You are on page 1of 558

‫گوری میم صاحب‬

‫)پہلی قسط (‬

‫ہیلو دوستو کیسے ہو آپ؟ ۔۔۔۔۔۔میں ہوں آپ کا دوست شاہ جی ۔کافی‬


‫عرصہ کے بعد حاضر ہو رہا ہوں ہر چند کہ میں نے آسمان سر پر‬
‫نہیں اُٹھا رکھا ۔۔۔۔ لیکن پھر بھی روزی روٹی کے چکر نے مجھے‬
‫گھن چکر بنا رکھا ہے بزرگ ٹھیک ہی کہہ گئے ہیں کہ ۔۔بندہ روٹی‬
‫نئیں کھاندا ۔۔۔۔ روٹی بندہ کھا جاندی اے ۔۔اتنی تمہید باندھنے اور چول‬
‫مارنے کا مقصد فقط اتنا ہے کہ اگر کسی وجہ سے قسط لیٹ ہو‬
‫جائے تو برا ِہ کرم درگزر کیجیئے گا۔۔۔ مزید گزارش یہ ہے کہ اس‬
‫کہانی کو بطور کہانی کے ہی پڑھا جائے تو آپ کی عین نوازش ہو‬
‫ب‬
‫گی۔۔ تو آیئے سیکس کھتا کو شروع کرتے ہیں ۔۔۔ میں دفتر میں حس ِ‬
‫معمول ویال بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک میرے موبائیل کی گھنٹی بجی۔۔۔۔‬
‫دیکھا تو کو ئی انجانا سا نمبر تھا۔۔۔ خیر میں نے فون آن کیا اور کان‬
‫سے لگا کر جیسے ہی ہیلو کہا۔۔۔۔ تو دوسری طرف سے ایک انجان‬
‫سی آواز سنائی دی۔۔۔ ہیلو ! کیا تم شاہ بول رہے ہو؟۔۔۔ تو میں نے‬
‫جواب دیتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔تمہاری قسم بھائی ! میں شاہ ہی بول رہا‬
‫ہوں۔۔۔تو اس پر وہ کہنے لگا کہ سنا ہے تم نے آنٹیاں چھوڑ ۔۔۔‬
‫ک ُھسروں کی بنڈ مارنی شروع کر دی ہے؟ اس کی بات سن کر‬
‫مجھے تھوڑا تعجب تو ہوا لیکن میں نے اس بات کا اظہار کیئے بغیر‬
‫۔ ۔۔۔۔۔ ترنت ہی جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔۔ آپ نے بلکل درست سنا ہے‬
‫جناب ۔۔۔ ۔۔۔ اس لیئے اگر آپ کی تشریف میں بھی خارش ہو رہی ہے‬
‫۔۔۔تو ڈیٹول سے بنڈ دھو کر آ جاؤ۔۔۔میری طرف سے اتنی بات کہنے‬
‫کی دیر تھی کہ اچانک دوسری طرف سے ایک فلک شگاف قہقہہ‬
‫کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔ وہ اجنبی کہہ رہا تھا ۔۔۔اوئے بہن چود ا۔۔ ساری‬
‫دنیا بدل گئی مگر ۔۔تو ابھی تک نہیں بدال۔۔۔۔ اس پر میں نے جواب‬
‫دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ بھائی مرد کی ایک زبان ہوتی ہے۔میری اس بات‬
‫پر اس نے ایک اور فرمائیشی قہقہہ لگایا ۔۔۔اور پھر کہنے‬
‫لگا۔۔۔۔۔۔۔مجھے پہچانا؟۔۔۔ تو میں نے کہا ابھی آپ نے خود ہی ۔۔۔۔۔میں‬
‫نے ابھی اتنا ہی کہا تھا کہ دوسری طرف سے وہ چال کر بوال۔ ۔۔۔۔۔‬
‫بس بس ۔۔ اب اس آگے کچھ نہیں کہنا ۔۔۔ پھر مجھے گالی دیتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔اوئے گانڈو !! میں عدیل بول رہا ہوں ۔۔۔اس کی بات سن کر میں‬
‫اپنے ذہن پر تھوڑا زور دیا ۔۔ لیکن جب میری میموری میں عدیل نام‬
‫کا کوئی شخص نہیں آیا تو میں اس سے بوال۔۔۔۔ سوری !!۔۔کون عدیل‬
‫؟ تو اس پر وہ بڑے رسان سے کہنے لگا۔۔۔۔عدیل جو تمہارے ساتھ‬
‫اسالمیہ سکول میں پڑھا کرتا تھا۔اس کے منہ سے عدیل کا نام سن‬
‫کر میں نے ایک بار پھر اپنی یاداشت پر زور دیا۔۔۔۔ لیکن میرے زہن‬
‫میں عدیل نام کا کوئی شخص نہ آیا۔۔اس لیئے ایک بار پھر میں نے‬
‫اس سے کہا۔۔۔۔ کون عدیل یار؟؟ تو اس بار وہ تھوڑا جھال کر بوال۔۔۔‬
‫اوئے کنجرا ۔۔۔ میں بول رہا ہوں عدیل۔۔۔۔۔پھر تھوڑا سا ہچکچکاتے‬
‫ہوئے بوال۔۔ ۔۔وہی یار ۔۔عدیلہ ۔۔شیمپو ۔۔۔۔ جیسے ہی اس نے اپنا‬
‫تعارف عدیلہ شیمپو کے نام سے کرایا۔۔۔۔ تو میرے ذہن میں ایک دم‬
‫سے چھناکا سا ہوا ۔۔۔اور مجھے وہ یاد آ گیا ۔ عدیل ہمارا کالس فیلو‬
‫تھا جو کہ میٹرک کے فورا ً بعد کسی طرح امریکہ چال گیا تھا اور‬
‫پھر کافی عرصہ اس نے کوئی خیر خبر ہی نہیں دی اسی لیئے‬
‫میرے ذہن سے اس کا نام محو ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ اور دوسری بات یہ ہے‬
‫کہ۔۔ عدیل کے ساتھ میری دوستی اتنی گہری بھی نہ تھی کہ میں‬
‫اسے یاد رکھتا ہاں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کالس فیلو ۔۔۔۔۔۔اور دوستوں کا سیم گروپ‬
‫ہونے کی وجہ سے اس کے ساتھ بہت بے تکلفی تھی ۔‬
‫نام تو اس کا عدیل تھا لیکن دوستوں کے حلقے میں ۔۔۔۔وہ عدیلہ شیمپو‬
‫کے نام سے مشہور تھا اور اس کی مشہوری کی وجہ یہ تھی کہ‬
‫سارے دوستوں میں یہ واحد لڑکا تھا جو کہ نہ صرف لن پر شیمپو‬
‫لگا کر ُمٹھ مارتا تھا بلکہ ہم سب کو بھی اس بات کی زبردست تلقین‬
‫کیا کرتا تھا کہ شیمپو لگا کر ُمٹھ مارا کریں۔۔ کیونکہ اس طرح کرنے‬
‫سے مزہ بھی زیادہ آتا ہے ۔۔۔اور جھاگ بھی اچھی بنتی ہے۔۔۔اور یہ‬
‫تلقین اس نے اس قدر زیادہ کی تھی کہ تنگ آ کر ہم نے اس کا نام ہی‬
‫عدیلہ شیمپو رکھ چھوڑا تھا ۔۔۔چنانچہ عدیل کو پہچانتے ہی میں‬
‫تو امریکہ سے کب آیا؟‬ ‫خوشی سے چیختے ہوئے بوال۔۔۔۔اوئے گانڈو! ُ‬
‫سنا ۔۔۔وہاں‬
‫۔۔اور پھر اگلے ہی سانس میں اس سے کہنے لگا۔۔ ہور ُ‬
‫کسی گوری میم کی چاٹی ؟۔۔۔یا پھر وہاں بھی شیمپو کے ساتھ ُمٹھ‬
‫مارتے رہے ہو؟۔ ۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بڑے فخریہ لہجے میں‬
‫کہنے لگا ۔۔۔۔ تُو چاٹنے کی بات کر رہا ہے ۔۔۔تیرے بھائی نے تو‬
‫گوریوں کو جی بھر کے چوپے بھی لگوائے ہیں ۔۔۔ دوستو ۔۔۔جیسا کہ‬
‫آپ کو معلوم ہے کہ مجھے چوپا لگوانے کا بہت شوق ہے ۔۔۔ چوپا‬
‫اور وہ بھی گوری میم کا۔۔۔۔ چنانچہ اس کے منہ سے گوریوں کے‬
‫چوپوں کا سن کر ۔۔۔ ناجانے کیوں میرے دل میں حسرت کی ایک‬
‫طویل لہر سی دوڑ گئی۔۔۔۔اور میں خواہ مخواہ جل کر کباب ہو گیا۔۔۔۔۔‬
‫اور پھر اسی حسرت ذدہ لہجے میں اس سے بوال ۔۔۔ کتنی گوریوں کو‬
‫چوپے لگوائے ہیں؟ تو وہ قہقہ لگاتے ہوئے کہنے لگا ۔بے شمار‬
‫۔۔۔پھر تھوڑا وقفہ دے کر بوال۔۔۔ تجھے سب بتا دوں گا مسڑ شاہ‬
‫سٹوری ( جس طرح دوستوں نے شیمپو سے ُمٹھ مارنے کی وجہ‬
‫سے عدیل کا نام " عدیلہ شیمپو " رکھا تھا ٹھیک اسی طرح دوستوں‬
‫کے حلقے میں مجھے بھی شاہ سٹوری کے نام سے جانا جاتا تھا اس‬
‫کی ایک وجہ تو یہ تھی کہ میں ہمیشہ اپنے ذہن میں کوئی سیکس‬
‫سٹوری بنا کر ُمٹھ مارا کرتا تھا اور دوسری وجہ یہ تھی کہ میں ہر‬
‫دوست سے اس کی سیکس سٹوری نہ صرف یہ کہ بڑی تفصیل کے‬
‫ساتھ سنا کرتا تھا بلکہ اس سے کرید کرید کر مختلف سواالت بھی‬
‫پوچھا کرتا تھا ان کی سیکس سٹویز میں اتنا زیادہ انٹرسٹ لینے کی‬
‫وجہ سے دوستوں کے حلقے میں میرا نام ہی شاہ سٹوری پڑ گیا تھا۔۔۔‬
‫(اور سچی بات تو یہ ہے دوستو کہ اس دور کی دوستوں کے منہ‬
‫سے سنی ہوئی وہ گرما گرم کہانیاں ۔۔۔ بعد میں سیکس سٹوریاں‬
‫لکھتے ہوئے میرے بہت کام آئیں۔۔ ) ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ‬
‫جب میں نے عدیلے شیمپو سے یہ پوچھا کہ تفصیل سے بتا کہ اب‬
‫تک کتنی گوریوں کو چوپے لگوا چکے ہو۔۔۔۔۔ تو آگے سے وہ ہنستے‬
‫ہوئے کہنے لگا فکر نہ کر شاہ جی میں تجھے پوری تفصیل سے‬
‫ساری سٹوریاں سناؤں گا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ پھر مجھ سے شکوہ کرتے ہوئے‬
‫کہنے لگا ۔۔۔۔ یار مجھے پاکستان آئے ہوئے دس پندرہ دن سے زیادہ‬
‫ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک ایک بھی حرامی مجھ سے ملنے نہیں‬
‫آیا۔۔۔ تو اس پر میں نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا کہ سالے تم نے‬
‫کون سا آنے کی اطالع دی تھی۔۔۔ تو وہ جواب دیتے ہوئے بوال۔کہ۔‬
‫۔۔۔۔۔ اطالع کیسے دیتا ؟ میرے پاس تو کسی کا نمبر ہی نہیں تھا ۔اور‬
‫اب بھی بڑی مشکل کے ساتھ مجھے قادرے سے تیرا نمبر مال ہے۔‬
‫اس کے ساتھ ہی وہ مجھ سے کہنے لگا ۔۔۔ یہاں آ کر پرانے دوستوں‬
‫سے ملنے کو بڑا دل کر رہا تھا ۔۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے اس‬
‫سے کہا کہ اچھا یہ بتاؤ ۔۔کہ تمہارا وہی گھر ہے نہ۔۔۔ تو وہ میری‬
‫بات کاٹتے ہوئے جلدی سے بوال ۔۔ نہیں یار وہ تو ہمارا کرائے کا‬
‫گھر تھا اب ہم نے اپنا گھر لے لیا ہے اور پھر اس نے مجھے اپنے‬
‫گھر کا پتہ بتایا جو کہ اتفاق سے میرے آفس کے قریب ہی واقع تھا ۔۔‬
‫چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ یار تمہارا گھر تو میرے آفس سے‬
‫کچھ ہی فاصلے پر واقع ہے میں چھٹی کے بعد تم سے ملنے آؤں گا‬
‫تو اس پر وہ بوال۔۔۔۔ چھٹی کے بعد کیوں؟۔۔۔ابھی آتے ہوئے تمہیں کیا‬
‫موت پڑتی ہے؟ اس کے بعد وہ کہنے لگا ۔۔ایسا کرو کہ تم ابھی اور‬
‫اسی وقت آ جاؤ آج دوپہر کا کھانا ہم اکھٹے ہی کھائیں گے۔۔۔اور اس‬
‫کے ساتھ ہی میں تمہیں اپنی بیگم سے بھی ملواؤں گا ۔۔۔۔پھر معنی‬
‫خیز لہجے میں کہنے لگا۔۔۔ امریکہ سے گوری الیا ہوں۔۔۔ گوری میم‬
‫کا نام سن کر پتہ نہیں کیوں میرے جسم میں ایک سنسی سی دوڑ گئی‬
‫اور میں بڑی حسرت کے ساتھ بوال۔۔۔ اس سے ملنے کا کیا فائدہ یار!!‬
‫بھابھی تو انگریزی بولتی ہو گی اور تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ اپنا‬
‫ہاتھ شروع سے ہی انگریزی میں تنگ نہیں بلکہ۔۔۔بہت ہی تنگ ہے‬
‫میری بات سن کر وہ کہنے لگا ۔۔ مجھے سب پتہ ہے یار۔۔ لیکن تو‬
‫انگریزی کی فکر نہ کر ۔۔۔ کہ تیری بھابھی کو اردو بھی آتی ہے تو‬
‫بس جلدی سے آنے والی بات کر ۔۔۔اور اتنی بات کرتے ہی اس نے‬
‫فون رکھ دیا۔۔۔‬

‫عدیل نے تو فون بند کر دیا۔۔۔ لیکن اس کے منہ سے گوری میم کا نام‬


‫سن کر پتہ نہیں کیوں میرے جسم ایک عجیب سا ہیجان برپا ہو گیا‬
‫۔اور میری آنکھوں کے سامنے بلیو مویز میں چوپے لگانے والی وہ‬
‫ساری کی ساری گوریاں گھوم گئیں جن پر میں سچے دل سے عاشق‬
‫تھا۔۔ فون ختم ہونے کے بعد میں اپنے ایک سنئیر لیکن بے تکلف‬
‫کولیگ کے پاس چال گیا۔۔ اور اسے ساری داستان سنائی ۔ میری بات‬
‫سن کر وہ کولیگ جو کہ میری حرکات برائے سیکس سے بخوبی‬
‫واقف تھا ۔۔پہلے تو بڑے غور سے میری طرف دیکھا پھر سنجیدہ‬
‫لہجے میں بوال۔۔ تمہارے چہرے کی اللی اور آنکھوں کی چمک بتا‬
‫رہی ہے کہ تم اپنے دوست کی بیوی (گوری میم ) کو بلیو موی والی‬
‫گوریوں سے مال رہے ہو پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بوال ۔اگر ایسا‬
‫ہے تو یاد رکھو تم خطا کھا رہے ہو اور وہ اس لیئے کہ ساری‬
‫گوریاں ایسی نہیں ہوتیں اس کے بعد وہ کولیگ کافی دیر تک مجھے‬
‫سمجھاتا رہا اور شکر ہے کہ اس کی یہ بات میرے موٹے دماغ میں آ‬
‫گئی ورنہ میرے نزدیک تو ہر گوری میم چالو تھی جو کہ چوپا لگا‬
‫کر پھدی مروانے میں ایک منٹ بھی نہیں لگاتی تھی ۔ چنانچہ اس‬
‫کولیگ کی بات کو میں نے اپنے پلے سے باندھ لیا۔۔اور پھر اس کا‬
‫شکریہ ادا کر کے اُٹھنے ہی لگا تھا کہ اچانک وہ مجھ سے کہنے‬
‫لگے اچھا یہ بتاؤ کہ تم اس کی بیگم کو منہ دکھائی میں کیا گفٹ دے‬
‫رہے ہو؟ تو میں حیران ہوتے ہوئے بوال گفٹ۔۔۔کیسا گفٹ ؟ تو وہ‬
‫سمجھاتے ہوئے بولے۔۔۔ کہ دیکھو یار ہمارے ہاں رسم ہے کہ دلہن‬
‫کو منہ دکھائی میں کچھ نہ کچھ دیا جاتا ہے چنانچہ اس کے بعد‬
‫سن اتفاق‬
‫انہوں نے مجھے اس بارے ایک چھوٹا سا لیکچر دیا ۔۔ ُح ِ‬
‫سے اس سینئر کولیگ کا دیا ہوا یہ چھوٹا سا لیکچر بھی میرے‬
‫موٹے دماغ میں بیٹھ گیا اور میں نے اس کولیگ کی ہدایت پر عمل‬
‫کرتے ہوئے گوری بھابھی کے لیئے بازار سے ایک بہت اچھا سا‬
‫برانڈڈ سوٹ خریدا اور اسے گفٹ پیک کروا کے ساتھ مٹھائی کا ایک‬
‫ڈبہ لیا اور پھر عدیل کے بتائے ہوئے اڈریس پر پہنچ گیا۔‬

‫وہ ایک جدید طرز کا بنگلہ نما گھر تھا جس پر ابھی نیا نیا رنگ و‬
‫روغن ہوا لگتا تھا۔۔ چنانچہ اس کے گھر کا باہر سے جائزہ لینے کے‬
‫بعد میں نے گھنٹی بجائی تو اندر سے ایک فربہی مائل ادھیڑ عمر‬
‫کی عورت نے دروازہ کھوال ۔ اور سر سے پاؤں تک میری طرف‬
‫دیکھنے کے بعد کہنے لگی ۔ آپ کو کس سے ملنا ہے؟ تو اس پر‬
‫میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی عدیل گھر پر ہے ؟ میری بات‬
‫سنتے ہی انہوں نے اپنے ہونٹوں پر ایک دلفریب سی مسکراہٹ‬
‫سجائی اور بڑی خوش اخالقی سے کہنے لگیں بیٹا! آپ یقینا ً شاہ ہو‬
‫تو آگے سے میں نے اثبات میں سر ہال دیا۔ تب وہ بڑی شفقت سے‬
‫مجھے راستے دیتے ہوئے بولیں۔ اندر آ جاؤ عدیل تمہارا ہی انتطار‬
‫کر رہا ہے ۔ اور وہ مجھے ساتھ لیئے ڈرائینگ روم میں آ گئیں اور‬
‫وہاں بٹھا کر کہنے لگیں۔۔ آپ بیٹھو میں عدیل کو بالتی ہوں ۔۔ ان کے‬
‫جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد عدیل ڈرائینگ روم میں داخل ہوا۔۔۔اور‬
‫مجھے دیکھتے ہی ایک فلک شگاف نعرہ مارا۔۔۔اور پھر بڑی گرم‬
‫جوشی کے ساتھ یہ کہتے ہوئے مجھ لپٹ گیا ۔۔کہ۔۔ اوئے شاہ !! تم‬
‫میں زرا بھی تبدیلی نہیں آئی۔۔۔اور ابھی تک ویسے کے ویسے ہو۔۔‬
‫۔مجھ سے ملنے کے بعد اس نے ایک نظر پیچھے ُمڑ کر دیکھا ۔۔تو‬
‫وہاں کوئی نہ تھا اس لیئے وہ قدرے اونچی آواز میں بوال ۔۔۔ کامان‬
‫ڈارلنگ ۔ اس کی آواز سنتے ہی ڈرائینگ روم کے دروازے سے‬
‫ایک مناسب جسم والی سرو قد بلونڈ گوری کمرے میں داخل ہوئی‬
‫اس نے پتہ نہیں کس کی فرمائیش پر کاال سوٹ پہنا ہوا تھا جو کہ اس‬
‫پر بہت جچ رہا تھا اور ستم بالئے ستم یہ کہ اس کی قمیض کا گال‬
‫بھی بہت کھال تھا۔۔ اور کالے رنگ کی اس قمیض میں سے اس کی‬
‫دودھیا سفید چھاتیاں صاف چھپتی بھی نہیں سامنے آتی بھی نہیں ۔۔۔‬
‫کا نظارہ پیش کر رہیں تھیں دوپٹے کے نام پر اس نے کپڑے کی‬
‫ایک دھجی کو اپنے سینے کی بجائے کندھے پر رکھا ہوا تھا اس‬
‫کے چلنے کا انداز بہت مست تھا زندگی میں فرسٹ ٹائم کسی گوری‬
‫کو اپنی آنکھوں کے سامنے دیکھ کر میں فوت ہونے ہی واال تھا کہ‬
‫کولیگ کی نصیحت یاد آ گئی۔۔۔۔ اور میں نے فوت ہونے کا پروگرم‬
‫ملتوی کر دیا۔۔۔۔ تاہم پھر بھی اسے دیکھ کر میرا دل بڑے ذور سے‬
‫دھڑکا ۔۔اور میں منہ کھولے یک ٹک اس کی طرف دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔‬
‫اور اس سے پہلے کہ میں کولیگ کی نصیحت بھول کر۔۔۔۔دوبارہ اس‬
‫پر ہزار جان سے فدا ہو جاتا۔۔۔۔ میں نے شرافت کا مظاہرہ کرتے‬
‫ہوئے ۔۔۔۔ اپنی نگاہوں کا زاویہ تبدیل کیا۔۔۔اور میز پر رکھے گفٹس کو‬
‫اُٹھایا ۔۔۔اور بڑے ادب کے ساتھ اس قیامت کے حوالے کرتے ہوئے‬
‫بوال۔۔ ۔۔ ویل کم ٹو پاکستان بھابھی۔میرے ہاتھ میں گفٹس کو دیکھ کر‬
‫اس نے ایک نظر عدیل کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔اور پھر غالبا ً وہاں سے‬
‫گرین سگنل ملنے کے بعد اس نے گفٹس کو میرے ہاتھ سے لے کر‬
‫میرا شکریہ کہتے ہوئے اس نے اپنا دایاں ہاتھ میری طرف بڑھا دیا۔۔‬
‫اس کا بڑھا ہوا ہاتھ دیکھ کر ایک لمحے کے لیئے میں جھجھک سا‬
‫گیا ۔۔۔۔لیکن پھر کچھ توقف کے بعد میں نے بھی اپنے ہاتھ کو اس کی‬
‫طرف بڑھا دیا۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اپنے کولیگ کی ہدایت کے‬
‫مطابق ( بڑی مشکل کے ساتھ) اپنی نظروں پر کنٹرول کرتے ہوئے‬
‫۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہاتھ مالنے لگا۔ رسمی علیک سلیک کے بعد وہ‬
‫قیامت گفٹس اُٹھائے واپس چلی گئی ۔۔۔اس کے جاتے ہی عدیل نے‬
‫میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا کہ کیسی لگی بھابھی؟ تو میں‬
‫نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بڑی کیوٹ ہے اس کی کوئی دوسری‬
‫بہن نہیں ہے؟ میری بات سن کر عدیل نے ایک زبردست سا فرمائشی‬
‫قہقہہ لگایا اور پھر کہنے لگا۔۔۔۔ بہن تو نہیں۔۔۔البتہ اس کی ایک کز ن‬
‫ہے جو کہ اس سے بھی زیادہ خوب صورت اور سیکسی ہے ۔۔۔۔‬
‫لیکن اس کے لیئے تمہیں اسٹیٹس (امریکہ) جانا پڑے گا ۔۔۔ اور پھر‬
‫ہنسنے لگا ۔۔۔ عدیل کی بات سن کر میں بھی اس کی ہنسی میں‬
‫شریک ہو گیا۔۔۔۔ اور پھر اس سے بوال یار یہ تو بتاؤ کہ تم نے‬
‫بھابھی کا اسالمی نام کیا رکھا ہے؟ تو آگے سے وہ جواب دیتے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔ کہ شادی سے قبل اس کا نام ماریا جوزف تھا چونکہ‬
‫ہمارے ہاں بھی ماریا نام چلتا ہے اس لیئے امی کے کہنے پر میں‬
‫نے اس کا نام تبدیل نہیں کیا ۔۔۔۔ہاں تم اسے ماریا عدیل کہہ سکتے‬
‫ہو۔اس کے بعد اس نے مجھے بیٹھنے کو کہا۔۔۔۔۔اور ہم ادھر ادھر کی‬
‫باتیں کرنے لگے ۔‬

‫باتیں کرتے ہوئے ابھی ہمیں کچھ دیر ہی گزری تھی کہ ایک بار پھر‬
‫وہی خاتون جو کہ عدیل کی والدہ تھی ڈرائینگ روم میں داخل ہوئیں‬
‫اور ہمیں مخاطب کرتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ لنچ تیار ہے آ جاؤ۔۔۔‬
‫کھانے کی میز پر ایک طرف میں اکیال ۔۔۔ جبکہ میرے سامنے والی‬
‫کرسیوں پر عدیل اور اس کی بیگم اور ان کے ساتھ عدیل کی والدہ‬
‫بیٹھی تھیں۔ کھانے کھاتے ہوئے بھی ہم سب ادھر ادھر کی باتیں‬
‫کرتے رہے تھے لیکن پتہ نہیں کیوں ماریا میم مطلب ہے ۔۔۔مسز‬
‫عدیل نے ایک لفظ بھی نہیں بوال۔۔۔ لیکن وہ ہماری خاص کر میری‬
‫اور عدیل کی گفتگو بڑی دل چسپی کے ساتھ سن رہی تھی ۔ اسی‬
‫دوران عدیل کی امی نے میری طرف دیکھا ۔۔۔ اور پھر کہنے لگی۔‬
‫بیٹا جی! آپ کام کیا کرتے ہو؟ تو جب میں نے انہیں اپنے ڈیپارٹمنٹ‬
‫کا نام بتایا تو ۔۔۔۔۔ میرے محکمے کا نام سن کر وہ ایک دم سے‬
‫ٹھٹھک گئی۔۔۔ اور پھر فورا ً ہی اگال سوال داغتے ہوئے بولیں کہ آپ‬
‫وہاں کس پوسٹ پر کام کرتے ہو؟ اور جب میں نے انہیں اپنے عہدے‬
‫کے بارے میں بتایا۔۔ تو آنٹی کے ساتھ ساتھ عدیل بھی چونک کر‬
‫بوال۔اوئے تیری خیر!!۔۔۔ تیری جاب تو بڑی زبردست ہے یار ۔۔۔۔۔اس‬
‫کے بعد وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی پُر اسرار لہجے میں‬
‫کہنے لگا۔۔ ۔۔۔ تیرا تو سر بھی کڑاھی میں ہو گا دوست۔ اس کی بات‬
‫سن کر میں نے ایک پھیکی سی مسکراہٹ کے ساتھ اس کی طرف‬
‫دیکھا اور بوال ۔۔ ایسی کوئی بات نہیں ہے یار۔۔۔۔۔۔یہاں پر میں عدیل‬
‫اور اس کی فیملی کے بارے میں تھوڑی سی وضاحت کر دوں کہ یہ‬
‫لوگ ایک دم ظاہر دار مطلب یہ کہ سخت قسم کے دنیا دار اور کھلے‬
‫ماحول کے لوگ تھے اور خاص کر اس کی امی کے بارے میں‬
‫مشہور تھا کہ وہ محلے میں لوگوں کی حثیت دیکھ کر دوستی لگایا‬
‫کرتی تھیں ۔۔ یہی حال عدیل کا بھی تھا وہ بھی ہمیشہ کالس کے‬
‫کھاتے پیتے اور امیر قسم کے لڑکوں کے ساتھ دوستی لگایا کرتا‬
‫پیش نظر اس نے‬ ‫تھا۔۔۔۔ اسی لیئے تو ہماری کمزور مالی حالت کے ِ‬
‫کبھی بھی میرے ساتھ گہری دوستی رکھنے کی کوئی کوشش نہ کی‬
‫تھی۔ ہاں دوستوں کا سیم گروپ ہونے کی وجہ سے اس کی میرے‬
‫ساتھ بس اچھی ہیلو ہائے تھی اس کے عالوہ اس نے کبھی بھی‬
‫مجھے کوئی خاص لفٹ نہ کرائی تھی اور اس کی انہی حرکتوں کے‬
‫پیش نظر ۔۔۔۔ میں نے خود بھی اس کے قریب ہونے کی کبھی کوشش‬ ‫ِ‬
‫نہ کی تھی۔۔۔۔ ہاں تو دوستو!!!۔۔۔ میں کہہ رہا تھا کہ جیسے ہی میں‬
‫نے ان کو اپنے محکمے اور ۔۔۔ عہدے کے بارے میں بتالیا تو میری‬
‫بات سنتے ہی ماں بیٹے کی آنکھوں میں واضع طور پر ایک چمک‬
‫سی آ گئی تھی اور پھر اس کے بعد میں نے صاف طور پر محسوس‬
‫کیا کہ میرے سٹیٹس کو جان کر ۔۔۔ ان کے رویے میں پہلے سے بھی‬
‫زیادہ گرمجوشی آ گئی تھی …… ادھر عدیل کی والدہ کافی دیر تک‬
‫مجھے ستائیشی نظروں سے دیکھتی رہیں۔۔۔ پھر اچانک ہی کہنے‬
‫لگی۔۔‪ ..‬۔ بیٹا آج تو تم اکیلے آئے ہو ۔۔۔لیکن اگلی دفعہ جب بھی‬
‫ہمارے گھر آؤ۔۔۔۔تو اپنی بیگم کو ضرور ساتھ النا ۔۔۔۔آنٹی کی بات سن‬
‫کر میں نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور کہنے لگا ۔۔۔آپ کا حکم سر‬
‫آنکھوں پر آنٹی ۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ بیگم ہو گی تو ساتھ الؤں گا نا ۔۔ میری‬
‫بات سن کر وہ ایک دفعہ پھر چونک پڑیں ۔۔۔ اور میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔ اچھا تو یہ بتاؤ۔۔۔ کہ کہیں منگنی وغیرہ‬
‫بھی ہوئی ہے؟ تو ان کی بات سن کر ۔۔۔۔ ایک دفعہ پھر میں نے‬
‫ٹھنڈی سانس بھری اور ان سے بوال۔ ۔ نہیں آنٹی جی میری منگنی تو‬
‫کیا ۔۔۔ اس بارے میں کہیں بات چیت بھی نہیں چل رہی ۔ میری بات‬
‫سن کر وہ حیرت بھرے لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔ کمال ہے بیٹا !!!!۔۔۔‬
‫تم اتنی اچھی پوسٹ پر فائز ہو اور ۔۔۔کہیں رشتے وغیرہ کی کوئی‬
‫بات چیت بھی نہیں چل رہی ؟؟؟؟؟؟ ان کی بات سن کر میں نے ایسے‬
‫ہی کہہ دیا کہ ۔۔ چھوڑیں آنٹی میرے ہاتھ میں شادی والی لکیر ہی‬
‫نہیں ہے ۔ پھر اس کے بعد اسی ٹاپک پر ہماری گفتگو ہوتی رہی ۔۔‬
‫کھانا کھانے کے کچھ دیر بعد میں نے ان سے اجازت لی اور گھر‬
‫چال آیا۔‬

‫یہ اس سے اگلے دن بعد کی بات ہے کہ میں اپنے کمرے میں بیٹھا‬


‫چائے پی رہا تھا کہ آفس کے مین گیٹ سے گارڈ نے انٹر کام کیا کہ‬
‫سر کوئی عدیل نام کا بندہ آپ سے ملنا چاہ رہا ہے ۔۔۔ اسے اندر بھیج‬
‫دوں؟ ۔۔۔ یا اسے گولی دینی ہے؟ عدیل کا نام سن کر میں نے اسے‬
‫کہا کہ نہیں یار یہ گولی واال بندہ نہیں ہے۔۔۔۔اس لیئے اسے میرے‬
‫کمرے میں لے آؤ ۔ کچھ دیر بعد گارڈ کے ساتھ عدیل کمرے میں‬
‫داخل ہوا اور رسمی علیک سلیک کے بعد ۔۔۔ مجھ سے گلہ کرتے‬
‫ہوئے بوال کہ تم کہاں مر گئے تھے ۔۔۔ ماما تمہارا بہت پوچھ رہیں‬
‫ہیں ۔۔۔پھر کہنے لگا کہ۔۔ آج تم لنچ پر بھی نہیں آئے۔۔۔ تو میں نے اس‬
‫کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ بس یار آفس میں کچھ ایسے کام پیش آ‬
‫گئے تھے کہ میں تمہاری طرف چکر نہ لگا سکا۔۔۔۔ تو اس پر وہ‬
‫مجھ سے کہنے لگا کہ ابھی تو فری ہو نا اس لیئے میرے ساتھ چلو‬
‫کہ ۔۔۔ تم کو ماما بال رہی ہیں۔۔۔ ماما کا نام سن کر میں دل ہی دل ۔۔‬
‫میں ٹھٹھکا۔۔۔۔ لیکن اس پر کچھ ظاہر نہیں ہونے دیا۔۔۔۔۔ اور اس کے‬
‫ساتھ اگلے دن آنے کا وعدہ کر لیا۔ لیکن اس کے باوجود بھی عدیل‬
‫نے میری جان نہیں چھوڑی اور ۔۔ کہنے لگا ایسا کرو گھر کل آ‬
‫جانا۔۔۔۔ لیکن ابھی میرے ساتھ باہر چلو یار ۔۔کہیں باہر چل کر گپ‬
‫شپ کرتے ہیں کہ گھر میں پڑے پڑے میں کافی بور ہو گیا ہوں۔۔۔‬
‫اس کی بات سن کر میں نے اس سے کہا چل پھر ۔۔۔۔۔۔میں تجھے‬
‫کسی اچھے ریسٹورنٹ میں کھانا کھالتا ہوں تو آگے سے وہ جواب‬
‫دیتے ہوئے بوال کہ سوری یار میں ابھی ابھی لنچ کر کے تمہاری‬
‫طرف آ رہا ہوں ۔۔۔ ہاں تیرے ساتھ چائے پی لوں گا۔۔ چنانچہ میں‬
‫عدیل کو ساتھ لے کر شہر کے ایک مشہور ریسٹورنٹ میں آ گیا اور‬
‫چائے کے ساتھ دیگر لوازمات کا آڈر دیتے میں نے اس سے کہا سنا‬
‫یار امریکہ کیسا لگا؟ اسی دوران اچانک ہی میرے ذہن میں ایک‬
‫خیال آیا ۔۔۔۔۔اور میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بڑے اشتیاق سے‬
‫بوال۔۔۔۔ امریکہ کی بنڈ مار ۔۔ تو مجھے یہ بتا کہ وہاں جا کر سب سے‬
‫پہلے کس گوری کی پھدی ماری تھی اور کیسے؟؟؟۔ میری بات سن‬
‫کر وہ ہنستے ہوئے بوال۔۔۔۔۔ آ گیا نا اپنی اوقات پر۔۔ تو آگے سے میں‬
‫بھی دانت نکالتے ہوئے بوال ۔۔۔ کہ تم اچھی طرح سے جانتے ہو کہ‬
‫مجھے سیکس سٹوریز سننے کا کتنا شوق ہے اس لیئے اب زیادہ‬
‫نخرہ نہ کر اور مجھے تفصیل سے بتا کہ امریکہ جا کر سب سے‬
‫پہلے کس گوری کو کیوں اور کیسے چودا ۔۔۔۔ اور ساتھ نمک مرچ‬
‫لگا کر یہ بھی بتا کہ تم نے اسے چودنے کے لیئے راضی کیسے کیا‬
‫تھا ؟ میری بات سن کر عدیل ایک دم سیریس ہو تے ہوئے بوال۔۔‬
‫تمہاری اطالع کے لیئے عرض ہے کہ امریکہ جا کر میں نے سب‬
‫سے پہلے کسی گوری کی نہیں بلکہ ایک دیسی کی چوت ماری تھی۔‬
‫عدیل کی بات سن کر میں آنکھیں نکالتے ہوئے اس سے بوال ۔۔ ایسے‬
‫نہیں بھائی صاحب پوری تفصیل بتاؤ ۔۔پھر اپنے لہجے پر زور دیتے‬
‫ہوئے بوال۔۔ایک ایک چیز کی تفصیل معہ نمک مرچ۔۔۔۔۔ میری بات‬
‫سن کر اس نے بڑی عجیب سی نظروں سے میری طرف دیکھا ۔۔۔‬
‫اس کی آنکھوں میں واضع طور پر کشمکش کے آثار نظر آ رہے‬
‫تھے۔ لکن پھر چند سیکنڈز سوچنے کے بعد اچانک ہی وہ کہنے‬
‫لگا۔۔گو کہ میری سٹوری میں ایک آدھ پردہ نشین کا نام بھی آئے گا ۔‬
‫۔لیکن تو بھی کیا یاد کرے گا سالے ۔۔۔ آج میں تمہیں امریکہ میں پہلی‬
‫پھدی مارنے اور اس سے جڑی ایک ایک بات تفصیل بتا ؤں گا اور‬
‫میری جان یہ تفصیل اتنی گرم ہو گی کہ آج کی رات تمہیں سٹوری‬
‫بنا کر ُمٹھ مارنے کی ضرورت نہیں پڑے گی۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی‬
‫اس نے کرسی میری طرف کھسکائی اور پھر وہ میری آنکھوں میں‬
‫آنکھیں ڈال کر کہنے لگا۔‬

‫شاہ جی شاید تمہیں معلوم نہیں کہ میرے سگے ماموں امریکہ میں‬
‫ہوتے ہیں اور انہی کی سپانسر کی وجہ سے میں امریکہ گیا تھا۔۔۔‬
‫اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ۔۔۔ یہ ان دونوں کی بات ہے کہ جب‬
‫میٹرک کے پیپرز کے لیئے ڈیٹ شیٹ ایشو ہو گئی تھی اور ہمارے‬
‫سارے دوست پیپرز کی تیاری کر رہے تھے مجھے آج بھی اچھی‬
‫طرح سے یاد ہے کہ ڈیٹ شیٹ کے مطابق پہال پرچہ انگریزی کا تھا‬
‫لیکن میں انگریزی کا پرچہ دینے کی بجائے ۔۔۔۔ انگریزی بولنے‬
‫والوں کے دیس امریکہ جا رہا تھا ان دونوں چونکہ سارے دوست‬
‫انگریزی کے پرچے کی تیاریاں کر رہے تھے اس لیئے پاکستان‬
‫سے جاتے ہوئے میں اپنے دوستوں سے الوداعی مالقات بھی نہیں‬
‫کر سکا۔۔۔ اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ جس دن تم لوگ کمرہ ء‬
‫بوٹی مانگ رہے تھے عین‬ ‫امتحان میں بیٹھ کر ایک دوسرے سے ُ‬
‫اس وقت میں ۔۔۔۔آنکھوں میں گوریوں کے خواب سجائے جہاز میں‬
‫بیٹھا ۔۔امریکہ کے لیئے روانہ ہو رہا تھا ۔۔۔جے ایف کے ائیرپورٹ‬
‫پر مجھے لینے کے لیئے ماموں اور ممانی دونوں آئے ہوئے تھے۔۔‬
‫یہ لوگ نیو یارک کے مشہور انڈو پاک ایریا کوئین میں رہتے تھے‬
‫جو کہ جے ایف کے ائیر پورٹ سے بیس پچیس منٹ کی ڈرائیو پر‬
‫واقع تھا ان کی رہائیش کرونا پارک سے کچھ فاصلے پر واقعہ تھی‬
‫یہاں پر میں تم سے اپنے ماموں اور ممانی کا تعارف کرو ا دوں‬
‫میرے ماموں کا نام حماد سلطان اور ممانی کا نام ندرت سلطان تھا‬
‫جس وقت کی میں بات کر رہا ہوں اس وقت ممانی کی عمر ‪32 ،30‬‬
‫جبکہ میرے ماموں ‪40‬۔‪ 42‬کے ہوں گے اور وہ ابھی تک بے اوالد‬
‫تھے۔۔۔امریکہ پہنچ کر ماموں اور ممانی نے میری بڑی آؤ بھگت کی‬
‫۔ اور خاص کر ممانی نے مجھے نیو یارک سٹی میں کافی گھمایا‬
‫پھرایا اس دوران میں نے ان سے کہا بھی کہ مجھے کہیں کام پر‬
‫لگوا دیں لیکن وہ جواب دیتیں کہ تمہاری ماں کیا کہے گی کہ منڈے‬
‫کو آتے ساتھ ہی کام پر لگا دیا۔۔۔ اس لیئے تھوڑا گھوم پھر لو تھوڑا‬
‫ریسٹ کر لو کہ اس کے بعد تم نے ساری عمر کام ہی کرنا ہے ۔ ہاں‬
‫تو میں کہہ رہا تھا کہ ماموں جہاں رہتے تھے وہ ایک چھوٹا سا دو‬
‫منزلہ مکان تھا۔۔ ان کے چھوٹے سے اپارٹمنٹ میں دو ہی کمرے‬
‫تھے ایک میں ماموں لوگ سوتے تھے ۔۔۔۔ جبکہ دوسرا کمرہ انہوں‬
‫نے مجھے دے دیا تھا۔ ماموں اور ممانی دونوں ہی الگ الگ سٹورز‬
‫میں مالزمت کرتے تھے لیکن یہ سٹور ایک ہی مالک کا تھا جس کا‬
‫نام جے پرکاش نارائن تھا اور وہ انڈیا (دہلی) کا رہنے واال ایک‬
‫پنجابی ہندو تھا اور مزے کی بات یہ ہے کہ میرے ماموں لوگ جس‬
‫اپارٹمنٹ میں بطور کرایہ دار رہتے تھے وہ بھی اسی ہندو مالک کی‬
‫مالکیت تھا نچلے والے پورشن میں وہ خود جبکہ اوپر والے پورشن‬
‫میں ماموں لوگ رہتے تھے ۔‬
‫اور اس گھر کی بناوٹ کچھ ایسی تھی کہ اس کا مین گیٹ ایک ہی‬
‫تھا جبکہ اس کی اوپر والی منزل کی سیڑھیاں صحن سے ہو کر‬
‫گزرتی تھیں۔۔ ۔۔ اتنی بات کرنے کے بعد عدیل ایک لمحے کے لیئے‬
‫جھجھکا لیکن اگلے ہی لمحے اسی روانی کے ساتھ کہنے لگا کہ شاہ‬
‫جی جیسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ شروع سے ہی ہمارے گھر کا‬
‫ماحول عام گھروں کی نسبت تھوڑا کھال تھا لیکن جہاں تک ممانی‬
‫لوگوں کا تعلق ہے تو یقین کرو خود ممانی اور ان کی فیملی کے باقی‬
‫لوگ اچھے خاصے مذہبی واقعہ ہوئے تھے۔۔۔ مجھے اچھی طرح‬
‫سے یاد ہے کہ اس زمانے میں ممانی اور ان کی باقی بہنیں وغیرہ‬
‫پردہ کیا کرتی تھیں اور برقعہ کے بغیر وہ کہیں بھی آتی جاتی نہ‬
‫تھیں۔۔۔ لیکن جب میں امریکہ پہنچا تو ۔۔۔۔ خاص کر ممانی کے چال‬
‫چلن دیکھ کر میں تو حیران ہی رہ گیا۔۔کہاں کہ وہ پردے کے بغیر‬
‫گھر سے باہر ایک قدم بھی نہ رکھتی تھیں۔۔۔۔ اور کہاں یہ کہ۔۔۔پردہ‬
‫تو درکنار ۔۔ جس قسم کے لباس میں ۔۔۔۔۔۔ میں نے ان کو دیکھا تھا ۔۔‬
‫یقین کرو میں حیران بلکہ کافی حد تک پریشان ہو گیا تھا۔۔۔کیونکہ وہ‬
‫بہت بولڈ ۔۔۔ بلکہ ان کی فیملی کے حساب سے اچھا خاصہ قاب ِل‬
‫اعتراض تھا ۔پھر کہنے لگا کہ امریکہ کی کھلی ڈھلی سوسائٹی نے‬
‫ممانی کو پوری طرح اپنے رنگ میں رنگ لیا تھا ۔۔۔ یہ امریکہ کی‬
‫آذاد فضاؤں کا اثر تھا یا کیا تھا کہ وہ گھر میں ہمیشہ ہی ایک ڈھیلی‬
‫ڈھالی (بٹنوں والی ) شرٹ اور نیچے ٹائیٹس ( تنگ پجامی) پہنا کرتی‬
‫تھی اور یہ ٹائیٹس اتنی زیادہ ٹائیٹ ہوا کرتی تھی کہ جس کی وجہ‬
‫سے ان کے نچلے جسم کے ایک ایک عضو کا ماپ کیا جا سکتا تھا۔‬
‫اس کے عالوہ عام حاالت میں بھی وہ کافی بولڈ قسم کا لباس پہنتی‬
‫تھیں جو کہ شروع شروع میں تو مجھے بڑا عجیب۔۔۔ بلکہ شر انگیز‬
‫لگا لیکن پھر آہستہ آہستہ ماموں کی طرح میں بھی اس کا عادی ہو‬
‫گیا تھا۔‬

‫اتنی بات کرنے کے بعد عدیل نے اپنی کرسی کو تھوڑا مزید آگے‬
‫کی طرف کھسکایا اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا کہ ایک‬
‫رات کی بات ہے کہ میں اپنے کمرے میں مست سو رہا تھا کہ‬
‫اچانک کسی وجہ سے میری آنکھ کھل گئی۔۔ کچھ دیر تک تو میں‬
‫یونہی پلنگ پر لیٹا۔۔۔ کروٹیں بدلتا رہا پھر اچانک میرے کانوں میں‬
‫سیکس بھری چیخ سنائی دی۔۔۔ بلیو مویز دیکھ دیکھ کر اتنا تو میں‬
‫جان ہی گیا تھا کہ لڑکیوں کے منہ سے اس قسم کی چیخیں سیکس‬
‫کے دوران ہی نکلتی ہیں اس لیئے جب ویسی ہی چیخ کی آ واز‬
‫مجھے دوبارہ سنائی دی تو میں یہ سوچ کر لیٹا رہا کہ ۔۔۔۔۔ماموں اور‬
‫ممانی سیکس انجوائے کر رہے ہوں گے۔۔۔ لیکن پھر کچھ دیر بعد۔۔۔۔‬
‫پھر ان لزت بھری چیخوں میں تھوڑی شدت آ گئی ۔ اور ان سیکسی‬
‫آوازوں کو سنتے ہوئے اچانک ہی مجھے یاد آ گیا کہ ماموں کی تو‬
‫آج نائیٹ ہے یہ خیال آتے ہی میں نے اپنے بیڈ سے چھالنگ لگائی‬
‫اور دبے پاؤں چلتا ہوا کمرے سے باہر نکل گیا ۔۔۔اور پھر کان لگا‬
‫کر ندرت مامی کے کمرے کی طرف دیکھنے لگا۔ عین اسی وقت‬
‫جب میرے کان ان کے کمرے کی طرف لگے ہوئے تھے۔۔۔۔اچانک‬
‫مجھے ندرت مامی کی ایک زوردار مگر لزت بھری چیخ سنائی‬
‫دی۔۔۔۔ میں نے غور کیا تو یہ آواز گیلری کی طرف سے آ رہی‬
‫تھی۔۔۔چنانچہ میں بھاگ کر گیلری کی طرف گیا ۔۔۔ اور گیلری سے‬
‫نیچے کی سمت دیکھنے لگا کہ جس طرف سے ممانی کی مست‬
‫سسکیوں کی آواز یں سنائی دے رہی تھیں۔۔‬

‫کیا دیکھتا ہوں کہ ندرت مامی نے اپنے دونوں ہاتھ سیڑھیوں کی‬
‫ریلنگ پر رکھے ہوئے تھے ان کی ٹائیٹس پاؤں میں ۔۔جبکہ ان کی‬
‫بڑی سی گانڈ پیچھے کو نکلی ہوئی تھی۔۔ ۔۔ ممانی کے عین پیچھے‬
‫نارائن صاحب کھڑے تھے ان کی بھی نیکر اتری ہوئی تھی اور وہ‬
‫بے خودی کے عالم میں دھکے مار رہے تھے۔ چونکہ اس وقت‬
‫دونوں کی پیٹھ میری طرف تھی اس لیئے مجھے یہ معلوم نہ ہو سکا‬
‫کہ آیا نارائین صاحب مامی کی مست گانڈ بجا رہے تھے۔۔۔۔ یا کہ ان‬
‫کا لن مامی کی چوت میں آ جا رہا تھا۔دونوں ہی بڑے زور و شور‬
‫کے ساتھ چدائی میں مصروف تھے نارائن صاحب کا تو مجھے پتہ‬
‫نہیں ۔۔۔۔البتہ ممانی اس فکنگ کو بڑا انجوائے کر رہی تھی اس کا‬
‫واضع ثبوت وہ لزت بھری چیخیں تھیں۔۔ جو کہ ۔۔۔۔۔۔۔ ان کے منہ سے‬
‫مسلسل نکل رہیں تھیں۔۔۔۔ مامی کو ایک غیر مرد اور وہ بھی ہندو‬
‫سے چدواتے دیکھ کر مجھے غصہ تو بڑا آیا۔ لیکن میں بوجہ گیلری‬
‫میں ُچپ چاپ کھڑا ان کا تماشہ دیکھتا رہا ۔۔ ادھر نارائن صاحب نے‬
‫گھسے مارتے ہوئے اچانک ہی مامی کی گانڈ کو ایک مخصوص‬
‫انداز سے تھپ تھپانا شروع کر دیا۔ اور پھر یہ دیکھ میں کر حیران‬
‫رہ گیا کہ جیسے ہی نارائن صاحب نے ممانی کی موٹی گانڈ کو تھپ‬
‫تھپایا ۔۔۔۔تو اسی وقت ممانی نے تیزی کے ساتھ اپنی چوت یا گانڈ میں‬
‫لیا لن باہر نکاال اور پھر اسی رفتار سے گھوم کر ۔۔۔۔۔ نارائن صاحب‬
‫کے سامنے اکڑوں بیٹھ گئی۔۔ اور ان کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ‬
‫کر بڑی بے تابی کے ساتھ چوسنا شروع کر دیا۔۔ ابھی ممانی نے تین‬
‫چار چوپے ہی لگائے ہوں گے۔۔۔ کہ اچانک نارائن صاحب کے منہ‬
‫سے "اوہ ' اوہ" کی ایک پُر لطف سی آواز نکلی۔۔۔ اور اس کے ساتھ‬
‫ہی ان کا جسم کانپا۔۔۔۔اور پھر وہ جھٹکے مار مار کے۔۔۔۔۔۔ ممانی کے‬
‫منہ میں ہی چھوٹنا شروع ہو گئے۔۔۔۔ اور اس وقت میری حیرت کی‬
‫کوئی انتہا نہ رہی کہ جب ممانی نارائن صاحب کے لن کو آخری‬
‫قطرہ تک چوستی رہی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اور ۔۔۔پھر پتہ نہیں انہوں نے اپنے منہ‬
‫میں رکھی نارائن صاحب کی منی کا گھونٹ بھرا یا نہیں ۔۔۔۔۔ البتہ‬
‫جیسے ہی ان کے لن سے منی نکلنا بند ہوئی ممانی پھرتی سے اوپر‬
‫اُٹھی۔۔۔۔اور اس کے باوجود بھی کہ اس وقت ممانی کا منہ اس ہندو‬
‫نارائن کی منی سے بھرا ہوا تھا۔۔۔ انہوں نے نارائن کے منہ میں منہ‬
‫ڈال دیا ۔۔۔۔۔۔۔اور ایک طویل کسنگ کی ۔ میں دم سادھے یہ سارا منظر‬
‫دیکھتا رہا ۔۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی ان کی طویل کسنگ ختم ہوئی۔۔۔ نارائن‬
‫صاحب نے اپنی نیکر پہنی۔۔۔۔ اور واپس کمرے میں چلے گئے ۔۔۔عین‬
‫اسی وقت ممانی کی نظر یں اوپر گیلری میں پڑ گئی کہ جہاں پر میں‬
‫کھڑا یہ تماشہ دیکھ رہا تھا مجھے۔۔۔۔ یوں کھڑا دیکھ کر وہ ایک دم‬
‫سے چونک گئی۔۔۔ ۔۔۔لیکن ۔۔۔ کوئی خاص رسپانس نہ دیا ۔۔۔اسی‬
‫دوران میں بھی ۔۔۔۔۔ واپس اپنے کمرے میں آ گیا ممانی کو ایک ہندو‬
‫کے ساتھ سیکس کرتے دیکھ کر میرے تن بدن میں آگ لگی ہوئی‬
‫تھی۔۔۔اسی لیئے کمرے میں آ کر میں اسی غصے کے عالم میں ٹہلنا‬
‫شروع ہو گیا ۔۔۔ ۔۔‬
‫ابھی مجھے کمرے میں ٹہلتے ہوئے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ‬
‫اچانک ندرت ممانی کمرے میں داخل ہوئی ۔۔ان کی آنکھوں سے‬
‫شعلے برس رہے تھے ۔۔۔‬

‫کمرے میں داخل ہوتے ہی انہوں نے میری طرف دیکھا اور پھر‬
‫بڑے ہی ترش لہجے میں کہنے لگی۔۔۔ تم گیلری میں کھڑے کیا کر‬
‫رہے تھے؟ پھر غصے میں پھنکارتے ہوئے بولی۔۔۔ ایسی حرکت‬
‫کرتے ہوئے ۔۔۔۔تمہیں شرم نہیں آتی۔۔ میں جو کہ پہلے ہی بھرا بیٹھا‬
‫تھا نے ترنت جواب دیتے ہوئے کہا کہ شرم مجھے نہیں بلکہ آپ کو‬
‫آنی چایئے ۔۔۔۔ کہ جو ماموں کے ہوتے ہوئے کسی غیر مرد ۔۔۔ اور‬
‫وہ بھی ایک ہندو کے ساتھ ایسا گندہ کام کر رہی تھی۔۔۔ میری بات‬
‫سن کر ممانی غصے میں آگ بگولہ ہو گئی چنانچہ وہ تیزی سے‬
‫آگے بڑھیں اور مجھے گریبان سے پکڑ کر پھنکارتے ہوئے بولی ۔۔۔‬
‫میں کسی ہندو کے ساتھ سیکس کروں یا عیسائی کے ساتھ تمہیں اس‬
‫سے مطلب؟ تو اس پر میں نے بھی ترک بہ ترکی جواب دیتے ہوئے‬
‫کہا کہ ماموں کو آنے لینے دو میں ان کو بتاؤں گا کہ ان کے پیچھے‬
‫آپ کس کس کے ساتھ گل چھرے اُڑاتی رہتی ہو ۔۔۔ میری بات سنتے‬
‫ہی ممانی کے چہرے کا رنگ اُڑ گیا ۔۔۔ اور وہ میری طرف دیکھتے‬
‫ہوئے بظاہر بولڈ ۔۔۔۔ لیکن نیم خوف ذدہ ۔۔ لہجے میں کہنے لگیں ۔۔تت‬
‫تم ایسا نہیں کر سکتے۔۔۔۔۔پھر وہ بھپرے ہوئے لہجے میں بولیں۔۔۔۔‬
‫کان کھول کر سن لو مسڑ عدیل ۔۔۔میرے بارے میں اگر تم نے ایک‬
‫لفظ بھی اپنے ماموں سے کہا تو یاد رکھو میرے ساتھ تو جو ہو گا‬
‫۔۔۔۔سو ہوگا ۔۔۔لیکن اس کے بعد میں تم کو بھی ادھر نہیں رہنے دوں‬
‫گی۔۔بلکہ تمہیں اسی ماموں سے دھکے دے دے کر یہاں سے نہ‬
‫نکلوایا تو میرا نام بھی ندرت نہیں۔۔۔ اس کے فورا ً بعد وہ مجھ سے‬
‫مخاطب ہو کر بڑے ہی سرد لہجے میں کہنے لگیں ۔۔۔ سنو مسٹر!!۔۔‬
‫میں تمہیں آج رات کی مہلت دیتی اگر تم نے یہاں رہنا ہے تو جیسے‬
‫میں چاہوں گی تمہیں ویسے ہی رہنا پڑے گا ۔۔ ورنہ یاد رکھو‬
‫!!!!!!!!۔۔۔۔۔ میری یہاں اتنی واقفیت ہے کہ میں تم پر پولیس کیس بنوا‬
‫کر تمہیں ڈی پورٹ کروا دوں گی ۔۔۔۔۔۔ اتنی بات کر کے ممانی تو‬
‫پاؤں پٹختی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔ جبکہ ادھر میرا غصے کے‬
‫مارے برا حال ہو رہا تھا ۔۔ اگر اس وقت میرے پاس ماموں کا سیل‬
‫نمبر ہوتا تو میں نے اسی وقت ان کو فون کر کے مامی کے سارے‬
‫کرتوت بتا دینے تھے۔۔لیکن شکر ہے کہ میرے پاس ان کا فون نمبر‬
‫نہ تھا۔۔۔۔ لیکن دوسری طرف یہ بھی حقیقت تھی کہ پولیس کا نام سن‬
‫کر اندر سے میں بھی ڈر گیا تھا۔۔۔چنانچہ میں غصے کے عالم میں‬
‫۔۔۔۔ ٹہلتا رہا۔۔۔۔اور ممانی اور خاص کر اس کی دھمکیوں کے بارے‬
‫میں سوچتا رہا۔۔۔ اسی دوران سوچتے سوچتے ۔۔۔۔ جب میرا غصہ‬
‫کچھ کم ہوا ۔۔۔۔ تو مجھے ممانی کی پولیس اور ماموں کے ہاتھوں‬
‫دھکے دے کر نکلوانے کی دھمکی یاد آ گئی۔۔ اور میں یہ بات بھی‬
‫اچھی طرح سے جانتا تھا کہ میرے ماموں پوری طرح سے۔۔۔اس‬
‫چڑیل کے قبضے میں تھے۔ پھر میں نے سوچا کہ ماموں تو اس قدر‬
‫مامی کے نیچے لگے ہوئے ہیں کہ اگر انہوں نے میری بات کا یقین‬
‫نہ کیا تو ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔ اس سے آگے میں نہ سوچ سکا۔۔۔ اور پھر‬
‫آہستہ آہستہ میں اندیشہ ہائے دور دراز میں گھرنے لگا۔۔۔ کہ اگر‬
‫ماموں نے میری بات نہ مانی۔۔۔۔اور ثبوت النے کو کہا ۔۔۔ تو؟؟؟؟ یا‬
‫اگر اس حرافہ نے مجھے پولیس۔۔۔۔۔۔پولیس کا خیال آتے ہی مجھے‬
‫اپنا گھر بھی یاد آ گیا کہ جن کی قسمت سنوارنے کے لیئے میں‬
‫پڑھائی چھوڑ کر امریکہ میں آیا تھا اس کے بعد وہ اپنی بات کو‬
‫جاری رکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔‬

‫جیسا کہ تم جانتے ہو کہ جب میں یہاں سے گیا تھا تو اس وقت میرے‬


‫ابو ایک سرکاری دفتر میں ہیڈ کلرک کی پوسٹ پر تعینات تھے اور‬
‫مجھے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ ان کی تھوڑی سی تنخواہ میں‬
‫ہم لوگ بمشکل گزارا کیا کرتے تھے ۔ اور خاص کر۔۔۔ مہینے کے‬
‫آخر میں تو ہماری حالت بہت ہی زیادہ پتلی ہو جایا کرتی تھی جبکہ‬
‫اس کے برعکس میری امی کے باقی رشتے دار بڑے امیر اور‬
‫اچھے کھاتے پیتے لوگ تھے۔ اور ان رشتے داروں میں صرف امی‬
‫ہی غریب تھیں ۔۔ اور تمہیں تو معلوم ہی ہو گا کہ فیملی فنگشنز میں‬
‫امیر لوگوں کے ہاں ایک غریب رشتے دار کی کیا حالت ہوتی ہے‬
‫ایسے موقعوں پر بے چارہ غریب نہ گھر کا رہتا ہے نہ گھاٹ کا ۔۔‬
‫اور چونکہ ہم نے فیملی تقریبات میں ایسی ذلتیں بہت جھیلی تھی اسی‬
‫لیئے اس غربت کو دور کرنے کے لیئے امی نے بڑے ترلے منتوں‬
‫کے بعد مجھے امریکہ بجھوایا تھا اور آتے وقت بس ایک ہی بات‬
‫کہی تھی کہ امریکہ جا کر میں ڈھیر سارے پیسے کماؤں تا کہ وہ‬
‫بھی اپنی فیملی میں سر اُٹھا کر چل سکیں۔۔۔۔۔ چنانچہ امی کی اس‬
‫بات۔۔۔۔ اور گھر میں پھیلی ہوئی غربت کا خیال آتے ہی میں بلکل‬
‫ٹھنڈا پڑ گیا ۔۔۔اور سوچنے لگا کہ فرض کرو اگر میں ماموں کو اس‬
‫بارے میں بتا بھی دوں تو؟۔۔۔۔ اس کا مجھے کیا فائدہ ہو گا؟ بکہ اُلٹا‬
‫نقصان ہونے کا شدید خدشہ تھا۔۔۔۔ اور اس کی وجہ یہ تھی کہ میں‬
‫اچھی طرح سے جانتا تھا کہ اس کے بعد ممانی نے مجھے نہیں‬
‫چھوڑنا تھا۔۔۔اتنی بات کرنے کے بعد عدیل نے میری طرف دیکھا‬
‫اور پھر کہنے لگا یقین کرو شاہ۔۔۔ وہ رات میرے لیئے بہت کرب‬
‫والی رات تھا ۔۔۔ میں ساری رات اپنے کمرے میں ٹہلتے ہوئے سوچتا‬
‫رہا۔۔۔ اور پھر سوچ سوچ کر آخر میں اس نتیجے پر پہنچا کہ ۔۔۔۔ دریا‬
‫میں رہ کر مامی تو کیا۔۔۔۔ میں کسی بھی مگر مچھ سے بیر نہیں لوں‬
‫گا بلکہ اپنے کام سے کام رکھتے ہوئے بس ڈالر کماؤں گا ۔۔۔۔ ۔۔۔اس‬
‫لیئے ۔۔۔ مامی جائے بھاڑ میں۔۔۔۔ وہ کسی ہندو سے چدوائے یا کسی‬
‫کالے حبشی سے گانڈ مروائے۔۔۔۔۔۔۔ آئیندہ سے میں نے کسی پنگے‬
‫میں نہیں پڑنا ۔۔۔اور امی کی فرمائیش پر ڈھیر سارے ڈالر کمانے ہیں‬
‫تا کہ ہم لوگ بھی خاندان میں سر اُٹھا کر چل سکیں ۔ یہ فیصلہ کرنے‬
‫کے بعد میں بہت پرسکون ہو گیا۔۔۔۔اور پھر پلنگ پر جا کر لیٹتے ہی‬
‫سو گیا۔۔‬

‫رات گئے سونے کے باوجود بھی صبع سویرے میری آنکھ کھل‬
‫گئی۔۔ چنانچہ میں جلدی سے اُٹھا ۔۔۔ اور ہاتھ منہ دھوئے بغیر ہی‬
‫کمرے سے باہر نکل گیا دیکھا تو ماموں ابھی تک کام سے واپس‬
‫نہیں آئے تھے ۔۔۔ جبکہ ندرت مامی ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھی ناشتہ کر‬
‫رہی تھی ان کی حالت کو دیکھ کر صاف پتہ چل رہا تھا کہ میری‬
‫طرح انہوں نے بھی رات بہت ٹینشن میں گزاری تھی ۔ ۔۔۔ میں‬
‫جھجک کر چلتا ہوا ان کے پاس جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ ظاہر ہے کہ‬
‫میرے آنے سے وہ پوری طرح باخبر تھیں لیکن بظاہر بڑی بے‬
‫نیازی کے ساتھ ڈبل روٹی پر جیم لگا رہی تھیں۔لیکن ان کی اس بے‬
‫نیازی سے بھی ایک گہرا اضطراب ۔۔ جھلک رہا تھا ۔۔۔۔ میں کچھ‬
‫دیر یونہی کھڑا رہا ۔۔ اس دوران انہوں نے ایک نظر میری طرف‬
‫دیکھا اور پھر اسی بے نیازی ۔۔۔۔۔ لیکن اضطراری حالت میں ڈبل‬
‫روٹی پر جیم لگاتی رہیں ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے انہیں اپنی طرف‬
‫مخاطب کیا اور پھنسی پھنسی آواز میں بوال۔۔۔ ممانی جی آئی ایم‬
‫سوری !!۔۔ رات جو کچھ بھی ہوا ۔۔۔میں اس کے لیئے آپ سے معافی‬
‫چاہتا ہوں ۔۔۔ میں نے محسوس کیا کہ میرے معافی مانگنے کی بات‬
‫سن کر مامی چونک اٹھیں تھیں اور میری معافی والی بات سے ۔۔۔ ان‬
‫کے تنے ہوئے عضالت کافی ڈھیلے پڑ گئے تھے۔۔۔ لیکن بظاہر‬
‫انہوں نے مجھ پر کچھ بھی ظاہر نہیں کیا بلکہ میری طرف دیکھتے‬
‫ہوئے بڑے ہی طنز یہ لہجے میں کہنے لگیں ۔۔ رات کو تو تم کچھ‬
‫اور کہہ رہے تھے تو اس پر میں نے بڑی شرمندگی سے جواب‬
‫دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ مامی جی میں ۔۔۔۔رات والی بات پر ہی آپ سے‬
‫ایکسیوز کرنے آیا ہوں۔۔ اس لیئے پلیز مجھے معاف کر دیں۔۔۔ میں‬
‫وعدہ کرتا ہوں کہ آئیندہ سے آپ کے کسی بھی معاملے دخل اندازی‬
‫نہیں کروں گا ۔۔ میری بات سن کر مامی کے چہرے پر ایک‬
‫مخصوص قسم کی خبیث ۔۔۔۔لیکن فاتحانہ سی مسکراہٹ پھیل گئی۔۔اور‬
‫انہوں نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے میری طرف ہاتھ بڑھایا اور کہنے‬
‫لگیں ۔تم ٹھیک کہہ رہے ہو؟ تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بڑی شرمندگی سے ہاتھ بڑھاتے ہوئے جواب دیا کہ مامی جی میں‬
‫جو کہہ رہا ہوں خوب سوچ سمجھ کر کہہ رہا ہوں میری بات مکمل‬
‫ہوتے ہی مامی نے ایک گہری سانس لی ۔۔ اور پھر میرا ہاتھ پکڑتے‬
‫ہوئے کرسی سے اُٹھیں اور مجھے گلے سے لگاتے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔شاباش عدیل!!!!۔۔۔ ۔۔۔ اگر تم اپنی اس بات پر قائم رہے تو‬
‫فائدے میں رہو گے ورنہ!!!!!!! ۔۔۔ اپنے نقصان کے تم خود ذمہ دار‬
‫ہو گئے۔۔ پھر کچھ دیر بعد میرے ساتھ ان کا رویہ پہلے جیسا ہو گیا‬
‫بلکہ میں نے محسوس کیا کہ اس واقعہ کے بعد وہ میرے ساتھ پہلے‬
‫سے کچھ زیادہ فری ہو گئیں تھیں ۔۔ لیکن اس کے باوجود انہوں نے‬
‫کبھی بھولے سے بھی نارائن جی کے ساتھ ہونے والے اپنے افئیر کا‬
‫ذکر تک نہیں کیا تھا۔۔۔ ۔‬
‫لیکن پھر ایک دن کمال ہو گیا یہ اس واقعہ سے دو دن بعد کی بات‬
‫ہے اس دن ماموں کی نائیٹ تھی (وہ ہفتے میں ایک آدھ ہی نائیٹ‬
‫کرتے تھے)۔۔ڈنر کے کافی دیر بعد ۔۔۔۔ مامی میرے پاس آئی اس وقت‬
‫میں پلنگ پر لیٹا سونے کی کوشش کر رہا تھا۔۔۔۔۔ ۔۔۔انہوں نے‬
‫دروازے میں جھانک کر ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر بڑے‬
‫ہی ذُو معنی الفاظ میں بولی ۔۔۔ میں ذرا نیچے جا رہی ہوں ۔ مامی کے‬
‫منہ سے یہ بات سنتے ہی میرے سارے بدن میں ایک سنسنی سی‬
‫دوڑ گئی۔۔ اور میں یہ سوچ کر ایک دم سے گرم ہو گیا ۔۔۔۔۔ کہ میرے‬
‫بیڈ کے عین نیچے والے کمرے میں مامی اس ہندو نارائن سے‬
‫چدوانے جا رہی تھی۔ اور یہ خیال آنے کی دیر تھی کہ اچانک ہی‬
‫میرا لن تن کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔اور میں نے (بے اختیار ) اسے ہاتھ میں‬
‫پکڑ کر سہالنا شروع کر دیا۔۔۔۔ مامی کے جانے کے تھوڑی ہی دیر‬
‫بعد مجھے اپنی کھڑکی میں سے ( جو کہ اس وقت کھلی ہوئی تھی )‬
‫ایک تیز سسکی سنائی دی ۔۔۔۔اس سسکی کا سننا تھا کہ اچانک میرے‬
‫دل میں یہ زبردست خواہش جاگی کہ کیوں نہ مامی کا الئیؤ شو دیکھا‬
‫جائے۔۔۔ اس خواہش کا ذہن میں آنے کی دیر تھی کہ میں بے حد بے‬
‫چین ہو گیا ۔۔۔۔۔۔ میں نے اس خیال کو اپنے ذہن سے جھٹکنے کی‬
‫بڑی کوشش کی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن جوں جوں میں اسے اپنے ذہن سے‬
‫جھٹکنے کی کوشش کرتا ۔۔۔۔تُوں تُوں یہ خیال اتنی ہی شدت سے ابھر‬
‫کر ۔۔۔ میرے سامنے آ جاتا ۔۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس میں زیادہ‬
‫قصور مامی کا تھا جو کہ عین میری کھڑکی کے نیچے اونچی آواز‬
‫میں مست اور شہوانی سسکیاں بھر رہی تھیں جنہیں سن سن کر میں‬
‫پاگل ہوا جا رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر جب میری یہ خواہش حد سے زیادہ‬
‫آخر کار مجبور ہو کر میں اپنے پلنگ سے نیچے اترا‬ ‫بڑھ گئی۔۔۔۔تو ِ‬
‫۔۔۔اور بڑے محتاط طریقے سے چلتا ہوا ۔۔۔گیلری کی طرف بڑھ گیا۔۔۔‬
‫اس کے ساتھ ساتھ مجھے اس بات کا دھڑکا بھی لگا ہوا تھا کہ اگر‬
‫مامی نے مجھے ایسا کرتے ہوئے دیکھ لیا تو وہ میرے ساتھ بڑا برا‬
‫سلوک کرے گی۔۔ ۔لیکن اس کے باوجود بھی میں ا دھر ادھر دیکھتے‬
‫ہوئے۔۔۔۔۔دھیرے دھیرے سیڑھیاں اترنے لگا۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔جیسے جیسے میں سیڑھیاں اترتا گیا ویسے ویسے ۔۔۔ مامی کی‬
‫مست سسکیوں کی آواز یں اور بھی نمایاں ہونا شروع ہو گئیں۔۔۔جنہیں‬
‫سن سن کر میرا لن مزید تن گیا ۔۔ سیڑھیوں کے قریب ہی نارائن‬
‫صاحب کا کمرہ واقع تھا چنانچہ جیسے ہی میں آخری سیڑھی اترا‬
‫۔۔۔۔اور نارائن کے دروازے کی طرف دیکھا تو اس کے دونوں پٹ‬
‫پوری طرح سے کھلے ہوئے تھے ان لوگوں نے دروازہ بند کرنے‬
‫کی زحمت ہی نہیں گوارا کی تھی۔ یہ دیکھ کر میں خاصہ مایوس ہوا‬
‫۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ اب میں کیا کروں ؟ کہ۔۔۔ اسی اثنا میں‬
‫مامی کی شہوت سے بھر پور سسکی سنائی دی آؤؤؤچ چ چ چ۔۔‬
‫جسے سنتے ہی میرے لن کو ایک شدید جھٹکا لگا۔ عین اسی وقت‬
‫میرے ذہن میں اس کھڑکی کا خیال آ گیا جو کہ میری کھڑکی کے‬
‫بلکل نیچے واقع تھی یہ خیال آتے ہی میں بڑے ہی محتاط قدم اُٹھاتا‬
‫ہوا کمرے کے پچھلی طرف چل پڑا کہ جہاں پر یہ کھڑکی واقع تھی‬
‫توقع کے عین مطابق نارائن کے کمرے کی کھڑکی کھلی ہوئی تھی‬
‫۔۔۔ میں سر جھکا کر چلتا ہوا جا کر کھڑکی کے نیچے بیٹھ گیا کمرے‬
‫سے روشنی چھن چھن کر باہر آ رہی تھی چونکہ ان کی کھڑکی پر‬
‫جالی لگی ہوئی تھی ۔۔۔ اور ویسے بھی کمرے میں فل الئٹس آن تھیں‬
‫اس لیئے اندر سے باہر کا منظر دیکھے جانے کا کوئی احتمال نہ تھا‬
‫البتہ باہر سے اندر کا سارا منظر صاف نظر آ رہا تھا ۔۔۔۔تمام‬
‫سچوئیشن کا جائزہ لے کر میں نے ۔۔۔۔۔۔ دھیرے دھیرے ۔۔۔ لیکن بڑے‬
‫محتاط طریقے سے اپنا سر اُٹھایا ۔۔۔اور دھڑکتے دل کے ساتھ کھڑکی‬
‫کے ایک طرف کھڑا ہو گیا۔۔۔۔اس وقت میرا جسم پسینے میں شرابور‬
‫۔۔۔۔ اور دل دھک دھک ۔۔۔۔ کر رہا تھا۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ مامی کے‬
‫خوف سے میری ٹانگیں بھی کانپ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ لیکن مجھ پر ان‬
‫کا سیکس سین دیکھنے کا اس قدر شوق چڑھا ہوا تھا کہ اتنے بڑے‬
‫رسک کے باوجود میں نے کانپتی ہوئی ٹانگوں کے ساتھ۔۔۔۔ دھیرے‬
‫دھیرے سر اُٹھا کر اندر کی جانب دیکھا۔۔۔‬

‫واؤ ؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤ ۔۔۔۔ اندر کا منظر بہت گرم اور ہوش ربا تھا کیا‬
‫دیکھتا ہوں کہ مامی اور نارائن کے کپڑے فرش پر پڑے ہوئے تھے‬
‫جبکہ مامی پلنگ سے ٹیک لگا کر بیٹھی تھی اور نارائن مامی کی‬
‫چھاتیوں کو چوس رہا تھا ویسے تو میں ڈھکے چھپے انداز میں‬
‫مامی کی چھاتیاں کو روز ہی دیکھا کرتا تھا لیکن آج پہلی دفعہ ان‬
‫کی چھاتیوں کو پوری طرح ننگا دیکھنے کا موقع مل رہا تھا ۔۔ اُف‬
‫ف ف فف ۔۔۔۔ کیا بتاؤں دوستو۔۔ مامی کی چھاتیاں فٹ بال کے سائز‬
‫سے تھوڑی ہی چھوٹی ہوں گی لیکن تھیں اسی کی طرح گول اور ۔۔۔۔‬
‫ان گول گول چھاتیوں کے آگے ان کے موٹے موٹے نپلز اکڑے ہوئے‬
‫کھڑے تھے نارائن کے ایک ہاتھ میں مامی کی چھاتی کا نپل تھا‬
‫جبکہ ۔۔۔۔مامی کی دوسری چھاتی اس کے منہ میں تھی اور وہ اسے‬
‫بڑے جوش خروش کے ساتھ چوس رہا تھا۔۔ یہ دل کش اور سیکس‬
‫بھرا نظارہ دیکھ کر میں وقتی طور پر اپنا سارا ڈر اور خوف بھول‬
‫گیا۔۔۔اور بڑے دھیان سے اندر کا منظر دیکھنے لگا ۔۔۔ ادھر مامی کی‬
‫چھاتی کو چوستے چوستے جیسے ہی نارائن ان کے نپل پر ہلکا سا‬
‫کاٹتا تو مامی کے منہ سے ایک جل ترنگ سی دل کش اور لذت‬
‫بھری چیخ نکلتی جسے سن کر ایک دفعہ تو نارائن نے ان سے کہہ‬
‫بھی دیا تھا کہ ۔۔۔ آہستہ چیخ سالی ۔۔۔کہیں تمہارا بھانجھا نہ اُٹھ جائے۔۔‬
‫۔تو اس کی بات سن کر مامی بڑی ادا سے کہنے لگی۔ تم بھا نجے‬
‫کی بات کر رہے ہو۔۔۔۔ میری طرف سے چاہے پوری بلڈنگ اُٹھ‬
‫جائے ۔۔۔ مجھے اس کی پرواہ نہیں۔۔۔ تم بس میری چھاتیاں چوسو ا‬
‫ور۔۔۔۔ چوستے جاؤ۔(اس کا مطلب یہ تھا کہ مامی کو اپنی چھاتیاں‬
‫چسوانا بہت اچھا لگتا تھا ) چنانچہ نارائن نے ان کے نپل پر زبان‬
‫پھیرتے ہوئے کہا۔۔وہ تو میں چوس ہی رہا ہوں ۔۔ لیکن پھر بھی‬
‫ڈارلنگ ۔۔۔۔۔۔۔ احتیاط اچھی ہوتی ہے ۔ نارائن کی بات سن کر مامی‬
‫نے اپنی لیفٹ چھاتی کو اس کے منہ سے نکا ال اور رائیٹ والی‬
‫چھاتی کو اس کے منہ میں دیتے ہوئے بولی ۔ اس بات کی تم فکر نہ‬
‫کرو ! میرا بھانجھا بڑی گہری نیند سوتا ہے اس کے ساتھ ہی مامی‬
‫کی آہوں اور سسکیوں کا وہی کھیل دوبارہ سے شروع ہو گیا۔۔۔۔ مامی‬
‫کی دل کش اور لذت بھری چیخیں سن سن کر میں بڑا بے چین ہو گیا‬
‫تھا ۔۔۔ اور اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑے اسے بری طرح سے مسل رہا‬
‫تھا۔۔۔ جبکہ دوسری طرف نارائن بھی بڑی بے دردی کے ساتھ نہ‬
‫صرف یہ کہ مامی کی تنی ہوئی چھاتیوں کو ندیدنوں کی طرح چوس‬
‫رہا تھا بلکہ وہ ترنگ میں آ کر بار بار ان پر دانت بھی کاٹ رہا تھا‬
‫۔۔۔۔ پھر اچانک ہی مامی نے اپنی چھاتیوں کو نارائن کے چنگل سے‬
‫آذاد کروایا۔۔۔۔۔۔اور بیڈ پر کھڑی ہو گئی اور بنا کچھ کہے اپنی دونوں‬
‫ٹانگوں کو آخری حد تک کھول دیا۔۔ یہ دیکھ کر نارائن بھی گھٹنوں‬
‫کے بل کھڑا ہو گیا ادھر مامی کی یہ پوزیشن دیکھ کر ۔۔۔ میں سمجھ‬
‫گیا کہ اب وہ نارائن سے اپنی چوت چٹوانے والی ہیں ۔۔۔۔پھر وہی‬
‫ہوا۔۔۔۔ مامی نے نارائن کو بالوں سے پکڑا اور بڑی مست آواز میں‬
‫کہنے لگی ۔ چل میرے کتے ۔۔۔ پھدی چاٹ۔ مامی کی یہ بات سن کر‬
‫حیرت انگیز طور پر نارئن نے اپنے منہ کو مامی کی کھلی ٹانگوں‬
‫کی طرف کیا ۔۔۔ اور پھر کتے کی طرح اپنی زبان کو منہ سے باہر‬
‫نکاال ۔۔۔۔‬
‫اور دھیرے دھیرے مامی کی طرف بڑھار شروع ہو گیا ۔۔ جیسے ہی‬
‫اس کا منہ مامی کی کھلی ہوئی ٹانگوں کے قریب پہنچا تو نارائن نے‬
‫بلکل کتے کے سے انداز ۔۔۔ میں اپنی تھوتنی کو مامی کی دونوں‬
‫ٹانگوں کے بیچ میں گھسا دیا ۔وہ اس وقت بلکل کتے کی طرح ایکٹ‬
‫کر رہا تھا ۔ چنانچہ جیسے ہی اس کی تھوتھنی مامی کی ٹانگوں کے‬
‫بیچ میں پہنچی۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے کتے کے مخصوص انداز‬
‫میں مامی کی بنا بالوں والی ۔۔۔۔ پھدی کو سونگھنا شروع کر دیا۔۔ ۔۔۔۔۔‬
‫یہ دیکھ کر مامی نے اس کے سر پر ہلکی سے چپت ماری ۔۔۔۔ اور‬
‫مست آواز میں کہنے لگی۔۔۔۔ کتے!۔۔۔ پھدی کو سونگھنا نہیں ۔۔۔۔۔بلکہ‬
‫چاٹنا ہے۔ مامی کی بات سن کر نارائن نے سن کر نارائن نے مامی‬
‫کی طرف دیکھا اور کہنے لگا بڑا نشہ ہے تیری چوت میں ۔۔ بس‬
‫تھوڑی سی اور سمیل لینے دے۔۔۔۔ لیکن مامی نہ مانی اور اپنی چوت‬
‫کو اس کے منہ پر دباتے ہوئے بولی ۔۔۔ ۔۔۔ چاٹ حرامی۔۔۔ مامی کی‬
‫بات سنتے ہی نارائن نے کسی وفادار کتے کی طرح ۔۔۔۔ اپنی زبان کو‬
‫باہر نکاال۔۔۔اور شڑاپ شڑاپ کر کے ۔۔۔ مامی کی پھدی کو چاٹنا‬
‫شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔ ۔ گو کہ اس وقت مامی کا منہ سامنے کی طرف تھا‬
‫لیکن اس کے باوجود بھی ۔۔۔۔۔میں ان کی بنا بالوں والی پھدی کو‬
‫اچھی طرح سے دیکھ سکتا تھا۔ ان کی پھدی کی لکیر کافی لمبی‬
‫۔۔۔اور ۔۔۔گیلی ہونے کی وجہ سے۔ان کا چوت رس باہر ٹپک رہا تھا ۔۔۔‬
‫جس کو نارائن کتا اپنی زبان نکالے ندیدوں کی طرح چاٹ رہا تھا ۔۔۔‬
‫کچھ دیر بعد اس نے اپنی دونوں انگلیوں کی مدد سے پھدی کی لکیر‬
‫کو کھوال۔۔اور میں نے دیکھا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اندر سے مامی کی پھدی پانی‬
‫سے لبا لب بھری ہوئی تھی جسے نارائن نے دو منٹ میں ہی چاٹ‬
‫چاٹ کر صاف کر دیا۔۔۔۔مامی کی پھدی کا اندرونی پانی چوسنے کے‬
‫بعد نارائن اپنے منہ کو مامی کے دانے کی طرف لے گیا۔۔۔ اور پھر‬
‫اس پھولے ہوئے دانے کو اپنے منہ میں لے کر مزے سے چوسنے‬
‫لگا۔ جس وقت نارائن نے مامی کے پھولے ہوئے براؤن دانے کو‬
‫اپنے منہ میں لیا۔۔ اس وقت مامی کی آنکھیں بند تھیں ۔۔۔ اور وہ مزے‬
‫کی آخری منزل پر پہنچی ہوئیں تھیں ۔۔۔۔ اور وہ ۔۔ آہ ہ ہ ہ‬
‫۔۔آہ۔۔اُف۔۔اُف۔۔ کی دل کش گردان کرتے ہوئے کہہ رہیں تھیں۔۔۔ ۔۔۔ یس‬
‫ڈارلنگ ۔۔۔یسس ۔۔او ۔۔ یسس۔۔ میری چوت چوس س سسس۔۔۔اور‬
‫چوس۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔چاٹ میرے کتے۔۔۔میری پھدی چاٹ۔۔۔۔ اور تیزی سے‬
‫چاٹ۔۔ پھر ایسے ہی سسکیاں لیتے لیتے ۔۔۔اچانک مامی نے نارائن‬
‫کے بالوں کو بڑی مضبوطی کے ساتھ جکڑ لیا ۔۔۔اور اس کے سر کو‬
‫اپنی پھدی پر دباتے ہوئے تیز تیز سانسیں لینے لگی۔۔۔اور ساتھ ساتھ‬
‫کتےے‬ ‫بے ربط الفاظ میں کہتی جاتی ۔۔۔۔ چاٹ۔ٹ۔ٹ۔۔۔ میرے ُ‬
‫ےے ے ے۔۔اور اس کے ساتھ ہی مامی کے جسم کو ایک جھٹکا سا‬
‫لگا اور انہوں نے نے ایک زور دار چیخ ماری۔۔۔ اور کچھ دیر تک‬
‫نارائن کے سر کو اپنی پھدی کے ساتھ چپکائے رکھا۔۔۔ پھر اسے‬
‫پرے ہٹا کر پلنگ پر لیٹ کر ۔۔۔۔ لمبے لمبے سانس لینے لگیں۔ ادھر‬
‫جیسے ہی مامی پلنگ پر لیٹی میں نے نارائن کی طرف دیکھا تو اس‬
‫کا منہ‪ ،‬ہونٹ اور اس کے آس پاس کا سارا ایریا۔۔۔۔۔ مامی کے چوت‬
‫رس سے چمک رہا تھا ۔۔۔ادھر مامی کو پلنگ پر لیٹتے دیکھ کر ۔۔۔۔‬
‫نارائن بھی ان کے ساتھ ہی لیٹ گیا ۔۔۔اور ۔۔۔۔ بڑے ہی سیکسی لہجے‬
‫میں کہنے لگا۔۔۔ آج تو بہت مال نکاال تم نے ۔۔ نارائن کی بات سن کر‬
‫مامی نے اپنی بند آنکھیں کھولیں اور پیار بھری نظروں سے اس کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔۔ تم نے چاٹا ہی اتنا زبردست لگایا تھا۔۔۔‬
‫اتنی بات کرنے کے بعد مامی نے لیٹے لیٹے ہی اپنے منہ کو نارائن‬
‫کے منہ کی طرف کیا اور اس کے ساتھ ہی فضا میں کسنگ کی‬
‫مخصوص پوچ پوچ ۔۔۔ کی آوازیں گونجنے لگیں۔۔‬

‫کسنگ کرنے کے کچھ دیر بعد نارائن مامی سے کہنے لگا چل ۔۔۔ ۔۔۔‬
‫اُٹھ رانڈ ! ۔۔۔اور میرا لوڑا چوس۔۔ نارائن کی بات سن کر مامی ایک‬
‫لفظ کہے بغیر اپنی جگہ سے اُٹھی اور گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی‬
‫نارائن کی ٹانگوں کی طرف آ گئی ۔جہاں پر اس کا مست لوڑا اکڑا‬
‫کھڑا تھا۔۔۔ جیسے ہی مامی نارائن کی ٹانگوں کے قریب پہنچی اسی‬
‫وقت نارائن نے اپنی دونوں ٹانگوں کو آخری حد تک کھول دیا ۔۔۔جس‬
‫کی وجہ سے مامی اس کی کھلی ٹانگوں کے بیچ میں آکر بیٹھ گئی۔۔‬
‫۔۔اور نارائن کے لوڑا کو اپنے ہاتھ میں پکڑ ا اور پھر اس پر تھوک‬
‫کا ایک گولہ سا پھینک کر بولی۔۔ تیرا لوڑا بہت مست ہے رے۔۔۔ تو‬
‫آگے سے نارائن کہنے لگا۔۔ مست وست چھوڑ ۔۔چوپا لگا۔۔ تو مامی‬
‫اپنے تھوک کو نارائن کے لن پر ملتے ہوئے بولی ۔۔۔ اسے چوسنے‬
‫کے لیئے ہی تو ۔۔۔۔تیری ٹانگوں کے بیچ میں بیٹھی ہوں سالے ۔۔۔ ۔۔‬
‫حقیقت یہ ہے کہ نارائن کا لن کوئی اتنا لمبا چوڑا ہر گز نہ تھا بلکہ‬
‫میرے خیال میں اس کا لنڈ کوئی چھ اینچ کے قریب ہو گا ہاں موٹائی‬
‫میں تھوڑا زیادہ تھا ۔ ۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ اس وقت نارائن کا‬
‫اَن کٹ لوڑا اپنے فل جوبن میں اکڑا کھڑا تھا جبکہ اس کا ٹوپا ان کٹ‬
‫ہونے کی وجہ سے ایک غالف ۔۔ جسے اردو میں حشفہ کہتے ہیں‬
‫میں چھپا ہوا تھا۔۔ ادھر مامی نے بڑے پیار سے ٹوپے پر لگی‬
‫ایکسٹرا سکن کو پیچھے کی طرف کیا اور پھر ننگے ٹوپے پر زبان‬
‫پھیرتے ہوئے بولیں ۔۔ تیرا لن بھی کافی ِلیک ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ تو نارائن‬
‫جواب دیتے ہوئے بوال۔۔۔۔ سالی رانڈ ۔۔ اتنا بھوسڑا چٹوایا ہے ۔۔تو اس‬
‫بے چارے نے تو ِلیک ہونا ہی تھا۔۔۔ اس پر مامی کہنے لگی ۔۔۔ تم‬
‫اس لوڑا کو بے چارہ کہہ رہے ہو جو کہ میرے جیسی سیکسی‬
‫عورت کی بھی چیخیں نکالوا دیتا ہے تو اس پر نارائن ترنت ہی‬
‫کہنے لگا۔۔۔بےچارہ تو ہے نا ۔۔جو اتنی دیر بعد اسے اس کی باری‬
‫آئی ہے۔۔۔ نارائن کی بات سن کر مامی نے سر جھکایا اور پہلے تو‬
‫اس کے ننگے ٹوپے کو چاروں طرف سے چاٹا ۔۔ پھر آہستہ آہستہ‬
‫۔۔۔۔۔ اس کو اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع ہو گئی ۔۔۔۔‬

‫ادھر جیسے ہی مامی نے نارائن کے لوڑے کو چوسنا شروع کیا ۔۔۔۔۔‬


‫۔۔اس کے تھوڑی دیر بعد مامی کی طرح نارائن نے بھی اونچی آواز‬
‫میں ۔۔۔۔ لذت بھری چیخیں مارنا شروع کر دیں ۔۔ نارائن کی چیخیں‬
‫سن کر مامی نے اس کے لن کو اپنے منہ سے باہر نکاال اور پھر اس‬
‫کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی شوخی کے ساتھ کہنے لگی۔۔۔ سالے‬
‫آہستہ چیخ !!!!۔۔۔کہیں میرا بھانجھا نہ اُٹھ جائے۔۔۔ مامی کی بات سن‬
‫کر نارائن نے بھی انہی کی زبان میں جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ میری‬
‫طرف سے چاہے سارا محلہ اُٹھ جائے لیکن میں ُچپ نہیں رہوں گا ۔۔۔‬
‫اور ایسے ہی شور مچا کر تیرے چوپے کو انجوائے کروں گا۔۔۔ اس‬
‫کے ساتھ ہی اس نے مامی کے سر کو اپنے لوڑا پر سختی کے ساتھ‬
‫دبا دیا۔۔۔ مامی نے بھی اپنا سارا منہ کھوال ۔۔۔۔اور پھر نارائن کے لوڑا‬
‫کو جی بھر کے چوسا۔۔ انہیں ابھی لن چوستے ہوئے تھوڑی ہی دیر‬
‫گزری تھی کہ اچانک نارائن سسکیاں لیتے ہوئے بوال۔۔۔۔ بس کر رانڈ‬
‫۔۔۔بس کر۔۔۔ لوڑا چوسنا بند کر۔۔۔تو مامی نے اس کے لوڑے کو اپنے‬
‫منہ سے باہر نکاال اور کہنے لگیں ۔۔۔۔ کہ اتنے مزے کا لوڑا نہ‬
‫چوسوں تو پھر کیا چوسوں ؟ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو آگے سے نارائن‬
‫جواب دیتے کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ مجھ سے ُچدوا ۔۔۔۔۔ نارائن کی بات سنتے‬
‫ہی مامی نے اس کی طرف دیکھا اور مستی بھرے انداز میں کہنے‬
‫لگیں ۔۔آج کس سٹائل میں لے گا؟ تو نارائن اپنی جگہ سے اُٹھتے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔۔۔ اپنی تو ایک ہی پسند ہے ڈوگی ۔۔۔۔۔ اس لیئے تو جلدی‬
‫سے کتیا بن جا ۔۔اس پر فورا ً ہی مامی اس کے سامنے گھوڑی بن‬
‫گئی۔۔اور پھر شرارت سے بولی۔۔ میری گانڈ مارے گا کیا؟ مامی کو‬
‫گھوڑی بنتے دیکھ کر نارائن بھی سرکتا ہوا مامی کے پیچھے آ گیا‬
‫اور ان کی شاندار بُنڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔۔ گانڈ بھی مار لو‬
‫ں گا لیکن اس وقت میرا دل تیری لیس دار پھدی پر آ رہا ہے یہ سن‬
‫کر مامی نے گردن موڑ کر نارائن کی طرف دیکھا اور کہنے لگیں۔۔۔‬
‫پھدی مارنی ہے تو پھر ۔۔۔ دھکے فُل سپیڈ مارنا ۔۔۔۔ ۔۔ اتنی دیر میں‬
‫نارائن اپنے ان کٹ ٹوپے پر تھوک لگا چکا تھا ۔۔چنانچہ اس نے‬
‫اپنے تھوک لگے لوڑے کو ہاتھ میں پکڑ کر مامی کی چوت پر رکھا‬
‫۔۔۔۔ اور اسے رگڑتے ہوئے بوال۔۔۔ اس کی تو فکر نہ کر۔۔۔پھر اس نے‬
‫مامی کی موٹی گانڈ پر ایک زور دار تھپڑ مارا اور کہنے لگا۔۔۔ ۔۔۔‬
‫میں نے پہلے کبھی کمزور دھکا مارا ہے ؟ تو آگے سے مامی جواب‬
‫دیتے ہوئے بولی ۔۔۔ اسی لیئے تو میں بڑے شوق سے ۔۔۔ تیرے نیچے‬
‫لیٹتی ہوں۔۔۔کہ سالے تو گھسے بڑے جاندار مارتا ہے مامی کی بات‬
‫سن کر نارائن نے کوئی جواب دینے کی بجائے۔۔۔۔۔ایک زبددست‬
‫دھکا لگایا جس کی وجہ سے اس کا لن پھسل کر مامی کی چوت میں‬
‫غائب ہو گیا۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی نارائن نے نان سٹاپ دھکوں کی‬
‫بارش شروع کر دی۔۔ مامی ٹھیک کہہ رہی تھی واقعہ ہی وہ ساال‬
‫بہت زبددست قسم کے دھکے مار رہا تھا۔۔۔۔ اور ان گھسوں کی وجہ‬
‫سے مامی کی لزت بھری چیخوں کے ساتھ ساتھ کمرے کی فضا‬
‫دھپ دھپ کی زور دار آوازوں سے گونج رہی تھی۔۔۔۔‬

‫میں کافی دیر تک وہاں کھڑا ان کی شہوت انگیز فکنگ کا مزہ لیتا‬
‫رہا ۔۔ لیکن پھر میرا وہاں پر کھڑا رہنا مشکل ہو گیا کیونکہ میرے‬
‫اندر کی گرمی بھی اپنے عروج پر پہنچ چکی تھی ۔۔اور میرا لن تن‬
‫کر آخری حد تک اکڑ چکا تھا اور اب مجھے ۔۔۔ ُمٹھ کی شدید حاجت‬
‫ہو رہی تھی۔۔ اس لیئے میں نے فیصلہ کیا کہ اب یہاں سے چال جائے‬
‫۔۔لیکن۔۔۔ کمرے میں جانے سے پہلے ۔۔۔ ایک نظر اندر کی طرف‬
‫جھانک کر دیکھا تو مامی کی دل کش چیخوں کے ساتھ ان کی دھواں‬
‫دھار چدائی جاری تھی لیکن نارائن کے سٹائل سے صاف پتہ چل رہا‬
‫تھا کہ وہ کسی بھی لمحے چھوٹنے واال ہے یہ دیکھ کر ۔۔۔۔ میں نے‬
‫ان کو ان کے حال پر چھوڑا اور بڑے محتاط انداز میں تیز تیز چلتا‬
‫ہوا اپنے کمرے میں پہنچ گیا اور اپنی النگ نیکر ( باکسر) اتار کر‬
‫سیدھا واش روم میں جا گھسا۔۔۔ ۔ وہاں پہنچ کر یاد آیا کہ گزشتہ روز‬
‫سے میرا تو شیمپو ہی ختم تھا ۔۔ اور شاہ تم تو جانتے ہی ہو کہ میں‬
‫شیمپو کے بغیر ُمٹھ نہیں مار سکتا ۔۔۔اور اس وقت مجھے ُمٹھ مارنے‬
‫کی حاجت شدید سے شدید تر ہوتی جا رہی تھی۔۔۔سو میں ننگا ہی‬
‫مامی کے واش روم کی طرف بھاگا اور وہاں جھانک کر دیکھا تو‬
‫سامنے ہی مامی کا شیمپو پڑا تھا میں نے جلدی سے اسے اُٹھایا۔۔۔۔‬
‫اور وہیں کھڑے کھڑے ۔۔۔پہلے تو اپنا لن پر بہت سا تھوک لگا کر‬
‫اسے گیال کیا ۔۔۔۔ اور ۔۔ اسے گیال کرنے کے بعد ۔۔۔ بہت سا شیمپو‬
‫اپنے لن پر لگایا ۔۔۔۔ اور کچھ شیمپو اپنی ہتھیلی پر ڈال کر واپس اپنے‬
‫کمرے میں آ گیا۔۔۔۔۔ اور پھر دروازہ بند کر کے باقی کا شیمپو بھی‬
‫اپنے لن پر لگا کر۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ُمٹھ مارنا شروع ہو گیا۔۔ جیسے جیسے میرا‬
‫ہاتھ چل رہا تھا ویسے ویسے لن پر شیمپو کی جھاگ بن رہی تھی۔۔۔۔‬
‫اور میں مزے کے سمندر میں غرق ہو رہا تھا ۔۔۔ ابھی مجھے ُمٹھ‬
‫مارتے ہوئے ۔۔۔۔ تھوڑی ہی دیر گزری تھی ۔۔۔۔ کہ اچانک میرے‬
‫کمرے کا دروازہ دھڑام سے کھال۔۔۔۔ دروازہ کھلنے کی آواز سن کر‬
‫میں ایک دم سے گھبرا گیا۔۔۔۔اور اسی گھبراہٹ کے عالم میں ۔۔۔۔۔ بے‬
‫اختیار ُمڑ کر دیکھا تو دروازے پر ماموں کھڑے تھے۔۔ اس وقت‬
‫میری حالت یہ تھی کہ میری النگ نیکر فرش پر پڑی تھی اور میں‬
‫نے اپنے ایک ہاتھ میں لن پکڑا ہوا تھا ۔۔ ماموں کو یوں دروازے میں‬
‫کھڑے دیکھ کر میرے چہرے کا رنگ اُڑ گیا ۔۔۔۔ میرے اوپر کا‬
‫سانس اوپر اور ۔۔ نیچے کا نیچے رہ گیا۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔میری دونوں ٹانگوں‬
‫میں جان ختم ہو گئی ۔۔اور ۔۔۔ ٹٹے دل کی طرف چڑھ گئے۔۔۔ ادھر‬
‫جیسے ہی ماموں نے مجھے اس حال میں دیکھا ۔۔۔تو پہلے تو حیرت‬
‫کے مارے ان کا منہ کھلے کا کھال رہ گیا لیکن پھر اگلے ہی لمحے‬
‫۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔‬

‫قسط نمبر ‪( 2‬‬

‫اگلے ہی لمحے ان کی آنکھوں سے شعلے برسنا شروع ہو گئے۔ اور‬


‫وہ غصے کے عالم میں میری طرف بڑھے ( اسی دوران خوف کے‬
‫باوجود بھی میں نے پاس پڑی ہوئی نیکر جلدی سے پہن لی تھی)‬
‫ادھر جیسے ہی میں نے نیکر پہنی اسی وقت ماموں جان میرے سر‬
‫پر پہنچ گئے ۔۔انہیں یوں اپنے سامنے کھڑا دیکھ کر میں نے مارے‬
‫شرم کے اپنا سر جھکا لیا۔۔ یہ دیکھ کر وہ آگے بڑھے۔۔۔اور مجھے‬
‫کان سے پکڑ لیا۔۔۔۔ اور بڑے غصے میں بولے۔۔ ۔۔یہ۔ یہ۔۔۔۔ کیا حرکت‬
‫تھی؟؟؟ ماموں کی بات سن کر میں نے کوئی جواب نہیں دیا اور‬
‫خاموشی کے ساتھ کھڑا رہا ۔ ۔۔ ۔مجھے یوں خاموش کھڑا دیکھ کر‬
‫وہ گرجدار آواز میں کہنے لگے ۔۔ بول حرامی۔یہ کیا حرکت تھی ؟ ۔‬
‫میں نے ان کے سامنے کیا بولنا تھا؟؟ کہ اس وقت میری حالت یہ ہو‬
‫رہی تھی کہ کاٹو تو لہو نہیں ۔۔مجھے ُچپ دیکھ کر وہ گرجے۔۔بولدا‬
‫کیوں نئیں؟ ( بولتے کیوں نہیں )۔ ۔ تب میں نے ممناتی ہوئی آواز میں‬
‫بس اتنا کہا ۔۔ مم ۔۔مجھ سے غلطی ہو گئی ۔۔سوری ۔۔ میرے منہ سے‬
‫سوری کا لفظ نکلنے کی دیر تھی کہ انہوں نے مجھے ایک زور دار‬
‫تھپڑ مارا ۔۔۔اور پھر اس کے ساتھ ہی ان کے منہ سے گالیوں کا ایک‬
‫نہ رکنے واال طوفان بھی شروع ہو گیا۔۔۔ وہ کہہ رہے تھے کہ‬
‫حرامی ۔۔۔ دلے۔۔۔کتے کے بچے ایسی حرکت کرتے ہوئے تمہیں زرا‬
‫حیا نہیں آئی۔۔۔ اتنی بات کر کے انہوں نے مجھے ایک اور تھپڑ جڑ‬
‫دیا ۔ پہلے کی نسبت یہ تھپڑ اتنا ذور دار تھا کہ اسے کھا کر میرا‬
‫چہرہ دوسری طرف گھوم گیا اور درد کے مارے میری آنکھوں سے‬
‫آنسو نکل آئے ۔ لیکن ماموں کو زرا بھی رحم نہ آیا ۔۔چنانچہ اگلی‬
‫دفعہ انہوں نے تھپڑ مارنے کے لیئے۔۔۔۔۔ ابھی ہاتھ اُٹھا یا ہی تھا کہ‬
‫عین اسی وقت مامی رحمت کا فرشتہ بن کر کمر ے میں داخل ہو‬
‫گئیں ۔ اور ماموں کی پوزیشن دیکھ کر وہ تیزی سے آگے بڑھیں اور‬
‫ان کا اُٹھا ہوا ہاتھ پکڑ کر بولیں ۔۔۔ ۔ بچے کو کیوں مار رہے ہو؟ ۔۔۔‬
‫تو آگے سے ماموں جواب دیتے ہوئے بولے۔۔۔ مجھے چھوڑو ندرت!‬
‫میں زرا اس حرامی کی طبیعت کو صاف کر لوں لیکن مامی نے ایسا‬
‫کرنے سے انکار کر دیا اور کہنے لگی کچھ شرم کرو حماد! یہ ہمارا‬
‫مہمان اور ابھی بچہ ہے تو آگے سے ماموں دھاڑتے ہوئے بولے اس‬
‫کتے کو تم بچہ رہی ہو؟ یہ بچہ نہیں بلکہ پکا حرامی ہے اس پر‬
‫مامی نے ان کے بازو پکڑا اور کہنے لگی۔ اب چھوڑو بھی دو۔۔۔ اور‬
‫میرے ساتھ چلو ۔ اتنا کہتے ہوئے مامی نے حماد ماموں کا ہاتھ پکڑ‬
‫امر‬
‫لیا اور انہیں پکڑ کر زبر دستی ۔۔۔ کمرے سے باہر لے گئیں۔۔ با ِ‬
‫مجبوری !!!! ماموں ان کے ساتھ تو چل پڑے لیکن جاتے جاتے‬
‫انہوں نے قہر بھری نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر مامی‬
‫سے مخاطب ہوکر کہنے لگے ۔ ویال رہ رہ کر اس کا دماغ خراب ہو‬
‫گیا ہے ۔۔۔ کل سے اس حرامی کو کسی کام پر لگوا دو ۔ماموں کی‬
‫بات ختم ہوتے ہی مامی جلدی سے بولیں ۔۔۔۔ فکر نہ کرو کل صبع‬
‫پلوی جی واشنگٹن سے واپس آ رہی ہے اور میں نے ان سے بات‬
‫بھی کر لی ہے اس لیئے جب تک یہ کام نہیں سیکھ لیتا یہ ہمارے‬
‫ساتھ ہی سٹور پر جایا کرے گا ۔۔اتنی بات کر تے ہی مامی ان کا ہاتھ‬
‫پکڑ ا اور انہیں کمرے سے لے کر باہر نکل گئیں۔‬

‫ماموں کے جانے کے بعد میں نے دل ہی دل میں مامی کا شکریہ ادا‬


‫کیا اور خود کو لعن طن کرنے لگا کہ مجھے کمرے میں کھڑے ہو‬
‫کر ُمٹھ نہیں مارنی چایئے تھی یا کم از کم دروازے کو الک کر لینا‬
‫چاہیئے تھا لیکن اب کیا ہو ت ۔۔ جب چڑیاں ُچگ گئیں کھیت۔۔۔اس‬
‫لیئے جو ہو گیا سو ہو گیا۔۔۔ اس لیئے آئیندہ کے لیئے مجھے محتاط‬
‫رہنا پڑے گا۔ یہ فیصلہ کرنے کے بعد اچانک مجھے لن کا خیال آیا۔۔۔‬
‫یہ خیال آتے ہی میں نے درازے کو الک کیا۔۔۔اور سیدھا واش روم‬
‫میں چال گیا ۔۔۔نیکر اتار کر دیکھا تو بے چارہ سکڑ کر چھوہارہ بن‬
‫چکا تھا اور اس چھوہارے پر بہت سارا شیمپو لگا ہوا تھا۔۔۔۔جو کہ‬
‫اس وقت تک تقریبا ً خشک ہو چکا تھا۔۔ میں نے ویسے ہی ۔۔۔ اس پر‬
‫ایک دو ہاتھ مار کر اسے جگانے کی کوشش کی ۔۔۔۔۔ لیکن وہ بے‬
‫چارہ اس قدر ڈرا ہوا تھا کہ کوشش کے باوجود بھی۔۔۔۔اس میں زرا‬
‫بھی جنبش نہ ہوئی ۔۔ لن صاحب کی یہ حالت دیکھ کر میں نے بڑی‬
‫شرافت کے ساتھ اسے دھویا اور پھر پیشاب کر نے کے بعد واپس‬
‫کمرے میں آ کر لیٹ گیا اور آج کے حادثے کے بارے میں سوچنے‬
‫لگا اور پھر اس نتیجے پر پہنچا کہ مجھے اگلے کچھ دن ماموں کا‬
‫سامنا نہیں کرنا چاہیئے۔۔۔اسی دوران اچانک مجھے پلوی جی کا خیال‬
‫آ گیا اور میں ماموں کو چھوڑ ان کے بارے میں سوچنے لگا۔ کہ آخر‬
‫یہ محترمہ ہیں کون ؟ پھر انہیں سوچوں میں گ ُم ۔۔۔۔۔مجھے نہیں معلو‬
‫م کہ میں کس وقت نیند کی آغوش میں چال گیا ۔‬

‫اگلے دن سویرے ہی میری آنکھ کھل گئی۔۔۔ لیکن جاگنے کے باوجود‬


‫بھی ۔۔۔ ماموں کے خوف سے میں بستر میں ہی دبکا رہا ۔۔ کافی دیر‬
‫بعد مامی کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے جاگتا دیکھ کر ہنسیں‬
‫۔۔۔اور پھر کہنے لگی ۔۔اُٹھ جاؤ دوست کہ ۔۔۔۔ خطرہ ٹل گیا ہے ۔۔ مامی‬
‫کی بات سن کر میں نے لٹےں لیٹے ہی ان سے پوچھا ۔۔۔ ماموں کب‬
‫گئے؟ تو وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ ابھی ابھی نیچے اترے ہیں پھر‬
‫ایک دم سیریس ہوتے ہوئے بولیں ۔۔اوئے گھامڑ انسان !۔۔۔ تم‬
‫دروازے کو الک نہیں کر سکتے تھے کیا ؟ تو آگے سے میں‬
‫کھسیانی ہنسی ہنس کر بوال۔۔۔ اپنی طرف سے تو میں نے کنڈی لگائی‬
‫ہوئی تھی۔۔۔ میری بات سن کر وہ ایک بار پھر سے مسکرائیں اور‬
‫پھر کہنے لگیں۔۔ شکر کرو کہ میں عین وقت پر پہنچ گئی ۔۔۔۔ ورنہ‬
‫رات تمہاری خیر نہیں تھی۔۔ اس پر میں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے‬
‫بوال۔۔ ایک سمجھ نہیں آئی ۔۔۔۔ا۔ور وہ یہ کہ ماموں کی تو نائیٹ تھی۔۔‬
‫پھر وہ کیسے آ گئے ؟ میری بات سن کر مامی کہنے لگیں تم ٹھیک‬
‫کہہ رہے ہو عام طور پر وہ ایسا ہی کرتے ہیں لیکن گزشتہ رات ان‬
‫کی طبیعت بہت خراب تھی اس لیئے وہ چھٹی لے کر گھر آ گئے‬
‫تھے۔۔۔۔ اس پر میں چونک کر بوال ۔۔۔ لیکن میرے حساب سے تو وہ‬
‫بھلے چنگے تھے؟ تو اس پر وہ کہنے لگیں اصل میں تمہارے‬
‫ماموں ہائی بلڈ پریشر کے مریض ہیں اور رات جو وہ اتنا چیخ چال‬
‫رہے تھے اس کی بھی یہی وجہ تھی کہ اس وقت ان کا بلڈپریشر بہت‬
‫ہائی تھا اتنی بات کرنے کے بعد وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے‬
‫لگیں ۔ ۔۔۔ میں تمہارا ناشتہ ریڈی کرتی ہوں ۔۔۔۔ اتنی دیر میں ۔۔۔ تم‬
‫جلدی سے تیار ہو جاؤ ۔ ۔ ۔۔ پھر کہنے لگیں ۔۔۔۔آج تمہارا کام پر پہال‬
‫دن ہو گا لیکن اس سے پہلے ہم نے پلوی میم کو بھی ائیر پورٹ سے‬
‫النا ہو گا۔ تو میں نے ان سے کہا کہ مامی جی یہ پلوی میم کون ہیں؟‬
‫میری بات سن کر وہ دروازے کی طرف جاتے ہوئے واپس پلٹیں اور‬
‫میرے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔۔ اور شرارت آمیز لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔‬
‫یہ محترمہ نارائن صاحب کی بیوی ہیں جو کہ اپنے والد ین سے‬
‫ملنے واشنگٹن گئی ہوئیں تھیں۔۔ اتنی بات کرتے ہی وہ پلنگ سے اُٹھ‬
‫گئیں۔۔ اور جاتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ ہری اپ یار ۔۔۔ پلوی جی کے‬
‫آنے میں کچھ ہی دیر باقی ہے ۔ مامی کے جانے کے بعد ۔۔۔۔ میں نے‬
‫بستر سے چھالنگ لگائی اور واش روم میں گھس گیا۔‬

‫جے ایف کے ائیرپورٹ کی طرف جاتے ہوئے میں نے مامی سے‬


‫پوچھا کہ اک بات تو بتائیں تو وہ گاڑی کو گئیر میں لگاتے ہوئے‬
‫کہنے لگیں ہاں بولو۔۔تو اس پر میں ان کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔ پلوی جی کو لینے کے لیئے آپ کیوں جا رہیں ہیں؟ نارائن‬
‫صاحب خود کیوں نہیں گئے؟ میری بات سن کر گاڑی چالتے ہوئے‬
‫مامی نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں وہ اس لیئے‬
‫چندا کہ آج نارائن صاحب کی ۔۔۔۔۔ پہلے سے طے شدہ ایک بہت‬
‫ارجنٹ میٹنگ تھی۔ تو میں نے ان سے کہا کہ انہیں پتہ نہیں تھا کہ‬
‫آج ان کی وائف آنے والی ہے ؟ تو مامی جواب دیتے ہوئے بولیں۔۔۔‬
‫پروگرام کے مطابق تو پلوی جی نے پرسوں آنا تھا لیکن چونکہ ان‬
‫کے فادر کی طبیعت ٹھیک ہو گئی تھی اس لیئے وہ پرسوں کی‬
‫بجائے آج ہی واپس آ رہی ہیں۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے‬
‫لگیں کہ اگر وہ اپنے پروگرام کے مطابق آتیں تو یقینا ً انہیں نارائن‬
‫نے ہی لینا تھا۔ اس طرح آپس میں ِچٹ چیٹ کرتے ہوئے ہم جے ایف‬
‫کے ائیرپورٹ پہنچ گئے۔ ہمارے پہنچنے کے کچھ ہی دیر بعد پلوی‬
‫جی کی فالئیٹ بھی آ گئی تھی اور پھر اگلے آدھے گھنٹے میں‬
‫جیسے ہی سوٹ کیس کو کھینچتی ہوئی ایک ساڑھی والی عورت‬
‫ارئیول سے باہر نکلی تو اسے دیکھتے ہی مامی نے مجھے ٹہوکا دیا‬
‫۔۔۔۔۔۔اور پھر ہاتھ ہالتے ہوئے اونچی آواز میں بولیں ہائے پلوی۔۔۔‬
‫ادھر مامی کی آواز سن کر اس ساڑھی والی عورت نے بھی ہاتھ ہال‬
‫دیا ۔۔۔مامی کے اشارے کے بعد میں بھی اس عورت کی طرف‬
‫دیکھنے لگا کہ جس نے پنک کلر کی سلیو لیس ساڑھی پہنی ہوئی‬
‫تھی وہ ایک مناسب قد و قامت والی گریس فل خاتون تھیں جن کے‬
‫شولڈر کٹ سلکی بال تھے اور وہ قدرے موٹی تھیں لیکن یہ موٹاپہ‬
‫ان پر بہت سوٹ کر رہا تھا ان کے جسم پر سب سے نمایاں چیز ان‬
‫اتنا ‪ deep neck blouse‬کی بہت بڑی چھاتیاں تھیں اور ان کا‬
‫زیادہ ڈیپ تھا کہ جس کی وجہ سے ان کی آدھی چھاتیاں باہر کو‬
‫نکلی ہوئیں تھیں۔۔۔ ایک دیسی عورت کی اتنی بھاری اور آدھ ننگی‬
‫چھاتیاں دیکھ کر میں تو دنگ رہ گیا۔۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ میں نے‬
‫ایک اور بات نوٹ کی تھی اور وہ یہ کہ انہوں نے کچھ اس ڈھنگ‬
‫سے ساڑھی باندھی ہوئی تھی کہ جس کی وجہ سے ان کی ناف واال‬
‫حصہ بلکل ننگا تھا ۔۔۔ ان کی ناف کا گڑھا خاصہ بڑا اور گہرا تھا‬
‫اور اس گڑھے میں انہوں نے ایک چمک دار سا موتی پھنسا یا ہوا‬
‫تھا جو دور سے کافی چمک رہا تھا میرے اندازے کے مطابق پلوی‬
‫جی کی اس وقت عمر کوئی ‪ 34 /35‬سال ہو گی لیکن دیکھنے میں‬
‫وہ سالی بہت ہی قیامت لگ رہیں تھیں۔‬

‫ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ مامی کے ہاتھ ہالنے کے بعد پلوی جی‬
‫سیدھی مامی کی طرف بڑھیں ۔۔۔۔اور ان کے ساتھ راویتی طریقے‬
‫سے گلے ملیں ۔۔۔ مامی سے ملنے کے بعد۔۔۔۔ انہوں نے بڑی دل‬
‫چسپ نظروں سے میری طرف دیکھا اور بڑی ہی ذو معنی الفاظ میں‬
‫مامی سے بولیں کہ اچھا تو یہ ہے وہ چکنا ۔۔۔ جس کا تم اکثر ذکر‬
‫کرتی رہتی ہو۔۔۔۔ ۔۔۔ تو اس پر مامی سر ہال دیا۔۔۔اور پھر اس سے‬
‫کہنے لگیں۔۔۔ اچھا یہ بتا کہ تیرے ڈیڈ کیسے ہیں ؟ تو وہ کہنے لگیں‬
‫شکر ہے یار ۔۔۔ وہ ایک دم فسٹ کالس اور بھلے چنگے ہیں ۔۔ پھر‬
‫اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ اسی لیئے تو میں تیرے‬
‫پاس وقت سے پہلے آ گئی۔۔۔ اتنا کہنے کے بعد۔۔۔۔۔ پلوی جی نے اپنا‬
‫سندر سا ہاتھ میری طرف بڑھایا۔۔۔اور کہنے لگیں۔۔ ہائے ڈئیر! کیسے‬
‫ہو آپ ؟ ان کے ہاتھ کو اپنی طرف بڑھا دیکھ کر پہلے تو میں تھوڑا‬
‫گھبرا یا۔۔۔۔ لیکن پھر میں نے بھی ہچکچاتے ہوئے اپنا ہاتھ ان کی‬
‫طرف بڑھا دیا انہوں نے میرے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ ا ۔۔۔۔اور‬
‫بڑی گرم جوشی کے ساتھ اسے دباتے ہوئے بولیں۔۔۔ بھگوان کا شکر‬
‫ہے کہ اپنے عالقے کی بھی کوئی دیسی بوائے نظر آیا۔۔۔ اور پھر‬
‫مامی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ورنہ تو یہاں کے‬
‫ککے۔۔۔بھورے باندر ٹائپ کے لڑکے دیکھ دیکھ کر میں تو بور ہو‬
‫گئی تھی ۔۔مامی کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے وہ میرے ہاتھ کو کافی‬
‫دیر تک ہالتی رہیں اور پھر مجھ سے مخاطب ہو کر بولیں۔۔۔ ویلکم‬
‫ٹو امریکہ۔۔ مجھ سے ہاتھ مالنے کے بعد۔۔۔۔ مامی اور وہ آپس میں‬
‫باتیں کرتی ہوئیں پاکنگ تک آگئیں۔۔۔ یہاں آ کر مامی نے جلدی سے‬
‫کار کی ڈگی کھولی اور پھر ان کے سوٹ کیس کو ڈگی میں رکھ کر‬
‫چل پڑیں۔۔۔۔ راستے بھر میں ۔۔۔۔۔ حرام ہے جو ایک منٹ کے لیئے‬
‫بھی ان دونوں کی زبان رکی ہو۔ وہ بڑی محو ہو کر باتیں کر رہیں‬
‫تھیں جبکہ میری نظریں پلوی جی کی بڑی بڑی چھاتیوں پر گڑی‬
‫ہوئیں تھیں جو کہ سلیو لیس ساڑھی ہونے کی وجہ سے۔۔۔۔ سائیڈ پوز‬
‫سے بہت زیادہ شہوت انگیز لگ رہیں تھیں۔ ۔۔۔ گھر کے سامنے والی‬
‫سڑک پر پہنچ کر مامی نے گاڑی روک لی۔گاڑی سے اترتے ہوئے‬
‫پلوی جی مامی سے کہنے لگیں۔۔۔۔۔ تم لوگ سٹور پہنچو میں تھوڑا‬
‫ریسٹ کرنے کے بعد تم کو جوائن کرتی ہوں۔۔۔‬

‫اتنی بات کرنے کے بعد پلوی جی نے ۔۔۔۔ ڈگی سے اپنا ویلر نکاال‬
‫اور گھر کے اندر چلی گئیں۔۔۔۔ ان کے جانے کے بعد مامی نے گاڑی‬
‫اسٹارٹ کی اور میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔ بری بات۔۔۔‬
‫پھر اپنے لہجے پر تھوڑا زور دے کر بولیں۔۔۔۔۔اوئے مجنوں کی‬
‫اوالد! اپنی نظروں پر کنٹرول کرنا سیکھو تو اس پر میں نے معصوم‬
‫بنتے ہوئے کہا ۔۔ کہ میں نے ایسا کیا کر دیا ہے؟ تو وہ مسکراتے‬
‫ہوئے بولیں۔۔میں نے نوٹ کیا ہے کہ تم نے ایک منٹ کے لیئے بھی‬
‫اپنی بھوکی نظروں کو ان کے جسم سے نہیں ہٹایا۔۔۔۔ان کی بات سن‬
‫کر میں شرمندگی سے بوال۔۔۔ آئی ایم سوری مامی جی ! لیکن میں کیا‬
‫کروں مجھ سے ایسا ہو جاتا ہے میری بات سن کر مامی کھلکھال کر‬
‫ہنس پڑیں۔۔ اور پھر میری طرف دیکھ کر بڑے ہی پر اسرار لہجے‬
‫میں کہنے لگیں۔۔ ویسے ایک بات کہوں؟ اور وہ یہ کہ تمہاری بھوکی‬
‫نظروں کو پلوی جی بھی انجوائے کر رہیں تھیں ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی‬
‫انہوں نے ایک خاص نظر سے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے‬
‫لگیں ۔۔۔میرے خیال میں ۔۔۔۔ تم انہیں کافی پسند آئے ہو۔۔۔ لیکن اس کے‬
‫ساتھ ساتھ میں تمہیں خبردار کر رہی ہوں کہ کسی خوش فہمی میں‬
‫ہر گز نہ رہنا ۔۔۔ ورنہ تم نوکری سے بھی جا سکتے ہو۔۔۔۔۔ اس کے‬
‫بعد وہ میری طرف دیکھتے ہوئے مزید کہنے لگیں۔۔۔۔۔ ہاں ایک اور‬
‫بات اور وہ یہ کہ۔۔۔۔۔۔ اپنی نظروں پر کنٹرول کرنا سیکھو۔۔۔۔ پھر‬
‫مجھے چھیڑے ہوئے بولیں۔۔۔ توبہ توبہ۔۔۔ تم پلوی کی طرف ایسی‬
‫نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ جیسے تم نے زندگی میں پہلی دفعہ‬
‫کوئی عورت دیکھی ہو۔۔۔ ان کی بات سن کر میں دل ہی دل میں‬
‫بوال۔۔کہ آپ کو تو معلوم ہی ہے کہ پاکستان میں تو ہم لوگ برقعے‬
‫والی خاتون کو بھی تاڑنے سے باز نہیں آتے ۔۔۔۔ جبکہ پلوی جی تو‬
‫پھر بھی آدھ ننگی تھیں۔۔۔ لیکن اس کے بر عکس میں ان کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بوال ۔۔ جی میں پوری کوشش کروں گا ۔‬

‫اس کے بعد گاڑی میں ایک دم سے خاموشی چھا گئی۔ لیکن یہ‬
‫خاموشی زیادہ دیر تک برقرار نہ رہی۔ اور گاڑی چالتے ہوئے مامی‬
‫کہنے لگیں دیکھو عدیل۔ اب جبکہ تم یہاں پر جاب شروع کرنے‬
‫لگے ہو ۔۔ تو میں تم سے ایک نہایت ضروری بات کرنا چاہتی ہوں۔‬
‫مامی کی بات سن کر میں چونک گیا اور ان سے کہنے لگا۔۔۔ جی آپ‬
‫حکم کریں ؟ تو وہ سڑک کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔ دیکھو تم‬
‫نئے نئے امریکہ میں آئے ۔ ۔ اور اوپر سے تم جاب بھی ایسی کرنے‬
‫والے ہو کہ جس میں مردوں کے ساتھ ساتھ خواتین کے ساتھ بھی‬
‫تمہارا واسطہ پڑے گا ۔اس سلسلہ میں میری ایک نصیحت اپنے پلے‬
‫سے باندھ لو ۔۔۔اور وہ یہ کہ جیسا کہ تم جانتے ہو کہ پاکستان کی‬
‫نسبت یہاں کا ماحول کافی کھال ڈھال ہے تو اسی حساب سے یہاں کی‬
‫خواتین بھی کافی بولڈ ہیں اور جیسا دل کرتا ہے لباس پہنتی ہیں‬
‫پاکستان کے برعکس یہاں کوئی بھی شخص کسی کے پرسنل معاملہ‬
‫میں دخل اندازی نہیں کر سکتا ۔۔اسی لیئے یہاں کی بعض خواتین بہت‬
‫زیادہ بولڈ لباس پہنتی ۔۔۔۔اور مردوں کے ساتھ آزادانہ اور فری ہو کر‬
‫بات چیت کرتیں ہیں چنانچہ اگر کوئی خاتون تمہارے ساتھ اس طرح‬
‫بات کرے تو اس کا ہرگز یہ مطلب نہ لینا کہ وہ کرپٹ یا پاکستانی‬
‫لڑکوں کے مطابق تمہارے ساتھ سیٹ ہو گئی ہے۔۔۔۔ ایسی بات نہیں‬
‫۔۔۔۔۔بلکہ یہاں کا ماحول ہی ایسا ہے اس لیئے میرے پیارے بھانجھے‬
‫اس سلسلہ میں محتاط رہنا اور جب بھی اس قسم کی خاتون کے ساتھ‬
‫تمہارا واسطہ پڑے تو میری نصیحت کو ضرور مدنظر رکھنا۔ ورنہ‬
‫ہو سکتا ہے کہ تمہاری پیش قدمی کو دیکھتے ہوئے وہ پولیس کو‬
‫کال کر دے ۔۔ اتنی بات کر کے انہوں نے میری طرف دیکھا اور‬
‫کہنے گلیں۔۔۔ میری بات کو سمجھ گئے ہو نا ؟ (پولیس کا ذکر سن کر‬
‫ویسے ہی میری گانڈ پھٹ گئی تھی)۔۔۔ اس لیئے میں بڑی سعادت‬
‫مندی سے جواب دیتے ہوئے بوال۔۔۔۔ ۔ جی مامی جی نہ صرف یہ کہ‬
‫میں آپ کی بات کو پوری طرح سے سمجھ گیا ہوں بلکہ میں آپ سے‬
‫وعدہ کرتا ہوں کہ ہمیشہ اس پر عمل بھی کروں گا ۔۔۔۔ اس کے بعد ہم‬
‫ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔۔۔۔۔اور پھر باتوں باتوں میں ۔۔۔ میں‬
‫نے ان سے پوچھ لیا۔۔۔۔ کہ پلوی جی انڈیا میں کہاں رہتین ہیں ؟ تو‬
‫مامی جواب دیتے ہوئے کہنے لگیں ویسے تو ان کے آبا و اجداد‬
‫انڈین کشمیر ی ہیں ۔۔۔ لیکن پھر تالش ِ روزگار کی میں یہ لوگ دہلی‬
‫چلے آئے اور پھر وہیں کے ہو رہے۔ ۔۔۔اور گزشتہ کچھ عرصہ سے‬
‫یہ لوگ امریکہ میں شفٹ ہو گئے ہیں ۔۔‬
‫گھر سے پندرہ بیس منٹ کی مسافت پر سٹور واقع تھا ۔ یہ ڈیپارٹ‬
‫مینٹل سٹور دوسروں کے مقابلے میں یہ سٹور اتنا بڑا تو نہ تھا‬
‫۔۔۔۔لیکن پھر بھی اس میں ضرورت کی ہر شے دستیاب تھی ۔ اس‬
‫سٹور کی خاص بات یہ تھی کہ اس میں انڈین مصالحہ جات ا ور‬
‫خاص کر چاول باقی سٹوروں کی نسبت بہت ارزاں ملتے تھے۔۔اسی‬
‫لیئے اس سٹور پر دیسی لوگوں کی آمد و رفت زیادہ رہتی تھی۔۔۔‬
‫وہاں پہنچ کر مامی نے سٹور کھوال ۔۔۔اور پھر مجھے اپنے ساتھ کیش‬
‫والے کاؤنٹر پر یہ کہتے ہوئے کھڑا کر دیا کہ ۔۔۔ مجھے واچ کرو۔۔۔‬
‫اور جو بات سمجھ میں نہ آئے پوچھ لینا۔۔اور میں مامی کے ساتھ‬
‫کاؤنٹر پر کھڑ ا ہو گیا یوں وہاں پر میری ٹرینگ کا آغاز ہو گیا ۔‬
‫سب سے پہلے مامی نے مجھے سارے سٹور کا وزٹ کرایا ۔۔۔۔‬
‫اورسمجھایا کہ کون سی چیز کس شیلف میں رکھنی ہوتی ہے ۔۔۔۔ اس‬
‫بعد انہوں نے کاؤنٹر پر پڑے ہوئے ۔۔۔ بار کوڈ ریڈر کے حوالے سے‬
‫بھی ایک چھوٹا سا لیکچر دیا ۔۔۔اسی دوران سٹور پر کچھ گاہک بھی‬
‫آئے ۔جن کے ساتھ مامی نے ڈیلنگ کی اور میں یہ سب بڑے غور‬
‫سے دیکھتا رہا۔۔۔ تین چار گھنٹوں کے بعد پلوی جی بھی سٹور پر آ‬
‫گئیں اس وقت انہوں نے ٹائیٹس کے اوپر ایک چھوٹی سی شرٹ پہنی‬
‫ہوئی تھی۔ اور یہ شرٹ بھی ان کی ناف کے اوپر تک تھی ۔۔ اس‬
‫لباس میں بھی وہ بہت سیکسی لگ رہیں تھیں خاص کر ان کی باہر‬
‫کو نکلی ہوئی۔۔۔۔ موٹی گانڈ دیکھ کر میرے لن میں کچھ کچھ ہونے‬
‫لگا تھا۔۔ لیکن میں بے چارہ قسمت کا مارا ۔۔۔ کر بھی تو کچھ نہ سکتا‬
‫تھا ہاں ایک بات تھی جو کہ میرے بس میں تھی اور وہ یہ کہ آج کی‬
‫ُمٹھ مسز پلوی کے نام پکی تھی۔ چھٹی سے کچھ دیر پہلے کی بات‬
‫ہے کہ اس وقت مامی واش روم گئی ہوئی تھی میں حسب ِ معمول‬
‫کاؤنٹر کے پاس کھڑا تھا کہ اچانک پلوی جی بڑی تیزی کے ساتھ‬
‫کاؤنٹر کی طرف بڑھیں۔۔ انہیں آتا دیکھ کر میں نے اپنی جگہ سے‬
‫ہٹنے کی کوشش کی تو وہ کہنے لگیں تم وہیں کھڑے رہو۔ پھر‬
‫میرے پاس کھڑے ہو کر انہوں نے جھک کر کاؤنٹر کی دراز کھولی‬
‫۔اُف۔ف۔ف ۔۔۔۔۔ان کی بنیان نما شرٹ کافی اوپر تک ہونے کی وجہ‬
‫سے ان کی گانڈ کا کریک بڑا ہی صاف اور واضع نظر آ رہا تھا۔۔‬
‫جسے دیکھ کر میرا سانس رکنے لگا تھا ۔۔۔۔۔۔دوسری طرف ان کی‬
‫موٹی گانڈ کو دیکھ کر میرا لن بھی کھڑا ہو نے کے لیئے بے قرار‬
‫تھا کیونکہ ان کے اس طرح جھک کر دراز کھولنے کی وجہ سے۔۔‬
‫ان کی موٹی گانڈ کچھ اور بھی نمایاں ہو گئی۔۔۔‬

‫جسے نا چاہتے ہوئے بھی میں بار بار دیکھتا جا رہا تھا ۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔ اس‬
‫بڑی سی دراز کے اندر ہاتھ مارتے ہوئے اچانک ہی پلوی میڈم کچھ‬
‫اس زاویہ سے پیچھے ہٹیں۔ کہ جس کی وجہ سے ایک لحظے کے‬
‫لیئے۔۔۔۔ان کی موٹی گانڈ میری لیفٹ والی ران کے ساتھ ٹچ ہو گئی۔۔‬
‫جیسے ہی مسز نارائن کی نرم گانڈ نے میری لیفٹ تھائی کو چھوا۔ تو‬
‫ایک دم سے میں چونک اُٹھا۔۔۔ ان کی گانڈ کے شاندار لمس نے‬
‫میرے تن بدن میں ایک کرنٹ سا دوڑ گیا۔۔اس وقت میرا دل تو یہی‬
‫کر رہا تھا کہ ان کی موٹی گانڈ کے ساتھ اپنا لن ٹچ کروں۔۔۔۔ لیکن‬
‫پھر مامی کی نصیحت یاد آ گئی ۔ مامی کی نصیحت یاد آنے کی دیر‬
‫تھی کہ میرے ٹٹے ہوائی ہو گئے ۔۔۔اور ۔۔ میں ڈر کے مارے تھوڑا‬
‫پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔ جانے کیوں پلوی جی میری اس حرکت‬
‫کا کوئی نوٹس نہیں لیا اور اسی انداز میں جھک کر ۔۔۔۔۔ دراز میں‬
‫کوئی چیز تالش کرتی رہیں۔۔۔ ۔۔ جبکہ دوسری طرف میرا یہ حال تھا‬
‫کہ ۔۔۔ ہٹ کر کھڑا ہونے کے باوجود بھی۔۔۔۔میری گستاخ نظریں بار‬
‫بار ان کی بڑی سی گانڈ کا طواف کر رہیں تھیں۔۔۔۔۔۔اس کے ساتھ‬
‫ساتھ ۔۔۔۔مسز نارائن کی گانڈ کے نرم لمس نے مجھے بے قرار سا کر‬
‫دیا تھا۔ لیکن میں بتا نہیں سکتا۔۔۔۔ کہ اس وقت میں کس قدر مجبور تھا‬
‫ت مجبوری ۔۔۔۔۔ میں ان کی گانڈ کو حسرت بھری‬ ‫۔۔۔۔۔ چنانچہ بحال ِ‬
‫نظروں سے دیکھتے ہوئے۔۔۔ بڑی خاموشی کے ساتھ کھڑا رہا ۔۔‬
‫جبکہ مسز نارائن نے اسی حالت میں ۔۔۔ کاؤنٹر کی ساری درازیں‬
‫چیک کیں۔۔۔ اور پھر یہ کہتے ہوئے سیدھی کھڑی ہوگئیں کہ بھگوان‬
‫جانے وہ لیٹرز کدھر گئے؟ ۔۔۔ اتنی دیر میں مامی بھی واش روم سے‬
‫واپس آ گئی تھی۔۔۔ اور مسز نارائن ( پلوی جی) کو دیکھ کر کہنے‬
‫لگیں کیا ڈھونڈ رہی ہو ؟ تو پلوی جی کہنے لگیں۔۔۔ یار جاتے سمے‬
‫۔۔۔ میں نے یہاں پر کچھ لیٹرز رکھے تھے لیکن اب نہیں مل‬
‫رہے۔۔۔تو مامی نے کہا ۔۔وہ جو پنک لفافے میں تھے؟ تو پلوی جی‬
‫بولیں ہاں ہاں وہی ۔۔۔ تو مامی مسکراتے ہوئے کہنے لگیں او بھلکڑ‬
‫بی بی تم نے خود ہی تو مجھے فون پر کہا تھا کہ وہ انویلپ (لفافہ)‬
‫میں نارائن جی کو دے دوں۔۔۔۔ مامی کی بات سن کر پلوی جی نے‬
‫اپنے سر پر ہاتھ مارا ۔۔۔اور پھر کہنے لگیں ۔۔۔ آئی ایم سوری ڈئیر ۔۔۔‬
‫پتہ نہیں آج کل میری میموری کو کیا ہو گیا ہے۔۔ ۔ اس کے ساتھ ہی‬
‫وہ کاؤنٹر سے واپس مڑیں۔۔۔۔ اور واپس مڑتے ہوئے انہوں نے بڑی‬
‫ہی گہری نظروں سے میری طرف دیکھا لیکن منہ سے کچھ نہیں‬
‫بولیں۔ کچھ دن ایسے ہی گزر گئے ۔۔۔۔‬

‫اس دوران مجھے کام کی کچھ کچھ سمجھ آنا شروع ہو گئی تھی۔‬
‫مامی کے ساتھ ساتھ پلوی جی بھی مجھے بڑے پیار سے ہر بات‬
‫سمجھاتی تھیں ۔ لیکن اس دوران میں نے محسوس کیا کہ مامی کے‬
‫پیار اور مسز نارائن کے پیار بھرے انداز میں بہت فرق تھا۔۔یا شاید‬
‫یہ میرا وہم ہو ۔۔لیکن ایک بات تو طے تھی کہ پلوی میم مجھ سے‬
‫بڑی لگاوٹ سے باتیں کرتیں تھیں ۔ البتہ یہ بات ابھی تک کنفرم نہیں‬
‫تھی کہ گاہے بگاہے وہ جو مجھے اپنا جسم دکھاتی۔۔۔ یا جو " اتفاقا ً "‬
‫میرے ساتھ اپنے جسم کو ٹچ کرتی تھیں ۔۔وہ محض اتفاق ہوتا تھا‬
‫۔۔۔۔۔یا۔۔۔۔ ؟؟؟ ۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ دونوں خواتین کے سمجھانے‬
‫کا نتیجہ یہ نکال کہ میں اپنے کام میں کافی ہوشیار ہو گیا تھا۔۔‬

‫پھر ایک دن کی بات ہے کہ اس دن مامی کی طبیعت کچھ زیادہ ہی‬


‫خراب تھی سو انہوں نے پلوی جی سے ایک دن کی چھٹی لے لی ۔۔‬
‫پیش نظر میں بھی ان کے ساتھ گھر میں رہنا‬ ‫مامی کی حالت کے ِ‬
‫چاہتا تھا لیکن وہ نہ مانی اور زبردستی مجھے پلوی جی کے ساتھ‬
‫بھیج دیا۔ چنانچہ مامی کا حکم سن کر مجبورا ً میں پلوی جی کے ساتھ‬
‫سٹور چال گیا۔۔۔ ویسے تو پلوی جی دل کی بہت اچھی تھیں لیکن پتہ‬
‫نہیں کیوں اکثر مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ ۔۔۔جیسے وہ مجھ‬
‫کوئی خصوصی دل چسپی لے رہیں ہیں ۔ اس سلسلہ میں ۔۔۔ میں نے‬
‫ایک اور بات نوٹ کی تھی اور وہ یہ کہ وہ میرے ساتھ اس قسم کے‬
‫التفات مامی کی عدم موجودگی میں کیا کرتی تھیں۔۔ جبکہ مامی کی‬
‫موجودگی میں وہ میرے ساتھ ایک خاص قسم کا فاصلہ رکھا کرتی‬
‫تھیں ۔۔لیکن جونہی مامی ادھر ادھر ہوتیں۔۔۔۔ تو وہ میرے ساتھ بہت‬
‫میٹھی میٹھی باتیں کرتیں تھیں ۔ آج کے دن چونکہ مامی جی چھٹی‬
‫پر تھیں اس لیئے وہ تھوڑا کھل کھال کے۔۔۔۔ مجھے اپنا سیکسی بدن‬
‫دکھا رہیں تھیں ۔۔ جسے دیکھ دیکھ کر میں گرم ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔‬
‫لیکن بوجہ مجبوری میں ان کو کوئی رسپانس نہیں دے سکتا تھا۔۔‬
‫ب معمول کیش کاؤنٹر پر کھڑا‬ ‫اسی دن سہہ پہر کا واقع ہے میں حس ِ‬
‫تھا جبکہ مسز نارائن واش روم گئیں تھیں ۔۔۔ وہاں سے واپسی پر وہ‬
‫انہوں نے اپنی دونوں کہنیاں کاؤنٹر پر رکھیں ۔۔ اور میرے ساتھ گپ‬
‫شپ کرنے لگیں۔۔۔ ۔۔اس ظالم نے اس قدر کھلے گلے والی شرٹ پہنی‬
‫ہوئی تھی کہ میرے ساتھ جھک کر بات کرنے کی وجہ سے مجھے‬
‫ان کی بھاری بھر کم چھاتیاں ۔۔۔۔ صاف دکھائی دے رہیں تھیں۔۔‬
‫۔۔۔انہیں دیکھ دیکھ میں نے بڑی مشکل خود پر قابو پایا ہوا تھا۔۔ لیکن‬
‫پھر بھی ۔۔۔ نا چاہتے ہوئے بھی میری بھوکی نظریں ۔۔ بار بار ۔۔۔ ان‬
‫کی آدھ ننگی چھاتیوں کی طرف اُٹھ رہیں تھیں۔۔۔ ۔۔۔۔ اور انہیں دیکھ‬
‫دیکھ کر میں پہلے ہی بہت گرم ہو رہا تھا کہ اتنے میں سٹور کا‬
‫دروازہ کھال اور ایک گوری میم اندر داخل ہوئی۔ دروازہ کھلنے کی‬
‫آواز سن کر پلوی جی نے پیچھے ُمڑ کر دیکھا اور پھر جلدی سے‬
‫گھوم کر میری طرف آ گئیں ۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف۔۔اس عورت کا لباس‬
‫دیکھ کر میری تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔۔ وہ گوری میم کہ‬
‫جس کی عمر اس وقت ‪ 38/40‬کے قریب ہو گی نے ایک بہت ہی‬
‫مختصر سی پینٹی نما نیکر پہنی ہوئی تھی اور یہ مختصر سی نیکر‬
‫بمشکل اس کی پھدی کے آس پاس کے ایریا کو کور (ڈھک) کر رہی‬
‫تھی۔۔۔ جبکہ اس کی گول مٹول ۔۔۔۔ اور ننگی رانیں دیکھ کر میں تو‬
‫حیران رہ گیا۔۔۔ بال شبہ امریکہ میں آنے کے بعد کسی بھی خاتون کو‬
‫۔۔۔۔۔ اس قدر عریاں لباس پہنے ۔۔۔۔۔میں نے پہلی بار دیکھا تھا۔ جبکہ‬
‫اس سے قبل۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ میرا خیال تھا کہ مامی اور پلوی جی ہی بولڈ‬
‫لباس پہنتی ہیں۔۔۔۔ لیکن اس گوری کا لباس دیکھ کر مجھے یہ دونوں‬
‫خواتین بڑی پاکیزہ لگیں۔۔۔ ۔۔دوسری طرف گوری نے ۔۔ اس چھوٹی‬
‫سی نیکر کے اوپر ایک نہایت باریک ۔۔۔۔ لیکن تنگ سی بینان نما‬
‫شرٹ پہنی ہوئی تھی اور اس بنیان نما شرٹ کے نیچے اس نے برا‬
‫نہیں پہنی تھی جس کی وجہ سے اس کے موٹے موٹے نپلز صاف‬
‫نظر آ رہے تھے وہ چلتی ہوئی کاؤنٹر کی طرف آئی۔۔۔ ۔۔۔اسے اپنی‬
‫طرف آتے دیکھ کر میں نے بڑی مشکل کے ساتھ اپنی نظروں کو‬
‫ادھر ادھر کیا۔۔ کاؤنٹر پر آ کر وہ پلوی جی سے ہاتھ مال کر بولی‬
‫ہائے مسز نارائن ۔۔۔آج تمہاری فرینڈ نظر نہیں آ رہی۔۔ ( واضع رہے‬
‫کہ وہ گوری پلوی جی کے ساتھ انگریزی میں باتیں کر رہی تھی ۔۔۔‬
‫چونکہ یہ سٹوری اردو فانٹ میں لکھی جا رہی ہے اس لیئے یہاں پر‬
‫میں صرف اردو فانٹ میں ہی لکھوں گا ) ہاں تو میں کہہ رہا تھا‬
‫مامی کے بارے میں سوال سن کر ۔۔۔ مسز نارائن کہنے لگیں۔۔۔ اس‬
‫کی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں تھی اس لیئے وہ چھٹی پر ہے ۔۔ میڈم کی‬
‫بات سن کر اس گوری نے افسوس سے سر ہالیا اور پھر کہنے لگی‬
‫جب تم گھر جاؤ گی تو اسے میری طرف سے بھی پوچھنا ۔۔۔۔ تو‬
‫آگے سے میڈم سر ہال کر بولی ۔۔۔ شیور ۔۔۔۔ ادھر سے فارغ ہونے‬
‫کے بعد اس قاتلہ نے میری طرف دیکھا اور بڑی بے تکلفی سے‬
‫بولی یہ ہینڈ سم کون ہے؟ تو پلوی جی نے اس کو میرے بارے بتالیا‬
‫کہ یہ اس کا بھانجا ہے پلوی جی کی بات سن وہ اسی بے تکلفی کے‬
‫ساتھ کہنے لگی۔۔۔ بہت ہاٹ ہے یہ۔۔۔ یہ سنتے ہی گوری نے میری‬
‫طرف ہاتھ بڑھا دیا ۔۔ کچھ ہچکچاہٹ کے بعد میں نے بھی اس کے‬
‫ساتھ ہاتھ مالیا ۔۔۔اور پھر اس کے ساتھ رسمی سی بات چیت کی لیکن‬
‫بوجہ۔۔۔۔‬

‫اس کی طرف ڈائیریکٹ دیکھنے سے پرہیز کیا۔۔۔ اور اس کی وجہ یہ‬


‫تھی کہ اس کی شرٹ اتنی باریک ۔۔۔اور گلے کی گہرائی اتنی زیادہ‬
‫تھی کہ جس کی وجہ سے صرف اس کے نپلز ہی ڈھکے ہوئے تھے‬
‫وہ بھی صاف نظر آ رہے تھے۔۔۔۔۔ اس کی تقریبا ً ننگی چھاتیاں میرے‬
‫جیسے ٹھرکی بندے کی مت مار رہی تھیں۔۔۔۔ ۔۔۔ اور اس کے ساتھ‬
‫ساتھ میں پہلے ہی اس کی رانوں کی گوالئی کو دیکھ کر پریشان ہو‬
‫رہا تھا اس وجہ میں اس کے رسمی سوالوں کا سر جھکا ئے جواب‬
‫دے رہا تھا ۔۔۔ اور میرے یوں نگاہ نیچ کیئے ۔۔۔۔جواب دینے کو وہ‬
‫ت حال تھی‬‫بہت انجوائے کر رہی ۔۔ گوری کے سامنے یہ صور ِ‬
‫جبکہ دوسری طرف ۔۔۔۔ جبکہ میرے منع کرنے کے باوجود بھی لن‬
‫صاحب اپنے فل جوبن میں کھڑے تھے ۔۔۔ جس کی وجہ سے میری‬
‫النگ نیکر میں ایک ٹینٹ سا بن گیا تھا۔۔۔ ۔۔ اس دوران اس گوری نے‬
‫میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بات کرنے کی بڑی کوشش کی‬
‫لیکن میں بے چارہ قسمت کا مارا۔۔۔۔۔ پلوی جی کے ڈر سے۔۔۔۔ نگاہ‬
‫نیچ کیئے ۔۔۔گردن جھکائے کھڑا رہا ۔۔۔۔۔یہ ماجرا دیکھ کر وہ پلوی‬
‫جی کی طرف متوجہ ہوئی ۔۔۔۔اور ہنستے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ یہ تو‬
‫بہت شائی ( شرمیال ) ہے تو پلوی جی جواب دیتے ہوئے بولیں ۔۔‬
‫ابھی نیا نیا آیا ہے نا۔۔۔۔۔ کچھ دنوں تک ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ پلوی کی‬
‫بات سن کر وہ گوری جو ان کے ساتھ خاصی بے تکلف لگتی تھی‬
‫مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔۔ ٹھیک ہو جائے گا یا تم اس کو ٹھیک کر دو‬
‫گی؟ تو آگے سے میڈم بھی مسکراتے ہوئے کہنے لگی ۔ جسٹ شٹ‬
‫اپ ۔۔۔ پلوی میم کی بات سن کر وہ گوری ہنسنے لگی۔۔اور پھر اس‬
‫نے اپنے پرس سے پیسے نکالے اور کاؤنٹر پر رکھتے ہوئے بولی‬
‫۔۔۔بئیر کے پیسے کاٹ لو ۔۔۔تو پلوی جی نے وہ پیسے اُٹھا کر کیش‬
‫میں ڈالے اور باقی کے پیسے اسے واپس کر دیئے۔۔۔۔۔ پیسے لے کر‬
‫وہ گوری میم انہی قدموں سے اباؤٹ ٹرن ہو گئی۔جیسے ہی وہ‬
‫پیچھے کی طرف مڑی ۔۔۔۔ تو اس وقت اچانک میں نے اس کی طرف‬
‫دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھررررر ۔۔۔دیکھتا چال گیا۔۔۔۔۔۔ کیونکہ اس میم سالی‬
‫نے پیچھے سے اپنی نیکر اس قدر نیچے کر کے پہنی تھی کہ جس‬
‫کی وجہ اس کی آدھ ننگی گانڈ صاف نظر آ رہی تھی۔۔۔ بلکہ ٹائیٹ‬
‫نیکر میں اس کے ساتھ اس کی گانڈ کی دراڑ بڑی واضع دکھائی دے‬
‫تھی۔ چنانچہ اس سیکسی میم کی ۔۔۔۔ دودھ کی طرح سفید۔۔مکھن کی‬
‫طرح نرم ‪ ،‬اور فومی گانڈ کو دیکھ کر دوستو!۔۔۔ میں لُٹا گیا۔۔۔ ایسی‬
‫چٹی چمڑی والی بنڈیں تو ہم نے آج تک صرف بلیو مویز میں ہی‬
‫دیکھیں تھیں اور ۔۔انہیں فلموں میں دیکھ دیکھ کر بال مبالغہ میں نے‬
‫سینکڑوں دفعہ ُمٹھ ماری ہو گی۔۔ کجا وہ فلینم ۔۔۔۔اور کجا یہ غضب‬
‫کی آدھ ننگی ۔۔۔ گوری میم کی چٹی دودھ ۔۔۔اور ۔۔۔ موٹی گانڈ کو میں‬
‫اپنی آنکھوں سے الئیو دیکھ رہا تھا ۔۔۔ چنانچہ یہ حسین منظر دیکھ‬
‫کر میں بھول گیا کہ میرے ساتھ پلوی جی بھی کھڑی ہیں ۔۔۔‬

‫اس کی شاندار اور آدھ ننگی گانڈ کو دیکھ کر بے اختیار میرے منہ‬
‫سے (تحیر آمیز ) سیٹی کی آواز نکل گئی جسے میرے خیال میں‬
‫پلوی جی نے بھی سن لیا تھا ۔۔۔ چنانچہ میرے منہ سے تحیر آمیز‬
‫سیٹی کی آواز سن کر انہوں نے ایک دم چونک کر میری طرف‬
‫دیکھا ۔۔۔۔ انہیں اپنی طرف یوں دیکھتے دیکھ کر مجھے اپنی غلطی‬
‫کا شدید احساس ہوا۔۔۔۔اور میں نے گھبراہٹ کے عالم میں ادھر ادھر‬
‫دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔ اور پھر چند سیکنڈ کے بعد ۔۔۔ کن اکھیوں سے‬
‫ان کی طرف دیکھا تو وہ ابھی تک میری طرف ہی دیکھ رہیں تھیں۔۔‬
‫انہیں اپنی طرف دیکھتا ۔۔۔دیکھ کر میں نے ۔۔ ۔۔۔ شرمندگی کے عالم‬
‫میں اپنا سر جھکا لیا۔۔۔ ادھر جیسے ہی میں نے اپنا سر جھکایا۔۔۔۔ تو‬
‫بے اختیار میری نظر یں اپنے لن کی طرف چلی گئیں ۔۔۔ دیکھا تو‬
‫اس وقت میری النگ نیکر تنبو بنی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔ اور پھر یہ سوچ‬
‫کر کہ کہیں پلوی جی کی نظر میرے ۔۔۔ لن کی اکڑاہٹ پر نہ پڑ‬
‫جائے میں نے جلدی سے ایک قدم پیچھے ہٹا۔۔۔۔اور اکڑے ہوئے لن‬
‫کو اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ کیا ۔۔۔اور ۔ پھر ٹانگ کے آگے ٹانگ‬
‫رکھ کر کھڑا ہو گیا۔۔ ۔۔۔۔۔لیکن ابھی عشق کے امتحاں اور بھی‬
‫تھے۔۔۔۔کیونکہ وہ گوری فریج سے بئیر کا ٹن لے کر ایک بار پھر‬
‫کاؤنٹر کی طرف آ گئی۔۔۔ اور کاؤنٹر کے قریب رکھے سٹینڈ سے‬
‫چپس کا پیکٹ اُٹھایا۔۔۔ ۔۔۔اور پھر دوبارہ پیسے نکال کر پلوی جی کی‬
‫طرف بڑھا دیئے۔۔۔پلوی جی نے چپس کے پیسے کیش میں رکھے‬
‫اور ایک بار پھر وہ دونوں باتیں کرنا شروع ہو گئیں ۔۔۔۔ان کی یہ بات‬
‫چیت کوئی پانچ چھ منٹ تک چلتی رہی۔۔۔۔۔۔۔ پھر اس گوری میم نے‬
‫پلوی میڈم کو بائے کہتے ہوئے ہاتھ مالیا ۔۔۔اور ان سے ہاتھ مالنے‬
‫کے بعد اس ظالم نے ۔۔۔ اپنے ہاتھ کو ایک بار پھر۔۔۔ میری طرف ہاتھ‬
‫بڑھا دیا ۔۔۔ جبکہ اس وقت میری پوزیشن یہ تھی کہ لن صاحب ابھی‬
‫تک اکڑے کھڑے تھے ۔۔۔اور اس پر ستم بالئے ستم یہ تھا کہ ۔۔۔۔ میں‬
‫پلوی میڈم کے خوف سے کاؤنٹر سے ایک قدم پیچھے ۔۔۔۔ لن کو اپنی‬
‫دونوں ٹانگوں کے بیچ پھنسائے (چھپائے) کھڑا تھا ۔۔۔ اور گوری میم‬
‫کے ساتھ ہاتھ مالنے کے لیئے مجھے ایک قدم آگے بڑھنا پڑنا تھا‬
‫۔۔۔۔‬

‫اور اگر میں آگے بڑھتا تو میری دونوں ٹانگوں کے بیچ پھنسے لن‬
‫صاحب نے آزاد ہو کر ۔۔۔۔۔۔۔ باہر نکل آنا تھا۔۔۔۔ اصل ڈر یہ تھا کہ اگر‬
‫پلومی جی مجھے اس حال میں دیکھ لیا۔۔ تو جانے وہ کیا‬
‫سوچیں۔۔۔اور اگر وہ مائینڈ کر گئیں تو؟۔۔ اسی خوف کی وجہ سے میں‬
‫گوری سے ہاتھ نہیں مال رہا تھا ۔۔۔ چنانچہ جب اس میم نے میری‬
‫طرف ہاتھ بڑھایا تو میں بجائے ہاتھ بڑھانے کے وہیں کھڑے کھڑے‬
‫جاپانی اسٹائل میں اپنا سر جھکا دیا۔۔۔ ۔۔۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ میرے‬
‫سر جھکا کر جواب دینے وہ قاتل جاں۔۔۔۔ چلی جاتی ۔۔۔۔ لیکن وہ‬
‫مجھے تنگ کرنے کے موڈ میں نظر آ رہی تھی ۔۔ اسی لیئے اس نے‬
‫اپنے ہاتھ کو پیچھے نہیں کیا ۔۔۔ بلکہ میری طرف دیکھ کر بولی۔۔‬
‫کامان لٹل بوائے۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف مجھے یوں کھڑے دیکھ کر‬
‫پلوی جی سخت لہجے میں بولیں ۔۔۔ کیتھی میم سے ہاتھ مالؤ ۔۔۔ پلوی‬
‫جی کی ڈانٹ سن کر چار و ناچار میں آگے بڑھا ۔۔ میرے آگے‬
‫بڑھنے کی دیر تھی کہ ۔۔۔ وہی ہوا کہ جس کا مجھے اندیشہ تھا۔۔۔۔‬
‫میری دونوں ٹانگوں میں پھنسا۔۔۔۔۔ہوا لن آذاد ہو کر ۔۔۔باہر نکل گیا۔۔۔۔۔‬
‫اور کسی شیش ناگ کی طرح پھن پھیالئے جھومنے لگا ۔۔۔ جس کی‬
‫وجہ سے ایک بار پھر ۔۔۔۔ میری النگ نیکر کے آگے تنبو سا بن گیا‬
‫تھا۔۔۔ ۔۔۔چونکہ میں روزانہ نیکر کے نیچے انڈر وئیر پہن کر آتا تھا‬
‫اس لیئے میں دل ہی دل میں خود کو کوسنے لگا کہ آج نیکر کے‬
‫نیچے انڈروئیر کیوں نہیں پہنا ؟ ۔۔۔ لیکن چونکہ مامی کے ساتھ میرا‬
‫بھی چھٹی کرنے کا فُل موڈ تھا اس لیئے صبع میں اندڑ وئیر نہ پہن‬
‫سکا۔۔اور پھر مامی کی جھاڑ سن کر ۔۔۔ میں انڈروئیر پہننے بغیر ہی‬
‫سٹور پر آ گیا تھا۔۔اور یہ انڈروئیر نہ پہننے کا شاخسانہ تھا کہ۔۔۔۔۔ اس‬
‫وقت میری نیکر کے آگے ایک بڑا سا ٹینٹ بنا ہوا تھا ۔۔ادھر جیسے‬
‫ہی میں پلوی جی کے کہنے پر ۔۔۔۔ کیتھی میم کے ساتھ ہاتھ مالنے‬
‫کے لیئے آگے بڑھا۔۔۔ ۔۔ ۔۔ تو اس وقت پلوی جی میری طرف ہی‬
‫دیکھ رہیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان کے ایکسپریشن سے میں نے اندازہ لگا‬
‫لیا تھا کہ پلوی جی نے میرے لن کی اکڑاہٹ کو دیکھ لیا ہے۔ ۔۔۔‬
‫گوری میم کے ساتھ ہاتھ مالنے کے فورا ً بعد میں واپس پلٹا ۔۔۔۔اور‬
‫پہلے کی طرح لن کو اپنی دونوں ٹانگوں کے بیچ چھپا کر ۔۔۔۔اسی‬
‫پوزیشن میں کھڑا ہوگیا ۔ مجھ سے ہاتھ مالنے کے بعد وہ گوری گانڈ‬
‫مٹکاتی ہوئی وہاں سے چلی گئی۔۔ ۔اسے گانڈ مٹکاتے دیکھ دیکھ کر‬
‫میرا لن مزید اکڑ گیا۔۔۔۔ ابھی میں سوچ ہی رہا تھا کہ واش روم جا کر‬
‫ایک زبردست سی ُمٹھ لگاؤں کہ ۔۔۔۔ عین اسی وقت پلوی میم نے‬
‫میری طرف دیکھا اور شرارت سے بولیں ۔۔۔ کیتھی کیسی لگی ؟؟ تو‬
‫میں نے ان کو کوئی جواب نہیں دیا اور سر جھکائے کھڑا رہا۔۔۔ تب‬
‫وہ زرا سخت لہجے میں کہنے لگیں ۔۔۔ اے مسٹر ! میری بات کا‬
‫جواب دو ۔۔۔تو میں جھجھک کر بوال۔۔۔۔ جی وہ اچھی ہیں ۔۔ میری بات‬
‫سن کر میڈم شرارت سے بولیں ۔۔ صرف اچھی ہیں ؟ تو میں نے ہاں‬
‫میں سر ہال دیا۔۔ تب وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔‬
‫سارے ٹین ایجر لڑکوں کی طرح کیا تمہیں بھی میچور لیڈیز بہت‬
‫پسند ہیں ؟ ان کے اس سوال پر ۔۔۔ میرے پاس جواب دینے کے لیئے‬
‫بہت کچھ تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ہائے ہائے یہ مجبوری۔۔۔اس لیئے میں نے‬
‫خاموش رہنے میں ہی اپنی عافیت جانی ۔۔۔ لیکن جب انہوں نے‬
‫آنکھیں نکالتے ہوئے۔۔۔ دوبارہ یہی سوال کیا تو ان کی بات سن کر‬
‫پہلے تو میں ایسے ہی ادھر ادھر کی "چولیں " مارتے ہوئے آئیں‬
‫بائیں شائیں کرتا رہا ۔۔۔۔ لیکن جب انہوں نے سخت لہجے میں یہ کہا‬
‫کہ میں جو بات پوچھوں اس کا سچ سچ جواب دو ورنہ۔۔۔چنانچہ ان‬
‫کی یہ دھمکی کام کر گئی۔۔۔۔اور ۔۔۔ میں نے اپنا سر ہالتے ہوئے ہاں‬
‫میں جواب دے دیا۔۔۔ ۔۔ تو اس پر وہ کہنے لگیں۔۔۔ ۔ اتنے بڑ ے سر‬
‫کو ہالتے ہو۔۔۔ دو تولے کی زبان ہالتے ہوئے تمہیں ڈر لگتا ہے؟‬
‫۔۔۔اور پھر بولیں ۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ کیا کیتھی تمہیں بہت سیکسی لگی‬
‫تھی ؟ تب میں نے سر اُٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور بوال ۔۔۔ ایسی‬
‫کوئی بات نہیں ۔۔تو وہ قدرے تیز لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔ ۔۔۔اگر ایسی‬
‫بات نہیں ۔۔تو پھر مسٹر عدیل ۔۔۔۔۔ کیتھی کی بیک سائیڈ دیکھتے ہی‬
‫تمہارے منہ سے سیٹی کی آواز کیوں نکلی تھی؟ ۔۔ میڈم کی بات سن‬
‫کر میں گھبرا گیا ۔۔اور ان سے کہنے لگا۔۔ وہ تو جی۔۔۔ ۔۔پھر ان کے‬
‫موڈ کو دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔ وہ جی بس ۔۔۔ بے اختیار ہی منہ سے‬
‫نکل گئی۔۔۔سوری۔۔۔میری بات سن کر وہ ہنس پڑیں اور پھر وہی سوال‬
‫دھراتے ہوئے بولیں۔۔۔ ۔۔۔ تو پھر مجھے بتاؤ نا کہ ۔۔۔ کیا وہ تمہیں‬
‫بہت سیکسی لگی تھی؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔ اس بات‬
‫کا تو مجھے پتہ نہیں ۔۔۔۔ لیکن جی مجھے میچور لیڈیز بہت پسند ہیں‬
‫تو وہ مجھے گھورتے ہوئے بولی ۔۔اس کی کوئی خاص وجہ؟ اس پر‬
‫میں نے ان کی طرف دیکھا تو اس دفعہ ان کے چہرے پر غصہ کے‬
‫کوئی آثار نہ تھے۔۔۔۔ بلکہ وہ مسکرا رہیں تھیں ۔۔۔ یہ دیکھ کر مجھے‬
‫کچھ حوصلہ ہوا ۔۔۔اور ان سے بوال ۔۔ وجہ تو مجھے معلوم نہیں۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے بڑی گہری نظروں سے میری طرف‬
‫دیکھا اور پھر۔۔۔سرسراتے ہوئے لہجے میں بولیں۔۔ ۔۔ میچور لیڈیز‬
‫میں تو میں بھی آتی ہوں۔۔۔۔ تو کیا تم مجھے بھی پسند کرتے ہو ؟‬
‫پلوی جی کی یہ بات سن کر میں گھبرا گیا۔۔۔۔ اور بوال ۔۔۔ہکالتے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔۔ وہ جی ۔۔۔وہ جی ۔۔آپ بہت اچھی ہیں۔۔۔ میری سن کر وہ‬
‫اسی پراسر ار لہجے میں بولیں۔۔۔۔ کیا۔۔۔ میں ویسے ہی اچھی ہوں یا‬
‫تم کو بھی اچھی لگتی ہوں؟ میڈم کی اس بات پر میں نے چونک کر‬
‫ان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔آپ ۔۔۔۔بہت اچھی ہیں ۔۔۔ میری‬
‫بات سن کر انہوں نے نشیلی آنکھوں سے میری طرف دیکھا اور‬
‫کہنے لگیں ۔۔اچھا یہ بتاؤ کہ میں زیادہ اچھی لگی ہوں ۔۔۔ یا۔۔۔۔ کیتھی؟‬
‫ان کی بات سن کر میں چپ رہا ۔(لیکن دل ہی دل میں کہنے لگا کہ‬
‫جو دے دے وہی اچھی لگے گی ۔۔۔ لیکن ڈر کے مارے ُچپ رہا) ۔۔‬
‫اسی اثنا میں وہ کاؤنٹر سے باہر نکلیں اور میرے سامنے کھڑے ہو‬
‫کر بڑے اسٹائل سے بولیں۔۔۔ غور سے دیکھ کر بتاؤ کہ ۔۔۔‬
‫تمہیں۔۔۔میں زیادہ سیکسی لگتی ہوں یا۔۔کیتھی؟ اس وقت میں نے پلوی‬
‫میم کی طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں ۔۔۔۔ شہوت کے سرخ‬
‫ڈورے تیر رہے تھے۔۔یہ سب دیکھنے اور ۔۔۔۔ جاننے کے باوجود‬
‫بھی میں نوکری جانے کے خوف سے چوتیا بنا رہا۔۔۔۔۔ ویسے بھی‬
‫میں اس کشمش میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔کہ اگر اس خاتون کو یہ جواب دیا کہ‬
‫آپ بہت سیکسی ہیں ۔۔تو کیا پتہ ۔۔ وہ میری اس بات کا مطلب کیا‬
‫سمجھے؟ ۔۔ برا سمجھے۔۔۔۔بھال سمجھے۔۔۔۔۔۔‬
‫تو اگر وہ بھال سمجھے۔ تو واہ بھال۔۔۔۔۔۔لیکن اگر برا سمجھی تو ۔۔۔‬
‫استاد تیری تو نوکری گئی۔۔۔۔۔۔چنانچہ یہ سوچ کر میں چپ ہی رہا۔۔۔‬
‫۔۔۔میری یہ حالت دیکھ کر وہ ایک سٹیپ مزید آگے بڑھیں ۔۔۔اور‬
‫۔۔۔اور اپنی چھاتیوں کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ‬
‫۔۔ کہ میرے بریسٹ زیادہ بڑے ہیں یا کیتھی کے؟ ۔۔ اس پر بھی میں‬
‫کچھ نہ بوال اور ۔۔۔۔ ویسے ہی سر جھکائے کھڑا رہا۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ‬
‫مزید آگے بڑھیں ۔۔۔ اور میرا ہاتھ پکڑ کر بولیں ۔۔۔ اچھا ایسا کرو ۔۔۔۔‬
‫کہ تم میرے بریسٹ کا ناپ لے کر دیکھو اور پھر بتاؤ کہ میرے‬
‫زیادہ بڑے ہیں یا کیتھی کے؟ ۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے میرا ہاتھ‬
‫پکڑ کر اپنی چھاتیوں پر رکھ دیا۔‬
‫ان کی بھاری چھاتیوں پر ہاتھ پڑتے ہی میری تو جان ہی نکل گئی۔۔۔‬
‫جوش جزبات سے ہولے ہولے کانپنا شروع ہو‬ ‫ِ‬ ‫اور میں ڈر ۔۔۔یا شاید‬
‫گیا۔۔۔ لیکن میری اس حالت سے بے خبر وہ میرے ہاتھ کو اپنی‬
‫چھاتیوں پر رگڑتے ہوئے بولیں۔۔۔ناپ کر بتاؤ ۔۔۔ میرے بریسٹ بڑے‬
‫ہیں نا؟ ۔۔۔ اور پھر وہ میرے جواب کا انتظا ر کیئے بغیر ہی۔۔۔ میرے‬
‫ہاتھ کو اپنی شرٹ کے اندر لے گئیں۔۔۔ ۔۔۔اور اپنی ننگی چھاتیوں پر‬
‫رکھتے ہوئے بولیں اب بول۔۔ہم دونوں میں سے کس کی چھایتاں‬
‫زیادہ بڑی ہیں ۔۔۔ یہ کہتے ہی انہوں نے مستی میں آ کر اپنی چھاتیوں‬
‫پر رکھے میرے ہاتھ کو اپنی چھاتی پر دبا دیا۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ ان کی‬
‫چھاتی کہ جس پر میرا ہاتھ دھرا تھا ۔۔ اس قدر بڑی اور شاندار تھی‬
‫۔۔۔کہ اس وقت میرا جی چاہ رہا تھا کہ میں اسی وقت میڈم کی شرٹ‬
‫کو پھاڑ کر۔۔۔۔ ان کی مست چھاتیوں کو چوسنا شروع کر دوں۔۔لیکن‬
‫شدید خواہش کے باوجود بھی میں ایسا نہ کر سکا ۔۔۔۔۔ چنانچہ اس کا‬
‫رزلٹ یہ نکال۔۔۔ کہ ۔۔ ڈر ۔ خوف ۔۔۔ اور جوش ۔۔ کی وجہ سے میں‬
‫باقاعدہ کانپنا شروع ہو گیا۔۔ ۔۔۔۔ اور اس وقت جانے کیسے میرے منہ‬
‫سے یہ نکل گیا کہ ۔۔۔ ۔۔۔ پلیززز۔۔۔نن نا کریں آنٹی۔۔۔۔کہ اگر اس بات‬
‫کا مامی کو پتہ چل گیا تو مجھے بہت مار پڑے گی۔۔۔۔ مامی کا ذکر‬
‫سن کر ۔۔۔۔۔ وہ ناک چڑھا تے ہوئے ناگواری سے بولیں۔۔ ۔۔۔ وہ رنڈی‬
‫تو اس وقت بیڈ پر پڑی کھانس رہی ہو گی۔۔۔ اس لیئے اس بات کی تم‬
‫فکر نہ کرو ۔۔۔تو اس پر میں مزید کانپتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔‬

‫پھر بھی ۔۔۔اگر ان کو پتہ چل گیا تو وہ مجھے یہاں سے نکلوا دیں گی‬
‫۔۔۔ میری بات سن کر وہ جل ترنگ سی ہنسیں اور ۔۔۔اس کے بعد۔۔‬
‫انہوں نے دھیرے سے میرے جھکے ہوئے سر کو اوپر اُٹھایا۔۔۔ اور‬
‫پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولیں ۔۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ‬
‫یہ سٹور میرا ۔۔۔اور میں اس کی مالکن ہوں۔۔۔ اور دوسری بات یہ ہے‬
‫کہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ یہاں پر تم اور تمااری ممانی دونوں میرے مالزم ہو۔۔۔ اس‬
‫کے بعد وہ کہنے لگیں بولو میں غلط کہہ رہی ہوں یا درست۔۔ ؟ تو‬
‫میں نے آگے سے ہاں میں سر ہال دیا۔۔۔۔۔۔ تو وہ اسی ٹون میں کہنے‬
‫لگیں ایسی صورت میں اگر سٹور سے کسی کو نکالنا ہو تو مجھے‬
‫بتاؤ ۔۔۔۔ کہ اس کا فیصلہ مالک کرے گا یا نوکر ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔ تو اس‬
‫پر میں نے ۔۔۔ باقاعدہ کانپتے ہوئے جواب دیا جی مالک نکالے‬
‫گا۔۔۔۔۔میری بات سن کر انہوں نے ایک گہری سانس لی ۔۔۔ اور پھر‬
‫کہنے لگیں ۔۔ اس لیئے اب تم بے فکر ہو جاؤ ۔۔ میں تمہیں اس رنڈی‬
‫کے تو کیا ۔۔۔ کسی کے بھی کہنے پر نہیں نکالوں گی ۔۔۔ پھر میری‬
‫طرف دیکھتے ہوئے دھمکی آمیز لہجے میں بولیں ۔۔۔ ہاں اگر تم نے‬
‫میری بات نہ مانی تو ۔۔۔۔ میں تمہیں نوکری سے نکال سکتی ہوں اس‬
‫لیئے جیسا میں کہتی ہوں چپ چاپ کر تے رہو ورنہ!!!! !!!۔۔‬

‫میڈم کے اس دھمکی آمیز ورنہ !! ۔۔۔ نے حسب ِ معمول میری گانڈ‬


‫بند کر دی تھی اور میں ان کے لہجے سے ہی سمجھ گیا تھا کہ اگر‬
‫میں نے میڈم کی بات نہ مانی تو۔۔۔(میرا کیا بنے گا کالیا؟)۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس‬
‫سے آگے میں کچھ نہ سوچ سکا۔۔۔۔اس لیئے میں نے دل ہی دل میں‬
‫فیصلہ کر لیا کہ جیسے یہ کہیں گی چپ چاپ کرتا جاؤں گا (اور‬
‫ویسے بھی تو وہ سالی صرف میری عزت ہی تو لوٹنے کے چکر‬
‫میں تھی۔۔۔جو کہ میں اس جیسی سیکسی آنٹیوں پر جنم جنم سے‬
‫لُٹانے کو تیار بیٹھا تھا)۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ دوسری طرف شہوت کے نشے میں‬
‫ُچور میڈم ۔۔۔ میری طرف بڑھتے بڑھتے اچانک رک گئیں ۔۔۔ ۔۔اور‬
‫پھر بنا کچھ کہے واپس ُمڑیں۔۔۔۔اور تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے سٹور‬
‫کے مین گیٹ کے پاس پہنچ گئیں۔۔۔وہاں پہنچ کر انہوں نے سٹور کو‬
‫الک کیا اور اس کے شیشے پر لگے بورڈ ۔۔" سٹور کھال ہے" کو اُلٹا‬
‫کر دیا جس پر " سٹور بند ہے" لکھا تھا ۔۔ اس کے بعد انہوں نے‬
‫پردے کو شیشے کے آگے کر دیا ۔۔ جس کی وجہ سے اب باہر سے‬
‫اندر کا منظر نہیں دیکھا جا سکتا تھا ۔۔۔۔ یہ سب کرنے کے بعد پلوی‬
‫جی واپس مڑیں۔۔۔ اور میرے قریب پہنچ کر ۔۔۔ اسی شہوت بھرے‬
‫لہجے میں بولیں۔۔۔ لو میں نے ڈور (دروازے) کو الک کر دیا ہے۔۔۔۔‬
‫اب ہم آرام سے پیار کر سکیں گے۔۔۔ اس کے بعد وہ مزید آگے‬
‫بڑھیں۔۔۔اور اپنے منہ کو میرے کان کے قریب ال ئیں ۔۔۔ (اتنے قریب‬
‫کہ مجھے اپنے کانوں کے آس پاس ان کی گرم سانسیں محسوس‬
‫ہونے لگیں)۔۔۔ ۔۔۔ اور پھر سرگوشی کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔ میرے ساتھ‬
‫پیار کرو گے نا؟ تو میں نے کانپتے ہوئے ہاں کر دی۔۔ میری طرف‬
‫سے ہاں سنتے ہی انہوں نے اپنی لمبی سی زبان کو باہر نکاال اور‬
‫اسے میرے سرخ ہوتے ہوئے گالوں پر پھیرتے ہوئے بولیں۔۔۔ میرے‬
‫ساتھ سیکس کرو گے نا؟ ۔ ۔تو اس پر بھی میں نے ہاں میں سر ہال‬
‫دیا۔۔۔۔ وہ میرے ہاں کا اشارہ پا کر ۔۔ ۔۔۔۔ ایک بار پھر سے۔۔۔۔ ہونٹوں‬
‫ک و میرے کان کے قریب الئیں۔۔۔۔۔اور پھر بڑے ہی سیکسی لہجے‬
‫سرگوشی کرتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ تمہیں پتہ ہے۔۔۔۔میں کب سے ایسا‬
‫کرنا چاہ رہی تھی ۔۔تو میں نے حیران ہو کر ان سے پوچھا کہ میرے‬
‫ساتھ ؟ تو آگے سے وہ سرسراتے ہوئے لہجے میں بولیں ہاں تیرے‬
‫ساتھ۔۔۔۔۔ اس کے بعد وہ میرے سامنے کھڑی ہو گئیں اور اپنی بانہیں‬
‫کھول کر بولی آ گلے لگ جا۔۔۔ ان کی بات سن کر میں آگے بڑھا اور‬
‫ان کے ساتھ گلے مل گیا۔۔۔ میرے اس طرح آگے ہونے سے میرا لن‬
‫آزاد ہو کر جوش سے جھومنے لگا ۔۔لیکن میں نے اس کی کوئی‬
‫پرواہ نہیں کی ۔۔۔۔۔ چنانچہ میڈم سے گلے ملتے ہوئے ۔۔۔۔ لن صاحب‬
‫۔۔۔۔ ایڈجسٹ نہ ہونے کی وجہ سے ان کی نرم رانوں پر دستک دینے‬
‫لگے۔۔۔ ۔۔۔‬

‫اپنی نرم ران پر میرے سخت لن کو محسوس کرتے ہی۔۔۔ میڈم نے‬
‫دھیرے سے ۔۔۔۔اپنا ہاتھ بڑھایا اور اسے پکڑ کر ۔۔۔ اپنی دونوں ٹانگیں‬
‫کھولیں۔۔۔اور اسے اپنی گرم پھدی ( جو کہ اس وقت خاصی گیلی بھی‬
‫تھی ) کی لکیر کے درمیان فٹ کر دیا۔۔۔۔‬
‫اوہ۔۔اوہ۔۔۔۔۔اووووووووووووووو۔۔۔۔ ان کی گیلی پھدی کا لمس اس قدر‬
‫مست تھا ۔۔۔ کہ میں بے خود ہو کر لن کو آگے پیچھے کرنے لگا۔۔۔ یہ‬
‫دیکھ کر انہوں نے اپنی ٹانگوں کو کچھ مزید کھول دیا۔۔۔ اور میرے‬
‫دھکوں کو خوب انجوائے کرنے لگی۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر اچانک اپنی رانوں کو‬
‫بند کرتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔کیا۔۔۔تمہیں معلوم ہے کہ تم غضب کے‬
‫سیکسی ہو ۔۔ اور پھر میرے منہ کے ساتھ اپنے منہ کو جوڑ‬
‫دیا۔۔۔۔اور اپنے ہونٹوں کے ساتھ میرے ہونٹوں کو چومنا شروع ہو‬
‫گئیں۔۔۔۔ان کے نرم ہونٹ جیسے ہی میرے ہونٹوں کے ساتھ‬
‫ٹکرائے۔۔۔۔۔۔ تو مجھے ایک عجیب سا کرنٹ لگا۔لیکن اس کے ساتھ‬
‫ساتھ مزہ بھی بہت آیا۔۔۔۔۔ دوسری طرف میرے ہونٹوں کو چومنے‬
‫کے بعد انہوں نے اپنی زبان کو باہر نکاال۔۔۔۔۔۔ اور اسے ۔۔۔ میرے‬
‫ہونٹوں پر پھیرنے لگیں۔۔ ان کی زبان کا لمس اس قدر ۔۔۔۔۔ ذائقہ آور‬
‫تھا کہ ۔۔۔ صواد آ گیا بادشاہو۔۔۔۔اور میں جو پہلے ہی ڈر۔۔۔۔ یا شاید‬
‫۔۔جوش کی وجہ سے ہلکے ہلکے کانپ رہا تھا۔۔۔۔۔۔ لیکن پھر ان کی‬
‫زبان کا لمس پا کر ۔۔۔ میں باقاعدہ کانپنا شروع ہو گیا۔۔۔۔ مجھے اس‬
‫قدر کانپتا دیکھ کر وہ ایک لمحے کے رکیں اور ۔۔۔ پھر میری طرف‬
‫ت جزبات سے کانپتے‬ ‫دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔ کیا ہوا؟ تو میں شہو ِ‬
‫ہوئے بوال۔۔۔ بڑا مزہ آ رہا ہے۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگیں۔۔ یہ‬
‫تو ابھی شروعات ہے۔۔ میری جان ۔۔ آگے آگے دیکھ میں ۔۔۔۔ تجھے‬
‫کتنا مزہ دیتی ہوں ۔۔۔ پھر مجھ سے کہنے لگیں۔۔۔ اپنی زبان کو زرا‬
‫باہر نکالو ۔۔تو میں نے جھٹ اپنی ساری زبان کو منہ سے باہر نکال‬
‫دیا ۔۔۔۔ یہ منظر دیکھ کر انہوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور‬
‫کہنے لگیں ۔۔۔ شاباش۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں میری زبان کو اپنے‬
‫منہ میں لے لیا ۔۔اور مستی کے عالم میں اسے چوسنے شروع ہو‬
‫گئیں۔۔۔ چونکہ کسی بھی خاتون کے ساتھ یہ میری پہلی کگنت تھی‬
‫اس لیئے جیسے ہی انہوں نے اپنی زبان کو میرے منہ میں لے جا‬
‫کر گھمانا شروع کیا۔۔۔۔۔۔۔ تو ان کے اس عمل سے میں ۔۔ مزے کے‬
‫ساتیوں آسمان پر پہنچ گیا۔۔۔ اور اپنی آنکھیں بند کر کے زبانوں کے‬
‫ٹکراؤ کا مزہ لینا لگا۔۔کسنگ کے دوران ہی انہوں نے اپنی پھدی کی‬
‫لکیر پر رکھے۔۔۔ لن کو وہاں سے ہٹا دیا تھا اور کسنگ کے دوران‬
‫ہی اسے اپنے ہاتھ میں پکڑ کر سہالنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔ اس طرح وہ‬
‫کافی دیر تک میرے ساتھ ٹنگ کسنگ کرتی رہیں ۔۔۔ پھر کچھ دیر‬
‫بعد انہوں نے میرے منہ سے اپنی زبان کو باہر نکاال۔۔۔۔۔ اور میری‬
‫طرف دیکھ کر بولیں۔۔ کسنگ کیسی لگی ؟ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔‬
‫مجھے بہت مزہ آیا ۔۔۔ تب وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‬
‫بولیں۔۔۔۔ اور مزہ بھی دوں ۔۔۔ان کی بات سن کر میں نے اپنی زبان کو‬
‫منہ سے باہر نکاال ۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔۔ اسے چوسیں نا‬
‫پلیززززززز۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ میری زبان کو باہر نکال دیکھ کر وہ آگے‬
‫بڑھیں۔۔۔۔۔ ۔۔اور پھر میری زبان کے ساتھ اپنی زبان کو ٹکرا کر بولیں‬
‫۔۔۔اس دفعہ یہ واال نہیں۔۔۔۔۔ بلکہ میں تمہیں ایک ڈفرنٹ مزہ دوں گی ۔۔‬
‫یہ کہتے ہی انہوں نے اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دہیئے ۔۔‬
‫دوسری طرف میں انہیں کپڑے اتارتے ہوئے بڑے غور سے دیکھ‬
‫رہا تھا ۔۔۔۔۔ مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر وہ اشارہ کرتے ہوئے‬
‫کہنے لگیں ۔۔۔۔ تم بھی اتار دو۔۔ ان کی بات سن کر میں نے ایک نظر‬
‫ان کے شفاف اور گورے بدن پر ڈالی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اپنے کپڑے‬
‫اتارنے لگا۔۔۔‬

‫اُف۔۔کیا بتاؤں دوستو کہ میڈم کا بدن کیسا تھا ۔۔۔۔۔ ان کا جسم نہایت‬
‫شفاف ۔۔۔۔اور بالوں سے پاک تھا۔۔۔۔۔۔خاص کر ان کی چوت بہت‬
‫ابھری ہوئی اور گوشت سے بھر پور تھی۔۔۔چوت کے درمیان ایک‬
‫گہری سی لکیر تھی ۔۔۔ اور اس لکیر کے شروع میں میم کی چوت‬
‫کے اوپر ۔۔۔۔اور دانے کے نیچے ۔۔۔۔ اپر ہونٹ باہر کو نکل کر لٹکے‬
‫ب نظر اور‬ ‫ہوئے تھے۔۔۔۔ مجموعی طور پر ان کی چوت بہت جاذ ِ‬
‫مست تھی۔۔۔۔۔ ۔۔ جسے دیکھ کر میرا لن جھٹکے مارنا شروع ہو گیا‬
‫۔۔۔ادھر میڈم کے کہنے پر ۔۔۔۔ جیسے ہی میں نے اپنی نیکر اتار ی تو‬
‫ب عادت لن صاحب باہر آ کر لہرانا شروع ہو گئے۔۔۔ اتنی بات کر‬ ‫حس ِ‬
‫نے کے بعد۔۔۔۔ عدیل نے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا ۔۔۔ شاہ‬
‫تمہیں یاد ہی ہو گا کہ میٹرک میں ایک دفعہ سب ہم دوستوں میں لنوں‬
‫کا مقابلہ بھی ہوا تھا۔۔۔۔۔اور پوری کالس میں صرف تیرا یا پھر ۔۔۔۔‬
‫میرا لن بہت بڑا اور موٹا تھا۔۔۔۔ تو میرا بڑا سا لن دیکھ کر پلوی جی‬
‫کی آنکھیں پھیل گئیں۔ اور وہ بھوکی نظروں سے میرے اکڑے ہوئے‬
‫لن کو دیکھنے لگیں۔ اور میں نے نوٹ کیا کہ پلوی جی بار بار اپنے‬
‫ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھیں ۔۔۔اور تقریبا ً کھا جانے والی نظروں‬
‫سے ٹکٹکی باندھے ۔۔۔۔مسلسل میرے لن کو دیکھے جا رہیں تھیں۔۔۔۔۔‬
‫۔۔ ۔۔۔کچھ دیر ایسے ہی دیکھنے کے بعد۔۔۔۔ وہ میری طرف بڑھیں اور‬
‫میرے اکڑے ہوئے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اسے‬
‫سہالتے ہوئے بولیں۔۔۔ بڑے عرصے کے بعد کسی کٹ لن سے‬
‫واسطہ پڑا ہے۔۔۔دوسری طرف دل ہی دل میں۔۔۔۔ میں تو یہ سمجھ رہا‬
‫تھا کہ وہ میرے لن کی موٹائی اور لمبائی کی تعریف کریں گی ۔۔۔۔‬
‫لیکن اس کے برعکس جب انہوں نے کٹ لن کا ذکر کیا تو میں‬
‫پریشان ہو گیا ۔۔۔۔اور اسی پریشانی کے عالم میں ان سے بوال۔۔۔‬
‫۔۔۔۔کٹ لن؟؟؟؟ ۔۔ پھر لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسے چاروں طرف‬
‫سے دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔نہیں میڈم میرا لن تو بلکل پورا اور ٹھیک‬
‫ہے۔۔میری بات سن کر وہ مسکرائیں۔۔۔۔ ۔۔اور کہنے لگیں۔۔ ۔۔ میں نے‬
‫کب کہا کہ یہ پورا نہیں ہے۔۔۔؟ اس کے بعد وہ میرے لن کو ہاتھ میں‬
‫پکڑ کر کہنے لگیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔ کیا تم "کٹ اور اَن کٹ" کے بارے میں‬
‫کچھ جانتے ہو؟ ۔۔۔ میرے لیئے یہ بلکل نئی بات تھی۔۔۔اس لیئے میں‬
‫نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ وہ کیا ہوتا ہے جی؟ تو وہ‬
‫میرے لن کو آگے پیچھے کرتے ہوئے بولیں۔۔۔ تمہاری حیرانگی‬
‫مجھے بتا رہی تھی ۔۔۔۔ کہ تم اس بات سے ال علم ہو گے ۔۔اس کے‬
‫بعد وہ بڑے پیار سے میرے ٹوپے پر اپنی ایک انگلی پھیرتے ہوئے‬
‫بولیں۔۔۔ ۔۔۔ دیکھو تم مسلم لوگ شروع سے ہی لنڈ کی اضافی سکن کو‬
‫کٹوا لیتے ہو ۔۔‬

