بوال کہ ۔۔۔‬
‫بھائی جب طلب سچی ہو نا تو راستہ خود بخود‬
‫ہی نکل آتا ہے۔۔۔ تو میں نے تنگ آ کر اس سے‬
‫کی بُنڈ مار ۔۔۔ یہ بتا جانا‬ ‫کہا کہ راستے‬
‫کیسے ہے؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ عذرا کا گھر‬
‫چھ نمبر گلی کے آخر ی کونے میں واقعہ ہے‬
‫اور آپ کو پتہ ہی ہے کہ آگے سے وہ گلی‬
‫بند ہو جاتی ہے اس لیئے ان کی گلی میں سکون‬
‫ماحول ہے مطلب کوئی خاص رش وغیرہ نہیں‬
‫ہوتا ۔۔ دوسری بات یہ ہے کہ ان کے گھر کے‬
‫بہتا ہے اور ان‬ ‫پیچھے ایک بڑا سا گندہ ناال‬
‫اور اس گندے نالے‬ ‫کے مکان کی چار دیواری‬
‫چاردیواری سے ملی ہوئی ہے ۔۔۔۔مطلب‬ ‫کی‬
‫درمیان بس ایک تنگ سا راستہ یا نالے پر فٹ‬
‫ہے ۔۔ پھر کہنے لگا کہ ان‬ ‫پاتھ ٹائپ راستہ‬
‫چونکہ گندہ ناال‬ ‫کے بیک یارڈ کے ساتھ ہی‬
‫بہتا ہے اس لیئے اس کے گھر والے اس طرف‬
‫بلکل بھی نہیں جاتے ۔۔۔یہ بات بتا کر وہ ایک دم‬
‫ُرک گیا اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے‬
‫لگا ۔۔۔۔ سو بھائی ہمارا پالن یہ ہو گا کہ۔۔۔۔۔۔ ہم‬
‫نے اس پتلی اور تنگ پگ ڈنڈی سے ہوتے ہوئے‬
‫ان کے بیک یارڈ کی چار دیواری ٹاپنی ہے‬
‫جو کہ اتنی بڑی نہیں ہے کہ اسے ٹاپا نہ جا‬
‫سکے۔اس طرح باتیں کرتے کرتے آخر ہم کوئے‬
‫جاناں کے عقب میں پہنچ ہی گئے ۔۔۔ ہم لوگ‬
‫پر گئے تو اس‬ ‫عذرا کے گھر کی بیک یارڈ‬
‫گندے نالے کے ساتھ ساتھ ایک راستہ سا بنا‬
‫دیوار‬ ‫ہوا تھا جو کہ دراصل اس نالے کی سیمٹڈ‬
‫گندے نالے کی دیوار سے تھوڑا‬ ‫اس‬ ‫تھی‬
‫آگے عذرا کے گھر کا بیک یارڈ شروع ہو جاتا‬
‫تھا اور اس بیک یارڈ کو ایک چاردیواری نے‬
‫کور کیا ہوا تھا اور ہم نے اسی چار دیواری‬
‫کو پھالنگ کر اندر جانا تھا۔۔۔۔ ۔۔۔۔ وہاں پہنچ کر‬
‫کا اچھی طرح سے جائزہ‬ ‫میں نے اس جگہ‬
‫لینے لگا ۔۔۔ مجھے جائزہ لیتے دیکھ کر امجد بوال‬
‫۔۔۔ کیوں بھائی معاملہ فٹ ہے نا ؟ تو میں نے‬
‫کہا نہیں یار ۔۔۔۔۔ پھر اس سے مخاطب ہو کر بوال‬
‫۔۔۔۔۔۔ ایسا کرو کہ کہیں سے چار پانچ اینٹیں‬
‫سن کر امجد حیرانی‬ ‫الؤ۔۔۔ ۔۔ میری بات کو‬ ‫پکڑ‬
‫سے بوال ۔۔۔ چار پانچ اینٹیں۔۔۔۔ پر وہ کیوں؟ تو‬
‫دیکھ نہیں رہے‬ ‫میں نے اس سے کہا ۔۔ یار‬
‫اس چار دیواری پر ہم لوگ چڑھ تو بڑی آسانی‬
‫سے لیں گے لیکن واپسی پر اگر ایمر جنسی ۔۔‬
‫سے نیچے‬ ‫میں نیچے اترنا پڑا ۔۔تو دیوار‬
‫نالے میں گرنے کا‬ ‫جمپ مارتے ہوئے اس‬
‫شدید خطرہ ہو گا ۔۔۔ میری بات سمجھ کر امجد کہنے‬
‫لگا ۔۔۔ بات تو ٹھیک کہی آپ نے۔۔۔ پھر بڑے ہی‬
‫ستائشی لہجے میں کہنے لگا ۔۔آخر استاد استاد ہوتا‬
‫ہے۔۔۔۔ اس کے بعد ہم نے ادھر ادھر سے چار پانچ‬
‫پھر ان کو دیوار کے ساتھ‬ ‫اینٹیں اکھٹی کیں اور‬
‫کر ایک چوکھٹا سا بنا دیا ۔۔۔ جب یہ کام‬ ‫لگا‬
‫سیٹ ہو گیا ۔۔۔۔تو امجد نے مجھے سڑک کی‬
‫اشارہ کیا ۔۔۔ میں کچھ سمجھا‬ ‫طرف چلنے کا‬
‫کچھ نہ سمجھا ۔۔پر اس کے ساتھ سڑک پر چال گیا۔۔۔۔‬
‫وہاں پہنچ کر امجد نے اپنے منہ میں ایک انگلی‬
‫ڈالی اور پھر ایک مخصوص انداز میں ‪ 3‬دفعہ‬
‫سیٹی بجائی۔۔۔ سیٹی بجانے کے کچھ دیر بعد ۔۔۔۔‬
‫اس نے مجھے اپنے ساتھ آنے کا اشارہ کیا‬
‫دوبارہ سے عذرا‬ ‫اور یوں اس کے ساتھ ہم‬
‫کے گھر کی چار دیواری کے پاس پہنچ گئے۔۔۔‬
‫جیسے ہی ہم ان کی دیوار کے پاس پہنچے تو‬
‫ٹھیک اسی لمحے اندر سے دو چھوٹے چھوٹے‬
‫پتھر باہر آ کر گرے ۔۔۔ ان پتھروں کو دیکھ کر امجد‬
‫کہنے لگا استاد مطلع صاف ہے چلو اندر‬
‫۔۔۔۔اور ہم دونوں عذرا کی دیوار پھالنگ کر اس‬
‫کے بیک یارڈ میں اتر گئے۔۔۔‬

‫مالٹے‬ ‫جہاں پر‬ ‫یہ ایک چھوٹا سا الن تھا‬


‫کے دو تین درخت ایک ساتھ لگے ہوئے تھے ان‬
‫دھریک کے دو‬ ‫سے ہٹ کر تھوڑے فاصلے پر‬
‫درخت بھی لگے تھے جو کہ خاصے بڑے‬
‫تھے اور ان درختوں کے بیچوں و بیچ ایک‬
‫تنگ سی گلی بنی ہوئی تھی جو کہ ان کے گھر‬
‫کی پچھلی سائیڈ تھی جو کہ عام طور پر ہوا کی‬
‫آمد و رفت کے لیئے رکھی جاتی ہے ۔۔جبکہ دھریک‬
‫کے درختوں کے ساتھ ایک طرف کافی کاٹھ کباڑ‬
‫بھی پڑا ہوا تھا۔۔ مجموعی طور پر ان کی‬ ‫سا‬
‫دیکھ بھال نہ‬ ‫کوٹھی نما گھر کے یہ ایریا‬
‫کافی گندہ اور اجاڑ سا‬ ‫ہونے کی وجہ سے‬
‫تھا۔۔۔چونکہ مجھ سے پہلے امجد نیچے کودا تھا‬
‫۔۔۔ اور اس کے کودتے ہی۔۔۔۔۔۔ وہ اور نبیلہ ان‬
‫درختوں کے پاس سے ہوتے ہوئے ۔۔۔ مکان کے‬
‫پچھواڑے کی تنگ گلی میں چلے گئے ۔۔ چونکہ‬
‫امجد کے بعد میں کودا تھا ۔۔۔اس لیئے جیسے‬
‫ہی میں نیچے کودا ۔۔ اور آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر‬
‫لگا۔۔۔۔۔پھر نیم تاریکی میں‬ ‫دیکھنے‬ ‫ادھر ادھر‬
‫سا نظر آیا ۔۔۔۔۔۔وہ‬ ‫مجھے عذرا ۔۔۔ کا ہیوال‬
‫مجھے اپنے پاس آنے کا اشارہ کر رہی تھی ۔۔۔‬
‫ہوا ان کی دیوار‬ ‫اور میں ادھر ادھر دیکھتا‬
‫دو تین واٹر‬ ‫کے ساتھ اوپر نیچے پڑے‬
‫اس ٹوٹی ہوئی چارپائی‬ ‫کولروں کے پیچھے‬
‫کی طرف چال گیا کہ جس کے پاس عذرا کھڑی‬
‫میرا انتظار کر رہی تھی۔۔۔ مجھے اپنی طرف آتے‬
‫دیکھ کر وہ بے ساختہ آگے بڑھی کہ جیسے‬
‫وہ مجھ سے گلے ملنا چاہتی ہو ۔۔ لیکن عین‬
‫پیچھے ہٹ کر‬ ‫وقت پر وہ جھجھک کر تھوڑا‬
‫کھڑی ہو گئی۔ یہ دیکھ کر میں آگے بڑھا اور اس‬
‫کا ہاتھ پکڑا اور بڑے ہی رومینس بھرے‬
‫لہجے میں بوال۔۔۔ ُرک کیوں گئی۔۔؟ کیا تم بھی‬
‫میری طرح اداس نہیں تھی ؟ میری بات سن کر‬
‫عذرا تڑپ سی گئی اور کہنے لگی ۔۔۔۔ایسی بات‬
‫نہیں ہے۔۔۔ میں بس بس ۔۔۔۔۔ اور اپنا سر نیچے کی‬
‫طرف جھکا لیا۔۔۔ اس پر میں نے اس کا جھکا‬
‫ہوا ۔۔۔ منہ اوپر کی طرف کیا اور اس سے بوال۔۔۔۔۔‬
‫میری طرف دیکھو عذرا ۔۔۔۔ اس وقت اس کا‬
‫چہرہ شرم سے الل ہو رہا تھا ۔۔ اور جب‬
‫اس نے اپنا منہ‬ ‫میرے بار بار کہنے پر بھی‬
‫اوپر نہیں کیا تو میں نے تھوڑی سی پکڑ کر‬
‫اس کا چہرہ اوپر کر لیا۔۔۔۔ میری اس حرکت سے‬
‫اس نے اپنے چہرے کو تو اوپر کر لیا تھا ۔۔۔۔‬
‫لیکن اس کی نظریں ابھی تک نیچے کی طرف‬
‫جھکی ہوئیں تھیں۔اور اس کی جھکی جھکی نظریں‬
‫۔ اور میں نے بڑے‬ ‫نہال ہو گیا‬ ‫دیکھ کر میں‬
‫ہی پیار سے اس کو کہا۔۔۔ عذرا ۔۔ پلیز میری طرف‬
‫دیکھو ۔۔۔۔ پھر میرے بار بار کے اصرار پر اس‬
‫اٹھا یا ۔۔۔۔‬ ‫نے اپنی پلکوں کی جھالر کو‬
‫اپنی بڑی بڑی آنکھوں سے میری‬ ‫اور پھر‬
‫طرف دیکھنے لگی۔۔۔ اس کی آنکھوں میں ایک‬
‫عجیب سی ۔۔۔ محبت اور بے چینی سی ٹپک رہی‬
‫تھی ۔۔۔۔ جو میں نے محسوس کر لی اور اس کی‬
‫آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑے ہی رومانوی‬
‫لہجے میں اس سے بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عذرا۔۔۔۔ مجھے ِمس کیا‬
‫تھا۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔ میری بات سن کر اس کے چہرے پر‬
‫ہی پیار‬ ‫ایک رنگ سا آ گیا اس نے بڑے‬
‫بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر سر‬
‫جھکا لیا۔۔ اس پر میں نے اس سے ایک بار پھر‬
‫بڑے الڈ بھرے لہجے میں پوچھا ۔۔ بتاؤ نا‬
‫پلیززززززززز؟۔۔۔ تب اس نے اپنے یاقوتی ہونٹ‬
‫شرما کر‬ ‫کھولے اور میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے آپ بتاؤ۔؟ یہ سن کر میں اپنے‬
‫ہولے‬ ‫لے گیا ۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫منہ کو اس کے قریب‬
‫سے اس کے شرم سے الل ہونے والے گال کو چوم‬
‫کر بوال۔۔۔ وہ تمہیں بھولے جس نے یاد کیا ہوتم‬
‫کو۔۔۔۔ ہم تمہیں بھولے نہ کبھی یاد کیا۔۔۔۔‬

‫شعر عذرا کے سر سے گزر‬ ‫میرا یہ رومینٹک‬


‫گیا اور وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بولی۔۔ کیا مطلب ہے آپ کا ؟ تو‬
‫میں نے اس سے کہا عذرا جی۔۔۔ پتہ نہیں میرا‬
‫تم سے کیا رشتہ ہے۔۔۔ پر یقین کرو ۔۔ دن کو کوئی‬
‫لمحہ ۔۔۔رات کا کوئی ایسا پہر نہیں تھا جس میں‬
‫۔۔۔میں نے آپ کو یاد نہ کیا ہو۔۔۔ آپ مجھے بہت‬
‫یاد آتی تھی۔۔۔ میری بات سن کر اس پہلے سے الل‬
‫ہو گئے ۔۔۔۔۔اور اس نے‬ ‫گال کچھ اور الل‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے ایک شرمیلی سی‬
‫مسکراہٹ سے کہا ۔۔۔ میں۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔ بھی آپ کو بہت‬
‫یاد کرتی تھی۔۔۔ اور پھر سے اپنے سر کو جھکا‬
‫لیا۔۔۔ اس کی بات سن کر میں آگے بڑھا اور اس‬
‫کو اپنے گلے کے ساتھ لگا لیا۔۔میری بانہوں میں‬
‫وہ خود کو‬ ‫آ کر وہ تھوڑا سا مچلی۔۔۔ ۔ لیکن‬
‫سے آذاد‬ ‫بازؤں کے حصار‬ ‫میرے مضبوط‬
‫سکی ۔۔۔۔ بس اتنا بولی ۔۔۔ پلیز چھوڑ‬ ‫نہ کرو ا‬
‫دیں مجھے ۔لیکن میں نے اسے چھوڑنے کے‬
‫لیئے تھوڑی پکڑا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اس لیئے اس کے اس‬
‫ہلکے سے احتجاج کے باوجود ۔۔۔۔۔۔ میں نے کچھ‬
‫دیر تک اس کے گداز جسم کو اپنے کرخت جسم‬
‫کے ساتھ ہلکے ہلکے دبایا ۔۔۔ ۔۔۔ پھر دھیرے‬
‫پر اپنی‬ ‫دھیرے ۔۔میں نے اس کے گداز بدن‬
‫ڈھیلی کر دی۔۔ ۔۔یہ دیکھ کر وہ میری‬ ‫جکڑ‬
‫بانہوں میں تھوڑا سا کسمسائی اور پھر مجھ سے‬
‫الگ ہو کر تیز تیز سانس لینے لگی۔۔۔اس کے‬
‫چہرے پر۔۔۔ حیا کی اللی پھیلی ہوئی تھی ۔اور اس‬
‫رہے تھے۔ لیکن وہ اپنے منہ‬ ‫کے ہونٹ تھرا‬
‫سے کچھ نہ بولی اور مجھ سے الگ ہو کر‬
‫اپنے جزبات کو چھپاتے ہوئے بولی۔۔۔ ۔۔ذرا‬
‫دیکھوں تو یہ لوگ کیا کر رہے ہیں ۔۔۔ اور اپنے‬
‫گھر کی گیلری کی طرف بڑھ گئی۔۔۔۔۔میں بھی اس کے‬
‫پیچھے پیچھے چل دیا۔۔۔۔۔۔۔تھوڑا آگے جا کر وہ ۔۔‬
‫امجد اور نبیلہ کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ پھر۔۔۔فوراً‬
‫ہی اس نے اپنا منہ میری طرف کر لیا اور سر جھکا‬
‫کر نیچے کی طرف دیکھنے لگی۔۔۔ اس پر میں نے‬
‫اس سے پوچھا۔۔۔۔ کیا ہوا عذرا؟۔۔۔ تو وہ شرماتے‬
‫کہنے لگی۔۔۔ خود ہی دیکھ لو۔۔۔۔۔ لیکن‬ ‫ہوئے‬
‫میں نے نہیں دیکھا اور اس بوال ۔۔۔۔پلیزززززززز۔۔ تم‬
‫ناں۔۔۔۔ میرے بار بار کے اصرار‬ ‫بتاؤ‬ ‫ہی کچھ‬
‫تھوڑا شرما ۔۔اور ہچکچاتے ہوئے‬ ‫پر وہ‬
‫بولی ۔۔۔کتنے بے شرم ہیں ۔۔اس پر میں بوال ۔۔کیا‬
‫بے شرمی کی ہے انہوں نے ؟ تو وہ کہنے لگی‬
‫۔۔ وہ۔۔ وہ۔۔۔دونوں کسنگ کر رہے ہیں۔۔۔ تب میں‬
‫آگے بڑھا اور اس کو اپنے سینے کے ساتھ لگا کر‬
‫بوال۔۔۔۔ میری جان وہ لور ہیں ۔۔۔اور بچھڑنے کے‬
‫بعد محبت کرنے والے ایسے ہی مال کرتے ہیں۔۔۔‬
‫میری بات سن کر اس نے میری طرف دیکھا اور‬
‫ُرک ُرک کر کہنے لگی۔۔۔۔ پر ۔۔پر۔۔۔ میرا منگیتر تو‬
‫ایسا نہیں کرتا ۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف‬
‫وہ تو نہیں۔۔۔۔‬ ‫دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا‬
‫البتہ آپ اس سے ضرور ایسے ہی ملتی ہو گی‬
‫تو وہ کہنے لگی۔۔ یقین کرو میں نے اس کے‬
‫ساتھ ایسا کچھ بھی نہیں کیا۔۔۔ پھر وہ خود ہی‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔۔ آڑھت کی دکان پر بیٹھ بیٹھ کر وہ‬
‫کاروباری ہو گیا ۔۔۔ جب بھی ملتا ہے‬ ‫بھی پکا‬
‫بس یہی کہتا ہے کہ فالں سودے سے میں نے‬
‫اتنے پیسے کما لیئے۔اس کی بات سن کر میں‬
‫نے اس کا ہاتھ سے پکڑا ۔۔۔اور دوبارہ اسی‬
‫ٹوٹی ہوئی چارپائی کے پاس لے آیا ۔۔۔۔اور ۔اسے‬
‫وہاں بٹھا کر بوال۔ تو کیا۔۔۔ وہ تم سے رومانس نہیں‬
‫کرتا ؟؟۔۔۔ میری بات سن کر وہ بڑے مجروح سے‬
‫لہجے میں بولی۔۔۔ نہیں ۔۔۔ اور نیچے دیکھنے لگی۔۔۔۔‬
‫اور پر میں نے کہا۔۔۔ آخر وہ ایسا کیوں نہیں کرتا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔؟ ۔۔۔ تو وہ اسی مجروح لہجے میں بولی۔۔۔اول‬
‫تو ہمیں اتنا ٹائم ہی نہیں ملتا ۔۔۔۔۔ اور جو ٹائم‬
‫وہ بس اپنے کارنامے‬ ‫ملتا بھی ہے اس میں‬
‫ہی گنواتا رہتا ہے ۔۔۔ اس پر میں بوال وہ کیوں؟‬
‫تو وہ کہنے لگی ۔ پیسے بتا کر شاید وہ‬
‫مجھے امپریس کرنا چاہتا ہے ۔۔۔پھر کہنے لگی‬
‫اور میرے‬ ‫آپ کو شاید معلوم نہیں کہ میرے‬
‫سسرال کے سارے مرد ۔۔۔ بس دولت کے پجاری‬
‫ہیں۔۔۔ اور ہر وقت روپے پیسے میں ڈوبے رہتے‬
‫ہیں۔اور پھر سر جھکا لیا۔۔۔۔ اس وقت اس کے چہرے‬
‫بڑی اداسی طاری تھی۔۔۔ اور مجھ سے اس کی یہ‬
‫نے عذرا‬ ‫اداسی دیکھی نہ گئی ۔۔۔۔چنانچہ میں‬
‫کو بازو سے پکڑا اور چاپائی سے اُٹھا کر ۔۔۔ اسے‬
‫اپنے اور قریب لے آیا ۔۔ ۔۔۔۔۔پھر میں نے ۔۔۔۔ اسے‬
‫اپنے گلے سے لگایا ۔۔۔۔۔اور اس کے کان میں‬
‫سرگوشی کرتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔ میری جان میرے‬
‫پاس پیسے تو نہیں ہیں ۔۔۔۔ لیکن میں تم سے‬
‫وعدہ کرتا ہوں کہ جب تک میری اور تمہاری‬
‫دوستی ہے ۔۔۔۔۔ میں تم کو بہت پیار دوں گا ۔۔۔‬
‫میرا رومانوی لہجہ اور پیار بھری سرگوشی‬
‫سن کر وہ پگھل سی گئی ۔۔ چنانچہ اس نے میرے‬
‫ہوئے ۔۔اپنے سر کو اُٹھایا ۔۔۔۔‬ ‫سینے سے لگے‬
‫اور اپنی بڑی بڑی آنکھوں کو مجھ پر گاڑ کر بولی‬
‫۔۔۔ کتنا پیار دو گے مجھ کو ؟۔۔۔۔اس کی بات سن‬
‫اچانک ہی میں اس کے الل الل گالوں پہ‬ ‫کر‬
‫جھکا ۔۔۔۔۔۔اور انہیں چومتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔اتنا کہ تم‬
‫چاہو بھی تو ۔۔۔گن نہیں سکو‬ ‫اسے گننا‬
‫گی۔۔۔۔!!!!!!!!!!‬

‫میری اس بات پر اس نے سر اُٹھا کر میری طرف‬


‫حیا‬ ‫دیکھا ۔۔۔۔ تو میں نے اس کی آنکھوں میں۔۔۔‬
‫کی اللی ۔۔کے ساتھ ساتھ ۔۔اپنے لیئے۔۔۔ اس کے‬
‫چہرے پر ۔۔۔ محبت کی آبشار بھی پھوٹتے ہوئے‬
‫دیکھی ۔۔۔ یہ سب دیکھ کر ۔۔ میں نے دوبارہ سے‬
‫۔۔۔۔ اسے اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔۔ اور ۔۔۔پہلے‬
‫کی طرح ۔۔۔اس دفعہ اس نے خود سے مجھے‬
‫چھڑانے کی کوئی کوشش نہیں کی اور بڑے آرام‬
‫دیا‬ ‫سے میرے کندھے پر اپنے سرکو رکھ‬
‫اپنے پورے‬ ‫اور۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ خود ہی‬
‫جسم کو میرے جسم کے ساتھ جوڑ دیا ۔۔۔۔ اور پھر‬
‫بولی۔۔۔ اور پیار کرو‬ ‫میرے کان میں دھیرے سے‬
‫نہ مجھے۔۔۔۔اتنا کہ میں گن نہ سکوں۔۔۔اس کے بعد‬
‫وہ اسی محبت بھری سرگوشی میں بولی۔۔۔۔ ۔۔۔۔‬
‫مجھے تمہارے منہ سے اپنے لیئے پیار بھری‬
‫باتیں سن کر بہت اچھا لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ہر چند کہ‬
‫شروع میں ۔۔میں اس حسین لڑکی کو صرف اس‬
‫لیئے پھنسا رہا تھا کہ میں ۔۔۔ اس کے ساتھ‬
‫جنسی کھیل ۔۔۔کھیل کر اپنے سکور میں اضافہ کر‬
‫سکوں ۔۔۔۔لیکن اس وقت اس کے منہ سے اپنے‬
‫لیئے ۔۔۔جزبات سے بھر پور۔۔۔ محبت بھری باتیں‬
‫سن کر جانے کہاں سے میرے اندر سے بھی‬
‫اس کے لیئے محبت کا ایک طوفان اُمڈ آیا ۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس لڑکی کے بارے میں میرے سارے‬
‫گندے جزبات کو اپنے ساتھ بہا کر لے گیا۔۔۔۔اور‬
‫مجھے پتہ بھی نہیں چال کہ کب میں عذرا کی‬
‫۔۔۔۔۔اب میں نے اس‬ ‫محبت میں گرفتار ہو گیا‬
‫اور کس کر اپنے سینے سے لگایا ۔۔۔پیار‬ ‫کو‬
‫سے شرابور لہجے میں بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔عذرا میری‬
‫جیون بھر ۔۔‬ ‫جان ۔۔۔تو کہے تو میں ایسے ہی‬
‫تیرے ساتھ چپکا رہوں ۔۔۔ تم سے پیار کرتا رہوں‬
‫۔تم کو اپنے محبت کا ۔۔ ۔۔تمہارا ہونے کا ۔۔۔۔احساس‬
‫دالتا رہوں ۔۔۔۔۔ میری اس بات پر وہ بھی اسی‬
‫پیار بھرے شرمیلے لہجے میں بولی۔۔۔ وعدہ کرو‬
‫۔۔کہ تم ہمیشہ ہی مجھے ایسے چاہو گے۔۔۔۔۔اس‬
‫کی بات سن کر میں نے اس کی گردن پر اپنے‬
‫دونوں ہونٹ رکھے اور ۔۔ اس کو چومتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔۔ میں تم سے وعدہ کرتا ہوں کہ میں اپنی‬
‫تم کو ہمیشہ ایسے ہی چاہتا‬ ‫آخری سانس تک‬
‫رہوں گا۔۔۔میری بات سن کر وہ میرے سینے کے‬
‫ساتھ مزید ُجڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔تت۔۔تم سچ کہہ رہے‬
‫ہو ناں کہ تم اپنی آخری سانس تک مجھے ایسے‬
‫ہی چاہتے رہو گے؟۔‬
‫اس کی بات سنتے ہی میں نے اس کے گالوں‬
‫پر۔۔۔۔۔ گردن پر۔۔۔۔نرم ہونٹؤں پر۔۔۔۔۔۔ اپنے بوسوں کی‬
‫بوچھاڑ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ تمہاری قسم عذرا۔۔۔۔۔۔۔میں‬
‫سچ کہہ رہا ہوں اور پھر اسے بڑی بے تابی کے‬
‫ساتھ چومنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔۔ میرے ان گرم‬
‫اس کا سارا جسم‬ ‫بوسوں کی تاب نہ ال کر‬
‫نا چاہتے ہوئے بھی اس‬ ‫کانپ اُٹھا۔۔۔۔ اور پھر‬
‫کے منہ سے ایک شرمیلی سی سسکی نکل گئی۔۔۔۔‬
‫جسے سن کر میرا رواں رواں ۔۔۔۔ مست ہو گیا اور‬
‫اس کی گردن کو چومتے ہوئے بوال۔۔۔‬ ‫میں‬
‫۔۔۔ آئی لو یو ڈارلنگ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی‬
‫دوبارہ سے اس کی گردن پر بوسوں کی بوچھاڑ کر‬
‫دی۔۔۔۔میرے ان نان سٹاپ بوسوں کی بوچھاڑ سے‬
‫وہ اکھڑے ہوئے سانسوں میں بولی ۔۔۔ لو یو ٹو ۔۔۔۔‬
‫میری جان۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر سے میرے ساتھ اور‬
‫گئی۔۔۔اور پھر کافی دیر تک اپنے جسم‬ ‫چپک‬
‫سے میرے جسم کو مالئے ۔۔۔ وہ میرے ساتھ چپکی‬
‫رہی۔۔‬

‫ہم ایک دوسرے کے پیار میں گم ۔۔۔۔۔۔۔ایک ساتھ‬


‫چپکے ہوئے تھے کہ ۔۔۔۔۔اچانک ہمارے قریب‬
‫سے ایک کھڑاک سا ہوا ۔۔۔۔ اس کھڑاک کی آواز‬
‫گئے۔۔۔اور اس کے‬ ‫سنتے ہی ۔۔ہم دونوں چونک‬
‫ساتھ ہی عذرا بدک کر ۔۔۔ مجھ سے الگ ہو‬
‫گئی۔۔۔۔اور آواز کی سمت دیکھنے لگی ۔۔۔ جہاں‬
‫امجد اور نبیلہ کھڑے ہم دونوں کی طرف دیکھ‬
‫رہے تھے۔۔۔ جیسے ہی نبیلہ کی نظریں عذرا سے‬
‫ملیں ۔۔۔ تو وہ ایک لمبی ۔۔۔ سی۔۔۔ہُوں ں ں ں ۔۔۔۔ کر‬
‫بولی۔۔۔ اچھا تو یہاں بھی ۔۔۔۔۔ اس پر امجد لقمہ‬
‫دیتے ہوئے بوال۔۔۔ دیکھ رہی ہو جان ۔۔۔۔ دونوں‬
‫طرف آگ برابر کی لگی ہوئی نظر آ رہی ہے جسے‬
‫سن کر ۔۔۔عذرا کہنے لگی۔۔۔۔ امجد بھائی آپ بھی‬
‫نا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر شرم سے اپنا منہ نیچے‬
‫کر لیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر نبیلہ آگے بڑھی اور عذرا کے‬
‫پاس جا کر بولی۔۔۔ ارے ارے ۔۔ کیوں میری پیاری‬
‫سی فرینڈ کو تنگ کر رہے ہو؟ چلو شاباش اب تم‬
‫دونوں یہاں سے چلتے پھرتے نظر آؤ ۔۔۔ نبیلہ‬
‫کی بات سن کر میں نے احتجاج کرتے ہوئے کہا‬
‫اتنی جلدی؟ تو امجد کہنے لگا جلدی کہاں ہے‬
‫بھائی ۔۔۔۔۔ہم لوگوں کو یہاں آئے ہوئے ‪ 3/2‬گھنٹے‬
‫ہو گئے ہیں ۔ اب چلنا چاہئے۔۔ اس کے بعد ہم‬
‫دونوں نے اپنی اپنی محبوباؤں کو بائے بائے کیا‬
‫اور واپس آ گئے۔‬
‫اگلے دن پھر اسی طرح ہم وہاں پہنچ گئے۔۔ اور‬
‫عذرا کو دیکھتے ہی میں اسے دیکھتا رہ گیا۔۔۔‬
‫آج اس نے سرخ رنگ کا میچنگ سوٹ پہنا ہوا‬
‫تھا ۔ جو اس پر بہت جچ رہا تھا اس کے ساتھ‬
‫ساتھ آج اس نے اپنے ہونٹوں پر ہلکے شیڈ‬
‫کی سرخ رنگ کی سرخی بھی لگائی ہوئی تھی‬
‫اور اس کے گورے چہرے پر یہ سرخ رنگ کی‬
‫سرخی بہت سیکسی لگ رہی تھی ۔ اپنے بڑی‬
‫ب معمول‬
‫اس نے حس ِ‬ ‫سی چھاتیوں کو آج بھی‬
‫ایک بڑی سی چادر سے ڈھکا ہوا تھا۔۔۔ مجھے‬
‫اپنی طرف یک ٹک دیکھتے ہوئے وہ تھوڑا شرما‬
‫سا گئی ۔۔۔اور دھیمی آواز میں بولی ۔۔۔ ایسے کیوں‬
‫دیکھ رہے ہو مجھے؟؟۔۔ تو میں نے آگے بڑھ کر‬
‫اس کو اپنے سینے سے لگا کر بوال۔۔۔۔ ۔۔۔ عذرا تم‬
‫اس سوٹ میں تم بہت غضب ڈھا رہی ہو۔۔۔ تو‬
‫وہ ایک ادا سے کہنے لگی ۔۔۔ مطلب؟؟ تو میں‬
‫نے کہا ۔۔ مطلب یہ کہ اس سوٹ میں تم بہت‬
‫پیاری اور آسمان سے اتری ہوئی کو ئی حور‬
‫لگ رہی ہو ۔۔۔میری بات سن کر وہ بہت خوش ہوئی‬
‫اٹھال کر بولی ۔۔۔۔وہ تو میں ہوں ۔۔۔۔ اسکے‬ ‫۔۔اور‬
‫ساتھ ہی وہ میرے قریب آئی ۔۔ ۔۔۔ اور میرے‬
‫میرے کان‬ ‫سینے کے ساتھ لگتے ہوئے ۔۔‬
‫میں اسی پیار بھری سرگوشی میں کہنے لگی۔۔۔۔۔۔‬
‫ویسے دیکھا جائے تو۔۔۔۔ تم بھی کچھ کم نہیں ہو‬
‫۔۔۔ پھر اس نے خود کو میری گرفت سے چھڑایا‬
‫اور کہنے لگی پتہ ہے کل سارا دن اور ساری‬
‫رات میں تمھارے بارے میں ہی سوچتی رہی۔۔۔‬
‫وہ کیوں ؟ تو وہ کہنے‬ ‫تو میں نے اس کہا‬
‫اور صادق‬ ‫لگی ۔۔ وہ اس لیئے کہ ۔۔ میں تمھارا‬
‫(منگیتر) کا موازنہ کر رہی تھی۔۔ اس پر میں نے‬
‫اس سے کہا تو کیا رزلٹ نکاال میری سرکار‬
‫کہنے لگی۔۔‬ ‫شرماتے ہوئے‬ ‫نے ؟ تو وہ‬
‫صادق میرے بچپن کا منگتیر ہے ۔۔ پر اس نے آج‬
‫تک مجھ سے ایسی کوئی بات نہیں کی کہ‬
‫سے کرتے ہو۔۔ اس کے‬ ‫جیسی باتیں آپ مجھ‬
‫برعکس وہ جب بھی مجھے ملتا ہے مجھے‬
‫اپنے پیسوں سے امپریس کرنے کی کوشش کرتا‬
‫رہتا ہے۔۔۔۔اور دوسری طرف۔۔۔ ایک تم ہو کہ مجھ‬
‫سے پیار بھری باتیں کرتے ہو۔۔۔ میری کئیر کرتے‬
‫ہو۔۔۔مجھے اپنی محبت کا احساس دالتے ہو ۔۔‬
‫پھر کہنے لگی یقین کرو شاہ۔۔۔اتنے تھوڑے سے‬
‫دنوں میں تم میرے دل کے بہت قریب آ گئے ہو۔۔۔ پھر‬
‫میری طرف دیکھ کر بڑی حسرت سے کہنے لگی‬
‫۔۔۔کاش!!! صادق کی جگہ۔۔ تم میرے منگیتر ہوتے ۔۔‬
‫اور مجھ سے ایسی میٹھی میٹھی باتیں کرتے مجھ‬
‫سے پیار کرتے ۔۔۔ کاش کاش۔۔۔ اتنی سی بات کہہ کر‬
‫عذرا نے بڑی افسردگی کے ساتھ اپنے سر کو‬
‫نیچے کی طرف جھکا لیا۔۔۔یہ دیکھ کر میں آگے‬
‫ببڑھا ۔۔۔۔اور اس کو تھوڑی کے نیچے اپنا ہاتھ‬
‫رکھا اور اسے اوپر کی طرف کر تے ہوئے بوال۔۔۔‬
‫ایسے پریشان نہ ہو میری جان ۔۔۔۔۔ میں تیرے‬
‫ساتھ۔۔ تیرے پاس ہی تو ہوں ۔۔۔۔ اس پر وہ تڑپ‬
‫ہو‬ ‫کر بولی۔۔۔ وعدہ کرو شاہ ۔۔۔چاہے کچھ بھی‬
‫جائے۔۔۔۔تم کبھی بھی مجھے نہیں چھوڑو گے اس‬
‫پر میں نے اس کو دوبارہ سے اپنے گلے کے ساتھ‬
‫لگایا اور بڑے پیار سے بوال۔۔۔۔۔ میں وعدہ کرتا ہوں‬
‫کہ میں ساری عمر تمھارا رہوں گا ۔۔۔‬

‫اس کے ساتھ ہی میں نے اس کے گالوں پر اپنے‬


‫ہونٹ رکھ دیئے اور ان کو چومنا شروع ہو گیا۔۔۔ پھر‬
‫گالوں سے ہوتے ہوئے میرے ہونٹ اس کے ہونٹوں‬
‫کے قریب گئے تو میں نے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔تو‬
‫وہ۔۔ میری ہی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ تب میں نے‬
‫بڑے پیار سے کہا۔۔۔عذرا میری جان ۔۔۔ اجازت‬
‫ہو تو تمھارے ہونٹوں پر اپنے پیار کی مہر ثبت کر‬
‫دوں؟ میری بات سن کر اس کی آنکھوں میں حیا کی‬
‫اللی سی چھا گئی اور اس کے ہونٹ کانپنے‬
‫لگے۔۔۔پھر اس نے اپنے انہی کپکپاتے ہوئے‬
‫اور‬ ‫ہونٹوں کو میرے ہونٹوں کی جانب بڑھایا‬
‫لرزتی ہوئی آواز میں کہنے لگی۔۔۔۔۔ تمہیں۔۔۔صرف‬
‫تمہیں ۔۔۔۔ سب اجازت ہے میری جان۔۔۔ اور اس کے‬
‫ساتھ ہی اس نے خود ہی میرے ہونٹوں پر اپنے‬
‫ہونٹ رکھ دیئے۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس کے‬
‫نرم ہونٹ کو اپنے منہ میں لیا اور ۔۔۔ ۔۔۔اور اس کے‬
‫اوپر والے ہونٹ کو چوسنے لگا۔۔۔ اس کا نرم و‬
‫نازک ہونٹ کو چوستے ہوئے میرے منہ میں‬
‫ایک شیرینی سی گھلنے لگی۔۔۔اور اس کے منہ‬
‫سے آنے والی مہک ۔۔اس کی گرم سانسیں‬
‫مجھے میرے پورے وجود کو معطر کرنے لگیں۔۔۔۔۔۔‬
‫۔اور میں جوش میں آ گیا اور ہاتھ بڑھا کر اس‬
‫کو اپنے ساتھ چپکا لیا۔۔۔۔اور بڑی نرمی کے‬
‫ساتھ اس کے ہونٹوں کو چوسنے لگا۔۔۔ جس سے‬
‫بھرے‬ ‫وہ بھی خاصی مست ہو گئی ۔۔۔اور اپنے‬
‫سینے کو ۔۔۔ میرے سینے کے ساتھ۔۔چپکانے‬ ‫بھرے‬
‫لگی۔۔۔۔۔ رگڑنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کی وجہ سے ہم دونوں‬
‫کے جسموں میں آگ سی بھرنے لگی۔۔۔۔ کچھ دیر‬
‫تک تو میں باری باری اس کے دونوں ہونٹوں کو‬
‫چوستا رہا۔۔۔ پھر میں نے بڑے ہی پیار سے اپنی زبان‬
‫کو عذرا کے منہ میں ڈال دیا۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔اس کی‬
‫زبان سے میری زبان کا ٹکرانا تھا کہ ایک دم‬
‫سے میرے اندر شہوت کی آگ بھڑک اُٹھی ۔۔۔۔اور‬
‫میں نے اس کی زبان کو اپنے منہ میں لیکر‬
‫چوسنا شروع کر دیا۔۔۔ اس کے منہ سے عجیب سی‬
‫مہک آ رہی تھی۔۔۔ادھر میں اس کی زبان چوسنے‬
‫کے ساتھ ساتھ اس کی دونوں چھاتیوں کو بھی دبا‬
‫رہا تھا۔۔۔ جس سے وہ بھی مزید جوش میں آ‬
‫اور‬ ‫گئی ۔۔۔اور وہ مستی میں آ کر میرے ساتھ‬
‫شروع ہو گئی ۔۔اور اس کا‬ ‫چپکنا‬ ‫بھی‬
‫یوں میرے ساتھ چپکنے کی وجہ سے میری‬
‫میرے لمبے اور موٹے‬ ‫پینٹ میں ٹینٹ بنا ۔۔۔۔‬
‫لن کا ابھار۔۔۔اب اس کی گداز رانوں پر ٹچ‬
‫ہونے لگا۔۔اور جیسے جیسے میرا لن اس کی نرم و‬
‫گداززززز۔۔۔۔ رانوں کو چھوتا۔۔۔۔۔میرے سارے جسم‬
‫۔۔اور میرے‬ ‫میں شہوت کی لہریں دوڑنے لگتیں‬
‫خیال میں ۔۔۔ شہوت کی یہ لہریں میرے جسم سے‬
‫ہوتے ہوئے اس کے جسم کے آر پار ہو رہی تھیں۔۔۔۔‬
‫جبھی تو ۔۔۔۔جبھی تو۔!!!!!۔۔ ۔ جیسے جیسے میرا‬
‫لن اس کی ریشمی رانوں سے ٹچ ہوتا ۔۔۔۔‬ ‫کھدد را‬
‫اور بھی میرے ساتھ ۔۔۔باالخصوص‬ ‫وہ‬
‫۔۔۔میرے لن کے ابھار کے ساتھ اپنی گداز رانوں کو‬
‫کی مزید ۔۔۔کوشش کرتی ۔۔۔۔پھر‬ ‫۔۔۔چپکانے‬
‫مجھے جوش چڑھ گیا اور میں نے اس کے مموں‬
‫پر رکھے اپنے ہاتھ کو ہٹایا اور اس کی شلوار‬
‫میں داخل کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔ جیسے ہی میرا‬
‫ہاتھ اس کی شلوار سے ٹچ ہوا ۔۔۔ اس نے اک‬
‫سے اپنی دونوں رانوں کو‬ ‫بڑی سختی‬ ‫دم‬
‫آپس میں جوڑ لیا اور میرے منہ سے اپنا منہ‬
‫ہٹا کر بولی۔۔۔ نہیں پلیزززززززززززز۔۔۔۔اس پر میں‬
‫نے اس کی طرف دیکھا اور بڑے ہی شہوت‬
‫بوال ۔۔۔ صرف ہاتھ لگاؤں‬ ‫بھرے لہجے میں‬
‫گا۔۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ نہیں میری جان ابھی‬
‫نہیں۔۔۔ تب میں اس کی رانوں پر رکھا ۔۔۔۔۔اپنا وہاں‬
‫پر رکھ کر بوال‬ ‫سے ہٹایا ۔۔۔۔۔ اور اس کی چھاتیوں‬
‫۔۔۔ ان کو تو چھونے کی اجازت ہے نا۔۔۔ تو وہ‬
‫شرمیلی سی مسکراہٹ سے بولی۔۔۔ میں نے کب روکا‬
‫ہے۔۔۔۔یہ سن کر میں آگے بڑھا اور اس کی چادر‬
‫کو اس کی چھاتیوں سے ہٹایا ۔۔واؤؤؤ۔۔۔ دیکھا تو‬
‫نیچے سے اس کی قمیض کا گال کافی کھال تھا‬
‫۔۔۔ جس سے اس کے آدھے ممے باہر کو نکلے‬
‫ہوئے تھے ۔۔۔اور شاید اس کھلے گلے کو چھپانے‬
‫اس نے اپنے اوپر بڑی سی چادر‬ ‫کے لیئے ہی‬
‫کو لے رکھاتھا۔۔۔۔۔ اب جبکہ اس کے دونوں چھاتیاں‬
‫میرے سامنے تھیں ۔۔۔۔میں نے ان کو ا پنے‬
‫دونوں ہاتھوں میں پکڑ لیا اور عذرا کی آنکھوں‬
‫میں آنکھیں ڈال کر ان کو دبانے لگا۔۔۔۔ جیسے جیسے‬
‫میں اس کی چھاتیوں کو دباتا جاتا ۔۔۔ ویسے ویسے‬
‫عذرا کی آنکھوں میں شہوت کی مستی ۔۔۔بڑھتی جاتی‬
‫تھی ۔اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے شہوت‬
‫لہجے میں کہتی۔۔ شاہ ۔۔تم کتنے اچھے‬ ‫بھرے‬
‫ہو۔۔۔۔ اس کی چھاتیوں کو کچھ دیر دبانے کے بعد‬
‫میں نے اس کی طرف دیکھا اور بوال ۔۔۔ میں ان پر‬
‫کس کر سکتا ہوں تو وہ منہ سے کچھ نہیں بولی‬
‫لیکن منع بھی نہیں کیا۔۔۔چنانچہ پہلے میں نے اس‬
‫کی بڑی سی چھاتیوں کے اوپری ننگے حصے‬
‫کو خوب چوما۔۔اور جب میں اس پر اپنی زبان‬
‫پھیرنے لگا۔۔۔ تو اس کے منہ سے ایک لمبی سی‬
‫سسکاری نکلی ۔۔سس سس۔ ۔ اس کے ساتھ ہی میں‬
‫نے اس کی قمیض کو اوپر کیا ۔۔۔۔ اور اس کی ایک‬
‫چھاتی کو برا سے آذاد کر دیا ۔ میری اس حرکت‬
‫اس نے مجھے کچھ نہیں کہا بس۔۔۔۔ چپ چاپ‬
‫دیکھتی رہی۔اس‬ ‫میری طرف‬ ‫مست نظروں سے‬
‫کی چھاتی کافی بڑی تھی اور اس موٹی چھاتی کے‬
‫عین وسط میں ہلکے براؤن رنگ کا چھوٹا سا‬
‫نپل تھا۔۔۔جو اس وقت اکڑا کھڑا تھا ۔ ۔۔ پھر میں‬
‫نے اس کی طرف دیکھتےہوئے کہا۔۔۔۔اجازت ہو تو‬
‫تمہاری زبان کی طرح تمہاری چھاتی کو بھی‬
‫چوس لوں؟میرے منہ سے چوسنے کی بات سن کر‬
‫سسکی لی ۔اور اپنے‬ ‫عذرا نے ایک مست‬
‫ہونٹوں کو دانتوں میں داب لیا ۔۔ وہ اس وقت فُل‬
‫اپنے‬ ‫مستی میں لگ رہی تھی۔۔۔۔۔۔اس لیئے وہ‬
‫منہ سے کچھ نہیں بول رہی تھی ۔۔۔ میں نے اس‬
‫کی خاموشی کو رضا مندی سمجھا اور اس کی‬
‫موٹی چھاتی کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔اور پہلے تو‬
‫زبان کو پھیرا۔۔۔ اس‬ ‫اس کے نپل کے ارد گر اپنی‬
‫کے نپل پر میری زبان کا لگنا تھا کہ اس نے‬
‫ایک زبردست سی انگڑائی لی اور اپنی چھاتی‬
‫کو میرے منہ سے لگا دیا۔۔۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔ بڑا‬
‫مزہ آ رہا ہے جان۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے‬
‫اس کے نپل کو منہ میں لیکر چوسنا شروع کر دیا۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد میں نے اس کی دوسری چھاتی کو‬
‫بھی ننگا کر دیا ۔۔۔اور اب میں باری باری دونوں‬
‫نپلز کو چوسنا شروع ہو گیا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی‬
‫عذرا کے منہ سے ہلکی ہلکی کراہیں نکلنا شروع‬
‫ہو گئیں اور کچھ دیر بعد اس نے خود ہی اپنی‬
‫ایک ران کو میرے ابھرے ہوئے لن کے ساتھ‬
‫جوڑ لیا۔۔اور اسے رگڑنے لگی۔۔۔ پھر کچھ دیر تک‬
‫رگڑنے کے بعد ۔۔۔پتہ نہیں اس کو کیا ہوا کہ ۔۔۔۔ اچانک‬
‫ہی اس نے اپنی ران کو میرے لن کے ابھار سے ہٹایا‬
‫کہنے لگی ۔۔۔ اب بس کرو پلیززززززززز‬ ‫۔۔۔۔اور‬
‫۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے نپل کو‬
‫بھی میرے منہ ہٹا لیا۔۔۔۔۔اور جلدی سے اپنی برا‬
‫میں کر لیا پھر ۔۔۔ قمیض اپنی کو درست کر کے پھر‬
‫سے اپنی چھاتیوں کو چادر سے ڈھک لیا۔۔۔ اور‬
‫مجھے اشارے سے چارپائی پر بیٹھنے کو‬
‫کہا۔۔اس وقت میری حالت بہت خراب ہو رہی تھی۔۔۔‬
‫لیکن اس کے کہنے پر ۔۔۔۔۔ میں نے خود کو سنبھاال‬
‫چارپائی پر بیٹھ گیا اور‬ ‫۔۔۔۔۔اور خاموشی سے‬
‫پھر تھوڑی دیر بعد اس سے بوال۔۔ کچھ دیر تو ۔۔‬
‫اور کرنے دیتی ۔۔۔ تو وہ مسکرا کر بولی۔۔۔ اتنی دیر‬
‫تو کرنے دیا ہے ۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ کن‬
‫اکھیوں سے میرے ابھرے ہوئے لن کی طرف‬
‫دیکھنے لگی۔۔‬

‫یہ دیکھ کر میں نے بیٹھے بیٹھے اس کا منہ چوما‬


‫اور ۔۔ کہنے لگا ۔۔۔ میری پینٹ کی طرف کیا دیکھ‬
‫رہی ہو؟؟؟؟۔۔ میری بات سن کر وہ ایک دم سے‬
‫گھبرا گئی کہ جیسے چوری پکڑی گئی ہو اور‬
‫کہنے لگی۔۔۔ ک ۔۔ک ۔۔کچھ نہیں بس یونہی ۔۔تب میں‬
‫نے مذاق میں اس سے کہا ۔۔۔ کیا تم جانتی ہو‬
‫کہ یہ کیا چیز ہے؟ میری بات سن کر وہ مسکرائی‬
‫اور شرمیلے سے لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔ میں‬
‫سب جانتی ہوں۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے شرارت‬
‫سے پینٹ پر بنے ابھار پر ہاتھ رکھا اور اس‬
‫کی طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔ دوستی کرو گی‬
‫تو وہ بھی شرارت بھرے لہجے‬ ‫اس سے ؟‬
‫۔۔۔ نہ بابا ۔۔۔ تم سے دوستی کر لی‬ ‫میں بولی‬
‫اس سے دور‬ ‫ہے یہی بہت ہے ۔۔۔مجھےکم از کم‬
‫رکھو۔۔۔اسی اثنا میں نبیلہ اور امجد بھی آتے‬
‫دکھائی دئیے۔۔جنہیں دیکھ کر میں نے اپنی پینٹ‬
‫کے ابھار کو چھپا لیا ۔۔۔۔۔۔ انہوں نے بھی اس کی‬
‫طرف کوئی خاص توجہ نہ دی ۔۔۔اور پھر ہم‬
‫دونوں نے اپنی اپنی محبوباؤں سے ہاتھ مالیا اور‬
‫واپس آگئے۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس رات۔۔عذرا سے مل کر میں اپنے گھر تو‬


‫رات اس کے ہونٹوں کے رس‬ ‫آگیا ۔۔۔۔۔۔۔لیکن ساری‬
‫۔۔غضب کی نرمی۔۔۔ اور اس کے بدن کی خوشبو ۔۔‬
‫اس کا از خود اپنی ریشمی رانوں کو میرے‬
‫ابھرے ہوئے لن سے جوڑنے کے عمل نے‬
‫مجھے سونے نہیں دیا ۔۔ ۔۔۔ اور رہ رہ کر مجھے‬
‫اس کی آنکھوں میں بسی شہوت اور شہوت سے‬
‫بھر پور اسکی انگڑائیاں یاد آئیں جن کو یاد کر‬
‫نہیں‬ ‫کا نام ہی‬ ‫کر کے میرا لن بیٹھنے‬
‫لے رہا تھا اس وقت مجھے عذرا کی محبت‬
‫سے زیادہ اس کی بدن کی گرمی ستا رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔‬
‫لیٹرین میں جا کر ُمٹھ‬ ‫آخر تنگ آ کر میں نے‬
‫ماری اور سونے کے لیئے لیٹ گیا ۔۔ لیکن اس‬
‫خواب میں بھی مجھے ہر طرف عذرا ہی‬ ‫رات‬
‫عذرا نظر آتی رہی۔۔۔‬

‫۔۔۔۔ اگلے دن جب میں اس کے پاس پہنچا تو میں نے‬


‫کو اپنے گلے سے لگایا۔۔۔۔۔‬ ‫عذرا‬ ‫جاتے ہی‬
‫اور اس کو ایک طویل بوسہ دیا ۔۔۔پھر اس کے بعد‬
‫ہم دونوں نے ایک دوسرے کی زبانوں کو جی بھر‬
‫کے چوسا۔۔۔جس کی وجہ سے ہم دونوں کے جسموں‬
‫میں ایک بار بھر گرمی سی بھر گئی۔۔۔اس طویل‬
‫بوسے کے بعد گپ شپ لگانے کے لیئے ہم‬
‫چارپائی پر بیٹھے اور پھر باتوں باتوں میں ۔۔۔ میں‬
‫نے اس کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔ یار عذرا تم‬
‫مجھے کوئی جادو گرنی لگتی ہو۔۔۔۔میری بات سن‬
‫حیران ہوئی اور حیرت بھرے‬ ‫کر وہ بڑی‬
‫بولی۔۔۔ وہ کیسے؟؟۔۔۔تو میں نے اس‬ ‫لہجے میں‬
‫کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ساری ساری رات‬
‫میں بھی‬ ‫تم میرے خوابوں میں آتی ہو۔۔ دن‬
‫تمہارا ہی چہرہ مجھے‬ ‫میں بھی‬ ‫تمہارا ۔ دن‬
‫اپنی چاروں اورھ نظر آتا ہے۔۔۔۔ پھر میں نے عذرا‬
‫کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی ہی بے چارگی سے‬
‫کہا۔۔۔۔ ۔۔۔ تم ہی بتاؤ کہ ہم کیا کریں ۔۔۔ چاروں طرف‬
‫دیکھتے ہیں تمہیں۔۔کلیوں میں تم ہو۔۔بہاروں میں تم‬
‫۔۔۔اس دل کے ہر ایک نظاروں میں ۔۔۔تم ۔۔۔۔۔ میری بات‬
‫سن کر وہ خوشی سے مسکرائی ۔۔۔۔۔اور کہنے لگی‬
‫یہی حال‬ ‫میری جان کیا بتاؤں ۔۔۔۔ادھر میرا بھی‬
‫ہے کسی بھی چیز میں دل نہیں لگتا ۔۔ بس دل‬
‫کرتا ہے تم سے ملوں تم سے باتیں کروں ۔اور‬
‫تمہاری باتیں سنوں ۔۔۔پھر وہ تھوڑا ُرکی اور‬
‫کہنے لگی ۔۔۔۔۔اور ۔۔۔ اس پر میں نے اس کی بات پکڑ‬
‫لی اور بوال ۔۔۔اور ۔۔۔اور ۔۔سے تمہاری کیا مراد ہے؟‬
‫تو وہ شرما کر کہنے لگی ۔۔ اور وہ جو تم نے کل‬
‫سے کیا تھا ۔۔ مجھے بہت اچھا لگا۔۔۔ تب‬ ‫مجھ‬
‫میں اس کے پاس جھک گیا اور اس کے کان میں‬
‫سرگوشی کرتے ہوئے بوال۔۔۔ عذرا میری جان۔کیا کل‬
‫تمہاری پہلی کس تھی؟ تو اس نے اثبات میں سر‬
‫ہال دیا۔۔۔۔اس کو سر ہالتے دیکھ کر میں شرارت‬
‫سے بوال۔۔۔۔ ایسے نہیں چلے گا میری جان۔۔۔ منہ‬
‫چہرہ‬ ‫سے بات کرو ۔۔۔۔میری بات سن کر اس کا‬
‫شرم سے الل ہو گیا اور وہ میری طرف دیکھتے‬
‫ہوئے شرمیلی سی آواز میں کہنے لگی۔۔۔ ۔۔ کل‬
‫جس طرح تم نے میرے ساتھ آرٹ فلی کسنگ‬
‫اس طرح کی میری یہ پہلی کسنگ تھی‬ ‫کی تھی‬
‫۔۔۔۔۔ بات کرتے کرتے اس نے تھوڑا وقفہ کیا ۔۔۔۔اور‬
‫پھر کہنے لگی۔۔۔۔ ویسے کبھی کبھی میرا منگیتر‬
‫میرے ہونٹوں پہ کس کر لیتا ہے۔۔۔۔۔۔اس کی بات سن‬
‫کہ۔۔۔ ۔۔۔‬ ‫کر میں نے اس سے کہا۔۔۔اچھا یہ بتاؤ‬
‫لگا۔؟؟۔۔ تو اس‬ ‫ہونٹ چوسنا کیسا‬ ‫تمہیں میرا‬
‫نے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔اور پھر نیچے دیکھن ے‬
‫نا‬ ‫لگی ۔۔اس پر میں نے کہا پلیززززززززز ۔۔ بتا ؤ‬
‫جانو۔۔۔ تو اس نے ۔۔۔۔۔ایک بار پھر ہاں میں ہال دیا۔۔۔‬
‫پھر میں نےاس کی گردن پر زبان پھیری اور اس‬
‫سے بوال۔۔۔ اور جو تمہاری زبان چوسی تھی وہ۔؟؟‬
‫۔ا س پر اس نے ایک جھر جھری سی لی اور‬
‫بولی۔۔۔اُف۔۔۔ زبانوں کی چوسائی میں کتنا مزہ ہے‬
‫یار۔۔۔ تو میں نے ترنت ہی جواب دیا ۔۔کہ اچھا یہ‬
‫بتاؤ کہ۔۔۔ چھاتیاں چسوانے میں مزہ نہیں ہے‬
‫کیا۔۔؟میری بات سن کر وہ ایک سے دم سے شرما‬
‫کہنے‬ ‫گئی اور ۔۔۔۔۔۔۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫لگی۔۔۔ اس مزے کی تو بات ہی نہ کرو تم۔۔۔ اس‬
‫پر میں نے اس کی چھاتیوں پر ہاتھ رکھ کر کہا ۔۔۔‬
‫کہو تو اور مزہ دوں ۔۔۔تو وہ مستی بھرے‬
‫لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔ روکا کس نے ہے؟؟؟ ۔۔۔ اب‬
‫میں نے پھر سے اس کی چادر کو ہٹایا اور اس‬
‫کی دونوں چھاتیوں کو باہر نکاال اور ۔۔۔ پہلے‬
‫اکڑے ہوئے اس کے نپلز کو اپنی دونوں‬
‫انگلیوں میں پکڑا اور ان کو مسلنا شروع کر‬
‫دیا۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ میں نے اپنا منہ اس‬
‫اپنی زبان نکال کر اس کے‬ ‫کے قریب کیا اور‬
‫منہ کے آگے لہرانے لگا۔۔۔ یہ دیکھ کر۔۔اس کا چہرہ‬
‫ایک دم جوش سے کچھ مزید الل ہو گیا ۔۔۔۔۔۔اور‬
‫پھر اس نے بھی کچھ شرماتے شرماتے اپنے منہ‬
‫سے زبان باہر نکالی اور میری زبان کے ساتھ‬
‫دونوں‬ ‫ٹکرا دی۔۔ زبانیں آپس میں ٹکراتے ہی‬
‫اس‬ ‫طرف سے ایک آگ سی نکلی ۔۔۔۔فوراً ہی‬
‫۔۔۔۔۔اور پھر‬ ‫کو واپس کھینچ لیا‬ ‫نے اپنی زبان‬
‫مست‬ ‫ایک لمبی سی سسکی بھر کر ۔۔۔۔۔۔۔ بڑی ہی‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھنے لگی۔۔۔ لیکن بولی‬
‫کچھ نہیں۔۔۔۔ ادھر چونکہ میں کافی دیر سے اس‬
‫کے نپلز کو مسل رہا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔جس سے وہ‬
‫کافی بے چین ہو رہی تھی ۔۔۔ آخر وہ رہ نہ سکی اور‬
‫کہنے لگی ۔۔۔اب ان کو چوسو بھی۔۔۔تو میں نے‬
‫پروگرام کے مطابق اس کو کہا۔۔۔ ٹھیک ہے میں ان کو‬
‫میرے اس پر ہاتھ‬ ‫چوستا ہوں ۔۔ لیکن تم بھی‬
‫رکھو۔۔۔ اس دن میں نے جان بوجھ کر شلوار‬
‫قمیض پہنی ہوئی تھی مقصد اس کو اپنے لن کے‬
‫میری توقع کے عین‬ ‫درشن کروانا تھا۔۔۔۔اور‬
‫مطابق جب سے ہم نے کسنگ سٹارٹ کی تھی اس‬
‫کی نظریں میری شلوار میں بنے ٹینٹ پر ہی‬
‫لگی ہوئیں تھیں اور وہ کن اکھیوں سے اس کو‬
‫دیکھے جا رہی تھی۔۔۔چنانچہ جب میں نے اس کو‬
‫کہا کہ میرے اس پر ہاتھ رکھو تو پہلے تو اس‬
‫نے کچھ انکار کیا ۔۔۔ لیکن اس کے انکار میں اقرار‬
‫چھپا دیکھ کر میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور‬
‫اپنے لن پر رکھنے ہی ل گا تھا کہ وہ بولی۔۔وہ‬
‫چارپائی سے اُٹھی‬ ‫بولی۔۔۔۔۔۔ ایک منٹ ۔۔۔۔۔۔۔پھر وہ‬
‫اور ادھر ادھر خاص کر گیلری کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔‬
‫پھر ایک نظر میرے لن پر ڈالی ۔۔۔اورپھر چارپائی پر‬
‫بیٹھ گئی۔۔۔۔ اب میں نے پھر سے اس کا ہاتھ پکڑا‬
‫تو۔۔اس نے ایک بار پھر ادھر ادھر‬
‫دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر دھیرے سے میرے لن پر‬
‫ہاتھ رکھ دیا۔۔۔۔ ۔۔ جیسے ہی اس نے میرے‬ ‫اپنا‬
‫لن پر اپنا ہاتھ رکھا۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اس کے نپلز‬
‫چوسنے شروع کر دیئے اور ساتھ ساتھ اس کے‬
‫ہاتھ کو پکڑ کر اسے لن پر گرفت مضبوط کرنے‬
‫کو کہا۔۔تو۔۔ کچھ ہچکچاہٹ کے بعد اس نے میرے‬
‫لن کو پکڑ کر دبانا شروع کر دیا۔۔۔ اور کچھ ہی‬
‫دیر ۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ بہت زیادہ گرم ہو گئی تو اس‬
‫نے میرے لن پر اپنے ہاتھوں کی جکڑ کو بہت‬
‫مضبوط کر لیا اور اسے بے طرح دبانے لگی‬
‫یہ دیکھ کر میں نے اس کے نپلز چوسنے چھوڑ‬
‫دیئے۔۔۔۔۔ اور اس کی طرف دیکھ کر کہا۔۔۔۔۔۔۔کیسا لگ‬
‫رہا ہے؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔مزہ آ رہا ہے جان۔۔۔‬
‫اس پر میں نے اس کی پھدی کی طرف اشارہ کرتے‬
‫ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گرمی یہاں تک پہنچ گئی ہے۔۔۔۔؟‬
‫تو وہ ایک دم سے شرما گئی۔۔۔۔۔اور منہ نیچے کی‬
‫طرف کر لیا۔۔۔اس پر میں نے اس کی ایک نپل کو ہاتھ‬
‫ایک دم‬ ‫میں پکڑ کر زور سے مسال ۔۔۔تو وہ‬
‫سسکی لے کر بولی۔۔ اُف۔۔۔۔ دھیرے جان۔۔۔ ۔۔۔ اور‬
‫میری طرف دیکھنے لگی۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ بتاؤ نہ‬
‫پلیزززززززززز۔۔۔گرمی نیچے تک آئی کہ نہیں۔۔۔۔لیکن‬
‫جب وہ پھر بھی کچھ نہ بولی تو میں نے اپنا‬
‫ہاتھ اس کی پھدی کی طرف بڑھا دیا۔۔۔۔میرے ہاتھ کو‬
‫اپنی پھدی کی طرف آتے دیکھ کر وہ ایک دم سے‬
‫گھبرا گئی اور کہنے لگہ۔۔۔۔۔ارے ارے۔۔ یہ کیا کر‬
‫رہے ہو آپ۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟۔۔تو میں نے اس سے کہا کہ‬
‫۔۔۔ چیک کرنے لگا‬ ‫تمہاری پیاری سی‬
‫ہوں۔۔۔۔میری بات سن کر وہ گیلری کی طرف دیکھتے‬
‫اس‬ ‫ہوئے کہنے لگی ۔۔۔۔ اگر ۔۔وہ لوگ آ گئے تو؟‬
‫کہا ۔۔۔وہ لوگ نہیں‬ ‫پر میں نے اس سے‬
‫آتے۔۔۔۔ تو وہ بڑی ادا سے کہنے لگی۔۔۔ نہیں نا‬
‫ں جان۔۔ مجھے بہت ڈر لگتا ہے۔۔۔۔۔۔۔لیکن جب‬
‫میں نے بار بار اصرار کیا تو ۔ پھر وہ کچھ سوچ‬
‫کر بولی۔۔۔۔اوکے ۔۔۔ لیکن میں تمہیں‬
‫صرف۔۔۔شلوار کے اوپر اوپر سے ہاتھ لگانے‬
‫دوں گی۔؟اسکے ساتھ ہی اس نے ایک بار پھر گیلری‬
‫کی طرف دیکھا اور پھر ایک پاؤں ۔۔چارپائی کے بازو‬
‫پر رکھا ۔۔۔۔اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لگا لو۔۔۔۔۔۔اب میں نے اپنے ہاتھ کو‬
‫آگے بڑھایا۔۔۔۔۔۔ اور اس کی دونوں ٹانگوں کے بیچ لے‬
‫گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے ہاتھ کو اپنی چوت کی طرف آتے‬
‫دیکھ کر۔۔۔ اس نے ایک بار پھر ُمڑ کر گیلری کی‬
‫طرف دیکھا اور پھر اپنی آنکھیں بند کر‬
‫ہاتھ‬ ‫لیں۔۔۔۔۔۔۔ادھر میں نے اس کی چوت پر اپنا‬
‫رکھ کر دیکھا ۔۔۔۔ تو وہ خاصی گیلی ہو رہی تھی‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کی شلوار ۔۔۔گیلی ہو کر اس کی چوت‬
‫سے چپکی ہوئی تھی۔۔۔ یہ سب محسوس کرتے‬
‫ہوئے میں نے اس کی گیلی چوت پر دھیرے‬
‫شروع کر دیا‬ ‫ہاتھ کو پھیرنا‬ ‫دھیرے اپنے‬
‫۔۔۔۔اس نے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔میرے چوت پر ہاتھ پھیرتے ہی‬
‫ایک زبردست سی ۔۔۔۔ آہ بھری۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اور اپنی‬
‫دیا۔۔۔‬ ‫بڑھا‬ ‫پھدی کو تھوڑا آگے‬
‫کافی دیر تک میں اس کی پھدی‬ ‫۔۔اس طرح میں‬
‫۔۔۔ پھر جیسے ہی‬ ‫ہاتھ پھیرتا رہا‬ ‫پر اپنا‬
‫میں نے اپنی ایک نگلی اس کی چوت کے اندر ڈالنے‬
‫کی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ۔۔۔اس نے میرا ہاتھ پکڑ‬
‫پیچھے کر دیا۔۔۔۔۔اور مجھے ایسا کرنے سے‬ ‫کر‬
‫منع کر دیا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ گیلری کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔میرے ساتھ چارپائی پر‬
‫ہوئے بھی‬ ‫چارپائی پر بیٹھتے‬ ‫بیٹھ گئی۔۔۔۔۔ ۔۔۔‬
‫شلوار میں بنے‬ ‫میری‬ ‫اس کی نظریں‬
‫ٹینٹ پر ہی لگی ہوئیں تھیں ۔۔اس کو اپنے لن‬
‫کی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر ۔۔۔۔۔ میں نے اس‬
‫سے پوچھا۔۔۔۔اس کو ننگا دیکھو گی؟۔۔۔ میری بات‬
‫سن کر اس نے ایک بار پھر ۔۔گیلری کی طرف‬
‫دیکھا۔۔۔۔۔اور لن پر نظریں جما کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہاری‬
‫مرضی۔۔۔۔ لوہا ۔۔گرم دیکھ کر میں نے اپنی‬
‫ناال کھوال اور لن کو باہر نکال کر‬ ‫شلوار کا‬
‫عذرا کو اس کا درشن کروا دیا ۔۔۔‬

‫موٹا اور لمبا لن دیکھ کر اس کا چہرہ‬ ‫میرا‬


‫میرے کہنے پر اس‬ ‫شرم سے گلنار ہو گیا تا ہم‬
‫نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔اور‬
‫بولی۔۔۔ یہ تو بہت گرم ہے۔۔ تو میں نے اس کی‬
‫شلوار کے اوپر سے اس کی رانوں پر ہاتھ‬
‫رکھا اور بوال۔۔۔ تمھاری یہ بھی تو بہت گرم ہے۔۔۔تو‬
‫وہ شرما کر بولی۔۔۔ یہ کہاں گرم تھی یہ تو تم‬
‫نے اسے گرم کیا ہے۔۔۔۔ تو میں نے اس کو کہا‬
‫اگر میں نے اس کو گرم کیا تھا تو میں اس کو‬
‫ہوں ۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی‬ ‫ٹھنڈ ا بھی کر دیتا‬
‫اس کی شلوار کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔۔تو وہ کہنے‬
‫ہی ٹھنڈی ہو جائے‬ ‫لگی۔۔۔۔ نہیں نہیں یہ خود‬
‫گی تو میں نے اس ۔۔۔کی طرف دیکھ کر بڑے ہی‬
‫پیار سے کہا ۔۔۔ کرنے دو نا جان ۔۔۔ اب‬
‫پیچھے رہ ہی کیا گیا ہے؟ ۔۔۔۔تو وہ بولی نہیں‬
‫ایسے ہی ٹھیک ہے لیکن ابھی بھی اس کی‬
‫ہوئیں‬ ‫نظریں میرے لن پر ہی جمی‬ ‫بھوکی‬
‫تھیں ۔۔۔ تب میں نے اس کو کہا کہ عذرا میرا یہ‬
‫پہلے تو وہ ُچپ رہی پھر‬ ‫تو‬ ‫کیسا ہے؟؟‬
‫بار بار پوچھنے پر کہنے لگی ۔۔ ایک‬ ‫میرے‬
‫دم۔۔فسٹ کالس ہے تو میں نے اس سے کہا کہ اس‬
‫دو۔۔۔ میری بات سن‬ ‫کے منہ پر ایک چومی تو‬
‫کر اس نے صاف انکار کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ ۔۔۔ نہیں‬
‫کام ہے میں کبھی بھی‬ ‫جان یہ بڑا گندا‬
‫میں نے‬ ‫تمہارے اس کو سک نہیں کروں گی تو‬
‫کا ‪suck‬اس سے پوچھا کیا تم کو سک) (‬
‫ترچھی نظروں سے‬ ‫وہ‬ ‫اس پر‬ ‫پتہ ہے؟‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔کیا مطلب ۔۔۔؟؟؟‬
‫کوئی۔۔۔ دودھ پیتی‬ ‫تمھارا کیا خیال ہے میں‬
‫ہوں جو مجھے کچھ بھی معلوم نہیں ہو‬ ‫بچی‬
‫تم‬ ‫گا؟ اس کے بعد کہنے لگی۔۔۔ ۔ مسٹر شاید‬
‫میں پڑھتی‬ ‫وقارالنساء کالج‬ ‫کو پتہ نہیں کہ میں‬
‫کی شہرت سے تم‬ ‫ہوں ۔۔۔ اور وقارالنساء کالج‬
‫اچھی طرح سے واقف ہو۔۔۔پھر میری طرف دیکھ‬
‫کر مستی میں بولی ۔۔ مجھے سب پتہ ہے۔۔۔۔اور‬
‫تم بھی کان کھول کر سن لو میں سب کچھ کر لوں گی‬
‫۔۔۔ پر میں کبھی بھی تمہارا ۔۔۔۔یہ۔۔۔ سک نہیں کروں گی‬
‫۔اس کے عالوہ جو کہو گے کروں گی۔۔ اس پر میں‬
‫سے کہا لیکن یار مجھے منہ میں‬ ‫نے اس‬
‫ڈالوانا بہت پسند ہے۔۔۔ تو وہ سخت نظروں سے‬
‫میری طرف دیک‬

‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_نمبر_‪04‬‬
‫باز آ جاؤ شاہ ۔۔۔اور بلیو مویز دیکھنا کم کر دو۔۔۔۔۔‬
‫میں پاکستانی لڑکی ہوں کوئی گوری نہیں۔۔۔۔۔۔تو‬
‫میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے مزاق میں کہا‬
‫۔۔۔۔ یو نو ۔۔۔آج کل تو پاکستانی لڑکیاں بھی منہ میں‬
‫ڈالنا شروع ہو گئیں ہیں۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔‬
‫مجھے پتہ ہے اور تمہاری اطالع کے لیئے عرض‬
‫یہ‬ ‫ہے کہ ہمارے کالج کی کچھ لڑکیا ں بھی‬
‫کام کرتی ہیں ۔۔۔۔لیکن میں ایسا ہر گز نہیں کروں‬
‫طرف سے مایوس ہو کر‬ ‫اس‬ ‫گی۔۔۔چنانچہ‬
‫میں نے اس سے کہا کہ اچھا ا گر تم مجھے‬
‫اپنی‬ ‫منہ میں نہیں ڈالنے دو گی ۔۔۔ تو پھر‬
‫ہاتھ ڈالنے دو ناں۔۔۔۔۔۔۔ میری‬ ‫شلوار میں تو‬
‫بات سن کر اس نے کچھ دیر سوچا پھر۔اُٹھ کر‬
‫ایک نظر امجد لوگوں کی طرف دیکھا اور پھر وہاں‬
‫سے مطمئن ہو کر اس نے دوبارہ۔۔ میری طرف‬
‫دیکھا ۔۔۔۔اور عجیب سے لہجے میں بولی۔۔۔یو بلیک‬
‫میلر۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنی دونوں‬
‫۔۔۔۔اور خود‬ ‫ٹانگوں کو کھول کر کھڑی ہوگئی‬
‫اپنی آنکھیں بند کر کےبولی۔۔۔ اب خوش۔۔ ۔۔۔ یہ دیکھ‬
‫ہوئے‬ ‫کر اور میں نے اس کی طرف دیکھتے‬
‫آگے بڑھا دیا۔۔۔س نے االسٹک‬ ‫اپنے ہاتھ کو‬
‫پہنا ہوا تھا ۔۔۔ چنانچہ میں نے بڑے آرام سے‬
‫اس کی شلوار میں ہاتھ ڈال دیا ۔۔واؤؤ۔ عذرا کی‬
‫پھدی کافی موٹی اور ابھری ہوئی تھی۔ اور اسوقت‬
‫بہت گیلی ہو رہی تھی۔۔۔۔۔ میں نے اپنی انگلیوں سے‬
‫اسے چھو کر دیکھا تو میری انگلیاں اس کی نرم‬
‫نرم ۔۔۔اور بہت ہی گرم پھدی میں کُھب سی گئیں‬
‫میری انگلیوں نے اس کی پھدی کے اوپر ہلکے‬
‫ہلکے بالوں کو بھی محسوس کیا پھر میں اپنی‬
‫انگلیوں کو تھوڑا نیچے لے گیا۔۔پانی اس کی پھدی‬
‫سے نکل کر نیچے کی طرف بہہ رہا تھا۔۔۔۔ اس کی‬
‫میں نے‬ ‫چوت کا گیال پن ۔۔۔۔محسوس کرتے ہوئے‬
‫پھدی‬ ‫انگلیوں سے اس کی ابھری ہوئی‬ ‫اپنی‬
‫کو ٹٹول کر دیکھا تو اس کی چوت کے دونوں‬
‫لب آپس میں ملے ہوئے تھے ۔اور ان لبوں کے‬
‫سے ۔۔ چوت کا لیس دار پانی‬ ‫درمیان والی لکیر‬
‫بہہ رہا تھا ۔۔مجموعی طور پر اس کی پھدی بہت‬
‫گیلی اور تپی ہوئی تھی۔۔۔ میں نے اس پر ہاتھ‬
‫پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔ تم میرے اس کو گرم کہہ رہی تھی‬
‫۔۔۔ لیکن خود تمہاری ۔۔۔۔یہ تو تندور بنی ہوئی‬
‫ہے۔۔۔اور پھر اس کے ساتھ ہی میں نے اس کے‬
‫پھولے ہوئے دانے کو رگڑنا شروع کر دیا۔جیسے‬
‫ہی میں نے اس کے دانے کی رگڑائی شروع‬
‫کی اس نے مست ہو کر اپنی آنکھیں کھولیں اور‬
‫آہ بھری ۔۔۔‬ ‫میری طرف دیکھ کر ایک شہوت بھری‬
‫اس وقت اس کی آنکھوں میں بہت زیادہ شہوت اُمنڈ‬
‫رہی تھی۔۔ ادھر اس کے دانے کی رگڑائی سے ۔۔ میری‬
‫انگلیاں اس کی چوت کے پانی سے گیلی ہو رہیں‬
‫تھیں لیکن میں نے اپنی رگڑائی جاری رکھی۔ادھر‬
‫عذرا میرے اس عمل سے پہلے ہی ہلکی ہلکی‬
‫لیکن ۔۔۔ دل کش سسکیاں لے رہی تھی۔۔اور پھر جب‬
‫میں نے اس کی چوت کی رگڑائی تیز کر دی۔۔ تو ۔۔‬
‫کچھ ہی دیر بعد وہ گہرے گہرے سانس لینے‬
‫لگی۔۔۔اور پھر اچانک ہی اس نے اپنی پھدی پر‬
‫رکھے میرے ہاتھ کو پکڑ لیا اور ۔۔۔ میری‬
‫طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ لو یو جان۔۔۔ پھر‬
‫گہری گہری سانسوں میں اس نے خود ہی‬
‫رگڑنا‬ ‫ہاتھ کو پکڑ کر‬ ‫میرے پھدی پر دھرے‬
‫کے بعد‬ ‫شروع کر دیا ۔۔اور پھر ۔۔چند ہی سکینڈ‬
‫۔۔عذرا کا جسم ایک دم اکڑا۔۔۔۔۔۔اور اس نے‬
‫لینے شروع کر دیئے۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ عذرا چھوٹ‬ ‫جھٹکے‬
‫کی‬ ‫رہی تھی ۔اور اس کے چھوٹنے سے ۔۔۔۔۔اس‬
‫لیس دار پانی سے میرا‬ ‫چوت سے نکلنے والے‬
‫ہاتھ بھر گیا۔۔۔۔۔ اس پر میں نے اس سے بڑی حسرت‬
‫سے کہا ۔۔ کیا ہی اچھا ہوتا ۔۔اگر انگلیوں کی‬
‫جگہ میرا ۔۔۔۔ یہ ۔موٹا تازہ لن ۔تمہاری اس شاندار‬
‫پر رگڑ کھاتا ۔۔۔تو چڑھے ہوئے سانسوں‬ ‫چوت‬
‫میری‬ ‫کے بیچ وہ کہنے لگی ۔۔۔ایسے نہ کہو‬
‫جان۔۔۔ میں تم کو بھی مزہ دوں گی ۔۔۔ پھر اس نے‬
‫میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔اور ُمٹھ‬
‫مارنے لگی۔۔۔ اس پر میں نے کہا ۔۔۔ نہیں ہاتھ سے‬
‫نہیں۔۔۔۔ مجھے اپنے لن کو وہاں رگڑنے دو۔۔۔ میری‬
‫بات سن کر اس نے کچھ دیر سوچا ۔۔۔۔ پھر فیصلہ کن‬
‫انداز میں کہنے لگی ۔ٹھیک ہے کل ہم ایسا ہی کریں‬
‫گے۔۔ پھر بولی۔۔۔ سنو کل یہ دونوں نہیں ہوں گے ۔۔تم‬
‫نے بھی ایسا ظاہر کرنا ہے کہ تم بھی کل نہیں‬
‫آؤ گے ۔۔۔ لیکن تم نے آنا ہے۔۔۔اور کل میں تمہارے‬
‫ساتھ ملوں گی ۔۔۔۔۔۔ لیکن میری ایک شرط ہو گی ۔۔۔۔تو‬
‫میں نے اس سے پوچھا کہ کون سی شرط تو وہ کہنے‬
‫لگی۔۔۔مین تمہارے ساتھ سب کروں گی۔۔۔۔ لیکن تم‬
‫نے اپنے اس کو ۔۔۔ میرے اندر نہیں ڈالنا ہو‬
‫میں تم کو اوپر اوپر سے ہی کرنے‬ ‫گا۔۔۔۔۔۔۔میں‬
‫دوں گی۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے آنکھیں‬
‫نکال کر بولی ۔۔۔ بات سمجھ میں آئی ۔۔۔تم نے جسٹ‬
‫مجھے اوپر اوپر سے کرنا ہو گا۔۔۔ اس کی بات‬
‫سن کر میں نے اثبات میں سر ہال دیا اور پھر اس‬
‫سے پوچھا کل انہوں نے کیوں نہیں آنا ؟ تو وہ‬
‫فیملی میں‬ ‫کہنے لگی اصل میں کل نبیلہ کی‬
‫کوئی فنگشن ہے جہاں پر اس کا جانا بہت‬
‫ضروری ہے۔۔ اتنا کہہ کر اس نے میری طرف دیکھا‬
‫اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ سنو۔۔۔ اس بات کا اپنے دوست‬
‫کہا وہ‬ ‫سے تزکرہ نہ کرنا ۔۔تو میں نے اس سے‬
‫کیوں ؟؟؟؟؟؟؟ تو وہ کندھے اچکا کر بولی۔۔۔۔۔۔‬
‫بس ایویں ہی ۔۔۔پروگرام طے کر نے کے بعد ۔۔۔ پھر‬
‫ہم دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔وہ اگال‬
‫دن میں نے کس طرح گزارا ۔۔یہ میں ہی جانتا ہوں‬
‫۔۔دن تو کسی نہ گزر گیا لیکن شام کے بعد واال‬
‫ٹائم گزر ہی نہیں رہا تھا ۔۔آخر مر مر کے وہ ٹائم‬
‫بھی گزرگیا۔۔۔ اور میں عذرا کی طرف۔۔۔ جانے کے‬
‫لیئے تیار ہو گیا۔۔وہ رات بڑی کالی تھی ۔۔ اور‬
‫اس کالی رات میں عذرا کے گھر کی طرف جاتے‬
‫میرا دل کیوں بار بار‬ ‫ہوئے پتہ نہیں کیوں‬
‫دھک دھک کر رہا تھا ۔۔۔ اس کے باوجود کہ اس قسم‬
‫کی میری یہ پہلی واردات نہ تھی پھر بھی میرے‬
‫من میں ایک عجیب سی بے چینی نے ڈیرے ڈالے‬
‫ہوئے تھے۔۔۔ خیر میں نے ان وسواس کی‬
‫نہ کرتے ہوئے عذرا کے گھر کی دیوار‬ ‫پرواہ‬
‫پھالنگی ۔۔۔اور بڑی آہستگی سے نیچے کودا۔۔۔‬
‫رات کالی ہونے کی وجہ سے کچھ سجھائی‬
‫نہیں دے رہا تھا ۔۔۔ اور میں اندھیرے میں‬
‫آنکھیں پھاڑ پھاڑ کے ادھر ادھر دیکھ رہا‬
‫مجھے کہیں بھی نظر نہ آرہی‬ ‫تھا۔۔۔۔لیکن عذرا‬
‫تھی۔۔ ۔۔ چنانچہ میں دبے پاؤں چلتا ہوا ۔۔۔ اس‬
‫ٹوٹی ہوئی چارپائی کی طرف گیا کہ جہاں پر روز‬
‫چارپائی‬ ‫ہم دونوں بیٹھا کرتے تھے۔۔۔ لیکن وہ‬
‫بھی خالی پڑی تھی۔۔۔ پھر میں نے ایک چکر‬
‫اس تنگ گلی‬ ‫عذرا کے گھر کی پچھلے بنی‬
‫کا لگایا جہاں امجد اور نبیلہ بیٹھا‬ ‫یا گیلری‬
‫کرتے تھے لیکن بے سود۔۔۔۔۔۔۔عذرا کا پوار بیک‬
‫یارڈ سائیں سائیں ۔۔۔کر رہا تھا۔یہ دیکھ کر ۔۔ میں ڈر‬
‫ہو‬ ‫سا گیا ۔۔۔اور یہ سوچ سوچ کر پریشان‬
‫نے لگا ۔۔ ۔۔۔کہ پتہ نہیں عذرا کہاں رہ گئی ؟‬
‫خیر ہو سہی ۔۔۔ ہر طرف سناٹے اور ہُو کا عالم‬
‫تھا۔۔۔ ۔۔۔۔ میں نے ایک بار پھر آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر‬
‫ادھر ادھر دیکھا۔۔۔۔ کہیں کچھ دکھائی نہ دیا۔۔۔‬
‫چنانچہ اب مجھے اس سناٹے سے وحشت‬
‫سی ہونے لگی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی‬
‫ایک انجانا سا خوف میرے سر پر سوار ہو نے‬
‫لگا اور پتہ نہیں کیوں ۔۔۔مجھے خطرے کا‬
‫احساس ہونے لگا۔۔۔۔ اور پھر اسی خوف کے عالم‬
‫میں پتہ نہیں کیوں مجھے شیدے کی یاد آ گئی۔۔۔‬
‫نہیں چل گیا؟؟؟۔۔۔ کہیں نہ‬ ‫کہیں اس کو پتہ تو‬
‫کہیں کوئی گڑ بڑ ضرور تھی جو عذرا نہیں آئی‬
‫تھی۔۔۔پر گڑبڑ کیا تھی؟؟ ۔۔۔ میری سمجھ میں نہیں آ‬
‫رہا تھا۔۔۔ کہیں عذرا کے گھر والوں کو۔۔۔۔۔ اتنا خیال‬
‫ہڈی میں‬ ‫آنے کی دیر تھی کہ میری ریڑھ کی‬
‫ایک سنسناہٹ سی دوڑ گئی اور میرا ماتھا‬
‫بھیگ گیا۔۔۔ ڈر اور ایک انجانے‬ ‫پسینے سے‬
‫میں ۔۔۔۔ میں نے ادھر ادھر دیکھا‬ ‫خوف کے عالم‬
‫اور پھر دل ہی دل میں طے کر لیا کہ اس پہلے‬
‫کچھ ہو جائے ۔۔۔ یہاں سے نکال جائے۔۔۔۔۔۔‬ ‫کہ‬
‫بو کو‬
‫خطرے کی ُ‬ ‫کہ میری چھٹی حس مسلسل‬
‫میں عذرا‬ ‫سوچ کر‬ ‫سونگھ رہی تھی۔۔ یہ‬
‫کے گھر کی چار دیواری کی طرف گیا اور دیوار‬
‫سے پہلے ۔۔۔۔ایک دفعہ پھر‬ ‫ہاتھ رکھنے‬ ‫پر‬
‫بڑی گہری نظروں سے اس کے بیک یارڈ پر نظر‬
‫دوڑائی ۔۔۔۔۔ کچھ نظر نہ آیا ۔۔۔ چنانچہ میں نے‬
‫مایوس ہو کر دیوار پر ہاتھ رکھا اور ۔۔۔ابھی میں‬
‫پھالنگنے ہی لگا تھا ۔۔۔ کہ‬ ‫ان کی دیوار کو‬
‫اچانک دھریک کے درخت کی اوٹ سے مجھ پر‬
‫ایک سائے نے چھالنگ لگائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ جمپ‬
‫لگا کر۔۔۔۔۔۔بڑی پھرتی کے ساتھ۔۔۔۔ میری دونوں‬
‫نیچے‬ ‫ٹانگوں کے ساتھ لپٹ گیا۔۔میں نے بدک کر‬
‫میرا دل اچھل‬ ‫زمیں کی طرف دیکھا ۔۔ ۔۔۔۔اور‬
‫کر حلق میں آ گیا ۔۔۔۔ میری ریڑھ کی ہڈی میں‬
‫گئی۔۔۔ اور عذرا کی‬ ‫ایک سنسناہٹ سی پھیل‬
‫دیوار پر رکھے ہوئے میرے دونوں ہاتھ شل‬
‫مجھ میں جان ختم‬ ‫کے باعث‬ ‫ہو گئے ۔۔۔ خوف‬
‫ہونے لگی۔۔۔ اور میں یہ سوچنے لگا کہ اب کیا‬
‫کروں؟؟؟۔۔۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ۔۔۔۔‬
‫اس سائے نے میری دونوں ٹانگوں پر اپنی‬
‫گرفت مضبوط کی اور۔۔۔۔ مجھے ۔۔۔۔۔۔۔ نیچے کی‬
‫طرف کھینچنا شروع کر دیا۔۔۔مجھ پر ایک ایسی‬
‫افتاد آن پڑی تھی کہ جس کی وجہ سے میری‬
‫سمجھ میں یہ نہیں آ رہا تھا کہ میں اس نا‬
‫سے اپنی جان کو کیسے چھڑاؤں ؟ ۔۔۔ پر‬ ‫گہانی‬
‫جان چھڑاتا کیسے؟؟؟؟؟۔۔۔۔کہ انجانے خوف کی‬
‫وجہ سے میرے ہاتھ پاؤں شل ہو رہے‬
‫تھے۔اور ٹانگوں میں بھی جان ختم ہوتی نظر آ رہی‬
‫تھی ۔لیکن پھر بھی میں نے اپنے اندر کی تمام‬
‫پھر سے‬ ‫ہمت کو جمع کیا اور ۔۔۔اور ایک بار‬
‫دیوار پھالنگنے کی کوشش کی لیکن ۔۔۔ ۔۔ بے‬
‫بھی‬ ‫سایہ‬ ‫سود۔۔۔ کیونکہ دوسری طرف وہ‬
‫کسی جونک کی طرح مجھ سے چمٹا ہوا تھا‬
‫۔جس کی وجہ سے میری دیوار پھالنگنے کی‬
‫ہو رہی‬ ‫کوشش مسلسل ناکامی سے ہم کنار‬
‫تھی یہ وہ وقت تھا کہ جب میری ساری‬
‫دلیری اور چاالکی ہوا ہو چکی تھی ۔۔اور میں‬
‫اس مصیبت کے آگے ۔۔۔ بے بسی کی تصویر بنا‬
‫لٹکا ہوا‬ ‫عذرا کے گھر کی دیوار کے ساتھ‬
‫تھا ۔۔ ۔ ۔۔۔۔ جب اس سائے نے محسوس کر لیا‬
‫میں اس کے آگے پوری طرح سے‬ ‫کہ اب‬
‫بے بس ہو گیا ہوں ۔۔تو اس نے فائینل راؤنڈ‬
‫کھیلنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ اب‬
‫مجھے‬ ‫نے اپنی پوری طاقت لگا کر‬ ‫اس‬
‫نیچے کی طرف جھٹکا دیا ۔ادھر چونکہ میں‬
‫سہی اس حملے کے لیئے تیار تھا اور‬ ‫پہلے‬
‫اس لیئے جیسے تیسے میں نے اس کا یہ حملہ‬
‫ناکام بنا دیا ۔۔ اور کسی نہ کسی طرح دیوار کے ساتھ‬
‫لٹکا رہا۔۔۔۔۔۔اپنے حملے کو ناکام ہوتے دیکھ کر ۔۔۔۔‬
‫اس سائے پر غضب طاری ہو گیا اور اس نے‬
‫کھینچنے کے لیئے جنونیوں کی‬ ‫مجھے نیچے‬
‫طرح جھٹکے پہ جھٹکے مارنے شروع کر‬
‫دیئے۔۔کچھ دیر تک تو میں نے اس کے جھٹکوں کر‬
‫برداشت کرتا رہا لیکن کب تک؟ ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اس لیئے‬
‫میں اس کے جھٹکوں کی زیادہ دیر تک مزاحمت‬
‫جب اس نے اپنی پوری‬ ‫نہ کر سکا ۔۔۔ چنانچہ‬
‫طاقت لگا کر مجھے اپنی طرف کھینچا تو اس‬
‫کے یوں کھینچنے کی وجہ سے باآلخر میں ۔۔۔‬
‫مردہ چھپکلی کی طرح دھڑام سے نیچے جا گرا‬
‫۔۔ جیسے ہی میں نیچے گرا وہ سایہ ۔۔۔۔ کُود کر‬
‫میری چھاتی پر سوار ہو گیا ۔۔۔اور میرے اوپر‬
‫مجھ پر تھپڑوں کی بارش‬ ‫ہی وہ‬ ‫چڑھتے‬
‫کرتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔ اوہ سوری۔۔۔بوال نہیں بلکہ۔۔۔‬
‫بولی۔۔۔ (جب وہ سایہ میرے اوپر سوار ہوا تو‬
‫اندازہ ہو گیا تھا‬ ‫مجھے اس وقت اس بات کا‬
‫کہ مجھ پر سوار ہونے والی شخصیت ۔۔۔کوئی مرد‬
‫نہیں بلکہ ایک خاتون کی ہے) جو اس وقت‬
‫مجھے تھپڑ مارنے کی‬ ‫میری چھاتی پر سوار‬
‫گرتے ہی‬ ‫لیکن چونکہ‬ ‫کوشش کر رہی تھی‬
‫میں نے اضطرابی طور پر اپنے دونوں ہاتھ منہ‬
‫کوشش کے‬ ‫پر رکھ لیئے تھے اس لیئے‬
‫باوجود ۔۔۔ اس کا ایک بھی تھپڑ میرے منہ پر نہ‬
‫لگ سکا تھا۔۔لیکن پھر بھی وہ مجھے تھپڑ‬
‫مارتی رہی ۔۔۔ اور تھپڑ مارنے کے ساتھ ساتھ‬
‫اس کے منہ سے گندی گالیا ں بھی نکل رہیں تھیں‬
‫اور وہ کہہ رہی تھی حرام کے پلے ۔مادر چود ۔ ۔‬
‫میں تم کو چھوڑوں گی نہیں ۔تم کیا میرے گھر میں‬
‫زنا کرنے آئے تھے؟ ۔۔ ۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر‬
‫میں نے پہلی دفعہ اپنا منہ کھوال اور کہنے لگا‬
‫ایسی کوئی بات نہیں ہے جی۔۔ میں تو۔بس۔۔ یہاں آ‬
‫کر میں ُرک گیا ۔۔۔ اور پھر سوچنے لگا ۔۔۔ کہ اس‬
‫سے کیا بہانہ لگاؤں کہ میں یہاں کیا کرنے آیا‬
‫تھا ؟ ۔۔فوری طور پر مجھے کوئی جواب نہیں‬
‫سوجھ رہا تھا ۔۔۔ مجھے ُچپ دیکھ کر اس نے ایک‬
‫بار پھر سے مجھے تھپڑ مارنے کی کوشش کرتے‬
‫حرامی ۔۔۔کہ‬ ‫ہوئے جارحانہ لہجے میں کہا ۔۔۔ بول‬
‫تو یہاں کیا کرنے آیا تھا ؟ نمازیں پڑھنے آیا‬
‫تھا ؟۔یا اپنی اس یار سے ملنے آیا تھا؟؟ ۔اس کی‬
‫بات سن کر میں پھر سے منمناتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔آپ غلط سمجھ رہیں ہیں جی۔۔۔۔ میرا یہ کہنا‬
‫تھا کہ وہ خون خوار لہجے میں بولی ۔۔جھوٹ‬
‫بولنے کا کوئی فائدہ نہیں مسٹر ۔۔۔ تمھاری یار‬
‫نے میرے سامنے سب کچھ بَک دیا ہے اس کی‬
‫بات سن کر میں نے حیران ہونے کی کی ایکٹنگ‬
‫میری‬ ‫کرتے ہوئے کہا۔۔۔ کیسی یار جی۔۔؟؟؟؟؟؟‬
‫کوئی یار۔۔ شار نہیں ہے۔۔۔ تو وہ کہنے‬
‫لگی۔۔۔ٹھیک ہے اگر تم اپنی یار سے ملنے نہیں‬
‫آئے تو پھر یقینا ً تم ہمارے گھر میں چوری‬
‫کرنے آئے ہو گے ۔۔ تب تو مجھے پولیس کو‬
‫فون کرنا پڑے گا ۔۔۔‬

‫پولیس کا نام سن کر میرے تو فرشتے بھی‬


‫کوچ کر گئے اور میں تقریبا ً روتے ہوئے اس‬
‫سے بوال۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ کی قسم ۔۔۔میں چور نہیں ہوں‬
‫جی۔۔۔۔۔ اور نہ ہی میں۔۔۔۔۔۔۔ آپ کے گھر چوری‬
‫کرنے آیا تھا۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی چلو مان لیا کہ‬
‫تم میرے گھر چوری کرنے نہیں آئے تھے ۔۔۔ تو‬
‫پھر یہ بتاؤ۔۔کہ آدھی رات کو تم ۔۔۔۔ یہاں پر کیا‬
‫بات‬ ‫کی یہ‬ ‫لینے آئے تھے ؟؟۔۔اس خاتون‬
‫سن کر میں ہکا بکا رہ گیا ۔ اور اس کا میں کیا‬
‫میں نے‬ ‫جواب دیتا کہ اس بارے میں تو‬
‫سوچا بھی نہ تھا ۔۔۔ اب میں بری طرح پھنس چکا‬
‫تھا اور فوری طور پر مجھے کچھ سمجھ میں‬
‫نہیں آ رہا تھا کہ میں اس کی بات کا کیا جواب دوں‬
‫؟؟؟؟؟ اس لیئے ۔۔۔۔ تھوڑا ٹائم لینے کے لیئے‬
‫مجھے ایک آئیڈیا سوجھا اور میں نے اس خاتون‬
‫سے بڑی لجاجت سے کہا۔۔۔ بتا تا ہوں بتاتا ہوں‬
‫۔۔۔ پر پہلے آپ میرے اوپر سے تو ہٹیں نا۔۔۔‬
‫میری بات سن کر وہ ُ‬
‫غرا کر بولی ۔۔۔۔ایسے ہی‬
‫بتانے سے تمہیں کیا موت پڑتی ہے؟ اس کی‬
‫بات سن کر میں نے بڑی بے بسی سے کہا ۔۔۔‬
‫بیٹھنے سے میرا دم ُگھٹ‬ ‫آپ کے اس طرح‬
‫رہا ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے‬
‫مصنوعی کھانسی کر کے ایسے شو کیا کہ جیسے‬
‫میرا سانس بند رہا ہو ۔۔ میری اس‬ ‫واقعی‬
‫ایکٹنگ سے وہ میرے جھانسے میں آ گئی اور‬
‫میری طرف دیکھ کر بڑے سخت لہجے میں بولی‬
‫۔۔ٹھیک ہے میں تمھارے اوپر سے اُٹھ جاتی‬
‫ہوں لیکن یہ بات اچھی طرح جان لو کہ اگر تم‬
‫نے کوئی چاالکی دکھانے کی کوشش کی تو‬
‫ہو سکتا ہے کہ تم تو بچ جاؤ ۔۔۔ لیکن اندر بیٹھی‬
‫تمہاری معشوقہ بے موت ماری جائے گی۔۔۔ اور‬
‫اس کے ساتھ ہی وہ میرے اوپر سے اُٹھ گئی‬
‫اور پھر دونوں ہاتھ اپنی کمر پر رکھ کر‬
‫میرے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔اندھیرا ہونے کی‬
‫وہ مجھے ٹھیک سے تو دکھائی‬ ‫وجہ سے‬
‫نہیں دے رہی تھی۔ ۔۔لیکن پھر بھی غور کرنے پر‬
‫جان سکا کہ وہ ایک درمیانہ‬ ‫میں صرف اتنا‬
‫عورت تھی ۔۔ جس نے‬ ‫قد کی متناسب جسم والی‬
‫اس وقت کالے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا ۔۔ اور‬
‫اسی رنگ کی چادر بھی اوڑھ رکھی تھی ۔۔۔شاید‬
‫اسی لیئے میری اس پر نظر نہ پڑ سکی تھی کہ‬
‫۔ایک تو رات اندھیری تھی اور ۔۔۔۔۔ اوپر سے اس‬
‫نے کاال سوٹ بھی پہنا ہوا تھا۔۔۔اور میں اسے‬
‫دیکھ کر یہ سوچ رہا تھا کہ آخر یہ خاتون ہے‬
‫کون؟ پھر مجھے خیال آیا کہ یہ عذرا کی امی ہو‬
‫گی ۔۔۔ لیکن پھر یاد آیا کہ عذرا کی امی تو اکثر‬
‫بیمار رہتی تھی۔۔۔۔ اور مجھے پکڑنے میں جتنی‬
‫پھرتی اس خاتون نے دکھائی تھی اتنی پھرتی‬
‫ایک بیمار خاتون کبھی بھی نہیں دکھا سکتی‬
‫تھی ۔۔۔۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۔۔۔آخر‬
‫کون ہے ۔۔۔ ؟ جو بڑے دھڑلے سے‬ ‫یہ خاتون‬
‫مجھے کہہ رہی تھی کہ تم میرے گھر میں‬
‫زنا کرنے آئے ہو۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے‬
‫ایک بار پھر اس خاتون کی جسامت پر غور کیا‬
‫پھر اچانک ہی میرے ذہن میں خیال‬ ‫۔۔۔۔ اور‬
‫آیا کہ ہو نہ ہو ۔۔۔۔ یہ عذرا کی بھابھی ہی ہو گی‬
‫ایک دفعہ عذرا نے میرے ساتھ اس کا ذکر کیا‬
‫تھا کہ جب میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے‬
‫گھر میں کون کون رہتا ہے تو اس نے بتال یا تھا‬
‫کہ اس کی امی ابو اور بھائی بھابھی ہوتے ہیں ۔۔۔‬
‫بھائی شادی کے بعد ان لوگوں‬ ‫جبکہ باقی دو‬
‫سے الگ ہو گئے تھے ۔۔ ابھی میں اسی شش و‬
‫پنج میں تھا کہ اچانک میرے کانوں میں اسی‬
‫خاتون کی کرخت آواز گونجی وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔‬
‫جلدی بکو۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس‬
‫خود کو مزید خوف ذدہ شو کیا اور‬ ‫کے سامنے‬
‫اس سے بوال ۔۔۔ لیکن ۔۔۔لیکن ۔۔۔آپ کون ہیں جی؟‬
‫میرے خیال میں وہ میرے منہ سے اسی سوال‬
‫کی توقع کر رہی تھی ۔۔۔چنانچہ جیسے ہی میں نے‬
‫اس سے یہ پوچھا کہ آپ کون ہو تو۔ وہ غراتے‬
‫ہوئے کہنے لگی ۔۔ میں تیری یار کی بھابھی ہوں‬
‫مجھے‬ ‫۔۔۔ پھر وہ میرے مزید قریب آئی اور‬
‫بولی۔۔۔۔۔۔ اور‬ ‫گریبان سے پکڑ کر غصے میں‬
‫تمہاری اطالع کے لیئے یہ بھی بتا دوں کہ میں‬
‫تمہاری یار کی ہونے والی نند بھی ہوں ۔۔۔ اس کی‬
‫میری تو جان ہی نکل گئی اور‬ ‫یہ بات سن کر‬
‫میں نے (بظاہر ) شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے‬
‫نیچے کی طرف کیا ۔۔۔۔۔۔اور پھر‬ ‫اپنے منہ کو‬
‫کچھ دیر بعد اس کو صفائی دیتے ہوئے بوال ۔۔۔‬
‫لیکن میں تو آپ کی نند کو جانتا تک نہیں کہ وہ‬
‫کون ہے؟؟۔۔۔ میرا یہ سفید جھوٹ سن کر وہ‬
‫میرے گریبان کو جھٹکا دے کر کہنے لگی ۔۔ تم‬
‫کیا مجھے بے وقوف سمجھتے ہو؟ پھر پتہ نہیں‬
‫اس کے دل میں کیا آیا کہ اس نے مجھے‬
‫گریبان سے پکڑا اور کھینچتے ہوئے بولی ۔۔۔ چل‬
‫میرے ساتھ۔۔ میں تمہیں بتاتی ہوں ۔۔۔ میرے گریبان‬
‫پر اس کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ میں نہ‬
‫وہ‬ ‫چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چل پڑا ۔۔۔‬
‫مجھے گھسیٹے ہوئے اپنے گھر کے چھوٹے گیٹ‬
‫مجھے‬ ‫تک لے گئی اور پھر اسے کھول کر‬
‫ان کے گھر کے‬ ‫اپنے گھر کے اندر لے گئی‬
‫ایک لمبی سی گیلری تھی جس کے‬ ‫اندر‬
‫درمیان ایک گلی سی بنی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ اور‬
‫بڑے سلیقے سے‬ ‫اس گیلری کے آمنے سامنے‬
‫کمرے بنے ہوئے تھے ۔۔۔ اندر داخل ہوتے ہی‬
‫بائیں جانب بنے ہوئے پہلے کمرے‬ ‫وہ مجھے‬
‫میں لے گئی ۔۔۔وہاں گھپ اندھیرا تھا ۔۔ پھر اس‬
‫نے میرا گریبان پکڑے پکڑے ایک ہاتھ سوئچ‬
‫کی طرف بڑھایا اور بٹن دبا دیا ۔۔۔ کچھ ہی‬
‫سیکنڈز میں سارا کمرے ٹیوب الئیٹ کی روشنی‬
‫سے منور ہو گیا۔۔۔ کمرہ روشن ہوتے ہی وہ‬
‫پکڑ کر کمرے میں ایک سائیڈ پر‬ ‫مجھے‬
‫بنی کھڑکی کی طرف لے گئی جس پر ایک دبیز‬
‫تھا ۔۔۔وہاں جا کر اس نے‬ ‫سا پردہ پڑا ہوا‬
‫دبیز پردے پر اپنا ایک ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫اس‬
‫پھر میری طرف دیکھتے ہوئے اس نے ۔۔کھڑکی پر‬
‫پردے کو ہٹا دیا ۔۔۔۔اور کہنے‬ ‫پڑے ہوئے‬
‫لگی۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ادھر آ کے دیکھ۔۔۔اندھیرا ہونے کی‬
‫وہ مجھے ٹھیک سے تو دکھائی‬ ‫وجہ سے‬
‫نہیں دے رہی تھی۔ ۔۔لیکن پھر بھی غور کرنے پر‬
‫جان سکا کہ وہ ایک درمیانہ‬ ‫میں صرف اتنا‬
‫عورت تھی ۔۔ جس نے‬ ‫قد کی متناسب جسم والی‬
‫اس وقت کالے رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا ۔۔ اور‬
‫اسی رنگ کی چادر بھی اوڑھ رکھی تھی ۔۔۔شاید‬
‫اسی لیئے میری اس پر نظر نہ پڑ سکی تھی کہ‬
‫۔ایک تو رات اندھیری تھی اور ۔۔۔۔۔ اوپر سے اس‬
‫نے کاال سوٹ بھی پہنا ہوا تھا۔۔۔اور میں اسے‬
‫دیکھ کر یہ سوچ رہا تھا کہ آخر یہ خاتون ہے‬
‫کون؟ پھر مجھے خیال آیا کہ یہ عذرا کی امی ہو‬
‫گی ۔۔۔ لیکن پھر یاد آیا کہ عذرا کی امی تو اکثر‬
‫بیمار رہتی تھی۔۔۔۔ اور مجھے پکڑنے میں جتنی‬
‫پھرتی اس خاتون نے دکھائی تھی اتنی پھرتی‬
‫ایک بیمار خاتون کبھی بھی نہیں دکھا سکتی‬
‫تھی ۔۔۔۔ تو پھر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ۔۔۔آخر‬
‫کون ہے ۔۔۔ ؟ جو بڑے دھڑلے سے‬ ‫یہ خاتون‬
‫مجھے کہہ رہی تھی کہ تم میرے گھر میں‬
‫زنا کرنے آئے ہو۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے‬
‫ایک بار پھر اس خاتون کی جسامت پر غور کیا‬
‫پھر اچانک ہی میرے ذہن میں خیال‬ ‫۔۔۔۔ اور‬
‫آیا کہ ہو نہ ہو ۔۔۔۔ یہ عذرا کی بھابھی ہی ہو گی‬
‫ایک دفعہ عذرا نے میرے ساتھ اس کا ذکر کیا‬
‫تھا کہ جب میں نے اس سے پوچھا کہ تمہارے‬
‫گھر میں کون کون رہتا ہے تو اس نے بتال یا تھا‬
‫کہ اس کی امی ابو اور بھائی بھابھی ہوتے ہیں ۔۔۔‬
‫بھائی شادی کے بعد ان لوگوں‬ ‫جبکہ باقی دو‬
‫سے الگ ہو گئے تھے ۔۔ ابھی میں اسی شش و‬
‫پنج میں تھا کہ اچانک میرے کانوں میں اسی‬
‫خاتون کی کرخت آواز گونجی وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔‬
‫جلدی بکو۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس‬
‫خود کو مزید خوف ذدہ شو کیا اور‬ ‫کے سامنے‬
‫اس سے بوال ۔۔۔ لیکن ۔۔۔لیکن ۔۔۔آپ کون ہیں جی؟‬
‫میرے خیال میں وہ میرے منہ سے اسی سوال‬
‫کی توقع کر رہی تھی ۔۔۔چنانچہ جیسے ہی میں نے‬
‫اس سے یہ پوچھا کہ آپ کون ہو تو۔ وہ غراتے‬
‫ہوئے کہنے لگی ۔۔ میں تیری یار کی بھابھی ہوں‬
‫مجھے‬ ‫۔۔۔ پھر وہ میرے مزید قریب آئی اور‬
‫بولی۔۔۔۔۔۔ اور‬ ‫گریبان سے پکڑ کر غصے میں‬
‫تمہاری اطالع کے لیئے یہ بھی بتا دوں کہ میں‬
‫تمہاری یار کی ہونے والی نند بھی ہوں ۔۔۔ اس کی‬
‫میری تو جان ہی نکل گئی اور‬ ‫یہ بات سن کر‬
‫میں نے (بظاہر ) شرمندگی کا اظہار کرتے ہوئے‬
‫نیچے کی طرف کیا ۔۔۔۔۔۔اور پھر‬ ‫اپنے منہ کو‬
‫کچھ دیر بعد اس کو صفائی دیتے ہوئے بوال ۔۔۔‬
‫لیکن میں تو آپ کی نند کو جانتا تک نہیں کہ وہ‬
‫کون ہے؟؟۔۔۔ میرا یہ سفید جھوٹ سن کر وہ‬
‫میرے گریبان کو جھٹکا دے کر کہنے لگی ۔۔ تم‬
‫کیا مجھے بے وقوف سمجھتے ہو؟ پھر پتہ نہیں‬
‫اس کے دل میں کیا آیا کہ اس نے مجھے‬
‫گریبان سے پکڑا اور کھینچتے ہوئے بولی ۔۔۔ چل‬
‫میرے ساتھ۔۔ میں تمہیں بتاتی ہوں ۔۔۔ میرے گریبان‬
‫پر اس کی گرفت اتنی مضبوط تھی کہ میں نہ‬
‫وہ‬ ‫چاہتے ہوئے بھی اس کے ساتھ چل پڑا ۔۔۔‬
‫مجھے گھسیٹے ہوئے اپنے گھر کے چھوٹے گیٹ‬
‫مجھے‬ ‫تک لے گئی اور پھر اسے کھول کر‬
‫ان کے گھر کے‬ ‫اپنے گھر کے اندر لے گئی‬
‫ایک لمبی سی گیلری تھی جس کے‬ ‫اندر‬
‫درمیان ایک گلی سی بنی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ اور‬
‫بڑے سلیقے سے‬ ‫اس گیلری کے آمنے سامنے‬
‫کمرے بنے ہوئے تھے ۔۔۔ اندر داخل ہوتے ہی‬
‫بائیں جانب بنے ہوئے پہلے کمرے‬ ‫وہ مجھے‬
‫میں لے گئی ۔۔۔وہاں گھپ اندھیرا تھا ۔۔ پھر اس‬
‫نے میرا گریبان پکڑے پکڑے ایک ہاتھ سوئچ‬
‫کی طرف بڑھایا اور بٹن دبا دیا ۔۔۔ کچھ ہی‬
‫سیکنڈز میں سارا کمرے ٹیوب الئیٹ کی روشنی‬
‫سے منور ہو گیا۔۔۔ کمرہ روشن ہوتے ہی وہ‬
‫پکڑ کر کمرے میں ایک سائیڈ پر‬ ‫مجھے‬
‫بنی کھڑکی کی طرف لے گئی جس پر ایک دبیز‬
‫تھا ۔۔۔وہاں جا کر اس نے‬ ‫سا پردہ پڑا ہوا‬
‫دبیز پردے پر اپنا ایک ہاتھ رکھا ۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫اس‬
‫پھر میری طرف دیکھتے ہوئے اس نے ۔۔کھڑکی پر‬
‫پردے کو ہٹا دیا ۔۔۔۔اور کہنے‬ ‫پڑے ہوئے‬
‫لگی۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ادھر آ کے دیکھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اس کے کہنے پر میں تھوڑا آگے بڑھا ۔۔۔۔اور کھڑکی‬
‫سے باہر جھانک کر دیکھا تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے‬
‫ہاتھوں کیا پاؤں کے بھی طوطے اُڑ گئے اس کی‬
‫پر میں اور‬ ‫چارپائی جس‬ ‫وہ‬ ‫کھڑکی سے‬
‫عذرا بیٹھ کر واردات ڈاال کرتے تھے ۔۔نہ صرف‬
‫وہ چارپائی بلکہ اس کے آس پاس کا سارا‬
‫ماحول یہاں سے بلکل صاف صاف ۔۔۔دکھائی‬
‫دے رہا تھا ۔۔۔ اور میں بڑی بے یقینی سے یہ‬
‫سب دیکھ کر کبھی عذرا کی بھابھی کو ۔۔۔ اور‬
‫کبھی باہر کی طرف دیکھ کر دل ہی دل میں یہ‬
‫بھی سوچ رہا تھا کہ چلو مجھے تو معلوم نہ‬
‫سامنے اس کی‬ ‫تھا کہ اس چارپائی کے عین‬
‫بھابھی کا کمرہ ہے کہ جس کی کھڑکی ۔۔۔عین‬
‫ہمارے اوپر کھلتی ہے ۔۔۔۔لیکن یہ عذرا کو کیا‬
‫محتاط قسم کی لڑکی‬ ‫ہوا۔۔؟؟؟۔۔ وہ تو بڑی ہی‬
‫تھی ۔۔پھر اس نے اس طرف دھیان کیوں نہیں‬
‫دیا؟؟ ۔۔۔اس کے ساتھ ہی میرے ذہن میں ایک‬
‫جدید قسم کا محاورہ گھوم گیا کہ جس کے۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫مطابق عشق اندھا ہوتا ہے ۔۔۔لیکن ہمسائے اندھے‬
‫نہیں ہوتے ۔۔۔۔۔۔ میں انہی سوچوں میں ُگم تھا اور‬
‫عرق ندامت سے بھیگا ہوا تھا۔۔۔۔‬
‫ِ‬ ‫میرا ماتھا‬
‫اور بار بار میرے ذہن میں میں یہی ایک خیال‬
‫گردش کر تا رہا تھا ۔۔۔ کہ کہیں یہ کوئی ٹریپ‬
‫بھابھی کے زریعے عذرا‬ ‫کہیں‬ ‫تو نہیں؟‬
‫تو نہیں چاہتی ؟ لیکن‬ ‫میری محبت کو آزمانا‬
‫پھر تھوڑا غور کرنے پر ٹریپ والی بات میں‬
‫نے خود ہی اپنے ذہن سے جھٹک دی کہ وہ‬
‫ایسا کیوں کرے گی؟؟ ۔ کیونکہ اسے اچھی طرح‬
‫سے معلوم تھا کہ میرا اور اس کا ملنا جسٹ ٹائم‬
‫پاس ہے ۔۔۔ اس کے باوجود بھی اگر وہ مجھے‬
‫آزما رہی ہے تو۔۔۔۔۔۔ پھر میرے زہن میں معا ً یہ‬
‫خیال آیا ۔۔کہ ہو سکتا ہے ۔۔کہ میری محبت کو‬
‫آزمانے کے لیئے اس نے بھابھی کے مل کر یہ‬
‫جزباتی لڑکی سے‬ ‫ڈرامہ کیا ہو کہ اس جیسی‬
‫سب کچھ بعید ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔پھر خیال آیا کہ‬
‫بھال وہ مجھے کیوں آزمائے گی ؟؟ کہ اسے‬
‫میرے اور اپنے تعلق بارے سب پتہ ہے‬
‫؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر ٹریپ والی ُگتُھی کا کوئی سرا نہ پا‬
‫کر میں نے اسے ایک طرف کر دیا ۔۔۔۔ اور سوچنے‬
‫لگا ۔۔۔۔۔ کہ اگر ٹریپ والی بات درست نہیں تو‬
‫پھرررررررررر۔۔۔۔ عذرا جیسی محتاط لڑکی سے اتنی‬
‫زبردست غلطی کیوں ۔۔۔۔۔اور ۔۔۔کیسے ہوگئی؟ میرا‬
‫خیال ہے وہ بھی۔۔۔۔۔۔۔ میرے چہرے پر لکھی اس‬
‫سوچ کو بھانپ گئی تھی ۔۔۔ تبھی اس نے میری‬
‫طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ تم یہی سوچ رہے ہو‬
‫نا کہ۔۔ عذرا نے اس جگہ کو کیسے اگنور کر‬
‫دیا۔؟۔۔ پھر کچھ دیر خاموشی کے بعد خود ہی‬
‫بھی‬ ‫کہنے لگی ۔۔۔ اس میں اس بے چاری کا‬
‫کوئی قصور نہیں ہے ۔۔۔۔۔ اصل میں اپنی طرف‬
‫سے اس نے بڑی چاالکی دکھائی اور عین اس‬
‫ٹائم تم لوگوں کو ملنے کا وقت دیا کہ جس وقت‬
‫میں کچن میں بے حد مصروف ہوتی ہوں‬
‫کیونکہ اسی وقت میرا خاوند اور سسر دونوں کے‬
‫کام سے آنے اور کھانے کا ٹائم ہوتا ہے ۔ اور اس‬
‫اس کی امی کو دوائیاں وغیرہ‬ ‫کے ساتھ ساتھ‬
‫مجھے ہی دینی ہوتیں ہیں ۔۔غرض کہ تم‬ ‫بھی‬
‫لوگوں کے ملنے کے وقت میں ہر طرح سے‬
‫بہت مصروف ہوتی ہوں ۔۔۔ پھر اچانک ہی اس‬
‫نے میری طرف دیکھ کر بڑے ہی خوف ناک‬
‫لہجے میں کہا۔۔۔ لیکن اب دیکھنا کہ میں اِس‬
‫پر۔۔۔۔ کیسے برباد‬ ‫حرام ذدگی‬ ‫گشتی کو اس‬
‫کرتی ہوں ۔۔۔ میں اس حرافہ کو اتنا بدنام کردوں‬
‫گی کہ اس کی نہ صرف یہ کہ ہمارے ہاں سے‬
‫منگنی ٹوٹ جائے گئی بلکہ وہ کسی کو منہ‬
‫دکھانے کے الئق بھی نہیں رہے گی۔۔۔ یہ بات‬
‫اس بھابھی نے کچھ اس انداز میں کہی تھی کہ‬
‫اس کی بات سن کر میرے دل کو ایک دھکا سا‬
‫لگا اور میں یہ سوچ کر خود کو کوسنے لگا۔۔‬
‫بے چاری‬ ‫کہ ۔۔۔ میری وجہ سے‬
‫عذرا ناحق بدنام ہو جائے گی ۔۔اور پھر یہ سوچ‬
‫کر مجھے ایک جھر جھری سی آ گئی کہ میری‬
‫بدنام ہو گی‬ ‫نہ صرف یہ کہ عذرا‬ ‫وجہ سے‬
‫میری وجہ سے اسکی منگنی بھی ٹوٹ‬ ‫بلکہ‬
‫جائے گی ۔۔۔اور وہ خواہ مخواہ اپنے خاندان‬
‫اُٹھائے گی اور‬ ‫میں ذلت او ر رسوائی بھی‬
‫اگر ایسا ہو گیا تو؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔ پھر واقعی ہی وہ‬
‫کسی کو منہ دکھانے کے الئق بھی نہیں رہے‬
‫گی۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی۔۔۔ مجھے اپنے اندر‬
‫احساس جرم کا احساس ہوا‬
‫ِ‬ ‫ایک شدید قسم کے‬
‫احساس جرم کے تحت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ِ‬ ‫۔۔۔۔اور پھر اسی‬
‫ایک دم سے اس بھابھی کے سامنے کھڑا ہو گیا‬
‫اور تقریبا ً روتے ہوئے اس سے بوال ۔۔۔ آپ نے‬
‫جو سزا دینی ہے مجھے دے دیں ۔۔۔ لیکن‬
‫پلیزززززززز ۔۔۔ عذرا کو کچھ مت کہیئے گا ۔۔۔ میری‬
‫بات سن کر بھابھی زہر خند ہوئی اور اسی‬
‫زہریلے لہجے میں کہنے لگی۔۔۔واہ۔۔۔ بڑے دیوانے‬
‫ہو اس چڑیل کے۔۔۔۔لیکن میں اس کو چھوڑوں گی‬
‫نہیں ۔۔۔۔۔ پھر فیصلہ کن انداز میں کہنے لگی۔۔۔۔ اس‬
‫بھائی کے ساتھ غداری کی‬ ‫نے میرے شریف‬
‫ہے اس لیئے اس حرافہ کو ۔۔۔۔کو اپنے کیئے کی‬
‫سزا بھگتنی ہی پڑے گی۔۔۔۔ بھابھی کی یہ‬
‫بات سن کر میں تڑپ سا گیا اور اس کی طرف‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔ بھابھی‬ ‫دیکھتے ہوئے‬
‫پلیززززززززززززززززززززززززززززز۔۔۔۔۔ ایسا مت‬
‫کیجیئے گا ۔۔۔۔۔ اور انتہائی پریشانی کے عالم میں‬
‫اس کے سامنے ہاتھ جوڑ ۔۔۔۔ اور سر جھکا کر‬
‫کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔جاری ہے‬


‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_نمبر_‪05‬‬

‫سر جھکائے کھڑا‬ ‫مجھے یوں ہاتھ جوڑ ۔۔۔اور‬


‫دیکھ کر شاید اس کو کچھ رحم آ گیا اور ۔۔۔وہ کڑک‬
‫دار لہجے میں بولی ۔۔۔ یہ عورتوں کی طرح آہ و‬
‫زاری کیوں کر رہے؟ ۔۔۔کچھ حوصلہ پکڑو۔۔۔ لیکن‬
‫میں اسی طرح ہاتھ جوڑے جوڑے ۔۔۔ اس کے‬
‫سامنے کھڑا رہا اور ۔۔۔اس سے ایک ہی التجا کرتا‬
‫رہا کہ ۔۔کہ پلیززززز ۔۔مجھے جو مرضی کہہ لیں‬
‫لیکن ۔۔عذرا کو چھوڑ دیں۔۔۔۔۔ میری بار بار کی‬
‫التجاؤں اور ڈوبڈبائی ہوئی آنکھوں سے اس کی‬
‫طرف دیکھنا ۔۔۔ اس پر کچھ اثر کر گیا ۔۔۔۔۔ اور‬
‫آخر کار ادھر سے میرے نالوں کا جواب آ ہی‬
‫ِ‬
‫میری آہ و‬ ‫گیا۔۔۔۔ چنانچہ میں نے محسوس کیا کہ‬
‫گیا تھا‬ ‫زاری سے اس کا دل کافی حد تک پسیج‬
‫۔۔۔ اسی لیئے اس نے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔اور کہنے‬
‫لگی ۔۔اپنے ہاتھ نیچے کرلو اور عورتوں کی ٹسوے‬
‫بہانا بند کرو۔۔۔۔ ۔ اس کے بعد وہ میری طرف‬
‫پُر اسرار انداز میں‬ ‫بڑے ہی‬ ‫دیکھ کر‬
‫کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔‬
‫ٹھیک ہے میں ایسا کچھ نہیں کروں گی لیکن‬
‫اس کے لیئے میری ایک شرط ہو گی۔۔۔۔۔ کفر ٹوٹا‬
‫بھابھی کے منہ سے‬ ‫خدا خدا کر کے۔۔۔۔ عذرا کی‬
‫یہ بات سن کر میری جان میں جان آئی اور میں بڑی‬
‫بے تابی سے اس کی طرف دیکھ کر بوال ۔۔۔ مجھے‬
‫آپ کی ہر شرط منظور ہے۔۔ میری بات سنتے‬
‫ہی۔۔۔۔۔ اس نے بڑے غور سے میری طرف دیکھا‬
‫اور بولی۔۔۔۔ سوچ لو۔۔۔۔ سزا سخت بھی ہو سکتی‬
‫ہے ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔سزا جیسی بھی‬
‫بس‬ ‫ہو۔۔۔ میں بھگتنے کو تیار ہوں ۔۔۔ بدلے میں‬
‫آپ عذرا کو کچھ مت کہیئے گا۔۔۔۔ عذرا کا نام سن‬
‫وہی‬ ‫کے منہ پر ایک بار پھر‬ ‫کر بھابھی‬
‫ناگوار سا تائثر ابھر آیا اور وہ جلے ہوئے‬
‫لہجے میں بولی۔۔ ۔۔۔میرے سامنے اس حرافہ کا‬
‫نام بھی مت لو ۔۔۔۔تو میں نے جلدی سے کہا سوری‬
‫۔۔آئیندہ سے میں آپ کے سامنے اس کا ذکر نہیں‬
‫کروں گا ۔۔۔۔۔آپ حکم کریں۔۔۔ تب اس نے بڑی عجیب‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے‬
‫لگی۔۔۔عذرا بڑی خوش قسمت ہے کہ اسے تم جیسا‬
‫چاہنے واال مال ہے۔۔۔ پھر ساتھ ہی کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔ٹھیک ہے مسٹر !! اس حرافہ کے لیئے‬
‫تمہاری محبت اور بے تابی کو دیکھتے ہوئے‬
‫تمہارے کہنے پر میں‬ ‫اور صرف‬ ‫۔۔۔اور صرف‬
‫تمہاری یار کو چھوڑتی ہوں ۔۔ لیکن اس شرط پر‬
‫ایک دم سے ُرک گئی۔۔۔۔‬ ‫کہ۔۔۔۔۔ یہاں آ کر وہ‬
‫سے میری طرف‬ ‫بڑی عجیب نظروں‬ ‫پھر‬ ‫اور‬
‫دیکھنے لگی ۔۔۔تو میں نے بڑی بے قراری سے‬
‫کہا ۔۔۔ آپ شرط بتاؤ پلیززززززززززززز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫تو اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ۔ڈالیں ۔اور‬
‫ُرک‬ ‫انداز میں‬ ‫ڈرامائی‬ ‫بڑے ہی‬ ‫پھر‬
‫ُرک۔۔۔ اور ۔۔۔ ٹھہر ٹھہر کر کہنے لگی۔۔۔۔ کہ میری‬
‫شرط یہ ہے کہ تم مجھے بھی ویسے ہی چاہو ۔۔‬
‫کہ جیسے ۔۔تم عذرا کو چاہتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھابھی کے‬
‫میرا منہ‬ ‫منہ سے یہ شرط سن کر حقیقتا ً‬
‫کھلے کا کھال رہ گیا۔۔۔اور میں اس کی طرف بڑی‬
‫حیرانی سے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد ابھی‬
‫میں نے اس سے کچھ کہنے کے لیئے اپنے‬
‫کھوال ہی تھا ۔۔۔ کہ وہ جلدی سے‬ ‫منہ کو‬
‫بولی۔۔۔۔ اور میری دوسری شرط یہ ہے کہ میرے‬
‫اور تمہارے اس تعلق کی کسی کو کانوں کان‬
‫چاہیئے یہاں تک کہ تمہاری‬ ‫خبر نہیں ہونی‬
‫اس معشوقہ عذرا کو بھی۔۔۔۔ ہمارے اس تعلق کی‬
‫بھنک نہیں پڑنی چاہیئے۔۔۔۔ بھابھی کی دوسری‬
‫شرط سن کر میں نے سکھ کی ایک طویل سانس بھری‬
‫اور اس کی طرف دیکھنے لگا ۔۔۔۔۔۔ اور اس دفعہ‬
‫بھی جیسے ہی میں نے اس سے بات کرنے‬
‫کے لیئے منہ کھوال ۔۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ اور‬
‫میری آخری شرط یہ ہے کہ یہ تعلق ابھی اور اسی‬
‫وقت سے شروع ہو گا۔۔۔۔۔۔۔ اب میں نے اس کی‬
‫بے بسی سے بوال ۔۔۔۔۔‬ ‫طرف دیکھا اور بڑی‬
‫لیکن دوسرے کمرے میں عذرا موجود ہے اس‬
‫کی موجودگی میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میری بات سن کر پہلی بار وہ مسکرائی اور‬
‫کہنے لگی۔۔۔اس کی فکر نہ کرو کیونکہ ۔ دوسرے‬
‫تو‬ ‫تو کیا تیسرے کمرے بھی تمہاری معشوقہ‬
‫کیا ۔۔۔۔ کوئی بھی ذی روح بھی موجود نہ ہے۔۔۔‬
‫تب میں نے بڑی حیرانی سے ان کی طرف دیکھا‬
‫اور بوال۔۔۔۔۔ لیکن ابھی آپ تو آپ کہہ رہی تھیں‬
‫کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میری سن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ تبھی‬
‫کی بات رہنے دو ۔۔۔۔ ابھی کی بات کرو۔۔۔۔۔۔۔۔پھر وہ‬
‫ایک دم سنجیدہ ہو گئی اور میری آنکھوں میں‬
‫آنکھیں ڈال کر بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ میری شرطوں کے‬
‫بارے میں کیا کہتے ہو؟؟؟؟؟۔۔۔ تو میں نے اس کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ آپ نے مجھے اتنا‬
‫ذیادہ خوف ذدہ کر دیا ہے کہ میرے لیئے ابھی‬
‫اور اس‬

‫وقت آپ کی آخری شرط پر عمل کرنا بہت مشکل‬


‫اس کے چہرے پر‬ ‫ہو گا ۔۔ میری اس بات پر‬
‫گئی ۔۔۔اور وہ اسی‬ ‫ایک عجیب سی مسکراہٹ پھیل‬
‫پر اسرار لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔۔ اس بات کو‬
‫ُ‬
‫تم‬ ‫چھوڑو ۔۔ مجھے بس یہ بتاؤ کہ کیا‬
‫راضی ہو کہ نہیں ؟ ۔۔۔ بھابھی کی یہ بات سن کر‬
‫ایک پھیکی سی مسکراہٹ‬ ‫میرے چہرے پر بھی‬
‫پھیل گئی اور میں بھابھی کی طرف دیکھتے‬
‫۔۔۔ ۔۔۔۔ راضی نہ ہونے کا تو سوال‬ ‫ہوئے بوال‬
‫ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔ لیکن مسلہ یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔ اس‬
‫ٹائم میں خود کو۔۔۔۔ ۔۔۔(۔کوئی اور وقت ہوتا تو میں‬
‫نے اب تک بھابھی کے اوپر ہونا تھا ۔۔۔ لیکن حقیقت‬
‫یہ تھی کہ اس وقت میں ایک گہرے صدمے اور غم‬
‫نکال تھا ۔۔۔اور میں خود کو بھابھی کے ساتھ‬
‫۔۔۔سیکس پر آمادہ نہ کر پا رہا تھا ) میں نے‬
‫بھابھی سے ابھی اتنا ہی جملہ بوال تھا کہ وہ‬
‫بات کو تم‬ ‫میری بات کاٹ کر کہنے لگی ۔۔۔۔۔ اس‬
‫مجھ پر چھوڑ دو ۔۔۔۔۔‬
‫پھر وہ چلتی ہوئی میری طرف آئی ۔۔۔ اور مجھے‬
‫اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔۔ اور ایک ٹائیٹ سا ہگ‬
‫دینے کے بعد اس نے خود کو مجھ سے الگ کیا‬
‫اور کہنے لگی۔۔۔ سامنے واش روم ہے ایسا کرو کہ‬
‫تم نہا آؤ۔۔کہ نہانے سے تمہاری طبیعت بھی‬
‫تھوڑی سی بہل جائے گی اور تم فریش بھی ہو جاؤ‬
‫گے ۔اور دسری بات یہ کہ تمھارا سارا بدن‬
‫پسینے میں ڈوبا ہوا ہے ۔یہ بھی صاف ہو‬
‫جائے گا ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ ۔۔۔یہ پسینہ بھی‬
‫آپ نے ہی نکال ہے جی۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ‬
‫منہ سے کچھ نہ بولی اور اپنی انگلی اُٹھا کر‬
‫واش روم کی طرف اشارہ کر دیا۔۔۔۔۔ چنانچہ میں‬
‫واش روم‬ ‫ہوئے‬ ‫نے اس کی طرف دیکھتے‬
‫۔۔۔۔۔اور اندر داخل‬ ‫کے دروازے کو کھوال‬
‫ہو گیا ‪ .‬۔۔۔۔۔‬

‫اور‬ ‫بھابھی کا واش روم کافی بڑا‬


‫اپنے زمانے کے لحاظ سے جدید قسم کا تھا‬
‫واش‬ ‫کپڑے اتار کر میں نے اس کا جائزہ لیا تو‬
‫تھوڑا اوپر‬ ‫بیسن کے ساتھ دائیں جانب‬
‫مجھے ایک چھوٹی سی شیشے‬ ‫دیوار کے پاس‬
‫کی بنی ہوئی الماری نظر آئی جس کے ایک‬
‫خانے میں شیونگ کا سامان پڑا تھا ۔۔۔جبکہ‬
‫دوسرے خانے میں تین چار قسم کے شیمپو ۔۔۔‬
‫کے استعمال ہونے والی با‬ ‫صابن اور لیڈیز‬
‫ل صفا کریم کے ساتھ ساتھ مختلف خانوں میں‬
‫بھانت بھانت کی زنانہ استعمال والی چیزیں بھی‬
‫پڑی تھیں۔۔۔ الماری کا جائزہ لینے کے بعد میں نے‬
‫کر دیا ۔ نہانے کے‬ ‫شاور کھوال اور نہانا شروع‬
‫ت حال ۔ کے‬
‫میں موجودہ صور ِ‬ ‫ساتھ ساتھ‬
‫بارے میں بھی غور کرنے لگا۔۔اور پھر سوچتے‬
‫اپنے بچپن کی‬ ‫سوچتے ۔۔۔اچانک ہی مجھے‬
‫یاد آ گئی۔۔۔ جو کچھ یوں تھی کہ۔۔۔ قدرت‬ ‫ایک نظم‬
‫کے رنگ نرالے۔۔۔ بلی نے چوہے پالے۔۔۔۔اس نظم‬
‫کا میرے ذہن میں آنا تھا کہ میں ایک دم سے‬
‫فریش ہو گیا۔۔اور اس کے ساتھ ہی پتہ نہیں کیسے‬
‫میرے سوچنے کا انداز بدل گیا۔۔۔‬ ‫ہی‬ ‫اچانک‬
‫۔۔۔۔۔ اور میں سوچنے لگا کہ میں تو یہاں ایک‬
‫وہ مجھے بھی‬ ‫پھدی کے چکر میں آیا تھا۔۔۔ اور‬
‫کہ میں اپنے لن کو‬ ‫اس شرط پر ملنی تھی‬
‫اس کے اندر نہیں ڈالوں گا ۔۔۔بلکہ۔۔۔۔ اس نے‬
‫صرف اوپر اوپر سے کرنے دینا تھا ۔۔۔‬ ‫مجھے‬
‫یہ ۔۔۔ سالی خود ہی آفر‬ ‫جبکہ دوسری طرف‬
‫لگا رہی تھی کہ ۔۔۔ آ بیل ۔۔۔ میری مار۔۔۔۔ اور بیل‬
‫سالے کو کیا پاگل کتے نے کاٹا تھا ۔۔۔ کہ ۔۔۔ اتنی‬
‫سندر ناری کی نہ لیتا ۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی میں نے‬
‫جلدی جلدی سارے بدن پر صابن لگایا اور اچھی‬
‫بدن کو ٹاول کے ساتھ خشک‬ ‫طرح نہا کر ۔۔۔اپنے‬
‫کیا اور پھر اسی ٹاول سے اپنے جسم کے خفیہ‬
‫حصوں کو ڈھانپ کر باہر آ گیا۔۔۔ اس وقت میرا ڈر‬
‫اورخوف کافی حد تک ۔۔۔رفو چکر ہو چکا تھا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔ باہر آ کر دیکھا تو ۔۔۔ بھابھی ڈریسنگ ٹیبل‬
‫کے ساتھ والی کرسی پر بیٹھی میرا انتطار کر‬
‫رہی تھی ۔۔۔ جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوا تو‬
‫مجھے دیکھ کر وہ اپنی کرسی سے اُٹھ کھڑی‬
‫دفعہ‬ ‫ہوئی ۔۔۔اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر پہلی‬
‫لینا‬ ‫میں نے اس حسینہ کا بغور جائزہ‬
‫شروع کر دیا۔۔۔ ۔۔۔ وہ ایک ‪ 29 /30‬سال کی‬
‫گندمی رنگ کی خوش شکل سی عورت تھی اور‬
‫اس وقت اس نے جانے کس کی فرمائیش‬
‫پتلی سی الن کی‬ ‫کالے رنگ کی‬ ‫پر۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کے‬ ‫قمیض پہنی ہوئی تھی ۔۔اور اس قمیض‬
‫نہ ہونے کی وجہ اس‬ ‫چادر یا دوپٹہ‬ ‫اوپر‬
‫صاف نظر آ‬ ‫حصہ‬ ‫کی قمیض کے نیچے واال‬
‫رہا تھا ۔۔۔۔۔ کہ اس نے قمیض‬
‫برا پہنی ہوئی‬ ‫کے نیچے سفید رنگ کی‬
‫اس کے‬ ‫تھی۔۔۔ ۔۔۔۔اور اس برا میں سے‬
‫سی چھاتیاں (شاید‬ ‫سائز کی ایورج‬ ‫درمیانہ‬
‫شہوت کی وجہ سے) تنی کھڑی تھیں ۔۔۔۔ قد اس کا‬
‫مناسب تھا ۔۔۔ ہونٹ رسیلے اور آنکھوں میں ایک‬
‫عجیب سی ہوس جھانک رہی تھی ۔۔۔ مجموعی طور‬
‫پر وہ ایک خوب صورت خاتون تھی ۔۔۔۔مجھے‬
‫اپنی طرف اتنے غور سے دیکھتے ہوئے دیکھ‬
‫کہنے لگی۔۔ ایسے کیا دیکھ رہے ہو مجھے ؟‬
‫اس سے کہا‬ ‫را ِہ خوشامد‬ ‫تو میں نے از‬
‫۔۔کہ میں آپ کی حسین جوانی کو دیکھ رہا‬
‫ہوں۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ افسردگی سے بولی‬
‫کیا فائدہ ایسی حسین جوانی کا کہ جب اسے‬
‫۔۔۔۔استعمال کرنے واال ۔۔۔اسے آنکھ اُٹھا کر بھی نہ‬
‫دیکھتا ہو ۔۔۔اس کی بات سن کر میں اس کے‬
‫ہو گیا اور اس کی‬ ‫قریب۔۔۔۔بلکہ۔۔۔۔ عن قریب‬
‫آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بوال ۔۔کوئی دیکھے نہ‬
‫دیکھے ۔۔۔ہم تو ضرور دیکھے گا۔۔اوربڑے ہی پیار‬
‫کے ساتھ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‬
‫دیکھنے لگا۔۔۔۔مجھے اس طرح دیکھتے ہوئے دیکھ‬
‫کر وہ سرگوشی میں بولی ۔۔۔ کیا دیکھ رہے ہو؟ ۔۔تو‬
‫میں نے بھی اس اسی طرح سرگوشی میں جواب دیا‬
‫کہ ۔۔ میں آپ کی رس بھری جوانی کو دیکھ رہا‬
‫ہوں ۔ میری بات سن کر اس نے میرا ہاتھ پکڑ‬
‫ا اور کہنے لگی ۔۔۔ تمہیں اپنی حسین جوانی‬
‫دکھانے کے لیئے ہی تو میں نے یہ سب کیا‬
‫ہاتھ پکڑے پکڑے‬ ‫میرا‬ ‫‪---‬پھر وہ‬ ‫ہے ۔۔۔‬
‫پلنگ پر‬ ‫سامنے بچھے‬ ‫۔۔۔‬ ‫مجھے‬
‫لے گئی (‬ ‫کر کہ سالی‬ ‫– ادھر میں یہ سوچ‬
‫کس قدر بڑی ایکٹر ہے کہ اس نے فقط سیکس‬
‫بڑا ڈرامہ کیا‬ ‫اتنا‬ ‫کے لیئے میرے ساتھ‬
‫کیا کہ ۔۔۔۔ میرے جیسے بندے‬ ‫ڈرامہ‬ ‫۔۔اور ایسا‬
‫کا بھی ۔۔۔۔۔۔۔"تراہ " کڈ دیا‬ ‫)‬

‫پلنگ پر لے جا کر اس نے مجھے ٹاول اتار‬


‫لیٹنے کو کہا۔۔۔ اور میں اس‬ ‫کر اوندھے منہ‬
‫پلنگ پر اوندھے منہ لیٹ گیا۔۔۔ اب‬ ‫کے کہنے پر‬
‫ساتھ‬ ‫میرے‬ ‫پلنگ کے اوپر آ کر‬ ‫بھابھی بھی‬
‫بیٹھ گئی اور میری ننگی کمر پر ہاتھ پھیرے‬
‫لگی۔۔ اس کے نرم نرم ہاتھوں کا لمس پاتے ہی‬
‫میرے بدن میں جھرجھری سی پیدا ہوئی ۔۔ اور‬
‫میرے جسم کے سارے رونگھٹے کھڑے ہو‬
‫گئے۔۔۔ لیکن اس نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا‬
‫نازک‬ ‫اور کچھ دیر تک میری ننگی کمر پر اپنا‬
‫ہاتھ پھیرتی رہی۔اور ہاتھ پھیرتے پھیرتے‬ ‫سا‬
‫کہنے لگی۔۔۔ میرے ہاتھ پھیرنا کیسا لگ رہا ہے‬
‫؟ تو میں نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔ بڑا مزہ‬
‫آ رہا ہے۔۔۔۔ ۔۔ تو وہ بدستور میری ننگی کمر پر‬
‫ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔مزہ تو میں تمہیں وہ‬
‫دوں گی ۔۔۔کہ پھر کسی اور جوگے نہیں رہو گے۔۔‬
‫۔۔۔پھر کچھ دیر بعد اس نے میری کمر کو سہالنا‬
‫بند کر دیا ۔۔۔۔اور وہ اوپر اُٹھی اور اپنی قمیض‬
‫اتارنے گلی۔۔۔ میں نے جب گردن موڑ کر اس کی‬
‫طرف دیکھا ۔۔۔تو اس وقت وہ اپنی چھاتیوں‬
‫سے آذاد کر رہی تھی۔۔۔۔پھر اس نے‬ ‫کو برا‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے اپنی دونوں‬
‫چھاتیوں کو ہاتھ میں پکڑ کر ہالیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور یہ کہتے‬
‫ہوئے میرے اوپر آ گئی ۔۔۔۔مزہ تو اب تمہیں ملے‬
‫میری کمر پر اپنی ننگی‬ ‫گا۔۔۔۔اور اس نے‬
‫چھاتیاں کو رکھ دیا۔۔ ۔۔۔اور پھر بڑی آہستگی‬
‫کے ساتھ اپنی ننگی چھاتیوں سے میری کمر پر‬
‫لگی۔۔۔ میری کمر پہ اس کی‬ ‫مساج کرنے‬
‫چھاتیوں کا ٹچ ہونا تھا کہ ۔۔ میرے جسم کو شہوت‬
‫میری‬ ‫کا ایک زبردست کرنٹ لگا۔۔۔ اور نیچے‬
‫مرجھائے‬ ‫دونوں ٹانگوں کے بیچوں بیچ ۔۔ نیم‬
‫ہوئے پپو میں جان پڑنا شروع ہو گئی ۔۔۔۔‬
‫جبکہ دوسری طرف بھابھی اپنے دونوں ہاتھوں‬
‫میں چھاتیوں کو پکڑے بڑی آہستگی سے‬
‫میری کمر پر اپنی چھاتیوں سے مساج کر رہی‬
‫تھی اور اس کی چھاتیوں کے مساج کی وجہ‬
‫سے میرے منہ سے ہلکی ہلکی کراہیں نکلنا‬
‫شروع ہو گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ بھابھی پر‬
‫کا غلبہ ۔ ۔۔تیز سے۔۔تیز تر۔۔ ہونے لگا‬ ‫بھی شہوت‬
‫۔۔۔اور اب اس کے نپلز ۔۔۔ جو پہلے ہی کھڑے تھے‬
‫اب مزید نوکیلے ہو کر میری کمر سے رگڑ کھانے‬
‫لگےتھے۔۔۔ایسا کرتے ہوئے میرے خیال میں اس پر‬
‫کچھ مزید ہوشیار ی چڑھ گئی تھی ۔۔ کیونکہ‬
‫تھا‬ ‫نیچے لیٹے ہوئے میں نے محسوس کر لیا‬
‫۔۔۔۔۔کہ اب اس نے اپنی چھاتیوں کو آذاد چھوڑ دیا‬
‫ننگے بدن کو‬ ‫اپنے‬ ‫اس نے‬ ‫ہے ۔۔۔۔ اور‬
‫میرے ننگے بدن سے مال دیا تھا ۔۔۔۔ اور وہ‬
‫میری ساری‬ ‫کے ساتھ‬ ‫اپنی ننگی چھاتیوں‬
‫۔۔۔قدرے تیز۔۔۔۔ہلکورے کھا رہی تھی۔اور‬ ‫کمر پر‬
‫کس قدر ظالم تھے وہ ہچکولے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔کہ بھابھی‬
‫ہچکولوں کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔ میری‬ ‫کے ان تیز‬
‫ٹانگوں کے بیچوں بیچ ۔۔۔۔۔میرا پپو اب پوری‬
‫طرح سے بیدار ہو چکا تھا۔۔۔۔ اور ۔۔۔ اپنی پسند‬
‫کے سوراخ میں جانے کے لیئے بے تاب نظر آ رہا‬
‫تھا ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف ۔۔۔ ہلکورے کھاتی بھابھی‬
‫اپنے جسم کو میرے میرے جسم سے مالئے‬
‫مجھے شہوت بھرا مساج دے رہی تھی۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر‬
‫کچھ دیر بعد اس نے اپنا منہ میرے کان کے‬
‫ساتھ لگایا۔۔اور زبان نکال کر اسے چاٹتے ہوئے ۔۔۔۔‬
‫بھری آواز میں کہنے لگی۔۔اب مزے کا‬ ‫۔۔شہوت‬
‫کیا عالم ہے ؟؟؟؟۔۔۔۔۔اور اس سے قبل کہ میں اس‬
‫جواب دیتا ۔۔۔ اس نے ایک بار پھر‬ ‫کی بات کا‬
‫اپنی زبان کی مدد سے چاٹا‬ ‫میرے کان کی لو کو‬
‫۔۔۔۔میری جان۔۔!!!‬ ‫اور اسی سیکسی ٹون میں بولی‬
‫ہوا ۔۔کہ نہیں ؟؟؟؟؟ تو نیچے‬ ‫ٹھیک‬ ‫موڈ‬
‫۔۔۔کچھ ُ‬
‫سے میں نے بھی اسی انداز میں بھر پور جوش‬
‫کے ساتھ جواب دیا۔۔ یس ڈارلنگ ۔۔۔میرا موڈ بھی‬
‫بن گیا ہے اور۔۔۔ پپو بھی جوش میں آگیا ہے۔۔۔‬
‫میری بات سن کر وہ میرے پپو کا تصور کرتے‬
‫ہوئے ۔۔۔۔ لزت بھرے انداز میں بولی ۔۔۔۔ اس پپو‬
‫کا تو میں بعد میں عالج کروں گی ۔۔۔۔پہلے تمہارے‬
‫موڈ کو مزید سیٹ کر لوں ۔۔‬
‫اور اس کے ساتھ ہی وہ میرے اوپر سے‬
‫اُٹھی اور ڈریسنگ ٹیبل میں سے ایک آئیل کی‬
‫بوتل نکالی اور اس کو میری کمر اور ساری‬
‫ہپس پر مل دیا۔۔ پھر اس نے تھوڑا ساتیل اپنی‬
‫ہتھیلی پر ڈاال اور پھر اسے اپنی فرنٹ باڈی‬
‫اور چھاتیوں پر بھی مل دیا ۔ پھر اس نے اپنی‬
‫فرنٹ اور میری بیک باڈی پر یہ اچھی طرح‬
‫سے آئیل ملنے کے بعد اس نے اپنے دونوں‬
‫میری باڈی کے دونوں سائیڈ پر‬ ‫ہاتھو ں کو‬
‫بست‬ ‫پڑے‬

‫میری کمر پر‬ ‫اور‬ ‫پاس رکھے‬ ‫بستر پر‬


‫پوری طرح سے بچھ گئی وہ بھی کچھ اس طرح‬
‫کہ اس کی دونوں چھاتیاں میری شولڈر پر اور‬
‫اس کا پیٹ میری کمر پر تھا ۔۔۔۔اور اس کی نرم نرم‬
‫رانیں ۔۔ میری بالوں والی کرخت رانوں کے عین او‬
‫پر تھیں ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس کی ۔۔۔ گرم‬
‫پھدی۔۔۔۔ بلکل میری ہپس کے اوپر آ گئی تھی ۔۔۔‬
‫مجھے اس کی چوت کی گرمی ۔۔۔۔۔۔ اپنے ہپس پر‬
‫محسوس ہو رہی تھی کہ جیسے‬ ‫کچھ اس طرح‬
‫اس نے اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچوں بیچ ۔۔۔‬
‫کوئی جلتا ہوا انگارہ رکھا ہو۔۔۔اس کے بعد اس‬
‫میرے جسم کے ساتھ رگڑنا‬ ‫نے اپنے جسم کو‬
‫شروع کر دیا۔۔۔ اب وہ میرے جسم پر ایسے‬
‫رہی تھی کہ جیسے کوئی مچھلی‬ ‫ہلکورے لے‬
‫پانی میں تیر رہی ہو۔۔۔ اس کے اس طرح ہلکورے‬
‫لینے سے میرے جسم میں ایک عجیب طرح کی‬
‫گرمی چڑھ رہی تھی اور میرے منہ سے سسکیوں‬
‫کا طوفان نکل رہا تھا۔۔۔وہ۔۔۔خود بھی بہت گرم ہو‬
‫ہلکورے لیتے‬ ‫رہی تھی ۔۔۔۔۔اور میرے جسم پر‬
‫ہوئے مسلسل پوچھ رہی تھی۔۔۔۔۔ مزہ آ رہا ہے‬
‫ناں۔۔۔۔۔۔جبکہ دوسری طرف میری دونوں ٹانگوں‬
‫کے بیچ اکڑے ہوئے میرے پپو کا بس نہیں چل‬
‫وہ بھاگ کر جائے اور‬ ‫رہا تھا کہ ابھی‬
‫بھابھی کی گرم چوت میں داخل ہو کر اسے تہس‬
‫نہس کر دے۔۔لیکن ۔۔ میرے ان جزبات سے بے‬
‫نیاز بھابھی میری پشت پر ہلکورے کھا رہی‬
‫تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے منہ سے‬
‫شہوت سے بھر پور سسکیاں بھی نکل رہیں‬
‫باڈی مساج کے بڑے‬ ‫تھیں۔۔۔بھابھی کے اس‬
‫بعد کی بات ہے کہ ایک دن میں ایف‬ ‫عرصہ‬
‫سیون اسالم آباد میں ایک چائینز لڑکی سے باڈی‬
‫جیسے‬ ‫اچانک‬ ‫کروا رہا تھا ۔۔۔کہ‬ ‫مساج‬
‫ہی اس چائینز لڑکی نے میری کمر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫اپنے جسم کے اگلے حصے پر آئیل لگا کر میری‬
‫کمر پر تیرنا شروع کیا ۔۔۔۔ تو دفعتا ً مجھے‬
‫کافی عرصہ قبل بھابھی کا دیا ہوا باڈی مساج‬
‫یاد آ گیا اُس کے مساج اور چائینز لڑکی کے‬
‫مساج میں فرق یہ تھا کہ بھابھی کے دیئے‬
‫ہوئے مساج میں شہوت ہی شہوت تھی جبکہ اس‬
‫چائینز لڑکی کے مساج میں ٹوٹل پرفیشنل ازم‬
‫بھابھی شہوت سے بھر پور انداز‬ ‫رچا ہوا تھا‬
‫جسم‬ ‫سارا‬ ‫میں میری باڈی کے ساتھ اپنا‬
‫رگڑتی تھی جبکہ دوسری طرف چائینز لڑکی چکنی‬
‫میری ساری کمر پر تیرتی پھر‬ ‫مچھلی کی طرح‬
‫رہی تھی۔۔ ۔۔۔سوری دوستو۔۔۔مساج کا ذکر کرتے‬
‫یہ سین میرے ذہن میں‬ ‫ہوئے پتہ نہیں کیسے‬
‫گیا۔۔۔ ہا ں تو میں کہہ رہا تھا کہ‬ ‫گھوم‬
‫بھابھی میری کمر پر ہلکے انداز میں اپنی باڈی‬
‫کو پھیر رہی تھی ۔۔۔۔۔پھر کچھ دیر بعد شاید اس‬
‫کو بھی میری طرح سے شدید گرمی چڑھ گئی تھی‬
‫۔۔کیونکہ اب انہوں نے اپنی بقیہ باڈی کو میرے‬
‫جسم سے الگ کر دیا اور صرف نچلے دھڑ کو یا‬
‫یوں کہہ لیں کہ پھدی والے حصے کو میری ہپس پر‬
‫۔۔پھر اس نے‬ ‫رہنے دیا اور خود کھڑی ہو گئی‬
‫اپنی دونوں ٹانگوں کو ادھر ادھر کیا اور پھر۔۔۔۔‬
‫اپنی پھدی والی جگہ کو عین میری گانڈ کی‬
‫ابھری ہوئی جگہ پر رکھ دیا ۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ف مجھے‬
‫ایسا لگا کہ میری گانڈ پر بھابھی نے اپنی‬
‫گیلی چوت نہیں بلکہ ایک گرم شے رکھ دی‬
‫جو کہ گرم پانی سے بھیگی‬ ‫ہے ایسی چیز‬
‫ہوئی ہو ۔۔۔۔۔ ۔۔۔اور مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ‬
‫جیسے تپش کی وجہ سے میری ہپس جل جائے‬
‫میری‬ ‫گی۔۔۔ ۔۔۔ ادھر بھابھی اپنی چوت کو‬
‫ہپس پر ایڈجسٹ کر کے بڑے ہی لذت آمیز لہجے‬
‫میں کہنے لگی۔۔۔ سالے تم تو کہیں بعد میں میری‬
‫گانڈ مارو گے لیکن میں ابھی سے تم کو چودنے‬
‫لگی ہوں ۔۔۔اور۔۔ اس کے بعد اس نے اپنے پھولے‬
‫ہوئے دانے کو میری ہپس کی ابھری ہوئی جگہ‬
‫پر سیٹ کیا اور تیزی سے گھسے مارنے لگی۔۔۔‬
‫ہپس پر اتنی تیزی‬ ‫اس کی گرم چوت میری‬
‫لگا‬ ‫ایسا‬ ‫سے رگڑ کھا رہی تھی کہ مجھے‬
‫کہ جیسے ابھی اس کی چوت سے کوئی چنگاری‬
‫نکل آئے۔۔ گی۔۔۔۔پھر رفتہ رفتہ اس کی چوت کی‬
‫رگڑائی میں اور تیزی آنا شروع ہو گئی ۔۔۔۔اور‬
‫پھر کچھ دیر بعد اس نے اپنے دونوں ہاتھ میری‬
‫پر رکھے ۔۔۔۔۔اور اب اس نے اپنی چوت‬ ‫شولڈرز‬
‫میری ہپس‬ ‫کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔اپنے دانے کو بھی‬
‫۔۔۔۔۔ اور تیزی سے رگڑائی کرنے‬ ‫پر ایڈجسٹ کیا‬
‫لگی۔اس کے ساتھ ساتھ بھابھی کے منہ سے لزت‬
‫آمیز سسکاریاں بھی نکل رہی تھیں اور وہ مجھ‬
‫کہہ رہی‬ ‫سے لزت بھرے لہجے میں بار بار یہی‬
‫دوں گی‬ ‫تھی میں ۔۔۔ میں ۔۔۔ تم کو چود کے رکھ‬
‫۔۔۔اور پھر کچھ ہی سکینڈ کے بعد اس کے لہجے‬
‫میں لزت کی انتہا آ گئی اور‬ ‫کے اتار چڑھاؤ‬
‫وہ گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے لکنت آمیز‬
‫کو‬ ‫لحن میں کہنے لگی ۔۔۔مم۔۔۔ میں۔۔۔۔آہ۔۔۔تم۔۔م۔م۔م۔‬
‫چو۔۔۔د۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی۔اس کے جسم نے ایک‬
‫جھٹکا لیا اور ۔۔اس کی پھدی سے گرم پانی کا ایک‬
‫الوا سا نکال ۔۔۔۔ جو میری ہپس سے ہوتا ہوا‬
‫نیچے بستر پر گرنے لگا۔‬

‫اس کے ساتھ ہی بھابھی نے میری ہپس کے‬


‫ہٹایا‬ ‫چوت کو وہاں سے‬ ‫ساتھ لگی اپنی‬
‫اور ۔۔ گھٹنوں کے بل کھڑے ہو کر اپنے سانس‬
‫درست کرنے لگی۔یہ دیکھ کر میں نے بھی کروٹ‬
‫بدلی اور سیدھا لیٹ کر بھابھی کی طرف‬
‫۔۔۔۔خاص کر اس کی دونوں ٹانگوں کے بیچ‬
‫دیکھنے لگا۔۔۔اور میں نے‬ ‫والے حصے کو‬
‫دیکھا کہ بھابھی کی ٹانگوں کے بیچوں بیچ بالوں‬
‫سے پاک پھدی تھی جس کے اوپر والے ہونٹ قدرے‬
‫باہر کو لٹک رہے تھے ۔۔ اور اس کی چوت کا منہ‬
‫کھال ہوا تھا ۔۔۔۔اور اس کھلے منہ والی چوت سے‬
‫ابھی بھی پانی ِر س ِرس کی اس کی رانوں‬
‫سے ہوتا ہوا ٹانگوں کی طرف جا رہا تھا اور‬
‫اس پانی کی وجہ سے اس کی بالوں سے پاک‬
‫نرم ٹانگیں چمک رہیں تھیں۔۔۔ پھر جب اس کے‬
‫اوسان کچھ بحال ہوئے تو انہوں نے میری طرف‬
‫دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔۔کیسا لگا؟ ۔۔۔ تو میں نے‬
‫کہا بہت اچھا۔۔۔ اس پر وہ میرے پپو (لن) کی‬
‫ذیادہ اچھا‬ ‫طرف اشارہ کر کے بولی ۔۔۔۔۔کس کو‬
‫تمھارے اس کنگ سائز۔۔۔۔۔۔۔کو ؟‬ ‫لگا تم کو یا‬
‫کی طرف دیکھتے ہوئے کہا‬ ‫تو میں نے اس‬
‫۔۔۔صرف مجھے اچھا لگا ۔۔جبکہ میرے کنگ سائز‬
‫کو آپ کی یہ ایکسر سائز زرا بھی اچھی نہیں‬
‫لگی ۔۔۔۔۔۔۔ اس پر بھابھی نے مصنوعی حیرت سے‬
‫میرے لن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔اس کو‬
‫کیوں نہیں اچھا لگا ؟؟؟۔۔اس پر میں نے لن کو‬
‫اپنے ہاتھ میں پکڑ کر ہالتے ہوئے کہا۔۔۔۔وہ اس‬
‫لیئے میری جان کہ آپ کی چوت کو میری ہپس کی‬
‫پر نہیں ۔۔۔۔بلکہ اس کے اوپر ہونا چایئے‬ ‫جگہ‬
‫تھا۔۔۔ ۔۔۔ میری بات سن کر وہ مسکرائی اور بولی۔۔‬
‫۔۔۔یہ کام بھی ہو جائے‬ ‫اسے کہو دھیرج رکھے‬
‫گا۔۔۔۔۔۔۔ اس دوران وہ مسلسل میرے اکڑے ہوئے‬
‫موٹے اور لمبے لن کو گھورے جا رہی تھی ۔۔۔ پھر‬
‫اس نے اپنی نظروں کو وہاں سے ہٹایا ۔۔۔۔ اور‬
‫دوسرے‬ ‫میری طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔۔اب تم‬
‫مساج کے لیئے تیار ہو جاؤ ۔۔۔ پھر خود ہی کہنے‬
‫میں تم کو باڈی مساج‬ ‫لگی ۔۔۔ لیکن اس دفعہ‬
‫میں تم کو (اپنی‬ ‫نہیں دوں گی بلکہ اس دفعہ‬
‫لمبی سی زبان نکال کر دکھاتے ہوئے) ۔۔۔ ٹنگ (زبان‬
‫) مساج کروں گی۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ میرے اوپر‬
‫آ گئی‬

‫اور جیسے ہی وہ میرے اوپر آئی تو اسی وقت‬


‫سے ٹچ‬ ‫میرا سخت لن اس کی نرم رانوں‬
‫ہوا تو وہ میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر‬
‫بولی۔۔۔ صبر میری جان صبررررر۔۔۔۔ ۔۔۔میں تم‬
‫سے بعد میں نبڑوں گی ۔۔۔پہلے اپنے شوق تو‬
‫پورے کر لوں۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے‬
‫میرے لن کو پکڑ کر ایک طرف کیا اور ۔۔۔۔۔۔اپنی لمبی‬
‫زبان نکال کر میرے ماتھے پر پھیرنے لگی۔۔۔اس‬
‫کے یوں زبان پھیرنے سے ایک بار پھر میرے‬
‫جسم کے سارے رونگھٹے کھڑے ہو گئے اور میں‬
‫گہرائیوں میں ُگم ہو گیا۔۔اور بے‬ ‫مزے کی اتھاہ‬
‫سرور سے‬
‫ُ‬ ‫اور‬ ‫اختیار میرے منہ سےلزت‬
‫بھر پور آوازیں نکلنے لگیں۔۔ اُف۔ف۔ف ۔۔آہ ہ ہ ہ ہ‬
‫ہ ہ ہ ۔۔ جبکہ دسرے طرف میری لزت بھری آہوں‬
‫اب میں اپنے‬ ‫سے بے نیاز بھابھی کی زبان کو‬
‫گالوں پر محسوس کر رہا تھا۔۔۔ پھر اس کی زبان‬
‫گالوں سے ہوتی ہوئی اب میرے ہونٹوں پر پہنچ‬
‫چکی تھی ۔۔۔۔۔پھر اس نے میرے ہونٹوں پر اپنی‬
‫دیکھ کر بولی۔۔۔۔‬ ‫زبان پھیری اور میری طرف‬
‫منہ کھلولو میری جان ۔۔اور میں نے اپنا منہ کھول‬
‫دیا جیسے ہی میرا منہ ک ُھال بھابھی نے اپنی‬
‫زبان کو میرے منہ میں ڈال دیا ۔۔۔ اور پھر اس‬
‫نے اپنی لمبی زبان کو میری زبان کے گرد لپیٹ‬
‫لیا ۔۔۔اور دیوانوں کی طرح میری زبان کو‬
‫چوسنے لگی۔۔۔۔ اس کی زبان کا ذائقہ ۔۔۔اس کے‬
‫ہونٹوں کی تپش۔۔۔اس کے منہ کی گرمی اور زبان‬
‫چوسنے کے سٹائل نے مجھے پاگل کر‬ ‫کو‬
‫دیا تھا اور اس کے ساتھ ہی نیچے سے میرے‬
‫پپو کی اکڑاہٹ خطر ناک حد تک بڑھ گئی‬
‫تھی۔۔۔ اور وہ ۔۔۔۔بھابھی کے سوراخ میں جانے‬
‫جھٹکے مار رہا تھا ۔۔۔۔یہ‬ ‫بار بار‬ ‫کے لیئے‬
‫میں نے بے اختیار اپنے‬ ‫ت حال دیکھ کر‬
‫صور ِ‬
‫منہ سے اس کی زبان کو باہر نکاال اور اس سے‬
‫کہنے لگا ۔۔۔ بس کر و ۔۔۔ پلیزززززز ۔۔۔ بس کرو۔۔ تو‬
‫وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑے ہی‬
‫مست لہجے میں بولی۔۔۔ بس کردوں؟؟۔۔۔ تو تم کیا‬
‫کرو گے۔۔۔ ۔۔۔؟ اس کی بات سن کر میں نے شہوت‬
‫سے بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔ میں آپ کو چودو ں‬
‫گا۔۔۔۔آپ کی چوت ماروں گا۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر‬
‫وہ مسکرائی اور کہنے لگی۔۔۔ کیسے چودو گے؟ تو‬
‫میں نے کہا جیسے آپ کہو۔۔۔ وہ کہنے لگی میرے‬
‫کہنے کو چھوڑو تم اپنی بات کرو۔۔۔؟ تو میں نے‬
‫جواب دیتے ہوئے کہا کہ میں آپ کی ٹانگوں کو‬
‫اپنے کندھوں پر رکھ کر ۔۔۔۔اپنا لن آپ کی چوت میں‬
‫ڈالوں گا ۔۔۔ میری یہ بات سن کر بھابھی نے ایک‬
‫طویل سسکی لی۔۔۔اور کہنے لگی۔اس سے کیا ہو‬
‫گا؟؟؟؟؟؟؟؟ تو میں نے کہا کہ اس سے یہ ہو گا کہ‬
‫میرا لن گہرائی تک آپ کی چوت میں جائے‬
‫لن کی‬ ‫میں میرے‬ ‫گا۔۔۔۔اور اس سٹائل‬
‫ٹھوکروں سے آپ کی چوت ٹھنڈی ہو جائے گی‬
‫تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔تم‬
‫میری چوت کی گہرائی کی کیا بات کرتے‬
‫ہو۔۔۔۔پھر میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر‬
‫مضبوط‬ ‫بولی ۔ تمہارا یہ لن اتنا بڑا اور‬
‫میرے اندر‬ ‫ہے کہ ۔۔تم جس سٹائل میں بھی اسے‬
‫گے۔۔یہ خود بخود میری چوت کی گہرائی‬ ‫ڈالو‬
‫بات کو‬ ‫میں اتر جائے گا۔۔۔اس لیئے گہرائی والی‬
‫پھر ۔۔ اس نے میری آنکھوں میں‬ ‫جانے دو‬
‫آنکھیں ڈالیں ۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔ ۔۔۔ اوکے ۔۔۔۔ اگر‬
‫تو ۔۔۔۔تم ایسا‬ ‫خواہش ہے‬ ‫تمہاری یہی‬
‫ضرور کرنا ۔۔ لیکن آج نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔کسی اور دن ۔۔۔ تو‬
‫میں نے حیران ہو کر اس سے کہا ۔۔۔ کیا مطلب؟‬
‫آج مجھے کرنے نہیں دو گی؟ میری بات سن کر‬
‫اس نے نفی میں سر ہال یا اور کہنے لگی۔۔ بلکل‬
‫نہیں ۔۔۔ بھابھی کی یہ بات سن کر میں بڑا حیران‬
‫ہوا ۔۔۔اور حیرانی سے میرے دیدے پھیل گئے۔۔۔اور‬
‫اس سے قبل کہ میں اس سے کچھ کہتا وہ‬
‫میری طرف دیکھ کر بولی۔۔۔ مایوس نہ ہو میری‬
‫جان ۔۔۔ میری پھدی تمہیں ضرور ملے گی ۔۔۔۔۔‬
‫لیکن۔۔۔۔ آج کا دن میرا ہے۔۔۔ اس لیئے آج میں‬
‫تم سے ۔۔۔۔تمہارے اس کنگ سائز لن سے ۔۔۔اپنے‬
‫دل کی ساری حسرتیں پوری کروں گی ۔۔تم بس‬
‫لیٹ کے دیکھتے جاؤ۔۔ ۔۔۔۔ یہ کہہ کر بھابھی نے‬
‫میرے ہونٹوں پر ایک چھوٹا سا بوسہ دیا ۔۔۔۔۔اور‬
‫لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔ میری‬ ‫شہوت بھرے‬
‫جان۔۔۔ آج تم مجھے نہیں بلکہ میں تمہیں چودوں‬
‫گی۔۔۔۔۔ بھابھی کی بات سن کر میں نے ایک گہرا‬
‫سانس لیا اور بوال۔۔۔۔ پلیزززززززز۔۔ بھابھی جو بھی‬
‫کرنا ہے ۔۔۔۔ جلدی کرو ۔۔۔ شہوت کے مارے میرا‬
‫لن پھٹنے واال ہو گیا ہے۔۔۔۔ اس کا کچھ کرو۔۔۔‬
‫میری بات سن کراس نے ایک نظر پیچھے ُمڑ‬
‫دیکھا اور اپنے‬ ‫کر میرے لن کی طرف‬
‫ہونٹوں پر زبان پھیر کر بولی۔۔۔۔۔۔۔اسے کہو تھوڑا‬
‫صبر کرے ۔۔۔ تو میں نے اپنے لن کو‬ ‫اور‬
‫اس کی باڈی سے ٹچ کر تے ہوئے کہا۔۔۔۔ صبر‬
‫ہی تو نہیں ہو رہا ہے نا۔۔ ۔۔۔۔۔ اور ایک دفعہ پھر‬
‫اس سے بوال ۔۔۔ کہ جلدی سے میرے لن کا کچھ‬
‫کرو۔۔۔۔۔۔ میری فریاد سن کر بھابھی کہنے لگی۔۔۔۔‬
‫میرے خیال میں تمھارے لن کو کچھ ذیادہ ہی جلدی‬
‫ہے؟‬