‫جس کی وجہ سے لنڈ کا سپارو ننگا ہو جاتا ہے۔۔۔۔ ۔۔۔تو لنڈ کی اس‬
‫عرف عام میں ہم کٹ لنڈ کہتے ہیں ۔۔۔ اور شاید تم جانتے ہو‬
‫ِ‬ ‫حالت کو‬
‫کہ مسلمز کے عالوہ باقی سب کے لنڈ اَن کٹ ہوتے ہیں۔۔۔۔ اسی لیئے‬
‫جس طرح بہت سی مسلمز لیڈیز ان کٹ لنڈ کو پسند کرتی ہیں اسی‬
‫طرح ہماری ہندو کمیونٹی کی بہت ساری خواتین جن میں ۔۔۔ میں بھی‬
‫شامل ہوں کو "کٹ لنڈ" بہت پسند ہوتا ہے۔ میڈم کی یہ با ت سن کر‬
‫میں حیران رہ گیا۔۔۔۔اور اسی حیرت کے عالم میں ان سے بوال۔۔مسلم‬
‫لیڈیز؟؟؟؟؟؟؟؟ میری اس حیرانی کو میڈم نے بھی بھانپ لیا ۔۔چنانچہ‬
‫وہ لن کو آگے پیچھے کرتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ ہاں مسلم لیڈیز یار۔۔۔ اس‬
‫کے ساتھ ہی وہ اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ مجھے‬
‫معلوم ہے کہ تم ایک دقیانوسی اور بہت ہی بیک ورڈ ۔۔۔ معاشرے‬
‫سے آئے ہو ۔اس لیئے تم اس بات کو نہیں سمجھو گے ۔۔۔۔۔ پھر توقف‬
‫کے بعد بولیں۔۔۔لیکن میری جان ۔۔۔۔۔۔۔ زمانہ بہت بدل گیا ہے۔۔ تم یقین‬
‫نہیں کرو گے کہ یہاں پر آنے والی اکثر عرب لیڈیز ۔۔۔کہ جن کو تم‬
‫لوگ بہت ہی متبرک سمجھتے ہو ۔۔۔۔ ان کٹ۔۔۔ لنڈز کی اس قدر‬
‫دیوانی ہیں کہ مت پوچھو۔۔۔ پھر انہوں نے شرارت بھری نظروں سے‬
‫میری طرف دیکھا اور پھر بڑے ہی ذومعنی لہجے میں کہنے‬
‫لگیں۔۔۔۔دور کیوں جاتے ہو ۔۔۔ بہت سی پاکستانی عورتیں بھی ان کٹ‬
‫لنڈ پر مرتی ہیں ۔۔۔میں ان کا اشارہ تو اچھی طرح سے سمجھ گیا تھا‬
‫‪،‬۔۔ لیکن جان بوجھ کر یمال بنا رہا۔۔۔۔۔اور ان سے پوچھنے لگا۔۔۔۔کہ وہ‬
‫کیوں جی ۔۔ تو آگے سے وہ کہنے لگیں۔۔۔۔۔ اس کی ایک بڑی وجہ تو‬
‫چینج بھی ہو سکتی ہے اور دوسری وجہ تمہاری ایک پاکستانی لڑکی‬
‫نے مجھے بتائی تھی اور وہ یہ کہ جب ان کٹ لنڈ سے پری کم‬
‫(مزی) نکلتی ہے تو وہ مزی۔۔۔۔ ٹوپے کے آگے والی کی سکن میں‬
‫پھیل جاتی ہے جس کی وجہ سے اس سکن کو چوسنے میں بڑا مزہ‬
‫آتا ہے اس پر میں نے ان سے کہا کہ اور کٹ لن کے بارے میں آپ‬
‫کیا کہتی ہو ؟ تو وہ میرے ٹوپے کو چوم کر بولیں۔۔۔ایک تو یہ کہ‬
‫دیکھنے میں "کٹ لن " بہت اچھا لگتا ہے دوسری بات یہ کہ کٹ لنڈ‬
‫سے دھکے بہت بڑھیا لگتے ہیں۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫کہنے لگی ایک بات کہوں؟ تو میں نے ان سے کہا کہ جی آپ حکم‬
‫کرو۔۔۔۔ تو آگے سے وہ نشیلی آواز میں کہنے لگیں۔۔۔۔ ۔۔۔ لنڈ چاہے‬
‫کٹ ہو یا اَن کٹ۔۔۔۔ لیکن اگر وہ تمہارے اس لن کی طرح سخت اور‬
‫پتھیریال ہو گا تو عورت کو مزہ آئے گا۔۔ورنہ ڈھیال ڈھاال لنڈ چاہے‬
‫کٹ ہو ۔۔۔ یا ان کٹ۔۔۔۔۔۔۔ اس کا کوئی فائدہ نہیں۔۔۔۔۔۔اس کے بعد وہ‬
‫اپنے ہونٹوں کو میرے لن پر رکھ کر بولی۔۔۔ لن چسوانا پسند کرو‬
‫گے؟ یہ سن کر میں نے ان کے سر کو اپنے لن پر دبا دیا ۔۔۔۔یہ دیکھ‬
‫کر انہوں نے ایک طویل سانس لی اور پھر ۔۔۔۔ میرے بدن کو‬
‫سونگھتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔ تمہارے جسم سے مجھے کنوارے پن کی‬
‫خوشبو آ رہی ہے؟ کیا یہ تمہاری فسٹ ٹائم ہے ؟ تو میں نے ہاں میں‬
‫سر ہال دیا۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ ایک ادا سے کہنے لگیں۔۔ ۔۔۔ پھر‬
‫تو میرا ۔۔۔ اس کنوارے ۔۔۔لنڈ کو چوسنا بنتا ہے ۔۔۔‬

‫اس کے ساتھ ہی انہوں نے میرے پھولے ہوئے ٹوپے کو اپنے منہ‬


‫میں لے لیا۔۔۔۔۔ اور ایک ہلکا سا چوپا لگا کر بولیں۔۔۔۔۔ ۔۔شاید تمہیں‬
‫معلوم نہیں کہ میں لن چوسنے اور اسے چاٹنے کی بڑی شوقین ہوں‬
‫۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے میرے لن پر ایک بڑا سا تھوک کا‬
‫گوال پھینکا۔۔۔۔اور کہنے لگیں۔ ۔۔ پہلے میں لنڈ کو تھوک لگا کر گیال‬
‫کرتی ہوں ۔۔۔۔اور پھر اس تھوک کو پورے لن پر پھیال دیتی ہیں اور‬
‫اس کے ساتھ ہی انہوں نے میرے لن پر پڑے تھوک کے گولے کو‬
‫اپنی انگلیوں کی مدد سے پورے لن پر پھیالتے ہوئے بولیں ۔۔۔ایسے‬
‫۔۔۔پھر کہنے لگیں ۔۔۔۔ میرے اس طرح کرنے سے لن جب خوب چکنا‬
‫ہو جاتا ہے تو پھر میں ۔۔۔۔اس کو اپنی ُمٹھی میں قید کر لیتی‬
‫ہوں۔۔۔۔اور پھر اسے ہلکا ہلکا رگڑتی ہوں ۔۔۔ اتنی بات کرتے ہوئے‬
‫انہوں نے پہلے تو اپنی ہتھیلی پر تھوک پھینکا ۔۔۔۔اور پھر میرے لن‬
‫کو اپنی گرفت میں لے لیا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ میرے چکنے لن‬
‫پر ہلکی ہلکی ُمٹھ مارنے لگیں۔۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے ایک بار پھر‬
‫میری طرف دیکھا ۔۔۔اور کہنے لگیں ۔۔۔ تمہیں معلوم ہے اس کے بعد‬
‫میں کیا کرتی ہوں؟؟ تو اس پر میں نے ان کو کوئی جواب نہ دیا اور‬
‫ُچپ ہی رہا ۔۔۔وہ اس لیئے کہ اس وقت آنٹی فل گرم اور جوبن میں‬
‫تھی اور میں ان کی اس گرمائیش اور لزت سے بھر پور باتوں کو‬
‫انجوائے کرنا چاہتا تھا۔۔۔دوسری طرف بات کرنے کے بعد میڈم نے‬
‫بس ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگیں۔۔۔۔۔ اس کے بعد‬
‫میں اپنے گرم گرم ہونٹوں سے ٹوپے کو چومتی ہوں۔۔یہ کہتے ہی‬
‫انہوں نے شہوت بھری نظروں سے میری طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔اور پھر۔۔۔‬
‫سر جھکا کر میرے ٹوپے کو چومنا شروع کر دیا۔اُف ان کے نرم نرم‬
‫ہونٹ جب میرے ٹوپے کے ساتھ ٹچ ہوئے۔۔۔۔تو ان کے لمس کی وجہ‬
‫سے ۔۔۔ میں لزت بھری سسکیاں لینے لگا۔۔۔ ادھر وہ بڑے ہی شہوت‬
‫انگیز طریقے سے میرے ٹوپے کو چومتی رہیں ۔۔۔اس کے بعد انہوں‬
‫نے اپنا سر اُٹھایا۔۔۔اور کہنے لگیں ۔۔ تیری سسکیاں بتا رہیں ہیں کہ‬
‫تجھے مزہ آ رہا ہے تو میں نے ہاں میں سر ہال دیا۔۔۔ اس کے بعد ۔۔ ۔۔‬
‫وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ تمہیں پتہ ہے‬

‫تیرے جیسے کٹ لن کو چومتے چومتے ۔۔۔ میں اسے اپنے منہ میں‬
‫ڈال لیتی ہوں ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے میرے لن کو اپنے‬
‫منہ میں ڈال لیا۔۔۔۔۔ اور اسے آم کی طرح چوسنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔وہ‬
‫کبھی تو میرے لنڈ کو صرف ہونٹوں کے ذریعے سے اوپر سے‬
‫نیچے تک چوستیں ۔۔اور اپنے منہ کے اندر تک لے جاتیں۔۔۔۔ ۔۔۔اور۔۔‬
‫کبھی مست ہو کر ۔۔اپنی زبان باہر نکالتیں ۔۔۔۔۔اور ۔۔۔شہوت بھرے‬
‫انداز میں لن کو چاروں طرف سے چاٹنا شروع کر دیتیں۔۔ ان کے لن‬
‫چوسنے کا اسٹائل اس قدر ۔۔۔ شہوت انگیز تھا کہ ۔۔۔ میں جو فرسٹ‬
‫ٹائم کسی تجربہ کار عورت سے اپنے لن کو چسوا رہا تھا۔۔۔ برداشت‬
‫نہ کر پایا۔۔۔۔اور اچانک ہی مجھے جوش چڑھ گیا اور میں نے ان کو‬
‫منہ سے پکڑا ۔۔۔اور ان کے منہ کو چودتے ہوئے بوال۔۔۔ میڈم جی میں‬
‫بس۔۔۔۔۔۔۔ میری اس حرکت سے تجربہ کار میڈم فورا ً سمجھ گئیں ۔۔ کہ‬
‫میرا پانی نکلنے واال ہے۔۔۔ اس لیئے انہوں نے ایک لمحے کے لیئے‬
‫مجھے ُرکنے کو کہا ۔۔۔۔اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے‬
‫(چھوٹنے والے ہو) تو میں نے بے‬ ‫ُ‬ ‫لگیں ۔۔۔۔۔" کم " کرنے والے ہو؟‬
‫پر‬
‫چارگی کے ساتھ سر ہال دیا۔۔۔ میری بات سنتے ہی وہ ایک دم سے ُ‬
‫جوش ہو کر بولیں۔۔۔۔ پہلی پہلی "کم" (منی) کا اپنا ہی مزہ ہو گا ۔۔ یہ‬
‫کہتے ہی انہوں نے میرے لن کو تیزی کے ساتھ اپنے منہ میں لے‬
‫لیا۔۔۔۔اور اسے تیز تیز چوسنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔۔کچھ ہی دیر بعد میرے‬
‫جسم نے جھٹکے لینا شروع کر دیئے۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ اور تیزی کے‬
‫ساتھ چوپا لگانے لگیں ۔۔ تیز۔اور تیززززززززز۔۔۔ ۔۔۔۔۔اور پھر میرے‬
‫لن نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا۔۔۔ لیکن وہ بدستور اسے چوستی‬
‫۔۔اور ساتھ ساتھ "کم" کو پیتی گئیں۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اور میرے لن کو اس‬
‫وقت اپنے منہ سے باہر نکاال ۔۔۔ کہ جب وہ مرجھانا شروع ہو گیا۔۔۔۔‬
‫لنڈ کو منہ سے باہر نکالنے کے بعد ۔۔انہوں نے ٹشو کے ساتھ اپنے‬
‫منہ کو صاف کیا ۔۔۔۔ اور میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے‬
‫کہنے لگیں میری سکنگ کیسی لگی؟ ؟۔۔۔تو میں نے اے ون کا اشارہ‬
‫کر دیا۔۔۔ میرا اشارہ دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے کھڑیں ہو گئیں۔۔۔اور‬
‫پھر کہنے لگیں سچ بتاؤں تو بڑے عرصے کے بعد مجھے بھی ایک‬
‫کٹا ہوا لن چوس کر بڑا مزہ آیا۔۔۔ ان کے یوں کھڑے ہونے سے‬
‫میری نظر ان کی چوت پر پڑ گئی۔۔ جس کے آس پاس کا سارا ایریا‬
‫بھیگا ہوا تھا۔اور وہ لیک کر رہی تھی ۔۔۔۔ مجھے اپنی چوت کی‬
‫طرف متوجہ پا کر وہ کہنے لگیں۔۔۔۔ آج تو کچھ زیادہ ہی لیک ہو‬
‫گئی۔۔۔ تو اس پر میں ان کی شاندار پھدی پر نظریں گاڑتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔ اجازت ہو تو میں بھی آپ کی چوسوں؟ اس پر وہ آنکھیں پھیال‬
‫کر بولیں۔۔۔ پہلے کبھی چوسی ہے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ پہلے‬
‫کبھی نہیں چوسی نہیں ۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ بلیو موویز میں بہت دیکھا ہے ۔۔‬
‫میری بات سن کر وہ کہنے لگیں۔۔۔۔ میرے خیال میں وہیں سے تمہیں‬
‫پھدی چاٹنے کا شوق پیدا ہوا؟ تو میں نے ہاں کر دی ۔۔۔۔میری بات‬
‫سن کر وہ ایک دفعہ پھر میرے گلے لگ گئیں ۔۔اور پھر میرے‬
‫ہونٹوں کو چوسنے کے بعد کہنے لگیں۔۔۔۔۔ جیسے ابھی میں نے‬
‫تیرے ہونٹ چوسے ہیں ناں۔۔۔ایسے ہی تم بھی میری چوت کے‬
‫ہونٹوں کو چوسنا ہے ۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی وہ اپنی ایک چھاتی کو‬
‫میرے سامنے کرتے ہوئے بولیں۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے تمہیں‬
‫میری ان چھاتیوں کو چوسنا پڑے گا۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے ان‬
‫کے ایک نپل کو اپنی انگلیوں میں لیا ۔۔۔اور دوسری چھاتی کو منہ‬
‫میں لے کر چوسنا شروع ہو گیا۔۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں‬
‫کہ میڈم پہلے ہی بہت گرم اور مست لیڈی تھی ۔۔۔اب جو میں نے ان‬
‫کی بھاری چھاتیوں کو چوسنا شروع کیا ۔۔۔۔ تو وہ تھوڑی لؤڈ آواز‬
‫میں سسکیاں بھرنے لگیں ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ وہ میرے بالوں‬
‫میں انگلیاں پھیرتے ہوئی بولیں۔۔۔۔۔ میرے نپلز کو ایسے ہی‬
‫چوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے تھوڑی دیر پہلے ۔۔۔ میں تیرے اکڑے ہوئے‬
‫لوڑے کو چوس رہی تھی ان کی بات سن کر میں نے ان کی بڑی‬
‫بڑی چھایتوں کو ایسے چوسا کہ جیسے کوئی بھوکا آدمی آم کو‬
‫چوستا ہے ۔۔۔ میرے اس طرح چھاتیاں کو چوسنے سے میڈم بے حال‬
‫ہو گئی اور پھر کچھ دیر بعد مجھے روکتے ہوئے بولیں۔۔۔۔‬
‫بس۔۔میری جان بس۔۔۔ تم نے تو کمال ہی کر دیا۔۔۔۔‬

‫اتنی بات کرنے کے بعد ۔۔۔۔ انہوں نے کاؤنٹر کے پاس پڑی ریوالنگ‬
‫چئیر کو اپنی طرف کھینچا اور اس پر ٹانگیں پھیال کر بیٹھ گئیں۔وہ‬
‫چئیر پر کچھ اس انداز سے بیٹھیں تھیں کہ جس کی وجہ سے ان کی‬
‫پانی سے بھری چوت باہر کی طرف نکل آئی تھی۔۔۔۔۔ سیٹ ہو کر‬
‫بیٹھنے کے بعد انہوں نے مجھے چوت چاٹنے کا اشارہ کیا ۔۔ ان کا‬
‫اشارہ پا کر میں گھٹنوں کے بل چلتا ہوا ان کی دونوں ٹانگوں کے‬
‫درمیان جا پہنچا ۔۔۔۔۔اور ان کی ابھری ہوئی صاف شفاف چوت کو‬
‫چومنا شروع ہو گیا۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ اپنی دو انگلیوں‬
‫کو میری چوت میں ڈالو ۔۔۔اور پھر چوسو۔۔۔۔ ان کی ہدایت سن کر‬
‫پہلے تو میں نے اپنی دو انگلیوں کو ان کی پانی سے بھری چوت‬
‫میں ڈاال۔۔۔۔۔ اور انہیں اندر باہر کرنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔ اپنے گرم‬
‫ہونٹوں کو میڈم کی تندوری چوت پر رکھ دیا۔۔۔۔اور زبان نکال کر‬
‫اسے چاٹنا شروع ہو گیا۔ وہ سسکیاں بھرتے ہوئے میرے سر کو‬
‫سہالنے لگیں ۔۔۔اور اپنی پیاسی چوت پر میرے منہ کو دبانے لگیں۔۔۔‬
‫یہ دیکھ کر میں نے اپنی دونوں انگلیوں کو ان کی چوت سے باہر‬
‫نکاال ۔۔۔۔۔۔ اور زبان کو برا ِہ راست چوت میں ڈال کر اسے چاٹنا‬
‫شروع ہو گیا۔۔۔ ۔۔۔۔۔ان کی گرم چوت سے تازہ تازہ مال نکل رہا تھا ۔۔۔‬
‫جسے میں اپنی زبان کے ساتھ چاٹتے ہوئے منہ میں جمع کر رہا‬
‫تھا۔۔۔۔ دوسری بات یہ کہ ان کی چوت کی سمیل بہت سٹرانگ تھی ۔۔۔۔‬
‫چوت سے ایسی شہوت انگیز سمیل نکل رہی تھی کہ اسے چاٹنے‬
‫کے کچھ ہی دیر بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا لن پھر سے الف ہو گیا۔۔۔۔ اور چوت‬
‫کے اندر جانے کے لیئے دھائیاں دینے لگا۔۔۔۔۔ لیکن میں نے لن کو‬
‫کوئی لفٹ نہیں کرائی ۔۔۔اور میڈ م کی چوت کو چاٹنا جاری‬
‫رکھا۔۔اسی دوران ۔۔۔ایک دو دفعہ میڈم کا سارا وجود تھرایا ۔۔۔اور پھر‬
‫اگلے ہی لمحے ان کی چوت بہنا شروع ہو گئی۔۔۔۔۔۔میں اسے مزید۔۔۔۔۔‬
‫چاٹنا چاہ رہا تھا کہ اچانک انہوں نے میرے سر کو اپنی چوت سے‬
‫ہٹا دیا۔۔۔ اور پھر کہنے لگیں ۔۔۔۔ کیا خوب چاٹی ہے ۔ ۔‬
‫۔۔۔لیکن اب بس کر دو ۔۔۔۔کہ اب اس میں تیری زبان نہیں بلکہ کڑک‬
‫لن چایئے۔۔۔۔۔پھر کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ اب تم اُٹھو ۔۔۔۔ تو میں تیرے لن کو‬
‫چوس کر کھڑا کرتی ہوں ۔۔۔ اور جب یہ کھڑا ہو جائے گا ۔۔۔۔۔تو پھر‬
‫تم مجھے چودنا۔۔۔ ان کی بات سن کر میں کھڑا ہو گیا ۔۔ اور وہ‬
‫میرے اکڑے ہوئے لن کو دیکھ کر بولیں۔۔۔۔ارے ۔۔۔ یہ تو پہلے سے‬
‫ہی کھڑا ہے پھر کہنے لگیں ۔۔۔۔ اب دیر نہ کر جلدی سے مجھے چود‬
‫!!!!!!!!! ۔۔۔تو میں نے ان سے ویسے ہی کہہ دیا کہ میڈم میں آپ کو‬
‫کس سٹائل میں چودوں؟؟؟؟ تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے عجیب‬
‫سے لہجے میں بولیں۔۔ویسے تو میں ڈوگی سٹائل میں چدوا کر مزہ‬
‫لیتی ہوں لیکن اس وقت میری بے قابو چوت کے اندر ایک انوکھی‬
‫ہلچل سی مچی ہوئی ہے ۔۔۔ اور یہ ہلچل تبھی کم ہو گی کہ جب میں‬
‫تیرے لن پر بیٹھوں۔۔۔ اس لیئے میں تم پر سواری کرنا پسند کروں گی‬
‫ان کی بات سن کر میں وہیں فرش پر سیدھا لیٹ گیا۔۔۔ مجھے لیٹے‬
‫دیکھ کر وہ بھی کرسی سے اُٹھیں ۔۔۔۔اور میری دونوں ٹانگوں کے‬
‫اوپر آ کر کھڑی ہو گئیں۔۔۔۔ اور اپنی چوت پر تھوک لگاتے ہوئے‬
‫کہنے لگیں ویسے تو اس کی کوئی خاص ضرورت نہیں ۔۔کہ میری‬
‫چوت پہلے ہی بہت زیادہ گیلی ہے ۔ لیکن عادتا ً اسے گیال کر نے‬
‫کے بعد تیرے لنڈ کو بھی چکنا کرو ں گی۔۔۔اور پھر اپنی چوت پر‬
‫تھوک ملنے کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ میرے لن پر جھکی اور اس پر بھی‬
‫بہت سارا تھوک پھینک دیا۔ اور پھر لن پر پھیالنے کے بعد۔۔۔۔وہ‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔کیا کڑک لن ہے تیرا ۔۔۔ مزید‬
‫صبر نہیں کر سکتی ۔۔۔۔ اس لیئے اب ۔۔۔ میں تیرے اس موٹے لنڈ پر‬
‫سوار ہونے لگی ہوں ۔۔۔۔‬

‫یہ کہتے ہوئے وہ آہستہ آہستہ نیچے ہوئیں۔۔۔۔ اور پھر میرے لن کو‬
‫پکڑ کر اپنی چوت کی سیدھ میں کیا ۔۔۔۔اور پھر اس پر بیٹھ گئیں‬
‫۔۔۔جیسے ہی میرا چکنا لن پھسلتا ہوا ان کی گیلی چوت میں گھسا۔۔۔۔‬
‫ان کے منہ سے ایک زبردست سی چیخ نکلی۔۔۔ اوئی ماں ں ں ۔۔۔لنڈ‬
‫کے اندر جاتے ہی وہ تیری سے اوپر نیچے چھالنگیں لگا کر اپنی‬
‫بے قابو چوت کی پیاس بجھانے لگیں۔۔۔۔ اس طرح تیزی کے ساتھ‬
‫اوپر نیچے ہونے کے ۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد ان کی بس ہو گئی ۔۔۔ ان کا‬
‫سانس پھول گیا۔۔۔۔اور وہ میرے اوپر سے اُٹھتے ہوئے کہنے لگیں۔۔‬
‫۔۔۔ میں تو گھسے مار مار کر تھک گئی ہوں ۔۔۔اب تم آؤ ۔۔۔۔اتنی بات‬
‫کرتے ہی وہ کاؤنٹر کے پاس جا کر کھڑی ہو گئیں۔۔۔۔اور انہوں نے‬
‫اپنے دونوں ہاتھ کاؤنٹر پر رکھنے کے بعد۔۔۔ اپنی گانڈ کو کافی حد‬
‫تک پیچھے کی طرف کر دیا۔۔اور پھر اپنی عادت سے مجبور ۔۔۔ دو‬
‫انگلیوں کو اپنے منہ کی طرف لے گئیں۔۔۔۔۔اور انگلیوں پر تھوک لگا‬
‫کر ۔۔۔انہیں اپنی چوت کی طرف لے جاتے ہوئے بولیں ۔۔۔سنو !! تم‬
‫نے ٹرپل ایکس مویز میں لڑکی کو چودتے ہوئے دیکھا ہو گا ۔۔۔۔ اس‬
‫لیئے اس منظر کو زہن میں التے ہوئے۔۔۔۔ اُلٹے سیدھا جیسا بھی تم‬
‫کو چودنا آتا ہے مجھے چود۔۔۔ پھر کہنے لگیں ۔۔۔ اور ہاں چودائی‬
‫کے دوران تم مجھے جتنی گندی گالیاں جیسے کتیا۔۔ بنے چود ۔۔۔‬
‫مادر چود ۔۔۔رنڈی۔۔۔سالی۔۔۔ ٹائپ دے سکتے ہو بے دھڑک ہو کر‬
‫دینا۔۔مجھے چوت مرواتے ہوئے گالیاں سننے کا بڑا مزہ آتا ہے۔ اس‬
‫کے بعد انہوں نے مجھے اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا تو میں ان کے‬
‫پیچھے آگیا۔۔اور ان کی طرح میں نے بھی اپنے ٹوپے پر تھوک لگا‬
‫کر اسے چکنا کیا پھر لن کو پکڑ کر ان کی باہر کو نکلی ہوئی چوت‬
‫کے لبوں پر رکھا ۔۔۔۔۔۔اس کے بعد اپنے دونوں ہاتھوں کو میڈم کے‬
‫بھاری کولہوں پر مضبوطی کے ساتھ جما دیا۔۔۔اور پھر ایک‬
‫زبردست سا گھسہ مارتے ہوئے بوال۔۔۔۔ لے بہن کی لوڑی۔۔۔ میرے‬
‫کٹ لن کا مزہ لے۔۔۔۔ جیسے ہی میرا لن پھسل کر ان کی چوت کی‬
‫گہرائی میں اترا ۔۔۔تو اچانک ہی انہوں نے گردن پیچھے کر کے۔۔۔‬
‫میری طرف دیکھا ۔۔اور کہنے لگیں سارے مسلے۔۔۔ کتے‬
‫حرامی۔۔اپنے کٹ لنڈ سے۔ میری ہندو چوت کو چود ۔۔۔مجھے راند۔۔۔‬
‫اپنے کٹے ہوئے لن کے ساتھ۔۔ میری ہندو چوت کو چیر پھاڑ دے ۔۔‬
‫پڑھی لکھی اور اتنی مہذب میڈم کے منہ سے اس قدر غلیظ باتیں سن‬
‫کر مجھے تو نشہ سا چڑھ گیا۔۔۔اور میں ان کے کہنے کے مطابق‬
‫اُلٹے سیدھے دھکے مارتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔ بہن چود ۔۔۔ کتیا ۔۔۔ تیری‬
‫ہندو چوت ۔۔۔ بڑی گرم ہے ۔۔۔۔ میرے کٹے ہوئے لن کو چود کر بڑا‬
‫مزہ آ رہا ہے۔۔۔۔۔۔۔ تو آگے سے وہ بھی چہکتے ہوئے کہنے لگی۔۔چود‬
‫مجھے ۔۔۔مسلے۔۔۔میری ہندو چوت مار ۔ ۔۔۔۔مجھے اپنی رنڈی بنا۔۔۔۔۔‬
‫چود مجھے۔۔میری چوت میں اپنے گرم پانی کا فورا مار۔۔۔ پھر جوش‬
‫میں کہنے لگی۔۔۔۔ سن چوتیے!!۔۔اگر تم نے میری بس کروا دی تو‬
‫میں ۔۔۔ تجھ جیسے حرامی کی غالم بن جاؤں گی۔۔۔۔اس وقت میں اور‬
‫وہ سیکسی میڈم ایک دوسرے کے ساتھ اس قدر غلیظ اور گندی باتیں‬
‫کر رہے تھے کہ اس وقت اگر مامی ہماری ان باتوں کو سن لیتی تو‬
‫حیران ہو کر اپنی انگلیاں دانتوں تلے داب لیتی ۔۔۔ میں اسی طرح میڈ‬
‫م کو غلیظ گالیاں بکتے ہوئے اُلٹے سیدھے گھسے مار رہا تھا ۔۔۔ کہ‬
‫اچانک ہی میڈم کی چوت نے میرے لن کو جکڑ لیا۔۔۔۔۔ اور اس کے‬
‫ساتھ ہی میڈم کے منہ سے گالیوں کا طوفان نکلنا شروع ہو گیا۔۔۔وہ‬
‫کہہ رہی تھی۔۔۔ رنڈی کے بچے ۔۔۔ کل کا چھوکرا ہو کر تو مجھے‬
‫فارغ کر رہا ہے۔اس کے ساتھ ہی میڈم کے جسم میں اکڑن سی پیدا‬
‫ہوئی۔۔۔ اور وہ چیخی ۔۔۔اوئی ماں ں ں ں ں۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پھدی نے اس کل‬
‫کے چھوکرے سے ہار مان لی ہے ۔۔۔۔۔ میں چھوٹنے لگی ہوں اس‬
‫کے ساتھ ہی میڈم کے جسم نے جھٹکے مارنے شروع کر دیئے۔۔‬
‫۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی۔۔۔ ان کی چوت سے گرم گرم پانی نکلنا شروع‬
‫ہو گیا۔۔ابھی میڈم چھوٹ ہی رہی تھی کہ۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے جسم کو بھی‬
‫ایک شدید جھٹکا لگا ۔۔اور میں۔۔۔ اوہ۔۔ اوہ۔۔۔۔۔ کرتے ہوئے میڈم کے‬
‫اوپر ہی گر گیا۔۔۔‬
‫جبکہ نیچے میرے لن سے منی کا طوفان نکل نکل کر میڈم کی‬
‫سیکسی چوت کو بھرتا چال جا رہا تھا۔۔۔بھرر۔۔ررررر تا جا رہا‬
‫تھااااااااااااااا۔۔۔‬

‫)قسط نمبر‪(3‬‬
‫اتنی بات سنانے کے بعد عدیل نے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے‬
‫لگا۔۔ امریکہ میں میری پہلی چودائی کی داستان کیسی لگی ؟ اس کی‬
‫بات سن کر میں نے ایک طویل سانس لی اور اس سے بوال ۔۔۔ کمال‬
‫ہے یار ۔۔ میڈم کی چودائی میں خاص کر ہندو چوت اور مسلم لن نے‬
‫بڑا مزہ دیا۔۔تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا تمہیں معلوم ہے کہ‬
‫فکنگ کے دوران ایسی باتیں کر کے سیکس کا جوش دوباال ہو جاتا‬
‫ہے۔۔ تو میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بوال اچھا یہ بتا کہ اس کے‬
‫بعد تم نے اس سیکسی میڈم کی ۔۔۔ ہندو چوت کتنی دفعہ بجائی؟ ؟ تو‬
‫آگے سے وہ مجھے آنکھ مار تے ہوئے بوال۔۔۔ تعداد تو یاد نہیں‬
‫یار۔۔بس یوں سمجھو کہ جب بھی موقع مال میں نے اس کا بھر پور‬
‫فائدہ اُٹھایا ‪ .‬اس کے بعد میں نے اس سے کہا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ کیا‬
‫تم نے صرف اسی میڈم کی ہندو چوت ماری تھی یا؟ تو وہ ہنستے‬
‫ہوئے کہنے لگا ایسی بات نہیں ہے یار ۔۔۔ بلکہ میں تو پلوی میم کی‬
‫تقریبا ً آدھی دوستوں رشتے داروں کو چود چکا ہوں ۔۔ اور ان میں‬
‫غالب اکثریت ہندو پھدیوں کی تھیں ۔۔ ہاں یاد آیا ان میں سے ایک آدھ‬
‫سکھ چوت بھی تھی۔۔۔ پھر کہنے لگا مزے کی بات یہ ہے کہ یہ‬
‫ساری خواتین چوت مروانے کے بعد مجھ سے یہی وچن لیتی تھیں ۔۔۔‬
‫کہ میں اس کی خبر کسی دوسری کو نہ ہونے دوں ۔۔۔ اور میں نے‬
‫ایسا ہی کیا۔۔ اس پر میں نے اس سے پوچھا کہ ان میں سے سب سے‬
‫اچھی کون لگی؟ تو وہ ایک دم سنجیدہ ہو کر بوال۔۔۔ ویسے تو ساری‬
‫کی ساری ہی ہی بم شیل تھیں ۔۔۔ لیکن ان میں ایٹم بمب صرف اور‬
‫صرف پلوی میم تھی۔۔۔ جس کی چودائی مجھے اس لیئے بھی نہیں‬
‫بھولے گی کہ امریکہ میں وہ میری پہلی سیکس ٹیچر تھی اس پر میں‬
‫نے اس سے کہا کہ یہ تو ہوئی دیسی چودائی کی داستان ۔۔۔لیکن اب‬
‫مجھے یہ بتاؤ کہ امریکہ میں تم نے پہلی گوری کو کیسے چودا ؟‬
‫میری سن کر عدیل ہنس کر بوال۔۔ بہن چودا تیری سوئی ابھی تک‬
‫گوری پر ہی اٹکی ہوئی ہے تو آگے سے میں بھی دانت نکالتے‬
‫ہوئے بوال ۔۔وہ تو ہے۔۔۔ اس پر اس نے ایک فرمائشی سا قہقہہ لگایا‬
‫اور پھر کہنے لگا کہ آج کے لیئے اتنا ہی کافی ہے ۔ پھر کسی دن‬
‫میں تم کو گوری کے چودنے کا واقعہ سناؤں گا۔۔۔ فی الحال تو چلو‬
‫کہ کافی وقت بیت گیا ہے اس کے ساتھ ہی وہ اپنی کرسی سے اُٹھا۔۔۔۔‬
‫اور ہم ریستوران سے باہر آ گئے۔۔۔ جاتے جاتے ایک دفعہ پھر وہ‬
‫مجھے تاکید کرتے ہوئے بوال۔۔کل ضرور آنا کہ ماما تیرا بہت‬
‫پوچھتی ہیں ۔۔ اس کے بعد وہ مجھے ٹاٹا کرتا ہوا اپنے گھر کی‬
‫طرف چال گیا۔۔۔‬

‫ب وعدہ اگلے دن میں ان کے گھر چال گیا تو خاص کر آنٹی مجھ‬ ‫حس ِ‬
‫سے بڑے تپاک سے ملیں اور اس بات کا شکوہ بھی کیا کہ ان کے‬
‫کہنے کے باوجود بھی میں کل کیوں نہیں آیا تھا؟ ان کا اتنا زیادہ‬
‫خلوص دیکھ کر کھٹک تو میں پہلے ہی گیا تھا ۔ اب تھوڑا پریشان‬
‫بھی ہو گیا۔۔لیکن بوجہ چپ رہا۔۔۔ اور دفتر ی کا م کا بہانہ لگا کر نہ‬
‫آنے کی معذرت کر لی جسے انہوں نے بڑی خوش دلی کے ساتھ‬
‫قبول بھی کر لیا۔۔ اور ساتھ ہی اس بات کی خاص تاکید کی کہ جب‬
‫تک عدیل یہاں پر ہے میں کم از کم لنچ اس کے ساتھ ہی کیا کروں‬
‫آنٹی کے اتنے زیادہ تپاک کو دیکھ کر میں دل ہی دل میں سوچنے‬
‫لگا کہ امریکہ کی طرح ہمارے ہاں بھی مفت میں لنچ کوئی نہیں‬
‫کرواتا ۔۔۔ اور پھر من ہی من میں اس عنایت کی وجہ ڈھونڈنے لگا ۔‬
‫لیکن بظاہر اس کی کوئی خاص وجہ سامنے نہ آ رہی تھی۔۔۔چونکہ‬
‫لنچ میں ابھی کچھ دیر تھی اس لیئے عدیل اور میں ڈارئینگ روم میں‬
‫بیٹھ گئے ۔۔۔ابھی ہمیں وہاں پر بیٹھے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی‬
‫کہ عدیل کی بیگم (گوری میم) ماریا ۔۔۔بھی وہاں پہنچ گئی۔ ۔۔اسے‬
‫آتے دیکھ کر میں احتراما ً کھڑا ہو گیا اور اسے ہیلو کہا۔۔ جوابا ً اس‬
‫قتالہ نے بھی مجھے ہیلو کہا اور اپنے گورے ہاتھ کو میری طرف‬
‫بڑھا دیا ۔۔۔میں نے اس کے ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں لے لیا اور چند‬
‫سیکنڈز تک بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہالتا رہا۔۔۔۔۔۔۔ آج اس قتالہ نے‬
‫سفید رنگ کی سلیو لیس شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی جس میں وہ‬
‫بڑی شاندار لگ رہی تھی۔۔۔لمبا قد ۔۔ اجال رنگ ۔۔چوڑے شانے اور‬
‫عریاں بازو۔۔اور ان سب سے بڑھ کر اس کی ننگی بغلیں (انڈر آرمز)‬
‫۔۔۔ جن پر ایک بھی بال نظر نہ آ رہا تھا۔۔۔ پتہ نہیں اس نے کس کریم‬
‫کے ساتھ اپنی انڈر آرمز صاف کیے تھے کہ ۔۔۔۔۔۔ اس کی بڑی بڑی‬
‫اور سندر بغلوں سے خوشبو کے التعداد ہُلے اُٹھ رہے تھے۔۔۔۔اس‬
‫سے میں نے اندازہ لگایا کہ سلیو لیس پہننے کے لیئے اس گوری نے‬
‫یقینا ً آج ہی شیو کی ہو گی ۔۔۔اور پھر بغلوں کی شیو سے ہوتے ہوتے‬
‫میرا گندہ ذہن ۔۔۔اس کی دونوں ٹانگوں کے بیچ والی جگہ پر چال گیا‬
‫کہ ہو سکتا ہے کہ میڈم نے اپنی سیکسی بغلوں کی صافی کے ساتھ‬
‫یقینا ً اپنی "اس جگہ" بھی کریم لگائی ہو گی۔۔۔ اور انڈر آرمز کی‬
‫طرح اسے بھی ِنیٹ اینڈ کلین کیا ہو گا۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اور کیا انڈر آرمز کی‬
‫طرح ۔۔۔۔ اس گوری کی جائے مخصوصہ سے بھی ۔۔۔ ایسے ہی‬
‫خوشبو کی لپٹیں اُٹھ رہیں ہوں گی؟ ۔۔۔۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ‬
‫مجھے چوت کی سمیل بہت زیادہ پسند ہے۔۔۔۔ اس لیئے۔۔۔یہ سوچ آنے‬
‫کی دیر تھی کہ میرا لن۔۔۔۔ جو کہ پہلے ہی بہانے ڈھونڈ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔‬
‫ایک زبردست سی چھالنگ لگا کے کھڑا ہونے ہی واال تھا کہ میں‬
‫نے بڑی مشکل کے ساتھ منت سماجت کر کے اسے واپس بٹھا دیا۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔دوستو جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ بندہ اچھا خاصہ ٹھرکی‬
‫واقع ہوا ہے۔۔۔۔ اور اس وقت میرے سامنے جو چاند چہرہ ستار ہ‬
‫آنکھوں والی گوری کھڑی تھی ۔۔۔اس کو اس حلیہ میں دیکھ کر‬
‫غریب کی تو مت ہی ماری گئی لیکن ۔۔۔بندہ غریب مرتا کیا نہ‬
‫جان درویش۔۔ کی مکمل تصویر‬ ‫۔۔۔قہر درویش بر ِ‬
‫ِ‬ ‫کرتا۔۔۔۔۔کے مصداق‬
‫بنے۔۔۔ اپنی کمینگی چھپائے۔۔۔۔۔ بظاہر بڑی خوش اخالقی کا مظاہرہ‬
‫کر رہا تھا۔۔ ۔۔ ۔۔ یہ بھی شکر ہے کہ۔۔۔ اس دن کے برعکس آج اس کا‬
‫گال اتنا زیادہ کھال نہ تھا لیکن اس کے باوجود اس کے ِوی شیپ گلے‬
‫کی گہرائی سے بہت کچھ دکھائی دے رہا تھا پتہ نہیں کیا بات ہے کہ‬
‫میں اس گوری کو دیکھ کر ہمیشہ ہی نروس ہو جاتا تھا میری اس‬
‫حالت کو شاید اس نے بھی محسوس کر لیا تھا ۔۔۔۔ یا پھر کوئی اور‬
‫بات تھی کہ وہ کچھ دیر تک ہمارے ساتھ بیٹھی رہی پھر اُٹھ کر چلی‬
‫گئی وہ جتنی دیر بھی میرے پاس بیٹھی ۔۔۔ میں خود پر قابو پاتے‬
‫ہوئے ۔۔۔ اس کے ساتھ بظاہر بڑی خوش اخالقی سے بات چیت کرتا‬
‫رہا۔۔‬

‫اور یہ میرا خود سے وعدہ ہے کہ میں کبھی نشہ نہیں کروں گا‬
‫چاہے وہ سگریٹ کا ہی کیوں نہ ہو ۔۔تو وہ کہنے لگا میری جان‬
‫سگریٹ ہی تمام نشوں کی ماں ہے میرا مطلب ہے کہ سگریٹ سے‬
‫ہی ہر نشے کی ابتداء ہوتی ہے۔۔۔ اس کے بعد وہ ہنس کر کہنے لگا‬
‫۔یار یہ تو بہت بری خبر سنائی تم نے ۔۔کہ تم نہیں پیتے ؟ تو میں نے‬
‫اس سے کہا اس میں برائی کیا ہے ؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بوال وہ‬
‫ایسے میری جان کہ ہم لوگ اسٹیسٹس سے جو کوٹہ الئے تھے وہ‬
‫قریبا ً ختم ہونے واال ہے اور میرا خیال تھا کہ جب یہ کوٹہ ختم ہو‬
‫جائے گا تو میں تم سے کہہ کر مزید منگوا لوں گا ۔۔۔ لیکن اب پتہ‬
‫چال کہ تم تو پیتے ہی نہیں ہو۔۔۔ اس کی بات سن کر میں اس سے‬
‫بوال۔۔۔ دل چھوٹا نہ کر ۔۔۔۔ کیا ہوا جو میں نہیں پیتا ۔۔۔ لیکن جب تو‬
‫کہے گا میں بندوبست کر دوں گا ۔ میری بات سن کر وہ خوش ہو کر‬
‫بوال ۔۔تھینک یو دوست ۔۔ میں تو اس کے بغیر ۔۔۔۔پھر بھی گزارا کر‬
‫لوں گا لیکن تیری بھابھی کو اس کے بغیر نیند نہیں آتی ۔۔ اس پر میں‬
‫عدیل کی طرف دیکھتے ہوئے ذو معنی لفظوں میں بوال ۔۔۔۔ رات کو‬
‫پیگ کے بغیر ۔۔۔ نیند نہیں آتی یا ۔۔۔؟ وہ میری پوشیدہ بات کا مطلب‬
‫سمجھ کر بوال۔۔۔۔ تمہاری بات ٹھیک ہے۔۔۔۔ دوسری گوریوں کی طرح‬
‫یہ سالی بھی للے (لن) کی بڑی شوقین ہے پھر کہنے لگا۔۔۔۔لیکن یار‬
‫تو تو جانتا ہی ہے کہ ہر رات۔۔۔۔۔ وہ بھی اپنی بیوی کے ساتھ ۔۔۔۔۔‬
‫چودائی نہیں ہو سکتی۔ اس لیئے ہر رات فکنگ ہو نہ ہو۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پیگ‬
‫بہت ضروری ہے عدیل کی بات سن کر ایک دفعہ پھر میں نے اس‬
‫سے کہا ۔۔تب تو بے فکر ہو جا۔۔۔ جب بھی تیری بوتل ختم ہو‬
‫جائے۔۔۔۔ مجھے بتا دینا ۔۔۔بندوبست ہو جائے گا۔۔ ۔اور اس کے ساتھ‬
‫ساتھ ۔۔۔۔ عدیل کا یہ پوائنٹ نوٹ کر لیا کہ گوری للے ( لن ) کی بڑی‬
‫شوقین ہے۔‬
‫اس کے بعد میں موضوع تبدیل کرتے ہوئے بوال۔۔ اچھا یہ بتا کہ‬
‫بھابی کو تیرے گھر والے کیسے لگے۔۔۔ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ جہاں‬
‫تک ہمار ے گھر والوں کا تعلق ہے تو مجموعی طور پر ۔۔۔وہ ان کے‬
‫ساتھ بہت خوش ہے ہاں جب ممی کسی بات سے اسے منع کرتی ہیں‬
‫تو یو نو۔۔۔ ہر بہو کی طرح یہ بھی ناک بھوں چڑھاتی ہے لیکن اوور‬
‫آل ماما اور باجی کے ساتھ اس کے تعلق بہت اچھے ہیں۔۔۔‬
‫کھانا کھانے کے بعد ہم ڈرائینگ روم میں آ گئے اور صوفے پر‬
‫بیٹھتے ہی وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بوال تُو سنا جگر کیسا ہے؟‬
‫آنٹیاں کیسی چل رہیں ہیں؟ آخری دفعہ کس کی لی؟ تو آگے سے میں‬
‫دانت نکالتے ہوئے بوال ۔آخری دفعہ بھی اسی کی لی ۔۔۔۔ کہ جس کی‬
‫سیکنڈ السٹ دفعہ لی تھی تو وہ حیران ہوتے ہوئے بوال جہاں تک‬
‫مجھے یاد پڑتا ہے تیرے پاس تو آنٹیوں کا اچھا خاصہ اسٹاک ہوا‬
‫کرتا تھا یہ الگ بات ہے کہ ہمارے ہزار منت ترلوں کے باوجود بھی‬
‫تم نے کبھی کسی آنٹی کی ہوا بھی نہیں لگوائی تھی۔‬

‫پھر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بوال کہ یو نو دوست امریکہ‬


‫میں میں نے تمہارے اس فارمولے سے بڑا فائدہ اُٹھایا ہے۔۔۔۔ پھر‬
‫کہنے گا۔۔میں نے تمہارے اس فارمولے پر عمل کرتے ہوئے ہزار‬
‫کوششوں کے باوجود کبھی بھی۔۔۔کسی ایک کی بات کو دوسرے کے‬
‫ساتھ شئیر نہیں کی تھی۔ اسی لیئے میں پلوی جی کی آدھی سہلیوں‪/‬‬
‫رشتے داروں کو چودنے میں کامیاب ہو گیا تھا۔کیونکہ انہیں مجھ پر‬
‫یقین آ گیا تھا کہ میں راز کو ہمیشہ راز ہی رکھوں گا۔ اس کے بعد وہ‬
‫میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بوال اسی لیئے مائی ڈئیر‬
‫فرینڈ۔۔۔۔ میں تم سے ہر گز نہیں پوچھوں گا کہ السٹ اور سیکنڈ‬
‫السٹ والی خاتون کون ہے؟ تو اس پر میں اس سے بوال ۔۔ بیٹا۔۔تو تو‬
‫مجھ سے نہیں پوچھے گا لیکن اس کے برعکس میں تم سے امریکہ‬
‫میں پہلی گوری کو چودنے کا واقعہ معہ نمک مرچ ضرور پوچھوں‬
‫گا ۔ اس لیئے شاباش شروع ہو جاؤ۔۔۔‬

‫میری بات سن کر اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر‬


‫کہنے لگا کیا بتاؤں دوست کہ جس طرح تم کو میری سٹوری سننے‬
‫کی بڑی جلدی ہے اسی طرح بلیو مویز دیکھ دیکھ کر ہزاروں‬
‫پاکستانیوں کی طرح مجھے بھی کسی گوری کو چودنے کا بڑا شوق‬
‫تھا لیکن پھر یوں ہوا کہ گوری کی بجائے مجھے ایک دیسی ایٹم‬
‫بمب مل گئی جس کا ذائقہ ۔۔۔جس کا سٹائل ۔۔۔اور سیکس کرنے کا‬
‫انداز مجھے اس قدر بھایا کہ وقتی طور پر میں گوری کو بھول گیا‬
‫اور جتنی دیر تک میں پلوی جی کے ساتھ سٹور پر رہا حرام ہے جو‬
‫میرے دل میں کبھی کسی گوری کا خیال بھی آیا ہو ۔۔۔۔اس کی وجہ یہ‬
‫تھی کہ وہ اور ان کی دوست جن میں ان کی کچھ قریبی رشتے دار‬
‫پر باش رکھتی تھی کہ جب بھی‬ ‫بھی شامل تھیں۔۔۔۔ ہمیشہ ہی مجھے ُ‬
‫موقعہ ملتا ۔۔۔۔۔۔۔۔تو میں انہیں یا ان کی کسی دوست کو چود لیا کرتا‬
‫تھا اور اگر کبھی وقت کم ہوتا تو وہ ہنسی خوشی چوپا بھی لگا لیا‬
‫کرتی تھیں۔۔۔ ۔۔ اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ زندگی بڑی موج سے‬
‫گزر رہی تھی کہ ایک دن خبر ملی کہ نارائن جی نے ایک عرصہ‬
‫دراز سے بند سٹور خرید لیا ہے اور اس وقت تک چونکہ میں مامی‬
‫اور پلوی جی کی مہربانی سے کام سیکھ چکا تھا اس لیئے اس سٹور‬
‫کو چالنے کے لیئے ان کی نگا ِہ انتخاب مجھ پر آن پڑی ۔۔اس کی‬
‫مین وجہ یہ تھی کہ میں ان کا دیکھا بھاال اور ایماندار لڑکا تھا۔۔ ہر‬
‫چند کہ نئے سٹور پر مجھے بھیجنے کے لیئے پلوی جی نے بہت‬
‫مزاحمت کی ۔ لیکن مامی اور نارائن جی نہ مانے ۔۔۔۔اور کچھ‬
‫مزاحمت کے بعد۔۔۔۔۔ چار و ناچار پلوی جی نے مجھے دوسرے‬
‫سٹور پر جانے کی اجازت دے دی۔ اور وہ بھی اس شرط پر کہ جب‬
‫بھی میری ضرورت محسوس ہوئی میں آ جاؤں گا۔ نارائن جی کا یہ‬
‫سٹور ہمارے اس سٹور سے خاصہ چھوٹا اور گھر سے کافی دور‬
‫واقع تھا۔ خیر میں وہاں چال گیا اور کام شروع کر دیا۔ دھیرے‬
‫دھیرے وہاں کے لوگوں سے ہیلو ہائے بھی ہو گئی۔۔۔ لیکن چونکہ یہ‬
‫سٹور کافی عرصہ بند رہنے کے بعد ابھی کھال تھا اس لیئے یہاں پر‬
‫گاہگوں کی اتنی آمد و رفت نہ تھی۔‬

‫ایک دن کی بات ہے کہ میں کاؤنٹر پر بیٹھا بور ہو رہا تھا کہ اتنے‬


‫میں ایک نہایت خوش شکل امریکن گورا سٹور میں داخل ہوا اس کی‬
‫عمر یہی کوئی پینتالیس پچاس کے قریب ہو گی ۔ اس نے گرے رنگ‬
‫کا برانڈڈ سوٹ پہنا ہوا تھا جو کہ اس پر بہت جچ رہا تھا ۔۔ اس کے‬
‫ایک ہاتھ میں سیاہ رنگ کا بریف کیس پکڑا ہوا تھا اپنے حال حلیہ‬
‫سے وہ کوئی امیر آدمی لگ رہا تھا ۔ اس نے ایک بئیر اور مارل‬
‫سگریٹ کا پیکٹ خریدا۔۔۔اور مجھے پیسے دے )‪ (Marlboro‬برو‬
‫کر جب وہ پرس کو واپس پینٹ کی جیب میں رکھنے لگا تو اس وقت‬
‫کسی طرح اس کے پرس سے سو ڈالر کا نوٹ فرش پر گر گیا۔۔۔۔‬
‫جبکہ وہ گورا صاحب اس بات سے بے خبر پرس کو جیب میں رکھ‬
‫کر باہر کی طرف چل دیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں تیزی سے کاؤنٹر سے‬
‫باہر نکال۔۔۔۔اور سو ڈالر کے نوٹ کو فرش سے اُٹھا کر اسے آواز دی‬
‫۔ لیکن شاید وہ کچھ جلدی میں تھا یا شاید اس کے کانوں تک میری‬
‫آواز نہ پہنچی تھی کہ وہ نہ رکا اور سٹور کا دروازہ کھول کر باہر‬
‫نکل گیا ۔۔۔۔۔ چنانچہ میں بھی بھاگم بھاگ اس کے پیچھے چال گیا اور‬
‫تھوڑی دور جا کر اسے روک لیا ۔ مجھے اپنے سامنے پا کر وہ‬
‫ڈیسنٹ شکل واال گورا صاحب پریشان ہو کر بوال۔۔۔۔ ویل لٹل بوائے!۔۔‬
‫جہاں تک مجھے یاد ہے برو۔۔۔۔ میں نے تو پیسے ادا کر دیئے تھے‬
‫۔۔۔۔تو اس پر میں نے اس کو سو ڈالر کا نوٹ دیتے ہوئے کہا کہ بے‬
‫شک جناب آپ نے پیسے ادا کر دیئے تھے لیکن پرس کو واپس جیب‬
‫میں ڈالتے وقت یہ نوٹ نیچے گر گیا تھا جو کہ میں آپ کو واپس‬
‫کرنے آیا ہوں۔۔۔تو اس نے بڑی حیرانی سے میری طرف دیکھا اور‬
‫پھر سو ڈالر کا نوٹ پکڑتے ہوئے بوال ۔۔ مجھ سے اکژ اس قسم کی‬
‫حماقتیں ہوتی رہتی ہیں ۔۔۔۔۔ لیکن کمال ہے برو! تم پہلے بندے ہو‬
‫جس نے مجھے پیسے واپس کیئے ہیں ورنہ میرے ساتھ آج تک یہ‬
‫سانحہ نہیں ہوا ہے ۔۔۔ اتنی بات کرنے کے بعد اس نے کالئی پر‬
‫بندھی گھڑی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔اور پھر مجھ سے ایکس کیوز‬
‫کرتے ہوئے بوال۔۔۔۔سوری برو!۔۔۔۔ اس وقت میں زرا جلدی میں ہوں‬
‫۔۔۔ ۔۔۔تم سے پھر کسی دن بات ہو گی۔۔‬
‫یہ اس واقعہ سے تیسرے دن کی بات ہے کہ میں سٹور پر ایک‬
‫گاہک کو ڈیل کر رہا تھا کہ اتنے میں وہی گورا صا حب سٹور میں‬
‫داخل ہو ا اور میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ میں گاہک سے فارغ ہو‬
‫کر اس کی طرف متوجہ ہوا تو ڈیسنٹ لُک واال گورا صاحب نے‬
‫بڑے تپاک سے بوال۔۔۔۔۔۔ہیلو لٹل بوائے ! مجھے پہچانا؟ تو میں نے‬
‫اثبات میں سر ہالتے ہوئے جواب دیا کہ آپ وہی ہیں کہ جن سو ڈالر‬
‫میں نے واپس کیئے تھے۔۔۔ میری بات سن کر وہ مسکراتے ہوئے‬
‫کہنے لگا کہ سوری فرینڈ۔۔۔اس دن ایک ضروری میٹنگ کی وجہ‬
‫سے میں جلدی میں تھا ۔۔۔۔اس لیئے ڈھنگ سے تمہارا شکریہ بھی نہ‬
‫ادا کر سکا۔۔ تو اس پر میں نے اس سے کہا کہ اس میں شکریہ کی‬
‫کوئی بات نہیں سر۔۔۔۔بلکہ یہ تو میرا فرض تھا ۔۔۔تو وہ جواب دیتے‬
‫ہوئے کہنے لگا۔۔۔ مائی ڈئیر لٹل بوائے !۔۔ تمہارا شکریہ اس لیئے‬
‫بھی بنتا ہے کہ یہاں کے دس ڈالر کے لیئے لوگ قتل تک کر دیتے‬
‫ہیں جبکہ تم نے مجھے سو ڈالر لوٹائے تھے۔۔۔ اس کے بعد وہ اپنا‬
‫تعارف کراتے ہوئے بوال مجھے جان کہتے ہیں۔۔۔۔ اور میں ایک‬
‫چھوٹی سی کمپنی کا چیف ایگزیکٹو ہوں۔۔ اسکے ساتھ ہی اس نے‬
‫مصافے کے لیئے میری طرف ہاتھ بڑھا دیا۔۔۔۔۔ اس پر میں بھی اس‬
‫سے ہاتھ مالتے ہوئے بوال کہ میرا نام عدیل ہے اور میرا تعلق‬
‫پاکستان سے ہے میرے منہ سے پاکستان کا نام سنتے ہی ۔۔۔۔۔وہ ایک‬
‫دم سے چونک اُٹھا ۔۔۔ اور میری طرف دیکھتے ہوئے سوالیہ انداز‬
‫میں بوال " یو آر فرام پاکیسٹان"؟؟؟ تو میں نے ہاں سر ہال دیا۔۔۔۔ میرا‬
‫اقرار سن کر اس نے ایک لمحے کے لیئے کچھ سوچا۔۔۔ اور پھر‬
‫بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہینڈ شیک کرتے ہوئے بوال۔۔۔ نائیس ٹو‬
‫میٹ یو مسٹر ایڈی ۔۔ اچھے خاصے عدیل کو "ایڈی" بنتے دیکھ کر‬
‫مجھے َوٹ تو بہت چڑھا ۔۔۔۔ لیکن میں چپ رہا۔ اس کے بعد مسٹر‬
‫جان کافی دیر تک میرے ساتھ گپ شپ کرتا رہا ۔۔۔ ابھی ہم باتیں کر‬
‫ہی رہے تھے کہ اچانک سٹور کا دروازہ کھال ۔۔۔۔اور پلوی جی اندر‬
‫داخل ہوئیں۔۔ ۔ پلوی جی کو یوں اپنے سامنے دیکھ کر میں حیران رہ‬
‫گیا اس بات کو مسٹر جان نے بھی محسوس کر لیا اور وہ مجھ سے‬
‫کہنے لگا کہ یہ لیڈی کون ہے؟ تو میں نے اس کو بتالیا کہ لیڈی اس‬
‫سٹور کی مالکہ ہے۔۔۔ میر ی بات سن کر اس نے سر ہالیا اور پھر‬
‫مجھ سے ہاتھ مال کر یہ کہتا ہوا باہر چال گیا کہ پھر مالقات ہو گی۔۔‬

‫ادھر دروازہ کھول کر جیسے ہی پلوی میم اندر داخل ہوئی تو میں‬
‫نے دیکھا کہ اس نے کالے رنگ کی منی اسکرٹ پہنی ہوئی تھی۔۔۔‬
‫جو کہ گھٹنوں سے کافی اوپر تک ہونے کی وجہ سے ان کی گول‬
‫گول آدھ ننگی رانیں بڑی صاف دکھائی دے رہیں تھی۔۔ جبکہ اس‬
‫منی اسکرٹ کے اوپر انہوں نے آف وہائیٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی جو‬
‫کہ ان کو خاصی تنگ تھی ۔۔۔جس کی وجہ سے ان کے سینے کی‬
‫گوالئیں بغیر دیکھے ماپ ہو رہیں تھیں۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ انہوں‬
‫نے گلے میں منگل سوتر اور ماتھے پر ایک کالے رنگ کا ٹیکہ بھی‬
‫لگایا ہوا تھا ۔ ۔ ابھی میں ان کا ایکسرے کر ہی رہا تھا کہ وہ مجھ‬
‫سے مخاطب ہو کر بولیں۔۔۔۔ اے مسٹر یہ اتنا گھور گھور کر کیوں‬
‫دیکھ رہے ہو؟ تو میں نے ان کی چھاتیوں پر نظریں گاڑتے ہوئے‬
‫کہا کہ میڈم جی آپ انگریزی لباس میں بھی اتنی ہی کیوٹ لگتی ہو‬
‫جتنا کہ دیسی لباس میں۔۔ پھر میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے۔۔۔‬
‫پکے عاشقوں کی طرح کہا کہ آپ کے حسن کے بارے میں شاعر‬
‫نے کیا خوب کہا ہے کہ ۔۔۔جامہ زیبی نہ پوچھیئے ان کی ۔۔۔۔۔۔ جو‬
‫بگڑنے میں بھی سنبھل جائیں۔۔۔ میرے منہ سے شعر سن کر وہ جھوم‬
‫کر بولیں واہ واہ۔۔۔ کیا موقع کا شعر کہا ہے۔۔۔ مزہ آگیا ۔۔ پھر میرے‬
‫نزدیک آ کر کہنے لگیں ۔۔ آج میں صرف تیرے لیئے تیار ہوئی تھی۔۔‬
‫تم کو میرا یہ روپ پسند آ گیا ۔اتنی بات کر نے کے بعد وہ لکھنوی‬
‫سٹائل میں جھک کر بولیں۔۔۔دھنے واد!۔۔۔ پلوی جی کی یہ دل کش ادا‬
‫دیکھ کر میں تو نہال ہو گیا ۔۔۔اور ان سے بوال ۔۔۔ دھنے واد کو چھوڑ‬
‫میڈم ۔۔آ سینے نال لگ جا ٹھاہ کر کے۔۔ میری بات سن کر وہ‬
‫مسکراتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔۔تیرے ساتھ سینے سے سینہ مالنے‬
‫کے لیئے ہی میں تو آئی ہوں۔۔ ۔۔ اتنی بات کرتے ہوئے انہوں نے‬
‫اپنے دونوں بازو کھولے ۔۔ اور میرے سینے کے ساتھ چمٹ گئیں۔۔‬
‫ان کی چھاتیاں میرے سینے کے ساتھ گویا دبی ہوئیں تھیں۔۔۔ اس کے‬
‫ساتھ ساتھ انہوں نے اپنی "جائے مخصوصہ " کو میرے آلہء تناسل‬
‫کے ساتھ رگڑنے کی کوشش تیز کر دی ۔۔ یہ دیکھ کر میں نے ان‬
‫کے کان میں ہلکی سی سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔۔ کیا بات ہے جی‬
‫آج تو آپ بہت گرم لگ رہی ہیں ۔۔۔میری سرگوشی سن کر وہ اپنے‬
‫منہ ۔۔۔۔ کو میرے ہونٹوں کے قریب لے آئیں ۔۔۔اور میرے منہ پر گرم‬
‫سانسیں چھوڑتے ہوئے۔۔۔۔ شہوت بھرے لہجے میں بولیں۔۔۔ جتنی‬
‫میری سانسیں گرم ہیں نا ۔۔ میں اس سے ہزار گنا زیادہ گرمی فیل کر‬
‫رہی ہوں۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے ان کے منہ کے ساتھ آہستگی‬
‫کے ساتھ اپنے منہ کو جوڑ دیا۔۔ ادھر جیسے ہی میرا منہ آگے بڑھا۔۔۔‬
‫پلوی جی نے بڑی بے تابی کے ساتھ ۔۔۔۔ اپنی زبان کو منہ سے نکاال‬
‫۔۔ اور چپکے سے میرے منہ میں ڈال دی۔۔ اور ہم دونوں ۔۔۔ اپنی‬
‫زبانوں کو ایک دوسرے کے ساتھ لڑانے اور ٹکرانے شروع ہو‬
‫گئے۔۔ کچھ دیر بعد میں نے ان کے منہ سے اپنی زبان کو نکاال۔۔۔۔اور‬
‫ان کی نرم گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے شرارت سے بوال۔۔۔ کہ آج‬
‫نارائن صاحب کی جگہ آپ کیوں آئی ہیں ؟ تو آگے سے وہ میرے لن‬
‫کو پکڑ کر ہالتے ہوئے بولیں ۔۔ نارائن جائے بھاڑ میں ۔۔۔۔۔ تو صرف‬
‫اپنے اس (لن ) دوست سے ملنے آئی ہوں ۔۔ ان کی بات سن کر میں‬
‫بوال ۔۔ دوسرے لفظوں میں اس کا مطلب یہ ہوا۔۔۔ کہ آپ کے پتی دیو‬
‫نیو یارک سے کہیں باہر گئے ہوئے ہیں۔۔۔اسی لیئے آپ گل چھرے‬
‫اُڑانے کے لیئے میرے پاس آ گئی ہو۔۔میری بات سن کر وہ مصنوعی‬
‫غصے سے بولیں۔۔۔ ۔۔۔ بہن چود !۔۔ تو ایک نمبر کا حرامی ہے ایک‬
‫تو میں تمہیں اپنی چوت کی مفت سروس دینے کے لیئے آئی ہوں ۔۔۔‬
‫اور تم بجائے میرا شکریہ ادا کرنے کے خواہ مخواہ کی باتیں چود‬
‫رہے ہو۔۔۔ اس کے بعد وہ سٹور کے مین گیٹ کی طرف اشارہ کرتے‬
‫ہوئے بولیں۔۔۔۔ جلدی سے ڈور الک کر آؤ کہ میرے پاس وقت بہت کم‬
‫ہے۔‬
‫ا ن کی بات سن کر میں بھاگ کر گیا۔۔۔۔اور سٹور کے مین گیٹ کو‬
‫الک کر آیا۔۔۔ اور واپس آ کر پلوی جی سے لپٹ گیا۔۔انہوں نے جپھی‬
‫لگاتے ہی۔۔ایک دفعہ پھر سے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی ۔۔‬
‫اور بڑی مہارت کے ساتھ میرے منہ میں گھمانا شروع ہو گئیں۔۔۔۔۔‬
‫دوسری طرف ان کے ساتھ کسنگ کرتے کرتے ۔۔۔ میں نے بھی ان‬
‫کی اسکرٹ کے اندر ہاتھ ڈاال ۔۔۔اور پینٹی کے اوپر سے ہی ان کی‬
‫نازک جگہ پر اپنی انگلی پھیرنا شروع ہو گیا۔۔ ۔۔۔ جیسے ہی میری‬
‫انگلی ان کی چوت کی درمیانی لکیر پر پہنچی تو ۔۔۔ وہ مجھے گیلی‬
‫محسوس ہوئی۔۔۔ یہ دیکھ کر میں اپنے ہاتھ کو ان کی پینٹی کے اندر‬
‫لے گیا۔۔۔۔اور ان کی گیلی۔۔۔۔ نرم اور ننگی پھدی پر انگلی پھیرنا‬
‫شروع کر دیا۔۔۔ میرے اس عمل سے وہ سرک کر میرے ساتھ لگ‬
‫گئیں۔۔۔۔۔اور پہلے سے بھی زیادہ جوش کے ساتھ ٹنگ کسنگ کرنے‬
‫لگیں۔۔۔کچھ دیر انگلی پھیرنے کے بعد ۔۔۔ میں اپنی اس انگلی کو ان‬
‫کے دانے کے اوپر لے گیا۔۔۔اور ان کے پھولے ہوئے دانے کو اپنی‬
‫دو انگلیوں میں پکڑا ۔۔۔۔ اور اسے مسلنے لگا۔۔۔۔۔ میرا دانے مسلنے‬
‫کی دیر تھی کہ پلوی جی نے اپنی زبان کو میرے منہ سے باہر نکاال‬
‫۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی ان کے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلنا‬
‫شروع ہو گیا۔۔۔۔۔۔اور پھر انہی سسکیوں کے درمیان ۔۔۔ انہوں نے‬
‫میرے اکڑے ہوئے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔ ۔۔۔ اور اسے بے‬
‫طرح دبانے لگیں۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف میں دانے کو کچھ مزید‬
‫تیزی کے ساتھ مسلنا شروع ہو چکا تھا۔۔۔ میرا ایسے کرنے کے کچھ‬
‫دیر بعد ۔۔۔ ہی میرے کانوں میں ۔۔۔۔ میڈم کی شہوت بھری آواز‬
‫گونجی۔۔۔۔ وہ کہہ رہیں تھیں۔۔۔۔۔ حرام کے پلے۔۔۔مادر چود۔۔ میرے‬
‫چھولے کو ایسے ہی مسلتا رہے گا ؟ چودے گا نہیں مجھے؟ تو آگے‬
‫سے میں جواب دیتے ہوئے ۔۔۔۔شرارت سے بوال ۔۔۔ رنڈی کی بچی ۔۔۔‬
‫۔۔آج نہیں چودوں گا۔۔۔۔۔ بلکہ تیرے اس دانے کو ا یسے ہی مسلتا‬
‫رہوں گا میری بات سن کر وہ ایک دم سے شہوت بھرے غصے میں‬
‫بولیں۔۔۔ مادر چود ۔۔ جلدی سے اپنے ان کٹ لن کو میرے اندر ڈال۔۔۔‬
‫میں یہاں اپنے "چھولے" کو کچلوانے کے لیئے نہیں آئی ۔۔۔ بلکہ اپنی‬
‫پھدی کی آگ بجھانے کے لیئے آئی ہوں ۔۔۔۔ لیکن میں نے پلوی میم‬
‫کی بات کو سنا ان سنا کرتے ہوئے اپنی انگلیوں کو دانے سے ہٹا‬
‫یا۔۔۔۔۔ اور اپنی ایک انگلی ان کی چوت کے اندر ڈال دی۔۔۔۔۔ اور اسے‬
‫آہستہ آہستہ اندر باہر کرنے لگا۔۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ بلکل میرے ساتھ‬
‫لگ گئیں۔۔۔اور ایک موٹی سی گالی دے کر بولی ۔۔۔ سالے حرام کے‬
‫تخم ۔۔ کتے کے بچے۔۔۔میں اتنی دور سے چل کر تیرے پاس آئی ہوں‬
‫۔۔۔ اور تو حرامی پال۔۔۔۔ میری پھدی میں صرف ایک انگلی ڈال رہا‬
‫ہے؟؟ ۔۔۔۔ پھر فُل ُموڈ میں کہنے لگی۔۔۔۔ سالے کم از کم دو انگلیاں تو‬
‫اندر ڈال نا۔۔۔۔۔ ان کی بات کو سن کر میں نے اپنی دو انگلیاں ان کی‬
‫چوت میں ڈالیں اور تیزی سے ان آؤٹ کرنے لگا۔۔۔۔‬

‫کچھ ہی دیر بعد انہوں نے میری انگلیوں کو زبردستی اپنی پھدی سے‬
‫نکاال۔۔۔اور میرے گالوں کو اپنے دانتوں سے کاٹ کر بولیں ۔۔ حرام‬
‫کے جنے ۔۔۔۔ تجھے تھوڑی سی لفٹ کیا کرا دی تو تو میرے سر پر‬
‫چڑھ گیا۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے میری پینٹ کی زپ کھولی‬
‫اور پھر گھٹنوں کے بل فرش پر بیٹھ گئیں۔۔۔۔اور پھر میرے اکڑے‬
‫ہوئے لن کو پینٹ سے باہر نکاال ۔۔۔۔ اور بنا کوئی بات کیئے۔۔۔۔۔ اپنے‬
‫منہ میں لے کر برق رفتاری سے چوپا لگانے لگیں۔۔۔اب کہ سسکیاں‬
‫بھرنے کی میری باری تھی لیکن انہوں نے مجھے سسکیاں بھرنے‬
‫کا زیادہ موقعہ نہیں دیا ۔۔۔اور تھوڑی ہی دیر بعد انہوں نے لن چوسنا‬
‫بند کر دیا۔۔۔۔۔اور سیدھی کھڑی ہو گئیں ۔۔۔۔اور اپنی منی اسکرٹ کو‬
‫رول کر کے ہپس کے کافی اوپر تک لے گئیں۔۔ اسکرٹ کے نیچے‬
‫انہوں نے بہت ہی مختصر سی پینٹی پہنی ہوئی تھی جو کہ بمشکل‬
‫پھدی کی لکیر کو ڈھانپ رہی تھی۔۔ میں اس مختصر سی پینٹی کو‬
‫ایک سائیڈ پر کر دیا۔۔۔ جس کی وجہ سے ان کی چوت ننگی ہو کر‬
‫میرے سامنے آ گئی۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ ادھر سے فارغ ہو کر میں نے اپنے‬
‫ٹوپے پر تھوک لگا کر اسے چکنا کیا۔۔۔۔۔ تو میری دیکھا دیکھی وہ‬
‫بھی اپنی دو انگلیوں کو منہ کی طرف لے گئیں اور پھر ان پر تھوک‬
‫ڈال کر اپنی پہلے سے چکنی پھدی کو مزید چکنا کر دیا۔۔۔۔۔ اس کے‬
‫بعد انہوں نے میرے لن کو پکڑ کر اپنی پھدی کے لبوں پر رکھا۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اب میں نے ان کی رائیٹ والی ٹانگ کو اوپر کر کے پکڑ لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ان کی ٹانگ اوپر کرنے کی وجہ سے لن پھدی کے مالپ میں بہت‬
‫آسانی پیدا ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ اب میں نے ان کی چوت کے‬
‫لبوں پر رکھے لوڑے کو ماہرانہ انداز میں ۔۔۔ ایک جھٹکا‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔جھٹکا کھاتے ہی میرا لن بغیر کسی روک ٹوک کے ان کی‬
‫شاندار چوت میں اتر گیا۔۔۔۔جیسے ہی میرا لن ان کی چوت میں اترا۔۔۔۔‬
‫انہوں نے پہلے تو ایک بہت زبردست شہوت بھری چیخ ماری اور‬
‫اس کے ساتھ ہی۔۔۔ ۔۔۔ ان کے منہ سے گالیوں کا نہ تھمنے واال‬
‫طوفان نکلنا شروع ہو گیا۔۔ وہ کہہ رہیں تھیں کہ مادر چود۔۔۔۔ حرام‬
‫کے جنے۔۔۔۔ کتے کے پلے۔۔۔ڈال دیا ہے ۔۔تو اب رکنا نہیں ۔۔مجھے‬
‫تیرا لنڈ چاہیئے ۔۔۔ ادھر ۔۔۔ میری چوت میں ۔۔۔ مجھے چودو۔۔۔۔ ۔۔۔ اپنی‬
‫رانڈ کو چودو۔۔میری چوت کا بھرتہ بنا دو۔۔۔۔ ان کی شہوت سے بھر‬
‫پور چیخ و پکار سے میں سمجھ گیا کہ میڈم آج کچھ ایکسٹرا گرم‬
‫ہے۔۔۔۔۔ اور اگر میں ایسے ہی سپیڈی دھکے مارتا رہا ۔۔۔ تو کسی بھی‬
‫وقت میڈم کا اینڈ پوائیٹ آ جائے گا۔۔۔۔۔یہ سوچ کر میں نے دھکے‬
‫مارنے کی سپیڈ کو مزید بڑھا دیا۔۔۔ جیسا کہ میں پہلے ہی بتا چکا‬
‫ہوں کہ اس دن میڈم کچھ زیادہ ہی گرم تھی ۔۔ ۔۔۔لیکن میرے اندازوں‬
‫کے برعکس ۔۔ کچھ ہی دیر کے بعد میڈم کے جسم نے جھٹکے‬
‫مارنے شروع کر دیئے۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ میڈم کی چوت بھی‬
‫ٹائیٹ ہونا شروع ہو گئی۔۔۔ ٹائیٹ اور ٹائیٹ۔۔۔ اور ۔۔ اور ۔۔۔ اس کے‬
‫ساتھ میڈم سسکیاں لیتے ہوئے۔۔۔۔ آہ ۔۔۔آہ ہ ہ اُف۔ف۔ف۔ف اُف۔۔۔ کرنا‬
‫شروع ہو گئی ۔۔۔ ۔۔۔ اور اس سے ٹھیک اگلے ہی لمحے ۔۔۔۔ میڈم کی‬
‫چوت سے گدلے پانی کا سیالب نکلنا شروع ہو گیا ۔۔۔ میں کچھ‬
‫دھکے اور مارنا چاہتا تھا ۔۔۔ لیکن تیز تیز سانس لیتی میڈم نے مجھے‬
‫مزید دھکے مارنے سے منع کر دیا۔۔۔ بلکہ ہاتھ بڑھا کر میرے لن کو‬
‫اپنی چوت سے ہی باہر نکال دیا اور خود گہرے گہرے سانس لینے‬
‫لگیں۔۔۔۔۔۔ان کی حالت کو دیکھ کر میں نے انہیں اپنے سینے کے ساتھ‬
‫لگا لیا۔۔۔ اور ان کے سانس بحال ہونے تک انہیں ساتھ لگائے رکھا۔۔۔‬

‫تھوڑی دیر بعد ان کا سانس بحال ہوگیا ۔۔۔اور وہ نارمل ہو گئیں ۔۔۔۔تو‬
‫میں نے ان کو خود سے الگ کیا۔۔۔اور اپنے اکڑے ہوئے لن کی‬
‫طرف اشارہ کرتے ہوئے بوال اس کا کچھ کرو۔۔ میری بات سن کر‬
‫انہوں نے سر ہالیا ۔۔۔۔اور پھر فرش پر اکڑوں بیٹھ گئیں ۔۔۔۔اور میری‬
‫طرف دیکھتے ہوئے لن کو اپنے منہ میں لے کر۔۔۔اسے اس وقت تک‬
‫چوستی رہیں کہ جب تک میری منی کی آخری بوند بھی ان کے حلق‬
‫سے نیچے نہ اتر گئی۔۔۔‬

‫۔۔۔اگلے کچھ دنوں تک مسٹر جان تواتر کے ساتھ سٹور پر آتا رہا۔ اور‬
‫پھر ہوتے ہوتے میری اس مہذب اور گریس فل آدمی کے ساتھ اچھی‬
‫خاصی گپ شپ ہو گئی۔۔۔ انہی دنوں ایک عجیب واقعہ پیش آیا ۔۔۔ ہوا‬
‫کچھ یوں کہ ہم دونوں بات چیت کر رہے تھے کہ اسی دوران سٹور‬
‫میں ایک ڈھلتی عمر کی پختہ کار گوری داخل ہوئی۔۔۔ ۔۔۔۔ وہ ایک‬
‫لمبے قد کی خوب صورت ۔۔۔سیکسی۔۔ اور توانا عورت تھی ۔ جس‬
‫نے اپنے جسم کی نمائش میں کوئی کسر نہیں اُٹھا رکھی تھی ۔۔اس‬
‫کے جسم کی ہر چیز فٹ تھی ۔۔۔۔ لیکن وائے افسوس کہ۔۔۔۔۔۔ اس‬
‫حسین خاتون کی چھاتیاں بہت چھوٹی تھیں۔ لیکن چھاتیوں کے‬
‫برعکس ۔۔۔ اس کی گانڈ ۔۔۔۔۔اور رانیں ۔۔۔۔ بہت ہی موٹی اور پر گوشت‬
‫تھیں ۔۔۔۔ جنہیں دیکھ کر مجھے کچھ کچھ ہو نے لگا ۔۔۔۔مطلب اس‬
‫گوری کی مست رانیں دیکھ میری شہوت جاگ اُٹھی اور ۔۔۔۔۔میں‬
‫(چوری چوری ) اسے بڑی ہی ہوس ناک نظروں کے ساتھ گھورتا‬
‫رہا۔۔۔ میری یہ حسرت بھری نظریں جان مخفی نہ رہ سکیں۔۔۔۔۔چنانچہ‬
‫کچھ خریداری کے بعد جب وہ حسینہ ۔۔۔۔۔واپسی کے لیئے ُمڑی ۔۔۔۔تو‬
‫میں اس کی موٹی گانڈ پر دُور بین فٹ کیئے ۔۔۔ ترسی ہوئی نظروں‬
‫کے ساتھ ۔۔ اسے جاتا دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اور جب وہ خاتون سٹور سے‬
‫باہر نکل گئی ۔۔۔تو دفعتا ً میرے کانوں میں جان کی آواز گونجی۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ویل لٹل بوائے! ۔۔جان کی آواز سن کر ۔۔۔ جب میں نے چونک کر اس‬
‫کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔ تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ ایک بات‬
‫پوچھوں؟ چونکہ اس وقت تک میری جان کے ساتھ اچھی خاصی بے‬
‫تکلفی ہو چکی تھی اس لیئے میں نے اسے کہا کہ جی ضرور‬
‫پوچھو؟ تو آگے سے وہ کہنے لگا ۔۔۔ ایسا لگتا ہے کہ جیسے تمہیں یہ‬
‫لیڈی بہت پسند آئی ہو۔۔۔ایم آئی رائیٹ آر رانگ؟؟ ۔۔۔ تو میں نے اس‬
‫سے کہا ۔۔۔ مسٹر جان! یو آر ویری رائیٹ ۔۔۔ ۔۔ میری بات سن کر وہ‬
‫کہنے لگا۔۔۔ لیکن تمہاری اور اس کی عمر میں بہت زیادہ فرق ہے ۔۔‬
‫پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑے ہی پُر اسرار لہجے میں‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔‬

‫کہیں تمہیں میچور لیڈیز تو پسند نہیں ؟ تو آگے سے میں نے ہاں میں‬
‫سر ہال دیا۔۔۔۔اس کے بعد اس نے بڑے ہی ڈرامائی انداز میں مجھ‬
‫سے سوال کیا۔۔۔ کہ کیا تمہیں میچور لیڈیز کے ساتھ سیکس کرنا پسند‬
‫ہے؟ چونکہ میری اس کے ساتھ اس موضوع پر پہلی دفعہ بات ہو‬
‫رہی تھی اس لئے قدرتی طور پر میں کچھ ہچکچاہت محسوس کر رہا‬
‫تھا لیکن جب اس نے مجھ سے دوبارہ یہی سوال کیا کہ کیا تمہیں‬
‫میچور لیڈیز کے ساتھ سیکس کرنا پسند ہے؟ تو میں نے کچھ‬
‫شرماتے اور کچھ گھبراتے ہوئے ہاں کر دی میری شرماہت کو دیکھ‬
‫کر وہ بڑا محظوظ ہوا اور پھر شرارت بھرے لہجے میں کہنے لگا‬
‫۔۔۔کبھی کسی کے ساتھ سیکس کیا؟ تو میں نے سفید جھوٹ بولتے‬
‫ہوئے جواب دیا کہ ابھی تک تو ہاتھ سے ہی کام چال رہا ہوں۔۔۔ میری‬
‫بات سن کر وہ کھلکھال کر ہنس پڑا۔۔۔ اور پھر ادھر ادھر کی باتیں‬
‫۔۔۔۔ کرتے کرتے اچانک ہی میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر‬
‫بوال۔۔۔۔میں کچھ کروں؟ اس کی بات سن کر میں تو حیران ہی رہ‬
‫گیا۔۔۔اور کپکپاتی ہوئی آواز میں بوال۔۔۔۔تم ۔۔۔۔۔ میرا مطلب کہ آپ پ پ‬
‫پ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو وہ سر ہال کر بوال۔۔۔۔ ہاں میں ۔۔‬

‫اتنی بات کرتے ہی اس نے پینٹ کی جیب میں ہاتھ ڈاال۔۔۔اور پرس‬


‫سے ایک تصویر نکال کر مجھے دکھاتے ہوئے بوال۔۔ یہ کیسی ہے؟‬
‫اس نے جو تصویر مجھے دکھائی تھی یہ ساحل‪ ،‬سمندر سے لی گئی‬
‫ایک گوری کی ہوش ربا تصویر تھی جس کے بال سنہرے۔۔ چھاتیاں‬
‫تنی ہوئیں تھیں ۔۔ اس گوری نے بکنی پہنی ہوئی تھی ۔۔ اور اس‬
‫مختصر سے لباس میں اس کے زنانہ اعضاء کچھ اس طرح سے‬
‫دوران خون کچھ اور بھی‬ ‫ِ‬ ‫نمایاں ہو رہے تھے کہ انہیں دیکھ کر میرا‬
‫تیز ہو گیا تھا ۔۔۔ اور میں بے یقینی کے عالم میں کبھی جان ۔۔۔اور‬
‫کبھی اس دل کش ‪ ،‬خوب صورت اور نیم عریاں گوری کی تصویر‬
‫کو دیکھنے لگتا ۔ ابھی میں آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر اس تصویر کو دیکھ‬
‫رہا تھا کہ اچانک جان نے میرے ہاتھ سے اس تصویر کو اچک لیا۔۔۔۔‬
‫اور اسے واپس پرس میں ڈالتے ہوئے بوال۔۔ کیسی لگی؟ تو میں نے‬
‫ہکالتے ہوئے جواب دیا ۔۔۔یہ۔۔۔ یہ تو کوئی ہالی وڈ کی اسٹار لگتی‬
‫ہے تو آگے سے وہ جواب دیتے ہوئے بوال۔۔ اس بات کو چھوڑو کہ‬
‫۔۔۔۔ یہ ہالی ووڈ اسٹار ہے یا کوئی بزنس وومن ۔۔ تم بس یہ بتاؤ کہ ۔۔۔‬
‫تمہیں یہ بیوٹی چاہیئے کہ نہیں ؟ نہیں کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہونا‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔ کہ ہم جیسے محکوم ملک کے لوگوں کے لیئے گوری میم‬
‫ایک آسمان سے اتری ہوئی اپسرا سے کم نہیں ہوتی ۔۔۔چنانچہ میں‬
‫اپنے لبوں پر زبان پھیرتے ہوئے بوال۔۔ ۔۔۔‬
‫اس جیسی خوب صورت حسینہ کے لیئے کوئی کافر ہی انکار کر‬
‫سکتا ہے ۔۔۔ پھر میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔ کہ یہ حسینہ ہے کون ؟‬
‫تو وہ بڑے پر اسرار لہجے میں بوال۔۔۔۔ ۔ اس سے ملنا چاہو گے؟ ۔۔‬
‫جان کی بات سن کر میں بڑی بے تابی سے بوال۔۔ کب مال رہے ہو؟‬
‫تو وہ اطمینان سے کہنے لگا اگر تم ایگری ہو ۔۔۔۔تو کل یا مے بی‬
‫پرسوں۔۔۔ تو اس پر میں جلدی سے بوال ۔۔ آج ہی کیوں نہیں ملوا دیتے‬
‫؟ میری بات سن کر وہ ہنس پڑا ۔۔اور مجھے تھپکی دیتے ہوئے بوال‬
‫۔۔۔ ٹیک اٹ ایزی لٹل بوائے!!۔۔۔ پھر اچانک ہی وہ سیریس ہوتے‬
‫ہوئے بوال ۔ ۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔فرض کرو میں اس سے تمہیں ملوا دیتا ہوں۔۔‬
‫۔۔۔اور ۔۔۔ تم اسے فک کرنے میں کامیاب بھی ہو جاتے ہو۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے خاص انداز میں بوال۔۔۔بڈی! تم نے تو‬
‫اپنے مزے لے لیئے ۔۔۔۔۔ لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ بدلے میں‬
‫مجھے کیا ملے گا؟ اس کی بات سن کر میں حیران رہ گیا اور پھر‬
‫اس سے بوال۔۔۔ آپ کتنے ڈالر لو گے ؟ تو وہ نفی میں سر ہال کر‬
‫بوال۔۔۔ ۔۔ ڈالر نہیں دوست ۔۔۔بلکہ میری ایک شرط ہو گی۔۔ جان کی‬
‫بات سن کر میں چونک اُٹھا اور اس سے بوال کیسی شرط؟ تو وہ‬
‫ٹھہر ٹھہر کر کہنے لگا ۔۔ وہ شرط یہ ہے کہ تم اس بیوٹی فل لیڈی‬
‫کو میرے سامنے فک کرو گے۔۔ جان کی بات سن کر میں ہکا بکا رہ‬
‫گیا۔۔ اور بے یقنی سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔ تمہارے‬
‫سامنے؟ تو وہ بڑی مکاری سے مسکراتے ہوئے بوال ۔۔۔ہاں میرے‬
‫سامنے !!!۔۔۔۔پھر کہنے لگا کہ میں وعدہ کرتا ہوں کہ میں تمہارے‬
‫کسی بھی کام میں مداخلت نہیں کروں گا ۔۔ یہ تم دونوں کی اپنی انڈر‬
‫سٹینڈنگ ہو گی۔کہ تم اسے کس سٹائل میں فکنگ کرو گے۔۔۔ اس پر‬
‫میں اس سے کہنے لگا۔۔۔۔۔ لیکن ۔۔لیکن۔۔۔مم۔ میں۔۔۔ لیکن میری بات کو‬
‫مکمل ہونے سے پہلے ہی اس نے ایک دفعہ پھر جیب سے وہی‬
‫تصویر نکالی اور مجھے دکھاتے ہوئے بوال۔۔۔۔ اس کو فک کرنا‬
‫چاہتے یا نہیں ؟؟؟ ۔۔تو میں نے جلدی سے اقرار میں سر ہال دیا۔۔۔ تب‬
‫وہ اسی مکاری سے بوال تو پھر تمہیں اس کی قیمت دینی ہو گی۔۔۔‬
‫جو فقط اتنی سی ہے کہ تم اسے میرے سامنے فک کرو گے ۔۔ اگر‬
‫منظور ہے تو ویل اینڈ گڈ ۔۔نہیں تو میں اپنی آفر واپس لیتا ہوں۔۔۔ ۔۔‬
‫جان کی یہ بات سن کر میری تو گانڈ پھٹ گئی۔۔۔۔ اور ایک مفت کی‬
‫گوری ہاتھ سے نکلتی ہوئی محسوس ہوئی۔۔۔۔ تب میں نے آخری‬
‫چارے کے طور پر اس سے کہا ۔۔۔ اس میں کوئی پرابلم تو نہیں ہو‬
‫گی ناں؟ میری نیم رضا مندی اور اس گوری کے لیئے ۔۔۔۔ بےتابی‬
‫کو دیکھ کر وہ بڑا خوش ہو ا۔۔ اور پھر سنجیدگی کے ساتھ کہنے لگا‬
‫۔۔ یہ میری گارنٹی ہے کہ تمہیں کسی بھی قسم کی ۔۔۔ کوئی پرابلم‬
‫نہیں ہو گی ۔ بلکہ تم انجوائے کرو گے تب میں نے اس سے کہا کہ‬
‫کیا وہ آپ کے سامنے مجھ سے فک کروانے پر راضی ہو جائے‬
‫گی؟ تو وہ مسکراتے ہوئے بوال۔۔۔ میں کل اسے تم سے ملوانے الؤں‬
‫گا بہتر ہو گا کہ یہ بات تم میری بجائے اس سے خود پوچھ لینا۔۔اس‬
‫کے بعد اس نے میرے ساتھ ہاتھ مالیا اور سٹور سے باہر نکل گیا۔۔۔۔‬
‫مسٹر جان تو وہاں سے دفعان ہو گیا لیکن جاتے جاتے ۔۔۔۔۔ میری‬
‫آنکھوں کو اس سنہرے بالوں والی سیکسی گوری کے خواب دے گیا‬
‫۔ یہ کہہ کر عدیل نے میری طرف دیکھا ۔۔۔ اور کہنے لگا۔۔۔ کہ یو نو‬
‫پاکستان میں تو گوری کا نام سنتے ہی ہمارے دل کی دھڑکن تیز ۔۔۔۔‬
‫اور لن الف ہو جایا کرتا تھا ۔ جبکہ یہاں تو ایک جیتی جاگتی اور بے‬
‫حد خو صورت گوری میرے نیچے آنے والی تھی ۔۔۔۔ اس لیئے۔۔۔ میں‬
‫بڑی بے صبری کے ساتھ اس وقت کا انتظار کرنے لگا کہ جب اس‬
‫قاتلہ کا دیدار ہو گا۔۔ اگلے دن سٹور کھولنے کے بعد سے ہی میری‬
‫آنکھیں دروازے پر لگی ہوئیں تھیں ۔۔ کہ وہ کب آئے گی۔۔ اتفاق سے‬
‫مجھے ذیادہ دیر تک انتظار نہیں کرنا پڑا ۔ سٹور کھلنے کے تقریبا ً‬
‫ایک گھنٹے بعد ہی جان ایک نہایت خوب صورت گوری کے ساتھ‬
‫سٹور میں داخل ہوا۔ یہ وہی فوٹو والی گوری تھی لیکن آج اس نے‬
‫بکنی کی بجائے۔۔۔ ورکنگ لیڈی واال لباس پہنا ہوا تھا ۔۔۔(بعد میں‬
‫معلوم ہوا کہ مجھ سے ملنے کے بعد اس نے سیدھا آفس جانا تھا)‬
‫۔۔گوری نے پینٹ کے اوپر بٹنوں والی شرٹ پہنی ہوئی تھی اور اس‬
‫شرٹ کے اوپر والے دو بٹن کھلے ہوئے تھے جس سے اس کی آدھ‬
‫ننگی چھاتیاں لن توڑ قسم کا نظارہ پیش کر رہیں تھیں۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ اس‬
‫گوری میم کو اپنے سامنے دیکھ کر ۔۔۔ (اور خصوصا ً یہ سوچ کر کہ‬
‫میں اس کافر حسینہ کو چودنے واال ہوں)۔۔۔۔میرے دل کی دھڑکن تیز‬
‫ہو گئی۔۔۔۔اور۔میں نا چاہتے ہوئے بھی۔۔۔۔ منہ کھولے اس کافر حسینہ‬
‫کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔ دوسری طرف وہ حسین خاتون بڑے باوقار‬
‫طریقے سے چلتی ہوئی میرے پاس آئی اور مجھ سے ہاتھ مالتے‬
‫ہوئے شہد سے بھی میٹھے لہجے میں بولی۔۔۔ نائس ٹو میٹ یو ۔۔۔ لٹل‬
‫بوائے! ۔۔۔ چاہیئے تو یہ تھا کہ جوابا ً ۔۔۔ میں بھی اس سے کچھ کہتا۔۔۔‬
‫لیکن مجھ پر اس سیکسی گوری کا اس قدر رعب پڑا ہوا تھا کہ میں‬
‫منہ سے کچھ نہ بول پایا۔۔بس یک ٹک اسے دیکھتا رہا ۔ تب مسٹر‬
‫جان آگے بڑھا ۔۔اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا ۔۔ لٹل بوائے‬
‫۔۔ یہ کرسٹینا ہے جس کے بارے میں کل تم سے بات ہوئی تھی ۔۔۔ تم‬
‫اس کے ساتھ چٹ چیٹ کرو ۔۔۔ میں تھوڑی دیر تک آتا ہوں۔۔۔ یہ‬
‫کہتے ہی جان وہاں سے رخصت ہو گیا۔اب سٹور میں ۔۔۔ میں اور‬
‫کرسٹینا اکیلے رہ گئے تھے ۔۔ مجھے خاموش پا کر وہ آگے بڑھی‬
‫اور مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ کیسے ہو ؟‬

‫تو میں نے اتھل پتھل ہوتے سانسوں میں جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔‬
‫جی ی ی ۔۔ میں ٹھیک ہوں۔۔میری حالت دیکھ کر وہ کھلکھال کر ہنس‬
‫پڑی ۔۔اور کہنے لگی اچھا یہ بتاؤ کہ کیا تم شروع سے ہی اتنے‬
‫شائے ( شرمیلے) ہو یا پھر مجھے دیکھ کر بن رہے ہو؟ اس کے بعد‬
‫اس نے میرے ساتھ ہلکی پھلکی بات چیت شروع کر دی ۔۔بے شک‬
‫وہ گوری ۔۔۔حسین ہونے کے ساتھ ساتھ گفتگو کا فن بھی جانتی تھی‬
‫۔۔۔ اسی لیئے۔۔ اگلے چند منٹ کے بعد میں اس کے سامنے نہ صرف‬
‫نارمل ہو گیا تھا بلکہ کافی حد تک فری بھی ہو گیا تھا ۔ ہم دونوں‬
‫روٹین کی باتیں کر رہے تھے کہ۔۔۔ اس دوران اس نے آگے بڑھ کر‬
‫میرے ہاتھ کو پکڑا۔۔۔۔۔۔۔اور اسے سہالنا شروع ہو گئی۔۔۔۔۔۔ جبکہ اس‬
‫دوران میری نظریں مسلسل اس کی آدھ ننگی چھاتیوں کا طواف کر‬
‫رہیں تھی اس نے جب محسوس کیا کہ میری نظریں اس کی چھاتیوں‬
‫سے ادھر ادھر نہیں ہو رہیں۔۔ ۔۔۔تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔‬
‫آئی تھنک تمہیں بریسٹ بہت پسند آئے ہیں ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی‬
‫اس نے میرے ہاتھ کو پکڑ کر اپنی ننگی چھاتیوں پر رکھ دیا۔۔۔ اور‬
‫پھر کہنے لگیں۔۔۔ لو میرے بریسٹ کو پکڑ کر ۔۔۔ انجوائے کر و ۔۔۔۔‬
‫ادھر میں اس کی آدھ ننگی چھاتی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بوال۔۔۔ ۔۔آپ‬
‫شرٹ کا نیچے واال بٹن کھول سکتی ہو ؟ میری بات سن کر نہ‬
‫صرف اس نے اپنی شرٹ کا نیچے واال بٹن کھول دیا ۔۔۔ بلکہ۔۔۔۔ اپنی‬
‫ایک چھاتی کو برا کی قید سے آذاد کر کے بلکل ننگا کر دیا ۔۔۔۔‬

‫اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ ہیپی ناؤ (اب خوش) ؟ ۔۔۔‬
‫اس کے ساتھ ہی اس نے میرے سر کو پکڑ کر اپنی چھاتی پر رکھ‬
‫دیا۔۔۔ جیسے ہی میرا منہ اس کی ننگی چھاتی کے ساتھ ٹچ ہوا۔۔۔۔ میں‬
‫نے بال تکلف اس کے موٹے سے نپل کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔اور‬
‫کسی بھوکے بچے کی طرح چوسنا شروع ہو گیا ۔۔مجھے مما چوستا‬
‫دیکھ کر وہ بھی مست ہو گئی۔۔۔۔۔اور میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے‬
‫ہوئے بولی۔۔۔یس سس۔۔۔ایسے ہی چوسو۔۔۔ میں کچھ دیر تک اس کی‬
‫چھاتی کے موٹے نپل کو منہ میں لیئے چوستا رہا ۔۔۔۔ ۔۔پھر اچانک وہ‬
‫میرے منہ سے اپنے نپل کو نکال کر بولی ۔۔۔ ۔۔ابھی کے لیئے اتنا‬
‫بہت ہے۔۔۔۔۔ پھر مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔ ڈونٹ وری۔۔۔۔انہیں‬
‫چوسنے کا تمہیں بھر پور موقع ملے گا۔۔اس کی بات سن کر جیسے‬
‫ہی میں نارمل انداز میں کھڑا ہوا۔۔۔تو اس نے جلدی سے اپنی ننگی‬
‫چھاتی کو دوبارہ سے برا کے اندر ایڈجسٹ کر لیا۔۔۔ ۔۔۔اور اب میری‬
‫طرح وہ بھی نارمل انداز میں کھڑی ہو کر باتیں کر نے لگیں۔ ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫باتوں باتوں میں۔۔۔ میں نے ویسے ہی کرسٹینا سے پوچھا ۔۔ ۔۔ کہ‬
‫مسٹر جان آپ کا کیا لگتا ہے؟ میری بات سن کر وہ بڑے اطمینان‬
‫سے بولی۔۔ وہ میرا ہسبینڈ ( خاوند) ہے۔۔کرسٹینا کی بات سن کر‬
‫مجھے بہت سخت شاک ہوا۔۔۔۔۔۔ اور میں بڑی حیرانی سے بوال ۔۔ آ۔۔آ۔۔‬
‫آپ ٹھیک کہہ رہی ہو؟؟؟ تو وہ اسی اطمینان بھرے لہجے میں کہنے‬
‫لگی اس میں حیرت کی کون سی بات ہے؟ بلکہ یہ تو فن ہے اس کے‬
‫بعد اس نے مجھے اس فن کے بارے میں ایک مختصر مگر جامع‬
‫ب لباب یہ تھا کہ اس کا ہبی (خاوند) اور وہ خود‬ ‫لیکچر دیا۔ جس کا ل ِ‬
‫دوسرے مرد کے ساتھ سیکس کر کے بہت انجوائے کرتے ہیں۔‬
‫یہاں مجھے فراز کی غزل کا ایک ٹکڑا یاد آ رہا ہے جو کچھ یوں‬
‫ہے کہ سنا ہے بولے تو باتوں سے پھول جھڑتے ہیں ۔۔۔۔ بات کرتے‬
‫ہوئے واقعی ہی اس کے منہ سے پھول جھڑ رہے تھے یہ بات میں‬
‫نے اس کرسٹینا نامی گوری پر سچ ہوتے ہوئے دیکھی تھی اس کے‬
‫بات کرنے کا اسٹائل اتنا شاندار تھا کہ میرے جیسے ٹھرکی بندے کا‬
‫دل چاہ رہا تھا کہ وہ کہے اور میں سنتا جاؤں۔۔۔۔ لیکن اسی دوران وہ‬
‫کم بخت جان بھی آن ٹپکا۔۔ مجھے نارمل دیکھ کر بوال ۔۔"ہے کرس"۔۔‬
‫اسے بڑی جلدی نارمل کر دیا۔۔ تو آگے سے کرسٹینا ہنستے ہوئے‬
‫بولی۔۔ ڈونٹ وری ڈارلنگ ۔۔۔فسٹ ٹائم ایسے ہی ہوتا ہے تب مسٹر‬
‫جان میری طرف متوجہ ہو کر بوال ۔۔ تم نے اس سے کل والی بات‬
‫پوچھ لی؟ ۔۔ اس پر کرس چونک کر بولی ۔۔ کون سی بات؟ تو جان‬
‫ہنستے ہوئے بوال ۔۔ یہ کہہ رہا تھا کہ کیا تم میرے سامنے اس کے‬
‫ساتھ فکنگ کروا ۔۔۔۔ لو گی؟ جان کی بات سن کر کرسٹینا ایک دم‬
‫سے آگے بڑھی اور میرے گال کو چوم کر بولی۔۔ تم جان کی بات کر‬
‫رہے ہو ۔۔۔ لٹل بوائے!! اگر تم کہو تو میں سامنے چوک میں کھڑے‬
‫ہو کر تمہارے ساتھ سیکس کرنے کو تیار ہو۔۔ کرسٹینا نے یہ بات‬
‫کچھ اس ادا اور ہوس ناک انداز میں کی تھی کہ ۔۔۔اس کی بات سن‬
‫کر ایک دم سے مجھ پر شہوت سوار ہو گئی ۔۔ ۔۔ ۔۔۔ جس کی وجہ‬
‫سے میری پینٹ میں ایک بڑا سا ابھار بن گیا۔۔۔ اتفاق سے کرسٹینا کی‬
‫نظر یں بھی میرے اس ابھار پہ جا پڑیں‬

‫۔۔۔۔۔اس نے میرے ابھار کی طرف دیکھتے ہوئے اپنے ہونٹوں پر‬


‫زبان پھیری ۔۔۔ وہ پھر کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔بولی یاد رکھو ۔۔۔۔۔لٹل بوائے!‬
‫میں تمہارے ساتھ ہر وقت اور ہر جگہ فک کروانے کے لیئے ریڈی‬
‫ہوں۔۔ ۔۔ اتنی بات کرتے ہی اس نے جان کی موجودگی میں ہی اپنے‬
‫ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے۔۔ میں نے ایک نظر جان کی طرف‬
‫دیکھا جو کہ بڑے غور سے ہماری طرف دیکھ رہا تھا ۔۔ جان کو‬
‫اپنی طرف دیکھتے ہوئے۔۔۔۔ دیکھ کر میں ایک لمحے کے لیئے‬
‫جھجھکا۔۔۔اور اس سے قبل کہ میں اپنے ہونٹوں کو کرس کے ہونٹوں‬
‫سے الگ کرتا ۔۔۔اسی لمحے ۔۔۔ میرے اندر سے آواز آئی ماں کی ُکس‬
‫میں جائے جان۔۔۔۔ جب خاتون راضی ہے تو تجھے کیا تکلیف ہے اس‬
‫لیئے۔۔۔۔۔ موقع چنگا تو فیدہ اُٹھا لے منڈیا۔۔۔ یہ خیال آتے ہی میں نے‬
‫اپنے دنوں بازو کرس کی کمر کے گرد کسے ۔۔۔ اور اسے اپنے ساتھ‬
‫چپکا کر ۔۔۔ اس کے ہونٹوں پہ ہونٹ رکھ دیئے۔۔۔۔۔ اور پھر بہت ہی‬
‫گرم اور سیکسی کس کرنے لگا۔۔۔۔ اسی اثنا میں کرس نے میری پینٹ‬
‫کے ابھار پر ہاتھ رکھا ۔۔۔اور لن کو پکڑ کر دبانا شروع ہو گئی۔۔۔ ۔۔۔۔۔‬
‫ہم دونوں کافی دیر تک ایک دوسرے کے منہ میں منہ ڈالے کسنگ‬
‫کرتے رہے۔۔ پھر کرسٹینا مجھ سے الگ ہوئی اور جان کی طرف‬
‫دیکھ کر کہنے لگی ۔۔لٹل بوائے کا ۔۔۔ ڈِک بہت ونڈر فل اور ٹو گڈ ہے‬
‫۔۔۔۔ اس پر جان سر ہال کر بوال۔۔۔۔واؤؤؤ۔۔۔ پھر تو تم بہت انجوائے‬
‫کرنے والی ہو۔۔۔تو اس پر کرس کہنے لگی۔۔۔ اس کے لیئے۔۔۔۔ میں‬
‫ابھی سے بہت پر جوش ہو رہی ہوں ۔۔۔اس کے بعد وہ میری طرف‬
‫متوجہ ہو کر کہنے لگی۔۔۔۔ اوکے مسڑ ایڈی۔۔ آج رات تم ہمارے ساتھ‬
‫ڈنر کر رہے ہو۔۔۔ کرس کی بات سن کر میں ایک دم سے چونک‬
‫اُٹھا۔۔۔۔اور اس سے کہنے لگا۔۔۔ آج کی بجائے یہ ڈنر کل نہیں ہو‬
‫سکتا؟ تو وہ میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔‬
‫اس کی کوئی خاص وجہ ؟ تو میں نے اس سے کہہ دیا۔۔۔۔ کہ میں‬
‫اپنی آنٹی کو بتا کر نہیں آیا ۔۔ میری بات سن کر وہ بڑی حیرانی سے‬
‫بولی۔۔۔۔ویل تم ابھی بھی آنٹی سے پوچھ کر ہر کام کرتے ہو ؟ تو‬
‫میری بجائے جان جواب دیتے ہوئے بوال۔۔۔ ۔۔ڈارلنگ یہ مشرقی لوگ‬
‫ایسے ہی ہوتے ہیں پھر میری طرف مخاطب ہو کر بوال۔۔اور ہاں‬
‫اپنی آنٹی سے یہ بھی کہہ دینا کہ رات تم کو دیر بھی ہو سکتی ہے۔۔۔‬
‫اتنی بات کر تے ہی مسٹر اینڈ مسز جان وہاں سے چلے گئے۔۔۔‬

‫دوسری طرف میں اس سوچ میں پڑ گیا کہ مامی کے ساتھ ۔۔۔۔ ایسا‬
‫کون سا بہانہ لگاؤں کہ اسے شک نہ پڑے۔۔۔کیونکہ جب سے میں‬
‫یہاں آیا تھا تو میں گھر سے سیدھا سٹور اور پھر سٹور سے گھر‬
‫جاتا تھا میرے آنے جانے کے ٹا ئمنگ سے مامی خوب واقف تھی‬
‫۔کافی دیر سوچ سوچ کر میں نے یہی فیصلہ کیا کہ ۔۔۔۔ کسی‬
‫ضروری کام کا بہانہ کروں گا ۔۔۔ دوسری طرف میں یہ بھی اچھی‬
‫طرح سے جانتا تھا کہ مامی بہت تیز طرار اور سمارٹ خاتون ہے‬
‫اگر میں نے اسے چکر دینے کی کوشش کی ۔۔۔۔ تو پکڑا جاؤں گا اس‬
‫لیئے بہتر یہی ہے ۔۔۔۔ کہ اگر مامی نے تفصیل پوچھ لی تو اسے سچ‬
‫سچ بتا دوں گا چنانچہ میں شام کو گھر پہنچا تو مامی ٹی وی روم‬
‫میں بیٹھی اپنے پسند کا ڈرامہ دیکھ رہی تھی۔۔۔ ان کے ہاتھ میں‬
‫ب مغرب تھا جسے وہ سپ سپ۔۔۔ کر کے پی رہی تھی۔۔۔‬ ‫مشرو ِ‬
‫شروع شروع میں مامی مجھ سے چھپ چھپ کر یہ مشروب کر پیا‬
‫کرتی تھی ۔۔۔ لیکن پھر کچھ عرصے کے بعد میرے سامنے ہی پینا‬
‫شروع ہو گئی تھی۔۔۔ ویسے آپس کی بات ہے کہ مامی کوئی عادی‬
‫ڈرنکر نہیں تھی بس کبھی کبھار یا کسی خاص موقع پر پی لیتی تھی‬
‫۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ان سے ہیلو ہائے کرنے کے بعد میں‬
‫فریش ہونے کے لیئے اپنے روم میں چال گیا۔۔۔۔ اور کچھ دیر بعد ۔۔۔۔۔‬
‫پینٹ کی جگہ النگ نیکر اور شرٹ پہنی۔۔۔۔۔اور مامی کے پاس آ کر‬
‫بیٹھ گیا۔۔۔ جس وقت میں مامی کے پاس آ کر بیٹھا تھا تو اتفاق سے‬
‫اسی وقت ڈرامے کا ہاٹ سین چل رہا تھا۔۔جسے دیکھ کر میں نے‬
‫اُٹھنا چاہا لیکن پھر مامی کے کہنے پر بیٹھا رہا۔۔۔ دوسری طرف ٹی‬
‫وی سکرین پر لگا ہاٹ سین اپنے فل جوبن پر تھا۔۔۔ اور ٹی وی روم‬
‫کے بڑے سے ٹی وی کی۔۔۔ فل سکرین پر مرد عورت کے ہونٹوں‬
‫کو آپس میں ملتے اور ایک دوسرے کی زبانیں چوستے ہوئے دکھایا‬
‫جا رہا تھا اور وہ کسنگ سین اتنا گرم اور الجواب تھا کہ اسے دیکھ‬
‫کر میں بھی گرم ہونا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔ میرا خیال تھا کہ کسنگ کے‬
‫بعد بات ختم ہو جائے گی لیکن ایسا نہ ہوا۔۔۔۔اور کسنگ کے دوران‬
‫ہی عورت نے مرد کی پینٹ اتار دی۔۔۔ اور پھر خود بھی ننگی ہو‬
‫گئی۔۔۔ چونکہ یہ ایک ڈبل ایکس ٹائپ کا ڈرامہ تھا اس لیئے اس میں‬
‫عورت مرد کے موسٹ پرائیویٹ پارٹس نہیں دکھائے جا رہے‬
‫تھے۔۔۔ہاں عورت مرد کے اوپری بدن کو ننگا دکھایا جا رہا تھا ۔۔۔اور‬
‫مجھے اس عورت کے کھڑے ممے دیکھ کر مزہ آ رہا تھا۔۔۔۔۔‬
‫پھر سین تبدیل ہوا ۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ مرد۔۔۔ بیڈ پر سیدھا لیٹا ہوا‬
‫تھا ۔۔۔اور عورت اس کے اوپر چڑھی دل کش آوازوں کے ساتھ لن پر‬
‫جمپنگ کر رہی تھی۔۔ اور اس جمپنگ کے دوران خاص کر اسکے‬
‫مموں کا سلو موشن ردھم کے ساتھ اوپر نیچے ہوتے ہوئے دکھانا‬
‫ایک نہایت ہی تباہ کن منظر تھا۔ یہ سین دیکھ کر مامی نے مشروب‬
‫کا ایک بڑا سا گھونٹ بھرا۔۔۔ اور صوفے پر کھک کر آگے ہو کر‬
‫۔۔۔بڑے غور سے یہ سین دیکھنے لگی۔ میری طرح مامی کو بھی‬
‫سلو موشن میں جمپنگ واال سین بہت پسند آیا تھا ۔۔۔ کیونکہ جب میں‬
‫نے کن اکھیوں سے مامی کی طرف دیکھا تو ۔۔۔۔ سین دیکھتے‬
‫ہوئے۔۔۔۔ مامی کا ایک ہاتھ اپنی ٹائیٹ کے اندر رینگ گیا تھا۔۔۔۔۔۔اور ۔۔‬
‫ہاٹ سین دیکھنے کے ساتھ ساتھ مامی ۔۔۔ اپنی پھدی کو بھی مسل‬
‫رہی تھی یا شاید ایک آدھ انگلی اندر بھی ڈالی ہو۔۔ ۔ میں حتمی طور‬
‫پر کچھ نہیں کہہ سکتا۔لیکن یہ ضرور بتا سکتا ہوں کہ اس دوران ان‬
‫کا ہاتھ مسلسل اپنی چوت کے اوپر ہی رینگتا رہا تھا ۔۔دوسری طرف‬
‫وہ عورت کچھ دیر تک مرد کے لن پر چڑھی گھسے مارتی رہی۔۔۔‬
‫پھر سین تبدیل ہوا ۔۔۔اور ۔ اگلے سین میں وہ عورت گھوڑی بنی ہوئی‬
‫تھی۔۔اور اب پہلے کی طرح ٹی وی کی فل سکرین پر ۔۔۔ مختلف‬
‫اینگل سے اس کی بڑی سی گانڈ دکھائی جا رہی تھی۔۔۔۔ادھر مرد‬
‫دھیرے دھیرے چلتا ہوا ۔۔۔ عورت کو چودنے کے لیئے جیسے ہی‬
‫اس کے پیچھے کھڑا ہوا۔۔۔ اسی وقت سین سٹل ہو گیا۔۔۔اور سکرین پر‬
‫انگریزی میں باقی آئیندہ لکھا نظر آنے کے بعد ۔۔ ڈرامہ ختم ہو گیا۔۔۔‬
‫جیسے ہی ڈرامہ ختم ہوا مامی زور سے چالئی۔۔۔او۔۔شٹ۔۔۔۔ پورا سین‬
‫تو دکھا دیتے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ٹائیٹ میں رکھا اپنا‬
‫ہاتھ باہر نکال ۔۔۔اور اپنی انگلیوں کو چاٹا۔۔۔۔۔ یقینا ً ان انگلیوں پر مامی‬
‫کی منی لگی ہو گی تبھی تو انہوں نے دونوں انگلیوں کو ایک ساتھ‬
‫منہ میں ڈال کر چوسا تھا ۔۔۔۔انگلیاں منہ سے نکالنے کے بعد ۔۔۔ انہوں‬
‫مشروب کا بڑا سا گھونٹ بھر ا اور گالس کو تپائی پر رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫۔۔۔۔ اس کے بعد وہ میری طرف متوجہ ہو کر کہنے لگی۔۔ ہاں بیٹا جی‬
‫اب بولو کیا بات ہے؟ تو میں حیرانی سے ان کی طرف دیکھ کر بوال‬
‫کہ آپ کو کیسے پتہ چال ۔۔۔۔۔کہ مجھے آپ سے کوئی بات کرنی ہے‬
‫تو انٹیلی جنٹ مامی ہنس کر بولی بھئی سیدھی سی بات ہے کہ جب‬
‫سے تم میرے پاس بیٹھے ہو۔۔۔۔ سیکس سین کے عالوہ ۔۔۔۔ بار بار‬
‫میری طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔۔ تو اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ تم‬
‫مجھ سے کچھ کہنا چاہتے ہو ۔تو اس پر میں کھسیانی ہنس کر بوال ۔۔۔‬
‫آپ بہت سمارٹ ہو ۔۔۔تو وہ کہنے لگی مسکے بازی نہیں چلے گی۔۔۔۔‬
‫۔ مجھے بتاؤ کہ کیا بات ہے تو میں نے ان سے کہا کہ مامی جی کل‬
‫میں لیٹ آؤں گا۔۔ تو وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ۔۔‬
‫کیوں کسی ڈیٹ پر جانا ہے کیا؟ مامی کی بات سن کر میں گھبرا‬
‫گیا۔۔۔۔ اور آئیں بائیں شائیں کرتا ہوا ۔۔۔ بوال کہ۔۔۔۔ ہاں ہاں۔۔۔۔ نہیں مامی‬
‫ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔ لیکن گھاگ مامی نے میرے رویے سے‬
‫اندازہ لگا لیا تھا کہ ضرور دال میں کچھ کاال ہے اسی لیئے وہ اپنی‬
‫سیٹ سے اُٹھی اور میرے سامنے آن کر کھڑی ہو گئی۔۔۔ جیسے ہی‬
‫وہ میرے سامنے کھڑی ہوئی تو اچانک ہی میری نظر ان کی دونوں‬
‫ٹانگوں کے سنگم پر جا پڑی ۔۔۔ دیکھا تو سنگم والی جگہ پر ان کا‬
‫ٹائیٹ بہت گیال ہو رہا تھا۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ مامی اچھی خاصی‬
‫چھوٹی تھی۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف وہ دنوں ہاتھ کمر پر باندھے کہہ‬
‫رہی تھی ۔۔۔ دیکھو مجھ سے سچی بات کرو گے تو فائدے میں رہو‬
‫گے اور اگر زرا بھی جھوٹ بولنے کی کوشش کی تو۔۔۔۔ مامی کی‬
‫بات سن کر میں ڈر گیا کیونکہ میں اچھی طرح سے جانتا تھا کہ یہ‬
‫بچ (کتیا) جو کہتی ہے وہ کر بھی گزرتی ہے۔۔۔۔۔ اس لیئے میں نے‬
‫سچ بولنے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔۔اور ان سے کہنے لگا۔۔ ۔۔ وہ جی کل‬
‫کسی کو ٹائم دیا ہے میری بات سن کر مامی نے ایک گہری سانس‬
‫لی اور پھر کہنے لگی میں شرط لگا کر کہہ سکتی ہوں کہ جس کے‬
‫ساتھ تم ڈیٹ پر جا رہے ہو۔۔۔۔۔وہ یقینا ً کوئی بڑی عمر کی عورت ہو‬
‫گی کیونکہ تم میں اتنی صالحیت نہین کہ تم اپنی ایج فیلو کو پھنسا‬
‫سکو۔ اتنی بات کر کے وہ میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ‬
‫گئی۔۔۔۔اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی ۔۔۔ ہاں اب بولو کیا‬
‫چکر ہے؟ تو میں نے بال کم و کاست ساری بات سنا دی۔۔ سن کر‬
‫کہنے لگی ۔۔۔ اس سے پہلے تمہارا کوئی تجربہ ہے ؟ تو میں نے‬
‫جھوٹ بولتے ہوئے نفی میں سر ہال دیا۔۔۔ اس پر وہ مجھے آنکھ مار‬
‫کر بولی تب تو بڈی تم مزے کی ایک نئی دینا ڈسکور کرنے والے‬
‫ہو۔۔۔‬

‫پھر بظاہر سنجیدہ ہو کر کہنے لگیں ۔۔۔ جس عالقے میں تمہارا سٹور‬
‫ہے وہاں اس قسم کی سرگرمیاں عام ہیں۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔۔ اسی‬
‫طرح اگر کبھی۔۔۔ ۔۔ کپل سؤنگر کا پروگرام ہوا تو بطور پارٹنر‬
‫مجھے اپنے ساتھ لے جانا۔۔ مامی کی بات سن کر میں ایک دم سے‬
‫چونک اُٹھا اور بڑی حیرانی سے بوال۔۔ آپ کو ؟ تو وہ آنکھ دبا کر‬
‫بولی ہاں مجھے۔۔۔ تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ‬
‫لیکن آپ تو میری مامی ہیں۔۔۔ میری بات سن کر وہ طنزیہ ہنسی اور‬
‫کہنے لگی اچھا اگر سچ مچ تم مجھے اپنی مامی سمجھتے تو۔۔۔۔۔‬
‫نارائن کے ساتھ میرا شو کبھی بھی نہ دیکھتے۔۔۔ ان کی بات سن کر‬
‫میں نے شرمندگی سے کہا۔۔۔سوری مامی جی ایک دفعہ غلطی ہو‬
‫گئی تھی۔۔۔ میری بات سن کر مامی مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔‬
‫ایک دفعہ؟؟؟؟؟ ؟ کیوں جھوٹ بولتے ہو میرے پیارے بھانجے ۔۔‬
‫جبکہ میرے حساب سے ۔۔۔اب تک تم نے میری فکنگ کے کم از کم‬
‫پانچ چھ شو دیکھ چکے ہو۔۔اس کے عالوہ جو تم ڈیلی بیسز پہ میرے‬
‫آگے اور خاص کر پیچھے والے باڈی پارٹس کو ندیدوں کی گھورتے‬
‫رہتے ہو اس کا تو کوئی شمار و قطار ہی نہیں ہے۔ اس کے بعد وہ‬
‫میری آنکھوں میں ڈال کر کہنے لگی وہ جس دن تم ماسٹر بیٹنگ‬
‫کرتے پکڑے گئے تھے سچ بتاؤ ۔۔۔۔۔ کیا اس دن بھی تم نے میرا اور‬
‫نارائن کا شو نہیں دیکھا تھا ؟ اور اسی شو کی گرمی مٹانے کے‬
‫لیئے تم ماسٹر بیٹنگ کرنے والے تھے کہ پکڑے گئے۔۔۔۔۔۔۔ پھر اپنی‬
‫بات کو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگیں مجھے معلوم ہے کہ تم‬
‫چوری چوری میری چھاتیوں اور بنڈ کو گھورتے رہتے ہو۔۔۔ پھر‬
‫کہنے لگیں کیا میں غلط کہہ رہی ہوں؟ پھر جوش میں آ کر بولی۔۔۔ یہ‬
‫نہیں تو کم از کم اتنا ہی بتا دو کہ ابھی کچھ دیر پہلے ۔۔ تم نے میری‬
‫پرائیوٹ جگہ کا گیال پن نہیں دیکھا۔۔۔۔؟ مامی کی بات سن کر میں نے‬
‫کیا جواب دینا تھا ۔۔ بس شرمندگی کے ساتھ سر جھکا لیا۔ یہ دیکھ کر‬
‫مامی اپنی جگہ سے اُٹھی اور میرا کندھا تھپتھپا کر کہنے لگی ۔۔۔‬
‫زیادہ شرمندہ ہونے کی ضرورت نہیں۔ ویسے بھی ہم انڈیا پاکستان‬
‫کے لوگ ڈبل سٹینڈرڈ والے ہوتے ہیں۔۔ چوری چوری اپنی بھابھی‬
‫بہنوں کی چھایتوں اور خاص کر موٹی موٹی گانڈوں کو بڑے شوق‬
‫سے دیکھتے ہیں لیکن اگر کوئی ایسی ویسی بات ہو جائے تو فورا ً‬
‫سے پہلے ہماری غیرت جاگ جاتی ہے ۔۔۔۔ اس لیئے میرے الل تو‬
‫شرمندہ نہ ہو۔۔۔ہمارے ہاں ایسا ہی ہوتا ہے۔۔۔۔ پھر شرارت بھرے‬
‫لہجے میں بولیں۔۔ ہاں تو پھر کیا کہتے ہو ؟ تو میں نے ان سے کہا‬
‫کہ کس بارے میں ؟؟؟ تو آگے سے وہ آنکھ دبا کر بولی۔۔۔ پارٹنر‬
‫والی بات؟ تو میں بوال اوکے مامی ۔۔ اگر ایسا چانس مال۔۔۔ تو میں‬
‫بطور پارٹنر آپ کو ضررور ساتھ لے جاؤں گا۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر‬
‫وہ کہنے لگیں ۔۔۔ رہنے دو تم سے تو یہ کام نہیں ہو گا ۔۔ہاں البتہ میں‬
‫تم کو کسی دن ایسی پارٹی میں لے جاؤں گی۔ مامی کی بات سن کر‬
‫میں جو پہلے ہی کرسٹینا کی وجہ سے شہوت میں ڈوبا ہوا تھا ۔۔۔ اب‬
‫مزید گرم ہو گیا۔۔۔ اور پتہ نہیں کیسے میں اپنی جگہ سے اُٹھا۔۔۔۔ اور‬
‫مامی کے ساتھ ہاتھ مال کر بوال تھینک یو مامی ۔۔۔ لیکن انہوں نے‬
‫بجائے ہاتھ مالنے کے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔اُف۔۔۔جیسے ہی‬
‫میں ان کے ساتھ گلے مال ۔۔۔تو مامی کے فٹ بال جیسے ممے میرے‬
‫سینے میں کھب سے گئے۔ اور نیچے سے میرا لن ان کی موسٹ‬
‫پرائیٹ جگہ پر۔۔۔۔ جو کہ اس وقت بھی گیلی ہو رہی تھی ۔۔۔۔ کے‬
‫ساتھ ٹچ ہو گیا۔۔ ادھر جیسے ہی میرا لن مامی کی موسٹ پرائیوٹ‬
‫جگہ ۔۔۔ پر ٹچ ہوا ۔۔۔تو مامی نے ایک زبردست سی جھرجھری سی‬
‫لی۔۔۔‬

‫ان کا جسم کانپا۔۔۔۔اور ۔۔۔۔وہ میرے ساتھ اور بھی چپک کر کھڑی ہو‬
‫گئی۔۔۔۔۔۔ میری طرح مامی کا جسم بھی بہت گرم ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ ہم‬
‫دونوں شہوت میں ڈوبے ایک دوسرے کے جسموں میں گھسنے کی‬
‫کوشش کر رہے تھے۔۔۔ لیکن بقول مامی کے ہم ڈبل سٹینڈرڈ والے‬
‫لوگ بظاہر انجان بنے۔۔۔۔ منہ سے ایک لفظ بھی بولے۔۔۔۔ بغیر کچھ‬
‫بات کئے ایک دوسرے کے ساتھ چمٹے رہے۔۔۔ ہم دونوں کے‬
‫جسموں سے شہوت کے سنگلز بہت ہی واضع طور پر آ جا رہے‬
‫تھے ۔مامی کی بھری بھری چھاتیاں میرے سینے کے ساتھ چپکی‬
‫ہوئیں تھیں۔۔ میری نیکر کا ابھار مامی کی ٹائیٹ کے اس حصے پر‬
‫چپکا ہوا تھا جو کہ اب مزید گیال ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ چنانچہ ان کی موسٹ‬
‫پرائیویٹ پارٹ سے پانی نکل نکل کر میری نیکر کے ابھار کو بھی‬
‫گیال کر رہا تھا۔ اس وقت ہم دونوں سیکس کی آگ میں بری طرح‬
‫سے جل رہے تھے۔۔۔۔۔تڑپ رہے تھے۔۔۔۔۔اور ہم دونوں کو فکنگ کی‬
‫شدید حاجت ہو رہی تھی ۔۔۔لیکن دونوں میں سے کسی کو بھی پہل‬
‫کرنے کی ہمت نہیں ہو رہی تھی۔ایک انجانی سی دیوار ہم دنوں کو‬
‫سیکس کرنے سے روک رہی تھی۔۔۔۔۔ اسی اثنا میں مامی نے اپنا منہ‬
‫میری طرف کیا ۔۔۔تو ان کے منہ سے شراب کے بھبھکے نکل رہے‬
‫تھے ۔۔ مامی تو شراب کے نشے میں ٹُن تھی۔۔۔ لیکن میں بن پیئے ہی‬
‫ان کے جسم سے نکلنے والی شہوت کی طاقتور لہروں سے نڈھال‬
‫ہوا جا رہا تھا۔۔ اور میرا ٹول ان کی موسٹ پرائیویٹ پارٹ پر بار بار‬
‫ٹچ ہونے کی وجہ سے پھٹنے کے قریب ہو رہا تھا۔۔۔ اسی دوران‬
‫مامی نے میری طرف دیکھا تو ان کی آنکھوں میں شہوت کے الل‬
‫ڈورے تیرتے ہوئے صاف نظر آ رہے تھے۔۔ لیکن ہم دونوں ۔۔۔ہی‬
‫اپنے ڈبل سٹینڈرڈ کے ہاتھوں مجبور تھے۔۔۔چاہنے کے باوجود بھی‬
‫وہ کچھ نہ کر پا رہے تھے کہ جس کو کرنے کے لیئے ہم مرے جا‬
‫رہے تھے۔۔۔۔ ادھر مامی نے ۔۔۔اپنی موسٹ پرائیوٹ جگہ کو میری‬
‫نیکر کے ابھار کے ساتھ مزید رگڑا۔۔اور منہ سے ایک لفظ نکالے‬
‫بغیر ان کی کوشش تھی کہ وہ میری نیکر کے ابھار کو اپنی نرم‬
‫چوت کی دراڑ میں پھنسا لیں ۔ اسی تگ و دو میں وہ مختلف اینگل‬
‫سے ہل ہل کر ۔۔۔ میرے لن کو ۔۔۔اپنی گیلی چوت کی دراڑ میں ۔۔۔۔۔۔‬
‫ایڈجسٹ کرنے کی بھر پور کوشش کر رہیں تھیں۔اور پھر ان کی‬
‫کوششیں رنگ لے آئیں اور میرا لن ان کی ۔۔۔۔ چوت کی بڑی سی‬
‫لکیر میں پھنسنے ہی واال تھا کہ۔۔۔ ۔۔۔ اچانک دروازے پر بیل کی‬
‫آواز سنائی دی ۔۔ٹن۔ن۔ن ۔۔۔ بیل کی آواز سنتے ہی کر ہم دونوں کو‬
‫ایسا لگا کہ جیسے کسی نے ہمارے قدموں بمب پھوڑ دیا ہوا۔۔۔۔ ہمیں‬
‫ایک زبردست سا جھٹکا لگا۔۔۔اور مامی نے مجھے اور میں نے ان‬
‫کی طرف دیکھا۔۔اسی دوران ڈور بیل کی آواز دوبارہ سنائی دی۔۔۔ٹن‬
‫نن ن۔۔اور پھر بجتی ہی گئی۔۔۔ میں نے گھبرا کر مامی کی طرف‬
‫دیکھا اورررررررررررررررررررررررر۔۔۔۔۔۔۔‬
‫۔‬

‫)قسط نمبر‪(4‬‬

‫ڈور بیل کی آواز سن کر مامی بھی خاصی اپ سیٹ نظر آ رہی تھی‬
‫ادھر بیل کے مسلسل بجنے کی وجہ سے میرے تو پہلے ہی ٹٹے‬
‫ہوائی ہو چکے تھے اور ہم دونوں پر ایک عجیب سا خوف طاری ہو‬
‫چکا تھا۔۔ اسی خوف کی وجہ سے میرے لن کی سختی نا جانے کہاں‬
‫اندرون خانہ ہم دونوں کو اس زیادہ ڈر اس بات کا‬
‫ِ‬ ‫غائب ہو گئی تھی۔‬
‫تھا کہ مسلسل بیل بجانے واال کہیں ماموں جان ہی نہ ہوں۔۔کیونکہ ان‬
‫کے عالوہ کسی اور میں اتنی جرات نہ تھی کہ اس طرح بیل پر ہاتھ‬
‫رکھے رکھتا ۔۔۔ اسی دوران میں نے خوف زدہ نظروں سے مامی کی‬
‫طرف دیکھا تو اس وقت تک وہ کسی فیصلے پر پہنچ چکی تھیں‬
‫اسی لیئے مجھے اپنی طرف متوجہ پا کر وہ کہنے لگیں۔۔ تم روم میں‬
‫چلے جاؤ۔۔۔ میں دروازے کو دیکھتی ہوں ۔۔۔ ۔۔ پھر کہنے لگی ایسا‬
‫کرو کہ تم ایک چھوٹا سا شاور لے کر آ جاؤ ۔مامی کی بات سن کر‬
‫میں تیز تیز قدموں سے چلتا ہوا اپنے کمرے میں پہنچا ۔۔۔ اور دروازہ‬
‫بند کر کے سیدھا واش روم میں گھس گیا ۔۔اندر گھستے ہی میں نے‬
‫اپنی النگ نیکر اتاری اور میری نگاہ۔۔۔۔ لن پر پڑی تو دیکھا کہ‬
‫تھوڑی دیر پہلے تک ۔۔۔جو لن صاحب بڑے طنطنے کے ساتھ کھڑے‬
‫لہرا رہے تھے ۔۔۔۔ اس وقت وہ خوف کے عالم میں سکڑ کر چھوہارا‬
‫بن چکے تھے۔۔۔۔اسے دیکھ کر لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ وہی لن ہے جو‬
‫دیر پہلے تک ۔۔۔۔۔اتنا سخت ہو رہا تھا کہ اس کے دباؤ سے مامی کی‬
‫نرم ران میں سوراخ بھی ہو سکتا تھا۔۔ مامی کی ران کا ذہن میں آتے‬
‫ہی میں نے ہینگر پر ٹنگی نیکر کو اتارا۔۔۔ اور اس کی گیلی جگہ کو‬
‫بڑے غور سے دیکھنے لگا۔۔۔حقیقت یہ تو یہ تھی کہ مامی کی گیلی‬
‫چوت نے میری نیکر کی 'اس جگہ" کو بھی کافی گیال کیا ہوا تھا ۔‬
‫اور یہ گیال پن خاصہ زیادہ تھا۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے مامی کی چوت‬
‫کا اندازہ لگایا۔۔۔ جو کہ لن لیئے بغیر ہی ڈھیروں ڈھیر پانی چھوڑ‬
‫رہی تھی۔ کچھ دیر چیک کرنے کے بعد میں نے اس گیلی جگہ کے‬
‫ساتھ اپنا ناک چپکا دیا۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ اس گیلی جگہ سے ابھی‬
‫تک ہلکی ہلکی۔۔۔ لیکن شہوت انگیز سیمل آ رہی تھی۔اس سے میں‬
‫نے اندازہ لگایا کہ مامی کی چوت کی مہک بڑی سڑانگ ہو گی۔ کچھ‬
‫دیر تک اس گیلی جگہ کو کچھ دیر سونگھنے کے بعد ۔۔۔۔۔ میں نے‬
‫اپنی نیکر کو دوبارہ ہینگر پر لٹکایا ۔۔اور مامی کی ہدایت کے مطابق‬
‫ایک کوئیک شاور لے کر روم سے باہر آ گیا ۔۔۔ پھر کپڑوں والی‬
‫الماری سے ایک اور نیکر نکالی اور اسے پہن کر باہر نکل گیا۔۔۔‬

‫کمرے سے باہر آ کر دیکھا تو ڈائینگ ٹیبل پر مامی کے ساتھ پلوی‬


‫جی بھی بیٹھی ہوئیں تھیں ۔۔۔۔اور دونوں بڑے مزے سے پیزا کھا‬
‫رہیں تھی۔ مجھے آتے دیکھ کر مامی کہنے لگی۔۔ توبہ ہے تم نہانے‬
‫میں کتنی دیر لگاتے ہو؟ تو میرے جواب دینے سے پہلے ہی۔۔۔۔ پلوی‬
‫جی کہنے لگیں۔۔۔۔۔نو جوان بچہ ہے۔۔۔یو نو ۔۔۔ ایسے بچوں کو باتھ‬
‫روم میں نہانے کے عالوہ بھی کئی اور کام ہوتے ہیں۔ پلوی جی کی‬
‫بات ختم ہوتے ہی دونوں لیڈیز نے ایک زبردست سا قہقہہ لگایا۔۔۔ ۔۔۔‬
‫اور میں کھسیانی ہنسی ہنس کر بوال ۔۔ایسی کوئی بات نہیں ہے جی۔۔۔‬
‫اس کے بعد مامی مجھ سے کہنے لگی۔۔۔۔کرسی پر بیٹھو میں تمہیں‬
‫پیزا کھالتی ہوں۔۔۔۔۔ اس پر میں نے روٹین میں ان سے پوچھ لیا کہ‬
‫مامی جی آج کھانے میں کیا پکا ہے؟؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے‬
‫بولیں۔۔۔۔ بات یہ ہے دوست کہ چونکہ میں اور پلوی نے ایک دوست‬
‫سے ملنے جانا تھا اس لیئے جلدی کی وجہ سے میں نے کچھ نہیں‬
‫پکایا۔۔۔۔۔ اور پیزا کا آرڈر بک کرا دیا ۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر‬
‫آنکھ مارتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔یو نو ۔۔بے چارہ۔۔ پیزا بوائے ڈور بیل بجا‬
‫بجا کے واپس جا رہا تھا ۔۔کہ اتنے میں ( مجھے لینے کے لئے)‬
‫پلوی آ گئی اور تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ پلوی ۔۔پلوی ہے۔۔۔۔ اس نے‬
‫ایک دفعہ جو بیل پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔تو رکھ دیا۔۔۔۔۔۔ حرام ہے جو بندے‬
‫کے دروازے پر آنے تک۔۔اپنی انگلی کو وہاں سے ہٹائے۔۔۔۔ مامی‬
‫نے میرے پوچھے بغیر ہی۔۔۔ بڑے طریقے سے مجھے مسلسل ڈور‬
‫بیل بجنے کی وجہ بتا دی تھی دوسری طرف مامی کی بات سن کر‬
‫پلوی جی ہنستے ہوئے بولیں ۔۔۔ ۔۔۔ اور یقینا ً تم نے یہی سمجھا ہو گا۔۔۔‬
‫کہ مسلسل بیل بجانے والے تمہارے پتی دیو ہیں اور آج پھر ان کا بلڈ‬
‫پریشر بہت ہائی ہے اسی لیئے تو جب تم نے دروازہ کھوال تو اس‬
‫وقت تم کافی خوف زدہ لگ رہی تھیں۔۔ پلوی جی کی بات سن کر میں‬
‫اور مامی نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔اور ۔۔۔دل‬
‫ہی دل میں ہنس پڑے ۔۔۔۔ اب مامی انہیں کیسے بتاتی کہ وہ ماموں‬
‫کے بلڈ پریشر ہائی ہونے کی وجہ سے خوف ذدہ نہیں تھی۔۔۔ بلکہ۔۔‬
‫ت غیر میں پکڑے جانے کی‬ ‫۔اسے اپنے سگے بھانجے کے ساتھ حال ِ‬
‫وجہ سے خوف ذدہ تھی۔۔لیکن ظاہر ہے کہ مامی یہ بات پلوی جی‬
‫سے نہ کر سکتی تھی اس لیئے وہ ۔۔ ۔ پلوی جی کو اصل بات بتانے‬
‫کی بجائے۔۔۔۔۔ ان کے اندازے کی تائید کرتے ہوئے بولیں۔۔۔ اُف۔ف۔ تم‬
‫نے تو میرا خون ہی خشک کر دیا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔ اسی دوران میں بھی‬
‫ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھ چکا تھا چنانچہ میرے بیٹھتے ہی مامی نے پیزے‬
‫کا ایک بڑا سا پیس۔۔۔ میرے سامنے رکھا اور اپنے کمرے کی طرف‬
‫یہ کہتی ہوئی چلی گئی کہ میں ابھی تیار ہو کر آتی ہوں ۔۔ مامی کے‬
‫جاتے ہی پلوی میم جو کہ مامی کے سامنے بار بار مجھ ے بیٹا کہہ‬
‫کر بال رہی تھی بڑے پیار سے کہنے لگی۔۔۔ ہیلو ہینڈ سم کیسے ہو؟‬
‫تو میں نے پیزا کا ایک پیس منہ میں ڈالتے ہوئے بوال۔۔ میں تو ٹھیک‬
‫ہوں ۔۔۔لیکن آپ لوگ کہاں جا رہے ہو؟ تو پلوی میم کہنے لگی۔۔۔ جانا‬
‫کہاں ہے یار مسزسنگھ کو جانتے ہو نا ں؟ پلوی جی۔۔۔ مسز سنگھ کو‬
‫جاننے کی بات کر رہیں تھیں۔۔۔ جبکہ میں ان کو ایک دو دفعہ چود‬
‫بھی چکا تھا۔ لیکن چونکہ میں یہ بات پلوی جی کے ساتھ شئیر نہیں‬
‫کر سکتا تھا اس لیئے میں ذہن پر زور دینے کی ایکٹنگ کرتے‬
‫ہوتے ہوئے بوال۔۔۔کون مسز سنگھ؟ تو آگے سے پلوی میم بڑے موڈ‬
‫میں کہنے لگی۔۔۔۔ارے وہی یار ۔۔۔ جس کی چھاتیاں اور گانڈ میری‬
‫اور تمہاری ممانی سے بھی ڈبل ہیں۔۔تو اس پر میں ڈرامہ کرتے‬
‫ہوئے بوال۔۔ اچھا اچھا آپ مسز وجے سنگھ کی بات کر رہی ہو؟ تو‬
‫پلوی جی مسکراتے ہوئے بولیں جی مہاراج !!۔۔اسی مسز وجے سنگھ‬
‫کی بات ہو رہی ہے تو میں نے ان سے پوچھا کہ خیریت تو ہے نا؟‬
‫تو وہ جواب دیتے ہوئے بو لیں۔۔بے چاری کافی دنوں سے بیمار‬
‫تھی۔۔۔ سوچا آج اس کی خبر ہی لے آئیں ۔۔ اس پر میں نے پیز ا‬
‫خالف توقع مامی دس منٹ میں ہی تیار‬ ‫ِ‬ ‫کھاتے ہوئے اپنا سر ہال دیا۔۔۔‬
‫ہو کر آ گئی تھی۔۔۔ انہیں آتے دیکھ کر پلوی جی اپنی سیٹ سے اُٹھ‬
‫گئیں۔۔۔ اسی دوران مامی میرے قریب آ کر بولی ۔۔ ہو سکتا ہے کہ‬
‫میں کچھ لیٹ ہو جاؤں اس لیئے تمہارے ماموں کا پیزا ۔۔۔۔۔ مائیکرو‬
‫ویو اون میں رکھا ہے۔اگر تم ان کے آنے تک جاگ رہے ہوئے تو‬
‫پلیز اسے گرم کر کے دے دینا ۔۔۔ اگر سو بھی گئے تو کوئی بات‬
‫نہیں کہ میں نے سیل پر انہیں بتا دیا ہے۔ اس کے بعد دونوں خواتین‬
‫باہر چلی گئیں ۔۔۔پیزا کھانے کے بعد میں نے کچھ دیر ٹی وی دیکھا‬
‫۔۔۔ پھر نیند آنے پر کمرے میں جا کر سو گیا۔۔‬
‫خالف معمول مامی باہر‬‫ِ‬ ‫اگلے دن جب میں تیار ہو کر باہر نکال تو‬
‫موجود نہ تھی ورنہ اس سے پہلے کی روٹین یہ تھی کہ وہ مجھ سے‬
‫پہلے ہی اُٹھی ہوتی تھیں۔۔۔ چونکہ میرا سٹور گھر سے کافی دور‬
‫واقع تھا ۔۔۔ اس لیئے میں جلدی جایا کرتا تھا ۔۔۔۔اس لیئے عام طور پر‬
‫میرے اُٹھنے سے پہلے ہی مامی میرا ناشتہ وغیرہ تیار کر چکی‬
‫ہوتی تھی ۔ لیکن اس دن مامی کہیں دکھائی نہ دے رہیں تھیں پھر میں‬
‫نے ایک نظر کچن میں ڈالی تو مامی وہاں بھی موجود نہ تھی ۔ میں‬
‫سمجھ گیا کہ رات کو لیٹ آنے کی وجہ سے اس کی آنکھ نہ کھلی ہو‬
‫ت حال‬ ‫گی۔۔۔ ورنہ اس وقت تک وہ اُٹھ چکی ہوتی تھیں ۔۔ یہ صور ِ‬
‫دیکھ کر میں نے فیصلہ کیا کہ۔۔۔ ناشتہ کہیں باہر سےکر لوں گا۔۔ ۔۔‬
‫یہ سوچ کر جیسے ہی میں نے باہر کی طرف قدم بڑھایا۔۔۔۔ تو دیکھا‬
‫ب عادت انہوں وہی ڈھیلی ڈھالی‬ ‫کہ مامی کمرے نکل رہی تھی ۔ حس ِ‬
‫شرٹ پہنی ہوئی تھی جس میں سے ان کے فٹ بال جیسے ممے‬
‫ب‬
‫صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے آتے بھی نہیں تھے۔۔ حس ِ‬
‫معمول ان کی شرٹ کے اگلے دونوں بٹن کھولے ہوئے تھے جس‬
‫سے ان کے شاندار ممے باہر کو جھانک رہے تھے۔۔۔۔۔ مجھ پر نظر‬
‫پڑتے ہی مامی نے ہائے کہا اور پھر میرے قریب آ کر بولی سوری‬
‫یار رات لیٹ ہونے کی وجہ سے میں جلدی نہیں اُٹھ سکی ۔ پھر‬
‫کہنے لگی تم ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھو میں ایک منٹ میں تمہارا ناشتہ بنا‬
‫کر التی ہوں۔۔ مامی کے کہنے پر میں ڈائینگ ٹیبل پر جا کر بیٹھ گیا‬
‫اور کچھ ہی دیر بعد مامی گرم گرم ناشتہ لے آئی اور اسے ٹیبل پر‬
‫رکھتے ہوئے بولی ۔۔ سوری فار لیٹ۔۔۔تو میں نے ان کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے کہا۔۔ مامی جی سوری تو مجھے کرنی چاہیئے تھی۔۔‬
‫میری بات سن کر وہ بڑی حیرانی سے کہنے لگیں۔۔۔ ۔ سوری کس‬
‫لیئے بھائی؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔ سوری اس لیئے‬
‫مامی جی کہ رات کو پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا تھا ۔۔۔کہ ۔۔۔۔ اس لیئے‬
‫رات کی بات پر میں آپ سے دوبارہ سوری کرتا ہوں ۔۔ میری بات‬
‫سن کر مامی نے بڑے غور سے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔جب اسے‬
‫یقین ہو گیا کہ واقعتا ً میں سنجیدگی کے ساتھ سوری کر رہا ہوں ۔۔ تو‬
‫وہ کہنے لگی ۔۔۔۔۔ ہاں یار رات کچھ زیادہ ہی ہو گیا ۔۔۔ اور اس کی‬
‫وجہ یہ تھی کہ۔۔۔ ایک تو اس وقت میں نشے میں تھی اوپر سے وہ‬
‫کم بخت ڈرامہ بھی کچھ زیادہ ہی گرم تھا ۔۔۔ چنانچہ اسے دیکھ کر‬
‫میں اور بھی گرم ہو گئی تھی۔ پھر میری طرف دیکھ کر کچھ‬
‫سوچتے ہوئے کہنے لگی۔۔ویسے اگر اس وقت پیزا بوائے اور پلوی‬
‫نہ آتی ۔۔۔ تو بات بہت آگے تک جا سکتی تھی۔۔۔ تو اس پر میں نے ان‬
‫سے کہا ۔۔ کہ تھینک گاڈ ۔۔۔ کہ اس وقت پیزا بوائے آ گیا تھا ۔۔۔ ورنہ‬
‫۔۔ہم تو ۔۔۔۔ آخری سٹیشن پر پہنچنے ہی والے تھے۔۔ ۔۔۔ اور اسی وجہ‬
‫سے ایک پھر میں آپ سے سوری بول رہا ہوں۔۔۔‬

‫میری بات سن کر مامی ہنس کر بولی ۔۔۔۔ ویسے تو ہے پکا حرامی ۔۔‬
‫چلو مان لیئے کہ اس وقت میں نشے میں تھی ۔۔ لیکن بھائی صاحب‬
‫۔۔۔ تم نے تو نہیں پی رکھی تھی ۔۔۔ کم از کم تمہیں ہی کچھ شرم کر‬
‫لینی تھی ۔۔۔۔۔۔ اپنے پہلوان کو بار بار میری تھائی (ران) کے ساتھ‬
‫کیوں ٹچ کر رہے تھے ؟ تو میں جلدی سے بوال ۔۔۔۔ مامی جی اگر آپ‬
‫نے پی تھی۔۔۔ تو مجھ پر آپ کے حسین بدن کا خمار چھایا ہوا تھا‬
‫۔۔۔میری بات سن کر مامی ہنس کر بولی۔۔۔۔ بس بس رہنے اپنی یہ‬
‫مسکے بازیاں ۔۔ اس کے بعد مامی نے ایک خاص ادا سے میری‬
‫طرف دیکھا اور پھر۔۔۔ ٹھہر ٹھہر کر کہنے لگی۔۔۔ تو میرا بھانجا تو‬
‫ہے۔۔۔۔لیکن ہے پکا حرامی ۔۔۔۔ ایک طرف تو۔۔۔تو بار بار مجھ سوری‬
‫کر رہا ہے جبکہ دسری طرف تیری یہ بھوکی نظریں۔۔۔۔ ایک لمحے‬
‫کے لیئے بھی میرے سینے نہیں ہٹیں۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بولیں کہ۔۔۔ اب تم ہی بتاؤ میں تیری زبان سے نکلی ہوئی بات پر‬
‫اعتبار کروں یا۔۔۔۔پھر تیری ان بھولی نظروں پر ۔۔۔۔ جو کہ ابھی تک‬
‫میرے سینے پر گڑی ہوئیں ہیں ۔۔۔ مامی کی بات سن کر میں گڑبڑا‬
‫گیا۔۔۔ اور ان سے کہنے لگا۔۔۔ میں کیا کروں مامی۔۔کہ آپ کا حسن ہی‬
‫اتنا بال خیز ہے کہ میں چاہ کر بھی رہ نہیں سکتا۔۔۔میری بات سن کر‬
‫وہ کھکھال کر ہنسی اور پھر کہنے لگی۔۔۔ ایک بات یاد رکھو بیٹا‬
‫جتنی تیری عمر ہے نا ۔۔ اس معاملے میں ۔۔۔۔۔میرا اس سے زیادہ‬
‫تجربہ ہے۔ اس لیئے کسی اور کو بے وقوف بنانا۔۔۔ ان کی بات سن‬
‫کر میں نے کہا کہ ۔۔۔ مامی جی میں تہہ دل سے آپ کو سوری بول‬
‫رہا تھا۔۔ لیکن اگر میرا اعتبار نہیں تو میں اپنے جملہ الفاظ معہ کئی‬
‫دفعہ کی سوری کے واپس لیتا ہوں ۔ میری بات سن کر مامی نے‬
‫ایک گہرا سانس لیا اور پھر میری نقل اتارتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔۔۔ جی‬
‫میں نے بھی تمہاری جھوٹ موٹ کی سوری تمہیں واپس کی۔۔۔ بلکہ‬
‫آپ کے اس بھوکے منہ پر دے ماری ۔۔ اس پر میں کہنے لگا۔۔۔ یہ تو‬
‫سب ٹھیک ہے مامی ۔۔ لیکن اب آگے کیا ہو گا؟؟؟؟ میرا سوال سن کر‬
‫وہ مسکراتے ہوئے ۔۔۔ کہنے لگی کہ۔۔۔۔ پالؤ کھائیں گے احباب ۔۔۔۔اور‬
‫فاتحہ ہو گا۔۔۔۔ اس کے بعد وہ اچانک ہی سیریس ہو کر کہنے لگی۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔بات یہ ہے میری جان کہ ۔۔۔اب کام چل پڑا ہے تو کہیں نہ کہیں‬
‫پہنچ کر ہی رکے گا۔۔۔ پھر اچانک ہی بات کو بدلتے ہوئے بولی ۔۔۔ تو‬
‫آج تمہاری نتھ اترائی ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟۔۔ اور وہ بھی ایک گوری کے‬
‫ہاتھوں۔۔۔ واہ بھئی واہ۔۔۔ مامی کی بات سن کر میں حیران رہ گیا اور‬
‫اسی حیرانی سے کہنا لگا ۔۔۔ نتھ اترائی؟ وہ کیا ہوتا ہے؟ تو وہ ہنس‬
‫کر بولی ۔۔۔شاید تمہیں معلوم نہ ہو یہ خالص ہیرا منڈی الہور کی‬
‫اصطالع ہے اور اس کا سادے لفظوں میں مطلب یہ ہے کہ وہ لڑکی‬
‫جو اپنی زندگی میں پہلی دفعہ کسی بندے کے ساتھ سیکس کرے ۔۔‬
‫اس سیکس کرنے کو وہ لوگ اپنی اصطالع میں نتھ اترائی کرنا‬
‫کہتے ہیں اس کے لیئے خاص کر سیٹھ لوگ بہت پیسے خرچ کرتے‬
‫ہیں۔۔۔۔۔ مامی کی بات سن کر میں ان سے بوال۔۔۔ کہہ تو آپ ٹھیک ہی‬
‫رہیں ہیں۔۔۔۔ ۔۔اور ناشتہ کرنے کے بعد۔۔ سٹور جانے کے لیئے جیسے‬
‫ہی انہیں الوداع کہنے لگا‬

‫تو وہ بظاہر افسوس بھرے لہجے میں بولیں۔۔۔ ۔۔اس نامراد گوری سے‬
‫پہلے ہی ۔۔۔۔۔ کل رات تیری نتھ اترائی کی رسم ہو جانی تھی‬
‫۔۔پرررر۔۔۔ اس پر میں نے مامی کی طرف دیکھا اور بوال۔۔۔‬
‫پرررررررررر۔۔ کیا ؟ ۔۔تو آگے سے وہ بڑے ہی معنی خیز نظروں‬
‫سے مجھے دیکھنے لگی۔۔۔ پھر ایک وقفے کے بعد بولی ۔۔۔ اگر عین‬
‫وقت پر پیزا بوائے نہ آتا تو اس وقت تم یہ بات مجھ سے نہ پوچھ‬
‫رہے ہوتے ۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔ تمہیں دیر ہو رہی ہے اس لیئے اب تم‬
‫جاؤ۔۔ حقیقت یہ تھی کہ مامی کے اتنے واضع سنگل وصول کر کے‬
‫۔۔۔ ایک دم سے ۔۔۔ میرے اندر آگ سی لگ گئی تھی۔۔۔۔۔اور میں از حد‬
‫گرم ہو چکا تھا ۔۔اس لیئے مجھے اور تو کچھ نہ سوجھا ۔۔۔ اور میں‬
‫نے جاتے جاتے مامی سے کہا۔۔ کہ مامی جی ۔۔ادلہ بدلی پارٹی میں‬
‫کب لے جا رہی ہو؟ ۔۔۔ تو وہ کچھ سوچتے ہوئی بولی ۔۔۔ دیکھو ۔۔ جب‬
‫بھی موقع مال ۔۔ میں تمہیں بتا دوں گی۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔ شرم کر‬
‫سالے ۔۔ اس وقت تمہاری غیرت کہاں جائے گی جب کوئی شخص‬
‫تیری آنکھوں کے سامنے ۔۔۔۔ تیری سگی مامی کے ساتھ وہ کام کر‬
‫ے گا؟ مامی کی بات سن کر میں جاتے جاتے رک گیا اور ان سے‬
‫کہنے لگا۔۔۔ کہاں کی غیرت ؟ یہ میرا کون سا کوئی فرسٹ ٹائم ہو گا‬
‫کہ۔۔ میں اپنی سگی مامی کو اس سے پہلے بھی متعدد دفعہ ایک‬
‫بندے کے ساتھ وہ واال کام کرتے دیکھ چکا ہوں۔۔۔ پھر اس سے بوال‬
‫۔۔۔ غیرت نہیں مامی یہ تو فن ہے ۔۔۔ ویسے بھی جو شخص آپ کے‬
‫ساتھ وہ واال کام کر رہا ہو گا ۔۔۔تو دوسری طرف آپ کا یہ ہونہار‬
‫بھانجا ۔۔۔اس کی سگی بیوی یا گرل فرنیڈ سے آپ کا بدلہ اتار رہا ہو‬
‫گا۔۔ میری بات سن کر مامی ہنس پڑی اور پھر مجھے اشارہ کرتے‬
‫ہوئے بولی۔۔اب دفعہ ہو بھی ہو جاؤ کہ کام سے لیٹ ہو رہے ہو چ۔۔‬
‫مامی کے کہنے پر میں واپسی کے لیئے ُمڑا ہی تھا کہ مجھے ان‬
‫کی آواز سنائی دی۔۔۔وہ کہہ رہی تھی ۔۔ویسے تمہاری اکڑاہٹ بڑی‬
‫جاندار۔۔۔اور شاندار تھی۔۔۔مامی کے منہ سے ڈھکے چھپے الفاظ‬
‫میں۔۔۔۔۔ اپنے لن کی تعریف سن کر مجھے نشہ سا ہو گیا اور اسی‬
‫ت‬
‫وقت میں نے ُمڑ کر مامی کی طرف دیکھا تو ان کا چہرہ بھی شد ِ‬
‫جزبات سے الل ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ مجھے ان کی‬
‫آنکھوں میں ایک عجیب سی حیوانی چمک بھی نظر آئی۔۔۔ تاہم ان کی‬
‫بات سن کر میں کہنے لگا۔۔۔۔کہ اگر میری اکڑاہٹ شاندار ہے تو آپ‬
‫کے دودھ بھی قیامت ہیں ۔۔۔ رات سینے سے لگتے ہی ۔۔۔میں بے‬
‫قرار ۔۔۔ اور میرا دوست " ہوشیار" ہو گیا تھا۔۔۔ میری بات سن کر‬
‫مامی کا چہرہ کچھ مزید الل ہو گیا ۔۔اور وہ اپنے ہونٹوں پر زبان‬
‫پھیرتے ہوئے بولیں ۔۔۔ میرے دودھ پسند آئے؟؟؟ تو میں شہوت بھرے‬
‫لہجے جواب دیتے ہوئے بوال۔۔۔ ۔۔بہت زیادہ۔۔۔۔۔ پھر ان سے التجا‬
‫کرتے ہوئے بوال۔۔۔ جاتے جاتے کیا میں ان کا دیدار کر سکتا ہوں؟؟ ۔۔‬
‫میری بات سن کر مامی نے ایک نظر اپنے کمرے کی طرف دیکھا‬
‫کہ جہاں پر ماموں سوئے ہوئے تھے۔۔۔۔۔۔اور پھر دروازے کی طرف‬
‫پیٹھ کر کے۔۔۔۔ اپنی شرٹ کا بٹن کھولنے ہی والی تھی۔۔۔۔۔ کہ اچانک‬
‫ماموں کی خوفناک آواز سنائی دی ۔۔ ندرت ایک کپ چائے ال دو۔۔۔‬
‫ماموں کی منحوس آواز سن کر مامی نے میری طرف دیکھا اور‬
‫مجھے ٹھینگا دکھا کر ۔۔۔۔۔۔ جانے کا اشارہ کرتے‬
‫بولی۔۔۔چچ۔۔چچ۔چچ۔۔۔چ۔چ۔چ۔۔ ویری سیڈ ۔۔۔پور بوائے ۔۔۔ ۔۔ ۔۔‬
‫ماموں سے ویسے ہی میری جان جاتی تھی اور خاص کر ایسے‬
‫موقعہ پر ان کی آواز سن کر میری تو گانڈ ہی پھٹ گئی۔۔۔ سوچا‬
‫۔۔۔بھاگ بھوسڑی کے۔۔۔ ورنہ اگر خونخوار ماموں نے اس حالت میں‬
‫دیکھ لیا ۔۔۔۔ تو بےموت مارا جائے گا۔۔۔ مامی کی چھاتیوں کا دیدار تو‬
‫گھر کی بات ہے۔۔پھر سہی۔۔۔ سو میں منہ لٹکائے۔۔۔ بڑی تیزی کے‬
‫ساتھ گھر سے باہر نکل گیا ۔۔اور راستے بھر مامی کے بارے میں‬
‫سوچتا رہا۔۔۔ سٹور کھولنے کے بعد بھی میرا زہن مامی کی طرف لگا‬
‫رہا۔۔۔ اور پتہ نہیں کیوں۔۔۔ مامی کے حسین جسم کے خدو خال کے‬
‫بارے میں سوچ سوچ کر مجھے برا محسوس نہیں ہو رہا تھا۔۔۔۔میں‬
‫مامی کے بارے میں سوچ رہا تھا اور اس بات کو تقریبا ً فراموش کر‬
‫چکا تھا کہ آج رات میں نے ایک بیوٹی فل گوری کی چوت مارنی‬
‫ہے یہ بات مجھے اس وقت یاد آئی۔۔۔ کہ میں نے کرسٹینا میم کو‬
‫سٹور میں داخل ہوتے ہوئے دیکھا۔۔۔ اسے آتے دیکھ کر میں اپنی‬
‫ب‬
‫سیٹ سے کھڑ ا ہو گیا۔۔اور اس کی طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔ حس ِ‬
‫معمول وہ بڑے ہی باوقار طریقے سے چلتی ہوئی میرے پاس پہنچی‬
‫۔۔ اور مجھ سے ہاتھ مال کر بولی ۔۔۔ رات کا پروگرام ڈن ہے نا؟ تو‬
‫میں اس کا ہاتھ دباتے ہوئے بوال۔۔۔ ایک دم ڈن ہے میم۔۔۔۔۔تو وہ مسکرا‬
‫تے ہوئے بولی آنٹی سے کیا بہانا کیا؟ تو میں نے جھوٹ بولتے ہوئے‬
‫کہا کہ انہیں ایک دوست کو ملنے کا بہانہ کیا ہے۔۔ پھر میں نے اس‬
‫گریس فل باوقار ۔۔۔اور خوبصورت گوری کی طرف دیکھا اور کہنے‬
‫لگا۔۔۔ ۔۔۔ مسٹر جان کہاں ہیں؟ تو وہ کہنے لگی۔۔ اس کی کوئی ارجنٹ‬
‫میٹنگ تھی اس لیئے وہ سیدھا آفس چال گیا ہے۔۔ جبکہ میرے پاس‬
‫کچھ وقت تھا سوچا ایک تو تم سے مل لوں اور دوسرا ۔۔۔ تمہارا‬
‫پروگرام پوچھ لوں۔۔ پھر کہنے لگی تم کس وقت سٹور بند کرتے ہو؟‬
‫تو میں نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا کہ آٹھ ساڑھے آٹھ بج ہی‬
‫جاتے ہیں میری بات سن کر وہ کہنے لگی۔۔۔۔۔ تو طے ہو گیا کہ‬
‫ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے میں یا جان تمہیں پک کر لیں گے۔ اس لیئے‬
‫میک شیور کہ اس وقت تک تم شاپ کلوز کر چکے ہو گے ۔۔ کرس‬
‫کی بات سن کر میں نے ہاں میں سر ہالیا اور پھر اس سے بوال۔۔۔‬
‫ایک بات پوچھوں میم؟ تو وہ بڑی گہری نظروں سے دیکھتے ہوئے‬
‫بولی ۔۔وائے ناٹ؟ تو میں نے اس سے کہا کہ جب مسٹر جان نے آپ‬
‫کو میرے بارے میں بتایا تھا ۔۔۔ کہ آپ اس کے ساتھ سیکس کرو گی‬
‫۔۔۔تو اس وقت آپ کا ری ایکشن کیا تھا؟ میری بات سن کر وہ گریس‬
‫فل گوری مسکرائی اور کہنے لگی۔۔ یہ تم سے کس نے کہہ دیا کہ تم‬
‫جان کی پسند ہو؟ تو اس پر میں حیران ہوتے ہوئے بوال ۔۔۔۔ مجھے تو‬
‫آپ کے بارے میں انہوں نے ہی کہا تھا۔۔۔ میری بات سن کر وہ آگے‬
‫بڑھی اور میری گال پر ہلکی سی چپت لگا کر بولی۔۔ ایک بات یاد‬
‫رکھو مائی ڈئیر بوائے۔۔‬

‫کہ تم جان کی نہیں بلکہ میری پسند ہو۔۔ میڈم کی بات سن کر میں‬
‫بہت حیران ہوا اور ان سے کہنے لگا۔۔۔ آآآپ۔۔۔کی ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو وہ‬
‫بڑے اطمینان سے بولی یس میری۔۔۔۔۔تو اس پر میں الجھے ہوئے‬
‫لہجے میں بوال۔ ۔۔۔ یہ کیسے ہو سکتا ہے؟ اس سے پہلے تو میں آپ‬
‫سے کبھی نہیں مال۔۔ اس پر میڈم مسکرائی اور پھر کہنے لگی تم‬
‫ٹھیک کہہ رہے ہو ۔۔ کہ تمہارے ساتھ میرا باقاعدہ تعارف جان نے‬
‫ہی کروایا تھا۔۔۔لیکن ۔۔۔ بات اصل یہ ہے کہ جب سے تمہارا سٹور‬
‫کھال ہے۔۔۔تو میں دو تین دفعہ یہاں آ کر باقاعدہ شاپنگ کر چکی‬
‫ہوں۔۔۔۔ جو کہ ظاہر ہے کہ تمہیں یاد نہیں ہو گا۔۔۔ اس کی وجہ یہ ہے‬
‫کہ میں سٹور سے شاپنگ کرکے بنا کوئی بات کیئے چلی جاتی تھی‬
‫کے "‪ "Cuckold‬۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔ تم‬
‫بارے میں کچھ جانتے ہو؟ تو میں نے نفی میں سر ہال دیا۔۔۔ اس پر وہ‬
‫کہنے لگی۔۔۔ تم یہاں نئے نئے آئے ہو شاید اسی لیئے تم کو اس بارے‬
‫میں کچھ خبر نہیں۔ پھر میری طرف دیکھ کر کچھ سوچتے ہوئے‬
‫بولی۔۔ کاک اولڈ کا سادہ لفظوں میں یہ مطلب ہے کہ کسی خاوند کا‬
‫اپنی مرضی و منشاء کے ساتھ ۔۔اپنی آنکھوں کے سامنے ۔۔۔۔ اپنی‬
‫بیوی کو کسی دوسرے مرد کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے دیکھنا بات‬
‫یہ ہے ڈارلنگ کہ جان کوئی عادی " "کاک اوولڈ"" نہیں ہے لیکن‬
‫پھر بھی کبھی کھبار۔۔۔۔ فار ا ے۔۔چینج اس کو میرا ۔۔۔۔کسی دوسرے‬
‫مرد کے ساتھ سیکس کرتے دیکھ بہت مزہ آتا ہے ۔۔۔ بات یہ ہے‬
‫ڈارلنگ کہ جان کوئی عادی " "کاک اوولڈ"" نہیں ہے لیکن پھر بھی‬
‫کبھی کھبار۔۔۔۔ فار ا ے۔۔چینج اس کو میرا ۔۔۔۔کسی دوسرے مرد کے‬
‫ساتھ سیکس کرتے دیکھ بہت مزہ آتا ہے ۔۔۔ ۔‬
‫تو میں نے کہا ۔۔۔اور آپ کو؟ تو وہ ہنس کر بولی۔۔۔آف کورس۔۔ ۔۔اصل‬
‫مزہ تو میں ہی لیتی ہوں۔۔ وہ تو بے چارہ صرف ڈک اندر باہر جاتے‬
‫دیکھ کر خوش ہو جاتا ہے۔ اس کے بعد وہ کہنے لگی۔۔۔ کسی غیر‬
‫مرد سے میرا سیکس دیکھنے کے بعد۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ وہ بہت ڈیم ہاٹ ہو جاتا‬
‫ہے ۔۔۔۔اور پھر میری ایسے بجاتا ہے ۔۔کہ مت پوچھو۔۔۔اس لیئے منہ‬
‫کا ذئقہ چینج کرنے کے لیئے ہم لوگ کبھی کھبار ایسا کر لیتے ہیں ۔۔‬
‫اس پر میں نے اس گریس فل لیڈی سے پوچھا کہ جب آپ کا شوہر‬
‫اس قسم کے شو دیکھنے کے بعد ۔۔۔۔ آپ کے ساتھ زبردست۔۔ سیکس‬
‫کرتا ہے پھر تو آپ کو گاہے بگاہے ایسا کام کرتے رہنا چاہیئے۔۔‬
‫میری بات سن کر وہ سر ہال کر بوال۔۔۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو ۔۔ میرے‬
‫ہبی کی بھی یہی خوہش ہے۔۔۔ لیکن وہ میری وجہ سے مجبور ہے تو‬
‫میں نے ان کہا کہ وہ کیسے؟ اس پر وہ جواب دیتے ہوئے بولی‬
‫اسکی وجہ میری شرط ہے اور وہ یہ کہ میں اپنی مرضی کے بندے‬
‫کے ساتھ سیکس کروں گی۔۔۔۔ میری شرط سن کر پہل ے تو ہبی نے‬
‫آخر کار وہ مان گیا۔۔۔سو اب میں اپنی‬
‫کچھ پس و پیش کی۔۔۔۔ لیکن ِ‬
‫پسند کا بندہ سلیکٹ کر کے اسے بتاتی ہوں۔۔۔ گوری میم کی بات سن‬
‫کر میں نے بڑی حیرانی سے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ میری‬
‫سلیکش بھی آپ نے خود کی تھی؟؟؟؟۔۔ تو وہ ہاں میں سر ہال کر‬
‫بولی۔۔۔۔ بات دراصل یہ ہے کہ ہمیں پروگرام کیئے دو تین ماہ ہو گئے‬
‫تھے۔۔ دوسری طرف جان میرے پیچھے لگا ہوا تھا کہ جلد از جلد‬
‫۔۔۔۔۔وہ میرا شو دیکھنا چاہتا ہے اس لیئے میں کوئی بندہ سلیکٹ کر‬
‫لوں ۔۔ لیکن اتفاق ایسا تھا۔۔۔ کہ میں ایسا نہ کر سکی پھر ایک دن میں‬
‫تمہارے سٹور میں آئی ۔۔۔تو پتہ نہیں کیوں تمہیں دیکھ کر میرے اندر‬
‫کی سیکس بھوک جاگ اُٹھی۔۔۔ اور میں نے جا کر جان کو بتا دیا کہ‬
‫مجھے ایک ایشیائی لڑکا پسند آ گیا ہے اور اس کے ساتھ ہی اسے‬
‫تمہارا پتہ بتا دیا۔۔۔۔ سو اگلے دن وہ تمہارے سٹور پر آیا۔۔۔ اور اس‬
‫نے بھی تمہیں اوکے کر دیا۔۔ اب مسلہ تم تک رسائی کا تھا کہ کس‬
‫طرح تمہارے ساتھ فرینک ہوا جائے۔۔۔ اس لیئے اس نے تمہارے‬
‫ساتھ فرینک ہونے کے لیئے سو ڈالر واال ڈرامہ رچایا۔۔۔۔۔ آگے کی‬
‫کہانی تم کو پتہ ہے ۔۔ ہاں میں اس میں اتنا ضرور ایڈ کروں گی ۔۔ کہ‬
‫۔۔جان تم سے سیکس بارے بات کرنا چاہتا تھا ۔۔۔ لیکن مسلہ یہ تھا کہ‬
‫تم بہت زیادہ شائے (شرمیلے) تھے اور کوشش کے باوجود بھی جب‬
‫تم نے جان کے ساتھ اس قسم کی بات نہین کی۔۔۔۔ تو تمہیں اوپن‬
‫کرنے کے لیئے مجبورا ً مجھے میری دوست ٹیلر سوئفٹ سے مدد‬
‫لینی پڑی۔۔۔ اس پر میں حیرانی سے بوال ٹیلر؟ تو وہ ہنس کر کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔ ہاں وہی ٹیلر جس کا آدھ ننگا جسم اور۔۔۔۔ خاص کر اس کی‬
‫گانڈ کو دیکھ کر بقول جان تم تو پاگل ہو گئے تھے ۔۔اس پر میں‬
‫حیرانی سے بوال۔۔ ۔ وہ سیکسی لیڈی آپ کی دوست تھی؟ تو کرس‬
‫اطمینان سے بولی وہ میری گہری اور راز دار دوست ہے ۔۔ اس پر‬
‫میں بوال۔۔۔ وہ کوئی عورت نہیں بلکہ چلتا پھرتا سیکس بمب تھا۔۔ تو‬
‫وہ کہنے لگی۔۔۔ اسی لیئے تو اسے تمہارے پاس بھیجا تھا۔۔۔ میں ٹیلر‬
‫کو یاد کر تے ہوئے بوال۔۔۔میڈم آپ کی دوست کی بیک سائیڈ بہت‬
‫زبردست اور ناقاب ِل فراموش تھی۔۔ تو وہ ہنس کر بولی۔۔۔ ٹیلر کی‬
‫بیک ڈور لینی ہے؟ تو اس پر میں کہنے لگا۔۔۔۔ اگر ہو سکے تو۔۔۔ تو‬
‫وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔ اوکے ڈارلنگ تمہارا کام ہو جائے گا ۔۔‬

‫پھر اچانک وہ میرے قریب آ کر بولی ۔۔۔ میری جان کیا خیال ہے۔۔۔‬
‫میں ٹیلر سے کم سیکسی ہوں؟ اتنی بات کرتے ہی وہ دوسری طرف‬
‫گھومی ۔۔۔۔۔ اور اس نے کر اپنی پینٹ نیچے کر دی۔۔۔۔ اُف ۔۔۔ میرے‬
‫سامنے اس گریس فل لیڈی گوری گوری اور زبردست گانڈ تھی۔۔۔۔۔ وہ‬
‫ٹھیک کہہ رہی تھی۔۔۔۔ ٹیلر کی طرح اس کی گانڈ بہت پرکشش اور‬
‫فومی تھی۔۔۔ گانڈ کے دنوں پٹ بہت بڑے اور ۔۔ دونوں بٹز (گانڈ) کے‬
‫درمیان والی لکیر خاصی گہری تھی۔۔ ویسے بھی موٹی گانڈ ۔۔وہ بھی‬
‫گوری میم کی۔۔۔ ۔ ۔۔ بندے کو اور کیا چایئے۔۔۔لن ؟ ۔۔۔۔۔۔ابھی میں نے‬
‫اس کی گانڈ کی جی بھر کے بھی نہ دیکھا تھا ۔۔۔۔ کہ اس ظالم نے‬
‫اپنی پینٹ کو اوپر کر لیا۔۔۔ گویا کہ للے کولوں سوہنی بنڈ لکاں ڑ‬
‫لئی۔۔۔۔۔سجناں نے بنڈ آگے پینٹ تان لی۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد وہ چلتی‬
‫ہوئی میرے پاس آئی۔۔۔ اور میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ سویٹ ہارٹ ۔۔ میری اس فومی گانڈ پر ایک دنیا مرتی ہے‬
‫۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی شرٹ کے اوپری بٹن کھولے ۔۔۔۔۔‬
‫اور اپنی چھاتیاں ننگی کر کے بولی۔۔۔اور ان چھاتیوں پر ہاتھ لگانے‬
‫کے لیئے بہت سے لوگ ترس رہے ہیں۔۔ مرے جا رہے ہیں ۔۔۔۔ اور‬
‫دوسری طرف تم ہو کہ میرے سامنے ٹیلر کو یاد کر رہے ہو ۔۔ کرس‬
‫کی بات سن کر میں سمجھ گیا کہ اسے میری ٹیلر والی بات بری لگی‬
‫ہے اس لیئے میں آگے بڑھا ۔۔اور ایک نظر سٹور کے مین ڈور پر‬
‫ڈالی۔۔ لیکن چونکہ ابھی صبع کا وقت تھا ۔ ویسے بھی میرے سٹوری‬
‫پر گاہکی ‪ 11‬بجے کے بعد ہی شروع ہوتی تھی ۔اس لیئے۔۔ اس وقت‬
‫کسی کے آنے کے امکانات بہت ہی کم تھے ۔ چنانچہ ادھر سے بے‬
‫فکر ہو کر میں کرس کے ساتھ لپٹ گیا ۔۔اور اس کی کان کی لو کو‬
‫چوم کر بوال۔۔۔۔ آئی لو یو ڈارلنگ۔۔۔ ٹیلر کے بارے میں ۔۔۔ دیئے گئے‬
‫ریمارکس میں واپس لیتا ہوں۔۔ پھر اس کے حسن کی جھوٹی سچی‬
‫تعریف کی ۔۔ اس کے بعد میں نے اس کے گالبی ہونٹوں پر ہونٹ‬
‫رکھے اور کافی دیر تک انہیں چوستا رہا ۔ میرے ہونٹ چوسنے کے‬
‫دوران اس نے کوئی ری ایکشن نہیں شو کیا۔۔بلکہ منہ بسورے چپ‬
‫چاپ کھڑی رہی۔۔ لیکن جیسے ہی میں نے اپنی زبان کو اس کے منہ‬
‫میں ڈاال ۔۔تو وہ تھوڑا سا کسمسائی۔۔اور میرے ساتھ لگ گئی۔۔۔اس کی‬
‫اس بات سے میں سمجھ گیا کہ اسے زبانوں کا مالپ بہت پسند ہے۔۔۔‬
‫چنا نچہ۔۔۔ یہ جاننے کے بعد۔۔۔۔۔۔پھر تو میں نے اس کی زبان چوسنے‬
‫کی حد ہی کر دی۔۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ مزے سے بھر پور۔۔۔ لیکن‬
‫آہستہ آہستہ سسکیاں بھرنے لگی۔۔۔۔لیکن پھر کچھ دیر بعد اس نے‬
‫خود ہی اپنے منہ سے میری زبان کو کھینچ لیا۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر مجھے‬
‫وارنگ دیتے ہوئے بولی۔۔ پلیز۔۔آئیندہ میرے سامنے ایسی بات نہ کرنا‬
‫کہ۔۔۔ یہ بات مجھے بلکل بھی پسند نہین۔۔۔ کہ مجھ پر کسی دوسری‬
‫عورت کو ترجیع دی جائے۔۔۔ چاہے وہ میری کلوز فرینڈ ہی کیوں نہ‬
‫ہو۔۔۔ تو میں نے بطور خوشامد اس سے کہا ۔۔وہ تو میں نے بائی دا‬
‫وے بات کی تھی۔۔۔ ورنہ تم سے زیادہ کیوٹ لیڈی۔ روئے زمین پر تو‬
‫کیا۔۔۔۔شاید پرستان میں بھی نہ ہو۔۔ میرے منہ سے اپنی تعریف سن کر‬
‫وہ ایک دم سے خوش ہو گئی۔۔۔ اور مجھے ایک ہاٹ سا کس دیا۔۔ پھر‬
‫اچانک اس نے میرے ہاتھ کو پکڑا۔۔اور ۔۔۔اپنی پینٹ کے اندر لے‬
‫گئی ۔۔۔ اور اس ہاتھ کو اپنی ننگی چوت پر رکھ کر بولی۔۔۔۔ میری‬
‫پُسی (چوت) کتنی ہاٹ ہے؟ تو میں اس سے بوال۔۔ آپ کی چوت ٹو‬
‫مچ ہاٹ ہے‬

‫تو وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔۔۔ ۔۔ سوچ لو۔۔۔ عام‬
‫حاالت میں جب میری پُسی اتنی ہاٹ ہے ۔۔۔۔۔ تو خاص موقعہ پر کتنی‬
‫ہاٹ ہو گی؟ اور کیا تم اتنی ہاٹ چوت کو ُکول (ٹھنڈا ) کر پاؤ گے؟‬
‫پھر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ کر بھی پاؤ گے کہ‬
‫نہیں؟ کرسٹینا کی بات سن کر مجھے بھی جالل آ گیا۔۔۔ سو میں نے‬
‫بھی اس کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔اور اپنے اکڑے ہوئے لن پر رکھ کر بوال ۔۔۔‬
‫اسے دباؤ۔۔۔ اس نے میرے لن کو دبایا ۔۔۔اور پھر سوالیہ نظروں سے‬
‫میری طرف دیکھنے لگی ۔۔ تب میں بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں‬
‫ڈالیں اور ڈرامہ کرتے ہوئے بوال۔۔۔ ہمارے ہاں ایک محاورہ بوال جاتا‬
‫ہے ۔۔۔ اور وہ یہ کہ اناڑی کا چودنا ۔۔۔چوت کا ستیا ناس ۔۔ اس کے‬
‫بعد میں ایک اور مہا جھوٹ بولتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔ اور مسز‬
‫کرسٹینا جان۔۔۔ جیسا کہ تم اچھی طرح سے جانتی ہو کہ یہ میری‬
‫فرسٹ ٹائم ہو گی۔۔اس لحاظ سے میں چوت مارنے میں اناڑی ہوں۔۔۔‬
‫اس لیئے۔۔۔میں اپنے اس لوہے کے لن سے ۔۔۔۔تیری چوت کا ستیا ناس‬
‫کر دوں گا۔۔ میری بات سن کر گویا کہ اسے ایک نشہ سا ہو گیا تھا۔۔۔۔‬
‫اور وہ بڑے ہی شہوت بھرے انداز میں بولی ۔۔ یس۔۔ ڈارلنگ میں‬
‫بھی یہی چاہتی ہوں کہ تمہارا اناڑی لن میری پُسی۔( چوت ) کا ستیا‬
‫ناس کر دے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ ابھی کرس مجھ سے یہی باتیں کر رہی تھی‬
‫خالف توقع سٹور میں اکھٹے دو تین کاہگ آ گئے انہین‬
‫ِ‬ ‫کہ اتنے میں‬
‫دیکھ کر کر س ہولے سے بولی۔ یاد رکھنا ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے‬
‫میں یا جان تم کو لینے کے لیئے آ جائیں گے۔۔اس لیئے ریڈی‬
‫رہنا۔۔۔اتنی بات کرتے ہی وہ سٹور سے باہر نکل گئی۔۔ ۔۔‬

‫ساڑھے آٹھ بجے کا وقت تھا۔۔۔۔اور میں سٹور بند کر کے ابھی فارغ‬
‫ہی ہوا تھا کہ مجھے دور سے جان آتا دکھائی دیا ۔۔۔۔ میرے پاس آ کر‬
‫وہ کہنے لگا۔۔ ہیلو بوائے!۔۔۔ میرے ساتھ چلنے کے لیئے ریڈی ہو؟ تو‬
‫میں نے چھاتی تان کر جواب دیا۔۔۔ یس سر۔۔۔ تو وہ خوش ہو کر بوال‬
‫۔۔دیٹس ُگڈ۔۔ اور پھر مجھے پارکنگ میں کھڑی اپنی گاڑی کی طرف‬
‫لے آیا۔۔۔ بال شبہ اس کے پاس ایک نئے ماڈل کی شاندار گاڑی تھی ۔۔‬
‫جس میں بیٹھتے ہی ۔۔میں نے اس سے پوچھا کہ۔۔آپ کے ساتھ میڈم‬
‫نہیں آئی؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ نہیں یار ۔۔۔۔ وہ تمہارے لیئے ڈنر تیار‬
‫کرنے میں بزی تھی۔۔۔ اس لیئے وہ نہ آ سکی ۔۔ اتنی بات کرتے ہی‬
‫اس نے گاڑی اسٹارٹ کی اور چل پڑا۔۔۔ کوئی دس پندرہ منٹ کی‬
‫ڈرائیونگ کے بعد جان کی گاڑی ایک شاندار بنگلے کے سامنے‬
‫رکی۔۔۔ گیٹ کے سامنے گاڑی کھرنے کے اس نے ۔۔۔ ریموٹ کا بٹن‬
‫دبا یا۔۔۔ تو ان کا گیٹ آٹومیٹک طریقے سے کھل گیا۔۔۔ اس طریقے‬
‫سے گیٹ کھلنے پر مجھ رعب تو بڑا پڑا ۔۔لیکن بظاہر میں نے اسے‬
‫اگنور کر دیا۔۔۔‬
‫میں نے گھر میں داخل ہو کر ادھر ادھر دیکھا تو واقعی یہ ایک‬
‫اعلی درجے کا فرنیچر پڑا تھا ۔۔سارا گھر‬
‫ٰ‬ ‫شاندار گھر تھا۔۔۔ وہاں پر‬
‫وال ٹو وال کارپٹڈ تھا۔۔۔۔ ۔۔۔۔ جان مجھے لے کر ڈائینگ روم میں آ گیا‬
‫اور مجھے بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بوال۔ قدرے اونچی آواز میں‬
‫بوال ۔۔۔ ہے کرس ۔۔ تمہارا گیسٹ آ گیا ہے پھر مجھ سے مخاطب ہو‬
‫کر بوال ۔۔ ویٹ۔۔ میں ابھی آیا۔۔۔ جیسے ہی جان ڈرائینگ روم سے‬
‫باہر نکال تو اسی وقت کرس کمرے میں داخل ہو گئی۔۔۔اور میرے‬
‫ساتھ گلے ملتے ہوئے بولی۔۔ ویل کم ڈارلنگ ۔۔ امید ہے کہ میرے‬
‫اور جان کے ساتھ تمہارا وقت اچھا گزرے گا۔۔ اس کے بعد اس نے‬
‫میری زبان سے زبان مالئی اورپھر۔۔۔ یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئی‬
‫کہ میں کھانا لگاتی ہوں۔ ۔‬