‫تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ زیادہ سے بھی بہت‬


‫زیادہ ۔۔۔۔جلدی ہے۔۔۔ یہ سن کر وہ تھوڑی پیچھے‬
‫ہوئی اور بولی۔۔۔ چلو پھر باقی پروگرام موقوف‬
‫کرتے ہیں ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی وہ گھٹنوں کے‬
‫بل چلتی ہوئی میرے لن کے قریب پہنچی اور اسے‬
‫اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی۔۔۔ واقعی ہی تم ٹھیک کہہ‬
‫رہےتھے۔۔تمہارے لن بہت تپا ہوا ہے اور ممکن‬
‫ہے کہ شہوت کے مارے پھٹنے واال بھی ہو۔۔۔۔۔۔‬
‫لیکن تم فکر نہیں کرو ۔۔۔۔ میں اسے پھٹنے نہیں‬
‫دوں گی۔۔۔ بلکہ الٹا یہ میری چوت پھاڑے گا۔۔۔۔ اور‬
‫یہ مجھے اور اسے ٹھنڈا کر دوں گی ۔۔اس کے‬
‫وہ میرے لن پر جھکی اور ۔۔۔اور‬ ‫ساتھ ہی‬
‫اسے اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔ جیسے ہی میرے‬
‫لن پر اس کے نرم نرم ہونٹ لگے۔۔۔۔ میرے‬
‫سارے جسم نے ایک اور جھٹکا کھایا اور مزے‬
‫کی بہت سی لہریں میرے جسم میں گردش کرنے‬
‫لگیں ۔جبکہ اس کے گالب کی پنکھڑی جیسے‬
‫نرم ہونٹوں کا لمس پا کر خود بخود میرے لن‬
‫نکلے ۔۔ جو‬ ‫بہت سے قطرے‬ ‫سے مزی کے‬
‫میرے ٹوپے سے نکل کر اس کے منہ میں ہی‬
‫کہیں ُگم ہو گئے ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنے‬
‫نرم ہونٹوں اور گرم منہ سے میرے لن کو‬
‫ایک بار‬ ‫چوسنے لگ گئی۔۔ اس دوران بس‬
‫منہ ہٹایا اور‬ ‫اس نے میرے لن سے اپنا‬
‫کہنے لگی۔۔۔ تمہارے لن کا ٹیسٹ بہت سوادیش‬
‫ہے۔۔۔ اور خاص کر یہ جو وقفے وقفے سے مزی‬
‫بہت مزے کی ہے۔تو میں‬ ‫چھوڑ رہا ہے وہ‬
‫نے اس کے بالوں پر ہاتھ پھیرتے ہو کہا ۔۔۔ اور‬
‫چوسو۔۔۔ میرے لن کو اور چوسو میری جان۔۔‬
‫میری لزت بھری بات سن کر اس نے ایک بار‬
‫نکاال اور‬ ‫لن کو‬ ‫پھر اپنے منہ سے میرے‬
‫میری‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔ چوس ہی تو رہی ہوں ۔۔ پھر‬
‫آنکھ مار کر بولی ۔۔رئیلی بڑے ہی مزے‬ ‫طرف‬
‫کا لن ہے۔۔تمہارا۔۔اور یہ کہتے ہی اس نے میرے‬
‫لن کو دوبارہ سے اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔اور‬
‫پہلے سے بھی زیادہ جوش و خروش سے اسے‬
‫چوسنے لگی۔۔۔۔۔اس دفعہ ابھی اس نے تھوڑا سا‬
‫کو چوسا تھا کہ ایک بار پھر‬ ‫ہی میرے لن‬
‫میری ہمت جواب دے گئی اور میں نے‬ ‫سے‬
‫کو پکڑ کر ذور سے‬ ‫چھاتیوں‬ ‫اس کی‬
‫دبایا اور ۔۔۔۔ تیز لہجے میں بوال ۔۔۔ماں کی لوڑی۔۔‬
‫چودنے دے نا ۔۔۔ میرے منہ سے گالی سن کر‬
‫اُٹھا‬ ‫اوپر‬ ‫اس نے ایک دم سے اپنے منہ کو‬
‫لن کو‬ ‫ہوئے‬ ‫میری طرف دیکھتے‬ ‫یا۔۔۔ اور‬
‫منہ سے نکال کر بڑے نشیلے لہجے‬ ‫اپنے‬
‫میں بولی۔۔۔ ایک دفعہ اور گالی دو تو میں ابھی‬
‫لن کو‬ ‫کیوٹ‬ ‫تمہارے اس‬ ‫اور اسی وقت‬
‫اپنی چوت میں لے لوں گی ۔۔۔ اس کی بات سن‬
‫چار پانچ‬ ‫کر میں نےایک کی بجائے اسے‬
‫گالیاں دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ بہن چود ۔ مادر چود‬
‫۔۔گشتی کی بچی ۔رنڈی کی اوالد ۔۔۔۔۔ جلدی کر ۔۔۔‬
‫میرے منہ سے بے ساختہ نکلی ہوئی ان گالیوں‬
‫کو اس نے بڑا انجوائے کیا اور میری طرف‬
‫تو‬ ‫دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی۔۔چل سالے‬
‫اس‬ ‫بھی کیا یاد کرے گا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی‬
‫میرے لن پر رکھے ہوئے اپنے منہ کو‬ ‫نے‬
‫اوپر اُٹھایا اور کہنے لگی۔۔۔لیکن اس سے پہلے تم‬
‫ایک کام کرنا پڑے گا اور پھر‬ ‫میرا‬ ‫کو بھی‬
‫اس نے اپنی دونوں ٹانگیں میرے سینے کے‬
‫ادھر ادھر کر دیں اور کہنے لگیں گندی فلمیں‬
‫دیکھتے ہو ناں ؟ تو میں نے کہا ۔۔گندی سے‬
‫میری بات سن کر وہ‬ ‫مراد بلیو فلمیں ہیں؟؟؟؟‬
‫ہاں میں سر ہال کر بولی۔۔۔۔ ہاں وہی ۔۔وہی ۔۔۔ تو‬
‫وہ‬ ‫میں نے کہا بہت دیکھیں ہیں ۔۔یہ سنتے ہی‬
‫گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی میرے منہ کے‬
‫قریب آ گئی اور اپنی پھدی کو میرے منہ پر رکھ‬
‫کر کے بولی۔۔۔۔ مجھے نہیں پتہ کہ تم یہ کام‬
‫کرتے ہو کہ نہیں ۔۔۔ لیکن آج میری خوشی کی‬
‫خاطر تم کو میرا یہ کام کرنا پڑے گا۔۔۔۔اور اس‬
‫کے ساتھ ہی اس نے اپنی گیلی چوت کو‬
‫میرے منہ پر دبا دیا۔۔‬

‫۔اس کی بالوں سے پاک گیلی چوت سے ہلکا‬


‫ہلکا پانی ٹپک رہا تھا اور اس کے ساتھ ساتھ‬
‫اس کی چوت سے بڑی ہی شہوت انگیز مہک‬
‫بھی آ رہی تھی۔۔میں نے اپنی منہ پر دبی‬
‫ہوئی اس کی چوت کی مہک کو اچھی طرح‬
‫سونگھا۔۔یہاں تک کہ اس کی چوت کی مہک‬
‫۔ ۔دوسری‬ ‫کا نشہ میرے انگ انگ میں چھا گیا‬
‫طرف اپنی چوت کو میرے منہ پر ایڈجسٹ کرتے‬
‫ہی وہ کہنے لگی۔۔ زبان نکال کر میری پھدی‬
‫کو چاٹو۔۔اس کے کہنے پر میں نے اپنی زبان‬
‫اس کی پھدی پر رکھ دی۔۔۔۔۔ جیسے‬ ‫نکال کر‬
‫ہی میری زبان اس کی پھدی سے ٹچ ہوئی ۔۔۔ وہ‬
‫میرے منہ‬ ‫بہت مست انداز میں اپنی چوت کو‬
‫پر آگے پیچھے کرنے لگی۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے‬
‫بھی اپنی زبان سے اس کی چوت کو چاٹنا‬
‫چوت بڑی گرم تھی‬ ‫شروع کر دیا۔۔۔۔ اس کی‬
‫اور اس میں سے مسلسل پانی ِرس رہا تھا۔۔۔۔اور‬
‫بتا چکا ہوں کہ‬ ‫پہلے ہی‬ ‫جیسا کہ میں‬
‫اس کی چوت کا ذائقہ بہت ہی شاندار اور مہک‬
‫تھی ۔۔۔اس لیئے میں نے‬ ‫مست‬ ‫ہی‬ ‫بڑی‬
‫جوش میں آکر اس کی ہپس کو پکڑا اور اسے‬
‫ہلنے سے روک دیا اور پھر اس کے دانے کو‬
‫اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔۔۔۔۔ میرے‬
‫لگ گئی اور وہ‬ ‫اس عمل سے اسے بھی آگ سی‬
‫سسکی لیتے ہوئے بولی۔۔۔ سالے تم تو مجھے‬
‫پکے پھدی َچٹ لگتے ہو۔۔۔ آہ۔۔۔ مزہ آ گیا ۔اس کے‬
‫میرے‬ ‫ہپس پر رکھے‬ ‫ساتھ ہی اس نے اپنی‬
‫ہٹایا اور ۔۔۔اپنی پھدی کو‬ ‫ہاتھوں کو جلدی سے‬
‫بڑی تیزی کے ساتھ میرے منہ پر رگڑنے‬
‫لگی۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ایسا کرنے کے چند ہی سیکنڈز کے‬
‫پانی‬ ‫بعد اس کی چوت سے ڈھیر سارا‬
‫اس کی چوت‬ ‫سے میرا منہ‬ ‫نکال ۔۔۔۔ جس‬
‫کے کچھ‬ ‫کے پانی سے بھر گیا ۔۔۔۔ ۔چھوٹنے‬
‫ہی دیر بعد اس نے اپنی چوت کو میرے منہ‬
‫سے ہٹایا اور بڑے ہی ستائشی انداز میں کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔۔ تم نے تو کمال کر دیا۔۔۔۔ کیا‬
‫چاٹتے ہو تم ۔۔۔اور پھر اس‬ ‫زبرردست پھدی‬
‫نے میرے دیکھتے ہی دیکھتے سامنے میز‬
‫میرے لن پر‬ ‫پر پڑی آئیل کی بوتل اُٹھائی اور‬
‫لگا نے لگی۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس کہا ۔۔۔‬
‫پہلے گانڈ میں لو گی کیا؟ تو وہ میری طرف‬
‫بڑے ہی پُر ہوس لہجے میں‬ ‫دیکھتے ہوئے‬
‫بولی ۔۔ ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔کیا ہے کہ اس طرح کی چودائی‬
‫کے وقت مجھے کچھ ہوش نہیں رہتا اور‬
‫۔۔۔ لن کو کبھی میں ایک اور‬ ‫دوران چودائی‬
‫کبھی دوسرے سوراخ میں لے جاتی رہتی ہوں‬
‫۔۔۔۔۔۔۔اور تم تو جانتے ہی کہ ایسے میں اگر گانڈ‬
‫چکنی نہ ہو تو۔۔۔۔۔۔۔ لن کو ایک دم اندر لیتے‬
‫بڑا درد ہوتا ہے ۔۔۔اور اس وقت اتنا‬ ‫ہوئے‬
‫ٹائم نہیں ہوتا کہ میں لن کو پھدی سے نکال‬
‫ڈالتے وقت اس کو چکنا‬ ‫میں‬ ‫کر گانڈ‬
‫حفظ ما‬
‫ِ‬ ‫کرسکوں ۔۔۔اس لیئے میری جان ۔۔۔۔میں‬
‫ہی گانڈ کو چکنا کر‬ ‫تقدم کے طور پر پہلے سے‬
‫لیتی ہوں ۔۔۔ اور اسکے ساتھ ہی اس نے کچھ آئیل‬
‫اپنی گانڈ کے سوراخ پر لگا کر اسے اچھی طرح‬
‫چکنا کر دیا۔۔۔ جب اسے اس بات کا اچھی‬
‫طرح یقین ہو گیا کہ اس کی گانڈ کی موری بہت‬
‫چکنی ہو گئی ہے تو پھر اس نے ایک بار‬
‫پھر میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔اب میں‬
‫تمھارے پپو کو اپنی چوت میں لینے لگی ہوں‬
‫اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی دونوں‬
‫ٹانگوں کے بیچ میں میرا لن لے لیا ۔۔۔۔اور‬
‫اسے اپنے ہاتھ میں پکڑا اور ۔۔۔اپنے دانے پر‬
‫رگڑ کر بولی۔۔۔۔۔۔۔آج مزہ آئے گا ۔۔۔۔۔پھر اس نے لن‬
‫ہاتھ میں پکڑے پکڑے۔۔۔۔اپنی چوت کو بڑی ہی‬
‫آہستگی سے میرے لن پر رکھ دیا۔۔۔۔ اور ۔۔۔پھر‬
‫آرام آرام سے اسے اپنے اندر لینے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫سارا لن اس کی خوبصورت چوت‬ ‫جب میرا‬


‫میں گم ہو گیا ۔۔۔تو اس نے ایک بہت ہی گرم‬
‫آہ بھری اور پھر میرے لن کو اپنی چوت میں‬
‫لیئے لیئے آگے بڑھی اور اپنے موٹے اور‬
‫پھولے ہوئے دانے کو میرے لن کے اوپر والی‬
‫جگہ پر رکھ کر بولی ۔۔۔۔ اب میں چودنے لگی‬
‫ہوں ۔۔۔اور پھر میرے لن کو اپنے اندر لیئے لیئے‬
‫ہونے لگی۔۔۔۔‬ ‫کے ساتھ آگے پیچھے‬ ‫تیز ی‬
‫ادھر جیسے ہی میرا لن اس کی روئی د ار ۔۔ نرم‬
‫اور گیلی چوت میں اترا ۔۔۔۔ تو مزے میں آ کر‬
‫میں نے نیچے سے ایک ہلکا سا گھسا مارا ۔۔۔ یہ‬
‫دیکھ کر اس نے بڑے پیار سے میری طرف دیکھا‬
‫اور کہنے لگی ۔۔۔اُوں ہُوں ۔۔۔۔ آج صرف میری‬
‫میں نے اس سے‬ ‫پر‬ ‫باری ہے ۔۔۔۔ تو اس‬
‫کہا ۔۔تو مادر چود کی بچی ۔۔۔گھسے مار۔۔ نا ۔۔۔‬
‫میں نے اس سے یہ بات کہی تھی‬ ‫جس وقت‬
‫۔۔۔۔۔اس وقت تک وہ اپنی مرضی کے مطابق اپنی‬
‫چوت اور دانے کو میری زیریں باڈی پر ترتیب‬
‫دے کر لن کو بھی اندر لے چکی تھی ۔۔۔۔ چنانچہ‬
‫جیسے ہی میں نے اسے گالی دے کر کہا کہ‬
‫گھسے مارو نا مادر چود ۔۔۔تو وہ جوش میں آ گئی‬
‫اور ایک دم سے اپنی چوت کو بڑی تیز ی کے‬
‫ساتھ آگے پیچھے کرتے ہوئے بولی۔۔۔ لے بہن چود‬
‫لن پر‬ ‫اب خوش ہو جا ۔۔۔ کہ میں تمہارے‬
‫گھسے مار رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔ اور ۔پھر ۔ کافی دیر‬
‫تک وہ ایسے ہی گھسے مارتی رہی۔اور اس کے‬
‫رننگ کمنٹری‬ ‫ساتھ ساتھ وہ لن کے بارے میں‬
‫بھی کرتی جا رہی تھی ۔۔ کہ جیسے اب تمھارا‬
‫پپو میری چوت کی گہرائیوں میں‬ ‫کنگ سائز‬
‫اتر گیا ہے۔آہ ہ ہ ہ ۔۔۔ اُف۔۔۔۔ پھر کہتی ۔ اب تمہارے‬
‫لن کی نوک ۔۔۔ ۔۔۔ میری بچہ دانی پر بڑی اچھی‬
‫ٹھوکریں لگا رہی ہے۔۔۔ اور ساتھ ساتھ وہ اپنی‬
‫چوت کی رگڑائی اور بھی تیز کر دیتی ۔۔۔۔۔ پھر کچھ‬
‫دیر بعد اس نے ایک دم سے اپنی چوت سے میرا‬
‫لن نکاال ۔۔۔ تو میں نے اسے سوالیہ نظروں سے‬
‫دیکھا ۔۔گویا میں کہہ رہا تھا کہ لن کو باہر کیوں‬
‫تو وہ میری نظروں کا مفہوم سمجھ کر‬ ‫نکاال ؟‬
‫بھرے لہجے میں بولی۔۔۔۔۔ دھیرج‬ ‫شہوت‬ ‫وہ‬
‫اب میرے ایک‬ ‫میری جان کہ تمہارا پپو‬
‫سوراخ سے دوسرے سوارخ میں جانے واال‬
‫ہے‬

‫ور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے ایک بار پھر‬


‫لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا۔۔۔ تو میں نے‬ ‫سے‬
‫۔۔۔۔اس وقت میرا لن اس کی چوت کے‬ ‫دیکھا کہ‬
‫پانی سے لتھڑا ہوا تھا ۔۔۔چنانچہ یہ محسوس‬
‫کرتے ہی اس نے نیچے کی طرف اپنی پھدی‬
‫دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ آج تو میری چوت‬ ‫کو‬
‫کچھ ذیادہ ہی پانی چھوڑ رہی ہے اور ۔۔۔پھر اس‬
‫نے میرے لن کی سیدھ میں اپنی گانڈ کی‬
‫رکھا۔۔۔۔۔ اور ۔۔اس کے ساتھ ہی اپنے‬ ‫موری کو‬
‫چوتڑ (تھائی) کو کچھ مزید چوڑا کیا ۔۔۔جس‬
‫سے اس کی گانڈ کی موری کچھ نمایاں ہو گئی‬
‫اور پھر اس نے لن کو پکڑا ۔۔۔۔اور پھر میری‬
‫طرف دیکھتے ہوئے اپنی گانڈ کی موری کو‬
‫عین میرے ٹوپے پر رکھ دیا ۔۔۔ ۔۔۔۔ اور اپنی‬
‫چکنی موری کو لن پر دبانے لگی۔۔ جیسے ہی اس‬
‫کی موری کے رنگ نے میرے ٹوپے کو چھوا۔۔تو‬
‫۔۔‬ ‫کی آواز‬ ‫بے اختیار میرے منہ سے اُفف ف‬
‫کر‬ ‫دیکھ‬ ‫نکل گئی ۔۔۔تو وہ میری طرف‬
‫تو میں نے جواب دیا ۔۔۔ آپ‬ ‫بولی۔۔۔ کیا ہوا؟‬
‫کی گانڈ بڑی ٹائیٹ ہے۔۔ تو وہ کہنے لگی‬
‫۔کوئی بات نہیں۔۔۔ ٹائیٹ ہے تو کھلی بھی ہو‬
‫جائے گی ۔۔پھر خود ہی مزید بولی۔۔۔۔اتنی بھی‬
‫ٹائیٹ نہیں ۔۔۔ہاں البتہ تمھارا لن تھوڑا موٹا‬
‫ضرور ہے ۔۔اور ۔اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی‬
‫گانڈ کو میرے لن پر دبانا شروع کر دیا ۔۔۔اس‬
‫کی ہپس کا دباؤ پا کر لن تھوڑا تھوڑا کر کے‬
‫اس کی گانڈ میں اترنے لگا۔۔۔۔ جیسے ہی‬
‫ٹوپا اس کی گانڈ کے رنگ‬ ‫میرے لن کا موٹا‬
‫بھابھی نے ایک سریلی‬ ‫کے اندر داخل ہوا۔۔۔۔ تو‬
‫سی چیخ ماری ۔۔۔آؤؤؤؤچ چ چ۔۔۔۔۔ تو میں نے اس‬
‫سے کہا کیا ہوا میڈم ؟؟؟؟۔۔۔ تو وہ درد اور شہوت‬
‫نا‬ ‫کی ملی جلی آواز میں کہنے لگی۔۔۔۔۔کہا تھا‬
‫بہت موٹی ہے۔۔۔۔ اس‬ ‫۔۔۔کہ تیرے لن کی کیپ‬
‫اندر لینے میں مجھے تھوڑی‬ ‫لیئے اسے‬
‫تکلیف ہو رہی ہے۔۔۔اور پھر اسی طرح کی سریلی‬
‫سسکیاں لیتے ہوئے ۔۔۔وہ میرے لن پر بیٹھتی‬
‫چلی گئی۔۔ ادھر جیسے جیسے میرا لن اس کی‬
‫جا رہا تھا‬ ‫چکنی اور ٹائیٹ گانڈ میں اترتا‬
‫۔۔۔تو مجھے محسوس ہوا کہ اندر سے بھابھی کی‬
‫گانڈ کافی نرم اور گرم تھی۔۔۔۔ جیسے جیسے‬
‫میرا لن ان کی گانڈ کے ٹائیٹ چھید میں گھستا‬
‫جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ تیسے تیسے ۔۔۔۔ بھابھی مست ہوتی‬
‫اپنے‬ ‫جا رہی تھی اور مستی میں ا ٓ کر وہ‬
‫منہ سے عجیب عجیب سیکسی آوازیں نکال رہی‬
‫تھی ۔۔۔جیسے۔۔۔۔ اُف۔ف۔ ۔۔۔آہ۔۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ‬
‫ہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ساتھ ساتھ کہتی بھی جارہی تھی ۔۔۔‬
‫کہ۔۔۔جانو۔۔۔آئیندہ بھی میری گانڈ کو ضرور‬
‫مارنا ۔۔۔۔کہ گانڈ میں لن لینے کا صواد ہی انوکھا‬
‫ہوتا ہے ۔۔ پھر مست لہجے میں کہتی بولو‬
‫میری لو گے نا۔؟۔۔۔تو میں‬ ‫پیچھے سے بھی‬
‫اسے کہتا ضرور۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی‬
‫اس نے میرے لن پر اُٹھک بیٹھک شروع کر‬
‫دی۔۔۔اب ۔۔ میرا لن اس کی گانڈ میں پھنس پھنس‬
‫رہا تھا۔۔۔۔اور ہم دونوں مزے‬ ‫کے اندر باہر ہو‬
‫کی اتھاہ گہرائیوں میں ڈوبے جا رہے تھے تب‬
‫اچانک اس نے میرے لن کو اپنی گانڈ سے نکاال‬
‫میں ڈال دیا۔۔۔۔اُف۔۔۔‬ ‫اور بنا کچھ کہے اپنی چوت‬
‫بھابھی کی چوت بڑی ہی گیلی اور گانڈ سے سو‬
‫لن اس‬ ‫درجے زیادہ گرم تھی۔۔جیسے ہی میرا‬
‫کی گیلی چوت میں اترا ۔۔۔۔اس نے جلدی سے‬
‫اوپر نیچے ہونا شروع کر دیا ۔اور ساتھ ساتھ‬
‫اس کے منہ سے سیکسی آوازوں کی بھر مار ہو‬
‫گئی۔۔۔آہ ہ ہ۔۔۔اوہ۔۔۔اوہ۔۔۔۔جان ن ن ن ن ۔۔۔ ۔۔بڑا مست‬
‫لن ہے تیرا ۔۔۔ میری چوت۔۔۔ اُف ۔۔۔ میری چوت ۔۔‬
‫تیرے لن سے بھر گئی ۔۔۔اُف۔۔۔تمہارا ٹوپہ میرے‬
‫اندر ۔۔کتنی اچھی ٹھوکریں مار رہا ہے ۔۔اور پھر‬
‫میرے لن پر جمپ مارتے مارتے اچانک ہی‬
‫بھابھی کی چوت کے سارے ٹشو میرے لن کے‬
‫اکھٹے ہو گئے ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ‬ ‫ارد گرد‬
‫ہی بھابھی کی چوت ٹائیٹ ہونا شروع ہو گئی‬
‫۔۔۔ٹائیٹ اور ٹائیٹ ۔۔۔اور پھر بھابھی اور میں۔۔۔۔۔‬
‫دونوں نے اکھٹے ہی شور شور مچانا شروع کر‬
‫دیا۔ ۔۔۔ کیونکہ ۔۔اس کی چوت کے ٹشو ٹائیٹ ہونے‬
‫میں بھی چھوٹنے کے قریب‬ ‫دوران ہی‬ ‫کے‬
‫ہو گیا تھا ۔ میرا شور سن کر بھابھی نے میری‬
‫طرف دیکھا اور مست ہو کر بولی ۔۔۔تم بھی؟؟؟؟؟؟؟‬
‫۔۔۔۔۔۔۔تو میں نے کہا ہاں میری جان میرا بھی‬
‫۔۔۔نکلنے واال ہے ۔۔۔۔۔میری یہ بات سن کر بھابھی‬
‫اور بھی جوش میں آ گئی اور پہلے سے زیادہ‬
‫تیزی کے ساتھ میرے لن کو اپنی چوت میں ان‬
‫آؤٹ کرنے لگی ۔جس سے میرا اور بھابھی کا‬
‫ہو گیا تھا ۔۔۔۔اور اسی‬ ‫سارا جسم پسینے پسینے‬
‫دوران ہم دونوں کے جسموں میں اکڑن پیدا‬
‫ہونا شروع ہو گئی۔۔۔۔۔ اور پھر اچانک ہی‬
‫چڑھتے سانسوں کے درمیان ۔۔۔۔ میرے لن اور‬
‫پیدا‬ ‫بھابھی کی چوت میں آخری اکڑن‬
‫لن کے ساتھ‬ ‫میرے‬ ‫ہوئی۔اس کی چوت نے‬
‫زبردست جپھی لگائی۔۔۔۔اور اس کے ساتھ‬ ‫ایک‬
‫ہی بھابھی اور میں نے ۔۔۔ایک ساتھ ہی‬
‫سسکیاں لینا شروع کر دیں ۔۔اور پھر انہی‬
‫سسکیوں کے درمیان ہی کہیں۔۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں نے‬
‫پانی چھوڑنا شروع کر دیا۔۔۔۔ پانی چھوڑتے‬
‫ہوئے بھابھی۔۔۔ نے ایک چیخ ماری اور یہ کہہ‬
‫کر میرے اوپر ڈھے گئی۔۔۔ کہ میں چھوٹ گئی۔۔۔۔۔‬
‫میں چھوٹ گئی۔۔۔۔۔۔‬

‫کچھ دیر تک ہم دونوں اکھٹے لیٹے رہے پھر‬


‫پلنگ کی دراز سے ایک‬ ‫وہ اُٹھی اور اس نے‬
‫کپڑا نکال اور اس کپڑے سے میرے لن کو‬
‫اس نے‬ ‫اچھی طرح سے صاف کرنے کے بعد‬
‫کمرے میں لگے کالک کی طرف نظر اُٹھا کر‬
‫دیکھا اور پھر چونک کر بولی۔۔ سوری ۔۔میری جان‬
‫۔۔۔ چائے پانی تم پہ ادھار رہا ۔۔اب تم جلدی‬
‫سے نکلنے والی بات کرو۔۔ کہ وہ لوگ کسی بھی‬
‫یہاں آ سکتے ہیں۔۔۔۔بھابھی کی بات سن‬ ‫وقت‬
‫میں نے جلدی سے کپڑے پہنے اور اس کی‬ ‫کر‬
‫طرف دیکھنے لگا۔کہ اس وقت وہ ابھی کپڑے‬
‫پہن رہی تھی۔۔۔جیسے ہی بھابھی نے کپڑے پہنے‬
‫میری‬ ‫وہ تیزی کے ساتھ چلتی ہوئی‬ ‫۔۔۔‬
‫مجھ سے لپٹ‬ ‫بڑھی اور پاس آ کر‬ ‫طرف‬
‫نے مجھے ِکس کرتے ہوئے‬ ‫اس‬ ‫گئی۔۔۔۔ پھر‬
‫زبان ڈال دی اور پھر‬ ‫میرے منہ میں اپنی‬
‫میری زبان کو اپنے منہ میں‬ ‫فورا ً ہی‬
‫چوستی رہی ۔۔پھر‬ ‫کافی دیر تک اسے‬ ‫لے کر‬
‫اس نے میرے منہ سے اپنے منہ کو ہٹایا ۔۔۔ ۔۔اور‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔ وعدہ تم ہمیشہ مجھے ایسے ہی‬
‫چودا کرو گے۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں‬
‫وعدے‬ ‫کے ساتھ‬ ‫اس‬ ‫نے جھٹ سے‬
‫وعید کر لیئے۔۔۔۔ اس کے بعد جیسے ہی میں‬
‫تو ۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫نے باہر جانے کے لیئے قدم بڑھایا‬
‫مجھے اس کی آواز‬ ‫سے‬ ‫اچانک ۔۔۔ہی پیچھے‬
‫سنائی دی ۔۔۔۔۔۔ ایک منٹ رکو‬
‫پلیزززززززز۔۔۔۔۔۔۔بھابھی کی بات سن کر میں‬
‫نے پلٹ کر دیکھا تو وہ اپنے ڈریسنگ پر‬
‫سے ایک لیٹر پیڈ نکال‬ ‫وہاں‬ ‫جھکی‬
‫نکال کر‬ ‫اس نے لیٹر پیڈ‬ ‫رہی تھی ۔۔۔۔۔پھر‬
‫اس‬ ‫شروع کر دیا ۔۔ ابھی‬ ‫اس پر کچھ لکھنا‬
‫ہی کیا تھا کہ اسی‬ ‫شروع‬ ‫نے لکھنا‬
‫باہر سے اونچی آواز‬ ‫اچانک ہی‬ ‫دوران‬
‫میں کار کے ہارن کی آواز سنائی دی۔۔۔۔ ہارن‬
‫سے‬ ‫ہی بھابھی ایک دم‬ ‫کی آواز سنتے‬
‫سے اس کے ہاتھ‬ ‫اچھلنے‬ ‫اُچھلی اور اس طرح‬
‫لیٹر پیڈ چھوٹ گیا ۔۔۔۔۔اور میں نے دیکھا‬ ‫سے‬
‫کہ ہارن کی آواز سے اس کے چہرے کا‬
‫رنگ اُڑ گیا تھا ۔۔۔۔اور وہ بہت گھبرائی ہوئی‬
‫لگ رہی تھی۔ بھابھی کو خوف ذدہ دیکھ کر‬
‫خود میرے بھی ٹٹے ہوائی ہو گئے تھے ۔۔‬
‫باہر سے ایک بار پھر‬ ‫دوران‬ ‫۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔اسی‬
‫اسی ہارن کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔ جسے سن کر‬
‫گھبرائی ہوئی بھابھی نے میری ۔۔۔اور میں‬
‫نے اس کی طرف دیکھا۔۔ہم دونوں کے چہروں‬
‫پر ہوائیاں اُڑی ہوئیں تھی خاص کر بھابھی کی‬
‫حالت زیادہ خراب تھی۔۔۔۔اسی اثنا میں اس نے‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے ۔۔ کچھ کہنے کے‬
‫منہ کو کھوال ہی تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔ اور‬ ‫لیئے اپنے‬
‫کہ وہ مجھ سے کچھ کہتی‬ ‫اس سے پہلے‬
‫کار کے‬ ‫ایک دفعہ پھر اسی‬ ‫اسی دوران‬
‫ہارن کی آواز سنائی دی۔۔۔ جسے سن کر بھابھی‬
‫نے ایک گہری سانس لی جبکہ دوسری طرف‬
‫سے ہارن کی آواز سن کر میں جو‬ ‫پھر‬
‫ہو‬ ‫خوف ذدہ‬ ‫حد تک‬ ‫ہی کافی‬ ‫پہلے‬
‫تھا ۔۔۔۔ اس ہارن کی آواز سن کر مزید‬ ‫چکا‬
‫مجھے گھبرایا‬ ‫گیا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔چنانچہ‬ ‫گھبرا‬
‫بلکہ خوف ذدہ دیکھ کر بھابھی نے بڑے‬
‫دیکھا اور پھر کہنے‬ ‫پیار سے میری طرف‬
‫بات نہیں‬ ‫کوئی‬ ‫لگی۔۔۔ ۔ ۔۔ ۔۔۔گھبرانے کی‬
‫ہماری گاڑی‬ ‫ہارن‬ ‫۔۔۔ کہ یہ‬ ‫میری جان‬
‫کا ہے۔‬ ‫کا نہیں ۔۔۔ بلکہ سامنے والوں کی کار‬
‫سن کر میری جان‬ ‫بات‬ ‫کی یہ‬ ‫۔۔۔۔بھابھی‬
‫میں جان آئی ۔۔۔اور میں نے سکھ کا سانس لیا ۔۔‬
‫پر‬ ‫فرش‬ ‫نے‬ ‫ہی بھابھی‬ ‫یہ بات کرتے‬
‫رائیٹنگ پیڈ اُٹھایا اور اس پر‬ ‫ہوا‬ ‫گرا‬
‫نے‬ ‫کچھ لکھنے لگی۔۔۔۔۔ جب لکھ چکی تو اس‬
‫پھاڑا‬ ‫کاغذ کو‬ ‫پر لکھے ہوئے‬ ‫پیڈ‬
‫میرے ہاتھ‬ ‫کا یہ ٹکڑا‬ ‫کاغذ‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔اور پھر‬
‫گھر کا‬ ‫کر بولی ۔۔۔ یہ ہمارے‬ ‫میں تھما‬
‫دس بجے‬ ‫ہے۔۔تم نے کل صبع‬ ‫نمبر‬ ‫فون‬
‫فون کرنا ہے‬ ‫بعد اس نمبر پر مجھے‬ ‫کے‬
‫بھابھی کی بات سن کر میں نے اس سے‬
‫بات‬ ‫بھابھی جی ؟ ۔۔۔۔میری‬ ‫کہا وہ کس لیئے‬
‫پر‬ ‫کے چہرے‬ ‫اس‬ ‫ہی‬ ‫سنتے‬
‫تھوڑا‬ ‫کی اللی سی پھیل گئی۔۔۔۔۔ اور وہ‬ ‫حیا‬
‫آج‬ ‫ہوئے کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔کل بھی‬ ‫جھجکتے‬
‫پروگرام کے لیئے اور کس لیئے ۔۔۔‬ ‫والے۔۔۔۔‬
‫تو میں نے ان سے کہا سوری بھابھی میں‬
‫میری بات سن کر‬ ‫کل نہیں آ سکوں گا‪-‬‬
‫ہے ناں‬ ‫تو‬ ‫کر بولی خیریت‬ ‫چونک‬ ‫وہ‬
‫اس‬ ‫اس سے کہا کہ وہ‬ ‫؟؟ تو میں نے‬
‫کل میرا ایک جگہ‬ ‫کہ‬ ‫بھابھی جان‬ ‫لیئے‬
‫وہ‬ ‫میری یہ بات سن کر‬ ‫پر انٹرویو ہے‬
‫اپنی بانہیں‬ ‫گردن میں‬ ‫آگے بڑھی اور میری‬
‫ڈال کر بولی۔۔۔۔ کیا تم میری خاطر یہ انٹرویو‬
‫کر سکتے؟ ۔۔۔بھابھی کی بات سن‬ ‫ِمس نہیں‬
‫سر ہالیا ۔۔۔تو وہ‬ ‫جب میں نے ناں میں‬ ‫کر‬
‫لیکن کیوں ڈار لنگ !!!۔۔۔کیا‬ ‫تعجب سے بولی۔۔‬
‫میں تمہیں اچھی نہیں لگی؟ یا میں نے تم کو‬
‫دیا ۔۔۔۔۔ اس پر میں نے اس سے‬ ‫مزہ نہیں‬
‫بھابھی جی ۔۔۔۔ پھر اس‬ ‫کہا ایسی بات نہیں ہے‬
‫نے اسے مختصر طور پر‬ ‫کے بعد میں‬
‫اپنے ۔۔۔اور اپنے گھر کے حاالت کے بارے میں‬
‫جسے سن کر ظاہر ہے کہ اس نے‬ ‫بتالیا‬
‫جبکہ ۔۔۔۔ دوسری‬ ‫افسوس کا اظہار کیا‬ ‫بڑے‬
‫بتانے کے بعد میں نے‬ ‫ساری بات‬ ‫طرف‬
‫اس کی طرف دیکھا اور بوال۔۔۔۔۔۔ ایک اور بات‬
‫کہ جس کی وجہ سے میں اپنا یہ انٹرویو مس‬
‫یہ ہے کہ‬ ‫اور وہ بات‬ ‫نہیں کرنا چاہتا‬
‫بہت‬ ‫ایک تو میں‬ ‫اس جاب کے لیئے‬
‫بات‬ ‫زیادہ کوالیفائی کرتا ہوں اور دوسری‬
‫کے‬ ‫نوکری کے حصول‬ ‫ہے کہ اس‬ ‫یہ‬
‫اتفاق‬ ‫تھا‬ ‫دیا‬ ‫لیئے میں نے جو ٹیسٹ‬
‫سب‬ ‫ٹیسٹ وہاں پر موجود‬ ‫وہ‬ ‫میرا‬ ‫سے‬
‫لڑکوں سے بہت زیادہ اچھا ہوا تھا۔۔۔اس لیئے‬
‫میں اس جاب کے لیئے بہت زیادہ ہوپ فُل‬
‫میری تقریر سن کر اس نے ایک گہری‬ ‫ہوں‬
‫سر ہال کر بولی۔۔۔۔۔اوکے ۔۔۔لیکن‬ ‫سانس لی اور‬
‫واپسی کب ہو گی ؟‬ ‫تمہاری‬ ‫یہ بتاؤ کہ‬
‫اس‬ ‫تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ‬
‫پتہ نہیں؟ میرے‬ ‫کا مجھے کوئی‬ ‫بات‬
‫ہو‬ ‫وہ تھوڑا مایوس سی‬ ‫اس جواب سے‬
‫کا دل رکھنے‬ ‫اس‬ ‫گئی ۔۔۔ تو میں نے‬
‫میں‬ ‫کو کہا۔۔۔۔ ۔۔۔ کوئی بات نہیں بھابھی‬
‫آ جاؤں گا ۔۔۔۔۔اس‬ ‫فون کر کے‬ ‫پرسوں صبع‬
‫پر وہ کچھ سوچتے ہوئے بولی۔۔۔ تمہاری بات‬
‫مسلہ یہ ہے‬ ‫بھی ٹھیک ہے لیکن ۔۔۔ ۔۔۔۔ یار‬
‫کام کے‬ ‫ضروری‬ ‫کہ پرسوں ایک نہایت‬
‫مصروف‬ ‫بہت‬ ‫بھی‬ ‫میں۔۔۔۔۔ میں‬ ‫سلسلہ‬
‫ہوں ۔۔۔ پھر وہ سوچتے سوچتے ایک دم‬
‫کیا‬ ‫دن‬ ‫کہ آج‬ ‫سے بولی ۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ‬
‫جواب‬ ‫کو‬ ‫ہے ؟؟؟؟۔۔۔تو میں نے اس‬
‫کہا کہ آج پیر کا دن ہے‬ ‫ہوئے‬ ‫دیتے‬
‫کہنے‬ ‫لگاتے ہوئے‬ ‫۔۔۔۔۔۔تو وہ حساب‬
‫تم ۔۔۔ جبکہ‬ ‫کو‬ ‫والے دن‬ ‫لگی۔۔۔۔کل منگل‬
‫بدھ کو میں بزی ہوں گی۔۔۔۔۔۔پھر میری طرف‬
‫بتاؤ۔۔‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ اچھا یہ‬ ‫ہوئے‬ ‫دیکھتے‬
‫کیا خیال‬ ‫۔۔جمعرات کے بارے میں تمہارا‬
‫کیا اس دن تم فری ہو گے ؟؟۔۔۔‬ ‫ہے ؟؟؟؟‬
‫تو نہیں‬ ‫وغیرہ‬ ‫انٹرویو‬ ‫ٹیسٹ‬ ‫کوئی‬
‫ہے ناں تمہارا ۔۔۔۔؟ تو اس پر میں نے نفی میں‬
‫والے دن‬ ‫سر ہال کر کہا ۔۔۔نہیں جی جمعرات‬
‫میں فری ہوں گا اس پر وہ کہنے لگی چلو‬
‫ہم جمعرات‬ ‫ہے اس کام کے لیئے‬ ‫ٹھیک‬
‫ہیں ۔۔۔۔چنانچہ میں نے‬ ‫رکھ لیتے‬ ‫دن‬ ‫کا‬
‫اس کے ساتھ جمعرات کا پروگرام پکا کر دیا۔۔۔تو‬
‫اپنا پروگرام ڈن کرتے‬ ‫میرے ساتھ وہ بھی‬
‫ہوئے کہنے لگی۔۔۔ میرے گھر آنے سے پہلے تم‬
‫پی سی او سے‬ ‫مجھے‬ ‫دفعہ‬ ‫نے ایک‬
‫فون ضرور کرنا ہے ۔۔۔ ۔‬

‫مجھے‬ ‫گھر کی طرف جاتے ہوئے اچانک‬


‫یاد آیا کہ اگلی صبع انٹرویو کے لیئے میرے‬
‫تو ہے لیکن‬ ‫سی پینٹ‬ ‫پاس جین کی پرانی‬
‫اس کے اوپر پہننے کے لیئے میرے پاس‬
‫چنانچہ یہ‬ ‫کوئی ڈھنگ کی شرٹ نہ ہے‬
‫سوچ آتے ہی میں اپنے ایک دوست کے گھر‬
‫شرٹ لے‬ ‫گیا اور اس سے ایک اچھی سی‬
‫گھر آ گیا۔۔۔ اگلی صبع میں بڑا تیار‬ ‫کر واپس‬
‫میں جب‬ ‫شیار ہو کر انٹرویو کے سلسلے‬
‫ب توقع‬
‫۔۔تو حس ِ‬ ‫متعلقہ جگہ پر پہنچا تو۔۔۔۔‬
‫وہاں پر انٹرویو دینے والوں کا ایک ج ِم غفیر‬
‫جم غفیر میں سے‬
‫اور اس ِ‬ ‫تھا‬ ‫موجود‬
‫لڑکے میرے واقف تھے‬ ‫آدھے سے زیادہ‬
‫جگہ‬ ‫وہ بھی میری طرح‬ ‫اور وہ یوں کہ‬
‫دیتے رہتے‬ ‫وغیرہ‬ ‫جگہ ٹیسٹ انٹرویو‬
‫تھے چونکہ اتنے زیادہ بندوں کو بٹھانے کے‬
‫نہ‬ ‫جگہ موجود‬ ‫آفس میں‬ ‫متعلقہ‬ ‫لیئے‬
‫باہر‬ ‫تھی اس لیئے انہوں نے آفس کے‬
‫ہوا تھا ۔۔۔‬ ‫لگایا‬ ‫شامیانہ‬ ‫بڑا سا‬ ‫ایک‬
‫چنانچہ اپنے ہاتھ میں انٹرویو کی سلپ پکڑے‬
‫داخل ہو گیا‬ ‫میں بھی اس شامیانے میں‬
‫ان‬ ‫ہی‬ ‫ہوتے‬ ‫۔۔۔۔۔شامیانے کے اندر داخل‬
‫میں سے ایک لڑکے نے سامنے لگے ایک‬
‫بورڈ کی طرف اشارہ کیا جس میں انٹرویو‬
‫درج تھے وہاں‬ ‫دینے والوں کے نام وغیرہ‬
‫سے‬ ‫کے مطابق‬ ‫جا کر دیکھا تو اس لسٹ‬
‫نمبر تھا۔۔۔۔ اور چونکہ ابھی‬ ‫میرا پچیسواں‬
‫وغیرہ‬ ‫انٹرویو لینے والے افسران‬ ‫تک‬
‫نہ پہنچے تھے اس لیئے انتظار کے سوا کوئی‬
‫چارہ نہ تھا۔۔۔کوئی دو گھنٹے کے بعد انٹرویو‬
‫دفتر میں تشریف الئے‬ ‫لینے والے حضرات‬
‫۔۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔ ایک ایک کر‬
‫جانے‬ ‫کے ہم لوگ انٹرویو کے لیئے اندر‬
‫آ گیا‬ ‫لگے۔۔۔۔ اسی دوران میرا نمبر بھی‬
‫دھڑکتے‬ ‫۔۔۔چنانچہ میرا نام پکارتے ہی ۔۔۔ میں‬
‫داخل ہو ا ۔۔۔ تو‬ ‫دل کے ساتھ کمرے میں‬
‫کے آس پاس‬ ‫میز‬ ‫سی‬ ‫بڑی‬ ‫سامنے ایک‬
‫بیٹھے دیکھا۔۔۔۔ میرے‬ ‫تین چار لوگوں کو‬
‫ہوتے ہی ان میں سے ایک‬ ‫اندر داخل‬
‫نے میرا نام و پتہ پوچھنے کے‬ ‫شخص‬
‫کہا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ تم‬ ‫بعد مجھ سے‬
‫تو‬ ‫ہمارے محکمے میں کیوں آنا چاہتے ہو؟‬
‫ہی جواب دیتے‬ ‫اس پر میں نے ترنت‬
‫کہ روزی روٹی کمانے کے‬ ‫کہا‬ ‫ہوئے‬
‫لیئے۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی طرح انہوں نے مجھ سے کافی‬
‫سواالت کیئے پھر آخر میں ان کے چیف نے جو‬
‫کہ صدارت کی کرسی پر بیٹھا میرے سی وی‬
‫تھا بوال۔۔۔۔ اچھا‬ ‫کو بڑے دھیان سے پڑھ رہا‬
‫یہ بتاؤ کہ اس محکمے میں تمہارا کوئی عزیز‬
‫ہے؟ تو‬ ‫پہلے سے مالزم‬ ‫رشتے دار‬ ‫یا‬
‫پر میں نے اس کی طرف دیکھتے‬ ‫اس‬
‫ہوئے کہا کہ نہیں سر ۔۔ میرا اس محکمے‬
‫رشتے دار مالزم نہ‬ ‫یا‬ ‫کوئی عزیز‬ ‫میں‬
‫ہے ۔۔۔میری بات سن کر اس نے ترچھی نظروں‬
‫میری طرف دیکھا اور پھر ایک لمبی‬ ‫سے‬
‫اچھا‬ ‫کے کہنے لگا‬ ‫سی " ہوں " کر‬
‫اس جاب کے لیئے تمہارے پاس‬ ‫تو یہ بتاؤ‬
‫کوئی سفارش وغیرہ ہے؟ تو میں نے اس‬
‫جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ جی اوپر والے‬ ‫کو‬
‫کے عالوہ میری کوئی سفارش نہ ہے‬
‫میری بات سن کر اس کے چہرے پر ایک طنزیہ‬
‫میری‬ ‫سی مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ‬
‫دیکھتے ہوئے اسی طنزیہ لہجے میں‬ ‫طرف‬
‫۔۔۔۔اچھا تو تم یوں کرو کہ اوپر والے‬ ‫بوال‬
‫مجھے فون کرے ۔۔۔۔ تو میں‬ ‫سے کہو کہ وہ‬
‫تم کو بھرتی کر لوں گا ۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی‬
‫زیر لب مجھے کچھ کہا ( میرا خیال‬
‫اس نے ِ‬
‫ہے کہ اس نے گالی دی تھی) ۔۔ اس کے لب‬
‫ہلتے دیکھ کر میں نے احتجاجا ً کہا ۔۔۔۔سر یہ آپ‬
‫خبیث کا‬ ‫وہ‬ ‫کر رہے ہیں ۔۔۔۔۔۔ تو‬ ‫زیادتی‬
‫رتی بھر‬ ‫کو‬ ‫میرے احتجاج‬ ‫بچہ‬
‫اہمیت نہ دیتے ہوئے بوال ۔۔۔اوکے ۔۔۔اب‬ ‫بھی‬
‫زیر لب کچھ کہا۔۔۔‬
‫تم جا سکتے ہو اور پھر ِ‬
‫کچھ کہنے‬ ‫سے‬ ‫۔۔۔۔ جس پر میں نے دوبارہ‬
‫کی کوشش کی ۔۔۔۔ لیکن اس نے میری بات‬
‫اپنی ایک انگلی کھڑی کر‬ ‫ہی‬ ‫سنے بغیر‬
‫کے بڑی ہی بدتمیزی کے ساتھ مجھے باہر‬
‫جانے کا اشارہ کرتے ہوئے بوال۔۔۔‬
‫دیکھ کر‬ ‫بدتمیزی‬ ‫آؤٹ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی‬
‫لگ‬ ‫آگ سی‬ ‫میں ایک‬ ‫میرے تن بدن‬
‫گئی۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔ مرتا کیا نہ کرتا ۔۔۔۔۔۔۔ اس کا‬
‫دل میں‬ ‫ہی‬ ‫جارحانہ رویہ دیکھ کر میں دل‬
‫الکھ کے قریب گالیاں‬ ‫ایک‬ ‫اس خبیث کو‬
‫سے باہر آ گیا ۔۔۔۔۔۔پھر‬ ‫کمرے‬ ‫ہوئے‬ ‫دیتے‬
‫لیاقت باغ‬ ‫سیدھا‬ ‫ہوا میں‬ ‫وہاں سے ہوتا‬
‫پہنچا تو دور‬ ‫جا‬ ‫اپنے دوستوں کے پاس‬
‫دیکھ کر‬ ‫منہ‬ ‫ہوا‬ ‫لٹکا‬ ‫سے ہی میرا‬
‫تو میں نے‬ ‫اصغر بوال۔۔۔۔۔ کیا ہوا باس؟‬
‫سنا دی ۔۔۔ میری رام‬ ‫دوستوں کو ساری روداد‬
‫ہی اصغر کہنے لگا۔۔۔۔‬ ‫سنتے‬ ‫کو‬ ‫کہانی کو‬
‫" گھوسے"‬ ‫مجھے پہلے ہی پتہ تھا کہ اس‬
‫خیر کی خبر نہیں آئے گی ۔۔۔‬ ‫(پھدی) سے کوئی‬
‫ہمدردی کے ساتھ‬ ‫اس پر نعیم نے بڑی‬
‫دیکھا اور کہنے لگا ۔۔۔ چل کوئی‬ ‫میری طرف‬
‫بات نہیں شاہ ۔ یہ افسر لوگ ایسے ہی بد تمیز‬
‫ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔۔ دل چھوٹا نہ کر‬
‫دوست ۔۔۔ٹرائی ٹرائی اگین ۔۔۔۔۔۔ پھر میری طرف‬
‫کہنے لگا ۔۔۔۔ تمہارے ساتھ تو‬ ‫دیکھتے ہوئے‬
‫یہ کچھ نہیں ہوا یار۔۔۔۔۔۔میری سنو میں اک جگہ‬
‫طرف‬ ‫دینے گیا تو میں نے اپنی‬ ‫انٹر ویو‬
‫سے چئیرمین کو بڑا بھاری بھر کم سفارشی فون‬
‫کروایا تھا لیکن یقین کرو جب انٹرویو کے‬
‫ہدایت کے مطابق‬ ‫وقت میں نے‬ ‫جاری‬

‫ہے‪،‬‬
‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_نمبر_‪06‬‬

‫چیئر مین کا بچہ تپ گیا اور مجھے ڈانٹتے‬


‫کہنے لگا کہ آئیندہ اگر تم نے مجھے‬ ‫ہوئے‬
‫اس بندے سے فون کروایا تو اسی فون کا‬
‫کی‬ ‫ریسور تمہاری اور تمہارے اس سفارشی‬
‫بُنڈ میں دے دوں گا۔۔۔۔پھر کہنے لگا۔۔۔ اس کی‬
‫میں‬ ‫بات سن کر مجھے غصہ تو بہت آیا ۔۔۔لیکن‬
‫ہم مجبور لوگ اس‬ ‫نے صبر کیا ۔۔۔۔۔ کہ‬
‫کیا سکتے ہیں؟‬ ‫کر بھی‬ ‫عالوہ‬ ‫کے‬
‫ہوا‬ ‫مجھے کچھ حوصلہ‬ ‫نعیم کی بات سن کر‬
‫ایک‬ ‫بھی‬ ‫کے باوجود‬ ‫۔۔۔ لیکن اس‬
‫سی میرے دل میں رہ گئی۔۔۔جو‬ ‫خلش‬
‫سال گزرنے کے باوجود بھی‬ ‫آج اتنے‬
‫ہے۔۔۔۔یہ‬ ‫موجود‬ ‫کہیں‬ ‫دل کے اندر‬ ‫میرے‬
‫ب معمول‬
‫کی بات ہے کہ حس ِ‬ ‫اسی دن رات‬
‫عذرا کے گھر دیوار ٹاپ کر‬ ‫میں اور امجد‬
‫پریاں کھڑی‬ ‫گئے تو سامنے ہی وہ دونوں‬
‫انتظار کر رہیں تھیں جیسے ہی ہم ان‬ ‫ہمارا‬
‫نے‬ ‫امجد کی پری‬ ‫کے قریب پہنچے تو‬
‫اور‬ ‫بڑی گرم جوشی سے اس کا استقبال کیا‬
‫ایک دوسرے‬ ‫وہ دونوں ہمارے سامنے ہی‬
‫اس کے بعد ایک‬ ‫کے ساتھ لپٹ گئے اور پھر‬
‫بانہوں میں بانہیں ڈال کر وہ‬ ‫دوسرے کی‬
‫اپنی مخصوص جگہ کی طرف چلے گئے۔۔۔ان‬
‫دیکھا‬ ‫عذرا نے میری طرف‬ ‫کے جاتے ہی‬
‫مسکراتے ہوئے میری‬ ‫۔۔۔۔ اور پھر وہ بھی‬
‫دیکھ‬ ‫طرف آنے لگی۔۔۔۔۔ اسے اپنی طرف آتے‬
‫میری آنکھوں میں رات واال‬ ‫کر اچانک ہی‬
‫گھوم گیا۔۔۔۔۔ اور لمحے کے ہزراویں‬ ‫واقعہ‬
‫کیا‬ ‫حصے میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ایک فیصلہ‬
‫۔۔۔ ۔۔ میں ایک‬ ‫۔۔۔اور پھر یہ فیصلہ کرتے ہی‬
‫دم سیریس ہو کر اپنی جگہ پر کھڑا رہا۔۔۔‬
‫دیکھ کر پہلے تو‬ ‫مجھے یوں سیریس ۔۔۔۔۔‬
‫کھڑی ہو گئی۔۔۔۔پھر معا ً اسے‬ ‫ٹھٹھک کر‬ ‫عذرا‬
‫اپنی رات والی بات یاد آ گئی ۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے‬
‫میں نے اس کی آنکھوں میں‬ ‫ساتھ ہی‬
‫اور ندامت کے آثار دیکھے اور پھر‬ ‫پشیمانی‬
‫وہ بھی سیریس ہو کر میرے پاس آ کھڑ‬ ‫۔۔۔پھر‬
‫معذرت کرتے ہوئے‬ ‫ی ہوئی اور مجھ سے‬
‫کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آئی ایم سو سوری ۔۔۔ڈارلنگ۔۔۔‬
‫کچھ ایسا ہو گیا کہ‬ ‫اچانک ہی‬ ‫رات کو‬
‫اپنے‬ ‫مجھے بھی‬ ‫سے‬ ‫وجہ‬ ‫جس کی‬
‫پڑا۔۔۔۔۔۔ اتنی‬ ‫گھر والوں کے ساتھ جانا‬
‫آگے بڑھی‬ ‫مزید‬ ‫ہی وہ‬ ‫کرتے‬ ‫بات‬
‫اور اس نے میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں‬
‫ہوئے کہنے‬ ‫میں پکڑا ۔۔۔۔۔ اور انہیں دباتے‬
‫لگی۔۔۔۔۔اس لیئے جناب میں رات والے واقعہ پر‬
‫تم سے معذرت کرتی ہوں ۔۔۔۔۔ اس کو معذرت‬
‫کرتے دیکھ کر۔۔۔۔۔میں نے اس کی طرف دیکھا‬
‫اور پھر۔۔۔ صریحا ً جھوٹ بولتے ہوئے کہنے‬
‫ہے کہ کل رات میں‬ ‫لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کو معلوم‬
‫تو وہ ایک بار‬ ‫کس قدر خوار ہوا تھا؟‬
‫لہجے‬ ‫سے بڑے ہی لجاجت بھرے‬ ‫پھر‬
‫۔۔۔ مجھے اندازہ ہے میری‬ ‫میں کہنے لگی‬
‫جان ۔۔۔۔ اسی لیئے تو میں تم سے‬
‫ایکسکیوز کر رہی ہوں۔۔۔ پھر اس نے میرے‬
‫چہرے کو پکڑ کر اپنی طرف کیا اور کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔ کیا تم اپنی جانو کو معاف نہیں کرو گے؟‬
‫مجھے پکا‬ ‫اس کی اس بات سے جب‬
‫والے واقعے کی‬ ‫یقین ہو گیا کہ اسے رات‬
‫کوئی خبر نہیں اور یہ بھی کہ اس نے بھابھی‬
‫واردات‬ ‫والی‬ ‫کے ساتھ مل کر رات‬
‫۔۔۔۔چنانچہ چاروں طرف سے‬ ‫ڈالی تھی‬ ‫نہیں‬
‫نے مسکرا کر‬ ‫بعد میں‬ ‫ہونے کے‬ ‫مطمئن‬
‫اس کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔ کچھ بھی‬
‫عذرا ۔۔ رات تم نے اچھا نہیں کیا۔۔۔۔۔۔۔ پھر میں‬
‫کے نرم‬ ‫اور اس‬ ‫تھوڑا آگے بڑھا‬
‫کر بوال ۔۔۔ میری جان تم کو‬ ‫ہونٹوں کو چوم‬
‫ہی نہیں ۔۔۔۔ کہ رات میں کس قدر‬ ‫اندازہ‬
‫پاگلوں کی طرح تم کو تالش کرتا رہا۔۔۔ ۔۔ اور‬
‫باوجود‬ ‫و بسیار کے‬ ‫تالش‬ ‫جب‬
‫ہزار‬ ‫تو‬ ‫ملی‬ ‫نہ‬ ‫بھی تم مجھے‬
‫مجھے اپنے‬ ‫کے اندیشوں نے‬ ‫طرح‬
‫کے‬ ‫لیا تھا۔۔۔ اتنی بات کر‬ ‫میں‬ ‫گھیرے‬
‫سے اس کے ہونٹوں کو‬ ‫دوبارہ‬ ‫میں‬
‫چوم کر بوال ۔۔۔۔۔ کیا تمہیں معلوم ۔۔۔۔۔ کہ رات میں‬
‫پریشانی کے عالم میں یہاں سے‬ ‫کس قدر‬
‫پر‬ ‫گیا تھا ۔۔۔۔میری بات سن کر وہ مجھ‬
‫ہوتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ مجھے اندازہ‬ ‫نہال‬
‫ہے میری جان ۔!!!!!۔۔مجھے اندازہ ہے۔۔۔ ایک تم‬
‫دل سے‬ ‫سچے‬ ‫ہی تو ہو جو مجھے‬
‫اور ہر طرح سے میری کئیر کرتے‬ ‫چاہتے ہو‬
‫کیا‬ ‫ہو۔۔۔ میرا خیال کرتے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں‬
‫پڑی‬ ‫کرتی جان ۔۔۔ کہ بڑی سخت مجبوری آن‬
‫ہر حال میں تم‬ ‫ورنہ میں نے تو‬ ‫تھی‬
‫اس‬ ‫ملنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔اس پر میں نے‬ ‫سے‬
‫ایسی کون سی‬ ‫سے پوچھا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ‬
‫مجبوری آن پڑی تھی جس کی وجہ سے تم نہیں‬
‫وہ کہنے لگی۔۔۔ کیا بتاؤں‬ ‫ملی۔۔۔۔ ؟ تو‬
‫یار۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اصل میں کل امی کو ڈاکٹر کے پاس‬
‫لے جانا تھا ۔۔۔اور عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ‬
‫۔۔۔۔۔‬ ‫امی کو ڈاکٹر کے پاس دکھانے کے لیئے‬
‫بھائی اور بھابھی‬ ‫ابا کے ساتھ ہمیشہ‬
‫ہیں ۔۔۔ لیکن کل رات اچانک‬ ‫جایا کرتے‬ ‫ہی‬
‫ہی بھابھی کی طبعیت کچھ بگڑ گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔اس‬
‫کی جگہ مجھے جانا پڑ گیا‬ ‫لیئے ان‬
‫ناراضگی کا‬ ‫تھا۔۔۔۔۔۔تو میں نے اس سے‬
‫اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ تم بھی کوئی بہانہ‬
‫ہوئے‬ ‫جواب دیتے‬ ‫ناں۔تو وہ‬ ‫کر لیتی‬
‫کوشش تو کی تھی لیکن بات‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔ میں‬
‫نہیں بنی ۔۔۔عذرا کے بات سن کر میں نے اس‬
‫اگر تمہاری بھابھی بیمار تھی تو‬ ‫کہا ۔۔۔۔ کہ‬
‫جانا‬ ‫ہی‬ ‫اسے‬ ‫ڈاکٹر کے پاس‬ ‫پھر تو‬
‫تا کہ وہ بھی اپنا چیک اپ‬ ‫چاہئے تھا‬
‫کروا لیتی ۔۔۔۔۔۔ تم کیوں گئی؟ تو وہ کہنے لگی‬
‫کہا نا غلطی ہو گئی میری جان۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کان‬
‫پکڑ کر بولی آئیندہ ایسا نہیں ہو گا میری سرکار‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اس کے ساتھ ہی وہ میرے‬
‫گلے سے لگ گئی۔۔جیسے ہی وہ میرے گلے کے‬
‫اسے اپنی با نہوں‬ ‫ساتھ لگی ۔۔میں نے بھی‬
‫میں لے لیا اور اس کے جسم کو‬ ‫کے حصار‬
‫دبانے لگا جس کی وجہ‬ ‫اپنے جسم کے ساتھ‬
‫سے اس کا نرم و نازک اور پھولوں جیسا‬
‫بدن میرے سخت جسم میں دھنسنے لگا ۔۔۔ ادھر‬
‫بدن کے ساتھ‬ ‫میرے‬ ‫اس کے جسم کا‬
‫نیچے سے‬ ‫کی دیر تھی ۔۔۔۔۔۔ کہ‬ ‫ملنے‬
‫سے‬ ‫ت حال ایک دم‬
‫میرے لن کی صور ِ‬
‫گئی ۔۔۔۔ اس کے جسم‬ ‫شروع‬ ‫خراب ہونا‬
‫ایک دم‬ ‫ہی ۔۔۔ میرا لن‬ ‫لمس پاتے‬ ‫کا‬
‫گیا تھا ۔۔۔‬ ‫اتنی سختی کے ساتھ اکڑ‬ ‫سے‬
‫چاہا ۔۔۔۔کہ کسی‬ ‫جی‬ ‫میرا‬ ‫وقت‬ ‫کہ اس‬
‫اس کی‬ ‫بانس‬ ‫ہوا‬ ‫طرح میرا یہ اکڑا‬
‫چوت میں گھس جائے ۔۔۔جبکہ دوسری طرف‬
‫کسنگ کرتے‬ ‫ایک ساتھ‬ ‫۔۔۔ میں اور وہ‬
‫چارپائی سے ہٹ کے دھریک کے‬ ‫ہوئے‬
‫چکے تھے۔۔۔ وہاں‬ ‫پہنچ‬ ‫کے پاس‬ ‫درخت‬
‫کے تنے‬ ‫اس نے دھریک‬ ‫پہنچتے ہی‬
‫کے ساتھ ٹیک لگا لی تھی اور بڑی سیکسی‬
‫میری طرف دیکھنے لگی ۔۔۔۔۔ یہ‬ ‫سے‬ ‫نظروں‬
‫ٹانگوں‬ ‫نے اس کی دونو ں‬ ‫دیکھ کر میں‬
‫اس کی‬ ‫اور پھر‬ ‫مزید کھال کیا‬ ‫کو کچھ‬
‫بیچوں بیچ‬ ‫کے عین‬ ‫ٹانگوں‬ ‫دونوں‬
‫لن کی‬ ‫۔۔۔۔۔ میرے‬ ‫اپنا لن رگڑنے لگا‬
‫ایک‬ ‫اس کے منہ سی‬ ‫ہی‬ ‫لگتے‬ ‫رگڑ‬
‫سی نکلی ۔۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ ہی دیر‬ ‫سسکی‬
‫بھی‬ ‫بعد ۔۔۔۔ تیز تیز سانس لیتی ہوئی عذرا‬
‫ہو گئی‬ ‫شروع‬ ‫ہونا‬ ‫مست سے مست تر‬
‫ہی گھسوں کے بعد ۔۔۔۔وہ‬ ‫۔۔۔ اور۔۔۔۔ پھر کچھ‬
‫سرگوشی‬ ‫۔۔۔ آگے بڑھی اور میرے کان میں‬
‫۔۔۔ میری جان یہ تو بتاؤ‬ ‫کرتے ہوئے بولی‬
‫تم نے‬ ‫تو‬ ‫کہ کل اگر میں تم کو مل جاتی‬
‫ساتھ کیا سلوک کرنا تھا ؟؟؟؟؟۔۔۔ اس‬ ‫میرے‬
‫میں نے نیچے سے اس‬ ‫کی بات سن کر‬
‫رگڑتے‬ ‫کو‬ ‫لن‬ ‫کی چوت پر اپنے‬
‫میں نے‬ ‫پہلے‬ ‫ہوئے کہا ۔۔۔ سب سے‬
‫ان الل الل گالوں کو‬ ‫نے تمہارے‬ ‫میں‬ ‫تو‬
‫تھا‬ ‫چوم چوم کر انہیں اور بھی الل کر دینا‬
‫میں‬ ‫لہجے‬ ‫بھرے‬ ‫۔تو وہ مستی‬
‫لو نا۔۔۔میری جان ۔۔۔۔۔‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔ ابھی چوم‬
‫اپنے دونوں‬ ‫بات سن کر میں نے‬ ‫اس کی‬
‫الل ہوتے ہوئے‬ ‫ہونٹ اس کے شرم سے‬
‫چومنے لگا۔۔۔۔۔‬ ‫گالوں پر رکھے اور انہیں‬
‫ایسے ہی‬ ‫۔۔۔ کچھ دیر تک میں‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫گالوں کو چومتا ۔۔۔اور ساتھ ساتھ‬ ‫اس کے‬
‫اس کی‬ ‫لن کو بھی‬ ‫اپنے‬ ‫نیچے سے‬
‫۔۔ میرا‬ ‫رہا‬ ‫پر رگڑتا‬ ‫الئین‬ ‫پھدی کی‬
‫کے نرم لبوں‬ ‫چوت‬ ‫لن اس کی‬ ‫تنا‬
‫کھا رہا تھا ۔۔۔۔اور‬ ‫رگڑ‬ ‫تیزی کے ساتھ‬ ‫پہ‬
‫میرے ان پاور فل گھسوں کی تاب نہ ال کر‬
‫طوفان‬ ‫کا‬ ‫۔۔عذرا۔۔۔۔ کے منہ سے سسکیوں‬
‫گرم‬ ‫وہ ۔ مزید‬ ‫شروع ہو گیا ۔۔۔۔۔ اور‬ ‫نکلنا‬
‫ہو کر اپنی پھدی کو میرے لن کے ساتھ جوڑنے‬
‫دوبارہ‬ ‫وہ‬ ‫۔۔۔۔۔۔پھر کچھ دیر بعد‬ ‫لگی‬
‫سے آگے بڑھی اور میرے کان کے قریب‬
‫میں‬ ‫اسی مست لہجے‬ ‫ال کر‬ ‫اپنے منہ کو‬
‫بعد تم نے کیا کرنا‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔۔اس کے‬
‫کو‬ ‫اس‬ ‫نے‬ ‫میں‬ ‫تو‬ ‫تھا جانو ؟؟‬
‫۔۔۔۔۔۔میری جان میں‬ ‫ہوئے کہا‬ ‫دیتے‬ ‫جواب‬
‫پیار کرتے‬ ‫ہی‬ ‫ایسے‬ ‫نے تم سے‬
‫میں‬ ‫مست لہجے‬ ‫اسی‬ ‫تھا ۔۔۔تو وہ‬ ‫جانا‬
‫مجھے تفصیل سے بتاؤ‬ ‫نہیں‬ ‫بولی ۔۔۔ ایسے‬
‫کیسے اور کس‬ ‫ساتھ‬ ‫میرے‬ ‫نے‬ ‫کہ تم‬
‫کی‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔عذرا‬ ‫تھا ؟؟؟‬ ‫پیار کرنا‬ ‫طرح‬
‫گھسے‬ ‫نے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کو‬ ‫میں‬ ‫سن کر‬ ‫بات‬
‫مارنے بند کر دیئے۔۔۔۔ اور ایک نظر اس کی طرف‬
‫ٹیک‬ ‫وہ درھیک کے تنے کے ساتھ‬ ‫دیکھا تو‬
‫میری‬ ‫نشیلی نظروں سے‬ ‫بڑی‬ ‫لگائے‬
‫طرف‬ ‫ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔ مجھے اپنی‬ ‫طرف‬
‫کہنے لگی۔۔ بتاؤ نا‬ ‫وہ‬ ‫کر‬ ‫پا‬ ‫متوجہ‬
‫تم نے میرے ساتھ کیا سلوک‬ ‫ں جان۔۔۔۔ رات‬
‫کرنا تھا؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف‬
‫اپنے ہونٹوں‬ ‫سے‬ ‫دوبارہ‬ ‫ہوئے‬ ‫دیکھتے‬
‫کو اس کے ہونٹوں پر رکھا ۔۔۔۔اور انہیں چوم کر‬
‫کرتے ہوئے‬ ‫اس کے کان میں سرگوشی‬
‫میں نے‬ ‫پہلے تو‬ ‫بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سب سے‬
‫تمہارے ان خوب صورت ۔۔۔۔۔سیکسی ۔۔ اور جوسی‬
‫میری کسنگ‬ ‫۔ہونٹوں کو چومنا تھا۔۔۔۔ تو وہ‬
‫بولی۔۔۔ میرے‬ ‫ہوئے‬ ‫لیتے‬ ‫مزہ‬ ‫کا‬
‫بعد تمہارا‬ ‫ہونٹوں کو چومنے کے‬ ‫جوسی‬
‫ہونا تھا ؟؟۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر خود ہی‬ ‫اگال سٹیپ کیا‬
‫میری جان ۔۔۔ مجھے‬ ‫نا ں‬ ‫کہنے لگی۔۔۔ بول‬
‫بڑا مزہ‬ ‫سنتے ہوئے‬ ‫منہ سے‬ ‫تمہارے‬
‫آ رہا ہے ۔۔اس کی بات سن کر میں سمجھ‬
‫گرم ہے چنانچہ‬ ‫کڑی خاصی‬ ‫آج‬ ‫گیا کہ‬
‫میں نے اس کو اسی حساب سے جواب‬
‫دیتے ہوئے کہا۔۔۔ ۔۔۔ اس کے بعد میں نے‬
‫چومنا اور‬ ‫الل گالوں کو خوب‬ ‫تمہارے ان‬
‫چاٹنا تھا ۔۔۔اور ساتھ ہی میں نے اپنی زبان‬
‫الل الل گالوں کو‬ ‫نکالی اور ایک دفعہ پھر اس کے‬
‫شروع کر دیا یہاں تک کہ‬ ‫چومنا اور چاٹنا‬
‫سے‬ ‫اس کے دونوں گال میری زبان کی رطوبت‬
‫زبان‬ ‫گیلے ہو گئے۔۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی میری‬
‫نے اس کے گالوں کو چھوا تو اس نے ایک‬
‫جھرجھری سی لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور سسکی لے کر بولی ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫تھا‬ ‫تم نے میرے گالوں کو صرف چومنا اور چاٹنا‬
‫۔۔۔۔۔۔ جبکہ میں نے تو تمہارے ان گالوں کا کھا‬
‫نے‬ ‫ہی اس‬ ‫جانا تھا ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ‬
‫کو میرے گالوں پر رکھا اور‬ ‫ہونٹوں‬ ‫اپنے‬
‫دانتوں کی مدد سے میرے گالوں کو‬ ‫پھر اپنے‬
‫اس نے اتنے زور‬ ‫پھر‬ ‫کاٹنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫میرے گالوں پر دانت کاٹا کہ میری‬ ‫سے‬
‫نکلتے نکلتے رہ گئی ۔۔۔۔۔ میری اس‬ ‫چیخ‬
‫بھرے لہجے‬ ‫وہ شرارت‬ ‫دیکھ کر‬ ‫حالت کو‬
‫؟ تو میں نے‬ ‫جان‬ ‫میں بولی کیوں کیا ہوا‬
‫اپنے گا ل کو سہالتے ہوئے کہا کہ۔۔۔۔۔۔۔ یار تم نے‬
‫کاٹا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سن کر اس نے‬ ‫بڑے زور سے‬
‫کاٹا‬ ‫میرے اس گال کو کہ جہاں پر اس نے‬
‫مدد سے مساج شروع کر‬ ‫تھا ۔۔۔۔اپنی زبان کی‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر بولی ۔۔سوری پتہ نہیں مجھے کیا‬
‫ہی اس نے دوبارہ‬ ‫ہو گیا تھا۔۔۔اور اس کے ساتھ‬
‫بانہوں کو میرے گرد لپیٹ لیا اور پھر‬ ‫سے اپنی‬
‫ایک ٹائیٹ سی جپھی لگاتے ہوئے اسی‬
‫نا‬ ‫اور بتاؤ‬ ‫نشیلے لہجے میں بولی۔۔۔۔۔ اچھا‬
‫مزید کیا کرنا تھا میرے‬ ‫کہ تم نے‬
‫ساتھ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ؟؟؟؟اس کے لہجے کی مستی دیکھ‬
‫کر ایک بار پھر مجھ پر مزید گرمی سی چڑھ‬
‫گئی اور میں نے اس کی گردن کو چومتے ہوئے‬
‫بڑی بڑی‬ ‫کہا اس کے بعد میں نے تمہاری ان‬
‫دبانا اور‬ ‫کر کے ان کو‬ ‫چھاتیوں کو ننگا‬
‫چوسنا تھا ۔۔۔ میری بات سن کر وہ میرے کان‬
‫کے قریب اپنے ہونٹوں کو الئی اور پھر میرے کان‬
‫کی لو کو چاٹ کر سرگوشی میں بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو‬
‫بڑی بڑی‬ ‫ان‬ ‫ناں ۔۔۔ میری‬ ‫پھر ننگا کر دو‬
‫چھاتیوں کو ۔۔۔۔۔۔ تم کو روکا کس نے‬
‫ہے؟؟؟؟؟؟؟؟ اس کی بات سن کر میں نے جلدی‬
‫سے اس کی قیض کو اوپر کیا اور پھر اس کی‬
‫پر‬ ‫بھاری چھاتیوں‬ ‫ہٹا کر اس کی‬ ‫برا کو‬
‫پل پڑا۔۔ میں نے اس کے تنے ہوئے نپلز کو‬
‫انگلیوں میں پکڑا‬ ‫ہاتھوں کی‬ ‫دونوں‬ ‫اپنے‬
‫لگا ۔۔۔کچھ دیر‬ ‫اور پھر باری باری ان کو چوسنے‬
‫تک اس نے مجھے اپنی چھاتیوں کو چوسنے‬
‫میرے منہ کو اپنی چھاتیوں‬ ‫دیا ۔۔۔۔پھر اس نے‬
‫اور کہنے لگی۔۔۔۔ اس کے بعد کیا کرنا‬ ‫سے ہٹایا‬
‫چھاتیوں کو‬ ‫میں اس کی بھاری‬ ‫تھا؟ تو‬
‫دباتے ہوئے بوال اس کے بعد میں نے تمہاری‬
‫دونوں ٹانگوں کے بیچ لگی چوت کو چاٹنا‬
‫نام سن کر‬ ‫چوت کا‬ ‫تھا۔۔۔۔میرے منہ سے اپنی‬
‫پھر عذرا نے ایک زور دار سسکی لی‬ ‫بار‬ ‫ایک‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔پھر کیا کرنا تھا؟ تو‬
‫میں نے اس سے کہا ۔۔۔اس کے بعد میں نے اپنے لن‬
‫کو تمہاری اس خوبصورت چوت پر رگڑنا‬
‫ترچھی‬ ‫تھا۔۔۔۔۔میری اس بات پر اس نے بڑی‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو ابھی تم کیا کر رہے ہو؟ اس پر‬
‫اپنے تنے‬ ‫پینٹ کے اوپر سے ہی‬ ‫میں نے‬
‫لن کو اس کی پھدی کے نرم‬ ‫اپنے‬ ‫ہوئے‬
‫ہوئے کہا۔۔۔۔ابھی تو یہ سب‬ ‫ہونٹوں پر رگڑتے‬
‫اوپر سے ہو رہا‬ ‫شلوار کے اوپر‬ ‫تمہارہی‬
‫ہے۔۔۔ لیکن تب میں نے تم کو بلکل ننگا کر دینا‬
‫بات سن کر اس نے ایک لزت‬ ‫تھا۔۔۔۔۔ میری‬
‫بھری سسکی لی ۔۔اور پھر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ ہائے تم‬
‫کر دینا تھا ۔؟؟‬ ‫نے مجھے ٹوٹل ننگا‬
‫تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ یس‬
‫ننگا۔۔۔کر دینا تھا‬ ‫ڈارلنگ میں نے تم کو بلکل‬
‫سی لے کر بولی‬ ‫ایک جھرجھری‬ ‫وہ‬ ‫۔۔۔۔ تو‬
‫میں تمہارے سامنے ننگی ہو جا‬ ‫۔۔۔۔اور‬
‫تی۔۔۔۔اور پھر تم نے میرے جسم کی ایک ایک‬
‫تو میں نے‬ ‫دیکھنا تھا ؟؟؟ ؟‬ ‫چیز کو ننگا‬
‫بھرے لہجے‬ ‫بھی اسے گھورتے ہوئے شہوت‬
‫میں کہا۔۔ ہاں بلکل الف ننگی کر کے تمہاری چوت‬
‫اور تمہاری گانڈ اور تھائیز کو دیکھنا تھا ۔۔۔۔۔تو‬
‫وہ کہنے لگی ۔۔۔ بدتمیز تم نے صرف مجھ کو ہی‬
‫ننگا کرنا تھا ؟ تو میں نے اس سے کہا نہیں‬
‫پہلے میں نے ننگا ہونا تھا ۔۔۔اور اس کے ساتھ‬
‫ہی میں نے اپنی پینٹ کی زپ کھولی اور اپنے‬
‫لن کو باہر نکال دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میرا اکڑا‬
‫پھنکارتا ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫انڈروئیر سے‬ ‫لن‬ ‫ہوا‬
‫باہر نکال ۔۔۔۔ تو وہ میرے لن کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے اپنے ہونٹوں کو کاٹنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت‬
‫جزبات کی شدت سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا‬
‫تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ مسلسل میرے لن کو ہی گھورے‬
‫جا رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے اس سے‬
‫کہا۔۔۔ ایسے کیا دیکھ رہی ہو میری جان؟ تو‬
‫کہنے لگی ۔۔۔ کک کچھ نہیں ۔۔۔۔۔ اس پر میں‬ ‫وہ‬
‫نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے لن کو اپنے‬
‫پکڑا۔۔۔اور پھر اس کی آنکھوں میں آنکھیں‬ ‫ہاتھ‬
‫سہالنے لگا ۔۔۔۔اور پھر کچھ‬ ‫ڈال کر اسے‬
‫اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ‬ ‫دیر بعد‬
‫دیا ۔۔ ۔۔۔۔اور پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بوال ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں نے اپنے اس موٹے‬
‫چوت کی دونوں‬ ‫لن کو تمہاری خوب صورت‬
‫کے درمیان رکھنا تھا۔۔۔۔۔لیکن اس‬ ‫پھانکوں‬
‫سے پہلے میں نے تمہاری اس خوب صورت چوت‬
‫کو اپنی زبان کی مدد سے خوب چا ٹنا تھا ۔۔۔۔‬
‫تمہاری چوت نے پانی‬ ‫جس کی وجہ سے‬
‫پر وہ میرے لن‬ ‫تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس‬ ‫چھوڑ دینا‬
‫بولی ۔۔۔ چاٹنے کی کیا‬ ‫کو ہالتے ہوئے شرما کر‬
‫تو ابھی بھی پانی چھوڑ‬ ‫وہ‬ ‫ضرورت ہے‬
‫رہی ہے۔۔۔اس کی بات سنتے ہی میں نے‬
‫کے دنوں‬ ‫چوت‬ ‫اپنے ہاتھ کو اس کی‬
‫وہ‬ ‫پھانکوں کے درمیان رکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو واقعی‬
‫سے‬ ‫کافی گیلی ہو رہی تھی۔۔۔ میرے اس طرح‬
‫ہاتھ پھیرتے دیکھ کر وہ‬ ‫چوت پر‬ ‫اپنی‬
‫کہنے لگی ۔۔کیوں میری بات پر اعتبار نہیں آیا‬
‫تھا۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔اعتبار تو بہت ہے۔۔۔ لیکن‬
‫پھیر‬ ‫ہاتھ کو‬ ‫پر اپنے‬ ‫چوت‬ ‫میں تمہاری‬
‫تھا۔۔۔میری بات سن‬ ‫مزہ لینا چاہتا‬ ‫کر اس کا‬
‫کر وہ شرم سے الل ہو گئی۔۔۔۔۔اور اس نے بڑی‬
‫ہی پیاسی نظروں سے میری طرف دیکھا اور‬
‫بتاؤ کہ‬ ‫بڑے پیار سے کہنے لگی۔۔۔۔اچھا یہ‬
‫تھا ؟؟۔۔۔۔۔ تو میں‬ ‫اس کے بعد تم نے کیا کرنا‬
‫کرتے‬ ‫اشارہ‬ ‫نے اپنے لن کے ہیڈ کی طرف‬
‫اس سے کہا ۔۔۔ میں نے اپنے اس‬ ‫ہوئے‬
‫ٹوپے کو تمہاری چوت کی دونوں‬ ‫موٹے‬
‫کے درمیان رکھ کے رگڑنا‬ ‫پھانکوں‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر اس نے ایک گہری‬
‫پھر شہوت‬ ‫سانس لے کر سسکی بھری ۔۔اور‬
‫لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔۔ اور کچھ نہیں‬ ‫بھرے‬
‫کرنا تھا ؟ تو میں نے کہا ۔۔۔اگر تم اجازت‬
‫ددگی ۔۔۔تو میں اپنے اس لن کو تمہاری چوت‬
‫اندر بھی‬ ‫سا‬ ‫دونوں پھانکوں کے تھوڑا‬ ‫کی‬
‫سنتے ہی اس‬ ‫دینا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری بات‬ ‫ڈال‬
‫نے ایک جھرجھری سی لی جیسے کہ اس‬
‫اندر فیل کیا‬ ‫اپنی چوت کے‬ ‫نےمیرے لن کو‬
‫ہو ۔۔۔اور پھر کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ سب تو تم نے‬
‫کرنا تھا ۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ اتنا کہتے ہوئے وہ کچھ دیر‬
‫کے لیئے رک گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں نے اس سے کہا‬
‫انداز‬ ‫وہ شرارت بھرے‬ ‫۔۔۔ لیکن کیا ڈارنگ؟ تو‬
‫میں کہنے لگی۔۔۔۔ ۔۔۔۔یہ سب تو ٹھیک ہے ۔۔۔۔ لیکن‬
‫اس غریب کی بات نہیں کی‬ ‫تم نے ابھی تک‬
‫چوری چوری گھورتے‬ ‫کہ جسے ہر مالقات میں‬
‫رہتے ہو؟ اس کی بات سن کر میں حیران رہ گیا‬
‫ایسی کون‬ ‫تمہاری‬ ‫اور اس سے بوال ۔۔۔ وہ‬
‫سی جگہ ہے کہ جس کو میں بس چوری چوری‬
‫ایک‬ ‫گھورتا رہتا ہوں؟ ۔۔میری بات سن کر وہ‬
‫دم سے شرما کر چپ ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر میرے‬
‫پر ۔۔۔ وہ بڑے ہی‬ ‫بار پوچھنے‬ ‫بار‬
‫شرمیلے لہجے میں بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری‬
‫ہپس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے اپنے‬
‫ماتھے پر ہاتھ مارا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس سے بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تم‬
‫ٹھیک کہتی ہو۔۔ لیکن یہ بتاؤ کہ تم نے میری اس‬
‫حرکت کو کیسے محسوس کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔کہ میں تو‬
‫تھا‬ ‫کرتا‬ ‫دیکھا‬ ‫بڑی احتیاط کے ساتھ اسے‬
‫اور اسی‬ ‫؟میری بات سن کر وہ مسکرائی‬
‫شرمیلے سے لہجے میں کہنے لگی جس طرح تم‬
‫مردوں کی نظریں ایکسرے ہوتی ہیں ناں‬
‫۔۔۔۔ٹھیک اسی طرح ہم لیڈیز کی نظروں میں بھی‬
‫ہے۔۔۔۔جس‬ ‫ہوتی‬ ‫لگی‬ ‫خوردبین‬ ‫ایک‬
‫ایک نظر میں‬ ‫ہم لوگ کسی بھی مرد کو‬ ‫سے‬
‫دیکھ کر سمجھ جاتی ہیں کہ اس کی نظروں میں‬
‫لیئے کون سے جزبات ہیں۔۔۔۔؟ عذرا کی‬ ‫ہمارے‬
‫ہو‬ ‫سا‬ ‫دم سے شرمندہ‬ ‫بات سن کر میں ایک‬
‫گیا اور پھر اسے کہنے لگا۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے‬
‫میری جان کہ واقعی ہی تم ایک شاندار ہپس کی‬
‫مالک ہو اور اگر تم اجازت دو تو میں تمہاری‬
‫ایک کس کر لوں؟ میری‬ ‫پہ‬ ‫شاندار گانڈ‬ ‫اس‬
‫نے شرم سے اپنی آنکھوں‬ ‫بات سن کر عذرا‬
‫کو بند کرتے ہوئے کہا۔۔۔ تم کو اجازت لینے کی‬
‫میری جان۔۔۔۔۔اس کے‬ ‫کوئی ضرورت نہیں ہے‬
‫ساتھ ہی اس نے گھوم کر اپنا منہ دوسری‬
‫دھریک کے‬ ‫منہ‬ ‫طرف کر لیا ۔۔۔اور اب اس کا‬
‫اور‬ ‫کی طرف جبکہ۔۔۔۔ اس کی موٹی‬ ‫تنے‬
‫کا‬ ‫میرے سامنے تھی۔۔۔۔۔ عذرا‬ ‫شاندار ۔۔۔۔ گانڈ‬
‫ہی میں‬ ‫طرف ہوتے‬ ‫دوسری‬ ‫منہ‬
‫اپنا‬ ‫اور پھر میں نے‬ ‫گیا‬ ‫پر بیٹھ‬ ‫زمین‬
‫گانڈ پر رکھ‬ ‫ہاتھ بڑھا کر اس کی‬
‫ہی‬ ‫بڑی‬ ‫دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔واؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔۔۔۔ اس کی گانڈ‬
‫کچھ دیر تک‬ ‫تھی۔۔۔میں‬ ‫و مالئم‬ ‫نرم‬
‫اپنی‬ ‫رہا۔۔۔۔ پھر میں‬ ‫پھیرتا‬ ‫پر ہاتھ‬ ‫اس‬
‫ایک انگلی کو اس کی گانڈ کی درا ڑ میں‬
‫وہاں‬ ‫لے گیا۔۔۔۔۔۔ اور بڑی آہستگی کے ساتھ‬
‫لگا۔۔۔۔اور اس‬ ‫پھیرنے‬ ‫اپنی انگلی کو‬ ‫پر‬
‫تو وہ‬ ‫لگ رہا ہے عذرا؟‬ ‫سے پوچھا ۔۔۔۔ کیسا‬
‫ایک سسکی بھر کے بولی۔۔۔۔۔ تم میرے جسم کے‬
‫لگاتے ہو۔۔۔ ۔۔۔۔‬ ‫ہاتھ‬ ‫پر‬ ‫حصے‬ ‫جس بھی‬
‫لگتا ہے ۔۔۔ اس کی بات سن‬ ‫اچھا‬ ‫مجھے بہت‬
‫ہی اس کی‬ ‫سے‬ ‫کر میں نے شلوار کے اوپر‬
‫چوم لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫گوشت کو‬ ‫گانڈ کے نرم نرم‬
‫ہی‬ ‫بار‬ ‫ابھی میں نے اس کی گانڈ پر تین چار‬
‫اچانک ہی قریب سے‬ ‫۔۔۔۔‬ ‫تھا کہ‬ ‫کس کیا‬
‫سنائی دی ۔۔۔جسے‬ ‫کچھ سرسراہٹ کی آوا ز‬
‫سے‬ ‫عذرا۔۔۔۔ ایک دم‬ ‫سن کر میں اور‬
‫ہی میں‬ ‫ساتھ‬ ‫ہو گئے اور اس کے‬ ‫چوکنے‬
‫کھڑا ہوا۔۔۔۔ اور دوسری طرف‬ ‫زمین سے اُٹھ‬
‫طرف‬ ‫امجد ہماری‬ ‫نبیلہ اور‬ ‫تو‬ ‫دیکھا‬
‫منہ کچھ‬ ‫کا‬ ‫دونوں‬ ‫ہی آ رہے تھے لیکن‬
‫موڈ بھی کچھ اچھا نہیں‬
‫تھا اور ُ‬ ‫ہوا‬ ‫اترا‬
‫نے عذ را‬ ‫لگ رہا تھا۔۔۔یہ دیکھ کر میں‬
‫جوڑی‬ ‫لیلی مجنوں کی‬
‫ٰ‬ ‫سے کہا ۔۔۔ کہ اس‬
‫کیا۔۔۔میری بات سن کر عذرا نے جلدی‬ ‫کو‬
‫اور بولی‬ ‫رکھی‬ ‫پر انگلی‬ ‫سے اپنے ہونٹوں‬
‫رہے‬ ‫۔۔۔شش۔۔۔۔۔ ُچپ کرو ۔۔۔وہ ادھر ہی آ‬
‫ہیں پھر سرگوشی کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ ان کے‬
‫میں تم کو کل‬ ‫موڈ خراب ہونے کی وجہ‬
‫ہمارے‬ ‫دونوں‬ ‫وہ‬ ‫بتاؤں گی۔۔۔اتنی دیر میں‬
‫ہی امجد‬ ‫تھے۔۔۔ جیسے‬ ‫چکے‬ ‫قریب پہنچ‬
‫ہمارے قریب آیا تو اس نے میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ چلیں بھائی اور میں‬
‫ہاں میں سر ہال کر اس کے ساتھ چل‬ ‫نے‬
‫اور‬ ‫ہوا چہرہ‬ ‫اترا‬ ‫پڑا۔۔۔۔راستے میں امجد کا‬
‫خاموشی کو دیکھ کر میں نے اس سے پوچھا‬
‫نا یار ؟؟۔۔۔کہ معشوقہ سے‬ ‫کیوں خیر تو ہے‬
‫رہے‬ ‫لگ‬ ‫سے‬ ‫مل کر بھی تم کچھ افسروہ‬
‫تو نہیں ہو‬ ‫وغیرہ‬ ‫جھگڑا‬ ‫کوئی‬ ‫ہو‬
‫میری طرف‬ ‫وہ‬ ‫اس سے ۔۔۔ تو‬ ‫گیا‬
‫بات‬ ‫کوئی‬ ‫ایسی‬ ‫دیکھتے ہوئے کہنے لگے‬
‫کا ہاتھ‬ ‫نہیں ہے بھائی۔۔۔اس پر میں نے اس‬
‫پکڑ لیا اور اسے روک کر تشویش بھرے لہجے‬
‫ضرور ہے‬ ‫نہ کچھ گڑ بڑ‬ ‫کچھ‬ ‫بوال‬ ‫میں‬
‫چکر کیا‬ ‫یہ‬ ‫بتاؤ کہ آخر‬ ‫۔۔اب سیدھی طرح‬
‫اس نے میری‬ ‫بات سن کر‬ ‫میری‬ ‫ہے؟‬
‫طرف دیکھا اور پھر بڑے ہی سیریس لہجے‬
‫میں بوال ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ بہت بڑی بات ہو گئی ہے‬
‫بھائی۔۔۔۔ پھر میرے پوچھنے پرکہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ‬
‫ہے کہ۔۔۔۔ کل نبیلہ کا رشتہ آیا‬ ‫بات یہ ہوئی‬
‫کون‬ ‫سے کہا ۔۔لڑکا‬ ‫نے اس‬ ‫تھا۔۔اس پر میں‬
‫وہ کہنے لگا‬ ‫تو‬ ‫ہے؟‬ ‫ہے اور کیا کرتا‬
‫کزن لگتا ہے‬ ‫کا‬ ‫میں اس‬ ‫۔۔۔لڑکا رشتے‬
‫اپنی جیولری‬ ‫پر‬ ‫روڈ‬ ‫مری‬ ‫اور اس کی‬
‫کی دکان ہے۔۔ اس پر میں نے اس سے کہا‬
‫بتاؤ کہ۔۔۔۔اس رشتے کی پوزیشن‬ ‫اچھا یہ‬
‫لہجے میں‬ ‫دکھی‬ ‫بڑے‬ ‫کیا ہے؟ تو وہ‬
‫دوست ۔۔۔اس‬ ‫ہے‬ ‫بوال۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پوزیشن بڑی خراب‬
‫ہاں کر دی ہے۔۔۔۔۔ پھر بڑے‬ ‫کے والدین نے‬
‫ہاتھوں کو ملتے‬ ‫افسوس کے ساتھ اپنے‬
‫ہوئے کہنے لگا ۔۔۔۔یار شاہ جی ۔۔۔۔۔ اتنی جلدی‬
‫۔۔۔۔۔اس‬ ‫تھا‬ ‫چاہیئے‬ ‫اس کا رشتہ نہیں آنا‬
‫ہنستے ہوئے اس سے بوال۔۔۔۔۔کیوں نہیں‬ ‫پر میں‬
‫جوان ہے خوب‬ ‫تھا؟؟ ۔۔۔۔۔۔ نبیلہ‬ ‫چاہیئے‬ ‫آنا‬
‫سے بڑی بات یہ ہے کہ‬ ‫صورت ہے اور سب‬
‫اس‬ ‫مالدار لوگ ہیں‬ ‫کافی‬ ‫والدین‬ ‫اس کے‬
‫ایسی کوئی اچھنبے‬ ‫آنا‬ ‫رشتہ‬ ‫لیئے اس کا‬
‫کی بات نہیں ہے۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے اس کی طرف‬
‫ہوئے کہا۔۔۔۔ سالے میری مان۔۔۔ اور اس‬ ‫دیکھتے‬
‫اس‬ ‫شادی‬ ‫کی‬ ‫کہ اس‬ ‫سے پہلے‬
‫جائے ۔۔اس کی‬ ‫ہو‬ ‫سنیارے کے ساتھ‬
‫تو‬ ‫(پھدی) مار لے۔۔۔ یہ نہ ہو کہ بعد میں‬
‫ہی اس‬ ‫پھرے ۔۔۔ میری بات سنتے‬ ‫پچھتاتا‬
‫پر غصے کے آثار پیدا ہو گئے‬ ‫کے چہرے‬
‫بڑی‬ ‫ہوئے‬ ‫دیکھتے‬ ‫میری طرف‬ ‫اور وہ‬
‫ہی تلخی سے بوال۔۔۔۔۔ سب تمہاری طرح لڑکی کو‬
‫ہی نہیں دیکھتے‬ ‫کی نظر سے‬ ‫صرف لن‬
‫کی بات سن کر میں بھنا کربوال۔۔ ۔۔۔میری‬ ‫۔امجد‬
‫سے نہیں۔۔۔ بلکہ‬ ‫جان میں لن کے نقطہء نظر‬
‫سچائی بیان کر رہا ہوں ۔۔۔ پھر میں نے اس سے‬
‫شادی اس‬ ‫اس کی‬ ‫کہا اچھا ۔۔۔۔ فرض کرو اگر‬
‫سنیارے کی بجائے تمہارے ساتھ ہو جائے تو‬
‫میری بات‬ ‫کیا کرو گے؟‬ ‫تم اس کے ساتھ‬
‫ہوئے لہجے میں بوال‬ ‫الجھے‬ ‫سن کر وہ‬
‫اپنی بیوی‬ ‫اس کو بڑے پیار سے‬ ‫۔۔۔ میں‬
‫سالے‬ ‫بناؤں گا ۔۔۔ اس پر میں بوال۔۔۔۔ کہ‬
‫وہ آٹومیٹک ہی‬ ‫بیوی تو شادی کے بعد‬
‫بن جائے گی ۔۔۔۔۔ یہ بتاؤ کہ تم‬ ‫تمہاری‬
‫بعد اس کے ساتھ کیا کرو گے؟ تو‬ ‫کے‬ ‫اس‬
‫ہوئے لہجے میں کہنے‬ ‫اسی الجھے‬ ‫وہ‬
‫لگا ۔۔۔ظاہر ہے میں اس کے ساتھ سہاگ رات‬
‫مناؤں گا ۔۔۔ اس پر میں نے اس کی آنکھوں میں‬
‫آنکھیں ڈال کر کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سہاگ رات کو اس‬
‫کے ساتھ کیا کرو گے؟ اس کی پھدی ہی‬
‫مار لو‬ ‫ابھی‬ ‫وہ‬ ‫ناں؟ تو‬ ‫گے‬ ‫مارو‬
‫نہ‬ ‫افسوس‬ ‫کو کوئی‬ ‫کہ بعد میں تم‬ ‫۔۔۔۔ تا‬
‫چڑ‬ ‫ہی‬ ‫رہے۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بڑے‬
‫بوال۔۔۔ شاہ پلیززز‬ ‫میں‬ ‫لہجے‬ ‫چڑے‬
‫اپنے پاس ہی‬ ‫کو تم‬ ‫فلسفے‬ ‫۔۔اپنے‬
‫میرے حال پہ‬ ‫مجھے‬ ‫۔۔۔ اور‬ ‫رہنے دو‬
‫مجھے چھوڑ کر‬ ‫ہی‬ ‫چھوڑ دو ۔۔۔ یہ کہتے‬
‫بڑھ‬ ‫آگے کو‬ ‫کے ساتھ‬ ‫تیزی‬ ‫وہ‬
‫دیکھ کر میں نے‬ ‫گیا۔۔۔ اسے یوں جاتے‬
‫ہوئے اس سے‬ ‫لگاتے‬ ‫آواز‬ ‫پیچھے سے‬
‫کہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لن تے وجو۔۔۔۔ توں تے تیری‬
‫معشوق۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر اس نے سر گھما کر‬
‫آ کر‬ ‫میری طرف دیکھا اور واپس میرے پاس‬
‫شاہ۔۔۔۔کبھی تو سیریس‬ ‫کہنے لگا۔۔۔۔۔ پلیزززززززز‬
‫ساتھ‬ ‫نے اس کے‬ ‫ہو جایا کرو۔۔ اس پر میں‬
‫ہے میرا‬ ‫ہوتا‬ ‫سیریس‬ ‫کہا‬ ‫چلتے ہوئے‬
‫لن۔۔۔۔۔ میری بات سن کر اس نے ایک بار پھر‬
‫لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔تو‬ ‫دیکھا اور کہنے‬ ‫میری طرف‬
‫جب میں‬ ‫سدھرے گا ۔اگلے دن بھی‬ ‫نہیں‬
‫اور‬ ‫افسروہ‬ ‫اسے ایسے ہی‬ ‫نے‬
‫ہی دکھی‬ ‫پریشان ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور کچھ زیادہ‬
‫بوال ۔۔۔ یار اگر‬ ‫سے‬ ‫ہمدردی‬ ‫دیکھ کر بڑی‬
‫ہے تو اپنے گھر‬ ‫ہی سنگین‬ ‫معاملہ اتنا‬
‫دو ۔۔۔ میری بات سن کر‬ ‫وہاں بھیج‬ ‫والوں کو‬
‫امی‬ ‫نے‬ ‫میں‬ ‫کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رات‬ ‫وہ‬
‫اس پر میں نے کہا کہ پھر‬ ‫سے بات کی تھی‬
‫وہی‬ ‫کہنے لگا‬ ‫جواب مال ۔۔۔۔۔۔۔تو وہ‬ ‫کیا‬
‫بری‬ ‫کر رہا تھا ۔۔۔ بہت‬ ‫جس کی میں توقع‬
‫جھکا‬ ‫ڈانٹ پڑی۔۔۔۔اور پھر سر‬ ‫طرح سے‬
‫میرے ساتھ ساتھ چلنے لگا ۔۔۔ حقیقت یہ‬ ‫کر‬
‫دیکھ کر دل ہی دل‬ ‫ہے کہ امجد کی حالت کو‬
‫ہو رہا تھا ۔۔۔‬ ‫افسوس‬ ‫بھی‬ ‫مجھے‬ ‫میں‬
‫کا تھا کہ‬ ‫اس قسم‬ ‫کچھ‬ ‫معاملہ‬ ‫لیکن‬
‫(ماسوائے اس کے‬ ‫میں تو کیا ۔۔۔۔کوئی بھی‬
‫اس‬ ‫کچھ نہیں سکتا تھا‬ ‫والدین کے )‬
‫میری‬ ‫مال تو‬ ‫سے‬ ‫شام جب میں عذرا‬
‫سہیلی کی طرف‬ ‫اپنی‬ ‫بھی‬ ‫اسے‬ ‫طرح‬
‫پایا ۔۔۔۔ وہ بار بار مجھ‬ ‫بڑا افسردہ‬ ‫سے‬
‫کا‬ ‫ایک ہی بات کہتی رہی۔۔۔ کہ۔۔ان‬ ‫سے‬
‫ہی‬ ‫واقعہ‬ ‫یہ دونوں‬ ‫۔۔کہ‬ ‫کرو یار‬ ‫کچھ‬
‫ایک دوسرے کے بنا نہیں رہ سکتے ۔۔۔ اور‬
‫نہ‬ ‫امجد‬ ‫نبیلہ کو‬ ‫کہ اگر‬ ‫پھر کہتی‬
‫مر جائے گی ۔۔۔ اس لیئے۔۔۔۔۔ ان‬ ‫مال تو ۔۔۔۔ وہ‬
‫خود ہی بڑی‬ ‫پھر‬ ‫چاہیئے‬ ‫کچھ کرنا‬ ‫کا‬
‫کیا‬ ‫بے بسی کے ساتھ کہتی ۔۔۔ لیکن ہم کر بھی‬
‫کو‬ ‫سکتے ہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ ماحول کی سنگینی‬
‫اور‬ ‫اُٹھا‬ ‫سے‬ ‫جگہ‬ ‫اپنی‬ ‫دیکھ کر میں‬
‫رکھ‬ ‫پر‬ ‫کے ہونٹوں‬ ‫عذرا‬ ‫ہونٹوں کو‬ ‫اپنے‬
‫یہی کر سکتا ہوں‬ ‫بس‬ ‫کر بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں تو‬
‫دوبارہ‬ ‫اور یہ کہہ کر جیسے ہی میں نے‬
‫اپنے منہ کو عذرا‬ ‫لیئے‬ ‫سے کس کرنے کے‬
‫نے‬ ‫اس‬ ‫کیا تو‬ ‫قریب‬ ‫کے منہ کے‬
‫منہ پر ہاتھ رکھ لیا‬ ‫سے اپنے‬ ‫ایک دم‬
‫اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ نا کرو‬
‫وقت‬ ‫پلیزززززززززززززززز۔۔۔ کہ اس‬
‫کچھ بھی اچھا نہیں لگ رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس‬ ‫مجھے‬
‫نے دل ہی دل میں اس‬ ‫کی بات سن کر میں‬
‫سے کہا ۔۔۔۔۔۔ چومی نہیں دینی ۔۔۔تے ۔۔۔ لن تے‬
‫منہ‬ ‫سا‬ ‫۔۔۔۔۔۔سنجیدہ‬ ‫وج۔۔۔ لیکن بظاہر بڑ ا‬
‫بیٹھ گیا۔۔۔۔۔‬ ‫کر‬ ‫بنا‬

‫ہے‬ ‫اس سے اگلے دن جمعرات تھی ۔۔۔اور ظاہر‬


‫کے‬ ‫بے چینی‬ ‫میں اس دن کا بڑی‬ ‫کہ‬
‫انتظار کر رہا تھا۔۔ چنانچہ اس دن خاص‬ ‫ساتھ‬
‫طور پر میں اچھی طرح نہایا اور اوپر نیچے‬
‫کے بالوں کو اچھی طرح صاف کیا ۔۔اور پھر‬
‫کا انتظار‬ ‫ہو کر۔۔۔۔۔ دس بجنے‬ ‫ٹیٹ‬ ‫ٹشن‬
‫دس‬ ‫نے‬ ‫کرنے لگا ۔۔ جیسے ہی گھڑی‬
‫چلتا ہوا‬ ‫بجائے میں گھر سے نکل پڑا ۔۔ اور‬
‫پی‬ ‫ایک اور‬ ‫دور‬ ‫محلے سے‬ ‫اپنے‬
‫گیا۔۔۔۔ اور وہاں بیٹھے ہوئے‬ ‫پر پہنچ‬ ‫سی‬
‫بھابھی کے گھر کا (چٹ‬ ‫بندے کو میں نے‬
‫وقت‬ ‫زبانی نمبر بتایا ۔۔کہ اس‬ ‫کے بغیر)‬
‫کا نمبر رٹ چکا‬ ‫تک میں بھابھی کے گھر‬
‫فون کی‬ ‫دوسری طرف‬ ‫تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی‬
‫نے میرے ہاتھ میں‬ ‫گھنٹی بجی اس شخص‬
‫ریسور تھما دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنی دیر میں دوسری طرف‬
‫تھا۔۔۔۔ جیسے‬ ‫اُٹھا لیا‬ ‫سے کسی نے فون‬
‫ہیلو کہا تو میں بھابھی کے‬ ‫ہی اس نے‬
‫مطابق بوال۔۔۔ ہیلو‬ ‫دیئے ہوئے کوڈ کے‬
‫والوں کی دکان‬ ‫پٹیالہ سنز‬ ‫!!!!!!۔۔۔یہ‬
‫کوڈ‬ ‫ہے؟؟تو دوسری طرف سے بھابھی‬
‫پٹیالہ‬ ‫اسی‬ ‫یہ‬ ‫جی‬ ‫کر بولی۔۔۔۔۔‬ ‫پہچان‬
‫ہے کہ جس نے اس رات‬ ‫دکان‬ ‫کی‬ ‫والوں‬
‫ہم‬ ‫تھا ۔۔۔۔۔ ؟ تو میں نے کہا‬ ‫آ پ کو پٹایا‬
‫کے لیئے آپ‬ ‫ٹھیک کرنے‬ ‫نے ایک لہنگا‬
‫تھا وہ ٹھیک ہو گیا ہے کیا؟ تو‬ ‫کو دیا‬
‫کی چہکتی‬ ‫بھابھی‬ ‫سے‬ ‫طرف‬ ‫دوسری‬
‫دی ۔۔۔۔ آپ کا مال بلکل ریڈی‬ ‫سنائی‬ ‫آواز‬ ‫ہوئی‬
‫آ کر لے‬ ‫ہے جناب ۔۔۔۔۔۔۔ جلدی سے‬
‫جاؤ۔۔۔۔۔۔بھابھی کی طرف سے آل ادکے کا پیغام‬
‫خوشی سے ریسیور‬ ‫سنتے ہی میں نے بڑی‬
‫ہی لگا تھا‬ ‫رکھا اور جلدی سے باہر جانے‬
‫پیچھے سے پی سی او والے کی آواز‬ ‫کہ‬
‫کال کے‬ ‫بھائی صاحب‬ ‫سنائی دی کہ‬
‫پیسے تو دیتے جاؤ ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں‬
‫کچھ شرمندہ سا ہو گیا اور اسے پیسے دے کر‬
‫بھابھی سے ملنے چال گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر احتیاط‬
‫سے دیوار ٹاپ کر ان گھر اتر گیا ۔۔۔۔اور پھر‬
‫ہی ان کے‬ ‫جیسے‬ ‫ادھے ادھر دیکھتے ہوئے‬
‫پر پہنچا تو دیکھا کہ ان کا‬ ‫بیک دروازے‬
‫دروازہ کھال ہوا تھا اور دروازے کے عین‬
‫بیچ میں بھابھی کھڑی تھی ۔۔ مجھے دیکھ کر‬
‫سے‬ ‫اور اشارے‬ ‫ہالیا‬ ‫اس نے اپنا ہاتھ‬
‫کہ‬ ‫سیدھا اندر آنے کو کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ( گویا‬
‫اندر آ۔۔۔۔‬ ‫سوہنیا ۔۔۔۔ سدھا‬ ‫نہ کھڑکا‬ ‫کنڈی‬
‫واال معاملہ تھا )جیسے ہی میں اندر پہنچا ۔۔۔ تو اس‬
‫اور وہ‬ ‫بند کر دیا‬ ‫نے فوراً دروازے کو‬
‫اور میں ان کی طرف دیکھنے‬ ‫میری‬
‫پیلے رنگ‬ ‫بھابھی نے‬ ‫لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت‬
‫بڑی‬ ‫پر‬ ‫کی قمیض پہنی ہوئی تھی جس‬
‫تھی ۔۔۔۔۔۔ اور‬ ‫ہو ئی ہوئی‬ ‫سی کڑھائی‬ ‫ڈینسٹ‬
‫کا‬ ‫بات یہ تھی کہ اس‬ ‫اس قمیض کی خاص‬
‫آج‬ ‫کافی کھال تھا ۔۔۔۔۔ اس دن کے برعکس‬ ‫گال‬
‫دوپٹہ وغیرہ‬ ‫پر کوئی‬ ‫بھابھی نے اس شرٹ‬
‫سے‬ ‫تھا ۔۔۔۔ جس کی وجہ‬ ‫ہوا‬ ‫لیا‬ ‫نہ‬
‫چھاتیاں‬ ‫سے اس کی‬ ‫بھابھی کی قمیض میں‬
‫باہر کو جھانک رہیں تھیں۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ‬
‫سے شیڈ کی‬ ‫اس نے اپنے ہونٹوں پر ایک ہلکے‬
‫لگائی ہوئی تھی ۔۔۔اور آنکھوں میں‬ ‫سرخی بھی‬
‫ہوا تھا ۔۔۔اور یہ کاجل یہ‬ ‫ڈاال‬ ‫کاجل بھی‬
‫رنگ کی قمیض ۔۔۔۔۔۔۔ سب‬ ‫پیلے‬ ‫سرخی ۔۔۔۔اور‬
‫رہی تھی۔۔‬ ‫جچ‬ ‫اس پر بہت‬
‫جائزہ لے ہی رہا تھا کہ‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔ابھی میں اسکا‬
‫سے‬ ‫شہوت بھری نظروں‬ ‫جو کہ‬ ‫۔۔۔۔ بھابھی‬
‫دیکھ رہی تھی کہن ے لگی۔۔۔۔ کیا دیکھ‬ ‫میری طرف‬
‫تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔۔ یہ سرخی‬ ‫رہے ہو؟‬
‫لگ رہی‬ ‫بہت اچھی‬ ‫آپ کے ہونٹوں پر‬
‫بولی ۔۔۔اس سرخی کو‬ ‫ہے تو وہ آگے بڑھ کر‬
‫کو‬ ‫میرے ہونٹوں‬ ‫نے ابھی‬ ‫تم‬ ‫تو‬
‫اتار دینا ہے ۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ‬ ‫چوس کر‬
‫میرے ساتھ‬ ‫آ کر‬ ‫ہی وہ آگے بڑھی ۔۔۔۔اور‬
‫گوشت‬ ‫نرم و نازک‬ ‫لپٹ گئی۔۔۔۔ اس کے جسم کا‬
‫میرے ساتھ چپکنے لگا ۔۔۔ان کے جسم کے‬
‫ساتھ میرے جسم کے ٹچ ہونے کی دیر تھی ۔۔۔۔ کہ‬
‫میرا لن‬ ‫تیار‬ ‫کے لئیے‬ ‫صبع سے چودائی‬
‫ہو گیا۔۔۔۔ اس دوران میں‬ ‫انگڑائی لے کر کھڑا‬
‫نے اپنے منہ کو اس کے قریب کیا اور پھر اس‬
‫کو اپنے ہونٹوں میں‬ ‫ہونٹوں‬ ‫کے نرم نرم‬
‫لیکر چوسنے لگا۔۔۔۔۔ اسی دوران اس نے میری‬
‫زبان کو اپنے منہ میں لیا ۔۔۔۔اور پھر بڑے‬
‫سیکسی انداز میں اسے چوسنے لگی۔۔۔ کافی دیر‬
‫تک وہ میرے ساتھ چمٹی اسی طرح کسنگ کرتی‬
‫رہی ۔۔۔ پھر اس نے خود کو مجھ سے چھڑایا‬
‫میری‬ ‫۔۔۔۔اور مسکرا کر بولی۔۔۔۔ کیسی لگی‬
‫تو میں نے جواب‬ ‫ویلکم کس؟؟؟؟؟؟؟؟؟‬
‫دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ایک دم فسٹ کالس اور سیکس‬
‫سے بھر پور۔۔۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ سیکس ابھی‬
‫ہونی‬ ‫تو پارٹی شروع‬ ‫کہاں دوست ۔۔۔ ابھی‬
‫ساتھ لے کر‬ ‫اور پھر مجھے اپنے‬ ‫ہے۔۔۔۔‬
‫لگی اور پھر چلتے چلتے ایک‬ ‫چلنے‬
‫کمرے کے قریب پہنچ گئی ۔۔۔اور پھر کمرے کے‬
‫سے شیشے میں اس‬ ‫لگے ایک بڑے‬ ‫باہر‬
‫دیکھا اور پھر ایک‬ ‫کو‬ ‫چہرے‬ ‫اپنے‬ ‫نے‬
‫مڑ کر میری طرف دیکھتے ہوئے‬ ‫سے‬ ‫دم‬
‫ہونٹوں کی طرف اشارہ کر کے بولی۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫اپنے‬
‫کیوں میں نے ٹھیک کہا تھا نا کہ تم نے میرے‬
‫ہونٹوں پہ لگی اللی کو نہیں رہنے دینا۔۔۔۔۔ پھر‬
‫اپنے ہونٹوں کے میرے چہرے کے عین قریب‬
‫کرتے ہوئے بولی ۔۔۔خود ہی دیکھ لو‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔تھوڑی سی کسنگ کے بعد ہی ۔۔۔۔۔۔‬
‫کا نشان بھی‬ ‫میرے ہونٹوں پر کہیں سرخی‬
‫اس کے‬ ‫اس پر میں نے‬ ‫ہے؟‬ ‫باقی‬
‫ہونٹوں کو اپنے منہ میں لے کر ایک چما‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے ہونٹوں کی‬ ‫اور‬ ‫دیا‬
‫ساری اللی میں نے چوس لی ہے۔۔۔ اس پر‬
‫وہ بڑے الڈ سے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم نے تو صرف‬
‫کی اللی چوسی ہے جان۔۔۔ ۔۔ اور پھر‬ ‫ہونٹوں‬
‫رکھ کر بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔‬ ‫میرے لن پر ہاتھ‬
‫ہم‬ ‫سے‬ ‫طرح‬ ‫کہ۔۔۔۔۔کس‬ ‫دیکھنا‬ ‫لیکن تم‬
‫ایک ایک چیز کو‬ ‫پر لگی‬ ‫جسم‬ ‫۔۔۔۔۔۔ تیرے‬
‫چوس لیں گے ۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی اس نے‬
‫مجھے کمرے میں داخل ہونے کا اشارہ‬
‫میں نے‬ ‫ہو کر‬ ‫کیا۔۔کمرے میں داخل‬
‫تھا‬ ‫سا کمرہ‬ ‫ایک بڑا‬ ‫دیکھا کہ۔۔۔وہ‬
‫دبیز سا‬ ‫ایک‬ ‫کلر کا‬ ‫جس میں گرین‬
‫تھا ۔۔۔۔اور اس بڑے سے کمرے کے‬ ‫قالین پڑا‬
‫بڑا‬ ‫ہی‬ ‫بہت‬ ‫میں ایک‬ ‫عین وسط‬
‫جس کے‬ ‫تھا۔۔۔‬ ‫ہوا‬ ‫پڑا‬ ‫ٹیبل‬ ‫ڈائینگ‬
‫سٹائلش‬ ‫بڑی‬ ‫میں‬ ‫چاروں ا طراف‬
‫پڑی تھیں ۔۔میں‬ ‫کی کرسیاں‬ ‫لکڑی‬ ‫سی‬
‫کو‬ ‫ڈیکوریشن‬ ‫اور اس کی‬ ‫تو کمرہ‬
‫یوں‬ ‫رہ گیا۔۔۔۔ مجھے‬ ‫مہبوت‬ ‫دیکھ کر‬
‫میں دیکھ کر بھابھی نے میرا ہاتھ پکڑا‬ ‫سکتے‬
‫اور ایک کرسی کی طرف اشارہ کر کے بولی‬
‫۔۔۔اس‬

‫پر بیٹھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میں نے جو نظر اُٹھا کر اس‬


‫دیکھا تو‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫ڈائینگ ٹیبل‬
‫پینے کی کافی چیزیں پڑیں‬ ‫وہاں پر کھانے‬
‫پر کھانے کی اتنی ساری‬ ‫ہوئیں تھی ۔۔۔۔ ٹیبل‬
‫چیزیں دیکھ کر میں حیران رہ گیا ۔۔۔اور اس سے‬
‫رہ سکا کہ۔۔۔۔ ۔۔۔ اتنی‬ ‫نہ‬ ‫بنا‬ ‫پوچھے‬
‫ہے‬ ‫آ رہا‬ ‫چیزیں ؟ کوئی مہمان‬ ‫زیادہ‬
‫کیا؟‬

‫مسکرا کر بولی ۔۔۔مہمان میری جان تو آ‬ ‫تو وہ‬


‫اس دن‬ ‫چکا ہے ۔۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔اصل میں‬
‫میں تمہاری کوئی خدمت نہیں کر سکی تھی ناں‬
‫دن‬ ‫کا‬ ‫دن۔۔۔۔ جمع۔۔۔۔ آج‬ ‫وہ‬ ‫۔۔۔اس لیئے آج‬
‫مہمان داری‬ ‫دو دنوں کی‬ ‫۔۔۔ یہ تمہاری‬
‫نے اس سے کہا کہ ۔۔۔‬ ‫میں‬ ‫ہے۔۔۔ اس پر‬
‫تو‬ ‫چیزوں کو میں‬ ‫ساری‬ ‫ڈھیر‬ ‫اتنی‬
‫نہیں کھا سکتا ۔۔۔۔ میری بات سن کر بھابھی‬
‫اپنی‬ ‫جو کہ میرے ساتھ والی کرسی پر‬
‫دونوں کہنیوں کو میز پر ٹکا کر بیٹھی تھی‬
‫۔۔۔۔۔ میری طرف جھکتے ہوئے اک ادا سے‬
‫نہ میری جان۔۔۔۔۔ وہ کم‬ ‫بولی ۔۔۔ کچھ کھاؤ‬
‫زاویہ سے بیٹھی تھی کہ‬ ‫بخت میرے سامنے اس‬
‫چھاتیاں‬ ‫جس سے اس کی آدھ ننگی‬
‫بلکہ اسی‬ ‫مجھے صاف نظر آ رہیں تھیں‬
‫اور آگے‬ ‫تھوڑا‬ ‫اگر‬ ‫زاویہ میں وہ‬
‫کے کھلے گلے‬ ‫اس‬ ‫جاتی تو‬ ‫جھک‬ ‫کو‬
‫اس کی چھایتوں کے‬ ‫قمیض میں سے‬ ‫والی‬
‫نپلز نے بھی باہر نکل آنا تھا۔۔۔ بھابھی کی‬
‫لگ‬ ‫آدھ کھلی چھاتیاں اس قدر توبہ شکن‬
‫نیچے‬ ‫کر‬ ‫رہی تھیں کہ انہیں دیکھ دیکھ‬
‫پر‬ ‫طور‬ ‫بھی مکمل‬ ‫پپو‬ ‫میرا‬ ‫سے‬
‫اتنی‬ ‫وہ‬ ‫وقت‬ ‫اکڑ چکا تھا ۔۔اور اس‬
‫تھا کہ اس‬ ‫ہوا‬ ‫اکڑا‬ ‫کے ساتھ‬ ‫سختی‬
‫کی وجہ سے میری پینٹ میں ایک طرف بہت‬
‫ابھار سا بن گیا تھا۔جبکہ دوسری طرف‬ ‫بڑا‬
‫دونوں‬ ‫اپنی‬ ‫بھابھی اسی طرح میز پر‬
‫کہنیاں ٹکائے بار بار مجھے کھانے کا کہہ‬
‫پر‬ ‫کے اصرار‬ ‫بھابھی‬ ‫رہی تھی ۔۔۔پھر‬
‫چیزو‬ ‫دو‬ ‫ایک‬ ‫ان میں سے‬ ‫۔۔۔میں نے‬
‫اس طرح‬ ‫میرے‬ ‫لیا ۔۔لیکن‬ ‫ں کو چھک‬
‫نہیں ہو‬ ‫وہ مطمئن‬ ‫چکھنے سے‬ ‫چیزوں کو‬
‫مجھے‬ ‫کے‬ ‫کر‬ ‫اور اصرار‬ ‫رہی تھی‬
‫رہی تھی۔۔۔۔۔ اس کے‬ ‫کا کہہ‬ ‫کھانے‬ ‫مزید‬
‫ساتھ ساتھ اب اس کی نظریں میری پینٹ کے‬
‫ہوئیں‬ ‫بڑے سے ابھا ر پر بھی لگی‬
‫مجھے مختلف چیزیں‬ ‫تھیں۔۔۔۔کچھ دیر تک وہ‬
‫اچانک‬ ‫کا اصرار کرتی رہی پھر‬ ‫کھانے‬
‫وہ اپنی جگہ سے اُٹھی اور میری طرف‬
‫اپنے‬ ‫میں‬ ‫ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ٹہرو‬ ‫بڑھتے‬
‫ہاتھ سے کھالتی ہوں ۔۔۔ یہ‬ ‫اپنے‬ ‫جانو کو‬
‫قریب پہنچ‬ ‫وہ میری کرسی کے‬ ‫کہتے ہوئے‬
‫اپنی کرسی کو تھوڑا‬ ‫گئی۔۔۔۔اور کہنے لگی‬
‫پیچھے کھسکا دو ۔۔۔۔اور جب میں نے کرسی کو‬
‫پیچھے کیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔وہ اپنی جگہ سے اُٹھی۔۔۔اور‬
‫اس نے اپنی‬ ‫۔۔۔پہلے تو‬ ‫میرے پاس آ کر‬
‫پیچھے سے اوپر کیا اور پھر‬ ‫قمیض کو‬
‫ادھر‬ ‫دونوں ٹانگوں کو‬ ‫اپنی‬ ‫اس نے‬
‫پھر‬ ‫آ گئی۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫ادھر کے ۔۔۔۔ میرے اوپر‬
‫کی‬ ‫پینٹ پر بنے ابھار کی طرف‬ ‫میری‬
‫طرف نظریں جمائے ۔۔۔۔۔ اپنی پھدی کو کچھ‬
‫کہ میرے‬ ‫ایڈجسٹ کیا‬ ‫اس مہارت کے ساتھ‬
‫دونوں‬ ‫عین اس کی چوت کی‬ ‫ابھار‬ ‫لن کا‬
‫کے درمیان آ گیا۔۔۔۔ جیسے ہی اس کی‬ ‫پھاڑیوں‬
‫میری‬ ‫ہوئی۔۔۔۔تو‬ ‫چوت میرے لن پر سیٹ‬
‫اس نے‬ ‫بیٹھے بیٹھے‬ ‫میں‬ ‫گود‬
‫میں سے‬ ‫بڑھا کر۔۔۔ پاس پڑی پلیٹ‬ ‫ہاتھ‬
‫اُٹھایا اور اسے‬ ‫پیس‬ ‫ایک‬ ‫کا‬ ‫بسکٹ‬
‫اپنے منہ میں لینے سے پہلے۔۔۔۔۔ بڑے ہی‬
‫بولی ۔۔۔ ۔۔۔۔۔‬ ‫رومینٹک اور ہوس بھرے لہجے میں‬
‫جانو میرے ساتھ مل کر کھاؤ ۔۔اور پھر اس نے‬
‫منہ میں‬ ‫اپنے‬ ‫پیس آدھا‬ ‫وہ‬ ‫کا‬ ‫بسکٹ‬
‫دیا ۔۔۔۔ اور‬ ‫رہنے‬ ‫باہر‬ ‫لیا اور آدھے کو‬
‫اپنا منہ آگے‬ ‫پھر میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫کر دیا۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے بھی اپنے منہ‬
‫اس کے منہ سے‬ ‫آگے بڑھایا۔۔۔۔۔ اور‬ ‫کو‬
‫بسکٹ اپنے منہ میں لے‬ ‫کا‬ ‫باقی‬ ‫ہوا‬ ‫بچا‬
‫لیا۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی میں نے اس‬
‫کے منہ میں اپنا منہ ڈال دیا اور پھر اس‬
‫باقی کا بسکٹ جو‬ ‫ہوا‬ ‫کے منہ میں پڑا‬
‫رطوبت‬ ‫منہ کی‬ ‫اس کے‬ ‫اس وقت تک‬
‫ہو چکا‬ ‫حد تک گیال‬ ‫تھوک سے کافی‬ ‫اور‬
‫اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ‬ ‫بھی‬ ‫تھا کو‬
‫زبان کو‬ ‫نے بھی اپنی‬ ‫بھابھی‬ ‫دیکھ کر‬
‫میرے‬ ‫میرے منہ میں داخل کیا۔۔۔۔ اور پھر‬
‫منہ میں رکھے ہوئے بسکٹ۔۔۔ جو کہ اس وقت‬
‫طور پر میرے اور اس کے تھوک‬ ‫تک مکمل‬
‫مائع کی شکل اختیار کر چکا‬ ‫کر‬ ‫سے گھ ُل‬
‫تھا ۔۔۔۔۔ اسے چاٹنا شروع ھو گی‬

‫نے اپنی چوت‬ ‫اس کے ساتھ ساتھ بھابھی‬


‫رگڑنا شروع‬ ‫کے نرم لبوں کو میرے لن پر‬
‫کر دیا۔۔۔۔اور اس کی رگڑ کی وجہ سے میرے‬
‫اس کی چوت کی دراڑ میں‬ ‫ابھار‬ ‫لن کا‬
‫لگا۔۔۔۔۔اب‬ ‫پیچھے ہونے‬ ‫پھنس پھنس کر آگے‬
‫اوپر سے ہمارے‬ ‫پوزیشن یہ ہو چکی تھی کہ‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے تھے‬ ‫منہ‬
‫ایک‬ ‫۔۔۔۔۔اور ہم اس بسکٹ کے لیکیورڈ کو‬
‫منہ میں ال ۔۔۔لے جا رہے تھے ( ان‬ ‫دوسرے کے‬
‫آؤٹ کر رہے تھے ) ۔۔۔۔۔جبکہ اسکے ساتھ ساتھ کمال‬
‫مہارت کے ساتھ بھابھی اپنی پھدی کی دراڑ‬
‫میں پھنسے میرے موٹے لن کے ابھار‬
‫پر آگے پیچھے ہو رہی تھی‬

‫میں نے‬ ‫اس کی سخت پکڑ کے ساتھ ہی‬ ‫اور‬


‫گیال پن‬ ‫اور‬ ‫لن والی جگہ پر کچھ گرم گرم‬
‫اس سے پوچھا۔۔۔۔ پانی‬ ‫محسوس کرتے ہی‬
‫ہوئے‬ ‫چھوڑ دیا نا بھابھی؟ تو وہ ہانپتے‬
‫کا‬ ‫لن‬ ‫کہنی لگی۔۔۔ کیا کرتی ۔۔۔۔۔۔ تیرے‬
‫ٹف تھا کہ مزہ آ گیا۔۔۔۔۔۔ پھر‬ ‫ابھار ہی ایسا‬
‫مائع‬ ‫اس بسکٹ کا سارا‬ ‫کچھ دیر بعد جب‬
‫ایک دوسرے کی زبانوں سے‬ ‫ہم دونوں نے‬
‫پھر بھابھی‬ ‫بھی چاٹ کر صاف کر لیا ۔۔۔تو‬
‫نے ایک سسکی لی اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُف تم‬
‫کتنے سیکسی ہو جان!!!!!۔ ۔۔۔۔اور پھر اس کے‬
‫تیزی‬ ‫ہی وہ میرے لن کے ابھار پر‬ ‫ساتھ‬
‫آگے پیچھے ہونا شروع ہو گئی۔۔۔۔ یہ‬ ‫سے‬
‫دیکھ کر میں نے بھی اس کے گلے میں ہاتھ‬
‫چھاتی کو باہر نکال‬ ‫اور اس کی ایک‬ ‫ڈاال‬
‫کر چوسنا شروع ہو گیا۔۔۔ ادھر بھابھی میرے‬
‫لن پر آگے پیچھے ہوتے ہوئی بولی۔۔۔ کچھ کھاؤ‬
‫میری جان ۔۔۔تو میں نے اس سے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫نا‬
‫تیری چھاتیوں کو کھا تو رہا ہوں ڈارلنگ ۔۔۔تو‬
‫وہ کہنے لگی ۔۔۔ چھوڑنا مت ۔۔۔میری دونوں‬
‫چھاتیوں کو سارے کا سارا کھا جانا۔۔۔۔اور اس‬
‫کے ساتھ ہی میرے لن پر آگے پیچھے ہوتے‬
‫ہوئے بولی ۔۔۔۔ تیرے لن کی رگڑ سے میری‬
‫نے‬ ‫میں آگ لگی ہوئی ہے تو میں‬ ‫پھدی‬
‫بلکہ یہ‬ ‫سے کہا ۔۔۔ یہ میرے لن کی نہیں‬ ‫اس‬
‫کی رگڑ‬ ‫ابھار‬ ‫پر بنے‬ ‫تو۔۔۔ ۔۔۔۔ میری پینٹ‬
‫ہے ۔۔۔تو وہ میرے لن کے ابھار پر مزید ہلتے‬
‫۔۔۔۔۔ رگڑ کوئی سی بھی ہو جان۔۔۔‬ ‫بولی‬ ‫ہوئے‬
‫ہوتا ہے‬ ‫ہی‬ ‫تیرا لن‬ ‫پیچھے تو‬ ‫اس کے‬
‫پھدی رگڑ تو تیرے لن‬ ‫میری‬ ‫نا ۔۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫ہے ناں ۔۔۔۔پھر‬ ‫رہی‬ ‫کے ابھار پر ہی کھا‬
‫اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔اس‬ ‫نے ایک آہ بھری‬ ‫اس‬
‫مست‬ ‫لیئے میری جان اس رگڑ سے میں تو‬
‫ہوئی جا رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی اس‬
‫اور میرے‬ ‫نے ایک زبدرست سی سسکی بھری‬
‫پھر تیزی کے ساتھ‬ ‫کندھوں پر ہاتھ رکھ‬
‫آگے پیچھے ہونے لگی ۔۔۔ اور پھر کچھ ہی گھسوں‬
‫سختی سے‬ ‫کے بعد اس نے ۔۔۔۔۔ مجھے اور‬
‫پکڑلیا‬

‫نیچے اتری اور‬ ‫سے‬ ‫گود‬ ‫۔ پھر وہ میری‬


‫مجھے کھڑا ہونے کو کہا ۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں‬
‫ہوا ۔۔۔وہ قالین پر اکڑوں بیٹھ گئی ۔۔۔۔اور‬ ‫کھڑا‬
‫جگہ پر بڑی بے تابی‬ ‫پھر میری پینٹ کی گیلی‬
‫پھیرنے لگی ۔۔۔۔ اُف‬ ‫کے ساتھ ۔۔۔ اپنی زبان‬
‫مجھے‬ ‫کا مزہ‬ ‫پھیرنے‬ ‫زبان‬ ‫اس کی‬
‫تک محسوس ہوا ۔۔۔۔۔اور میں‬ ‫لن‬ ‫اندر اپنے‬
‫لیتے ہوئے اس سے کہا۔۔۔۔۔ لن کو‬ ‫نے مزہ‬
‫ناں۔۔۔۔۔۔۔ میری فرمائیش‬ ‫باہر نکال کر چوسو‬
‫میری پینٹ کی زپ کو‬ ‫ہی اس نے‬ ‫سنتے‬
‫۔۔۔۔پھر زپ کھول کر‬ ‫کر دیا‬ ‫شروع‬ ‫کھولنا‬
‫میرے لن کو باہر‬ ‫پینٹ سے‬ ‫اس نے‬
‫بڑی محبت اور ہوس بھری نظروں‬ ‫نکال ۔۔۔۔اور‬
‫پھر‬ ‫دیکھنے لگی۔۔۔ اور‬ ‫سے اس کی طرف‬
‫چیز‬ ‫ہاتھ میں پکڑ کر بولی ۔۔۔۔ کیا‬ ‫اسے‬
‫بھی لوں ۔۔۔۔۔۔اس‬ ‫لن بھی۔۔۔۔۔۔۔ کہ جتنا‬ ‫ہے یہ‬
‫۔۔۔اس وقت‬ ‫سے میرا جی ہی نہیں بھرتا ۔۔۔‬
‫پتھر کی طرح‬ ‫لن اس کے ہاتھ میں‬ ‫میرا‬
‫اکڑا‬ ‫اور لوہے کے راڈ کی طرح‬ ‫ٹھوس‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ اس نے ایک نظر میری طرف‬ ‫کھڑا‬
‫دیکھا اور پھر لن کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫تمہارے لن نے تو مجھے‬ ‫کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔۔۔ جان‬
‫پاگل کر کے رکھ دیا ہے۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ بات کرتے‬
‫میرے لن کی طرف جھک گئی۔۔اور‬ ‫ہی وہ‬
‫زبان نکال کر میرے ٹوپے کو چاروں طرف‬
‫سے چاٹنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس نے اپنی‬
‫نیچے کی‬ ‫زبان اور ہونٹوں کو میرے لن کے‬
‫سے میرے منہ‬ ‫طرف لگایا ۔۔ ۔۔۔جس کی وجہ‬
‫سے مستی‬

‫سے میرے منہ سے مستی‬ ‫جس کی وجہ‬


‫بھری چیخ نکل گئی سے جسے سن کر اس نے‬
‫اور میری‬ ‫کر دیا‬ ‫میرے لن کو چاٹنا بند‬
‫طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔ مزہ آیا ناں۔۔۔؟‬
‫تو میں نے ہاں میں سر ہال کر اس کے سر کو‬
‫دیا۔۔۔ تو وہ میرے‬ ‫اپنے لن کی طرف کر دھکیل‬
‫لن پر جھکے جھکے بولی۔۔۔۔ میرے ساتھ‬
‫ایسے‬ ‫میں تم کو‬ ‫یاری رکھو گے نا۔۔۔۔۔۔ تو‬
‫ہی عیش کرواؤں گی ۔۔اور اس سے بھی اچھے‬
‫لگاؤں گی۔۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے‬ ‫چوپے‬ ‫اور مست‬
‫اس نے میرے لن کو اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔اور‬
‫پورے جوش کے ساتھ چوسنے لگی۔۔۔۔ اس کی گیلی‬
‫ہونٹوں کا میرے لن پر لگنے کی‬ ‫اور نرم‬ ‫زبان‬
‫دیر تھی کہ میرے منہ سے سسکیوں اور مستی‬
‫لگا۔۔۔۔ اور میں‬ ‫نکلنے‬ ‫طوفان‬ ‫بھری آہوں کا‬
‫کے‬ ‫مزے‬ ‫ہوئے‬ ‫دیئے‬ ‫اس کے‬
‫ڈوبتا چال گیا۔۔۔وہ کافی دیر‬ ‫اتھاہ سمندر میں‬
‫اور پورے‬ ‫شوق‬ ‫لن کو بڑے‬ ‫تک میرے‬
‫جزبے کے ساتھ چوستی رہی۔۔۔۔ پھر وہ اوپر‬
‫اپنی پھدی‬ ‫پکڑ کر‬ ‫ہاتھ‬ ‫میرا‬ ‫اُٹھی اور‬
‫پر رکھ دیا ۔۔۔۔ اس وقت بھابھی کی شلوار کا‬
‫پھدی‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫کر‬ ‫ہو‬ ‫گیال‬ ‫کپڑا‬
‫اور جب میں‬ ‫ہوا تھا‬ ‫چپکا‬ ‫ساتھ‬ ‫کے‬
‫اس کی‬ ‫کر چیک کیا تو‬ ‫ہاتھ لگا‬ ‫نے‬
‫بھری‬ ‫سے لبالب‬ ‫پھدی انتہائی گرم اور پانی‬
‫میرے ہاتھ کو اپنی پھدی پر‬ ‫ہوئی تھی۔۔۔ پھر وہ‬
‫پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے پتہ ہے کہ‬
‫پہت‬ ‫چوسوانا‬ ‫لن‬ ‫اپنا‬ ‫میرے جانو کو‬
‫کہ تم‬ ‫پسند ہے پر میں کیا کروں کہ جیسا‬
‫خود ہی محسوس کر رہے ہو ۔۔۔۔۔۔ اس وقت میری‬
‫بنی ہوئی ہے ۔۔۔۔ بھابھی کی بات‬ ‫تندور‬ ‫پھدی‬
‫تھینک یو بھابھی‬ ‫سن کر میں نے اس سے کہا‬
‫اور‬ ‫زیادہ‬ ‫کافی‬ ‫آپ نے‬ ‫جان۔۔۔۔ پہلے ہی‬
‫چوسا ہے ۔۔۔۔ اور اب‬ ‫لن کو‬ ‫دیر تک میرے‬
‫ہوئے ۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫آپ کے نیچے کی حالت دیکھتے‬
‫جانے کو بے تاب ہے۔۔۔یہ سن کر‬ ‫میرا لن اس میں‬
‫چمی‬ ‫بھابھی نے میرے ہونٹوں پر ایک‬
‫تو پھر دیر کس بات کی ہے؟؟‬ ‫ہوئے کہا‬ ‫دیتے‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے جلدی‬
‫وہ‬ ‫پھر‬ ‫سے اپنی شلوار اتاری ۔۔۔۔۔۔۔اور‬
‫خود ہی‬ ‫چڑھ کے‬ ‫پر‬ ‫ڈائینگ ٹیبل‬
‫بن گئی۔۔۔‬ ‫گھوڑی‬

‫نے اس سے کہا بھابھی یہاں‬ ‫یہ دیکھ کر میں‬


‫وہ کہنے لگی ۔۔۔‬ ‫قالین پر نہ کر لیں؟؟ ۔۔۔۔تو‬
‫چوت مروانا کی‬ ‫پر‬ ‫مجھے ڈائینگ‬ ‫نہیں‬
‫بڑی حسرت تھی اور میری اس حسرت کو آج‬
‫تم پوری کرو گے ۔۔۔۔ اس کی بات سن کر‬
‫آگے کھسکایا‬ ‫میں نے اپنی کرسی کو تھوڑا‬
‫گھوڑی بنی بھا بھی‬ ‫پر‬ ‫۔۔۔۔اور ڈائینگ ٹیبل‬
‫پیچھے ہونے کو کہا ۔۔۔۔اب میرے‬ ‫کو تھوڑا‬
‫پیاری‬ ‫گول شیپ میں بنی‬ ‫سامنے اس کی‬
‫بہت ہی زیادہ‬ ‫سی گانڈ تھی۔۔۔۔۔ جو کہ اس وقت‬
‫سیکسی لگ رہی تھی اب میں نے اس کی گانڈ‬
‫منہ سے زبان‬ ‫اپنے‬ ‫ہوئے‬ ‫کے قریب ہوتے‬
‫گانڈ پر اپنی‬ ‫نکالی اور پہلے تو اس کی پوری‬
‫گانڈ کے‬ ‫زبان کا مساج دیا۔۔۔ جسس سے اس کی‬
‫اور وہ ہلکی‬ ‫ہو گئے‬ ‫کھڑے‬ ‫رونگھٹے‬
‫ہلکی سسکیاں لینے لگی۔۔۔ اس کے بعد میں نے‬
‫سے اس کے‬ ‫کی مدد‬ ‫اپنے دونوں ہاتھوں‬
‫کولہوں کو الگ کیا۔۔۔۔۔۔۔۔اب میرے سامنے اس کی‬
‫گانڈ‬ ‫بہت بڑا تو نہیں لیکن‬ ‫کا‬ ‫موٹی گانڈ‬
‫زرا بڑا ۔۔۔۔۔ سا‬ ‫سے‬ ‫نارمل سائز‬ ‫کے‬
‫منہ کھولے میرے لن‬ ‫تھا ۔۔۔ جو کہ اپنا‬ ‫سوراخ‬
‫کو اندر آنے کی دعوت دے رہا تھا۔۔ پہلے تو‬
‫میں نے اس سوراخ کو دیکھتے ہوئے عین اس‬
‫تھوک پھینکا ۔۔۔۔۔اور پھر ۔‬ ‫میں‬ ‫کے درمیان‬
‫انگلیوں کو‬ ‫دو‬ ‫میں نے اپنی‬ ‫اس کے بعد‬
‫اور ان کو اپنے تھوک‬ ‫ڈاال‬ ‫منہ میں‬ ‫اپنے‬
‫سے اچھی طرح چکنا کرنے کے بعد۔۔۔ ایک ساتھ‬
‫دونوں انگلیوں کو اس کی گانڈ میں گھسا دیا۔۔۔‬
‫انگلیاں گانڈ میں جاتے ہی۔۔۔۔۔ بھابھی کے منہ‬
‫ہلکی سی آہ نکلی ۔۔۔۔۔۔ لیکن وہ‬ ‫سے ایک‬
‫انگلیوں کو‬ ‫بولی کچھ نہیں۔۔۔۔۔۔ اب میں نے اپنی‬
‫گانڈ کے اندر باہر کرنے لگا۔۔۔ میرے‬ ‫اس کی‬
‫سے بھابھی کے منہ سے‬ ‫اس طرح کرنے‬
‫ایک بار پھر ہلکی سی سسکاری نکلی۔۔۔۔اور پھر‬
‫گانڈ کو‬ ‫کر خود ہی کر اپنی‬ ‫مستی میں آ‬
‫ہالنا شروع کر دیا۔اس کی گانڈ میں کچھ دیر‬
‫انگلیوں کو ان آؤٹ کرنے کے بعد‬ ‫تک اپنی‬
‫مزید کھولنے کو کہا‬ ‫میں نے اس کو ٹانگیں‬
‫۔۔۔اور جیسے ہی اس نے اپنی ٹانگوں کو مزید کھوال‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے سامنے اس کی چکنی ۔۔۔۔۔۔اور لیس‬
‫سے بھری ہوئی پھدی آ گئی۔۔۔۔۔اب میں نے اپنی زبان‬
‫نکالی اور اس کی چوت کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اب کی بار بھابھی کے منہ سے ہلکی آوازوں‬
‫اونچے سروں میں سسکیاں نکلنا‬ ‫بجائے‬ ‫کی‬
‫شروع ہو گئیں ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی بھابھی‬
‫نے‬ ‫کو ہوئی ۔۔۔۔۔۔اور اس‬ ‫پیچھے‬ ‫تھوڑا‬
‫شروع‬ ‫اپنی پھدی کو میرے منہ پر دبابا‬
‫اپنی پھدی‬ ‫ہی اس نے‬ ‫کر دیا۔۔۔۔۔ جیسے‬
‫دبانا شروع‬ ‫کی طرف‬ ‫منہ‬ ‫میرے‬ ‫کو‬
‫اس کی‬ ‫نے‬ ‫اسی وقت میں‬ ‫عین‬ ‫کیا‬
‫اپنی‬ ‫اور‬ ‫چھوڑا‬ ‫پھدی کو چاٹنا‬
‫اس‬ ‫گول سا بنا کر‬ ‫زبان کو لن کی طرح‬
‫میں داخل کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫کی چوت کے سوراخ‬
‫اس کی چوت اندر سے چپ چپے پانی سے‬
‫ہوئی تھی۔۔۔۔اور میں اس کی چوت کی‬ ‫بھری‬
‫رگڑنا شروع کر‬ ‫دیواروں پر اپنی زبان کو‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی میری زبان کو اس کی چوت‬
‫تھی کہ اس‬ ‫دیر ہوئی‬ ‫ہی‬ ‫میں گئے کچھ‬
‫شروع کر‬ ‫کی چوت نے کھل بند ہونا‬
‫نے اپنی زبان کو اس‬ ‫دیا۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں‬
‫کی چوت سے باہر نکال۔۔۔۔اور اس کی چوت کے‬
‫لبوں پر رکھ دیا۔۔۔۔ کچھ ہی سیکنڈز کے‬ ‫لیس دار‬
‫سا‬ ‫نے ایک جھٹکا‬ ‫بعد۔۔۔۔۔۔بھابھی کے جسم‬
‫ہی۔۔۔۔اس کی‬ ‫کےساتھ‬ ‫کھایا ۔۔۔۔اور پھر اس‬
‫پانی چھوڑنا شروع کر‬ ‫چوت نے گرم گرم کو‬
‫فارغ ہو گئی‬ ‫دیا۔۔۔۔بھابھی ایک بار پھر سے‬
‫تھی۔۔۔۔‬

‫ہو گئی‬ ‫فارغ‬ ‫جب بھابھی اچھی طرح سے‬


‫پانی‬ ‫چوت پر لگے‬ ‫تو میں نے اس کی‬
‫اور جیسے ہی اسے‬ ‫کو چاٹ کر صاف کر دیا‬
‫اوپر‬ ‫سے‬ ‫چودنے کے لیئے میں کرسی‬
‫پیچھے کی طرف منہ کر کے‬ ‫اُٹھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو وہ‬
‫بولی۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔میری گانڈ پہ آئیل بھی لگا لینا ۔۔۔۔ اور‬
‫اس نے اپنا ہاتھ‬ ‫پھر اس کے ساتھ ہی‬
‫اس‬ ‫تو میں نے دیکھا کہ‬ ‫پیچھے کی طرف کیا‬
‫میں آئیل کی بوتل پکڑی ہوئی تھی ۔۔۔۔ جیسے ہی‬
‫میں نے اس کے ہاتھ سے آئیل کی بوتل‬
‫پکڑی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔۔ تیل اچھی طرح‬
‫سے لگانا۔۔۔۔۔۔۔‬

‫پہلے تو میں نے آئیل سے اس کی گانڈ کو اچھی‬


‫طرح تر کیا پھر میں کرسی پر گھٹنوں کے بل‬
‫لن‬ ‫کھڑا ہو گیا ۔۔۔اور بھابھی کی پھدی پر اپنے‬
‫بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لو جی بھابھی‬ ‫سیٹ کر کے‬ ‫کو‬
‫ایک بہت بڑی‬ ‫آپ کی‬ ‫۔۔۔ آج میں‬ ‫جی‬
‫حسرت کو پورا کرنے جا رہا ہوں۔۔۔میری بات‬
‫سن کر وہ مستی بھرے لہجے میں کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دیر نہ کر ۔۔۔۔ اور جلدی سے میری‬
‫کی‬ ‫مار ۔۔کہ اسے تمہارے للے‬ ‫پھدی کو‬
‫سخت ضرورت ہے ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس‬
‫کو مزید پیچھے‬ ‫نے مستی میں آ کر اپنی گانڈ‬
‫کی طرف کر لیا۔۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے اپنے ٹوپے‬
‫پر تھوڑا سا تھوک لگایا اور۔۔۔۔ اس ٹوپے کو‬
‫بھابھی کی چوت میں داخل کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫جیسے ہی میرا لن اس کی چوت میں گیا۔۔۔اس کے‬


‫منہ سے لزت آمیز سسکیاں نکلنا شروع ہو‬
‫گئیں۔۔۔آہ۔ہ ہ ہ ۔۔اُف۔ف۔ف۔۔۔۔۔ اور پھر انہی سسکیوں‬
‫۔۔۔۔ آہ ہ ہ ۔۔آج‬ ‫کے درمیان وہ کہنے لگیں‬
‫میری دیرینہ حسرت پوری ہو گئی ۔۔۔۔اب تم‬
‫چودو۔۔۔۔بھابھی کی بات‬ ‫جم کر‬ ‫مجھے‬
‫میں نے اس کی چوت میں‬ ‫سنتے ہی‬
‫مارنا شروع کر دیا۔۔۔۔ ۔۔میرے ہر‬ ‫دھکے پہ دھکا‬
‫دھکے پر وہ لزت آمیز سسکیاں لیتی اور‬
‫دیتے ہوئے کہتی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھکنا‬ ‫مجھے ہال شیری‬
‫تم نے‬ ‫نہیں۔۔۔ رکنا نہیں میری جان۔۔۔۔۔۔کہ آج‬
‫چودنا ہے۔۔۔۔۔۔اور اس کی‬ ‫مجھے بہت دیر تک‬
‫ہدایت سن کر میں اور بھی تیزی کے ساتھ اس کی‬
‫پھدی مارنا شروع ہو جاتا۔۔۔۔ابھی مجھے اس کی‬
‫پھدی میں اپنے لن کو ان آؤٹ کرتے ہوئے‬
‫اس نے اپنا‬ ‫تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ‬
‫منہ پیچھے کی طرف گھمایا اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔اب رک جاؤ پلیزززززززز۔ تو میں نے اس‬
‫کہا۔۔ ابھی تو آپ کہہ رہی تھی کہ رکنا نہیں۔۔۔‬
‫تو وہ چڑھتے‬ ‫پھر۔۔۔ کیا ہوا بھابھی جان ؟‬
‫سا نسوں میں کہنے لگی ۔۔تمہارے ہیوی‬ ‫ہوئے‬
‫ڈیوٹی دھکوں سے میری تو بس ہو گئی ہے اور‬
‫اب میں نیچے آنا چاہتی ہو ں اس کے ساتھ‬
‫اور مجھے‬ ‫ہی وہ میز سے نیچے اتر آئی‬
‫کرسی پر بیٹھنے کو کہا۔۔۔۔ جیسے ہی میں کرسی‬
‫پر ٹانگیں لمکا کر بیٹھا ۔۔۔۔وہ جھٹ سے میرے‬
‫اپنی گانڈ کو میرے لن پر‬ ‫آ گئی اور‬ ‫اوپر‬
‫سیٹ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اب اس سٹائل کی‬
‫پر‬ ‫باری ہے ۔۔اور پھر آہستہ آہستہ ۔۔۔ میرے لن‬
‫ہی۔۔۔۔۔‬ ‫لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر نیچے ہوتے‬ ‫بیٹھنے‬
‫میرا لن پھسل کر اس کی چکنی گانڈ میں داخل‬
‫ہو چکا تھا۔۔۔۔۔ جیسے ہی میرا لن اس کی آئیل‬
‫سے لتھڑی گانڈ میں داخل ہوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بھابھی‬
‫نے ایک مست سی چیخ ماری ۔۔۔۔اور کہنے لگی‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے اپنی دوسری حسرت بھی پوری‬
‫کر لی ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنی گانڈ‬
‫ان آؤٹ کرنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫میں میرے لن کو لیئے‬
‫پھر جلد ہی اس نے ایسا کرنا بند کر دیا ۔۔۔اور‬
‫میرے لن سے اُٹھ گئی اور پھر اس نے‬
‫پر دو کشن رکھے اور پھر‬ ‫ٹیبل‬ ‫ڈآئینگ‬
‫ٹکا دیا۔۔۔اور‬ ‫پر اپنی کہنیوں کو‬ ‫ان کشنز‬
‫نکالتے‬ ‫اپنی ہپس کو پیچھے کی طرف‬
‫ہے۔۔۔۔‬ ‫راؤنڈ کی باری‬ ‫ہوئے بولی اب فائینل‬
‫بھابھی کی بات سن کر میں بھی کرسی سے‬
‫پیچھے‬ ‫اس کرسی کو‬ ‫اور پھر‬ ‫اُٹھا‬
‫کو‬ ‫دھکیل کر چلتے ہوئے عین اس کی باہر‬
‫کھڑا ہو‬ ‫گانڈ کے پیچھے‬ ‫ہوئی‬ ‫نکلی‬
‫گیا۔۔۔اور پھر اس کی چوت میں انگلی کرتے‬
‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_نمبر_‪07‬‬

‫ماروں یا‬ ‫بھابھی فائینل راؤنڈ ۔۔۔۔ میں چوت‬


‫گانڈ؟میری بات سن کر اس نے اپنا منہ پیچھے‬
‫ادا سے‬ ‫کی طرف کیا اور ۔۔۔ایک جان لیوا‬
‫بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ باری باری دونوں میں ڈالنا‬
‫۔۔۔۔۔ یہ سن کر میں نے اپنا لن اس کی چوت پر‬
‫رکھا اور ایک ذور دار دھکا لگایا ۔۔۔میرے اس‬
‫ہوئے بھابھی‬ ‫نہ التے‬ ‫دھکے کی تاب‬
‫کے منہ سے ایک چیخ نکلی۔۔۔اور وہ اسی‬
‫سیکسی آواز میں بولی ۔۔۔تھکنا نہیں۔۔۔۔۔۔۔۔رکنا نہیں‬
‫مارتے جاؤ ۔۔۔۔۔ اسی‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔بس میری چوت کو‬
‫لگایا تو وہ‬ ‫دوران میں نے ایک اور دھکا‬
‫کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔ہائے میری چوت۔۔۔۔۔۔اور پھر وہ‬ ‫چیخ‬
‫چیختی رہی اور میں دھکے مارتا رہا ۔۔۔۔اس‬
‫چوت نے میرے لن کو‬ ‫دوران اچانک اس کی‬
‫کی چوت کو اپنے‬ ‫جکڑنا شروع کر دیا۔۔۔۔ بھابھی‬
‫دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔میں‬ ‫ہوتے‬ ‫ٹائیٹ‬ ‫لن کے گرد‬
‫نے اپنے دھکوں کی سپیڈ میں مزید اضافہ کر‬
‫دھکوں سے اس کی‬ ‫میرے‬ ‫دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر‬
‫اور اس‬ ‫گئی‬ ‫چوت کی جکڑن ختم ہوتی چلی‬
‫کر‬ ‫نے پانی چھوڑن ا شروع‬ ‫کی چوت‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جب وہ پوری طرح سے چھوٹ‬
‫سے‬ ‫گئی تو میں نے اس کی چوت کے پانی‬
‫نکاال ۔۔۔اور‬ ‫باہر‬ ‫کو‬ ‫لن‬ ‫بھیگے ہوئے‬
‫اس کی گانڈ میں گھسا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی‬
‫گانڈ میں‬ ‫لن اس کی آئیلی‬ ‫بھیگا‬ ‫میرا‬
‫گھسا۔۔۔۔ اس نے مستی میں آکر اپنی گانڈ کو‬
‫میرے لن کے گرد ٹائیٹ کرنا شروع کر‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹائیٹ اور ٹائیٹ ۔۔۔اور پھر اپنی گانڈ کے‬
‫مزید بھینچتے‬ ‫رنگ کو میرے لن کے گرد‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔مار گھسے ۔۔۔اور میں نے‬ ‫ہوئے‬
‫گھسے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔۔ اور پھر گھسے‬
‫اچانک میرے لن کے سوراخ‬ ‫مارتے‬ ‫مارتے‬
‫سے منی کا ایک الوہ سا نکال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔آبشار‬
‫چال‬ ‫گانڈ میں گرتا‬ ‫کے پانی کی طرح ۔ اسکی‬
‫چال‬ ‫گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گرتا‬ ‫چال‬ ‫گیا ۔۔۔۔گرتا‬
‫چوت کو‬ ‫گیا۔۔۔۔۔۔۔۔بھابھی کی ٹائیٹ گانڈ اورمست‬
‫بجانے کے بعد میں ایک‬ ‫طرح‬ ‫اچھی‬
‫سرشاری کے عالم میں وہاں سے نکال ۔۔۔اور‬
‫اپنے گھر کی طرف چل دیا ۔۔۔۔ ابھی میں اپنی گلی‬
‫کی‬ ‫میں پہنچا ہی تھا ۔۔۔۔۔۔ کہ اچانک پولیس‬
‫وردی میں ملبوس دو سپاہیوں نے میرا راستہ‬
‫روک لیا اور پھر بڑ ی بدتمیزی کے ساتھ‬
‫لہجے‬ ‫کڑک دار‬ ‫اور‬ ‫پولیس کے روایتی‬
‫کاکا شا‬ ‫اوئے‬ ‫لگے کہ‬ ‫پوچھنے‬ ‫میں ۔۔۔۔۔‬
‫اس پر میں نے‬ ‫ہے؟؟‬ ‫ہ تمہارا ہی نام‬
‫حیرانی سے کہا ۔۔۔۔۔۔‬ ‫ان کی طرف دیکھ کر بڑی‬
‫جی میں ہی شاہ ہوں ۔۔۔بولیئے کیا کام ہے؟‬
‫اس پر انہوں نے پاس کھڑی پولیس وین کی‬
‫کرتے ہوئے کہا کہ چل تھانے‬ ‫طرف اشارہ‬
‫سنتے ہی میری سٹی گم‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تھانے کا نام‬
‫کا‬ ‫بہادری‬ ‫ہو گئی ۔۔۔۔لیکن میں نے بظاہر‬
‫ان سے کہا۔۔۔۔۔ کہ میں‬ ‫مظاہرہ کرتے ہوئے‬
‫نے کون سا جرم کیا ہے جو تھانے جاؤں ؟ اس‬
‫سی‬ ‫پر ان میں سے ایک تنومند اور موٹی‬
‫توند والے سپاہی نے مجھے ایک موٹی سی‬
‫ہوئے کہا کہ یہ تو بچو تمہیں‬ ‫گالی دیتے‬
‫تھانے چل کر ہی پتہ چلے گا۔۔۔ اس کی بات سن‬
‫کر میری ریڈھ کی ہڈی میں ایک سنسی سی‬
‫پھیل گئی اور میں نے ان کی طرف دیکھتے‬
‫بتائیں‬ ‫ہوئے کہا کہ جب تک آپ مجھے یہ‬
‫میں نے آپ‬ ‫کہ میرا جرم کیا ہے‬ ‫گے نہیں‬
‫کے ساتھ نہیں جانا۔۔۔۔۔۔۔میری بات سنتے ہی‬
‫ان میں سے ایک نے میرے چہرے پر‬
‫جس کی‬ ‫رسید کیا‬ ‫زناٹے دار تھپڑ‬ ‫ایک‬
‫سے ایک لمحے کے لیئے ۔۔۔۔۔ میری‬ ‫وجہ‬
‫چھا‬ ‫سا‬ ‫اندھیرا‬ ‫سامنے‬ ‫کے‬ ‫آنکھوں‬
‫میں۔۔۔۔ میں‬ ‫گیا ۔۔۔۔اس سے پہلے کہ اپنے دفاع‬
‫کچھ کرتا ۔۔۔۔۔۔ وہ دونوں سپاہی بھوکے کتوں کی‬
‫پڑے اور مجھے ٹھڈے‬ ‫مجھ پر ٹوٹ‬ ‫طرح‬
‫دیا‬ ‫اور التیں مارتے ہوئے کہنے لگے۔۔۔ ۔۔۔ بہن‬
‫لنا ۔۔۔۔۔۔ تھانے تو تیرا باپ بھی چلے گا۔۔اس‬
‫ایک سپاہی نے میری کمر‬ ‫کے ساتھ ہی‬
‫ایک زور دار الت رسید کی۔۔۔ جس کی‬ ‫پر‬
‫کے اس ڈنڈے پر‬ ‫وین‬ ‫دجہ سے میرا سر‬
‫کہ جس کو پکڑ کر اس کے اندر داخل‬ ‫لگا‬
‫ہوتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ میرے سر کا ڈنڈے پر لگنے‬
‫کی دیر تھی کہ ۔۔۔ اچانک میری آنکھوں کے‬
‫نیلے پیلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بہت سے رنگوں‬ ‫سامنے‬
‫لگے ۔۔ رہی سہی کسر‬ ‫ناچنے‬ ‫کے تارے‬
‫ایک‬ ‫پر لگنے والے‬ ‫مجھے اپنی گدی‬
‫نے پوری کر دی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔اور یہ مکا‬ ‫مکے‬
‫اتنا سخت تھا ۔۔۔۔۔ کہ ایک دم سے میرے‬
‫گولہ‬ ‫سا‬ ‫دماغ میں روشنی کا ایک بڑا‬
‫بڑا‬ ‫پھوٹا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر روشنی کا وہ‬
‫ہوتے ہوتے۔۔۔۔ ۔۔۔۔ایک نقطہ‬ ‫گولہ چھوٹا‬ ‫سا‬
‫ہی‬ ‫کے بنتے‬ ‫سا بن گیا۔۔۔اور اس نقطے‬
‫چھانے لگی‬ ‫تاریکی سی‬ ‫میں‬ ‫میرے دماغ‬
‫نیم‬ ‫سے‬ ‫۔۔۔۔ ابھی میں ہوش کی وادی‬
‫تھا‬ ‫رہا‬ ‫جا‬ ‫میں‬ ‫بے ہوش کے عا لم‬
‫مانوس‬ ‫اچانک میرے کانوں میں ایک‬ ‫کہ‬
‫تھا ۔۔۔۔‬ ‫آواز گونجی ۔۔۔۔۔۔۔۔وہ کہہ رہا‬ ‫سی‬
‫۔۔۔۔ یہ‬ ‫ہوا ۔۔‬ ‫اس کو کچھ نہیں‬ ‫سر جی‬
‫مکر کر رہا ہے۔۔۔۔۔ وہ‬ ‫ہی‬ ‫ساال ویسے‬
‫چونک گیا‬ ‫ایک دم سے‬ ‫آواز سن کر میں‬
‫۔۔۔۔۔اور میں نے گھوم کر اس آواز کی سمت‬
‫ہوئی‬ ‫پھر میری بند ہوتی‬ ‫دیکھا۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫سی‬ ‫بندے کی ایک شبیہ‬ ‫آنکھوں نے اس‬
‫دیکھ کر اسے پہچان لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ۔۔۔۔وہ‬
‫میرے کانوں میں‬ ‫آواز جو‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔وہ‬
‫کہ جس کی‬ ‫صورت‬ ‫گونجی تھی ۔ ۔۔اور وہ‬
‫میری بند ہوتی آنکھوں نے دیکھی‬ ‫شبیہ‬
‫وہ کسی اور کی نہیں بلکہ وہ‬ ‫تھی ۔۔۔۔‬
‫وہی‬ ‫تھی ۔۔۔ ۔۔۔ یہ‬ ‫شیدے کی‬ ‫اس منحوس‬
‫امجد کی‬ ‫ساتھ‬ ‫تھا کہ جس کے‬ ‫شیدا‬
‫گئی تھی۔۔۔۔اور‬ ‫پڑ‬ ‫دشمنی‬ ‫وجہ سے میری‬
‫اس کی‬ ‫۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫میں اپنے دشمن کو‬
‫کیسے بھول سکتا تھا؟؟؟ ۔۔‬ ‫منحوس آواز کو‬
‫اس لیئے جیسے میرے کانوں میں اس حرامی‬
‫کی آواز گونجی ۔۔۔۔۔۔۔ میں جو اس وقت بے‬
‫سفر کر‬ ‫ہوشی اور نیم بے ہوشی کے درمیان‬
‫ہی‬ ‫سنتے‬ ‫۔۔۔ شیدے کی آواز‬ ‫تھا‬ ‫رہا‬
‫یک‬ ‫میں واپس آ گیا ۔۔۔۔اور‬ ‫حواس‬ ‫اپنے‬
‫کے آگے سے سارے‬ ‫لخت میری آنکھوں‬
‫سے‬ ‫ہٹ گئے اور میں ایک دم‬ ‫پردے‬
‫ڈالے (وین) میں)‬ ‫چوکنا ہو کر ( پولیس کے‬
‫انہوں نے مجھے‬ ‫بیٹھ گیا۔۔۔ ادھر جیسے ہی‬
‫پولیس وین میں دھکیال ۔۔۔ اسی وقت گاڑی چل‬
‫اسی ادھیڑ‬ ‫پڑی تھی اور میں سارے راستے‬
‫پن میں مبتال رہا کہ پتہ نہیں اس بہن چود‬
‫ہے‬ ‫پروگرام بنایا‬ ‫نے میرے خالف کیا‬
‫پکڑ کر تھانے‬ ‫پولیس‬ ‫یوں‬ ‫مجھے‬ ‫جو‬
‫میں اسی سوچ و بچار‬ ‫رہی تھی۔۔۔‬ ‫لے جا‬
‫ڈاال‬ ‫میں مبتال تھا کہ اچانک پولیس کا‬
‫تھے‪-‬‬ ‫رک گیا ۔ہم تھانے پہنچ چکے‬