‫ڈائینگ ٹیبل پر جان ۔۔۔کرسئی صدارت پر ۔۔۔ جبکہ کرس میرے ساتھ‬
‫والی کرسی پر بیٹھی ہوئی تھی۔۔۔ کھانا کھانے کے دوران جان مجھ‬
‫سے مخاطب ہو کر بوال ۔۔۔ یار ایک بات تو بتاؤ ۔۔ اور وہ یہ کہ تم‬
‫اتنے شائے (شرمیلے ) کیوں ہو؟؟۔۔ تو اس پر میں کندھے اچکا کر‬
‫بوال۔۔۔ اس کے بارے میں ۔۔۔میں آپ سے کیا کہہ سکتا ہوں؟؟ ۔۔۔ میری‬
‫بات سن کر وہ کہنے لگا تمہیں معلوم ہے کہ اگر تم اتنے شائے نہ‬
‫ہوتے ۔۔۔۔ تو آج تک تم نے کرس کو کم از کم دس دفعہ فک کر چکے‬
‫ہونا تھا۔۔ ۔۔ ادھر جب جان مجھ سے یہ بات کر رہا تھا تو عین اسی‬
‫وقت کر س نے میری پیٹ کی زپ کھولی اور اپنے ایک ہاتھ میں‬
‫میرے لن کو پکڑ لیا۔۔۔اور کھانا کھانے کے ساتھ ساتھ اسے سہالنے‬
‫لگی۔۔۔ ۔۔۔ یہ دیکھ کر جان بوال ۔۔۔ یہ ِچیٹنگ ہے کرس ۔۔۔ تو آگے سے‬
‫وہ معصوم بن کے بولی اس میں غلط کیا ہے ڈارلنگ؟ تو جان ہنستے‬
‫ہوئے بوال ۔۔۔ یہ جو تم نے چوری چوری ۔۔۔ایک ہاتھ میں ایڈی کا ڈک‬
‫پکڑا ہوا ہے یہ ِچیٹنگ ہے ۔۔ تو آگے سے کرس آنکھیں نکالتے‬
‫ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔ وہ کیسے ڈارلنگ؟ ۔۔۔ تو جان جواب دیتے ہوئے‬
‫بوال ۔۔ وہ ایسے مائی لو!۔۔۔ کہ تمہارا میرے ساتھ ایگریمنٹ ہے کہ تم‬
‫میرے سامنے فک کروا گی ۔۔۔ اس پر کرس بولی ۔۔۔ میں اپنے‬
‫ایگریمنٹ پر قائم ہوں۔۔۔ بے شک ہم دونوں تمہارے سامنے ہی فکنگ‬
‫کریں گے۔۔۔ تو جان کہنے لگا۔۔ہنستے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔ اوکے ۔۔‬
‫لیکن پلیز ۔۔۔ تم اس کے لن سے اپنا ہاتھ ہٹا لو کہ بے چارے کے‬
‫لیئے۔۔۔ ڈنر کرنا مشکل ہو رہا ہے۔۔۔ اس پر کرس نے برا ِہ راست‬
‫میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔ کیوں ڈارلنگ! جان ٹھیک کہہ‬
‫رہا ہے؟ تو آگے سے میں نے جواب دیتے ہوئے کہا۔۔ نہیں میم ۔۔۔‬
‫بلکہ مجھے تو بڑا مزہ آ رہا ہے اور تمہارے ساتھ کھانے کا لطف‬
‫دوباال ہو رہا ہے۔۔۔۔۔ اس پر جان دوبارہ کہنے لگا ۔۔۔۔ کرس‬
‫پلیزززززززززززززز۔۔۔ اس بے چارے کو کھانا کھانے دو۔۔۔ پھر وہ‬
‫مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگا۔۔ویل لٹل بوائے!!۔۔ تم نے دیکھ ہی‬
‫لیا ہو گا کہ میری وائف کس قدر بمب شیل ہے۔۔ کیا تم اس بمب شیل‬
‫کو ہینڈل کر لو گے؟ تو آگے سے میں نے جان کو جواب دیتے ہوئے‬
‫کہا۔۔۔۔۔ سچی بات تو یہ ہے کہ۔۔۔مجھے نہیں معلوم کہ میں کرس‬
‫جیسی ڈیم سیکسی لیڈی کو ہینڈل کر پاؤں گا یا نہیں؟ ۔۔۔۔ لیکن میرے‬
‫لیئے یہ بہت بڑے اعزاز کی بات ہے کہ میں کرس جیسی سیکسی‬
‫اور ڈریم لیڈی کو فک کروں گا۔۔۔ میری بات سن کر کرس خوشی‬
‫سے چالئی۔۔۔۔ ویل سیڈ مائی ڈارلنگ۔۔ویری ویل سیڈ۔۔۔ جبکہ دوسری‬
‫طرف جان سر ہال کر بوال ۔۔۔ یہ بات تم نے درست کہی ہے۔۔ کہ‬
‫کرس جیسے بیک گراؤنڈ رکھنے والی لیڈی نہ صرف تم جیسے‬
‫ایشین ۔۔۔ بلکہ دوسرے ملکوں کے بھی بہت سے لوگوں کے لیئے‬
‫اعزاز کی بات ہے۔‬

‫کھانا کھانے کے بعد کرس مجھ سے کہنے لگی کہ کیا تم پیتے ہو؟‬
‫چونکہ اس وقت تک ابھی میں نے پینی نہیں شروع کی تھی۔۔۔۔ اس‬
‫لیئے میں اسے کہنے لگا کہ سوری میں نہیں پیتا۔۔۔۔ میری بات سن‬
‫کر وہ کہنے لگی کہ تمہاری خاطر ۔۔۔ آج میں بھی بنا پیئے ہی‬
‫تمہارے ساتھ سیکس کروں گی۔۔ اس کے بعد کرس مجھے لے کر بیڈ‬
‫روم کی طرف آ گئی ۔۔۔ ہمارے پیچھے پیچھے جان بھی چال آ رہا‬
‫تھا۔۔۔۔ ۔ کمرے کے باہر پہنچ کر ہم نے اپنے اپنے جوتے اتارے اور‬
‫پھر۔۔۔۔ کمرے میں داخل ہو گئے ۔۔۔ کمرے کی سچ دھج دیکھ کر میں‬
‫حیران رہ گیا۔۔۔ یہ ایک کافی بڑا کمرہ تھا جس میں بہت ہی دبیز قالین‬
‫پڑا ہوا تھا۔۔جس پر پیر رکھتے ہی پاؤں اندر دھنس جاتے تھے ۔ ۔۔‬
‫کمرے میں داخل ہوتے ہی سامنے والی دیوار کے ساتھ جہازی سائز‬
‫کا بیڈ پڑا تھا جبکہ بیڈ کے سرہانے کے اوپر والی دیوار پر۔۔۔۔ کرس‬
‫کی جنسی طور پر مشتعل کرنے والی ایک ق ِد آدم تصویر لگی ہو ئی‬
‫تھی جبکہ بیڈ کے ساتھ وکٹورین طرز کا بڑا سا صوفہ بھی پڑا تھا۔۔‬
‫۔۔۔۔ کرس لوگوں کا بیڈروم بہت ہی خوبصورتی سے ڈیکوریٹ کیا گیا‬
‫تھا۔۔۔ ۔ ۔۔ اور ایک بات جو میں نے خاص طور پر محسوس کی ۔۔۔ وہ‬
‫یہ تھی کہ بیڈ کی دیوار کے ساتھ بڑا سا شیشہ لگا ہوا تھا ۔ جو کہ‬
‫میرے خیال میں انہوں نے (خاص طور پر ) فکنگ کے لیئے لگایا‬
‫ہو گا۔۔جب میں بیڈ کی طرف دیکھ رہا تھا تو کرس مجھ سے کہنے‬
‫لگی کہ یو نو۔۔۔خود کو اس شیشے میں فکنگ کرتا دیکھ کر اس کا‬
‫مزہ دوباال ہو جاتا ہے۔ لیکن افسوس کہ آج تم اس فکنگ سے لطف‬
‫اندوز نہیں ہو سکو گے۔۔۔ کیونکہ ایگریمنٹ کے مطابق ہم نے ساری‬
‫فکنگ بیڈ پر نہیں۔۔۔۔ بلکہ جان کی آنکھوں کے سامنے کرنی ہو گی‬
‫۔۔۔ دوسری طرف کمرے میں پہنچتے ہی جان صوفے پر کر بیٹھ گیا‬
‫۔۔ جبکہ کرس میرا ہاتھ پکڑ کر اس کے سامنے کھڑی ہو گئی۔۔ تب‬
‫جان مجھ سے مخاطب ہو کر بوال۔۔۔ کسی دوسرے کی بیوی کے ساتھ‬
‫لگ کر کھڑا ہونا کیسا لگ رہا ہے؟ تو میں نے کرس کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ مجھے بہت مزہ آ رہا ہے ۔۔۔ اس پر جان کہنے‬
‫لگا ۔۔میرے سامنے اسے چودتے ہوئے شرماؤ گے تو نہیں؟۔۔ تب میں‬
‫نے جان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ تمہاری بیوٹی فل بیوی کی‬
‫چوت کے لیئے میں کچھ بھی کر سکتا ہوں ۔۔ میری بات سن کر جان‬
‫اشارہ کرتے ہوئے بوال۔۔۔ اوکے ۔۔ گو۔۔۔ہیڈ ۔۔۔ تب میں کرس سے‬
‫مخاطب ہو کر بوال ۔۔۔ سیکسی لیڈی ۔۔۔۔۔میں تمہارے لیئے مرا جا رہا‬
‫ہوں۔۔۔۔ ۔ تو آگے سے کرس کہنے لگی۔۔۔ تمہارے ساتھ سیکس کرنے‬
‫کے لیئے میں بھی بہت ایکسائیٹیڈ ہو رہی ہوں۔۔ ۔ یہ کہتے ہی اس نے‬
‫اپنے دونوں بازو میری گردن کے گرد حمائل کر دئے ۔۔۔۔۔۔اور اپنے‬
‫سویٹ سویٹ ہونٹوں کو میرے ہونٹوں کے بلکل قریب لے آئی۔۔۔ اس‬
‫کے منہ سے نکلنے والی۔۔۔۔ گرم سانسیں میرے ہونٹوں کو چھو کر ۔۔۔‬
‫مجھے مزید گرم کر رہیں تھیں۔۔۔‬

‫جس کی وجہ سے میں مست ہوا جا رہا تھا۔۔۔۔ ادھر کرس مجھے چوم‬
‫کر ہولے سے ۔۔۔۔میرے کان میں کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ یاد رکھنا لٹل بوائے‬
‫۔۔ میں بہت ہی گرم اور سیکسی لیڈی ہوں۔۔ اور تم نے میرے اندر‬
‫لگی آگ کو ٹھنڈا کرنا ہو گا ۔۔ کرس کی بات کو سن کر ۔۔۔۔ میں نے‬
‫اپنے منہ سے زبان باہر نکالی اور کرس کے ہونٹوں کو چاٹ کر‬
‫بوال۔۔۔۔۔ ۔۔ سیکسی لیڈی! میں پوری کوشش کروں گا کہ کم از کم آج‬
‫کی رات تیری چوت سے ڈھیر سارا پانی نکا ل کے ۔۔ تمہیں ٹھنڈا کر‬
‫دوں۔۔ ۔۔۔۔۔ ۔۔ میری بات سن کر وہ دوبارہ سے میرے کان میں سر‬
‫گوشی کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ ہینڈسم ! اگر تم نے ایسا کر دیا۔۔۔تو پھر‬
‫آج کے بعد۔۔۔ تم کو اجازت ہو گی کہ جان کے بغیر بھی جب چاہو‬
‫مجھے فک کر سکو گے۔۔ پھر۔۔ شہوت بھرے لہجے میں کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس وقت اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈال دو۔۔ اور میں‬
‫نے ایسا ہی کیا۔۔۔ جیسے ہی میری لمبی زبان کرس کے منہ میں‬
‫جانے کے لیئے۔۔۔۔ اس کے ہونٹوں پر پہنچی۔۔۔ ۔۔۔۔ کرس نے فورا ً ہی‬
‫میری زبان کو اپنے دونوں ہونٹوں کے درمیان پکڑا اور اسے چوسنا‬
‫شروع ہو گئی۔۔ اپنی زبان کو ۔۔۔۔ کرس کے ہونٹوں کے بیچ کرتے‬
‫ہوئے میں نے کن اکھیوں سے جان کی طرف دیکھا ۔۔۔تو اس کی‬
‫نظریں بھی میری طرف ہی لگی ہوئیں تھیں۔۔ جونہی ہم دونوں کی‬
‫نظریں چار ہوئیں تو وہ مجھ گڈ لک کا اشارہ کرتے ہوئے بوال۔۔۔‬
‫میری وائف کے ہونٹ ٹیسٹی ہیں نا؟ تب میں نے کرس کے منہ سے‬
‫اپنی زبان باہر نکالی اور جان سے بوال۔۔۔۔آپ کی وائف کے ہونٹ اور‬
‫زبان ہی نہیں ۔۔۔ بلکہ اس کا ایک ایک عضو سیکسی ہے ۔۔۔میری‬
‫بات ختم ہوتے ہی کرس نے میرے منہ کو پکڑ کر اپنے ہونٹوں کی‬
‫طرف کیا۔ اور آہستہ سے بولی ۔کامان ڈارلنگ۔۔۔۔۔ اس سے اگلے ہی‬
‫لمحے۔۔۔۔۔ ایک بار پھر سے ہم دونوں کے لپس ایک دوسرے کے‬
‫ساتھ گئے۔۔۔ بلکہ الک ہو گئے تھے ۔۔۔ کبھی میں اس کے ہونٹوں کو‬
‫چوسنے لگتا اور کبھی کرس ۔۔ وہ میرے ہونٹ اور کبھی۔۔۔۔ میری‬
‫زبان کو ایسے مزے سے چوس رہی تھی کہ نیچے میرا لن اکڑاہٹ‬
‫کے آخری درجے پر پہنچ گیا تھا۔۔۔۔جان جو ہم دونوں کے ہر عمل کو‬
‫بڑے غور سے دیکھ رہا تھا۔۔۔ کرس سے مخاطب ہو کر کہنے لگا‬
‫۔۔ہنی ۔۔ بوائے کا لن شدید جھٹکے مار رہا ہے ۔۔ اسے بھی تو پکڑو۔۔‬

‫جان کی بات سن کر کرس نے میرے ہونٹوں سے اپنے منہ کو ہٹایا‬


‫اور جان کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔ جس وقت سے ۔۔۔۔‬
‫بوائے کا لن جھٹکے مار رہا ہے تو یقین کرو ۔۔تقریبا ً اسی وقت سے‬
‫میری پھدی بھی خود بخود ہی اوپن کلوز ہو کر لیک ہو رہی ہے۔۔۔‬
‫کرس کی بات سن کر جان بڑی حیرانی کے ساتھ بوال۔۔۔ آر یو شیور‬
‫بےبی؟ ۔۔ کہ واقعی تمہاری پسی (چوت) آٹو میٹک اوپن کلوز ہو رہی‬
‫ہے۔۔۔ ۔۔ تو آگے سے کرس اپنی چوت پر ہلکا سا تھپڑ مار کر بولی‬
‫۔۔۔یہ حقیقت ہے جان۔۔یہ لڑکا بہت ہی سیکسی ہے کہ جس کی وجہ‬
‫سے میری پھدی۔۔۔۔۔ لیک ہونے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔۔۔ اس کے لن کے‬
‫لیئے بھی۔۔۔۔ تڑپ بڑھتی جا رہی ہے اس پر جان کہنے لگا۔۔۔ اس کا‬
‫مطلب یہ ہے کہ لڑکا تم سے بھی زیادہ سیکسی ہے جان کی بات سن‬
‫کر ۔۔۔۔کرس میری طرف گھومی اور کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔۔ میری طرح۔۔۔۔‬
‫تمہارے لن کو بھی میری چوت کی ضرورت محسوس ہو رہی ہے؟‬
‫تو میں نے ہاں میں سر ہال دیا۔۔۔ تب وہ کہنے لگی ۔۔۔۔تو ٹھیک ہے‬
‫پھر ۔۔۔ اگلے راؤنڈ کے لیئے تیار ہو جاؤ۔۔۔ ۔۔۔پھر کہنے لگی ۔۔لیکن‬
‫اس کے لیئے تمہیں سارے کپڑے اتارنے ہوں گے۔۔۔‬
‫اس کے ساتھ ہی کرس نے اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دیئے ۔۔‬
‫میں جان کی موجودگی میں ننگا ہونے سے کچھ جھجھک محسوس‬
‫کر رہا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے چند سیکنڈ رکا رہا ۔۔۔ پھر میرے کانوں میں‬
‫کرس کی آواز گونجی وہ کہہ رہی تھی کہ کپڑے اتار دو‬
‫پلیزززززز۔۔۔۔۔ کرس کی آواز سنتے ہی میں نے بنا کچھ مزید سوچے‬
‫اپنے کپڑے اتارنے شروع کر دیئے ۔۔۔اور اگلے چند لمحوں کے بعد‬
‫میں کرس کے سامنے بلکل ننگا کھڑا تھا۔۔۔جبکہ میرا لن اکڑ تے‬
‫ہوئے بار بار جھٹکے مار رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ننگا ہونے کے بعد میں ۔۔۔۔‬
‫کرس کو اور وہ میری طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔۔۔ ۔۔ کرس کا جسم گویا‬
‫سنگ مرمر کا تراشا ہوا کوئی شہکار تھا۔۔۔ اس کے پورے بدن پر‬ ‫ِ‬ ‫کہ‬
‫ایک بھی بال نہ تھا ۔۔ ہاں اس کی چوت کے اوپر بالوں کی ایک‬
‫چھوٹی سی لکیر بنی تھی جسے شاید چوت کے بالوں کی ٹرمنگ‬
‫کہتے ہیں ۔۔ کرس کی چوت پر لگے بالوں کی یہ لکیر ۔۔۔۔ کہ کافی‬
‫اوپر سے شروع ہو کر چوت کے پاس آ کر اینڈ ہو جاتی تھی۔۔۔ سچ‬
‫کہتا ہوں کہ امریکہ میں آ کر میں کافی لیڈیز کو چود چکا تھا۔۔۔۔ لیکن‬
‫سنگ مرمر سے تراشا ہوا‬ ‫ِ‬ ‫آج تک میں نے کرس جیسا شفاف بدن اور‬
‫بدن بہت کم خواتین میں دیکھا تھا۔۔۔۔ جس طرح میں ٹکٹکی باندھے‬
‫کرس کے گورے بدن کی طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔ بلکل ویسے ہی‬
‫کرس کی بھوکی نظریں میرے بدن ۔۔۔۔۔ خاص طور پر میرے اکڑے‬
‫ہوئے لن پر گڑھی ہوئیں تھیں ۔۔ وہ سحر زدہ انداز میں میرے لن کو‬
‫دیکھے جا رہی تھی۔۔۔ تب وہ آگے بڑھی اور میرے لن کو اپنے ہاتھ‬
‫میں پکڑا۔۔۔اور اسے چاروں طرف سے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔‬
‫آمیزنگ ۔۔۔کیا موٹائی ہے کیا لمبائی ہے۔۔پھر اسے دباتے ہوئے بولی‬
‫۔۔۔ اس کی اکڑاہٹ بہت زبردست ہے ۔۔۔۔ پھر وہ جان کی طرف متوجہ‬
‫ہوئی تو میں نے دیکھا کہ اس نظریں بھی میرے لن پر ہی ٹکی ہوئیں‬
‫تھیں۔۔۔ ۔۔۔ چنانچہ کرس بڑے ہی پیار کے ساتھ میرے لن کو سہالتے‬
‫ہوئے بولی۔۔۔۔۔ سی ڈارلنگ ۔۔ کیسا شاندار لن ہے۔۔۔۔ پھر اس نے‬
‫میرے ٹوپے پر انگلی پھیری اور جان کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔ اور اس کا ہیڈ کتنا موٹا ہے ۔۔۔ اس کے بعد اس نے لن کو‬
‫چھوڑ کر۔۔۔۔ میرے بالز کو ہاتھ میں پکڑا اور انہیں سہالتے ہوئے‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔ لُک جان یہ بھی کتنے بڑے ہیں۔۔تو آگے سے جان‬
‫کہنے لگا۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ لڑکا بہت زیادہ "کم" کرے گا‬
‫(منی چھوڑے گا)۔۔۔ جان کی بات سنتے ہی کرس اپنے ہونٹوں پر‬
‫زبان پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔ مجھے بھی ایسا ہی ڈک ( لن) چاہئے‬
‫تھا۔۔۔ جو کہ اپنے "کم" سے میری پُسی (پھدی) کو بھر دے۔۔ اس کے‬
‫بعد اس نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔اس اسے دباتے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔ ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میں لن کو نہیں ۔۔۔۔۔بلکہ کسی‬
‫لوہے کے راڈ کو دبا رہی ہوں۔۔ تو جان کہنے لگا ۔۔۔ لن کا مالحظہ‬
‫ہی کرتی رہو گی یا اسے اپنے منہ میں بھی ڈالو گی؟ تو اس پر کر‬
‫س نے جان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ابھی نہیں چوسوں گی‬
‫۔۔۔پہلے ۔۔ میں اس کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر انجوائے کروں گی ۔۔ پھر‬
‫بعد میں اسے اپنے منہ میں ڈال کر مزے لوں گی اور جب میرا ۔۔۔دل‬
‫بھر جائے گا۔۔۔۔۔۔ تو تب میں اسے اپنی ہاٹ چوت میں ڈالوں گی‬
‫۔۔۔۔دیکھنا جان ۔۔۔۔ جب اس کا لن میری چوت میں ڈھیر ساری " کم "‬
‫کرے گا (منی چھوڑے گا) تو اس کی گرمی سے میری پُسی (پھدی)‬
‫ُکول ( ٹھنڈی) ہو جائے گی۔۔۔۔۔ اس کے بعد کرس نے اپنی زبان‬
‫نکالی ۔۔اور میرے ٹوپے کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔ ۔۔۔تو ادھر سے جان‬
‫کی آواز سنائی دی وہ حسرت بھری آواز میں کہہ رہا تھا کہ ۔۔۔ہے‬
‫کرس ۔۔ اس لڑکے کے لنڈ کا ذائقہ کیسا ہے؟ اس پر کرس میرے لنڈ‬
‫کو چاٹتے ہوئے بولی ۔۔۔ بہت لذیذ اور سوادیش لن ہے۔۔۔۔ پھر سر اُٹھا‬
‫کر جان کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔ چوسنے میں بھی اور‬
‫چاٹنے میں بھی ۔۔ اس کے بعد اس نے دوبارہ سے لن کو اپنے منہ‬
‫میں ڈاال۔۔ اور تیزی کے ساتھ چوسنا شروع ہو گئی۔۔‬

‫بالشبہ گوری بہت اچھا چوپا لگا رہی تھی ۔ مجھے بھی بہت مزہ آ‬
‫رہا تھا ۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ مجھے یہ دھڑکا بھی لگ رہا تھا‬
‫کہ ۔۔۔ اگر یہ ایسے ہی لن چوستی رہی تو ہو سکتا ہے کہ میں جلد‬
‫چھوٹ جاؤں ۔۔۔اس لئے کچھ دیر بعد میں نے اس کے منہ سے لن کو‬
‫باہر نکال اور اس کے ساتھ کسنگ کرنے لگا۔۔۔ پھر کسنگ کرتے‬
‫کرتے میں نے اسے قالین پر لٹا دیا ۔۔۔اور آگے بڑھ کر۔۔۔۔اس کی‬
‫دلکش چھاتیوں کے موٹے موٹے نپلز ۔۔۔۔۔کو اپنے منہ میں لے کر‬
‫چوسنا شروع ہو گیا۔۔ چھاتیوں کو چوسنے کے ساتھ ساتھ میں نے اپنا‬
‫ایک ہاتھ گوری کی چوت کے دانے پر رکھا ۔۔اور اسے بھی مسلتا‬
‫چال گیا۔۔ چھاتیاں چوسنے کی وجہ سے گوری میم نے اپنی سیکسی‬
‫آواز میں سسکیاں لینا شروع کر دیں۔۔وہ کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔۔ یس۔۔۔یس۔۔۔‬
‫مائی لور ۔۔۔ ان چھاتیوں کو جی بھر کے چوسو۔۔۔ اور جب تھک جاؤ‬
‫۔۔۔تو تب میری پھدی مار لینا۔۔۔۔ ۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے اپنے چہرے‬
‫کو کرس کی چھاتیوں سے۔۔۔ نیچے کی طرف سرکانا شروع کر دیا۔۔۔‬
‫اور ہوتے ہوتے میری زبان گوری میم کی چوت پر آ کر ٹھہر گئی۔۔۔‬
‫جیسے ہی میری ناک میم کی چوت سے ٹکرائی۔۔۔ ۔۔۔۔ اسی وقت‬
‫میرے نتھنوں میں میم صاحبہ کی چوت کی سمیل آ گئی۔۔۔ یہ سمیل‬
‫زیادہ سٹرانگ تو نہیں تھی ۔۔۔ لیکن تھی بڑی زبردست ۔۔۔ میں کچھ‬
‫دیر تک ان کی چوت کو سونگھتا رہا۔۔۔۔پھر میں نے سر اُٹھا کر‬
‫گوری کی چوت کا قریب سے جائزہ لیا۔۔۔ ۔۔۔تو مجھے تھوڑی سی‬
‫مایوسی ہوئی ۔۔۔ کیونکہ بے شمار دفعہ پھدی مروا کے ۔۔۔ اس نے‬
‫اپنی شاندار چوت کا ستیا ناس کر دیا تھا۔۔۔ اس کی پھدی ابھری ہوئی‬
‫تھی ۔۔اور چوت کے دونوں ہونٹ باہر کی طرف لٹکے ہوئے تھے۔۔‬
‫پھدی کی دونوں کے درمیان کی لکیر خاصی بڑی اور گہری تھی۔۔۔‬
‫جبکہ اس کا موٹا سا دانہ بھی سر اُٹھائے کھڑا تھا مجموعی طور پر‬
‫کرسٹینا میم کی چوت کو دیکھ کر کوئی اناڑی بھی اندازہ لگا سکتا‬
‫تھا کہ ۔۔۔۔ یہ خاصی استعمال شدہ چوت ہے۔۔ ۔۔ پھدی کا اچھی طرح‬
‫سے جائزہ لینے کے بعد میں نے اپنے ہونٹوں کو کرس کے پھولے‬
‫ہوئے دانے پر رکھا اور اسے منہ میں لے کر چوسنا شروع ہو گیا۔۔۔‬
‫اس کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی دو انگلیوں کو بھی میڈم کی کھلی‬
‫چوت میں ڈال دیا۔۔۔۔ کرس کے دانے کو چوسنے کے ساتھ‬
‫ساتھ۔۔۔۔۔میں ان دو انگلیوں کو اس کی چوت کے اندر باہر بھی کر رہا‬
‫تھا۔۔۔ مزے کے مارے کرس کرسٹینا کے منہ سے سسکیاں نکل رہیں‬
‫تھی اور وہ بار بار بس یہی کہہ رہی تھی۔۔۔۔یس۔۔۔یس۔۔۔ اور چوس۔۔۔۔‬
‫اس دوران میرے اندازے کے مطابق کرس دو تین دفعہ تو ضرور‬
‫چھوٹی ہو گی۔۔۔ پھر اس کی ہمت جواب دے گئی۔۔۔اور ۔۔۔یس ۔۔۔یس‬
‫کرنے کی بجائے وہ مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ پلیز میرے دانے سے‬
‫منہ ہٹاؤ ۔۔۔کہ ٹائم ٹو فک۔۔۔۔ می۔۔۔ پلیزززز ۔۔ فک می۔۔۔ اور اس کے‬
‫ساتھ ہی اس نے زبردستی میرے سر کو پکڑا کر چوت سے ہٹایا‬
‫۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔ سٹاپ ناؤ۔۔۔۔ پلیززززززززززززز۔۔۔ فک می۔۔۔‬
‫اور اس کے ساتھ ہی وہ بنا کچھ کہے ڈوگی بن گئی۔۔۔۔اور پھر میری‬
‫طرف دیکھ کر کہنے لگی۔۔۔۔ فک می ڈئیر۔۔۔ اب میں گھٹنوں کے بل‬
‫چلتا ہوا ۔۔۔ گوری میم کے پیچھے جا کر کھڑا ہو گیا۔۔۔اور‬
‫پھررررررررر۔۔۔۔۔۔۔۔اس کی ننگی گانڈ دیکھ کر میری تو جان ہی نکل‬
‫گئی۔۔۔ اس کی پھدی تو بس واجبی سی خوبصورت تھی لیکن اس کے‬
‫مقابلے میں ۔۔ کرس کی گانڈ۔۔۔ ایک دم آفت تھی اسے دیکھتے ہی میں‬
‫نے جھک کر اس پر کس کی۔۔۔ تو وہ پیچھے مڑ کر بولی۔۔۔۔‬
‫پلیزززززز ۔۔۔ نو مور لکنگ۔۔۔۔ بس کرو۔۔۔۔ اور مت۔۔۔۔ چاٹو ۔۔۔۔ میرے‬
‫اندر ڈالو۔۔۔ تب میں اوپر اُٹھا ۔۔۔اور اپنے لن کے ہیڈ پر تھوک لگا کر‬
‫اسے گیال کیا۔۔۔۔اور میڈم کی چوت پر رکھ کر ایک زور دار گھسہ‬
‫مارا۔۔۔ لن اندر جاتے ہی میڈم نے ایک مستانی سی چیخ ماری ۔۔۔ ۔۔۔۔‬
‫فک می ۔۔۔۔ فک می ۔ہادرڈ۔۔۔۔ہارڈر۔۔۔۔ مجھے چود۔۔۔۔۔ اور میں اس کی‬
‫چوت میں گھسے مارتا رہا۔۔۔۔ کچھ دیر بعد۔۔۔ اس نے مجھے سٹاپ‬
‫کرنے کو کہا۔۔۔اور کہنے لگی پوزیشن چینج کرتے ہیں اس کے ساتھ‬
‫ہی وہ واپس مڑی ۔۔۔اور میرے لن کی طرف دیکھنے لگی جو کہ اس‬
‫وقت ۔۔۔۔۔۔چوت کی پری کم سے لتھڑا ہوا تھا۔۔۔اور پھر بولی۔۔۔۔۔۔‬
‫ڈارلنگ! تم بہت فائن شارٹس مارتے ہو۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے‬
‫جھک کر میرے لن کو تھوڑا سا چوسا ۔۔۔اور پھر جان کے سامنے‬
‫والی سائیڈ پر ۔۔۔۔ پلنگ کے کنارے بلکل سیدھی لیٹ گئی۔۔ اور اپنی‬
‫دونوں ٹانگوں کو اوپر اُٹھا کر بولی۔۔۔۔کامان فک می۔۔۔ یہ سن کر میں‬
‫چلتا ہوا اس کے پاس گیا۔۔۔اور اس کی دونوں ٹانگوں کو اوپر‬
‫اُٹھایا۔۔۔تو وہ جان سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔ڈارلنگ میری گانڈ کے‬
‫نیچے تکیہ رکھ دو۔۔۔۔۔یہ سن کر جان صوفے سے اُٹھا۔۔ اور جا کر‬
‫سرہانہ لے آیا ۔۔ اور ا س نے کرس کی چوت کے نیچے رکھ دیا‬
‫۔۔۔ہپس کے نیچے سرہانہ ہونے کی وجہ سے کرس کی چوت ابھر کر‬
‫سامنے آ گئی ۔۔ ۔۔۔۔ اس کے بعد جان نے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔اور‬
‫کہنے لگا ۔۔ فک ہر ۔۔فاسٹ۔۔۔ ۔۔۔ جان کی بات سن کر میں نے کرس‬
‫کی دونوں ٹانگوں کو اپنے کندھے پر رکھا۔۔۔۔۔۔ ۔۔ اور لن کو پکڑ کر‬
‫اس کی چوت میں دے ایک شدید قسم کا جھٹکا مارا۔۔۔۔۔۔۔جس کی وجہ‬
‫سے میرا لن جڑ تک کرس کی چوت میں اتر گیا۔۔۔۔‬
‫ادھر جیسے ہی میرا لوڑا کرس کی گرم چوت میں پہنچا۔۔۔تو کرس‬
‫چال کر بولی۔۔۔فک می ہارڈررر۔۔۔۔ سو میں نے بہت تیز تیز ۔۔۔‬
‫شارٹس مارنا شروع ہو گیا۔۔۔۔ میری ہر شارٹ پر وہ یہی کہتی‬
‫۔۔۔یس۔یس۔۔۔۔۔۔ فک میں فاسٹ ۔ہارڈر۔۔۔۔۔اور فاسٹ ۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر فاسٹر‬
‫فاسٹر ۔۔۔ کہتے ہوئے اچانک ہی وہ اُٹھ کر میرے ساتھ چمٹ گئی۔۔۔۔‬
‫اور گوری کے اس عمل سے میں سمجھ گیا کہ وہ چھوٹنے والی‬
‫ہے۔۔۔۔ اس لیئے اس سے اگلے گھسے میں نے اپنی پوری قوت سے‬
‫مارے۔۔۔۔۔اور پھر چند ہی گھسوں کے بعد۔۔۔۔۔۔ گوری کی لوز چوت‬
‫میرے موٹے لن کے ساتھ خود بخود اوپن کلوز ہونے لگی ۔۔۔۔۔ اور‬
‫پھر ایک زبردست جھٹکے کے ساتھ میڈم نے فائینل چیخ مارتے‬
‫ہوئے کہا۔۔ یس۔۔۔یسس۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی گوری میم کی چوت نے‬
‫پانی چھوڑنا شروع کر دیا۔۔ ابھی میں کرس کی چوت میں مزید‬
‫گھسے مارنا چاہ رہا تھا کہ اچانک ہی میرے لن نے بھی بار بار‬
‫جھٹکے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔ اور مجھے ایسا لگا کہ جیسے‬
‫میرے جسم کا سارا خون میری ٹانگوں کی طرف دوڑ تا چال آ رہا‬
‫ہے۔۔۔ تب میرے منہ سے بھی کی اونچی آواز ۔۔۔اوہ۔۔۔اوہ۔۔۔ کی چیخ‬
‫نکلی۔۔۔۔اور میں ۔ ۔ بے دم ہو کر گوری میم کے اوپر ہی گر گیا۔۔۔۔اس‬
‫کے ساتھ ہی میرے لن نے پچکاری ماری۔۔۔۔اور میں گوری کی چوت‬
‫میں ہی چھوٹنا شروع ہو گیا۔۔‬
‫جب میرے لن سے منی کا آخری قطرہ بھی نکل کر گوری کی چوت‬
‫میں چال گیا۔۔۔۔ تو مجھے کچھ ہوش آیا اور میں کرس ۔۔۔۔۔کے اور‬
‫سے اُٹھا۔۔ دیکھا تو جان میرے پاس ہی کھڑا تھا۔۔ اس کا چہرہ شد ِ‬
‫ت‬
‫جزبات سے سرخ ہو رہا تھا۔۔ اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے‬
‫لگا ۔۔ویری نائیس فکنگ۔۔۔ اتنے میں ۔۔۔۔ کرس کی آواز گونجی وہ کہہ‬
‫رہی تھی ۔۔۔ ہے جان۔۔۔ میری پسی (چوت) کو چاٹ کر صاف کرو۔۔۔‬
‫کرس کی آواز سنتے ہی جان بنا کسی ہچکچاہٹ کے قالین پر گھٹنوں‬
‫کے بل بیٹھ گیا۔۔۔ ۔۔۔۔اور اپنی زبان نکال کر ۔۔۔۔۔بڑی ہی بے تابی کے‬
‫ساتھ ۔۔ میم کی چوت میں پڑی۔۔۔ میری اور اس کی منی کو چاٹنا‬
‫شروع ہو گیا۔۔ اس دوران میں بڑے شوق اور حیرانی سے جان کی‬
‫طرف دیکھ رہا تھا کہ وہ کس قدر بے تابی اور مہارت کے ساتھ میڈم‬
‫کی چوت میں ۔۔۔۔ پڑا ۔۔۔ ایک ایک قطرہ چاٹ رہا تھا۔ دو تین منٹ‬
‫کے اندر اندر ۔۔۔۔۔اس نے چاٹ چاٹ کر۔۔۔کرس میم کی چوت کو‬
‫دوبارہ سے نیٹ اینڈ کلین کر دیا تھا ۔۔‬

‫جب جان نے اپنا کام ختم کر لیا۔۔۔۔تو کرس بیڈ سے اُٹھی۔۔۔۔ اور میرے‬
‫لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ ۔۔۔ہے جان۔۔۔ میری چوت تو‬
‫صاف کر دی ۔۔اب اس کا لنڈ کون صاف کرے گا؟۔۔ تو آگے سے جان‬
‫مسکرا کر بوال۔۔۔۔آف کورس ۔۔ می ڈارلنگ۔۔۔۔پھر کہنے لگا۔۔۔۔۔ اگر‬
‫لٹل بوائے ایگری ہو تو میں ایک منٹ میں اس کے لن کو چوس اور‬
‫چاٹ کر صاف کر دوں گا۔۔اس کی بات سن کر ۔۔۔ کرس نے ایک‬
‫نظر مجھے دیکھا۔۔۔۔۔ اور مجھ سے کوئی بات کیئے بغیر ہی ۔۔۔ کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔۔ بوائے کو کوئی اعتراض نہیں ۔۔۔ تم اس کے لنڈ پر لگی‬
‫"کم" کو بھی صاف کر دو۔۔ اس کے ساتھ ہی کرس نے جان کو بالوں‬
‫سے پکڑا ۔۔۔اور اسے میری طرف لے آئی ۔۔۔۔اب جان میرے سامنے‬
‫گھٹنوں کے بل کھڑا تھا۔۔ اس نے ہاتھ بڑھا کر۔۔۔ میرے مرجھائے‬
‫ہوئے لن کے ٹوپے کو پکڑا ۔۔۔اور اسے اوپر اٹھاتے ہوئے بوال۔۔۔‬
‫ویری نائس ڈِک ۔۔۔ اور پھر زبان نکال کر۔۔۔ پہلے تو میرے لن کے‬
‫نیچے والے حصے کو چاٹ کر صاف کیا۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ اس نے‬
‫میرے ٹوپے پر زبان پھیری ۔۔۔اور اس پر لگے ملبے کو چاٹ لیا۔۔‬
‫جب اس نے سارے لن کو چاٹ کر صاف کر لیا۔۔۔ تو اس کے بعد اس‬
‫نے اپنا منہ کھوال ۔۔۔اور لن کو اپنے منہ میں ڈاال ۔۔۔ اور بڑے مزے‬
‫سے چوسنا شروع ہو گیا۔۔۔ اس دوران کرس میرے سامنے آن کھڑی‬
‫ہوئی ۔۔۔اور اپنی زبان سے میرے چھوٹے چھوٹے نپلز کو چاٹنا‬
‫شروع ہو گئی۔۔ اب پوزیشن یہ تھی کہ ایک طرف کرس اپنی لمبی‬
‫زبان نکال کر میرے چھوٹے چھوٹے نپلز کو چاٹ رہی تھی جبکہ‬
‫شوہر نامدار۔۔۔۔۔۔ میرے لن کو منہ میں لیئے‬
‫ِ‬ ‫دوسری طرف اس کا‬
‫دھڑا دھڑ۔۔۔ چوس رہا تھا۔۔۔ یہاں میں اس بات کا اعتراف کرنا چاہتا‬
‫ہوں کہ بالشبہ جان بہت اچھا لن چوستا تھا ۔۔۔ نتیجہ یہ نکال کہ کچھ‬
‫ہی دیر بعد میرا لن پھر سے الف ہو گیا۔۔۔‬

‫ادھر جیسے ہی جان کے منہ میں میرا لن پھوال۔۔ تو اس نے تھوڑا‬


‫۔۔۔۔۔ چوسنے کے بعد۔۔اسے اپنے منہ سے باہر نکال لیا ۔۔اور جیسے‬
‫ہی کرس کی نظر میرے اکڑے ہوئے لن پر پڑی ۔۔۔تو وہ حیرت سے‬
‫کہنے لگی ۔۔ ڈرالنگ یہ تو پھر سے کھڑ ا ہو گیا۔۔۔ اور پھر میرے‬
‫ہونٹ چوم کر بولی ۔۔۔واؤؤؤ ۔۔ تم بہت ہی شاندار ہو۔۔ پھر اپنے منہ کو‬
‫میرے کان کے قریب الکر ۔۔۔۔ کہنے لگی۔۔ جان کی سکنگ کیسی‬
‫تھی ؟ تو میں بوال ۔۔ آپ کا ہبی بہت اچھا " سکر " (لن چوس) ہے۔۔تو‬
‫آگے سے وہ کہنے لگی۔۔آئی نو کہ یہ مجھ سے بھی زیادہ اچھا لن‬
‫چوستا ہے۔۔۔۔ اس کے بعد وہ بڑے سیکسی لہجے میں بولی۔۔۔ یو نو۔۔۔‬
‫اس کی گانڈ بھی مجھ سے زیادہ اچھی ہے۔۔ دیکھو گے؟ اور پھر‬
‫میرا جواب سنے بغیر ہی وہ جان سے مخاطب ہو کر بولی۔۔۔ڈارلنگ‬
‫۔۔۔بوائے کو اپنی گانڈ نہیں دکھاؤ گے؟ کرس کی بات سن کر جان نے‬
‫بغیر کسی ہچکچاہٹ کے۔۔۔ فورا ً سے پہلے اپنے کپڑے اتار دیئے۔۔۔‬
‫پھر کرس کے کہنے پر ۔۔اس نے اپنی دونوں کہنیوں کو بیڈ پر‬
‫رکھا۔۔۔۔۔اور گانڈ کو باہر نکال کر میری طرف دیکھنے لگا۔۔۔۔ ۔۔۔ یہ‬
‫دیکھ کر کرس قالین پر بیٹھی گئی۔۔۔۔۔اور جان کی گانڈ پر ایک ہلکا‬
‫سا تھپڑ مار تے ہوئے بولی۔۔۔ دیکھو کیسی پیاری گانڈ ہے اور‬
‫مجھے قریب آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔۔۔۔اور جب میں کرس کے پاس آ کر‬
‫بیٹھا ۔۔۔۔۔تو اس نے میرا ہاتھ پکڑ کے جان کی گانڈ پر رکھ دیا۔۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔واقعی ہی کسی آنٹی کی گانڈ کی طرح جان کی گانڈ بھی بہت‬
‫موٹی تھی۔۔۔ اور اس کی گانڈ کو دیکھ کر ۔۔۔۔ کوئی بھی نہیں کہہ‬
‫سکتا تھا ۔۔۔کہ آیا یہ کسی مرد کی گانڈ ہے یا عورت کی۔۔۔ ادھر کرس‬
‫کے کہنے پر میں ۔۔۔۔۔ جان کی گانڈ کے پیچھے جا کر کھڑا ہوگیا۔۔۔‬
‫۔۔۔ مجھے قریب کھڑا دیکھ کر کرس نے دو انگلیوں کی مدد سے اس‬
‫کی گانڈ کے دونوں پٹ کھول کر مجھے گانڈ کی موری کا نظارہ‬
‫کرایا ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ اندر سے گانڈ کی موری کافی کھلی‬
‫ہوئی تھی۔۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ جان ایک عادی گانڈو تھا ۔۔۔ پھر‬
‫میرے دیکھتے ہی دیکھتے کرس نے اس کی موری پر تھوکا۔۔۔۔۔ اور‬
‫اسے گیال کرنے کے بعد۔۔۔۔۔اپنی ایک انگلی بنڈ میں ڈال دی۔۔۔۔ جو کہ‬
‫بڑے آرام سے اس کے اندر چلی گئی۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر کرس میری‬
‫طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔جتنی آسانی سے میری انگلی اندر‬
‫گئی ہے۔۔۔میرے خیال میں ۔۔۔ اتنی آسانی سے تیرا لن نہیں جا پائے گا‬
‫۔۔۔‬
‫اس کے بعد اس نے قالین پر بڑی ایک ساشے اُٹھایا۔۔۔۔ جو کہ پتہ‬
‫نہیں اس نے کس وقت وہاں رکھا تھا۔۔۔۔ یہ ساشے ایک مشہور برانڈ‬
‫کی جیلی کا تھا جو گانڈ مارنے سے پہلے ۔۔۔۔ اسے نرم اور چکنی‬
‫کرنے کے لیئے استعمال میں الئی جاتی ہے۔۔۔ کرس نے اس جیلی کو‬
‫جان کی گانڈ کے اندر باہر اچھی طرح مل دیا۔۔۔ پھر میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ اب تمہارا ۔۔لنڈ بھی میری انگلی کی طرح ۔۔۔۔‬
‫بڑی آسانی اس کے اندر چال جائے۔۔۔ یہ کہتے ہی اس نے میرا لن کو‬
‫پکڑ کر ۔۔۔۔اسے گیال کرنے کے لیئے ایک چھوٹا سا چوپا لگایا۔۔۔۔‬
‫جب میرا لن اس کے تھوک سے اچھی طرح گیال ہو گیا۔۔۔تو اس نے‬
‫میرے لن کو پکڑ کر جان کی موری پر رکھ دیا ۔۔۔۔اور میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ دھکا لگاؤ۔۔۔ فک۔۔ دِس۔۔۔ کرس کی بات سنتے‬
‫ہی میں نے لن کو ہلکا سا پش۔۔۔کیا تو میرا لن پھسل کر تھوڑا سا اندر‬
‫گھس گیا۔۔۔ اتنے میں جان کی آواز سنائی دی۔۔ کرس اس سے کہو کہ‬
‫یہ مجھے بھی تمہارے جیسا۔۔ رف اینڈ ٹف ۔۔۔۔ چودے۔۔۔۔۔ جان کی‬
‫بات سن کر۔۔۔ کرس نے میری طرف دیکھا ۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔ سن لیا‬
‫کہ جان کیا کہہ رہا ہے؟ ۔۔۔ سو میں نے بنا کچھ کہے ۔۔۔ ایک ذوردار‬
‫گھسہ مارا ۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی ۔۔۔ میرا لن دندناتا ہوا جان کی گانڈ‬
‫میں گھس گیا۔۔اُف ۔۔اندر سے جان کی گانڈ۔۔۔بلکل پلوی جی کی گانڈ‬
‫کی طرح بہت گرم اور ۔۔۔ اس کا لمس بلکل ان کی گانڈ کی طرح کا‬
‫تھا ۔۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں جان کی‬
‫نہیں۔۔۔۔۔۔ بلکہ پلوی جی کی گانڈ مار رہا ہوں ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی۔۔۔‬
‫میرا سارا وجود جوش سے بھر گیا۔۔۔دوسری طرف ۔ جیسے ہی میرا‬
‫۔۔۔ لن جڑ تک جان کی گانڈ میں اترا۔۔۔۔ اس نے ایک زبردست چیخ‬
‫ماری۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔۔ مجھے درد ہو رہا ہے۔۔۔ جان کی بات سن‬
‫کر۔۔۔۔کرس نے مجھے دھکے جاری رکھنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ویسے‬
‫اگر وہ ایسا نہ بھی کہتی ۔۔۔ تو بھی میں نے کب رکنا تھا۔۔۔ کیونکہ‬
‫اپنی طرف سے تو میں جان کی نہیں بلکہ پلوی جی کی گانڈ کو مار‬
‫رہا تھا۔۔۔ اس لیئے میں نے اپنا کام جاری رکھا۔۔۔ ۔۔۔دوسری طرف۔۔۔‬
‫مجھے کام جاری رکھنے کا اشارہ کرنے کے بعد۔۔۔۔ کرس آگے‬
‫بڑھی۔۔۔۔اور اس نے جان کی موٹی گانڈ پر تھپڑوں کی بارش کر‬
‫دی۔۔۔۔‬

‫۔۔۔ جس کی وجہ سے اس کی گوری گانڈ ۔۔۔کرس کے تھپڑوں کی‬


‫وجہ سے ایک منٹ میں ہی الل ہو گئی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ اب پوزیشن یہ تھی‬
‫کہ میں اپنی پوری جان لگا کر جان کی گانڈ مار رہا تھا ۔۔جبکہ‬
‫دوسری طرف کرس اس کی گانڈ پر بے دریغ تھپڑ مار رہی تھی۔۔۔‬
‫اور جان ۔۔۔ چال ۔۔چال کر ۔۔ ہارڈر۔۔۔۔فک می ہارڈر ہارڈر۔۔کامان‬
‫فاسٹ۔۔۔۔ کہے جا رہا تھا۔۔۔۔۔ اور یوں جان کو چودتے چودتے آخر‬
‫میرا اینڈ پوائینٹ آ گیا۔۔۔ اس بات کا زکر جب میں نے کرس سے کیا‬
‫۔۔۔تو اس نے جھٹ سے میرے لن کو۔۔۔۔۔ جان کی گانڈ سے باہر نکال‬
‫لیا۔۔۔اور پھر اپنے منہ کو میرے لن کے قریب لے گئی اور منہ کھول‬
‫اور زبان باہر نکال کر اس کے سامنے کر دیا۔۔۔۔۔ اور ایک ہاتھ سے‬
‫میری ُمٹھ مارتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ لن کو تیزی سے آگے پیچھے کرنے‬
‫لگی۔۔۔ کچھ ہی لمحوں کے بعد ۔۔۔۔۔ میرے لن سے منی کا فوارا نکال‬
‫۔۔۔ جو سیدھا کرس کی زبان پر جا گرا۔۔۔۔ مجھے چھوٹتا دیکھ کر‬
‫کرس نے عین میرے ٹوپے کے نیچے اپنی زبان کو رکھ دیا۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اور پھر میرے لن سے منی نکل نکل کر اس کے کھلے منہ میں‬
‫گرنے لگی۔۔۔۔اور وہ گرنے والی منی کے ہر قطرے کو گھونٹ‬
‫گھونٹ کر کے پیتی چلی گئی۔۔۔۔۔۔‬
‫اتنی بات کرنے کے بعد عدیل اپنی جگہ سے اُٹھا ۔۔۔اور میز پر پڑے‬
‫جگ سے گالس میں پانی ڈاال۔۔۔۔ اور پھر اسے ایک ہی سانس میں پی‬
‫کر بوال۔۔ تو دوست یہ تھا۔۔۔۔ امریکہ میں میرا پہلی گوری اور گورے‬
‫کو ایک ساتھ چودنے کا واقعہ۔۔۔۔ کیسا لگا؟ ۔۔۔ عدیل کی بات سن کر‬
‫میں بھی اپنی جگہ سے اُٹھا۔۔۔۔اور یکے بعد دیگرے دو گالس پانی‬
‫پینے کے بعد بوال۔۔۔۔ یار تیری سٹوری تو بڑی زبردست گرم تھی۔۔۔۔‬
‫۔۔۔ تو آگے سے وہ کہنے لگا۔۔۔ جان من امریکہ میں جا کر میں نے‬
‫دو ہی کام کیے ہیں ایک گھر والوں کے لیئے ڈالر اکھٹے کرنا۔۔۔۔ اور‬
‫دوسرا ۔۔۔ مفت کی زنانیاں چودنا۔۔ ۔۔۔۔پھر کہنے لگا۔۔۔۔آگے آگے دیکھ‬
‫تمہیں ۔۔۔اس سے بھی زیادہ گرم سٹوریز سننے کو ملیں گی۔۔ اس کے‬
‫بعد ہم دونوں ۔۔۔۔ امریکہ میں بسنے والی گوریوں اور دیسی عورتوں‬
‫کے بارے میں باتیں کرنے لگے ۔۔۔ اور پھر آدھے گھنٹے کے بعد‬
‫جب باہر کی بیل بجی تو عدیل اپنی گھڑی کی طرف دیکھ کر بوال ۔۔۔‬
‫دیکھ لو یہ خواتین آدھے گھنٹے کا کہہ کر گئیں تھیں ۔۔۔اور ٹھیک‬
‫پانچ گھنٹے کے بعد واپس آئی ہیں۔۔۔ اتنی بات کرنے کے وہ دروازہ‬
‫کھولنے کے لیئے باہر چال گیا۔۔۔ اور میں اس بات کا انتظار کرنے‬
‫لگا کہ جیسے ہی عدیل واپس آئے ۔۔۔ تو اس سے اجازت لے کر گھر‬
‫جاؤں۔۔۔ تھوڑی دیر بعد جب عدیل ڈرائینگ روم میں داخل ہوا تو‬
‫اسے دیکھتے ہی میں اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا اور اس سے بوال۔۔‬
‫مجھے اجازت دو۔۔۔ تو آگے سے وہ بڑا ہی سیریس ہو کر کہنے‬
‫لگا۔۔۔۔ ایک منٹ رکو یار ۔۔۔ ماما نے تمہارے ساتھ ایک بہت ہی‬
‫ضروری بات کرنی ہے۔۔۔ عدیل کے منہ سے ضروری بات کا ۔۔۔ سن‬
‫کر میرے کان کھڑے ہو گئے ۔۔ اور میں سوچنے لگا کہ عدیل کی‬
‫ماما مجھ سے ایسی کون سی ۔۔۔ ضروری بات کرنے والی ہیں کہ‬
‫جس کو بتانے سے پہلے ہی ۔۔۔۔ عدیل اس قدر سیریس ہو گیا‬
‫ہے۔۔۔اور پھر اچانک ہی میرے زہن میں ایک چھناکا ہوا۔۔ اور میں‬
‫سمجھ گیا ۔۔۔ کہ اتنے دن سے جو مجھ پر نوازشات ہو رہیں تھیں۔۔‬
‫ہو۔۔۔آخر کار بلی تھیلے سے باہر‬
‫ِ‬ ‫اس کا تعلق شاید ۔۔۔ ۔ اسی بات سے‬
‫نکلنے والی تھی۔۔۔ اسی اثنا میں عدیل کی ماما یعنی کہ آنٹی کمرے‬
‫میں داخل ہوئیں ۔۔۔ اور پھر میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئیں‬
‫۔ ۔۔ وہ کافی پریشان لگ رہی تھی۔۔ اسی پریشانی کے عالم میں وہ‬
‫اپنے دوپٹے کے پلو کو کبھی کھولتی اور بند کر رہیں تھیں۔۔۔۔وہ مجھ‬
‫سے کچھ کہنا چاہ رہیں تھیں ۔۔ لیکن کہہ نہیں پا رہیں تھیں۔۔ان کے‬
‫چہرے پر کشمکش کے آثار بہت نمایاں تھے ۔۔ کمرے میں پن ڈراپ‬
‫۔۔۔۔ خاموشی چھائی تھی۔۔۔۔ ۔۔۔ اور مجھے یہ خاموشی بہت کھل رہی‬
‫تھی ۔۔۔آخر میں ان سے بوال۔۔ آنٹی جی خیر تو ہے نا۔۔۔آپ پلیز بتائیں‬
‫کہ بات کیا ہے؟؟؟۔ میں ہر ممکن آپ کی مدد کروں گا۔۔۔۔۔ میری بات‬
‫سن کر ان کے چہرے پر جاری کشمکش کے آثار تھوڑے کم‬
‫ہوئے۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔پھر کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد وہ کہنے‬
‫لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫)قسط نمبر ‪(5‬‬


‫اس کے بعد آنٹی نے ایک نظر عدیل کی طرف دیکھا ۔۔۔ اور پھر‬
‫ت حال ہی کچھ ایسی بن‬ ‫مجھ سے کہنے لگیں کیا بتاؤں بیٹا! صور ِ‬
‫گئی ہے کہ اگر میں تم سے ڈسکس کرتی ہوں ۔۔۔ تو بھی مشکل ہے‬
‫اور اگر نہ کروں تو اس سے بھی زیادہ مشکل ہے۔۔۔۔اتنی بات کرنے‬
‫کے بعد انہوں نے کچھ توقف اختیار کیا۔ادھر آنٹی کی بات سن کر‬
‫میں ایک دم سے چونک گیا ۔۔۔اور ان کی طرف دیکھا تو حقیقتا ً وہ‬
‫مجسم پریشانی بنی ہوئیں تھیں۔۔۔۔ چنانچہ انہیں پریشان دیکھ کر میں‬
‫کہنے لگا۔۔۔ آنٹی جی آپ صرف حکم کریں۔اور باقی کا کام مجھ پر‬
‫چھوڑ دیں ۔۔۔میں آپ کی توقع پر پورا اترنے کی ہر ممکن کوشش‬
‫کروں گا۔۔۔ میری سن کر انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس بھر ی ۔۔۔اور‬
‫پھر کہنے لگیں۔۔۔ ۔۔ جیتے رہو بیٹا۔۔ ۔ ۔۔۔ جیسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ‬
‫میرے دو ہی بچے ہیں صائمہ اور عدیل ۔ اور غلط یا درست۔۔ میری‬
‫امی نے بچپن سے ہی ان دونوں کی منگنی میری بڑی بہن کے ہاں‬
‫کر دی تھی ۔ اور تمیں شاید معلوم نہیں کہ اس وقت ہم دونوں بہنوں‬
‫میں بڑا پیار ہوا کرتا تھا یہ وہ زمانہ تھا کہ ہم ایک دوسرے کے بغیر‬
‫رہ نہیں سکتیں تھیں۔ اس لیئے جیسے ہی صائمہ کی پڑھائی ختم‬
‫ہوئی تو اس کی بچپن کی منگ اور بڑی بہن کے ہاں اس کی شادی‬
‫کر دی گئی۔ ۔۔ شادی کے کچھ عرصہ بعد تو حاالت ٹھیک‬
‫رہے۔۔۔لیکن پھر آہستہ آہستہ میری باجی صائمہ کی خالہ نہیں۔۔۔ بلکہ‬
‫ایک روایتی ساس بن گئی۔ لیکن چونکہ ان کو علم تھا کہ ان کی بیٹی‬
‫بھی ہمارے گھر آنے والی تھی ۔۔۔ اس لیئے وہ صائمہ کے ساتھ‬
‫روایتی ساسوں واال رویہ تو ضرور رکھتی تھی۔۔۔ لیکن وٹہ سٹہ کی‬
‫وجہ سے اسے زیادہ تنگ کرنے سے کتراتی تھی۔۔۔ ۔۔۔۔ اور وہ اس‬
‫لیئے کہ ہمارے پاس اس کے توڑ کی صورت موجود تھی ۔۔ جیسا کہ‬
‫ہوتا ہے کہ وٹہ سٹہ میں جیسا سلوک ہماری بیٹی کے ساتھ ہو گا ویسا‬
‫ہی ان کی بیٹی کے ساتھ کیا جائے گا ۔۔۔ پھر کہنے لگی اس شادی‬
‫کے بعد۔۔۔۔ ہم دونوں بہنوں کے تعلق بظاہر تو پہلے جیسے ہی‬
‫تھے۔۔۔۔‬

‫لیکن بیٹی کے ساتھ رکھے گئے رویہ کی وجہ سے اس میں ایک ان‬
‫دیکھی دراڑ آ چکی تھی۔۔اتنی بات کرنے کے بعد انہوں نے بڑی بے‬
‫چارگی کے ساتھ میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگیں۔۔ بیٹا آپ بور‬
‫تو نہیں ہو رہے ؟ تو میں نے ان سے کہا کہ آپ اپنی بات جاری‬
‫رکھیں میں ہمہ تن گوش ہوں میری اس بات سے وہ تھوڑا مطمئن ہو‬
‫کر بولیں ۔۔ ۔۔۔ اسی اثنا میں عدیل باہر چال گیا۔۔۔۔۔ اس کے بعد انہوں‬
‫نے قہر بھری نظروں سے عدیل کی طرف دیکھا اور کہنے لگیں۔۔۔‬
‫اور وہاں جا کر اس کنجر نے اپنے بچپن کی منگ کو چھوڑ کر۔۔‬
‫ایک گوری کے ساتھ شادی کر لی۔۔ اور تمہیں کیا بتاؤں کہ ہم نے‬
‫کتنے جتنوں سے اس کی یہ خبر صائمہ کے سسرال سے چھپائی‬
‫۔حتی کہ میں نے اپنے بھائی اور ندرت بھابھی کو بھی بڑی‬ ‫ٰ‬ ‫تھی۔۔‬
‫مشکلوں کے ساتھ ۔۔۔۔ اس بات پر راضی کیا تھا کہ پاکستان میں اس‬
‫کی شادی کا ذکر کسی کے ساتھ بھی نہ کریں ۔اس کے بعد وہ‬
‫تھوڑے ترش لہجے میں بولیں۔۔۔ بے شک اپنے اس کنجر دوست سے‬
‫پوچھ لو۔۔۔کہ میں نے اسے کتنی دفعہ کہا تھا کہ اگر تم نے وہاں پر‬
‫۔۔۔۔ کسی گوری کے ساتھ منہ کاال کر ہی لیا ہے تو اسے وہیں تک‬
‫محدود رکھو۔۔۔ اسے پاکستان میں ہر گز نہ النا کہ اس کا اثر تمہاری‬
‫بہن پر پڑے گا۔۔۔۔۔۔ لیکن اس حرام زدے پر تو گوری کے عشق کا‬
‫بھوت سوار تھا۔۔۔ اس لیئے میری ہزار منتوں کے باوجود ۔۔۔۔۔ اسے‬
‫زرا حیا نہ آئی۔۔ اور یہ گوری کو ساتھ لیئے پاکستان آ گیا۔۔‬

‫اتنی بات کر کے وہ ایک سرد آہ بھر کر بولیں۔۔۔۔ ۔۔۔ بس۔۔ یہیں سے‬
‫خرابی ہونا شروع ہو گئی۔۔۔ اب تم ہی بتاؤ کہ جس گھر میں جوان‬
‫بیٹی کی شادی کی ساری تیاریں مکمل ہو چکی ہوں ۔۔۔ ۔۔ وہ اور اس‬
‫کے گھر والے محض اس انتظار میں بیٹھے ہوں ۔۔۔کہ کب امریکہ‬
‫سے اس کا منگیتر آئے اور۔۔۔ کب اس کی شادی ہو۔۔۔ اور جب منگیتر‬
‫صاحب امریکہ سے گوری میم لے آئیں تو تم خود ہی بتاؤ۔۔۔ یہ خبر‬
‫سن کر ان پر۔۔۔۔۔ اور خاص کر اس لڑکی کے دل پر کیا گزری ہو‬
‫گی؟ ۔۔ پھر کہنے لگیں یقین کرو اس واقعہ کے بعد اس لڑکی نے‬
‫اپنی جان کو روگ لگا لیا ہے۔۔۔اور جیسا کہ میں نے تمہیں پہلے بھی‬
‫بتایا تھا کہ چونکہ صائمہ پہلے سے ہی وہاں پر بیاہی ہوئی تھی‬
‫۔۔۔اس لیئے اس کے بھائی کی شادی کا سارا ملبہ اس پر اس پر جا‬
‫گرا۔۔۔۔ اور انہوں نے صائمہ بے چاری کا جینا محال کر دیا تھا۔۔۔۔یہاں‬
‫تک کہ بھائی صاحب ( صائمہ کے سسر) نے تو یہ فیصلہ بھی کر لیا‬
‫تھا کہ۔۔۔ چونکہ ہم لوگوں نے ان کی بیٹی چھوڑی ہے اس لیئے وہ‬
‫بھی ہماری بیٹی کو چھوڑ دیتے ہیں۔۔وہ تو بھال ہو ہمارے داماد کا ۔۔‬
‫کہ اس نے صائمہ کو طالق دینے سے انکار کر دیا تھا۔۔۔ورنہ تو اب‬
‫تک اس نے طالق یافتہ کا داغ لیئے گھر پر بیٹھی ہونا تھا۔۔۔۔۔ ۔۔پھر‬
‫کہنے لگیں۔۔جیسے ہی صائمہ نے ہمیں طالق کے بارے میں بتایا۔۔۔‬
‫۔۔یہ سن کر ہمارے تو پاؤں کے نیچے سے زمین نکل گئی۔۔۔اور ۔۔ ہم‬
‫دونوں میاں بیوی بھاگے بھاگے۔۔۔صائمہ کے سسرال پہنچے۔۔۔اور ان‬
‫کی از حد منت محتاجی کی ۔۔ یہاں تک کہ میں نے اپنا دوپٹہ بھائی‬
‫صاحب کے قدموں میں رکھ دیا تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے انہوں نے‬
‫ہمارا کافی لحاظ رکھا۔۔۔ اور اس طرح یہ معاملہ رفع دفع ہو گیا۔۔۔۔‬
‫لیکن پھر ہوتے ہوتے جب یہ خبر صائمہ کے سسرالی رشتے داروں‬
‫خاص کر بھائی صاحب کی بہنوں تک پہنچی۔۔۔ تو ایک دفعہ پھر وہی‬
‫روال پڑ گیا ہے۔۔۔اور اب ان کی طرف سے صائمہ کو طالق دالنے‬
‫کی کوشش شروع ہو گئی لیکن جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکی ہوں‬
‫کہ چونکہ اس بات سے فرزند نے پہلے ہی منع کر دیا تھا اس لیئے‬
‫اب انہوں نے ایک اور چال چلی۔۔۔۔۔۔ اور ہمیں سبق سکھالنے کے‬
‫لیئے صائمہ پر سوتن النے کا منصوبہ بنایا گیا۔۔۔ جس کے بارے میں‬
‫سنا ہے کہ فرزند بھی نیم رضامند ہو گیا تھا۔۔۔۔چنانچہ جیسے ہی یہ‬
‫خبر ہم تک پہنچی ۔۔۔۔تو ایک دفعہ پھر ہمارے ہاتھوں کے طوطے اُڑ‬
‫گئے ۔۔۔۔۔ اور ابھی ہم اس کا توڑ سوچ ہی رہے تھے کہ۔۔۔ اسی دوران‬
‫ہمارے گھر میں رحمت کا فرشتہ بن کر تم آ گئے خاص کر جب تم‬
‫نے مجھے یہ بتایا کہ تم غیر شادی شدہ ہو تو ۔۔۔۔یہ خبر سن کر‬
‫ت حال ہی‬
‫صائمہ نے مجھے ایک پالن بتایا۔۔ چونکہ اس وقت صور ِ‬
‫امر مجبوری ہم نے اس پر عمل بھی کر‬
‫کچھ ایسی تھی ۔۔۔ کہ بہ ِ‬
‫دیا۔۔۔‬

‫اتنی بات کرنے کے بعد آنٹی نے میر ی طرف دیکھا اور پھر کہنے‬
‫لگیں ۔۔۔ بیٹا ایک بات کی میں تم سے ایڈوانس معذرت چاہوں گی اور‬
‫وہ یہ کہ میں نے بنا تم سے پوچھے۔۔۔۔۔۔اپنی بہن کے ساتھ تمہارے‬
‫رشتے کی بات کر لی ہے۔۔۔ آنٹی کی بات سن کر حیرت کے مارے‬
‫میری آنکھیں پھٹنے کے قریب ہو گئیں۔۔۔ اور میں شدید حیرانی سے‬
‫بوال۔۔۔ میرے رشتے کی بات ؟؟؟؟ تو وہ بڑی شرمندگی کے ساتھ‬
‫بولیں ۔۔۔ آئی ایم سوری بیٹا !۔۔لیکن اس وقت مجھے اور کچھ سوجھ‬
‫نہیں رہا تھا۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں ان سے مزید کچھ کہتا ۔۔۔ وہ‬
‫میری بات کو کاٹتے ہوئے بولیں۔۔۔مجھے معلوم تھا کہ تمہارا ر ِد عمل‬
‫یہی ہو گا۔۔۔۔ اس لیئے میں تم سے ایک اور بات کرنا چاہتی ہوں‬
‫۔۔۔اور وہ یہ کہ اس وقت صائمہ کے سسر پر اس کی بہنوں کا ۔۔۔۔‬
‫بہت شدید دباؤ ہے کہ ہمیں سبق سکھانے کے لیئے۔۔۔۔ یا تو صائمہ‬
‫کو طالق دیں یا پھر فرزند ( صائمہ کا خاوند) کی دوسری شادی کر‬
‫دیں۔۔ ۔۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ فرزند کی دوسری شادی والی‬
‫بات پر اس کی وہی والی پھوپھو ذیادہ شور مچا رہی ہے۔۔کہ جو‬
‫بھائی صاحب کی بہت الڈلی ۔۔۔۔ اور جس کی بیٹی طالق لے کر گھر‬
‫میں بیٹھی ہے ۔۔۔ دراصل وہ اس طالقن کی شادی فرزند کے ساتھ‬
‫کرنا چاہتی ہے چنانچہ اس بات کو کاؤنٹر کرنے کے لیئے ہم نے‬
‫تمہارے رشتے کی بات چالئی ہے ۔۔۔ تو اس پر میں اسی حیرانی‬
‫سے بوال۔۔ تو کیا وہ لوگ مان گئے؟ میری بات سن کر آنٹی مسکرا‬
‫کر بولیں۔۔۔ ۔۔تمہارے جیسا ہینڈسم ۔۔۔اور خاص کر اتنی اچھی پوسٹ‬
‫پر کام کرنے والے لڑکے کا رشتہ انہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملے‬
‫گا۔ اسی لیئے انہوں نے بظاہر تمہیں دیکھنے کی فرمائش کی ہے۔۔‬
‫۔پھر مجھ سے کہنے لگیں۔۔۔ یاد رکھنا ۔۔۔۔میں صرف تمہارے رشتے‬
‫کی بات کی ہے۔۔۔۔ اس کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ تم ان کے ہاں‬
‫سچ ُمچ شادی کر لو۔۔۔ پھر معنی خیز انداز میں بولیں ۔۔۔ ہاں اگر وہ‬
‫لڑکی تمہیں پسند آ جائے تو اس کے ساتھ شادی کرنے میں بھی کوئی‬
‫ہرج نہ ہے۔ مطلب ہماری طرف سے تم پر ایسی کوئی پابندی نہیں‬
‫ہے۔۔۔ لیکن اس وقت چونکہ معاملہ بہت گرم اور سیریس ہے اور‬
‫خاص کر بھائی صاحب پر ان کی بہنوں کا بہت پریشر ہے کہ وہ‬
‫فرزند کی دوسری شادی کر دیں۔۔۔۔ اور اسی پریشر کو کم کرنے کے‬
‫میں نے اور صائمہ نے مل کر جوابی وار کیا ہے۔۔۔ پھر کہنے لگیں‬
‫تمہیں پتہ ہے کہ تمہارے رشتے کی وجہ سے ان کے گھر میں ایک‬
‫کھلبلی سی مچی ہوئی ہے۔۔۔ اتنا کہنے کے بعد وہ بڑی ہی لجاجت‬
‫سے بولیں۔۔ ۔۔ میرے بیٹے۔۔ اب ہماری عزت تمہارے ہاتھ میں ہے۔‬
‫۔۔۔۔۔ تم نے بس اتنا کرنا ہے کہ جس قدر ہو سکے معاملے کو طول‬
‫دیتے جانا ہے۔۔ ۔۔۔ پھر جونہی فرزند کی شادی واال پریشر کم یا ختم‬
‫ہو جائے گا تو بے شک ۔۔۔۔۔۔آہستہ آہستہ تم نے۔۔۔ وہاں سے اپنا پیر‬
‫کھیچ لینا ۔اس سلسہ میں نہ صرف یہ کہ صائمہ تمہاری مدد کرے گی‬
‫بلکہ ۔۔۔ ہر طرح سے تمہیں گائیڈ بھی کرے گی۔۔۔ اس سلسلہ میں باقی‬
‫کا پالن صائمہ تمہیں سمجھائے گی۔۔ جو کہ تھوڑی دیر میں یہاں‬
‫پہنچنے والی ہے۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔اور ہاں صائمہ کے سسرال میں‬
‫تم نے یہی تاثر دینا ہے کہ جیسے صائمہ تمہاری سگی بہن ہو ۔۔۔اور‬
‫اس کے بغیر تم کوئی کام بھی نہیں کر سکتے۔ اتنی بات کرنے کے‬
‫بعد انہوں نے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگیں۔۔تمہارا کیا خیال‬
‫ہے؟ آنٹی کی بات سن کر میں نے کیا کہنا تھا ۔۔ میری وجہ سے اگر‬
‫کسی کا گھر بچ جاتا ہے تو اس سے بڑی خدمت اور کیا ہو‬
‫گی؟؟؟؟۔۔اس لیئے میں جواب دیتے ہوئے بوال۔۔۔ جیسے آپ کی‬
‫مرضی آنٹی۔۔۔میری بات سن کر آنٹی اپنی جگہ سے اُٹھیں اور میرا‬
‫ماتھا چوم کر بولیں۔۔۔ شاباش بیٹا۔۔۔ مجھے تم سے یہی امید تھی۔‬

‫اس کے بعد آنٹی یہ کہتے ہوئے باہر چلی گئیں کہ میں تمہارے لیئے‬
‫چائے بنا کر التی ہوں ۔ آنٹی کے جاتے ہی عدیل اپنی جگہ سے اُٹھا‬
‫میرے ساتھ گلے ملتے ہوئے بوال۔۔۔ تھینک یو ۔۔ ویری مچ یار۔۔ آج‬
‫مجھے یقین ہو گیا ۔۔ کہ تم میرے سچے دوست ہو۔ عدیل کی بات سن‬
‫کر میں موقعہ غنیمت جانتے ہوئے بوال ۔۔ یار ایک بات تو بتاؤ ۔۔۔‬
‫میری بات سن کر وہ بڑی خوش دلی سے بوال ۔۔ تو ایک نہیں ایک‬
‫ہزار باتیں پوچھ۔۔ تو میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی ہی‬
‫سنجیدگی سے بوال۔ ۔۔۔ یہ بتاؤ کہ سٹار پلس کے اس ڈرامے ۔۔۔ میں‬
‫میری حدود کہاں تک ہوں گی؟ تو وہ مجھے الجھی ہوئی نظروں سے‬
‫دیکھتے ہوئے بوال ۔۔۔ کھل کے بتاؤ ۔۔۔کہ میں کچھ سمجھا نہیں؟؟۔۔ تب‬
‫میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے معنی خیز لہجے میں بوال۔۔ دیکھ‬
‫یار میں تیری خالہ کے گھر ایک خاص مقصد کے لیئے جا رہا ہوں‬
‫۔۔۔۔اور اگر اس دوران۔۔۔ سو میں تم سے پوچھنا یہ چاہ رہا تھا۔۔۔ کہ‬
‫اس سلسلہ میں ۔۔۔ تو وہ میری بات سمجھتے ہوئے بوال۔۔۔ تمہیں‬
‫میٹرک کا انگریزی ٹیچر یاد ہے؟ تو میں جواب دیتے ہوئے بوال ۔۔۔تم‬
‫افتخار صاحب کی بات کر رہے ہو؟ لیکن ان کا میرے سوال کے‬
‫ساتھ کیا تعلق ہے؟ تو آگے سے وہ کہنے لگا تمہیں یاد ہے کہ‬
‫انگریزی ۔۔اور خاص کر گرامر پڑھاتے ہوئے عموما ً وہ ایک بات‬
‫کہنا نہ بھولتے تھے ۔۔ تو میں نفی میں سر ہال کر اس کی طرف‬
‫دیکھنے لگا۔۔۔۔ ۔۔ اس پر وہ میرے قریب آیا۔۔۔ اور میرے کندھے‬
‫تھپتھپا کر بوال ۔۔۔ تو یاد کر ہمیں انگلش گرائمر پڑھاتے ہوئے افتخار‬
‫صاحب ہمیشہ ایک بات ضرور دھرایا کرتے تھے۔۔۔ اور وہ یہ کہ‬
‫۔۔۔۔۔۔ تے ۔۔۔ پنجابی دا ۔۔دا ( داؤ) ۔۔۔ )‪ " (the‬۔۔۔انگلش دی۔ ۔۔۔"دی‬
‫جتھے لگی اوتھے ال۔۔۔۔۔۔اتنی بات کرنے کے بعد اس نے بھی معنی‬
‫خیز نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ۔۔۔ امید ہے کہ تم‬
‫سمجھ گئے ہو گے ۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں اسے کوئی جواب دیتا‬
‫۔۔۔آنٹی چائے لے کر آ گئیں۔۔ ۔۔۔اور میز پر چائے رکھتے ہوئے‬
‫بولیں۔۔۔ ابھی ابھی صائمہ کا فون آیا ہے کہ وہ کسی ارجنٹ کام کی‬
‫وجہ سے آج نہیں آ سکے گی ۔۔اس لیئے کل لنچ پر مالقات ہو گی۔۔۔‬
‫چنانچہ میں نے چائے پی اور پھر یہ سوچتے ہوئے کہ سٹار پلس‬
‫کے اس ڈرامے کی پٹاری سے۔۔۔ ۔۔۔۔ دیکھتے ہیں۔۔۔۔ کہ صائمہ باجی‬
‫مزید کیا نکالتی ہے ۔۔۔۔ واپس گھر آ گیا ۔۔ ۔‬

‫اگلے دن لنچ کے وقت جب میں ان کے گھر پہنچا تو صائمہ باجی‬


‫پہلے سے وہاں موجود تھی۔اس وقت ان کی عمر کوئی ‪ 33/32‬کے‬
‫قریب ہو گی۔ ان کا رنگ بہت فئیر اور انہوں نے اپنی موٹی موٹی‬
‫آنکھوں میں کاجل لگایا ہوا تھا۔۔۔۔۔جو کہ ان پر بہت بھال لگ رہا تھا۔۔۔‬
‫اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے رس بھرے ہونٹوں پر۔۔۔۔۔ سرخ لپ‬
‫اسٹک لگائی ہوئی تھی یہاں میں آپ پر یہ بات واضع کر دوں ۔۔۔۔ کہ‬
‫گورے گورے مکھڑے پہ سرخ لپ اسٹک ۔۔۔ میری بہت بڑی‬
‫کمزوری تھی۔اس لیئے ان کے رس بھرے ہونٹوں پر اپنی پسندیدہ‬
‫سرخی دیکھ کر۔۔۔ مجھے کچھ کچھ ہونے لگا۔۔۔ لیکن میں نے خود پر‬
‫قابو پا لیا۔۔ اور صائمہ باجی کی طرف متوجہ ہوا۔۔۔۔ جس وقت میں‬
‫نے ان کو دیکھا تھا ۔۔۔تو اس وقت یہ ایک الہڑ سی مٹیار ہوا کرتی‬
‫تھی ۔۔۔لیکن تھی اس وقت بھی پٹاخہ۔۔۔۔ لیکن اب وہ ۔۔۔۔ قدرے فربہی‬
‫مائل ہو چکی تھیں ۔۔۔ یا۔۔۔ یوں سمجھ لیجئے کہ اس وقت وہ بھرے‬
‫بھرے جسم اور موٹاپے کی سرحد پر کھڑی تھیں۔ اور اپنے فربہی‬
‫مائل جسم پر انہوں نے اتنے زیادہ ٹائیٹ فٹنگ کپڑے پہنے ہوئے‬
‫تھے کہ۔ میں یہ سوچ سوچ کر پریشان ہو رہا تھا کہ باجی ان کپڑوں‬
‫میں گھسی کیسے ہو گی؟ اتنے زیادہ ٹائیٹ کپڑوں کی وجہ سے ان‬
‫کی چھاتیاں بہ آسانی پیمائش کی جا سکتی تھیں ۔۔ لیکن چونکہ یہ‬
‫موقع ایسا نہ تھا۔۔ اس لیئے میں نے یہ کام کسی اور وقت کے لیئے‬
‫اُٹھا چھوڑا ۔۔ اسی طرح ان کے جسم کے جملہ و من جملہ۔۔۔ اعضا کا‬
‫ایکسرے بھی کسی مناسب وقت کے لیئے مؤخر کر دیا۔۔ویسے‬
‫مجموعی طور پر وہ ایک خوش مزاج اور جلدی گھل مل جانے والی‬
‫خاتون تھیں۔ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مزاج کے اعتبار سے یہ‬
‫گھرانہ کافی بولڈ واقع ہوا ہے ۔۔ اس لیئے میرے محتاط اندازے کے‬
‫مطابق یہ خاتون " آ بیل میری مار" ٹائپ تھی۔۔۔ یا شاید اسے میرا‬
‫ساتھ کام تھا ۔۔۔۔۔اس لیئے کچھ ہی دیر میں۔۔۔۔ وہ میرے ساتھ فری ہو‬
‫کر ایسے باتیں کر رہیں تھیں کہ جیسے ہم بہت پرانے دوست ہوں۔۔۔۔‬
‫۔۔ ۔‬
‫چونکہ میں بوجہ ۔۔۔عدیل کے گھر کم ہی گیا تھا انہیں میرا چہرہ نہیں‬
‫یاد آ رہا تھا۔۔۔ یہی وجہ ہے کہ ہیلو ہائے کے بعد جب ہم ڈائینگ روم‬
‫میں بیٹھے تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔ شاہ جی۔۔ میں‬
‫عدیل کے قریب قریب سارے دوستوں کو بائے نیم اور۔۔۔۔ بعض کو‬
‫بائی فیس جانتی ہوں۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیوں ۔۔۔ اپنے ذہن پر ذور دینے‬
‫کے باوجود بھی نہ تو۔۔۔ مجھے تمہارا نام اور نہ ہی شکل یاد آ رہی‬
‫تھی ۔۔ اور کافی دونوں سے میں یہی سوچ تھی۔۔۔ کہ پتہ نہیں تمہاری‬
‫شکل مبارک کیسی ہو گی؟ اس پر میں شرارت سے بوال۔۔۔ کہ اچھا تو‬
‫کیسی لگی میری شکل مبارک ؟ تو وہ ہنس کر کہنے لگی۔۔۔مجھے تو‬
‫بہت اچھی لگی۔ اسی اثنا میں آنٹی کی آواز سنائی دی۔۔۔۔ وہ کہہ رہیں‬
‫تھیں کہ کھانا لگ گیا ہے۔۔۔ آنٹی کی آواز سن کر ہم سب کھانے کی‬
‫ٹیبل کی طرف چل پڑے۔ کھانا کھانے کے دوران بھی۔۔۔ ہماری ہلکی‬
‫پھلکی گپ شپ چلتی رہی۔۔۔اس دوران میں نے عدیل سے پوچھا کہ‬
‫یار بھابھی نظر نہیں آ رہی ۔۔۔ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ اس کی طبیعت کچھ‬
‫خراب ہے یار۔۔ اسی لیئے جیسے ہی کھانا ختم ہوا۔۔ تو عدیل میری‬
‫طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔ بیٹا تم بیٹھ کر باجی کے سٹار پلس کا‬
‫سازشی پالن سنو اور ۔۔۔ میں اپنی بیگم کی خبر گیری کے لیئے جا‬
‫رہا ہوں۔۔۔ عدیل کی بات سن کر صائمہ باجی تڑاخ سے بولیں ۔۔ یہ‬
‫ساری سازشیں تمہاری وجہ سے ہو رہی ہیں۔۔۔ تو اس پر عدیل حیران‬
‫ہوتے ہوئے بوال ۔۔۔۔ میری وجہ سے؟؟ تو آگے سے باجی جواب‬
‫دیتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔۔۔ ہاں تمہاری وجہ سے۔۔ خبیث آدمی نہ تم اس‬
‫منحوس گوری سے شادی کر تے اور نہ میں سسرال میں غیر‬
‫محفوظ ہوتی۔۔۔اور نہ مجھے بقول تمہارے سٹار پلس والی سا زش‬
‫تیار کرنی پڑتی۔۔ باجی کی جلی کٹی باتیں سن کر۔۔۔۔ عدیل ۔۔۔نیواں نو‬
‫اں ۔۔۔۔ہو کر اپنے کمرے کی طرف چال گیا جبکہ میں آنٹی اور‬
‫صائمہ باجی ۔۔ ڈرائینگ روم میں آ کر بیٹھ گئے۔۔‬

‫صوفے پر بیٹھتے ہی صائمہ باجی سیریس ہو کر بولیں۔۔۔ شاہ جی‬


‫میں کس منہ سے تمہارا شکریہ ادا کروں کہ تم میرا گھر ٹوٹنے سے‬
‫بچا رہے ہو ۔۔ اس پر میں مسکراتے ہوئے بوال۔۔۔ آپ کے حاضر‬
‫اسٹاک میں جتنے منہ دستیاب ہیں فی الحال تو انہی سے ادا کر‬
‫دیجیئے۔۔ میری بات سن کر وہ مسکرائی ۔۔۔اور پھر کہنے لگی۔۔۔‬
‫سنو!۔۔ میرا سسرال کل چھ افراد پر مشتمل ہے ان میں۔۔۔ میں اور میرا‬
‫خاوند ۔۔۔ امی (ساس) اور ابا (سسر) اور ان کی دو بیٹیاں شامل ہیں۔‬
‫بڑی کا نام تانیہ ہے اور وہ ‪ 23 /22‬سال کی ہے جبکہ اس کی‬
‫چھوٹی بہن ثانیہ عمر ‪ 21 /20‬سال کی ہو گی۔۔ دیکھنے میں دنوں‬
‫ایک جیسی لگتی ہیں لیکن اس حادثے۔۔۔۔ میرا مطلب ہے عدیل کی‬
‫شادی نے کے بعد تانیہ کو ُچپ سی لگ گئی ہے اور وہ بہت کم‬
‫بولتی ہے جبکہ اس کے برعکس ثانیہ بیگم۔۔۔۔ بہت تیز اور کافی حد‬
‫تک بے باک لڑکی ہے پھر آنٹی سے آنکھ بچا کر مجھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آنکھ‬
‫مارتے ہوئے بولی ۔ یوں سمجھ لو کہ اس وقت تمہارے لیئے وہاں پر‬
‫بائے ون گیٹ ون۔۔۔۔ کی سہولت موجود ہے۔‬

‫پھر آنٹی کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔۔ مطلب اگر تم تانیہ سے شادی کر‬
‫لو گے تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔ثانیہ فری میں مل جائے گی ۔۔ پھر میری طرف دیکھ‬
‫کر ہنستے ہوئے بولی ۔۔ خبردار یہ بات میں نے الئیٹر موڈ میں کہی‬
‫ہے ۔۔۔۔کہیں تم دل پہ نہ لے لینا۔۔پھر کہنے لگی ۔۔۔۔ اب میری بات کو‬
‫غور سے سنو۔۔۔۔اگر میری ساسو ماں تم سے یہ پوچھے کہ تم کہاں‬
‫کے رہنے والے ہو؟۔۔۔ تو تم نے انہیں بتانا ہے کہ تم ساہی وال کے‬
‫پاس ایک چھوٹے سے قصبے کے رہنے والے ہو۔۔۔ ۔۔۔اور تم بسلسلہ‬
‫نوکری یہاں ۔۔۔۔۔ جبکہ ۔۔۔۔ تمہارے والدین وہیں رہتے ہیں۔۔ جبکہ یہاں‬
‫پر تم اپنے دوستوں کے ساتھ ایک ہوسٹل میں رہتے ہو ۔۔۔تو اس پر‬
‫میں نے ان سے پوچھا کہ۔۔۔ کہ والدین کو اتنی دور کیوں بھیجا ہے؟‬
‫انہیں پنڈی بتانے کیا حرج ہے؟‬

‫میرا سوال سن کر صائمہ باجی کہنے لگی اچھا سوال ہے اور اس کا‬
‫جواب یہ ہے کہ تمہیں نہیں معلوم کہ میری ساسو ماں کس قدر‬
‫تیز۔۔۔۔۔اور ضرورت سے کچھ زیادہ ہی سمجھدار خاتون ہے اس لیئے‬
‫اگر اس کو پتہ چل گیا کہ تمہارے والدین یہیں رہتے ہیں تو پھر۔۔۔‬
‫سمجھ لو۔۔۔۔کہ اپنا پتہ گول ہے۔کیونکہ اس نے مجھے چھوڑ ۔۔۔۔ سیدھا‬
‫تمہارے گھر چلے جانا ہے ۔۔۔جبکہ میں یہ چاہتی ہوں کہ تمہارے‬
‫سلسلہ میں وہ میری محتاج رہے ۔۔۔پھر کہنے لگی۔۔۔ یہ تمہیں ہوسٹل‪/‬‬
‫چھڑوں کے ساتھ ٹھہرانے کی وجہ بھی یہ ہے کہ اگر تم کہو کہ تم‬
‫کسی ہوٹل یا گیسٹ ہاؤس میں رہتے ہو تو بھی موصوفہ نے وہاں‬
‫بھی آ جانا تھا ۔۔۔۔اس لیئے میں اس کوشش میں ہو ں کہ تم سے ملنے‬
‫کا ہر راستہ بالک کر دوں ۔۔۔ اسی میں ہم دونوں کی خیر ہے۔ پھر‬
‫کہنے لگیں۔۔۔ اور ہاں یہ جو میں نے تمہیں الہور یا کسی دوسرے‬
‫ضلع کو چھوڑ ۔۔۔۔ ساہی وال میں رہائش دی ہے تو اس میں بھی ایک‬
‫حکمت ہے اور وہ یہ کہ۔۔ساہی وال وہ واحد ضلع ہے کہ جہاں پر‬
‫میرے سسر کی کوئی واقفیت نہیں ۔۔۔۔ بلکہ ان کی مخالف پارٹی وہاں‬
‫رہتی ہے۔۔۔۔۔ ورنہ تم تو جانتے ہی ہو کہ منڈی میں کام کرنے والوں‬
‫کی کس قدر جان پہچان ہوتی ہے ۔۔۔ اس کے بعد صائمہ باجی نے‬
‫مجھے اپنی ساس اور سسر کے بارے میں کچھ ٹپس دیں ۔۔۔اور‬
‫ساری بات سمجھانے کے بعد۔۔۔۔ کہنے لگی۔۔ لو جی میرے پیارے‬
‫بھائی صاحب ۔ اب آج کے سازشی کاری کرم کا پہال حصہ سماعت ۔۔‬
‫ہوتا ہے۔۔ اور تمہارے لیئے دوسری خبر یہ ہے کہ کل صبع میرے‬
‫سسرال میں تمہارے منہ دکھائی کی رسم ادا کی جائے گی۔۔۔اس پر‬
‫میں حیران ہوتے ہوئے بوال۔۔۔ میری منہ دکھائی؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔‬
‫ارے بدھو ۔۔۔اس کا مطلب یہ ہے۔۔۔ کہ کل صبع میں تمہیں لے کر‬
‫اپنے سسرال جا رہی ہوں۔۔۔ اس لیئے کل ٹھیک ساڑھے نو بجے تم‬
‫نے ہمارے گھر آنا ہے۔۔۔ ۔۔۔اور ہاں ایک بات تو میں بھول ہی گئی‬
‫اور وہ یہ کہ تم نے وہاں پر یہ شو کرانا ہے کہ جیسے بچپن سے ہی‬
‫تم میرا بہت ادب و احترام کرتے تھے۔۔۔ ۔۔اور چونکہ تمہاری کوئی‬
‫بہن نہیں ہے اس لیئے اس زمانے سے ہی تم نے مجھے اپنی بہن‬
‫بنایا ہوا تھا۔۔۔ تو اس پر میں نے باجی سے کہا ۔۔۔ کہ کیوں نہ میں یہ‬
‫کہہ دوں کہ آپ میری سگی بہن ہو۔۔۔۔ جو قم کے میلے میں بچھڑ گئی‬
‫تھی۔۔۔میری بات سن کر وہ قہقہ لگا کر ہنسی اور پھر کہنے لگی ۔۔۔‬
‫یہ بات بھی ہو سکتی تھی۔۔۔ لیکن کیا کریں بھائی۔۔۔۔ قم کا میلہ یا تو‬
‫انڈیا میں لگتا ہے یا پھر انڈین فلمز میں۔۔۔ ۔اس کے بعد میں نے اس‬
‫بولڈ اور بیوٹی فل لیڈی کے ساتھ کافی دیر تک گفتگو کی۔۔اور پھر‬
‫اگلی صبع مجھے نو ۔۔۔۔ساڑھے نو بجے آنے کی تاکید کے ساتھ‬
‫جانے کی اجازت مل گئی۔۔۔ ۔‬

‫اگلے دن میں سپیشل تیاری کے ساتھ ٹھیک نو بجے عدیل کے گھر‬


‫پہنچ گیا۔۔۔ گھنٹی کے جواب میں عدیل نے دروزہ کھوال ۔۔اور مجھے‬
‫دیکھ کر ہنستے ہوئے بوال ۔۔۔ واہ بھائی واہ ۔۔۔ بڑی تیاریاں‬
‫شیاریاں۔۔۔اور مجھے ڈرائینگ روم میں بٹھا کر بوال ۔۔ میں سو سو کر‬
‫کے ابھی آیا۔۔۔ جیسے ہی وہ کمرے سے نکال۔۔۔تو ۔۔۔اسی اثنا میں‬
‫گوری میم بھی ڈرائینگ روم میں داخل ہو گئی۔۔۔ اور مجھ پر نظر‬
‫پڑتے ہی چونک کر بولی۔۔ کہیں ڈیٹ پہ جا رہے ہو؟ ۔ تو میں ہنس‬
‫کر بوال ۔۔۔ جی آپ کے ساتھ جانا ہے تو وہ ہنس کر کہنے لگی۔۔۔میں‬
‫ضرور چلی جاتی ۔۔۔۔لیکن تم تھوڑا لیٹ ہو گئے ہو ۔۔۔ ۔۔۔ تو آگے سے‬
‫میں بوال۔۔۔ ارے بھابی میں شادی کی بات تھوڑی کر رہا ہوں۔۔۔۔ بلکہ‬
‫میں نے تو جسٹ ڈیٹ کی بات کی ہے۔۔۔میری بات سن کر اس نے‬
‫بڑی عجیب نظروں سے میری طرف دیکھا۔۔۔اور چپ ہو گئی۔۔۔۔ ۔‬
‫جب کافی دیر تک وہ کچھ نہ بولی تو میں نے ۔موضوع تبدیل کرتے‬
‫ہوئے اس سے پوچھا۔۔۔۔۔ کہ اب آپ کی طبیعت کیسی ہے؟ تو وہ‬
‫مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔ تھوڑا فلو ہو گیا تھا۔۔۔ اب ٹھیک ہوں۔۔۔۔ ۔۔‬
‫اتنی دیر میں صائمہ باجی اندر آ گئی۔۔ ۔۔۔اور مجھ پر نگاہ پڑتے ہی‬
‫ان کی آنکھوں میں ایک خاص قسم کی چمک آ گئی۔۔۔ اور یہ وہی‬
‫چمک تھی کہ جس سے اکثر ہی مجھے پاال پڑتا تھا۔۔۔۔ جس کی‬
‫تشریج تو میں نہیں کرسکتا تھا ۔۔۔البتہ ۔۔۔ اس کے مطلب سے میں ۔۔۔۔‬
‫اچھی طرح واقف تھا۔۔ دوسری طرف باجی کی آنکھوں میں آنے والی‬
‫یہ چمک صرف چند ثانیوں کے لیئے ہی نظر آئی۔۔۔۔۔۔ اگلے ہی‬
‫لمحے ۔۔۔ وہ اسی شرارتی لہجے میں بولی۔۔۔۔۔ واہ جی واہ ۔۔ میرا‬
‫بھائی تو بہت چمک رہا ہے۔۔۔ ۔ اس کے بعد وہ کہنے لگیں۔۔۔ ۔۔ تم‬
‫بھابھی کے ساتھ گپ شپ لگاؤ۔۔۔ میں تمہارے لیئے چائے التی ہوں۔۔۔‬
‫اتنی دیر میں امی بھی تیار ہو جائیں گی ۔۔۔۔لیکن اس کی بھابھی میرا‬
‫مطلب ہے گوری میم اچانک اپنی جگہ سے اُٹھی اور میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بولی ۔۔ایکسکیوز می ۔۔اور کمرے سے باہر نکل گئی۔۔‬
‫کچھ دیر بعد صائمہ باجی ہاتھ میں چائے کی ٹرے پکڑ ے کمرے‬
‫میں داخل ہوئیں اور مجھے یوں بیٹھے دیکھ کر بولی ۔۔۔ ارے تم‬
‫اکیلے ہی بیٹھے ہو ۔۔۔ بھائی اور بھابھی کہاں گئے ہیں؟؟ ۔۔۔ تو اس پر‬
‫میں ایک انگلی کھڑی کر کے بوال ۔۔۔وہ شاید واش روم میں گئے ہیں‬
‫میری بات سن کر وہ آنکھ دبا کر بولی۔ کیا دونوں اکھٹے ہی واش‬
‫روم میں گئے ہیں ؟؟ ۔۔ ۔۔‬

‫تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ مجھے کیا پتہ جی؟ میری بات‬
‫سن کر اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں ۔۔۔اور پھر بڑے ہی‬
‫ذُومعنی لہجے میں بولیں۔۔ ۔۔ پتہ رکھا کرو ۔۔۔ میرے بھائی۔۔۔ کہ بعض‬
‫اوقات ایسے پتے بڑے کام آتے ہیں۔۔ جس انداز سے انہوں نے یہ‬
‫بات کی تھی۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ میں اس کی تہہ تک پہنچ گیا تھا ۔۔۔۔ لیکن ان کی‬
‫طرف سے اتنی جلدی ۔۔۔۔۔کی توقع ہر گز نہ تھی۔۔۔۔۔اب جبکہ انہوں‬
‫خود ہی پہل کر دی تھی۔۔اس لیئے موقع سے فائدہ اُٹھانا مجھ پر عین‬
‫فرض تھا ۔۔۔۔ ۔ اس لیئے ۔۔۔۔میں نے بڑے دھڑلے سے ان کی آنکھوں‬
‫میں جھانکا۔۔۔۔۔اور ۔۔۔۔ انہی کے انداز میں بات کرتے ہوئے ذُو معنی‬
‫الفاظ میں بوال۔۔ فی الحال تو بندہ ۔۔۔ ایک پیارے سے پتے کے پیچھے‬
‫چلتے ہوئے۔۔ کسی اجنبی پتے کی تالش میں پھر رہا ہے۔۔ میری بات‬
‫سن کر ان کا چہرہ۔۔۔۔۔۔ایک لمحے کے لیئے سرخ ہوا۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہ‬
‫پہلے سے بھی زیادہ ذُو معنی لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔۔ جس پیارے‬
‫سے پتے کے پیچھے تم چل رہے ہو نا ۔۔ یہ صرف پتہ ہی نہیں ۔۔۔۔‬
‫بلکہ ت ُرب کا پتہ ہے اس کا دامن کبھی نہ چھوڑنا۔۔۔۔ کیونکہ یہ تمہیں‬
‫ایسی ایسی جگہ سے فائدہ دے گا کہ ۔۔۔جہاں سے تم نے کبھی سوچا‬
‫بھی نہ ہو گا۔۔ اتنی بات کرنے کے بعد وہ کچھ دیر تک میری آنکھوں‬
‫میں آنکھیں ڈالے دیکھتی رہی۔۔۔۔۔ پھر اچانک ہی کہنے لگیں۔۔۔ تم‬
‫چائے پیو۔۔۔ میں امی کو دیکھ کر آتی ہوں۔۔۔‬

‫پانچ منٹ کے بعد باجی واپس آئی اور پہلے جیسے خوشگوار لہجے‬
‫میں بولی۔۔۔ تھوڑی دیر تک نکلتے ہیں اور پھر میرے سامنے والے‬
‫صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔ اتنی دیر میں عدیل بھی آ گیا تھا ۔۔۔ اور ہم ادھر‬
‫ادھر کی باتیں کرنے لگا۔۔۔ دس پندرہ منٹ کے بعد آنٹی کمرے میں‬
‫داخل ہوئیں اور کہنے لگیں۔۔۔ تمہارے سسرال سے ڈرائیور ہمیں‬
‫لینے آیا ہے۔۔اس پر باجی مجھے اُٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے باہر‬
‫نکل گئی۔۔۔کوئی دس پندرہ منٹ کی ڈرائیونگ کے بعد ہم لوگ‬
‫سٹالئیٹ ٹاؤن کے ایریا میں داخل ہو گئے ۔۔۔۔ اور پھر گاڑی چلتی‬
‫ہوئی بی بالک جا پہنچی۔۔۔اور پھر چند سکینڈ کے بعد ہماری گاڑی‬
‫ایک بڑے سے گھر کے باہر پہنچ گئی۔۔۔ ۔ مین گیٹ کھال ہونے کی‬
‫وجہ سے۔۔۔۔۔ ڈرائیور سیدھا گاڑی کو سیدھا اندر لے گیا۔۔۔ گاڑی سے‬
‫نکلتے ہوئے ۔۔۔ باجی آہستہ سے بولی میرا سبق یاد ہے نا؟ تو میں‬
‫نے اثبات میں سر ہال دیا۔۔۔ پھر وہ مجھے انٹرنس کے ساتھ بنے‬
‫ڈرائینگ روم میں ۔۔۔بیٹھنے کا کہہ کر خود غائب ہو گئی۔۔ پانچ دس‬
‫منٹ کے بعد ایک ڈیسنٹ شکل والی ادھیڑ عمر خاتون‪ ،‬باجی اور‬
‫آنٹی کے ساتھ کمرے میں داخل ہوئی۔۔۔ انہیں آتا دیکھ کر میں احتراما ً‬
‫اپنی جگہ سے کھڑا ہو گیا۔۔۔اور وہ ڈیسنٹ شکل کی خاتون جو یقینا ً‬
‫باجی کی ساس تھی نے بڑے ہی غور سے ۔۔۔ میرے سراپے کا جائزہ‬
‫لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مجھے بیٹھنے کو کہا۔۔۔ ابھی میں صوفے پر بیٹھا ہی‬
‫تھا کہ ایک دفعہ پھر کمرے میں ایک ساٹھ پینسٹھ برس کا شخص‬
‫داخل ہوا۔۔۔ اور چلتا ہوا سیدھا میرے پاس آ گیا اور ۔۔۔۔ہاتھ مالیا۔۔اور‬
‫۔۔ اور پھر میرے ساتھ بیٹھتے ہوئے اپنی بیگم سے بوال ۔۔۔ مہمان آئے‬
‫ہیں کچھ ٹھنڈا گرم ہو جائے۔۔ ان کی بات سن کر صائمہ باجی یہ‬
‫کہتے ہوئے باہر نکل گئی کہ میں ابھی لے کر آئی۔۔ اتنی دیر میں اس‬
‫بزرگ اور اس کی بیگم نے میرا انٹرویو لینا شروع کر دیا۔۔۔ ان کے‬
‫متوقع سوالوں کے جوابات باجی نے پہلے ہی ساجھ دیئے تھے۔۔۔اس‬
‫لیئے میں بمطابق اسکرپٹ ان سوالوں کے جوابات دیتا چال گیا۔۔۔ کچھ‬
‫دیر بعد باجی ایک ٹرالی میں چائے کے لوازمات لیئے آ گئی ۔ ان‬
‫کے ساتھ ایک گندمی رنگ کی شوخ سی لڑکی بھی تھی۔۔۔ جو مجھے‬
‫اشتیاق بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے میرے سامنے والے صوفے‬
‫پر ۔۔۔۔ جبکہ باجی میرے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گئی۔۔چائے پیتے‬
‫ہوئے اچانک ہی صائمہ باجی کے سسر کا فون بول اُٹھا۔گھنٹی کی‬
‫آواز سنتے ہی صائمہ باجی کی ساس بولی۔۔‬

‫صبع صبع کس کا فون آ گیا ؟ تو انکل جیب سے فون نکال کر بولے‬


‫۔۔۔ دیکھتا ہوں۔۔۔ اور پھر فون کو کان سے لگا کر ہیلو کہا۔۔۔ اور میں‬
‫نے دیکھا کہ فون سنتے ہوئے۔۔۔۔ ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔۔۔ اور‬
‫اچانک ہی وہ غصے سے بولے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔ یار میں اس حرام ذادے کا کیا‬
‫کروں؟ ۔۔۔۔۔ اس کے تقاضے ہی نہیں ختم ہوتے ۔۔پھر چیختے ہوئے‬
‫بولے۔۔۔ میرا بس چلے تو میں ایکسائز دفتر کو ہی آگ لگا دوں ۔۔۔‬
‫ایکسائیز دفتر کا نام سن کر میرے کان کھڑے ہو گئے۔۔۔کیونکہ وہاں‬
‫پر اپنے سارے ہی یار دوست کام کرتے تھے اس لیئے دل میں سوچا‬
‫کہ ۔۔۔انکل لوگوں کو متاثر کرنے کا اس سے اچھا موقعہ ۔۔ ۔پھر نہیں‬
‫ملے گا یہ سوچ کر میں باجی سے مخاطب ہو کر بوال۔۔۔ معاملہ کیا‬
‫ہے؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔ ابا جی کے پالزہ کا کچھ مسلہ چل رہا ہے‬
‫۔۔۔تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ ۔۔ یہ بتاؤ کہ وہاں کام کیا ہے؟ میری بات‬
‫سن کر وہ کہنے لگی۔۔۔۔ پوری بات کا تو مجھے بھی نہیں پتہ ۔۔۔۔ بس‬
‫اتنا ۔۔۔۔معلوم ہے کہ ایک ماہ ہو گیا ہے ابا اور میرے میاں کو وہاں‬
‫جاتے ہوئے۔۔۔۔ لیکن کام ہونا تو درکنار ۔۔۔اس میں ذرا سی بھی پیش‬
‫رفت نہیں ہوئی تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ کہ ا گر اس وقت آپ کے‬
‫میاں جی کہاں بیٹھے ہیں ؟ اسی اثنا میں انکل نے فون بند کر‬
‫دیا۔۔۔۔غصے کی وجہ سے ان کا چہرہ الل ٹماٹر ہو رہا تھا۔۔۔ انہوں‬
‫نے بڑی مشکل کے ساتھ اپنی غصے پر قابو پایا۔۔۔۔۔اور پھر معزرت‬
‫بھرے لہجے میں بولے ۔۔۔۔ سوری بیٹا!! ۔۔۔ غصے میں جانے کیا کیا‬
‫بک گیا تھا۔۔۔‬

‫اس پر میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ کہ کیا آپ بتا‬


‫سکتے ہیں کہ ایکسائز آفس میں آپ کا کام کیا ہے؟ میری بات سن کر‬
‫پہلے تو انہوں نے رسمی سا ا نکار کیا۔۔۔ لیکن جب میں نے تھوڑا‬
‫اصرار کر کے پوچھا ۔۔۔ تو انہوں نے مختصر طور پر اپنا کام بتا‬
‫دیا۔۔۔تب میں نے ان سے پوچھا ۔۔۔۔ اچھا یہ بتائیں کہ آپ لوگوں نے‬
‫ای ٹی او آفس کے باہر بیٹھے کسی ٹاؤٹ سے بات کی ؟ تو وہ‬
‫روہانسی آواز میں کہنے لگے ۔۔۔ یار نہ صرف بات کی تھی بلکہ اس‬
‫نے ہم سے سارے پیسے ایڈوانس میں لیئے تھے۔۔۔ تو میں نے ان‬
‫سے پوچھا پیسے لینے کے بعد۔۔۔ اس نے آپ کا کام نہیں کیا؟ میری‬
‫بات سن کر انکل پھٹ پڑے۔۔۔ اور بڑے ہی ترش لہجے میں بولے۔۔۔‬
‫یار وہ ایجنٹ بڑا حرامی ہے ۔۔۔ کام وام تو اس نے دھیلے کا بھی‬
‫نہیں کیا ۔۔۔ ۔۔۔ الٹا ۔۔۔۔ ہر وزٹ پر ہم سے کسی نہ کسی بہانے سے‬
‫پیسے اینٹھ لیتا ہے۔۔ ۔۔ لیکن آج تو حد ہی ہو گئی ۔۔۔ آج وہ فرزند سے‬
‫جتنے پیسوں کا مزید تقاضہ کر رہا تھا ۔۔۔۔اس سے ڈبل وہ پہلے ہی‬
‫لے چکا تھا۔۔ ۔۔۔۔۔ انکار پر وہ یہ کہہ کر چال گیا ہے کہ بھائی صاحب‬
‫مزید پیسے دو گے تو تمہارا کام ہو جائے گا۔۔۔‬

‫ا نکل کی بات سن کر میں سمجھ گیا۔۔۔ کہ وہ ایجنٹ واقعی ہی کوئی‬


‫حرامی آدمی ہے ۔۔۔ جو کہ ان لوگوں کی شرافت کا ناجائز فائدہ‬
‫اُٹھاتے ہوئے پیسے بنا رہا ہے۔۔۔ ساری کہانی سننے کے بعد ۔۔۔۔ میں‬
‫انکل سے بوال ۔۔۔ اگر آپ اجازت دیں تو میں آپ کا کام کر دوں؟ ۔۔۔تو‬
‫وہ تھوڑے طنزیہ لہجے میں جواب دیتے ہوئے بولے ۔۔۔ آپ یہ کام‬
‫کر لو گے؟ تو میں نے ان کو جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔ اگر آپ کہیں‬
‫تو۔۔۔۔ نہ صرف یہ کہ آپ کا کام ہو جائے گا۔۔۔۔ بلکہ اس ایجنٹ کو دی‬
‫ہوئی رقم بھی واپس مل جائے گی۔۔۔۔ ۔ میری بات سن کر انکل حیران‬
‫رہ گئے۔۔۔ اور ایک بار پھر تلخ لہجے میں بولے۔۔۔ بیٹا آپ کو معلوم‬
‫ہے کہ آپ کیا بات کر رہے ہو؟؟۔۔۔ ۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں کوئی‬
‫جواب دیتا ۔۔۔۔ انکل کی بجائے آنٹی کہنے لگیں ۔۔۔بیٹا اگر تم یہ کام کر‬
‫سکتے ہو تو ۔۔۔پلیز کر دو۔۔۔ آنٹی کی بات سن کر میں نے انکل کی‬
‫طرف دیکھا ۔۔۔تو انہوں نے مجھے نیم دلی کے ساتھ اجازت تو۔۔۔۔دے‬
‫دی۔۔ ۔۔ لیکن ان کے چہرے سے صاف پتہ لگ رہا تھا کہ انہیں میری‬
‫بات کا رتی بھر بھی اعتبار نہیں۔۔۔۔۔ دوسری طرف میں جو اتنے‬
‫اعتماد کے ساتھ بات کر رہا تھا ۔۔۔تو اس کی ایک خاص وجہ تھی۔۔۔۔‬
‫اور وہ یہ تھی کہ ان لوگوں کا جس سیکشن میں کام پھنسا ہوا تھا‬
‫۔۔۔اس کا انچارج میرا بڑا اچھا دوست تھا۔ اور ان سے جو کام ایک‬
‫ماہ میں نہ ہو سکا تھا ۔۔۔وہ میرے ایک فون کال پر ہو جانا تھا۔۔‬
‫چنانچہ آنٹی کی بات سن کر میں نے جیب سے اپنا سیل فون نکاال‬
‫۔۔۔۔اور اپنے دوست کو فون مال کے پوچھا کہ وہ اس وقت کہاں ہے؟‬
‫۔۔۔ تو آگے سے "رمز شناس " دوست کہنے لگا۔۔۔۔ بہن چودا بڑا‬
‫سیریس ہو رہا ہے پھر کسی آنٹی کا کام تو نہیں پڑ گیا؟۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫پھر میرا لہجہ سن کر سمجھ گیا کہ معاملہ کچھ ایسا ہی ہے۔۔۔سو وہ‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔ ۔۔ کام کیا ہے آرڈر ال؟ ۔ تب میں نے اسے مختصر طور‬
‫پر بتایا تو وہ کہنے لگا۔۔۔ گل ای کوئی نئیں بادشاہو۔۔۔ یہ تو اپنے ہی‬
‫سیکشن کا کام ہے اور تم تو جانتے ہو کہ مابدولت یہاں کا انچارج‬
‫ہے۔۔۔۔تو میں نے اس سے کہا ۔۔ کہ ابھی ایک بندہ آ کر میرا نام لے‬
‫گا اسے چائے بھی پالنی ہے بلکہ ۔۔۔۔ چائے کے ساتھ ساتھ بسکٹ‬
‫بھی کھالنے ہیں۔۔۔۔ اور اس ایجنٹ کو بال کر ان کے پیسے بھی واپس‬
‫کروانے ہیں۔۔۔۔۔ تو بوال۔۔۔ پھدی کے ۔۔۔۔زیادہ بک بک نہ کر ۔۔۔ بندہ‬
‫بھیج ۔۔۔۔ ۔۔۔ تیرے سارے کام ہو جائیں گے ۔۔۔تب میں نے فون بند کیا‬
‫اور انکل سے کہنے لگا اپنے بیٹے سے کہیں کہ سیکنڈ فلور پر ۔۔۔۔‬
‫صدیق چوہان سے مل کر میرا نام بتائیں۔۔۔۔آپ کا کام ہو جائے گا ۔۔۔‬
‫میری بات سن کر انکل بڑی حیرانی سے کہنے لگے۔ ۔۔۔ سوچ لو‬
‫بیٹا۔۔۔ یہ اتنا آسان کام نہیں ہے۔۔۔ مجھے اور میرے بیتے کو پورا‬
‫ایک ماہ ہو گیا ہے ایکسائز آفس میں دھکے کھاتے۔۔۔۔ اور ایجنٹ کو‬
‫پیسے کھالتے ہوئے۔۔۔ لیکن کام ہونا تو درکنار۔۔۔ کسی نے میرے‬
‫ساتھ سیدھے منہ بات بھی نہیں کی۔۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ اپنے‬
‫بیٹے کو کہیں کہ چوہان صاحب کے پاس جا کر میرا نام تو لیں ۔ آپ‬
‫کا کام ہو جائے گا۔۔اگر اس نے آپ کا کام نہ کیا تو ۔۔۔۔ میں آپ کو‬
‫جرمانہ دوں گا۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر آنٹی کہنے لگیں۔۔۔۔ ہو سکتا ہے‬
‫لڑکا درست کہہ رہا ہو۔۔۔ آپ فرزند کے ساتھ بات تو کریں۔۔۔ چنانچہ‬
‫انکل نے ایک دفعہ پھر فو ن نکاال ۔۔۔ جیسے ہی فرزند نے ہیلو کہا‬
‫تو انکل نے اسے مختصر سے بات کرنے کے بعد۔ فون مجھے پکڑا‬
‫دیا۔۔ جیسے ہی میں نے فرزند کو ہیلو بوال۔۔۔ تو اس نے مجھ سے‬
‫ایکسیوز کیا۔۔۔ لیکن میں نے کوئی جواب دینے کی بجائے۔۔ اسے‬
‫صدیق چوہان کا بتایا۔۔۔اور فون بند کر کے انکل کو واپس دے دیا۔۔‬
‫چائے پینے کے تھوڑی دیر بعد بمطابق اسکرپٹ میں نے ان سے‬
‫اجازت لی ۔۔ اور آفس آ گیا۔۔۔‬

‫اگلے دن صبع صبع ہی عدیل نے مجھے مبارک دیتے ہوئے بتا دیا‬
‫تھا کہ۔۔۔۔ میرے فون کی وجہ سے نہ صرف یہ کہ اسی دن انکل‬
‫لوگوں کا کام ہو گیا تھا بلکہ۔۔۔۔ اس ایجنٹ نے کچھ پیسے بھی واپس‬
‫کر تے ہوئے باقی بعد میں دینے کا وعدہ کیا ہے۔۔ ۔۔ پھر کہنے لگا‬
‫کہ باجی کے بقول ۔۔۔۔ میرے اس اقدام کی وجہ سے وہ لوگ مجھ‬
‫سے سخت مرعوب ہو چکے ہیں۔۔ چنانچہ اس دن جب میں لنچ کے‬
‫لیئے عدیل کے گھر گیا ۔۔۔تو انکل نے دروازہ کھوال ۔۔۔اور مجھے‬
‫ڈرائینگ روم میں بٹھا کر یہ کہتے ہوئے چل دیئے کہ میں نے ایک‬
‫ضروری کام سے جانا ہے انکل کے جاتے ہی صائمہ باجی کمرے‬
‫میں داخل ہوئی ان کے چہرے سے خوشی ٹپک رہی تھی ۔۔۔دروازے‬
‫میں داخل ہوتے ہی انہوں نے اپنے بازو پھیال لیئے اور کہنے لگیں۔۔۔‬
‫واہ میرے شیر تم نے تو ایک ہی ہلے میں انہیں ڈھیر کر دیا ہے اور‬
‫میرے گلے سے لگ گئیں۔۔ اور خوشی کے عالم میں مجھے اتنی‬
‫زور سے دبایا ۔۔۔ کہ ان کی بھاری چھاتیاں ۔۔۔ میرے سینے میں‬
‫دھنسے لگیں۔۔ وہ جوش کے عالم میں میرے ساتھ مزید چپکی جا‬
‫رہی تھیں۔۔۔۔ جس کی وجہ سے ان کا نرم نرم جسم ۔۔۔۔۔۔ میرے جسم‬
‫کے ایک ایک انگ کے ساتھ ٹچ ہو رہا تھا۔۔۔۔ تب میں نے ان کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے آہستہ سے کہا ۔۔۔۔کہ باجی جی آپ کی جپھی ۔۔۔‬
‫کچھ زیادہ ہی ٹائیٹ نہیں ہو گئی؟ تو میری طرح وہ بھی اپنے ہونٹوں‬
‫کو میرے کان کے قریب ال کر بولیں۔۔۔۔۔۔۔ میں تو اس سے بھی‬
‫زیادہ۔۔۔ ٹائیٹ لگانے کے چکر میں ہوں۔۔ صائمہ باجی نے یہ بات‬
‫کچھ اس ادا سے کہی تھی کہ نیچے سے میرا شیر۔۔۔ جو کہ پہلے ہی‬
‫کھڑا ہونے کے لیئے اتاؤال ہو رہا تھا۔۔۔۔۔ کے بھی کان کھڑے ہو‬
‫گئے۔۔۔ اور اس سے اگلے ہی لمحے وہ ظالم تن کر کھڑا ہو گیا تھا۔۔۔‬
‫۔۔۔ لن کو کھڑا ہوتے دیکھ کر۔۔۔۔۔۔۔۔ میں آہستہ سے باجی کے کان میں‬
‫بوال۔۔ آپ کی جپھی سے میرا کام خراب ہو گیا ہے میری بات سن کر‬
‫وہ آہستہ ۔۔۔۔۔لیکن ۔۔ شہوت بھری آواز میں بولیں۔۔۔ ہم دونوں کو اس‬
‫حالت میں کوئی دیکھ تو نہیں رہا؟ تو میں نے گردن گھما کر ادھر‬
‫ادھر دیکھا تو آس پاس کوئی بھی نہ تھا۔۔۔ اس پر میں انہیں رپورٹ‬
‫دیتے ہوئے بوال۔۔۔ آس پاس کوئی بھی نہیں ہے۔۔۔ یہ سن کر وہ‬
‫الپرواہی سے بولیں تو پھر کام کو خراب ہونے دو۔۔۔ ان کی بات سن‬
‫کر میں نے موقع غنیمت جانا۔۔۔۔ اور اپنے اکڑے ہوئے لن کو ان کی‬
‫دونوں ٹانگوں کے بیچ میں گھسانے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫ادھر میرے لن کی اکڑاہٹ کو محسوس کرتے ہوئے ۔۔۔۔۔۔ اچانک‬


‫انہوں نے اپنا بائیں پاؤں اوپر اُٹھایا۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔اپنے گھٹنے کو ۔۔۔۔‬
‫(بڑی ہی نرمی کے ساتھ) ۔۔۔۔ میرے لن پر رگڑ دیا۔۔۔۔۔ اپنے لن پر ان‬
‫کا گھٹنا محسوس کرتے ہی ۔۔۔۔ میں ان سے بوال۔۔۔۔۔ باجی میرا‬
‫"معاملہ" کیسا لگا؟۔ اس سے پہلے کہ وہ میری بات کا جواب دیتیں‬
‫۔۔۔۔۔۔اچانک باہر سے کسی کے چلنے کی آواز سنائی دی۔۔۔۔ یہ آواز‬
‫ٰ‬
‫علیحدہ ہو‬ ‫سنتے ہی میرے گلے لگی صائمہ باجی ایک جھٹکے سے‬
‫گئی۔۔۔۔ اور یہ کہتے ہوئے باہر چلیں گئیں کہ میں ابھی آئی۔۔۔ وہ تو‬
‫تیزی کے ساتھ کمرے سے باہر نکل گئیں جبکہ ۔۔۔ میں اسی پوزیشن‬
‫میں کھڑے ہو کر دروازے کی طرف بڑھتے ہوئے قدموں کی چاپ‬
‫سننے لگا۔۔۔۔۔۔۔ اسی وقت آنٹی کمرے میں داخل ہوئیں۔۔۔ اور داخل‬
‫ہوتے ہی بڑی خوشی سے بولیں ۔۔۔۔ بیٹا تم نے تو کمال کر دیا۔۔۔ اور‬
‫فرط جزبات سے مجھے اپنے گلے سے لگا کر ۔۔۔ میرے‬ ‫ِ‬ ‫پھر ۔۔۔‬
‫ماتھا کو چومنے لگیں۔۔۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی آنٹی میرے گلے لگنے‬
‫لگیں ۔۔۔ اچانک ہی مجھے خیال آیا کہ میرا تو لن کھڑا ہے۔۔۔ اگر‬
‫کہیں ان کے ساتھ ٹچ ہو گیا۔۔۔۔تو بہت برا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔اسی لیئے ان کو‬
‫آگے بڑھتا دیکھ کر۔۔۔۔ میں تھوڑا پیچھے ہٹ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ میری‬
‫اس حرکت ۔۔۔۔۔۔ سے وہ یہ سمجھیں کہ میں ان کے ساتھ گلے ملنے‬
‫سے شرما رہا ہوں ۔۔ اس لیئے وہ یہ کہتے زبردستی میرے گلے لگ‬
‫گئیں۔۔۔۔ کہ مجھ مت شرماؤ۔۔۔ تم میرے بیٹے جیسے ہو۔۔۔۔۔ ۔۔ اور اس‬
‫کے ساتھ ہی زبردستی مجھے گلے لگا لیا ۔۔۔۔ ان کے ساتھ گلے ملتے‬
‫ہوئے۔۔۔ میں نے لن صاحب کو بیٹھنے کی بہت درخواست کی ۔۔۔۔۔‬
‫لیکن اس ۔۔۔ نے میری ایک نہ سنی۔۔۔ اور ویسے ہی اکڑ کے کھڑا‬
‫رہا۔۔۔۔ جس کا نتیجہ یہ نکال کہ جیسے ہی آنٹی زبردستی ۔۔۔ میرے‬
‫ساتھ گلے لگیں۔۔۔تو اسی وقت ۔۔۔۔۔لن صاحب۔۔۔ ۔۔۔ڈائیریکٹ ان کی‬
‫دونوں رانوں کے بیچ میں سے ہوتا ہوا ۔۔ ان کی چوت کے کریک پر‬
‫دستک دینے لگا۔۔۔۔ ادھر۔۔۔۔جیسے ہی میرے سخت لن نے ان کی‬
‫پھدی کی بیچ والی دراڑ کو چھوا۔۔۔پہلے ایک آدھ سیکنڈ تو ان کو‬
‫سمجھ ہی نہیں آئی۔ ۔۔کہ معاملہ کیا ہے؟۔۔لیکن ۔۔ پھر جیسے ہی ان کو‬
‫اپنی پھدی کے درمیان ۔۔۔۔ میرے لن کا دباؤ محسوس ہوا۔۔۔۔ ۔۔۔۔آنٹی‬
‫ایک دم اچھل کر پرے ہٹ گئیں چونکہ اس وقت میں نے شلوار‬
‫قمیض پہنی ہوئی تھی اس لیئے میری شلوار کے آگے بڑا سا ٹینٹ بنا‬
‫صاف نظر آ رہا تھا۔۔۔ ۔۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ان کی طرف دیکھا تو‬
‫حیرت سے ان کی آنکھیں پھٹی ہوئیں تھیں۔۔۔ انہوں نے بس ایک نظر‬
‫میرے ٹینٹ بنے لن کی طرف دیکھا ۔۔۔اور پھر بنا کچھ کہے باہر‬
‫نکل گئیں۔۔۔ ادھر ان کو یوں جاتے دیکھ کر مجھے اپنی غلطی کا‬
‫شدید احساس ہوا ۔۔۔۔۔اور خوف کی وجہ سے میری ہوائیں اُڑ‬
‫گئیں۔۔اس کے ساتھ ہی ڈر کے مارے میرا لن نیچے بیٹھ گیا۔۔‬

‫کچھ دیر بعد جب عدیل اور گوری میم صاحب کمرے میں داخل‬
‫ہوئے۔۔۔ تو میں نے بڑی مشکل سے خود پر قابو پایا اور ان کے‬
‫استقبال کے لیئے اُٹھ کھڑا ہوا۔۔ جبکہ میری اس حالت سے بے‬
‫خبر۔۔۔۔۔ عدیل مجھ سے ہاتھ مال کر بوال ۔۔ یار وہ لوگ تم سے بہت‬
‫امپریس ہو گئے ہیں۔۔۔۔ ابھی ہم باتیں کر ہی رہے تھے کہ اتنے میں‬
‫صائمہ باجی بھی کمرے میں داخل ہو گئیں ۔چنانچہ اندر داخل ہوتے‬
‫ہی انہوں نے ایسے ری ایکٹ کیا کہ جیسے وہ مجھ سے ابھی ابھی‬
‫مل رہیں ہوں ۔۔۔۔ چنانچہ انہوں نے میرے ساتھ بڑی گرم جوشی کے‬
‫ساتھ باتیں کرنا شروع کر دیں۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔جبکہ عدیل چپ چاپ بیٹھا ان‬
‫کو سن رہا تھا۔ میں نے محسوس کیا کہ صائمہ باجی کے آنے سے‬
‫اکثر عدیل تھوڑا اپ سیٹ ہو جاتا تھا۔۔۔۔موقعہ ملنے پر جب میں نے‬
‫عدیل سے اس کی وجہ پوچھی تو وہ کہنے لگا۔۔ یار مجھے باجی‬
‫سے بہت شرم آتی ہے ۔۔۔میری وجہ سے اس بے چاری نے بہت دکھ‬
‫جھیلے ہیں۔۔۔ تب میں نے اس سے کہا گانڈو اگر یہ بات تھی تو پھر‬
‫تم نے اس گوری سے شادی کیوں کی ؟۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگا اسکی دو‬
‫وجہ ہیں ۔۔۔۔۔پہلی بات یہ کہ ڈیپارٹ مینٹل سٹور میں یہ میرے ساتھ‬
‫‪ ٪50‬کی پارٹنر ہے۔۔۔۔۔ دوسری وجہ ۔۔۔۔ تجھے کیا بتاؤں یار۔۔۔بیڈ‬
‫(پلنگ ) پر اس جیسی سیکسی ۔۔۔اور ایکسٹرا ہاٹ لڑکی میں نے کہیں‬
‫نے دیکھی۔۔۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگا کہ میں نے اس کے اندر سیکس پاور‬
‫۔۔۔کی وجہ سے اس سے شادی کی ۔۔۔‬
‫آنٹی کی آواز سنائی دی کہ کھانا لگ گیا ہے اور ہم لوگ کھانے کی‬
‫ٹیبل پر پہنچ گئے کھانا کھاتے ہوئے میں نے آنٹی کے تاثرات جاننے‬
‫کے لیئے چوری چوری ان کی طرف دیکھا ۔۔۔تو وہ ایک گہری‬
‫خاموشی کے ساتھ کھانا کھا رہیں تھیں۔۔۔ جبکہ صائمہ باجی مجھ سے‬
‫کہہ رہیں تھیں کہ کیا بتاؤں بھائی کہ میرا شوہر تو ایک دم تمہارا فین‬
‫ہو گیا پھر کہنے لگی کہ تمہارے ایکسائز آفس والے کام نے ان پر‬
‫اتنا ُرعب ڈاال ہے کہ انکل نے خود مجھ سے کہا ہے کہ کل تم کو‬
‫ڈنر پر بال لوں ۔۔ اس پر میں نے چونک کر باجی کی طرف دیکھا‬
‫اور ان سے پوچھا کہ کل ڈنر پر جانا ہے؟ تو وہ ہنس کر کہنے‬
‫لگی۔۔۔ کل نہیں ۔۔۔ بلکہ جمعہ کو تمہارا ڈنر ہے تو میرے پوچھنے پر‬
‫وہ کہنے لگی وہ اس لیئے مائی ڈئیر برادر کہ۔۔۔ جمعرات تک تم بہت‬
‫بزی ہو ۔۔۔ اس کے بعد کہنے لگی ۔۔۔اس لیئے اب یہ ڈنر جمعہ کو ہو‬
‫گا اور جمعہ تک مابدولت یہاں پر ہی رہیں گے ۔۔۔ کھانے کے کچھ‬
‫دیر بعد میں نے تھوڑی سی گپ شپ کی اور پھر آفس چال گیا۔۔‬

‫خالف معمول‬‫ِ‬ ‫اس سے اگلے دن کی بات ہے کہ بیل کے جواب میں‬


‫صائمہ باجی نے دروازہ کھوال ۔۔دیکھا تو ان کا چہرہ الل سرخ ہو رہا‬
‫تھا۔۔۔ان کا الل چہرہ دیکھ کر میں ان سے بوال۔۔ ۔۔ کیا بات ہے باجی۔۔۔‬
‫بڑی اللو الل ہو رہی ہو؟ ۔۔۔ میری بات سن کر پہلے تو انہوں نے‬
‫۔۔۔ادھر ادھر کی ہانکی۔۔۔۔ لیکن پھر۔۔۔۔۔ میرے پیہم اصرار ۔۔۔۔۔۔پر۔۔۔۔۔‬
‫وہ میری طرف دیکھتے ہوئے عجیب سے لہجے میں بولیں۔۔ جاننا‬
‫چاہو گے کہ میں کیوں الل ہو رہی ہوں؟ تو میں نے جواب دیتے‬
‫ہوئے کہا کہ وائے ناٹ جی؟۔۔ یہی تو میں آپ سے پوچھ رہا ہوں۔۔۔ تو‬
‫وہ کہنے لگی ۔۔۔ میں کسی کام سے۔۔۔۔۔۔اتنا کہہ کر وہ ُچپ ہو‬
‫گئی۔۔۔۔۔اور اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولی۔۔۔خاموشی سے میرے‬
‫پیچھے آ جاؤ۔۔۔۔۔ اور میں ان کے پیچھے پیچھے ہو لیا۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے‬
‫ساتھ لیئے ۔۔۔۔۔ گیلری کی طرف آ گئیں ۔اور پھر آخری کمرے کے‬
‫سامنے جا کر کھڑی ہو گئیں۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا۔۔۔ کہ یہ تو‬
‫عدیل کا کمرہ ہے۔۔ مجھے بولتے دیکھ کر انہوں نے ایک بار پھر‬
‫اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھی۔اور بولی ۔۔ شش۔۔بولنا منع ہے اور پھر‬
‫میرا ہاتھ پکڑ کر کھڑکی کے پاس لے آئیں۔۔ ۔۔۔ اور مجھے ایک‬
‫خاص زاویہ پر کھڑا کر کے آہستہ سے بولیں۔۔۔۔۔ میرے سرخ ہونے‬
‫کہ یہ وجہ تھی۔۔۔اور مجھے کھڑکی سے جھانکنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔میں‬
‫نے بڑی احتیاط کے ساتھ کھڑکی سے جھانک کر دیکھا۔۔۔اور پھر‬
‫دیکھتا چال گیا۔۔۔۔۔ یہ عدیل کا کمرہ تھا۔۔۔اور کمرے میں عدیل اور‬
‫گوری میم کا شو چل رہا تھا۔۔۔دونوں ننگے تھے۔۔۔۔۔۔ اور پوزیشن یہ‬
‫تھی ۔۔۔۔کہ اس وقت عدیل کے مونسٹر لن کو گوری نے اپنے ہاتھ میں‬
‫پکڑ رکھا تھا ۔۔۔اور وہ دونوں ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں‬
‫ڈالے شہوت بھرے انداز سے مسکرا رہے تھے۔۔ میرے لیے چونکہ‬
‫اپنی آنکھوں کے سامنے کسی گوری کو ننگا دیکھنے کا پہال موقع‬
‫تھا ۔۔۔۔ اس لیئے میں آنکھیں پھاڑے۔۔۔۔۔۔ گوری کے ننگے بدن کو‬
‫بڑی ہی بھوکی ۔۔۔۔۔اور حسر ت آمیز ۔۔۔۔۔ نظروں سے دیکھ رہا تھا کہ‬
‫اتنے میں صائمہ باجی میرے قریب آ کر آہستہ سے بولیں۔۔۔ میں جا‬
‫رہی ہوں۔۔ جبکہ۔۔۔میں اس وقت گوری کے ننگے بدن کا ایکسرے‬
‫کرنے میں اس قدر مصروف تھا کہ صائمہ باجی کی آواز سن کر‬
‫میں نے کوئی جواب نہیں دیا۔۔۔ بلکہ ان کی بات کو سنی ان سنی‬
‫کرتے ہوئے۔۔ بڑی ہی ترسی۔۔۔۔اور شہوانی نظروں سے گوری میم‬
‫کی طرف دیکھتا رہا ۔۔‬
‫اسی دوران میرے کان میں عدیل کی شہوت بھری آواز سنائی دی ۔۔۔۔‬
‫وہ اپنے لن کی طرف اشارہ کر کے کہہ رہا تھا۔۔۔ سک اِٹ۔۔(اسے‬
‫چوس)۔۔عدیل کی آواز سن کر گوری کہنے لگی۔۔۔ چوستی ہوں ۔۔۔اتنی‬
‫جلدی بھی کیا ہے؟ ۔۔۔۔اتنا کہتے ہی ۔۔۔ گوری میم اپنے منہ کو عدیل‬
‫کے لن پر لے گئی اور اس کے پھولے ہوئے ٹوپے پر تھوک کا ایک‬
‫بڑا سا گولہ پھینک دیا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر زبان نکا ل کر تھوک کے اس‬
‫گولے کو عدیل کے سارے ٹوپے پر پھیال دیا۔۔۔۔۔ جب اس کا سارا‬
‫تھوک ٹوپے پر پھیل گیا۔۔۔ تو گوری نے سر اوپر اُٹھا یا ۔۔ اور کہنے‬
‫لگی۔۔۔ اسے تھوڑا گیال کر لوں ۔۔ پھر ۔۔۔ چوسوں گی۔۔۔۔۔یہ کہتے‬
‫ہوئے ان نے اپنی ہتھیلی پر بھی تھوک کا گولہ پھینکا۔۔۔۔ ۔۔۔اور پھر‬
‫عدیل کے لن کو اسی ہاتھ سے پکڑ لیا۔۔۔ اور اسے اچھی طرح سے‬
‫چکنا کرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔ ۔ لن کو آگے پیچھے کرنے لگی۔۔۔ وہ کچھ‬
‫دیر تک اسے ہینڈ جاب دیتی رہی۔۔۔ پھر عدیل کی ایک سسکی سنائی‬
‫دی۔۔۔ اور وہ کہنے لگا۔۔۔۔ پلیز اب منہ میں بھی ڈال لو ۔۔ عدیل کی‬
‫بات سن کر ۔۔۔ گوری نے اپنی مڈل اور رنگ فنگر کو اپنی پھدی کی‬
‫طرف بڑھایا۔۔۔ ۔۔۔ اور پھر انہیں پھدی میں اچھی طرح سے ڈپ‬
‫کرنے کے بعد۔۔۔جب اس نے اپنی انگلیوں کو باہر نکاال۔۔۔۔۔۔ تو ان پر‬
‫گوری کی چوت کا ڈھیر سارا پانی لگا ہو ا تھا۔۔۔۔ اب اس نے یہ‬
‫انگلیاں ۔۔۔عدیل کے منہ کے سامنے لہرائیں۔۔ اور بولی۔۔۔ میری‬
‫انگلیاں چاٹو۔۔لیکن جیسے ہی عدیل نے اس کی انگلیاں کی طرف‬
‫زبان کی ۔۔۔ بجائے اس کے کہ وہ اس سے انگلیاں چٹواتی۔۔۔۔ اس نے‬
‫بڑی تیزی سے۔۔۔ انگلیوں پر لگے پانی کو عدیل کے لن پر مل‬
‫دیا۔۔۔اور اسے اچھی طرح مکس کرنے کے بعد ۔۔۔۔۔وہ عدیل کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ تیرے لن کو چوسنے لگی ہوں۔۔۔یہ کہتے‬
‫ہوئے وہ لن پر جھکی ۔۔۔۔اور ٹوپے پر زبان پھیرنے لگی۔۔۔‬
‫پھر ٹوپے پر زبان پھیرتے پھیرتے اچانک اس نے اپنا منہ کھوال‬
‫۔۔۔اور عدیل کے لن کو ٹوپے تک منہ میں لے کر چوسنا شروع کر‬
‫دیا۔۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی گوری نے عدیل کے ٹوپے کو اپنے منہ میں‬
‫لیا۔۔۔تو عدیل کے منہ سے ایک سسکی سی نکلی۔۔۔ ۔۔۔اور وہ اونچی‬
‫آواز میں بوال۔۔۔۔ منہ کے اندر تک لے کر جاؤ۔۔۔ چنانچہ عدیل کی‬
‫بات سن کر گوری نے اپنے منہ سے لن نکاال ۔۔اور عدیل کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔پورا لن چوسوانے سے زیادہ مزہ آتا ہے؟ تو‬
‫عدیل کہنے لگا ۔۔۔ یس اگر تم سارے لن کو منہ میں لے لو تو۔۔۔کیا‬
‫بات ہو گی۔۔۔ ۔۔اس پر گوری عدیل کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔تمہیں معلوم بھی ہے کہ سارا لن منہ میں نہیں جاتا۔۔۔ پھر بھی‬
‫۔۔ میں کوشش کرتی ہوں کہ تمہارے اس بڑے سے لن کو پورے لے‬
‫لوں۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا منہ کھوال۔۔اور جہاں تک ہو سکا‬
‫۔۔۔ عدیل کے لن کو منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔۔۔ ۔۔کچھ دیر‬
‫تک اسی حالت میں لن چسوانے کے بعد۔۔۔۔ عدیل نے ایک سسکی لی‬
‫۔۔۔۔ اور بڑی مست آواز میں بوال۔۔۔ اور اندر لے جاؤ پلیز۔۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫گوری نے ایسا ہی کیا۔۔۔ لیکن لن کو مزید منہ کے اندر تک لے جانے‬
‫سے ۔۔۔عدیل کا لن اس کے حلق سے جا ٹکرایا۔۔۔۔۔۔۔جس کی وجہ سے‬
‫گوری کو پھندا سا لگ گیا۔۔۔پھندا لگتے ہی اس نے جلدی سے لن کو‬
‫اپنے منہ سے نکاال۔۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ اس کا منہ لیس دار مادے‬
‫سے بھرا ہوا تھا۔۔۔اس نے یہ لیس دار مادہ ۔۔۔ عدیل کے لن پر تھوک‬
‫دیا۔۔۔اور پھر لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ۔۔۔۔۔ ہلکی ہلکی ُمٹھ مارنے‬
‫لگی۔۔۔ ُمٹھ مارتے مارتے ۔۔ اچانک وہ پلنگ کے کونے پر لیٹ‬
‫گئی۔۔۔اور اپنی دونوں ٹانگوں کو پھیال کر عدیل سے بولی۔۔۔۔۔ میری‬
‫چاٹو۔۔۔ ۔۔‬
‫گوری کی بات سن کر عدیل گھٹنوں کے بل چلتا ہوا ۔۔۔ اس کی دونوں‬
‫ٹانگوں کے بیچ آ گیا۔۔۔اور میں کوشش کے باوجود بھی گوری کی‬
‫خوب صورت چوت کا دیدار نہ کر سکا۔۔۔۔ وجہ یہ تھی کہ ایک سائیڈ‬
‫پر کھڑا ہونے کی وجہ سے ۔۔۔۔۔ اس کی چوت کے آگے ٹانگ آ گئی‬
‫تھی۔۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا تو بس اتنا۔۔۔۔ دیکھا کہ عدیل اس کی‬
‫دونوں ٹانگوں کے درمیان جھکا ۔۔۔۔گوری کی چوت چاٹ رہا تھا۔۔‬
‫اور چوت چٹائی کی وجہ سے گوری ۔۔۔ پہلے تو آہستہ آہستہ پھر تیز‬
‫تیز کراہنے لگی۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔ سک مائی پسی۔۔۔۔(میری چوت‬
‫کو چوسو۔۔۔) اوہ۔۔۔۔اوہ۔۔ڈیپ ڈارلنگ ۔۔۔۔ یس۔۔۔یس۔ڈیپر۔۔۔اور میں نے‬
‫دیکھا کہ جیسے جیسے عدیل کا سر تیزی سے ہلتا ۔۔۔۔ویسے ویسے‬
‫گوری کے منہ سے کراہیں بلند سے بلند تر ہوتی چلی گئیں۔۔اور میں‬
‫کھڑکی کے باہر کھڑا سوچ رہا تھا کہ اس وقت اگر عدیل کی بجائے‬
‫میں اس سیکسی گوری کی چوت کو چاٹ رہا ہوتا۔ تو گوری اس سے‬
‫بھی تیز آوازوں میں سسکیاں بھر رہی ہوتی۔۔۔ جبکہ ان دونوں کے‬
‫سیکسی مناظر کو دیکھ دیکھ کر میرا لن بری طرح سے اکڑ چکا‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف چوت چٹواتے ہوئے گوری بس ایک ہی بات‬
‫کہے جا رہی تھی ۔۔کہ میری چوت چوسو۔۔۔ کچھ دیر بعد اچانک ہی‬
‫گوری نے عدیل کو سٹاپ کرنے کو کہا۔۔۔اور جیسے ہی گوری کی‬
‫چوت پر مسلسل ہلتا ہوا عدیل کا چہرہ سٹاپ ہوا تو اگلے ہی‬
‫لمحے۔۔گوری اوپر اُٹھی۔۔۔ اس کی دیکھا دیکھی عدیل بھی اُٹھ کھڑا‬
‫ہوا۔۔۔۔اور میں نے دیکھا تو ۔۔اس کے ہونٹوں کے آس پاس کا سارا‬
‫ایریا۔۔ گوری کی منی سے چمک رہا تھا۔ پھر میرے دیکھتے ہی‬
‫دیکھتے وہ گوری میم عدیل کے منہ پر جھکی۔۔۔اور منہ سے اپنی‬
‫لمبی زبان کو نکال کر۔۔۔ اس کے منہ پر لگی ساری منی کو چاٹ‬
‫لیا۔۔۔ منی چاٹنے کے بعد۔۔۔ وہ عدیل سے بولی۔۔۔ کامان کس می‬
‫ڈارلنگ۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا منہ عدیل کے منہ میں ڈال‬
‫دیا۔۔۔۔‬

‫اور پھر دونوں نے جی بھر کے کسنگ کی۔۔جبکہ دوسری طرف ۔۔۔۔‬


‫میں لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑے یہ سارا منظر دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔ طویل‬
‫کسنگ کرنے کے بعد گوری نے اپنی بھاری بھر کم چھاتیو ں کو‬
‫اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑا۔۔۔۔۔اور عدیل کے سامنے لہراتے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔۔ان نہیں چوسو گے؟ تو آگے سے عدیل کہنے لگا۔۔۔ تم چوسنے‬
‫کی بات کر رہی ہو ۔۔ میرا بس چلے تو میں انہیں کھا جاؤں ادھر وہ‬
‫دونوں مست مست باتیں کر رہے تھے جبکہ ان کی باتوں کے ساتھ‬
‫ساتھ میرا سارا دھیان گوری کی بھاری چھاتیوں کی طرف تھا۔ حقیقت‬
‫یہ ہے کہ اس کی چھاتیاں کو دیکھ کر میرے منہ میں پانی بھر آیا‬
‫تھا۔۔۔۔ گوری کی چھاتیاں کافی بڑی۔۔۔۔اور ان کے نپلز بہت موٹے‬
‫تھے۔ جبکہ نپلز کے آس پاس کا ایریا کہ جہاں پر براؤن سا دائرہ بنا‬
‫ہوا تھا۔گوری گوری چھاتیوں پر بڑا بھال لگ رہا تھا۔۔۔۔۔ گوری نے‬
‫اپنی ایک چھاتی کو ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔اور عدیل کے منہ میں دیتے‬
‫ہوئے بولی۔۔۔ اس وقت تک چوسو ۔۔۔کہ جب تک اس میں سے دودھ‬
‫نہ نکل آئے۔۔۔۔۔اور پھر اس سے نپل چوسوانا شروع ہو گئی۔۔۔ اور‬
‫میں نے دیکھا کہ ایک طرف تو عدیل اس کی چھاتیوں کو چوس رہا‬
‫تھا۔۔۔اور دوسری طرف اس کی دو انگلیاں گوری کی خوب صورت‬
‫چوت میں گھسی ہوئیں تھیں اور ممے چوسنے کے ساتھ ساتھ وہ اپنی‬
‫انگلیوں کو بھی گوری کی چوت میں ان آؤٹ کر رہا تھا۔۔۔۔ ممے‬
‫چوسنے کے کچھ دیر بعد ۔۔گوری نے عدیل کے منہ سے اپنی چھاتی‬
‫نکالی۔۔۔اور بنا کچھ کہے وہ واپس ُمڑی۔۔۔اور ۔ ۔ اس کے سامنے‬
‫گھوڑی بن گئی۔ گھوڑی بننے سے میرے سامنے اس کی بڑی سی‬
‫گانڈ آ گئی تھی۔۔۔ گو کہ ایک سائیڈ پر کھڑا ہونے کی وجہ سے۔۔۔ میں‬
‫اس کی ساری گانڈ کے نطارے سے تو محروم تھا لیکن جتنی گانڈ‬
‫مجھے دکھائی دے رہی تھی۔۔۔ وہ دیکھ دیکھ کر میرا لن جھٹکے‬
‫مارنے لگا۔۔اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ میں عدیل کو دھکا دے کر‬
‫خود اس کے پیچھے کھڑا ہو جاؤں۔۔۔ لیکن چونکہ ایسا ممکن نہ تھا۔۔۔‬
‫اس لیئے میں اس حسرت کو دل میں چھپائے اپنے لن کو ہی دباتا‬
‫رہا۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ یک ٹک اس میم کی گوری گانڈ کو‬
‫دیکھتا رہا۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف جیسے ہی گوری نے اپنی بڑی سی گانڈ‬
‫عدیل کے سامنے کی۔۔۔۔۔۔ تو میرا خیال تھا کہ اب وہ ڈوگی سٹائل میں‬
‫اس کی چوت مارے گا لیکن اس کے برعکس عدیل نیچے‬
‫جھکا۔۔۔۔اور گوری کی گانڈ کے دونوں پٹ کھول کر اس نے ہول‬
‫(موری) پر تھوکا۔۔۔ اور اسے اچھی طرح پیسٹ کرنے کے بعد اس‬
‫نے اپنے لن پر بھی تھوک لگایا۔۔۔اور لن کا اگال سرا۔۔۔۔ گوری کی‬
‫موری پر رکھا۔۔۔اور ہلکا سا پُش کیا۔۔۔ اس کا لن بڑی آسانی سے‬
‫گوری کی گانڈ میں گھس گیا۔۔۔اس بات سے میں نے اندازہ لگایا کہ‬
‫گوری کو گانڈ مروانے کی بھی عادت ہے اگر ایسا نہ ہوتا تو عدیل‬
‫کا موٹا لن اس کی گانڈ پھاڑنے کے لیئے کافی تھا۔‬

‫پھر میں اپنے اس اندازے پر میں خود ہی ہنس پڑا۔۔۔ اور سوچنے لگا‬
‫کہ سیکسی لیڈی گانڈ نہیں مروائے گی ۔۔۔ تو اور کیا کرے گی؟۔۔۔۔‬
‫جبکہ دوسری طرف جیسے ہی عدیل کا موٹا لنڈ گوری کی گانڈ میں‬
‫گھسا۔۔۔۔ ۔۔۔۔تو اس نے خوشی سے ایک سسکی لی ۔۔۔اور لن کو گانڈ‬
‫میں لیئے یہی کہنے لگی۔۔۔ڈیپر۔۔۔لن کو۔۔۔ اور ۔۔۔اندر۔۔۔ ڈالو۔۔۔ اور‬
‫اندر۔۔۔ اپنے لن سے میری گانڈ کو بھر دو۔۔۔۔ پلیزززز۔۔۔ ۔۔ جبکہ عدیل‬
‫گور ی کی گانڈ مارتے ہوئے اس کی گانڈ پر تھپڑ بھی مار رہا‬
‫تھا۔۔جس کی وجہ سے گوری کی گانڈ خاصی الل ہو چکی تھی۔۔۔۔۔‬
‫جیسے ہی گوری کی گانڈ پر ایک زور دار تھپڑ ۔۔۔۔۔۔ لگنے کے ساتھ‬
‫۔۔۔۔زبردست گھسہ لگتا تو وہ چیخ اُٹھتی۔۔۔۔اوہ۔۔۔اوہ۔۔۔ اوں‬
‫۔۔اوں۔۔یس۔۔۔یس۔۔ ڈیپر۔۔۔ اور اندر۔۔ اور پھر وہ مست ہو کر خود ہی‬
‫آگے پیچھے ہونے لگی۔۔۔۔ ادھر کمرے سے دھپ دھپ کی دل کش‬
‫آوازیں آ رہی تھیں ۔۔۔۔ اور یہ منظر خاص کر گوری کا بے خود ہو‬
‫کر اپنی گانڈ پر ۔۔ آپ ہی تھپڑ مارنا ۔۔۔یا پھر دل کش آوازیں نکالتے‬
‫ہوئے خود ہی آگے پیچھے ہونا۔۔۔۔ یہ سب دیکھ کر میرا لن بے چین‬
‫ہو گیا۔۔۔ اور یہاں تک کہ مجھے ُمٹھ مارنے کی شدید حاجت محسوس‬
‫ہوئی۔۔۔لیکن اس کے ساتھ ساتھ میں گوری کی گانڈ چودائی کا یہ‬
‫منظر بھی نہ چھوڑنا چاہتا تھا۔۔۔ لیکن کب تک؟ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔آخر لن کے‬
‫مجبور کرنے پر ۔۔۔۔ میں نے ان کو ان کے حال پر چھوڑا۔۔۔۔اور خود‬
‫لن کو ہاتھ میں پکڑے۔۔۔۔۔عدیل کے ساتھ والے کمرے کی طرف چل‬
‫پڑا۔۔۔۔ کہ واش روم میں جا کر ُمٹھ ماروں۔۔۔ میں نے کمرے میں پہنچ‬
‫کر دیکھا تو واش روم کا دروازہ ہلکا سا کھال ہوا تھا۔۔۔۔ دروازے کا‬
‫ہینڈل گھما کر جیسے ہی میں واش روم میں داخل ہوا ۔۔۔تو اندر کا‬
‫منظر دیکھ کر میرے ہوش اُڑ گئے۔۔۔۔۔۔۔۔ کیا دیکھتا ہوں کہ صائمہ‬
‫باجی ٹائیلٹ (کموڈ) پر بیٹھی تھی ۔۔۔ان کی شلوار گھٹنوں سے نیچے‬
‫گری ہوئی تھی۔۔ جیسے ہی میں واش روم میں داخل ہوا ۔۔۔۔ تو مجھے‬
‫دیکھتے ہی ۔۔۔۔۔ صائمہ باجی ۔۔۔۔ ایک دم کموڈ سے اُٹھ کھڑی ہو‬
‫ئی۔۔۔۔۔۔۔اور ان کے کھڑے ہوتے ہی ۔۔۔ان کی پھدی سے صاف شفاف‬
‫پیشاب۔۔۔۔۔ جھرنے کی صورت میں بہنا شروع ہو گیا۔یہ دیکھ کر‬
‫انہوں نے جلدی سے اپنے دونوں ہاتھ پھدی کے آگے رکھ دیئے۔۔۔‬
‫لیکن پھر ہاتھوں پر پیشاب لگتے ہی اسی وقت ۔۔۔۔ وہاں سے ہٹا‬
‫لیئے۔۔۔۔۔ شاید انہیں بڑے زورون کا پیشاب لگا ہوا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے کہ‬
‫وہ چاہ کے بھی اپنے پیشاب کو کنٹرول نہ کر سکی تھی۔۔۔‬
‫پھر بھی انہوں نے کوشش کر کے ایک دفعہ اپنی پھدی کو سیکیڑا۔۔۔۔۔‬
‫لیکن اس کا نتیجہ یہ نکال۔۔۔ کہ ان کی پھدی سے نکلنے والے پانی‬
‫کی دھار کچھ باریک ہو گئی۔۔۔ لیکن ان کا پیشاب اسی طرح نکلتا‬
‫رہا۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر انہوں نے اپنی کوشش ترک کر دی۔۔۔۔ اور اپنی‬
‫ت حال یہ تھی‬ ‫چوت سے پیشاب کو بہنے دیا۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔چنانچہ اب صور ِ‬
‫کہ ان کی بنا بالوں والی پھدی سے پانی ۔۔۔۔ بصورت پیشاب نکل نکل‬
‫کر فرش پر بہہ رہا تھا۔۔۔۔ جس سے ان کی شلوار بھیگ رہی تھی۔۔۔۔‬
‫لیکن وہ بت بنی حیرت ۔۔۔۔تعجب۔۔۔۔۔اور بڑے اچھنبے سے میری‬
‫طرف دیکھ رہی تھیں۔۔۔۔ جبکہ میری نظریں اس کی خوبصورت‬
‫پھدی پر ٹکی ہوئیں تھیں۔۔۔۔ ۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے کسی خوب‬
‫صورت آبشار سے شفاف پانی گر رہا ہو۔۔۔۔اور میرے کانوں میں ان‬
‫کی پھدی سے نکلنے والے جھرنے کی دل آویز اور خوش نما آواز ۔‬
‫شر شرررررر ۔۔۔۔ کی آواز سنائی دے رہی تھی۔۔۔ جسے سنتے ہوئے‬
‫۔۔۔ کر میں بت بنا ان کی پھدی سے بہنے والی دلکش ساؤنڈ اور‬
‫شفاف پیشاب کو بہتے دیکھ رہا تھا۔۔۔۔۔ کہ اتنے میں۔۔۔۔۔‬

‫)قسط نمبر‪(6‬‬

‫میں بڑا ہی مست ہو کر باجی کی چوت سے نکلنے والے جھرنے کی‬


‫طرف دیکھ رہا تھا کہ اتنے میں باہر سے گھنٹی کی آواز سنائی دی ۔‬
‫گھنٹی کی آواز سنتے ہی باجی ایک دم اچھلی۔۔ جس کی وجہ سے‬
‫اس کی چوت سے نکلنے والی پیشاب کی دھار۔۔۔کموڈ میں گرنے کی‬
‫بجائے۔۔۔ فرش پر جا گری۔۔ لیکن وہ اس بات کو نظر انداز کرتے‬
‫ہوئے مجھ سے کہنے لگیں ۔۔ فورا ً یہاں سے نکلو۔۔ تو میں نے ان کی‬
‫خوب صورت چوت سے نکلنے والے پیشاب کی طرف اشارہ کرتے‬
‫ہوئے کہا کہ اتنے دل کش نظارے کو چھوڑ کر کوئی پاگل ہی یہاں‬
‫سے جائے گا ۔۔میری اس بات پر وہ مسکرا تے ہوئے بولی۔۔۔ یہ‬
‫نظارہ میں تمہیں بعد میں بھی دکھا دوں گی لیکن ابھی تم جاؤ۔۔ اس پر‬
‫میں نے ڈھیٹ عاشقوں کی طرح رومانس بھرے لہجے میں کہا ۔۔ آپ‬
‫کو چھوڑ کے جانے پر جی نہیں کر رہا ۔۔تو وہ مصنوعی غصے‬
‫سے کہنے لگیں ۔۔ دفع ہو جاؤ ۔۔ کہ تم سے ملنے فرزند نے آنا تھا۔۔۔‬
‫ہو سکتا ہے باہر وہی ہو۔۔۔ اس لیئے پلیز گو۔۔۔ باجی کی بات سن کر‬
‫مجھے بھی حاالت کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔۔ چنانچہ میں بنا کوئی‬
‫بات کیئے واش روم سے آ گیا۔۔۔ ۔۔ اور پھر ادھر ادھر دیکھتا ہوا ۔۔‬
‫ڈرائینگ روم میں پہنچ گیا۔۔۔ ۔۔۔ ابھی مجھے وہاں پر بیٹھے کچھ ہی‬
‫دیر ہوئی تھی کہ آنٹی ایک گورے چٹے ۔۔۔اور خوب صورت سے‬
‫شخص کے ساتھ ڈرائینگ روم میں داخل ہوئیں اس کی شکل ہو بہو‬
‫باجی کی ساس سے مل رہی تھی یا آپ یوں کہہ سکتے ہیں کہ آنے‬
‫واال شخص آنٹی کا مردانہ روپ تھا‪ .‬چنانچہ اسے دیکھتے ہی میں‬
‫سمجھ گیا تھا کہ یہ موصوف صائمہ باجی کا خاوند فرزند ہو گا ۔۔ ہاں‬
‫یاد آیا۔۔۔زنانہ شکل ہونے کے ساتھ ساتھ ‪.‬اس بندے کی چال میں بھی‬
‫تھوڑی نزاکت پائی جاتی تھی۔ ۔۔۔۔۔ اندر داخل ہوتے ہی آنٹی مجھ سے‬
‫مخاطب ہو کر بولیں ۔۔۔ ۔۔دیکھو بیٹا تو تم سے ملنے کون آیا ہے؟ پھر‬
‫اس کے بعد وہ اس گورے چٹے شخص کی طرف ُمڑیں۔۔۔اور اس‬
‫سے میرا تعارف کراتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ ۔۔۔اور یہ ہے میرا دوسرا‬
‫بیٹا شاہ۔۔۔ میں اس میں ۔۔۔۔۔اور عدیل میں کوئی فرق روا نہیں‬
‫رکھتی۔۔۔۔۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ اس مرد کو دیکھ‬
‫کر اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ یہ ذات شریف کون ہے۔۔۔ لیکن جان‬
‫بوجھ کر ڈرامہ کرتے ہوئے بوال۔۔ سوری آنٹی ۔۔ میں نے انہیں پہچانا‬
‫نہیں ۔۔ کون ہیں یہ؟ تو اس پر آنٹی کی بجائے وہ شخص اپنا ہاتھ‬
‫میری طرف بڑھاتے ہوئے بوال۔ کہ اس میں سوری کی کوئی بات‬
‫نہیں بھائی۔۔ ۔۔۔ وہ اس لیئے کہ ہم آج سے پہلے کبھی نہیں ملے۔ پھر‬
‫مجھ سے ہاتھ مالتے ہوئے بوال۔۔ میرا نام فرزند ہے۔۔ اور میں صائمہ‬
‫کا خاوند ہوں ۔۔ فرزند کا نام سنتے ہی میں بڑی گرم جوشی کا‬
‫مظاہرہ کرتے ہوئے بوال۔۔ آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی تو آگے‬
‫سے وہ کہنے لگا۔۔۔ یقین کرو شاہ جی۔۔اتنی خوشی آپ کو نہیں ہوئی‬
‫ہو گی جتنی آپ سے مل کر مجھے ہوئی ہے۔ ۔اس کے بعد وہ میرے‬
‫ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگا ۔ہمیں باتیں کرتے دیکھ کر آنٹی یہ کہتے‬
‫ہوئے باہر نکل گئیں کہ میں تم دونوں کے کھانے لیئے کچھ التی‬
‫ہوں۔۔فرزند کے ساتھ گفتگو کے دوران میں نے محسوس کیا کہ وہ‬
‫ایک پڑھا لکھا اور سلجھا ہوا آدمی تھا‬

‫لیکن اس کے ساتھ دوسری جو بات نوٹ کی وہ یہ تھی کہ چال کی‬


‫طرح اس کی گفتگو میں بھی ہلکی سی نزاکت پائی جاتی‬
‫تھی۔۔مجموعی طور پر وہ ایک اچھا آدمی تھا ہمیں باتیں کرتے ہوئے‬
‫تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ آنٹی کے ساتھ صائمہ باجی ٹرے میں‬
‫سامان خورد و نوش لیئے کمرے میں داخل ہوئیں ۔۔۔اور ہیلو ہائے‬
‫ِ‬
‫کے بعد ہمارے ساتھ ہی بیٹھ گئیں۔۔۔ کولڈ ڈرنک پیتے ہوئے فرزند‬
‫صاحب نے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگا بھائی میرے یہاں‬
‫آنے کے دو مقصد تھے ایک تو یہ کہ آپ کا شکریہ ادا کرنا تھا کہ‬
‫آپ کی وجہ سے ہمارا رکا ہو ا کام بہ آسانی ہو گیا ۔۔اور دوسرا جیسا‬
‫کہ آپ کو صائمہ نے بتایا ہو گا کہ کل ہمارے ہاں آپ کی دعوت ہے‬
‫تو اس کے لیئے میں خود بھی آپ سے درخواست کرنے آیا ہوں‬
‫فرزند کی درخواست والی بات سن کر میں نے بہت شرمندگی‬
‫ب ہدایت صائمہ باجی کے نمبر بناتے‬ ‫محسوس کی ۔۔۔ ۔۔ اور پھر حس ِ‬
‫ہوئے بوال کہ بھائی آپ نے ناحق زحمت کی ۔۔۔۔ میرے لیئے باجی کا‬
‫کہنا ہی کافی تھا ۔۔ میری بات سن کر سامنے بیٹھی باجی اور آنٹی‬
‫بہت خوش ہوئیں جبکہ میری بات سن کر فرزند کہنے لگا کہ وہ تو‬
‫سب ٹھیک ہے بھائی۔۔۔۔ لیکن میرا بھی تو کچھ فرض بنتا تھا نا ۔۔اسی‬
‫دوران عدیل اور گوری میم بھی کمرے میں داخل ہو گئے۔۔گوری کو‬
‫دیکھتے ہی جانے کیوں میری آنکھوں کے سامنے تھوڑی دیر پہلے‬
‫کا دیکھا ہوا۔۔۔۔ سیکس شو گھوم گیا ۔۔۔پھر سیکس شو کی یاد آتے ہی‬
‫مجھے اس گوری کی بہت موٹی ۔۔۔۔اور چوڑی سی گانڈ یاد آ گئی۔۔۔۔‬
‫۔جو کہ ابھی کچھ دیر ہی پہلے میں نے بلکل ننگی دیکھی تھی‬
‫چنانچہ گوری کی ننگی گانڈ یاد آتے ہی میں نے ۔۔۔۔۔۔ بڑی حسرت‬
‫سے سوچا کہ عدیل سالہ کتنا لکی ہے کہ جب چاہے اس گوری کی‬
‫موٹی بنڈ مار سکتا ہے ۔۔ پھر پتہ نہیں کیوں۔۔۔۔۔سالے سے میرا دھیان‬
‫صائمہ باجی کی طرف چال گیا۔۔۔اور پھر وہاں سے۔۔۔ہوتے ہوئے۔۔۔۔‬
‫میرا سارا دھیان ان کی ابھری ہوئی چوت ۔۔۔۔۔ اور اس میں سے‬
‫جھرنے کی صورت نکلنے والے پیشاب کی طرف چال گیا ۔۔ابھی میں‬
‫یہ سب سوچ ہی رہا تھا کہ میرے کان میں عدیل کی آواز گونجی ۔۔۔۔۔‬
‫وہ کہہ رہا تھا کہ کیا بات ہے بادشاہو! آج بڑے خاموش بیٹھے ہو‬
‫۔۔عدیل کی بات سن کر صائمہ باجی کہنے لگیں کہ شاہ جی اور‬
‫خاموش۔۔۔۔ یہ تو قیامت کی نشانی ہے بھائی۔۔ اور اس پر سب نے‬
‫قہقہہ لگا دیا۔‬

‫اسی دوران آنٹی نے کی آواز سنائی دی کہ کھانا ریڈی ہے سب لوگ‬


‫ڈائیننگ ٹیبل پر آ جاؤ ۔۔۔کھانا کھاتے ہوئے اچانک ہی فرزند عدیل‬
‫سے مخاطب ہو کر بوال۔۔۔۔ بھائی کل تمہارے دوست کی ہمارے ہاں‬
‫دعوت ہے اگر آپ بھی معہ بیگم کے شامل ہو جاؤ گے تو ہمیں بہت‬
‫خوشی ہو گی۔۔ فرزند کی بات سن کر عدیل بڑے ادب سے بوال۔۔۔‬
‫بھائی جان مجھے آپ کے ہاں آنے پہ کوئی اعتراض نہیں ۔۔ لیکن کل‬
‫میں اور بیگم ۔۔۔۔۔ایک نہایت ضروری کام سے کراچی جا رہیں‬
‫ہیں۔۔۔عدیل کی بات سن کر فرزند نے زیادہ زور نہیں دیا لیکن میرے‬
‫کان کھڑے ہو گئے کہ اس سلسلہ میں عدیل نے مجھ سے کوئی بات‬
‫نہ کی تھی۔۔خیر کھانا کھانے کے فورا ً بعد فرزند ایک بار پھر مجھے‬
‫آنے کی تاکید کرتے ہوئے وہاں سے چال گیا۔۔۔۔ اس جاتے ہی میں نے‬
‫عدیل سے کہا کہ یار تم نے بتایا ہی نہیں۔۔۔ کہ تم کراچی جا رہے‬
‫ہو۔۔۔ ۔۔۔ تو میری بات سن کر وہ کہنے لگا کہ بات یہ ہے بھائی جان‬
‫کہ خود مجھے بھی آج صبع ہی حکم مال ہے کہ میں معہ بیگم کے‬
‫کچھ دنوں کے لیئے ( اپنے رشتے داروں کے ہاں) کراچی اور پھر‬
‫الہور چال جاؤں تا کہ میرے پیچھے باجی کے الجھے ہوئے معامالت‬
‫سلجھ جائیں ۔۔۔ کچھ دیر مزید بیٹھنے کے بعد میں نے جب اس سے‬
‫اجازت لی۔۔۔ تو وہ مجھ سے گلے ملتے ہوئے بوال ۔۔ٹھیک ہے یار۔۔۔‬
‫مجھے بھی کچھ پیکنگ کرنی ہے۔۔۔ اس لیئے بائے۔۔۔ پھر جاتے وقت‬
‫میرا کندھا تھپتھپا کر بوال۔۔ تمہارا بہت بہت شکریہ! تو میں نے‬
‫حیران ہو کر اس سے پوچھا کہ کس بات کا شکریہ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو‬
‫آگے سے وہ تھوڑا جزباتی ہو کر بوال۔۔۔ کہ تمہاری وجہ سے آج‬
‫میری بہن کا گھر دوبارہ سے بس رہا ہے اس بات کا ۔۔۔۔پھر کہنے‬
‫لگا شاہ ۔۔۔شاید تم یقین نہ کرو کہ بھائی جان (فرزند ) کو یہاں دیکھ‬
‫کر مجھے کتنی خوشی ہوئی تھی۔۔۔۔ورنہ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ‬
‫مجھے یہاں آئے ہوئے اتنے زیادہ دن ہو گئے ہیں ۔۔۔ لیکن یہ‬
‫موصوف ایک دفعہ بھی مجھ سے ملنے نہیں آیا۔۔۔۔ بلکہ کچھ دن‬
‫پہلے تک یہ لوگ باجی کے ساتھ جو سلوک کر رہے تھے تم اچھی‬
‫طرح سے جانتے ہو۔۔۔۔ پھر باتیں کرتے کرتے ہم اکھٹے ہی ڈرائینگ‬
‫روم سے باہر نکلے۔۔۔۔اور وہ اپنے کمرے کی طرف اور میں باہر‬
‫کی طرف چل پڑا۔۔۔ ۔جبکہ گھر کے دوسرے لوگ ہم سے پہلے ہی‬
‫اپنے اپنے کمروں میں جا چکے تھے۔۔‬

‫باہر جانے کے لیئے میں گیلری سے گزر رہا تھا کہ سامنے سے‬
‫مجھے باجی صائمہ آتی ہوئی نظر آئیں۔۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگیں‬
‫اتنی جلدی کیوں جا رہے ہو؟ تو میں نے جواب دیا کہ اصل میں‬
‫عدیل لوگوں نے کچھ پیکنگ وغیرہ کرنی تھی اس لیئے میں جا رہا‬
‫ہوں ۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگیں اچھا یہ بتاؤ کہ تمہیں میرا میاں کیسا لگا‬
‫؟ تو میں نے ا ن کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ باجی آپ کا میاں‬
‫بہت اچھا اور ایک سلجھا ہوا شخص ہے ۔۔ لیکن ۔۔ اس کے ساتھ ساتھ‬
‫تھوڑا "لچکے سٹائل" بھی ہے میری بات سن کر باجی ہنس کر بولیں‬
‫۔ بڑا غضب مشاہدہ ہے تمہارا۔ پھر اس کے بعد کہنے لگیں ۔۔۔کہ جب‬
‫میرا میاں پیدا ہوا ۔۔۔۔۔ تو اس وقت ہمارے خاندان میں لڑکے کم اور‬
‫خواتین بہت زیادہ تھیں اور چونکہ میرے میاں کا سارا بچپن لیڈیز‬
‫کے درمیان ہی گزرا ہے ۔۔۔ اس لیئے اس میں بقول تمہارے ہلکی سی‬
‫" لچک " کا پایا جانا کوئی اچھنبے کی بات نہیں۔۔۔ ابھی ہم اسی طرح‬
‫کی باتیں کر رہے تھے کہ پیچھے سے عدیل آتا دکھائی دیا اور‬
‫ہمارے پاس ُرک کر بوال۔۔ ہاں جی سنائیں!۔۔۔ اسٹار پلس کی اگلی قسط‬
‫میں کیا ہونے جا رہا ہے؟ تو میری بجائے باجی جواب دیتے ہوئے‬
‫بولیں۔۔ ہم اس کی دوسری قسط پر ڈسکس کر رہے تھے۔۔۔۔ باجی کی‬
‫بات سن کر عدیل ہنس کر بوال۔۔ لگی رہو مائی ڈئیر سسٹر۔۔ لگی رہو‬
‫۔۔ پھر اچانک کہنے لگا ہاں یاد آیا وہ میری سفید شرٹ کہاں رکھی‬
‫ہے؟ تو آگے سے وہ کہنے لگیں کہ وہ تو کافی گندی ہو رہی تھی‬
‫اس لیئے میں نے اسے مشین میں ڈال دیا ہے۔ باجی کی بات سن کر‬
‫عدیل سر ہالتے ہوئے واپس ُمڑ گیا۔‬

‫عدیل کو جاتے دیکھ کر میں بھی باہر کی طرف چل پڑا ۔۔ گیلری‬


‫سے باہر آتے ہی میں نے باجی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ آپ‬
‫کو گوری کا شو کیسا لگا تھا؟ میری بات سن کر پہلے تو انہوں نے‬
‫چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا۔۔۔ پھر دبی دبی آواز میں کہنے‬
‫لگیں۔۔یقین کر میں ادھر جان بوجھ کر نہیں گئی تھی۔۔۔ ۔۔ بلکہ میں‬
‫کمرے کے سامنے سے گزر رہی تھی کہ اندر سے گوری کی‬
‫سسکی سنائی دی۔۔۔ اور اس سسکی کی آواز سن کر میں وہاں ُرک‬
‫گئی تھی۔۔ ۔۔اور پھر نا چاہتے ہوئے بھی ان کا شو دیکھنا شروع کر‬
‫دیا۔۔ تو اس پر میں نے ان سے پوچھا۔۔۔ آپ کو گوری کی پر فارمنس‬
‫کیسی لگی؟ تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔تم بتاؤ کہ‬
‫تم نے مجھ سے زیادہ دیر تک یہ شو دیکھا تھا۔۔۔۔ تو میں نے ان سے‬
‫کہا کہ باقی باتیں ایک طرف ۔۔ آپ کی بھابھی کی بیک سائیڈ بڑی‬
‫زبردست ہے۔۔۔۔ ۔۔۔ کیا کمال کی چیز ہے آپ کی بھابھی کے پاس۔۔‬
‫میری بات سن کر صائمہ باجی مسکرا تے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔یہ بات کر‬
‫کے تم مجھے کوئی پٹھان لگے ہو۔۔تو میں نے جواب دیتے ہوئے‬
‫کہا۔۔ آپ کی اطالع کے لیئے عرض ہے کہ چونکہ پٹھان لڑکوں کی‬
‫طرف راغب ہوتے ہیں۔۔۔۔اس لیئے وہ صرف لڑکا دیکھتے ہیں۔۔۔ اس‬
‫کی بیک سائیڈ نہیں۔۔۔۔ جبکہ اس کیس میں ہم لوگ عورت کی بیک‬
‫سائیڈ کو شوق سے دیکھتے ہیں بلکہ میرے جیسے بعض لوگ تو اس‬
‫چیز کے دیوانے ہوتے ہیں۔۔۔ ۔میری بات سن کر وہ دھیرے سے‬
‫مسکرائیں اور پھر مصنوعی شرمیلے پن سے کہنے لگیں ۔۔۔اس کا‬
‫مطلب یہ ہے کہ تم نے میری بھی بیک سائیڈ کو غور سے دیکھا ہو‬
‫گا؟؟۔۔ ان کی بات سن کر میں بڑے معنی خیز لہجے میں‬
‫بوال۔۔۔صرف بیک سائیڈ ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو آگے سے وہ بھی مسکرا تے‬
‫ہوئے بولیں۔۔ اوہ۔۔۔ سمجھ گئی۔۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫کہنے لگیں ۔۔ لیکن یار ایک گڑ بڑ ہو گئی۔۔ ۔۔ ان کی بات سن کر میں‬
‫چلتے چلتے رک گیا۔۔۔۔اور بڑی حیرانی سے بوال ۔۔۔کون سی گڑ بڑ۔۔‬
‫؟؟ تو وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بولی۔۔۔افسوس کہ تم نے‬
‫وہ چیز سب سے پہلے دیکھ لی ۔۔۔۔ جو کوئی بھی لڑکی اپنے بوائے‬
‫فرینڈ کو سب سے آخر میں دکھاتی ہے۔ ان کی بات سنتے ہی میری‬
‫آنکھوں کے سامنے ان کی بنا بالوں کے ابھری ہوئی چوت گھوم‬
‫گئی۔۔ جس میں جھرنے کی صورت پانی بہہ رہا تھا۔۔۔۔۔ ان کی خوب‬
‫صورت چوت کا تصور کرتے ہی ۔۔۔۔ میں نے جان بوجھ کر ایک‬
‫لمبی سی آہ بھری ۔۔۔اور پھر ان سے کہنے لگا۔۔۔ اُف۔ف۔ کیا دل کش‬
‫منظر تھا ۔۔ میری بات سن کر ان کے چہرے پر ایک رنگ سا آ‬
‫گیا۔۔۔۔۔اور وہ کہنے لگیں۔۔۔ تمہیں یہ منظر اچھا لگا؟ تو میں ان کو‬
‫جواب دیتے ہوئے بوال نہ صرف یہ کہ اچھا لگا بلکہ اس وقت تو‬
‫میرا جی چاہ رہا تھا کہ آگے بڑھ کر اتنی خوب صورت چیز کو چوم‬
‫لوں۔۔ میری بات سن کر وہ ۔۔۔ وہ تھوڑی مست ہو گئیں ۔۔۔۔اور پھر‬
‫معنی خیز لہجے میں بولیں ۔۔ میری وہ کون سی خوب صورت چیز‬
‫تھی جسے تم چومنا چاہ رہے تھے؟۔۔ان کے منہ سے یہ جملہ سن کر‬
‫۔۔۔۔ اچانک ہی مجھ پر شہوت کا حملہ ہو گیا ۔۔۔لیکن پھر بھی بات‬
‫کرنے سے پہلے میں نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔اور پھر‬
‫کہنے لگا ۔۔۔ آپ کی " وہ " والی خوب صورت چیز ۔۔۔تو آگے سے وہ‬
‫مزے لیتے ہوئے بولیں۔۔۔ یار میری اس "وہ والی چیز " کا کوئی نام‬
‫تو ہو گا نا۔۔۔ اس لیئے ۔۔۔ اس کا نام بتاؤ ۔۔۔کہ مجھے بھی پتہ چلے کہ‬
‫میرے پاس ایسی کون سی چیز خوب صورت چیز ہے۔۔جسے تم‬
‫چومنا چاہ رہے تھے۔۔۔ ان کی بات سن کر میں۔۔ میں سمجھ گیا۔۔۔ کہ‬
‫اندر سے وہ بھی گرم ہو گئیں ہیں۔۔۔۔ اس لیئے نے ادھر ادھر دیکھا‬
‫تو آس پاس کوئی نہ تھا ۔۔ چنانچہ میں آگے بڑھا اور ان کے نزدیک‬
‫ہو کر بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ خوب صورت چیز آپ کی " چوت " ہے۔ میرے‬
‫منہ سے چوت کا لفظ سنتے ہی۔۔۔۔ ہی ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔۔۔ اور‬
‫انہوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا پھر اپنے ہونٹوں پر زبان‬
‫پھیرتے ہوئے بولیں۔۔۔ تم عجیب بندے ہو۔۔ ابھی کچھ دیر پہلے تم کہہ‬
‫رہے تھے کہ تم بیک سائیڈ کے دیوانے ہو۔۔۔۔ اور اب مجھے بتا رہے‬
‫ہو کہ۔۔۔ تمہیں میری آگے والی چیز بہت پسند آئی ہے۔۔ ان کی بات‬
‫سن کر میں سمجھ گیا ۔۔۔ کہ میڈم شہوت میں ٹُن ہو چکی ہیں اور اب‬
‫مجھ سے سیکسی باتیں کر کے مزے لینا چاہتی ہیں۔۔۔۔چنانچہ یہ سوچ‬
‫کر۔۔۔ میں ان سے بوال۔۔۔ ایک بات کہوں؟۔۔ تو وہ اپنے ہونٹوں پر زبان‬
‫پھیرتے ہوئے بولیں ۔۔۔ جلدی کہو۔۔۔ اس پر میں ان کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے بے باقی سے بوال۔۔۔‬

‫دیکھنے میں اور ہاتھ پھیرنے میں عورت کی گانڈ بہت مزہ دیتی ہے‬
‫۔۔ جبکہ چودنے کے لیئے۔۔۔۔ چوت بہت ذبردست چیز ہے۔۔۔اور پھر‬
‫اپنے لہجے پر زور دیتے ہوئے بوال۔۔۔ اور چوت بھی۔۔۔۔ ایسی ۔۔۔۔‬
‫جیسی کہ آپ کی ہے۔۔۔ ڈبل روٹی کی طرح موٹی۔۔۔اور باہر کو نکلی‬
‫ہوئی۔۔۔ میری بات سن کر باجی کا رنگ کچھ مزید سرخ ہو گیا۔۔۔اور‬
‫میں نے واضع طور پر محسوس کر لیا کہ میری طرح وہ بھی پوری‬
‫زیر اثر آ چکی تھیں ۔۔۔ اس لیئے۔۔۔ جب وہ بولیں‬
‫طرح شہوت کے ِ‬
‫۔۔۔تو ان کے لہجے سے شہوت کی گرمی ٹپک رہی تھی ۔۔ وہ کہہ‬
‫رہیں تھیں۔۔ تم نے میری "آگے اور پیچھے والی چیز " کا ایکسرے‬
‫تو کر لیا۔۔۔ لیکن خود ابھی تک مجھے نہیں بتایا کہ ۔۔۔ تمہارا وہ "آلہ‬
‫" کہ جس کو لے کر تم نے مزے کرنا تھے۔۔۔۔ کیسا ہے؟ کس رنگ‬
‫کا ہے وغیرہ وغیرہ ۔۔۔تو میں نے ان سے کہا کہ آپ میرے لنڈ کی‬
‫بات کر رہی ہیں نا؟ ۔۔تو آگے سے وہ سر ہال کر بولی۔۔یس۔۔ اس پر‬
‫میں نے ایک نظر گیلری کی طرف دیکھا ۔۔اور پھر لن پر ہاتھ لگا کر‬
‫بوال۔۔۔ کچھ دیر پہلے آپ نے دیکھا تو تھا۔۔ اس پر وہ آہستہ سے‬
‫بولیں۔۔۔ ہاں میری نظر تو پڑی تھی۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔اس وقت اس نواب‬
‫صاحب کپڑے کے اندر ملبوس تھے۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔ تو میں نے ان کی‬
‫آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔آپ کو لن اچھا لگتا ہے؟ میری بات‬
‫سن کر وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولیں ۔۔۔ جس طرح تم‬
‫بوائز کو ہماری تین چیزیں بہت پسند ہوتیں ہیں ۔۔۔۔۔ تو میں ان کی بات‬
‫کاٹتے ہوئے بوال۔۔۔ وہ تین چیزیں کون سی ہیں ۔۔۔ نام بتائیں۔۔؟ تو وہ‬
‫دھیرے سے کہنے لگیں ۔۔۔ ان کے ناموں سے تم اچھی طرح واقف‬
‫ہو۔۔۔اس پر میں نے ان سے کہا کہ لیکن۔۔ باجی جی میں آپ کے منہ‬
‫سے سننا چاہتا ہوں۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک بار پھر اپنے‬
‫ہونٹوں پر زبان پھیری اور پھر۔۔۔۔ دھیرے سے کہنے لگیں۔۔۔ ان کے‬
‫نام چھاتیاں ۔۔۔ گانڈ اور چوت ہے۔۔ ان کے منہ سے اتنے ننگے نام‬
‫زیر اثر‬
‫سن کر مجھے نشہ سا ہو گیا۔۔۔ اور میں اسی نشے کے ِ‬
‫بوال۔۔۔۔ ۔۔۔ باجی پلیززززززززززززز۔۔۔ ایک دفعہ اور ان چیزوں کے‬
‫نام لو۔۔۔ تو وہ شہوت بھرے لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔۔ تم بوائز کو‬
‫لڑکیوں کی گانڈ ۔۔۔چھاتیاں اور چوت بہت پسند ہوتی ہے۔۔۔جبکہ ہم‬
‫لڑکیوں کے پاس دیکھنے کے لیئے بوائز کی صرف ایک ہی چیز‬
‫ہوتی ہے ۔۔۔ تو میں نے کہا۔۔ اس کا بھی کوئی نام ہو گا۔۔۔ تو اس بار‬
‫وہ بغیر ہچکچاہٹ شہوت سے بھر پور لہجے میں بولیں۔ ہاں اس کا‬
‫نام لن ہے جسے ابھی تم لنڈ کہہ رہے تھے۔۔۔۔۔اور یو ۔۔ نو اس لن یا‬
‫لنڈ کی ہم لڑکیاں بہت دیوانی ہوتی ہیں۔۔۔۔ ان کے منہ سے لن کا نام‬
‫سنتے ہی میرا نیم ُمرجھایا لن ۔۔۔۔ ایک دم سے جمپ مار کر کھڑا ہو‬
‫گیا۔۔۔ اور میں لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بوال۔۔۔ ۔ کیا آپ میرے لن‬
‫کو ننگا دیکھنا چاہتی ہو؟ میری بات سن کر انہوں نے بڑے غور‬
‫سے میرے لن کی طرف دیکھا اور اپنے سر کو ہال یا۔۔۔ ۔۔ لیکن منہ‬
‫سے کچھ نہیں بولیں۔۔اسی اثنا میں ان کے گھر کا گیٹ آ گیا۔ ان کے‬
‫گیٹ کے ساتھ ہی دھریک کے دو تین درخت ایک ساتھ لگے ہوئے‬
‫تھے اور ان درختوں کے درمیان ایک چھوٹا سا گیپ تھا چنانچہ میں‬
‫اس گیپ کی طرف یہ کہتے ہوئے طرف چلنے لگا کہ ۔۔۔۔ میں ابھی‬
‫آپ کو اپنا ننگا لن دکھاتا ہوں ۔۔ میری بات سن کر وہ ایک دم سے‬
‫گھبرا گئیں ۔۔۔اور تیز لہجے میں کہنے لگیں ۔۔ پاگل ہو گئے ہو کیا۔؟‬
‫تو میں نے ان سے کہا کہ آپ نے میرا لن نہیں دیکھنا؟ تو وہ خوف‬
‫زدہ لہجے میں بولیں۔۔ دیکھنا تو ہے لیکن ادھر نہیں۔۔ پھر مجھ سے‬
‫کہنے لگیں کہ اس سے پہلے کہ کوئی آ جائے ۔۔۔ برا ِہ مہربانی تم‬
‫یہاں سے تشریف لے جاؤ۔۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے درختوں کی‬
‫طرف جانا موقوف کیا ۔۔۔اور ۔اور پھر یہ کہتے ہوئے گیٹ سے باہر‬
‫نکل گیا کہ ایک دن میں آپ کو ضرور اپنا لن ضرور دکھاؤں گا۔۔۔‬

‫یہ اس سے اگلے دن کی بات ہے کہ ابھی میں آفس پہنچا ہی تھا کہ‬


‫آنٹی کا فون آ گیا کہنے لگیں ۔۔۔ بیٹا آپ کچھ دیر کے لیئے ہمارے‬
‫گھر نہیں آ سکتے ؟ ۔۔ تو میں حیران ہو کر بوال۔۔۔ آنٹی خیریت تو ہے‬
‫نا؟ تو آگے سے وہ جواب دیتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔ ہاں ہاں سب خیر ہی‬
‫ہے۔۔ پھر میں نے ان سے پوچھا کہ کیا عدیل چال گیا ؟ تو وہ‬
‫کہنے۔۔۔۔۔ ہاں بیٹا وہ تو رات کو ہی نائٹ کوچ سے نکل گیا تھا۔۔۔ اتنی‬
‫بات کرنے کے بعد وہ مزید کہنے۔۔۔ جیسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ‬
‫صائمہ کے سسرال میں آج رات تمہاری دعوت ہے اور اس دعوت‬
‫میں باقی کھانوں کے عالوہ۔۔کچھ کھانے تمہاری مرضی کے بنائے‬
‫جائیں گے اور یہ کھانا بنانے کی ذمہ داری صائمہ پر ڈالی گئی‬
‫ہے۔۔پھر ہنستے ہوئے بولیں ۔۔۔۔ مزے کی بات یہ ہے کہ صائمہ کو‬
‫پتہ ہی نہیں کہ تم کھانے میں کیا کیا چیز شوق سے کھاتے ہو۔۔تو میں‬
‫نے ان کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو مل جائے کھا لیتا ہوں۔۔۔۔۔اس‬
‫پر وہ میری بات کو ٹوکتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔ اتنی بات تو مجھے بھی‬
‫معلوم ہے لیکن بیٹا آپ کیا کیا چیز شوق سے کھاتے ہو کم از کم یہ‬
‫تو ہم لوگوں کو پتہ ہونا چاہیئے نا۔۔۔ اس لیئے تم کچھ دیر کے لیئے‬
‫گھر آ جاؤ تو میں نے ان کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس وقت میں‬
‫مصروف ہوں ایک گھنٹے تک گھر آ جاؤں گا میری بات سن کر آنٹی‬
‫کہنے لگیں ٹھیک ہے لیکن پلیزززززززز ۔۔ گھنٹے سے زیادہ لیٹ‬
‫نہ ہونا کہ صائمہ کو گھر بھی جانا ہو گا۔۔۔میں نے اوکے کہہ کر فون‬
‫کو بند کر دیا۔‬

‫ٹھیک سوا گھنٹے کے بعد میں ان کے گھر کے باہر کھڑا گھنٹی بجا‬
‫رہا تھا۔۔۔ میرے بیل کے جواب میں آنٹی نے دروازہ کھوال اور‬
‫مجھے دیکھ کر خوشی کا اظہار کرتے ہوئے بولیں۔۔۔ شکر ہے کہ تم‬
‫وقت پر آ گئے اور مجھے ساتھ لے کر ڈرائینگ روم میں آ گئیں۔۔‬
‫مجھے بیٹھنے کا کہہ کر خود باہر نکل گئیں۔۔۔ واپسی پر ان کے ہاتھ‬
‫میں کولڈ ڈرنک تھی اسے میری طرف بڑھاتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔‬
‫تم بوتل پیو ۔۔۔۔ اتنی دیر میں صائمہ نہا کر آتی ہے اتنا کہہ کر وہ‬
‫کمرے سے باہر نکل گئیں۔۔۔ میں بڑے دنوں سے یہ بات نوٹ کر رہا‬
‫تھا کہ لن ٹچ ہونے والے واقعہ کے بعد ۔۔۔ آنٹی میری طرف سے‬
‫کافی محتاط ہو گئیں تھیں۔۔۔۔۔۔۔ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ صائمہ‬
‫باجی کمرے میں داخل ہو گئیں ۔۔۔ اس وقت انہوں نے ہلکے سرخ‬
‫رنگ کا ٹائیٹ فٹنگ واال سوٹ پہنا ہوا تھا۔ اور یہ سوٹ اتنا ٹائیٹ تھا‬
‫کہ اس میں سے ان کا انگ انگ صاف نظر آ رہا تھا۔۔ اور اسی سوٹ‬
‫کی مناسبت سے انہوں نے ہونٹوں پر ہلکی سی سرخ سرخی بھی‬
‫لگائی ہوئی تھی ۔۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ گورے‬
‫رنگ پر لگی سرخ سرخی۔۔۔ میری جان کھینچ لیتی ہے۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ ان‬
‫کو اس حلیہ میں دیکھ کر ۔۔ میں آگے بڑھا۔۔۔اور ان کو دبوچ کر کس‬
‫کرنے ہی واال تھا ۔۔ کہ وہ اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ کر‬
‫بولیں۔۔۔۔شش۔۔ ڈیڈی گھر پر ہیں۔۔۔ یقین کرو دوستو ۔۔۔ ڈیدی کا نام‬
‫سنتے ہی میرے ٹٹے ہوائی ہو گئے ۔۔۔۔ اور ۔۔ ساری شہوت غائب ہو‬
‫گئی۔۔۔ اور میں منہ لٹکا کر۔۔۔۔ اچھے بچوں کی طرف صوفے پر بیٹھ‬
‫گیا۔۔ میری اس حالت کو دیکھ کر وہ مسکراتے ہوئے بولیں ۔۔۔ ڈیڈی‬
‫کے نام سے ۔۔۔ تمہاری بولتی کیوں بند ہو گئی ہے ؟؟؟۔۔۔ ۔۔۔‬