‫جیسے ہی ڈاال رکا ان میں سے اسی بڑی توند‬


‫اور‬ ‫والے سپاہی نے مجھے گریبان سے پکڑا‬
‫اندر لے گیا۔۔۔ اور بجائے رپورٹنگ‬ ‫تھانے کے‬
‫تھانے کے‬ ‫روم لے جانے کے۔۔۔۔۔۔وہ مجھے‬
‫اندر ہی بنے چھوٹے چھوٹے کمروں میں‬
‫میں‬ ‫اس کمرے‬ ‫سے ایک میں لے گیا۔۔۔ اور‬
‫سر‬ ‫پہلے میں نے‬ ‫سے‬ ‫ہونے‬ ‫داخل‬
‫کی‬ ‫پر لگی تختی‬ ‫دروازے‬ ‫کر‬ ‫اُٹھا‬
‫لکھا تھا‬ ‫پر‬ ‫تو ۔۔۔۔۔اس‬ ‫دیکھا‬ ‫طرف‬
‫اے ایس‬ ‫افسر۔۔۔ چوہدری تاج‬ ‫کمرہ تفتیشی‬
‫بند تھا لیکن‬ ‫آئی۔ اس وقت کمرے کا دروازہ‬
‫توند والے نے بڑے آرام سے‬ ‫اس موٹی‬
‫دروازے کا پٹ کھوال اور مجھے گریبان سے‬
‫داخل‬ ‫کے اندر‬ ‫کمرے‬ ‫پکڑے پکڑے‬
‫ہو گیا۔۔وہ ایک چھوٹا سا کمرہ تھا کمرے کے‬
‫وسط میں ایک چھوٹا سا میز اور اس کے گرد‬
‫دو کرسیاں رکھی ہوئیں تھیں جبکہ میز کی‬
‫موٹا‬ ‫دوسری طرف ایک کرخت چہرے واال‬
‫فائل پر‬ ‫بیٹھا‬ ‫پر‬ ‫سا شخص کرسی‬
‫کچھ لکھ رہا تھا جبکہ کمرے کے ایک کونے‬
‫میں اینٹوں کے اوپر ایک کالے رنگ کا‬
‫رکھا تھا اور اس‬ ‫بھی‬ ‫صندوق‬ ‫سا‬ ‫بڑا‬
‫کھونٹی پر‬ ‫صندوق کے عین اوپر ایک‬
‫جو‬ ‫ہوئی تھی‬ ‫لٹکی‬ ‫پولیس کی وردی‬
‫تاج اے ایس آئی کی ہو‬ ‫اسی موٹے‬ ‫یقینا ً‬
‫میں‬ ‫کے دوسرے کونے‬ ‫گی۔۔۔۔جبکہ کمرے‬
‫ہوا‬ ‫پلنگ بھی بچھا‬ ‫کا‬ ‫ایک لوہے‬
‫پلنگ پر ایک میلی سی‬ ‫اس‬ ‫تھا ۔۔۔ اور‬
‫ہوئی تھی ۔۔۔ کمرے‬ ‫بچھی‬ ‫شیٹ‬ ‫بیڈ‬
‫ہوئے‬ ‫میں جگہ جگہ سگریٹ کے پیئے‬
‫چھوٹے چھوٹے‬ ‫کے‬ ‫کاغذ‬ ‫ٹوٹے اور‬
‫تھے۔۔۔ ۔۔۔۔مجموعی‬ ‫ہوئے‬ ‫پڑے‬ ‫پرزے‬
‫اس‬ ‫تھا اور‬ ‫کمرہ‬ ‫خاصہ گندہ‬ ‫طور پر وہ‬
‫قسم کی نحوست‬ ‫سے ایک عجیب‬ ‫میں‬
‫ہوتے‬ ‫داخل‬ ‫اندر‬ ‫رہی تھی ۔۔۔۔ ہمیں‬ ‫ٹپک‬
‫اس کرخت چہرے والے موٹے‬ ‫دیکھ کر‬
‫طرف دیکھا‬ ‫شخص نے ایک نظر میری‬
‫بند کر‬ ‫فائل کو‬ ‫پڑی‬ ‫۔۔۔۔اور پھر سامنے‬
‫اور‬ ‫دیا۔۔۔۔۔۔‬ ‫اسے ایک طرف رکھ‬ ‫کے‬
‫سے‬ ‫خون خوار نظروں‬ ‫ہی‬ ‫بڑی‬ ‫پھر‬
‫توند‬ ‫موٹی‬ ‫اس‬ ‫ہوئے‬ ‫میری طرف دیکھتے‬
‫کہنے لگا ۔۔۔ کوئی مسلہ تو نہیں‬ ‫والے سے‬
‫تو اسی موٹی توند‬ ‫نے؟‬ ‫کیا اس حرامی‬
‫ایک جھٹکا‬ ‫میرے گریبان کو‬ ‫نے‬ ‫والے‬
‫ہو‬ ‫ہی‬ ‫جانتے‬ ‫آپ تو‬ ‫ہوئے کہا ۔۔۔۔‬ ‫دیتے‬
‫بڑے‬ ‫بڑے‬ ‫نے‬ ‫چوہدری صاحب کہ میں‬
‫یہ‬ ‫ڈال دی تھی۔۔۔۔۔ جبکہ‬ ‫ملزموں کو نتھ‬
‫کے سامنے ایک مچھر کی‬ ‫تو ان‬ ‫چوچا‬
‫نہیں رکھتا ۔۔اس سے پہلے کہ‬ ‫حثیت بھی‬
‫کرخت چہرے‬ ‫کچھ اور کہتا ۔۔۔۔ وہی‬ ‫وہ‬
‫ہو کر‬ ‫سے مخاطب‬ ‫مجھ‬ ‫موٹا‬ ‫واال‬
‫میں اس کے‬ ‫بوال۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ بیٹھو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور جب‬
‫تو وہ‬ ‫بیٹھ گیا‬ ‫پر‬ ‫سامنے کرسی‬
‫ہی‬ ‫ڈال کر بڑے‬ ‫میری آنکھوں میں آنکھیں‬
‫کاکا‬ ‫بوال ۔۔۔ ویکھ‬ ‫میں‬ ‫خوف ناک لہجے‬
‫دو گے تو اس‬ ‫بتا‬ ‫۔۔۔اگر تم سچ سچ‬
‫ہمارا‬ ‫اور‬ ‫ہو گا‬ ‫میں تمہارا ہی بھال‬
‫مجھے‬ ‫جائے گا۔۔۔۔۔ پھر‬ ‫بچ‬ ‫ٹائم‬ ‫بھی‬
‫دیتے ہوئے بوال۔۔۔۔ ورنہ تو تم‬ ‫دھمکی‬
‫ہو کہ پنجاب پلُس مردے کا بھی‬ ‫جانتے ہی‬
‫ہے۔۔۔۔۔۔ اس کی بات‬ ‫جانتی‬ ‫منہ کھلوا نا‬
‫دیکھتے‬ ‫سن کر میں نے اس کی طرف‬
‫درست ہے‬ ‫بات‬ ‫کہ آپ کی‬ ‫ہوئے کہا‬
‫بتایا‬ ‫یہ تو‬ ‫مجھے‬ ‫پہلے‬ ‫جناب ۔۔۔۔ لیکن‬
‫جائے کہ میرا قصور کیا ہے؟؟؟۔۔۔۔۔اور‬
‫الیا گیا ہے؟‬ ‫تھانے‬ ‫میں‬ ‫مجھے کس جرم‬
‫توند‬ ‫نے اس موٹی‬ ‫بات سن کر اس‬ ‫میری‬
‫والے کی طرف دیکھا ۔۔۔اور کہنے لگا ۔۔اوئے‬
‫بین یکا۔۔۔۔اس باؤ کو کچھ بتایا بھی تھا کہ‬
‫واال‬ ‫توند‬ ‫نہیں ؟۔۔۔۔ تو اس پر موٹی‬
‫کہنے لگا ۔۔ نہیں چوہدری صاحب آپ نے ہمیں‬
‫چوچے کو النے کا حکم دیا‬
‫اس ُ‬ ‫صرف‬
‫کا کام۔۔۔۔۔۔‬ ‫اور آپ‬ ‫آپ جانے‬ ‫تھا۔۔۔ باقی‬
‫کہ جس‬ ‫موٹا‬ ‫اس پر وہ کرخت چہرے واال‬
‫۔۔۔ میری‬ ‫تاج تھا‬ ‫چوہدری‬ ‫نام‬ ‫کا‬
‫طرف متوجہ ہوا اور پھر کہنے لگا۔۔ بات یہ‬
‫ہے باؤ کہ کل رات سے سعید سنیارے کی‬
‫ہے اور ان لوگوں کو شک ہے‬ ‫غائب‬ ‫بیٹی‬
‫امجد بھاگا‬ ‫کہ ان کی لڑکی کو تمہارا دوست‬
‫کے منہ‬ ‫تاج‬ ‫چوہدری‬ ‫کر لے گیا ہے۔۔۔‬
‫بھاگنے‬ ‫امجد اور نبیلہ کے گھر سے‬ ‫سے‬
‫کا‬ ‫وولٹ‬ ‫‪440‬‬ ‫مجھے‬ ‫سن کر‬ ‫کی خبر‬
‫کرسی سے اچھل پڑا‬ ‫اور میں‬ ‫کرنٹ لگا‬
‫بڑی حیرانی کے ساتھ اس‬ ‫۔۔۔۔۔۔ اور پھر‬
‫ہوئے‬ ‫دیکھتے‬ ‫کی طرف‬ ‫موٹے‬
‫بوال۔۔۔ یہ آپ ک۔کک۔ کیا کہہ رہے ہو جانب‬
‫بڑا‬ ‫تو‬ ‫نہیں ہو سکتا ۔کہ امجد‬ ‫؟۔۔۔۔ایسا‬
‫شریف اور اچھا لڑکا ہے۔۔۔۔۔۔ میری‬ ‫ہی‬
‫ب سابق‬
‫حس ِ‬ ‫نے‬ ‫تاج‬ ‫چوہدری‬ ‫بات سن کر‬
‫مجھے‬ ‫سے‬ ‫نظروں‬ ‫کڑی‬ ‫تو‬ ‫پہلے‬
‫میری‬ ‫دیر تک‬ ‫تھوڑی‬ ‫گھورا۔۔۔۔ ۔۔ پھر‬
‫طرف‬ ‫میری‬ ‫ڈال کر‬ ‫آنکھوں میں آنکھیں‬
‫وہ اس خبر پر‬ ‫کہ‬ ‫جیسے‬ ‫رہا‬ ‫دیکھتا‬
‫رہا‬ ‫تجزیہ کر‬ ‫کا‬ ‫ری ایکشن‬ ‫میرے‬
‫ہو۔۔جبکہ دوسری طرف اس خبر سے مجھے اس‬
‫قدر شدید ۔جھٹکا لگا تھا کہ ۔۔۔ میں ہونقوں کی‬
‫طرح منہ کھولے اس تھانیدار کی طرف دیکھتے‬
‫رہا‬ ‫ہی فقرہ بار بار دھرا‬ ‫ایک‬ ‫ہوئے‬
‫تھا کہ یہ نہیں ہو سکتا تھانیدار صاحب۔۔۔ اور‬
‫جب یہی فقرہ میں نے کوئی پانچویں دفعہ دھرایا‬
‫۔۔اور‬ ‫تو۔۔۔۔۔۔وہ اپنی سیٹ سے اُٹھ کھڑا ہوا‬
‫بڑے ہی‬ ‫دیکھتے ہوئے‬ ‫میری طرف‬
‫میں کہنے لگا۔۔ ہو سکتا‬ ‫لہجے‬ ‫طنزیہ‬
‫ہو گیا ہے ۔۔۔ اور‬ ‫کام‬ ‫یہ‬ ‫نہیں پتر ۔۔۔۔۔‬
‫خیال ہے کہ‬ ‫کا‬ ‫گھر والوں‬ ‫لڑکی کے‬
‫بھگانے میں‬ ‫سے‬ ‫ان دونوں کو گھر‬
‫کی‬ ‫تاج‬ ‫ہے ۔۔۔ چوہدری‬ ‫ہاتھ‬ ‫تمہارا‬
‫چونک‬ ‫سے‬ ‫دم‬ ‫میں ایک‬ ‫بات سن کر‬
‫سے اس کی طرف‬ ‫حیرانی‬ ‫گیا۔۔۔ اور بڑی‬
‫میرا‬ ‫بوال ۔۔۔۔ م۔۔۔مم ۔۔۔مم‬ ‫ہوئے‬ ‫دیکھتے‬
‫پر‬ ‫بات‬ ‫اس‬ ‫میری‬ ‫ہاتھ؟ ؟؟؟؟؟؟‬
‫ہو گیا اور‬ ‫پا‬ ‫سیخ‬ ‫وہ ایک دم‬
‫بوال۔۔۔۔۔۔۔ ویکھ باؤ‬ ‫ہوئے‬ ‫غراتے‬ ‫مجھ پر‬
‫مکر کرنے کی‬ ‫!۔۔۔ میرے سامنے زیادہ‬
‫ضرورت نہیں ہے۔۔۔ تم جانتے نہیں کہ تمہارا‬
‫کہنے‬ ‫کس کے ساتھ پڑا ہے۔۔۔ پھر‬ ‫پاال‬
‫میں‬ ‫۔۔۔ورنہ‬ ‫دو‬ ‫بتا‬ ‫لگا۔۔۔۔۔۔سیدھی طرح‬
‫دوں گا۔۔۔۔۔‬ ‫کے حوالےکر‬ ‫اسلم‬ ‫تمہیں‬
‫ناک‬ ‫خوف‬ ‫مزید‬ ‫آواز کو‬ ‫اپنی‬ ‫پھر‬
‫معلوم نہیں‬ ‫ہوئے بوال۔۔۔۔۔ تمہیں شاید‬ ‫بناتے‬
‫اسلم‬ ‫پیچھے کھڑے‬ ‫کہ۔۔۔۔ تمہارے‬
‫کا ہر‬ ‫جرم کی دنیا‬ ‫سے تو‬ ‫وڑائچ‬
‫اتنی‬ ‫نے‬ ‫پناہ مانگتا ہے ۔۔۔ابھی اس‬ ‫بندہ‬
‫پیچھے‬ ‫میرے‬ ‫کی تھی کہ‬ ‫بات‬ ‫ہی‬
‫کہ‬ ‫واال‬ ‫توند‬ ‫موٹی‬ ‫وہی‬ ‫کھڑا‬
‫واڑائچ‬ ‫نے اسلم‬ ‫تاج‬ ‫چوہدری‬ ‫جس کو‬
‫لگا۔۔۔ کہ‬ ‫تھا۔۔۔ کہنے‬ ‫کے نام سے پُکارا‬
‫اس چوچے‬ ‫اجازت ہو تو‬ ‫چوہدری صاحب‬
‫ابھی طوطے کی طرح بولنا‬ ‫میں‬ ‫کو‬
‫تاج‬ ‫پر اے ایس آئی‬ ‫تو اس‬ ‫سکھاؤں؟‬
‫صاحب‬ ‫وڑائچ‬ ‫رک جا ؤ‬ ‫کہنے لگا ۔۔۔ تھوڑا‬
‫چارہ‬ ‫بے‬ ‫کہ یہ‬ ‫نہ ہو‬ ‫ایسا‬ ‫کہ ۔۔۔‬
‫مارا جائے‬ ‫بے موت‬ ‫ہاتھوں‬ ‫تمہارے‬
‫۔۔۔اس کے ساتھ ہی وہ کرسی سے اُٹھ کر‬
‫دوبارہ آگے کی طرف بڑھا ۔۔۔۔۔اور میری طرف‬
‫خوفناک آواز میں‬ ‫ہوئے‬ ‫دیکھتے‬
‫ہوں۔۔۔۔۔ سیدھی طرح‬ ‫بوال۔۔۔۔آخری دفعہ کہہ رہا‬
‫دے ورنہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس پر میں نے‬ ‫بتا‬
‫جناب۔۔۔۔‬ ‫یقین کریں‬ ‫بے بسی سے کہا ۔۔۔ آپ‬
‫مجھے اس بارے میں کچھ پتہ نہیں۔۔۔۔۔ بلکہ‬
‫چال ہے‬ ‫پتہ‬ ‫آ پ کی ہی زبانی‬ ‫مجھے تو‬
‫سے بھاگ گئے ہیں‬ ‫گھر‬ ‫وہ دونوں‬ ‫کہ‬
‫نامی اے ایس آئی‬ ‫تاج‬ ‫میری بات سن کر‬
‫سے الل ہو گیا اور‬ ‫دم‬ ‫ایک‬ ‫کا چہرہ‬
‫آگے بڑھ‬ ‫نے‬ ‫اس‬ ‫ہی‬ ‫اس کے ساتھ‬
‫پر‬ ‫زناٹے دار تھپڑ میرے منہ‬ ‫کر ایک‬
‫مارا۔۔ اور گالی دیتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔ بہن‬ ‫دے‬
‫پُلس (پولیس ) کو‬ ‫کیا‬ ‫چود کے بچے ۔۔۔۔ تُو‬
‫چونکہ میں‬ ‫ہے ۔ ادھر‬ ‫سمجھتا‬ ‫چوتیا‬
‫اس ر ِد عمل‬ ‫تاج کی طرف سے‬ ‫چوہدری‬
‫نہ تھا ۔۔۔۔۔اس لیئے‬ ‫تیار‬ ‫کے لیئے‬
‫ہی میرے چودہ طبق‬ ‫پڑتے‬ ‫اس کا تھپڑ‬
‫سا گیا۔۔۔۔ اور‬ ‫روشن ہو گئے ۔۔ میں بوکھال‬
‫میرے‬ ‫تو‬ ‫لگا‬ ‫اُلٹنے‬ ‫جب کرسی سمیت‬
‫وڑائچ نے‬ ‫والے‬ ‫پیچھے کھڑے موٹی توند‬
‫سے‬ ‫میری کرسی پکڑ لی۔۔۔۔ جس کی وجہ‬
‫گیا۔۔۔۔۔‬ ‫سے بچ‬ ‫گرنے‬ ‫پر‬ ‫زمین‬ ‫میں‬
‫عین۔۔۔اسی وقت میں نے اپنے منہ میں کچھ‬
‫ذائقہ محسوس کیا ۔۔تو میں‬ ‫سا‬ ‫نمکین‬
‫کے‬ ‫اس جالد‬ ‫تو‬ ‫نے ہاتھ لگا کر دیکھا‬
‫تھے۔۔۔اور‬ ‫گئے‬ ‫تھپڑ سے میرے ہونٹ پھٹ‬
‫تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ جبکہ‬ ‫رس رہا‬ ‫خون‬ ‫ان سے‬
‫توند واال میری‬ ‫موٹی‬ ‫وہ‬ ‫دوسری طرف‬
‫کرسی کو سیدھا کرتے ہی کہنے لگا ۔۔۔۔۔ اوئے‬
‫حرامی ۔۔ چوہدری صاحب کو طیش نہ دال ۔۔۔۔۔۔‬
‫بات سچ سچ بتا دو ۔۔۔۔ ورنہ یہاں‬ ‫اور ساری‬
‫ہی جائے گی۔‬ ‫الش‬ ‫تمہاری‬ ‫سے‬

‫ادھر تھانیدار صاحب کا تھپڑ کھا کر اپنے‬


‫منہ کو ملتا ہوا۔ جیسے ہی میں ۔۔۔۔ سیدھا ہو‬
‫میری طرف‬ ‫اے ایس آئی تاج‬ ‫کر بیٹھا‬
‫ُک ُج یاد آیا ؟‬ ‫دیکھ کر بڑی نفرت سے بوال ۔۔۔‬
‫بڑی‬ ‫تو میں نے‬ ‫دوں؟‬ ‫یا اور دوائی‬
‫اس کی طرف دیکھتے‬ ‫کے ساتھ‬ ‫بے بسی‬
‫کا یقین کیوں‬ ‫ہوئے کہا ۔۔۔ آپ میری بات‬
‫جناب؟ کہ مجھے ان کے بارے‬ ‫نہیں کرتے‬
‫ہے میری بات سنتے‬ ‫نہ‬ ‫میں کچھ علم‬
‫پیچھے‬ ‫نے میرے‬ ‫تاج‬ ‫اے ایس آئی‬ ‫ہی‬
‫کی طرف‬ ‫وڑائچ‬ ‫والے‬ ‫کھڑے موٹی توند‬
‫دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔ لگتا ہے گھی سیدھی‬
‫ایک‬ ‫گا۔۔۔ پھر وہ‬ ‫نکلے‬ ‫سے نہیں‬ ‫انگلی‬
‫سے کہنے لگا۔۔۔۔۔ کھلو‬ ‫دم گرج کر مجھ‬
‫کھڑے ہو‬ ‫( بہن چود‬ ‫چودا‬ ‫بہن‬ ‫جا‬
‫سن‬ ‫حکم‬ ‫کا‬ ‫تاج‬ ‫۔۔۔۔۔ چوہدری‬ ‫جا ؤ)‬
‫ساتھ‬ ‫کے‬ ‫خاموشی‬ ‫بڑی‬ ‫میں‬ ‫کر‬
‫میرے‬ ‫ہوا۔۔۔‬ ‫اُٹھ کھڑا‬ ‫سے‬ ‫کرسی‬ ‫اپنی‬
‫اس نے میری‬ ‫ہی‬ ‫کھڑے ہوتے‬
‫غصیلے‬ ‫اسی‬ ‫پھر‬ ‫دیکھا اور‬ ‫طرف‬
‫اپنی جان‬ ‫کہنے لگا ۔۔۔ کیوں‬ ‫میں‬ ‫لہجے‬
‫چود‬ ‫ہو مادر‬ ‫ہوئے‬ ‫بنے‬ ‫کے دشمن‬
‫یہ‬ ‫تمہاری‬ ‫۔۔۔۔ مجھے‬ ‫کے بچے‬
‫دیکھ کر تم پر‬ ‫جنڈری‬ ‫(کمزور) سی‬ ‫ملُوک‬
‫تم کو‬ ‫میں‬ ‫ہے ۔۔۔۔۔اس لیئے‬ ‫ترس آ رہا‬
‫رہا ہوں ۔۔۔سیدھی طرح بتا‬ ‫آخری چانس دے‬
‫دو کہ لڑکے لڑکی کو کہاں بھگایا ہے‬
‫کے حوالے کر‬ ‫وڑائچ‬ ‫۔۔۔۔۔ورنہ میں تمہیں‬
‫سے‬ ‫دار زبان‬ ‫۔۔۔ پھر اپنی کاٹ‬ ‫دوں گا‬
‫کہنے‬ ‫ہوئے‬ ‫رکھتے‬ ‫جاری‬ ‫بات‬
‫کھول کر سن لو‬ ‫لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک بات کان‬
‫کے‬ ‫وڑائچ‬ ‫تو‬ ‫ایک دفعہ‬ ‫اگر‬ ‫بچے۔۔۔‬
‫کیا‬ ‫تُو۔۔ تو‬ ‫ہتھے چڑھ گیا نا ۔۔۔تو پھر‬
‫۔۔۔ ادھر‬ ‫بولیں گی۔۔۔۔‬ ‫سات نسلیں بھی‬ ‫تیری‬
‫نبیلہ اور امجد کے گھر سے‬ ‫چونکہ مجھے‬
‫کچھ‬ ‫قطعا ً‬ ‫میں‬ ‫بارے‬ ‫کے‬ ‫بھاگنے‬
‫ایک‬ ‫نے‬ ‫میں‬ ‫لیئے‬ ‫اس‬ ‫نہ تھا‬ ‫علم‬
‫ساتھ‬ ‫کے‬ ‫بے بسی‬ ‫بڑی‬ ‫بار پھر‬
‫دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔ آپ‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫اس‬
‫یقین کریں جناب۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی میں نے اتنا ہی‬
‫موٹی‬ ‫نے‬ ‫تاج‬ ‫چوہددری‬ ‫کہا تھا کہ‬
‫کیا‬ ‫طرف اشارہ‬ ‫کی‬ ‫وڑائچ‬ ‫والے‬ ‫توند‬
‫پاس‬ ‫تیرے‬ ‫لگا۔۔۔۔ وڑائچ‬ ‫کہنے‬ ‫اور‬
‫بات‬ ‫ہیں۔۔۔ تاج کی‬ ‫منٹ‬ ‫دس‬ ‫صرف‬
‫واڑئچ‬ ‫واال‬ ‫توند‬ ‫موٹی‬ ‫ہی‬ ‫سنتے‬
‫طرف‬ ‫میری‬ ‫بھوکے کتے کی طرح‬ ‫کسی‬
‫لپکا ۔۔۔۔۔۔اور مجھے گریبا ن سے پکڑتے‬
‫کہنے لگا۔۔۔ بوال۔۔۔۔۔۔ دس منٹ تو بہت‬ ‫ہوئے‬
‫ہیں چوہدری صاحب ۔۔۔۔ یہ ساال تو دو‬ ‫زیادہ‬
‫ساتھ‬ ‫گا۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔اس کے‬ ‫منٹ بھی نہیں نکالے‬
‫میرے گریبان کو ایک جھٹکا‬ ‫اس نے‬ ‫ہی‬
‫کچھ‬ ‫کے‬ ‫مار‬ ‫اور میرے منہ پر تھپڑ‬ ‫دیا‬
‫سے‬ ‫پیچھے‬ ‫کہ‬ ‫تھا‬ ‫واال‬ ‫ہی‬ ‫کہنے‬
‫دی ۔۔۔۔ وہ‬ ‫سنائی‬ ‫کی آواز‬ ‫تاج‬ ‫چوہدری‬
‫اس‬ ‫دیکھنا‬ ‫تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اوئے‬ ‫کہہ رہا‬
‫شدی نہ ٹوٹنے پائے۔۔۔۔۔ تو‬ ‫کی کوئی ہڈی‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫اس پر موٹی توند واال وڑائچ‬
‫جو حکم سرکار۔۔۔۔اور پھر مجھ سے بوال ۔۔۔‬
‫چل باؤ۔۔۔ کن پھڑ ۔۔۔۔(کان پکڑو) موٹی توند‬
‫میں نے‬ ‫سن کر ابھی‬ ‫بات‬ ‫کی‬ ‫والے‬
‫ہی تھا کہ‬ ‫کے لیئے منہ کھوال‬ ‫احتجاج‬
‫پیچھے سے مجھے ایک‬ ‫نے‬ ‫اچانک اس‬
‫جس کی وجہ سے میں‬ ‫ماری‬ ‫دار الت‬ ‫ذور‬
‫گرا۔۔۔۔ فرش سے ا ُٹھتے‬ ‫سیدھا فرش پر جا‬
‫پیچھے کی طرف دیکھا‬ ‫نے‬ ‫میں‬ ‫ہوئے‬
‫گئے ۔۔۔۔۔ کیونکہ‬ ‫ہو‬ ‫تو ۔۔۔۔ میرے حواس گم‬
‫والے کے ہاتھ میں‬ ‫توند‬ ‫موٹی‬ ‫میں نے‬
‫چمڑے‬ ‫سا‬ ‫بڑا‬ ‫ایک‬ ‫کا‬ ‫رنگ‬ ‫کالے‬
‫لتر‬ ‫میں‬ ‫پنجابی‬ ‫جسے‬ ‫چھتر‬ ‫کا‬
‫اُٹھنے کی‬ ‫دیکھا ۔۔۔ میرے‬ ‫ہیں‬ ‫کہتے‬ ‫بھی‬
‫اس‬ ‫ہی اس نے‬ ‫دوران‬ ‫کے‬ ‫کوشش‬
‫پر‬ ‫میری کمر‬ ‫لہرا کر‬ ‫کو‬ ‫لتر‬ ‫نے۔۔۔ اس‬
‫کی‬ ‫لتر کے لگنے‬ ‫مارا ۔۔ اس‬ ‫دے‬
‫اس‬ ‫پر‬ ‫کمر‬ ‫اپنی‬ ‫مجھے‬ ‫سے‬ ‫وجہ‬
‫ہوا۔۔۔۔ کہ‬ ‫محسوس‬ ‫درد‬ ‫شیدید‬ ‫قدر‬
‫بے‬ ‫سے‬ ‫وجہ‬ ‫کی‬ ‫درد‬ ‫اس‬
‫نکل‬ ‫آنسو‬ ‫میری آنکھوں سے‬ ‫اختیار‬
‫اپنا‬ ‫واال‬ ‫توند‬ ‫موٹی‬ ‫وہ‬ ‫پڑے ۔ادھر‬
‫لہرا کر‬ ‫لتر‬

‫مجھے۔۔۔گالیاں دیتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔ کن پھڑ‬


‫ہی‬ ‫ایک‬ ‫۔۔۔پین یکا (بہن چود) ۔۔۔ اس کے‬
‫بند کر دی تھی‬ ‫بولتی‬ ‫میری‬ ‫نے‬ ‫لتر‬
‫میں نے عافیت اسی میں سمجھی کہ‬ ‫۔۔۔۔اور‬
‫بنا‬ ‫میں‬ ‫پھر‬ ‫اور‬ ‫فوراً مرغا بن جاؤں۔۔۔‬
‫کیئے مرغا بن گیا۔‬ ‫و چرا‬ ‫چوں‬

‫دیر تھی کہ پیچھے‬ ‫بننے کی‬ ‫۔۔۔۔۔میرے مرغا‬


‫کی‬ ‫وڑائچ‬ ‫والے‬ ‫توند‬ ‫موٹی‬ ‫سے اسی‬
‫کہ‬ ‫تھا‬ ‫رہا‬ ‫وہ کہہ‬ ‫آواز سنائی دی‬
‫لنا۔۔۔۔۔۔ اور‬ ‫بہن‬ ‫اونچی کر‬ ‫پیچھے سے بنڈ‬
‫میں نے اس کے حکم کے‬ ‫جیسے ہی‬ ‫پھر‬
‫کیا‬ ‫ہپس کو اوپر‬ ‫مطابق پیچھے سے اپنی‬
‫سپیڈ‬ ‫عین اسی وقت اس نے فُل‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔ تو‬
‫وہی لتر دے مارا ۔۔۔۔۔‬ ‫سے میرے ہپس پر‬
‫ہی میرا سارا جسم جھنجھنا سا‬ ‫لتر پڑتے‬
‫جیسے‬ ‫کہ‬ ‫لگا‬ ‫ایسا‬ ‫مجھے‬ ‫گیا ۔۔۔ اور‬
‫کا سارا ماس ادھڑ‬ ‫میری ہپس‬

‫درد‬ ‫شدید‬ ‫ہو۔۔۔۔۔۔چنانچہ میں اس‬ ‫گیا‬


‫کو‬ ‫ہپس‬ ‫اپنی‬ ‫سے‬ ‫وجہ‬ ‫کی‬
‫ہوا ۔۔۔ میرے‬ ‫اُٹھ کھڑا‬ ‫ہوئے‬ ‫ملتے‬
‫بھاری بھر کم‬ ‫وہی‬ ‫اس نے‬ ‫اُٹھتے ہی‬
‫کہنے‬ ‫مارا ۔۔ اور‬ ‫میں‬ ‫میری کمر‬ ‫چھتر‬
‫پترا۔۔۔۔۔۔ کڑی‬ ‫کُتے دیا‬ ‫لگا۔۔۔۔۔۔۔دس اوئے‬
‫ای۔۔۔ ( کتے کے بچے‬ ‫نسایا‬ ‫منڈے نوں کھتے‬
‫۔۔۔۔بتاؤ کہ تم نے لڑکے لڑکی کو کہاں بھگایا‬
‫لتر کو‬ ‫اسی‬ ‫سے‬ ‫پھر‬ ‫اور‬ ‫ہے؟ )‬
‫پر‬ ‫ایک دفعہ پھر میری کمر‬ ‫کر‬ ‫لہرا‬
‫شدید‬ ‫مجھے اتنا‬ ‫مار دیا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کا‬
‫چاہتے ہوئے‬ ‫کہ نہ‬ ‫ہوا‬ ‫درد محسوس‬
‫چیخ‬ ‫دار‬ ‫سے ایک ذور‬ ‫منہ‬ ‫میرے‬ ‫بھی‬
‫دردناک‬ ‫نکل گئی۔۔۔۔ میرے منہ سے اس‬
‫پسند واڑائچ‬ ‫کا نکلنا تھا کہ اذیت‬ ‫چیخ‬
‫لگا اور پھر مجھ‬ ‫ہنسنے‬ ‫اسے سن کر‬
‫بوال۔۔۔۔ کیوں پتر کج‬ ‫ہو کر‬ ‫مخاطب‬ ‫سے‬
‫مالش کراں؟؟ ۔ اس کی‬ ‫ہور‬ ‫یاد آیا ؟؟ ۔۔ یا‬
‫بات سن کر میں نے اپنی کمر خصوسا ً‬
‫میری‬ ‫کو ملتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ آپ‬ ‫ہپس‬
‫نے‬ ‫میں‬ ‫یقین کریں ۔۔۔۔۔۔ابھی‬ ‫کا‬ ‫بات‬
‫کانوں‬ ‫میرے‬ ‫کہ‬ ‫تھا‬ ‫کہا‬ ‫ہی‬ ‫اتنا‬
‫دی۔۔۔ اور پھر‬ ‫میں شاں۔۔ں ۔۔۔ کی آواز سنائی‬
‫دریغ‬ ‫بے‬ ‫اس کے ساتھ ہی اس نے‬
‫کر‬ ‫شروع‬ ‫مجھ پر چھتروں کی برسات‬
‫چھتر جہاں جہاں میرے جسم‬ ‫دی۔۔۔ اس کا‬
‫ہوتا کہ‬ ‫ایسے محسوس‬ ‫پر لگتا ۔۔۔ مجھے‬
‫حصے‬ ‫کے اس‬ ‫جیسے۔۔۔ میرے جسم‬
‫گئی ہو ۔۔۔۔۔ اور‬ ‫چمڑی ادھڑ‬ ‫میری‬ ‫سے‬
‫اور‬ ‫برداشت‬ ‫میری‬ ‫پھر ۔۔۔ اس کے بعد‬
‫دے گئی ۔۔۔۔۔ چنانچہ اب اس‬ ‫جواب‬ ‫ہمت‬
‫جواب میں میرے منہ سے‬ ‫کے چھترول کے‬
‫ہو گیا‬ ‫بھی چیخوں کا طوفان نکلنا شروع‬
‫چاہتے ہوئے بھی ۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔شدید‬ ‫اور نہ‬
‫چیخیں‬ ‫ناک‬ ‫سے۔۔۔۔اذیت‬ ‫درد کی وجہ‬
‫زرا‬ ‫ظالم نے‬ ‫مارنے لگا۔۔۔۔۔ لیکن اس‬
‫اور‬ ‫کھایا‬ ‫نہ‬ ‫پر رحم‬ ‫مجھ‬ ‫بھی‬
‫مار‬ ‫رہا‬ ‫کرتا‬ ‫چھترول‬ ‫میری‬ ‫مسلسل‬
‫جب میری چیخوں کی آواز کچھ‬ ‫کھاتے کھاتے‬
‫کا‬ ‫کمرے‬ ‫زیادہ ہی بلند ہو گئی ۔۔۔۔تو اچانک‬
‫۔۔۔ اور میں نے ُمڑ کر‬ ‫کھال‬ ‫دروازہ‬
‫کمرے میں‬ ‫سپاہی‬ ‫ایک‬ ‫تو‬ ‫دیکھا‬
‫داخل ہوتے‬ ‫تھا ۔۔۔۔ اندر‬ ‫رہا‬ ‫ہو‬ ‫داخل‬
‫ہوئے‬ ‫کی طرف دیکھتے‬ ‫تاج‬ ‫وہ‬ ‫ہی‬
‫ایس ایچ‬ ‫وقت‬ ‫کہنے لگا ۔۔۔۔۔ کہ آپ کو اسی‬
‫بال رہے ہیں ۔۔۔۔اس کی بات سن‬ ‫او صاحب‬
‫کرسی‬ ‫تاج جو کہ سامنے‬ ‫ایس‬ ‫کر اے‬
‫دیکھ کر‬ ‫مار کھاتے‬ ‫مجھے‬ ‫بیٹھا‬ ‫پر‬
‫تھا آنے والے‬ ‫رہا‬ ‫ہو‬ ‫اندوز‬ ‫لطف‬
‫جھٹکے‬ ‫ایک‬ ‫کی بات سن کر‬ ‫سپاہی‬
‫کے ساتھ چل پڑا۔۔۔۔۔‬ ‫سے اٹھا ۔۔۔اور اس‬
‫جاتے جاتے اے ایس آئی تاج نے موٹی توند‬
‫میرے آنے تک رکو‬ ‫والے وڑائچ سے کہا‬
‫گیا۔۔۔‬ ‫باہر نکل‬ ‫دروازے سے‬ ‫۔۔۔اور پھر‬
‫اے ایس آئی کی بات سن کر موٹی توند والے نے‬
‫مجھے‬ ‫مارنا بند کر دیا ۔۔۔۔۔اور پھر‬ ‫مجھے‬
‫سے کہنے‬ ‫ہوئے بڑے رعب‬ ‫دیتے‬ ‫گالی‬
‫کی بات‬ ‫اس‬ ‫حرامی۔۔۔‬ ‫بیٹھ‬ ‫لگا ۔۔۔۔ نیچے‬
‫کی بجائے‬ ‫بیٹھنے‬ ‫۔۔۔۔میں زمین پر‬ ‫سن کر‬
‫ملتا‬ ‫وہیں کھڑے ہو کر اپنی کمر اور ہپس کو‬
‫رہا۔۔۔ کوئی دس منٹ بعد تاج کمرے میں داخل‬
‫ہوا ۔۔۔اور اس موٹی توند والے کو مخاطب کر‬
‫کے بوال۔۔۔ چھیتی ۔۔۔تیار ہو جاؤ۔۔ریڈ پہ جانا‬
‫ہے تو اس پر وڑائچ نے میری طرف اشارہ‬
‫کہا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا کیا کرنا‬ ‫کرتے ہوئے‬
‫ہے؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ تو اے ایس آئی کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ میں‬
‫نے ایس ایچ او صاحب سے بات کر لی ہے‬
‫واپس نہیں آ جا تے ۔۔۔۔ اس کو‬ ‫جب تک ہم‬
‫حواالت میں رکھا جائے گا ۔۔۔ اے ایس آئی تاج‬
‫موٹی توند واال‬ ‫ہی‬ ‫کی بات سنتے‬
‫میری طرف گھوما اور کہنے لگا ۔۔۔۔ شکر کر‬
‫اور کام سے‬ ‫کہ اس وقت میں کسی‬ ‫ماما‬
‫تمہاری‬ ‫نے‬ ‫میں‬ ‫جا رہا ہوں ورنہ آج‬
‫ادھیڑ کر رکھ دینی تھی۔۔۔۔ اور پھر اس‬ ‫کھال‬
‫نے مجھے گریبان سے پکڑا اور باہر کی طرف‬
‫پیچھے‬ ‫مجھے‬ ‫میں‬ ‫جانے لگا۔۔۔۔ اتنے‬ ‫لے‬
‫کی کرخت آواز سنائی‬ ‫سے اے ایس آئی‬
‫تھا ۔۔۔۔۔۔۔ اوئے باؤ ۔۔۔۔ قسمت‬ ‫دی۔۔۔۔ وہ کہہ رہا‬
‫نے تجھے رات تک کی مہلت دے دی ہے‬
‫فائدہ‬ ‫کا‬ ‫مہلت‬ ‫۔۔اس لیئے اس‬
‫اُٹھاؤ۔۔۔۔اور ایک بار پھر اچھی طرح سوچ لو‬
‫تمہاری چیخوں کو‬ ‫اور سچ بک دو ۔۔۔ ورنہ رات‬
‫سننے واال بھی کوئی نہ ہو گا۔۔۔ اس کی بات‬
‫۔۔۔موٹی توند والے نے‬ ‫ختم ہوتے ہی‬
‫حواالت کی‬ ‫دیا ا ور ہم‬ ‫مجھے ایک دھکا‬
‫پڑے۔۔جیسے ہی ہم حواالت کے قریب‬ ‫طرف چل‬
‫موجود ایک سپاہی‬ ‫پر‬ ‫پہنچے تو وہاں ڈیوٹی‬
‫توند والے سے کہا ۔۔۔۔ وڑائچ‬ ‫نے اس موٹی‬
‫ہو؟‬ ‫الئے‬ ‫کس بین یک نوں پھڑ‬ ‫جی ۔۔۔اج‬
‫الئے ہو) ۔۔۔ تو‬ ‫کو پکڑ‬ ‫( آج کس بہن چود‬
‫مجھے گالی دیتے‬ ‫بھی‬ ‫وڑائچ‬ ‫آگے سے‬
‫نے‬ ‫ذادے‬ ‫کہنے لگا۔۔۔۔۔ اس حرام‬ ‫ہوئے‬
‫بھگانے میں مدد‬ ‫گھر سے‬ ‫ایک لڑکی کو‬
‫سپاہی حواالت‬ ‫پر وہ‬ ‫دی ہے ۔۔۔۔۔۔ تو اس‬
‫بوال ۔۔۔۔ ماں نوں لن‬ ‫ہوئے‬ ‫کا تاال کھولتے‬
‫اور‬ ‫لینا ۔۔۔ شکل سے ہی حرامی لگتا ہے…‪.‬‬
‫اس کے ساتھ ہی موٹی توند واال مجھے‬
‫کے وا پس چال گیا۔۔‬ ‫داخل کر‬ ‫حواالت میں‬
‫نے اندر‬ ‫ہوتے ہی میں‬ ‫حواالت میں داخل‬
‫میرے عالوہ‬ ‫دیکھا تو اس وقت‬ ‫کا منظر‬
‫دو تین بندے اور بھی بند‬ ‫میں‬ ‫اس حواالت‬
‫ایک سرسری‬ ‫سب کا‬ ‫ان‬ ‫نے‬ ‫تھے ۔۔ میں‬
‫کے‬ ‫حواالت‬ ‫۔۔۔۔۔اور‬ ‫لیا‬ ‫جائزہ‬ ‫سا‬
‫و ہاں پر‬ ‫ہی میں‬ ‫ہوتے‬ ‫اندر داخل‬
‫پر جا کر‬ ‫دری‬ ‫سی‬ ‫ایک میلی‬ ‫پڑی‬
‫لمبے سانس لینے لگا۔‬ ‫لیٹ کر لمبے‬ ‫اُلٹا‬
‫اپنی کمر اور‬ ‫کہ سیدھا لیٹنے سے مجھے‬
‫ہپس پر بہت درد محسوس ہو رہا تھا۔۔۔۔۔میری‬
‫ایک‬ ‫میں موجود‬ ‫دیکھ کر حواالت‬ ‫حالت‬
‫جگہ سے‬ ‫اپنی‬ ‫شخص‬ ‫بزرگ صورت‬
‫اور میرے پاس آ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔‬ ‫اُٹھا‬
‫میرے‬ ‫کے ساتھ‬ ‫شفقت‬ ‫بڑی‬ ‫اور پھر‬
‫کہنے لگا‬ ‫ہوئے‬ ‫پھیرتے‬ ‫ہاتھ‬ ‫پر‬ ‫سر‬
‫لگتا ہے ظالموں نے بہت بے دردی‬ ‫۔۔کہ‬
‫بھی تقریبا ً‬ ‫کے ساتھ مارا ہے تو میں نے‬
‫ہوئے اس سے کہا ۔۔۔۔۔ ہاں چاچا۔۔۔۔ اس‬ ‫روتے‬
‫موٹی توند والے نے مجھے بہت مارا ہے‬
‫۔۔۔۔۔میری بات سن کر اس بزرگ نے وڑائچ کو‬
‫ہی‬ ‫گالی دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ یہ بہن چود بڑا‬
‫انسان ہے۔۔۔ پھر میری‬ ‫صفت‬ ‫ظالم اور درندہ‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ پتر یہ تو بتا‬
‫تجھے کس چکر میں یہاں الئے ہیں؟ تو‬ ‫کہ یہ‬
‫کہا‬ ‫ہوئے‬ ‫دیتے‬ ‫میں نے ان کو جواب‬
‫ایک دوست اپنی‬ ‫بقول میرا‬ ‫کے‬ ‫کہ ان‬
‫معشوق کو لے کر گھر سے بھاگ گیا ہے ۔۔‬
‫کے منہ‬ ‫ہی چاچے‬ ‫بات سنتے‬ ‫میری‬
‫چچ چچ کی آواز‬ ‫بھری‬ ‫سے افسوس‬
‫پترا۔۔۔ تمہارا‬ ‫نکلی اور ۔۔۔ وہ کہنے لگا۔۔۔۔ پھر تو‬
‫دم سے‬ ‫مشکل ہے ۔۔ پھر ایک‬ ‫چھٹکارا‬
‫میں‬ ‫پرچے‬ ‫کہ‬ ‫بولے۔۔یہ بتاؤ‬ ‫کر‬ ‫چونک‬
‫تو میں‬ ‫ہے؟‬ ‫شامل‬ ‫بھی‬ ‫نام‬ ‫تمہا را‬
‫کہا ۔۔۔۔ پتہ نہیں چاچا ۔۔۔ ویسے‬ ‫سے‬ ‫نے ان‬
‫کٹا نہیں کہ یہ‬ ‫خیال ہے کہ پرچہ ابھی‬ ‫میرا‬
‫آج صبع کا ہی واقعہ ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر وہ‬
‫۔۔۔ تمہیں معلوم‬ ‫بزرگ کہنے لگے۔۔۔ بیٹا شاید‬
‫کا‬ ‫نہیں کہ یہ لوگ تم پر لڑکی کے اغوا‬
‫گے۔۔ ۔ اس بزرگ کی بات سن کر‬ ‫پرچہ کاٹیں‬
‫رہ گیا اور حیرت‬ ‫دم سے حیران‬ ‫میں ایک‬
‫پر اُٹھ کر‬ ‫دری‬ ‫ایک دم‬ ‫مارے‬ ‫کے‬
‫ہی‬ ‫بیٹھتے‬ ‫پر‬ ‫بیٹھ گیا۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔ دری‬
‫چیخ نکل گئی اور میں‬ ‫سے‬ ‫منہ‬ ‫میرے‬
‫بجائے بیٹھنے کے اُٹھ کھڑا ہو ا ۔۔اور اس‬
‫میں نے تو کسی‬ ‫سے بوال ۔۔۔۔لیکن چاچا‬
‫لڑکی کو اغوا نہیں کیا؟؟‬

‫؟۔۔۔ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ مجھے معلوم ہے پتر ۔۔۔۔‬


‫مجھے‬ ‫لیکن تم برے پھنس گئے ہو۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر‬
‫ہاں‬ ‫ہمارے‬ ‫بوال۔۔۔۔۔۔کہ‬ ‫ہوئے‬ ‫سمجھاتے‬
‫ہوتا ہے ۔۔۔۔ کہ‬ ‫ہی‬ ‫عام طور پر ایسا‬
‫اور‬ ‫لڑکا‬ ‫بھاگتے ۔۔ تو‬ ‫گھر سے‬
‫والے‬ ‫گھر‬ ‫کے‬ ‫لڑکی‬ ‫ہیں لیکن‬ ‫لڑکی‬
‫۔۔۔۔۔ پرچے (ایف آئی آر )‬ ‫بطور انتقام‬
‫ِ‬ ‫۔۔۔‬
‫دیتے‬ ‫نام لکھوا‬ ‫کا‬ ‫ٹبر‬ ‫پورے‬ ‫میں‬
‫مجھ سے کہنے لگا ۔۔۔۔۔ اور تم کو‬ ‫ہیں۔۔۔۔پھر‬
‫کا‬ ‫تو پتہ ہی ہے بیٹا۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ جس جس‬
‫گا‬ ‫ایف آئی آر میں آئے‬ ‫نام‬ ‫بھی‬
‫پھنس‬ ‫جال میں‬ ‫پولیس کے‬ ‫وہ سمجھو‬
‫نام‬ ‫میں‬ ‫گیا ہے۔۔۔۔ اور ایف آئی آر‬
‫پولیس کی چاندی ہو جائے‬ ‫وجہ سے‬ ‫کی‬
‫بزرگ‬ ‫وہ‬ ‫گی۔۔۔میں نے محسوس کیا کہ‬
‫باتونی تھے‬ ‫لیکن ۔۔۔ بہت‬ ‫ہمدرد‬ ‫کافی‬
‫نے مجھ سے کافی‬ ‫پھر اس کے بعد انہوں‬
‫جتائی۔۔۔ جب‬ ‫ساری باتیں کیں ۔۔۔اور ہمدردی‬
‫کر لی‬ ‫مکمل‬ ‫تفتیش‬ ‫میری‬ ‫انہوں نے‬
‫ہی‬ ‫سے پوچھ‬ ‫آخر میں ۔۔۔۔میں نے ان‬ ‫تو‬
‫آئے‬ ‫لیا کہ چاچا آپ کس جرم میں یہاں‬
‫ہو؟ تو اس پر چاچے نے ایک لمبی کہانی‬
‫ب لباب یہ تھا کہ ان‬
‫سنائی جس کا ل ِ‬
‫ہمسائیوں‬ ‫ہر‬ ‫بات‬ ‫کسی‬ ‫کی‬ ‫لوگوں‬
‫اس لڑائی‬ ‫اور‬ ‫سے لڑائی ہو گئی تھی‬
‫بیٹے نے طیش میں آ‬ ‫کے‬ ‫چاچے‬ ‫میں‬
‫کا سر کھول دیا ہے ۔۔۔‬ ‫ہمسائے‬ ‫کر اس‬
‫تو‬ ‫وہ‬ ‫ہمسائے کا سر کھولنے کے بعد‬
‫سے فرار ہو گیا ۔۔۔۔۔ جبکہ‬ ‫جائے واردات‬
‫ہوئے‬ ‫والوں نے کاروائی ڈالتے‬ ‫پولیس‬
‫تھانے‬ ‫کر‬ ‫پکڑ‬ ‫کو‬ ‫بزرگ‬ ‫۔۔۔۔۔ اس‬
‫دن‬ ‫تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ جس‬ ‫دیا‬ ‫بند کر‬ ‫میں‬
‫گا ۔۔۔۔۔۔اسی‬ ‫دے‬ ‫گرفتاری‬ ‫اپنی‬ ‫بیٹا‬
‫رام کہانی‬ ‫تم کو چھوڑ دیں گے۔۔۔اپنی‬ ‫دن‬
‫میری طرف‬ ‫بزرگ‬ ‫وہ‬ ‫سنانے کے بعد‬
‫کہنے لگے۔۔۔ تمہارے گھر والوں‬ ‫اور‬ ‫ُمڑے‬
‫ہو؟‬ ‫بند‬ ‫یہاں‬ ‫ہے کہ تم‬ ‫معلوم‬ ‫کو‬
‫ہال دیا۔۔۔۔اس‬ ‫انکار میں سر‬ ‫میں نے‬ ‫تو‬
‫پھر‬ ‫لگے ۔۔۔کہ‬ ‫بزرگ کہنے‬ ‫وہ‬ ‫پر‬
‫کی بات ہے ۔۔لیکن‬ ‫پریشانی‬ ‫بڑی‬ ‫تو یہ‬
‫میں‬ ‫کہنے لگے۔۔۔۔۔ تم فکر نہ کرو‬ ‫پھر‬
‫لڑکا‬ ‫ایک‬ ‫میں‬ ‫اثنا‬ ‫کچھ کرتا ہوں ۔۔۔ اسی‬
‫کر کھڑا‬ ‫آ‬ ‫پاس‬ ‫کے‬ ‫کی سالخوں‬ ‫حواالت‬
‫اس کے ہاتھ میں ٹفن تھا ۔۔۔ اور وہ‬ ‫گیا‬ ‫ہو‬
‫روٹی لے کر آیا تھا۔۔۔ ۔۔ اسے‬ ‫بزرگ کی‬ ‫اس‬
‫دیکھتے ہی وہ بزرگ کہنے لگے لو بیٹا‬
‫تمہارا مسلہ تو حل ہو گیا۔۔۔۔اور پھر میرے‬
‫پوچھنے پر بولے یہ میرا بھتیجا ہے تم اس‬
‫یہ‬ ‫دو‬ ‫ایڈریس سمجھا‬ ‫کا‬ ‫گھر‬ ‫کو اپنے‬
‫پر میں نے‬ ‫بتا آئے گا ۔۔۔ اس‬ ‫تمہارے گھر‬
‫پر‬ ‫کہاں‬ ‫سے پوچھا کہ تم‬ ‫اس لڑکے‬
‫ہو؟؟؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ کہ بھائی‬ ‫رہتے‬
‫میں کمیٹی محلے کا رہنے واال ہوں ۔۔۔ کمیٹی‬
‫زہن میں‬ ‫میرے‬ ‫محلے کا نام سن کر‬
‫اور میں نے‬ ‫آ گیا‬ ‫خیال‬ ‫اچانک ایک‬
‫جانتے‬ ‫کو‬ ‫تم اصغر‬ ‫اس سے کہا کہ کیا‬
‫اپنے‬ ‫لڑکا‬ ‫بات سن کر وہ‬ ‫میری‬ ‫ہو؟‬
‫سا‬ ‫بوال۔۔۔ کون‬ ‫ہوئے‬ ‫دیتے‬ ‫زور‬ ‫زہن پر‬
‫ہمارے محلے میں تو کافی اصغر‬ ‫اصغر ؟‬
‫نے اس کو اصغر‬ ‫میں‬ ‫ہیں اس پر‬ ‫رہتے‬
‫میں ملک‬ ‫ہوئے کہا کہ‬ ‫حلیہ بتاتے‬ ‫کا‬
‫اصغر کی بات کر رہا ہوں کہ جس کا والد‬
‫ہے تو‬ ‫کام کرتا‬ ‫میونسپل کارپوریشن میں‬
‫یہ‬ ‫کہنے لگا ۔۔۔جی‬ ‫لڑکا‬ ‫پر وہ‬ ‫اس‬
‫ساتھ‬ ‫ہمارے‬ ‫اصغر بھائی تو‬ ‫والے‬
‫میں‬ ‫ہیں ۔اس پر‬ ‫رہتے‬ ‫میں‬ ‫والے محلے‬
‫کر‬ ‫وہ میرا پیغام لے‬ ‫نے اس سے کہا کہ‬
‫کرنے‬ ‫بتا دے ۔۔ اس سے بات‬ ‫اصغر کو‬
‫دیکھا‬ ‫کر‬ ‫ُمڑ‬ ‫میں نے‬ ‫جب‬ ‫بعد‬ ‫کے‬
‫رہے‬ ‫نکال‬ ‫تو وہ بزرگ ٹفن سے روٹی‬
‫متوجہ پا کر‬ ‫طرف‬ ‫اپنی‬ ‫مجھے‬ ‫تھے‬
‫انہوں نے مجھے روٹی کھانے کی آفر‬
‫ان کا شکریہ ادا‬ ‫میں نے‬ ‫دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن‬
‫کر کے کھانے سے انکار کر دیا۔۔کچھ دیر‬
‫ٹفن لے کر چال گیا‬ ‫بزرگ سے‬ ‫بعد وہ لڑکا‬
‫دفعہ پھر‬ ‫ایک‬ ‫میں نے‬ ‫ہوئے‬ ‫اور جاتے‬
‫ساتھ‬ ‫میرے‬ ‫اس کو تاکید کی۔۔۔بلکہ‬
‫اس کو‬ ‫بھی‬ ‫نے‬ ‫بزرگ‬ ‫اس‬ ‫ساتھ‬
‫بھی کافی پُر زور طریقے سے کہا۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ جسے‬
‫ہو ا وہاں‬ ‫ہالتا‬ ‫سر‬ ‫لڑکا‬ ‫وہ‬ ‫سن کر‬
‫گندی‬ ‫کی‬ ‫سے چال گیا۔۔۔۔ اور میں حواالت‬
‫اصغر کا انتظار‬ ‫الٹا لیٹ کر‬ ‫پر‬ ‫دری‬
‫گا ۔۔۔ کہ اس وقت‬ ‫ہو‬ ‫کرنے لگا۔۔ٹائم‬
‫میری‬ ‫۔۔۔۔۔ ابھی‬ ‫لیٹے‬ ‫لیٹے‬ ‫پر‬ ‫دری‬
‫مجھے‬ ‫لگی ہی تھی کہ اچانک‬ ‫آنکھ‬
‫کہہ‬ ‫آواز سنائی دی۔۔۔ وہ‬ ‫بزرگ کی‬ ‫اس‬
‫تم سے‬ ‫بیٹا ۔۔۔۔۔ کوئی‬ ‫رہا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔ اٹھو‬
‫ُمڑ کر‬ ‫میں نے‬ ‫اور جب‬ ‫ملنے آیا ہے‬
‫کی سالخوں‬ ‫۔۔۔ سامنے حواالت‬ ‫تو‬ ‫دیکھا‬
‫تھا ۔۔۔۔ اس سے‬ ‫اصغر کھڑا‬ ‫پاس‬ ‫کے‬
‫وہ خود‬ ‫کہتا‬ ‫سے کچھ‬ ‫پہلے کہ میں اس‬
‫ایک‬ ‫میں‬ ‫یار‬ ‫سوری‬ ‫بوال کہ‬ ‫ہی‬
‫کے سلسلہ میں اسالم آباد گیا ہوا‬ ‫انٹرویو‬
‫جاننے‬ ‫پھر وہاں سے میں اپنے ایک‬ ‫تھا‬
‫پاس چال گیا۔۔ ابھی گھر پہنچا ہوں‬ ‫والے کے‬
‫بھاگا بھاگا‬ ‫میں‬ ‫تو تیرا پیغام سن کر ۔۔۔‬
‫میں‬ ‫بات سن کر‬ ‫کی‬ ‫یہاں آ گیا۔۔۔ اس‬
‫مسکراہٹ‬ ‫سی‬ ‫پھیکی‬ ‫ایک‬ ‫نے‬
‫سنا تیرا‬ ‫اس سے کہا ۔۔۔ تُو‬ ‫ساتھ‬ ‫کے‬
‫بڑی تلخی‬ ‫تو وہ‬ ‫کیسا رہا ؟‬ ‫انٹرویو‬
‫ہے‬ ‫ہی‬ ‫پتہ‬ ‫تو‬ ‫کو‬ ‫سے بوال۔۔۔۔ تم‬
‫بڑے غور سے‬ ‫وہ‬ ‫یار۔۔۔۔۔۔پھر اچانک‬
‫ہوئے‬ ‫دیکھتے‬ ‫میرے چہرے کی طرف‬
‫تو ادھر کدھر ؟ ۔۔۔ یہ تمہیں کس‬
‫لگا۔۔۔۔ ُ‬ ‫کہنے‬
‫کی‬ ‫ہیں؟؟ ۔۔۔۔۔ اس‬ ‫الئے‬ ‫میں یہاں‬ ‫چکر‬
‫میں‬ ‫ایک لمحے کے لیئے‬ ‫کر‬ ‫سن‬ ‫بات‬
‫سے پہلے‬ ‫ہو گیا ۔۔۔اور اس‬ ‫سا‬ ‫افسروہ‬
‫میری‬ ‫سے کچھ کہتا ۔۔۔۔۔ وہ‬ ‫اس‬ ‫کہ میں‬
‫تیرا‬ ‫طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔کیا ہوا یار ؟‬
‫اُڑا ہوا ہے ؟ اس پر میں‬ ‫رنگ بھی‬ ‫تو‬
‫واقعہ سنا دیا۔۔۔۔۔‬ ‫سارا‬ ‫مختصراً‬ ‫نے اس کو‬
‫۔۔۔۔۔اور‬ ‫ہوا‬ ‫حیران‬ ‫بڑا‬ ‫وہ‬ ‫جسے سن کر‬
‫تو‬ ‫امجد‬ ‫یہ‬ ‫کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یار‬
‫وہ‬ ‫نکال ۔۔۔حالنکہ شکل سے‬ ‫حرامی‬ ‫بڑا‬
‫میں نے اس سے‬ ‫نہیں تھا۔۔۔۔تو‬ ‫لگتا‬ ‫ایسا‬
‫پھاڑا‬ ‫نے کفن‬ ‫کہا ۔۔۔ یوں سمجھو مردے‬
‫سے کہنے‬ ‫ہے۔۔۔۔ اس پر وہ بڑی تلخی‬
‫ہے‬ ‫لن پھاڑا‬ ‫کفن نہیں یار ۔۔۔ میرا‬ ‫لگا‬
‫جاتے ۔۔۔ اُلٹا‬ ‫جاتے‬ ‫بچہ‬ ‫کا‬ ‫۔۔۔۔کُتی‬
‫ہے ۔۔ دیکھ لو‬ ‫ڈال گیا‬ ‫میں‬ ‫مصیبت‬ ‫تمہیں‬
‫ماں لن کو ۔۔۔۔ تم‬ ‫اس کی وجہ سے شیدے‬
‫مل گیا‬ ‫موقع‬ ‫کا‬ ‫اتارنے‬ ‫اپنا بدلہ‬ ‫سے‬
‫ہے۔۔۔ پھر مجھے تسلی دیتے ہوئے کہنا لگا‬
‫تم فکر نہ کرو۔۔۔۔ میں کچھ کرتا‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔لیکن‬
‫وہاں‬ ‫وہ‬ ‫کہ‬ ‫سے پہلے‬ ‫ہوں اور اس‬
‫نے اس سے کہا کہ‬ ‫میں‬ ‫جاتا ۔۔۔ تو‬ ‫سے‬
‫کے والد سے‬ ‫امجد‬ ‫وہ۔‬ ‫میں‬ ‫سلسلہ‬ ‫اس‬
‫نے اس کو ساری بات‬ ‫ملے ۔۔۔۔۔ اور پھر میں‬
‫بات سن کر وہ سر‬ ‫دی ۔۔۔۔۔ میری‬ ‫سمجھا‬
‫دیتے‬ ‫مجھے تسلیاں‬ ‫ہالتے ۔۔۔۔۔۔اور‬
‫بجے‬ ‫وہاں سے چال گیا۔۔۔۔۔۔رات دس‬ ‫ہوئے‬
‫حواالت‬ ‫جب میں نے‬ ‫وقت ہو گا کہ‬ ‫کا‬
‫والے‬ ‫سنتری کے ساتھ موٹی توند‬ ‫والے‬
‫دیکھا‬ ‫کو حواالت کی طرف آتے‬ ‫واڑائچ‬
‫کر میری‬ ‫آتے دیکھ‬ ‫طرف‬ ‫اپنی‬ ‫۔۔۔اسے‬
‫فنا ہو گئی۔۔۔۔۔ اور میں دل ہی دل‬ ‫تو روح‬
‫سے‬ ‫کہ۔۔۔ اس‬ ‫لگا‬ ‫مانگنے‬ ‫دعا‬ ‫میں‬
‫مجھے حوالت سے‬ ‫یہ حرامی‬ ‫کہ‬ ‫پہلے‬
‫لے‬ ‫کی طرف‬ ‫نکال کر اسی عقو بت خانے‬
‫ہو۔۔۔‬ ‫کچھ کیا‬ ‫نے‬ ‫اصغر‬ ‫جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش‬
‫نے‬ ‫والے سنتری‬ ‫میں حواالت‬ ‫اسی اثنا ء‬
‫کھوال ۔۔۔۔اور موٹی توند‬ ‫دروازہ‬ ‫کا‬ ‫الک اپ‬
‫نہات‬ ‫میری طرف ایک‬ ‫نے‬ ‫وڑائچ‬ ‫والے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔۔۔ باہر‬ ‫کرتے‬ ‫اشارہ‬ ‫ہی فُحش‬
‫کج تیل مالش‬ ‫کہ تہاڈی‬ ‫مہاراج‬ ‫آؤ‬
‫کا‬ ‫لگا۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اس‬ ‫کریئے۔۔۔۔ اور ہنسنے‬
‫حواالت‬ ‫میں‬ ‫جیسے ہی‬ ‫دیکھ کر‬ ‫اشارہ‬
‫بڑھنے لگا۔۔۔ تو‬ ‫کے دروازے کی طرف‬
‫کو‬ ‫واڑائچ‬ ‫نے‬ ‫بزرگ‬ ‫سے اس‬ ‫پیچھے‬
‫پہلوان جی‬ ‫کہا کہ‬ ‫مخاطب کرتے ہوئے‬
‫ہوال رکھنا ۔۔۔ بزرگ کی‬ ‫ہاتھ‬ ‫زرا‬ ‫پر‬ ‫بچے‬
‫بڑ ی‬ ‫نے‬ ‫والے‬ ‫توند‬ ‫بات سن کر موٹی‬
‫طرف‬ ‫بزرگ کی‬ ‫خون خوار نظروں سے‬ ‫ہی‬
‫اسی‬ ‫۔۔۔ اور‬ ‫پھر نفرت بھرے‬ ‫اور‬ ‫دیکھا‬
‫پنجاب‬ ‫جو کے‬ ‫لہجے میں کہ‬ ‫طنزیہ‬
‫ہے۔۔۔۔ کہنے‬ ‫امیتاز‬ ‫کا طرہء‬ ‫پویس‬
‫یہ‬ ‫ماروں ؟ کیا‬ ‫ناں‬ ‫لگا۔۔۔۔۔۔۔ اسے کیوں‬
‫(داماد )‬ ‫جوائی‬ ‫کا ۔ا‬ ‫گورنمنٹ‬ ‫کوئی‬
‫کے‬ ‫حواالت‬ ‫ہی‬ ‫میں جیسے‬ ‫ادھر‬ ‫ہے؟‬
‫وہ چیل کی طرح مجھ پر‬ ‫دروزے پر پہنچا‬
‫سے پکڑ کر‬ ‫گریبان‬ ‫مجھے‬ ‫جھپٹا ۔۔۔۔۔۔اور‬
‫دیکھ کر‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫بزرگ‬ ‫۔۔۔اس‬
‫سفارشی‬ ‫آیا‬ ‫لن ۔۔۔۔۔ وڈا‬ ‫دا‬ ‫بوال۔۔۔۔ بہن‬
‫گریبان کو جھٹکا‬ ‫۔۔۔۔۔ اور پھر میرے‬
‫کمرے کی طرف‬ ‫اسی‬ ‫ہوئے‬ ‫۔۔۔مارتے‬
‫میں ۔۔۔۔۔ کمرے میں‬ ‫ہی‬ ‫لے گیا۔جیسے‬
‫میں‬ ‫ہی‬ ‫سامنے‬ ‫تو‬ ‫۔۔۔‬ ‫ہو ا‬ ‫داخل‬
‫ایس آئی تاج کے ساتھ‬ ‫اے‬ ‫کو‬ ‫شیدے‬
‫دونوں سر‬ ‫دیکھ کر ٹھٹھک گیا ۔۔۔ وہ‬ ‫بیٹھا‬
‫رہے‬ ‫باتیں کر‬ ‫میں‬ ‫آپس‬ ‫جوڑے‬
‫داخل‬ ‫میں‬ ‫مجھے کمرے‬ ‫تھے‬
‫دم‬ ‫ایک‬ ‫دونوں‬ ‫وہ‬ ‫کر‬ ‫دیکھا‬ ‫ہوتا‬
‫بعد‬ ‫کے‬ ‫چپ ہو گئے۔۔۔اور پھر اس‬ ‫سے‬
‫مخاطب ہو‬ ‫تاج مجھ سے‬ ‫آئی‬ ‫اے ایس‬
‫ارادہ ہے تیرا؟ تو‬ ‫کر کہنے لگا۔۔۔باؤ ۔۔ کیا‬
‫ہوئے کہا‬ ‫دیکھتے‬ ‫میں نے شیدے کی طرف‬
‫۔۔۔اور اسے زچ کرنے کے لیئے کہا کہ سر جی‬
‫محلے کی ایک آوارہ سی لڑکی‬ ‫اس کی بہن‬
‫تھی جس کے جانے کس کس کے ساتھ یارانے‬
‫تھے۔۔۔ اب کیا پتہ سر جی وہ امجد کے ساتھ‬
‫کے‬ ‫یار‬ ‫بھاگی ہے یا اپنے کسی دوسرے‬
‫کر اپنا منہ کاال کیا ہے ۔ میری بات‬ ‫ساتھ بھاگ‬
‫مارنے کے لیئے شیدا‬ ‫مجھے‬ ‫سنتے ہی‬
‫تیزی کے ساتھ اپنی کرسی سے اُٹھا ۔۔ لیکن‬
‫تھانیدار نے اسے بازو سے پکڑ کر بٹھا دیا۔۔۔اور‬
‫کہنے لگا ۔۔۔ ٹھنڈا کھاؤ سرکار۔۔اس حرامی کی‬
‫خیریت دریافت کرنے کے لیئے وڑائچ جو ہے‬
‫میری طرف مخاطب ہو کر‬ ‫۔۔۔۔اس کے بعد وہ‬
‫لگا۔۔۔۔ زیادہ شوخا بننے کی ضرورت نہیں‬ ‫کہنے‬
‫سے پوچھی جا رہی‬ ‫ہے باؤ۔۔۔۔۔ جو بات تم‬
‫۔۔۔اس‬ ‫ہے صرف اس کے بارے میں جواب دو۔‬
‫ہوئے‬ ‫اس کی طرف دیکھتے‬ ‫پر میں نے‬
‫یقین کریں جناب‬ ‫کا‬ ‫بات‬ ‫میری‬ ‫کہا ۔۔۔ آپ‬
‫ہی کہا تھا کہ اے‬ ‫میں نے اتنا‬ ‫۔۔۔۔۔ابھی‬
‫بات کرنے سے‬ ‫مجھے‬ ‫نے‬ ‫ایس آئی‬
‫گالی‬ ‫سی‬ ‫دیا ۔۔۔اور پھر ایک موٹی‬ ‫روک‬
‫ہی‬ ‫ٹھیک‬ ‫بوال۔۔رشید صاحب‬ ‫ہوئے‬ ‫دیتے‬
‫کہہ رہے تھے کہ تم التوں کے بھوت ہو۔۔باتوں‬
‫میرے‬ ‫گے ۔ اور پھر‬ ‫سے نہیں مانو‬
‫پیچھے کھڑے وڑائچ سے مخاطب ہو کر‬
‫ہی اس کو‬ ‫کچھ تم‬ ‫کہنےلگا۔۔۔۔وڑائچ یار‬
‫کی‬ ‫اے ایس آئی‬ ‫میں سمجھاؤ۔۔۔۔‬ ‫زبان‬ ‫اپنی‬
‫سے وڑائچ نے‬ ‫پیچھے‬ ‫ہی‬ ‫سنتے‬ ‫بات‬
‫گھسونسہ‬ ‫زور دار‬ ‫پر ایک‬ ‫میری گردن‬
‫نکالتا‬ ‫مارا۔۔۔ جسے کھا کر میں " اوع " کی آواز‬
‫ہوا ۔۔۔۔ نیچے کو جھک گیا۔اس پر شیدے نے‬
‫دیکھتے‬ ‫میری طرف‬ ‫سے‬ ‫طنزیہ نظروں‬
‫صاحب‬ ‫سے کہا ۔۔۔۔ وڑائچ‬ ‫وڑائچ‬ ‫ہوئے‬
‫آپ نے اس‬ ‫آپ تو کہہ رہے تھی کہ صبع‬
‫دیں تھی ۔۔شیدے کی بات سن‬ ‫کی چیخیں نکال‬
‫تو‬ ‫کر وڑائچ کہنے لگا۔ اس کی چیخیں‬
‫بات نہیں ہے ۔۔۔ اپنا رشید صاحب‬ ‫کوئی خاص‬
‫بڑوں کی چیخیں نکال‬ ‫میں نے تو بڑے‬
‫اسے مزید‬ ‫دیں ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی بات سن کر شیدا‬
‫دالتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ بڑے بڑوں‬ ‫اشتعال‬
‫لیکن اس کے بارے‬ ‫تو مجھے پتہ نہیں۔۔۔‬ ‫کا‬
‫لگ‬ ‫ایسا کچھ نہیں‬ ‫مجھے‬ ‫میں تو‬
‫تب مانوں گا ۔۔۔‬ ‫بات‬ ‫رہا۔۔۔۔ میں تو آپ کی‬
‫میں بھی‬ ‫کانوں‬ ‫میرے‬ ‫جب‬ ‫کہ‬
‫سنائی دے۔۔‬ ‫کی آواز‬ ‫چیخو ں‬ ‫کی‬ ‫اس‬
‫میں بھی‬ ‫کانوں‬ ‫میرے‬ ‫جب‬ ‫کہ‬
‫سنائی دے۔۔۔۔۔‬ ‫کی آواز‬ ‫چیخو ں‬ ‫کی‬ ‫اس‬
‫ہوئے‬ ‫کی بات کو سمجھتے‬ ‫۔۔۔۔ شیدے‬
‫دیکھا‬ ‫میری طرف‬ ‫نے ایک نظر‬ ‫وڑائچ‬
‫لمبے‬ ‫میز پر پڑے ہوئے‬ ‫۔۔۔۔۔۔اور پھر‬
‫اسے‬ ‫اُٹھا لیا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اور پھر‬ ‫چھتر کو‬ ‫سے‬
‫دیکھتے‬ ‫بوال۔۔۔۔ رشید صاحب آپ بس‬ ‫کر‬ ‫لہرا‬
‫کے‬ ‫ابھی میں اس حرامی‬ ‫جاؤ ۔۔۔کہ‬
‫فٹ‬ ‫مشین‬ ‫والی‬ ‫چیخوں‬ ‫میں کیسے‬ ‫منہ‬
‫ہوں اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے‬ ‫کرتا‬
‫کوڑے‬ ‫کو‬ ‫ہاتھ میں پکڑے ہوئے چھتر‬
‫باؤ۔۔۔‬ ‫لہرایا ۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔ اوئے‬ ‫کی طرح‬
‫ارادہ‬ ‫کا‬ ‫ہونے‬ ‫کیوں مجھ سے ضائع‬
‫پھر ۔۔۔ میں تم‬ ‫بار‬ ‫ہے۔۔۔۔۔۔۔اس لیئے۔۔۔۔ ایک‬
‫دے رہا ہوں ۔۔۔ سب سچ‬ ‫آخری موقع‬ ‫کو‬
‫میں‬ ‫ہی‬ ‫جیسے‬ ‫بتا دو ۔۔۔ورنہ۔۔۔۔ ادھر‬ ‫سچ‬
‫کہ وہ‬ ‫شیدے کے منہ سے یہ سنا‬ ‫نے‬
‫میں‬ ‫تو‬ ‫ہے‬ ‫چاہتا‬ ‫سننا‬ ‫چیخیں‬ ‫میری‬
‫نے اپنے دل میں تہیہ کر لیا کہ چاہے کتنی‬
‫بند‬ ‫منہ کو‬ ‫بھی درد ہو ۔۔۔۔ میں نے اپنے‬
‫مار کر‬ ‫چیخیں‬ ‫ہے۔۔۔۔اور‬ ‫رکھنا‬ ‫ہی‬
‫خوش نہیں کرنا ۔۔۔۔۔ یہ‬ ‫اس حرامی کو‬
‫میں نے اپنے منہ کو‬ ‫ہی‬ ‫فیصلہ کرتے‬
‫بند کر لیا۔۔۔ابھی‬ ‫ساتھ‬ ‫کے‬ ‫قوت‬ ‫پوری‬
‫تھا ۔۔کہ میرے‬ ‫میں نے یہ فیصلہ کیا ہی‬
‫ں ں ں ۔۔۔۔ کی مخصوص آواز‬ ‫کانوں میں شائں‬
‫کے ساتھ‬ ‫اس‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور‬ ‫سنائی دی‬
‫لہراتا‬ ‫چھتر‬ ‫نما‬ ‫کا کوڑا‬ ‫واڑائچ‬
‫میری کمر پر لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درد ۔۔۔اور ٹھیس‬ ‫ہوا‬
‫کی شدت سے میری گانڈ پھٹ گئی ۔۔۔ لیکن‬
‫دانت‬ ‫اپنے‬ ‫کے ساتھ‬ ‫میں سختی‬
‫اس‬ ‫کھڑا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور‬ ‫جمائے‬ ‫دانت‬ ‫پر‬
‫سہہ گیا۔۔۔ جبکہ‬ ‫وار‬ ‫کا‬ ‫چھتر‬ ‫کے‬
‫ہی وڑائچ‬ ‫چھتر مارتے‬ ‫دوسری طرف‬
‫آواز‬ ‫کی‬ ‫چیخوں‬ ‫شیدے کو میری‬
‫ایک دم سے ُرک گیا‬ ‫شوق میں‬ ‫سنانے کے‬
‫منہ سے ایسی‬ ‫میرے‬ ‫تھا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ لیکن جب‬
‫کوئی آواز برآمد نہ ہوئی تو شیدے نے‬
‫ہوئے کہا۔۔۔۔کیا‬ ‫کی طرف دیکھتے‬ ‫وڑائچ‬
‫چھتر‬ ‫کے‬ ‫صاحب۔۔۔۔ آپ‬ ‫وڑائچ‬ ‫بات ہے‬
‫نہیں ۔۔۔۔ پھر‬ ‫اثر‬ ‫پر کوئی‬ ‫اس‬ ‫تو‬ ‫کا‬
‫ہوئے‬ ‫دیکھتے‬ ‫کی طرف‬ ‫وڑائچ‬ ‫وہ‬
‫میں بوال۔۔۔۔۔۔۔۔ تسی تھک‬ ‫لہجے‬ ‫طنزیہ‬ ‫بڑے‬
‫نئیں گئے او؟ ۔۔۔۔ ۔۔۔ شیدے کی بات سن‬ ‫تے‬
‫سا ہو گیا ۔۔۔اور‬ ‫کھسیانہ‬ ‫تھوڑا‬ ‫کر وڑائچ‬
‫مٹاتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔۔‬ ‫اپنی خفت کو‬
‫ہے رشید صاحب ۔۔۔۔۔‬ ‫بات نہیں‬ ‫ایسی کوئی‬
‫ہوئے‬ ‫دیکھتے‬ ‫طر ف‬ ‫پھر میری‬
‫تو‬ ‫لگائی‬ ‫نے‬ ‫میں‬ ‫لگا۔۔۔۔‬ ‫کہنے‬
‫بڑی ٹیٹ تھی پتہ نہیں حرامی‬ ‫میں نے‬
‫ہوا‬ ‫چلتا‬ ‫نہیں۔۔۔۔۔۔ پھر‬ ‫چیخا کیوں‬
‫لگا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ چل‬ ‫اور کہنے‬ ‫آیا‬ ‫پاس‬ ‫میرے‬
‫باؤ اپنی شرٹ اتار ۔۔۔۔ اور پھر اس نے مجھ‬
‫دی‬ ‫اتاروا‬ ‫شرٹ‬ ‫میری‬ ‫زبردستی‬ ‫سے‬
‫پہننے‬ ‫بعد شرٹ کے نیچے‬ ‫پھر اس کے‬
‫بنیان بھی اتارنے کو کہا۔۔۔۔ جب میری‬ ‫والی‬
‫کمر ننگی ہو گئی ۔۔۔تو وہ شیدے کو میری کمر‬
‫پر پڑے نشان دکھاتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔ دیکھ باؤ‬
‫۔۔۔ ایسے نشان پیار سے مارنے پر نہیں ۔۔۔۔۔‬
‫سے‬ ‫وجہ‬ ‫کی‬ ‫مار‬ ‫غضب کی‬ ‫بلکہ‬
‫ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ میری کمر پر مار کے نشان‬ ‫پڑتے‬
‫خوش ہوا اور اس‬ ‫بڑا‬ ‫دیکھ کر شیدا‬
‫سے کہنے لگا۔۔۔۔ یہ تو ٹھیک‬ ‫موٹی توند والے‬
‫اس نے اتنا ہی‬ ‫ہے سر جی ۔۔۔ لیکن ۔۔۔ ابھی‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔ تو‬ ‫وڑائچ‬ ‫کہا تھا کہ آگے سے‬
‫باؤ ۔۔ دیکھ میں اس حرامی‬ ‫وہم ہی نہ کر‬
‫ہوں ۔۔۔اور پھر اس‬ ‫کی کیسے چیخیں نکالتا‬
‫کے بعد اس نے ایک بار پھر اپنا چھتر‬
‫طاقت سے میری کمر پر‬ ‫پوری‬ ‫لہرایا ۔۔۔اور‬
‫چیک مار دا‬ ‫مار تے ہوئے بوال۔۔۔۔ ہونڑیں‬
‫مارے گا) ۔۔۔۔۔ ادھر جیسے‬ ‫اے ( ابھی چیخ‬
‫میری ننگی کمر پر لگا۔۔۔‬ ‫ہی اس کا چھتر‬
‫مجھے ایسا لگا کہ جیسے میری کمر کا‬
‫میں انگار بھر‬ ‫اور اس‬ ‫پھٹ گیا ہو‬ ‫گوشت‬
‫دیئے گئے ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں نے اپنے‬
‫اپنے‬ ‫کے ساتھ‬ ‫ہونٹوں کو بڑی سختی‬
‫طرح میرے‬ ‫دانتوں میں داب لیا ۔۔۔اور اس‬
‫منہ‬ ‫میرے‬ ‫چیخ‬ ‫سے نکلنے والی‬ ‫منہ‬
‫رہ گئی۔۔۔۔‬ ‫کر‬ ‫دب‬ ‫ہی‬ ‫اندر‬ ‫کے‬
‫کو‬ ‫وڑائچ‬ ‫خاموش دیکھ کر‬ ‫مجھے‬
‫پر‬ ‫چھتر‬ ‫چڑھ گیا۔۔۔اور وہ‬ ‫جیسے جنون‬
‫مارتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ میرے آگے‬ ‫چھتر‬
‫(چیخیں ) ماری‬ ‫تو بڑے بڑوں نے چیکیں‬
‫کے آگے‬ ‫ان‬ ‫تو‬ ‫ہیں ۔۔۔۔ یہ بہن لن‬
‫ساتھ‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫کچھ بھی نہیں ۔۔۔اور پھر‬
‫کی طرح‬ ‫نے جنونیوں‬ ‫اساس‬ ‫ہی‬
‫مارنا شروع کر دیا۔۔۔ اس کے ہر چھتر‬ ‫مجھے‬
‫کسی نے‬ ‫لگتا کہ جیسے‬ ‫ایسا‬ ‫مجھے‬ ‫پر‬
‫انگار‬ ‫ہوئے‬ ‫میں دھکتے‬ ‫میری کمر‬
‫شدت‬ ‫کی‬ ‫اور جلن‬ ‫ہوں ۔۔ درد‬ ‫۔۔۔بھر دیئے‬
‫پڑتے‬ ‫آنسو نکل‬ ‫آنکھوں سے‬ ‫میری‬ ‫سے‬
‫میں نے۔۔۔۔۔۔۔۔کوئی چیخ نہ ماری۔وڑائچ‬ ‫لیکن‬
‫وہ‬ ‫مار کھاتے کھاتے آخر ایک سٹیج‬ ‫سے‬
‫میری ہمت‬ ‫جہاں پر‬ ‫بھی آ گئی کہ‬
‫تھی۔۔۔۔ مجھے‬ ‫جواب دینے لگی‬ ‫‪/‬برداشت‬
‫ٹانگوں‬ ‫ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میری‬
‫رہا ہے ۔ میری آنکھوں‬ ‫ہو‬ ‫میں دم ۔۔۔ختم‬
‫قسم‬ ‫اور قسم‬ ‫پیلے‬ ‫الل‬ ‫سامنے‬ ‫کے‬
‫آ‬ ‫نظر‬ ‫ہوئے‬ ‫لہراتے‬ ‫تارے‬ ‫کے‬
‫بھی‬ ‫سا‬ ‫اندھیرا‬ ‫۔۔۔۔ اور‬ ‫تھے‬ ‫رہے‬
‫میرا‬ ‫تھا۔ اور‬ ‫رہا‬ ‫جا‬ ‫چھاتا‬
‫آواز‬ ‫کہ میں اونچی‬ ‫تھا‬ ‫رہا‬ ‫چاہ‬ ‫جی‬
‫تا کہ‬ ‫ماروں‬ ‫میں چیخیں‬ ‫وں‬
‫شدت‬ ‫درد کی‬ ‫اور‬ ‫اس جلن‬ ‫مجھے‬
‫ملے ۔۔۔لیکن ۔۔۔۔ اس‬ ‫ریلف‬ ‫کچھ‬ ‫سے‬
‫میں ۔۔۔۔۔‬ ‫سے‬ ‫کی وجہ‬ ‫شیدے‬ ‫حرامی‬
‫خاموش‬ ‫جمائے‬ ‫دانت‬ ‫پہ‬ ‫دانت‬
‫ہی دل میں دعا‬ ‫تھا ۔۔۔۔۔ اور میں دل‬ ‫کھڑا‬
‫ایسا بندوبست‬ ‫کوئی‬ ‫مانگ رہا تھا کہ کاش‬
‫ہو جائے کہ جس سے میں شیدے کے‬
‫سے بچ‬ ‫ذلیل ہونے‬ ‫مزید‬ ‫سامنے‬
‫جاؤں‬

‫چھتر‬ ‫۔ ادھر وڑائچ کے پے در پے‬


‫مارنے سے بھی جب میں اپنے منہ سے‬
‫تاج‬ ‫اچانک اے ایس آئی‬ ‫نہ بوال تو‬ ‫کچھ‬
‫سے‬ ‫وڑائچ‬ ‫۔۔۔۔ وہ‬ ‫دی‬ ‫سنائی‬ ‫کی آواز‬
‫چھتر‬ ‫کہ‬ ‫کہہ رہا تھا‬ ‫ہو کر‬ ‫مخاطب‬
‫ضد پھڑ‬ ‫منڈا‬ ‫وڑائچ ۔۔ کہ‬ ‫مارنے بند کر‬
‫ایسا کرو کہ‬ ‫لگا ۔۔۔‬ ‫کہنے‬ ‫گیا ہے۔۔۔ پھر‬
‫بنڈ میں مرچیں‬ ‫اس کی‬ ‫یہ کہ‬ ‫نہ صرف‬
‫زخموں‬ ‫کمر پر بنے‬ ‫لگاؤ۔۔۔۔ بلکہ اس کی‬
‫مرچوں کی دھونی دو۔۔ پھر دیکھو یہ‬ ‫پر بھی‬
‫کیسے چیخیں مارتا ہے۔۔۔ اے ایس آئی کی بات‬
‫ہمت بھی جواب‬ ‫سہی‬ ‫سن کر میری رہی‬
‫واڑائچ‬ ‫توند واال‬ ‫دینے لگی۔۔۔ ادھر موٹی‬
‫تاج کی بات سن کر کہنے لگا۔۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔۔۔تھانیدار‬
‫کے‬ ‫کل‬ ‫چوہدری صاحب اگر اس‬
‫پھڑ لی ہے ۔۔۔۔۔۔ تو‬ ‫ضد‬ ‫نے‬ ‫چھوکرے‬
‫میں بھی‬ ‫ہے کہ‬ ‫ہی‬ ‫پتہ‬ ‫تو‬ ‫کو‬ ‫آپ‬
‫دیکھو میں اس کی‬ ‫بہت ضدی ہوں ۔۔۔۔ ابھی‬
‫ہوں ۔۔۔ اس حرامی کی‬ ‫کیسے چیخیں نکلواتا‬
‫آنکھوں کو‬ ‫اپنی‬ ‫بات سن کر میں نے‬
‫دانت پہ‬ ‫لیا ۔۔۔ اور‬ ‫سختی کے ساتھ میُچ‬
‫پڑے‬ ‫دانت جما کر ۔۔۔۔اگلے ہی لمحے‬
‫والے چھتر کے لیئے خود کو تیار کرنے‬
‫مجھے‬ ‫اچانک‬ ‫لگا۔۔۔۔۔کہ اسی اثنا ء میں‬
‫کھلنے کی آواز سنائی‬ ‫دھڑام سے دروازہ‬
‫دی۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے کانوں میں‬
‫کسی کو‬ ‫وہ‬ ‫دی‬ ‫اصغر کی آواز سنائی‬
‫تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔سر وہ‬ ‫رہا‬ ‫مخاطب کر کے کہہ‬
‫مجھے کمرے میں داخل‬ ‫ادھر ہے۔۔۔۔ پھر‬
‫ہوتے ہوئے بہت سے قدوموں کی آوزیں‬
‫دیں۔۔۔۔ ۔۔۔ اتنی دیر میں اصغر‬ ‫سنائیں‬
‫چکا تھا‬ ‫میرے پاس پہنچ‬ ‫ہوا‬ ‫بھاگتا‬
‫اور شاید اس نے میری ننگی کمر پر‬
‫دیکھ لیئے‬ ‫کے نشان بھی‬ ‫چھتر وں‬ ‫بنے‬
‫وہ کسی کی طرف دیکھ کر‬ ‫تھے اس لیئے‬
‫کہ‬ ‫تھا‬ ‫کہہ رہا‬ ‫جزباتی انداز میں‬ ‫بڑے‬
‫دیکھیں سر ۔۔۔ یہ ظالم اس بے چارے کو کس‬
‫مار رہے تھے۔۔۔ اس‬ ‫بے دردی کے ساتھ‬
‫ڈگمگاتے‬ ‫اس نے میرے‬ ‫کے ساتھ ہی‬
‫ہوئے قدم دیکھ کر مجھے اپنے ساتھ لگا‬
‫لگا۔۔۔۔۔‬ ‫لیا ۔۔۔اور اسی جزباتی انداز میں کہنے‬
‫دوست‬ ‫بے فکر ہو جاؤ‬

‫ظلم نہیں کر‬ ‫۔۔۔اب یہ ظالم تم پر مزید کوئی‬


‫آواز سن‬ ‫سکیں گے ۔۔۔ اصغر کی ہمدرد بھری‬
‫دیکھا‬ ‫کر ۔۔۔ میں نے ایک نظر اس کی طرف‬
‫کے‬ ‫سے اس‬ ‫دھندلی آنکھوں‬ ‫اور پھر‬
‫طرف‬ ‫کی‬ ‫باقی لوگوں‬ ‫والے‬ ‫ساتھ آنے‬
‫کے‬ ‫اصغر‬ ‫مجھے‬ ‫لگا ۔۔۔۔ لیکن‬ ‫دیکھنے‬
‫بس‬ ‫کے‬ ‫اشخاص‬ ‫والے‬ ‫آنے‬ ‫ساتھ‬
‫نظر آ رہے تھے۔۔ ۔۔۔‬ ‫ہی‬ ‫سے‬ ‫ہیُولے‬
‫والی‬ ‫سے اُٹھنے‬ ‫بدن‬ ‫۔۔اس وقت میرے‬
‫ہونے لگی ۔‬ ‫تر‬ ‫سے شدید‬ ‫دکھن شدید‬
‫انگ انگ پھڑکنے‬ ‫میرا‬ ‫اور درد سے‬
‫سامنے‬ ‫کے‬ ‫میری آنکھوں‬ ‫تھا‬ ‫لگا‬
‫اس‬ ‫جا رہا تھا۔۔۔ ۔۔۔۔اور‬ ‫چھاتا‬ ‫اندھیرا‬
‫ڈوبنا شروع‬ ‫کے ساتھ ہی میرا زہن بھی‬
‫ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پتہ نہیں کب ۔۔۔۔ میں اصغر‬
‫کی بانہوں میں جھول گیا۔۔۔ہوش آیا تو میں‬
‫پڑے‬ ‫نے خود کو ایک نرم بستر پر‬
‫پہلے‬ ‫ہی‬ ‫کھلتے‬ ‫پایا۔۔۔ آنکھ‬ ‫ہوئے‬
‫کہ‬ ‫آیا‬ ‫نہیں‬ ‫کچھ سمجھ‬ ‫مجھے‬ ‫تو‬
‫کہاں ہوں ؟؟۔۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر‬ ‫میں اس وقت‬
‫ساتھ‬ ‫میرے‬ ‫کے بعد‬ ‫ثانیئوں‬ ‫چند‬
‫کاروائی‬ ‫ساری‬ ‫کی گئی۔۔۔ گزشتہ کی‬
‫گئی۔۔۔۔۔ اور‬ ‫میری آنکھوں کے سامنے گھوم‬
‫اُٹھنے کی‬ ‫بستر سے‬ ‫اختیا ر‬ ‫بے‬ ‫میں‬
‫کرنے لگا۔۔۔۔۔۔ مجھے اس طرف‬ ‫کوشش‬
‫۔۔‬ ‫کر‬ ‫دیکھ‬ ‫ہوئے‬ ‫اُٹھتے‬ ‫بستر سے‬
‫ایک نرم سی نسوانی آواز میرے‬ ‫اچانک‬
‫میرے‬ ‫کانوں میں گونجی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیٹے رہو‬
‫سر‬ ‫آواز کی سمت‬ ‫بچے ۔۔۔۔ اور میں نے‬
‫دیکھا تو سامنے کرسی پر‬ ‫کر‬ ‫گھما‬
‫ہوئی تھی۔۔۔ مجھے ہوش‬ ‫امجد کی امی بیٹھی‬
‫میں آتے دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔ شکر ہے بیٹا‬
‫نے‬ ‫ہوش آیا۔۔ تو میں‬ ‫کو بھی‬ ‫کہ تم‬
‫آنٹی‬ ‫بے خیالی میں ان سے پوچھا لیا کہ‬
‫ہوں؟ تو وہ اسی مہربان آواز‬ ‫کہاں‬ ‫میں‬
‫بات نہیں بیٹا‬ ‫میں بولیں ۔۔۔۔ فکر کی کوئی‬
‫ہو۔۔۔ اس‬ ‫اپنے گھر میں ہو ۔۔اور محفوظ‬ ‫تم‬
‫پر میں نے ان سے کہا کہ مجھے یہاں کون‬
‫انہوں نے‬ ‫الیا تھا؟؟۔۔۔ میری بات سن کر‬
‫بتایا کہ میرے دوست‬ ‫مختصراً‬ ‫مجھے‬
‫یہ بتایا کہ‬ ‫جب امجد کے والد کو‬ ‫اصغر نے‬
‫پر‬ ‫اس‬ ‫ہوں تو‬ ‫میں حواالت میں بند‬
‫باس ( ایڈیشنل سیکڑی )‬ ‫نے اپنے‬ ‫انہوں‬
‫ان‬ ‫اور پھر‬ ‫ت حال بتائی‬
‫کو ساری صور ِ‬
‫فون کروا کے ایس پی صاحب (‬ ‫سے‬
‫کے دوست‬ ‫باس‬ ‫جو کہ اتفاق سے ان کے‬
‫تھے ) کے آفس چلے گئے‬ ‫میٹ‬ ‫بیج‬ ‫اور‬
‫وجہ سے‬ ‫کی‬ ‫ان کے باس‬ ‫پھر‬ ‫اور‬
‫ایس پی صاحب خود تھانے آ گئے اور پھر‬
‫میں آ گیا کہ‬ ‫ان کو لے کر اس کمرے‬ ‫اصغر‬
‫مار پڑ رہی تھی ۔۔۔ پھر‬ ‫تم کو‬ ‫جہاں پر‬
‫صاحب کو‬ ‫لگیں کہ ایس پی‬ ‫کہنے‬
‫تمہاری حالت دیکھ کر بہت افسوس ہوا اس‬
‫اور‬ ‫اہل کار ( وڑائچ)‬ ‫لیئے انہوں نے اس‬
‫کھڑے کھڑے معطل‬ ‫کو وہیں‬ ‫اے ایس (تاج)‬
‫کر دیا تھا ۔۔پھر اصغر اور امجد کے ابا تم کو‬
‫آ گئے‬ ‫(امجد کے گھر)‬ ‫ادھر‬ ‫لے کر‬
‫کھانا دیا‬ ‫مجھے‬ ‫تھے۔۔اس کے بعد انہوں نے‬
‫یہ کہ‬ ‫میری کمر پر نہ صرف‬ ‫اور پھر‬
‫اچھی طرح‬ ‫میری اتنی‬ ‫بلکہ‬ ‫مرہم لگائی‬
‫سے دیکھ بھال کی کہ‬ ‫۔۔۔۔۔جاری ہے‬

‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_نمبر_‪08‬‬
‫اچھا‬ ‫میں خود کو بہت‬ ‫دن‬ ‫کہ دوسرے‬
‫محسوس‬ ‫ٹھیک‬ ‫تک‬ ‫کافی حد‬ ‫بلکہ‬
‫شام‬ ‫کرنے لگا۔۔۔یہ تیسرے دن کی بات ہے‬
‫کا وقت تھا اور میں آنٹی اور انکل ۔۔۔۔۔‬
‫میں بیٹھے ۔۔۔۔ امجد کے‬ ‫روم‬ ‫ڈرائینگ‬
‫کہ‬ ‫ا ندازے لگا رہے تھے‬ ‫بارے میں‬
‫امجد‬ ‫پر‬ ‫طور‬ ‫نبیلہ کو لے کر امکانی‬
‫کہاں جا سکتا ہے؟ کون سا ایسا رشتے دار‬
‫دے سکتا تھا ۔۔یا ان‬ ‫ہے کہ جو ان کو پناہ‬
‫رکھ سکتا تھا۔۔۔ ۔۔۔۔ یہاں‬ ‫اپنے پاس‬ ‫کو‬
‫کہ۔۔۔انکل‬ ‫گیا‬ ‫بھول‬ ‫بتانا‬ ‫میں‬ ‫ایک بات‬
‫ہوا تھا‬ ‫نے میرا گھر سے نکلنا منع کیا‬
‫شیدے اور‬ ‫جانے کیوں‬ ‫بقول ان کے‬ ‫کہ‬
‫یقین‬ ‫پورا‬ ‫والوں کو‬ ‫اس کے گھر‬
‫سے بھگا‬ ‫گھر‬ ‫امجد اور نبیلہ کو‬ ‫تھا کہ‬
‫ہے‬ ‫ہاتھ‬ ‫پورا‬ ‫پورا‬ ‫میں میرا‬ ‫نے‬
‫کے‬ ‫جان‬ ‫میری‬ ‫وہ‬ ‫لیئے‬ ‫۔۔۔۔ اسی‬
‫وجہ‬ ‫اسی‬ ‫ہوئے تھے ۔۔۔اور‬ ‫بنے‬ ‫دشمن‬
‫گھر‬ ‫میرے‬ ‫نے‬ ‫ابو‬ ‫کے‬ ‫سے امجد‬
‫دیا‬ ‫کروا‬ ‫شفٹ‬ ‫سے‬ ‫وہاں‬ ‫والوں کو‬
‫لوگوں‬ ‫شیدے‬ ‫ان کے‬ ‫بقول‬ ‫تھا کہ‬
‫لیڈیز کو‬ ‫ہماری‬ ‫کر‬ ‫گھر آ‬ ‫ہمارے‬ ‫نے‬
‫اب میں آنٹی کو‬ ‫تھا ۔۔۔۔۔‬ ‫کرنا‬ ‫عزت‬ ‫بے‬
‫کیا بتاتا کہ شیدا میری جان کا بیری کیوں‬
‫میں‬ ‫اسلیئے ۔۔۔اس سلسلہ‬ ‫ہے‬ ‫ہوا‬ ‫بنا‬
‫میرے‬ ‫خود ہی‬ ‫۔۔۔۔۔میں چپ ہی رہا۔۔۔۔۔۔ آنٹی‬
‫ہمارے ایک عزیز‬ ‫والوں کو۔۔جو کہ‬ ‫گھر‬
‫ٹھہرے ہوئے تھے۔۔۔۔ میری خیریت‬ ‫کے گھر‬
‫دوسری‬ ‫کی خبر دیتی رہتی تھیں ۔۔۔۔ اور‬
‫مجھے‬ ‫نے بھی‬ ‫طرف میرے گھر والوں‬
‫کے ہاں آنے سے منع کیا‬ ‫ان عزیزوں‬
‫میں امجد کے گھر‬ ‫لیئے‬ ‫تھا ۔۔اس‬ ‫ہوا‬
‫یہی سب سے‬ ‫میں رہتا تھا۔۔۔۔ کہ فی الوقت‬
‫آنٹی‬ ‫طرف‬ ‫محفوظ جگہ تھی ۔۔۔ دوسری‬
‫وجود‬ ‫میرا‬ ‫بھی‬ ‫لوگوں کے لیئے‬
‫سے‬ ‫طرح‬ ‫اور ایک‬ ‫فائدہ مند‬ ‫کافی‬
‫تھا ۔۔۔ کیونکہ‬ ‫سہار ا بھی‬ ‫کا‬ ‫ان‬ ‫میں‬
‫میل‬ ‫گھر میں‬ ‫انکل کے جانے کے بعد‬
‫تھا ۔۔۔ ہاں‬ ‫ہوتا‬ ‫ہی‬ ‫میں‬ ‫پرسن صرف‬
‫تھا کہ آنٹی اور انکل امجد‬ ‫تو میں کہہ رہا‬
‫کے امکانی جگہ جانے کے بارے میں‬
‫ان کے‬ ‫اندازے لگا رہے تھے کہ اچانک‬
‫زور زور‬ ‫بڑی‬ ‫دروازہ‬ ‫کا‬ ‫گھر‬
‫کا‬ ‫گیا ۔۔۔۔۔۔ دروزے‬ ‫ہو‬ ‫شروع‬ ‫بجنا‬ ‫سے‬
‫کر‬ ‫سن‬ ‫طرح کھٹکنے کی آواز‬ ‫اس‬
‫کا رنگ اُڑ گیا ۔۔۔اور‬ ‫کے چہرے‬ ‫آنٹی‬
‫کی‬ ‫سے انکل‬ ‫بڑی پریشانی‬ ‫نے‬ ‫انہوں‬
‫کافی‬ ‫طرف دیکھا۔۔۔۔۔( جو خود بھی شکل سے‬
‫ہکالتے‬ ‫لگ رہے تھے)۔۔۔ ۔۔۔۔ اور‬ ‫پریشان‬
‫ہوئے بولیں۔۔۔۔۔۔ امجد کے ابو۔۔۔۔ مجھے تو‬
‫رہی‬ ‫کی بو محسوس ہو‬ ‫خطرے‬ ‫کسی‬
‫کا اس انداز سے‬ ‫دروازے‬ ‫ہے۔۔۔۔ کیونکہ‬
‫ہم‬ ‫خطرے سے خالی نہیں تھا ۔۔ ابھی‬ ‫بجنا‬
‫کہ‬ ‫تھے‬ ‫رہے‬ ‫ہی‬ ‫باتیں کر‬ ‫یہ‬
‫بہن‬ ‫چھوٹی‬ ‫سے‬ ‫سب‬ ‫کی‬ ‫امجد‬
‫آئی۔۔‬ ‫میں‬ ‫کمرے‬ ‫ہوئی‬ ‫دوڑتی‬ ‫مینا‬
‫تو‬ ‫دیکھا‬ ‫کی طرف‬ ‫اس‬ ‫نے‬ ‫میں‬
‫سانس چڑھی‬ ‫اور‬ ‫چہرہ فق‬ ‫کا‬ ‫اس‬
‫انکل‬ ‫ہی‬ ‫ہوئی تھی اس نے آتے ساتھ‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔ ابو۔۔۔ باہر‬ ‫کی طرف دیکھا اور‬
‫نام سنتے ہی‬ ‫کا‬ ‫پولیس کھڑی ہے۔۔۔پولیس‬
‫مارا‬ ‫ہتھڑ‬ ‫پر دو‬ ‫آنٹی نے اپنے سینے‬
‫سے انکل‬ ‫خوف ذدہ نظروں‬ ‫بڑی‬ ‫۔۔۔اور‬
‫ہو‬ ‫بولی۔اب کیا‬ ‫کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫لے‬ ‫کر‬ ‫اُٹھا‬ ‫پولیس ہمیں‬ ‫کیا‬ ‫گا۔۔؟؟؟‬
‫طرف‬ ‫میری‬ ‫پھر‬ ‫جائے گی ۔۔۔ ؟؟؟‬
‫امجد‬ ‫لگی۔۔۔۔‬ ‫کہنے‬ ‫ہوئے‬ ‫کرتے‬ ‫اشارہ‬
‫پولیس ہمیں بھی‬ ‫کی طرح‬ ‫اس‬ ‫کے ابو‬
‫بولیں ۔۔۔۔‬ ‫ہوئے‬ ‫روتے‬ ‫مارے گی۔۔پھر‬
‫میرے‬ ‫پولیس‬ ‫ابو ۔۔کیا‬ ‫کے‬ ‫امجد‬
‫بچیوں کو‬ ‫جوان‬ ‫میری‬ ‫ساتھ ساتھ‬
‫جائے گی ؟؟؟؟؟۔‬ ‫لے‬ ‫کر‬ ‫اُٹھا‬ ‫بھی‬
‫مینا‬ ‫طرف‬ ‫۔ ۔دوسری‬ ‫مینا‬ ‫طرف‬ ‫۔دوسری‬
‫سن کر خود‬ ‫کا‬ ‫پولیس‬ ‫کے منہ سے‬
‫ہو گئی‬ ‫بہت پتلی‬ ‫بھی‬ ‫حالت‬ ‫میری‬
‫خوار‬ ‫مجھے خون‬ ‫تھی ۔اور جانے کیوں‬
‫مار‬ ‫ہوئی‬ ‫پڑی‬ ‫سے‬ ‫واڑائچ کے ہاتھ‬
‫ہی۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫یاد آ گئی تھی ۔۔۔۔اس مار کے یاد آتے‬
‫جھرجھری‬ ‫بدن میں ایک‬ ‫سارے‬ ‫میرے‬
‫کانپنا‬ ‫میں ہلکے ہلکے‬ ‫دوڑ گئی۔۔اور‬ ‫سی‬
‫آنٹی نے‬ ‫تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ پھر‬ ‫ہو گیا‬ ‫شروع‬
‫روتے‬ ‫کو‬ ‫کر دیا ۔۔۔۔اور آنٹی‬ ‫رونا شروع‬
‫ہو گئی‬ ‫بھی رونا شروع‬ ‫دیکھ کر مینا‬
‫آنٹی روتے ہوئے کہہ رہی تھی‬ ‫تھی۔۔۔۔ادھر‬
‫کچھ‬ ‫پلیزززززززززززز‬ ‫کہ۔۔۔ امجد کے ابو‬
‫ہے‬ ‫رہا‬ ‫لگ‬ ‫ڈر‬ ‫کرو۔۔۔ مجھے بہت‬
‫چاہتی ۔۔۔۔۔۔ آنٹی‬ ‫جانا‬ ‫تھانے نہیں‬ ‫۔ میں‬
‫جھڑکتے‬ ‫ان‬ ‫نے‬ ‫انکل‬ ‫بات سن کر‬ ‫کی‬
‫مجھے‬ ‫کہا۔۔۔۔۔ اپنا منہ بند کرو اور‬ ‫ہوئے‬
‫ابھی انہوں نے‬ ‫کچھ سوچنے دو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سے ایک کرخت‬ ‫باہر‬ ‫اتنا ہی کہا تھا ۔۔۔ کہ‬
‫سنائی دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دروازہ‬ ‫سی آواز‬
‫طرح‬ ‫بری‬ ‫سنتے ہی‬ ‫کھولو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آواز‬
‫نے انکل کی طرف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫آنٹی‬ ‫خوف ذدہ‬
‫انکل نے آنٹی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اتنے میں‬
‫سے دروازہ‬ ‫زور‬ ‫بڑی‬ ‫ایک بار پھر‬
‫سنائی‬ ‫سے ایک آواز‬ ‫پھر۔۔۔ باہر‬ ‫کھٹکا اور‬
‫ہی‬ ‫سنتے‬ ‫آواز کو‬ ‫دی۔۔۔۔۔۔۔۔ اس‬
‫آ‬ ‫میں‬ ‫میرا دل اچھل کر حلق‬
‫گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اورررررررررررررررر‬

‫اپنی اپنی مخصوص‬ ‫واال‬ ‫پولیس‬ ‫۔۔ وہ‬


‫میں کہہ رہا تھا‬ ‫آواز‬ ‫بھدی‬ ‫کرخت اور‬
‫کہ آخری بار کہہ رہا ہوں کہ دروازہ کھولو۔۔۔‬
‫لہجہ سن کر‬ ‫پولیس والے کا دھمکی آمیز‬
‫کی طرف‬ ‫آنٹی‬ ‫انکل نے‬ ‫بیک وقت‬
‫کی طرف دیکھا‬ ‫انکل‬ ‫نے‬ ‫۔۔۔۔۔۔اور آنٹی‬
‫آنکھوں میں‬ ‫نے آنکھوں ہی‬ ‫۔۔پھر انہوں‬
‫نے‬ ‫پھر انکل‬ ‫کچھ طے کیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫۔۔۔ ایک منٹ رکو۔۔۔۔‬ ‫لگائی‬ ‫آواز‬ ‫وہیں سے‬
‫میں آ رہا ہوں ۔۔۔۔ اس کے بعد وہ میری‬
‫۔۔۔۔ کہ میں گھر‬ ‫بولے‬ ‫ہو کر‬ ‫طرف متوجہ‬
‫کو لے کر چھت پر چال‬ ‫خواتین‬ ‫ساری‬ ‫کی‬
‫جاؤں۔۔۔ اور اگر کوئی ایسی ویسی بات ہو گئی۔۔۔‬
‫تو ہم لوگ ساتھ والے گھر کی چھت کو ٹاپ‬
‫کر دوسری طرف نکل جائیں ۔۔۔۔۔ اور پھر‬
‫ہوئے‬ ‫تاکید کرتے‬ ‫طور پر مجھے‬ ‫خاص‬
‫لگے۔۔۔ کہ اگر کوئی خطرہ محسوس‬ ‫کہنے‬
‫تو میں چھت کے راستے فرار ہو‬ ‫کروں‬
‫باتیں سمجھانے کے بعد‬ ‫ساری‬ ‫‪--‬‬ ‫جاؤں‬
‫باہر نکل گئے۔۔۔۔ان‬ ‫تیزی کے ساتھ‬ ‫انکل‬
‫کے جانے کے بعد ۔۔میں نے سب خواتین کو‬
‫ساتھ لے کر‬ ‫ساتھ لیا ۔۔۔۔اور ان کو‬ ‫اپنے‬
‫چھت پر چڑھ گیا۔۔۔‬ ‫کوئی آواز کئے‬ ‫بنا‬
‫اور ان سب کو چھت کے ایک کونے پر کھڑا‬
‫ایک محفوظ‬ ‫۔ ۔۔۔‬ ‫ہونے کو کہا ۔۔۔۔اور خود‬
‫سے‬ ‫جگہ دیکھ کر ۔۔۔۔ چھت کی چار دیواری‬
‫بڑی احتیاط‬ ‫لگ کر کھڑ ا ہو گیا ۔ اور پھر‬
‫کے ساتھ نیچے گلی میں جھانک کر دیکھا‬
‫پولیس کی دردی‬ ‫پر‬ ‫وہاں‬ ‫تو مجھے‬
‫ہی سپاہی کھڑا نظر آیا۔۔‬ ‫پہنے صرف ایک‬
‫دوسرا‬ ‫ہوا‬ ‫آیا‬ ‫۔۔۔۔ جبکہ اس کے ساتھ‬
‫ڈرائیونگ‬ ‫پولیس وین کی‬ ‫پولیس واال ۔۔‬
‫پر سکون انداز میں‬
‫ُ‬ ‫پر بڑے ہی‬ ‫سیٹ‬
‫کے‬ ‫کی وین‬ ‫تھا۔۔۔ پولیس‬ ‫ہوا‬ ‫بیٹھا‬
‫کو‬ ‫اکیلے سپاہی ۔۔۔۔اور ڈرائیور‬ ‫ساتھ‬
‫میں‬ ‫کے ساتھ بیٹھا دیکھ کر‬ ‫اطمینان‬
‫بڑے‬ ‫اور پھر‬ ‫لیا‬ ‫نے سکھ کا سانس‬
‫دیکھنے‬ ‫منظر‬ ‫نیچے کا‬ ‫سے‬ ‫غور‬
‫سپاہی‬ ‫کہ آنے واال‬ ‫دیکھا‬ ‫لگا۔۔۔میں نے‬
‫ساتھ بڑے اچھے موڈ میں باتیں‬ ‫انکل کے‬
‫جواب‬ ‫کی باتوں کا‬ ‫کر رہا تھا ۔جبکہ اس‬
‫سے‬ ‫پریشان‬ ‫کچھ‬ ‫انکل‬ ‫ہوئے‬ ‫دیتے‬
‫کے‬ ‫اس‬ ‫لیکن‬ ‫تھے‬ ‫نظر آ رہے‬
‫مجھے‬ ‫پر‬ ‫طور‬ ‫مجموعی‬ ‫بھی‬ ‫باوجود‬
‫ہی نظر آئی اور‬ ‫اس کی طرف سے خیریت‬
‫۔۔ اس کے بات کرنے کا انداز ۔۔۔ دیکھ کر‬
‫دیکھا تو‬ ‫کی طرف‬ ‫میں نے انکل‬
‫کی بدن بولی‬ ‫کے باوجود ان‬ ‫پریشانی‬
‫کا‬ ‫حاالت نارمل ہونے‬ ‫(باڈی لینگوئیج ) بھی‬
‫دیکھ‬ ‫سب‬ ‫یہ‬ ‫رہی تھی‬ ‫دی‬ ‫اشارہ‬
‫ایک‬ ‫کی‬ ‫سے اطمینان‬ ‫کر میرے منہ‬
‫اور ۔۔ اسی دوران‬ ‫طویل سانس نکل گئی‬
‫کچھ سرسراہٹ کی آواز‬ ‫مجھے اپنے پاس‬
‫سنائی دی ۔۔۔ میں نے چونک کر ادھر دیکھا‬
‫کھڑا پایا‬ ‫کو‬ ‫آنٹی‬ ‫ساتھ‬ ‫اپنے‬ ‫تو‬
‫نیچے گلی میں‬ ‫۔۔۔۔ میری طرح وہ بھی‬
‫ہمارے دیکھتے ہی‬ ‫رہی تھی ۔۔۔ پھر‬ ‫جھانک‬
‫پتلون‬ ‫اپنی‬ ‫نے‬ ‫دیکھتے اس سپاہی‬
‫ایک‬ ‫ہوا‬ ‫کیا‬ ‫تہہ‬ ‫سے‬ ‫کی جیب‬
‫انکل کے ہاتھ میں‬ ‫اور‬ ‫نکاال‬ ‫کاغذ‬
‫انکل نے اس کے‬ ‫دیا۔۔۔ ۔۔۔ جسے‬ ‫پکڑا‬
‫پکڑ لیا اور پھر اپنی جیب میں‬ ‫سے‬ ‫ہاتھ‬
‫آنے والے‬ ‫اور‬ ‫نکاال‬ ‫ہاتھ ڈال کر پرس‬
‫لیتے‬ ‫دیئے ۔۔۔ پیسے‬ ‫سپاہی کو کچھ پیسے‬
‫اس سپاہی ۔۔نے انکل سے ہاتھ مالیا ۔۔۔اور‬ ‫ہی‬
‫بیٹھ کر واپس چال‬ ‫پھر پولیس کی گاڑی میں‬
‫اپنی جیب‬ ‫گیا ۔۔۔ اس کے جاتے ہی انکل نے‬
‫اور اسے پڑھتے ہوئے‬ ‫سے وہ کاغذ نکاال‬
‫گئے ۔۔۔۔ یہ منظر دیکھ‬ ‫گھر میں داخل ہو‬
‫مار ی ۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫مجھے کہنی‬ ‫کر آنٹی نے‬
‫میں کھڑی‬ ‫کونے‬ ‫کے‬ ‫دور چھت‬ ‫پھر‬
‫اشارے سے نیچے‬ ‫کو بھی‬ ‫بیٹیوں‬ ‫اپنی‬
‫کے ساتھ‬ ‫آنے کا بول کر خود تیزی‬
‫سے نیچے اترنے لگی۔۔۔۔جب تک ہم‬ ‫سیڑھیوں‬
‫اس‬ ‫انکل‬ ‫اس وقت تک‬ ‫نیچے اترے‬
‫تحریر کو پڑھ چکے تھے۔۔۔‬ ‫کاغذ پر لکھی‬
‫میں نے محسوس کیا کہ اس کاغذ پر لکھی‬
‫پریشان‬ ‫خاصے‬ ‫انکل‬ ‫تحریر کو پڑھ کر‬
‫تھے۔۔۔ ہمیں‬ ‫ہوئے نظر آ رہے‬ ‫اور گھبرائے‬
‫اترتا دیکھ کر وہ کہنے‬ ‫سے‬ ‫سیڑھیوں‬
‫میں‬ ‫ڈرائینگ روم‬ ‫لگے۔۔۔۔ کہ سب لوگ‬
‫میں داخل ہوتے ہی‬ ‫آجاؤ۔۔۔ ۔۔ ڈرائینگ روم‬
‫آنٹی نے انکل کی طرف دیکھا اور ۔۔۔۔۔ بڑی‬
‫بات ہے امجد‬ ‫سے بولی ۔۔۔۔۔ کیا‬ ‫فکر مندی‬
‫لگ‬ ‫پریشان‬ ‫آپ بہت‬ ‫کے ابا ۔۔۔‬
‫کی بات سن کر انکل نے‬ ‫رہے ہو؟۔۔۔۔ آنٹی‬
‫اور کہنے لگے ۔۔‬ ‫دیکھا‬ ‫کی طرف‬ ‫آنٹی‬
‫۔۔۔۔ بات ہی کچھ ایسی ہے صائقہ بیگم ۔۔۔۔ پھر‬
‫آنٹی کے پوچھنے پر انہوں نے بتانا شروع کر‬
‫کہ‬ ‫ہو‬ ‫ہی‬ ‫دیا کہ۔۔۔۔ جیسا کہ آپ لوگ جانتے‬
‫جب یہ (میری طرف اشارہ کرتے ہوئے )‬
‫میں نے اس‬ ‫تو‬ ‫بند تھا‬ ‫میں‬ ‫تھانے‬
‫کے لیئے ایس پی صاحب سے سفارش‬
‫ایس پی‬ ‫کروائی تھی ۔۔۔اور چونکہ اتفاق سے وہ‬
‫اور ذاتی‬ ‫صاحب میرے باس کے بیچ میٹ‬
‫باس کے کہنے‬ ‫دوست بھی تھے اس لیئے‬
‫پر وہ خود چل کر تھانے آئے تھے ۔۔ جس کی‬
‫وجہ سے میری تھانے میں دھاک بیٹھ گئی‬
‫جاتے جاتے ایس پی صاحب نے‬ ‫تھی۔۔ اور پھر‬
‫میرے‬ ‫اسے‬ ‫کر‬ ‫ایس ایچ او کو بال‬
‫کے ساتھ تاکید‬ ‫بارے میں بڑی سختی‬
‫تنگ نہ کیا‬ ‫مجھے ناجائز‬ ‫کی تھی کہ‬
‫یہ ایس پی صاحب کی‬ ‫جائے۔۔۔ پھر کہنے لگے‬
‫تھا‬ ‫کا کمال‬ ‫سفارش اور کچھ ۔۔۔۔ ان پیسوں‬
‫کی جیب‬ ‫کہ جو میں نے زبردستی ایس ایچ او‬
‫کے باوجود‬ ‫دباؤ‬ ‫میں ڈالے تھے کہ‬
‫ہمارے گھر نہیں آئی۔۔۔‬ ‫بھی ۔۔۔ پولیس آج تک‬
‫اس پر آنٹی کہنے لگیں اچھا یہ بتاؤ کہ پھر آج‬
‫پولیس کیوں آئی تھی۔۔۔ ؟؟؟؟آنٹی کی بات سن کر‬
‫انکل کے چہرے پر تفکرات کے سائے امنڈ آئے‬
‫ماتھے پر ہاتھ مار کر کہنے لگے۔۔۔۔‬ ‫اور وہ‬
‫وہ‬ ‫آج جو سپاہی ہمارے گھر آیا تھا‬
‫ایس ایچ او صاحب کی طرف سے‬ ‫دراصل‬
‫سے‬ ‫اس‬ ‫پیغام لے کر آیا تھا کہ‬ ‫یہ‬
‫نے ہمارے لیئے‬ ‫اس‬ ‫ہو سکا‬ ‫جتنا‬
‫اس کے بس‬ ‫معاملہ‬ ‫اب‬ ‫کیا ۔۔۔۔لیکن‬
‫شام‬ ‫سے باہر ہو گیا ہے کیونکہ آج‬
‫ساتھ خود‬ ‫کے‬ ‫لوگوں‬ ‫ان‬ ‫میں‬ ‫تھانے‬
‫صاحب آئے تھے۔۔ اس‬ ‫کر ایم این اے‬ ‫چل‬
‫سے پہلے کہ آنٹی کچھ کہتی ۔۔۔۔۔ انکل بڑے‬
‫وہ‬ ‫ڈرامائی انداز میں کہنے لگے۔۔۔۔۔ اور‬
‫بتانے آیا تھا کہ انہوں نے (‬ ‫سپاہی یہ بھی‬
‫شیدے لوگوں نے) ہمارے خالف ایف آئی آر بھی‬
‫درج کروا دی ہے۔۔۔۔ ایف آئی آر کا نام سنتے‬
‫رنگ‬ ‫کے چہرے کا‬ ‫آنٹی‬ ‫ہی ایک دم‬
‫کھال‬ ‫منہ کھلے کا‬ ‫کا‬ ‫ان‬ ‫اور‬ ‫اُڑ گیا‬
‫نے ایک گہرا سانس‬ ‫۔۔۔پھر انہوں‬ ‫رہ گیا‬
‫انکل کی طرف دیکھ کر ہکالتے‬ ‫لیا ۔۔۔اور‬
‫ہوئے بولیں۔۔۔ ۔۔۔ وہ وہ۔۔۔ کاغذ کیسا تھا؟؟ ۔۔۔ اس‬
‫ہوا‬ ‫کیا‬ ‫انکل نے جیب سے تہہ‬ ‫پر‬
‫اور اسے آنٹی کے‬ ‫نکاال‬ ‫وہ کاغذ‬
‫لہرا کر بولے ۔۔۔۔ یہ اس ایف آئی آر‬ ‫سامنے‬
‫نے ہمارے خالف‬ ‫جو ان لوگوں‬ ‫کی نقل ہے‬
‫ہے۔۔۔۔اور پھر انہوں نے آنٹی‬ ‫کٹوا ئی‬
‫ایف آئی آر کا‬ ‫کو‬ ‫ان‬ ‫پر‬ ‫کے پوچھنے‬
‫خالصہ سناتے ہوئے کہا کہ اس ایف آئی آر‬
‫کے مطابق ( جو کہ شیدے کے والد کی طرف‬
‫نبیلہ‬ ‫اس کی بیٹی مسماۃ‬ ‫دی گئی تھی)‬
‫سے گھر سے غائب‬ ‫چار پانچ دنوں‬ ‫گزشتہ‬
‫تالش و بسیار‬ ‫جو کہ‬ ‫ہے‬ ‫گئی‬ ‫پائی‬
‫ہے‬ ‫سکی‬ ‫مل‬ ‫باوجود بھی نہ‬ ‫کے‬
‫اپنے‬ ‫تک‬ ‫نے ابھی‬ ‫اس‬ ‫ہی‬ ‫نہ‬ ‫اور‬
‫رابطہ کیا‬ ‫کوئی‬ ‫ساتھ‬ ‫کے‬ ‫والوں‬ ‫گھر‬
‫ہے ۔۔۔ جس سے ان کو اس بات کا اندیشہ‬
‫کو‬ ‫بیٹی‬ ‫کی‬ ‫ہے کہ ان‬ ‫ہوا‬ ‫پیدا‬
‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫یقین واثق‬
‫ِ‬ ‫اغوا کیا گیا ہے۔ اور‬
‫مسماۃ‬ ‫میں‬ ‫کے اغواء‬ ‫اس کی بیٹی‬
‫صائقہ بیگم ( آنٹی) اور اس کی بیٹی مہرالنساء‬
‫آنا جانا‬ ‫جن کا ان کے گھر میں کافی‬ ‫کہ‬
‫بد‬ ‫بار ہا اپنے ناالئق اور‬ ‫جو‬ ‫تھا اور‬
‫کے لیئے میری بیٹی کا‬ ‫بیٹے امجد‬ ‫چلن‬
‫مانگ چکی تھی اور ہمارے انکار پر‬ ‫رشتہ‬
‫معصوم بیٹی کو‬ ‫ہماری‬ ‫نے‬ ‫انہوں‬
‫امجد‬ ‫بیٹے‬ ‫اپنے بد چلن‬ ‫ورغال کر‬
‫لوفر‬ ‫اوباش اور‬ ‫ایک‬ ‫کے‬ ‫اور محلے‬
‫کر‬ ‫اغوا‬ ‫مدد سے‬ ‫شاہ کی‬ ‫لڑکے‬
‫مقام پر منتقل‬ ‫نامعلوم‬ ‫کے اسے کسی‬
‫درخواست ہے کہ میری بیٹی‬ ‫ہے‬ ‫کر دیا‬
‫سے‬ ‫ُچنگل‬ ‫کے‬ ‫درندوں‬ ‫ان‬ ‫کو‬
‫بازیاب کرو ا کے ان لوگوں کو قرار واقعی‬
‫دی جاوے۔۔ایف آئی آر کا خالصہ سنتے ہی‬ ‫سزا‬
‫آنٹی کے منہ سے کوسنے نکلنے شروع ہو‬
‫گئے اور وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ ہائے ہائے ۔۔یہ کیا‬
‫ظلم کر دیا انہوں نے ۔۔۔ ایک تو اس چڑیل نے‬
‫اور‬ ‫بیٹا بھی چھین لیا‬ ‫ہم سے ہمارا‬
‫ہمارے خالف‬ ‫نے‬ ‫اوپر سے اس کے والد‬
‫جس‬ ‫پرچہ بھی کٹوا دیا ہے‬ ‫اغوا کا‬
‫حرامزادوں نے سرا سر جھوٹ‬ ‫ان‬ ‫میں‬
‫یہ ہے کہ‬ ‫ہے ۔۔ جبکہ حقیقت‬ ‫لکھا‬
‫ڈائن کے گھر کا بھی پتہ‬ ‫مجھے تو نبیلہ‬
‫نہیں کہ کس گلی میں واقع ہے اس پر انکل‬
‫ان کو چپ کراتے ہوئے کہنے لگے کہ ۔۔۔۔‬
‫کی نقل دینے کے ساتھ ساتھ وہ‬ ‫ایف آئی آر‬
‫کا ایک اور‬ ‫سپاہی ایس ایچ او صاحب‬
‫پیغام بھی الیا تھا کہ جتنی جلدی ہو‬
‫سکے آپ کے گھر والے یہ عالقہ چھوڑ دیں‬
‫کا‬ ‫صاحب‬ ‫پر مزکورہ ایم این اے‬ ‫کہ اس‬
‫سخت دباؤ ہے کہ ایف آئی آر میں نامزد‬ ‫بڑا‬
‫گرفتار کیا جائے۔۔۔۔ ۔۔ اس‬ ‫فی الوفور‬ ‫افراد کو‬
‫لیڈیز کہ جن‬ ‫خاص کر وہ‬ ‫آپ لوگ‬ ‫لیئے‬
‫ہیں‬ ‫درج‬ ‫میں‬ ‫ایف آئی آر‬ ‫کے نام‬
‫یہاں سے نکل‬ ‫ہو سکے‬ ‫۔۔۔۔جتنی جلدی‬
‫کچھ بھی ہو سکتا‬ ‫وقت‬ ‫جائیں ۔۔۔۔۔ ورنہ کسی‬
‫ہے ۔۔۔ اتنی بات کرنے کے بعد انکل مزید‬
‫ہے کہ ایس‬ ‫کہنے لگے۔۔۔ ۔۔۔۔ اور میرا خیال‬
‫ٹھیک کہہ رہا ہے ۔۔۔ کیونکہ نبیلہ کے‬ ‫ایچ او‬
‫گھر والے بڑے فضول اور چھچھورے قسم‬
‫فوراً‬ ‫کے لوگ ہیں اس لیئے ۔۔۔۔ تم لوگ‬
‫یہاں سے نکلنے کی تیاری کرو ۔۔اتنی بات‬
‫کرنے کے بعد وہ مجھ سے مخاطب ہو کر‬
‫میرا پروگرام‬ ‫پہلے تو‬ ‫کہنے لگے ۔۔ بیٹا‬
‫کو یہیں رکھتا‬ ‫یہ تھا کہ میں ان لوگوں‬
‫ان کے خالف ایف آئی آر‬ ‫۔۔۔۔ لیکن اب جبکہ‬
‫اس وقت‬ ‫چکی ہے ۔۔۔۔ تو‬ ‫ہو‬ ‫درج‬ ‫بھی‬
‫ان خواتین کا یہاں رہنا‬ ‫میرے خیال میں‬
‫خطرے سے خالی نہیں ہے۔۔ ۔۔۔پھر کہنے لگے‬
‫دور ( ان کے‬ ‫کو اتنی‬ ‫ان خواتین‬ ‫۔۔چونکہ‬
‫نہیں‬ ‫مناسب‬ ‫بھیجنا‬ ‫گاؤں میں ) اکیال‬
‫بھی‬ ‫تم‬ ‫۔۔۔۔۔اس لیئے میرا مشورہ ہے کہ‬
‫اپنی‬ ‫پھر‬ ‫چلے جاؤ‬ ‫ساتھ ہی‬ ‫ان کے‬
‫مزید‬ ‫ہوئے‬ ‫رکھتے‬ ‫بات کو جاری‬
‫پرچے میں‬ ‫کہنے لگے اور ویسے بھی‬
‫چونکہ تمہارا نام بھی شامل ہے اس لیئے‬
‫میرے خیال میں تمہارا بھی یہاں پر رہنا‬
‫نہیں ہے ۔۔ اس لیئے تم بھی ان کے‬ ‫مناسب‬
‫ہو گا‬ ‫بہتر‬ ‫ساتھ ہی چلے جاؤ تو بہت‬
‫وجہ‬ ‫کی‬ ‫تمہارا ساتھ ہونے‬ ‫۔۔۔ ۔۔۔۔ کہ‬
‫گا‬ ‫رہے‬ ‫سے مجھے بھی اطمینان‬
‫کوئی پریشانی نہیں ہو گی ۔۔۔ ۔۔ پھر انہوں‬ ‫اور‬
‫نے اپنا ُرخ آنٹی کی طرف کیا اور کہنے‬
‫لگے۔۔۔ صائقہ تم لوگ جلدی سے تیار ہو جاؤ‬
‫۔۔ اور مجھ سے بولے ۔۔تمہارے گھر کی چابی‬
‫(آنٹی ) کے پاس ہے ۔۔۔۔اس لیئے تم‬ ‫صائقہ‬
‫کپڑے‬ ‫اپنے‬ ‫گھر جا کر‬ ‫اپنے‬
‫وغیرہ لے آؤ۔۔۔ ۔۔۔انکل کی بات سن کر آنٹی‬
‫۔۔۔اس کی ضرورت نہیں ہے میں‬ ‫کہنے لگیں‬
‫لے‬ ‫پہلے ہی اس کے گھر سے کپڑے وغیرہ‬
‫ا ٓئی تھی۔۔ پھر کچھ سوچتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔ ہاں اگر تم اپنے گھر والوں کو بتا کر آنا‬
‫جاؤ۔۔۔لیکن جلدی آنا ۔۔۔۔ اتنی‬ ‫چلے‬ ‫تو‬ ‫چاہو‬
‫لوگ تیاری کرتیں ہیں‬ ‫دیر میں ہم‬

‫اور اپنے گھر والوں‬ ‫میں نے آنٹی کی بات سنی‬


‫لیئے خاموشی سے باہر نکل‬ ‫کو بتانے کے‬
‫سن‬ ‫کا متن‬ ‫ایف آئی آر‬ ‫گیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنے خالف‬
‫حالت کچھ عجیب سی ہو رہی‬ ‫کر میری‬
‫تھی۔۔۔۔ڈر بھی لگ رہا تھا اور پریشانی بھی‬
‫اتنی بڑی‬ ‫کہ‬ ‫بہت تھی کہ بیٹھے بٹھائے‬
‫مصیبت جو آن پڑی تھی ۔۔ دوسری طرف انکل‬
‫اس‬ ‫کہ‬ ‫ہی کہہ رہے تھے‬ ‫بھی ٹھیک‬
‫بہتر‬ ‫ہمارا وہاں سے نکلنا ہی‬ ‫وقت‬
‫کا‬ ‫صاحب‬ ‫ایس ایچ او‬ ‫کہ ایک تو‬ ‫تھا‬
‫دوسرا‬ ‫تھا۔ اور‬ ‫مشورہ‬ ‫یہی‬ ‫بھی‬
‫اچھی طرح سے اندازہ‬ ‫کا‬ ‫بات‬ ‫مجھے اس‬
‫اگر‬ ‫کٹنے کے بعد‬ ‫پرچہ‬ ‫تھا کہ‬
‫اگر بالفرض‬ ‫رہتے یا‬ ‫وہیں‬ ‫ہم لوگ‬
‫کروا‬ ‫بھی‬ ‫قبل از گرفتاری‬ ‫ضمانت‬
‫شیدے‬ ‫کے نام پر‬ ‫تو بھی تفتیش‬ ‫لیتے‬
‫تھانے بلوا کر بڑا‬ ‫نے خاص کر مجھے روز‬
‫ذلیل کروا نا تھا ۔۔۔ یہی باتیں سوچتے ہوئے‬
‫سے نکلنے کا سوچ کر‬ ‫میں ۔۔۔اپنے گھر‬
‫اور‬ ‫ہو گیا‬ ‫اداس‬ ‫میں ایک دم سے‬
‫صاحب کی ‪ ،‬مشہور‬ ‫مجھے فیض احمد فیض‬
‫جو کچھ‬ ‫یاد آ گیا‬ ‫ایک ٹکڑا‬ ‫کا‬ ‫نظم‬
‫یوں تھا کہ۔۔۔۔۔۔۔ مرے دل میرے مسافر ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہوا‬
‫پھر سے حکم صادر ۔۔۔۔۔۔۔ کہ وطن بدر ہوں ہم تم‬
‫۔۔۔۔۔دیں گلی گلی صدائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کریں ُرخ نگر نگر کا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ سوراخ کوئی پائیں ۔۔۔۔۔۔۔کسی یار نامہ بر‬
‫کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر ایک اجنبی سے پوچھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جو‬
‫پتہ تھا اپنے گھر کا۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ میں اپنے اس عزیز‬
‫کہ جہاں پر‬ ‫کے گھر کے باہر کھڑا تھا‬
‫میرے گھر والوں نے پناہ لے رکھی تھی۔۔۔۔ پھر‬
‫داخل‬ ‫ان کے گھر میں‬ ‫ہی میں‬ ‫جیسے‬
‫دیکھتے ہی‬ ‫ہوا۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے سامنے‬
‫طرح‬ ‫مجھ پر بُری‬ ‫والے‬ ‫میرے گھر‬
‫اور بتالنے لگے ۔۔۔۔کہ‬ ‫پڑے‬ ‫برس‬ ‫سے‬
‫تکلیف‬ ‫قدر‬ ‫میری وجہ سے ان کو کس‬
‫اور اذیت سے گزرنا پڑ رہا ہے اس کے‬
‫جو ان‬ ‫سے‬ ‫وجہ‬ ‫میری‬ ‫عالوہ بھی‬
‫اپنے‬ ‫گلی محلے اور خاص‬ ‫کی‬
‫ان لوگوں کی بے‬ ‫رشتے داروں میں جو‬
‫ہے اس‬ ‫ہوئی‬ ‫ہنسائی‬ ‫عزتی اور جگ‬
‫معاف‬ ‫مجھے کبھی بھی‬ ‫وہ‬ ‫کے لیئے‬
‫نہیں کریں گے ۔۔۔ ۔۔۔۔ میں نے ان کو اپنے‬
‫بارے میں بہت صفائیاں دیں ۔۔۔ لیکن بے‬
‫سود۔۔۔انہوں نے میری ایک نہ سنی ۔۔ پھر میں‬
‫ان کو صفائیاں‬ ‫اس وقت‬ ‫سمجھ گیا ہے کہ‬
‫۔۔۔۔اس لیئے‬ ‫کوئی فائدہ نہیں ہے‬ ‫دینے کا‬
‫میں نے ان سے مزید کوئی بات نہیں کی‬
‫میں نے امی‬ ‫جاتے جاتے‬ ‫پھر‬ ‫۔۔۔۔۔۔اور‬
‫کو بتایا کہ میں امجد کے گھر والوں کے ساتھ‬
‫ان کے گاؤں جا رہا ہوں۔۔۔ میری بات سن کر‬
‫وہ آگ بگولہ ہو کر بولیں ۔۔۔۔۔۔ میری طرف سے‬
‫کوسنا‬ ‫مجھے‬ ‫تم جہنم میں جاؤ۔۔۔ پھر‬
‫کہنے لگیں ۔۔۔ ۔۔۔ کاش میں‬ ‫ہوئے‬ ‫دیتے‬
‫بچہ پیدا کرنے سے‬ ‫ذلیل‬ ‫تم جیسا‬
‫پہلے مر جاتی۔۔۔۔ اس وقت وہ بہت غصے میں‬
‫لگ رہیں تھیں ۔۔ اپنے گھر والوں ۔۔۔۔۔اور خاص کر‬
‫مایوس‬ ‫اپنی امی کی بات سن کر میں بڑا‬
‫اسی مایوسی کے عالم‬ ‫ہوا۔۔۔۔ اور پھر‬
‫میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ جن قدموں سے اپنے عزیز کے گھر‬
‫گیا تھا انہی قدموں سے واپس ہو لیا‬

‫کے عالم اپنے عزیزوں‬ ‫میں بڑی افسردگی‬


‫راستے‬ ‫کے ہاں سے واپس آ رہا تھا ۔۔۔۔ کہ‬
‫آ گئی۔۔۔۔اس‬ ‫میں ۔۔۔۔اچانک مجھے عذرا کی یاد‬
‫کی یاد آتے ہی میں بے چین سا ہو گیا ۔۔۔۔‬
‫اور سوچنے لگا کہ پتہ نہیں میرے بعد اس‬
‫پھر خیال آیا‬ ‫بیتی ہو گی؟؟‬ ‫کے ساتھ کیا‬
‫سے‬ ‫اس‬ ‫میرا‬ ‫کہ پتہ نہیں اس وقت‬
‫آتا‬ ‫ملنا مناسب بھی ہے کہ نہیں۔؟؟ ۔۔۔ کبھی خیال‬
‫مجھ سے ملتی بھی ہے‬ ‫پتہ نہیں وہ‬ ‫کہ‬
‫کہ نہیں؟؟۔۔۔۔ پتہ نہیں ۔۔۔ وہ مجھ سے بات بھی‬
‫میں ۔۔۔۔۔ اس‬ ‫کرے گے کہ نہیں ۔۔ اسی کشمکش‬
‫ہو‬ ‫شدید‬ ‫غلبہ مجھ پر اتنا‬ ‫کا‬ ‫کی یاد‬
‫گیا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ کہ نہ چاہتے ہوئے بھی میں ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫بنے ایک پبلک کال آفس‬ ‫سڑک کے کنارے‬
‫میں گھس گیا۔۔۔اتفاق سے اس وقت پبلک کال‬
‫وہاں‬ ‫میں نے‬ ‫آفس خالی تھا اس لیئے‬
‫بیٹھے شخص سے فون کے لیئے کہا تو اس‬
‫میری‬ ‫کو‬ ‫فون‬ ‫پڑے‬ ‫نے پاس‬
‫طرف سرکا دیا۔۔ ۔۔۔۔۔ اور میں نے ۔۔۔۔کچھ‬
‫کے گھر کا نمبر‬ ‫ہچکچاہٹ کے بعد عذرا‬
‫پر‬ ‫ڈائل کر دیا۔۔۔۔۔۔ تیسری چوتھی گھنٹی‬
‫اُٹھایا۔۔۔۔۔ اور ایک نسوانی‬ ‫فون‬ ‫نے‬ ‫کسی‬
‫آواز نے ہیلو کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی‬
‫میں نے‬ ‫تو‬ ‫نے ہیلو کہا‬ ‫آواز‬ ‫نسوانی‬
‫دھرا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ڈرتے ڈرتے ۔۔۔۔ اپنا کوڈ ورڈ‬
‫کی دیر تھی‬ ‫دھرانے‬ ‫ورڈ‬ ‫میرے کوڈ‬
‫ادھر سے جزبات سے کانپتی ہوئی آواز‬ ‫کہ‬
‫رہے‬ ‫بول‬ ‫سے‬ ‫کہاں‬ ‫دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تم‬ ‫سنائی‬
‫۔۔ٹھیک تو ہو ناں؟ یہ‬ ‫شاہ۔۔۔۔۔؟ تم ۔۔۔تم‬ ‫ہو‬
‫ہوئی‬ ‫میں ُگندھی‬ ‫محبت‬ ‫اور‬ ‫جزبات‬
‫بے‬ ‫بڑی‬ ‫کی تھی ۔۔۔ جو‬ ‫بھابھی‬ ‫آواز‬
‫رہی تھی‬ ‫کر‬ ‫قراری سے میرا حال دریافت‬
‫سنا ہے کہ‬ ‫اور کہہ رہی تھی کہ میں نے‬
‫سے‬ ‫نے تم کو پولیس‬ ‫شیدے حرامی‬
‫وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ ادھر‬ ‫ہے‬ ‫پڑوائی‬ ‫مار‬ ‫بڑی‬
‫کال آفس‬ ‫بیٹھے‬ ‫سامنے‬ ‫میں اپنے‬
‫کے‬ ‫والے بندے کی وجہ سے بھابھی‬
‫سے‬ ‫دینے‬ ‫جواب‬ ‫واضع‬ ‫سوالوں کا‬
‫ہر‬ ‫ان کے‬ ‫لیئے میں‬ ‫قاصر تھا ۔۔۔۔اس‬
‫میں ہی‬ ‫ہاں"‬ ‫"‬ ‫بس " ہُوں"‬ ‫کا‬ ‫سوال‬
‫کال‬ ‫میں‬ ‫اتنے‬ ‫دے رہا تھا۔۔۔ کہ‬ ‫جواب‬
‫ایک‬ ‫پڑی‬ ‫میں‬ ‫دراز‬ ‫آفس والے نے‬
‫میری طرف‬ ‫نکالی ۔۔۔۔۔اور‬ ‫سگریٹ‬
‫اشارہ کیا ۔۔۔ تو‬ ‫کا‬ ‫ماچس‬ ‫دیکھتے۔۔ہوئے‬
‫دیا۔۔۔اس پر‬ ‫نے انکار میں سر ہال‬ ‫میں‬
‫سے اُٹھا ۔۔۔۔اور یہ کہتے‬ ‫سیٹ‬ ‫اپنی‬ ‫وہ‬
‫۔۔۔۔۔کہ‬ ‫باہر نکل گیا‬ ‫سے‬ ‫دکان‬ ‫ہوئے‬
‫سلگا‬
‫سگریٹ ُ‬ ‫دکان سے‬ ‫میں پاس کی‬
‫نکلتے‬ ‫ہوں ۔۔ ۔۔ اس کے باہر‬ ‫آتا‬ ‫ابھی‬ ‫کر‬
‫تفصیل‬ ‫بھابھی کے سوالوں کے‬ ‫ہی میں نے‬
‫جواب دینے شروع کر دیئے۔۔۔پھر کچھ‬ ‫سے‬
‫سے پوچھا ۔۔عذرا‬ ‫دیر بعد۔۔۔ میں نے ان‬
‫آواز‬ ‫روہانسی‬ ‫وہ‬ ‫تو‬ ‫کیسی ہے؟‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ نبیلہ کے جانے کے بعد‬ ‫میں‬
‫بھی بڑی قیامت‬ ‫اس پر‬ ‫تمہارے ساتھ ساتھ‬
‫اس پر بھی بہت‬ ‫تو‬ ‫اب‬ ‫ٹوٹی ہے۔۔۔ اور‬
‫سختیوں‬ ‫ہیں ۔۔۔ عذرا پر‬ ‫ہو گئیں‬ ‫سختیاں‬
‫بے قراری‬ ‫کا سن کر میں نے بڑی‬
‫سے پوچھا۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔عذرا کے ساتھ کیا کیا ہے‬
‫آہ‬ ‫تو وہ ایک سرد‬ ‫انہوں نے ؟؟؟؟؟؟‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔اس کا گھر سے باہر جانا‬ ‫بھر کر‬
‫بند ہو گیا ہے ۔۔۔ پھر اپنی بات کو جاری‬
‫تو چھوڑو‬ ‫باتیں‬ ‫رکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ باقی‬
‫بھائی ( بھابھی کے خاوند) نے بھی‬ ‫۔۔ اس کے‬
‫کو‬ ‫پیٹا ہے ۔۔۔۔ عذرا‬ ‫مارا‬ ‫اسے بہت‬
‫رہ‬ ‫دل دھک‬ ‫میرا‬ ‫کا سن کر‬ ‫مار نے‬
‫سے کہا کہ۔۔۔‬ ‫بھابھی‬ ‫میں نے‬ ‫گیا ۔۔۔۔اور‬
‫ہو سکتی‬ ‫بات‬ ‫سے‬ ‫کیا بھابھی عذرا‬
‫وہ کہنے لگی۔۔۔۔۔۔‬ ‫ہے؟ ۔۔ میری بات سن کر‬
‫تو‬ ‫تم اس وقت کہاں سے بول رہے ہو ؟‬
‫لوکیشن‬ ‫اپنی‬ ‫پر میں نے ان کو‬ ‫اس‬
‫خود آ‬ ‫کہنے لگی ۔۔۔۔۔ تم‬ ‫وہ‬ ‫تو‬ ‫بتائی‬
‫کر اس سے مل کیوں نہیں جاتے ؟ کہ اس طرح‬
‫جی بھی بہل جائے‬ ‫کا‬ ‫اس بے چاری‬
‫سے‬ ‫عذرا‬ ‫بھی‬ ‫میرا‬ ‫گا۔۔۔۔ جی تو‬
‫لیکن‬ ‫تھا‬ ‫رہا‬ ‫چاہ‬ ‫کو‬ ‫ملنے‬
‫تھا ۔۔۔۔۔ اس‬ ‫ڈرتا‬ ‫سے‬ ‫وہاں جانے‬ ‫میں‬
‫میں آ‬ ‫میں نے بھابھی سے کہا‬ ‫لیئے‬
‫تو جاؤں مگر۔۔۔۔۔۔آنے میں کوئی خطرہ تو‬
‫بڑے پیار‬ ‫ناں؟؟ ۔۔۔۔ تو وہ‬ ‫ہے‬ ‫نہیں‬
‫تم‬ ‫ہوئے‬ ‫ہوتے‬ ‫سے کہنے لگی ۔۔۔ میرے‬
‫ہو گا میری جان ۔۔۔تب‬ ‫نہیں‬ ‫خطرہ‬ ‫کوئی‬ ‫کو‬
‫نے ان سے کہا کہ میں آ رہا ہوں آپ‬ ‫میں‬
‫ہیں؟۔۔۔تو وہ‬ ‫بتا سکتی‬ ‫عذرا کو‬ ‫پلیزززز‬
‫کہنے لگی تم بے فکر ہو کر آ جاؤ ۔۔۔۔۔۔ اس‬
‫دوسرے کے‬ ‫ہم دونوں ایک‬ ‫کیس کے بعد‬
‫اس‬ ‫اور‬ ‫تک کھل گئیں ہیں‬ ‫کافی حد‬ ‫ساتھ‬
‫مجھے تم سے اپنے‬ ‫پر‬ ‫نے خاص طور‬
‫دیر‬ ‫ہوا ہے۔۔۔۔۔اتنی‬ ‫بارے سب بتا یا‬ ‫تعلق‬
‫کال آفس واال بھی منہ میں سگریٹ‬ ‫وہ‬ ‫میں‬
‫چنانچہ اس کے‬ ‫آ گیا تھا‬ ‫واپس‬ ‫دبائے‬
‫بائے بائے‬ ‫بھابھی کو‬ ‫نے‬ ‫میں‬ ‫ہی‬ ‫آتے‬
‫دے کر باہر آ‬ ‫پیسے‬ ‫اور ۔۔۔۔۔۔۔کال کے‬ ‫کہا‬
‫ٹاپ کے‬ ‫کی دیوار‬ ‫گیا۔۔۔عذرا کے گھر‬
‫کہ‬ ‫کودا ۔۔۔تو دیکھا‬
‫جیسے ہی میں اندر ُ‬
‫بھابھی کھڑی تھی۔۔۔ میرے نیچے‬ ‫سامنے‬
‫میرے ساتھ لپٹ گئی۔۔۔۔اور‬ ‫وہ‬ ‫کودتے ہی‬
‫پر ہاتھ‬ ‫میرے جسم‬ ‫بے قرار ی سے‬ ‫بڑی‬
‫پولیس‬ ‫پھیرتے ہوئے پوچھنے لگی ۔۔کہ‬
‫وہ‬ ‫مارا۔۔۔؟ پھر‬ ‫نہیں‬ ‫والوں نے زیادہ تو‬
‫میرے گلے سے لگ گئیں ۔۔۔۔اور میری پشت‬
‫پولیس‬ ‫وہ‬ ‫ہوئے‬ ‫پر ہاتھ پھیرتے‬
‫رہی‬ ‫دیتی‬ ‫گالیاں‬ ‫بے تحاشہ‬ ‫کو‬ ‫والوں‬
‫بھابھی نے اپنا‬ ‫بعد‬ ‫دیر‬ ‫تھوڑی‬ ‫۔۔۔ پھر‬
‫منہ اوپر کیا ۔۔۔۔اور میرے ہونٹوں کو اپنے‬
‫چوسنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ میرے‬ ‫ہونٹوں میں لیکر‬
‫چوسنے کے‬ ‫طرح‬ ‫اچھی‬ ‫ہونٹوں کو‬
‫ہوئیں‬ ‫سے الگ‬ ‫وہ مجھ‬ ‫بعد۔۔۔۔‬
‫ہے اس‬ ‫شارٹ‬ ‫کہنے لگی۔۔۔ٹائم‬ ‫اور‬
‫سے مل لو ۔۔‬ ‫عذرا‬ ‫پہلے تم‬ ‫لیئے‬
‫وہ‬ ‫سے سوال کیا کہ ۔۔۔‬ ‫نے ان‬ ‫میں‬ ‫تو‬
‫کہنے‬ ‫وہ‬ ‫تو‬ ‫گے؟‬ ‫کب آئیں‬ ‫لوگ‬
‫آج‬ ‫تو‬ ‫لوگ‬ ‫وہ‬ ‫تو‬ ‫لگی ۔۔۔ ویسے‬
‫ہیں ۔۔ پھر بھی کچھ پتہ‬ ‫ہی آتے‬ ‫لیٹ‬ ‫کل‬
‫میرا‬ ‫وہ‬ ‫نہیں چلتا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی‬
‫کی طرف‬ ‫کے کمرے‬ ‫پکڑ کر عذرا‬ ‫ہاتھ‬
‫سے‬ ‫میں ۔۔۔ میں نے ان‬ ‫لے گئی۔۔راستے‬
‫ہمارے‬ ‫عذرا کو‬ ‫پوچھا ۔۔۔۔ کہ کیا‬
‫تو وہ‬ ‫پتہ ہے؟‬ ‫کچھ‬ ‫بارے‬ ‫تعلق‬
‫رک گئیں ۔۔۔۔اور پھر‬ ‫اچانک‬ ‫چلتے‬ ‫چلتے‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے‬
‫یہ‬ ‫لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہر گز نہیں۔۔۔۔پھر بولیں ۔۔۔‬
‫اس‬ ‫ہے‬ ‫ٹاپ سیکرٹ‬ ‫میرا‬ ‫اور‬ ‫تمہارا‬
‫دینا ۔۔۔‬ ‫رہنے‬ ‫ہی‬ ‫اس کو سیکرٹ‬ ‫لیئے‬
‫پہلے‬ ‫سے کچھ‬ ‫کے کمرے‬ ‫پھر عذرا‬
‫جیسا کہ میں‬ ‫اس نے‬ ‫بولی ۔۔ ہاں‬ ‫رک کر‬
‫سے پہلے بھی بات کی تھی۔۔۔۔تمہارے‬ ‫نے تم‬
‫مجھے‬ ‫تعلق کے بارے میں‬ ‫ساتھ اپنے‬
‫ہی‬ ‫دیا ہے۔۔۔۔ ۔۔۔ اس کے ساتھ‬ ‫بتا‬ ‫سب‬
‫پر ہلکی‬ ‫کمرے‬ ‫کے‬ ‫نے عذرا‬ ‫اس‬
‫دروازے کی‬ ‫دی۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر‬ ‫دستک‬ ‫سی‬
‫ہو گئی۔۔۔۔اور‬ ‫ہوئے اندر داخل‬ ‫ناب گھماتے‬
‫وقت‬ ‫ہوتے‬ ‫داخل‬ ‫میں‬ ‫کمر ے‬
‫کہنے لگی ۔۔۔۔جاتی‬ ‫مجھے‬ ‫سے‬ ‫آہستہ‬
‫مجھ سے مل کر جانا۔۔۔۔۔۔۔ اور میں‬ ‫دفعہ‬
‫ہم‬ ‫دیا۔۔اتنی دیر میں‬ ‫نے ہاں میں سر ہال‬
‫کمرے کے اندر داخل ہو چکے تھے ۔۔۔ بھابھی‬
‫کہنے‬ ‫اور‬ ‫دیکھا‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫نے عذرا‬
‫کون آیا‬ ‫تو عذرا۔۔۔ہمارے گھر‬ ‫لگی ۔۔۔ ۔۔دیکھو‬
‫کی‬ ‫عذرا‬ ‫ہی‬ ‫جیسے‬ ‫ہے؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔ ادھر‬
‫دوڑ کر میرے‬ ‫وہ‬ ‫پڑی‬ ‫پر‬ ‫نظر مجھ‬
‫پاس آئی۔۔اور۔۔۔۔پھر بھابھی کو دیکھ کر رک‬
‫ایک‬ ‫نے‬ ‫بھابھی‬ ‫دیکھ کر‬ ‫گئی۔۔۔۔۔ یہ‬
‫طرف‬ ‫کی‬ ‫عذرا‬ ‫پھر‬ ‫اور‬ ‫نظر مجھے‬
‫ہوئے‬ ‫کہتے‬ ‫دیکھا ۔۔۔۔اور پھر۔۔۔۔سوری‬
‫گئی اور‬ ‫نکل‬ ‫باہر‬ ‫سے‬ ‫کمرے‬
‫بند‬ ‫دروازہ بھی‬ ‫کا‬ ‫کمرے‬ ‫جاتے ہوئے‬
‫دروازہ‬ ‫نے‬ ‫بھابھی‬ ‫کر گئی۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے ہی‬
‫سے آگے‬ ‫بڑی بے تابی‬ ‫بند کیا ۔۔۔عذرا‬
‫بڑھی۔۔۔ اور میری طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔اس وقت‬
‫کے ہونٹ کپکپا‬ ‫میں نے دیکھا کہ عذرا‬
‫کا چہرہ دھواں دھواں‬ ‫تھے اور اس‬ ‫رہے‬
‫تھا کہ‬ ‫رہا‬ ‫لگ‬ ‫ایسا‬ ‫ہو رہا تھا۔۔ اور‬
‫سے‬ ‫سے۔۔۔وہ مجھ‬ ‫وہ مجھ‬ ‫جیسے‬
‫جزبات‬ ‫رہی ہو۔۔۔ لیکن‬ ‫چاہ‬ ‫کچھ کہنا‬ ‫بہت‬
‫سے کچھ‬ ‫وجہ‬ ‫کی‬ ‫کی شدت‬
‫ت‬
‫پا رہی ہو ۔ اس وقت وہ راح ِ‬ ‫نہ‬ ‫کہہ‬
‫جاں سخت کرب و بال میں مبتال نظر آ رہی تھی‬
‫و‬ ‫۔۔۔ گزرے ہوئے گزشتہ دنوں کے ظلم‬
‫بڑی بڑی‬ ‫کی‬ ‫کا عکس اس‬ ‫جبر‬
‫پڑھا جا سکتا تھا۔۔۔۔۔۔‬ ‫آنکھوں میں صاف‬
‫نہیں‬ ‫میں بھی‬ ‫میں نے کبھی سپنے‬
‫دوشیزہ‬ ‫حسین‬ ‫میں اس‬ ‫سوچا تھا کہ‬
‫گا‬ ‫دیکھوں‬ ‫کو کبھی اس حال میں بھی‬
‫مالقات پر‬ ‫کے ساتھ اس‬ ‫عذرا‬ ‫۔دفعتا ً‬
‫مجھے حبیب جالب کی غزل کا ایک شعر یاد‬
‫ہمارے‬ ‫آ گیا جو کہ اس وقت ہُو ب ُہو‬
‫اوپر صادق آ رہا تھا ۔۔۔جو یوں تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔جو‬
‫ہو نہ سکی بات وہ چہروں سے عیاں تھی۔۔۔۔‬
‫حاالت کا ماتم تھا مالقات کہاں تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کافی‬
‫پتھرائی‬ ‫کھڑی ۔۔۔‬ ‫دیر تک وہ خاموش‬
‫سے ۔۔۔۔ مجھے اور میں اس کی‬ ‫ہوئی آنکھوں‬
‫طرف دیکھتا رہا ۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ اس کے‬
‫ضبط کے سارے بندھن ٹوٹ گئے ۔۔۔۔اور ۔۔۔وہ‬
‫مجھ سے لپٹ‬ ‫دم‬ ‫آگے بڑھی اور ایک‬
‫رونے‬ ‫قطار‬ ‫و‬ ‫پھر زار‬ ‫گئی۔۔۔ اور‬
‫ساتھ‬ ‫ساتھ‬ ‫اور‬ ‫لگی۔۔۔ وہ روتی جاتی‬
‫یہ کیا ہو گیا شاہ ؟؟؟؟ ۔۔یہ‬ ‫جاتی ۔۔۔‬ ‫کہتی‬
‫تو‬ ‫نے‬ ‫کیسے ہو گیا ؟؟؟ ۔۔۔اس واقعہ‬
‫برباد کر کے رکھ‬ ‫کو‬ ‫زندگی‬ ‫میری‬
‫کہنے‬ ‫روتے‬ ‫دیا ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔پھر روتے‬
‫لوگوں‬ ‫گی۔۔۔ نبیلہ کے جانے کے بعد ان‬
‫ہیں‬ ‫ڈھائے‬ ‫بڑے ظلم‬ ‫پر‬ ‫نے مجھ‬
‫ہے اور سارا‬ ‫مجھے کمرے میں بند رکھا‬
‫سارا دن کھانے پینے کو کچھ نہیں دیا۔۔۔۔۔میرے‬
‫پابندی لگا دی‬ ‫پر بھی‬ ‫کہیں آنے جانے‬
‫ذہنی‬ ‫پر بہت زیادہ‬ ‫ہے۔۔۔اور مجھ‬
‫ہے اور تو اور‬ ‫گیا‬ ‫ٹارچر کیا‬ ‫و جسمانی‬
‫میرے‬ ‫والے‬ ‫مجھ پر جان چھڑکنے‬
‫۔۔‬ ‫بہت مارا ہے‬ ‫مجھے‬ ‫بھی‬ ‫بھائی نے‬
‫جو‬ ‫کر میں‬ ‫۔۔۔۔ عذرا کو روتے دیکھ‬
‫پریشان تھا ۔۔۔۔۔اور‬ ‫کافی‬ ‫پہلے ہی‬
‫مارنے‬ ‫بارے‬ ‫بھی پریشان ہو گیا۔۔۔ اپنے‬
‫عذرا‬ ‫ہی‬ ‫اچانک‬ ‫بات کرتے کرتے‬ ‫کی‬
‫ہاتھ‬ ‫میری کمر پر‬ ‫اور‬ ‫اُٹھایا‬ ‫نے سر‬
‫کیا‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جان‬ ‫پھیرتے ہوئے‬
‫بہت‬ ‫نے‬ ‫ہے کہ تم کو پولیس‬ ‫یہ سچ‬
‫میں سر‬ ‫اثبات‬ ‫نے‬ ‫میں‬ ‫تو‬ ‫تھا؟‬ ‫مارا‬
‫اس‬ ‫ہی‬ ‫سنتے‬ ‫بات‬ ‫دیا۔۔۔۔ میری‬ ‫ہال‬
‫میری‬ ‫میں‬ ‫انداز‬ ‫جزباتی‬ ‫ہی‬ ‫بڑے‬ ‫نے‬
‫پھیرتے ہوئے کہا۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کہاں‬ ‫پر ہاتھ‬ ‫کمر‬
‫اس کی بات سن کر میں‬ ‫مارا ہے ؟‬ ‫کہاں‬
‫دیکھا‬ ‫اس کی طرف‬ ‫ہوئے‬ ‫نے مسکرا تے‬
‫تھوڑا‬ ‫سے‬ ‫مجھ‬ ‫بوال۔۔۔۔۔۔۔ تم‬ ‫اور‬
‫کچھ‬ ‫تب ہی میں‬ ‫تو‬ ‫گی‬ ‫ہٹو‬
‫وہ‬ ‫کر‬ ‫بات سن‬ ‫میری‬ ‫ناں؟‬ ‫گا‬ ‫بتاؤں‬
‫ہوئے‬ ‫چپکتے‬ ‫مزید‬ ‫ساتھ‬ ‫میرے‬
‫دنوں‬ ‫سے کہنے لگی ۔۔ اتنے‬ ‫بڑے الڈ‬
‫بعد ملے ہو۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔اس لیئے جان۔۔۔ میں نے‬
‫الگ نہیں ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫سے کوئی‬ ‫تم‬
‫میری‬ ‫تو‬ ‫ابھی‬ ‫پھر کہنے لگی۔۔۔۔اور‬
‫ہوئی ۔ ۔۔ اس‬ ‫نہیں‬ ‫ختم‬ ‫بھی‬ ‫اداسی‬
‫بتاؤ۔۔۔ تب‬ ‫ہی‬ ‫ایسے‬ ‫مجھے‬ ‫تم‬ ‫لیئے‬
‫بتا‬ ‫ساری تفصیل‬ ‫میں نے اس کو مختصراً‬
‫جزباتی‬ ‫بڑی‬ ‫وہ‬ ‫دی ۔۔۔ جسے سن کر‬
‫رونے لگی ۔۔۔ یہ‬ ‫پھر سے‬ ‫اور‬ ‫ہو گئی‬
‫کے آنسو‬ ‫دیکھ کر میں آگے بڑھا۔۔۔۔اور اس‬
‫۔۔۔‬ ‫بتاؤ‬ ‫بوال۔۔۔۔۔۔اب تم‬ ‫ہوئے‬ ‫پونجھتے‬
‫اس‬ ‫تو‬ ‫بیتی ؟؟‬ ‫تمہارے ساتھ کیا‬ ‫کہ‬
‫گھر‬ ‫بتایا کہ نبیلہ کے‬ ‫نے مختصراً‬
‫کے‬ ‫بعد ۔۔۔۔۔ اس‬ ‫کے‬ ‫بھاگنے‬ ‫سے‬
‫ساتھ‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫ابو‬ ‫اور‬ ‫بھائی‬ ‫بڑے‬
‫۔۔۔ اور‬ ‫پیش آئے‬ ‫کے ساتھ‬ ‫بڑی سختی‬
‫سوال‬ ‫ہی‬ ‫ایک‬ ‫سے‬ ‫مجھ‬ ‫بار‬ ‫بار‬
‫نبیلہ کہاں‬ ‫بتاؤ‬ ‫کہ‬ ‫رہے‬ ‫کرتے‬
‫بھی‬ ‫گئی ہے ؟؟ ۔۔۔۔ اور اس کے باوجود‬
‫اسے‬ ‫رہی کہ‬ ‫الکھ کہتی‬ ‫وہ‬ ‫کہ‬
‫کا‬ ‫اس‬ ‫نہیں معلوم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن‬ ‫کچھ‬
‫یہ بات‬ ‫اس کی‬ ‫والد‬ ‫ا ور‬ ‫بھائی‬
‫تھے۔کہ‬ ‫کے لیئے ہر گز تیار نہیں‬ ‫ماننے‬
‫گھر سے بھاگتے ہوئے نبیلہ نے اس کو کچھ‬
‫ہر بار اس سے ایک ہی‬ ‫نہیں بتایا ۔۔ ۔۔۔ وہ‬
‫کہ بتاؤ ۔۔ نبیلہ کہاں گئی‬ ‫سوال پوچھتے‬
‫نبیلہ کے بارے میں پوچھنے‬ ‫ہے؟؟؟؟۔۔۔ اور‬
‫نہیں‬ ‫سے بھی گریز‬ ‫کے لیئے اس پر تشدد‬
‫بند‬ ‫جانا بھی‬ ‫کالج‬ ‫اس کا‬ ‫کیا۔۔۔ ۔۔۔اور‬
‫ہفتے‬ ‫اگلے‬ ‫کر دیا ہے۔۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔اب‬
‫ُرخصتی‬ ‫کی‬ ‫ہے۔۔۔ اس‬ ‫ُرخصتی‬ ‫میری‬
‫اور‬ ‫بکا رہ گیا‬ ‫ہکا‬ ‫سن کر میں‬ ‫کا‬
‫سے‬ ‫اس‬ ‫کے ساتھ‬ ‫حیرانی‬ ‫بڑی‬
‫؟؟؟؟ ۔۔اتنی‬ ‫ُرخصتی‬ ‫پوچھا کہ ۔۔تمہاری‬
‫رہی‬ ‫پڑھ‬ ‫تم‬ ‫تو‬ ‫لیکن ۔۔۔ابھی‬ ‫جلدی ؟؟؟‬
‫بڑی‬ ‫دیکھ کر‬ ‫میری طرف‬ ‫ہو۔۔۔۔۔۔ تو وہ‬
‫سے کہنے لگی۔۔ ۔۔۔۔۔۔ کہاں کی‬ ‫افسردگی‬
‫ہے کہ‬ ‫تو‬ ‫بتایا‬ ‫تمہیں‬ ‫پڑھائی؟؟ ۔۔۔۔‬
‫کر‬ ‫بند‬ ‫جانا‬ ‫کالج‬ ‫نے میرا‬ ‫انہوں‬
‫سے کہا گیا ہے کہ اگر تم‬ ‫دیا ہے۔۔۔۔ اور مجھ‬
‫لوگ یہی کچھ کالج میں پڑھتے ہو تو‬
‫ضرورت‬ ‫ایسی پڑھائی کو کوئی‬ ‫ہمیں‬
‫نہیں۔۔۔اس پر میں نے اس سے کہا کہ تم نے‬
‫احتجاج‬ ‫فیصلے پر کوئی‬ ‫ان کے اس‬
‫ساتھ مزید‬ ‫میرے‬ ‫تو وہ‬ ‫نہیں کیا۔۔ ؟‬
‫سے‬ ‫افسردگی‬ ‫ہوئے بڑی‬ ‫چپکتے‬
‫کیا کروں جان۔۔۔۔‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ احتجاج‬
‫ہیں‬ ‫گئے‬ ‫بن‬ ‫ایسے‬ ‫کچھ‬ ‫ہی‬ ‫حاالت‬
‫چاہ کر بھی کچھ نہیں کر سکتی ۔۔۔‬ ‫میں‬ ‫کہ‬
‫طرف‬ ‫میری‬ ‫کر‬ ‫نے سر اُٹھا‬ ‫پھر اس‬
‫بتاؤ۔۔۔۔‬ ‫دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ایک بات تو‬
‫بھائی‬ ‫امجد‬ ‫ہے کہ‬ ‫معلوم‬ ‫۔۔۔۔۔۔ مجھے‬
‫قریب تھا ۔۔۔اس کے باوجود‬ ‫بہت‬ ‫تمہارے‬
‫بھاگنے‬ ‫سے‬ ‫سے ۔۔گھر‬ ‫اس نے تم‬ ‫بھی‬
‫ذکر‬ ‫کوئی‬ ‫میں‬ ‫بارے‬ ‫کے‬
‫سن کر میں‬ ‫بات‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫نہیں کیا؟‬
‫بوال۔۔۔ ۔۔۔‬ ‫ہوئے‬ ‫دیکھتے‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫اس‬
‫دور‬ ‫تو‬ ‫ذکر‬ ‫ظالم نے‬ ‫یار ۔۔۔ اس‬ ‫نہیں‬
‫تک‬ ‫اشارہ‬ ‫بارے کوئی‬ ‫بات ۔۔۔اس‬ ‫کی‬
‫سر‬ ‫وہ‬ ‫کر‬ ‫سن‬ ‫بات‬ ‫کیا۔۔۔۔ میری‬ ‫نہیں‬
‫حال‬ ‫لگی ۔۔ یہی‬ ‫کہنے‬ ‫ہالتے ہوئے‬
‫نا‬ ‫ہے۔۔۔ دیکھو‬ ‫ہوا‬ ‫ساتھ بھی‬ ‫میرے‬
‫فرینڈ تھی۔۔۔۔اور‬ ‫فاسٹ‬ ‫میری کتنی‬ ‫نبیلہ‬
‫دونوں اکھٹی‬ ‫تک ہم‬ ‫سے لیکر آج‬ ‫بچپن‬
‫بھاگتے‬ ‫سے‬ ‫گھر‬ ‫ہیں۔۔۔۔ لیکن‬ ‫رہیں‬
‫بھی‬ ‫مجھے‬ ‫نے‬ ‫کمینی‬ ‫اس‬ ‫ہوئے‬
‫دی۔۔ایک دوسرے‬ ‫لگنے‬ ‫نہیں‬ ‫تک‬ ‫ہوا‬
‫۔۔۔۔ ہم‬ ‫ہوئے‬ ‫چپکے‬ ‫ساتھ بُری طرح‬ ‫کے‬
‫باتیں کرتے‬ ‫تک آپس میں‬ ‫دیر‬ ‫کافی‬
‫چپکنا ۔۔۔۔اس‬ ‫ساتھ‬ ‫میرے‬ ‫کا‬ ‫رہے۔۔۔۔۔۔عذرا‬
‫گداز‬ ‫اس کے‬ ‫بدن کی نرمی ۔۔۔۔‬ ‫کے‬
‫اس کا‬ ‫کی گرمی۔۔۔۔اور خاص طور پر‬ ‫جسم‬
‫چپکنا‬ ‫سے‬ ‫سے مجھ‬ ‫کچھ اس طرح‬
‫نرم و‬ ‫سے اس کا‬ ‫وجہ‬ ‫کی‬ ‫کہ جس‬
‫گداز جسم۔میرے جسم کے ایک ایک حصے کو‬
‫بڑے‬ ‫سے‬ ‫ُچھو رہا ہو ۔۔۔۔۔۔ کی وجہ‬
‫پیدا‬ ‫اند ر حرارت‬ ‫میرے‬ ‫بعد‬ ‫کے‬ ‫دنوں‬
‫وجہ‬ ‫ہو گئی۔۔۔۔ جس کی‬ ‫شروع‬ ‫ہونا‬
‫میرا‬ ‫سے ۔۔۔۔ دھیرے دھیرے ۔۔۔۔۔۔ ہی سہی‬
‫سے بیدار ہو کر ۔۔۔۔‬ ‫نیند‬ ‫۔۔۔پپو‬
‫بڑھنے‬ ‫کی طرف‬ ‫نرمی سے سختی‬
‫رانوں پر‬ ‫لگا۔۔۔ادھر جیسے ہی اسے اپنی‬
‫ہوئی۔۔۔۔۔‬ ‫محسوس‬ ‫۔۔۔۔۔ پپو کی سختی‬ ‫میرے‬
‫میری طرف دیکھا ۔۔۔اور‬ ‫ایک نظر‬ ‫نے‬ ‫اس‬
‫ابھار‬ ‫والے‬ ‫میں بننے‬ ‫پینٹ‬ ‫پھر۔۔۔۔میری‬
‫ہوئے‬ ‫کرتے‬ ‫اشارہ‬ ‫کی طرف‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔اسے کیا‬ ‫سے‬ ‫شوخی‬ ‫بڑی‬
‫کھڑے‬ ‫میں نے اپنے نیم‬ ‫تو‬ ‫ہے؟‬ ‫ہوا‬
‫ران پر‬ ‫نرم‬ ‫لن کو اس کی مکھن جیسی‬
‫بدن کی‬ ‫ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمہارے‬ ‫رگڑتے‬
‫سے بیدار‬ ‫گرمی نے اسے بھی نیند‬
‫تم تو جانتی ہی‬ ‫ہے۔۔۔ ۔۔۔۔ ورنہ‬ ‫دیا‬ ‫کر‬
‫کرنے کے‬ ‫ہو کہ ان حاالت میں ۔۔۔ پیشاب‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ تو‬ ‫نہ‬ ‫کام‬ ‫اسے اور کوئی‬ ‫عالوہ‬
‫پر ہاتھ‬ ‫ابھار‬ ‫پینٹ پر بنے‬ ‫وہ میری‬
‫سے‬ ‫الڈ‬ ‫بڑے‬ ‫ہوئے‬ ‫پھیرتے‬
‫بیٹھ جائے‬ ‫اسے کہو‬ ‫لگی۔۔۔‬ ‫کہنے‬
‫دیکھ‬ ‫کھڑا‬ ‫کو‬ ‫پپو‬ ‫اس‬ ‫کہ۔۔۔۔تمہارے‬
‫ہونے لگا‬ ‫کچھ کچھ‬ ‫بھی‬ ‫مجھے‬ ‫کر‬
‫نے‬ ‫عذرا‬ ‫ہے۔۔۔ اس کے ساتھ ہی‬
‫ہی‬ ‫جیسے‬ ‫ہوئے‬ ‫میری طرف دیکھتے‬
‫تو‬ ‫کیا‬ ‫کی طرف‬ ‫اوپر‬ ‫منہ کو‬ ‫اپنے‬
‫اس کے گالوں پر‬ ‫سے‬ ‫نے جلدی‬ ‫میں‬
‫دے دی ۔۔تو وہ میرے ساتھ‬ ‫چمی‬ ‫ایک‬
‫آلود لہجے‬ ‫ہوئے خمار‬ ‫لپٹتے‬ ‫مزید‬
‫۔۔۔‬ ‫کرو جان‬ ‫بولی ۔۔۔ میری جان!۔۔۔یقین‬ ‫میں‬
‫ہی نہیں۔۔۔ بلکہ‬ ‫پپو کو‬ ‫تمہارے‬ ‫گرمی‬
‫چڑھ‬ ‫مجھ پر بھی‬ ‫اسے دیکھ کر‬
‫اس‬ ‫ہی‬ ‫ساتھ‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫ہے۔۔۔۔ اور‬ ‫رہی‬
‫ایڈجسٹ‬ ‫تھوڑا‬ ‫کو‬ ‫رانوں کو‬ ‫نے اپنی‬
‫لن‬ ‫سے ۔۔۔۔۔ میرا‬ ‫وجہ‬ ‫کی‬ ‫کیا ۔۔۔۔ جس‬
‫ران‬ ‫سلکی‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫وقت‬ ‫جو کہ اس‬
‫ایڈجسمنٹ‬ ‫تھا ۔۔۔ نئی‬ ‫ٹچ کر رہا‬ ‫کو‬
‫ران کو‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫سے‬ ‫وجہ‬ ‫کی‬
‫کی‬ ‫اس‬ ‫اب ۔۔۔ڈائیریکٹ‬ ‫کر‬ ‫چھوڑ‬
‫تھا ۔۔۔‬ ‫رہا‬ ‫چوم‬ ‫کو‬ ‫پھدی کے ابھار‬
‫کی‬ ‫اس‬ ‫لن نے‬ ‫میرے‬ ‫ہی‬ ‫جیسے‬
‫ابھار کو ( اس کی پھدی کافی‬ ‫کے نرم‬ ‫پھدی‬
‫پھر اس نرم‬ ‫ابھری ہوئی تھی )۔۔۔۔۔۔۔۔اور‬
‫اپنے‬ ‫لبوں کو‬ ‫نرم‬ ‫کے‬ ‫ابھار‬
‫وہ‬ ‫محسوس کیا ۔۔۔تو‬ ‫سامنے‬ ‫کے‬ ‫ٹوپے‬
‫گیا‬ ‫آ‬ ‫میں‬ ‫جوش‬ ‫سے‬ ‫دم‬ ‫ایک‬
‫اپنے‬ ‫نے‬ ‫میں‬ ‫اور۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی‬
‫کے‬ ‫چوت‬ ‫گرم‬ ‫کی‬ ‫کو اس‬ ‫۔۔۔۔۔۔ ٹوپے‬
‫کر‬ ‫شروع‬ ‫رگڑنا‬ ‫پر‬ ‫لبوں‬ ‫نرم‬
‫بھاری‬ ‫کی‬ ‫عذرا‬ ‫اور‬ ‫دیا۔۔۔۔۔۔۔‬
‫رکھ‬ ‫ہاتھ‬ ‫ایک‬ ‫اپنا‬ ‫پر‬ ‫چھاتیوں‬
‫دبانے‬ ‫اسے‬ ‫دھیرے‬ ‫دھیرے‬ ‫دیا ۔۔۔۔اور‬
‫منہ‬ ‫نے اپنا‬ ‫عذرا‬ ‫کر‬ ‫لگا۔۔۔۔۔ یہ دیکھ‬
‫اپنی‬ ‫کے‬ ‫کر‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫چھت‬
‫میری‬ ‫بند کر لیں ۔۔۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫آنکھیں‬
‫مزہ‬ ‫بھر پور‬ ‫مستی بھری چھیڑ چھاڑ کا‬
‫لینے لگی۔۔۔۔۔اس طرح کی چھیڑ چھاڑ‬ ‫لے‬
‫کا‬ ‫دونوں پر شہوت‬ ‫سے ۔۔۔۔۔ آہستہ آہستہ ہم‬
‫تھا ۔کچھ دیر تک‬ ‫لگا‬ ‫چڑھنے‬ ‫نشہ‬
‫لینے‬ ‫مزہ‬ ‫کا‬ ‫چھیڑ چھاڑ‬ ‫میری جنسی‬
‫آئی۔۔۔‬ ‫کیا‬ ‫کے بعد جانے اس کے من میں‬
‫کھولیں‬ ‫آنکھیں‬ ‫نے اپنی‬ ‫اچانک اس‬ ‫کہ‬
‫لگی۔۔۔۔ جان یہ تو‬ ‫پوچھنے‬ ‫مجھ سے‬ ‫۔۔۔۔اور‬
‫کہاں‬ ‫تم کو‬ ‫والوں نے‬ ‫بتاؤ کہ پولیس‬
‫اپنی‬ ‫نے‬ ‫تھا؟اس پر میں‬ ‫مارا‬ ‫کہاں‬
‫کر دیا۔۔۔تو وہ تڑپ‬ ‫اشارہ‬ ‫کمر کی طرف‬
‫۔۔اور میری‬ ‫آ گئی‬ ‫پیچھے‬ ‫کر میرے‬
‫کہنے لگی ۔۔۔۔۔‬ ‫پھیرتے ہوئے‬ ‫ہاتھ‬ ‫کمر پر‬
‫دکھاؤ۔۔۔ اس کے کہنے‬ ‫مجھے‬ ‫اتار کر‬ ‫شرٹ‬
‫نے اپنی شرٹ اتار دی۔۔۔اور اس‬ ‫پر میں‬
‫دی ۔ یہ‬ ‫کمر کر‬ ‫ننگی‬ ‫سامنے اپنی‬ ‫کے‬
‫میری‬ ‫بڑھی ۔۔۔۔اور‬ ‫آگے‬ ‫وہ‬ ‫دیکھ کر‬
‫کہنے لگی‬ ‫ہوئے‬ ‫لیتے‬ ‫جائزہ‬ ‫کمر کا‬
‫تو‬ ‫پر‬ ‫کمر‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جان۔۔ تمہاری‬
‫ہیں‬ ‫ہوئے‬ ‫پڑے‬ ‫نشان‬ ‫جگہ جگہ‬
‫نے جزباتی‬ ‫اس‬ ‫کے ساتھ ہی‬ ‫اس‬ ‫اور‬
‫چومنا‬ ‫کمر کو‬ ‫میری ننگی‬ ‫کر‬ ‫ہو‬
‫پر بنے ایک ایک‬ ‫شروع کر دیا۔۔وہ میری کمر‬
‫اور ساتھ کہتی‬ ‫نشان کو چومتی جاتی‬
‫جان کو‬ ‫نے میری‬ ‫۔۔ظالمو ۔۔تم‬ ‫جاتی‬
‫دردی سے مارا ہے۔۔۔۔۔ اس کی‬ ‫بے‬ ‫کتنی‬
‫میرے‬ ‫جگہ تم مجھے مار لیتے ۔۔۔۔ لیکن‬
‫جیسے‬ ‫پھر‬ ‫کو کچھ نہ کہتے ۔۔۔‬ ‫محبوب‬
‫کمر پر اپنے‬ ‫میری ننگی‬ ‫عذرا‬ ‫جیسے‬
‫جاتی‬ ‫ثبت کرتی‬ ‫نشان‬ ‫ہونٹوں کے‬
‫تو ۔۔۔۔ تو ویسے ویسے میرے تن بدن میں‬
‫۔۔۔۔ اس کے یوں‬ ‫جاتی‬ ‫ٹھنڈک سی پڑتی‬
‫میرے بدن کو‬ ‫میں‬ ‫انداز‬ ‫بھرے‬ ‫پیار‬
‫تاثیر‬ ‫آ گئی‬ ‫روح تک‬ ‫چومنے سے "‬
‫مجھے ایسے محسوس‬ ‫کی" ۔۔۔۔۔اور‬ ‫مسیحائی‬
‫کی مسیحائی‬ ‫ہو رہا تھا کہ جیسے اس‬
‫گئے‬ ‫ہو‬ ‫مندل‬ ‫میرے سارے زخم‬ ‫سے‬
‫میری رہی سہی درد بھی اس‬ ‫ہیں ۔۔۔۔ اس طرح‬
‫عالج سے ختم‬ ‫بھرے‬ ‫محبت‬ ‫کے اس‬
‫ہوتی جا رہی تھی۔۔۔۔ ادھر میری کمر پر اس‬
‫کے لگا تار بوسوں نے ۔۔ میرے لن کی حالت‬
‫خراب کر دیا تھا۔۔۔اور وہ اتنی‬ ‫کو مزید‬
‫کھڑا ہو گیا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس‬ ‫سختی کے ساتھ‬
‫اپنے لن‬ ‫مجھے‬ ‫کی وجہ سے‬ ‫سختی‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔پھر‬ ‫محسوس ہو رہا‬ ‫میں درد سا‬
‫اچانک میرے زہن میں ایک آئیڈیا آیا ۔اور‬
‫پینٹ کی زپ کھولی‬ ‫میں نے جلدی سے‬
‫۔۔۔۔۔۔اور اپنے لن کو پینٹ سے باہر نکال لیا۔۔۔‬
‫پیچھے کیا‬ ‫میں نے اپنا ایک ہاتھ‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔پھر‬
‫بڑے پیار سے اس کے سر پر پھیرے‬ ‫اور‬
‫جان۔۔۔۔۔۔ مجھے یہاں‬ ‫میری‬ ‫ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔عذرا‬
‫ہو رہی ہے۔۔میری‬ ‫محسوس‬ ‫بھی بہت درد‬
‫پہ چپکے‬ ‫بات سن کر اس نے میری کمر‬
‫تڑپ کر‬ ‫اپنے ہونٹ ہٹائے اور‬ ‫ہوئے‬
‫مارا‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔ کیا ظالموں نے ادھر بھی‬
‫بنا کر‬ ‫منہ‬ ‫میں نے پکا سا‬ ‫ہے ؟؟؟؟؟تو‬
‫لو‬ ‫دیکھ‬ ‫کر خود‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔ آ‬ ‫اس سے کہا‬
‫میرے‬ ‫وہ‬ ‫ہی‬ ‫بات سنتے‬ ‫۔۔ ۔۔۔۔ میری‬
‫طرف‬ ‫کی‬ ‫ہوئی آگے‬ ‫بھاگتی‬ ‫پیچھے سے‬
‫سے میرے سامنے‬ ‫دم‬ ‫۔۔۔۔۔ ایک‬ ‫اور‬ ‫آئی‬
‫ہو گئی۔۔۔۔اور تشویش بھرے‬ ‫کھڑی‬ ‫آ‬
‫لہجے میں بولی ۔۔۔۔ کہاں مارا ہے دکھاؤ‬
‫مجھے؟ تو میں نے نیچے کی طرف اشارہ‬
‫کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے ہی اس کی نظر میرے‬
‫ہوئے لن پر پڑی۔۔ تو اسے دیکھ کر‬ ‫اکڑے‬
‫سی‬ ‫حیوانی‬ ‫میں ایک‬ ‫کی آنکھوں‬ ‫اس‬
‫طرف‬ ‫میری‬ ‫پھر‬ ‫آ گئی ۔۔۔اور‬ ‫چمک‬
‫میرے لن کو‬ ‫اس نے‬ ‫ہوئے‬ ‫دیکھتے‬
‫اور اسے‬ ‫اپنے نازک ہاتھ میں پکڑا‬
‫لگی ۔۔۔۔۔۔۔ اس کا‬ ‫کہنے‬ ‫ہوئے‬ ‫ہالتے‬
‫پھر‬ ‫درد تو میں خوب سمجھتی ہوں۔۔۔۔ اور‬
‫ہلکی‬ ‫ہاتھ میں پکڑ کر‬ ‫میرے لن‬ ‫وہ‬
‫مارتے‬ ‫مارنے لگی۔۔۔۔ ُمٹھ‬ ‫ُمٹھ‬ ‫ہلکی‬
‫منہ کو‬ ‫اچانک ہی اس نے اپنے‬ ‫مارے‬
‫اپنی زبان‬ ‫پھر‬ ‫طرف بڑھایا ۔۔۔اور‬ ‫میری‬
‫میرے سامنے‬ ‫کر اسے‬ ‫کو باہر نکال‬
‫لہرانے لگی ۔۔۔۔۔ جیسے ہی عذرا کی لمبی‬
‫کر‬ ‫باہر نکل‬ ‫اسکے منہ سے‬ ‫زبان‬
‫پوز‬ ‫یہ سیکسی‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫لہرائی ۔۔۔۔تو‬
‫جلدی سے اپنا‬ ‫دیکھ کر میں نے بھی‬
‫پورا منہ‬ ‫بڑھا۔۔۔۔اور‬ ‫کی طرف‬ ‫منہ آگے‬
‫زبان کو‬ ‫ہوئی‬ ‫کھول کر اس کی لہراتی‬
‫لے لیا۔۔۔۔اور اسے‬ ‫اپنے منہ میں‬
‫سے آنے‬ ‫کے منہ‬ ‫لگا ۔۔۔۔ اس‬ ‫چوسنے‬
‫کے‬ ‫زبان‬ ‫کی‬ ‫والی مہک ۔۔۔اور اس‬
‫تھا‬ ‫دیا‬ ‫کر‬ ‫مست‬ ‫مجھے‬ ‫نے‬ ‫ذائقے‬
‫کے ساتھ‬ ‫پیار‬ ‫ہی‬ ‫بڑے‬ ‫میں‬ ‫۔۔اور‬
‫تھا‬ ‫چوس رہا‬ ‫زبان کو‬ ‫کی‬ ‫اس‬
‫میرے‬ ‫کو‬ ‫منہ‬ ‫اپنے‬ ‫پھر‬ ‫۔۔۔۔اور‬
‫میری‬ ‫وہ‬ ‫مالئے کبھی‬ ‫سے‬ ‫منہ‬
‫لیتی‬ ‫لے‬ ‫میں‬ ‫منہ‬ ‫اپنے‬ ‫کو‬ ‫زبان‬
‫کی زبان‬ ‫اس‬ ‫میں‬ ‫اور کبھی‬ ‫تھی‬
‫کر‬ ‫مال‬ ‫زبان کے ساتھ‬ ‫اپنی‬ ‫کو‬
‫بھر پور‬ ‫کا‬ ‫محبت‬ ‫اپنی‬ ‫اس کے ساتھ‬
‫کسنگ‬ ‫ٹنگ‬ ‫اظہار کر تا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس‬
‫بڑے جوش و خروش‬ ‫وہ‬ ‫دوران‬ ‫کے‬
‫پکڑے‬ ‫ہاتھ میں‬ ‫اپنے‬ ‫ساتھ‬ ‫کے‬
‫کر‬ ‫میرے لن کو آگے پیچھے بھی‬ ‫ہوئے‬
‫رہی تھی جبکہ اوپر میں اس سے بھی ڈبل‬
‫اس کی ٹیسٹی زبان کو چوس‬ ‫جوش کے ساتھ‬
‫رہا تھا۔۔۔عذرا کی زبان چوستے چوستے‬
‫میں نے اپنا ایک ہاتھ بڑھا کر اس‬ ‫اچانک‬
‫رکھ دیا ۔۔۔۔اور اسے‬ ‫کے بھاری چھاتی پر‬
‫عذرا نے‬ ‫ہلکا ہلکا دبانے لگا۔۔۔ یہ دیکھ کر‬
‫ہوا ۔۔۔اپنا ہاتھ ہٹایا اور‬ ‫لن پر رکھا‬ ‫میرے‬
‫ہوئے‬ ‫۔۔۔۔۔۔ اپنی قمیض کو اوپر کر تے‬
‫ابھی‬ ‫آواز میں بولی ۔۔۔ جیسے‬ ‫نشیلی سی‬
‫زبان چوسی ہے نا ایسے ہی‬ ‫تم نے میری‬
‫چوسو۔۔۔۔ اور اسی دوران‬ ‫کو بھی‬ ‫میرے نپلز‬
‫اپنی دونوں چھاتیوں کو ننگا کر دیا‬ ‫نے‬ ‫اس‬
‫ہوئے پھر‬ ‫سامنے کرتے‬ ‫۔۔۔ اور ان کو میرے‬
‫پکڑ‬ ‫ہاتھ میں‬ ‫اپنے‬ ‫سے میرے لن کو‬
‫اسے‬ ‫میں‬ ‫بھرے انداز‬ ‫لیا۔۔۔اور مستی‬
‫نے‬ ‫دباتے اس‬ ‫لگی۔۔۔ لن کو دباتے‬ ‫دبانے‬
‫اپنی مست نظروں سے میری طرف دیکھا ۔۔ پھر‬
‫چھاتیوں کی طرف اشارہ‬ ‫سی‬ ‫بڑی‬ ‫اپنی‬
‫ان‬ ‫میری‬ ‫کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔ جان !۔۔۔۔ آج‬
‫چھاتیوں کو اتنا چوسو کہ ان میں سے دودھ‬
‫نکل آئے۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے ایک نظر‬
‫اس کی بھاری چھاتیوں پر ڈالی ۔۔تو دیکھا‬
‫چھاتیوں پر‬ ‫ان بھاری‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫کہ‬
‫اس کے ہلکے براؤن رنگ کے نپلز اکڑے‬
‫نپلز کی طرف‬ ‫کھڑے تھے ۔۔۔ مجھے اپنے‬
‫وہ کہنے‬ ‫ہوئے‬ ‫دیکھتے‬ ‫بڑے غور سے‬
‫ہو جان ! ۔۔ پھر‬ ‫دیکھتے‬ ‫لگی۔۔۔ کیا‬
‫مار کر بولی ۔۔۔۔۔ جس‬ ‫آنکھ‬ ‫میری طر ف‬
‫کے‬ ‫ٹانگوں‬ ‫تمہاری دونوں‬ ‫طرح نیچے‬
‫نا‬ ‫ہے‬ ‫کھڑا‬ ‫اکڑا‬ ‫تمہار ا شیر‬ ‫بیچ‬
‫میری چھاتیوں کی طرف‬ ‫ہی‬ ‫۔۔۔ ویسے‬
‫بجائے‬ ‫ایک کی‬ ‫کو‬ ‫دیکھو ۔۔۔۔۔ یہاں تم‬
‫ملیں گے۔۔۔۔۔‬ ‫ہوئے‬ ‫اکڑے‬ ‫نپلز‬ ‫دو دو‬
‫میں نے ایک نظر عذرا‬ ‫اس کی بات سن کر‬
‫شرارت بھرے‬ ‫پھر‬ ‫کی طرف دیکھا ۔۔۔۔اور‬
‫ایسا کرتے ہیں کہ‬ ‫لہجے میں بوال۔۔چلو‬
‫اکڑے ہوئے نپلز‬ ‫دو دو‬ ‫ان‬ ‫میں تمہارے‬
‫کو اپنے منہ میں لے کر چوستا ہوں‬
‫میں تم میرے ایک‬ ‫بدلے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫شیر کو اپنے منہ میں لے لو۔۔۔۔۔۔ میری بات‬
‫سرخ‬ ‫کا رنگ‬ ‫سن کر اس کے چہرے‬
‫پھر وہ اپنے ہونٹوں پہ زبان‬ ‫ہو گیا۔۔۔ اور‬
‫تو‬ ‫لگی۔۔۔۔۔۔۔ اچھا‬ ‫کہنے‬ ‫ہوئے‬ ‫پھیرتے‬
‫مجھے سکنگ‬ ‫تم‬ ‫میں‬ ‫دوسرے لفظوں‬
‫تو میں نے‬ ‫کا کہہ رہے ہو؟‬ ‫کرنے‬
‫دیکھو ناں میں تمہارے‬ ‫اس سے کہا کہ‬
‫دو نپلز کو اپنے‬ ‫اکڑاہٹ سے بھر پور‬
‫تو کیا ۔۔۔۔تم‬ ‫کر چوسوں گا‬ ‫لے‬ ‫میں‬ ‫منہ‬
‫میرے ایک۔۔۔ اکڑے ۔۔۔۔۔ہوئے کو نہیں چوس سکتی‬
‫؟؟؟؟؟؟؟؟میری بات سن کر وہ شہوت بھرے‬
‫تم‬ ‫پہلے‬ ‫لہجے میں بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ٹھیک ہے‬
‫لو ۔۔۔ پھر‬ ‫میں‬ ‫منہ‬ ‫کو اپنے‬ ‫میرے نپلز‬
‫میں بھی تمہارے‬ ‫کے لیئے‬ ‫دیر‬ ‫ٹھوڑی‬
‫کو اپنے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔ بھی‬ ‫بھرے‬ ‫اکڑاہٹ سے‬
‫کے منہ‬ ‫منہ میں لے لوں گی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ عذرا‬
‫بات سن کر‬ ‫کی‬ ‫چوسنے‬ ‫لن‬ ‫سے‬
‫سے‬ ‫رہ گیا۔۔۔ اور بڑی حیرانی‬ ‫میں حقا بقا‬
‫بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫طرف دیکھتے ہوئے‬ ‫کی‬ ‫اس‬
‫گی؟‬ ‫چوسو‬ ‫کو‬ ‫لن‬ ‫تت ۔۔۔تم ۔۔۔ میرے‬
‫سخت‬ ‫کے‬ ‫چوسنے‬ ‫لن‬ ‫تو‬ ‫تم‬
‫خالف تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میری بات سن کر وہ‬
‫کہ تم‬ ‫افسردگی سے بولی ۔۔۔۔ جیسا‬ ‫بڑی‬
‫ہی‬ ‫میں واقعہ‬ ‫ہے‬ ‫ہی کہا‬ ‫خود‬ ‫نے‬
‫کے خالف تھی۔۔۔۔۔۔۔ عذرا‬ ‫کرنے‬ ‫سک‬
‫میں دیکھ کر میں اس کے‬ ‫کو اس موڈ‬
‫کی آنکھوں میں‬ ‫ہو گیا اور پھر اس‬ ‫قریب‬
‫ایسی کیا‬ ‫ڈال کر بوال۔۔۔۔۔پھر‬ ‫آنکھیں‬
‫میری بات‬ ‫بات ہو گئی کہ تم ؟؟ ۔۔۔۔ تو وہ‬
‫شاہ‬ ‫یو نو‬ ‫بولی ۔۔۔‬ ‫کاٹ کر‬ ‫کو‬
‫ہے‬ ‫ُرخصتی‬ ‫میری‬ ‫کو‬ ‫ویک‬ ‫نیکسٹ‬
‫ہو کہ میرا‬ ‫ہی‬ ‫جانتے‬ ‫تو‬ ‫تم‬ ‫اور‬
‫طرح‬ ‫تمہاری‬ ‫شوہر بھی‬ ‫ہونے واال‬
‫ہے پھر‬ ‫شوقین‬ ‫بڑا‬ ‫کا‬ ‫سکنگ‬
‫ہوتی تو‬ ‫بات‬ ‫لگی اگر پہلے والی‬ ‫کہنے‬
‫ڈک‬ ‫اس کے‬ ‫بھی‬ ‫کبھی‬ ‫نے‬ ‫میں‬
‫تھا ۔۔لیکن‬ ‫کرنا‬ ‫نہیں‬ ‫سک‬ ‫(لن) کو‬
‫وہ‬ ‫ہی‬ ‫اب یو نو۔۔۔ اور اس کے ساتھ‬
‫گئی۔۔۔۔اور میرے‬ ‫بیٹھ‬ ‫نیچے‬ ‫پنجو۔۔بل‬ ‫اپنے‬
‫میری‬ ‫ہاتھ میں پکڑ کر‬ ‫اپنے‬ ‫لن کو‬
‫نے‬ ‫بولی۔۔۔۔۔۔۔۔جان میں‬ ‫دیکھتے ہوئے‬ ‫طرف‬
‫ہی‬ ‫چوسنا‬ ‫ہے کہ جب لن‬ ‫لیا‬ ‫سوچ‬
‫پہلی‬ ‫نا‬ ‫کیوں‬ ‫پھر‬ ‫ہے تو‬
‫سے‬ ‫لن‬ ‫پسند کے‬ ‫اپنی‬ ‫سکنگ‬
‫کی جائے۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی اس‬ ‫شروع‬
‫زبان باہر نکالی‬ ‫سے‬ ‫منہ‬ ‫نے اپنے‬
‫ہوئے‬ ‫پھولے‬ ‫میرے‬ ‫اسے‬ ‫اور‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫کہنے‬ ‫ہوئے‬ ‫ٹوپے پر پھیرتے‬
‫تمہاری ٹوپی کتنی شاندار ہے ۔اور پھر اس‬
‫اپنی‬ ‫پر‬ ‫سارے لن‬ ‫طرح اس نے میرے‬
‫ڈاال۔۔۔۔۔‬ ‫کر‬ ‫گیال‬ ‫پھیر کر اسے‬ ‫زبان‬
‫تھوک‬ ‫لگے‬ ‫پر‬ ‫زبان‬ ‫کی‬ ‫جب اس‬
‫ہو گیا‬ ‫گیال‬ ‫لن‬ ‫سارا‬ ‫میرا‬ ‫سے‬
‫میری طرف دیکھتے‬ ‫پھر وہ‬ ‫۔۔۔۔۔ تو‬
‫لن‬ ‫ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ میں نے تمہارے‬
‫منہ‬ ‫اپنے‬ ‫اسے‬ ‫کو گیال کر دیا ۔۔۔۔۔اب میں‬
‫چوسنے لگی ہوں ۔۔۔۔اور‬ ‫میں لے کر‬
‫پورا‬ ‫اس نے اپنا‬ ‫اس کے ساتھ ہی‬ ‫پھر‬
‫سلو موشن‬ ‫اور ۔۔۔۔ اور پھر‬ ‫منہ کھوال‬
‫کی طرف‬ ‫لن‬ ‫میرے‬ ‫اسے‬ ‫میں‬
‫کے‬ ‫آہستگی‬ ‫بڑھانے لگی۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔ بڑی‬
‫اس نے اپنے کھلے ہوئے منہ‬ ‫ساتھ‬
‫لن کو اندر کر لیا۔۔۔۔۔اور‬ ‫میں میرے آدھے‬
‫دونوں‬ ‫اپنے‬ ‫کو‬ ‫لن‬ ‫میرے‬ ‫پھر‬
‫چوسنے‬ ‫اسے‬ ‫کر‬ ‫دبا‬ ‫میں‬ ‫ہونٹوں‬
‫نے‬ ‫ہی اس کے نرم ہونٹوں‬ ‫لگی۔۔۔جیسے‬
‫میرے سخت لن کو چھوا۔۔۔۔۔ مزے کی ایک تیز‬
‫ہوتی‬ ‫سے‬ ‫لہر۔۔۔۔ میرے لن کے اندر‬
‫پھیل گئی۔۔۔اور‬ ‫میں‬ ‫سارے بدن‬ ‫ہوئی۔۔۔۔‬
‫اسی مزے کی شدت سے میرے منہ سے ایک‬
‫اُف ف ف ف ف۔۔۔۔ اس‬ ‫نکل گئی‬ ‫سسکی‬
‫دو‬ ‫ایک‬ ‫مزید‬ ‫اس نے‬ ‫بعد‬ ‫کے‬
‫اپنے منہ کے‬ ‫کو‬ ‫لن‬ ‫میرے‬ ‫دفعہ اور‬
‫۔۔ ۔۔۔۔ اور پھر جلدی سے اس‬ ‫اندر باہر کیا‬
‫باہر نکال کر۔۔۔قالین‬ ‫سے‬ ‫منہ‬ ‫اپنے‬ ‫کو‬
‫میں نے اس‬ ‫پر‬ ‫پر ہی تھوک دیا ۔۔۔۔۔ اس‬
‫جان ؟‬ ‫میری‬ ‫سے پوچھا کیوں کیا ہوا‬
‫تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔ عجیب سا ذائقہ ہے‬
‫تمہارے لن کا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا۔۔‬
‫چھوڑو ۔۔۔ یہ بتاؤ مزہ آیا کہ نہیں‬ ‫ذائقہ‬
‫؟؟۔۔۔۔تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے‬
‫لگی ۔۔۔سچی پوچھا تو ۔۔۔ نہیں۔۔۔۔ لیکن۔ ۔۔۔پھر بھی‬
‫اپنے‬ ‫کو‬ ‫لن‬ ‫تمہارے‬ ‫کہ‬ ‫یقین کرو‬
‫لگا۔۔۔۔‬ ‫بڑا اچھا‬ ‫منہ میں لے کر مجھے‬
‫پھر سے میرے‬ ‫نے‬ ‫اس‬ ‫یہ کہہ کر‬
‫لیا ۔۔ اور‬ ‫منہ میں‬ ‫اپنے‬ ‫لن کو‬
‫مزید‬ ‫دو بار‬ ‫چوسنے لگی۔۔۔پھر ایک‬ ‫اسے‬
‫اِن‬ ‫منہ میں‬ ‫اپنے‬ ‫کو‬ ‫لن‬ ‫میرے‬
‫اُٹھی اور‬ ‫اوپر‬ ‫آؤٹ کرنے کے بعد وہ‬
‫ہو ۔۔۔‬ ‫خوش‬ ‫کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔اب‬ ‫سے‬ ‫مجھ‬
‫نے اسے‬ ‫چوسوں ۔۔؟؟؟؟ تو میں‬ ‫اور‬ ‫یا‬
‫میں بھرتے ہوئے کہا ۔۔۔ میری‬ ‫بانہوں‬ ‫اپنی‬
‫نہ بھی‬ ‫لن کو‬ ‫میرے‬ ‫جان۔۔۔اگر تم‬
‫بہت‬ ‫سے‬ ‫تو بھی میں تم‬ ‫چوستی‬
‫اس نے‬ ‫بات سن کر‬ ‫تھا ۔۔۔ میری‬ ‫خوش‬
‫پھر‬ ‫پپی دی اور‬ ‫ایک‬ ‫پر‬ ‫گالوں‬ ‫میرے‬
‫اشارہ‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫چھاتیوں‬ ‫ننگی‬ ‫اپنی‬
‫بولی۔۔۔۔۔۔۔ لُک۔۔۔تمہارا انتظار ہو‬ ‫ہوئے‬ ‫کرتے‬
‫میں نیچے‬ ‫رہا ہے۔۔۔۔ اس کی بات سن کر‬
‫کو ج‬

‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_نمبر_‪09‬‬
‫اپنے‬ ‫کو‬ ‫۔۔اور اس کے اکڑے ہوئے نپلز‬
‫منہ میں لے کر انہیں ۔۔۔ باری باری چوسنے‬
‫منہ‬ ‫میرے‬ ‫اپنی چھاتیوں کو‬ ‫لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫بھرے مزے‬ ‫شہوت‬ ‫کر وہ‬ ‫میں دیکھ‬
‫سے کراہنے لگی۔۔اوہ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔۔اس کی چھاتیوں‬
‫اچانک میں نے اپنا‬ ‫چوستے ہوئے‬ ‫کو‬
‫ہاتھ اس کی شلوار کے اندر ڈال کر‬ ‫ایک‬
‫کیا‬ ‫چیک‬ ‫کو‬ ‫کی پھدی‬ ‫اس‬
‫بری‬ ‫پھدی‬ ‫تو۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔اوہ۔۔ اس کی‬
‫ہوئی تھی‬ ‫بھیگی‬ ‫سے‬ ‫پانی‬ ‫طرح‬
‫کی‬ ‫تک اس‬ ‫کچھ دیر‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ میں‬
‫انگلیوں‬ ‫اپنی‬ ‫میں‬ ‫کی لکیر‬ ‫چوت‬
‫ساتھ‬ ‫میرے‬ ‫وہ‬ ‫رہا۔۔۔اور‬ ‫پھیرتا‬ ‫کو‬
‫میری‬ ‫لگی ۔۔ ڈارلنگ‬ ‫کہنے‬ ‫ہوئے‬ ‫چپکتے‬
‫طرح‬ ‫میں ۔۔۔۔ اس‬ ‫کی لکیر‬ ‫چوت‬
‫بہت‬ ‫سے مجھے‬ ‫پھیرنے‬ ‫انگلیاں‬ ‫تمہاری‬
‫چڑھ‬ ‫اور گرمی بھی‬ ‫رہا ہے‬ ‫لگ‬ ‫اچھا‬
‫میں نے‬ ‫دیر بعد‬ ‫کچھ‬ ‫رہی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر‬
‫سے‬ ‫لکیر‬ ‫کی‬ ‫پھدی‬ ‫کی‬ ‫اس‬
‫ہٹایا۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اور‬ ‫کو‬ ‫انگلیوں‬ ‫اپنی‬
‫کی پھدی کے‬ ‫اس‬ ‫کو‬ ‫ہاتھ‬ ‫اپنے‬
‫لے گیا۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔تو‬ ‫حصے کی طرف‬ ‫اوپری‬
‫سکن‬ ‫نرم‬ ‫کی‬ ‫کی پھدی‬ ‫اس‬
‫موجود‬ ‫کو‬ ‫کافی سارے بالوں‬ ‫پر‬
‫کافی‬ ‫کہ‬ ‫تھا‬ ‫رہا‬ ‫لگ‬ ‫پایا۔۔ ایسا‬
‫کی‬ ‫چوت‬ ‫نے اپنی‬ ‫اس‬ ‫سے‬ ‫دنوں‬
‫اب میں نے‬ ‫چنانچہ‬ ‫کی تھی‬ ‫نہیں‬ ‫شیو‬
‫ہوئے‬ ‫چوستے‬ ‫کو‬ ‫نپلز‬ ‫کے‬ ‫اس‬
‫بالوں میں‬ ‫کے بڑھے ہوئے‬ ‫اس کی چوت‬
‫انگلیاں پھیر نا شروع کر دیں ۔۔۔ جس‬ ‫بھی‬
‫سے وہ مست سے مست ۔۔۔تر‬ ‫وجہ‬ ‫کی‬
‫آہیں‬ ‫گئی۔۔۔۔اور۔۔ سیکسی‬ ‫چلی‬ ‫ہو تی‬
‫۔۔۔ بار بار ۔۔۔۔اپنی پھدی‬ ‫ہوئے‬ ‫بھرتے‬
‫ٹچ‬ ‫ساتھ‬ ‫میرے‬ ‫والے حصے کو‬
‫۔۔۔ یہ‬ ‫لگی‬ ‫کرنے‬ ‫کوشش‬ ‫کی‬ ‫کرنے‬
‫آ گیا ۔۔اور‬ ‫دیکھ کر میں بھی جوش میں‬
‫پر‬ ‫میں نے اس کے ایک نپل‬ ‫پھر‬
‫اس سے کہا۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ہوئے‬ ‫کاٹتے‬ ‫دانت‬
‫میری بات سن‬ ‫لو گی؟‬ ‫اندر میرا‬ ‫عذرا‬
‫نظروں سے‬ ‫بڑی گرسنہ‬ ‫نے‬ ‫کر اس‬
‫طرف دیکھا اور ۔۔۔ کہنے لگی۔۔۔ چوت‬ ‫میری‬
‫موجودگی‬ ‫کی‬ ‫پانی‬ ‫اتنے سارے‬ ‫میں‬
‫پوچھ‬ ‫سے‬ ‫مجھ‬ ‫تم‬ ‫بھی‬ ‫میں‬
‫کو‬ ‫لن‬ ‫رہے ہو کہ میں تمہارے اس‬
‫گی ۔۔۔۔۔‬ ‫لوں‬
‫ُ‬ ‫اندر‬ ‫کے‬ ‫چوت‬ ‫اپنی‬
‫؟‬

‫پھر ایک دم سنجیدہ ہو کر کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔‬


‫چاہ رہا‬ ‫بہت‬ ‫بھی‬ ‫میرا‬ ‫جی تو‬
‫کو اپنے‬ ‫اس جمبو سائز‬ ‫ہے کہ تمہارے‬
‫اندر لے لوں ۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا کروں جان۔۔‬
‫وہی مسلہ آ جاتا‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔ درمیان میں پھر‬
‫موٹے‬ ‫ہے۔۔۔۔ ورنہ میں نے ابھی اس‬
‫کر کے اپنی‬ ‫اپنے اندر لے‬ ‫کو‬ ‫تازے لن‬
‫دینا‬ ‫کر‬ ‫کو ختم‬ ‫چوت کی ساری گرمی‬
‫ت‬
‫افسوس کہ موجودہ صور ِ‬ ‫تھا ۔۔۔ لیکن‬
‫حال میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں یہ رسک ہر گز ہر گز‬
‫سے‬ ‫نہیں لے سکتی ۔۔۔۔ تو میں نے اس‬
‫بھی یہ‬ ‫میری جان ۔۔ میں خود‬ ‫کہا ۔۔۔ کہ‬
‫میں‬ ‫صورتِحال‬ ‫موجودہ‬ ‫چاہتا کہ‬ ‫نہیں‬
‫کر ۔۔۔تمہیں کسی مصیبت میں‬ ‫کو چود‬ ‫تم‬
‫کی‬ ‫اس‬ ‫نے‬ ‫میں‬ ‫ڈال دوں۔۔۔پھر‬
‫ہوا جو‬ ‫کہ۔۔۔ کیا‬ ‫کہا‬ ‫دیکھ کر‬ ‫طرف‬
‫مار‬ ‫نہیں‬ ‫پھدی‬ ‫میں تمہاری تمہاری‬
‫بنا‬ ‫میں‬ ‫جان‬ ‫سکتا ۔۔۔ لیکن میری‬
‫کنواری‬ ‫اس‬ ‫۔۔۔۔ تمہاری‬ ‫ڈالے بھی‬ ‫لن‬
‫ہوں‬ ‫سکتا‬ ‫اُٹھا‬ ‫تو‬ ‫مزہ‬ ‫چوت سے‬
‫اس‬ ‫سن کر‬ ‫بات‬ ‫میری‬ ‫ناں؟؟؟؟؟؟ ۔۔‬
‫نشہ سا چڑھ گیا ۔۔۔اور وہ‬ ‫کو ایک‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔ تو‬ ‫میں‬ ‫آواز‬ ‫اسی نشیلی‬
‫پہلے‬ ‫میں‬ ‫ظالما۔۔۔۔۔۔ کہ‬ ‫نا‬ ‫جلدی کر‬
‫ہوں۔۔۔۔اور پھر اس‬ ‫تڑپ رہی‬ ‫بہت‬ ‫ہی‬
‫میں‬ ‫بغیر‬ ‫سنے‬ ‫بات‬ ‫کوئی‬ ‫مزید‬ ‫سے‬
‫نے اس کی شلوار کو نیچے کیا اور ۔۔۔۔۔۔‬
‫دونوں ٹانگوں‬ ‫پھر اسے اتار کر اس کی‬
‫کے بیچ میں بیٹھ گیا۔۔۔اور پھر اس کی چوت‬
‫اس‬ ‫کے‬ ‫کر‬ ‫اپنے منہ کو ایڈجسٹ‬ ‫پر‬
‫زبان رکھ دی‬ ‫اپنی‬ ‫پر‬

‫چوت سے شہوت ۔۔۔اور‬ ‫کی‬ ‫واؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔اس‬


‫ہی‬ ‫بڑی‬ ‫کی‬ ‫جوانی‬ ‫رس بھری‬
‫مہک آ رہی تھی۔۔جس کی‬ ‫انگیز‬ ‫اشتہا‬
‫پاگل‬ ‫تو‬ ‫کو سونگھ کر میں‬ ‫مہک‬
‫چوت کو‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫ہو گیا۔۔۔۔۔اور پھر‬
‫والی‬ ‫چاٹنا بھول کر ۔۔۔۔ اس سے آنے‬
‫مہک کو سو نگھنے لگا۔۔۔۔ مجھے اپنی چوت‬
‫کچھ دیر تو وہ‬ ‫کر‬ ‫کو سونگھتے دیکھ‬
‫کا‬ ‫میرا سونگھنے‬ ‫ُچپ رہی۔۔۔۔۔لیکن جب‬
‫ہو گیا تو۔۔۔۔تو وہ بے‬ ‫کام کچھ لمبا‬
‫سے بولی۔۔۔۔سونگھنا چھوڑ۔۔۔۔ میری‬ ‫قراری‬
‫بات‬ ‫کی‬ ‫چاٹ ۔۔۔ اس‬ ‫کو‬ ‫پھدی‬
‫زبان‬ ‫نے اپنے منہ سے‬ ‫میں‬ ‫کر‬ ‫سن‬
‫کی آگ‬ ‫شہوت‬ ‫کی‬ ‫عین اس‬ ‫نکالی ۔۔۔اور‬
‫چوت کی‬ ‫ہوئی‬ ‫جلتی‬ ‫میں‬
‫پر رکھ دی۔۔۔۔۔ جیسے ہی میری زبان‬ ‫لکیر‬
‫اسی‬ ‫ہوئی ۔۔۔۔ تو‬ ‫چوت سے ٹچ‬ ‫اس کی‬
‫عذرا کے منہ سی ایک چیخ‬ ‫وقت‬
‫نکلی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آہ۔ ہ ۔ ہ۔۔۔ جان! مجھے چاٹ کے‬
‫ٹھنڈا کر دو۔۔۔ اور پھر میں نے اس کی‬
‫زبان‬ ‫اپنی‬ ‫پھدی کے دونوں لب کھولے اور‬
‫کی مدد سے اس کو چاٹنے لگا ابتدائی طور‬
‫پڑے‬ ‫پر میں نے اس کی چوت کے اندر‬
‫پانی کو چاٹ کر صاف کر دیا۔۔۔ ۔۔۔‬ ‫سارے‬
‫کے‬ ‫چوت‬ ‫اس کی‬ ‫بھی‬ ‫جتنا‬ ‫میں‬ ‫لیکن‬
‫کر‬ ‫چاٹ‬ ‫کو‬ ‫پانی‬ ‫پڑے‬ ‫اندر‬
‫کی‬ ‫اس‬ ‫پانی‬ ‫ہی مزید‬ ‫کرتا ۔۔اتنا‬ ‫صاف‬
‫سے رس کر باہر نکل‬ ‫چوت کی دیواروں‬
‫میں‬ ‫تو‬ ‫تک‬ ‫تھا۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر‬ ‫آتا‬
‫وہ‬ ‫رہا۔اور‬ ‫اسے چاٹ چاٹ کر صاف کرتا‬
‫سسکیاں‬ ‫لزت آمیز‬ ‫سے‬ ‫اس عمل‬ ‫میرے‬
‫زبان کو‬ ‫رہی ۔۔پھر …میں نے اپنی‬ ‫بھرتی‬
‫ہٹایا ۔۔۔۔۔۔اور اس کی ابھری‬ ‫سے‬ ‫وہاں‬
‫ہوئی چوت کے پھولے ہوئے دانے کو اپنے‬
‫لیا اور اسے چوسنے لگا۔۔‬ ‫منہ میں لے‬
‫کو چوستے‬ ‫کے دانے‬ ‫مجھے اس‬ ‫ابھی‬
‫ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک‬ ‫تھوڑی‬ ‫ہوئے‬
‫سے‬ ‫بالوں‬ ‫کے‬ ‫عذرا نے مجھے سر‬
‫اپنی طرف‬ ‫منہ کو‬ ‫میرے‬ ‫پکڑا ۔۔۔۔اور‬
‫مجھے تمہارے‬ ‫کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔ جان‬
‫ہے۔۔‬ ‫(لن) کی بڑی شدید طلب ہو رہی‬
‫میں‬ ‫چوت‬ ‫میری‬ ‫کو‬ ‫لن‬ ‫اپنے‬ ‫ابھی‬
‫گا ۔۔۔دیکھا‬ ‫ہو‬ ‫جو‬ ‫دو ۔۔ بعد میں‬ ‫ڈال‬
‫گا ۔۔۔ ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس‬ ‫جائے‬
‫کھینچتے‬ ‫سے‬ ‫بالوں‬ ‫مجھے‬ ‫نے‬
‫ہی‬ ‫جیسے‬ ‫دیا۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫کر‬ ‫کھڑا‬ ‫ہوئے‬
‫میرے لن کو‬ ‫نے‬ ‫کھڑا ہوا۔۔۔۔۔ اس‬ ‫میں‬
‫اسے‬ ‫لیا ۔۔۔اور‬ ‫پکڑ‬ ‫ہاتھ میں‬ ‫اپنے‬
‫رگڑنے لگی۔۔۔۔ ۔۔ پھدی پر لن‬ ‫اپنی پھدی پر‬
‫اس‬ ‫ہی‬ ‫اچانک‬ ‫رگڑتے‬ ‫رگڑتے‬ ‫کو‬
‫اکھڑنے لگیں۔۔۔ اور وہ تیز‬ ‫سانسیں‬ ‫کی‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ہوئے‬ ‫لیتے‬ ‫تیز سانس‬
‫ناں۔ں ں ۔ں‬ ‫ڈالو‬ ‫اندر‬ ‫اسے ۔۔۔۔۔۔ اسے میرے‬
‫ہوں ۔۔۔ مجھے‬ ‫۔۔۔میں۔۔۔ میں۔۔ مر رہی‬
‫اس‬ ‫ہی‬ ‫چودو۔۔۔۔ناں۔۔پلیزززز ز۔ اور پھر اچانک‬
‫لن‬ ‫میرے‬ ‫ہوئے‬ ‫کی چوت پر رکھے‬
‫کا سیالب‬ ‫پانی‬ ‫اوپر گرم‬ ‫اپنے‬ ‫نے‬
‫چونک‬ ‫نے‬ ‫میں‬ ‫محسوس کیا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اور‬
‫تو۔۔۔۔عذرا۔۔۔ جھٹکے لے لے کر‬ ‫دیکھا‬ ‫کر‬
‫چدُے‬ ‫بنا‬ ‫چھوٹ رہی تھی۔۔۔۔۔۔وہ‬
‫گئی تھی ۔۔ادھر جیسے ہی‬ ‫ہو‬ ‫فارغ‬ ‫ہی‬
‫اس کی پھدی سے پانی نکلنا بند ہوا ۔۔۔۔۔۔‬
‫عذرا‬ ‫ہوئی‬ ‫لیتی‬ ‫سانس‬ ‫تیز تیز‬ ‫اور‬
‫بڑھی‬ ‫آگے‬ ‫وہ‬ ‫ہوئی ۔۔۔۔۔تو‬ ‫کچھ شانت‬
‫اور اس نے مجھے کس کر اپنے گلے سے‬
‫سے‬ ‫ذور‬ ‫مجھے بڑے ہی‬ ‫لگا لیا۔۔۔۔۔اور‬
‫منہ‬ ‫اپنا‬ ‫میں‬ ‫منہ‬ ‫دباتے ہوئے میرے‬
‫چپکتے‬ ‫ڈال دیا۔ پھر۔۔۔ میرے ساتھ‬
‫اپنی رانوں‬ ‫جب اسے‬ ‫ہوئے اچانک ہی‬
‫لن کی‬ ‫ہوئے‬ ‫کھڑے‬ ‫میرے‬ ‫پر‬
‫محسوس ہوئی ۔۔تو وہ ایک دم‬ ‫چھبن‬
‫چونک گئی اور میرا لن پکڑ کر‬ ‫سے‬
‫تو ٹھنڈی ہو گئی‬ ‫بولی ۔۔اوہ۔۔۔۔ میں‬
‫ویسے‬ ‫تو ابھی تک‬ ‫ہوں۔۔۔لیکن۔۔۔۔ تمہارا‬
‫ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫اکڑا کھڑا‬ ‫ہی‬ ‫ویسا‬ ‫کا‬
‫پر‬ ‫قالین‬ ‫اس کے ساتھ ہی وہ نیچے‬
‫بیٹھ گئی۔۔۔اور میرے لن‬ ‫کے بل‬ ‫پنجوں‬
‫ہی‬ ‫بڑے‬ ‫ہاتھ میں پکڑ کر‬ ‫اپنے‬ ‫کو‬
‫بولی۔۔۔۔۔۔۔ کیا یاد کرو‬ ‫میں‬ ‫خوشگوار ُموڈ‬
‫گے جان۔۔۔۔ آج۔۔میں تمہارے اس بڑے سے‬
‫کروں‬ ‫لن کو اپنے منہ میں ڈال کر فارغ‬
‫گی۔۔۔۔۔اور پھر یہ کہتے ہوئے اس نے‬
‫لیا اور‬ ‫میں‬ ‫میرے لن کو اپنے منہ‬
‫سے چوسنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫بڑے مزے‬ ‫پھر‬
‫لگایا‬ ‫ہی چوپا‬ ‫سا‬ ‫ابھی۔۔اس نے تھوڑا‬
‫ہلکی‬ ‫پر‬ ‫دروازے‬ ‫ہو گا ۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اچانک باہر‬
‫آواز میں دستک کی آواز سنائی‬ ‫سی‬
‫دی۔۔۔ جسے سن کر ہم دونوں چونک اُٹھے۔۔۔۔‬
‫بعد ۔۔۔۔۔ بھابھی کی‬ ‫دستک کے فوراً‬
‫سنائی دی۔۔۔۔۔ وہ کہہ رہی‬ ‫سرگوشی نما آواز‬
‫تھی ۔۔۔ عذرا ۔۔۔ کافی دیر ہو گئی ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ‬
‫لوگ کسی بھی وقت آ سکتے ہیں ۔۔۔۔ بھابھی‬
‫عذرا ۔۔۔۔ جوش کی دنیا‬ ‫ہی‬ ‫کی بات سنتے‬
‫سے ہوش میں آ گئی۔۔۔ اور پھر بڑی ہی‬
‫طرف‬ ‫کی‬ ‫سے دروازے‬ ‫خوف ذدہ نظروں‬
‫پر‬ ‫قالین‬ ‫نے‬ ‫اس‬ ‫ہوئے‬ ‫دیکھتے‬
‫اور اسے‬ ‫اپنی شلوار اُٹھائی‬ ‫پڑی‬
‫دیوار‬ ‫ایک نظر‬ ‫ہوئے اس نے‬ ‫پہنتے‬
‫پر لگے گھڑیال کی طرف ۔۔۔۔ دیکھا ۔۔۔ اتنی‬
‫کرتے‬ ‫ادراک‬ ‫کا‬ ‫ت حال‬
‫صور ِ‬ ‫دیر میں‬
‫درست‬ ‫لباس‬ ‫اپنا‬ ‫نے بھی‬ ‫میں‬ ‫ہوئے‬
‫ہو‬ ‫کر لیا تھا۔۔۔اور چلنے کے لیئے ریڈی‬
‫شلوار پہن‬ ‫اپنی‬ ‫عذرا‬ ‫تھا۔۔۔۔ ۔۔۔ ادھر‬ ‫گیا‬
‫میری طرف‬ ‫ہوئے‬ ‫دوڑتے‬ ‫کر‬
‫میرے گلے لگ کر کہنے لگی ۔۔۔۔‬ ‫آئی۔۔۔۔اور‬
‫ملیں نہ ملیں‬ ‫ہم‬ ‫جان!۔۔ پھر‬ ‫پتہ نہیں‬
‫یاد گار‬ ‫۔۔۔۔ لیکن آج کا دن میرے لیئے‬
‫میں‬ ‫انداز‬ ‫جزباتی‬ ‫بڑے‬ ‫رہے گا۔۔۔۔۔۔ پھر‬
‫ساتھ‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔ یقین کرو جان!!!۔۔۔ تمہارے‬
‫بھی‬ ‫کبھی‬ ‫۔ میں‬ ‫ہوا وقت۔۔۔‬ ‫بیتا‬
‫بعد‬ ‫گی۔۔۔۔۔۔ اس کے‬ ‫پاؤں‬ ‫نہ‬ ‫بھال‬
‫طویل‬ ‫ایک‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫نے‬ ‫میں‬
‫کمرے سے باہر آ‬ ‫الوداعی بوسہ لیا ۔۔۔اور‬
‫جب‬ ‫ہوئے‬ ‫کر چلتے‬ ‫گیا۔۔گیلری میں نکل‬
‫پہنچا‬ ‫پر‬ ‫دروازے‬ ‫کے‬ ‫بھابھی‬ ‫میں‬
‫ُمڑ کر عذار‬ ‫نے ۔۔۔۔۔ ایک نظر‬ ‫تو میں‬
‫اور وہاں‬ ‫دیکھا ۔۔۔۔‬ ‫کے کمرے کی طرف‬
‫نے‬ ‫میں‬ ‫کر‬ ‫پا‬ ‫نہ‬ ‫کو‬ ‫پر کسی‬
‫ناک کیا۔۔۔ ۔۔۔‬ ‫کا دروازہ‬ ‫بھابھی‬ ‫ہولے سے‬
‫دستک کی آواز سنتے ہی اندر سے بھابھی‬
‫کی سرگوشی سنائی دی ۔۔۔۔۔ اوہ کہہ رہی تھی۔۔۔آ‬
‫کی‬ ‫ہے۔۔ بھابھی‬ ‫کھال‬ ‫جاؤ ڈارلنگ۔۔ دروازہ‬
‫دروازے‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫میں نے‬ ‫سن کر‬ ‫بات‬
‫کے اندر‬ ‫کمرے‬ ‫اور‬ ‫کی ناب گھمائی‬
‫داخل ہو گیا۔۔۔۔۔۔ دیکھا تو ڈریسنگ ٹیبل‬
‫ہاتھ اپنے سینے پر‬ ‫دونوں‬ ‫کے سامنے‬
‫بھابھی کھڑی تھی۔۔۔۔۔۔ مجھے اندر‬ ‫رکھے‬
‫داخل ہوتے دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔دروازے کو‬
‫الک کر دو۔۔۔ اور میں دروازہ الک کر کے اس‬
‫ہاتھ‬ ‫کی طرف بڑھا ۔۔تو وہ بدستور دونوں‬
‫اپنے سینے پر ہاتھ باندھے کھڑی میری‬
‫رہی تھی۔۔۔ میں اس‬ ‫دیکھ‬ ‫ہی‬ ‫طرف‬
‫میں‬ ‫لہجے‬ ‫طنزیہ‬ ‫کے قریب گیا تو وہ‬
‫بولی ۔۔۔مل آئے اپنی معشوقہ سے؟؟ ۔۔۔تو میں‬
‫کر بوال۔۔۔۔ لیکن‬ ‫ہنسی ہنس‬ ‫سی‬ ‫کھسیانی‬
‫آپ نے اتنی جلدی کیوں بال لیا؟؟۔۔۔۔تو وہ‬
‫لگی۔۔‬ ‫کہنے‬ ‫میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫۔۔۔۔۔۔ وہ اس لیئے میری جان۔۔ کہ مجھے ایک‬
‫عجیب سی جلن ہو رہی تھی ۔۔۔۔اور مجھ سے‬
‫انتظار کی گھڑیاں کاٹنا مشکل ہو رہا‬ ‫تمہارے‬
‫تھا۔۔۔۔۔پھر وہ آگے بڑھی اور اپنی بانہوں کو‬
‫میری گردن میں حمائل کرتے ہوئے بولی۔۔۔ اسی‬
‫کے آنے کا شوشہ‬ ‫لوگوں‬ ‫لیئے میں نے ان‬
‫تھا۔۔۔۔تو میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔‬ ‫چھوڑا‬
‫اس کا مطلب ہے کہ وہ لوگ ابھی نہیں آ‬
‫رہے؟ تو وہ ہنس کر بولی۔۔۔۔ نہیں ۔۔تھوڑی دیر‬
‫میں نے فون کر کے پتہ کیا‬ ‫ہی‬ ‫پہلے‬
‫ہوئے‬ ‫تھا۔۔۔وہ لوگ نبیلہ کے گھر سے ہو تے‬
‫۔۔۔۔ لیٹ ہی آئیں گے۔۔۔ اور پھر اس نے میرے‬
‫ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیا۔۔۔۔ اور میرے‬
‫ساتھ شہوت سے بھر پور کسنگ کرنے‬
‫لگی۔۔۔۔بھابھی کے انگ انگ میں ۔۔۔شہوت اور‬
‫ایک انجانی سی تڑپ بھری ہوئی تھی۔۔۔ جبکہ‬
‫میں‬ ‫کی کسنگ‬ ‫اس کے برعکس عذرا‬
‫محبت ۔۔۔۔جزبات کی گرمی‬ ‫میرے لیئے بے پناہ‬
‫اور سپردگی شامل ہوتی تھی۔۔۔۔دونوں کی محبت‬
‫کے من میں‬ ‫فرق یہ تھا کہ عذرا‬ ‫میں‬
‫ایک‬ ‫میرے لیئے محبت بھرے جزبات اور‬
‫سپردگی پائی جاتی تھی‬ ‫کی‬ ‫طرح‬ ‫خاص‬
‫بھابھی بھی مجھ‬ ‫تو‬ ‫محبت‬ ‫۔۔۔جبکہ‬
‫سے کرتی تھی لیکن اس کی محبت پر شہوت‬
‫ُچدوانے کی‬ ‫سے‬ ‫۔۔۔۔اور مجھ‬ ‫غلبہ‬ ‫کا‬
‫تھی۔۔۔کچھ‬ ‫جاتی‬ ‫پائی‬ ‫تڑپ‬ ‫بہت زیادہ‬
‫بھابھی کو اُٹھا‬ ‫دیر کسنگ کے بعد میں نے‬
‫ٹیبل‬ ‫پر بٹھا دیا ۔۔۔ڈریسنگ‬ ‫کر ڈریسنگ ٹیبل‬
‫سے‬ ‫بھابھی نے جلدی‬ ‫ہی‬ ‫پر بیٹھتے‬
‫اتار‬ ‫بھی‬ ‫برا‬ ‫پھر‬ ‫قمیض اور‬ ‫اپنی‬
‫دیکھ‬ ‫ہوتے‬ ‫ننگا‬ ‫۔۔۔ ان کو‬ ‫دی تھی‬
‫رک گیا ۔۔۔ اور‬ ‫کر میں کچھ سیکنڈز کے لیئے‬
‫کو‬ ‫ان‬ ‫کے ساتھ‬ ‫چسپی‬ ‫دل‬ ‫بڑی‬
‫رہا۔۔۔ ۔۔۔‬ ‫ہوئے دیکھتا‬ ‫اتارتے‬ ‫اپنی قمیض‬
‫اوپری‬ ‫نے اپنا‬ ‫جب انہوں‬ ‫۔۔۔۔پھر‬
‫میں بھی‬ ‫لیا ۔۔۔۔۔تو‬ ‫کر‬ ‫ننگا‬ ‫سارا‬ ‫بدن‬
‫کھسکا‬ ‫کو‬ ‫سٹول‬ ‫پڑے‬ ‫ڈریسنگ کے پاس‬
‫بیٹھ گیا۔۔۔ ۔۔۔۔۔اور‬ ‫سامنے‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫کر‬
‫کی خوبصورت چھاتیوں کو اپنے‬ ‫ان‬ ‫پھر‬
‫میں پکڑ کر انہیں دبانے لگا۔۔۔۔ تو‬ ‫ہاتھوں‬
‫بولی۔۔۔۔‬ ‫ہوئے‬ ‫سی آہ بھرتے‬ ‫وہ مست‬
‫ایک چھاتی کو‬ ‫ڈارلنگ ۔۔۔کہ‬ ‫کرو‬ ‫ایسا‬
‫کو اپنے منہ میں لے‬ ‫دباؤ۔۔۔۔۔جبکہ دوسری‬
‫کر چوسو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ اس کے کہنے پر‬
‫کی ایک چھاتی کو چوس ۔۔۔اور‬ ‫۔۔۔میں ان‬
‫دوران‬ ‫رہا ۔۔۔اسی‬ ‫دباتا‬ ‫دوسری کو‬
‫بھری‬ ‫بھابھی کی شہوت‬ ‫میرے کانوں میں‬
‫وہ کہہ رہی تھی تمہیں پتہ‬ ‫آواز سنائی دی‬
‫ہوں؟‬ ‫تڑپی‬ ‫ہے کہ میں تمہارے لیئے کتنا‬
‫کی چھاتی کو دباتے‬ ‫میں نے بھی ان‬ ‫تو‬
‫میں‬ ‫ہوئے کہا۔۔۔۔ فکر نہ کر و میری جان‬
‫سارے گلے شکوے دور کر‬ ‫ابھی تمہارے‬
‫دیتا ہوں ۔۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔۔ سوچ لو۔۔ میرے‬
‫تم سے گلے شکوے تبھی دور ہوں گے کہ‬
‫چود‬ ‫چود‬ ‫تم مجھے‬ ‫جب‬
‫مار‬ ‫میں دھکے‬ ‫چوت‬ ‫کے۔۔۔اور۔۔۔۔میری‬
‫گے۔ پھر‬ ‫دو‬ ‫تھکا‬ ‫مجھے‬ ‫کے‬ ‫مار‬
‫ڈال کر‬ ‫میں آنکھیں‬ ‫آنکھوں‬ ‫میری‬
‫لو‬ ‫ساتھ ایسا کر‬ ‫میرے‬ ‫تم‬ ‫بولی۔۔۔۔ کیا‬
‫کے ایک‬ ‫ان‬ ‫نے بھی‬ ‫میں‬ ‫تو‬ ‫گے؟‬
‫نہ‬ ‫کہا۔۔۔۔ فکر‬ ‫ہوئے‬ ‫کو دبا تے‬ ‫ممے‬
‫تو آپ کو‬ ‫ہوں‬ ‫آیا‬ ‫بھابھی ۔۔۔۔اب‬ ‫کریں‬
‫میری‬ ‫گا۔تو‬ ‫ہی جاؤں‬ ‫کے‬ ‫کر‬ ‫شانت‬
‫سا مسکرائی‬ ‫ہلکا‬ ‫وہ‬ ‫سن کر‬ ‫بات‬
‫ناں‬ ‫ہوئی‬ ‫یہ‬ ‫لگی‬ ‫۔۔۔۔اور کہنے‬
‫بات۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔۔ بات کرتے‬ ‫والی‬ ‫مردوں‬
‫ایک ہاتھ‬ ‫نے میرا‬ ‫انہوں‬ ‫کرتے اچانک‬
‫والی‬ ‫کے اوپر پھدی‬ ‫شلوار‬ ‫کر‬ ‫پکڑ‬
‫نا جان۔۔۔‬ ‫جگہ رکھ کر بولی۔۔۔۔ دیکھو‬
‫ہوں۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔‬ ‫رہی‬ ‫ہو‬ ‫گرم‬ ‫کتنی‬ ‫میں‬
‫تمہارے اور‬ ‫یہ (پھدی)‬ ‫میری‬ ‫اور‬
‫میں کس‬ ‫ہجر‬ ‫کے‬ ‫پپو‬ ‫تمہارے‬
‫جو‬ ‫رہی ہے ۔۔۔۔۔۔اب میں نے‬ ‫قدر تڑپ‬
‫کے اوپر سے ان‬ ‫شلوار‬ ‫کی‬ ‫بھابھی‬
‫پھیرا ۔۔۔تو ان کی شلوار‬ ‫کی پھدی پر ہاتھ‬
‫مجھے ایسا لگ رہا‬ ‫اس قدر گیلی تھی کہ‬
‫پیشاب کیا‬ ‫نے‬ ‫انہوں‬ ‫تھا کہ۔گویا کہ‬
‫پر‬ ‫ہو۔۔۔۔ اور میں نے ان کی گیلی شلوار‬
‫آپ کی‬ ‫کہا ۔۔ بھابھی‬ ‫پھیرتے ہوئے‬ ‫ہاتھ‬
‫بہت گیلی ۔۔۔۔۔ ہو رہی‬ ‫واقعی‬ ‫تو‬ ‫شلوار‬
‫تو وہ کہنے لگی۔۔۔ ارے بدھو شلوار‬ ‫ہے‬
‫نہیں۔۔۔۔۔۔ بلکہ غور سے دیکھ ۔۔۔۔۔ میری پھدی‬
‫اس‬ ‫ہے اور‬ ‫بہت گیلی ہو رہی‬
‫ایسے‬ ‫شلوار‬ ‫گیلے پن کی وجہ سے میری‬
‫بارش‬ ‫ہے کہ جیسے میں‬ ‫ہوئی‬ ‫بھیگی‬
‫ان‬ ‫ہوں۔۔۔ تب میں نے‬ ‫کر آئی‬ ‫نہا‬ ‫میں‬
‫ہاتھ کو‬ ‫اپنے‬ ‫۔۔۔اور‬ ‫کھولی‬ ‫شلوار‬ ‫کی‬
‫رکھ‬ ‫پر‬ ‫چوت‬ ‫کی گرم اور ننگی‬ ‫ان‬
‫چوت‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫کو‬ ‫دیا۔۔۔ پھر ایک انگلی‬
‫بوال۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ہوئے‬ ‫ڈبوتے‬ ‫میں‬ ‫کے پانی‬
‫اتنا‬ ‫کبھی‬ ‫توبہ بھابھی۔۔۔۔۔۔۔بادلوں نے بھی‬
‫ہو گا جتنا آج‬ ‫برسایا‬ ‫نہیں‬ ‫پانی‬
‫رہی ہے ۔۔۔۔۔ پھر‬ ‫چھوڑ‬ ‫چوت‬ ‫تمہاری‬
‫بنا‬ ‫منہ‬ ‫سا‬ ‫معصوم‬ ‫بڑا‬ ‫نے‬ ‫میں‬
‫یہ‬ ‫پوچھا۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔سوال‬ ‫سے‬ ‫کر ان‬
‫کی چوت‬ ‫آخر آپ‬ ‫جان۔۔کہ‬ ‫بھابھی‬ ‫ہے‬
‫تو وہ بھی‬ ‫ہے؟‬ ‫رہی‬ ‫کیوں کر‬ ‫ایسا‬
‫لہجے میں کہنے لگی۔۔۔ کہ میری‬ ‫مست‬
‫رہی‬ ‫چھوڑ‬ ‫پانی‬ ‫اس لیئے‬ ‫چوت‬
‫میں‬ ‫اس‬ ‫بعد‬ ‫ہے ۔۔۔کہ ابھی تھوڑی دیر‬
‫کا‬ ‫نے یہاں‬ ‫مہمان‬ ‫پسند‬ ‫اس کے من‬
‫ہے۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے‬ ‫کرنا‬ ‫وزٹ‬
‫میں بولی ۔۔۔۔۔یقین‬ ‫ہوئے شہوت بھرے لہجے‬
‫اسی وقت‬ ‫نے‬ ‫چوت‬ ‫کرو شاہ۔۔۔۔ میری‬
‫کہ جب‬ ‫دیا تھا‬ ‫کر‬ ‫شروع‬ ‫ہونا‬ ‫لیک‬
‫اپنا‬ ‫نے‬ ‫تم‬ ‫میری ہیلو کے جواب میں‬
‫بات‬ ‫کی‬ ‫دھرایا تھا۔۔۔۔ بھابھی‬ ‫کوڈ ورڈ‬
‫نیچے‬ ‫کر‬ ‫ہو‬ ‫خوش‬ ‫میں‬ ‫کر‬ ‫سن‬
‫ِلیکڈ ۔۔۔۔ پھدی پر‬ ‫اس کی‬ ‫جھکا ۔۔۔۔اور‬
‫دی‬ ‫دے‬ ‫چومی‬ ‫سی‬ ‫زبردست‬ ‫ایک‬
‫دیکھتے‬ ‫طرف‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫۔۔اور پھر‬
‫گرم ۔۔۔اور‬ ‫لگا۔۔۔۔۔ جب آپ اتنی‬ ‫ہوئے کہنے‬
‫ہو‬ ‫اُتاؤلی‬ ‫لیئے‬ ‫کے‬ ‫لن‬ ‫میرے‬
‫ہی کہہ‬ ‫آتے‬ ‫تھیں ۔۔۔۔۔ تو مجھے‬ ‫رہی‬
‫پہلے آپ کے ساتھ سیکس‬ ‫۔۔۔۔ میں‬ ‫دیتیں‬
‫پوچھو‬ ‫کر لیتا ۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔ سچ‬
‫چاہا‬ ‫جی‬ ‫بھی یہی‬ ‫تو ۔۔۔ پہلے میرا‬
‫تم یقین نہ کرو ۔۔۔۔۔‬ ‫یار شاید‬ ‫تھا۔۔۔ لیکن‬
‫ساتھ‬ ‫بے چاری کے‬ ‫تمہاری معشوقہ‬
‫زیادتی ہوئی‬ ‫بڑی‬ ‫ہی‬ ‫واقعہ‬
‫لہجے میں‬ ‫بھرے‬ ‫ہے۔۔۔۔۔۔۔پھر افسوس‬
‫ناں ۔۔۔ ۔۔۔ گھر‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔۔ دیکھو‬ ‫مزید‬
‫سالی نبیلہ ہے۔۔۔اور بھگتنا‬ ‫وہ‬ ‫بھاگی‬ ‫سے‬
‫اس بے چاری کو پڑ گیا۔۔۔ اسی لیئے میں‬
‫کو پہلے اس کے پاس بھیجا تھا‬ ‫نے تم‬
‫تو‬ ‫کچھ‬ ‫کا‬ ‫۔۔۔۔ کہ اس کے غموں‬
‫باتوں کے دوران میں‬ ‫کی‬ ‫ہو۔۔بھابھی‬ ‫مداوا‬
‫مسلسل اپنی دو انگلیوں کو اس کی چوت کے‬
‫اندر باہر کر تا رہا تھا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ‬
‫مجھے‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔۔ ڈارلنگ‬ ‫بے چین ہو کر‬
‫تمہاری انگلیاں نہیں۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ بلکہ ۔۔۔۔تمہارا لن‬
‫چاہیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔ لیکن اس‬
‫لن کو تھوڑا‬ ‫میں تمہارے‬ ‫سے پہلے‬
‫اب تم اپنی‬ ‫چاہوں گی۔۔۔اس لیئے‬ ‫چوسنا‬
‫جگہ‬ ‫والی‬ ‫میری‬ ‫اتار کر‬ ‫وغیرہ‬ ‫پینٹ‬
‫بیٹھ کر‬ ‫میں تمہاری جگہ‬ ‫جبکہ‬ ‫پر آ جاؤ‬
‫ہوں ۔۔بھابھی کی بات سن کر‬ ‫چوستی‬ ‫اسے‬
‫میں جلدی سے اُٹھا اور سٹول کو ہٹا کر‬
‫پھر بھابھی والی‬ ‫اپنی پینٹ اتاری۔۔۔۔اور‬
‫بیٹھ گیا۔۔۔۔‬ ‫ڈریسنگ ٹیبل پر‬ ‫کہ‬ ‫جگہ ۔۔یعنی‬
‫پر پاؤں‬ ‫ڈریسنگ ٹیبل‬ ‫جیسے ہی میں‬
‫پر‬ ‫قالین‬ ‫ہی‬ ‫لٹکا کر بیٹھا ۔۔۔ بھابھی فوراً‬
‫اکڑوں بیٹھ گئی ۔۔۔۔اور ۔۔۔ میرے لن کو اپنے‬
‫سے کہنے لگی۔۔۔۔‬ ‫میں پکڑ کر مجھ‬ ‫ہاتھ‬
‫تمہیں معلوم ہے ۔۔۔کہ مجھے تمہارے لن کا‬
‫پورا‬ ‫نشہ ہے۔۔۔ اس لیئے اس نشے کو‬
‫کو‬ ‫لن‬ ‫تمہارے‬ ‫کرنے کے لیئے میں‬
‫ہی‬ ‫چوسنے لگی ہوں ۔۔۔ورنہ تو تمہیں پتہ‬
‫کے لیئے‬ ‫ہے کہ اس وقت ۔۔۔ تمہارے لن‬
‫چلیوں چلیوں کر رہی ہے‬ ‫پھدی‬ ‫میری‬
‫رہی ہے۔۔۔کھل بند ہو رہی ہے ) یہ‬ ‫( تڑپ‬
‫کہتے ہوئے وہ میرے لن پر جھکی اور‬
‫اسے اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔ ابھی اس نے‬
‫نے‬ ‫تھا کہ اس‬ ‫لگایا‬ ‫چوپا‬ ‫ہی‬ ‫ایک‬
‫باہر نکاال‬ ‫سے‬ ‫منہ‬ ‫اپنے‬ ‫کو‬ ‫میرے لن‬
‫کہنے‬ ‫ہوئے‬ ‫اور میری طرف دیکھتے‬
‫نے بھی چوسا تھا‬ ‫عذرا‬ ‫لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کو‬
‫کا اظہار کرتے‬ ‫۔۔۔؟ تو میں نے حیرانی‬
‫کیسے پتہ‬ ‫ہوئے اس سے کہا ۔۔۔ آپ کو‬
‫تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولی‬ ‫چال؟‬
‫لن‬ ‫کہ مجھے تمہارے‬ ‫تو ہے‬ ‫۔۔۔ بتایا‬
‫کا‬ ‫چوسنے‬ ‫نشہ ہے ۔۔۔ اور اسے‬ ‫کا‬
‫چسکہ ہے ۔۔۔۔۔ پھر مجھے آنکھ مار کر بولی‬
‫ہوا‬ ‫کا تھوک لگا‬ ‫۔۔۔۔ تمہارے لن پر عذرا‬
‫ہے ۔۔۔ اس لیئے ۔۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔۔۔‬
‫ہے تو‬ ‫لیڈی۔۔۔ عذرا کا تھوک لگا‬ ‫سیکسی‬
‫چاٹ جاؤ۔۔۔ تو وہ‬ ‫اسے بھی‬ ‫کیا ہوا۔۔۔ آپ‬
‫اگر‬ ‫تھوک‬ ‫کا‬ ‫کہنے لگی۔۔۔ عذرا‬
‫تو‬ ‫ہوتا‬ ‫لگا‬ ‫نہ‬ ‫پر‬ ‫لن‬ ‫تمہارے‬
‫نہیں کرنا‬ ‫نے ہر گز ایسا‬ ‫میں‬
‫اس‬ ‫یہ تمہاری‬ ‫تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن اب جبکہ‬
‫ہے تو ۔۔۔۔۔۔‬ ‫ہوا‬ ‫لگا‬ ‫پر‬ ‫شافٹ‬ ‫موٹی‬
‫لیئے مجھے یہ بھی منظور‬ ‫تمہارے لن کے‬
‫نے‬ ‫انہوں‬ ‫ہے ۔۔۔اس کے ساتھ ہی‬
‫اور ۔۔۔ بڑی‬ ‫لن کو اپنے منہ میں لیا‬ ‫میرے‬
‫مہارت سے اسے چوسنے لگی۔۔۔۔۔لیکن ایسا‬
‫۔۔۔اور پھر اُٹھ کر‬ ‫دیر کیا‬ ‫اس نے کچھ ہی‬
‫کھڑی ہو گئی۔۔۔اور مجھے ڈریسنگ سے‬
‫اترنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ اب تم‬
‫مجھے چودو۔۔۔۔ ان کی بات سن کر میرے‬
‫کی‬ ‫اترنے‬ ‫سے نیچے‬ ‫ٹیبل‬ ‫ڈریسنگ‬
‫اپنی‬ ‫سے‬ ‫جلدی‬ ‫دیر تھی ۔۔۔۔ کہ بھابھی‬
‫اپنے‬ ‫بڑھی۔۔۔او ر‬ ‫آگے‬ ‫اتا ر کر‬ ‫شلوار‬
‫رکھ‬ ‫پر‬ ‫ڈریسنگ‬ ‫دونوں بازو‬
‫کی طرف کر‬ ‫پیچھے‬ ‫گانڈ‬ ‫دیئے۔۔۔اور اپنی‬
‫بڑی‬ ‫اپنی ٹانگیں کھلی کر لیں ۔۔۔اور‬ ‫کے‬
‫کر‬ ‫میں کہنے لگی۔۔۔۔۔ مجھے جم‬ ‫آواز‬ ‫مست‬
‫چودنا۔۔۔چنانچہ بھابھی کی بات سن کر میں ان‬
‫کے پیچھے آگیا ۔۔۔اور اپنے لن کو اس کی‬
‫چوت پر سیٹ کر کے جیسے ہی اندر‬
‫نے پیچھے‬ ‫ڈالنے لگا ۔۔۔تو اچانک انہوں‬
‫مڑ کر میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ایک‬
‫تو میں‬ ‫کر رہے ہو؟‬ ‫چیز کو تم ِمس‬
‫تو وہ‬ ‫نے حیرانی سے کہا ۔۔۔ وہ کیا ہے؟‬
‫گانڈ‬ ‫اپنی‬ ‫اسی شہوت بھرے لہجے میں‬
‫کر بولی۔۔۔۔ میری گانڈ پر آئیل‬ ‫مٹکا‬ ‫کو‬
‫یاد آ گیا‬ ‫لگانا۔۔۔۔ اس کی بات سن کر مجھے‬
‫چودائی کے دوران ۔۔۔ اپنے‬ ‫کہ بھابھی‬
‫میں لن لینے کی عادی ہے‬ ‫دونوں سوراخوں‬
‫لیئے میں نے اس سے کہا۔۔۔ سوری‬ ‫اس‬
‫میں بھول گیا تھا۔۔۔تو وہ کہنے لگی‬ ‫بھابھی‬
‫کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ پھر بولی ۔۔۔۔ بیڈ کی سائیڈ‬
‫ہے اسے‬ ‫پڑی‬ ‫ٹیبل پر آئیل کی بوتل‬
‫اُٹھا لو۔۔۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا‬ ‫وہاں سے‬
‫آپ نے اسے وہاں کس لیئے رکھا‬ ‫کہ‬
‫؟؟؟؟۔۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔اسے وہاں اس لیئے‬
‫مجھے‬ ‫تھا کہ تم‬ ‫میرا خیال‬ ‫رکھا کہ پہلے‬
‫پر چودو گے ۔۔۔ لیکن پھر میں نے‬ ‫بیڈ‬
‫پر ہی‬ ‫مجھے ڈریسنگ ٹیبل‬ ‫دیکھا کہ تم‬
‫چودنا چاہتے ہو تو میں ُچپ رہی ۔۔۔ بھابھی‬
‫کی بات سن کر میں نے پلنگ کی سائیڈ ٹیبل پر‬
‫اُٹھائی اور‬ ‫رکھی۔۔۔ سرسوں کے تیل کی بوتل‬
‫گھوڑی بنی بھابھی کی گانڈ پر اچھی طرح مل‬
‫اندر تک‬ ‫کے‬ ‫کی گانڈ‬ ‫دی۔۔۔ جب ان‬
‫منہ‬ ‫اپنا‬ ‫بھابھی نے‬ ‫لگ گیا ۔۔۔۔تو تب‬ ‫آئیل‬
‫پیچھے کی طرف کیا اور کہنے‬ ‫ایک بار پھر‬
‫ہو جاؤ۔۔۔۔۔۔۔ بھابھی کی بات‬ ‫لگی۔۔۔۔۔۔ اب شروع‬
‫سن کر میں نے اپنے لن کو ان کی چوت پر‬
‫رکھا۔۔۔۔اور پھر ٹوپے کو ہلکا سا پُش کیا۔۔۔۔تو‬
‫بھابھی کی‬ ‫ہوا‬ ‫ٹوپا۔۔۔ پھسلتا‬ ‫میرا‬
‫چال گیا۔۔ادھر‬ ‫اندر تک‬ ‫سلپری چوت میں‬
‫لن بھابھی کی گرم چوت‬ ‫میرا‬ ‫جیسے ہی‬
‫میں داخل ہوا ۔۔۔۔ تو بھابھی کے منہ سے ایک‬
‫چیخ نکلی۔آہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔اور وہ‬ ‫شہوت بھری‬
‫میں‬ ‫گھسے‬ ‫ہی‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔ پہلے‬
‫میری چوت میں‬ ‫لن‬ ‫پورا‬ ‫تمہارا‬
‫لیئے۔۔۔ اب شروع ہو‬ ‫چال گیا ہے ۔۔ ۔۔۔۔ اس‬
‫مجھے‬ ‫مار کر‬ ‫مار‬ ‫جاؤ۔۔۔اور گھسے‬
‫دو۔۔۔ اور اس کے بعد میں شروع ہو‬ ‫تھکا‬
‫چوت میں زبردست‬ ‫گیا۔۔۔ اور بھابھی کی‬
‫مارنے لگا۔۔۔۔ اور بھابھی میرے ہر‬ ‫گھسے‬
‫گھسے پر لزت آمیز سسکیاں لیتی رہی۔۔۔ پھر‬
‫انہی سسکیوں کے درمیان ہی وہ مجھ سے‬
‫پھدی سے ریمو‬ ‫لن کو‬ ‫۔۔۔۔اب‬ ‫کہنے لگی‬
‫دو‬ ‫گانڈ میں ڈال‬ ‫کرو ( ہٹاؤ) اور میری‬
‫میں نے اس سے کہا کہ وہ تو آخر‬ ‫تو‬
‫بھابھی میری طرف‬ ‫میں نہیں ڈالنا ہوتا ۔۔۔۔تو‬
‫کو‬ ‫واخر‬ ‫بولی ۔۔۔ آخر‬ ‫ہی‬ ‫دیکھے بغیر‬
‫میں اپنے‬ ‫گانڈ‬ ‫میری‬ ‫چھوڑو۔۔۔۔اور ابھی‬
‫دو ۔۔۔ کہ پھدی کی طرح‬ ‫ڈال‬ ‫کو‬ ‫لن‬
‫کے لیئے‬ ‫میری گانڈ بھی تمہارے لن‬
‫چنانچہ‬ ‫رہی ہے‬ ‫کر‬ ‫چلیوں‬ ‫چلیوں‬
‫بھابھی کی بات سن کر میں نے اپنے لن کو‬
‫باہر کھینچا ۔۔۔۔اور پھر‬ ‫کی چوت سے‬ ‫اس‬
‫ڈال دیا ۔۔۔اور پھر سے‬ ‫میں‬ ‫اس کی گانڈ‬
‫ہر دھکے کے‬ ‫لگا ۔۔۔ میرے‬ ‫مارنے‬ ‫دھکے‬
‫دل کش سسکی‬ ‫کی‬ ‫بھابھی‬ ‫جواب میں‬
‫جاتی‬ ‫کہتی‬ ‫ابھرتی اور وہ مسلسل یہی‬
‫ڈارلنگ۔۔۔۔۔ اور‬ ‫دو‬ ‫کو پھاڑ‬ ‫۔ماررر۔۔۔دو۔۔۔اس‬
‫سن کر‬ ‫میں اس کی جوش بھری بات کو‬
‫اگر اس‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔یا‬ ‫گانڈ‬ ‫بھابھی کی‬
‫ہوتا‬ ‫میں‬ ‫پھدی‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫لن‬ ‫وقت‬
‫اور‬ ‫کے لیئے‬ ‫پھاڑنے‬ ‫کو‬ ‫چوت‬ ‫۔۔۔۔۔تو‬
‫ان‬ ‫میرے‬ ‫مارتا ۔۔۔ لیکن‬ ‫سے دھکے‬ ‫طاقت‬
‫گانڈ‬ ‫کی‬ ‫دھکوں سے بھابھی‬ ‫طاقت ور‬
‫نہ پھٹی ۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔۔پھٹنی تھی‬ ‫نہ‬ ‫چوت‬ ‫اور‬
‫ہاں یہ ضرور ہوا کہ میرے ان دھکوں کی‬
‫مل‬ ‫ضرور‬ ‫مزہ‬ ‫وجہ سے اس کو وہ‬
‫توقع‬ ‫سے‬ ‫مجھ‬ ‫وہ‬ ‫کا‬ ‫گیا ۔ کہ جس‬
‫بقول اس‬ ‫۔۔ایسا مزہ ۔۔۔جو‬ ‫رہی تھی‬ ‫کر‬
‫نکال‬ ‫ہی‬ ‫سے‬ ‫کے صرف میرے لن‬
‫دھکوں کے درمیان‬ ‫تھا۔میرے مسلسل‬ ‫کرتا‬
‫چار دفعہ چھوٹ چکی تھی۔۔۔‬ ‫تین‬ ‫تقریبا ً‬ ‫وہ‬
‫چھوٹنے کی‬ ‫کے کافی دفعہ‬ ‫اس‬ ‫اور‬
‫وجہ سے اس کی چوت میں زبددست پھلسن‬
‫سوٹ‬ ‫جو میرے لن کو بہت‬ ‫ہو گئی تھی‬
‫کر رہی تھی۔۔۔۔۔دھکے مارتے مارتے آخر میرا‬
‫اینڈ‬ ‫میرا‬ ‫پوائینٹ آ گیا۔۔۔۔۔جب‬ ‫اینڈ‬ ‫بھی‬
‫وقت میں بھابھی کی‬ ‫لگنے لگا۔۔۔ ۔۔۔۔اس‬
‫رہا‬ ‫مار‬ ‫دیئے دھکے‬ ‫چوت میں لن‬
‫تھا۔۔۔ کہ مجھے اپنے لن نے چھوٹنے کے‬
‫دینے شروع کر دئیے ۔۔۔ان سگنلز‬ ‫سگنل‬
‫ہی میں نے جلدی‬ ‫ہو تے‬ ‫موصول‬ ‫کے‬
‫بھری‬ ‫پانی‬ ‫سے اپنے لن کو بھابھی کی‬
‫گانڈ‬ ‫ان کی‬ ‫چوت سے باہر نکال ۔۔۔۔۔۔۔اور‬
‫کے‬ ‫تیزی‬ ‫۔۔اور پھر‬ ‫دیا‬ ‫میں گھسیڑ‬
‫کر‬ ‫شروع‬ ‫ہونا‬ ‫آگے پیچھے‬ ‫ساتھ‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔۔یہ دیکھتے ہوئے بھابھی نے بھی‬
‫ڈریسنگ کے شیشے سے مجھے دیکھتے‬
‫۔۔ڈارلنگ ۔۔۔ چھوٹنے والے ہو؟‬ ‫کہا۔۔‬ ‫ہوئے‬
‫تو میں نے دھکے مارتے ہوئے اثبات میں‬
‫خاصی‬ ‫ہال دیا۔۔۔۔ یہ سن کر وہ‬ ‫سر‬
‫پرجوش سی ہو گئی ۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔ آخری‬
‫دھکے ہیں۔۔۔ ذرا۔۔زور سے مارنا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں‬
‫کی گانڈ کو چودنا‬ ‫طاقت سے ان‬ ‫نے فُل‬
‫شروع کر دیا۔۔۔اور پھر دھکے مارتے مارتے‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے لن سے منی کا ایک ریال‬
‫میں‬ ‫گانڈ‬ ‫کی‬ ‫بھابھی‬ ‫نکال۔۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫سا‬
‫گانڈ‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫سے‬ ‫لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ جس‬ ‫بہنے‬
‫سے‬ ‫وجہ‬ ‫بھر گئی۔۔۔جس کی‬ ‫لبا لب‬
‫سے نکلنے واال پانی۔۔۔ بھابھی‬ ‫میرے لن‬
‫کی‬ ‫باہر‬ ‫ہو کر‬ ‫کی گانڈ کے اندر سے‬
‫لن منی‬ ‫میرا‬ ‫لگا۔۔۔۔ جب‬ ‫بہنے‬ ‫سمت‬
‫اسے‬ ‫نے‬ ‫تو میں‬ ‫ہو گیا‬ ‫سے خالی‬
‫پاس پڑے‬ ‫باہر نکاال اور‬ ‫کر‬ ‫کھینچ‬
‫درست کرنے‬ ‫پر بیٹھ کر اپنا سانس‬ ‫پلنگ‬
‫ُمڑی‬ ‫واپس‬ ‫بھابھی بھی‬ ‫لگا۔۔۔یہ دیکھ کر‬
‫سے ایک‬ ‫پلنگ کے سائیڈ ٹیبل‬ ‫پھر‬ ‫اور‬
‫پر‬ ‫نکال اور میرے لن‬ ‫صاف سا کپڑا‬
‫کو صاف کرتے ہوئے بولی۔۔۔ آج‬ ‫لگی منی‬
‫چود‬ ‫مجھے‬ ‫ہی‬ ‫واقعہ‬ ‫تم نے‬ ‫تو‬
‫تھکا‬ ‫کر‬ ‫چود کر۔۔۔۔۔۔ اور دھکے مار مار‬
‫مارے کہ۔۔‬ ‫گھسے‬ ‫ہے ۔۔اُف اتنے‬ ‫دیا‬
‫گئی تھی۔۔۔۔ پھر میرے‬ ‫بس ہو‬ ‫میری تو‬
‫پہ کس کر کے کہنے لگی ۔۔۔۔ڈارلنگ‬ ‫ہونٹوں‬
‫مجھے چودا ہے کہ کمال‬ ‫نے‬ ‫تم‬ ‫آج‬
‫کیا ہے۔۔۔۔ پھر میرے لن کو صاف کرنے کے‬
‫صاف‬ ‫کو‬ ‫اپنی پھدی‬ ‫وہ‬ ‫بعد‬
‫روم میں گھس‬ ‫کے لیئے واش‬ ‫کرنے‬
‫ہی‬ ‫گھستے‬ ‫میں‬ ‫گئی۔۔۔ ان کے واش روم‬
‫سے اُٹھا ۔۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫سے پلنگ‬ ‫میں جلدی‬
‫کپڑے پہن لیئے۔۔۔۔ کچھ دیر بعد بھابھی بھی‬
‫با ہر نکل آئی اور نکلتے‬ ‫سے‬ ‫واش روم‬
‫مجھے‬ ‫ہی سیدھی میری طرف بڑھی اور‬
‫بولی۔۔۔ گاؤں میں کتنے دن‬ ‫پیار کرتے ہوئے‬
‫تو میں نے کہا ۔۔۔ کوئی پتہ نہیں۔۔تو‬ ‫رہو گے؟‬
‫وہاں ۔۔۔ نزدیک‬ ‫اگر‬ ‫لگی‬ ‫کہنے‬ ‫وہ‬
‫مجھ‬ ‫تو‬ ‫ہوا‬ ‫سی او‬ ‫پی‬ ‫کوئی‬
‫حاالت‬ ‫میں تمہیں‬ ‫رکھنا‬ ‫رابطہ‬ ‫سے‬
‫ہاں‬ ‫سے باخبر رکھوں گی اور میں نے‬
‫میں پلنگ‬ ‫دیا۔۔۔۔۔۔ اور پھر‬ ‫ہال‬ ‫میں سر‬
‫اور ان سے جانے کی اجازت‬ ‫اُٹھا‬ ‫سے‬
‫منٹ کہہ‬ ‫ایک‬ ‫مجھے‬ ‫وہ‬ ‫تو‬ ‫کی‬ ‫طلب‬
‫کر ۔۔۔۔۔۔۔۔ پلنگ کی دوسری طرف بنے ایک‬
‫انہوں‬ ‫سائیڈ ٹیبل کی طرف چلی گئی۔۔۔۔پھر‬
‫دراز‬ ‫کی سائیڈ ٹیبل کا‬ ‫نے اس‬
‫وہاں سے ایک لفافہ نکال کر‬ ‫کھوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور‬
‫پینٹ‬ ‫میری‬ ‫اور اسے‬ ‫پاس آئی‬ ‫میرے‬
‫ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔ یہ‬ ‫ڈالتے‬ ‫میں‬ ‫جیب‬ ‫کی‬
‫میری طرف سے ۔۔۔ تمہارے کام آئے گا۔۔۔تو‬
‫پوچھا اس‬ ‫سے‬ ‫حیرانی‬ ‫میں نے بڑی‬
‫کہنے لگی۔۔۔اس میں‬ ‫وہ‬ ‫کیا ہے تو‬ ‫میں‬
‫میں‬ ‫سفر‬ ‫تھوڑے سے پیسے ہیں ۔۔ جو‬
‫ان‬ ‫گے ۔ تو میں نے‬ ‫آئیں‬ ‫کام‬ ‫تمہارے‬
‫وہ‬ ‫سے انکار کر دیا ۔۔ تو‬ ‫کو لینے‬
‫بولی‬ ‫کر‬ ‫چوم‬ ‫مجھے‬ ‫سے‬ ‫پیار‬ ‫بڑے‬
‫کیس کے بعد مجھے‬ ‫دوست۔۔۔ اس‬ ‫دیکھو‬
‫علم‬ ‫کا‬ ‫حاالت‬ ‫سارے‬ ‫گھر کے‬ ‫تمہارے‬
‫پلیزززز ۔۔۔۔۔ انکار نہ‬ ‫لیئے‬ ‫ہے اس‬ ‫ہو گیا‬
‫بات سن کر جیسے ہی میں‬ ‫کرو ۔۔۔۔۔ اس کی‬
‫لیئے‬ ‫کے‬ ‫کہنے‬ ‫کچھ‬ ‫کو‬ ‫ان‬ ‫نے‬
‫کھوال ۔۔۔۔تو وہ میرے ہونٹوں پر اپنی‬ ‫منہ‬
‫بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نو‬ ‫انگلی رکھتے ہوئے‬
‫۔۔۔۔۔صرف۔۔۔ میرے لیئے‬ ‫آرگیومنٹ ۔۔۔۔‬
‫۔۔۔پلیززززززززززززززز۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ حقیقت یہ ہے کہ‬
‫بڑی‬ ‫مجھے‬ ‫پیسے لیتے ہوئے‬ ‫سے‬ ‫ان‬
‫تھی۔۔۔بھابھی سے‬ ‫ہوئی‬ ‫محسوس‬ ‫شرم‬
‫میں‬ ‫واپسی پر جب میں سڑک پر پہنچا تو‬
‫میں‬ ‫تو اس‬ ‫دیکھا‬ ‫کر‬ ‫کھول‬ ‫نے لفافہ‬
‫اچھی خاصی رقم موجود تھی ۔۔۔پھر میں وہاں‬
‫گیا تو‬ ‫سے چلتا ہوا ۔۔۔ امجد کے گھر پہنچ‬
‫وہ سب لوگ میرا ہی انتظار کر رہے‬
‫پہنچا ۔ مجھے‬ ‫میں وہاں‬ ‫تھے۔۔۔ جیسے ہی‬
‫بہت لیٹ‬ ‫کہنے لگے‬ ‫ہی انکل‬ ‫دیکھتے‬
‫سے لیٹ‬ ‫بیٹا۔۔تو میں نے ۔۔ان‬ ‫ہو گئے ہو‬
‫معذرت کر لی۔۔۔ جسے انہوں نے‬ ‫کی‬ ‫آنے‬
‫اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر آنٹی‬ ‫بے دلی سے قبول کیا‬
‫کا‬ ‫مجھے روٹی‬ ‫طور پر‬ ‫رسمی‬ ‫نے‬
‫انکل‬ ‫پر‬ ‫ا نکار‬ ‫میرے‬ ‫پوچھا ۔۔۔۔۔اور‬
‫ٹیکسی لینے کے لیئے باہر نکل گئے۔۔۔ ٹیکسی‬
‫راولپنڈی‬ ‫اڈہ‬ ‫بیٹھ کر ہم پیر ودھائی‬ ‫میں‬
‫بس‬ ‫متعلقہ‬ ‫اس وقت‬ ‫تو‬ ‫پہنچے‬
‫بھری ہوئی ۔۔۔۔اور‬ ‫سواریوں سے کھچا کھچ‬
‫جانے کے لیئے بلکل تیار تھی ۔۔۔۔ ۔۔لیکن‬
‫اللچ‬ ‫کا سن کر‬ ‫کنڈکٹر "توڑ" کی سواری‬
‫زنانہ‬ ‫ساتھ‬ ‫میں آ گیا ۔۔۔اور پھر میرے‬
‫ہوئے اس نے بڑی‬ ‫دیکھتے‬ ‫کو‬ ‫سواریوں‬
‫بس کی‬ ‫ہمارے لیئے‬ ‫سے‬ ‫مشکل‬
‫ایک‬ ‫وہ‬ ‫لیکن‬ ‫کروائیں‬ ‫چار سیٹیں خالی‬
‫ملیں بلکہ۔۔۔۔دو آگے یعنی کہ‬ ‫ساتھ نہیں‬
‫جہاں پر آنٹی‬ ‫سیٹ‬ ‫پچھلی‬ ‫ڈرائیور سے‬
‫بیٹھ گئیں ۔۔‬ ‫بیٹی مینا‬ ‫کی چھوٹی‬ ‫ان‬ ‫اور‬
‫باجی کو بس‬ ‫مہرالنساء‬ ‫مجھے اور‬ ‫جبکہ‬
‫صوفے سے‬ ‫کہ‬ ‫سیٹ یعنی‬ ‫کی آخری‬
‫ملی جہاں پر کھڑکی کی‬ ‫والی‬ ‫پہلے‬
‫بیٹھ گئیں جبکہ‬ ‫باجی‬ ‫مہرالنساء‬ ‫طرف‬
‫برا‬ ‫میں‬ ‫پر‬ ‫سیٹ‬ ‫کے ساتھ والی‬ ‫ان‬
‫پنڈی کی حدود‬ ‫جمان ہو گیا۔۔ بس جب‬
‫پہنچی‬ ‫پر‬ ‫روڈ‬ ‫سے باہر نکل کر جی ٹی‬
‫مخاطب‬ ‫مجھے‬ ‫نے‬ ‫مہرالنساء باجی‬ ‫تو‬
‫طرف جھکتے ہوئے‬ ‫میری‬ ‫پھر‬ ‫اور‬ ‫کیا‬
‫بات کہی کہ‬ ‫ایسی‬ ‫میں ایک‬ ‫کان‬ ‫میرے‬
‫رہ گیا۔۔۔۔اور‬ ‫جسے سن کر میں ششدر‬
‫فٹ‬ ‫سیٹ سے کم از کم ایک‬ ‫اپنی‬ ‫میں‬
‫ایسی کر‬ ‫ہی‬ ‫بات‬ ‫اوپر اچھال ۔۔۔۔ انہوں نے‬
‫میرا‬ ‫دی تھی کہ جسے سن کر حیرت سے‬
‫رہ گیا۔۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔ آنکھیں‬ ‫کھال‬ ‫کا‬ ‫منہ کھلے‬
‫اپنے‬ ‫ہو گئیں تھیں۔۔۔۔ وہ‬ ‫پھٹنے کے قریب‬
‫ال‬ ‫کان کے قریب‬ ‫میرے‬ ‫کو‬ ‫ہونٹوں‬
‫عالم حیرت میں‬
‫ِ‬ ‫تھیں کہ۔۔۔۔۔۔۔۔میں‬ ‫رہی‬ ‫کر کہہ‬
‫منہ کھولے مسلسل مہرو باجی کی طرف دیکھ‬
‫کو‬ ‫میری حالت‬ ‫رہا تھا جو کہ اس وقت‬
‫منہ‬ ‫ہوئے پھر سے اپنا‬ ‫نظر انداز کر تے‬
‫کہہ رہیں تھیں۔۔‬ ‫ال کر‬ ‫کان کے قریب‬ ‫میرے‬
‫سچ بتاؤ۔۔۔۔تم عذرا سے ملنے گئے تھے نا‬
‫تھے‬ ‫؟؟۔۔۔۔اور اسی وجہ سے لیٹ بھی ہو گئے‬
‫۔۔۔پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے‬
‫ہوں‬ ‫رہی‬ ‫درست کہہ‬ ‫لگیں ۔۔۔ کیوں میں‬
‫کا‬ ‫بجائے ان کی بات‬ ‫ناں؟؟؟؟؟۔لیکن میں‬
‫ان‬ ‫جواب دینے کے ۔۔۔ حیرت زدہ نظروں سے‬
‫تھا۔۔۔ یہاں میں‬ ‫رہا‬ ‫کی طرف دیکھے جا‬
‫بات بھی‬ ‫کر دوں کہ۔۔۔ایسی‬ ‫ایک بات کلئیر‬
‫نہ‬ ‫سے بے تکلفی‬ ‫نہیں تھی کہ میری ان‬
‫ان کے گھر فری آنے جانے کی‬ ‫تھی ۔۔ بلکہ‬
‫وجہ سے میری ان کے ساتھ ( ایک حد میں‬
‫خاصی بے تکلفی تھی۔لیکن اس‬ ‫اچھی‬ ‫رہ ) کر‬
‫قسم کے موضوع پر کبھی بھولے سے بھی ان‬
‫نہ ہوئی تھی ۔ ۔۔ اسی لیئے‬ ‫کے ساتھ بات‬
‫جو بات مجھ سے پوچھ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ میں‬ ‫وہ‬
‫توقع‬ ‫ہر گز‬ ‫سے اس بات کی‬ ‫ان کی طرف‬
‫اس بات کو‬ ‫جب‬ ‫تھا۔۔۔۔ ۔۔۔ پھر‬ ‫رہا‬ ‫نہ کر‬
‫مجھے‬ ‫انہوں نے تیسری دفعہ دھرایا ۔۔۔تو‬
‫ہوش سا آ گیا اور ان کی طرف‬ ‫کچھ‬
‫اک‬ ‫ہی میں نے‬ ‫ہوئے فوراً‬ ‫دیکھتے‬
‫عدد تردیدی بیان جاری کر دیا۔۔۔۔۔اور ان سے‬
‫میں تو کسی عذرا‬ ‫بوال۔کہ ۔۔۔ کک کون عذرا ؟‬
‫غلط‬ ‫یقینا ً کوئی‬ ‫کو نہیں جانتا ۔۔۔۔ آپ کو‬
‫ہو ا‬ ‫فہمی ہوئی ہے ۔۔۔ میں تو اس لیئے لیٹ‬
‫دیگر رشتے‬ ‫امی اور اپنے‬ ‫تھا۔۔۔کہ میں‬
‫داروں کےساتھ اس کیس کے بارے میں‬
‫ڈسکس کرتا رہا ہوں۔۔۔ میری بات سن کر مہرو‬
‫باجی نے میری طرف گھور کر دیکھا اور‬
‫پھر میری نقل اتارتے ہوئے بولیں۔۔۔ کیس کو‬
‫ڈسکس کر رہا تھا۔۔ایڈا توں وڈا وکیل دا‬
‫میری‬ ‫سے‬ ‫نظروں‬ ‫پتُر۔۔ پھر بڑی دل چسپ‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ دیکھو‬
‫لیئے‬ ‫مجھ سے جھوٹ بولنے کی اس‬ ‫چندا‬
‫کوئی ضرورت نہیں کہ مجھے تم دونوں‬ ‫بھی‬
‫کی ایک ایک بات کا پتہ ہے ۔۔۔ اس کے ساتھ‬
‫پراسرار بناتے‬ ‫اپنے لہجے کو‬ ‫ہی وہ‬
‫کہو تو میں تم کو‬ ‫ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔کہ‬
‫فرسٹ‬ ‫سے‬ ‫عذرا‬ ‫یہ بھی بتا دوں کہ تم‬
‫ٹائم مکھا سنگھ اسٹیٹ کے پارک میں ملے‬
‫تم‬ ‫ہی‬ ‫تھے اور پھر اسے دیکھتے‬
‫ہو گئے تھے ‪-‬‬ ‫ہزار جان سے فدا‬ ‫اس پر‬
‫میں اس نے تم کو‬ ‫پہلی مالقات‬ ‫لیکن‬
‫کوئی گھاس نہ ڈالی تھی اور پھر بھائی‬
‫کے کہنے پر اس نے‬ ‫نبیلہ‬ ‫اور‬ ‫(امجد)‬
‫پارک‬ ‫تم سے دوستی کر لی تھی ۔۔۔۔پھر‬
‫بیک یارڈ‬ ‫کے‬ ‫کے بعد ۔۔۔۔ عذرا کے گھر‬
‫اور تم اس سے ملتے‬ ‫نبیلہ‬ ‫میں بھائی‬
‫سچ کہہ رہا‬ ‫میں‬ ‫رہے ہو۔۔۔۔۔۔ دوستو‬
‫مہرو باجی کے منہ سے اپنے‬ ‫کہ‬ ‫ہوں‬
‫نکات سن کر‬ ‫کے چیدہ چیدہ‬ ‫عشق‬
‫میں تو ہکا بکا رہ گیا اور پنجابی کے ایک‬
‫محاورے کے مطابق ۔۔۔ میرا ۔۔۔۔ " منہ فق تے‬
‫حیران ہو گئی تھی"۔۔ ۔۔۔ مجھے اس قدر‬ ‫بنُڈ‬
‫بڑی‬ ‫باجی‬ ‫مہرو‬ ‫حیرت ذدہ دیکھ کر‬
‫بار‬ ‫ایک‬ ‫رہیں تھی۔۔۔۔ چنانچہ‬ ‫محظوظ ہو‬
‫دیکھ کر مسکراتے‬ ‫طرف‬ ‫میری‬ ‫وہ‬ ‫پھر‬
‫میں تم کو یہ‬ ‫ہوئے کہنے لگی ۔۔۔ کہو تو‬
‫بھی بتا سکتی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی انہوں نے اتنا‬
‫ہی کہا تھا کہ میں نے ہار ماننے میں ہی‬
‫کہنے‬ ‫ان سے‬ ‫اپنی عافیت سمجھی اور‬
‫ہو‬ ‫لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ ٹھیک کہہ رہی‬
‫میں عذرا سے ملنے گیا تھا‬ ‫باجی۔۔۔واقعی‬
‫اور اسی وجہ سے لیٹ بھی ہو گیا تھا‬
‫بات کو سرے‬ ‫والی‬ ‫سے ملنے‬ ‫( بھابھی‬
‫نے گول کر دیا تھا) ۔۔۔۔پھر ان کی‬ ‫سے ہی میں‬
‫طرف د یکھ کر بوال۔۔۔۔لیکن کیا آپ مجھے بتا‬
‫سکتی ہیں کہ آپ کو یہ بات کیسے پتہ‬
‫سن کر ان کا‬ ‫اعتراف گناہ‬
‫ِ‬ ‫چلی؟؟؟؟؟ ۔۔۔ میرا‬
‫سر فخر سے بلند ہو گیا اور پھر اچانک ہی‬
‫ہو کر میری طرف دیکھتے ہوئے‬ ‫وہ سیریس‬
‫کہنے لگیں ۔۔۔اس بات کو چھوڑو ۔۔۔۔پہلے تم‬
‫نبیلہ اور بھائی کے گھر‬ ‫مجھے یہ بتاؤ کہ‬
‫سے بھاگنے کے بارے میں وہ کیا کہتی ہے؟‬
‫کیا اسے اس بارے میں پہلے سے کچھ علم‬
‫میں نے ان سے کہا نہیں باجی‬ ‫تھا ؟ تو‬
‫میری طرح اس کو بھی ان دونوں کے گھر سے‬
‫بھاگنے کے بارے میں کوئی علم نہ تھا ۔۔۔ بلکہ‬
‫کے گھر سے بھاگنے کی وجہ سے عذرا‬ ‫نبیلہ‬
‫بڑی سزا پائی ہے ۔۔۔ میری‬ ‫نے مفت میں‬
‫بات سن کر وہ کہنے لگیں ۔۔وہ کیسے؟ تو اس‬
‫پر میں نے مختصراً ان کو عذرا کے بارے‬
‫وجہ سے اس‬ ‫کی‬ ‫حادثے‬ ‫میں بتایا کہ اس‬
‫کالج جانا چھڑوا دیا گیا ہے اور پھر‬ ‫کا‬
‫پر ہونے والی‬ ‫اس کے بعد میں نے اس‬
‫مزید سختیوں کے بارے میں بتالیا ۔۔۔۔ جن کو‬
‫سن کر مہرو باجی نے بڑے افسوس کا اظہار‬
‫کیا اور پھر مجھ سے کہنے لگی۔۔۔ سیم یہی یا‬
‫تمہارے ساتھ‬ ‫ر ِد عمل‬ ‫ُجلتا‬ ‫اس سے ملتا‬
‫بھی ہوا ہے اور بھائی کے گھر سے بھاگنے‬
‫ہے‬ ‫بھگتنی پڑی‬ ‫کی ساری سزا تم کو‬
‫پھر بڑے افسردہ لہجے میں کہنے لگیں ۔۔۔ دیکھو‬
‫یار۔۔ ان دونوں کی وجہ سے کتنے لوگ مصیبت‬
‫ہیں ۔۔ پھر اس کے بعد وہ‬ ‫میں پڑے ہوئے‬
‫میرے ساتھ ان لوگوں کے بارے میں باتیں کرتی‬
‫رہی ۔۔۔۔۔ کافی دیر کے بعد جب وہ ُچپ ہوئی تو‬
‫میں نے اچانک ہی ان سے کہا ۔۔۔ باجی کیا‬
‫میں آپ سے ایک سوال پوچھ سکتا ہوں؟ تو وہ‬
‫کہنے لگی ۔۔۔۔۔ضرور پوچھو ۔۔۔ پھر خود ہی مسکرا‬
‫کر بولیں ۔۔ تم یہی پوچھنا چاہتے ہو نا کہ‬
‫مجھے تمہارے اور عذرا کے افئیر کے بارے‬
‫تو میرے پیارے‬ ‫میں کیسے پتہ چال ؟؟‬
‫ہے کہ۔۔۔۔۔ مجھے یہ‬ ‫یہ‬ ‫بھائی اس کا جواب‬
‫سب کچھ تمہارے دوست امجد نے بتایا تھا۔۔۔۔۔‬
‫ان کی بات سن کر میں ایک بار پھر حیران‬
‫ہو گیا اور ان سے کہنے لگا کہ کیا‬
‫ہی باجی ؟ تو انہوں نے سر ہال کر کہا‬ ‫واقعی‬
‫ہو گیا تم‬ ‫۔۔۔۔کمال ہے بھائی ۔۔۔۔۔۔ اتنا عرصہ‬
‫تمہیں اتنی‬ ‫ہوئے اور‬ ‫کو ہمارے گھر آتے‬
‫میری اور‬ ‫معلوم کہ‬ ‫بھی نہیں‬ ‫بات‬ ‫سی‬
‫امجد کی آپس میں بہت بنتی تھی۔۔۔۔ ۔۔۔۔ یو‬
‫نو۔۔۔امجد میرا چھوٹا بھائی ہی نہیں بلکہ ایک‬
‫راز دار دوست بھی تھا اور سچ پوچھو تو‬
‫زیادہ‬ ‫کم۔۔۔دوست‬ ‫میں اور امجد بہن بھائی‬
‫مجھ سے نہیں‬ ‫تھے۔۔۔ وہ اپنی کوئی بات بھی‬
‫چھپاتا تھا۔۔۔ حت ٰی کہ اس نے نبیلہ سے اپنے‬
‫میرے‬ ‫باتیں بھی‬ ‫عشق کے بارے میں ایسی‬
‫عام طور پر‬ ‫ہیں جو کہ‬ ‫ساتھ شئیر کیں‬
‫شئیر‬ ‫کے ساتھ‬ ‫بہن‬ ‫بھائی اپنی‬ ‫کوئی‬
‫سوچنا‬ ‫کرنا تو درکنار۔۔۔ اس بارے میں‬
‫نہیں کرتا ۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ پھر اپنی بات کو‬ ‫بھی پسند‬
‫جاری رکھتے ہوئے مزید کہنے لگی۔۔۔۔ وہ جب‬
‫بھی نبیلہ سے ملتا تو واپسی پر وہ مجھ سے‬
‫اس کی ایک ایک بات کو ڈسکس کرتا تھا ۔۔‬
‫اس پر میں نے ان کو ٹوکتے ہوئے کہا کہ‬
‫پھر تو باجی آپ کو امجد کے گھر سے۔۔۔۔۔۔۔ ابھی‬
‫میری‬ ‫میں نے اتنی ہی بات کی تھی کہ وہ‬
‫کے‬ ‫بڑی افسردگی‬ ‫دیکھتے ہوئے‬ ‫طرف‬
‫ساتھ کہنے لگی۔۔۔۔۔ بس اسی بات کا مجھے‬
‫بھر افسوس رہے گا کہ اپنی ہر بات‬ ‫زندگی‬
‫مجھ سے شئیر کرنے والے میرے بھائی نے‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس بات کو مجھ سے کیوں چھپایا ۔۔۔؟؟‬
‫کرو ۔۔۔ اگر مجھے اس‬ ‫پھر کہنے لگی۔۔ یقین‬
‫بھنک پڑ جاتی‬ ‫سی بھی‬ ‫بات کی ذرا‬
‫میں اپنے پیارے بھائی کو کبھی بھی ایسا‬ ‫تو‬
‫اٹھانے کا نہیں کہتی ۔۔۔ بلکہ کوئی درمیانی‬ ‫قدم‬
‫راستہ نکالنے کی کوشش کرتی ۔۔۔ اب پتہ نہیں وہ‬
‫اور میں‬ ‫کہاں ہو گا؟ کس حال میں ہو گا؟‬
‫کہ بات کرتے کرتے مہرو باجی‬ ‫نے دیکھا‬
‫ہوئے‬ ‫سے با ہر دیکھتے‬ ‫اور بس‬ ‫۔۔۔اداس‬
‫کہیں کھو سی گئیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے بعد‬
‫کوئی بات نہیں کی‬ ‫مجھ سے مزید‬ ‫انہوں نے‬
‫دیکھتے‬ ‫سے باہر‬ ‫۔۔۔۔ ۔۔۔۔ بلکہ کھڑکی‬
‫ہوئے ۔۔۔۔ وہ کسی گہری سوچ میں ڈوبی ہوئیں‬
‫نظر آئیں۔۔۔۔۔ مہرو باجی کو افسردہ دیکھ کر‬
‫نے بھی اداسی کی گہری چادر‬ ‫میرے من‬
‫پتہ نہیں کیوں‬ ‫پھر‬ ‫لپیٹ لی ۔۔۔۔اور‬
‫بری طرح ستانے‬ ‫مجھے عذرا کی یاد‬
‫۔‬ ‫جاری ہے‬ ‫لگی۔۔۔‬

‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_نمبر_‪10‬‬

‫کے بارے سوچنا شروع‬ ‫عذرا‬ ‫ابھی میں نے‬


‫کیا تھا کہ اچانک بس نے ایک موڑ‬ ‫ہی‬
‫پھر کچھ ہی دیر بعد ہماری بس‬ ‫کاٹا ۔۔۔اور‬
‫ایک ایسی سڑک پر دوڑنے لگی۔۔۔۔ کہ جس‬
‫کے ساتھ ساتھ نہر بہہ رہی تھی میں نے‬
‫بس کے باہر نظر اُٹھا کر دیکھا تو آسمان پر‬
‫پوری آب و تاب‬ ‫کا چاند اپنی‬ ‫چوہدویں‬
‫جس کا عکس‬ ‫چمک رہا تھا‬ ‫کے ساتھ‬
‫کے‬ ‫بس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی نہر‬
‫تھا۔۔۔ اور نہر‬ ‫رہا‬ ‫میں بھی پڑ‬ ‫پانی‬
‫چاند‬ ‫والے‬ ‫پڑنے‬ ‫میں‬ ‫پانی‬ ‫کے اس‬
‫پیش‬ ‫نظارہ‬ ‫دل کش‬ ‫ہی‬ ‫بڑا‬ ‫یہ عکس‬ ‫کا‬
‫تھا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس چاند کو دیکھ کر‬ ‫رہا‬ ‫کر‬
‫مجھے اپنے چاند ( عذرا ) کی یاد بری طرح‬
‫ستانے لگی۔۔ عین اسی وقت بس کے‬
‫بس کی ٹیپ کا بٹن آن کیا‬ ‫ڈرائیور نے‬
‫سناٹے کو چیرتی ہوئی‬ ‫۔۔۔۔۔اور بس کے‬
‫ایک مسحور‬ ‫کی آواز میں‬ ‫سنگھ‬ ‫جگجیت‬
‫ہیں پردیس میں‬ ‫کُن غزل گونجی ۔۔۔۔ ہم تو‬
‫ہو گا چاند ۔۔۔۔۔ اپنی رات‬ ‫۔۔دیس میں نکال‬
‫چاند۔( شاید ڈرائیور‬ ‫کی چھت پر کتنا تنہا ہو گا‬
‫کو بھی اپنے چاند کی یاد ستانے لگی‬
‫غزل کے بول سن کر میری‬ ‫تھی)۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر‬
‫خوبصورت‬ ‫آنکھوں کے سامنے عذرا کا‬
‫چہرہ گھومنے لگا۔خاص کر اس مصرعہ پر کہ ۔۔۔‬
‫جن آنکھوں میں کاجل بن کر تیری کالی‬
‫رات۔۔۔۔ان آنکھوں میں آنسو کا اک قطرہ ہو گا‬
‫ہوئے سارے‬ ‫چاند۔اور اس کے ساتھ بتائے‬
‫واقعات کسی فلم کے منظر کی طرح ایک ایک کر‬
‫کے میری آنکھوں میں کے سامنے گردش‬
‫کرنے لگے ۔۔۔۔ ۔۔۔ پھر جب جگجیت نے اس غزل‬
‫گایا ۔۔۔۔تو مجھے ایسے لگا‬ ‫کا اگال مصرعہ‬
‫کہ جیسے شاعر نے یہ مصرعہ میرے اور‬
‫عذرا کے موجودہ حاالت کو سامنے دیکھ کر‬
‫لکھا ہے وہ کہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ رات نے ایسا پیچ‬
‫لگایا ٹوٹی ہاتھ سے ڈور۔۔۔آنگن والے نیم میں جا‬
‫کر اٹکا ہو گا چاند۔۔۔۔اور میں سوچنے لگا کہ‬
‫اپنے ہاتھ سے ڈور ہی نہیں سب کچھ ہی‬
‫ٹوٹ گیا۔۔اور دیکھو ہمارا نصیبا کہاں پر جا کر‬
‫پھر اسی طرح کی باتیں سوچتے‬ ‫اٹکتا ہے۔ اور‬
‫خیالوں میں‬ ‫کے‬ ‫میں عذرا‬ ‫ہوئے‬
‫ایسا کھویا کہ مجھے آس پاس کی کوئی ہوش‬
‫باتوں کو‬ ‫انہی‬ ‫پھر‬ ‫نہ رہی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫یاد کرتے کرتے ۔۔۔۔جانے کس وقت میں نیند‬
‫میں کھو گیا۔رات کا پتہ نہیں‬ ‫آغوش‬ ‫کی‬
‫کون سا پہر تھا کہ اچانک کسی وجہ سے‬
‫میری آنکھ کھل گئی ۔۔ پہلے تو مجھے کچھ سمجھ‬
‫نہیں آئی ۔۔۔۔پھر غور کرنے پر محسوس ہوا کہ‬
‫ہاتھ رکھ‬ ‫پر اپنا‬ ‫میرے سر‬ ‫جیسے کوئی‬
‫ہے ۔۔۔ پھر مزید غور کرنے پر۔۔۔۔جو‬ ‫کر دبا رہا‬
‫ہوئی۔۔۔ ۔۔۔۔ اسے سوچ کر‬ ‫بات مجھ پر آشکارا‬
‫ہی میرے بدن میں سنسی سی دوڑ گئی۔۔۔۔۔ پھر‬
‫ہی نہ ہو ۔۔۔۔‬ ‫خیال آیا کہ کہیں یہ میرا وہم‬
‫خیال کی کنفرمیشن‬ ‫اس‬ ‫چنانچہ اپنے‬
‫اسی حالت میں بظاہر سوتا‬ ‫لیئے ۔۔۔۔ میں‬ ‫کے‬
‫ہونے والی‬ ‫ہوا بن گیا ۔۔ اور اپنے ساتھ‬
‫کر دیا‬ ‫شروع‬ ‫حرکات کو نوٹ کرنا‬

‫ت حال کے بارے میں میرا‬


‫صور ِ‬ ‫اس‬
‫سوتے ہوئے کسی وقت‬ ‫ذاتی خیال یہ تھا کہ‬
‫میرا سر مہرو باجی کے کندھے ۔۔۔۔۔ سے ہوتا‬
‫پر آ کر‬ ‫سینے کے ابھار‬ ‫ہوا۔۔۔۔ ان کے‬
‫ٹِک گیا ہو گا ۔۔ اور اس طرح میرے سر کو‬
‫دیکھ کر ان کو مزہ آیا‬ ‫اپنی چھایتوں پر ٹکا‬
‫جھٹکا‬ ‫کو‬ ‫ہو گا۔۔۔۔۔ اسی لیئے ۔۔۔ بس‬
‫ان کی چھاتی پر دھرا‬ ‫لگنے کی وجہ سے‬
‫ہوا۔۔ میرا سر۔۔۔۔ جیسے ہی وہاں سے ہٹنے‬
‫اپنی‬ ‫لگتا تو وہ اسے پکڑ کر دوبارہ‬
‫یہی‬ ‫چھاتیوں پر رکھ دیتی تھیں ۔۔۔۔ ان کا‬
‫کہ جسے محسوس کر کے میرے‬ ‫وہ عمل تھا‬
‫سنسناہٹ‬ ‫سی‬ ‫بدن میں ایک عجیب‬
‫میں‬ ‫طرف‬ ‫دوڑ گئی تھی۔۔۔۔۔ جبکہ دوسری‬
‫چھاتی‬ ‫مہرو باجی کی‬ ‫کو‬ ‫اپنے گالوں‬
‫انجوائے کر رہا‬ ‫رکھے‬ ‫پر‬ ‫ابھار‬ ‫کے‬
‫بار بار‬ ‫مجھے‬ ‫۔۔۔۔۔ایک خیال‬ ‫تھا لیکن‬
‫کہیں‬ ‫یہ‬ ‫اور وہ‬ ‫تھا‬ ‫پریشان کر رہا‬
‫اسی‬ ‫ہو۔۔۔۔ اور اپنے‬ ‫نہ‬ ‫وہم‬ ‫میرا‬ ‫یہ‬
‫کے لیئے ۔۔۔‬ ‫ترید‬ ‫خیال کی تصدیق ۔۔۔۔۔ یا‬
‫مہرو باجی‬ ‫سادھے‬ ‫وقت دم‬ ‫میں اس‬
‫کا بغور جائزہ لے رہا‬ ‫حرکات‬ ‫کی‬
‫تھا۔۔۔پھر اسی وقت بس نے ایک ہلکا سا جمپ‬
‫لیا ۔۔۔۔جس کی وجہ سے ان کی چھاتیوں‬
‫میرا‬ ‫ہوا‬ ‫دھرا‬ ‫پر‬ ‫ابھار‬ ‫کے‬
‫ہی ان کی‬ ‫جیسے‬ ‫سر۔۔۔۔ پھسل کر‬
‫جانے لگا‬ ‫کی طرف‬ ‫سے نیچے‬ ‫چھاتیوں‬
‫میرے سر پر رکھا‬ ‫وقت‬ ‫اسی‬ ‫عین‬ ‫تو‬
‫ہاتھ حرکت میں آ گیا ۔۔۔۔اور‬ ‫کا‬ ‫ان‬ ‫ہوا‬
‫میرے سر کو‬ ‫دھرے‬ ‫پر‬ ‫چھاتیوں‬ ‫اپنی‬
‫سے‬ ‫طرف جانے‬ ‫کی‬ ‫پھسل کر نیچے‬
‫وہیں‬ ‫اسے‬ ‫انہوں نے‬ ‫لیئے‬ ‫بچانے کے‬
‫باوجود‬ ‫اس کے‬ ‫دیا۔۔۔۔۔ لیکن‬ ‫پر دبا‬
‫پھسل کر ان‬ ‫سا‬ ‫تھوڑا‬ ‫سر‬ ‫میرا‬ ‫بھی‬
‫ہی‬ ‫تھا۔۔۔ جیسے‬ ‫آن ٹھہرا‬ ‫کے نپلز پر‬
‫ان کی چھاتی کے‬ ‫نے‬ ‫گال‬ ‫میرے‬
‫اس وقت مجھے محسوس‬ ‫نپل کو چ ُھوا۔۔۔۔۔۔۔ تو‬
‫ہوا تھا۔۔۔‬ ‫اکڑا‬ ‫نپل کافی‬ ‫ان کا‬ ‫ہوا کہ‬
‫باجی کے‬ ‫مجھے‬ ‫ہی ۔۔۔۔‬ ‫ساتھ‬ ‫اس کے‬
‫بات کی بھی‬ ‫گرم ہونے کے عالوہ ۔۔۔۔۔ اس‬
‫نے میرے‬ ‫ہو گئی تھی کہ انہوں‬ ‫۔۔۔۔تصدیق‬
‫جان بوجھ کر اپنی چھایتوں پر‬ ‫سر کو‬
‫کی تصدیق‬ ‫بات‬ ‫تھا۔ اس‬ ‫رکھا‬ ‫دبا‬
‫ہی میرے اندر کا شیطان ایک‬ ‫ہوتے‬
‫لے کر بیدار ہو‬ ‫انگڑائی‬ ‫سی‬ ‫زبددست‬
‫گیا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اور پھر میں نے بڑے ہی غیر‬
‫سے اپنے گال کو ان کے‬ ‫محسوس طریقے‬
‫نپل کے ساتھ لگا لیا۔۔۔ اور‬ ‫ہوئے‬ ‫اکڑے‬
‫محتاط‬ ‫ہی‬ ‫وقفے وقفے سے بڑے‬ ‫پھر‬
‫میں ۔۔۔۔ اپنے گال کو اس پر رگڑنے‬ ‫انداز‬
‫لگا۔۔۔۔۔اپنے نپلز پر میرے گال کی محتاط‬
‫۔۔۔ وہ تھوڑی کسمانے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔رگڑائی سے‬
‫محتاط‬ ‫وہ بھی۔۔۔میری طرح‬ ‫لگیں۔۔۔۔۔اور‬
‫پر رکھے میرے‬ ‫میں ۔۔۔ اپنے نپلز‬ ‫انداز‬
‫دیر‬ ‫دبانے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ پھر کچھ‬ ‫کو‬ ‫گال‬
‫کے نیچے مہرو‬ ‫بعد مجھے اپنے گالوں‬
‫سینے کے زیر و بم محسوس‬ ‫باجی کے‬
‫وجہ‬ ‫لینے کی‬ ‫سانس‬ ‫ہوئے۔۔۔گہرے گہرے‬
‫کے‬ ‫ردھم‬ ‫ایک‬ ‫چھاتیاں‬ ‫سے ان کی‬
‫ہونے لگیں تھیں۔۔۔ جس‬ ‫اونچی نیچی‬ ‫ساتھ‬
‫بخوبی‬ ‫کی وجہ سے مجھے اس بات کا‬
‫میرے گالوں کو اپنی‬ ‫تھا کہ‬ ‫ہو گیا‬ ‫اندازہ‬
‫مہرو‬ ‫سے‬ ‫رکھنے کی وجہ‬ ‫پر‬ ‫چھاتیوں‬
‫گرم ہو گئیں تھیں۔۔۔ لیکن بوجہ ۔۔۔۔‬ ‫بہت‬ ‫باجی‬
‫وہ کوئی ہل ُجل نہ کر سکتی تھیں۔۔۔۔ اس لیئے‬
‫وہ گہرے گہرے سانس لے کر اپنا‬
‫رہیں تھی‬ ‫کھتارسس کر‬

‫ابھی‬ ‫گال کو رکھے‬ ‫ان کے نپل پر اپنے‬


‫ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک‬ ‫تھوڑی‬ ‫مجھے‬
‫یا کھڈے‬ ‫جمپ‬ ‫ڈرائیور نے شاید کسی‬ ‫بس‬
‫بریک‬ ‫ایک زور دار‬ ‫کی وجہ سے‬
‫یہ جھٹکا اتنا‬ ‫بریک کا‬ ‫کی‬ ‫لگائی۔۔ ۔۔۔بس‬
‫شدید تھا کہ اس کی وجہ سے ان کی‬
‫ا پنا سر ٹکائے میں ۔۔۔۔۔‬ ‫چھاتیوں پر میں‬
‫سونے کی ایکٹنگ نہ کر سکا۔۔۔۔ اور نہ چاہتے‬
‫کر اُٹھ بیٹھا۔۔۔اور آنکھیں‬ ‫ہڑبڑا‬ ‫ہوئے بھی‬
‫ملتا ہوا ۔۔ مہرو باجی کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔۔‬
‫کر مہرو باجی نے‬ ‫دیکھ‬ ‫مجھے اُٹھتا‬
‫سر‬ ‫ہاتھ کو میرے‬ ‫بڑی پھرتی سے اپنے‬
‫کے سامنے ایک‬ ‫ہٹا کر اپنی آنکھوں‬ ‫سے‬
‫سا بنایا ۔۔۔۔اور سونے کی ایکٹنگ‬ ‫چھجا‬
‫جان کر‬ ‫نہیں‬ ‫لگی ۔۔۔۔ لیکن پتہ‬ ‫کرنے‬
‫ایک‬ ‫نے‬ ‫میں۔۔۔ انہوں‬ ‫ان جانے‬ ‫۔۔۔۔۔۔ یا‬
‫نا معلوم‬ ‫کہ کسی‬ ‫یہ کر دیا‬ ‫غضب‬
‫میری ران پر‬ ‫ہاتھ‬ ‫دوسرا‬ ‫وجہ سے اپنا‬
‫غضب‬ ‫مزید‬ ‫پر‬ ‫دیا۔۔۔۔۔ اور اس‬ ‫رکھ‬
‫ران پر جس جگہ‬ ‫ہوا کہ۔۔۔۔۔ میری‬ ‫یہ‬
‫رکھا تھا ۔۔۔وہاں سے‬ ‫ہاتھ‬ ‫انہوں نے اپنا‬
‫میٹر‬ ‫ہی سینٹی‬ ‫فاصلہ چند‬ ‫کا‬ ‫میرے لن‬
‫تھا۔۔۔ میں نے ایک نظر ان کی طرف اور‬
‫ان کے ہاتھ کی‬ ‫اپنی ران پر رکھے‬ ‫پھر‬
‫دیکھا تو ۔۔۔ میری پینٹ کے اندر کھلبلی‬ ‫طرف‬
‫ہاتھ کی نرماہٹ اور‬ ‫گئی۔۔۔۔ان کے‬ ‫سی مچ‬
‫نزدیکی نے‬ ‫کی‬ ‫میرے لن سے اس‬
‫تھا ۔۔۔۔۔اس طرح‬ ‫بے چین کر دیا‬ ‫مجھے‬
‫اب کی بار‬ ‫اب پوزیشن یہ ہو گئی تھی کہ‬
‫رہی تھیں‬ ‫کر‬ ‫وہ‬ ‫ایکٹنگ‬ ‫سونے کی‬
‫تھا کہ‬ ‫بیٹھا‬ ‫اور میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس تاڑ میں‬
‫ان‬ ‫لگے اور میں‬ ‫کب بس کو جھٹکا‬
‫کو اپنے لن کی طرف‬ ‫ہاتھ‬ ‫کے‬
‫بعد۔۔۔ اس‬ ‫کچھ دیر‬ ‫پھر‬ ‫سرکاؤں۔۔۔۔ لیکن‬
‫موقعہ‬ ‫ہی‬ ‫بخود‬ ‫خود‬ ‫کا‬ ‫بات‬
‫اچانک‬ ‫چلتے‬ ‫گیا۔۔۔ ۔۔۔۔ وہ یوں کہ چلتے‬ ‫بن‬
‫بڑی تیزی کے ساتھ ایک ٹرک‬ ‫بس نے‬ ‫ہی‬
‫کو اوور ٹیک کیا۔۔۔ جس کی وجہ سے‬
‫میرے سمیت ساری سواریاں ڈول گئیں ۔۔۔۔۔اور‬
‫میرے لن‬ ‫اسی دوران ان کا ہاتھ سرک کر‬
‫آ گیا۔۔۔ ۔۔۔۔۔اور ان کے ہاتھ‬ ‫قریب‬ ‫کے بلکل‬
‫۔۔۔بلکل‬ ‫قریب‬ ‫کو اپنے لن کے اتنے‬
‫عنقریب ۔۔محسوس کرتے ہی میری پینٹ‬
‫اپنے‬ ‫ناگ نے‬ ‫شیش‬ ‫بیٹھے‬ ‫میں‬
‫اُٹھانا شروع کر دیا۔۔۔لیکن ابھی‬ ‫کو‬ ‫پھن‬
‫اپنے پھن کو اُٹھانا‬ ‫نے‬ ‫ناگ‬ ‫میرے‬
‫شروع ہی کیا تھا ۔۔۔ کہ۔۔۔بس نے ایک بار‬
‫پھر ایک اور ٹرک کو کٹ مارا ۔۔۔۔اور اس کٹ‬
‫بس اس قدر ذور سے‬ ‫کی وجہ سے پوری‬
‫ڈولی کہ۔۔۔۔۔ مہرو باجی بھی ہڑبڑا کر اُٹھ‬
‫انہوں نے بھی‬ ‫کھڑی ہوئیں ۔۔۔ میری طرح‬
‫اُٹھتے ہی اپنی آنکھوں کو ملنا شروع کر‬
‫دیا ۔۔۔اور پھر مجھ سے کہنے لگیں کہ ہم کس‬
‫جگہ پہنچ گئے ہیں؟ تو میں نے اپنے کندے‬
‫اچکاتے ہوئے ان سے کہا کہ سوری باجی‬
‫باہر‬ ‫مجھے نہیں معلوم۔۔۔۔۔تو وہ کھڑکی سے‬
‫دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ باہر تو گھپ‬
‫پہلے تو اچھا‬ ‫جبکہ کچھ دیر‬ ‫اندھیرا ہے‬
‫تو میں نے ان‬ ‫خاصہ چاند چمک رہا تھا‬
‫طرف نگاہ‬ ‫زرا آسمان کی‬ ‫سے کہا کہ‬
‫گا‬ ‫ہو‬ ‫ڈال کر دیکھیں ۔۔۔تو آپ کو معلوم‬
‫پیچھے‬ ‫کہ کالے بادلوں نے چاند کو اپنے‬
‫چھپا رکھا ہے۔۔۔ابھی ہم یہی باتیں کر رہے‬
‫تھے کہ اچانک ہی ایک تیز سی آواز گونجی‬
‫ہی‬ ‫نکلتے‬ ‫کے‬ ‫آواز‬ ‫۔۔۔اور اس‬
‫ڈرائیور نے بس کو ایک سائیڈ پر کر کے‬
‫کھڑا کر دیا۔۔۔۔۔۔ بس کے رکتے ہی بہت‬
‫پوچھا کہ‬ ‫سواریوں نے کنڈکٹر سے‬ ‫سی‬
‫ہے ؟؟ تو‬ ‫رکی‬ ‫بس کیوں‬ ‫کیا بات ہے؟‬
‫بس کی سواریوں سے‬ ‫کنڈکٹر‬ ‫اس پر‬
‫مخاطب ہو کر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس کا ٹائر‬
‫کا ٹائر‬ ‫بس‬ ‫ہو گیا ہے۔۔۔ اس لیئے‬ ‫پنکچر‬
‫ہم یہاں پر رکیں گے۔۔۔ کنڈکٹر کی‬ ‫بدالنے تک‬
‫بات سن کر ایک ایک کر کے ساری‬
‫سواریاں بس سے باہر نکلنے لگیں ۔۔۔۔ آخر میں‬
‫۔۔۔ میں اور باجی بھی بس سے باہر نکل‬
‫گئے۔۔اور باہر آ کر دیکھا تو یہ ایک ویران‬
‫نہ کوئی بندہ‬ ‫دُور دُور تک‬ ‫سی جگہ تھی‬
‫کی ذات نظر آ رہی تھی۔چاروں طرف‬ ‫بندے‬ ‫نہ‬
‫ایک ہُو کا عالم تھا۔۔۔ اور آسمان پر بادلوں کی‬
‫چھایا ہوا تھا‬ ‫سو اندھیرا‬
‫وجہ سے ہر ُ‬
‫کنڈکٹر اور ڈرائیور کے عالوہ اور بھی کافی‬
‫ٹائر کے‬ ‫سارے لوگ بس کے برسٹ شدہ‬
‫پاس کھڑے اس کا جائزہ لے رہے تھے‬
‫دیکھا تو مینا اور آنٹی سامنے‬ ‫۔۔۔ ایک طرف‬
‫ان کے‬ ‫کھڑی تھیں۔۔۔۔ ہم دونوں بھی‬ ‫ہی‬
‫پاس جا کر کھڑے ہو گئے۔۔اور اِدھر اُدھر کی‬
‫دیر بعد مہرو باجی‬ ‫باتیں کرنے لگے۔۔۔ کچھ‬
‫آنٹی کے تھوڑی نزدیک ہوئیں اور اپنا منہ‬
‫ان کے کان کے قریب کر کے ان سے کوئی‬
‫بات کی ۔۔۔جسے سن کر آنٹی نے اپنے ارد گرد‬
‫انہوں‬ ‫دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔۔ اس کے بعد‬
‫نے کنڈکٹر کو اپنے پاس بال کر اس سے کہا کہ‬
‫تم لوگوں نے کہاں پر سٹے کرنا ہے۔۔۔۔۔۔۔ تو‬
‫اس پر کنڈکٹر نے ان کو کسی جگہ کا نام‬
‫جسے سن کر آنٹی نے اس سے پوچھا کہ ہم‬ ‫بتایا‬
‫تو وہ‬ ‫وہاں کتنی دیر میں پہنچ جائیں گے؟؟‬
‫دو گھنٹے تو لگ ہی‬ ‫ڈیڑھ‬ ‫کہنے لگا کہ‬
‫جائیں گے۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ تو وہاں سے چلتا‬
‫بنا۔۔ جبکہ اس کی بات کو سن کر مہرو باجی‬
‫ایک دفعہ پھر آنٹی کے نزدیک ہوئی اور اپنا‬
‫منہ ان کے قریب کر کے پھر کوئی بات کی ۔۔۔۔۔‬
‫سا منہ‬ ‫نے برا‬ ‫جسے سن کر پہلے تو آنٹی‬
‫بنایا ۔۔۔۔اور پھر مجھے اشارے سے اپنے پاس‬
‫بال کر کہنے لگی ۔۔۔۔ بیٹا ایسا کرو کہ تم مہرو کے‬
‫ساتھ جاؤ کہ اسے واش روم کی بہت سخت‬
‫حاجت ہو رہی ہے۔۔۔ آنٹی کی بات سن کر مہرو‬
‫باجی ان سے کہنی لگیں ۔۔۔ آپ میرے ساتھ چلیں‬
‫ناں ۔۔۔۔ تو آنٹی نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔‬
‫کہ اس گھپ اندھیرے میں تمہارے ساتھ جاتے‬
‫ہے‬ ‫ڈر لگ رہا‬ ‫ہوئے خود مجھے بھی‬
‫کے ساتھ جاتی ہو تو‬ ‫اس لیئے تم بھائی‬
‫ویل اینڈ ُگڈ ورنہ ۔۔۔۔صبر کر لو۔۔۔۔ لیکن میرے‬
‫خیال میں مہرو باجی کو واش روم جانے کی‬
‫حاجت کچھ زیادہ ہی محسوس ہو رہی تھی اس‬
‫لیئے انہوں نے تھوڑی سی رد و کد کے بعد‬
‫مجھے اپنے ساتھ لے جانا منظور کر لیا۔۔۔۔۔ اور ہم‬
‫سڑک کے پاس ایک تاریک جگہ پر اتر گئے‬
‫۔۔۔ابھی ہم نیچے اتر ہی رہے تھے کہ اچانک‬
‫کنڈکٹر نے پیچھے سے مجھے آواز دیتے ہوئے‬
‫کہا ۔۔۔۔ باؤ جی زرا دھیان سے جانا اس ایریا‬
‫میں سانپ بچھو بہت ہوتے ہیں ۔۔۔ سانپ بچھو‬
‫کا نام سن کر ہم دونوں کے ہی اوسان خطا ہو‬
‫باجی کچھ زیادہ ہی ڈر گئی‬ ‫گئے ۔۔۔لیکن مہرو‬
‫جلدی‬ ‫۔۔۔اور اسی ڈر کے مارے انہوں نے‬
‫سے میرا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر میرے ساتھ‬
‫لگ کر چلنے لگی۔۔۔آسمان پر کالے بادلوں کی‬
‫وجہ سے گھپ اندھیرا چھایا ہوا تھا۔۔۔۔ اور‬
‫سڑک کے آس پاس گہری خاموشی کا راج‬
‫تھا۔۔۔ ایسے میں ہمارے زمین پر چلنے کی بس‬
‫ہلکی آواز آ رہی تھی۔۔۔ ورنہ تو وہاں پر قبرستان‬
‫جیسا سناٹا تھا۔۔ادھر مہرو باجی سانپ بچھوں‬
‫کے ڈر سے میرا ہاتھ پکڑے میرے ساتھ لگ‬
‫کر چل رہیں تھیں اور ان کا نرم جسم میرے‬
‫چلنے کی وجہ سے میری‬ ‫ساتھ ج ُڑ کر‬
‫حالت کچھ عجیب سی ہو رہی تھی۔۔۔ ۔تھوڑی دور‬
‫جا کر وہ رک گئیں ۔۔۔۔اور پھر انہوں نے ایک نظر‬
‫پیچھے کی طرف دیکھا اور مجھ سے کہنے لگیں ۔۔۔‬
‫یہ جگہ ٹھیک لگتی ہے ۔۔۔۔ تب میں نے ان سے‬
‫۔۔۔ میں‬ ‫کر لو‬ ‫کہا باجی آپ یہاں واش روم‬
‫جا کر آپ کا انتظار کرتا ہوں ۔۔۔‬ ‫پیچھے‬ ‫تھوڑا‬
‫میری بات سنتے ہی وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔نہیں تم‬
‫مجھے بہت‬ ‫ُرکو گے۔۔۔ کہ‬ ‫یہیں میرے پاس‬
‫ڈر لگ رہا ہے ۔۔۔۔ پھر کہنے لگیں ۔۔۔ میں پیشاب‬
‫کے لیئے یہاں بیٹھتی ہوں اور تم میرے پاس‬
‫نے پوچھا تو تم کہہ دینا‬ ‫کھڑے رہو ۔۔ اگر امی‬
‫کہ میں تھوڑا دور چلی گئی تھی۔۔۔ اور اس کے‬
‫سناٹے میں‬ ‫ساتھ ہی اس ۔۔۔ مجھے اس پُر ہول‬
‫ایک سرسراہٹ کی آواز سنائی دی۔۔۔ اور اس‬
‫سرسراہٹ کی آواز سن کر میرے رونگھٹے کھڑے‬
‫سرسراہٹ شلوار اتارنے‬ ‫ہو گئے ۔ ۔۔۔ کیونکہ وہ‬
‫باجی پیشاب کرنے کے لیئے اپنی‬ ‫کی تھی۔مہرو‬
‫شلوار اتار رہی تھیں۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ‬
‫تھا۔۔‬ ‫ہوا‬ ‫اس وقت ہر سو گھور اندھیرا چھایا‬
‫لیکن اندھیرے میں مسلسل دیکھنے کی وجہ سے‬
‫کہ‬ ‫اس قابل ہو گئیں تھیں‬ ‫میری آنکھیں‬
‫مجھے آس پاس کی چیزیں دھندلی ہی سہی پر‬
‫۔۔نظر آ رہی تھیں۔۔۔ چنانچہ سرسراہٹ کی آواز‬
‫ان‬ ‫سنتے ہی میں نے باجی کی طرف منہ کر‬
‫دیکھنے کی‬ ‫۔۔۔۔۔ کی پیشاب والی جگہ کو ننگا‬
‫آس میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس طرف دیکھ رہا‬
‫تھا۔۔لیکن بے سود۔۔‬

‫ہر طرف گہرا سناٹا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اور پھر میں نے‬
‫دیکھا کہ مہرو باجی اپنی شلوار نیچے کر کے‬
‫زمین پر بیٹھ گئیں ہیں اور کوشش کے‬
‫مجھے ان کی پیشاب والی جگہ‬ ‫باوجود بھی‬
‫نظر نہ آئی تو میں مایوس ہو گیا ۔۔۔لیکن‬
‫اپنی نظروں کو وہاں سے نہیں ہٹایا۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسی‬
‫سیٹی کی‬ ‫ہوئی‬ ‫اثنا میں ۔۔۔۔ سناٹے کو چیرتی‬
‫میں گونجی ۔۔۔۔۔اور یہ‬ ‫ایک دل کش سی آواز فضا‬
‫کہ بے اختیار‬ ‫کی آواز اتنی دل کش تھی‬ ‫سیٹی‬
‫۔۔۔ میرے منہ ایک سسکی سی نکل گئی اور میں ۔۔۔‬
‫بدستور مہرو باجی کی دونوں ٹانگوں کے‬
‫بیچ میں آس بھری نظروں سے دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔۔اور‬
‫ساتھ ہی مہرو باجی‬ ‫کی آواز‬ ‫پھر سیٹی‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی چوت سے پیشاب نکلنے کی مخصوص‬
‫آواز سنائی دی۔۔۔۔ اور پھر کافی دیر تک ان کی‬
‫چوت کے جھرنے سے پانی نکلنے کی آوازیں‬
‫آتی رہی ۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ شرررررررر۔۔۔۔۔۔۔۔ کی وہ‬
‫مدھم ہوتی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد‬ ‫آوازیں‬
‫۔۔۔ ہوتے ہوتے ان کی چوت سے پیشاب نکلنے‬
‫ہی مہرو باجی‬ ‫کی آواز آنی بند ہو گئی ۔۔واقعی‬
‫پیشاب آیا ہوا تھا ۔۔ ادھر‬ ‫کو بہت زیادہ‬
‫جیسے ہی ان کی چوت سے پیشاب نکلنے کی‬
‫آواز آنی بند ہوئی تو ۔۔۔۔ میں نے بے ساختہ‬
‫ہی ان سے کہہ دیا کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی پیشاب ختم ہو‬
‫گیا ہے اب چلیں ۔۔۔ میری بات سن کر وہ اوپر‬
‫اُٹھیں ۔۔۔اور اپنی شلوار اوپر کر کے پہلے کی‬
‫چل پڑیں۔۔آگے جا‬ ‫طرح میرے ساتھ لگ کر‬
‫کر میں نے شرارتا ً باجی سے کہا۔۔ باجی وہ‬
‫سیٹی کی آواز کیسی تھی؟ تو وہ میرا ہاتھ‬
‫کہنے لگیں ۔۔۔ بد تمیز۔۔۔ایسی باتیں‬ ‫پکڑے پکڑے‬
‫نہیں کرتے۔۔۔ اور جب میں نے دیکھا کہ باجی‬
‫کے لہجے میں غصہ نہیں ۔۔۔ تو میں شیر ہو گیا‬
‫لگا پلیزززززززززز‬ ‫ان سے کہنے‬ ‫اور دوبارہ‬
‫بظاہر وہ زچ ہو کر‬ ‫ناں باجی۔۔۔تو‬ ‫۔۔۔ بتائیں‬
‫عذرا سے پوچھنی تھی‬ ‫کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔یہ بات‬
‫۔۔۔ جو کہ تمہارے دل کی جانی ہے تو ان کے‬
‫لگا تھا کہ‬ ‫ہی‬ ‫جواب میں۔۔۔ میں کچھ کہنے‬
‫وہ مجھ سے الگ ہوتے ہوئے‬ ‫اچانک‬
‫ہیں ۔۔‬ ‫بولی۔۔۔۔اب ُچپ ۔۔۔کہ ہم نزدیک آ گئے‬
‫اس کے بعد ہم بس کے قریب پہنچ کر انتظار‬
‫کرنے لگے۔۔اور پھر کچھ دیر بعد کنڈکٹر نے‬
‫سواریاں بس میں بیٹھ جائیں‬ ‫اعالن کیا ۔۔۔ کہ‬
‫۔۔۔ہم لوگ چلنے لگے ہیں ۔۔۔ پھر جیسے ہی‬
‫بیٹھے ۔۔۔ اس کے‬ ‫بس کی میں جا کر‬ ‫ہم‬
‫تھوڑی دیر بعد بس چل پڑی ۔۔۔بس چلنے کے کچھ‬
‫دیر بعد مہرو باجی مجھ سے مخاطب ہو کر‬
‫کہنے لگیں ۔۔ ہاں تو جناب شاہ صاحب آپ کیا‬
‫فرما رہے تھے ؟ تو میں نے معصوم بنتے‬
‫ہوئے ان سے کہا ۔۔۔ باجی وہ سیٹی کی آواز کیسی‬
‫تھی؟ میری بات سن کر وہ سرخ ہو گئیں ۔۔۔۔اور‬
‫پھر میری آنکھوں میں آنکھوں ڈال کر کہنے لگیں‬
‫۔۔۔یہ سیٹی کہ آواز وہیں سے آ رہی تھی کہ جس‬
‫طرف بے شرم آدمی تم دیدے پھاڑ پھاڑ کر دیکھ‬
‫رہے تھے۔۔۔ مہرو باجی کا اتنا بولڈ جواب سن‬
‫نہ آیا‬ ‫کر فوری طور پر میری سمجھ میں کچھ‬
‫ہوئے۔۔۔۔ آئیں‬ ‫اور میں ان کی طرف دیکھتے‬
‫بائیں شائیں کرتا ہوا اپنی بغلیں جھانکنے لگا۔۔۔‬
‫مجھے اس حال میں دیکھ کر وہ خاصی‬
‫جب کافی دیر تک میں‬ ‫محظوظ ہوئیں ۔۔۔ پھر‬
‫مجھے چھیڑتے ہوئے‬ ‫کچھ نہ بوال تو وہ‬
‫کہنے لگیں ۔۔۔ویسے اس بارے میں تم نے کبھی‬
‫اپنی فرینڈ عذرا سے نہیں پوچھا؟ تو اس پر‬
‫میں سر جھکا کر بوال۔۔۔ وہ جی اس کے ساتھ‬
‫کبھی اس بات کا موقع نہیں مال ۔۔میری بات سن‬
‫سر کو‬ ‫ہوئے‬ ‫میرے جھکے‬ ‫کر انہوں نے‬
‫اوپر اُٹھایا اور کہنے لگیں۔۔ لیکن امجد نے جو‬
‫تمہارے سکول آف تھاٹ ۔۔۔ کے بارے میں مجھے‬
‫بتایا تھا کیا وہ غلط تھا؟ تو میں نے ان کی طرف‬
‫الجھے ہوئے لہجے میں کہا کہ آپ‬ ‫دیکھ کر‬
‫کس سکول آف تھاٹ کی بات کر رہیں ہیں؟ تو‬
‫میری بات سن کر انہوں نے میری آنکھوں میں‬
‫جھانکتے ہوئے کہا ۔۔۔ وہی ون ٹو تھری واال‬
‫سکول آف تھاٹ ۔۔۔۔۔ مہرو باجی کے منہ سے‬
‫والی بات سن کر میں ہکا بکا رہ‬ ‫ون ٹو تھری‬
‫گیا ۔۔۔۔۔۔ اور ان سے کہنے لگا۔۔۔۔ یہ ۔۔۔ بات آپ کو‬
‫کس نے بتائی۔۔؟ تو وہ بڑی بے نیازی کے ساتھ‬
‫کہنے لگیں ارے بدھو ۔۔۔۔ بتایا تو تھا کہ‬
‫تمہارا دوست ہر بات مجھ سے شئیر کرتا تھا‬
‫مجھے یاد آ گیا کہ‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔ ان کے جواب سے‬
‫لڑکیوں‬ ‫جب بھی‬ ‫دوستوں کے جھرمٹ میں‬
‫ہوتی تھی ۔۔۔ تو‬ ‫کے بارے میں ہماری ڈسکشن‬
‫میرا ایک‬ ‫لڑکیوں کے بارے میں‬ ‫ہی‬ ‫ہمیشہ‬
‫مؤقف ہوا کرتا تھا اور میں ان سے‬ ‫ہی‬
‫ایک ہی بات بار بار کہا کرتا تھا کہ ۔۔۔۔ ۔۔۔ یاد‬
‫رکھو دوستو ۔۔۔۔ خاص کر کنواری لڑکی کے ساتھ‬
‫کہانی‬ ‫کبھی لمبی نہ لگانا ۔۔۔۔ ورنہ تم عشق‬
‫جب وہ‬ ‫پر‬ ‫میں پھنس جاؤ گے ۔۔۔۔۔ تو اس‬
‫پوچھا کرتے تھے کہ ۔۔۔ تو پھر کیا‬ ‫مجھ سے‬
‫کرنا چاہیئے ؟ تو میں آگے سے جواب دیا کرتا‬
‫تھا کہ جب کڑی پھنس جائے تو اس سے پہلے‬
‫کوئی روال ہو جائے ۔۔۔فوراً ون ٹو تھری‬ ‫کہ‬
‫کیا کرو۔۔۔تا کہ بعد میں کوئی پچھتاوا نہ رہے (‬
‫یہاں ون ٹو تھری سے مراد لڑکی کو چودنا ہے) ظاہر‬
‫اکثر دوست میرے‬ ‫بیٹھے ہوئے‬ ‫ہے وہاں‬
‫اس فارمولے سے متفق نہیں ہوا کرتے‬
‫تھے۔۔۔ ان کے خیال میں لڑکی کے ساتھ عشق‬
‫کرنے اور ڈیٹ مارنے کا اپنا ہی مزہ ہوتا‬
‫ہے۔۔۔۔ عشق کرنے اور ڈیٹ مارنے پر مجھے‬
‫کوئی اعتراض نہیں ہوا کرتا تھا ۔۔۔ لیکن لڑکی‬
‫کے ساتھ لمبی لگانے کے میں سخت خالف‬
‫تھا ۔۔۔۔ کیونکہ میرے تجربے کے مطابق ۔۔۔جب بھی‬
‫لڑکے لڑکی نے لمبی لگائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رزلٹ اچھا‬
‫نہیں نکال ۔۔۔۔ اور اس دوران یا تو ان کے گھر‬
‫والوں کو پتہ چل گیا ۔۔۔ یا پھر ۔۔۔۔ ان سے امجد‬
‫جیسی حماقت ہو گئی۔۔۔ اور اس حماقت سے بہتر‬
‫نہیں ۔۔ون ٹو تھری کر لیا جائے۔۔کہ لڑکی کو‬
‫پھنسانے کا اصل مقصد تو یہی ہوتا ہے نا۔۔یہ‬
‫ہے کہ۔۔۔۔مہرو باجی کے منہ سے ون ٹو‬ ‫حقیقت‬
‫تھری کا سن کر میں تو حیران رہ گیا اور اسی‬
‫میں ان سے کہنے لگا۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔‬ ‫حیرانی کے عالم‬
‫باجی !!!!!۔۔ امجد اس قسم کی باتیں بھی آپ‬
‫سے شئیر کرتا رہا ہے؟ تو وہ ہنس کر کہنے‬
‫لگی۔۔۔ میں نے تو تم کو پہلے بھی بتایا تھا کہ‬
‫امجد مجھ سے بڑی آسانی کے ساتھ ہر وہ بات‬
‫عام‬ ‫بھی شئیر کر لیا کرتا تھا کہ جو بات‬
‫بھائی اپنی بہن کے ساتھ کرنا تو درکنار‬
‫سوچنا بھی گناہ سمجھتا ہے۔۔۔ پھر کہنی لگیں۔۔۔‬
‫تم لوگ اپنی محفلوں میں جو باتیں ۔۔۔۔ اپنی‬
‫معشوقوں کے قصے وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ جو کچھ بھی‬
‫ڈسکس کیا کرتے تھے گھر آکر وہ ساری باتیں‬
‫امجد مجھ سے شئیر کیا کرتا تھا۔۔۔ مہرو باجی کی‬
‫بات سن کر میں حیرت سے ان کی طرف دیکھے‬
‫جا رہا تھا۔۔۔ تب انہوں نے اپنا منہ میرے بلکل‬
‫نزدیک کیا ۔۔۔۔اور ایک بار پھر میری آنکھوں میں‬
‫آنکھیں ڈال کر کہنے لگیں ۔۔۔تمہارے سارے دوستوں‬
‫میں ۔۔۔ مجھے تمہارا سکول آف تھاٹ سب سے‬
‫اچھا لگا ہے۔۔۔۔۔ مہرو باجی نے جس انداز‬
‫سے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر ۔۔۔اور‬
‫بڑے ہی نپے تلے انداز میں یہ لفظ ادا کیئے‬
‫کیا ہوا لہجہ ۔۔۔۔۔ان کے‬ ‫تھے۔۔۔ ان کا ادا‬
‫کہنے کا انداز مجھے کچھ کہہ رہا تھا۔۔۔۔اور جو‬
‫کچھ کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔ وہ میں خوب سمجھ رہا‬
‫تک‬ ‫تھا بلکہ میں تو ان کی بات کی تہہ‬
‫پہنچ گیا تھا ۔۔۔۔ ادھر میرے چہرے کی رنگت‬
‫میری آنکھوں کی چمک سے انٹیلی جنٹ‬ ‫اور‬
‫مہرو باجی بھی سمجھ گئی تھی کہ مجھ تک ان‬
‫سے‬ ‫کا پیغام پہنچ گیا ہے ۔۔اسی لیئے وہ مجھ‬
‫کھڑکی سے باہر‬ ‫بات کرتے ہی‬ ‫یہ‬
‫دیکھنے لگی۔۔۔جیسے ہی مہرو باجی نے اپنا منہ‬
‫کھڑکی کی طرف کیا ۔۔۔۔اسی وقت میں آگے بڑھا‬
‫۔۔۔اور باجی سے مخاطب ہو کر بوال۔۔ ۔۔۔۔اگر اجازت‬
‫ہو تو میں آپ کا ہاتھ پکڑ سکتا ہوں ؟ تو وہ‬
‫کھڑکی سے باہر دیکھتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔کیوں۔۔‬
‫میرے ہاتھ میں ایسی کیا بات ہے کہ تم اسے‬
‫پکڑنا چاہتے ہو؟ تو میں نے ان کو جواب دیتے‬
‫ہوئے کہا کہ میں تو بس آپ کا ہاتھ پکڑ کر آپ کا‬
‫شکریہ ادا کر نا چاہتا ہوں اور پھر ان کو جواب‬
‫سنے بغیر ہی میں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ‬
‫میں پکڑ لیا اور ۔۔۔۔ اسے سہالنے لگا جبکہ اس‬
‫اپنا ہاتھ‬ ‫دوران۔۔۔۔ وہ میرے ہاتھوں میں‬
‫بڑی بے نیازی کے ساتھ کھڑکی سے‬ ‫دیئے۔۔۔‬
‫باہر دیکھتی رہی۔۔‬