‫اس پر میں منہ بسور کے بوال۔۔ ۔۔۔ باجی آپ بڑی وہ ہو ۔۔ ڈیڈی کا نام‬
‫لے کر آپ نے میرے سارے موڈ کی ماں بہن ایک کر دی ہے ۔۔۔ ۔۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ ہنس کر بولیں۔۔۔ چل اب کام کی بات کرتے‬
‫ہیں اور اس کے ساتھ ہی مجھ سے کہنے لگیں اچھا یہ بتاؤ کہ تمہیں‬
‫کھانے میں کیا پسند ہے؟؟۔۔ تو میں نے ان کو اپنی پسند بات دی۔اس‬
‫کے بعد وہ مجھ سے مختلف کھانوں کے بارے میں ڈسکس کرنے‬
‫لگیں۔۔ کھانوں کے بارے میں ڈسکس کرنے کے بعد۔۔۔۔۔وہ مجھ سے‬
‫کہنے لگیں کہ باقی کے کھانے تو آنٹی نے بنائے ہوں گے۔۔۔ لیکن‬
‫تمہاری موسٹ فیورٹ ڈش میرے ذمے تھی۔۔۔ پھر میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔ اصل میں دعوت سے پہلے ہی ۔۔۔۔ میں نے‬
‫ان کو بتایا ہوا تھا کہ شروع سے ہی شاہ میرے ہاتھ کی بریانی بڑے‬
‫شوق سے کھاتا ہے تو اس پر آنٹی نے میری ڈیوٹی بریانی بنانے پر‬
‫لگائی تھی۔۔۔ لیکن مجھے اب پتہ چال ۔۔ کہ جناب کو تو بریانی ایک‬
‫آنکھ بھی نہیں بھاتی۔۔۔ اس کے بعد وہ مجھ سے کہنے لگیں۔۔۔ سو۔۔۔‬
‫میرے پیارے بھائی ۔۔۔ رات والی دعوت میں ۔۔۔ اپنی بڑی بہن کا مان‬
‫رکھنا اور ڈائینگ ٹیبل پر میری بنائی ہوئی بریانی کی خوب تعریف‬
‫کرنا ۔ اس پر میں نے ان پر احسان جتاتے ہوئے کہا۔۔۔ ٹھیک ہے‬
‫باجی جی ۔۔۔۔ تیری خاطر جہاں اتنے ڈرامے کیئے ہیں۔۔ وہاں ایک‬
‫ڈرامہ اور سہی۔۔۔ میری بات سن کر وہ اپنی جگہ سے اُٹھیں ۔۔۔ اور‬
‫میرے گال کو چوم کر بولی بھائی ہو تو ایسا۔۔جب وہ میرا گال‬
‫چومنے کے لیئے میری طرف آ رہیں تھیں۔۔۔ تو ایک دفعہ پھر میری‬
‫نظریں ان کے بہت زیادہ ٹائیٹ فٹنگ والے سوٹ اور خاص کر گلے‬
‫سے جھانکتی ان کی چھاتیوں کی طرف چال گیا۔۔۔۔ چنانچہ میرے گال‬
‫چومنے کے بعد جب وہ اپنی جگہ پر جا کر بیٹھ گئیں ۔۔۔ تو میں ان‬
‫سے بوال۔۔۔ ایک بات پوچھوں باجی ؟ تو وہ آنکھیں نکالتے ہوئے‬
‫بولیں ۔۔۔ ڈیدی ابھی گھر پر ہی ہیں۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ میں‬
‫ڈیڈی کے بارے میں نہیں ۔۔۔۔ بلکہ آپ سے پوچھنا چاہ رہا تھا کہ آپ‬
‫اس سوٹ میں کیسے گھسیں ؟ میری بات سن کر وہ قہقہہ لگاتے‬
‫ہوئے بولیں اچھا سوال ہے ۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے میری طرف‬
‫دیکھا اور پھر۔۔۔ کہنے لگیں۔۔۔ ۔۔۔ میرے پیارے شاہ جی ۔۔ شاید تمہیں‬
‫یاد ہو کہ شادی سے پہلے میں کافی لوز فٹنگ والے کپڑے پہنا کرتی‬
‫تھی۔۔ لیکن پھر شادی کے بعد ۔۔۔۔ میاں جی کے اصرار پر مجھے‬
‫ٹائیٹ فٹنگ والے کپڑے پہننے پڑے۔۔۔ تو اس پر میں نے انہیں آنکھ‬
‫مارتے ہوئے کہا ۔۔۔ پھر تو باجی جی۔۔ جس درزی نے ٹائیٹ فٹنگ‬
‫کپڑے سینے کے لیئے آپ کا ماپ لیا ہو گا ۔۔۔اس کی تو موجیں ہوں‬
‫گی۔۔ ۔۔ میری بات سن کر اچانک ہی ان کا چہرہ الل ہو گیا۔۔۔ اور وہ‬
‫بڑی ہی شوخی سے کہنے لگیں۔۔۔ تم ٹھیک کہتے ہو۔۔۔اس خانہ خراب‬
‫نے میرے جسم کا ناپ۔۔ لیتے ہوئے بھی۔۔۔۔۔اور پھر اس کے بعد بھی‬
‫بہت مزے کیئے۔۔۔ باجی کی بات سن کر میرے کان کھڑے ہو‬
‫گئے۔۔۔اور میرے اندر کا " شاہ سٹوری" انگڑائی لے کر اُٹھ بیٹھا۔۔۔‬
‫۔۔۔جبکہ دوسری طرف میں نے محسوس کیا کہ " بعد میں مزے لینے‬
‫والی بات" کر کے۔۔۔۔۔۔ باجی کچھ پریشان سی ہو گئیں تھیں۔۔۔۔(میرے‬
‫خیال میں یہ بات غیر ارادی طور پر ان کے منہ سے پھسل گئی‬
‫تھی۔۔) تب میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ۔۔ یہ سب‬
‫کیسے ہوا؟ ۔۔۔ ذرا تفصیل سے بتائیں تو وہ کہنے لگیں۔۔۔ سوری یار۔۔۔‬
‫میں پہلے ہی کچھ زیادہ بول گئی ہوں۔۔۔ اس لیئے پلیز ۔۔۔اس بات کو‬
‫جانے دو۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا اب جبکہ میرے اور آپ کے بیچ‬
‫کوئی پردہ نہ رہ گیا ہے۔۔۔ تو یہ واردات سنانے میں حرج کیا ہے؟‬
‫خیر مزید تھوڑی سی بحث و مباحثہ کے بعد جب انہوں نے محسوس‬
‫کیا کہ میں بنا سٹوری سنے ان کی جان نہیں چھوڑنے واال ۔۔۔۔ تو وہ‬
‫نیم رضا مندی سے کہنے لگیں۔۔ اچھا پہلے وعدہ کرو کہ میری اس‬
‫سٹوری کا کسی اور کے ساتھ تزکرہ نہیں کرو گے۔۔تو اس پر میں‬
‫نے جھٹ سے وعدہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ مجھے آپ کی قسم۔۔ میں‬
‫یہ سٹوری تو کیا ۔۔۔۔آپ کے ساتھ ساتھ بیتا ہوا ایک پل بھی۔۔۔۔ کسی‬
‫دوسرے کے ساتھ ہر گز شئیر نہیں کرو ں گا ۔ میرے منہ سے یہ‬
‫الفاظ سن کر وہ خاصی مطمئن ہو گئیں ۔۔۔۔چنانچہ انہیں مطمئن دیکھ‬
‫کر میں جلدی سے بوال ۔۔۔چلیں اب شروع ہو جائیں۔۔۔۔۔ میری بے تابی‬
‫کو دیکھ کر وہ تھوڑا سا مسکرائیں اور پھر کہنے لگیں ۔۔تم کیسے‬
‫بھائی ہو جو اپنی بہن کی " ٹھکائی " والی سٹوری سننا چاہتے ہو۔۔ تو‬
‫میں نے ان کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ باجی جی ہم ذرا ماڈرن‬
‫قسم ۔۔۔۔اور وکھری ٹائپ کے بھائی ہیں۔۔سو بہن کی " ٹھکائی" والی‬
‫سٹوری سننے کے ۔ بعد ۔۔۔ہم بھی اس کے ساتھ "چدائی" والی سٹوری‬
‫بنائیں گے۔۔۔۔۔ اس لیئے آپ فکر نہ کریں ۔۔۔اور سٹوری سنانا شروع‬
‫کریں۔۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ بڑے معنی خیز لہجے میں بولیں۔۔۔‬
‫اچھا ۔ تو تم کہانی سننے کے بعد۔۔۔۔ میرے ساتھ ایک اور کہانی بنانا‬
‫!چاہتے ہو۔۔۔ پھر مجھے آنکھ مارتے ہوئے بولیں۔۔۔ ۔۔تو سنو‬

‫یہ شادی سے دو ماہ بعد کی بات ہے۔۔ کہ فرزند کے ایک دوست کے‬
‫ہاں ہماری دعوت تھی اور اسی سلسلہ میں ۔۔۔ میں تیار ہو رہی تھی‬
‫کہ فرزند کمرے میں داخل ہوا۔ ۔۔۔۔۔اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے‬
‫لگا۔۔۔ کہ آج والی دعوت پہ کون سا سوٹ پہن رہی ہو ؟۔۔تو میں نے‬
‫ان سے کہا کہ جو آپ کہیں وہی سوٹ پہن لوں گی۔۔ تو وہ کہنے‬
‫لگے کہ مجھے معلوم ہے ڈارلنگ کہ تم جو بھی سوٹ پہنو گی تم پر‬
‫سج جائے گا۔ لیکن میں چاہتا ہوں کہ آج کی دعوت میں تم ٹائیٹ‬
‫فٹنگ والے کپڑے پہنو ۔ تو میں نے ان سے کہا کہ آئی ایم سوری‬
‫ڈارلنگ !۔۔ایسا تو میرے پاس ایک سوٹ بھی نہ ہے میری بات سن‬
‫کر فرزند کہنے لگا لیکن یار مجھے ٹائیٹ فٹنگ والے سوٹ بہت‬
‫پسند ہیں۔۔۔ میں چاہتا ہوں کہ جب تم میرے ٹائیٹ فٹنگ واال سوٹ پہن‬
‫کر کسی دعوت میں جاؤ۔۔۔۔تو لوگ تمہارے سیکسی جسم کو دیکھ کر‬
‫میری قسمت پر رشک کریں۔۔۔لیکن تم بتا رہی ہو کہ ایسا تمہارے‬
‫پاس کوئی سوٹ نہ ہے ۔۔۔۔۔۔ اس کے بعد کچھ دیر سوچنے کے‬
‫بعد۔۔۔وہ کہنے لگے۔۔۔۔۔ کہ چلو آج کے دن تم کوئی سا بھی سوٹ پہن‬
‫لو ۔ لیکن کل تمہیں میرے ساتھ درزی کے پاس جانا پڑے گا جو کہ‬
‫میری مرضی کا ناپ لے کر تمہارے سارے کپڑے ۔۔۔ میری پسند‬
‫کے مطابق کر دے گا۔۔۔ تو اس پر میں فرزند سے کہنے لگی۔۔ کہ‬
‫جان جی میرے پاس تو بہت زیادہ سوٹ ہیں ۔۔۔۔تو کیا وہ اتنے زیادہ‬
‫سوٹ ایک ساتھ ٹھیک کر دے گا؟ میری بات سن کر فرزند کہنے‬
‫لگے ۔۔اس کا باپ بھی کرے گا ۔۔۔کہ وہ میرے بچپن کا دوست ہے ۔۔‬
‫تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کہیں کالو درزی کی بات تو نہیں کر‬
‫رہے؟ تو وہ ہنس کر بولے کالو درزی تو وہ تب تھا کہ جب تمہاری‬
‫گلی میں اس کی چھوٹی سی دکان ہوا کرتی تھی۔۔۔۔ اب تو جان جی۔۔۔‬
‫اس نے صدر میں ٹیلرنگ کی بہت بڑی دکان کھول لی ہے جہاں پر‬
‫اس سے کینٹ کی وی آئی پی لیڈیز سوٹ سلواتیں ہیں۔۔۔ اور کالو کی‬
‫بجائے۔۔۔ سب اسی فیضی ٹیلر کے نام سے جانتی ہیں۔۔ (محلے دار‬
‫ہونے کی وجہ سے میں بھی کالو درزی سے اچھی طرح واقف‬
‫تھا۔۔وہ اتنا کاال تو نہ تھا لیکن پتہ نہیں لوگ اسے کالو درزی کیوں‬
‫کہتے تھے ۔۔ اور وہ اس نام سے چڑتا بھی بہت تھا۔۔۔ اس زمانے میں‬
‫بھی کالو درزی کی وجہ شہرت … اچھی سالئی۔۔۔ اور خواتین تھیں‬
‫‪..‬مشہور تھا کہ کالو درزی کے پاس کوئی گیڈر سنگھی ہے اسی‬
‫لیئے خواتین اس کے ساتھ دستی پھنس جاتیں تھیں اور جہاں تک‬
‫مجھے یاد ہے کہ وہ خود نہیں گیا تھا۔۔ بلکہ ایک خاتون کے ساتھ‬
‫ت غیر میں پکڑنے جانے کی وجہ سے اسے ڈھوک کھبہ چھوڑنا‬ ‫حال ِ‬
‫پڑا تھا۔۔۔لیکن میں نے بوجہ اس بات کا باجی سے تزکرہ نہیں کیا)۔۔‬

‫دوسری طرف باجی کہہ رہیں تھیں کہ ۔فرزند کی سارے کپڑے دینے‬
‫والی بات سن کر میں ان سے کہنے لگی کہ میرے خیال میں تو‬
‫سارے کپڑے ایک ساتھ لے جانا مناسب نہیں۔۔ میری بات سن کر وہ‬
‫کچھ سوچتے ہوئے بولے۔۔۔۔بات تو تمہاری بھی ٹھیک ہے ۔ چلو ایسا‬
‫کرتے ہیں کہ ہم اسے کچھ سوٹ کل دے دیں گے اور جب یہ سوٹ‬
‫ٹھیک کر دے گا تو باقی کے سوٹ ان کے ٹھیک ہونے کے بعد دے‬
‫دیں گے۔۔ اتفاق سے اگلے دن فرزند کو ایک نہایت ضروری کام پیش‬
‫آ گیا ۔لیکن اس کے باوجود بھی جب انہوں نے مجھے درزی کے ہاں‬
‫چلنے کے لیئے کہا ۔تو میں ان سے بولی۔ کہ ایسی بھی کیا جلدی ہے‬
‫ہم کپڑے کسی اور دن دے آئیں گے۔۔۔تو وہ کہنے لگے کہ اگال سارا‬
‫ہفتہ میں بہت بزی ہوں اس لیئے تم جلدی سے تیار ہو جاؤ کہ میرے‬
‫پاس تین چار گھنٹے ہیں اور ٹیلر کی شاپ پر ہمارے بمشکل دو‬
‫گھنٹے لگیں گے پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔ یقین کرو‬
‫ڈارلنگ مجھے تمہارے یہ لوز کپڑے ایک آنکھ بھی نہیں بھاتے‬
‫۔۔۔فرزند کے کہنے پر میں جلدی سے تیار ہو گئی۔۔۔اور کچھ کپڑے‬
‫بھی ساتھ رکھ لیئے۔۔ اور پھر فرزند مجھے ساتھ لے کر کالو سوری‬
‫فیضی کی ٹیلرنگ شاپ پہنچ گئے۔ ۔ ۔ چونکہ یہ صبع کا وقت تھا ۔‬
‫اس لیئے بازار ابھی تک پوری طرح سے کھال نہیں تھا۔۔ ہم جیسے‬
‫ہی اس کی دکان پر پہنچے تو کائنٹر پر فیضی بیٹھا تھا اور اس کے‬
‫ساتھ ایک چھوٹا سا لڑکا بھی تھا۔۔ ڈھوک کھبہ کے برعکس ۔۔۔اس کی‬
‫یہ والی دکان خاصی بڑی اور ماڈرن قسم کی تھی فرنٹ پر اس نے‬
‫شو روم بنایا ہوا تھا جہاں تیار شدہ کپڑے بڑی خوب صورتی کے‬
‫ساتھ ہینگر میں لٹکائے ہوئے تھے۔۔۔ جبکہ فیضی کے کاؤنٹر کے‬
‫ایک طرف ایک بڑا سا پردہ لگا ہوا تھا جہاں پر کہ وہ لیڈیز کا ناپ‬
‫لیا کرتا تھا۔۔ جبکہ سالئی کے لیئے دکان کے اوپر ایک بڑا سا حال‬
‫بنا تھا۔۔ جسے اپنی زبان میں وہ کارخانہ کہتا تھا۔۔ ۔۔جیسے ہی ہم‬
‫دکان میں داخل ہوئے تو فیضی اپنا کاؤنٹر چھوڑ کر ہماری طرف‬
‫بڑھا ۔۔۔اور پھر فرزند سے ہاتھ مالنے کے بعد ۔۔۔ اس نے میرے‬
‫سوٹوں واال شاپر کاؤنٹر پر رکھا۔۔۔۔۔۔۔اس کے بعد اس نے مجھے‬
‫سامنے پڑے صوفے پر بیٹھنے کو کہا۔۔ جبکہ فرزند کاؤنٹر کے پاس‬
‫ہی کھڑا رہا۔۔۔جیسے ہی میں تھری سیٹر صوفے پر بیٹھی۔۔ اسی وقت‬
‫فیضی میرے سامنے کھڑے ہو کر کہنے لگا ۔۔۔ شادی مبارک ہو‬
‫بھابھی۔۔ میں نے ولیمے والے دن بڑی کوشش کی کہ آپ کو بالمشافہ‬
‫مبارک باد ۔۔۔دوں ۔۔۔لیکن رش کی وجہ سے میں آپ تک نہ پہنچ سکا‬
‫۔۔ اس کے بعد اس نے مجھ سے گھر والوں کا حال احوال دریافت کیا‬
‫۔۔پھر فرزند کی طرف ُمڑ کر کہنے لگا ۔۔ ناشتے میں کیا لو گے؟ اس‬
‫پر فرزند بوال۔۔۔سوری یار ہم لوگ ناشتہ کر کے آئے ہیں ۔۔ ایسا کرو‬
‫کہ ہمارے لیئے کولڈ ڈرنک منگوا لو ۔۔۔ تو اس پر فیضی نے دکان پر‬
‫موجود ایک چھوٹے بچے کو پیسے دے کر کولڈ ڈرنک النے کو کہا‬
‫۔۔ اور پھر فرزند سے مخاطب ہو کر کچھ کہنے ہی واال تھا کہ فرزند‬
‫اس کی بات کو کاٹتے ہوئے بولے ۔۔۔۔۔یار وقت بہت کم ہے اس‬
‫لیئے۔۔۔اک منٹ میری بات سن لو۔۔۔ فرزند کی بات سن کر فیضی نے‬
‫ایک نظر میری طرف دیکھا اور ۔۔۔۔۔ پھر فرزند کے پاس جا کھڑا‬
‫ہوا۔۔ اور میں نے محسوس کیا کہ فرزند اسے کوئی بات سمجھا رہا‬
‫تھا۔۔۔۔ اسی اثنا میں بچہ کولڈ ڈرنک لے آیا ۔۔فرزند نے اس کے ہاتھ‬
‫سے ایک بوتل پکڑی ۔۔۔اور دوسری مجھے دینے کو کہا۔۔۔ ۔‬

‫ادھر میں نے بوتل ختم کی ہی تھی کہ۔۔۔اسی وقت فیضی میرے پاس آ‬
‫کر بوال ۔۔۔ بھابھی زرا پردے کے پیچھے آ جائیں ۔۔۔۔ مجھے آپ کا‬
‫ناپ لینا ہے اس کے ہاتھ میں ایک موٹا سا رجسٹر ۔۔۔۔ اور کندھوں پر‬
‫ناپ لینے واال فیتہ پڑا ہوا تھا۔۔۔۔ فیضی کی بات سن کر میں نے ایک‬
‫نظر فرزند کی طرف ڈالی۔۔۔۔ تو اس نے ہلکا سا اشارہ کر کے مجھے‬
‫جانے کے لیئے کہہ دیا۔۔ چنانچہ فرزند کی اجازت پاتے ہی میں اپنی‬
‫جگہ سے اُٹھی اور فیضی کے ساتھ پردہ کے پیچھے چلی گئی ۔۔۔ یہ‬
‫ایک ُمستطیل نما تنگ سی جگہ تھی اس کے ایک طرف لمبا سا‬
‫سٹول پڑا تھا اندر جاتے ہی فیضی نے رجسٹر کا ایک صفحہ کھوال ا‬
‫ور اسے سٹول پر رکھ دیا ۔۔۔ اور پھر میری طرف متوجہ ہوا۔۔۔وہ‬
‫مستطیل نما جگہ اتنی تنگ تھی ۔۔۔ کہ جس جگہ میں کھڑی تھی۔۔۔‬
‫وہاں سے فیضی اور میرا درمیانی فاصلہ چند ہی سینٹی میٹر کا ہو‬
‫گا۔۔۔۔ اسی دوران فیضی ایک قدم آگے بڑھ کر۔۔۔بوال کہ بھابھی جی‬
‫ناپ دینے سے پہلے اپنا دوپٹہ اتار دیں۔۔ اتنا کہتے ہی اس نے خود‬
‫ہی میرے سینے سے دوپٹہ ہٹا کر اسے بھی سٹول پر رکھ دیا ۔۔۔۔‬
‫جبکہ دوپٹہ اتارتے وقت اس نے بڑی ہی چاالکی کے ساتھ۔۔۔لیکن‬
‫بظاہر انجانے میں۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اپنے ہاتھ کو آہستگی کے ساتھ۔۔۔۔میری‬
‫چھاتیوں کے ساتھ ٹچ کر دیا تھا ۔۔۔ ۔۔۔۔ میں اس کی حرکت کو سمجھ‬
‫تو گئی تھی لیکن ُچپ رہی۔۔۔ دوپٹہ اتارنے کے بعد اس نے اپنے گلے‬
‫میں ڈالے ہوئے فیتے کو اتارا ۔۔۔اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫سرسری سے لہجے میں بوال۔۔۔۔۔۔۔کیا آپ کو معلوم ہے کہ فرزند مجھ‬
‫سے کیا کہہ رہا تھا ؟ ۔۔۔گو کہ مجھے اس بات کا اچھی طرح سے‬
‫اندازہ تھا کہ فرزند نے اسے کیا کہا ہو گا ۔۔۔۔ لیکن پھر بھی تجسس‬
‫کے ہاتھوں مجبور کر اس سے پوچھ بیٹھی ۔۔۔۔ کہ کیا کہہ رہے تھے‬
‫وہَ ؟؟؟؟؟؟؟؟ میرا سوال سن کر اس کے ہونٹوں پر ایک پراسرار سی‬
‫مسکراہٹ آ گئی اور وہ کہنے لگا کہ اس نے بڑی سختی سے ہدایت‬
‫دی ہے کہ آپ کے کپڑوں کو اتنا ٹائیٹ سینا ہے کہ جس کی وجہ‬
‫سے آپ کا یہ خوبصورت جسم کچھ اس طرح سے نمایاں ہو جائے‬
‫کہ جو بھی دیکھے۔۔۔۔۔ بس دیکھتا ہی رہ جائے۔ اتنی بات کرنے کے‬
‫بعد اس نے میری طرف دیکھا اور پھر معنی خیز لہجے بوال۔۔ آپ کیا‬
‫کہتی ہو؟ تو میں نے اس سے کہہ دیا کہ جیسے میرے میاں کہتے‬
‫ہیں ویسے ہی کریں۔۔ میری بات سن کر اس کے چہرے پر ایک‬
‫شیطانی سی مسکراہٹ آ گئی۔۔۔۔اور وہ کہنے لگا۔ ۔۔۔ آئی ایم سوری‬
‫بھابھی۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اس قسم کے کپڑے ( ٹائیٹ فٹنگ ) سینے کے لیئے‬
‫آپ کا اسپیشل ناپ لینا پڑے گا۔۔ اس دوران اگر کچھ برا لگے تو‬
‫پلیززز۔۔ اگنور کر دیجئے گا۔‬

‫اس کے بعد اس نے فیتہ میری گدی ( جہاں گردن کندھے سے ملتی‬


‫ہے) پر رکھا۔۔۔ اور اس کا ناپ لیا ۔اور اسے رجسٹر پر درج کرنے‬
‫کے بعد۔۔پھر اس نے میرے بازؤں کا ناپ لینے کے لیئے میرے‬
‫کندھوں پر فیتہ رکھا اور میری کالئی کی طرف لے جاتے ہوئے ۔۔۔۔‬
‫دھیرے سے بوال۔۔آج کل فاخرہ کہاں ہوتی ہے؟ فاخرہ کا نام سنتے ہی‬
‫میرے اندر ایک ہلچل سی مچ گئی۔۔۔۔۔اور میں بڑی مشکل سے خود‬
‫پر قابو پاتے ہوئے بولی ۔ جی اس کی شادی ہو گئی تھی اور اب وہ‬
‫الہور میں ہی رہتی ہے بات دراصل یہ تھی کہ فاخرہ مجھ سے بڑی‬
‫ہونے کے باوجود بھی میری بہت اچھی دوست اور ہمسائی تھی۔۔‬
‫میری طرح وہ بھی ہر وقت سیکس کی آگ میں جلتی رہتی تھی‬
‫میرے اور اس میں فرق صرف اتنا تھا کہ وہ بہت بولڈ تھی۔۔ جبکہ‬
‫اس سلسلہ میں ۔۔ میں بولڈ ہونے کے ساتھ ساتھ (منگی شد ہ ہونے کی‬
‫وجہ سے) بہت ہی زیادہ محتاط تھی فیضی فاخرہ کا ا س لیئے پوچھ‬
‫رہا تھا کہ۔۔۔۔ وہ اس کے ساتھ اچھی خاصی سیٹ تھی اور ایک دو‬
‫دفعہ میں بھی اس کے ساتھ فیضی کی دکان پر کپڑے دینے گئی تھی‬
‫اس دکان میں بھی اس نے لیڈیز کا ناپ لینے کے لیئے۔۔۔۔ ایک الگ‬
‫سے جگہ بنائی ہوئی تھی ۔۔۔ جہاں ناپ لینے کے بہانے وہ اکثر ۔۔۔۔‬
‫اس کے ساتھ کسنگ کیا کرتی تھی۔اور ایک آدھ بار یہ واردات میری‬
‫موجودگی میں بھی ہو چکی تھی۔۔اس زمانے میں کسنگ کی‬
‫مخصوص ۔۔ پوچ ۔۔۔پوچ ۔۔ کی آوازیں سن کر مجھے یاد ہے کہ میں‬
‫بہت گرم ہو گئی تھی۔۔۔۔جس کی وجہ سے۔۔۔۔ میں تھوڑی سی لیک‬
‫بھی ہو گئی تھی۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔ ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ۔۔میرا ناپ لینے‬
‫کے ساتھ ساتھ وہ نان سٹاپ بولے جا رہا تھا۔۔۔ایک بات ماننی پڑے‬
‫گی۔۔۔ کہ فیضی کو باتیں کرنے کا ڈھنگ خوب آتا تھا ۔۔۔ یہاں تک کہ‬
‫وہ گاہے گاہے۔۔۔ بڑے ہی پر اثر انداز میں ۔۔۔۔۔میرے جسم کے نشیب‬
‫و فراز کے بارے میں بڑے ہی مہذب لیکن۔۔۔ درپردہ۔۔۔ شہوت انگیز‬
‫تبصرہ بھی کر تا جا رہا تھا۔۔ ۔۔۔۔ جانے اس کی زبان میں کیا تاثیر‬
‫تھی کہ مجھے ۔۔۔اس کی ایسی باتیں بہت اچھی لگ رہیں تھی۔۔۔۔‬
‫دوسری طرف میرے بازو کا ناپ لینے کے بعد۔ اس نے میری‬
‫جیسٹ کا ناپ لیا (چھاتی کے سامنے دونوں کندھوں کے درمیان واال‬
‫حصہ جسیٹ کہالتا ہے )۔اس کے بعد وہ میری بھاری چھاتیوں کو‬
‫گھورتے ہوئے بوال۔۔بھابھی اب مجھے آپ کی بسٹ کا ناپ لینا ہے‬
‫(سینے کے ابھار کی نوک جہاں سے جہاں سے پلیٹ شروع ہوتی‬
‫ہے بسٹ پوائینٹ کہالتا ہے) اور مجھے فیتہ پکڑاتے ہوئے بوال۔۔۔‬
‫اسے اپنے ابھار پر رکھیئے۔۔ میں نے اس سے فیتہ پکڑا اور اپنی‬
‫چھاتیوں پر رکھ دیا ۔۔یہ دیکھ کر وہ کہنے لگا۔۔ ۔۔اوہو بھابھی ۔۔آپ‬
‫نے فیتہ غلط جگہ پر رکھ دیا ہے اور پھر فیتے کو پکڑ کر اس کے‬
‫ایک سرے کو عین میرے نپلز پر رکھ کر بوال۔۔ ۔ کہ۔۔آپ کو معلوم‬
‫ہے نا کہ آپ کے میاں نے خاص طور پر ان کی اُٹھان کے بارے‬
‫میں خصوصی ہدایات دیں ہیں ۔۔یہ کہتے ہوئے اس نے فیتے کے‬
‫دوسرے سرے کو میری چھاتییوں کے دونوں نپلز کے عین اوپر رکھ‬
‫دیا۔۔ ۔۔‬
‫اور پھر دونوں نپلز کو ہلکا سا دبا کر بوال۔ ۔آپ کی پیمائش تو بہت‬
‫ہی شاندار ہے ۔۔اس کے بعد اس نے میرے فرنٹ کا ناپ لیا۔۔۔پھر اسی‬
‫طرح باتیں کرتے کرتے وہ فیتے کو میری کمر کے پیچھے لے گیا‬
‫اور پُر اثر لہجے میں بوال۔۔۔ ویسے بھابھی جی۔۔۔ کہہ تو وہ ٹھیک ہی‬
‫رہا ہے جیسا عالی شان ۔۔۔۔۔ مال ( میری چھاتیاں) آپ کے پاس ہے‬
‫میرے خیال میں بالی ووڈ تو کیا ہالی ووڈ میں بھی شاید ہی کسی‬
‫اداکار ہ کے پاس ایسا ہو ۔۔۔۔۔۔۔ ۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکی ہوں‬
‫کہ وہ جگہ بہت تنگ تھی چنانچہ کمر کا ناپ لینے کے بہانے ۔۔۔۔۔ وہ‬
‫بلکل غیر محسوس طریقے سے ۔۔۔۔ میرے اور قریب آ گیا۔۔اتنے‬
‫قریب کہ اس کے جسم سے نکلنے والی۔۔۔۔ مخصوص قسم کی مردانہ‬
‫مہک میرے نتھوں میں گھسنے لگی۔۔۔۔جسے سونگھتے ہوئے میں ۔۔۔‬
‫من ہی من میں گھائل ہونا شروع ہو گئی۔۔۔ ۔۔اس عجیب یا سیکسی‬
‫بو۔۔۔یا مہک کے ساتھ ساتھ ۔ فیضی کے جسم سے نکلنے والی ۔۔۔۔۔‬
‫گرمی اور شہوت کی ملی جلی لہریں ۔۔۔ بھی میرے بدن میں سمانا‬
‫شروع ہو گئیں تھیں ۔۔اس سے قبل اپنی چرب زبانی سے ۔۔۔۔ اور اب‬
‫میرے قریب آ کر ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ فیضی نے ایک منٹ میں ہی میرے اندر کی‬
‫وہ ساری فیلنگ ۔۔ دوبارہ سے جگا دیں تھیں ۔ ۔۔۔۔ جو کہ شادی کے‬
‫بعد کہیں ۔۔ سو گئیں تھیں۔۔۔ دوسری طرف ۔۔۔فیضی نے میری کمر‬
‫کے پیچھے فیتہ رکھا اور میری بیک کا ناپ لینے کے بہانے میری‬
‫کمر کو اپنی طرف ہلکا سا پش کیا۔۔۔ چونکہ میرے لیئے اس کا یہ‬
‫اقدام بلکل غیر متوقع تھا اس لیئے ناپ لیتے ہوئے ۔۔۔ جیسے ہی اس‬
‫نے مجھے اپنی طرف پش کیا میں سیدھی ۔۔۔ اس کے سینے سے جا‬
‫لگی۔۔ ایک لمحے کے لیئے میری چھاتیوں ۔۔۔اس کے فراخ سینے‬
‫کے ساتھ دب سی گئیں۔۔ ۔۔ اس کے سینے سے لگتے ہی میں ایک‬
‫جھٹکے سے پیچھے ہٹ گئی۔۔تو وہ معذرت کرتے ہوئے بوال‬
‫۔۔۔سوری بھابھی جی۔۔ جگہ تنگ ہونے کی وجہ سے ایسا ہو گیا۔ اس‬
‫کے تھوڑی دیر بعد ۔۔۔۔ اس نے یہی طریقہ آزماتے ہوئے ۔۔۔۔ ایک‬
‫دفعہ پھر مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔۔۔۔ اور اس بار۔۔۔پہلے کے‬
‫مقابلے میں۔۔۔۔۔اس سینے سے لگانے کا دورانیہ کچھ زیادہ تھا۔۔۔۔ اس‬
‫کے عالوہ ناپ لیتے ہوئے۔۔۔ اس نے میری بھاری چھایتوں پر بھی‬
‫ایک دو دفعہ ہاتھ بھی لگایا ۔۔۔ اس کی معنی خیز باتوں اور میرے‬
‫ساتھ کی گئی حرکات سے آہستہ آہستہ ۔۔۔۔میں بھی گرم ہونا شروع ہو‬
‫گئی۔ ۔ اور شادی کے بعد پہلی دفعہ میں کسی غیر مرد کے لیئے گرم‬
‫ہو رہی تھی۔۔اوپری بدن کا ناپ لینے کے بعد وہ شلوار کا ناپ لینے‬
‫کی غرض سے اکڑوں بیٹھ کر کہنے لگا۔۔۔ بھابھی جی۔۔۔اپنے دامن‬
‫کو تھوڑا اوپر کریں۔۔۔ اور میں نے بنا چوں و چرا اپنی قمیض کا‬
‫دامن اوپر کر لیا۔۔۔ میرے ننگے پیٹ پر نگاہ پڑتے ہی ایک لمحے‬
‫کے لیئے۔۔۔۔اس کی آنکھوں میں شہوت کے آثار نظر آئے۔۔۔ ۔۔۔لیکن‬
‫اگلے ہی لمحے وہ نارمل ہو گیا۔۔۔اور فیتے کو میری طرف بڑھاتے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔۔ ہپس کی جس جگہ پر آپ شلوار پہنتی ہو اسے وہاں‬
‫رکھ لیں۔۔۔۔اور میں نے اس کے ہاتھ سے فیتہ پکڑا۔۔ ۔۔اور اپنے ہپس‬
‫کی متعلقہ جگہ پر رکھ دیا ۔ اس نے ایک نظر میرے ننگے پیٹ کی‬
‫طرف دیکھا اور پھر فیتے کو میرے ٹخنو ں سے اوپر لے جا کر‬
‫بوال۔۔۔۔ شلوار یہاں تک ٹھیک رہے گی۔۔۔ جب میں نے ہاں کر دی تو‬
‫اس نے میری ہپس پر رکھے فیتے کو پکڑنے کے بہانے بڑی‬
‫مہارت کے ساتھ میری ریشمی رانوں پر ہاتھ پھیر کر کہنے لگا کہ‬
‫اب آپ کی ا رؤنڈ تھائی کا ناپ لینا ہے اس کے ساتھ ہی وہ اپنے‬
‫فیتے کو میری رانوں تک لے گیا۔۔ ادھر جیسے ہی اس کا ہاتھ میری‬
‫ریشمی ران کے ساتھ ٹچ ہوا تو اسی وقت میری چوت میں ہلکی سی‬
‫سرسراہٹ سی ہونے لگی ۔۔ دوسری طرف اس نے بھی موقعہ کو‬
‫ضائع نہیں کیا ۔۔اور ارؤنڈ تھائی کے ناپ کے بہانے باری باری‬
‫دونوں رانوں پر دو تین دفعہ ہاتھ پھیرا۔۔چوت کے اتنے قریب ہاتھ‬
‫پھیرنے کی وجہ سے اس میں سننساہٹ سی ہونے لگی ۔۔ اس طرح‬
‫وہ میرا ناپ کم اور جسم زیادہ ٹٹولتا رہا۔۔جسے میں نے خوب‬
‫انجوائے کیا۔۔۔ لیکن منہ سے کچھ نہ بولی۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ جب میرا ناپ‬
‫فائینل ہو گیا۔۔ تو ایک لمحے کے لیئے ہم دونوں کی نظریں چار‬
‫ہوئیں ۔۔ہم دونوں کی آنکھوں میں ایک دوسرے کے لیئے جنسی طلب‬
‫تیر رہی ۔۔ ۔۔۔ ہم دونوں نے اس طلب یا ایک دوسرے کے لیئے جنسی‬
‫بھوک کو نوٹ کیا ۔۔۔لیکن۔۔۔۔ بوجہ ہم دونوں ہی چپ رہے۔۔۔۔وہاں سے‬
‫نکلتے وقت اس نے۔۔۔۔ بس اتنا کہا کہ ۔۔۔ ۔۔۔۔ شکریہ بھابھی۔۔۔پھر ملیں‬
‫گے۔۔ اس کے ساتھ ہی ہم دونوں پردے سے باہر آ گئے۔۔۔گاڑی میں‬
‫بیٹھتے ہوئے فرزند کہنے لگے کہ دیکھنا ڈارلنگ فیضی تمہارے‬
‫سوٹوں کو ایسا فٹ کر دے گا کہ انہیں پہن کر تم خود بھی حیران رہ‬
‫جاؤ گی۔۔ دوسری طرف میں فیضی کے بارے میں سوچ رہی تھی کہ‬
‫پتہ نہیں اس گہرے سانولے آدمی کے پاس ایسا کون سا جادو تھا کہ‬
‫نئی نئی۔۔۔ شادی ہونے کے باوجود بھی۔۔۔ ۔۔۔میں اس پر گرم ہو گئی‬
‫تھی۔۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی میں نے خارش کے بہانے اپنی چوت چیک‬
‫کی۔۔۔ تو وہ گیلی ہو رہی تھی۔۔۔‬

‫یہ اس واقعہ سے تیسرے دن کی بات ہے کہ میں اور فرزند ناشتہ کر‬


‫رہے تھے کہ اچانک اس کے فون کی گھنٹی بجی۔۔۔گھنٹی کی آواز‬
‫سنتے ہی فرزند ناگواری سے بوال۔۔ صبع صبع کس کا فون آ گیا اور‬
‫پھر ۔۔ سکرین کو دیکھے بغیر ہی ہیلو کہا ۔۔۔ …رسمی جملوں کے‬
‫بعد۔۔۔۔ پتہ نہیں دوسری طرف کیا کہا گیا کہ اچانک ہی فرزند افسوس‬
‫بھرے لہجے میں کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ اوہو یہ تو بہت برا ہوا۔۔ پھر کہنے‬
‫لگا یار آج کل میں بہت مصروف ہوں۔۔ پھر دوسری طرف سے بات‬
‫سن کر بوال۔۔۔۔ نہیں یار ۔۔۔ مجھے آج شام تک کم از کم ایک سوٹ ہر‬
‫صورت چاہیئے کہ کل بیگم کو لے کر ایک فنگشن پر جانا ہے۔۔۔۔‬
‫پھر کچھ دیر کی بحث و مباحثہ کے بعد کہنے لگا یار تو بڑا بہن چود‬
‫ہے… اوکے… میں اسے لے کر ابھی آ رہا ہوں۔۔۔۔فون بند کرنے‬
‫کے بعد اس سے پہلے کہ میں اس سے کچھ پوچھتی ۔۔۔ وہ خود ہی‬
‫کہنے لگا یار جلدی سے تیار ہو جاؤ کہ ہم نے فیضی کی دکان پر‬
‫جانا ہے۔۔۔۔۔ فرزند کے منہ سے فیضی کا نام سن کر میرے جسم میں‬
‫ایک کرنٹ سا دوڑ گیا۔۔۔۔ لیکن بظاہر چپ رہی۔۔۔ اور پھر ایسے ہی‬
‫بنتے ہوئے بولی۔۔۔ مجھے وہاں جا کر کیا کرنا ہے آپ خود ہی کپڑے‬
‫لے آؤ نا۔۔۔ تو آگے سے فیضی جواب دیتے ہوئے بوال ۔۔۔ اصل میں‬
‫رجسٹر کے جس صفحے پر تمہار ا ناپ لکھا ہوا تھا کل شام جب‬
‫تمہارے سوٹ ٹھیک کرنے کے لیئے اس نے رجسٹر کے ناپ واال‬
‫صفحہ کھوال ۔۔۔تو کسی وجہ سے اس پر چائے گر گئی اور اس طرح‬
‫تمہارا دیا ہوا ناپ ضائع ہو گیا ہے ۔۔۔اسی لیئے فیضی نے فون کر‬
‫کے پہلے تو مجھ سے معذرت کی ہے ۔۔۔اور اس کے بعد تمہارے‬
‫فریش ناپ کے لیئے بھی بوال ۔۔ ناپ کی بات سن کر ۔۔۔۔پتہ نہیں کیوں‬
‫میرے اندر ایک عجیب سی گرمی دوڑ گئی۔۔۔ ۔۔اور آنے والے وقت‬
‫کا تصور کرتے ۔۔۔۔ ہوئے ۔۔ میری چوت نے جوش مارنا شروع کر‬
‫دیا۔۔۔۔ چنانچہ میں نے فرزند سے کہا کہ تم ناشتہ کرو میں تیار ہو کر‬
‫آ تی ہوں ۔۔۔ کپڑے پہنتے وقت میں نے جان بوجھ کر قمیض کے‬
‫نیچے ٹائیٹس پہن لی تھی۔۔ ناشتہ کرتے ہی ہم لوگ بھاگم بھاگ فیضی‬
‫کی دکان پہ جا پہنچے۔۔ تو دکان کے سامنے ایک بڑی سی گاڑی‬
‫کھڑی تھی۔۔‬
‫اندر جا کر دیکھا تو صوفے پر ایک ساتھ تین خواتین بیٹھیں تھیں ۔۔‬
‫جبکہ فیضی کمرے میں موجود نہ تھا۔۔۔ ہمارے پوچھنے سے پہلے‬
‫ہی فیضی کا "چھوٹو" جو کہ فرزند کو اچھی طرح سے جانتا تھا۔‬
‫کہنے لگا کچھ دیر انتظار کریں ۔۔۔کہ استاد اندر ناپ لے رہے ہیں۔۔ ۔۔۔‬
‫کوئی چار منٹ کے بعد جب فیضی ناپ والے کمرے سے باہر آیا تو‬
‫میں نے ناپ دینے والی عورت کی طرف غور سے دیکھا۔۔۔تو اس کا‬
‫چہرہ کافی سرخ ہو رہا تھا چنانچہ میں سمجھ گئی کہ فیضی کو ناپ‬
‫دیتے ہوئے اس خاتون نے کافی مزے کیے۔۔۔۔ اور دیئے ہوں گے۔۔۔‬
‫پردے باہر نکلتے ہی فیضی کی نظر ہم پر پڑی تو۔۔۔۔۔ وہ سیدھا‬
‫ہمارے پاس چال آیا۔۔ فیضی کے قریب آتے ہی فرزند کہنے لگا کہ‬
‫یار جلدی سے اس کا ناپ لے لو کہ پھر میں نے جانا بھی ہے تو اس‬
‫پر فیضی ان خواتین کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔ سوری‬
‫یار ۔۔۔۔ ۔۔ پہلے ان کا ناپ لیا جائے گا اس پر فرزند قدرے ترش‬
‫لہجے میں کہنے لگا ۔۔۔ یار بوال بھی تھا کہ میں نے جلدی جانا ہے تو‬
‫اس پر فیضی کہنے لگا تمہاری بات درست ہے یار۔۔۔۔۔ لیکن دوست۔۔۔‬
‫اگر میں ان کو چھوڑ کر بھابھی کا ناپ لینا شروع کر دوں گا تو یہ‬
‫خواتین شور مچانا شروع کر دیں گی۔۔۔ اور شاید تمہیں معلوم نہیں‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫۔۔۔۔کہ یہ کوئی عام خواتین نہیں بلکہ کنٹونمنٹ بورڈ کے ایک‬
‫افسر کی بیوی اور بہنیں ہیں۔۔۔ اس پر فرزند بوال۔۔اچھا یہ بتاؤ کہ کتنا‬
‫وقت لگے گا؟ تو آگے فیضی کہنے لگا ۔۔۔ کم از کم آدھا گھنٹہ تو لگ‬
‫ہی جائے گا۔ فیضی کی بات سن کر فرزند بے بسی سے بوال ۔۔۔ لیکن‬
‫یار۔۔۔۔۔تو اس پر فیضی ۔۔۔۔۔۔ بات کاٹتے ہوئے بوال۔۔۔۔ ایک کام کر‬
‫بھابھی کو میرے پاس چھوڑ جا ۔۔واپسی پر لے جانا۔۔۔۔ تو فرزند‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ یار میری واپسی شام کو ہو گی۔۔۔ یہ سن کر فیضی‬
‫کہنے لگا۔۔۔ پھر تُو جا ۔۔۔ میں بھابھی کا ناپ لیتے ہی انہیں ٹیکسی پر‬
‫بٹھا دوں گا۔۔ فیضی کی بات سن کر فرزند نے بڑی بے بسی سے‬
‫میری طرف دیکھا اور کہنے لگا ۔۔ تم کیا کہتی ہو؟ تو میں نے ترنت‬
‫ہی کہہ دیا کہ۔۔۔ مجبوری ہے۔۔۔۔ اگر آپ نے ضروری جانا ہے تو‬
‫پلیززززززز۔۔۔ جائیں میں ٹیکسی میں آ جاؤں گی ۔۔۔ میری بات سن‬
‫کر فرزند فیضی کی طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔ کہ ناپ لینے‬
‫کے فورا ً بعد اسے ٹیکسی میں بٹھا دینا ۔۔۔ تو آگے سے فیضی کی‬
‫بجائے میں نے ۔ ۔۔فرزند کی طرف آنکھیں نکالتے ہوئے کہا کہ توبہ‬
‫ہے فرزند تم میرے ساتھ ایسا سلوک کر رہے ہو کہ جیسے میں کوئی‬
‫دودھ پیتی بچی ہوں۔۔۔ پھر میں نے کہا کہ آپ جاؤ میں خود آ جاؤں‬
‫گی۔۔۔ اس کے بعد۔۔۔۔۔۔میرے منع کرنے کے باوجود بھی فرزند نے‬
‫ایک دفعہ پھر فیضی کو تاکید کی اور پھر مجھ سے معذرت کرتا‬
‫وہاں سے چال گیا۔۔۔۔فرزند کے جانے کے بعد فیضی نے بڑی عجیب‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگا کہ بس تھوڑا‬
‫سا انتظار کریں میں ذرا ان کو فارغ کر لوں ۔۔اس کے ساتھ ہی اس‬
‫نے ان تین میں سے ایک خاتون کو پردے کے پیچھے آنے کا اشارہ‬
‫کیا۔۔‬

‫اس وقت جبکہ باجی کی سٹوری اپنے عروج پر جا رہی تھی کہ‬
‫اچانک باہر سے قدموں کی چاپ سنائی دی ۔۔ چنانچہ قدموں کی آواز‬
‫سن کر باجی ُچپ ہو گئی۔۔۔۔۔ اگلے ہی لمحے آنٹی نمودار ہوئیں اور‬
‫دروازے میں کھڑے ہو کر بولیں۔۔۔ صائمہ میں تیرے ڈیڈی کے ساتھ‬
‫باہر جا رہی ہوں زیادہ وقت بھی لگ سکتا ہے لیکن زیادہ امید یہی‬
‫ہے کہ ہم لوگ دو تین گھنٹے تک واپس آ جائیں گے۔۔۔ اس کے بعد‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ دروازے کو الک کر لو۔۔آنٹی کی بات سن کر باجی‬
‫اُٹھیں اور ان کے ساتھ باہر نکل گئیں۔۔ جبکہ دوسری طرف آنٹی‬
‫لوگوں کا ۔۔۔۔۔دو تین گھنٹے تک کی واپسی ۔۔۔۔۔۔ کا سن کر میرے اندر‬
‫لگی شہوت کی دھیمی آگ تیزی کے ساتھ بھڑکنا شروع ہو گئی۔۔۔۔اور‬
‫میں صائمہ باجی کو چودنے کی منصوبہ بندی کرنے لگا۔۔۔۔ کچھ دیر‬
‫بعد باجی کمرے میں داخل ہو ئی تو میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بولی۔۔ امی کے جانے سے تیرے دل میں کیوں لڈو پھوٹ رہے ہیں ؟‬
‫۔۔۔تو آگے سے میں دانت نکالتے ہوئے بوال۔۔۔ اس بات سے آپ بخوبی‬
‫آگاہ ہو۔۔۔پھر میں ان سے بوال ۔۔۔ آپ آگے کی داستان سنائیں۔۔ تو وہ‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے۔۔ کہنے لگیں ۔۔ہاں تو میں کہاں تھی؟ تو‬
‫میں نے ان کو یاد دالتے ہوئے کہا کہ۔۔ فرزند کے جاتے ہی فیضی‬
‫آپ سے معذرت کرنے کے بعد۔۔۔۔صوفے پر بیٹھی ایک خاتون کا‬
‫ماپ لینے چال گیا تھا۔۔ تو وہ کہنے لگیں ۔۔ پہلی کی برعکس فیضی‬
‫نے ان تینوں خواتین کا جلدی جلدی ناپ لیا اور پھر ان کے جانے‬
‫کے بعد ایک گہری سانس لیتے ہوئے بوال ۔۔۔ سوری بھابھی جی۔۔۔ ان‬
‫لیڈیز کے چکر میں ۔۔ میں آپ کو چائے پانی کا پوچھنا بھول ہی گیا۔۔۔‬
‫اور اس کے ساتھ ہی اس نے دراز سے پیسے نکال کر چھوٹے کے‬
‫حوالے کرتے ہوئے ۔۔۔۔ اسے کولڈ ڈرنک النے کا بوال۔۔۔‬

‫چھوٹو کے باہر نکلتے ہی ۔۔ وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی‬


‫ستائشی لہجے میں بوال۔۔۔۔ یہ سوٹ آپ پر بہت جچ رہا ہے۔۔پھر اس‬
‫نے ایک نظر دروازے کی طرف ڈالی۔۔۔۔ ۔۔۔اور پھر میری چھاتیوں‬
‫کو گھورتے ہوئے بوال۔۔۔۔خصوصا ً آپ کا سینہ بہت قیامت ڈھا رہا‬
‫ہے۔۔۔۔ اپنی چھاتیوں کے بارے میں ایسے ریمارکس سن کر میں نے‬
‫اس کی طرف دیکھتے ہوئے شکریہ کہا۔۔۔ میری طرف سے اچھا‬
‫رسپانس پا کر وہ کہنے لگا کہ ان کی اُٹھان اور بھی بہتر ہو سکتی‬
‫ہے پھر کہنے لگا۔۔۔۔اچھا یہ بتائیں کہ آپ کی برا سائز کیا ہے؟ تو‬
‫میں نے اس سے کہا آپ گیس کریں؟ تو وہ میری چھاتیوں کو کھا‬
‫جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔ میرے اندازے کے‬
‫مطابق ۔۔۔آپ کا بریسٹ سائز ‪ 38‬ہونا چاہیئے۔۔۔ فیضی کی بات سن کر‬
‫میں بڑی حیرانی سے بولی۔۔۔ تمہارا اندازہ تو بلکل درست ہے۔۔۔تو وہ‬
‫فخریہ لہجے میں کہنے لگا۔۔۔۔۔ اگر آپ کہیں تو۔۔۔۔۔۔ابھی اس نے اتنی‬
‫ہی۔۔۔۔ بات کی تھی کہ اس کا چھوٹو۔۔۔ ہاتھ میں کولڈ ڈرنک لیئے دکان‬
‫میں داخل ہوا۔۔۔ اسے آتے دیکھ کر فیضی بات بدل کر کہنے لگا۔۔۔۔‬
‫آپ بوتل پی لو ۔۔۔اس کے بعد آپ کا ناپ ہو گا۔۔۔ اس کی بات سن کر‬
‫میں نے چھوٹو کے ہاتھ سے بوتل پکڑ کر جلدی جلدی پینے لگی۔‬
‫بوتل ختم ہوتے ہی اس نے مجھے اشارہ کیا اور میں پردے کے‬
‫ب معمول‬ ‫پیچھے چلی گئی۔۔تھوڑی دیر بعد وہ بھی اندر آ گیا۔۔۔۔ حس ِ‬
‫اس نے رجسٹر کو پاس پڑے ہوئے سٹول پر رکھا۔۔۔اور گلے سے‬
‫فیتہ نکال کر میرا ناپ لینا لینے سے پہلے بغیر کچھ کہے میرے‬
‫سینے پر پڑا ہوا دوپٹہ ہٹا کر بڑی بے تکلفی سے بوال۔۔۔۔ آپ کی دل‬
‫کش چھاتیوں کا نظارہ کسی بھی بندے کو مارنے کے لیئے کافی‬
‫ہے۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ فیتے کو میری کمر کے پیچھے لے‬
‫گیا۔۔۔ اور پرانی ترکیب استعمال کرتے ہوئے۔۔۔مجھے اپنی طرف پش‬
‫کیا ۔۔۔ چونکہ مجھے اس کی اس ٹِرک کا پہلے سے معلوم تھا ۔۔۔اس‬
‫لیئے میں اپنی جگہ پر کھڑی رہی۔۔۔۔تو وہ کچھ کھسیانہ سا ہو کر‬
‫بوال۔۔۔ سوری۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ آپ نے مجھے ویسے ہی‬
‫بال لینا تھا ۔۔۔ یہ ناپ کا ڈرامہ کیوں کیا؟‬
‫تو آگے سے وہ جواب دیتے ہوئے بوال۔۔۔ کہنے لگا۔۔۔ ناپ کا ڈرامہ‬
‫نہیں تھا بلکہ سچ مچ ایسا ہی ہوا ہے اور پھر ثبوت کے طور پر‬
‫مجھے رجسٹر کا وہ صفحہ دکھانے لگا کہ جہاں پر میرا ناپ تھا ۔۔۔‬
‫وہ صفحہ دکھانے کے بعد وہ مجھ سے کہنے لگا ۔۔۔۔بھابھی جی اگر‬
‫آپ کو یقین آ گیا ہو۔۔۔ تو ناپ شروع کریں۔۔۔ہر چند کہ اس وقت میں‬
‫خود بھی سیکس آگ میں جل رہی تھی۔۔۔ لیکن اسے ستا کر مجھے‬
‫مزہ آ رہا تھا اس لیئے میں نے اسے بڑے روکھے انداز میں کہا کہ‬
‫اوکے آپ میرا ناپ لے لیں ۔۔ میرا موڈ دیکھ کر وہ تھوڑا پریشان اور‬
‫حیران ہو گیا میرے خیال میں وہ میرے بارے میں سوچ رہا ہو گا کہ‬
‫یہ عجیب خاتون ہے کبھی اتنا آگے بڑھ جاتی ہے کہ بریسٹ سائز‬
‫پوچھنے پر بھی خفا نہیں ہوتی اور کبھی۔۔۔۔۔ خیر اس نے بڑے ہی‬
‫محتاط انداز میں میرا ناپ لینا شروع کر دیا۔۔۔ہر چند کہ اس کے جسم‬
‫سے اُٹھنے والی مردانہ شہوت انگیز مہک میرے جسم میں ایک‬
‫ہلچل مچا رہی تھی۔لیکن میں نے خود پر قابو پائے رکھا اور بڑی‬
‫سیریس ہو کر اس کو ناپ دیتی رہی۔ ۔۔۔ ۔ ۔۔۔ لیکن دوسری طرف‬
‫محتاط ہونے کے باوجود بھی۔۔۔۔ وہ حرام توپی سے باز نہیں آیا۔۔۔۔‬
‫اور ناپ لیتے ہوئے میرے جسم کو ٹٹولتا رہا ۔۔ جس کا مجھے مزہ‬
‫تو بہت آیا لیکن میں سیریس ہو کر کھڑی رہی۔ اوپری بدن کا ناپ‬
‫لینے کے بعد مجھے معلوم تھا کہ اب وہ میری شلوار کا ناپ لے گا‬
‫۔۔۔ ۔۔۔ اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ اس وقت میں نے کچھ زیادہ‬
‫ہی ٹائیٹ ۔۔۔۔ٹائیٹس پہنی ہوئی تھی اس لیئے اس کے اکڑوں بیٹھتے‬
‫بیٹھتے میں نے نظر بچا کر اپنی ٹائیٹس کے آسن کو کھینچ کر اتنا‬
‫اوپر کر لیا کہ وہ میری چوت کی لکیر میں کھب سا گیا تھا ۔ جس کی‬
‫۔۔۔بہت زیادہ نمایاں ہو گیا۔۔ )‪ (camel toe‬وجہ سے میرا کیمل ٹو‬
‫نیچے بیٹھتے ہی اس نے مجھے قمیض اوپر کرنے کو کہا۔۔۔ جو کہ‬
‫میں نے اوپر کر لی۔۔۔۔۔ قمیض اوپر اُٹھتے ہی اس کی نظر آسن میں‬
‫پھنسی چوت کی طرف پڑی ۔۔ یہ دیکھ کر وہ چونک سا گیا۔ کہ‬
‫ٹائیٹس میری چوت کی دراڑ میں اس قدر سختی سے پھنسی ہوئی‬
‫تھی۔۔۔کہ جس کی وجہ سے میری چوت کی دراڑ نمایاں نظر آ رہی‬
‫تھی۔۔۔۔۔اور اس کے دونوں لب الگ الگ نظر آ رہے تھے یہ دل کش‬
‫نظارہ دیکھ کر اس کے ماتھے پر پسینہ آ گیا اور اس نے میری‬
‫طرف فیتہ بڑھاتے ہوئے کہا کہ بھابھی جی اسے وہاں پر رکھیں کہ‬
‫جس جگہ آپ شلوار باندھتی ہیں۔۔۔ چنانچہ میں نے اس کے ہاتھ سے‬
‫فیتہ پکڑا ۔۔اور اسے عین اپنی ناف پر رکھ دیا۔۔۔۔ میری اس حرکت پر‬
‫۔۔فیضی نے بڑے ہی غور سے میری طرف دیکھا۔۔۔ اور پھر کہنے‬
‫لگا ۔۔۔ آپ یہاں پر شلوار باندھتی ہو؟ تو میں نے مسکراتے ہوئے‬
‫جواب دیا ۔۔۔ کیوں آپ کو کوئی اعتراض ہے ؟ ۔۔ میرے موڈ کو‬
‫خوش گوار دیکھ کر وہ بھی مسکرا دیا ۔۔۔ اور فیتے کو میرے ٹخنوں‬
‫کی اندر والی جگہ پر رکھ کر کچھ اس مہارت سے کھینچا ۔۔۔ کہ‬
‫جس کی وجہ سے اس کا فیتہ عین میری چوت کی درمیانی لکیر میں‬
‫آ گیا۔۔۔ اس کے بعد ۔۔۔۔ اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگا یہیں‬
‫پر باندھتی ہو نا آپ ؟ تو آگے سے میں نے بھی فیتے کو تھوڑا اپنی‬
‫طرف کھینچتے ہوئے بولی۔۔۔ کبھی یہاں کبھی وہاں باندھتی ہوں ۔۔‬
‫میری بات سن کر۔۔۔۔۔ وہ ایک دم سے مسکرا کر بوال۔۔ آپ نے تو ڈرا‬
‫ہی دیا تھا۔۔‬
‫۔اس پر میں نے نشیلی آنکھوں سے اس کی طرف دیکھا اور کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔ کہ آپ ڈرنے والے لگتے تو نہیں۔۔ اس کے بعد اس نے میری‬
‫شلوار کا ناپ لیا اور پھر فیتہ پکڑے کے بہانے میری چوت کو ٹچ‬
‫کر کے بوال ۔۔۔ بہت گرم ہے یہ۔۔۔ تو میں نے آہستہ سے کہا ۔۔آپ‬
‫اسے ٹھنڈا کر دو۔۔۔ میری بات سن کر اس نے اپنے منہ کو آگے‬
‫بڑھایا۔۔۔ اور میری تنگ پاجامی کے اوپر سے ہی چوت پر زبان‬
‫پھیرتے ہوئے بوال۔۔۔ میرے پاس ٹھنڈ ڈالنے واال بہت اچھا آلہ ہے ۔۔‬
‫تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔۔۔ میں بھی تو دیکھوں کہ آپ کا‬
‫ٹھنڈ ڈالنے واال آلہ کیسا ہے؟۔۔ میری بات سن کر وہ اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔‬
‫اور میں نے دیکھا کہ فیضی کی قمیض آگے سے کافی اُٹھی ہوئی‬
‫تھی۔۔ پھر اس نے مجھے اپنے سینے سے لگا لیا۔۔اور اپنے تنے‬
‫ہوئے لن سے میری چوت کی دراڑ میں پھنسا کر گھسا مارتے ہوئے‬
‫بوال۔۔ بھابھی جی آپ میرے ساتھ اوپر کار خانے میں چلو ۔۔ میں وہاں‬
‫پر آپ کو اپنا آلہ چیک کراؤں گا۔۔اس پر میں ہولے سے بولی۔۔۔۔۔ اوپر‬
‫آپ کے کاریگر تو نہیں ہوں گے؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔ نہیں وہ گیارہ‬
‫بجے تک آئیں گے ویسے بھی نیچے کھڑا چھوٹو ہماری نگرانی‬
‫کرے گا۔۔۔ اور کسی کو بھی اوپر نہیں آنے دے گا۔۔ چھوٹو کا نام سن‬
‫کر میں نے فیضی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ کہیں یہ فرزند‬
‫سے بات نہ کر دے ۔۔۔میری بات سن کر وہ مسکرا کر بوال ۔۔۔اس کی‬
‫آپ فکر نہ کریں۔۔۔ چھوٹو راز کو راز رکھنے واال بچہ ہے۔۔۔ اتنی‬
‫بات کرتے ہی اس نے اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈال دیا۔۔۔۔ باجی‬
‫کی بات سن کر میرا لن جو پہلے ہی تنا کھڑا تھا ۔۔۔اب مزید اکڑ گیا۔۔‬
‫چنانچہ میں اُٹھ کر ان کی طرف بڑھنے لگا تو وہ مجھے دیکھتے‬
‫ہوئے کہنے لگی ۔ارے ارے۔۔ سٹوری نہیں سننی ؟ تو میں ان کے‬
‫قریب پہنچ کر بوال۔۔۔ اسی کو سننے کے لیئے تو آپ کے پاس آیا ہوں‬
‫۔۔۔اور میں ان کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔۔ میرے لن کو پینٹ میں پھوال‬
‫ہوا دیکھ کر وہ پینٹ کے اوپر سے ہی اسے سہالتے ہوئے بولیں۔۔‬
‫تمہارے لن کا سائز بھی بہت اچھا ہے۔۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا پلیز‬
‫۔۔۔ ساتھ ساتھ سٹوری بھی جاری رکھیں۔۔۔۔تو وہ کہنے لگیں کہ جیسے‬
‫ہی اس ظالم نے اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈاال ۔۔تو میرے اندر‬
‫لگی آگ مزید بھڑک اُٹھی۔۔۔۔اور میں نے اپنی زبان کو اس کی زبان‬
‫کے ساتھ ٹکراتے ہوئے۔۔۔نیچے سے اس کا لن پکڑ لیا۔جیسے اس‬
‫وقت تمہارا پکڑا ہوا ہے۔۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ اسے دباتے ہوئے بولی۔۔۔ اس‬
‫وقت اس کا لن بہت سخت ہو رہا تھا۔۔۔ چنانچہ کچھ دیر کسنگ کے‬
‫بعد ۔۔ اس نے ہی اپنے منہ کو پیچھے ہٹایا۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔ کہ اوپر‬
‫چلیں؟ تو میں نے ہاں کر دی۔‬

‫پردے سے باہر نکلتے ہوئے وہ آہستگی کے ساتھ بوال۔۔۔ خود کو‬


‫تھوڑا نارمل کر لو۔۔ اور خود اس نے لن کو اپنی شلوار کے نیفے‬
‫میں اڑس لیا۔۔۔ اس طرح ہم نارمل انداز میں چلتے ہوئے باہر آ گئے۔۔‬
‫باہر آ کر اس نے رجسٹر کو کاؤنٹر پر رکھا ۔۔۔اور مجھ سے کہنے‬
‫لگا کہ بھابھی جی آپ جس قسم کے ڈیزائن کی بات کر رہی ہو ۔۔ایسا‬
‫ایک سوٹ سالئی کے آخری مراحل میں ہے اگر آپ کہیں تو میں آپ‬
‫کو دکھاؤں؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔ ٹھیک ہے دکھا دیں میری بات‬
‫سننے کے بعد ۔۔۔وہ چھوٹو کی طرف ُمڑا ۔۔۔اور اس سے بوال تم‬
‫نیچے کا دھیان رکھنا ۔۔۔۔میں زرا بھابھی جی کو ڈیزائن چیک کرا‬
‫دوں۔۔۔ پھر میری طرف متوجہ ہو کر بوال آپ چلیں میں ابھی آتا‬
‫ہوں۔۔۔ فیضی کے کہنے پر میں سیڑھیاں چڑھ کر اوپر چلی گئی۔۔‬
‫دیکھا تو اوپر ایک بڑا سا حال تھا جہاں پر سات آٹھ سالئی مشینیں‬
‫پڑی ہوئی تھیں۔۔ایک طرف ہینگرز پر سلے ہوئے کپڑے لٹکے ہوئے‬
‫تھے۔۔۔جبکہ اس حال کے وسط میں ایک صوفہ بھی پڑا ہوا تھا۔۔۔۔‬
‫ابھی میں حال کا جائزہ لے رہی تھی کہ فیضی بھی پہنچ گیا۔۔۔ اور‬
‫آتے ساتھ ہی مجھے پیچھے سے دبوچ کر لن کو میری موٹی گانڈ کی‬
‫دراڑ کے درمیان لے آیا۔۔۔ ۔۔۔۔پھر کہنے لگی جیسا کہ تمہیں معلوم‬
‫ہے کہ میری گانڈ گول اور کافی موٹی ہے اس لیئے اس کا ہاف لن‬
‫بڑے آرام سے میری گانڈ میں گھس چکا تھا۔۔۔ اس کے لنڈ کو اپنی‬
‫گانڈ میں محسوس کر کے مجھے ایک عجیب سی لذت محسوس ہو‬
‫رہی تھی۔۔ جس کی وجہ سے میری گانڈ میں ۔۔۔۔۔۔۔ اسے اپنے اندر‬
‫لینے کی شدید خواہش جنم لے رہی تھی۔۔۔۔۔سو میں نے مستی میں آ‬
‫کر اس کے لنڈ کو اپنی گانڈ میں دبانا شروع کر دیا۔۔جس سے خوش‬
‫ہو کر۔۔۔‬

‫۔وہ میرے کان میں بوال۔۔۔ بھابھی آپ کی گانڈ بہت نرم ہے ۔۔اور اس‬
‫پر آپ کا گانڈ کو کھل بند کرنا بڑا مزہ دے رہا ہے۔۔۔تو میں نے بھی‬
‫اس کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ۔۔مجھے بھی تمہارے لن کی سختی‬
‫بہت اچھی لگ رہی ہے۔۔۔۔ ہم کچھ دیر ایسے ہی کرتے رہے۔۔۔ پھر‬
‫اس نے میری گردن پر کس کرتے ہوئے کہا۔۔۔۔ بھابھی جی آپ‬
‫صوفے پر بیٹھو تو میں آپ کو اپنے لن کا درشن کرواؤں۔۔۔۔ اس کی‬
‫بات سن کر میں نے اپنی گانڈ کی دراڑ میں پھنسے ۔۔۔۔۔لن کو باہر‬
‫نکاال ۔۔۔۔اور صوفے پر جا بیٹھ گئی۔۔۔ اب وہ میرے پاس آیا۔۔۔اور ایک‬
‫نظر سیڑھیوں پر ڈال کر ۔۔۔۔۔ اپنا آزار بند (نالہ) کھولنا شروع ہو گیا۔۔۔‬
‫اور کچھ ہی دیر بعد ۔۔اس نے اپنا آزار بند کھول کر اپنے لنڈ کو‬
‫میرے سامنے کر دیا۔۔۔باجی کی بات سن کر میں بھی جوش میں‬
‫آگیا۔۔۔۔۔اور میں نے اپنی پینٹ کے بٹن کھولنے شروع کر دیئے۔۔۔۔ تو‬
‫وہ کہنے لگی۔۔۔ کیا تم بھی مجھے اپنے ننگے لنڈ کے درشن کروانے‬
‫لگے ہو؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔ کہ اس میں حرج ہی کیا‬
‫ہے؟ میری بات سن کر وہ آگے بڑھیں۔۔۔ ۔۔۔اور اپنے ہاتھوں سے‬
‫میری پینٹ کے بٹن کھولنا شروع ہو گئیں ۔۔۔بٹن کھولنے کے بعد‬
‫انہوں نے میری پینٹ کو نیچے گرا دیا۔۔۔اور انڈر وئیر کے اوپر سے‬
‫گئی ۔۔۔۔۔اس کے بعد ۔۔۔ انہوں نے‬ ‫ہی میرے لن کو چومنا شروع ہو َ‬
‫اپنی زبان کو منہ سے باہر نکاال۔۔۔۔۔ اور میرے پھولے ہوئے لنڈ‬
‫کو۔۔۔۔۔ انڈر وئیر کے اوپر سے ہی چاٹنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔ پھر انہوں‬
‫نے انڈروئیر کو بھی اتار دیا۔۔۔انڈر وئیر اترتے ہی میرا لن باہر آ کر‬
‫کسی ناگ کی طرح لہرانے لگا۔۔۔۔چنانچہ وہ میرے لن کی اُٹھان دیکھ‬
‫کر بولیں۔۔۔۔ کمال کا لنڈ ہے تمہارا۔۔۔پھر میرے ٹوپے کو منہ میں لے‬
‫لیا تو میں ان سے بوال ۔۔۔۔ باجی آگے کیا ہوا ؟ تو وہ لن کو منہ سے‬
‫نکال کر بولیں۔۔۔فیضی ٹیلر کی کہانی جائے بھاڑ میں ۔۔۔ مجھے لن‬
‫چوسنے دو۔۔۔ اس پر میں نے ان سے کہا کہ باجی ایسا کرتے ہیں کہ‬
‫پہلے آپ کہانی کا اینڈ کر لیں ۔۔۔۔ اس کے بعد آپ جی بھر کر لن کو‬
‫چوس لینا۔۔۔۔۔ اور پھدی بھی مروا لینا۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے‬
‫میرے لن کو اپنے منہ سے باہر نکاال ۔۔اور کہنے لگیں ۔۔ لیکن میری‬
‫بھی ایک شرط ہو گی۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ تم اسے پینٹ میں ڈال کر پہلے‬
‫کی طرح میرے سامنے بیٹھ جاؤ۔۔۔ کیونکہ تمہارے شاندار لن کو‬
‫دیکھ کر میں اسے اپنے اندر لینے کے لیئے۔۔۔۔۔۔ پاگل ہوئی جا رہی‬
‫ہوں۔۔۔۔اور اگر دوبارہ میرے سامنے ننگا لن کیا تو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں‬
‫نے سٹوری سنانے کی بجائے تمہارے لن پر بیٹھ جانا ہے ۔۔۔ اس پر‬
‫میں نے جلدی سے لن کو اپنی پینٹ میں واپس ڈاال۔۔۔۔۔ اور ان کے‬
‫سامنے جا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔‬
‫جوں ہی میں صوفے پر جا کر بیٹھا ۔۔۔تو باجی میری طرف دیکھتے‬
‫ہوئے بولیں۔۔۔۔۔۔ فیضی اپنے لن کو میرے سامنے لہرا رہا تھا اور اس‬
‫کے خوب صورت لن کو دیکھ دیکھ کر میری چوت پانی چھوڑ رہی‬
‫تھی۔۔۔ پھر میری طرف آنکھ مار کے بولی تم فکر نہیں کرو۔۔ تمہارا‬
‫لن اس سے زیادہ خوب صورت اور کڑک ہے۔اس کے ساتھ ہی انہوں‬
‫نے میری طرف دیکھا اور بولیں۔۔۔۔ میں یہ بات تمہارا دل رکھنے‬
‫کے لیئے نہیں کر رہی بلکہ یہ ایک حقیقت ہے۔۔۔ پھر کہنے لگیں ہاں‬
‫تو میں کہہ رہی تھی کہ فیضی میرے سامنے کھڑا لن کو لہرا رہا‬
‫تھا۔۔۔۔ اور جسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ میں لن کی از حد شوقین ہوں‬
‫۔۔۔۔ اور ویسے بھی اس کا لن تو تھا بھی بہت کیوٹ ۔۔۔چنانچہ پہلے تو‬
‫میں اس کے لن کے ساتھ جی بھر کے کھیلی۔۔ لن پر تھوک لگا کر‬
‫آہستہ آہستہ ُمٹھ مارتی رہی۔۔کبھی اس کو دباتی رہی ۔۔۔۔۔۔۔اسی دوران‬
‫وہ مجھ سے کہنے لگا ۔۔۔۔۔بھابھی جی میرے لن کو منہ میں ڈالو‬
‫ناں۔۔۔۔۔۔اس پر میں نے اس کے لن کو اپنے منہ میں ڈاال ۔۔۔اور اسے‬
‫لولی پاپ کی طرح چوسنا شروع ہو گئی۔۔۔ بال شبہ فیضی کے لن کا‬
‫بہت اچھا ٹیسٹ تھا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کے لن سے ہلکی‬
‫ہلکی مزی بھی نکل رہی تھی ۔۔۔ جو لن کے ٹیسٹ کو دوباال کر رہی‬
‫تھی۔ لن چوسنے کے کچھ دیر بعد میں نے اسے منہ سے باہر نکاال‬
‫اور اس سے کہنے لگی۔۔۔ اب تم میری چوت چوسو۔۔۔یہ کہتے ہی میں‬
‫نے اپنی پجامی کو تھوڑا نیچے کیا۔۔۔۔اور چوت کو سامنے کرتے‬
‫ہوئے۔۔۔۔۔۔ اپنی ٹانگیں اوپر اُٹھا لیں۔۔۔۔۔۔۔ اس نے ایک نظر میری چوت‬
‫کی طرف دیکھا۔۔۔اور پھر کہنے لگا۔۔۔بھابھی!۔۔۔ کیا شاندار پھدی ہے‬
‫آپ کی اور پھر۔۔۔۔نیچے بیٹھنے سے پہلے اس نے ایک نظر‬
‫سیڑھیوں کی طرف دیکھا ۔۔۔اور پھر صوفے کے سامنے فرش پر‬
‫بیٹھ گیا۔۔اور زبان نکال کر ۔۔۔ میری چوت کو چاٹنا شروع ہو‬
‫گیا۔۔۔۔۔۔وہ بڑی مہارت سے میری پھدی کو چوس رہا تھا۔۔ جس کا‬
‫نتیجہ یہ نکال ۔۔ کہ کم از کم دو بار میری چوت نے پانی چھوڑا۔۔۔‬
‫چوت چٹواتے ہوئے میری تو ایک دم بس ہو گئی تھی۔۔۔اور میری‬
‫پھدی میں لن لینے کے لیئے شدید طلب پیدا ہو گئی۔۔۔۔ کچھ دیر تک‬
‫تو میں نے یہ طلب برداشت کی۔۔۔۔۔ لیکن جب معاملہ حد سے زیادہ‬
‫بڑھ گیا۔۔۔۔۔ تو میں نے اس کے منہ کو ایک جھٹکے کے ساتھ اپنی‬
‫چوت سے پرے ہٹایا۔۔۔۔ اور صوفے پر گھوڑی بنتے ہوئے بولی۔۔۔ اب‬
‫دیوانہ وار مجھے چودو۔۔۔ میری بات سن کر وہ مسکرایا ۔۔اور کہنے‬
‫لگا فکر نہیں کرو بھابھی میں تمہیں دیوانہ وار ہی چودوں گا۔۔۔ اور‬
‫اس کے ساتھ ہی وہ چلتا ہوا میرے پیچھے آ کر رک گیا۔‬

‫ادھر باجی کے منہ سے اتنی ہاٹ سٹوری سن کر میری بھی بس ہو‬


‫چکی تھی۔۔۔اس لیئے میں اپنی جگہ سے اُٹھا۔۔۔اور ان کے سامنے‬
‫کھڑا ہو کر اپنے کپڑے اتارنے لگا۔۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ شہوت بھرے‬
‫لہجے میں بولیں۔ سٹوری ابھی ختم نہیں ہوئی؟ تو اس پر میں پینٹ‬
‫اتارتے ہوئے بوال۔۔۔ کہانی ختم نہیں ہوئی بجا۔۔۔۔۔ لیکن میری برداشت‬
‫ختم ہو گئی ہے۔ ویسے بھی اس کے بعد آپ نے یہی بتانا تھا نا کہ‬
‫اس نے لن چوت میں ڈاال اور گھسے مارنے لگا؟ ۔۔ تو انہوں نے ہاں‬
‫میں سر ہال دیا۔۔ ۔۔ تب میں نے ان سے کہا کہ آپ کے ساتھ یہی کام‬
‫میں کرنے لگا ہوں۔۔۔۔ اس لیئے آپ بھی کپڑے اتار دو۔۔ میری بات‬
‫سن کر وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔۔اتنا کہتے‬
‫ہی وہ جلدی سے اُٹھیں اور اپنے کپڑے اتار دیئے۔۔ اب ہم دونوں‬
‫ننگے کھڑے ہو کر۔۔۔۔۔۔ ایک دوسرے کو گھور رہے تھے۔۔۔ پھر میں‬
‫نے ان کی طرف قدم بڑھایا ۔۔۔اور ان سے بوال۔۔۔ مجھے آپ کے‬
‫ہونٹ چوسنے ہیں۔۔۔تو وہ مستی سے بولیں۔۔۔ جلدی کر ۔۔۔۔ کہ اس کے‬
‫بعد میں نے تیرا یہ شاندار لن بھی چوسنا ہے۔۔۔ یہ کہتے ہوئے وہ‬
‫میرے ساتھ گلے لگ گئیں ۔۔۔ان کی تندرست اور بھاری بھر کم‬
‫چھاتیاں میرے سینے کے ساتھ دب رہیں گئیں۔۔اور میرے لن کو‬
‫انہوں نے اپنی نرم رانوں میں پھنسا لیا تھا۔۔ اس کے بعد وہ اپنے‬
‫ہونٹوں کو میرے ہونٹوں سے مالتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔۔جلدی کرو میری‬
‫پھدی اسے اندر لینے کے لیئے بہت اتاؤلی ہو رہی ہے۔۔۔ اتنی بات‬
‫کرتے ہی انہوں نے اپنی زبان کو میرے منہ میں ڈال دیا۔۔ اور جوش‬
‫سے بھرے ہم دوونوں ایک دوسرے کی زبانیں چوسنا شروع ہو گئے‬
‫۔۔۔ میری زبان کو چوستے ہوئے وہ بار بار اپنی دونوں رانوں میں‬
‫پھنسے میرے لن کو دبائے جا رہیں تھی۔۔۔ اور میں ان کی ریشمی‬
‫رانوں اور زبان کے بوسے دونوں کو بہت انجوائے کر رہا تھا۔۔۔ پھر‬
‫کچھ دیر بعد۔۔۔ انہوں نے میرے منہ سے اپنے منہ کو الگ کیا ۔۔اور‬
‫کہنے لگی باقی کی کسنگ اور رسم و رواج ابھی رہنے دیتے ہیں کہ‬
‫میری پھدی تیرے لن کے لیئے دھائیاں دے رہی ہے اور تمہیں پتہ‬
‫ہے کہ میں اپنی پھدی کی بات پر زیادہ دھیان دیتی ہوں۔۔۔اس پر میں‬
‫نے ان سے کہا۔۔۔۔۔ کہ آپ کس رسم و رواج کی بات کر رہی ہو ؟ تو‬
‫وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔۔ وہی یار فکنگ سے پہلے ۔۔۔ چھاتیوں کو‬
‫چوسنا ۔۔ نپلز کو مسلنا۔۔۔۔۔ پھدی چاٹنا ۔۔ اور لن چوسنا وغیرہ وغیرہ‬
‫یہ سب پھر کسی وقت کر لیں گے ۔۔۔ ابھی تم میرے اوپر آ کر مجھے‬
‫چودو ۔۔۔ اس پر میں نے ججھکتے ہوئے ان سے کہا ۔۔۔ کہ آپ کے‬
‫اوپر میں آ تو جاؤں۔۔۔۔ لیکن اس سے پہلے۔۔۔۔۔اگر تھوڑا سا لن چوس‬
‫لیں تو ۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ گھنٹوں کے بل نیچے بیٹھی۔۔۔اور‬
‫میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر بولی۔۔۔ ۔۔۔ بس تھوڑا سا ہی‬
‫چوسوں گی۔۔۔اور اس کے ساتھ انہوں نے پورے لن پر زبان پھیر کر‬
‫اسے چکنا کیا۔۔۔اور پھر منہ میں لے کر چوسنا شروع ہو گئیں۔۔۔اور‬
‫جب کافی دیر تک چوستی رہیں۔۔۔‬

‫اسی دوران جب انہوں نے لن کو منہ سے باہر نکاال ۔۔تو میں نے ان‬


‫سے کہا کہ آپ تو کہہ رہیں تھیں کہ بس تھوڑا سا ہی چوسنا ہے ۔۔۔۔‬
‫لیکن اس کے برعکس آپ نے کافی دیر لگا دی۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں۔۔۔‬
‫میں نے تو پھر بھی لن کو منہ سے نکال لیا ہے میری جگہ اگر تم‬
‫ہوتے تو اسے اپنے منہ میں ہی خالص کروا لیتے۔۔۔ اس کے بعد وہ‬
‫سامنے پڑے صوفے پر جا کر سیدھی لیٹ گئیں ۔۔۔اور اپنی ٹانگوں‬
‫کو کھول کر چھت کی طرف کر کے بولیں۔۔۔اسے میرے اندر ڈال‬
‫دے۔۔ ان کی بات سن کر میں صوفے پر پہنچ گیا اور ان کی اوپر‬
‫اُٹھی ٹانگوں کو اپنے کندھوں پر رکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر لن کو چکنا‬
‫کرنے کے بعد۔۔۔ ان کی چوت کے لبوں پر رکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔ میں‬
‫ڈالنے لگا ہوں ۔۔تو وہ آگے سے وہ شہوت انگیز لہجے میں بولیں۔۔۔۔‬
‫جلدی سے۔۔۔ میری چوت پھاڑ دے ۔ان کی بات سنتے ہی ۔۔۔۔ میں نے‬
‫ایک ذور دار گھسہ مارا ۔۔۔۔اور میرا لن رگڑ کھاتا ہوا ۔۔۔ سیدھا۔۔۔ان‬
‫کی بچہ دانی سے جا ٹکرایا۔۔۔ اور پھر اس کے بعد میں نے تواتر‬
‫کے ساتھ گھسے مارنے شروع کر دیئے اور۔۔۔میرے ہر گھسے پر وہ‬
‫یہی کہتیں۔۔۔۔ اور زور سے مار۔۔۔ میری چوت کو پھاڑ دے۔۔۔۔ میرے‬
‫۔۔۔۔۔(جوش شہوت سے ) ان کے‬ ‫ِ‬ ‫ہر گھسے کا انہیں اتنا مزہ آیا۔۔۔۔ کہ۔۔۔‬
‫منہ سے سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں اور ۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد۔۔۔۔۔۔۔وہ‬
‫اونچی آواز میں چالنا شروع ہو گئیں۔۔۔ ہاں ۔۔اوں۔۔۔اوں۔۔۔ میری مار‬
‫۔۔۔۔۔ میری پھاڑ۔۔۔۔کے رکھ دے۔۔۔۔۔ تو گھسہ مارتے ہوئے میں ان سے‬
‫بوال۔۔۔۔ باجی پلیزززززز۔۔۔۔ آہستہ چالؤ۔۔ ۔آنٹی آنے والی ہوں گی ۔۔۔اس‬
‫کے ساتھ ہی میں نے ایک اور گھسہ مارا ۔۔۔۔۔۔۔تو آگے سے وہ‬
‫چالتے ہوئے بولیں۔۔۔ مجھے کسی کی کوئی پرواہ نہیں۔۔۔تو ایسے ہی‬
‫میری چوت کی دھالئی جاری رکھ۔۔۔۔ماما سنتی ہے تو سنتی رہے۔۔‬
‫پھر کہنے لگی ڈیڈی سے چدواتے وقت وہ بھی ایسے ہی چالیا کرتی‬
‫تھی۔۔۔۔۔۔۔تو مجھے ایسے ہی چود۔۔۔ باقی کے کا م میں سبنھال لوں‬
‫گی۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ چنانچہ ان کی ہال شیری پر میں پوری قوت کے ساتھ‬
‫۔۔۔۔۔۔۔سخت سخت گھسے مارتا رہا ۔۔وہ سسکتی رہیں ۔۔ ۔چالتی رہیں‬
‫۔۔۔۔۔اور میرے لن کو اپنی بچہ دانی سے ٹکرانے کا مزہ لیتی رہیں۔۔۔۔‬
‫یہاں تک کہ۔۔۔۔اس طرح کے ۔۔۔۔۔۔گھسے مارتے مارتے ۔۔۔اچانک‬
‫میرے لن سے منی کا فوارا نکال۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ میں ۔۔۔ان کی چوت میں‬
‫ہی خالص ہوتا چال گیا ۔۔۔ہوتا ۔۔۔۔۔چال گیا۔۔۔‬
‫ہوتا۔۔۔۔۔۔چال۔ا۔ااا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔گیااااااااااااا۔ ۔۔۔‬
‫گوری میم صاحب‬

‫)قسط نمبر‪(7‬‬
‫اسی شام کی بات ہے کہ میں دعوت میں جانے کے لیئے تیار ہو رہا‬
‫تھا کہ میرے فون پر بیل ہوئی دیکھا تو آنٹی کا فون تھا سو میں نے‬
‫فون آن کیا تو رسمی جملوں کے بعد وہ کہنے لگیں کہ بیٹا کیا آپ‬
‫تیار ہو گئے ہو؟ تو میں نے ان کو جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ بس‬
‫تھوڑی دیر تک ہو جاؤں گا تو اس پر وہ کہنے لگی۔۔ تیار ہو کر‬
‫ادھر ہی آ جانا کہ اکھٹے ہو کر ان کے گھر جائیں گے چنانچہ حسب‬
‫الحکم میں تیار ہو کر عدیل کے گھر پہنچ گیا۔۔۔ اور کافی دیر تک بیل‬
‫بجانے کے بعد جب کسی نے بھی دروازہ نہ کھوال تو میں یہ سوچ‬
‫کر واپس چل پڑا کہ ہو سکتا ہے وہ لوگ مجھ سے پہلے ہی نکل‬
‫گئے ہوں۔ ۔چنانچہ ابھی میں چند قدم ہی چال تھا کہ اچانک پیچھے‬
‫سے آنٹی کی آواز سنائی تھی ۔۔ میں نے ُمڑ کر دیکھا تو وہ دروازے‬
‫میں کھڑی مجھے واپس آنے کا اشارہ کر رہی تھیں ۔۔چنانچہ جب میں‬
‫ان کے قریب آیا تو۔۔۔۔۔ اس وقت آنٹی کے بالوں سے پانی ٹپک رہا تھا‬
‫۔جس کی وجہ سے میں سمجھ گیا کہ جس وقت میں ڈور بیل بجا رہا‬
‫تھا تو یقینا ً اس وقت وہ نہا رہی ہوں گی ۔۔اور ۔۔۔پھر میرے متواتر‬
‫گھنٹیاں بجانے کی وجہ سے وہ جلدی جلدی کپڑے پہن کر باہر تو آ‬
‫گئیں تھیں۔۔لیکن تیزی کی وجہ سے وہ اپنے گیلے بدن کو ٹاول سے‬
‫سکھانا بھول گئیں تھیں ۔۔ جس کی وجہ سے ان کی باریک سی (الن‬
‫کی) قمیض گیلی ہو کر ان کے گورے بدن کے ساتھ چپکی ہوئی تھی‬
‫۔۔۔ آنٹی سے دوسری بھول جو کہ ان کی پہلی بھول سے بھی زیادہ‬
‫سنگین ۔۔لیکن میرے لیئے قاب ِل دید تھی اور وہ یہ کہ ۔۔۔۔۔۔۔اسی۔۔۔۔‬
‫جلدی کی وجہ سے وہ قمیض کے نیچے برا پہننا بھول گئیں تھیں۔۔۔‬
‫اور اس وقت ان کی حالت یہ تھی کہ گیلی قمیض کی وجہ سے ان‬
‫کی گول گول چھاتیاں اور ڈارک براؤن ( رنگ کے ) موٹے موٹے‬
‫نپلز بڑے ہی صاف اور واضع طور پر دکھائی دے رہے تھے۔۔۔۔‬
‫مجھے یوں اپنی طرف گھورتے دیکھ کر آنٹی سمجھ گئیں کہ دال میں‬
‫کچھ کاال ہے اور پھر جیسے ہی ان کی نظر اپنی چھاتیوں پر پڑی (‬
‫جو کہ اس وقت تقریبا ً ننگی دکھائی دے رہیں تھیں)۔۔۔۔۔۔ تو اسی وقت‬
‫ان کے منہ سے "اوہ" کی آواز نکلی اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے‬
‫اپنے دونوں ہاتھ چھاتیوں پر رکھے اور پھر مجھ سے یہ کہتی ہوئی‬
‫اندر کی طرف بھاگ گئی کہ۔۔۔ تم ڈرائینگ روم میں بیٹھو ۔۔۔میں ابھی‬
‫آئی۔۔۔۔ کوئی آدھے گھنٹے کے بعد جب وہ کمرے میں نمودار ہوئیں‬
‫تو اس وقت انہوں نے سابقہ قمیض کی جگہ ایک اور قمیض پہنی‬
‫ہوئی تھی۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی گول گول چھاتیوں کو‬
‫بھی دوپٹے سے ڈھکا ہوا تھا ۔۔۔۔ پچھلی قمیض کی طرح ان کی یہ‬
‫قمیض بھی کافی پتلی سی تھی لیکن ۔۔۔۔اس دفعہ ان کے مموں کی‬
‫اُٹھان دوپٹے کے پیچھے غائب ہو چکی تھی۔۔۔۔ چنانچہ ان کے کمرے‬
‫میں داخل ہونے پر۔۔۔ میں نے ایک نظر ان کی گول چھاتیوں کی‬
‫طرف دیکھا اور پھر جان بوجھ کر ایک ٹھنڈی سانس بھر کے بوال۔۔۔‬
‫انکل بھی تیار ہو گئے ہیں؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولیں۔ ۔۔ انہیں‬
‫آفس میں ایک ضروری کام پیش آ گیا تھا جس کی وجہ سے وہ‬
‫ہمارے ساتھ نہیں جا سکیں گے ۔یہ جان کر کہ ۔۔۔۔انکل گھر پر‬
‫موجود نہیں ہیں۔۔۔‬

‫۔ میں نے ان کی دوپٹے سے ڈھکی گول گول چھاتیوں کی طرف‬


‫بڑی ہی بھوکی اور گرسنہ نظروں سے دیکھا اور ان سے بوال۔۔۔ آنٹی‬
‫یہ سوٹ بھی آپ پر بہت جچ رہا ہے لیکن اس سے پہلے والے سوٹ‬
‫زیر لب‬
‫میں آپ غضب لگ رہیں تھیں ۔۔۔میری بات سن کر وہ ِ‬
‫مسکرائیں اور پھر کہنے لگیں ۔۔ اچھی طرح سے جانتی ہوں ۔۔۔۔ کہ‬
‫تم یہ بات کیوں کہہ رہے ہو ۔۔۔۔ تو اس پر۔۔۔ میں نے برا ِہ راست ان‬
‫کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔۔ کہ جب آپ جانتی ہیں تو‬
‫پھر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں اس سے آگے کچھ کہتا۔۔۔ باہر‬
‫گاڑی کے ہارن کی آواز سنائی دی ۔۔۔ ہارن کی آواز سنتے ہی۔۔۔۔ وہ‬
‫چونک اُٹھیں۔۔۔۔اور پھر کہنے لگیں میرے خیال میں فرزند آ گیا ہے۔۔‬
‫پھر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ چونکہ ہمارا گھر اس‬
‫کے راستے میں پڑتا ہے اس لیئے اس نے خود ہی مجھے یہ آفر دی‬
‫تھی کہ واپسی پر وہ ہمیں لیتا جائے گا۔ اسی اثنا میں دوبارہ اسی‬
‫ہارن کی آواز سنائی دی۔۔۔ جسے سن کر وہ مجھ سے کہنے لگیں تم‬
‫جا کر گاڑی میں بیٹھو ۔۔۔۔۔میں گھر کو الک کر کے ابھی آتی ہوں ان‬
‫کی بات سن کر میں نے جان بوجھ کر برا سا منہ بنایا۔۔۔۔۔۔ اور واپس‬
‫ُمڑ کر باہر نکلنے لگا تو انہوں نے پیچھے سے آواز دیتے ہوئے کہا‬
‫کہ سنو ۔۔۔ فریج میں کیک پڑا ہے وہ بھی ساتھ لےتے جانا ۔۔۔چنانچہ‬
‫میں نے فریج سے کیک لیا اور باہر جا کر گاڑی میں بیٹھ گیا۔‬
‫تھوڑی دیر بعد آنٹی بھی آ گئیں اور ہماری گاڑی چل پڑی۔‬

‫راستے میں فرزند کے ساتھ گپ شپ جاری رہی ۔ وہ بڑا ہی ڈیسنٹ‬


‫آدمی تھا۔۔اور اس کے ساتھ بات چیت کر کے بڑا مزہ آتا تھا۔۔۔۔ پتہ ہی‬
‫نہیں چال اور باتوں باتوں میں ان کا گھر آ گیا۔۔۔ چنانچہ وہ ہمارے‬
‫ساتھ ڈرائینگ روم تک آیا۔۔۔۔ اور پھر تھوڑی دیر بیٹھ کر یہ کہتے‬
‫ہوئے باہر نکل گیا کہ میں فریش ہو کر آتا ہوں ۔ فرزند کے جاتے ہی‬
‫صائمہ باجی معہ اپنی ساس اور ایک پیاری سی لڑکی کے کمرے‬
‫میں آ دھمکی ان کے ہاتھ میں ایک ٹرے تھی چنانچہ اندر داخل ہوتے‬
‫ہی وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بڑی شوخی سے کہنے لگی … لو‬
‫جناب باقاعدہ ڈنر تو آپ کی خدمت میں کچھ دیر بعد سرو کیا جائے‬
‫گا لیکن اس سے پہلے تم مشروب پی کر اپنا دل بہالؤ ۔ ان کی بات‬
‫سن کر میں نے بھی اسی شوخی کے ساتھ انہیں جواب دیتے ہوئے‬
‫کہا کہ پہلے آپ یہ بتائیں کہ جس کو پی کر میں نے اپنا دل بہالنا ہے‬
‫ب مغرب؟ میری بات سن کر‬ ‫ب مشرق ہے یا کہ مشرو ِ‬‫۔۔۔۔۔۔وہ مشرو ِ‬
‫انہوں نے تیوری چڑھائی اور پھر مصنوعی خفگی سے بولیں ارے‬
‫او ناہنجار لڑکے۔۔۔ تیری یہ ہمت کہ تو اپنی بڑی بہن کے سامنے‬
‫مشروب مغرب کا نام لے؟ تو اس پر میں نے ان سے کہا کہ باجی‬
‫ب مشرق سے میری مراد‬ ‫جی آپ بلکل غلط سمجھ رہیں ہیں ۔ مشرو ِ‬
‫ت دلبہار ٹائپ‬‫ت روح افزا ۔۔۔یا شرب ِ‬‫یہ تھی کہ ان گالسوں میں شرب ِ‬
‫ب مغرب یعنی کوک پیپسی وغیرہ ؟۔۔‬ ‫کی کوئی چیز ہے یا پھر مشرو ِ‬
‫میری بات سن کر وہ مسکرا کر بولیں۔۔۔ چونکہ تم نے بات کو بہت‬
‫اچھا ٹؤسٹ دے دیا ہے اس لیئے میں آج کے دن تمہاری جان بخشی‬
‫کا اعالن کیا جاتا ہے۔۔ لیکن آئیندہ ایسی گستاخی ہر گز برداشت نہیں‬
‫کی جائے گی۔ یہ کہتے ہوئے انہوں نے ٹرے کو میرے سامنے کیا‬
‫تو میں دیکھا کہ گالس میں پیپسی پڑی تھی سو میں نے ٹرے سے‬
‫ایک گالس ا ُٹھایا اور اسے ٹھہر ٹھہر کر پینا شروع ہو گیا۔ اس کے‬
‫ساتھ ساتھ ہم دونوں میں ہلکی پھلکی نوک جھونک بھی ہوتی رہی ۔۔‬
‫کچھ دیر بیٹھنے کے بعد وہ یہ کہتے ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئیں کہ میں‬
‫کچن میں جا رہی ہوں ان کے جانے کے بعد میری ہونے والی ساس‬
‫نے میرے ساتھ رسمی گفتگو شروع کی۔۔۔۔۔اور پھر وہ بھی۔۔۔۔ بمعہ‬
‫آنٹی یہ کہہ کر کمرے سے باہر نکل گئیں کہ فرزند آتا ہی ہو‬
‫گا۔۔۔۔چنانچہ ان کے جانے کے بعد۔۔۔۔ اب کمرے میں ۔۔۔ میں اور‬
‫میری ہونے والی سالی ثانیہ رہ گئے تھے خواتین کے جاتے ہی وہ‬
‫کھسک کر میرے سامنے والے صوفے پر بیٹھ گئی یہاں پر میں آپ‬
‫سے ثانیہ کا مختصر تعارف کروا دوں وہ ایک دبلی پتلی اور سمارٹ‬
‫سی لڑکی تھی اس وقت اس کی عمر ‪ 20‬یا ‪ 21‬سال ہو گی ۔اس کے‬
‫چہرے کا رنگ گندمی تھا آنکھیں بڑی بڑی ۔۔۔۔ اور ان میں ایک‬
‫عجیب قسم کی کشش تھی جبکہ ثانیہ کی ناک ستواں اور ہونٹ پتلے‬
‫پتلے سے تھے‬

‫ویسے تو دیکھنے میں ثانیہ ایک خوبصورت لڑکی تھی ۔۔ لیکن اس‬
‫خوب صورتی میں ایک خامی بھی تھی اور وہ یہ کہ اس کی چھاتیاں‬
‫بہت چھوٹی تھیں۔۔ میرے خیال میں ٹینس بال سے تھوڑی بڑی ہوں‬
‫گی۔ اس نے جدید تراش خراش کا برینڈڈ سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔۔ اور‬
‫مزے کی بات یہ ہے کہ میرے سامنے بیٹھتے ہوئے۔۔ اس نے برائے‬
‫نام دوپٹہ بھی نہیں لیا ہوا تھا۔۔ جس کی وجہ سے مجھے اس کی‬
‫چھاتیوں کا اندازہ لگانے میں ذرا بھی دیر نہیں لگی۔۔۔ آنٹی لوگوں‬
‫کے جانے کے بعد اس نے میرے ساتھ بات چیت شروع کر دی۔۔۔۔اور‬
‫پہلے تو کافی زنانہ قسم کے سوال کیئے جیسے آپ کو کون سا رنگ‬
‫پسند ہے؟ پرفیوم کس برانڈ کا استعمال کرتے ہو؟ آپ پینٹ شرٹ‬
‫شوق سے پہنتے ہیں یا ۔۔۔ شلوار قمیض ؟ وغیرہ وغیرہ۔۔۔۔ پھر آہستہ‬
‫آہستہ اس نے اپنے مطلب کے سوالوں پر آ گئی۔۔۔۔اور پے در پے‬
‫سواالت کرنے شروع کر دیئے یعنی سوالوں کے ریپٹ فائر شروع‬
‫کر دیئے۔۔۔۔وہ ایسے سوال تھے کہ ان میں سے اکثر کے جواب میں‬
‫پہلے ہی دے چکا تھا ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ یہ‬
‫جوابات صائمہ باجی نے پہلے سے ہی مجے رٹائے ہوئے تھے۔اس‬
‫لیئے میں اس کی طرف سے بظاہر بہت ٹیڑھے سوالوں کے جواب‬
‫بھی بڑے آرام سے دیتا چال گیا۔۔۔۔۔۔اس میں کوئی شک نہیں کہ ثانیہ‬
‫بہت ہی تیز ‪ ،‬شوخ‪ ،‬اور جلد فری ہونے ۔۔۔ یا جلد گھل مل جانے والی‬
‫لڑکی تھی۔۔۔۔اور اس کی بے باکی کے بارے میں تو آپ لوگ اچھی‬
‫طرح سے جانتے ہیں کہ بے باقی اس فیملی کی گھر کی لونڈی‬
‫تھی۔۔۔ یہاں تک کہ کافی دیر سے میں اور ثانیہ ڈرائینگ روم میں‬
‫اکیلے بیٹھے تھے لیکن کسی نے اس پر کوئی اعتراض نہ کیا تھا۔۔۔۔‬
‫جیسا کہ میں پہلے ہی آپ کو بتا چکا ہوں کہ کچھ ہی دیر میں وہ‬
‫میرے ساتھ بہت زیادہ فری ہو گئی تھی۔۔۔۔چنانچہ گپ شپ کے دوران‬
‫اچانک ہی وہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگی۔۔ ۔۔۔۔کیا وجہ ہے کہ‬
‫بھابھی کے ساتھ آپ کی بڑی دوستی ہے؟ اس سے پہلے کہ میں اس‬
‫بات کا جواب دیتے وہ اگال سوال داغتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫میرے بارے میں آپ کیا جانتے ہو ؟ اس کا سوال سن کر پہلے تو‬


‫میں حیران رہ گیا۔۔۔۔ اور بنا سوچے اس کو جواب دیتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔۔۔کہ آپ کا نام ثانیہ ہے اور آپ شاید کسی کالج میں پڑھتی ہو ۔۔۔‬
‫میری بات سن کر وہ آنکھیں نکالتی ہوئی بولی۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ آپ شاید یہ‬
‫بھول گئے ہو۔۔۔۔ کہ میرا آپ کے ساتھ ایک اور بھی رشتہ ہے اور وہ‬
‫یہ کہ میں آپ جناب کی ہونے والی سالی بھی ہوں۔ اس پر میں نے‬
‫خواہ مخواہ مسکراتے ہوئے کہا کہ ۔۔ جی جی۔۔۔ مجھے معلوم ہے تو‬
‫وہ ترنت ہی کہنے لگی تو پھر آپ کو یہ بھی معلوم ہونا چاہئے کہ‬
‫تانیہ کی طرف جانے واال ہر راستہ (اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے )‬
‫ادھر سے ہو کر گزرتا ہے ۔۔اس لیئے اگر آپ کو تانیہ کے بارے میں‬
‫کچھ معلومات چاہئیں یا اگر آپ نے اس کو کوئی پیغام وغیرہ دینا ہے‬
‫تو بے دھڑک ہو کر مجھے دے سکتے ہیں۔ پھر شوخی بھرے لہجے‬
‫میں کہنے لگی۔۔۔ ۔۔میں آپ کا یہ پیغام نہایت ایمانداری اور ۔۔۔۔۔ تمام‬
‫تر رازدی کے ساتھ سر انجام دوں گی ۔ تو اس پر میں نے اس سے‬
‫کہا مسیج کیا خاک دینا ہے جی ۔۔۔ میں نے تو ابھی تک آپ کی بہن‬
‫کو ٹھیک سے دیکھا بھی نہیں ہے۔۔ میری بات سن کر وہ اسی شوخی‬
‫سے کہنے لگی آپ کی اس بات کا میں نے یہ مطلب لیا ہے کہ آپ‬
‫میری چندے آفتاب چندے مہتاب قسم کی بہن کو دیکھنا چاہتے ہیں۔۔‬
‫۔۔۔یا اس سے ملنا چاہتے ہو؟‬

‫تو اس پر میں نے دانت نکالتے ہوئے کہا کہ اگر ایسا ہو جائے تو آپ‬
‫کے منہ میں گھی شکر۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ ہنستے ہوئے کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔ تو پھر حضور ۔۔۔۔ اپنا گھی شکر تیار رکھیئے گا ۔۔۔ کہ آج‬
‫کسی بھی وقت۔۔۔ میں آپ کو اپنی چندے آفتاب چندے مہتاب بہن کا‬
‫دیدار کروانے والی ہوں۔۔ پھر اچانک اس باتونی لڑکی نے باتیں‬
‫کرتے کرتے ایک نظر باہر کی طرف دیکھا اور پھر مجھ سے کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔ زرا اپنا سیل فون تو دکھایئے؟ اس پر میں چونک گیا ۔۔۔۔اور‬
‫پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔ کہ۔۔۔۔ اسے کیوں مانگ رہی‬
‫ہو؟ تو وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔ فکر نہیں کریں جناب۔۔۔۔ میں آپ‬
‫کی فون بُک اور میسجز کو ہر گز نہیں دیکھوں گی۔۔ بلکہ مجھے‬
‫ایک ضروری کال کرنی ہے۔ اس پر میں نے جیب میں ہاتھ ڈال کر‬
‫موبائل فون نکاال اور اس کی طرف بڑھاتے ہوئے بوال۔۔۔۔ کہ بےشک‬
‫آپ فون بک اور مسیجز دیکھ لو ۔۔۔ اس میں ایسی کوئی بات نہیں ہے‬
‫تو اس پر وہ کہنے لگی۔۔۔۔۔ارے میں تو مذاق کر رہی تھی ۔۔۔ چنانچہ‬
‫اس نے میرے ہاتھ سے موبائل لینے سے پہلے ایک نظر پھر باہر‬
‫کی جانب دوڑائی۔۔۔۔اور پھر ادھر سے مطمئن ہو کر میرے ہاتھ سے‬
‫فون لے لیا۔۔۔ اور جلدی جلدی کوئی نمبر مالنے لگی۔۔۔۔ نمبر مالنے‬
‫کے بعد اس نے فون کو ۔۔ اپنے کان سے لگا لیا۔۔۔۔ اور پھر کچھ دیر‬
‫کے بعد ۔۔اس نے مجھے فون واپس کر دیا۔۔۔ تو میں نے اس سے‬
‫پوچھا کہ ۔۔ کیا ہوا فون بند تھا؟ تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫کہنے لگی۔۔۔ جی نہیں فون بند نہیں بلکہ آن تھا۔۔ اور بائے دا وے آپ‬
‫کے فون سے میں نے اپنے فون پر بیل دی تھی اس پر میں نے‬
‫حیران ہوتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ ۔۔آپ نے اپنے فون پر بیل کیوں دی؟ تو‬
‫جوابا ً وہ کہنے لگی۔۔۔۔۔۔وہ اس لیئے جناب کہ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔آپ کی بہن نے‬
‫تو آپ کا نمبر مجھے کبھی نہیں دینا نہیں تھا اور بھائی سے میں‬
‫مانگ نہیں سکتی تھی ۔۔۔ اس لیئے آپ کا موبائل نمبر جاننے کے‬
‫لیئے مجھے یہی طریقہ سوجھا تھا۔۔ اس پر میں نے اس سے کہا کہ‬
‫آپ نے ویسے ہی مانگ لینا تھا تو وہ جواب دیتے ہوئے بولی۔۔۔۔ نا‬
‫بابا میں یہ رسک ہر گز نہیں لے سکتی تھی۔۔۔تو میں نے حیران‬
‫ہوتے ہوئے بوال۔۔۔۔ اس میں رسک والی کون سی بات تھی؟ تو وہ‬
‫طنزیہ لہجے میں کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔۔کیا پتہ آپ کی باجی نے نمبر دینے‬
‫سے آپ کو منع کیا ہو۔۔‬

‫میں اور ثانیہ باتیں کر رہے تھے کہ اسی دوران فرزند اور اس کی‬
‫امی کمرے میں داخل ہوئیں اور مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں‬
‫۔۔۔ بیٹا اس نے آپ کو زیادہ تنگ تو نہیں کیا ؟؟ ۔تو میں نے بڑے ادب‬
‫سے جواب دیتے ہوئے کہا کہ جی۔۔۔ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔میری‬
‫بات ختم ہوتے ہی فرزند کہنے لگا کہ زیادہ بھوک تو نہیں لگی؟ تو‬
‫میں نے جواب دیا ۔۔ کہ نہیں ابھی تو نہیں لگی۔۔۔ تو آنٹی مسکراتے‬
‫ہوئے بولیں۔ اگر لگی بھی ہے تو تھوڑا ویٹ کر لو کہ ان کے ڈیڈی‬
‫بس آتے ہی ہوں گے ۔اس کے بعد ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی‬
‫بیس پچیس منٹ کے بعد انکل بھی گھر پہنچ گئے اور آتے ساتھ ہی۔۔۔‬
‫سیدھا میرے پاس آئے اور مجھ سے معذرت کرتے ہوئے بولے۔۔۔‬
‫سوری بیٹا ! ایک نہایت ضروری کام کی وجہ سے میں وقت پہ نہ آ‬
‫سکا ۔۔ پھر آنٹی کی طرف دیکھتے ہوئے بولے تم کھانا لگواؤ میں‬
‫فریش ہو کر ابھی آیا ۔۔ چنانچہ انکل کی بات سن کر آنٹی یہ کہتے‬
‫ہوئے اُٹھ کھڑی ہوئیں کہ جی میں ابھی لگواتی ہیں ۔ پھر تھوڑی ہی‬
‫دیر بعد فرزند مجھے پورے پروٹوکول کے ساتھ ڈائینگ ٹیبل پر لے‬
‫گیا۔ وہاں جا کر دیکھا تو ڈائینگ ٹیبل بھانت بھانت کے کھانوں سے‬
‫سجا ہوا تھا ابھی میں ڈائینگ ٹیبل کا جائزہ لے رہا تھا کہ اچانک ثانیہ‬
‫جو میرے ساتھ کھڑی تھی سرگوشی کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔ با ادب با‬
‫مالحظہ ۔۔۔۔ اس پر میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس نے مجھے‬
‫آنکھ کے اشارے سے سامنے دیکھنے کو کہا۔۔۔اس کے کہنے پر جب‬
‫میں نے ٹیبل کی دوسری طرف دیکھا تو وہاں تانیہ کھڑی تھی۔ تانیہ‬
‫کو دیکھ کر مجھے ایسا لگا کہ گویا میں ثانیہ کو ہی دیکھ رہا ہوں۔۔۔‬
‫دنوں بہنوں کی فزیک اور شکلیں ایک دوسرے کے ساتھ بہت زیادہ‬
‫ملتی تھیں دونوں ہی گندمی رنگت اور سلم باڈی والی لڑکیاں تھیں ۔۔۔۔‬
‫دونوں کے ممے چھوٹے تھے۔۔۔۔۔ فرق تھا تو فقط اتنا کہ ۔۔۔ ثانیہ کے‬
‫برعکس تانیہ کے چہرے اور خاص طور پہ اس کی بڑی بڑی‬
‫آنکھوں سے ایک عجیب سی ویرانی ٹپک رہی تھی ۔۔ ایک لمحے‬
‫کے لیئے ہم دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں۔اس کی آنکھوں میں میرے‬
‫لیئے کوئی تاثر نہیں تھا۔۔۔چنانچہ اس نے خالی خالی آنکھوں سے‬
‫میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔اور پھر اگلے ہی لمحے ڈائینگ ٹیبل کی‬
‫کرسی کو اپنی طرف گھسیٹ ۔۔۔۔۔کر بڑی خاموشی سے اس پر بیٹھ‬
‫گئی ۔۔۔ اور کھا نا شروع ہونے کے کچھ دیر بعد ۔۔۔۔وہ اسی خاموشی‬
‫کے ساتھ اُٹھ کر چلی گئی۔۔۔ مجموعی طور پر تانیہ ایک خاموش اور‬
‫سنجیدہ لڑکی تھی اس نے محبت کو روگ بنا لیا تھا اور میں نے‬
‫محسوس کیا کہ اس کے سارے وجود پر اداسی بال کھولے رو‬
‫نہیں۔۔۔۔۔ بلکہ بین کر رہی تھی۔۔۔۔ جبکہ اس کے برعکس اس کی‬
‫چھوٹی بہن ثانیہ زندگی سے بھر پور ۔۔۔۔۔۔ اور شوخ و چنچل قسم کی‬
‫لڑکی تھی کھانے کے دوران بھی۔۔۔۔ میری اور اس کی چونچیں لڑتی‬
‫رہیں ۔۔۔ ڈائینگ ٹیبل پر میں نے نا چاہتے ہوئے بھی صائمہ باجی‬
‫کے ہاتھ سے بنی ہوئی بریانی کھائی اور طوہا ً و کرہا ً مجھے اس کی‬
‫بہت زیادہ تعریف بھی کرنا پڑی ۔ کھانا کھانے کے بعد ہم لوگ‬
‫ڈرائینگ روم میں آ کر بیٹھ گئے انکل اور آنٹی کی باتوں سے صاف‬
‫نظر آ رہا تھا کہ وہ اپنی بچی کی وجہ سے بہت پریشان ہیں۔۔ چائے‬
‫وغیرہ سے فراغت کے بعد آنٹی اور میں نے ان سے اجازت لی ۔۔۔۔‬
‫تو انکل فرزند سے مخاطب ہو کر بولے کہ بیٹا انہیں چھوڑ آؤ۔۔‬
‫فرزند ہمیں آنٹی کے گھر تک چھوڑ آیا اس نے مجھ سے بڑی دفعہ‬
‫کہا کہ میں آپ کو آپ کے گھر تک چھوڑ آتا ہوں لیکن میں نے بہانہ‬
‫بنایا کہ مجھے انکل سے ایک نہایت ضروری کام ہے۔سو باد َل‬
‫نخواستہ وہ مجھے بھی آنٹی کے گھر چھوڑ کر واپس چال گیا۔۔‬

‫اس دعوت کے تیسرے دن کی بات ہے کہ میرے موبائل پر بیل ہوئی‬


‫دیکھا تو سکرین پر ثانیہ کا نام چمک رہا تھا ۔۔۔ثانیہ کا نام دیکھ کر‬
‫میں نے جلدی سے فون اُٹھا کر ابھی ہیلو ہی کہا تھا کہ آگے سے اس‬
‫کی چنچل آواز سنائی دی ۔۔ہائے جیجو! کیسے ہو آپ؟ اس کے بعد‬
‫رسمی بات چیت کے بعد وہ کہنے لگی کہ پتہ ہے میں نے آپ کو‬
‫فون کیوں کیا؟ تو میں نے اس کو جواب دیا کہ مجھے نہیں معلوم آپ‬
‫بتا دو ۔۔۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔ تانیہ کی ایک ویری بیسٹ فرینڈ ہے بلکہ‬
‫ہم دونوں کی مشترکہ دوست ہے رمشا ۔۔ ایک ماہ ہو گیا وہ اپنی کزن‬
‫کی شادی کے سلسلہ میں فیصل آباد گئی ہوئی تھی اور کل ہی واپس‬
‫آئی ہے اور جب اسے یہ معلوم ہوا کہ آج کل آپ اور تانیہ کے‬
‫رشتے کی بات چل رہی ہے تو اس وقت سے میڈم نے فرمائیش کر‬
‫کر کے میرے کان میں درد کر دیا ہے کہ وہ آپ کو دیکھنا چاہتی‬
‫ہے اس کے بعد وہ کہنے لگی میں نے اس بال سے جان چھڑانے کی‬
‫بڑی کوشش کی ہے۔۔۔۔ لیکن یہ بی بی تو جونک کی طرح مجھ سے‬
‫چمٹ گئی ہے اور بار بار ایک ہی بات کہے جا رہی ہے کہ اس نے‬
‫آپ سے ملنا ہے سو میرے ہونے والے۔۔۔۔ پیارے جیجو مجھ پر تھوڑا‬
‫سا رحم کریں اور اس بال سے میرا پیچھا چھڑائیں۔۔۔اس کی اتنی لمبی‬
‫بات سن کر میں نے اس سے کہا کہ مجھے کیا کرنا ہے؟ تو وہ ترنت‬
‫ہی کہنے لگی آپ نے ہماری بہنوں جیسی دوست کو اپنا دیدار کرانا‬
‫ہے اور وہ بھی ابھی اور اسی وقت۔۔۔۔ اس کے بعد وہ لجاجت بھرے‬
‫لہجے میں بولی ۔۔ بھائی پلیززززززززززز ۔۔پلیزززززززززززززز‬
‫۔ آپ جلدی سے آ جائیں نا۔۔۔تو اس پر میں نے ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔میں‬
‫آ تو جاؤں ۔۔۔۔لیکن محترمہ کیا آ پ بتانا پسند کریں گی کہ مجھے آنا‬
‫کہاں ہے؟ تو وہ کہنے لگی۔۔ رمشا کا گھر آپ کے آفس سے تھوڑا‬
‫ہی دور ہے آپ چاہیں تو پیدل بھی آ سکتے ہیں اس کے بعد وہ ایک‬
‫دفعہ پھر اسی لجاجت سے بولی جلدی سے آ جائیں نا ۔اس دفعہ میں‬
‫نے اس سے قدرے تیز لہجے میں کہا کہ کچھ بتاؤ گی کہ میں نے‬
‫کہاں آنا ہے ؟ میری بات سن کر تانیہ بولی۔۔۔۔ یہ لیں رمشا کے ساتھ‬
‫خود بات کر لیں یہ آپ کو پتہ سمجھا دے گی۔۔ اس کے ساتھ ہی فون‬
‫پر ایک نہایت نرم اور میٹھی سی آواز سنائی دی ۔۔ہیلو جناب ۔۔۔‬
‫کیسے ہیں آپ ؟ اور پھر رسمی باتوں کے بعد اس لڑکی نے اپنا پتہ‬
‫سمجھایا ۔۔ اس کے گھر کا اڈریس سمجھنے کے بعد میں نے اس سے‬
‫کہا کہ میرے حساب سے تو آپ کا گھر شیل پمپ کے ساتھ والی گلی‬
‫میں بنتا ہے تو وہ اپنی سریلی آواز میں کہنے لگی جی آپ درست‬
‫سمجھے ۔۔۔ جہاں پر شیل پمپ والی گلی ختم ہوتی ہے وہیں اُلٹے ہاتھ‬
‫پر ہمارا گھر ہے اور اس گھر کی مین نشانی باڑھ ہے ۔۔ جو اس کے‬
‫چاروں طرف لگی ہوئی ہے وہ سریلی لڑکی جو کہ تانیہ کے بچپن‬
‫کی دوست بتائی جا رہی تھی اسی سریلی آواز میں۔۔۔ مزید کہنے لگی‬
‫آپ کے آفس سے ہمارا گھر ہارڈلی ‪ 20‬منٹ کی واک پر ہو گا ۔اس‬
‫لیئے اگر آپ ابھی آفس سے چل پڑیں تو ٹھیک ‪ 20‬منٹ کے بعد آپ‬
‫ہمارے گیٹ کے سامنے کھڑے ہوں گے۔۔ اس لڑکی جسے ثانیہ رمشا‬
‫کے نام سے پکار رہی تھی کی آوا ز بہت نرم اور سریلی تھی۔۔۔اور‬
‫میں یہ سوچ رہا تھا کہ جس لڑکی کی آواز اس قدر سریلی ہے اس‬
‫کی شکل۔۔ یہ سوچ آتے ہی میں ۔۔۔۔ نے اس نرم اور سریلی آواز والی‬
‫لڑکی سے کہا کہ میں ٹھیک ‪ 20‬منٹ کے بعد آپ کے گھر ہوں گا۔‬

‫چنانچہ اگلے بیس کی بجائے آدھے گھنٹے کے بعد ۔۔۔ میں تانیہ اور‬
‫ثانیہ کی بیسٹ فرینڈ رمشا کے گھر کے باہر کھڑا تھا یہ ایک پرانے‬
‫طرز کی کوٹھی تھی۔۔۔۔ جس کے چاروں ا طراف بڑی سی باڑھ لگی‬
‫ہوئی تھی جبکہ اس پرانی طرز کی کوٹھی کے شروع میں ہی بڑا سا‬
‫گیٹ تھا۔۔۔۔ اور اس گیٹ کے اس پار برآمدے میں کار پورچ بنا ہوا‬
‫تھا۔۔۔ جبکہ گیٹ کے دائیں طرف کھڑکی بھی تھی جس پر جالی لگی‬
‫ہوئی تھی۔۔۔ جیسے ہی میں ان کے گیٹ کے سامنے پہنچا تو اندر‬
‫سے ثانیہ کی چنچل آواز سنائی دی ۔۔۔ہائے جیجو!!! میں نے آواز کی‬
‫سمت دیکھا تو مجھے کھڑکی میں ایک ہیلولہ سا نظر آیا۔۔۔ اور پھر‬
‫۔۔۔۔ اگلے ہی لمحے وہ غائب ہو گیا۔۔ ۔۔اور اس سے آدھے منٹ کے‬
‫بعد تانیہ ایک لڑکی کے ساتھ نمودار ہوئی۔۔۔۔ تانیہ کے ساتھ آنے‬
‫والی۔۔۔۔ دوسری لڑکی یقینا ً رمشا تھی۔۔ ۔۔۔۔یہ ایک گوری چٹی مناسب‬
‫قد اور متناسب جسم والی لڑکی تھی جس نے نظر کی عینک لگائی‬
‫ہوئی تھی۔ ثانیہ کی طرح یہ بھی کافی ماڈرن لگتی تھی۔۔ اس نے بڑی‬
‫فٹ قسم کی ٹائیٹس ‪ ،‬اور اس کے اوپر ایک لمبی سی قمیض پہنی‬
‫ہوئی تھی اور اس قمیض کے چاک اس قدر بڑے تھے کہ جس کی‬
‫وجہ سے اس کی رانوں کی گوالئی کے ساتھ ایک سائیڈ سے اس کی‬
‫گانڈ کی موٹائی بھی صاف نظر آ رہی تھی۔ اور اس موٹی گانڈ کو‬
‫دیکھ کر میرے ٹھرکی من میں کچھ کچھ ہونے لگا تاہم بظاہر میں‬
‫نے شرافت کا لبادہ اوڑھے رکھا۔۔۔۔۔ اور مسکین صورت بنائے کھڑا‬
‫رہا۔۔۔۔ہاں یاد آیا ۔۔۔۔۔ اس کی قمیض کا گریبان بہت کھال ۔۔۔ بلکہ کھال‬
‫ڈھال تھا۔۔۔ ثانیہ کے برعکس اس نے دوپٹے کے نام پر ایک چھوٹی‬
‫سی دھجی لی ہوئی تھی اور اس کے سینے پر پڑا ۔۔۔یہ چھوٹا سا‬
‫کپڑا۔۔۔۔ اس کی بھاری چھاتیوں کو چھپانے کی ناکام کوشش کر رہا‬
‫تھا۔۔۔ اس نے آگے بڑھ کر گیٹ کھوال اور بڑی بے تکلفی سے میری‬
‫طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے بولی۔۔۔ ہائے میں رمشا ہوں۔۔۔۔پھر ثانیہ کی‬
‫طرف اشارہ کرتے ہوئے شرارت سے بولی اس۔۔۔ کی تھوڑی کم‬
‫لیکن تانیہ کی بیسٹ فرینڈ ہوں۔۔رمشا کا بڑھا ہوا ہاتھ دیکھ کر ایک‬
‫لمحے کے لیئے میں جھجھک سا گیا ۔۔۔۔‬

‫پھر میں نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں لے لیا۔۔۔۔اور بڑی گرم جوشی‬
‫سے ہالتے ہوئے بوال۔۔۔آپ سے مل کر بڑی خوشی ہوئی۔۔۔اور پھر‬
‫میں نے بھی اسی بے تکلفی کے ساتھ اس سے پوچھا کہ ۔ یہ تو‬
‫بتائیں کہ ثانیہ سے کم دوستی میں کیا راز پہناں ہے؟ تو وہ مسکراتے‬
‫ہوئے بولی ۔۔۔۔ راز یہ ہے جی کہ میری اصل اور پکی دوست تو‬
‫تانیہ ہی ہے اور ہم ایک ہی سکول کالج میں پڑھتی رہیں ہیں۔۔اور‬
‫چونکہ اس کے ساتھ دوستی کی وجہ سے میرا ان کے گھر بہت‬
‫زیادہ آنا جانا تھا اس لیئے مجبورا ً مجھے اس آفت کے ساتھ بھی‬
‫دوستی کرنا پڑی۔۔ رمشا کی بات سن کر ثانیہ بظاہر غصے میں‬
‫بولی۔۔۔۔بھاڑ میں جاؤ۔۔۔۔ مجھے تم سے کوئی دوستی نہیں‬
‫کرنی۔۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ رمشا جواب میں کچھ کہتی۔۔۔ کہ اندر سے‬
‫ایک خوب صورت اور باوقار سی خاتون نمودار ہوئیں جن کے‬
‫بارے میں معلوم ہوا کہ یہ رمشا کی والدہ ہیں ۔۔ آتے ساتھ ہی انہوں‬
‫نے دونوں لڑکیوں کو ڈانٹتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ بے شرمو کچھ۔۔۔ شرم‬
‫کرو گھر میں مہمان آیا ہے اور تم آپس میں لڑے جا رہی ہو۔۔اس کے‬
‫بعد وہ میری طرف مخاطب ہو کر بولیں۔۔۔۔ سوری بیٹا۔۔۔ ان دونوں کی‬
‫باتوں کا برا نہیں منانا۔۔ کیونکہ یہ ان کا روز کا معمول ہے ۔۔اور پھر‬
‫مجھے اپنے ساتھ اندر لے گئیں۔ پرانے طرز کی اس کوٹھی کے‬
‫ڈرائینگ روم کو بڑے جدید طرز سے سجایا گیا تھا۔۔ مجھے وہاں‬
‫بٹھانے کے بعد انہوں نے رسمی گفتگو کے بعد انہوں نے میرا‬
‫انٹرویو لیا شروع کر دیا تھوڑا سا انٹرویو لینے کے بعد ۔۔۔وہ یہ‬
‫کہتے ہوئے اُٹھ گئیں کہ میں تمہار ے لیئے چائے کا بندوبست کرتی‬
‫ہوں ان کے جاتے ہی رمشا نے میرے ساتھ باتیں شروع کر دیں گئیں‬
‫۔ وہ اس قدر فرینڈلی تھی کہ اس سے بات چیت کرتے ہوئے مجھے‬
‫ایک لمحے کے لیئے بھی محسوس نہیں ہوا کہ ہم فرسٹ ٹائم مل‬
‫رہے ہیں۔ ہماری گپ شپ کے دوران ہی آنٹی چائے لے آئیں ۔۔چائے‬
‫پینے کے بعد کر میں ان سے اجازت لے کر اپنے آفس آ گیا۔ مجھ پر‬
‫رمشا کی بے تکلف اور فرینڈلی شخصیت نے بڑا اچھا اثر ڈاال تھا۔۔۔‬
‫دوسرے دن عین لنچ ٹائم ثانیہ کا فون آگیا۔۔۔ اور جیسے ہی میں نے‬
‫ہیلو کہا تو حسب معمول وہ تیزی سے بولی۔۔۔ پہلے یہ بتائیں کہ آپ‬
‫نے دوپہر کا کھانا کھا لیا ہے؟ تو میں نے جواب دیا کہ کھایا تو نہیں‬
‫البتہ کھانے کی تیاری کر رہا ہوں ۔۔۔تو اس پر ثانیہ جلدی سے کہنے‬
‫لگی۔۔۔ کھایئے گا بھی مت۔۔۔۔ کہ آپ کے لیئے آنٹی نے بڑی دھانسو‬
‫قسم کی بریانی بنائی ہوئی ہے اس لئے آپ جلدی سے یہاں آ جائیں ۔‬
‫اس کی بات سن کر میں ہنستے ہوئے بوال۔۔۔ یار میں ایسے کیسے آ‬
‫سکتا ہوں؟ تو آگے سے وہ کہنے لگی ۔۔بھائی یہ میں اپنی طرف سے‬
‫نہیں بلکہ آنٹی اور رمشا کی طرف سے کہہ رہی ہوں ۔ اگر یقین نہیں‬
‫تو آنٹی سے بات کر لیں ۔۔اگلے ہی لمحے آنٹی کی شفیق آواز سنائی‬
‫دی ۔۔۔۔۔ ان کی آواز سن کر میں نے نوٹ کیا کہ ۔۔۔ رمشا کی طرح ان‬
‫کی آواز میں بھی بہت نغمگی تھی۔۔۔۔ وہ کہہ رہیں تھیں کہ بیٹا ثانیہ‬
‫بتا رہی تھی کہ آپ کو بریانی بہت پسند ہے ۔۔۔ تو اتفاق سے آج‬
‫حسن اتفاق سے تمہاری‬ ‫ِ‬ ‫ہمارے ہاں بھی بریانی پکی ہوئی ہے۔۔اور‬
‫طرح ہم نے بھی ابھی تک کھانا نہیں کھایا ۔۔۔اس لیئے جلدی سے‬
‫آجاؤ ۔۔ مل کر کھاتے ہیں تھوڑی سے رد و کد کے بعد میں نے ہاں‬
‫کر دی۔۔۔۔ اس کے باوجود کہ بریانی مجھے زہر لگتی تھی میں فقط‬
‫ان لڑکیوں کے ساتھ گپ شپ کے اللچ میں چال گیا۔۔۔ بریانی بہت‬
‫تیکھی تھی اور آنٹی نے مرچ مصالحہ کچھ زیادہ ہی ڈاال ہوا تھا‬
‫جسے کھا کر مجھے دن میں تارے نظر آ گئے۔۔۔۔۔۔ لیکن میں نے‬
‫محض ان لڑکیوں کی خاطر نہ صرف یہ کہ بریانی کھائی بلکہ اس‬
‫کی جی بھر کے تعریف بھی کی۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد آنٹی کچھ دیر‬
‫ہمارے ساتھ گپ شپ کرتی رہیں۔۔۔۔ پھر یہ کہتے ہوئے اُٹھ کر چلی‬
‫گئیں کہ میں قیلولہ کرنے جا رہی ہوں۔۔۔ آنٹی کے جانے کے بعد‬
‫ادھر ادھر کی باتیں کرتے ہوئے اچانک ہی رمشا مجھ سے کہنے‬
‫لگی۔۔۔ سنا ہے آپ کا دوست (گوری) میم الیا ہے؟ تو میں نے اثبات‬
‫میں سر ہال دیا۔۔۔میرے سر کا اشارہ دیکھ کر اس نے صوفے پہ پہلو‬
‫بدال۔۔۔۔اور بڑے اشتا ق سے بولی ۔۔۔ وہ دیکھنے میں کیسی ہے ؟ تو‬
‫میں نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا کہ وہ بہت ہی خوبصورت اور‬
‫الکھوں میں ایک ہے۔ میری بات سن کر رمشا نے پتہ نہیں کیوں‬
‫اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری ۔۔۔۔ اسی اثنا میں ثانیہ بھی اشتیاق بھرے‬
‫لہجے میں بولی۔۔۔ کہ آپ کے ساتھ اس کا رویہ کیسا ہے؟ میرا مطلب‬
‫ہے وہ زیادہ مغرور تو نہیں؟‬

‫تو اس پر میں نے بطور مزاح جھوٹ بولتے ہوئے کہہ دیا کہ میری‬
‫تو اس کے ساتھ اچھی خاصی دوستی ہے پھر اس کے بعد میں‬
‫جھوٹ کی گانڈ مارتے ہوئے بوال۔۔۔۔ کبھی کبھی تو مجھے ایسا لگتا‬
‫ہے کہ میری عدیل سے زیادہ اس گوری میم کے ساتھ دوستی ہے۔۔۔۔۔‬
‫میری بات سن کر دونوں لڑکیوں نے ایک دوسرے کی طرف بڑی‬
‫معنی خیز نظروں سے دیکھا۔۔۔۔اور پھر رمشا کہنے لگی ۔۔۔ کیا وہ آپ‬
‫کے ساتھ کبھی باہر گئی ہے؟ تو میں نے پھر جھوٹ کی ماں بہن‬
‫ایک کرتے ہوئے کہا کہ باہر جاتے ہوئے اکثر عدیل ساتھ ہی ہوتا‬
‫ہے لیکن ایک دفعہ جب اسے امریکن سفارت خانے میں کوئی کام‬
‫تھا تو وہ میرے ساتھ اکیلی ہی گئی تھی۔۔اور واپسی پر میں نے اسے‬
‫اسالم آباد ہوٹل میں کھانا بھی کھالیا تھا ۔۔ میری بات سن کر رمشا‬
‫تھوڑا جھجھک کر بولی۔۔۔ کیا آپ اسے ہمارے گھر ال سکتے ہو ؟ تو‬
‫میں نے ایک بار پھر سفید جھوٹ بولتے ہوئے کہا کہ مسلہ ہی کوئی‬
‫نہیں۔۔میری بات سن کر اس کافر حسینہ کا چہرہ کھل اُٹھا۔۔ ۔۔۔پھر اس‬
‫کے بعد دونوں لڑکیوں نے گوری کے بارے میں سواالت کی بوچھاڑ‬
‫کر دی۔۔۔۔ اور میں جھوٹ پہ جھوٹ بولتا گیا۔۔۔۔ لیکن اس دوران میں‬
‫اس بات پر غور کرتا رہا کہ آخر یہ لڑکیاں گوری میں اس قدر دل‬
‫چسپی کیوں لے رہیں ہیں؟ ۔۔۔۔۔ چنانچہ ایک موقعہ پر جب ثانیہ نے‬
‫بڑے ہی اشتیاق کے ساتھ پانچویں یا چھٹی بار مجھ سے یہ سوال کیا‬
‫کہ وہ گوری دیکھنے میں کیسی لگتی ہے؟ تو اچانک مجھے ایک‬
‫شرارت سوجھی اور میں نے پورن موویز میں آنے والی ایک ایک‬
‫بہت ہی خوبصورت اور لزبین فلموں سے شہرت حاصل کرنے والی‬
‫ایک گوری ادا کارہ کا نام لیتے ہوئے کہا کہ۔۔۔۔۔۔وہ گوری میم ہو بہو‬
‫فالں (پورن مویز والی) ادا کارہ کی کاپی ہے۔۔۔ میری بات سن کر‬
‫ثانیہ بے اختیار کہنے لگی۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ پھر تو عدیل کی‬
‫بیگم بہت خوب صورت اور سیکسی ہو گی۔۔۔بات کرتے کرتے‬
‫اچانک اس نے رمشا کی طرف دیکھا ۔۔تو اس کا چہرہ غصے سے‬
‫الل ہو رہا تھا ۔۔۔ چنانچہ اس کی شکل دیکھتے ہی ۔۔۔۔۔ ثانیہ کو‬
‫محسوس ہو گیا کہ وہ کچھ غلط کہہ گئی ہے اور پھر تھوڑا غور‬
‫کرنے پر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی اسے سمجھ آئی کہ وہ کیا کہہ گئی ہے۔۔۔تو‬
‫اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔۔۔اور اس نے فورا ً اپنے منہ پر ہاتھ رکھ لیا ۔‬
‫تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے پراسرار لہجے میں کہا۔۔۔۔۔‬
‫اچھا تو یہ بات ہے ۔۔۔ میری بات سنتے ہی اس نے رمشا کی طرف‬
‫دیکھا ۔۔۔اور تیزی سے بولی ۔۔۔ بھائی ۔۔۔۔قسم سے میں نہیں۔۔۔۔۔ یہ‬
‫لیسبو ہے۔۔اتنی بات کرتے ہی وہ تقریبا ً بھاگتی ہوئی ڈرائینگ روم‬
‫سے باہر نکل گئی۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف ثانیہ کی بات سن کر میں نے‬
‫شرارت بھری نظروں سے رمشا کی طرف دیکھا تو حیرت ‪ ،‬غم اور‬
‫غصے (اور شاید شرم) کی وجہ سے اس کا چہرہ الل بھبھوکا ہو رہا‬
‫تھا۔۔۔۔۔لیکن جیسے ہی ہماری نظریں چار ہوئیں۔۔۔۔۔۔تو وہ پھیکی سی‬
‫مسکراہٹ سے بولی۔۔ ثانیہ جھوٹ بول رہی تھی۔۔۔۔۔ اس کے لہجے‬
‫سے صاف پتہ لگ رہا تھا کہ وہ جھوٹ بول رہی ہے ۔۔۔۔چنانچہ میں‬
‫نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ لزبین ہونے میں کوئی‬
‫ہرج نہیں ۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر‬
‫بولی۔۔۔۔اب میں کیا کہوں؟ تب میں نے ۔۔ اس خوب صورت اور‬
‫سیکسی لڑکی کو مزید کھولنے کے لیئے سفید جھوٹ بولتے ہوئے‬
‫کہا ۔۔۔ ۔۔ پتہ ہے ۔۔۔۔۔ اس دن عدیل مجھ سے کہہ رہا تھا کہ شادی سے‬
‫پہلے اس کی بیوی بھی لزبین تھی۔۔۔ میری بات سن کر رمشا کی‬
‫آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی۔۔۔لیکن وہ منہ سے کچھ نہیں‬
‫بولی۔۔۔۔‬

‫لیکن میں نے اپنی ٹرائی جاری رکھی۔۔۔۔۔ اور رمشا کو نارمل کرنے‬
‫کے لیئے ۔۔۔ میں نے گوری میم کے بارے میں کافی جھوٹ بولے۔۔۔‬
‫آخر کار میری محنت رنگ الئی ۔۔۔اور وہ نارمل ہونا شروع ہو گئی۔۔۔‬
‫ِ‬
‫ادھر جیسے ہی میں نے محسوس کیا کہ اب وہ نارمل ہوتی جا رہی‬
‫ہے تو میں نے ٹاپک چینج کر دیا۔۔۔۔اور اس کے ساتھ جھوٹ بولتے‬
‫ہوئے کہا۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ گوری پاکستانی لڑکیوں کے حسن پر‬
‫بڑی فدا ہے۔وہ اکثر مجھ سے کہتی تھی کہ پاکستانی لڑکیاں بہت خو‬
‫ب صورت ہوتی ہیں۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے اس ہاٹ ٹاپک پر‬
‫ڈھکے چھپے الفاظ میں کافی ساری بات کی۔۔۔۔ چونکہ معاملہ سیکس‬
‫اور وہ بھی لیزبین سیکس کا تھا۔۔۔۔ اس لیئے دھیرے دھیرے وہ میری‬
‫باتوں میں دل چسپی لینا شروع ہو گئی۔۔۔اور جب میں نے محسوس‬
‫کیا۔۔۔۔ کہ اب وہ پوری طرح میری ٹرانس میں آ چکی ہے ۔۔۔ تو جان‬
‫بوجھ کر ایک ضروری بہانہ کر کے وہاں سے اُٹھ بیٹھا ۔ میرے‬
‫اندازے کے برعکس اس نے مجھے روکنے کی کوئی کوشش نہیں‬
‫کی۔۔۔اور۔۔۔۔ مجھے چھوڑنے کے لیئے گیٹ تک آئی۔۔۔لیکن پھر بھی‬
‫دوران گفتگو میں نے محسوس کیا کہ میرا تیر نشانے پر لگ چکا‬
‫تھا۔۔۔اور وہ میرے اس جھوٹ پر یقین کر گئی تھی کہ میں اس کی‬
‫مالقات گوری سے کروا سکتا ہے۔۔۔۔ چنانچہ جب میں اسے الوداع‬
‫کہہ کر ۔۔۔۔۔ جانے لگا ۔۔ تو وہ ہچکچاتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔‬
‫سنیئے۔۔۔۔۔۔اس کی آواز سن کر میں پلٹ کر بوال۔۔۔۔۔جی رمشا ۔۔ کیا‬
‫بات ہے؟ تو وہ رک رک کر کہنے لگی ۔۔۔۔ میں گوری سے ملنا‬
‫چاہتی ہوں۔۔۔۔ رمشا کی بات سن کر میرا لن ۔۔۔اور من دونوں خوشی‬
‫سے چالئے۔۔۔۔ "وہ مارا" ۔۔۔۔۔ لیکن میں اپنی اندرونی کیفیت کو‬
‫چھاتے ہوئے ۔۔۔ اس سے بوال۔۔۔۔۔ کیوں اس کے ساتھ بھی افئیر کرنا‬
‫ہے؟ اور پھر اس کا جواب سنے بغیر سرسری سے لہجے میں بوال‬
‫۔۔۔۔ آج کل تو وہ شہر سے باہر گئی ہوئی ہے۔۔۔۔۔ جب واپس آئے گی‬
‫تو آپ سے ضرور ملواؤں گا۔۔۔ اتنی بات کہہ کر میں تیز تیز قدم‬
‫اُٹھاتے ہوئے۔۔۔ گیٹ سے باہر نکل گیا۔‬

‫اس کے بعد دو تین دن تک رمشا سے کوئی بات نہیں ہوئی ہاں اسی‬
‫دن شام کو ثانیہ کا فون آ گیا تھا۔۔۔ وہ کافی پریشان لگ رہی تھی‬
‫رسمی باتو ں کے بعد ۔۔۔ وہ بڑی سنجیدگی سے کہنے لگی ۔۔۔سوری‬
‫بھائی۔۔۔ دوپہر میں رمشا کے بارے میں فضول قسم کی بکواس کر‬
‫گئی تھی۔ جبکہ رمشا ایسی لڑکی ہر گز نہیں ہے۔۔۔۔ ۔آپ پلیز اس بات‬
‫کا بھائی سے تزکرہ نہ کیجیئے گا۔۔۔۔۔۔ چونکہ عام دنوں کی نسبت آج‬
‫وہ بہت سنجیدگی سے گفتگو کر رہی تھی ۔۔اس لیئے مجھے ایک‬
‫شرارت سوجھی۔۔ اور میں نے اسے تنگ کرنے کی غرض سے کہا‬
‫کہ۔۔ شکر کرو کہ تمہارا فون آ گیا تھا ورنہ میں ابھی فرزند صاحب‬
‫کو فون کرنے واال تھا۔۔۔میرا بلف کام کر گیا ۔۔۔۔اور بظاہر تیز لیکن‬
‫اندر سے سادہ سی ثانیہ مزید پریشان ہوتے ہوئے بولی۔۔۔ آپ بھائی‬
‫جان کو کیوں فون کرنے والے تھے؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے‬
‫کہا کہ میں ان سے کہنا واال تھا کہ آپ اپنی بہن کو کس کے گھر‬
‫بھیجتے ہو وہ تو۔۔۔اس پر وہ میری بات کو کاٹتے ہوئے پریشانی سے‬
‫بولی کہا۔۔ نا۔۔۔ کہ وہ ایسی لڑکی نہیں ہے ۔۔۔پھر بڑی لجاجت سے‬
‫کہنے لگی ۔۔ آپ پلیززززززز ۔۔۔ ایسا نہ کریں ۔۔ تو میں نے اس سے‬
‫کہا ٹھیک ہے میں ایسا نہیں کرتا لیکن میری ایک شرط ہو گی۔۔۔ تو‬
‫ب عادت بال سوچے سمجھے کہنے لگی مجھے آپ کی ہر‬ ‫وہ حس ِ‬
‫شرط منظور ہے بس آپ بھائی سے بات نہ کرنا۔۔۔۔۔ تو میں اسے کہا‬
‫سوچ لو۔۔۔تو وہ کہنے گی۔۔ سوچ لیا۔۔۔ بس آپ اس بارے بھائی جان‬
‫سے بات نہ کرنا۔۔۔۔ تو میں کہا۔۔۔ اوکے میں تمہارے بھائی سے۔۔۔۔‬
‫کوئی بات نہیں کروں گا۔۔۔ میری بات سن کر وہ خوشی سے بولی۔۔۔‬
‫ڈن ۔۔ اور میں نے بھی ڈن کہہ دیا۔۔۔ اس کے بعد وہ مجھ سے بولی‬
‫اب بتائیں کہ آپ کی شرط کیا ہے؟ تو میں نے اس سے کہا کہ آپ کو‬
‫اس بارے میں کسی مناسب وقت پر بتاؤں گا۔۔۔۔۔لیکن وہ بتانے پر‬
‫بضد رہی ۔۔ چونکہ اس وقت تک میں نے شرط کے بارے میں سوچا‬
‫نہ تھا ۔۔۔ اس لیئے ۔۔۔میں اسے گولی دیتا رہا۔۔۔۔ اور کوئی آدھے‬
‫گھنٹے کی مغز ماری کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔ اس نے مطمئن ہو کر فون رکھ‬
‫دیا۔۔اس کے فون بند کرنے کے بعد میں رمشا کے بارے میں سوچنے‬
‫لگا۔ کہ اس سیکسی لڑکی سے مالقات کے لیئے کیا چکر چالیا جائے‬
‫۔۔ لیکن اس کی نوبت ہی نہیں آئی۔۔۔ یہ اس مالقات سے تیسرے دن‬
‫کی بات ہے کہ میں آفس کے ایک کام کے سلسلہ میں قریبی مارکیٹ‬
‫گیا ہوا تھا۔۔۔ کام نبٹانے کے بعد میں واپس دفتر کی طرف جا رہا تھا‬
‫کہ اچانک مجھے رمشا نظر آ گئی۔۔‬
‫اس نے گرین کلر کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی۔۔ اور اس وقت وہ‬
‫ایک مشہور برانڈڈ سٹور کے اندر جا رہی تھی۔۔۔ ۔۔ اس کو یوں اکیال‬
‫دیکھ کر میں وہیں پر رک گیا ۔۔۔ پہلے خیال آیا کہ اس کے پیچھے‬
‫پیچھے دکان کے اندر چال جاؤں ۔۔۔ لیکن مجھے یہ بات مناسب نہ‬
‫لگی چنانچہ دوسرے آپشن کے طور پر میں وہیں کھڑا ہو گیا۔۔۔ اور‬
‫پالن یہ تھا کہ جیسے ہی وہ دکان سے باہر نکلے گی میری اس کے‬
‫ساتھ "اتفاقاً" مالقات ہو جائے گی۔۔۔ چنانچہ پروگرام طے کرنے کے‬
‫بعد ۔۔۔ میں ایک سائن بورڈ کی آڑھ میں کھڑا ہو کر ۔۔۔۔اس کا انتظار‬
‫کرنے لگا۔۔۔بالشبہ کسی کا انتظار کرنا ایک مشکل امر ہے ۔۔۔ لیکن‬
‫مقصد اگر "خاص" ہو تو ایسا ممکن ہو سکتا ہے۔۔۔ چانچہ کوئی ایک‬
‫گھنٹہ کے بعد۔۔ وہ دکان سے باہر نکلی۔۔۔اس کے ہاتھ میں دو تین‬
‫شاپنگ بیگ تھے۔۔اتفاق سے جس طرف میں کھڑا تھا وہ بھی اسی‬
‫طرف آ رہی تھی چنانچہ یہ دیکھ کر میں بھی پروگرام کے مطابق‬
‫بظاہر بے دھیانی سے اس کی طرف چل پڑا۔۔۔ اور اس کے قریب‬
‫پہنچ کر ایسا شو کیا کہ جیسے ہم "اتفاق" سے مل گئے ہیں چا نچہ‬
‫میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے خوشی اور حیرت بھری آواز‬
‫میں کہا ۔۔۔ ہیلو رمشا کیسی ہو آپ ؟ تو وہ مسکرا تے ہوئے بولی۔۔۔‬
‫کچھ شاپنگ کے سلسلہ میں آئی تھی۔ پھر کہنے لگی آپ کدھر؟ اس‬
‫دن کے بعد آپ نے رابطہ ہی نہیں کیا۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ‬
‫بس تھوڑا بزی تھا ۔ ۔۔پھر اس سے کہنے لگا۔۔۔۔۔ میرا دل جوس پینے‬
‫کو چاہ رہا تھا اس لیئے میں ادھر آ گیا۔۔پھر ادھر ادھر کی باتوں کے‬
‫بعد میں نے اس کہا۔ ۔۔۔۔ کہ کیا آپ میرے ساتھ جوس پینا پسند کرو‬
‫گی؟ تو وہ مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔ آپ اتنے خلوص کے ساتھ کہہ‬
‫رہے ہو تو میں بھال انکار کیسے کر سکتی ہوں۔۔۔ ۔‬
‫اس کی بات سن کر میں نے اس کے ہاتھ سے شاپنگ بیگ پکڑے‬
‫اور۔۔۔ اسے ساتھ لے کر اس مارکیٹ کے ایک مشہور آئیس کریم‬
‫پارلر پہنچ گیا۔۔ جہاں پر جوس بھی ملتا تھا۔ وہاں جا کر ہم ایک‬
‫چھوٹے سے فیملی کیبن میں بیٹھ گئے ۔۔۔۔۔ وہاں بیٹھتے ہی اس نے‬
‫اپنے سینے سے دوپٹے کو ہٹایا ۔۔۔ اور ۔۔۔ بولی۔۔۔ آج بہت گرمی ہے‬
‫۔۔ ادھر جیسے ہی اس نے اپنے سینے سے دوپٹے کو ہٹایا تو میری‬
‫نظریں اس کی دودھ کی دکان پر پڑ گئیں۔۔۔ اس کی قمیض کا گال اس‬
‫قدر کھال تھا۔۔ کہ جس کی وجہ سے کی اس کی بھاری بھر کم‬
‫چھاتیاں آدھی ننگی نظر آ رہی تھیں۔۔۔ چنانچہ ۔۔۔ لکڑی کے اس‬
‫چھوٹے سے کیبن میں ۔۔ اس کی آدھی ننگی چھاتیوں کو دیکھ کر‬
‫میری نیت خراب ہونے لگی۔۔۔۔جبکہ دوسری طرف ۔۔۔وہ جس بے‬
‫نیازی کے ساتھ باتیں کرتے ہوئے اپنی چھاتیوں کا مختلف زاویوں‬
‫سے نظارہ کروا رہی تھی۔۔۔۔ اس سے میں نے اندازہ لگایا کہ شاید وہ‬
‫مجھے لبھا۔۔۔ یا پھر تڑپا رہی تھی۔۔۔ جبکہ اس کی قمیض سے جھانتیا‬
‫ہوئی خوب صورت چھاتیوں کو دیکھ کر میں بہت گرم ہو رہا تھا‬
‫۔۔۔۔۔اس سے باتیں کرتے کرتے اچانک ہی میرے زہن میں ایک خیال‬
‫آیا ۔۔ اور پھر میں نے فورا ً ہی اس خیال پر عمل کرتے ہوئے کہا کہ‬
‫کل میری عدیل اور گوری میم سے بات ہوئی ہے وہ کچھ دنوں تک‬
‫واپس آ رہے ہیں چنانچہ جیسے ہی گوری یہاں پہنچی ۔۔۔۔ آپ کی‬
‫خدمت میں پیش کر دی جائے گی۔ اس الٹرا ماڈرن اور آذاد خیال‬
‫لڑکی کے بارے میں پہلی دفعہ میرا تیر نشانے پر لگا۔۔(یا شاید وہ‬
‫میری طرف سے پہل کی منتظر تھی)۔ چنانچہ میرے منہ سے گوری‬
‫کا ذکر سنتے ہی اس کی آنکھوں میں جنسی بھوک اُمڈ آ ئی اور وہ‬
‫اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرنے کے ساتھ ساتھ شہوت بھری نظروں‬
‫سے دیکھتے ہوئے بولی۔یہ تو بہت اچھی خبر ہے ۔۔موقعہ چنگا دیکھ‬
‫کر میں نے اس سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے کہا کہ ایک بات تو بتاؤ۔۔۔ آپ‬
‫گوری کو " اس بات " پر آمادہ کیسے کرو گی؟ تو وہ مجھے گرسنہ‬
‫نظروں سے دیکھتے ہوئے بڑی شوخی سے بولی ۔۔۔۔اس بات کو‬
‫چھوڑ یں ۔۔۔۔ہم ایسے کاموں میں بڑے ماہر ہیں۔۔۔ آپ ایک دفعہ اس‬
‫کو لے تو آؤ۔۔۔پھر میں نے اس سے پوچھا کہ ۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ آپ‬
‫اب تک کتنی لڑکیوں کے ساتھ "تعلق" بنا چکی ہو۔۔۔ میری بات سن‬
‫کر وہ ایک دم سے چونک اُٹھی ۔۔۔اور پھر سنبھل کر کہنے لگی۔۔۔۔‬
‫کوئی خاص نہیں۔۔۔ ثانیہ کی بچی نے آپ کے ذہن میں میری بڑی‬
‫غلط تصویر بنا دی ہے ۔۔۔اتنی دیر میں باہر ہلکی سی کھانسی کی‬
‫آواز سنائی دی۔۔۔ پھر اس کے چند سیکنڈز کے بعد پردہ ہٹا ۔۔ کیبن‬
‫میں داخل ہونے واال ویٹر تھا۔۔ جبکہ دوسری طرف اس کی آالرمنگ‬
‫کھانسی کی آواز سنتے ہی رمشا اپنے سینے کو دوپٹے کے ساتھ‬
‫ڈھک چکی تھی۔۔۔۔ ویٹر کے آتے ہی ہم نے اسے آرڈر لکھوا دیا۔۔۔۔‬
‫آرڈر لکھنے کے بعد وہ یہ کہتے ہوئے کیبن سے باہر نکل گیا کہ‬
‫آرڈر پلیس کرنے میں پندرہ بیس منٹ لگ جائیں گے۔۔۔ویٹر کے‬
‫جاتے ہی رمشا نے ایک بار پھر سے دوپٹے کو سینے سے ہٹا کر‬
‫الگ رکھ دیا۔(جس سے مجھے اس بات کا یقین ہو گیا کہ وہ یہ سب‬
‫مجھے لبھانے کے لیئے کر رہی تھی )۔۔۔ چنانچہ ویٹر کے جاتے ہی‬
‫میں نے اس سے پوچھا۔۔‬

‫اچھا یہ بتائیں کہ آپ نے اب تک کتنی لڑکیوں کو سیٹ کیا ہے؟ تو وہ‬


‫ہنس کر بولی ۔۔ یقین کریں بعض کو تو سیٹ کرنے کی ضرورت بھی‬
‫نہیں پڑتی تھی۔۔۔ بس ایک اشارے سے۔۔۔۔ وہ پکے ہوئے پھل کی‬
‫طرح جھولی میں آن گرتی ہیں۔۔اس پر میں نے حیران ہوتے ہوئے‬
‫کہا ۔۔۔ اس کی کوئی خاص وجہ؟ تو وہ مسکراتے ہوئے بولی ۔۔ اس‬
‫کی وجہ ہماری ُگڈ لک۔۔۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ثانیہ ٹھیک ہی کہہ‬
‫رہی تھی کہ آپ پکی لیسبو ہو۔۔۔۔ تو آگے سے وہ بولی نہیں یار ۔۔۔ہاں‬
‫کبھی تھی ۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ اب میں اتنی پکی لیسبو نہیں رہی۔۔۔۔ جتنی ثانیہ‬
‫نے بتایا تھا۔۔۔اس پر میں آگے بڑھا اور میز پر دنوں کہنیوں کو ٹکا‬
‫کر بوال ۔۔ تو آپ کتنی لیسبو ہیں؟ اس پر اس نے ایک نظر میری‬
‫گستاخ اکھیوں کی طرف دیکھا جو کہ اس کی چھاتیوں پر گڑھی‬
‫ہوئیں تھیں ۔۔۔اور پھر بے تکلفی سے بولی۔۔۔۔ کچھ عرصہ پہلے تک‬
‫میں واقعی ہی ایک پکی لیسبو تھی لیکن پھر ایک کزن کے‬
‫سمجھانے پر میں "دونوں سمت" چلنا شروع ہو گئی ہوں ۔اس کی بات‬
‫سن کر میں نے اس چھوٹی سی میز کے نیچے سے اپنے پاؤں کو‬
‫اس کی طرف بڑھایا۔۔۔۔ ۔۔۔اور اس کے پاؤں کے ساتھ ہلکا سا ٹچ‬
‫کرتے ہوئے بوال۔ ۔۔ کیا آپ بتا سکتی ہو۔۔۔ کہ وہ عظیم ہستی کون تھی‬
‫؟ جس نے آپ کا دھیان ہم جیسوں کی طرف مبذول کیا؟۔۔۔ ادھر‬
‫جیسے ہی میں نے اس کے پاؤں کو ہلکا سا ٹچ کیا تو اس کے جسم‬
‫نے ایک جھرجھری سی لی۔۔ ۔۔۔۔۔اور وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے‬
‫ہوئے بولی۔۔۔۔۔ ہے ایک ۔۔ تب میں نے میز پر رکھے اس کے ہاتھ پر‬
‫ہاتھ رکھ کر بوال۔۔۔۔ پھر بھی ؟۔۔۔ اس نے ایک نظر میری گستاخی کی‬
‫طرف دیکھا۔۔۔اور پھر اسے نظر انداز کرتے ہوئے کہنے لگی وہ‬
‫میری کزن ہے اس کا نام انوشہ ذوالفقار ہے اور وہ فیصل آباد رہتی‬
‫ہے اور وہیں ایک ہسپتال میں نرس لگی ہوئی ہے۔ تب میں نے اس‬
‫کے ہاتھ کو سہالتے ہوئے کہا کیا آپ نے اس کے ساتھ بھی سیکس‬
‫کیا ہے؟ ادھر میں نے محسوس کیا کہ میرے منہ سے لفظ سیکس کا‬
‫نام سن کر اس بولڈ ۔۔۔۔اور بیوٹی فل لڑکی کا چہرہ شرم سے الل ہو‬
‫گیا۔۔۔ اس لیئے وہ کچھ دیر خاموش رہی۔۔۔ جبکہ اس دوران میں اس‬
‫کے خوبصورت ہاتھوں کو سہالتے ہوئے ۔۔بڑی سیکسی آواز میں‬
‫بوال۔۔۔۔۔ بتائیں نا پلیزززز۔۔۔۔۔ میری شہوت بھری آواز سن کر ۔۔۔۔ اس‬
‫نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھا۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگی۔۔۔۔‬
‫کسنگ تو میں نے اس سمیت اپنی تقریبا ً ساری دوستوں کے ساتھ کی‬
‫ہوئی ہے۔۔ لیکن یہ میرے ساتھ اس حد تک نہیں گئی کہ جیسے آپ‬
‫لیزبین فلموں میں دیکھتے ہو۔۔۔۔ اس پر میں نے اس سے کہا کہ ۔۔۔۔تو‬
‫پھر ۔۔۔ وہ آپ کے ساتھ کہاں تک گئی ہوئی ہے؟ تو وہ جواب دیتے‬
‫ہوئے بولی ۔۔۔ اس نے میرے ساتھ ٹنگ کسنگ کی ۔۔۔ اور۔۔۔۔ میں نے‬
‫اس کی چھاتیاں چوسیں۔۔۔ تو اس پر میں نے اس آدھی ننگی چھاتیوں‬
‫کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ کیا آپ کی طرح اس کی بھی‬
‫ایسی ہی شاندار چھاتیاں ہیں؟ تو وہ قدرے شرمیلی سی مسکراہٹ کے‬
‫ساتھ کہنے لگی۔۔۔۔ اس کے بریسٹ میری چھاتیوں سے بھی زیادہ‬
‫اچھی اور فٹ ہیں۔۔۔۔۔ اس پر میں نے اس سے اگال سوال پوچھا۔۔۔( جو‬
‫کہ پہلے سوال سے بھی زیا دہ ہاٹ تھا )۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ ۔۔۔ آپ نے‬
‫اس کی نیچے والی چیز نہیں چوسی؟ میری بات سن کر وہ ایک‬
‫لمحے کے لیئے ہچکائی۔۔۔۔۔۔پھر میرے اصرار پر کہنے لگی۔۔۔ اس‬
‫نے بس تھوڑی سی دیر کے لیئے۔۔۔۔۔ چوسنے دی تھی اب کی بار‬
‫میں نے ڈائیریکٹ پھدی کا نام لیتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔۔کیا اس نے بھی‬
‫آپ کی چوت چوسی تھی؟ ۔۔۔۔ میری بات سن کر اس کی آنکھوں میں‬
‫واضع طور پر شہوت کے الل ڈورے دکھائی دیئے۔۔۔۔ ۔۔اور وہ کھل‬
‫کر بولی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ نہیں یار ۔۔۔ بس میں نے ہی اس کی پُسی ِلک کی‬
‫تھی۔۔تو میں نے اس سے پوچھا کہ اس کی پھدی کیسی تھی؟ تو وہ‬
‫شہوت بھری نظروں سے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔انوشہ کی پھدی نہیں‬
‫بلکہ ایک دم بھوکی شیرنی تھی۔۔۔۔۔ جو ایک دفعہ شکار کو قابو میں‬
‫کر لے تو اس کی چیخیں نکلوا دیتی ہے ۔۔۔۔۔۔پھر ہونٹوں پر زبان‬
‫پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔اس کی پھدی بالوں سے پاک اور۔۔۔۔اس کے‬
‫ہونٹ باہر کو نکلے ہوئے تھے اس کی پُسی لپس کھولو ۔۔۔۔۔تو‬
‫دیکھنے پر ۔۔۔۔۔ ایسا لگتا تھا کہ جیسے کوبر ا سانپ پھن پھیالئے‬
‫کھڑا ہو ۔۔۔ہاں اس کا دانہ بہت موٹا تھا۔۔۔جسے منہ میں لے کر‬
‫چوسنے کا ایک الگ ہی مزہ آیا تھا ۔۔۔۔لیکن اس ظالم نے میری پسی‬
‫پر بس کسنگ کی تھی۔۔ چوسی نہیں تھی۔۔۔۔۔۔ ۔ اس پر میں اس کا ہاتھ‬
‫دباتے ہوئے بوال۔۔۔۔ کہ اس کی جگہ اگر میں ہوتا تو آپ کی خوب‬
‫صورت چوت کو چاٹ چاٹ کر بے حال کر دیتا ۔۔۔تو وہ ہنس کر‬
‫بولی۔۔‬

‫تم نے اپنی سیکسی باتوں سے پہلے ہی میرا برا حال کیا ہوا ہے۔ اس‬
‫پر میں اس کے ہاتھ سہالتے ہوئے بوال۔۔ کیسے؟ تو وہ شہوت بھرے‬
‫لہجے میں کہنے لگی۔۔۔ خود ہی چیک کر لو۔۔۔۔۔ اس کی آفر سن کر‬
‫میں نے اپنے پیروں میں پہنا جوتا اتارا ۔۔اور ایک دفعہ پھر۔۔۔۔۔۔ میز‬
‫کے نیچے سے اس کی دونوں ٹانگوں کے بیچ میں لے گیا۔۔ میرے‬
‫پاؤں کو اپنی ٹانگوں کے بیچ میں محسوس کرتے ہی وہ کرسی پر‬
‫کھسک کر آگے ہو گئی۔۔اور میں نے ۔۔۔ اپنے پاؤں کا انگھوٹھا اس‬
‫کی چوت پر رکھ دیا۔۔۔ وہ ٹھیک کہہ رہی تھی۔۔۔۔۔اس وقت اس کی‬
‫چوت بہت گیلی ہو رہی تھی۔۔۔ یہ دیکھ کر میں انگھوٹھے کو اس کی‬
‫پھدی پر رگڑتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ رمشا تمہاری پھدی تو لیک کر‬
‫رہی ہے ۔۔۔۔ تو وہ میرے ۔۔۔ انگھوٹھے پر اپنی پھدی کا دباؤ بڑھاتے‬
‫ہوئے بولی۔۔۔۔۔ تمہارے اس کا کیا حال ہے ؟ تو میں نے بھی اس سے‬
‫کہا ۔۔۔۔خود چیک کر لو۔۔ وہ کہنے لگی ۔۔۔ٹھیک ہے۔۔۔۔لیکن۔۔پہلے تم‬
‫اپنے پاؤں کو واپس کرو۔۔۔ تو میں نے اس کی پھدی پر رکھے‬
‫انگھوٹھے کو واپس کھینچ لیا اور خود کھسک کر کرسی کے کنارے‬
‫پر آ گیا۔ اس وقت میری حالت یہ ہو رہی تھی کہ میرا لن شلوار میں‬
‫اکڑا کھڑا تھا۔۔اور اس کی چوت کی طرح میرے لن سے بھی مزی‬
‫ٹپک رہی تھی۔۔گویا کہ دونوں طرف آگ برابر لگی ہوئی تھی۔۔۔ ۔‬
‫دوسری طرف اس نے اپنی جوتی اتاری ۔۔اور پھر میرے اکڑے‬
‫ہوئے لن کو اپنے ننگے پیروں کے درمیان رکھا اور پھر اپنے‬
‫پیروں کو اوپر نیچے کرتے ہوئے بولی۔۔۔ اُف ف ف ۔۔ تمہارا کتنا بڑا‬
‫۔۔۔اور سخت ہے۔۔۔ تو میں نے اس سیکسی لڑکی کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے کہا۔۔ تمہیں پسند آیا۔۔؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ میرا بس نہیں چل رہا‬
‫ورنہ میں نے ابھی ۔۔۔۔ تم کو بتانا تھا کہ مجھے تمہارا کیسا لگا ہے۔۔۔۔‬
‫وہ کچھ دیر تک۔۔۔اپنے پاؤں سے کی مدد سے میرے لن پر مساج‬
‫کرتی رہی۔۔ پھر اس نے اپنے پاؤں کو وہاں سے ہٹا لیا ۔۔اور کہنے‬
‫لگی کاش اس کیبن کی جگہ تم میرے بیڈ روم میں ہوتے۔۔۔اتنی دیر‬
‫میں باہر سے اسی مخصوص کھانسی کی آواز سنائی دی اور اس‬
‫ب توقع چند‬ ‫آواز کے سنتے ہی ہم دونوں نارمل ہو کر بیٹھ گئے۔۔۔ حس ِ‬
‫سیکنڈز کے بعد کیبن کا پردہ ہٹا۔۔۔۔۔۔آنے واال ویٹر تھا اس نے ہمارے‬
‫سامنے جوس رکھا اور خاموشی سے باہر نکل گیا۔۔ اس کے باہر‬
‫نکلتے ہی میں رمشا سے بوال۔۔۔اچھا یہ بتاؤ۔۔۔کہ انوشہ نے تمہاری‬
‫خوبصورت چوت کو کیوں نہیں چوسا؟ تو وہ کہنے لگی اس لیئے کہ‬
‫وہ مردوں کی سخت شوقین تھی۔۔۔‬

‫اس لیئے جب بھی ملتی ہے۔۔۔۔ مجھے یہی درس دیتی ہے‬
‫کہ۔۔۔۔عورت کے برعکس۔۔۔۔ مرد کے ساتھ سیکس کرنے کا اپنا ہی‬
‫مزہ ہوتا ہے اس کے لن پر زبان پھیرنے کا اپنا ہی ٹیسٹ ہوتا‬
‫ہے۔۔۔اور اس کے لن کو منہ میں لے کر چوسنے سے نشہ سا ہو جاتا‬
‫ہے۔۔۔ چونکہ وہ میری بیسٹ فرینڈ اور کزن تھی اس لیئے۔۔ آہستہ‬
‫آہستہ میں اس کی باتوں پر کان دھرنا شروع ہو گئی۔۔۔۔۔ ۔۔ اور پھر‬
‫ایک دن جب اس نے اپنے ایک دوست کے ساتھ کیئے ہوئے سیکس‬
‫کا قصہ سنایا تو اسے سن کر میں بہت زیادہ ہاٹ ہو گئی۔۔۔۔۔ اور یہ‬
‫قصہ سن کر پہلی دفعہ میری پھدی نے بھی ایک لن کا تقاضا شروع‬
‫کر دیا۔۔۔۔۔۔ اس کی سٹوری والی بات سن کر میرے کان کھڑے ہو‬
‫گئے۔۔۔۔۔۔۔اور میں نے اس سے کہا کہ کیا آپ اپنی دوست کا وہ قصہ‬
‫مجھ سے شئیر کر سکتی ہو۔۔۔۔ کہ جسے سن کر آپ بھی لنڈ کی‬
‫طرف مائل ہو گئیں تو وہ کہنے لگی ضرور سناؤں گی۔۔ اسی دوران‬
‫اپنی آمد کی اطالع بزریعہ کھانسی دے کر ویٹر کیبن میں ڈاخل ہو‬
‫گیا۔ چونکہ اس وقت تک ہم دونوں جوس پی چکے تھے چنانچہ اس‬
‫نے میرے سامنے بل رکھ دیا۔۔۔ میں نے اس کو بل معہ بھاری ٹپ دی‬
‫۔۔ تو وہ خاموشی سے باہر نکل گیا۔۔اس کے جاتے ہی رمشا بھی اپنی‬
‫جگہ سے اُٹھی اور مجھ سے کہنے لگی چلو یار چلتے ہیں ۔۔تو میں‬
‫نے اس سے کہا انوشہ کی کہانی کدھر گئی؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے‬
‫بولی ۔۔۔ وہ میں تم کو فون پر سنا دوں گی۔۔پھر اس نے مجھے فون‬
‫کرنے کا وقت بتایا ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے آگے بڑھ کر‬
‫میرے ہونٹوں کے ساتھ اپنے ہونٹوں کو جوڑ دیا۔۔۔ مینگو جوس پینے‬
‫کے بعد ۔۔۔ اب میں رمشا کے نرم اور لذت سے بھر پور۔۔۔ ہونٹوں کا‬
‫جوس پی رہا تھا۔۔۔۔۔۔۔جو کہ مینگو جوس سے ہزار درجہ بہتر اور‬
‫اعلی تھے۔۔۔‬
‫ٰ‬ ‫ٹیسٹ میں بہت‬

‫وعدے کے مطابق ٹھیک گیارہ بجے رات جب میں نے اس کو فون‬


‫کیا تو وہ میرا ہی انتظار کر رہی تھی۔۔۔ ہیلو ہائے کرنے کے بعد۔۔ہم‬
‫دوپہر کو ایک دوسرے کے ساتھ کی ہوئی چھیڑ چھاڑ کی باتیں کر‬
‫کے مزہ لینے لگے۔۔موقع دیکھ کر میں نے اس سے پوچھا ۔۔ کہ آپ‬
‫کو میرا لن کیسا لگا ؟۔۔۔۔ تو وہ شہوت بھرے لہجے میں بولی۔۔۔ میری‬
‫جان مجھے تیرا موٹا اور سخت لن بہت پسند آیا ہے اس لیئے گوری‬
‫سی‬‫سے پہلے میرا شکار تم ہو گئے۔۔۔ پھر کہنے لگی تم کو میری پ ُ‬
‫کیسی لگی؟ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔ اور مجھے بھی تیری گرم اور‬
‫گیلی پھدی بہت پسند آئی ۔۔۔ اس لیئے مجھے تیری چوت چاہیئے تو‬
‫وہ ہنس کر بولی۔۔۔ میرا بھی یہی دل کر رہا ہے کہ میں تمہیں ابھی‬
‫اور اسی وقت ۔۔۔۔۔۔ پھدی دے دوں اور ۔۔۔تم اپنے اس موٹے ڈنڈے کے‬
‫ساتھ اس کی خوب دھالئی کرو۔۔۔۔ پھر وہ خود ہی کہنے لگی لیکن یہ‬
‫ابھی ممکن نہیں ۔۔ جیسے ہی ماما کہیں آگے پیچھے ہوئی۔۔۔۔ تو میں‬
‫تمہیں کال کر وں گی ۔۔۔۔اور تم نے سارے کام چھوڑ کر آ جانا ہے‬
‫۔اس کی بات سن کر میں نے ایک سرد آہ بھری ۔۔۔۔اور اس سے‬
‫بوال۔۔۔۔ وہ دن پتہ نہیں کب آئے گا۔۔۔ فی الحال تم مجھے اپنی کزن کی‬
‫سیکس سٹوری سناؤ۔۔۔ ۔۔ پھر ہنستے ہوئے بولی۔۔ رئیلی یہ میری کزن‬
‫جس کا نام انوشہ ذوالفقار ہے ۔۔۔ کی ایک سچی سیکس سٹوری ہے‬
‫جسے سن کر ایک کٹٹر لیزبین لڑکی مردوں کی طرف بھی مائل ہو‬
‫گئی تھی۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔اس کے بعد رمشا کہنے لگی۔۔۔۔ انوشہ کو فیس بک کا‬
‫بڑا شوق تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ جہاں اکثر وہ لڑکوں کے ساتھ سیکس چیٹ‬
‫کیا کرتی تھی۔ ۔۔ اسی طرح مختلف لڑکوں کے ساتھ چیٹ کرتے‬
‫ہوئے اسے عمران مل گیا۔ پھر کہنے لگی اس سے آگے کی داستان‬
‫بزبان انوشہ سنو‬
‫ِ‬ ‫کالم انوشہ‬
‫!تم ِ‬
‫عمران ایک ڈینسٹ لڑکا تھا اس کی عمر ‪ 29‬سال تھی اور وہ اچھا‬
‫خاصہ صحت مند قسم کا لڑکا تھا۔ اس کا قد پانچ فٹ اور آٹھ انچ کے‬
‫قریب ہو گا وہ مجھے فیس بک پر چلتے چلتے مل گیا تھا ایک دن‬
‫میری آئی ڈی پر اس کی فرینڈز ریکوئیسٹ آئی ۔۔ میں نے اس کی‬
‫پرفائل دیکھی تو وہ مجھے اچھا لگا ۔۔ سو میں نے اسے اپنی فرینڈز‬
‫لسٹ میں ایڈ کر لیا۔۔۔۔ اور یوں میری اس کے ساتھ چٹ چیٹ شروع‬
‫ہو گئی۔۔۔ اسے لڑکیوں کے ساتھ چیٹ کرنے کا سلیقہ آتا تھا۔ ۔ ہوتے‬
‫ہوتے میری اس کے ساتھ بڑی گہری دوستی ہو گئی۔۔۔ عمران کی‬
‫خاص بات یہ تھی کہ وہ کبھی بونگی نہیں مارتا تھا بلکہ بڑی‬
‫رسپیکٹ کے ساتھ بات کرتا تھا۔ چونکہ مجھے سیکس چیٹ کرنے کا‬
‫بہت شوق تھا ۔۔۔اس لیئے جلد ہی میری اس کے ساتھ سیکس چیٹ‬
‫بھی شروع ہو گئی۔۔۔۔ سیکس چٹ کے ساتھ ساتھ ۔۔۔ وہ رول پلے بہت‬
‫اچھا کرتا تھا ۔۔۔ ایک ایک ایکٹ کی ایسی دل کش منظر نگاری کرتا‬
‫تھا کہ مجھے اکثر ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے یہ سب حقیقت‬
‫میں ہو رہا ہو۔۔۔۔۔ اس کی چیٹ پڑھ کر مجھے بڑی فیلنگز آتی تھیں‬
‫اتنی زیادہ کہ بعض دفعہ تو میں بنا فنگرنگ کے ہی ڈسچارج ہو‬
‫جاتی تھی ۔۔۔ چنانچہ اس کی یہ چیز مجھے بھا گئی ۔۔اور میں من ہی‬
‫من میں اس کے ساتھ سیکس کرنے کے لیئے مچلنے لگی۔۔لیکن مسلہ‬
‫یہ تھا کہ وہ پاکستان سے باہر ہوتا تھا۔۔۔اس دوران ہماری دوستی اس‬
‫قدر بڑھ گئی کہ ہم نے اپنی اپنی اصل تصویریں بھی شئیر کر لیں۔۔‬
‫۔۔۔۔اور پھر فون پر بھی باتیں ہونے لگی۔اس کی آواز اتنی پُراثر اور‬
‫سیکسی تھی کہ اب ہم لوگوں نے فون سیکس بھی کرنا شروع کر‬
‫دیا۔۔۔۔ اس کے ساتھ فون سیکس کر کر کے اب میرے اندر۔۔۔۔۔ اس کا‬
‫لن لینے کی تڑپ مزید بڑھنا شروع ہو گئی۔۔ ہم اکثر ہی ایک دوسرے‬
‫کے ساتھ ملنے کا پروگرام بناتے تھے لیکن مسلہ پھر وہی تھا کہ وہ‬
‫ملک سے باہر ہوتا تھا اس لیئے ایک دم سے اس کا ملنا ممکن نہیں‬
‫تھا۔ لیکن پھر ایک دن وہ پاکستان آ گیا۔ میں فیصل آباد میں رہتی تھی‬
‫جبکہ وہ الہور کا رہنے واال تھا۔۔۔ لیکن اس کا بھی حل نکل آیا وہ‬
‫یوں کہ اس کی ایک خالہ فیصل آباد میں رہتی تھی چنانچہ وہ ان سے‬
‫ملنے کے بہانے فیصل آباد آ گیا اور ہماری مالقات ایک ریسٹورنٹ‬
‫میں ہوئی اس مالقات میں ۔۔۔۔میں اپنی ایک دوست کو بھی ساتھ لے‬
‫گئی تھی۔۔ اس نے بڑا زبددست لنچ کروایا اور اس دوران اس نے‬
‫سیکس کے بارے ایک لفظ بھی نہیں بوال۔۔۔۔ ہاں لنچ کے بعد جب‬
‫ہمیں چند لمحے تنہائی کے میسر آئے تو اس نے "نائٹ پروگرام "‬
‫کے بارے میں پوچھا۔۔۔ تو میں نے اسے رات ہسپتال آنے کا بوال۔‬
‫چنانچہ وہ ٹھیک وقت پر ہسپتال پہنچ گیا۔۔ اس نے جین کے اوپر آف‬
‫وہائیٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی جس میں وہ بہت سمارٹ لگ رہا تھا۔۔‬
‫اسے دیکھ کر۔۔۔اور آنے والے وقت کا تصور کر کے میری چوت‬
‫خود بخود کھل بند ہو رہی تھی۔۔۔ چنانچہ چائے پینے کے بعد میں نے‬
‫اپنی ساتھی کولیگ کو ۔۔جو کہ میری ہمراز بھی تھی۔۔ خیال رکھنے‬
‫کا بوال ۔۔۔اور اس کو ساتھ لے کر نرسنگ روم میں چلی گئی۔ اندر‬
‫داخل ہوتے ہی میں نے کمرے کو الک کیا۔۔۔چونکہ ہم دونوں کا‬
‫شہوت سے برا حال تھا ۔۔۔اس لیئے اندر داخل ہوتے ہی ہم ایک‬
‫دوسرے کے ساتھ ایسے لپٹ گئے کہ جیسے “ٹچ بٹنوں کی جوڑی ”۔۔‬

‫میں عمران کے مضبوط بازؤں کے حصار میں تھی۔۔میرا سر اس‬


‫کے فراخ سینے پر ٹکا ہوا تھا ۔ اور میرے دل کی دھڑکن دھک‬
‫دھک کر رہی تھی اسی دوران وہ مجھ پر جھک کر بوال۔۔ ایک بات‬
‫کہوں جان! تو میں نے اس کہا ۔۔۔ بولو !۔۔تو وہ میرے گال کو چوم کر‬
‫بوال۔۔۔۔ڈارلنگ ۔۔ تم اپنی تصویر سے بھی زیادہ خوب صورت ہو۔۔ تو‬
‫میں نے اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا۔۔۔ تم بھی تو کچھ کم‬
‫نہیں ہو۔۔۔ پھر وہ مجھ سے کہنے لگا ۔۔اجازت ہو تو دوستی کی پہلی‬
‫کس کر لوں؟ تو میں نے شوخی سے جواب دیتے ہوئے کہا۔۔۔ اس‬
‫میں اجازت لینے والی کون سی بات ہے آج کی رات تمہیں پوری‬
‫اجازت ہے۔۔تو وہ میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔دوستی‬
‫کا پہال کس ان خوب صورت ہونٹوں کے نام۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی‬
‫اس نے میرے ہونٹوں کو اپنے منہ میں لے کر بڑے پیار سے‬
‫چوسنے لگا۔۔۔ مجھے بہت مزہ آ رہا تھا ۔۔۔ اور مزے کے عالم میں۔۔۔۔‬
‫میں اس کے ساتھ مزید چمٹ گئی تبھی مجھے اس کی پینٹ کا ابھار‬
‫اپنی رانوں پر محسوس ہوا ۔۔۔اس کے لن کی سختی محسوس کرتے‬
‫ہی میری پھدی سے پانی کا ایک قطرہ ٹپک گیا۔۔۔۔۔اور میں نے ہاتھ‬
‫بڑھا کر اس کی ابھار والی جگہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔۔۔۔اور پینٹ کے‬
‫اوپر سے ہی اسے دبانا شروع ہو گئی۔ جبکہ دوسری طرف کسنگ‬
‫کے ساتھ ساتھ اس کا دوسرا ہاتھ میری باہر کو نکلی ہوئی نرم و‬
‫مالئم گانڈ پر تھا اور کسنگ کے ساتھ ساتھ وہ اس پر بھی ہاتھ‬
‫پھیرے جا رہا تھا اپنی گانڈ پر ہاتھ کا لمس مجھے بہت مست کر رہا‬
‫تھا ۔اور میں مزے کے مارے ہلکا ہلکا کراہ رہی تھی۔۔۔پھر کچھ دیر‬
‫بعد اس نے میری گانڈ سے ہاتھ ہٹایا اور میرے جسم کو ٹٹولنا شروع‬
‫ہو گیا۔۔۔ ۔۔۔۔۔ جبکہ میں نے مست ہو کر اپنی زبان اس کے منہ میں‬
‫ڈال دی۔۔۔ جسے اس نے بڑی بے تابی کے ساتھ چوسنا شروع کر‬
‫دیا۔۔۔ زبان چوستے چوستے اس نے میرے منہ سے اپنے منہ کو ہٹایا‬
‫اور کہنے لگا۔۔۔ انوشہ ڈارلنگ تم بہت زبردست فگر کی مالک ہو ۔۔۔‬
‫مجھے پتہ ہوتا کہ تمہار ا ایسا مست اور سیکسی فگر ہے تو میں نے‬
‫کب کا پاکستان آ جانا تھا۔تو میں نے شرارت سے کہا۔۔ آ کر کیا کرنا‬
‫تھا جناب نے؟۔۔۔ تو وہ شہوت سے بوال۔۔۔۔۔ تجھے چود نا تھا۔۔تیری‬
‫پھدی مارنی تھی۔۔۔ اس کی بات سن کر میں مست ہو گئی اور میں نے‬
‫عمران کا لن پکڑ کر دباتے ہوئے بولی۔۔ ۔۔ پینٹ کے اوپر سے ہی‬
‫تمہارا لنڈ اتنی پھنکاریں مار رہا ہے جب میرے اندر جائے گا تو‬
‫جانے کیا غضب ڈھائے گا اور کہا میری جان مجھے ایسے چودنا‬
‫جیسے پورن مویز میں ہیرو ہیروئن کو چودتے ہیں۔۔۔۔‬

‫میری بات سن کر عمران نے شہوت بھری نظروں سے مجھے دیکھا‬


‫۔۔۔۔اور پھر اس کا ہاتھ میری شلوار کی طرف سرکنے لگا۔۔ اپنی‬
‫شلوار کی طرف ہاتھ بڑھتے دیکھ کر میری چوت میں سرسراہٹ سی‬
‫ہونے لگی۔۔۔۔ اور میں اس کے ہاتھ کی مومنٹ کو بڑے غور سے‬
‫دیکھنے لگی۔۔۔اس کا ہاتھ سرکتے سرکتے آخر اپنی جائے مخصوصہ‬
‫پہنچ گیا۔۔ اس نے اپنے ہاتھ کو میری پیاسی چوت پر رکھ دیا۔۔۔ اور‬
‫اس وقت پوزیشن یہ تھی کہ عمران کا ایک ہاتھ میری کمر کے گرد‬
‫حمائل تھا جبکہ اس کا دوسرا ہاتھ میری چوت پر دھرا تھا۔۔۔۔ آہستہ‬
‫آہستہ وہ میری پیاسی چوت کو سہالنے لگا۔۔ اور میں عمران کی‬
‫آنکھوں میں دیکھنے لگی جس میں اس وقت بال کی مستی چھائی‬
‫ہوئی ۔۔۔ میری چوت کو سہالتے ہوئے ۔۔۔۔۔ وہ اپنے لنڈ کی طرف‬
‫اشارہ کرتے ہوئے بوال۔۔۔ تم بھی اسے پکڑو نا ۔۔۔ اس کی بات سن کر‬
‫میں نے اس کے لنڈ کی طرف ہاتھ بڑھایا ۔۔۔تو وہ کہنے لگا ایسے‬
‫نہیں میری جان ۔۔۔ پینٹ کے اندر سے پکڑو۔۔۔ سو میں نے اس کے‬
‫پینٹ کی زپ کھولی اور ۔۔۔۔ انڈروئیر میں ہاتھ ڈال کر اس کے لن کو‬
‫باہر نکاال۔۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤ۔۔۔یہ ایک براؤن کلر کا لمبا ۔۔اور خاصہ موٹا‬
‫لنڈ تھا اسے پکڑ کر میری مٹھی بھر گئی۔۔۔ اس کے لنڈ کی خاص‬
‫بات اس کا پھوال ہوا ٹوپا تھا۔۔۔ وہ اتنا کیوٹ تھا کہ جی کرتا تھا کہ‬
‫میں اسے کھا جاؤں۔۔۔۔ میں نے اس کے تنے ہوئے لن کو اپنے ہاتھ‬
‫میں پکڑ لیا۔۔۔۔دوسری طرف وہ میری چوت کو مسلسل سہال ئے جا‬
‫رہا تھا ۔۔۔اور وہ میری پھدی کو اس قدر مہارت کے ساتھ سہال رہا‬
‫تھا کہ مجھے ایسی فیلنگز آ رہیں تھیں کہ جیسے کسی نے میری‬
‫چوت پر انگار رکھ دیئے ہوں۔۔چوت سہالتے ہوئے اس نے مجھے‬
‫قمیض اوپر کرنے کو کہا۔۔۔اور جیسے ہی میں نے قمیض اوپر کی‬
‫۔۔۔تو میر ی چھاتیاں ننگی ہو کر اس کی آنکھوں کے سامنے آ گئیں۔۔‬