‫کچھ دیر بعد میں نے ان کے ہاتھ کو سہالتے‬


‫اوپر اُٹھا کر اسے منہ کی طرف‬ ‫سہالتے تھوڑا‬
‫لے جانے کی کوشش کرنے ہی لگا تھا کہ۔۔۔۔۔ وہ‬
‫چونک کر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔ کیا‬
‫کرنے لگے ہو؟ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔۔۔ جی‬
‫میں اسے چومنا چاہتا ہوں ۔۔۔ تو وہ میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ تم کس لیئے میرے‬
‫ہاتھ کو چومنا چاہتے ہو؟ تو میں نے ان سے کہا‬
‫میرا‬ ‫کہ ایسا کرنے کو‬ ‫وہ اس لیئے‬ ‫۔۔۔۔کہ‬
‫یہ کہتے ہوئے میں نے‬ ‫جی چاہ رہا ہے‬
‫ان کے ہاتھ کو اپنے ہونٹوں کی طرف لے جانا‬
‫شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔تو اس پر انہوں نے مجھ سے‬
‫اور کہنے لگی ۔۔۔ کچھ کرنے‬ ‫اپنا ہاتھ چھڑا لیا‬
‫سے پہلے ۔۔۔۔کم از کم آس پاس تو دیکھ لیا کرو ۔۔۔۔‬
‫اور اس کے ساتھ ہی وہ اپنی سیٹ سے تھوڑا‬
‫سا اوپر اُٹھیں اور اپنی گردن گھما کر آس پاس کے‬
‫ماحول کا جائزہ لے کر میری طرف دیکھنے لگیں‬
‫۔۔۔۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ مطلع کلئیر ہے‬
‫نا؟ تو وہ منہ سے کچھ نہ بولیں۔۔۔ اور اس کے‬
‫ساتھ ہی میں نے ان کے ہاتھ کو دوبارہ سے‬
‫پکڑ لیا۔۔۔۔۔اور اسے اپنے ہونٹوں کے نزدیک کر‬
‫شروع کر دیا۔۔ کچھ‬ ‫کے اس کی پشت کو چومنا‬
‫دیر تک انہوں نے مجھے اپنے ہاتھ کو چومنے‬
‫دیا ۔۔ پھر بڑی ادا سے کہنے لگیں۔۔۔۔۔اب بس بھی‬
‫کرو۔۔اور اپنا ہاتھ واپس کھینچ لیا۔۔۔ لیکن میں ان‬
‫کی جان کو کہاں چھوڑنے واال تھا۔۔ اس لیئے‬
‫ان کے ہاتھ کو چومنا تو چھوڑ دیا ۔۔۔ لیکن‬
‫اسے سہالنا جاری رکھا۔۔۔۔ان کے ہاتھ کو چومنے‬
‫فُل جوبن‬ ‫کے دوران ہی ۔۔۔۔ میرا لن کھڑا ہو کر‬
‫میں آ چکا تھا ۔۔۔ جس کی وجہ سے میری پینٹ‬
‫بڑا سا ابھار بن چکا تھا ۔۔۔۔۔ ان کے‬ ‫میں ایک‬
‫ہاتھ کو سہالتے سہالتے ۔۔۔ میرے من میں جانے‬
‫کیا با ت آئی کہ میں نے ان کے ہاتھ کو پکڑ کر‬
‫ا اپنی پینٹ کے ابھار والی جگہ پر رکھ دیا۔۔۔‬
‫جیسے ہی ان کے ہاتھ نے میری ابھری ہوئی‬
‫جگہ پر لن کو ٹچ کیا ۔۔۔کھڑکی سے باہر دیکھتے‬
‫ہوئے مہرو باجی کو ایک دم کرنٹ سا لگا اور‬
‫انہوں نے ۔۔۔ فوراً میری ابھار والی جگہ پر رکھا‬
‫اپنا ہاتھ ہٹا لیا۔۔۔۔۔اور ُمڑ کر میری طرف دیکھتے‬
‫کیا بدتمیزی تھی ؟‬ ‫ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔۔ یہ ۔۔۔یہ‬
‫ان کی بات سن کر میں نے بھی برا ِہ راست ان کی‬
‫آنکھوں میں دیکھتے ہوئے۔۔۔ ان کی طرف اتنا‬
‫زیادہ جھک گیا ۔۔۔ کہ ان کے منہ سے نکلنے‬
‫والی گرم سانسیں مجھے اپنے چہرے پر فیل‬
‫ہونے لگیں۔۔۔ مجھے اتنی آگے بڑھتے دیکھ کر‬
‫انہوں نے اپنے منہ کو پیچھے ہٹانے کو کوئی‬
‫کوشش نہیں کی ۔۔۔ اور وہ بھی میری آنکھوں‬
‫میں آنکھیں ڈال کر میری طرف دیکھتی رہیں ۔۔‬
‫اسی دوران میری طرف دیکھتے ہوئے ان کے‬
‫منہ سے سرگوشی نکلی ۔۔۔۔۔ یہ تم اتنے آگے کیوں‬
‫جھک گئے ہو ؟ ۔۔ تو میں نے بھی شرارت سے‬
‫ان کی طرف دیکھتے ہوئے سرگوشی میں جواب‬
‫دیا۔۔۔ آپ کی چومی لینی تھی ۔۔ تو وہ چونک کر‬
‫کہنے لگیں۔۔ یہاں ؟ تو میں نے ادھر ادھر دیکھتے‬
‫ہوئے کہا کیوں یہاں کیا ہے؟ تو وہ سرگوشی‬
‫میں بولیں ۔۔۔ یہاں آس پاس کافی لوگ موجود ہیں‬
‫۔۔تو میں نے اپنے منہ کو مزید ان کے قریب‬
‫کرتے ہوئے کہا ۔۔۔دیکھ لیں سب لوگ یا تو سو‬
‫رہے ہیں یا پھر اونگھ رہے ہیں ہماری طرف‬
‫ہے۔۔۔۔یہ بات کرتے ہی‬ ‫کسی کا کوئی دھیان نہیں‬
‫میں اپنے ہونٹوں کو ان کے ہونٹوں کے قریب‬
‫لے گیا ۔۔۔ مجھے آگے بڑھتا دیکھ کر جلدی سے‬
‫انہوں نے اپنے منہ کو پیچھے کر لیا ۔۔۔۔۔ اور پھر‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے ان کے منہ سے وہی‬
‫شہوت بھری سرگوشی نکلی ۔۔۔ وہ مجھ سے کہہ‬
‫یہ بتاؤ‬ ‫پہلے تو مجھے‬ ‫رہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔ بدتمیز‬
‫کر کہاں‬ ‫کہ ابھی تم نے میرے ہاتھ کو پکڑ‬
‫رکھا تھا ؟ ۔۔۔ تو میں نے بھی سرگوشی میں ہی‬
‫ان کو جواب دیتے ہوئے کہا۔۔ آپ مجھے یہ‬
‫بتائیں کہ آپ نے میرے ہاتھ کو وہاں سے ہٹایا‬
‫رہنے دیتی ن۔ میری‬ ‫وہیں پہ‬ ‫کیوں؟؟ اسے‬
‫بات کو سن کر انہوں نے اپنے نیچے والے‬
‫لیا ۔۔۔اور‬ ‫دبا‬ ‫میں‬ ‫اپنے دانتوں‬ ‫ہونٹ کو‬
‫کن اکھیوں سے میری پینٹ میں ابھری ہوئی‬
‫جگہ کو دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ تت ۔۔۔تم‬
‫مجھے سے کیا چاہتے ہو ؟ تو اس وقت تک‬
‫میں نے ان کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے‬
‫شہوت کے ہلکے ہلکے الل ڈورے دیکھ لیئے‬
‫میں نے اپنے ہونٹوں کو مزید‬ ‫تھے۔۔۔ اس لیئے‬
‫ان کے منہ کے قریب کر کے کہا۔۔۔ میں آپ سے‬
‫"ون ٹو تھری" چاہتا ہوں ۔ میری بات۔سن کر ۔۔۔ ان‬
‫سے الل ٹماٹر ہو گیا ۔۔۔اور وہ‬ ‫کا چہرہ شرم‬
‫اپنے نیچے والے ہونٹ کو مسلسل اپنے دانتوں‬
‫سے کاٹنے لگیں۔۔۔ لیکن منہ سے کچھ نہ بولیں‬
‫۔۔۔اسی اثنا ء میں ۔۔۔۔ میں نے اپنے ہونٹوں کو‬
‫ان کے گالوں کے قریب کر دیا ۔۔۔۔اور پھر اپنی زبان‬
‫باہر نکال کر ان کے سرخ ٹماٹر گال کو چاٹ‬
‫لیا۔۔۔۔۔ اوہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔ میری اس حرکت پر پہلے‬
‫تو حیرت سے ان کو منہ کھلے کا کھال رہ‬
‫گیا۔۔۔ لیکن پھر۔۔ اگلے ہی لمحے وہ سنبھل گئیں ۔۔‬
‫اور پھر ایک نظر انہوں نے میری طرف دیکھا‬
‫کو‬ ‫۔۔۔۔ پھر اپنے گال پر لگے ۔۔۔ میرے تھوک‬
‫سرگوشی میں‬ ‫بھری‬ ‫صاف کرتے ہوئے شہوت‬
‫۔۔بد تمیز۔۔۔یہ کیا حرکت کی تم نے‬ ‫کہنے لگیں ۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔؟؟ تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بڑی بے باکی سے جواب دیا کہ میں نے تو بس‬
‫آپ کے خوب صورت گال کو چوما ہے۔۔۔تو وہ‬
‫میری نقل اتارتے ہوئے ہولے سے بولیں ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫گال کو چوما ہے۔۔۔ پھر کہنے لگیں۔۔۔۔ بد تمیز‬
‫گالوں کو ایسے چومتے ہیں ۔۔۔پھر کہنے لگیں ۔۔۔یہ‬
‫تم نے میرے گال کو چوما ہے یا اس پر تھوک‬
‫لگایا ہے؟ تو میں نے اپنا منہ آگے کرتے‬
‫ہوئے ان سے کہا ۔۔۔ الئیں میں صاف کر دیتا ہوں‬
‫اور اس کے ساتھ ہی میں نے ان کو گردن سے‬
‫پکڑ کر ہلکا سا اپنی طرف پُش کیا ۔۔۔۔اور دوبارہ‬
‫زبان نکال‬ ‫سے ان کے گال کو چوما پھر اپنی‬
‫ان کے سارے گال کو اچھی طرح چاٹ‬ ‫کر‬
‫لیا۔۔۔اور ان کے گال کو چاٹنے کے دوران‬
‫جان بوجھ کر میں نے کافی سا را تھوک بھی‬
‫ان کے گال پر لگا دیا تھا ۔۔۔۔ جیسے ہی میں‬
‫پیچھے ہٹا ۔۔۔۔ انہوں نے جلدی سے اپنے دوپٹے‬
‫گال پر لگے میرے تھوک کو صاف‬ ‫کی مدد سے‬
‫میری‬ ‫کیا ۔۔۔۔۔۔اور پھر بڑی مست نظروں سے‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ بدتمیز ۔۔۔ ان‬
‫کی بات سن کر میں نے ایک بار پھر اپنا منہ آگے‬
‫بڑھانا چاہا ۔۔تو ۔۔۔۔انہوں نے جلدی سے میرے منہ‬
‫کے آگے ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔اور ۔۔۔۔۔کہنے لگیں ۔۔۔ کچھ‬
‫ہوش کرو۔۔۔۔ بس بندوں سے بھری ہوئی ہے۔۔۔تو‬
‫میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔ بے‬
‫چیک کر لیں سب لوگ سوئے ہوئے‬ ‫شک‬
‫ہیں۔۔۔۔ اور پھر سے ان کے ہاتھ کو پکڑ‬
‫لیا۔۔۔۔۔لیکن انہوں نے جلدی سے میرا ہاتھ چھڑایا‬
‫اور اپنی سیٹ سے تھوڑا اوپر اُٹھ کر چور‬
‫نظروں سے گردن گھما کر بس کا جائزہ لینے‬
‫لگیں۔۔ اس کے بعد وہ نیچے سیٹ پر بیٹھ کر میری‬
‫طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔۔۔ ہاں اب بولو۔۔۔۔ تو‬
‫میں نے ان سے کہا ۔۔۔ کہ پلیز باجی ۔۔۔۔ بس ایک‬
‫مین پکڑ لیں ۔۔۔۔ تو وہ‬ ‫دفعہ اس کو اپنے ہاتھ‬
‫مسکرا تے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ نہیں میں اس کو‬
‫ایسے نہیں پکڑوں گی۔۔ اس پر میں نے اپنے لن‬
‫پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بڑی لجاجت کے ساتھ ان‬
‫سے کہا۔۔۔۔ باجی بس ایک ہی دفعہ تو پکڑنا‬
‫ہے ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ اس سے کیا ہو گا؟ تو‬
‫میں نے ان سے کہا مجھے سکون ملے گا؟ تو‬
‫وہ کہنے لگیں ۔۔۔ سکون تو تم کو ملنا ہے ۔۔۔۔‬
‫مجھے کیا ملے گا؟ اس پر میں نے ان کا ہاتھ پکڑ‬
‫پینٹ کی ابھری ہوئی جگہ کی طرف لے‬ ‫کر اپنی‬
‫باجی ایک دفعہ پکڑ کر‬ ‫جاتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔‬
‫تو دیکھیں آپ کو بڑا مزہ ملے گا۔۔۔۔۔۔تو وہ میری‬
‫حالت سے محظوظ ہوتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ کتنا‬
‫مزہ ملے گا؟ تو اس پر میں نے ان کے ہاتھ کو پکڑ‬
‫کر زبردستی اپنی پینٹ کی ابھری ہوئی جگہ پر‬
‫رکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ خود چیک کر‬
‫لو۔۔۔۔۔۔چنانچہ میری بات مانتے ہوئے انہوں نے‬
‫پینٹ کے اوپر سے ہی میرے لن پر اپنا ہاتھ رکھ‬
‫لیا۔۔۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ باجی‬
‫پلیزززز۔۔۔اس کو تھوڑا سا دبائیں نا ۔۔۔۔تو انہوں‬
‫نے میرے لن کو اپنی ُمٹھی میں پکڑ کر ہلکا سا‬
‫دبا۔۔ اور پھر میری طرف دیکھنے لگیں تو میں‬
‫نے ان سے پوچھا ( لن پکڑ کر دبانے کا ) مزہ‬
‫آیا؟ تو وہ منہ بنا کر کہنے لگیں نہیں ۔۔۔ ان کی‬
‫بات سن کر میں نے کہا ایک دفعہ اور پکڑ کر‬
‫دبائیں ۔۔۔۔تو انہوں نے میرے کہنے پر ایک دفعہ‬
‫اور ایک پینٹ کے اوپر سے ہی میرے لن کو‬
‫پکڑ کر دبا دیا ۔۔۔ اور ۔۔۔پھر میرے پوچھنے پر‬
‫کہنے لگیں ۔۔۔ زرا بھی مزہ نہیں آیا ۔۔۔ ان کی بات سن‬
‫کر میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آ گیا اور میں نے‬
‫ان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی پینٹ کی زپ‬
‫کو کھولنے لگا ۔۔۔تو وہ میری اس حرکت کو بڑے‬
‫غور سے دیکھتے ہوئے بولیں۔۔۔ ارے ارے یہ‬
‫کیاکر رہے ہو؟ تو میں نے ان کو جواب دیتے‬
‫ہوئے کہا۔۔۔ بس دیکھتی جائیں ۔۔۔ پینٹ کی زپ کو‬
‫کھولنے کے بعد میں ۔۔اپنی سیٹ سے تھوڑا اوپر‬
‫مہرو باجی کی طرح چور نظروں‬ ‫اُٹھا اور پھر‬
‫سے بس کے اندر کے ماحول کا جائزہ لینے‬
‫لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ رات کے اس پہر سب لوگ سو رہے‬
‫تھے ۔۔۔ بس کے حاالت سے مطمئن ہونے کے‬
‫بعد میں نے اپنی سیٹ پر سیدھا بیٹھنے کی‬
‫بجائے ۔۔ان کی طرف سائیڈ کر کے بیٹھ گیا اور پھر‬
‫کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔میں‬ ‫۔۔۔۔ مہرو باجی‬
‫نے پینٹ کے اندر سے اپنے لن کو پکڑ کر باہر‬
‫ہی میرا لن‬ ‫نکال لیا ۔۔۔۔ پینٹ سے باہر نکلتے‬
‫اکڑ کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔لن نکال کر پھر میں نے‬
‫مہرو باجی کی طرف دیکھا تو ان کی نظریں‬
‫میرے لن پر گڑھی ہوئیں تھیں۔۔۔۔اور ۔۔۔ میرے لن‬
‫اپنے‬ ‫مہرو باجی‬ ‫کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫نیچے والے ہونٹ کو مسلسل چبا رہیں تھیں ۔۔۔‬
‫یہ دیکھ کر میں نے ان کا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن‬
‫ہوئے بوال ۔۔۔اب اس ننگے لن کو‬ ‫پر رکھتے‬
‫پکڑ کر دیکھیں ۔۔۔مزہ نہ آیا تو پیسے واپس۔۔۔۔۔اس‬
‫دوران انہوں نے بغیر کسی مزاحمت کے میرے‬
‫حیرت‬ ‫ہاتھ کو رکھ دیا تھا ۔۔۔۔اور‬ ‫لن پر اپنے‬
‫انگیز بات یہ ہے کہ اس دفعہ مجھے مہرو‬
‫باجی کو یہ بات کہنے کی ضرورت ہی نہیں پیش‬
‫آئی کہ اسے دبائیں ۔۔۔ کیونکہ جیسے ہی میں نے‬
‫ان کا ہاتھ اپنے لن پر رکھا ۔۔۔۔۔ انہوں نے اسے‬
‫پکڑتے ہی دبانا شروع کر دیا۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ‬
‫شروع‬ ‫وہ اسے آگے پیچھے بھی کرنا‬ ‫ساتھ‬
‫ہو گئیں تھیں ۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے ان سے‬
‫پوچھا کہ اب بتائیں باجی۔۔۔ مزہ آیا کہ نہیں ۔۔۔۔ تو‬
‫وہ میرے لن کو اپنی ُمٹھی میں پکڑ کر دباتے‬
‫ہوئے شہوت بھرے لہجے میں کہنے لیں۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ہاں تمہارے اس شاندار ویپن کو پکڑ کر مزہ بھی‬
‫آیا ہے ۔۔۔۔اور نشہ بھی چڑھ گیا ہے ان کی بات‬
‫سن کر میں نے اپنی ساری باڈی ان کی طرف‬
‫جھکا دی یہاں تک کہ میرے چہرے پر ان کے‬
‫منہ سے نکلنے والی گرم گرم سانسیں پڑیں‬
‫لگیں۔۔اور گرم سانسوں کے ساتھ ان کے منہ سے‬
‫آنے والی مہک نے مجھ پر بھی سیکس کا نشہ دو‬
‫آتشہ کر دیا تھا ۔۔۔اس لیئے میں تھوڑا اور آگے‬
‫کو جھک گیا۔۔ تو وہ سرگوشی میں بولیں۔۔ کیا کرنے‬
‫لگے ہو؟ تو میں نے ان کی آنکھوں میں دیکھتے‬
‫ہوئے شہوت بھرے لہجے میں کہا۔۔باجی مجھ پر‬
‫بھی آپ کا نشہ چڑھ رہا ہے۔۔۔ اس لیئے میں آپ کے‬
‫ہونٹوں کا رس پینا چاہتا ہوں۔۔تو وہ اپنے منہ کو‬
‫ہوئے بولیں۔۔۔‬ ‫عین میرے ہونٹوں کے قریب التے‬
‫پہلے میری زبان سے اپنی زبان کو مالؤ۔۔۔ اور اس‬
‫کے ساتھ ہی انہوں نے۔۔۔ادھر ادھر دیکھتے ہوئے‬
‫۔۔۔۔بڑے ہی محتاط انداز میں۔۔۔ اپنی لمبی سی زبان‬
‫کو منہ سے باہر نکاال اور اسے میری طرف بڑھاتے‬
‫ہوئے۔۔ اپنی آنکھوں کو بند کر لیا ۔۔یہ دیکھ کر‬
‫سے زبان کو باہر نکال‬ ‫میں نے بھی اپنے منہ‬
‫۔۔۔۔۔ اور ایک ہاتھ ان کی گردن پر رکھ کر اسے اپنے‬
‫اور قریب کر کے ۔۔۔ ان کی زبان سے اپنی زبان کو‬
‫ٹکرا دیا۔۔۔ ہماری زبانوں کا آپس میں ملنا تھا‬
‫کہ مجھے ایسا لگا کہ جیسے۔۔۔ مہرو باجی کے‬
‫جسم سے شہوت کی لہریں نکل نکل زبان کے‬
‫راستے میرے جسم میں جزب ہونے لگیں ہوں ۔۔۔‬
‫اور میں مزے سے بے حال ہوتے ہوئے ان کی گردن‬
‫کو مزید اپنے قریب کرتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ بڑی شتابی کے‬
‫ساتھ ان کی زبان کو چوسنے لگا ان کے منہ کہ‬
‫مہک اور ان کی زبان کا رس اتنا عمدہ اور‬
‫شہوت بھرا تھا۔۔ کہ کافی دیر تک میں ان کی ذائقہ‬
‫شدید جنسی طلب سے بھر پور زبان کو‬ ‫اور‬
‫چوستا رہا۔۔ پھر اپنے منہ کو ان سے ٰ‬
‫علحیدہ کر لیا‬
‫۔۔۔اور تھوڑا پیچھے ہٹ گیا۔۔ لیکن جیسے ہی‬
‫میں پیچھے ہٹا ۔۔اس دفعہ مہرو باجی نے میری‬
‫گردن میں اپنا ہاتھ ڈاال اور مجھے اپنی طرف‬
‫جھکاتے ہوئے کہنے لیں ۔۔ میری جان ۔۔۔۔۔۔مجھے‬
‫بڑا مزہ آ رہا ہے ۔۔۔۔۔ اس لیئے اور چوسو نا‬
‫میری زبان کو ۔۔۔تمہارا زبان کا چوسنا ۔۔ بڑا‬
‫اچھا لگ رہا ہے اور پھر اس کے ساتھ ہی‬
‫انہوں نے۔۔۔زبر دستی میرے منہ میں اپنی زبان کو‬
‫ڈال دیا۔۔۔ اور ساتھ ساتھ نیچے سے میرے لن‬
‫کو بھی دبانے لگیں ۔۔۔ اس وقت ہم دونوں کی‬
‫کچھ ایسی تھی کہ گویا دونوں طرف آگ‬ ‫حالت‬
‫برابر لگی ہوئی تھی۔۔۔ہم دونوں کے جسموں میں‬
‫جنسی طلب کی آگ بھڑ ک رہی تھی ۔۔۔۔۔اور‬
‫دونوں پر ایک جنون سا طاری ہو گیا تھا ۔۔۔۔اور‬
‫میں اسی جنسی جنون کے تحت ان کی زبان کو‬
‫چوستا رہا ۔۔۔چوستا رہا ۔۔۔پھر کچھ دیر بعد خود ہی‬
‫انہوں نے میرے منہ سے اپنی زبان کو باہر‬
‫نکاال ۔۔اور اپنے سر کو بس کی سیٹ کی پشت سے‬
‫ٹیک لگا کر گہرے گہرے سانس لینے لگیں۔۔۔ میرا‬
‫پکڑا ہوا تھا‬ ‫لن ابھی تک ان کے ہاتھ میں ہی‬
‫جس کو اب بھی وہ گہرے گہرے سانس لیتے‬
‫ہوئے بڑی بے تابی کے ساتھ دبا رہیں تھیں۔۔‬
‫کچھ دیر بعد جب وہ نارمل ہوئیں ۔۔ تو میں نے ان‬
‫سے پوچھا۔۔۔کیسی لگی ۔۔ میری زبان چوسائی؟ میری‬
‫بات سن کر وہ اپنی آنکھوں کو میچ کر بولیں۔۔۔ مت‬
‫پوچھ یار ۔۔ تمہاری اس کسنگ نے میری تو جان ہی‬
‫میں جو پہلے‬ ‫نکال دی تھی ۔۔۔پھر کہنے لگیں‬
‫سرور میں ڈوب گئی تھی‬
‫ہی تمہارا لن کو پکڑ کر ُ‬
‫اور مجھ پر ایک نشہ سا چڑھ گیا تھا۔۔۔۔ تمہاری‬
‫کسنگ سے یہ مزہ اور نشہ دو آتشہ ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫پھر میرے لن کو آگے پیچھے کرتے ہوئے کہنے‬
‫لگیں۔۔ یقین کرو ۔۔ اگر مجھے پہلے پتہ ہوتا کہ‬
‫اس قدر شاندار اور کسنگ میں‬ ‫ویپن‬ ‫تمہارا‬
‫تم میرے ساتھ‬ ‫نشہ ہے تو جس وقت‬
‫پیشاب کے لیئے گئے تھے ۔۔۔۔۔تو وقت میں‬
‫پیشاب کرتی یا نہ کرتی ۔۔لیکن ۔۔۔۔ میں نے تمہارے‬
‫ساتھ سیکس ضرور کرنا تھا۔۔۔ اور چاہے چند‬
‫سیکنڈ ہی سہی ۔۔۔۔ میں نے تمہارے اس شاندار‬
‫ویپن کے ساتھ انجوائے ضرور کرنا تھا۔۔۔۔اس وقت‬
‫باجی کے انگ انگ سے شدید جنسی طلب کا اظہار ہو‬
‫رہا تھا ۔۔۔ اور ان کی آنکھوں میں تیرتے ہوئے‬
‫جنسی طلب کے سرخ ڈورے میرے جزبات کو بہت‬
‫مشتعل کر رہے تھے۔۔۔اس لیئے میں نے شہوت‬
‫بھرے لہجے میں ان سے کہا ۔۔۔۔ میرے لن کو تھوڑا‬
‫اور دبائیں پلیززززززززز۔۔تو وہ میرے لن کو‬
‫دباتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔مجھے نہیں معلوم تھا‬
‫کہ تم اتنے خود غرض ہو ۔۔تو میں نے ان سے‬
‫پوچھا کہ وہ کیسے باجی؟۔۔۔ تو کہنے لگیں۔۔۔ کافی‬
‫دیر سے تم نے اپنے لن کو میرے ہاتھوں میں‬
‫پکڑایا ہوا ہے۔۔۔ اور مسلسل اسے دبانے کی بات کر‬
‫رہے ہو۔۔۔اپنے لن کو دبواتے ہوئے ایک لمحے کے‬
‫لیئے بھی تم نے سوچا کہ تمہارے لن کے ساتھ‬
‫کھیلتے ہوئے ۔۔۔نیچے ۔۔۔۔ میری۔۔۔ چوت کا کیا حال‬
‫ہو گا۔۔؟؟۔۔ ان کی بات سن کر میں نے‬ ‫ہو رہا‬
‫شرمندہ ہوتے ہوئے ان سے کہا۔۔۔ سوری باجی۔۔‬
‫مجھے بتائیں میں کیا کروں؟؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔‬
‫سوری کے بچے تمہیں نہیں معلوم کہ تم نے کیا کرنا‬
‫ہے۔۔۔ بات کرتے کرتے وہ ڈھیلے انداز میں سیٹ‬
‫سے تھوڑا آگے ہوئیں اور اپنی ٹانگوں کو کھول کر‬
‫بولیں۔۔ جیسے میں نے تمہارے ویپن کو پکڑا‬
‫تم بھی اپنے ہاتھ کو‬ ‫ہی‬ ‫ہوا ہے ۔۔۔ ایسے‬
‫میری چوت پر رکھو ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی‬
‫انہوں نے میرے ہاتھ کو پکڑ کر اپنی االسٹک والی‬
‫شلوار کے اندر کر دیا ۔۔۔اور اپنے دانے پر میرے‬
‫ہاتھ کو رکھ کر کہنے لگیں ۔۔۔اسے مسلو۔۔۔ لیکن میں‬
‫نے ان کے دانے کو مسلنے کی بجائے۔۔۔ان کی‬
‫پھدی کا جائزہ لینے کی غرض سے اپنے ہاتھ کو‬
‫ان کی پھدی پر گھمانا شروع کر دیا۔۔۔۔ تو مجھے‬
‫محسوس ہوا کہ اس وقت ان کی چوت بہت گرم ہو‬
‫رہی تھی ۔۔۔۔ اور اس پر زیادہ گوشت نہیں تھا۔۔۔ ہاں‬
‫پھدی کے دونوں ہونٹ اندر کی طرف ُمڑے ہوئے‬
‫بال‬ ‫تھے ۔۔۔۔اور پھدی کی سکن پر کافی سارے‬
‫بھی تھے جبکہ ان کی چوت کی لکیر کے اندر‬
‫چال کہ ان کی چوت لبوں‬ ‫ہاتھ پھیرنے سے پتہ‬
‫تک ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیس دار پانی سے بھری ہوئی تھی۔۔میں‬
‫نے اپنی ایک انگلی کو جیسے ہی ان کی چوت کے‬
‫اندر داخل کیا ۔۔۔تو ان کے منہ سے ایک لزت بھری‬
‫سسکی سی نکلی۔۔اوہ۔۔ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔ اس پر میں نے پوچھا‬
‫کیا ہوا باجی؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔مزہ آیا‬
‫دوست۔۔۔۔پھر بولیں ۔۔۔۔ میری منزل قریب ہے ۔۔۔ اس‬
‫لیئے جلدی سے میرے دانے کو چھیڑو۔۔۔۔ تا کہ‬
‫۔۔۔ پانی نکلنے سے میرے اندر کی آگ تھوڑی‬
‫ٹھنڈی ہو۔۔۔۔۔۔ ان کی بات سن کر اور ان کی‬
‫ساری چوت کا جائزہ لینے کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔ میں نے‬
‫سے اپنی دو انگلیوں کو ان کی چوت کی‬ ‫دوبارہ‬
‫دراڑ میں ڈاال ۔۔اور ان کو اچھی طرح گیال کر نے کے‬
‫بعد میں نےاپنی انگلیوں کو ان کے پھولے ہوئے‬
‫دانے پر رکھا اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تیزی کے ساتھ اپنی انگلیوں‬
‫کو رگڑنے لگا۔۔۔میرے اس عمل سے ان کے منہ سے‬
‫دبی دبی۔۔۔۔ سسکیاں نکلنے لگیں ۔۔۔اور وہ اپنے منہ‬
‫کو میرے کان کے قریب کر کے سرگوشی نما آواز‬
‫میں کہنے لگیں۔۔۔۔ ظالم بڑا مزہ دے رہے ہو‬
‫۔۔۔اور تیزی سے رگڑو۔۔۔ اور ساتھ ہی سیٹ پر‬
‫بیٹھے بیٹھے اپنی ٹانگوں کو مزید کھول دیا۔۔۔ جس‬
‫مل گئی ۔۔۔۔اور‬ ‫سے میری انگلیوں کو مزید سپیس‬
‫میں نے ان کی چوت کو اور تیزی کے ساتھ رگڑنا‬
‫شروع کردیا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد میں نے محسوس کیا‬
‫کہ مہرو باجی کی دل کی دھڑکن تیز اور چہرہ الل ہو‬
‫گیا ہے ۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی دونوں‬
‫سکیڑ لیا اور میرے‬ ‫رانوں کو بڑی سختی کے‬
‫ہاتھ کو پکڑ کر اکھڑے اکھڑے سانسوں میں کہنے‬
‫لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بس۔۔بسس۔۔ب۔۔س۔۔تھوڑا اور رگڑو۔۔۔ میری‬
‫یہ‬ ‫نکلنے والی ہے۔۔لیکن اس وقت پوزیشن‬
‫تھی کہ انہوں نے اپنی دونوں رانوں کو بڑی‬
‫مضبوطی کے ساتھ جوڑا ہوا تھا اور میرے ہاتھ‬
‫کے لیئے یہ ممکن نہ تھا کہ میں ان کے دانے کو‬
‫رگڑتا اسی لیئے میں نے ان کے دانے کو‬
‫رگڑنے کی بجائے ۔۔۔اس کو اپنی مٹھی میں جکڑا‬
‫اور اسے بھینچنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔تو وہ دبی دبی‬
‫آواز میں بولی ۔۔۔اور زور سے بھینچو ۔۔۔ اور میں نے‬
‫اور سے ایسا کیا ۔۔تو وہ پھر بولی ۔۔۔ا۔۔۔و۔۔۔ر۔۔۔اور اس‬
‫دفعہ جیسے ہی میں نے اپنی ُمٹھی میں پکڑے‬
‫ہوئے۔۔۔ ان کے دانے کو زور سے بھینچا ۔۔۔۔۔۔اسی‬
‫وقت مہرو باجی کا سارا جسم کانپا۔۔۔ اور اپنی‬
‫چوت کو میرے ہاتھ کے ساتھ چپکاتے ہوئے‬
‫ایک دلدوز چیخ نکل۔۔اُوہ‬ ‫منہ سے‬ ‫ان کے‬
‫نہیں ان کی چیخ کی‬ ‫ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ پتہ‬
‫آواز سن کر یا ۔۔یا کسی اور وجہ سے۔۔۔عین‬
‫اسی وقت بس کے ڈرائیور نے ایک زبردست‬
‫میں‬ ‫بریک لگائی ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی فضا‬
‫بس کی ٹائر چرچرانے کی مہیب آواز گونجی‬
‫۔۔۔چراراں ں ں ں ۔۔ یہ آآواز سنتے ہی ہم دونوں‬
‫کا سیکس نشہ ہرن ہو گیا۔۔۔۔ چہرے کی رنگت اُڑ‬
‫۔۔۔۔۔۔شاید ہم دونوں کی چوری پکڑی گئی‬ ‫گئی‬
‫تھی۔۔۔ مہرو باجی نے مجھے اور میں نے ان کی طرف‬
‫دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ٹائرز چرچرانے کی‬
‫آواز کے ساتھ ہی ایک جھٹکے کے ساتھ بس‬
‫ُرک گئی۔۔۔اور بس کے ُرکتے ہی میں نے اور‬
‫مہرو باجی نے بڑی خوف ذدہ نظروں سے‬
‫ایک دوسرے کی طرف دیکھا ( کیونکہ ہمارا‬
‫خیال تھا کہ ڈرائیور نے مہرو باجی کی چیخ‬
‫کو سن کر بس روکی تھی) ۔۔۔لیکن اسی اثنا میں‬
‫ہماری نظریں کھڑکی کے باہر پڑیں تو یہ دیکھ‬
‫دونوں نے ہی سکھ کا سانس لیا‬ ‫کر ہم‬
‫نے بس کو مہرو باجی کے منہ‬ ‫کہ ڈرائیور‬
‫دلدوز چیخ کی وجہ سے‬ ‫سے نکلنے والی‬
‫نہیں ۔۔۔۔ بلکہ روٹین کے مطابق ایک چھوٹے‬
‫بغرض ریفریشمٹ روکی تھی‬
‫ِ‬ ‫سے ہوٹل کے پاس‬
‫۔۔۔۔۔ ادھر بس کے ُرکتے ہی میں نے بڑی‬
‫پھرتی کے ساتھ مہرو باجی کی شلوار میں‬
‫ہوئے ہاتھ کو باہر نکاال۔۔۔ ۔۔۔۔اور اسے‬ ‫رکھے‬
‫ایک نظر دیکھا تو میرا ہاتھ ان کی چوت سے‬
‫نکلنے والے لیس دار پانی سے لتھڑا ہو ا تھا‬
‫۔۔ اپنے ہاتھ پر ایک نظر ڈالنے کے بعد اگلے ہی‬
‫یہ کیا کہ مہرو‬ ‫میں نے دوسرا کام‬ ‫لمحے‬
‫کے ہاتھ میں پکڑے ہوئے اپنے لن کو جو اس‬
‫کی وجہ سے نیم مرجھا سا گیا‬ ‫وقت ہلچل‬
‫تھا ۔۔۔ایک سیکنڈ کے اندر اندر واپس پینٹ میں‬
‫ڈال کر اس کی زپ بند کر دی ۔۔۔۔ ۔۔۔اس کے بعد‬
‫میں نے سیٹ پر نیم دراز مہرو باجی کی طرف‬
‫دیکھا ۔۔۔تو وہ ابھی تک اسی پوزیشن میں بیٹھی‬
‫لمبے لمبے سانس لیتے ہوئے میری طرف ہی‬
‫دیکھ رہیں تھیں اس لیئے میں نے۔۔۔ آنکھوں ہی‬
‫آنکھوں میں ان سے سوال کیا ۔۔۔ کہ کیا آپ‬
‫چھوٹ گئی ہو؟۔۔ تو انہوں نے گہرے گہرے سانس‬
‫ادھر‬ ‫لیتے ہوئے اپنے سر کو ہاں میں ہال دیا۔۔‬
‫بس کے ُرکتے ہی کنڈکٹر نے اعالن کیا کہ اس‬
‫منٹ کے لیئے ُرکیں‬ ‫ہم صرف ‪20‬‬ ‫ہوٹل پر‬
‫گے ۔۔۔ کنڈکٹر کا اعالن سنتے ہی ساری سواریاں‬
‫اُٹھ کھڑی ہوئیں ۔۔۔۔اور باری باری بس سے‬
‫نیچے اترنے لگی ۔۔ باقی لوگوں کو اترتے دیکھ‬
‫کر میں بھی اپنی سیٹ پر کھڑا ہو گیا ۔۔۔اور‬
‫کی طرف دیکھا تو وہ ابھی‬ ‫مہرو باجی‬
‫تک ویسے ہی نیم دراز تھیں اس پر میں نے‬
‫ان سے پوچھا کہ آپ نہیں اُترو گی؟ تو وہ‬
‫کہنے لگیں ۔۔ تم اترو ۔۔۔ میں اپنا حلیہ درست کر‬
‫کے آتی ہوں پھر میری طرف آنکھ مار کر کہنے‬
‫لگیں امی اور مینا میرے بارے میں پوچھیں نہ‬
‫بتانا‬ ‫ان کو ضرور‬ ‫پوچھیں ۔۔۔۔ لیکن تم نے‬
‫ہے کہ میں سوئی ہوئی تھی۔۔۔۔ چنانچہ ان کی بات‬
‫سن کر میں بس سے نیچے اتر کر دیکھا تو‬
‫سامنے ایک دیہاتی طرز کا چھوٹا سا ہوٹل تھا‬
‫چارپائیں پچھی‬ ‫کے سامنے بہت ساری‬ ‫جس‬
‫ہوئیں تھیں ۔۔۔ بس سے اترنے والے اکثر لوگ‬
‫۔۔۔ ان‬ ‫کمر سیدھی کر نے کے لیئے‬ ‫اپنی‬
‫چارپائیوں پر لیٹے ہوئے تھے پھر میں نے ادھر‬
‫ادھر نگاہ دوڑائی تو ایک چارپائی پر‬
‫مجھے آنٹی اور مینا بیٹھی ہوئیں نظر آئیں۔۔۔ ان‬
‫کی نظریں بھی بس کی طرف لگی ہوئیں تھیں‬
‫۔۔جیسے ہی ہماری نظریں آپس میں ملیں انہوں‬
‫دیکھ‬ ‫نے اپنا ہاتھ ہال دیا۔۔۔ ان کا ہاتھ ہلتا‬
‫پہنچا تو آنٹی‬ ‫میں سیدھا ان کے پاس جا‬ ‫کر‬
‫نے میری طرف دیکھتے ہوئے پہال سوال ہی‬
‫یہی کیا ۔۔ کہ مہرو کہاں ہے؟ تو میں نے ان کے‬
‫سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔ جی وہ سو‬
‫رہیں تھیں تو وہ کہنے لگیں تو بیٹا اس کو اُٹھا‬
‫دینا تھا نا۔۔ تو میں نے ان کو جواب دیتے‬
‫ہوئے کہا۔۔۔ کہ جی ان کو اٹھا کر ہی آ رہا ہوں‬
‫تو میری بات سن کر آنٹی منہ ہی منہ میں‬
‫بڑبڑائیں۔۔۔ ایک تو اس لڑکی کو ہر وقت سونے‬
‫کی پڑی رہتی ہے کاہل کہیں کی ۔۔۔ پھر انہوں نے‬
‫مینا کی طرف دیکھا اور کہنے لگیں کہ جا کر‬
‫مہرو کو لے آؤ اور مینا یہ کہتے ہوئے چارپائی‬
‫سے اُٹھ گئی کہ میں ان کو لے کر آتی ہوں۔۔۔ ابھی‬
‫مینا نے بس کی طرف چند قدم ہی بڑھائے تھے‬
‫مہرو باجی بس سے اترتے ہوئے نظر‬ ‫کہ ہمیں‬
‫آئیں۔۔ جنہیں کر مینا واپس چارپائی پر آ کر بیٹھ‬
‫گئی۔۔پھر تھوڑی دیر بعد ۔۔۔مہرو باجی بھی ہمارے‬
‫پاس پہنچ گئیں ۔۔ جنہیں آتے دیکھ کر میں نے‬
‫چائے کا آرڈر دے دیا۔۔۔ چائے پینے کے بعد ہم ادھر‬
‫ادھر کی باتیں کرتے رہے ۔ اور اس دوران ہمارے‬
‫کوئی خاص بات نہیں ہوئی۔۔۔اس ہوٹل پر‬ ‫بیچ‬
‫‪ 40 ،30‬منٹ‬ ‫ڈرائیور نے ‪ 20‬منٹ کی بجائے‬
‫لگا دیئے ۔۔۔ ۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ بس چلنے کے کچھ دیر بعد‬
‫میں نے مہرو باجی کی طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔‬
‫زور دار بریک لگانے‬ ‫شکر ہے باجی بس کے‬
‫ورنہ آپ نے‬ ‫کی وجہ سے ہم لوگ بچ گئے‬
‫تو کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی میری بات سن کر‬
‫مہرو باجی کے چہرے پر ایک سیکسی سی‬
‫مسکراہٹ پھیل گئی اور وہ کہنے لگیں ۔۔میں کیا‬
‫‪ 105‬ڈگری‬ ‫کرتی اس وقت مجھ پر اس وقت‬
‫کا سیکس بخار چڑھا ہوا تھا ۔۔۔ پھر مجھے‬
‫آنکھ مارتے ہوئے مزید کہنے لگیں۔۔ ۔۔۔۔ کہ شکرو‬
‫فنگرنگ کر رہے‬ ‫کرو ۔۔۔ اس وقت تم میری‬
‫تمہاری انگلی کی بجائے‬ ‫اگر اس ٹائم‬ ‫تھے‬
‫ڈانڈا میرے اندر ہوتا تو ۔۔۔۔‬ ‫موٹا‬ ‫تمہارا یہ‬
‫میرے منہ سے اس سے بھی اونچی آواز میں‬
‫نکلنا تھیں ۔۔۔۔ اس پر میں نے ان کی‬ ‫چیخیں‬
‫طرف حیرانی کے ساتھ دیکھتے ہوئے کہا ۔۔‬
‫آپ اتنی زور سے چیخیں کیوں مارتی ہیں ؟؟۔۔۔ تو‬
‫ہنس کر کہنے لگیں۔۔۔ اس لیئے کہ مزہ آتا‬ ‫وہ‬
‫ہو کر بولیں ۔۔۔ سیکس کے‬ ‫ہے ۔۔ پھر سیریس‬
‫دوران چھوٹی موٹی چیخیں تو تقریبا ً ساری ہی‬
‫سے بعض‬ ‫لیڈیز مارتی ہیں ۔۔ لیکن ان میں‬
‫لیڈیز ایسی بھی ہوتی ہیں کہ جن کا گزارا‬
‫چھوٹی موٹی چیخوں سے نہیں۔۔۔ بلکہ بھاری بھر‬
‫کم چیخوں سے ہوتا ہے اس پر میں نے ان‬
‫کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ یہی بات تو‬
‫میں بھی آپ سے پوچھ رہا ہوں کہ سیکس‬
‫کرتے ہوئے آپ اتنی اونچی آواز میں کیوں چیختی‬
‫ہیں ؟ تو وہ کہنے لگیں۔۔ وہ اس لیئے میری‬
‫پہلے بھی تم کو بتا چکی‬ ‫جان کہ جیسا کہ‬
‫کہ‬ ‫ہوں ۔۔۔کہ مزہ آتا ہے اور مزید کہ‬
‫سیکس کرتے ہوئے میں بہت زیادہ مست ہو‬
‫جاتی ہوں اور پھر اسی مستی کے دوران مجھے‬
‫خود پہ قابو نہیں رہتا ا س لیئے میں سیکس‬
‫کے چیخیں مارتی ہوں‬ ‫کرتے ہوئے منہ پھاڑ‬
‫۔۔مجھ سے بات کرتے کرتے اچانک ہی وہ کہنے‬
‫لگیں ۔۔۔ سوری یار میں تو بھول ہی گئی تھی کہ‬
‫کو فارغ کروانا رہتا تھا ۔۔۔۔ اس کے‬ ‫ابھی تم‬
‫ساتھ ہی وہ سیٹ سے تھوڑا سا اوپر اُٹھیں‬
‫اور پہلے کی طرح چور نظروں سے بس کا‬
‫جائزہ لینے لگیں ۔۔۔۔ پھر ادھر سے مطمئن ہو کر‬
‫وہ نیچے بیٹھ گئیں اور مجھ سے کہنے لگیں ۔۔۔۔‬
‫اپنے شیر کو باہر نکالو میں اسے ابھی فارغ‬
‫کرتی ہوں ۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے اپنی‬
‫پینٹ کی زپ کو کھوال ۔۔۔۔اور پھر ادھر ادھر‬
‫لن کو باہر نکال لیا۔۔۔۔ لن‬ ‫دیکھتے ہوئے اپنے‬
‫کے باہر آتے ہی مہرو باجی نے اپنا ہاتھ آگے‬
‫بڑھایا ۔۔۔۔اور لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولیں‬
‫سویا ہوا ہے‬ ‫ابھی تک‬ ‫۔۔۔اوہ۔۔۔ تمہارا شیر تو‬
‫۔۔۔ان کی اس بات کے دوران ۔۔۔۔۔۔ ہی ان کے ہاتھ‬
‫میرا لن انگڑائی لے کر کھڑا‬ ‫کا لمس پا کر‬
‫ہو چکا تھا۔۔ اس لیئے میں نے اپنے تنے ہوئے‬
‫لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ان سے کہا۔۔۔۔۔‬
‫زرا غور سے دیکھ کر بتائیں ۔۔۔کہ۔۔۔۔ میرا شیر‬
‫رہا ہے ۔۔۔ تو وہ‬ ‫سویا ہوا ہے ۔۔۔ کہ جاگ‬
‫میرے لن کو اپنی ُمٹھی میں جکڑ کر دباتے‬
‫ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ بتانے کی ضرورت نہیں۔۔۔‬
‫مجھے پتہ چل گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی وہ‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ کیا‬
‫زبردست لن ہے تمہارا ۔۔۔ پھر اسے آگے پیچھے‬
‫سیکسی انداز میں‬ ‫کرتے ہوئے بڑے ہی‬
‫بولیں ۔۔ یقین کرو آج تک ان ہاتھوں نے ۔۔۔‬
‫جو دو لن پکڑے ہیں ان میں‬ ‫تمہارے عالوہ‬
‫ہے ۔۔۔ ان‬ ‫جاندار لن تمہارا ہی‬ ‫سب سے زیادہ‬
‫کے منہ سے دو لنوں کو پکڑنے کی بات کا‬
‫سے چونک گیا اور پھر‬ ‫سن کر میں ایک دم‬
‫مہرو باجی کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے معنی‬
‫اور‬ ‫خیز لہجے میں بوال۔۔۔۔ باجی میرے عالوہ‬
‫دو لن کس کس کے تھے ؟ ؟ میری بات سن کر‬
‫ان کے چہرے کا رنگ ایک دم سے اُڑ گیا کہ‬
‫جیسے ان کی چوری پکڑی گئی ہو ۔۔۔۔ اس لیئے‬
‫وہ منہ سے کچھ نہیں بولیں ۔۔۔۔بس خاموشی کے‬
‫میرے لن کو آگے پیچھے کرتی رہیں ۔۔۔ان‬ ‫ساتھ‬
‫کو خاموش دیکھ کر میں بھی سمجھ گیا کہ دال میں‬
‫کچھ کاال ہے ۔۔۔۔ ا ور ویسے بھی میں ان کی‬
‫جان کو چھوڑنے واال نہیں تھا ۔۔۔ اس لیئے ضد کے‬
‫انداز میں ان سے بوال۔۔۔ باجی‬
‫پلززززززززززززز۔۔۔۔۔بتائیں کہ آپ نے اپنے ہاتھوں‬
‫میں کس کس کا لن پکڑا ہے؟ ان کے ساتھ‬
‫یہ بات کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ‬
‫میری بات سن کر وہ کچھ پریشان سی ہو گئی‬
‫تھی۔۔۔۔ اس لیئے وہ بات کو بناتے ہوئے کہنے‬
‫لگیں کچھ نہیں یار بس ویسے ہی میرے منہ‬
‫سے نکل گیا تھا۔۔۔ اس پر میں نے ان کی‬
‫آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔۔۔۔ باجی‬
‫سچ سچ بتائیں ۔۔۔۔۔‬ ‫مجھے بچہ نہ سمجھیں۔۔۔ اور‬
‫میرا اصرار سن کر پہلے تو انہوں نے مجھے‬
‫ٹالنے کی از حد کوشش کی ۔۔۔ لیکن جب میرا‬
‫اصرار بڑھتا رہا تو وہ زچ ہو کر کہنے‬
‫لگیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ توبہ ہے یار ۔۔۔ غلطی سے میرے منہ‬
‫سے بات کیا نکلی۔۔۔۔کہ تم نے اسے پکڑ ہی‬
‫کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد ۔۔۔۔‬ ‫لیا ہے۔۔۔۔۔ پھر‬
‫کے بعد وہ‬ ‫دوبارہ سے میری پیار بھری منت‬
‫دھیرے سے بولیں۔۔۔ان میں سے ایک تو میرا‬
‫خاوند ۔۔خاور محبوب ہے اور دوسرا۔۔یہ کہتے‬
‫وہ پھر سے ُچپ ہو گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے‬ ‫کہتے‬
‫بات کرنے کے سٹائل سے میں سمجھ گیا تھا‬
‫یہ دوسرا و ہی ذات شریف ہے جس کو مجھ‬ ‫کہ‬
‫پھر‬ ‫سے چھپانے کی کوشش ہو رہی ہے یا‬
‫نام بتانے سے باجی ہچکچا رہی تھی‬ ‫اس کا‬
‫بھانپ کر میں ان کی طرف‬ ‫؟ ۔۔اس لیئے یہ بات‬
‫جھک گیا اور ان کے گال کو چوم کر بوال۔۔ دوسرے‬
‫کا نام بھی بتاؤ نا میری جان ۔۔۔۔ جیسے ہی‬
‫ان کا منہ چوم کر اوپر اُٹھا تو اچانک‬ ‫میں‬
‫میری طرف جھک گئی ۔۔۔اور‬ ‫ہی وہ بھی‬
‫۔۔‬ ‫میرے ہونٹوں پر کس کرتے ہوئے بولی‬
‫پلیزززززززززززز ۔۔۔ ڈارلنگ اس بات کو اب‬
‫سے‬ ‫جانے بھی دو۔۔۔۔ تو اس پر میں بھی دوبارہ‬
‫ان کے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بوال۔۔۔۔۔ بتایئے نا‬
‫پلیزززززززز ۔۔ یقین کریں میں کسی کو نہیں‬
‫بتاؤں گا۔۔ ۔۔۔ میری بات سن کر وہ کچھ دیر تک‬
‫سوچتی رہیں ۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے سر اُٹھا کر میری‬
‫رکھے‬ ‫۔۔ پھر میرے لن پہ‬ ‫طرف دیکھا‬
‫میرے‬ ‫ہاتھ کو ہٹا یا۔۔۔۔ اور‬ ‫اپنے‬ ‫ہوئے‬
‫ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر بولیں۔۔۔اگر تم‬
‫رہے ہو تو میں تم کو‬ ‫اتنا ہی اصرار کر‬
‫بتاتی ہوں ۔۔ان کو خاموش دیکھ کر میں بھی‬
‫سمجھ گیا کہ دال میں کچھ کاال ہے ۔۔۔۔ ا ور‬
‫ویسے بھی میں ان کی جان کو چھوڑنے واال‬
‫نہیں تھا ۔۔۔ اس لیئے ضد کے انداز میں ان سے بوال۔۔۔‬
‫باجی پلززززززز۔ بتائیں کہ آپ نے اپنے ہاتھوں میں‬
‫کس کس کا لن پکڑا ہے؟ ان کے ساتھ یہ بات‬
‫کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ میری بات‬
‫سن کر وہ کچھ پریشان سی ہو گئی تھی۔۔۔۔ اس‬
‫لیئے وہ بات کو بناتے ہوئے کہنے لگیں کچھ‬
‫نہیں یار بس ویسے ہی میرے منہ سے نکل‬
‫گیا تھا۔۔۔ اس پر میں نے ان کی آنکھوں میں‬
‫مجھے بچہ نہ‬ ‫آنکھیں ڈال کر کہا ۔۔۔۔۔ باجی‬
‫سچ سچ بتائیں ۔۔۔۔۔ میرا اصرار‬ ‫سمجھیں۔۔۔ اور‬
‫سن کر پہلے تو انہوں نے مجھے ٹالنے کی از‬
‫حد کوشش کی ۔۔۔ لیکن جب میرا اصرار بڑھتا‬
‫رہا تو وہ زچ ہو کر کہنے لگی۔۔۔ توبہ ہے یار‬
‫۔۔۔ غلطی سے میرے منہ سے بات کیا نکلی۔۔۔۔کہ‬
‫کچھ دیر‬ ‫تم نے اسے پکڑ ہی لیا ہے۔۔۔۔۔ پھر‬
‫خاموش رہنے کے بعد ۔۔۔۔ دوبارہ سے میری پیار‬
‫دھیرے سے بولیں۔۔۔ان‬ ‫کے بعد وہ‬ ‫بھری منت‬
‫میں سے ایک تو میرا خاوند ۔۔خاور محبوب ہے‬
‫وہ پھر سے ُچپ ہو‬ ‫اور دوسرا۔۔یہ کہتے کہتے‬
‫گئیں۔۔۔‬

‫ان کے بات کرنے کے سٹائل سے میں سمجھ‬


‫یہ دوسرا و ہی ذات شریف ہے جس‬ ‫گیا تھا کہ‬
‫کو مجھ سے چھپانے کی کوشش ہو رہی ہے‬
‫جاری ہے‬ ‫۔۔‬
‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_قسط_نمبر_‪11‬‬

‫مجھ سے چھپانے کی کوشش ہو رہی ہے یا‬


‫نام بتانے سے باجی ہچکچا رہی‬ ‫پھر اس کا‬
‫بھانپ کر میں ان کی‬ ‫تھی ؟ ۔۔اس لیئے یہ بات‬
‫طرف جھک گیا اور ان کے گال کو چوم کر بوال۔۔‬
‫دوسرے کا نام بھی بتاؤ نا میری جان ۔۔۔۔‬
‫ان کا منہ چوم کر اوپر اُٹھا تو‬ ‫جیسے ہی میں‬
‫میری طرف جھک گئی‬ ‫ہی وہ بھی‬ ‫اچانک‬
‫۔۔۔اور میرے ہونٹوں پر کس کرتے ہوئے بولی‬
‫۔۔ پلیزززززززززززز ۔۔۔ ڈارلنگ اس بات کو اب‬
‫سے‬ ‫جانے بھی دو۔۔۔۔ تو اس پر میں بھی دوبارہ‬
‫ان کے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بوال۔۔۔۔۔ بتایئے نا‬
‫پلیزززززززززززززززززز۔۔ یقین کریں میں کسی کو‬
‫نہیں بتاؤں گا۔۔ ۔۔۔ میری بات سن کر وہ کچھ دیر‬
‫تک سوچتی رہیں ۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے سر اُٹھا کر‬
‫۔۔ پھر میرے لن پہ‬ ‫میری طرف دیکھا‬
‫ہاتھ کو ہٹا یا۔۔۔۔ اور‬ ‫اپنے‬ ‫رکھے ہوئے‬
‫میرے ہاتھوں کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر‬
‫رہے ہو‬ ‫بولیں۔۔۔اگر تم اتنا ہی اصرار کر‬
‫بتاتی ہوں ۔۔۔لیکن یہ سب‬ ‫تو میں تم کو‬
‫جاننے سے پہلے ۔۔۔ تم کو میرے ساتھ ایک‬
‫وعدہ کرنا پڑے گا۔۔۔تو میں نے ان سے کہا کس‬
‫قسم کا وعدہ باجی؟ تو وہ بڑے مضبوط لہجے‬
‫میں بولیں ۔۔۔ راز کو راز رکھنے کا وعدہ۔۔۔ ان کی‬
‫بات سن کر میں نے ان کے دونوں ہاتھوں پر‬
‫اپنا ہاتھ رکھا ۔۔۔۔اور پھر ان کی آنکھوں میں‬
‫جھانکتے ہوئے بوال۔۔۔۔ مہرو باجی میں آپ سے‬
‫وعدہ کرتا ہوں کہ آپ کے اور میرے درمیان جو‬
‫ہوا ۔۔۔اور جو کچھ آگے ہو گا ۔۔۔ اور‬ ‫کچھ آج‬
‫جو کچھ میں نے آپ کے ساتھ کیا ۔۔۔اور جو کچھ‬
‫آپ کے منہ سے‬ ‫آگے کروں گا۔۔جو کچھ‬
‫سنا اور جو کچھ آگے سنوں گا ۔۔وہ سب میرے‬
‫ُ‬
‫اور آپ کے درمیان راز رہے گا ۔۔۔ میری بات سن‬
‫میرے ہاتھ کو دباتے ہوئے کہنے‬ ‫کر مہرو باجی‬
‫لگیں ۔۔۔۔وعدہ۔!!!!!۔۔۔۔ تو میں نے بھی ان کے ہاتھ کر‬
‫نہیں میری‬ ‫دبا تے ہوئے کہا۔۔۔۔صرف وعدہ‬
‫پکا وعدہ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ‬ ‫جان۔۔۔ بلکہ‬
‫میرے منہ سے وعدے کا اقرار سن کر مہرو باجی‬
‫کے چہر ے پر چھائے ہوئے الجھن کے تاثرات‬
‫سے ان‬ ‫میرے اقرار‬ ‫غائب ہو گئے تھے ۔۔اور‬
‫کا چہرہ مطمئن اور ٹینشن فری ہو گیا تھا ۔۔۔‬
‫۔۔اس کے بعد انہوں نے اپنا ایک ہاتھ تو میرے‬
‫ہاتھ میں رہنے دیا ۔۔ جبکہ دوسرے ہاتھ کو وہاں‬
‫سے ہٹا کر انہوں نے دوبارہ سے میرے لن پر‬
‫رکھ دیا ۔۔۔اور اسے دباتے ہوئے بڑے شرمیلے‬
‫لہجے میں بولیں ۔۔۔ وہ دوسرا شخص کہ جس‬
‫میں نے اپنے ہاتھ میں پکڑا تھا‬ ‫کا ویپن‬
‫وہ اور کوئی نہیں ۔۔۔ تمہارا دوست امجد ہے۔۔۔‬
‫باجی کی بات سن کر مجھے ‪ 440‬وولٹ کا‬
‫شاک لگا ۔۔۔۔اور حیرت سے میری آنکھیں کھلی‬
‫کی کھلی رہ گئیں۔۔۔ اور میں نے اسی حیرت کے‬
‫عالم میں ان سے بوال ۔۔۔۔کیا واقعی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟‬
‫باجی کیا واقعی ہی آپ نے امجد کے لن کو اپنے‬
‫ہاتھ میں پکڑا تھا؟ تو وہ میری حالت کو دیکھ‬
‫کر انجوائے کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔ ہاں دوست میں‬
‫نے سچ میں امجد کا ویپن اپنے ہاتھ میں پکڑا‬
‫ہے اور اسے خوب انجوائے بھی کیا ہے۔۔۔ پھر‬
‫لہجے‬ ‫تھوڑے وقفے کے بعد بڑے ہی پُر اسرار‬
‫میں کہنے لگیں۔۔ ۔۔۔اور مزے کی بات یہ ہے کہ‬
‫تمہارے دوست کو اس بات کا پتہ نہیں ہے کہ‬
‫اس کی بڑی بہن نے اس کے لن کو اپنے‬
‫پکڑ کر کافی انجوائے کیا ہے۔۔۔ مہر‬ ‫ہاتھ میں‬
‫ہکا بکا‬ ‫و باجی کی یہ بات سن کر میں مزید‬
‫رہ گیا ۔۔۔اور ان کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی بے‬
‫یقینی سے بوال۔۔۔۔ یہ ناممکن ہے کہ آپ کسی کے‬
‫لن کو پکڑیں اور اسے پتہ بھی نہ چلے ۔۔ میں‬
‫آپ کی یہ بات ماننے کے لیئے ہرگز تیار نہیں‬
‫– تو میری بات سن کر وہ اسی پراسرار لہجے‬
‫میں کہنے لگیں۔۔۔ تم بھی درست کہہ رہے ہو۔۔۔‬
‫تمہاری جگہ اگر میں ہوتی تو میں نے بھی کبھی‬
‫اس بات کا یقین نہیں کرنا تھا ۔۔۔۔ اس پر میں نے‬
‫ان سے کہا کہ کیا آپ مجھے اس بات کی تھوڑی‬
‫تفصیل سے بتانا پسند کریں گی کہ یہ سب کیسے‬
‫ممکن ہوا؟؟۔۔۔ میری بات سنتے ہی وہ مجھ سے‬
‫کہنے لگیں ۔۔۔ ضرور بتاؤں گی کہ اب پیچھے رہ‬
‫ہی کیا گیا ہے ۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫کہنے لگیں۔۔۔لیکن اس کے لیئے تم کو میری ساری‬
‫بات سننی پڑے گی۔۔اور جب میری بات ختم ہو‬
‫جائے تو بتانا کہ میں ٹھیک کہہ رہی ہو ں یا کہ‬
‫غلط۔۔۔ تو میں نے بھی ان کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے کہا آپ سنائیں میں ہمہ تن گوش ہوں۔۔۔ میری‬
‫اللگی سی‬ ‫بات سن کر ان کے چہرے پر ایک‬
‫چھا گئی۔۔۔۔ اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫کہنے لگیں۔۔۔تم فیروزہ بیگم کو جانتے ہو؟ تو میں‬
‫نے اپنے ذہن پر زور دیتے ہوئے کہا کہ کون‬
‫فیروزہ؟ میں تو یہ نام پہلی بار سن رہا ہوں‬
‫ارے یار میں فری کی بات کر‬ ‫تو وہ کہنے لگی‬
‫میری خالہ کی بیٹی ہے اور‬ ‫رہی ہوں جو کہ‬
‫اکثر ہی ہمارے گھر آئی رہتی ہے پھر کہنے‬
‫لگی ابھی کچھ دن پہلے ہی تو وہ آئی تھی ۔۔۔‬
‫۔۔۔ اس پر میں نے ان سے کہا اچھا تو آپ فری‬
‫ہاں ہاں میں نے ان کو‬ ‫باجی کی بات کر رہیں ہیں‬
‫دیکھا ہوا ہے تو اس پر وہ کہنے لگی تم کو کیسی‬
‫لگی؟ تو میں نے نہ سمجھنے کے انداز میں کہا‬
‫۔۔۔ میرے خیال میں تو وہ بڑی شریف اور معصوم‬
‫سی خاتون ہیں ۔۔ میری بات سن کر مہرو باجی‬
‫کھلکھال کر ہنس پڑیں اور کہنے لگیں ۔۔ جسے تم‬
‫بڑی معصوم اور شریف لیڈی کہہ رہے ہو وہ‬
‫دراصل ایک نمبر کی حرافہ اور سیکسی عورت‬
‫ہے اور پھر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے‬
‫کہنے لگیں ۔۔ یو نو میں اور فری بچپن کی دوست اور‬
‫ایچ فیلو ہیں ۔ اور تم کو تو ہمارے ابو کا پتہ‬
‫کتنے کڑک اور سخت مزاج کے‬ ‫ہی ہے کہ وہ‬
‫آدمی ہیں اور میرے خالو یعنی کہ فری کے ابو‬
‫سے بھی دو ہاتھ‬ ‫سختی میں میرے ابو‬
‫آگے ہیں۔۔ اس لیئے ہمیں اپنی ٹین ایج میں کوئی‬
‫بوائے فرینڈ بنانے کا موقع نہیں مال ۔۔۔ لیکن‬
‫بچپن سے ہی‬ ‫کہ‬ ‫شاید تم کو معلوم نہیں‬
‫ہم دونوں ہی بہت گرم اور سیکسی تھیں ۔۔۔‬
‫چونکہ اپنے والدین کے ڈر سے ہم دونوں ادھر‬
‫ادھر منہ نہیں مار سکتی تھیں اس لیئے اپنی‬
‫گرمائیش کو کم کرنے کے لیئے ہم دونوں ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ سیکس کر کے ریلکس ہو‬
‫جاتی تھیں۔۔۔ پھر کہنے لگیں بچپن کی ہماری یہ‬
‫ریلیشن شپ ابھی تک برقرار ہے۔۔ اس کے بعد‬
‫انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔ تم‬
‫بور تو نہیں ہو رہے ؟؟ تو میں نے ان کو‬
‫ہوئے کہا کہ آپ بور ہونے کی‬ ‫جواب دیتے‬
‫بات کر رہی ہو؟ جبکہ میں تو آپ کی باتوں کو‬
‫بہت انجوائے کر رہا ہوں اس پر وہ کہنے‬
‫لگیں پھر ٹھیک ہے اور بولی۔۔۔ ۔۔۔۔ ہاں تو میں کہہ‬
‫رہی تھی کہ ہم دونوں کے بچپن سے ہی ایک‬
‫کے تعلقات‬ ‫اس قسم‬ ‫دوسرے کے ساتھ‬
‫تھے پھر میرے لن کو دباتے ہوئے کہنے‬
‫لگیں ۔۔ یہ بات آج سے چار پانچ سال پہلے‬
‫کی ہے اس وقت ہم لوگ الہور میں رہتے تھے‬
‫دسمبر کے دن تھے اور سخت سردی پڑ رہی تھی‬
‫ہمارے‬ ‫کہ ایسے میں فری رہنے کے لیئے‬
‫گھر آگئی ۔۔۔ اور جیسا کہ تم جانتے ہو کہ میرے‬
‫میاں سپین میں ہوتے ہیں اور دو سال میں بس‬
‫ایک آدھ ہی گھر کا چکر لگاتے ہیں تو ایسے‬
‫میں مجھ جیسی سیکس سے بھر پور عورت کا‬
‫سے‬ ‫کیا حال ہوتا ہو گا؟؟؟؟ تم اچھی طرح‬
‫پھر کہنے لگی۔۔۔ بدقسمتی سے‬ ‫جانتے ہو‬
‫میری طرح فری کا خاوند بھی مڈل ایسٹ میں‬
‫ہوتا ہے اس لیئے میری طرح اسے بھی‬
‫سیکس کی بہت طلب رہتی ہے اسی لیئے وہ‬
‫مہینے میں ایک آدھ بار رہنے کے لیئے ہمارے‬
‫گھر آ جاتی ہے اور کبھی میں اس کی طرف‬
‫چلی جاتی ہوں مقصد سیکس کر کے ایک‬
‫اپنی‬ ‫دوسرے کو ٹھنڈا کرنا ہوتا ہے۔پھر وہ‬
‫بات کو جاری رکھتے ہوئے بولیں۔۔۔ دسمبر کی‬
‫جس رات کی میں تم تزکرہ کرنے لگی ہوں اس‬
‫ہی سیکس چڑھا‬ ‫رات ہم دونوں کو کچھ زیادہ‬
‫تھا۔۔۔۔اس رات ہم دونوں نے ایک‬ ‫ہوا‬
‫چوما چاٹا ۔۔۔۔ فنگرنگ بھی‬ ‫دوسرے کو بہت‬
‫ہم دونوں‬ ‫کی ۔۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے کہ‬
‫کی تسلی نہیں ہو پا رہی تھی۔۔۔۔وہ اس لیئے‬
‫کہ ۔۔۔۔شاید اس دن ہم دونوں معمول سے کچھ‬
‫مجھے‬ ‫ہی گرم تھیں ۔۔۔پھر کہنے لگیں کہ‬ ‫زیادہ‬
‫میں فری کی‬ ‫ابھی تک یاد ہے کہ اس وقت‬
‫پھدی چاٹ رہی تھی کہ اچانک اس نے میرے‬
‫پھدی سے ہٹایا اور کہنے لگی ۔۔۔‬ ‫سر کو اپنی‬
‫مہرو جانی ۔۔۔۔چٹوانے سے گذارا نہیں ہو رہا۔تو‬
‫سے کہا ۔۔۔میری جان ۔۔۔تو بتا میں‬ ‫میں نے اس‬
‫تمہارے لیئے اور کیا کر سکتی ہوں ؟؟۔۔۔ تو وہ‬
‫اپنی پھدی پر ہلکا سا تھپڑ مار کر بولی۔۔۔۔۔میری‬
‫پھدی کچھ اور مانگ رہی ہے ۔تو میں نے اس‬
‫کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔تمہاری پھدی کیا‬
‫بڑے ہی ہوس ناک‬ ‫مانگتی ہے؟ تو وہ‬
‫لہجے میں جواب دیتے ہوئے بولی کہ۔۔۔۔مہرو‬
‫میری پھدی لن مانگتی ہے۔۔۔پھر‬ ‫میری جان‬
‫کہنے لگی مہرو جانی۔۔۔۔ پلیززززززززز۔۔ میرے‬
‫لیئے کسی موٹے تازے لن کا بندوبست کرو ۔۔۔کہ‬
‫مجھے لن چاہیئے۔ اس کی بات سن کر میں نے‬
‫اس سے کہا ۔۔ گشتی عورت ۔۔۔۔اگر میرے پاس کوئی‬
‫لن ہوتا تو سب سے پہلے میں خود اس کو‬
‫ہوتی اور ۔۔۔۔اس سے پہلے‬ ‫انجوائے نہ کر رہی‬
‫کہ میں اس سے مزید کچھ کہتی اچانک ہی‬
‫فری مجھ سے بولی ۔۔۔ اچھا لن کو دفعہ کرو۔۔۔۔یہ‬
‫بتاؤ کہ۔۔۔ تمہاری فریج میں کوئی مولی گاجر‬
‫یا پھر۔۔۔ کوئی موٹا سا کھیرا پڑا ہے؟ تو میں‬
‫نے اس سے کہا کچھ نہ کچھ تو ہونا‬
‫چاہیئے میری بات سنتے ہی وہ بستر سے اُٹھی‬
‫اور جسم کے اوپری‬ ‫اور شلوار پہنی‬
‫(ننگے) حصے کو اپنی چادر میں لپیٹ کر مجھ‬
‫سے بولی تم رضائی اوڑھ لو میں ابھی آئی۔۔۔۔اس‬
‫کی بات سن کر میں نے اپنے کپڑوں کو رضائی‬
‫کے اندر کیا اور اوپر رضائی اوڑھ کر فری کا‬
‫انتظار کرنے لگی۔۔ اسے گئے ہوئے ابھی تھوڑی‬
‫ہی دیر ہوئی تھی کہ اچانک وہ آندھی طوفان‬
‫کی طرح کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔ اسے اندر آتے‬
‫میں نے رضائی سے سر نکال اور‬ ‫دیکھ کر‬
‫اس سے پوچھنے لگی۔۔ کیا چیز الئی ہو؟ تو وہ‬
‫میرے پاس آ کر بڑے ہی شہوت زدہ لہجے‬
‫میں کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ اصلی لن ۔۔۔اس کی بات سن کر‬
‫میں حیران رہ گئی اور اس کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے بولی ۔۔۔اصلی لن؟ فری کی بچی تمہارا دماغ‬
‫تو نہیں چل گیا؟؟ ؟۔۔ تو وہ کہنے لگی نہیں مہرو‬
‫تمہاری جان کی قسم مجھے سچ میں اک اصلی لن‬
‫مل گیا ہے اور پھر میرا ہاتھ پکڑ کر بولی آؤ تم‬
‫دکھاتی ہوں اور میں نا سمجھتے ہوئے‬ ‫کو بھی‬
‫بستر سے اُٹھی اور شلوار پہننے ہی لگی تھی کہ‬
‫وہ بولی سب لوگ سو رہے ہیں تم بس چادر‬
‫اوڑھ کر کے میرے ساتھ چلو کہ ٹائم کم ہے ۔۔۔اور‬
‫میں اس کے ساتھ چل پڑی ۔۔۔ اور پھر وہ امجد کے‬
‫دروازے کے پاس جا کر ُرک گئی۔۔۔۔اور مجھ سے‬
‫کہنے لگی۔۔۔ زرا "کی ہول " میں جھانک کر دیکھو۔۔۔۔‬
‫اور میں نے کی ہول میں جھانک کر دیکھا تو ۔۔۔۔‬
‫میرے دماغ میں ایک عجیب سنسناہٹ سی دوڑ‬
‫میں دیکھا کہ میرا چھوٹا بھائی امجد‬ ‫گئی۔۔۔۔اور‬
‫ڈریسنگ کے سامنے ننگا کھڑا تھا اس کے‬
‫ایک ہاتھ میں کوئی رسالہ تھا جو بعد میں پتہ چال‬
‫پلے بوائے تھا ۔۔۔اور وہ اس رسالے کی‬ ‫کہ وہ‬
‫طرف دیکھتے ہوئے ُمٹھ مار رہا تھا ۔۔۔۔ بات‬
‫سناتے ہوئے مہرو باجی نے میری طرف دیکھا‬
‫اور کہنے لگی ۔۔۔۔یقین کرو شاہ ۔۔۔ جیسے ہی میری‬
‫نظر امجد کے "ٹول" پر پڑی تو حیرت کے‬
‫مارے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔۔۔۔۔‬
‫کیونکہ میرے بھائی کا لن تم سے بھی لمبا تھا۔۔‬
‫ہاں موٹائی میں تم سے بہت کام ہے۔۔۔۔ لیکن اس‬
‫کی لمبائی دیکھ کر میں تو حیران رہ گئی۔۔۔کیونکہ‬
‫ٹول کی توقع‬ ‫اپنے بھائی سے میں اتنے لمبے‬
‫نہیں کر رہی تھی۔۔۔پھر کہنے لگی کہ۔۔۔ کچھ دیر‬
‫تک ہم دونوں نے باری باری بھائی کو ُمٹھ‬
‫مارتے ہوئے دیکھا اور پھر واپس اپنے کمرے‬
‫میں آ گئیں۔۔۔اتنی بات سنانے کے بعد مہرو نے‬
‫میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ یقین کرو‬
‫شاہ۔۔۔۔ بھائی کے لمبے لن کو دیکھ کر ہم دونوں‬
‫تھا ۔۔۔۔اس لیئے کمرے‬ ‫کا ہی برا حال ہو گیا‬
‫میں آ کر ہم دونوں بھائی کے بارے میں ڈسکس‬
‫کرنے لگیں پھر فری بولی ۔۔۔ کمال ہے یار تمہارے‬
‫بھائی کا لن اتنا لمبا ہو گیا ہے اور مجھے‬
‫خبر ہی نہیں ہوئی ۔۔۔۔۔اس پر میں نے اس سے‬
‫واقعی یار حیرت انگیز طور پر ۔۔۔۔‬ ‫کہا کہ ہاں‬
‫ہتھیار بہت لمبا ہے ۔۔میری بات سن‬ ‫بھائی کا‬
‫کر فری نے میری طرف آنکھ ماری اور کہنے‬
‫لگی۔۔۔ ۔۔۔ اب دیکھنا کل میں اس لمبے لن کو‬
‫کیسے اپنی چوت میں لے کر مزہ لیتی ہوں ۔۔۔ تو‬
‫میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے حیرت‬
‫سے کہا ایک دم سے اس کو کیسے پھانس لو‬
‫گی؟ تو وہ ہنس کر کہنے لگی ارے یار ۔۔۔ عورت‬
‫مرد کو پھانسا کونسا مشکل کام‬ ‫لیئے‬ ‫کے‬
‫ہے ۔۔۔ ایک زرا ہنس کر بولو تو بے باچارہ‬
‫ہزار جان سے فدا ہو جاتا ہے۔۔دیکھنا میں کل ہی‬
‫اس کو پھنسا کر۔۔۔ اس سے چودوا بھی لوں گی۔۔۔‬
‫سے‬ ‫پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بڑی ادا‬
‫والے‬ ‫بولی۔۔۔میں تو کل ہی امجد کے لمبے‬
‫اپنی چوت میں لے کر اس کا آنند‬ ‫ہتھیار کو‬
‫لوں گی ۔۔۔ لیکن تیرا کیا بنے گا کالیا؟۔۔۔ تو میں‬
‫نے اس سے کہا ۔۔ میرا کیا بننا ہے سردار۔۔۔۔۔‬
‫کہنے‬ ‫واپس آ کر تم مجھے چود لینا۔۔۔۔ تو وہ‬
‫لگی۔۔۔ ہاں یہ ٹھیک رہے گا ۔۔کل میں اس کے لن‬
‫اور تمہاری چوت دونوں کا ڈبل مزہ لوں‬
‫گی۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد میں اور فری نے‬
‫سیکس کیا ۔۔۔اور پھر‬ ‫مزید اوورل‬ ‫تھوڑا سا‬
‫ایک دوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈال کر سو‬
‫گئیں۔۔۔۔فری نے تو مجھ سے ایک دن کا کہا تھا‬
‫۔۔۔لیکن بھائی کو الئن پر التے التے اس کو تین‬
‫اس‬ ‫آخر کار ایک دن‬
‫چار دن لگ گئے۔۔۔ اور ِ‬
‫نے بھائی کے ساتھ سیکس کر ہی لیا۔۔۔۔۔اور‬
‫پہلی رات بقول اس کے ۔۔۔۔ اس نے بھائی کے‬
‫ساتھ تین چار دفعہ سیکس کیا تھا ۔۔۔واپسی پر جب‬
‫میں نے اس سے بھائی کے بارے پوچھا تو‬
‫کہنے لگی ایک دم سالڈ لن ہے سالے کا ۔۔ میرے‬
‫اندر کی گرمی کو اس نے کافی حد تک کم کر دیا‬
‫میری طرف‬ ‫ہے ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد وہ‬
‫الفاظ میں‬ ‫دیکھتے ہوئے بڑے ہی ذُومعنی‬
‫کہنے لگی ۔۔۔ اب تیرا کیا پروگرام ہے؟؟؟ اس‬
‫کی بات کو سمجھ کر میں نے اس سے کہا کچھ‬
‫شرم کرو یار۔۔۔وہ میرا چھوٹا بھائی ہے۔تو اس‬
‫پر وہ میرے آگے ہاتھ نچا کر بولی۔۔۔ یاد رکھو‬
‫جس نے کی شرم اس کے پ ُھوٹے کرم ۔۔۔۔ اس‬
‫طرح بات آئی گئی ہو گئی۔۔۔۔اس طرح فری نے‬
‫بھائی کے ساتھ دو دن تک خوب سیکس کیا ۔۔۔‬
‫لیکن تیسرے دن اس کے سسرال میں کوئی‬
‫ایمرجنسی کی وجہ سے اچانک ہی اس کا دیور‬
‫اسے لینے کے لیئے آ گیا ۔۔۔ ۔۔۔ چونکہ اس کا‬
‫تھا اور وہ فری‬ ‫کے وقت پہنچا‬ ‫دیور شام‬
‫واپس جانا چاہ رہا تھا‬ ‫اسی وقت‬ ‫کو لے کر‬
‫۔۔۔ لیکن امی نے اسے زبردستی جانے سے‬
‫دوسری طرف فری کا‬ ‫روک لیا تھا ۔۔ جبکہ‬
‫اس رات اس کا بھائی کے ساتھ‬ ‫مسلہ یہ تھا‬
‫کچھ سپیشل پروگرام تھا ۔۔۔لیکن بیچ میں مسلہ‬
‫یہ آن پڑا تھا کہ اس کے دیور نے بھی بھائی‬
‫ت حال‬
‫سونا تھا۔۔۔۔ یہ صور ِ‬ ‫کے کمرے میں ہی‬
‫جا‬ ‫دیکھ کر وہ بار بار اپنے دیور کو کوسے‬
‫نے بھی ابھی آنا تھا‬ ‫رہی تھی کہ اس مردُود‬
‫اور اس کے ساتھ ساتھ وہ بصد حسرت فیض‬
‫کی ایک غزل کا یہ مصرعہ بار بار دھراتی جاتی‬
‫ت گناہ ملی ۔۔۔۔وہ بھی چار دن ۔۔۔‬
‫۔۔۔ کہ اک فرص ِ‬
‫لیکن پوزیشن ایسی تھی کہ کوئی کچھ بھی نہیں‬
‫کر سکتا تھا ۔رات کو کھانے کھانے کے بعد‬
‫جب ہم لوگ اپنے کمرے میں گئے تو میں نے فری‬
‫کو چھیڑتے ہوئے کہا ۔ ۔۔چچ چچ ۔۔ بے چاری کو اک‬
‫ت گناہ ملی تھی لیکن ۔۔۔۔۔ اوپر سے ولن‬
‫فرص ِ‬
‫صاحب نازل ہو گئے۔۔۔ تو وہ میری چھیڑ چھاڑ‬
‫سے لطف اندوز ہوتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ ایسی‬
‫بات نہیں ہے جان جی ۔۔۔۔تمہاری دعا‬ ‫کوئی‬
‫ت گناہ مل گئی ہے تو‬
‫سے ہمیں آج رات بھی فرص ِ‬
‫اس پر میں نے حیران ہوتے ہوئے اس سے کہا‬
‫۔۔ اچھا ۔۔۔ لیکن یہ تو بتاؤ کہ تم لوگ یہ گناہ‬
‫گے کہاں؟ بھائی کے کمرے میں تو تمہارا‬ ‫کرو‬
‫خڑوس دیور سو رہا ہو گا اور اس کے عالوہ‬
‫مجھے تو اور‬ ‫اس چھوٹے سے گھر میں‬
‫کوئی ایس جگہ سمجھ نہیں ا ٓ رہی کہ جہاں پر‬
‫تم لوگ اپنا رانجھا راضی کر سکو۔۔۔۔۔۔میری بات‬
‫پھر‬ ‫اور‬ ‫سن کر پہلے تو وہ مسکرائی‬
‫بڑے پُر اسرار لہجے میں کہنے لگی دھیرج‬
‫میری جان دھیرج ۔۔۔کہ تمہارے بھائی کے کمرے‬
‫کے عالوہ بھی اس گھر میں کافی جگہیں ہیں‬
‫ہم دونوں مکمل اطمینان و سکون‬ ‫جہاں پر‬
‫کو پورا کر‬ ‫کے ساتھ اپنی جنسی ضروریات‬
‫سکتے ہیں ۔۔۔ اس پر میں نے حیران ہوتے‬
‫ہوئے فری سے کہا کہ ۔۔۔ ایسی اور کون سی‬
‫جگہ ہو سکتی ہے اس چھوٹے سے گھر میں ؟ تو‬
‫وہ اسی پُر اسرار لہجے میں کہنے لگی۔۔میری‬
‫جان! تمہارے اسی چھوٹے سے گھر میں ایک‬
‫آج رات کا‬ ‫جگہ ایسی بھی ہے کہ جہاں پر‬
‫پروگرام طے ہے فری کی بات سن کر‬ ‫ہمارا‬
‫میں نے اس کو ُچٹیا سے پکڑا اور اسے کھینچ‬
‫کر بولی۔۔۔ سچ سچ بتا چکر کیا ہے؟ تو وہ‬
‫اپنی چٹیا کو مجھ سے چ ُھڑاتے ہوئے کہنے‬
‫لگی ۔۔۔ ارے بابا بتاتی ہوں بتاتی ہوں ۔۔۔ ایک منٹ‬
‫صبر تو کر لو ۔۔۔لیکن میں نے اس کی چٹیا کو نہیں‬
‫چھوڑا ۔۔۔ اس لیئے وہ کراہتے ہوئے بولی ۔۔۔ آج‬
‫اسی (میرے) کمرے میں سیکس کرنے کا‬ ‫ہمارا‬
‫ارادہ ہے۔۔فری کی بات سن کر میں ہکا بکا‬
‫رہ گئی اور حیرانگی کے عالم میں اس کی ُچٹیا کو‬
‫چھوڑ دیا۔۔۔۔ اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی‬
‫کیا مطلب ؟؟؟۔۔۔۔ تم ۔۔۔ میرے کمرے میں ۔۔۔۔ میرے‬
‫ہوتے ہوئے۔۔ میرے سامنے میرے بھائی کے ساتھ‬
‫سیکس کرو گی ؟ تو وہ ہنس کر بولی یس ڈارلنگ‬
‫۔۔ میں تمہاری موجودگی میں ۔۔۔ تمہارے ہوئے‬
‫ہوئے ۔۔۔اور تمہارے کمرے میں تمہارے سامنے‬
‫سیکس کروں گی‬ ‫۔۔تمہارے بھائی کے کے ساتھ‬
‫اور اس کے لمبے لن کو اپنی پیاسی چوت میں‬
‫ڈال کے مزہ لوں گی ۔۔۔ تو میں نے آنکھیں‬
‫پھیالتے ہوئے اس سے پوچھا لیکن کیسے؟ تو‬
‫وہ ہنس کر کہنے لگی۔۔ یہی تو اصل بات ہے‬
‫میں تھوڑا سپنس ڈال کر‬ ‫پھر وہ ۔۔۔ بات‬
‫مجھے بتانے لگی۔۔ اور اس کے بتانے سے‬
‫سمجھ گئی۔۔۔ بات کچھ ایسے‬ ‫میں ساری بات‬
‫تھی کہ ۔۔۔ میرا کمرہ گھر کے آخری کونے پر‬
‫کمرے کے دو دروازے‬ ‫واقع تھا اور میرے‬
‫کہ جو کہ آج کل‬ ‫تھے ایک تو وہ مین دروازہ‬
‫میں استعمال کر رہی تھی۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ‬
‫ساتھ ایک اور دروازہ بھی تھا ۔۔۔ جو کہ پچھلے‬
‫خاصہ‬ ‫دروازہ‬ ‫برآمدے میں کھلتا تھا ۔اور یہ‬
‫خاصہ خستہ حال تھا اور‬ ‫بوسیدہ ۔۔۔ پرانا اور ۔۔‬
‫اس دروازے کی لکڑی میں جگہ جگہ دراڑیں‬
‫ہوئیں تھیں اس لیئے اس کی خستہ حالی‬ ‫پڑیں‬
‫پیش نظر میں نے اس کو کبھی استعمال نہیں‬
‫کے ِ‬
‫یہ ہر وقت بند رہتا تھا ۔۔ اس‬ ‫کیا تھا۔۔۔اور‬
‫دروازے کی ایک اور خاص بات یہ تھی کہ اس‬
‫جگہ پر‬ ‫والی‬ ‫کی کنڈی کے نیچے قبضے‬
‫خستہ حالی کے باعث وہاں سے دروازے کی‬
‫ٹوٹی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔چنانچہ اب وہاں‬ ‫لکڑی‬
‫اور چوکور‬ ‫قبضے کی جگہ ۔۔۔ ایک کافی بڑا‬
‫اور اس سوراخ سے‬ ‫سا سوراخ بن گیا تھا‬
‫آتی‬ ‫سردیوں کے دنوں میں بڑی ٹھنڈی ہوا‬
‫ہوا سے بچنے‬ ‫تھی ۔۔۔ اس لیئے اس ٹھنڈی‬
‫اس سوراخ والی جگہ پر‬ ‫کے لیئے میں نے‬
‫ٹیپ کے ساتھ بند کیا ہوا‬ ‫اسے‬ ‫گتہ لگا کر‬
‫تھا ۔۔۔ اور فری نے مجھے بتایا تھا کہ رات‬
‫جاؤ ں گی تو امجد اسی‬ ‫کو جب میں سو‬
‫سوراخ سے کہ جس کو دن کے وقت اس نے‬
‫ایک مناسب سا‬ ‫گتہ ہٹا کر اس کی جگہ‬
‫کر اسے اپنے لن کے مطابق‬ ‫بنا‬ ‫گول سوراخ‬
‫اور پروگرام یہ بنا تھا کہ‬ ‫سیٹ کر دیا تھا‬
‫جب میں سو جاؤں تو امجد اس‬ ‫رات کو‬
‫سوراخ سے اپنے لن کو اندر داخل کرے گا‬
‫پتہ‬ ‫۔۔۔اور اس سے آگے کا حال مجھے خوب‬
‫تھا کہ ۔۔۔آگے کیا ہونے واال تھا ۔۔فری کی بات‬
‫سن کر میں نے تحسین بھری نظروں سے اس کی‬
‫تو‬ ‫آئیڈیا‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔۔ یار‬ ‫طرف دیکھا اور‬
‫بڑا زبردست ہے لیکن اس قسم کا نادر خیال کم‬
‫جیسی کوڑھ مغز کا تو ہر گز‬ ‫از کم تمہارے‬
‫نہیں ہو سکتا اس لیئے مجھے بتاؤ کہ یہ اصل‬
‫میں کس کا آئیڈیا ہے ؟؟ ۔۔۔ تو وہ مسکرا کر‬
‫کہنے لگی۔۔۔ تم درست کہہ رہی ہے۔۔۔ لیکن یو نو‬
‫کہہ‬ ‫مائی ڈارلنگ ۔۔۔ جیسا کہ بڑے بزرگ‬
‫جہاں چاہ ۔۔۔ وہاں راہ ۔۔۔ ہوتی ہے‬ ‫گئے ہیں‬
‫اس لیئے میری جان یہ آئیڈیا نہ میرا ہے نہ‬
‫بھائی کا بلکہ یہ آئیڈیا ہم نے‬ ‫تمہارے ہینڈسم‬
‫ایک انگلش کے ایک پورن رسالے سے لیا ہے‬
‫کہ جس میں ایک چھوٹے سے گول سوراخ‬
‫گلوری ہول کہتے‬ ‫سے۔۔۔ کہ جسے وہ لوگ‬
‫میں سے مرد اپنے لن کو اندر داخل‬ ‫ہیں‬
‫کرتا ہے تو کمرے کے اندر وہاں پر موجود‬
‫لیڈی اسے نہ صرف ہاتھوں ہاتھ لیتی ہے‬
‫ڈیمانڈ کے مطابق اسے چوستی‬ ‫بلکہ سین کی‬
‫لے لیتی ہے ۔۔۔اتنی بات کر‬ ‫یا۔۔ اپنی چوت میں‬
‫کے اس نے بڑی گہری نظروں سے میری طرف‬
‫دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔اس طرح نہ تو اس‬
‫گلوری ہول میں لن داخل کرنے والے کو پتہ‬
‫اندر کمرے میں موجود کون‬ ‫ہوتا ہے کہ‬
‫لیڈی اس کے لن کو چوس ۔۔۔یا اپنی چوت میں‬
‫لے رہی ہے اور نہ ہی گلوری ہول میں داخل‬
‫والے لن کو چوسنے یا اندر لینے والی‬ ‫ہونے‬
‫لیڈی کو پتہ ہوتا ہے کہ اس نے کس شخص‬
‫کے لن کو اپنے منہ یا چوت میں لے رکھا ہے۔۔‬
‫یعنی لینے اور دینے والے دنوں ایک دوسرے‬
‫کے لیئے اجنبی ہوتے ہیں۔۔۔ اتنی بات کر کے‬
‫اس نے ایک بار پھر بڑی گہری نظروں سے‬
‫سے کہنے لگی کیا‬ ‫میری طرف دیکھا اور پھر‬
‫خیال ہے؟ اور میں جو اپنی دوست کی بات کا‬
‫مفہوم اچھی طرح سے سمجھ گئی تھی ۔۔۔۔ لیکن‬
‫بوجہ انجان بنتے ہوئے بولی ۔۔ کس بارے میں‬
‫جی؟ تو وہ مجھے ایک موٹی سی گالی دیتے‬
‫ہوئے بولی ۔۔۔ حرامزدی ۔۔۔گشتی عورت اب تم اتنی‬
‫بھی معصوم نہ بنو ۔۔۔اور میں جو کہہ رہی ہوں‬
‫وہ تم اچھی طرح سے سمجھ رہی ہو۔۔۔۔تو اس پر‬
‫میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ لیکن‬
‫یار وہ میرا بھائی ہے۔۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔‬
‫چلو مان لیا کہ وہ تمہارا بھائی ہے‬
‫لیکن۔۔۔لیکن۔۔۔۔۔۔۔میری جان ۔۔ اسے کیا پتہ چلے گا‬
‫کہ اس کا لن اپنی بہن کے اندر جا رہا ہے یا‬
‫میرے ۔۔۔وہ تو بس یہی سوچ کر مزے لے گا کہ‬
‫اس کا لن فری باجی کی چوت میں جا رہا ہے‬
‫۔۔۔یا فری باجی اس کا چوپا لگا رہی ہے۔۔۔۔ فری کی‬
‫سے میرے رونگٹے‬ ‫بات سن کر ایک دم‬
‫کھڑے ہو گئے۔۔۔۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ‬
‫بھائی ۔۔۔ کے لن کے بارے میں سوچ کر میری‬
‫نس نس میں ایک عجیب سی خماری دوڑ گئی‬
‫میرے سارے جسم‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ‬
‫میں ایک مستی سی پھیل گئی ۔۔۔۔اور بھائی ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔‬
‫بھائی کے لمبے لن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کا خیال آتے ہی میری‬
‫پیاسی میری چوت گیلی ہونا شروع ہو گئی تھی‬
‫سے فری کی‬ ‫۔۔۔ لیکن میں نے بظاہر غصے‬
‫طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔۔شرم کر بے غیرتے ۔۔۔ وہ‬
‫میرا چھوٹا بھائی ہے۔۔۔ میری بات سن کر فری‬
‫مسکرا دی اور پھر وہ جلدی سے اپنے ایک‬
‫ہاتھ کو میری شلوار کے نیچے لے گئی۔۔۔۔۔اور پھر‬
‫میری پھدی والی جگہ سے میری شلوار کے‬
‫گیلے پن کو محسوس کر کے اس نے اپنی ایک‬
‫انگلی کو شلوار کے اوپر سے ہی میری جلتی‬
‫پھر‬ ‫پھدی میں دے دیا ۔۔۔اور‬ ‫ہوئی گیلی‬
‫اچھی طرح‬ ‫اسے میری چوت کے پانی سے‬
‫گیال کر کے ۔۔۔۔۔اپنی انگلی کو باہر نکاال اور‬
‫اسے میرے سامنے لہرا کر بولی ۔۔۔۔ اب بتا‬
‫۔۔۔بے غیرت میں ہوں ۔۔۔۔کہ تُو ۔۔ کہ جو ابھی‬
‫سے اپنے بھائی کے لن کے بارے سوچ کر ہی‬
‫گیلی ہو گئی ہو۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر‬
‫مزید کہنے لگی ۔۔۔ سالی رنڈی گشی کی‬
‫اوالد۔۔۔۔اسے کہتے ہیں بغل میں چھری ۔۔۔۔اور منہ‬
‫میں رام رام ۔۔۔سالی تیری بھیگی ہوئی چوت مجھے‬
‫بتا رہی ہے کہ تم کو میرا آئیڈیا اچھا لگا۔۔۔۔ اور‬
‫اوپر اوپر سے تم مجھے ایسی ہی جعلی نخرے‬
‫دکھا رہی ہو اس کے بعد وہ آگے بڑھی اور‬
‫اس نے مجھے اپنی بانہوں میں دبوچ لیا‬
‫۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے ایک ہاتھ‬
‫کو بڑی پھرتی کے ساتھ میری االسٹک والی‬
‫شلوار میں ڈال دیا۔۔۔اور پھر اپنی مڈل فنگر کو‬
‫میری چوت کے اندر باہر کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔بول‬
‫رنڈی!۔۔ آج رات تم کو ایک سیف اینڈ ساؤنڈ لن‬
‫چاہئے کہ نہیں؟۔۔۔۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بے بسی سے کہا۔۔۔۔ لیکن فری ۔۔۔۔‬
‫یہ بھی تو سوچ نا کہ وہ میرا بھائی ہے ۔۔۔اور تم‬
‫تو جانتی ہی ہو کہ ۔۔۔۔۔سگے بھائی کے ساتھ‬
‫ہے میری سن کر اس‬ ‫کرنا گنا ِہ کبیرہ‬ ‫سیکس‬
‫دوسری انگلی کو بھی میری چوت‬ ‫نے اپنی‬
‫ڈال دیا ۔۔۔۔اور پھر اپنی دونوں انگلیوں کو میری‬
‫چوت میں گھماتے ہوئے بولی ۔۔۔ اور جو ہم‬
‫دونوں گزشتہ ایک ہفتے سے بال ناغہ کر رہی‬
‫ہیں۔۔۔۔ ۔۔۔ وہ کیا ثواب کا کام تھا ؟ تو اس پر میں‬
‫نے ایک سسکی بھرتے ہوئے (سسکی اس لیئے‬
‫کہ اس دوران اس نے اپنی دونوں انگلیوں کو‬
‫میری چوت میں ان آؤٹ کرنا شروع کر دیا تھا)‬
‫اس سے کہا لیکن۔۔۔ یار یو نو ۔۔۔ یہ ہماری‬
‫نہ کریں تو ۔۔۔‬ ‫مجبوری ہے کہ اگر ہم یہ بھی‬
‫شاید میں تو اس سیکس کے ہاتھوں پاگل ہو‬
‫جاؤں ۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ آگے بڑھی اور‬
‫میرے منہ میں اپنی زبان ڈال دی اور پھر‬
‫تھوڑی دیر تک مجھ سے اپنی زبان کو‬
‫چسوانے کے بعد ۔۔۔۔اس نے اسے ایک جھٹکے‬
‫میرے منہ سے اپنی زبان کو باہر‬ ‫کے ساتھ‬
‫نکا ال اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بول لن چاہیئے کہ‬
‫نہیں؟؟۔۔۔۔ تو میں نے ترنت ہی اس کو جواب‬
‫دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔کہ ہاں چاہیئے لیکن۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو‬
‫آگے سے وہ کہنے لگی۔۔۔۔ لیکن کیا؟؟؟؟؟؟؟ تو‬
‫میں نے اس سے کہا ۔۔۔۔۔ لیکن اپنے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی‬
‫میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ وہ ایک دم سے‬
‫بولی۔۔۔ ۔۔۔۔ حرامزادی اس کے لن کا تمہاری اس‬
‫تندور بنی پھدی کے ساتھ رشتہ ہے تم سے نہیں‬
‫۔۔۔پھر تھوڑا ُرک کر بولی ۔۔۔ اور ویسے بھی‬
‫تمہاری اس واردات کا۔۔۔۔اس کو ساری عمر نہیں‬
‫پتہ چلے گا۔۔۔۔‬

‫جاری ہے‬ ‫۔۔‬

‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_قسط_نمبر_‪12‬‬
‫اس کے بعد اچانک اس نے اپنی تینوں انگلیوں کو‬
‫بڑی بے دردی کےساتھ میری چوت میں گھسا‬
‫دیا۔۔۔جس کی وجہ سے مجھے درد محسوس ہوا‬
‫۔۔۔اور میں آؤچ۔۔۔ کر کے بولی ۔۔۔ آہستہ گشتی درد ہو‬
‫رہا ہے تو وہ میرے گال پر دانت کاٹتے ہوئے‬
‫کہنے لگی۔۔ میں یہی بتانا چاہ رہی تھی کہ‬
‫تمہاری پھدی میں میری انگلیوں کی بجائے جب‬
‫تم کو‬ ‫ایک لمبا سا لن اندر جائے گا تو‬
‫درد نہیں مزہ محسوس ہو گا۔۔۔۔۔۔پھر اس کے بعد‬
‫اس نے بڑی بے رحمی کے ساتھ دوبارہ اپنی‬
‫تینوں انگلیوں کو میری چوت میں گھسا دیا ۔۔۔ تو‬
‫اس پر میں تڑپ کر بولی۔۔۔۔۔۔فری پلیز ایسے نہ کرو‬
‫مجھے سچ مچ درد ہو رہا ہے ایسے تو میری‬
‫چوت پھٹ جائے گی میری بات سن کر وہ‬
‫لہجے میں کہنے لگی۔۔۔ پھٹتی ہے‬ ‫بڑے سفاک‬
‫تو پھٹ جائے لیکن میں اسے نہیں چھوڑوں گی‬
‫وہ اپنی انگلیوں کو مزید میری چوت‬ ‫۔۔۔پھر‬
‫میں گھماتے ہوئے بولی۔۔۔ہاں ایک شرط پر چھوڑ‬
‫تو‬ ‫ہوں۔۔۔ تو میں نے کہا کیسی شرط؟‬ ‫سکتی‬
‫وہ کہنے گی۔۔۔ پہلے یہ کہہ کہ مجھے لن‬
‫چاہیئے تو میں نے اس کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے کہا ۔۔ کہ فری قسم سے مجھے لن چاہیئے ۔۔۔‬
‫میری بات سن کر وہ بولی ۔۔۔۔ گڈ۔۔۔ اب بول میری‬
‫پھدی لن مانگتی ہے تو میں نے بھی اس کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ہاں میری پھدی لن‬
‫مانگتی ہے پھر وہ کہنے لگی۔۔۔۔۔بول آج رات کو‬
‫میں لن لوں گی ۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے کہا‬
‫۔۔۔پلیزززززز۔۔ فری لیکن اس نے میری بات کو‬
‫سنا ان سنا کرتے ہوئے۔۔۔ میری پھدی پر اپنی‬
‫بڑھا دیا ۔۔۔اور کہنے‬ ‫انگلیوں کا دباؤ کچھ مزید‬
‫لگی بول ورنہ میں اپنی چاروں انگلیوں تیری‬
‫چوت میں ڈال کر اسے چیر پھاڑ دوں گی ۔۔۔۔اور‬
‫دباؤ‬ ‫ساتھ ہی اس نے میری پھدی پر اپنے‬
‫کو کچھ اور بڑھا دیا۔۔ جس کی وجہ سے‬
‫مجھے اپنی چوت کے چرنے کا شدید اندیشہ پیدا‬
‫ہو گیا۔۔۔اور میں نے جلدی سے کہہ دیا۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اوکے۔۔میں آج رات کو لن لوں گی۔۔۔میری بات سن‬
‫کر اس نے اپنے منہ کو میرے کان کے قریب کیا‬
‫اور بڑے مست بھرے انداز میں کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫پکا ناں۔۔۔ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا پکا‬
‫یار ۔۔۔۔اب پلیزززز۔۔۔میری چوت کی جان چھوڑ‬
‫۔۔۔تو اس پر اس نے میری چوت سے اپنی دو‬
‫انگلیوں کو نکال دیا جبکہ باقی دو انگلیوں کو‬
‫میری چوت میں ہی رہنے دیا اور بولی۔۔۔۔میرے‬
‫اپنی پھدی کو چرنے سے بچا لیا ہے‬ ‫ہاتھوں‬
‫۔۔پھر بولی ۔۔۔ اب بول ۔۔۔۔ میں اپنی پھدی میں لن‬
‫وہ کسی کا بھی ہو ۔۔تو میں‬ ‫چاہے‬ ‫لوں گی‬
‫نے اس کے جملے کو دھراتے ہوئے کہا ہاں‬
‫۔۔۔۔ اپنی پھدی میں‬ ‫آج رات کو میں‬ ‫ہاں۔۔۔‬
‫لن لوں گی چاہے وہ کسی کا بھی ہو۔۔۔۔ میری‬
‫وہ کہنے لگی۔۔۔ شاباش ۔۔۔۔اور مزید‬ ‫بات سن کر‬
‫کہہ۔۔۔ کہ میں دروازے کے ہول سے اندر آنے‬
‫لن کو لے کر خوب انجوائے کروں گی۔۔۔‬ ‫والے‬
‫تو میں نے کہا۔۔یار میں نے کہہ تو دیا ہے۔۔۔‬
‫تو وہ غراتے ہوئے بولی جیسا تم سے کہا‬
‫جا رہا ہے ویسے کہہ ورنہ۔۔۔۔اور مجبوراً میں‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔۔ میں دروازے کے سوراخ سے اندر‬
‫اندر لے کر انجوائے‬ ‫آنے والے لن کو پورا‬
‫اور اسے‬ ‫کروں گی ۔۔پیچھے سے وہ بولی۔۔۔۔‬
‫اپنے منہ میں لے کر چوسوں گی بھی۔۔۔۔تو میں‬
‫ہاں میں اسے اپنے منہ میں‬ ‫نے کہہ دیا۔۔۔کہ‬
‫لے کر چوسوں گی بھی۔۔۔میری بات سن کر اس‬
‫نے میری شلوار سے اپنا ہاتھ نکاال اور کہنے‬
‫لگی اتنی سی بات تھی اور تم ویسے ہی نخرے‬
‫کر رہی تھی ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔۔ یہ‬
‫اتنی سی بات نہیں ہے یار ۔۔۔میری بات سن کر‬
‫اس نے میری طرف دیکھ کر آنکھیں نکالیں ۔۔۔۔اور‬
‫پھر وہی بات ۔۔ اور پھر جیسے ہی‬ ‫کہنے لگی‬
‫اس نے اپنے ہاتھ کو میری شلوار کی طرف کیا‬
‫۔۔۔تو میں نے گھبرا کر اس سے کہا ۔۔۔ سوری‬
‫سوری ۔۔۔ اور وہ میری طرف دیکھ کر ہنستے ہوئے‬
‫کہنے لگی۔۔۔ التوں کے بھوت باتوں سے نہیں‬
‫مانتے۔۔۔ پھر وہ میرے نزدیک ہوئی ۔۔اور میرے‬
‫ہونٹ چاٹ کر بولی ۔۔ مائی ڈئیر ۔۔جو کچھ ابھی‬
‫میں نے تمہارے ساتھ کیا اس کے لیئے سوری‬
‫لیکن میرے خیال میں اس کے سوا اور کوئی‬
‫میں نے بھی اس‬ ‫نہ تھا۔۔۔ تو جوابا ً‬ ‫چارہ بھی‬
‫کے ہونٹوں کو چوما اور کہنے لگی سوری کس‬
‫یہی چاہ‬ ‫بات کا ۔۔۔۔کہ اندر سے میرا بھی دل‬
‫رہا تھا ۔۔۔ بس ایک انجانی سے رکاوٹ تھی جو تم‬
‫نے تھوڑی سختی کر کے دور کر دی ۔۔ پھر میں‬
‫نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے تھوڑا سیریس‬
‫ہو کر کہا۔۔۔ لیکن یار مجھے ۔۔ یہ سب کچھ عجیب‬
‫سا لگ رہا ہے اگر بھائی کو پتہ چل گیا تو؟؟؟؟؟؟‬
‫ہاتھ دبا کر بولی کچھ نہیں‬ ‫اس پر وہ میرا‬
‫ہو گا ۔۔۔۔ اور تمہارے بھائی کو تو پتہ چلنے‬
‫کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔۔۔۔۔اس کے بعد ہم‬
‫دونوں ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے بھائی‬
‫کے آنے کا انتظار کرنے لگیں ۔۔‬

‫کہنے کو تو میں نے فری سے کہہ دیا تھا کہ میں‬


‫سے اندر آنے والے لن کو اپنی چوت‬ ‫سوارخ‬
‫میں لےکر خوب انجوائے کروں گی لیکن یہ سوچ‬
‫اندر ایک عجیب سی ہلچل‬ ‫سوچ کر میرے‬
‫اندر آنے واال‬ ‫مچی ہوئی تھی کہ سوراخ سے‬
‫لن میرے بھائی کا ہو گا۔۔۔۔اور یہی بات‬
‫سوچتے ہوئے نیچے سے میری شلوار پوری‬
‫طرح سے بھیگ گئی تھی اور مجھے ایسے‬
‫کسی نے میری پھدی‬ ‫لگ رہا تھا کہ ۔۔جیسے‬
‫کے اندر لیس دار پانی کی ٹونٹی کھول دی ہو‬
‫کیونکہ اس وقت میرے جزبات اس قدر ہائی‬
‫تھے کہ پانی ایک دھار کی صورت میں میرے‬
‫کو مزید‬ ‫۔۔۔ شلوار‬ ‫چوت سے نکل نکل کر‬
‫گیال کر رہا تھا ۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد اچانک ہی‬
‫کے باہر سے ۔۔ بلی کی آواز‬ ‫مطلوبہ دروازے‬
‫سنائی دی۔۔۔ میاؤں میاؤں۔۔۔۔ جیسے ہی یہ آواز‬
‫رہنے کا‬ ‫مجھے ُچپ‬ ‫کمرے میں گونجی فری‬
‫اشارہ کرتے ہوئے جمپ مار کر بستر سے اُٹھی‬
‫۔۔۔اور دروازے کے قریب پہنچ گئی اس کی دیکھا‬
‫دیکھی میں بھی بے آواز قدموں سے چلتی ہوئی‬
‫اس کے پاس جا کھڑی ہوئی۔۔۔۔۔ دروازے کے‬
‫بڑی ہلکی آواز میں‬ ‫قریب پہنچ کر فری نے‬
‫ناک کیا۔۔۔ ددروازے کی ناک‬ ‫تین دفعہ اس پر پر‬
‫سن کر باہر سے بھائی کی گٹھی گھٹی لیکن‬
‫ُ‬
‫آواز سنائی‬ ‫جزبات سے بھر پور لرزتی ہوئی‬
‫دی وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔۔ فری باجی یہ آپ ہو‬
‫ناں؟ تو اندر سے فری نے بڑے میٹھے‬
‫لہجے میں جواب دیا ۔۔۔ ہاں امجد یہ میں ہی‬
‫ہوں ۔۔۔تب امجد کی دوبارہ سے سرگوشی سنائی‬
‫دی وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔۔ باجی کہاں ہیں ؟ اس کی‬
‫بات سن کر فری نے ایک نظر میری طرف دیکھا‬
‫اور پھر مجھے آنکھ مار کر بولی ۔۔۔ تمہاری بہن‬
‫تو کافی دیر سے گھوڑے بیچ کر سو رہی ہے‬
‫۔۔۔ اس پر دوسری طرف سے امجد کی تشویش‬
‫بھری آواز سنائی دی ۔۔۔ ان کے اُٹھنے کا تو‬
‫فری میرے ہاتھ‬ ‫کوئی چانس نہیں ہے نا؟ تو‬
‫پہ ہلکا سا ہاتھ مار کر بولی ۔۔۔ آج کپڑے دھونے‬
‫اور گھر کے دیگر کام کاج کی وجہ سے وہ‬
‫تھکی ہوئی تھی کہ بستر‬ ‫اس قدر‬ ‫بے چاری‬
‫پر گرتے ہی سو گئی ہے پھر کہنے لگی تم اس‬
‫لن کو‬ ‫سے اپنے‬ ‫کی فکر نہ کرو ۔۔۔اور جلدی‬
‫نکالو ۔۔ فری کی آواز سن کر دوسری طرف‬ ‫باہر‬
‫سے امجد نے جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔ باجی‬
‫باہر نکاال‬ ‫اسے تو میں نے پہلے سے ہی‬
‫ہوا ہے لیکن ڈر کی وجہ سے وہ ابھی‬
‫تک ٹھیک سے کھڑا نہیں ہو رہا ۔۔تو فری‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔تو اسے سوراخ سے اندر کر ۔۔۔۔‬
‫کر لوں گی ۔۔۔ اس پر‬ ‫کھڑا میں اسے خود ہی‬
‫امجد بوال ٹھیک ہے باجی ۔۔۔۔۔۔اور پھر اگلے‬
‫والی جگہ‬ ‫کنڈی کے نیچے قبضے‬ ‫ہی لمحے‬
‫کا نیم مرجھایا‬ ‫پر بنے سوراخ سے امجد‬
‫ہوا لن ۔۔۔دروازے کے اندر داخل ہو گیا ۔۔۔‬
‫جیسے ہی امجد کا لن دروازے کے سوراخ سے‬
‫بڑھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔فری نے بڑی بے‬ ‫ہماری طرف‬
‫بڑھایا۔۔۔۔۔اور اس کے‬ ‫تابی سے اپنا ہاتھ آگے‬
‫لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے سہالتے‬
‫ہوئے بولی۔۔۔۔۔فکر نہ کرو یہ ابھی کھڑا ہو جائے‬
‫گا ۔۔پہلے تم یہ بتاؤ کہ ٹائمنگ والی گولی کھا لی‬
‫دیر تک تمہارا‬ ‫تھی نا۔۔۔۔ کہ مجھے آج بہت‬
‫لن چایئے۔۔۔۔۔تو باہر سے امجد کی کپکپاتی ہوئی‬
‫آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا جی باجی۔۔۔۔۔۔بھائی‬
‫کی بات سن کر فری بھائی کا لن سہالتے ہوئے‬
‫ایک لمبی سی "ہُوں " کی ۔ فری کے لن سہالنے‬
‫کے کچھ ہی دیر بعد جب بھائی کا لن ویسے کا ویسا‬
‫ہی نیم کھڑا رہا۔۔۔۔ تو اچانک ۔۔۔ہی باہر سے‬
‫آواز سنائی دی ۔۔وہ کہہ رہا تھا کہ‬ ‫بھائی کی‬
‫منہ میں ڈالیں گی تو‬ ‫باجی اگر آپ اسے اپنے‬
‫یہ جلدی کھڑا ہو جائے اس پر فری نے اس‬
‫کے لن کو چوم کر سرگوشی میں جواب دیتے‬
‫ہوئے کہا۔۔۔۔۔چوس بھی لیں گے میری جان ۔۔لیکن‬
‫ہاتھ میں‬ ‫چوسنے سے پہلے ۔۔ میں اس کو اپنے‬
‫پکڑ کر تھوڑا انجوائے تو کر لوں ۔‬

‫ادھر فری کے ہاتھ میں بھائی کا لن دیکھ کر‬


‫میری عجیب حالت ہو رہی تھی ۔۔۔۔ جزبات کی شدت‬
‫سے میں ہولے کانپ رہی تھی جبکہ فری میری‬
‫طرف سے بے نیاز بھائی کے لن کو اپنے ہاتھ‬
‫میں پکڑے مسلسل سہال رہی تھی ۔۔۔کچھ دیر بعد‬
‫بھائی کے نیم جان لن میں۔۔۔ جان پڑنا شروع‬
‫ہو گئی اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے بھائی کا‬
‫جوبن میں آ گیا۔۔۔۔۔ جیسے ہی‬ ‫لن پوری طرح‬
‫بھائی کا لن پوری طرح اکڑا ۔۔۔۔۔۔۔۔ فری نے میرا‬
‫ہاتھ پکڑ لیا اور بھائی کے لن کی طرف لے جانے‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔فری کی اس حرکت سے میری حالت‬
‫کچھ عجیب ہو گئی تھی۔۔۔۔میرا دل تو کر رہا تھا‬
‫کہ میں جلدی سے آگے بڑھ کر اس کے لن کو‬
‫اپنے ہاتھ میں پکڑ لوں ۔۔۔ جبکہ ۔۔۔ دوسری‬
‫جب میرے زہن میں یہ سوچ بھی آ رہی‬ ‫طرف‬
‫ہوا یہ لن‬ ‫اکڑا‬ ‫کہ میرے سامنے‬ ‫تھی‬
‫بھائی‬ ‫میرے اپنے‬ ‫اور کسی کا نہیں بلکہ‬
‫ہو گئی ۔۔۔۔ اور اسی‬ ‫کا ہے ؟ تو میں کنفیوز‬
‫میں نے فری سے اپنا‬ ‫کنفیویژن کے تحت‬
‫ہاتھ چھڑا لیا۔۔۔۔ میری اس حرکت پر فری نے‬
‫کچھ نہیں کہا اور اپنی‬ ‫اس وقت تو مجھے‬
‫زبان نکال کر بھائی کے ٹوپے پر پھیرنے لگی۔۔۔۔‬
‫فری کی زبان کا بھائی کے ٹوپے پرلگنے کی دیر‬
‫دوسری طرف سے بھائی کی ایک‬ ‫تھی کہ‬
‫وہ کہنے‬ ‫سسکی سنائی دی ۔۔آہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔اور‬
‫تھوڑا منہ‬ ‫لگا ۔۔۔۔ باجی پلیزززززززز ۔۔ اس کو‬
‫کے اندر بھی لے جاؤ نا۔۔۔۔۔۔۔۔ بھائی کی‬
‫درخواست سن کر فری ایک دم ہنسی اور کہنے‬
‫چوپے کی‬ ‫ہی‬ ‫لگی ۔۔۔ ایک تو تم کو ہر وقت‬
‫پڑی ہوتی ہے تو دوسری طرف سے بھائی کی‬
‫وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔ یہ‬ ‫سنائی دی‬ ‫سیکسی آواز‬
‫ہوں باجی کہ آپ‬ ‫میں اس لیئے کہہ رہا‬
‫بہت اچھا لگاتی ہو جس سے مجھے‬ ‫چوپا‬
‫بہت مزہ ملتا ہے ۔۔۔۔۔ بھائی کی بات سن کر فری‬
‫اس سے کہنے لگی ۔۔۔ اگر تم کو مزہ آتا ہے ۔۔ تو‬
‫یہ لو ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا منہ‬
‫کھوال اور بھائی کے لمبے سے لن کو اپنے منہ‬
‫میں لے لیا ۔۔۔اور پھر مزے لے لے کر اسے‬
‫چوسنے لگی۔۔۔ فری کے منہ میں بھائی کے لن کو‬
‫جاتے دیکھ کر شہوت کے مارے میری پھدی‬
‫بڑی تیزی کے ساتھ کھل بند ہونے لگی۔۔۔اور‬
‫چاہا ۔۔۔ کہ کاش فری ایک‬ ‫اس وقت میرا جی‬
‫مجھے بھائی کا لن پکڑنے کو کہنے‬ ‫دفعہ پھر‬
‫نے ایسا کچھ نہیں‬ ‫بے درد‬ ‫۔۔۔لیکن اس‬
‫مزے لے لے کر بھائی کے لن کو‬ ‫کیا اور‬
‫چوپوں کو‬ ‫چوسنے لگی ۔۔۔ اس کے شاندار‬
‫دیکھ دیکھ کر میری حالت غیر ہوتی جا رہی تھی‬
‫اور اندر سے میرا دل بری طرح سے مچل‬
‫سے مجھے‬ ‫رہا تھا کہ کاش فری دوبارہ‬
‫کو کہہ دے۔۔۔۔۔۔۔دوسری‬ ‫بھائی کا لن پکڑنے‬
‫طرف بھائی کا لن چوستے چوستے اچانک ہی‬
‫فری نے میری طرف دیکھا اور اشارے سے‬
‫پوچھنے لگی کہ۔۔۔۔۔۔" چوسو گی"۔۔۔۔۔ اس کے‬
‫باوجود کہ میرا دل بڑی شدت سے مچل رہا‬
‫تھا ۔۔۔۔۔۔۔لیکن پتہ نہیں کیوں میں نے ناں میں‬
‫سر ہال دیا۔۔۔۔۔یہ دیکھ کر اچانک ہی فری نے‬
‫بھائی کے لن کو اپنے منہ سے نکاال اور میرا‬
‫ہاتھ کو پکڑ کر بھائی کے لن کی طرف لے‬
‫جانے لگی ۔۔۔ جسکی میں نے کافی مزاحمت کی‬
‫اور ا س سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی ہرممکن‬
‫کوشش کی لیکن ۔۔۔ میرے ہاتھ پر اس کی گرفت‬
‫مجھے بھائی‬ ‫اتنی مضبوط تھی کہ "مجبوراً"‬
‫کے لن پر ہاتھ لے جانا پڑا ۔۔۔ادھر فری نے میرا‬
‫ہاتھ پکڑ کر بھائی کے لن پر رکھا اور اشارے‬
‫سے بولی ۔۔۔ تم نے اسے جسٹ پکڑنا ہے ۔۔۔۔‬
‫چوپا میں لگا لوں گی۔۔اور میں نے بھائی لن کو‬
‫اپنی گرفت میں لے لیا۔۔۔بھائی کے لن کو ہاتھ میں‬
‫پکڑتے ہی میری حالت کچھ عجیب ہو گئی ۔۔۔اور‬
‫نا چاہتے ہوئے بھی ایک عجیب سی مستی میرے‬
‫سارے بدن میں پھیل گئی۔۔۔۔اور۔۔۔ اچانک شہوت نے‬
‫پوری طرح سے مجھے اپنے گھیرے میں لے لیا‬
‫۔۔۔۔۔اور میں بے اختیار ہو کر فری کے تھوک‬
‫بھائی کے لن کو آگے‬ ‫سے لتھڑے ہوئے‬
‫پیچھے کرنے لگی۔ادھر جیسے ہی میں نے بھائی‬
‫کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔۔ اسی وقت بھائی کی‬
‫سرگوشی سنائی دی وہ کہہ رہا تھا کیا ہوا باجی ؟ آپ‬
‫نے اپنے منہ سے میرے لن کو کیوں نکاال ہے؟‬
‫پلیز اسے دوبارہ اپنے منہ میں لیں نا مجھے بڑا‬
‫مزہ آ رہا تھا تو فری کہنے لگی ۔۔۔ صبر کرو‬
‫بھائی ابھی دوبارہ سے تمہارے لن کو اپنے منہ‬
‫میں لیتی ہوں ۔۔۔۔پہلے اس کے ساتھ مجھے تھوڑا‬
‫سا کھیلنے تو دو ناں۔۔۔ اور مجھے اشارہ کیا کہ‬
‫میں بھائی کے لن سے کھیلتی رہوں ۔۔۔جس میں‬
‫بھائی کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے‬
‫دھیرے دھیرے ہال رہی تھی اس وقت بھائی کے‬
‫لن کو دیکھتے ہوئے میرے ہونٹ بڑے خشک‬
‫ہو رہے تھے اور میں بار بار اپنے ہونٹوں پر‬
‫زبان پھیر کر انہیں دوبارہ سے گیال کر رہی تھی‬
‫بھائی کے ٹوپے کو دیکھتے ہوئے‬ ‫۔۔۔۔ اور‬
‫مجھے خاور (میرے شوہر) کی بہت شدید طلب ہو‬
‫رہی تھی اور مجھ پر سیکس پوری طرح حاوی‬
‫ہوتا جا رہا تھا۔۔۔ لن کو پکڑ کر بار بار میرا دل‬
‫اسے اپنے منہ میں لینے کو کر رہا تھا ۔۔۔‬
‫لیکن میں دل پر جبر ک ر کے ۔۔۔۔۔ بڑی مشکل‬
‫سے اسے آگے پیچھے کر رہی تھی اسی اثنا میں‬
‫بھائی کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔۔ باجی‬
‫اب اسے منہ میں بھی ڈال بھی‬ ‫پلیزززززز‬
‫لیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر فری نے مجھے بالوں‬
‫سے پکڑا اور میرے سر کو بھائی کے لن کے‬
‫قریب کر کے اشارے سے بولی۔۔۔ اسے چوسو۔۔۔‬
‫ہال‬ ‫کو ناں میں‬ ‫لیکن میں نے " بوجہ" سر‬
‫دیا اور دھڑکتے دل کے ساتھ اس کو اشارے‬
‫میں جواب دیا کہ چوسنا تو تم نے تھا ۔ میرے‬
‫کو‬ ‫کشمکش‬ ‫میری اس‬ ‫خیال میں فری‬
‫گئی تھی ۔۔۔اس لیئے۔۔۔اس نے مجھے سر‬ ‫سمجھ‬
‫بھائی کے لن پر دبا دیا۔‬ ‫سے پکڑا ۔۔ اور‬

‫جیسے ہی میرے ہونٹوں نے بھائی کے ٹوپے کو‬


‫چھوا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کس طرح خود بخود ہی‬
‫میرا منہ کیسے کھل گیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں نے بھائی‬
‫کے لن کو اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر فری‬
‫نے میرے بالوں کو چھوڑ دیا ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ‬
‫بھائی کا‬ ‫میں نے بڑی بے تابی کے ساتھ‬ ‫ہی‬
‫چوپا لگانا شروع کر دیا۔۔۔۔جیسے ہی نے بھائی‬
‫کا چوپا لگانا شروع کیا ۔۔۔۔ باہر سے بھائی کی ۔۔۔‬
‫سسکی سنائی دی اور وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔آہ باجی ۔۔۔۔‬
‫آپ بہت اچھا لن چوستی ہو اس کی بات سن کر‬
‫فری نے مجھے لن کو منہ سے نکالنے کو اور‬
‫کے لن کو اپن ے منہ سے‬ ‫جب میں نے بھائی‬
‫۔۔۔ تو وہ بھائی سے مخاطب ہو کر‬ ‫باہر نکاال‬
‫سرگوشی میں کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ یہ بتاؤ میں نے پہلے‬
‫اچھا لن چوسا تھا یا اب اچھا چوس رہی ہوں ۔۔۔‬
‫بھائی کا جواب آجا ۔۔۔وہ کہہ رہا تھا‬ ‫ہی‬ ‫تو ترنت‬
‫بھی‬ ‫پہلے کا چوپا‬ ‫۔۔۔۔ ویسے تو کچھ دیر‬
‫جو آپ چوپا لگا‬ ‫تھا ۔۔۔۔ لیکن اس وقت‬ ‫شاندار‬
‫اس کا جواب نہیں ۔۔۔ اور‬ ‫رہی ہو ۔۔۔باجی‬
‫چوسیں نا ۔۔۔ اس کی بات سن کر فری نے مجھے‬
‫اشارہ کیا اور میں نے جلدی سے بھائی کے لن‬
‫کو اپنے منہ میں کیا اور اسے چوسنے لگی ۔۔۔۔۔‬
‫اسی دوران مجھے محسوس ہوا کہ بھائی کے لن‬
‫سے مزی نکل رہی ہے ۔۔۔اور اس وقت میں‬
‫کے لن سے‬ ‫اتنی گرم ہو رہی تھی کہ بھائی‬
‫کو میں اندر‬ ‫نکلنے والے مزی کے قطروں‬
‫ہی اندر پی گئی ۔۔۔اور پہلے سے بھی زیادہ‬
‫جزبات میں آ کر اس کا لن چوسنے لگی‬
‫۔۔۔۔۔۔جیسے جیسے میں بھائی کا لن چوستی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ویسے ویسے اس کی کراہیں بلند سے بلند تر ہوتی‬
‫چلی جاتیں ۔پھر کچھ دیر بعد فری نے اشارے سے‬
‫کا کہا اور‬ ‫بند کرنے‬ ‫مجھے بھائی کا چوپا‬
‫جیسے ہی میں نے بھائی کے لن کو‬ ‫پھر‬
‫۔۔۔ تو دوسری‬ ‫اپنے منہ سے با ہر نکاال‬
‫طرف سے بھائی کی آواز سنائی دی کیا ہوا‬
‫ہے؟‬ ‫باجی؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔ لن کیوں منہ سے نکا ال‬
‫چوسیں نا۔۔۔ لیکن فری کہنے‬ ‫پلیز تھوڑا اور‬
‫لگی۔۔۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن اب میرا دل اسے‬
‫اندر لینے کو کر رہا ہے اس کے ساتھ ہی فری‬
‫نے اپنی شلوار اتاری اور دروازے کی طرف‬
‫گانڈ کر کے پیچھے سے بھائی کا لن پکڑ لیا‬
‫اور اس سے بولی ۔۔۔تھوڑا اور آگے ہو ۔۔۔ کہ‬
‫میں نے تمہارے پورے لن کو اپنے اندر لینا ہے‬
‫فری کی بات سن کر بھائی تھوڑا آگے بڑھا اور‬
‫اس کے ساتھ ہی دروازے کے اس سوارخ‬
‫سارے لن‬ ‫بالز سمیت‬ ‫سے بھائی نے اپنے‬
‫کو دروازے سے اندر دھکیل دیا بھائی کے بالز‬
‫اس‬ ‫کو دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔۔۔ کیونکہ‬
‫کے لن کی نسبت اس کے ٹٹے بہت موٹے تھے‬
‫۔۔ ادھر بھائی کے موٹے بالز دیکھ کر فری‬
‫ہوئی اور ان پر ہاتھ پھیرتے‬ ‫بڑی خوش‬
‫بولی۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ ان کو پہلے کیوں نہیں‬ ‫ہوئے‬
‫اندر کیا؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ سوری باجی یاد‬
‫نہیں رہا ۔تو اس پر فری بولی ۔۔۔تھوڑا صبر‬
‫کرو کہ۔۔۔ پہلے میں ان کو چاٹ لوں ۔۔یہ کہتے ہوئے‬
‫فری دوبارہ سے فرش پر اکڑوں بیٹھ گئی۔۔۔ اور‬
‫بھائی کے موٹے موٹے ٹٹوں کو اپنے ہاتھ میں‬
‫لے کر ان پر زبان پھیرنا شروع ہو گئی ۔۔۔۔‬
‫کچھ دیر تک وہ ایسا کرتی رہی پھر اس نے‬
‫مجھے اشارہ کیا اور اس کا اشارہ پا کر میں بھی‬
‫نیچے اکڑوں بیٹھی ۔۔۔اور جیسے ہی میں نیچے بیٹھی‬
‫اس نے بھائی کے بالز پر زبان پھیرنا بند کی اور‬
‫مجھے اشارہ کیا تو میں نے اپنی زبان نکالی‬
‫اور بھائی کے بالوں سے پاک ٹٹوں کو اپنے منہ میں‬
‫لینے کی کوشش کی لیکن چونکہ اس کے ٹٹے کافی‬
‫موٹے تھے اس لیئے صر ف ایک ہی ٹٹا میرے منہ‬
‫میں آیا اور میں نے اس کو منہ میں لیا اور پھر منہ‬
‫کے اندر ہی اس پر زبان پھیرنا شروع کر دی۔۔۔۔میرے‬
‫ایسے کرنے سے بھائی کے منہ سے مست‬
‫آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں ۔۔۔پھر کچھ دیر بعد‬
‫فری نے مجھے اشارہ کیا تو میں نے بھائی‬
‫کے بالز کو اپنے منہ سے نکاال اور جیسے‬
‫باہر سے بھائی کی آواز‬ ‫ہی اُٹھنے لگی۔۔۔تو‬
‫سنائی دی وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔۔ باجی پلیزززززز‬
‫مجھے بڑا مزہ آ رہا تھا‬ ‫تھوڑا سا اور۔۔۔ چوسو‬
‫ہوئے‬ ‫لیکن فری نے اس کو جواب دیتے‬
‫کہا۔۔۔کہ نہیں اس وقت میرا دل اس کو اندر لینے کو‬
‫کر رہا ہے اور پھر مجھے اشارہ کیا تو میں‬
‫ایک طر ف ہٹ کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔اب فری نے‬
‫پہلے کی طرح اپنی پشت کو دروازے کی‬
‫طرف کیا اور اس کافی حد تک نیچے جھک گئی‬
‫یہاں تک کہ اس کی پھدی بھائی کے لن کی‬
‫سیدھ میں آ گئی۔۔۔۔ پھر فری نے اپنا ایک ہاتھ‬
‫پیچھے کیا اور بھائی کے لن کو پکڑ کر اپنی‬
‫پھدی پر رکھا اور اپنی گانڈ کو۔۔۔۔ پیچھے کی‬
‫کر‬ ‫بھائی کا لن پھسل‬ ‫طرف پُش کیا تو‬
‫میں گھس گیا۔۔۔۔۔جیسے ہی بھائی‬ ‫فری کی چوت‬
‫کا لن فری کی چوت میں گھسا۔۔۔۔۔ فری نے ایک‬
‫لمبی والی سسکی لی ۔۔آہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔اور پھر خود ہی‬
‫آگے پیچھے ہونا شروع ہو گئی۔۔۔ فری کو‬
‫چودواتے دیکھ کر میرے اندر کی آگ اور بھڑک‬
‫اُٹھی اور میں نے شلوار کے اندر اپنا ہاتھ‬
‫ڈال دیا اور اپنی انگلیوں کو چوت کے اندر‬
‫آ کر‬ ‫باہر کرنے لگی۔۔۔۔۔ادھر فری مزے میں‬
‫زور زور سے بھائی کے لن پر گھسے مار رہی‬
‫تھی جس کی وجہ سے دروازے پر ٹھک ٹھک‬
‫کی آوازیں آنا شروع ہو گئیں تھیں ۔۔۔۔ یہ آوازیں‬
‫سن کر بھائی کہنے لگا۔۔۔ باجی آرام سے‬
‫دھکے لگائیں ایسا نہ ہو کہ کہیں باجی اُٹھ‬
‫جائیں ۔۔۔۔ اس کی بات سن کر فری جوش میں بولی ۔۔۔‬
‫وہ سالی مست سوئی ہوئی ہے تم زیادہ بکواس‬
‫اور۔ ۔۔۔ جیسا میں کر رہی ہوں مجھے‬ ‫نہ کرو‬
‫کرنے دو۔۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد آہیں بھرتے‬
‫کا‬ ‫ہوئے فری نے مجھے اشارہ کیا ۔۔۔۔ اس‬
‫میں نے جھٹ سے اپنی شلوار‬ ‫اشارہ پا کر‬
‫اور پھر۔۔۔ سیکنڈ ز کے ان در اندر ہم نے‬ ‫اتاری‬
‫اپنی جگہ تبدیل کر لی اب پوزیشن یہ تھی کہ فری‬
‫کی جگہ دروازےکے سوراخ کے پاس میں جھکی‬
‫ہوئی تھی ۔۔۔۔۔اور میں نے ہاتھ بڑھا کر بھائی‬
‫اور پھر‬ ‫کے لن کو اپنی چوت پر سیٹ کیا‬
‫تو بھائی کا لمبا لن‬ ‫پیچھے کو دھکا لگایا‬
‫میری چوت اندر تک اتر گیا۔۔۔۔اس‬ ‫سنساتا ہوا‬
‫کے ساتھ ہی میرے منہ سے ایک زبددست‬
‫سسکی نکلنے والی تھی کہ اچانک فری نے میرے‬
‫منہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔۔۔اور میری جگہ خود‬
‫سسکی لیتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ کیا کمال کا لن ہے تمہارا‬
‫۔۔ میری چوت کے آخری کونے پر بھی ٹھوکر‬
‫لگ رہی ہے اور ساتھ ہی مجھے گھسے‬
‫پاتے ہی‬ ‫مارنے کو کہا اور فری کا اشارہ‬
‫میں نے تیزی کے ساتھ بھائی کے لن کو اِن آؤٹ کرنا‬
‫شروع کر دیا۔۔۔۔۔ادھر بھائی ہولے ہولے کراہتے ہوئے‬
‫کہہ رہا تھا کہ باجی یہ اچانک تمہاری چوت اتنی‬
‫ٹائیٹ کیسے ہو گئی؟ تمہاری ٹائیٹ اور پانی سے‬
‫بھری چوت کو مارتے ہوئے مجھے بڑا انوکھا‬
‫مزہ مل رہا ہے۔بھائی کی کراہیں سن سن کر فری‬
‫کی طرح میں بھی دو تین دفعہ چھوٹ چکی تھی لیکن‬
‫دل تھا کہ بھر ہی نہیں رہا تھا اس لیئے میں پ‬
‫بڑے ہی پُر جوش انداز میں گھسے مار رہی‬
‫تھی۔۔۔۔۔پھر کچھ دیر کے بعد مجھے ۔۔۔۔۔ بھائی کے‬
‫ہانپنے کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔ اور وہ چڑھتی ہوئی‬
‫ہائے باجی‬ ‫سانسوں میں کہہ رہا تھا ۔۔۔کہ‬
‫۔۔۔ تمہاری چوت اتنی گرم ہے کہ میرا بس نکلنے ہی‬
‫واال ہے ۔۔۔ بھائی کے منہ سے چھوٹنے کی بات‬
‫سن کر فری نے میری طرف دیکھا اور‬ ‫کو‬
‫اندر‬ ‫بھائی تمہارے‬ ‫اشارے سے پوچھا کہ‬
‫ہی چھوٹ جائے یا۔۔۔۔ تو میں نے مستی میں اشارے‬
‫سے کہا ۔۔۔۔ اسے کہو میرے اندر ہی چھوٹے ۔۔۔میرا‬
‫اشارہ سمجھ کر فری نےایک زبر دست سسکی لی‬
‫اور شہوت بھری آواز میں کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری‬
‫جان میرے اندر ہی شاور مار کے میری چوت‬
‫کو ٹھنڈا کر دے ۔۔۔ابھی فری نے اتنی ہی‬
‫چوت‬ ‫نے اپنی‬ ‫بات کی تھی کہ اچانک میں‬
‫پانی کی ایک زبردست دھار کو محسوس‬ ‫میں‬
‫کے لن سے نکلنے‬ ‫کیا۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔بھائی‬
‫واال شاور میری چوت میں جہاں جہاں گرتا ۔۔۔۔‬
‫ٹھنڈ‬ ‫مجھے اور میری چوت کو وہاں وہاں سے‬
‫پڑتی جاتی۔۔۔۔۔ بھائی کے لن سے نکلنے والی منی‬
‫نے میری چوت کو اندر تک بھر دیا اور میں ٹھنڈی‬
‫ہوتی گئی۔۔۔۔۔ہوتی گئی۔۔۔ہوتی۔ی ی ی ی ی ی ی‬
‫‪ ....‬جاری ہے‬ ‫۔۔۔گئی۔۔‪.‬‬

‫۔۔۔‬

‫۔۔کتنے نے انجوائے کیا ہے اور کیا کیا اپنی‬

‫۔۔‬ ‫زمےداری پر‬

‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_قسط_نمبر_‪13‬‬
‫پوری داستان سنانے کے بعد مہرو باجی نے‬
‫میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔اب بتاؤ کہ‬
‫میری اس بات پرکہ اس واردات کا بھائی کو پتہ‬
‫نہیں چال ٹھیک تھی یا غلط؟ تو میں نے ان کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے ایک گہرا سانس لیا اور‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔ آپ ٹھیک کہہ رہی تھیں باجی ۔۔۔۔۔ جو‬
‫طریقہ آپ لوگوں نے امجد کے ساتھ سیکس‬
‫کرنے کا اپنایا تھا ۔۔۔اس طریقے سے امجد تو‬
‫کیا کسی کو بھی پتہ چلنے کا سوال ہی نہیں‬
‫پیدا ہوتا ۔۔پھر میں نے ان کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے ان سے کہا کہ باجی میں آپ سے ایک بات‬
‫پوچھ سکتا ہوں؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ضرور‬
‫پوچھو۔۔۔ تو اس پر میں نے ان سے کہا ۔۔ کہ‬
‫کیا اس کے بعد پھر کبھی ایسا چانس نہیں بنا؟ تو‬
‫وہ نفی میں سر ہال تے ہوئے کہنے لگیں ۔۔نہیں‬
‫یار۔۔۔ میرے چاہنے کے باوجود بھی پھر کبھی ایسا‬
‫چانس نہیں بن سکا ۔۔۔۔ اسی دوران ان کی نظریں‬
‫میرے اکڑے ہوئے لن پر پڑیں تو وہ اس کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں۔۔ بڑے عرصے‬
‫کے بعد اب چانس مال ہے تو دیکھ لو کہ میں‬
‫اس سے کس طرح بھر پور فائدہ اُٹھا رہی‬
‫ہوں ۔۔اس کے ساتھ ہی وہ اپنی سیٹ سے تھوڑا‬
‫اور انہوں نے ایک بار پھر بس‬ ‫اوپر اُٹھیں‬
‫نظر ڈالی‬ ‫ایک گہری‬ ‫کے مسافروں پر ایک‬
‫وہ میرے لن‬ ‫اور پھر ادھر سے مطمئن ہو کر‬
‫پر جھکی اور اپنے منہ سے کافی سارا تھوک‬
‫اس پر پھینکا اور پھر اس تھوک کو میرے سارے‬
‫لن پر ملتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔ میرا خیال ہے‬
‫فارغ کر ہی دینا چاہیئے۔۔۔‬ ‫کہ اب تم کو بھی‬
‫جب میرا سارا لن ان کے تھوک سے اچھی‬
‫طرح چکنا ہو گیا تو ۔۔۔۔انہوں نے ایک نظر مجھے‬
‫دیکھا ۔۔۔اور کہنے لگی ۔۔۔۔چھوٹنے کے لیئے تیار ہو‬
‫جاؤ۔۔۔۔اور پھر میرے لن پر تیز تیز ہاتھ چالنے‬
‫لگیں۔۔۔۔۔۔میں جو ان کی باتوں سے پہلے ہی حد‬
‫درجہ گرم ہو چکا تھا۔ان کے تیز تیز ہاتھ چالنے‬
‫سے اپنی منزل کے بلکل نزدیک پہنچ گیا اور ۔۔۔ پھر‬
‫کچھ ہی دیر میں ان سے بوال۔۔۔ مہرو جی۔۔۔میں‬
‫بس فارغ ہونے واال ہوں میری بات سن کر‬
‫انہوں نے ایک مست نظر مجھ پر ڈالی اور پھر‬
‫میرے لن پر‬ ‫ہوئے وہ‬ ‫نظر ڈالتے‬ ‫ادھر ادھر‬
‫جھک گئی اور میرے ٹوپے کی سیدھ میں اپنا‬
‫منہ کھول کر تیز تیز ُمٹھ مارنے لگی۔۔۔ پھر اس کے‬
‫چند ہی سیکنڈز کے بعد ۔۔۔ میرا سارا جسم اکڑا‬
‫میرے لن سے ایک تیز‬ ‫ہی‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اچانک‬
‫سی نکلی۔۔۔ جو کہ مہرو باجی کے‬ ‫دھار پچکاری‬
‫غلط ہونے کی وجہ سے۔۔۔ان کے‬ ‫منہ کا زاویہ‬
‫میں جانے کی بجائے سیدھی ان کے گالوں‬ ‫منہ‬
‫پر جا گری ۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر جلدی سے انہوں نے‬
‫اپنے منہ کا زاویہ درست کیا ۔۔۔۔ جس کی وجہ‬
‫سے اگلے ہی لمحے میرے لن سے نکلنے‬
‫ان کے کھلے‬ ‫دوسری پچکاری ۔۔۔ سیدھا‬ ‫والی‬
‫ہوئے منہ کے اندر جا گری جسے انہوں نے ۔۔۔۔۔‬
‫نہ صرف اسے ۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ اس کے بعد بھی نکلنے‬
‫والی ساری منی کو اپنے منہ میں لےکر ایک بڑا‬
‫سا گھونٹ بھر لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔اور جب لن سے منی گرنا‬
‫بند ہو گئی تو انہوں نے بڑے فاتحانہ انداز میں‬
‫میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔اعل ٰی بہت اعل ٰی‬
‫ٹیسٹ ہے تیری منی کا ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ُمٹھ‬
‫جاری رکھی ۔۔۔۔ کچھ سیکنڈ بعد جب میں‬ ‫مرنا‬
‫پوری طرح ڈسچارج ہو گیا ۔۔۔تو وہ دوبارہ سے‬
‫اور اپنے منہ سے‬ ‫میرے ٹوپے پر جھکیں‬
‫باہر نکال کر میرے ٹوپے کے آس پاس‬ ‫زبان‬
‫لگی ہوئی منی کو چاٹنے لگی۔۔ ۔۔۔اس کے بعد‬
‫رومال‬ ‫انہوں نے اپنے پرس سے ایک بڑا سا‬
‫نکال کر اس سے میرے لن کو اچھی طرح صاف کیا‬
‫۔۔۔۔۔اورپھر مجھے اپنے لن کو واپس پینٹ میں‬
‫ڈالنے کا اشارہ کر کے خود بس کی سیٹ سے‬
‫ٹیک لگ کر بولیں ۔۔اوکے یار مجھے تو نیند آ گئی‬
‫ہے۔۔۔۔۔اور اپنا منہ کھڑکی کی طرف کر کے سونے‬
‫لگیں ۔۔۔ ۔۔ان کو سوتے دیکھ کر میں بھی سیدھا ہو‬
‫کر سیٹ پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔اور پھر جانے کس وقت‬
‫میں نیند کی وادیوں میں کھو گیا ۔۔۔ اس کے بعد‬
‫میری آنکھ اس وقت کھلی کہ جب بس ایک جھٹکے‬
‫کے ساتھ اپنے سٹینڈ پر رکی تھی بس کے رکتے‬
‫اس میں موجود سواریں کی ہڑنگ بونگ مچ‬ ‫ہی‬
‫گئی۔۔۔ اس لیئے میں چپ کر کے اپنی سیٹ پر بیٹھا‬
‫رہا اور اس دوران بس میں موجود شور شرابے کی‬
‫مہرو باجی کی بھی آنکھ کھل گئی‬ ‫وجہ سے‬
‫تھی۔۔لیکن میری طرح وہ بھی بس میں موجود‬
‫سواریوں کے اترنے کا انتظار کرنے لگیں۔۔۔ ۔جب‬
‫ایک ایک کر کے ساری سواریاں بس سے نیچے‬
‫اتر گئیں تو ہم لوگ بھی اُٹھ کھڑے ہوئے۔۔۔ اور‬
‫بس سے نیچے اترتے ہی میں نے آنٹی سے‬
‫کہ آنٹی جی یہاں سے آپ کا گاؤں کتنی‬ ‫پوچھا‬
‫دور ہے؟ تو وہ میرے سوال کا جواب دیتے‬
‫ہوئے کہنے لگیں ابھی کہاں بیٹا ۔۔ابھی تو ہم‬
‫یہاں سے ایک لوکل بس میں بیٹھیں گے اور پھر وہ‬
‫بس ہمیں گاؤں کے پاس والے ایک قصبے میں‬
‫اتارے گی پھر اس قصبے سے ہم ٹانگے پر بیٹھ‬
‫کر اپنے گاؤں پہنچیں گے۔ یہ کہتے ہوئے انہوں‬
‫نے مجھے سامان اٹھانے کا اشارہ کیا اور ہم‬
‫لوگ اس اڈے کے ایک طرف بنے لوکل بس سٹینڈ‬
‫کی طرف چل پڑے چونکہ یہ بہت صبع کا وقت‬
‫تھا اس لیئے لوکل بس میں زیادہ سواریاں نہ‬
‫ہونے کی وجہ سے ہم لوگوں کو آسانی کے‬
‫ساتھ سیٹیں مل گئیں۔۔ راستہ میں کوئی خاص بات‬
‫نہ ہوئی جو کہ قاب ِل ذکر ہو ہاں جب ہم لوگ بس‬
‫ٹانگے کا‬ ‫سے اتر کر گاؤں جانے کے لیئے‬
‫انتظار کر رہے تھے تو اچانک ہی مینا نے‬
‫میری طرف اشارہ کرتے ہوئے آنٹی سے کہا کہ‬
‫گاؤں والوں کو ہم نے بھائی (میرے) کے متعلق‬
‫کیا بتانا ہے کہ یہ کون ہے ؟ مینا کی بات سن کر‬
‫آنٹی اور مہرو ایک دم سے چونک گئیں اور پھر‬
‫ایک طرف کھڑی ہو کر کہنے لگی کہ واقعی مینا‬
‫ٹھیک کہہ رہی ہے گاؤں کے لوگوں نے خواہ‬
‫مخواہ اس کے بارے میں سواالت کرنے ہیں۔۔۔ پھر‬
‫کچھ دیر کی بحث و مباحث کے بعد ان میں یہ طے‬
‫پایا کہ تائی اماں اور ان کے خاوند کو سچ بتا دیں‬
‫ماما وہ‬ ‫گے تو ایک بار پھر مینا کہنے لگی‬
‫باقی عزیز رشتے‬ ‫تو ٹھیک مگر یہ بتاؤ کہ‬
‫میں‬ ‫ہم لوگ بھائی کے بارے‬ ‫داروں کو‬
‫کیا بتائیں گے؟ تو اس پر مہرو باجی نے شرارت‬
‫بھری نظروں سے مینا کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫کہا کہ کہہ دیں گے کہ یہ مینا کا ہونے واال‬
‫ہمارے‬ ‫منگیتر ہے جو گاؤں دیکھنے کے لیئے‬
‫ساتھ آ گیا ہے ۔میں نے دیکھا کہ مہرو باجی کی‬
‫بات سن کر مینا کا چہرہ ایک دم سے الل ہو‬
‫گیا تھا اور اس نے بڑی عجیب نظروں سے‬
‫میری طرف دیکھا اور پھر مہرو باجی سے کہنے‬
‫لگی باجی پلیزززززز ۔۔۔ کوئی اور بات کریں ۔۔۔ ادھر‬
‫مہرو نے تو یہ بات مزاق میں کی تھیں لیکن‬
‫جانے کیوں ۔۔۔آنٹی کو یہ آئیڈیا بہت پسند آیا اور وہ‬
‫مہرو کی بات کی تائید کرتے ہوئے بولی۔۔۔کہ‬
‫مہرو ٹھیک کہہ رہی ہے اور ویسے بھی اگر کوئی‬
‫ہم سے پوچھے گا تو بتائیں گے نا ۔۔۔اس پر مینا‬
‫نے احتجاج کے لیئے اپنا منہ کھوال ہی تھا کہ‬
‫آنٹی کہنے لگیں ۔۔ چپ کر اتنی سی بات کرنے‬
‫سے وہ کون سا تیرا سچ ُمچ کا منگیتر بن‬
‫جائے گا؟ آنٹی کی بات سن کر مینا ایک دم چپ‬
‫ہو گئی ۔اتنے میں ان کے گاؤں کی طرف سے‬
‫ایک ٹانگہ آتا ہو ا دکھائی دیا۔۔ ٹانگے والے‬
‫ٹانگے کو‬ ‫آنٹی لوگوں کو پہچان کر‬ ‫نے‬
‫ہمارے پاس ال کھڑا کیا ۔۔۔۔اور ہم ٹانگے پر‬
‫بیٹھ کر گاؤں کی طرف چل پڑے – ان کے گاؤں‬
‫کے راستے میں ہر طرف ہریالی پھیلی ہوئی تھی‬
‫– اینٹوں والی سڑک (جسے ہم سولنگ کہتے ہیں)‬
‫پر ٹانگہ بڑے ردھم سے چل رہا تھا اور اس‬
‫دوارن آنٹی اس ٹانگے والے سے گاؤں کے حاالت‬
‫کے بارے میں پوچھ رہیں تھیں ۔۔جبکہ میں بڑے‬
‫غور سے آس پاس کے ماحول کا جائزہ لے رہا‬
‫تھا۔۔۔ کوئی پیس پچیس منٹ کی مسافت کے بعد ہم‬
‫لوگ گاؤں میں پہنچ گئے یہ ایک سو دو سو‬
‫گھروں پر مشتمل چھوٹا سا گاؤں تھا جن کے‬
‫مکینوں کا انحصار زرعی پیداوار پر تھا اس‬
‫زمانے میں ان کے گاؤں کے چند ہی گھر پکے‬
‫جبکہ اکثر یت کچے گھرانوں پر مشتمل تھی‬
‫ٹانگے سے اتر کر ہم لوگ سڑک کے دائیں ہاتھ‬
‫پر ایک پتلی سی گلی میں داخل ہو گئے اور‬
‫تھوڑا آگے چلنے کے بعد گلی کے ٹکر پر ان کے‬
‫تایا کا گھر تھا جو کہ پکی اینٹوں سے بنا ہوا‬
‫کے باہر ایک پرانا سا‬ ‫تھا۔۔ ان کے گھر‬
‫دروازہ لگا ہوا تھا جس کا ایک پٹ اس وقت کھال‬
‫ہوا تھا ۔۔۔ وہاں پہنچ کر آنٹی اور اس کی دونوں‬
‫بیٹیاں بنا کھٹکھٹائے ۔۔۔گھر کے اندر داخل ہو‬
‫گئیں ۔۔‬

‫جبکہ ایک انجانی جھجھک کی وجہ سے میں‬


‫اندر داخل نہ ہوا ۔۔اور باہر ہی کھڑا رہا ۔۔۔۔ مجھے‬
‫وہاں کھڑے ہوئے ابھی ایک آدھ منٹ ہی ہوا تھا‬
‫کہ اندر سے مینا برآمد ہوئی اور مجھ سے کہنے‬
‫لگی ۔۔۔۔ ماما کہہ رہیں ہیں کہ اندر آ جاؤ ۔۔اور پھر‬
‫وہ مجھے اپنے ساتھ لے کر گھر میں داخل ہو‬
‫گئی۔۔۔۔ مینا کے تایا کا گھر بھی گاؤں کے روایتی‬
‫گھروں کی طرح کشادہ اور کافی بڑا تھا ۔۔۔ مین‬
‫سے داخل ہوتے ہی دائیں ہاتھ پر‬ ‫دروازے‬
‫ہینڈ پمپ لگا ہوا تھا۔۔اور اس ہینڈ پمپ کے‬
‫چاروں طرف ایک چھوٹی سی چار دیواری بنی‬
‫ان کا غسل خانہ اور برتن وغیرہ‬ ‫ہوئی تھی یہی‬
‫دھونے کی جگہ تھی غسل خانے کے ساتھ ہی‬
‫ایک سائیڈ پر چھوٹا سا کمرہ بنا تھا کہ جس‬
‫باقی ہر طرف سے‬ ‫پر فقط چھت پڑا ہوا تھا۔۔‬
‫تھا ۔۔۔۔ یہ ان لوگوں کا کچن تھا‬ ‫یہ اوپن ہی‬
‫لکڑیاں جالنے واال چولہا‬ ‫اس کچن کے اندر‬
‫بنا ہوا تھا اور اس چولہے کے ساتھ ڈھیر‬
‫ساری خشک اور چری ہوئی لکڑیاں بھی پڑی‬
‫ہوئیں تھین۔ جبکہ مین دروازے کے سامنے ایک‬
‫قطار میں چار پانچ کمرے بنے ہوئے تھے‬
‫بنی‬ ‫جن کے دروازوں کے ساتھ کھڑکیاں بھی‬
‫تھیں اور ان کھڑکیوں میں لوہے کی سالخیں‬
‫لگیں تھی ۔۔ایک سائیڈ پر چھت پر جانے کے لیئے‬
‫سیڑھیاں بنی تھی اور ان سیڑھیوں کے نیچے‬
‫تھا‬ ‫ایک چھوٹا سا اناج رکھنے واال کمرہ بھی‬
‫۔۔۔ جبکہ سامنے والے کمروں کے آگے ایک بڑا‬
‫برآمدہ تھا اور اس برآمدے کے سامنے‬ ‫سا‬
‫ایک کافی کھال آنگن تھا ۔۔۔۔ جسے ہم اپنی زبان‬
‫اور اس آنگن کے‬ ‫کہتے ہیں‬ ‫ویڑہ‬ ‫میں‬
‫دھریک کے دو تین‬ ‫ایک ساتھ‬ ‫ایک طرف‬
‫درخت لگے ہوئے تھے ۔ مجھے اندر داخل ہوتے‬
‫دیکھ کر ایک باوقار سی خاتون تیزی سے‬
‫میری طرف بڑھی اور میرے سر پر پیار دیتے‬
‫ہوئے بولی ۔۔ پتر تم باہر کیوں کھڑے تھے یہ‬
‫تمہارا اپنا گھر ہے اور پھر مجھے ساتھ لیئے‬
‫چارپائی‬ ‫ہوئے کمرے میں داخل ہو گئی جہاں‬
‫پر آنٹی اور مہرو باجی بیٹھیں ہوئیں تھیں جبکہ‬
‫ان کے سامنے موڑھے پر ایک بزرگ سا‬
‫شخص جو کہ سفید دھوتی اور قمیض میں ملبوس‬
‫تھا ۔مجھے‬ ‫باتیں کر رہا‬ ‫تھے بیٹھا ان سے‬
‫اندر آتے دیکھ کر وہ بزرگ اپنی جگہ سے‬
‫ہوئے‬ ‫ہاتھ مال تے‬ ‫اُٹھے اور میرے ساتھ‬
‫حال چال پوچھا ۔۔ پھر اس‬ ‫میرا رسمی سا‬
‫باوقار خاتون جو کہ مہرو لوگوں کی تائی اماں‬
‫تھی نے آنٹی سے پوچھا کہ آپ لوگوں کے لیئے‬
‫ریسٹ کرنا‬ ‫پہلے آپ لوگ‬ ‫ناشتہ بناؤں یا‬
‫چاہتے ہو؟ تو آنٹی میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔‬
‫میرے خیال میں آپاں پہلے ہمیں ناشتہ دے دو‬
‫پھر ہم لوگ ریسٹ کر لیں گے اسی اثنا میں‬
‫آنکھیں ملتی ہوئی ایک ‪ 25،26‬سال کی بہت‬
‫ہی پیاری سی لڑکی کمرے میں داخل ہوئی ( جس‬
‫کی عمر کے بارے میں مجھے بعد میں معلوم‬
‫بلکہ ‪34‬‬ ‫ہوا کہ یہ ‪ 25،26‬کی لڑکی نہیں‬
‫سال کی ایک بھر پور عورت ہے ) جیسے ہی‬
‫وہ لڑکی کمرے میں داخل ہوئی اسے دیکھ کر‬
‫آنٹی اور اس کی بیٹیاں ایک دم کھڑی ہو گئیں‬
‫اس لڑکی نے آگے بڑھ کر آنٹی کو سالم کیا‬
‫اور آنٹی اس کے سالم کا جواب دے کر اس کو‬
‫اپنے گلے سے لگاتے ہوئے ۔۔ تائی اماں کی‬
‫طرف دیکھ کر بولی ۔۔ ابھی تک اس کا کچھ نہیں‬
‫بنا؟ تو آگے سے تائی نے جواب دیتے ہوئے‬
‫کہا۔۔۔۔۔۔۔ دفعہ کر و ان شُہدوں کو میرا تو ان‬
‫سے جی ہی اُوب گیا ہے اتنی بات کر کے انہوں‬
‫نے میری طرف دیکھا اور پھر اس کے بعد وہ‬
‫دونوں خواتین ایک دم سے خاموش ہو گئیں‬
‫اور اس موضع پر مزید کوئی بات نہیں کی۔۔۔۔جبکہ‬
‫لڑکی کہ جس کا‬ ‫میں آنٹی کے پاس آنے والی‬
‫نام نوراں تھا کو دیکھنے لگا۔۔۔ وہ واقعہ ہی نور‬
‫سے گندھی ہوئی ایک بہت ہی پیاری اور دل کش‬
‫سی لڑکی تھی بھرا بھرا جسم ۔۔سرخی مائل‬
‫دوھیا رنگ درمیانہ قد اور چھاتیاں اس کے‬
‫سے زرا ہی بڑی تھیں ۔۔۔ اس‬ ‫متناسب جسم‬
‫کے گول چہرے پر زندگی سے بھر پور سندر‬
‫آنکھیں رس سے بھرے قدرتی سرخ ہونٹ۔۔۔‬
‫آنکھیں۔۔۔ ویسے تو اس لڑکی کے جسم کا ایک‬
‫بہت اچھا اور دل کش اور دل نشیں‬ ‫ایک عضو‬
‫تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ لیکن جو چیز اس کے جسم کو سب‬
‫سے زیادہ نمایاں کر رہی تھی وہ تھی اس کی‬
‫صراحی دار گردن ۔۔۔۔ جو کہ اس کے جسم کی دل‬
‫کے حسن کو چار چاند لگا‬ ‫کشی اور اس‬
‫رہی تھی۔۔۔ ایسی دل کش صراحی دار گردن میں نے‬
‫بہت ہی کم خواتین میں دیکھی تھی۔۔۔ ۔۔۔۔ نوراں‬
‫مہرو کے۔ تائے کی اکلوتی بیٹی تھی۔۔۔ جس کے‬
‫بارے میں بعد میں معلوم ہوا تھا کہ وہ جتنی‬
‫حسین عورت تھی شادی کے معاملے میں اتنی‬
‫ہی بدقسمت واقعہ ہوئی تھی ۔۔۔ کیونکہ نوراں آپاں‬
‫جس قدر کیوٹ اور خوب صورت تھی اس کا خاوند‬
‫اُتنا ہی کوجا ۔۔بلکہ بد صورتی کی حد تک معمولی‬
‫شکل و صورت کا حامل مرد تھا اوپر سے وہ‬
‫ہے‬ ‫انتہائی اللچی اور کینہ پرور بھی تھا سنا‬
‫کہ پہلوئے حور میں لنگور واال معاملہ اس کے‬
‫نوراں نہ صرف یہ‬ ‫خاوند پر بہت فٹ آتا تھا‬
‫کہ نہایت خوبصورت بلکہ کم گو اور خاموش طبع‬
‫عورت تھی ۔۔ ماں بات کی اکلوتی ہونے کی وجہ‬
‫سے اس کے اللچی سسرال والے اس سے روز ِنت‬
‫نیا مطالبہ کرتے تھے ۔۔۔یہی وجہ تھی کہ سسرال‬
‫کے روز روز کے تقاضوں سے تنگ آ کر گزشتہ‬
‫چھ ماہ سے وہ " ُرس" کر (ناراض ہو کر) اپنے‬
‫میکے میں آئی ہوئی تھی۔ ادھر باری باری سب‬
‫سے ملنے کے بعد نوراں آپا میری طرف ُمڑی اور‬
‫سوالیہ نظروں سے مہرو کی طرف دیکھنے لگی‬
‫تبھی مہرو باجی آگے بڑھی اور نوراں کو ایک‬
‫طرف لے گئی اور جلدی جلدی میں اسے میرے‬
‫بارے میں بریف کرنے لگی جسے سن کر وہ سر‬
‫ہالتی رہی اور بیچ بیچ میں سے ایک نظر مجھ‬
‫اس کے بعد ہم سب تو‬ ‫ڈالتی رہی‬ ‫پر بھی‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ باتوں میں لگ گئے جبکہ‬
‫نوراں آپاں کچھ دیر بیٹھ کر ہمارے لیئے ناشتہ‬
‫بنانے کچن میں چلی گئی۔۔۔ ناشتے کرنے کے‬
‫فوری بعد نوراں آپاں مجھے ایک کمرے میں لے‬
‫گئی اور ایک پلنگ پر ریسٹ کرنے کا بول کر‬
‫خود باہر چلی گئی ان کے جاتے ہی میں پلنگ پر‬
‫لیٹ گیا اور پھر کچھ ہی دیر بعد مجھے غنودگی‬
‫نے آ لیا۔‬

‫دو تین گھنٹے کی نیند کے بعد اچانک ہی میری‬


‫آنکھ کھل گئی ۔۔۔ پہلے تو میں بے خیالی میں پلنگ‬
‫پر لیٹا رہا پھر جب کچھ حواس بحال ہوئے تو‬
‫میں اُٹھ کر پلنگ پر بیٹھ گیا۔۔ پلنگ پر ٹانگین لمکا‬
‫کر بیٹھتے ہی میری نظریں کھڑکی سے باہر پڑی‬
‫۔ ۔۔۔دیکھا تو آنگن میں تیز دھوپ پڑ رہی تھی۔۔۔‬
‫۔۔۔۔ اور دھریک کے درخت کے نیچے چارپائی پر‬
‫نوراں آپاں بیٹھی تھی۔۔۔اس کے سامنے ایک بڑی‬
‫پڑے ہوئے تھے ۔اور وہ‬ ‫سی پرات میں چاول‬
‫سر جھکائے ان چاولوں کو صاف کر رہی ۔۔۔۔‬
‫چاولوں کو صاف کرتے کرتے اچانک ہی وہ‬
‫چارپائی سے اُٹھی اور اسی طرح سر جھکائے‬
‫چلتی ہوئی عین میرے سامنے والی کھڑکی کے‬
‫گئی۔۔ اور میں نے دیکھا‬ ‫کر بیٹھ‬ ‫قریب پہنچ‬
‫کہ میری کھڑکی کے سامنے برآمدے کے پلر‬
‫ایک جگہ کافی ساری گیلی ریت‬ ‫کے ساتھ‬
‫پڑی تھی اور اس ریت پر پانی کے دو تین‬
‫گھڑے رکھے ہوئے تھے اور ہر گھڑے کے‬
‫اوپر ایک مٹی کا پیالہ اوندھا کر کے رکھا ہوا‬
‫پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے نوراں آپاں‬ ‫تھا‬
‫پانی پینے کے لیئے ان گھڑوں کے پاس بیٹھ‬
‫گئی۔۔۔ اور پھر اس نے میرے سامنے والے‬
‫گھڑے سے پانی نکاال اور ۔۔۔۔اور پھر گھونٹ‬
‫پینے لگی۔۔۔۔۔۔۔جیسے ہی‬ ‫گھونٹ کر کے اسے‬
‫وہ پانی کا ایک گھونٹ بھرتی ۔۔۔تو پانی کا وہ‬
‫اس کے‬ ‫گھونٹ بڑے ہی دل کش انداز میں‬
‫اس کے‬ ‫گلے کی نازک جلد سے ہوتا ہوا‬
‫حلق سے نیچے اترتا ہوا نظر آ رہا‬
‫تھا۔۔۔۔مجھے نوراں آپاں کے پانی پینے کا انداز ۔۔۔‬
‫ہوا‬ ‫پانی کے ان کے گلے سے ہوتا‬ ‫خصوصا ً‬
‫نیچے جانے کا انداز اتنا اچھا لگا کہ میں بڑی‬
‫ہی محویت کے عالم میں ان کو پانی پیتے ہوئے‬
‫سے‬ ‫دیکھنے لگا۔۔۔۔۔میرے اس قدر غور‬
‫دیکھنے کی وجہ سے ۔۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد‬
‫شاید ان کی چھٹی حس نے ان کو خبردار کر دیا‬
‫تھا ۔۔۔۔ جبھی تو پانی پیتے پیتے اچانک ہی انہوں‬
‫نے سر اُٹھا کر میری طرف دیکھا ۔۔۔۔تو انہوں‬
‫ہی محویت کے عالم میں‬ ‫بڑی‬ ‫نے مجھے‬
‫اپنی طرف دیکھتے ہوئے پایا ۔اب ان کی‬
‫نظریں میری نظروں سے ٹکرائی اور پھر اگلے‬
‫چند سیکنڈ تک ہم پوری یکسوئی کے ساتھ ایک‬
‫دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھتے‬
‫رہے ۔۔۔۔۔۔ پھر اچانک ہی انہوں نے اپنی نظریں‬
‫نیچی کر لیں۔۔۔۔۔ اور پتہ نہیں کیوں ان کا چہرہ‬
‫الل سرخ ہو گیا لیکن وہ منہ سے کچھ نہ‬
‫بولی ۔۔۔۔ اور پانی پی کر واپس دھریک کے‬
‫اسی درخت کے نیچے جا بیٹھیں کہ جہاں سے‬
‫اُٹھ کر وہ آئیں تھیں۔۔۔ادھر ان کے اُٹھنے کے بعد‬
‫مجھے بھی کچھ ہوش آیا ۔۔۔اور میں دل ہی دل میں‬
‫سوچنے لگا کہ میرا اس طرح سے ان کی طرف‬
‫دیکھنا ۔۔۔۔۔۔کہیں وہ مائینڈ ہی نہ کر گئیں ہوں ۔۔۔اور‬
‫پھر اسی ادھیڑ پن میں۔۔۔ میں واپس پلنگ پر لیٹ گیا‬
‫اور اسی حادثے کے بارے میں سوچنے لگا۔۔۔۔ ابھی‬
‫مجھے لیٹے ہوئے چند ہی سیکنڈ ہوئے تھے کہ‬
‫ملی جلی آوازیں‬ ‫دروازے کے باہر خواتین کی‬
‫سنائیں دیں اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے‬
‫دروازے کا ایک پٹ کھال ۔۔۔۔۔اور پھر ادھر سے‬
‫مجھے آنٹی بمہ مہرو ‪،‬مینا اور ان کی تائی اماں‬
‫دروازے سے اندر آتی ہوئی دکھائی دیں ۔۔۔ انہیں‬
‫اندر آتے دیکھ کر میں بھی پلنگ سے اُٹھ کھڑا ہوا‬
‫۔۔۔اور پھر سے پلنگ پر بیٹھ گیا اتنے میں وہ‬
‫میرے کمرے میں داخل ہوگئیں‬ ‫تمام خواتین بھی‬
‫تھیں۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر آنٹی کہنے لگیں کہ کب‬
‫اُٹھے؟ تو میں نے ان سے کہہ دیا کہ ابھی ابھی‬
‫میری آنکھ کھلی ہے ۔۔۔ میری بات سن کر وہ‬
‫بیٹھ گئیں ۔۔۔۔اور پھر مجھ‬ ‫میرے پاس پلنگ پر‬
‫سے باتیں وغیرہ کرنے لیں ۔۔۔۔ اسی دوران‬
‫اور کہنے‬ ‫مہرو باجی نے میری طرف دیکھا‬
‫لگیں۔۔۔ بور تو نہیں ہو رہے؟ تو میں نے آگے‬
‫سے نہ میں سر ہال دیا ۔۔۔ مہرو کی بات سن کر‬
‫ان کی تائی کہنے لگیں ۔۔یہ بھی بھال کوئی‬
‫پوچھنے کی بات ہے ظاہری سی بات ہے کہ یہ‬
‫۔۔۔ شہری منڈا ہے اس نے تو یہاں پڑے پڑے‬
‫بور ہو نا ہی ہے اس پر آنٹی بولیں ۔۔۔ بور تو یہ‬
‫واقعی ہی ہو گا لیکن ہمارے پاس اس کا کوئی‬
‫عالج نہ ہے ۔۔۔۔ ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے‬
‫تھے کہ اچانک ہی مہرو باجی کہنے لگیں کہ‬
‫میرے پاس اس کی بوریت کا ایک حل ہے اور‬
‫وہ یہ کہ اس کو الماری میں سے پڑھنے کے‬
‫لیئے ناول دیئے جائیں ۔۔۔۔ مہرو باجی کی بات سن‬
‫کر تائی اماں نے میری طرف دیکھا اور کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔ بیٹا کیا آپ کتابیں پڑھنا پسند کرتے ہو؟‬
‫تو میری بجائے مہرو باجی کہنے لگیں۔۔۔ تائی‬
‫اماں اس سے کیا پوچھ رہیں ہیں ۔۔۔۔ یہ تو‬
‫رسالوں اور ناولز کا بہت رسیا ہے۔۔۔ مہرو کی‬
‫کے لیئے‬ ‫بات سن کر تائی اماں نے کمفرمیشن‬
‫میری طرف دیکھا تو میں نے بھی تائید میں سر‬
‫ہال دیا ۔۔۔اس پر وہ مجھ سے بولیں۔۔ میرے ساتھ‬
‫آؤ ۔۔ اور میں ان کے ساتھ چل پڑا ۔۔۔وہ مجھے‬
‫لیئے ہوئے ایک اور کمرے میں پہنچیں جہاں پر‬
‫لکڑی کی ایک بڑی سی الماری رکھی تھی جس‬
‫میں شیشے لگے ہوئے تھے اور ان شیشوں کی‬
‫کے ریک میں کافی‬ ‫الماری‬ ‫طرف‬ ‫دوسری‬
‫کتابیں رکھی ہوئیں تھیں۔۔۔۔ الماری کے‬ ‫ساری‬
‫سامنے پہنچ کر تائی اماں مجھ سے کہنے لگیں‬
‫۔۔اس میں کافی سارے ناولز اور رسالے پڑے ہیں‬
‫اپنی مرضی کا کوئی ا یک ناول لے کر الماری بند‬
‫کر دینا۔۔۔ یہ کہہ کر وہ خود تو چلی گئیں ۔۔۔۔اور‬
‫میں الماری کے سامنے کھڑا ہو کر اس کا جائزہ‬
‫لینے لگا۔۔۔ الماری کی حالت سے اندازہ ہو رہا‬
‫تھا کہ کافی عرصہ سے اس کو کسی نے نہیں‬
‫کھوال۔۔ خیر میں نے الماری کا پٹ کھوال تو دیکھا‬
‫ابن صفی کی کرنل آفریدی اور‬
‫کہ اس میں ِ‬
‫عمران سیریز‪ ،‬این صفی کی بھی عمران سیریز اور‬
‫نسیم حجازی کے ناول پڑے ہوئے تھے جو کہ‬
‫اتفاق سے میں نے پڑھ رکھے تھے ۔۔۔ اس لیئے‬
‫نسیم حجازی کے‬ ‫ابن صفی کی بجائے‬
‫میں نے ِ‬
‫ب‬
‫ناول انسان اور دیوتا کو باہر نکاال اور حس ِ‬
‫بند کر کے واپس اسی کمرے‬ ‫الماری کو‬ ‫ہدایت‬
‫میں آگیا ۔۔اور پلنگ پر بیٹھ کر ا س ناول کو‬
‫پڑھنے لگا۔‬

‫میں ناول پڑھنے میں ُگم تھا کہ اچانک میری‬


‫مجھے سگنل دیا کہ کوئی میری‬ ‫چھٹی حس نے‬
‫دیکھ رہا ہے۔۔ پہلے تو میں نے اپنی‬ ‫طرف‬
‫اس فیلنگ کو نظر انداز کر دیا اور پوری یکسوئی‬
‫کے ساتھ ناول پڑھنے لگا۔۔۔ لیکن پھر کچھ ہی‬
‫دیر بعد جب مجھے دوبارہ سے ایسا محسوس‬
‫ہوا تو میں نے ناول سے نظر ہٹا کر سامنے‬
‫دیکھا ۔۔۔۔تو ۔۔۔۔ سامنے چارپائی پر مہرو باجی‬
‫‪،‬آنٹی اور تائی اماں بیٹھی باتیں کر رہیں تھی ان‬
‫سب کا منہ کچن کی طرف تھا جبکہ ان کے ساتھ۔۔۔۔‬
‫لیکن ان سب سے الگ تھلگ ایک کونے میں‬
‫بیٹھی نوراں آپاں ٹکٹکی باندھے میری طرف‬
‫دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ جیسے ہی میری اور ان کی‬
‫نظریں چار ہوئیں تو انہوں نے چند سیکنڈ کے‬
‫لیئے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا ۔۔۔۔‬
‫پھر ایک دم اپنا منہ دوسری طرف کر لیا ۔۔۔۔۔ ان کا‬
‫یوں اپنی طرف دیکھنا ۔۔ میں اسے اپنا وہم‬
‫سمجھا۔۔۔اور دوبارہ سے ناول پڑھنے لگا۔۔۔ ناول‬
‫پڑھتے پڑھتے جب دو تین دفعہ اور مجھے وہی‬
‫فیلنگز آئیں ۔‬

‫۔تو میں نے ایک بار پھر ناول سے چہرہ ہٹا کر‬


‫دیکھا۔۔۔تووووووووو۔۔۔۔اس دفعہ بھی میں نے نوراں‬
‫ت‬
‫آپاں کو اپنی طرف دیکھتے ہوئے پایا۔۔۔۔ یہ صور ِ‬
‫حال دیکھ کر میں تھوڑا سا حیران بھی ہوا ۔۔۔ اور‬
‫پھر اس کے ساتھ ہی یہ خیال آتے ہی کہ ایک بہت‬
‫ہی خوبصورت خاتون مجھ میں دل چسپی لے‬
‫رہی ہے ایک لمحے میں ہی میرے اندر چھائی‬
‫ہوئی ساری بوریت غائب ہو گئیں ۔۔۔اور اس کے‬
‫ساتھ ہی مجھے بھی نوراں آپاں میں انٹرسٹ پیدا‬
‫ہو گیا۔۔۔۔اور میں بھی ناول پڑھتے ہوئے چوری‬
‫چوری ان کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔ اور اس طرح‬
‫دوپہر کے کھانے تک متعدد دفعہ میری ان کے‬
‫چار ہوئیں۔۔۔دوپہر کا کھانا ہم سب‬ ‫ساتھ آنکھیں‬
‫نے اکھٹا ہی کھایا ۔۔۔۔۔ اور کھانا کھاتے ہوئے میں‬
‫نے ایک دو دفعہ نوراں آپاں کی طرف دیکھا لیکن‬
‫میری طرف سے مسلسل بے نیازی‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ‬
‫ہی رہیں۔۔۔اس پر میرے دل میں یہ خیال آیا کہ کہیں‬
‫سچ ُمچ یہ میرا وہم ہی نہ ہو۔۔۔اور یہ سوچ کر‬
‫میں کافی محتاط ہو گیا۔۔۔۔۔۔کھانا کھانے کے بعد‬
‫پہلے‬ ‫مہرو‪ ،‬نینا اور آنٹی آرام کرنے کے لیئے‬
‫والے کمرے کی طرف جبکہ میں اپنے کمرے‬
‫میں ۔۔ تائی اماں اورمحلے کی چند خواتین میر ی‬
‫کھڑکی کے سامنے چارپائیاں بچھا کر بیٹھ‬
‫ب سابق ان سب آنٹیوں کا‬
‫گئیں۔اس دفعہ بھی حس ِ‬
‫ُرخ ایک طرف جبکہ ان کی چارپائی کی پائینتی پر‬
‫ب سابق پلنگ پر‬
‫نوراں آپاں بیٹھ گئی۔اور میں حس ِ‬
‫بیٹھ کر ناول پڑھنے لگا۔۔۔ ابھی میں نے ناول کے‬
‫ایک دو باب ہی پڑھے ہوں گے کہ میرے اندر‬
‫پھر سے وہی فیلنگ آنا شروع ہو گئی کہ کوئی‬
‫گہری نطروں سے میری طرف دیکھ رہا ہے‬
‫۔۔ٹرائی کے لیئے میں نے ناول سے نظر ہٹا کر‬
‫سامنے دیکھا تو نوراں آپاں کو اپنی طرف متوجہ‬
‫پایا۔۔۔انہیں اپنی طرف متوجہ پا کر میری حالت کچھ‬
‫عجیب سی ہو گئی۔۔۔ ڈر بھی لگ رہا تھا ۔۔اور دل‬
‫بھی چاہ رہا تھا۔۔۔اور میں انہی کے بارے سوچتے‬
‫ہوئے بار بار ان سے نظریں چار کر رہا تھا۔۔۔۔۔ اور‬
‫اس دفعہ موقعہ پا کر وہ بھی مجھے دیکھتی رہی‬
‫تھیں۔۔۔۔ان کے یوں میری طرف دیکھنے سے ۔۔۔‬
‫ایک دفعہ پھر سے وہی تاک جھانک کا کھیل‬
‫شروع ہو گیا۔۔۔۔ نوراں آپاں کا یوں بار بار میری‬
‫طرف دیکھنے سے میرے دل میں کھد بد شروع ہو‬
‫گئی۔۔۔۔ اور میں نے اپنی اس فیلنگ کو کنفرم‬
‫کرنے کے لیئے کہ نوراں آپاں واقعی ہی مجھ‬
‫میں انٹرسٹ لے رہی ہیں ۔۔۔ایک گھسا پٹا حربہ‬
‫کیا ۔۔۔ جس کو چھت پر چڑھ کر بھونڈی‬ ‫استعمال‬
‫کرنے والے میرے ٹھرکی بھائی۔۔۔۔ اچھی طرح‬
‫سے جانتے ہیں۔۔۔ ۔۔۔۔ اب میں نے انسان اور دیوتا‬
‫کے ہیرو پر لعنت بھیجی ۔۔۔۔۔لیکن ناول کو اپنے‬
‫اس طرح سے اپنے‬ ‫ہاتھ میں پکڑ کر کچھ‬
‫سامنے رکھا کہ جیسے کہ میں ناول پڑھ رہا ہوں‬
‫۔۔اور گاہے گاہے نوراں آپاں کو چیک کرنے لگا۔۔‬
‫کچھ ہی دیر بعد جب میں نے ان کو اپنی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے دیکھا تو پروگرام کے‬
‫مطابق میں نے انگڑائی لینے کے انداز میں‬
‫اپنے ہاتھ کو بلند کیا ۔۔۔اور نوراں آپاں کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے اپنے اس ہاتھ کو بڑے مخصوص‬
‫سر پر پھیرا ۔۔۔۔۔ چھتوں پر بھونڈی‬ ‫انداز میں‬
‫کرنے والے دوست میرے اس اشارے کا مطلب‬
‫اچھی طرح سے جانتے ہیں۔۔۔۔۔ جبکہ باقی‬
‫بتا دوں کہ اس‬ ‫دوستوں کی اطالع کے لیئے‬
‫کا مطلب سامنے والی کو سالم کر کے اپنی‬
‫طرف متوجہ کرنا ہوتا ہے اور اگر سامنے والی‬
‫خاتون یا لڑکی۔۔۔۔آپ میں انٹرسٹ رکھتی ہو تو‬
‫وہ بھی سیم اسی طرح یا اس سے ملتا جلتا‬
‫رسپانس ضرور دے گی۔۔ ۔۔۔لیکن میرے اس طرح‬
‫سر پر ہاتھ پھیرنے کے انداز کو یا تو نوراں آپاں‬
‫سمجھی نہیں یا پھر اس نے جان بوجھ کر اسے‬
‫اگنور کر دیا تھا۔۔۔۔اور اس نے میرے اس اشارے کا‬
‫کوئی جواب نہ دیا۔۔ میں نے دو تین دفعہ اور وہی‬
‫اشارہ کیا ۔۔۔ لیکن ادھر سے کوئی جواب نہ پا کر‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے انسان اور دیوتا کے ہیرو پر‬
‫بھیجی ہوئی لعنت کو واپس لیا ۔۔۔۔۔اور خود کو‬
‫اچھے بچوں کی طرح دوبارہ سے‬ ‫کوستا ہوا‬
‫ناول کر پڑھنا شروع کردیا۔۔ابھی مجھے ناول‬
‫پڑھتے ہوئے کچھ ہی دیر تھی کہ مجھے دوبارہ‬
‫سے پھر وہی فیلنگ آنا شروع ہو گئیں کہ جیسے‬
‫کوئی مجھ کو دیکھ رہا ہے ۔۔۔ پہلے تو میں نے‬
‫اپنی اس فیلنگ پر سو سو لعنت بھیجی۔۔۔۔۔۔ لیکن جب‬
‫یہ فیلنگز کچھ زیادہ ہی بڑھ گئیں تو میں نے سر‬
‫اُٹھا کر دیکھا تو نوراں آپاں ٹکٹکی باندھے‬
‫میری طرف دیکھ رہی تھی ۔۔۔ چند سیکنڈز تک‬
‫انہوں نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا‬
‫اور پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے ایک نظر چارپائی پر بیٹھی‬
‫آنٹیوں کی طرف دیکھا ۔۔۔اور پھر میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے انہوں نےبلکل میرے انداز میں ایک‬
‫انگڑائی لی۔۔۔۔۔ اور پھر میری طرح اپنے ہاتھ کر‬
‫سر پر لے جا کر انہوں نے اپنے سر پر ہاتھ‬
‫پھیر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کی یہ حرکت دیکھ کر خوشی کے‬
‫ت قلب بند ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫مارے میری تو حرک ِ‬
‫جھٹ سے میں نے دوبارہ ان کو ویسے ہی‬
‫سالم کیا ۔۔۔ جس کا انہوں نے فوراً جواب دے دیا۔۔۔۔‬
‫اب میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی‬
‫ایک انگلی اپنے ہونٹوں پر پھیری ۔۔۔ جسے دیکھ کر‬
‫وہ ہلکا سا مسکرائیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس کا کوئی‬
‫جواب نہیں دیا۔ ان کو یوں مسکراتے اور میرے اور‬
‫کا جواب دیتے دیکھ کر میرے اندر‬ ‫میرے سالم‬
‫گھنٹیاں سی بجنے لگیں ۔۔۔اور میں نے خود سے‬
‫مخاطب ہوتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ مبارک ہو دوست‬
‫چوت کی‬ ‫گاؤں کی ایک دیسی‬ ‫تمہارے لن کو‬
‫سہولت میسر آ گئی ہے۔‬

‫اس طرح ہمارا آنکھ مٹکہ کافی دیر تک جاری‬


‫رہا ۔۔۔اسی دوران مہر و باجی کا تایا ابو کہ جس‬
‫کا نام چوہدری شیر تھا بھی گھر آ گیا اور ان کے‬
‫آنے کے کچھ دیر بعد تینوں خواتین بھی اُٹھ کر‬
‫اپنے گھروں کو چلی گئیں چوہدری شیر کے گھر‬
‫آنے کے کچھ دیر بعد تینوں ماں بیٹیاں اپنے‬
‫کمرے سے باہر آ گئیں۔۔۔اور اتنے میں شام کی‬
‫چائے بھی تیار ہو گئی اور ہم لوگ چائے پیتے‬
‫ہوئے آپس میں باتیں کرنے لگے یہاں ایک بات میں‬
‫مینا‬ ‫نے محسوس کی اور وہ یہ کہ جب مہرو اور‬
‫محفل میں ہوتی تو نورا ں آپا ں بڑی سیریس ہو‬
‫کر اپنا کام کرتیں اور آنکھ اُٹھا کر بھی میری طرف‬
‫نہ دیکھتی تھیں ہاں جب یہ لیڈیز آس پاس نہ‬
‫ہوتیں تو وہ مجھے خوب لفٹ کراتی تھی چائے‬
‫پینے کے دوران آنٹی نے چوہدری کی طرف دیکھا‬
‫اور کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ بھائی صاحب امجد کے ابو‬
‫سے بات ہو گئی تھی؟ آنٹی کی بات سن کر‬
‫چوہدری کہنے لگا کہ ہاں بھابھی میں نے کچہری‬
‫سے اس کو فون کر دیا تھا اور آپ لوگوں کے‬
‫خیریت سے پہنچنے کی اس کو اطالع دے دی تھی‬
‫اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ آپ لوگ خوش‬
‫قسمت ہو بھابھی کہ ویلے سر ( وقت پہ) وہاں‬
‫سے نکل گئے تھے کیونکہ بھائی بتا رہا تھا‬
‫کہ آپ کے نکلنے کے بعد آدھی رات کو پولیس‬
‫نے آپ کے گھر پر چھاپہ مارا تھا ۔۔ چھاپے‬
‫کی بات سن کر آنٹی سمیت ہم سب لوگوں کا‬
‫رنگ اُڑ گیا اور ہم لوگ دل ہی دل میں اس‬
‫وقت ہم‬ ‫بات پر شکر ادا کرنے لگے کہ چھاپے‬
‫لوگ گھر پر موجود نہ تھے۔ چائے پیتے ہوئے‬
‫اچانک ہی چوہدری شیر نے آنٹی کی طرف دیکھا‬
‫اور کہنے لگا لو جی ایک بات تو میں بھول ہی‬
‫گیا تھا اور وہ یہ کہ بھائی کہہ رہا تھا کہ آپ‬
‫لوگ آس پاس کے گاؤں میں جو رشتے دار‬
‫وہاں چیک کریں اور‬ ‫امجد کو‬ ‫رہتے ہیں‬
‫بھائی نے خاص طور پر تایا رحمت کے گھر‬
‫گاؤں کا بوال تھا کیونکہ آپ کو پتہ ہی ہے‬ ‫اور‬
‫امجد کا اپنے تائے کے ساتھ کتنا پیار تھا۔۔۔‬
‫چوہدری کی بات سن کر آنٹی نے بڑی فکر مندی‬
‫سے چوہدری کی طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔۔‬
‫بات تو ٹھیک کہہ رہے ہیں امجد کے ابو ۔۔۔۔‬
‫لیکن بھائی جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ پچھلی‬
‫پہ تائی جی کے‬ ‫دفعہ لمبڑوں کی شادی‬
‫ہو گئی تھی‬ ‫تُوں تکار‬ ‫ساتھ میری اچھی خاصی‬
‫اس لیئے میں تو کسی صورت بھی ان کے گھر‬
‫نہیں جاؤں گی۔۔۔آنٹی کی بات سن کر چوہدری‬
‫کہنے لگا کہ اس بات کا بھائی کو بھی علم ہے‬
‫اس لیئے اس نے کہا ہے تائے رحمت کے گھر‬
‫مہرو جائے گی ۔۔۔ چوہدری کی اس بات پر آنٹی‬
‫کہنے لگی ۔۔ ناں بھائی میں اپنی جوان لڑکی کو‬
‫اکیلے کہیں نہیں بھیجوں گی تو اس پر چوہدری‬
‫کہنے لگا پوری بات تو سن لو نیک بخت ۔۔۔‬
‫بھائی نے یہ کہا ہے کہ مہرو کے ساتھ میری‬
‫طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ لڑکا جائے گا ۔۔اور‬
‫ان کے جانے کے لیئے میں نے نمبرداروں کے‬
‫لڑکے سے کل کے لیئے موٹر سائیکل بھی مانگ‬
‫لیا ہے پھر اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے‬
‫لگا ۔کیوں پتر تو موٹر سائیکل چال لو گے ناں؟‬
‫تو میں نے اثبات میں سر ہالتے ہوئے کہا کہ جی‬
‫میں چال تو لوں گا لیکن مجھے ان کے گاؤں کا‬
‫راستہ نہیں معلوم۔۔ میری بات سن کر چوہدری‬
‫مسکراتے ہوئے بوال ۔۔۔۔اوئے کملیا ۔۔۔ راستے‬
‫بتانے کے لیئے تیرے ساتھ مہرو بیٹی جو ہو‬
‫گی۔اس کے بعد وہ لوگ مہرو کو مختلف ہدایات‬
‫دینے لگے ۔چائے ختم کرتے ہی ۔۔۔۔۔ چوہدری نے‬
‫میری طرف دیکھا اور کہنے لگا پتر میرے ساتھ‬
‫چل میں تجھے لمبڑوں کے گھر سے موٹر سائیکل‬
‫کے ساتھ چل‬ ‫لے دیتا ہوں ۔۔ اور میں چوہدری‬
‫پڑا۔۔۔۔ ان کی گلی کے دوسری طرف ایک بڑی سی‬
‫حویلی تھی میں اور چوہدری اس حویلی پہنچ گئے‬
‫اور اس نے حویلی کے کسی مالزم کے ساتھ‬
‫بات کی چوہدری کی بات سن کر وہ مالزم اندر‬
‫گیا اور پھر تھوڑی ہی دیر بعد وہ مالزم ایک‬
‫بائیک لے کر آگیا۔۔۔ اور‬ ‫سرخ رنگ کا یاماہا‬
‫اسے ہمارے حوالے کرنے کے بعد وہ واپس چال‬
‫گیا اس کے جانے کے بعد چوہدری نے میری‬
‫طرف دیکھا اور کہنے لگا ۔ پتر پہلے اس کا تیل‬
‫پانی چیک کر لو ۔۔۔پورا بھی ہے کہ نہیں ؟ تو اس‬
‫پر میں نے بائیک کا ٹینک کھول کر چیک کیا‬
‫تو اس کی ٹینکی پٹرول سے فُل تھی یہ دیکھ کر‬
‫میں نے تائے سے کہا جی اس میں ہر شے‬
‫پوری ہے میری اس بات پر چوہدری نے ایک‬
‫لمبی سی ہوں کی اور کہنے لگا۔۔۔۔ چل پتر اب اس‬
‫کو اسٹارٹ کر ۔۔۔ اب میں بائیک پر بیٹھا اور اس‬
‫کو ایک کک ماری تو وہ پہلی ہی کک پر‬
‫اسٹارٹ ہو گیا ۔بائیک اسٹارٹ ہوتے ہی چوہدری‬
‫میرے پیچھے بیٹھ گیا اور کہنے لگا۔۔۔۔ چل پترا‬
‫چلیئے اور میں نے بائیک ان کے‬ ‫گھر نوں‬
‫گھر کی طرف موڑ لیا۔۔۔ ابھی ہم چوہدری صاحب‬
‫کی گلی کے نزدیک ہی پہنچے تھے کہ پیچھے‬
‫سے اچانک ہی چوہدری کی آواز سنائی دی وہ کہہ‬
‫رہا تھا کہ ایک منٹ رکو یار۔۔۔ ان کی بات سن کر‬
‫جیسے ہی میں نے بائیک کو روکا تو چوہدری‬
‫بائیک سے نیچے اتر گیا اور مجھ سے کہنے لگا‬
‫کہ تم گھر جاؤ مجھے ایک ضروری کام یاد آ گیا‬
‫ہے میں وہ کام کر کے آتا ہوں اور میں بائیک‬
‫ب معمول ان کا دروازہ‬
‫چال کر گھر کی طرف آ گیا ۔حس ِ‬
‫کھال ہوا تھا اس لیئے میں بائیک کو اندر لے آیا‬
‫دیکھا تو نوراں آپاں چارپائی پر بیٹھی شام کے‬
‫کھانے کے لیئے شاید سبزی کاٹ رہی تھی۔ میں‬
‫نے بائیک کو ان کے صحن میں کھڑا کیا اور‬
‫نوراں آپاں کی طرف دیکھا تو میری طرف ہی‬
‫دیکھ رہی تھی تب میں نے ان سے پوچھا کہ‬
‫آنٹی لوگ کہاں ہیں ؟ تو وہ میری بات کا جواب‬
‫ساتھ والوں‬ ‫دیتے ہوئے ہولے سے بولی۔۔۔۔ وہ‬
‫کے گھر گئے ہیں۔۔۔ یہ سوچ کر کہ اس وقت‬
‫میں اور نوراں آپاں گھر میں اکیلے ہیں میری‬
‫حالت کچھ عجیب سی ہو گئی ۔۔ اور بہت کچھ‬
‫چاہنے کے باوجود بھی میں خاموشی سے اپنے‬
‫کمرے میں چال گیا اور پلنگ پر بیٹھ کر بظاہر‬
‫ناول پڑھنے لگا۔۔۔ لیکن میری نگاہیں چارپائی پر‬
‫بیٹھی نوراں آپاں کی طرف لگی ہوئیں تھیں۔۔۔ جو‬
‫اس وقت سر جھکائے سبزی کاٹ رہی تھی۔۔ پھر‬
‫کچھ سیکنڈز کے بعد اس نے سر اُٹھا کر میری طرف‬
‫دیکھا ۔۔۔۔اور میں نے اس کو سالم کرنے کے لیئے‬
‫اپنے سر پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔ میرے سالم کا اشارہ پا‬
‫کر اس نے ایک نظر ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔اور پھر‬
‫میری طرف دیکھ کر ہلکا سا مسکرائی۔۔۔۔۔اور پھر‬
‫انہوں نے بھی اپنے سر پر ہاتھ پھیر نا شروع‬
‫کر دیا۔۔۔ اس کے بعد میں نے کچھ اور بھی‬
‫اشارے کیئے جن کا انہوں نے ادھر ادھر‬
‫ت حال‬
‫دیکھتے ہوئے جواب دے دیا۔۔۔ یہ صور ِ‬
‫دیکھ کر میرا دل دھک دھک کرنے لگا اور تب‬
‫میں نے دھڑکتے دل کے ساتھ نوراں آپاں کی‬
‫طرف دیکھ کر انہیں اندر آنے کا اشارہ کر‬
‫دیا۔۔۔۔ میرا اشارہ سمجھ کر ان کا چہرہ الل ہو‬
‫گیا۔۔۔ لیکن انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔۔۔ اور‬
‫دوبارہ سے سر جھکا کر سبزی کاٹنا شروع ہو‬
‫گئیں ۔۔۔ اپنا نشانہ خطا ہوتے دیکھ کر میں خاصہ‬
‫مایوس ہوا ۔۔۔۔ لیکن ہمت نہ ہارتے ہوئے مسلسل‬
‫ان کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔۔ چنانچہ جب انہوں نے‬
‫سبزی کاٹتے ہوئے دوبارہ سر اُٹھا کر میری طرف‬
‫دیکھا تو ایک بار پھر میں نے انہیں اندر آنے‬
‫کو کہا۔۔۔۔ تو اس پر انہوں نے ایک نظر دروازے‬
‫۔۔۔۔پھر اپنے گھر کی چھت پر دیکھا اور۔۔۔۔۔۔ پھر‬
‫انہوں نے اپنے سر کو نفی میں ہال دیا۔۔۔ لیکن‬
‫میں نے ہمت نہیں ہاری اور مسلسل ان سے‬
‫کو‬ ‫درخواست کرتا رہا۔۔۔۔چنانچہ میرے اصرار‬
‫دیکھ کر آخر وہ مان گئی اور اپنے سر کو ہاں‬
‫میں ہال دیا ۔۔۔ اب میں ان کے کمرے کے اندر‬
‫آنے کا انتظار کرنے لگا۔۔ کچھ دیر بعد وہ اپنی‬
‫چارپائی سے اُٹھیں اور چلتی ہوئی اپنے چھوٹے‬
‫غسل خانے میں لگے ہینڈ پمپ‬ ‫سے اوپن ائیر‬
‫انہوں‬ ‫کے قریب پہنچ گئیں ۔۔۔۔اور پھر وہاں پر‬
‫نے ہینڈ پمپ چال کر پہلے اپنے ہاتھ دھوئے‬
‫اور اس کے بعد وہ دروازے کے قریب پہنچی‬
‫پھر دروازے سے جھانک کر ایک نظر گلی‬ ‫اور‬
‫میں ڈالی وہاں سے مطمئن ہو کر ۔۔۔وہ پلٹی‬
‫اور میرے کمرے کی طرف بڑھنے لگیں۔۔۔۔ انہیں‬
‫کے ساتھ‬ ‫اپنی طرف آتے دیکھ کر میرا دل تیزی‬
‫لگا۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ میں یہ‬ ‫دھڑکنے‬
‫لیڈی‬ ‫خوب صورت‬ ‫بھی سوچنے لگا کہ اس‬
‫ڈالوں ؟ ؟ میں اسی‬ ‫کہانی‬ ‫کے ساتھ کیسے‬
‫میں مبتال تھا کہ وہ میرے کمرے‬ ‫ادھیڑ پن‬
‫کے دروازے پر آ کھڑی ہو گئی۔۔۔۔ اور پھر میری‬
‫طرف دیکھتے ہوئے اپنی نقرئی آواز میں‬
‫آتے‬ ‫کہنے لگی ۔۔۔ کہو کیا بات ہے؟ ان کو اندر‬
‫دیکھ کر میں پلنگ سے جمپ مار کر نیچے اُترا‬
‫ہو کر ان سے‬ ‫۔۔۔اور پلنگ کے پاس کھڑا‬
‫بوال ۔۔۔ تھوڑا اندر آئیں ناں پلیزززززز؟۔۔۔تو وہ‬
‫مجھے‬ ‫کہنے لگیں اندر آنے کو چھوڑو ۔۔ پہلے‬
‫یہ بتاؤ کہ تم نے مجھے کیوں بالیا ہے؟ تو میں‬
‫کے ساتھ ان سے کہا کہ آپ‬ ‫نے بڑی لجاجت‬
‫اندر آئیں گی تو بتاؤں گا ناں۔۔۔آپ پلیززززززز ۔۔۔۔‬
‫اور‬ ‫تھوڑا سا اندر آ جائیں۔۔۔ میرے منت ترلوں‬
‫کچھ دیر نخرے شغرے کرنے کے بعد وہ یہ کہتے‬
‫ہوئے اندر آ گئی ۔۔۔۔ کہ جو کہنا ہے جلدی‬
‫کہو۔۔۔اور میرے پاس آ کر کھڑی ہو گئی ۔۔ یہ دیکھ‬
‫کر میں نے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔اور‬
‫ان کی طرف دیکھتے ہوئے اپنی شہوت کو‬
‫میٹھے لہجے میں‬ ‫بڑے ہی‬ ‫ہوئے‬ ‫چھپاتے‬
‫کہا ۔۔۔ کہ آپ بہت خوب صورت ہو ۔۔۔اور مجھے‬
‫بہت اچھی لگتی ہیں ۔۔۔۔ میری شہوت اور جزبات‬
‫سے بھری بات سن کر ان کا چہرہ تمتما نے‬
‫وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بظاہر‬ ‫لگا۔۔۔۔ اور‬
‫بے نیازی سے کہنے لگیں۔۔۔تو میں کیا کروں؟ ان‬
‫تھوڑی جرات کرتے‬ ‫کی بات سن کر میں نے‬
‫ہوئے ان کا ہاتھ اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور‬
‫ان کی پشت کو اپنے منہ کی طرف کرتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔۔۔۔۔۔اجازت ہو تو میں اسے چوم لوں ؟ پھر ان‬
‫کی طرف سے جواب کا انتظار نہ کرتے ہوئے میں‬
‫نے اپنے ہونٹ ان کے نازک سے ہاتھ کی‬
‫پشت پر رکھے اور انہیں چوم لیا۔۔۔مجھے ہاتھ‬
‫چومتے ہوئے دیکھ کر انہوں نے ایک دم سے‬
‫میرے ہاتھ سے اپنا ہاتھ چھڑایا ۔۔۔اور کہنے‬
‫لگی ۔۔۔ ایسے نہ کرو۔۔۔" کوئی آ جائے گا" اس پر‬
‫میں تھوڑا آگے بڑھا اور ان سے کہنے لگا۔۔۔۔۔‬
‫سارے لوگ تو باہر ہیں ۔۔۔ اس لیئے ابھی کوئی‬
‫نہیں آئے گا۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں ایک قدم اور‬
‫آگے بڑھا ۔اور ابھی میں ان کو اپنے گلے سے‬
‫لگانے ہی واال تھا ۔۔۔ کہ اچانک باہر سے باتوں‬
‫کی آواز سنائی دی ۔۔ جسے سنتے ہی ۔۔ وہ ایک‬
‫دم سے پیچھے ہٹی اور پھر ہرنی کی طرح‬
‫بھرتی ہوئی باہر نکل گئی۔۔۔ اور پھر‬ ‫قالنچیاں‬
‫جلدی سے اسی چارپائی پر جا کر بیٹھ گئی اور‬
‫پہلے کی طرح سر جھکا کر سبزی کاٹنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔ابھی انہیں بیٹھے ہوئے کچھ ہی دیر ہوئی‬
‫تھی کہ ان کے آدھ کھلے دروازے سے‬
‫تینوں خواتین گھر میں داخل ہو گئیں ( جبکہ مینا‬
‫ادھر ہی کہیں رہ گئی تھی) خواتین کو اندر داخل‬
‫ہوتے دیکھ کر نوراں آپاں نے کچھ اس طرح سے‬
‫میری طرف دیکھا کہ جیسے کہہ رہی ہو ۔۔شکر ہے‬
‫کہ بروقت جان بچ گئی۔۔گھر میں داخل ہوتے ہی‬
‫تمام خواتین نے برآمدے میں کھڑے بائیک کو‬
‫دیکھ لیا تھا اس لیئے وہ اس کا مالحظہ کرنے‬
‫سیدھی اسی کی طرف آ گئیں۔۔ اسی اثنا میں بائیک‬
‫کو دیکھتے ہوئے آنٹی نے آواز دے کر مجھے‬
‫بالیا اور میرے پہنچنے پر انہوں نے مجھ سے‬
‫پوچھا کہ بیٹا اس کا تیل پانی تو چیک کر لیا‬
‫تھا نا۔۔۔ تو میں نے جان چھڑانے کے لیئے ایسے‬
‫ہی کہہ دیا کہ جی آنٹی میں نے چیک کر لیا تھا‬
‫ہر چیز پوری ہے ۔ اس پر تائی اماں کہنے لگی‬
‫کہ ان لوگوں کو کل صبع صبع نکل جانا چاہیئے‬
‫کہ پھر دھوپ تیز ہو جائے گی ۔۔آنٹی نے ان کی‬
‫تائید کی اور پھر وہ دونوں مطمئن ہو کر اندر‬
‫کمرے میں چلی گئیں ۔۔۔اب بایئک کے پاس‬
‫رہ گئے تھے سو‬ ‫صرف میں اور مہرو باجی‬
‫میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ‬
‫باجی کیا واقعہ ہی ہمیں صبع سویرے جانا‬
‫ہنس کر بولی فکر نہیں کرو‬ ‫پڑے گا؟ تو وہ‬
‫اتنے میں‬ ‫۔۔۔۔ اتنی صبع بھی نہیں جائیں گے‬
‫نوراں آپاں ۔۔ہاتھ میں سبزی والی پرات لیئے‬
‫ہمارے پاس سے گزر گئی۔۔۔اور ہمیں کراس‬
‫کرتے وقت اس نے آنکھ اُٹھا کر بھی ہماری‬
‫طرف نہیں دیکھا ۔۔۔۔۔انہیں یوں اپنے قریب سے‬
‫گزرتے دیکھ کر مہرو آپاں زی ِر لب بڑبڑائیں ۔۔‬
‫سالی میسنی۔۔۔ تو میں نے چونک کر ان کی‬
‫طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔کہ آپا آپ نے اتنی‬
‫خاتون کو میسنی کیوں کہا ؟ تو وہ‬ ‫شریف‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں یہ جس‬
‫ذات شریف کو تم شریف خاتون کہہ رہے ہو نا‬
‫۔۔۔۔ یہ اتنی ہی شریف خاتون ہے کہ جتنی فلم‬
‫سٹار بابرہ شریف ہے ۔۔ پھر تھوڑا آگے جھک‬
‫کر کہنے لگی ۔۔ میری اس کزن پر پنجابی کا‬
‫وہ محاورہ بلکل صادق آتا ہے کہ۔۔۔ میسنی‬
‫نہ ہالئے (مطلب ایک گھنی‬ ‫چودائے۔۔۔تے منجا‬
‫لڑکی ہمیشہ اس طرح واردات ڈالتی ہے کہ کسی کو‬
‫کانوں کان خبر نہیں ہونے دیتی) ۔۔۔ پھر میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ امید ہے میری بات‬
‫سمجھ گئے ہو گے ۔۔ تو میں نے ہاں میں سر ہال‬
‫دیا۔۔۔۔ پھر اس کے بعد کوئی اور خاص بات نہیں‬
‫ہوئی جو کہ یہاں پرگوش گزار کی جا سکے۔‬

‫اگلے دن صبع سویرے میں اور مہرو باجی گھر‬


‫مہرو باجی نے کھلتے‬ ‫سے نکلے اس وقت‬
‫ہوئے رنگ کا گالبی جوڑا پہنا ہوا تھا جس پر‬
‫بڑے بڑے پھول بنے ہوئے تھے اور اس کلر‬
‫کے سوٹ میں وہ بہت کھلی کھلی سی لگ رہی‬
‫تھیں۔۔۔گالبی جوڑے کے اوپر انہوں نے دوپٹے کہ‬
‫جگہ ایک بڑی سی چادر لی ہوئی تھی جس کی وجہ‬
‫سے ان کی جسم کی ساری خوبصورتی چھپ گئی‬
‫تھی ۔۔جبکہ دوسری طرف آج میں نے بھی پینٹ‬
‫کی جگہ شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی ناشتہ وغیرہ‬
‫کرنے کے بعد وہ مجھ سے کہنے لگی کہ تم‬
‫بائیک کو باہر لے جا کر سٹارٹ کرو میں بس ابھی‬
‫نے بائیک کو باہر گلی میں‬ ‫آئی ۔۔۔۔ اس پر میں‬
‫اور اسے سٹارٹ کر کے ان کا انتظار‬ ‫لے گیا‬
‫کرنے لگا ۔۔۔ تھوڑی ہی دیر بعد مہرو باجی کے‬
‫ساتھ آنٹی اور تائی اماں بھی باہر گلی میں آ گئیں‬
‫اور خاص کر آنٹی ان کو ہدایت دیتی رہیں کہ ہم‬
‫لوگوں نے کس کس جگہ پر ان کو خاص طور پر‬
‫دیکھنا ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ آنٹی کا ہدایت نامہ سن‬
‫کر مہرو باجی نے ہاں میں سر ہال اور پھر جمپ‬
‫کافی فاصلہ‬ ‫مار کر میرے پیچھے بیٹھ گئیں۔۔ وہ‬
‫رکھ کر میرے ساتھ موٹر سائیکل پر بیٹھی تھی جو‬
‫کہ ظاہر ہے اس وقت ان کی مجبوری تھی ۔۔لیکن‬
‫جب گاؤں کی حدود سے بھی نکل کر بھی وہ ایسے‬
‫ہی بیٹھی رہیں تو مجبوراً میں نے بائیک کو‬
‫ایک ہلکی سی بریک لگائی جس کی وجہ سے وہ‬
‫پھسل کر میرے ساتھ لگ گئیں ۔۔ ایک لمحے کے‬
‫میرے‬ ‫لیئے ان کی درمیانہ سائز کی چھاتیاں‬
‫کندھوں کے ساتھ ٹچ ہوئیں ۔۔ لیکن ہی لمحے وہ‬
‫دوبارہ سے پہلے والی پوزیشن میں چلی گئیں اور‬
‫بڑی سنجیدگی کے ساتھ مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔‬
‫بدتمیزی نہ کرو پلیززززززز۔۔۔۔ان کی بات کرنے کا‬
‫سٹائل اور لہجے کی سرد مہری دیکھ کر میں‬
‫میں‬ ‫حیران رہ گیا لیکن اس کے باوجود بھی‬
‫نے ایک دو بار اور کوشش کی لیکن اس بار‬
‫جب انہوں نے بڑی سختی کے ساتھ مجھے‬
‫سے چلنے کا حکم دیا۔۔۔۔تو میں جو‬ ‫شرافت‬
‫ان کے ساتھ کچھ موج مستی کرنے کے بارے‬
‫سوچ رہا تھا ان کے رویے اور اس بات‬ ‫میں‬
‫کے بعد ۔۔۔ میری ساری امیدوں پر اوس پڑ‬
‫گئی ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد میں نے بڑی‬
‫شرافت کے ساتھ بائیک چالنا شروع کر‬
‫دیا۔۔۔۔۔گاؤں کی حدود سے نکل کر وہ مجھے لیفٹ‬
‫رائیٹ موڑنے کا کہتی رہیں ۔۔ اور پھر آخر کوئی‬
‫آدھے گھنٹے کی ڈرائیو کے بعد ہم ایک چھوٹے‬
‫سے گاؤں میں جا پہنچے ۔ جس کے ‪ 90‬فیصد‬
‫گھر کچے تھے گاؤں کی مین سڑک سے دائیں ہاتھ‬
‫تھا‬ ‫پر گندے پانی کا ایک جوہڑ سا بنا ہوا‬
‫جس کو وہ لوگ "چھپڑ " کہتے تھے اور جس میں‬
‫شاید سارے گاؤں کا گندا پانی جمع ہوتا تھا‬
‫میں ایک نسبتا ً فراخ گلی‬ ‫۔۔اس چھپڑ کے آخر‬
‫تھی اور اس گلی کے شروع میں ہی تائے رحمت‬
‫تھا۔۔جیسے ہی ہماری بائیک تائے‬ ‫کا گھر واقع‬
‫کے گھر کے باہر رکی ۔۔۔اس کی آواز‬ ‫رحمت‬
‫سے ان کا پورا محلہ باہر آ گیا اور پھر مہرو کو‬
‫دیکھ کر سب لیڈیز نے اس کے سر پر شفقت‬
‫ہاتھ پھیرا اور وہیں پر کھڑے کھڑے اس‬ ‫بھرا‬
‫سے حال چال پوچھتی رہیں ۔۔۔۔ اپنے گھر کے باہر‬
‫شور کی آواز سن کر مسٹر ایند مسزرحمت بھی‬
‫باہر آگئے اور مہرو کو دیکھ کر بڑے خوش ہوئے‬
‫پھر مجھے اور مہرو کو لے وہ اندر چلے گئے‬
‫جبکہ بائیک میں گلی میں ہی کھڑی رہنے دی۔۔۔‬
‫اندر پہنچ کر مجھے تو انہوں نے ایک الگ‬
‫کمرے میں بٹھا دیا جبکہ مہرو اپنے تائے اور‬
‫تائی کے ساتھ ایک دوسرے کمرے میں چلی‬
‫گئی۔۔۔اس دوران صرف ایک دفعہ مسز رحمت چائے‬
‫پانی کا پوچھنے میرے پاس آئی لیکن میرے‬
‫انکار پر وہ اندر گئیں اور پھر مجھے ایک‬
‫کر واپس چلی‬ ‫گالس تھما‬ ‫لسی کا بڑا سا‬
‫گئیں۔۔مہرو باجی ان کے پاس کوئی دو ڈھائی‬
‫گھنٹے تک بیٹھی رہیں اور دوران میں چارپائی پر‬
‫بیٹھا مکھیاں مارتا رہا اس دوران ان کے محلے‬
‫کی بھی کافی عورتیں آ گئیں تھی۔۔۔ جن کی وجہ‬
‫سے ہم کچھ مزید لیٹ ہو گئے تھے خیر خدا خدا کر‬
‫کوئی‬ ‫کے سات بجے کے پہنچے ہم لوگ‬
‫دس ساڑھے دس بجے دن وہاں سے ہماری‬
‫۔۔۔۔۔‬ ‫جان چھوٹی ۔۔۔۔وہ بھی بڑی مشکل کے ساتھ‬
‫کہ بقول مہرو باجی کے وہ لوگ ان کو رات‬
‫رہنے کا کہہ رہے تھے ۔۔۔۔ لیکن مہرو باجی نے‬
‫کسی نہ کسی طرح ان سے اپنی جان چھڑا لی۔۔۔‬
‫اور پھر ہم دونوں وہاں سے چل دیئے ۔۔واپسی پر‬
‫بھی وہ سیم سٹائل اور ُموڈ میں بیٹھی رہی ۔۔۔اس‬
‫کے بعد ہم لوگ پتہ نہیں اس گاؤں یا کسی اور‬
‫گاؤں کے ایک دو ڈیروں پر بھی گئے لیکن ہمیں‬
‫وہاں بھی امجد اور نبیلہ کا کوئی سراغ نہ مل سکا ۔۔۔‬
‫مجھے ایک اور گاؤں میں‬ ‫وہ‬ ‫اس کے بعد‬
‫ب سابق ایک گھر کی‬
‫لے گئیں وہاں پر بھی میں حس ِ‬
‫بڑی سی چارپائی پر بیٹھا لسی پیتا رہا ۔۔۔۔اور مہرو‬
‫باجی اس گاؤں کے دو تین گھروں میں بظاہر‬
‫سن ُگن لینے کے‬
‫ملنے۔۔۔۔ لیکن امجد لوگوں کی ُ‬
‫گئی لیکن وہ لوگ وہاں بھی نہ پائے‬ ‫لیئے چلی‬
‫بقول ان میں سے‬ ‫کے‬ ‫گئے اور نہ ہی مہرو‬
‫کسی کو بھی امجد کے گھر سے بھاگنے کی خبر‬
‫اس‬ ‫کے گاؤں اور‬ ‫تھی ۔۔اس طرح تائے رحمت‬
‫سے جڑے آس پاس کا سارا عالقہ ہم لوگوں‬
‫نے چھان مارا ۔لیکن ان کو کوئی اتہ پتہ نہ‬
‫مال۔۔۔۔۔پھر ڈھائی تین بجے کے قریب مہرو باجی‬
‫ایک‬ ‫کا یہ سرچ آپریشن ختم ہوا ۔۔۔ اور پھر‬
‫گھر سے واپسی پر مہرو باجی دوبارہ اسی گھر‬
‫میں آئیں کہ جہاں پر میں بیٹھا مکھیاں مار رہا‬
‫تھا ۔۔ اور پھر گھر والوں سے اجازت لے کر ہم‬
‫لوگ باہر نکلنے لگے تو اس گھر کی آنٹی کہنے‬
‫شکر دوپہرے کہاں جا رہی ہو؟؟۔۔۔‬
‫لگیں ۔۔۔ بیٹا ِ‬
‫دن کچھ اتر جائے تو چلی جانا لیکن وہ نہ مانی‬
‫اور چار و نا چار ان آنٹی نے مہرو کو جانے کی‬
‫ب معمول وہ فاصلہ‬
‫اجازت دے دی واپسی پر حس ِ‬
‫مجھ‬ ‫خود ہی‬ ‫رکھ کر بائیک پر بیٹھی اور‬
‫تو‬ ‫سے کہنے لگیں ۔۔۔ ۔۔۔ بھائی ۔۔۔ میں نے‬
‫اپنی طرف سے آس پاس کا سارا عالقہ چھان‬
‫مارا ہے لیکن یہاں امجد کے بارے میں کسی کو‬
‫کچھ علم نہ ہے تب میں نے ان سے سوال کیا‬
‫تو وہ کہنے‬ ‫کہ اب کہاں جانا ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟‬
‫لگی۔۔۔اب گھر چلو ۔۔۔اور پھر سے مجھے دائیں‬
‫بائیں مڑنے کی ہدایا ت دینے لگیں۔۔‬

‫جب ہم اس گاؤں کی حدود سے نکل کر کافی آگے‬


‫آگئے تو اچانک ہی بائیک کے سامنے ایک‬
‫گڑھا سا آگیا ۔۔۔ جس کی وجہ سے مجھے بھر‬
‫پور بریک لگانا پڑی ۔۔۔میری بریک لگاتے ہی‬
‫مہرو باجی پھسل کر میرے ساتھ لگ گئی۔۔۔ لیکن‬
‫کی طرف‬ ‫میں نے ان کے پچھلے رویے‬
‫دھیان نہیں دیا‬ ‫دیکھتے ہوئے اس طرف کوئی‬
‫ویسے بھی اس کچے راستے پر جگہ جگہ‬
‫تھے جس کی وجہ سے میں‬ ‫ہوئے‬ ‫گڑھے بنے‬
‫بڑی احتیاط اور آہستگی کے ساتھ بائیک چال رہا‬
‫تھا ۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد جب سڑک کچھ ہموار ہوئی‬
‫تو اچانک ہی مجھے پیچھے سے اپنی گردن‬
‫مہرو باجی کی گرم سانسیں‬ ‫پر ۔۔۔۔۔پہلے تو‬
‫محسوس ہوئی اور پھر اچانک ہی ان کے نرم‬
‫لبوں نے میری گردن کو چوم لیا ۔۔۔ پہلے تو‬
‫میں اسے اپنا وہم سمجھا ۔۔۔ لیکن جب ان لبوں‬
‫میری گردن پر بوسہ دیا ۔۔۔۔تو ان‬ ‫نے بار بار‬
‫کی وجہ سے میرے سارے جسم میں‬ ‫بوسوں‬
‫ایک سنسنی سی پھیل گئی ۔۔۔اور حیران ہونے کے‬
‫اچانک ہی مجھے‬ ‫ساتھ ساتھ پتہ نہیں کیوں‬
‫اس بات غصہ بھی آگیا کہ آتی دفعہ تو سالی نے‬
‫لفٹ نہیں کرائی اور اب۔۔۔۔ ۔۔۔ابھی میں‬ ‫زرا بھی‬
‫اتنا ہی سوچ رہا تھا ۔۔۔کہ اچانک انہوں نے‬
‫زبان پھیرنی‬ ‫پیچھے سے میری گردن پر اپنی‬
‫شروع کر دی ۔۔۔۔میری گردن پر ان کی زبان کا‬
‫لگنا تھا کہ ۔۔۔۔۔ میں نے بائیک کو روک لیا ۔۔۔۔اور‬
‫کر کے ان‬ ‫پیچھے کی طرف‬ ‫اپنے منہ کو‬
‫سے بوال ۔۔ یہ کیا کر رہی ہو آپ؟ تو وہ پیچھے‬
‫۔۔۔۔ میں تو‬ ‫سے مستی بھرے لہجے میں بولی‬
‫کچھ بھی نہیں کر رہی۔۔۔ ان کی بات سن کر میں‬
‫تھوڑا اور اَپ سیٹ ہو گیا ۔۔اور پھر بائیک سے‬
‫نیچے اتر آیا جبکہ وہ ویسے ہی دونوں ٹانگیں‬
‫ایک طرف کیئے بائیک پر بیٹھی رہیں۔۔۔۔ نیچے‬
‫اترتے ہی میں نے ان کو اپنی طرف مسکراتے‬
‫دیکھا تو پتہ نہیں کیوں میرا پارہ تھوڑا اور‬
‫چڑھ گیا۔۔۔۔۔۔ اور میں نے ۔۔۔ بڑی مشکل سے اپنے‬
‫۔۔۔اور ان سے‬ ‫منہ میں آئی ہوئی گالی کو روکا‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔یہ آپ کیا کر رہیں تھیں ؟؟۔۔۔ ۔ تو وہ‬
‫مستی‬ ‫ب سابق‬
‫حس ِ‬ ‫میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫جو گالی‬ ‫میں بولی ۔۔۔۔ایسے نہیں میرے لیئے‬
‫تم نے اپنے منہ میں ہی رکھی ہے پہلے‬
‫وہ دے کر پوچھو تو بتاؤں گی۔۔۔ اور‬ ‫مجھے‬
‫پھر ان کے ایک دو دفعہ مزید کہنے پر میں‬
‫جو پہلے ہی ان پر تپہ ہوا تھا ۔۔۔۔نے ان کو دانت‬
‫پیس کر گالی دیتے ہوئے کہا۔۔۔ بہن چود کی بچی‬
‫خالف توقع میرے منہ سے‬
‫ِ‬ ‫یہ کیا کر رہی تھی تم؟‬
‫زرا بھی بے مزہ نہ ہوئی‬ ‫کر وہ‬ ‫گالی سن‬
‫بلکہ الٹا خوش ہوتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ یہ بہن‬
‫چود تمہاری گردن پر کس کر رہی تھی تو میں نے‬
‫الجھے ہوئے لہجے میں ان سے کہا کہ آتی دفعہ‬
‫کرنے سے آپ کو کیا موت پڑ رہی تھی؟‬ ‫ایسا‬
‫میری بات سن کر اچانک ہی وہ سیریس ہو کر‬
‫کہنے لگی ۔۔۔ آتی دفعہ میں نے جان بوجھ‬
‫کرتمارے ساتھ ایسا سلوک اس لیئے کیا تھا کہ‬
‫کنٹرول‬ ‫اس کے بعد ہم دونوں کو اپنے اوپر‬
‫نہیں رہنا تھا ۔۔۔اور الزمی تم نے مجھ سے‬
‫سیکس نہ سہی۔۔۔۔۔ پر کسنگ ضرور کرنی تھی جس‬
‫کی وجہ سے تمہارا اور خاص کر میرا حلیہ‬
‫ضرور خراب ہوجا نا تھا اور یو نو ۔۔۔ کہ تاڑنے‬
‫رکھتے ہیں اور خاص کر‬ ‫والے قیامت کی نظر‬
‫اس معاملہ میں بڑا ہی‬ ‫تایا رحمت‬ ‫ہمارا‬
‫باتوں کو فوراً‬ ‫کائیاں واقعہ ہوا ہے ۔۔۔۔۔ وہ ایسی‬
‫سمیل کر لیتا ہے۔۔۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫کہنے لگی ۔۔۔۔ویسے بھی میری جان اس وقت ہم‬
‫دونوں امجد کو ڈھونڈنے کے مشن پر تھے اور‬
‫یہ بات تو تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ‬
‫ڈیوٹی کے وقت صرف ڈیوٹی دی جاتی ہے۔اب‬
‫کہتے ہوئے‬ ‫چونکہ ہم دونوں فری ہیں ۔۔۔ اتنا‬
‫وہ گنگناتے ہوئے بولی ۔۔۔۔تو آؤ نہ پیار کریں‬
‫۔۔۔ان کی بات سن کر ۔۔اس سے قبل کہ میں کچھ‬
‫جواب دیتا ۔۔۔۔۔سیٹ پر بیٹھے بیٹھے انہوں نے‬
‫تنے ہوئے لن‬ ‫اپنا ہاتھ بڑھایا اور ۔۔۔۔ میرے نیم‬
‫کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی ۔۔ بہن چود تم‬
‫بھی اوپر اوپر سے غصہ دکھا رہے ہو ہو۔۔۔‬
‫جبکہ اندر سے ۔۔۔۔ میری طرح تم بھی فل گرم‬
‫ہو۔۔۔ان کی بات سن کر میں نے ایک گہرا سانس لیا۔۔۔۔۔‬
‫۔ان کی بات سے میرے اندر چھائی ہوئی ساری‬
‫بوریت دور ہو گئی تھی اور اس وقت تک چونکہ‬
‫میں بھی فل گرم ہو چکا تھا اس لیئے میں نے ان‬
‫سے کہا ۔۔کہ آپ کب سے گرم ہوئی تھی تو وہ‬
‫کہنے لگی ۔۔۔ تم گرم کی بات کر رہی ہو جانی۔۔۔۔‬
‫پھر‬ ‫ہی نہیں ہوئی‬ ‫میں تو ابھی تک ٹھنڈی‬
‫سیرس ہو کر کہنے لگی۔۔۔۔ میں تو اسی‬ ‫ایک دم‬
‫وقت گرم ہو گئی تھی جب ہم لوگ گھر سے باہر‬
‫نکلے تھے پھر میری طرف آنکھ مار کر کہنے‬
‫میری دونوں رانوں کے‬ ‫اس وقت سے‬ ‫لگی‬
‫سنگم پر ۔۔۔۔۔۔ ہلکی ہلکی بوندا باندی ہو رہی تھی۔۔۔۔‬
‫واپسی پر یہ بوندا باندی ۔۔۔ موسال‬ ‫لیکن اب‬
‫دھار بارش میں تبدیل ہو گئی ہے نہیں یقین تو ۔۔۔‬
‫خود ہاتھ لگا کر دیکھ لو پھر بائیک پر بیٹھے‬
‫بیٹھے انہوں نے ایک نظر سڑک کے چاروں‬
‫طرف دیکھا۔۔۔۔اور ۔۔۔۔۔ اپنی دونوں ٹانگوں کو مزید‬
‫کھول دیا۔۔۔۔یہ دیکھ کر میں آگے بڑھا۔۔۔اور ان‬
‫کی دونوں رانوں کے سنگم پر ہاتھ رکھ‬
‫دیا۔۔۔۔اُف۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی رانوں کا سنگم ۔۔۔۔ بہت زیادہ گیال‬
‫والے‬ ‫اور گرم تھا۔۔۔۔اور اس میں سے نکلنے‬
‫پانی کی وجہ سے ان شلوار اچھی خاصی‬
‫چکی تھی۔۔۔ ۔۔ مجھے اپنی چوت پر ہاتھ‬ ‫بھیگ‬
‫لگاتے دیکھ کر وہ بڑی مست نظروں سے میری‬
‫طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ کیوں چوت گرم ہے‬
‫ناں؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا گرم نہیں‬
‫مہرو جی یہ تو تندور بنی ہوئی ہے تو وہ فل‬
‫مستی اور شہوت بھرے انداز میں کہنے لگی۔۔۔۔‬
‫بولو ۔۔۔ میری چوت کو ٹھنڈا کرو گے نا؟ یہ کب سے‬
‫تمہارا لن مانگ رہی ہے۔۔۔ تو آگے سے میں‬
‫نے بھی شہوت سے بھر پور لہجے میں ان کو‬
‫جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔ میں ضرور آپ کی تندور‬
‫بنی پھدی کو ٹھنڈا کروں گا لیکن کیا یہاں ہی‬
‫چودوں ؟ تو وہ ہنس کر بولی ارے نہیں بدھو‬
‫۔۔۔۔۔اس کچی سڑک سے تھوڑا آگے ایک ویران سی‬
‫جگہ ہے تم چلو میں تم کو راستہ بتاتی ہوں ۔۔۔‬
‫تم نے وہاں جا کر میری پھدی مارنی ہے اور‬
‫مجھے وہ مزہ دینا ہے جس کے لیئے میں کب‬
‫رہی ہوں ۔۔۔۔ ان کی بات سن کر‬ ‫سے ترس‬
‫جیسے ہی میں بائیک پر بیٹھنے لگا ۔۔۔۔وہ ہوس‬
‫لہجے میں بولی۔۔۔ تھوڑی سی کسنگ تو‬ ‫ناک‬
‫کر لو میری جان ۔۔۔اور یہ کہتے ہوئے وہ جمپ‬
‫مار کر بائیک سے نیچے اتری ۔۔۔ اور پھر ہم‬
‫دونوں نے ایک بار پھر سڑک کے چاروں طرف‬
‫دیکھا۔۔۔۔۔ سخت دھوپ اور گرمی میں آس پاس کسی‬
‫نام ونشان بھی‬ ‫زی روح کا دور دور تک کوئی‬
‫حالت سے مطمئن‬ ‫نہ تھا ۔۔۔ چنانچہ آس پاس کے‬
‫ہو کر گرمی کی وجہ سے پسینے میں شرابور ہم‬
‫دونوں ایک دوسرے کے ساتھ لپٹ گئے۔۔۔اور‬
‫مہرو باجی نے آگے بڑھ کے میرے ہونٹوں کو‬
‫اپنے ہونٹوں میں لے لیا۔۔۔۔اور تھوڑی دیر تک‬
‫انہیں چوسنے کے بعد اپنی زبان کو میرے منہ‬
‫میں ڈال دیا۔۔۔ جسے میں مزے لے لے کر چوسنے‬
‫لگا۔۔‬

‫ایک دوسرے کے منہ‬ ‫کچھ دیر تک ہم دونوں‬


‫رہے۔۔۔ پھر‬ ‫میں منہ ڈالے کھڑے مزے لیتے‬
‫ایک طویل کسنگ کے بعد وہ مجھ سے بولی۔۔۔۔‬
‫چل اب بائیک کو سٹارٹ کر۔۔۔۔ کہ مجھ سے اور‬
‫برداشت نہیں ہو رہا۔۔۔ جیسے ہی میں نے بائیک‬
‫سٹارٹ کی وہ جڑ کر میرے ساتھ بیٹھ گئی اور‬
‫۔۔۔ ۔۔۔۔ میرے تنے ہوئے لن کو اپنے ہاتھ میں‬
‫ہالتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔ چل میری‬ ‫پکڑ کر اسے‬
‫جان۔۔۔ آج ہم اوپن ائیر سیکس کریں گے ۔۔۔ پھر اس‬
‫کچی سڑک سے تھوڑا آگے انہوں نے ایک‬
‫مجھے‬ ‫پگڈنڈی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے‬
‫مڑنے کو کہا ۔۔اور پھر تھوڑا آگے جا کر ایک‬
‫بڑے پیپل کے درخت کے پیچھے انہوں نے‬
‫مجھے بائیک روکنے کو کہا ۔۔اور جیسے ہی‬
‫میں نے بائیک روکا ۔۔وہ اس سے نیچے اتری اور‬
‫بڑے دھیان سے چاروں اطراف کا جائزہ لیتے‬
‫ہوئے بولی ۔۔۔ بائیک کو یہیں الک کرو اور میرے‬
‫ساتھ آؤ۔۔ چنانچہ میں نے بائیک کو الک کیا ۔۔۔اور‬
‫ان کے پیچھے پیچھے چل پڑا۔۔۔۔سامنے ہی‬
‫آ رہا تھا ۔۔۔ وہ‬ ‫درختوں کا ایک جھنڈ سا نظر‬
‫مجھے لیئے ہوئے درختوں کے اس جھنڈ میں‬
‫جا پہنچی جہاں پر شاید آندھی کی وجہ سے‬
‫شیشم کا ایک درخت گرا ہوا تھا۔۔۔۔۔ اور مزے کی‬
‫بات یہ ہے کہ اس کی جڑ زمین کے اندر ہی‬
‫رہنے کی وجہ سے اس کے بڑے سے تنے کے‬
‫سر سبز شاخیں اُگی ہوئی‬ ‫اگلے حصے پر‬
‫تنا‬ ‫اس درخت کا باقی‬ ‫جبکہ‬ ‫تھیں‬
‫زمین پر لیٹا ہوا تھا اس درخت کے آس پاس‬
‫کافی گھنے درخت اُگے ہوئے تھے جس کی‬
‫وجہ سے وہاں ایک قدرتی سی اوٹ بن گئی تھی‬
‫۔۔۔درختوں کے اس جھنڈ میں پہنچتے ہی مہرو‬
‫ہوئے‬ ‫مجھ سے لپٹ گئی اور مجھے چومتے‬
‫آج مجھے ایسا چود۔۔‬ ‫کہنے لگی۔۔۔ میری جان!‬
‫سالوں کی گرمی‬ ‫کہ میرے اندر بسنے والی‬
‫ختم ہو جائے ۔۔۔ان پر پوری طرح سے شہوت‬
‫سوار تھی ۔۔۔میرے ساتھ لپٹے ہوئے ایک بار پھر‬
‫سے انہوں نے بھر پور کسنگ کی اور پھر میں‬
‫نے پیسنے سے بھری ان کی قمیض کو اوپر کیا‬
‫نرم چھاتیوں کے اکڑے ہوئے‬ ‫اور پھر ان کی‬
‫کو اپنی انگلیوں میں لے کر مسلنے‬ ‫نپلز‬
‫لگا۔۔۔۔ کچھ دیر تک مسلنے کے بعد ۔۔۔۔ وہ بڑی‬
‫کہنے لگی ۔۔۔۔۔ میرے نپلز کو‬ ‫کے ساتھ‬ ‫شوخی‬
‫مسلو نہیں میری جان ۔۔۔ بلکہ ان کو چوسو۔۔اور‬
‫خوب چوسو۔۔۔۔۔اور میں نے ان کی فرمائیش پر ۔۔‬
‫منہ میں‬ ‫ان کے اکڑے ہوئے نپلز کو اپنے‬
‫چوسنا شروع کر‬ ‫لے کر باری باری انہیں‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔مہرو باجی کے تنے ہوئے نپلز کافی‬
‫مزے دار تھے اور اس کے ساتھ ساتھ مجھے‬
‫مہرو کے بدن کی شہوت سے بھر پور سیکسی‬
‫سمیل بھی مدہوش کر رہی تھی ۔۔۔ جس کی وجہ‬
‫وجود میں سیکس کی گرمی‬ ‫سے میرے پورے‬
‫بڑھتی جا رہی تھی اور اس گرمی کے زی ِر اثر‬
‫ہی جوش و خروش‬ ‫میں ان کی چھاتیوں کو بڑے‬
‫جاری ہے‬ ‫کے ساتھ ۔‪-‬‬

‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_قسط_نمبر_‪14‬‬
‫میری چھاتیوں کے چوسنے کا انداز ان کو بڑا‬
‫مارے‬ ‫مزے کے‬ ‫خوش آ رہا تھا ۔ اسی لیئے‬
‫مہرو باجی کے منہ سے ہلکی ہلکی کراہیں نکل‬
‫رہیں تھی ۔۔اور وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے‬
‫ہوئے کہہ رہیں تھی۔۔۔۔ تم بہت سیکسی ہو جان۔۔۔ ا ُ ف‬
‫ف ف ۔۔۔کس قدر مستی سے میری چوچیوں کو‬
‫کہنے لگیں ۔۔۔۔جس مستی‬ ‫چوس رہے ہو۔۔۔پھر‬
‫سے تم میرے بریسٹ کو چوس رہے ہو نا۔۔۔۔اسی‬
‫مستی سے مجھے چودنا بھی ہے۔۔۔اور اسی‬
‫مستی سے میری پھدی کا بھرکس بھی نکالنا‬
‫ہے۔۔۔۔اور کبھی شہوت زدہ آواز میں کہتی۔۔۔۔ بولو۔۔‬
‫میری پھدی کا بھرکس نکالو گے نا؟؟؟؟؟۔۔۔ تو میں‬
‫ان کی چھاتیوں سے منہ ہٹا کر کہتا ۔۔۔ میں زرا‬
‫ممے چوسنے سے فارغ ہو جاؤں ۔۔۔۔ پھر آپ کی‬
‫پھدی کی طرف بھی آتا ہوں۔۔۔۔ ان کے ممے چوستے‬
‫چوستے اچانک ہی میرے لن میں ایک زور دار‬
‫اینٹھن پیدا ہوئی اور مجھے ایسا لگا کہ جیسے‬
‫میں نے‬ ‫۔۔۔۔میرا لن پھٹنے واال ہو اسی لیئے‬
‫ان کی چھاتیوں سے منہ ہٹا کر کہا۔۔۔ باجی میرے‬
‫چوسو گی نا؟ تو وہ میرے لن کی طرف‬ ‫لن کو‬
‫دیکھتے ہوئے سیکسی آواز میں بولی ۔۔۔ میرے‬
‫ہوو‬ ‫لن چوسنے سے تم جلدی فارغ تو نہیں‬
‫گے نا؟ تو میں نے نفی میں سر ہالتے ہوئے کہا‬
‫باجی میں آپ کو چودائی کا‬ ‫۔۔۔ فکر نہیں کرو‬
‫پورا مزہ دوں گا ۔۔۔ تو وہ میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔پکی بات ہے نا‬
‫آپ آ زما‬ ‫۔۔تو میں نے سر ہال کر کہا۔۔۔۔بے شک‬
‫کر دیکھ لیں۔۔۔۔۔میری اس بات پر وہ میرے‬
‫اکڑے ہوئے لن کی طرف غضب کی‬ ‫عجب‬
‫میں‬ ‫تب تو‬ ‫نگاہ سے دیکھتے ہوئے بولی‬
‫تمہارے اس موٹے بانس کو ضرور اپنے منہ‬
‫اسے اپنے تھوک سے‬ ‫پہلے تو‬ ‫میں لے کر‬
‫گیال کروں گی ۔۔اور پھر اس کی چکنا کرنے کے‬
‫بعد میں۔۔۔۔۔۔۔ اس کا بہت اچھا چوپا لگاؤں گی ۔‬

‫س کے ساتھ ہی انہوں نے مجھے شلوار اتارنے‬


‫کو کہا ۔۔۔۔اور پھر مجھے پکڑ کر درخت کے اس‬
‫بڑے سے تنے پر لے گئیں کہ جس کا ایک حصہ‬
‫زمین پر لیٹا ہوا تھا ۔۔۔۔ اور وہاں جا کر انہوں‬
‫نے اپنی بڑی سی چادر کو تہہ کر کے اس تنے‬
‫پر رکھا اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولی‬
‫چوستی‬ ‫لن کو‬ ‫۔۔۔ ادھر بیٹھو میں تمہارے‬
‫تو اس وقت ان کی‬ ‫ہوں۔۔۔اُف۔۔میں نے دیکھا‬
‫آنکھوں سے شہوت کی گرمی اور سیکس کی شدید‬
‫طلب جھلک رہی تھی ۔۔۔ اور ان کی آنکھوں‬
‫میرے لن‬ ‫میں شہوت کے الل ڈورے دیکھ کر‬
‫نے دھمالیں ڈالنا شروع کر دیں ۔۔کہ آج پھر‬
‫ایک گرم خاتون کو چودنے کا موقع مل رہا‬
‫زمین پر‬ ‫تھا۔۔۔۔۔جیسے ہی میں تنے پر بیٹھا۔۔۔وہ‬
‫اکڑوں بیٹھ کر آگے بڑھی اور میرے لن کو اپنے‬
‫میری آنکھوں میں‬ ‫ہاتھ میں لے لیا۔۔۔پھر‬
‫آنکھیں ڈال کر بولی۔۔۔۔تم اس شیر کو کیا کھالتے‬
‫ہو؟ کہ اس کا تصور کرتے ہی میری چوت‬
‫رسنا شروع ہو جاتی ہے اور میرا دل ۔۔۔۔۔جلدی‬
‫سے اس کو اپنے اندر لے جانے پر کرتا ہے‬
‫بغیر انہوں نے‬ ‫پھر میری بات کا جواب لیئے‬
‫لمبی‬ ‫آگے کیا اور اپنی‬ ‫اپنا منہ کھول کر‬
‫زبان نکال کر میرے ٹوپے پر پھیرنا شروع ہو‬
‫گئی۔۔۔ اور پھر زبان پھیرتے پھیرتے اچانک ہی‬
‫انہوں نے میرے لن کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔اور‬
‫بڑے ہی سیکسی انداز میں اسے چوسنے لگی۔۔۔ان‬
‫کے چوپے کا سٹائل اتنا شہوت بھرا تھا کہ‬
‫ان کے منہ میں لن جاتے ہی خود بخود میری‬
‫سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں۔اور وہ میرے لن‬
‫منہ میں ان آؤٹ کرنا شروع ہو گئیں۔۔۔‬ ‫کو اپنے‬
‫۔۔۔لیکن زیادہ دیر تک انہوں نے مجھے چوپے کا‬
‫ہی یہ کہتے ہوئے‬ ‫مزہ نہ دیا ۔۔۔اور جلد‬
‫میرے لن کو اپنے منہ سے نکال لیا۔۔۔کہ مجھے‬
‫اپنی پھدی میں‬ ‫تمہارا لن منہ میں نہیں ۔۔۔ بلکہ‬
‫اُٹھ کھڑی ہوئی‬ ‫چاہیئے۔۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے وہ‬
‫۔۔۔اور اپنی شلوار اتارنے سے پہلے انہوں نے‬
‫ایک نظر آس پاس کے حاالت کا جائزہ لیا ۔۔۔۔پھر‬
‫مجھے تنے سے‬ ‫اپنی شلوار اتار دی۔۔۔پھر‬
‫اُٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔اب یہاں میں‬
‫میری‬ ‫بیٹھتی ہوں تم ۔۔۔ میری جگہ پر آ جاؤ ۔اور‬
‫چاٹو۔۔۔ان کی بات سن کر میں زمین پر اکڑوں بیٹھ‬
‫اپنی دونوں‬ ‫گیا۔۔۔اور وہ تنے پر بیٹھ گئیں۔۔اور‬
‫ٹانگوں کو آخری حد تک کھول دیا اور پھر اپنی‬
‫چوت کے‬ ‫د ونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اپنی‬
‫آپس میں ملے ہوئے دونوں لبوں کو کھول کر‬
‫بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے چاٹو۔۔۔ان کی چوت کی لکیر کافی‬
‫لمبی ۔۔۔اور اندر سے سرخی مائل تھی جس میں‬
‫سے آف وائیٹ رنگ کا پانی رس رہا تھا ۔۔۔ان‬
‫موٹے تھے ان‬ ‫کی چوت کے دونوں لب بہت‬
‫ایک‬ ‫لبوں کے عین اوپر ان کی پھدی کا تاج‬
‫پھوال ہوا دانہ تھا جو ایک نظر دیکھنے میں‬
‫بڑا بھال لگ رہا تھا ۔۔ چوت کا جائزہ لینے کے‬
‫بعد میں آگے بڑھا اور اپنی زبان نکال کر ۔۔۔۔‬
‫ان کی چوت کی لکیر پر پھیرنا شروع کر دی۔۔ان‬
‫کی چوت سے بڑی ہی سیکسی سمیل آ رہی تھی‬
‫ہوتا جا رہا تھا‬ ‫اور اس خوشبو سے مست‬
‫چوت کے اوپر اوپر زبان پھیرنے پر ۔۔۔وہ کہنے‬
‫لگیں۔۔باہر نہیں اپنی زبان کو اندر لے کر جا ۔۔۔۔۔۔‬
‫جیسے ہی میں نے ان کی‬ ‫ان کے کہنے پر‬
‫چوت کی لیکر کے اندر تک زبان پھیرنی شروع‬
‫پانی‬ ‫کی ۔۔۔۔ ان کی چوت سے نکلنے واال‬
‫میری زبان پر لگنا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔یہ ایک ٹیسٹی‬
‫بنانے کے‬ ‫سا پانی تھا۔۔۔ جس کو ذائقے دار‬
‫لیئے قدرت نے اس میں ہلکے سے نمک کی‬
‫آمیزش بھی کر دی تھی ۔۔ مجھے چوت چاٹتے‬
‫ہوئے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ وہ شہوت‬
‫بھری سرگوشی میں بولیں۔۔۔ میری پھدی کا ذائقہ‬
‫مزے کا ہے ناں؟ تو میں نے ان کی چوت‬
‫سے منہ ہٹا کر کہا۔۔۔۔ زبان کی طرح آپ کی چوت کا‬
‫وہ‬ ‫ہے تو اس پر‬ ‫ٹیسٹ بھی بہت اعل ٰی‬
‫مستی بھرے لہجے میں بولی ۔۔تب تم میری چوت‬
‫سے نکلنے والے سارے پانی کو چاٹ جاؤ۔۔۔اور‬
‫میں نے ایسا ہی کیا ۔۔۔پھر اچانک ہی ان کی آواز‬
‫میرے کانوں میں گونجی وہ کہہ رہی تھیں ۔۔۔۔‬
‫بس کر دو۔‬ ‫اب چاٹنا‬

‫۔۔۔ ان کی بات سن کر میں اوپر اُٹھا ۔۔۔۔۔اور ان کے‬


‫سامنے کھڑا ہو گیا ۔۔تب وہ اسی شہوت بھرے‬
‫لہجے میں بولیں اب کیا کرنے لگے ہو؟ تو‬
‫آگے سے میں نے بھی اسی لہجے میں جواب‬
‫کہ آپ کی پھدی مارنے لگا‬ ‫دیتے ہوئے ۔۔۔۔۔ کہا‬
‫کہنے لگی ضرور‬ ‫ہوں؟ تو وہ خوش ہو کر‬
‫مارو ۔۔لیکن اس سے پہلے کیا تم میری چوت‬
‫پسند کرو گے؟ ان کی بات سن‬ ‫کی سیٹی سننا‬
‫کر میں نے نہ سمجھنے والے انداز میں ان‬
‫سے کہا میں سمجھا نہیں باجی ؟ تو اس پر وہ‬
‫کہنے لگی یاد کرو میری اور تمہاری دوستی ۔۔۔ اسی‬
‫سیٹی کی وجہ سے ہوئی تھی ان کی بات سن‬
‫اچانک ہی مجھے یاد آ گیا کہ پنڈی سے‬ ‫کر‬
‫آتے وقت ایک جگہ پر ان کو سخت پیشاب آ گیا‬
‫تھا اور ان کو پیشاب کرانے کے لیئے میں ان‬
‫تھا ۔۔۔۔ جہاں پر تاریکی سے ڈر‬ ‫کے ساتھ گیا‬
‫مجھے اپنے پاس کھڑا کیا تھا‬ ‫کر انہوں نے‬
‫اور میرے پاس بیٹھ کر پیشاب کیا ۔۔۔۔اور پھر‬
‫سے پہلے میں نے ان کی‬ ‫پیشاب نکلنے‬
‫چوت سے آنے والی ایک دل کش سینٹی کی آواز‬
‫یہ آواز سن کر میں بہت پُر‬ ‫سنی تھی اور‬
‫۔۔اور اب وہ مجھے اسی‬ ‫شہوت سا ہو گیا تھا‬
‫سیٹی کی آواز دوبارہ سے سنانا چاہتی تھی۔۔۔‬
‫اس پر میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا‬
‫۔۔۔۔اس کا مطلب ہے کہ آپ کو پیشاب آیا ہے تو‬
‫بڑے زور کا آیا ہے‬ ‫وہ کہنے لگی ہاں یار‬
‫پیشاب تمہاری آنکھوں کے‬ ‫اور میں یہ‬
‫کرنا چاہتی ہوں تا کہ تم میری چوت‬ ‫سامنے‬
‫سے نکلنے والی سیٹی کو دوبارہ سے سن‬
‫سکو۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے میری‬
‫طرف دیکھا اور پھر اپنی گانڈ کے نیچے دیئے‬
‫ایک طرف کر کے اپنے دونوں‬ ‫ہوئی چادر کو‬
‫اکڑوں‬ ‫درخت کے تنے پر رکھ کر‬ ‫پاؤں اس‬
‫کر‬ ‫بیٹھ گئی۔۔اور اپنے دونوں گھٹنوں کو چوڑا‬
‫اپنی پھدی کی طرف اشارہ کر کے بولی ۔۔۔۔‬
‫ریڈی۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی ان کے جسم نے ایک‬
‫جھٹکا مارا اور ۔۔۔۔ اس ویرانے میں ایک بار پھر‬
‫پیشاب سے پہلے ان کی چوت سے ایک دل‬
‫کش سیٹی کی آواز سنائی دی ۔۔۔اور پھر اس کے‬
‫بعد جیسے جھرنے سے پانی بہتا ہے ان کی‬
‫ویسے ہی‬ ‫چوت کی اوپر والی موری سے‬
‫پیشاب کی صورت پانی بہنا شروع ہو گیا۔۔۔ ان کو‬
‫پیشاب کرتے دیکھ کر مجھ پر ایک‬ ‫اپنے سامنے‬
‫اپنے‬ ‫عجیب سا نشہ چڑھ گیا ۔۔۔اور میں لن کو‬
‫ان کی چوت سے نکلنے والے‬ ‫ہاتھ میں پکڑے‬
‫پاس لے گیا ۔۔۔‬ ‫کے بلکل‬ ‫پانی‬

‫اس طرح ان کی چوت سے نکلنے واال گرم گرم‬


‫پانی براہ راست میرے لن پر پڑنا شروع ہو‬
‫گیا۔۔۔۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اپنے ہاتھ کو آگے‬
‫مختلف اینگل‬ ‫بڑھایا ۔۔۔۔۔۔اور میرے لن کو پکڑ کر‬
‫پیشاب کو گرانے لگیں۔۔۔ کچھ دیر‬ ‫سے اس پر‬
‫بعد جب ان کی چوت سے پیشاب نکلنا بند ہو گیا‬
‫تو انہوں نے پاس پڑی چادر کو اپنی گانڈ کے‬
‫نیچے رکھا ۔۔۔اور اپنی ٹانگوں کو کھول کر درخت‬
‫کے اس تنے پر بیٹھ گئیں۔۔۔۔پھر میرے لن کو‬
‫تھوک‬ ‫اپنا‬ ‫اس پر‬ ‫دوبارہ سے پکڑا اور‬
‫پھینک کر اسے اچھی طرح مل کر بولی۔۔۔۔۔۔چل اب‬
‫اندر کر۔۔۔اور میں نے اپنے ٹوپے کو ان کی تنگ‬
‫چوت کے سرے پر رکھا ۔۔۔اور ہلکا سا دھکا‬
‫دیا۔۔۔۔ابھی آدھا ہی ٹوپا ان کی چوت میں گھسا تھا‬
‫۔۔۔ کہ انہوں نے ایک سسکی لی اور کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔ لن پورا ڈال ۔۔۔۔ تب میں نے ایک اور‬
‫میرا لن پھسل کر‬ ‫ہلکا سا گھسا مارا تو‬
‫تھوڑا اور ان کی چوت کے اندر چال گیا ۔۔۔اس‬
‫طرح جب میں نے تیسرا گھسہ بھی اسی سٹائل‬
‫میں آرام سے گھسہ مارا تو وہ ایک دم سے‬
‫پھٹ پڑی ۔۔۔اور چال کر بولی ۔۔۔ ذور سے گھسے‬
‫مار نا ۔۔۔ بہن چود ۔۔۔ آرام سے کیوں چود رہے‬
‫ماں لگتی ہوں ۔۔۔‬ ‫تمہاری‬ ‫ہو مجھے ۔۔۔ میں کیا‬
‫چود رہے ہو؟‬ ‫جو مجھے اتنے پیار سے‬
‫پھر شہوت بھرے لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔ حرام‬
‫ذادے۔۔۔میری پھدی کو دب کے مار ۔۔تمہارے ان‬
‫پیار بھرے گھسوں سے میرا کچھ نہیں بننے‬
‫واال ۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے میری ہپس‬
‫کو پکڑ کر اپنی پھدی کی طرف آگے پیچھے‬
‫شروع کر دیا ۔۔ اور پھر خود بھی آگے‬ ‫کرنا‬
‫پیچھے ہونا شروع ہو گئی وہ اس وقت سیکس‬
‫کے پیک پر لگ رہی تھی چنانچہ ۔۔۔۔یہ دیکھ کر‬
‫میں بھی جوش میں آگیا اور پھر میں نے ان بقول‬
‫دب کے گھسے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔۔ میرے‬
‫ہر گھسے سے لن جڑ تک ان کی چوت میں گھس‬
‫چاروں طرف‬ ‫جاتا اور پھر ان کی چوت میں‬
‫ٹھوکریں مارتا ۔۔۔جس سے وہ مزید مست ہو‬
‫جاتیں اور کہتی ۔۔۔شاباش اب تم ٹھیک جا رہے ہو۔۔۔۔‬
‫ایسے ہی چودو مجھے ۔۔۔ کبھی کہنے لگتی۔۔۔‬
‫ایسے مار کہ جیسے یہ‬ ‫جان۔۔ میری چوت کو‬
‫پھدی میری نہیں ۔۔۔۔ بلکہ یہ تمہارے کسی دشمن‬
‫کہتی یو نو ڈارلنگ ۔۔۔۔۔ لن‬ ‫کی چوت ہے۔ کبھی‬
‫بھی میری‬ ‫سو تم‬ ‫پھدی کی دشمنی مشہور ہے‬
‫پھدی سے اپنی دشمنی نکالو اور رج کے چود‬
‫مجھے۔۔۔اسی دوران انہوں نے اپنی پوزیشن بھی‬
‫تبدیل کر دی تھی اور اب وہ ۔۔۔درخت کے اس بڑے‬
‫بنی‬ ‫سے تنے پر دونوں ہاتھ رکھ کر گھوڑی‬
‫مجھ سے چدوا رہی تھی اور بار بار یہی کہہ‬
‫رہی تھی کہ میری پھدی کو مار دو۔۔۔ ۔۔۔اسے جان‬
‫سے مار دو۔۔۔۔اور تیز گھسے مارو۔۔۔۔ ان کی‬
‫باتوں کو سن کر میں اتنے‬ ‫سیکس بھری‬
‫میں نے اپنے‬ ‫زیادہ جوش میں آ گیا تھا ۔۔۔کہ‬
‫ان کی‬ ‫لن کو بجلی کی سی تیزی کے ساتھ‬
‫چوت کے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔۔۔ ۔۔۔‬
‫مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ یہ میں نہیں۔۔۔۔ بلکہ‬
‫مشین ہو۔۔‬ ‫سیکس‬ ‫کوئی‬ ‫پھدی مارنے والی‬
‫میرے خیال میں وہ بھی یہی چاہتی تھی تبھی تو‬
‫پر وہ بار بار مجھ سے‬ ‫میرے ہر گھسے‬
‫اور میں اسے‬ ‫کر رہی تھی کہ‬ ‫یہی تقاضہ‬
‫چودوں ۔۔۔اور اس کے منہ سے‬ ‫اور زور سے‬
‫اور چود۔۔۔اپنی‬ ‫بے ساختہ نکل رہا تھا ۔۔۔ کہ‬
‫دے ۔۔اس کا‬ ‫دشمن کو مار دے ۔۔۔۔اسے پھڑکا‬
‫موسم‬ ‫بھرکس نکال دے ۔۔۔۔ کچھ تو اس دن‬
‫بھی گرم تھا اور کچھ ہم دونوں پر‬
‫چڑھی ہوئی تھی۔۔ اور اس‬ ‫گرمی بھی سخت‬
‫گرمی کی وجہ سے ہم دونوں پسینے میں‬
‫نہائے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔پھر گھسے مارتے مارتے‬
‫مجھے محسوس ہوا کہ سیکسی‬ ‫اچانک ہی‬
‫باتیں کرتے ہوئے باجی کے لہجے میں اچانک‬
‫فقروں کو‬ ‫وہ‬ ‫لکنت سی آ گئی ہے۔۔اور اب‬
‫زو‬ ‫توڑ ۔۔۔۔توڑ کر کہہ رہی تھی کہ۔۔۔۔۔گھ۔۔۔سہ‬
‫ررررر سے مار۔۔۔۔۔میری پھدی پھااااااااااااااااااااااڑ‬
‫دے۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے محسوس‬
‫کے ساتھ باجی کی چوت کے‬ ‫کیا کہ میرے لن‬
‫ہو گئے ہیں۔۔۔ اور‬ ‫شروع‬ ‫ٹشو چپکنا‬ ‫سارے‬
‫اب انہوں نے خود ہی تیز ی کے ساتھ آگے‬
‫پیچھے ہونا شروع کر دیا تھا ۔۔۔۔۔ان کی چوت کے‬
‫چکنے ٹشوز جب میرے‬ ‫اتنے نرم و گرم اور‬
‫اکھٹے ہونا شروع ہو گئے تو‬ ‫لن کے گرد‬
‫نرمی کی تاب نہ ال کر میرے لن‬ ‫کی‬ ‫ان ٹشوز‬
‫شروع‬ ‫نے بھی۔۔۔۔۔۔ٹائیٹ ہو کر جھٹکے مارنے‬
‫کر دیئے ۔۔۔۔پھر ان کی چوت کے ٹشو اور ۔۔۔‬
‫میرے لن دونوں نے اکھٹے ٹائیٹ۔۔۔۔ ٹائیٹ‬
‫۔۔۔۔۔۔۔اور مزید ٹائیٹ ہونا شروع کر دیا۔۔۔۔۔اور پھر‬
‫اس کے ساتھ ہی۔۔۔۔مہرو باجی اور میں ۔۔۔۔دونوں‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کے جسموں نے فائینل جھٹکے کھائے‬
‫۔۔۔۔۔اور پھر ہم دونوں شہوت کی گرمی سے‬
‫اکھٹے ہی چیخے۔۔۔۔۔ پھر بیک وقت ان کی چوت‬
‫اور میرے لن نے پانی اگلنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس‬
‫اپنے‬ ‫سے ان کی چوت میرے ۔۔۔۔۔اور‬ ‫کی وجہ‬
‫ان‬ ‫پانی سے بھرتی گئی۔۔۔۔اور پھر آہستہ آہستہ‬
‫والی سیکسی چیخوں میں‬ ‫کے منہ سے نکلنے‬
‫کمی آتے آتے ۔۔۔۔۔ختم ہوتی گئی۔۔۔اور پھر دھیرے‬
‫شانت ہو گئی‬ ‫دھیرے ۔۔۔ وہ پوری طرح سے‬
‫تھیں۔۔۔اس دوران مہرو جی کی چوت میں گھسا‬
‫تھا ۔لیکن وہ ابھی‬ ‫میرا لن بھی سکڑ چکا‬ ‫ہوا‬
‫تک اسی حالت میں گھوڑی بنی ۔۔۔۔۔۔ لمبے لمبے‬
‫سانس لے رہیں تھیں جب ان کا سانس کچھ بحال‬
‫ہوا تو وہ پھرتی سے اوپر اُٹھی اور پھر پلٹ کر‬
‫مجھ سے لپٹ گئی۔۔۔ کچھ دیر تک ٹائیٹ ہگ‬
‫وہ نیچے کو جھکی اور‬ ‫دینے کے بعد اچانک‬
‫میرے لن پر ایک کس دے کر بولی ۔۔۔ یقین کرو‬
‫واقعہ‬ ‫دوست تمہارے اس موٹے بانس نے تو‬
‫ہی آج میرے اندر کی گرمی کو کافی حد تک کم کر‬
‫دیا ہے پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بڑی‬
‫لگی ۔۔۔ یاد رکھنا اس نے‬ ‫سے کہنے‬ ‫شوخی‬
‫میرے اندر کی گرمی کو کم کیا ہے ختم نہیں ۔۔۔۔۔‬
‫ہوئے‬ ‫پاس پڑے‬ ‫اس کے بعد انہوں نے‬
‫پرس سے ایک بڑا سا رومال نکاال اور بڑے‬
‫پیار سے میرے لن کو صاف کرنے لگی۔۔ جب ان‬
‫کی اور میری منی سے لتھڑا ہوا لن اچھی‬
‫انہوں‬ ‫کے بعد‬ ‫طرح صاف ہو گیا تو اس‬
‫چوت کو بھی‬ ‫اپنی‬ ‫اسی کپڑے کے ساتھ‬
‫صاف کیا ۔۔اور پھر اس رومال کو دوبارہ سے‬
‫رکھ لیا ۔ اس‬ ‫تہہ کر کے اپنے پرس میں‬
‫انہوں نے شلوار پہنی اور پھر درخت‬ ‫کے بعد‬
‫کے تنے پر رکھی ہوئی چادر کو اُٹھا کر اسے‬
‫بھی اچھی طرح جھاڑ ا۔۔۔۔۔۔ تو میں نے ان سے‬
‫بولی۔۔۔۔‬ ‫۔۔۔چلیں باجی ؟ تو وہ مسکرا کر‬ ‫کہا‬
‫نارمل تو‬ ‫ابھی نہیں میری جان کہ مجھے تھوڑا‬
‫ہو نے دو۔۔۔ پھر انہوں نے پرس سے ایک چھوٹا‬
‫برش نکال کر اس آئینے میں‬ ‫سا آئینہ اور ہیئر‬
‫بالوں کو برش کیا اور‬ ‫دیکھتے ہوئے اپنے‬
‫پھر ایک نظر اپنا جائزہ لینے کے بعد بولی ۔۔۔ہاں‬
‫اب چلو۔۔۔اور ہم وہاں سے چل کر واپس گھر پہنچ‬
‫گئے۔‬

‫گرمی کی حدت کافی‬ ‫ہمارے گھر پہنچنے تک‬


‫حد تک کم ہو چکی تھی۔اور دن بھی ڈھل چکا تھا‬
‫لیکن سارے دن کی تھکان سے (یا زبردست‬
‫چدائی سے ) ہم دونوں کا برا حال تھا اور ہم‬
‫پسینے سے شرابور ہو رہے تھے۔۔۔اس لیئے‬
‫گھر پہنچے تو سب سے‬ ‫جیسے ہی ہم لوگ‬
‫پہلے ہمیں ٹھنڈا شربت پالیا گیا اور پھر اس‬
‫ایک جگہ پر بیٹھ گئیں‬ ‫کے بعد تمام لیڈیز‬
‫۔۔۔اور مہرو باجی سے آج کے دن کی ساری‬
‫کاروائی پوچھی گئی جو کہ مہرو باجی نے‬
‫میں‬ ‫شروع کی تھی کہ اسی اثنا ء‬ ‫ابھی بتا نا‬
‫چوہدری شیر بھی گھر میں داخل ہو گیا اور اس‬
‫نے بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر آج کے دن کی‬
‫ساری داستان سنی اور بیچ بیچ میں وہ مہرو باجی‬
‫سے سواالت بھی کرتا رہا ۔۔ جب یہ سیشن ختم ہوا‬
‫تو تائی اماں چوہدری صاحب سے مخاطب ہو کر‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔ بچہ اتنی گرمی کھا کر آیا ہے آپ اسے‬
‫ٹیوب ویل پر لے جا کر نہال آؤ۔۔۔ تائی اماں کی بات‬
‫سن کر چوہدری شیر اپنی جگہ سے اُٹھتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔۔ ۔۔ چل منڈیا ۔۔موٹر سائیکل نکال ۔راستے میں‬
‫لمبڑوں کے گھر موٹر سائیکل دے کر ہم اپنی‬
‫زمینوں پر جائیں گے جہاں پر تم ٹیوب ویل کے‬
‫نہا بھی لینا اور اس کے ساتھ‬ ‫سے‬ ‫پانی‬
‫ہماری زمینیں بھی دیکھ لینا۔۔۔‬

‫لمبڑوں کے ہاں بائیک دینے کے بعد میں اور‬


‫چوہدری شیر پیدل ہی ان کی زمینوں کی طرف نکل‬
‫گئے گاؤں سے تھوڑا آگے ہی ان کی زمینوں‬
‫کی حدود شروع ہو جاتی تھی اور ان کے بقول‬
‫لمبڑوں کے بعد اس گاؤں میں سب سے زیادہ ان‬
‫لوگوں کی زمینیں تھیں ۔۔۔ اپنی زمینوں کو دکھاتے‬
‫نے ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے‬ ‫وقت چوہدری‬
‫بتایا کہ ۔۔۔ پتر وہ سامنے ہمارا ڈیرہ ہے جہاں پر‬
‫ہم نے مال ڈنگر رکھے ہوئے ہیں اور وہیں پر‬
‫وہاں جا کر تم‬ ‫لگا ہوا ہے‬ ‫ٹیوب ویل بھی‬
‫ٹیوب ویل کی ہودی میں نہا لینا۔۔۔ چلتے چلتے‬
‫مینا کو‬ ‫ڈیرے پر پہنچے تو‬ ‫جب ہم متعلقہ‬
‫حیران رہ گیا ۔۔۔ میری‬ ‫وہاں دیکھ کر میں‬
‫حیرانی کو بھانپتے ہوئے چوہدری ہنس کر بوال‬
‫۔۔۔ حیران ہونے کی کوئی ضرورت نہیں پتر ۔۔‬
‫جیجے (عزیز) کی بیٹی رضو اور مینا بچپن سے‬
‫گوڑی (گہری) دوست ہیں اسی لیئے‬
‫ہی بڑی ُ‬
‫گاؤں آ کر مینا کا زیادہ وقت رضو کے ساتھ‬
‫ہی گزرتا ہے ۔چوہدری کے ڈیرے سے زرا ہٹ کر‬
‫کچا‬ ‫جیجے ٹانگے والے کا ایک چھوٹا سا‬
‫اپنی فیملی کے ساتھ‬ ‫عزیز‬ ‫گھر تھا جہاں پر‬
‫معلوم ہوا ۔۔۔ کہ یہ لوگ‬ ‫رہتا تھا بعد میں‬
‫کے بیٹے‬ ‫چوہدری شیر کے مزراع تھے ۔ عزیز‬
‫کی‬ ‫وغیرہ‬ ‫چوہدری کی زمینوں اور ڈنگروں‬
‫دیکھ بھال کرتے تھے جبکہ ان کا والد جیجا‬
‫‪-‬‬ ‫(عزیز ) فارغ وقت میں ٹانگہ بھی چالتا تھا‬
‫وہاں‬ ‫ادھر میری طرح مینا بھی مجھے‬
‫کر خاصی حیران ہوئی تھی ۔۔ اور اس کے‬ ‫دیکھ‬
‫پوچھنے پر چوہدری نے بتایا کہ وہ مجھے اپنی‬
‫کے‬ ‫دکھانے اور ٹیوب ویل پر نہالنے‬ ‫زمینیں‬
‫لیئے الیا ہے ۔۔ ڈیرے پر پہنچ کر میں نے ارد‬
‫چوہدری کے‬ ‫گرد کا جائزہ لیا۔۔۔۔تو دیکھا کہ‬
‫ڈیرے پر ایک ساتھ بہت سارے درخت لگے‬
‫ہوئے تھے ان درختوں کے ایک طرف چھوٹی‬
‫کوٹھری بنی ہوئی تھی جس کے باہر تاال‬ ‫سی‬
‫ہٹ کر‬ ‫لگا ہوا تھا اور اس کوٹھری سے تھوڑا‬
‫بیرک نما کمرہ بھی بنا ہوا تھا جہاں پر‬ ‫ایک‬
‫سردیوں میں چوہدری کی ملکیتی گائے اور‬
‫بھینس کے ساتھ عزیز کا گھوڑا بھی باندھا جاتا‬
‫تھا جبکہ گرمیوں ان ڈنگروں کو اس بارک‬
‫باندھا جاتا تھا ۔۔۔‬ ‫کے ساتھ‬ ‫سے باہر درختوں‬
‫نیکر‬ ‫اسی اثنا ء میں چوہدری کہیں سے ایک‬
‫بھی لے آیا ۔۔۔۔اور وہ نیکر مجھے دیتے ہوئے‬
‫اس نے اس کوٹھری میں جا کر ٹیوب ویل چال‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ اسے پہن‬ ‫دیا۔۔۔اور پھر مجھ سے‬
‫لمبڑوں کے ڈیرے‬ ‫کرتم نہا لو ۔۔۔ میں ۔۔ زرا‬
‫حقے کی واری (حقہ پی کر ) لگا کر آتا‬ ‫پر‬
‫ہوں۔۔۔۔میں نے چوہدری کی دی ہوئی نیکر پہنی‬
‫ہوئی ٹیوب ویل کی‬ ‫اور پانی سے بھری‬
‫ہودی میں‬ ‫ہودی میں کود گیا۔۔۔ ۔۔۔ ابھی میں‬
‫ہی تھا کہ اتنے میں مینا کے ساتھ‬ ‫گھسا‬
‫ایک اور لڑکی جو یقینا ً اس کی دوست رضو‬
‫ہو گی ۔۔۔۔ ہودی سے تھوڑی دور آ کر کھڑی ہو‬
‫گئیں ۔۔۔اور میری طرف دیکھتے ہوئے آپس‬
‫کچھ اشارے بھی کرنے لگیں۔۔۔ ۔۔غالبا ً مینا‬ ‫میں‬
‫اسے میرے بارے میں کچھ بریفنگ دے رہی تھی‬
‫تبھی وہ سانولی سی لڑکی جس کی شکل و‬
‫سی تھی لیکن اس کے‬ ‫بس واجبی‬ ‫صورت تو‬
‫اس کا کسا ہوا جسم‬ ‫اور خاص کر‬ ‫نین نقش‬
‫اور ہودی‬ ‫بڑے ہی کمال کا تھا ۔۔آگے بڑھی‬
‫کی دیوار کے پاس کھڑی ہو کر میری طرف‬
‫دیکھنے لگی۔۔۔اور پھر مجھے اپنی طرف متوجہ‬
‫کے‬ ‫اور یک ادا‬ ‫پا کر اس نے بڑی شوخی‬
‫سالم کیا ۔۔۔۔۔۔۔ بڑی بڑی چھاتیوں‬ ‫مجھے‬ ‫ساتھ‬
‫اور بھاری کولہوں کے ساتھ وہ ایک نہایت ہی‬
‫پٹاخہ قسم کی لڑکی تھی‬ ‫پر ُکشش اور غضب‬
‫جو کہ میرے خیال میں مینا سے عمر میں‬
‫کچھ بڑی ہو گی۔‬

‫نہانے کے بعد جب میں ٹیوب ویل کی ہودی‬


‫سے باہر نکال تو رضو میرے پاس آ کر کھڑی‬
‫پسند‬ ‫ہو کر کہنے لگی۔۔۔بھائی آپ چائے پینا‬
‫کرو گے یا میں آپ کے لیئے لسی الؤں؟‬
‫مینا کی دوست رضیہ کی اس بے تکلفانہ گفتگو‬
‫اور اس کا‬ ‫ہوا‬ ‫پر میں تھوڑا حیران بھی‬
‫شکریہ ادا کرتے ہوئے بوال ۔۔ شکریہ جی میں‬
‫نین‬ ‫کچھ نہیں پیوں گا ۔۔میری اس بات پر وہ‬
‫مٹکا کر بولی ۔۔ایسے کیسے ہو سکتا ہے جی ۔۔۔ کہ‬
‫ہمارے ڈیرے پر آئے ہو۔ اس‬ ‫آپ پہلی واری‬
‫خدمت داری‬ ‫لیئے اگر میں نے آپ کی کوئی‬
‫نہیں کی تو مینا بے چاری کیا سوچے گی کہ اس‬
‫کی اتنی اچھی دوست نے آپ کی کوئی خدمت‬
‫بھی نہیں کی ۔۔اس کی بات سن کر پیچھے سے‬
‫مینا کی آواز آئی۔۔۔ چپ کر جا ۔۔۔ رضو کی بچی ۔۔‬
‫لیکن اس نے مینا کی بات کو سنا ان سنا کرتے‬
‫ہوئے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ شاہ‬
‫(اچھی) کڑی اے ۔۔۔ اس‬ ‫جی مینا بڑی چنگی‬
‫کی بات سن کر میں تھوڑا حیران ہوا اور اس‬
‫سے کہنے لگا ۔۔ہاں جی۔۔۔۔مجھے معلوم ہے کہ‬
‫مینا ایک بہت اچھی لڑکی ہے تو وہ پھر اسی‬
‫معنی خیز لہجے میں کہنے لگی میں سچ کہہ‬
‫رہی ہوں بھائی۔۔۔ کہ مینا بڑی ہی چنگی کڑی‬
‫۔۔۔ابھی وہ کچھ اور کہنے والی تھی کہ۔۔۔۔‬ ‫اے‬
‫مینا آگے بڑھی ۔۔۔اور‬ ‫پیچھے سے‬ ‫اچانک‬
‫رضیہ کو چپ کراتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔ شاہ‬
‫یہ تو بس‬ ‫جی اس کی بات کا برا نہ منانا۔۔‬
‫ہے۔۔ اور پھر‬ ‫ایویں ای بکواس کر تی رہتی‬
‫لے‬ ‫رضو کو زبردستی کھینچ کر دوسری طرف‬
‫جانے لگی اسی اثنا میں ۔۔۔۔۔۔ میں نے رضو کی‬
‫بات سنی وہ مینا سے کہہ رہی تھی کہ تیرا‬
‫تے بڑا پپو اے یار۔۔۔۔۔جیسے ہی رضو‬ ‫واال‬
‫کی یہ بات میرے کانوں میں پڑی میں فوراً بات‬
‫تک پہنچ گیا ۔۔بات دراصل یہ تھی‬ ‫کی تہہ‬
‫جب‬ ‫ڈیرے پر آمد کے بعد‬ ‫دفعہ‬ ‫کہ پہلی‬
‫سے میرے بارے میں پوچھا‬ ‫رضو نے مینا‬
‫ہو گا کہ یہ ذات شریف کون ہے؟ تو ۔۔۔ طے‬
‫نے‬ ‫شدہ پروگرام کے مطابق مینا بے چاری‬
‫رضو سے کہہ دیا ہو گا کہ میں اس کا ہونے‬
‫اسی تناظر میں‬ ‫واال منگیتر ہوں اور رضیہ‬
‫میں مجھ سے خدمت داری کا پوچھنے کے‬
‫ساتھ ساتھ مجھ سے مینا کی سفارش بھی‬
‫کرتی جا رہی تھی کہ مینا ایک اچھی لڑکی‬
‫ہے۔۔۔۔۔۔ جبکہ رضیہ کی ایسی باتیں سن کر جانے‬
‫کیوں مینا شرم سے دھری ہوتی جا رہی‬
‫۔۔۔۔میں مینا‬ ‫تھی۔۔۔ساری بات سمجھنے کے بعد‬
‫کو اس حالت میں دیکھ کر بڑا محظوظ ہو رہا‬
‫تھا۔۔۔ اسی لیئے میں نے اسے تنگ کرنے کی‬
‫خاطر رضیہ سے کہا۔۔۔۔ تم کہہ تو رہی ہو کہ یہ‬
‫بڑی چنگی لڑکی ہے ۔۔۔لیکن کیا خاک چنگی ہے‬
‫اتنے دن ہو گئے ہیں اس کے گاؤں میں آئے‬
‫ہوئے ۔۔۔اور آج تک اس نے مجھے زرا بھی لفٹ‬
‫نہیں کرائی ۔۔۔اور سارا وقت تمہارے پاس ہی‬
‫گزاتی ہے۔۔۔ اس پر رضیہ جلدی سے کہنے لگی۔۔۔‬
‫بھائی‬ ‫لفٹ کیا کرانی‬ ‫اس و چاری نے آپ کو‬
‫جان ۔۔۔۔یہ تو آپ سے بہت شرماتی ہے ۔۔۔تو‬
‫میں نے حیران ہونے کی ادا کاری کرتے ہوئے‬
‫مجھ سے کس لیئے‬ ‫کہ آپ کی دوست‬ ‫کہا‬
‫شرماتی ہے ؟ ؟ کہ میں کوئی باگڑ بال ہوں اس‬
‫آنکھیں نکالتے ہوئے بولی۔۔۔ ہا‬ ‫پر رضیہ‬
‫رہے‬ ‫باتیں کر‬ ‫۔ہائے ۔۔۔بھائی جان یہ آپ کیسی‬
‫میری دوست اگر آپ سے نہیں شرمائے‬ ‫ہو؟‬
‫گی تو پھر کس سے شرمائے گی؟ ؟۔۔۔ میری بات‬
‫سن کر مینا نے بڑی عجیب نظروں سے میری‬
‫طرف دیکھا ۔۔ ۔۔۔ابھی ہم یہی باتیں کر رہے تھے‬
‫کہ دور سے چوہدری شیر آتا ہوا دکھائی دیا۔۔ اس‬
‫پر نظر پڑتے ہی رضیہ اور مینا وہاں سے تتر ہو‬
‫گئیں لیکن جاتے جاتے رضیہ نے پیچھے ُمڑ کر‬
‫میری طرف دیکھا اور کہنے لگی بھائی جان آپ‬
‫لفٹ کی بات کر رہے ہو جبکہ ۔۔۔ میری دوست تو‬
‫آپ پہ مرتی ہے۔۔جیسے ہی رضیہ نے یہ بات‬
‫کی تو اسی وقت میری نظر مینا پر پڑی ۔۔۔۔۔۔ عین‬
‫اسی وقت وہ بھی میری طرف ہی دیکھ رہی تھی‬
‫۔۔۔ ہماری آنکھیں جب چار ہوئیں ۔۔۔تو میں نے‬
‫ہوتے ہوئے‬ ‫گلنار‬ ‫سے‬ ‫مینا کو شرم‬
‫دیکھا ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف چوہدری نے دور‬
‫سے ہی اشارہ کرتے ہوئے مجھے اپنی طرف‬
‫۔۔۔ چوہدری کا اشارہ پا کر میں اس‬ ‫آنے کو کہا‬
‫مجھے‬ ‫کی طرف بڑھ گیا ۔۔۔۔لیکن راستے بھر‬
‫چہرہ یاد آتا‬ ‫مینا کا شرم سے گلنار ہوتا ہوا‬
‫تو اس وقت مغرب ہوا‬ ‫رہا ۔۔۔جب ہم گھر پہنچے‬
‫چاہتی تھی ۔ چنانچہ گھر آنے کے تھوڑی ہی دیر‬
‫ب معمول کسی کام‬
‫بعد چوہدری شیر صاحب تو حس ِ‬
‫چلے گئے‬ ‫کے سلسلہ میں پھر سے واپس‬
‫جبکہ میں اپنے کمرے میں جا کر پلنگ پر لیٹ کر‬
‫مینا کے گلنار چہرے کے بارے میں سوچنے‬
‫لگا۔۔۔ ۔۔ مجھے پلنگ پر لیٹے ہوئے تھوڑی ہی‬
‫دیر ہوئی تھی کہ اچانک نوراں آپا کمرے میں‬
‫داخل ہوئی اور میرے پلنگ کے پاس تپائی پر‬
‫نے‬ ‫پڑا ہوا گالس اُٹھا کر باہر چلی ۔۔ میں‬
‫اس بات کا کوئی نوٹس نہ لیا۔۔۔۔۔ لیکن پھر چند‬
‫ہی سیکنڈز کے بعد وہ دوبارہ سے کمرے میں‬
‫داخل ہوئی اور اس دفعہ میرے پاس سے گزر‬
‫وہ کسی کام‬ ‫دیکھتے ہوئے‬ ‫کر میری طرف‬
‫سے کمرے کے کونے میں چلی گئی۔۔۔ اسی‬
‫طرح جب وہ تیسری دفعہ میرے میرے پاس‬
‫کان کھڑے‬ ‫میرے‬ ‫آگے گئی تو‬ ‫سے ہو کر‬
‫ہو گئے اور میں پلنگ سے اُٹھ کر بیٹھ گیا ۔۔۔۔‬
‫اور جیسے ہی نوراں آپا واپسی کے لیئے ُمڑی‬
‫۔۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔ میرے ہاتھ‬
‫پکڑتے ہی انہوں نے ایک نظر میری طرف‬
‫دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔ کیا ہے ؟ تو میں نے‬
‫ان کو اپنی طرف کھینچ لیا۔۔۔اس پر کچے دھاگے‬
‫میری طرف آ گئی ۔۔۔‬ ‫سے بندھی وہ سرکار‬
‫اتنے میں ان کا ہاتھ پکڑے ہوئے میں بھی‬
‫پلنگ سے اُٹھ کھڑا ہوا تھا۔۔۔اس لیئے اب وہ‬
‫بلکل میرے سامنے آن کھڑی ہوئیں تھیں ۔۔۔ کچھ‬
‫دیر تک ہم ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں‬
‫ڈالے کھڑے رہے پھر جیسے ہی میں نے ان کو‬
‫گلے سے لگانے کی لیئے اپنی طرف کھینچا‬
‫۔۔۔تو وہ میرے ساتھ لگتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔‬
‫نہ کر ۔۔۔"کوئی آ جائے گا"۔۔۔ اس پر میں نے ان کو‬
‫اپنے ساتھ لگاتے ہوئے پوچھا کہ سب لو گ‬
‫بڑے آرام سے میرے‬ ‫کہاں ہیں ؟؟ تو ۔۔۔ وہ‬
‫ساتھ لگتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔۔ سب لوگ چھت پر‬
‫بیٹھے ہمسائیوں کے ساتھ گپیں لگا رہے ہیں ۔۔ان‬
‫کی بات سن کر میں نے ان کے شرم سے الل‬
‫ہوتے ہوئے گالوں کو چوم کر بوال۔۔۔ آپ بہت‬
‫پیاری ہو ۔۔۔تو وہ گردن موڑ کر دروازے کے باہر‬
‫دیکھتے ہوئے بولی ۔۔ جو کرنا ہے جلدی‬
‫کرو۔۔۔۔۔" کوئی آ جائے گا"۔۔ ان کی بات سن کر میں‬
‫نے اپنے منہ کو ان کے گالوں سے ہٹایا اور‬
‫ہونٹ رکھ کر‬ ‫۔۔۔ ان کے گالب ہونٹوں پر اپنے‬
‫کو چوسنے لگا۔۔۔۔ان کے ہونٹوں کو اپنے‬ ‫ان‬
‫منہ میں لینے کی دیر تھی ۔۔۔۔۔ کہ ایک دم سے‬
‫میرا لن کھڑا ہو گیا اور میں نے ہاتھ بڑھا کر‬
‫نوراں آپا کا فرنٹ حصہ اپنے ساتھ چپکا لیا‬
‫اپنے ٹوپے پکڑ‬ ‫۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ‬
‫ان کی دونوں رانوں کے بیچ میں لے گیا‬ ‫کر‬
‫اور ان کے ساتھ کسنگ کرتے ہوئے اپنے لن‬
‫کو آہستہ آہستہ ان کی چوت پر رگڑنے‬
‫نوراں آپا بھی موشن میں‬ ‫لگا۔۔۔۔۔دھیرے دھیرے‬
‫اپنی‬ ‫آنے لگی۔۔۔اور میرے ساتھ جڑتے ہوئے‬
‫میرے لن‬ ‫دونوں رانوں کے بیچ پھنسے ہوئے‬
‫کو دونوں رانوں میں لے کر دبانے لگی۔۔۔ اسی‬
‫اثنا میں انہوں نے اپنی سیکسی زبان کو بھی‬
‫میرے منہ میں ڈال دیا تھا ۔۔۔ان کی زبان میں‬
‫بے‬ ‫ایک ایسی دل کشی اور چاشنی تھی کہ میں‬
‫اختیار ان کی خوش ذائقہ اور مزیدار قسم کی‬
‫سیکسی زبان کو اپنے منہ میں لے کر چوسنے‬
‫لگا ۔۔ اور پھر ان کی زبان کو چوستے چوستے‬
‫میں اتنا گرم ہو گیا کہ اچانک میں نے ان کو‬
‫چودنے کے لیئے ان کی شلوار کا نالہ کھولنے‬
‫لگا۔۔۔ جیسے ہی میرا ہاتھ ان کے آزار بند پر‬
‫۔۔۔اس کے ساتھ ہی سب‬ ‫پڑا۔۔۔ وہ گھبرا گئیں‬
‫سے پہلے انہوں نے ۔۔۔اپنے آزار بند کی طرف‬
‫بڑھتے ہوئے میرے ہاتھ کو پکڑ کر ایک طرف‬
‫توڑ کر‬ ‫میری بانہوں کا گھیرا‬ ‫کیا ۔۔۔۔اور پھر‬
‫باہر کی طرف جانے لگیں ۔۔۔ تو جیسے ہی وہ‬
‫تو بجلی کی سی تیزی‬ ‫واپسی کے لیئے ُمڑیں‬
‫کے ساتھ میں آگے بڑھا اور ان کو پیچھے سے‬
‫لگا لیا ۔۔۔۔جلدی کی وجہ سے‬ ‫پکڑ کر جپھا‬
‫میرا لن ان کی گانڈ کی دونوں دراڑوں میں‬
‫ہپس پر رگڑ‬ ‫جانے کی بجائے ۔۔۔۔۔ ان کے ایک‬
‫اپنا ایک‬ ‫کھانے لگا ۔۔ یہ دیکھ کر میں نے‬
‫ہاتھ آگے بڑھا کر ان کی کمر کو نیچے کی طرف‬
‫دبا دیا۔۔۔۔ ۔۔۔ میری اس حرکت کا مطلب سمجھتے‬
‫ہوئے انہوں نے خود ہی اپنے دونوں ہاتھ‬
‫اپنی گانڈ کو باہر‬ ‫اور‬ ‫گھٹنوں پر رکھ دئے‬
‫نکال کر بولی۔۔۔۔۔۔ چھیتی کر ۔۔۔ کوئی آ جائے گا۔۔۔ان‬
‫کی بات سن کر میں نے لن کو اپنے ہاتھ میں‬
‫پکڑا اور شلوار کے اوپر سے ہی ان کی گانڈ کی‬
‫تیز تیز گھسے مارنے لگا۔۔۔۔۔‬ ‫موری پر رکھ کر‬
‫جس سے میری ٹوپا ان کی گانڈ کے سوراخ کے‬
‫ساتھ مس ہو کر اندر جانے کی کوشش کرنے لگا‬
‫۔۔۔۔لیکن دوسری طرف انہوں نے بڑی سختی کے‬
‫ساتھ اپنی گانڈ کو بھینچ لیا۔۔۔۔ جسں کی وجہ‬
‫میرا لن ان کے سوراخ کے اندر نا جا‬ ‫سے‬
‫سکا ۔۔۔لیکن مزہ بہت آ رہا تھا ۔۔۔اس لیئے میں‬
‫نے گھسے مارتے ہوئے ان سے کہا ۔۔۔ تھوڑا‬
‫منہ‬ ‫۔تو وہ میری طرف‬ ‫ڈھیال کریں نا۔پلیززز‬
‫پھیر کر کہنے لگی۔۔۔ نئیں پیڑ ہو وے گی توں‬
‫آرام نا ل گھسے مار ۔۔( مجھے درد ہو گا تم آرام‬
‫سے گھسے مارو )۔ یہ بات کرتے ہی اپنی گانڈ‬
‫وہ اوپر اُٹھی اور اپنی‬ ‫میں لن پھنسائے ہوئے‬
‫گردن موڑ کر بولی ۔۔۔۔ایتھے نئیں ۔ مینوں اگے کروان‬
‫صواد آندا اے (ادھر نہیں مجھے آگے سے‬ ‫دا‬
‫کروانے کا مزہ آتا ہے)۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اتنی بات کرتے ہی‬
‫انہوں نے گھوم کر اپنا منہ میری طرف کر لیا ۔۔۔۔ اور‬
‫میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی ۔۔۔۔ اب‬
‫بس۔۔۔باقی فئیر کر لیں گے لیکن میں کہاں باز‬
‫آنے واال تھا سو میں نے لن کو اپنے ہاتھ میں‬
‫پکڑا ۔۔۔اور ان کی چوت کی سیدھ میں لے جا کر‬
‫ایک دھکا لگایا۔۔۔ میرے دھکے سے وہ ہلکی‬
‫سی کراہی ۔۔ہائے اوئے ۔۔اور شلوار سمیت میرے لن‬
‫کی ٹوپی ان کی چوت میں گھس گئی۔۔۔۔۔ واضع طور‬
‫پر ان کی چوت کی موری بہت کھلی اور گیلی ہو‬
‫رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی لن کی ٹوپی ان کی‬
‫چوت میں گھسی میں نے گھسے مارنے شروع کر‬
‫دیئے لیکن جلد ہی انہوں نے ہاتھ بڑھا کر‬
‫میرے لن کو اپنی چوت سے ہٹایا ۔۔۔ اور پھر‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ لگدا اے‬
‫کہ تینوں میرے نالوں وی بوتی کالی ہے ( ایسا‬
‫لگ رہا ہے کہ تمہیں مجھ سے بھی زیادہ جلدی‬
‫ہے) اور پھر پہلی دفعہ میرے گال کو چوم کر‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔اینج اونا ں صواد نئیں آنا ۔۔اندر پائیں‬
‫گا تے فئیر مزہ آئے گا ( اس طرح اتنا مزہ نہیں آئے‬
‫گا۔۔۔ بلکہ جب تم میرے اندر کرو گے تو تب مزہ‬
‫آئے گا۔) ان کی بات سن کر میں نے ان سے کہا کہ‬
‫آپ کے‬ ‫وہ دن کب آئے گا جب میں ڈائیریکٹ‬
‫اندر ڈالوں گا ؟ تو وہ دوبارہ سے میرے گالوں‬
‫کو چوم کر بولی۔۔۔۔۔۔۔ بس میری جان ۔۔ موقعہ ملنے‬
‫کی دیر ہے ۔۔۔اور تیرا شیر (اپنی پھدی کی طرف‬
‫اشارہ کرتے ہوئے ) ادھر ہو گا۔۔۔۔ یہ کہہ کر وہ‬
‫کمرے سے باہر چلی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔رات کا کھانا ہم‬
‫لوگوں نے چھت پر ہی کھایا۔۔ مزے کی بات یہ ہے‬
‫کہ اس گاؤں کی ساری چھتیں آپس میں کچھ اس‬
‫طرح سے ملی ہوئیں تھیں کہ کسی ایک کی چھت‬
‫پر چڑھ کر آپ سارے محلے کی چھتوں پر جا‬
‫سکتے تھے ۔۔کھانا کھاتے ہوئے اچانک ہی تائی‬
‫اماں نے آنٹی کی طرف دیکھا اور کہنے لگی‬
‫صائقہ ایک جگہ اور دیکھنے سے رہ ہی گئی‬
‫ہے اس پر آنٹی نے چونک کر تائی اماں کی‬
‫طرف دیکھا اور کہنے لگی وہ کون سی جگہ ہے‬
‫آپا؟ تو تائی اماں جواب دیتے ہوئے کہنے لگیں‬
‫۔۔۔ دکھن کے محلے والی بشیراں ۔۔۔ بشیراں کا نام‬
‫سنتے ہی آنٹی ایک دم سے بولی ۔۔۔اوہ ہاں ۔۔۔۔‬
‫پھر بات کو‬ ‫اس کو تو میں بھول ہی گئی تھی۔۔۔۔۔‬
‫جاری رکھتے ہوئے مزید کہنے لگیں۔۔۔۔آپ ٹھیک‬
‫کہہ رہی ہو ۔ امجد کے چھپنے کے لیئے یہ‬
‫جگہ بھی آئیڈیل ہو سکتی ہے اور وہ اس‬
‫لیئے کہ بشیراں کا گھر واال باہر ہوتا ہے اور‬
‫رہتی ہے‬ ‫اپنے بچوں کے ساتھ اکیلی‬ ‫وہ‬
‫باجی نے لقمہ دیتے ہوئے کہا۔۔۔‬ ‫اس پر مہرو‬
‫آپ ٹھیک کہہ رہی ہو امی۔ماسی بشیرا ں کا بیٹا۔۔‬
‫لیاقت بھی تو امجد کا ایج فیلو اور گہرا دوست‬
‫ہے۔۔۔اور ویسے بھی ۔۔۔ ماسی بشیراں بہت اچھی‬
‫ہیں ۔۔۔ مہرو باجی کی‬ ‫اور مدد کرنے والی خاتون‬
‫چوہدری شیر کہنے لگا۔۔ تو‬ ‫بات ختم ہوتے ہی‬
‫تم موٹر سائیکل پر‬ ‫کل صبع‬ ‫پھر ٹھیک ہے‬
‫اس کاکے (میری طرف اشارہ کر کے ) کے ساتھ‬
‫چلی جانا ۔۔چوہدری کی بات سنتے ہی آنٹی نے‬
‫اپنے دونوں کانوں کو ہاتھ لگاتے ہوئے کہا ۔۔‬
‫نہ بھائی صاحب نا ں ۔۔ ۔۔۔ جب سے امجد کے ابا‬
‫نے مجھے موٹر سائیکل سے گرایا تھا اس کے‬
‫میں نے دوبارہ موٹر سائیکل پر‬ ‫بعد سے‬
‫بیٹھنے سے توبہ کر لی ہے۔آنٹی کی بات سن کر‬
‫چوہدری ہنستے ہوئے بوال ۔۔۔۔۔ میرا بھائی اناڑی‬
‫بندہ تھا جبکہ یہ بچہ (میری طرف اشارہ کرتے‬
‫ہوئے) بہت اچھی موٹر سائیکل چال لیتا ہے‬
‫چوہدری کی بات سن کر آنٹی نے فٹ سے جواب‬
‫دیا ۔۔۔ یہ منڈا بائیک اچھا چالئے یا برا ۔۔۔ چاہے‬
‫کچھ بھی ہو جائے ۔۔۔میں نے تو مر کر بھی‬
‫بائیک کی سواری نہیں کرنی پھر چوہدری کی‬
‫طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔ ایک دفعہ جو اپنا‬
‫میرے لیئے وہی کافی‬ ‫بازو تڑوا چکی ہوں‬
‫ہے ۔۔۔ اس لیئے میں تو کسی صورت بھی موٹر‬
‫گی ۔۔۔۔۔آنٹی کا دوٹوک‬ ‫سائیکل پر نہیں بیٹھوں‬
‫جواب سن کر چوہدری ہنستے ہوئے بوال۔۔۔ چل‬
‫تیری مرضی پھر ایسا کرتے ہیں کہ صبع میں‬
‫پکی سڑک‬ ‫جیجے سے کہہ دوں گا وہ تم کو‬
‫تک لے جائے گا آگے تم بس میں بیٹھ کر چلی‬
‫جانا۔۔۔ پھر کچھ توقف کے بعد کہنے لگا۔۔۔۔ ایسا‬
‫کرنا کہ تم اپنے ساتھ مہرو کو لے جاؤ ۔۔۔تائے‬
‫کی بات سن کر مہرو اپنے کانوں کو ہاتھ لگا کر‬
‫بولی ۔۔۔ نہ تایا جی نا۔۔۔ میں نے امی کے ساتھ‬
‫نہیں جانا۔اس‬ ‫ان ڈربے والی بسوں میں ہرگز‬
‫کے بعد چوہدری نے باری باری تائی اور مینا سے‬
‫بھی یہی بات پوچھی۔۔۔ لیکن جب باری باری‬
‫سب نے جانے سے انکار کر دیا ۔تو آنٹی کو‬
‫غصہ آ گیا ۔۔ اور وہ ترش لہجے میں کہنے لگی‬
‫نہیں جانا تو نہ جاؤ‬ ‫تم لوگوں نے میرے ساتھ‬
‫۔۔۔ مجھے بشیراں کے گھر کا راستہ آتا ہے‬
‫اورمیں اکیلی بھی جا سکتی ہوں اس پر چوہدری‬
‫سنجیدہ ہوتے ہوئے بوال ۔۔۔ نہ کڑیئے ۔۔۔۔ تم اکیلی‬
‫کہیں نہیں جاؤ گی ایسا کرو اپنے ساتھ اس منڈے‬
‫کو لے جاؤ۔۔۔۔۔ چوہدری کی بات سن کر آنٹی نے‬
‫ایک نظر میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کیوں بیٹا ۔۔۔کیا تم میرے ساتھ جانے کو تیار ہو؟‬
‫مرتا کیا نہ کرتا ۔۔۔ میں نے ہاں میں سر ہال دیا حاالنکہ‬
‫میرا خیال تھا کہ آنٹی اور مہرو چلی جاتیں تو‬
‫پیچھے میں نے نوراں کے ساتھ موج مستی‬
‫کرنی تھی۔۔۔۔لیکن یہ نہ تھی ہماری قسمت۔۔۔۔اگلی‬
‫صبع میں بعد از ناشتہ تیار ہو کر اپنے کمرے‬
‫ناول پڑھ رہا تھا کہ اتنے میں‬ ‫میں بیٹھا‬
‫چوہدری شیر بھی اپنے کھیتوں سے ہو کر گھر آ‬
‫گیا۔۔اور آتے ساتھ ہی مجھ سے بوال ۔۔۔ کیوں منڈیا‬
‫جانے کے لیئے تیار ہو؟ تو میں نے اثبات میں‬
‫سر ہال دیا ۔۔۔اس کے بعد وہ وہیں بیٹھ کر‬
‫میرے ساتھ گپ شپ لگانے لگا ۔۔۔ کچھ ہی دیر‬
‫بعد عزیز بھی گھر پر پہنچ گیا اور چوہدری‬
‫کے پاس آکر کہنے لگا۔۔۔ چوہدری صاحب ٹانگہ‬
‫تیار ہے۔۔۔عزیز کی بات سن کر چوہدری نے میری‬
‫طرف دیکھا اور بوال ۔۔۔ بیٹا جا کے صائقہ کو‬
‫کی بات سن‬ ‫بتا آؤ کہ ۔۔۔ ٹانگہ تیار ہے ۔۔چوہدری‬
‫کر میں پلنگ سے اُٹھا اور آنٹی کے کمرے کی طرف‬
‫جانے لگا جبکہ عزیز اور چوہدری میرے کمرے‬
‫میں بیٹھ کر گپیں لگا رہے تھے ۔۔۔ کمرے سے‬
‫دشمن جاں یعنی کہ نوراں‬
‫ِ‬ ‫باہر نکال تو سامنے ہی ۔۔۔۔‬
‫آپا بیٹھی ہوئی تھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫مجھے کل شام واال منظر یاد آ گیا ۔۔۔ میری نظریں‬
‫تو اسی کی طرف لگی ہوئیں تھیں لیکن مجال ہے‬
‫آنکھ اُٹھا‬ ‫نے ایک دفعہ بھی‬ ‫جو اس کافر ہ‬
‫کر میری طرف دیکھا ہو ۔۔۔ میں اسی کے خیالوں‬
‫میں کھویا ہوا صائقہ آنٹی کے کمرے پر پہنچ گیا‬
‫تو وہ ادھ کھال تھا جس کا میں نے کوئی خیال‬
‫نہیں کیا اور دروازہ کھول کر اندر داخل ہو گیا۔۔۔۔۔۔‬
‫دروازے میں داخل ہوتے ہی میری نظر سامنے‬
‫پڑی تو۔۔۔۔۔ میرے چودہ طبق روشن ہو گئے‬
‫کیونکہ میرے سامنے صائقہ آنٹی کھڑی تھیں‬
‫اس وقت انہوں نے صرف شلوار پہنی ہوئی تھی اور‬
‫ان کا اوپری جسم یعنی کے مم ے بلکل ننگے تھے‬
‫ہاتھ میں ٹالکم پوڈر پکڑا‬ ‫اور ان کے ایک‬
‫تھا اور وہ شیشے کے سامنے کھڑی اپنے‬ ‫ہوا‬
‫مموں پر وہ خوشبودار پوڈر چھڑک رہیں تھیں ۔۔۔‬
‫جیسے ہی میری نظروں نے ان کا ننگا بدن دیکھا‬
‫سن ہو کر رہ‬
‫۔۔۔۔ تو ایک لمحے کے لیئے میں تو ُ‬
‫گیا۔۔اور بے وقفوں کی طرح آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر ان‬
‫کو دیکھنے لگا۔۔۔جبکہ دوسری طرف مجھے اندر‬
‫گئیں ۔۔۔۔ اور جلدی‬ ‫دیکھ کر وہ چونک‬ ‫آتا‬
‫چھاتیوں پر رکھ‬ ‫سے اپنے دونوں ہاتھ اپنی‬
‫لیئے۔۔۔۔ ۔۔۔ انہیں دیکھ کر میں شرمندگی اور‬
‫۔۔۔۔بوکھالہٹ کے انداز میں ان سے بوال۔۔۔ وہ جی‬
‫وہ۔۔۔ ٹانگے واال آ گیا ہے اور پھر ان کا‬
‫واپس بھاگ گیا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔ اور دل‬ ‫جواب سنے بغیر‬
‫ہی د ل میں سوچنے لگا کہ واہ کیا شاندار چھاتیاں‬
‫تھیں۔۔۔جب میں کمرے میں پہنچا تو مجھے‬
‫پتر‬ ‫دیکھ کر چوہدری کہنے لگا۔۔۔۔ بتا آئے ہو‬
‫؟ تو میں نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا جی‬
‫ہاں۔۔۔۔ وہ تیار ہو کر آ رہی ہیں تو میری بات‬
‫سن کر چوہدری کہنے لگا۔۔۔ مطبل ابھی ایک گھنٹہ‬
‫وہ‬ ‫کرنا پڑے گا ۔۔۔ اس کے بعد‬ ‫مزید انتظار‬
‫اونچی آواز میں کہنے لگا۔۔ نوراں پتر ۔۔۔ چاچے‬
‫کے لیئے چائے تو بنا لو ۔۔ لیکن شاید نوراں‬
‫ایک دو بار‬ ‫نے ان کی بات نہیں سنی اس لیئے‬
‫میری طرف دیکھ کر‬ ‫کے بعد۔۔۔۔وہ‬ ‫آواز دینے‬
‫کہنے لگا ۔۔۔پترا زرا جا کے نوراں سے چاچے‬
‫کے لیئے چائے کا تو کہہ آؤ ۔۔ چوہدری کی بات‬
‫سن کر میں باہر نکال اور سیدھا اس حسن کی‬
‫دیوی کے پاس جا پہنچا ۔۔۔اور اسے چاچے کا‬
‫پیغام دے دیا ۔۔میری بات سن کر وہ سر ہال کر‬
‫دھیرے سے بولی۔۔۔چاچی کے ساتھ نہ جاؤ نا ؟ تو‬
‫اس پر میں نے بھی دھیمی آواز میں اسے جواب‬
‫دیتے ہوئے کہا۔۔۔ میں کوئی شوق سے تو نہیں‬
‫بلکہ ۔۔۔مجبوری سے جا رہا ہوں۔۔۔ تو وہ کہنے‬
‫لگی۔۔۔ جلدی آنے کی کوشش کرنا ۔۔کچھ دیر بعد نوراں‬
‫ہاتھ میں چائے کی پیالی پکڑے کمرے میں داخل‬
‫ہوئی ۔۔ تو چوہدری اس سے کہنے لگا۔۔۔ کہ پتر یہ‬
‫باقی کی خواتین کہاں ہیں ؟ آس پاس کوئی نظر‬
‫نہیں آ رہی ۔۔تو نوراں نے مسکرا کر جواب دیتے‬
‫ہوئے کہا کہ چاچی کے ساتھ جانے کے خوف‬
‫سے ساری خواتین تڑکے ہی ڈیرے پر چلی گئیں‬
‫تھیں ۔۔۔۔نوراں کی بات سن کر چوہدری نے ایک‬
‫فرمائشی سا قہقہہ لگایا اور کہنے لگا۔۔۔ تبھی میں‬
‫بھی کہوں ۔۔۔۔کہ آخر صبع صبع یہ ساری زنانیاں‬
‫کہاں چلیں گئیں ؟؟۔۔۔۔عزیز کے چائے پینے کے کافی‬
‫دیر بعد بھی جب آنٹی باہر نہ آئیں تو ایک دفعہ‬
‫پھر سے چوہدری مجھ سے کہنے لگا۔۔۔۔جا پتر‬
‫اسے کہو کہ جلدی آئے۔۔۔ چوہدری کی بات سن کر‬
‫میں دھڑکتے دل کے ساتھ‬ ‫نا چاہتے ہوئے بھی‬
‫پھر سے کمرے کی طرف جانے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے‬
‫دروازے کے قریب پہنچا ۔۔۔۔تو آگے سے‬ ‫ہی میں‬
‫آنٹی آتی ہوئی دکھائی دی۔۔۔ مجھ دیکھ کر‬
‫کہنے لگیں۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ چلو چلیں۔۔۔۔۔۔۔۔ آنٹی جس وقت‬
‫اپنے کندھے پر پرس لٹکا کر باہر نکل رہی‬
‫تھی ۔۔۔۔۔۔۔تو اس وقت چوہدری شیر اور عزیز باہر‬
‫کھڑے ہو کر ہمارے ہی انتظار کر رہے تھے۔۔۔۔ آنٹی‬
‫کی سج دھج دیکھ کر واضع طور پر چوہدری‬
‫کی آنکھوں میں ۔۔۔۔ میں نے ایک لمحے کے لیئے‬
‫ستائیش اور ایک خاص قسم کی چمک دیکھی‬
‫۔۔۔۔ پھر اگلے ہی لمحے اس کی آنکھیں سپاٹ ہو‬
‫گئیں اور وہ آنٹی کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔ ۔۔۔۔ جلدی کرو لیٹ ہو رہے ہو۔۔۔۔۔۔تو‬
‫آنٹی جواب دیتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔کوئی گل‬
‫نہیں بھائی جان ہم نے کون سا گڈی چڑھنا‬
‫ہے۔۔۔اور پھر ہم چلتے ہوئے گلی سے باہر کھڑے‬
‫تانگے کے پاس پہنچ گئے۔۔۔ آنٹی تانگے کی اگلی‬
‫سیٹ اور میں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔ جب عزیز‬
‫نے ہمیں پکی سڑک پر اتارا ۔۔۔ تو‬ ‫والے‬ ‫ٹانگے‬
‫سامنے سٹاپ پر کافی لوگ کھڑے بس کا انتظار‬
‫بھی ان لوگوں‬ ‫کر رہے تھے ‪ -‬آنٹی اور میں‬
‫سے تھوڑا ہٹ کر ایک طرف کھڑے ہو گئے۔۔۔میں‬
‫بنا ناک کیئے آنٹی کے کمرے میں‬ ‫چونکہ صبع‬
‫وہاں پر آنٹی کی خوبصورت‬ ‫چال گیا تھا ۔۔۔۔اور‬
‫چھاتیوں کو ننگا دیکھ لیا تھا ۔۔ ۔۔۔۔۔ اس لیئے دل‬
‫میں چور ہونے کی وجہ سے میں آنٹی سے نظریں‬
‫نہیں رہا تھا اور ان سے کوئی بات کیئے بغیر‬
‫مسلسل دوسری طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔میری اس‬
‫حرکت کو آنٹی نے بھی محسوس کر لیا تھا اسی‬
‫لیئے انہوں نے آواز دے کر مجھے اپنے پاس‬
‫بال یا ۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔ کیا بات ہے تم کچھ‬
‫پریشان سے نظر آ رہے ہو۔۔۔تو میں نے نگاہیں‬
‫کیے ان سے کہا ۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں‬ ‫نیچ‬
‫آنٹی ۔۔۔۔تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے‬
‫لگیں اگر ایسی بات نہیں ہے تو یہ تمہارے چہرے‬
‫پر بارہ کیوں بج رہے ہیں؟ اور پھر بات کو جاری‬
‫ہوئے کہنے لگی۔۔۔ بولو نہ کیا بات ہے؟‬ ‫رکھتے‬
‫ان کی بات سن کر میں نے ایک پھیکی سی‬
‫مسکراہٹ سے ان کی طرف دیکھا اور کہنے‬
‫لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ ۔۔وہ اصل میں نے صبع مجھ سے‬
‫غلطی ہو گئی تھی اور میں بنا ناک کیئے آپ‬
‫کے کمرے میں چال گیا تھا ۔۔اس لیئے۔۔۔ تو وہ‬
‫میری بات کو کاٹ کر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔اچھا تو‬
‫لگی‬ ‫یہ بات ہے ۔۔۔ابھی وہ مزید کچھ کہنے ہی‬
‫تھیں کہ دور سے بس آتی ہوئی دکھائی دی۔۔۔۔ تو‬
‫وہ بس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ تیاری پکڑ‬
‫لو ۔۔۔ اتنی دیر میں ۔۔۔۔عین ہمارے سامنے آ کر بس‬
‫رک گئی ۔۔۔ اتفاق سے اس میں اترنے والی کوئی‬
‫رکتے ہی‬ ‫سورای نہ تھی اس لیئے بس کے‬
‫آنٹی نے اس کی سیڑھی کے ساتھ واال پائپ پکڑا‬
‫اور اندر داخل ہو گئی ان کے پیچھے پیچھے میں‬
‫بھی بس میں داخل ہو گیا ۔۔ اندر جا کر دیکھا تو‬
‫پہلے سے ہی ایک جم غفیر بس میں موجود تھا‬
‫۔۔۔۔ اور ابھی اور لوگ بھی بس میں سوار ہو رہے‬
‫تھے چونکہ میرے آگے آنٹی کھڑی تھیں اس لیئے‬
‫باجی تھوڑا‬ ‫کنڈکٹر ان سے مخاطب ہو کر بوال۔‬
‫آگے آ جاؤ کہ باقی کے لوگ بھی بس میں سوار ہو‬
‫سکیں تو اس پر آنٹی نے جل کر جواب دیتے‬
‫ہوئے کہا آگے کون سی جگہ ہے جہاں پر میں‬
‫آؤں ؟ ابھی آنٹی نے اتنی ہی بات کی تھی کہ‬
‫اچانک پیچھے سے مجھے ایک دھکا لگا‬
‫اور میں اچھل کر آگے کو کھسک گیا۔۔۔ میرے آگے‬
‫چونکہ صائقہ آنٹی کھڑی تھیں اس لیئے دھکا‬
‫لگنے کی وجہ سے میں ان کے ساتھ جا‬
‫لگا۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنے ساتھ لگتے دیکھ کر آنٹی‬
‫نے بس ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر‬
‫کھسک گئی۔۔۔ لیکن چونکہ‬ ‫تھوڑا آگے کو‬
‫پیچھے سے لوگ مسلسل مجھے آگے کو دھکیل‬
‫رہے تھے اس لیئے نا چاہتے ہوئے بھی میں آنٹی‬
‫کے ساتھ بلکل ُجڑ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔اور آنٹی کے‬
‫بلکل ساتھ ُجڑ کے کھڑے ہونے کی وجہ سے‬
‫۔۔۔ آنٹی کی شاندار گانڈ بلکل میرے ۔۔۔۔آگے والے‬
‫حصے کے ساتھ لگ گئی۔۔۔۔۔۔۔میرے اس طرح‬
‫کھڑے ہونے سے ۔۔۔۔ وہی ہوا۔۔۔۔۔ کہ جس کا‬
‫مجھے ڈر تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنٹی کی شاندار گانڈ کا لمس پا‬
‫کر میرے ۔بدتمیز۔۔۔ناہنجار ۔۔۔نافرمان ۔۔پپو ۔۔۔۔۔ نے ایک‬
‫انگڑائی لی ۔۔۔۔۔اور میرے الکھ منع کرنے کے‬
‫بھی ان کی شاندار گانڈ سے۔۔۔ میرا۔۔۔۔‬ ‫باوجود‬
‫پپو میاں۔۔۔۔ ٹچ ہونے ہی واال تھا کہ ۔۔۔ میں ڈر‬
‫مجھے اور‬ ‫گیا ۔۔۔۔اور اس وقت ڈر کے مارے‬
‫تو کچھ نہ سوجھا ۔۔۔۔۔ اور میں نے لن کو آنٹی‬
‫جھٹ سے‬ ‫کی گانڈ کے ٹچ سے بچانے کے لیئے‬
‫اپنا ایک ہاتھ آگے بڑھا کر ۔۔۔ لن کے آگے رکھ‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔اتنے میں پیچھے سے ایک اور دھکا لگا اور‬
‫اب میرا ہاتھ آنٹی کی گانڈ کے ساتھ ٹچ ہو گیا۔۔۔۔۔‬
‫میرے ہاتھ کا آنٹی کی گانڈ سے ٹچ ہونے کی‬
‫دیرتھی کہ اچانک آنٹی نے ُمڑ کر ایک نظر میری‬
‫طرف اور پھر ۔۔۔۔۔۔۔۔ نیچے میرے ہاتھ کی طرف‬
‫دیکھا ۔۔۔۔۔ان کے اس طرح دیکھنے سے میں‬
‫نے۔۔۔۔شرم اور ڈر کی وجہ سے تھوڑا پیچھے‬
‫کھسکنے کی کوشش کی لیکن۔۔۔بے‬ ‫کی طرف‬
‫سود۔۔۔۔میں جتنا پیچھے ہو نے کی کوشش کرتا ۔۔۔۔‬
‫جس‬ ‫دھکے سے اور آگے ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔‬
‫کی وجہ سے میرے ہاتھ کی پشت آنٹی کی گانڈ‬
‫میں ک ُھب سی گئی تھی۔۔۔۔۔ ایسا ہوتے ہی آنٹی نے‬
‫ایک بار پھر سے ُمڑ کر میری طرف دیکھا اور‬
‫قبل اس کے کہ وہ کچھ کہتیں ۔۔۔۔۔ اچانک ان کی‬
‫ساتھ والی سیٹ پر بیٹھی ہوئی مائی یہ کہتے‬
‫ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئی کہ ۔۔۔۔ آپ بیٹھ جاؤ میں‬
‫نے اگلے سٹاپ پر اترنا ہے۔۔۔اس مائی کی بات سن‬
‫کر آنٹی جلدی سے آگے بڑھیں ۔۔۔ اور تھوڑی سی‬
‫دھکم پیل کے بعد سیٹ پر جا کر بیٹھ گئیں یہ دیکھ‬
‫کر میں نے بھی شکر ادا کیا اور سیدھا کھڑا ہو‬
‫گیا۔۔۔۔۔تھوڑی دیر بعد بس ایک سٹاپ پر رکی ۔اور‬
‫جم غفیر بس میں سوار‬
‫پہلے کی طرح پھر سے ایک ِ‬
‫ہو گیا ۔۔۔اس دفعہ غضب یہ ہو ا کہ اس دفعہ کی‬
‫دھکم پیل کے بعد میرے سامنے ایک پہلوان نما‬
‫عورت کھڑی ہو گئی۔۔۔۔۔جس کے ساتھ ٹچ ہونے‬
‫کے ڈر سے میں نے جلدی سے اپنا ُرخ تبدیل‬
‫کر لیا ۔۔۔۔اور تھوڑی سی کوشش کے بعد میں‬
‫آنٹی کی طرف منہ کر کے کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ اسی‬
‫دوران مجھے ایک دھکا لگا اور میں کھسک کر‬
‫آنٹی کی سیٹ کے بلکل ساتھ ُجڑ کر کھڑا ہو گیا‬
‫۔۔۔۔۔ اور تبھی مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا‬
‫کیونکہ سیٹ کے ساتھ ُجڑ کر کھڑے ہونے کی وجہ‬
‫سے میرا فرنٹ آنٹی کے کندھوں کے ساتھ‬
‫بلکل ساتھ لگ گیا تھا ۔۔۔۔ اور مجھے اچھی طرح‬
‫سے معلوم تھا کہ میرا نافرمان ۔۔۔ ناہنجار ۔۔۔۔اور‬
‫پپو ان کی نرم کندھوں کا لمس پا کر‬ ‫بدتمیز‬
‫ضرور کھڑا ہو گا ۔۔۔اس لیئے میں نے دوبارہ‬
‫میں اس‬ ‫سے اپنا ُرخ مڑنا چاہا تو اتفاق سے‬
‫عورت سے جا ٹکرایا۔۔۔ ۔۔۔ جیسے‬ ‫پہلوان نما‬
‫میرا فرنٹ۔۔ اس کی بیک کے ساتھ ٹچ‬ ‫ہی‬
‫ہوا۔۔۔۔۔اس پہلوان نما عورت نے پیچھے ُمڑ کر‬
‫غضب ناک نظروں سے مجھے دیکھا ۔۔۔اور درشت‬
‫لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔ دھیان نال باؤ۔۔۔۔ عجیب‬
‫مصیبت تھی ۔۔۔۔اگر میں سیدھا کھڑا ہوتا تو میرے‬
‫پہلوان نما عورت‬ ‫اس‬ ‫ناہنجار پپو نے الزما ً‬
‫کی بیک سے ٹچ ہونا تھا اور اگر اسی حالت‬
‫میں رہتا تو ۔۔تو اس کم بخت نے آنٹی کے کندھوں‬
‫کو جا لگنا تھا ۔۔۔اب میرے ساتھ آگے کنواں‬
‫اور پیچھے کھائی واال معاملہ بن گیا تھا۔۔اس‬
‫لیئے میں نے کنویں (پہلوان نما عورت) کو‬
‫چھوڑ ۔۔۔۔ کھائی ۔۔۔۔۔۔۔میں ہی گرنے کا فیصلہ کیا ۔۔۔‬
‫اور شرافت سے آنٹی کی طرف منہ کیئے کھڑا‬
‫رہا۔۔۔۔ادھر بس کے ہچکولوں کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔۔ میرا‬
‫فرنٹ بار بار آنٹی کے کندھوں کے ساتھ مس ہو‬
‫رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اگلے چند ہی سیکنڈ ز کے‬
‫بعد ۔۔۔۔۔۔۔ میرے منت ترلوں کے باوجود بھی۔۔۔۔ پپو‬
‫میاں نے ایک بھر پور انگڑائی لی۔۔۔۔۔۔اور آہستہ‬
‫آہستہ کھڑا ہونا شروع کر دیا۔۔۔ادھر میں اس وقت کو‬
‫کوس رہا تھا کہ جب میں شلوار قمیض پہن کر آنٹی‬
‫کے ساتھ آیا تھا ۔۔۔۔اگر اس وقت میں نے شلوار‬
‫قمیض کی جگہ پینٹ شرٹ پہنی ہوتی تو‬
‫ت حال کو کنٹرول کرنا کوئی‬
‫میرے لیئے اس صور ِ‬
‫خاص مشکل نہ تھا۔۔۔ لیکن اب پچھتائے کیا ہوت‬
‫۔۔۔۔۔۔۔ اسی دوران وہی ہوا کہ۔۔۔جس کا ڈر‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔میری منت سماجب کو نظر انداز کرتے ہوئے‬
‫کم بخت پپو جان انگڑائی لے کر کھڑا ہو گیا۔اور‬
‫بس کے اگلے ہچکولے پر ۔۔۔ اس کی نوک آنٹی‬
‫ٹچ ہو گئی۔۔۔ جیسے‬ ‫کے نازک کندھے کے ساتھ‬
‫ہی میرے پپو کی نوک آنٹی کے کندھے سے‬
‫لگی۔۔۔انہوں نے چونک کر ایک نظر میری طرف۔۔۔۔۔‬
‫اور دوسری نظر ۔۔۔۔۔میری شلوار کے آگے ٹینٹ بنے‬
‫۔۔۔۔۔۔۔ پپو کی طر ف۔۔۔پھر بڑی ہی عجیب نظروں‬
‫میری آنکھوں میں آنکھیں ۔۔۔ڈال کر دیکھا۔۔۔۔‬ ‫سے‬
‫ان کے اس طرح دیکھنے سے میں نے خود کو‬
‫کوستے ہوئے کہا ۔۔۔ مر گئے بھائی۔۔ ۔۔۔ کیونکہ آج‬
‫صبع سے یہ میری تیسری غلطی تھی پہلی غلطی‬
‫دیکھنا تھی۔۔۔ اس کے‬ ‫ان کی ننگی چھاتیوں کو‬
‫بعد دوسری غلطی ۔۔۔۔ان کی گانڈ پر ہاتھ لگانا ۔۔ا۔ور‬
‫اب تیسری اور بھاری غلطی۔۔۔ان کے کندھے پر لن‬
‫رگڑنا تھی۔۔۔۔۔‬

‫ابھی میں اسی سوچ و بچار میں گم تھا کہ ۔۔۔۔۔‬


‫دونوں ہاتھ اپنے سینے پر‬ ‫اچانک ہی آنٹی نے‬
‫باندھے اور سر کو نیچے جھکا دیا ۔۔۔۔۔۔پھر کچھ‬
‫انہوں نے سر جھکائے ہوئے۔۔۔۔اپنے‬ ‫دیر کے بعد‬
‫بائیں بازو کو اوپر اُٹھایا۔۔جس کی وجہ سے ان‬
‫کی بغل اور بازو کے درمیان ایک گیپ سا بن گیا۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔دھیرے دھیرے اپنے‬ ‫اس کے بعد آنٹی نے‬
‫سے ۔۔‬ ‫آگے بڑھا کر اس گیپ‬ ‫دائیں ہاتھ کو‬
‫گزار۔۔۔کر ۔۔۔اپنی انگلیوں کی مدد سے میرے لن‬
‫کے اگلے حصے کو ٹٹوال۔۔۔۔۔۔۔ پھر بڑی آہستگی‬
‫انگلیوں کو میرے ٹوپے پر‬ ‫کے ساتھ اپنی‬
‫کر دیا۔۔۔۔۔۔۔میں آنٹی کی یہ حرکت‬ ‫پھیرنا شروع‬
‫دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا ۔۔۔اور حیرت سے میری‬
‫آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئین ۔۔لیکن دوسری طرف‬
‫میری حیرت سے بے نیاز ۔۔۔۔۔۔۔آنٹی مسلسل میرے‬
‫لن کے ہیڈ پر اپنی مخروطی انگلیاں پھیر رہیں‬
‫یہ ہے کہ اس وقت‬ ‫تھیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور سچی بات‬
‫مجھے مزہ‬ ‫مزے دار حرکت پر‬ ‫آنٹی کی اس‬
‫بھی مل رہا تھا۔۔۔۔۔۔دیکھنے والوں کے لیئے تو‬
‫آنٹی دونوں ہاتھ سینے پر رکھے بظاہر سو رہی‬
‫تھی ۔۔۔۔۔ لیکن یہ بات صرف مجھے ہی معلوم تھی‬
‫کہ بظاہر سوتی ہوئی نظر والی اس آنٹی نے‬
‫اپنے ہاتھ میں میرے لن کو پکڑ رکھا ہے‬
‫کافی دیر تک وہ میرے لن کو اپنے ہاتھ میں‬
‫سہالتی رہی۔۔۔۔۔پھر جب کنڈکٹر نے‬ ‫پکڑکر‬
‫سیدھی ہو‬ ‫ہمارے سٹاپ کی اناؤنسمنٹ کی تو وہ‬
‫پھر اپنی سیٹ سے اُٹھتے‬ ‫کر بیٹھ گئیں۔۔اور‬
‫ہوئے بولیں ۔۔۔۔۔۔ ہمارا سٹاپ آ رہا ہے دروازے کی‬
‫طرف چلو۔۔۔۔۔ اور پھر بس رکنے پر کسی نہ‬
‫کسی طرح ہم دروازے تک پہنچ گئے ۔۔۔ بس سے‬
‫بے نیازی سے بولیں‬ ‫ہی نیچے اتر کر وہ بڑی‬
‫کہ ۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے سامنے والی گلی میں جانا ہے۔۔۔۔۔‬
‫وہاں جا کر انہوں نے ایک دروازے پر دستک دی‬
‫تو اندر سے ایک بزرگ عورت نے دروازہ کھوال‬
‫۔۔۔۔۔آنٹی کو دیکھتے ہی اس نے خوشی سے‬
‫ایک نعرہ مارا۔۔۔۔۔۔۔ نی صائقہ توں؟ اور پھر آنٹی‬
‫کے ساتھ گلے لگ گئی۔۔اور ہمیں اندر آنے کو کہا‬
‫۔۔۔ یہ ماسی بشیراں کی والدہ تھی پھر اس نے‬
‫پوچھنے پر بتال یا کہ اس کی بیٹی بشیربی بی۔۔۔۔۔‬
‫کے سسرال میں کوئی فوت ہو گیا تھا اس لیئے‬
‫کچھ دیر پہلے ہی وہ اپنے سسرالی گاؤں جانے‬
‫کے لیئے گھر سے نکلی ہے ہر چند کہ اس بزرگ‬
‫کے منہ سے یہ بات سن کر آنٹی خاصی مایوس‬
‫ہوئی۔۔۔۔لیکن اس کے باوجود بھی انہوں نے بڑے‬
‫طریقے سے امجد کے بارے میں پوچھ گچھ‬
‫کی ۔۔۔۔ تو معلوم ہوا کہ باقی لوگوں کی طرح انہیں‬
‫بھی امجد کے بارے میں کچھ معلوم نہ تھا‬
‫۔۔۔ایک آدھ گھنٹے تک وہاں بیٹھنے کے بعد ۔۔۔۔‬
‫آنٹی نے ان سے اجازت لی اور پھر آنٹی مجھے‬
‫ساتھ لیئے ایک دو اور گھروں میں بظاہر تو‬
‫ان سے ملنے لیکن درپردہ امجد کی سن گن‬
‫لینے گئی تھی۔۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس‬
‫دوران انہوں نے بھولے سے بھی ۔۔۔۔۔ بس والے‬
‫واقعہ کا کوئی ذکر نہیں کیا ۔۔۔اور نہ ہی میں نے‬
‫اس بارے ان سے کسی قسم کی گفتگو کرنے کی‬
‫کوشش کی۔۔۔۔خیر کوئی تین چار گھنٹے تک ادھر‬
‫ادھر پھرنے اور مختلف گھروں سے معلومات‬
‫لینے کے بعد۔۔۔۔ ہم نے واپسی کا قصد کیا۔۔۔۔‬

‫جب ہم پکی سڑک جانے کے لیئے الری اڈے پر‬


‫پہنچے تو اس وقت اتفاق سے سکولوں کو چھٹی‬
‫ہو گئی تھی اور الری اڈے پر ملیشاء کی وردی پہنے‬
‫بہت سے لڑکے کھڑے تھے ۔۔۔۔۔۔۔ اسی دوران‬
‫پیچھے سے ایک بس آتی دکھائی دی تو آنٹی نے‬
‫مجھے ہوشیار کرنے کے بعد خود بھی بس میں‬
‫چڑھنے کے لیئے تیار ہو گئیں ۔۔۔۔۔ جیسے ہی بس‬
‫رکی تو کنڈکٹر نے ہانک لگائی کہ سارے‬
‫سٹوڈنٹ چھت پر چلے جاؤ ۔۔۔۔ جبکہ میں اور آنٹی‬
‫ب معمول بس پیک تھی‬
‫بس میں سوار ہو گئے۔۔۔ حس ِ‬
‫اور صبع کی نسبت اس وقت بس میں زیادہ تعداد‬
‫سٹوڈنٹس کی تھی۔۔۔۔۔۔۔ بس میں سیٹ نہ ہونے کی‬
‫وجہ سے ہم دونوں بس کی گیلری میں سیلنگ‬
‫والے ڈنڈے کو پکڑ کر کھڑے ہو گئے ۔۔۔۔ابھی ہم‬
‫کہ اچانک ایک‬ ‫بس میں کھڑے ہی ہوئے تھے‬
‫بہت سارے سٹوڈنٹنس بس میں سوار ہو‬ ‫ساتھ‬
‫گئے۔۔۔ اور پھر جیسے ہی بس چلی۔۔۔ میں جو‬
‫آنٹی کے عین پیچھے کھڑا تھا ایک زبردست‬
‫لگنے کی وجہ سے کھسکتا ہوا‬ ‫دھکا‬
‫دوسری طرف چال گیا ۔۔۔اور میں نے ُمڑ کر‬
‫جگہ آنٹی کے پیچھے‬ ‫اب میری‬ ‫دیکھا تو‬
‫ملیشاء کی وردی پہنے ایک اور لڑکا کھڑا تھا۔۔۔۔‬
‫اور میں نے دیکھا کہ کچھ دیر بعد اگلے‬
‫ہچکولے کے بعد وہ لڑکا کھسک کر عین آنٹی کے‬
‫پیچھے کھڑا ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔جیسے ہی وہ لڑکا‬
‫آنٹی کے پیچھے کھڑا ہوا ۔۔۔۔ تو اس نے فوراً‬
‫ہی اپنے فرنٹ کو آنٹی کی بیک کے ساتھ‬
‫جوڑ دیا تھا۔۔۔۔۔ دوسری طرف میرے خیال میں‬
‫آنٹی یہ سمجھی کہ ان کے پیچھے میں ہوں اس‬
‫لیئے انہوں نے بڑے آرام سے اپنی گانڈ کو‬
‫اس لڑکے کے ساتھ لگا رہنے دیا۔۔۔جب اس‬
‫لڑکے نے یہ دیکھا کہ اس کے آگے والی آنٹی‬
‫جوڑ‬ ‫اپنی گانڈ کو خود ہی اس کے لن کے ساتھ‬
‫ہے تو وہ شیر ہو گیا۔۔۔۔اور پھر میرے‬ ‫رہی‬
‫دیکھتے ہی دیکھتے اس کی شلوار میں تنبو بن‬
‫گیا۔۔۔اور پھر اس نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے‬
‫اپنی قمیض کو ایک سائیڈ پر کر لیا ۔۔۔۔۔۔اور بس‬
‫کے اگلے ہچکولے ۔۔۔۔۔پر اس نے اپنے لن کو‬
‫آنٹی کی گانڈ کی دراڑ میں پھنسا لیا۔۔۔ اب میری‬
‫پوزیشن یہ تھی کہ میں اس لڑکے سے ایک فٹ‬
‫حسرت ا س منظر‬ ‫کے فاصلے پر کھڑا بصد‬
‫بس میں اس‬ ‫رہا تھا ۔۔لیکن‬ ‫کو دیکھ کر جل‬
‫قدر زیادہ رش اور ہڑبونگ مچی ہوئی تھی کہ‬
‫نہ کر سکتا‬ ‫بھی میں کچھ‬ ‫چاہنے کے باوجود‬
‫میں نے ایک دو‬ ‫ہے۔۔۔۔ اس کے باوجود بھی‬
‫دفعہ آنٹی کو مخاطب کر کے یہ بتانے کی‬
‫کوشش کی کہ میں ان سے دور کھڑا ہوں ۔۔۔۔‬
‫لیکن شاید شور کی وجہ سے ان کے کانوں تک‬
‫میری آواز نہیں پہنچی تھی۔۔آخری چارے کے طور‬
‫پر میں نے زور لگا کر اس لڑکے کی طر ف‬
‫جانے کی بھی کوشش کی لیکن۔۔۔۔ میں جتنا اس کی‬
‫طرف جانے کی کوشش کرتا رش کی وجہ سے اتنا‬
‫ہی پیچھے ہو جاتا تھا ۔۔۔ آخر تھک ہار کر میں‬
‫چپ ہو گیا ۔۔اور پھر ۔۔۔ آنٹی اور اس نامعلوم لڑکے‬
‫کے درمیان ۔ جاری کھیل کو دیکھنے لگا۔۔۔اور میں‬
‫نے دیکھا کہ اس لڑکا آنٹی کے ساتھ بلکل لگ کر‬
‫اس کا‬ ‫کھڑا ہو گیا تھا جس کی وجہ سے‬
‫سارا لن آنٹی کی بڑی سی گانڈ میں غائب ہو چکا‬
‫تھا ۔۔اور اب وہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑے‬
‫سے آنٹی کی گانڈ میں‬ ‫جوش کے ساتھ‬
‫گھسے مار رہا تھا جبکہ اس کے ساتھ کھڑے دو‬
‫تین لڑکے ایک گھیرا سا بنا کر اس لڑکے کو‬
‫حفاظت بھی فرہم کر رہے تھے اور ساتھ ساتھ‬
‫بڑی دل چسپی کے ساتھ آنٹی اور اس لڑکے کا‬
‫ت‬
‫سیکس سین دیکھ بھی رہے تھے اور یہ صور ِ‬
‫حال دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ کچھ دیر پہلے‬
‫انہی لڑکوں کی وجہ سے میں آنٹی تک نہ پہنچ‬
‫سکا۔۔۔ اور مجھے سمجھ آگئی کہ جیسے ہی میں‬
‫آنٹی کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا تو بڑے‬
‫طریقے کے ساتھ یہی لڑکے مجھے پیچھے کی‬
‫طرف دھکیل دیتے تھے۔۔۔۔۔دوسری طرف آنٹی‬
‫اور اس لڑکے کا سیکس سین جاری تھی ۔۔۔۔۔ اب‬
‫وہ تھوڑا اور آگے بڑھ گیا تھا اور اس کا لن‬
‫تو آنٹی کی شاندار اور موٹی سی گانڈ میں‬
‫پیوست تھا جبکہ ۔۔۔اس کا دوسرا ہاتھ رینگتا ہوا‬
‫آنٹی کے اگلے حصے میں چال گیا تھا واضع‬
‫طور پر اب اس نے ایک ہاتھ آنٹی کی چھاتی‬
‫پر رکھا ہوا تھا اور انہیں پکڑ نے کے ساتھ‬
‫وہ آہستہ آہتہ گھسے بھی‬ ‫ساتھ‬

‫مار رہا تھا۔ میرے لیئے یہ نظارہ بڑا تباہ کن‬


‫مجھے اس بات کا افسوس ہو رہا تھا‬ ‫تھا ۔اور‬
‫جاری‬ ‫۔۔۔۔‬

‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_قسط_نمبر_‪15‬‬
‫آنٹی کی شاندار گانڈ میں۔۔۔ میری بجائے ایک اور‬
‫لڑکے کا لن گھسا ہوا تھا۔‬