‫میری ننگی چھاتیوں کو دیکھتے ہی وہ کہنے لگا۔۔۔شاندار۔۔۔ تیرے‬


‫ممے بہت شاندار ہیں۔۔۔تو میں نے اس سے کہا کہ ۔۔۔۔۔۔انہیں‬
‫چوسو۔۔۔۔۔تو وہ نیچے جھکا ۔۔۔۔۔اور میری چھاتی کو چوسنا شروع ہو‬
‫گیا۔۔۔ جبکہ دوسری طرف اس کا کھردرا ہاتھ میری مخملی چوت پر‬
‫آگ لگا رہا تھا۔۔۔۔ میں آدھی ننگی‪،‬‬
‫قمیض سے چھاتیاں باہر نکالے اس سے اپنے ممے چسوا ۔۔۔ اور اس‬
‫کا لن سہال رہی تھی۔۔ اور اب وہ میری شلوار میں ہاتھ دیئے۔۔۔۔ میرے‬
‫پھولے ہوئے۔۔۔۔دانے کے ساتھ کھیل رہا تھا اور میں اس کے لوڑے‬
‫اور بالز کو سہال رہی تھی۔۔۔ اب میری چوت انتہائی گیلی ہو گئی تھی‬
‫چنانچہ چوت پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اس کے ہاتھوں کو میری چوت کا‬
‫گیالپن جب کچھ زیادہ ہی لگنے لگا‪.‬تو اس نے اپنے گیلے ہاتھ کو‬
‫میری شلوار سے باہر نکاال اور سارا گیال پن میری چھاتیوں پر لگا‬
‫کر بوال۔۔ میری انوشے ذوالفقار! اب میں تیری چوت کو اپنے لنڈ سے‬
‫چود کر اس کی ساری پیاس بجھا دوں گا۔۔۔۔تو‪ .‬میں نے‬
‫بھی جوش میں آکر کہا‪" ،‬آج میں بھی اپنی پیاسی چوت کو تیرے لنڈ‬
‫سے چدوا کر ہی‬
‫سانس لوں گی ۔۔لیکن سے پہلے میری چوت چاٹ۔۔۔۔۔ میری بات سن‬
‫کر عمران نیچے جھکا ۔۔۔اور شلوار کے اوپر سے ہی میری چوت کو‬
‫کس کرنے۔۔۔۔۔ اور اس کے لبوں پر ہلکا ہلکا کاٹنا شروع ہو گیا۔۔۔۔‪.‬‬
‫میں اس کی یہ بے تابی محسوس کر کے انجوائے کر رہی‬
‫تھی۔۔۔جبکہ وہ بھی میری طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔ چوت پر ہلکا ہلکا‬
‫کاٹ رہا تھا‪ .‬مزے کی وجہ سے چوت سے پانی نکلنا شروع ہو گیا۔۔۔‬
‫پھر میں نے ہاتھ بڑھا کر خود ہی اپنی شلوار اتار دی۔۔۔۔ تو وہ میری‬
‫بالوں سے پاک ننگی چوت کو دیکھ کر بوال۔۔۔ "ہائے کیا خوب‬
‫صورت نظارہ ہے! کیا مست چوت ہے تیری! " تب وہ میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔ انوشہ میری رنڈی ۔۔۔۔میری جان! تیری چوت کو‬
‫بھی میں ایسے ہی چوسوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جیسے تھوڑی دیر پہلے تیرے‬
‫ہونٹوں کو چوسا تھا۔۔۔۔ " اتنا کہتے ہی وہ پھر اپنے منہ کو میری‬
‫چوت کی طرف لے گیا اور میری ہموار‬
‫بغیر بالوں والی چوت پر اپنے ہونٹوں سے چومنے لگا جس سے‬
‫مجھے بہت سرور مال۔۔۔اور میں نے مستی کے عالم میں اس سے‬
‫پوچھا۔۔ کہ تمہیں میری چوت کیسی لگی؟‬
‫تو وہ جواب دیتے ہوئے بوال ۔۔۔تیری پھدی فٹ بھوکی شیرنی کی‬
‫طرح ہے‪.‬تو میں نے اس سے کہا میری پھدی کی اور تعریف کرو نا‬
‫پلیز۔۔ تو وہ جواب دیتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔تیری پھدی بہت خوبصورت‬
‫ایک دم گرم اور۔۔ لنڈ کی پیاسی ہے اس کے دونوں لب کھولو تو ایسا‬
‫لگتا ہے کہ جیسے کوبرا پھن پھیال کے کھڑا ہو ۔۔ تیرا دانہ مست اور‬
‫زبان حال‬
‫ِ‬ ‫پھدی کے اوپر کسی پہرے دار کی طرح تنا کھڑا ہے اور‬
‫سے کہہ رہا ہے کہ پھدی کا مزہ لینا ہے۔۔۔۔ تو پہلے مجھے خوش‬
‫کرنا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔اتنی بات کرتے ہی عمران کہنے لگا چونکہ میں نے‬
‫تیری پھدی کا مزہ لینا ہے۔۔۔۔۔۔اس لیئے۔۔ اب میں تیرے دانے کو‬
‫خوش کرنے لگا ہوں یہ کہتے ہی اس نے میرے پھولے ہوئے دانے‬
‫کو اپنے منہ میں لیا۔۔۔۔اور چوسنا شروع ہو گیا۔اور مزے کے مارے‬
‫میرے منہ سے سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں۔۔۔آہ۔۔آہ۔۔۔۔اف۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر‬
‫چوسنے کے بعد وہ واپس میری چوت کی طرف پلٹا۔۔۔اور اب میری‬
‫چوت پر عمران کے ہونٹوں کی‬
‫آگ تھی‪ .‬میں سسکیاں بھرتے ہوئے اس کے سر کو سہالنے لگی‬
‫اور اپنی پیاسی چوت پر اس کا سر‬

‫دبانے لگی‪.‬وہ میری چوت پر تھوکتا اور پھر۔۔۔۔۔ زور زور سے چوت‬
‫کو چاٹنا شروع ہو جاتا۔۔۔‪ .‬میں نشے‬
‫میں اس کے سر کو اپنی پھدی کی طرف دباتے ہوئے بولی۔۔۔ " ایسے‬
‫ہی چوس "۔۔۔۔ مجھے بہت مزہ آ رہا ہے۔۔میری فرمائش پر وہ ایسے‬
‫ہی میری چوت کو چوستا رہا ۔۔۔۔۔۔پھر اُٹھ کھڑا ہوا اور اپنے لن کی‬
‫طرف اشارہ کرتے ہوئے بوال۔۔۔ میں نے تو تیری چوس لی ۔۔۔۔اب تو‬
‫میرے اس شیر کا کچھ کر۔۔۔ اس کی فرمائیش سن کر میں نیچے‬
‫جھکی۔۔ اور پھر کچھ سوچ کر کھڑی ہو گئی یہ دیکھ کر عمران‬
‫کہنے لگا۔۔ کیا ہوا جان؟ تو میں نے جواب دینے کی بجائے جلدی‬
‫سے اپنے کپڑے اتارے اور ننگی ہو کر نیچے بیٹھ گئی۔۔ اتنی دیر‬
‫میں وہ بھی اپنی پینٹ و انڈر و ئیر دونوں اتار چکا تھا۔۔ نیچے بیٹھ‬
‫کر میں نے پوری تسلی سےاس کے لنڈ کا جائزہ لیا۔۔۔ اور پھر اس‬
‫کے ٹوپے پر کس کرنے لگی تو وہ کہنے لگا۔۔ ۔۔ کس نہیں کرو ۔۔۔‬
‫منہ میں ڈالو اور میں نے اس کے تنے ہوئے لنڈ کو اپنے منہ میں‬
‫ڈال کر اس ے چوسنے لگی ۔۔۔۔۔۔ میری پھدی کی طرح اس کا لنڈ بھی‬
‫مسلسل مزی چھوڑ رہا تھا جو کہ ٹیسٹ میں کافی نمکین تھی۔۔۔‬
‫چنانچہ میں اس کے نمکین لن کو کافی دیر تک چوستی رہی اور‬
‫میرے ہر چوپے پر وہ۔۔۔اوہ۔۔اوہ۔۔۔ کرتا رہا۔۔۔۔ایک دفعہ تو جوش میں آ‬
‫کر اس نے دونوں ہاتھوں سے میرے سر کو پکڑا ۔۔۔۔اور اپنے لنڈ کی‬
‫طرف دبانا شروع کر دیا۔۔جس کی وجہ سے اس کا لنڈ میرے حلق‬
‫تک جانے کی وجہ مجھے غوطہ لگ گیا۔۔۔۔لیکن میں نے لن چوسنا‬
‫جاری رکھا۔۔۔۔ پھر۔۔۔کچھ دیر تک لن چسوانے کے بعد وہ مجھ سے‬
‫کہنے لگا ۔۔۔ انوشہ جانو!۔۔۔ کھڑی ہو جاؤ مجھے اب تیری پھدی‬
‫مارنی ہے ۔۔‬

‫اس وقت میرا دل بھی یہی چاہ رہا تھا کہ وہ اپنے لنڈ کو فٹوفٹ‬
‫میرے اندر ڈال دے۔۔۔چنانچہ اس کی بات سن کر میں نے لن کو منہ‬
‫سے نکال۔۔۔اور کھڑی ہو گئی۔۔۔۔جب میں کھڑی ہوئی تو وہ مجھ سے‬
‫بوال۔۔۔۔ چدواتے وقت تم کون سی پوزیشن پسند کرتی ہو؟ تو میں نے‬
‫جھٹ سے جواب دیا کہ مجھے مشنری سٹائل میں کروانے کا بہت‬
‫مزہ آتا ہے تو وہ شرارت بھرے لہجے میں بوال۔۔۔۔ اس کی کوئی‬
‫خاص وجہ؟ تو میں نے اس کو جواب دیتے ہوئے کہ مجھے یہ سٹائل‬
‫اس لیئے پسند ہے کہ اس سٹائل میں لنڈ پھدی کے ساتھ چپکا ہوتا ہے‬
‫جس سے سکن ٹو سکن اندر باہر کروانے کا بڑا مزہ آتا ہے۔ اس‬
‫سٹائل میں چدوانے ال دوسرا فائدہ یہ ہوتا ہے کہ چودتے ہوئے آپ‬
‫آسانی کے ساتھ۔۔۔چھاتیاں چوس سکتے ہیں۔۔۔اور موڈ بنے تو گھسے‬
‫مارتے ہوئے کسنگ بھی کر سکتے ہو۔۔ اتنی بات کرتے ہی میں‬
‫نرسنگ اسٹیشن میں بچھے سنگل بیڈ پر لیٹ کر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اپنی ٹانگیں‬
‫کھول دیں تھوڑی دیر بعد عمران بھی گھٹنوں کے بل چلتا ہوا میری‬
‫دونوں ٹانگوں کے بیچ آ گیا۔۔۔ اور میری پھدی کو تھپتھپاتے ہوئے‬
‫بوال ۔۔۔ تیری اس خوب صورت پھدی کو مارنے کے لیئے میں نے‬
‫بڑا انتظار کیا ہے تو میں بھی اس کے ناگ کو ہاتھ لگا کر بولی۔۔۔‬
‫اس کو اندر لینے کے لیئے میری چوت بڑی بے صبری ہو رہی ہے‬
‫اس لیئے باقی باتیں چھوڑ ۔۔۔۔ اور مجھے چود۔۔۔۔ تب اس نے میری‬
‫ٹانگیں اُٹھا کر اپنے کندھے پر رکھیں ۔۔۔۔اور اپنے ٹوپے کو تھوک‬
‫سے گیال کرتے ہوئے بوال۔۔۔۔ اگر تیری چوت بے صبری ہو رہی ہے‬
‫تو ہم اسے چودنے کے لیئے بڑے بے تاب ہیں۔۔۔اس کے ساتھ ہی اس‬
‫نے اپنے خوب صورت لنڈ کو میری چوت کے منہ پر رکھا۔۔۔۔اور‬
‫ہلکا سا دھکا لگایا۔۔۔ تو اس کا لن پھسل کر میری پہلے سے گیلی‬
‫چوت میں اتر گیا۔۔اس کا لنڈ اندر جاتے ہی میرے تن بدن میں لگی‬
‫آگ اور بھڑک اُٹھی۔۔۔جبکہ دوسری طرف اس نے بھی گھسے مارنے‬
‫شروع کر دئے۔‬

‫اس نے پہلے ہلکے ہلکے گھسوں سے میری چدائی کی۔۔اور جب اس‬


‫کا لن میری چوت میں رواں ہو گیا۔۔۔۔۔تو۔۔ پھر اس نے طوفانی گھسے‬
‫مارنا شروع کر دیئے۔۔جنہیں کھا کر میرے منہ سے چیخیں نکلنا‬
‫شروع ہو گئیں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ میرے منہ سے بے ربط‬
‫باتیں نکلنے شروع ہو گئیں ۔۔جان۔۔۔۔۔ اور۔۔۔ تیز مار۔۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ف‬
‫تیرا لنڈ ہے یا پسٹن۔۔۔ رکتا ہی نہیں۔۔۔ اور تیز۔۔۔ مار۔۔۔آہ ۔۔ میری پھدی‬
‫ی ی ی ی ی ی ی ۔۔۔۔۔اس کے طاقتور گھسوں نے مجھے اتنا مزہ‬
‫دیا کہ میری چوت پانی سے لبریز ہو گئی۔۔۔اور میں نے اس کے ہپس‬
‫کو پکڑ کر اپنے اندر کی طرف دبانا شروع کر دیا۔۔۔۔ ۔۔۔۔جبکہ‬
‫دوسری طرف اس کا مست جٹ لنڈ میری راجپوت پھدی میں برق‬
‫رفتاری کے ساتھ آ جا رہا تھا۔۔۔اس کے طاقتور گھسوں نے میری‬
‫چوت کی چولیں ہال دیں تھیں۔۔۔اور ۔۔۔ ان گھسوں کی تاب نہ ال کر‬
‫میری راجپوت پھدی نے پانی چھوڑنے سے پہلے۔۔۔۔ اس کے طاقتور‬
‫لنڈ کے گرد ٹائیٹ ہونا شروع کر دیا۔۔۔ یہ چیز محسوس کرتے ہی وہ‬
‫بوال۔۔۔ تم چھوٹنے والی ہو ؟ تو میں نے مستی میں جواب دیا۔۔۔۔۔ ہاں‬
‫میری پھدی پانی چھوڑنے ہی والی ہے اس لیئے آخری گھسے فل‬
‫پاور سے مارو۔۔۔۔۔میری بات سن کر اس نے دو تین ۔۔۔۔ گھسے ہی‬
‫مارے ہوں گے کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میری پھدی نے پانی چھوڑنا شروع کر‬
‫دیا۔۔۔۔ عین اسی وقت کہ جب میری گرم چوت پانی چھوڑ رہی‬
‫تھی۔۔۔۔۔۔اس کے منہ سے۔۔۔اوہ ۔۔۔اوہ۔۔۔۔۔۔ کی آوازیں نکلنا شروع ہو‬
‫گئیں۔۔۔اور میں سمجھ گئی کہ وہ بھی چھوٹنے واال ہے چنانچہ میں‬
‫نے اس کی پیٹھ سہالتے ہوئے کہا۔۔۔۔چھوٹ جا میری جان ۔۔۔ میری‬
‫راجپوت پھدی کے اندر چھوٹ جا۔۔۔میری چوت میں ۔۔۔۔۔۔سارا پانی‬
‫گرا دے۔۔۔۔۔۔اُف ۔۔۔۔جیسے جیسے اس کے لنڈ سے پانی نکل کر میری‬
‫پیاسی چوت میں گرتا گیا۔۔۔ویسے ویسے میں ۔۔۔شانت ہوتی چلی‬
‫گئی۔۔۔ ہوتی چلی۔ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ہوتی ۔۔۔چل ی ۔۔گ ئ۔ئ ۔۔۔۔ئ۔۔۔۔‬

‫)قسط نمبر‪(8‬‬

‫جیسے ہی رمشا کی ہوش ربا سٹوری ختم ہوئی تو خود بخود ہی‬
‫میرے منہ سے ایک لزت آمیز سسکی نکل گئی جسے سن کر وہ بھی‬
‫گرم لہجے میں بولی۔۔ کیوں کیا ہوا؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے‬
‫کہا باقی بات چھوڑو یہ بتاؤ کہ تمہاری کزن انوشہ کہاں ملے گی ؟‬
‫تو وہ ہنس کر بولی ۔۔اے مسٹر ! خبردار!۔۔۔۔وہ میری کزن ہے کوئی‬
‫ایسی ویسی لڑکی نہیں کہ ادھر تم نے اس کا نام لیا اور ادھر وہ‬
‫تمہارے بستر پر حاضر ہو گئی پھر ہنستے ہوئے بولی۔۔۔ اگر تمہیں‬
‫اس سے ملنے کا اتنا ہی شوق ہے تو پھر فیصل آباد چلے جاؤ۔ اس‬
‫پر میں شہوت بھرے لہجے میں بوال کہ تم فیصل آباد کی بات کر‬
‫رہی ہے انوشہ جیسی لڑکی کو چودنے کے لیئے تو میں کوہ قاف‬
‫تک بھی جا سکتا ہوں اس پر وہ تنگ آ کر بولی ۔ بور نا کرو یار۔۔‬
‫اس کی بات سن کر میں فورا ً ہی سیریس ہو کر بوال۔ اچھا تو یہ وہ‬
‫مصالحہ سے بھری سٹوری تھی کہ جسے سن کر تم لزبین سیکس‬
‫چھوڑ دوسری طرف متوجہ ہوئی میری بات سن کر وہ کہنے لگی‬
‫ایسا نہیں کہ میں یہ سٹوری سننے کے فورا ً بعد تبدیل ہو گئی تھی۔۔‬
‫بلکہ تم یوں کہہ سکتے ہو کہ یہ سٹوری آخری دلیل کے طور پر‬
‫سامنے آئی ۔۔۔ جسے سن کر میں تذبذب کی کیفیت سے باہر نکل گئی‬
‫تھی چنانچہ انوشہ کے منہ سے یہ سٹوری سننے کے بعد میں لڑکوں‬
‫کی طرف ایسی متوجہ ہوئی کہ تھوڑے ہی عرصہ میں ۔۔ میں نے‬
‫لڑکوں کے ساتھ بھی فکنگ شروع کر دی۔۔۔ اس پر میں نے اس سے‬
‫پوچھا کہ اچھا یہ بتاؤ کہ سب سے پہلے کس لڑکے کے ساتھ سیکس‬
‫کیا؟ تو وہ ہنس کر بولی یہ بات تو میں کو ہر گز نہیں بتاؤں گی کہ‬
‫میں نے اپنا پہال سیکس کس لڑکے کے ساتھ کیا تھا ۔۔۔ پھر عجیب‬
‫سے لہجے میں بولی۔۔۔ ہاں اگر تم پوچھو تو اتنا ضرور بتا سکتی ہوں‬
‫کہ میں نے اپنی الئف کی پہلی " کم" (منی) کس لڑکے کی ٹیسٹ کی‬
‫تھی۔ رمشا کی بات سن کر میں بڑی دل چسپی سے بوال۔۔۔ پلیز بتاؤ نا‬
‫۔۔۔ تو وہ بات میں سسپنس پیدا کرتے ہوئے بولی۔۔۔ یہ ایسا نام ہے کہ‬
‫جسے سن کر تم چونک جاؤ گے ۔( اس کے بات کرنے کے اسٹائل‬
‫سے میں نے محسوس کیا کہ وہ مجھ سے یہ بات شئیربھی کرنا چاہ‬
‫رہی تھی لیکن لیکن یہ بات وہ میرے منہ سے کہلوانا چاہ رہی تھی )۔‬
‫چنانچہ یہ بات جان کر میں اپنے لہجے میں بے تابی و شتابی پیدا‬
‫کرتے ہوئے بوال۔۔۔۔ کہ اگر ایسی بات ہے تو پلیز جلدی سے بتاؤ۔۔‬
‫اس پر وہ شہوت بھرے لہجے میں بولی۔ ۔۔۔ تو سنو میں نے الئف میں‬
‫فرسٹ ٹائم جس لڑکے کی " کم "( منی) ٹیسٹ کی تھی وہ اور کوئی‬
‫نہیں تمہارا بیسٹ فرینڈ عدیل تھا۔۔ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس‬
‫وقت تک میں پکی لیسبو تھی۔۔۔ ادھر عدیل کا نام سن کر میں چونک‬
‫کر بوال۔۔۔کہ اس کی منی چیک کرنے کا مطلب تو یہ بنتا ہے کہ تم‬
‫نے اس کے ساتھ سیکس بھی کیا تھا۔۔۔۔تو وہ پر اسرار لہجے میں‬
‫جواب دیتے ہوئے بولی۔۔۔۔تم یقین کرو گے کہ تمہارے دوست کو بھی‬
‫۔۔۔ اس بات کا پتہ نہیں کہ میں نے اس کی "کم" (منی) ٹیسٹ کی ہے‬
‫۔۔۔ اس پر میں حیران ہو کر بوال ۔۔۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ تم نے‬
‫ایک بندے کے لنڈ سے نکلی ہوئی کریم اپنی زبان سے چاٹی یا‬
‫کھائی۔۔۔۔لیکن وہ ساال اس بات سے بے خبر ہو۔۔۔۔۔‬

‫تو وہ میری بات کا مزہ لیتے ہوئے بولی۔۔۔۔ میری بات کا یقین کرو‬
‫ڈارلنگ ۔۔۔۔۔ جیسا میں نے بتایا۔۔۔۔ ہو بہو ایسا ہی ہوا ہے۔۔۔ اور یہ‬
‫ایک دفعہ نہیں بلکہ۔۔۔۔ایسا دو تین دفعہ ہوا تھا۔۔۔۔ تب میں نے اس سے‬
‫کہ اے حسینہ نازنینہ ۔۔ میری الجھن کو سلجھن میں بدلو۔۔۔اور ۔۔‬
‫مہربانی کر کے اس راز سے پردہ اُٹھا ہی دو۔۔ تو وہ ہنستے ہوئے‬
‫بولی ۔۔ ارے گھامڑ اس میں راز کی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔سامنے کی‬
‫بات ہے کہ تیرا دوست اپنی منگیتر مطلب تانیہ کے ساتھ جب بھی‬
‫سیکس کرتا تھا تو عام طور پر ان کی یہ واردات میرے گھر پر ہی‬
‫ہوا کرتی تھی۔۔۔۔ (ادھر رمشا کی یہ بات سن کر کہ عدیل اکثر ہی‬
‫تانیہ کو چودا کرتا تھا میرے لیئے ایک انکشاف کا درجہ رکھتا تھا‬
‫کیونکہ اس نے مجھے یہ بتایا ہوا تھا کہ اس نے اپنی الئف کا پہال‬
‫سیکس امریکہ میں ایک ہندو آنٹی کے ساتھ کیا تھا )۔۔ چنانچہ رمشا‬
‫کی بات سن کر میں نے چونکتے ہوئے کہا کہ ۔۔ تت تمہارا مطلب‬
‫ہے کہ عدیل نے تانیہ کو چودا ہوا ہے ؟؟؟؟ تو وہ بڑے اطمینان سے‬
‫کہنے لگی جی آپ نے درست سنا ہے آپ کی اطالع کے لیئے‬
‫عرض ہے کہ عدیل نے تانیہ کو ایک دفعہ نہیں ۔۔۔۔۔۔۔ بلکہ بہت دفعہ‬
‫فک کیا ہے ۔۔۔۔اور وہ بھی میرے گھر ۔اور یہ بھی بتاتی چلوں کہ ان‬
‫کی بہت ساری فکنگ کی میں آئی وٹنس ہوں مطلب میں نے ان کی‬
‫چدائی کا سین اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے ۔۔ ۔ اس پر میں گھائل‬
‫لہجے میں بوال۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔لل ۔۔ لیکن اس نے تو مجھے یہ بتایا تھا کہ اس‬
‫نے اپنی الئف کا پہال سیکس امریکہ جا کر کیا تھا۔۔ میری بات سن‬
‫کر وہ حیرانی سے بولی ۔۔ ایک تو مجھے تمہاری سمجھ نہیں آ رہی‬
‫۔۔ اس نے کہہ دیا اور تم نے اس کی ۔۔۔۔ بات پر یقین بھی کر لیا؟ ۔۔۔‬
‫تو میں نے اس سے کہا ایسا ہی سمجھ لو تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔ شاید‬
‫اس نے یہ بات اس لیئے چھپائی ہو گی۔۔۔ کہ تانیہ اس کی ہونے والی‬
‫بیوی تھی ۔۔۔ کوئی راہ چلتی لڑکی نہیں۔۔۔۔ ۔۔۔ اس پر میں نے جواب‬
‫دیتے ہوئے کہ ہو سکتا ہے یہی بات ہو۔۔۔۔۔پھر میں نے اس سے‬
‫پوچھا کہ یہ بتاؤ کہ ۔۔۔ تانیہ اور عدیل کہاں پر سیکس کرتے تھے ؟‬
‫میری بات سن کر وہ قہقہہ لگا کر بولی۔۔۔ میرے خیال میں تم ابھی‬
‫تک صدمے میں ہو۔۔۔ ارے گھامڑ۔۔ ۔۔ تھوڑی دیر پہلے بتایا تو تھا کہ‬
‫وہ دونوں ۔۔۔۔ اکثر میرے ہی گھر پر فکنگ کیا کرتے تھے ۔۔۔ اس کی‬
‫وجہ یہ تھی کہ ہمارا گھر اکثر ہی خالی ہوتا تھا۔۔۔۔ تو میں نے اس‬
‫سے کہا ۔۔۔۔ کیا اس بات کا اس کے گھر والوں کو پتہ تھا ؟ اس وہ‬
‫کہنے لگی یار تم عجیب آدمی ہو۔۔۔۔ آج تک ۔۔۔۔کیا کبھی کسی لڑکی‬
‫نے اپنے گھر والوں کو بتا کر فک کروایا ہے؟ پھر ہنستے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔۔ کیا تم نے ان کے گھر کا ماحول دیکھا ہے ؟۔۔تو میں نے‬
‫جواب دیتے ہوئے کہا کہ اچھا خاصہ کھال ماحول ہے ان کا۔۔۔۔تو آگے‬
‫سے وہ کہنے لگی۔۔۔ کھال نہیں میری جان ! بلکہ کھال ڈھال کہو۔۔۔۔۔۔‬
‫پھر کہنے لگی۔۔۔۔ منگیتر ہونے کی وجہ سے عدیل اور تانیہ کی ماما‬
‫چھوٹی موٹی ۔۔۔۔ بات۔۔۔ جیسے کہ کسنگ وغیرہ ۔۔۔۔ دیکھ کر اگنور‬
‫کر دیا کرتی تھیں۔۔۔۔ ۔۔ بلکہ عدیل کی بڑی بہن صائمہ تو اس قسم‬
‫کے مواقع خود فراہم کیا کرتی تھی رمشا کی بات نے مجھے شدید‬
‫حیرانی میں مبتال کر دیا تھا ۔۔۔ اور جب میں کافی دیر تک اسی بارے‬
‫سوچتا رہا۔۔۔۔ تو وہ فون پر ہیلو۔۔۔ ہیلو کرتے ہوئے بولی۔۔۔ کیا تم‬
‫موجود ہو؟ تو میں مردہ سی آواز میں بوال۔۔ ہاں ۔۔ لیکن مجھے بہت‬
‫حیرت ہو رہی ہے تو اس پر رمشا تاسف بھرے لہجے میں بولی۔۔۔‬
‫مجھے تم سے پوری ہمدردی ہے پھر کہنے لگی۔۔۔۔ ایک بات تو بتاؤ۔‬
‫۔۔۔ تم کیسے پکے دوست ہو۔۔۔ کہ جو ابھی تک اس بات سے بے خبر‬
‫تھا کہ اس کا دوست اپنی منگیتر کو کم از کم ہفتے میں ایک دفعہ‬
‫ضرور فک کیا کرتا تھا۔۔‬

‫میں رمشا کے سامنے اعتراف کرتے ہوئے بوال۔ رئیلی یار میں اب‬
‫تک اس بات سے بے خبر ہی تھا ۔۔۔۔اس لیئے مجھے اس بارے کچھ‬
‫مزید بتاؤ گی؟ اور خاص طور پر یہ ضرور بتانا کہ عدیل کو بتائے‬
‫بغیر اس کی منی ٹیسٹ کرنے کا کیا چکر ہے؟۔۔۔ تو وہ کہنے لگی‬
‫میں کوشش کرتی ہوں ۔۔۔ اتنا کہنے کے بعد وہ چند سیکنڈز کے لیئے‬
‫ُرکی اور پھر کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ چلو سب سے پہلے میں تمہارا یہ‬
‫سسپنس دور کر تی ہوں ۔۔ کہ عدیل کو بتائے بغیر میں نے اس کی "‬
‫کم" ( منی) کو کیسے ٹیسٹ کیا ۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ کہنے لگی ۔۔‬
‫جیسا کہ تم کو معلوم ہے کہ اس زمانے میں ۔۔۔میں پکی لیسبو تھی‬
‫اور بیسٹ فرینڈ ہونے کی وجہ سے تانیہ کو بھی اس بات کا علم تھا‬
‫اس پر میں اس کی بات کاٹتے ہوئے بوال ۔۔۔ کیا تمہاری طرح تانیہ‬
‫بھی لیسبو تھی ؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے کہنے لگی ۔۔تم کہہ سکتے‬
‫ہو۔۔ ۔کیونکہ وہ میری طرح پکی تو نہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن کسنگ شوق سے‬
‫اور کسی حد تک لکنگ بھی کر لیتی تھی۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔ ایک‬
‫دفعہ کا ذکر ہے کہ میں نے ایک میچور لیڈی کے ساتھ سیکس‬
‫کیا۔۔سیکس کے دوران اس کی چوت چاٹتے ہوئے۔۔۔۔ مجھے ان کی "‬
‫سی کم" (منی) نے بہت مزہ دیا۔۔۔ چنانچہ میں نے اسے بڑے شوق‬ ‫پ ُ‬
‫سے چاٹا لگایا۔۔۔۔ فکنگ سیشن کے بعد جب میں نے آنٹی سے کہا کہ‬
‫مجھے آپ کی منی بہت ٹیسٹی لگی ۔۔۔تو آگے سے وہ مجھے کہنے‬
‫لگیں۔۔ یہ بات تم اس لیئے کہہ رہی ہو کہ تم نے ابھی تک کسی مرد‬
‫کی منی ٹیسٹ نہیں کی۔۔ کیونکہ لیڈیز کم (منی)۔۔ کے مقابلے میں‬
‫مرد کی (منی) کہیں زیادہ مزے کی ہوتی ہے ۔۔تو میں نے حیران‬
‫ہوتے ہوئے آنٹی سے پوچھا کہ مرد کی منی میں ایسی کیا بات ہے‬
‫جو ہماری منی میں نہیں ہوتی ؟ اس پر وہ جواب دیتے ہوئے بولیں‬
‫اعلی ہوتا ہے اور‬
‫ٰ‬ ‫کہ لیڈی کے مقابلے میں مرد کی "کم" کا مزہ بہت‬
‫اس کے عالوہ دوسری بہت ساری خوبیوں میں سے ایک خوبی یہ‬
‫کرتا ہے پھر ) ‪ (glow‬بھی ہوتی ہے کہ اس کو پینے سے چہرہ گلو‬
‫کہنے لگی کیا تم نے پورن مویز میں نہیں دیکھا کہ وہ کس قدر شوق‬
‫سے مرد کی منی نگلتی ہیں؟ اس کے بعد انہوں نے مجھے مرد کے‬
‫سیمز بار ے میں اچھا خاصہ لیکچر دیا جس کو سن کر مجھے بھی "‬
‫کم " (منی) نگلنے کا شوق پیدا ہو گیا ۔وہاں سے واپسی پر میں نے‬
‫جب یہ بات تانیہ کو بتائی۔۔۔ تو وہ چٹخارہ لیتے ہوئے بولی۔۔۔ آنٹی‬
‫درست کہہ رہیں تھیں ۔۔۔ لن چوسنے اور منی پینے کا اپنا ہی مزہ ہوتا‬
‫ہے ۔ تانیہ کی بات سن کر میرے دل میں "میل کم" ( مردانہ منی)‬
‫کے بارے میں مزید تجسس جاگا ۔۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکی‬
‫ہوں کہ عدیل اور تانیہ میرے گھر میں ہی فکنگ کیا کرتے تھے اور‬
‫یہ بات مجھے اچھی طرح سے معلوم تھی کہ ابھی تک شادی نہ‬
‫ہونے کی وجہ سے عدیل ہمیشہ باہر ڈسچارج ہوتا تھا۔۔۔۔اس لیئے‬
‫میرے شوق کو دیکھتے ہوئے۔۔۔۔ تانیہ نے مجھے آفر دی کہ اگر تم‬
‫چاہو تو عدیل کی منی ٹیسٹ کر سکتی ہو۔۔۔ اتنی بات کر کے وہ‬
‫تھوڑا رک کر بولی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔‬

‫۔ میں ایک بات بتانا بھول گئی اور وہ یہ کہ عدیل کی ایک عجیب‬
‫عادت تھی کہ فارغ ہوتے ہی وہ بھاگ جایا کرتا تھا ۔۔۔ چنانچہ طے یہ‬
‫پایا کہ اگلی دفعہ تانیہ مشنری سٹائل میں فک کروائے گی ۔۔۔اور‬
‫عدیل کو پیٹ پر ڈسچارج ہونے کے لیئے کہے گی۔۔ ۔۔ ۔۔ چنانچہ ایک‬
‫دن جب ماما خالہ کے گھر صدر گئیں۔۔۔ تو تانیہ نے عدیل کو بال‬
‫لیا۔۔۔اور پھر فکنگ کے بعد عدیل نے اپنی ساری منی تانیہ کے پیٹ‬
‫پر گرا کے۔۔۔ خود بھاگ گیا۔۔ عدیل کے جاتے ہی میں تانیہ کے پاس‬
‫پہنچ گئی جو ابھی تک ننگی ہی لیٹی ہوئی تھی اور اس کے خوب‬
‫صورت پیٹ پر عدیل کی گاڑھی منی پڑی تھی جس کا رنگ آف‬
‫وہائیٹ تھا۔۔ تانیہ کے پاس پہنچتے ہی میں نے فضا میں ایک مست‬
‫سی مہک محسوس کی ۔۔۔ چنانچہ میں سیدھی اس کے پیٹ پر جھکی‬
‫۔۔۔۔۔۔اور سونگھ کر دیکھا تو یہ مدہوش کن مہک عدیل کی جوان منی‬
‫سے آ رہی تھی۔۔جسے سونگھتے ہوئے میں بھی مست ہو رہی تھی‬
‫۔۔۔میں نے ایک نظر تانیہ کی طرف دیکھا ۔۔۔تو وہ میری طرف ہی‬
‫دیکھ رہی تھی۔۔۔ چنانچہ اس نے اشارے سے مجھے ۔۔۔ منی کو ٹیسٹ‬
‫کرنے کا کہا۔۔۔ سو اس کی بات مان کر ۔۔۔ میں نے اپنی زبان نکالی‬
‫۔۔۔ اور عدیل کی کم (منی) پر زبان رکھ دی ۔۔۔۔ منی کا ذائقہ برا نہیں‬
‫تھا۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ہاں اس کی منی بہت گرم ۔۔۔۔اور گاڑھی تھی۔ ۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔سو میں‬
‫نے آہستہ آہستہ اس کی منی کو اپنی زبان کی مدد سے منہ میں لینا‬
‫شروع کر دیا۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔آنٹی اور تانیہ ٹھیک ہی کہہ رہیں تھیں۔۔۔۔۔ اس کا‬
‫ذائقہ واقعی ہی بہت ِرچ تھا ۔۔۔۔سو تھوڑی سی چاٹنے کے بعد میں اُٹھ‬
‫گئی۔۔ اُف کیا بتاؤں یار ۔۔۔ اس کا ٹیسٹ اس قدر ِرچ اور مہک اتنی‬
‫سیکسی تھی کہ ۔۔۔۔اس سے اگلی دفعہ میں ۔۔۔۔ اس کے پیٹ پر پڑی‬
‫آدھی منی کو چاٹ گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس کے بعد دھیرے‬
‫دھیرے۔۔۔۔۔اگلے کچھ عرصہ تک میں عدیل کی منی کو ریگولر‬
‫چاٹتی رہی۔۔۔ اتنی بات کرنے کے بعد وہ کہنے لگی تو جناب یہ تھی‬
‫میری منی ٹیسٹ کرنے کی داستان۔۔۔۔ امید ہے تم کو اپنے اس سوال‬
‫کا جواب کہ عدیل کے علم میں الئے بغیر میں نے اس کی منی کو‬
‫کیسے ٹیسٹ کیا تھا۔۔کا جواب مل گیا ہو گا۔ ۔۔۔‬

‫اس پر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ اس کا جواب تو مل گیا ۔۔۔ لیکن اب‬


‫مجھے عدیل اور تانیہ کی فکنگ بارے کچھ بتاؤ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی‬
‫۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔جیسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ تانیہ اور عدیل کی بچپن میں ہی‬
‫منگنی ہو گئی تھی۔۔۔۔ اور اس بات میں بھی کوئی شک نہیں کہ وہ‬
‫دونوں بچپن سے ہی ایک دوسرے کے ساتھ بے حد محبت کرتے‬
‫تھے۔۔۔اور پھر ہوش سنبھالتے ہی دونوں نے کسنگ بھی شروع کر‬
‫دی تھی۔۔۔ پھر بلیو مویز دیکھ دیکھ کر وہ دونوں اوورل سیکس کرنا‬
‫شروع ہو گئے ۔۔۔۔۔ اسی دوران عدیل اس سے فکنگ کے بارے میں‬
‫کہتا رہا ۔۔دوست ہونے کی وجہ سے جب تانیہ نے مجھ سے اس‬
‫بارے رائے مانگی تو میں نے ایسا کرنے سے۔۔۔۔ سختی کے ساتھ‬
‫منع کردیا تھا۔۔۔۔اور کہا کہ کسنگ اور کسی حد تک اوورل بھی کر‬
‫لو ۔۔۔لیکن شادی سے پہلے ہر گز ہرگز فکنگ مت کرنا۔۔۔۔۔چنانچہ‬
‫میری بات مان کر اس ۔۔۔۔ نے عدیل کے ساتھ سیکس کرنے سے‬
‫انکار کر دیا۔۔۔ لیکن دوسری طرف عدیل بھی اپنی دھن کا پکا تھا‬
‫۔۔۔سو اس نے اپنی ٹرائی جاری رکھی۔۔۔۔ اور منت ترلوں کے ساتھ وہ‬
‫اس بارے میں تانیہ کو بلیک میل بھی کرتا رہا۔۔۔۔۔ میری نصیحت اپنی‬
‫جگہ ۔۔۔۔ لیکن سیکسی تانیہ آخر کب تک مزاحمت کرتی؟ جبکہ عدیل‬
‫کا لن چوس چوس کر ۔۔۔۔اس کے دل میں بھی فکنگ کی خواہش شدید‬
‫سے شدید تر ہوتی چلی جا رہی تھی۔۔۔ چنانچہ ایسے ہی ایک دن‬
‫اوورل کے دوران عدیل نے تانیہ سے سیکس کرنے کو کہا۔۔۔تو‬
‫تھوڑی سی ہچر مچر کے بعد ۔۔۔ اس نے عدیل کو چودنے دیا ۔۔۔۔ اور‬
‫جب اگلے دن اس نے مجھے یہ بتایا کہ گزشتہ رات اس نے عدیل‬
‫کے ساتھ فکنگ کر لی ہے تو مجھے بہت برا لگا ۔۔۔۔۔چنانچہ میں نے‬
‫اس بات پر اسے بہت سنائیں جنہیں سن کر وہ حیران ہو کر‬
‫بولی۔۔۔۔۔۔۔۔ یار اس میں برا کیا ہے؟؟؟۔۔۔۔۔ میں نے اپنے منگیتر کے‬
‫ساتھ سیکس کیا ہے کسی ایرے غیرے کے ساتھ تھوڑی کیا ہے۔۔۔ اس‬
‫پر میں اس سے بولی ۔۔۔ منگیتر کے ساتھ سیکس کرنے سے بہتر تھا‬
‫کہ تم کسی ایرے غیرے کے ساتھ سیکس کر لیتی۔۔۔ میری بات سن‬
‫کر وہ مزید حیران ہو کر بولی کہ اس کی وجہ کیا ہے؟ تو میں نے‬
‫جواب دیتے ہوئے کہا کہ اس کی وجہ یہ ہے کہ جس دن تمہارے‬
‫منگیتر نے تم کو چود لیا تو یوں سمجھو اس نے تم کو فتح یا۔۔۔‬
‫دوسرے لفظوں میں ایکسپلور کر لیا۔۔۔۔ اس لیئے فکنگ کے بعد عدیل‬
‫کے دل میں تمہاری کشش ختم ہو گئی ہے۔۔۔۔۔ مطلب تم نے اس کے‬
‫ساتھ سیکس کر کے اپنی ساری کشش کھو دی ہے ۔لیکن میری اس‬
‫بات سے تانیہ نے اتفاق نہیں کیا۔۔ اور کہنے لگی ۔۔ایک دن تو ہم نے‬
‫سیکس کرنا ہی تھا ۔۔۔ اگر شادی سے پہلے کر لیا تو کیا ہرج ہو‬
‫گیا۔۔۔۔پھر بڑے فخر سے کہنے لگی تمہیں معلوم ہے نا کہ وہ مجھ‬
‫سے کتنی شدید محبت کرتا ہے۔۔۔۔ تو میں نے اس کو جواب دیتے‬
‫ہوئے کہا کہ بےوقوف لڑکی وہ تم سے محبت کرتا ہے نہیں ۔۔۔۔بلکہ‬
‫محبت کرتا تھا۔۔۔۔‬

‫کیونکہ چودائی کے بعد اس کی یہ محبت ۔۔۔اب ہوس میں تبدیل ہو‬


‫گئی ہے ۔۔۔۔پھر میں اسے سمجھاتے ہوئے بولی بے شک فکنگ سے‬
‫پہلے ہر لڑکے لڑکی میں محبت ہوتی ہے۔۔۔۔۔ لیکن جیسے ہی یہ‬
‫دونوں سیکس کر لیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ محبت ختم ۔۔۔۔اور ۔۔۔اس کی جگہ شہوت‬
‫لے لیتی ہے اس لیئے یاد رکھنا ۔۔۔ آج کے بعد جب بھی اس کو تنہائی‬
‫ملی۔۔ اس نے تم سے پیار بھری باتیں کم کرنی ہیں ۔۔۔بلکہ تھو ڑی‬
‫سی گفتگو کے بعد۔۔۔۔ اس کا ہاتھ سیدھا تیری شلوار کی طرف جائے‬
‫گا۔۔اس کے بعد رمشا کہنے لگی میں نے اس موضع پر ایک تقریر تو‬
‫جھاڑ دی۔۔۔۔۔۔ لیکن عدیل کی محبت میں سرشار تانیہ نے میری اس‬
‫بات سے زرا بھی اتفاق نہیں کیا۔۔۔۔اور بدستور اس کے ساتھ سیکس‬
‫کرتی رہی۔۔ ۔۔یہا ں تک کہ عدیل اسٹیٹس چال گیا ۔۔۔وہاں جا کر بھی‬
‫وہ تانیہ کے ساتھ لمبی لمبی باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔ اس نے‬
‫گوری کے ساتھ شادی کر لی ۔۔۔۔۔لیکن شادی کے بعد بھی اس نے‬
‫فون پر بات جاری رکھی ۔۔۔۔اور اسے اپنی محبت کا یقین دالتا رہا ۔۔‬
‫۔۔اور بے چاری تانیہ اس کی محبت پر آنکھیں بند کر کے یقین کرتی‬
‫رہی۔۔۔۔۔۔۔اسی لیئے ۔۔ تانیہ نے جب عدیل کی شادی کی خبرسنی ۔۔۔۔۔‬
‫تو اس کے لیئے یہ خبر ایٹم بمب سے بھی زیادہ ۔۔۔ خوفناک تھی ۔۔۔۔‬
‫چنانچہ گزشتہ دنوں جب وہ گوری کو لے کر پاکستان آیا تو محبت‬
‫کی ماری تانیہ۔۔۔۔۔۔۔ اس صدمے کو برداشت نہ کر سکی اور ۔۔۔۔۔۔‬
‫سکتے کی کیفیت میں چلی گئ۔‬
‫اس پر میں نے کہا کہ تم نے اپنی دوست کو سنبھاال نہیں ؟ تو وہ‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔ کہ جب مجھے پتہ چال کہ عدیل نے ایک گوری کے‬
‫ساتھ شادی کر لی ہے تو میں اسی وقت اس کے گھر گئی تھی۔۔۔۔۔‬
‫لیکن اس وقت وہ اپنے آپ میں نہ تھی بلکہ ۔۔۔ بار بار ایک ہی بات‬
‫کہہ رہی تھی کہ عدیل نے ایسا کیوں کیا؟ مجھے ۔۔۔۔اپنے پیار کو‬
‫چھوڑ ۔۔۔۔ایک گوری کے ساتھ شادی کیوں کی؟ تب میں نے اس کو‬
‫کہا یاد کر تانیہ ۔۔۔ میں نے تم سے کہا تھا نا۔۔۔۔ کہ کبھی بھول کر بھی‬
‫اپنے منگیتر کے ساتھ سیکس نہ کرنا ۔۔۔۔ورنہ تمہاری ساری کشش‬
‫۔۔۔۔ (اس کے لیئے) تمہارا سارا چارم ختم ہو جائے گا۔۔۔۔ کیونکہ‬
‫میرے خیال میں لڑکی کے پاس لے دے کے ایک پھدی ہی ایک‬
‫ایسی چیز ہوتی ہے کہ جس کے لیئے لڑکا اس پر مرتا ہے اور‬
‫جیسے ہی وہ متعلقہ لڑکی کی پھدی مار لیتا ہے ۔۔۔۔ تو اس کو فتع‬
‫کرنے کے بعد ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اس کی نظروں میں مفتوح لڑکی کی ساری‬
‫کشش ختم ہو جاتی ہے اسی لیئے۔۔۔۔ وہ اسے چھوڑ ایک نئے شکار‬
‫کی طرف چل پڑتا ہے ۔۔۔ اتنی بات کرنے کے بعد اچانک ہی رمشا‬
‫کہنے لگی۔۔۔اوکے ڈارلنگ سیل کی بیٹری ختم ہونے والی ہے۔۔۔ اس‬
‫لیئے۔۔۔ میں تو چلی۔۔۔ تم اپنے دوست کا سوگ مناؤ ۔۔۔۔۔ اور پھر بائے‬
‫بائے اور فالئنگ کس دینے کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔۔۔۔۔‬

‫رمشا نے تو فون بند کر دیا ۔۔۔ لیکن مجھے ایک الجھن میں ڈال‬
‫گئی۔۔۔اور وہ یہ کہ عدیل نے مجھ سے تانیہ کے ساتھ فکنگ والی‬
‫بات کیوں چھپائی؟۔۔۔ میں اس پر کافی دیر تک مغز ماری کرتا رہا۔۔۔۔‬
‫لیکن کچھ سمجھ نہ آیا ۔۔۔اس لیئے میں نے عدیل اور تانیہ دونوں پر‬
‫لعنت بھیجی اور ۔۔۔۔۔ بستر پر لیٹ کر سو گیا۔۔۔۔۔ اگلے دن کام کی‬
‫زیادتی کی وجہ سے میں آفس میں دیر تک بیٹھا کام کر رہا تھا کہ‬
‫اتنے میں میرے موبائل کی گھنٹی بجی دیکھا تو فرزند کا فون تھا‬
‫میں نے جلدی سے فون اُٹھا یا ۔۔۔۔اور رسمی ۔۔۔ ہیلو ہائے کے بعد وہ‬
‫کہنے لگا کہ صاحب جی یہ بتاؤ کہ آپ اس وقت کہاں پائے جا رہے‬
‫ہو؟ تو میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ بندہ اپنے آفس میں ایک‬
‫ارجنٹ قسم کا کام نبٹا رہا ہے میری بات سن کر وہ بڑے تعجب سے‬
‫بوال۔۔۔۔ اس وقت؟ تو میں نے اسے جواب دیتے ہوئے کہا کہ کیا کریں‬
‫جناب مجبوری ہے نوکری جو ہوئی۔۔۔۔ یہ آپ کا اپنا بزنس تھوڑی ہے‬
‫کہ جب جی چاہا چھٹی کر لی۔۔۔ ۔۔ تو وہ کہنے لگا اچھا یہ بتاؤ کہ آپ‬
‫فری کب ہو گئے؟ اس پر میں نے کہا کہ تقریبا ً آدھا گھنٹہ لگ ہی‬
‫جائے گا تو وہ کہنے لگا۔۔۔۔ اچھا یہ بتاؤ کہ کھانے کی کیا پوزیشن‬
‫ہے؟ کیا آپ نے ڈنر کر لیا؟ تو میں نے انکار میں جواب دیتے ہوئے‬
‫کہا کہ کام ختم کرنے کے بعد۔۔۔ ہی کھانے کا پروگرام بنے گا۔۔ تو وہ‬
‫کہنے لگا ۔۔تو پھر بھائی صاحب ہمیں جائن کر لو۔۔ ہم لوگوں نے بھی‬
‫ابھی تک ڈنر نہیں کیا پھر کہنے لگے میرا اور ثانیہ کا پروگرام ہے‬
‫کہ آج رات کا کھانا ہم ایف سیون میں کھائیں‪ ..‬سنا ہے وہاں پر ایک‬
‫نیا ریسٹورنٹ کھال ہے جس کی مٹن کڑاہی بڑی غضب کی ہوتی ہے‬
‫پھر کہنے لگا اس وقت ہم لوگ گھر سے نکلنے والے ہیں اور آپ‬
‫کے آفس تک پہنچنے میں ہمیں آدھا گھنٹا لگ جائے گا ۔۔ اس لیئے‬
‫اگر آپ مری روڈ رحمان آباد سٹاپ پر آ جاؤ تو ہم آپ کو وہاں سے‬
‫ِپک کر لیں گے۔۔لیکن اگر کام زیادہ ہے تو ہم آپ کو آفس سے بھی‬
‫ِپک کر سکتے ہیں میں نے کہا کہ آپ آفس کا پروگرام رہنے دیں ۔۔۔۔‬
‫کام ختم ہوتے ہی میں رحمان آباد سٹاپ پر پہنچ جاؤں گا اور اگر‬
‫کچھ دیری ہو گئی تو پلیز میرا انتظار کرنا۔۔۔پروگرام طے کر نے‬
‫کے بعد انہوں نے فون بند کر دیا ۔۔۔اور میں اس وقت ایک اہم رپورٹ‬
‫پر کام کر رہا تھا جو کہ اسی رات ہیڈکوارٹر بھیجنی تھی۔۔۔ رپورٹ‬
‫تقریبا ً بن چکی تھی بس رویو کرنا باقی تھا ۔۔۔ جو میں نے جلدی سے‬
‫کر لیا ۔۔۔اور رپورٹ بنا کر باس کی ٹیبل پر جا رکھی ۔ اور پھر ان‬
‫سے اجازت لے کر میں دفتر سے نکل کر مری روڈ کی طرف روانہ‬
‫ہو گیا جو کہ ہمارے آفس کے قریب ہی واقع تھا۔۔۔۔رحمان آباد سٹاپ‬
‫پر پہنچ کر دیکھا تو فرزند کی گاڑی پہلے سے موجود تھی جیسے‬
‫ہی میں گاڑی کے قریب پہنچا تو فرزند نے مجھے فرنٹ سیٹ پر‬
‫بیٹھنے کو کہا ۔۔۔ سیٹ پر بیٹھتے ہی میں نے گردن گھما کر دیکھا تو‬
‫پچھلی سیٹ پر صرف ثانیہ بیٹھی تھی چنانچہ میں نے ادھر ادھر‬
‫دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ صائمہ باجی نظر نہیں آ رہیں؟ تو فرزند‬
‫صاحب کہنے لگے۔۔۔ یار آنٹی کی طبیعت کچھ خراب تھی اس لیئے‬
‫صائمہ اپنے گھر گئی ہے اس پر میں آنکھیں نکالتے ہوئے بوال ۔اچھا‬
‫تو میری باجی کو میکے بھیج کر ۔۔۔آپ لوگ عیاشیاں کر رہے ہیں ۔۔۔‬
‫میری بات سن کر فرزند مسکراتے ہوئے کہنے لگا ۔۔ آپ مخبری نہ‬
‫کریں ۔۔۔اسی لیئے تو بطور رشوت آپ کو شاندار قسم کا ڈنر کروا یا‬
‫جا رہا ہے۔ رسیوٹورنٹ تک کا سفر ایسے گزر گیا۔۔۔۔‬

‫وہاں کی مٹن کڑاھی اور چانپیں واقعی بہت اچھی تھیں اس لیئے ہم‬
‫تینوں نے کھانے کے ساتھ خوب انصاف کیا ۔ کھانے کے دوران‬
‫میری ثانیہ کے ساتھ ہلکی پھلکی چھیڑ چھاڑ چلتی رہی لیکن میں نے‬
‫محسوس کیا کہ اس کی باتوں میں وہ پہلی جیسی شگفتگی اور چہک‬
‫موجود نہ تھی۔۔ اس کی وجہ شاید اس دن کا واقعہ ہو گا۔ ریسٹورنٹ‬
‫سے واپسی پر رمشا لوگوں کا ذکر چھڑ گیا ۔۔۔ فرزند مجھ سے کہنے‬
‫لگا کہ رمشا لوگ ہیں تو ان کے فیملی فرینڈ۔۔۔۔۔ لیکن جہاں تک ان‬
‫کے ساتھ تعلق کی بات ہے تو ہمارے ان کے ساتھ سگے رشتے‬
‫داروں سے بھی زیادہ اچھے تعلق ہیں پھر وہ کہنے لگا کہ رمشا کا‬
‫ایک ہی بھائی ہے جس کا نام جمال ہے فرزند کی طرح وہ بھی اپنا‬
‫بزنس کرتا تھا لیکن فرزند کے برعکس جمال ایک یار باش قسم کا‬
‫آدمی تھا گھر کے کام کاج میں اسے کوئی دل چسپی نہیں تھی اس‬
‫کے بارے میں فرزند صاحب نے بتالیا کہ وہ صبع کام سے نکلتا تو‬
‫رات گئے ہی واپس لوٹتا تھا۔رمشا کے والد کے بارے میں بتایا کہ وہ‬
‫شروع سے ہی مڈل ایسٹ ہوتے ہیں جہاں پر وہ ایک آئیل کمپنی میں‬
‫بہت ہی اچھے عہدے پر کام کرتے ہیں اچھی خاصی آمدن ہونے کی‬
‫وجہ سے یہ لوگ بہت خوشحال ہیں ۔۔۔اس کے بعد وہ کہنے لگا کہ‬
‫چونکہ انکل شروع سے ہی مڈل ایسٹ چلے گئے تھے اس لیئے‬
‫رمشا اور جمال کی پرورش ارم آنٹی نے ہی کی تھی۔ اس کے بعد وہ‬
‫کافی دیر تک ارم آنٹی کی تعریفیں کرتا رہا۔۔۔۔ اسی اثنا میں میرا‬
‫سٹاپ آگیا۔۔۔ چنانچہ گاڑی رکنے پر ۔۔۔جیسے ہی میں نے گاڑی سے‬
‫اترنے کے لیئے دروازہ کھوال تو اچانک ہی فرزند بوال۔۔۔ ایک‬
‫منٹ!!۔۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے دروازہ بند کر دیا ۔۔۔اور ان کی‬
‫طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگا۔۔۔۔‬

‫۔تو وہ تھوڑا جھجک کر بوال ۔۔۔شاہ جی برا نہ مانو تو ایک بات کہوں‬
‫؟ فرزند کی بات سن کر میں نے بڑے غور سے اس کے چہرے کی‬
‫طرف دیکھا تو ان کے چہرے پر مجھے کشمکش کے آثار نظر‬
‫آئے۔۔۔۔۔۔ لیکن میں انہیں نظر انداز کر تے ہوئے بوال۔۔۔ حکم سائیں! تو‬
‫وہ کہنے لگے۔یار وہ تم سے ایک کام پڑ گیا ۔۔(فرزند صاحب کی‬
‫ہچکچاہٹ دیکھ کر ہی میں سمجھ گیا تھا کہ مجھے ڈنر مفت میں نہیں‬
‫کروایا گیا تھا ) جبکہ دوسری طرف وہ کہہ رہے تھے کہ ۔۔۔۔۔ یار کام‬
‫میرا نہیں بلکہ ارم آنٹی کا ہے مجھے امید ہے کہ آپ اس مسلے کا‬
‫کچھ نہ کچھ حل نکال لو گے۔۔۔ اس پر میں ان سے بوال ۔۔۔ بھائی آپ‬
‫کچھ بتاؤ گے تو پتہ چلے گا کہ کیا کام ہے اور یہ کام مجھ سے ہو‬
‫بھی سکے گا یا نہیں؟ تو وہ کہنے لگے ۔۔۔ تم ایسا کرو کل آنٹی سے‬
‫مل لو وہ تم کو بتا دیں گی ۔۔میں نے ان سے کہا۔۔۔ آنٹی سے بھی مل‬
‫لوں گا لیکن اس سے پہلے آپ بتاؤ کہ کام کیا ہے؟ تو وہ کہنے لگا‬
‫کہ کچھ عرصہ قبل آنٹی نے شہر سے کافی دور سستے داموں ایک‬
‫پالٹ لیا تھا۔۔ اس وقت وہاں اجڑ اجاڑ تھا۔۔۔لیکن جیسا کہ تم جانتے ہو‬
‫پچھلے کچھ عرصہ سے ہمارے ہاں بھی ہاؤسنگ سوسائیٹیوں نے‬
‫زور پکڑ لیا ہے اور اتفاق سے آنٹی کا پالٹ بھی ایک مشہور‬
‫ہاؤسنگ اسکیم کے ساتھ آ گیا ہے ۔۔پھر کہنے لگے جیسا کہ تمہیں‬
‫معلوم ہے کہ۔۔۔ ان ہاؤسنگ سوسائیٹوں کی وجہ سے وہاں پر زمینوں‬
‫کے ریٹ بہت بڑھ گئے ہیں ۔۔۔ ۔ کچھ عرصہ قبل ان کے پاس ایک‬
‫پارٹی آئی تھی لیکن مناسب دام نہ لگانے کی وجہ سے آنٹی نے انکار‬
‫کر دیا تھا ۔۔۔ گھی سیدھی انگلی سے نہ نکلنے پر ان لوگوں نے ان‬
‫کے پالٹ پر قبضہ کر لیا ہے تو میں نے ان سے کہا کہ آنٹی نے‬
‫پالٹ پر قبضہ چھڑانے کے لیئے کیا کیا؟ تو وہ مایوسی کے ساتھ‬
‫بوال انہوں نے قبضہ چھڑانے کی بہت کوشش کی۔۔۔۔لیکن چونکہ وہ‬
‫لوگ بہت زیادہ بارسوخ ہیں اس لیئے ابھی تک کچھ بھی نہ ہو سکا۔۔۔‬
‫پھر کہنے لگے آنٹی تو اس پالٹ کی طرف سے مایوس ہو گئیں تھیں‬
‫لیکن رات امی نے تمہارا ذکر کیا کہ وہ ضرور کچھ نہ کچھ کر لے‬
‫گا۔۔۔ اس پر میں نے فرزند سے کہا کہ کیا آپ بتا سکتے ہو کہ آنٹی‬
‫کا پالٹ کہاں اور کس ہاؤسنگ سوسائیٹی کے قریب واقعہ ہے؟ تو وہ‬
‫کھسیانی ہنسی ہنس کر بوال ۔۔۔سوری یار اس کی تفصیل تو تم کو آنٹی‬
‫ہی بتا سکتی ہیں۔۔پھر مجھ سے منت بھرے لہجے میں کہنے لگا یار‬
‫اگر کچھ ہو سکے تو پلیززززززززززززز ضرور کرنا ۔۔۔۔اس‬
‫دوران ثانیہ نے بھی آنٹی کی بھر پور سفارش کی چنانچہ پبلک کے‬
‫پرزور اصرار پر میں نے "کچھ کرنے " کی حامی بھر لی۔‬ ‫ُ‬

‫اس سے پہلے کہ میں ارم آنٹی کو فون کرتا ۔۔اگلے دن خود ہی ان کا‬
‫فون آ گیا اور رسمی باتوں کے بعد وہ کہنے لگیں بیٹا فرزند کہہ رہا‬
‫تھا کہ آپ نے میرا کام کرنے کی حامی بھر لی ہے تو میں نے ان کو‬
‫جواب دیتے ہوئے کہا آپ ٹھیک کہہ رہیں ہیں آنٹی ۔۔۔ میں اپنی پوری‬
‫کوشش کروں گا کہ آپ کا مسلہ حل ہو جائے اور پھر ان سے بوال‬
‫کہ مجھے بتائیں آپ کا پالٹ کہاں واقع ہے؟ تو وہ کہنے لگیں بیٹا‬
‫جی ایسے آپ کو سمجھ نہیں آئے گی اس کے لیئے اگر آپ کے پاس‬
‫وقت ہے تو پلیزززز گھر آ جائیں۔ میں آپ کو سب سمجھا دوں گی‬
‫چنانچہ آفس سے چھٹی لے کر میں ان کے گھر چال گیا ۔۔۔ بیل کے‬
‫جواب میں گیٹ رمشا نے ہی کھوال اور نہایت ہی سیکسی سمائل سے‬
‫میرا سواگت کیا اس نے سیلو لیس شرٹ اور ٹائیٹس پہنی ہوئی تھی‬
‫۔۔۔۔ اسے اس حال میں دیکھ کر میں آگے بڑھ کر اسے اپنے سینے‬
‫سے لگانے ہی واال تھا کہ وہ ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولی۔۔۔۔شش ۔۔‬
‫کوئی حرکت نہیں کرنا ۔۔۔ ماما بڑی بے چینی سے تمہارا انتظار کر‬
‫رہیں ہیں ۔۔۔۔ اور ان کا کوئی پتہ نہیں کہ وہ تمہیں لینے باہر آ جائیں۔۔‬
‫اس لیئے پلیز ۔۔۔ بی سیریس۔۔ رمشا کی بات سن کر میں بھی چوکنا ہو‬
‫گیا اور اس کے ساتھ چلتا ہوا بڑی سنجیدگی سے بوال۔۔۔ لیکن یار‬
‫ایک چھوٹی سی کس تو دے ہی سکتی ہو تو وہ بھی چلتے چلتے ۔۔۔۔۔‬
‫اسی سنجیدگی کے ساتھ کہنے لگی واپسی پر دوں گی اس پر میں‬
‫بوال پکا ۔۔۔ تو وہ بڑی متانت سے کہنے لگی۔۔ ۔۔ پکا۔۔۔۔ اور پھر‬
‫مجھے لے کر آنٹی کے پاس چلی گئی جو کہ ڈرائینگ روم میں‬
‫بیٹھی تھیں اور ان کے سامنے میز پر کافی سارے کاغذات پڑے‬
‫تھے مجھے دیکھتے ہی وہ اُٹھ کھڑی ہوئیں اور کہنے لگی بیٹا میں‬
‫کس منہ سے تمہارا شکریہ ادا کروں انہوں نے یہ بات کچھ اس انداز‬
‫سے کی کہ جسے سن کر میں بہت نادم ہوا ۔۔۔اور ان سے کہنے لگا‬
‫۔۔ایسی باتیں کر کے مجھے شرمندہ نہ کریں ۔۔۔میری بات سن کر‬
‫انہوں نے مجھے سامنے والے صوفے پر بیٹھنے کو کہا۔۔ جبکہ‬
‫رمشا ان کے پیچھے کھڑی ہو گئی۔۔۔ ادھر جیسے ہی میں ان کے‬
‫سامنے والے صوفے پر بیٹھا تو وہ کہنے لگیں بیٹا جیسا کہ آپ کو‬
‫معلوم ہو گیا ہو گا کہ رمشا کے ابو ایک آئل کمپنی میں کام کرتے‬
‫ہیں ۔۔ بہت اچھی سیلری کی وجہ سے ہمیں پیسوں کی کبھی کمی‬
‫نہیں رہی۔ پھر کہنے لگیں۔۔۔ یہ آج سے کچھ عرصہ پہلے کی بات‬
‫ہے کہ میری ایک دوست نے مجھے شہر سے باہر ایک پالٹ کے‬
‫بارے میں بتالیا جو کہ اس وقت کافی سستے داموں مل رہا تھا اس‬
‫لیئے میں نے وہ پالٹ لے لیا اور پھر قانون کے مطابق اس کی‬
‫رجسٹری بھی اپنے نام کروا لی۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگیں کہ جیسا کہ تمہیں‬
‫معلوم ہے کہ کچھ عرصہ قبل شہر سے باہر ہاؤسنگ سوسائیٹیوں کا‬
‫جال سا بچھ گیا ہے‬

‫اور میری بدقسمتی یا خوش قسمتی کہ میرا پالٹ عین ایک مشہور‬
‫ہاؤسنگ سوسائیٹی کے ساتھ آ گیا ہے۔۔۔۔ اسی وجہ سے کئی ایک‬
‫پارٹیوں نے میرے ساتھ رابطہ کیا لیکن میں نے اپنا پالٹ بیچنے‬
‫سے صاف انکار کر دیا۔ جس کی وجہ سے ایک پارٹی تو ہتھے سے‬
‫ہی اکھڑ گئی اور اس نے میرے پالٹ پر قبضہ کر لیا۔ پھر کہنے‬
‫لگیں کہ جب مجھے اس بات کا علم ہو تو پہلے تو میں نے ان کے‬
‫ساتھ زبانی کالمی بات چیت کی لیکن جب وہ نہ مانے تو تب میں نے‬
‫ا ن لوگوں کے خالف متعلقہ تھانے میں درخواست دے دی۔ اس کے‬
‫ساتھ ہی انہوں نے فائل سے ایک درخواست نکالی اور مجھے‬
‫دکھاتے ہوئے بولیں ۔۔۔ متعلقہ تھانے کے ایس ایچ او نے قبضہ‬
‫چھڑانا تو دور کی بات اس سلسلہ میں ایک روپے کا بھی کام نہیں‬
‫کیا۔۔۔۔ اُلٹا مجھ سے اچھے خاصے پیسے اینٹھ لیئے۔۔ اس کے بعد‬
‫انہوں نے ایک طویل اور دکھ بھری داستان سنائی جس کے مطابق‬
‫اکیلی عورت دیکھ کر ہر بندے نے ان کے ساتھ دھوکہ کیا اور پیسے‬
‫لے کر چمپت ہو گیا آنٹی کی داستان سن کر میں بڑا حیران ہوا ۔۔اور‬
‫ان سے بوال کہ اس سلسلہ میں آپ کے بیٹے یا کسی اور نے کوئی‬
‫مدد نہیں کی؟ تو وہ سر د آہ بھر کر بولیں۔۔ جہاں تک میرے بیتے کا‬
‫تعلق ہے تو اس سلسلہ میں اس نے میری بات ہی نہیں سنی۔۔ ہاں البتہ‬
‫تانیہ کے ڈیڈی اور میرے میکے والوں نے کچھ بھاگ دوڑ کی‬
‫لیکن۔۔۔ میری طرح وہ بھی بری طرح ناکام رہے۔۔ ۔۔ ان کی بات سن‬
‫کر میں نے افسوس کا اظہار کیا ۔۔۔۔ اور پھر ان سے پالٹ کا پتہ لیا‬
‫کہ پہلے میں اس کے بارے میں اپنے طور پر چھان بین کرنا چاہتا‬
‫تھا۔لیکن انہوں نے ضد کی کہ پہلے وہ مجھے اپنے ساتھ لے جا کر‬
‫پالٹ دکھائیں گی۔چنانچہ اس کے لیئے طے یہ ہوا کہ اگلے دن وہ‬
‫ٹھیک دس بجے میرے آفس کے باہر گاڑی لے کر آئیں گی اور پھر‬
‫ہم دونوں پالٹ دیکھنے جائیں گے۔‬

‫یہاں میں ایک بات شئیر کرتا چلوں اور وہ یہ کہ ۔۔۔ جیسا کہ میں بتا‬
‫چکا ہوں کہ ۔ میرے سامنے والے صوفے پر آنٹی بیٹھی تھیں جبکہ‬
‫رمشا عین ان کے پیچھے کھڑی تھی۔۔۔ اور جس وقت آنٹی مجھے‬
‫انہماک کے ساتھ اپنے پالٹ کی داستان سنا رہیں تھیں عین اس وقت‬
‫ان کے پیچھے کھڑی رمشا شرارت بھرے انداز میں مجھے اپنی‬
‫چھاتیوں کا نظارہ پیش رہی تھی وہ شرٹ کے اوپر سے ہی اپنے‬
‫دونوں ہاتھوں سے چھاتی کو پکڑتی اور میری طرف دیکھتے‬
‫ہوئے۔۔۔ اپنی زبان نکال کر اسے چوسنے کا اشارہ کرتی۔۔۔ جسے‬
‫دیکھ کر بھڑک بھڑک جاتے ۔۔۔۔لیکن میں مجبور کچھ نہ کر سکتا‬
‫۔۔۔لیکن۔۔۔۔ (چوری چوری) اس کی گول گول چھاتیوں کو ۔۔۔۔ دیکھ‬
‫دیکھ کر اندر ہی اندر سلگتا ۔۔۔۔۔ اور آنٹی کی وجہ سے دل پر جبر کر‬
‫تا رہا ۔۔۔پھر اس نے ایک ایسی حرکت کی کہ جس نے میرے تن بدن‬
‫۔۔۔۔اور لن ۔۔۔۔ میں آگ لگا دی۔۔۔ وہ مجھے مزید گرم کرنے کی‬
‫خاطر۔۔۔ صوفے سے تھوڑا ہٹ کر ایک سائیڈ پر کھڑی ہوئی ۔۔۔اور‬
‫مجھے متوجہ کرتے ہوئے اپنی ٹائیٹس کو ۔۔۔تھوڑا سا نیچے کیا۔۔۔اتنا‬
‫نیچے کہ جس کی وجہ سے مجھے اس کی چوت کے اوپر اُگے‬
‫ہوئے چھوٹے چھوٹے صاف بال نظر آئے۔ اس ظالم نے ایک لمحے‬
‫کے لیئے مجھے اپنی چوت کے اپری حصے کا نظارہ کروایا۔۔۔ اور‬
‫پھر جلدی سے ٹائیٹس کو اوپر کر کے اسی بے نیازی کے ساتھ وہیں‬
‫کھڑی ہو گئی کہ جہاں پر وہ پہلے کھڑی تھی۔۔۔۔اُف ف ف فف ۔۔۔ اس‬
‫کی چوت کا اپری حصہ ۔۔۔۔ خاص کر اس پر اگے ہوئے۔۔۔۔ کالے‬
‫کالے دیکھ کر میرے ماتھے پر پسینہ آگیا ۔۔۔ لیکن آنٹی کے متوجہ‬
‫ہونے سے پہلے پہلے میں نے ماتھے پر آئے پسینے کو صاف کیا‬
‫اور اس کے اپنے للے کو بڑی ہی مشکلوں کے ساتھ کھڑا ہونے‬
‫سے روکا ۔۔ دوسری طرف سارے معامالت طے کرنے کے بعد میں‬
‫نے ان سے اجازت لی ۔آنٹی میرے ساتھ باہر تک آنا چاہتی تھیں لیکن‬
‫میں نے انہیں منع کر دیا۔۔۔۔۔ اور رمشا کے ساتھ باہر کی طرف چل‬
‫پڑا۔۔۔۔۔ راستے میں وہ ہنستے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔ کیسی لگی میری‬
‫پرفارمنس؟؟ تو میں نے بھی مسکراتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔ تمہیں‬
‫معلوم ہے کہ میں نے اپنے لوڑے کی اکڑاہٹ کو کتنی مشکلوں سے‬
‫روکا۔ تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگی۔۔ تمہیں الٹا سیدھا ہوتے دیکھ‬
‫کر ہی تو میں نے اپنی خاص چیز کا نظارہ کروایا تھا۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔ اس کی‬
‫بات سن کر اچانک میں نے پیچھے ُمڑ کر دیکھا ۔۔اور کسی کو نہ پا‬
‫کر اس کا ہاتھ پکڑا ۔۔۔ اور اسے سینے سے لگاتے ہوئے بوال۔۔۔۔ اب‬
‫دکھا نا اپنی بالوں سے بھری چوت۔۔۔۔ تو وہ کسمسا کر بولی۔۔۔۔ موقع‬
‫آنے پر ضرور دکھاؤں گی۔۔۔ اور ۔پھر میرے ساتھ چمٹ گئی۔۔۔۔۔میں‬
‫نے جلدی سے اس کو کسنگ کرنا چاہی ۔۔۔۔ لیکن اس ظالم نے کسنگ‬
‫کے نام پر محض ہونٹوں سے ہونٹوں مالئے اور۔۔۔ پھر ۔۔۔۔۔ میرے‬
‫واویلے پر۔۔۔۔ تھوڑی تفصیلی کسنگ کی۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔پھر بوسے کے‬
‫بعد والے ۔۔۔۔۔ لوازمات جیسے۔۔زبان سے زبان مالنا۔۔۔۔۔ چھاتیوں کو‬
‫دبوانا۔۔۔۔ لن پکڑنا۔۔۔اور دیگر بہت سے جنسی افعال پھر کسی وقت کا‬
‫وعدہ کرتے ہوئے مجھ سے خود کو کھڑایا ۔۔۔۔اور پھر مجھے پکڑ‬
‫کر گیٹ سے باہر دھکیل دیا۔گیٹ سے نکلتے ہوئے میں نے اس سے‬
‫کہا کہ ۔۔۔۔ سالی۔۔۔اتنا ترساتی کیوں ہو ؟؟ تو وہ اٹھال کر بولی۔۔۔۔ اسی‬
‫طرح تو تیرے دل میں میری قدر آئے گی ۔۔ اور میں سمجھ گیا کہ‬
‫اس کا شمار ان لڑکیوں میں ہوتا ہے جو دیتی کم اور ترساتی ‪/‬‬
‫بھگاتی زیادہ ہیں۔۔۔۔‬

‫۔۔۔ رمشا کی چوت پر اُگے ۔۔۔ ہلکے کالے بال۔۔۔۔اور اس کی گول گول‬
‫چھاتیوں کو دیکھنے کے بعد میں گرم تو ہوا تھا ۔۔۔۔لیکن ۔۔۔۔ گھر سے‬
‫نکلتے وقت اس کے ساتھ چھوٹی سی کسنگ اور بغل گیری نے‬
‫میرے اندر شہوت کا طوفان برپا کر دیا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ جیسا کہ آپ کو‬
‫معلوم ہے کہ بندہ ‪ 7/24‬پھدی کی تاڑ میں رہتا ہے لیکن رمشا کے‬
‫بدن سے بدن مال کر ۔۔۔۔اور ہونٹوں پہ ہونٹ رکھ کر دفعتا ً ۔۔۔۔ میرے‬
‫اندر پھدی کی شدید طلب پیدا ہو گئی۔ میرا لن پھدی کے لیئے دھائیاں‬
‫دینے لگا۔۔ ۔۔۔۔ابھی میں اس بارے سوچ ہی رہا تھا کہ دفعتا ً میرے زہن‬
‫میں بجلی کی سی تیزی سے ایک خیال کوندا۔۔۔۔۔۔۔اور اس خیال کے‬
‫آتے ہی میرے ہونٹوں پر ۔۔۔ایک شہوت بھری مسکان ابھر آئی۔۔۔۔اور‬
‫میرے لن میں جان پڑنا شروع ہو گئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس وقت د ن کے چار بج‬
‫رہے تھے گرمیاں ہونے کی وجہ سے سورج سوا نیزے پر جبکہ‬
‫میرا لن زیرو سے۔۔۔۔ ‪ 120‬ڈگری سے بھی آگے کی طرف گامزن‬
‫تھا۔۔۔۔ ۔۔جلدی کی وجہ سے میں نے پا س سے گزرتی ہوئی ٹیکسی‬
‫کو روکا اور اس میں بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔میری منزل عدیل کا گھر تھا جہاں‬
‫پر صائمہ دی موسٹ سیکسی لیڈی اپنی بیمار ماں کی خبر گیری‬
‫کرنے آئی تھی پروگرام یہ تھا کہ آنٹی کا حال چال پوچھوں گا ۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اور موقعہ ملتے ہی صائمہ کو دبوچ لوں۔۔۔۔۔ ۔عدیل کا گھر آنے سے‬
‫پہلے ہی میں ٹیکسی والے کو کرایہ دے کر فارغ ہو چکا تھا ۔۔۔ اس‬
‫لیئے جیسے ہی ٹیکسی رکی میں جمپ مار کر نیچے اترا اور ۔۔آنٹی‬
‫کے گھر کے سامنے کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ بیل کے جواب میں صائمہ باجی‬
‫نے دروازہ کھوال۔۔۔۔اس وقت انہوں نے ہلکے سبز رنگ کے ٹائیٹ‬
‫فٹنگ والے کپڑے پہنے ہوئے تھے جبکہ سینے کو بڑے اہتمام کے‬
‫ساتھ ایک بڑے سے دوپٹے کے ساتھ ڈھانپ رکھا تھا۔۔۔ گیٹ کھول‬
‫کر جیسے ہی ان کی نظر مجھ پر پڑی تو انہوں نے کمال بے تکلفی‬
‫ب معمول ان‬ ‫کے ساتھ ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ دوپٹے کو اپنے سینے سے ہٹا دیا۔۔۔ حس ِ‬
‫کی قمیض کا گال اتنا کھال تھا کہ ان کی چھاتیاں آدھ ننگی ہو رہی‬
‫تھیں۔۔۔ مجھے سامنے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ایک چمک سی آ‬
‫گئی۔۔۔ اور وہ کہنے لگی ۔۔۔ انگریز کہتے ہیں کہ تھنک اباؤٹ ڈیول‬
‫اینڈ ڈیول از دئیر ۔( ابھی شیطان کے بارے سوچا ہی تھا کہ وہ‬
‫حاضر ہو گیا) تو میں نے ان سے کہا کہ کیا آپ بتا سکتی ہیں کہ اس‬
‫محاورے کی وجہء تسمیہ کیا ہے؟ تو وہ کہنے لگیں تھوڑی دیر‬
‫پہلے ہی میں نے امی سے تمہارے بارے پوچھا تو وہ کہنے لگیں کہ‬
‫کافی دن ہو گئے ۔۔۔۔ شاہ جی نے ہماری طرف چکر نہیں لگایا۔۔ پھر‬
‫کہنے لگیں۔۔۔ ابھی امی نے اتنی بات کی تھی کہ باہر بیل ہو گئی۔۔۔‬
‫جسے سن کر میرے دل نے کہا کہ ہو نہ ہو یہ شاہ ہو گا ۔۔۔اور مسٹر‬
‫شاہ یہ واقعی تم تھے۔۔۔۔ پھر کہنے لگی اتنے دن کیوں نہیں نظر آئے‬
‫؟ تو میں نے کام زیادہ ہونے کا بہانہ لگا لیا۔۔۔‬

‫اور پھر انہوں نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا تو میں گیٹ سے‬
‫داخل ہوتے ہوئے بوال ۔۔ اب آنٹی کی طبیعت کیسی ہے؟ تو وہ کہنے‬
‫لگیں اب تو بلکل ٹھیک ہیں ۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے ایک نظر‬
‫ادھر ادھر دیکھا اور پھر ٹائٹیس کے اوپر ہی ان کی مست گانڈ پر‬
‫ہاتھ پھیرتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔اُف کتنی نرم ہے یہ ۔۔ میری بات سن کر وہ‬
‫مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔ ۔۔ کیا بات ہے آج بڑے تپے ہوئے (گرم)‬
‫نظر آ رہے ہو تو میں نے ان کی طرف دیکھ کر شہوت بھرے لہجے‬
‫میں کہا کہ …جس شخص کی نظروں کے سامنے ایک جیتا جاگتا‬
‫سیکس بم اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ کھڑا ہو۔۔۔۔ وہ گرم‬
‫نہیں ہو گا تو کیا ہو گا؟ اس کے ساتھ ہی میں نے ان کے حسن اور‬
‫سیکس کے بارے میں ایک بہت ہی شاندار قسم کا قصیدہ کہہ دیا ۔۔۔۔‬
‫میرے منہ سے اپنی تعریف سن کر وہ مست ہو کر بولیں۔۔۔ ویسے تم‬
‫بھی کچھ کم نہیں ہو خاص کر یہ جو تمہارے پاس ایک موٹا سا ڈنڈا‬
‫ہے نا ۔۔۔ ۔۔۔ یقین کرو میں جب بھی اس کے بارے میں سوچتی ہوں‬
‫تو گیلی ہو جاتی ہوں۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے بال تکلف ان کی‬
‫ٹائیٹس میں ہاتھ ڈاال اور ان کی چوت کو چیک کرنے لگا۔۔۔۔ وہ گرم‬
‫تو تھی لیکن اس وقت گیلی نہیں تھی۔یہ دیکھ کر میں ان سے بوال۔۔۔‬
‫آپ کی چوت تو ابھی خشک ہے تو وہ کہنے لگی انگلی کو ذرا اندر‬
‫ڈالنے کی زحمت گوارا کرو تو پتہ چلے۔۔۔۔ کہ وہ گیلی ہے یا‬
‫خشک۔۔۔۔ سو ان کی بات سن کر میں نے ٹائیٹس سے ہاتھ نکاال اور‬
‫اپنی درمیانی انگلی کو ان کے منہ کے پاس لے گیا ۔۔۔ صائمہ باجی‬
‫نے اپنا منہ کھوال اور میری انگلی کو اندر لے کر چوسنا شروع ہو‬
‫گئیں۔۔۔اور اس پر مختلف اینگل سے زبان پھیرتی رہیں رہیں۔۔۔۔ پھر‬
‫انہوں نے انگلی منہ سے باہر نکالی اور زبان نکال کر میری انگلی‬
‫پر تھوک مل دیا۔۔۔۔ اور کہنے لگیں ۔۔ اب اسے چوت میں ڈال ۔۔ تو‬
‫میں نے اپنی انگلی کو ان کی چوت میں ڈاال ۔۔۔تو وہ ہلکی ہلکی گیلی‬
‫ہو رہی تھی۔۔۔ چنانچہ میں اپنی انگلی کو ان کی چوت میں گھماتے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔ باجی آپ کی چوت لیک ہونا شروع ہو گئی ہے تو وہ آہ‬
‫بھر کر بولیں۔۔۔۔ ۔۔ یہ تمہاری وجہ سے گیلی ہوئی ہے۔۔۔ اور مجھے‬
‫انگلی باہر نکالنے کو کہا۔۔۔ چنانچہ میں نے انگلی ان کی چوت سے‬
‫باہر نکالی اور ان سے بوال۔۔۔ لیکن میرا دل تو آپ کی دل کش گانڈ پر‬
‫ہے میری بات سن کر وہ آنکھیں نکالتے ہوئے بولیں۔۔۔خبردار !!۔۔۔جو‬
‫میری گانڈ کے بارے میں سوچا بھی۔۔۔۔ یہ میری گانڈ ہے۔۔۔۔۔ تمہارے‬
‫لنڈ کا گودام نہیں۔۔۔۔ تو میں نے چلتے چلتے ان کی مست گانڈ پر ہلکا‬
‫سا تھپڑ مارتے ہوئے بوال۔۔۔ لیکن مجھے تو آپ کی مست گانڈ ہی‬
‫چاہیے تو وہ کہنے لگیں۔۔۔۔ تمہارے سالے صاحب کو بھی ہمیشہ یہی‬
‫چاہیئے ہوتی ہے۔۔۔۔ وہ میرے آگے ڈالے نہ ڈالیں ایک دفعہ اس میں‬
‫ضرور ڈالتے ہیں۔۔۔۔اس لیئے تم سے درخواست ہے کہ ۔۔۔ کچھ میری‬
‫پھدی کا بھی خیال کرو۔اس پر میں چلتے ہوئے رک کر بظاہر حیران‬
‫ہوتے ہوئے بوال۔۔۔‬

‫کیا میری طرح وہ بھی گانڈ لور ہیں ؟ تو وہ اٹھالتے ہوئے بولیں۔۔ ۔۔۔‬
‫تم لور کی بات کر رہے وہ تو میری گانڈ کے دیوانے ہیں اور یقین‬
‫کرو ۔۔۔میری چوت سے زیادہ اس کو چاٹتے اور اس میں ڈالتے ہیں۔۔‬
‫اس پر میں ان کی طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔ آپ کا شوہر گانڈ‬
‫مارے یا چوت ۔۔۔ مجھے اس سے غرض نہیں ۔۔۔۔۔ لیکن میں تو‬
‫صرف گانڈ ہی مارنے کے موڈ میں ہوں ۔۔ میری بات سن کر انہوں‬
‫نے بڑی گہری نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے‬
‫لگیں۔۔۔۔ ٹھیک ہے بابا ۔۔ گانڈ ہی مار لینا ۔۔ لیکن میری ایک شرط ہے‬
‫اور وہ یہ کہ۔۔۔اس سے پہلے تم کو میری چوت سے پانی نکالنا پڑے‬
‫گا۔۔۔۔ چاہے اسے چاٹ کے نکالو یا۔۔۔۔۔اپنے لوڑے سے۔۔۔۔بوال منظور‬
‫ہے؟ تو میں نے جھٹ سے ہاں کر دی۔۔۔۔آنٹی کے کمرے کے قریب‬
‫پہنچتے ہی صائمہ باجی چونک کر بولی۔۔۔ مجھے تو یاد ہی نہیں‬
‫رہا۔۔۔۔ ایسا کرو تم مام کے پاس جاؤ میں تمہارے لیئے ٹھنڈا التی‬
‫ہوں۔۔۔اتنا کہتے ہی وہ واپس چلی گئی میں نے دیکھا تو آنٹی کا‬
‫دروازہ کھال ہوا تھا اس لیئے میں بنا دستک دیئے اندر داخل ہو گیا۔۔۔‬

‫دیکھا تو آنٹی کہیں جانے کی تیاری کر رہیں تھیں ان کا ایک پاؤں‬


‫سنٹرل ٹیبل پر تھا ۔۔۔۔۔ اور وہ جھک کر سینڈل پہن رہیں تھیں۔۔۔۔ اور‬
‫اس طرح جھک کر شوز پہننے کی وجہ سے ان کی قمیض سے سفید‬
‫رنگ کی بڑی بڑی چھاتیاں صاف جھلکتی نظر آ رہیں تھی۔۔۔ مجھے‬
‫کمرے میں داخل ہوتے دیکھ کر بھی۔۔۔۔۔انہوں نے سیدھے ہونے کی‬
‫زحمت گوارا نہیں کی اور بڑے شوخ لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔آؤ شاہ‬
‫جی! کیسے ہو تم؟ آج بڑے دنوں کے بعد چکر لگایا ہے۔۔۔ تو میں نے‬
‫ان سے کہا آنٹی میں سنا تھا کہ آپ کو فلو اور بخار ہو گیا ہے تو‬
‫سوچا کہ آ پ کی خیریت پوچھتا جاؤں تو وہ اسی حالت میں جھکے‬
‫جھکے بولیں ۔۔۔بیٹا آپ کو زحمت ہو گی زرا یہ ڈسٹر تو پکڑانا۔۔۔۔‬
‫میں نے دیکھا تو میرے پاس ہی صفائی واال کپڑا پڑا تھا سو میں نے‬
‫اسے اُٹھایا اور آنٹی کے قریب چال گیا ۔۔اتنے قریب کہ جھکے ہوئے‬
‫مجھے ان کے نپلز کے سوا۔۔۔۔ باقی چھاتیاں صاف دکھائی دے رہیں‬
‫تھیں ۔۔یہ سب دیکھتے ہوئے میں نے دل ہی دل میں سوچا کہ۔۔۔۔ آج‬
‫تو بہت ہی شبھ دن ہے کہ جسے دیکھو ۔۔۔۔۔ اپنی چھاتیا ں دکھانے پر‬
‫تلی ہوئی ہے ۔۔ سب سے پہلے رمشا نے شرارت سے سہی پر‬
‫مجھے اپنی جوان چھاتیوں کی جھلک دکھائی ۔۔۔پھر ادھر آنے پر‬
‫صائمہ دوپٹے کو ہٹا کر مجھے اپنی چھایتوں کا نظارہ پیش کیا۔۔۔۔۔‬
‫اور اب کمرے میں داخل ہوتے ہی۔۔آنٹی کی دل کش چھاتیاں‬
‫دیکھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف آنٹی جو کہ ابھی تک جھک کر سینڈل‬
‫پہن رہیں تھیں اس کے باوجود بھی کہ انہوں نے مجھے اپنی‬
‫چھایتوں پر نظر گاڑتے ہوئے اچھی طرح سے دیکھ لیا تھا لیکن‬
‫بجائے سیدھا کھڑا ہونے کے الٹا مجھ سے ڈسٹ صاف کرنے واال‬
‫کپڑا منگوا رہیں تھیں ۔۔اور قریب آنے پر وہ نظارہ بھی دیکھنے کو‬
‫مل گیا جو دور سے دیکھنا ممکن نہ تھا اس وقت آنٹی کے صرف‬
‫نپلز نظر نہ آ رہے تھے باقی ان کی صحت مند چھاتیاں صاف‬
‫دکھائی دے رہیں تھیں‬
‫ادھر سینڈل پر ڈسٹر مارنے کے ساتھ ساتھ وہ میرے ساتھ باتیں بھی‬
‫کر تی جا رہیں تھیں۔۔۔جب میں نے ان سے پوچھا کہ آنٹی اب بخار‬
‫کیسا ہے ؟ تو وہ کہنے لگیں کہ اب میں ٹھیک ہوں۔۔تو میں نے موقعہ‬
‫غنیمت جان کر۔۔۔۔۔۔ان کی خوبصورت چھاتیوں پر نظریں گاڑتے‬
‫ہوئے تھوڑا ذُومعنی لہجے میں بوال ۔۔۔کوئی دوائی لی تھی یا پھر‬
‫ٹیکہ لگوا کے آرام آیا؟ میری بات سن کر انہوں نے ایک نظر مجھے‬
‫دیکھا اور پھر وہ بھی اسی ذُومعنی لہجے میں بولیں ۔۔۔ ٹیکہ کس نے‬
‫لگوانا تھا ؟ آجا کر ایک تمہارے انکل ہیں۔۔۔۔ جن کو آفس سے اتنی‬
‫فرصت نہیں ملتی کہ بیمار بیگم کو ایک ٹیکہ ہی لگوا دوں تو اسے‬
‫بھی آرام ملے۔۔۔اس پر میں نے انہیں اسی لہجے میں کہا آنٹی جی آپ‬
‫نے مجھے بالیا لیا ہوتا ۔۔۔ میں آپ کو ایسا ٹیکہ لگواتا کہ ایک منٹ‬
‫میں آپ شانت ہو جاتیں۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک بار پھر‬
‫بڑی ہی گہری نظروں سے میری طرف دیکھا ۔۔۔اور اس سے پہلے‬
‫کہ وہ کچھ کہتیں باہر سے قدموں کی چاپ سنائی دی۔۔۔ جسے سنتے‬
‫ہی وہ ایک دم سے سیدھی کھڑی ہو گئیں۔۔۔۔ اور مجھ سے کہنے‬
‫لگیں بیٹھ جاؤ بیٹا ۔۔۔ اسی اثنا میں صائمہ باجی بھی کمرے میں داخل‬
‫ہو چکی تھیں آنٹی کو دیکھ کر بولیں تیاری ہو گئیں ماما؟ تو آنٹی‬
‫جواب دیتے ہوئے بولیں۔۔۔ میں ریڈی ہوں بس موٹی آئے تو ہم چلتے‬
‫ہیں اس پر میں دخل در معقوالت کرتے ہوئے بوال ۔۔ آپ کہیں جا‬
‫رہیں ہیں؟ تو آنٹی کہنے لگیں۔۔۔ ہاں بیٹا ہمارے پرانے محلے میں‬
‫ایک شخص مر گیا تھا اس کے افسوس کے لیئے جا رہی ہوں آنٹی‬
‫کی بات سن کر میرا من خوشی سے جھوم اُٹھا ۔۔۔اتنی دیر میں باہر‬
‫گھنٹی کی آواز سنائی دی۔۔۔ گھنٹی کی آواز سنتے ہی صائمہ باجی‬
‫اُٹھنے ہی والی تھی کہ آنٹی کہنے لگیں ۔۔تم شاہ جی کے پاس بیٹھو ۔۔‬
‫میں دیکھتی ہوں اگر موٹی ہوئی تو میں دو دفعہ بیل بجا کر اس ساتھ‬
‫چلی جاؤں گی تم گیٹ کو الک کردینا۔۔۔یہ کہہ کر وہ کمرے سے باہر‬
‫نکل گئیں اب کمرے میں ہم دونوں اکیلے رہ گئے تھے۔۔ یہ معاملہ‬
‫دیکھ کر میں اُٹھنے ہی لگا تھا کہ میری نیت کو بھانپ کر۔۔۔۔۔صائمہ‬
‫باجی ہونٹوں پر انگلی رکھ کر بولی ۔۔۔ شش ۔ ابھی نہیں۔۔۔ اگر باہر‬
‫آنٹی ہوئیں تو ماما جاتے ہوئے بیل دیں گی ۔۔۔تب تک ُچپ۔۔ اور میں‬
‫ُچپ کر کے بیٹھا گیا۔۔ تھوڑی دیر بعد ایک مخصوص انداز میں بیل‬
‫بجی ۔۔۔ جسے سنتے ہی صائمہ باجی نے میری طرف دیکھا اور‬
‫کہنے لگی ۔۔۔ مبارک ہو ماما چلی گئیں۔۔۔ پھر بولی۔۔۔تم بیٹھو میں گیٹ‬
‫بند کر کے ابھی آئی۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔‬

‫باہر والے گیٹ کو الک کر کے جیسے ہی کمرے میں داخل ہوئیں تو‬
‫میں نے آگے بڑھ کر ان کو اپنی بانہوں میں لے لیا اس پر وہ میرے‬
‫سینے سے لگتے ہوئے بولیں کیا بات ہے آج گرمی کچھ زیادہ ہی‬
‫نہیں چڑھ گئی؟ تو میں ان کے گال کو چومتے ہوئےبوال۔۔ ۔۔۔۔ ہیٹر‬
‫کے آگے بیٹھنے سے گرمی نہیں آئے گی تو کیا سردی آئے گی؟ اس‬
‫پر وہ میرے لن کو مسلتے ہوئے بولیں گرمی تمہیں ہیٹر سے ملی‬
‫ہے اور لینا تم ٹھنڈی چیز چاہتے ہو ۔۔۔۔اس پر میں نے ان کی گانڈ پر‬
‫ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا کس کم بخت نے کہا کہ آپ کی گانڈ ٹھنڈی ہے‬
‫آپ کی اس کیوٹ گانڈ کو دیکھ کر تو مردہ لن بھی زندہ ہو جاتا ہے‬
‫میرا تو پھر جیتا جاگتا لن ہے اس پر وہ پینٹ کے اوپر سے ہی‬
‫میرے لن کو دباتے ہوئے بولی تم اسے لن کہتے ہو۔۔ اس پر میں نے‬
‫ان کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے کہا لن کو لن نہ کہوں تو اور کیا‬
‫کہوں؟ میری بات سن کر وہ مسکرائی اور شہوت بھرے لہجے میں‬
‫بولی اس لنڈ کو صرف لنڈ کہنا ۔۔۔۔ لنڈ کی توہین ہے یہ تو بہت بڑی‬
‫بال ہے ایسی بال جو کم از کم دس "بالؤں" پر بھاری ہے ۔۔اپنے لن‬
‫کی تعریف سن کر میں خوشی سے پھول گیا اور پھر ان سے بوال‬
‫اچھا یہ بتائیں کہ اس دن اس بال نے مزہ دیا تھا؟ میری بات سن کر‬
‫انہوں نے ایک سسکی لی ۔۔۔اُف۔ تم مزے کی بات کر رہے ہو اس دن‬
‫کے بعد سے میری چوت بار بار تمہاری "اس بال " کی ڈیمانڈ کر‬
‫رہی ہے اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے منہ کو میرے منہ میں ڈال‬
‫دیا ۔۔۔۔۔اور میرے ہونٹوں کو چوسنے ہی لگی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کہ اچانک‬
‫بجلی چلی گئی۔ ۔۔ بجلی کے جاتے ہی وہ کہنے لگیں ۔۔۔اوہ ِشٹ۔۔۔۔ایک‬
‫تو اس بجلی نے ہماری ناک میں دم کر رکھا ہے تو میں نے ان سے‬
‫کہا کہ بجلی جاتی ہے تو جائے ہم نے کون سا کپڑے پہن کے‬
‫چودائی کرنی ہے ۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگیں کہہ تو تم‬
‫ٹھیک رہے ہو لیکن ۔۔۔ یار ایسے مزہ نہیں آئے گا۔۔۔۔ اس کے بعد وہ‬
‫مجھ سے کہنے لگیں تم ویٹ کرو میں نہا کر آتی ہوں اس طرح میں‬
‫کچھ فریش بھی ہو جاؤں گی اور گرمی بھی کم لگے گی۔۔۔ اس وقت‬
‫میرے زہن پر منی سوار تھی ان کو جاتے دیکھ کر میں کہنے لگا ۔۔۔‬
‫میں بھی نہاؤں گا تو وہ شرارت سے بولیں ایسے کرتے ہیں آج ہم‬
‫دونوں اکھٹے نہاتے ہیں۔۔۔۔ پھر کہنے لگیں ۔۔۔ ہمارے نہانے کے‬
‫لیئے عدیل کا واش روم ٹھیک رہے گا۔۔۔۔ اتنا کہہ کر انہوں نے میرا‬
‫ہاتھ پکڑا اور ہم عدیل کے کمرے میں آ گئے۔۔۔یہاں آتے ہی وہ مجھے‬
‫لے کر واش روم میں گھس گئیں ۔۔عدیل کا واش روم دیکھ کر میں تو‬
‫حیران رہ گیا یہ ایک وسیع واش روم تھا اندر جدید طرز کی چیزیں‬
‫لگی ہوئیں تھیں ۔۔۔ اور واش روم میں لگی ٹائلز بہت ہی خوبصورت‬
‫اور قیمتی قسم کی تھیں واش بیس کے اوپر ایک بڑا سا آئینہ لگا تھا‬
‫۔۔۔ جبکہ بیسن کے سامنے ایک اسٹائلش سا کموڈ پڑا ہوا تھا اور اس‬
‫کموڈ سے تھوڑے فاصلے پر ایک بڑا سا باتھ ٹب بنا ہوا تھا اور اس‬
‫باتھ ٹب کے عین اوپر خوبصورت سا نل لگا ہوا تھا اور اس ٹیپ کے‬
‫عین اوپر شاور بھی لگا ہوا تھا مجھے یوں انسپکشن کرتے دیکھ کر‬
‫وہ کہنے لگیں ۔۔ ایسے کیا دیکھ رہے ہو؟ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔‬
‫بڑا خوبصورت واش روم بنوایا ہے تو وہ جواب دیتی ہوئے بولیں یہ‬
‫سب عدیل کی فرمائش پر لگایا گیا ہے تو میں نے ان کی طرف دیکھ‬
‫کر آنکھ مارتے ہوئے بوال۔۔ باجی شرط لگا لو ۔۔ عدیل نے گوری کو‬
‫اس واش روم میں ضرور چودا ہو گا۔۔۔‬

‫تو وہ مجھے سیکسی سمائل دیتے ہوئے کہنے لگیں عدیل اس گوری‬
‫کو چودتا ہو گا یا نہیں ۔۔ یہ تو مجھے نہیں معلوم ……‪..‬ہاں میں یہ‬
‫ضرور جانتی ہوں کہ آج اس واش روم میں میری گانڈ ضرور‬
‫"وجنے" والی ہے ان کی بات سن کر میں ان سے لپٹ گیا اور ان‬
‫کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر ان کا رس چوسنے لگا۔۔۔۔ ہونٹ چوسنے‬
‫کے کچھ ہی دیر بعد میں نے اپنی زبان ان کے منہ میں ڈال دی۔۔ اور‬
‫پھر بڑی بےتابی کے ساتھ ان کی زبان کو چوسنے لگا۔۔۔۔ اس کے‬
‫ساتھ ساتھ میرا ایک ہاتھ ان کی موٹی گانڈ پر چال گیا۔۔۔اور میں ان کی‬
‫نرم گانڈ پر ہاتھ پیھرنے لگا۔۔۔۔۔۔ جبکہ ان کا ہاتھ میری پیٹ کی زپ‬
‫پر چال گیا۔۔۔۔اور انہوں نے زپ کھولتے ہوئے لن کو باہر نکالنا چاہا‬
‫۔۔۔ لیکن ٹائیٹ انڈر وئیر پہننے کی وجہ سے لن باہر نہ نکل سکا تو‬
‫انہوں نے اپنی زبان کو میرے منہ سے کھینچا اور کہنے لگی کیا‬
‫مصیبت ہے یار۔۔۔آخر تم بوائز لوگ پینٹ کے نیچے انڈر وئیر کیوں‬
‫پہنتے ہو؟ ان کی بات سن کر میں نے جلدی سے پینٹ کے ساتھ ساتھ‬
‫انڈروئیر کو بھی اتار دیا۔۔۔۔۔ اور لن کو ان کی خدمت میں پیش کرتے‬
‫ہوئے بوال ۔۔ آپ انڈر وئیر کی بات کر رہی تھیں میں نے پینٹ بھی‬
‫اتار دی ہے تو اس پر وہ میرے لن پر نظریں گاڑتے ہوئے بولیں ۔۔‬
‫صرف پینٹ ہی نہیں اتارنی بلکہ پورے ننگے ہو جاؤ ۔۔۔اتنا کہتے ہی‬
‫خود انہوں نے بھی کپڑے اتارنے شروع کر دیئے۔۔ اگلے چند‬
‫سیکنڈز کے بعد ہم دونوں کے کپڑے اتر چکے تھے۔۔۔۔ کپڑے‬
‫اتارنے کے بعد وہ سیدھا باتھ ٹب کی طرف چلی گئیں اور وہاں جا‬
‫کر انہوں نے شاور کھول دیا۔۔‬

‫شاور کا شفاف پانی ان کے سیکسی جسم پر گرنے لگا۔۔۔ اپنے ننگے‬


‫جسم پر پانی گرتا دیکھ کر وہ مجھ سے کہنے لگیں تم بھی آ جاؤ۔۔‬
‫چنانچہ ان کے کہنے پر میں بھی باتھ ٹب کے اندر چال گیا ۔ اور‬
‫شاور کے نیچے ہی ان سے لپٹ گیا۔۔ ہم نے تھوڑی سی کسنگ کی‬
‫اور پھر ۔۔ میں نے ان کی خوبصورت چھاتیوں کو اپنے دونوں ہاتھو‬
‫ں سے پکڑا اور انہیں دبانے لگا۔۔ جبکہ انہوں نے میرے لن کو اپنے‬
‫ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسے دباتے ہوئے بولیں ۔۔۔ میری چھاتیاں‬
‫چوسو۔۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے ان کی چھاتی کے ایک موٹے‬
‫سے نپل کو اپنے منہ میں لیا ۔۔۔۔اور اسے چوسنے لگا۔۔۔ نپلز چوستے‬
‫چوستے میں نے اپنے ہاتھ کو ان کی بالوں سے پاک چوت پر رکھا‬
‫۔۔۔۔اور درمیانی انگلی کو ان کی چوت میں ڈالنے ہی لگا تھا کہ انہوں‬
‫نے میرے ہاتھ کو پکڑ لیا۔۔۔ اس پر میں نے جب سوالیہ نظروں سے‬
‫ان کی طرف دیکھا۔۔۔تو وہ بڑے اطمیان سے کہنے لگیں ۔۔ معاہدے‬
‫کے مطابق تم نے میری چوت کو دو طریقوں سے ٹھنڈا کرنا ہے یا‬
‫چاٹ کر یا پھر اس میں اپنا موٹے لنڈ کو ڈال کر۔۔۔ انگلی والی آپشن‬
‫نہیں ہے میرے پاس ۔۔۔۔ اس پر میں نے احتجاج کے لیئے منہ کھوال‬
‫ہی تھا کہ وہ بڑے نخرے سے کہنے لگیں ۔۔۔ بحث کرنے کا کوئی‬
‫فائدہ نہیں ۔۔۔ میں نےکہہ دیا توکہہ دیا۔۔۔ اس وقت چونہ مجھ پر ان کی‬
‫موٹی سی گانڈ کا بھوت سوار تھا ۔۔۔اس لیئے میں نے ان سے کہا۔۔۔‬
‫میں چوت چوسوں گا۔۔میری بات سن کر وہ مسکراتے ہوئے‬
‫بولیں۔۔مطلب تم نے باز نہیں آنا ۔۔ تو میں نے ناں کرتے ہی ان کے‬
‫نرم ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔۔۔اور ان کے نرم ہونٹوں کا رس‬
‫پینے لگا۔۔۔۔ہمارے اوپر شاور کا پانی گر رہا تھا اور اس شاور کے‬
‫بارے میں میں بتاتا چلو کہ عام شاور کی نسبت اس کا سائز بہت بڑا‬
‫تھا۔۔۔ جس کی وجہ سے اس کے نیچے کھڑے ہو کر ایسے لگ رہا‬
‫تھا کہ جیسے ہم بارش میں کھڑے ہوں۔۔۔۔‬

‫اس وقت ہم دونوں منہ میں منہ ڈالے گیلی کسنگ کر رہے تھے جبکہ‬
‫دوسری طرف ہمارے جسم شاور کے پانی سے گیلے ہوتے جا رہے‬
‫تھے ۔۔۔ پانی کے کچھ قطرے ہم دونوں کے چہروں پر بھی گر رہے‬
‫تھے۔۔۔۔ ۔۔۔ کسنگ کے تھوڑی دیر بعد ہی صائمہ باجی نے میرے‬
‫ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے۔۔۔ اور میرے گال کو چومتے ہوئے‬
‫بولی۔۔ تیرا لوڑا چوس لوں؟ تو میں ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا‬
‫کہ ۔۔۔ ۔۔۔۔ یہ لنڈ آپ کا اپنا ہے اسے جتنا مرضی ہے چوسیں ۔ میری‬
‫بات سن کر انہوں نے بڑی ادا سے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔۔‬
‫میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر باتھ ٹب میں کچھ اس طرح سے اکڑوں‬
‫بیٹھی کہ شاور کا پانی سیدھا میرے لن پر گرنا شروع ہو گیا۔۔۔ میرے‬
‫لن پر پانی کے قطرے گرتے دیکھ کر انہوں نے اپنی زبان نکالی‬
‫اور لوڑے پر پڑے والے پانی کے قطروں کو چاٹنا شروع ہو‬
‫گئیں۔۔۔۔۔۔لوڑا چاٹتے چاٹتے انہوں نے میری طرف دیکھا اورکہنے‬
‫لگیں۔۔۔ کیسا لگ رہا ہے؟ تو میں نے مست آواز میں جواب دیا ۔۔کہ‬
‫بہت اچھا لگ رہا ہے۔۔۔تو وہ کہنے لگیں اچھا تو اب لگے گا کہ جب‬
‫میں تیرے لن کو اپنے منہ میں لے کر چوسوں گی۔۔۔ اس کے ساتھ‬
‫ہی انہوں نے اپنا سارا منہ کھوال اور لن کو ۔۔۔ منہ میں لے لیا اس‬
‫طرح اب شاور کا پانی ان کے سر پر گرنا لگا جس سے ان کے‬
‫سلکی بال گیلے ہو کر ان کے نرم بدن کے ساتھ لپٹ گئے۔ اس طرح‬
‫انہوں نے کچھ دیر میرے لوڑے کو منہ میں اندر باہر کیا پھر ۔۔۔ لن‬
‫کو منہ سے نکال لیا۔۔۔۔ اور لن کو ہاتھ میں پکڑ کر آگے پیچھے‬
‫کرنے لگیں۔۔۔ ان کے ایسا کرنے سے ایک دفعہ پھر لن پر شاور کا‬
‫پانی گرنا شروع ہو گیا۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ آگے بڑھی اور میرے ٹوپے‬
‫پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔بڑا مزہ آ رہا ہے جان۔۔۔ مجھے ایسا‬
‫محسوس ہو رہا ہے کہ جیسے میں بارش میں کھڑی ہو کر ۔۔۔ لوڑا‬
‫چوس رہی ہوں۔۔۔۔۔ اس کے بعد انہو ں نے میرے لن کو پکڑ کر اوپر‬
‫کیا ۔۔اور میرے لن کے نیچے والی جگہ پر اپنی زبان پھیرے لگیں۔۔۔‬
‫پھر اس کے بعد انہوں نے اپنی زبان کو لوڑے کے چاروں طرف‬
‫پھیرا۔۔۔ ان کا انداز اس قدر مست تھا کہ میرے منہ سے سسکیوں کا‬
‫طوفان نکل گیا ۔۔آہ ہ ہ ہ ہ۔۔اُف ف ف ف۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے‬
‫ان کے سر کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا ۔یہ دیکھ کر انہوں نے میرے‬
‫لوڑے پر زبان پھیرنے بند کی اورمیری طرف سوالیہ نظروں سے‬
‫دیکھتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔ ڈسچارج ہونے لگے ؟ تو میں نے ان‬
‫سے کہا اتنی جلدی ؟ میری بات سن کر وہ اطمیان سے بولیں ۔۔۔تیری‬
‫سسکیاں سن کر میں سمجھی کہ شاید تم چھوٹنے والے ہو۔۔۔اس سے‬
‫کے ساتھ ہی انہوں نے لن چوسنے کا عمل تیز کر دیا۔۔۔ کچھ دیر‬
‫چوسنے کے بعد وہ اوپر اُٹھیں ۔ ۔۔ اور اپنی ٹانگوں کو پوری طرح‬
‫کھول کر بولیں۔۔ چل اب میری چوت چوس۔۔۔۔۔‬
‫ان کی بات سن کر ۔۔ ان کی طرح میں بھی اس باتھ ٹب میں اکڑوں‬
‫بیٹھ کر ان کی چوت کو گھورنے لگا۔۔۔ کیا مست نظارہ تھا۔۔۔ شاور کا‬
‫پانی۔۔۔ ان کے سر سے ہوتا ہوا ۔۔ان کی بڑی بڑی چھاتیوں کے‬
‫درمیان بنی گھاٹی سے گزر کر ۔۔۔ ایک لکیر سی بناتا ہوا ۔۔۔۔۔چوت‬
‫کی طرف آ رہا تھا۔۔۔ اور پھر چوت سے نیچے فرش پر گر رہا‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔مجھے یوں گھورتے دیکھ کر وہ شہوت بھرے انداز میں کہنے‬
‫لگیں ۔۔۔ کیا دیکھتے ہو؟ چوت چوسو۔۔۔۔تو میں نے ان سے کہا میں‬
‫دیکھ رہا ہوں کہ تو میں نے کہا ایک تو شاور کا پانی دیکھ رہا ہوں‬
‫کہ کیسے آپ کی تنی ہوئی چھاتیوں کے درمیان سے جگہ بناتا ہوا‬
‫آپ کی چوت پر گر رہا ہے۔۔ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے آپ پیشاب‬
‫کر رہی ہوں۔۔۔ میری بات سن کر وہ جوش میں بولیں ۔۔۔ اس دن‬
‫میرے پیشاب والے سین اس نظارے میں کیا فرق ہے؟ تو میں نے کہا‬
‫وہ دن پانی آبشار کی مانند آپ کی چوت سے نکل نکل کر نیچے گر‬
‫رہا تھا جبکہ آج یہ ندی کے پانی جیسا اٹھالتا شور مچاتا اور اپنی‬
‫قسمت پر ناز کرتے بہہ رہا ہے تو وہ حیرا ن ہو کر کہنے لگیں۔۔۔‬
‫قسمت پر ناز کا مطلب؟ تو میں نے کہا شاور کا جو پانی آپ کی‬
‫چوت سے ٹچ ہو کر نیچے گررہا ہے وہ اس بات پر ناز کر رہا ہے‬
‫کہ اس نے ایک مہا کیوٹ لیڈی کی چوت کو بوسہ دیاہے ۔۔ میری‬
‫بات سن کر وہ ایک دم خوش ہو کر بولیں باتیں کرنا تو کوئی تم سے‬
‫سیکھے۔۔۔پھر اٹھالتے ہوئے بولیں میری چوت کے بارے میں اور‬
‫بھی کچھ کہو ناں ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔تو میں ان کی طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔‬
‫میری جان دوسری بات یہ کہ اتنی دور سے بھی آپ کی چوت سے‬
‫بڑی سڑانگ قسم کی مہک آرہی ہے تو وہ کہنے لگیں۔۔۔ کیسی ہے یہ‬
‫مہک؟ تو میں نے ان سے کہا ایک دم آگ لگانے والی مست مہک‬
‫ہے تو وہ بولیں دور سے کیوں سونگھ رہے ہو پاس آ کے چیک کرو‬
‫نا۔۔اور میں کھسک کر ان کے چوت کے بلکل قریب بیٹھ گیا۔۔اور‬
‫پہلے تو اپنے ناک کو ان کی چوت سے لگالیا۔۔۔اور اس کی مست‬
‫مہک کو اپنے اندر اتارنے لگا۔۔ ان کی چوت مہک لیتے لیتے میں‬
‫بھی مست ہو گیا۔۔اور میں نے زبان باہر نکالی اور ان کی چوت پر‬
‫رکھ دی۔۔ ۔‬

‫جیسے ہی میری زبان ان کی چوت پر لگی ۔ تو انہوں نے منہ بھینچ‬


‫کر ہلکی سیک لی۔۔۔ اور کہنے لگی۔۔۔ چوس میری جان۔۔سو سب سے‬
‫پہلے میں نے اپنی زبان کو ان کی چوت کے ہونٹوں پر پھیرا۔۔پھر‬
‫دونوں انگلیوں کی مدد سے ان کی چوت کے دونوں لب کھولے اور‬
‫ان کے چھوٹے سے پیشاب والے سوراخ پر زبان پھیرتے ہوئے زبان‬
‫کی نوک اس باریک سے سوراخ میں ڈالنے کی کوشش کرنے لگا۔۔۔‬
‫میرے اس عمل سے ان کو اتنی لزت ملی کہ وہ ہائے میری جان‬
‫۔۔۔ہائے میری جان کہتے ہوئے ۔۔۔ اپنے دونوں ہاتھ میرے سر پر‬
‫رکھے اور میرے سر کو اپنی چوت پر دبانے لگیں لیکن میں نے ان‬
‫کے ہاتھوں کو بڑی نرمی سے ایک طرف کیا۔۔۔اور پھر آہستہ آہستہ‬
‫ب توقع ان کی چوت‬ ‫اپنی زبان کو ان کی چوت میں داخل کر دیا۔۔۔ حس ِ‬
‫گرم پانی سے بھری پڑی تھی میں ان کے نمکین پانی کو بڑی‬
‫آہستگی کے ساتھ چاٹ کر صاف کر رہا تھا ۔۔۔۔ اس وقت پوزیشن یہ‬
‫تھی کہ میرےسر پر شاور کا پانی گر رہا تھا اور اس کے نیچے میں‬
‫زبان نکالے میڈم کی چوت کا پانی چوس رہا تھا ۔۔۔۔کچھ دیر تک میں‬
‫ان کی چوت میں زبان پھیرتا رہا ۔۔۔ پھر میں نے چوت کے اندر سے‬
‫زبان نکالی اور ان کے پھولے ہوئے دانے کو اپنے منہ میں لے لیا‬
‫۔۔۔۔ دھیرے سے اپنی دو انگلیاں ان کی چوت میں ڈال دیں حیرت‬
‫انگیز بات یہ ہے کہ انہوں نے چوت میں انگلیوں کو جانے دیا‬
‫مجھے کچھ نہیں کہا ۔۔۔ دانہ منہ میں ڈالے ڈالے میں نے اپنی انگلیاں‬
‫ان کی چوت کے آخر تک لے گیا۔۔۔یہاں تک کہ میری انگلیاں ان کی‬
‫یوٹرس (بچہ دانی ) سے جا ٹکرائیں۔۔۔۔ اور میں ایک مناسب رفتار‬
‫سے ان کی بچہ دانے پر اپنی انگلیوں کی ٹھوکر مارتا رہا۔۔۔ میرے‬
‫اس عمل سے وہ لذت سی دوھری ہو گئیں اور کہنے لگیں۔۔۔ اف‬
‫۔۔ظالم یہ تم نے کیا کیا۔۔ ایسے تو کسی نے بھی میری چوت کو نہیں‬
‫چوسا ۔۔۔۔ جیسا تم چوس رہے ہو۔۔اُف۔۔۔آہ ہ ہ ہ ہہ ہ ہ ۔۔۔۔میری چوت کو‬
‫کبھی ۔میں کافی دیر تک یہ کھیل کھیلتا رہا مطلب بیک وقت دانہ‬
‫چوستا اور انگلیوں کو بچہ دانے سے ٹکراتا رہا۔۔۔اس دوران وہ کم از‬
‫‪-‬کم تین بار ڈسچارج ہوئیں‬

‫پھر کچھ دیر بعد وہ اٹکتی ہوئی آواز میں کہنے لگیں شاہ‬
‫پلیززززززز ۔۔ انگلیاں چھوڑ اپنے زبان کو میری چوت میں ڈال۔تو‬
‫میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے دانے سے منہ ہٹایا اور ان کی‬
‫چوت میں ڈال دیا۔۔۔ جیسے ہی میری زبان ان کی چوت میں داخل‬
‫ہوئی ۔۔۔۔۔۔۔ تو مزے کی شدت سے ان کے ہونٹ خود بخود بند بھینچ‬
‫ت جزبات سے بند ہو گئیں۔۔۔ اور دبی دبی سسکیوں‬ ‫گئے آنکھیں شد ِ‬
‫کے درمیان ان کا چوت رس نکلنے لگا۔۔میری زبان لنڈ کی طرح ان‬
‫کی چوت کے اندر باہر ہوتی رہی ۔۔ان کی چوت کے ہونٹ تھرکنے‬
‫لگے اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے ایک بڑا سا آگیزم کر دیا۔۔۔ وہ‬
‫میرے منہ میں ہی ڈسچارج ہو گئیں تھیں۔۔۔ان کی ساری منی چاٹنے‬
‫کے بعد ۔۔میں نے وہاں سے اپنا منہ ہٹایا۔۔۔ اس وقت شہوت کی وجہ‬
‫سے میرا سارا جسم کانپ رہا تھا۔۔ میں نے ایک لمبی سانس لی۔۔ اُف‬
‫ف ف فف ف فف ف فف۔یہ دیکھ کر وہ میرے اوپر جھکیں۔۔۔اور اپنی‬
‫خوبصورت آنکھیں میری آنکھوں میں پیوست کر کے بولیں۔۔ایک‬
‫آخری کام اور کر دو ۔۔ اس کے بعد جتنی مرضی ہے گانڈ مار‬
‫لینا۔۔۔۔۔۔ میں نے کہا وہ کیا؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔بس ایک د فعہ لن‬
‫میری پھدی میں ڈال۔۔۔ ان کی بات سن کر میں کھڑا ہو گیا۔۔۔ ۔۔ تو وہ‬
‫بھی کھڑی ہو گئیں اور مجھے اپنے قریب کر لیا۔۔۔۔اتنا قریب کہ ہم‬
‫دونوں میں ساری دوری ختم ہو گئی۔۔ اس کے بعد انہوں نے کھڑے‬
‫کھڑے میرے لن کو پکڑ ا اور پہلے اس کو تھوک سے تر کیا۔۔۔۔ پھر‬
‫اپنی چوت کے سوراخ پر رکھ کر بولیں۔۔۔ ۔۔۔ گھسہ مار ۔۔۔۔ میں نے‬
‫لن کو ہلکا سا پش کیا ۔۔۔تو میرا لن پھسل کر ان کی چوت کے اندر‬
‫چال گیا ۔۔۔۔ لن کو اپنی چوت میں محسوس کرتے ہی وہ کہنے لگیں۔۔‬
‫گھسے مار۔۔۔اور میں نے گھسے مارنے شروع کر دیئے۔۔میں کچھ‬
‫دیر تک ان کو چودتا رہا۔۔۔ کچھ دیر بعد میں نے لن کو پھدی سے‬
‫باہر نکاال ۔۔ تو وہ شہوت بھرے لہجے میں بولیں۔۔۔ مزہ آ گیا یار ۔۔ تم‬
‫بہت اچھا چودتے ہو۔۔‬

‫اس کے بعد انہوں نے ٹب کے اندر ہی جھک کر اپنے دونوں ہاتھ۔۔‬


‫باتھ پینل (دیوار ) پر رکھ دیئے۔۔اس طرح شاور کا پانی ان کی نرم‬
‫گانڈ پر گرنا شروع ہو گیا۔۔ ان کی گانڈ پر پانی گرتا دیکھ کر میں‬
‫بےتابی سے آگے بڑھا ۔۔اور ان کی گانڈ کو چاٹنا شروع ہو گیا۔۔‬
‫۔۔دوسری طرف وہ اپنی گانڈ کو باہر نکال کر بولیں ۔۔ لے اپنا شوق‬
‫پورا کر لے۔۔۔ ان کی بات سن کر میں گھٹنوں کے بل اوپر اُٹھا۔۔۔۔اور‬
‫انکے پیچھے کھڑا ہو گیا ۔۔۔اور اپنی دو انگلیوں کو منہ کے قریب کیا‬
‫۔۔اور ان پر ایک بڑا سا تھوک کا گولہ پھینکا ۔۔۔پھر یہ دونوں انگلیاں‬
‫میڈم کی گانڈ کی طرف لے گیا۔واؤؤؤؤ۔۔ ان کی گانڈ کا سوراخ بڑا دل‬
‫کش نظارہ پیش کر رہا تھا ۔ پیور وائٹ گانڈ کے بیچوں بیچ ۔۔۔یہ ایک‬
‫درمیانے سائز کا گول سوراخ تھا جس کا رنگ براؤن اور اس کے‬
‫ارد گرد لکیروں کا جال سا بچھا ہوا تھا۔۔۔ میں نے اس گول سوراخ‬
‫پر تھوکا ۔۔اور پھر اپنی درمیانی انگلی کی مدد سے ۔۔اس سوراخ کو‬
‫اندر تک چکنا کر دیا۔۔۔اور پھر لن کو بھی چکنا کرنے کی غرض‬
‫سے جیسےاس پر تھوک لگانے لگا تو وہ کہنے لگی اسے میں چکنا‬
‫کروں گی اس کے ساتھ ہی وہ واپس مڑی اور بڑی بےتابی کے ساتھ‬
‫میرے لن کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔اور اس پر تھوک کی ایک تہہ لگا‬
‫کر لن کو منہ سے باہر نکال دیا اور کہنے لگی۔۔۔ تیرا لنڈ بھی کیا‬
‫چیز ہے جان۔۔۔۔ ایک دفعہ منہ میں ڈال لو تو باہر نکالنے کو جی ہی‬
‫نہیں کرتا۔۔ لیکن مجھے معلوم ہے کہ تم میری بنڈ مارنے کے لیئے‬
‫اتاؤلے ہو رہے ہو ۔۔۔اس لیئے ۔۔۔آ جا میرے راجہ ۔۔۔اور میری گانڈ کو‬
‫کو چیر پھاڑ دے ۔۔۔ان کی بات سن کر میں نے اپنے چکنے ٹوپے‬
‫کوان کے سوراخ پر رکھتے ہوئے بوال۔۔۔ گانڈ کو ڈھیال کریں۔۔۔ تو وہ‬
‫کہنے لگی۔۔۔ تم اندر ڈالو تمہیں یہ ڈھیلی ہی ملے گی چنانچہ میں نے‬
‫اپنے چکنے ٹوپے کو ہلکا سا پش کیا ۔۔۔تو میرا لن پھسل کر ان کی‬
‫چکنی گانڈ میں گھس گیا۔۔۔ جیسے ہی میرا لن ان کی گانڈ میں گھسا‬
‫۔۔۔۔۔‬

‫انہوں نے ایک دلکش چیخ ماری ۔۔۔اؤئی ۔۔۔۔۔۔ تو میں نے کہا ابھی تو‬
‫ٹوپا گیا ہے اور آپ چیخیں مارنا شروع ہو گئیں تو وہ اپنے سر کو‬
‫موڑ کر بولی۔۔۔ یہ چیخ درد والی نہیں بلکہ مزے والی تھی ۔۔۔تو جلدی‬
‫کر پورا لن اندر ڈال۔۔ پھر میں گانڈ کو ٹائیٹ کر وں گی۔۔ ان کے‬
‫کہنے پر میں نے دوسرا گھسا مارا ۔۔۔۔تو لن پھسل کر ان کی‬
‫خوبصورت گانڈ میں ُگم ہو گیا۔۔۔ لن اندر جاتے ہی انہوں نے لذت‬
‫بھری آوازوں میں کراہنا شروع کردیا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں‬
‫نے ان کی گانڈ نے میرے لوڑے کو اپنی گرفت میں کر لیا۔۔اور اسے‬
‫دبا کر خود ہی آگے پیچھے ہونے لگیں ۔۔۔اس طرح میرا لن ان کی‬
‫ٹائیٹ گانڈ میں پھنس پھنس کر جانا شروع ہو گیا۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ‬
‫انہوں نے پیچھے کی طرف دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔ میری ٹائیٹ‬
‫گانڈ کو گھسے مار مار کر ڈھیال کر دو ۔۔۔یہ سن کر میں نے ان کے‬
‫کولہوں کومضبوطی سے پکڑا۔۔۔۔اور بے دریغ گھسے مارنے شروع‬
‫کر دیئے۔۔ میں پوری طاقت سے ان کی ٹائیٹ گانڈ میں گھسے مار‬
‫رہا تھا ۔۔جبکہ ہمارے اوپر شاور کا پانی فل سپیڈ سے گر رہا تھا۔۔۔‬
‫صائمہ باجی کی لزت آمیز چیخیں واش روم کی چھت کو پھاڑ رہیں‬
‫تھیں اور گانڈ پر شاور کا پانی پڑنے کی وجہ سے پچ پچ کی آوازوں‬
‫نے سماں باندھ دیا تھا۔۔۔ اور وہ میری چیخ چیخ کر کہہ رہیں تھیں کہ‬
‫گھسے مار۔ر۔ر۔رر۔ ایسے گھسے ماررر۔۔۔۔ کہ میری ٹائیٹ گانڈ‬
‫ڈھیلی پڑ جائے۔۔۔اور میں گھسے مارتا جا رہا تھا۔۔ یہاں تک کہ ۔۔۔‬
‫۔۔۔۔میری ٹانگوں کا سارا خون لنڈ کی طرف دوڑنے لگا۔۔۔اور میں‬
‫سمجھ گیا کہ۔۔۔ میں چھوٹنے واال ہوں اس لیئے میں نے گھسے‬
‫مارتے ہوئے ان سے کہا۔۔۔ میں بس جانے واال ہوں۔۔۔ میری بات سن‬
‫کر وہ چال کر بولیں اگر تم چھوٹنے والے ہو تو پلیزززززززززززز‬
‫۔۔۔۔۔اپنے لوڑے کو گانڈ سے نکال کر چوت میں ڈال دو۔۔۔ اور آخری‬
‫گھسے اور طاقت سے مارو۔۔۔ چنانچہ میں نے اپنے لوڑے کو ان کی‬
‫ڈھیلی پڑتی گانڈ سے باہر نکاال ۔۔۔اور چوت میں ڈال دیا۔۔۔اُف ف ف‬
‫ف ف فف ف ف ۔۔۔ ان کی چوت میں شاور کے پانی سے بھی۔۔۔۔زیادہ‬
‫پانی جمع ہو چکا تھا ۔۔اس لیئے میں فل سپیڈ سے گھسے مارنے‬
‫شروع کر دیئے۔۔۔ گھسے مارتے مارتے ۔۔۔ اچانک ہی ان کی چوت‬
‫نے میرے لنڈ کو اپنے شکنجے میں جکڑ لیا۔۔۔۔اور جیسے ہی ان کی‬
‫چوت نے میرے لن کو جکڑا۔۔۔۔ تو صائمہ باجی چالتی ہوئی آواز میں‬
‫بولیں۔۔۔۔۔۔ میں بھی۔۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔بھی۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میرے لن‬
‫اور ان کی چوت نے اکھٹے ہی پانی چھوڑنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔‬

‫اگلے دن ٹھیک دس بجے آنٹی کا فون آیا کہ وہ آفس کے باہر کھڑی‬


‫ہیں ۔۔۔اس وقت میں فارغ ہی تھا اس لیئے اپنے سینئر سے دو گھنٹے‬
‫کی چھٹی لی اور باہر کی طرف چل پڑا ۔۔۔ جیسے ہی میں گیٹ سے‬
‫باہر نکال تو انہوں نے مجھے دیکھ کر ہارن دیا۔۔۔ اور میں سیدھا ان‬
‫کے پاس چال گیا۔۔۔ گاڑی وہ خود چال رہیں تھیں۔۔۔۔ مجھے دیکھ کر‬
‫وہ کہنے لگیں تم چالؤگے؟ تو میں نے انکار میں جواب دیتے ہوئے‬
‫کہا کہ نہیں آنٹی گاڑی آپ خود چالئیں۔۔۔ اور فرنٹ سیٹ پر بیٹھ گیا۔۔۔‬
‫اس وقت انہوں نے سفید رنگ کا سوٹ پہنا ہوا تھا جس میں وہ بہت‬
‫گریس فل نظر آ رہیں تھیں۔۔ انہوں نے اپنی بڑی بڑی چھاتیوں کو‬
‫بڑے سلیقے کے ساتھ ڈھانپا ہوا تھا۔۔۔ مجھے یوں اپنا جائزہ لیتے‬
‫دیکھ کر وہ کچھ شرما سی گئیں اور کہنے لگیں کیا دیکھ رہے ہو؟ تو‬
‫میں نے ان سے کہا کہ آنٹی اس لباس میں آپ بہت گریس فل لگ‬
‫رہی ہو۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا‬
‫۔۔۔اور بولی شکریہ بیٹا۔۔۔۔ اور پھر گاڑی چالنا شروع ہو گئیں۔ گاڑی‬
‫جیسے ہی شہر سے باہر نکلی کھمبیوں کی طرح اُگی ہاؤسنگ‬
‫سوسائیٹیاں شروع ہو گئیں۔۔۔ کوئی پانچ منٹ کی ڈرائیو کے بعد انہوں‬
‫نے ایک مشہور ہاسنگ سوسائٹی سے تھوڑا پہلے گاڑی روک لی ۔۔‬
‫۔۔۔ ۔۔۔ اس کے دونوں اطراف ہاؤسنگ سوسائیٹوں کے بورڈ لگے‬
‫ہوئے تھے۔۔ ہم دونوں ایک ساتھ گاڑی سے نیچے اترے اور وہ‬
‫مجھے ساتھ لیئے ایک خالی پالٹ پر آگئیں جہاں پر ریت بجری پڑی‬
‫ہوئی تھی۔۔۔۔۔ اس بجری کے پاس ٹاہلی کا ایک گھنا درخت تھا جس‬
‫کے نیچے چارپائی پر ایک بندہ بیٹھا ہوا تھا۔۔۔ ہمیں کار سے اترتا‬
‫دیکھا کر وہ شخص بھی چارپائی سے اتر کر ہماری طرف بڑھا‬
‫۔۔میں پالٹ کا جائزہ لے ہی رہا تھا کہ وہ شخص میرے قریب آ کر‬
‫بوال۔۔۔ کیا چایئے باؤ ؟ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔‬
‫یہ بتاؤ کہ اس پالٹ پر آپ نے قبضہ کیا ہے؟۔۔۔ میری بات سن کر‬
‫اس نے جواب دینے کی بجائے ۔۔۔۔۔وہیں سے آواز لگائی پپو استاد!۔۔‬
‫اس بندے کی آواز دینے کی دیر تھی کہ جانے کس طرف سے ایک‬
‫کاال بجھنگ اور موٹا سا آدمی نکل کر ہمارے سامنے آ گیا‬

‫۔اس پر نظر پڑتے ہی آنٹی خوفزدہ آواز میں بولیں ۔۔۔۔ چلو بیٹا ۔۔۔‬
‫لیکن اس سے پہلے کہ میں کچھ کرتا پپو استاد آنٹی کے پاس جا کھڑا‬
‫ہوا۔۔۔اور بڑے طنزیہ انداز میں بوال ۔۔ اتنے عرصے کے بعد آئی بھی‬
‫ہو تو ۔۔ اس چڑے کے ساتھ؟ پھر بڑے ہی درشت لہجے میں کہنے‬
‫لگا۔۔۔۔۔ او مائی!! النا ہی تھا تو کوئی کام کا بندہ التیں اب اس‬
‫"چوچے" کے ساتھ میں کیا کروں ؟۔۔۔اتنا کہہ کر وہ میری طرف‬
‫گھوما اور کہنے لگا۔۔۔ اوئے کاکا۔۔۔ تو یہاں کیا لینے آیا ہے ؟ تو کیا‬
‫پالٹ پر مائی کا قبضہ چھڑانے آیا ہے؟ تیری عمر تو کڑیوں کے‬
‫کالج کے باہر کھڑے ہونے کی ہے۔۔ میں نے محسوس کیا کہ وہ‬
‫خاصہ بدتمیز اور باتونی بندہ تھا۔۔۔اس لیئے میں اس سے مخاطب ہو‬
‫کر بوال۔۔۔۔ تمیز سے بات کرو ۔۔۔۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا۔۔۔ کہ‬
‫اچانک ہی اس نے اپنے گرز نما ہاتھ کو گھما کر میرے منہ پر دے‬
‫مارا۔۔۔۔سچی بات تو یہ ہے کہ میں اس سے یہ توقع نہیں کر رہا تھا۔۔۔‬
‫اس لیئےمیں لڑکھڑا گیا۔۔۔اور اس سےپہلے کہ میں سنبھلتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫اس نے ایک دفعہ پھر ہاتھ گھمایا ۔۔۔ لیکن اس دفعہ میں تیار تھا۔۔ اس‬
‫لیئے جھکائی دے گیا ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے نشانہ لیتے ہوئے‬
‫۔۔۔۔ ایک زور دار مکا اس کے معدے پر دے مارا ۔۔ میری طرح وہ‬
‫بھی اس حملے کی توقع نہیں کر رہا تھا۔۔۔ اس لیئے جیسے ہی اس‬
‫کے معدے پر مکا پڑا ۔۔۔ وہ ۔۔اوع ۔۔اوع ۔۔کرتا ہوا نیچے جھکا تو میں‬
‫نے موقعہ غنیمت جانا۔۔۔۔اور پوری طاقت سے اپنے بوٹ کی ٹو۔۔۔۔‬
‫اس کے نیچے دے ماری۔۔۔۔ میرا نشانہ کاری گیا۔۔۔ اور ٹٹوں پر الت‬
‫پڑتے ہی پپو پہلوان ذبع شدہ بکرے کی طرح ۔۔۔۔۔ تڑپنے لگا۔۔۔ ابھی‬
‫میں پپو پہلوان کا تڑپنا دیکھ ہی رہا تھا کہ اچانک میرے پیچھے سے‬
‫گولی چلنے کی آواز سنائی دی۔۔۔ ۔۔۔۔اور پھر ۔۔گولی کی آواز کے‬
‫ساتھ ہی ایک دلدوز چیخ سنائی دی۔۔چیخ کی آواز سنتے ہی میرے‬
‫پہال خیال آنٹی کی طرف گیا۔۔ ۔۔۔یہ خیال آتے ہی میں نے مڑ نے ہی‬
‫لگا تھا کہ ایک بار پھر ۔۔۔ گولی کی آواز کے ساتھ آنٹی کی چیخ‬
‫سنائی دی۔۔۔میں نے بجلی کی سی تیزی کے ساتھ ُمڑ کر دیکھا تو۔۔‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫)قسط نمبر‪(9‬‬
‫فائرنگ کی آواز سنتے ہی۔۔۔۔۔۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو جو بندہ‬
‫چارپائی سے اُٹھ کر آیا تھا اس نے ارم آنٹی پر پستول تان رکھا تھا ۔۔‬
‫اور یہ ہوائی فائرنگ بھی اسی شخص نے کی تھی جسے سن کر‬
‫آنٹی کے منہ سے چیخ نکل گئی تھی۔ایک دو ہوائی فائر کرنے کے‬
‫بعد اچانک ہی۔۔۔۔۔ اس نے پستول کو میری طرف تان لیا اور کڑک کر‬
‫بوال۔۔۔ اوئے مائی ۔۔۔۔ اس چوچے کو لے کر فورا ً یہاں سے دفعہ جاؤ‬
‫۔۔۔ورنہ تم دونوں کی الشیں بھی نہیں ملیں گی ۔۔۔ اس آدمی کی‬
‫خوفناک دھمکی سن کر اندر سے میں بھی دھل گیا تھا لیکن بظاہر‬
‫ویسے ہی کھڑا رہا۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف۔۔۔۔ اس آدمی کی خطرناک‬
‫بات سن کر آنٹی تیزی سے آگے بڑھیں اور منت بھرے لہجے میں‬
‫کہنے لگیں۔۔۔ گولی نہ چالنا ۔۔۔ پلیززززززززززز۔۔۔جیسا تم کہو گے‬
‫میں ویسے ہی کروں گی۔۔۔ بس ایک موقع دے دو پلیززز۔۔ مم۔۔مم میں‬
‫اس کو لے کر جا رہی ہوں۔۔۔ تو وہ پستول لہراتے ہوئے خوف ناک‬
‫آواز میں بوال ۔۔۔ سن مائی آج تو میں اس کو چھوڑ رہا ہوں۔۔۔۔ لیکن‬
‫آئیندہ اگر یہ بندہ اس ایریا میں نظر آ گیا تو اس کی زندگی کی کوئی‬
‫گارنٹی نہیں ۔۔۔اس کی بات سن کر آنٹی جلدی سے بولیں ۔۔۔ نہ نہ نہیں‬
‫آئے گا میں گارنٹی دیتی ہوں کہ آج کے بعد یہ بندہ کبھی بھی آپ کو‬
‫نظر نہیں آئے گا۔۔۔ پھر اس شخص کی طرف دیکھتے ہوئے بولیں‬
‫۔۔۔اب ہم جائیں؟ تو وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بڑے ہی متکبرانہ‬
‫انداز میں بوال۔۔۔ یہاں سے دفعہ ہو جا ؤ۔۔۔۔ورنہ میرے ہاتھوں سے‬
‫مارے جاؤ گے۔۔۔اس کی اجازت پا کر آنٹی نے میرے ہاتھ کو پکڑا‬
‫اور تقریبا ً کھینچتے ہوئے گاڑی کی طرف لے جانے لگیں۔۔ میرے‬
‫ُمڑتے ہی اس نے اونچی آواز میں گالیاں دینا شروع کر دیں ۔۔گانڈو دا‬
‫پتر۔۔ بہن چود۔ ۔ وڈا بدمعاش تے ویکھو ۔۔ساال مادر چود۔۔ گالی کی‬
‫آواز سنتے ہی میرا میٹر شارٹ ہو گیا۔۔۔ اور میں نے ُمڑ کر غصے‬
‫سے اس کی طرف دیکھا ۔۔تو آنٹی آہستہ سے بولیں۔۔۔ کتے کو‬
‫بھونکنے دو۔۔۔اور زبردستی مجھے گاڑی میں بٹھا دیا۔ ۔۔ ۔۔۔۔اور خود‬
‫ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھتے ہی گاڑی بھگا لی۔۔۔ جیسے ہی گاڑی چلی‬
‫تو پیچھے سے مجھے ایک اور فائر کی آواز سنائی دی۔۔ فائر کی‬
‫آواز سنتے ہی آنٹی نے گاڑی کو اور تیز چالنا شروع کر دیا۔۔ ۔۔اور‬
‫اس کے ساتھ ساتھ بار بار ۔۔۔ بیک مر ر میں بھی دیکھ رہیں تھیں‬
‫جبکہ میں ان کے ساتھ والی سیٹ پر ُچپ چاپ بیٹھا ان کو دیکھ رہا‬
‫تھا۔۔ پھر مجھ سے رہا نہیں گیا اور میں ان سے بوال۔۔۔ ۔۔۔ ُمڑ کر‬
‫دیکھنے کی ضرورت نہیں آنٹی ۔۔۔۔ وہ ہمارے پیچھے نہیں آئیں گے‬
‫تو آنٹی خوف بھری آواز میں سے کہنے لگیں ۔۔ یہ تم کیسے کہہ‬
‫سکتے ہو؟ تو میں نے ان کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ہمارا پیچھا‬
‫کرنے سے بہتر تھا کہ وہ ہمیں جانے ہی نہ دیتے ۔۔۔ میری بات سن‬
‫کر آنٹی نے گاڑی کی سپیڈ اور بڑھا ئی۔۔۔ اور دہشت بھری آواز میں‬
‫بولیں۔۔۔ ۔۔ ان لوگوں کا کوئی پتہ نہیں ہوتا ۔۔۔ یہ بھی تو ہو سکتا ہے‬
‫کہ ۔۔۔۔ وہاں پر جمع ہونے والے ہجوم کی وجہ سے انہوں نے ہمیں‬
‫چھوڑ دیا ہو ۔۔۔ اس وقت وہ بہت زیادہ خوف ذدہ دکھائی دے رہیں‬
‫تھیں اس لیئے میں نے مزید کچھ کہنا مناسب نہیں سمجھا اور انہیں‬
‫اپنے انداز سے گاڑی چالنے دی۔۔‬

‫پھر جیسے ہی پنڈی شہر کا ایریا شروع ہوا تو کچھ دور جا کر آنٹی‬
‫نے ایک گہرا سانس لیا۔۔اور میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔۔ شکر‬
‫ہے بچ گئے۔۔۔۔ اتنی بات کرتے ہی ان کے چہرے پر خجالت کے آثار‬
‫پیدا ہو ئے۔۔۔۔ اور وہ مجھ سے معذرت کرتے ہوئے بولیں سوری بیٹا‬
‫میری وجہ سے تم کو یہ سب دیکھنا پڑا۔۔ تو میں نے ان کو جواب‬
‫دیتے ہوئے کہا سوری کرنے کی کوئی ضرورت نہیں آنٹی ۔۔۔ ایک‬
‫دن یہی بندے آپ کے پاؤں پکڑیں گے۔۔۔ میری بات سن کر آنٹی کے‬
‫چہرے کا رنگ اُڑ گیا۔۔۔اور وہ خوف ذدہ آواز میں بولیں۔۔۔ مطلب۔۔۔ تم‬
‫۔۔۔ نہ بیٹا ایسا سوچنا بھی نہیں کہ وہ بہت ہی خطر ناک لوگ ہیں۔‬
‫۔۔۔لیکن میں نے ان کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا۔۔ مجھے ُچپ دیکھ‬
‫کر وہ مزید خوف ذدہ ہو کر بولیں۔۔۔ ۔۔۔ پلیز بیٹا میری خاطر یہ مت‬
‫کرو ۔۔۔۔ تم ان لوگوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے تو میں نے ان کو‬
‫جواب دیتے ہوئے کہا کہ آپ کی بات درست ہے کہ میں ان سے‬
‫مقابلہ نہیں کر سکتا ۔۔۔ لیکن قانون تو ان کا مقابلہ کر سکتا ہے نا؟‬
‫میری بات سن کر وہ طنزیہ ہنسی ہنس کر بولیں ۔۔۔ کس قانون۔۔ کی‬
‫بات کر رہے ہو ؟ ۔۔۔جس نے میری مدد کرنے کی بجائے اُلٹا میرے‬
‫خاوند کی حالل کی کمائی سے مجھے خوب لوٹا۔۔۔۔ پھر کہنے لگیں‬
‫۔۔۔ اس ملک کا قانون صرف قبضہ گروپ اور بھتہ خوروں کے لیئے‬
‫ہے۔۔۔ غریب اور ہم جیسے الوارث لوگوں کے لیئے نہیں ۔۔اس لیئے‬
‫اس بات کو یہیں چھوڑ دو۔۔۔اس پر میں ان کی آنکھوں میں آنکھیں‬
‫ڈالتے ہوئے بوال۔۔۔ آپ فکر نہ کریں آنٹی۔۔۔ میں ایسا کچھ نہیں کروں‬
‫گا کہ جس سے آپ کو کچھ خرئہ محسوس ہو۔۔ انہوں نے مجھے‬
‫سمجھانے کی بڑی کوشش کی لیکن اس وقت تک میرے موٹے دماغ‬
‫میں یہ بات راسخ ہو چکی تھی کہ۔۔۔مجھے ہر حال میں ان حرامیوں‬
‫سے پالٹ کا قبضہ لینا ہے۔خاص کر اس بندے کی دی ہوئی گالیاں‬
‫اور تکبر آمیز رویے نے میرے اندر اک آگ سی بھر دی تھی۔۔۔۔ اس‬
‫لیئے میں نے ان کی بات کو سنا ان سنا کر دیا۔۔۔۔جب آنٹی نے دیکھا‬
‫کہ ان کی باتوں کو مجھ پر کوئی اثر نہیں ہو رہا تو انہوں نے اپنی‬
‫بات پر زیادہ ذور نہیں دیا۔۔۔ اور کہا تو بس اتنا کہ آپ کو کہاں ڈراپ‬
‫کروں؟ تو میں نے مختصر سا جواب دیتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ آفس ۔۔۔‬
‫۔۔۔‬
‫دفتر پہنچ کر میں نے کچھ ارجنٹ قسم کے کام نبٹائے ابھی میں آفس‬
‫ورک سے فارغ بھی نہیں ہوا تھا کہ میرے موبائل کی گھنٹی بجی‬
‫دیکھا تو رمشا کا فون تھا میں نے۔۔۔جلدی سے بٹن آن کر کے ہیلو۔۔۔‬
‫کہا ہی تھا کہ وہ بغیر کسی تمہید کے بولی۔۔۔۔ بڑا افسوس ہوا ۔۔۔تو‬
‫میں نے اس سے پوچھا کس بات کا افسوس ؟ تو وہ کہنے لگی جو‬
‫کچھ آج تمہارے اور ممی کے ساتھ ہوا ہے اس کی بات کر رہی ہوں‬
‫اور پھر بڑی ہی سنجیدگی سے کہنے لگی کہ ۔۔۔ مما کہہ رہیں تھیں‬
‫کہ تم ان لوگوں سے متھا لگانے والے ہو؟ میں بوال ۔۔۔ نہیں ایسی بات‬
‫نہیں ۔۔۔ لیکن میں ان لوگوں سے پالٹ کا قبضہ لے کر رہوں گا میری‬
‫بات سن کر وہ تشویش بھرے لہجے میں کہنے لگی۔۔۔ ایسا نہ کرو‬
‫پلیز۔۔۔۔ وہ بہت خطرناک لوگ ہیں تو میں نے دانت پیستے ہوئے‬
‫جواب دیا۔۔۔۔۔۔وہ لوگ خطرناک نہیں بلکہ ۔۔۔۔ میرا لن ہیں۔۔۔ تو وہ‬
‫ہنستے ہوئے بولی۔۔۔۔ نا۔۔ نا ۔میری جان ۔۔ اپنے لنڈ کو خطر ناک نہ‬
‫کہو۔۔ یہ تو بڑی مزے دار چیز ہے۔۔۔۔پھر مجھے سمجھاتے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔ پلیز ان کے ساتھ ایسی ویسے کوئی حرکت نہ کرنا۔۔۔۔۔تو میں‬
‫نے اس سے کہا تم فکر نہ کرو میں ایسی کوئی حرکت نہیں کروں گا‬
‫۔۔ لیکن ایک بات تم بھی سن لو۔۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ میں ہر حال میں‬
‫پالٹ کا قبضہ واپس لوں گا۔۔۔ تو وہ روہانسے لہجے میں کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔ مما کہہ رہیں تھیں کہ میں نے پالٹ چھوڑا ۔۔۔ اس لیئے اس‬
‫بات کو تم بھی بھول جاؤ ۔۔۔ اس کے بعد اس نے مجھے سمجھانے‬
‫کی بڑی کوشش کی ۔۔ لیکن جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ‬
‫اول تو میرے موٹے دماغ میں کوئی چیز آسانی سے گھستی نہیں ۔۔۔۔۔‬
‫اور اگر غلطی سے گھس جائے۔۔۔ ۔تو پھر مشکل سے ہی نکلتی ہے‬
‫۔۔۔ چنانچہ کچھ دیر مغز کھپانے کے بعد اس نے فون آف کر دیا۔۔۔‬
‫رمشا کا فون بند ہوتے ہی ۔۔۔۔فون کالز کا تانتا بندھ گیا۔۔۔ فرزند ۔ اس‬
‫کی امی ثانیہ ۔۔۔اور صائمہ باجی۔۔۔۔غرض سب نے فون کیا اور میری‬
‫خیریت دریافت کرنے کے بعد ۔۔۔۔ مجھے اس کام سے باز رہنے کی‬
‫تاکید کی لیکن پتہ نہیں کیوں وہ لوگ جتنا مجھے ان سے دور رہنے‬
‫کی تاکید کرتے ۔۔۔ میں اتنا ہی اس بات پر پکا ہوتا کہ اس بے چاری‬
‫خاتون کا پالٹ واگزار کرانا ہے تاہم فرزند اور اس کی امی کے‬
‫سمجھانے پر ۔۔۔۔ میں نے نیم دلی سے ہاں تو کہہ دی تھی۔۔۔۔لیکن‬
‫دراصل میرا پرنالہ ابھی تک وہیں کا وہیں تھا۔۔۔ فونز کال بند ہونے‬
‫کے بعد اب میں نے اس بارے پالن بنانا شروع کیا۔۔ چونکہ اس دن‬
‫میرے ایک سئینر کولیگ چھٹی پر تھے کہ جن سے میں ہر بات نہ‬
‫صرف شئیر کرتا تھا بلکہ ان سے مشورے بھی لیتا تھا۔ چنانچہ ان‬
‫کی چھٹی کی وجہ سے میں نے اپنا پالن اگلے دن تک ملتوی کر دیا۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔دوسرے دن وہ مجھ سے پہلے ہی وہ دفتر پہنچ چکے تھے۔‬


‫چنانچہ میں سیدھا ان کے پاس پہنچا اور رسمی بات چیت کے بعد۔۔۔۔۔۔‬
‫نمک مرچ لگا کر ساری بات ان کے گوش گزار کر دی ۔۔۔ جسے‬
‫انہوں نے بڑی توجہ سے سنا اور پھر کہنے لگے۔۔۔۔۔ تم کیا چاہتے‬
‫ہو؟ تو میں نے کہا کہ میں پالٹ پر قبضہ چھڑانا چاہتا ہوں ۔۔ میری‬
‫بات سن کر وہ گہری سوچ میں ڈوب گئے اور پھر کہنے لگے‬
‫۔۔۔ایسے لوگوں سے قبضہ چھڑانا کوئی آسان کام نہیں ۔۔۔ بلکہ بڑے‬
‫جان جوکھوں کا کام ہے ۔۔۔۔ ۔۔ ان کی بات سن کر میں واویال کرتے‬
‫ہوئے بوال۔۔ ایسا نہ کہیں سر ۔ میں نے ہر حال میں اس پالٹ کا قبضہ‬
‫چھڑانا ہے۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے چونک کر میری طرف‬
‫دیکھا اور کہنے لگے تمہارا لہجہ بتا رہا ہے کہ تم باز نہیں آؤ گے‬
‫۔۔۔ تو اس پر میں نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا ۔۔۔ کیا کروں سر عزت‬
‫کا سوال ہے ۔۔۔۔۔کہ پالٹ میرے سسرال والوں کا ہے ۔تو وہ کہنے‬
‫لگے اگر یہ بات ہے تو پھر میں تیرے لیئے کچھ کرتا ہوں۔۔ اس کے‬
‫بعد انہوں نے مجھے اپنے پالن کے بارے میں بتایا ۔۔اور جب میں ان‬
‫کا پالن اچھی طرح سمجھ گیا تو پھر وہ مجھے ساتھ لے کر باس کے‬
‫پاس چلے گئے جن کے بارے میں انہوں نے مجھے بتایا تھا کہ آج‬
‫کل ان کے بھائی پنڈی پولیس میں ڈی آئی جی لگے ہیں۔ جیسے ہی ہم‬
‫صاحب کے کمرے میں پہنچے تو وہ مجھے دیکھتے ہی کہنے لگے‬
‫خیریت تو ہے؟ اور ہمیں بیٹھنے کا اشارہ کیا۔ ہمارے بیٹھتے ہی‬
‫انہوں نے میری بجائے میرے سینئر کی طرف دیکھا اور کہنے لگے‬
‫کیا بات ہے شاہ کے منہ پر بارہ کیوں بج رہے ہیں ؟ تو اس پر میرے‬
‫سینئر کہنے لگے کہ سر اس لڑکے کے ساتھ بڑی زیادتی ہوئی ہے ؟‬
‫ب‬
‫سینئر کی بات سن کر صاحب نے میری طرف دیکھا لیکن حس ِ‬
‫ہدایت میں اداس سا منہ بنا کر۔۔۔۔ سر جھکائے بیٹھا رہا۔۔۔ تب میری‬
‫بجائے میرے کولیگ باس سے کہنے لگے سر اس لڑکے کی جس‬
‫جگہ منگنی ہوئی ہے وہاں ایک پرابلم آ گئی ہے۔۔۔۔۔ اس کے بعد‬
‫انہوں نے بڑے ہی پر اثر طریقے سے باس کو ساری کہانی‬
‫سنائی۔۔۔۔۔ کہ قبضہ گروپ نے کس طرح سسرالیوں کے سامنے میری‬
‫بےعزتی کی ۔۔۔۔ میں نے تو تھوڑی سی نمک مرچ لگا کے واقعہ‬
‫سنایا تھا ۔۔۔جبکہ میرے سینئر نے تو اس واقعہ میں بارہ مصالحوں‬
‫کے سارے ڈبے ڈال دیئے تھے جس کا نتیجہ یہ نکال کہ جب یہ درد‬
‫ناک داستان ختم ہوئی تو اس وقت باس کا چہرہ غم ‪ ،‬غصے اور‬
‫افسوس کی وجہ سے سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔پھر انہوں نے میری طرف‬
‫دیکھا اور کہنے لگے۔۔۔ فکر نہیں کرو شاہ جی ۔۔۔ تمہارے سسرال‬
‫والوں کو پالٹ کا قبضہ واپس مل جائے گا ۔۔۔ میں ابھی بھائی جان‬
‫سے بات کرتا ہوں ۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے پی اے کو بزر‬
‫دی۔۔۔ اور لگے کہ زرا بھائی جان سے بات کراؤ۔۔۔ لیکن اتفاق سے‬
‫اس وقت وہ کسی میٹنگ میں مصروف تھے۔۔ اس لیئے ۔۔۔۔پی اے کو‬
‫رنگ بیک کا کہہ کر ۔۔۔۔۔۔ بولے۔۔۔۔ ویسے تو ایس پی ہیڈ کوارٹر بھی‬
‫میرا بیج میٹ ہے لیکن ساال تھوڑا ڈرپوک اور مصلحت پسند واقعہ‬
‫ہوا ہے اس لیئے ہو سکتا ہے کہ تم لوگوں کا کام نہ کروائے۔۔۔۔ پھر‬
‫کہنے لگے ۔۔۔۔ جہاں تک بھائی جان کا تعلق ہے تو ساری پولیس‬
‫جانتی ہے کہ وہ ایک دبنگ آفیسر ہیں ۔۔ اس لیئے اگر انہوں نے‬
‫تمہارا کام کرنے کی حامی بھر لی تو پھر سمجھ لو کہ سو فی صد‬
‫کام ہو جائے گا۔۔‬

‫ان کی بات سن کر ہم دونوں نے ان کا شکریہ ادا کیا۔۔۔اور آفس سے‬


‫باہر آ گئے ۔۔۔ کمرے میں پہنچتے ہی میرا سینئر کہنے لگا ۔۔۔ شاہ‬
‫تیری کیا بات ہے۔۔۔ ایسی دکھی اداکاری کی کہ بے چارہ باس بھی‬
‫پریشان ہو گیا۔۔۔تو میں نے ان سے کہا کہ جناب یہ سب آپ کی بدولت‬
‫ہوا ہے تھوڑی سی ڈسکشن کے بعد۔۔۔۔۔ بعد ہم روز مرہ کے کاموں‬
‫میں مصروف ہو گئے۔۔۔ کوئی تین چار بجے کا وقت ہو گا کہ مجھے‬
‫انٹر کام پر میسج مال کہ باس بال رہے ہیں ۔۔ سو میں جلدی سے ان‬
‫کےآفس چال گیا جیسے ہی میں کمرے میں اجازت لے کر داخل ہوا‬
‫۔۔۔ تو وہ بغیر کسی تمہید کے بولے میری بھائی جان سے بات ہو گئی‬
‫ہے۔۔۔ تم ایسا کرو کہ کل صبع دس بجے ضلع کچہری ان کے آفس‬
‫چلے جاؤ ۔ تمہارا مسلہ حل ہو جائے گا۔۔ ۔۔اگلے دن دس کی بجائے‬
‫میں ٹھیک نو بجے تیار ہو کر ضلع کچہری کی طرف چل پڑا ۔۔۔۔‬
‫ابھی میں نے آدھا راستہ ہی طے کیا تھا کہ اچانک میرے زہن میں‬
‫خیال آیا کہ اگر ڈی آئی جی صاحب نے پالٹ کے بارے تفصیالت‬
‫پوچھیں تو میں انہیں کیا جواب دوں گا؟ ۔۔۔ یہ خیال آنے کی دیر تھی‬
‫کہ میں نے بائیک کو ایک سائیڈ پر روک لیا۔۔۔ پھر اس بارے مزید‬
‫غور کرنے سے ۔۔۔۔ اس نتیجہ پر پہنچا کہ مجھے ڈی آئی جی‬
‫صاحب کے پاس پالٹ کے کاغذات اور ایک عدد درخواست بھی لکھ‬
‫کر لے جانی چاہئے۔۔۔ کہ جس پر وہ اپنے احکامات جاری کر سکیں‬
‫۔۔۔ اب مسلہ یہ تھا کہ کاغذات سارے تو آنٹی کے پاس پڑے تھے اور‬
‫آنٹی کا میرے پاس نمبر نہیں تھا چنانچہ آنٹی کے نمبر کے لیئے میں‬
‫نے فرزند صاحب کو فون کیا ۔۔۔۔ اور انہیں ساری بات بتا کر ارم‬
‫آنٹی کا نمبر مانگا جو کہ انہوں فورا ً ہی مجھے میسج کر دیا۔۔۔‬
‫فرزند صاحب کا میسج ملتے ہی میں نے ارم آنٹی کا نمبر گھمایا۔۔۔‬
‫لیکن کافی دیر تک گھنٹی بجنے کے باوجود بھی کوئی رسپانس نہیں‬
‫مال۔۔۔ چونکہ کام ارجنٹ تھا اس لیئے میں نے ری ڈائیل کیا۔۔۔ کوئی‬
‫پانچویں یا چھٹی بیل پر انہوں نے فون اُٹھایا اور غنودگی بھرے‬
‫لہجے میں ہیلو کہا۔۔۔۔ ان کی طرف سے ہیلو کی آواز سنتے ہی میں‬
‫بوال۔۔۔ آنٹی میں بول رہا ہو ں شاہ!! ۔۔۔ تو وہ اسی غنودگی بھرے‬
‫لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔۔ کون شاہ؟ اور جب میں نے اپنا تعارف‬
‫کروایا ۔۔۔تو وہ چونک کر بولیں ۔۔۔ اوہ یہ تم ہو۔۔۔ خیریت اتنی صبع‬
‫صبع کیوں فون کیا؟ خیریت تو ہے ناں؟ تو میں جلدی جلدی ساری‬
‫بات سمجھاتے ہوئے بوال۔۔۔۔کہ کیا مجھے پالٹ اور اس سے متعلقہ‬
‫کاغذات مل سکتے ہیں؟ وہ جواب دیتے ہوئے بولیں۔۔ ایسے ہی‬
‫موقعوں کے لیئے۔۔۔۔میں نے درخواستوں اور رجسٹری وغیرہ کے‬
‫بہت سارے سیٹ بنا کر رکھے ہوئے ہیں ۔۔۔ان میں سے ایک سیٹ‬
‫تمہیں مل جائے گا۔۔۔اس پر میں ان سے بوال کہ آپ نکال کر رکھیں‬
‫۔۔۔میں دس پندرہ منٹ میں آپ کے پاس پہنچ رہا ہوں ۔۔۔ تو وہ کاہلی‬
‫سے بولیں۔۔۔ ۔۔۔ دس پندرہ منٹ تو بیٹا۔۔۔۔۔ مجھے بیدار ہونے میں لگیں‬
‫گے ۔ان سے بات کر کے میں نے بائیک ان کے گھر کی طرف موڑ‬
‫لیا۔۔ کچھ ہی دیر بعد میں ان کے گھر کے سامنے کھڑا تھا۔۔ میں نے‬
‫بیل دی تو ۔۔۔تھوڑی دیر بعد اندر سے آنٹی کی آواز سنائی دی کون؟‬
‫میں نے اپنا نام بتایا تو وہ بولی ایک منٹ ۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔تھوڑا انتظار‬
‫کے بعد۔۔۔۔۔ انہو ں نے گھر کا چھوٹا گیٹ کھوال۔۔۔۔۔اور دروازے سے‬
‫باہر جھانکتے ہوئے مجھے اندر آنے کی دعوت دی۔ گیٹ کے اندر‬
‫داخل ہوتے ہی میری نظر ارم آنٹی پر پڑی ۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ایک لمحے‬
‫کے لیئے میں۔۔۔۔ پلکیں جھپکانا بھول گیا۔۔۔۔وہ اس وقت شب خوابی‬
‫کے لباس میں ملبوس تھیں ۔۔اور یہ نائیٹی ۔۔یا شب خوابی کا لباس ۔۔۔۔۔‬
‫کم از کم میرے لیئے۔۔۔ غضب سے کم نہیں تھا۔۔۔۔۔ انہوں نے نہایت‬
‫ہی باریک سفید جالی دار ٹرانس پیرنٹ نائٹیک پہنی ہوئی تھی جس‬
‫سے ان کا خوش نما ۔۔۔۔خوش وضع اور سڈول بدن صاف دکھائی دے‬
‫رہا تھا ان کی بھاری بھر کم چھاتیاں جو کہ میرے تجربے کے‬
‫مطابق ‪ 38‬کی ہونی چایئں۔۔۔ ایک کالے رنگ کے برا میں قید تھیں۔۔۔‬
‫اور میرے خیال انہوں نے چھاتیوں کے حساب سے برا۔۔۔ کافی چھوٹا‬
‫پہنا ہوا تھا ۔۔۔تبھی تو ان کی چھاتیاں برا میں پھنسی ۔۔۔۔۔ اس کے‬
‫چنگل سے نکلنے کو مچل رہیں تھیں۔۔۔ ۔۔ نیچے انہوں نے اسی رنگ‬
‫کی چھوٹی سی پینٹی پہنی ہوئی تھی جو کہ بمشکل ان کی چوت کے‬
‫آس پاس کے ایریا کو کور کر رہی تھی۔۔۔۔۔ اور اس پینٹی کی ایک‬
‫سائیڈ سے مجھے کچھ بال باہر جھانکتے ہوئے نظر آئے تھے۔۔۔ اس‬
‫سے میں نے اندازاہ لگایا کہ رمشا کی طرح آنٹی بھی چوت پر بال‬
‫رکھنا پسند کرتی ہو گی۔۔۔۔ ۔۔۔ جبکہ پینٹی کے ساتھ ہی ان کی گول‬
‫گول اور ریشمی تھائیز (رانیں) بلکل ننگی دکھائی دے رہی تھیں‬
‫۔۔۔جنہیں دیکھ کر ۔۔۔۔ میرا لن مچلنا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔۔ ۔۔ میری تجربہ‬
‫کار نگاہوں نے ایک منٹ میں ہی ان کے سیکسی بدن کا ایکسرے کر‬
‫لیا تھا۔۔۔ جبکہ دوسری طرف جیسے ہی میں گیٹ سے اندر داخل‬
‫ہوا۔۔۔۔تو وہ کہنے لگیں۔۔۔۔ تو تم باز نہیں آئے نا۔۔۔۔۔۔ اور میں ان کے‬
‫ہوش ربا بدن سے نظریں چراتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔ آپ کو بتایا تو‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔کہ میں باز نہیں آؤں گا۔۔۔۔ پھر گیٹ سے کمرے کی طرف‬
‫جاتے ہوئے وہ کہنے لگیں اچھا یہ بتاؤ کہ اس وقت تم کو کیا‬
‫چاہیئے؟ تو میں نے مختصرا ً بتا دیا۔۔۔اتنی دیر میں ہم ان کے ڈرائینگ‬
‫روم میں پہنچ چکے تھے وہ کمرے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے‬
‫بولیں تم اندر بیٹھو میں ۔۔۔۔ کاغذات لے کر ابھی آئی۔۔۔ چنانچہ ان کے‬
‫کہنے پر میں ڈرائینگ روم میں ۔۔۔۔۔ داخل ہونے ہی واال تھا کہ‬
‫مجھے درخواست کے بارے میں یاد آ گیا اور میں یہ کہنے کے لیئے‬
‫ُمڑا ہی تھا کہ آتی دفعہ ایک سفید کاغذ بھی ساتھ لیتے آیئے گا۔۔۔۔‬

‫یہ بات کرنے کے لیئے جیسے میں پیچھے کی طرف ُمڑا ۔۔۔۔۔ تو‬
‫سامنے کا نظارہ دیکھ کر ۔۔ میرا منہ کھلے کا کھال۔۔۔رہ گیا۔۔۔ مختصر‬
‫سی پینٹی میں ان کی گول شیپ ۔۔۔۔۔۔۔والی ۔۔۔ موٹی گانڈ قیامت کا‬
‫نظارہ پیش کر رہی تھی۔۔۔۔ چنانچہ میں ۔۔۔سب بھول کر بڑی ہوس‬
‫ناک نظروں سے اسے دیکھنے لگا۔۔۔۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف آنٹی۔۔۔۔‬
‫میری ٹکٹکی باندھ کر دیکھنے سے بے خبر ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ایک خاص‬
‫ردھم کے ساتھ گانڈ مٹکاتے ۔۔۔۔۔اور اسے ہال ہال کر اپنے بیڈ روم کی‬
‫ت حال دیکھ کر میرے لن صاحب‬ ‫طرف چل رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ یہ صور ِ‬
‫نے ان کی موٹی گانڈ کو ۔۔۔۔ایک سیکنڈ میں کوئی ہزار سالمیاں پیش‬
‫کیں۔۔۔ ۔۔ جبکہ میں منہ کھولے ان کی مست چال کو دیکھے چلے۔۔۔۔۔‬
‫جا رہا تھا ۔۔ یہ سب چند سیکنڈز میں ہو گیا۔۔۔ اور میں جو ان سے‬
‫ایک سفید کاغذ النے کی بابت کہنا چاہ رہا تھا نہ کہہ سکا ۔۔۔ بلکہ ان‬
‫کی دلکش گانڈ کا نظارہ دیکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا ٹھرکی من۔۔۔۔۔ایک دم‬
‫سے مست ہو گیا۔۔۔ اور میں آن کی آن میں ۔۔۔۔ ارم آنٹی پر ہزار جان‬
‫سے لٹو ہو گیا۔۔۔۔ اور خود کو کوسنے لگا۔۔۔۔ کہ اتنے تجربے کے‬
‫باوجود بھی ۔۔۔۔۔۔ ان کا شاندار بدن کس طرح ۔۔۔۔ میری نظروں سے‬
‫اوجھل رہا۔۔۔۔ ۔۔۔۔ یہ بھی سچ تھا کہ میں جب بھی آنٹی سے مال وہ‬
‫روز مرہ کا ڈھیال ڈھاال لباس پہنے ہوتی تھیں شاید یہی وجہ تھی ان‬
‫کا توبہ شکن ۔۔۔۔اور سیکسی بدن میری نگاہوں سے اوجھل رہا۔۔۔ ۔۔۔‬
‫دوسرا ان کی بیٹی کے چکر میں ہونے کی وجہ سے میں آنٹی کی‬
‫طرف زیادہ دھیان نہ دے سکا ۔۔۔ویسے بھی آنٹی مجھے بدن چور‬
‫لگ رہی تھیں مطلب روز مرہ کے لباس میں زرا بھی پتہ نہیں چلتا‬
‫تھا کہ آنٹی کا بدن اس قدر خوبصورت اور دلکش ہو گا۔۔۔ اسی لیئے‬
‫تو میں ان کو کو نائٹیل میں دیکھ کر ہکا بکا رہ گیا تھا۔۔۔۔۔ میں‬
‫صوفے پر بیٹھا اسی بارے سوچ و بچار کر رہا تھا کہ آنٹی کمرے‬
‫میں داخل ہوئیں۔۔۔ ان کے ہاتھ میں ایک لفافہ تھا جس میں یقینی طور‬
‫پر پالٹ سے متعلق کاغذات کی فوٹو کاپیاں وغیرہ ہوں گی ۔۔۔ میں‬
‫نے کاغذات کی بجائے آنٹی کی طرف غور سے دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔۔‬
‫اس دفعہ انہوں نے نائٹیی کے اوپر ایک بڑی سی چادر لے رکھی‬
‫تھی اور اس کم بخت چادر نے ان کے پورے بدن کو ڈھانپ رکھا‬
‫تھا۔۔۔۔۔جس کی وجہ سے میں ایک دفعہ اور۔۔۔۔ان کے سیکسی جسم‬
‫کے نظارے سے محروم ہو گیا تھا۔۔۔۔ دوسری طرف آنٹی میرے‬
‫قریب پہنچ کر لفافہ پکڑاتے ہوئے بولیں۔۔ چیک کر لو ۔۔چنانچہ میں‬
‫نے ان کے ہاتھ سے کاغذات واال لفافہ پکڑا۔۔۔ااور ان سے بوال۔۔ آنٹی‬
‫ایک عدد سفید کاغذ بھی چاہیئے ہو گا تو وہ حیران ہوتے ہوئے بولیں‬
‫۔۔۔ وہ کس لیئے؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ایک فریش درخواست‬
‫بنام جناب ڈی آئی جی لکھنی ہو گی۔۔ میری بات سن کر وہ منہ سے‬
‫کچھ نہیں بولیں اور کمرے سے باہر نکل گئیں تھوڑی دیر بعد۔۔۔جب‬
‫وہ واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں لیگل سائز کا سفید کاغذ پکڑا ہوا تھا‬
‫اتی دیر میں ۔۔۔میں لفاٖ فے میں پڑے کاغذات کا جائزہ لے چکا تھا‬
‫۔۔چنانچہ میں نے ان کے ہاتھ سے کاغذ لیا اور اس پر ایک درناک‬
‫قسم کی درخواست بنام ڈی آئی جی راولپنڈی لکھی اور آخر میں آنٹی‬
‫کا نام و موجودہ پتہ لکھ کر ان کی طرف بڑھاتے ہوئے بوال اس پر‬
‫دستخط کر دیں انہوں نے میری درخواست کو غور سے پڑھا اور بنا‬
‫کچھ کہے اس پر چپ چاپ دستخط کر دیئے۔ اب میں نے درخواست‬
‫پکڑی۔۔۔ اور اُٹھ کھڑا ہوا تو وہ کہنے لگیں بیٹھو میں تمہارے لیئے‬
‫چائے لے کر آتی ہوں تو میں ان سے کہنے لگا سوری آنٹی میں‬
‫پہلے ہی کافی لیٹ ہو گیا ہوں ۔۔ اس لیئے چائے پھر کبھی سہی۔۔۔۔‬
‫اور کمرے سے باہر جانے لگا۔۔۔وہ بھی مجھے چھوڑنے کے لیئے‬
‫گیٹ تک آئیں اور جب میں گیٹ سے باہر نکلنے لگا تو اچانک وہ‬
‫کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔ ایک بات پوچھوں ؟ ان کی بات سن کر میں چلتے‬
‫چلتے رک گیا۔۔۔۔۔اور ان کی طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔ جی ضرور‬
‫پوچھیں؟ تو وہ بڑی ہی سنجیدگی سے کہنے لگی۔۔۔ میرے الکھ منع‬
‫کرنے کے باوجود ب ھی ۔۔تم یہ سب کیوں کر رہے ہو؟ آنٹی کی بات‬
‫سنتے ہی جانے مجھے کیا ہوا کہ میں ان کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال‬
‫کر بوال ۔۔۔۔۔ میں یہ سب۔۔۔صرف اور صرف آپ کو ایمپریس (متاثر)‬
‫کرنے کے لیئے کر رہا ہوں۔۔۔ میری بات سنتے ہی حیرت کے مارے‬
‫ارم آنٹی کی آنکھیں پھیل گئیں ۔۔۔اور اس سے قبل کہ وہ مجھ سے‬
‫کچھ کہتیں میں وہاں سے بھاگ لیا۔۔۔‬

‫۔۔۔۔ ڈی آئی جی صاحب کے آفس پہنچ کر میں نے ایک چٹ پر اپنا‬


‫اور کئیر آف ( باس کا نام ) لکھ کر چٹ اس کو تھما دی۔۔۔ لیکن‬
‫۔۔۔۔جب دس پندرہ منٹ تک کوئی ہل ُجل نہیں ہوئی۔۔تو میں دوبارہ پی‬
‫اے کے پاس گیا اور اسے کہا کہ میری چٹ اندر بھیجو۔۔۔ چنانچہ‬
‫میرے بار بار اصرار پر اس نے نیم دلی کے ساتھ میرے نام والی‬
‫چٹ اندر بھیج دی۔۔۔۔اور میں ویٹنگ روم میں جا بیٹھا۔۔۔ ابھی مجھے‬
‫بیٹھے تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک باوردی سپاہی دوڑا دوڑا‬
‫وینٹنگ روم میں داخل ہوا ۔۔۔ اور آتے ہی اونچی آواز میں کہنے لگا‬
‫آپ لوگوں میں سے مسٹر شاہ کون ہیں؟ اس کی آواز سن کر میں اپنی‬
‫کرسی سے اُٹھا تو وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بوال ۔۔۔ جلدی چلو کہ‬
‫صاحب کو ایک ارجنٹ میٹنگ میں بھی جانا ہے اور وہ مجھے اپنے‬
‫ساتھ لے کر ڈی آئی جی صاحب کے کمرے کی طرف چل پڑا جب‬
‫میں ان کے کمرے کی طرف بڑھ رہا تھا تو عین اسی وقت ۔۔۔۔۔۔ڈی‬
‫آئی جی صاحب کمرے سے باہر نکل رہے تھے مجھے اپنی طرف‬
‫بڑھتا دیکھ کر انہوں نے سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھا تو‬
‫میں نے بڑی ادب سے کہا سر میرا نام شاہ ہے اور۔۔۔۔ ابھی میں نے‬
‫اتنا ہی کہا تھا ۔۔۔۔کہ انہوں نے مجھے ُچپ کرنے کا اشارہ کیا اور‬
‫پھر کہنے لگے۔۔۔ دانیال ( میرے باس) نے مجھے ساری بات سمجھا‬
‫دی تھی۔۔۔ پھر کہنے لگے درخواست کہاں ہے؟ چنانچہ میں نے بڑے‬
‫ادب کے ساتھ ان کو درخواست پیش کر دی ۔ جسے انہوں نے‬
‫سرسری سا دیکھا ۔۔ پھر بڑی شفقت سے بولے۔۔۔تم لوگوں کا پالٹ‬
‫کہاں واقع ہے؟ تو میں نے اس ایریا کا نام بتا دیا۔۔۔ اس جگہ کا نام‬
‫سنتے ہی انہوں نے اپنے پی اے کی طرف گھوم کر دیکھا اور اس‬
‫سے بولے۔۔۔ ۔۔۔ اس عالقے کا ڈی ایس پی کون ہے؟ تو ان کا بڑے‬
‫پی اے ادب سے بوال۔۔ اولیا خان ۔۔ اولیا کا نام سنتے ہی انہوں نے‬
‫حکم صادر فرمایا۔۔۔۔ کہ اس بہن لن سے کہو کہ ٹھیک دو بجے‬
‫مجھے رپورٹ کرے ۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ درخواست مجھے واپس‬
‫کرتے ہوئے بولے۔۔۔ ۔ سوری یار مجھے ایک ارجنٹ میٹنگ میں جانا‬
‫پڑ گیا ہے۔۔۔ تم دو بجے دوبارہ آ جانا ۔۔تب تک اس عالقے کا ڈپٹی‬
‫بھی آ جائے گا ۔۔۔۔ اتنا کہتے ہی وہ باہر کھڑی گاڑی کی طرف بڑھ‬
‫گئے۔۔۔۔‬

‫ٹھیک دو بجے میں ان کے آفس میں تھا۔۔۔ جیسے ہی میں پی اے کے‬


‫کمرے میں پہنچا … مجھے دیکھتے ہی کہنے لگا کہ صاحب تمہیں‬
‫یاد کر رہے تھے۔۔۔ چنانچہ میں ڈی آئی جی صاحب کے کمرے میں‬
‫داخل ہو گیا جبکہ مجھ سے پہلے وہاں پر ڈی ایس پی کی وردی‬
‫پہنے ایک شخص بیٹھا ہوا تھا ۔۔میرے خیال میں وہی اولیا ہو گا۔ ادھر‬
‫جیسے ہی میں کرسی پر بیٹھا تو ڈی آئی جی صاحب ڈپٹی سے‬
‫مخاطب ہو کر بولے۔۔ اولیا خان یہ میرا برخردار ہے پھر مجھے‬
‫کہنے لگے درخواست کدھر ہے تو میں نے ان کو درخواست پیش کر‬
‫دی۔۔۔۔۔۔۔۔جسے پڑھ کر انہوں نے اس پر کافی لمبے آرڈر لکھے اور‬
‫پھر یہ درخواست ڈپٹی کے حوالے کر دی۔۔ درخواست پکڑتے ہی‬
‫ڈپٹی نے جیب سے عینک نکالی۔۔۔۔۔ اور بڑے غور سے پڑھنے لگا۔۔‬
‫اس کے بعد اس نے درخواست کے ساتھ لف شدہ کاغذات کا معائینہ‬
‫کیا۔۔ اور ڈی آئی جی سے مخاطب ہو کر بوال ۔۔۔ سر اس ایریا کے‬
‫سارے پالٹوں پر ملک صاحب کے پالتو بدمعاش تاجے کا قبضہ ہے‬
‫اس پر ڈی آئی جی صاحب بڑے ہی درشت لہجے میں کہنے لگے۔۔۔‬
‫تاجے کی ماں کی ُکس۔۔۔۔ مجھے ہر صورت یہ پالٹ خالی چایئے۔۔۔‬
‫اس پر اولیا خان بوال ۔۔۔ سر قبضہ تو واپس ہو جائے گا لیکن اگر‬
‫ملک صاحب نے۔۔۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ صاحب غصے‬
‫سے دھاڑتے ہوئے بولے ۔۔۔ کان کھول کر سن لو ایک ہفتے کے اندر‬
‫اندر مجھے یہ پالٹ خالی چایئے۔۔۔رہی ملک صاحب کی بات ۔۔۔تو۔‬
‫انہوں میں سنبھال لوں گا۔۔۔ اس پر ڈپٹی بڑے ہی خوشامدانہ لہجے‬
‫میں کہنے لگا ۔۔۔‬

‫اگر ملک صاحب بیچ میں نہ آئیں ۔۔تو سو فی صد ۔۔۔ کام ہو جائے گا۔‬
‫اولیا کی بات سن کر ڈی آئی جی صاحب نے میری طرف دیکھا اور‬
‫پھر کہنے لگے آج سے ٹھیک ایک ہفتے کے بعد تم نے مجھے بتانا‬
‫ہے۔۔۔ کہ کام ہوا یا نہیں۔۔۔ پھر اولیا سے مخاطب ہو کر بڑے ہی‬
‫بارعب انداز میں بولے۔۔سنو۔۔۔۔۔۔۔ مجھے ہر صورت میں۔۔۔۔۔ یہ پالٹ‬
‫خالی چاہیئے۔۔۔اور ہاں ۔۔۔ لڑکے سے کسی قسم کی ڈیمانڈ نہیں کرنی‬
‫ورنہ۔۔۔ تم مجھے اچھی طرح سے جانتے ہو ۔۔۔ تو اولیا خوشامد اور‬
‫ڈر کے ملے جلے انداز میں بوال ۔۔۔ سر کام ہو جائے گا۔۔۔ اس کے‬
‫ساتھ ہی انہوں نے ہم دونوں کو جانے کا اشارہ کر دیا۔‬
‫باہر نکلتے ہی اولیا خان مجھے لے کر ویٹنگ روم میں آ گیا اور‬
‫بوال کہ کہ میں ملک صاحب (ڈی آئی جی) کا کیا لگتا ہوں؟ تو میں‬
‫نے جھوٹ بولتے ہوئے کہا کہ میں ان کا قریبی عزیز ہوں ۔۔اس کے‬
‫بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ کہ آپ کام کیا کرتے ہو؟ تو جب میں‬
‫نے اسے محکمے کا نام بتایا ۔۔۔ تو میرے محکمے کا نام سنتے ہی وہ‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔ وہاں تو ملک صاحب کا چھوٹا بھائی ملک دانیال بھی‬
‫ہوتے ہیں۔۔۔۔ میں اس پر رعب جھاڑتے ہوئے بوال۔۔۔جی جی میں ان‬
‫کے ساتھ ہی کام کرتا ہوں ۔۔۔۔اور مجھے بھرتی بھی انہی لوگوں نے‬
‫کرایا تھا۔۔ ۔۔ جسے سن کر خرانٹ ڈی ایس پی از حد متاثر ہوا۔۔۔۔اور‬
‫پھر بڑے ہی پیار سے بوال۔۔۔ سنو بیٹا ۔۔آئیندہ اگر ایسی کوئی بات‬
‫ہوئی تو ملک صاحب کو بتانے کی بجائے آپ نے مجھے بتانا ہے ۔۔۔‬
‫پھر کہنے لگے افسروں ( مطلب ڈی آئی جی صاحب کو) سے تو‬
‫میں نے ویسے ہی ایک ہفتے کا وقت لیا ہے جبکہ میں آپ لوگوں کا‬
‫یہ کام دو تین دنوں میں ہی کر دوں گا اس کے بعد اس نے مجھ سے‬
‫میرا سیل نمبر لیا اور پھر اپنا دیتے ہوئے بوال ۔۔ پنڈی کے کسی بھی‬
‫تھانے میں۔۔۔ کبھی بھی کوئی کام ہو تو مجھے یاد کر لینا ۔۔۔۔ میں نے‬
‫اس کو بتانے کا وعدہ کیا ۔۔۔اور وہاں سے آفس آ گیا سب سے پہلے‬
‫میں نے اپنے سئنیر کولیگ کا شکریہ ادا کیا اور پھر ہم دونوں باس‬
‫کے پاس پہنچ گئے اس کا شکریہ ادا کیا ۔۔اور صورت حال کی‬
‫رپورٹ دی ۔۔ پھر وہاں سے آ کر آفس کے کاموں میں مصروف ہو‬
‫گیا۔۔۔ چھٹی کا وقت تھا اور میں گھر جانے کی تیاری کر رہا تھا کہ‬
‫اچانک سیل فون کی گھنٹی بجی دیکھا تو الئن پر رمشا تھی ۔ میرے‬
‫ہیلو کے جواب میں وہ بڑے ہی سنجیدہ لہجے میں بولی ۔۔۔آپ کو ماما‬
‫بال رہیں ہیں۔۔۔۔ رمشا کو سنجیدگی دیکھ کر میں سمجھ گیا ۔۔۔کہ اس‬
‫کے آس پاس کوئی ہو گا۔۔۔ اس لیئے میں نے بھی ۔۔۔ سنجیدگی سے‬
‫جواب دیتے ہوئے کہا اوکے میں کچھ دیر میں آتا ہوں۔ ۔۔۔ پھر آفس کا‬
‫کام ختم کرنے کے بعد میں رمشا کے گھر چال گیا۔۔‬

‫وہاں جا کر دیکھا تو ان کا ڈرائینگ روم فُل تھا مطلب میری ہونے‬


‫والی ساس اس کی دونوں بیٹیاں اور صائمہ باجی کے ساتھ فرزند‬
‫صاحب کو دیکھ کر میں چونک گیا۔۔ اور ان کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بوال ۔۔۔واہ جی واہ۔۔ بڑے بڑے لوگ بیٹھے ہیں۔۔۔ میری بات سن کر‬
‫فرزند صاحب مسکرا کر بولے ۔۔ صبع سے ہم لوگوں کو تجسس لگا‬
‫ہوا تھا کہ پتہ نہیں کیا بنا ہو گا؟۔۔۔ اسی لیئے خواتین کے ساتھ میں‬
‫بھی آ گیا۔۔پھر کہنے لگا یہ بتاؤ کہ کام کا کیا ہوا؟؟۔۔۔ تو میں فرزند کو‬
‫جواب دیتے ہوئے بوال۔۔۔۔ اگلے ہفتے تک آنٹی کو اپنا پالٹ واپس مل‬
‫جائے گا؟ میری بات سن کر وہاں موجود خواتین کہنے لگیں ۔۔۔ لیکن‬
‫یہ کیسے ممکن ہے ؟ تو اس پر میں نے ان کو مختصرا ً ساری بات‬
‫سنا دی۔۔۔ جب میں نے اپنی بات ختم کی تو فرزند کہنے لگا ۔۔ یار‬
‫احتیاط کرنا کہ تاجہ واقعی ہی ایک خطر ناک آدمی ہے اس نے بہت‬
‫سے بندوں کو مارا ہوا ہے۔۔۔۔پھر کہنے لگا کہ بلکہ میں نے تو یہ‬
‫بھی سنا ہے کہ جائیداد کے اللچ میں اس نے اپنی سگی بھابھی کو‬
‫بھی قتل کر رکھا ہے اس لیئے تم بچ کے رہنا۔۔۔۔۔ تو میں انہیں جواب‬
‫دیتے ہوئے بوال۔۔۔ایسی بات نہیں ہے بھائی جان ۔۔ تاجہ اس لیئے‬
‫بدمعاش ہے کہ اس کے پیچھے ملک کا ہاتھ ہے ۔۔ملک کا نام سنتے‬
‫ہی ارم آنٹی کہنے لگیں ۔۔۔ ویسے ایک بات ہے اور وہ یہ کہ ملک‬
‫صاحب بہت ہی دیالو قسم کے انسان ہیں ان کے لنگر سے روزانہ‬
‫سینکڑوں لوگ کھانا کھاتے ہیں اس پر میں تڑپ کر بوال۔۔ آنٹی اگر‬
‫آپ ناراض نہ ہوں تو ایک بات عرض کروں ؟ تو وہ بولیں ہاں ہاں‬
‫جو کہنا ہے کہو۔۔تو میں بوال ۔ ۔۔ کیا آپ کو معلوم ہے کہ اس ملک‬
‫صاحب نے غریبوں کے گاؤں کے گاؤں پر بزرو بازو قبضہ کر‬
‫رکھا ہے۔۔۔۔ اور اس قبضے کے دوران اس نے ناجانے کتنے لوگوں‬
‫کو قتل بھی کروایا ہے ۔۔ اب آپ خود ہی بتائیں کہ ایک شخص آپ‬
‫سے اربوں روپے چھیننے کے بعد چند ہزار کا کھانا کھال دیتا ہے ۔۔‬
‫تو کیا وہ دیالو ہو گیا؟۔۔۔۔اور بائی دی وے۔۔۔۔ کھانا بھی وہ اس لیئے‬
‫کھالتا ہے کہ پبلک کے سامنے اس کا سافٹ امیج بنا رہے۔۔۔۔ اور‬
‫لوگ اسے نیک آدمی سمجھیں ۔۔۔۔ میں نے بات ختم ہی کی تھی کہ‬
‫رمشا کہنے لگی۔۔۔ بھائی آپ کے لیئے کھانا لگ گیا ہے پھر اس نے‬
‫باقی عوام کی طرف دیکھا اور کہنے لگی آپ میں سے بھی اگر کسی‬
‫کو بھوک ہے تو بال تکلف آ سکتا ہے اس کی بات سن کر فرزند‬
‫کہنے لگا کہ مجھے بھوک تو نہیں لیکن شاہ کا ساتھ دینے کے لیئے‬
‫۔۔۔تھوڑی سی روٹی کھا لوں گا۔۔۔ فرزند صاحب کی بات سن کر میں‬
‫اپنی جگہ سے اُٹھا اور ان کی طرف دیکھتے ہوئے ایک انگلی‬
‫کھڑی کے بوال۔۔۔ آپ شروع کریں میں زرا واش روم اٹینڈ کر کے آتا‬
‫ہوں۔۔۔ واش روم سے فراغت کے بعد جیسے ہی میں کمرے سے باہر‬
‫نکال تو اتفاق سے اسی وقت ثانیہ کمرے میں داخل ہو رہی تھی‬
‫۔۔۔اسے دیکھتے ہی مجھے شرارت سوجھی اور میں اس سے مخاطب‬
‫ہو کر بوال۔۔کیسی ہو مس لیسبو؟ میری بات سن کر ثانیہ کا چہرہ ایک‬
‫دم سرخ ہو گیا ۔۔۔۔۔ لیکن پھر فورا ً ہی سنبھل کر تڑاخ سے بولی ۔۔۔‬
‫ہاں ہوں ۔۔۔ پھر؟ اس کی بات سن کر میں اس کے قریب جا کھڑا ہوا‬
‫۔۔۔اور اس کے سانولے چہرے کو دیکھ کر بڑے ہی سیکسی موڈ میں‬
‫بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کاش میں بھی ایک لڑکی ہو تا ۔۔۔۔اور تم میری عزت‬
‫لوٹتی۔۔۔۔ میری بات سن کر اس نے بے اختیار ایک قہقہہ لگایا۔۔۔۔ اور‬
‫میں کمرے سے باہر نکل گیا۔۔۔ میرے اس بات سے ہم دونوں کے‬
‫درمیان تناؤ ختم ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ ڈائینگ ٹیبل پر دیکھا تو فرزند کے‬
‫ساتھ دونوں آنٹیاں بھی موجود تھیں۔۔۔‬