‫اس لڑکے کا آنٹی کے ساتھ یہ سیکس سین کافی‬


‫رہا۔۔۔۔ پھر اچانک ہی میں نے‬ ‫دیر تک جاری‬
‫اس لڑکے کو الٹا سیدھا ہوتے دیکھا تو میں‬
‫چھوٹنے واال ہے۔۔۔‬ ‫اب وہ‬ ‫سمجھ گیا کہ‬
‫اس وقت اس کا لن آنٹی کی قمیض سمیت ان کی‬
‫گانڈ میں پیوست تھا ۔۔۔جب اس لڑکے نے ایک‬
‫جھٹکے لینے شروع کر دیئے ۔ آنٹی کی گانڈ‬
‫لڑکا‬ ‫میں لن پھنسائے ۔۔۔۔۔ جیسے ہی وہ‬
‫ہوا ۔۔۔ ۔۔۔۔تو فوری طور‬ ‫مکمل طور پر فارغ‬
‫وہ لڑکا پیچھے ہٹا‬ ‫پیچھے ہٹ گیا۔۔۔جیسے ہی‬
‫ضائع کیئے بغیر ۔۔۔۔ بجلی کی‬ ‫۔۔۔۔۔۔ کوئ وقت‬
‫سی تیزی کے ساتھ اس کے ساتھ کھڑا ہوا ۔۔۔۔۔‬
‫پہلے والے‬ ‫دوسرا لڑکا آگے بڑھا اور عین‬
‫پہلے‬ ‫لڑکے کی جگہ پر کھڑا ہوگیا۔۔۔۔۔اور اب‬
‫کی بجائے ۔۔۔ دوسرے لڑکے کا لن آنٹی کی‬
‫شاندار گانڈ میں پیوست تھا۔۔۔۔۔میرے خیال میں‬
‫شاید آنٹی کو اس ادلہ بدلی کا پتہ بھی نہیں‬
‫چال ہو گا اس کی وجہ یہ تھی کہ جس مہارت‬
‫کے ساتھ ان لڑکوں نے اپنی جگہ تبدیل کی تھی‬
‫اگر میں بھی غور کے ساتھ یہ سین نہ دیکھ رہا‬
‫کا پتہ نہیں‬ ‫ہوتا تو مجھے بھی اس واردات‬
‫چلنا تھا ۔۔۔۔۔میرے خیال میں لڑکوں کا وہ گروہ اس‬
‫کام میں بہت ماہر تھا۔۔۔۔۔ دوسرے لڑکے کو لن‬
‫پھنسائے ابھی تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ‬
‫اچانک کنڈکٹر نے آواز لگائی پکی سڑک والے‬
‫تیار ہو جاؤ ۔۔۔۔ اس کی بات سنتے ہی میں نے‬
‫دیکھا کہ اچانک ہی آنٹی نے ہل ُجل کی ۔۔۔اور آنٹی‬
‫کے اپنی جگہ سے ہلتے ہی اس لڑکے کا‬
‫نکل گیا اور اس کے‬ ‫لن آنٹی کی گانڈ سے باہر‬
‫ساتھ ہی ان لڑکوں نے آنٹی کو راستے دے‬
‫دیا۔آنٹی کے اترتے ہی میں بھی ان لڑکوں پر قہر‬
‫بھری نظر ڈالتے ہوئے بس سے نیچے اتر‬
‫گیا۔۔۔۔ پکی سڑک نامی قصبے میں اترنے والے ہم‬
‫دو ہی مسافر تھے۔۔۔۔ جیسے ہی بس آگے بڑھی‬
‫تو میں نے دیکھا کہ آنٹی کی قمیض کا پچھال حصہ‬
‫ہوا تھا ۔۔۔۔۔ ۔ لیکن‬ ‫اس لڑکے کی منی سے لتھڑا‬
‫میرے خیال میں آنٹی کو اس بات کا پتہ نہیں تھا‬
‫اسی لیئے میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے آنٹی‬
‫کہنے لگیں ۔۔۔بڑے عرصے کے بعد لوکل بس میں‬
‫سواری کر کے مجھے تو بڑا مزہ آیا ہے۔۔۔پھر‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ کیا خیال‬
‫ہے۔۔۔۔ تو اس پر میں نے جل کر کہا ۔۔۔۔ لیکن اس‬
‫مزے نے آپ کی قمیض کو خاصہ خراب کر دیا ہے‬
‫۔۔۔۔ میری بات سن کر آنٹی نے چونک کر اپنا ہاتھ‬
‫پیچھے کیا اور پھر اپنی انگلیوں سے قمیص‬
‫کے پچھلے حصے کو ٹٹولتے ہوئے بولیں ۔۔۔ یہ‬
‫تمہاری حرکت ہے ناں۔۔۔۔تو میں نے نفی میں سر‬
‫ہال کر کہا ۔۔۔ نہیں آنٹی میں تو دور کھڑا تھا۔۔۔۔ میری‬
‫بات سن کر وہ سرخ ہو کر کہنے لگیں ۔۔اوہ۔۔۔‬
‫میں سمجھی یہ تم ہو۔۔۔ پھر بولیں اس طرح تو‬
‫گھر جانا اچھا نہیں چلو ہم بیچ والے راستے‬
‫سے پیدل گھر جاتے ہیں ۔۔۔راستے میں پانی‬
‫دیکھ کر میں اپنی قمیض کو دھو لوں گی۔۔اس‬
‫فیصلے کے تحت گاؤں والی میں روڈ سے ہٹ کر‬
‫پر چل‬ ‫چھوٹی سی پگڈنڈنی‬ ‫ہم دونوں ایک‬
‫بار بار اپنے ہاتھ‬ ‫وہ‬ ‫رہے تھے۔۔۔۔اس دوران‬
‫کو پیچھے کر کے اپنی گیلی قمیض کو چیک کر‬
‫کے میرے خیال میں انجوائے رہیں تھیں۔۔۔پھر‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے ایک ادا سے بولی‬
‫۔۔یار تم نے مجھے بتا ہی دینا تھا ۔۔۔تو میں نے‬
‫ان سےکہا آنٹی جی میں تو بڑی کوشش کی‬
‫لیکن وہ تعداد میں چار پانچ تھے اس لیئے‬
‫انہوں نے میری دال نہیں گلنے دی ۔۔۔ جیسے ہی‬
‫میں آپ کی طرف بڑھنے کی کوشش کرتا تو وہ‬
‫دیتے‬ ‫بڑے طریقے سے مجھے پیچھے دھکیل‬
‫تھے۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگی۔۔۔ میرے‬
‫سین‬ ‫خیال میں تم نے اپنی آنکھوں سے یہ سارا‬
‫بات سن کر میں‬ ‫دیکھا ہو گا۔۔۔ تو ان کی‬
‫شرمندہ سا ہو کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نیچے دیکھنے‬
‫لگا۔۔۔۔۔میری اس بات پر آنٹی چلتے چلتے رک‬
‫گئیں ۔۔۔اور میرے سر کو اوپر اُٹھا کر کہنے لگیں‬
‫۔۔سچ بتاؤ میں ٹھیک کہہ رہی ہوں نا ؟ تو میں‬
‫نے کہہ دیا جی آپ ٹھیک کہہ رہی ہیں ۔۔۔۔۔۔ تو اس‬
‫کے بعد انہوں نے کہا میری طرف دیکھ کر بتاؤ‬
‫۔۔۔کہ یہ سب دیکھتے ہوئے مزہ آیا تھا۔۔۔۔؟ تو چار‬
‫و نا چار ۔۔۔۔ میں نے ان کی طرف دیکھ کر بس اتنا‬
‫کہا ۔۔۔ جی۔۔۔۔ تو وہ میری اس بات کا مزہ لیتے‬
‫سی" جی" سے نہیں‬ ‫ہوئے بولیں۔۔۔۔۔۔ اتی‬
‫بلکہ ٹھیک سے بتاؤ ۔۔۔ کہ تم کو مزہ آیا تھا کہ‬
‫نہیں؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے ان‬
‫سے کہا۔۔۔۔ جی آنٹی یہ سب دیکھتے ہوئے پہلے‬
‫تو بہت غصہ آیا تھا ۔۔۔پھر۔۔۔۔ مجھے کافی مزہ‬
‫رک کر ۔۔۔۔۔میری‬ ‫آیا تھا ۔۔۔تب وہ چلتے چلتے‬
‫طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔بڑے ہی عجیب لہجے‬
‫ہی مزہ‬ ‫ویسا‬ ‫میں کہنے لگیں ۔۔۔کیا۔۔تم بھی‬
‫لینا چاہو گے؟؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟ تو میں کچھ نہ بوال ۔۔۔‬
‫لیکن جب دوسری دفعہ انہوں نے مجھ سے یہی‬
‫سوال کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔۔ کہ۔۔۔جلدی سے جواب دو‬
‫۔۔پھر آس پاس دیکھتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔دیکھ‬
‫لو دن کے اس پہر آس پاس کوئی موجود نہیں ہے‬
‫کہہ رہی‬ ‫تم سے آخری دفعہ‬ ‫۔۔۔۔۔ اس لیئے میں‬
‫ہوں ۔۔۔۔۔کہ اگر تم نے میرے ساتھ ویسا ہی‬
‫کر‬ ‫مزہ لینا ہے تو بولو۔( جی تو میرا بھی یہی‬
‫رہا تھا کہ ابھی اس آنٹی کی بچی کو نیچے‬
‫گرا کر اس پر چڑھ جاؤں اور ۔۔۔چود چود کر اس‬
‫بے حال کر دوں ۔۔۔لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے‬ ‫کو‬
‫اس آنٹی سے ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو‬
‫جائے کہیں ویسا نہ ہو جائے۔۔۔) ۔لیکن ان کے‬
‫بار بار پوچھنے پر آخر میں نے ۔۔ ہاں میں سر ہال‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر آنٹی ایک دم سے سیریس‬
‫ہو کر کہنے لگیں۔۔۔ سنو۔۔۔ میں تم ویسا کیا اس‬
‫سے ہزار گنا زیادہ مزہ دوں گی ۔۔۔۔ لیکن ایک‬
‫شرط پر ۔۔۔تو میں نے ان سے پوچھا ۔۔۔وہ کیا آنٹی‬
‫جی؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ یہ بات تم کسی سے بھی‬
‫نہیں کرو گے ٰ‬
‫حتی کہ اپنے قریبی دوستوں سے‬
‫بھی نہیں۔۔۔تو میں نے بظاہر جھجھک کر کہا ۔۔۔‬
‫جیسا آپ کہیں گی میں ویسا ہی کروں گا۔۔۔ تب انہوں‬
‫نے اپنا ہاتھ آگے بڑھایا اور بولی ۔۔۔۔۔ پکی بات ہے‬
‫نا ۔۔۔تو میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر کہا جی‬
‫ہاں۔۔۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ٹھیک ہے یہاں سے دو تین‬
‫فرالنگ کے فاصلے پر ایک پرانا سا باغ ہے‬
‫جو کہ اب اجڑ چکا ہے وہاں پہنچ کر میں تمہیں‬
‫مزہ دوں گی۔۔جس باغ کے بارے میں آنٹی نے میرے‬
‫ساتھ بات کی تھی وہ آبادی سے کافی ہٹ کر واقعہ‬
‫اس باغ کے آس پاس سرکنڈوں کی‬ ‫تھا کبھی‬
‫باؤنڈری وال لگی ہو گی لیکن اب اس وال کے کچھ‬
‫کچھ آثار باقی تھی ۔۔۔ اس باغ کے آخری کونے میں‬
‫۔۔۔ شہتوت کے گھنے درخت لگے ہوئے تھے ۔۔ان‬
‫درختوں کے پاس مالی کے رہنے کے لیئے ایک‬
‫چھوٹی سی کوٹھری بھی بنی ہوئی تھی جو کہ اب‬
‫گر چکی تھی لیکن اس کوٹھری کے پاس ایک ہینڈ‬
‫پمپ لگا ہوا تھا جو کہ ابھی تک چالو تھا ۔۔۔۔۔ ہم‬
‫دونوں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑی احتیاط کے‬
‫ساتھ گھوم گھما کر اس جگہ پر پہنچے تھے‬
‫وہاں جا کر پہلے تو آنٹی نے اپنی قمیض کو اچھی‬
‫طرح دھویا ۔۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے‬
‫لگی ۔۔۔۔ میرے ساتھ آؤ ۔۔اور پھر مجھے شہتوت‬
‫بڑے سےدرخت کے پا س لے گئی۔۔۔۔اور وہاں جا‬
‫کر درخت کے تنے سے ٹیک لگا کر کھڑی ہو‬
‫گئی۔۔اور میری طرف دیکھنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ جیسے‬
‫پہنچا ۔۔۔تو انہوں نے‬ ‫ہی میں ان کے قریب‬
‫میرے لیئے اپنے بازو کھول دیئے۔۔۔۔ میں سیدھا‬
‫ان کے سینے کے ساتھ جا لگا۔۔۔تو وہ مجھے‬
‫اپنی طرف دباتے ہوئے بڑے ہی گرم لہجے میں کہنے‬
‫لگیں۔۔۔۔۔۔۔ مجھ سے پیار کرو۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ‬
‫ہی انہوں نے اپنے ہونٹوں کو میرے گالوں پر‬
‫رکھ دیا اور مجھے چومنے لگیں۔۔۔۔ اتنی دیر میں‬
‫سے‬ ‫لگتے ہی میرے چھوٹے‬ ‫۔۔۔۔ ان کے ساتھ‬
‫پپو۔۔نے ۔۔ بڑا ہونا شروع کر دیا ۔۔اور پھر جب‬
‫وہ مستی میں آ کر میرے گالوں پر چمی دے رہی‬
‫اپنے جوبن‬ ‫پپو‬ ‫تھیں تو عین اس وقت میرا‬
‫رانوں کے بیچ میں‬ ‫میں آ کر ان ۔۔۔کی دونوں‬
‫چکا تھا ۔۔۔۔ میرے لن کو اپنی رانوں کے‬ ‫پہنچ‬
‫بیچ میں محسوس کرتے ہی انہوں نے ہاتھ‬
‫پکڑ لیا اور پھر مجھے چومتے‬ ‫بڑھا کر اسے‬
‫ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔۔ تم تو چھوٹے سے ہو ۔۔۔‬
‫رکھا ہوا ہے۔۔۔۔‬ ‫لیکن سامان تم نے بہت بڑا‬
‫تو میں نے بھی جوش میں آ کر ان سے کہا۔۔۔۔۔‬
‫آنٹی میرا یہ بڑا ۔۔۔۔۔ آپ کو اچھا لگا ؟؟۔۔۔تو میرے‬
‫لن کو اپنے ہاتھ میں دباتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔ ایسی‬
‫پیاری چیز بھی کسی کو بری ہے۔۔۔۔ پھر انہوں نے‬
‫اپنے ہاتھ سے میرے لن کو چھوڑا اور درخت‬
‫کے تنے کی طرف پشت کر کے کھڑی ہو گئیں اور‬
‫اپنی گیلی قمیض کو اوپر اُٹھا لیا ۔۔۔۔پھر اپنے منہ کو‬
‫پیچھے کی طرف کر کے اپنی گانڈ کی طرف اشارہ‬
‫کر کے کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔۔ بس میں تو کسی اور نے‬
‫اس کے ساتھ مزے کیے ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن اب تم آگے‬
‫بڑھو اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری گانڈ کے ساتھ جیسے مرضی‬
‫مزے کر لو۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے‬ ‫ہے‬
‫اپنی گانڈ کو تھوڑا اور پیچھے کی طرف کر لیا‬
‫جس کی وجہ سے ان کی موٹی گانڈ اور بھی‬
‫کر‬ ‫سامنے آگئی ۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ‬ ‫نمایاں ہو کر‬
‫میں آگے بڑھا۔۔۔۔۔۔ اور اپنے لن کو پکڑ کر ان کی‬
‫بڑی سی گانڈ کی دراڑ میں گھسا دیا۔۔۔۔۔‬
‫واؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔۔۔ان کی گانڈ بہت ہی نرم اور‬
‫۔مالئم تھی ۔۔۔ اور ان کی نرم و مالئم گانڈ کے دونوں‬
‫پٹ میرے لن کے ساتھ جڑے ہوئے تھے۔۔۔۔ آنٹی‬
‫بار بار اپنی ان دونوں پہاڑیوں کو میرے لن کے‬
‫ساتھ اوپن کلوز کر رہیں تھیں۔۔اور ان کے اس‬
‫طرح گانڈ کو کھل بند کرنے سے مجھے بڑا مزہ مل‬
‫رہا تھا کچھ دیر تک ایسا کرنے کے بعد ۔۔۔۔۔اپنی‬
‫گانڈ کو میرے لن پر دباتے ہوئے انہوں نے‬
‫اپنا منہ پیچھے کی طرف کیا اور کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔۔اس کو تھوڑا سا اور آگے کی طرف‬
‫زور لگایا‬ ‫دھکیلو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس پر میں نے تھوڑا‬
‫کے گول‬ ‫تو اب میرے لن کی ٹوپی ان کی گانڈ‬
‫سوراخ کے ساتھ ٹچ ہونا شروع ہو گئی ۔۔۔۔‬
‫جیسے ہی میری ٹوپی ان کے سوراخ کے ساتھ‬
‫گانڈ کو باہر کی‬ ‫ٹچ ہوئی تو انہوں نے اپنی‬
‫طرف تھوڑا اور نکال لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنی گانڈ کی‬
‫دونوں پہاڑیوں کو اپنے انگلیوں سے مزید کھول‬
‫کر مست آواز میں بولیں ۔۔۔۔ تھوڑا اور دھکیل‬
‫نا۔۔۔یہ سن کر میں نے لن کو تھوڑا اور آگے کیا تو‬
‫۔۔۔ لن کا اگال سرا۔تھوڑا سا پھسل کر ان کی گانڈ‬
‫کے ادھ کھلے سوراخ میں داخل ہوگیا ۔۔ان کا‬
‫سوراخ بہت نرم تھا ۔ اپنے سوراخ میں ٹوپے کے‬
‫کو فیل کرتے ہی انہوں نے ایک نظر‬ ‫اگلے سرے‬
‫پیچھے دیکھا ۔۔۔اور پھر اپنی گانڈ کو دوبارہ سے‬
‫اوپن کلوز کرنا شروع کر دیا۔۔۔اور پھر بار بار‬
‫ایسے کرتے ہوئے مجھ سے کہنے لگیں کہ اب بتاؤ‬
‫کہ پہلے والے کام میں زیادہ لزت تھی یا اب تم‬
‫کو زیادہ مزہ مل رہا ہے ؟؟؟؟؟۔۔تو میں نے ٹوپے‬
‫کو مزید آگے دھکیلتے ہوئے کہا۔۔۔ اب زیادہ مزہ مل‬
‫رہا ہے۔۔۔یہ سن کر وہ اپنی گانڈ کو اور بھی‬
‫مجھے‬ ‫جوش سے کھل بند کرنے لگیں۔۔۔ ۔۔۔ اور‬
‫کے اس عمل سے۔۔۔۔۔ اتنی لزت ملی کہ اس‬ ‫ان‬
‫لزت کے مارے میرے منہ سے سسکی سی نکل‬
‫گئی۔۔۔۔تو وہ چونک کر بولی۔۔۔۔۔۔کیوں مزہ آ رہا ہے‬
‫ناں؟ تو میں نے ہلکا سا گھسا مارتے ہوئے کہا‬
‫آنٹی جی آپ کی گانڈ بہت گرم اور‬ ‫۔۔۔۔۔ ریئلی‬
‫مست ہے۔۔تو وہ اسی شہوت ذدہ لہجے میں کہنے‬
‫لگیں۔۔اسی گرمی کی وجہ سے تو وہ لڑکا فارغ‬
‫ہوا تھا ۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے ایک‬
‫آنکھ میچ کر بولیں ۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن تم نے ابھی‬
‫فارغ نہیں ہونا۔۔اس پر میں آگے بڑھا اور لن کو‬
‫ہوئے‬ ‫ان کی گانڈ میں مزید آگے ۔۔۔دھکیلتے‬
‫بوال۔۔۔۔ آنٹی میں پوری کوشش کروں گا۔۔۔کہ جلدی‬
‫سچ‬ ‫لیکن۔۔۔کیا کروں آنٹی‬ ‫نہ ہوں‬ ‫ڈسچارج‬
‫ُمچ آ پ کی گانڈ بڑی غضب کی ہے ۔۔۔۔ تو اس پر‬
‫وہ اپنی گانڈ کو میرے لن ۔۔۔۔۔پر دباتے ہوئے بولیں‬
‫۔۔۔۔۔۔اپنے لن کو تھوڑا اور آگے لے الؤ نا۔۔ تو اس پر‬
‫میں نے اپنے لن کو تھوڑا اور آگے دھکیلتے ہوئے‬
‫ان سے کہا۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ آنٹی جی میں آپ کی گانڈ مارنا‬
‫چاہتا ہوں تو وہ مستی بھرے لہجے میں‬
‫کہنے لگیں ۔۔۔تو ابھی کیا کر رہے ہو؟ تو میں نے‬
‫ان سے کہاکہ ابھی تو آپ کی شلوار کے اوپر اوپر‬
‫میں ۔۔ آپ کی ننگی گانڈ‬ ‫ہے ۔۔۔۔جبکہ‬ ‫سے ڈاال‬
‫ڈالنا چاہتا ہو ں ۔۔۔میری بات‬ ‫میں۔۔۔ اپنے ۔۔۔۔ لن کو‬
‫سن کر انہوں نے اپنا ایک ہاتھ پیچھے کیا اور اپنی‬
‫گانڈ میں گھسے ہوئے لن کو بڑی نرمی کے‬
‫ساتھ پکڑ کرباہر نکاال ۔۔۔۔اور کہنے لگیں۔۔جی تو‬
‫چاہ رہا تھا ۔۔۔اس لیئے ۔‬ ‫میرا بھی یہی کرنے کو‬
‫ٹھیک ہے ۔۔۔۔ پہلے ایسا کر لیتے ہیں ۔۔۔۔۔۔ اور پھر‬
‫مجھے گھاس پر بیٹھنے کو کہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے کہنے‬
‫پر جیسے ہی میں گھاس پر بیٹھنے لگا۔۔۔۔تو وہ‬
‫بولیں ۔۔۔ اونہوں۔۔۔۔ایسے نہیں پہلے شلوار تو اتار لو‬
‫۔۔۔۔اس پر میں نے اپنی شلوار اتاری اور گھاس پر‬
‫ننگا بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔ اس کے بعد آنٹی نے کچھ دیر‬
‫ادھر ادھر کا جائزہ لیا۔۔۔ پھر وہ بھی میرے ساتھ‬
‫گھاس پر بیٹھ گئی۔۔۔اور میرے لن کو اپنے ہاتھ میں‬
‫پکڑ کر بولی۔۔۔۔۔ کمال کی چیز ہے تمہاری۔۔۔۔۔ پھر‬
‫اپنے ہاتھ کو میرے لن پر اوپر نیچے کرتے ہوئے‬
‫بولیں ۔۔۔۔۔ کتنی دفعہ لی ہے؟ ان کی بات سن کر میں‬
‫نے معصوم بنتے ہوئے کہا۔۔۔ کیا لی ہے؟ تو وہ‬
‫مسکرا کر کہنے لگیں۔۔۔۔ میرا مطلب ہے آج تک کتنی‬
‫لڑکیوں کو چودا ہے؟ تو میں نے سفید جھوٹ بولتے‬
‫ہوئے کہا ۔۔۔ ابھی تک تو کسی کو بھی نہیں چودا۔۔۔۔تو‬
‫وہ حیران ہو کر کہنے لگیں۔۔۔۔۔اتنا شاندار لن ابھی‬
‫تک کسی بھی پھدی میں نہیں گیا۔۔۔تو میں نے بے‬
‫چارگی کی ایکٹنگ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ نہیں جی؟ تو‬
‫اس پر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں‬
‫۔۔۔تو گزارہ کیسے کرتے ہو؟ تو میں نے تھوڑا جھجک‬
‫کر جواب دیتے ہوئے کہا جی ُمٹھ مارتا ہوں۔۔۔۔۔۔‬
‫میری بات سن کر وہ بڑی ہنسی ۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔۔‬
‫اس کا مطلب ہے کہ آج میں تمہارا کنوار پن توڑنے‬
‫لگی ہوں ۔۔۔۔تو میں نے شرمانے کی ایکٹنگ کرتے‬
‫ہوئے اپنا سر جھکا لیا۔۔۔یہ دیکھ کر وہ اُٹھ کھڑی ہوئی‬
‫اور ۔۔۔۔ ایک بار پھر ارد گرد کا جائزہ لیتے ہوئے‬
‫اپنی شلوار اتارنے لگیں ۔۔۔شلوار کو اتار کر انہوں‬
‫نے ایک سائیڈ پر رکھا اور پھر اپنی گانڈ پر بہت سا‬
‫تھوک لگا کر اسے چکنا کر لیا اور اس دوران مجھ‬
‫سے کہنے لگی تم بھی اپنے لن پر تھوک لگا کر‬
‫اسے چکنا کر لو کہ اس طرح بغیر کسی تکلیف کے‬
‫تمہارا لن میرے اندر چال جائے گا چنانچہ ان کے‬
‫کہنے پر میں نے اپنے لن پر بہت سا تھوک پھینکا‬
‫اور پھر اپنے ہاتھ سے اسے مل دیا ۔۔جب میرا لن‬
‫تھوک سے اچھی طرح نہا گیا تو وہ میرے اوپر آئیں‬
‫اور اپنی گانڈ کو میرے لن کی سیدھ میں لے کر‬
‫اس پر بیٹھنے لگیں۔ ۔۔۔۔۔۔نیچے جھکتے ہوئے‬
‫انہوں نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔۔۔اور‬
‫اپنی گانڈ کے سوراخ پر رگڑتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔۔مجھے‬
‫تمہارے لن کا سائز بہت پسند آیا ہے اور پھر آہستہ‬
‫سے میرے ٹوپے کو اپنے سوراخ کے تھوڑا سا اندر‬
‫کر لیا۔۔۔۔ جب میرے لن کا ٹوپا ان کی گانڈ کے‬
‫ِرنگ میں داخل ہو گیا ۔۔۔۔ تو انہوں نے میری طرف‬
‫دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔میری گانڈ چکنی ہے نا؟ تو‬
‫میں نے بھی ترنت جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔میرا لن‬
‫بھی تو چکنا ہے نا ۔۔۔ میری بات سن کر ان کے چہرے‬
‫پر شہوت بھری مسکان ابھری اور وہ مجھ سے‬
‫مخاطب ہو کر کہنے لگیں۔۔۔۔ لو پھر۔۔۔تمہارا چکنا‬
‫۔۔میری چکنی کے ۔۔۔۔ اندر جانے لگا ہے۔۔۔اور‬
‫ایک دم سے میرے لن کو اپنے اندر لے کر ۔۔۔۔۔‬
‫سسکتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ف۔ بڑا ہی فٹ‬
‫لن ہے تمہارا ۔۔۔۔۔ میری گانڈ میں پھنس پھنس کر جا‬
‫رہا ہے۔۔۔۔۔آنٹی کی گانڈ کے ٹشو اس قدر نرم تھے‬
‫کہ لن کے اندر داخل ہوتے ہی وہ اس کے ساتھ‬
‫چپک گئے۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ اور پھر وہ لن کو اپنی گانڈ میں‬
‫اوپر نیچے ہو رہیں‬ ‫آہستہ آہتہ‬ ‫لیئے‬
‫تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ کمنٹری بھی کرتی جا‬
‫رہیں تھیں کہ تمہارے لن سے میری گانڈ بھر گئی‬
‫ہے۔۔اور مجھے بڑا مزہ مل رہا ۔۔اور کبھی مجھ‬
‫سے کہتیں بتاؤ نا میری گانڈ میں لن پھنسا کے‬
‫تم کو کیسا لگ رہا ہے۔۔تو میں جواب میں کہتا کہ‬
‫آنٹی جی مجھے آپ کی گانڈ مارنا بہت اچھا لگ‬
‫رہا میری باتیں سن کر وہ اور جوش کے ساتھ‬
‫میرے لن پر اُٹھک بیٹھک کرتی رہیں اور پھر کچھ ہی‬
‫دیر بعد اچانک ہی وہ میرے لن سے اُٹھ گئیں تو‬
‫میں نے حیرت کا اظہار کرتے ہوئے ان سے کہا‬
‫۔۔کیا ہوا آنٹی ۔۔۔۔۔ اتنا مزہ مل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔تو وہ میری‬
‫طرف دیکھتے ہوئے شہوت بھرے انداز میں کہنے‬
‫لگیں۔۔۔ مجھے تم سے زیادہ مزہ مل رہا تھا‬
‫میری جان ۔۔۔۔۔۔ لیکن کیا کروں ۔۔۔۔۔کہیں اور سے‬
‫تمہارے لن کی بڑی سخت فرمائیش آئی ہے۔۔۔ تو میں‬
‫نے حیران ہوتے ہوئے ان سے کہا ۔۔۔۔ میری‬
‫فرمائیش؟ تو وہ ہنس کر بولیں تمہاری نہیں ۔۔۔۔۔‬
‫بلکہ تمہارے لن کی فرمائیش آئی ہے۔۔۔ اس پر میں‬
‫نے ہونقوں کی طرح ان کی طرف دیکھا اور کہنے‬
‫لگا۔۔۔ کس نے فرمائیش کی ہے ۔۔۔۔۔ میری بات سن‬
‫کر انہوں نے اپنی پھدی کو میرے منہ پر جوڑتے‬
‫ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔ اس کی ۔۔۔۔۔ فرمائیش ہے۔۔۔۔ اور اس کے‬
‫ساتھ ہی اپنی پھدی کو میرے منہ پر رگڑنے لگیں ۔۔۔ان‬
‫مہک آ رہی‬ ‫کی چوت سے بڑی ہی شہوت انگیز‬
‫تھی ۔۔۔۔ اور میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں اس شہوت‬
‫انگیز اور مست مہک کو مزید سونگھوں لیکن انہوں‬
‫نے اس کا موقعہ نہ دیا ۔۔۔۔اور فوراً ہی اپنی‬
‫چوت کو میرے منہ سے ہٹا کر مجھے اُٹھنے کا‬
‫کہا۔۔۔۔ ان کی بات سن کر میں ان کی دونوں ٹانگوں‬
‫کے درمیان دیکھتے اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں‬
‫اوپر اُٹھا ۔۔ تو انہوں نے اپنی چادر کو گھاس پر‬
‫بچھایا اور خود لیٹ کر اپنی دونوں ٹانگوں کو ہوا‬
‫میں لہرا کر بولیں۔۔۔۔۔ اب آ بھی جاؤ۔۔۔ اس پر میں‬
‫نے اپنے دونوں گھٹنوں کو زمین پر لگایا ۔۔۔اور ان‬
‫کی طرف دیکھتا ہوا بوال۔۔۔۔۔ آپ کو تو اوپر آنا پسند‬
‫نہیں تھا؟ تو وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‬
‫کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اوپر آ کر گانڈ میں لینا۔۔۔۔۔‬
‫جبکہ ٹانگوں کو کندھوں پر رکھ چوت مروانا پسند‬
‫ہے۔۔۔ پھر کہنے لگیں اب دیر نہ کر اور میری‬
‫ٹانگوں کو اپنے کندھوں پر رکھ لو اور ۔۔۔۔۔۔۔پھر اپنے‬
‫اس موٹے ڈنڈے سے میری چوت کی دھالئی کرنی‬
‫شروع کر دو۔۔۔ان کی بات سن کر میں نے ان کی‬
‫دونوں ٹانگوں کو اپنے کندھوں پر رکھا اور لن پہ‬
‫تھوک لگا کر اسے ان کی چوت پر رکھ کر رگڑنے‬
‫لگا تو وہ بولیں ۔اندر ڈال ۔۔۔۔۔ اور میں نے لن کو‬
‫ہلکا سا پش کیا تو وہ بڑی آسانی کے ساتھ آنٹی کی‬
‫سلپری چوت میں اندر تک گھس گیا۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر‬
‫آنٹی مجھ سے کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔ مجھے پوری طاقت‬
‫سے چودو ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ آنٹی کی بات سن کر میں نے اپنی‬
‫گانڈ کا زور لگا کر ان کو چودنا شروع کر دیا۔۔۔ میرے‬
‫ہر گھسے پر ان کی آہ نکل جاتی تھی۔۔۔اور وہ مجھ‬
‫سے کہتیں تھیں کہ ۔۔فل طاقت لگا ۔۔۔۔۔اور دھالئی کر‬
‫میری چوت کی ۔۔۔چود دے مجھے ۔۔۔۔ میری پھدی مار‬
‫رررررررررررررررررررررررررررررر۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور‬
‫مارررررررررررررگھسے مارتے مارتے مجھے‬
‫محسوس ہوا کہ آنٹی کی کھلی پھدی اچانک ہی تنگ‬
‫ہونا شروع ہو گئی ہے ۔۔۔ اور اس نے میرے لن‬
‫کے ساتھ لپٹنا شروع کر دیا ہے اس وقت آنٹی کی‬
‫پھدی مارتے ہوئے مجھے اس قدر مزہ‬ ‫تنگ ہوتی‬
‫مل رہا تھا کہ میں نے پورے جوش اور تیزی کے‬
‫ساتھ لن کو ان آوٹ کرنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ اِدھر‬
‫جیسے جیسے آنٹی کی پھدی تنگ سے تنگ تر ہوتی‬
‫جا رہی تھی ۔۔۔۔اُدھرویسے ویسے میرے دھکے شدید‬
‫سے شدید تر ہوتے جا رہے تھےاور پھر میرے ان‬
‫دھکوں کی وجہ سے آنٹی کی چوت ایک دم سے کھل‬
‫بند ہوئی۔۔اور اس نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا۔۔۔۔‬
‫ادھر دھکے مارتے مارتے ۔۔۔۔۔اچانک ہی میرے لن‬
‫سے منی کا سیالب نکال ۔۔اور آنٹی کی پانی سے‬
‫بھری ہوئی پھدی میں سے پانی ہوتا ہوا باہر نکلنا‬
‫شروع ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔۔آنٹی اور میں دونوں چھوٹ چکے‬
‫تھے۔ ‪....‬اس کے بعد آنٹی نے میرے ساتھ دو‬
‫دفعہ اور سیکس کیا اور خاص کر اپنی گانڈ کو‬
‫بڑے چاؤ اور رچاؤ کے ساتھ مروایا۔۔۔ دونوں‬
‫سے لن لینے کے‬ ‫سوراخوں میں اچھی طرح‬
‫بعد وہ بہت خوش اور مطئن نظر آ رہی تھیں۔ اور‬
‫اس بات کا انہوں نے راستے میں اظہار بھی کیا‬
‫مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ شکریہ دوست‬ ‫اور وہ‬
‫ب‬
‫کہ بڑے عرصے کے بعد میں نے اپنے حس ِ‬
‫منشاء سیکس کر کے سکون حاصل کیا ہے‬
‫اسی طرح کی باتیں کرتے ہوئے ہم گھر پہنچے‬
‫تو شام کے سائے لمبے ہو رہے تھے ۔ ۔۔۔ رات‬
‫ب معمول ہم سب کی میٹنگ‬
‫کے کھانے پر حس ِ‬
‫ہوئی۔۔۔۔ اور اس میٹنگ میں خاص طور پر‬
‫اس بات پر غور کیا گیا کہ اب اس عالقے میں‬
‫کون سا ایسا گھر رہ گیا ہے کہ جہاں پر امجد‬
‫کے ہونے کا امکان ہو سکتا ہے اس دوران‬
‫یہ تجویز پیش کر‬ ‫نے اچانک ہی‬ ‫مہرو باجی‬
‫دی کہ کیوں نہ پنڈی فون کر کے کیس کے‬
‫سو بُو لی جائے۔تو اس پر‬
‫بارے میں کوئی ُ‬
‫چوہدری کہنے لگا کہ وہ تو میں ہر دوسرے‬
‫تیسرے دن بھائی کو فون کر کے لیتا رہتا‬
‫ہوں ۔۔۔چوہدری کی بات سن کر مہرو کہنے‬
‫لگی۔۔۔ابا جی کو تو وہی بات معلوم ہو گی نا‬
‫جو کہ تھانے والے انہیں بتائیں گے جبکہ‬
‫شاہ‬ ‫پھر‬ ‫تو اہ ِل محلہ یا‬ ‫اصل سینہ گزٹ یا‬
‫کے دوستوں کو معلوم ہو گی ۔۔۔ ۔۔ اس لیئے‬
‫اپنے‬ ‫کہ ۔۔ شاہ‬ ‫ہے‬ ‫میری تجویز‬
‫میں محلے والوں سے‬ ‫دوستوں سے۔۔۔۔ جبکہ‬
‫کیس کے بارے میں س ُن ُگن لینے کی کوشش‬
‫کو‬ ‫کروں گی ۔۔مہرو باجی کی اس تجویز‬
‫ارکان میٹنگ کی‬
‫ِ‬ ‫سبھی نے پسند کیا ۔۔۔چنانچہ‬
‫کہنے لگی‬ ‫کو دیکھتے ہوئے وہ‬ ‫پسندیدگی‬
‫بائیک پر پی سی او جائیں‬ ‫کہ کل میں اور شاہ‬
‫گے اور پھر وہاں سے شاہ اپنے دوستوں اور‬
‫سے کیس کے بارے میں اپ‬ ‫میں محلے داروں‬
‫گی ۔۔۔ اور خاص‬ ‫ڈیٹ لینے کی کوشش کروں‬
‫کوشش کریں‬ ‫یہ جاننے کی‬ ‫طور پر‬
‫کیا‬ ‫ت حال‬
‫گے کہ کیس کی موجودہ صور ِ‬
‫بات سن کر چوہدری نے اس‬ ‫ہے؟ مہرو کی‬
‫میں یہ ترمیم کر دی کہ مہرو کی بجائے میرے‬
‫پر وہ جائے گا ۔اس‬ ‫پی سی او‬ ‫ساتھ‬
‫کہ اس نے بھائی‬ ‫کی وجہ اس نے یہ بتائی‬
‫زمینوں کے بارے میں کچھ‬ ‫کے ساتھ‬
‫ضروری صالح و مشورہ کرنا ہے ۔۔ چوہدری کے‬
‫یہ بات سن کر ۔۔۔میں نے دل ہی‬ ‫سے‬ ‫منہ‬
‫اس کو خوب ننگی چٹیاں گالیاں‬ ‫دل میں‬
‫نے‬ ‫دوسری طرف یقینا ً مہرو باجی‬ ‫دیں (اور‬
‫ہی کیا ہو گا ) ۔۔۔ کیونکہ میرے‬ ‫بھی ایسا‬
‫تو مہرو کا محض ایک‬ ‫خیال میں پی سی جانا‬
‫بہانہ تھا ۔۔اصل میں اس بہانے وہ میرے ساتھ‬
‫راستے میں کسی جگہ پر سیکس کرنا چاہتی تھی‬
‫کے سارے پالن پر‬ ‫لیکن چوہدری نے ان‬
‫پانی پھیر دیا۔تھا۔۔۔۔ پھر یہ سوچ کر میر ا جی‬
‫خراب ہونے لگا کہ مہرو کی بجائے کل‬
‫کے ساتھ جانا‬ ‫مجھے اس خڑوس چوہدری‬
‫پڑنا تھا ۔اگلی صبع میں اور چوہدری ۔۔۔عزیز کے‬
‫پکی سڑک نامی قصبے‬ ‫ٹانگے پر بیٹھ کر‬
‫پہنچے اور وہاں سے چوہدری مجھے ایک پی‬
‫سی او لے گیا۔۔۔ جہاں پر پہلے تو اس نے امجد‬
‫کے ابو کے ساتھ کچھ دیر بات کی اور ادھر‬
‫ادھر کی خیر خیریت دریافت کرنے کے ساتھ ساتھ‬
‫اپنی زمینوں کے بارے میں کچھ ضروری صالح‬
‫و مشورے بھی کیے اس کے بعد اس نے فون‬
‫بند کیا اور پھر میری طرف دیکھ کر کہنے لگا‬
‫کہ اب تم بات کر لو ۔۔چنانچہ میں نے پی سی او‬
‫دوست اصغر کے گھر کا نمبر‬ ‫والے کو اپنے‬
‫دیا ۔۔دوسری طرف فون اس کی امی نے اُٹھایا تو‬
‫تو‬ ‫میں نے ان سے کہا کہ اصغر گھر پر ہے؟‬
‫میں جواب دیتے ہوئے بولی۔۔۔ لیکن‬ ‫وہ ہاں‬
‫بیٹا آپ کون بول رہے ہو؟ ۔۔تو میں نے اپنے‬
‫اصلی نام کی بجائے ان کو ایک جعلی نام‬
‫بتا دیا۔۔تو وہ مجھے ہولڈ کرنے کا کہہ کر ا صغر‬
‫کو بالنے چلی گئیں۔۔ جیسے ہی اصغر نے آ کر‬
‫ہی اس کو بتایا‬ ‫ہیلو کہا ۔۔۔تو میں نے فوراً‬
‫کہ میں شاہ بول رہا ہوں اور تمہاری امی کو‬
‫غلط نام بتایا تھا ۔۔میرا نام سنتے ہی اصغر‬
‫جزباتی ہو گیا ا ور مجھ سے‬ ‫ایک دم سے‬
‫کہنے لگا ۔۔۔شاہ جی تم جہاں بھی چھپے ہو ۔۔۔‬
‫نہ بتاؤ‬ ‫اس کے بارے میں‬ ‫مجھے بھی‬
‫اتا پتہ‬ ‫جب تک امجد گانڈو کا کوئی‬ ‫اور‬
‫ُرخ نہیں‬ ‫ہر گز‬ ‫ادھر کا‬ ‫نے‬ ‫نہیں ملتا تم‬
‫کرنا پھر میرے پوچھنے پر اس نے بتایا‬
‫حرامی نے ایک ایک کر کے‬ ‫‪....‬۔۔۔ کہ شیدے‬
‫کو تھانے میں بلوایا تھا‬ ‫ہمارے سب دوستوں‬
‫۔۔۔ اور پوچھ گچھ کے بعد ہم لوگوں کو یہ کہہ‬
‫کہ جیسے ہی امجد یا شاہ‬ ‫گیا‬ ‫کر چھوڑ دیا‬
‫ہم لوگ‬ ‫کے بارے میں کوئی خبر ملے تو‬
‫دی جائے‬ ‫اطالع تھانے میں‬ ‫کی‬ ‫اس بات‬
‫شیدا‬ ‫سے کہنے لگا یار‬ ‫۔پھر وہ مجھ‬
‫حرامی تم پہ بڑا گرم ہے اور پہلے تو تم بچ‬
‫ان لوگوں‬ ‫اگر اس دفعہ تم‬ ‫گئے تھے لیکن‬
‫ہتھے چڑھ گئے ‪ -‬تو میں سچ کہہ رہا‬ ‫کے‬
‫مادر چود نے‬ ‫ہوں دوست ۔۔۔ اس شیدے‬
‫پھاڑ‬ ‫گانڈ‬ ‫تمہاری‬ ‫پولیس کے زریعے‬
‫میں ایک بار پھر تم‬ ‫اسی لیئے‬ ‫ہے‬ ‫دینی‬
‫ہوں کہ تم جہاں بھی ۔۔۔‬ ‫وارننگ دے رہا‬ ‫کو‬
‫جس بھی شہر میں چھپے ہو امجد ماں چود‬
‫سامنے نہیں‬ ‫کے ملنے تک بلکل‬
‫آنا۔۔کیونکہ شیدے حرامی نے ادھر یہی مشہور‬
‫سے بھاگ کر تم بھی‬ ‫کر رکھا ہے کہ یہاں‬
‫امجد لوگوں کے پاس چلے گئے ہو ۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی‬
‫مجھے‬ ‫کے لیئے‬ ‫بات سن کر ۔۔ ایک لمحے‬
‫شیدے پر غصہ تو بہت آیا ۔۔۔۔۔ لیکن میں‬
‫اس سے پوچھنے لگا‬ ‫اسے پی گیا اور‬
‫کیس کی پوزیشن کیا‬ ‫کہ یہ بتاؤ کہ اب‬
‫کیس وہیں‬ ‫ہے؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ استاد جی‬
‫کا وہیں کھڑا ہے کہ جہاں پر تم اسے چھوڑ‬
‫کر گئے تھے ۔۔۔ اس کے بعد کچھ رسمی باتوں‬
‫کے بعد میں نے فون بند کر دیا۔۔۔۔۔فون رکھتے‬
‫ہی چوہدری مجھ سے کہنے لگا ہاں پتر ا‬
‫میں نے اصغر کی بات کو‬ ‫تو‬ ‫کی خبر اے؟‬
‫دھراتے ہوئے کہا کہ ابھی تک کوئی پیش رفت‬
‫نہیں ہوئی۔۔۔تو اس پر وہ کہنے لگا کسی‬
‫۔۔۔ ہو‬ ‫اور دوست سے بھی معلومات لے لو‬
‫ایسی خبر‬ ‫سکتا ہے کہ اس کے پاس کوئی‬
‫کو‬ ‫ہو کہ جس کے بارے میں تمہارے اس‬
‫مجھے‬ ‫علم نہ ہو ۔۔ چوہدری کی بات سن کر‬
‫دھڑکتے‬ ‫اور تو کچھ نہ سوجھا ۔۔۔۔۔ اس لیئے‬
‫دل کے ساتھ میں نے پی سی او والے کو‬
‫کا نمبر بتا دیا۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ پی‬ ‫بھابھی کے گھر‬
‫والے نے جلدی سے نمبر مال کر‬ ‫سی او‬
‫ریسیور کو میرے ہاتھ میں پکڑا دیا۔۔۔۔۔۔بیل جانے‬
‫کے تھوڑی ہی دیر کے بعد ۔۔۔۔ جیسے ہی ایک‬
‫نے ہیلو کہا تو میں نے‬ ‫آواز‬ ‫نسوانی‬
‫چوہدری کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی آہستگی‬
‫دیا۔۔۔ دوسری طرف‬ ‫کے ساتھ اپنا کوڈ ورڈ دھرا‬
‫فون اُٹھانے والی بھابھی خود تھی ۔۔۔ میری آواز‬
‫سنتے ہی وہ بڑی ناراضگی کے عالم میں‬
‫کہنے لگی ۔۔۔ اتنے دن فون کیوں نہیں کیا؟ تو‬
‫کی بات سنی ان سنی کرتے‬ ‫میں نے ان‬
‫سنا‬ ‫تو ں‬ ‫ہوئے کہا ۔۔۔ میں ٹھیک ہوں یار‬
‫کیس کی کیا پوزیشن ہے؟ میری بات سن کر‬
‫انٹیلی جنٹ بھابھی فوراً ہی معاملے کی نزاکت‬
‫کو سمجھ گئی اور مجھ سے کہنے لگی۔۔۔۔ اس کا‬
‫مطلب ہےکہ تمہارے ساتھ کوئی اور بھی‬
‫ہے؟؟ تو میں نے چوہدری کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے کہہ دیا کہ ۔۔ ہاں یار امجد کے تایا ابو‬
‫بھابھی نے‬ ‫ساتھ ہیں میری بات سنتے ہی‬
‫ایک گہری سانس لی اور پھر کہنے لگی ۔۔۔اچھا‬
‫تو یہ بات ہے۔۔۔ اس پر میں نے دوبارہ سے‬
‫اس کو کہا ۔۔۔ یار مزاق چھوڑو اور مجھے بتاؤ‬
‫کہ کیس میں کوئی پیش رفت ہوئی ؟ ۔کڑی منڈے‬
‫کا کوئی پتہ چال۔۔تو وہ کہنے لگی پولیس اور‬
‫پوری کوشش کر رہے‬ ‫رشید کے گھر والے تو‬
‫سمجھ میں نہیں آ رہا کہ گھر سے‬ ‫ہیں لیکن‬
‫بھاگنے والے کڑی منڈے کو زمین کھا گئی یا‬
‫۔۔آسمان نگل گیا۔۔ اس پر میں نے اس سے کہا ۔۔۔‬
‫پیش رفت؟؟ ۔۔۔۔۔۔تو‬ ‫اس کے عالوہ کوئی اور‬
‫لوگوں‬ ‫وہ جواب دیتے ہوئے بولی۔تم سناؤ تم‬
‫کوئی اطالع ۔۔یا خیر خبر‬ ‫کو اس بارے میں‬
‫ہے ؟ تو میں نے نفی میں جواب دے دیا جسے‬
‫ادھر بھی کیس‬ ‫سن کر وہ کہنے لگی کہ یار جی‬
‫میں ۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی خاص پیش رفت تو نہیں ہوئی۔۔۔‬
‫البتہ شیدا پاگلوں کی طرح تم کو ڈھونڈ رہا ہے‬
‫اور اس نے یہی مشہور کر رکھا ہے کہ تم‬
‫بھی گھر سے بھاگ کر ان لوگوں سے جا‬
‫شیدے کا‬ ‫کے منہ سے‬ ‫ملے ہو۔۔۔ بھابھی‬
‫نام سنتے ہی میرے اندر سے نفرت کی ایک‬
‫اُٹھی اور میں نے بنا سوچے سمجھے‬ ‫لہر سی‬
‫شیدے کی ماں کی کُس ۔۔۔۔‬ ‫کہہ دیا ۔۔۔۔۔۔ کہ‬
‫سے کُس(پھدی) کا ذکر‬ ‫ادھر میرے منہ‬
‫اور بڑے‬ ‫مچل اُٹھی‬ ‫بھابھی‬ ‫سنتے ہی‬
‫کی ماں کا‬ ‫ناز کے ساتھ کہنے لگی ۔۔۔ شیدے‬
‫مجھے پتہ نہیں البتہ ۔۔۔۔ میری کُس تمہیں‬ ‫تو‬
‫کب آؤ‬ ‫بہت یاد کر رہی ہے۔۔ پھر کہنے لگی‬
‫ایک دم‬ ‫کہہ کر وہ‬ ‫اتنا‬ ‫گے جان؟‬
‫سیریس ہو کر بولی۔۔۔میری جان میں جو مرضی‬
‫خبردار امجد اور نبیلہ کے ملنے‬ ‫کہوں۔۔۔۔لیکن‬
‫تک تم نے پنڈی کی طرف دیکھنا بھی نہیں‬
‫مشکالت کے پہاڑ کھڑے‬ ‫ورنہ تمہارے لیئے‬
‫ہو جائیں گے ۔۔۔۔۔اور ان لوگوں نے نبیلہ کے‬
‫گھر سے بھاگنے کا سارا غصہ تم پر اتار دینا‬
‫ہے ۔۔۔۔۔اس پر میں نے بھا بھی کو تسلی دیتے‬
‫ہوئے کہا کہ فکر نہ کرو یار ایسا ہی ہو گا۔۔۔اور‬
‫کیس کے بارے میں‬ ‫پھر اس سے پوچھا کہ‬
‫علم میں ہو ؟‬ ‫بات جو آپ کے‬ ‫ایسی‬ ‫کوئی‬
‫تو وہ مجھ سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کیس کی تو‬
‫نہیں البتہ تمہارے لیئے اہم خبر یہ ہے کہ۔۔۔ عذرا‬
‫کی رخصتی ہو گئی ہے۔۔۔ اور باقی کے معامالت‬
‫ہیں جیسے کہ تم چھوڑ‬ ‫ویسے کے ویسے ہی‬
‫لوگ امجد اور نبیلہ کو‬ ‫کر گئے تھے ہاں وہ‬
‫ڈھونڈ رہے ہیں۔۔‬ ‫ہی سرگرمی کے ساتھ‬ ‫بڑی‬
‫جس میں ابھی تک انہیں کوئی کامیابی نہیں‬
‫ملی۔۔۔ اس کے بعد بھابھی نے مجھ سے کچھ دیر‬
‫تک پیار بھری باتیں کیں اور بھابھی کے ساتھ‬
‫ایک دم‬ ‫پیار بھری باتیں کر کے میرا جی‬
‫خوش ہو گیا ۔۔۔۔اور اس کے بعد ہم لوگ واپس آ‬
‫گئے۔‪...‬دوپہر کا وقت تھا کہ جب ہم واپس گاؤں‬
‫پہنچے گاؤں کی پگڈنڈی پر پہنچ کر چوہدری‬
‫مجھ سے کہنے لگا ۔۔تم گھر جاؤ میں ایک بندے‬
‫سے مل کر ابھی آتا ہوں ۔ چوہدری کے کہنے‬
‫پر میں اکیال ہی گھر پہنچ گیا۔۔ گھر پہنچ کر‬
‫ت جاں یعنی کہ نوراں دھریک‬
‫دیکھا تو وہ راح ِ‬
‫کی چھاؤں میں بیٹھی پنکھا جھل رہی تھی گرمی‬
‫سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا اور اس کے‬
‫ماتھے پر پسینے کے قطرے بھی نظر آ رہے‬
‫تھے مجھے اندر آتے دیکھ کر انہوں نے دوپٹے‬
‫کے ساتھ اپنا چہرہ صاف کیا پھر مجھ سے‬
‫مخاطب ہو کر کہنے ل گی ابا کہاں ہے ؟ تو میں‬
‫نے ان کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ تو‬
‫راستے میں ہی اتر گئے تھے تو وہ بڑے‬
‫دیکھتے ہوئے کہنے‬ ‫اشتیاق سے میری طرف‬
‫لگی۔۔۔ آنے کا کیا بول رہے تھے؟ ۔۔تو میں نے‬
‫وہ کہہ رہے‬ ‫جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ‬ ‫اسے‬
‫تھے کہ وہ ایک ضروری کام سے جا رہے ہیں‬
‫کچھ دیر بعد آئیں گے ۔۔ میری بات سن کر وہ مجھ‬
‫سے کہنے لگی؟۔۔ تمہیں پیاس تو نہیں لگ رہی‬
‫؟ تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا‬
‫کہنے لگی۔۔تم‬ ‫۔۔۔لگ تو رہی ہے۔۔۔۔ اس پر وہ‬
‫کمرے میں جا کر بیٹھو میں تمہارے لیئے لسی‬
‫آتی ہوں ۔۔۔ا ن کی بات سن کر‬ ‫لے کر ابھی‬
‫میں سیدھا اپنے کمرے میں چال گیا اور جا کر‬
‫پلنگ پر لیٹ گیا۔۔اتنی دیر میں نوراں آپا ہاتھ میں‬
‫لسی کا بڑا سا گالس لیئے کمرے میں داخل‬
‫میں پلنگ‬ ‫دیکھ کر‬ ‫ہوئی ۔۔۔۔ اسے آتے‬
‫سے اُٹھ بیٹھا اور اس کے ہاتھ سے لسی کا‬
‫گالس لے کر اسے غٹا غٹ پی گیا۔۔۔ اور پھر اس‬
‫کے ہاتھ میں خالی گالس پکڑاتے ہوئے بوال۔۔۔۔‬
‫آنٹی لوگ کہاں ہیں؟ تو وہ دروازے سے باہر‬
‫دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔وہ لوگ ایک بیمار‬
‫کو دیکھنے کے لیئے دوسرے محلے گئے ہیں‬
‫بات سن کر مجھے‬ ‫یہ‬ ‫کی‬ ‫۔۔۔نوراں آپا‬
‫ہوشیاری آ گئی اور میں اپنے‬ ‫ایک دم سے‬
‫پلنگ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔۔اور ان کی طرف‬
‫بڑھتے ہوئے بوال۔۔۔ خیریت تو تھی ناں؟؟ تو وہ‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ادھر ایک‬
‫بوڑھی اماں ہے اس کے چل چالؤ کے دن آ‬
‫گئے ہیں اس لیئے چاچی لوگ اماں کو ساتھ‬
‫لے کر اس کو دیکھنے گئے ہیں۔۔۔۔ نوراں آپا کی‬
‫ہی میں ان کے بلکل‬ ‫اس بات کے دوران‬
‫قریب پہنچ چکا تھا۔۔۔۔ وہ کبھی میری طرف‬
‫ڈال‬ ‫دیکھتی اور کبھی دروازے کے باہر نگاہ‬
‫نے ان کو‬ ‫رہی تھی ۔۔۔۔۔ اتنی دیر میں۔۔۔ میں‬
‫کہنے لگی ایک‬ ‫وہ‬ ‫اپنی طرف کھینچ لیا۔۔۔۔ تو‬
‫منٹ ۔۔۔۔اور میرے رکنے پر اس نے لسی کا خالی‬
‫گالس پلنگ کے پاس پڑی تپائی پر رکھا ۔۔۔اور‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے ۔۔بولی۔۔۔۔ کیا کرنے‬
‫لگے ہو؟ تو میں نے آگے بڑھ کر ان کو اپنے‬
‫گلے سے لگاتے ہوئے کہا۔۔۔ میں آپ کے ساتھ لو‬
‫سین کرنے لگا ہوں ۔۔۔تو وہ اپنے سر کو میرے‬
‫ب عادت کہنے‬
‫کندھے پر سر رکھتے ہوئے حس ِ‬
‫لگی ۔۔۔۔ ناں کر ۔۔۔۔کوئی آ جائے گا۔۔۔۔۔۔ اس پر میں‬
‫نے ان کو اپنے سینے کے ساتھ دباتے ہوئے‬
‫کہا ۔۔۔ فکر نہ کریں جی ۔۔۔کوئی نہیں آئے گا ۔۔۔اور‬
‫اس کے ساتھ ہی میں نے نوراں آپا کے گال‬
‫کو چوم لیا۔۔۔۔ تو وہ میری اس حرکت کا مزہ‬
‫لیتے ہوئے بولیں۔۔۔ چھیتی کر ۔۔۔ نئیں تے کوئی آ‬
‫جائے گا۔۔۔۔۔۔ تو میں نے ان کے ہونٹوں کو چومتے‬
‫رہا‬ ‫ہوئے کہا۔۔۔ آپاں اگر آپ کو اتنا ہی ڈر لگ‬
‫ہوں‬ ‫ہے تو میں دروازے کو کنڈی لگا آتا‬
‫؟ میری بات سن کر وہ ایک دم سے چونک کر‬
‫بولی۔۔۔ ایسا ہر گز نہ کرنا ۔۔۔۔ تو اس پر میں ۔۔۔‬
‫ان کی چھاتیوں کو اپنے ساتھ دباتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔۔۔ تو پھر کیسے کروں؟ میری اس بات پر وہ‬
‫چپ رہیں۔۔۔۔ ان کی ُچپ کو چھوڑ کر میں آگے‬
‫بڑھا اور ان کے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں‬
‫لے کر چوسنے لگا۔۔۔۔ ان کے پتلے پتلے ہونٹوں‬
‫کو چوس کر مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے‬
‫رس‬ ‫میرے منہ میں گالب کی پنکھڑیوں کا‬
‫گھل رہا ہو۔ ۔۔۔۔۔۔ گالب کی پتی کی طرح ان کے‬
‫نرم اور چوسنے میں بہت‬ ‫بڑے ہی‬ ‫ہونٹ‬
‫تھے اسی‬ ‫ذائقہ‬ ‫ہی مزیدار اور خوش‬
‫دوران ہونٹ چوستے چوستے اچانک ہی انہوں‬
‫نے اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈالتے ہوئے‬
‫کہا ۔۔۔۔ ہونٹ ای چوسی جا رہئیں ۔۔۔۔ جیب وی‬
‫چوس کے ویکھ ( ہونٹوں کو ہی چوس رہے ہو‬
‫میری زبان کا بھی مزہ لو) جیسے ہی میں نے‬
‫ان کی زبان کے ساتھ اپنی زبان کو لڑایا۔۔۔۔۔ میرا‬
‫نیم جان حالت میں کھڑا تھا‬ ‫لن جو پہلے ہی‬
‫۔۔ان کی زبان کے کرنٹ لگنے سے ایک دم تن‬
‫کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ جیسے ہی میرا لن فل جوبن‬
‫میں آیا ۔۔۔۔ میرے منہ میں اپنی زبان کو دیتے‬
‫ہوئے انہوں نے ہاتھ بڑھا کر میرے لن کو پکڑ‬
‫لیا۔۔۔۔۔۔اور اسے سہالنے لگیں۔۔۔میرے لن کو مسلتے‬
‫مسلتے جانے کیا ہوا کہ اچانک ہی انہوں نے‬
‫پلنگ پر دھکا دیا ۔۔۔۔ان کے دھکے کی‬ ‫مجھے‬
‫وجہ سے میں سیدھا پلنگ پر جا گرا۔۔۔تب انہوں‬
‫نے مجھے سیدھے لیٹنے کو کہا ۔۔۔اور خود ایک‬
‫چکر باہر کا لگا کر واپس آ گئیں۔۔۔ ۔۔۔پھر آتے‬
‫ساتھ ہی وہ میرے اوپر چڑھ گئیں ۔۔۔اور شلوار‬
‫ہاتھ میں‬ ‫کے اوپر سے ہی میرے لن کو اپنے‬
‫پکڑ کر اپنی پھدی پر رگڑنے لگیں۔۔۔۔ میرے‬
‫لن کو اپنی پھدی پر رگڑنے کی وجہ سے مجھ‬
‫غلبہ ۔ہو نے‬ ‫ہی‬ ‫کا کچھ زیادہ‬ ‫پر ہوشیاری‬
‫میں نے ان‬ ‫لگا ۔۔۔۔اور اس غلبے کے تحت‬
‫کی دونوں چھاتیوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور‬
‫ان کو دباتے ہوئے بوال ۔۔۔۔۔آپا آپ بہت ہی‬
‫زیادہ سیکسی ہو ۔۔۔ ادھر میری چھاتیوں کو‬
‫دبانے کی وجہ سے ان کے منہ سے ایک‬
‫سسکاری سی نکلی اور وہ بڑے ہی دل نشیں‬
‫انداز میں کہنے لگیں ۔۔۔۔ چھاتیوں ہولی پُٹ (‬
‫میری چھاتیوں کو آرام سے دباؤ) لیکن میں نے‬
‫ان کی ایک بھی نہ سنی اور بدستور بڑی بے‬
‫ان کی چھاتیوں کو دباتے‬ ‫دردی کے ساتھ‬
‫ہوئے بوال۔۔۔۔۔ آپا میرے لن نوں اپنی پھدی و چ‬
‫میں لو)‬ ‫لے ناں۔۔( آپا میرے لن کو اپنی چوت‬
‫تو وہ مجھ کو پچکارتے ہوئے بڑے ہی‬
‫شہوت بھرے انداز میں کہنے لگیں۔۔۔۔ ضرور الں‬
‫گی پر ہلے نئیں ( تمہارے لن کو اپنی چوت میں‬
‫ضرور لوں گی پر ابھی نہیں) اس کے ساتھ ہی‬
‫انہوں نے شلوار کے اوپر سے ہی اپنی‬
‫دھکتی ہوئی پھدی کو میرے تنے ہوئے لن‬
‫میرے اوپر لیٹ کر‬ ‫پر رکھا ۔۔۔۔اور ۔۔۔پھر‬
‫گھسے مارتے ہوئے بولیں ۔۔ میری پھدی وچ‬
‫۔لن۔۔۔ پا۔۔ نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مینوں چود ۔۔۔ میری پھدی مار‬
‫۔۔۔۔۔ ان کی پھدی بڑی ہی گرم تھی ۔۔۔۔اور میرا تنا‬
‫ہوا لن ان کی پھدی کے دنوں لبوں کے عین‬
‫بیچ میں تھا ۔۔۔ اور ان کی پھدی کے پانی سے ان‬
‫چکی تھی‬ ‫کی ریشمی شلوار ۔۔خاصی بھیگ‬
‫لیکن اس کے باوجود بھی وہ میرے لن کو اپنی‬
‫پھدی کے دونوں لبوں کے بیچ میں لیئے بڑے‬
‫ہی جوش کے ساتھ آگے پیچھے ہو رہیں تھیں‬
‫۔۔۔۔پھر گھسے مارتے مارتے اچانک ہی وہ میرے‬
‫اوپر ڈھے گئیں ۔۔اور میرے کندھوں کو سختی کے‬
‫ساتھ پکڑ کر گہرے گہرے سانس لینے لگیں۔۔۔۔۔‬
‫پھر چند ہی سیکنڈ کے بعد وہ اوپر اُٹھ گئیں۔۔۔۔‬
‫اور پلنگ پر بیٹھ کر شلوار کے اوپر سے ہی‬
‫میرے لن کو پکڑ کر اسے ہالنے لگیں ۔۔۔ تو میں‬
‫لن کو‬ ‫اتار کر‬ ‫نے ان سے کہا کہ آپا۔۔۔ شلوار‬
‫پلیززززززز۔۔۔۔۔تو وہ میری طرف دیکھتے‬ ‫پکڑیں‬
‫ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ جی تو میرے بھی بہت کر‬
‫رہا ہے کہ میں تمہارے ننگے لن کا دیدار‬
‫ہاتھ میں لے کر‬ ‫اسے اپنے‬ ‫کروں ۔۔۔اور‬
‫پکڑوں ۔۔۔پر ڈرتی ہوں۔۔۔تو میں نے ان کی‬
‫چھاتیوں سے پکڑ کر دباتے ہوئے بوال۔۔کس‬
‫بات کا ڈر آپا۔۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔ کوئی دیکھ‬
‫ہوں ۔۔۔۔ان کی‬ ‫سے ڈرتی‬ ‫نہ لے ۔۔۔ اس بات‬
‫بات سن کر اس دفعہ میں نے ان کی قمیض کے‬
‫اندر ہاتھ ڈال دیا ۔۔۔۔اور ان کے نپلز کو اپنی‬
‫لے کر مسلنے لگا۔۔۔۔۔ میری اس‬ ‫انگلیوں میں‬
‫حرکت پر انہوں نے شہوت سے بھر پور‬
‫سسکی لی۔۔ہائے اوئے۔۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔۔ ہولی‬
‫نپلز‬ ‫میری جان۔۔۔۔۔ہولی۔۔۔۔ لیکن میں نے ان کے‬
‫شہوت ذدہ‬ ‫بڑے ہی‬ ‫کو مسلتے ہوئے‬
‫لہجے میں کہا ۔۔۔ کچھ نہیں ہو گا آپا۔۔۔۔۔آپ‬
‫ٹرائی کر کے تو دیکھیں۔۔ میرے خیال آپا کا‬
‫چاہ رہا تھا۔۔۔اس لیئے وہ‬ ‫بھی یہی دل‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ایک‬
‫منٹ۔۔۔اتنے کہتے ہی نوراں آپا ۔۔۔ پلنگ سے‬
‫اُٹھی اور باہر چلی گئی۔۔اس کے بعد اس نے ایک‬
‫لگایا پھر دروازے کے باہر‬ ‫چکرصحن کا‬
‫جھانک کر دیکھا ۔۔اور‬ ‫میں‬ ‫گلی‬ ‫ایک نظر‬
‫پھر وہاں سے مطئن ہو کر میرے پاس آ کر‬
‫بولی۔۔۔چل نالہ کھول ۔۔۔ ان کی بات سنتے ہی‬
‫میں نے جلدی سے ہاتھ بڑھا کر اپنی شلوار‬
‫اسے‬ ‫۔۔۔اور‬ ‫بند کھول دیا۔۔۔۔‬ ‫آزار‬ ‫کا‬
‫لے گیا ۔۔‪..‬شلوارکے نیچے ہوتے‬ ‫تک‬ ‫گھٹنوں‬
‫ہی ۔ میرا تنومند لن لہراتا ہوا آپا کی نظروں کے‬
‫سامنے آ گیا۔۔۔۔۔جسے دیکھ کر اس کی آنکھوں میں‬
‫تحسین کے آثار ابھر آئے اور وہ میرے لن کی‬
‫بیٹھ گئی۔۔۔اور‬ ‫طرف دیکھتے ہوئے پلنگ پر‬
‫بڑے ہی میٹھے لہجے میں کہنے‬ ‫پھر‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔ اب کیا کرنا ہے؟ تو میں نے ان کے ہاتھ کو‬
‫پکڑ کر اپنے لن پر رکھتے ہوئے کہا۔۔۔ اسے پکڑو‬
‫کے بعد‬ ‫ہچکچاہٹ‬ ‫۔۔۔پلیززززززز ۔تو کچھ‬
‫ہاتھ میں‬ ‫اپنے‬ ‫۔۔۔۔۔انہوں نے میرے لن کو‬
‫ہلکا ہلکا دبانا شروع کر‬ ‫پکڑ کر اسے‬
‫لن ان کی نرم ہتھیلی‬ ‫دیا۔۔ جیسے ہی میرا‬
‫کی گرفت میں آیا ۔۔۔تو وہ اور تن کر کھڑا ہو‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔۔ تمہارا ۔۔۔۔یہ‬ ‫گیا۔۔۔یہ دیکھ کر وہ‬
‫سخت ۔۔۔ ہو گیا ہے پھر اسے‬ ‫بھی‬ ‫۔۔تو اور‬
‫دباتے ہوئے شہوت سے بھر پور آواز‬ ‫بار بار‬
‫میں کہنے لگیں۔۔۔لو یو ڈارلنگ ۔۔اس کے ساتھ‬
‫کو تیز تیز‬ ‫میرے لن پر اپنے ہاتھ‬ ‫ہی‬
‫بولی۔۔۔ مزہ آ رہا ہے نا؟ ۔۔ ان‬ ‫چالتے ہوئے‬
‫کے ُمٹھ مارنے کا سٹائل اس قدر دل کش‬
‫تھا کہ آپا کی طرف دیکھتے‬ ‫اور سیکسی‬
‫بوال۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫سے‬ ‫وفور جزبات‬
‫ِ‬ ‫میں‬ ‫ہوئے‬
‫پھدی دو نا آپا۔۔۔۔ میری بات سن کر ان کا چہرہ‬
‫جوش‬ ‫ریڈ ہو گیا۔۔اور وہ‬ ‫ایک دم سے‬
‫میرے لن کو ہالتے ہوئے‬ ‫میں آ گئیں ۔۔۔۔ اور‬
‫گا؟ ۔ ۔۔اس لُل‬ ‫کہنے لگیں۔۔۔۔۔میری پھدی ماریں‬
‫نوں میری وچ پائیں گا ؟؟۔۔ تو میں نے ان کی‬
‫چھاتیوں سے کھیلتے ہوئے کہا۔۔۔۔ آپ بتائیں کب‬
‫تیار ہوں آپا۔۔‬ ‫۔میں تو ہر وقت ہی‬ ‫دیں گی ؟‬
‫میری بات سن کر وہ میرے اوپر جھک گئی‬
‫اور میرے ہونٹوں کو چوم کر بولیں ۔۔۔ ٹھیک اے‬
‫۔۔۔اَج راتی تیار رہئیں۔۔۔۔(آج رات کو تیار‬ ‫فئیر‬
‫کی طرف دیکھتے ہوئے‬ ‫رہنا) تو میں نے ان‬
‫بھرے لہجے میں کہا ۔۔۔۔ تسی وی تیار‬ ‫شرارت‬
‫ہو گے ناں ؟ میری بات سن کر وہ میرے لن‬
‫کہنے‬ ‫کے ساتھ‬ ‫بڑی ادا‬ ‫کو دباتے ہوئے‬
‫ہے نا۔۔۔۔ اس طرح‬ ‫تمہارا ۔۔ہتھیار‬ ‫لگی۔۔۔ جیسا‬
‫پھدی مروانے کے لیئے ۔۔۔۔۔تو میں‬ ‫کے لن سے‬
‫تیار ۔۔۔رہتی ہوں۔۔۔ اس کے ساتھ‬ ‫ہر وقت ہی‬
‫ہی وہ ایک دفعہ پھر میرے چہرے پر جھکیں‬
‫اور مجھے ایک چھوٹی سی کس دے کر‬
‫بولیں۔۔۔۔ توں تے تیرا ایہہ ووڈا سارا ۔۔۔لن ۔۔۔۔‬
‫مینوں بڑے پسند آئے او۔۔۔۔اور پھر جیسے ہی‬
‫ان کو‬ ‫اُٹھ کر جانے لگیں تو میں نے‬ ‫وہ‬
‫بازو سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے کہا۔۔۔تھوڑی‬
‫دیر اور بیٹھیں ناں پلیزززززز۔۔۔۔ تو وہ میرے‬
‫طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی رومینٹک لہجے‬
‫میں بولیں۔۔تم تھوڑی دیر کی بات کر رہے ہو‬
‫میں تو تمہارے ساتھ ساری عمر بیٹھنے کو تیار‬
‫ہوں۔۔۔اور پھر ایک دم اُٹھ کر یہ جا وہ‬
‫جا۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ اسی دن …‪..‬رات کے کسی پہر کا ذکر‬
‫سویا ہوا تھا‬ ‫ہے کہ میں چارپائی پر گھوک‬
‫۔۔ کہ مجھے ایسا لگا کہ جیسے کوئی مجھے پیر‬
‫سے پکڑ کر ہولے ہولے ہال رہا ہے۔۔۔ پہلے تو‬
‫میں کچھ نہ سمجھا ۔۔پھر اچانک ہی مجھے‬
‫نوراں آپا کی دوپہر والی بات یاد آ گئی۔۔۔۔۔اور‬
‫۔۔۔۔۔میں ایک جھٹکے کے ساتھ اُٹھ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ ہر‬
‫چھایا ہوا تھا ۔۔۔۔۔اور میں‬ ‫اندھیرا‬ ‫طرف‬
‫آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر‬ ‫اندھیرے میں‬ ‫اس‬
‫محسوس ہوا کہ‬ ‫ادھر ادھر دیکھنے لگا ۔۔۔۔ تو‬
‫آس پاس کی چاپائیوں پر سب لوگ مزے سے‬
‫مجھے اپنی‬ ‫سو رہے ہیں۔ اتنی دیر میں‬
‫چارپائی پر ایک ہولہ سا بیٹھے دیکھا ۔۔۔غور‬
‫کا‬ ‫ہیولہ نوراں آپا‬ ‫وہ‬ ‫سے دیکھا ۔۔۔۔ تو‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر ۔۔۔۔۔۔‬
‫میرے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے‬ ‫وہ‬
‫بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سیڑھیاں اتر کر نیچے آ جاؤ میں‬
‫تمہارا انتظار کر رہی ہوں یہ بات کہتے ہی‬
‫میری چارپائی سے‬ ‫وہ بڑی احتیاط کے ساتھ‬
‫اُٹھ کر چلی گئیں ۔۔۔ان کے سیڑھیاں اترتے ہی‬
‫بڑے غور کے‬ ‫میں نے‬ ‫۔۔۔ ایک بار پھر‬
‫ساتھ اپنی آس پاس کی چارپائیوں کی طرف‬
‫دیکھا ۔۔۔۔تو وہاں پر کوئی ہل جل موجود نہ‬
‫تھی۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنا ایک پاؤں‬
‫چارپائی سے نیچے زمین پر رکھا ۔۔۔۔ اور ایک‬
‫دوڑائی۔۔۔۔۔تو وہ‬ ‫پھر۔۔۔اپنے آس پاس نگاہ‬ ‫بار‬
‫ادھر‬ ‫بدستور سوتے ہوئے پائے گئے۔۔۔ چنانچہ‬
‫میں نے‬ ‫ہی‬ ‫ہو کر۔۔۔جیسے‬ ‫سے مطمئن‬
‫عین‬ ‫ایک قدم چارپائی کے نیچے رکھا ۔۔۔تو‬
‫خوف کی وجہ‬ ‫انجانے‬ ‫اس وقت کسی‬
‫دھک دھک‬ ‫کے ساتھ‬ ‫زور‬ ‫بڑے‬ ‫میرا دل‬
‫کر نے لگا۔۔۔۔۔۔ اس وقت ایک لمحے کے لیئے‬
‫میں نے اپنے دل میں سوچا کہ اگر کسی وجہ‬
‫سے میرے پاس کی چارپائی پر سویا ہوا‬
‫یہ بات سوچتے‬ ‫چوہدری اُٹھ گیا تو۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟‬
‫مجھے ایک جھرجھری سی آ گئی۔۔۔۔ ۔۔۔۔‬ ‫ہی‬
‫میری ریڑھ کی ہڈی میں ایک سنساہٹ‬ ‫اور‬
‫خوف کے مارے میں‬ ‫سی پھیل گئی۔۔۔۔۔ پھر‬
‫اس سے آگے نہ سوچ سکا ۔اور میں چارپائی‬
‫پر بیٹھے بیٹھے ۔۔۔۔ اس بارے غور و غوض‬
‫کرنے لگا۔۔۔ ابھی میں اسی شش و پنج میں تھا‬
‫کہ ایک بار پھر سیڑھیوں پر مجھے نوراں آپا‬
‫کا ہیولہ نظر آیا۔۔۔۔۔ وہ مجھے اپنی طرف بال رہی‬
‫دیکھ کر ۔۔۔۔میں‬ ‫ہیولہ‬ ‫تھی ۔۔۔۔ نوراں آپا کا‬
‫مجھ پر‬ ‫سب کچھ بھول گیا۔۔۔۔اور ایک بار پھر‬
‫شہوت سوار ہو گئی۔۔۔۔۔اور پھر ان کے دوسرے‬
‫اشارے پر میں نے بے اختیار ایک قدم زمین پر‬
‫رکھا اور پھر ادھر ادھر دیکھتا ہوا سیڑھیو ں‬
‫نیچے اترنے لگا۔۔۔۔۔سڑھیاں اتر کے‬ ‫سے‬
‫جیسے ہی میں صحن میں پہنچا تو ایک طرف‬
‫سے مجھے نوراں آپا کی سرگوشی سنائی دی‬
‫۔۔۔ ایدھر آ جا۔۔۔چنانچہ میں ان کی آواز کی‬
‫بڑھ گیا۔۔۔ اور ان کے نزدیک پہنچتے‬ ‫سمت میں‬
‫نوراں آپا نے میرے ہاتھ کو تھام لیا‬ ‫ہی‬
‫۔اور پھر مجھے لے کر ایک کمرے میں آ‬
‫دیکھا‬ ‫گئیں۔۔۔۔۔یہاں آ کر میں نے غور سے‬
‫یہ میرا کمرہ نہ تھا بلکہ جس کمرے‬ ‫تو‬
‫میں آنٹی لوگ ٹھہرے ہوئے تھے یہ وہ کمرہ‬
‫تھا۔۔۔ کمرے میں ملگجا سا اندھیرا چھایا ہوا‬
‫تھا۔۔۔ لیکن کافی دیر تک اندھیرے میں رہنے‬
‫کی وجہ سے میری آنکھیں اب اندھیرے میں‬
‫دیکھنے کے قابل ہو گئیں تھیں۔۔ اس لیئے میں‬
‫نے دیکھا کہ میرے سامنے حسن کی ملکہ‬
‫نوراں آپا کھڑی تھی۔۔۔مجھے اپنے سامنے کھڑے‬
‫دیکھ کر وہ میرے ساتھ لپٹ کر کہنے لگی ۔۔۔۔ تو‬
‫نیچے کیوں نہیں آ رہا تھا؟ ان کی بات سن‬
‫کر میں نے ان کی نرم چھاتیوں کو اپنے‬
‫انہیں‬ ‫میں پکڑ لیا۔۔۔ اور‬ ‫ہاتھوں‬ ‫دونوں‬
‫۔مسلتے ہوئے بوال ۔۔۔۔اس لیئے کہ آپا مجھے‬
‫ڈر لگ رہا تھا ۔۔۔ میری بات سن کر وہ‬ ‫بہت‬
‫ہوئے‬ ‫بھی جزبات کی شدت سے کانپتے‬
‫کہنے لگی۔۔۔اڑیا۔۔ ڈر تے مینوں وی‬ ‫لہجے میں‬
‫بڑ ا لگ ریا سی ۔۔۔ پر کی کراں ۔۔۔۔۔ پھر اپنی‬
‫پھدی کو میرے ساتھ رگڑتے ہوئے بولی ۔۔اینے‬
‫بڑا ستایا اے۔۔۔‬

‫اتنی بات کرتے ہی انہوں نے اپنے ہونٹوں کو‬


‫میرے ہونٹوں پر رکھ دیا اور پھر تھوڑی دیر‬
‫کسنگ کرنے کے بعد انہوں نے اپنی خوش ذائقہ‬
‫زبان کو میرے منہ میں ڈال دیا ۔۔۔۔ اور اس کے‬
‫ساتھ ہی ہم دونوں نے‪....‬اپنی اپنی زبانوں‬
‫کر ۔۔۔۔ چسکا لینا شروع کر دیا۔۔۔۔‬ ‫کو لڑا‬
‫اپنی زبانیں لڑاتے ہوئے اچانک ہی ہاتھ بڑھا‬
‫کر ا نہوں نے میرے لن کو پکڑ لیا۔۔۔اور پھر میرے‬
‫کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بولیں۔۔۔ تمہارے‬
‫کی وجہ سے میں نے اتنا‬ ‫اس پہلوان‬
‫رسک لیا ہے ۔۔ان کی بات سن کر میں نے‬
‫ان کی گردن کے قریب لے‬ ‫کو‬ ‫۔۔۔اپنے منہ‬
‫ان کی لمبی گردن پر‬ ‫گیا۔۔۔۔۔۔اور اپنی زبان کو‬
‫ہونٹوں کو ان کے کان‬ ‫ہوئے ۔۔۔‬ ‫۔۔ پھیرتے‬
‫ال کر بوال۔۔۔۔۔۔۔ میں بھی اسی پہلوان‬ ‫کے قریب‬
‫کے مجبور کرنے پر نیچے آ گیا تھا۔۔۔۔ اور پھر‬
‫ان کی صحراحی دار گردن‬ ‫اس کے ساتھ ہی‬
‫پر زبان پھیرنا شروع کر دی‪...‬ان کی لمبی گردن‬
‫پر زبان پھیرنے کی وجہ سے وہ مزید مست‬
‫ہو گئیں اور ہاتھ بڑھا کر میرے لن کو پکڑ لیا‬
‫۔۔۔پھر کچھ دیر بعد اسے دباتے ہوئے سرگوشی‬
‫میں بولیں ۔۔۔۔۔ ہن بس وی کر ۔۔۔۔ تو میں نے‬
‫بھی ان کے کان میں جوابا ً سرگوشی کرتے‬
‫تو وہ‬ ‫ہوئے کہا۔۔۔۔۔ بس کر کے کی کراں؟؟‬
‫بولیں‬ ‫ہوئے‬ ‫ہوس ناک آواز میں جواب دیتے‬
‫۔۔۔ جس کام سے آئے ہو وہ کرو نا۔۔۔۔۔۔تو‬
‫سے بوال۔۔ ۔۔ وہ کیا کام ہے‬ ‫میں شرار ت‬
‫جی؟۔۔۔۔ تو اچانک ہی وہ جزباتی ہو گئیں‬
‫میرے کان‬ ‫سے‬ ‫چپکے‬ ‫۔۔۔۔اور پھر‬
‫میں کہنے لگیں ۔۔۔۔ میری پھدی مارنے کا۔۔۔۔ ان‬
‫کی بات سن کر میں نے ان کا آزار بند‬
‫کھولنے کی غرض سے ان کی شلوار کی طرف‬
‫انہوں نے میرا ہاتھ‬ ‫ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ‬
‫پکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔ اور کہنے لگی۔۔۔ نالے نوں ہتھ نا‬
‫پا۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں نے ان سے کہا ۔۔نالہ نہ کھولوں‬
‫تو اندر کیسے ڈالوں گا ؟؟؟؟؟ ۔۔تو وہ جواب‬
‫کہنے لگی ۔۔۔۔اندر ڈلوانے کے‬ ‫ہوئے‬ ‫دیتے‬
‫اپنی شلوار کو‬ ‫ہی سے‬ ‫لیئے میں نے پہلے‬
‫رکھا ہے ۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں‬ ‫پھاڑ‬
‫پکڑا۔۔۔۔۔۔اور اسے اپنی‬ ‫کو‬ ‫ہاتھ‬ ‫نے میرے‬
‫پھٹی ہوئی شلوار کے اندر لے گئی۔۔۔۔۔۔۔‬
‫واؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ان کی پھدی بڑی ہی گرم تھی ۔۔۔۔۔ اور‬
‫کی پھدی‬ ‫کی خاطر اس‬ ‫پھر میں نے مزے‬
‫پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا ۔۔۔ان کی چوت‬
‫مجھے محسوس ہوا‬ ‫ہی‬ ‫پر ہاتھ پھیرتے‬
‫کہ ان کی پھدی بالوں سے بھری ہوئی تھی‬
‫بالوں‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫نے‬ ‫۔۔۔۔ جیسے ہی میں‬
‫۔۔۔۔ تو‬ ‫کی‬ ‫شروع‬ ‫میں انگلی پھیرنا‬
‫تے انج ای‬ ‫وہ مجھ سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ اَج‬
‫کر ۔۔لے۔۔۔۔اگلی واری ۔۔۔ تینوں پھدی صاف ملے‬
‫گی۔۔۔۔۔۔ اور پھر میرے ہاتھ کو پکڑ کر اپنی پھدی‬
‫کے کھلے ہوئے لبوں کے اندر لے جا کر‬
‫بھنابڑ بل رہئے اے۔۔۔۔ان‬ ‫بولی۔۔۔۔ ویکھ کنا‬
‫کے‬ ‫میں ان کی پھدی‬ ‫کے کہنے پر جب‬
‫ہی ان کی‬ ‫تو۔۔۔۔۔ واقعی‬ ‫ہاتھ لے گیا‬ ‫اندر‬
‫چوت اندر سے آخری حد تک گرم ہو رہی تھی‬
‫کے‬ ‫انگلی پھیرنے‬ ‫۔۔۔۔۔ ان کی چوت میں‬
‫دوران ہی وہ مجھ سے کہنے لگی۔۔۔۔۔ انگلی‬
‫لُل پا۔۔( لن ڈالو) ان کی‬ ‫نہ مار ۔۔۔۔۔ میرے اندر‬
‫بات سن کر میں نے اپنا آزار بند کھوال ۔۔۔۔اور‬
‫اپنے لن کو باہر نکال لیا۔۔۔۔۔۔مجھے نالہ کھولتے‬
‫دیکھ کر انہوں نے پاس پڑے پلنگ کے پائے‬
‫دونوں ہاتھ رکھے ۔۔۔اور اپنی گانڈ‬ ‫پر اپنے‬
‫کو باہر نکال کر بولی ۔۔۔۔۔ چھیتی کر۔۔۔ یہ دیکھ‬
‫کر میں نے اپنے ٹوپے پر تھوک لگایا ۔۔۔اور ان‬
‫سے لن کو اندر داخل‬ ‫کی پھٹی ہوئی شلوار‬
‫کر دیا۔۔۔۔ جیسے ہی میرا لن ان کی تندور بنی‬
‫ہوتے‬ ‫پھدی کے اندر ڈال دیا۔۔۔ لن اندر داخل‬
‫وہ بڑے نشیلے انداز میں کراہی ۔۔۔مار سٹویا‬ ‫ہی‬
‫ای ظالما۔۔۔۔۔اور پھر خود ہی اپنی ہپس کو‬
‫آگے پیچھے کر کے میرے لن‬ ‫تیزی کے ساتھ‬
‫یہ عمل دیکھ کر‬ ‫پر مارنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ اُن کا‬
‫میں نے گھسے مارنے بند کر دیئے اور ان‬
‫کے آگے پیچھے ہونے کے عمل کو انجوائے‬
‫کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔وہ کچھ دیر تو اپنی گانڈ کو میرے‬
‫لن پر مارتی رہیں پھر اچانک ہی پیچھے مڑ کر‬
‫سرگوشی میں بولیں۔۔۔ ۔۔۔توں وی گھسے مار‬
‫۔۔۔ناں۔۔۔پھر کہنے لگیں۔۔۔۔ صواد تے تیرے ہی‬
‫ہی گھسے‬ ‫تو تمہارے‬ ‫گھسیاں دا آئے گا۔(مزہ‬
‫مارنے آئے گا)۔۔ان کے منہ سے ان الفاظ کے‬
‫نکلتے ہی میں نے اپنے دونوں ہاتھ۔ان کی ہپس‬
‫تیزی کے ساتھ گھسے‬ ‫پر رکھے اور پھر بڑی‬
‫مارتے ہوئے لن کو ان آؤٹ کرنا شروع کر‬
‫دیا۔۔۔۔۔ ۔ میرے گھسوں کی رفتار دیکھتے ہی ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫نا (‬ ‫ای‬ ‫کر بولیں۔۔۔ہن صواد آیا‬ ‫وہ سسک‬
‫اب مزہ آیا ہے) ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہو مار۔۔۔۔ اور پھر میرے ہر‬
‫ہور‬ ‫گھسے پہ وہ یہی بات دھراتی جاتی۔۔۔۔ظالما‬
‫مار۔۔۔۔۔۔اس طرح گھسے مارتے مارتے اچانک‬
‫ان کے سانسوں کی رفتار تیز ہو گئی اور وہ‬
‫مجھ سے کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔زور۔۔سے م اروووووو۔۔۔‬
‫ہوں ۔اس کے بعد‬ ‫بس چھوٹنے ہی والی‬ ‫میں‬
‫وہ ہلکی آواز میں غراتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔۔۔ بس نہ‬
‫کریں ۔۔۔ میری وجاندا جا ۔۔۔۔وجاندا جا ۔۔۔۔۔وجاندا‬
‫جا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے چھوٹنا‬
‫میری‬ ‫کو‬ ‫شروع کر دیا ۔۔۔اور اپنے منہ‬
‫میں‬ ‫دے‬ ‫طرف کر کے کہنے لگیں ۔۔۔۔ بس کر‬
‫گئی آں ۔(بس کر دو میں چھوٹ گئی ہوں )۔۔۔‬ ‫‪..‬وخ‬
‫اس وقت‬ ‫بس نہیں کی اور‬ ‫لیکن میں نے‬
‫جب‬ ‫رہا ۔۔۔۔کہ‬ ‫وجاندا‬ ‫تک ان کی پھدی کو‬
‫تک میرے لن نے بھی پانی نہیں چھوڑنا شروع‬
‫نکلنے واال‬ ‫کیا۔۔۔۔۔ اور پھر جب میرے لن سے‬
‫آخری قطرہ بھی ان کی چوت میں گر‬
‫گیا۔۔۔۔۔وہ کہنے لگیں۔۔۔۔ اب تو بس کرو۔۔۔۔ اور پھر‬
‫۔۔۔۔انہوں نے بڑی نرمی کے ساتھ میرے لن کو‬
‫اپنی گیلی چوت سے باہر نکاال ۔۔اور‬ ‫پکڑ کر‬
‫وجا وجا‬ ‫مجھ سے لپٹ کر کہنے لگی ۔۔۔۔ میری‬
‫مینوں ٹھنڈیاں کر دیتے ای۔۔۔(تم نے تو‬ ‫کے‬
‫۔۔۔۔۔۔ ۔۔ تو میں نے‬ ‫مجھے ٹھنڈا کر دیا ہے)‬
‫کہا آپا اب‬ ‫کو چومتے ہوئے‬ ‫بھی جوابا ً ان‬
‫کہنے‬ ‫سے‬ ‫بنڈ بھی دو نا ۔۔تو وہ بڑی ادا‬
‫کسی اور دن دوں گی ۔۔پھر وہ مجھ‬ ‫لگی۔۔۔۔وہ‬
‫بولی ابھی تم جاؤ‬ ‫ہوتے ہوئے‬ ‫سے الگ‬
‫۔۔۔ میں تھوڑی دیر بعد آؤں گی۔اگلے دن کوئی‬
‫خاص بات نہیں ہوئی ماسوائے اس کے کہ دوپہر‬
‫دیر‬ ‫کے وقت ایک بار پھر آپا کے ساتھ تھوڑی‬
‫تو‬ ‫ہوئی‬ ‫کا چانس مال ۔۔۔۔ پھر شام‬ ‫کسنگ‬
‫نہالنے کے لیئے‬ ‫چوہدری مجھے اپنے ساتھ‬
‫مجھے‬ ‫ب روایت‬
‫ٹیوب ویل پر لے گیا۔۔۔۔ اور حس ِ‬
‫خود لمبڑوں کے ڈیرے پر‬ ‫چھوڑ کر‬ ‫وہاں‬
‫حقہ پینے چال گیا ۔۔۔۔جیسے ہی چوہدری لمبڑوں‬
‫کے ڈیرے کی طرف گیا اچانک کہیں سے رضو‬
‫ہودی‬ ‫کی‬ ‫ویل‬ ‫نمودار ہو گئی ۔۔اور ٹیوب‬
‫کے پاس آ کر بڑے تپاک کے ساتھ بولی ۔۔۔ کیسے‬
‫ہو بھائی جان ؟ تو میں نے اس کی بات کا‬
‫جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔ میں تو ٹھیک ہوں …‬
‫تو وہ کہنے‬ ‫مگر تمہاری دوست کہاں ہے ؟‬
‫لگی۔۔۔ ۔۔۔ بھائی وہ ادھر ہی ہے لیکن آپ کی‬
‫طرف آنے سے شرما رہی ہے تو میں نے‬
‫اس سے کہا کہ اس میں شرمانے کی کون سی‬
‫بات ہے؟ تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بڑے پُر اسرار لہجے میں کہنے لگی۔۔ تمہیں سب‬
‫ہے بھائی۔۔۔ پھر مجھ سے کیوں پوچھ‬ ‫معلوم‬
‫جونہی نہا کر‬ ‫رہے ہو؟ ۔۔ اس کے بعد میں‬
‫نکال ۔۔۔تو وہ بھاگ کر گئی اور میرے لیئے‬ ‫باہر‬
‫گالس لے کر آ گئی۔۔۔ ۔۔۔ ابھی میں اس‬ ‫لسی کا‬
‫کی دی ہوئی لسی کو پی ہی رہا تھا کہ‬
‫سامنے سے چوہدری آتا ہوا دکھائی دیا۔۔۔اتنی‬
‫دیر میں لسی ختم کر چکا تھا اس لیئے اس‬
‫گالس لیا اور واپس‬ ‫نے میرے ہاتھ سے خالی‬
‫چلی گئی۔۔۔۔۔راستے بھر میں چوہدری مجھے کچھ‬
‫اس کے متعلق‬ ‫دیا۔۔۔۔اور‬ ‫پریشان سا دکھائی‬
‫بھی ۔۔۔۔ لیکن وہ‬ ‫نے اس سے پوچھا‬ ‫میں‬
‫ب معمول رات‬
‫بات کو ٹال گیا۔۔۔ پھر حس ِ‬ ‫میری‬
‫کے کھانے پر سب لوگ اکھٹے بیٹھ کر کھانا‬
‫کھا رہے تھے تو اچانک ہی چوہدری نے تائی‬
‫اماں کی طرف دیکھا اور پھر بڑی سنجیدگی‬
‫کے ساتھ کہنے لگا ۔۔ آج جب میں اس منڈے‬
‫کو لے کر ڈیرے پر گیا تھا ۔۔۔تو یہ منڈا تو ٹیوب‬
‫ب معمول‬
‫ویل پر نہانے لگ پڑا لیکن میں حس ِ‬
‫لمبڑوں کے ڈیرے پر حقہ پینے چال گیا ۔۔۔تو‬
‫اتفاق سے وہاں پر نوراں کے گاؤں کا چوہدری‬
‫برکت بھی بیٹھا تھا مجھے وہاں دیکھ کر وہ بڑا‬
‫کہنے لگا کہ وہ‬ ‫مجھ‬ ‫خوش ہوا اور پھر‬
‫میری ہی طرف آ رہا تھا ۔۔۔ اس پر میرے کان‬
‫میرے پوچھنے پر وہ‬ ‫کھڑے ہو گئے اور‬
‫کے سسرال والوں نے‬ ‫کہنے لگا۔۔۔۔ کہ نوراں‬
‫میں‬ ‫کے لیئے بیچ‬ ‫اسے معاملہ سلجھانے‬
‫سامنے‬ ‫ہے۔۔۔۔اس کے بعد چوہدری نے‬ ‫ڈاال‬
‫پھر کہنے‬ ‫پڑے ہوئے گالس سے پانی پیا اور‬
‫چوہدری‬ ‫اس سلسلہ میں کل دوپہر کو‬ ‫لگا‬
‫برکت کے ساتھ نوراں کے سسرال کے ساتھ پنڈ‬
‫کے معزز بندوں کی پریا بھی ہمارے گھر آ‬
‫رہی ہے۔۔۔ ۔ اتنی بات کر کے وہ خواتین کے کی‬
‫مخاطب ہو کر کہنے لگا۔۔۔ ۔۔ کہ اب مجھے‬ ‫طرف‬
‫یہ بتاؤ کہ کیا مجھے نوراں کو ان کے ساتھ‬
‫ٹور دینا چایئے یا ۔۔۔ کل چوہدری کو اپنے ہاں‬
‫آنے سے منع کر دوں؟؟؟؟۔۔۔ اس پر آنٹی بات کرتے‬
‫ہوئے بولیں ۔۔۔ بھائی صاحب اس کا اصل فیصلہ‬
‫تو نوراں بیٹی نے ہی کرنا ہے لیکن میرے خیال‬
‫بیٹیاں اپنے گھر میں ہی‬ ‫میں شادی کے بعد‬
‫اچھی لگتی ہیں۔۔۔ آنٹی کی بات سن کر چوہدری‬
‫نے اپنا بڑا سا سر ہالیا اور پھر نوراں کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔کیوں پتر‬
‫اے؟؟؟؟؟؟۔۔۔ ؟ چوہدری کی بات‬ ‫تیری کی صالح‬
‫سن کر نوراں نے اپنا سر جھکا لیا ۔۔۔۔اور پھر‬
‫چوہدری کے بار بار پوچھنے پر بس اتنا ہی‬
‫بولی ۔۔۔ کہ ابا جیسا آپ کرو گے مجھے منظور‬
‫ہے۔۔۔ نوراں کی بات سن کر تائی اماں کہنے لگی‬
‫چوہدری‬ ‫۔۔۔ لیکن میں نے اپنی بیٹی کو صرف‬
‫برکت کی وجہ سے ہر گز نہیں جانے دینا۔۔بلکہ‬
‫ان لوگوں کے ساتھ میں اپنی کڑی کو‬
‫ٹوروں گی تو کسی گل کے ساتھ ۔۔ٹوروں گی‬
‫۔۔۔۔تو اس پر چوہدری شیر نے اس کی طرف‬
‫!۔۔‬ ‫دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ اوئے نیک بختے‬
‫ہی میں ان‬ ‫کے ساتھ‬ ‫ظاہر ہے کچھ شرائط‬
‫رانی کو ٹوروں گا نا۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔‬ ‫دھی‬ ‫کے ساتھ‬
‫اسکے بعد وہ سب لوگ نوراں کو بھیجنے کے‬
‫لیئے مختلف شرائط پر غور و خوض کرنے لگے‬
‫جاری ہے‬ ‫۔۔‬

‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_قسط_نمبر_‪16‬‬

‫آخر کافی بحث و تمہید کے بعد انہوں نے تین‬


‫چار نکاتی شرائط نامہ تیار کیا۔۔۔۔اور اس کے‬
‫یہ بھی طے پایا کہ نوراں کے‬ ‫ساتھ ساتھ‬
‫کر۔۔۔ پھر‬ ‫سسرالیوں کو ایک دو دن رکھ‬
‫جانے دیا جائے۔جب‬ ‫کے ساتھ‬ ‫ان‬ ‫نوراں کو‬
‫سب باتیں طے ہوں گئیں ۔۔۔۔تو اچانک ہی آنٹی نے‬
‫سے کہنے‬ ‫دیکھا اور چوہدری‬ ‫میری طرف‬
‫لگی ۔۔۔۔ بھائی صاحب ایک بات تو بتاؤ اور وہ یہ‬
‫یہ لڑکا بھی اسی گھر میں‬ ‫کہ کیا۔۔۔ اس دوران‬
‫رہے گا؟ تو اس پر تائی اماں کہنے لگی ۔۔۔ یہ‬
‫ہے اس لیئے‬ ‫بیٹا اور مہمان‬ ‫منڈا بھی ہمارا‬
‫اس نے ادھر نہیں رہنا تو پھر یہ کہاں جائے‬
‫اماں کی بات سن کر آنٹی کہنے‬ ‫گا؟ تائی‬
‫لگیں ۔۔آپا جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ نوراں کے‬
‫سسرال والے کس قدر شکی مزاج اور وہمی لوگ‬
‫لوگوں کے‬ ‫میں ان‬ ‫ہیں تو اس صورت حال‬
‫یہ لڑکا بھی ادھر ہی رہا تو‬ ‫ہوتے ہوئے اگر‬
‫اس کے بارے میں کیا باتیں‬ ‫جانے وہ لوگ‬
‫تائی اماں‬ ‫کریں؟ آنٹی کی اس بات پر‬
‫میں بولیں ۔۔۔ باتیں کرتے ہیں تو‬ ‫غصے‬
‫کرتے رہیں ۔۔۔ ۔۔۔ لیکن یہ ہمارا مہمان ہے اور۔۔۔‬
‫۔۔۔۔ ابھی تائی اماں نے اتنی ہی بات کی تھی‬
‫سے ان کی بات کو کاٹتے ہوئے‬ ‫کہ ۔۔۔۔آگے‬
‫چوہدری کہنے لگا۔۔۔۔ صائقہ ٹھیک کہہ رہی ہے‬
‫نیک بخت ۔۔تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ نوراں پتر‬
‫شکی مزاج کے‬ ‫کے سسرال والے کس قدر‬
‫لوگ ہیں اس لیئے ان لوگوں کے ہوتے ہوئے‬
‫یہاں رہنا ٹھیک نہیں ہو گا۔۔۔ اس‬ ‫اس منڈے کا‬
‫بولی‬ ‫غصے میں آ کر‬ ‫پر تائی اماں مزید‬
‫نکال‬ ‫گھر سے‬ ‫کیا کریں۔۔ اسے‬ ‫تو ہم‬
‫دیں کیا ؟ تو اس کی بات کا جواب دیتے ہوئے‬
‫۔۔۔ اس‬ ‫چوہدری کہنے لگا او ہو نیک بختے‬
‫کو گھر سے نکالنے کا کس نے کہا ہے۔۔ہم تو بس‬
‫کی‬ ‫یہ بات کر رہے ہیں ۔۔۔۔کہ پریا‬
‫گھر میں‬ ‫موجودگی میں منڈے کو اس‬
‫اسے یہاں دیکھ‬ ‫نہیں ہونا چایئے۔۔‬ ‫موجود‬
‫۔۔۔۔ کیا بات کریں‬ ‫کر جانے وہ کیا سوچیں‬
‫۔۔۔اس لیئے میری تجویز ہے کہ جتنے دن نوراں‬
‫کے سسرالی یہاں رہیں گے یہ منڈا اپنے‬
‫ڈیرے پر رہے گا ۔۔ کچھ در و کد کے بعد آخر‬
‫یہ بات منظور کر‬ ‫کی‬ ‫کابینہ نے چوہدری‬
‫لی کہ جتنے دن نوراں آپا کے سسرال یہاں‬
‫ڈیرے پر‬ ‫رہیں گے ۔۔۔ اتنے دن میں ان کے‬
‫رہوں گا ‪-‬‬

‫بغل میں‬ ‫اپنی‬ ‫اگلی صبع ناشتے کے بعد‬


‫چوہدری کے ساتھ ان‬ ‫دو تین ناول دابے میں‬
‫کے ڈیرے پر پہنچ گیا میرے خیال میں چوہدری‬
‫پہلے‬ ‫نے عزیز کو میرے آنے سے متعلق‬
‫جیسے ہی‬ ‫کر دیا تھا اسی لیئے‬ ‫ہی آگاہ‬
‫پہلے‬ ‫وہاں‬ ‫تو‬ ‫ڈیرے پر پہنچے‬ ‫ہم‬
‫پلنگ‬ ‫میرے لیئے ایک رنگال‬ ‫سے ہی‬
‫سرخ‬ ‫بچھا ہوا تھا اور اس پلنگ کے اوپر‬
‫رنگ کی ایک نئی چادر بھی پڑی ہوئی‬
‫تھی۔۔۔۔۔اور سرہانے کے غالف پر گالب کے پھول‬
‫کی کڑھائی ہو ئی ۔۔۔ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ ۔ وہاں پہنچ‬
‫کر چوہدری اور عزیز کچھ دیر بیٹھ کر اپنے‬
‫چلے گئے۔۔۔۔ اور‬ ‫واپس‬ ‫سے‬ ‫کاموں‬ ‫اپنے‬
‫کے جاتے ہی رضو کہیں سے‬ ‫پھر ان لوگوں‬
‫ان ٹپکی اور میرے پاس آ کر کہنے لگی ۔۔۔‬
‫پر‬ ‫ڈیرے‬ ‫بھائی جان جتنے دن آپ اس‬
‫آ پ کو کسی بھی‬ ‫اگر‬ ‫رہیں گے اس دوران‬
‫چیز کی ضرورت ہو تو بال تکلف مجھ سے کہہ‬
‫دینا۔۔تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫کہا ۔۔ باقی باتیں چھوڑو ۔۔ مجھے یہ بتاؤ کہ‬
‫تمہاری دوست مینا کہاں ہے؟ تو وہ ہنس کر‬
‫بولی۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ ابھی آتی ہی ہو گی۔۔۔۔پھر کچھ دیر‬
‫باتیں کرنے کے بعد وہ یہ کہتے ہوئے اُٹھ کر‬
‫چلی گئی کہ ۔۔۔گھر کے کام وغیرہ کر کے تھوڑی‬
‫دیر بعد آتی ہوں ۔۔۔ اس کے جانے کے بعد میں‬
‫گیا‬ ‫نے ایک ناول کھوال اور اسے پڑھنے لگ‬
‫۔۔۔۔ابھی مجھے ناول پڑھتے ہوئے ایک گھنٹہ ہی‬
‫ہوا تھا کہ رضو دوبارہ سے میرے پاس آ کر‬
‫کہ مجھے کسی‬ ‫لگی‬ ‫کھڑی ہو کر پوچھنے‬
‫چیز کی ضرورت تو نہیں؟ تو اس پر میں نے‬
‫اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ مینا کہاں‬
‫ہے؟ میری بات سن کر اس کے چہرے پر ایک‬
‫شرارت آمیز مسکراہٹ دوڑ گئی اور وہ ہنستے‬
‫ہوئے بولی ۔۔۔۔ اب تک تو اسے آ جانا چاہیئے‬
‫تھا لیکن شاید آپ کی وجہ سے یا پھر‬
‫گھر میں آنے والے مہمانوں کی وجہ سے۔۔۔۔۔‬
‫اس نے آج ادھر کا ُرخ نہیں کیا ۔۔۔اور پھر‬
‫دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔ اچھا یہ‬ ‫میری طرف‬
‫بتائیں کہ آپ کو کسی چیز کی ضرورت تو‬
‫نہیں؟ تو میں نے اس کو پانی کا کہہ دیا‬
‫میں گھڑا لیئے‬ ‫کچھ دیر بعد وہ اپنی بغل میں‬
‫میرے پاس آ گئی اور اس گھڑے کو پلنگ‬
‫آپ‬ ‫کے پاس رکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔ لو جی‬
‫کے لئے میں گھر کا سب سے ٹھنڈا گھڑا لے‬
‫پیو ۔۔۔‬ ‫کے پانی‬ ‫الئی ہوں تا کہ آپ رج رج‬
‫رک کر بولی ۔۔۔اور کوئی چیز چاہئے‬ ‫پھر تھوڑا‬
‫کا‬ ‫تو وہ بھی بتا دو۔۔۔۔؟ تو میں نے اس‬
‫شکریہ ادا کرتے ہوئے انکار کردیا۔۔۔چنانچہ میری‬
‫واپس چلی گئی۔۔شام ہوا‬ ‫وہ‬ ‫کر‬ ‫بات سن‬
‫میں نے کرنل آفریدی سیریز‬ ‫چاہتی تھی کہ جب‬
‫ناول کو ختم کیا چونکہ‬ ‫کے ایک جاسوسی‬
‫کرنل آفریدی کا یہ ناول خاصہ ہیوی تھا‬
‫اس لیئے اس کو ختم کر کے سستانے اور‬
‫کو تھوڑا ریسٹ دینے کے‬ ‫آنکھوں‬ ‫اپنی‬
‫۔‬ ‫لیٹ گیا‬ ‫میں پلنگ پر دراز ہو کر‬ ‫لیئے‬
‫باقی تھی جو کہ‬ ‫دھوپ ابھی‬ ‫۔۔ اس وقت‬
‫میرے‬ ‫کر‬ ‫درخت کی ٹہنیوں سے چھن چھن‬
‫اور‬ ‫چنانچہ دھوپ‬ ‫چہرے پر پڑ رہی تھی‬
‫مکھیوں سے بچنے کے لیئے جو کہ بار بار‬
‫کی کوشش کر رہیں‬ ‫منہ پر بیٹھنے‬ ‫میرے‬
‫تھیں۔۔۔۔۔ میں نے پاس پڑی کتاب کو کھول کر‬
‫اس سے اپنے چہرے کو ڈھانپ لیا۔۔۔ ۔۔۔‬
‫بعد عزیز بھی اپنا ٹانگہ‬ ‫تھوڑی ہی دیر کے‬
‫لے کر آ گیا ۔۔۔ اور پھر گھوڑے کو تانگے سے‬
‫میرے بلکل‬ ‫الگ کر کے اس نے اسے‬
‫سامنے والے درخت کے ساتھ باندھ دیا ۔ اور پھر‬
‫بڑھا۔۔۔۔لیکن‬ ‫طرف‬ ‫کے لیئے میری‬ ‫گپ شپ‬
‫دیکھ کر وہ‬ ‫پڑی‬ ‫میرے چہرے پر کتاب‬
‫ہوں‬ ‫ہوا‬ ‫سویا‬ ‫میں‬ ‫یہ سمجھا کہ‬
‫سے چال گیا‬ ‫بنا رکے وہاں‬ ‫۔۔۔اس لیئے وہ‬
‫رضو بھی ادھر آ گئی۔۔۔ چنانچہ‬ ‫۔۔اسی دوران‬
‫اس کے قریب آنے پر عزیز نے اسے ہدایت‬
‫دیتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ کہ پتر گھوڑے کو دانہ پھکا‬
‫پانی بھی پال دینا۔۔ ۔۔۔ میں جھٹ‬ ‫کے‬ ‫ڈال‬
‫آرام کرنے لگا ہوں ۔۔۔ میں پلنگ پر لیٹے ہوئے‬
‫دیکھ‬ ‫مناظر‬ ‫کتاب کے نیچے سے یہ سب‬
‫رہا تھا ہدایت دینے کے بعد عزیز تو اپنے‬
‫گھر کی طرف چال گیا۔۔۔ عزیز کے جاتے ہی‬
‫پر رکھی کتاب کو اُٹھا کر‬ ‫میں اپنے چہرے‬
‫رضو سے ہیلو ہائے کرنے ہی لگا تھا کہ ۔۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔ اچانک رضو نے گردن گھما کر بڑے ہی‬
‫چاروں طرف دیکھنا شروع‬ ‫مشکوک انداز میں‬
‫میں‬ ‫کر دیا ۔۔۔رضو کے اس طرح مشکوک انداز‬
‫گیا ۔۔۔اور اسی حالت‬ ‫دیکھنے سے میں ٹھٹھک‬
‫میں پڑے رہنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔ پھر‬
‫ڈالنا‬ ‫میرے سامنے رضو نے گھوڑے کو چارہ‬
‫وہ‬ ‫کے بعد‬ ‫ڈالنے‬ ‫کر دیا۔۔۔۔۔ چارہ‬ ‫شروع‬
‫ایک دفعہ پھر سے‬ ‫اپنی جگہ سے اُٹھی اور‬
‫شروع کر دیا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔اور‬ ‫چاروں اورھ دیکھنا‬
‫پھر خا ص کر میرے پلنگ کی طرف دیکھتے‬
‫میری طرف بڑھنے‬ ‫۔۔۔وہ‬ ‫ہوئے‬
‫چلتی ہوئی میرے پاس آ کر ُرک‬ ‫لگی۔۔۔۔اور پھر‬
‫کھڑے ہو کر کہنے‬ ‫گئی۔۔۔۔اور میرے سرہانے‬
‫لگی۔۔۔۔ ۔۔۔ بھائی جان۔۔۔۔ آپ سو رہے ہو کیا؟۔۔۔اس‬
‫اور اس کا لہجہ اس‬ ‫کی آواز کا اتار چڑھاؤ‬
‫وہ کسی‬ ‫رہا تھا کہ‬ ‫کھا‬ ‫بات کی چغلی‬
‫میں ۔۔۔۔۔‬ ‫خیال‬ ‫واردات پر ہے اور میرے‬
‫اپنے یار سے ملنے‬ ‫اس عمر میں سوائے‬
‫ہو‬ ‫واردات بھال کیا‬ ‫کے اور‬ ‫مالنے‬
‫سکتی ہے؟ ۔۔۔ادھر میرے سرہانے کھڑی رضو‬
‫۔۔ کے بار بار پکارنے پر بھی جب میں‬
‫نہ‬ ‫جواب‬ ‫کوئی‬ ‫نے اس کی بات کا‬
‫دیا۔۔۔ تو وہ ۔۔۔ میرے اور قریب آ کر اونچی آواز‬
‫میں کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔ لو بھائی جان ۔۔۔۔ مینا بھی‬
‫آ گئی ہے۔۔۔ لیکن میں نے اس کے اس‬
‫نہ‬ ‫جواب‬ ‫کوئی‬ ‫کا بھی‬ ‫انکشاف‬
‫سوتا بنا رہا ۔۔پھر اسی‬ ‫دیا۔۔۔۔۔اور بدستور‬
‫لگائیں ۔۔۔۔‬ ‫طرح اس نے دو تین آوازیں اور‬
‫جب میری طرف سے اس کو کوئی‬ ‫لیکن‬
‫رسپانس نہ مال۔۔۔۔۔تو وہ تھوڑا آگے بڑھی ۔۔۔ اور‬
‫میرے منہ سے کتاب ہٹا کر بولی ۔۔۔ مجھے پتہ‬
‫ہے کہ آپ جاگ رہے ہو۔۔۔لیکن میں نے کوئی‬
‫جواب نہ دیا ۔۔۔بلکہ کچھ ہی سیکنڈز کے بعد‬
‫لینے شروع کر‬ ‫ہلکے ہلکے خراٹے بھی‬
‫دیئے۔۔۔ وہ کچھ دیر تک وہیں کھڑی بڑے غور‬
‫دیکھتی رہی ۔۔۔ اور پھر‬ ‫میری طرف‬ ‫سے‬
‫میرے سونے کے ناٹک سے وہ مطئن ہو گئی‬
‫۔۔۔اور اس نے بڑی احتیاط کے ساتھ کتاب کو‬
‫میرے چہرے پر بلکل ویسے ہی‬ ‫دوبارہ‬
‫پڑی‬ ‫کہ جیسے وہ پہلے‬ ‫رکھ دیا کہ‬
‫چلتے‬ ‫دبے پاؤں‬ ‫ہوئی تھی ۔۔۔۔اور پھر‬
‫ہوئے وہاں سے چلی گئی۔‬

‫چلتے چلتے وہ واپس گھوڑے کے پاس جا‬


‫جا کر کھڑی ہو‬ ‫پہنچی ۔۔۔۔اور اس کے پاس‬
‫گئی۔۔۔۔ اور پھر۔۔۔میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک‬
‫بار پھر اس نے ایک نظر ادھر ادھر دیکھا اور‬
‫گھوڑے کی پشت پر ہاتھ پھیرنا شروع ہو گئی‬
‫۔۔۔گھوڑے کی پشت پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے اب‬
‫چکا‬ ‫پر پہنچ‬ ‫کا ہاتھ گھوڑے کی پشت‬ ‫اس‬
‫تھا۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ ادھر میں بڑے تجسس کے عالم میں‬
‫رہا تھا‬ ‫اس کی ایک ایک حرکت کو نوٹ کر‬
‫۔۔۔۔۔ کمر پر ہاتھ پھیرنے کے کچھ دیر بعد ۔۔ اس‬
‫نے ایک بار پھر گردن گھما کر چاروں اورھ ۔۔۔ اور‬
‫دیکھا ۔اس‬ ‫خاص کر میرے پلنگ کی طرف‬
‫وقت رضو کا سانولہ چہرے جزبات کی گرمی‬
‫بڑے‬ ‫رہا تھا ۔۔۔ اور ادھر میں‬ ‫سے تمتما‬
‫ہی غور سے اس پر نظریں جمائے اس کی‬
‫رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ہاں تو میں کہہ‬ ‫دیکھ‬ ‫طرف‬
‫رہا تھا کہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اور خاص کر‬
‫ڈال کر وہ‬ ‫پر‬ ‫میرے پلنگ‬ ‫ایک نظر‬
‫کے بل زمین پر بیٹھ گئی۔۔۔اور پہلے‬ ‫پنجوں‬
‫تو اس نے گھوڑے کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا ۔۔۔۔۔‬
‫ہوا ۔۔۔‬ ‫سرکتا‬ ‫پھر آہستہ آہستہ اس کا ہاتھ‬
‫گھوڑے کے پیٹ کے نچلے حصے پر پہنچ‬
‫گیا۔۔۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر رینگتے رینگتے‬
‫دونوں ٹانگوں‬ ‫کی‬ ‫رضو کا ہاتھ گھوڑے‬
‫پہنچ گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔اور اس کے‬ ‫کے درمیان‬
‫والی جگہ‬ ‫کے لن‬ ‫ساتھ ہی اس نے گھوڑے‬
‫شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی‬ ‫پھیرنا‬ ‫پر ہاتھ‬
‫حساس‬ ‫رضو کے ہاتھ نے گھوڑے کے‬
‫گھوڑے‬ ‫ایریا کو ٹچ کیا۔۔۔۔۔۔تو عین اسی وقت‬
‫منہ اوپر‬ ‫وہ‬ ‫۔۔۔اور‬ ‫بدن تھرتھرایا‬ ‫کا‬
‫پھر اس‬ ‫۔۔۔۔۔اور‬ ‫ہنہنایا‬ ‫کی طرف کر کے‬
‫کے ساتھ ہی۔۔۔۔ گھوڑے کا کاال ۔۔موٹا ۔۔۔۔اور‬
‫لن تیزی کے ساتھ باہر نکل کر تن‬ ‫سا‬ ‫لمبا‬
‫گیا ۔۔۔ چونکہ رضو کا منہ میری طرف تھا اور‬
‫میں بڑے ہی غور سے اس کی ایک ایک حرکت کا‬
‫جائزہ لے رہا تھا اس لیئے جیسے ہی‬
‫گھوڑے لن باہر نکال ۔۔تو یہ دیکھ کر میں حیران‬
‫نکلتے‬ ‫رہ گیا کہ گھوڑے کے لن کو باہر‬
‫دیکھ کر رضو کی آنکھوں میں ‪ 440‬وولٹ کے‬
‫بلب جیسی روشی ابھری اور پھر ان نے ہاتھ‬
‫بڑھا کر اس کے لن کو پکڑ لیا ۔۔اور اسے‬
‫سہالنے لگی۔۔۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر میں ششدر‬
‫رہ گیا میرے خواب و خیال میں بھی یہ بات نہ‬
‫کشٹ‬ ‫زیادہ‬ ‫اتنا‬ ‫تھی کہ رضو‬
‫لن پکڑنے کے لیئے کر رہی‬ ‫کا‬ ‫گھوڑے‬
‫کر‬ ‫ہے۔۔۔ بلکہ اس کی مشکوک حرکات دیکھ‬
‫اس‬ ‫ضرور‬ ‫تھا کہ‬ ‫تو یہ اندازہ لگا رہا‬
‫ٹائم دیا‬ ‫نے اپنے کسی یار کو ملنے کا‬
‫میں‬ ‫گا۔۔۔ لیکن یہاں تو معاملہ ہی اُلٹ نکال۔۔۔۔پھر‬
‫نے دیکھا کہ رضو ۔۔سر جھکائے گھوڑے کے‬
‫لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑکر ۔۔۔۔۔اسے دھیرے‬
‫دھیرے سہال رہی تھی اور یہ منظر دیکھ کر‬
‫آ گیا ۔۔ اور میرے جوش‬ ‫مجھے بھی جوش‬
‫میں آنے کی دیر تھی ۔۔۔۔ کہ نیچے سے میرے‬
‫بھائی صاحب نے بھی‬ ‫چھوٹے۔۔۔لیکن موٹے‬
‫سر اُٹھانا شروع کر دیا۔۔۔۔غرض کہ تھوڑی ہی دیر‬
‫بعد رضو کا سین دیکھ کر مجھ پر بھی سیکس‬
‫اس وقت میں تیزی‬ ‫سوار ہو چکا تھا ۔۔۔۔اور‬
‫کے ساتھ اس اینگل پر سوچ رہا تھا کہ کس‬
‫اپنے لن کو‬ ‫طرح میں گھوڑے کی بجائے‬
‫رضو کے ہاتھ میں پکڑاؤں؟؟؟۔۔۔۔ جبکہ دوسری‬
‫طرف ۔۔۔۔۔ ہر طرف سے بے نیاز رضو سر‬
‫جھائے۔۔۔ گھوڑے کے لن کو اپنے ہاتھ میں‬
‫میں‬ ‫سہالئے جا رہی تھی۔۔۔۔اور‬ ‫پکڑے ۔۔۔اسے‬
‫تھا‬ ‫ہوا جا رہا‬ ‫کر حیران‬ ‫یہ سوچ سوچ‬
‫نہیں ہوا‬ ‫لن کھڑا‬ ‫۔۔۔۔کہ جب تک گھوڑے کا‬
‫تھا ۔۔۔ تو اس وقت تک یہ لڑکی کس قدر‬
‫محتاط ہو کر ادھر ادھر دیکھ رہی تھی ۔۔۔لیکن‬
‫جیسے ہی گھوڑے نے اپنے لن کو باہر‬
‫نکاال۔۔۔۔۔ وہ اسے دیکھ کر سب کچھ بھول‬
‫ہر طرف سے بے نیاز ہو کر اسے‬ ‫گئی ۔۔۔۔۔۔اور‬
‫سہالنا شروع ہو گئی۔۔۔‬

‫رضو کی طرف دیکھتے ہوئے میں بے آواز‬


‫اوپر اُٹھا ۔۔اور اس وقت میری‬ ‫طریقے سے‬
‫شلوار ٹینٹ بنی ہوئی تھی۔۔۔لیکن میں اس کی طرف‬
‫دھیان دیئے بغیر ۔۔۔۔۔پلنگ سے نیچے اترا۔۔۔۔ اور‬
‫رضو کی طرف نظریں جمائے۔۔۔ بڑے ہی محتاط‬
‫جا‬ ‫انداز میں چلتے ہوئے اس کے قریب‬
‫اپنے‬ ‫پہنچا۔۔۔۔۔۔تو دیکھا تو ۔۔۔۔۔ وہ لن کو‬
‫ہی مست انداز‬ ‫بڑے‬ ‫میں پکڑ کر‬ ‫ہاتھ‬
‫اسے سہال ئے جا رہی تھی ۔۔۔ وہاں پر‬ ‫میں‬
‫سیکنڈز‬ ‫ہی‬ ‫مجھے کھڑے ہوئے ابھی چند‬
‫ہوئے ہوں کہ ۔۔۔اچانک اس نے اپنے سر کو‬
‫اوپر اُٹھایا۔۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی اس کی نظر‬
‫شدید‬ ‫ایک‬ ‫مجھ پر پڑی۔۔۔۔تو اسے حیرت کا‬
‫دیکھتے‬ ‫طرف‬ ‫جھٹکا لگا ۔ پھر میری‬
‫ہاتھ‬ ‫پر سے اپنا‬ ‫لن‬ ‫اس نے‬ ‫ہوئے‬
‫اُٹھ کھڑی‬ ‫سے‬ ‫۔۔۔۔۔۔ اور ایک دم‬ ‫ہٹایا‬
‫میں نے اس کی آنکھوں‬ ‫وقت‬ ‫ہوئی۔۔۔۔اس‬
‫شرمندگی کے سائے‬ ‫اور‬ ‫میں۔۔ حیرت۔۔خوف‬
‫دیکھے ۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫لگی ۔۔۔۔ بھا۔۔۔ئی۔۔تم۔۔۔‬ ‫لکنت بھرے لہجے کہنے‬
‫اس کو بازو‬ ‫تت تم کب آئے۔۔اس پر میں‬
‫سے پکڑ کر بوال۔۔۔۔۔ میں گیا ہی کب تھا۔۔۔؟ میرے‬
‫انداز میں اس کا بازو‬ ‫جارحانہ‬ ‫اس طرح‬
‫خوف‬ ‫ہی‬ ‫زیادہ‬ ‫سے وہ کچھ‬ ‫پکڑنے‬
‫دیکھ کر‬ ‫طرف‬ ‫ہو گئی ۔۔۔۔ اور میری‬ ‫ذدہ‬
‫بولی۔۔۔ م مم ۔۔ مجھ سے غلطی‬ ‫۔۔۔۔روتے ہوئے‬
‫ہو گئی بھب ا ئی ۔۔۔۔مہر بانی کر کے میرے ابے کو‬
‫شروع‬ ‫رونا‬ ‫زار و قطار‬ ‫نہ بتانا۔۔ اور پھر‬
‫بار‬ ‫ہو گئی ۔۔اُدھر وہ الہڑ مٹیار رو رو کر‬
‫کر رہی تھی کہ ابے‬ ‫بات‬ ‫بار مجھ سے یہی‬
‫عین اسی وقت میرے‬ ‫کو نہ بتانا ۔۔۔جبکہ‬
‫کمینے دماغ میں ایک آئیڈیا پنپ رہا تھا ۔کہ جس‬
‫ہینگ لگنی تھی پھٹکڑی ۔۔۔اور اس‬ ‫سے نہ‬
‫کنیا کی پھدی مفت میں مل جانی تھی ۔ چنانچہ‬
‫اس آئیڈیا کو دماغ میں رکھتے ہوئے میں نے‬
‫اپنی آواز کو غصیال بناتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔ ایسی‬
‫گندی حرکت کرتے ہوئے تم کو ذرا بھی شرم‬
‫نہیں آئی؟ جب تمہاری یہ حرکت تمہارے ابے اور‬
‫چوہدری شیر کو معلوم پڑے گی تو سوچو کہ وہ‬
‫تمہارے ساتھ کیا سلوک کریں گے؟ میری بات‬
‫شیر کا نام سن‬ ‫چوہد ری‬ ‫سن کر اور خصوصا ً‬
‫کر اس کی گانڈ پھٹ گئی۔۔۔۔۔اور وہ تڑپ کر‬
‫دیں۔۔۔ لیکن‬ ‫دس‬ ‫بھانویں‬ ‫بولی۔۔۔ابے نوں‬
‫بات‬ ‫واسطہ ہے کہ تم نے یہ‬ ‫تم کو‬
‫چوہدری سے ہر گز نہیں کرنی۔۔۔۔۔۔ اُس کی اِس‬
‫اندازہ ہو‬ ‫مجھے اچھی طرح‬ ‫بات سے‬
‫کے نام سے اس کی‬ ‫گیا تھا کہ ۔۔۔۔ چوہدری‬
‫جان جاتی ہے اس لیئے میں نے اپنے مقصد‬
‫نام کو‬ ‫چوہدری کے‬ ‫میں کامیابی کے لیئے‬
‫کا سوچا ۔۔۔چنانچہ یہ سوچ کر‬ ‫استعمال کرنے‬
‫میں نے اپنے لہجے کو مزید خوف ناک‬
‫بناتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ چوہدری صاحب کو تمہاری اس‬
‫حرکت سے کیوں نہ آگاہ کروں؟ ۔۔۔۔تو وہ بے‬
‫اختیار روتے ہوئے بولی کہ ۔۔وہ اس لیئے۔۔۔۔۔‬
‫کہ اس نے تو میرا منہ کاال کر کے سارے پنڈ‬
‫میں پھرانا ہے ۔۔۔۔ یہ بات کرتے ہی وہ میرے‬
‫پاؤں میں گر گئی۔۔۔۔ اس کی یہ حرکت دیکھ کر‬
‫مجھے شرم تو بہت آئی لیکن مجبوری تھی ۔۔۔۔‬
‫ضروری تھی ۔۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫بھی‬ ‫پھدی لینی‬
‫ویسے بھی ۔۔۔۔ منصوبے کو پورا کرنے کے لیئے‬
‫اس کا آخری حد تک ڈرنا ضروری تھا ۔۔اس‬
‫لیئے جب میں نے اس کو زارو قطار روتے‬
‫اس کی سات‬ ‫کے مطابق‬ ‫دیکھا ۔۔۔تو پروگرام‬
‫پشتوں پر احسان کرتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔ٹھیک ہے‬
‫بتاؤں گا ۔۔۔‬ ‫میں یہ بات چوہدری کو ہر گز نہیں‬
‫لیکن میری ایک شرط ہو گی۔۔۔۔۔اس نے شاید‬
‫چہرے پر‬ ‫میرے‬ ‫سے‬ ‫ہی‬ ‫پہلے‬
‫خبیث قسم کی‬ ‫ایک‬ ‫شرط سے متعلق‬
‫مسکراہٹ دیکھ لی تھی ۔۔۔اس لیئے میرے بولنے‬
‫پڑی۔۔۔۔۔کک کون سی‬ ‫بول‬ ‫سے پہلے ہی وہ‬
‫شرط۔۔۔ دیکھو میں ایسا کچھ نہیں کروں گی۔۔۔ اس‬
‫ناں سن کر میں نے اپنے‬ ‫کے منہ سے‬
‫کی طرح‬ ‫بلیک میلروں‬ ‫لہجے کو فلمی‬
‫خوف ناک بناتے ہوئے کہا ۔۔ تمہاری مرضی ۔۔‬
‫یہ سارا‬ ‫مجھے‬ ‫مجبوراً‬ ‫پھر‬ ‫لیکن‬
‫قصہ۔۔۔چوہدری ۔۔۔۔ جیسے ہی میں نے چوہدری‬
‫اور‬ ‫کا نام لیا ۔۔۔تو وہ ایک دم سٹپٹا سی گئی‬
‫کہنے لگی۔۔۔ایسا نہ کرنا ۔۔۔ تم‬ ‫سے‬ ‫جلدی‬
‫بتاؤ ۔۔۔ میں نے کیا کرنا ہے ۔۔تو اس پر میں نے‬
‫ہاتھ کو پکڑ کر‬ ‫اس کے‬ ‫بغیر کچھ کہے‬
‫دیا۔۔۔‬ ‫اپنے تنے ہوئے لن پر رکھ‬

‫اس کی طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔تم‬ ‫اور‬


‫کو میرے نیچے لیٹنا ہو گا۔۔ ادھر جیسے ہی‬
‫پر‬ ‫میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن‬
‫اس نے ایک جھٹکے کے ساتھ‬ ‫لگایا۔۔۔۔۔تو‬
‫کھینچ لیا ۔۔۔۔اور میری‬ ‫اپنے ہاتھ کو واپس‬
‫بات سنتے ہی اس حیرت کے مارے اس کی‬
‫آنکھیں پھٹنے کے قریب آ گئیں اور وہ میری‬
‫اس کھلی بلیک میلنگ سے یک ٹک میری طرف‬
‫سے بولی۔۔۔۔یہ یہ‬ ‫دیکھتے ہوئے بڑے غصے‬
‫۔۔۔آ۔۔۔تم کیا بکواس کر رہے ہو؟۔۔۔ ۔ ۔۔۔ ۔ ادھر جب‬
‫میں نے دیکھا کہ گھی سیدھی انگلی سے نہیں‬
‫نکل رہا ۔۔۔۔تو میں نے اسے کڑی نظروں سے‬
‫دیکھتے ہوئے ایک بار پھر اسی خطر ناک‬
‫مطلب ہے کہ مجھے‬ ‫لہجے میں کہا۔اس کا‬
‫ہی پڑی‬ ‫چوہدری صاحب کے ساتھ بات کرنا‬
‫گی ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ چوہدری کا نام سنتے ہی اس‬
‫کی آنکھوں میں خوف کے سائے لہرائے۔۔۔۔اور‬
‫کے بعد اس نے‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر کچھ دیر سوچنے‬
‫جھکا دیا ۔۔۔اور اپنے ہاتھ کو‬ ‫اپنے سر کو‬
‫میں‬ ‫آگے بڑھا کر میرے لن کو اپنی ُمٹھی‬
‫دھیرے سے‬ ‫پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔اور پھر‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔۔ کریں گا؟ (چودو گے) تو میں نے‬
‫بھی دھیرے سے کہہ دیا ۔۔۔ اوہو ۔۔کرں گا( ہاں‬
‫ہی وہ ہچکیاں‬ ‫چودوں گا )۔ میری بات سنتے‬
‫رونے لگی۔۔۔۔۔ اس کو یوں‬ ‫لے لے کر‬
‫سے روتے دیکھ کر مجھے اپنی‬ ‫ہچکیاں‬
‫بلیک میلنگ پر بڑی شرم آئی۔۔۔اور میں دل ہی‬
‫پاس‬ ‫تیرے‬ ‫میں سوچنے لگا۔۔۔۔ ڈئیر شاہ‬ ‫دل‬
‫پھدیوں کی کیا کمی ہے جو اس بے چاری کو‬
‫بلیک میل کر رہے ہو ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی‬
‫میرے ضمیر صاحب بھی جو کہ اب تک سوئے‬
‫جاگ اُٹھے۔۔آپس کی‬ ‫۔۔۔یک دم‬ ‫ہوئے تھے‬
‫ابن‬
‫ِ‬ ‫ہے اس ضمیر کے بارے میں‬ ‫بات‬
‫کہا کرتے تھے کہ یہ گناہ‬ ‫ہی‬ ‫انشاء ٹھیک‬
‫نہیں۔۔۔ بلکہ لعنت‬ ‫روکتا تو‬ ‫سے‬ ‫کرنے‬
‫کا مزہ کرکرا کر دیتا ہے‬ ‫اس‬ ‫کر‬ ‫مالمت‬
‫اس روایت کے عین مطابق میرے‬ ‫چنانچہ‬
‫رضو کے ہاتھ کا مزہ‬ ‫نے مجھےبھی‬ ‫ضمیر‬
‫نہیں لینے دیا۔(اس نے میرا لن جو پکڑا ہوا تھا )‬
‫مجھ‬ ‫کرتے ہوئے‬ ‫مزہ کر کرا‬ ‫۔۔۔ اور سار ا‬
‫پر لعنت مالمت کرنے لگا۔۔۔ چنانچہ اس کی لعنت‬
‫کی جان‬ ‫مالمت سے تنگ آ کر میں نے رضو‬
‫چھوڑنے کا فیصلہ کر لیا ۔چنانچہ یہ فیصلہ کرتے‬
‫نے‬ ‫ہی میں نے رضو کا وہ ہاتھ جو اس‬
‫تھا اسے بڑے آرام‬ ‫میرے لن پر رکھا ہوا‬
‫اور اس کی طرف‬ ‫سے پکڑ کر ایک طرف کر دیا‬
‫دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔ ۔۔۔ رہن دے ۔۔ میری بات‬
‫سن کر اس کی آنکھوں میں ایک بار پھر حیرت‬
‫کہنے لگی۔۔۔‬ ‫کے سائے اُمڈ آئے۔۔۔ اور وہ‬
‫کیوں کیا ہوا۔۔۔۔ ؟ تو میں نے اس کہہ دیا ۔۔ کہ‬
‫فائدہ نہیں اُٹھانا‬ ‫میں تمہاری مجبوری کا ناجائز‬
‫چاہتا۔۔۔ اس لیئے تم چاہو تو۔۔۔۔ دوبارہ سے جا‬
‫پکڑ سکتی ہو۔۔۔ ۔میر ی اس‬ ‫گھوڑے کا‬ ‫کر‬
‫اور‬ ‫بات پر۔۔۔ اس نے ایک گہری سانس لی‬
‫پھر اپنے سر کو جھکا لیا۔۔۔۔کچھ دیر تک‬
‫رہی ۔۔۔ پھر‬ ‫بیٹھی‬ ‫وہ ایسے ہی سر جھکائے‬
‫اوپر کیا اور‬ ‫چہرے کو‬ ‫اس نے اپنے‬
‫ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫طرف دیکھتے‬ ‫میری‬
‫مینا سچ ہی کہتی ہے تو میں نے چونک کر‬
‫تو پہلی‬ ‫اس سے پوچھا کہ وہ کیا کہتی ہے؟‬
‫مسکراتے‬ ‫رونے کی بجائے‬ ‫وہ‬ ‫دفعہ‬
‫ہوئے بولی ۔۔۔ وہ کہتی ہے کہ میرا ہونے واال‬
‫اے۔۔۔ تو میں نے ہنس‬ ‫چنگا بندہ‬ ‫ہی‬ ‫بڑا‬
‫کر اس سے کہا خاک چنگا اے ۔۔ابھی کچھ دیر‬
‫تمہاری لینے کے‬ ‫زبردستی‬ ‫پہلے تک تو‬
‫چکر میں تھا۔۔ میری بات سن کر اس نے عجیب‬
‫سی نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔ زبردستی کرنے واال تھا ۔۔۔۔لیکن‬
‫نا۔۔۔۔۔۔ ۔ تو میں نے‬ ‫(زبردستی) کی تو نہیں‬
‫اس سے کہا ۔۔۔ اگر تم روتی نہ تو شاید کر بھی‬
‫لیتا ۔۔۔ لیکن اب تم جاؤ۔۔۔ میری بات سن کر اس‬
‫نے ایک دفعہ پھر انہی نظروں سے میری طرف‬
‫دیکھا اور پھر ڈھیلے دھیلے قدموں سے اپنے‬
‫گھر کی طرف چلی گئی۔۔۔‬

‫ت‬
‫حاجا ِ‬ ‫میں سو کر اُٹھا اور‬ ‫اگلے دن‬
‫بغرض واک‬
‫ِ‬ ‫ہو کر‬ ‫فارغ‬ ‫ضروریہ سے‬
‫کھیتوں کی طرف چال گیا۔۔ ۔ اور ایک لمبی واک‬
‫تو‬ ‫پہنچا‬ ‫کے قریب‬ ‫ڈیرہ‬ ‫لے کر واپس‬
‫کو ہاتھ میں ٹرے پکڑے ہوئے‬ ‫میں نے رضو‬
‫دیکھا‬ ‫ہوئے‬ ‫پلنگ کی طرف جاتے‬ ‫اپنے‬
‫ناشتے‬ ‫لیئے‬ ‫میرے‬ ‫یقینا ً‬ ‫۔۔۔۔۔ ٹرے میں‬
‫ہو گا ۔ ۔ اور وہ خراماں‬ ‫رکھا‬ ‫کا سامان‬
‫رہی تھی‬ ‫میرے پلنگ کی طرف بڑھ‬ ‫خراماں‬
‫فٹنگ کپڑے‬ ‫اس وقت اس نے بڑے ٹائیٹ‬
‫پہنے ہوئے تھے جو کہ بعد میں معلوم ہوا کہ‬
‫مینا نے دیئے تھے ۔۔اور‬ ‫کپڑے اس کو‬ ‫یہ‬
‫رضو کا جسم مینا سے کافی بھارا تھا‬ ‫چونکہ‬
‫۔۔۔اس لیئے چلتے ہوئے خاص کر ایک تو اس‬
‫نمایاں ہو رہی‬ ‫ہی‬ ‫بڑی‬ ‫گانڈ‬ ‫کی موٹی‬
‫کہ اس‬ ‫دوسری اہم بات یہ تھی‬ ‫تھی اور‬
‫گانڈ میں پھنسی ہوئی تھی۔۔ ۔۔۔جس‬ ‫کی قمیض‬
‫کی وجہ سے اس کی گانڈ کے دونوں پٹ‬
‫بڑے ہی نمایاں نظر آ رہے تھے۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ رضو‬
‫کی خوب صورت گانڈ کو دیکھ کر نیچے سے‬
‫اچھی‬ ‫لن سر اُٹھا کر بوال ۔۔۔۔سالے‬ ‫میرا‬
‫مل رہی تھی ۔۔۔ لیکن تم نے‬ ‫بھلی اس کی پھدی‬
‫ہی اسے چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔ لن صاحب کی‬ ‫ایسے‬
‫یہ بات سن کر میں نے اس سے کہا ۔۔۔۔ بھائی‬
‫نے ہزار دفعہ آپ کو‬ ‫میں‬ ‫صاحب‬
‫ہے ۔۔کہ میں کسی کو بلیک میل نہیں‬ ‫سمجھایا‬
‫دو‬ ‫نے رضو کی‬ ‫کر سکتا ۔۔۔ تب لن صاحب‬
‫گانڈ کی طرف‬ ‫ہوئی‬ ‫پہاڑیوں میں پھنسی‬
‫پُر ہوس نظروں سے دیکھتے‬ ‫ہی‬ ‫بڑی‬
‫نہ سہی ۔۔۔۔ برضا‬ ‫سے‬ ‫ہوئے کہا۔۔۔۔بلیک میلنگ‬
‫کر‬ ‫مائل‬ ‫طرف‬ ‫اپنی‬ ‫اس کو‬ ‫و رغبت‬
‫لن کی اس بات پر خوب‬ ‫لو۔۔۔۔ سو میں نے‬
‫پر ایک‬ ‫دیا ۔۔۔۔ اور اس طرح رضو‬ ‫دھیان‬
‫بار پھر میری نیت خراب ہو گئی۔۔۔‬

‫نزدیک پہنچ‬ ‫دوسری طرف میرے بستر کے‬


‫کھانے کی ٹرے‬ ‫ہی رضو‬ ‫کر جیسے‬
‫پلنگ پر رکھنے کے لیئے جھکی۔۔۔۔۔۔ تو۔۔۔اس‬
‫کی خوب صورت گانڈ اور بھی نمایاں ہو کر‬
‫میرے‬ ‫بے اختیار‬ ‫میرے سامنے آ گئی۔۔۔اور‬
‫منہ سے نکل گیا ۔۔۔۔ ہائے مار ڈاال۔۔۔۔ میری یہ‬
‫بات سن کر لن صاحب نے مجھے ڈانٹتے ہوئے‬
‫کہا۔۔۔ ابے سالے۔۔۔ مار مار نہ بول بلکہ اس کی‬
‫میری آہٹ کی‬ ‫مارنے کی سوچ۔۔۔۔دوسری طرف‬
‫ُمڑ کر میری طرف‬ ‫نے‬ ‫آواز سن کر رضو‬
‫لہجے میں‬ ‫دیکھا اور بڑے ہی سنجیدہ‬
‫ٹھنڈا‬ ‫لو‬ ‫کھا‬ ‫بھائی کھانا‬ ‫کہنے لگی‬
‫ہو جائے گا اس پر میں نے اس سے پوچھا‬
‫تو‬ ‫نے بنایا ہے ؟‬ ‫کہ ۔۔۔۔۔ یہ ناشتہ تم‬
‫اسی لہجے میں‬ ‫وہ‬ ‫میری بات سن کر‬
‫کہنے لگی ۔۔۔۔ نہیں جی ۔۔ بلکہ یہ تو گھر سے‬
‫اس کی بات سن‬ ‫آپ کی منگیتر الئی ہے‬
‫کر میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔‬
‫لیکن وہ تو کہیں بھی نظر نہیں آ رہی ۔۔۔ میری‬
‫بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔ وہ تو چلی گئی ‪-‬‬
‫اور پھر سے سر جھکا کر بیٹھ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میں‬
‫سامنے پلنگ پر بیٹھ گیا اور کھانا‬ ‫اس کے‬
‫کھاتے ہوئے اس سے بوال۔۔۔۔ رضو تم ابھی‬
‫میری بات سن کر اس نے‬ ‫تک ناراض ہو؟‬
‫سر اُٹھایا ۔۔۔اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولی‬
‫۔۔۔ میں کیوں ناراض ہوں گی ؟ تو میں نے‬
‫بھی اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ کل‬
‫زکر‬ ‫والی بات سے۔۔۔۔۔۔ کل والی بات کا‬
‫چہرہ ایک دم‬ ‫سن کر اس کا سانولہ سلونہ‬
‫سرخ ہو گیا ۔۔۔اور اس نے سر جھکا لیا ۔۔‬
‫کچھ دیر تک تو میں اس کے بولنے کا انتظار‬
‫میرے شیطانی ذہن‬ ‫کرتا رہا ۔۔پھر اچانک‬
‫میں ایک خیال آیا اور اس خیال کے آتے‬
‫تیر چھوڑتے‬ ‫میں‬ ‫نے ہوا‬ ‫ساتھ ہی میں‬
‫ہوئے کہا۔۔۔۔کہ ویسے مینا نے مجھے اس‬
‫بارے میں بتایا تھا کہ تم ایسا کیوں کرتی‬
‫یہ دیکھ کر از حد خوش‬ ‫میں‬ ‫ہو؟ ۔۔۔۔اور‬
‫میں چھوڑا ہوا‬ ‫ہوا‬ ‫کہ۔۔۔۔۔ میرا‬ ‫ہوا‬
‫جا لگا ۔۔۔اور میری‬ ‫نشانے پر‬ ‫تیر سیدھا‬
‫بات سنتے ہی رضو ایک دم سے غصے میں آ‬
‫گئی ۔۔۔اور ترش لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔اس‬
‫کمینی نے آپ کو یہ بھی بتا دیا کہ میں یہ کام‬
‫کیوں کرتی ہوں؟؟ تو میں نے جھٹ سے ہاں‬
‫میں سر ہال دیا۔۔۔۔میرا ہاں میں جواب سنتے ہی‬
‫۔۔۔ وہ کہنے لگی ۔۔۔ لیکن اس نے آپ کو یہ نہیں‬
‫بتایا ہو گا کہ ایک دن اس نے بھی پکڑا‬
‫تھا۔۔۔۔ یہ میرے لیئے نئی خبر تھی۔۔اس لیئے اس‬
‫نے کچھ تو حیرت‬ ‫کی بات سنتے ہی میں‬
‫اور کچھ اس کی بات کو بڑھاوا دینے کے‬
‫لیئے۔۔۔۔ ایک دم پلنگ پر اچھال ۔۔۔اور بڑی ہی‬
‫ہوئے‬ ‫حیرت سے اس کی طرف دیکھتے‬
‫مجبوری تھی لیکن‬ ‫کہنے لگا۔۔۔ چلو تمہاری تو‬
‫ضرورت نہیں تھی (‬ ‫اس کی کوئی‬ ‫اس کو تو‬
‫دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ تھا کہ وہ‬
‫ہاتھ‬ ‫اپنے‬ ‫کو‬ ‫لن‬ ‫موٹے‬ ‫میرے‬
‫پکڑتی رہتی ہے) ۔۔۔میری بات سن کر اس‬ ‫میں‬
‫سی‬ ‫آلود‬ ‫کے چہرے پر ایک پر ایک حیا‬
‫آہستگی‬ ‫بڑی‬ ‫وہ‬ ‫اللی چھا گئی۔۔۔۔ اور‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔تو اس حرامن نے‬ ‫کے ساتھ‬
‫میری یہ بات بھی آپ کو بتا دی۔۔۔ اس دن شاید‬
‫دن تھا اور اتفاق سے‬ ‫میرا کچھ اچھا‬
‫میرے سارے تیر نشانے پر لگ رہے تھے‬
‫اک‬ ‫لیکن میں یہ بھی جانتا تھا کہ میری‬
‫ہاتھ آئی ہوئی مچھلی‬ ‫زرا سی ُچوک سے۔۔۔‬
‫جا سکتی ہے اس لیئے‬ ‫پھسل کر دور بھی‬
‫بے نیازی لیکن درپردہ بڑے‬ ‫میں نے۔۔ بظاہر‬
‫ہی محتاط انداز میں اس سے کہا۔۔۔۔ جس‬
‫میری ہر بات تم کو بتاتی ہے‬ ‫مینا‬ ‫طرح‬
‫وہ تمہاری ساری باتیں بھی‬ ‫اسی طرح‬
‫کر لیتی ہے۔۔۔ میری بات سن کر وہ‬ ‫سے‬ ‫مجھ‬
‫سادہ سی رضو کہنے لگی۔۔۔ تو اس نے‬
‫بارے بھی‬ ‫میرے اور فجے (فضل) کے تعلق‬
‫میں نے جلدی سے‬ ‫ہے ؟ تو‬ ‫سب بتا دیا‬
‫ہاں میں سر تو ہال دیا ۔۔ لیکن دل ہی دل میں‬
‫سوچنے لگا ۔۔۔ کہ یہ بات تو کہیں اور طرف جا‬
‫رہی ہے جبکہ۔۔۔۔۔ میں تو اس سانولی سلونی‬
‫حسینہ کو بہ رضا و رغبت چودنے کے چکر میں‬
‫تھا۔۔۔۔ اس لیئے میں نے اس کی طرف ایک گہری‬
‫نظر ڈالتے ہوئے کہا ۔۔۔ فکر نہیں کرو میں تمہاری‬
‫یہ بات کسی سے نہیں کروں گا۔۔۔۔ پھر سمجھ‬
‫نہیں آئی کہ آگے کیا بات کروں اس لیئے ایک‬
‫اور تکا چھوڑتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ تم سے پیار‬
‫کی بجائے بس ایک ہی کام کی فرمائیش کیوں کرتا‬
‫رہتا ہے؟۔۔میری بات سنتے ہی اس نے شرما کر‬
‫اپنا سر جھکا لیا۔۔۔ رضو کی یہ حالت دیکھتے‬
‫ہی میں نے دل ہی دل میں شکر ادا کیا کہ میرا‬
‫لگ گیا ۔۔ اپنے‬ ‫نشانے پر‬ ‫یہ آخری تکا بھی‬
‫حسینہ‬ ‫دو تین تکوں سے میں۔۔۔میں اس سانولی‬
‫ساری کہانی سمجھ گیا تھا ۔۔اور میرے‬ ‫کی‬
‫خیال میں بات یہ تھی کہ جیسا کہ اس زمانے میں‬
‫۔۔۔اور آج بھی (کہیں کہیں) گاؤں کے لڑکوں کی‬
‫بنا گرم یا پیار بھری‬ ‫عادت ہے کہ وہ لڑکی کو‬
‫باتیں کیئے بس چودنے کے چکر میں ہوتے ہیں‬
‫۔۔۔اور جیسے ہی ان کا پانی نکل جاتا ہے تو‬
‫بات کیئے۔۔‬ ‫محبت بھری‬ ‫کوئی‬ ‫بنا‬ ‫وہ‬
‫بات کرتے ہیں۔رضو کو‬ ‫والی‬ ‫بس بھاگنے‬
‫سر جھکائے دیکھ کر میں نے ناشتے کو چھوڑا‬
‫تھوڑا کھسک کر اس کے پاس پہنچ‬ ‫۔۔۔۔۔اور‬
‫گیا۔۔۔اور اس کا ہاتھ پکڑ کر بوال۔۔۔۔تم اتنی‬
‫خوبصورت اور پیاری لڑکی ہو لیکن۔۔۔افسوس‬
‫قدر نہیں کرتا۔۔۔ اور پھر اس‬ ‫وہ تمہاری کوئی‬
‫کے ساتھ ہی میں نے لڑکیوں کے بارے میں‬
‫التے ہوئے اس‬ ‫اپنے تجربات کو بروئے کار‬
‫مال‬ ‫کے قالبے‬ ‫کی تعریف میں زمین آسمان‬
‫دئیے ۔۔۔ میں اس خوشامد کا خاطر خواہ اثر‬
‫ہی دیکھتے اس‬ ‫ہوا ۔۔۔اور میرے دیکھتے‬
‫کے چہرے کا تناؤ کم ہو گیا ۔۔۔۔اور اس نے‬
‫ہی مجروح‬ ‫میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے‬
‫لہجے میں کہا۔۔۔بھائی کیا میں بہت کالی ہوں؟‬
‫اس کی بات سن کر میں تھوڑا اور آگے‬
‫بڑھ گیا ۔۔اتنا آگے کہ۔۔۔ مجھے اس کے جوان‬
‫مدہوش کرنے لگی ۔۔اور‬ ‫جسم کی خوشبو‬
‫میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا‬
‫۔۔۔اور اندر سے شہوت بھرے لیکن ۔۔ بظاہر‬
‫پیار سے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‬
‫بلکہ‬ ‫کاال نہیں رضو‬ ‫بوال۔۔۔ تمہارا رنگ‬
‫تم پر یہ رنگ‬ ‫کہ‬ ‫سانولہ ہے اور یقین کرو‬
‫اتنا سوٹ کرتا ہے کہ تمہیں دیکھ کر راہی‬
‫میری بات‬ ‫ہوں گے‬ ‫بھول جاتے‬ ‫راستہ‬
‫سن کر اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ‬
‫گئی۔۔۔اور وہ ہولی سے کہنے لگی ۔۔۔ میرا دل‬
‫رکھنے کے لیئے تم جھوٹ تو نہیں بول رہے‬
‫ناں؟ تو اس پر میں نے اس کے سر پر اپنا ہاتھ‬
‫رکھ دیا۔۔۔اور بڑے ہی رومینٹک انداز میں بوال‬
‫۔۔۔ تمہارے سر کی قسم !!!۔۔۔میں سچ بول رہا‬
‫ہوں۔۔۔ میری اس قسم سے وہ بے چاری سیدھی‬
‫لڑکی ایک دم پگھل گئی۔۔۔۔‬ ‫سادھی سی دیہاتی‬
‫تب میں نے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بظاہر‬
‫ڈرتے ڈرتے رضو کی آنکھوں میں آنکھیں‬
‫میری‬ ‫ڈال کر کہا۔۔۔۔۔ ایک بات کہوں رضو؟ تو‬
‫بات سن کر وہ سر جھکا کر بولی ۔۔۔ جی بولو‬
‫۔۔۔۔تو میں نے ایک بار پھر ڈرنے کی ایکٹنگ‬
‫کرتے ہوئے اس سے کہا۔۔۔۔۔کہ تم مجھے بہت‬
‫اچھی لگتی ہو۔۔۔ تمہارے اس سانولے ُحسن نے‬
‫ہوا ہے۔۔ میری اس‬ ‫تو مجھے پاگل کیا‬
‫خوشامد بھری بات کو سن کر وہ کہنے لگی۔۔۔۔لل‬
‫۔۔۔لیکن تم تو میری دوست کے منگیتر ہو۔۔ تو‬
‫اس سے کہا ۔۔۔ کہ لیکن‬ ‫نے‬ ‫اس پر میں‬
‫اس کے ساتھ ساتھ میں ایک مرد بھی ہوں ۔۔۔ اور‬
‫دل بھی رکھتا ہوں ۔۔۔پھر اس کی طرف دیکھتے‬
‫پیار بھرے لہجے میں بوال۔۔۔۔ اور یہ دل‬ ‫ہوئے‬
‫ہی وہ‬ ‫سنتے‬ ‫تم پہ آ گیا ہے۔۔ میری بات‬
‫دم سے شرما گئی ۔۔۔اور اس کی‬ ‫ایک‬
‫ہوئے میں نے‬ ‫فائدہ اٹھاتے‬ ‫کا‬ ‫شرماہٹ‬
‫اور اس کے گال پر‬ ‫ایک نظر آس پاس ڈالی‬
‫ایک چمہ دے دیا۔۔۔جیسے ہی میرے ہونٹوں نے‬
‫اس کے گالوں کو چھوا ۔۔۔۔ اس نے چونک کر پہلے‬
‫میری طرف اور پھر بڑی خوف ذدہ نظروں سے‬
‫اور کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ نہ کرو‬ ‫آس پاس دیکھا‬
‫ناں۔ اس کی اس بات پر میں نے اپنے لہجے میں‬
‫سارے جہاں کا پیار ۔۔۔۔۔اور شہوت کو سمیٹتے ہوئے‬
‫اس سے کہا ۔۔ مجھے ایسا کرنے سے منع مت‬
‫کرو ۔۔۔ کہ میں ایسا کرنے پر مجبور ہوں ۔۔۔یہ‬
‫میں نے اس کا ایک ہاتھ پکڑ کر‬ ‫کہتے ہی‬
‫اس سے بوال ۔۔۔‬ ‫اپنے دل پر رکھ دیا۔۔۔۔اور پھر‬
‫دل کیسے دھک دھک کر رہا‬ ‫دیکھ لو میرا‬
‫ہے۔۔۔ پھر میں نے اپنے دوسرے ہاتھ کو یہ‬
‫کے سینے پر رکھ دیا کہ‬ ‫کہتے ہوئے اس‬
‫دیکھوں تو تمہارا بھی دل ایسے ہی کر رہا‬
‫ہے کہ نہیں ۔۔؟ اور اسی بہانے اس کو اپنے قریب‬
‫لگانے کی کوشش کی۔۔۔۔‬ ‫کر کے اپنے گلے سے‬
‫۔۔۔وہ ایک جھٹکے سے‬ ‫میری اس حرکت پر‬
‫الگ ہوئی ۔۔۔اور بڑی خوف ذدہ نظروں سے‬
‫ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ناں کرو‬
‫ناں۔۔۔۔۔۔کوئی دیکھ لے گا۔۔۔۔تب میں نے جگر‬
‫پاش نظروں سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫کہا۔۔۔۔۔۔۔ کسی ایسی جگہ لے جاؤ جہاں ہمیں کوئی‬
‫نہ دیکھے۔۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫عجیب سے لہجے میں بولی۔۔۔۔۔۔ لیکن‬ ‫بڑے‬
‫تم۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس پر میں نے اس کے منہ پر ہاتھ‬
‫رکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ یقین کرو تمہارے اور میرے‬
‫اس تعلق کا کسی کو بھی پتہ نہیں چلے گا اور‬
‫ڈالنے کے‬ ‫بات میں وزن‬ ‫اپنی‬ ‫پھر‬
‫میں نے اس کے سر پر ہاتھ رکھ دیا اور‬ ‫لیئے‬
‫بوال۔۔۔ تمہاری قسم۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں‬
‫ہی غیر محسوس‬ ‫نے جان بوجھ کر اور بڑے‬
‫طریقے سے اپنے لن کو نمایاں کر دیا۔۔۔۔۔ مقصد‬
‫اپنے مزموم ارادے سے باخبر کر کے‬ ‫اسے‬
‫لینا تھا‬ ‫اس کا عندیہ بھی‬ ‫۔۔۔اس بارے‬
‫بتا ۔۔۔۔ تیری ۔۔۔۔۔۔ رضا کیا ہے؟؟۔۔۔۔۔ میرا‬ ‫۔۔۔۔۔کہ‬
‫لن‬ ‫میرا‬ ‫ہی‬ ‫یہ حربہ کامیاب گیا ۔۔۔جیسے‬
‫ہو کر اس کے سامنے آیا۔۔۔۔ تو اس‬ ‫نمایاں‬
‫میرے موٹے تازے لن‬ ‫نے کن اکھیوں سے ۔۔۔۔‬
‫کی طرف دیکھا ۔۔۔اور پھر ایک نظر اپنے گھر کی‬
‫طرف ڈالی ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔ میری طرف۔۔دیکھا ۔۔۔۔ اس‬
‫ت جزبات سے اس کے ہونٹ کانپ رہے‬
‫وقت شد ِ‬
‫تھے ۔۔۔ چہرہ الل ہو رہا تھا۔اور لن کو جھومتے‬
‫دیکھ کر اس کے چہرے پر رضا مندی کا سائن‬
‫بورڈ صاف پڑھا جا سکتا تھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔یہ چیزیں‬
‫نوٹ کرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔ میں ایک قدم اور آگے بڑھا‬
‫۔۔۔اور اس کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ‬
‫دیا۔۔۔۔۔اس نے میرے لن سے اپنا ہاتھ ہٹانے‬
‫کی واجبی سی کوشش کی ۔۔۔۔ پھر آس پاس‬
‫دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔اسے پکڑ لیا۔۔۔۔ ۔۔۔ لن پکڑنے کے‬
‫چند سیکنڈ کے بعد اس نے میرے لن سے اپنے‬
‫ہاتھ کو ہٹا لیا۔۔۔۔۔۔۔ تب میں نے اس کی طرف‬
‫پر ہوس‬
‫دیکھتے ہوئے بڑے ہی میٹھے اور ُ‬
‫لہجے میں کہا۔۔۔رضو کوئی ایسی جگہ بتاؤ کہ‬
‫جہاں پر میں تم سے جی بھر کر پیار کر سکوں‬
‫۔۔۔تم کو چوم سکوں ۔اور تمہیں اپنے سینے کے‬
‫ساتھ لگا سکوں ۔۔ ۔۔۔ میری بات سن کر وہ‬
‫کہنے‬ ‫ہوئے‬ ‫کی طرح کانپتے‬ ‫بی ِد مجنوں‬
‫لگی۔۔۔۔مجھے بہت ڈر لگ رہا ہے تو میں نے‬
‫اس کے گالوں کو چوم کر کہا ۔۔ کچھ نہیں ہوتا‬
‫میری جان ۔۔۔ میں ہوں ناں۔۔اور اس کے ساتھ بہت‬
‫سی ۔۔۔ پیار بھری۔۔۔۔ اور میٹھی میٹھی ۔۔۔پھر جان‬
‫بوجھ کر ۔۔۔۔۔۔کچھ گرم گرم باتیں بھی کیں۔۔‬
‫میری محنت رنگ الئی۔۔اور میری باتیں سن کر‬
‫کہنے لگی۔۔۔ تم ناشتہ کر لو ۔۔۔‬ ‫وہ ہولے سے‬
‫اتنے میں میں کچھ کرتی ہوں ۔۔۔۔ سامنے ایک‬
‫زبردست پھدی کے ہوتے ہوئے ناشتے کی بھال‬
‫کس کافر کو ہوش تھی۔۔ اس لیئے میں اس کا‬
‫تم کو دیکھ لیا ۔۔ اس لیئے‬ ‫ہاتھ پکڑ کر بوال‬
‫دار یار سے میرا پیٹ بھر گیا۔۔۔ میری بات‬
‫دی ِ‬
‫سن کر اس کی آنکھوں میں بھی شہوت کے الل‬
‫ڈورے تیرنے لگے اور وہ ایک دفعہ پھر میرے‬
‫لن کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔ ۔۔۔۔‬
‫میں برتن دے کر ابھی آئی ۔۔۔‬

‫برتن رکھ کر رضو میرے پاس آئی اور ادھر ادھر‬


‫میں کہنے‬ ‫دھیمی آواز‬ ‫ہوئے‬ ‫دیکھتے‬
‫لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں کھڑکی کے راستے ٹیوب ویل کی‬
‫میں جا رہی ہوں ۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد تم‬ ‫کوٹھری‬
‫بھی آ جانا۔۔۔ ۔۔۔۔‪.‬سچ کہہ رہا ہوں رضو کی یہ‬
‫بات سن کر میر ا دل گارڈن گارڈن ہو گیا ۔۔۔اور‬
‫اس کے دیئے ہوئے چند منٹ میں نے بڑی‬
‫مشکل کے ساتھ گزارے۔۔۔۔اور پھر دھیرے دھیرے‬
‫کے قریب‬ ‫چلتا ہوا ۔۔۔ ٹیوب ویل کی کوٹھری‬
‫تاال‬ ‫پر‬ ‫پہنچ گیا۔۔۔۔۔کہ جس کے مین دروازے‬
‫لگا ہو ا تھا ۔۔۔لیکن اس کی کھڑکی کھلی‬
‫تھی۔۔۔اور اس کھلی کھڑکی کے ایک طرف کھڑی‬
‫اپنی‬ ‫ساتھ‬ ‫اشارے کے‬ ‫مجھے‬ ‫رضو‬
‫بال رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر ادھر ادھر دیکھتے‬ ‫طرف‬
‫ہوئے ۔۔ میں اس چھوٹی سی کھڑکی سے اندر‬
‫ہو گیا ۔۔۔تو سامنے ہی رضو کھڑی تھی۔۔۔۔‬ ‫کود‬
‫ُ‬
‫اندر داخل ہو کر میں نے ایک نظر کھڑکی کی‬
‫طرف دیکھا ۔۔۔۔تو پیچھے سے اس کی سرگوشی‬
‫سنائی دی۔۔۔۔۔وہ کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔کھڑکی بند کر کے‬
‫ادھر آجاؤ اس کے کہنے پر میں نے کھڑکی کو‬
‫چڑھا دی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے‬ ‫چٹخی‬
‫کمرے میں ہلکا سا اندھیرا چھا گیا۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔‬
‫دھوپ کی وجہ سے ۔۔۔ اندر کا منظر‬ ‫باہر تیز‬
‫صاف نظر آ رہا تھا۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ‬
‫ٹیوب ویل کی مشین کے ایک طرف ایک‬
‫میلی سی تالئی بچھی ۔ ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اور اس‬
‫تالئی کے پاس رضو کھڑی تھی۔۔۔۔ یہ دیکھ کر‬
‫میں رضو کے پاس چال گیا۔۔۔اور جاتے ساتھ ہی‬
‫اس کو اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔۔۔وہ بھی میرے‬
‫ساتھ چپک سی گئی۔۔۔۔۔۔اور کچھ دیر بعد میں نے‬
‫پیچھے کیا۔۔۔۔اور اس کی‬ ‫اپنے منہ کو تھوڑا‬
‫طرف دیکھتے ہوئے۔۔۔ میں نے اس کے کانپتے‬
‫ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔۔۔۔اور‬ ‫ہوئے‬
‫انہیں چوسنے لگا۔۔۔۔۔ اسی دوران ۔۔۔نیچے سے‬
‫میرا لن بھی کھڑا ہو چکا تھا ۔۔ چنانچہ اس‬
‫کے ساتھ کسنگ کے دوران ہی میں نے اس‬
‫کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔۔اور اپنے لن پر رکھ دیا۔۔۔تو‬
‫کہنے لگی ۔۔۔ایسے نہیں‬ ‫ترنت ہی وہ‬
‫مجھے تمہارے ننگے لن کو پکڑنا ہے۔۔۔( ا س‬
‫کی بات سن کر میں نے دل میں سوچا کہ چلو‬
‫دونوں‬ ‫ڈر اور جھاکا‬ ‫اس کا‬ ‫کہ‬ ‫ہوا‬ ‫اچھا‬
‫کی‬ ‫گئے۔) ۔ اس لیئے اس‬ ‫ختم ہو‬
‫آزار بند‬ ‫فرمائیش سنتے ہی میں نے اپنے‬
‫۔۔۔ اپنے‬ ‫اتار کر‬ ‫کھوال ۔۔اور شلوار کو‬ ‫کو‬
‫ننگے لن پر اس کا ہاتھ رکھ‬
‫ہاتھ میں پکڑتے‬ ‫دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے لن کو اپنے‬
‫وہ‬ ‫ہی اسے ایک دم کرنٹ سا لگا ۔۔۔۔اور‬
‫میری آغوش سے نکل کر نیچے بیٹھ گئی۔۔۔۔اور‬
‫پھر سر جھکا کر میرے لن کو مسلنے لگی ۔۔۔‬
‫گھوڑے‬ ‫یہ بلکل وہی سٹائل تھا جو اس نے‬
‫کا لن پکڑتے ہوئے اپنایا تھا ۔۔شاید اس‬
‫مزہ ملتا تھا۔۔۔اس لیئے‬ ‫زیادہ‬ ‫طرح اس کو‬
‫میں نے اس کو کچھ نہیں کہا اور چپ چاپ‬
‫تماشہ دیکھتا رہا ۔۔۔پھر کچھ‬ ‫۔۔۔ اس کا‬ ‫کھڑا‬
‫دیر بعد اس نے سر اُٹھایا اور میری طرف‬
‫تے بڑا‬ ‫دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ تیرا‬
‫یہ تو بہت ہی اچھا‬ ‫اے۔۔۔۔۔(تمہارا‬ ‫ای دویا‬
‫ہے)۔۔۔۔تو میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال‬
‫کہ ۔۔۔۔ گھوڑے‬ ‫کر جواب دیتے ہوئے شرارتا ً کہا‬
‫نالوں وی۔۔۔۔۔؟ تو اس پر وہ بھی مسکراتے ہوئے‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔گھوڑے نالوں نئیں ۔۔۔۔ساری دینا‬
‫اس نے لن‬ ‫نالوں۔۔۔۔ ودیا اے۔۔۔ یہ کہتے ہوئے‬
‫چھوڑ ا ۔۔۔۔اور پھر گدے پر لیٹ گئی۔۔۔۔لگا۔۔۔۔اور‬ ‫کو‬
‫ساتھ ساتھ اس کی بھاری چھاتیوں پر بھی‬
‫ہاتھ پھیرنے لگا۔۔۔۔ اپنی زبان کی چوسائی سے‬
‫پوری طرح شہوت میں آ گئی۔۔۔۔اور ایک بار پھر‬
‫ہاتھ بڑھا کر میرے لن کو پکڑ لیا ۔۔۔۔اور اسے‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔یہ‬ ‫پھدی کی طرف کھینچنے‬ ‫اپنی‬
‫دیکھ کر میں نے اس کی زبان کو اپنے منہ سے‬
‫باہر نکاال ۔۔۔اور اس کی قمیض اتارنے‬
‫دیکھی اس نے خود ہی‬ ‫لگا۔۔۔۔۔میری دیکھا‬
‫شلوار کا آزار بند کھوال اور۔۔۔۔۔۔اسے اتار کر‬ ‫اپنی‬
‫ایک طرف رکھ دیا ۔۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔ میری‬
‫چھاتیاں چوسو۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی اس کی‬
‫چھاتیاں ننگی ہوئیں میں ان پر پل پڑا ۔۔۔اور‬
‫چھاتیوں کو‬ ‫ایک ایک کر کے اس کی دونوں‬
‫ایک ہاتھ‬ ‫چوستا رہا۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ میرا‬
‫رینگتا ہوا۔۔۔۔اس کی دونوں رانوں کے بیچ‬
‫میں چال گیا۔۔۔۔ میرے ہاتھ کو اپنی دونوں رانوں‬
‫اس‬ ‫کے بیچ میں دیکھ کر۔۔۔۔۔۔ شرم کے مارے‬
‫نے ایک دم اپنی دونوں رانوں کو سختی کے‬
‫ساتھ بند کر دیا۔۔۔ اس پر میں نے اس کی‬
‫چھاتیوں کو چوسنا چھوڑا ۔۔۔اور اس کے پاس تالئی‬
‫پر بیٹھ گیا۔۔۔اور اپنے ہاتھ کو دھیرے دھیرے اس‬
‫کی نرم رانوں پر پھیرتا رہا۔۔۔۔۔اور پھر اس سے‬
‫کہا ۔۔۔۔ کہ اپنی رانوں کو کھولو ۔۔۔۔ کچھ ہچکچاہٹ‬
‫کے بعد اس نے اپنی دونوں رانوں کو کھول‬
‫میرے سامنے اس کی‬ ‫ہی‬ ‫دیا۔۔۔اور اس کے ساتھ‬
‫گوشت سے بھر پور ۔۔۔الہڑ جوان پھدی آگئی ۔۔۔۔جس‬
‫پر میں نے ہاتھ پھیرنا شروع‬
‫کردیا۔۔۔۔۔۔واؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔۔۔۔اس کی پھدی کا گوشت‬
‫بہت ہی نرم اور اوپری حصہ بہت ہی تپا ہوا‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس پر ہلکے ہلکے کالے بال بھی‬
‫تھے۔۔۔۔اور ان باریک باریک‬ ‫ہوئے‬ ‫اُگے‬
‫لمبی‬ ‫کالے بالوں کے عین بیچ میں ایک‬
‫سی لیکر تھی۔۔۔۔اب میں نے اس لکیر کے اوپر اپنی‬
‫انگلوں کو پھیرنا شروع کر دیا۔۔۔ اور اس کی‬
‫دیکھا‬ ‫پھدی کے موٹے موٹے ہونٹوں کی طرف‬
‫جو کہ اندر کی طرف ُمڑے ہوئے تھے اور‬
‫دانہ‬ ‫ان ہونٹوں کے عین اوپر ایک چھوٹا سا‬
‫تھا۔۔۔ جسے دیکھ کر میں ۔۔۔۔۔۔اتنا مست ہوا کہ‬
‫اس کے سامنے تالئی پر گھوٹنوں کے بل‬ ‫میں‬
‫بیٹھ گیا ۔۔اور اپنی زبان نکال کر اس کی‬
‫یہ حرکت‬ ‫چوت کے دانے پر رکھ دی۔۔۔۔ میری‬
‫دیکھ کر حیرت سے اس سانولی سالونی حسینہ‬
‫کی آنکھیں پھٹنے کے قریب ہو گئیں اور وہ‬
‫بیٹھ گئی اور بڑی حیرت سے کہنے‬ ‫اُٹھ کر‬
‫لگی۔۔۔۔ تم کتنے گندے ہو جو اتنی گندی چیز کو‬
‫رہے ہو۔۔‬ ‫چاٹ‬

‫ہاتھ بڑھا کر اس کو نیچے‬ ‫تو میں نے‬


‫کہ‬ ‫لیٹنے کو کہا۔۔۔۔اور بوال۔۔۔۔۔تم دیکھتی جاؤ‬
‫چیز کو‬ ‫کس طرح میں تمہاری اس گندی‬
‫دیتا‬ ‫اور مزہ‬ ‫چاٹ کر ۔۔۔ تم کو گرم کرتا‬
‫ہوں تو و ہ کہنے لگی۔۔۔۔ اس سے زیادہ گرم میں‬
‫تم نے کر دیا ہے‬ ‫کہ‬ ‫نہیں ہو سکتی جتنا‬
‫لیکن میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا‬
‫دیکھ کر‬ ‫پھدی کو‬ ‫بہترین‬ ‫۔۔کیونکہ اس کی‬
‫بے‬ ‫بہت‬ ‫میں‬ ‫کے لیئے‬ ‫چاٹنے‬ ‫اسے‬
‫تھا ۔۔۔۔اس لیئے کوئی بات‬ ‫چین ہو رہا‬
‫کیئے بغیر میں اس کی پھدی پر جھک گیا۔۔۔اور‬
‫شروع کر‬ ‫زبان نکال کر اسے چاٹنا‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ظاہر ہے اس کی پھدی بہت ہی گرم تھی‬
‫۔۔۔اور اس میں سے پانی بھی نکل رہا تھا ۔۔۔‬
‫لیکن جس چیز نے مجھے مدہوش کر دیا‬
‫تھا وہ اس کی پھدی سے آنے والی مہک‬
‫تھی ۔۔۔یہ دھیمی دھیمی اور مست قسم کی مہک‬
‫بڑی ہی اثر انگیز تھی ۔۔۔میں اسے جیسے جیسے‬
‫سونگھتا جا رہا تھا۔۔۔تو ویسے ویسے اس سے‬
‫میرے اندر شہوت کی بجلیاں دوڑی جاتی‬
‫میں اس کی چوت کو بس تھوڑا‬ ‫تھیں۔۔۔اس لیئے‬
‫ہی چاٹ سکا۔۔اور پھر اپنی شہوت کے‬ ‫سا‬
‫ہاتھوں مجبور ہو کر اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔تو مجھے‬
‫اُٹھتے دیکھ کر وہ تھوڑا جھجک کر کہنے‬
‫میں نے‬ ‫تو‬ ‫لگی۔۔۔۔ تم اُٹھ کیوں گئے ہو؟؟‬
‫اس کی طرف دیکھتے ہوئے شرارت سے کہا ۔۔۔‬
‫ہی تو کہا تھا‬ ‫خود‬ ‫تم نے‬ ‫اس لیئے کہ‬
‫کہ یہ گندا کام ہے۔۔تو اس پر وہ پر جوش انداز‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔ کوئی گندہ کام نہیں ہے‬ ‫میں‬
‫بڑا صواد مل‬ ‫اس سے‬ ‫یہ۔۔۔ مجھے تو‬
‫نا۔۔۔۔‬ ‫رہا تھا۔۔۔اس لیئے۔۔۔۔۔ تھوڑا اور چاٹو‬
‫سن کر میں ایک بار پھر‬ ‫اس کی فرمائیش‬
‫نیچے جھکا اور اس کی چوت کو چاٹنا‬
‫شروع ہو گیا جیسے ہی میں نے دوبارہ‬
‫سے اپنی زبان کو اس کے دانے ۔پر رکھا ۔۔تو‬
‫اس کے منہ سے پہلے ہلکی ہلکی کراہیں‬
‫نکلیں ۔۔۔۔پھر وقت کے ساتھ ساتھ یہ لزت آمیز‬
‫ہوتی چلی گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫بلند سے بلند تر‬ ‫کراہیں‬
‫پھر کچھ ہی دیر بعد وہ ایک بار پھر‬ ‫لیکن‬
‫اُٹھی اور میرے منہ کو اپنی پھدی‬ ‫کو‬ ‫اوپر‬
‫سے ہٹا کر بولی۔۔۔۔۔ ہن بس کرو۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں‬
‫اس کی طرف دیکھتے ہوئے‬ ‫نے سر اُٹھا کر‬
‫شہوت‬ ‫پھر کیا کروں؟ تو وہ‬ ‫کہا ۔۔۔ کہ‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔ میرے اُتے آ۔۔۔‬ ‫بھرے لہجے میں‬
‫رہا تھا اس لیئے‬ ‫دل میرا بھی یہی چاہ‬
‫میں اوپر اُٹھا اور اس کی دونوں ٹانگوں کو‬
‫پر‬ ‫اپنے کندھے پر رکھا ۔۔ اور لن کے ہیڈ‬
‫تھوک لگا کر ۔۔۔ اس کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اندر پاواں ؟ تو نیچے سے وہ‬
‫شہوت بھری نظروں سے میری طرف دیکھتے‬
‫ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔چھیتی کر۔۔۔۔۔۔۔ یہ سنتے ہی‬
‫میں نے اپنے لن کے اگلے سرے کو اس کی چوت‬
‫لگایا۔۔۔۔۔۔‬ ‫دھکا‬ ‫سا‬ ‫پر رکھا ۔۔۔اور ایک ہلکا‬
‫پھسل کر‬ ‫تو اس سے میرے لن کا اگال سرا‬
‫چوت میں چال گیا۔۔۔اور لن‬ ‫تنگ‬ ‫اس کی‬
‫میں جانے کی دیر تھی کہ رضو‬ ‫کے اس کی چوت‬
‫نکلی۔۔۔۔۔۔۔ ہائے‬ ‫کے منہ سے ایک ہلکی سی چیخ‬
‫نی میریئے مائے۔۔۔۔اس کی چیخ سن کر میں‬
‫رک گیا تو وہ چالتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔۔۔‬
‫تو ں نہ رک۔۔۔۔اس پر میں نے اگال گھسہ مارا ۔۔۔تو‬
‫چوت‬ ‫لن تھوڑا اور پھسل کر اس کی ٹائیٹ‬
‫کے اندر اتر گیا۔۔۔۔۔۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ف کیا بتاؤں دوستو‬
‫کہ ۔۔ اس کی چوت کے ٹشو اس قدر ٹائیٹ۔۔ اور‬
‫کہ اس کی‬ ‫اتنی گرم تھی‬ ‫اندر سے چوت‬
‫مجھے واقعی‬ ‫ہوئے‬ ‫ڈالتے‬ ‫پھدی میں لن‬
‫لن‬ ‫میرا‬ ‫ہی مزہ آ گیا۔۔جبکہ دوسری طرف‬
‫پھدی کے‬ ‫تنگ‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫پھنس پھنس کر‬
‫اندر باہر ہونے لگا ۔۔ اور پھر مجھ پر اس‬
‫۔۔۔۔۔۔۔ ایسا‬ ‫چوت مارنے کا‬ ‫ٹاٹئیٹ‬ ‫کی اتنی‬
‫شہوت بھرا غلبہ ہوا۔۔۔ کہ ۔۔۔ میں نے آؤ دیکھا‬
‫چوت‬ ‫اس کی تنگ‬ ‫نہ تاؤ۔۔۔۔۔۔ پاگلوں کی طرح‬
‫مارتا رہا۔۔۔ میرے نیچے لیٹی‬ ‫میں گھسے‬
‫رضو ۔۔۔۔ میرے ہر گھسے کا بھر پور انداز میں‬
‫کر ۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی چیخ کر ۔۔۔کبھی کراہ‬
‫۔۔۔۔ جواب‬ ‫کبھی لزت آمیز ۔۔۔۔سسکیوں کے بیچ‬
‫دیتی رہی ۔۔۔۔اور مجھ سے ایک ہی تقاضہ کرتی‬
‫رہی۔۔۔کہ میں اپنے لن کو اس کی چوت کے اور‬
‫اور اندر ۔۔۔۔۔۔۔۔اگلے گھسے ۔پر اور‬ ‫کروں‬ ‫اندر‬
‫اندررررررررررررررررر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس طرح‬
‫ٹائیٹ چوت کے‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫اپنے لن کو‬
‫پسنہ‬ ‫دونوں‬ ‫باہر کرتے کرتے۔۔۔۔۔ہم‬ ‫اندر‬
‫یہ ہے‬ ‫حیرت کی بات‬ ‫پسینہ ہو گئے ۔۔۔۔۔ لیکن‬
‫پتہ نہیں کیوں‬ ‫ہوئے‬ ‫مارتے‬ ‫کہ گھسے‬
‫میں‬ ‫کہ‬ ‫کر رہا تھا‬ ‫دل‬ ‫میرا بھی یہی‬
‫تنگ ۔۔خوب صورت اور پانی‬ ‫کی‬ ‫اس‬
‫بھری چوت میں لن کو اور اندر تک لے‬ ‫سے‬
‫جاؤں ۔۔۔۔اور اندر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر۔۔‬
‫منی‬ ‫اندر لے جاتے جاتے۔۔۔۔۔۔جب۔۔۔۔میری‬
‫ہو گیا ۔۔۔ تو میں نے ایک نظر‬ ‫نکلنے کا ٹائم‬
‫کب کی‬ ‫وہ تو‬ ‫تو‬ ‫رضو کی طرف دیکھا‬
‫ہو چکی تھی ۔۔۔اور اب‬ ‫چھوٹ کر ۔۔۔ شانت‬
‫میرے چھوٹنے کا انتظار کر رہی تھی۔۔۔۔۔ اور‬
‫اب اس کا ا نتظار ختم ہو رہا تھا۔۔۔کیونکہ‬
‫سے نکل‬ ‫کہاں‬ ‫میری منی پتہ نہیں کہاں‬
‫سے چلتی ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے لن کی‬ ‫کر تیزی‬
‫بڑھتے‬ ‫طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔۔۔ اور پھر آگے‬
‫ٹوپے کے‬ ‫میرے‬ ‫بڑھتے ۔۔۔ وہ عین‬
‫کے باہر نکلتے‬ ‫تک پہنچ گئی۔۔۔منی‬ ‫سوراخ‬
‫مست سانڈ کی طرح‬ ‫کسی‬ ‫ہی ۔۔۔ میں‬
‫ڈکرایا ۔۔۔۔۔اور پھر۔۔۔۔۔میری منی لن سے نکل نکل‬
‫چوت کو سیراب کرتی‬ ‫کی تنگ‬ ‫کر رضو‬
‫گئی۔۔۔۔ کرتی گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کرتی گئی۔۔۔۔۔۔دھر اسی شام‬
‫گھر‬ ‫اس کے‬ ‫صاحب اور‬ ‫کو چوہدری‬
‫پر نوراں آپاں کو‬ ‫شرائط‬ ‫نے اپنی‬ ‫والوں‬
‫اس کے گاؤں میں " ٹور" دیا تھا۔۔۔ اور پھر‬
‫مجھے ڈیرے سے‬ ‫کے بعد‬ ‫کے جانے‬ ‫ان‬
‫لے جایا گیا تھا۔۔۔۔ پھر ایک‬ ‫گھر‬ ‫واپس‬
‫وقت تھا‬ ‫شام کا‬ ‫ہے کہ‬ ‫بات‬ ‫کی‬ ‫دن‬
‫گپیں لگا رہے‬ ‫اور ہم سب آنگن میں بیٹھے‬
‫تھے کہ اچانک چوہدری شیر آندھی طوفان کی‬
‫طرح گھر میں داخل ہوا۔۔۔۔۔۔۔اس کے چہرے‬
‫رہے تھے‬ ‫ہی عجیب ہو‬ ‫بڑے‬ ‫کے تاثرات‬
‫۔۔۔۔اس کی حالت دیکھ کر ہم سب گھبرا‬
‫نے ہمارے پاس آ کر‬ ‫گئے۔۔۔۔۔ادھر چودہری‬
‫کے تاثرات‬ ‫پگ اتاری ۔اس کے چہرے‬ ‫اپنی‬
‫کوئی‬ ‫پاس‬ ‫رہے تھے کہ اس کے‬ ‫بتا‬
‫چارپائی‬ ‫خبر ہے ۔۔۔اور پھر‬ ‫بڑی‬ ‫بہت‬
‫خبر سناتے‬ ‫وہ‬ ‫ہوئے اس نے‬ ‫پر بیٹھتے‬
‫ہوئے بتایا کہ۔۔۔۔۔۔چارپائی پر بیٹھتے ہی چوہدری‬
‫نے ایک نظر ہم سب کی طرف دیکھا اور پھر بڑے‬
‫ہی ڈرامائی انداز میں کہنے لگے۔۔۔ کڑی منڈا‬
‫پھڑے گئے نے۔۔۔۔۔ ان کی بات سن کر حیرت کی‬
‫ہم سب ایک ساتھ اچھلے اور پھر‬ ‫وجہ سے‬
‫ہی بولنے لگے ۔۔۔۔ ۔۔۔ کب پکڑے‬ ‫ایک ساتھ‬
‫گئے؟ ۔۔کہاں سے پکڑے گئے۔۔۔کس نے پکڑا؟ ان‬
‫سب باتوں کے دوران اچانک ہی آنٹی کی‬
‫تشویش بھری آواز گونجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کہہ رہی تھیں‬
‫۔۔۔۔ وہ ٹھیک تو ہے نا؟ تو چوہدری نے ان کی‬
‫ٹھیک ہے‬ ‫طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ہاں بلکل‬
‫اور اس سے پہلے کہ ہم چوہدری سے کچھ‬
‫وغیرہ کرتے وہ خود ہی کہنے‬ ‫مزید سواالت‬
‫لگا۔۔۔۔۔۔کچھ دن مصروفیت کی وجہ سے میں‬
‫بھائی کو فون نہ کر سکا۔۔چنانچہ آج کوئی تین‬
‫چار دن کے بعد جب میں نے اس کو فون کیا‬
‫خاصہ پریشان نظر آیا ۔۔ پھر میرے‬ ‫تو وہ‬
‫کچھ دن‬ ‫پوچھنے پر اس نے بتا یا کہ یہ‬
‫پہلے کی بات ہے کہ دو آدمی میرا پتہ‬
‫تھے تصدیق کے‬ ‫پوچھتے ہوئے گھر آئے‬
‫نے مجھ سے امجد کے بارے‬ ‫بعد انہوں نے‬
‫کر‬ ‫سن‬ ‫ان کا سوال‬ ‫میں سوال کیا تو‬
‫ان کو‬ ‫میں‬ ‫میرا ماتھا ٹھنک گیا۔۔۔۔چنانچہ‬
‫اور چائے‬ ‫اپنے ڈرائینگ روم میں لے آیا‬
‫کی ۔۔۔۔ چائے‬ ‫وغیرہ کے ساتھ ان کی تواضع‬
‫پینے کے بعد انہوں نے ایک بار پھر مجھ‬
‫کیا ۔۔ پہلے تو‬ ‫سے امجد کے بارے میں سوال‬
‫پر‬ ‫ان کے اصرار‬ ‫میں چپ رہا لیکن پھر‬
‫امجد تو کافی عرصہ قبل‬ ‫میں نے بتالیا کہ‬
‫گھر سے بھاگ گیا‬ ‫کے ساتھ‬ ‫کسی لڑکی‬
‫تھا میری بات سن کر وہ کہنے لگے کہ آپ‬
‫بھائی‬ ‫پر‬ ‫تو اس‬ ‫نے ان کو ڈھونڈا نہیں؟‬
‫تمام‬ ‫انہوں نے اپنے‬ ‫کہ‬ ‫صاحب کہنے لگے‬
‫عزیز رشتے داروں کے ہاں ان کو دیکھ لیا۔۔۔‬
‫لیکن وہ کہیں نہیں ملے اس کے بعد بھائی‬
‫صاحب نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ‬
‫تو‬ ‫اگر آپ کو ان کے بارے میں کچھ علم ہو‬
‫بتا دیں۔۔ اس پر ان میں‬ ‫ہمیں‬ ‫برا ِہ مہربانی‬
‫سے ایک نے اپنا تعارف کراتے ہوئے کہا کہ‬
‫مصافات‬ ‫کے قریب‬ ‫وہ لوگ مرید کے شہر‬
‫والے ہیں آج سے کچھ عرصہ‬ ‫رہنے‬ ‫کے‬
‫قبل ایک لڑکا اور لڑکی ان کے عالقہ میں‬
‫ڈھونڈتے ہوئے آئے تھے‬ ‫کرائے پر مکان‬
‫گھر کرائے کے‬ ‫میرا‬ ‫اتفاق سے ان دنوں‬
‫لیئے خالی تھا ۔۔۔لیکن ایک نوجوان لڑکے کے‬
‫جوان لڑکی کو دیکھ کر میں تھوڑا‬ ‫ساتھ‬
‫ان کے پاس سوائے دو‬ ‫کیونکہ‬ ‫جھجک گیا‬
‫نہ تھا اس لیئے‬ ‫بیگز کے اور کوئی سامان‬
‫اور لڑکی کے بارے‬ ‫سامان‬ ‫جب اس نے‬
‫تو آگے سے اس نے لڑکی‬ ‫لڑکے سے سوال کیا‬
‫کے‬ ‫کے بارے میں یہ بتایا کہ وہ اس‬
‫چچا کی بیٹی ہے اور وہ سب ایک ساتھ‬
‫رہتے تھے ان کی گاؤں میں دشمنی چل رہی‬
‫اس دشمنی کی بنا پر مخالف فریق‬ ‫تھی اور‬
‫ان لوگوں کے گھر پر حملہ کر دیا تھا‬ ‫نے‬
‫اس لیئے دشمنوں سے جان بچانے کے لیئے‬
‫وہ لوگ بھاگ کر یہاں آ گئے ہیں اور جلدی‬
‫میں آنے کی وجہ سے وہ لوگ اپنے ساتھ‬
‫پھر انہوں نے‬ ‫سامان وغیرہ نہ ال سکے ہیں‬
‫مزید بتایا تھا کہ اگلے چند دن تک ان کے‬
‫پر آ جائیں‬ ‫بھی رہنے کے لیئے یہاں‬ ‫والدین‬
‫( تا ہم ضروری سامان انہوں نے اگلے ہی دن‬
‫خرید لیا تھا) ۔ ان کی بات سن کر بھائی تو‬
‫حیران ہی رہ گیا ۔اور ان سے کہنے لگے کہ‬
‫آپ نے بنا کوئی تفتیش کئے ایک نوجوان‬
‫کو کرائے پر رہنے کے لیئے‬ ‫لڑکے اور لڑکی‬
‫اپنا مکان کس طرح دے دیا؟۔۔۔۔ تو اس پر وہ‬
‫ہو کر بوال ۔۔۔ کہ‬ ‫تھوڑا کھسیانا سا‬ ‫شخص‬
‫کہانی ہی کچھ ایسی‬ ‫ایک تو ان لوگوں نے‬
‫تھی کہ میرے دل میں رحم ا ٓگیا‬ ‫کی‬ ‫بیان‬
‫۔۔۔۔اور دوسری بات یہ کہ انہوں نے مجھے منہ‬
‫ادا کرنے کے ساتھ دو ماہ کا‬ ‫مانگا کرایہ‬
‫دیا تھا ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی‬ ‫ایڈوانس بھی‬
‫وہ‬ ‫بھی کی تھی کہ‬ ‫انہوں نے یہ پیشکش‬
‫گے‬ ‫کریں‬ ‫پڑھا دیا‬ ‫فری‬ ‫ان کے بچوں کو‬
‫کیونکہ ان کے بقول لڑکا اور لڑکی دونوں‬
‫ایک پرائیوٹ سکول میں ٹیچنگ کرتے تھے ۔‬
‫اس کے بعد جب کافی دن ہو گئے اور ان‬
‫میں نے اس‬ ‫کے والدین وغیرہ نہیں آئے تو‬
‫بڑے‬ ‫بارے میں امجد سے بات کی تو وہ‬
‫ہوئے‬ ‫جواب دیتے‬ ‫میں‬ ‫انداز‬ ‫مشکوک‬
‫بوال ‪....‬کہ کچھ دن تک آ جائیں گے ۔ اتنی بات‬
‫لگا کہ ان‬ ‫وہ شخص کہنے‬ ‫کے بعد‬ ‫کرنے‬
‫بچوں پر شک تو ہمیں شروع سے ہی تھا‬
‫بدال‬ ‫ہمارا شک اس وقت یقین میں‬ ‫۔۔ لیکن‬
‫میری بیوی سے‬ ‫جب نبیلہ نے‬ ‫۔۔۔۔۔کہ‬
‫نکاح خواں کے بارے میں‬ ‫عالقے میں کسی‬
‫ہوئی‬ ‫نبیلہ کی پوچھی‬ ‫پوچھ گچھ کی اور پھر‬
‫سے کی‬ ‫میری بیوی نے مجھ‬ ‫جب‬ ‫یہ بات‬
‫چونک اُٹھا ۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے بعد‬ ‫میں‬ ‫۔۔۔۔ تو‬
‫ہے اور‬ ‫مجھے یقین ہو گیا کہ معاملہ گڑبڑ‬
‫پھر پیار اور تسلی دالسہ دینے کے بعد‬
‫امجد نے مجھے آپ کا پتہ بتا دیا۔۔۔۔‬ ‫باآلخر‬
‫اس شخص کی بات سن کر بھائی صاحب نے‬
‫اس کا بہت شکریہ ادا کیا ۔۔۔اور پھر اس کو اصل‬
‫ت حال سے آگاہ کرتے ہوئے سارا معاملہ‬
‫صور ِ‬
‫پولیس کو بتانے کا کہا ۔پولیس کا نام سن کر‬
‫وہ لوگ گھبرا گئے اور پولیس سٹیشن‬
‫جانے سے انکاری ہو گئے اس پر بھائی صاحب‬
‫ہر قسم کی گارنٹی دی اور پھر‬ ‫نے ان کو‬
‫کافی ساری یقین دھانیوں کے بعد وہ لوگ‬
‫باہر کسی مقام پر‬ ‫البتہ‬ ‫تھانے تو نہیں‬
‫ایس ایچ او صاحب سے ملنے پر رضا مند ہو‬
‫گئے چنانچہ ان کی رضامندی کو دیکھتے ہوئے‬
‫بھائی ان کو لے کر ایس ایچ او کے گھر چال‬
‫گیا۔۔۔۔( جو کہ پہلے ہی بھائی کے ساتھ سیٹ تھا‬
‫) ۔۔‬