‫کھانا کھاتے ہوئے میری ہونے والی ساس کہنے لگی ۔۔۔ بیٹا آپ کو‬
‫یقین ہے کہ آپ ارم کا پالٹ خالی کروا لو گے۔۔۔۔؟ تو میں نے ان سے‬
‫کہا کہ یقین نہیں ۔۔۔ آنٹی۔۔۔بلکہ مجھے تو پکا یقین ہے ۔۔۔۔ اور ان سے‬
‫مزید بوال ۔۔۔ آنٹی جی آپ بس دو تین دن صبر کر لیں ۔۔۔۔ آپ کو‬
‫رزلٹ مل جائے گا۔۔۔۔ اس پر فرزند کہنے لگا۔۔۔ شاہ جی !۔۔اگر آپ‬
‫نے ارم آنٹی کا پالٹ خالی کروا لیا۔۔۔ تو پھر میری طرف سے آپ‬
‫کے لیئے ایوبیہ کا ٹرپ پکا ۔۔۔ بلکہ وہاں پر رہنے کھانے پینے کے‬
‫سارے اخراجات میرے ذمہ۔۔۔اس پر میں حیران ہو کر بوال۔۔۔ ۔۔ایویبہ‬
‫کا ٹرپ؟ تو وہ کہنے لگا کہ ہاں ایوبیہ کا ٹرپ۔۔معہ اس کے سارے‬
‫اخراجات۔۔۔۔۔ اس پر میری ہونے والی ساس وضاحت کرتے ہوئے‬
‫بولی ۔۔۔ بات یہ ہے بیٹا کہ ۔۔ ایوبیہ سے تھوڑی دور مورتی میں ہمارا‬
‫اپنا کاٹیج ہے جہاں پر اکثر ہم ویک اینڈ منانے جاتے ہیں ۔۔۔ آنٹی یہ‬
‫بات کر رہیں تھیں کہ ثانیہ کمرے میں داخل ہوتے ہی کہنے لگی۔۔۔۔‬
‫ابھی ابھی میرے کانوں میں ایوبیہ کی آواز گونجی ہے تو فرزند‬
‫صاحب ہنستے ہوئے کہنے لگے۔۔۔ کہ ہم لوگ ایوبیہ جانے کی بات‬
‫کر رہے تھے۔۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگی میں بھی جاؤں گی۔۔۔ تو وہ‬
‫ہنستے ہوئے بولے۔۔۔۔۔ ہمارے گھر میں تمہارے بغیر کوئی کام ہو‬
‫سکتا ہے؟ کھانا کھانے کے بعد جب میں ان لوگوں سے اجازت لینے‬
‫لگا تو آنٹی بڑی شفقت سے تاکید کرتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ بیٹا ہمارے‬
‫گھر بھی چکر لگانا۔۔۔پھر باجی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے‬
‫لگیں۔۔۔۔ ہمیں نہیں تو ۔۔۔ کم از کم اپنی بہن سے ہی ملنے آ جایا کرو۔۔۔۔‬
‫پھر تھوڑا وقفہ دے کر بولیں ۔۔۔ انکل تمہارا بہت پوچھ رہے تھے۔۔۔‬
‫اور میں ان سے آنے کا وعدہ کر کے باہر جانے لگا تو فرزند مجھے‬
‫چھوڑنے کے لیئے باہر تک آئے ۔۔۔اور باتوں باتوں میں ۔۔۔۔کہنے‬
‫لگے کہ عدیل کیسا ہے؟ میں نے جواب دیتے ہوئے کہا کہ عدیل‬
‫سے کل ہی بات ہوئی تھی وہ لوگ آج کل کراچی میں ہیں اور خوب‬
‫انجوائے کر رہے ہیں ۔۔۔پھر میں نے فرزند صاحب سے ہاتھ مالیا‬
‫اور گیٹ سے باہر نکل گیا۔‬
‫یہ اس سے تیسرے دن کی بات ہے کہ ڈی ایس پی کا فون آ گیا ۔۔۔‬
‫ہیلو کے جواب میں کہنے لگا ۔۔۔۔ شاہ جی! آپ کا کام ہو گیا ہے تو‬
‫اس پر میں بوال کیا پالٹ خالی ہو گیا ہے؟ تو وہ کہنے لگا جی آپ‬
‫خود جا کر دیکھ سکتے ہیں میں نے ان لوگوں سے آپ کا پالٹ خالی‬
‫کروا دیا ہے اس پر میں ان کا شکریہ ادا کرتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔وہ تو‬
‫ٹھیک ہے اولیا صاحب ! لیکن کیا وہ لوگ آنٹی سے معذرت بھی‬
‫کریں گے؟ میری بات سن کر وہ ایک دم ُچپ ہو گیا۔۔۔اور پھر تھوڑی‬
‫دیر بعد تلخ لہجے میں بوال۔۔۔دیکھو یار ۔۔۔ میں نے ان لوگوں سے‬
‫بڑی مشکلوں سے قبضہ چھڑایا ہے اور اب آپ ۔۔۔۔کہہ رہیں ہیں کہ و‬
‫ہ لوگ آنٹی سے معافی بھی مانگیں۔۔۔۔ اس پر میں جھوٹ بولتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔۔ اصل میں کل میں اور آنٹی ملک صاحب (ڈی آئی جی ) سے‬
‫ملنے گئے تھے وہیں پر آنٹی نے ان سے یہ بات کی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔اور‬
‫آنٹی کی بات سننے کے بعد ملک صاحب نے مجھے تاکید کی تھی‬
‫کہ میری طرف اولیا صاحب کو کہہ دینا کہ تاجے کے چمچے‬
‫تمہاری آنٹی سے معافی بھی مانگیں گے۔۔۔۔ اس کے بعد ۔۔میں بات‬
‫میں وزن پیدا کرتے ہوئے بوال ۔۔ اگر آپ کو میری بات کا یقین نہیں‬
‫تو بے شک۔۔۔۔ خود ان سے پوچھ لیں۔۔۔ میرا تیر نشانے پر لگا ۔۔ ملک‬
‫صاحب کے حوالے نے اس بےچارے کی بولتی بند کر دی تھی۔۔۔اور‬
‫مجھے اچھی طرح معلوم تھا کہ وہ ملک صاحب سے کبھی بھی یہ‬
‫بات کنفرم نہیں کرے گا۔۔۔ چنانچہ میری بات سن کر وہ بڑی بے‬
‫چارگی سے بوال ۔۔ اگر یہ ملک صاحب کا حکم ہے تو پھر ان کا باپ‬
‫بھی تمہاری آنٹی سے معافی مانگے گا۔۔۔ اس کے بعد وہ کہنے لگا۔۔۔‬
‫کل صبع ٹھیک گیارہ بجے آنٹی کو لے کر میرے دفتر میں آجانا‬
‫۔۔۔۔۔۔پھر یہ کہتے ہوئے اس نے فون بند کر تے ہوئے بوال ۔۔۔ میرا‬
‫آفس تھانے کے اندر ہی واقع ہے۔۔۔ ۔۔۔۔‬
‫ڈپٹی کا فون ختم ہوتے ہی میں نے ایک دوست کو ساتھ لیا اور آنٹی‬
‫کے پالٹ پر پہنچ گیا۔۔۔ دیکھا تو آنٹی کے پالٹ سے ٹریکٹر ٹرالی‬
‫ریت اٹھا رہی تھی اور ٹاہلی کے نیچے اس کن ٹٹے کی چارپائی بھی‬
‫غائب تھی۔۔۔۔ یہ سب دیکھ کر میں مطمئن ہو کر واپس آ گیا۔۔۔اور آنٹی‬
‫کو فون کر کے مبارک دیتے ہوئے بوال ۔۔۔ کہ مبارک ہو آپ کا پالٹ‬
‫خالی ہو رہا ہے۔۔۔۔ کل آپ کو میرے ساتھ ڈی ایس پی کے آفس جانا‬
‫پڑے گا ۔۔۔ جہاں آپ کو پالٹ کا قبضہ واپس مل جائے گا۔میری بات‬
‫سن کر وہ خوش ہو کر بولیں۔۔۔ ٹھیک ہے میں تمہیں دس بجے کے‬
‫قریب دفتر سے ِپک کر لوں گی ۔۔‬

‫چنانچہ اگلے دن مقررہ وقت پر میں اور آنٹی ڈی ایس پی کے آفس‬


‫میں تھے ڈپٹی نے ہمیں اچھی سی چائے پالئی۔۔چائے پینے کے بعد‬
‫اس نے بیل دی اور اپنے اردلی سے بوال۔۔۔ باہر تاجے کے بندے‬
‫بیٹھے ہیں انہیں اندر الؤ ۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد پپو استاد ا ور وہ شخص‬
‫کہ جس نے ہم پر فائرنگ کی تھی ڈپٹی کے کمرے میں داخل ہوئے‬
‫۔۔ انہیں دیکھتے ہی ڈپٹی بڑے رعب سے بوال۔۔۔ اوئے بے‬
‫شرمو۔۔۔اس خاتون کو تم نے بہت تنگ کیا ۔۔۔ اس لیئے اس سے‬
‫معافی مانگو۔۔۔۔چنانچہ ڈی ایس پی کے کہنے پر انہوں نے آنٹی سے‬
‫معافی مانگ لی۔ ۔۔۔ وہ کن ٹٹے جس انداز سے معافی مانگ رہے‬
‫تھے۔۔۔۔ اسے دیکھتے ہوئے میں سمجھ گیا تھا کہ یہ سب ملی بھگت‬
‫سے ہو رہا ہے۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف ڈپٹی انہیں معافی مانگتے‬
‫دیکھ کر کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ خبردار اگر آئیندہ۔۔۔۔ادھر کا ُرخ بھی کیا تو‬
‫۔۔۔۔ ورنہ تم دونوں کو اُلٹا لٹکا دوں گا ۔۔۔ اور پھر مزید اسی قسم کی‬
‫باتیں کرتے ہوئے وہ آنٹی سے بوال۔۔۔۔ بہن جی! انہیں معاف کر دیں‬
‫۔۔۔۔اس کی بات سن کر آنٹی نے ہاں میں سر ہال دیا۔۔۔ یہ دیکھ کر اس‬
‫نے ایک بار پھر ان دونوں کو وارننگ دی اور گرجدار آواز میں‬
‫دفعہ ہونے کو کہا۔۔۔ میں اس کا سارا ڈرامہ سمجھ رہا تھا لیکن بے‬
‫چاری آنٹی۔۔۔ڈپٹی کے ڈرامے سے کچھ زیادہ ہی متاثر ہو گئی تھی‬
‫اور اس وقت ان کا چہرہ خوشی سے تمتما رہا تھا۔۔۔ میں ڈپٹی اور ان‬
‫کن ٹٹوں کا سارا ڈرامہ سمجھنے کے باوجود بھی چپ تھا۔۔۔۔تو اس‬
‫لیئے کہ میرا بھی مقصد آنٹی کو متاثر کرنا ہی تھا۔۔۔ پھر جیسے ہی‬
‫کن ٹٹے کمرے سے باہر نکلے۔۔۔۔۔۔۔ڈپٹی نے آنٹی کو ایک لمبی‬
‫سٹوری سنائی کہ کس طرح اس نے شہر کے سب سے خطر ناک‬
‫بدمعاش اور قبضہ مافیا کے سرگرم رکن تاجے سے ان کا پالٹ وا‬
‫گزار کرایا تھا۔۔۔ رام کہانی سنانے کے بعد ۔۔۔وہ آنٹی کو مخاطب‬
‫کرتے ہوئے بڑی لجاجت سے بوال۔۔ بہن جی آپ سے گزارش ہے کہ‬
‫میری اس حقیر کاوش کا تزکرہ جناب ملک صاحب سے ضرور‬
‫کیجیئے گا۔۔۔۔پھر شرمندی سی شکل بناتے ہوئے بوال۔۔۔۔ اگر ہو سکے‬
‫تو جناب ملک صاحب سے میری سفارش بھی کرنا۔۔۔۔ اور وہ یہ کہ‬
‫ساتھ والے سرکل کا چارج بھی مجھے دے دیا جائے۔۔۔ کیونکہ وہاں‬
‫کا ڈپٹی پرسوں ریٹائر ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ڈپٹی کی بات سن کر آنٹی نے‬
‫میری طرف دیکھا اور پھر اشارہ سمجھ کر بولیں ۔۔ جی میں اس‬
‫سلسلہ میں ان سے ضرور بات کروں گی۔۔ اس کے بعد ہم نے ڈپٹی‬
‫سے اجازت لی۔۔۔ اور وہ ہمیں باہر تک چھوڑنے آیا۔۔۔۔۔اور جب تک‬
‫ہم گاڑی میں نہیں بیٹھے وہ آنٹی سے بار بار یہی کہتا رہا کہ ملک‬
‫صاحب کے آگے میری تعریف ضرور کرنا ۔۔۔۔اور جاتے جاتے پھر‬
‫کہنے لگا۔۔۔ پلیز بہن جی میرا کام یاد رکھنا ۔۔۔۔ آنٹی نے ہاں میں سر‬
‫ہالیا ۔۔۔اور گاڑی چال دی۔۔۔‬
‫جیسے ہی گاڑی مین روڈ پر پہنچی تو تھوڑا آگے جا کر ۔۔۔ آنٹی نے‬
‫اچانک ہی گاڑی کو ایک سائیڈ پر روکا۔۔اس سے پہلے کہ میں کچھ‬
‫سمجھتا وہ دونوں ہاتھ اسٹرئیرنگ پر رکھ کر بولیں۔۔۔ ا س دن تم کیا‬
‫کہہ رہے تھے۔۔۔ کہ تم۔۔ یہ سب مجھے امپریس کرنے کے لیئے کر‬
‫رہے ہو ؟ آنٹی کی بات سن کر میں چونک اُٹھا۔۔۔ اور ایک نظر ان‬
‫کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ تو ان کی آنکھوں میں مجھے ایک عجیب سی‬
‫چمک نظر آئی۔۔۔۔۔ یہ چمک دیکھ کر میری چھٹی حس نے مجھے‬
‫مخصوص سگنل دیا۔۔سگنل پاتے ہی ۔۔۔۔میں نے ان کی طرف دیکھا‬
‫۔۔۔۔اور پھر اپنے لہجے میں ہندی فلموں کا سارا رومانس بھر کے‬
‫بوال۔۔۔جی میں نے ایسے ہی کہا تھا۔۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے‬
‫میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔۔۔ اور مخمور لہجے میں بولیں ۔۔۔ " تو‬
‫سنو شاہ جی!۔۔۔ میں تم سے واقعی ایمپریس ہو گئی ہوں " اتنی بات‬
‫کرتے ہی انہوں نے بنا کوئی بات کیئے گاڑی چال دی۔۔عورتوں ‪/‬‬
‫آنٹیوں کے قانون کے مطابق انہوں نے جو کہنا تھا اشارے سے کہہ‬
‫دیا۔۔۔ ۔۔۔اب آگے میری ہمت پر منحصر تھا کہ۔۔۔میں ان کے اشارے‬
‫سے کتنا فائدہ ا ُٹھاتا ہوں۔۔۔اور جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ میں اس‬
‫قسم کے معامالت میں اچھا خاصہ تاک بلکہ ہنرمند واقع ہوا تھا۔۔۔ ۔‬
‫چنانچہ میں دیکھا کہ ان کا ایک ہاتھ ابھی تک گیئر پر ہی رکھا ہوا‬
‫تھا۔۔۔ ۔۔۔ سو میں نے بڑی آہستگی کے ساتھ ۔۔۔۔ اپنا ہاتھ ان کے نرم‬
‫ہاتھ پر رکھ دیا۔۔۔ ۔۔اور بڑی ہی رومینٹک ٹون میں بوال۔۔۔ آپ تو آج‬
‫ایمپریس ہوئی ہو ۔۔۔جبکہ میں تو آپ کو دیکھتے ہی گھائل ہو گیا‬
‫تھا۔۔۔۔میرا محبت بھرا ڈئیالگ سن کر ان کا چہرہ سرخ ہو گیا۔۔ لیکن‬
‫وہ بولی کچھ نہیں۔۔۔ ادھر ان کی خاموشی کو نیم رضا مندی جان کر‬
‫میں نے ان کے ہاتھ کو سہالنا شروع کر دیا ۔۔۔ ۔۔۔۔ اور ایسا کرتے‬
‫ہوئے براہ راست ان کی طر ف دیکھنے بجائے کھڑکی سے باہر‬
‫دیکھنے لگا۔۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ۔۔۔۔ میں کن اکھیوں سے ان کے‬
‫ر ِد عمل کا بھی جائزہ لیتا جا رہا تھا۔۔۔۔ اور میری توقع کے عین‬
‫مطابق نہ تو انہوں نے میرے ۔۔۔۔ اور نہ ہی اپنے ہاتھ کو گیئر سے‬
‫ہٹانے کی کوئی کوشش کی۔۔۔ کچھ دیر یونہی گزر گئی۔۔۔۔ ۔۔ میں ان‬
‫کے ہاتھ کو سہالتا رہا ۔۔۔۔اور وہ چپ چاپ گاڑی چال تی رہیں۔۔ ۔۔‬
‫میں جو کام کر رہا تھا ۔۔۔۔وہ اسے اچھی طرح سمجھ رہیں تھی۔۔۔‬
‫لیکن ُچپ تھیں۔۔ ۔۔۔ کار میں گھنی خاموشی چھائی تھی ۔۔۔۔ اسی دوران‬
‫۔۔۔میں نے ایک سٹیپ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔اور ان کا ہاتھ پکڑ‬
‫کر۔۔۔۔اپنے ہونٹوں تک لے گیا۔۔۔ اور اس کی پشت کو چوم کر‬
‫بوال۔۔۔۔ارم آنٹی۔۔۔۔ آپ بہت پیاری ہو ۔۔ میرے اس عمل پر بھی انہوں‬
‫نے کوئی ر ِد عمل نہیں دیا۔۔۔اور ویسے ہی گاڑی چالتی رہیں۔۔۔میں‬
‫کن اکھیوں سے دیکھا تو۔۔ ۔۔۔۔ کار میں ائیر کنڈیشن چالو ہونے کے‬
‫باوجود بھی ان کا ماتھا پسینے سے چمک رہا تھا۔۔۔ دوسری طرف‬
‫میرے اس طرح ہاتھ چومنے پر بھی جب وہ خاموش رہیں ۔۔۔ تو اس‬
‫بات سے مجھے اچھا خاصہ حوصلہ ہوا۔۔۔۔جس کی وجہ سے میں نے‬
‫ایک سٹیپ آگے بڑھنے کا فیصلہ کیا۔۔۔۔۔ چنانچہ ہاتھ سہالتے‬
‫سہالتے۔۔۔۔۔۔ میں نے ان کا ہاتھ پکڑ ا۔۔۔۔اور ان کی ران پر رکھ‬
‫دیا۔۔۔اُف۔۔۔ ان کی ران بہت ہی نرم اور ریشم کی طرح مالئم تھی‬
‫۔۔۔۔۔۔۔دوسری طرف میرے ہاتھ کو اپنی ران پر محسوس کرتے ہی‬
‫انہوں نے ایک جھرجھری سی لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور چونک کر میری طرف‬
‫دیکھا۔۔۔۔ لیکن منہ سے کچھ نہیں بولی ۔۔۔۔۔۔۔ ران پر ہاتھ رکھ کر ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میں نے چوری چوری ان کی طرف دیکھا۔۔۔۔ تو وہ بار بار اپنے‬
‫خشک ہوتے ہونٹوں پر زبان پھیر رہیں تھیں۔۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ‬
‫وہ بھی گرم ہو رہیں تھیں ۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ یہ دیکھ کر مجھے مزید حوصلہ‬
‫ہوا۔۔۔۔۔ کیونکہ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ میں بغیر رکاوٹ کے۔۔۔‬
‫اپنی منزل کی طرف بڑھ رہا تھا۔ ۔۔۔ ران پر ہاتھ رکھنے کے کچھ دیر‬
‫بعد ۔۔۔۔۔۔ ۔۔میں ان سے بوال ۔۔۔۔ کیا خیال ہے آنٹی ۔۔۔ ایک نظر پالٹ‬
‫کو نہ دیکھ لیا جائے؟۔۔۔۔ پالٹ والی بات میں نے اس لیئے کی تھی کہ‬
‫میں ان کے ساتھ مزید کچھ وقت گزارنا چاہ رہا تھا۔۔۔ ادھر میری بات‬
‫سن کر وہ بس اتنا بولیں ۔۔۔ دیکھنے میں کوئی حرج نہیں۔۔اس کے‬
‫ساتھ ہی انہوں نے گاڑی کا یو ٹرن لیا۔۔۔ اور اب ہم شہر سے باہر کی‬
‫طرف ان ہاؤسنگ سوسائٹیز کی طرف جا رہے تھے کہ جہاں پر آنٹی‬
‫کا پالٹ واقع تھا ۔۔۔۔۔ کچھ دور جا کر۔۔۔۔۔ میں اپنی سیٹ سے تھوڑا‬
‫آگے کھسکا ۔۔۔ اور ان کی ران پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔۔۔ میری‬
‫اس حرکت سے وہ تھوڑا سا ان ایزی ہوئیں ۔۔۔ لیکن پھر۔۔۔۔ اگلے چند‬
‫سیکنڈز کے بعد۔۔۔۔۔ نارمل ہو گئیں۔۔۔ یہ دیکھ کر میں ان کی ران کو‬
‫سہالنا شروع ہو گیا۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ میں نے ان کی طرف دیکھا‬
‫۔۔۔۔۔تو ۔۔۔اس وقت ان کا ماتھا پسینے سے تر تھا۔۔۔۔۔۔جبکہ دوسری‬
‫طرف میں بڑی آہستگی کے ساتھ ان کی مالئم رانوں پر ہاتھ پھیر رہا‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور‬

‫پھر میں نے کن اکھیوں سے ان کی طرف دیکھا ۔۔۔۔تو جزبات کی‬


‫شدت سے ان کا چہرہ اچھا خاصہ سرخ ہو چکا تھا۔۔۔۔ لیکن وہ ضبط‬
‫کیئے بیٹھی تھیں۔۔۔۔۔۔ ادھر میرے اندر بھی ان کی پھدی کی طلب‬
‫بڑھتی ہی جا رہی تھی۔۔۔۔ جو اس وقت میری انگلیوں سے چند ہی‬
‫سینٹی میٹر سے دوری کے فاصلے پر واقع تھی۔۔ جس کی ان دیکھی‬
‫ہیٹ سے میں بے قرار ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔ پھر مجھ سے رہا نہیں‬
‫گیا۔۔۔۔۔چنانچہ ان کی نرم مالئم ران پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے ۔۔۔ ۔۔۔۔‬
‫جیسے ہی میں نے اپنی انگلیاں ان کی ۔۔۔ انر تھائی ( ران کی‬
‫اندرونی سمت۔۔۔ مطلب چوت کے پاس ) کی طرف لے جانا چاہیں۔۔۔‬
‫تو اسی دقت انہوں نے اپنی دونوں رانوں کو آپس میں جوڑ لیا۔۔۔ اور‬
‫۔۔۔میری طر ف دیکھتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ ک۔۔کک۔۔کیا کر رہے ہو؟‬
‫تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے شہوت بھرے لہجے میں بوال‬
‫۔۔۔ کچھ نہیں آنٹی۔۔۔ تو وہ بڑے ہی سخت لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔تم‬
‫غلط سمجھے ہو۔۔۔ مم۔۔۔ مم ۔۔میں ایسی عورت نہیں ہوں ۔۔۔اپنا وار‬
‫خالی جاتے دیکھ کر۔۔۔۔۔ میں نے پینترا بدال۔۔۔۔ اور شرمندہ سی شکل‬
‫بنا کر بوال۔۔۔ سوری آنٹی۔۔لیکن کیا کروں ۔۔میں آپ کے آگے بے بس‬
‫ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ پھر انہیں مکھن لگاتے ہوئے بوال۔۔۔ آنٹی میں کیا کروں‬
‫کہ آپ میں کشش ہی اتنی ہے کہ میں خود پر کنٹرول نہ رکھ سکا۔۔‬
‫اور اس کے ساتھ ہی پچھتانے کی ایکٹنگ کرتے ہوئے سر جھکا کر‬
‫بیٹھ گیا۔۔۔میری توقع کے عین مطابق آنٹی نے کچھ دیر تک مجھے‬
‫جج کیا کہ کہیں میں ڈرامہ تو نہیں کر رہا؟ ۔۔۔ لیکن جب انہیں پختہ‬
‫یقین ہو گیا کہ میں سچ مچ شرمندہ ہوں ۔۔۔۔۔۔ تو دفعتا ً انہوں نے گاڑی‬
‫کو ایک سائیڈ پر روکا۔۔۔۔اور میری تھوڑی کے نیچے ہاتھ رکھ کر‬
‫اسے اوپر اُٹھاتے ہوئے بولیں۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔ناراض ہو گئے ہو؟ تو میں‬
‫ڈرامہ کرتے ہوئے بوال۔۔۔ آپ مجھے قتل بھی کر دیں تو بھی میں۔۔۔‬
‫آپ سے ناراض نہیں ہوں گا۔۔۔۔ قتل کا نام سنتے ہی انہوں نے تڑپ‬
‫کر میرے منہ پر اپنا ہاتھ رکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔ ایسے نہ کہو۔۔۔۔‬
‫میں کیا شکل سے تمہیں قاتل لگتی ہوں؟ اس پر میں بوال ۔۔۔۔ آپ قاتل‬
‫نہیں تو اور کیا ہو؟ ۔۔۔۔ اچھے خاصے بندے پر ایسا جادو کر دیا‬
‫ہے۔۔۔۔کہ اس نے جو نہ کرنا تھا وہ بھی کر بیٹھا۔۔۔ ۔۔۔ میرا محبت‬
‫بھرا۔۔۔۔اور ۔۔۔۔ جگر پاش بیان سن کر آنٹی بے خود ہو کر بولیں۔۔۔ وہ‬
‫میرا مطلب تھا ۔۔کہ تم اتنی جلدی۔۔۔ بہت آگے تک چلے گئے تھے۔۔۔‬
‫ان کی بات سن کر میں نے بڑی ہی رومینٹک نظروں سے ان کی‬
‫طرف دیکھا اور پھر کہنے ۔۔۔۔ ارم جی ! تو پھر آپ ہی بتا دیں کہ‬
‫میں کہاں سے شروع کروں؟۔۔اور پھر ان کے جواب کا انتظار کیئے‬
‫بغیر ۔۔ اپنی سیٹ سے اوپر اُٹھا۔۔۔۔ اور ان کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ‬
‫دئیے۔۔۔۔ ان کے ہونٹ گالب کی پتی کی طرح بہت ہی نرم اور رس‬
‫سے بھرے تھے۔۔۔ ادھر جیسے ہی میں نے ان کے ہونٹوں پر اپنے‬
‫ہونٹ رکھے۔۔تو وہ میرے چہرے کو پیچھے دھکیلتے ہوئے بولیں۔۔۔‬
‫ارے۔۔ارے۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو۔۔۔ لوگ دیکھ لیں گے۔۔۔ اس پر میں ان‬
‫سے بوال۔۔۔کیا کروں ۔۔ آنٹی۔۔۔۔ مجھ سے برداشت نہیں ہوتا۔۔کیونکہ آپ‬
‫میں سیکس اپیل مجھے کسی پل بھی چین نہیں لینے دے رہی۔۔۔۔ اتنے‬
‫کہنے کے بعد ان سے بوال۔۔۔۔۔آپ پلیز ایسا کریں گاڑی اس طرف لے‬
‫جائیں کہ جہاں کوئی آتا جاتا نہیں ۔۔۔۔۔ ۔۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔اوکے۔۔‬
‫لیکن ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ۔۔۔۔۔ وہاں جا کر میرے ساتھ کوئی‬
‫ایسی ویسی کوئی حرکت نہیں کرو گے ۔۔‬

‫۔اندھا کیا چاہے دو آنکھیں ۔۔۔سو میں نے جھٹ سے ہاں کر دی۔۔۔اس‬


‫وقت تک ہم ہاؤسنگ سوسائٹیز کی طرف ُمڑ چکے تھے۔۔۔۔۔ چنانچہ‬
‫میری بات سن کر انہوں گاڑی چال دی۔۔۔ پھر انہوں نے گاڑی کو اس‬
‫طرف موڑا ۔۔۔کہ جس طرف ان کا پالٹ واقع تھا ۔۔اس وقت دوپہر‬
‫کے ساڑھے بارہ بجے تھے گرمی پورے عروج پر تھی۔۔۔ اور تیز‬
‫دھوپ کی وجہ سے اس عالقے میں دور دور تک کوئی بندہ نہ بندے‬
‫کی ذات نظر آ رہی تھی۔۔۔۔ تھوڑی دور جا کر انہوں نے گاڑی کو‬
‫پالٹ کی طرف لے جانے کی بجائے۔۔۔۔۔ ایک کچی سڑک کی طرف‬
‫موڑ لیا۔۔۔ اس پھر سڑک سے تھوڑی دور درختوں کے ایک جھنڈ‬
‫کے پاس گاڑی روک لی۔۔۔اور پھر میری طرف دیکھنے لگی۔۔‬

‫جیسے ہی گاڑی رکی میں نے ایک نظر باہر کی طرف دیکھا ۔۔۔تا ح ِد‬
‫نظر چمکیلی دھوپ کے سوا کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔۔۔۔ اس طرف‬
‫سے مطمئن ہونے کے بعد ۔۔۔۔ ۔۔ میں نے ارم آنٹی کی گردن میں ہاتھ‬
‫ڈاال۔۔۔۔ اور ان کے چہرے کو اپنے قریب ال۔۔۔ کر دھیرے سے بوال۔۔۔‬
‫۔۔۔۔ارم ڈارلنگ ۔۔۔ آئی لو یو ۔ ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے ان کے‬
‫ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے۔۔۔۔اور ان کا رس چوسنے لگا۔۔۔‬
‫میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھنے کے دوران ۔۔۔۔وہ تھوڑا سا‬
‫کسمسائیں۔۔۔۔ اور واجبی سا احتجاج بھی کیا۔۔۔ لیکن میں کہاں سننے‬
‫واال تھا۔۔۔۔ اس لیئے ان کے رس بھرے ہونٹوں کو چوستا رہا۔۔۔۔میرے‬
‫ایسا کرنے سے ۔۔ کچھ دیر تک تو انہوں نے میرا ساتھ نہیں دیا۔۔۔۔‬
‫لیکن جب میں نے اپنی زبان آنٹی کے منہ میں ڈالی۔۔۔تو وہ تھوڑا سا‬
‫تڑپیں۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ۔۔۔کچھ دیر بعد ۔۔۔۔آہستہ آہستہ۔۔۔۔وہ بھی میری زبان‬
‫کو چوسنا شروع ہو گئیں۔۔۔تھوڑی سی کسنگ کے بعد اچانک انہوں‬
‫نے میری زبان کو اپنے منہ سے باہر نکاال اور کہنے لگیں۔۔ میرے‬
‫عزیز واقف کاروں میں تم پہلے لڑکے ہو کہ جس کے ساتھ میں یہ‬
‫کر رہی ہوں ۔۔۔اس لیئے قسم کھاؤ کہ میرے اور تمہارے بیچ ۔۔۔۔۔ یہ‬
‫راز ہمیشہ راز ہی رہے گا ۔۔۔ راز کے سلسلہ میں ۔۔جیسا کہ آپ‬
‫جانتے ہیں کہ ۔ میں پہلے ہی بہت پکا تھا اس لیئے میں نے ان کے‬
‫سر پر ہاتھ رکھا اور قسم اُٹھاتے ہوئے بوال ۔۔۔ کہ ارم جی میرے اور‬
‫آپ کے بیچ کا یہ تعلق ہمیشہ راز ہی رہے گا۔۔۔ یہ سن کر انہوں نے‬
‫بڑی بے تابی سے میرا منہ چوما ۔۔۔اور پھر کار سے باہر دیکھتے‬
‫ہوئے اپنی قمیض اوپر اُٹھا ئی۔۔۔۔ اور ایک چھاتی باہر نکال کر‬
‫بولیں۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔میری چھاتی چوس۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ آنٹی کی‬
‫چھاتی شیپ میں گول اور سائز میں ‪ 38‬کی ہو گی۔۔۔گوری چھاتی‬
‫کے آگے براؤن رنگ کا موٹا سا نپل تھا۔۔۔ جو اس وقت اکڑا کھڑا‬
‫تھا۔۔ میں نے اپنے منہ سے زبان نکالی اور ان کے نپل پر گول گول‬
‫پھیرنے لگا۔۔۔۔۔نپل پر زبان پھیرنے کی دیری تھی ۔۔۔ کہ آنٹی کے منہ‬
‫سے ایک سسکی بھری۔۔۔۔آہ ہ ہ ۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ سارا نپل منہ میں‬
‫لے۔۔۔ یہ سنتے ہی میں نے ان کے نپل کو اپنے منہ میں لیا۔۔۔۔اور‬
‫اسے چوسنے لگا۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ میں ۔۔۔۔۔ اپنا ایک ہاتھ ان کی‬
‫نرم رانوں پر لے گیا۔۔۔ جیسے ہی میرا ہاتھ ان کی ریشمی رانوں کے‬
‫ساتھ ٹچ ہوا۔۔۔۔تو ۔۔ایک دم سے وہ کسمسائیں۔۔اور دونوں ٹانگوں کو‬
‫آپس میں جوڑ لیا۔۔۔اس پر میں نے نپلز سے منہ ہٹایا ۔۔اور ان سے‬
‫بوال۔۔۔۔۔۔ آنٹی پلیززز۔۔۔ تھوڑی سی ٹانگیں کھول دیں۔۔ اور پھر تھوڑے‬
‫سے ناز نخرے کے بعد انہوں اپنی ٹانگوں کو تھوڑا سا کھول دیا۔۔‬

‫جس کی وجہ سے ہاتھ کی بجائے ۔۔۔۔ مڈل فنگر کی وہاں تک رسائی‬


‫ہو گئی تھی کہ جس کے لیئے میں مرا جا رہا تھا۔۔۔۔ میرے لیئے یہی‬
‫کافی تھا۔۔۔ چنانچہ میں اپنی مڈل فنگر کو ان کی موسٹ پرائیویٹ‬
‫جگہ پر لے گیا۔۔۔ اور ۔۔۔دھیرے دھیرے سے ۔۔۔۔۔۔اسے سہالنا شروع‬
‫کر دیا۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ ان کے نپلز بھی چوستا رہا ۔۔۔ پھر‬
‫کچھ ہی دیر بعد۔۔۔جب ان کے منہ سے گرم گرم سانسیں نکلنا شروع‬
‫ہوگیئں ۔۔۔۔ تو میں نے ان کی موسٹ پرائیویٹ جگہ پر اپنے ہاتھ کا‬
‫دباؤ بڑھا دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پہلے کے برعکس ۔۔ اس دفہس انہوں نے بغیر‬
‫کسی حیل و حجت کے ۔۔۔۔۔ اپنی ٹانگوں کو مزید کھول دیا۔۔۔۔ ۔۔۔چنانچہ‬
‫اب میرے پورے ہاتھ کی رسائی ۔۔۔ان کی نرم چوت تک ہو گئی‬
‫تھی۔۔۔ اور اب میں ان کے نپلز کو چوستے ہوئے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی‬
‫میرا ہاتھ ان کی گرم چوت کے درمیان پڑا۔۔۔۔۔ وہ تھوڑا سا‬
‫تڑپی۔۔۔۔۔۔لیکن ۔۔۔پھر ایڈجسٹ ہو گئی۔۔۔۔ ۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے‬
‫ان کی پھدی کی دونوں پھانکوں کے بیچ انگلیاں پھیرنا شروع کر‬
‫دیں۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی چوت سخت تپی ہوئی۔۔۔اور گیلی تھی ۔۔جس کی وجہ‬
‫سے ان کی شلوار کا مخصوص حصہ گیال ہو رہا تھا۔۔۔ چنانچہ میں‬
‫اس گیلے حصے پر ہی انگلی پھیر تا رہا ۔۔۔۔ اسی اثنا میں انہوں نے‬
‫اپنی دوسری چھاتی کو بھی ننگا کر دیا ۔۔۔ اسی دوران میں چوت کی‬
‫پھاڑیوں کے درمیان انگلیاں پھیرتے ہوئے محسوس کیا۔۔۔ کہ ان کی‬
‫چوت پر اچھا خاصے بال اُگے ہوئے تھے۔۔لیکن اس وقت ان بڑھے‬
‫ہوئے بالوں کی فکر کس کافر کو تھی۔۔۔‬
‫فکر تھی تو بس اتنی کہ کس وقت میں آنٹی کی چوت ماروں گا۔۔جبکہ‬
‫دوسری طرف۔۔۔۔ میں ارم آنٹی کی دونوں چھاتیوں کو باری باری‬
‫چوس رہا تھا ۔۔۔اور وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے کہہ‬
‫رہیں تھیں۔۔۔ میری جان میرے عاشق ۔۔۔ میری چھاتیوں کو ایسے‬
‫چوسو کہ جیسے تم آم چوستے ہو ۔۔۔۔ آنٹی کی دل کش سسکیوں سے‬
‫ماحول گرم سے گرم تر ہوتا جا رہا تھا۔۔۔۔۔ اور وہ بھی شہوت بھری‬
‫آواز میں کہہ رہیں تھیں۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔میری ننگی چھاتیوں کو چوس ۔۔۔۔۔۔اور‬
‫چوس۔۔ اسی دوران آنٹی کی سانس بہت تیز ہو گئی ۔۔۔اور پھر اچانک‬
‫ہی انہوں نے میرے ہاتھ کو پکڑا ۔۔۔۔۔اور بنا کوئی بات کیئے۔۔۔ اسے‬
‫شلوار کے اندر لے گئیں۔۔۔اور اپنی پھدی پر رکھ دیا ۔۔۔۔ ا ُف۔۔۔ اور‬
‫پھر میں اپنی انگلیوں کو پھدی کی دونوں پھانکوں کے اندر لے گیا۔۔۔‬
‫تو وہ اس قدر گرم اور گیلی تھی کہ مجھے ایسا محسوس ہو رہا کہ‬
‫جیسے میرا ہاتھ آنٹی کی پھدی میں نہیں بلکہ کسی گرم اور گیلے‬
‫تندور میں چال گیا ہو۔۔اس کے باوجود کہ اس وقت گاڑی سٹارٹ تھی‬
‫اور اس کا ائیر کنڈیشن بھی فل سپیڈ میں لگا ہوا تھا۔۔۔ لیکن اس کے‬
‫باوجود ہم دونوں ہی پسینے سے شرابور تھے۔۔۔ شاید اس لیئے کہ ہم‬
‫دونوں میں سیکس کی آگ پوری طرح بھڑک رہی تھی۔۔۔اور اس‬
‫سیکس کے آالؤ کی وجہ سے ہم دونوں پسینے میں نہا ئے ہوئے‬
‫تھے۔۔۔۔ ان کی بالوں والی پھدی میں ۔۔۔انگلیاں پھیرتے ہوئے۔۔۔۔۔اچانک‬
‫ہی میرا دل میں خواہش جاگی کہ میں آنٹی کی پھدی کو ننگا دیکھوں‬
‫۔۔اس لیئے میں نے ان کے نپل سے منہ ہٹایا ۔۔۔۔۔اور بوال۔۔۔ ارم جی‬
‫شلوار کو تھوڑا نیچے کر لیں۔۔۔۔۔ تو وہ شہوت بھری آواز میں بولی۔۔۔‬
‫کیوں میری پھدی دیکھنی ہے؟ تو میں نے کہا ۔۔۔ جی مجھے آپ کی‬
‫چوت کے دیدار کرنے ہیں۔۔۔ یہ سن کر وہ کہنے لگیں ۔۔۔ گاڑی سے‬
‫باہر دیکھو کوئی آ تو نہیں رہا؟ اور خود بھی گاڑی سے باہر دیکھنے‬
‫لگیں۔۔۔ ادھر میں گاڑی سے باہر جھانک کر دیکھا ۔۔۔تو آس پاس‬
‫کوئی بھی نہ تھا۔۔ باہر کی طرف سے مطمئن ہو کر وہ سیٹ سے‬
‫اوپر اُٹھیں تو میں نے جلدی سے ان کی شلوار کو نیچے کر دیا۔۔۔۔‬
‫اب کی ننگی پھدی میری نظروں کے سامنے تھی۔۔۔ادھر شلوار نیچے‬
‫ہوتے ہی ۔۔۔ان کی چوت سے مخصوص مہک نکلی۔۔۔۔ اور میرے‬
‫نتھنوں میں گھس گئی۔۔۔۔ واؤؤؤؤ۔۔۔ ان کی چوت سے اُٹھنے والی‬
‫مہک بہت ہی تیز اور مست قسم کی تھی۔۔۔ میں نے تھوڑی دیر تک‬
‫اس مہک کا مزہ لیا۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ اور ان سے بوال ۔۔۔۔ ارم جی آپ کی چوت‬
‫کی بو بہت تیز ہے۔۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو‬
‫اوروں کی نسبت میری پھدی کی سمیل بہت سٹرانگ ہے۔۔۔‬

‫۔لیکن چوت پر اُگے گھنے بالوں کی وجہ سے یہ مہک دو آتشہ ہو‬


‫گئی ہے ۔۔۔ پھر میری آنکھوں میں دیکھتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ تمہیں یہ‬
‫سمیل پسند آ ئی ؟ تو میں نے ان کی طرف دیکھتے ہوئے نشیلے سے‬
‫لہجے میں کہا۔۔۔۔ مجھے تو اس کا نشہ ہونے لگا ہے۔۔۔تو وہ مسکرا‬
‫کر بولی۔۔۔ آج سے یہ پھدی تیری اپنی ہے جتنی دیر مرضی ہے اس‬
‫کی مہک لو۔۔۔۔۔۔ چنانچہ تھوڑی دیر مہک لینے کے بعد۔۔۔۔۔ میں ان‬
‫کی چوت کی طرف متوجہ ہوا ۔۔۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ ان کی ننگی‬
‫چوت پر دو انچ یا پھر اس سے تھوڑے بڑے بال ہوں گے۔۔۔ ان کی‬
‫چوت کے بالوں کا رنگ سیاہ تھا۔۔۔اور سفید پھدی پر کالے کالے بال‬
‫بہت اچھے لگ رہے تھے۔لیکن اس میں ایک قباحت تھی اور وہ یہ‬
‫۔۔۔گھنے بالوں کی وجہ سے ۔۔۔۔۔ چوت کا ٹھیک سے نظارہ نہ کیا جا‬
‫سکتا تھا۔۔۔اب میں نے ان کی چوت کی دنوں پھانکوں میں انگلی‬
‫پھیری ۔۔۔۔۔۔اور ان سے بوال۔۔۔۔ ارم جی آپ کی چوت کے بال اتنے‬
‫گیلے کیوں ہیں ؟ تو وہ شہوت بھری آواز میں بولیں۔۔۔ وہ اس لیئے‬
‫میری جان کہ ان پر میرا چوت رس لگا ہوا ہے۔۔۔تو میں ان کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔ اچھا یہ بتائیں۔۔۔۔ کہ آپ کا چوت رس کیسا ہے؟‬
‫تو وہ اسی مست آواز میں جواب دیتے ہوئے بولیں۔۔۔۔جو ایک بار‬
‫اسے چکھ لیتا ہے نا ۔۔۔وہ ہمیشہ کے لیئے۔۔۔۔ میری چوت رس کا‬
‫غالم بن جاتا ہے ۔۔۔۔ پھر کہنے لگی۔۔۔ تم چوت رس چکھو گے؟ تو‬
‫میں ان کی پھدی پر سر جھکاتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔۔۔ آنٹی جی۔۔۔۔۔میں نے‬
‫آپ کا چوت رس صرف چکھنا نہیں بلکہ پیالے بھر بھر کے پینا‬
‫ہے۔۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔ تو پھر اپنے منہ کو میری پھدی کے ساتھ‬
‫جوڑ ۔۔۔۔اور اس کا سارا رس پی جا۔۔۔۔تو میں ان سے بوال۔۔۔ کیا خیال‬
‫ہے پہلے۔۔ میں اپنے اوزار سے تھوڑا کھود نہ لوں؟ تو وہ کہنے‬
‫لگی۔۔۔ نہیں پہلے پرانے پانی کو پی۔۔۔ پھر لنڈ ڈال کے نیا پانی نکال‬
‫لینا ۔۔۔۔‬
‫ان کی بات سن کر میں اپنے سر کو ان کی پھدی کی طرف لے‬
‫گیا۔۔۔اور زبان نکال کر ان کے گھنے بالوں پر پھیرنا شروع ہو گیا۔۔۔۔‬
‫پھر میں نے دو انگلیوں کی مدد سے ان کے بالوں کو ایک ساییڈ پر‬
‫کیا۔۔۔۔اور ان کی گرم پھدی پر زبان پھیرنا شروع ہو گیا۔۔۔۔ ایسا کرنے‬
‫سے انہوں نے بڑی ہی مست قسم کی سسکی لی۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔۔۔‬
‫زبان کو تھوڑا اندر لے جا۔۔۔اور میں نے اپنی زبان کو گول بنایا اور‬
‫ان کی چوت کے اندر تک لے جا کر۔۔۔اور اسے چاٹنا شروع ہو گیا۔۔۔۔‬
‫ان کی چوت پانی سے لبریز تھی اور میں زبان نکالے بڑے اطمینان‬
‫سے ان کے پانی کو چاٹ رہا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ایسا کرنے کے کچھ دیر بعد‬
‫میں نے ان کی چوت سے زبان باہر نکالی ۔۔۔۔اور میری نظر ان کے‬
‫پھولے ہوئے دانے پر پڑ گئی۔۔۔ جو کہ گھنے بالوں کے درمیان بڑے‬
‫شان سے کھڑا تھا۔۔۔ اب میں نے ان کے دانے کو اپنے دونوں ہونٹوں‬
‫میں لیا۔۔۔۔۔اور اسے چوسنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔ دانے کی چوسائی پر آنٹی‬
‫تڑپنا شروع ہو گئی اور سسکیاں لیتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔اوہ۔۔۔۔ آہ‬
‫آہ۔۔۔ میری جان ۔۔۔۔۔پھدی میں انگلی ڈال ۔۔۔اور میں نے اپنی ایک‬
‫انگلی ان کی چوت می ں ڈال دی اور اسے اندر باہر کرنے‬
‫لگا۔۔۔تھوڑی دیر بعد ۔۔۔وہ چال کر بولیں ۔۔۔دونوں انگلیاں ڈال۔۔۔۔کر‬
‫تیزی سے مار۔۔۔۔۔۔۔۔چنانچہ ان کے کہنے کے مطابق میں نے چوت‬
‫میں دی ہوئی انگلیوں کو تیزی سے ان آؤٹ کرنا شروع کر دیا ۔۔۔ تو‬
‫وہ تڑپ کر بولیں۔۔۔۔ دانے سے منہ ہٹا۔۔۔اور انگل۔۔۔۔ تیز مار۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫میں نے ایسا ہی کیا۔۔۔۔۔ اور فُل سپیڈ سے انگلیاں مان آؤٹ کرتا رہا ۔۔۔۔‬
‫کچھ ہی دیر بعد آنٹی نے ایک زبردست چیخ ماری ۔۔۔۔اور سیٹ سے‬
‫اُٹھ کر میرے ساتھ چمٹ گئیں۔۔۔۔اور اونچی اونچی سسکیاں لیتے‬
‫ہوئے ۔۔۔۔۔ تیز تیز ہلنے لگی۔۔۔۔اسی دوران ۔۔۔ میری انگلیوں کے ساتھ‬
‫ان کی چوت کے سارے ٹشو چمٹ گئے۔۔۔۔پھر آنٹی کا سارا جسم‬
‫کانپا۔۔۔۔۔۔اور انہوں نے ایک لمبی سی سانس لی۔۔۔ اس کے ساتھ ہی‬
‫آنٹی۔۔۔۔۔۔ ہانپتے ہوئے چھوٹنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد جب وہ‬
‫شانت ہو گئیں۔۔۔ تو میں نے ان کی چوت سے انگلیاں نکالیں۔۔۔۔اور‬
‫ڈیش بورڈ پر پڑے ٹشو کے ڈبے سے ٹشو نکال کر انہیں صاف‬
‫کرنے لگا۔۔۔۔ جب میری انگلیاں صاف ہو گئیں تو آنٹی مجھ پر جھکیں‬
‫۔۔اور ایک طویل کس کرتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ مجھے تیری انگلیوں سے‬
‫اتنا مزہ مال ہے۔۔۔۔ جانے تیرے لن میں کیا مزہ ہو گا۔۔ اور پھر کہنے‬
‫لگی ۔۔سیٹ کو پیچھے کر۔۔۔ اور جب میں نے ایسا کیا تو انہوں نے‬
‫میری پینٹ کی زپ کھولی۔۔۔اور لن کو باہر نکال لیا۔۔۔۔ جیسے ان کی‬
‫نگاہ میرے تنے ہوئے لوڑے پر پڑی ۔۔۔تو اس کا سائز اور سختی‬
‫دیکھ کر حیران رہ گئیں۔۔اور پھر بڑے تا سف سے کہنے لگیں۔۔۔ بڑی‬
‫غلطی ہو گئی یار ۔۔تو میں نے ان سے پوچھا کس بات کی غلطی؟ تو‬
‫وہ تھوڑا ہچکچا کر بولیں میرا خیال تھا کہ تمہارا عام سا لن ہو گا‬
‫۔۔۔لیکن…۔۔ یہ تو میرے اندازے سے بھی زیادہ بڑا ۔۔۔اور خوب‬
‫صورت ہے پھر کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔‬

‫کاش میں اسے پہلے دیکھ لیتی تو پھدی میں تمہاری انگلیوں کی‬
‫بجائے اسے لینا تھا۔۔۔ اس پر میں اس سے بوال۔۔۔ تو آپ ابھی لے لو‬
‫۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں ۔۔ نہیں یار۔۔۔۔یو ۔۔نو چوپے لگائے بغیر مجھے‬
‫مزہ نہیں آتا اس لیئے اب مجھے چوسنے دو۔۔۔ تو میں نے اس سے‬
‫کہا تھوڑا چوس کے پھدی مروا لیں۔۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ نہیں اس‬
‫وقت پھدی میں وہ جوش نہیں رہا۔۔ ورنہ یہی کرنا تھا۔۔۔ پھر کہنے‬
‫لگیں ۔۔فکر نہیں کرو میں تیرے لن کو سپیشل ٹریٹمنٹ دوں گی۔۔۔اس‬
‫کے ساتھ ہی اس نے اپنے ہاتھ پر بہت سا تھوک پھینکا۔۔۔ اور پھر‬
‫اسے ٹوپے پر ملتے ہوئے بولیں۔۔۔ میرے اس سپیشل چوپے سے‬
‫تمہیں پھدی مارنے سے زیادہ مزہ آئے گا۔۔۔ اس کے بعد وہ کہنے‬
‫لگیں ۔۔۔اب میں سپیشل چوپا لگانے لگی ہوں۔۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ‬
‫انہوں نے اپنے منہ میں بہت سارا تھوک جمع کیا اور پھر ۔۔ میرے‬
‫لن پر جھک گئیں۔۔۔۔۔۔اس کے بعد ۔۔۔ انہوں نے تھوڑا سا منہ کھوال‬
‫اور ٹوپے کو منہ میں لے لیا۔۔۔۔ واؤؤؤؤؤ۔۔۔ ان کا منہ تھوک سے بھرا‬
‫ہوا تھا۔۔اور یہ تھوک۔۔۔ ان کے منہ کی گرمی سے بہت گرم ہو گیا‬
‫تھا۔۔۔۔۔ اور اس کی فیلنگ بلکل پھدی کے پانی جیسی تھیں۔۔ جس کی‬
‫وجہ سے۔۔۔۔ مجھے ایسا لگ رہا تھا کہ جیسے میں نے لن آنٹی کے‬
‫منہ میں نہیں بلکہ ان کی تنگ پھدی میں ڈاال ہے۔۔ دوسری طرف‬
‫ٹوپے کو منہ میں لے کر ۔۔۔۔۔انہوں نے منہ کے اندر ہی اس پر زبان‬
‫پھیری۔۔۔اور پھر آہستہ آہستہ لن کو منہ میں لینا شروع کر دیا۔۔۔ وہ اس‬
‫مہارت سے چوپا لگا رہیں تھیں کہ ۔۔۔مارے مزے کے ۔۔۔۔ مجھے‬
‫ایسا لگا کہ جیسے میں آسمانوں کی سیر کر رہا ہوں۔۔اور اس کے‬
‫ساتھ ہی بے ساختہ میرے منہ سے ۔۔۔ سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں۔۔۔‬
‫دوسری طرف وہ اپنے نرم نرم ہونٹوں کو میرے سخت لن کے ساتھ‬
‫جوڑے۔۔۔۔ مسلسل چوپے لگا رہیں تھیں ان کے چوپا لگانے کا انداز‬
‫اس قدر سیکسی تھا کہ میں زیادہ دیر نہ نکال سکا ۔۔۔۔ اور چند منٹ‬
‫بعد ہی میں تڑپنا شروع ہو گیا اس دوران انہوں نے ایک سیکنڈ کے‬
‫لیئے بھی لن کو منہ سے باہر نہ نکاال تھا ۔۔۔ اور مست چوپے لگا‬
‫رہیں تھیں۔۔۔ پھر اچانک مجھے ایسا لگا کہ جیسے ۔۔۔۔ میری ٹانگوں‬
‫کا سارا خون لن کی طرف بھاگنے لگا ہے۔۔اس کے ساتھ ہی۔۔۔۔۔میرے‬
‫بدن نے جھٹکے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔ ادھر میرے الٹا سیدھا‬
‫ہونے سے تجربہ کار آنٹی سمجھ گئی ۔۔۔ کہ میں چھوٹنے واال ہوں‬
‫اس لیئے انہوں اپنے منہ کو تھوڑا پیچھا کیا اور اب پوزیشن یہ‬
‫تھی۔۔۔۔کہ اس وقت صرف میرا ٹوپہ ان کے منہ میں رہ گیا تھا اسی‬
‫اثنا میں مجھے ایک شدید جھٹکا لگا۔۔۔۔۔۔اور پھرررررررر میں ۔۔اوہ‬
‫۔۔۔اوہ۔۔۔کرتے ہوئے آنٹی کے منہ میں ہی ڈسچارج ہو گیا۔۔۔ انہوں نے‬
‫بھی بڑے اطمینان سے میری ساری منی کو پیا ۔۔۔اور پھر لن سے‬
‫نکلنے والے آخری قطرے تک وہ اسے چوستی رہیں ۔۔۔ اور جب‬
‫میرا لن منی سے بلکل خالی ہو گیا تو انہوں نے لن کو منہ سے باہر‬
‫نکاال ۔۔۔اور پھر ڈیش بورڈ پر ٹشو کے ڈبے سے دو تین ٹشو پیپر‬
‫نکال کر منہ کو صاف کیا۔۔۔اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولیں۔۔۔ میرا‬
‫سپیشل ٹریٹمنٹ کیسا لگا؟ تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کے چوپے‬
‫نے میری جان ہی نکال دی تھی۔۔۔ تو وہ ہنس کر بولیں ابھی تو‬
‫دوستی ہوئی ہو آگے آگے دیکھو میں کیا کیا نکالتی ہوں اور پھر‬
‫گاڑی سٹارٹ کر دی۔۔۔‬

‫کچھ آگے جا کر میں نے ان سے کہا ایک بات پوچھوں ؟ تو وہ کہنے‬


‫لگی ۔۔۔۔ ہاں ضرور تو میں نے کہا کہ جیسا کہ آپ نے تھوڑی دیر‬
‫پہلے بتالیا تھا کہ آپ نے اپنے عزیز رشتے داروں کے ساتھ کبھی‬
‫سیکس نہیں کیا۔۔ تو کیا آپ بتا سکتی ہو کہ پھر آپ کس کے ساتھ‬
‫سیکس کرتی ہو؟۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے بڑی ہی مست‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھا ۔۔۔اور کہنے لگیں ۔۔۔ بتا دوں ۔۔۔تو میں‬
‫نے کہا جی ۔۔۔ پلیززززززز۔۔۔۔ ضرور بتائیں۔۔۔ اس پر انہوں نے‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے جس کا نام لیا۔۔۔۔۔ اس کا نام سنتے ہی میں‬
‫اپنی سیٹ سے دو فٹ اچھل پڑا ۔۔۔۔ میری آنکھیں پھٹنے کے قریب ہو‬
‫گئیں ۔۔۔اور میں حیرت کی شدت سے چال کر بوال۔۔۔۔ ک ک کک کیا‬
‫یہ درست ہے؟ تو اس سے پہلے کہ وہ کوئی جواب دیتیں۔۔۔ اچانک‬
‫ہی ان کا سیل فون بجا ۔۔۔۔ چنانچہ انہوں نے فون آن کر کے کان سے‬
‫لگایا ہی تھا۔۔ کہ دوسری طرف کی بات سن کر انہوں نے ایک دل‬
‫دوز چیخ ماری۔۔۔۔۔۔۔اور کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ نہیں ں ں ں ں۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اور‬
‫پھر۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟‬

‫)قسط نمبر‪(10‬‬

‫آنٹی کو اس قدر پریشان دیکھ کر میں نے ان سے کہا۔۔۔ کیا ہوا؟‬


‫خیریت تو ہے نا؟ تو وہ روہانسے لہجے میں کہنے لگیں ڈیڈی گر‬
‫گئے ہیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ وہ کہاں‬

‫سے گرے ہیں؟ تو وہ مختصر سا جواب دیتے ہوئے بولیں تفصیل کا‬
‫تو مجھے معلوم نہیں لیکن ابھی ابھی بھابی نے فون پر بتایا ہے کہ‬
‫واش میں گرنے سے ان کی شاید کوئی ہڈی ٹوٹ گئی ہے اس لیئے‬
‫وہ انہیں لے کر سی ایم ایچ جا رہے ہیں تو میں ان سے بوال ۔۔۔ میں‬
‫بھی آپ کے ساتھ چلوں؟ تو وہ کہنے لگیں نہیں ۔۔ اگر تمہاری‬
‫ضرورت محسوس ہوئی تو میں تمہیں بتا دوں گی ۔۔ اس کے بعد‬
‫انہوں نے مجھے کچہری چوک پر اتارا ۔۔۔اور خود ہسپتال کی طرف‬
‫روانہ ہو گئیں۔۔ میں نے وہاں سے ٹیکسی پکڑی اور اپنے آفس آ گیا۔۔‬
‫دوپہر کے وقت فون کی بیل ہوئی۔۔ دیکھا تو صائمہ باجی کا فون تھا‬
‫۔۔۔ ان کا فون دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہو گیا چنانچہ میں فون آن کر‬
‫کے بوال۔۔ زہے نصیب کہ ہمیں آپ کا فون نصیب ہوا۔۔۔۔۔ تو وہ ہنستے‬
‫ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔کیسے ہو؟ تو میں رومینٹک لہجے میں بوال۔۔۔‬
‫پہلے اچھا تھا ۔۔ آپ کا فون سن کر بہت اچھا ہو گیا ہوں۔۔ تو وہ جواب‬
‫دیتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔ مسکہ بازی تو کوئی تم سے سیکھے ۔۔۔‬
‫پھر سیریس ہو کر بولیں۔۔۔ یار تم کو ایک اچھی خبر سنانا تھی ۔۔۔ا ور‬
‫وہ یہ کہ آج تو خود ساسو ماں نے مجھے کہا ہے کہ اپنے بھائی سے‬
‫کہو کہ ہمارے گھر بھی آیا کرے۔۔۔ پھر تھوڑا جزباتی ہو کر کہنے‬
‫لگیں ۔۔ یہ سب تمہاری وجہ سے ہوا ہے۔باجی کو جزباتی ہوتے دیکھ‬
‫کر میں جلدی سے بوال۔۔۔ اتنا جزباتی ہونے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ یہ‬
‫بتاؤ کہ ۔۔۔۔آپ پر سوتن النے والی بات کا کیا بنا؟ تو وہ کہنے لگیں۔۔۔۔‬
‫ارے ہاں میں تو بھول ہی گئی تھی۔۔۔۔ رات آنٹی ( ساس) نے اس‬
‫خاتون کو خود ہی ٹھوک بجا کر جواب دے دیا ہے۔۔ اس لیئے فی‬
‫الحال تو سوتن والے چیپٹر کو کلوز ہی سمجھو۔۔۔۔پھر کہنے لگیں ہاں‬
‫تو بھائی صاحب یہ بتاؤ کہ ہمارے گھر کب آ رہے ہو؟ ۔۔۔ تو اس پر‬
‫میں جواب دیتے ہوئے بوال ۔۔۔ اب جبکہ تیرا مسلہ حل ہو گیا ہے تو‬
‫پھر۔۔۔میں نے وہاں آ کر کیا کرنا ہے ؟ اس پر وہ کہنے لگیں اس بات‬
‫ترک‬
‫ِ‬ ‫پر میں تمہیں ایک شعر سناتی ہوں۔۔۔۔ عرض کیا ہے۔۔۔۔ دفعتا ً‬
‫تعلق میں بھی رسوائی ہے ۔۔۔ الجھے دامن کو چھڑاتے نہیں جھٹکا‬
‫دے کر۔۔۔ شعر سنانے کے بعد وہ کہنے لگیں اس لیئے میرے کیوٹ‬
‫بھائی تم گاہے بگاہے میرے سسرال چکر لگاتے رہو۔۔۔ تا کہ ان کی‬
‫امید نہ ٹوٹے۔۔۔۔۔ اس پر میں ان سے بوال وہ تو سب ٹھیک ہے باجی‬
‫لیکن اس چکر کا کیا فائدہ ؟ جس میں مجھے حاصل وصول کچھ نہ‬
‫ہو۔۔۔۔۔ مطلب میں اپنی ہونے والی منگیتر کے ساتھ گپ شپ بھی نہ‬
‫کر سکوں۔ میری بات سن کر وہ جلترنگ سی ہنسی اور پھر کہنے‬
‫لگیں تمہارے ساتھ ۔۔۔ہر قسم کی گپ شپ کے لیئے میں کافی نہیں‬
‫ہوں؟ تو میں ان کو جواب دیتے ہوئے بوال۔۔۔ ۔۔۔ آپ کی تو بات ہی‬
‫کچھ اور ہے۔۔۔ لیکن کچی کلی کچنار۔۔۔۔۔ کا بھی اپنا ہی مزہ ہوتا ہے‬
‫۔۔۔ اس پر وہ ہنس کر بولیں۔۔۔۔سمجھ گئی ۔۔۔ ویسے تم ہو بڑے ندیدے۔۔‬
‫تو میں ان سے بوال اچھا یہ بتائیں کہ اب اس تانیہ کی حالت کیسی‬
‫ہے؟ تو وہ کہنے لگیں۔۔۔ ابتدائی صدمے سے باہر نکل آئی ہے۔۔۔اس‬
‫لیئے۔۔۔۔ تم کہہ سکتے ہو کہ پہلے سے بہت بہتر ہے۔۔۔۔ تو میں نے ان‬
‫سے کہا۔۔۔۔ کہ کیا وہ مجھے گھاس ڈالے گی؟ تو وہ کہنے لگیں‬
‫۔۔۔گھاس کا تو مجھے پتہ نہیں کہ وہ تمہیں ڈالے گی یا نہیں۔۔۔۔۔ البتہ‬
‫میں یقین سے کہہ سکتی ہوں کہ وہ تمہیں آسانی سے اگنور نہیں‬
‫کرسکے گی۔۔ اور وہ اس لیئے کہ ہمارے گھر میں دن رات تمہاری‬
‫ہی باتیں ہوتی رہتیں ہیں ۔۔۔۔ اس لیئے قدرتی طور پر وہ بھی تم سے‬
‫متاثر ہو گئی ہے۔۔۔ ۔۔۔پھر بات ختم کرتے ہوئے بولیں۔۔۔ تم ایسا کرو‬
‫کہ آج شام ‪ 4‬بجے گھر آ جاؤ میں اپنی ساس سے بات کر کے کسی‬
‫بہانے ۔۔۔۔۔ تانیہ کو تمہارے ساتھ بٹھا دوں گی۔ آگے تمہاری ہمت ہے‬
‫۔۔۔ ۔پھر ہنستے ہوئے بولیں۔۔ جس طرح کا ہمارا ماحول ہے اس کے‬
‫مطابق ۔۔۔۔ تو یہ دونوں بہنیں اتنا مشکل شکار نہیں ہیں لیکن پھر بھی‬
‫۔۔۔۔اپنی طرف سے پوری احتیاط کرنا۔ آخر میں یہ کہتے ہوئے فون‬
‫بند کر دیا کہ آج شام ‪ 4‬بجے کی چائے تم نے ہمارے ساتھ پینی ہے۔‬

‫شام چار بجے صائمہ باجی کے گھر جانے سے پہلے میں نے ارم‬
‫آنٹی کو فون کیا اور ان کے والد کی خیریت دریافت کی تو وہ کہنے‬
‫لگیں کہ واش روم جاتے ہوئے اچانک ہی ان کا پا ؤں پھسل گیا تھا‬
‫۔جس کی وجہ سے ان کے کولہے کی ہڈی میں فریکچر آ گیا تھا۔۔۔‬
‫اور ڈاکٹر کہہ رہے ہیں کہ ہڈی کو جڑنے میں کچھ وقت لگے گا۔‬
‫اس پر میں ان بوال۔۔۔۔ کہ آنٹی میری کسی قسم کی ضرورت ہو۔۔۔ تو‬
‫میں حاضر ہوں تو وہ شکریہ ادا کرتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ جب بھی ایسی‬
‫کوئی بات ہوئی تو میں تمہیں بتا دوں گی۔‬

‫فون بند کرنے کےبعد میں صائمہ باجی کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔ ۔ میری‬
‫بیل کے جواب میں ان کی ساس نے دروازہ کھوال۔۔۔اور مجھے دیکھ‬
‫کر بڑی خوش ہوئیں ۔پھر مجھے لے کر اندر چلی گئیں اور ڈارئینگ‬
‫روم میں بٹھا کر باجی کو بالنے چلی گئیں۔۔۔ تھوڑی دیر بعد صائمہ‬
‫باجی بھی ڈرائینگ روم میں آ گئی۔۔۔ انہیں دیکھتے ہی میں بازو پھیال‬
‫کر اُٹھا ۔۔۔۔ مجھے یوں بازو پھیالتے دیکھ کر انہوں نے آنکھیں‬
‫نکالیں ۔۔۔ان کی آنکھیں نکالنے سے مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا‬
‫۔۔۔اور میں مؤدب ہو کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ مجھے مؤدب دیکھ کر ۔۔۔۔۔‬
‫انہوں نے ایک نظر دروازے کے باہر ڈالی اور پھر جلدی سے‬
‫میرے ہوٹنوں پر ایک چھوٹی سی چومی دے کر بولیں۔۔۔ ۔۔۔کم از کم‬
‫جگہ تو دیکھ لیا کرو۔۔۔تو میں ان سے سوری کرتے ہوئے بوال۔۔۔کیا‬
‫کروں باجی آپ کو دیکھ کر۔۔۔ میں اپنا کنٹرول کھو دیتا ہوں۔۔ میری‬
‫بات سن کر ان کا چہرہ خوشی سے دمک اُٹھا۔۔۔ اور وہ کہنے لگیں‬
‫پھر بھی یار۔۔۔تو میں ان کی بات کاٹتے ہوئے بوال۔۔۔ اوکے باجی !۔۔‬
‫آئیندہ خیال رکھوں گا ۔۔۔اس کے بعد وہ میرے سامنے بیٹھ کر باتیں‬
‫کرنے لگیں تھوڑی دیر بعد۔۔۔ آنٹی بھی کمرے میں داخل ہو کر‬
‫ہمارے ساتھ شامل ہو گئیں۔۔ ۔‬

‫پھر کچھ دیر بعد وہ باجی سے مخاطب ہو کر بولیں ۔۔ بھائی کے‬


‫لیئے کچھ کھانے کا بندوبست کرو۔۔اور باجی ۔۔ جی اچھا کہتے ہوئے‬
‫اُٹھ گئیں۔۔۔ باجی کے جانے کے بعد وہ مجھ سے کہنے لگیں۔۔۔ بیٹا !‬
‫اسے اپنا ہی گھر سمجھو ۔۔۔اور گاہے گاہے چکر لگاتے رہا کرو۔۔۔ تو‬
‫میں ان سے بوال۔۔۔ جی آئیندہ سے چکر لگایا کروں گا۔۔۔ پھر باتوں‬
‫باتوں میں جب میں نے آنٹی کو بتایا کہ ارم آنٹی کے پالٹ کا قبضہ‬
‫واپس مل گیا ہے تو وہ خوش ہو کر کہنے لگیں ۔۔۔ ہاں بٹاا رات ارم‬
‫نے مجھے بتا دیا تھا ۔۔۔ اس کے بعد ہم ادھر ادھر کی باتیں کرتے‬
‫رہے ۔۔۔ کچھ دیر بعد باجی کمرے میں داخل ہو کر کہنے لگیں۔۔۔‬
‫چائے تیار ہے باجی کی بات سن کر آنٹی کہنے لگیں۔۔ ۔۔۔ آپ لوگ‬
‫چائے پیو ۔۔ میں ایک ضروری کام نبٹا کر آتی ہوں۔۔۔ اتنی بات کر‬
‫کے جیسے ہی آنٹی کمرے سے باہر نکلیں تو انہیں باہر جاتا دیکھ کر‬
‫باجی آہستہ سے بولیں ۔۔ ُگڈ گرل!۔۔۔ اس پر میں نے انہیں سوالیہ‬
‫نظروں سے دیکھا تو وہ کہنے لگیں۔۔ میں نے ہی ان سے کہا تھا کہ‬
‫چائے کے دوران لڑکے لڑکی کو کچھ تنہائی دینی ہے ۔۔۔اسی لیئے یہ‬
‫باہر چلی گئیں ہیں ۔۔پھر میں نے ان سے پوچھا ۔۔۔ باجی ثانیہ کہیں‬
‫نظر نہیں آ رہی؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولیں میں نے اسے بہانے‬
‫سے پڑوس میں بھیجا ہے فکر نہیں کرو آج تانیہ سے تمہاری ون او‬
‫ون مالقات کراؤں گی۔۔۔ اس کے بعد باجی مجھے ڈائینگ ٹیبل پر لے‬
‫آئیں اور وہاں بیٹھےے ہی انہوں نے آواز لگائی۔۔ تانیہ ذرا چائے تو‬
‫لے آؤ۔۔ تو میں نے باجی سے پوچھا کیا اسے معلوم ہے کہ میں آیا‬
‫ہوں؟ تو وہ کہنے لگیں ہاں میں نے اسے بتا دیا تھا۔۔‬

‫کچھ دیر بعد۔۔ تانیہ ٹرے میں چائے کا سامان رکھ کر آ گئی۔۔اس نے‬
‫سی گرین کلر کی شلوار قمیض پہنی ہوئی تھی اور اپنی چھایتوں کو‬
‫ایک بڑے سے دوپٹے کے ساتھ ڈھکا ہوا تھا۔۔۔وہ اس حلیہ میں بہت‬
‫گریس فل لگ رہی تھی۔۔۔ تاہم۔۔ یہ الگ بات ہے کہ۔۔۔اس وقت اس کے‬
‫چہرے پر کافی گھمبیرتا چھائی ہوئی تھی۔۔۔ اس نے ٹرے کو میز پر‬
‫رکھا ۔۔۔ اور واپس مڑنے ہی لگی تھی کہ باجی بولیں۔۔۔۔۔ تانیہ پلیز‬
‫چائے تو بنا دو۔۔۔ پھر مجھ سے کہنے لگیں ۔۔تمہیں معلوم ہے بھائی۔۔۔‬
‫تانیہ چائے بہت اچھی بناتی ہے باجی کے کہنے پر تانیہ میرے‬
‫سامنے بیٹھ گئی۔۔۔ اور پھر ٹرے کو اپنی طرف کھسکا لیا۔۔۔ اس کے‬
‫بیٹھتے ہی باجی یہ کہتے ہوئے وہاں سے چمپت ہو گئی ۔۔۔ کہ میں‬
‫ابھی آئی۔۔۔۔ اب ڈائینگ ٹیبل پر میں اور تانیہ اکیلے رہ گئے‬
‫تھے۔۔۔۔میں ٹکٹکی باندھے اس کی طرف دیکھ رہا تھا۔۔جبکہ وہ بلکل‬
‫خاموش بیٹھی تھی ۔۔۔۔ پھر وہ کیتلی سے چائے انڈیل کر بولی۔۔ آپ‬
‫کتنی شکر لیتے ہو؟ میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے۔۔۔ بڑے‬
‫پیار سے کہا۔۔۔۔ شکر کی بجائے۔۔۔۔اگر آپ پیالی میں ایک دفعہ اپنی‬
‫انگلی ہال دیں ۔۔۔۔ تو چائے خود بخود ہی میٹھی ہو جائے گی میری‬
‫بات سن کر اس نے اپنی گھنی پلکیں اُٹھا کر میری طرف دیکھا اور‬
‫پھر ہلکی سی سمائل دے کر بولی۔۔۔ لیکن اس سے میری انگلی جل‬
‫جائے گی۔۔اس طرح تانیہ کے ساتھ میری گفتگو کا آغاز ہو گیا۔‬
‫دوستو!۔۔۔ جیسا کہ آپ کو معلوم ہے کہ مجھے خواتین کے ساتھ باتیں‬
‫۔۔۔۔ خاص کر لچھے دار باتیں کرنے میں خاصہ ملکہ حاصل ہے ۔ ۔‬
‫۔۔ چنانچہ میری باتوں کو سن کر ۔۔۔۔ وہ خاصی محظوظ ہوئی۔۔۔۔اور‬
‫میرے سوالوں کے جواب میں ۔۔۔ وہ صرف ہُوں ۔۔ ہاں ۔۔میں جواب‬
‫دیتی رہی۔۔ یہاں تک کہ میں نے تنگ آ کر اس سے پوچھ ہی لیا ۔۔ کہ‬
‫آپ بولنے میں اتنی کنجوس کیوں واقع ہوئی ہو؟ تو اس نے کوئی‬
‫جواب نہ دیا۔۔۔ پھر میرے دوبارہ پوچھنے پر بس اتنا ہی کہا۔۔۔۔ جی‬
‫بس ویسے ہی ۔تو میں نے اس سے کہا کہ مجھ سے باتیں کرنے کا‬
‫آپ کو بل نہیں دینا پڑے گا۔۔۔ میری بات سن کر وہ مسکرائی۔۔۔اور‬
‫اس کے بعد وہ میرے چھوٹے موٹے سوالوں کے جوابات دینا شروع‬
‫ہو گئی۔۔۔‬

‫۔۔۔۔ پھر ہوتے ہوتے وہ پٹر ی پر چڑھ گئی۔۔اور میرے ساتھ محتاط‬
‫انداز میں باتیں کرنا شروع ہو گئی۔۔۔۔کافی دیر بعد صائمہ باجی‬
‫ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی ۔۔۔اور ہمارے ساتھ گپ شپ میں شامل‬
‫ہو گئی۔۔۔پھر کچھ دیر بعد آنٹی نے بھی ہمیں جوائن کر لیا۔۔۔ ان کے‬
‫آنے کے بعد میں مزید کچھ دیر تک وہاں بیٹھا رہا۔۔۔۔۔اور پھر ان سے‬
‫اجازت لے کر جانے لگا تو باجی بولی۔۔ چلو میں تمہیں باہر تک‬
‫چھوڑ آتی ہوں ۔۔۔ راستے میں اس نے مجھ سے پوچھا کہ کیا بنا؟ تو‬
‫میں نے ان کو ایک شعر سنا دیا۔۔۔جو کچھ یوں تھا کہ ۔۔۔۔ راہ پر اُن‬
‫کو لگا الئے تو ہیں باتوں میں۔۔۔۔۔۔۔اور ک ُھل جائیں گے دو چار‬
‫مالقاتوں میں۔۔۔تو وہ کہنے لگیں کیا مطلب؟۔ پھر ان کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔کہ قصہ مختصر یہ کہ ۔۔۔۔ برف پگھل گئی ہے‬
‫۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر معنی خیز لہجے میں بولیں۔۔ ۔۔۔ میرے‬
‫خیال میں تانیہ تمہارے لیئے اتنا مشکل ٹارگٹ نہیں ہو گا ۔۔ اس کے‬
‫ساتھ ہی انہوں نے مجھے الوداع کہا اور میں واپس آگیا۔‬

‫اس واقعہ سے تیسرے دن کی بات ہے کہ میں اپنے روم میں بیٹھا‬


‫کام کر رہا تھا کہ نائب قاصد کمرے میں داخل ہو کر بوال۔۔۔۔۔ تمہیں‬
‫باس بال رہے ہیں چنانچہ میں سارے کام چھوڑ کر باس کے کمرے‬
‫میں چال گیا۔۔۔۔۔حال چال پوچھنے کے بعد۔۔۔۔ انہوں نے مجھ سے‬
‫میری جاب کے بارے میں پوچھا کہ کوئی مسلہ وغیرہ تو نہیں ۔۔۔‬
‫اور پھر ۔۔ ادھر ادھر کی باتیں کرنے کے بعد انہوں نے مجھ سے‬
‫آنٹی کے بارے میں سوال کیا۔۔۔تو میں نے ان کو بتایا کہ انہوں نے‬
‫پالٹ کا قبضہ لے لیا ہے تو وہ کہنے لگے اتنا تو مجھے بھی معلوم‬
‫ہے تم یہ بتاؤ کہ تمہاری آنٹی کا کیا خیال ہے؟ آیا وہ اس پالٹ پر‬
‫مکان وغیرہ تعمیر کریں گی یا کہ اسے آگے منافع پر بیچیں گی ؟ تو‬
‫میں نے ان سے کہا کہ سر مجھے اس کا کوئی آئیڈیا نہیں ۔۔۔اس پر‬
‫وہ کہنے لگے۔۔۔ اگر تو وہ پالٹ خود رکھنا چاہتی ہیں تو ویل اینڈ ُگڈ‬
‫۔۔۔ لیکن اگر ان کا ارادہ اسے بیچنے کا ہے تو انہیں ہماری طرف‬
‫سے آفر دینا ۔۔۔ کہ اس صورت میں وہ اوپن مارکیٹ سے پالٹ کی‬
‫قیمت لگوا لیں۔۔۔۔ جو بھی قیمت لگی۔۔۔۔ بھائی جان اس سے ایک الکھ‬
‫روپے زائد پر ان سے یہ پالٹ اُٹھا لیں گے۔ پھر کہنے لگے تم جا‬
‫کر آنٹی سے بات کرلو ۔۔۔اور کل مجھے بتانا کہ ان کا پروگرام کیا‬
‫ہے؟۔۔۔باس کی بات سن کر میں اُٹھنے لگا تو وہ کہنے لگے ۔۔۔۔ کہ‬
‫بائے چانس ۔۔ تمہاری آنٹی کے پالٹ کی لوکیشن اس قدر اچھی ہے‬
‫کہ بھائی جان ( ڈی آئی جی صاحب) کے جانے کے بعد وہ اس پر‬
‫بمشکل قبضہ رکھ سکیں گی۔۔ ۔۔ ۔۔۔اس لیئے انہیں کہنا کہ ایک بار‬
‫پھر سوچ لیں۔۔۔ میں نے ان کی بات سنی۔۔۔۔ اور سر ہالتے ہوئے‬
‫کمرے سے باہر نکل گیا۔‬
‫ابھی میں نے اسی ادھیڑ پن میں تھا کہ آنٹی سے فون پر بات کروں‬
‫یا ان کو گھر جا کر بتاؤں۔۔۔۔کہ اسی دوران مجھے ڈی ایس پی اولیا‬
‫کا فون آ گیا۔۔ ۔۔ جیسے ہی میں نے فون اُٹھایا تو وہ بڑی بے تکلفی‬
‫سے بوال۔۔۔ کیسے ہو یار تم نے تو ُمڑ کر پوچھا ہی نہیں۔۔ پھر کہنے‬
‫لگا تمہاری آنٹی کیسی ہیں؟ تو میں نے ان سے ویسے ہی کہہ دیا کہ‬
‫انہوں نے آپ کا کام کر دیا تھا۔۔۔۔ تو اس پر ڈپٹی شکریہ ادا کرتے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔‬
‫مجھے معلوم ہے یار تبھی تو صاحب نے مجھے دوسرے سرکل کا‬
‫بھی چارج دے دیا ہے اسی لیئے تو میں نے تمہیں فون کیا ہے۔۔۔۔کہ‬
‫میری طرف سے ان کا شکریہ ادا کر دینا ۔۔۔پھر باتوں باتوں میں وہ‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔ کہ پرسوں ڈی آئی جی صاحب نے۔۔۔ نئی بننے والی‬
‫ہاؤسنگ سوسائیٹوں کا وزٹ کیا تھا اسی وزٹ کے دوران میں نے‬
‫انہیں تمہاری آنٹی کا پالٹ بھی دکھایا تھا جو انہیں بہت پسند آیا ہے۔۔‬
‫پھر دھیرے سے کہنے لگا۔۔۔ اپنی آنٹی سے کہہ دو کہ اس پالٹ کا‬
‫جو بھی کرنا ہے صاحب کے ہوتے ہوئے کر لیں ۔۔۔ ورنہ صاحب‬
‫کے جانے کے بعد ان کے پاس پالٹ کا قبضہ رکھنا مشکل بھی ہو‬
‫سکتا ہے اس پر میں ڈپٹی کو بانس پر چڑھاتے ہوئے بوال ۔۔۔ سر جی‬
‫آپ کے ہوتے ہوئے کس کی مجال۔۔۔۔ کہ وہ ہمارے پالٹ کی طرف‬
‫ٹیڑھی آنکھ سے بھی دیکھے۔۔ میری بات سن کر وہ خوش ہو کر‬
‫ہنستے ہوئے بوال۔۔ہو ہو ہو۔۔۔۔۔ برخردار !۔۔۔بات تو تم ٹھیک کہہ رہے‬
‫ہو ۔۔۔۔ اس کے بعد وہ ایک دم سیریس ہو کر بوال۔۔ لیکن پھر بھی یار‬
‫برے وقت کا کچھ پتہ نہیں ہوتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اس لیئے آنٹی سے کہنا کہ‬
‫اپنے پالٹ پر کوئی چھوٹی موٹی تعمیر کروا لیں ۔۔۔ اور اگر انہوں‬
‫نے پالٹ بیچنا ہوا تو مجھے بتانا میں انہیں مناسب داموں بکوا دوں‬
‫گا ۔۔‬

‫ڈپٹی کا فون بند ہونے کے بعد ایسا اتفاق ہوا کہ اچانک ہی آفس میں‬
‫کام کا رش بڑھ گیا۔۔ اور پھر سارا دن آفس کے کاموں میں ہی گزر‬
‫گیا۔۔ چھٹی سے کچھ دیر پہلے ارم آنٹی کا فون آ گیا۔۔۔میں نے ان سے‬
‫انکل کی خیریت کے بارے میں پوچھا تو وہ کہنے لگیں اب کچھ بہتر‬
‫ہیں لیکن یو نو۔۔۔ کہ بزرگ آدمی ہیں ہڈی کے جڑنے میں کچھ وقت‬
‫تو لگے گا ۔۔اس کے بعد وہ کہنے لگیں۔۔۔۔ بات یہ ہے جان جی کہ‬
‫پالٹ کا قبضہ واپس ملنے پر لڑکیوں نے میرا ناطقہ بند کیا ہوا‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔ کہ ان کو ٹریٹ دی جائے ۔۔ اب چونکہ ڈیڈی کچھ بہتر ہیں تو‬
‫طے یہ پایا ہے کہ آج رات کا کھانا میری طرف سے ہوگا۔۔۔اور‬
‫چونکہ پالٹ دالنے میں۔۔۔ اصل کردار تمہارا ہے اس لیئے آج رات تم‬
‫میرے چیف گیسٹ ہو گئے۔۔۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ آنٹی ڈنر‬
‫کس ہوٹل میں رکھا ہے؟ تو وہ کہنے لگیں کہ ایف سیون میں کوئی‬
‫نیا رسٹورنٹ کھال ہے فرزند نے وہاں کی بکنگ بھی کروا لی ہے وہ‬
‫مجھے بتا رہا تھا کہ تم نے اس ریسٹورنٹ کو دیکھا ہوا ہے تو میں‬
‫جواب دیتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔۔جی آنٹی میں ایک دفعہ فرزند صاحب‬
‫کے ساتھ وہاں جا چکا ہوں ۔۔تو وہ کہنے لگیں اگر تم نے یہ‬
‫ریسٹورنٹ دیکھا ہوا ہے تو پلیز آج رات آٹھ بجے پہنچ کر کرسئی‬
‫صدارت سنبھال لینا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ اور ہاں ۔۔۔ اور کوئی آئے نہ آئے ۔۔۔۔۔۔ تم‬
‫نے ہر صورت آنا ہو گا۔۔۔۔ ۔ پھر کہنے لگی میں تمہیں پک کر لیتی‬
‫۔۔۔ لیکن پچھلے دو تین دن سے میں ڈیڈی کے ساتھ ہوں ۔۔۔ اس لیئے‬
‫میں اور رمشا یہاں سے سیدھے تانیہ لوگوں کی طرف جائیں گے‬
‫اور پھر وہاں سے ہمارا قافلہ ایف سیون میں پہنچے گا اس لیئے اگر‬
‫تم چاہو تو فرزند کے گھر پہنچ جاؤ میں تمہیں وہاں سے پک کر لوں‬
‫گا اس پر میں ان کو جواب دیتے ہوئے بوال ۔۔۔ شکریہ آنٹی ۔۔لیکن‬
‫فرزند صاحب کا گر مجھے دور پڑے گا ۔۔۔اس لیئے آپ فکر نہیں‬
‫کریں ۔۔۔ میں پہنچ جاؤں گا۔۔۔۔پھر اس کے بعد میں ان سے بوال کہ‬
‫آنٹی آپ نے کھانے پر کس کس کو بالیا ہے؟ تو وہ کہنے لگی کوئی‬
‫خاص نہیں اپنے ہی لوگ ہیں مطلب تانیہ کی ۔۔ اور میری فیملی ہی‬
‫ہو گی فون بند کرنے سے پہلے انہوں نے ایک بار پھر آنے کی تاکید‬
‫کی ۔۔۔اور پھر فون آف کر دیا۔‬

‫چنانچہ شام کو میں تیار شیار ہو کے بزریعہ ٹیکسی ٹھیک آٹھ بجے‬
‫مقررہ ریسٹورنٹ میں پہنچ گیا لیکن وہاں جا کر دیکھا تو کوئی بھی‬
‫نہ تھا۔۔۔۔۔ نہ ارم آنٹی تھی۔۔۔۔اور ہی نہ کوئی اور تھا۔۔ ۔۔۔۔ چنانچہ ادھر‬
‫ادھر جھاتیاں مارنے کے بعد۔۔۔۔ میں نے سوچا کہ شاید میں کسی غلط‬
‫جگہ پر آ گیا ہوں چنانچہ میں ریسٹورنٹ سے باہر نکال اور اس کا‬
‫سائین بورڈ دیکھا۔۔۔ تو یہ وہی ریسٹورنٹ تھا کہ جس کے بارے میں‬
‫آنٹی نے مجھ سے بات کی تھی۔۔۔۔ ۔۔۔ کافی دیر گزرنے کے بعد پھر‬
‫میں سمجھا کہ شاید ان لوگوں کا پروگرام کینسل ہو گیا ہو اس لیئے‬
‫میں وہاں سے واپس چل پڑا لیکن جانے سے پہلے۔۔۔جب میں نے‬
‫ت حال بتائی تو وہ ہنس کر کہنے لگیں ۔۔‬ ‫آنٹی کو فون کر کے۔۔۔۔صور ِ‬
‫۔۔۔ پروگرم کینسل نہیں ہوا۔۔۔۔بس یو نو۔۔۔۔ لیڈیز کی تیاری ایسی ہی‬
‫ہوتی ہے۔۔اس کے بعد بڑی لگاوٹ سے بولیں ۔۔۔ ہم لوگ گھر سے‬
‫۔۔۔بس۔۔ نکلنے ہی والے ہیں اس لیئے جہاں اتنا ویٹ کیا ہے دس پندرہ‬
‫منٹ اور کر لو ۔۔‬
‫آنٹی کی بات سن کر میں وہیں رک گیا لیکن وہ لوگ ‪ 15‬منٹ کی‬
‫بجائے پونے گھنٹے میں وہاں پہنچے۔۔اس وقت میں فرزند صاحب‬
‫کی بک کی گئی کرسیوں پر اکیال بیٹھا مکھیاں مار رہا تھا کہ اچانک‬
‫دونوں فیملیاں اکھٹے ہی ریسٹورنٹ میں پہنچیں جہاں سے ویٹر انہیں‬
‫لے کر ریزور ٹیبل پر آ گیا۔۔انہیں اپنی طرف آتے دیکھ کر میں اپنی‬
‫جگہ سے اُٹھا اور آنٹی سے مخاطب ہو کر بوال ۔۔۔ آیئے آنٹی چیف‬
‫گیسٹ آپ کو خوش آمدید کہتا ہے میری بات سن کر انہوں نے ُمڑ‬
‫کر لڑکیوں کی طرف دیکھا (جو کہ بڑے ہی سیکسی لباس پہنے اپنی‬
‫اپنی کرسیاں سنبھال رہیں تھیں) اور کہنے لگیں۔۔ بد تمیزو۔۔۔ تم نے‬
‫مجھے شاہ کے سامنے شرمندہ کر دیا ہے۔پھر میری طرف دیکھتے‬
‫ہوئے کہنے لگیں یو نو بیٹا۔۔۔۔۔۔۔ میں تو کافی دیر سے تیار ہو گئی‬
‫تھی لیکن ان لڑکیوں نے واقعی ہی بہت لیٹ کر دیا ہے۔۔۔۔۔جس کے‬
‫لیئے میں تم سے سوری کرتی ہوں۔ اس پر میں نے رسمی سا جملہ‬
‫کہہ کر بات ختم کر دی کہ کوئی بات نہیں آنٹی۔۔‬

‫اس کے بعد ہم لوگ کھانے کی ٹیبل پر بیٹھ گئے ان لوگوں کے ساتھ‬


‫جب میں بھی چئیر پر بیٹھنے لگا تو ارم آنٹی نے زبردستی مجھے‬
‫۔۔۔۔یہ کہتے ہوئے کرسیء صدارت پر بٹھا دیا کہ چونکہ آج کی‬
‫تقریب کے تم ہی چیف گیسٹ ہو اس لیئے مین سیٹ پر تم ہی بیٹھو‬
‫گے میں وہاں بیٹھنے سے کچھ ہچکچا رہا تھا کہ ثانیہ کی شرارت‬
‫بھری آواز سنائی دی وہ کہہ رہی تھی بے فکر ہو کر بیٹھو بھائی ۔۔۔‬
‫کھانے کا بل ارم آنٹی ہی دیں گی۔۔چنانچہ میں کھسیانا سا ہو کر مین‬
‫کرسی پر بیٹھ گیا اب پوزیشن یہ تھی کہ میری کرسی کی دائیں‬
‫طرف سئیرھ لوگ مثالً ارم آنٹی‪ ،‬فرزند کی امی ‪ ،‬فرزند اور باجی‬
‫صائمہ بیٹھی تھیں جبکہ میرے بائیں طرف سامنے رمشا ‪ ،‬تانیہ اور‬
‫ثانیہ بیٹھی تھیں ۔ ہمارے بیٹھتے ہی سب نے اپنی اپنی پسند کا آرڈر‬
‫دے دیا۔۔ چونکہ کھانے میں ابھی کچھ دیر تھی اس لیئے میں نے ارم‬
‫آنٹی سے کہا کہ آنٹی جمال صاحب نظر نہیں آ رہے تو آنٹی جواب‬
‫دیتے ہوئے بولیں وہ اپنے دوستوں کے ساتھ مری گیا ہوا ہے ا س پر‬
‫فرزند صاحب کہنے لگے ویسے آنٹی مجھے حسرت ہی ہے کہ کبھی‬
‫جمال بھائی بھی ہمارے ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائیں۔اس پر آنٹی بڑی ہی‬
‫بے بسی سے کہنے لگیں ۔بیٹا جی میری بھی یہی حسرت ہے لیکن‬
‫کیا کروں۔۔۔ میں کیا کر سکتی ہوں۔۔ ؟ آنٹی کو غمگین دیکھ کر ایک‬
‫لمحے کے لیئے ماحول سوگوار سا ہو گیا تب اچانک صائمہ باجی‬
‫مجھ سے مخاطب ہو کر بولیں۔۔ ۔۔۔۔ بھائی تم نے تو کمال کر دیا۔۔‬
‫باجی کی بات سنتے ہی فرزند صاحب بھی کہنے لگے ایک بات‬
‫کہوں آنٹی کے پالٹ کا قبضہ چھڑانے کی ہم نے بھی بڑی کوششیں‬
‫کی تھیں ۔۔۔ لیکن تم سب پر بازی لے گئے ہو۔فرزند کی بات ختم‬
‫ہوتے ہی اس کی امی لقمہ دیتے ہوئے بولی ارم!۔۔ اگر میری مانو تو‬
‫جلدی سے اس پالٹ کو بیچ دو۔۔۔۔ ورنہ ایسا نہ ہو کہ کوئی اور اس‬
‫پر قبضہ نہ کر لے‬

‫آنٹی کی بات سن کر میں نے ان سے کہا کہ آپ کا اس بارے‬


‫میں۔۔۔کیا خیال ہے ؟ میری بات سن کر آنٹی نے منزل واٹر کی بوتل‬
‫سے گالس میں پانی انڈیال اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں‬
‫۔۔ اس معاملے میں ۔۔۔ میں ڈانواں ڈول ہوں ۔تو فرزند کہنے لگا کہ آپ‬
‫شاید پالٹ کی لوکیشن کی وجہ سے ڈانواں ڈول ہو رہی ہیں تو آنٹی‬
‫نے سر ہال دیا اس پر فرزند صاحب کہنے لگا لیکن آنٹی جی اگر‬
‫دیکھا جائے تو آپ کے پالٹ کی لوکیشن ہی اس کی دشمن ہے۔اسی‬
‫دوران رمشا کہنے لگی میں نے تو ماما سے کہہ دیا ہے کہ پالٹ کو‬
‫بیچ کر پیسے کھرے کر لیں ایسا نہ ہو کہ اس دفعہ کوئی تاجے سے‬
‫بھی بڑا بدمعاش اس پر قبضہ کر لے۔اس پر ارم آنٹی کہنے لگیں‬
‫رمشا تم ٹھیک کہہ رہی ہو کیوں نہ اس در ِد سر کو بیچ ہی دیا‬
‫جائے۔۔۔۔۔ تو فرزند کہنے لگا کہ آنٹی۔۔۔اگر آپ پالٹ کو بیچنے میں‬
‫انٹرسٹڈڈ ہوں تو میں کسی پراپرٹی ڈیلر سے بات کروں ؟؟؟؟؟؟؟۔۔۔‬

‫اب بولنے کی میری باری تھی سو میں ارم آنٹی سے مخاطب ہو کر‬
‫بوال کہ آنٹی جی اگر آپ نے پالٹ بیچنا ہی ہے تو میرے پاس ایک‬
‫آفر ہے اس کے بعد میں نے اپنے اور باس کے بیچ ہونے والی‬
‫ساری گفتگو سے ان کو آگاہ کر دیا ۔۔۔جسے سن کر فرزند بوال ۔۔آنٹی‬
‫بہت اچھی آفر ہے آپ کو قبول کر لینی چاہیئے۔۔ویسے بھی شاہ جی‬
‫کا باس ٹھیک کہہ رہا ہے ڈی آئی جی صاحب کے جانے کے بعد ۔۔۔‬
‫ان لوگوں نے آپ کے پالٹ پر دوبارہ قبضہ کر لینا ہے چنانچہ‬
‫تھوڑی سی بحث وتمہید کے بعد یہ طے پایا کہ فرزند پالٹ کی قیمت‬
‫لگوائے گا اور میں باس کو اس قیمت کے بارے میں آگاہ کروں گا۔‬
‫اس کے بعد آنٹی سب حاضرین سے مخاطب ہو کر بولیں کہ خواتین‬
‫و حضرات پالٹ کی قیمت سے جو اضافی ایک الکھ روپے ملے گا‬
‫اس سے دوبارہ پارٹی ہو گی۔ آنٹی کی بات سن کر سب نے تالیاں‬
‫بجائیں ۔‬

‫تالیاں ختم ہوتے ہی ثانیہ جو کافی دیر سے خاموش بیٹھی تھی اچانک‬
‫ہی کہنے لگی۔۔آنٹی نے ایک کھانا کھال دیا اور دوسرے کا اعالن‬
‫بھی کر دیا۔۔۔ بھائی آپ اپنا وعدہ کب پورا کریں گے؟ تو اس پر‬
‫فرزند چونک کر بوال ۔ کون سا وعدہ ؟ تو ثانیہ آنکھیں نکالتے ہوئے‬
‫بولی کیا ہو گیا ہے بھائی۔۔۔میں ایوبیہ کے ٹرپ والی بات کر رہی‬
‫ہوں۔۔۔ فرزند کہنے لگا آپ لوگ جب چاہیں بندہ حاضر ہے فرزند کی‬
‫بات سن کر ساری لڑکیاں ایک ساتھ بولنا شروع ہو گئیں۔۔۔ اس دوران‬
‫مجھے پیشاب کی حاجت ہوئی۔۔تو میں اپنی کرسی سے اُٹھنے لگا تو‬
‫ارم آنٹی نے نظروں ہی نظروں سے مجھے پوچھا کہ کہاں جا رہے‬
‫ہو؟ تو میں ایک انگلی کھڑی کر کے پیشاب کا اشارہ کیا۔۔اور واش‬
‫روم کی طرف چل دیا۔۔‬

‫اس ماڈرن ریسٹورنٹ میں لیڈیز وجینٹس کا واش روم ایک ساتھ واقع‬
‫تھا ۔ بس درمیان میں ایک چھوٹی سی دیوار بنی ہوئی تھی چنانچہ‬
‫ب عادت ایک نظر‬ ‫واش روم سے فارغ ہو کر میں باہر نکال اور حس ِ‬
‫لیڈیز واش روم کی طرف ڈالی ۔۔دیکھا تو تانیہ شیشے کے سامنے‬
‫کھڑی اپنے بال درست کر رہی تھی جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا‬
‫ہوں کہ ان سب لیڈیز نے ہوش ربا قسم کے کپڑے پہنے ہوئے تھے‬
‫تانیہ کی باریک قمیض سے اس کی برا صاف دکھائی دے رہی تھی‬
‫جسے دیکھ کر پتہ نہیں کیوں مجھے گرم گرم سی فیلنگ ہوئیں‬
‫چنانچہ میں نے ادھر ادھر دیکھا تو اس وقت مردانہ اور زنانہ واش‬
‫روم بظاہر خالی نظر آ رہا تھا یہ دیکھ کر میں چپکے سے تانیہ کے‬
‫پیچھے جا کھڑا ہوا ۔۔ اس نے واش بیسن کے مرر سے مجھے دیکھ‬
‫لیا تھا ۔۔ ہم دونوں کی آنکھیں چار ہوئیں اور پھر میں عین اس کے‬
‫پیچھے کھڑے ہو کر بوال ۔۔ ہم دونوں ایک ساتھ کھڑے۔۔۔۔ کتنے‬
‫اچھے لگ رہے ہیں ۔۔میری بات سن کر تانیہ نے چونک کر مجھے‬
‫دیکھا۔۔۔۔ پھر اپنے سراپے پر نظر ڈالی۔۔اس کے بعد ان نے ایک نظر‬
‫میری طرف دیکھا۔۔۔۔۔ اور اس کا چہرہ سرخ ہو گیا ۔۔۔۔اس پر میں اس‬
‫کے الل ہوتے چہرے کو دیکھ کر بوال۔۔۔ کیوں میں ٹھیک کہہ رہا‬
‫ہوں ناں؟۔۔۔میری بات سن کر وہ منہ کھول کر دانتوں سے‬
‫مسکرائی۔۔اسے مسکراتے دیکھ کر میں بھی مسکرایا ۔۔۔اور کھسک‬
‫کر تھوڑا اور آگے ہوگیا۔۔۔ اب ہم میں ہوا بھر کا فرق رہ گیا تھا ۔۔اس‬
‫نے ایک دفعہ پھر میری طرف دیکھا۔۔۔ہماری آنکھیں چار ہوئیں۔ تبھی‬
‫میں بڑے ہی رومنیٹک انداز میں تانیہ کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔آئی لو یو تانیہ!!۔۔۔میری بات سن کر اس کی آنکھیں پھیل گئی۔۔۔۔‬
‫شاید وہ مجھ سے اس قسم کے جملے کی توقع ۔۔۔ نہیں کر رہی‬
‫تھی۔۔۔۔اس کو حیرت ذدہ دیکھ کر میں تھوڑا اور آگے بڑھا۔۔۔۔۔۔اور‬
‫اس کے کندھے پر ہاتھ کر بوال۔۔۔۔ لو یو تانیہ جی ۔۔۔۔ اس دفعہ بجائے‬
‫حیران ہونے کے ۔۔۔۔اس نے اپنی گھنی پلکوں کو اُٹھا کر ایک نظر‬
‫میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ اس کے چہرے پر شرماہٹ‬
‫سی پھیل گئی۔۔۔۔ تب میں بڑے ہی پیار سے اس کا کندھا تھپتھپا کر‬
‫بوال۔۔۔ تم بھی تو کچھ بولو نا یار۔۔۔۔۔ ۔۔۔میرا پیار بھرا جملہ سن کر ۔‬
‫بجائے جواب دینے کے۔۔۔۔۔۔۔اس نے اپنے دائیں طرف کے نچلے‬
‫ہونٹ کو اپنے دانتوں کے نیچے دبایا۔اور پھر بھر پور نظروں سے‬
‫میری طرف دیکھا۔۔۔اور بنا کچھ کہے۔۔۔ وہا ں سے بھاگ گئی۔۔۔ اور‬
‫میں تانیہ کی اس ادا پر قربان ہو گیا۔۔‬

‫ابھی میں اس کی ادا کو انجوائے کر رہا تھا کہ واش روم کا دروازہ‬


‫کھال اور اندر سے صائمہ باجی برآمد ہوئیں۔۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی‬
‫کہنے لگیں ۔۔ یہ تم لیڈیز واش روم میں کیا کر رہے ہو؟ تو میں دانت‬
‫نکال کر بوال۔۔سوچ رہا تھا کہ اندر آ کر آپ کو پیشاپ کرتے دیکھوں‬
‫۔۔یہ سن کر وہ مسکرائیں اور پھر کہنے لگیں آ جانا تھا نا ۔۔تو میں‬
‫کہنے لگا کہ مجھے کمرہ معلوم نہیں تھا ورنہ ضرور آ جاتا ۔۔ میری‬
‫بات سن کر وہ واش بیسن کے مرر کے سامنے کھڑی ہوئی اور‬
‫پرس سے لپ اسٹک نکال کر اپنے ہونٹوں پر لگا تے ہوئے بولی ۔۔‬
‫میرے ساتھ تانیہ آئی تھی پتہ نہیں کدھر رہ گئی؟ تو میں نے ایک‬
‫نظر واش روم کے دروازوں کی طرف دیکھا تو اور کہنے لگا۔۔۔ وہ‬
‫کہیں نظر تو نہیں آ رہی ۔۔۔ تو باجی اپنے سیکسی ہونٹوں پر لپ‬
‫اسٹک لگاتے ہوئے بولیں۔۔تم نے اسے نہیں دیکھا۔۔۔۔۔ ابھی تو ادھر ہی‬
‫تھی۔۔۔ ۔۔تو میں جھوٹ بولتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ میں تو نہیں دیکھا۔۔۔‬
‫اس پر وہ بولی۔۔۔۔۔۔ آئی تھنک وہ چلی گئی ہو گی۔۔۔ان کی بات ختم‬
‫ہوتے ہی میں نے ادھر ادھر دیکھا اور ان کی پشت کے عین پیچھے‬
‫کھڑا ہو گیا۔۔اور لن کو بنڈ کے ساتھ ہلکا سا ٹچ کر کے بوال ۔۔۔ان‬
‫ٹائیٹ کپڑوں میں آپ بڑی پیاری لگ رہی ہو ۔۔۔ میری بات سن کر وہ‬
‫تھوڑا سا مسکرائی۔۔۔پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے۔۔۔۔ انہوں نے بھی۔۔۔‬
‫اپنی گانڈ کو بڑی احتیاط کے ساتھ ۔۔ میرے فرنٹ پر رگڑ ا۔۔۔اور‬
‫کہنے لگی۔۔۔۔۔ یہ بات تم لن کو ٹچ کیئے بغیر بھی کہہ سکتے تھے‬
‫۔۔۔پھر لپ سٹک لگانے کے بعد انہوں نے پرس میں سے برش نکاال‬
‫اور بالوں کو درست کر کے واپس مڑی ۔۔ اور میرے ساتھ ساتھ‬
‫چلتے ہوئے بولی ۔۔۔ اچھا تو تمہارا دل۔۔۔کیا کر رہا تھا تو میں آہستہ‬
‫سے بوال ۔۔ آپ کی چوت سے نکلنے والے شاور کو ایک دفعہ پھر‬
‫دیکھنا چاہتا ہوں ۔۔اس پر وہ بھی ہولے سے کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔ مجھے‬
‫بھی تمہارے لنڈ سے پیشاب نکلتے دیکھنے کا بڑا شوق ہے۔۔پھر‬
‫آہستہ سے بولیں ۔۔اب جب بھی ہمارا پروگرام بنا تو سب سے پہلے‬
‫یہی کام کریں گے۔۔۔اور میں نے سر ہال دیا۔۔اس کے بعد ہم اپنے ٹیبل‬
‫پر پہنچے تو فرزند صاحب مجھے مخاطب کرتے ہوئے بولے۔۔ شاہ‬
‫جی ان لڑکیوں نے ایوبیہ کے لیئے اگلے ویک اینڈ کا پروگرام بنایا‬
‫ہے آپ کا کیا خیال ہے؟ تو میں جواب دیتے ہوئے بوال۔۔۔ جیسے آپ‬
‫کی مرضی ۔۔ اس پر ثانیہ چنچل لہجے میں بولی اور ہاں ہمارے ساتھ‬
‫جانے کے لیئے آپ کو کم از کم ایک ہفتے کی چھٹی بھی لینی پڑے‬
‫گی۔ایک ہفتے کی چھٹی کا سن کر میں سوچ میں پڑ گیا۔۔۔ لیکن جب‬
‫ثانیہ نے پیہم اصرار کیا ۔۔۔۔تو میں اس کی طرف دیکھ کر۔بوال جو‬
‫حکم میری سرکار۔۔۔‬

‫اگلے ایک دو دنوں میں۔۔۔۔ فرزند صاحب نے پالٹ کی قیمت لگوا کر‬
‫آنٹی کو بتا دیا۔ اسی وقت آنٹی نے مجھے فون کیا اور کہنے لگی کہ‬
‫ان کو پالٹ کی اتنی قیمت مل رہی ہے تم اپنے باس سے بات کر لو‬
‫۔۔ فون بند ہوتے ہی میں باس کے کمرے میں داخل ہوا اور ان کو بتایا‬
‫کہ سر آنٹی کے پالٹ کی اتنی قیمت لگی ہے۔۔۔۔ میری بات سن کر‬
‫باس نے سر ہالیا اور پھر کہنے لگا کہ میں تمہیں کل بتاؤں گا‬
‫۔۔۔لیکن کل کی بجائے باس نے اسی دن چھٹی کے وقت مجھے اپنے‬
‫آفس میں طلب کیا اور کہنے لگا کہ اپنی آنٹی کو بتاؤ کہ ہم پیسے نقد‬
‫دیں گے اگر وہ کہیں تو آج رات سارے پیسے لے کر ان کے گھر آ‬
‫جاتے ہیں ۔۔۔اس پر میں نے باس سے تھوڑا سا وقت لیا۔۔۔ اور باہر‬
‫نکل کر آنٹی کو فون کر کے بتایا ۔۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں نا بابا ۔۔۔ میں‬
‫اتنا زیادہ نقد کیش گھر میں نہیں رکھ سکتی۔۔۔ انہیں بولو کہ ان کا‬
‫ایک بندہ میرے ساتھ بینک چلے اور وہیں میرے اکاؤنٹ میں ۔۔‬
‫پیسے جمع کرا دے میں نے ان سے بینک کا نام اور پتہ پوچھا اور‬
‫ساری بات طے کر کے میں باس کے پاس پہنچا اور اسے ساری بات‬
‫بتائی تو وہ کہنے لگا ٹھیک ہے ایسے کر لیتے ہیں۔۔۔ پھر بولے۔۔۔‬
‫میری بھائی جان سے بات ہو گئی ہے ایسا کرو کہ کل صبع دس‬
‫بجے تم آنٹی کو لے کر بینک میں آ جانا اور ہاں پالٹ سے متعلق‬
‫سارے کاغذات بھی ساتھ لیتے آنا ۔۔۔۔ پیسے جمع کرواتے ہی ہم لوگ‬
‫وہاں سے سیدھا کچہری جائیں گے جہاں پہلے ہی سے رجسٹری کا‬
‫سارا بندوبست کیا جا چکا ہو گا۔۔ پھر کہنے لگے یاد رکھنا کل صبع‬
‫دس بجے میں انکل کے ساتھ بینک میں ہوں گا اس لیئے وقت کی‬
‫پابندی الزم ہے۔ باس کی بات سن کر میں نے سر ہالیا اور کمرے‬
‫سے باہر نکل گیا۔ اور پھر آنٹی کو فون کر کے سارا پروگرام طے‬
‫کر لیا۔‬

‫ب پروگرام ٹھیک ساڑھے نو بجے آنٹی کی گاڑی میرے آفس کے‬ ‫حس ِ‬
‫باہر کھڑی تھی۔۔ چنانچہ جیسے ہی انہوں نے اپنی آمد کی اطالع دی‬
‫میں دفتر سے باہر آ گیا ۔۔۔دیکھا تو آنٹی نے الئیٹ گرین سوٹ پہنا ہوا‬
‫تھا ۔۔ جس میں وہ بڑی شاندار لگ رہیں تھیں چنانچہ گاڑی میں‬
‫بیٹھتے ہی میں نے ان کی طرف ایک بھر پور نظر ڈالی۔۔۔۔ اور پھر‬
‫بوال۔۔۔ارم آنٹی ۔۔۔اس لباس میں آپ غضب کی سیکسی لگ رہی ہو پھر‬
‫لہجے میں شہوت ڈالتے ہوئے بوال۔۔۔۔ میرا جی کر رہا ہے کہ ابھی‬
‫کہ ابھی آپ کو دبوچ کر۔۔۔۔۔۔ لن پھدی کی ۔۔۔۔۔ پارٹی کر لوں۔۔۔۔۔میری‬
‫بات سن کر وہ مسکرائیں اور کہنے لگیں ۔۔۔ دل تو میرا بھی یہی چاہ‬
‫رہا ہے ۔ ۔۔۔ پھر انہوں نے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔اور اپنی چھاتیو ں سے‬
‫چادر ہٹا کر بولیں۔۔ میری جان اک نظر ادھر بھی ڈال ۔۔ تو میں نے‬
‫ان کے کھلے گلے والی قمیض کی طرف ۔۔اف ف ف ف ف ۔۔۔ الئیٹ‬
‫گرین سوٹ میں ان کی آدھ ننگی ۔۔۔۔۔اور بڑی بڑی چھاتیاں قیامت ڈھا‬
‫رہیں تھیں ۔۔ابھی میں ان کی چھاتیوں کو شہوت بھری نطروں سے‬
‫دیکھ ہی رہا تھا ۔۔۔۔ کہ انہوں نے اپنی دوبارہ سے چھاتیوں کو چادر‬
‫سے ڈھک دیا۔۔۔۔ ۔۔۔ اور بولیں اب بتا۔۔اس پر میں نے ان کے چادر‬
‫کے نیچے سے ہاتھ ڈاال ۔۔۔ اور ان کی قمیض کے کھلے حصے میں‬
‫ہاتھ ڈال کر بوال۔۔۔۔ اگر آپ کا جسم غضب ہے۔۔۔۔۔۔ تو ڈالنگ جی آپ‬
‫کی چھاتیاں غضب ناک ہیں۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں۔۔۔ یہ سب تیاری میں‬
‫نے تمہیں رجھانے کے لیئے کی ہے۔۔۔ پھر اپنی بات کو جاری‬
‫رکھتے ہوئے بولیں پچھلے دنوں میں ڈیڈی کی وجہ سے بہت بزی‬
‫رہی ۔۔۔ اب میں فری ہوئی ہو ں اس لیئے فکر نہ کر۔۔۔یہاں سے فارغ‬
‫ہونے کے بعد۔۔۔۔۔آج ہی میری پھدی اور تیرے لن کی وائلڈ پارٹی ہو‬
‫گی۔۔۔تو میں ان سے کہنے لگا۔۔۔۔ وہ تو ٹھیک ہے لیکن ارم جی اس‬
‫دن آپ نے ایک عجیب بات بتائی تھی کہ آپ ۔۔۔تو وہ میری بات‬
‫کاٹتے ہوئے بولیں ۔۔۔ سب بتاؤں گی۔۔۔لیکن ادھر سے فارغ ہونے کے‬
‫بعد ۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے گاڑی کو بینک کی پارکنگ میں‬
‫روک لیا ۔۔۔‬

‫اور نیچے اترتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔ باقی باتیں بعد میں ۔۔۔۔ چنانچہ ہم‬
‫دونوں بینک کے اندر پہنچ گئے۔۔۔۔اور بینک میں داخ ل۔۔ ہی آنٹی نے‬
‫ؤنٹر سے ڈیپازٹ سلپ طلب کی اور اسے فل کرنے لگیں ‪.‬۔۔ ڈیپازٹ‬
‫سلپ فل کرنے کے بعد۔۔۔۔۔۔وہ میرے پاس آ کر بیٹھ گئیں۔۔۔۔ اب ہم باس‬
‫لوگوں کا انتظار کر رہے تھے جو کہ جلد ہی اختتام پزید ہو گیا۔۔ کچھ‬
‫ہی دیر بعد ہمارے آفس کی گاڑی بینک کے باہر کھڑی ہوئی اس میں‬
‫سے باس اور۔۔۔ ایک بزرگ آدمی ایک ساتھ باہر نکلے اس بزرگ‬
‫آدمی کے ہاتھ میں بریف کیس بھی تھا ۔ چنانچہ بینک میں داخل ہوتے‬
‫ہی باس نے میرے اور آنٹی کے ساتھ رسمی بات چیت کی اس کے‬
‫بعد ہم کیش کاؤنٹر کی طرف بڑھ گئے باس کے ساتھ آئے بزرگ‬
‫۔۔۔(جن کے بارے میں بعد میں پتہ چال۔۔۔ کہ وہ ڈی آئی جی صاحب‬
‫کے سسر تھے) نے ساری کیش کیشئر کے سامنے رکھ دی اس نے‬
‫نوٹ گن کر سلپ پر دستخط کر دیئے پھر بینک کے دوسرے آفیسر‬
‫سے دستخط کروانے کے بعد باس مجھ سے کہنے لگا۔۔۔۔ کہ آپ لوگ‬
‫ایسا کرو کہ ہمارے پیچھے پیچھے کچہری آ جاؤ ۔چنانچہ ہم لوگ‬
‫بھاگم بھاگ کچہری جا پہنچے ہر چند کہ وہاں پر پہلے سے ہی سارا‬
‫کام تیار تھا پھر بھی ۔۔۔ لکھائی پڑھائی اور بیان وغیرہ دینے کے‬
‫بعد۔۔۔۔ ۔۔۔۔ ہم لوگ ڈھائی بجے کے قریب فارغ ہو ئے۔۔۔‬

‫واپسی کے لیئے گاڑی میں بیٹھتے ہی وہ مجھ سے مخاطب ہو کر‬


‫بولیں ۔۔۔۔شاہ میں کس منہ سے تیرا شکریہ ادا کروں۔۔۔ ان کی بات سن‬
‫کر میں نے ایک نظر پارکنگ کے باہر دیکھا اور پھر دایاں ہاتھ ان‬
‫کی پھدی پر رکھ کر بوال۔۔۔ فی الحال اس منہ سے شکریہ ادا کر دیں‬
‫تو بہتر ہو گا۔۔۔ میری بات سن کر وہ کھلکھال کر ہنسیں ۔۔۔۔اور پھر‬
‫کہنے لگیں۔۔۔ تم کوئی بھی موقع ضائع نہیں جانے دیتے ۔۔۔تو میں ان‬
‫سے بوال ۔۔ آپ نے خود ہی تو مجھ سے پوچھا تھا کہ میں کس منہ‬
‫سے تیرا شکریہ ادا کروں ۔۔۔ اب جبکہ میں نے منہ کے بارے میں‬
‫بتا دیا ہے تو اب آپ شکریہ ادا کرنے میں دیر نہ کریں۔۔۔ میری بات‬
‫سن کر انہوں نے گاڑی اسٹارٹ کی اور پھر اپنی پھدی کی طرف‬
‫اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔۔ یہ منہ تو کیا ۔۔ میرا پورے جسم ہر وقت‬
‫تمہارے لیئے حاضر ہے تم جب چاہو میرے ساتھ جو مرضی ہے کر‬
‫سکتے ہو ۔۔۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا وہ تو ٹھیک ہے ارم جی لیکن‬
‫آپ کو چودنے سے پہلے میں یہ جاننا چاہوں گا ۔۔۔ کہ آپ نے گانڈو‬
‫لڑکوں ۔۔۔ میرا مطلب ہے جسم فروش لڑکوں کے ساتھ کیسے سیکس‬
‫کیا؟‬

‫میری بات سن کر وہ دھیرے سے مسکرا کر کہنے لگیں ہر چند کہ‬


‫بات تو سچ ہے مگر بات ہے رسوائی کی۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے‬
‫ہوئے بولیں۔۔۔ چل میں تجھے شروع سے سناتی ہوں۔۔ کہنے لگیں‬
‫جیسا کہ تمہیں معلو م ہے کہ میرے میاں شروع سے ہی مڈل ایسٹ‬
‫میں ہوتے تھے وہاں اچھی خاصی جاب ہونے کی وجہ سے میرا‬
‫رشتہ ہو گیا۔۔ شادی کے بعد وہ مجھے اپنے ساتھ ہی مڈل ایسٹ لے‬
‫گئے تھے۔۔۔۔ ۔شاید تمہیں معلوم نہیں کہ میرے میاں اپنے والدین کی‬
‫اکلوتی اوالد تھے شادی کے بعد میری ساس نے بڑا ذور لگایا کہ‬
‫میں ادھر ہی رہوں لیکن میرے میاں نے ان کی ایک نہ سنی اور‬
‫مجھے ساتھ لے ابو ظہبی آ گئے۔۔پھر کہنے لگیں۔۔۔۔ وہاں جا کر میں‬
‫نے صحیح معنوں میں الئف ۔۔۔۔اور خصوصاً۔۔۔ سیکس الئف کو بہت‬
‫انجوائے کیا۔۔۔۔پھر شرارت بھرے انداز میں بولیں اس دن جو میں نے‬
‫تمہیں سپیشل چوپا لگایا تھا کیسا تھا؟ تو میں نے کہا۔۔۔۔ جی میم ایک‬
‫دم جھکاس چوپا تھا تو آگے سے وہ کہنے لگیں یہ واال چوپا میں نے‬
‫ایک فلپائنی لڑکی سے سیکھا تھا ۔۔۔ پھر بات کو بدلتے ہوئے بولیں۔۔۔‬
‫ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ اسی دوران میرے ہاں پہلے بچے کی‬
‫پیدائیش ہو گئی۔۔اور جیسے ہی جمال پیدا ہوا ۔۔۔ میری ساس نے شور‬
‫مچانا شروع کر دیا کہ ہم نے پوتے کو دیکھنا ہے اور جب میں جمال‬
‫کو لے کر پاکستان آئی ۔۔۔۔تو پھر میری ساس سسر نے مجھے واپس‬
‫نہیں جانے دیا۔۔۔۔۔۔چنانچہ جمال کے دادا دادی کے پر زور اصرار پر‬
‫میں ادھر ہی رہ گئی‬

‫پھر۔۔۔کہنے لگی کہ شروع شروع میں تو ان کے بغیر میرا دل نہیں‬


‫لگتا تھا لیکن پھر آہستہ آہستہ میں اس کی عادی ہو گئی ۔لیکن ایک‬
‫چیز ہے سیکس یا شہوت ۔۔۔۔ اس کے بارے میں تم جانتے ہی ہو کہ‬
‫۔۔۔۔۔ خوراک کی بھوک کے بعد۔۔۔۔دینا کی سب سے بڑی بھوک سیکس‬
‫کی بھوک ہوتی ہے۔۔ چنانچہ اسی سیکس بھوک نے مجھے بھی تنگ‬
‫کرنا شروع کر دیا۔۔جب شہوت بڑھنا شروع ہوئی تو۔۔۔۔ پہلے پہل میں‬
‫چوت میں انگلی مار کے گزارا چال لیتی تھی ۔۔۔ پھر کچھ عرصہ بعد‬
‫جب میری پھدی نے انگلی کے عالوہ۔۔۔۔ اور چیزوں کی بھی ڈیمانڈ‬
‫کی تو یقین کرو میں نے کھیرے سے لے کر ۔۔۔۔۔۔۔۔ہئیر برش تک‬
‫پھدی میں مارنا شروع کر دیا۔۔۔ ۔۔۔ لیکن بعض دفعہ ایسا بھی ہو تا ہے‬
‫کہ پھدی ان چیزوں سے بھی۔۔۔۔۔راضی نہیں ہوتی اور۔۔۔خاص کر‬
‫جسم کسی مرد کی مضبوط بانہیں اور پھدی لوڑا مانگتی ہے۔۔۔۔اب‬
‫جو واقعہ میں تمہیں سنانی لگی ہوں ۔۔۔۔ وہ بھی ایک ایسا ہی دن تھا‬
‫۔۔۔ ا س دن میرے بھتیجے کی سالگرہ تھی ۔۔۔۔پھر کہنے لگ ی جیسا‬
‫کہ تمہیں معلوم ہے کہ میرا سارا میکہ ‪ 22‬نمبر کے قریب رہتا ہے‬
‫پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔۔ میکہ ہی کیا میرا‬
‫سسرال اور میکہ سارے کا سارے پنڈی ‪/‬اسالم آباد کا رہائشی ہے ۔۔۔‬
‫اس دن پتہ نہیں کیوں صبع سے ہی میرا جسم ٹوٹ رہا تھا ۔۔۔۔اور میں‬
‫کچھ زیادہ ہی گرمی محسوس کر رہی تھی چنانچہ سالگرہ میں جانے‬
‫سے پہلے میں نے چوت میں خوب انگلی ماری ۔۔اس سے میں‬
‫چھوٹ تو گئی۔۔۔۔۔۔ لیکن مجھے تسلی نہیں ہوئی ۔۔۔ بلکہ انگلی مارنے‬
‫سے گرمی کچھ اور بڑھ گئی تھی۔۔۔خیر جیسے تیسے ہم لوگ میکے‬
‫پہنچے اور سالگرہ کا فنگشن ختم ہوتے ہوتے کافی دیر ہو گئی رات‬
‫کے ساڑھے دس ب جے تقریب ختم ہوئی تو میری امی نے ہمیں‬
‫رکنے کو کہا ۔۔۔۔ اور چونکہ ہم لوگ گھر اکیال نہیں چھوڑ سکتے‬
‫تھے اس لیئے امی نے صرف مجھے گھر جانے کی اجازت دی‬
‫جبکہ میرے ساس سسر اور جمال کو زبردستی روک لیا۔پھر گھر‬
‫سے نکلتے وقت انہوں نے مجھے بھی رکنے کو کہا۔۔۔ ۔۔۔لیکن میرے‬
‫اندر کی گرمی مجھے بے چین کر رہی تھی اس لیئے میں اکیلے گھر‬
‫کا بہانہ کر کے وہاں سے نکل آئی۔۔۔ امی کے گھر سے تھوڑا دور‬
‫جا کر میں نے اپنی پھدی کو خوب مسال۔۔۔‬

‫اور پھر یہ سوچتے ہوئے کار ڈرائیو کرتی رہی۔۔۔۔ کہ فریج میں ایک‬
‫بڑا سا کھیرا پڑا ہے شاید اس سے میری چوت ٹھنڈی ہو جائے۔۔۔ اس‬
‫پر میں آنٹی کو ٹوکتے ہوئے بوال ۔۔ کمال ہے آنٹی آپ اتنی‬
‫خوبصورت اور سیکسی لیڈی ہو آپ تو کسی بھی مرد کے ساتھ خفیہ‬
‫افئیر چال سکتی تھیں۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک ٹھنڈی‬
‫سانس بھری اور پھر کہنے لگیں شاید تمہیں میری فیملی کے بارے‬
‫میں اندازہ نہیں۔۔ پھر بولیں ۔۔ اب جا کر ہمارے گھروں کا ماحول کچھ‬
‫اوپن ہوا ہے ورنہ ۔۔۔اس زمانے میں۔۔۔۔ اگر کسی کو زرا سی بھنک‬
‫بھی پڑ جائے کہ فالں عورت خراب ہے تو بنا تحقیق کے طالق دے‬
‫دیتے تھے۔۔ بلکہ زیادہ تر تو غیرت کے نام پر گولی مار نے سے‬
‫بھی دریغ نہیں کرتے تھے۔۔ ۔۔۔ویسے بھی اگر مجھ جیسی مالدار‬
‫عورت کسی مرد کے ساتھ یارانہ لگائے تو اکثر مرد اس اکیلی‬
‫عورت کو بہت بلیک میل کرتے ہیں۔۔۔ اور میں مرد کی بلیک میلنگ‬
‫سے بہت ڈرتی ہوں اس لیئے میں نے جان بوجھ کر کسی مرد کے‬
‫ساتھ جنسی تعلق نہ بنائے تھے۔‬

‫اس کے بعد وہ کہنے لگیں کہ باوجود اس کے کہ میرا دل یہی کرتا‬


‫تھا کہ میں کسی مضبوط مرد سے چدواؤں۔۔۔ لیکن اپنی بزدلی۔۔۔ یا‬
‫حاالت کے جبر کی وجہ سے ایسا نہ کر سکتی تھی اور کرتی بھی‬
‫کیسے؟؟۔۔۔کہ پنڈی ‪/‬اسالم آباد کے ہر عالقے میں ہماری برادری کا‬
‫کوئی نہ کوئی بندہ ضرور رہتا تھا۔۔ اسی لیئے میں سکینڈل نہ بنے‬
‫اسی ڈر کی وجہ سے انگلی ۔۔ گاجر ۔۔کھیرا ۔۔۔۔برش وغیرہ مار کے‬
‫اپنا گزارا چالتی تھی۔۔۔اتنی تمہید کے بعد ۔۔۔۔وہ کہنے لگیں ۔۔۔ میں‬
‫گاڑی چالنے کے ساتھ ساتھ اپنی پھدی کو مسلتے ہوئے سوچ رہی‬
‫تھی کہ اتنی گرم تو میں کبھی نہیں ہوئی تھی۔۔۔ جس قدر آج ہو رہی‬
‫ہوں۔۔۔ اسی دوران میری گاڑی مال روڈ پر پہنچ چکی تھی ۔۔۔ مال‬
‫روڈ پر گاڑی چالتے ہوئے اچانک میری نظر فٹ پاتھ پر کھڑے‬
‫جسم فروش لڑکوں اور کھسروں پر جا پڑی ۔۔۔۔جو وہاں بن ٹھن کر‬
‫کھڑے تھے انہیں دیکھ کر میں نے تفریحا ً گاڑی کی رفتار آہستہ کر‬
‫لی۔۔ پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے ایک خوبصورت سا کھسرا جو‬
‫کہ فلیش مین ہوٹل کے سامنے کھڑا تھا ۔۔۔ ایک گاڑی میں بیٹھ گیا۔۔۔‬
‫اتنی بات کرنے کے بعد ارم آنٹی نے میری طرف دیکھا اور پھر‬
‫کہنے لگیں تمہیں معلوم ہے نا کہ فلش مین کے سامنے جسم فروش‬
‫لڑکے اور کھسرے کھڑے ہوتے ہیں تو میں نے ہاں میں سر ہال دیا۔۔‬
‫پھر وہ کہنے لگیں۔۔۔اس کھسرے کے گاڑی میں بیٹھنے سے اچانک‬
‫ہی۔۔۔۔ میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا ۔۔۔اس وقت میں فلش مین سے‬
‫لیفٹ مڑنے ہی والی تھی۔۔۔۔ لیکن اس آئیڈیا کی وجہ سے میں۔۔۔۔‬
‫بجائے مری روڈ مڑنے کے ۔۔سیدھی پی سی ہوٹل کی طرف چلی‬
‫گئی دیکھا تو اشارہ سے اس طرف اتنا رش نہ تھا۔۔۔ چنانچہ میں نے‬
‫وہاں سے یو ٹرن لیا اور پھر واپس فلش مین کی طرف آ گئی۔۔۔‬
‫حیرت کی بات یہ ہے کہ فلش مین کے سامنے والی سڑک پر کوئی‬
‫بھی نہ تھا جبکہ کھسروں اور لڑکوں کا سارا رش فلش مین کے‬
‫سامنے والی سڑک پر تھا۔۔۔ میں گاڑی ڈرائیو کرنے کے ساتھ ساتھ‬
‫اس طرف بھی دیکھتے جا رہی تھی ۔۔ اس کے بعد میں نے لمبا چکر‬
‫لیا اور ‪ 14‬نمبر ہسپتال سے واپس مڑی۔۔۔‬

‫اور گاڑی کو بہت آہستہ چالتی رہی ۔۔اس وقت رات کے گیارہ بج‬
‫رہے تھے اور فلش مین واال فٹ پاتھ لڑکوں اور کھسرو ں سے بھرا‬
‫ہوا تھا۔۔۔لیکن مجھے ان میں کوئی پسند نہیں آ رہا تھا۔۔ کیونکہ وہ سب‬
‫کے سب بڑی عمر کے تھے اور مجھے ایک نسبتا ً کم عمر لڑکے‬
‫کی تالش تھی۔۔۔ اس لیئے ایک دو چکر کے بعد میں مایوس ہو کر‬
‫مری روڈ مڑ گئی۔۔ گو کہ میں مایوس ہو چکی تھی لیکن پھر بھی‬
‫گاڑی آہستہ چال کے ادھر ادھر دیکھتے جا رہی تھی۔۔۔پھر کہنے لگی‬
‫ابھی میری گاڑی ہمدرد دوا خانہ کے قریب پہنچی تھی کہ اچانک‬
‫میری نظر ایک خوب صورت سے لڑکے پر پڑی جو کہ سڑک کی‬
‫دوسری طرف کھڑا تھا اس کی عمر ‪ 18/17‬سال کی ہو گی ۔۔ وہ‬
‫تھوڑا بھاری اور گول مٹول سا تھا۔۔۔ اس کا جسم اور شکل لڑکیوں‬
‫کی طرح تھا۔۔ میں نے اسے دیکھا ۔۔۔اور پاس کر دیا۔۔۔ پھر میرے دل‬
‫میں خیال آیا کہ یہ خوبصورت لڑکا جو کہ کسی اچھے گھرانے کا‬
‫معلوم ہوتا ہے ایسا نہ ہو کہ یہ وہ نہ ہو جو میں سمجھ رہی ہوں۔۔۔‬
‫چنانچہ میں نے اسے دیکھنے کے لیئے مڑیڑ چوک سے گاڑی واپس‬
‫موڑی ۔۔اور اس لڑکے کی طرف چل دی ۔۔۔ دیکھا تو سر پر کیپ‬
‫پہنے وہ اسی جگہ پرکھڑا تھا۔اسے دیکھ کر پھدی نے دھائی دینا‬
‫شروع کر دی۔۔۔۔ دل میں ڈر بھی لگ رہا تھا ۔۔۔ لیکن سیکس بھی تنگ‬
‫کر رہا تھا۔۔۔ اس لیئے ۔۔ میں نے اس کے زرا آگے گاڑی کھڑی کر‬
‫دی۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد ۔۔۔وہ پیارا سا لڑکا۔۔۔ ٹہلتا ٹہلتا میری گاڑی کے‬
‫پاس آگیا۔۔۔ اسے اپنی طرف آتے دیکھ کر میں نے گاڑی کے فرنٹ‬
‫دروازے کو ان الک کر دیا۔۔۔ وہ ٹہلتے ہوئے میری گاڑی کی طرف‬
‫آیا۔۔۔ اور بڑی گہری نظروں سے میری طرف دیکھا ۔۔اور آگے چل‬
‫پڑا۔۔۔ یہ دیکھ کر میرے دل کو ایک دھکا سا لگا۔۔۔۔لیکن میں گاڑی کا‬
‫ڈبل اشارہ جالئے وہیں کھڑی رہی۔۔۔ تھوڑا آگے جا کر اس لڑکے نے‬
‫یو ٹرن لیا اور واپس میری گاڑی کی طرف آیا۔۔۔ میرے سامنے سے‬
‫گزرتے ہوئے اس نے مجھے آنکھ کا اشارہ کیا تو میں نے بجائے‬
‫جواب دینے کے گاڑی کا فرنٹ دروازہ کھول دیا۔۔۔اور اس کا انتظار‬
‫کرنے لگی۔۔۔ مجھے دروازہ کھولتے دیکھ کر وہ ٹھٹھکا ۔۔‬

‫۔اور پھر دھیرے دھیرے چلتا ہوا دروازے کے سامنے پہنچ گیا۔۔۔۔‬
‫اور پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بڑے آرام سے گاڑی میں بیٹھ‬
‫گیا۔۔اور مجھ سے ہاتھ مال کر بوال۔۔۔ہائے آپی۔۔۔ کتنے آدمی ہوں گے؟‬
‫تو میں حیران ہو کر بولی۔۔ کیا مطلب؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بوال۔۔‬
‫میں یہ پوچھ رہا تھا آپ مجھے کہاں لے جا ؤ گی؟ ۔۔تو میں نے‬
‫گاڑی چالتے ہوئے کہا ۔۔۔ تم کیا کہہ رہے تھے تو وہ الجھے ہوئے‬
‫لہجے میں کہنے لگا ۔ کہ مجھے کتنے بندوں کو فارغ کر نا ہو گا؟‬
‫تو میں اطمینان سے بولی ۔۔۔ کسی ایک کو بھی نہیں ۔۔۔تو وہ حیران‬
‫ہو کر بوال۔۔۔ تو آپ مجھے کس کے لیئے لے جا رہی ہو؟ تو میں نے‬
‫اس کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ میں تمہیں اپنے لیئے لے جا‬
‫رہی ہوں۔۔۔ میری بات سن کر بدوستور کنفیوز لہجے میں‬
‫بوال۔۔۔مگر۔۔مم ۔مم ۔۔۔۔میں تو اندر لینے واال ہوں۔۔۔ تو میں نے اس سے‬
‫کہا ۔۔ کہ تم ہر روز اندر لیتے ہو کبھی کسی کے اندر بھی کیا ہے؟‬
‫تو وہ آہستہ سے کہنے لگا۔۔۔۔ ہاں کیا ہے لیکن مردوں کو۔۔۔ تو میں‬
‫حیران ہو کر بولی کیا مطلب ؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بوال جو مرد‬
‫مجھے اپنے ساتھ لے جاتے ہیں پہلے تو وہ میرے اندر کرتے ہیں‬
‫اور جب وہ فارغ ہو جاتے ہیں تو مجھے ان کی گانڈ مارنی پڑتی ہے‬
‫لڑکے کی بات سن کر میں اس سے بولی۔۔۔ تم اتنے پیارے ہو کبھی‬
‫کوئی خاتون تمہیں لے کر نہیں گئی؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ مجھے‬
‫خواتین سے کوئی دل چسپی نہیں ۔۔۔۔ تو میں اس سے بولی۔۔ کیوں دل‬
‫چسپی نہیں؟ تو وہ کہنے لگا۔۔۔ کہ مجھے لن لینے میں مزہ آتا ہے۔۔‬
‫اس لیئے۔۔۔ تو میں اس سے بولی۔۔۔ لیکن آج تمہیں لن دینا پڑے گا۔۔‬
‫پھر میں نے اس سے کبھی کسی عورت کی چوت ماری؟ ۔۔۔تو وہ‬
‫ہونٹوں پر زبان پھیر تے ہوئے بوال۔۔۔ نہیں آ ج تک کسی کسی عورت‬
‫کی پھدی مارنے کا اتفاق نہیں ہوا۔۔۔۔ تو میں اس سے بولی ۔۔۔ چلو آج‬
‫پھدی کا بھی ذائقہ چکھ لو۔۔۔ تو وہ بوال جانا کہاں ہے تو میں جھوٹ‬
‫بولتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ میری ایک دوست کے گھر۔ میری بات سن‬
‫کر وہ کہنے لگا پھر تو آپ کی دوست کو بھی چودنا ہو گا؟ تو میں‬
‫بولی نہیں تم نے صرف مجھے چودنا ہے ۔اسکے بعد میں نے اس‬
‫سے ریٹ طے کیا۔۔۔اور ہم چل پڑے۔۔۔ آنٹی بولی یقین کرو اس لڑکے‬
‫کو پا کر میں اتنی گرم ہو رہی تھی کہ کار میں بیٹھے بیٹھے میں نے‬
‫اس کی تھائیز پر ہاتھ پھیرا ۔۔اور اس سے بولی۔۔۔ زارا پینٹ سے لن‬
‫باہر نکالو۔‬

‫میری بات سن کر اس نے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔اور پھر بوال۔۔۔۔ کار میں‬
‫کرواؤ گی ؟ تو میں اس سے بولی ۔۔ نہیں مجھے تمہارا لن دیکھنا‬
‫ہے۔۔۔تب اس نے اپنی پینٹ کی زپ کھولی ۔۔۔اور لوڑا باہر نکال‬
‫لیا۔۔۔اس وقت اس کا لن مرجھایا ہوا تھا ۔۔ پھر بھی میں نے اس کے‬
‫لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور گاڑی چالتے ہوئےاسے سہالنے‬
‫لگی۔۔۔ لیکن حیرت انگیز طور پر اس لڑکے کا لن ویسے کا ویسا‬
‫رہا۔۔۔۔کافی دیر تک پسمانے کے باوجود بھی جب اس کا لوڑا کھڑا‬
‫نہیں ہوا ۔۔تو وہ کہنے لگا ۔۔آپی میں نے کہا تھا نہ کہ مجھے عورتوں‬
‫سے کوئی انٹرسٹ نہیں۔۔۔اس لیئے کھڑا نہیں ہو رہا تو میں اس سے‬
‫بولی ۔۔۔اس کی تم فکر نہ کرو ۔۔اسے کھڑا کرنا میری ذمہ داری‬
‫ہے۔۔‬
‫پھر آنٹی کہنے لگی اس میں کوئی شک نہیں کہ میرا گھر سکتھ روڈ‬
‫سے چار پانچ منٹ کی مسافت پر ہے لیکن میں جان بوجھ کر چاندنی‬
‫چوک سے اندر گئی ۔اور ماموں برگر سے اس کے لیئے برگر بھی‬
‫خریدے ۔۔۔ اور پھر مختلف گلیوں میں گھمانے کے بعد میں نے اپنی‬
‫گلی سے دو تین گلیاں پہلے گاڑی روکی اور اس سے بولی تم‬
‫پیچھے والی سیٹ پر جا کر لیٹ جاؤ۔۔۔۔ اور یوں اپنی طرف سے‬
‫پوری کوشش کی کہ اسے میرے گھر کی شناخت نہ ہو۔۔۔ اور گاڑی‬
‫کو اپنے گھر لے گئی۔۔۔ پھر اسے لے کر میں اپنے بیڈ روم کی‬
‫بجائے گیسٹ روم لے گئی۔۔ اس وقت میں اتنی زیادہ گرم ہو رہی تھی‬
‫کہ کمرے میں داخل ہوتے ہی میں اس کے ساتھ چمٹ گئی۔۔اور اس‬
‫کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ جوڑ دیئے۔۔۔ مجھے یوں بے باقی سے‬
‫کسنگ کرتے دیکھ کر اس نے بھی اپنا منہ کھوال۔۔ اور مجھے زبان‬
‫چوسنے کو دی۔۔۔ جسے میں نے بڑ ی بے صبری سے چوسا ۔۔۔ یہ‬
‫دیکھ کر اس نے اپنے منہ کو میرے منہ سے ہٹایا اور کہنے لگا۔۔۔‬
‫آپ تو بہت گرم ہو آپی۔۔۔ تو میں نے اس کے پھولے ہوئے گالوں کو‬
‫چوما ۔۔۔اور اس سے بولی۔۔ مجھے تیرا لوڑا چایئے۔۔۔‬

‫یہ سن کر ان نے میرا ہاتھ پکڑا ۔۔اپنے لن پر رکھ کر بوال۔۔۔ اسے‬


‫پکڑیں۔۔۔۔۔تو میں نے بجائے اس کالن پکڑنے کے اس کی بیلٹ کو‬
‫کھولتے ہوئے بولی۔۔۔ مجھے تیرا ننگا لن پکڑنا ہے۔۔اور پھر اس کی‬
‫پینٹ کو اتار دیا۔۔ ۔پینٹ اترنے کے بعد میں نے اسے شرٹ بھی‬
‫اتارنے کو کہا۔۔۔۔اور ایک منٹ میں اپنے سارے کپڑے اتار‬
‫دیئے۔۔مجھے ننگا دیکھ کر وہ آگے بڑھا ۔۔۔اور میری چھاتیوں کو‬
‫پکڑ کر بوال۔۔۔واؤ آپی۔۔ آپ کی چھاتیاں تو بہت بڑی اور مست‬
‫ہیں۔۔۔تو میں نے اس کو کہا کہ میری چھاتیوں کو چوس۔۔ اور اس نے‬
‫میری بات سن کر نپلز کو منہ میں لیا۔۔اور چوسنا شروع ہو گیا۔۔۔ اس‬
‫وقت میں گرمی کی انتہا پر تھی۔۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ میں جلد از‬
‫جلد اس کے لوڑے کو اپنی چوت میں لوں۔۔۔ سو ابھی اس نے تھوڑے‬
‫سی ممے چوسے تھے کہ میں اس سے بولی ۔۔ بستر پر چل۔۔ میری‬
‫بات سن کر اس نے نپلز کو منہ سے نکاال ۔۔اور میری پھدی کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔ آپی۔۔۔ بالوں کی وجہ سے آپ کی پھدی تو‬
‫نظر ہی نہیں آ رہی۔۔۔آپ ان بالوں کو کاٹتی کیوں نہیں؟ تو میں‬
‫مسکراتے ہوئے بولی۔۔۔ تم کاٹتے ہو؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ جی آپی ۔۔ہر‬
‫دوسرے دن گانڈ کو بالوں سے پاک کرتا ہوں ۔۔ تو میں نے اس سے‬
‫پوچھا۔۔ صرف گانڈ پر کیوں ؟ لن پر کیوں نہیں تو وہ کہنے لگا۔۔۔ وہ‬
‫اس لیئے۔۔۔۔آپی جی کہ زیادہ لوگ گانڈ ہی مارتے ہیں ۔۔۔اس لیئے‬
‫اسے صاف ستھرا رکھنا پڑتا ہے جبکہ ایسے لوگ کم ہوتے ہیں کہ‬
‫جو مارنے کے بعد مرواتے بھی ہیں ۔۔۔ میں نے ا س سے پوچھا‬
‫ایسے لوگ کون ہیں؟ تو وہ بوال۔۔۔ یہ زیادہ تر ادھیڑ عمر کے لوگ‬
‫ہوتے ہیں اور یہ پوری رات کی بکنگ کرتے ہیں اس پر میں اس‬
‫سے بوال۔۔۔اچھا یہ بتاؤ ۔۔ تم تو لوگوں کا لن چوستے ہو ۔۔کوئی تمہارا‬
‫لن بھی چوستا ہے؟؟؟ تو وہ کہنے لگا ہاں لن چوسنے والے بھی بہت‬
‫ہیں۔۔۔ پھر میری پھدی پر ہاتھ کر بوال۔۔۔ آپ ان بالوں کو صاف رکھا‬
‫کریں۔۔۔ ننگی پھدی مروانے کا زیادہ مزہ آ ئے گا۔۔ میں نے اس کی‬
‫طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔اور پھر اس کو بستر پر گرا دیا۔۔۔۔‬

‫اسے بستر پر گرانے کے بعد میں بھوکی شیرنی کی طرح اس کے‬


‫لن پر جھپٹی۔۔۔ اس کا لن بظاہر اتنا بڑا نہیں تھا لیکن ۔۔ اس کا ٹوپا‬
‫کافی موٹا تھا۔۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ اس کے بالز بہت بڑے تھے ۔۔‬
‫جس سے میں نے اندازہ لگایا کہ یہ بہت زیادہ ڈسچارج ہوتا ہو گا۔۔۔‬
‫وہ میرے سامنے بستر پر لیٹا ہوا تھا ۔۔۔ اور میں اس کی دونوں‬
‫ٹانگوں کے بیچ بیٹھی اس کے لن کو چاروں طرف سے چاٹ رہی‬
‫تھی۔۔ میری زبان اس کے لوڑے کو جیسے ہی ٹچ کرتی وہ سسکی‬
‫بھرتا ۔۔۔اور پھر کہتا ۔۔۔۔ آپی ! لن چوس نا۔ ۔۔ جبکہ اس کے لوڑے پر‬
‫میرا زبان پھیرنے کا مقصد یہ تھا کہ یہ تھوڑا سا کھڑا ہو تا کہ میں‬
‫اسے منہ میں لے سکوں ۔۔۔آخر کافی دیر تک زبان پھیرنے کے بعد‬
‫۔۔اس کا لن نیم کھڑا ہوگیا۔۔۔ اور میں حیران تھی کہ جس طرح میں‬
‫اس کے لن پر اوپر سے نیچے تک زبان پھیر رہی تھی ۔۔۔ میرے ایسا‬
‫کرنے سے اکثر جمال کے ڈیڈی میرے منہ میں ہی ۔۔۔ ڈسچارج ہو‬
‫جایا کرتے تھے اور اس گانڈو کا لن ۔۔۔ کھڑا ہی نہیں ہو رہا تھا۔۔۔‬
‫گانڈ سے مجھے کچھ یاد آیا ۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے اس‬
‫لڑکے کے لن کو اپنے منہ میں لیا لیکن اس سے پہلے میں نے اپنی‬
‫ایک انگلی کو اچھی طرح گیال کر کے اس لڑکے کی گانڈ میں دے‬
‫دیا۔۔۔‬

‫اتنی بات کرنے کے بعد آنٹی نے میری طرف دیکھا اور ہنس کر‬
‫بولی ۔۔۔ یقین کرو شاہ ۔۔۔ لن چوستے ہوئے جیسے ہی میں نے اپنی‬
‫ایک انگلی اس کی موٹی اور خوب صورت گانڈ میں ڈالی۔۔۔۔ تو ایسا‬
‫کرنے سے وہ لڑکا تھوڑا سا کسمسایا ۔۔۔اور ۔۔۔پھر دو تین چوپوں ۔۔۔۔۔۔‬
‫کے بعد ہی اس کے لن میں جان پڑنا شرو ع ہو گئی۔۔۔اس سے میں‬
‫نے اندازہ لگایا کہ چونکہ یہ لڑکا عادی گانڈو ہے ۔۔ شاید اسی لیئے‬
‫اس کی گانڈ میں انگلی ڈالنے ۔۔ اس کا لن کھڑا ہونا شروع ہو گیا‬
‫تھا۔۔۔۔ پھر وہ کہنے لگی ۔۔۔ اب چونکہ مجھے اس کا کلیہ مل گیا‬
‫تھا۔۔۔۔ اس لیئے۔۔۔۔پھر میں نے اس کی گانڈ میں دوسری انگلی بھی‬
‫ڈالی اور۔۔۔اسے ان آؤٹ کرنے کرلی۔۔۔۔ اُف۔۔۔ ایسا کرنے سے اس کا‬
‫لن ایک دم تن کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔ اور میں نے اس کے تنے ہوئے لن‬
‫کو خوب چوسا۔۔۔ ۔۔ کچھ دیر بعد۔۔۔۔میں نے اس کے لن کو منہ سے‬
‫نکال لیا۔۔ یہ دیکھ کر وہ بوال۔۔۔ آپی ۔۔۔ بڑا مزہ آ رہا تھا ۔۔۔تھوڑا اور‬
‫چوسو نا۔۔ تو میں اس سے بولی۔۔۔ نہیں اس کو بعد میں چوسوں گی۔۔‬
‫پہلے اسے پھدی میں لوں گی۔۔۔ پھر جیسے ہی میں اس کے لن پر‬
‫بیٹھنے کے لیئے اوپر اآئی۔۔۔ تو وہ میری پھدی کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔ آپی! اگر آپ مائینڈ نہ کریں ۔۔۔۔۔تو پلیز اپنی پھدی‬
‫کو میرے منہ کی طرف لے آئیں۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا۔۔۔۔۔۔۔ جب‬
‫میں ننگی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔تو اس وقت تم نے میری پھدی کو دیکھ تو لیا‬
‫تھا۔۔تو وہ کہنے لگا ۔۔ میں نے دیکھنا نہیں ۔۔اسے چاٹنا ہے۔۔تو میں‬
‫اس بولی۔۔۔ تم میری بالوں والی پھدی چاٹو گے؟ تو وہ کہنے لگا جی‬
‫آپی۔۔۔میں آپ کی بالوں والی پھدی چاٹوں گا۔۔۔۔۔ تو میں اس سے مزاقا ً‬
‫بولی۔۔میری پھدی تو بالوں سے بھر ی ہے۔۔۔۔تمہیں کیا خاک مزہ آئے‬
‫گا۔۔۔تو وہ کہنے لگا ۔۔آپی آپ بالوں کی فکر نہ کریں ۔۔۔ میں نے آپ‬
‫کی پھدی پر اگے ہوئے بالوں سے ۔۔۔۔۔ بھی بڑے بڑے بالوں سے‬
‫ڈھکے لن کو چوس رکھا ہے۔۔اس لیئے آپ اس کی فکر نہ کریں۔۔۔۔‬
‫پھر اپنی بات کو جاری رکھتے ہوئے بوال۔۔کہ۔۔۔۔‬

‫۔دراصل بات یہ ہے آپی۔۔ کہ ۔۔۔ پورن موی میں ۔۔۔ گوروں کو پھدی‬
‫چاٹتے دیکھ کر میرا بھی د ل کرتا تھا کہ میں بھی کسی عورت کی‬
‫چوت چاٹوں۔۔۔ اور آج موقع مال ہے ۔۔۔تو برا ِہ مہربانی ۔۔۔ اپنی بالوں‬
‫والی پھدی کو میرے منہ کے قریب لے آئیں ۔۔۔ چنانچہ آنٹی کہنے‬
‫لگیں کہ میں جو اس وقت لن کو اپنی پھدی میں لینے کے لیئے اتاؤلی‬
‫ہو رہی تھی بادنخواستہ گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی اس کے قریب‬
‫پہنچی۔۔۔۔اور عین اس کے منہ پر پھدی رکھ دی۔۔۔ یہ دیکھ کر اس نے‬
‫اپنی دونوں انگلیوں کی مدد سے میری پھدی کے لب کھولے۔۔۔اور‬
‫پھر اپنی زبان باہر نکالنے سے پہلے کہنے لگا۔۔۔۔ آپی۔۔۔ میں آپ کی‬
‫چوت چاٹنے لگا ہوں ۔۔اس کے ساتھ ہی اس نے میری پھدی میں زبان‬
‫ڈال دی۔۔۔ اور اسے چاٹنا شروع ہو گیا۔۔۔اتنی بات سنانے کے بعد ۔۔۔‬
‫آنٹی نے ایک مست آہ بھری جیسے تصور ہی تصور میں گانڈو‬
‫لڑکے کی چٹائی یاد کر رہی ہو۔۔۔۔ اور مجھ سے کہنے لگی۔۔۔ کیا‬
‫بتاؤں۔۔۔ شاہ وہ لڑکا اتنے ذوق و شوق سے میری کو پھدی چاٹ رہا‬
‫تھا کہ ایک منٹ میں ہی میں مزے سے بے حال ہو کر۔۔۔۔۔ سسکیاں‬
‫بھرنا شروع ہو گئی۔۔۔۔میرے منہ سے سسکیوں کی آوازیں سن کر وہ‬
‫ایک لمحے کے لیئے رکا ۔۔۔۔اور کہنے لگا ۔۔ آپی۔۔۔۔میں چوت اچھی‬
‫چاٹ رہا ہوں ناں۔۔؟ تو میں اپنی پھدی کو اس کے منہ پر دباتے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔ مت پوچھ چھوٹو ۔۔۔ کمال کی زبان ہے تیری۔۔۔ میری پھدی‬
‫چوستا جا۔۔۔۔ اور اس نے ایسا ہی کیا۔۔ اسی دوران میں نے ایک بڑا‬
‫سا آرگیزم کر دیا۔۔۔۔ جو سیدھا اس کے منہ میں جا گرا۔۔۔۔۔۔ وہ بھی‬
‫میری چوت کے پانی کو پی کر بوال ۔۔۔ آپی۔۔ آج تک میں نے بے‬
‫شمار مردوں کو اپنے منہ میں۔۔ ڈسچارج کروایا ہے ۔۔۔ جس سے‬
‫ظاہر ہے مجھے مزہ ملتا ہے ۔۔۔لیکن جو مزہ آپ کی چوت کا جوس‬
‫پی کر مال ہے۔۔۔ یقین کریں ۔۔ میں بیان نہیں کر سکتا۔۔۔۔‬

‫میں اس لڑکے کی بات سن کر پیچھے کی طرف کھسکنے لگی تو یہ‬


‫دیکھ کر وہ کہنے لگا۔۔ آپی۔۔۔ کیا آپ یرے لن پر بیٹھنے لگی ہو؟؟؟؟؟‬
‫میں بس اتنا بولی۔۔۔۔۔۔۔ یاں یار ۔۔۔ تو بوال۔۔۔آپ بے شک لن کو اپنی‬
‫پھدی میں ہی لیں۔۔۔۔ لیکن ایک درخواست ہے اور اپنا منہ دوسری‬
‫طرف کر کے لن پر بیٹھیں اس پر میں کہنے لگی۔۔۔ اس سے کیا ہو‬
‫گا؟۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ تو وہ جواب دیتے ہوئے بوال۔۔۔۔ ۔۔۔ اس سے یہ ہو گا کہ‬
‫میری نظروں کے سامنے آپ کی بڑی سی گانڈ آ جائے گی۔۔۔ اور‬
‫مجھے گانڈ مروانا اور دیکھنا بہت اچھا لگتا ہے۔۔۔ اس کی بات ختم‬
‫ہوتے ہی میں پیچھے کی طرف مڑی اور اس کو اپنی گانڈ دکھاتے‬
‫ہوئے بولی۔۔۔ میری بنڈ کیسی ہے؟ تو وہ اس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔۔۔۔بہت خوب صورت اور سیکسی گانڈ ہے آپ کی۔۔۔۔پھر کہنے‬
‫لگا۔۔۔۔ کیا آپ نے کبھی گانڈ میں بھی لیا ہے؟ تو میں اس سے کہنے‬
‫لگی کہ ہاں کئی بار۔۔۔ تو وہ جھجھک کر بوال۔۔۔ کیا میں بھی اسے‬
‫مار سکتا ہوں۔۔۔تو میں اس کے لن کو اپنی چوت کی سیدھ میں کرتے‬
‫ہوئے بولی ۔۔۔ ابھی نہیں۔۔۔ ابھی تو میں تم سے پھدی مروانے لگی‬
‫ہوں۔۔۔ ۔۔۔ اگلے راؤنڈ میں تم گانڈ مار لینا۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے‬
‫اس کے ٹوپے کو تھوک لگا کر چکنا کیا۔۔۔ اور لن کو ہاتھ میں پکڑ‬
‫کر آہستہ آہستہ اس پر بیٹھنا شروع ہو گئی۔۔۔‬

‫اتنی بات کرنے کے بعد آنٹی نے گاڑی روک لی۔۔۔ تو میں جو ان کی‬
‫سیکسی کہانی کو بڑے انہماک سے سن رہا تھا ایک دم چونک کر‬
‫بوال۔۔۔۔ کیا ہوا آنٹی۔۔۔ آپ نے گاڑی کیوں روک لی؟ تو وہ کہنے‬
‫لگی۔۔۔ میری جان زرا ایک نظر باہر ڈال کر دیکھو ۔۔۔۔۔اور پھر مجھ‬
‫سے پوچھنا کہ میں نے گاڑی کیوں روکی ہے ۔۔۔ ان کی بات سن کر‬
‫میں نے گاڑی کے باہر جھانک کر دیکھا۔۔۔۔ اور پھر چونک کر‬
‫بوال۔۔ارے ۔۔۔ارے یہ تو وہی جگہ ہے ۔۔۔تو وہ شرارت سے بولی ۔۔۔‬
‫کون سی جگہ ؟ تو میں ان کی طرف دیکھتے ہوئے شہوت بھرے‬
‫لہجے میں بوال۔۔۔۔۔ وہی جگہ کہ جہاں کچھ دن پہلے آپ کو اپنا لن‬
‫چسوایا تھا۔۔۔ کمال ہے ہم ادھر اتنی جلدی یہاں پہنچ بھی گئے؟۔۔۔تو وہ‬
‫ہنس کر بولی ایسے کیوں نہیں کہتے کہ یہ وہ جگہ ہے کہ جہاں تم‬
‫نے میری پھدی میں انگلیاں ماریں تھیں۔۔۔ تو میں کہنے لگا آپ نے‬
‫لن چوسا ۔۔۔یا میں نے آپ کی پھدی میں انگلیاں ماریں ۔۔۔۔بات ایک ہی‬
‫ہے۔۔۔ ۔۔۔ پھر میں نے گاڑی سے باہر جھانک کر دیکھا۔۔۔۔تاح ِد نگاہ۔۔۔‬
‫تیز دھوپ پھیلی ہوئی تھی۔۔ آس پاس کسی چرند پرند یا انسان کو نہ‬
‫پا کر ۔۔۔۔۔۔۔ جیسے ہی میں اپنے منہ کو آنٹی کی طرف لے جانے لگا‬
‫۔۔تو وہ نشیلے سے لہجے میں بولیں ۔۔۔ کیا کرنے لگے ہو؟ تو میں‬
‫نے ان سے کہا کہ آپ کے سیکسی ہونٹ چوسنے لگا ہوں۔۔۔ تو وہ‬
‫کہنے لگیں۔۔۔۔۔ آگے کی سٹوری نہیں سنو گے؟ ان کی بات سن کر‬
‫میں اپنا ایک ہاتھ ان کے سر کے پیچھے لےجا کر اپنے قریب‬
‫کیا۔۔۔۔۔۔۔اور ان کے بند ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫کہانی بھی ضرور سنیں گے میری جان ۔۔۔ لیکن اس سے پہلے۔۔۔‬
‫تمہارے ساتھ ایک کہانی بنانی بھی تو ہے۔۔۔۔۔۔۔ میری بات سن کر‬
‫انہوں نے اپنے بند ہونٹ کھولے اور اپنے گیلے ہونٹوں پر لگے‬
‫میرے تھوک کو چاٹتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔۔ ۔۔ کہانی تو پچھلی دفعہ ہی‬
‫بن گئی تھی۔۔۔ تو میں ان کے فراخ سینے سے چادر ہٹاتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔۔ وہ کہانی کچھ ادھوری رہ گئی تھی۔۔۔۔ تو وہ شہوت بھرے‬
‫لہجے میں بولیں۔۔۔۔ اس کہانی میں کیا ادھورا پن رہ گیا تھا ؟ تو میں‬
‫ان سے بوال۔۔۔۔ اس دن تمہاری پھدی جو نہیں ماری تھی۔یہی اس‬
‫کہانی کا ادھورا پن تھا ۔۔۔ اور ان کی چھاتیوں کو قیض۔ سے باہر‬
‫نکال لیا۔۔۔۔ اپنی چھاتیوں کو ننگا دیکھ کر انہوں نے ایک سسکی لی۔۔۔‬
‫اور پھر کہنے لگی۔۔۔۔۔ایک بات تو بتاؤ۔۔۔۔ پھدی مارنے سے کہانی‬
‫ختم ہو جاتی ہے کیا؟۔۔۔ تو میں ان کے نپل کو منہ میں لے کر بوال ۔۔۔۔‬
‫نہیں میری جان۔۔۔۔ پھدی مارنے سے مزے کی اتنہا ہوتی ہے۔۔۔تو وہ‬
‫کہنے لگی۔۔۔ مزے کی ابتدا کہاں سے ہوتی ہے؟ تو میں ان کی ایک‬
‫چھاتی کو مسلتے ہوئے بوال۔۔۔۔ ابتدا کسنگ ۔۔۔ سکنگ ۔۔۔اور پھدی‬
‫چاٹنے سے ہوتی ہے۔۔۔۔ تب انہوں نے بنا کوئی سوال کئے اپنی‬
‫شلوار نیچے کر دی۔۔۔۔اور پھر کہنے لگی۔۔۔اس دن کی طرح میری‬
‫پھدی چاٹ ۔۔۔۔ اور خود سیٹ کو پیچھے کی طرف لمبا کر کے لیٹ‬
‫گئی۔۔۔ اب میں اپنی سیٹ سے تھوڑا سا کھسکا ۔۔۔اور آنٹی کی چوت‬
‫پر جھک گیا۔۔۔ایسا کرنے سے ان کی پھدی سے اُٹھنے والی مست‬
‫مہک میرے نتھنوں سے ٹکرائی۔۔۔۔اور میں ان کی مست مہک کو‬
‫اپنے اندر سمونے لگا۔۔۔۔ ۔ پھر ان کی پھدی میں انگلی ڈال کر دیکھا‬
‫تو۔۔۔۔۔۔‬

‫وہ پانی سے بھری ہوئی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں بوال۔۔۔۔ ارم جی۔۔۔‬
‫آپ کی چوت تو پہلے ہی پانی سے بھری پڑی ہے تو وہ کہنے لگیں‬
‫۔۔۔ باتیں نہ بنا ۔۔۔۔۔اور میری پھدی چاٹ ۔۔ ان کی بات سن کر۔۔ ۔۔۔۔۔۔‬
‫میں نے ان کی چوت پر اگے گھنے بالوں کو ایک طرف کیا۔۔۔اور ان‬
‫کی پھدی کو چاٹنا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔ میں ان کی پھدی چاٹ رہا تھا‬
‫جبکہ وہ مزے سے کراہ رہیں تھیں ۔آف ۔فففف۔ف۔فف۔۔ف آہہ ہ ہ۔۔اور‬
‫ساتھ ساتھ کہہ رہیں تھیں۔۔۔شاہ۔۔۔ تم بہت اچھی پھدی چاٹتے ہو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫بڑے پیار سے پھدی چاٹتے ہو۔۔ اف تمہاری زبان میں کتنا مزہ‬
‫ہے۔۔۔اور ۔۔۔۔۔۔کچھ دیر بعد ۔۔انہوں نے ہلکا سا آرگیزم بھی کر دیا۔۔۔‬
‫تب میں نے اپنا منہ ان کی چوت سے ہٹایا۔۔اور بوال۔۔۔۔ آنٹی مجھے‬
‫پھدی مارنی ہے۔۔۔۔تو وہ کہنے لگیں۔۔۔ لیکن پہلے مجھے لن چوسنے‬
‫دو۔۔اتنا کہنے لے بعد انہوں نے سیٹ کو اوپر کیا۔۔۔ اور میری طرف‬
‫دیکھنے لگیں۔۔۔ میں نے بھی ان کی طرف دیکھا۔۔۔اور ۔ اپنی شلوار کا‬
‫آزار بند کھول کر۔۔۔۔۔۔۔اور اسے نیچے کر دیا۔۔۔ شلوار نیچے ہوتے ہی‬
‫میرا شیر جوان جھومتا ہوا ان کی نظروں کے سامنے آ گیا۔۔۔اور وہ‬
‫اس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بڑے ہی پیار سے بولیں۔۔۔ تمہارا پاس بڑے‬
‫ہی خوب صورت ہتھیار ہے۔۔۔۔۔ اسے دیکھتے ہی لڑکیوں کی پھدیاں‬
‫پانی سے بھر جاتی ہوں گی۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے منہ‬
‫کو میرے لن پر جھکایا۔۔۔اور اپنی۔۔۔۔ لمبی سی زبان باہر نکال‬
‫لی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر میرے لن کو چاروں طرف سے چاٹنا شروع ہو‬
‫گئیں۔۔۔ لن پر زبان پھیرتے پھیرتے۔۔۔ جب وہ اچھی طرف کڑک ہو‬
‫گیا۔۔۔۔تو۔۔۔ انہوں نے میرے ٹوپے کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔اور اسے‬
‫چوسنا شروع ہو گئیں۔۔۔ جیسے ہی میرا لن ان کے منہ میں گیا۔۔اور‬
‫پہلے چوپے پر ہی میرے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلنا شروع ہو‬
‫گیا۔۔۔۔اور میں آنٹی کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہہ رہا تھا۔۔ یس‬
‫آنٹی ۔۔۔یسس ایسے ہی لن چوسیں ۔۔۔۔پورا منہ میں لیں۔۔۔اُف ف ف ف‬
‫ف ف ف ۔۔۔۔آپ کتنا اچھا لن چوستیں ہیں۔‬

‫لن چوسنے کے کچھ دیر بعد انہوں نے اپنا سر اُوپر اُٹھایا اور مجھ‬
‫سے کہنے لگیں۔۔۔اب مجھ چودو۔۔۔۔ اور دوبارہ سیٹ پر بیٹھ گئیں ۔۔۔‬
‫ان کی بات سن کر میں نے اپنی سیٹ سیدھی کی اور پھر ادھر ادھر‬
‫دیکھتے ہوئے ان سے بوال۔۔۔ گاڑی کی بیک درختوں کی طرف کر‬
‫لیں ۔۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگیں اس سے کیا ہو گا ؟؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔تو میں ان‬
‫سے بوال۔۔۔ چاہے تو آپ پچھلی سیٹ پر گھوڑی بن جانا یا چاہیں تو‬
‫آپ سیدھی لیٹ جانا ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔میں آپ کی ٹانگیں اُٹھا کر چودوں گا ۔۔ یا‬
‫پھر تیسرا آپشن یہ ہے کہ آپ اپنے دونوں ہاتھ گاڑی کی ڈگی پر رکھ‬
‫لینا اور گانڈ پیچھے نکال دینا ۔۔۔ اس طرح میں آپ کی پھدی ماروں‬
‫گا۔۔۔۔۔ انہوں نے ایک لمحے کے لیئے سوچا ۔۔۔اور پھر گاڑی اسٹارٹ‬
‫کرتے ہوئے بولیں۔میری جان ۔۔۔ میں تیری کتیا ہوں۔۔۔ میں نے کتیا‬
‫کی طرح تیرے لن کو چاٹا تھا ۔۔۔۔۔۔اور میں کتیا بن کر تجھ سے‬
‫چدوانا پسند کروں گی۔ ۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے گاڑی کی بیک‬
‫درختوں کی طرف کر لی۔۔۔۔۔۔ اب پوزیشن یہ تھی کہ جس طرف سے‬
‫میں نے آنٹی کو گھوڑی بنا کر چودنا تھا اس کے آگے ایک بڑا سا‬
‫درخت لگا ہوا تھا۔۔۔ جبکہ گاڑی کی بیک پر بھی دو درخت تھے۔۔۔۔۔‬
‫جیسے ہی آنٹی نے گاڑی پارک کی۔۔۔۔۔تو میں نے سیٹ پر بیٹھے‬
‫بیٹھے۔۔۔۔۔آس پاس کے ماحول کا اچھی طرح جائزہ لیا۔۔۔ اور شلوار‬
‫کو فرنٹ سیٹ پر پھینکا۔۔۔۔اور گاڑی سے نیچے اتر گیا۔۔۔۔ اور اپنی‬
‫قمیض کو اوپر کر کے پچھلی سیٹ کا دروازہ کھول کر اس کے‬
‫سامنے کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت میرا لن فل جوبن میں تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫جیسے ہی میں گاڑی کا پچھال دروازہ کھول کر کھڑا ہوا۔۔۔اسی وقت‬


‫آنٹی نے بھی گہری نطروں سے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔اور پھر انہوں‬
‫نے بھی اپنی شلوار اتار دی ۔۔۔۔اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر آ گئیں‬
‫۔۔۔ یہاں آ کر انہوں نے اپنی خوب صورت گانڈ کو باہر نکال۔۔۔اور‬
‫کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چل میری پھدی مار۔۔۔ ۔۔۔۔ان کی خوب صورت گانڈ‬
‫میری آنکھوں کے سامنے تھی۔۔۔اتنی مست گانڈ دیکھ کر میرا دل بے‬
‫ایمان ہو گیا ۔۔۔چنانچہ میں نے اپنی انگلیوں کی مدد سے گانڈ کی‬
‫دونوں پھاڑیوں کو الگ کیا۔۔۔ اور ایک نظر ان کے سوراخ پر‬
‫ڈالی۔۔۔۔۔ دیکھا تو پھدی کی طرح ان کی گانڈ پربھی باریک باریک‬
‫لیکن ریشمی ۔۔۔ بال اگے ہوئے تھے ۔۔۔ اب میں نے اپنی ایک انگلی‬
‫کو گیال کیا ۔۔اور ان کی موری میں ڈالتے ہوئے بوال۔۔۔۔ ۔۔ارم جی۔۔۔۔‬
‫آپ نے گانڈ کچھ زیادہ ہی باہر نکال دی ہے ۔ پہلے اسے ماروں کیا؟‬
‫تو وہ سر کو پیچھے کی طرف کر کے بولی۔۔ جی نہیں ۔۔۔‬
‫مسٹر!۔۔گانڈ کو اپنے سامنے دیکھ کر باؤال نہ ہو ۔۔۔ ۔۔۔ یہ تو میں نے‬
‫تمہاری سہولت کے لیئے باہر نکالی تھی۔۔۔ تا کہ تمہارا لن آسانی سے‬
‫اندر باہر جا سکے تو میں ان کی نرم نرم گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔ گانڈ مارنا منع ہے۔۔۔۔۔ چھونا تو نہیں نا۔۔۔تو وہ جواب دیتے‬
‫ہوئے بولی۔۔۔ مارنا بھی کوئی منع نہیں ۔۔۔ لیکن اس وقت پھدی میں‬
‫ڈالو۔۔۔ ان کی بات کو سن کر میں نے اپنی دونوں انگلیوں کو منہ کی‬
‫طرف لے گیا ۔۔اور پھر ان پر تھوک لگا کر ٹوپے کو گیال کیا۔۔۔ اور‬
‫لن کو ہاتھ میں پکڑ کر آنٹی کی چوت کے چھید پر رکھ کر بوال۔۔۔۔‬
‫اندر ڈال دوں ؟۔۔تو انہوں نے بڑی بے تابی کے ساتھ جواب دیا۔۔۔ ہاں‬
‫جلدی ڈال۔۔۔ چنانچہ میں نے لن کو پکڑ کر ان کی بالوں بھری پھدی‬
‫پر اچھی طرح رگڑا ۔۔۔اور پھر آہستہ سے پھدی کے سوراخ پر رکھ‬
‫کر ایک دھکا ۔۔ مارا۔۔۔۔ تو دھکے کی شدت سے دھپ۔۔۔ کی آواز‬
‫سنائی دی۔۔اور میرا لن پھسل کر آنٹی کی چکنی چوت میں چال ۔۔گیا۔۔۔‬
‫ادھر جیسے ہی لن آنٹی کی چوت میں داخل ہوا۔۔انہوں نے ہلکی سی‬
‫چیخ ماری۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔ظالم گھسے مار ۔۔۔ ظالم گھسے مار۔۔۔۔۔‬

‫اور میں نے دو تین ظالم قسم کے گھسے مار ے ۔۔۔تو وہ سسکیاں‬


‫بھرتے ہوئے بولیں۔۔۔ ہاں ایسے ہی ظالم گھسے مار۔۔۔اور میں ان کی‬
‫پھدی مارنا شروع ہو گیا۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد وہ بولیں۔۔۔ گھسے مارتے‬
‫ہوئے میری گانڈ پر تھپڑ مار۔۔۔اس پر میں نے ان کی گانڈ پر ایک‬
‫تھپڑ مارا ۔۔تو وہ چال کر بولی۔۔۔۔۔۔ گھسے اتنے زور کے۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫تھپڑ اتنا ہلکا۔۔۔۔ بہن چود تھپڑ مار مار کر میری بنڈ الل کر دے۔۔۔۔‬
‫میڈم کی اس بات کے بعد۔۔ میں نے گھسے مارنے کے ساتھ ساتھ ان‬
‫کی بنڈ پر اتنے ذور ذور سے تھپڑ مارے کہ ان کی بنڈ سرخ ہونے‬
‫کے ساتھ ساتھ ۔۔۔۔تھوڑی سوج بھی گئی۔۔۔۔لیکن میں نے گھسے اور‬
‫تھپڑ جاری رکھے۔۔۔۔تو وہ شہوت اور خوشی کے ملے جلے جزبات‬
‫سے بولیں۔۔۔ ایسے ٹھوک نا میری پھدی کو۔۔۔۔ ایسے مار۔۔۔اور تیز‬
‫مار۔۔۔۔۔ یس۔س۔س۔۔سس۔۔میری جان۔۔۔ تم اچھے جا رہے ہو‬
‫شاباش۔ش۔شش۔ش۔ش۔ش۔ ۔۔پھر۔۔۔۔۔۔۔ایسے ہی ایک گھسے اور تھپڑ پر‬
‫وہ ان کا پورا جسم زوردار طریقے سے کانپا۔۔اور پھر کانپتا ہی گیا۔۔۔‬
‫چند سیکنڈ کے وقفے کے بعد جب ان کا جسم کانپنا بند ہو گیا۔۔۔تو میں‬
‫نے ایک زوردار گھسا مارا۔۔۔چوت میں لن جاتے ہی آنٹی کے منہ‬
‫سے آواز نکلی اوہ ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی آنٹی ایک دم سے‬
‫واپس مڑیں۔۔۔جس کی وجہ سے میرا لن ان کی سلپری چوت سے باہر‬
‫نکل گیا۔۔۔۔۔۔ دوسری طرف واپس ُمڑنے کے ساتھ ہی ۔۔۔۔۔۔آنٹی اپنی‬
‫چوت کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔۔۔۔مم ۔۔۔مم۔۔۔۔۔میری ۔۔‬
‫بس۔بس۔۔ بس ہو گئی ہے اور میں نے دیکھا تو ان کی چوت کا پانی‬
‫۔۔۔۔۔ ٹانگوں کے بیچ سے بہہ بہہ کر نیچے جا رہا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر‬
‫میں آگے بڑھا۔۔۔اور ان کی منی سے لتھڑے لن کو ان کے سامنے‬
‫لہرا کر بو ال۔۔۔۔ ۔۔۔ تمہاری بس ہوئی ہو گی رنڈی۔۔۔۔۔ میرا تو ابھی‬
‫بھی کھڑا ہے۔۔۔۔ میری بات سنتے ہی انہوں نے لن کر پکڑا۔۔۔۔۔ اور‬
‫اسے اپنے منہ میں لے کرندیدوں کی طرح چوسنا شروع ہو گئیں۔۔۔‬
‫وہ اتنے پیشن اور تباہ کن انداز سے لن کو چوس رہیں تھیں کہ میری‬
‫چیخیں نکل گئیں۔۔۔اور میں سچ ُمچ اونچی آواز ۔۔ میں چالنا شروع ہو‬
‫گیا۔۔۔۔ اوہ۔۔۔اوہ۔۔۔۔آہ ہ ہ ہ ۔ آہ۔۔۔۔ ابھی ان کے منہ میں لنڈ دیئے تھوڑی‬
‫ہی دیر گزری تھی ۔۔۔۔کہ مجھے ایسا لگا کہ جیسے میں خالص ہونے‬
‫لگا ہوں ۔۔۔۔۔۔ چنانچہ میں نے مزے کی شدت سے آنٹی کے سر کو‬
‫اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان کے منہ کو اپنے‬
‫لنڈ پر سختی کے ساتھ دبا کر بوال۔۔۔۔۔ ۔۔۔ میری منی کو پی‬
‫رنڈی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرے لن کو جوس پی۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میرے‬
‫لن سے منی نکل نکل کر ان کے منہ میں ڈلنا شروع ہو گئی۔۔۔۔میں‬
‫خالص ہوتا گیا ۔۔اور ارم آنٹی میری منی پیتی گئی۔۔۔۔۔پیتی‬
‫گئی۔۔۔۔پی۔۔۔۔تی۔۔۔۔ گ ئ۔۔۔ئ۔۔۔ئ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫)قسط نمبر ‪(11‬‬