‫ایس ایچ او کے پاس پہنچ کر بھائی نے اس کو‬


‫ت حال سے آگاہ کیا۔۔۔ اور پھر ان‬
‫ساری صور ِ‬
‫کیے ہوئے وعدے کے‬ ‫لوگوں کے ساتھ‬
‫بارے میں بتالیا ۔۔۔۔ تو ایس ایچ او نے ان‬
‫لوگوں سے کہا کہ آپ لوگوں کو شاید معلوم نہیں‬
‫اغواء‬ ‫لڑکے پر لڑکی کو‬ ‫ان کے‬ ‫کہ‬
‫کا پرچہ درج ہے اس لیئے قانون کے‬ ‫کرنے‬
‫جرم‬ ‫کو پناہ دینا بھی‬ ‫مطابق اس لڑکے‬
‫اس جرم پر میں آپ لوگوں کو گرفتار‬ ‫ہے اور‬
‫لیکن چونکہ آپ ان ( بھائی )‬ ‫بھی کر سکتا ہوں‬
‫کے ساتھ آئے ہو تو میں آپ کو اتنی رعایت‬
‫دیتا ہوں کہ تم اپنی ضمانت قبل از گرفتاری کر وا‬
‫لو ۔۔۔۔۔ ایس ایچ او کی بات سن کر وہ شخص کہ‬
‫جس کے گھر میں امجد رہ رہا تھا کہنے لگا کہ‬
‫میں تو یہاں پر بلکل پردیسی ہوں ۔۔۔ میری‬
‫ضمانت کون دے گا ؟ تو اس پر بھائی صاحب‬
‫نے اس کی ضمانت کا ذمہ لیا اور پھر اسی‬
‫رات پولیس کی چھاپہ مار پارٹی تشکیل دی گئی‬
‫لڑکے اور لڑکی کو لے کر‬ ‫جو کہ راتو رات‬
‫تفتیش کے بعد امجد کو تو‬ ‫تھانے ا ٓگئی۔۔۔پھر‬
‫نبیلہ کو‬ ‫جوڈیشل ریمانڈ پر جیل ۔۔۔۔جبکہ‬
‫داراالمان میں بھیج دیا گیا ہے۔‬

‫۔۔۔اتنی بات کرنے کے بعد چوہدری نے ایک بار‬


‫پھر ہم سب کی طرف دیکھا اور کہنے لگا کہ‬
‫آپ لوگ‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫رہا‬ ‫اب بھائی یہ کہہ‬
‫آج رات کی گاڑی سے‬

‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_قسط_نمبر_‪17‬‬
‫وہاں سے میں آپ کو لے کر کچہری لے‬
‫کی‬ ‫سب‬ ‫جاؤں گا جہاں پر اس نے آپ‬
‫بندوبست کیا ہوا‬ ‫ضمانت قبل از گرفتاری کا‬
‫ہے۔ چوہدری کی بات سن کر اچانک ہی آنٹی‬
‫لڑکا اور لڑکی مل‬ ‫اب جبکہ‬ ‫کہنے لگیں کہ‬
‫پڑی‬ ‫کیا ضرورت‬ ‫پھر ہمیں‬ ‫ہیں ۔۔۔۔تو‬ ‫گئے‬
‫ہے کہ ہم ضمانت قبل از گرفتاری کراتے پھریں‬
‫؟ ؟ تو اس پر چوہدری کہنے لگا۔۔۔۔ وہ اس‬
‫لیئے کہ آپ تینوں ایف آئی آر میں نامزد ملزمان‬
‫آنٹی کو کیس کی‬ ‫ہیں اس کے بعد چوہدری‬
‫ت حال سے آگاہ کرتے ہوئے بوال ۔۔۔۔کہ اب‬
‫صور ِ‬
‫میں تم کو کیا بتاؤں صائقہ بیگم کہ لڑکی کے‬
‫خوف ناک ہوتا‬ ‫کا کیس کس قدر‬ ‫اغواء‬
‫ہے ۔۔۔ ایسے کیس میں جس جس نے ان کو پناہ‬
‫ہوتی ہے۔۔۔جس کے گھر میں یہ ٹھہرے‬ ‫دی‬
‫ہوتے ہیں ۔۔۔ اور جس نے بھی ان کے ساتھ‬
‫ہے وہ سب کے‬ ‫کسی قسم کی مدد کی ہوتی‬
‫میں آتے‬ ‫کے زمرے‬ ‫سب سہولت کار‬
‫کی‬ ‫قانون‬ ‫ہے کہ‬ ‫تو پتہ‬ ‫ہیں اور تم کو‬
‫ملزم‬ ‫نظر میں سہولت کار بھی اتنا ہی بڑا‬
‫اصل ملزم ۔۔۔۔۔پھر‬ ‫ہوتا ہے جتنا کہ خود‬
‫ہماری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا اور تم‬
‫کہ تم لوگوں کو تو ایف آئی‬ ‫لوگ یہ مت بھولو‬
‫۔۔۔۔‬ ‫کا معاون بنایا گیا‬ ‫آر میں اغواء کندہ‬
‫چوہدری کی بات سن کر آنٹی نے شیدے کے‬
‫گھر والواں کو جی بھر کے کوسنے اور‬
‫کہ جن کی وجہ سے ہم لوگ‬ ‫بدعائیں دیں‬
‫ہو گئے۔۔۔ ۔۔۔آنٹی کی‬ ‫خواہ مخواہ ذلیل و خوار‬
‫بددعائیں سن کر چوہدری خاصہ محضوظ ہوا‬
‫چارپائی سے اُٹھ‬ ‫اور پھر یہ کہتے ہوئے‬
‫کھڑا ہوا کہ ۔۔ اب تم لوگ جلدی سے تیار ہو‬
‫جاؤ ۔۔۔ پھر وہ اپنی بیگم کی طرف متوجہ ہوا‬
‫ان‬ ‫اور اسے کہنے لگا کہ بھلیئے لوکے‬
‫لوگوں کے ساتھ ساتھ تم بھی جانے کی تیاری‬
‫کر لو کیونکہ مصیبت کی اس گھڑی میں ۔۔۔۔۔ہم‬
‫ان کو تنہا نہیں چھوڑ سکتے ۔۔پھر کہنے لگا‬
‫ویسے بھی چونکہ میرا بھائی باؤ ٹائپ‬ ‫کہ‬
‫اس کا کبھی تھانے‬ ‫ہے اور‬ ‫کا بندہ‬
‫اپنی‬ ‫‪..‬کچہری سے واسطہ نہیں پڑا ۔۔۔پھر‬
‫ہوئے تائی اماں سے‬ ‫طرف اشارہ کرتے‬
‫ہو کہ‬ ‫تم تو جانتی ہی‬ ‫کہنے لگا کہ اور‬
‫تو ساری زندگی ہی تھانے کچہری میں‬ ‫اپنی‬
‫گزری ہے اس لیئے ان لوگوں کے ساتھ جا کر‬
‫اس کیس کو اب میں ہینڈل کروں گا۔ اتنی بات‬
‫چوہدری یہ کہتے ہوئے باہر‬ ‫کے بعد‬ ‫کر نے‬
‫ہم نے شام کو‬ ‫کہ‬ ‫چال گیا کہ چھیتی کرو‬
‫نکل جانا ہے‪..‬اس وقت دن کے آٹھ ساڑھے‬
‫کہ جب ہماری بس‬ ‫بجے کا ٹائم ہو گا‬ ‫آٹھ‬
‫پیر ودھائی بس سٹینڈ پر پہنچی ۔۔۔ جہاں امجد کے‬
‫موجود تھے چنانچہ‬ ‫ابا پہلے سے ہی‬
‫نیچے اترتے ہی وہ ہمیں اپنے ایک دوست‬
‫لوگوں نے‬ ‫گئے جہاں پر ہم‬ ‫کے گھر لے‬
‫کیا ۔۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ دیر آرام‬ ‫ناشتہ وغیرہ‬
‫کے بعد وہ ہمیں لے کر کچہری پہنچ گئے جہاں‬
‫پر ان کے وکیل نے پہلے سے ہی ساری‬
‫‪ 12‬بجے‬ ‫تیاریاں مکمل کی ہوئیں تھیں ۔۔۔غرض کہ‬
‫تک ہم لوگوں کو ضمانت قبل از گرفتاری کا‬
‫پروا نہ مل گیا تھا ۔۔۔ جسے لے کر ہم لوگ گھر‬
‫کو واپس آ گئے۔ ۔‬

‫واپسی پر انکل نے مجھے بتایا کہ میرے گھر‬


‫آ گئے‬ ‫میں‬ ‫اپنے گھر‬ ‫والے بھی و اپس‬
‫میں نے‬ ‫ہیں چنانچہ انکل کی بات سنتے ہی‬
‫سا مان اُٹھایا ۔۔۔۔ اور ڈرتے‬ ‫اپنا مختصر سا‬
‫ڈرتے اپنے گھر پہنچ گیا ۔۔۔ گھر میں داخل‬
‫سب سے پہلے ۔۔۔۔۔ امی کے ساتھ‬ ‫ہوتے ہی‬
‫مالقات ہو گئی جیسے ہی امی کی نظر مجھ پر‬
‫تو انہوں نے آؤ دیکھا نہ تاؤ اور‬ ‫پڑی‬
‫اپنی جوتی اتار کے مجھ کو مارنا شروع کر‬
‫کہ ما‬ ‫دیا۔۔۔۔اور دوستو آپ تو جانتے ہی ہو‬
‫ں کی مار بھی کسی کسی کو نصیب ہوتی ہے اس‬
‫چپ چاپ ان سے مار کھاتا رہا ۔۔ہاں‬ ‫لیئے میں‬
‫بیچ بیچ میں جب کسی نازک جگہ پر جوتی لگتی‬
‫بوجھ کر ہائے امی جی وغیرہ‬ ‫تو میں جان‬
‫جب میری ماں مجھے مار‬ ‫کرتا رہا ۔۔۔ ادھر‬
‫مار کر تھک گئی۔۔۔۔تو اچانک ہی انہوں نے اپنی‬
‫جوتی پرے پھینکی اور مجھے اپنے گلے سے‬
‫رونے لگ پڑیں ۔۔ وہ‬ ‫پھر‬ ‫لگا لیا ۔۔۔۔اور‬
‫پیار بھی کرتی‬ ‫رونے کے ساتھ ساتھ مجھے‬
‫وہ چپ ہو‬ ‫جاتی تھیں۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد‬
‫کا پوچھا‬ ‫سے کھانے وغیرہ‬ ‫گیں ۔۔۔اور مجھ‬
‫۔۔اتنی دیر میں گھر کے باقی لوگ بھی آ گئے‬
‫ب‬
‫نے حس ِ‬ ‫گھر کے ہر فرد‬ ‫تھے اور پھر‬
‫طعنوں اور لعنت مالمت وغیرہ‬ ‫توفیق مجھے‬
‫خوب نوازا ۔۔۔ میں ان سب کی کڑوی‬ ‫سے‬
‫کیسلی باتیں سن کر برداشت کرتا رہا۔۔۔ کہ اس‬
‫کے عالوہ میں اور کر بھی کیا سکتا تھا؟ مجھ‬
‫پر لعنت مالمت کرنے کے کافی دیر بعد وہ بھی‬
‫شانت ہو گئے اور یوں گھر میری انٹری گھر‬
‫میں کنفرم ہو گئی۔۔۔‬

‫ادھر میرے گھر آنے کی خبر جنگل میں آگ کی‬


‫طرح سارے محلے میں مشہور ہو گئی ۔۔اور جب‬
‫بات پورے محلے کو معلوم ہو ۔۔۔تو پھر یہ کیسے‬
‫اس‬ ‫میرے گھر آنے کی خبر‬ ‫ممکن ہے کہ‬
‫ماں کے لن شیدے تک نہ پہنچی ہو۔۔۔۔ چنانچہ‬
‫دو تین گھنٹے بعد ہی‬ ‫گھر میں آنے کے‬
‫کپڑوں میں ملبوس دو تین پولیس والے‬ ‫سادہ‬
‫سے ہی‬ ‫ہمارے گھر پہنچ گئے ۔۔۔ میں پہلے‬
‫کر رہا تھا ۔۔۔۔اس لیئے‬ ‫ان کے آنے کی توقع‬
‫بال چوں و چرا کیئے ان کے ساتھ چل پڑا ۔۔۔ ہاں‬
‫کہہ گیا کہ اگر‬ ‫کو‬ ‫جاتے جاتے گھر والوں‬
‫نہ آؤں تو آپ‬ ‫واپس‬ ‫رات گئے تک‬ ‫میں‬
‫۔۔۔۔ تھانے پہنچ‬ ‫بتا دینا‬ ‫امجد کے گھر‬ ‫لوگ‬
‫تاج کی‬ ‫کہ اے ایس آئی‬ ‫ہوا‬ ‫کر معلوم‬
‫کی تفتیش اب کسی اور کے‬ ‫جگہ اس کیس‬
‫سپرد ہے ( جو کہ بعد میں معلوم ہوا کہ ایس ایچ‬
‫تھانے پہنچ کر‬ ‫او کا خاص بندہ ہے) چنانچہ‬
‫ضمانت قبل از‬ ‫میں نے اس اے ایس آئی کو اپنی‬
‫گرفتاری کا پروانہ دکھایا جسے دیکھ کر اس‬
‫بیان‬ ‫میرا‬ ‫نے مجھے کرسی پیش کی اور پھر‬
‫۔۔۔۔ جس میں ۔۔۔۔۔ میں نے بھی یہی‬ ‫ریکارڈ کیا‬
‫لکھوایا کہ میں امجد کو تالش کرنے گیا تھا‬
‫مکمل کرنے کے بعد وہ سیدھا ایس ایچ‬ ‫۔۔۔بیان‬
‫او کے پاس گیا اور پھر ۔۔۔۔ واپسی پر اس نے بیا ن‬
‫اور مجھے گھر‬ ‫د ستخط لئیے‬ ‫پر میرے‬
‫دی کہ اگر میں‬ ‫جانے کی اس شرط پر اجازت‬
‫شہر سے کہیں باہر جاؤں تو اسے مطلع کروں ۔‬

‫تھانے سے نکل کر میں سیدھا انکل کے گھر کی‬


‫ت حال سے‬
‫صور ِ‬ ‫طرف چل پڑا تا کہ ان کو‬
‫گھر سے‬ ‫آگاہ کروں ۔ ۔۔۔ابھی میں ان کے‬
‫مجھے‬ ‫تھوڑا ہی دور تھا کہ سامنے سے‬
‫دکھائی دیا جس کے ہاتھ میں ایک‬ ‫فیضان‬
‫اور اس ٹرے میں‬ ‫پکڑی ہوئی تھی‬ ‫ٹرے‬
‫تھیں پتہ چال کہ‬ ‫بہت سی پلیٹیں رکھی ہوئیں‬
‫ختم دالیا تھا‬ ‫ان لوگوں نے اپنے گھر میں‬
‫پورے محلے میں‬ ‫چاول‬ ‫اور وہ ختم کے یہ‬
‫بانٹ رہا تھا ۔۔۔ فیضان کے بارے میں ۔۔۔ میں‬
‫محلے دار‬ ‫آپ لوگوں کو بتا دوں کہ وہ ہمارا‬
‫بھائی‬ ‫چھوٹا‬ ‫میرے ایک دوست کا‬ ‫اور‬
‫اور بھوال‬ ‫ہی معصوم ‪ ،‬کیوٹ‬ ‫اور بہت‬ ‫تھا‬
‫تھا۔۔۔۔۔ جس کی اس وقت عمر‬ ‫بھالہ سا لڑکا‬
‫فیضان سے‬ ‫۔ چنانچہ‬ ‫سال ہو گی۔‬ ‫چھ سات‬
‫اس کے بھائی کا حال احوال پوچھ کر میں انکل‬
‫چاول‬ ‫کے گھر کی طرف ۔۔۔۔ جبکہ فیضان‬
‫محلے کی دوسری طرف‬ ‫کے لیئے‬ ‫بانٹنے‬
‫ہی‬ ‫جیسے‬ ‫کے گھر پہنچ کر‬ ‫چال گیا۔‪.‬انکل‬
‫پہلے‬ ‫سے‬ ‫میں نے بیل بجائی تو فوراً‬
‫ہی دروازہ کھل گیا۔۔۔ اور دروازہ کھولنے والی‬
‫۔۔۔اس نے ایک‬ ‫مینا تھی۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی‬
‫ڈالی ۔۔۔اور پھر‬ ‫میں‬ ‫نظر باہر گلی‬
‫مینا کو‬ ‫مجھے‪...‬اندر آنے کا راستہ دے دیا۔۔۔‬
‫دیکھ کر ویسے ہی مجھے مذاق سوجھا اور‬
‫اندر داخل ہوتے ہوئے اس کی طرف‬ ‫میں‬
‫دیکھ کر بوال کیسی ہے منگیتر؟۔۔۔ تو جوابا ً‬
‫مجھ پر ایک بھر پور نظر ڈالی‬ ‫مینا نے بھی‬
‫بھرے انداز میں‬ ‫شرارت‬ ‫اسی‬ ‫اور پھر‬
‫کہنے لگی۔۔ ٹھیک ہوں منگیتر۔۔۔۔۔اور اندر چلی‬
‫گئی۔ اندر داخل ہوتے ہی میں سیدھا ان کے‬
‫ب معمول‬
‫ڈرائینگ روم میں چال گیا جہاں پر حس ِ‬
‫ساری کابینہ سر جوڑ کر بیٹھی تھی اور اسی کیس‬
‫رہی تھی‬ ‫کے بارے میں دھواں دھار بحث ہو‬
‫۔۔۔ مجھے ان کی فیملی کی یہ عادت بہت عجیب‬
‫لگتی تھی کہ ایک مسلے پر یہ لوگ گھنٹوں‬
‫کیا کرتے تھے مجھے دیکھتے‬ ‫بحث و مباحثہ‬
‫ہی انکل کہنے لگے ہاں بھائی تھانیدار نے‬
‫نا ؟ تو میں‬ ‫کوئی زیادہ روال تو نہیں کیا‬
‫نے جوابا ً ان کو ساری صور ِ‬
‫ت حال سے آگاہ کر‬
‫دیا۔۔جسے سن کر انکل کہنے لگے بی بی اے (‬
‫بیل بی فور اریسٹ (ضمانت قبل از گرفتاری )‬
‫مقصد ہی یہی تھا کہ وہ لوگ تم‬ ‫کرانے کا‬
‫کو زیادہ تنگ نہ کریں اس کے بعد وہ لوگ‬
‫اسی بحث کو لے کر بیٹھ گئے۔۔۔۔۔پندرہ بیس‬
‫منٹ تک میں بھی ان کے ساتھ بیٹھ کر اس‬
‫بحث میں حصہ لیتا رہا پھر اچانک ہی چوہدری‬
‫شروع کر دی‬ ‫بحث‬ ‫صاحب نے ایک نئی‬
‫۔۔مجھے معلوم تھا کہ اگر میں نے بھی اس بحث‬
‫میں حصہ لیا تو مجھے دو ڈھائی گھنٹے مزید‬
‫اس لیئے میں‬ ‫پڑے گا‬ ‫ہی بیٹھنا‬ ‫ادھر‬
‫۔۔۔۔۔۔۔ ان سے اجازت لے کر باہر آ گیا۔‪ .‬ڈارائینگ‬
‫روم سے نکل کر ابھی میں چند ہی قدم چال‬
‫مجھے فیضان‬ ‫کچن سے‬ ‫ہوں گا کہ اچانک‬
‫باجی‬ ‫کی آواز سنائی دی۔۔۔۔ وہ کہہ رہا تھا۔۔۔‬
‫میں پھر آ جاؤں گا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ فیضا ن کی یہ بات‬
‫ہی میرے کان کھڑے ہو گئے اور‬ ‫سنتے‬
‫میں دبے پاؤں چلتا ہوا کچن کے قریب پہنچ‬
‫گیا۔۔۔۔۔اور وہاں پہنچ کر جالی کے نیچے بیٹھ‬
‫وقت ہوا چاہتا تھا‬ ‫مغرب کا‬ ‫گیا۔ اس وقت‬
‫اور ان کے صحن میں ہلکا ہلکا اندھیرا چھایا‬
‫۔۔۔۔ جبکہ کچن کی الئیٹ جلی ہوئی‬ ‫ہوا تھا‬
‫تھی۔۔۔ اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ ایسی‬
‫صورت میں باہر سے اندر کا منظر صاف‬
‫وجہ‬ ‫کی‬ ‫ہے جبکہ اندھیرے‬ ‫دیتا‬ ‫دکھائی‬
‫۔۔۔۔اندر سے باہر کا منظر نہیں دکھائی‬ ‫سے‬
‫دیتا ۔۔۔۔ ابھی میں کچن کی جالی کے نیچے بیٹھا‬
‫ہی تھا کہ اچانک مجھے پوچ ( چما کرنے کی)‬
‫کی مخصوص آواز سنائی دی۔۔۔۔۔ اس آواز کو سن‬
‫کر میرے کان جو پہلے ہی کھڑے تھے ۔۔۔اب‬
‫ہمہ تن گوش ہو گیا ۔۔۔اور پھر میں‬ ‫بدن‬ ‫سارا‬
‫نے دھیرے دھیرے سر اُٹھا کر جالی سے اندر‬
‫کا منظر دیکھا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔واؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔۔ اندر کا منظر‬
‫سے بھر پور تھا ۔۔۔۔ جالی کے بلکل‬ ‫شہوانیت‬
‫اس کی پشت‬ ‫سامنے مینا کھڑی تھی ۔۔۔ جبکہ‬
‫فیضان کی طرف‬ ‫میری طرف اور اس کا منہ‬
‫تھا ۔۔۔۔چونکہ فیضان کا قد مینا سے چھوٹا تھا‬
‫اس لیئے وہ مینا کے آگے چھپ سا گیا‬
‫وڈیو‬ ‫کی‬ ‫مجھے ان دونوں‬ ‫تھا۔اسی لیئے‬
‫صرف آڈیو سنائی دے رہی تھی ۔۔۔‬ ‫کی بجائے‬
‫پھر مجھے فیضان کی آواز سنائی دی وہ کہہ‬
‫پلیٹ دے دیں پلیز۔۔۔ ۔۔۔۔ میں‬ ‫رہا تھا۔۔۔ باجی‬
‫پھر کسی وقت آ جاؤں گا ۔۔۔ اب ۔۔۔اس کے ساتھ‬
‫ہی مجھے مینا کی ہوس بھری آواز سنائی‬
‫بھائی میں‬ ‫دی وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔۔ فیضان‬
‫تمہیں اچھی نہیں لگتی کیا؟ تو آگے سے‬
‫سی آواز سنائی دی وہ کہہ‬ ‫فیضان کی معصوم‬
‫رہا تھا ۔۔۔ باجی آپ مجھے بہت اچھی لگتی ہیں‬
‫امی نے مجھے جلد‬ ‫کیا کروں کہ‬ ‫۔لیکن‬
‫کہا تھا ۔۔۔۔۔۔ پھر میں نے دیکھا کہ‬ ‫آنے کو‬
‫فیضان کی بات سن کر مینا تھوڑا نیچے جھکی‬
‫اور اس کے گال پر چمی لے کر بولی ۔۔۔۔تو مجھے‬
‫تھوڑی پپیاں کرنے دو نا۔۔۔۔۔اس پر فیضان کہنے‬
‫لگا۔۔۔ ٹھیک ہے باجی آپ ایک دو پپیاں کر لیں‬
‫اس‬ ‫مینا نے‬ ‫ہی‬ ‫۔فیضان کی بات سنتے‬
‫کے گالوں پر پپیوں کی بوچھاڑ کر دی ۔۔۔۔اور پھر‬
‫ہی‬ ‫پھر اس کے ساتھ‬ ‫کھڑی ہو گئی۔۔ ۔۔۔ اور‬
‫مجھے مینا کی شہوت بھری آواز سنائی دی ۔۔۔۔وہ‬
‫کہہ رہی تھی ۔۔۔۔۔ اگر میں تمہیں اچھی لگتی ہوں‬
‫تو تم بھی مجھے چما کرو ۔۔۔۔ یہ کہتے ہی وہ‬
‫نیچے جھک گئی ۔۔۔۔ تو فیضان‬ ‫سے‬ ‫دوبارہ‬
‫پہ چما‬ ‫نے مینا کے گالوں کو چوم لیا۔۔۔۔ گالوں‬
‫لینے کے بعد۔۔۔۔ مینا نے اپنے ہونٹ فیضان کے‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔۔ ایک‬ ‫سامنے کر دیئے ۔۔۔اور اسے‬
‫تھوک واال چما بھی کر دو ۔۔۔ اور اس کے ساتھ‬
‫ہی فضا میں ہونٹ چوسنے کی مخصوص آواز‬
‫گونجنے لگی۔۔۔ ۔۔۔۔ اس کا مطلب تھا کہ مینا فیضان‬
‫کے۔۔۔۔ یا فیضان مینا کے ہونٹ چوس رہا تھا۔۔۔‬
‫کی اس بچے کے ساتھ کسنگ کی‬ ‫مینا‬
‫بدن میں چیونٹیاں‬ ‫مخصوص آواز سن کر میرے‬
‫سی رینگنے لگ گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر یہ چیونٹیاں‬
‫رینگتے رینگتے ۔۔۔۔۔۔ عین میرے لن کے قریب‬
‫پہنچ گئیں ۔۔اور میں یہ سوچ سوچ کر حیران ہو‬
‫رہا تھا کہ اتنی چھوٹی سی عمر میں ہی مینا‬
‫ہو کر‬ ‫بڑی‬ ‫تھوڑا‬ ‫اس قدر سیکسی ہے تو‬
‫یا بقول‬ ‫کیا غضب ڈھائے گی‬ ‫جانے‬
‫فتنہ شریر‬ ‫شاعر اتنی سی عمر میں بھی تم‬
‫کو اس‬ ‫ہو ۔۔ اور کمال کی بات یہ تھی کہ ہم‬
‫کی خبر ہی نہیں لگی۔ورنہ ابھی‬ ‫شریر‬ ‫فتنہ‬
‫بجا چکے ہوتے‬ ‫دفعہ‬ ‫اس کی سو‬ ‫تک‬
‫۔۔۔۔۔۔۔ادھر کچھ دیر کسنگ کے بعد ۔۔۔۔ فضا میں‬
‫مینا کی ہوس ناک آواز گونجی ۔۔۔۔۔۔ وہ جزبات کی‬
‫جان۔۔۔۔‬ ‫شدت سے کہہ رہی تھی فیضان میری‬
‫۔۔۔ تمہیں مزہ آ رہا ہے ناں۔۔۔تو آگے سے‬
‫فیضان کی مست آواز سنائی دی ۔۔۔وہ کہہ رہا‬
‫تھا۔۔۔ ہاں باجی۔۔۔۔ مجھے بڑا مزہ مل رہا ہے۔۔۔۔‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔لیکن باجی امی نے کہا‬ ‫پھر وہ‬
‫تھا کہ پلیٹ لے کر جلدی سے آ جانا ۔۔۔اس پر مینا‬
‫تو‬ ‫کہنے لگی۔۔۔ کہ اچھا یہ بتاؤ کہ یناز‬
‫ہے نا؟ تو‬ ‫سارے محلے میں تقسیم ہو گئی‬
‫فیضان کہنے لگا ۔۔۔ جی باجی ۔۔۔۔۔ آپ کے ہی‬
‫کہنے پر میں سارے چاول بانٹ کر آخر میں آپ‬
‫کے گھر آیا ہوں ۔۔۔۔فیضان کی یہ بات سن کر‬
‫مینا نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔ پھر ٹھیک ہے اور ایک بار پھر نیچے‬
‫جھکی۔۔۔۔۔اور فضا میں دوبارہ سے کسنگ کی‬
‫مخصوص آواز گونجنے لگی۔۔۔۔۔ کچھ دیر کسنگ‬
‫کے بعد اچانک ہی مینا کی آواز سنائی دی وہ‬
‫کہہ رہی تھی‪ .‬فیضان۔۔۔میرے بھائی ۔۔۔ میرے سینے‬
‫(درد) ہو رہی ہے تو اس پر‬ ‫میں بہت ہائی‬
‫دی وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔‬ ‫فیضان کی آواز سنائی‬
‫ابھی آپ کے‬ ‫پہلے کی طرح میں‬ ‫باجی‬
‫( درد ) کو ختم کر‬ ‫ہائی‬ ‫دودھ چوس کر اس‬
‫دیتا ہوں ۔۔۔۔ فیضان کی بات سن کر مینا نے اسے‬
‫اُٹھا کر کچن کے کوئنٹر پر بٹھا دیا۔۔۔اور پھر‬
‫اپنی ایک‬ ‫اپنی قیض کو اوپر کر دیا۔۔۔۔اور‬
‫کے منہ‬ ‫چھاتی کو ننگا کر کے فیضان‬
‫میں دے دیا۔۔۔ اور فیضان نے اس کی چھاتی‬
‫کو اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔۔‬
‫ادھر جیسے ہی فیضان نے مینا کی چھاتی کو‬
‫مجھے مینا کی ایک دل‬ ‫چوسنا شروع کیا تو‬
‫سسکی سنائی دی ۔۔اُف۔ف ف ف ۔ فیضان‬ ‫کش‬
‫مینا نے باری‬ ‫تم کتنے اچھے ہو۔۔۔اس طرح‬
‫فیضان سے‬ ‫باری اپنی دونوں چھاتیوں کو‬
‫چسوایا ۔۔ پھر کچھ دیر بعد اچانک ہی مینا کی‬
‫شہوت بھری آواز سنائی دی ۔۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی‬
‫۔۔۔فیضان بھائی۔۔۔ کہیں تمہاری "نونو " (لن ) پر‬
‫تو ہائی (درد) نہیں ہو رہی ۔۔۔۔۔ تو اس پر فیضان‬
‫کہنے لگا ۔۔۔۔ جی باجی تھوڑی تھوڑی ہائی ( درد)‬
‫ہو رہی ہے ۔۔۔ فیضان کی یہ بات سن کر مینا‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔ دیکھوں تو کتنی ہائی ہے۔۔۔اور اس‬
‫کے ساتھ ہی اس نے فیضان کی نیکر کو نیچے کر‬
‫میرے سامنے مینا کی‬ ‫دیا۔۔۔چونکہ اس وقت‬
‫پشت تھی اور اس کے عین سامنے کچن کے‬
‫کوئنٹر پر فیضان بیٹھا تھا ۔۔۔۔اس لیئے مجھے‬
‫کتنی بڑی‬ ‫نہیں معلوم کہ فیضان کا لن یا للی‬
‫تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ لیکن میں بڑے غور سے مینا کی‬
‫نوٹ کر رہا تھا ۔۔۔۔ اور پھر‬ ‫حرکات و سکنات کو‬
‫نے ہاتھ بڑھا کو‬ ‫مینا‬ ‫میں نے دیکھا کہ‬
‫فیضان کے لن کو پکڑ لیا تھا ۔۔۔پھر اسے دباتے‬
‫ہوئے بولی۔۔۔۔ ہاں بولو ۔۔۔ اب ہائی (درد) کچھ‬
‫ٹھیک ہو رہی ہے؟؟ ۔۔۔ تو جواب میں فیضان‬
‫کہنے لگا۔۔۔ ۔۔۔۔ ہائے باجی ۔۔۔ مجھے تو بڑا مزہ‬
‫اور دبائیں ناں۔۔۔۔‬ ‫مل رہا ہے۔۔۔۔ اس کو تھوڑا سا‬
‫تو آگے سے مینا کی شہوت بھری آواز گونجی وہ‬
‫کہہ رہی تھی ۔۔۔۔ مزے کو چھوڑو ۔۔۔ یہ بتاؤ کہ ا ب‬
‫ہائی کی کیا پوزیشن ہے؟میرے خیال‬ ‫تمہاری‬
‫فیضان کا لن شہوت کی وجہ‬ ‫میں اس وقت‬
‫سے سخت تناؤ کا شکار تھا اور اسی تناؤ اور‬
‫اکڑاہٹ کی وجہ سے اس کے لن میں ایک قسم‬
‫ہو رہی تھی جسے وہ ہائی (درد)‬ ‫کی کھچاوٹ‬
‫کہہ رہا تھا ۔۔۔ اور میرے خیال میں چاالک مینا‬
‫کو بھی اس بات کا علم تھا ۔۔۔ اسی لیئے جب‬
‫اس نے فیضان سے پوچھا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ‬
‫فیضا ن کی‬ ‫میں‬ ‫ہائی کچھ کم ہوئی؟ تو فضا‬
‫نہیں‬ ‫شہوت بھری آواز گونجی۔۔ وہ کہہ رہا تھا‬
‫باجی وہ تو کم نہیں ہو رہی ۔۔اس پر مینا کہنے‬
‫لگی ۔۔۔۔۔ اس کا مطلب ہے کہ مجھے تمہاری‬
‫ہائی (درد) کو چوس کر ختم کرنا پڑے گا۔۔۔۔ یہ‬
‫تھوڑی پیچھے کو جھکی‬ ‫کہتے ہوئے مینا‬
‫۔۔۔۔اور اپنے منہ کو فیضان کی دونوں رانوں کے‬
‫بیچ میں لے گئی۔۔۔۔ مینا کے جھکنے کی وجہ‬
‫سے فیضان کا چہرہ میرے سامنے آ گیا جو‬
‫اس وقت سرخ ہو رہا تھا ۔ فیضان کو چھوڑ میں‬
‫فیضان کی‬ ‫کی طرف دیکھا تو‬ ‫نے مینا‬
‫رانوں کے بیچ ۔۔۔۔مینا کا چہرہ آگے‬ ‫دونوں‬
‫پیچھے ہو رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ مزے‬
‫کے مارے فیضان کی آنکھیں بند تھیں ۔۔۔۔ اور وہ‬
‫سسکیاں بھرتے ہوئے‬ ‫وقفے وقفے کے ساتھ‬
‫کہہ رہا تھا کہ ہائے۔۔۔۔باجی۔۔۔بڑا مزہ آ رہا‬
‫ہے۔۔۔فیضان کا لن چوسنے کے کچھ دیر بعد‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔مینا نے اپنا سر اوپر اُٹھایا اور فیضان کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔کچھ فرق پڑا؟‬
‫تو آگے سے فیضان کہنے لگا۔۔۔ ہاں باجی۔۔فرق‬
‫بھی پڑا ہے اور ۔۔ جی بھی خوش ہو گیا‬
‫ہے۔۔۔تو اس پر مینا نے اس کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے کہا ۔۔۔ لیکن بھائی ۔۔ ابھی مینا نے اتنا ہی‬
‫کہا تھا کہ اس کی بات کاٹ کر فیضان جلدی سے‬
‫بوال ۔۔۔ میں سمجھ گیا باجی ۔۔۔۔آپ شلوار اتاریں‬
‫دور کر دیتا‬ ‫میں ابھی آپ کی ہائی کو بھی‬
‫ہو۔۔۔۔۔۔۔ فیضان کی بات سن کر مینا ہنس کر بولی‬
‫بڑے تیز ہو گئے ہو تم۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اپنی شلوار‬
‫اتارنے کے لیئے اپنا ہاتھ نیچے کی طرف لے‬
‫گئی۔۔۔۔۔لیکن شاید اس کی چھٹی حس نے کوئی‬
‫ویسے ہی پتہ نہیں کیا‬ ‫سگنل دیا ۔۔۔۔۔۔۔ یا پھر‬
‫ہوا ۔۔۔۔۔۔ کہ اچانک ہی وہ کچن سے باہر نکل‬
‫آئی۔۔۔۔۔میں نے اسے کچن سے باہر کی طرف‬
‫آتے تو دیکھا۔۔۔۔۔ لیکن اتنا ٹائم نہیں تھا کہ‬
‫میں ادھر ادھر ہو جاتا ۔۔اور اس سے پہلے کہ‬
‫میں کچھ کرتا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ کچن سے باہر آ چکی تھی‬
‫۔۔۔۔ کچن سے باہر نکل کر جیسے ہی اس کی‬
‫نظر مجھ پر پڑی تو میں نے ہاتھ ہال کر اس‬
‫سے بس اتنا ہی کہا ۔۔۔کہ ۔۔۔ہائے منگیتر ۔۔۔۔۔اور‬
‫بھاگ کر باہر آ گیا۔۔مینا کا اتنا گرم سین دیکھ کر‬
‫ہو گیا تھا‬ ‫مجھ پر ہوشیاری کا غلبہ طاری‬
‫۔۔اور میرا لن کسی پھدی میں جانے کے لیئے‬
‫دھائیاں دے رہا تھا ۔۔۔ ایسے میں ایک ہی‬
‫پھدی ذہن میں آئی۔۔۔ کہ جو (تقریبا ً ) ہر وقت‬
‫ہی میری دسترس میں تھی آپ ٹھیک سمجھے‬
‫۔۔۔۔۔۔۔ اب میری منزل پی سی او تھی جہاں پر جا‬
‫ب‬
‫کر میں نے بھابھی کا نمبر ڈائل کیا اور حس ِ‬
‫توقع دوسری طرف سے انہوں نے ہی فون‬
‫اُٹھایا ۔۔۔ اور کہنے لگی ۔۔کب آئے ہو؟ تو جیسے‬
‫ہی میں ان کو اپنے آنے کے بارے میں بتانے‬
‫لگا ۔۔۔تو اچانک ہی ان کی آواز سنائی دی۔۔۔ کہاں‬
‫یار ۔۔۔۔ امی کی طبیعت کل رات سے بہت سیریس‬
‫تقریبا ً سارے ہی‬ ‫سے‬ ‫ہے اس لیئے کل‬
‫آئے ہوئے ہیں ۔۔۔‬ ‫عزیز رشتے دار گھر پہ‬
‫۔۔بھابھی کی بات سن کر میں ساری بات سمجھ گیا‬
‫اور ان سے کہنے لگا۔۔۔۔۔ مطلب کہ واردات‬
‫مشکل ہے تو وہ ٹھنڈی سانس بھر کر بولیں۔۔۔۔۔۔تم‬
‫رہی ہو۔۔۔بس دعا کرو اور ساتھ‬ ‫ٹھیک کہہ‬
‫ہی فون رکھ دیا۔بھابھی کی طرف سے ناں سن کر‬
‫باہر نکل آیا اور۔۔ اپنے‬ ‫سے‬ ‫میں پی سی او‬
‫لن کو ہاتھ میں پکڑ کر بوال ۔۔۔ جا اپنی‬
‫حسرتوں پہ آنسو بہا کے سو جا۔۔۔۔۔۔۔ اور واپس‬
‫گھر کی طرف چل پڑا۔۔۔۔ بستر پر لیٹتے ہی‬
‫ایک بار پھر لن صاحب نے دہائیاں دینی‬
‫چونکہ اس وقت کسی پھدی کی‬ ‫شروع کر دیں‬
‫نے‬ ‫درک نہیں تھی اس لیئے ۔۔۔۔ میں‬
‫بنانے کا فیصلہ کیا‬ ‫ہاتھ کو ہی چوت‬ ‫مجبوراً‬
‫چال گیا‬ ‫بستر سے اُٹھ۔۔۔۔کر واش روم‬ ‫اور‬
‫پکڑا ۔۔۔۔اور اسے‬ ‫میں‬ ‫پھر لن کو اپنے ہاتھ‬
‫اپنے تھوک کے ساتھ اچھی طرح "چوپڑا "۔۔۔۔۔۔‬
‫بڑے عرصے بعد ُمٹھ مارنے کا بڑا مزہ آیا۔۔۔‬

‫جلدی اُٹھا‬ ‫ب ہدایت انکل اگلی صبع میں‬


‫حس ِ‬
‫اور ناشتے کے بعد ان کے گھر کی طرف چل‬
‫وہ لوگ‬ ‫پڑا – میرے پہنچنے سے پہلے ہی‬
‫تیار ہو چکے تھے چنانچہ میرے پہنچتے‬
‫ہم لوگ اڈیالہ جیل کی طرف روانہ ہو گئے ۔‬ ‫ہی‬
‫چوہدری شیر نے‬ ‫سے قبل‬ ‫اس‬ ‫لیکن‬
‫ہم سب کو ایک جگہ جمع کر کے خاص کر‬
‫بڑی سختی کے ساتھ‬ ‫انکل اور آنٹی کو‬
‫تو امجد کو‬ ‫نے نہ‬ ‫تاکید کی تھی کہ انہوں‬
‫گھر سے بھاگنے پر ڈانٹنا ہے اور نہ ہی اس‬
‫اس‬ ‫دینا ہے بلکہ‬ ‫کو کوئی طعنہ شانہ‬
‫موضوع کی طرف بھی نہیں آنا۔اس پر آنٹی کھچ‬
‫کہنے ہی لگی تھی کہ چوہدری بوال ۔۔۔ جب وہ‬
‫سے کہہ‬ ‫گھر آ جائے تو جو مرضی ہے اس‬
‫جیل میں انکل‬ ‫لینا ۔۔۔۔ لیکن اس وقت کچھ نہیں۔۔۔۔۔‬
‫امجد کے ساتھ ایک‬ ‫نے کوئی جوگاڑ لگا کر‬
‫مالقات کا بندوبست کیا ہوا تھا۔۔۔‬ ‫الگ جگہ پر‬
‫چنانچہ کمرے میں جانے سے پہلے جب سارے‬
‫چوہدری‬ ‫لوگ اندر داخل ہو رہے تھے تو‬
‫ایک طرف‬ ‫کر‬ ‫شیر مجھے بازو سے پکڑ‬
‫مجھے ہدایت دیتے ہوئے‬ ‫لے گیا اور پھر‬
‫مالقات کے بعد جیسے ہی ہم‬ ‫کہنے لگا کہ‬
‫اس کے‬ ‫لوگ باہر نکلیں تم نے کچھ دیر مزید‬
‫پاس ٹہرنا ہے اور اس سے خاص طور پر یہ‬
‫بات پوچھنی ہے کہ گھر سے بھاگنے کے‬
‫بعد ۔۔۔۔ ایک مکان میں رہتے ہوئے تم نے‬
‫کام تو نہیں کیا؟‬ ‫" وہ" واال‬ ‫لڑکی کے ساتھ‬
‫اس وقت تو مجھے‬ ‫چوہدری کی بات سن کر‬
‫سمجھ نہیں آئی‬ ‫اس بات کی کوئی خاص‬
‫اس بات کی اہمیت‬ ‫لیکن بعد میں مجھے‬
‫اندازہ ہو گیا۔ ۔۔۔۔ اس‬ ‫کا اچھی طرح سے‬
‫بات چیت کے بعد جب ہم کمرے میں داخل‬
‫دیکھا کہ امجد گھر والوں کے‬ ‫ہوئے تو‬
‫رہا تھا ۔۔۔ مجھے اور‬ ‫ساتھ گپ شپ لگا‬
‫چوہدری کو دیکھ کر وہ اپنی جگہ سے اُٹھ‬
‫کھڑا ہوا ۔۔۔پھر چوہدری نے اسے گلے سے‬
‫لگا کر دالسہ دیتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ گھبرانا نہیں‬
‫میرے پتر ۔۔۔ سب ٹھیک ہو جائے گا ۔۔۔ اس‬
‫کے بعد وہ میرے گلے سے لگا اور ہولے سے‬
‫کہنے لگا۔۔۔سوری بھائی۔۔۔ تو میں نے بھی اس‬
‫کے کان میں کہا ۔۔۔ پتر تو باہر نکل ۔۔۔ میں‬
‫نہ ماری تو کہنا ۔۔اور اس‬ ‫نے تیری بُنڈ‬
‫بات پر ہم دونوں ہنس پڑے۔۔۔ پھر باتوں‬
‫باتوں میں امجد کہنے لگا کہ آپ لوگوں نے‬
‫نبیلہ کی بھی کچھ خیر خبر لی ہے کہ نہیں؟‬
‫نہایت ہی غصے کے عالم‬ ‫تو اس پر آنٹی‬
‫میں کہنے لگی ۔۔۔۔ بھاڑ میں جائے وہ کلموہی۔۔۔‬
‫ہم نے اس حرامزادی سے مل کر کیا کرنا‬
‫ہے؟ تو اس پر امجد بڑا ہی سیریس ہو کر‬
‫۔۔۔ بلکہ آپ لوگ‬ ‫بوال ۔۔۔۔ ایسی بات نہ کریں امی‬
‫اس کے پاس جا کر اسے تسلی دالسہ دیں ‪-‬‬
‫اب اس‬ ‫کیونکہ سارے کیس کا دار و مدار‬
‫کے بیان پر ہو گا۔۔۔ اس کی بات سن کر مہرو‬
‫باجی نے حیرانی کے ساتھ اس کی طرف دیکھا اور‬
‫کہنے لگی۔۔۔ بھائی تم اتنے سمجھدار کب سے ہو‬
‫بات‬ ‫گئے؟ ۔۔۔تو اس پر امجد کہنے لگا۔ ایسی‬
‫نہیں باجی ۔۔۔ بلکہ زمانہ سمجھدار بنا دیتا ہے‬
‫نا۔۔۔۔ یہ جیل‬ ‫پھر کہنے لگا یہ جو جیل ہے‬
‫بڑی‬ ‫کرائم کی بہت‬ ‫نہیں ہے بلکہ‬
‫ایک‬ ‫سے بڑھ کر‬ ‫یونیورسٹی ہے یہاں ایک‬
‫پڑا ہے۔۔۔۔ اس کے بعد اس نے جیل‬ ‫کریمنل‬
‫کے لوگوں کے بارے میں کافی کچھ بتایا‬
‫نیا تھا‬ ‫جو کہ ظاہر ہے ہمارے لیئے بلکل‬
‫یہ مالقات کافی دیر تک جاری رہی پھر جب‬
‫ایک ایک کر کے‬ ‫مالقات کا وقت ختم ہو گیا تو‬
‫سب لوگ باہر نکل گئے لیکن میں وہیں کھڑا‬
‫بوال۔۔۔ اچھا یار یہ تو بتاؤ‬ ‫رہا ۔۔۔اور پھر اس‬
‫تم نے نبیلہ کے ساتھ سیکس کیا‬ ‫کہ اس دوران‬
‫تھا؟ تو میری بات سن کر وہ کہنے لگا‬
‫تو اس‬ ‫تمہاری قسم شاہ جی بلکل نہیں کیا۔۔۔‬
‫پر میں نے اسے گالی دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔ تو بہن‬
‫چودا اسے بھگایا کیوں تھا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو وہ‬
‫میری طرف دیکھ کر کہنے لگا صرف پھدی‬
‫ہی سب کچھ نہیں ہوتی یار۔۔۔۔ تو اس پر میں‬
‫نے اس سے کہا کہ اچھا یہ بتاؤ۔۔ کہ گھر میں‬
‫ظاہر ہے تم لوگ اکیلے ہی ہوتے تھے تو خود‬
‫کہنے‬ ‫پہ قابو کیسے پاتے تھے؟ تو وہ‬
‫لگا۔۔۔۔ بڑی مشکل سے قابو پاتے تھے ۔۔۔۔۔۔کبھی‬
‫مجھے روک‬ ‫میں۔۔۔ اور زیادہ تر وہ‬ ‫کبھی‬
‫ویسے بھی ہم نے عہد کیا ہوا‬ ‫لیتی تھی‬
‫تھا کہ شادی سے پہلے ہم نے یہ کام نہیں‬
‫کرنا۔۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫چوپا لگواتے تھے؟‬ ‫کیا۔۔۔اسے‬ ‫کہا۔۔۔۔تو پھر‬
‫سر جھکا کر بوال۔۔۔۔۔ ہاں "اوورل" ہم‬ ‫تو وہ‬
‫نے بہت کیا ہے۔۔۔۔ پھر کہنے لگا۔۔۔ اگر کسی‬
‫جاتا تو وہ میری‬ ‫میں زیادہ گرم ہو‬ ‫وقت‬
‫ُمٹھ مار دیتی تھی ۔۔۔۔لیکن تم یقین کرو کہ ہم‬
‫ایک بار‬ ‫کے دوران‬ ‫نے اس سارے پیریڈ‬
‫بھی اندر باہر نہیں کیا۔۔۔۔اس کی یہ بات سن کر‬
‫ہاتھ مالیا اور پھر‬ ‫میں نے اس کے ساتھ‬
‫باہر نکل گیا۔۔۔واپس آ کر میں‬ ‫سے‬ ‫کمرے‬
‫نے تنہائی میں جب چوہدری کو یہ بات بتائی‬
‫تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔۔ شکر ہے مالکا ۔۔۔۔ پھر‬
‫پتر پرسوں یا‬ ‫میرے پوچھنے پر بوال ۔۔۔۔۔ کہ‬
‫میڈیکل ہونا ہے۔۔‬ ‫کڑی کا‬ ‫اس سے اگلے دن‬
‫اور اگر میڈیکل میں یہ ثابت ہو گیا کہ کڑی کے‬
‫لڑکی کے گھر‬ ‫ساتھ سیکس ہوا ہے تو پھر‬
‫( ریپ ) کی‬ ‫والوں نے پرچے میں زبردستی‬
‫لینی ہے اور تم کو تو‬ ‫دفعہ بھی ایڈ کروا‬
‫ریپ کرنا کتنا‬ ‫پتہ ہی ہے کہ لڑکی کے ساتھ‬
‫بڑا جرم ہے۔ پھر کہنے لگا پتر ایک کام کرو‬
‫لڑکی کے میڈیکل کے آرڈر‬ ‫جب تک مجسٹریٹ‬
‫ڈسٹرک ہیڈ کوارٹر ہسپتال‬ ‫جاری نہیں کرتا تم‬
‫( جہاں میڈیکل ہونا تھا) میں کوئی واقفیت پیدا‬
‫کرو ۔۔۔تو اس پر میں نے اس سے کہا کہ ہم‬
‫نے تو ایسا کچھ بھی نہیں کیا پھر یہ سب‬
‫کیوں؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ بات سن پتر ۔۔۔۔ تم نہیں‬
‫پھنسانے کے لیئے‬ ‫جانتے ۔۔۔ کہ امجد کو‬
‫سکتے ہیں‬ ‫گر‬
‫ِ‬ ‫تک‬ ‫لوگ کسی بھی حد‬
‫۔۔۔۔ اس لیئے ہم نے ان کی طرف سے چوکنا‬
‫رہنا ہے ۔پھر کہنے لگے کہ اب تم جاؤ اور‬
‫ہسپتال میں کوئی واقفیت پیدا کرو۔۔۔۔‬ ‫ڈسٹرک‬

‫وہاں سے میں۔۔۔۔اپنے‬ ‫چوہدری کی بات سن کر‬


‫گیا۔۔۔۔اور ان سے دریافت‬ ‫دوستوں کے پاس چال‬
‫اصغر کا فرسٹ کزن‬ ‫کیا تو پتہ چال کہ‬
‫وہاں پر ڈسپنسر لگا ہوا ہے میں نے فوری‬
‫ڈسٹرک‬ ‫طور پر اصغر کو ساتھ لیا اور‬
‫گیا اس کے کزن کا نام‬ ‫پہنچ‬ ‫ہپستال‬
‫کی ڈیوٹی‬ ‫اس‬ ‫بشارت تھا اور اس وقت‬
‫۔ جہاں پر بڑا‬ ‫میں تھی‬ ‫ایمر جنسی وارڈ‬
‫ملنے پر ۔۔۔۔ہم نے‬ ‫رش تھا۔۔۔ خیر کچھ فرصت‬
‫وہ کہنے‬ ‫بتا ئی تو‬ ‫بات‬ ‫اس کو ساری‬
‫یہ بتاؤ کہ لڑکی کا میڈیکل‬ ‫لگا کہ پہلے‬
‫کس دن ہونا ہے؟ تو اس پر میں نے جواب‬
‫عالقہ مجسٹریٹ‬ ‫کہ آج‬ ‫ہوئے کہا‬ ‫دیتے‬
‫کل آڈر جاری کرے‬ ‫شاید وہ‬ ‫چھٹی پر تھا‬
‫جب بھی ہو ۔۔۔۔ تم‬ ‫۔۔۔تو وہ کہنے لگا آرڈڑ‬
‫لوگوں نے ایک دن پہلے مجھے خبر کرنی‬
‫ہے۔۔۔ اس پر میں نے اس کو بتایا کہ ہمارے‬
‫کچھ‬ ‫ویسا‬ ‫لڑکے نے لڑکی کے ساتھ ایسا‬
‫نہیں کیا تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ شاہ جی ۔۔۔۔ یہ‬
‫ہو سکتا ہے ۔۔ پھر‬ ‫پاکستان ہے یہاں سب کچھ‬
‫لیکن تم لوگ بے فکر رہو کہ‬ ‫کہنے لگا‬
‫ڈاکٹر بہت ایماندار اور‬ ‫میڈیکل کرنے واال‬
‫کسی کو کہہ کر ایک‬ ‫سخت بندہ ہے دوسرا‬
‫میں اپنی ڈیوٹی وہاں پر لگوا لوں‬ ‫کے‬ ‫دن‬
‫گا۔۔۔‬

‫کے ساتھ مالقات کرنے کے بعد میں‬ ‫بشارت‬


‫وہاں سے سیدھا انکل کے گھر آیا ۔۔۔گھنٹی کے‬
‫ب معمول مینا نے دروازہ کھوال‬
‫جواب میں حس ِ‬
‫۔اسے دیکھتے ہی میں نے دانت نکالے اور‬
‫بوال ہائے منگیتر۔۔۔ لیکن اس نے میری بات کا‬
‫کوئی جواب نہ دیا ۔اور ویسے ہی تیوری‬
‫میں نے صبع‬ ‫چڑھائے رکھی۔۔۔۔۔۔ اور یہ بات‬
‫فیضان والے‬ ‫کہ‬ ‫نوٹ کر لی تھی‬ ‫ہی‬
‫واقعہ کے بعد وہ مجھ سے کچھ اکھڑی‬
‫رہی تھی ۔۔ چنانچہ دروازہ‬ ‫سی لگ‬ ‫اکھڑی‬
‫واپس جانے لگی‬ ‫کھول کر جیسے ہی مینا‬
‫۔۔۔تو میں نے آگے بڑھ کر اس کا ہاتھ پکڑ لیا‬
‫اور اسے اپنی طرف کھینچتے ہوئے آہستہ سے‬
‫دُور ۔۔۔۔ رہندے او حضور‬ ‫بوال ۔۔۔۔ کیوں دُور‬
‫میرے کولوں ۔۔۔۔۔ تو آگے سے مینا جواب دیتے‬
‫بڑے‬ ‫اس لیئے کہ تم‬ ‫ہوئے کہنے لگی ۔۔۔۔ وہ‬
‫بد تمیز ہو۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے ایک‬
‫اور ۔۔پھر اس کے‬ ‫نظر صحن میں ڈالی‬
‫بڑی‬ ‫سامنے کان پکڑ کر کھڑا ہو گیا اور‬
‫ب‬
‫سے بوال ۔۔۔۔۔۔آئی ایم سوری جنا ِ‬ ‫لجاجت‬
‫ہو گی۔۔۔۔‬ ‫عالی۔۔۔۔ آئیندہ ایسی حرکت ہر گز نہیں‬
‫اس لیئے پلیزززززززز ۔۔ تم جلدی سے راضی‬
‫ہو جاؤ۔۔۔ پھر تھوڑی سی منت و خوشامد کے‬
‫بعد وہ راضی ہو گئی۔۔۔۔ تو میں نے اس کے‬
‫ساتھ ہاتھ مالتے ہوئے ایک بار پھر آہستہ سے‬
‫کہا۔۔۔۔ ویسے ایک بات ہے منگیتر !!!!!۔۔ تو وہ‬
‫پر‬ ‫بڑے اشتیاق سے بولی۔۔ وہ کیا؟۔۔ تو اس‬
‫آنکھ مار کے بوال۔۔ ۔۔۔۔ وہ یہ کہ تم ہو‬ ‫میں‬
‫بڑی سیکسی۔۔۔۔ میری بات سن کر ایک دم سے‬
‫اس کا چہرہ الل ٹماٹر ہو گیا اور پھر اتنا ہی‬
‫بولی۔۔۔ تم بڑے وہ ہو۔۔۔۔۔اور اندر چلی گئی ‪-‬‬
‫سیدھا‬ ‫اسے جاتے دیکھ کر میں بھی‬
‫ڈرائینگ روم میں پہنچ گیا جہاں کابینہ کی میٹنگ‬
‫جاری تھی وہاں جا کر میں نے ان کو آج کی‬
‫کچھ دیر بیٹھ‬ ‫کاروائی سے آگاہ کیا۔۔اور پھر‬
‫باہر نکل گیا۔۔۔۔۔باہر جاتے جاتے ویسے‬ ‫کر میں‬
‫ہی مجھے شرارت سوجھی اور میں کچن کی طرف‬
‫مینا وہاں موجود نہیں تھی اس‬ ‫چال گیا لیکن‬
‫واپس گھر آ‬ ‫لیئے میں بغلیں جھانکتا ہوا‬
‫۔۔۔اور پھر‬ ‫کچھ لیٹ اُٹھا‬ ‫گیا۔۔۔ اگلے دن میں‬
‫جلدی سے نہا دھو کر میں امجد لوگوں کے گھر‬
‫کا میرے ساتھ یہی‬ ‫کہ انکل‬ ‫پہنچ گیا‬
‫طے ہو ا تھا کہ جب تک کیس کا اینڈ نہیں ہوتا‬
‫اپنا زیادہ وقت ان کے ہاں ہی گزاروں‬ ‫۔۔۔۔ میں‬
‫پیش آ‬ ‫گا ۔کہ کیا پتہ کس وقت کیا مسلہ‬
‫جائے۔۔۔ امجد کے دروازے پر پہنچ کر میں نے‬
‫بجائی ۔۔۔۔اور پھر‬ ‫گھنٹی‬ ‫دو تین بار‬
‫پر اندر سے دروازہ کھال تو‬ ‫تیسری گھنٹی‬
‫کھڑی تھی مجھے‬ ‫دیکھا کہ ۔۔۔۔ سامنے مینا‬
‫لیکن وہ‬ ‫دیکھ کر اس کا چہرہ سرخ ہو گیا‬
‫منہ سے کچھ نہیں بولی۔۔۔ مینا کو اپنے‬
‫خوش‬ ‫سامنے دیکھ کر میں نے بڑی ہی‬
‫دلی سے نعرہ لگایا۔۔۔ کیسی ہو منگیتر؟ اور‬
‫گھر میں داخل ہو گیا ۔۔۔ ۔ادھر جیسے ہی میں‬
‫گھر میں داخل ہو ا تو مینا نے دروازہ بند کیا‬
‫۔۔۔۔ اور کنڈی لگا کر کہنے لگی ۔۔۔۔ گھر میں‬
‫کوئی نہیں ہے؟ مینا کی بات سن کر میں اندر‬
‫جانے کی بجائے وہیں ُرک گیا ۔۔۔اور اس سے‬
‫گئے ہیں ؟ تو وہ‬ ‫پوچھا کہ وہ لوگ کہاں‬
‫گئے ہیں‬ ‫تو آفس‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔ کہ ابا‬
‫داراالامان‬ ‫جبکہ باقی لوگ نبیلہ سے ملنے‬
‫گئے ہیں ۔۔۔۔ اس پر میں واپس ُمڑا اور اس‬
‫کے قریب پہنچ کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔اور اس کی‬
‫آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بوال۔۔۔۔۔۔۔۔ تم کیوں نہیں‬
‫گئیں؟ تو آگے سے وہ بھی میری آنکھوں میں‬
‫کہ وہ‬ ‫آنکھیں ڈال کر کہنے لگی ۔۔۔ اس لیئے‬
‫مینا کو‬ ‫مجھے لے کر ہی نہیں گئے۔۔۔ادھر‬
‫ب‬
‫گھر میں اکیلی دیکھ کر میرے من اور ( حس ِ‬
‫لن میں لڈو پھوٹ رہے تھے ۔۔ اور‬ ‫روایت)‬
‫تھا کہ‬ ‫رہا‬ ‫سوچ‬ ‫میں بڑی تیزی کے ساتھ‬
‫کون سا ایسا طریقہ اختیار کروں کہ جس‬
‫(مینا کی چوت‬ ‫۔۔۔۔" سانپ " (لن ) بھی‬ ‫سے‬
‫بھی راضی‬ ‫جائے ۔۔۔ اور چھوری‬ ‫میں ) "وڑ"‬
‫رہے۔۔۔ ویسے آپس کی بات ہے چھوری کے‬
‫یقین تھا کہ وہ پہلے‬ ‫بارے میں تو مجھے پکا‬
‫کا‬ ‫"منی منائی" ہے بس شروعات‬ ‫سے ہی‬
‫کیسے کروں؟؟ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫وہ‬ ‫کہ‬ ‫روال تھا‬
‫فوری طور پر تو مجھے کچھ سمجھ نہ آیا اس‬
‫لیئے کہہ دیا کہ منگیتر جی ایک گالس پانی پال‬
‫سکتی ہو؟ میری بات سن کر وہ کہنے لگی‬
‫خود ہی جا کر پی لو۔۔۔تو جناب اس کے کہنے‬
‫پر میں اندر گیا اور کچن سے پانی پی کر واپس‬
‫تو وہ اپنے‬ ‫آ گیا اور مینا کی طرف دیکھا‬
‫سینے پر باندھے گیلری میں کھڑی‬ ‫دونوں ہاتھ‬
‫تھی چنانچہ میں بھی اس کے پاس جا کر کھڑا‬
‫اس کی طرف دیکھتے ہوئے‬ ‫ہو ا۔۔۔۔ اور پھر‬
‫بوال ۔۔۔ ایک بات پوچھوں؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔ہاں‬
‫تو میں نے اس سے کہا کہ میں تم‬ ‫بولو۔۔!!‬
‫کو منگیتر کہتا ہوں تم اس بات کا برا تو نہیں‬
‫میں‬ ‫مناتی؟ میری بات سن کر اس نے نفی‬
‫سر ہالیا اور پھر ویسے ہی دونوں ہاتھ‬
‫سر جھائے کھڑی‬ ‫باندھے‪،‬‬ ‫سینے پہ‬
‫رہی۔۔اسے سامنے دیکھ کر پتہ نہیں کیوں میرا‬
‫کو چودنے کو‬ ‫دل دھک دھک کر رہا تھا۔۔۔اس‬
‫دل بھی کر رہا تھا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ‬
‫اس کے منفی ر ِد عمل سے ڈر بھی لگ رہا‬
‫جبکہ دوسری طرف مینا بھی ویسے‬ ‫تھا۔۔‬
‫سر جھکائے مسلسل اپنے ہونٹ کاٹ رہی‬ ‫ہی‬
‫تھی ۔ کہتے ہیں کہ اکیلی عورت اور مرد کے‬
‫سیکس‬ ‫درمیان تیسرا شیطان ہوتا ہے جو انہیں‬
‫کرنے پر ابھارتا ہے ۔۔۔۔۔اور اب وہی شیطان‬

‫ت۔۔۔۔۔شہوت مجھے بار بار اُکسا تے ہوئے‬


‫۔۔بصور ِ‬
‫‪ ،‬کُڑی گرم اور‬ ‫کہہ رہا تھا کہ موقعہ چنگا‬
‫ہمت پکڑ‬ ‫سیکس آشنا ہے اس لیئے بیٹا‬
‫پھر نہیں آنا۔۔۔ ۔ اور‬ ‫اور پڑ جا۔۔کہ یہ موقعہ‬
‫شیطان‬ ‫میرے خیال میں دوسری طرف یہی‬
‫آمادہ کر رہا‬ ‫سیکس کے لیئے‬ ‫اسے بھی‬
‫کبھی تو وہ اپنے سوکھے‬ ‫لیئے‬ ‫اسی‬ ‫تھا‬
‫ہونٹوں کو‬ ‫ہونٹوں پر زبان پھیر تی اور کبھی‬
‫دانتوں تلے لے کر داب رہی تھی ۔۔ یہ‬ ‫اپنے‬
‫ت حال دیکھ کر میں نے سوچا کہ سالے‬
‫صور ِ‬
‫دل نہ ہوتا تو کب‬ ‫پہ‬ ‫اگر اس کا سیکس‬
‫کا اس نے مجھے جانے کے لیئے کہہ دیا‬
‫لڑکی ہونے کی بنا پر وہ‬ ‫ہوتا۔۔۔ اس لیئے‬
‫مجھے ہی‬ ‫تو کچھ نہیں کرے گی اس لیئے‬
‫پڑے گی ۔۔۔یہ سوچ کر میں‬ ‫کچھ ہمت کرنی‬
‫بڑھا ۔۔۔۔ ۔۔ جیسے میں تھوڑا‬ ‫اس کی جانب‬
‫آگے ہوا ۔۔۔۔تو اچانک ہی وہ میری طرف دیکھ‬
‫کیا کرنے لگے ہو؟ تو‬ ‫کر بولی۔۔۔۔ یہ یہ۔۔۔تم‬
‫میں بلکل اس کے سامنے کھڑے ہو کر بوال۔۔۔تم‬
‫سے باتیں کرنے کو دل کر رہا ہےکہو تو کر لوں‬
‫؟ تو وہ سر جھکائے ہوئے بولی۔ جی بولو ۔۔۔‬
‫ہاتھ‬ ‫میں نے اپنا‬ ‫سن کر‬ ‫اس کی بات‬
‫بڑھا یا ۔۔۔۔ اور اس کے جھکے ہوئے منہ کو‬
‫اوپر اُٹھا لیا ۔۔۔۔اور پھر اس سے بوال ۔۔۔ مینا میں‬
‫تم کو کیسا لگتا ہوں؟ میری بات سن کر اس‬
‫نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور ۔۔پھر سر‬
‫جھکا لیا۔۔۔اس پر میں مزید آگے بڑھا ۔۔۔۔ اور‬
‫بڑے ہی رومینٹک انداز میں بوال ۔۔۔۔بولو نا یار۔۔۔‬
‫۔۔۔ میر ی بات سن کر بجائے اس کے ۔۔۔ کہ‬
‫کہنے‬ ‫جواب دیتی ۔۔‬ ‫میری بات کا‬ ‫وہ‬
‫بڑے ہی پیار‬ ‫سنو !! تو میں نے‬
‫لگی۔۔ ۔۔۔۔ ُ‬
‫سے جواب دیتے ہوئے جان بوجھ کر جان‬
‫۔۔۔۔۔ ۔۔بولو‬ ‫لفظ استعال کرتے ہوئے کہا‬ ‫کا‬
‫میری جان والی بات‬ ‫میری جان !!!۔۔۔۔ تو وہ‬
‫کو نظرانداز کرتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔۔ تمہیں‬
‫معلوم ہے کہ ابا نے واپس الہور پوسٹنگ کرو ا‬
‫پہلے‬ ‫میں انکل‬ ‫گو کہ اس بارے‬ ‫لی ہے؟‬
‫ہی مجھے بتا چکے تھے کہ انہوں نے‬
‫درخواست دے کے اپنی پوسٹنگ واپس‬
‫الہور کرو ا لی ہے اور اب وہ لوگ پنڈی میں‬
‫کا فیصلہ ہونے تک موجود رہیں‬ ‫فقط کیس‬
‫گے ۔۔۔۔ اور پھر مجھے بھی نصیحت کرتے ہوئے‬
‫تم‬ ‫کے گھر والے‬ ‫شیدے‬ ‫کہا تھا کہ بیٹا‬
‫اس لیئے‬ ‫سے بہت بھاری ہیں‬ ‫لوگوں‬
‫یہ‬ ‫میرا مشورہ ہے کہ تم لوگ بھی کم از کم‬
‫عالقہ چھوڑ دو۔۔۔۔ لیکن میں نے اس کے‬
‫اچھا کب‬ ‫سامنے انجان بنتے ہوئے کہا۔۔۔۔کہ‬
‫ہوئے‬ ‫پوسٹنگ کروائی ؟ تو وہ جواب دیتے‬
‫کچھ د ن ہو گئے ہیں ۔۔۔۔اس پر میں‬ ‫بولی‬
‫اور آگے بڑھا اور اس کے سامنے‬ ‫ایک قدم‬
‫چند سینٹی میٹر کے فاصلے پر کھڑے ہو کر‬
‫اپنے لہجے میں دنیا بھر کی مایوسی کو سمیٹ‬
‫عاشقوں کی طرح بوال۔۔۔۔۔ تو تم‬ ‫ناکام‬ ‫کر‬
‫میری بات سن کر پہلی‬ ‫بھی چلی جاؤ گی؟‬
‫دفعہ اس نے میرے مایوس چہرے کی طرف‬
‫دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔تم کو کیا فرق پڑے گا؟‬
‫اس پر میں نے بڑے دکھی لہجے میں جواب‬
‫مجھے کیوں نہیں‬ ‫کیوں‬ ‫دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔کہ‬
‫اس‬ ‫فرق پڑے گا؟ تو وہ ہولے سے بولی‬
‫ہو‬ ‫تیز بندے‬ ‫اور‬ ‫گڈ لکنک‬ ‫لیئے کہ تم‬
‫کوئی اور مل جائے گی۔۔۔تو اس پر میں‬ ‫تمہیں‬
‫نے اس کے چہرے کو اپنے دنوں ہاتھوں میں‬
‫اپنے منہ کو اس‬ ‫پکڑ کر اوپر کیا اور پھر‬
‫مجھے‬ ‫کے منہ کے اتنے قریب لے گیا کہ‬
‫اس کی گرم سانسیں اپنے چہرے پر محسوس‬
‫ہی‬ ‫بڑے‬ ‫ہونے لگیں ۔۔۔اور ایک بار پھر‬
‫بنا کر بوال۔۔۔۔ تم ٹھیک کہہ‬ ‫لہجہ‬ ‫عاشقانہ‬
‫مجھے اور بہت مل جائیں گی‬ ‫رہی ہو ۔۔۔ واقعی‬
‫اس‬ ‫لیکن ۔۔۔۔۔۔ مینا نہیں ملے گی۔۔۔اور ساتھ ہی‬
‫کے گال کو چوم لیا۔۔اور اس چمی کے دوران جان‬
‫بوجھ کر اپنا کافی سارا تھوک اس کے گال پر‬
‫لگا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔میری اس حرکت پر اس نے اپنے‬
‫ہاتھ سے‬ ‫گال پر لگے میرے تھوک کو اپنے‬
‫کہنے لگی۔۔ ۔۔۔ ایسا نہ کرو‬ ‫صاف کیا اور پھر‬
‫پلیززززززززز۔۔۔۔ تو اس پر میں نے اس کے‬
‫چوم کر کے بوال‬ ‫بھی‬ ‫دوسرے گال کو‬
‫کیوں نہ کروں ۔۔۔۔آخر تم میری منگیتر ہو۔۔۔۔ اور‬
‫اسے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا ۔۔۔تو وہ‬
‫میری بانہوں میں کسمسا کر بولی۔۔۔۔ لیکن میں‬
‫سچ ُمچ کی منگیتر تو نہیں ہوں نا مینا کی یہ‬
‫بات سن کر میں اس کے ساتھ چپک گیا۔اور‬
‫بظاہر تڑپ کر بوال ۔۔۔ لیکن جان ۔۔۔میں تو سچ‬
‫اپنی منگیتر سمجھتا ہوں‬ ‫تم کو‬ ‫مچ ہی‬
‫اور اس کے ساتھ ہی اس کے ہونٹوں پر‬
‫نرم‬ ‫کے‬ ‫اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔۔ اور اس‬
‫ہونٹوں پر ہلکی سی کس کر کے بوال۔۔۔ اب تم‬
‫بتاؤ کہ تم بھی ایسا ہی سمجھتی ہو کہ نہیں؟ تو‬
‫مینا کے منہ سے جزبات‬ ‫پر‬ ‫اس‬
‫سرگوشی نکلی ۔۔۔ وہ کہہ رہی‬ ‫لبریز‬ ‫سے‬
‫میں تو بہت عرصہ پہلے سے ہی‬ ‫تھی کہ‬
‫ساتھ ہی وہ‬ ‫تھی اور اس کے‬ ‫ایسا سمجھتی‬
‫میرے کاندھے‬ ‫میرے ساتھ لپٹ گئی۔۔۔۔۔۔اور‬
‫پر سر رکھ دیا ۔۔۔ کنیا کو رضامند دیکھ کر‬
‫نیم کھڑے لن کو‬ ‫اپنے‬ ‫پہلے تو میں نے‬
‫کہنے لگا۔۔۔ چل بیٹا ایک‬ ‫پھر‬ ‫مبارک باد دی‬
‫تیار ہو جاؤ ۔‬ ‫نئی چوت کی سیر کے لیئے‬
‫دانت نکال کر‬ ‫لن صاحب نے بھی‬ ‫تو جوابا ً‬
‫کہا ۔۔ جو حکم میرے آقا ۔۔اور ساتھ ہی شہوت‬
‫میں آ کر کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔۔۔مینا کچھ‬
‫کندھوں پر سر رکھے کر مجھ‬ ‫دیر تو میرے‬
‫اس‬ ‫نے‬ ‫سے چپکی کھڑی رہی ۔ ۔۔۔ پھر میں‬
‫سامنے کیا اور اس‬ ‫کے سر کو پکڑ کر‬
‫کے نرم لبوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر‬
‫سا چوسا۔۔۔ اور پھر اس کو اپنے سینے‬ ‫تھوڑا‬
‫ہی آہستگی اور‬ ‫سے لگا کر ۔۔۔۔ بڑی‬
‫جنسی محبت سے بھر پور لہجے میں بوال۔۔۔ آئی‬
‫بتایا ہی‬ ‫لو یو ڈارلنگ ۔۔۔۔ تم نے کبھی اس بارے‬
‫نہیں ۔۔۔!!!!!!۔۔ میرے رومانوی اور شہوت سے‬
‫لہجے۔۔۔ نے جلتی پر آگ کا کام کیا‬ ‫بھر پور‬
‫ساتھ مزید‬ ‫اور اچانک ہی وہ میرے‬
‫لہجے میں بولی۔۔۔ اس میں‬ ‫چپک کر ہوس ناک‬
‫تم نے پوچھا‬ ‫سرا سر قصور تمہارا ہے کہ‬
‫ہی نہیں۔۔اور پھر اپنا منہ میرے کان کے قریب ال کر‬
‫یہ پیار‬ ‫کی‬ ‫بولی۔۔۔آئی لو یو ٹو !! ۔۔۔۔ مینا‬
‫بھری بات سن کر ۔۔۔ نیچے سے میرے لن نے‬
‫لو جی شروع ہو گئی سیکس‬ ‫کر کہا‬ ‫اکڑ‬
‫ہی‬ ‫مینا کی بات سنتے‬ ‫سٹوری۔۔۔۔۔ ادھر‬
‫میں نے اس کے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں‬
‫میں اپنی انگلیاں ڈالیں ۔۔۔اور پھر اس کے‬
‫دیوار‬ ‫کی‬ ‫ہاتھوں کو اوپر کر کے اسے گیلری‬
‫کے ساتھ لگا دیا اور اپنے تنو مند لن کو اس‬
‫رانوں کے بیچ میں لے گیا ۔۔۔۔ اور‬ ‫کی دونوں‬
‫ساتھ ہی اس کے سینے پہ اپنے سینے کو‬
‫اپنے منہ کو اس کے منہ‬ ‫رگڑ دیا۔۔۔۔ اور پھر‬
‫میں ڈال کر ۔۔۔۔۔۔ بڑی ہی شہوت سے اس کی‬
‫زبان کو‬ ‫مزیدار‬ ‫اور‬ ‫ذائقہ‬ ‫خوش‬
‫چوسنے لگا ۔۔۔ دوستو ! جیسا کہ آپ کو معلوم‬
‫ہے کہ مینا ایک گرم اور جنس پرست لڑکی‬
‫مہارت اور‬ ‫بڑی‬ ‫میرا‬ ‫تھی۔۔۔ اس پر‬
‫اور‬ ‫شہوت سے ۔۔۔۔۔ اس کی زبان کو چوسنا ۔۔۔۔‬
‫بولنا۔۔۔۔۔ سچ کہتا‬ ‫میں گرم ڈائیالگ‬ ‫بیچ بیچ‬
‫ڈھا‬ ‫غضب‬ ‫پہ‬ ‫حسینہ‬ ‫سن‬
‫ہوں کہ اس کم ِ‬
‫چسواتے‬ ‫گیا۔۔۔ چنانچہ اپنی زبان کو‬
‫کی بلندی‬ ‫جلد ہی وہ سیکس‬ ‫چسواتے‬
‫ہی دیر بعد‬ ‫پر پہنچ گئی۔۔۔۔۔۔۔ اور تھوڑی‬
‫پھدی کو میرے‬ ‫جلتی بلتی‬ ‫اپنی‬ ‫نے‬ ‫اس‬
‫شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔اس وقت‬ ‫لن کے ساتھ رگڑنا‬
‫لوہا بن چکا تھا۔۔‬ ‫تک میرا لن سخت ہو کر‬
‫اس لیئے سخت لن کے ساتھ اس کی چوت‬
‫کے نرم لبوں کی رگڑائی ۔۔۔۔بڑا مزہ دے رہی‬
‫تھی۔۔۔‬

‫زبان چوستے چوستے جیسے‬ ‫ادھر اس کی‬


‫ہی میں نے اپنا ایک ہاتھ اس کی چھاتی پر‬
‫رکھا تو اچانک ہی اس انگار لڑکی نے اپنے منہ‬
‫سے ہٹایا ۔۔۔اور جلدی سے‬ ‫کو میرے منہ‬
‫چھاتی کو ننگا کر دیا‬ ‫قمیض ا ُٹھا کر اپنی ایک‬
‫پکڑ کر اپنی‬ ‫سر کو‬ ‫میرے‬ ‫۔۔۔۔۔ پھر‬
‫چھاتی پر رکھ دیا۔۔ یہ دیکھ کر میں نے بھی‬
‫اپنا منہ کھوال اور اس کی چھاتی کو اپنے منہ‬
‫میں لے لیا۔۔۔اور پھر باری باری اس کے دونوں‬
‫نپلز کو چوسنے لگا۔۔۔۔نپلز چوستے چوستے‬
‫کر‬ ‫پکڑ‬ ‫میں نے اس کا ایک ہاتھ‬
‫اپنے تنے ہوئے لن پر رکھ دیا۔۔۔ اس نے‬
‫جلدی سے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں‬
‫بولی۔۔۔۔۔ اُف کتنا‬ ‫پکڑا ۔۔۔اور اسے دباتے ہوئے‬
‫ہے یہ ۔۔بلکل پتھر کی طرح ۔۔۔تو میں نے‬ ‫سخت‬
‫اس کی چھاتی کو اپنے منہ سے نکال کر بوال ۔۔۔۔‬
‫تم کو پسند آیا ؟ تو وہ اسے دبا کر بڑی شوخی‬
‫ہو۔۔۔۔ اور‬ ‫بولی ۔۔۔۔ لن منگیتر کا‬ ‫سے‬
‫نہ آئے ۔۔۔۔ ایسا کیسے ہو سکتا‬ ‫مجھے پسند‬
‫ہے جانو۔۔ پھر تھوڑا شرماتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔‬
‫میں نے اسے اصل حالت میں دیکھنا‬ ‫لیکن‬
‫ہے ۔۔اس کی بات سن کر میں نے اپنی شلوار‬
‫دی ۔۔۔۔۔۔اور اب میرا ننگا ۔۔۔موٹا ۔۔اور پتھر‬ ‫اتار‬
‫جھوم رہا‬ ‫اس کے سامنے کھڑا‬ ‫کا صنم‬
‫ہی ستائشی‬ ‫بڑی‬ ‫وہ‬ ‫تھا ۔۔۔۔ اور‬
‫اپنے‬ ‫دیکھتے ہوئے‬ ‫اسے‬ ‫سے‬ ‫نظروں‬
‫۔۔۔۔اور‬ ‫ہونٹوں پر زبان پھیرے جا رہی تھی‬
‫پھر ہوس بھری نظروں سے میری طرف‬
‫میں‬ ‫کی زبان‬ ‫دیکھنے لگی۔۔۔وہ آنکھوں‬
‫رہی تھی ۔۔۔ لیکن‬ ‫چاہ‬ ‫کچھ کہنا‬ ‫مجھ سے‬
‫اس‬ ‫میں کچھ نہ سمجھا ۔۔۔۔ چنانچہ جب بار بار‬
‫میری طرف دیکھا اور پھر ۔۔۔۔۔لن کی‬ ‫نے‬
‫طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر زبان‬
‫پھیری تو میں سمجھ گیا کہ ۔۔ یہ منہ میں لینا‬
‫سکتی‬ ‫خود نہیں کہہ‬ ‫چاہتی ہے لیکن بوجہ‬
‫۔۔۔۔ اس لیئے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫نا؟ تو وہ شہوت کے‬ ‫ہے‬ ‫لن‬ ‫بوال۔ اچھا‬
‫نشے میں کہنے لگی ۔۔ہاں بہت اچھا ہے تو میں‬
‫نے اس کہا ۔۔۔۔ اس کو چوسو گی؟ تو وہ‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے کپکپاتے ہونٹوں‬
‫سے بولی ۔۔ تم کہو گے تو ایسا کر لوں گی‬
‫۔۔۔تب میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈا ل‬
‫سا چوس لو ۔۔۔ میری بات‬ ‫کر کہا۔۔۔ تو تھوڑا‬
‫پنجوں کے بل فرش پر بیٹھ‬ ‫ہی ۔۔۔۔ وہ‬ ‫سنتے‬
‫کر بولی‬ ‫گئی ۔۔۔اور اپنے منہ سے زبان نکال‬
‫کو‬ ‫اس موٹے مشروم‬ ‫میں‬ ‫۔۔۔۔۔ پہلے‬
‫کو ٹیسٹ کر لوں؟ تو میں نے جواب‬ ‫نہ‬
‫کہا۔۔۔۔ ہاں ۔۔۔ ضرور۔۔۔تب وہ اپنے‬ ‫ہوئے‬ ‫دیتے‬
‫منہ کو میرے تنے ہوئے لن کے قریب لے گئی‬
‫اور اپنی زبان نکال کر میرے ٹوپے پر پھیرنے‬
‫لگی۔۔۔۔ اور پھر بولی ۔۔۔۔ تمہارے مشروم کا ٹیسٹ‬
‫تو بہت اعل ٰی ہے ۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔‬
‫آگے شافٹ کو بھی چیک کرو ۔۔اس کا ٹیسٹ‬
‫ہو گا۔۔۔یہ سن کر‬ ‫اچھا‬ ‫مشروم سے بھی زیادہ‬
‫اس نے اوپر دیکھا اور بولی ۔۔۔اوکے ۔۔۔اور پھر‬
‫اپنا منہ کھول کر تھوڑے سے لن کو اندر لے لیا‬
‫لن‬ ‫اور اسے چوسنے لگی۔۔۔۔ گو کہ مینا‬
‫میں اتنی ماہر تو نہ تھی ۔۔۔‬ ‫چوسنے کے سلسلہ‬
‫ایک‬ ‫لیکن میرے لن پر اس کے ہونٹوں کا‬
‫عجیب ہی ٹیسٹ آ رہا تھا۔۔۔ بہت سوادیش ۔۔بہت‬
‫۔۔اور اس کے تھوک سے لبریز ۔۔۔۔ زبان‬ ‫مزیدار‬
‫۔۔۔۔میرے ٹوپے ۔۔۔ میری شافٹ پر جہاں جہاں‬
‫مجھے ایک الگ ہی دنیا میں‬ ‫پھرتی ۔۔۔ وہ‬
‫لے جاتی تھی جس میں صرف مزہ ہی مزہ‬
‫ہوتا ۔کچھ دیر تک وہ ایسے ہی میرے لن کو‬
‫چاٹتی رہی ۔ پھر‬ ‫اور‬ ‫‪ ،‬چومتی‬ ‫۔۔۔چوستی‬
‫اوپر اُٹھ کر میرے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔۔۔‬
‫اس کی آنکھوں سے جنسی طلب کا اظہار بہت‬
‫پھدی مروانے‬ ‫وہ اپنی‬ ‫شدید تھا۔۔۔ اور‬
‫ہو رہی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن‬ ‫بہت اتاؤلی‬ ‫کے لیئے‬
‫میں کچھ اور ہی سوچ رہا تھا اس لیئے‬
‫میں نے اس سے کہا ۔۔۔ مینا ڈارلنگ مجھ سے‬
‫حیران ہو کر‬ ‫پھدی چٹواؤ گی؟ تو وہ تھوڑا‬
‫ایسا بھی کرتے ہو؟ تو‬ ‫کہنے لگی۔۔۔۔ تم‬
‫میں نے جواب دیتے ہوئے کہا اس کے‬
‫بغیر تو سیکس ادھورا ہوتا ہے میری‬
‫جان۔۔۔اور یہ کہتے ہی میں نیچے بیٹھ گیا ۔۔۔اور‬
‫اس کی شلوار کو اتار دیا اور اس کی دونوں‬
‫ٹانگوں کے بیچ میں آ کر بوال ۔۔۔۔ ٹانگیں‬
‫کھول دو مینا۔۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھتے‬
‫ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔ میری تو بہت گیلی ہو رہی ہے‬
‫۔۔چاٹ لو گے؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔۔ چلو‬
‫اسی بہانے تمہاری چوت کا ٹیسٹ بھی مل‬
‫بڑے غور سے‬ ‫ب عادت‬
‫جائے گا اور پھر حس ِ‬
‫اس کی چوت کو دیکھنے لگا۔۔۔۔۔اس وقت مینا‬
‫کی چوت پر ہلکے ہلکے براؤن رنگ کے بال‬
‫تھے اور یہ سنہرے بال اس کی پھدی پر‬
‫میں نے‬ ‫بڑے بھلے لگ رہے تھے ۔۔۔ پھر‬
‫اس کی چوت کے دونوں ہونٹ اندر‬ ‫دیکھا کہ‬
‫کو مڑے ہوئے تھے ۔۔۔۔ اور چوت کی جلد کے‬
‫ہوئی تھی۔۔۔ اور‬ ‫سی کھینچی‬ ‫اوپر ایک لکیر‬
‫پتلی سی لکیر خاصی لمبی تھی۔۔۔ مطلب یہ‬ ‫یہ‬
‫کہ اس کی چوت لمبائی میں بہت زیادہ تھی ۔۔۔‬
‫چوت کے ہونٹوں کے عین اوپر اس کا دانہ‬
‫بڑے شان سے پھوال کھڑا تھا۔۔۔۔ پہلے تو میں‬
‫نے اس کی چوت میں انگلی ڈالی اور اسے‬
‫گھماتے ہوئے بوال ۔۔۔ مینا یہ تمہاری پہلی دفعہ‬
‫ہے ؟ تو وہ شہوت انگیز لہجے میں کہنے‬
‫لگی ۔۔اگر تو تم اپنے اس موٹے ڈنڈے کی‬
‫بات کر رہے ہو تو فیضان کو چھوڑ کر کسی‬
‫یہ میری پہلی بار ہے‬ ‫کے ساتھ‬ ‫بھی مرد‬
‫لیکن اس سے قبل میں اپنی چوت میں گوشت‬
‫کے لن کے عالوہ ہر چیز ڈال چکی‬ ‫پوست‬
‫ہوں ۔۔۔۔تو میں نے حیران ہو کر کہا ۔۔۔ مثالً‬
‫آواز میں‬ ‫ہیجان انگیز‬ ‫بڑے‬ ‫؟؟؟؟ تو وہ‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔ مثالً ۔۔۔ لمبا بینگن ۔۔۔۔ کھیرا۔۔۔سردیوں‬
‫پھر‬ ‫میں مولی ۔۔۔گاجر ۔۔۔اور ہیر برش وغیرہ۔۔۔۔۔‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ ٹائم‬
‫ضائع نہ کر ۔۔۔۔ چوت چاٹ پھر تم نے مجھے‬
‫چودنا بھی ہے۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے اپنا‬
‫منہ آگے بڑھایا اور اس کی چوت سے اپنی ناک‬
‫لگا دی۔۔۔۔واہ ۔۔کیا مست مہک تھی۔۔۔ اس کی چوت‬
‫سے آنے والی مہک سونگھ کر میرا تو نشہ‬
‫دوباال ہو گیا ۔۔اور اسی نشے کے عالم میں۔۔۔۔‬
‫میں نے اپنی زبان باہر نکالی اور اس کی‬
‫چوت کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔ادھر اس کی‬
‫چوت پر میری زبان لگنے کی دیر تھی کہ مینا‬
‫نے اونچی آواز میں سسکیاں بھرنی شروع کر‬
‫دیں۔۔۔سس۔۔۔آہ۔۔۔اُف۔۔۔ جانو۔۔۔۔اور چوس میری‬
‫پھدی۔۔۔اس دوران ایک دو دفعہ اس کی چوت‬
‫لیک بھی ہوئی ۔۔۔ لیکن میں نے اپنا کام جاری‬
‫رکھا ۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد میں اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔تو‬
‫وہ ایک سانس بھر کر بولی۔۔۔۔ تمہاری زبان میں‬
‫اتنا مزہ ہے کہ میں دو تین بار چھوٹی ہوں ۔۔۔۔‬
‫اور‬ ‫اب دیکھتے ہیں لن کا مزہ کیسا ہوتا ہے‬
‫اس کے ساتھ ہی وہ واپس ُمڑی اور دیوار‬
‫کو‬ ‫پر اپنے دونوں ہاتھ رکھے ۔۔۔۔اور گانڈ‬
‫باہر نکال کر کھڑی ہو گئی۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں‬
‫اس کے پیچھے آ گیا۔۔۔۔اور جیسے ہی اپنے لن‬
‫کو اس کی چوت میں داخل کرنے لگا ۔۔۔ تو‬
‫نے پیچھے ُمڑ کر دیکھا اور‬ ‫اچانک ہی اس‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ایک منٹ رکو ۔۔۔۔تو میں نے اس سے‬
‫کہا بولو کیا بات ہے۔۔۔تو اس پر وہ کہنے‬
‫چھوٹنا ہے اس کی‬ ‫لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے اندر ہی‬
‫بات سن کر میں حیران رہ گیا اور اس سے بوال‬
‫۔۔۔ لیکن مینا اس طرح تو ۔۔۔۔تو وہ میری بات‬
‫تم نے اپنی‬ ‫کاٹ کر بولی۔۔۔۔ چاہے کچھ بھی ہو‬
‫ساری منی میرے اندر چھوڑنی ہے اور پھر‬
‫میری‬ ‫میرے پوچھنے پر وہ کہنے لگی کہ‬
‫کے چھڑکاؤ سے ہی‬ ‫دوست کہتی ہے کہ منی‬
‫پھدی ٹھنڈی ہوتی ہے ۔۔۔۔اور میں تمہارے شاندار‬
‫سے اپنی پھدی کو ٹھنڈا کرنا‬ ‫لن کے چھڑکاؤ‬
‫چاہتی ہوں ۔۔۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اثبات‬
‫میں سر ہالیا اور پھر اس کو مزید جھکنے کو کہا‬
‫۔۔۔اور جب اس کی چوت میرے نشانے پر آ گئی‬
‫اس کے اندر کر دیا۔۔۔۔۔‬ ‫تو میں نے اپنے لن کو‬
‫اس کی پھدی بڑی ہی تنگ اور کسی ہوئی‬
‫کا صواد آ‬ ‫تھی ۔۔اس لیئے لن کو اندر ڈالنے‬
‫گیا۔۔ادھر جیسے ہی میرا لن اس کی چوت میں‬
‫دل کش انداز‬ ‫اترا۔۔۔تو وہ بڑے ہی سیکسی اور‬
‫میں کراہنا شروع ہو گئی اور اس کا یہ لزت‬
‫انگیز کراہنا اس وقت تک جاری رہا جب تک کہ‬
‫میں نے اپنے لن کی ساری منی اس کی چوت‬
‫کے دوران‬ ‫میں نہ گرا دی ۔۔۔میری چوددائی‬
‫مینا کوئی تین چار دفعہ چھوٹی اور جب بھی‬
‫تو بس یہی کہتی ۔۔۔ کہ‬ ‫وہ چھوٹنے لگتی‬
‫میرے اندر منی گرانا ۔۔میری پھدی کی گرم‬
‫کر کے‬ ‫اپنی منی کا چھڑکاؤ‬ ‫دیواروں پہ‬
‫سچ ُمچ جب‬ ‫ٹھنڈا کر دینا ۔۔اور پھر‬ ‫اسے‬
‫چھڑکاؤ‬ ‫کا‬ ‫میں نے اس کی چوت میں منی‬
‫تو اس کے بعد مینا بہت ٹھنڈی پڑ‬ ‫کیا‬
‫گئی۔۔۔ اور میرے گلے لگ کر کہنے لگی تم نے تو‬
‫مجھے برف میں لگا دیا ہے۔۔۔مینا کو چودنے‬
‫کے بعد میں اپنے گھر چال گیا اور پھر شام کو‬
‫دوبارہ ان کے گھر کا چکر لگایا تو کابینہ کو‬
‫کچھ پریشان دیکھا پوچھنے پر چوہدری کہنے‬
‫لگا ۔۔کیا بتاؤں یار آج ہمارے ساتھ بہت برا ہوا‬
‫کہنے لگا یار آج صبع ہم لوگ‬ ‫ہی‬ ‫۔۔پھر خود‬
‫داراالمان گئے تھے ۔۔ وہاں‬ ‫نبیلہ سے ملنے‬
‫کے پاس لے جایا گیا ۔۔۔ اور‬ ‫سپدٹنڈنٹ‬ ‫ہمیں‬
‫جب ہم نے اس سے اپنے آنے کا مدعا بیان کیا‬
‫تو اس نے صاف منع کر دیا اور کہنے لگی کہ‬
‫لڑکی کے گھر والوں نے درخواست دی ہے کہ ان‬
‫کی بیٹی سے کیس کا فیصلہ ہونے تک کسی‬
‫اس‬ ‫سے بھی نہ ملنے دیا جائے ۔ماسوائے‬
‫کی والدہ کے ۔۔ تو میں نے چوہدری سے کہا‬
‫کہ آپ کا تو ان معامالت میں بڑا وسیع تجربہ‬
‫" دکھانی تھی تو‬ ‫ہے اسے کوئی "چمک شمک‬
‫آگے سے اس پر اس نے برا سا منہ بنایا اور‬
‫کی‬ ‫نے کوشش تو‬ ‫کہنے لگا۔۔ ۔۔۔ یار میں‬
‫تھی لیکن اس خاتون نے ہمیں بےعزت کر کے‬
‫وہاں سے نکال دیا۔۔۔۔ پھر کہنے لگا وہاں سے‬
‫ہم وکیل کے پاس گئے تھے تو پتہ چال کہ کل‬
‫میڈیکل ہو گا ۔۔۔۔اور دوسری بات یہ‬ ‫اس کڑی کا‬
‫بقول وکیل کے ہمیں اس کڑی سے مل کر‬ ‫کہ‬
‫کوئی جھوٹا سچا الرا بھی‬ ‫ساتھ‬ ‫اس کے‬
‫لگانا ہو گا تا کہ وہ ہمارے حق میں بیان دے‬
‫۔اور اگر اس نے ہمارے خالف بیان دے دیا‬
‫۔۔۔آخری اور‬ ‫کیس بگڑ جائے گا‬ ‫تو سارا‬
‫سب سے اہم بات یہ کہ لڑکی والوں نے اپنے‬
‫کاغذات میں اسے نابالغ شو کیا ہے اب ہمیں‬
‫بلکہ‬ ‫نہیں‬ ‫ثابت کرنا ہے کہ لڑکی نابالغ‬
‫بالغ تھی ۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولے‬
‫تیری بھاگ دوڑ کا وقت آ گیا‬ ‫۔۔۔ بیٹا اب‬
‫ہے سب سے پہلے تو تم نے داراالمان والی‬
‫کرخت لیڈی کے بارے میں کوئی واقفیت‬
‫تم نے ہر‬ ‫کہ‬ ‫نکالنی ہے ۔۔پھر کہنے لگا‬
‫پیسوں کی‬ ‫کام کرنا ہے اور‬ ‫یہ‬ ‫صورت‬
‫۔۔۔۔ تو اس پر میں نے‬ ‫کرنی‬ ‫نہیں‬ ‫فکر‬
‫چوہدری سے کہا ۔۔۔ اچھا یہ بتائیں کہ اس‬
‫سپدٹنڈنٹ کا نام کیا تھا؟ کہاں کی رہنے والی‬
‫تانیہ‬ ‫ہے تو اس پر چوہدری بوال ۔۔۔ نام اس کا‬
‫شیخ ہے اور بہت ہی بد اخالق عورت ہے‬
‫ایک‬ ‫اور یہ جہلم کے پاس دینہ کے قریب‬
‫داراالمان‬ ‫گاؤں کی رہنے والی ہے پہلے یہ‬
‫جہلم کی ڈپٹی سپدٹنڈنٹ تھی کچھ دن ہی ہوئے‬
‫پرموشن پر یہاں آئی ہے۔۔۔پھر میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے کہنے لگے بیٹا تم سمجھ گئے نا‬
‫کہ میں نے تمہارے ذمے کون کون سے کام‬
‫لگائے ہیں ۔۔ایک تو اس لڑکی کا شناختی‬
‫یا اس ٹائپ کی کوئی چیز کہ جس سے‬ ‫کارڈ‬
‫ثابت ہوتا ہو کہ لڑکی بالغ ہے دوسری میڈیکل‬
‫اور تیسرا اس تانیہ شیخ کے بارے میں کچھ‬
‫کرنا ہے۔۔‬
‫چوہدری کی با ت سن کر سب سے پہلے میں‬
‫اپنے دوست اصغر کے پاس پہنچا اور اسے‬
‫بتایا‬ ‫میڈیکل کے بارے میں‬ ‫کے‬ ‫اگلے دن‬
‫۔۔۔ میری بات سن کر وہ اپنے کزن کی طرف‬
‫پی سی او جا پہنچا کہ‬ ‫۔۔۔۔۔ جبکہ میں‬
‫نبیلہ کے شناختی کارڈ کے‬ ‫سے‬ ‫بھابھی‬
‫بارے میں کچھ معلومات لوں۔ ادھر جیسے ہی‬
‫انہوں نے‬ ‫سنی‬ ‫میری آواز‬ ‫نے‬ ‫بھابھی‬
‫پہلی بات یہی کہی کہ میں تو تمہارے فون کا‬
‫انتظار کر رہی تھی لیکن تم‬ ‫صبع سے ہی‬
‫نے بڑی دیر کر دی ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا‬
‫وہ‬ ‫بھابھی؟ تو اس پر‬ ‫کہ وہ کس لیئے‬
‫جانے کے‬ ‫لگی داراالمان‬ ‫ہنس کر کہنے‬
‫لیئے ؟ ان کے منہ سے داراالمان کا نام‬
‫سن کر میں حیران رہ گیا اور پھر میرے‬
‫شاید‬ ‫کہنے لگی۔۔۔ شاہ‬ ‫پوچھنے پر وہ‬
‫کی نئی‬ ‫تمہیں معلوم نہیں کہ داراالمان‬
‫تانیہ شیخ میری کزن لگتی ہے‬ ‫سپدٹنڈنٹ‬
‫بھابھی کے منہ سے تانیہ کا نام سن کر‬
‫میں بڑا خوش ہوا اور پھر ان کے سامنے‬
‫اپنے دونوں مسلے رکھ دیئے۔۔ ۔۔ نبیلہ کے بارے‬
‫میں انہوں نے مجھے بتایا کہ اس کے‬
‫ہے ہاں‬ ‫شناختی کارڈ کا ملنا تو ناممکن‬
‫ایک طر یقے سے تم اسے بالغ شو کر‬
‫اور وہ یہ کہ ۔۔۔۔۔ پچھلے ماہ‬ ‫سکتے ہوئے‬
‫اور‬ ‫ہونے والے ضمنی انتخاب میں‪ ،‬عذرا‬
‫چونکہ یہ‬ ‫ووٹ ڈاال تھا‬ ‫اس نے اکھٹے‬
‫اس لیئے‬ ‫نہ ہے‬ ‫اتنی پرانی بات‬
‫عالقے کے پولنگ‬ ‫تمہارے‬ ‫امید ہے‬ ‫مجھے‬
‫پڑی‬ ‫ایجنٹ کے پاس ابھی تک وہ لسٹیں‬
‫ہوں گی۔۔جسے تم آسانی سے لے سکتے ہو۔۔۔۔۔‬
‫پھر کہنے لگیں جہاں تک تانیہ کی بات‬
‫وہ کل ہمارے گھر آئی تھی چنانچہ‬ ‫ہے تو‬
‫سرکاری طور پر ۔۔۔۔۔‬

‫جاری ہے‬

‫‪#‬محبت_کے_بعد_سٹوری_لسٹ_قسط_نمبر_‪18‬‬
‫‪#Urdu_kahani_Part_18_last‬‬

‫‪#‬محبت_کے_بعد‬

‫‪#‬کا_آٹھواں_اور_آخری_حصہ‬

‫کے‬ ‫لوگوں‬ ‫رشید‬ ‫اور‬ ‫مطلب اپنے ہسبینڈ‬


‫سامنے ( کہ ان کو خصوصی طور پر بالیا گیا‬
‫تھا ) تو میں نے نبیلہ کے گھر والوں کی‬
‫اس کو‬ ‫درپردہ‬ ‫سفارش کی ہے لیکن‬
‫بوال ہے اس لیئے‬ ‫تمہاری ہیلپ کرنے کا‬
‫چلے جانا‬ ‫کل تم داراالمان اس کے پاس‬
‫مجھے فون کر کے‬ ‫۔۔۔۔لیکن جانے سے پہلے‬
‫بتا دینا۔۔۔۔ تا کہ میں اس کو ریماینڈ کروا سکوں۔‬
‫ہوا کہ‬ ‫بھابھی کی بات سن کر بڑا خوش‬
‫حل ہو‬ ‫سارے مسلے‬ ‫بیٹھے بٹھائے‬
‫اس کا بہت بہت شکریہ ادا‬ ‫گئے۔۔۔۔۔۔اور پھر‬
‫کیا اور پھر اس سے بوال کہ اس بات پر‬
‫پارٹی تو بنتی ہے میری بات سن کر انہوں‬
‫نے ایک ٹھنڈی آہ بھری اور اپنی ساس کو‬
‫کوسنے دیتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ ایک تو ۔۔۔یہ بڈھی‬
‫وجہ‬ ‫اس کی‬ ‫نہ آر ہوتی ہے نا پار۔۔۔۔ اور‬
‫مہمانوں کا رش‬ ‫سے گھر میں خواہ مخواہ‬
‫لگا رہتا ہے ۔ پھر مجھ سے کہنے لگی ۔۔ اچھا‬
‫تھے ؟ تو‬ ‫یہ بتاؤ کہ تم امجد سے ملے‬
‫وہ کہنے لگی ۔۔۔‬ ‫ہاں میں جواب پر‬ ‫میرے‬
‫اس‬ ‫ہے کہ‬ ‫بتاتا‬ ‫میں کیا‬ ‫نبیلہ کے بارے‬
‫ان کو‬ ‫کی کتنی دفعہ لی؟ اس پر میں نے جب‬
‫کے‬ ‫نے نبیلہ‬ ‫بتایا کہ آپ یقین کرو کہ اس‬
‫ایک دفعہ بھی نہیں کیا۔۔۔ تو اس پر وہ‬ ‫ساتھ‬
‫بھگا کر کیوں لے‬ ‫کہنے لگی ۔۔۔تو پھر اسے‬
‫گیا تھا؟ مفت میں سب کو مصیبت میں ڈالنے کے‬
‫اور پھر مزید کہنے لگی۔۔۔ اس طرح‬ ‫لیئے؟‬
‫بھگا کر لے جاتے تو‬ ‫اگر تم مجھ کو‬
‫جتنے دن میں نے تمہارے ساتھ رہنا تھا تو‬
‫سے نکالنے ہی‬ ‫میں نے لن کو اپنی پھدی‬
‫تھا ۔۔ پھر اس طرح کی چند اور‬ ‫نہیں دینا‬
‫گرم گرم باتوں کے بعد انہوں نے فون بند کر‬
‫دیا۔‬
‫پی سی او سے نکل کر میں واپس چوہدری کے‬
‫انکل بھی آ‬ ‫اس وقت تک‬ ‫گیا‬ ‫پاس پہنچ‬
‫ذکر‬ ‫بھابھی کا‬ ‫پھر میں نے‬ ‫چکے تھے‬
‫ساری بات بتا دی۔۔۔۔سن‬ ‫گول کر کے باقی کی‬
‫اگلے دن کا‬ ‫کر بہت خوش ہوئے اور پھر‬
‫پروگرام بننے لگا۔۔۔ اس دن چونکہ نبیلہ کا‬
‫ہونا تھا اور اس موقعہ پر‬ ‫میڈیکل بھی‬
‫ضروری تھا اور پھر‬ ‫میرا بھی وہاں ہونا‬
‫داراالمان بھی جانا تھا‬ ‫شیخ سے ملنے‬ ‫تانیہ‬
‫ان دونوں کاموں کے لیئے انکل نے مجھے‬
‫رقم دی کہ بوقت ضرورت استعمال‬ ‫مناسب‬
‫کروں۔۔اسی دوران مہرو باجی نے تجویز دی‬
‫کہ نبیلہ کو یقین دھانی کے لیئے کیوں نہ امجد‬
‫جائے تا کہ‬ ‫سے نبیلہ کے نام خط لکھوایا‬
‫وہ پکی ہو جائے اور ہمارے حق میں بیان دے‬
‫دے ۔ مہرو کی اس بات کو سب نے ہی‬
‫پسند کیا اور پھر تھوڑی سی بحث کے بعد یہ‬
‫طے پایا کہ کل صبع میں ہسپتال ‪ ،‬جبکہ مہرو‬
‫جا کر امجد سے نبیلہ‬ ‫اور چوہدری جیل میں‬
‫زبردست قسم کا خط لکھوائیں‬ ‫کے نام ایک‬
‫گے جس کو لے کر میں اور چوہدری‬
‫داراالمان جا کر نبیلہ کو دے آئیں گے اس کے‬
‫بعد ان میں خط کے مندرجات پر بحث چھڑ‬
‫گئی۔اور میں اس بحث سے بچ کر گھر آ گیا۔‬

‫اگلے دن میں نے اصغر کو ساتھ لیا اور ڈسٹرک‬


‫ہسپتال پہنچ گیا اور اس کے کزن سے مل کر‬
‫سب معامالت سیٹ کر لیئے۔۔۔۔ ہر چند کہ وہ لڑکا‬
‫فرسٹ کزن تھا لیکن پھر بھی میں نے‬ ‫اصغر کا‬
‫اس کی "خدمت‬ ‫کر‬ ‫سے نظر بچا‬ ‫اصغر‬
‫وصول کرتے ہی اس کی‬ ‫" کر دی اور پیسے‬
‫وہ‬ ‫اور‬ ‫آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی‬
‫تم لوگ بے غم ہو کر‬ ‫کہنے لگا کہ بے شک‬
‫جاؤ میں سب سنبھال لوں گا لیکن ہم‬ ‫چلے‬
‫وہیں‬ ‫دیا۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫نے جانے سے انکار کر‬
‫بیٹھے رہے پھر کچھ دیر کے بعد تفتیشی‬
‫کانسٹیبل اور نبیلہ کو‬ ‫لیڈیز‬ ‫اپنے ساتھ‬
‫لے کر ہسپتال پہنچ گیا ۔۔۔ کوئی دو تین گھنٹے‬
‫کے بعد اصغر کا کزن بھی واپس آ گیا اور‬
‫کہنے لگا کہ ہر چیز اوکے ہے۔۔۔ آپ لوگ بے‬
‫فکر ہو کر چلے جائیں جائیں چنانچہ جب میں‬
‫اور اصغر ہسپتال کے گیٹ سے نکل رہے تھے‬
‫سے شیدا بھی نمو دار‬ ‫کہیں‬ ‫تو اچانک ہی‬
‫میں‬ ‫ہو گیا۔۔۔۔ اور پھر مجھ سے کہنے لگا۔۔۔۔کہ‬
‫تم سے کوئی ضروری بات کرنی ہے‬ ‫نے‬
‫اصغر کی طرف دیکھا تو‬ ‫میں نے‬ ‫پر‬ ‫اس‬
‫وہ کہنے لگا سن لے یار۔۔ سننے میں حرج‬
‫ہی کیا ہے؟ اور پھر جیسے ہی میں اور‬
‫طرف ہوئے تو شیدا مجھ سے‬ ‫ایک‬ ‫شیدا‬
‫کہنے لگا تمہارے لیئے ایک آفر ہے تم ان‬
‫بھاگ دوڑ چھوڑ دو تو‬ ‫لوگوں کے لیئے‬
‫پرچے سے تمہارا نام واپس لے لوں گا‬ ‫میں‬
‫مجھے سمجھاتے ہوئے بوال۔۔۔ کہ دیکھو‬ ‫پھر‬
‫ویسے بھی‬ ‫یہ لوگ آج ادھر ہیں کل نہیں ۔۔۔۔۔اور‬
‫ان لوگوں نے یہاں سے چلے جانا ہے جبکہ‬
‫کا ساتھ ہے پھر‬ ‫تمہا را اور میرا عمر بھر‬
‫اس‬ ‫کہنے لگا۔۔۔۔اس سے پہلے جو ہو گیا‬
‫کے ل یئے معزرت ۔۔۔ اور اب تم ان لوگوں کا‬
‫کی بات سن کر میں نے‬ ‫ساتھ چھوڑ دو۔۔۔ شیدے‬
‫صاف انکار کر دیا ۔۔۔ جس پر وہ غضب ناک ہو‬
‫کر بوال۔۔۔ سوچ لو ۔۔ تمہارے لیئے۔۔۔۔اس کے‬
‫گے شیدے کی بات‬ ‫نتائج بہت برے نکلیں‬
‫پھر‬ ‫میں نے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔اور‬ ‫سن کر‬
‫اپنا منہ اس کے کان کی قریب لے گیا اور وہ‬
‫سمجھا کہ شاید میں کوئی راز کی بات کرنے‬
‫واال ہوں ۔۔۔۔اور بڑے اشتیاق کے ساتھ اپنے‬
‫میرے منہ کے پاس لے آیا ۔۔ جیسے‬ ‫کو‬ ‫کان‬
‫۔۔۔۔۔۔تو‬ ‫کان میری طرف جھایا‬ ‫اپنا‬ ‫اس نے‬
‫اونچی آواز بوال ۔۔۔۔۔تم نے جو‬ ‫اس پر میں‬
‫اکھاڑ لینا۔۔۔اور ۔۔اصغر‬ ‫ہوا‬ ‫میرا لن اکھاڑنا‬
‫کی طرف چل پڑا ۔۔ راستے میں نے اصغر کو‬
‫ظاہر‬ ‫شیدے کی آفر کے بارے بتایا ۔۔۔۔۔۔۔ جو‬
‫کر دی۔۔۔۔۔اور پھر‬ ‫کہ اس نے بھی مسترد‬ ‫ہے‬
‫بعد میں معلوم ہوا‬ ‫گھر پہنچ گئے‬ ‫ہم واپس‬
‫رپورٹ‬ ‫میڈیکل‬ ‫کہ شیدے نے نبیلہ کی‬
‫سر توڑ کوشش کی لیکن‬ ‫کی‬ ‫کرانے‬ ‫چینچ‬
‫ڈاکٹر بہت‬ ‫رپورٹ واال‬ ‫ایک تو میڈیکل‬
‫ہمارا ۔۔۔۔ میل نرس بہت‬ ‫ایماندار تھا اور دوسرا‬
‫اس نے‬ ‫ہوشیار تھا ان خدشات کے پیش نظر‬
‫پہلے ہی سے سارا بندوبست کر رکھا تھا ۔۔۔اس‬
‫لیئے شیدا یہاں بھی ناکام رہا۔۔۔ہسپتال سے نکل‬
‫معلوم‬ ‫کے گھر پہنچا تو‬ ‫میں انکل‬ ‫کر جب‬
‫اور چوہدری ابھی تک جیل سے‬ ‫ہو ا کہ مہرو‬
‫واپس نہیں آ ئے تھے چنانچہ میں نے اب تک‬
‫کی کاروائی سے آنٹی کو آگاہ کیا اور پھر‬
‫وہیں بیٹھ کر ان کا انتظار کرنے لگا۔۔۔ اس وقت‬
‫آنٹی کے ساتھ اگر مہرو کی تائی اماں نہ ہوتی‬
‫ان کی‬ ‫تو میں نے ان کو چود لینا تھا کیونکہ‬
‫ایسے اشارے مل رہے تھے‬ ‫طرف سے مجھے‬
‫لیکن ۔۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر بعد چوہدری شیر بھی مہرو‬
‫کے ساتھ پہنچ گیا۔۔۔چوہدری نے آتے ساتھ ہی‬
‫مجھے کہا کہ وقت کافی ہو گیا ہے ہمیں فورا‬
‫کی‬ ‫چلنا چاہیئے چنانچہ ہم دونوں داراالمان‬
‫لیکن اس سے پہلے میں نے‬ ‫طرف چل پڑے‬
‫کیا تو وہ کہنے لگی کہ میں‬ ‫بھابھی کو فون‬
‫لی ہے تم نے اسے‬ ‫نے تانیہ سے بات کر‬
‫بس یہی کہنا ہے کہ تم کو آسیہ باجی‬ ‫جا کر‬
‫بات سن کر‬ ‫کی‬ ‫نے بھیجا ہے بھابھی‬
‫یہ آسیہ‬ ‫بھابھی‬ ‫میں نے حیرانی سے کہا کہ‬
‫کون ہے؟ تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔‬
‫نام ہی آسیہ ہے۔ وہاں سے ہم‬ ‫ارے بدھو میرا‬
‫سیدھے داراالمان پہنچے اور گیٹ پر کھڑے‬
‫شاہ آیا‬ ‫کو بتایا کہ میڈم سے کہو کہ‬ ‫گارڈ‬
‫ہے‪.‬‬

‫میرا پیغام ملتے ہی تانیہ میڈم نے فورا ہی‬


‫ہمیں بال لیا جیسے ہی میں اور چوہدری میڈم‬
‫تانیہ کے آفس میں داخل ہوئے تو وہ سامنے‬
‫ہی کرسی پر بیٹھی تھی۔ بھابھی کے بر عکس‬
‫پرکشش‬ ‫تانیہ میڈم ایک گوری چٹی اور خاصی‬
‫کے قریب‬ ‫عورت تھی عمر کوئی چالیس بیالیس‬
‫ہو گئی لیکن غصیل ہونے کی وجہ سے اس‬
‫کا چہرہ خاصہ کھچا ہوا اور ہونٹ پتلے پتلے‬
‫قد درمیانہ ۔۔۔ اور چھاتیاں‬ ‫ان کا‬ ‫تھے ۔۔۔۔۔جبکہ‬
‫بھاری اور گانڈ بھاری نہیں بلکہ‬ ‫خاصی‬
‫آنکھوں میں ایک‬ ‫بھاری بھر کم تھی۔۔۔۔ میڈم کی‬
‫سفاکی جھلکتی تھی ۔۔۔ اندر‬ ‫کی‬ ‫خاص قسم‬
‫داخل ہو کر جیسے ہی میں نے اپنا تعارف کرایا‬
‫کہنے لگی۔۔۔ کہ بھئی‬ ‫تو وہ مسکراتے ہوئے‬
‫سفارش ہے تمہاری اس کے بعد‬ ‫بڑی سخت‬
‫میری درخواست پر میڈیم نے نبیلہ کو اپنے آفس‬
‫میں طلب کیا ۔۔۔ اور جیسے ہی نبیلہ اس کے‬
‫ہوئی۔۔۔۔۔ میڈم چوہدری کو لے‬ ‫دفتر میں داخل‬
‫کر باہر نکل گئی۔۔۔۔۔ اب کمرے میں ۔۔ میں اور نبیلہ‬
‫مجھے دیکھتے ہی‬ ‫رہ گئے تھے‬ ‫اکیلے‬
‫نبیلہ رونے لگ گئی۔۔۔۔ اور بولی۔۔۔ سوری بھائی‬
‫خاص طور پر آپ کو بڑی‬ ‫ہماری وجہ سے‬
‫کرنا پڑا۔۔۔۔ تو اس پر میں نے‬ ‫پرابلم کا سامنا‬
‫جھوٹ بولتے ہوئے اس سے کہا ۔۔ کہ جب تم‬
‫گی نا۔۔۔۔ تو اس‬ ‫میری بھابھی بن کر گھر آؤ‬
‫وقت میں نے تم دونوں سے گن گن کر حساب لینا‬
‫ہوئے‬ ‫شرماتے‬ ‫ہے میری بات سن کر وہ‬
‫میں نے‬ ‫مسکرا دی۔۔۔ اور پھر اس کے بعد‬
‫اور پھر‬ ‫دیں‬ ‫اس کو بہت ساری تسلیاں‬
‫لکھا ہوا خط بھی اس‬ ‫کا‬ ‫امجد کے ہاتھ‬
‫نے‬ ‫کے حوالے کر دیا۔۔۔۔ ۔۔ جیسے ہی نبیلہ‬
‫امجد کا خط وصول کیا تو عین اسی وقت‬
‫تانیہ میڈم چوہدری کے ساتھ کمرے میں داخل‬
‫ہو گئی اور آتے ساتھ ہی نبیلہ کو واپس بھیج‬
‫دیا۔۔۔ اس کے بعد اس نے ہمارے لیئے چائے‬
‫منگوائی اور پھر چائے پیتے ہوئے اچانک‬
‫ہی چوہدری نے میڈم کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بھرے لہجے کہا۔۔۔میڈم جی‬ ‫بڑے ہی لجاجت‬
‫ایک درخواست ۔کرنی ہے تو اس پر تانیہ بولی‬
‫جی کہیئے؟ تو چوہدری کہنے لگا ۔۔۔ کہ جی‬
‫کچھ گفٹ وغیرہ‬ ‫میں نے آپ کے لیئے‬
‫خریدے تھے لیکن النے کی ہمت نہیں پڑی ۔۔۔۔۔۔‬
‫اگر آپ اجازت دیں تو کسی وقت میں آپ کے‬
‫چوہدری کی بات سن کر پہلے‬ ‫پاس لے آؤں ؟؟؟؟؟‬
‫تو ۔۔۔ تانیہ میڈم نے انکار کیا پھر نیم رضامندی‬
‫آفس‬ ‫وغیرہ‬ ‫سے بولی ۔۔۔۔ میں کوئی بھی گفٹ‬
‫میں نہیں لے سکتی آپ ایسا کریں میری‬
‫کے ہاتھ‬ ‫طرف اشارہ کرتے ہوئے اس لڑکے‬
‫بھیج دیں پھر اس نے مجھے اپنے گھر کا‬
‫کہ آیا میں اس جگہ کے‬ ‫پتہ بتاتے ہوئے کہا‬
‫میری جگہ چوہدری‬ ‫بارے میں جانتا ہوں؟ تو‬
‫نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ پتہ کوئی بھی ہو‬
‫ہم لوگ شام کو پہنچ جائیں گے چوہدری کی بات‬
‫سن کر تانیہ میڈم جلدی سے بولی آپ نہیں صرف‬
‫یہ لڑکا آئے گا۔۔۔تو چوہدری نے سر ہال دیا ۔۔۔۔۔۔‬
‫واپس آ گئے۔۔۔‬ ‫ہم لوگ‬ ‫پھر چائے پی کر‬

‫یہ شام کے جھٹ پٹے کا وقت تھا میں اپنے‬


‫ہاتھوں میں چوہدری کا گفٹ لیئے میڈم تانیہ‬
‫گھر‬ ‫کے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔۔۔ میڈم کے‬
‫کا پتہ کوئی اتنا مشکل نہ تھا بلکہ داراالمان‬
‫گھر‬ ‫ایک چھوٹا سا‬ ‫سے تھوڑی ہی دور‬
‫تھا ۔چونکہ میڈم ابھی حال ہی میں وہاں آئی‬
‫تھی ۔۔۔اس لیئے فی الحال اس کی فیملی جہلم‬
‫میڈم چونکہ‬ ‫میں ہی تھی اور ویسے بھی‬
‫کو‬ ‫واپسی کے چکر میں تھی اس لیئے فیملی‬
‫النے سے اجتناب کر رہی تھی ۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں‬
‫نے گھر کی گھنٹی بجائی تو اندروازہ کھولنے‬
‫میڈم خود ہی باہر آئی اس وقت میڈم نے پتہ‬
‫نہیں کس کی فرمائیش پر کالے رنگ کا ٹائیٹ‬
‫فٹنگ سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔۔ جس پر ہلکا سا کام‬
‫ہوا تھا۔۔۔ اور یہ کاال سوٹ میڈم‬ ‫بھی ہوا‬
‫رہا تھا‬ ‫پر خاصہ جچ‬ ‫کے گورے بدن‬
‫۔۔۔۔ان کی لمبی قمیض کا گال خاصہ کھال تھا اور‬
‫اس کھلے گلے سے ان کی بھاری چھاتیاں‬
‫رہیں تھی۔۔ ۔۔۔ حیرت‬ ‫کی طرف جھانک‬ ‫باہر‬
‫انگیز طور پر اس وقت انہوں نے دوپٹہ نہیں‬
‫اوڑھا ہوا تھا ۔۔جبکہ قمیض کے نیچے انہوں نے‬
‫تنگ موری واال پاجامہ پہنا ہوا تھا اور میں‬
‫سوچ رہا تھا کہ پتہ نہیں اتنے ٹائیٹ پاجامہ‬
‫رانوں‬ ‫اپنی ٹانگوں اور بالخصوص‬ ‫انہوں نے‬
‫ہو گا۔۔۔مجھے دیکھتے ہی‬ ‫پہ کیسے چڑھایا‬
‫انہوں نے اندر آنے کو کہا اور پھر مجھے‬
‫ڈرائینگ روم میں لے گئیں اور مجھے ایک‬
‫صوفے پر بٹھا دیا ۔۔۔جس کے‬ ‫بڑے سے‬
‫ہوا تھا۔۔۔۔‬ ‫میز پڑا‬ ‫سامنے ایک شیشے کا‬
‫مجھے وہاں بٹھا کر کہنے لگیں پہلے یہ بتاؤ‬
‫کہ ٹھنڈا پیو گے یا گرم؟ تو میں نے کہا کہ‬
‫وہ کہنے لگیں چھوٹے‬ ‫کچھ نہیں ۔۔۔۔ تو اس پر‬
‫سرکار کچھ تو پینا پڑے گا تو میں نے ان‬
‫لے آئیں تو وہ‬ ‫سے کہا کہ جو مرضی ہے‬
‫کہنے لگیں بابا ہم تو دفتری لوگ ہیں‬
‫دیتے ہیں تو میں‬ ‫ٹھنڈے پر چائے کو فوقیت‬
‫میں بھی‬ ‫نے کہہ دیا کہ چلیں آپ کے ساتھ‬
‫چائے پی لوں گا۔۔۔ اور وہ مجھے بٹھا کر کچن‬
‫منٹ بعد جب‬ ‫میں چلی گئی۔۔۔ کوئی پندرہ بیس‬
‫واپس آئی تو ان کے ہاتھ میں ایک‬ ‫وہ‬
‫بڑی سی ٹرے تھی جس میں ایک کپ چائے‬
‫کے ساتھ کچھ کھانے کا سامان بھی پڑا ہوا‬
‫تھا ۔۔۔ گرمی میں چولہے کے سامنے کھڑے‬
‫چہرے الل‬ ‫وجہ سے ان کا‬ ‫ہونے کی‬
‫ماتھے پر پسینے‬ ‫اور‬ ‫ہو رہا تھا‬ ‫سرخ‬
‫رہے تھے اور دوسری‬ ‫کے قطرے بھی چمک‬
‫بات یہ کہ پسینے کی وجہ سے ان کی پتلی‬
‫گئی تھی۔۔ جس‬ ‫قمیض بدن کے ساتھ چپک‬
‫کی وجہ سے ان کی چھاتیوں کی گوالئیاں صاف‬
‫ٹرے میں ایک کپ چائے‬ ‫نظر آ رہیں تھی‬
‫کو دیکھ کر میں نے ان سے کہا کہ آپ نہیں‬
‫تو وہ کہنے لگی نہیں ۔۔۔میرے‬ ‫پئیں گی؟؟‬
‫اس لیے‬ ‫سٹاف ممبر کے ہاں ایک فنگشن ہے‬
‫تمہارے ساتھ چائے پی لی ۔۔۔ تو‬ ‫اگر میں نے‬
‫کچھ نہیں کھا پی نہیں سکوں‬ ‫پھر وہاں پر‬
‫گی ۔۔ اس کے بعد انہوں نے ٹرے کو میز‬
‫کی‬ ‫پر رکھا اور پھر میرے سامنے بیٹھنے‬
‫رکھ کر کھڑی‬ ‫ایک ٹانگ میز پر‬ ‫بجائے اپنی‬
‫ہو گئی۔۔۔اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے‬
‫لگی۔۔۔ اچھا ایک بات تو بتاؤ ؟ تو میں نے‬
‫سر اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا تو ایک‬
‫کی‬ ‫ان‬ ‫ہونے کی وجہ سے‬ ‫پاؤں میز پر‬
‫کی‬ ‫پر پڑی تھی ۔۔۔ جس‬ ‫گھٹنوں‬ ‫قمیض‬
‫پجامے سے ان کی‬ ‫ان کے ٹائیٹ‬ ‫وجہ سے‬
‫رانیں صاف نظر آ رہیں‬ ‫گول گول اور سیکسی‬
‫تھی ۔۔۔ میں نے ایک نظر ان کی سیکسی رانوں‬
‫کی طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا۔۔۔ ۔۔۔ جی‬
‫کہنے لگیں ۔۔۔ آسیہ‬ ‫آگے سے وہ‬ ‫میڈم؟ تو‬
‫کے ساتھ تمہارا کیا تعلق ہے؟ میڈم کی بات سن‬
‫کر میں گڑبڑا گیا ۔۔۔اور ان سے بوال کہ وہ‬
‫جی۔۔۔۔۔وہ جی ۔۔۔۔۔ ۔وہ میری بڑی بہن ہیں ۔۔۔ تو وہ‬
‫بولیں ۔۔ شاید‬ ‫میں‬ ‫آواز‬ ‫ایک دم کرخت‬
‫تم بھول رہے ہو کہ آسیہ میری فرسٹ کز ن ہے‬
‫خاندان کو جانتی‬ ‫اور میں اس کے سارے‬
‫ہوں ۔۔۔۔ تو ایسے میں تم اس کے بھائی کہاں‬
‫سے نکل آئے ۔۔تو اس پر میں نے جلدی سے‬
‫کہا ۔۔۔۔وہ ۔۔وہ ۔۔سگی نہیں ہیں جی ۔۔۔۔ بس ایسے ہی‬
‫بنی ہوئیں ہیں ۔۔۔۔ تب وہ بڑے جالل سے کہنے‬
‫لگیں۔۔۔۔ جہاں تک آسیہ کو میں جانتی ہوں تو‬
‫کام سے کام‬ ‫وہ ایک مغرور اور اپنے‬
‫رکھنے والی عورت ہے اس کے پاس اتنا‬
‫تم جیسے چکنے‬ ‫ٹائم کہاں سے آ گیا کہ وہ‬
‫بھائی بناتی پھرے ؟ یہ کہتے ہوئے وہ‬ ‫کو اپنا‬
‫میری طرف جھک گئی۔۔۔میڈم کے اس طرح‬
‫جھکنے کی وجہ سے ان کی رانیں میرے اور‬
‫رانیں قریب ہونے کی‬ ‫نزدیک آ گئیں۔۔۔ ۔۔۔اور‬
‫کے تنگ موری‬ ‫سے میں نے ان‬ ‫وجہ‬
‫والے پاجامے میں سے ان کی چوت کی‬
‫ہونے کی‬ ‫ٹائیٹ‬ ‫ایک جھلک دیکھ لی۔۔ پاجامی‬
‫لکیر‬ ‫کی‬ ‫کی چوت‬ ‫۔۔۔۔۔ ان‬ ‫وجہ سے‬
‫یہ کہ چوت‬ ‫نظر آ رہی تھی ۔۔۔۔مزید‬ ‫واضع‬
‫سے ایک اور‬ ‫کے اتنے قریب ہونے کی وجہ‬
‫اور وہ یہ کہ ان کی چوت کی‬ ‫غضب ہو گیا‬
‫اُڑ‬ ‫سے‬ ‫جائے مخصوصہ‬ ‫مہک‬ ‫مخصوس‬
‫ڈائیریکٹ میرے نتھنوں میں گھس گئی۔۔۔۔۔۔‬ ‫کر‬

‫حقیقت یہ ہے کہ ان کی چوت کی مہک بہت ہی‬


‫اور اسے سونگھ کر‬ ‫تیز اور سیکسی تھی‬
‫مجھے نشہ سا ہونے لگا۔۔۔ یہاں پر زنانہ چوت‬
‫ایک‬ ‫کی مہک بارے میں آپ لوگوں سے اپنی‬
‫کہ‬ ‫اور وہ یہ‬ ‫کرنا چاہوں گا‬ ‫اور بات شئیر‬
‫پہلے میں سمجھتا تھا کہ چوت کی مہک‬
‫سونگھنے کا صرف مجھے ہی شوق ہے یا یہ‬
‫اچھا لگتا ہے۔۔۔۔‬ ‫صرف مجھے ہی‬ ‫عطر‬
‫لیکن۔۔۔۔ جب نیٹ پر آیا تو پتہ چال کہ زنانہ‬
‫آباد ہے ۔۔۔۔ہا ں‬ ‫کی ایک دینا‬ ‫پینٹی لوورز‬
‫تو میں کہہ رہا تھا کہ میری طرف جھکتے‬
‫ہی میڈم نے مجھے بالوں سے پکڑا ۔۔۔اور ایک‬
‫گالی دیتے ہوئے بولی۔۔۔۔ میرے سامنے جھوٹ‬
‫حرامزادے۔۔۔پھر پھنکارتے ہوئے کہنے‬ ‫بولتے ہو‬
‫لگی۔۔۔ شاید تم کو معلوم نہیں کہ داراالمان میں‬
‫ایک سے بڑھ کر ایک حرافہ عورت ہوتی ہے‬
‫چوں بھی‬ ‫سامنے‬ ‫لیکن مجال ہے کہ میرے‬
‫کر جائے۔۔پھر دانت پیستے ہوئی بولی۔۔۔ اور مجھ‬
‫کی جان جاتی ہے‬ ‫ان‬ ‫سے بات کرتے ہوئے‬
‫تم ۔۔۔۔کل کے چھوکرے ہو کر میرے‬ ‫۔۔۔اور ایک‬
‫سامنے جھوٹ بول رہے ہو۔۔۔پھر کہنے لگی۔۔۔۔‬
‫فون کر کر کے میری مت‬ ‫آسیہ نے کل سے‬
‫اس‬ ‫ہے کہ شاہ آئے تو‬ ‫ہوئی‬ ‫مار ی‬
‫کا خیال رکھنا ۔۔شاہ کو کوئی تکلیف نہیں ہونی‬
‫چایئے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔۔ اور اس کے لہجے سے‬
‫پیار‬ ‫اور‬ ‫تمہارے لیئے جو وارفتگی‬
‫چھلک رہا تھا وہ بہن بھائی۔۔۔۔ واال ہر گز‬
‫نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ اس کے بعد وہ دوبارہ سے‬
‫بالوں سے پکڑ کر‬ ‫نیچے جھکی اور مجھے‬
‫اُوپر اُٹھایا ۔۔۔۔۔ عین اسی لمحے پنکھے کی تیز‬
‫سے ہوتی‬ ‫ہوا ۔۔۔ اس کی چوت کی طرف‬
‫ہوئی ۔۔۔اپنے ساتھ اس کا نشہ آور عطر بھی‬
‫میڈم کی چوت‬ ‫لے آئی اور میں نے‬ ‫ساتھ‬
‫مہک آنکھیں‬ ‫سٹرانگ کو‬ ‫سے نکلنے والی‬
‫بند کر کے اپنے اندر اتار لیا۔۔۔۔۔۔ میری اس‬
‫حرکت سے تجربہ کار میڈم سمجھ گئی ۔۔۔ کہ یہ‬
‫مریض مہک ہے۔۔۔۔۔ لیکن شو نہیں کیا ۔۔۔۔اور‬
‫پھنکارتے ہوئے کہنے‬ ‫پھر ویسے ہی‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔سچ بتا ورنہ اس حرافہ نبیلہ کو‬
‫پڑھاؤں گی کہ تم کیا تمہارا سارا‬ ‫ایسی پٹی‬
‫خاندان جیل میں سڑتا رہے گا۔۔۔میڈ م کے منہ‬
‫نام سن کر میرا سارا نشہ‬ ‫سے نبیلہ کا‬
‫پھٹ کے‬ ‫گانڈ‬ ‫ہو گیا ۔۔۔۔اور میری‬ ‫ہرن‬
‫گلے میں آ گئی ۔اور میں سوچنے لگا کہ اگر‬
‫اس حرامن نے ایسا کر دیا‬ ‫واقعی‬
‫میڈم کی یہ‬ ‫تو۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟چنانچہ‬
‫دھمکی کام کر گئی۔۔۔۔اور میں چوت کی مہک‬
‫بھول گیا اور اس کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔۔ پلیززززززززززززززززز۔۔۔ایسا نہ کیجئے‬
‫گا۔۔ تو وہ اپنی چوت کو تھوڑا اور آگے کرتے‬
‫کہنے ل گی۔۔۔ نہیں کروں گی۔۔۔۔۔ بلکہ اُلٹا‬ ‫ہوئے‬
‫تمہاری ہر ممکن مدد کروں ۔۔۔۔ اگر تم سچ بتا‬
‫قمیض‬ ‫دو گے تو۔۔۔۔ اور ساتھ ہی اپنی لمبی‬
‫کو اوپر اُٹھا کر اپنے چہرے پر لگے پسینے‬
‫کو پونچھتے ہوئے بولی ۔۔۔اف۔۔۔۔۔گرمی کتنی‬
‫ہے۔۔۔ جیسے ہی میڈم نے اپنی قمیض کو اوپر‬
‫کیا۔۔۔۔ تو میری نظر ان کی چوت کی لکیر پر جا‬
‫پڑی۔۔۔۔۔۔ جہاں سے مست مہک کے جھونکے آ‬
‫میں مست ہو گیا ۔۔۔ اور بے‬ ‫رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔ پھر‬
‫میڈم کی چوت کی طرف ناک کر کے‬ ‫اختیار‬
‫لمبی سانس‬ ‫نشئیوں کی طرح ایک‬
‫لی۔۔۔۔۔۔۔میرے اس طرح سانس لینے سے وہ‬
‫جل ترنگ سی ہنسی اور ۔۔۔۔۔۔۔ کہنے لگی۔۔۔۔۔لگتا‬
‫پسند آ گئی‬ ‫زیادہ ہی‬ ‫ہے کہ مہک کچھ‬
‫ہے ۔۔۔تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫کہا۔۔۔ نہ ۔نہ۔۔۔۔ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں‬
‫ایک لمبی سانس لی‬ ‫ہے جی۔اور ایک بار پھر‬
‫وہ ہنس کر کہنے لگی اچھا‬ ‫۔۔۔یہ دیکھ کر‬
‫یہ بتاؤ ۔۔۔۔۔ میری والی کی مہک اچھی ہے یا‬
‫تمہاری یار ۔۔۔۔۔ آسیہ کی چوت کی۔۔۔؟ ان کی بات‬
‫سن کر میں گڑبڑا گیا ۔۔۔۔اور انجان بنتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔۔کک کون سی مہک جی۔۔۔۔۔ میری بات‬
‫سن کر انہوں نے مجھے بالوں سے پکڑا اور‬
‫ال کر‬ ‫میری ناک کو اپنی پھدی کے قریب‬
‫ان‬ ‫بولی ۔۔۔یہ والی مہک میری جان۔۔۔۔۔ اس وقت‬
‫کی چوت میری ناک سے ایک آدھ ہی سینٹی‬
‫میٹر کے فاصلے پر تھی اس لیئے مجھ پر نشہ‬
‫سا چھانے لگا۔۔۔ ۔۔۔۔اور پھر جیسے ہی میں نے‬
‫تھوڑا آگے کیا ۔۔۔۔تو۔۔انہوں نے‬ ‫اپنی ناک کو‬
‫۔۔۔۔۔۔‬ ‫فورا ہی میرے سر کو پیچھے دھکیال‬
‫بول۔۔۔ تو میں نے‬ ‫اور کہنے لگی ہاں اب‬
‫کہا۔۔۔۔ آپ کی مہک‬ ‫دستی جواب دیتے ہوئے‬
‫بہت سٹرانگ ہے تو وہ کہنے لگی۔۔۔تو گویا کہ‬
‫آسیہ کی چوت کی مہک میرے مقابلے میں‬
‫نہیں ہے؟ تو میں نے سر ہال دیا۔۔تب‬ ‫سٹرانگ‬
‫میڈم نے میرے سر کو چھوڑا ۔۔۔اور پھر میرے‬
‫سامنے اپنی دو انگلیوں کو اپنے پاجامے کے‬
‫پھدی پر اچھی طرح‬ ‫اندر لے گئیں ۔۔۔اور انہیں‬
‫۔۔۔۔ وہی انگلیاں میری ناک پر‬ ‫مسلنے کے بعد‬
‫لگا کر بولیں ۔۔۔کیسی‬
‫لگی؟۔۔۔۔واؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔جیسا کہ میں نے پہلے‬
‫بھی بتایا تھا ۔۔۔۔کہ چوت کی مہک میری بہت‬
‫کمزوری ہے اس لیئے میں نے اس کی‬ ‫بڑی‬
‫پاگلوں‬ ‫انگلیوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔اور‬
‫انہیں سونگھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ان کی چوت کی‬ ‫کی طرح‬
‫مہک لیتے لیتے نیچے سے میری شلوار میں‬
‫تنبو تن گیا تھا ۔۔۔ جس پر جیسے ہی میڈم کی نظر‬
‫پڑی ۔۔۔انہوں نے میز پر رکھا ہوا اپنا پاؤں‬
‫۔۔۔ہٹایا اور میری گود میں لے گئیں ۔۔۔۔اور اپنے‬
‫میرے لن پر مساج‬ ‫سے‬ ‫پاؤں کے تلوے‬
‫کرتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔۔ ہُوں ۔۔۔۔ میں بھی کہوں‬
‫کہ جو‬ ‫کہ۔۔۔۔آسیہ نے تم میں ایسا کیا دیکھا تھا‬
‫گئی تھی۔۔۔۔پھر میرے لن پر‬ ‫تم پر لٹو ہو‬
‫مساج کرتے ہوئے بولیں ۔۔ یقینا ۔تمہارا ہتھیار‬
‫اس قابل ہے کہ آسیہ جیسی مغرور حسینہ‬
‫جیسی سخت مزاج عورت کے‬ ‫۔۔۔اور میرے‬
‫من بھا جائے۔۔۔۔۔۔۔ پھر انہوں نے لن پر اپنے‬
‫کو پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ کہ‬ ‫پاؤں کے تلوے‬
‫اپنی شلوار اتارو۔۔۔۔ اور پھر جیسے ہی میں‬
‫اس دوران انہوں نے‬ ‫نے اپنا ناال کھوال تو‬
‫سامنے‬ ‫کیا اور خود‬ ‫میز کو ایک سائیڈ پر‬
‫گئی۔۔۔۔ اور پھر اپنے‬ ‫پر بیٹھ‬ ‫والے صوفے‬
‫سے‬ ‫کی مدد‬ ‫پاؤں کے تلوؤں‬ ‫دونوں‬
‫میرے لن پر گرفت کر لی۔۔۔اور پھر اپنے پاؤں کو‬
‫بڑی آہستگی کے ساتھ اوپر نیچے کرنے لگیں۔۔۔۔۔۔‬
‫تو میری پھدی‬ ‫اورمجھ بولیں۔۔۔۔اس لن کو‬
‫میں ہونا چایئے ۔۔۔ کیا خیال ہے مجھے چودو‬
‫گے ؟ تو میں نے کہا جی اگر آپ چاہیں گی‬
‫۔۔ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔‬ ‫تو۔۔۔۔میں حاضر ہوں‬
‫دیکھو میں ایک میچور عورت ہوں اس لیئے‬
‫میں چاہوں گی کہ تم مجھے خوب گرم کر کے‬
‫چودو۔۔۔پھر کہنے لگیں ۔۔۔سیکس کے دوران‬
‫گندی باتیں میری کمزوری ہے تم مجھ سے‬
‫جتنی زیادہ گندی باتیں کرو گے میں اتنی ہی‬
‫اتنا ہی زیادہ تم‬ ‫زیادہ گرم ہووں گی اور پھر‬
‫رکھنا‬ ‫دوں گی پھر کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ یاد‬ ‫کو مزہ‬
‫سے سو گنا زیادہ‬ ‫مزے‬ ‫کے‬ ‫یہ مزہ آسیہ‬
‫ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫میڈم کی بات سن کر میں نے ان سے کہا۔۔۔۔ ایک‬


‫بات تو بتاؤ۔۔اور وہ یہ کہ د وسری عورتوں کی‬
‫آپ کی چوت سے انتی زیادہ مہک‬ ‫نسبت‬
‫کیسے آتی ہے؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔یہ قدرتی‬
‫شاید میں بہت گرم عورت ہوں‬ ‫ہے یا پھر‬
‫اس لیئے۔۔۔ میری پھدی جب تپتی ہے تو ۔۔۔۔ بہت‬
‫چھوڑتی ہے بلکل‬ ‫زیادہ مقدار میں سینٹ‬
‫ایسے ہی جیسے بعض فی میل جانور جب گرم‬
‫ہوتیں ہیں تو ان کا جسم ایک خاص قسم‬
‫ہے جسے سونگھ کر ان کا‬ ‫بو چھوڑتا‬
‫کی ُ‬
‫کی طرف کھینچا چال آتا ہے پھر‬ ‫میل ان‬
‫کہنے لگیں جیسے تم میری پھدی کو سونگھ‬
‫۔۔۔میڈم کی بات‬ ‫کر مرنے والے ہو گئے تھے‬
‫سن کر میں اوپر اُٹھا اور اپنی جگہ ان کو صوفے‬
‫کے بازو پر بٹھایا ۔۔۔۔اور پھر ان کی تنگ‬
‫پجامی کو نیچے کیا۔۔۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔ان کی تنگ‬
‫ہوتے ہی۔۔ مجھے ان کی‬ ‫پجامی کے نیچے‬
‫دیدار ہو گیا۔۔۔ اور‬ ‫چوت کا‬ ‫بالوں سے بھر ی‬
‫بے اختیار میں نے اپنے منہ کو ان کے گھنے‬
‫بالو ں والی پھدی کے ساتھ جوڑ دیا اور ایک‬
‫چوت کی مہکار‬ ‫لمبی سانس لے کر ان کی‬
‫۔۔۔ بوال۔۔۔۔۔‬ ‫ہوئے‬ ‫کو اپنے اندر سموتے‬
‫چوت پر اتنے بال کیوں؟ تو وہ کہنے لگی ان‬
‫بالوں کی وجہ سے ہی تو چوت کی مہک میں‬
‫ہے۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ تم‬ ‫سو گنا اضافہ ہوتا‬
‫پھدی چاٹو گے؟ تو میں نے اثبات میں سر‬
‫مجھے ڈر ہے‬ ‫ہالتے ہوئے کہا۔۔ کہا ہاں لیکن‬
‫کہ اس سے آپ کی چوت کے بال بھی‬
‫منہ میں آ جائیں گے تو وہ کہنے‬ ‫میرے‬
‫لگی اس کا ایک طریقہ ہے میرے پاس۔۔۔۔۔اور وہ‬
‫یہ کہ تم میری چوت کے دونوں ہونٹوں کو‬
‫الگ الگ کر کے اس کے اندرونی حصے اور‬
‫کو چاٹو۔۔۔۔۔ تو میں نے کہا‬ ‫پھر میرے چھولے‬
‫میڈم ۔۔اور دوبارہ سے ان کی‬ ‫ٹھیک ہے‬
‫چوت پر جھک گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی چوت کی سکن‬
‫رہی تھی اس لیئے‬ ‫تو کہیں نظر ہی نہیں آ‬
‫میں نہیں بتا سکتا کہ ان کی چوت کی سکن‬
‫کافی‬ ‫کیسی تھی ؟ ۔۔ہاں پھدی کے دنوں ہونٹ‬
‫لٹکے ہوئے تھے۔۔۔اور پھدی کو دو حصوں‬
‫میں جدا کرنے والی لکیر خاصی گہری اور‬
‫تھی جبکہ چوت کے بالوں کے اندر‬ ‫کھلی‬
‫بھی‬ ‫دانہ‬ ‫سا‬ ‫ایک براؤن رنگ کا موٹا‬
‫کہہ رہی‬ ‫تھا۔جسے وہ چھوال‬ ‫چھپا‬
‫تھی۔۔۔۔۔۔۔۔جیسے ہی میں نے بال ہٹا کر ۔ان کے‬
‫ایک سسکی لے‬ ‫دانے کی طرف دیکھا تو وہ‬
‫کر کہنے لگی۔۔۔۔ میرا چھوال چوس۔۔۔۔۔ میرا‬
‫چھوال ۔۔چوسسسس۔۔ اور میں نے بالوں کو ہٹا کر ان‬
‫کے چھولے پر اپنی زبان رکھی اور پھر اسے‬
‫اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا۔۔۔ ادھر میڈم‬
‫لزت آمیز آواز میں بولیں ۔۔۔۔۔ چھولے کو چھوڑنا‬
‫چوستے جاؤ۔۔۔ مجھے مزہ مل رہا‬ ‫نہیں ۔۔۔۔بلکہ‬
‫ہے۔۔۔تو میں نے ان کے چھولے سے منہ ہٹا‬
‫آپ‬ ‫کر کہا۔۔۔میڈم اجازت ہو تو دو انگلیاں بھی‬
‫ڈال دوں تو وہ سسکی لیتے‬ ‫کی چوت میں‬
‫چار ڈال۔۔۔اس میں‬ ‫ہوئے کہنے لگیں۔۔ دو چھوڑ‬
‫اجازت کی کیا بات ہے پھدی تیری اپنی ہے‬
‫اس کے ساتھ جو مرضی ہے سلوک کرو۔۔۔۔‬
‫میں نے ان کے‬ ‫کی بات سن کر‬ ‫چنانچہ ان‬
‫دو انگلیاں ان‬ ‫چھولے کو چوستے ہوئے اپنی‬
‫کا‬ ‫چوت میں بھی ڈال دیں ۔۔اور ان‬ ‫کی‬
‫۔۔۔ اپنی‬ ‫چوسنے کے ساتھ ساتھ‬ ‫چھوال‬
‫اندر باہر‬ ‫کے‬ ‫چوت‬ ‫انگلیوں کو بھی‬
‫کرنے لگا۔۔۔ان کی پھدی اندر سے خاصی کھلی‬
‫اور پانی سے بھری ہوئی تھی۔۔۔میرے چھوال‬
‫چوسنے کی وجہ سے میڈم بے حال سی ہو گئیں‬
‫اور صوفے کے بازو پر لیٹ سی گئیں ۔۔ جیسے‬
‫ہی وہ صوفے کے بازو پر پیچھے ہو کر‬
‫لیٹیں ۔۔اس کے ساتھ ہی ان کی شاندار گانڈ میرے‬
‫بھی وہی مسلہ تھا‬ ‫سامنے آ گئی۔۔۔ لیکن یہاں‬
‫یعنی کہ ان کی گانڈ کے آس پاس کالے اور‬
‫بالوں کی بھر مار تھی۔۔۔۔اور ان بالوں‬ ‫موٹے‬
‫کے بیچوں و بیچ ۔۔۔ان کی شاندار موری‬
‫تھی۔۔۔جس پر میں نے اپنی ایک چکنی انگلی‬
‫بڑے آرام سے ان کی گانڈ کے‬ ‫رکھی تو وہ‬
‫میں اتر گئی۔۔۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے‬ ‫سوراخ‬
‫آگے‬ ‫کہا۔۔آپ بنڈ مرواتی ہو۔۔؟ تو‬ ‫میڈم سے‬
‫کراہتے ہوئے بولی۔۔۔۔ تمہاری یار کی‬ ‫وہ‬ ‫سے‬
‫کزن ہوں ۔۔پھدی کے ساتھ ساتھ گانڈ نہ مرواؤں‬
‫۔۔۔تو اتنی اچھی گانڈ رکھنے کا کیا‬
‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫فائدہ۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔ پھر کہنے لگی لگتا‬
‫گانڈ کے بھی شوقین لگتے ہو؟ تو‬ ‫تم مجھے‬
‫میں نے کہا۔۔۔۔۔ شوقین نہیں میڈم میں تو گانڈ کا‬
‫کریزی ہوں ۔۔۔پھر پھر ان کی طرف دیکھتے‬
‫لن کو‬ ‫بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میڈم آپ میرے‬ ‫ہوئے‬
‫میری بات سن کر انہو ں نے‬ ‫چوسو گی؟‬
‫صوفے سے ایک جمپ ماری اور نیچے اتر کر‬
‫کہنے لگیں۔۔۔۔۔تمہارے لُلے (لن) کو منہ میں نہ‬
‫اپنے ساتھ‬ ‫خود‬ ‫لینا ۔۔۔نہ صرف یہ کہ‬
‫بلکہ۔۔۔۔۔میں ایک‬ ‫ہو گی‬ ‫بہت بڑی زیادتی‬
‫سے بھی‬ ‫کے ٹیسٹ‬ ‫اعلی درجے کے لن‬
‫ہر گز‬ ‫میں ایسا‬ ‫محروم ہو جاؤں گی ۔۔۔۔۔ اور‬
‫نہیں چاہتی۔۔۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ہی مجھے صوفے پر‬
‫گھٹنوں کے بل چلتی‬ ‫بیٹھنے کو کہا اور خود‬
‫ہوئی میرے لن کے پاس پہنچ گئی اور پھر‬
‫میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر بولی۔۔۔۔۔۔۔ اس ظالم‬
‫نے پتہ نہیں کس کس کو پاگل بنایا ہو گا۔۔۔۔۔۔اور‬
‫پھر نیچے جھک کر میرے ٹوپے کو اپنے منہ میں‬
‫لے لیا۔۔۔۔اور پھر بڑے ہی شاندار طریقے سے‬
‫اسے چوسنے لگیں۔میڈم لن چوسنے کی ماہر‬
‫لگتی تھی اس لیئے۔۔ ان کے شاندار چوپے کو‬
‫چال اُٹھا ۔۔۔۔‬ ‫سے‬ ‫دیکھ کر ۔۔۔۔۔ میں مزے‬
‫لن پورا منہ میں ڈالو ۔۔۔۔ تو وہ لن کو منہ سے‬
‫لہجے میں‬ ‫زدہ‬ ‫شہوت‬ ‫نکال کر بڑے ہی‬
‫نیچے‬ ‫مزہ آیا ؟ اور پھر دوبارہ‬ ‫بولی۔۔۔‬
‫کے آخر‬ ‫جھک گئی اور لن کو اپنے منہ‬
‫تک لے گئیں۔۔۔۔ جس سے مجھے اتنی لذت ملی‬
‫اور‬ ‫کہ میں پھر سے چال اُٹھا ۔۔میڈم تھوڑا‬
‫آگے لے جاؤ۔۔ اور جیسے ہی میڈم نے اپنا‬
‫ان‬ ‫کیا تو اس سے میرا لن‬ ‫منہ اور آگے‬
‫کے ساتھ‬ ‫کے حلق میں جا پہنچا۔۔۔۔اور اس‬
‫ہی میڈم کو ایک زبر دست کھانسی آئی اور‬
‫انہوں نے لن کو منہ سے نکال دیا۔اور کھانسی‬
‫کے بعد ۔ میرے لن پر لیس دار مادے کو‬
‫تھوکتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔اُف اتنا بڑا ہے کہ میں‬
‫چاہ کر بھی پورے لن کو اپنے منہ میں نہیں‬
‫لے سکی۔۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ دوبارہ نیچے‬
‫سے‬ ‫میرے لن دوبارہ‬ ‫جھکیں ۔۔اور پھر‬
‫منہ میں لے لیا۔۔۔‬ ‫اپنے‬

‫لن چوسنے کے بعد ۔۔۔۔وہ‬ ‫کچھ دیر تک‬


‫اوپر اُٹھیں اور ۔۔۔ کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ اب چود‬
‫انہوں نے‬ ‫ہی‬ ‫کے ساتھ‬ ‫مجھے۔۔۔۔۔اور اس‬
‫صوفے کے بازو پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ کر‬
‫گانڈ پیچھے کی طرف کر لی۔۔یہ دیکھ کر میں ان‬
‫کے پیچھے آ کر کھڑا ہوا گیا۔۔اور ان کی بڑی‬
‫سی گانڈ دیکھ کر میری نیت خراب ہو گئی‬
‫۔۔۔اس لیئے میں نے ان سے کہا۔۔ پھدی ماروں‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔ پہلے پانی والے‬ ‫یا گانڈ؟ تو وہ‬
‫اپنے‬ ‫تاالب میں نہا لو۔۔۔۔ یہ سن کر میں نے‬
‫ان کی چوت پر‬ ‫۔۔۔۔۔اور‬ ‫لن پر تھوک لگا یا‬
‫دھکا لگایا ۔۔۔۔ تو بنا‬ ‫ہلکا سا‬ ‫رکھ کر‬
‫لن جڑ تک ان کی‬ ‫کے میرا‬ ‫تردد‬ ‫کسی‬
‫کھلی چوت میں گھس گیا یہ دیکھ کر میں‬
‫نے ایک زور دار تھپڑ ان کی گانڈ پر مارا‬
‫۔۔۔اور بوال۔۔۔۔۔۔ اتنی کھلی پھدی رکھی ہے؟ اپنی‬
‫گانڈ پر میرا تھپڑ کھا کر وہ پیچھے مڑیں اور‬
‫کہنے لگیں۔۔۔ تیرا کیا‬ ‫میں‬ ‫آواز‬ ‫بڑی مست‬
‫نہ لیتی؟ تو‬ ‫مزے‬ ‫خیال ہے میں لن کے‬
‫کہا ۔۔۔۔لیکن میڈم اس سے‬ ‫میں نے ان سے‬
‫آپ کی چوت‬ ‫نقصان یہ ہوا ہے۔۔۔۔۔ کہ اس سے‬
‫بہت کھلی ہو گئی ہے ۔۔۔تو آگے سے وہ مست‬
‫آواز میں کہنے لگیں۔۔۔۔ مزہ لینے کے لیئے۔۔۔‬
‫اتنا نقصان قابل برداشت ہے پھر کہنے لگی۔۔۔۔‬
‫گھسے مار پھر ۔۔۔ لن کو میری‬ ‫تو ٹکا کے‬
‫گانڈ میں ڈال دینا کہ چوت کی نسبت اس کی‬
‫موری خاصی تنگ ہے ۔۔تو اس پر میں نے‬
‫مارتے‬ ‫تھپڑ‬ ‫ایک اور‬ ‫ان کی گانڈ پر‬
‫ہوئے کہا کہ ۔۔۔۔ یہ کیوں نہیں کھلی ہوئی ؟ تو وہ‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔ زیادہ تر تو بے چارے دو چار‬
‫پھدی میں فارغ ہو جاتے‬ ‫گھسے مارتے ہی‬
‫خاک‬ ‫گانڈ کیا‬ ‫میری‬ ‫ہیں۔۔۔ایسے میں وہ‬
‫گے؟؟ ہاں کوئی کوئی شوقین ۔۔ جس میں‬ ‫ماریں‬
‫ہو ۔۔۔۔ دونوں سوراخوں کو اپنے لن کے‬ ‫تڑ‬
‫مزے سے بھر دیتا ہے اور مجھے تم۔۔۔۔ ان میں‬
‫سے ایک لگ رہے ہو۔اگر ایسا ہے تو میری‬
‫پھدی کو رج کے مار ۔۔۔اور جب یہ چو (‬
‫میری گانڈ کو‬ ‫ڈسچارج ) جائے تو پھر‬
‫مار لینا۔۔‬ ‫جیسے مرضی ہے‬

‫ان کی بات سن میں نے پوری قوت سے‬


‫گھسے مارنے شروع کر دیئے۔۔میرے ہر گھسے‬
‫مار‬ ‫ہائے مار دیا۔۔۔۔ ہائے‬ ‫پر وہ یہی کہتی‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔اور پھر چند ہی گھسوں کے بعد وہ‬
‫ہانپنے لگیں ۔۔تو میں ُرک گیا تو وہ کہنے لگیں‬
‫۔۔۔رکے کیوں؟ تو میں نے کہا آپ سانس لے لو‬
‫قالین‬ ‫ان کو‬ ‫۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے‬
‫پر لیٹنے کو کہا۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بنا‬
‫گئی‬ ‫قالین پر لیٹ‬ ‫کوئی سوال کیئے‬
‫کشن اُٹھا‬ ‫پر پڑے‬ ‫۔۔۔۔۔۔اور میں نے صوفے‬
‫کر ۔۔۔۔ ان کی گانڈ کے نیچے فٹ کر دیئے۔جس‬
‫کی وجہ سے ان کی کھلی پھدی مزید ابھر کر‬
‫سامنے آ گئی۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں نے ان کی‬
‫دونوں ٹانگوں کو اپنے کندھے پر رکھا اور لن‬
‫گھسے مارنے لگا۔۔۔‬ ‫کو چوت میں ڈال کر‬
‫جس کی وجہ سے میرا لن پوری شدت کے‬
‫ساتھ میڈم کی اووری پر ضرب لگانے لگا۔اور‬
‫میری ہر ضرب پر وہ یہی کہتی۔۔۔۔۔ہائے ظالما ۔تیرے‬
‫۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ان کی شہوت‬ ‫سٹیا‬
‫ُ‬ ‫۔مار‬ ‫نے‬ ‫لن‬
‫کی دھالئی‬ ‫میں نے ان‬ ‫بھری باتیں سن کر‬
‫ہی دیر بعد‬ ‫شروع کر دی ۔۔۔۔۔۔ اور پھر تھوڑی‬
‫چیخ‬ ‫شہوت بھری‬ ‫ایک‬ ‫۔۔۔۔۔ میڈم نے‬
‫ای۔۔۔۔۔۔۔۔‬ ‫ماری۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔اُف۔۔۔مار ُ‬
‫سٹیا‬
‫کی چوت‬ ‫ہی ان‬ ‫کے ساتھ‬ ‫اس اس‬ ‫اور‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔۔ تو‬ ‫ڈھیر پانی چھوڑ‬ ‫نے ڈھیروں‬
‫یہ دیکھ کر میں نے لن باہر نکاال اور ان کی‬
‫چوت سے رسنے والے پانی سے ان کی گانڈ‬
‫کیا۔۔۔۔اور پھر لن کو ان کی گانڈ میں‬ ‫کو چکنا‬
‫ڈال کر جیسے ہی گھسہ مارا ۔۔۔۔تو وہ چیخ‬
‫اُٹھی۔۔۔۔ہائے میں مر گئی۔۔ تو اس پر میں نے ان‬
‫ہوا۔۔۔ میڈم؟؟؟ تو وہ درد بھری‬ ‫سے پوچھا کیا‬
‫آواز میں بولی۔۔۔ بڑی۔۔پیڑ (درد) ہوئی اے۔۔۔۔۔۔۔‬
‫چوت کی نسبت میڈم کی گانڈ بہت ٹائیٹ ۔ اور‬
‫اس کے ٹشو بہت نرم و مالئم تھے ۔۔ اور پھر‬
‫میں نے جی بھر میڈم کے اس سوراخ کو بھی‬
‫چودا۔۔۔سو گانڈ مارنے کا صواد آ گیا۔۔۔ ۔۔۔اور پھر‬
‫سارا مال ان کی گانڈ میں چھوڑ دیا۔‬

‫اور‬ ‫اس وقت صبع کے آٹھ بجے تھے‬


‫کھچا کھچ‬ ‫کمرہ ء عدالت‬ ‫رش کی وجہ سے‬
‫بھرا ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔ ہم سب (انکل لوگ ) ۔۔۔۔ اور‬
‫بھی‬ ‫گھر والے‬ ‫شیدے کے سارے‬
‫باکرہ (‬ ‫نبیلہ کے‬ ‫عدالت میں موجود تھے‬
‫رپورٹ بھی آ گئی‬ ‫کنواری) ہونے کی میڈیکل‬
‫تھی۔۔اس کے عالوہ میں نے نبیلہ کے بالغ‬
‫ہونے کا ثبوت (ووٹر لسٹ بھی اپنے وکیل کو‬
‫دے رکھی تھی) ۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ میڈم‬
‫تانیہ کے ساتھ خصوصی تعلق ہونے کی وجہ‬
‫نبیلہ کو‬ ‫اس نے‬ ‫سے ہمارے بارے میں‬
‫اچھا خاصہ موٹی ویٹ کر رکھا ۔۔۔۔ کچھ ہی دیر‬
‫کے بعد جج صاحب کمرہ عدالت میں آ گئے۔۔۔۔۔اس‬
‫وقت عدالت میں تل دھرنے کی جگہ نہ‬
‫جیسے ہی ہمارے کیس کے بارے‬ ‫تھی۔۔۔۔ پھر‬
‫میں پکارا ہوا۔۔۔تو میرے سمیت ہم سب کے دل‬
‫دھک دھک کرنے لگے۔ کہ دیکھو نبیلہ کیا بیان‬
‫دیتی ہے اگر اس کا بیان ہمارے حق میں ہوا۔۔‬
‫ختم ہو جانا تھا اور‬ ‫تو اسی وقت کیس نے‬
‫اگر ۔۔۔۔۔ یہ سوچتے ہی مجھے ایک جھرجھری‬
‫آگے نہ سوچ‬ ‫سی ا ٓگئی۔اور میں اس سے‬
‫سکا۔۔۔۔۔۔۔۔ادھر جج صاحب نے نبیلہ کو کٹہرے‬
‫میں طلب کیا ۔۔۔۔اور پھر اس سے حلف لینے‬
‫کے بعد ۔۔۔ ۔۔۔ عدالت میں نبیلہ کی آواز گونجی‬
‫وہ کہہ رہی تھی کہ جناب میں ایک عاقل او ر‬
‫امجد‬ ‫اپنی مرضی سے‬ ‫بالغ لڑکی ہوں اور‬
‫کے ساتھ گئی تھی جس کی وجہ سے میرے‬
‫گھر والوں‬ ‫والدین نے امجد اور اس کے‬
‫گھر سے‬ ‫دیا تھا‬ ‫پر ناجائز پرچہ کروا‬
‫میرے گھر والوں کی مجھ‬ ‫جانے کی وجہ‬
‫پر ناجائز پابندیاں تھی۔۔اس کے بعد وہ دس‬
‫بیان ختم‬ ‫کا‬ ‫۔ نبیلہ‬ ‫رہی‬ ‫بولتی‬ ‫منٹ‬
‫ہونے کے بعد ۔۔۔۔۔ عدالت کی طرف سے اس پر‬
‫کیئے گئے۔۔۔ اور پھر جج‬ ‫سوال و جواب‬
‫نے نبیلہ کی میڈیکل رپورٹ اور دیگر‬ ‫صاحب‬
‫کے بعد اس نے امجد کو باعزت‬ ‫ثبوت دیکھنے‬
‫ایف آئی آر کو‬ ‫بری کر تے ہوئے ہم پر درج‬
‫جیسے ہی جج‬ ‫بھی ختم کر دیا۔۔۔۔فیصلہ سنا کر‬
‫روم میں گئے۔۔۔۔مبارک‬ ‫صاحب ریٹائیرنگ‬
‫پھر۔۔۔۔ایک‬ ‫اور‬ ‫سالمت کا ایک شور ا ُٹھا‬
‫گلے ملنے کے بعد ۔۔۔۔۔‬ ‫دوسرے کے ساتھ‬
‫سب لوگ اپنے اپنے گھرو ں کو چلے گئے۔۔۔‬
‫اور پھر کچھ دیر بعد میں بھی گھر کی طرف روانہ‬
‫ہو گیا۔۔۔ابھی میں نے کچہری کا گیٹ عبور ہی‬
‫کیا تھا کہ مجھ پر قیامت ٹوٹ پڑی۔۔۔ ایک ساتھ‬
‫بہت سارے لوگ مجھ پر پل پڑے ۔۔اور مجھ پر‬
‫کی برسات‬ ‫ٹھڈوں‬ ‫اور‬ ‫تھپڑوں‬ ‫مکوں‬
‫مار رہا‬ ‫شروع ہو گئی ۔۔۔کوئی مجھے التیں‬
‫تھا تو کوئی ڈنڈوں سے پیٹ رہا تھا اور‬
‫کوئی ویسے ہی گالیاں دے رہا تھا ایسے میں‬
‫پاگلوں‬ ‫۔۔۔ اپنے آپ کو بچانے کے لیئے ۔۔۔میں‬
‫کی طرح فضا میں ہاتھ پاؤں چال رہا تھا‬
‫لیکن بے سود۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایسے میں اچانک ہی ایک‬
‫زور دار ڈانڈا میرے سر پر لگا۔۔۔۔۔ جس کی وجہ‬
‫گیا اور میں تیورا‬ ‫سے میرا سر گھوم‬
‫زمین پر‬ ‫گیا۔۔۔۔۔۔اور‬ ‫زمین پر گر‬ ‫کر‬
‫ٹھڈے برسانے‬ ‫مجھ پر‬ ‫انہوں نے‬ ‫گرتے‬
‫وقت میرے انگ انگ‬ ‫شروع کر دیئے۔۔اس‬
‫ناک‬ ‫سے درد پھوٹ رہا تھا اور میرے‬
‫۔۔۔ میں جو‬ ‫خون رس رہا تھا‬ ‫منہ سے‬
‫ٹھڈوں اور‬ ‫پہلے ہی نیم بے ہوش سا تھا۔۔۔ان‬
‫التوں کو مزید برداشت نہ کر سکا ۔۔ ۔۔۔اور پھر‬
‫آہستہ آہستہ میری آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں ۔۔۔میں‬
‫نے آنکھیں کھولنے کی بڑی کوشش کی‬
‫ہو‬ ‫کے‬ ‫میرے پیوٹے من بھر‬ ‫۔۔۔۔لیکن۔۔۔‬
‫میری آنکھیں‬ ‫گئے تھے۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر آہستہ آہستہ‬
‫۔۔۔۔۔۔۔بند ہو نے لگیں ۔۔اسی دوران میں نے ۔۔۔‬
‫کھولنے کی ہر ممکن‬ ‫آخری دفعہ آنکھیں‬
‫۔۔۔۔۔‬ ‫کوشش کی لیکن۔۔۔۔بے سود ۔‬

‫۔۔۔۔ان کے لیے جو تاریک راہوں میں مارے گئے‬

‫(ہم وہ جو تاریک راہوں میں مارے گئے‬

‫تیرے ہونٹوں کی پھولوں کی چاہت میں ہم‬

‫دار کی خشک ٹہنی پہ وارے گئے۔۔۔۔۔۔‬

‫سولیوں پر ہمارے لبوں سے پرے‬


‫تیرے ہونٹوں کی اللی لپکتی رہی‬

‫تیرے ہاتھوں کی چاندی دمکتی رہی)‬

‫سب دوستوں کی محبت کا بہت بہت شکریہ‬

‫‪..‬ختم شد‪...‬‬

You might also like