‫اس سے اگلے دن کی بات ہے کہ میں آفس میں بیٹھا کام کر رہا تھا‬
‫کہ سیل فون کی گھنٹی بجی دیکھا تو عدیل تھا سو میں نے فون آن‬
‫کیا اور ہیلو کے بعد وہ کہنے لگا۔۔۔ واہ استاد تم نے تو کمال کر دیا ۔۔‬
‫عدیل کی بات سن کر میں حیران ہوتے ہوئے بوال کیوں کیا ہوا‬
‫بھائی۔؟ تو وہ خوشی کے عالم میں بوال۔۔۔۔ زیادہ بن نہ گانڈو ۔۔۔۔ ماما‬
‫نے مجھے سب بتا دیا ہے پھر خود ہی کہنے لگا یار میں ارم آنٹی‬
‫کے پالٹ کی بات کر رہا ہوں ۔۔۔۔ویری گڈ یار۔۔ پالٹ پر قبضہ چھڑا‬
‫کر تم نے بڑا زبددست کارنامہ سر انجام دیا ہے۔۔ تو میں اس سے‬
‫کسر‬
‫بوال کوئی اور بات کر یار۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگا یار ِ‬
‫نفسی سے کا م نہ لے۔۔۔ تو نے واقعی ہی بڑا کمال کیا ہے تو میں‬
‫اسے جواب دیتے ہوئے بوال ۔۔۔۔ اب زیادہ لن پہ نہ چڑھ ۔۔۔لیکن وہ‬
‫میری بات سنی ان سنی کرتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ اور ہاں ماما نے‬
‫مجھے یہ بھی بتایا ہے کہ وقتی طور پر باجی کے سر سے سوتن‬
‫والی بال ٹل گئی ہے ۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ جوش کے عالم میں بوال۔۔۔‬
‫۔۔۔ ماما یہ بھی کہہ رہیں تھیں کہ یہ سب تمہارے دوست کی وجہ سے‬
‫ہوا ہے اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں تمہارا سخت گلہ بھی کیا ہے‬
‫کہہ رہیں تھیں کہ جب سے میں کراچی آیا ہوں تم ایک آدھ بار ہی‬
‫ہمارے گھر گئے ہو۔۔ اس لیئے یار تھوڑا سا وقت نکال کر مام سے‬
‫مل آؤ۔۔۔ ویسے بھی آج کل ان کی طبیعت کچھ خراب رہتی ہے‬
‫۔۔۔عدیل کی بات سن کر میں دل ہی دل میں ہنسا اور عدیل سے‬
‫مخاطب ہو کر دل ہی دل میں بوال۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔ مجھے معلوم ہے دوست کہ‬
‫تمہاری مام مجھے کیوں بال رہی ہیں۔۔۔ ۔۔لیکن کیا کروں بھائی۔۔ کہ‬
‫اس وقت پائپ الئن میں تمہاری مام سے بھی زیادہ خوبصورت اور‬
‫جوان پھدیاں میری راہ تک رہیں ہیں۔۔ ۔ لیکن ظاہر ہے میں اس سے‬
‫یہ بات ہر گز نہ کہہ سکتا تھا چنانچہ اس کی بجائے میں اس سے‬
‫بوال۔۔ کہ سوری یار پچھلے دنوں میں کچھ مصروف رہا تھا اس لیئے‬
‫میں آنٹی سے ملنے نہ جا سکا۔۔۔ اب تھوڑا فری ہوا ہوں تو آج کل‬
‫میں تمہارے گھر چکر لگاؤں گا۔۔اس نے میرا شکریہ ادا کیا ۔۔۔۔اور‬
‫اچانک ہی کہنے لگا اور ہاں ۔۔۔ باجی کی آفت ٹالنے کے لیئے بھی‬
‫میری طرف سے شکریہ قبول کرو۔۔ تو میں اس سے بوال ۔۔ نہ کر‬
‫گانڈو ۔۔۔ یاری دوستی میں کس بات کا شکریہ ؟ تو وہ اسی ٹون میں‬
‫کہنے لگا ۔۔۔ لیکن پھر بھی یار ۔۔ تو مجھے بتا کہ میں تیرے لیئے کیا‬
‫کر سکتا ہوں؟ تو میں اس کو جواب دیتے ہوئے بوال۔۔۔ یس تیرے‬
‫کرنے کو ایک کام ہے تو وہ جزبات کی شدت سے بوال۔۔۔۔ مجھے‬
‫بتاؤ پلیز میں تمہارے لیئے ہر کام کرنے کو تیار ہوں۔۔۔ اس پر میں‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔۔ تیرے لیئے کام یہ ہے کہ تو مجھے اپنی اور مامی کی‬
‫ادلہ بدلی والی سٹوری سنا۔۔۔ میری بات سن کر اس نے قہقہہ لگایا‬
‫۔۔۔اور پھر کہنے لگا ۔۔ بہن چودا تیرا دھیان ابھی تک وہیں پہ اٹکا ہوا‬
‫ہے۔۔ اس پر میں نے اسے جواب دیا کہ ۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ ۔۔۔ میرا‬
‫نام شاہ سٹوری ہے اور ۔۔۔ تیرا کیا خیال ہے کہ میرا دھیان لن پھدی‬
‫کے عالوہ اور کہاں ہو سکتا ہے؟۔۔۔ تو وہ ہنستے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔۔‬
‫سدھر جا دوست ۔۔۔ ورنہ زمانہ خود سدھار دے گا۔۔۔ تو میں اس سے‬
‫کہنے لگا۔۔ ۔۔ تمہیں تو معلوم ہے دوست کہ مجھے زمانہ نہیں ۔۔۔البتہ‬
‫زنانہ ضرور سدھار سکتی ہے اس لیئے تو بھاشن دینے چھوڑ۔۔۔‬
‫مجھے اپنی اور مامی والی ادلہ بدلی کی سٹوری سنا۔۔۔۔۔ اس پر وہ‬
‫کہنے لگا۔۔۔ ۔۔۔تو فکر نہ کرو مجھے پنڈی آ لینے دو ۔۔۔ میں تم سے یہ‬
‫اور اس جیسی دیگر سیکس سٹوریز ضرور شئیر کروں گا۔۔۔ تو میں‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہوا۔۔۔۔کہ ابھی تیرا آنے کا ارادہ نہیں‬
‫ہے ؟ ۔۔۔ تو وہ بوال۔۔۔ایسی بات نہیں ہے آج میرے آنے کا پروگرام تھا‬
‫۔۔ لیکن عین وقت پر معلوم ہوا کہ نانا جی کی طبیعت خراب ہے‬
‫۔۔۔۔سو ماما نے مجھے ۔۔ نانا کی خیریت دریافت کرنے کے لیئے ۔۔۔‬
‫الہور جانے کا حکم دیا ہے۔۔۔چنانچہ نانا جی کا حال احوال پوچھ کر‬
‫میں اور تیری بھابھی واپس پنڈی آ جائیں گے۔۔۔ بھابھی کے ذکر پر‬
‫میں بوال ۔۔۔۔ یہ بتا بھابھی کیسی ہے؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بوال۔۔‬
‫ایک دم فٹ ہے اس کے ساتھ ہی میرے کانوں میں عدیل کی آواز‬
‫گونجی۔۔ لو بھابھی سے بات کر لو۔۔۔ پھر چند سیکنڈز بعد۔۔۔۔ دوسری‬
‫جانب سے ایک مترنم سی آواز سنائی دی ۔۔ ہائے۔۔۔ اور گوری کی‬
‫آواز سن کر میرا دل خواہ مخواہ ہی دھک دھک کرنے لگا۔۔۔۔۔اور‬
‫میں کنفیوز سا ہو کر ۔۔۔ بوال۔۔۔۔ ہائے بھابھی کیسی ہو آپ؟ اور پھر‬
‫رسمی بات چیت کے بعد میں نے فون بند کر دیا۔۔ میں جیسا کہ آپ‬
‫کو معلوم ہے کہ خواتین کے ساتھ لچھے دار باتیں کرنے میں خاصہ‬
‫ایکسپرٹ واقع ہوا تھا ۔۔۔۔۔لیکن پتہ نہیں کیا بات تھی کہ گوری سے‬
‫بات کر تے ہی میری حالت عجیب سی ہو جاتی تھی۔۔۔۔۔۔۔‬
‫چونکہ آنے والے ویک اینڈ پہ ہمار ا پروگرام ایوبیہ جانے کا تھا‬
‫۔۔اس لیئے پروگرام کی کنفرمیشن کے لیئے میں نے فرزند صاحب‬
‫کو فون کیا تو وہ بند جا رہا تھا۔۔۔ چانچہ ادھر سے نو رپالئی کے بعد‬
‫میں نے سوچا ۔۔۔چلو ثانیہ سے معلومات لیتے ہیں یہ سوچ کر جیسے‬
‫ہی میں نے ثانیہ کو فون کیا تو پہلی گھنٹی پر اس نے فون اُٹھا‬
‫لیا۔۔۔اور بڑی شوخی سے بولی ۔۔۔ کمال ہے آج آپ نے کیسے فون کر‬
‫دیا؟۔۔۔تو اس پر میں ترک بہ ترکی جواب دیتے ہوئے بوال۔۔۔ آپ تو‬
‫جیسے ڈیلی کی پانچ کالیں کرتی ہو۔۔۔۔ تو وہ ہنس کر کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔۔حضور آپ کو کوئی غلط فہمی ہوئی ہے پانچ کالیں میری‬
‫نہیں کسی اور کی طرف سے بنتی ہیں۔۔۔تو میں اس سے بوال ۔۔ تم‬
‫آدھی گھر والی ہو۔۔سو پانچ نہ سہی ۔۔ تمہاری طرف سے ڈھائی کالیں‬
‫تو بنتی ہیں ناں۔۔۔۔۔۔ اور اس سے پہلے وہ شوخ کچھ کہتی میں جلدی‬
‫سے بوال۔۔۔ ۔۔۔۔محترمہ میں نے آپ کو فون اس لیئے کیا ہے کہ‬
‫مجھے بتائیں کہ اس ویک اینڈ پر ایوبیہ جانے کا پروگرام ہے یا‬
‫نہیں؟ ۔۔۔کہ بندے نے آفس سے چھٹی بھی لینی ہو گی۔۔۔تو وہ جواب‬
‫دیتے ہوئے بولی ۔۔۔ ہمارے ہاں بھی کل سے یہی روال چل رہا ہے۔۔‬
‫پراسرار لہجے‬ ‫تو میں چونک کر بوال ۔۔۔ کون سا روال؟ اس پر وہ ُ‬
‫میں بولی۔۔ ساری باتیں فون پر تھوڑی بتائی جاتی ہیں۔۔۔ پھر اچانک‬
‫ہی کہنے لگی مجھے آپ سے بڑا گلہ ہے اور وہ یہ کہ آپ ہمارے‬
‫گھر آئے اور مجھ سے ملے ہی نہیں۔۔۔تو اس پر میں بڑے ہی معنی‬
‫خیز لہجے میں بوال۔۔۔۔ میں ابھی آ جاتا ہوں کیا تم مجھ سے ملو گی؟‬
‫ذہین اور چنچل ثانیہ نے میرے لہجے میں چھپی مستی کو بھانپ‬
‫لیا۔۔۔اسی لیئے دوسری طرف چند سیکنڈز کے لیئے خاموشی چھا‬
‫گئی۔۔جیسے وہ اس بارے کوئی فیصلہ کر رہی ہو۔۔۔۔۔ پھر چند سیکنڈز‬
‫کے بعد ۔۔۔ اچانک ہی اس کی شوخ آواز سنائی دی آپ آئیں۔۔۔ اور ہم‬
‫نہ ملیں ایسے تو حاالت نہیں ۔۔۔تو میں اس سے کہنے لگا تو ٹھیک‬
‫ہے آدھی گھر والی صاحبہ۔۔۔ ۔۔۔۔ تیار رہو میں تمہاری طرف آ رہا‬
‫ہوں ۔۔تو اس کی زندگی سے بھر پور آواز سنائی دی ۔۔۔ جی میں تیار‬
‫ہوں اور فون بند کر دیا۔۔۔۔۔۔‬
‫ارادہ تو میرا ثانیہ کے گھر جانے کا تھا لیکن آفس سے نکلتے وقت‬
‫اچانک ہی میرا پروگرام بدل گیا اور میں نے سوچا کہ پہلے آنٹی‬
‫سے ہیلو ہائے کر تا جاؤں۔۔ ۔۔یہ سوچ کر میں عدیل کے گھر جا پہنچا‬
‫اور ان کی اطالعی گھنٹی بجا دی۔۔تھوڑی دیر بعد جس شخصیت نے‬
‫دروازہ کھوال اسے دیکھ کر میرے مزموم عزائم۔۔۔۔ بابت آنٹی جی پر‬
‫پانی پھر گیا کیونکہ دروازہ کھولنے واال اور کوئی نہیں بلکہ عدیل‬
‫کے ڈیڈی تھے ۔۔ ان کو اپنے سامنے دیکھ کر غصہ تو بہت آیا لیکن‬
‫میں زبردستی مسکراتے ہوئے بوال۔۔ کیسے ہیں انکل؟ بڑے دنوں بعد‬
‫مالقات ہوئی تو وہ بڑی خوش دلی سے مسکراتے ہوئے بولے۔۔میں‬
‫تو ادھر ہی ہوتا ہوں یار لیکن تم نہیں آتے ۔۔ اور پھر مصا فحے کے‬
‫بعد مجھے گیٹ سے اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔ گیٹ سے اندر داخل‬
‫ہوتے ہی میں نے ان سے پوچھا کہ انکل جی آنٹی کیسی ہیں؟ تو وہ‬
‫فکر مندی سے بولے ۔۔کیا بتاؤں یار پچھلے کچھ دنوں سے اس کی‬
‫طبیعت مسلسل خراب رہتی ہے ۔۔ تو میں ان سے بوال ۔۔ ڈاکٹرز کیا‬
‫کہتے ہیں ؟ تو وہ کہنے لگے آجکل کے ڈاکٹر بھی ایسے ہی ہیں ۔۔‬
‫کہتے ہیں کہ معمولی بخار ہے ٹھیک ہو جائے گا۔۔۔ لیکن ابھی تک‬
‫کوئی خاص افاقہ نہیں ہوا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ مجھے لے کر بیڈ‬
‫روم میں آ گئے۔۔ ۔۔۔ دیکھا تو آنٹی بیڈ پر لیٹی ہوئی تھیں۔۔۔ مجھے‬
‫دیکھ کر ان کے چہرے پر رونق سی آ گئی اور وہ بستر سے اُٹھتے‬
‫ہوئے بولیں۔۔ کیسے ہو بیٹا؟ میں بوال اچھا ہوں۔۔ آپ سنائیں؟۔۔۔ اور‬
‫اس کے ساتھ ہی بیڈ کے سامنے پڑی کرسی ( جس پر میرے آنے‬
‫سے پہلے غالبا ً انکل بیٹھے تھے) پر بیٹھنے ہی لگا تھا کہ آنٹی‬
‫بولیں۔۔۔ کرسی پر نہیں بلکہ میرے پاس آ کر بیٹھو ۔۔‬
‫چنانچہ میں ان کے پاس بستر پر بیٹھ گیا۔اور ان سے حال پوچھا تو‬
‫جواب دینے سے پہلے انہوں نے ایک نظر دروازے کی طرف‬
‫دیکھا۔۔۔ پھر اپنی کالئی بڑھاتے ہوئے ۔۔۔۔ عجیب سے لہجے میں‬
‫بولی ۔۔ دیکھ لو ابھی بھی گرم ہوں۔۔۔ اس پر میں نے ان کی کالئی‬
‫پکڑی اور نبض پر انگلی رکھتے ہوئے اسی ٹون میں بوال۔۔۔ اوہو‬
‫!!۔۔۔ آنٹی جی۔۔۔ آپ تو سچ ُمچ بہت گرم ہو۔۔۔ کوئی دوا دارو لیا؟؟ آنٹی‬
‫کے جواب دینے سے پہلے ہی انکل ایک ٹرے کے ساتھ کمرے میں‬
‫داخل ہوئے اور اس ٹرے میں کولڈ ڈرنک پڑی تھی چنانچہ انکل پر‬
‫نظر پڑتے ہی آنٹی کہنے لگی ۔۔ بیٹا دوائی وغیرہ تو بہت کھائی ہیں‬
‫لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے ابھی تک آرام نہیں آ رہا۔۔۔اسی دوران انکل‬
‫نے مجھے کولڈ ڈرنک پکڑائی اور خود کرسی پر بیٹھ گئے۔۔۔ ہماری‬
‫گپ شپ جاری تھی کہ اچانک ہی آنٹی کہنے لگی سنیئے جی میری‬
‫دوائی ختم ہو گئی ہے زرا کیمسٹ سے جا کر لے آئیں ۔۔ انکل چونک‬
‫کر بولے ۔۔ ۔۔ پہلے بتانا تھا نا نیک بخت۔۔۔۔ تو آنٹی کہنے لگیں ۔۔‬
‫مجھے بھی ابھی یاد آیا ہے پھر انہوں نے ڈاکٹر کا لکھا نسخہ انکل‬
‫کو پکڑایا۔۔۔اور کہنے لگیں زرا جلدی آیئے گا۔۔۔ انکل نے آنٹی کے‬
‫ہاتھ سے وہ سلپ پکڑی اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولے۔۔۔بیٹا آپ‬
‫کو تکلیف تو ہو گی لیکن مین گیٹ کو الک کرنا ہے چنانچہ میں ان‬
‫کے ساتھ ہو لیا۔۔ مین گیٹ کو الک کر کے جیسے ہی میں واپس‬
‫کمرے میں پہنچ کر دیکھا تو آنٹی موجود نہ تھیں۔۔۔ زرا غور کیا تو‬
‫واش روم سے پانی گرنے کی آواز سنائی دے رہی تھی۔۔چنانچہ میں‬
‫کرسی پر بیٹھ گیا کچھ دیر بعد وہ واش روم سے باہر نکلیں اور‬
‫مجھے دیکھ کر کہنے لگیں سوری بیٹا ۔۔۔ بڑے زوروں کا پیشاب لگا‬
‫تھا۔۔۔ ۔۔ پھر مسکراتے ہوئے معنی خیز لہجے میں بولیں۔۔۔ پتہ نہیں‬
‫کیا بات ہے کہ تمہیں دیکھ کر ۔۔۔۔ یا پیشاب کرنے کے بعد اب میں‬
‫خود کو کافی بہتر محسوس کر رہی ہوں اس کے ساتھ ہی انہوں نے‬
‫ایک بار پھر سے۔۔۔ اپنی گوری کالئی کو میرے سامنے کر دی۔۔ میں‬
‫نے ان کی کالئی پکڑی اور نبض پر ہاتھ رکھ کر بوال۔۔۔ آپ تو کہہ‬
‫رہیں تھیں کہ آپ بہتر محسوس کر رہیں ہیں۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔ یہ تو ابھی‬
‫بھی گرم ہے تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی عجیب لہجے‬
‫میں کہنے لگی۔۔۔ ابھی تو میں ٹھیک تھی۔۔۔۔ شاید تمہیں دیکھ کر پھر‬
‫سے گرم ہو گئی ہو گئی ہو گی۔۔۔ میں چونکہ ان باتوں کا پرانا‬
‫کھالڑی تھا ۔۔۔اس لیئے ان کی طرف سے دیا گیا پیغام سمجھ گیا۔(‬
‫ویسے بھی کافی عرصہ سے وہ ڈھکے چھپے لفظوں میں ۔۔۔ مجھے‬
‫"کچھ" کہہ رہیں تھیں) ۔۔ ۔۔ تاہم میں نے ان پر کچھ ظاہر نہیں ہونے‬
‫دیا ۔۔اور آنٹی سے بوال۔۔۔ کہیں تو کولڈ ڈرنک پال دوں؟ تو وہ میری‬
‫بات کا مزہ لیتے ہوئے اسی لہجے میں بولیں ایسی کون سی کولڈ‬
‫ڈرنک ہے جسے پینے سے میری گرمی دور ہو جائے گی؟۔۔پھر بات‬
‫کو جاری رکھتے ہوئے کہنے لگیں ویسے بائے دا وے یہ ڈرنک‬
‫سافٹ ہے یا ہارڈ؟ تو اس پر میں بوال۔۔۔ سافٹ ڈرنک سے تو آپ کا‬
‫کچھ نہیں بنے گا۔۔۔ اس لیئے آپ کے لیئے ہارڈ ڈرنک سلیکٹ کیا‬
‫ہے۔۔۔اتنی بات کرنے کے بعد میں نے بظاہر غیرارادی طور پر ۔۔(‬
‫لیکن درپردہ ان کو دکھانے کے لیئے)۔۔۔ خارش کے بہانے اپنے لن‬
‫کو مسل لیا۔۔۔۔ ادھر پتہ نہیں لن صاحب کو کس نے بتا دیا تھا کہ اس‬
‫کا کام بننے واال ہے ۔۔اس لیئے جیسے ہی میں نے لن پر خارش کے‬
‫لیئے ہاتھ بڑھایا ۔۔۔۔ تو وہ ہاتھ لگنے سے قبل ہی نیم ایستادہ ہو گیا تھا‬
‫۔۔۔۔۔ آنٹی جو میری اس حرکت کو بڑے غور سے دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔‬
‫میرے نیم کھڑے لن کو دیکھ کر ان کی آنکھوں میں اک۔۔ شہوانی سی‬
‫چمک آ گئی۔۔۔ ۔۔۔۔اور وہ کہنے لگیں ۔۔ لیکن مجھے کڑک ڈرنک‬
‫چایئے۔۔۔۔ان کی بات سن کر میں نے پینٹ کے اوپر سے ہی لن کو‬
‫مسال۔۔۔ اور لن صاحب جو پہلے ہی کھڑے ہونے کے بہانے ڈھونڈ‬
‫رہے تھے ۔۔۔ ایک دم سے تن گئے۔۔۔ جس کی وجہ سے میری پینٹ‬
‫کی ایک طرف خاصہ بڑا ابھار سا بن گیا۔۔۔ دوسری طرف آنٹی نے‬
‫میرے ابھار سے ایک منٹ کے لیئے بھی نظر نہیں ہٹائی۔۔۔ اب میں‬
‫نے ایک سٹیپ اور بڑھنے کا فیصلہ کیا اور آنٹی سے مخاطب ہو کر‬
‫بوال۔۔۔۔ کیا خیال ہے اتنا کڑک چل جائے گا؟۔۔۔میری اتنی ننگی بات‬
‫سن کر آنٹی نے مجھے سمائل دی۔۔۔۔۔اور اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے‬
‫داب کر دوسری طرف دیکھنے لگیں یہ اس بات کا اشارہ تھا ۔۔۔ کہ‬
‫جو کرنا ہے تم کو ہی کرنا ہو گا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں کرسی سے اوپر‬
‫اُٹھا۔۔۔ اور آنٹی کی طرف دیکھا تو وہ سر جھائے مسلسل اپنے ہونٹ‬
‫کاٹ رہی تھیں۔۔ ان کی کالئی جو کہ پہلے ہی میرے ہاتھ میں تھی۔۔۔‬
‫کو لے جا کر اپی پینٹ کے ابھار پر ہلکا سا ٹچ کر دیا۔۔۔ جیسے ہی‬
‫ان کے ہاتھ نے میرے لن کو چھوا۔۔۔ آنٹی کے جسم نے ایک جھر‬
‫جھری سی لی۔۔اور وہ کہنے لگیں۔۔۔ نہ کرو۔۔۔ تیرے انکل آ جائیں‬
‫گے۔( دوسرے لفظوں میں ان کہنے کا مطلب یہ تھا کہ جو کرنا ہے‬
‫انکل کے آنے سے پہلے پہلے کر لو)۔۔ ان کی بات سن کر میں نے‬
‫ان کی کالئی چھوڑ دی اور کرسی سے اُٹھ کر ان کے ساتھ پلنگ پر‬
‫بیٹھ گیا۔۔۔ میرا جسم ان کے جسم کے ساتھ ٹچ ہونے کی دیر تھی کہ‬
‫وہ کہنے لگیں ۔۔۔ نہ ۔۔نہ۔۔ کرو پلیزززززززززز۔۔۔ تیرے انکل آ گئے‬
‫تو بڑا مسلہ ہو جائے گا۔۔‬
‫ان کی یہ والی بات سن کر میں اپنا ایک ہاتھ ان کی ٹھوڑی کے‬
‫نیچے لے گیا۔۔۔اور پھر ان کے چہرے کو اوپر کر کے بوال۔۔۔۔ انکل‬
‫اتنی جلدی نہیں آئیں گے تو وہ ترنت ہی کہنے لگیں وہ کیسے؟۔۔۔ اس‬
‫پر میں نے انہیں حساب لگا کر بتالیا کہ۔۔۔۔ وہ اس طرح آنٹی جی کہ‬
‫آپ کے گھر سے کیمسٹ کی دکان کا فاصلہ کم از کم بیس منٹ کا‬
‫ہے سو بیس منٹ تو انکل کو گھر سے کیمسٹ کی دکان تک پہنچنے‬
‫میں لگیں گے اور پانچ چھ منٹ دوائی لینے میں لگ جائیں گے۔۔ یہ‬
‫ہوئے پچیس منٹ ۔۔۔ پھر دوائی لے کر واپس دکان سے گھر آنے میں‬
‫مزید بیس منٹ ۔۔۔تو یہ چالیس پینتالیس منٹ بنتے ہیں۔۔ پھر اتنی بات‬
‫کرنے کے بعد۔۔۔۔ میں نے ہاتھ بڑھا کر انہیں مزید قریب کر لیا۔۔۔ تو‬
‫وہ (بڑے آرام سے ) میرے ساتھ لگتے ہوئے بولیں۔۔۔ نہ کرو پلیز ۔۔۔‬
‫تب میں نے ان کو دھکہ دے کر پلنگ پر گرا دیا۔۔ اور خود ان کے‬
‫اوپر چڑھ گیا ۔۔ مجھے اپنے اوپر چڑھتا دیکھ کر وہ خوف زدہ آواز‬
‫میں بولیں ۔۔۔ کک ۔۔۔کیا کرنے لگے ہو؟ ۔۔ تو میں شہوت بھری آواز‬
‫میں بوال ۔۔۔ آپ کو چودنے لگا ہوں۔۔۔۔ میری بات سن کر ان کی‬
‫آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی۔۔۔ لیکن اس کے برعکس وہ کہنے‬
‫لگیں۔۔۔مم۔۔میں تمہاری ماں بجا ہوں۔۔تو میں ان کی بات ان سنی کرتے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔میں تو کچھ بھی نہیں کر رہا۔۔۔ تو وہ جلدی سے بولیں ۔۔۔‬
‫پھر میرے اوپر کیوں چڑھے ہو؟ ۔۔۔ پلیز نیچے اترو ۔۔۔۔۔۔۔ میں ایسی‬
‫عورت نہیں ہوں۔ آنٹی کی بات سن کر میں نے سوچا ۔۔۔۔ پتہ نہیں‬
‫کیوں۔۔۔ اس قسم کی ہر عورت اتنی پارسا کیوں بنتی ہے ؟۔۔ ابھی کچھ‬
‫دیر پہلے۔۔ خود ہی انہوں نے میرا لن دیکھ کر مجھے "کڑک" کا کہا‬
‫تھا اور اب جبکہ میں ان کو کڑکے لن دینے لگا ہو ں۔۔۔ ۔۔۔تو آگے‬
‫سے وہ خواہ مخواہ نیک پروین بن رہیں تھیں ۔۔۔۔ چونکہ میرے ساتھ‬
‫اس قبل بھی کئی خواتین اس قسم کا سلوک کر چکیں تھیں۔۔۔۔اس لئے‬
‫میں نے ان کی بات کو زیادہ اہمیت نہیں دی۔۔۔۔ اور۔۔۔۔ اپنی پینٹ کی‬
‫بیلٹ کھولنا شروع کر دی۔۔ یہ دیکھ کر وہ کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔ یہ یہ۔۔۔‬
‫پینٹ کیوں اتارنے لگے ہو؟ تو میں نے پینٹ اتار کر پلنگ پر پھینک‬
‫دی کہ ۔۔۔ آنٹی مجھے گرمی لگ رہی تھی اس لیئے پینٹ اتاری۔۔ اب‬
‫ت حال یہ تھی کہ اس وقت میرے نیچے صرف انڈروئیر رہ گیا‬ ‫صور ِ‬
‫تھا۔۔ جہاں ۔۔۔ میرا شیش ناگ پھن پھیالئے کھڑا تھا۔۔۔ جس کی وجہ‬
‫سے انڈر وئیر کے آگے ایک تمبو سا بن گیا تھا۔۔۔۔۔ آنٹی پھٹی پھٹی ۔۔۔‬
‫نظروں سے میرے تنبو کی طرف دیکھ رہیں تھیں۔ ان کی نظروں‬
‫سے عجیب سی پیاس۔۔۔۔۔وحشت ۔۔۔۔اور شہوت جھلک رہی تھی۔۔۔۔‬
‫(لیکن اس قسم کی عورتوں کی عادت کے عین مطابق۔کہ جنہیں لن‬
‫بھی چایئے ہوتا ہے اور پارسا بھی بنتی ہیں) ۔۔ میرے تنبو بنے لن‬
‫کو دیکھ کر کہنے لگیں۔۔۔۔ تت ۔۔تت۔تمہارے ارادے ۔۔مجھے اچھے‬
‫نہیں لگ رہے۔۔۔ پھر منت بھرے لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔۔ پلیز میرے‬
‫ساتھ ایسا نہ کرو ۔۔۔مجھے چھوڑ و ۔۔۔۔۔ میں تمہاری آنٹی ہوں۔۔ ان کی‬
‫بات سن کر میں نے انڈروئیر بھی اتار دیا ۔۔۔انڈروئیر اترتے ہی میرا‬
‫شیش ناگ پھن پھیال کر کھڑا ہو گیا۔۔۔آنٹی نے ایک نظر میرے اکڑے‬
‫ہوئے لن کی طرف دیکھا۔۔۔پھر انہوں نے اپنے ہونٹوں پر زبان پھیری‬
‫۔۔۔اور کہنے لگیں۔۔۔۔۔ پینٹ پہن لو بیٹا۔۔۔۔۔تمہارے انکل آ گئے تو آفت‬
‫مچ جائے گی۔۔۔۔۔ میں ان کی بات کو نظر انداز کرتے ہوئے آگے‬
‫بڑھا۔۔۔اور ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے ننگے لن پر رکھ دیا۔۔۔(حیرت والی‬
‫بات یہ ہے کہ انہوں نے ایک دفعہ بھی ہاتھ چھڑانے کی کوشش نہیں‬
‫کی) اور ان سے بوال۔۔۔ آنٹی اسے پکڑ کر بتائیں ۔۔۔ یہ کڑک ہے کہ‬
‫نہیں؟‬
‫انہوں نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ لیکن منہ سے‬
‫کچھ نہ بولیں۔۔۔ تب میں ان سے بوال ۔۔صرف پکڑنا ہی نہیں آنٹی‬
‫جی!۔۔۔بلکہ اسے دبانا بھی ہے ۔۔۔ لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا۔۔۔ تو‬
‫میں نے ان کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا ۔۔۔۔اور اسے لن پر دبا دیا۔۔۔ایسا‬
‫کرنے سے انہوں نے لن کو دو تین دفعہ کر ۔۔ تت۔۔تم ایسا کیوں کر‬
‫رہے ہو؟ جس کا مطلب میرے کاغذوں میں یہ تھا ۔۔پھدی مار‬
‫!!!۔۔۔۔۔اب میں نے ان کا ہاتھ چھوڑ دیا۔۔ ۔۔۔اور ان کی ٹانگیں کھول کر‬
‫۔۔۔۔ان کے اوپر لیٹ گیا۔۔۔میرے ایسا کرنے کی وجہ۔۔۔ لن پھدی کی‬
‫دونوں پھانکوں کے بیچ میں آ گیا۔۔۔تب میں نے ایک گھسا مارا ۔۔ جس‬
‫کی وجہ سے میرا لن شلوار سمیت ان کی پھدی میں گھس گیا۔۔۔۔ ان‬
‫کی پھدی میں لن پھنستے ہی ۔میں آنٹی کو چوم کر بوال۔۔۔ کیا لگا میرا‬
‫کڑک لن؟۔۔ تو وہ کمزور سی آواز میں بولیں ۔۔۔ میرے اوپر سے اُٹھ‬
‫جاؤ۔۔۔ تمہارے انکل آتے ہی ہوں گے۔۔۔ دوسرے لفظوں میں ان کہنے‬
‫کا مطلب یہ تھا کہ گانڈو جلدی چود ۔۔۔کہ تیرے باپ کے آنے کا وقت‬
‫ہو گیا ہے۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نے ہاتھ بڑھا کر ان کا آذار بند‬
‫کھوال۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں۔۔۔۔ نہ کرو پلیزز ۔۔۔ مجھے نہ کرو۔۔۔۔ ۔۔تم‬
‫میرے بیٹے جیسے ہو۔۔۔۔ لیکن میں نے ان کی ایک نہ سنی۔۔۔اور ان‬
‫کی ہپس کو اوپر اُٹھا نے لگا۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے واجبی سی مزاحمت کے‬
‫بعد شلوار اتارنے دی۔ شلوار اترتے ہی میں نے ایک نظر ان کی‬
‫پھدی پر ڈالی۔۔۔ واہ۔۔۔کیا شاندار پھدی تھی ۔ ان کی چوت بالوں سے‬
‫پاک۔۔۔۔لیکن گوشت سے بھر پور تھی۔۔۔۔ پھدی کے دونوں ہونٹ آپس‬
‫میں ملے ہوئے تھے۔۔۔اور ان کی چوت کا جوس ۔۔۔ باہر نکل رہا تھا۔۔۔‬
‫یہ دیکھ کر میں نے اپنی ایک انگلی ان کی چوت میں ڈال دی۔۔۔۔۔‬
‫اُف۔۔۔ ان کی پھدی تندور بنی ہوئی تھی۔۔۔۔۔میں نے انگلی کو ایک دو‬
‫دفعہ چوت کے اندر باہر کیا۔۔حیرت والی بات یہ ہے کہ چوت میں‬
‫انگلی ڈالنے سے آنٹی نے کوئی احتجاج نہیں کیا۔۔۔۔۔ویسے آنٹی کی‬
‫چوت کافی تنگ تھی۔۔۔‬

‫پھدی کا معائینہ کرنے کے بعد میں نے آنٹی کی طرف دیکھا ۔۔۔ تو ان‬
‫کی نظریں میری دونوں ٹانگوں کے بیچ ۔۔ تن کر کھڑے۔۔۔ اژدھا پر‬
‫جمی ہوئیں تھیں۔۔۔ تب میں نے ایک ہاتھ ان کی چوت پر رکھا اور‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔۔۔۔آنٹی جی آپ مجھے ۔۔ منع کر رہیں ہیں۔۔۔ جبکہ آپ کی‬
‫پھدی تو لن لینے کے لیئے دھائیاں دے رہی ہے۔۔۔ میری اس بات کا‬
‫انہوں نے کوئی جواب نہ دیا۔۔۔اور منہ پھیر کر دوسری طرف‬
‫دیکھنے لگیں۔۔۔پھر میں ان کی پھدی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔‬
‫ویسے آنٹی جی۔۔۔ آپ کی پھدی بڑی ہی نیٹ اینڈ کلین ہے۔۔۔۔ ۔۔اور‬
‫ایک بار پھر سے دو ا نگلیاں ان کی پھدی میں دے دیں۔۔ اور تیز تیز‬
‫اندر باہر کرنے لگا۔۔۔ ایک دو جھٹکوں کے بعد ہی مجھے رزلٹ مل‬
‫گیا۔۔۔۔۔اور وہ یہ کہ وہ چال کر بولیں۔۔۔ حرامی کی اوالد۔۔۔۔ انگلیاں باہر‬
‫نکال۔۔۔اور جو کرنا ہے جلدی کر۔۔۔تو میں معصوم بنتے ہوئے بوال۔۔۔۔‬
‫کہاں سے باہر نکالوں؟ تو وہ بڑی ہی بے بسی سے بولیں۔۔۔جہاں تم‬
‫نے ڈالی ہوئیں ہیں ۔۔تو میں جان بوجھ کر بوال ۔۔۔ کہاں ڈالی ہوئیں‬
‫ہیں؟۔تو وہ بڑی ہی درشت آواز میں بولیں۔۔ ۔۔ حرام ذادے ۔۔۔۔ میری‬
‫پھدی سے انگلیاں نکال۔۔۔اور ۔۔۔ وہ کر جس کے لیئے میری شلوار‬
‫اتاری ہے۔۔۔ ۔۔تو میں پھر سے معصوم بنتے ہوئے بوال۔۔۔ میں نے آپ‬
‫شلوار کس لیئے اتاری ہے ؟ میرا اتنا کہنے کی دیر تھی کہ بلی‬
‫تھیلے سے باہر آ گئی۔۔۔۔ میرے خیال میں اس وقت وہ شہوت کے‬
‫عروج پر تھیں ۔۔ ( ویسے بھی وہ کب تک برداشت کرتیں)۔۔۔ اس‬
‫لیئے۔۔ آنٹی میری طرف دیکھتے ہوئے۔۔۔۔۔۔ شہوت سے چور لہجے‬
‫میں بولیں ۔۔ میری پھدی مار!!!۔۔۔۔ان کی بات سن کر میں بڑی‬
‫معصومیت سے بوال۔۔۔کیا آپ مجھ سے پھدی مروانا چاہتی ہو؟۔۔۔ تو‬
‫وہ چال کر بولیں۔۔بکواس بند کر۔۔کتے۔۔۔ اور میرے اندر ڈال۔۔۔ تو میں‬
‫مزہ لیتے ہوئے بوال۔۔۔کیا اندر ڈالوں؟۔۔میری اس بات وہ پہلی ۔۔ دفعہ‬
‫وہ مسکرا کر بولیں ۔۔ تو پکا حرامی ہے۔۔۔اس سے پہلے کہ تیرے‬
‫انکل آ جائیں۔۔۔ میری پھدی مار!!! ۔اتنی بات کرتے ہی انہوں نے اپنی‬
‫دونوں ٹانگوں کو مولڈ کر کے۔۔۔۔ پیٹ کے ساتھ لگا لیا۔۔جس کی وجہ‬
‫سے ان کی کیوٹ چوت۔۔ ابھر کر سامنے آ گئی دوسری طرف۔۔۔۔۔آنٹی‬
‫کے منہ سے پھدی مار ۔۔۔ کا لفظ سن کر میں بھی مسکرا دیا۔۔۔اور‬
‫پھر ان سے بوال یہ ہوئی نہ بات۔۔ پھر میں آگے بڑھا۔۔ اور لن کو ان‬
‫کے سامنے کر کے بوال۔۔۔۔ اپنی پھدی کی طرح اس کو بھی چکنا کر‬
‫دیں۔۔۔ میری بات سن کر انہوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا۔۔۔اور‬
‫پھر۔۔۔اپنی دو انگلیوں کو منہ کی طرف لے گئیں۔۔۔اور ان پر کافی‬
‫سارا تھوک ڈال کر میرے ٹوپے پر مل دیا۔۔۔اور بولیں۔۔ لے میں نے‬
‫اسے چکنا کر دیا ہے۔۔۔۔ لن چکنا ہونے کے بعد میں نے جیسے ہی‬
‫۔۔۔اس کو جیسے ہی پھدی پر رکھا۔۔۔ تو وہ چال کر بولیں۔۔۔۔‬

‫اگر تم نے مجھے ادھورا چھوڑا ناں۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں میرا تیرا حشر کر‬
‫دوں گی۔۔۔اس پر میں نے ایک ذور دار گھسا مارا۔۔۔ اور یہ گھسہ میں‬
‫نے جان بوجھ کر فُل سپیڈ سے مارا تھا۔۔۔ چنانچہ اس گھسے کی وجہ‬
‫سے میرے ٹوپے کی نوک آنٹی کی بچہ دانی کے ساتھ ایک دھماکے‬
‫سے ٹکرائی۔۔۔ اور اسی وقت آنٹی کے منہ سے بے اختیار ۔۔۔چیخ نکل‬
‫گئی۔۔۔ ہائے ۔۔۔۔ماں۔۔۔ لیکن میں نے ان کی چیخ کو نظر انداز کر دیا۔۔۔‬
‫اور گھسے مارنے کی سپیڈ میں کوئی کمی نہیں آنے دی۔۔۔چار پانچ‬
‫گھسوں کے بعد ہی آنٹی نے اپنی دونوں ٹانگوں کو میری کمر کے‬
‫گرد کس دیا۔۔۔۔ اور ہپس کو اوپر کر کے میرے ساتھ چمٹ گئیں۔۔۔‬
‫اور اشارے سے مجھے رکنے کا بولیں۔۔۔ سو وقتی طور پر میں نے‬
‫گھسے مارنے بند کر دیئے۔۔۔ اسی وقت آنٹی کی ٹائیٹ پھدی مزید‬
‫ٹائیٹ ہو کر ۔۔۔۔ میرے لن کے ساتھ چمٹ گئی ۔اور پھر آنٹی جھٹکے‬
‫مارنا شروع ہو گئیں۔۔۔ ان کی چوت کی دیواروں سے پانی بہنا شروع‬
‫ہو گیا۔ پتہ نہیں کتنے وقتوں کی ُرکی ہوئی آنٹی چھوٹنا شروع ہو‬
‫گئی۔۔۔۔۔۔‬

‫۔۔۔ چنانچہ میں نے آنٹی کو چھوٹنے کا پورا موقعہ دیا۔۔ اور پھر‬
‫جیسے ہی آنٹی کی پھدی ڈھیلی پڑی ۔۔۔تو میں سمجھ گیا کہ آنٹی کا‬
‫آرگیزم ختم ہو گیا ہے ۔۔ بالشبہ انہوں نے بہت بڑا آرگیز م کیا تھا ۔۔۔۔‬
‫جب وہ کچھ شانت ہوئی ۔۔۔ تو میں نے ان کی دونوں ٹانگوں کو اپنے‬
‫کندھے پر رکھا۔۔۔ اور ایک بار چوت کی دھالئی شروع کر دی۔۔۔‬
‫میرے ہر گھسے پر وہ ۔۔ہائے ماں ۔۔۔ ہائے ماں۔۔۔ پکارتی رہیں۔۔۔ اور‬
‫۔۔ اس دوران وہ دو تین دفعہ چھوٹیں۔۔ لیکن میرا جوش ویسے ہی‬
‫برقرار تھا۔۔۔۔ ان کے آخری آرگیز م کے بعد ۔۔ جیسے ہی میں نے‬
‫گھسہ مارنا چاہا ۔۔تو انہوں نے اپنا ہاتھ کھڑا کیا۔۔۔اور کہنے لگیں ۔۔۔‬
‫اب آرام سے چودنا۔۔۔ تو میں انہیں دھیرے دھیرے چودتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔ ۔۔۔ کیا بات ہے؟ تو وہ کہنے لگیں۔۔ اس لیئے کہ میں "پوری"‬
‫ہو گئی ہوں۔۔۔ تب میں مسکرایا۔۔ اور بوال پکی بات ہے ناں ۔۔۔تو وہ‬
‫چڑھتی سانسوں میں بولیں۔۔۔ قسم سے میں پُر باش ہوں۔۔ لیکن تم نے‬
‫چودنا بند نہیں کرنا۔۔ ۔۔ بس ہلکے ہلکے گھسے مارتے جاؤ۔۔تو میں‬
‫ان سے بوال۔۔۔ جب آپ پوری ہو گئیں ہیں ۔۔ پھر بھی ہلکے ہلکے‬
‫گھسے؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ اتنے عرصے بعد ایک تگڑا لن نصیب‬
‫ہوا ہے۔۔ اس لیئے میں اسے فُل انجوائے کرنا چاہتی ہوں ۔۔اور پھر‬
‫ہلکے ہلکے گھسے مارتے ہوئے۔۔۔ جب میں نے انہیں بتایا کہ میں‬
‫چھوٹنے واال ہوں۔۔۔تو آنٹی نے ایک عجیب فرمائش کر دی۔۔ کہنے‬
‫لگی۔۔۔ اپنا پانی میری چھاتیوں پر چھڑکو۔۔ چنانچہ جیسے ہی میرا اینڈ‬
‫پوائینٹ آیا۔۔۔ ۔۔تو میں نے آنٹی اشارہ کر دیا ۔۔میرا اشارہ پاتے ہی ۔ ۔۔‬
‫وہ مستعدی سے اُٹھیں۔۔۔ ۔۔۔ جلدی سے قمیض کو اوپر کیا۔۔۔ برا سے‬
‫چھاتیاں کو باہر نکاال۔۔۔اور ان کو میرے لن کی سیدھ میں لے آئیں۔۔۔‬
‫اور پھر خود ہی لن پکڑ کر ُمٹھ مارنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کچھ ہی‬
‫دیر بعد ۔۔جب میرے لن سے منی گرنا شروع ہو ئی۔۔۔تو وہ باری‬
‫باری دونوں چھاتیوں پر منی ڈالتی گئیں۔۔۔ پھر۔۔ اور جب لن سے پانی‬
‫نکلنا بند ہوا ۔۔تو انہوں نے بڑی بے صبری سے منی کو اپنی‬
‫چھاتیوں پر مل دیا ۔۔۔۔اور شلوار پہنتے ہوئے بولیں ۔۔۔جلدی کر ان‬
‫کے آنے کا وقت ہو گیا ہے۔۔‬

‫آنٹی کے گھر سے نکل کر میں نے ٹیکسی پکڑی اور ثانیہ کی طرف‬


‫روانہ ہو گیا۔ وہاں پہنچ کر دیکھا تو رش لگا ہوا تھا مطلب فرزند‬
‫صاحب۔۔ تانیہ ثانیہ ان کی ماما کے ساتھ ساتھ رمشا اور آنٹی لوگ‬
‫بھی ڈرائینگ روم میں موجود تھیں ۔۔ان سب کو اکھٹا دیکھ کر میں‬
‫آواز بلند بوال۔۔۔ واہ جی واہ یہاں تو گول میز‬
‫دروازے سے ہی با ِ‬
‫کانفرنس جاری ہے۔۔ میری بات سن کر ثانیہ جھٹ سے بولی آپ کو‬
‫پتہ ہے کہ اس گول میز کانفرنس کا ایجنڈا کیا ہے؟ تو میں کندھے‬
‫اچکا کر بوال۔۔۔ مجھے کیا پتہ بی بی۔۔۔۔ میں تو ان پڑھ آدمی ہوں۔۔‬
‫میری بات سن کر ان سب نے ایک فرمائشی سا قہقہہ لگایا۔۔۔ پھر‬
‫فرزند صاحب نے مجھے بیٹھنے کا اشارہ کیا۔۔اور کہنے لگے یار‬
‫ایک لفڑا ہو گیا ہے ۔۔۔اور وہ یہ کہ جیسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ‬
‫ایوبیہ کے پاس مورتی میں ہمارا اپنا دو تین کمروں کا مکان ہے اس‬
‫کی دیکھ بھال ڈیڈی کا ایک مالزم اشتیاق کرتا ہے جو کہ اتفاق سے‬
‫وہیں کا رہنے واال ہے۔ چونکہ اشتیاق ایک غریب اور عیال دار آدمی‬
‫ہے تو ڈیڈی نے اسے اجازت دی ہے کہ جب ہم لوگوں کا پروگرام نہ‬
‫ہو۔۔۔ تو مکان کرائے پر دے سکتا ہے اب ہوا کچھ یوں کہ چونکہ اس‬
‫سیزن میں بعض ناگزیر وجوہات کی بنا پر ہمارا پروگرام مورتی‬
‫جانے کا نہ بن سکا تو اشتیاق انکل کو ایک اچھی آفر ملی اور انہوں‬
‫نے ڈیڈی کی اجازت سے پورے دو ماہ کے لیئے مکان کو کرائے پر‬
‫چڑھا دیا۔۔۔اسی دوران ہمارا پروگرام بن گیا۔۔۔۔اور ہمارا پروگرام بننے‬
‫کے بعد ۔۔ اشتیاق انکل نے بڑی کوشش کی کہ انہیں کہیں اور شفٹ‬
‫کر دیا جائے لیکن جیسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ ِپیک سیزن ہونے کی‬
‫وجہ سے ہر طرف ہاؤس فل ہے اس لیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب تم ہی بتاؤ کہ‬
‫کیا کیا جائے؟ اس سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ثانیہ بلند آواز میں‬
‫بولی۔۔۔۔ چاہے کچھ بھی ہو بھائی۔۔۔ ہم نے اس ویک اینڈ پر ہر‬
‫صورت جانا ہے ۔۔مجھے نہیں پتہ انکل سے کہو کہ وہ انہیں باہر‬
‫نکالیں۔۔ تو فرزند بوال۔۔ کیسے نکالیں؟ وہ دونوں غیر ملکی ہیں۔۔۔۔‬
‫فرزند صاحب کی بات سن کر ہم سب چونک پڑے۔۔اور رمشا نے‬
‫پوچھا ان کا تعلق کس ملک سے ہے؟ ؟ تو وہ کہنے لگے ملک کا تو‬
‫مجھے پتہ نہیں ۔۔۔البتہ دونوں کسی یورپین ملک کی خواتین ہیں۔‬
‫خواتین کا نام سن کر میرے سمیت سب لڑکیوں کے کان کھڑے ہو‬
‫گئے۔۔۔۔۔۔ اس دوران تانیہ کی آواز سنائی دی۔۔۔ ۔۔ پھر تو ان کو بھگانا‬
‫واقعی ہی مشکل ہو گا۔۔۔ کچھ دیر کے لیئے فضا میں خاموشی چھا‬
‫گئی۔۔ پھر اچانک رمشا کی آواز گونجی وہ کہہ رہی تھی کہ بھائی‬
‫جان کیا ایسا ہو سکتا ہے کہ ایک کمرہ انہیں اور ایک ہمیں مل‬
‫جائے۔۔ باتھ روم تو ویسے بھی الگ الگ ہیں۔۔۔ البتہ کچن ہم شئیر کر‬
‫لیں گے۔۔۔ تو فرزند صاحب کہنے لگے یار اسی بات پر تو روال پڑا‬
‫ہوا ہے ۔۔ میں نے یہ تجویز پیش کی تھی لیکن ثانیہ نے صاف جواب‬
‫دے دیا کہ ہمیں پورا گھر چاہیئے۔۔اس پر رمشا نے ثانیہ کی طرف‬
‫دیکھا تو وہ کہنے لگی ۔۔سوری مجھے معلوم نہ تھا کہ وہاں صرف‬
‫خواتین رہتی ہیں۔۔‬

‫۔۔ثانیہ کی اس وضاحت کے بعد رمشا کہنے لگی اگر یورپئین لیڈیز‬


‫بھی ہمارے ساتھ گھر شئیر کرنے کے لیئے راضی ہوں تو ہمیں‬
‫کوئی اعتراض نہیں۔۔اسی اثنا میں باجی چائے لے آئیں ۔۔۔ اور سب‬
‫چائے پینے میں مصروف ہو گئے۔۔۔۔۔ اس دوران میں نے ثانیہ سے‬
‫بات کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن ۔۔۔۔ رش کی وجہ سے بات نہ ہو‬
‫سکی ۔لیکن میں تاڑ میں رہا۔۔۔۔۔اور آخر موقعہ مل ہی گیا ۔۔۔ ہُوا کچھ‬
‫یوں کہ چائے پینے کے بعد سب لوگ خوش گپیوں میں مصروف‬
‫تھے کہ میں نے ایک نظر ثانیہ کی طرف دیکھا تو وہ بھی میری‬
‫طرف ہی دیکھ رہی تھی۔۔ ہم دونوں کی نظریں ملیں ۔۔۔ ثانیہ کے ساتھ‬
‫نظریں چار ہوتے ہی میں بظاہر پیشاب کرنے کے لیئے دوسرے‬
‫کمرے میں چال گیا۔اور واش روم میں گھس کر ثانیہ کا انتظار کرنے‬
‫لگا۔۔۔ توقع کے عین مطابق۔۔۔۔تھوڑی ہی دیر بعد۔۔ثانیہ کمرے میں‬
‫داخل ہوئی اور داھر ادھر دیکھنے لگی۔۔۔ ۔۔ میں نے دروازے سے‬
‫جھانک کر اسے آواز دی۔۔۔۔تو سرکار کچے دھاگے سے بندھی چلی‬
‫آئی ۔۔۔۔اس کے آتے ہی میں نے دروازہ بند کیا ۔ اور وقت ضائع کیئے‬
‫بغیر ثانیہ کو اپنے سینے سے لگا لیا۔اس کی چھوٹی چھوٹی چھاتیاں‬
‫میرے فراخ سینے میں دھنس گئیں۔۔۔۔اور وہ مجھ سے چمٹ کر کہنے‬
‫لگی۔۔۔میری جان! بس ایک بات کا خیال رکھنا کہ تیرے اور میرے‬
‫تعلق کی کسی کو بھنک نہیں پڑنی چایئے۔۔۔ ۔۔اس کے عالوہ میں‬
‫تمہارے ساتھ ہر قسم کے " فن" کے لیئے تیار ہوں میں نے اس کو‬
‫یقین دالیا کہ میرا اور اس کا یہ ناجائز تعلق ہمیشہ راز ہی رہے گا ۔‬
‫اس کے ساتھ ہی ہم دونوں کے منہ ایک دوسرے کے ساتھ الک ہو‬
‫گئے۔ میں نے ثانیہ۔۔۔اور اس نے جی بھر کر میری زبان چوسی۔۔۔۔‬
‫ڈیپ کسنگ کے بعد اچانک اس نے میرے منہ سے اپنا منہ ہٹایا ۔۔۔‬
‫اور بولی ۔۔۔۔ آج کے لیئے اتنا ہی۔۔۔۔ پھر کہنے لگی پہلے میں نکلوں‬
‫گی ۔۔۔۔ تیس سیکنڈ تک میں نے کوئی سگنل نہ دیا۔۔۔‬

‫تو تم بے دھڑک باہر آ جانا۔ چنانچہ اس کے جانے کے بعد ۔۔۔۔مقررہ‬


‫وقت تک جب کوئی مومنٹ نہ ہوئی تو میں بڑے اطمیان سے باہر‬
‫نکال ۔۔۔ ابھی میں دروازے کے قریب پہنچا ہی تھا کہ کمرے میں‬
‫صائمہ باجی داخل ہوئی اور کہنے لگی گڈ شو بھائی۔۔۔ یہ دوسری کو‬
‫کب پٹایا؟۔ تو میں ان سے بوال ۔۔ آپ کا کیا خیال ہے ان دونوں بہنوں‬
‫کو پٹانے کی کوئی ضرورت ہے ؟ تو ہنستے ہوئے بولیں۔۔ میں نے‬
‫پہلے ہی کہا تھا کہ تمہارے لیئے دونوں بہت آسان ٹارگٹ ثابت ہوں‬
‫گی ۔۔ اس پر میں نے ایک نظر دروازے کے باہر جھانک کر دیکھا‬
‫اور ان کے ہونٹوں کو چوم کر بوال تم ٹھیک کہتی تھی مائی لو لیکن‬
‫یہ بتاؤ کہ آپ ہمارے ساتھ ٹرپ پرکیوں نہیں جا رہی ؟ تو وہ کہنے‬
‫لگی یار دل تو میرا بھی تھا لیکن تمہیں معلوم ہی ہے کہ آج کل ماما‬
‫کی طبعیت ٹھیک نہیں رہتی تو میرا خیال ہے کہ گھر جا کر انہیں‬
‫کسی ڈاکٹر کو دکھاکر پراپر عالج کراؤں ۔ اتنی بات کر کے انہوں‬
‫نے مجھے ایک چمی دی اور ہم کمرے سے باہر نکل کر ڈرائینگ‬
‫روم میں آ گیا جہاں یہ طے پایا کہ میں اس ویک اینڈ پر آفس سے‬
‫سیدھا رمشا کے گھر جاؤں گا وہاں سے فرزند ہمیں پک کر یں گے‬
‫اور ہم لوگ مورتی کی طرف نکل جائیں گے۔‬

‫ب‬
‫ویک اینڈ پر میں نے آفس سے ایک ہفتے کی چھٹی لی اور حس ِ‬
‫پروگرام رمشا کی طرف چل پڑا وہاں جا کر دیکھا تو رمشا تیار ہو‬
‫رہی تھی ابھی مجھے بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ فرزند اپنی‬
‫دونوں بہنوں کے ساتھ پہنچ گیا۔ میں اور فرزند ڈرائینگ روم میں‬
‫بیٹھے گپیں ہانک رہے تھے کہ اچانک ہی ثانیہ تیزی سے ڈرائینگ‬
‫روم میں داخل ہوئی اور فرزند صاحب سے کہنے لگی بھائی ایک‬
‫منٹ کے لیئے میرے ساتھ چلیں تو وہ جواب دیتے ہوئے بولے۔۔۔۔‬
‫ایسی بھی کیا آفت آ گئی ہے۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی میک اپ کا سامان‬
‫النا ہے جو کہ میں گھر بھول آئی ہوں۔۔اس پر فرزند کہنے لگے گھر‬
‫نہیں جانا۔۔۔ تم ایسا کرو کہ مجھے اس کی لسٹ بنا دو میں اور شاہ جا‬
‫کر کاسمیٹکس کی دکان سے لے آئیں گے تو ثانیہ کہنے لگی۔۔۔ بھائی‬
‫میں بھی آپ کے ساتھ چلوں گی تو فرزند بولے نا بابا میں تمہارے‬
‫ساتھ ہر گز نہیں جاؤں گا کہ اگر ایک دفعہ تم کاسمیٹکس شاپ میں‬
‫گھس گئیں تو رات وہیں پڑ جائے گی فرزند کی بات سن کر ثانیہ‬
‫مسکراتے ہوئے بولی توبہ ہے بھائی۔۔اور پھر واپس گئی۔۔۔اور‬
‫لڑکیوں کے مشورے سے ایک لسٹ بنا کر لے آئی۔۔۔ ۔۔ اس لسٹ کو‬
‫انہوں نے بڑے غور سے دیکھا اور پھر مجھ سے کہنے لگے چلو‬
‫یار اس کی چیزیں لے آئیں ۔ گاڑی میں بیٹھتے ہی فرزند صاحب نے‬
‫میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگے یار تم سے ایک بات کہنی‬
‫ہے تو میں بوال حکم سائیں! تو وہ کہنے لگے بات یہ ہے دوست کہ‬
‫ہم لوگ ایک ہفتے کے لیئے جسٹ فار انجوائے منٹ ٹور پر جا رہے‬
‫ہیں اس لیئے آج سے نہ تم میرے ہونے والے بہنوئی ہو اور نہ‬
‫ہی۔۔۔میں تیرا ساال۔۔۔ اس لیئے نو پروٹوکول نو ادب و آداب بلکہ۔۔۔۔ آج‬
‫سے ہم دونوں دوست ہیں اتنی بات کرتے ہی انہوں نے اپنا ہاتھ آگے‬
‫بڑھا دیا۔۔ میں نے بڑی گرم جوشی کے ساتھ ہاتھ مالیا اور انہوں نے‬
‫گاڑی اسٹارٹ کر دی۔‬

‫مارکیٹ پہنچ کر ہم کاسمیٹکس کی ایک مشہور دکان پر پہنچے۔۔۔‬


‫دیکھا تو دکان میں بہت رش تھا جس میں زیادہ تعداد ظاہر کہ خواتین‬
‫کی تھی۔ ۔۔ اس لیئے ہم لوگ اپنی باری کا انتطار کرنے لگے ابھی‬
‫ہمیں کھڑے کچھ ہی دیر ہوئی تھی کہ فرزند مجھے ٹہوکا دیتے‬
‫ہوئے ایک طرف اشارہ کیا ۔۔۔اور میں نے دیکھا تو ایک خاتون‬
‫کاؤنٹر پر جھکی کسی چیز کی طرف اشارہ کر رہی تھی اس نے‬
‫چھوٹی سی قمیض پہنی ہوئی تھی اور اس قمیض کے نیچے ٹائیٹ‬
‫پہنا تھا۔۔۔ جو کہ اس کی سڈول ٹانگوں کے ساتھ چمٹا ہوا تھا۔۔دیکھنے‬
‫والی چیز اس کی بڑی سی گانڈ تھی جسے دیکھ کر میں دنگ رہ گیا۔۔‬
‫اس خاتون کی گانڈ میں اس قدر کشش تھی کہ میں سب کچھ بھول‬
‫بھال کر یک ٹک اسے ہی دیکھتا رہا یہاں تک کہ فرزند نے ایک بار‬
‫پھر مجھے ٹہوکا دیا اور کہنے لگے۔۔ دھیان سے دوست ۔۔۔ اور میں‬
‫شرمندہ ہو کر ادھر ادھر دیکھنے لگا۔۔ کچھ دیر بعد ہماری باری آ‬
‫گئی۔۔ہم نے لسٹ کے مطابق سامان لیا اور دکان سے باہر نکل گئے۔۔‬
‫گاڑی میں بیٹھ کر فرزند صاحب مجھے چھیڑتے ہوئے بولے۔۔ ۔۔ لگتا‬
‫ہے تم بھی میری طرح بنڈوں کے شوقین ہو۔تو میں سر ہال کر بوال۔۔‬
‫جی موٹی گانڈ میری کمزوری ہے تو وہ کہنے لگا۔۔۔ معاف کرنا‬
‫دوست ۔۔جسے تم گانڈ کہہ رہے ہو میرے حساب سے وہ گانڈ نہیں‬
‫بلکہ چلتا پھرتا ایٹم بمب تھا۔۔ اس کے بعد وہ گاڑی سٹارٹ کرتے‬
‫ہوئے بولے۔۔ آپس کی بات ہے تمہیں کس کی گانڈ زیادہ اچھی لگتی‬
‫ہے عورت کی یا کسی لڑکے کی؟ ان کی بات سن کر میں چونک‬
‫کیا۔۔۔۔۔ لیکن بوجہ دڑ وٹ لی۔۔۔۔۔اور ان سے بوال۔۔۔۔ پیارے بھائی گانڈ‬
‫گانڈ ہوتی ہے خواہ ۔۔۔ مرد کی ہو یا عورت کی۔ اسے بس موٹا اور‬
‫نرم ہونا چایئے۔۔ فرزند نے میری بات سنی اور سر ہال کر گاڑی‬
‫اسٹارٹ کر دی۔‬

‫شام ابھی رات میں نہیں ڈھلی تھی کہ ہم ایوبیہ پہنچ گئے۔۔۔ پھر وہاں‬
‫سے نزدیک مورتی نامی جگہ کہ جہاں پر ان لوگوں کا گھر تھا چلے‬
‫گئے ۔۔ وہاں پہلے سے ہی سارا انتظام مکمل تھا۔ چنانچہ چائے پینے‬
‫اور کچھ دیر آرام کے بعد فرزند صاحب کہنے لگے کہ گاڑی ڈرائیو‬
‫کر کے میری تو ٹانگیں جام ہو گئیں ہیں اس لیئے میں واک پر جا‬
‫رہا ہوں کون کون میرے ساتھ چلے گا؟ تو لڑکیاں کہنے لگیں نا بابا‬
‫ہم تو بہت تھکیں ہوئیں ہیں اس لیئے ہمیں تو معاف ہی رکھیں ان کی‬
‫طرف سے ناں سن کر فرزند صاحب میری طرف متوجہ ہو کر‬
‫کہنے لگے چلو یار پھر ہم دونوں ہی چلتے ہیں چونکہ میرے پاس‬
‫انکار کی کوئی گنجائش نہیں تھی اس لیئے میں ان کے ساتھ چل پڑا۔‬
‫راستے میں وہ مجھ سے کہنے لگے کہ کیسا شاندار موسم ہے ہر‬
‫طرف سبزہ ہی سبزہ ہے پھر ایک طرف اشارہ کرتے ہوئے کہنے‬
‫لگے سنا ہے کہ اس جنگل میں چیتا بھی پایا جاتا ہے اسی دوران‬
‫ہمیں ماڈرن لڑکیوں کے ایک گروپ نے کراس کیا ۔زیادہ تر لڑکیوں‬
‫نے پینٹ شرٹ پہنی ہوئی تھیں جبکہ ایک آدھ نے بڑے چاک والی‬
‫چھوٹی قمیض کے ٹائیٹس بھی پہنا تھا۔ لڑکیاں یا لیڈیز ۔۔۔ چلتا پھرتا‬
‫فیشن شو تھیں۔۔۔۔ میں ان لیڈیز کی بیک دیکھتے ہوئے اپنی آنکھیں‬
‫ٹھنڈی کر رہا تھا کہ فرزند صاحب اشارہ کرتے ہوئے بولے وہ دیکھ‬
‫تیرا من بھاتا کھاجا۔۔۔ان کے کہنے پر جب میں نے اس طرف نظر‬
‫دوڑائی تو وہ ایک پکی عمر کی خاتون تھی۔ جو کہ ہمارے آگے‬
‫آگے مٹک مٹک کر چل رہی تھی جس چیز کی طرف فرزند صاحب‬
‫نے اشارہ کیا تھا وہ اس خاتون کی بڑی سی گانڈ تھی ۔۔ جو کہ ٹائیٹس‬
‫میں بہت ہی نمایاں نظر آ رہی تھی۔۔۔۔ اس کی اتنی شاندار گانڈ دیکھ‬
‫کر میرا منہ کھلے کا کھال رہ گیا اور ندیدوں کی طرح گھورنے لگا‬

‫جب مجھے گھورتے ہوئے کافی دیر ہو گئی ۔ تو فرزند صاحب‬


‫دھیرے سے بولے شاہ جی !۔۔۔اپنی نظروں پر کنٹرول کرو۔۔۔۔ آپ کچھ‬
‫زیادہ ہی جزباتی ہو گئے ہو۔۔۔ان کی بات سن کر میں دانت نکالتے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔ بھائی کیا کروں چیز ہی ایسی ہے۔۔۔ ۔ اس پر وہ ہنس کر‬
‫بولے بات تو تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔۔لیکن پھر بھی احتیاط اچھی ہوتی‬
‫ہے پھر باتوں باتوں میں وہ مجھ سے کہنے لگے کبھی ایسی گانڈ‬
‫ماری بھی ہے؟ تو میں بڑی معصومیت سے جھوٹ کی گانڈ مارتے‬
‫ہوئے حسرت بھری آواز میں بوال۔۔۔ نہیں جی ابھی تک چانس نہیں‬
‫مال۔۔ میری بات سن کر وہ ہنستے ہوئے بولے تمہارے دیکھنے کے‬
‫سٹائل سے بھی یہی لگ رہا تھا کہ تم کبھی اس چیز سے فیض یاب‬
‫نہیں ہوئے۔ پھر چٹخارہ لیتے ہوئے بولے۔۔ کیا بتاؤں یار ۔۔۔ موٹی گانڈ‬
‫مارنے میں کتنا مزہ آتا ہے ۔تو میں بڑے اشتیاق سے بوال۔۔۔ آپ نے‬
‫کبھی ماری ہے ؟ تو وہ بڑے فخر سے بولے۔۔۔۔ کوئی ایک!!۔۔۔۔‬
‫ویسے ابھی تک میری ایک یونیورسٹی کے دنوں کی دوست ہے۔۔۔‬
‫اب بھی گاہے بگاہے اس کی مار لیتا ہوں۔۔ اس پر میں ویسے ہی‬
‫حسرت سے بوال۔۔۔۔ اس کی بھی گانڈ موٹی ہے؟۔۔۔تو وہ اشارہ کرتے‬
‫ہوئے کہنے لگے۔۔۔۔ اس میڈم سے سو درجے بہتر ہے۔۔۔۔۔ پھر میری‬
‫طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگے تم نے بھی مارنی ہے؟‬

‫تو میں ترنت ہی کہنے لگا ۔۔بھائی جان۔۔۔ نیکی اور پوچھ پوچھ۔۔ تو وہ‬
‫میرے کندھے پر ہاتھ مار کر بولے۔۔۔۔بولے واپس جا کر تمہارے‬
‫لیئے کچھ کرتا ہوں ۔۔۔۔ایسی ہی باتیں کرتے ہوئے ہم نے ایک لمبی‬
‫واک لی۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر واپس ہو لیئے۔۔۔۔ اتفاق سے واپسی پر ہمیں ایک‬
‫اور ماڈرن خاتون مل گئی اس نے بھی ٹائیٹس پہنی ہوئی تھی اس کی‬
‫گانڈ اتنی موٹی تو نہ تھی لیکن پرکشش بہت تھی اسے دیکھ کر میں‬
‫فرزند صاحب کو ٹہوکا دیتے ہوئے بوال ۔۔۔ کیسی بنڈ ہے ؟۔۔ میرے‬
‫اشارے پر انہوں نے اس خاتون کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔اور پھر کہنے‬
‫لگے۔۔۔اسے تم بنڈ کہتے ہو؟ پھر ہنستے ہوئے بولے ا س سے اچھی‬
‫اور موٹی تو میری گانڈ ہے فرزند صاحب کے منہ سے یہ بات سن‬
‫کر میں کھٹک گیا۔۔ جیسا کہ میں پہلے بھی بتا چکا ہوں کہ وہ‬
‫خاصے 'لچکے" سٹائل والے بندے تھے۔۔ چنانچہ اس لچکیلے پن کی‬
‫وجہ سے شک تو مجھے پہلے ہی تھا لیکن اب یقین ہونے لگا کہ‬
‫جناب گانڈو بھی ہیں۔۔ لیکن میں نے ان پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔۔۔ اور‬
‫میں بھی انہی کی طرح ہنستے ہوئے بوال۔۔ لیکن آپ نے کبھی دکھائی‬
‫نہیں ۔۔۔میری بات سن کر انہوں نے بڑی عجیب سی نظروں سے‬
‫مجھے دیکھا ۔۔۔اور کہنے لگے۔۔۔ یہ کون سی بڑی بات ہے ابھی دیکھ‬
‫لو۔۔اتنا کہہ کر انہوں نے ایک نظر پیچھے دیکھا۔۔۔۔ ۔۔۔ اور میرے‬
‫سامنے کھڑے ہو کر پیچھے سے قمیض ٗاٹھا دی۔۔۔واؤؤؤؤؤؤؤ۔۔‬
‫فرزند صاحب ٹھیک کہہ رہے تھے واقعی ہی ان کی گانڈ اس خاتون‬
‫سے زیادہ اچھی تھی۔۔۔۔ اادھر گانڈ دکھانے کے بعد۔۔ انہوں نے اپنی‬
‫قمیض نیچے کی ۔۔ اور کہنے لگے کیسی لگی؟ تو میں نے اے ون کا‬
‫اشارہ کر دیا۔۔ ۔۔اور پھر اسی موضع پر گپ شپ لگا تے ہوئے ہم‬
‫واپس گھر آ گئے۔ لڑکیوں نے کھانا تیار کیا ہوا تھا ۔۔۔جو کہ ہم نے‬
‫ڈٹ کر کھانا کھایا۔ اسی دوران مجھے تنہائی میں رمشا مل گئی تو‬
‫میں نے اس سے پوچھا سناؤ گوریوں سے ملی؟ تو وہ کہنے لگی یس‬
‫ڈارلنگ آج ان سے ہیلو ہائے ہوئی ہے تو میں آنکھ دبا کر بوال کیسی‬
‫ہیں؟ تو وہ ہنس کر بولی۔۔ ایک فٹ جبکہ دوسری سپر فٹ ہے۔۔۔ پھر‬
‫بڑے جوش سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ شاہ ! میں لکھ کر دینے کو تیار ہوں‬
‫کہ یہ دونوں پکی لسبئین ہیں۔۔ میں نے اس سے پوچھا کہ یہ تم کیسے‬
‫کہہ سکتی ہو؟ تو وہ کہنے لگی جس طرح ایک چور دوسرے چور‬
‫کو دور سے ہی پہچان لیتا ہے بلکل اسی طرح ایک لیسبو دوسری‬
‫لیسبو کو پہچانتی ہے۔ اس پر میں کہنے لگا۔۔۔۔ تو پھر کیا ارادے ہیں؟‬
‫تو وہ آنکھ مار کر بولی ۔۔۔ میں نے اور ثانیہ نے تہیہ کیا ہے کہ ہم‬
‫دونوں نے کم از کم ایک بار ان کے ساتھ ضرور انجوائے کرنا ہے‬
‫تو میں اس سے بوال تو کیا وہ تم دونوں کے ساتھ سیکس کرنے پر‬
‫راضی ہو جائیں گی؟ اس پر رمشا اپنے سینے پر ہاتھ مار کر بڑے‬
‫فخر سے بولی۔۔۔ اس کی تم چنتا نہ کرو ۔۔۔۔ہم اس کام میں ڈگری‬
‫ہولڈر ہیں ۔۔۔ ابھی تو صرف ہیلو ہائے ہوئی ہے۔۔۔ تم ایک بار۔۔۔۔‬
‫میری ان کے ساتھ سٹنگ ہونے دو۔باقی کا کام اپنے آپ ہی ہو جائے‬
‫گا۔‬
‫اگلے دن ہمارا پروگرام ایوبیہ چئیر لفٹ کا تھا ہم سب چئیر لفٹ کی‬
‫طرف چلے گئے لیکن۔۔۔۔ رمشا طبیعت کی خرابی کا بہانہ کر کے‬
‫وہیں رک گئی طبیعت کی خرابی تو ایک بہانہ تھا۔۔۔ مجھے خوب‬
‫معلوم تھا کہ رمشا وہاں کیوں رکی تھی۔۔۔ لیکن میں نے یہ بات کسی‬
‫کو نہیں بتائی۔ چنانچہ رمشا کو گھر چھوڑ کر ہم لوگ چئیر لفٹ پہنچ‬
‫گئے۔۔۔ میں ٹکٹیں لینے ہی لگا تھا کہ فرزند صاحب کہنے لگے نہیں‬
‫دوست یہاں کا سارا خرچہ میرے ذمہ ہے اس لیئے پیسے نکال کر‬
‫شرمندہ نہ کرو۔ چنانچہ ٹکٹ لینے کے بعد ۔۔۔۔ میں اور فرزند صاحب‬
‫ایک چئیرلفٹ پر۔۔۔ جبکہ دوسری پر تانیہ اور ثانیہ بیٹھ گئیں۔۔۔ لفٹ‬
‫چلتے ہی فرزند صاحب کھسک کر میرے قریب ہو گئے۔۔ مجھے‬
‫بازو سے پکڑا۔۔۔اور اسے دباتے ہوئے بولے۔۔ واہ یار تمہارا جسم‬
‫کتنا سخت ہے تو میں ا ن سے کہنے لگا شاید اس لیئے کہ میں فٹ‬
‫بال کا کھالڑی رہا ہوں اس پر وہ مجھے اپنے مسلز دکھاتے ہوئے‬
‫بولے تمہارے برعکس ۔۔۔ میرا جسم بہت نرم ہے اس کے ساتھ ہی‬
‫انہوں نے میری تھائی پر ہاتھ رکھا اور کہنے لگے واہ یہ بھی بہت‬
‫سخت ہے ۔۔۔ جس وقت وہ میری تھائی پر ہاتھ رکھ رہے تھے ۔۔۔اسی‬
‫وقت میں سمجھ گیا تھا ۔۔۔ کہ کھیل شروع ہو گیا ہے ۔اور مجھے اس‬
‫بندے کی گانڈ مارنی پڑے گی۔۔۔۔۔۔ لیکن میں نے کوئی ری ایکشن‬
‫نہیں دیا ۔۔۔ دوسری طرف وہ کہہ رہے تھے۔۔ کچھ عرصہ پہلے تک‬
‫میرا جسم بھی بہت سخت تھا اس پر مجھے شرارت سوجھی او ر ان‬
‫کے چوتڑ کو دبا کر بوال ۔۔ لیکن اس وقت تو یہ مکھن کی طرح نرم‬
‫و مالئم ہے ۔۔ میری اس حرکت پر انہیں کچھ حوصلہ ہوا اور وہ‬
‫کہنے لگے۔۔۔ تھائی کے ساتھ ساتھ میرے ہپس بھی بہت نرم ہیں اتنا‬
‫کہتے ہی انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی گانڈ پر لگا کر ۔۔۔۔معنی‬
‫خیز لہجے میں بولے ۔۔۔دبا کر دیکھو نرم ہے نا؟ اس پر میں ان کی‬
‫گانڈ ہاتھ لگا کر بوال ۔۔۔ ہپس جتنی مرضی ہے نرم ہوں ۔۔۔ لیکن مرد‬
‫کی اصل چیز ۔۔ سخت ہونی چایئے۔۔۔ میری بات سن کر ان کی‬
‫آنکھوں میں ایک چمک سی آ گئی اور وہ کہنے لگے ۔۔۔ کہتے تو تم‬
‫ٹھیک ہی ہو ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے بظاہر مزاق سے میری‬
‫گود میں ہاتھ رکھا۔۔۔ اور کہنے لگے۔۔۔۔ تمہارا بہت سخت ہے کیا؟؟ تو‬
‫میں ان سے بوال۔۔۔ اس وقت تو نرم ہے لیکن وقت آنے پر یہ فوالد‬
‫کی طرح سخت ہو جاتا ہے ۔۔ ۔۔اس پر وہ ہونٹوں پر زبان پھیرتے‬
‫ہوئے بولے۔۔ کتنا سخت ہوتا ہے ؟ تو میں ان سے کہنے لگا ۔۔۔ خود‬
‫ہی چیک کر لیں۔۔۔ میری بات کرنے کی دیر تھی کہ انہوں نے میری‬
‫پینٹ کے اوپر سے ہی لن پر ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔۔۔ وہ کچھ دیر‬
‫تک میرے لن کو سہالتے رہے ۔۔۔۔ پھر کہنے لگے۔۔۔ ٹھیک سے‬
‫اندازہ نہیں ہو رہا۔۔ اجازت ہو تو زپ کھول کے چیک کر لوں؟‬

‫اس وقت ہماری لفٹ سطع سمندر سے آٹھ ہزار فٹ کی بلندی پر چل‬
‫رہی تھی آس پاس کا بہت خوبصورت منظر تھا بادل نیچے اور‬
‫ہماری لفٹ ان کے اوپر چل رہی تھی ۔۔۔ بلکہ بادلوں کے گالے ۔۔۔‬
‫ہماری آنکھوں کے سامنے ادھر ادھر اُڑتے پھر رہے تھے۔۔۔اور‬
‫ٹھنڈے ٹھنڈے بادل جب ہمارے چہروں کو چھو کر گزرتے تو بڑا‬
‫مزہ آتا تھا ۔۔ لیکن موسم کی بجائے فرزند صاحب میرے لن سے مزہ‬
‫لینے کے چکر میں تھے اس لیئے ۔۔۔ زپ کھولنے سے پہلے انہوں‬
‫نے ایک نظر آس پاس دیکھا ۔۔۔ بادلوں کی وجہ سے کچھ نظر نہیں آ‬
‫رہا تھا سو انہوں نے بے دھڑک ہو کر میری پینٹ کی زپ کھول‬
‫لی۔۔۔ جیسے ہی انڈروئیر سے لن باہر نکال ۔۔۔تو اسے دیکھ کر وہ‬
‫حیرت سے بولے ۔۔ واہ یار۔۔ یہ تو پہلے سے ہی تنا کھڑا ہے اتنا‬
‫کہتے ہی انہوں نے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اس سے کھیلتے‬
‫ہوئے بولے ۔۔۔ تمہارا لن تو بہت بڑا اور موٹا ہے یہ تو میری گانڈ‬
‫پھاڑ دے گا۔۔۔تو میں مزے لیتے ہوئے بوال۔ ۔۔ کیا آپ نے پہلے کبھی‬
‫بڑا لن نہیں لیا ؟ ۔۔تو وہ اسے سہالتے ہوئے بولے۔۔۔ ۔لیا تو ہے ۔۔۔۔‬
‫لیکن یہ بڑا ہونے کے ساتھ ساتھ کافی موٹا بھی ہے اس لیئے مجھے‬
‫ڈر ہے کہ درد ہو گا ۔۔۔آپ سے لے کر تو دیکھیں۔۔۔۔ کچھ نہیں ہو‬
‫گا۔۔۔۔تو وہ میرے لن کو سہالتے ہوئے بولے ۔۔ نہیں یار۔۔۔۔ تمہارا لن‬
‫تو میری گانڈ پھاڑ دے گا۔اس پر میں مزاقا ً بوال آپ لن لینے کا شوق‬
‫بھی رکھتے ہو اور چھوٹے موٹے سے ڈرتے بھی ہو ۔ فرزند صاحب‬
‫کہنے لگے ۔۔۔ایسی بات نہیں ہے یار ۔۔۔۔ میں صرف منتخب لوگوں‬
‫سے مرواتا ہوں ۔ اس پر میں ان سے بوال آپ کب سے گانڈ مروا‬
‫رہے ہو؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولے۔۔۔تم سن کر حیران ہو گئے‬
‫کہ میں نے یونیورسٹی میں آ کر گانڈ مروانی شروع کی تھی پھر‬
‫کہنے لگے۔۔۔ یقین کر و یونیورسٹی سے پہلے تک میری گانڈ ایک دم‬
‫کنواری تھی ۔ اس پر میں بوال ۔۔۔لیکن میں نے تو یہ سنا تھا۔۔ کہ عام‬
‫طور پر لوگ بچپن سے گانڈ مروانا شروع کرتے ہیں تو وہ کہنے‬
‫لگے تم نے ٹھیک سنا ہے مجھے بھی بچپن سے ہی شوق تھا۔۔۔ باتیں‬
‫کرتے ہوئے فرزند صاحب نے میرے لن پر تھوک لگایا اور ُمٹھ‬
‫مارنا شروع ہو گئے تو میں نے ان سے بوال۔۔ آپ ُمٹھ کیوں مار رہے‬
‫ہو؟ تو وہ کہنے لگے مزہ آ رہا ہے ۔۔ پھر شہوت بھری آواز میں‬
‫کہنے لگے۔۔۔۔ یقین کرو میرا بس چلے تو میں اسے اسی وقت اپنے‬
‫اندر لے لوں۔۔۔ لیکن کوئی بات نہیں۔۔۔ ابھی نہ سہی۔۔۔۔واپسی پر‬
‫ضرور اندر لوں گا۔۔۔ پھر انہوں نے ادھر ادھر دیکھا اور میرے‬
‫ہونٹوں کو چوم کر بولے۔۔۔ بولو۔۔۔۔ میری نرم گانڈ لو گے ناں؟ ۔۔۔ تو‬
‫میں ان سے بوال۔۔۔ ضرور لوں گا لیکن پہلے ایک سوال کا جواب دیں‬
‫اور وہ یہ کہ جب آپ کو بچپن سے شوق تھا تو اس وقت کیوں نہیں‬
‫مروائی؟ تو وہ روانی میں بولے‬
‫وہ اس لیئے دوست۔۔۔۔۔ کہ جس نے میری گانڈ استعمال کی تھی۔۔۔ اس‬
‫کے پاس لن نہیں تھا۔۔۔ فرزند کی بات سن کر میں چونک کر بوال۔۔‬
‫کیا مطلب؟ وہ کون تھا جس نے آپ کی گانڈ استعمال بھی کی۔۔۔۔ لیکن‬
‫اس کے پاس لن نہیں تھا؟ میرا سوال سن کر وہ تھوڑے پریشان ہو‬
‫گئے اور بجائے جواب دینے کے۔۔۔ آئیں بائیں شائیں کرنے لگے ان‬
‫کو کنفیوز دیکھ کر مجھے خواہ مخواہ تجسس ہو گیا اور میں‬
‫سوچنے لگا کہ ضرور اس کے پیچھے کوئی راز ہے ۔۔۔۔۔۔۔اور یہ‬
‫راز ہی اصل بات ۔۔۔ مطلب۔۔ سٹوری ہے۔۔۔‬
‫سٹوری کا نام آتے ہی میرے اندر کا شاہ سٹوری انگڑائی لے کر اُٹھ‬
‫بیٹھا۔۔۔ چنانچہ میں نے فرزند صاحب کی طرف دیکھا اور بڑے‬
‫تجسس سے بوال ۔۔ بتائیں نا ۔۔ میرا سوال سن کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فرزند‬
‫صاحب بڑے سخت لہجے میں بولے ۔۔کچھ نہیں یار ۔۔ایسی کوئی بات‬
‫نہیں۔۔۔ان کی بات سن کر میں سمجھ گیا کہ گھی سیدھی انگلی سے‬
‫نہیں نکلے گا ۔۔مجھے کچھ سخت اقدام کرنے پڑیں گے۔۔۔۔ یہ سوچ‬
‫کر میں نے لن کو ان کے ہاتھ سے چھڑا کر واپس پینٹ میں ڈال لیا۔۔‬
‫اور موڈ بنا کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ فرزند صاحب کہنے لگے۔۔۔ ایسے کیوں کیا‬
‫تم نے؟ تو میں ان سے کہنے لگا کہ جب آپ کو مجھ پر اعتبار ہی‬
‫نہیں تو ۔۔۔پھر لن پکڑانے کا کیا فائدہ؟ ۔ اس لیئے اب یہ لن پینٹ میں‬
‫ہی رہے گا میری بات سن کر وہ دانت پیس کر رہ گئے لیکن بظاہر‬
‫مسکراتے ہوئے بولے۔۔یہ تو سیدھی سادھی بلیک میلنگ ہے تو میں‬
‫ناراضگی سے بوال۔۔۔ بلیک میلنگ ہے تو بلیک میلنگ ہی‬
‫سہی۔۔۔لیکن۔۔۔جب تک آپ پوری بات نہیں سناؤ گے۔۔۔ تب تک یہ لن‬
‫پینٹ میں رہے گا۔۔۔۔ ۔۔میری بات سن کر وہ سوچ میں پڑ گئے۔۔۔ کچھ‬
‫دیر تک سوچتے رہے پھر کہنے لگے یہ ایک راز ہے۔۔ اسے جان‬
‫کر تم کیا کرو گے؟ تو میں ان سے بوال ۔۔۔ مجھے یہ راز جاننا ہے‬
‫۔۔۔ میری ضد دیکھ کر وہ ایک بار پھر سوچ میں پڑ گئے۔۔۔۔۔ کچھ دیر‬
‫سوچنے کے بعد ۔۔۔۔۔وہ مجھ سے کہنے لگے ۔۔۔ دیکھو یہ بہت پرسنل‬
‫بات ہے تو میں اپنے لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بوال ۔۔۔ یہ بھی‬
‫میرا پرسنل لن ہے۔۔۔ میری سن کر انہوں نے ایک ٹھنڈی سانس لی‬
‫اور پھر کہنے لگے ۔۔ٹھیک یار ۔۔۔ تم بضد ہو تو میں بتا دیتا ہوں ۔۔۔‬
‫پھر دھیرے سے کہنے لگے۔۔ شاہ جی میں تمہارے سامنے جس راز‬
‫سے پردہ اُٹھانے لگا ہوں وعدہ کرو ۔۔ تم اس کا ذکر کسی سے بھی‬
‫نہیں کرو گے۔۔۔ اور آپ تو جانتے ہی ہیں کہ اس قسم کے وعدے‬
‫کرنے میں ۔۔ میں بہت تاک ہوں سو ان کے ساتھ وعدہ کر لیا ۔‬

‫وعدہ لینے کے بعد وہ کہنے لگے۔۔۔ شاید تمہیں معلوم نہیں کہ ہمارے‬
‫خاندان میں لڑکیوں کی تعداد زیادہ اور لڑکے بہت کم ہوتے ہیں جس‬
‫وقت میں پیدا ہوا تو اس وقت میں اپنی فیملی میں پیدا ہونے واال پہال‬
‫لڑکا تھا ۔۔۔ اس وقت ہمارے گھر میں کم و بیش ‪ 5‬خواتین موجود تھیں‬
‫جس میں سے ایک میری ماما جبکہ باقی چار میری پھوپھو تھیں۔۔جو‬
‫کہ اس وقت تک کنواری تھیں ۔ ۔ چونکہ گھر میں زیادہ تر خواتین‬
‫پائی جاتیں تھیں۔۔ چنانچہ ان میں رہ کر میں بھی ان جیسا ہو گیا تھا۔۔۔‬
‫۔۔۔ اسی وجہ سے میری چال میں بھی زنانہ پن آ گیا تھا ۔۔ ۔۔ ۔۔ویسے‬
‫تو گھر کی ساری خواتین مجھ پر جان جھڑکتی تھیں لیکن میری بڑی‬
‫پھوپھو جن کا نام نسرین تھا کا مجھ سے بہت زیادہ پیار تھا نسرین‬
‫پھوپھو بہت خوبصورت لیکن قدرے موٹی لڑکی تھیں وہ پھوپھو نہیں‬
‫بلکہ نسرین باجی کہلوانا پسند کرتی تھیں ۔۔اس لیئے میں انہیں آج بھی‬
‫نسرین باجی ہی کہتا ہوں ۔ بڑی ہی سیکسی اور خوب صورت لڑکی‬
‫تھی ۔۔۔وہ ایک گوری چٹی اور بظاہر بڑی ہی شریف اور لیئے دیئے‬
‫رکھنے والی لڑکی تھیں۔۔۔۔ شادی کی عمر ہونے کے باوجود بھی‬
‫ابھی تک ان کا کوئی رشتہ نہ آیا تھا۔۔۔ ۔۔ جس وقت کی میں بات کر‬
‫رہا ہوں اس وقت ان کی عمر ‪ 28/ 29‬سال ہو گی۔۔۔ ۔۔ چونکہ‬
‫پیدائیش کے ایک سال بعد ہی انہوں نے مجھے اپنے ساتھ سالنا‬
‫شروع کر دیا تھا اس لیئے ان کی شادی ہونے تک میں انہی کے ساتھ‬
‫سویا کرتا تھا ۔۔۔۔جیسا کہ میں نے تمہیں بتایا ہے کہ سب کے سامنے‬
‫تو وہ بہت شریف اور مذہبی ٹائپ کی لڑکی تھیں۔۔لیکن بند کمرے میں‬
‫وہ مجھے اپنے گلے سے لگا کر ذور ذور سے دباتی ۔۔۔۔اور خوب‬
‫پپیاں دیا کرتی تھیں۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ تقریبا ً روزانہ ہی میرے‬
‫ساتھ اپنی زبان مالیا کرتی تھیں ۔۔ بعض اوقات تو وہ اس قدر شدت‬
‫سے میری زبان چوستیں کہ میری چیخیں نکل جایا کرتی تھیں ۔۔۔۔‬
‫لیکن انہوں نے مجھے اتنا پکا کیا ہوا تھا کہ تنہائی کی یہ باتیں میں‬
‫کسی سے بھی شئیر نہیں کرتا تھا۔۔۔۔ وہ مجھے سکول کا کام بھی‬
‫کرایا کرتی تھیں اور ہوم ورک میں غلطی کرتا ۔۔۔۔۔‬

‫تو وہ میرا ٹراؤزر اتار کے میری ننگی گانڈ پر ہلکے ہلکے تھپڑ‬
‫مارا کرتی تھیں جس کا مجھے بڑا مزہ آتا تھا۔۔۔۔۔ ۔۔ مجھے یاد ہے کہ‬
‫گرمیوں میں ہم سب صحن میں جبکہ سردیوں میں ۔۔۔ میں اور باجی‬
‫الگ کمرے میں سویا کرتے تھے۔۔ خاص کر سردیوں میں وہ مجھے‬
‫اپنے ساتھ چمٹا کر سوتی تھیں۔۔ عجیب بات یہ تھی کہ انہیں میری‬
‫باہر کو نکلی ہوئی گانڈ بہت پسند تھی ۔۔۔غلطی کے عالوہ بھی۔۔۔۔ جب‬
‫ان کا موڈ ہوتا ۔۔۔ تو وہ میری شلوار اتار کرمیری ننگی گانڈ پر ہاتھ‬
‫پھیرا کرتی تھی۔۔ اور کبھی کبھی تو اپنی ایک انگلی بھی میری گانڈ‬
‫میں دے دیا کرتی تھیں۔۔ جس کا مجھے بڑا مزہ آتا تھا ۔۔۔ لیکن ایسا‬
‫وہ ہفتے میں بس ایک آدھ بار ہی کرتی تھیں۔۔۔۔۔۔ اس طرح میں‬
‫ساتویں کالس میں پہنچ گیا اس کالس میں میرا ایک دوست بن گیا جو‬
‫کہ اس سال فیل ہوا تھا۔۔ وہ بڑا حرامی لڑکا تھا ۔۔۔ ایک دن کی بات‬
‫ہے کہ آخری پریڈ میں ۔۔۔ جو کہ اتفاق سے خالی تھا۔۔۔۔ اس نے سب‬
‫کے سامنے پینٹ سے اپنا لن نکاال ۔۔۔۔ ۔۔۔ جو کہ اس وقت مرجھایا ہوا‬
‫تھا۔۔اس نے سب کو اپنا مرا ہوا لن دکھایا ۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگا۔۔۔ اب‬
‫دیکھو۔۔۔۔۔ میں اسے جادو سے بڑا کروں گا ۔۔اس کے ساتھ ہی اس‬
‫نے مرجھائے ہوئے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا۔۔۔۔۔۔ اور اسے آگے‬
‫پیچھے کرنے لگا۔۔۔کچھ ہی دیر بعد ۔۔اس کا لن اکڑ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔۔‬
‫اس کی اس حرکت سے میرے سمیت اکثر ممی ڈیڈی بچے بڑے‬
‫متاثر ہوئے۔۔۔ اسی رات کی بات ہے کمرے میں آ کر ۔۔۔حسب معمول‬
‫آپس میں زبانیں مالنے۔۔۔۔اور باجی کی ٹائیٹ پپیوں جپھیوں کے بعد‬
‫۔۔۔ میں اور باجی سونے سے پہلے باتیں کر رہے تھے کہ باجی‬
‫کہنے لگیں کہ اچھا چندا یہ بتاؤ کہ آج سکول میں کیا کیا؟‬

‫۔۔۔۔ سکول کی بات سے اچانک مجھے دوپہر واال واقعہ یاد آ گیا اور‬
‫میں نے باجی سے کہا کہ باجی آج میں نے ایک جادو سیکھا ہے ؟‬
‫تو باجی حیران ہو کر بولیں۔۔ مجھے بھی تو دیکھوں کہ میرے چندا‬
‫نے کون سا جادو سیکھ لیا ہے؟۔۔۔ باجی کی بات سنتے ہی میں نے‬
‫اپنا ٹراؤزر اتارا ۔۔۔ اور انہیں اپنا مرجھایا ہوا لن دکھاتے ہوئے بوال۔۔۔‬
‫میں اس کو بڑا کر سکتا ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر باجی کا منہ سرخ‬
‫ہو گیا۔۔۔ اور وہ کہنے لگیں ۔۔۔وہ کیسے؟۔۔۔تب میں نے اس حرامی‬
‫لڑکے کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق لن پر تھوک لگایا ۔۔۔اور‬
‫اسے آگے پیچھے کرنا شروع ہو گیا۔۔۔ چند ہی سیکنڈز کے بعد میرا‬
‫لن اکڑ کر کھڑا ہوا ۔۔ تو میں نے بڑے فخر سے باجی کی طرف‬
‫دیکھا ۔۔اور ان سے بوال ۔۔۔ دیکھا کیسے جادو سے بڑا کر دیا ہے ۔۔۔‬
‫میں باجی سے باتیں کر رہا تھا لیکن ان کا سارا دھیان میری چھوٹی‬
‫سی للی کی طرف تھا۔۔ جو کہ ان کی نظروں کے سامنے اکڑی‬
‫کھڑی تھی۔۔۔ یہاں ایک بات بتانی ضروری ہے اور وہ یہ کہ۔۔۔۔‬
‫اسوقت میری للی اتنی چھوٹی بھی نہیں تھیں۔۔۔ بلکہ یوں سمجھو کہ‬
‫نہ چھوٹی تھی نہ بڑا لن تھا۔۔۔۔۔۔۔بلکہ جو بھی تھا ان دونوں کے بین‬
‫بین تھا۔۔۔۔۔‬

‫دوسری طرف باجی اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے میرے لن کو‬
‫۔۔۔۔۔۔ یک ٹک اسے دیکھے جا رہی ہیں ۔ اس وقت میرا لن جوش کی‬
‫وجہ سے جھٹکے مار رہا تھا ۔۔۔۔ جب باجی نے میری بات نہ سنی تو‬
‫میں نے ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا۔۔۔اور بوال ۔۔۔ باجی‬
‫دیکھو میری نونو کتنی بڑی ہو گئی ہے میرے لن پکڑانے سے باجی‬
‫نے چونک کر میری طرف دیکھا ۔۔۔اور کہنے لگیں ۔۔ یہ تمہیں کس‬
‫نے سکھایا؟ تو میں نے ا ن کو بتایا کہ میرا ایک کالس فیلو ہے جو‬
‫کہ پچھلی کالس میں فیل ہو گیا تھا نے آج ہم سب کو سکھالیا ہے تب‬
‫باجی کہنے لگیں ۔ تم نے گھر میں اس بات کا کسی سے ذکر تو نہیں‬
‫کیا؟۔۔ ۔۔تو میں ان سے بوال آپ نے خود ہی تو منع کیا ہوا ہے کہ میں‬
‫ہر بات پہلے آپ کے ساتھ شئیر کیا کروں۔۔ اس لیئے میں سب سے‬
‫پہلے آپ کو بتا رہا ہوں تو وہ کہنے لگی گڈ بوائے۔۔۔۔ پھر کہنے لگی‬
‫۔۔۔۔ ہماری پرائیوٹ باتوں کی طرح تم نے یہ بات بھی کسی کو نہیں‬
‫بتانی۔۔۔۔اور میں نے پرامس کر لیا۔۔۔۔ پھر باجی کہنے لگیں ۔۔۔ اچھا یہ‬
‫بتاؤ کہ اگر میں یہ جادو سیکھنا چاہوں تو کیسے سیکھوں؟ تو میں ان‬
‫سے بوال۔۔۔ جب یہ بیٹھ جائے تو آپ بھی سیم میری طر ح کرنا۔۔ تو‬
‫وہ کہنے لگی۔۔۔ چلو اسے بٹھاؤ۔۔۔۔ تو میں بوال۔۔۔ یہ خود بخود بیٹھ‬
‫جائے گا۔۔۔ لیکن جب کافی دیر گزر گئی۔۔۔اور میرا لن نہ بیٹھا تو۔۔۔‬
‫باجی کہنے لگی۔۔۔ یہ تو بیٹھ ہی نہیں رہا۔۔۔۔ پھر بولیں۔۔۔اسے بٹھانے‬
‫کا ایک طریقہ ہے۔۔۔۔اور وہ یہ کہ تم جا کر پیشاب کر آؤ۔۔۔۔ تو میں ان‬
‫سے بوال۔۔۔۔ پیشاب کرنے کے بعد ۔۔۔یہ بیٹھ جائے گا۔۔۔تو وہ بولیں۔۔۔‬
‫ضرور بیٹھے گا۔۔۔ تو چل اور جلدی سے پیشاب کر کے آ۔۔۔ چنانچہ‬
‫میں واش روم میں چال گیا۔۔۔ اور پیشاب کر کے واپس آیا تو واقعی‬
‫میں میرا لن بیٹھ چکا تھا۔۔۔۔ اب میں مرجھائے لن کے ساتھ باجی کے‬
‫پاس پہنچا ۔۔۔تو وہ مجھ سے کہنے لگیں ۔۔۔ اب تم مجھے اسے بڑا‬
‫کرنے کا جادو سکھاؤ۔۔۔ اس وقت باجی کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔‬
‫لیکن میں اس سے بے نیاز ان سے بوال۔۔۔ سب سے پہلے آپ میری‬
‫نونو پر تھوک لگائیں۔۔۔میری بات سن کر باجی اپنے منہ کو میرے لن‬
‫کے بلکل قریب لے گئیں ۔۔۔اور میرے لن پر ایک تھوک کا گولہ‬
‫پھینک کر میری طرف دیکھنے لگیں۔۔۔ تو میں جلدی سے بوال۔۔۔ اب‬
‫آپ اسے ہاتھ میں پکڑ کر آگے پیچھے کریں۔۔۔ تو وہ شہوت سے بھر‬
‫پور لہجے میں بولیں ۔۔اگر میں اسے منہ میں لے کر آگے پیچھے‬
‫کروں تو پھر کھڑا نہیں ہو گا؟ ان کی بات سن کر میں حیران ہوتے‬
‫ہوئے بوال۔۔ اس کا تو مجھے نہیں پتہ۔۔۔تو وہ کہنے لگیں کیا خیال ہے‬
‫ایک ٹرائی نہ کر لی جائے؟۔۔۔ شاید اس طرح بھی کھڑا ہو جائے۔۔اس‬
‫کے ساتھ ہی باجی نے اپنے منہ سے زبان کو باہر نکاال اور لن پر‬
‫لگے تھوک کو اس کے چاروں طرف مل دیا۔۔۔ ان کے ایسا کرنے‬
‫سے میرے لن میں جان پڑنی شروع ہو گئی۔۔۔ یہ دیکھ کر میں خوشی‬
‫سے بوال۔۔۔وہ دیکھو باجی آپ کے زبان لگانے سے میری نونو کھڑی‬
‫ہو رہی ہے۔۔۔ لیکن باجی نے میری کوئی بات نہیں سنی۔۔۔اور منہ‬
‫کھول کر سارے لن کو اپنے اندر لے لیا۔۔۔اور پھر قلفی کی طرح‬
‫چوسنے لگیں۔۔۔ ان کے لن چوسنے سے مجھے ایک عجیب طرح کا‬
‫میٹھا میٹھا سرور ملنے لگا۔۔ جس کو میں لفظوں میں بیان نہیں کر‬
‫سکتا۔۔۔۔۔ وہ کافی دیر تک میرا لن چوستی رہیں۔۔۔۔۔پھر انہوں نے اپنے‬
‫منہ سے لن کو نکاال اور میری طرف دیکھ کر کہنے لگیں۔۔۔ اسے‬
‫بڑا کرنے کا ایک طریقہ یہ بھی ہے۔۔۔۔‬

‫۔۔ اسی اثنا میں مجھے یاد آیا اور میں باجی سے بوال۔۔۔ باجی اسی‬
‫طرح کے جادو سے آپ کا بھی بڑا ہو جائے گا ؟ میری بات سن کر‬
‫باجی ایک دم سے ہنس پڑیں۔۔۔اور کہنے لگیں۔۔۔ نہیں بچے ہمارے‬
‫پاس تو یہ چیز ہی نہیں ہے تو میں ان سے بوال ۔۔تو پھر آپ کے پاس‬
‫کیا ہے؟۔۔۔ میری بات سن کر ان کے چہرے پر ایک پراسرار سی‬
‫مسکراہٹ آ گئی۔۔۔اور وہ کہنے لگیں۔۔ ہمارے پاس جو چیز ہے اسے‬
‫دیکھنا چاہو گے؟ تو میں ان سے بوال۔۔ دکھائیں نا ۔۔تو وہ کہنے لگیں‬
‫۔۔ پہلے دیکھ کر آ کہ دروازہ الک ہے نا۔۔۔ میں ننگا ہی بھاگ کر‬
‫دروازے کی طرف گیا۔۔۔۔ دیکھا تو دروازہ الک تھا۔۔۔ میں نے ان کو‬
‫بتایا کہ دروازہ الک ہے۔۔۔ میری بات سن کر بولیں۔۔۔ ٹھیک ہے تم بیڈ‬
‫پر آ جاؤ۔۔ میں بھاگ کر بیڈ پر آگیا۔۔اور باجی سے بوال۔۔۔ اب‬
‫دکھائیں۔۔۔ میری بات سن کر باجی پلنگ پر کھڑی ہو گئیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اور‬
‫پھر میری طرف دیکھتے ہوئے اپنی شلوار اتار دی۔۔۔ پھر دونوں‬
‫ٹانگوں کو کھول کر اپنی پھدی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔‬
‫ہمارے پاس یہ ہوتی ہے۔۔۔۔ میں تجسس کے ساتھ آگے بڑھا۔۔۔۔ اور‬
‫باجی کی کھلی ٹانگوں کے بیچ والی جگہ کو دیکھنے لگا ۔۔ ان کی‬
‫ٹانگوں کے بیچ میں ایک ابھری ہوئی جگہ تھی۔۔ اور یہ جگہ درمیان‬
‫میں دو حصوں میں تقسیم تھی۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے منہ اُٹھا کر باجی‬
‫کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔ ۔۔۔ کیا میں اسے ٹچ کر سکتا ہوں؟‬
‫تو وہ بولیں۔۔۔ ہاں ٹچ کر کے دیکھو کیسی ہے۔۔ یہ سن کر میں آگے‬
‫بڑھا ۔۔۔اور اس ابھری ہوئی جگہ پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ تو وہ کہنے لگیں‬
‫۔۔اس کے اندر نہیں دیکھو گے؟ تو میں نے ان کی لکیر کے دونوں‬
‫طرف کو دونوں انگلیوں کی مدد سے الگ کیا ۔۔۔اور اس کے اندر‬
‫جھانک کر دیکھا ۔۔۔تو وہاں کچھ نہ تھا ۔۔۔ میں باجی سے بوال۔۔۔ باجی‬
‫یہ تو اندر سے خالی ہے۔۔۔تو وہ کہنے لگیں۔۔۔۔ تم انگلی ڈال کر‬
‫دیکھو۔۔ شاید کچھ پڑا ہو۔۔۔ جیسے ہی میں نے اس سوراخ میں انگلی‬
‫ڈالی۔۔۔ تو باجی کے منہ سے ایک سسکاری سی نکل گئی۔۔ جسے سن‬
‫کر میں چونک اُٹھا۔۔۔اور ان سے پوچھا۔۔۔ درد ہو رہا ہے؟ ۔۔۔تو وہ‬
‫سسکتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ نہیں میں ٹھیک ہوں تم اندر دیکھو۔۔۔۔‬
‫ان کی بات سن کر میں اپنے چہرے کو پھدی کے بلکل قریب لے‬
‫گیا۔۔۔۔تو مجھے وہاں سے ایک عجیب سے خوشبو آئی ۔۔ جسے‬
‫سونگھ کر میں باجی سے بوال۔۔۔ یہاں سے تو بڑے مزے کی مہک آ‬
‫رہی ہے تو وہ کہنے لگیں۔ ۔۔۔ مہک سونگھ لی۔۔۔۔۔ اب اندر دیکھ۔۔۔تب‬
‫میں نے ان کی پھدی کے دونوں لبوں کو اپنی انگلیوں کی مدد سے‬
‫آخری حد تک کھوال۔۔۔ اور جھانک کر دیکھا تو ۔۔۔ وہاں کچھ بھی نہ‬
‫تھا میں ان سے بوال۔۔۔ باجی اندر تو کچھ بھی نہیں ہے ۔۔۔تو وہ کہنے‬
‫لگیں۔۔۔ غور سے دیکھ۔۔۔ کچھ نہ کچھ ضرور ہو گا۔۔۔۔ تب میں چوت‬
‫سے گدلے پانی کو بہتے دیکھ کر بوال۔۔۔ باجی آپ تو پیشاب کر رہی‬
‫ہیں تو وہ سسکی لیتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔چندا یہ پیشاب نہیں ہے۔۔ تو‬
‫میں بوال ۔۔۔ وہ کیسے ؟ تو وہ کہنے لگیں چیک کر کے دیکھو یہ‬
‫ایک لیس دار چیز ہو گی۔ ۔۔۔جو کہ پیشاب ہر گز نہیں۔۔۔ان کے کہنے‬
‫پر میں نے پھدی میں انگلی ڈالی۔۔۔اور ان کے پانی کو چیک کرتے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔ یہ تو کوئی چپکنے والی چیز ہے تو وہ کہنے لگی چکھ‬
‫کے دیکھ کیسی ہے ؟۔۔۔تو میں ان کی چوت والے پانی کی انگلی کو‬
‫زبان پر رکھنے ہی واال۔۔ تھا کہ وہ بولی ۔۔ایسے نہیں ڈائیرکٹ زبان‬
‫سے چکھ۔۔۔ تو میں نے اپنی زبان کو ان کی چوت پر رکھا۔۔۔۔۔اور‬
‫اس۔۔۔ پانی کو چکھنا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔ جیسے ہی میری زبان ان کی‬
‫چوت کے ساتھ ٹچ ہوئی ۔۔تو وہ سسکیاں بھرنے لگی۔۔۔ان کی سسکیاں‬
‫سن کر میں نے پوچھا کیا ہوا باجی؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ مجھے کچھ‬
‫نہیں ہوا۔۔۔تو بتا میری پھدی کا ذائقہ کیسا ہے ان کے منہ سے پھدی‬
‫کا لفظ سن کر میں حیران نظروں سے ان کی طرف دیکھنے لگا تو‬
‫وہ جلدی سے بولی۔۔ جس طرح تمہاری نونو ہوتی ہے اس طرح‬
‫ہماری اس چیز کو پھدی کہتے ہیں۔۔۔۔پھر کہنے لگیں۔۔۔۔۔۔چل شاباش‬
‫بتا ۔۔کہ میری پھدی کا ذائقہ کیسا ہے؟ تو میں ان سے بوال ۔۔ ٹیسٹ‬
‫عجیب لیکن مزے کا ہے۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔ پھر کتے کی طرح‬
‫میری پھدی چاٹ۔اور اس کےاندر پڑے لیس دار پانی کو پی جا۔۔۔۔۔۔‬
‫میں نے کسی غالم کی طرح۔۔۔۔۔ اپنی زبان منہ سے باہر۔۔۔۔ نکالی اور‬
‫پھر کسی کتے کی طرح ان کی پھدی کو چاٹنا شروع ہو گیا۔۔۔ اور وہ‬
‫میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے۔۔۔۔۔ سسکیاں بھرتی اور کہتی‬
‫جاتیں۔۔۔ شاباش میری کتے۔۔۔ ساری منی چاٹ جا۔۔۔ ۔۔اور میں ان کی‬
‫چوت میں پڑے پانی کو شپڑ شپڑ چاٹتا رہا۔۔۔۔۔۔ پھر کافی دیر بعد۔۔ وہ‬
‫بنا کچھ کہے نڈھال سی ہو کر پلنگ پر لیٹ گئیں۔۔۔‬

‫پھر۔۔۔۔کچھ دیرآرام کرنے کے بعد وہ اوپر اُٹھیں ۔۔ اور مجھ سے‬


‫کہنے لگیں۔۔۔۔ ۔۔ چندا اب تو الٹا لیٹ جا۔۔۔ اور میں بنا کوئی۔۔۔چوں چرا‬
‫کیئے۔۔۔۔۔ ان کے سامنے الٹا لیٹ گیا۔۔۔۔۔جیسے ہی میں الٹا ہوا ۔۔تو وہ‬
‫میری باہر کو نکلی ہوئی گانڈ پر جھکیں۔۔۔اور اسے چاٹنا شروع ہو‬
‫گئیں ۔۔۔اف ان کی زبان کو اپنی گانڈ پر محسوس کر کے مجھ پر ایک‬
‫عجیب سا نشہ چھا گیا۔۔۔اور میرا دل کیا کہ کاش وہ اپنی ایک انگلی‬
‫کو میری موری میں داخل کر دیں لیکن انہوں نے ایسا کچھ نہیں کیا۔‬
‫۔۔ادھر جب میری گانڈ ان کے تھوک سے اچھی طرح گیلی ہو‬
‫گئی۔۔۔تو انہوں نے اپنی دونوں ٹانگیں ادھر ادھر کیں۔۔۔۔ ۔ اور اپنی‬
‫گرم پھدی کو عین میری گانڈ کے ابھار پر رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھدی‬
‫کو رگڑنا شروع ہو گئیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔ وہ اپنی پھدی کو میری چکنی گانڈ پر‬
‫رکھے آگے پیچھے ہو رہی تھیں۔۔۔ ان کی پھدی سے عجیب سی‬
‫رطوبت نکل رہی تھی جس کی وجہ سے میری گانڈ مزید چکنی ہو‬
‫گئی تھی۔۔۔ اور اسی چکناہٹ کی وجہ سے باجی بڑی آسانی سے‬
‫آگے پیچھے ہو رہی تھیں۔۔میری گانڈ پر پھدی رگڑتے ہوئے۔۔ پہلے‬
‫تو وہ آہستہ آہستہ سسکیاں لے رہیں تھیں۔۔ جیسے جیسے پھدی‬
‫رگڑنے کی رفتار تیز ہوتی۔۔۔۔۔تو اس کے ساتھ ساتھ ان کے چیخنے‬
‫کی آواز بھی تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی تھی۔۔ ایک دفعہ تو مزے‬
‫میں آ کر ۔۔۔۔۔ انہوں نے اس قدر زور سے چیخ ماری کہ۔۔۔۔ باہر سے‬
‫ڈیڈی کی گھبرائی ہوئی آواز سنائی دی۔۔۔ کیا ہوا؟ اندر کون‬
‫ہے؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔ نسرین تم چیخیں کیوں مار رہی ہو؟۔۔اس کے ساتھ ہی‬
‫انہوں نے دروازے کو پیٹنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ادھر ڈیڈی کی‬
‫آواز سن کر باجی جمپ مار کر میرے اوپر سے اُٹھیں۔۔۔اور اس سے‬
‫پہلے کہ وہ کچھ کرتیں باہر ایک زور دار دھماکہ ہوا۔۔۔۔ باجی نے‬
‫میری ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں نے باجی کی طرف‬
‫دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اورررررررررررررررررررر۔‬
‫)قسط نمبر ‪(12‬‬

‫ڈیڈی کی آواز سن کر میری تو جان ہی نکل گئی تھی لیکن باجی ذرا‬
‫نہ گھبرائیں ۔۔ انہوں نے بجلی کی تیزی سے مجھے ٹراؤزر پہنایا‬
‫اور خود شلوار پہن کر جلدی سے میرے کان میں کچھ باتیں کیں۔۔۔‬
‫اور پھر رضائی میں لیٹ گئی میں نے باجی کی ہدایت پر عمل کرتے‬
‫ہوئے دروازے کی کنڈی کھولی ۔۔۔ دروازہ کھلتے ہی ڈیڈی تیزی کے‬
‫ساتھ کمرے میں داخل ہوئے اور مجھ سے کہنے لگے کیا ہوا تھا ؟‬
‫نسرین چیخیں کیوں مار رہی تھی؟ تو میں باجی کی ہدایت پر عمل‬
‫کرتے ہوئے بڑے معصوم انداز سے بوال ۔۔۔ مجھے نہیں معلوم۔۔۔۔۔ ۔۔‬
‫میں تو سو رہا تھا۔۔۔ میری بات سن کر ڈیڈی باجی کی طرف بڑھے‬
‫جو ابھی بھی تڑپنے کی ادا کاری کر رہی تھیں۔۔۔ اسی اثنا میں دادی‬
‫اماں بھی کمرے میں آ گئی۔۔انہوں نے آتے ساتھ ہی باجی کو زور‬
‫سے جھنجھوڑا۔۔۔ ۔۔ تو باجی چونک کر اُٹھنے اور خوف زدہ ہونے‬
‫کی ایکٹنگ کرتے ۔۔دادی اماں سے لپٹ کر ڈری ہوئی آواز میں۔۔۔‬
‫بولی ۔ امی ۔۔ مجھے بچا لو۔۔۔ تو دادی اماں بڑی شفقت سے کہنے‬
‫لگیں۔۔۔ ۔۔ کیا ہوا میری بچی ؟ اس پر باجی نے اداکاری کرتے ہوئے‬
‫ایک گہرا سانس لیا ۔۔اور کہنے لگی ۔۔۔ امی میں نے بڑا ڈراؤنا خواب‬
‫دیکھا تھا۔۔۔ اس انہوں نے دادی اماں کی فرمائیش پر انہیں کچھ‬
‫جھوٹ سچ سنایا۔۔ ڈراؤنا خواب سننے کے بعد دادی اماں ان کو دالسہ‬
‫دے کر جانے لگیں ۔۔تو باجی ان کے ساتھ لپٹ کر بولیں۔۔ امی جان‬
‫میرے ساتھ سوئیں ۔۔۔چنانچہ باجی کی فرمائیش دادی اماں ہمارے‬
‫ساتھ ہی سوئیں۔۔ بلکہ ۔۔۔اگلے دو تین روز تک وہ ہمارے کمرے میں‬
‫ہی سوتی رہیں۔۔۔ پھر چند دنوں کے بعد وہ واپس اپنے کمرے میں‬
‫شفٹ ہو گئیں ۔۔۔۔چنانچہ اس کے بعد میں اور باجی ایک بار پھر سے‬
‫اکیلے سونا شروع ہو گئے۔۔۔ ۔ اس دن کے بعد ہر دوسرے تیسرے دن‬
‫۔۔۔۔میں اور باجی سیم پہلے دن واال سیکس کرتے۔۔۔ فرق صرف یہ تھا‬
‫کہ پہلے دن میں نے انجانے میں ان کے ساتھ سیکس کیا تھا ۔۔ لیکن‬
‫اب کی بار باجی نے مجھے سیکس بارے ساری جان کاری دے دی‬
‫تھی جس کی وجہ سے میرا مزہ دوباال ہو گیا تھا۔۔ چنانچہ کمرے میں‬
‫آنے کے بعد۔۔۔ اور سونے سے پہلے باجی اور میں آپس میں زبانیں‬
‫مالتے جسے تم ٹنگ کسنگ یا زبانوں کا بوسہ کہہ سکتے ہو۔۔ پھر‬
‫اس کے بعد ۔۔ میں ان کی پھدی چاٹا کرتا اور وہ میرے لن کو منہ‬
‫میں لے کر خوب چوسا کرتیں ۔۔ جس کا مجھے مزہ تو بہت آتا تھا۔۔۔‬
‫لیکن ۔۔ اصل مزہ مجھے اُس وقت آتا تھا کہ ۔۔۔ جب وہ میری گانڈ‬
‫چکنی کرنے کے لیئے اسے چاٹا کرتی تھیں۔۔۔اور پھر گانڈ چاٹتے‬
‫ہوئے میری فرمائیش پر وہ ۔۔۔ ایک انگلی میرے سوراخ میں بھی دیا‬
‫کرتی تھیں۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ جب وہ میری گانڈ پر اپنی گرم پھدی‬
‫رگڑتی تو پتہ نہیں کیوں مجھے ایسا محسوس ہوتا تھا کہ جیسے کہ‬
‫وہ میری گانڈ مار رہی ہوں ۔۔ فرزند صاحب نے بات ختم کی تو میں‬
‫ان سے بوال۔۔۔یہ تو تھی باجی نسرین کے ساتھ سیکس سٹوری ۔۔۔۔اب‬
‫آپ مجھے رئیل لن لینے کی بات بتائیں۔۔۔‬

‫تو وہ مجھے بانس پر چڑھاتے ہوئے بولے۔۔۔ رئیل لن لینے کا تو آج‬


‫پروگرام ہے۔ پھر میرے لن پر ہاتھ لگا کر بولے جہاں تک بات ہے‬
‫لن کی کہ کب میں نے اسے اپنے اندر لیا تھا۔۔ تو پیارے دوست اس‬
‫کی داستان کچھ یوں ہے کہ باجی کے ساتھ میرے جنسی تعلقات‬
‫شادی کے کچھ عرصہ بعد تک جاری رہے ۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ یہ‬
‫تعلق کم ہوتے ہوتے ختم ہو گیا۔۔ ۔۔۔ دوسری طرف ہم بھی منزلیں‬
‫مارتے ہوئے ۔۔۔ سکول سے کالج اور پھر کالج سے یونیورسٹی پہنچ‬
‫گئے۔۔۔۔ قائ ِد اعظم یونیورسٹی میں داخلہ لینے کے بعد ۔۔ ایک دو ماہ‬
‫تو مجھے ایڈجسٹ ہونے میں لگ گئے۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ لڑکے‬
‫لڑکیوں سے جان پہچان ہوئی۔۔۔پھر جان پہچان کے بعد دوستیاں‬
‫بنیں۔۔۔ ۔۔۔اور میری دوستی ایک بلوچ لڑکی کے ساتھ ہو گئی۔ ۔۔ وہ‬
‫لڑکی بہت خوبصورت ۔۔۔ اور سیکسی تھی۔۔۔ چنانچہ جلد ہی ہماری‬
‫دوستی میں سیکس کا عنصر بھی شامل ہو گیا ۔۔۔اسی دوران ہمارے‬
‫گروپ میں جھنگ کا ایک لڑکا بھی شامل ہو گیا۔ اور یوں ہم دو سے‬
‫تین دوست ہو گئے ہم تینوں کا تعلق کھاتے پیتے گھرانوں سے تھا۔‬
‫بلوچ لڑکی جس کا نام گ ِل داؤدی تھا جیسا کہ میں بتا چکا ہوں۔۔۔ بہت‬
‫سیکسی تھی۔۔ چونکہ اس کا تعلق روایتی بلوچ گھرانے سے تھا اس‬
‫لیئے وہ چاہنے کے باوجود بھی فکنگ مطلب پھدی نہیں مروا سکتی‬
‫تھی ۔۔ اتنا پڑھا لکھا ہونے کے باوجود بھی ان کے ہاں ابھی تک‬
‫"سیل بند" پھدی کا تصور موجود تھا ۔۔اس لیئے وہ میرے ساتھ اوورل‬
‫کیا کرتی تھی ۔۔۔ یا اگر ہم زیادہ گرم ہوں تو وہ پیچھے سے کروا لیا‬
‫کرتی تھی۔۔ وہ بھی جگہ نہ ہونے کی وجہ سے ہم یہ واال بہت کم کام‬
‫کیا کرتے تھے لیکن جب جھنگ والے لڑکے کے ساتھ ہماری دوستی‬
‫ہوئی تو پھر جگہ والی پرابلم بھی ختم ہو گئی۔۔۔ کیونکہ اس کے‬
‫والدین نے اسے ایک پورا فلیٹ لے کر دیا تھا ۔۔۔ پھر فرزند صاحب‬
‫کہنے لگے شروع شروع میں ہم دونوں گ ِل داؤدی کے ساتھ باری‬
‫باری ( مطلب ون ٹو ون ) سیکس کیا کرتے تھے لیکن جب بے‬
‫تکلفی حد سے بڑھی ۔۔۔تو پھر ہم ایک دوسرے کے سامنے ہی سیکس‬
‫کرنا شروع ہو گئے۔۔۔ پھر کہنے لگے جیسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ‬
‫گ ِل داؤدی آگے سے نہیں لیتی تھی اس لیئے ہم دونوں باری باری اس‬
‫کی گانڈ مارا کرتے تھے۔۔۔ یا پھر ایک کسنگ کرتا اور دوسرا اس‬
‫کو پیچھے سے چودا کرتا تھا۔۔۔ ایسے ہی ایک دن کی بات ہے کہ‬
‫میں گ ِل داؤدی کی گانڈ مار رہا تھا کہ جھنگ کا لڑکا جس کا نام‬
‫عرفان تھا میرے پیچھے آ گیا ۔۔۔اور شرارت سے میری گانڈ پر لن‬
‫رگڑتے ہوئے بوال۔۔۔ ویسے یار ۔۔۔ تیری بنڈ بھی کسی سے کم نہیں۔۔‬
‫عرفان کے منہ سے اپنی بنڈ کی تعریف سن کر میں تو باغ باغ ہو‬
‫گیا۔۔۔ اور میری برسوں کی تمنا کہ کوئی میری بنڈ مارے۔۔۔ پھر سے‬
‫جاگ گئی۔۔۔ چنانچہ۔۔۔ میں نے بھی بظاہر مذاقا ً اس سے کہا اگر پسند آ‬
‫گئی ہے تو مار لو۔۔۔۔۔ عرفان جس نے بعد میں مجھے بتایا کہ وہ‬
‫لڑکے لڑکیوں دونوں کے ساتھ سیکس کرتا رہا ہے نے لن کو میری‬
‫گانڈ کے چھید میں رکھا ۔۔۔اور ہلکے ہلکے گھسے مارنے لگا۔۔۔۔ جس‬
‫سے مجھے بہت مزہ آیا اور یوں ۔۔۔ اس دن میری گانڈ کی سیل کھل‬
‫گئی۔۔‬

‫لفٹ کی سیر سے واپسی پر ہم لوگوں نے ایک ریسٹورنٹ میں کھانا‬


‫کھایا اور رمشا کے لیئے پیک کروا کے گھر آ گئے دیکھا تو رمشا‬
‫موجود نہ تھی۔لیکن کچھ ہی دیر بعد وہ واپس آ گئی رمشا کے واپس‬
‫آنے سے تینوں لڑکیاں الگ ہو کر بیٹھ گئیں ان کو خوش گپیوں میں‬
‫مصروف دیکھ کر فرزند صاحب کہنے لگے کیا خیال ہے ہم دونوں‬
‫باہر نہ چلیں ؟ تو میں ان سے بوال باہر کہاں جانا ہے؟ میری بات سن‬
‫کر وہ آہستہ سے بولے۔ مجھے چود نا نہیں ؟ ۔ تو میں بوال۔۔ کیوں‬
‫نہیں جناب۔۔۔ تو وہ اسی ٹون میں کہنے لگے۔۔۔۔ان لڑکیوں کے ہوتے‬
‫ہوئے تو یہاں گانڈ مروانا مشکل ہو گا اس لیئے کہیں باہر جا کر‬
‫کرتے ہیں کہ ۔ مجھے لن کی شدید طلب ہو رہی ہے۔۔۔۔ تو میں ان‬
‫سے بوال کہ اگر ایسی بات ہے تو چلیں۔۔۔۔ تو چلنے سے پہلے وہ با‬
‫آواز بلند لڑکیوں سے مخاطب ہو کر بولے۔۔۔۔ میں اور شاہ واک پر جا‬ ‫ِ‬
‫رہے ہیں آپ میں سے کوئی چلنا پسند کرے گا؟ اس پر ثانیہ کہنے‬
‫لگی بھائی جان ۔۔ ہم ابھی واک کر کے ہی واپس آئے تھے۔۔تو فرزند‬
‫صاحب بولے۔۔۔ اگر کسی لڑکی کا موڈ ہے تو ویل کم۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔ ہم‬
‫لوگ جا رہے ہیں۔۔۔ اس کے بعد میں فرزند صاحب کے ساتھ گھر‬
‫سے باہر نکل گیا۔۔ کچھ آگے جا کر انہوں نے میری طرف دیکھا اور‬
‫شہوت بھرے لہجے میں بولے۔۔۔۔۔ شاہ جی تیرا لن بہت موٹا اور لمبا‬
‫ہے ۔۔۔۔اس کو لینے سے میری گانڈ تو نہیں پھٹے گی نا؟ جواب دینے‬
‫سے پہلے میں نے ایک نظر ان کی طرف دیکھا ۔۔۔تو وہ اس وقت فُل‬
‫موڈ میں لگ رہے تھے ان کو اس حال میں دیکھ کر میں بھی گرم‬
‫ہونا شروع ہو گیا۔۔۔۔ اسی اثنا میں فرزند صاحب دوبارہ سے بولے۔۔۔۔‬
‫بتاؤ نا دوست ۔۔ تیرا لن میری گانڈ تو نہیں پھاڑے گا ؟ اس پر میں ان‬
‫سے بوال۔۔ یہ تو آپ کی گانڈ پر منحصر ہے۔۔۔اگر اس کا سوراخ کھال‬
‫ہوا ۔۔۔تو پھر کچھ بھی نہیں ہو گا۔۔۔ لیکن اگر گانڈ تنگ ہوئی تو پھر‬
‫تھوڑا درد ہو گا۔۔۔اس پر وہ کہنے لگے۔۔۔میں نے زیادہ نہیں مروائی۔۔۔‬
‫اس لیئے امید ہے کہ تمہارا لن میری گانڈ میں پھنس پھنس کر جائے‬
‫گا۔۔۔۔۔ ۔۔ اس کے بعد میں نے ان سے سوال کیا کہ ہم کہاں سیکس‬
‫کریں گے؟ تو وہ کہنے لگے ویسے تو یہاں کے ہوٹل وغیرہ اسی کام‬
‫کے لیئے ہوتے ہیں لیکن ہم لوگ (سامنے اشارہ کرتے ہوئے) ۔۔۔اس‬
‫جنگل میں جا کر سیکس کریں گے تو میں ان سے بوال وہاں کوئی‬
‫خطرہ تو نہیں ہو گا نا؟ تو وہ ہنس کر بولے۔۔۔ کمال ہے یار یہ بات تو‬
‫مجھے سوچنی چاہیئے تھی کہ جس نے گانڈ مروانی ہے تم تو‬
‫مارنے والے ہو۔۔‬
‫اس کے بعد وہ سیریس ہو کر بولے۔۔ نہیں یار عام طور پر ایسا نہیں‬
‫ہوتا اور ویسے بھی ہم دیکھ بھال کے ہی جگہ منتخب کریں گے ۔۔‬
‫اس کے بعد وہ کہنے لگے۔۔۔ اچھا یہ بتا ؤ کہ تم کنڈم لگا کے مارنا‬
‫پسند کرو گے؟ یا پھر۔۔۔۔ ننگا لن اندر ڈالو گے۔۔ تو میں ان سے بوال۔‬
‫لن پہ کور لگا کر گانڈ مارنے سے مجھے۔۔ فیلنگز نہیں آئیں گی۔۔۔‬
‫میری بات سن کر وہ کہنے لگے تم ٹھیک کہتے ہو ۔۔ مجھے بھی‬
‫کنڈوم والے لن کا مزہ نہیں آتا ۔۔۔ پھر میری طرف آنکھ دبا کر‬
‫بولے۔۔۔۔۔مزہ تو تب آتا ہے کہ جب ننگے گوشت میں ننگا گوشت‬
‫جائے۔۔پھر مجھے آنکھ مارتے ہوئے بولے۔۔۔۔۔ کچھ مزہ تو آئے نا بنڈ‬
‫مروانے کا۔۔۔‬

‫کچھ آگے جا کر انہوں نے مین سڑک چھوڑ دی۔۔۔ اور مجھے لے کر‬
‫ایک پگڈنڈی کی طرف آ گئے۔۔ تھوڑی دور جا کر اسی پگڈنڈی کے‬
‫آس پاس گھنے درختوں کا سلسلہ شروع ہو گیا۔۔۔ لیکن وہ یہاں نہیں‬
‫رکے ۔۔۔ بلکہ کچھ آگے چل کر انہوں نے پگڈنڈی بھی چھوڑ دی‬
‫۔۔یہاں سے ڈھلوان شروع ہو گئی اسی اثنا میں ان کی نظر ایک‬
‫گڑھے پر پڑی جس کے اوپر درخت لگے ہوئے تھے۔۔ اور ان‬
‫درختوں کی وجہ سے یہ گڑھا نظر نہ آتا تھا۔۔۔۔ اس جگہ پر نظر‬
‫پڑتے ہی وہ اشارہ کرتے ہوئے بولے۔۔۔ میرے خیال میں یہ جگہ‬
‫مناسب رہے گی ۔۔۔اور یوں ہم دونوں ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اس‬
‫گڑھے میں اتر گئے۔۔ اور نیچے کھڑے ہو کر اوپر کی طرف دیکھا‬
‫۔۔۔تو درختوں کی وجہ سے کچھ نظر نہ آ رہا تھا۔۔۔ چنانچہ آس پاس‬
‫کے ماحول سے مطمئن ہونے کے بعد ۔۔۔ وہ میری طرف پلٹے ۔۔۔‬
‫اور میرے ساتھ چپک کر بولے آج مجھے ایسے چودنا کہ جیسے‬
‫میں کوئی مرد نہیں۔۔۔ بلکہ تمہاری محبوبہ ہوں۔۔ اتنی بات کرتے ہی‬
‫انہوں نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں کے ساتھ مال دیئے۔۔۔ اور بڑے‬
‫جوش سے چوسنا شروع ہو گئے ۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد ۔۔۔۔ انہوں نے‬
‫میرے منہ سے اپنا منہ ہٹایا اور کہنے لگے۔۔۔میرے ہونٹ لڑکیوں‬
‫جیسے ہیں نا ؟۔۔ تو میں ان کے منہ میں زبان ڈالتے ہوئے بوال۔۔۔‬
‫ہونٹ تو کیا۔۔ تم ساری کی ساری لڑکی ہو۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ‬
‫بہت خوش ہوئے۔۔۔۔اور پھر ہم نے ایک دوسرے کی خوب زبانیں‬
‫چوسیں۔۔کسنگ کے دوران ہی انہوں نے میری شرٹ کے بٹن‬
‫کھولنے شروع کر دیئے تھے۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں ان سے بوال ۔۔کیا‬
‫سارے کپڑے اتارنے ہوں گے؟ تو وہ کہنے لگے نہیں یار ۔۔۔ پورے‬
‫کپڑے اتارنے میں رسک ہے ۔۔۔ پھر کہنے لگے ایسا کرتے ہیں۔۔۔۔‬
‫میں اپنی شلوار نیچے کر کے گھوڑی بنوں گا۔۔۔۔۔اور تم نے بھی‬
‫ساری پینٹ نہیں اتارنی ۔۔۔۔ بلکہ صرف زپ کھول کر لن نکال‬
‫لینا۔۔۔اتنا کہتے ہی وہ ایک بار پھر میرے ساتھ لپٹ گئے ۔اور کسنگ‬
‫کے بعد ۔۔ انہوں نے اپنی زبان کو میری چھاتیوں کے گرد پھیرنا‬
‫شروع کر دیا۔۔ اور پہلی دفعہ میں نے دیکھا کہ ان کے زبان پھیرنے‬
‫سے میری چھاتی کے چھوٹے چھوٹے نپلز اکڑ گئے تھے۔۔۔۔ چھاتی‬
‫پر زبان پھیرنے کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی زبان نے نیچے کا سفر‬
‫شروع کر دیا۔۔۔۔ اور اسے میری ناف پر لے آئے ۔۔۔ اس کے بعد‬
‫انہوں نے میری ناف کے گڑھے میں زبان ڈالی۔۔۔۔اور اسے خوب‬
‫گھمایا۔۔ جس سے مجھے عجیب سی گدگدی ہونا شروع ہو گئی ۔۔۔‬
‫اسی دوران انہوں نے میری پینٹ کی زپ کھولی ۔۔۔اور پھر انڈروئیر‬
‫میں ہاتھ ڈال کر لن کو باہر نکال لیا۔۔۔۔۔اس وقت میرا لن تنا ہوا تھا‬
‫چنانچہ اکڑے ہوئے لن کو دیکھ کر وہ کہنے لگے۔۔۔۔ یہ تو پہلے سے‬
‫ہی ریڈی لگتا ہے ۔۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں اپنا ایک ہاتھ بڑھا کر‬
‫اسے قابو کر لیا۔۔۔ اور پھر میرے ٹوپے کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫وہی بات کی‬

‫کہ ۔۔۔۔ اتنا موٹا ٹوپہ کہیں میری گانڈ ہی نہ پھاڑ دے۔۔۔۔ تو میں ان سے‬
‫بوال۔۔ کچھ نہیں ہو گا جناب۔۔۔۔۔۔آپ بس شلوار اتاریں ۔۔تو وہ میرے لن‬
‫کو آگے پیچھے کرتے ہوئے بولے۔۔۔شلوار بھی اتار دوں گا لیکن‬
‫ابھی نہیں۔۔۔۔۔ اور پھر ُمٹھ مارتے ہوئے۔۔۔ انہوں نے اپنی زبان کو‬
‫وہیں پر جا رکھا کہ جہاں سے اسے اُٹھایا تھا۔۔۔۔ مطلب میری ناف‬
‫پر۔۔۔۔ وہ اپنی زبان کو کچھ دیر تک میری ناف میں گھماتے رہے پھر‬
‫ان کی زبان نے ڈھلوان کا سفر شروع کر دیا۔۔ اور ہوتے ہوتے ان‬
‫کی زبان میرے تنے ہوئے لن پر پہنچ گئی۔۔۔ جیسے ہی ان کی زبان‬
‫میرے لن پر پہنچی تو انہوں نے بڑی ستائشی نظروں سے مجھے‬
‫دیکھا اور پھر کہنے لگے۔۔۔ بڑے کمال کا لن ہے تمہارا۔۔۔۔اور اس‬
‫کے ساتھ ہی انہوں نے میرے ٹوپے پر زبان پھیرنی شروع کر‬
‫دی۔۔۔ان کا ٹوپے پر زبان پھیرنے کا عمل اس قدر سیکسی تھا کہ میں‬
‫تڑپ کر رہ گیا۔۔ اور وہ میرے لن پر زبان پھیرتے ہوئے بولے۔۔۔ کیا‬
‫ہوا جان؟ تو میں ان سے بوال ۔۔۔۔ آپ لن بہت اچھا چوستے ہو۔۔۔۔۔تو وہ‬
‫کہنے لگے۔۔۔ اس میں کیا بڑی بات ہے بہت سے لوگ بہت اچھا لن‬
‫چوستے ہیں تو میں ان سے بوال کہ آپ کے لن چوسنے سے مجھے‬
‫بہت مزہ آ رہا ہے ۔میری بات سن کر وہ اٹھالتے ہوئے بولے۔۔۔تمہارا‬
‫مزہ اس وقت دوباال ہو جائے گا کہ جب تم میری بنڈ مارو گے۔۔۔اتنا‬
‫کہتے ہی انہوں نے میرے لن کو منہ میں لے لیا اور بڑے ہی جوش‬
‫سے چوسنے لگے۔۔۔ میں مزے کے مارے آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔آہ ہ ہ ۔‬
‫کرتا رہا۔۔ کچھ دیر بعد انہوں نے لن چوسنا بند کر دیا ۔۔۔ کہنے لگے‬
‫میرے خیال میں اب اسے اندر لیا جائے۔۔ اتنا کہتے ہی وہ اوپر اُٹھے‬
‫اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے اپنی شلوار کو نیچے کر دیا۔۔۔۔ اور‬
‫ایک چٹان نما پتھر پر ہاتھ رکھ کر گھوڑی بن گئے۔۔ ۔۔۔ جیسے ہی‬
‫میری نظر ان کی گانڈ پر پڑی تو اسے دیکھ کر میں حیران رہ گیا ان‬
‫کی گانڈ پیور وہائیٹ ۔۔۔ موٹی اور باہر کو نکلی ہوئی تھی۔۔۔ میں نے‬
‫آگے بڑھ کر اس پر ہاتھ کر رکھ کر دبایا ۔۔۔تو فرزند صاحب بلکل‬
‫زنانہ انداز میں سسکی لیتے ہوئے بولے۔۔۔ کیسی لگی میری گانڈ؟ تو‬
‫میں اس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بوال۔۔۔ ایک دم فسٹ کالس اور نرم و‬
‫مالئم ہے ۔۔تو وہ کہنے لگے تم ایک بار اندر ڈال کر تو دیکھو‬
‫۔۔۔۔۔تمہیں عورت کی گانڈ سے زیادہ مزہ نہ آیا تو جو مرضی ہے۔۔۔۔‬
‫مجھے سزا دینا ۔۔۔ تو میں ان کی نرم ومالئم گانڈ پر ہاتھ پھیرتے‬
‫ہوئے بوال ۔۔ اندر بھی ڈال دیں گے ۔۔۔۔ پہلے اس کا معائینہ تو کر‬
‫لیں۔۔۔۔۔تو وہ خوشی سے کہنے لگے ۔۔۔ تمہاری اپنی چیز ہے جس‬
‫طرح مرضی اس کو چیک کرو۔۔۔اب میں نے دو انگلیوں کی مدد سے‬
‫گانڈ کی دونوں پھاڑیوں کو الگ کیا۔۔۔اور سوراخ چیک کرنے لگا۔۔۔‬
‫سوارخ کا منہ ہلکا سا کھال ہوا تھا ۔۔۔ لیکن اس کے آس پاس ایک بال‬
‫بھی نہ تھا۔۔۔میں نے ایک انگلی پر تھوک لگا کر سوراخ میں داخل‬
‫کی تو وہ بڑے آرام سے اندر چلی گئی ۔۔۔ لیکن جب اسے نکال کر‬
‫اکھٹی دو انگلیاں اندر ڈالنے لگا۔۔۔۔ تو ۔۔۔ وہ اتنی آسانی سے اندر نہ‬
‫گئیں کہ ۔۔۔۔ جتنی آسانی سے ایک انگلی اندر گئی تھی۔۔۔۔ واقعی انہوں‬
‫نے بہت کم گانڈ مروائی تھی۔۔ اب میں نے اپنی انگلیاں ان کی گانڈ‬
‫سے باہر نکالیں ۔۔۔۔ اور انگلیوں کی مدد سے سوراخ پر مساج کرنا‬
‫شروع کر دیا۔۔۔ تو وہ شہوت انگیز سسکیاں لیتے ہوئے بولے۔۔ اندر‬
‫کب ڈالو گے؟ تو میں ان سے کہنے لگا ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد کرتا ہوں۔۔۔‬
‫تو وہ سسکی لیتے ہوئے بولے ۔۔۔ پلیززز ۔۔جلدی سے اندر ڈالو ۔۔‬

‫میری گانڈ بہت ڈیمانڈ کر رہی ہے جیسے ہی انہوں نے لن لینے کی‬


‫خواہش کا اظہار کیا تو اسی وقت میں نے ان کی گانڈ کا معائینہ ترک‬
‫کر دیا۔۔۔ ۔۔۔اور جونہی لن پر تھوک لگانے لگا ۔۔تو وہ جلدی سے‬
‫بولے یہ کام مجھے کرنے دو۔۔۔ اتنی بات کرتے ہی وہ واپس پلٹے‬
‫اور ایک دفعہ پھر میرے لن کو اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔ اور تھوڑی‬
‫دیر چوسنے کے بعد۔۔۔ اس کے چاروں طرف اپنے تھوک کی موٹی‬
‫ایک موٹی سی تہہ لگا دی۔۔ خاص کر ٹوپے کو انہوں نے تھوک سے‬
‫نہال دیا۔۔۔۔پھر کچھ تھوک اپنی گانڈ پر لگا کر بولے۔۔ یہ بھی ریڈی ہو‬
‫گئی ہے۔۔جلدی سے اندر ڈال۔۔۔ اور پھر اپنے ہاتھوں سے گانڈ کے‬
‫دونوں پٹ کھول دیئے جس کی وجہ سے ان کا سوراخ نمایا ں ہو کر‬
‫سامنے آ گیا ۔۔۔اب میں نے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا۔۔اور اس کا اگال‬
‫سرا ۔۔۔ ان کی موری پر رکھ کر بوال۔۔۔۔ میں ڈالنے لگا ہوں تو وہ دبی‬
‫دبی آواز میں بولے۔۔۔۔احتیاط سے ڈالنا ۔۔۔ہاں ایک دفعہ جب اندر ہو‬
‫گیا تو پھر جیسے مرضی گھسے مارنا ۔۔ لیکن پلیز۔۔۔۔۔ڈالتے وقت‬
‫احتیاط کرنا ۔۔۔۔۔۔۔ چنانچہ میں نے ان کے سوراخ پر نے بڑی احتیاط‬
‫کے ساتھ لن رکھا۔۔۔اور ہلکا سا دھکا لگا دیا۔۔ انہوں نے ایک سسکی‬
‫لی۔۔۔سور قدرے اونچی آواز میں بولے اوووووو۔۔۔۔۔۔اور ان کی چیخ‬
‫نما سسکی کے ساتھ ہی۔۔۔۔۔ لن پھسل کر ان کی خوب صورت گانڈ‬
‫میں گھس گیا۔۔۔۔۔ اس کے بعد میں نے دوسرا گھسہ مارا۔۔۔۔تو لن‬
‫صاحب دندناتے ہوئے ان کی گانڈ کے آخر تک جا پہنچے۔۔۔۔۔ ۔۔اُف‬
‫اندر سے ان کی گانڈ بہت ہی سافٹ اور گرم تھی۔ ۔۔ادھر جیسے ہی‬
‫میرا لن ان کی گانڈ میں گھسا۔۔۔ انہوں نے ایک ہلکی سی چیخ‬
‫ماری۔۔۔اُف ف فف ف ۔۔۔ تو میں لن کو ان آؤٹ کرتے ہوئے بوال۔۔۔‬
‫درد تو نہیں ہوا؟ تو وہ کہنے لگے۔۔۔۔ تھوڑا سا ہوا تھا۔۔ لیکن اب‬
‫ٹھیک ہے۔۔۔پھر کہنے لگے اِن آؤٹ رواں ہونے کے باوجود بھی تیرا‬
‫لن پھنس پھنس کر آ جا رہا ہے۔۔جس کی وجہ سے مجھے بہت مزہ‬
‫مل رہا ہے ۔۔۔۔ اس لیئے میری جان ۔۔۔۔۔ مجھے اور مزہ دے ۔۔۔ تیزی‬
‫سے گھسے مار۔۔۔۔ چنا نچہ میں نے تیز تیز گھسے مارنے شروع کر‬
‫دیئے۔۔۔ اور وہ میرے گھسوں کو انجوائے کرتے ہوئے ۔۔۔۔ بار بار‬
‫یہی کہتے رہے کہ مجھے اور مزہ دے۔۔۔ گھسہ تیز مار ۔۔۔مزہ دے۔۔‬
‫مزہ دے۔۔یس یس یس۔۔۔۔ آہ۔۔ اور۔۔۔ اور پھر ان آؤٹ کرتے کرتے ۔۔۔۔‬
‫میں ان کی گانڈ میں ہی ڈسچارج ہو گیا۔۔۔ جیسے ہی میں فارغ ہوا۔۔۔۔۔‬
‫فرزند صاحب نے اپنی جیب سے چار پانچ ٹشو پیپر نکالے۔۔۔۔ اور‬
‫مجھے پکڑاتے ہوئے بولے۔۔۔۔ اس سےلن صاف کر لو۔۔اور خود‬
‫زمین پر اکڑوں بیٹھ گئے۔۔۔اور اپنی جیب سے کچھ اور ٹشو نکال کر‬
‫اپنی گانڈ صاف کرنے لگے ۔۔جب انہوں نے گانڈ کو اچھی طرح‬
‫صاف کر لیا۔۔۔تو۔ پھر وہ اوپر اُٹھے۔۔۔۔اور مجھے گلے سے لگاتے‬
‫ہوئے بولے ۔۔۔ ۔۔ آج تو بہت مزہ دیا تم نے۔۔۔۔ان سے گلے ملتے‬
‫ہوئے۔۔۔ میری نظر اسی بڑے سے چٹان نما پتھر پر پڑی تو وہاں پر‬
‫کافی تعداد میں ان کی منی گری ہوئی تھی۔۔ تو میں اس کی طرف‬
‫اشارہ کرتے ہوئے بوال ۔۔۔۔ فرزند صاحب یہ کیا ہے؟ میری بات سن‬
‫کر انہوں نے اپنی گردن موڑی اور اپنی منی کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے بولے ۔۔یہ میری منی ہے تو میں ان سے بوال۔۔۔ لیکن آپ کب‬
‫چھوٹے؟ تو وہ کہنے لگے۔۔۔ عام طور پر گانڈ مرواتے ہوئے ۔۔۔ ہم‬
‫لوگ ُمٹھ مار کر فارغ ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔لیکن آج پہلی دفعہ۔۔۔۔ تمہارے‬
‫زبددست گھسوں اور موٹے لن نے مجھے اتنا زیادہ مزہ دیا کہ میں‬
‫خود بخود ہی چھوٹ گیا تھا۔۔۔۔۔‬

‫واپسی پر فرزند صاحب کا موڈ بہت خوش گوار تھا اور وہ بات بے‬
‫بات پر ہنس رہے تھے اسی طرح بات چیت کرتے ہوئے ہم لوگ گھر‬
‫پہنچ گئے۔۔۔یہاں بھی فرزند صاحب ویسے ہی چہکتے رہے۔۔ جلد ہی‬
‫لڑکیوں نے یہ بات محسوس کر لی۔۔ ۔ ثانیہ مجھ سے مخاطب ہو کر‬
‫بولی۔۔ ۔۔۔ انہیں کیا کھال کر الئے ہو کہ بھائی جان بہت فریش نظر آ‬
‫رہے ہیں؟ ثانیہ کی بات سن کر میں خواہ مخواہ ہی سسپنس ڈالتے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔۔ یہ ہمارا ٹریڈ سیکرٹ ہے بچہ ۔۔۔ اس کے بارے میں ہر‬
‫کسی کو نہیں بتایا جا سکتا ۔۔۔تو وہ بھی سیریس ہو کر کہنے لگی پھر‬
‫بھی کچھ تو پتہ چلے؟ کہ آخر چکر کیا ہے ؟۔۔ ظاہر ہے میں اسے یہ‬
‫تو نہیں بتا سکتا تھا کہ چونکہ میں نے اس کے بھائی کی ٹکا کر‬
‫بجائی ہے اس لیئے اس کا موڈ خوش گوار ہو گیا ہے ۔۔۔ بلکہ اس کی‬
‫بجائے میں اس سے کہنے لگا۔۔۔۔ بی بی جی اس میں میرا یا آپ کے‬
‫بھائی جان کا کوئی کمال نہیں۔۔۔۔۔ بلکہ کمال ہے تو موسم کا ہے ۔۔۔۔‬
‫اس لیئے میری آپ سے گزارش ہے کہ آپ بھی باہر نکل کر دیکھو‬
‫تو پتہ چلے کہ موسم کس قدر خوش گوار ہے ۔۔۔۔پھر میں اس پر‬
‫شاعری جھاڑتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔کھول آنکھ زمیں دیکھ فلک دیکھ فضا‬
‫دیکھ۔۔۔۔مشرق سے ابھرتے ہوئے سورج کو زرا دیکھ۔۔۔۔ اتنے میں‬
‫تانیہ فرزند صاحب سے مخاطب ہو کر بولی۔۔۔ بھائی آپ کے جانے‬
‫کے بعد اشتیاق انکل آئے تھے تو فرزند چونک کر بولے کیا کہہ‬
‫رہے تھے؟ تانیہ بولی۔۔۔ وہ کہہ رہے تھے کہ آج رات کا کھانا ان کی‬
‫طرف سے ہو گا اور بھائی وہ یہ بھی کہہ رہے تھے کہ اگر آپ لوگ‬
‫چاہو تو وہ رات کا کھانا یہاں بھی پہنچا سکتے ہیں لیکن اگر ان کے‬
‫گھر آ کر کھائیں تو بڑی مہربانی ہو گی۔۔۔ اس پر فرزند صاحب‬
‫کہنے لگے تم نے کیا جواب دیا ؟ تانیہ بولی۔۔۔۔جواب کیا دینا تھا ان‬
‫سے یہی کہا کہ رات کا کھانا ہم آپ کے گھر آ کر کھائیں گے۔ تو‬
‫فرزند اس کو شاباش دیتے ہوئے بولے۔۔ ویری گڈ تانیہ یہ تم نے بہت‬
‫اچھا کہا ۔۔۔اس پر تانیہ کہنے لگی بھائی جان بچوں کے لیئے اچھا سا‬
‫چاکلیٹ کیک یا مٹھائی کا ڈبہ لے آئیں تو اس پر رمشا بولی۔۔۔۔۔ یار‬
‫تانیہ یہ ایک تفریحی مقام ہے ۔۔۔۔یہاں سے اچھا کیک یا مٹھائی کا ملنا‬
‫کافی مشکل ہو گا اس لیئے میرا مشورہ ہے کہ آپ لوگ یا تو ان کے‬
‫بچوں کو کچھ پیسے دے دیں یا پھر جاتی دفعہ کچھ فروٹس وغیرہ‬
‫لے جائیں اور پھر کابینہ کی باہمی رضامندی سے یہ طے پایا کہ ہم‬
‫لوگ ان کے گھر جاتے وقت فروٹس بھی لے جائیں گے اور واپسی‬
‫پر بچوں کو پیسے بھی دے آئیں گے۔۔ ۔۔ حتمی پروگرام بننے کے بعد‬
‫فرزند صاحب تو ریسٹ کرنے کے لیئے اپنے کمرے کی طرف چلے‬
‫گئے جبکہ مجھے پیشاب کی حاجت ہو رہی تھی اس لیئے میں واش‬
‫روم چال گیا۔۔۔ ۔پھر اسی شام اشتیاق صاحب کے ہاں جانے سے پہلے‬
‫مجھے تنہائی میں رمشا مل گئی تو میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔ مس‬
‫جی یہ بتا ؤ کہ ہمارے جانے کے بعد تمہاری ان گوریوں کے ساتھ‬
‫میٹنگ ہوئی؟ تو وہ بظاہر انجان بنتے ہوئے بولی۔۔۔ کون سی میٹنگ ؟‬
‫۔۔۔ یو نو آج صبع ہی دوست میری طبیعت بہت خراب تھی اس لیئے‬
‫میں سارا دن کمرے سے باہر نہیں نکل سکی۔۔۔ اس کی بات سن کر‬
‫میں نے اس کو بازو سے پکڑا اور اسے جھٹکا دیتے ہوئے بوال۔۔۔‬
‫گولی دینے کی کوشش نہ کرنا میں تیری ساری چوت چاالکیاں‬
‫سمجھتا ہوں تو وہ ہنستے ہوئے بولی۔۔ ایک بات تو بتاؤ اور وہ یہ کہ‬
‫تم اس معاملے میں اتنا انٹرسٹ کیوں لے رہے ہو؟ تو اس پر میں اس‬
‫کی چھاتیوں کو دبا کر بوال۔۔۔ وہ اس لیئے میری جان کہ ۔۔بقول شاعر‬
‫ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔۔۔آپسی کام کرتے ہوئے کیا پتہ ان کو‬
‫ایک مضبوط لوڑے کی ضرورت پڑ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسری بات‬
‫یہ ہے ڈارلنگ کہ معاملہ سیکس کا ہو اور میں اس سے انجان رہوں‬
‫یہ ہر گز نہیں ہو سکتا ۔۔۔ تو وہ مجھے چڑاتے ہوئے بولی۔۔۔ جہاں‬
‫تک تمہاری پہلی بات کا تعلق ہے۔۔ تو منہ دھو رکھو ایک تم ہی نہیں‬
‫تنہا ۔۔۔۔۔گوری چمڑی کے لیئے تو سارے پاکستان کے لڑکے الئن‬
‫میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔اور دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ ۔۔ بے شک‬
‫یہ معاملہ سیکس کا ہے لیکن یہ زنانہ سیکس کا معاملہ ہے ۔۔۔ اس‬
‫لیئے تمینہ اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر کہنے لگی‬
‫میری ان کے ساتھ ہیلو ہائے تو شروع ہو گئی ہے ۔۔۔لیکن غیر ملکی‬
‫ہونے کی وجہ سے دونوں بڑی محتاط اور ایک ان دیکھی جھجھک‬
‫ابھی تک برقرار ہے ۔۔۔ ۔۔ پھر مجھے آنکھ مارتے ہوئے بولی۔۔۔ فکر‬
‫نہیں کرو دوست ۔۔۔۔ یہ سالی گوریاں مجھ سے بچ کر نہیں جا سکتیں‬
‫۔۔۔‬

‫اشتیاق صاحب کی دعوت بہت سادہ مگر مزیدار تھی۔۔دعوت سے‬


‫واپسی پر اتفاق سے ہم لوگ گھر میں داخل ہو رہے تھے۔۔۔ تو عین‬
‫اسی وقت گوریاں گھر سے باہر نکل رہی تھیں ہمیں دیکھ کر وہ‬
‫دروازے میں ہی ُرک گئیں۔ تعارف پر پتہ چال کہ وہ دونوں ایک ملٹی‬
‫نیشنل کمپنی میں اچھے عہدے پر کام کرتیں تھیں ۔۔ اور آج کل‬
‫چھٹیاں منانے پاکستان آئی ہوئی ہیں ۔ان میں سے بیضوی چہرے اور‬
‫سرخی مائل گوری لڑکی کا نام کیرن تھا جس کی عمر ‪ 29 /28‬سال‬
‫ہو گی جبکہ دوسری اس سے بڑی اور چہرے قدرے لمبوترا سا تھا۔۔‬
‫نام ڈیزی تھا اور عمر ‪ 36 /35‬سال کی ہو گی۔۔کیرن کی طرح وہ‬
‫بھی گوری رنگت والی سرخی مائل گوری گوری تھی رسمی تعارف‬
‫کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرزند صاحب نے پھر بھی ان کے ساتھ ساتھ کچھ‬
‫بات وات کی لیکن پتہ نہیں کیا چکر ہے کہ ان گوریوں کو اپنے‬
‫سامنے دیکھ کر ۔۔۔ہمیشہ ہی میری حالت کچھ عجیب ہو جاتی شاید‬
‫اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ میں جس بھی گوری کو دیکھتا ہوں تو‬
‫پتہ نہیں کیوں میرے ذہن میں بلیو موویز والی گوریاں گھوم جاتی ہیں‬
‫جو کہ یا تو لن پر بیٹھی جمپیں مار رہی ہوتیں ۔۔۔۔۔۔ یا پھر میرا‬
‫فیورٹ کام چوپا لگا رہی ہوتیں تھیں۔۔۔ اس کے عالوہ ان کے بارے‬
‫میں ابھی تک کوئی دوسرا تصور میرے زہن میں نہ بیٹھ سکا تھا۔۔۔ ۔۔‬
‫اسی لیئے جب ڈیزی نے مجھ سے ہاتھ مالنے کے لیئے اپنا ہاتھ‬
‫میری طرف بڑھایا تو میں گھبرا سا گیا۔ اور اسی گھبراہٹ کے عالم‬
‫میں۔۔۔۔۔۔ میں بروقت اپنا ہاتھ نہ بڑھا سکا ۔ اور پھر ڈرتے ڈرتے ہاتھ‬
‫بڑھایا بھی تو میرا سٹائل دیکھ کر ساری خواتین ہنس پڑیں اور ڈیزی‬
‫میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے اردو میں بولی۔۔۔ ہاتھ مالنے سے تمہاری‬
‫فیانسے کچھ نہیں کہی گی۔پھر وہ لڑکیوں سے مخاطب ہو کر بولی۔۔‬
‫ہم واک پر جا رہیں تھیں اگر کوئی انٹرسٹڈ ہے تو چلے ۔سو لڑکیاں‬
‫بھی ان کے ساتھ ہو لیں۔۔ ان کے جانے کے دس منٹ بعد فرزند‬
‫صاحب نے بنا کوئی بات کیئے میری زپ کھولی اور لن کو نکال کر‬
‫بڑی بے تکلفی کے ساتھ بولے۔۔۔کیا خیال ہے ایک اچھا سا چوپا نہ ہو‬
‫جائے؟ میرے ہاں کرنے کی دیر تھی کہ انہوں نے ایسا مست اور‬
‫زبردست چوپا لگایا کہ طبیعت خوش ہو گئی۔۔ انہیں چوپا لگا کر‬
‫۔۔۔۔۔اور مجھے لگوا کر اس قدر مزہ آیا کہ لڑکیوں کے آنے سے‬
‫پہلے پہلے۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں سو چکے تھے۔۔‬
‫گولی دینے کی کوشش نہ کرنا میں تیری ساری چوت چاالکیاں‬
‫سمجھتا ہوں تو وہ ہنستے ہوئے بولی۔۔ ایک بات تو بتاؤ اور وہ یہ کہ‬
‫تم اس معاملے میں اتنا انٹرسٹ کیوں لے رہے ہو؟ تو اس پر میں اس‬
‫کی چھاتیوں کو دبا کر بوال۔۔۔ وہ اس لیئے میری جان کہ ۔۔بقول شاعر‬
‫ہم بھی تو پڑے ہیں راہوں میں۔۔۔آپسی کام کرتے ہوئے کیا پتہ ان کو‬
‫ایک مضبوط لوڑے کی ضرورت پڑ جائے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور دوسری بات‬
‫یہ ہے ڈارلنگ کہ معاملہ سیکس کا ہو اور میں اس سے انجان رہوں‬
‫یہ ہر گز نہیں ہو سکتا ۔۔۔ تو وہ مجھے چڑاتے ہوئے بولی۔۔۔ جہاں‬
‫تک تمہاری پہلی بات کا تعلق ہے۔۔ تو منہ دھو رکھو ایک تم ہی نہیں‬
‫تنہا ۔۔۔۔۔گوری چمڑی کے لیئے تو سارے پاکستان کے لڑکے الئن‬
‫میں لگے ہوئے ہیں۔۔۔اور دوسری بات کا جواب یہ ہے کہ ۔۔ بے شک‬
‫یہ معاملہ سیکس کا ہے لیکن یہ زنانہ سیکس کا معاملہ ہے ۔۔۔ اس‬
‫لیئے تمینہ اس کا کوئی خاص فائدہ نہیں ہو گا۔۔ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر کہنے لگی‬
‫میری ان کے ساتھ ہیلو ہائے تو شروع ہو گئی ہے ۔۔۔لیکن غیر ملکی‬
‫ہونے کی وجہ سے دونوں بڑی محتاط اور ایک ان دیکھی جھجھک‬
‫ابھی تک برقرار ہے ۔۔۔ ۔۔ پھر مجھے آنکھ مارتے ہوئے بولی۔۔۔ فکر‬
‫نہیں کرو دوست ۔۔۔۔ یہ سالی گوریاں مجھ سے بچ کر نہیں جا سکتیں‬
‫۔۔۔‬
‫اشتیاق صاحب کی دعوت بہت سادہ مگر مزیدار تھی۔۔دعوت سے‬
‫واپسی پر اتفاق سے ہم لوگ گھر میں داخل ہو رہے تھے۔۔۔ تو عین‬
‫اسی وقت گوریاں گھر سے باہر نکل رہی تھیں ہمیں دیکھ کر وہ‬
‫دروازے میں ہی ُرک گئیں۔ تعارف پر پتہ چال کہ وہ دونوں ایک ملٹی‬
‫نیشنل کمپنی میں اچھے عہدے پر کام کرتیں تھیں ۔۔ اور آج کل‬
‫چھٹیاں منانے پاکستان آئی ہوئی ہیں ۔ان میں سے بیضوی چہرے اور‬
‫سرخی مائل گوری لڑکی کا نام کیرن تھا جس کی عمر ‪ 29 /28‬سال‬
‫ہو گی جبکہ دوسری اس سے بڑی اور چہرے قدرے لمبوترا سا تھا۔۔‬
‫نام ڈیزی تھا اور عمر ‪ 36 /35‬سال کی ہو گی۔۔کیرن کی طرح وہ‬
‫بھی گوری رنگت والی سرخی مائل گوری گوری تھی رسمی تعارف‬
‫کے بعد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فرزند صاحب نے پھر بھی ان کے ساتھ ساتھ کچھ‬
‫بات وات کی لیکن پتہ نہیں کیا چکر ہے کہ ان گوریوں کو اپنے‬
‫سامنے دیکھ کر ۔۔۔ہمیشہ ہی میری حالت کچھ عجیب ہو جاتی شاید‬
‫اس کی وجہ شاید یہ تھی کہ میں جس بھی گوری کو دیکھتا ہوں تو‬
‫پتہ نہیں کیوں میرے ذہن میں بلیو موویز والی گوریاں گھوم جاتی ہیں‬
‫جو کہ یا تو لن پر بیٹھی جمپیں مار رہی ہوتیں ۔۔۔۔۔۔ یا پھر میرا‬
‫فیورٹ کام چوپا لگا رہی ہوتیں تھیں۔۔۔ اس کے عالوہ ان کے بارے‬
‫میں ابھی تک کوئی دوسرا تصور میرے زہن میں نہ بیٹھ سکا تھا۔۔۔ ۔۔‬
‫اسی لیئے جب ڈیزی نے مجھ سے ہاتھ مالنے کے لیئے اپنا ہاتھ‬
‫میری طرف بڑھایا تو میں گھبرا سا گیا۔ اور اسی گھبراہٹ کے عالم‬
‫میں۔۔۔۔۔۔ میں بروقت اپنا ہاتھ نہ بڑھا سکا ۔ اور پھر ڈرتے ڈرتے ہاتھ‬
‫بڑھایا بھی تو میرا سٹائل دیکھ کر ساری خواتین ہنس پڑیں اور ڈیزی‬
‫میرا ہاتھ پکڑتے ہوئے اردو میں بولی۔۔۔ ہاتھ مالنے سے تمہاری‬
‫فیانسے کچھ نہیں کہی گی۔پھر وہ لڑکیوں سے مخاطب ہو کر بولی۔۔‬
‫ہم واک پر جا رہیں تھیں اگر کوئی انٹرسٹڈ ہے تو چلے ۔سو لڑکیاں‬
‫بھی ان کے ساتھ ہو لیں۔۔ ان کے جانے کے دس منٹ بعد فرزند‬
‫صاحب نے بنا کوئی بات کیئے میری زپ کھولی اور لن کو نکال کر‬
‫بڑی بے تکلفی کے ساتھ بولے۔۔۔کیا خیال ہے ایک اچھا سا چوپا نہ ہو‬
‫جائے؟ میرے ہاں کرنے کی دیر تھی کہ انہوں نے ایسا مست اور‬
‫زبردست چوپا لگایا کہ طبیعت خوش ہو گئی۔۔ انہیں چوپا لگا کر‬
‫۔۔۔۔۔اور مجھے لگوا کر اس قدر مزہ آیا کہ لڑکیوں کے آنے سے‬
‫پہلے پہلے۔۔۔۔۔۔ ہم دونوں سو چکے تھے۔۔‬

‫اگلے دن کوئی خاص واقعہ پیش نہ آیا وہ دن ہم سب نے اکھٹے ہی‬


‫گزارا تھا۔۔۔۔۔ رات کی بات ہے کہ میں سو رہا تھا کہ اچانک مجھے‬
‫پیشاب کی حاجت محسوس ہوئی ۔۔ پہلے تو میں اسے ٹالتا رہا لیکن‬
‫جب کام بہت تیز ہو گیا تو مجھے اُٹھنا پڑا۔۔۔ واش روم سے واپسی پر‬
‫مجھے رمشا نظر آئی۔۔۔۔ ا س نے مجھے باہر آنے کا اشارہ کیا ۔ اور‬
‫میں اس کے ساتھ کچن میں آ گیا وہاں پہنچ کر میں نے اس سے‬
‫پوچھا گوریوں کی سنا؟ تو وہ آنکھ دبا کر بولی۔۔۔ دونوں پکی لیسبو‬
‫ہیں۔۔ بلکہ یہ دونوں شادی کے بارے میں بھی سنجیدگی سے سوچ‬
‫رہیں ہیں تو میں اس سے بوال ۔۔اچھا یہ بتا کہ شادی میں دلہن کون ہو‬
‫گی اور دلہا کون؟ کیونکہ لن تو دونوں کے پاس نہیں ہیں ؟ تو وہ‬
‫ہنس کر بولی۔۔۔ تمہاری بات بلکل درست ہے لیکن یہ میرا در ِد سر‬
‫نہیں ۔۔۔۔پھر سنجیدہ ہو کر بولی۔۔۔۔ کل فرزند بھائی اپنے بزنس کے‬
‫سلسلہ میں ایک دن کے لیئے ایبٹ آباد جا رہے ہیں ان کا خیال ہے‬
‫کہ وہ تمہیں بھی ساتھ لیتے جائیں لیکن میں نے انہیں منع کرتے‬
‫ہوئے مشورہ دیا ہے کہ اگر اتفاق سے لڑکا لڑکی اکھٹے ہو گئے ہیں‬
‫تو انہیں آپس میں انڈر سٹیڈنگ کا پورا موقع ملنا چایئے چنانچہ تمہیں‬
‫مبارک ہو کہ کل کا دن تم تانیہ کے ساتھ اکیلے گذارو گے۔۔ پھر‬
‫میری طرف دیکھتے ہوئے بڑی ادا سے بولی چلو شاباش اب میرا‬
‫شکریہ ادا کرو تو میں نے بجائے شکریہ ادا کرنے کے اس کا بازو‬
‫پکڑا اور اسے مروڑتے ہوئے بوال۔۔۔ بہن چود سالی ۔۔۔۔تم کیا مجھے‬
‫بے وقوف سمجھتی ہو؟ پھر میں اس کی گانڈ کو اپنے لنڈ کے ساتھ‬
‫لگاتے ہوئے بوال۔۔۔۔یہ سب ڈرامہ تم نے تانیہ کو بیچ میں سے نکالنے‬
‫کے لیئے رچایا ہے ۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے اس کے گال پر ایک‬
‫چمی دے کر بوال۔۔۔۔۔ جان جی شکریہ تو تمہیں میرا ادا کرنا چایئے‬
‫کہ میں کباب میں سے ہڈی لے کر جا رہا ہوں ۔۔ میری بات سن کر‬
‫وہ جل ترنگ سے ہنس کر بولی۔۔ کمال ہے یار تم نے یہ کیسے جج‬
‫کر لیا؟ ۔۔۔۔۔تو میں اس سے بوال وہ سب چھوڑو یہ بتاؤ کہ ۔۔۔ تمہارا‬
‫ان گوریوں کے ساتھ کیا پروگرام بنا ہے؟ تو وہ کہنے لگی ہمارا‬
‫پروگرام فٹ ہے اور وہ یہ کہ ایک کمرے میں چھوٹی گوری میرے‬
‫ساتھ ۔۔۔۔۔ جبکہ دوسرے کمرے میں ثانیہ اور بڑی گوری سیکس‬
‫کریں گی ۔۔ اس کے بعد پھر ہم چاروں اکھٹے پروگرام کریں‬
‫گے۔۔۔اس کے بعد اس نے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔اور پھر کہنے لگیں‬
‫۔۔ یہ تو تھا ہمارا پروگرام ۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف تانیہ اور تم نے‬
‫ایوبیہ کے جنگل میں مست پروگرام کرنا ہے ۔۔اس کی بات ختم ہوتے‬
‫ہی میں نے اسے اپنی بانہوں میں بھرا ۔۔۔اور اس کے ساتھ ایک فل‬
‫ڈیپ کسنگ کی۔‬

‫اگلی صبع کی بات ہے کہ ناشتے کے وقت فرزند صاحب مجھ سے‬


‫کہنے لگے۔۔۔ سوری یار مجھے ایک نہایت ضروری کام کے سلسلہ‬
‫میں ایبٹ آباد جانا پڑ گیا ہے۔۔ تمہارا کیا پروگرام ہے میرے ساتھ چلو‬
‫گے؟ جس وقت فرزند صاحب نے یہ بات کی تو عین اس وقت میری‬
‫آنکھوں کے سامنے تانیہ کی پھدی لہرا گئی۔۔۔چنانچہ میں ان سے‬
‫بوال۔۔۔سوری بھائی میرا ایسا کوئی پروگرام نہیں ہے ۔۔۔۔تو وہ کہنے‬
‫کوئی بات نہیں یار ۔۔ تم انجوائے کرو۔۔۔ شام تک میں بھی واپس آ‬
‫جاؤں گا۔ چنانچہ ناشتہ کرنے کے کچھ دیر بعد وہ ہمارے ساتھ رہے‬
‫اور پھر انہوں نے گاڑی کی چابی پکڑی اور کہنے لگے۔۔۔۔ اوکے‬
‫میں چال۔۔۔۔۔ جس جس نے ایبٹ آباد سے کوئی چیز منگوانی ہو تو بتا‬
‫دے میں واپسی پر لتال آؤں گا تو اس پر تینوں لڑکیوں نے انہیں‬
‫کھانے کی چند چیزوں کے نام لکھوائے اور وہ بائے بائے کرتے‬
‫ہوئے وہاں سے روانہ ہو گئے۔۔‬
‫فرزند صاحب کے جانے کے بعد ہم لوگ صحن میں بیٹھے باتیں کر‬
‫رہے تھے کہ اچانک ثانیہ مجھ سے کہنے لگی بھائی ہمیں آئے کتنے‬
‫دن ہو گئے ہیں لیکن ابھی تک آپ میری بہن کو گھمانے نہیں لے‬
‫گئے۔۔اس لیئے آج آپ کو پورا موقعہ دیا جاتا ہے کہ تانیہ کو کہیں‬
‫گھمانے لے جائیں۔۔ کہ بےچاری کئی دفعہ مجھ سے کہہ چکی ہے‬
‫ادھر ثانیہ کی بات سن کر تانیہ چونک کر بولی۔۔۔۔ جھوٹی میں نے‬
‫کب کہا؟ تو ثانیہ شرارت سے بولی بے شک بچہ تم نے منہ سے‬
‫نہیں کہا ۔۔۔ لیکن ہم تمہارے دل کا حال اچھی طرح جانتے ہیں۔۔ اس‬
‫سے پہلے کہ تانیہ کچھ کہتی ۔۔۔۔۔ رمشا جلدی سے کہنے لگی۔۔۔۔۔۔ شاہ‬
‫صاحب سے درخواست ہے کہ ہماری پیاری دوست کو کہیں گھمانے‬
‫لے جائیں۔۔۔۔خیر تھوڑی سی بحث و تمہید کے بعد تانیہ میرے ساتھ‬
‫چلنے کے لیئے راضی ہو گئی۔۔۔ اور کہنے لگی ۔۔۔ میں زرا چینج کر‬
‫آؤں۔۔‬
‫کافی دیر بعد جب وہ تیار ہو کر آئی تو میں اسے دیکھ کر حیران رہ‬
‫گیا۔۔۔۔اس نے ہلکے آسمانی رنگ کی پتلی سی قمیض پہنی ہوئی‬
‫تھی۔جس کے نیچے کالے رنگ کا برا صاف نظر آ رہا تھا کہ جس‬
‫میں اس کے چھوٹے چھوٹے ممے قید تھے۔۔۔ …۔۔۔ اور قمیض کے‬
‫نیچے اس نے سفید رنگ کی ٹائیٹس پہنی ہوئی تھی اور اس ڈریس‬
‫میں تانیہ بہت بھلی لگ رہی تھی۔۔باہر نکلتے وقت میں نے ایک دفعہ‬
‫رمشا سے پوچھا کہ تم بھی ہمارے ساتھ چلو گی؟۔تو وہ ہنستے ہوئے‬
‫بولی نا بابا ۔۔مجھے کباب میں ہڈی بننے کا کوئی شوق نہیں۔۔۔چنانچہ‬
‫ہم ان کے بغیر ہی نکل آئے۔۔۔۔گھر سے باہر آ کر میں نے ایک نر‬
‫تانیہ کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔۔ اس ڈریس میں تم بہت گریس‬
‫فل لگ رہی ہو۔۔تو وہ میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔آپ کو ایسا‬
‫لباس پسند ہے ؟ تو میں اس سے بوال۔۔۔ آپ جو بھی لباس پہن لو وہی‬
‫اچھا ہو جاتا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس سے بوال کیا خیال ہے ہم لوگ‬
‫چئیر لفٹ پر نہ چلیں؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ نہیں میں آپ کے ساتھ واک‬
‫کرنا پسند کروں گی۔۔۔ اس پر میں اوکے بول کر اس کے ساتھ چل‬
‫پڑا۔۔۔ اس کے ساتھ چلتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ تانیہ کچھ‬
‫زیادہ ہی سیریس ہو رہی تھی۔۔۔ چلتے چلتے ۔۔۔۔جب کافی دیر تک اس‬
‫نے کوئی بات نہیں کی تو میں پریشان ہو گیا ۔۔۔چنانچہ میں اس سے‬
‫بوال۔۔۔ تانیہ اگر تمہیں میرے ساتھ باہر آنا پسند نہیں تو ہم واپس ُمڑ‬
‫سکتے ہیں تو وہ سنجیدگی کے ساتھ بولی۔۔ واپس مڑنے کی‬
‫ضرورت نہیں ۔۔۔۔ بلکہ میں تو ایسا موقعہ ڈھونڈھ رہی تھی کہ جس‬
‫میں۔۔۔۔میں تمہارے ساتھ کھل کر باتیں کر سکوں۔۔۔ میں ا س سے‬
‫بوال۔۔ کوئی خاص بات کرنی تھی؟ تو وہ پوری سنجیدگی کے ساتھ‬
‫بولی۔۔۔۔۔۔ ہاں کچھ باتیں ایسی ہیں جو تم تک پہچانا ضروری تھیں ۔۔۔‬
‫آج موقعہ مل رہا ہے تو سوچا تمہارے ساتھ شئیر کر لوں ۔۔اس کے‬
‫بعد وہ کہنے لگی ۔۔۔شاہ جی! جیسا کہ تم جانتے ہو کہ میری بچپن‬
‫میں ہی تمہارے دوست کے ساتھ منگنی ہو گئی تھی۔۔۔ اس کے بعد‬
‫اس نے بچپن کی منگنی کے بارے میں کچھ باتیں میرے ساتھ شئیر‬
‫کیں ۔۔۔اور پھر کہنے لگی۔۔۔ میں نے اپنی زندگی میں جس شخص‬
‫کے ساتھ ٹوٹ کر محبت کی تھی۔۔۔ اس کا نام عدیل ہے۔۔۔ پھر کہنے‬
‫لگی کوئی وقت تھا کہ مجھے عدیل سے جڑی ہر چیز پیاری ہوا‬
‫کرتی تھی۔۔۔ اس کے بعد اچانک ہی اس کے چہرے پر غصے کے‬
‫آثار نمودار ہوئے اور وہ دانت پیستے ہوئے بولی۔۔۔لیکن اب میں نے‬
‫زندگی بھر جس شخص سے نفرت کرتی رہوں گی اس کا نام عدیل‬
‫ہے۔۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔جس طرح میں‬
‫عدیل سے شدید نفرت کرتی ہوں اسی طرح مجھے اس سے جڑی‬
‫چیز سے نفرت ہے۔۔۔ تانیہ کے منہ سے نفرت بھرے الفاظ سن کر‬
‫مجھے بہت شاک ہوا ۔‬

‫۔اور میں اس سے بوال۔۔۔ تو کیا اس ہیٹ لسٹ میں میرا نام بھی شامل‬
‫ہے؟ میری بات سن کر اس نے بڑی گہری نظروں سے میری طرف‬
‫دیکھا اور پھر کہنے لگی۔۔۔ ہاں مجھے عدیل اور اس سے جڑی ایک‬
‫ایک چیز کے ساتھ نفرت ہے۔۔لیکن ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو میں جلدی سے بوال‬
‫۔۔لیکن کیا تانیہ جی! ۔۔۔۔تو وہ ایک گہرا سانس لے کر بولی ۔۔عدیل‬
‫کے نام سے جڑی تم واحد شخصیت ہو کہ جس کے بارے میں ۔۔۔میں‬
‫کشمکش کا شکار ہو جاتی ہوں۔۔۔۔۔پھر کہنے لگی پتہ نہیں کیا بات ہے‬
‫کہ میرے ذہن میں جب بھی تمہارا نام آتا ہے۔۔۔ تو میں ایک عجیب‬
‫شش و پنج کا شکار ہو جاتی ہوں۔۔۔ میں تم سے نفرت کرنا بھی‬
‫چاہوں تو کرنہیں سکتی۔۔۔۔ ۔۔تم بہت اچھے اور ہمدرد انسان ہو ۔۔۔ تم‬
‫نے فقط میری وجہ سے میری فیملی اور فرینڈز کے ایسے کام کیئے‬
‫ہیں کہ جن کا اعتراف نہ کرنا سراسر زیادتی ہو گی۔۔ شاید اسی لیئے‬
‫میں تم سے نفرت نہیں کر سکی۔۔۔ بلکہ تمہارے لیئے میرے دل میں‬
‫ایک نرم گوشہ موجود ہے لیکن اس نرم گوشے کے باوجود بھی میں‬
‫تمہارے ساتھ شادی نہ کر سکوں گی۔۔۔۔۔ تانیہ کی بات سن کر ۔۔جہاں‬
‫مجھے اس بات کی خوشی ہوئی کہ وہ مجھ سے شادی نہیں کرے گی‬
‫وہاں اس بات کا بھی از حد افسوس ہوا ۔۔ کہ شاید میں اس کی پھدی‬
‫نہ لے سکوں لیکن اسی دوران مجھے لن صاحب کی طرف سے‬
‫سگنل موصول ہوا ۔۔۔ شاہ جی۔۔۔ لڑکی کی باتوں پر نا جا ۔۔۔ بلکہ اس‬
‫کے اس گوشے کی طرف توجہ کر ۔۔۔ جو بہت نرم ہے۔۔۔ اور جسے‬
‫تو نے گرم کرنا ہے چنانچہ اسی نرم گوشے کا فائدہ اُٹھا ۔۔۔۔ اور‬
‫لڑکی کی گرم پھدی مار۔۔۔۔دیٹس اِٹ۔ ۔۔۔۔۔‬

‫چنانچہ لن کی بات سنتے ہوئے میں نے تانیہ کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ اور‬
‫پھر غمگین سی شکل بنا کر بوال۔۔۔ تم ٹھیک کہتی ہو دوست ۔۔۔‬
‫تمہاری جگہ اگر میں ہوتا کہ جس کے منگیتر نے اسے دھوکہ‬
‫دیا۔۔۔تو شاید میں اس سے بھی سخت ر ِد عمل دیتا ۔۔لیکن یہ تمہاری‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫گریٹ نس ہے کہ تم نے ایسا کچھ نہیں کیا۔۔۔بلکہ یہ تمہاری‬
‫ظرفی کی انتہا ہے کہ تم اس ذلیل انسان کے دوست کے لیئے اپنے‬
‫دل میں ایک نرم گوشہ رکھتی ہو ۔۔ورنہ۔۔۔۔۔۔اس ورنہ کے بعد میں‬
‫نے اس کی شان ۔۔۔اور خاص طور پر اس کی اعلی ٰ ظرفی کے‬
‫بارے میں ایسے ایسے قصیدے پڑھے جنہیں سن کر۔۔۔ بڑی بڑی‬
‫آنٹیاں پگھل جایا کرتی تھیں۔۔۔۔ جبکہ یہ تو صرف ایک ملوکڑی سی‬
‫اوصاف حمیدہ سن کر ۔۔ وہ نہ‬
‫ِ‬ ‫لڑکی تھی۔چنانچہ اپنی تعریف اور‬
‫صرف یہ کہ بہت خوش ہوئی ۔۔۔ بلکہ اس کے چہرے کے تنے ہوئے‬
‫عضالت (ٹشو) بھی ڈھیلے پڑ گئے۔۔جس سے وہ کافی حد تک نارمل‬
‫ہو گئی تھی۔۔۔۔ پہلے مرحلے کو بخوبی سر کرنے کے بعد۔۔۔۔ پھر اس‬
‫کو ٹریک نمبر ‪ 2‬پر چڑھانے کے لیئے کے لیئے میں نے اپنی‬
‫غمگین شکل کو مزید غمگین بنایا۔۔۔اور اس سے بوال۔۔۔ تانیہ ڈئیر‬
‫محبت کے اس کھیل میں صرف تمہیں ہی دھوکہ نہیں مال ۔۔۔ بلکہ‬
‫میرے ساتھ بھی ایسا ہی ہو چکا ہے میری بات سن کر وہ چونک کر‬
‫بولی۔۔۔ ۔۔۔کک۔۔۔کیا کہہ رہے ہو؟ تو اس پر میں نے میں بلیک اینڈ‬
‫وہائیٹ فلموں کے رومانوی ہیرو کی طرح ایک سرد سی آہ بھری۔۔۔ (‬
‫جس کی وجہ سے ایوبیہ کا موسم مزید سرد ہو گیا)۔اور اس سے‬
‫بوال۔۔۔ مجھے بھی ایک لڑکی نے دھوکہ دیا تھا۔۔۔ کسی نے میرے‬
‫ساتھ بھی فراڈ کیا تھا۔۔۔۔ میری جاندار ایکٹنگ اور دکھی بیان کو سن‬
‫کر وہ پریشان ہو کر بولی۔۔۔ آ۔۔آ۔۔آپ۔۔۔تمہارے ساتھ بھی؟ تو میں ا س‬
‫سے بوال۔۔۔ ہاں دوست میرے ساتھ بھی۔۔۔۔۔۔۔تو وہ کہنے لگی مجھے‬
‫بتاؤ پلیزززززززززززز۔۔۔۔ کہ تمہارے ساتھ کیا واقعہ ہوا؟۔۔تو میں‬
‫اس سے بوال۔۔ نہیں دوست تم پہلے ہی بہت دکھی ہو اپنا واقعہ سنا کر‬
‫میں تمہیں اور دکھی نہیں کرنا چاہتا ۔۔۔تب وہ زور دے کر‬
‫بولی۔۔۔دیکھو میں نے تم سے ہر بات شئیر کر دی ہے لیکن تم ہو کہ‬
‫مجھ سے چھپا رہے تو میں اس سے بوال۔۔ میں چھپا نہیں رہا دوست‬
‫۔۔۔ بلکہ میں نہیں چاہتا کہ میری وجہ سے تم مزید پریشان ہو۔۔۔۔ لیکن‬
‫پھر اس کے بے حد اصرار پر میں نے جھٹ سے دماغ کا کمپیوٹر‬
‫آن کیا۔۔ دل کی میموری سے دکھی سین لیئے۔۔اور زبان کی حالوت‬
‫سے اسے اس انداز میں سنانا شروع کیا ۔۔۔کہ جسے سن کر وہ حسینہ‬
‫کہانی کے پہلے ہی ہالف میں ہی گھائل ہو کر بے اختیار میری‬
‫نامعلوم منگیتر کو کوسنے دینا شروع ہو گئی۔۔۔ ادھر جیسے ہی اس‬
‫نے میری نامعلوم محبت کو برا بھال کہنا شروع کیا۔۔۔۔۔۔تب میں نے‬
‫بلیک اینڈ وہائیٹ فلموں سے لیئے گئے ایک سین کو یاد کرتے ہوئے‬
‫تانیہ سے بوال۔۔۔۔ تانیہ تمہیں قسم ہے مجھے جو مرضی کہہ لو لیکن‬
‫پلیززززززززززززززز۔۔۔ اسے کچھ نہ کہنا۔۔۔میری اس بات سے وہ‬
‫خاصی متاثر ہوئی اور قصہ مختصر ۔۔۔جب میں نے محسوس کیا کہ‬
‫اب حسینہ پوری طرح سے میرے قابو میں آ گئی ہے تو میں سٹوری‬
‫کا اینڈ کرتے ہوئے بوال۔۔۔ کہ بے شک اس نے مجھے دھوکہ تو دے‬
‫ب توقع وہ‬
‫دیا۔۔۔ لیکن مجھے ایک بات کی بڑی خوشی ہے ۔۔۔۔۔ تو حس ِ‬
‫جلدی سے بولی وہ کیا؟ تو میں لوہے کو گرم دیکھ کر چوٹ مارتے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔۔۔ کہ میں نے اس کے ساتھ ایک بار ہی سہی۔۔۔ لیکن‬
‫سیکس کر لیا تھا۔۔۔ سیکس کا نام سن کر اس کے حسین چہرے پر‬
‫ایک شرماہٹ سی آ گئی تھی۔۔۔ اور وہ کہنے لگی۔۔۔محبت میں‬
‫س۔س۔کیس؟ تو میں اس سے بوال۔۔۔ میرے خیال میں تو اس میں حرج‬
‫کوئی نہیں۔۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی حرج تو واقعی ہی‬
‫کوئی نہیں ۔۔۔ لیکن۔۔۔ ۔۔۔پھر بھی۔۔۔۔۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا تھا کہ‬
‫میں اس کا ہاتھ پکڑ کر بوال۔۔۔ میرے خیال میں تو اپنے دوست کے‬
‫ساتھ بھی ایسا کرنے میں کوئی حرج نہیں۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے‬
‫ادھر ادھر دیکھا تو اتفاق سے ہمارے آس پاس کوئی خاص رش نہیں‬
‫تھا۔ اس لیئے میں جیسے ہی ایک موڑ آیا ۔۔۔۔‬

‫تو میں نے اس کا ہاتھ پکڑ کر چوم لیا۔۔ اس پر وہ جلدی سے ہاتھ‬


‫چھڑا کر بولی۔۔۔ارے ارے۔۔۔یہ کیا کر رہے ہو؟ تو میں اس سے‬
‫بوال۔۔۔سوری یار ۔۔۔ مجھے ایسا نہیں کرنا چایئے تھا۔۔۔تو وہ کہنے‬
‫لگی اس میں سوری کی کوئی بات نہیں لیکن پلیز دیکھ لیا کرو ۔۔۔تو‬
‫میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔ ٹھیک ہے دوست اگلی کس‬
‫میں دیکھ کر کروں گا ۔۔۔ میری بات سن کر اس کا چہرہ الل ہو‬
‫گیا۔۔لیکن وہ منہ سے کچھ نہیں بولی۔۔اس کی خاموشی کو نیم رضا‬
‫مندی جان کر میں اس سے بوال۔۔۔ تمہیں برا تو نہیں لگا؟ تو وہ میری‬
‫طرف دیکھ کر ایک خاص ادا سے بولی۔۔۔ مجھے تمہارا کچھ برا‬
‫نہیں لگتا۔۔‬
‫تانیہ کی اس بات سے میں سمجھ گیا کہ لڑکی راضی ہو گئی ہے اس‬
‫لیئے اب میں نے ایک سٹیپ مزید آگے بڑھنے کا فیصلہ کر لیا۔۔۔‬
‫کچھ آگے جا کر میں اس سے بوال۔۔۔۔ کیوں نہ کچھ دیر سستا لیا جائے‬
‫تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔ ہاں یار ہم کافی پیدل چل لیا۔۔۔۔اب کچھ دیر بیٹھنا‬
‫چاہیئے۔۔۔۔ پھر ایک مناسب سی جگہ دیکھ کر ہم دونوں بیٹھ گئے۔۔اور‬
‫میں اس سے بوال۔۔۔ تانیہ تم سے ایک بات کہوں؟ تو وہ خوش دلی‬
‫سے بولی ایک نہیں دس بولو۔۔تو میں اس سے کہنے لگا۔۔۔ کہ یہ‬
‫لباس تم پر بہت سوٹ کر رہا ہے تو وہ ہنس کر بولی ۔۔۔ یہ بات تو تم‬
‫پہلے بھی کہہ چکے ہو تو میں بڑے رومینٹک لہجے میں بوال۔۔۔ کیا‬
‫کروں یار۔۔۔۔ایسا بار بار کہنے کو جی چاہ رہا ہے تو وہ میری بات کا‬
‫مزہ لیتے ہوئے۔۔۔۔ بولی۔۔۔ بار بار کہو ۔۔۔۔ ہزار بار کہو۔۔۔۔۔۔ مجھے‬
‫بہت اچھا لگ رہا ہے۔۔۔ تب میں اوپر اُٹھا۔۔۔۔ اور اس کا ہاتھ پکڑ کر‬
‫بوال۔۔۔۔۔۔۔ آئی لو یو تانیہ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے ایک سیکنڈ‬
‫کے ہزارویں حصے میں اس کے ہونٹوں کو چوم لیا۔۔۔ میرے کس‬
‫کرنے سے اس دفعہ وہ بلکل بھی نہیں گھبرائی بلکہ کہنے لگی ۔۔۔‬
‫پبلک پلیس پر رومانس کرتے اچھا بھی لگ رہا ہے لیکن اس کے‬
‫ساتھ ساتھ میں ڈر بھی لگ رہا ہے۔۔۔ تو میں اس سے بوال اگر ایسی‬
‫بات ہے تو تمہیں کہیں تنہائی میں لے چلوں؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔ ۔۔۔۔تمہیں ایسی کسی جگہ کا پتہ ہے؟ تو میں بوال ۔۔۔ ڈھونڈھے‬
‫سے تو بہت کچھ مل جاتا ہے دوست اور یہ تو فقط تنہائی ہے۔۔۔ اس‬
‫کے بعد میں نے اس کا ہاتھ پکڑا تو وہ جزبات کی شدت سے ہلکے‬
‫ہلکے کانپ رہی تھی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس پر میں اس سے بوال ۔۔ کیا ہوا‬
‫ڈارلنگ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ کک کچھ نہیں ۔۔۔چلو۔۔۔۔۔ تب میں تانیہ کو‬
‫لے ٹھیک اسی آن پہنچا کہ جہاں پر گزشتہ دنوں میں اس کے بڑے‬
‫بھائی کو چود چکا تھا۔۔۔ بھائی کے بر عکس اس نے گڑھے میں‬
‫اترنے سے انکار کر دیا۔۔ اس کی بجائے وہ میرے ساتھ چل کر ایک‬
‫ایسی جگہ آ گئی کہ جہاں پر گھنے درختوں کا ایک ج ُھنڈ سا بنا ہوا‬
‫تھا ۔۔۔۔۔‬

‫آپس کی بات ہے کہ مجھے اس لڑکی کی ابھی تک سمجھ نہیں آئی‬


‫تھی جو گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ ہو جاتی تھی۔۔۔ اب یہی‬
‫دیکھ لیں۔۔۔ گھر سے چلتے وقت یہ مجھ سے محبت اور نفرت کے‬
‫چکر میں تھی پھر درمیان میں میرے لیئے نرم گوشہ رکھ رہی تھی‬
‫۔۔۔۔اور اس وقت وہ فل شہوت میں نظر آ رہی تھی۔۔۔اسے موڈ میں‬
‫دیکھ کر میں نے زیادہ سوچنے پر لعنت بھیجی۔۔۔۔ اور تانیہ کی طرف‬
‫دیکھنے لگا جو کہ درخت سے ٹیک لگائے۔۔۔۔ بڑی ہی شہوت بھری‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی ۔ پھر جیسے ہی میں اپنے‬
‫منہ کو اس کے ہونٹوں کی طرف لے جانے لگا۔۔۔۔۔تو اس نے اپنی دو‬
‫انگلیوں کو میرے ہونٹوں پر رکھ کر بولی۔۔ تم میرے ساتھ کیا کرنے‬
‫لگے ہو؟ تو میں اس کی آنکھوں میں جھانکتے ہوئے بوال۔۔۔۔ میں تم‬
‫سے پیار کرنے لگا ہوں ۔۔۔تو وہ میرے ہونٹوں کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے بولی۔۔۔ لیکن میں تو تم سے پیار نہیں کرتی۔۔۔۔تو میں اس سے‬
‫بوال ۔۔ ۔۔۔ ۔ تم نہ کرو لیکن میں تو تم سے پیار کرتا ہوں نا۔۔۔۔اور اس‬
‫کے نرم ہونٹوں پر ایک ہلکا سا بوسہ دے دیا۔۔۔پھر ہونٹوں کو چومنے‬
‫کے بعد میں اس سے بوال۔۔۔ میرے پیار کا اظہار کیسا لگا؟ تو وہ‬
‫مست ہو کر بولی ۔۔۔ پیار اتنا زیادہ اور اظہار اس قدر کم کیوں؟ میں‬
‫سمجھ گیا کہ لڑکی شہوت میں فل "ٹیٹ " ہو گئی ہے ۔۔۔تب میں نے‬
‫ایک نظر جنگل کی طرف دیکھا ۔۔۔اور پھر اس کے ہونٹوں کو اپنے‬
‫ہونٹوں میں لے کر چوسنا شروع ہو گیا۔۔ اُف اس کے ہونٹوں میں‬
‫ایک عجیب سی چاشنی تھی اور اس کے منہ سے ایک عجیب سی‬
‫مہک آ رہی تھی۔۔۔اس کے کنوارے جسم کو پانے کی آرزو میں۔۔۔۔۔‬
‫میں پاگل ہوا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔ ۔ سو میں اس کے ہونٹوں کی چاشنی پیتا‬
‫گیا پیتا گیا ۔۔۔۔طویل کسنگ کے بعد ۔۔۔جب میں نے اس کے منہ سے‬
‫منہ ہٹایا تو اس وقت تک میرا شیر بھی ہوشیار باش ہو چکا تھا۔۔۔‬
‫چنانچہ سانس لینے کے بعد میں نے جب دوبارہ اس کے منہ میں منہ‬
‫ڈاال۔۔۔۔تو اس نے اپنی دونوں ٹانگوں کے درمیانے حصے کو میری‬
‫پینٹ کے ابھار کے ساتھ رگڑنا شروع کر دیا۔ادھر ہونٹوں کو‬
‫چوسنے کے بعد۔۔۔۔ اب میر ی زبان اس کے منہ میں جا چکی‬
‫تھی۔اور ہماری زبانیں بڑی بے تابی کے ساتھ ایک دوسرے کے‬
‫ساتھ ٹکرا رہی تھیں۔۔۔جبکہ دوسری طرف تانیہ اپنی پھدی والے‬
‫حصے کو میرے لن کے ساتھ رگڑ تی ہی چلی جا رہی تھی۔۔۔۔۔۔جبکہ‬
‫زبان چوسنے کے ساتھ ساتھ میں نے اس کی چھاتیوں کو بھی دبانا‬
‫شروع کر دیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اسی اثنا میں اس نے میرے منہ سے اپنے منہ‬
‫کو ہٹایا۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔اور مست لہجے میں بولی۔ ۔۔اُف تم کتنے گرم ہو۔۔۔تو‬
‫میں اس کی چھاتیوں پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بوال تم بھی بمب شیل‬
‫ہو۔۔۔تو وہ اسی لہجے میں کہنے لگی ۔۔ میں کہاں سے بمب شیل ہوں؟‬
‫تو میں اس کے ہونٹوں کو چاٹ کر بوال۔۔۔ ۔۔ یہاں سے۔۔۔تو وہ اسی‬
‫شہوت بھرے لہجے میں کہنے لگی۔۔۔۔اور کہاں سے ہوں؟۔۔۔تو میں‬
‫اس کی چھوٹی چھوٹی چھاتیوں کو دبا کر بوال ۔۔۔یہاں سے۔۔تو وہ‬
‫کہنے لگی اتنے چھوٹے سے بریسٹ بھال بمب شیل ہو سکتے ہیں؟‬
‫۔۔۔اس پر۔۔ ۔ میں نے اس کی قمیض کو اوپر اُٹھایا ۔۔۔ قمیض کے‬
‫نیچے کالے رنگ کی برا میں اس کی چھاتیاں قید تھیں سو میں نے‬
‫برا کو بھی اوپر کر دیا۔۔۔ اور اب میرے سامنے اس کی دونوں‬
‫چھاتیاں ننگی ہو گئیں تھیں۔۔۔ میں آگے بڑھا ۔۔۔اور اس کی ایک‬
‫چھاتی کو اپنی ُمٹھی میں بھرا ۔۔۔اور کہنے لگا۔۔۔یہ سمارٹ بمب شیل‬
‫ہیں۔۔۔۔۔ پھر میں انہیں دباتے ہوئے بوال۔۔۔۔ تانیہ ڈارلنگ کیا میں تمہارا‬
‫دودھ پی سکتا ہوں ؟ تو وہ مست لہجے میں بولی ۔۔۔دودھ سے پہلے‬
‫مالئی نہیں پیو گے؟ اس کی بات سن کر میں حیران رہ گیا۔۔۔اور اس‬
‫سے بوال ۔۔ مالئی کہاں ہے؟ اس پر اس نے ترنت ہی اپنی پھدی کی‬
‫طرف اشارہ کر تے ہوئے کہا۔۔۔ یہاں آ کر دیکھو کتنی مالئی جمع‬
‫ہے۔۔۔۔‬

‫تانیہ کی بات سن کر میں اس سے بوال ۔۔تمہارا مطلب ۔۔۔ چھاتیاں‬


‫چوسنے سے پہلے میں تمہاری چوت چاٹوں؟ تو وہ بڑے ہی جوش‬
‫سے بولی۔۔۔۔ یس ۔۔۔میری پھدی چاٹ!۔۔۔اور سن ۔۔۔ میرے ساتھ ڈرٹی‬
‫باتیں بھی کرنی ہیں۔۔۔۔۔ تانیہ کی بات سن کر میں مسکراتے ہوئے‬
‫بوال۔۔تیری پھدی میں کتنی مالئی جمع ہے؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔۔ تم کو جتنی چایئے اس سے کچھ زیادہ ہی ملے گی۔۔اس کے‬
‫ساتھ ہی اس نے اپنی دونوں ٹانگیں پوری طرح کھول کر کہنے لگی‬
‫میری ٹائیٹس کو نیچے کرو گے تو تمہیں میری چست پھدی نظر آ‬
‫جائے گی۔۔۔ میں نے اس کی ٹائیٹ کو نیچے کیا لیکن دونوں ٹانگیں‬
‫پوری طرح کھلنے کی وجہ سے اس کی ٹائیٹس پوری طرح نیچے‬
‫نہیں ہو رہی تھی۔۔ یہ دیکھ کر وہ کہنے لگی ٹائیٹس کو ایک طرف‬
‫سے اتار دو۔۔اور میں نے ایسا ہی کیا ۔۔۔اب میرے سامنے تانیہ کی‬
‫ننگی اور بقول اس کے ُچست پھدی آ گئی تھی۔۔۔ میں نے غور سے‬
‫اس کی طرف دیکھا تو وہ بالو ں سے پاک تھی جبکہ چوت کے‬
‫دونوں لب آپس میں ملے ہوئے تھے ایک نظر دیکھنے پر معلوم ہوا‬
‫کہ چوت کی لکیر اوپر سے نیچے تک کافی لمبی واقع ہوئی تھی۔۔۔۔‬
‫میں چوت کا معائینہ کر رہا تھا کہ اچانک میرے کانوں میں تانیہ کی‬
‫آواز گونجی وہ کہہ رہی تھی ۔۔میری پھدی کو ایسے کیوں گھور رہے‬
‫ہو؟۔ تو میں اس کی بالوں سے پاک پھدی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بوال۔۔۔‬
‫کیسی شاندار اور چست پھدی ہے تمہاری۔۔۔۔اتنی بات کرتے ہی میں‬
‫نے اس کی تنگ لکیر پر زبان پھیری۔۔۔تو تانیہ سسکاری مارتے‬
‫ہوئے بولی۔۔۔۔ پھدی چاٹ جان! مجھے پھدی چٹوانا بہت اچھا لگتا ہے‬
‫تو میں اس سے بوال۔۔۔ چاٹ ہی تو رہا ہوں ۔۔۔تو وہ مست لہجے میں‬
‫بولی یہ تم اوپر اوپر سے چاٹ رہے ہو۔۔۔ زبان کو پھدی کی گہرائی‬
‫تک لے جاؤ۔۔۔۔ پھر میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے بولی‬
‫چوت کو اندر تک چاٹو۔۔۔۔ تب میں نے اس کی پھدی کی دونوں‬
‫پھانکوں کو انگلیوں کی مدد سے الگ کیا ۔۔۔اور اپنی زبان کو پھدی‬
‫کے اندر تک لے جا کر اسے چاٹنا شروع ہو گیا۔۔۔ تانیہ کی چوت‬
‫پانی سے لبالب بھری ہوئی تھی۔۔۔اس لیئے جیسے ہی میری زبان اس‬
‫چور تانیہ کہنے‬‫کی پھدی میں داخل ہوئی تو شہوت کے نشے میں ُ‬
‫لگی ۔۔ میری مالئی کھا جا۔۔۔۔ ایک قطرہ بھی پھدی میں نہیں رہنا‬
‫چاہئے۔۔۔ میری پھدی کی مالئی چاٹ۔۔۔ اور میں نے جی بھر کے اس‬
‫کی پھدی چاٹی ۔۔۔۔۔ اس دوران تانیہ نے کافی دفعہ آرگیزم بھی کیا۔۔۔‬
‫لیکن نہ تو اس کے جوش میں کوئی فرق آیا اور نہ ہی میرے۔۔‬
‫چوٹ چٹوانے کے کچھ دیر بعد اس نے مجھے بالوں سے پکڑ کر‬
‫اُوپر اُٹھایا اور کہنے لگی ۔۔۔۔ چل مجھے اپنا ڈنڈا دکھا۔۔۔چنانچہ اس‬
‫کے کہنے پر میں اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔تو میری جگہ اب وہ پتھریلی زمین‬
‫پر اکڑوں بیٹھ گئی ۔۔۔۔ میں نے جیسے ہی پینٹ سے لن کو باہر‬
‫نکاال۔۔ او ر اس کے سامنے لہراتے ہوئے بوال۔۔۔ میرا شیر کیسا لگا۔۔۔‬
‫۔۔۔۔اپنی آنکھوں کے سامنے لن کو لہراتے دیکھ کر ۔۔۔۔۔اس نے اپنے‬
‫ہونٹوں پر زبان پھیری ۔۔۔اور پھر کہنے لگی۔۔۔ ۔شاہ جی! تیر ا لن تو‬
‫ایک دم سالڈ ہے یار۔۔۔۔ یہ کہتے ہی اس نے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ‬
‫لیا۔۔۔۔۔۔اور ٹوپے پر انگلی پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔ تیرے لن سے بھی‬
‫باالئی نکل رہی ہے۔۔۔ تو میں اس سے بوال۔۔۔ اتنی دیر سے تیری‬
‫پھدی چاٹ رہا تھا اتنی باالئی کا نکلنا ۔۔۔۔۔ تو بنتا ہے۔۔۔میری بات ختم‬
‫ہوتے ہی اس نے اپنے منہ سے زبان کو باہر نکاال ۔۔۔اور ٹوپے‬
‫خاص کر پیشاب والی نالی کو چاٹتے ہوئے بولی۔۔۔۔مجھے یہ باالئی‬
‫بہت پسند ہے۔۔۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ لن کو چاٹنا شروع ہو گئی۔۔۔‬
‫اُف ف ف فف۔۔۔ وہ بھوکی شیرنی کی طرح میرے لن کو چاروں‬
‫اطراف سے چاٹے جا رہی تھی۔۔اور مزے کی وجہ سے مجھے اپنی‬
‫سسکیوں پر کنٹرول نہ رہا ۔۔۔ چنانچہ میں اونچی آواز میں آہیں بھرنا‬
‫شروع ہو گیا۔۔۔ ۔۔۔۔وہ میرے لن کو کچھ دیر تک چاٹتی رہی ۔۔۔ پھر‬
‫اسے ہاتھ میں پکڑ کر بولی عجیب آدمی ہو ۔۔۔بڑے مزے سے لنڈ‬
‫چٹوائے جا رہے ہو اور ایک دفعہ بھی نہیں کہتے کہ اب اسے‬
‫چوسو۔۔تو میں اس سے بوال۔۔۔۔ مجھے بڑا مزہ آ رہا تھا اس لیئے نہیں‬
‫بوال۔۔۔ تو وہ شہوت سے بھر پور لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔۔۔ اب‬
‫دوسرا مزہ لینا ہے تو مجھے بول کہ تانیہ میرا لن چوس۔۔۔۔ تو ۔اس پر‬
‫میں نے تانیہ کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔ تانیہ پلیز اب میرے‬
‫لن کو اپنے منہ میں لے لو۔۔۔میری بات سنتے ہی اس نے اپنا منہ‬
‫کھوال ۔۔۔اور لن کو چوسنا شروع ہو گئی۔۔۔اس کے ساتھ ہی میرے منہ‬
‫سے سسکیوں کا طوفان نکلنا شروع ہو گیا۔۔۔یہ دیکھ کر اس نے لن‬
‫کو اپنے منہ سے باہر نکاال اور کہنے لگی … اچھا چوس رہی ہوں‬
‫نا؟ تو میں اس سے بوال۔۔۔ یس جان تم بہت اچھا لن چوستی ہو۔۔۔۔۔اس‬
‫لیئے۔۔۔۔ پلیزززز۔۔ تھوڑا اور چوسو ۔۔۔‬

‫میری بات سن کر اس نے اپنے منہ سے لن کو باہر نکاال اور کہنے‬


‫لگی ۔۔۔۔۔۔ تمہارا لن اتنا شاندار ہے کہ اگر یہ ڈسچارج نہ ہو تو میں‬
‫اسے ساری رات چوس سکتی ہوں ۔۔۔ لیکن اب نہیں چوسوں گی تو‬
‫میں اس سے بوال وہ کیوں جی؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولی۔۔۔‬
‫کیونکہ مجھے تمہارا لن ادھر (چوت میں ) چاہیئے۔۔۔ اس کے ساتھ‬
‫ہی وہ اُٹھ کھڑی ہو ئی۔۔۔اور اپنے دونوں ہاتھ درخت کے تنے پر رکھ‬
‫کر گانڈ کو باہر کی طرف نکال دیا۔۔اور میرے طرف منہ موڑ کر‬
‫بولی۔۔ ۔۔۔۔ فک می شاہ!!!!!!!!!!!!!!۔۔۔۔ میں تانیہ کے پیچھے آ کر کھڑا‬
‫ہوا ۔۔۔اور لن اندر ڈالنے سے پہلے میں نے ایک نظر ادھر ادھر‬
‫دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اس کی چوت کو اپنے لن کے ساتھ ایڈجسٹ کر‬
‫تے ہوئے بوال۔۔۔۔۔تانی ڈارلنگ ۔۔۔ میں اندر ڈالنے لگا ہوں۔۔۔۔تو وہ‬
‫شہوت بھرے لہجے میں بولی۔۔ مجھ سے مت پوچھ۔۔۔۔بس اندر ڈال ۔۔۔‬
‫ایک انیچ بھی باہر نہیں چھوڑنا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے ٹوپے کو‬
‫تھوک سے تر کیا اور کچھ تھوک اس کی پہلے سے چکنی پھدی پر‬
‫مل کر ایک جھٹکے سے لن کو اندر کر دیا۔۔ جیسے ہی لن اس کی‬
‫تنگ چوت میں اترا ۔۔۔تو مزہ آ گیا کیونکہ تانیہ کی چوت اندر سے‬
‫بہت ہی تنگ اور چست تھی اس لیئے میرا لن پھنس پھنس کر آ جا‬
‫رہا تھا۔۔۔۔۔جس کی وجہ سے مجھے بڑا مزہ آ رہا تھا۔۔۔۔دوسری طرف‬
‫لن اندر جاتے ہی تانیہ نے ایک طویل سسکی لی۔۔۔۔یس یس یس‬
‫یس۔۔۔س۔س۔س۔س۔س۔۔۔ پھر کہنے لگی میرے ہپس۔۔۔ پکڑ کر سپیڈی‬
‫گھسے مار ۔۔۔۔چنانچہ میں نے اسے ہپس سے پکڑا ۔۔۔ اور چوت کی‬
‫دھالئی شروع کر دی۔۔۔ اس کی چپ چپی پھدی تنگ ہونے کی وجہ‬
‫سے لن بڑے ہی سویٹ ردھم سے آ جا رہا تھا ۔۔۔اتفاق سے میرے‬
‫گھسے مارنے کی ساؤنڈ اس قدر دل کش تھی کہ وہ پھدی کو مزید‬
‫ٹائیٹ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔آہ۔۔۔شاہ!!!۔۔۔۔‬

‫۔اسی ردھم سے چوت مارر۔۔۔مجھے ان آؤٹ کی ساؤنڈ اور دھکے‬


‫بڑا مزہ دے رہے ہیں ۔۔۔۔۔اس لیئے۔۔۔۔۔۔اور۔۔ مار۔۔۔۔اور میں اسی انداز‬
‫میں اس کی پھدی کو مارتا رہا۔۔۔۔ وہ سسکیاں لیتے ہوئے بس۔۔۔۔ایک‬
‫ہی فرمائیش کرتی۔۔۔۔۔۔اور مار۔۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد ۔۔۔ وہ شہوت کے‬
‫عروج پر پہنچ گئی‬
‫اب وہ خود بھی آگے پیچھے ہونا شروع ہو گئی ۔۔۔۔۔۔۔وہ چوت میں لن‬
‫لیئے۔۔۔۔ فل مزہ لے رہی تھی ۔۔۔۔کہ ہپس کو آگے پیچھے کرتے‬
‫ہوئے۔۔ اچانک ہی اس نے اپنا منہ میری طرف کیا اور کہنے لگی ۔۔‬
‫اندر نہیں چھوٹنا۔۔۔۔ میں کنواری ہوں۔۔۔تو میں اس سے بوال ۔۔ تانیہ‬
‫۔۔بری بات ۔۔ پھدی میں لن لے کر بھی کہتی ہو کہ میں کنواری‬
‫ہوں۔۔۔۔ تو وہ سسکی لیتے ہوئے بولی۔۔۔ اے مسٹر میں کنواری نہیں‬
‫بلکہ ٹیکنکل کنواری ہوں ۔۔اس لیئے خبردار۔۔۔۔ میری پھدی میں پانی‬
‫نہیں ٹپکانا ۔۔۔۔ تو میں بھی مست لہجے میں بوال۔ کیوں ۔۔ کنواری‬
‫پھدی میں پانی نہیں ٹپک سکتا ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔ ٹپک تو سکتا ہے‬
‫لیکن پلیزززززززززززززز۔۔۔۔۔۔ تم نہ ٹپکانا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس‬
‫نے ہاتھ بڑھا کر لن کو اپنی تنگ چوت سے باہر نکال دیا۔۔۔۔اور‬
‫میرے سامنے اکڑوں بیٹھ کر بولی۔۔۔ پانی میرے منہ میں ٹپکا۔۔ اس‬
‫کے ساتھ ہی اس نے اپنا منہ کھوال۔۔۔اور لوڑے کو منہ میں لے کر‬
‫چوسنا شروع ہو گئی۔۔۔۔اور ۔۔۔ پانی کا آخری قطرہ نکلنے تک چوستی‬
‫رہی۔۔۔۔اور جب لن سے پانی نکلنا بند ہو گیا۔۔۔۔ تو اس نے لن کو منہ‬
‫سے نکال۔اور میری طرف دیکھتے ہوئے بڑے ہی شوخ لہجے میں‬
‫بولی۔۔۔۔۔مزہ آیا۔۔ ؟؟‬

‫رات کا پتہ نہیں کون سا پہر تھا کہ میں آنکھ کھل گئی۔۔۔۔۔دیکھا تو‬
‫کوئی مجھے بری طرح سے جھنجھوڑ رہا تھا۔۔ میں آنکھیں ملتا ہوا‬
‫اُٹھا تو مجھے جگانے واال اور کوئی نہیں بلکہ فرزند صاحب‬
‫تھے۔۔۔مجھے بیدار ہوتے دیکھ کر وہ کہنے لگے۔۔۔ سوری شاہ جی‬
‫۔۔۔۔۔۔لیکن ایک ایمرجنسی ہو گئی ہے۔۔۔ میں نے آنکھیں مل کر ان کی‬
‫طرف دیکھا تو تینوں لڑکیاں میری چارپائی کے گرد کھڑی تھیں ۔۔۔‬
‫سب کے چہرے اترے ہوئے تھے ۔۔۔اور وہ بہت پریشان لگ رہیں‬
‫تھیں۔۔بلکہ ثانیہ تو باقاعدہ رو بھی رہی تھی ۔۔ اسے روتے دیکھ کر‬
‫ت حال کی سنگینی کا اندازہ ہوا۔۔۔۔اور میں جمپ مار کر‬ ‫مجھے صور ِ‬
‫چارپائی سے اُٹھا اور فرزند صاحب سے مخاطب ہو کر کچھ کہنے‬
‫ہی واال تھا کہ وہ ُرندھی ہوئی آواز میں بولے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫)قسط نمبر ‪13‬‬


‫۔۔۔اس سے پہلے کہ فرزند صاحب کچھ کہتے ہیں میں بڑی حیرانی‬
‫سے بوال۔۔۔ کیا ہوا بھائی؟ آپ اتنے پریشان کیوں ہیں؟ تو اس پر وہ‬
‫بھرائی ہوئی آواز میں بولے کہ گھر سے ماما کا سے فون آیا ہے کہ‬
‫نانا جان فوت ہو گئے ہیں اس پر میں تعزیت کا اظہار کرتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔بہت افسوس ہوا۔۔۔ کب فوت ہوئے ؟ تو وہ کہنے لگے۔۔۔۔ تفصیل‬
‫کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن اتنا معلوم ہوا ہے کہ ان کو ہارٹ اٹیک ہوا‬
‫تھا اس لیئے ہم لوگ اسی وقت پنڈی کے لیئے نکل رہے ہیں پھر‬
‫کہنے لگے شاہ جی!! اگر آپ یہاں رہنا چاہیں تو بے شک رہ لیں ۔۔۔‬
‫تو میں ان سے بوال نہیں بھائی میں بھی آپ کے ساتھ جاؤں گا چنانچہ‬
‫اسی وقت لڑکیوں نے پیک اپ کیا اور ہم لوگ واپس پنڈی آ گئے۔۔۔۔‬
‫آتی دفعہ میں نے فرزند صاحب کو آفر بھی کی تھی کہ کہو تو میں‬
‫آپ کے ساتھ الہور چال جاتا ہوں لیکن انہوں نے شکریہ کہہ کر بات‬
‫ختم کر دی۔‬

‫دن کا پتہ نہیں کون سا پہر تھا کہ اچانک میری آنکھ کھل گئی۔۔ دیکھا‬
‫تو فون بج رہا تھا ۔۔ چنانچہ میں نے نیم خوابیدہ نظروں سے فون کی‬
‫طرف دیکھا تو الئن پر عدیل تھا رسمی علیک سلیک کے بعد وہ‬
‫کہنے لگا تمہیں معلوم ہی ہو گا کہ رات نانا جان کا انتقال ہو گیا ہے‬
‫تو میں اس سے بوال ہاں فرزند صاحب نے مجھے بتایا تھا ۔۔۔ تو وہ‬
‫کہنے لگا جس وقت نانا جان کی ڈیتھ ہوئی اتفاق سے میں ان کے‬
‫پاس ہی بیٹھا ہوا تھا تو اس پر میں نے افسوس کا اظہار کرتے ہوئے‬
‫۔۔۔۔ ویسے ہی اس سے پوچھ لیا کہ ڈیتھ کی وجہ کیا بنی؟ ۔ تو وہ‬
‫ت خود ایک بیماری ہے لیکن جیسا کہ‬ ‫کہنے لگا ویسے تو بڑھاپا بزا ِ‬
‫تمہیں معلوم ہے کہ کافی دنوں سے ان کی طبیعت ناساز چلی آ رہی‬
‫تھی کل رات سینے میں درد اُٹھا اور پھر اس سے پہلے کہ ہم کچھ‬
‫کرتے وہ ایکسپائر ہو چکے تھے۔ عدیل کی بات سن کر میں ایک‬
‫دفعہ پھر اس سے دکھ کا اظہار کیا تو وہ شکریہ ادا کرتے ہوئے‬
‫کہنے لگا۔۔۔ یار تمہارے ذمہ ایک کام ہے تو اس پر میں بوال ۔۔۔ حکم‬
‫سائیں!۔۔۔ بندہ حاضر ہے تو وہ کہنے لگا تمہیں معلوم ہی ہے کہ‬
‫ماموں جان اسٹیٹس ہوتے ہیں تو جیسے ہی ان کو نانا کے انتقال کی‬
‫اطالع ملی تو اتفاق سے اسی وقت انہیں الہور کی فالئیٹ مل گئی‬
‫تھی۔۔۔۔ مگر کوشش کے باوجود بھی مامی کو الہور کی فالئیٹ نہ مل‬
‫سکی ۔ بلکہ انہیں کراچی کی فالئیٹ ملی تھی اس میں قباحت یہ تھی‬
‫کہ وہاں پر انہیں ‪ 7/6‬گھنٹے کے سٹے کے بعد الہور کی فالئیٹ مل‬
‫رہی تھی جو کہ انہوں نے رد کر دی دوسری فالئیٹ جو کہ دستیاب‬
‫تھی وہ اسالم آباد کی تھی۔۔۔ اور یہاں بھی انہیں پانچ چھ گھنٹے سٹے‬
‫کے بعد الہور کی فالئیٹ مل رہی تھی۔۔۔ تو میں نے مامی کو مشورہ‬
‫دیا تھا کہ اگر وہ اسالم آباد اتر کر ائیر پورٹ سے ہی بزریعہ ٹیکسی‬
‫موٹروے سے الہور آ جائیں تو آپ پانچ گھنٹے سے پہلے گھر پہنچ‬
‫جائیں گی۔ مامی کے ذکر پر میں اس سے بوال یہ وہی مامی ہے ناں‬
‫کہ جن کے ہاں امریکہ میں تم ٹھہرے تھے؟ تو وہ ہنس کر بوال اور‬
‫کیا گانڈو اتنی دیر سے میں کیا فارسی بول رہا تھا۔ پھر کہنے لگا ہاں‬
‫جان جی یہ وہی مست مامی ہے کہ جس کی تمہیں سٹوریاں سنائی‬
‫تھیں۔۔۔پھر کہنے لگا ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ ٹیکسی تو وہ سالی‬
‫خود بھی کروا سکتی تھی لیکن تمہیں معلوم ہی ہے کہ باہر سے آنے‬
‫والے تھوڑا بہت پروٹوکول مانگتے ہیں اس لیئے انہوں نے مجھے‬
‫اسالم آباد سے الہور تک ٹیکسی وغیرہ کا ارنیج کرنے کو کہا ہے۔‬
‫تو میں نے ان سے کہہ دیا ہے کہ آپ اسالم آباد اتریں ۔۔۔آگے کا سارا‬
‫بندوبست میرا دوست کروا دے گا۔ اس کے بعد وہ ندرت مامی کی‬
‫فالئیٹ نمبر اور وقت بتاتے ہوئے کہنے لگا فالئیٹ آگے پیچھے ہو‬
‫سکتی ہے اس لیئے تم نے اس کا ٹائم چیک کرتے رہنا ہے پھر نہایت‬
‫لجاجت سے بوال۔۔۔یار اگر ہو سکے تو مامی کو ٹھیک ٹھاک‬
‫پروٹوکول دال دینا ۔۔۔ تو میں اس سے بوال ۔۔۔اس سے کیا ہو گا؟ تو وہ‬
‫کہنے لگا مامی کے آگے میری ٹوہر (عزت) بن جائے گی۔۔۔ اس پر‬
‫میں عدیل سے بوال اگر ایسی بات ہے تو میری جان ۔۔۔۔ بے غم ہو‬
‫جاؤ میں اسالم آباد ائیر پورٹ پر ۔۔۔ تمہاری مامی کا ایسا شاندار‬
‫پروٹوکول کراؤں گا کہ وہ ہمیشہ یاد رکھے گی۔۔ اس کے بعد ادھر‬
‫ادھر کی باتوں کے بعد اس نے فون بند کر دیا۔ اور میں دوبارہ پلنگ‬
‫پر لیٹ کر سونے کی کوشش کرنے لگا۔۔‬

‫ابھی میری آنکھ لگی ہی تھی کہ فون پھر سے بجنا شروع ہو گیا۔۔۔‬
‫میں نے ایک آنکھ میچ کر دیکھا تو سکرین پر صائمہ باجی کا نام‬
‫چمک رہا تھا ۔۔۔اور صائمہ کا نام پڑھ کر میرا دل باغ باغ ہو گیا سو‬
‫میں نے جلدی سے فون آن کیا اور ہیلو کہا۔۔۔۔ تو آگے سے ان کی‬
‫وہی شوخ و شنگ آواز سنائی دی ۔۔کہ جسے سن کر بندہ فریش ہو‬
‫جاتا ہے۔۔۔۔ وہ کہہ رہی تھی۔۔۔ توبہ توبہ اب تو دوپہر بھی ڈھل گئی‬
‫ہے اور تم ابھی تک بستر میں گھسے ہوئے ہو۔۔۔ تو میں نے ان سے‬
‫کہا چھٹی والے دن دیر تک سونے کی عادت ہے اس لیئے آپ سنائیں‬
‫الہور کا موسم کیسا ہے؟؟ تو وہ سرد آہ بھر کر کہنے لگی ۔۔۔الہور‬
‫جانا تو تھا لیکن ۔۔۔۔ پھر اچانک جوش سے بولیں۔۔۔ لیکن!!! ۔۔۔پھر ایسا‬
‫لگا کہ جیسے انہیں کوئی بات یاد آ گئی ہو اور وہ الہور والی بات‬
‫بھول کر۔۔۔۔۔بڑے ہی جوش سے کہنے لگیں۔۔ ۔۔ اوئے ظالم ۔۔۔۔ تم نے‬
‫ہماری نازک سی لڑکی کا کیا حشر کر دیا ہے؟ تو میں حیرانی سے‬
‫بوال۔۔۔ باجی میں سمجھا نہیں ۔۔۔تو وہ کہنے لگیں۔۔۔۔ میں ثانیہ کی بات‬
‫کر رہی ہوں بے چاری کو اس بے دردی سے چودا ہے کہ ابھی تک‬
‫وہ بخار میں پھونک رہی ہے اس پر میں ان سے بوال ۔۔۔ میرے خیال‬
‫میں اسی لیئے آپ الہور نہیں جا سکیں تو وہ کہنے لگی جی آپ نے‬
‫درست سنا ہے ۔۔۔۔۔۔میں ثانیہ کی وجہ سے رک گئی ہوں جیسے ہی یہ‬
‫ٹھیک ہو گی تو میں اور ثانیہ بھی الہور چلی جائیں گی تو میں ان‬
‫سے کہنے لگا کہ بعد میں جانے کا کیا فائدہ؟ بابا جی تو دفن ہو گئے‬
‫ہوں گے۔۔۔ تو وہ مسکراتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ ہم لوگ بابا جی کے‬
‫واسطے تھوڑی جا رہی ہیں۔۔ میں ان سے بوال تو پھر آپ کس لیئے‬
‫جا رہی ہو؟ تو وہ تلخی سے کہنے لگی ۔۔۔یوں سمجھ لو کہ ہم‬
‫گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے جا ئیں گی۔۔۔ باجی کی بات مجھے‬
‫سمجھ نہیں آئی اس لیئے میں ان سے بوال سوری باجی میں نہیں‬
‫سمجھا ؟ تو وہ کہنے لگیں مطلب یہ میری جان کہ شاید تمہیں معلوم‬
‫نہیں کہ ہمارے نانا جی ایک بہت بڑی آسامی مطلب امیر آدمی تھے‬
‫اور اتنے بڑے آدمی کی مرگ پر ہم نہ جائیں۔۔۔۔ ایسا نہیں ہو سکتا تو‬
‫میں ان سے بوال اسی لیئے آپ گونگلوں سے مٹی جھاڑنے کا کہہ‬
‫رہی ہو ؟ تو وہ کہنے لگیں جی ہاں۔۔۔۔ لیکن مٹی جھاڑنے کے ساتھ‬
‫ساتھ وہاں فیشن شو بھی تو دیکھنا ہے نا تو میں حیران ہو کر بوال۔۔۔‬
‫فیشن شو؟؟؟؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگیں بزرگ آدمی کے مرنے پر سوائے‬
‫اس کی بیٹیوں کے ۔۔۔۔ کسی کو دکھ نہیں ہو گا اس لیئے ان کی‬
‫بہوئیں اور نواسیاں پوتیاں ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر شو آف‬
‫کریں گی۔ تو میں ان سے بوال آپ ٹھیک کہہ رہی ہو باجی۔۔۔۔ عام‬
‫طور پر بڑے لوگوں کی مرگ پر یہی کچھ ہوتا ہے میری بات سننے‬
‫کے بعد‬

‫۔۔۔۔ اچانک ہی وہ کہنے لگی سوری یار میں تو بھول ہی گئی تھی‬
‫۔۔۔۔وہ بھائی (عدیل) کہہ رہا تھا کہ ندرت مامی اسالم آباد ائیرپورٹ‬
‫اتر کر۔۔۔۔ یہاں سے بزریعہ ٹیکسی الہور جائے گی تو میں ان سے‬
‫بوال آپ نے ٹھیک سنا ہے باجی تو وہ کہنے لگی یاد رکھنا مامی کے‬
‫ساتھ ثانیہ اور میں نے بھی جانا ہو گا ۔۔۔۔ پھر وہ کہنے لگی ثانیہ سے‬
‫یاد آیا۔۔۔ ظالم انسان تم نے اس کچی کلی کو کس بے دردی کے ساتھ‬
‫مسلہ ہے تو میں ان سے کہنے لگا یقین کرو باجی میں نے تو اسے‬
‫ہاتھ تک نہیں لگایا۔۔۔۔۔ تو وہ بڑی حیرانی سے بولیں ۔۔ میں نہیں مان‬
‫سکتی ۔۔۔ کیونکہ بچی کی کنڈیشن اور میرا تجربہ بتا رہا ہے کہ اس‬
‫بے چاری کو بڑی بے دردی سے چودا گیا ہے ۔۔۔ پھر تھوڑا سا وقفہ‬
‫دے کر بولیں۔۔۔۔ اور زرا مجھے یہ سمجھاؤ کہ تمہارے سوا اسے‬
‫چودنے واال اور کون ہو سکتا ہے؟ تو میں نے ان کو بتایا کہ باجی‬
‫جان میرے عالوہ بھی کافی لوگ پڑے ہیں راہوں میں ۔۔۔ میری بات‬
‫سن کر وہ بڑے تعجب سے بولیں ۔۔۔ تمہارے جیسے شکاری کے‬
‫ہوتے ہوئے ۔۔۔ بچی کوئی اور چود جائے۔۔۔ یہ بات ۔۔۔کم ازکم۔۔۔مجھ‬
‫سے ہضم نہیں ہو رہی تو میں ان سے بوال۔۔۔۔ یقین کرو باجی سیکس‬
‫کی راہ میں میرے عالوہ بھی بہت سے فنکار پڑے ہیں تو وہ دل‬
‫چسپی سے بولی۔۔۔ صاف بتاؤ کہ اس بے چاری کے ساتھ یہ ظلم کس‬
‫نے کیا ؟۔۔۔۔ اس پر میں نے انہیں مختصرا ً گوریوں کے بارے میں‬
‫بتایا۔۔۔ سن کر کہنے لگیں ۔۔۔ میری بات لکھ لو جس گوری کے ساتھ‬
‫اس لڑکی نے سیکس کیا تھا وہ یقینا ً اذیت پسند ( فیٹش) ہو گی تبھی‬
‫تو پھول سی بچی کا یہ حال ہو گیا ہے اس کے بعد وہ بڑی لگاوٹ‬
‫سے بولیں ۔۔۔۔سیکس کے ذکر پر یاد آیا ۔۔۔۔تم کیا کر رہے ہو؟ تو میں‬
‫ان سے کہنے لگا ایوبیہ کے ٹرپ کے لیئے چھٹیاں لیں تھیں۔۔ لیکن‬
‫جلدی آ گیا ۔۔۔۔ اس لیئے آج کل فارغ ہوں ۔۔۔تو وہ بڑی بے تکلفی سے‬
‫کہنے لگیں اگر فارغ ہو تو میرے پاس آ جاؤ۔۔۔ ہم دونوں مل کر ایک‬
‫دوسرے کو " فارغ" کریں گے۔۔۔ باجی کی آفر سن کر میرا دل خوشی‬
‫سے جھوم گیا۔۔۔۔۔ لیکن پھر کچھ سوچ کر میں ان سے بوال۔۔۔۔ ثانیہ‬
‫کے ہوتے ہوئے کیسے کریں گے؟ اس پر وہ کہنے لگی ۔۔۔ بات تو‬
‫تمہاری ٹھیک ہے ڈارلنگ۔۔۔۔لیکن اس وقت وہ پین کلر لے کر سو‬
‫رہی ہے اس لیئے تم جلدی سے آ کر۔۔۔۔ میری (چوت کی) پین کو ِکل‬
‫کر دو۔پھر کہنے لگی میرے خیال میں تو تم نے ابھی تک کھانا بھی‬
‫نہیں کھایا ہو گا ۔۔تو میں ان سے بوال۔۔۔ ابھی ابھی تو اُٹھا ہوں۔۔۔۔ اس‬
‫پر وہ کہنے لگی ۔۔۔پھر جلدی سے آ جاؤ کھانے کے ساتھ ساتھ‬
‫کھالنے والی فری ملے گی ۔ باجی کی اتنی ننگی آفر سن کر میرے‬
‫عالم شہوت میں بوال۔۔۔ آپ‬‫لن نے ایک فلک شگاف نعرہ مارا اور میں ِ‬
‫تیار ہو جاؤ میں فریش ہو کر آتا ہوں‬

‫فون بند کرتے ہی میں جلدی سے تیار ہو کر باجی کی طرف چل‬


‫پڑا۔۔۔ گیٹ کے باہر پہنچ کر میں نے انہیں موبائل پر اپنے آنے کی‬
‫اطالع دی ۔۔۔۔ فون اس لیئے کیا کہ بیل بجانے سے انہوں نے منع کیا‬
‫تھا کہ کیا پتہ بیل کی آواز سن کر کہیں ثانیہ بیدار نہ ہو جائے ۔‬
‫چنانچہ تھوڑی دیر بعد وہ گیٹ پر آئیں اور مجھے اندر آنے کا اشارہ‬
‫کیا۔۔۔ چنانچہ میں ادھر ادھر دیکھتا ہوا گھر کے اندر چال گیا۔۔ پھر‬
‫جیسے ہی میں گھر میں داخل ہوا وہ مجھ سے کہنے لگیں ۔۔۔۔ تم اوپر‬
‫میری ساس سسر کے کمرے میں پہنچو۔۔۔۔ میں ثانیہ کو دیکھ کر ابھی‬
‫آتی ہوں۔ یہاں میں اس بات کو کلئیر کر دوں ۔۔۔۔کہ باجی کی ساس‬
‫سسر کا کمرے گھر کی دوسری منزل پر واقع تھا اور ثانیہ کے‬
‫ہوتے ہوئے ۔۔۔۔۔ ایک وہی کمرہ ایسا تھا جو کہ دوسرے کمروں کی‬
‫نسبت کافی سیف تھا چنانچہ میں انہوں ایک چھوٹی سی کس کر کے‬
‫سڑھیاں چڑھ کے اوپر چال گیا۔۔۔۔‬

‫میں پلنگ پر بیٹھا ان کا انتظار کر رہا تھا کہ باجی کمرے میں داخل‬
‫ہو گئیں۔۔۔ اس سے قبل کہ میں ان سے کچھ پوچھتا وہ کہنے لگیں۔۔۔‬
‫ثانیہ بے خبر سو رہی ہے۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنے دونوں‬
‫بازو کھول دیئے اور مجھے۔۔۔۔۔ بیڈ سے اُٹھنے کا اشارہ کیا۔۔۔ چنانچہ‬
‫میں بیڈ اُٹھ کر ان کے سینے سے لگ گیا۔۔۔۔ان کے سینے کے ساتھ‬
‫لگتے ہی مجھے ایسا محسوس ہوا کہ جیسے انہوں نے قمیض کے‬
‫نیچے برا نہیں پہنا تھا ۔۔۔اس پر میں ان کی چھاتیوں پر ہاتھ رکھتے‬
‫ہوئے بوال ۔۔۔ کیا بات ہے باجی آپ نے برا نہیں پہنا ؟ تو وہ کہنے‬
‫لگیں جس وقت میں نے تمہیں فون کیا تھا اس وقت میں نہانے لگی‬
‫تھی اور تمہیں آفر دینے کے بعد میں نہائی۔۔۔اور پھر بغیر برا کے‬
‫تجھ سے ملنے کا سوچا ۔۔۔۔پھر شہوت بھرے لہجے میں کہنے لگیں‬
‫یقین کرو اگر مجھے ثانیہ کا ڈر نہ ہوتا تو میں نے تمہیں۔۔۔ بغیر‬
‫کپڑوں کے ملنا تھا۔۔۔۔ اس پر میں ان کا ایک نپل مسلتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔۔۔آج اتنی گرم کیوں ہو میڈم؟ تو وہ شہوت بھرے لہجے میں‬
‫کہنے لگی یہ ساری گرمی تیرے لن کے بارے میں سوچ کر آئی تھی‬
‫اس پر میں ان کے ہونٹ چوم کر بوال۔۔۔۔ کیا میرا لن اتنا دھانسو ہے‬
‫کہ اسے یاد کرتے ہی آپ ۔۔۔۔ اس قدر مست ہو جاتی ہو؟۔۔۔۔ اس پر وہ‬
‫میرے نیم کھڑے لن کو پکڑ کر اٹھالتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔۔۔ میری جان!‬
‫مجھے تیرا لنڈ تیری سوچ سے بھی زیادہ پسند ہے ۔۔۔ پھر بات کو‬
‫جاری رکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ اور میری موجودہ گرمی کی اصل وجہ‬
‫یہ ہے میرے چاند !!۔۔۔۔کہ صبع جب میں نے ثانیہ کو دونوں ٹانگیں‬
‫کھول کر چلتے دیکھا تو میں سمجھ گئی کہ اس کا یہ حال تیرے‬
‫تگڑے لن نے کیا ہو گا ۔۔۔لیکن مجھے کیا پتہ تھا کہ اس بےچاری کا‬
‫یہ حال تم نہیں بلکہ گوری کے مصنوعی لن نے کیا تھا۔۔۔ لیکن میں‬
‫اسے تیری کارستانی سمجھتے ہوئے۔۔۔۔ اور تیرے موٹے لن کے‬
‫بارے سوچ سوچ کر میں گرم سے گرم تر ہوتی چلی گئی۔۔۔ یہ تو تم‬
‫نے مجھے بتایا کہ ثانیہ کی یہ حالت تم نے نہیں کی۔۔۔۔۔۔ بلکہ ایک‬
‫میچور گوری نے کی تھی۔۔۔ لیکن تب تک میرا سارا وجود گرمی‬
‫سے بھر چکا تھا۔۔۔۔۔۔ اس لیئے میرے لور ۔۔۔ مجھے اور لیٹ نہ کر‬
‫۔۔۔ مجھے چود ۔۔۔۔۔۔ اپنی رنڈی باجی کی چوت بجا ۔۔۔ اور ایسی بجا‬
‫کہ جیسی اس حرامزادی گوری نے ثانیہ کی ننھی منی چوت بجائی‬
‫تھی۔۔۔۔۔ تو میں باجی سے بوال ۔۔۔‬

‫لیکن جان جی زرا اس بات پر بھی غور کرنا کہ ثانیہ ایک نازک سی‬
‫لڑکی تھی جو کہ گوری کا بھر پور سیکس نہ سہہ سکی جبکہ اس‬
‫کے مقابلے میں آپ ایک میچور اور گھڑچال قسم کی لڑکی ہو۔۔۔‬
‫چنانچہ آپ کی پھدی پھاڑنے کے لیئے میرا تو کیا ۔۔۔۔ لوہے کا لن‬
‫بھی نا کافی ہو گا۔۔۔۔اپنے بارے میں ۔۔۔۔۔میرے ریمارکس سن کر وہ‬
‫کہنے لگی ۔۔۔۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ میں ایک میچور لڑکی ہوں‬
‫۔۔۔اور میں نے بہت سے لنڈ دیکھے ہیں اور بہت سے لنڈز نے میری‬
‫چوت کی سیر بھی کی ہے۔۔۔۔ لیکن میری جان یہ بات بھی درست ہے‬
‫کہ جس شوق سے تم میری ٹھکائی کرتے ہو۔۔۔۔۔ آج تک کوئی نہیں‬
‫کر سکا۔۔۔۔۔اتنی بات کرتے ہی باجی نے اپنی شلوار اتار دی ۔۔۔۔اور (‬
‫پلنگ پر) پاؤں لٹکا کر بیٹھے ہوئے بولی۔۔۔۔ زیادہ نہ تڑپا۔۔۔۔ آ جا۔۔۔۔‬
‫میری پھدی چوس۔۔۔۔۔۔۔۔۔ باجی کی فرمائیش سن کر میں پلنگ کے‬
‫نیچے اکڑوں ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔۔اور باجی کی دونوں ٹانگوں کو مزید‬
‫کھول دیا۔۔۔ انہوں نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر بستر پر‬
‫(پیچھے کی طرف) لیٹتے ہوئے بولیں۔۔ میری پھدی چاٹ ۔کر۔۔۔ اس‬
‫کا پانی ختم کر دے۔۔۔۔اور پھر ۔۔ اسے چود چود کر میرا حال بھی۔۔۔۔‬
‫ویسا ہی کرنا جیسا کہ اس گوری نے ثانیہ کا کیا تھا۔۔۔۔۔میں نے اس‬
‫سیکسی لیڈی کی طرف غور سے دیکھا۔۔۔۔۔ تو اس کی آنکھوں میں‬
‫شہوت کے الل ڈورے تیر رہے تھے۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے ان کی‬
‫خوبصورت چوت پر ایک زبردست سا چوما دیا۔۔۔۔۔ اور ان سے‬
‫کہنے لگا۔۔۔۔ جان جی!۔۔۔ بے فکر ہو جاؤ۔۔۔۔ میں گوری سے اچھا‬
‫چودوں گا۔۔۔۔ اور دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے ان کی چوت کی‬
‫پھاڑیوں کو الگ کیا۔۔۔۔اور ان کی پانی سے بھری ۔۔۔۔۔ مہک آور پھدی‬
‫کو چاٹنا شروع کر دیا۔۔۔ پھر۔۔۔ چوت چاٹنے کے بعد میں نے انہیں‬
‫گھوڑی بنا کر ایسا زبدردست چودا کہ انہوں نے دو تین دفعہ آرگیزم‬
‫کر دیا۔۔۔۔۔ پھر مست آواز میں بولیں۔۔۔۔۔پھدی کی ساری گرمی تو تم‬
‫نے نکال دی اب اس پر پانی ڈال کر اسے۔۔۔۔ ٹھنڈا نہیں کرو گے؟ تو‬
‫میں ان سے بوال۔۔۔۔ تھوڑی دیر صبر کریں۔۔۔۔ میں بس چھوٹنے ہی‬
‫واال ہوں ۔۔۔۔۔جیسے ہی وقت قریب آیا۔۔۔ میں ۔۔۔۔ آپ کی پھدی میں‬
‫سارا چھڑکاؤ کر دوں گا ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی منی کا چھڑکاؤ۔۔۔۔ پھدی‬
‫میں نہیں بلکہ۔۔۔۔۔ منہ پر کرنا ہو گا۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اس کے بعد اپنے‬
‫کرسٹل پیشاب کی موٹی دھار سے میری چوت کو دھو ڈالنا۔۔۔۔۔ اس پر‬
‫میں ان سے بوال ۔۔۔لیکن۔۔۔۔ باجی مجھے پیشاب تو آیا ہے لیکن اتنا‬
‫زیادہ نہیں کہ جس سے آپ کی چوت دھو سکوں۔۔۔تو وہ کہنے لگی‬
‫۔۔۔۔‬

‫اس کا بندوبست ہے میرے پاس۔۔۔۔اتنی بات کرنے کے بعد۔۔۔۔انہوں نے‬


‫اپنی پھدی میں پھنسا میرا لن نکاال۔۔۔۔۔۔۔ اور ( سسر جی کے ) باہر‬
‫برآمدے میں پڑے فریج کی طرف چلی گئیں۔۔۔پھر وہاں سے وہ چار‬
‫پانچ بوتلیں نان الکوحلک لیمن مارٹ کی لے آئیں۔۔۔ اور میرے‬
‫سامنے میز پر رکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔ تمہیں یاد ہے ایک دن ہم نے‬
‫پروگرام بنایا تھا کہ تم مجھ پر اور میں تم پر پیشاب کروں گی۔۔۔‬
‫۔۔۔۔اس پر میں ان سے بوال۔۔۔ جی باجی مجھے اچھی طرح سے یاد‬
‫ہے تو وہ کہنے لگی ۔۔۔آج وہ دن آ گیا ہے۔۔۔۔۔۔پھر کہنے لگیں ۔ جیسا‬
‫کہ تمہیں معلوم ہے کہ آج مجھے بہت گرمی چڑھی ہوئی ہے تو‬
‫تمہارے آنے سے پہلے میں نے اس گرمی کے کارن دو جگ پانی‬
‫پیا تھا۔۔۔۔ اور ابھی دھکے مرواتے ہوئے جیسے ہی مجھے پیشاب کی‬
‫حاجت ہونی شروع ہوئی ۔۔۔ تو مجھے اپنا پروگرام یاد آ گیا۔۔۔۔ اس‬
‫لیئے ۔۔۔تم یہ ساری بوتلیں پی لو تا کہ تمہیں جو پیشاب آئے۔۔۔وہ پیور‬
‫وہائیٹ اور کرسٹل ہو۔۔۔اور تم مجھ پر ڈھیر سارا پیشاب کر سکو۔۔پھر‬
‫مجھے آنکھ مارتے ہوئے بولی۔۔۔ اور تمہیں تو معلوم ہی ہے کہ میں‬
‫تو پہلے ہی بہت سارا پانی پی چکی ہوں۔۔۔۔۔ چنانچہ باجی کے کہنے‬
‫پر میں نے وقفے وقفے سے لیمن مارٹ کی تین چار بوتیں چڑھا لیں‬
‫۔۔۔۔لیمن مارٹ پالنے کے بعد وہ ننگی ہی میری طرف بڑھیں۔۔۔اور‬
‫مجھے اپنے گلے سے لگاتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ پتا نہیں کیا بات ہے‬
‫جان!۔۔۔تم میرے پاس ہوتے ہو تو میرا جی کرتا ہے کہ میں اپنی‬
‫ساری ڈرٹی خواہشیں تیرے ساتھ پوری کروں ۔۔۔ تو میں ان سے‬
‫بوال۔۔۔ فرزند صاحب کے ساتھ یہ خواہشیں پوری نہیں ہو سکتیں؟‬
‫۔۔۔تو وہ ۔۔۔ میرے گال کو چوم کر بولیں۔۔۔ ہو سکتیں ہیں میری جان‬
‫بلکل ہو سکتی ہیں۔۔۔ لیکن جو مزہ تیرے ساتھ گناہ کرنے میں آتا ہے‬
‫وہ کسی اور کے ساتھ نہیں آتا۔۔۔اس کے ساتھ ہی وہ نیچے جھکیں‬
‫۔۔۔۔اور میرے لن کو اپنے منہ میں لے کر چوسنا شروع ہو گئیں۔۔۔ لن‬
‫جو ڈھیر سارا لیمن مارٹ پینے کے بعد کچھ مرجھا سا گیا تھا ۔۔۔۔۔۔ان‬
‫کے منہ میں جاتے ہی پھر سے جان پکڑنے لگا۔۔۔اور پھر کچھ ہی‬
‫دیر میں پہلے جیسا کڑک ہو گیا ۔۔۔تو یہ دیکھ کر وہ پاس پڑے‬
‫صوفے کی طرف گھومیں ۔۔۔۔۔اور میری طرف گانڈ کر کے صوفے‬
‫پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئیں۔۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر پیچھے سے گانڈ اُٹھا کر‬
‫بولیں۔۔۔۔ میری چوت میں فائینل دھکے مار ۔۔۔۔ چنانچہ ان کے کہنے‬
‫پر جب میں اپنے سخت لن کو ان کی چوت میں آگے پیچھے کر رہا‬
‫تھا تو دفعتا ً وہ سر کو پیچھے کر کے سرگوشی میں بولیں ۔۔۔۔ یاد‬
‫رکھنا منی کو میرے منہ پر گرانا ہے ۔۔۔۔ پیشاب بعد میں کریں‬
‫گے۔۔۔۔۔۔پھر اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے مست لہجے میں‬
‫بولیں۔۔۔۔چل اب چود۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میں نے ان کو چودنا شروع کر دیا۔۔۔‬
‫گھسے مارتے ہوئے کچھ دیر بعد ۔۔۔جب مجھے محسوس ہوا کہ میں‬
‫چھوٹنے کے نزدیک آ گیا ہوں ۔۔۔تو گھسے مارتے مارتے ۔۔۔ میں نے‬
‫جب ان کی گانڈ کو تھپتھپا دیا ۔۔۔تو وہ ایک دم صوفے سے جمپ مار‬
‫کر قالین پر اکڑوں بیٹھ گئی اور منہ سے زبان نکال کر بولی۔۔۔۔۔‬
‫میری زبان اور …پورے منہ پر چھڑکاؤ کرنا ہے ۔۔اور میں نے ایسا‬
‫ہی کیا۔۔۔۔جب میں اپنی گاڑھی منی ان کے گالوں ۔۔۔۔۔ہونٹ ۔۔۔۔اور زبان‬
‫پر گرا چکا ۔۔۔تو انہوں نے اپنی زبان کو باہر نکال اور بلکل بلیو‬
‫مویز کے سٹائل میں ہونٹو ں اور منہ کے آس پاس لگی منی کو زبان‬
‫کی مدد سے چاٹا ۔۔۔جبکہ زبان کی رینج سے دور والی منی کو‬
‫انگلیوں کی مدد سے منہ میں ڈال کر بولیں۔۔۔۔۔۔۔ اب دوسرا سیشن‬
‫شروع کریں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اور مجھے لن سے پکڑا ۔۔۔۔۔اور واش روم میں لے گئیں یہاں آ کر‬
‫انہوں نے مجھے فرش پر لٹا دیا اور خود میرے اوپر چڑھ گئیں۔ اور‬
‫پھر ایک ہاتھ سے میرے نیم کھڑے لن کو پکڑا۔۔۔ پھدی کو میرے لن‬
‫کی سیدھ میں رکھا اور ۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی شررررر۔۔۔۔ شر‬
‫ررر۔۔۔۔۔کی دل کش آواز کے ساتھ ہی باجی کی پھدی سے کرسٹل‬
‫وہائیٹ پانی نکلنا شروع ہو گیا۔۔۔۔ جیسے ہی ان کے پیشاب کی دھار‬
‫میرے لن پر پڑنا شروع ہوئی۔۔۔۔تو اس کے ساتھ ہی ان کے منہ سے‬
‫سیکسی آوازیں نکلنا شروع ہو گئیں ۔۔۔تقریبا ً ایک منٹ تک وہ میرے‬
‫لن پر مختلف اینگلز سے پیشاب کرتی رہیں۔۔۔۔ ان کی چوت سے‬
‫نکلنے والی آبشاررررررررررررررر۔۔۔ جیسا پانی ۔۔۔اور ۔۔۔اس پانی‬
‫کی جھرنے جیسے آواز۔۔ نتیجہ یہ نکال کہ ایک دفعہ پھر سے میرا‬
‫لن کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔۔۔۔ جب ان کی پھدی سے نکلنے واال‬
‫کرسٹل وہائیٹ پانی ختم ہو گیا۔۔تو وہ میرے سامنے کھڑی ہو کر‬
‫بولیں۔۔۔ تمہاری کیا پوزیشن ہے؟ تو میں ان سے بوال ۔۔۔ میرا بھی (‬
‫پیشاب) نکلنے واال ہے میری بات سنتے ہی انہوں نے اپنی پھدی کی‬
‫دونوں پھاڑیوں کو ممکنہ حد تک الگ کیا اور اپنے دانے کی طرف‬
‫اشارہ کرتے ہوئے بولیں۔۔۔ اپنے پیشاب کی مست دھار نشانہ لے کر‬
‫یہاں مارنی ہے اور میں نے ایسے ہی کیا۔۔۔ چنانچہ ان کی بات سن‬
‫کر میں اُٹھ کر ان کے سامنے کھڑا ہوا ۔۔۔۔اور ان کے دانے کا نشانہ‬
‫لے کر اپنا تیز دھار پیشاب اس پر پھینکنا شروع کر دیا۔۔۔ ۔۔ میں‬
‫پیشاب کرتا گیا ۔۔۔ وہ دانے کو مسلتی گئی۔۔۔۔ مسلتی گئی ۔۔۔۔ یہاں تک‬
‫کہ جب میرے لن سے کرسٹل پانی کا آخری قطرہ نکال ۔۔۔تو وہ اسی‬
‫طرح سے دانے کو مسلتے ہوئے بولیں۔۔۔تمہیں معلوم ہے جان۔۔۔ میں‬
‫بنا چدے۔۔۔ ہی چھوٹ گئی ہوں۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے ثبوت کے‬
‫طور پر مجھے اپنی چوت کا چکنا پانی دکھایا جو کہ ان کی ان کی‬
‫پھدی سے بہہ بہہ کر نیچے کی طرف جا رہا تھا اور پھر کہنے‬
‫لگیں۔۔۔۔ تھینک یو شاہ!۔۔۔۔ آج تمہاری وجہ سے میری ایک اور ڈرٹی‬
‫خواہش پوری ہو گئی۔‬

‫اس کے بعد باجی اور میں خوب اچھی طرح نہائے ۔ نہانے کے بعد‬
‫وہ مجھ سے بڑے ہی خوش گوار موڈ میں کہنے لگیں۔۔ مہاراج آپ‬
‫سے پراتھنا ہے کہ آپ گھر سے باہر نکل جایئے۔۔۔اور کچھ دیر بعد آ‬
‫کر اسی ذور سے ہماری بیل بجایئے کہ جس زروں سے آپ نے‬
‫ابھی ہماری چوت بجائی تھی۔۔۔۔۔۔تو میں ان سے بوال اس سے کیا ہو‬
‫گا ؟ تو وہ ہنس کر کہنے لگیں ارے بدھو بھائی اس سے یہ ہو گا کہ‬
‫نیچے سوئی میری چھوٹی نند کے سامنے یہ تاثر جائے گا کہ مہاراج‬
‫ابھی ابھی پدھارے ہیں ۔۔ جس سے میری چنری اور کردار میں کوئی‬
‫داغ نہ الگے گا۔۔۔۔اور تیرا میرا بھائی بہن واال رشتہ مزید تقدس‬
‫پکڑے گا۔۔۔۔تو میں باجی سے بوال ۔۔ اس کے لیئے آپ کو اتنی شدھ‬
‫ہندی بولنے کی کیا ضرورت تھی؟۔۔۔ صاف اردو میں کہتے آپ کو‬
‫کیا موت پڑتی تھی؟ ۔تو وہ میرے ساتھ چمٹتے ہوئے بولیں۔۔۔تم نہیں‬
‫سمجھو گے بچہ۔۔۔۔۔ یہ سب کمال ہے تمہاری دی ہوئی اس تسکین کا‬
‫ہے۔۔۔۔۔ کہ جس کی وجہ سے مجھے ایسی باتیں سوجھ رہیں ہیں۔‬

‫چنانچہ نہانے کے فورا ً بعد۔۔۔ میں ان کے گھر سے باہر نکال۔۔۔۔۔۔۔ اور‬


‫ایک چکر مارکیٹ کا لگا کر واپس ان کے گھر کی طرف آ‬
‫گیا۔۔۔۔وہاں پہنچ کر جیسے ہی میں نے جونہی بیل بجائی تو پہلی ہی‬
‫گھنٹی پر باجی ( گیٹ پر) نمودار ہو گئیں۔۔انہیں دیکھ کر میں آہستہ‬
‫سے بوال۔۔۔ آپ نے تو تیسری یا چوتھی گھنٹی پر آنا تھا تو وہ کہنے‬
‫لگیں اس کی ضرورت نہیں پیش آئی۔۔۔۔کیونکہ وہ پہلے ہی اُٹھی ہوئی‬
‫تھی۔ اس کے ساتھ ہی وہ مجھے لے کر میں ثانیہ کے کمرے میں آ‬
‫گئیں۔۔۔ دیکھا تو ثانیہ بستر پر ٹیک لگا کر بیٹھی ہو ئی تھی۔۔۔ چنانچہ‬
‫میں جیسے ہی ثانیہ کے سامنے کرسی پر بیٹھا باجی یہ کہتے ہوئے‬
‫اُٹھ کر چلی گئی۔۔۔۔۔۔ کہ بھائی تم ثانیہ کے پاس بیٹھو میں تمہارے‬
‫لیئے کچھ پینے کو التی ہوں۔۔تو اس پر میں ترنت ہی کہنے لگا کہ‬
‫باجی جی پانی وانی سے کام نہیں چلے گا بلکہ اس پاپی پیٹ کا کچھ‬
‫کریں کہ جس میں اس وقت جہازی سائیز کے چوہے دوڑ رہے ہیں‬
‫میری بات سن کر وہ ہنستے ہوئے بولیں۔۔اتنی گرمی میں آئے ہو۔۔۔‬
‫اس لیئے۔۔۔۔ پہلے کچھ ڈرنک وغیرہ پی لو پھر میں تمہارے لیئے‬
‫کھانے کا کچھ کرتی ہوں ۔۔اتنا کہہ کر وہ کمرے سے باہر نکل گئی‬
‫جیسے ہی باجی کمرے سے باہر نکلی تو میں نے ثانیہ کی طرف‬
‫دیکھا اور پھر اس کی طرف اشارہ کرتے ہوئے یہ شعر پڑھا ۔۔۔ کچھ‬
‫تو نازک مزاج تھے ہم بھی۔۔۔اور کچھ چوٹ بھی نئی ہے ابھی۔۔۔ میرا‬
‫شعر سننے کے بعد وہ ہنستے ہوئے بولی ۔۔۔اب تو ٹھیک ہوں‬
‫یار۔۔۔۔البتہ رات طبیعت بہت خراب تھی۔۔۔تو میں اس سے بوال یہ تو‬
‫بتاؤ کہ ہو ا کیا تھا ؟۔۔۔تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے شرمیلی سی‬
‫مسکراہٹ سے بولی۔۔۔ یار وہ سالی گوری بڑی ہی اذیت پسند واقع‬
‫ہوئی تھی۔۔۔اس پر میں اس سے بوال۔۔ زرا تفصیل سے بتاؤ کہ ہو ا کیا‬
‫تھا؟ ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی تفصیل کا تو یہ موقعہ نہیں وہ پھر کبھی‬
‫سناؤں گی فی الحال اتنا جان لو ۔۔)پھر تھوڑا پاز لے کر بولی(۔۔اس‬
‫میں کوئی شک نہیں کہ میرے والی گوری انت کی سیکسی ہونے‬
‫کے ساتھ ساتھ کچھ زیادہ ہی اذیت پسند یا جنونی واقع ہوئی تھی میں‬
‫اس سے بوال وہ کیسے؟ میری بات سن کر اس نے ایک نظر‬
‫دروازے کی طرف دیکھا اور پھر اپنی قمیض و برا اوپر کر کے‬
‫اپنے بریسٹ دکھائے تو میں نے دیکھا کہ اس کے چھوٹے چھوٹے‬
‫مموں پر جگہ جگہ چک مارنے ( دانت کاٹےت ) کے نشان بنے‬
‫ہوئے تھے یہ دیکھ کر میں اس سے بوال بڑی وحشی عورت تھی‬
‫یار۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی۔۔اصل میں سیکس سے پہلے ۔۔۔اس نے مجھے‬
‫پال دی تھی جس کی وجہ سے مجھے اتنا احساس نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔ پھر‬
‫کہنے لگی یہ جو مجھے بخار ہوا ہے اور میں ٹھیک سے چل بھی‬
‫نہیں سکتی ۔۔۔ تو ا س کی وجہ یہ تھی کہ اس سالی نے تمہارے سے‬
‫بھی ڈبل موٹا اور لمبا لن۔۔۔۔۔۔۔۔۔جو کہ بال مبالغہ گدھے کے لن جتنا‬
‫بڑا ہو گا بڑی ہی بے دردی سے میری گانڈ میں گھسیڑ دیا تھا۔۔۔اور‬
‫پھر مسلسل دھکے مارتی رہی تھی۔۔ جس کی وجہ سے میری گانڈ کا‬
‫ستایا ناس ہو گیا تھا ۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے ایک نظر دروازے‬
‫کی طرف دیکھا ۔۔اور اس سے گانڈ دکھانے کی فرمائیش کی۔۔۔۔ میری‬
‫بات سن کر وہ جھٹ سے اوندھی ہو گئی اور میں نے بڑی احتیاط‬
‫سے اس کی گانڈ چیک کی تو یہ دیکھ کر حیران رہ گیا کہ اس کی‬
‫گانڈ جگہ جگہ سے چیری ہوئی تھی۔۔ جسٹ فار چیک جیسے ہی میں‬
‫نے اس کی موری پر ہاتھ رکھا تو وہ ہلکا سا چیخ کر بولی۔۔۔۔ نہ کرو‬
‫پلیز مجھے درد ہوتا ہے۔۔۔۔ چنانچہ اس کی گانڈ کا معائینہ کرنے کے‬
‫بعد میں سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔۔۔اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے‬
‫کچھ دیر بعد باجی کمرے میں داخل ہو کر بولی کھانا ڈائیننگ ٹیبل پر‬
‫رکھوں ؟ تو میں ان سے بوال۔۔۔ڈائینگ ٹیبل کو چھوڑ و ادھر ہی لے‬
‫آؤ۔۔۔ چنانچہ وہ ثانیہ کے کمرے میں ہی کھانا لے آئی جو میں نے ڈٹ‬
‫کر کھایا۔۔۔۔اور پھر کچھ دیر بیٹھ کر واپس گھر آ گیا۔۔‬
‫ندرت مامی کے آنے سے پہلے ہی میں نے ائیر پورٹ پر اپنے‬
‫دوستوں اور سئینرز سے کہہ کہلوا کر ان کے پروٹوکول کا زبردست‬
‫بندوبست کروا لیا تھا ۔۔‬

‫چنانچہ جیسے ہی ان کی فالئیٹ نے ائیر پورٹ پر لینڈ کیا۔۔۔ تو ایک‬


‫اہلکار اپنے ہاتھ ان کے نام کا کتبہ پکڑا ہوا وہاں کھڑا تھا ۔۔۔جیسے‬
‫ہی مامی نے اس کے ساتھ اپنا تعارف کرایا تو ا س نے الہ دین کے‬
‫جن کی طرح جھٹ سے ان کا امیگریشن اور کسٹمز وغیرہ کرو ا کر‬
‫۔۔ ان کا اٹیچی وغیرہ لے کر باہر آ گیا جہاں میں باجی اور ثانیہ کے‬
‫ساتھ کھڑا تھا۔۔ جیسے ہی وہ باہر آئیں تو میں انہیں لے اچھی سی‬
‫کافی پالئی۔۔۔اتنی دیر میں وہ میرے کام سے بہت امپریس ہو چکی‬
‫تھیں چنانچہ جیسے ہی باجی نے ان سے میرا تعارف کروایا تو وہ‬
‫مجھ سے ہاتھ مالتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ پتہ نہیں کیا بات ہے کہ‬
‫اسٹیٹس میں عدیل نے تمہارے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں کہا لیکن‬
‫پچھلے کچھ عرصے سے ہماری فیملی میں جو تمہاری دھوم مچی‬
‫ہے تو آئی تھنک درست ہی مچی ہے پھر ٹیکسی پر بیٹھنے لگی تو‬
‫میں صائمہ باجی سے مخاطب ہو کر بوال۔۔۔ باجی جی میں نے ٹیکسی‬
‫کا کرایہ ادا کر دیا ہے اور اس سے قبل کہ مامی کچھ کہتیں ۔۔۔ میں‬
‫نے ان کو بائے بائے کر دیا۔۔۔‬

‫مامی سے وغیرہ سے فارغ ہو کر میں گھر آ گیا۔۔۔اور عدیل کو فون‬


‫ت حال سے آگاہ کر دیا تو وہ کہنے لگا کیا بات‬ ‫کر کے ساری صور ِ‬
‫ہے یار مامی بھی تیری فین ہو گئی ہے تو میں اس کو جواب دیتے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔فین تو ہونا ہی تھا یار۔۔۔۔۔۔ ان کو اتنا زبردست پروٹوکول‬
‫جو دالیا تھا۔۔۔تو وہ میری ہاں میں ہاں مالتے ہوئے کہنے لگا۔۔۔۔۔ یہ‬
‫بھی درست ہے۔۔۔۔ پھر باتوں باتوں میں اس نے مجھے بتایا کہ رمشا‬
‫کی والدہ اور جمال صاحب بھی الہور پہنچ گئے ہیں۔۔۔ عدیل کے منہ‬
‫سے یہ سن کر کہ رمشا کی والدہ اور اس کا بھائی تعزیت کے لیئے‬
‫ببانگ دھل‬
‫ِ‬ ‫الہور گئے ہیں ۔۔ میرا لن خوشی سے جھوم اُٹھا اور‬
‫میرے کان میں بوال۔۔۔ استاد جی اس کا مطلب یہ ہوا کہ اس وقت‬
‫حسینہ گھر میں اکیلی ہو گی۔ میرے دماغ میں اتنی بات آنے کی دیر‬
‫تھی کہ مجھے ایک نشہ سا ہونے لگا۔۔۔اور میرے لیئے مزید گھر‬
‫میں رکنا مشکل ہو گیا تھا اس لیئے۔۔۔۔ میں گھر سے باہر نکال اور‬
‫ٹیکسی میں بیٹھ کر اسے پتہ سمجھا دیا ۔۔ میں رمشا کے گھر جا رہا‬
‫تھا ۔۔وہی خوب صورت حسینہ جو دیتی کم اور ترساتی زیاہ تھی۔۔۔‬
‫اس میں کوئی شک نہیں کہ رمشا بہت سمارٹ اور سیکسی لڑکی تھی‬
‫لیکن وہ اسی قدر تیز بھی تھی۔۔۔ اسی لیئے آج تک اس نے مجھے‬
‫پھدی نہیں دی تھی۔۔۔۔ بلکہ ترسایا ہی ترسایا تھا۔۔۔ اور اب جبکہ‬
‫مجھے معلوم ہوا تھا کہ وہ گھر پر اکیلی ہے تو خود بخود ہی میری‬
‫رالیں ٹپکنا شروع ہو گئیں تھیں۔۔۔ میرا خیال تھا کہ میں جاتے ہی بنا‬
‫کوئی بات کیئے۔۔۔۔۔پہال کام یہی کروں گا کہ اسے چودں گا۔۔اس لیئے‬
‫میں نے ٹیکسی سے اتر کر اس کی بیل بجائی ۔۔۔۔۔۔۔تو جواب میں اسی‬
‫نے دروازہ کھوال۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی اس کی آنکھوں میں ایک‬
‫شرارت سی ناچ گئی۔۔۔اور وہ مجھ سے کہنے لگی گوروں نے سچ‬
‫ہی کہا تھا۔۔۔ کہ تھنک اباؤٹ شاہ جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور شاہ جی از‬
‫دئیر۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی اس نے مجھے اندر آنے کا اشارہ کیا۔۔۔۔ گھر‬
‫میں داخل ہوتے ہی میں نے اسے گلے سے لگانا چاہا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو وہ‬
‫پرے ہٹتے ہوئے بولی ۔۔ارے ارے کیا کر رہے ہو؟ تو میں بڑی بے‬
‫تکلفی سے بوال۔۔۔تم سے پیار کا اظہار کر نے لگا ہوں تو وہ پیچھے‬
‫ہٹتے ہوئے بولی۔۔۔ لیکن یہ پیار کی جگہ نہیں ہے تو میں اس سے‬
‫بوال۔۔۔گولی دینے کی کوشش نہ کر۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ آنٹی اور‬
‫جمال بھائی الہور گئے ہوئے ہیں۔۔۔۔‬

‫اس کے ساتھ ہی میں اسے پکڑ کر اپنے ساتھ لگانے ہی واال تھا کہ‬
‫اندر سے ایک سریلی سی آواز سنائی دی۔۔۔ رمشا باہر کون تھا؟ وہ‬
‫آواز سن کر مجھے ایسا لگا کہ جیسے کسی نے میرے سر پر بمب‬
‫پھوڑ دیا ہو‪ ..‬۔۔ میں نے سر اُٹھا کر آواز کی سمت دیکھا تو میرے‬
‫سامنے ایک بہت ہی پرکشش سی لڑکی کھڑی تھی اسے دیکھ کر‬
‫میں چند سیکنڈز کے لیئے سٹل ہو گیا‪ ...‬دوسری طرف وہ لڑکی بھی‬
‫بڑی دل چسپ نظروں سے میری طرف دیکھ رہی تھی۔۔۔پھر وہ رمشا‬
‫کی طرف دیکھتے ہوئے بولی میرے بیسٹ نالج کے مطابق ان‬
‫حضرت کا نام شاہ ہونا چایئے ۔۔اس پر کشش لڑکی کے منہ سے اپنا‬
‫نام سن کر میں حیران رہ گیا۔۔۔ جبکہ دوسری طرف رمشا جلدی سے‬
‫بولی یس ڈئیر! تم نے ٹھیک پہچانا یہ میرا بیسٹ فرینڈ شاہ جی ہے‬
‫اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے رمشا بولی اور ڈئیر شاہ صاحب‬
‫یہ میری فسٹ کزن اور بیسٹ آف دی بیسٹ فرنیڈ انوشہ ذوالفقار ہے‬
‫باقی اس کے بارے میں کافی جان کاری تم رکھتے ہو ۔رمشا کی بات‬
‫سن کر انوشہ بڑی ادا سے کہنے لگی اوئے بی بی تم نے اپنے فرینڈ‬
‫کو میرے بارے کیا بتا دیا؟ تو رمشا مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ چپ‬
‫کر ۔۔۔ جو بھی بتایا ہے درست بتایا ہے۔ اس کے بعد رمشا نے مجھے‬
‫اندر چلنے کا اشارہ کیا۔۔ اور میرے پوچھنے پر اس نے بتالیا کہ‬
‫انوشہ آج صبع ہی فیصل آباد سے پنڈی آئی ہے وجہ نزول یہ بتائی‬
‫کہ ایک دوست کی شادی پر آئی ہے اس کے بعد رمشا مجھ سے‬
‫کہنے لگی آج رات ہم نے شادی پر جانا ہے تم بھی ساتھ چلو تو مزہ‬
‫آئے گا۔۔ تو میں اس سے بوال بھال میں کہاں جاؤں گا؟ نا جان نہ‬
‫پہچان تے میں تیرا مہمان۔تو اس پر رمشا کہنے لگی میری کون سی‬
‫جان پہچان ہے میں بھی تو جا رہی ہو ں نا ۔اس لیئے تم بھی چلو۔۔۔ ۔‬
‫ابھی ہم یہی باتیں کر رہے تھے کہ اوپر سے انوشہ آ گئی۔۔۔ اور قبل‬
‫اس کے کہ رمشا کچھ کہتی وہ کہنے لگی شاہ جی آج رات اسالم آباد‬
‫کی ایک مارکی میں شادی ہے اگر آپ بھی ساتھ چلو گے تو رونق‬
‫دوباال ہو جائے گی۔۔۔ اس پر میں نے ہچر میچر کرنے کی بڑی‬
‫کوشش کی لیکن ان لڑکیوں نے میری ایک نہ سنی۔۔آخر چار و ناچار‬
‫مجھے ہاں کرنا پڑی ۔۔بارات کا وقت رات آٹھ بجے تھے لیکن لڑکیاں‬
‫مجھ سے بولیں۔۔آپ ساڑھے آٹھ بجے تک آ جانا۔۔۔ ساتھ ہی رمشا‬
‫کہنے لگی اگر ہو سکے تو ساتھ کسی دوست کی گاڑی لیتے آنا کہ‬
‫وہاں سے مارکی (شادی حال) کافی دور تھا۔‬
‫‪v‬‬

‫واپس جا کر اپنے ایک دوست سے گاڑی مانگی ۔۔۔ اور تیار شیار ہو‬
‫کر رات آٹھ بجے میں رمشا کے گھر پہنچ گیا گھنٹی کے جواب میں‬
‫انوشہ نے ہی دروازہ کھوال تھا۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی اس نے بڑی ہی‬
‫گہری نظروں سے میرا جائزہ لیا اور پھر کہنے لگی اندر آ جاؤ۔۔۔‬
‫میں اس کے ساتھ چلتا ہوا سیدھا رمشا کے کمرے میں پہنچ گیا ۔۔‬
‫اندر پہنچ کر معلوم ہو ا کہ رمشا تو ابھی نہا رہی تھی جبکہ انوشہ‬
‫تیاری کر رہی تھی موقع کی مناسبت سے انوشہ نے بڑا ہی‬
‫سندر۔۔۔اور کام واال سوٹ پہنا ہوا تھا۔۔۔۔جس میں وہ بڑی ہی سیکسی‬
‫لگ رہی تھی ڈریسنگ کے سامنے بیٹھتے ہوئے وہ کہنے لگی۔۔‬
‫تمہاری اور رمشا کی دوستی کب سے ہے تو میں اس سے بوال زیادہ‬
‫نہیں دو ڈھائی ماہ ہوئے ہیں تو اس پر وہ ایکٹنگ کرتے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔۔ اُف اتنی پرانی دوستی اور ابھی تک کیا کچھ نہیں؟ رمشا کے‬
‫منہ سے اتنی بے باک بات سن کر میں نے بڑی حیرانی سے اس کی‬
‫طرف دیکھا تو وہ ڈریسنگ مرمر سے ہی مجھے آنکھ مارتے ہوئے‬
‫بولی گھبرا نہیں دوست میں زرا وکھری ٹائپ کی لڑکی ہوں۔ اتنی دیر‬
‫میں رمشا بھی بدن پر ٹاول لپیٹے کمرے میں داخل ہوئی اور مجھے‬
‫دیکھ کر بولی تم کب آئے؟ تو میں اس سے بوال ۔۔ابھی کچھ ہی دیر‬
‫ہوئی ہے اس سے پہلے کہ رمشا کچھ جواب دیتی ۔۔۔ انوشہ آگے‬
‫بڑھی اور رمشا کے بدن سے ٹاول ہٹا دیا۔۔۔اب میری نظروں کے‬
‫سامنے رمشا بلکل ننگی کھڑی تھی۔ میں رمشا کے جسم کے نشیب‬
‫وفراز ۔۔۔۔۔اور اس کے نمایاں خطوط بڑی گہری نطروں سے دیکھ‬
‫رہا تھا کہ انوشہ نے جلدی سے ٹاول رمشا کے اوپر ڈال دیا ۔۔۔اور‬
‫مجھے سناتے ہوئے بظاہر رمشا سے کہنے لگی۔۔۔۔ توبہ توبہ ۔۔اگر‬
‫میں دو منٹ اور تم کو ننگا رکھتی تو اس بھائی ( میری طرف اشارہ‬
‫کرتے ہوئے) کی موت یقینی تھی۔تو اس پر میں اس کی بات پر گرہ‬
‫لگاتے ہوئے بوال۔۔۔‬

‫اور موت کی وجہ یہ لکھی ہونی تھی کہ اس نے ایک پری کو ننگا‬


‫دیکھ لیا تھا۔۔میری بات سن کر انوشہ نے ایک دم گھوم کر میری‬
‫طرف دیکھا اور کہنے لگی تم نے میری بات کا مائینڈ تو نہیں کیا؟ تو‬
‫میں اس سے بوال۔۔۔ مس جی مائینڈ کس بات کا ۔۔۔میں بھی زرا‬
‫وکھری ٹائپ کا بندہ ہوں۔ اس طرح کی ہنسی مزاق میں وہ لڑکیاں‬
‫بمشکل تیار ہوئیں۔راستے میں رمشا مجھ سے کہنے لگی تمہیں معلوم‬
‫ہے شاہ کہ کسی زمانے میں ۔۔۔ میں پکی لیسبو تھی اور مجھے اس‬
‫طرف النے والی یہ محترمہ ہے تو میں گاڑی ڈرائیونگ کرتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔ ہاں یار تم نے مجھے بتایا تھا تو اس پر رمشا کہنے لگی۔۔۔‬
‫ویسے آپس کی بات ہے انوشہ تم سے کافی متاثر ہوئی ہے۔۔ اس پر‬
‫میں نے گاڑی کے بیک مرر سے انوشہ کی طرف دیکھا اور اس‬
‫سے بوال ۔۔۔ کیا واقعی آپ مجھ سے متاثر ہوئی ہیں؟ تو وہ بڑی ادا‬
‫سے کہنے لگی ۔۔۔۔ ابھی تک تو میں نے صرف باتیں ہی باتیں سنی‬
‫ہیں دیکھا تو کچھ بھی نہیں ۔۔۔تو میں اس سے بوال ۔۔ جہاں تک‬
‫دیکھنے کا تعلق ہے تو آپ حکم کریں آپ کو ابھی وہ سب دکھا سکتا‬
‫ہوں جس کی ایک لڑکی صرف تمنا کر سکتی ہے۔۔ تو آگے سے‬
‫انوشہ کہنے لگی مسڑ شاہ دو چار لونڈیوں سے" حساب کتا ب "کر‬
‫کے بعض لوگ خود کو ویسے ہی ماسٹر سمجھ لیتے ہیں تو میں اس‬
‫دعوی نہیں‬‫سے کہنے لگا ۔۔ میں نے اپنے ماسٹر ہونے کا ابھی تک ٰ‬
‫کیا۔۔۔تو وہ کہنے لگی آپ نے نہیں کیا نا۔۔۔ آپ کی گرل فرنیڈ نے تو‬
‫اس بات کا روال ڈاال ہو ا ہے۔۔۔اس پر میں نے رمشا کی طرف دیکھا‬
‫تو وہ دانت نکالتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔ یار میں نے توفقط تمہاری‬
‫عزت بڑھائی تھی۔۔۔۔۔ کچھ برا تو نہیں کیا۔۔۔۔اسی طرح کی باتیں‬
‫کرتے ہوئے ہم لوگ مطلوبہ شادی حال پہنچ گئے جہاں پر سٹینگ‬
‫اریجمنٹ ایسا تھا کہ آپ فیملی کےساتھ بیٹھ سکتے تھے سو ایک‬
‫ٹیبل پر میں رمشا اور انوشہ بیٹھ گئے ۔اپنے آس پاس اتنی ساری‬
‫خوب صورت لیڈیز کو بیٹھا دیکھ کر رمشا نے انوشہ کی طرف‬
‫دیکھا اور شرارت بھرے انداز میں کہنے لگی ۔۔۔۔انوشے اتنی کیوٹ‬
‫خواتین کو ایک ساتھ دیکھ کر مجھے کچھ کچھ ہو رہا ہے تو اس پر‬
‫انوشہ اسے دالسہ دیتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔ تھوڑا صبر کر لو میری‬
‫جان گھر جا کر میں تیرے سارے ارمان پورے کر دوں گی۔۔ ان کی‬
‫باتیں سن کر میں بھی دخل در معقوالت دیتے ہوئے بوال۔۔۔ لیڈیز اس‬
‫بات کا دھیان رہے کہ اس کھیل میں میں بھی برابر کا شریک ہوں‬
‫گا۔۔۔۔تو اس پر رمشا کہنے لگی۔۔۔ تم شریک ضرور ہو گئے لیکن جب‬
‫ہم چاہیں گی تب تم رنگ میں داخل ہو گئے۔۔۔ہمیں وہاں بیٹھے کافی‬
‫دیر ہو گئی تھی کہ اتنے میں انوشہ کی دو تین دوست بھی بھی وہاں‬
‫پر آ گئیں اور مزے کی بات یہ ہے کہ انوشہ نے میرا اور رمشا کا‬
‫تعارف بطور میاں بیوی کے کرایا جسے میرے ساتھ ساتھ رمشا نے‬
‫بھی خوب انجوائے کیا۔۔ہمیں انجوائے کرتا دیکھ کر وہ بھی مسکرا‬
‫دی۔۔‬
‫شادی سے واپسی پر رمشا گاڑی چال رہی تھی جبکہ آگے والی سیٹ‬
‫پر انوشہ اور گاڑی کی پچھلی سیٹ پر میں بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔گاڑی‬
‫چالتے ہوئے رمشا مجھ سے کہنے لگی یہ بتاؤ کہ تم نے گاڑی کب‬
‫واپس کرنی ہے؟ تو میں اس سے بوال۔۔۔ گاڑی کی کوئی ٹنشنئ نہیں ۔۔‬
‫کل واپس کر دوں گا تو اس پر وہ اٹھالتے ہوئے بولی ۔۔اس کا مطلب‬
‫آج رات تم ہمارے ساتھ سٹے کر رہے ہو تو میں انوشہ کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بوال ۔۔۔ ہا ں یار زرا میں بھی تو دیکھو ں کہ تمہاری‬
‫کزن کتنے پانی میں ہے۔۔تو اس پر انوشہ ترنت جواب دیتے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔ پانی کا تو پانی نکلنے کے بعد ہی پتہ چلے گا۔اس کے ساتھ‬
‫ہی اس نے بڑی ہی بے تکلفی سے رمشا کی دونوں ٹانگوں کے بیچ‬
‫میں ہاتھ پھیرا ۔۔۔۔۔اور کہنے لگی۔۔۔ میری جان تمہاری ان دو ٹانگوں‬
‫کے بیچ سکون و لزت ۔۔۔کی کیا ہی مدہوش کر دینے والی نہر ہے۔۔‬
‫جس کا پانی آج تک نہیں سوکھا ہے۔۔۔تو اس پر رمشا بھی انوشہ کی‬
‫پھدی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔ بڑے دنوں کے بعد اس شیرنی کی‬
‫سواری نصیب ہو گی۔۔اس کے ساتھ اس نے اپنی لمبی سی زبان‬
‫باہرنکالی اس کے ساتھ ہی انوشہ اور رمشا کی زبانیں آپس میں‬
‫ٹکرانا شروع ہو گئیں۔۔۔۔وہ بار بار ایک دوسرے کے ساتھ اپنی زبانیں‬
‫مال رہیں تھیں۔۔۔اسی اثنا میں بھی سیٹ سے کھسک کر آگے‬
‫ہوا۔۔۔۔۔اور انوشہ کا سر پکڑ کر اپنی طرف کیا ۔۔۔۔تو میں نے دیکھا کہ‬
‫اس کی آنکھوں شہوت سے چور ہو رہی تھیں۔۔۔اس نے ایک نظر‬
‫میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔۔ کیا ہے؟ تو میں اپنی زبان باہر‬
‫نکال کر اس کے منہ کی طرف لہراتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔ ایک نظر ادھر‬
‫بھی میری جان کہ مجھ کو بھی اتنا ہی سیکس چڑھا ہوا ہے جتنا کہ‬
‫تم دونوں کو چڑھا ہے۔۔۔۔ میری با ت سن کر انوشہ نے اپنی زبان‬
‫باہر نکالی اور میری زبان کے آس پا لہراتے ہوئے بولی۔۔۔۔اگر میں‬
‫تم کو اپنی زبان کا مزہ نہ دوں تو؟ اس کی بات سن کر میں نے اسے‬
‫بالوں سے پکڑا۔۔۔۔اور زبردستی اس کے منہ میں اپنا منہ ڈال دیا۔۔۔‬

‫کچھ دیر تک اس نے اپنے منہ کو بند رکھا ۔۔۔۔لیکن جب میں نے پیہم‬


‫اس کے ہونٹوں پر زبان پھیرنی شروع کی تو کچھ دیر بعد اس نے‬
‫اپنے منہ کو کھول دیا۔۔۔۔ جس کی وجہ سے میری زبان تیر کی طرح‬
‫اس کے منہ میں گھس گئی۔۔۔۔۔اور بجائے اس کے کہ میں اس کی‬
‫زبان تالش کرتا اس نے میری زبان تالش کی اور پھر میری زبان‬
‫سے ایسی زبان مالئی کہ اگےک دو تین منٹ تک ہم دونوں نے بڑی‬
‫ہی طویل ٹنگ کسنگ کی۔۔۔پھر جیسے ہی ہمارے منہ ایک دوسرے‬
‫سے الگ ہوئے تو رمشا ہنستے ہوئے کہنے لگی ۔۔ میرے ہسبینڈ کی"‬
‫کس" کیسی لگی؟ تو انوشہ کچھ سوچ کر بولی۔۔۔سچ کہوں۔۔۔۔۔۔۔ تو‬
‫رمشا بولی جی سچ ہی میں پوچھ رہی ہوں تو وہ کہنے لگی اے ون‬
‫۔۔۔پھر رمشا کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔ جس طرح دیگ کا ایک‬
‫دانہ چکھنے سے پتہ چل جاتا ہے کہ چاول کیسے پکے ہوں گے‬
‫؟اسی تمہارے دوست سے ایک ہی کس میں ۔۔۔۔ میں جان گئی ہوں کہ‬
‫اسے سیکس کے بارے میں کافی جان کاری ہے تو اس پر رمشا مزہ‬
‫لیتے ہوئے بولی وہ کیسے؟ رمشا کا سوال سن کر انوشہ نے کچھ‬
‫دیر سوچا اور پھر۔۔۔۔ کہنے لگی۔۔کسی ٹھرکی بابے نے کیا ٹھیک کہا‬
‫ہے کہ سیکس ایک آرٹ ہے ‪ ،‬تو اس آرٹ سے تمہارا دوست بخوبی‬
‫آگاہ لگتا ہے۔۔۔۔ تو اس پر رمشا مست آواز میں کہنے لگی اس ٹھرکی‬
‫بابا کی اور بھی باتیں بتاؤ نا پلززززز۔۔ تو اس پر انوشہ نے کچھ دیر‬
‫مزید سوچا اور پھر ٹھہر ٹھیر کر کہنے لگی۔۔۔مہا ٹھرکی بابا کہتا ہے‬
‫کہ چدائی ایک فن ہے ‪ ،‬ہمبستری ایک کال ہے ۔۔۔دو منٹ میں دو‬
‫جھٹکے مار کے للی کو لٹکا کے عورت کو پیاسا چھوڑنا سیکس‬
‫نہیں قدرت نے سیکس میں مزہ رکھا ہے سیکس کو پڑھو سیکس کو‬
‫سیکھو اور سیکس کا مزہ لو۔۔۔پھر میری طرف منہ کر کے وہ رمشا‬
‫سے سے کہنے لگتی مجھے ایسا لگتا ہے کہ تمہارے دوست نے‬
‫سیکس کو پڑھا بھی ہے اور یہ جانتا ہے کہ سیکس کا مزہ کیسے لینا‬
‫ہے۔۔۔۔اس قسم کی سیکسی باتیں کرتے ہوئے ہم گھر پہنچ گئے تھے ۔‬

‫اس وقت میرے سامنے پلنگ پر رمشا اور انوشہ ننگی لیٹی ہوئیں‬
‫تھیں۔۔۔ اور رمشا انوشہ کی چھاتیاں چوس رہی تھی اور رمشا کے‬
‫منہ سے سیکس سے بھر پور آوازیں نکل رہیں تھیں جبکہ پلنگ کے‬
‫سامنے میں پورے کپڑوں میں ایک سنگل صوفے پر بیٹھا ان دونوں‬
‫کا سیکس شو دیکھ رہا تھا۔۔جبکہ رمشا کی گول گول اور موٹی گانڈ‬
‫دیکھ کر میرے دل کو کچھ کچھ ہو رہا تھا۔۔۔۔ لیکن لڑکیوں نے بڑی‬
‫سختی کے ساتھ مجھے پابند کیا تھا کہ جب تک وہ نہ کہیں میں نے‬
‫بیڈ پر نہیں آیا۔۔حال یہ تھا کہ پینٹ کے اندر میرا لن اپنی اکڑاہٹ کے‬
‫آخری درجے تک پہنچا ہوا تھا ۔۔۔۔لیکن میں مجبور تھا۔۔۔۔ یونہی‬
‫بیٹھے بیٹھے اچانک مجھے خیال آیا اور میں نے جلدی سے اپنے‬
‫سارے کپڑےاتار پھینکے۔۔۔۔۔۔اب میرا شیش ناگ پھن پھیالئے کھڑا‬
‫تھا۔۔ لیکن دونوں لڑکیاں اس بات سے بے نیاز ایک دوسرے کے‬
‫ساتھ اوورل کر رہی تھیں۔۔۔۔ رمشا کی حد تک تو بات درست تھی‬
‫۔۔لیکن غضب اس وقت ہوا کہ جب انوشہ رمشا کہ اوپر‬
‫آئی۔۔۔۔۔۔اُف۔ف۔فف۔ف۔ اس کی گول شیب کی باہر کو نکلی ہوئی گانڈ‬
‫دیکھ کر پہلے تو میں خاموش رہا ۔۔اور صرف لن کو مسلتا رہا ۔۔۔‬
‫لیکن جب اس نے اپنی دونوں ٹانگیں کھول کر رمشا کی چوت چاٹنا‬
‫شروع کی تو اس کی سیکسی گانڈ ۔۔۔۔۔۔۔اور بھوکی شیرنی جیسے‬
‫پھدی کی ایک جھلک دیکھ کر میں جمپ مار کر پلنگ پر آ گیا۔۔۔‬
‫جیسے ہی میں پلنگ پر پہنچا تو انوشہ نے رمشا کی پھدی چاٹنا بند‬
‫کر کے میری طرف دیکھنا شروع کر دیا۔۔۔جبکہ اس کے نیچے لیٹی‬
‫رمشا شور مچاتے ہوئے بولی۔۔۔یہ سراسر چیٹنگ ہے۔۔۔ ہم نے کہا‬
‫بھی تھا کہ ہماری پرمیشن کے بغیر تم نے اوپر نہیں آنا پھر تم کیسے‬
‫آ گئے؟ ابھی رمشا روال ڈال ہی رہی تھی کہ انوشہ کہ جس کی‬
‫نظریں میرے لن پر گڑھی ہوئیں تھیں۔۔۔ ہاتھ اُٹھا کر بولی‪..‬چپ کر‬
‫۔۔۔۔آخر کار ہم نے اس سے چدوانا تو تھا نا۔۔ ہمارے کہنے بغیر‬
‫ِ‬ ‫کتیا‬
‫آگیا تو کون سی قیامت ٹوٹ پڑی۔۔۔۔پھر مجھ سے مخاطب ہو کر‬
‫بولی۔۔۔ہینڈ سم زرا ادھر تو آ۔۔پھر رمشا سے مخاطب ہو کر بولی۔۔۔‬

‫دیکھ تو سہی اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان لن کیسے شیش ناگ‬


‫کی طرح تنا کھڑا ہے۔۔۔۔پھر کہنے لگی شاہ جی میں اسے شاہی لوڑا‬
‫کہوں گی۔۔۔۔۔۔اتنی بات کرتے ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر میرے لن کو‬
‫اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا۔۔۔۔۔اور اسے دباتے ہوئے بولی۔۔۔۔کیسا ہارڈ‬
‫ہے؟پھر ٹوپے پر انگلی پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔اس شاہی لوڑے کا کیسا‬
‫موٹا ٹوپ ہے ۔۔۔۔۔ پھر وہ رمشا کی طرف گھومی اور اس سے کہنے‬
‫لگی آج شاہی لوڑے ۔۔۔۔اور بھوکی شیرنی کے مالپ سے چودائی کا‬
‫مزہ آنے واال ہے ۔۔۔۔اتنی دیر میں رمشا بھی اُٹھ کر گھٹنوں کے بل‬
‫میرے ساتھ کھڑی تھی۔۔۔تبھی انوشہ اس سے کہنے لگی ۔۔۔۔زرا لن پر‬
‫تھوک تو پھینک ۔۔۔میں نے اس کی ُمٹھ مارنی ہے ۔۔اس کی بات سن‬
‫کر رمشا بلکل میرے لن پر جھکی اور ایک بڑا سا تھوک کا گولہ‬
‫پھینک کر بولی۔۔۔ ُمٹھ نہ مار بلکہ لن کو چوس مزہ آئے گا۔۔۔۔تو انوشہ‬
‫نے ایک نظر رمشا کی طرف دیکھا اور پھر میرے لن پر جھک‬
‫گئی۔۔۔جیسے ہی انوشہ نے میرے لن کو چاٹنا شروع کیا ۔۔۔عین اسی‬
‫وقت رمشا نے مجھے دھکا دے کر بیڈ پر گرا دیا۔۔۔اور پھر گھٹنوں‬
‫کے بل چلتی ہوئی میرے منہ کی طرف آ گئی اور میرے منہ پر ہلکا‬
‫سا تھپڑ مارتے ہوئے بولی۔۔۔چل سالے ۔۔۔میری پھدی چاٹ۔۔۔الئف میں‬
‫پہلی دفعہ یہ ہو رہا تھا کہ ایک حسین لڑکی میرا لن چوس رہی تھی‬
‫اس کے ہونٹوں کا لمس اور کی منہ کی گرمی ۔۔۔یہ سب مجھے پاگل‬
‫کر رہی تھیں لیکن دوسری طرف مجھے آرڈر مال کہ میں پھدی‬
‫چاٹوں چنانچہ میں نے زبان باہر نکالی اور رمشا کی پھدی چاٹنا‬
‫شروع ہو گیا۔۔۔۔ اب پوزیشن یہ تھی کہ انوشہ میرا لوڑا چوس رہی‬
‫تھی جبکہ عین اسی وقت میں رمشا کی پھدی چاٹ رہا تھا۔۔۔ رمشا‬
‫کی پھدی بہت ہاٹ اور بالوں والی تھی۔۔۔۔اسی لیئے اس سے پھدی کی‬
‫مہک بہت ہی تیز آ رہی تھی ۔۔کچھ دیر تک ہم ایسے ہی کرتے رہے‬
‫پھر اچانک ہی رمشا نے میرے سر کو پکڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور میرے منہ میں‬
‫ڈسچارج ہونا شروع ہو گئی۔۔۔۔۔‬
‫جیسے ہی وہ ڈسچارج ہوئی تو وہ میرے ساتھ لیٹ کر گہرے گہرے‬
‫سانس لینے لگی۔۔ یہ دیکھ کر انوشہ نے لن کو منہ سے نکاال۔۔۔اور‬
‫مجھے اُٹھانے لگی۔۔۔جیسے ہی میں اوپر اُٹھا ۔۔۔۔تو اس نے اپنی ایک‬
‫چھاتی میرے سامنے کر دی اور کہنے لگی ۔۔۔ میرا دودھ پیو۔۔۔۔‬
‫بالشبہ انوشہ کی چھاتیاں بہت بڑی اور نپلز کافی موٹے تھے جنہیں‬
‫چوسنے کا بہت مزہ آیا۔۔۔۔ابھی میں نے اس کی ایک چھاتی چوسی‬
‫تھی کہ اس نے میرے منہ سے اپنی چھاتی کو نکال لیا۔۔۔۔۔۔اور دونوں‬
‫چھاتیوں کو ہاتھ میں پکڑ کر بولی۔۔۔۔ میری پھدی بعد میں مارنا‬
‫۔۔۔پہلے چھاتیاں چود۔۔۔۔پھر مجھ سے کہنے لگی میری چھاتیوں کی‬
‫دراڑ میں تھوک پھینک اور میں نے اس کی دونوں چھاتیوں کے بیچ‬
‫میں بننے والے شگاف میں تھوک پھینکا ۔۔۔۔۔تو اس نے جلدی سے‬
‫میرے لن کو تھوک سے نہالیا ۔۔۔جب کی اسکی چھاتیاں اچھی طرح‬
‫چکنی ہو گئیں۔۔تو وہ کہنے لگے چل اب میری چھاتیاں چود۔۔ اور اس‬
‫کے ساتھ ہی اس نے اپنی چھاتیوں کو میرے لن میں رکھا ۔۔۔۔اورانہیں‬
‫تیز تیز ہالنے لگی۔۔۔ میرے لیئے چھاتیاں چودنے کا یہ پہال موقع تھا‬
‫اس لیئے انہیں چودنے کا بڑا مزہ آیا۔۔۔کافی دیر تک وہ مجھ سے اپنی‬
‫چھاتیاں چدواتی رہی پھر تھوڑی دیر بعد رمشا اوپر اُٹھی اور انوشہ‬
‫سے کہنے لگی کیا خیال ہے لن لیا جائے؟ تو انوشہ بولی اتنی جلدی؟‬
‫اس پر رمشا کہنے لگی۔۔۔ تم نے لن چوس لیا۔۔۔چھاتیاں میں ڈال‬
‫لیا۔۔۔اب پھدی ہی باقی بچتی ہے کہ جہاں لن لینا باقی ہے ۔۔پھر کہنے‬
‫لگے ویسے ساری رات پڑی ہے جتنی مرضی لینا۔۔۔ تب انوشہ اس‬
‫سے کہنے لگی۔۔۔ کس سٹائل میں چدوائیں؟ تو مشا کہنے لگی دونوں‬
‫گھوڑی بنتی ہیں شاہ باری باری ہم دونوں کی چوت میں اپنے لن کو‬
‫ان آؤٹ کرے گا۔۔اس کے ساتھ ہی رمشا جلدی سے گھوڑی بن گئی۔۔۔‬
‫جبکہ انوشہ گھوڑی بنتے ہوئے کہنے لگی۔۔۔۔تھوڑی سی چاٹنا بھی‬
‫ہے۔۔۔اور میں نے پہلے تو انوشہ کی بھوکی شیرنی کو اچھی طرح‬
‫چاٹا پھر۔۔۔۔۔۔ ان کے پیچھے گھٹنوں کے بل کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔اور ایک‬
‫کی پھدی میں لن ڈالتا ۔۔۔کچھ دیر گھسے مارتا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو پھر دوسری‬
‫کی مارنا شروع ہو جاتا۔۔۔۔۔سو میں ون بائی ون دونوں کی پھدی بجاتا‬
‫گیا بجاتا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔بجاتا گیااا۔ا۔۔۔ا۔ا۔ا۔ا۔ا۔اور بجاتا ہی گیااااااااااااااااااااااااا۔‬

‫)قسط نمبر ‪(14‬‬

‫اس رات میں نے ان دو حسیناؤں کے ساتھ خوب مزے کیئے۔ پھر‬


‫اگلے چند روز تک راوی نے چین لکھا۔ ایک دن کی بات ہے کہ میں‬
‫آفس میں اکیال بیٹھا دل ہی دل میں غم جہاں تو نہیں ۔۔۔۔البتہ حسیناؤں‬
‫سے عشق و عاشقی کا ایک اجتماعی جائزہ لے رہا تھا ۔۔۔ کہ ۔۔۔ایسے‬
‫میں بال وجہ مجھے گوری میم صاحب یاد بے حساب آئی۔۔اور‬
‫پھرررر۔۔۔ اس کی یاد اتنی شدت سے آتی چلی گئی کہ بندہ دل کے‬
‫ہاتھوں مجبور گیا۔۔۔ اور اس امید پر کہ شاید پہلے کی طرح عدیل‬
‫گوری سے بات کروا دے ۔۔۔۔۔ اسے فون دے مارا۔۔۔۔ کہتے ہیں کہ دل‬
‫کو دل سے راہ ہوتی ہے ۔۔۔۔چنانچہ پہلی گھنٹی پر ہی۔۔۔۔۔۔۔ عدیل کی‬
‫بجائے گوری میم نے فون اُٹھا لیا۔۔۔ جیسے ہی اس نے اپنی جلترنگ‬
‫سی آواز میں ہیلو کہا تو پتہ نہیں کیا بات ہے کہ نا چاہتے ہوئے بھی‬
‫حواس خمسہ جواب دے گئے ۔۔۔۔ اور میں چند‬ ‫ِ‬ ‫وقتی طور میرے‬
‫لمحوں کے لیئے بلکل َمہبوت ہو کر رہ گیا۔۔پتہ نہیں کیا بات تھی کہ‬
‫جب بھی میں اس گوری سے بات کرنے لگتا تو میرے ٹٹوں میں جان‬
‫ختم ہو جاتی تھی ۔ جبکہ دوسری طرف وہ ہیلو ہیلو کیئے جا رہی‬
‫تھی۔۔۔۔۔پھر شاید تنگ آ کر اس نے عدیل کو فون پکڑا دیا۔۔ ادھر‬
‫جیسے ہی فون پر عدیل کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔اچانک پھر سے میری‬
‫بیٹری چالو ہو گئی۔۔۔۔اور اسی وقت میرے منہ سے خود بخود ہی ہیلو‬
‫نکل گیا۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں اپنی خفت مٹاتے ہوئے بوال ۔۔۔کیا بات‬
‫ہے یار بھابھی نے فون اُٹھایا بھی ۔۔۔۔لیکن بات کرنے کی بجائے ہیلو‬
‫ہیلو ہی کیئے جا رہی تھی۔۔۔۔تو اس پر عدیل کہنے لگا شاید نیٹ‬
‫ورکنگ کا کچھ مسلہ ہو۔۔۔۔۔ یہ بےچاری بھی مسلسل ہیلو ہیلو کیئے‬
‫جا رہی تھی۔۔۔۔پھر رسمی ہیلو ہائے کے بعد میں نے اس سے پوچھا‬
‫کہ بھائی اب کیا چہمز تک رکنے کا ارادہ ہے؟ تو وہ جواب دیتے‬
‫ہوئے بوال۔ ایسی بات نہیں ہے دوست ۔۔۔۔ہم لوگ تو آ جاتے مگر‬
‫ماموں کی وجہ سے رکنا پڑ گیا پھر میرے پوچھنے پر اس نے بتالیا‬
‫کہ نانا جی کے مرتے ہی ان کی جائیداد کے بٹوارے کا روال پڑ گیا‬
‫تھا جو کہ بمشکل حل ہوا ۔۔۔۔۔ اب وہ شاید پرسوں واپس آ ئیں ۔۔۔۔۔۔ پھر‬
‫کہنے لگا کہ شاید کا لفظ اس لیئے استعمال کیا ہے کہ ایک آدھ دن‬
‫زیادہ بھی لگ سکتا ہے۔۔۔۔۔۔ میرے فون سے ٹھیک دو دن بعد کی بات‬
‫ہے کہ اچانک عدیل کا فون آ گیا وہ کہہ رہا تھا کہ ویری سوری‬
‫۔۔۔۔دوست جلدی کی وجہ سے میں تمہیں مل بھی نہیں سکا۔۔۔۔۔۔پھر‬
‫تھوڑا جھجھک کر بوال۔۔۔۔ میں گزشتہ رات امریکہ پہنچ گیا‬
‫ہوں۔۔۔۔عدیل کی بات سن کر میرے دل کو ایک دھکہ سا لگا اور میں‬
‫نے اس‬
‫سے پوچھا کہ ایسی بھی کیا ایمرجنسی تھی کہ سالے بنا ملے ہی‬
‫امریکہ چے گئے ہو؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔ یار لفڑا ہو گیا تھا پھر کہنے‬
‫گا تم یوں سمجھ لو کہ امریکن محکمہ ٹیسی نے مجھے ایک بہت ہی‬
‫سخت نوٹس بھیج دیا تھا ۔۔۔جس میں انہوں نے مجھے ذاتی طور پر‬
‫پیش ہونے کا بوال تھا ۔۔۔اس پر میں تشویش بھرے لہجے میں بوال۔۔۔‬
‫یہ تو بڑی زیادتی ہے تو وہ کہنے لگا ہو جاتا ہے یار ۔۔۔۔ تو میں نے‬
‫اس سے پوچھا اب کیا پوزیشن ہے؟ تو وہ کہنے لگا رات ہی تو یہاں‬
‫پہنچا ہوں ۔۔ ابھی اُٹھا ہوں تو سوچا تم کو فون کر لوں پھر کہنے‬
‫لگا۔تو سنا ؟۔۔۔۔۔کیسا ہے؟ ادھر عدیل گانڈو مجھے اپنی رام کہانی سنا‬
‫رہا تھا جبکہ میرا سارا دھیان گوری میم کی طرف لگا ہوا تھا کہ‬
‫سالی باہر و باہر ہی۔۔ ملے بغیر۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔بغیر ہی چلی گئی۔۔جبکہ‬
‫دوسری طرف عدیل مجھ سے کہہ رہا تھا کہ ہاں یار تم سے ایک‬
‫درخواست کرنی تھی تو میں نے اس کو پورے خلوص سے کہا‬
‫بول۔۔۔ تو وہ کہنے لگا میرا اور ماریہ کا پروگرام تھا کہ یہاں سے‬
‫واپسی پر ہم لوگ فرانس سے ہوتے ہوئے جائیں گے۔۔۔۔۔ لیکن اس‬
‫نوٹس کی وجہ سے مجھے ایمر جنسی میں آنا پڑ گیا اس لیئے اگر ہو‬
‫سکے تو اس کے ساتھ فرینچ ایمبیسی چلے جانا اور ویزے سے‬
‫متعلق اس کی ہیلپ کر دینا۔۔۔ عدیل کے منہ سے یہ سن کر کہ وہ‬
‫اپنے ساتھ گوری میم کو نہیں لے کر گیا۔۔۔ میرے دل میں لڈو پھوٹ‬
‫گئے اور میں نے از را ِہ تفنن اس سے کہہ دیا کہ یار وہ تمہاری‬
‫مامی کی ادلہ بدلی والی سٹوری تو بیچ میں ہی رہ گئی۔ میری اس‬
‫بات پر وہ قہقہہ لگا کر ہنسا۔۔۔۔۔اور پھر کہنے لگا۔۔۔ سالے بہن چو‬
‫د!۔۔۔دنیا چاند پہنچ گئی اور تو ابھی تک وہیں کا وہیں کھڑا ہے۔۔۔۔‬
‫۔۔۔اس کے بعد وہ سیریس ہو کر کہنے لگا۔۔۔۔۔۔سٹوری کی فکر نہ کرو‬
‫میں مامی سے کہہ دوں گا تم اس کے منہ سے سن لینا ۔۔۔۔اس پر میں‬
‫اس سے بوال۔۔۔۔ اوئے گانڈو! ۔۔۔۔کیوں مامی کے بوال۔۔۔۔۔ جیسا کہ‬
‫تمہیں معلوم ہے ۔۔۔کہ وہ ایک نمبر کی گشتی عورت ہے۔۔۔۔ چنانچہ‬
‫اگر اسے تم پسند آ گئے ۔۔۔ تو لکھ لو کہ ۔۔۔تم اس سے کسی صورت‬
‫نہیں بچ سکو گے۔۔۔ پھر تھوڑا وقفہ دے کر کہنے لگا۔۔۔۔اور یہ بھی‬
‫لکھ لو کہ اگر اسے تم پسند نہ آئے۔۔۔۔ تو تم اس کے ساتھ کچھ بھی‬
‫نہیں۔۔۔۔ سکو گے۔۔۔۔۔۔پھر کہنے گا ۔۔اس لیئے تو کہتا ہوں کہ۔۔ اگر‬
‫مامی کا دل نہ ہوا تو میں تمہیں ٹیلی فون پر سنا دوں گا دوسری‬
‫طرف عدیل کی یہ بات سن کر کہ اگر میں مامی کو پسند آ گیا تو وہ‬
‫مجھے دے دے گی۔۔۔۔۔میرا دل بلیوں اچھلنے لگا۔۔۔۔۔اور میں دھڑکتے‬
‫دل کے ساتھ اس سے بوال ۔۔۔ کیا تم سچ کہہ رہے ہو؟ تو وہ جواب‬
‫دیتے ہوئے بوال۔۔۔۔ جھوٹ بولنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔۔۔۔ پھر‬
‫ب معمول تھوڑا پاز دے کر بوال۔۔۔۔۔تم نے دیکھا نہیں کہ مامی‬ ‫حس ِ‬
‫کس قدر کھلی ڈھلی خاتون ہے۔تو میں ڈرتے ہوئے بوال۔۔۔۔ دیکھنا یا ر‬
‫کہیں مروا نہ دینا۔۔تو وہ ہنستے ہوئے کہنے لگا۔۔۔ میں مروانے کی‬
‫نہیں بلکہ مارنے کی بات کر رہا ہوں ۔اور پھر چند باتوں کے بعد اس‬
‫نے فون رکھ دیا۔۔۔۔اور میں مامی کے بارے میں سوچنے لگا۔۔۔‬

‫اس بات سے تیسرے دن بعد کی با ت ہے کہ مجھے صائمہ باجی کا‬


‫فون آیا۔۔۔۔ ان کی زبانی معلوم ہوا کہ وہ لوگ کل رات کو واپس آئے‬
‫تھے پھر وہ آہستگی کے ساتھ کہنے لگیں میں نے تمہیں فون اس‬
‫لیئے کیا ہے کہ گھر آ کر پہلے میری ماما اور پھر ساسو ماں سے‬
‫نانا ابو کی تعزیت کرتے جاؤ۔ چونکہ صائمہ باجی کی بات معقول‬
‫تھی اس لیئے میں شام کو آنٹی کے گھر (مطلب عدیل کے گھر) پہنچ‬
‫گیا۔ میرا خیال تھا کہ انکل اور آنٹی گھر میں اکیلے ہوں گے ۔ لیکن‬
‫وہاں پہنچ کر دیکھا تو ایک میال لگا ہوا تھا مطلب آنٹی کے گھر کافی‬
‫رش تھا۔وہاں پر ندرت مامی کو دیکھ کر میری حیرت دو چند ہو‬
‫گئی۔اس لیئے جب میں ا ن سے مل رہا تھا تو میرے منہ‬

‫سے ویسے ہی نکل گیا کہ آج تو بڑے بڑے لوگ آئے ہیں۔۔۔۔میری‬


‫بات سن کر وہ چونک کر بولیں۔۔۔۔ کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ بڑے‬
‫بڑے لوگوں سے تمہاری کیا مراد ہے؟ تو میں نے ان کی طرف‬
‫اعلی‬
‫ٰ‬ ‫دیکھتے ہوئے ویسے ہی کہہ دیا کہ آپ مرتبہ میں بڑی اور‬
‫اعلی کہہ دیا تو کیا برا کیا؟ تو وہ ہنس کر‬
‫ٰ‬ ‫ہو۔۔۔۔ اس لیئے آپ کو‬
‫اعلی کے بچے! کیا تمہیں معلوم ہے کہ میں یہاں کس‬ ‫ٰ‬ ‫کہنے لگی‬
‫مقصد کے لیئے آئی ہوں؟ تو میں حیرانی سے بوال نہیں مجھے تو‬
‫نہیں معلوم آپ یہاں کیوں آئی ہو؟ میری بات سن کر انہوں نے پاس‬
‫کھڑی صائمہ باجی کو آواز دیتے ہوئے کہا۔۔۔صائمہ زرا ادھر تو آنا‬
‫اور ۔۔ندرت مامی کی آواز سن کر صائمہ باجی جھٹ سے ہمارے‬
‫پاس آن کھڑی ہوئی تو مامی ان سے مخاطب ہو کر کہنے لگی زرا‬
‫اس کو بتاؤ کہ میں یہاں خاص طور پر کس لیئے آئی ہوں؟ مامی کی‬
‫بات سن کر صائمہ باجی کی آنکھوں میں اک پیار بھرا شعلہ سا لپکا‬
‫اور وہ کہنے لگیں تمہیں معلوم ہے کہ آنٹی تمہاری جان چھڑانے‬
‫کے لیئے یہاں آئیں ہیں۔۔اس پر میں حیران ہو کر اس سے بوال۔۔۔میری‬
‫جان کس نے پکڑی ہوئی تھی جو کہ آنٹی چھڑانے کے لیئے آئیں ہیں‬
‫؟ تب صائمہ کی بجائے آنٹی آگے بڑھیں اور مجھ سے کہنے لگیں‬
‫میں تانیہ کا رشتہ لے کر آئی ہوں۔۔۔پھر مسکراتے ہوئے بولیں وہی‬
‫تانیہ جس کے ساتھ بنا اعالن کے تم منگنی شدہ ہو۔۔۔پھر میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے ایک خاص ادا سے بولیں یوں سمجھ لو کہ میں‬
‫تمہاری جان چھڑانے کے لیئے آئی ہوں مامی کی بات سن کر میں‬
‫نے جیسے ہی صائمہ باجی کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگی آنٹی کو‬
‫سب پتہ ہے۔۔اس کے بعد وہ اور آنٹی مجھے ایک طرف لے گئیں اور‬
‫وہاں جا کر صائمہ باجی نے مجھے بتالیا کہ اس کی ماما نے میرے‬
‫اور اس رشتے کے بارے میں آنٹی کو سب بتا دیا تھا۔ صائمہ باجی‬
‫کی بات ختم ہوتے ہی مامی کہنے لگی تم واقعی ہی ایک بہت اچھے‬
‫اور رشتے نبھانے والے لڑکے ہو۔۔پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال‬
‫کر بڑی شرارت سے بولیں۔۔اچھا یہ بتا کہ تم نے اس لڑکی کے ساتھ‬
‫کچھ کیا بھی تھا۔۔۔۔۔ یا صرف رومانس ہی لڑاتے رہے ہو؟ آنٹی کے‬
‫منہ سے اتنی بے باک بات سن کر میں تھوڑا گھبرا گیا ۔۔لیکن پھر‬
‫معصوم بنتے ہوئے بوال ۔۔۔ ابھی ابھی تو وہ بےچاری صدمے سے‬
‫باہر نکلی تھی۔۔۔۔اور ابھی ابھی تو اس کے ساتھ علیک سلیک شروع‬
‫ہوئی تھی۔۔کہ اوپر سے آپ آ گئیں۔۔۔۔۔۔ ۔ میری بات سن کر مامی‬
‫ہنستے ہوئے کہنے لگی شکر کرو ۔۔۔اس کے ساتھ کچھ کیا نہیں‬
‫۔۔۔ورنہ ایسے معاملوں میں بعض اوقات لینے کے دینے پڑ سکتے‬
‫ہیں ۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں۔۔۔میں اس بات سے‬
‫از حد خوش ہوں کہ عدیل نے پہلی دفعہ کوئی ڈھنگ کا دوست بنایا‬
‫ہے اس کے بعد جب میں نے انہیں بتایا کہ میں آنٹی کے والد کی‬
‫تعزیت کے لیئے آیا ہوں تو وہ بھی میرے ساتھ ہو لیں۔چنانچہ میں نے‬
‫آنٹی اور انکل کے ساتھ تعزیت کی ۔اس دوران آنٹی کو میں نے بہت‬
‫افسردہ پایا۔۔۔۔دعا کرتے ہوئے بھی وہ مسلسل روئے جا رہیں تھیں۔۔۔۔‬
‫تعزیت کے بعد ایک بار پھر رسمی جملوں کا تبادلہ ہوا ۔۔۔۔اور میں ان‬
‫کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرتا رہا۔۔۔۔ لیکن میں نے محسوس کیا‬
‫کہ آنٹی نے اپنے ابو کی موت کا بہت سوگ منایا تھا ۔۔۔۔چنانچہ میں‬
‫نے کچھ دیر تک ان کے ساتھ باتیں کیں پھر میں اُٹھ کر جانے لگا تو‬
‫آنٹی مجھ سے کہنے لگیں۔۔۔۔بیٹا ایک بات کہنی تھی اور وہ یہ کہ جب‬
‫تک ندرت اور ماریہ ادھر ہیں ۔۔۔۔ ہماری خاطر تمہیں النے لے جانے‬
‫کے لیئے تھوڑی سی ڈرئیونگ کرنی ہو گی پھر کچھ توقف کے بعد‬
‫کہنے لگیں۔۔چھوٹی موٹی گاڑی تو ہم سب چال لیتی ہیں لیکن ہم لوگ‬
‫اتنی پکی ڈرائیونگ نہیں جانتیں۔۔اس لیئے اگر آپ کچھ وقت ہمیں دے‬
‫دو ۔۔۔تو بڑی مہربانی ہو گی ۔۔اس پر میں نے ایک نظر آنٹی کی‬
‫طرف دیکھا۔۔۔اور پھ کہنے لگا۔۔۔۔۔۔اوکے آنٹی ۔۔۔لیکن ۔۔۔چونکہ میں‬
‫ایک سروس پیشہ بندہ ہو اس لیئے میری خدمات ہر وقت دستیاب نہیں‬
‫ہوں گا وہ کہنے لگیں۔۔۔ٹھیک ہے بیٹا۔۔ویسے۔۔۔۔چھوٹا موٹا کام ہوا تو‬
‫ہم خود گزارا چال لیں گی۔۔۔۔ آپ کو کسی خاص موقع پر زحمت دی‬
‫جائے گی ۔ اور کمرے سے باہر نکل کر جانے لگا تو صائمہ باجی‬
‫بولیں کہاں چل دیئے؟ تو میں ان سے کہنے لگا۔۔۔ ۔۔۔آپ کے سسرال‬
‫بھی جانا ہے تو وہ مسکراتے بولیں۔۔۔ تھوڑی دیر بعد چلے جانا کہ‬
‫کھانا تیار ہے پھر بولی آج کا کھانا اس لیئے بھی خاص ہے کہ اسے‬
‫ماریہ بھابھی نے تیار کیا ہے۔ماریہ یعنی کہ گوری کا نام سن کر میں‬
‫دیدار یار‬
‫ِ‬ ‫وہیں رک گیا۔اور دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ اسی لیئے‬
‫نصیب نہیں ہوا کہ یار کچن میں بزی تھی۔۔۔۔‬
‫اس وقت میں ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھا مامی سے گپ شپ کر رہا تھا کہ‬
‫ہاتھ میں ٹرے لیئے گوری میم ڈائیننگ روم میں داخل ہوئی اسے‬
‫دیکھتے ہی مامی بڑے خوش گوار موڈ میں کہنے لگی آج کیا پکایا‬
‫ہے؟ تو آگے سے گوری نے انگریزی کھانوں کے دو تین نام لیئے‬
‫جو کہ باوجود کوشش کے بھی میرے پلے نہیں پڑے لیکن مامی‬
‫سمجھ گئی اور اس سے بولی واؤؤ تم پکا بھی لیتی ہو؟ تو گوری‬
‫مسکراتے ہوئے بولی وائے ناٹ آنٹی؟ ۔۔۔پھر کہنے لگی۔۔۔ میں تو عد‬
‫یل کی پسند کے سارے کھانے بنا لیتی ہوں۔ ابھی گوری اور صائمہ‬
‫باجی کھانا ال ہی رہی تھیں۔۔۔ کہ اچانک انکل کمرے میں داخل ہوئے‬
‫اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولے شاہ جی جلدی آؤ۔۔ان کی گھبرائی‬
‫آواز سن کر میرے سمیت ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھے سارے لوگ اُٹھ‬
‫کھڑے ہوئے اور اس سے پہلے کہ میں ان سے کچھ پوچھتا وہ خود‬
‫ہی کہنے لگے کہ تمہاری آنٹی بے ہوش ہو گئی ہیں ۔۔۔ چنانچہ میں‬
‫بھاگ کر ان کے کمرے میں گیا ۔۔۔۔ تو دیکھا کہ آنٹی پلنگ پر بے‬
‫ہوش پڑی تھیں میں نے ایک نظر آنٹی کی طرف دیکھا اور پھر‬
‫بھاگ کر گیراج پہنچا ۔۔۔۔ چابی اگنیشن میں ہی لگی ہوئی تھی سو میں‬
‫نے جلدی سے گاڑی اسٹارٹ کی ۔۔۔۔۔اور مارکیٹ چال گیا جہاں سے‬
‫ایک ڈاکٹر صاحب کو ساتھ لیا اور آنٹی کے گھر پہنچ گیا ۔۔۔ دیکھا تو‬
‫صائمہ باجی اور مامی آنٹی کے دونوں ہاتھ پاؤں کی مالش کر رہیں‬
‫تھیں۔۔ڈاکٹر نے آنٹی کو اچھی طرح چیک کیا اور پھر لیڈیز سے‬
‫سوال و جواب کے بعد وہ کچھ دوائیاں لکھ کر دیتے ہوئے بوال۔۔‬
‫گھبرانے کی کوئی بات نہیں۔۔۔۔صدمے کی وجہ سے ان کا شوگر لیول‬
‫اور بلڈ پریشر کم ہو گیا تھا۔اس لیئے کوشش کیجئے گا کہ کچھ دن‬
‫انہیں زیادہ دیر تک اکیال نہ چھوڑا جائے۔۔پھر میں ڈاکٹر کو واپس‬
‫بغرض‬
‫ِ‬ ‫کلینک چھوڑنے چال گیا وہاں سے واپسی پر کھانہ کھایا اور‬
‫تعزیت فرزند صاحب ک ے گھر چال گیا۔۔‬

‫اگلے کچھ دنوں میں ۔۔۔۔۔ میں نے یہ بات اچھی طرح سے جان لی‬
‫تھی کہ مامی مجھ میں بہت زیادہ انٹرسٹ لے رہی ہیں۔۔۔۔لیکن میرا‬
‫سارا فوکس گوری کی طرف ہونے کی وجہ سے۔۔۔۔ میں انہیں خاطر‬
‫خواہ جواب نہ دے پا رہا تھا۔۔۔میں گوری کے قریب ہونے کی کوشش‬
‫کرتا وہ بھی رسپانس دے رہی تھی ۔۔لیکن عین موقعے پر میرے‬
‫۔۔۔۔۔حواس جواب دے جاتے تھے۔۔یعنی اپنی بنڈ میں ساہ ُمک جاتا تھا ۔‬
‫اور بعض دفعہ تو گوری نے بھی اس بات کو محسوس کیا تھا۔۔۔۔‬
‫لیکن۔۔۔؟۔۔۔ جبکہ دوسری طرف میں نے محسوس کیا تھا کہ مامی مجھ‬
‫سے کچھ کہنا چاہ رہی تھیں لیکن کہہ نہ پا رہی تھیں۔۔۔۔۔جبکہ میں دو‬
‫کشتیوں کا سوار۔۔مامی کی لینا بھی چاہ رہا تھا لیکن سارا دھیان‬
‫گوری کی طرف تھا۔۔۔۔۔ پھر ایک دن کی بات ہے کہ مجھے عدیل کا‬
‫فون آ گیا۔۔۔اور وہ میرے ہیلو کے جواب میں بوال۔۔۔۔ سالے تو ہے‬
‫ایک نمبر کا حرامی۔۔۔۔تو میں نے اس سے پوچھا کہ وہ کیسے؟ تو وہ‬
‫کہنے لگا وہ ایسے کہ مامی جیسی گھاگ عورت تیرے پیچھے پڑی‬
‫ہے لیکن تو اسے لفٹ نہیں کروا رہا تو میں نے اس سے پوچھا کہ یہ‬
‫بات تم کیسے کہہ سکتے ہو؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے کہنے لگا کہ‬
‫یار مامی کا فون آیا تھا وہ (مجھ سے) مذاقا ً کہہ رہی تھیں کہ تمہارا‬
‫دوست تو مجھ میں زرا بھی انٹرسٹ نہیں لے رہا۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میں عدیل‬
‫کو کیسے سمجھاتا کہ گوری میم کے ہوتے ہوئے میں مامی کو‬
‫کیسے لفٹ کرا سکتا ہوں۔۔۔۔۔ لیکن ظاہر ہے کہ میں اس سے یہ بات‬
‫ہر گز نہیں کہہ سکتا تھا اس لیئے بات کو بناتے ہوئے بوال۔۔۔ یار میں‬
‫تو تیری مامی کا ہاتھ بندھا غالم ہوں ۔۔۔ لیکن پتہ نہیں انہیں ا یسا‬
‫کیوں لگتا ہے تو آگے سے وہ کہنے لگا چلو چھوڑو اس بات کو۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫میں نے تمیں ایک بڑی ضروری بات کے لیئے فون کیا ہے۔۔ اور وہ‬
‫ضروری بات یہ ہے کہ مامی کی" دوائی" ختم ہو گئی ہے ۔۔‬

‫وہ برا ِہ راست تم سے مانگ نہیں سکتی اس لیئے انہوں نے مجھے‬


‫کہا ہے اس پر میں نے عدیل سے مامی کی " دوائی" (شراب) کا‬
‫برانڈ نام پوچھا اور اس سے بوال مامی سے کہہ دو کہ کل یا پرسوں‬
‫تک انہیں مل جائے گی۔۔تو وہ تھوڑا جھجھک کر بوال۔۔۔ وہ یار ماریہ‬
‫کی "دوائی " بھی فنش ہے تو میں اس سے بوال تو لگے ہاتھوں اس‬
‫کا برانڈ نام بھی لکھوا دو تو وہ کہنے لگا۔۔دونوں کا برانڈ سیم ہے۔۔۔تو‬
‫وہ کہنے لگا کہ اگر ایڈوانس کچھ چاہیئے تو ابھی جا کر مامی سے‬
‫لے لو۔۔۔اس پر میں سنجیدہ ہو کر بوال۔۔ایڈوانس کو چھوڑ۔۔۔۔۔مامی کو‬
‫دوائی بھی مل جائے گی ۔۔۔۔۔ لیکن میری ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ‬
‫مامی کو تمہارے ساتھ ہونے والی ادلہ بدلی کی سٹوری سنانی پڑے‬
‫گی میری بات سن کر عدیل قہقہہ لگا کر ہنسا اور پھر کہنے‬
‫لگا۔۔۔۔اوئے مہاراج!!!۔ کس دنیا میں رہتے ہو؟ کل اسے شراب کی‬
‫بوتل دو اور اسے اپنے سامنے پال دو ۔۔جب وہ ٹُن ہو جائے تو پھر‬
‫جو مرضی ہے پوچھ لینا ۔۔۔پھر کہنے لگا ۔۔۔ویسے میں تمہارا یہ‬
‫میسج ان تک پہنچا دوں گا۔۔۔۔ا س کے بعد اس نے ادھر ادھر کی‬
‫جان بہار ۔۔۔‬
‫باتیں کرنے کے بعد فون رکھ دیا۔۔۔۔ اور میں مامی اور ِ‬
‫رشک چمن۔۔۔ غنچہ دھن ۔۔۔سیمیں بدن۔۔۔۔ مطلب گوری میم صاحب‬ ‫ِ‬
‫کے لیئے "دوائی" کا بندوبست کرنے لگا۔‬

‫اگلے دن چونکہ آف ڈے تھا اس لیئے میں دوپہر کو ہی آنٹی کے گھر‬


‫چال گیا دیکھا تو سارا ٹبر ڈائینگ ٹیبل پر بیٹھا ناشتہ کر رہا تھا‬
‫جیسے ہی میں ڈائینگ حال میں داخل ہوا تو مامی نے خمار آلود‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر اپنے ساتھ والی خالی کرسی‬
‫کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔۔ادھر بیٹھ جاؤ اور میں چپ چاپ‬
‫ان کے پاس جا بیٹھا ۔۔ابھی مجھے بیٹھے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ‬
‫مامی نے ایک ہلکی سی دھول میری تھائی پر ماری ۔۔۔۔اور پھر بڑی‬
‫ہموار لہجے میں بولی۔۔۔۔۔۔عدیل نے فون کیا تھا تو میں تھوڑا‬
‫جھجھک کر ان سے بوال جی کل شام کو اس سے بات ہوئی تھی‪،‬‬
‫میری بات سن کر وہ میری طرف جھک کر بولی۔۔دوائی الئے ہو؟ تو‬
‫میں ان سے بوال ۔۔ جی کہہ دیا ہے آج شام یا کل صبع تک مل جائے‬
‫گی ۔۔میری بات سن کر وہ مسکرائی اور پھر ہولے سے کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔ جیسے ہی تمہیں دوائی ملے ۔۔ مجھے ایک فون مار دینا پھر‬
‫ہم بہانہ بنا کر کہیں النگ ڈرائیو پر نکل جائیں گے۔۔۔۔وہاں کھل کر‬
‫پینے کا اپنا ہی مزہ ہو گا۔۔ چنانچہ اگلے دن جیسے ہی میں نے ان‬
‫کی "دوائی" وصول کی تو اسی وقت انہیں فون کر دیا۔سن کر ازحد‬
‫خوش ہوئیں اور پھر کہنے لگیں جلدی سے گھر آ جاؤ مجھے‬
‫پھر۔۔۔مجھے ایک دوست کے گھر بھی جانا ہے ۔۔ اس سے پہلے کہ‬
‫میں کچھ کہتا انہوں نے فون بند کر دیا تھا۔‬

‫یہ اگلے دن کی بات ہے کہ میں نے ایک دوست سے گاڑی لی اور‬


‫جس شخص کو دوائی کے بارے میں کہا تھا ۔ اس کے پاس پہنچ‬
‫ب وعدہ مامی ندرت کو‬ ‫گیا۔۔پھر اس سے دوائی وصول کر کے حس ِ‬
‫فون کر دیا۔ فون ملتے ہی انہوں نے سب سے پہلے مجھ سے پوچھا‬
‫کہ میرا کام ہو گیا ہے؟ جب میں نے انہیں اثبات میں جواب دیا تو وہ‬
‫کہنے لگیں پھر تم جلدی سے گھر آ جاؤ۔۔۔۔ چنانچہ میں نے گاڑی ان‬
‫کے گھر کی طرف موڑ لی ۔۔۔۔ابھی میں ان کے گھر کے کچھ‬
‫فاصلے پر تھا کہ انہوں نے مجھے گھر کے باہر رکنے کا‬
‫بوال۔۔۔جیسے ہی میں نے ایک سائیڈ پر گاڑی روکی ۔۔عین اسی وقت‬
‫وہ گھر سے باہر نکل رہیں تھیں۔۔۔انہوں نے میری طرف‬
‫دیکھا۔۔۔۔انہیں دیکھتے ہی میں نے گاڑی کا اگال دروازہ اَن الک کر‬
‫دیا اور وہ جھپاک سے اندر بیٹھ گئی۔۔ابھی گاڑی کو چلے تھوڑی ہی‬
‫دیر ہوئی تھی کہ سارے تکلف برطرف رکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔ چل‬
‫جلدی سے میری چیز نکال۔اور میں نے اپنی سیٹ کے نیچے سے ان‬
‫کی بوتل نکال دی ( جبکہ گوری کی میں نے الگ سے رکھ چھوڑی‬
‫تھی)۔۔ انہوں نے بوتل کو پکڑ کر اچھی طرح مالحظہ کیا پھر مجھے‬
‫ڈائیریکشن دیتے ہوئے بولیں۔۔۔ گاڑی کو دھیرے چال اور شہر کی‬
‫سنسان سڑکوں کی طرف لے جا۔پھر آسمان کی طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بولیں۔۔۔آہ موسم بہت خوب ہے وہ درست کہہ رہی تھیں اس وقت‬
‫آسمان پر ہلکے ہلکے کالے بادل چھائے ہوئے اندر اے سی کی سرد‬
‫ہوا چل رہی تھی میڈم کے ہاتھ میں ان کی پسندیدہ "دوائی" کی بوتل‬
‫پکڑی ہوئی تھی۔۔۔ایسے میں وہ جھوم کر بولیں ۔تم بھی پیتے ہو؟ تو‬
‫میں نے انکار میں سر ہالتے ہوئے کہا۔۔۔ جی میں نہیں پیتا۔۔۔۔ تو وہ‬
‫بوتل کو ناخن کی مدد سے بجاتے ہوئے بولیں۔۔۔ میرے جیسے ساقی‬
‫کے ہوتے ہوئے بھی نہیں پیو گے؟ تو میں ان کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے بوال۔۔۔ یقین کریں مامی ۔۔۔ میں آپ کا ساتھ دینے کے لیئے بھی‬
‫نہیں پیوں گا۔۔۔۔ تو وہ برا سا منہ بنا کر بولیں۔۔۔اچھا یہ بتا کہ گاڑی‬
‫میں سی ڈی پلئیر ہے؟ تو میں نے اس طرف اشارہ کرتے ہوئے بوال‬
‫۔۔۔۔ جی لگا ہے تو اس پر انہوں نے اپنے پرس سے ایک سی ڈی‬
‫نکالی اور اسے لگا تے ہوئے بولی۔۔۔آواز آہستہ رکھنا۔۔۔۔۔۔سو میں نے‬
‫سی ڈی پلیئیر کی آواز دھیمی کر دی۔۔۔ تبھی فضا میں کشورکمار کی‬
‫مسحور کن آواز گونجی۔۔۔‬
‫یہ شام مستانی مدہوش کیے جا۔۔۔۔اسی وقت مامی نے بوتل کا ڈھکن‬
‫کھوال ا ور میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔ میں ایک گھونٹ لگا لوں؟‬
‫اور پھر وہ چسکی لے لے کر شراب پینا شروع ہو گئی۔۔۔" دوائی "‬
‫پینے کے ساتھ ساتھ وہ گنگنا بھی رہی تھی۔۔۔ ان کی خوب صورت‬
‫آواز سن کر میں ان سے کہنے لگا۔۔۔آپ کی آواز بہت خوب صورت‬
‫ہے تو وہ ہنس کر بولی۔۔۔ صرف آواز خوب صورت ہے؟ میں‬
‫نہیں؟؟؟؟؟۔۔۔تو میں ان کی طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔ بلکہ یوں کہیں‬
‫کہ ۔۔۔اس وقت مجھ سے فیصلہ مشکل ہو رہا ہے کہ آپ کی آواز‬
‫زیادہ خوب صورت ہے یا آپ؟ تو وہ میری طرف دیکھ کر نشیلی‬
‫آواز میں بولیں۔۔۔۔ گڈ مسکہ۔۔۔ پھر مجھ سے کہنے لگیں میں جب سے‬
‫ادھر آئی ہوں ۔۔۔تم نے فرسٹ ٹائم مجھ پر الئین ماری ہے۔۔۔۔پھر ہنس‬
‫کر بولی۔۔۔ تو عجیب مخلوق ہے سالے ۔۔۔ میں تمہیں انتی لفٹ کروا‬
‫رہی ہوتی ہوں۔۔۔۔ اور تو آگے سے نیک بچہ بن جاتا ہے ۔۔۔ جبکہ‬
‫میرے تجربے کے مطابق تو ایسا ہے نہیں۔۔۔۔۔۔اب میں میڈم کو یہ تو‬
‫بتانے سے رہا کہ میں نیک بچہ صرف اور صرف گوری کے‬
‫لیئے۔۔۔۔ بنتا تھا کہ وہی میرا اصل ٹارگٹ تھا اور ہے ۔۔۔جبکہ مامی‬
‫میرا من مائل نہ دیکھ کر خواہ مخواہ ہی اپنے لیئے چیلنج بنا بیٹھی‬
‫تھی۔۔۔۔اسی لیئے وہ مجھے رجھانے کے لیئے۔۔۔۔ میرے ساتھ پیار‬
‫بھری ۔۔اور ۔۔۔ہاٹ ہاٹ باتیں کر رہی تھی۔۔کافی دیر تک باتیں کرنے‬
‫کے بعد۔۔۔۔ اچانک مامی نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنی تھائی پر رکھتے‬
‫ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔ دیکھ کتنی مالئم ہوں میں۔۔۔امریکہ میں تو مجھ پر‬
‫بڑے بڑے لوگ مرتے تھے ۔۔۔پھر میری طرف دیکھ کر غصے سے‬
‫بولی۔۔۔۔اور ایک تو ہے ۔۔۔تب میں نے مامی کی طرف سلگتی ہوئی‬
‫نظروں سے دیکھا اور جھوٹ کی ماں بہن ایک کرتے ہوئے بوال۔۔۔‬
‫یقین کریں لٹو تو میں آپ کو دیکھتے ہی ہو گیا تھا لیکن کیا‬
‫کرتا۔۔ایک تو آپ کی اتنی بڑی پرسنیلٹی ۔۔اوپر سے آپ امریکن نژاد‬
‫۔۔۔۔۔ اور میں بے چارہ دیسی ککڑ۔۔۔ میری دیسی ککڑ والی با ت سن‬
‫کر وہ کھلکھال کر ہنسی۔۔۔۔۔اور کہنے لگیں۔۔۔۔میں اس دیسی ککڑ کا‬
‫سوپ پینا چاہوں گی۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے میری دونوں‬
‫ٹانگوں کے سنگم پر ہاتھ رکھ دیا۔۔۔ اسی وقت میرا شیر انگڑائی لے‬
‫کر اُٹھا۔۔۔۔اور بغیر وقت ضائع کیئے ایک دم سے اسٹینڈ اپ ہو گیا۔۔‬

‫میرے لن کی ہارڈنس کو انہوں نے بھی محسوس کر لیا تھا۔۔۔۔ سو‬


‫انہوں نے ہاتھ آگے بڑھایا اور پینٹ کے اوپر سے لن کو اپنی ُمٹھی‬
‫میں پکڑ لیا۔۔۔۔اور اسے دباتے ہوئے بولی۔۔۔واؤؤؤؤؤؤ۔۔اٹس‬
‫گریٹ۔۔۔۔تب میں نے مامی کی طرف منہ کر کے ان سے کہا ۔۔ آپ کو‬
‫میرا لنڈ پسند آیا ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔جس دن سے سنا تھا اسی دن‬
‫سے فدا ہوں اس پر تو میں چونک کر بوال۔۔۔۔آپ کو اس کے بارے‬
‫میں کس نے بتایا؟ تو وہ کہنے لگی ایک ہی تو ہے ون اینڈ اونلی ۔۔۔۔۔‬
‫عدیل۔۔۔۔۔اس سے پہلے کہ میں ان سے کچھ کہتا چاالک مامی نے‬
‫میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور کہنے لگیں ۔۔۔سنا ہے اس نے‬
‫اپنے اور میرے تعلق کے بارے میں تمہیں سب بتا دیا ہے؟ تو میں‬
‫ان سے بوال۔۔۔ جی آپ نےدرست سنا ہے تو وہ کہنے لگی مجھے‬
‫بھی تو پتہ چلے کہ ان کم بخت نے میرے بارے کیا کہا تھا۔۔۔تب میں‬
‫نے ان سے کہا وہ سب میں آپ کو بتا دوں گا آپ صرف یہ بتایئے‬
‫کہ اس نے میرے بارے میں کیا بتایا ہے؟ تو وہ ہنس کر بولی۔۔۔شاہ‬
‫سٹوری!!!!!!!!!!۔۔۔مامی کے منہ سے سٹوری کا لفظ سن کر اچانک‬
‫ہی مجھے مامی اور عدیل کی ادلہ بدلی والی سٹوری یاد آ گئی اور‬
‫میں جھٹ سے بوال ۔۔۔۔مامی ایک بات کہوں؟ تو وہ میری نقل اتارتے‬
‫ہوئے بولیں۔۔۔ مجھے ادلہ بدلی والی سٹوری سناؤ۔۔۔پھر ہنستے ہوئے‬
‫بولیں ۔۔۔ یہی کہنا تھا نا تم نے؟ تو میں نے کہا آپ کو کیسے معلوم‬
‫ہوا؟ تو وہ کہنے لگی ارے بدھو۔۔۔ خود ہی تو تم نے مجھے عدیل‬
‫کے ہاتھوں میسج پہنچایا تھا ۔۔ پھر کہنے لگی چلو کیا یاد کرو گے‬
‫کہ تمہیں یہ والی سٹوری سناتی ہوں۔۔۔‬

‫پھر دھیرے سے کہنے لگی ویسے تو میں نے اور عدیل نے ایک‬


‫ساتھ بہت وارداتیں ڈالی ہیں لیکن چونکہ یہ ہماری فرسٹ واردات‬
‫تھی اس لیئے یہ بہت یاد گار اور سیکسی ون ہے ۔ پھر بات کو‬
‫جاری رکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ جیسا کہ تم نے عدیل سے سن رکھا ہے‬
‫کہ میرا اور عدیل کا ناجائز تعلق بن گیا تھا لیکن ابھی فکنگ ہونا‬
‫باقی تھی کہ اچانک یہ حادثہ ہو گیا پھر اس حادثے کا بیک گراؤنڈ‬
‫بتاتے ہوئے بولی۔۔۔جیسا کہ تمہیں عدیل نے بتایا ہو گا کہ وہاں پر‬
‫میں ایک سٹور میں کام کرتی ہوں تو ہوا یوں کہ ایک دن وہاں پر‬
‫ایک عربی آیا جو کہ بہت ڈیسنٹ سا تھا اس نے میرے سٹوری سے‬
‫کافی ساری خریداری کی ہیلو ہائے کے بعد وہاں سے چال گیا پھر‬
‫یوں ہوا کہ وہ شخص اکثر ہی سٹور پر آنا شروع ہو گیا ۔۔۔۔اور میرے‬
‫ساتھ ہلکی پھلکی گپ شپ بھی کرنے لگا۔۔اور پیمنٹ کے بعد ہمیشہ‬
‫ہے بقایا رقم جو بعض اوقات بہت زیادہ ہوا کرتی تھی۔۔۔بھی چھو ڑ‬
‫دیا کرتا تھا۔۔۔پھر کہنے لگی جیسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ میری مالک‬
‫کا نام پلوی تھا تو ایک دن پلوی مجھ سے کہنے لگی ہو نا ہو مسٹر‬
‫جمال تم پر عاشق ہو گیا ہے تو میں اس سے بولی ۔۔۔چال ڈھال اور‬
‫شکل و صورت سے مجھے تو یہ عربی کوئی موٹی آسامی لگتا ہے‬
‫اس لیئے عربیوں کے قاعدے کےمطابق اسے تو کوئی ‪ 16/15‬سال‬
‫کی لڑکی چایئے ہو گی۔۔تو پلوی کہنے لگی ۔۔۔شرط لگا لویہ موٹا‬
‫تمہارے پیچھے ہاتھ دھو کر پڑا ہوا ہے پھر مجھ سے کہنے لگیں‬
‫نہیں یقین توآج اس کو ایکسٹرا لفٹ کروا کے دیکھ لو سب پتہ چل‬
‫جائے گا۔۔لیکن اس کی نوبت نہیں آئی اس دن سٹور پر شاپنگ کے‬
‫بعد اس نے مجھے کافی کی آفر کی اور میں اس کے ساتھ کافی شاپ‬
‫چلی گئی وہاں جا کر معلوم ہوا کہ وہ مصری ہے اور نیو یارک میں‬
‫یہاں سارے ) ‪ ( (Astoria, Queens‬ایک ایریا ہے آسٹرویا کوئینز‬
‫عرب رہتے ہیں اورا ن میں اکثریت مصری عربوں کی ہے اسی‬
‫لیئے اسی منی مصر بھی کہتے ہیں پھر کہنے لگی عرب ممالک میں‬
‫مصری بہت بولڈ قسم کے لوگ ہوتے ہیں ان کا الئف سٹائل سیم‬
‫امریکن کی طرح ہوتا ہے خاص کر نیو جنریشن جو کہ امریکہ میں‬
‫پیدا ہوئی ہے پھر کہنے لگی مصریوں کے بارے میں وہاں پر ایک‬
‫اور بات بہت مشہور ہے اور وہ یہ کہ ان کی لیڈیز و جینٹس دونوں‬
‫گانڈ مروانے کے شوقین ہوتے ہیں۔۔پھر کہنے لگی ویسے تو سارے‬
‫عربوں کے بارے میں یہی کہا جاتا ہے کہ وہ گانڈ میں لینے کے‬
‫شوقین ہوتے ہیں۔۔۔۔۔۔ لیکن خاص کر مصری اس بارے میں زیادہ‬
‫مشہور ہیں۔مصریوں کے بارے میں ایک معلومات اور وہ یہ کہ یہ‬
‫لوگ ڈانس ‪،‬پارٹیز وغیرہ بہت انجوائے کرتے ہیں۔‬

‫۔اس کے بعد بولین نیو یارک سٹی میں ایک مصری نائیٹ کلب بھی‬
‫ہے وہاں ان کا مشہور بیلے ڈانس ہوتا ہے اتنی بات کرنے کے بعد‬
‫وہ کہنے لگی ہاں تو میں کہہ رہی تھی کہ کافی پر اس نے مجھ سے‬
‫فرینڈ شپ کے لیئے بوال۔۔۔۔ تو میں نے صاف انکار کر دیا۔۔۔ لیکن وہ‬
‫شخص جس کا نام جمال تھا عمر اس کی ‪ 42/40‬سال ہو گی اس کی‬
‫اپنی ایک کمپنی تھی جس کا وہ چیف ایگزیگٹو تھا اسے میں پسند آ‬
‫گئی تھی اور وہ ہرحال میں مجھ سے فرینڈشپ ۔۔۔۔۔یا دوسرے لفظوں‬
‫میں ۔۔۔۔۔ میری لینا چاہتا تھا ۔۔۔ لیکن انہی دنوں میری عدیل کے ساتھ‬
‫ہلکی پھلکی ہاٹ نس چل رہی تھی اس لیئے میری ساری توجہ اس‬
‫کی طرف تھی اس لیئے میں نے اس کو بتا دیا تھا کہ میرا ایک‬
‫بوائے فرنیڈ ہے۔۔۔۔لیکن اس کے باوجود پتہ نہیں کیوں وہ مجھ پر بڑا‬
‫گرم تھا ۔۔۔ میں جتنا اس سے انکار کرتی وہ اتنا ہی مجھ پر مرتا‬
‫تھا۔۔۔۔۔۔دوسری طرف جب اس کا مطالبہ حد سے بڑھ گیا تو ایک دن‬
‫میں نے اس سے کہا کہ ٹھیک ہےمیں تمہارے ساتھ فرینڈ شپ کرنے‬
‫کو تیار ہوں لیکن میری ایک شرط ہے میری بات سن کر وہ ایک دم‬
‫سے کھل گیا۔۔۔ اور جلدی سے بوال۔۔۔ مجھے تمہاری ہر شرط منظور‬
‫ہے۔۔۔تب میں نے بھرپور نطروں سے اس کی طرف دیکھا اور‬
‫بولی۔۔۔ہم ادلہ بدلی کریں گے۔۔۔۔ میری بات سن کر وہ موٹا ایک دم‬
‫چونک اُٹھا۔۔پھر مکر اتے ہوئے بوال ۔۔۔۔ تمہیں پارٹنر سوائیپنگ‬
‫پسندہے؟ تو میں نے اقرار میں سر ہال دیا میرا خیال تھا میری ادلہ‬
‫بدلی والی بات سن کر وہ پریشان ہو جائے گا۔۔۔۔ لیکن ایسا کچھ نہ‬
‫ہوا۔۔۔اور وہ بس اتنا بوال کہ اس کے لیئے میں اپنی وائف سے بات‬
‫کر لوں اس پر میں اسے مخاطب کرتے ہوئے بولی مسٹر جمال یاد‬
‫رکھنا اس کھیل میں تمہاری وائف اصلی ہونی چایئے تو وہ ہنس کر‬
‫بوال۔۔۔۔ میری جان میں تمہیں پانے کے لیئے سب کچھ کرسکتا ہوں یہ‬
‫تو میری وائف ہے تم کہوتو ماں کو بھی لے آؤں گا۔۔۔چنانچہ اس سے‬
‫دوسرے دن ہماری مالقات طے ہو گئی۔۔اس کے بعد انہوں نے ایک‬
‫گھونٹ بوتل میں سے لیا اور ایک گھونٹ ایک اور بوتل جو کہ‬
‫انہوں نے بیگ میں رکھی ہوئی تھی سے بھرا۔۔۔۔اور مجھ سے کہنے‬
‫لگی یہ ٹھیک وہی دن تھا کہ جس دن میں نے عدیل کے ساتھ پہلی‬
‫جھپی لگائی تھی ۔۔۔‬

‫اور اس کے لن اپنی چوت کی دیواروں پر محسوس کیا تھا۔۔۔ پھر‬


‫کہنے لگی ہاں تو مقررہ دن جب کافی شاپ پر ہماری مالقات ہوئی تو‬
‫اس کی شکل دیکھتے ہی میں سمجھ گئی تھی کہ عدیل کے ساتھ‬
‫میرے بدلے اپنی وائف دینے کو تیار ہے۔۔۔ چنانچہ کافی کے دوران‬
‫جب اس نے مجھے بتایا کہ اثیلہ راضی ہو گئی ہے جمال کے منہ‬
‫سے بات سنتے ہی پتہ نہیں کیوں ۔۔ میری پھدی سے پانی کی ایک‬
‫بوند ٹپکی۔۔۔۔اور چپ چاپ میری پینٹی میں جزب ہو گئی میں الئف‬
‫میں پہلی دفعہ کوئی عربی لن لینے والی تھی۔۔۔۔ جبکہ دوسری طرف‬
‫وہ کہہ رہا تھا ۔اسے میں صرف اور صرف تمہارے لیئے اس کام‬
‫کے لیئے راضی کیا ہے۔۔پھر کہنے لگا۔۔۔وہ بھی اس لیئے کہ تمہارے‬
‫سانولے حسن نے مجھے پاگل کیا ہوا ہے اس کے ساتھ ہی اس نے‬
‫کافی شاپ میں ہی مجھے دبوچ لیا اور میں نے فرسٹ ٹائم اسے ایک‬
‫زبدرست سی کس دی۔۔۔ طے یہ پایا کہ کل رات میں اور میرا بوائے‬
‫فرینڈ جمال کے گھر ڈنر کریں گے۔۔۔پروگرام طے کرنے کے بعد ہم‬
‫لوگ کافی شاپ سے باہر نکل گئے۔۔۔‬

‫گھر جا کر میں نے عدیل کو ساری بات بتائی ۔۔۔اور پروگرام طے‬


‫کرنے کے بعد ۔۔۔ہم دنوں نے کچن میں ہی کھڑے کھڑے ہلکی پھلکی‬
‫کسنگ کی ۔۔۔کہ اس دن بدقسمتی سے عدیل کے ماموں گھر پر تھے‬
‫ورنہ ہمارا پروگرام تو کچھ اور تھا ۔۔۔اگلے دن گھر سے نکلتے وقت‬
‫اعلی قسم کی ٹائمنگ والی گولی عدیل کو کھال دی‬‫ٰ‬ ‫میں نے ایک‬
‫کیونکہ مجھے معلوم تھا کہ عدیل کا میچ بہت سخت ہو گا۔۔ مقررہ‬
‫وقت پر ہم جمال کے گھر کے سامنے کھڑے تھے۔۔بیل کے جواب‬
‫میں ایک نوکر نے دروازہ کھوال۔۔۔اور ہمیں بصد احترام ڈرائینگ روم‬
‫لے گیا جہاں تھوڑی دیر کے بعد جیسے ہی مسٹر اور مسز جمال‬
‫کمرے میں داخل ہوئے۔۔۔میرے ساتھ عدیل جیسے کم سن لڑکے کو‬
‫دیکھ کر دونوں میاں بیوی نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔۔اور‬
‫پھر جمال مجھ سے مخاطب ہو کر بوال۔۔۔ میڈم تمہارا انتخاب الجواب‬
‫ہے۔دوسری طرف عدیل نے مسز جمال کے ہاتھ میں سرخ پھولوں کا‬
‫گل دستہ پیش کیا۔۔ جسے اس نے بڑی خوش دلی سے قبول کیا اور‬
‫عربیوں کے مخصوص طریقے سے پہلے میرے گال کے ساتھ اپنے‬
‫گال مالئے پھر عدیل کے ساتھ مال کر رسمی جملوں کے بعد ہمیں‬
‫بیٹھنا کا کہا۔۔۔ میں مسز جمال جس کا نام اثیلہ تھا کا جائزہ لیا وہ ایک‬
‫‪ 35/30‬سال کی قدرے موٹی خاتون تھی رنگ اس کا دودھیا سفید تھا‬
‫۔۔ گال پھولے ہوئے تھے اور بڑی بڑی چھاتیاں جو کہ میرے خیال‬
‫میں ‪ 38‬کی ہوں گی۔۔۔۔۔۔ تنی کھڑی تھیں ہاں اس کا پیٹ بھی زرا باہر‬
‫کو نکال ہوا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن اصل چیز اس کی گانڈ تھی جو کہ عربی‬
‫عورتوں۔۔۔۔خاص کر مصری عورتوں کا خاصہ ہوتا ہے۔۔۔۔۔سو اس‬
‫او شیپ میں تھی کھانے کے " "‪ o‬کی گانڈ بھی بہت موٹی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور‬
‫دوران انہوں نے بتایا کہ یونیورسٹی کے زمانے میں وہ شوقیہ بیلے‬
‫ڈانس کیا کرتی تھیں تو اس پر میں ان سے کہنے لگی تو پھر آج‬
‫ہمارے سامنے اپنے فن کا مظاہر ہ کریں گی؟۔۔۔ تو وہ عدیل کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے شرارت سے بولی۔۔۔ضرور کروں گی لیکن اگر‬
‫میرا پارٹنر کہنے گا تب۔۔۔۔۔ عدیل جھٹ سے بوال۔۔۔۔ مجھے خوشی ہو‬
‫گی۔۔۔ویسے وہ جب سے آیا تھا اسی وقت سے اثیلہ کی چھاتیوں کو‬
‫گھورے جا رہا تھا۔۔۔ کوئی اور موقعہ ہوتا تو میں اسے ڈانٹ دیتی‬
‫لیکن ۔۔۔۔ آج چونکہ ہم لوگ آئے ہی سیکس کرنے تھے اس لیئے میں‬
‫نے اس کا آنکھیں پھاڑ پھاڑ کر دیکھنا درگزر کر دیا کھانا کھانے‬
‫کے بعد کافی دیر تک ہم لوگ باتیں کرتے رہے۔اس کی وجہ یہ تھی‬
‫پارٹنرز کی آپس میں بے تکلفی ہو جائے اور ٹھیک ایسا ہی ہوا۔۔۔۔‬

‫تو ہم لوگ جمال کی سربراہی میں ٹی وی الؤئج میں پہنچ گئے۔۔۔یہاں‬


‫آ کر جمال شرارت سے بوال ۔۔اب ہم لوگ سیکس پارٹی کرنے لگے‬
‫ہیں کیا آپ اس کے لیئے تیار ہو؟ تو میرے ساتھ ساتھ اثیلہ نے بھی‬
‫ہاتھ اُٹھا دیا۔۔۔جبکہ عدیل شرمیلی سی مسکراہٹ سے سر جھائے بیٹھا‬
‫رہا۔۔۔تب جمال کی بیوی عدل کے پاس گئی اور اس سے کہنے لگی۔۔۔‬
‫میرے ساتھ سیکس نہیں کرو گے؟ تو عدیل نے جمال کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے جلدی سے سر ہال دیا۔۔۔ اس کی اس حرکت پر ہم سب‬
‫ہنس پڑے۔۔۔۔۔ اور میں ٹی وی الؤنج کا جائزہ لینے لگی۔۔۔۔۔۔۔یہ ایک‬
‫بڑا سا کمرہ تھا جس کی سامنے والی دیوار پر ایک بہت بڑی ایل‬
‫سی ڈی لگی ہوئی تھی۔۔۔ جبکہ ایل سی ڈی کے سامنے سیون سیٹر‬
‫صوفہ پڑا تھا جبکہ اس سیون سیٹر کے دونوں طرف سنگل سیٹر‬
‫صوفہ بھی تھے۔۔۔ ان صوفوں کے سامنے سنٹرل ٹیبل پڑا تھا۔۔۔۔۔‬
‫جبکہ ٹی وی کے عین نیچے ایک سائیڈ پر ساؤنڈ سسٹم بھی رکھا ہوا‬
‫تھا۔۔اور اثیلہ اسی ساؤنڈ سسٹم کی طرف بڑھ رہی تھی۔۔۔اسے گانڈ‬
‫مٹکاتے دیکھ کر نا جانے عدیل کے دل پر کیا گزری ہو گی؟ جبکہ‬
‫میں جمال کے لنڈ کے بارے سوچ سوچ کر ایکسائٹڈ ہو رہی تھی۔۔۔۔۔‬
‫ساؤنڈ سسٹم کے قریب پہنچ کر اثیلہ نے ایک عربی دھن کی سی ڈی‬
‫لگائی اور عدیل کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔لٹل بوائے!۔۔۔۔ میں‬
‫تمہارے لیئے ڈانس کرنے لگی ہو ں ۔۔۔اس کے ساتھ ہی وہ میوزک‬
‫کے لے پرتھرکنا شروع ہو گئی۔۔اور میں نے ایک نظر عدیل کی‬
‫ت جزبات سے اس کا چہرہ سرخ ہو رہا تھا۔۔۔۔اور‬ ‫طرف دیکھا تو شد ِ‬
‫وہ آنکھیں پھاڑے اثیلہ کی بڑی بڑی چھاتیوں کی طرف دیکھے جا‬
‫رہا تھا۔جو کہ میوزک کی دھن پر مسلسل تھرک رہیں تھیں۔۔اس وقت‬
‫سیون سیٹر پر میں اور عدیل ۔۔۔۔ جبکہ میری رائیٹ سائیڈ والے سنگل‬
‫سیٹر پر جمال بیٹھا تھا۔۔۔۔ کھسک کر میرے قریب آ گیا۔۔۔اور میرا ہاتھ‬
‫پکڑ کر اسے سہالنے لگا۔۔ ادھر کھانے کے ٹیبل پر دو پیگ لگانے‬
‫کے بعد میں بھی مست ہو گئی تھی ۔۔اس لیئے جیسے ہی جمال نے‬
‫میرے ہاتھ سہالنے شروع کئے تو میں اس کی اجازت لے کر اثیلہ‬
‫کے پاس چلی گئی۔۔اور بڑے پیار سے بولی۔۔۔۔ کہو تو ایک کس کر‬
‫لوں؟ ۔۔۔ میری بات سنتے ہی اثیلہ نے مجھے دبوچ لیا۔۔۔۔اور میرے‬
‫کان پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔‬

‫یہ غضب لڑکا کہاں سے لیا؟ تو میں اس کی چوت کو سہالتے ہوئے‬


‫بولی۔۔۔۔ اچھا ہے نا؟ تو وہ کہنے لگی صرف اچھا نہیں ۔۔۔۔ بہت اچھا‬
‫ہے پھر وہ میرے سینے کو دباتے ہوئے میرے کان میں بولی۔۔اسے‬
‫سیکس میں کیا پسند ہے تو میں کہنے لگی اسے تمہاری گانڈ بہت‬
‫اچھی لگی ہے ۔۔۔۔۔۔۔تو وہ کہنے لگی اس کا مطلب یہ میری گانڈ مارنا‬
‫پسند کرے گا؟ تو میں بولی ۔۔۔۔ اس کا بس چلے تو وہ ابھی سے تیری‬
‫چیر پھاڑ شروع کر دے۔۔۔ تب وہ میرے منہ میں زبان دے کر چھوٹی‬
‫سی کس کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔تم میرے ہسبینڈ کو سنبھالو۔۔۔۔۔ میں تیرا‬
‫چوزہ چیک کرتی ہوں۔۔جاتے جاتے اس نے اپنی اور میری قمیض‬
‫کے بٹن کھول دیئے تھے۔۔۔۔ چنانچہ جب وہ جانے لگی تو میں نے‬
‫اس کی اور اپنی قمیض کو اتار کر پرے پھینک دیا۔۔۔اس نے پنک‬
‫کلر کا ۔۔۔۔ جبکہ میں نے اس وقت کالے رنگ کا برا پہنا ہوا تھا۔۔۔۔۔‬
‫اب میں چلتی ہوئی مسٹر جمال کی طرف گئی۔۔۔۔۔جبکہ اثیلہ پہلے ہی‬
‫عدیل کے پاس پہنچ کر ڈانس کرتے ہوئے اس کے منہ پر اپنی مالئم‬
‫گانڈ رگڑ رہی تھی۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ جیسے ہی اثیلہ نے اپنی‬
‫گانڈ کو عدیل کے منہ پر رگڑا۔۔۔۔۔۔۔۔تو وہ بے قرار ہو کر اُٹھ کھڑا‬
‫ہوا۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ عدیل کی پینٹ کے ایک طرف بہت بڑا‬
‫ابھار سا بنا ہوا تھا ۔۔۔اور اس نے وہی ابھار ۔۔۔ اثیلہ کی گانڈ کے‬
‫کریک میں رکھا ۔۔۔۔اور اپنے دونوں ہاتھ اس کی بڑی بڑی چھاتیوں‬
‫پر رکھ دیئے۔ ۔۔۔اسی اثنا میں نے اثیلہ نے اپنا منہ موڑا۔۔۔۔۔۔۔۔اور اپنی‬
‫لمبی زبان باہر نکال کر عدیل کی طرف لہرانے لگا۔۔۔۔۔۔جسے عدیل‬
‫نے فورا ً ہی اپنے منہ میں لے لیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کی زبان چوسنا‬
‫شروع ہو گیا ۔۔۔۔کیا مزے کا سین تھا عدیل کا لن اثیلہ کی گانڈ کے‬
‫بڑے سے کریک میں پھنسا ہوا تھا جکہ ا س کے دونوں ہاتھ اثیلہ کی‬
‫خوب صورت چھاتیوں کو دبوچے ہوئے تھے۔۔۔۔ جبکہ میری طرف‬
‫پوزیشن یہ تھی کہ اس وقت میں جمال کی بانہوں میں تھی ۔۔۔اس کا‬
‫لن میری گرم پھدی کو ٹچ کر رہا تھا۔۔۔اور ٹچ کرنے کے ساتھ ساتھ‬
‫ہلکا ہلکا ٹھوکر ما ر رہا تھا۔۔مطلب میری پھدی کے ساتھ چھڑ چھاڑ‬
‫کر رہا تھا۔۔۔ یہ دیکھ کر میں اپنی دونوں ٹانگوں کو مزید کھول‬
‫دیا۔۔۔۔۔جس کی وجہ سے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اب اس کی بھی پینٹ کا ابھار میری پھدی کے کریک میں تھا۔۔۔‬


‫کمرے کا ماحول بہت مست ہو رہا تھا۔۔۔ تیز تیز سانوں کی آوازیں آ‬
‫رہی تھیں۔۔۔۔اور یہ آوازیں سن سن کر میری پھدی لیک ہو رہی تھی۔۔۔‬
‫جبکہ میرا دل بڑی شدت سے جمال کے لن کو چوسنے پر کر رہا تھا‬
‫۔۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی میں نے ہاتھ بڑھا کر جمال کے لن کو پینٹ کے‬
‫اوپرسے ہی اپنے ہاتھ میں پکڑا۔۔۔۔اور اسے دبانے لگا۔۔۔تو جمال‬
‫میرے کان میں بوال۔۔۔۔ سویٹ ہارٹ میرے لن کو اپنے منہ کی سیر‬
‫نہیں کراؤ گی؟ تو میں ےشیور کہہ کر اس صوفے پر بیٹھ گئی۔۔۔۔اور‬
‫اس کی پینٹ اتارنے لگی۔۔۔پینٹ اتارتے وقت ویسے ہی میری نظر‬
‫اثیلہ کی طرف گئی تو وہ عدیل کے سامنے گھٹنوں کے بل کھڑی‬
‫تھی جبکہ عدیل ندیدوں کی طرح اس کی چھاتیوں کو چوس رہا‬
‫تھا۔۔۔۔۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی اثیلہ شرارت سے ایک آنکھ دبا کر‬
‫بولی۔۔۔۔۔ ہی از سو سیکسی ( یہ تو بہت سیکسی ہے) دوسری طرف‬
‫جمال نے اپنی پینٹ اتار دی تھی اور میں نے دیکھا کہ پینٹ کے‬
‫نیچے اس نے آف وہائیٹ انڈروئیر پہنچا تھا جس کی لش پش بتا رہی‬
‫تھی کہ اسے آج ہی پہنچا گیا ہے۔۔۔سو میں نے جمال کا انڈروئیر بھی‬
‫اتار دیا۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اب میرے سامنے جمال کا کا لن تھا اور یہ لن‬
‫دیکھ کر میں حیران رہ گئی۔۔۔اس کا لن زیادہ سے زیادہ ساڑھے پانچ‬
‫اینچ ہو گا ۔۔۔۔جبکہ میں تو سنا تھا کہ عربوں کے لن بہت بڑے ہوتے‬
‫ہیں لیکن یہاں تو ایسی کوئی بات نہ تھی پھر میں نے سوچا کہ‬
‫جیسے پاکستان میں بعض لڑکوں جیسے عدیل کا لن ایکسٹرا بڑا ہے‬
‫ویسے ہی میرے خیال میں وہاں بھی یہی حال عربوں میں بھی ہو گا‬
‫کہ بعض عرب لڑکوں کے لن چھوٹے بھی ہوتے ہوں گے۔‬
‫لیکن یہ بات میں نے جمال پر ظاہر نہیں ہونے دی۔۔۔اور اس کے تنے‬
‫ہوئے لن کو ہاتھ میں پکڑا اور اس کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔نائس‬
‫ڈک۔۔۔ پھر اس پر تھوک دیا۔۔۔۔اور زبان نکال پر اپنے تھوک کواس‬
‫کے لن پر ملنا شروع ہو گئی۔۔۔میرے اس اقدام سے جمال بہت خوش‬
‫ہوا ۔۔اور کہنے لگا۔۔۔۔ سک مائی ڈک(میرا لن چوس) اس کے بات سن‬
‫کر میں نے اس کے ٹوپے پر ایک کس دی پھر اس کے لن کو چاٹ‬
‫کر بولی۔۔۔۔ اگر میں تمہارا لن نہ چوسوں تو؟ تو ۔۔۔۔۔تو وہ ہنس کر‬
‫بوال۔۔۔ میں تیری گیلی پھدی چوسوں گا۔۔۔۔۔اس کی بات سن کر میں‬
‫مست ہو گئی ۔۔اور میں نے بڑے پرجوش انداز سے چوپا لگانا شروع‬
‫کر دیا۔۔۔۔ لن چوسنے کے بعد اب میں نے جمال کے بالز پر زبان‬
‫پھیرنا شروع کی۔۔۔اور بالز پر زبان پھیرنے کے بعد جیسے ہی میں‬
‫نے جمال کے لن کو دوبارہ منہ میں لے جانا چاہا ۔۔۔۔اچانک مجھے‬
‫مسز جمال کی حیرت بھری آواز سنائی دی۔۔۔۔ او مائی‬
‫گھوششش!!!!!!!!!!!!۔۔۔ اس پر میں نے جمال کا لن منہ سے نکال اور‬
‫مسز جمال کی طرف دیکھا ۔۔۔کیا دیکھتی ہوں کہ مسز جمال نے‬
‫عدیل کا اپنے ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور کبھی عدیل کی طرف اور‬
‫کبھی اس کے لن کی طرف دیکھے جا رہی تھی۔۔اپنی طرف متوجہ پا‬
‫کر وہ کہنے لگی۔۔۔میڈم تیرے بوائے فرینڈ کا ڈک تو بہت کمال ہے‬
‫تب میں جمال کے لن پر چما دے کر بولی۔۔میرے بوائے کا لن‬
‫انجوائے کرو۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تو اس پر اس نے زبان نکالی اور لن کو چاٹ‬
‫کر بولی۔۔۔۔۔۔تھینک یو ویری میچ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔سیکسی لیڈی۔۔۔ مجھے‬
‫تمہارے دوست کا ڈک بہت پسند آیا۔۔۔۔تو میں نے اس سے کہا پھدی‬
‫میں لو اور مست رہو۔۔۔۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی۔۔۔پھدی میں لینے سے‬
‫پہلے میں اسے چوسنا پسند کروں گی تب اس نےعدیل کو جو کہ‬
‫میری دائیں طرف بیٹھا تھا کو کڑمے اتار کر سیون سیٹر کے اینڈ پر‬
‫لیٹنے کو کہا۔۔۔اور جلدی سے اپنے کپڑے بھی اتار دیئے یہ دیکھ کر‬
‫ہم دونوں بھی ننگے ہو گئے۔۔اور جمال اپنے لن کو میرے سامنے‬
‫کرتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔ بےبی تم لن بہت اچھا چوستی ہو سو سک‬
‫اٹ!!! اور میں بھولی شیرنی کی طرح اس کے لن پر پل‬
‫پری۔۔۔تھوڑی ہی دیر میں جمال کی اونچی آواز میں سسکیاں گونجنا‬
‫شروع ہو گئیں۔سسکیوں کی آواز یں سن کر مسز جمال نے ایک نظر‬
‫پیچھے دیکھا اور بولی۔۔۔ مست جا رہی ہو۔۔۔‬

‫اس کی بات سن کر میری نگاہ مسز جمال پر پڑ گئی۔۔۔۔۔اووو۔۔وہ اس‬


‫وقت صوفے پر گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی جبکہ عدیل نے صوفے پر‬
‫ٹیک لگائی ہوئی تھی اور مسز جمال اس کالن چوس رہی تھی جس‬
‫چیز نے مجھے چونکا کر رکھ دیا تھا وہ مسز جمال کی گانڈ تھی اُف‬
‫فف فف ف ف ۔۔اس کی گانڈ اتنی دل کش تھی کہ میں نے بے ساختہ‬
‫اس پر ہاتھ پھیر دیا۔۔تو وہ میری طرف ُمر کر دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔‬
‫میری پھدی نہیں چوسو گی؟ تو میں اس سے بولی ۔۔۔۔ تمہاری پھدی‬
‫چوسنا میرے لیئے خوشی کا باعث ہو گا ۔۔۔ تب میں نے جمال سے‬
‫کہا کہ میں جمال سے کہا کہ میں اثیلہ کی چوت چاٹنے لگی ہوں تم‬
‫پلیززززززززززززززز۔۔۔ میری چوسنا۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی اثیلہ کے‬
‫پیچھے میں بھی گھٹنوں کے بل کھڑی ہو گئی۔جس سے میری گانڈ‬
‫جمال کی طرف ہو گئی۔۔۔۔اور میں اثیلہ کی چوت کا جائزہ لینے‬
‫لگی۔۔اس کی چوت بہت پھولی ہوئی اور میری طرح بالوں سے پاک‬
‫تھی۔۔ میں نے اس کی پھدی میں ایک انگلی ڈالی تو اس نے اپنی‬
‫ٹانگوں کو مزید کھول دیا۔۔۔ اب میں نے اس کی "او "شیپ کی گانڈ‬
‫علحیدہ کیئے۔۔۔اور مسز جمال کی گانڈ چیک کرنے‬ ‫کے دونوں پٹ ٰ‬
‫لگی۔۔۔اُف ف فففف ۔۔مسز جمال کی گانڈ نارمل سے زرا زیادہ کھلی‬
‫تھی۔۔۔مطلب انہوں نے خوب رج کے گانڈ مروائی تھی۔۔۔مسز جمال‬
‫کی پھدی و گانڈ کا اچھی طرح جائزہ لینے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میں نے ان‬
‫کے گانڈ کے سوراخ پر تھوکا۔۔۔۔اور ایک انگلی ان آؤٹ کرنے لگی۔۔‬
‫اسی اثنا میں مجھے اپنی پھدی پر سرسراہٹ سی محسوس ہوئی۔۔۔میں‬
‫نے منہ موڑ کر دیکھا تو جمال زبان نکالے میری پھدی چاٹ رہا‬
‫تھا۔۔۔۔۔اب پوزیشن یہ تھی کہ میرے آگے مسز جمال عدیل کا لن چوس‬
‫رہی تھی جبکہ ا س کے عین پیچھے میں اس کی پھدی چاٹ رہی‬
‫تھی اور میرے پیچھے جمال میری گیلی پھدی پر زبان مار رہا تھا‬
‫ت حال زیادہ دیر تک برقرار نہ رہی۔۔۔۔۔اچانک مجھے‬ ‫۔۔لیکن یہ صور ِ‬
‫اپنی پھدی میں جمال کا لنڈ سرکتا ہوا محسوس ہوا۔۔ اس پر میں نے‬
‫ُمڑ کر اس کی طرف دیکھا تو وہ گھسہ مارتے ہوئے بوال۔۔۔۔سوری‬
‫مجھ سے رہا نہیں گیا۔۔۔ آئی لو فکنگ۔۔۔ تو میں سسکی لیتے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔۔۔تیز تیز گھسے مار۔۔۔۔اور اس نے ایسا ہی کیا۔۔۔اس کے تیز‬
‫تیز گھسوں سے دھپ دھپ کی مخصوص آواز سنائی دینا شروع ہو‬
‫گئی جسے سن کر مسز جمال میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے‬
‫لگیں۔۔۔مائینڈ نہ کرنا ۔۔۔ میرا خاوند بڑا اتاؤلہ ہے۔۔۔۔ اس کا بس چلے‬
‫تو پھدی میں گھس جائے تو میں اس سے کہنے لگی۔۔اٹس اوکے ۔۔۔‬
‫مجھے بھی پھدی مروانے میں مزہ آ رہا ہے۔۔تو وہ کہنے لگی اگر‬
‫ایسی بات ہے تو میں بھی تیرے دوست کا لن لینے لگی ہوں۔۔۔ چنانچہ‬
‫وہ میرے سامنے صوفے سے نیچے اتری اور عدیل کو سیدھا‬
‫بیٹھنے کو بولی۔۔۔ جیسے ہی عدیل سیدھا بیٹھا۔۔۔۔ تو مسز جمال نیچے‬
‫نیچے جھکی اور اس کے لن پر تھوک لگا کر جیسے ہی اسے پھدی‬
‫میں لینے لگی۔۔۔۔‬
‫تو عدیل جلدی سے بوال۔۔ میں پیچھے سے کروں گا عدیل کی بات‬
‫سن کر مسز جمال خوشی سے بولی۔۔اوکے پہلے میری بیک ڈور یوز‬
‫کر لو۔۔۔اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی انگلیوں پر کافی سارا تھوک‬
‫لیا۔۔۔یہ تھوک اپنی گانڈ کے سوراخ پر مل دیا ۔۔۔۔جب اس کی گانڈ‬
‫اچھی طرح چکنی ہو گئی۔۔۔۔تو وہ عدیل کی طرف ُمڑی اور کہنے‬
‫لگی۔۔۔میں گانڈ میں لینے لگی ہوں۔۔اور پھر اس نے عدیل کے لن کو‬
‫اپنے ہاتھ میں پکڑا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کے موٹے ٹوپے کو اپنی گانڈ کے‬
‫سوراخ پر ایڈجسٹ کیا۔۔۔اور آہستہ آہستہ اندر لینے لگی۔۔۔۔ جیسے‬
‫جیسے عدیل کا لنڈ اس کی گانڈ میں اتر رہا رہا تھا تو اثیلہ کی دل‬
‫کش سسکیاں فضا میں گونجنے لگیں۔۔۔۔ان سسکیوں کو سن کو جمال‬
‫نے اپنی بیوی سے پوچھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس کا لن کیسا ہے؟ تو مسز جمال‬
‫اوپر نیچے ہوتے ہوئے چال کے بوال مت پوچھ ڈارلنگ مجھے بڑا‬
‫مزہ آ رہا ہے۔۔۔اور لن پر جمپ مارنا شروع ہو گئی۔۔اسی اثناء میں‬
‫مسڑ جمال نے میری پھدی سے لن نکاال۔تو میں چونک کر بولی ۔۔یہ‬
‫کیا لن کو پھدی میں رہنے دو ۔۔ مجھے مزہ آ رہا ہے تو وہ مجھ سے‬
‫کہنے لگا ۔۔۔اگر میں بھی تیرے دوست کے لن پر سواری کر لوں تو‬
‫تم ناراض تو نہیں ہو گی؟ تو میں نے اس سے کہا کہ اس میں‬
‫ناراضگی کیسی؟ سیکس میں سب چلتا ہے میری بات سن کر اس نے‬
‫مجھے ایک پپی دی۔۔۔۔اور عدیل کے لن پر سوار اثیلہ سے کہنے‬
‫لگا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے نے بھی سواری کرنی ہے تو وہ عدیل کے لن‬
‫پر بیٹھ کر بولی۔۔۔میرے سامنے کھڑے ہو جاؤ۔۔۔۔۔اور جیسے ہی جمال‬
‫اپنی بیگم کے سامنے کھڑا ہوا۔۔۔ان نے جمال کی گانڈ پر بہت سارا‬
‫تھوک پھینکا ۔۔۔اور اسے اچھی طرح چکنا کیا۔۔۔۔اور پھر عدیل کے لن‬
‫سے اُٹھ گئی اور پھر اس کے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر جمال کی گانڈ‬
‫میں فٹ کر دیا۔۔۔۔اور جیسے ہی عدیل کا سارا لن جمال کی گانڈ میں‬
‫گھسا۔۔تو وہ خوشی سے چالتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔۔واؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔۔ زبردست لن ہے۔۔۔اتنی بات‬
‫کرنے کے بعد مامی مجھ سے کہنے لگی۔۔جمال کو چودنے کے بعد‬
‫اس نے اس کی بیگم کی بھی پھدی ماری۔۔ پھر سب کی فرمائش پر‬
‫!!!!!!!!!!عدیل نے میری گانڈ بھی ماری۔۔۔۔۔یوں کہانی ختم پیسہ ہضم‬
‫تب میں نے مامی کو کھینچ کر اپنی طرف کیا اور ان سے بوال ۔۔ایک‬
‫کہانی ختم تو دوجی شروع ہو گی مامی ! تو وہ میری پینٹ کے ابھار‬
‫کی طر ف دیکھ کر ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی ۔۔آئی تھنک‬
‫یہ کہانی پہلےسے زیادہ مزے کی ہو گی۔۔۔پھر پینٹ کے اوپر سے لن‬
‫کو پکڑ ایک لمبی سی" ہوں" کرتے ہوئے مستی سے بولی۔۔۔ یہ‬
‫صاحب کس لیئے کھڑے ہوئے ہیں؟ تو میں ان سے بوال ۔۔یہ ایک‬
‫حسین خاتون کی حسین پھدی کے احترام میں کھڑے ہوئے ہیں۔۔اور‬
‫دوجی کہانی کا اختتام انہی سے ہو گا۔۔۔ تو وہ مسکراتے ہوئے کہنے‬
‫لگی۔۔۔یہ تو غالبا ً دیسی ککڑ نہیں ہیں؟ تو میں ان سے کہنے لگا۔۔۔ یو‬
‫نو مامی دیسی دیسی ہوتا ۔۔۔۔۔۔ اور مامی کی طرف منہ کر لیا تو‬
‫انہوں نے جلدی سے اپنے گال میرے آگے کر دیئے اور لن کو پکڑ‬
‫کو کہنے لگی دیسی ککڑ کیا کرو گے میرے ساتھ؟ تو میں ان سے‬
‫بوال دیسی ککڑ آپ کو والیتی سیکس کا مزہ دے گا۔۔۔ اس کے ساتھ‬
‫ہی میں نے ایک مناسب سی جگہ دیکھ کر گاڑی پارک کر دی اور‬
‫خود سیٹ لمبی کر کے پیچھے کی طرف ہو گیا۔۔اور ان کو لن‬
‫چوسنے کی دعوت دی۔۔۔تو وہ میرے لن کی طرف جھکتے ہوئے‬
‫بولیں۔۔۔۔اسے باہر تو نکال لینا تھا۔۔۔تو میں ان سے بوال چونکہ آپ نے‬
‫چوسنا ہے اسلیئے شیر کو پنجرہ سے باہر آپ کو ہی نکالنا ہو‬
‫گا۔۔۔میری بات سن کر انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہنے‬
‫لگیں۔۔میری ایک دوست ہے پلوی جسے تم بائی نیم جانتے ہو ۔۔تو‬
‫میں نے اثبات میں سر ہال ددیا تو وہ کہنے لگی۔۔ہاں تو میں کہہ رہی‬
‫تھی کہ میری اس دوست کو مرجھایا ہوا لن منہ میں لینا اور پھر‬
‫اسے منہ میں ہی بڑا کرنا بہت پسند ہے۔تو میں نے ان سے کہا کہ‬
‫آپ کو کیسا پسند ہے؟ تو وہ کہنے لگی لن ۔۔۔ایک مزے دار شے ہے‬
‫یہ چاہے بیٹھا ہویا کھڑا ۔۔۔مجھے تو اسے ہاتھ میں پکڑ کر‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے منہ میں لے کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور خاص کر خاص جگہ میں‬
‫لے کر۔۔۔۔تو میں ان کی بات کاٹ کر بوال۔۔۔ مامی جی خاص جگہ‬
‫سے آپ کی کیا مراد ہے؟ تو وہ ہنس کر کہنے لگیں۔۔۔خاص جگہ‬
‫سے مراد تمہاری پسندیدہ جگہ پھدی۔۔۔اور گانڈ بھی ہو سکتی ہے۔۔اس‬
‫کے ساتھ ہی انہوں نے ایک نظر گاڑی کے باہر دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر‬
‫اپنی زبان نکال کر لن کے گرد پھیرنا شروع ہو گئیں۔۔۔وہ اپنی زبان‬
‫کو میرے لن خاص کرٹوپے کے ارد گرد بڑی مہارت سے گھما‬
‫رہیں تھیں ۔۔جس کی وجہ سے میں مستی اور سرور کی وادیوں میں‬
‫ڈوبتا چال جا رہا تھا۔پھر انہوں نے لن پر تھوک پھینکا ۔۔اور مجھ سے‬
‫کہنے لگیں کیا خیال ہے لن کو چوس نہ لیا جائے؟ تو میں نے ان‬
‫سے پوچھا تو ابھی آپ کیا کررہی تھیں۔۔۔تو وہ کہنے لگیں ابھی میں‬
‫تیرے لن کے ساتھ کھیل رہی تھی۔۔پھر انہوں نے اپنا پورا منہ کھوال‬
‫اور لن کو منہ میں لے کر چوسنا شروع ہو گئیں۔۔اٖ ففففف ۔۔۔امریکن‬
‫پلٹ مامی بڑا ہی کمال لن چوس رہیں تھیں۔۔جس کی وجہ سے میرے‬
‫منہ سے سسکاریاں نکلنا شروع ہو گئیں۔۔۔کچھ دیر تک تو وہ میری‬
‫ان سسکایوں کو انجوائے کرتی رہیں۔۔۔پھر انہوں نے اپنے گرم منہ‬
‫سے میرا تنا ہوا لن نکاال اور کہنے لگیں۔۔ کسی دن میں تمہیں اپنی‬
‫گانڈ کا مزہ دوں گی تو دیکھنا تم اس سے ڈبل سسکیاں لو گے۔۔۔اس‬
‫پر میں ان سے بوال ۔۔۔آپ ابھی گانڈ مزہ دے دو نا۔۔تو وہ کہنے لگیں‬
‫کیسے دوں جگہ تنگ ہے۔۔۔ تو میں ان سے بوال کیا آپ کی گانڈ بھی‬
‫تنگ ہے تو وہ کہنے لگیں ہر گز نہیں۔۔۔میری تنگ نہیں ہے لیکن‬
‫مجھے لن صاحب کو انجوائے کرانا خوب آتا ہے اس کے بعد انہوں‬
‫نے اپنا سراُوپر اُٹھایا۔۔۔اور مجھ سے کہنے لگیں۔۔۔ منہ میں ہی چھوٹو‬
‫گے یا پھدی میں؟ تو میں ان سے بوال اگر پھدی مل جائے ۔۔۔تو وہ‬
‫کہنے لگی اوکے تم پھدی مار لو۔۔۔اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا‬
‫آزار بند کھوال ۔۔۔ اور شلوار ٹخنوں تک کر کے بولی ۔۔۔لیکن پہلے‬
‫میری پھدی کے ساتھ کھیل۔۔۔ان کی بات سن کر میں نے اپنی سیٹ‬
‫اوپر کی ۔۔۔ ۔ ان کی پھدی صاف ۔۔قدرے لمبوتری۔۔ اور دانہ بہت موٹا‬
‫تھا ۔۔ ان پیاری سی پھدی کو غور سے دیکھنے کے بعد ۔۔۔۔۔ میں نے‬
‫اپنی دو انگلیوں پر تھوک لگا یا۔۔۔۔اور ان چکنی انگلیونکو ۔۔۔۔۔۔ان کے‬
‫دانے پر رکھ دیا۔۔اور اسے مسلنے لگا۔۔۔۔ ایسا کرنے سے وہ ہلکی‬
‫سی کراہیں۔۔۔ہائے جان۔۔۔مزہ آ رہا ہے ۔۔پھر میں نے یہی دو نگلیاں‬
‫دانےسے ہٹا کر ان کی پھدی میں ڈال دی۔۔اور انگلیوں کو ان آؤٹ‬
‫کرنے لگا۔۔۔ میری اس حرکت سے وہ بہت خوش ہوئیں۔۔۔اور خود‬
‫بھی نیچے سے ہلنا شروع ہو گئیں لیکن تھوڑی ہی دیر بعد جب ان‬
‫کی پھدی تنگ ہونا شروع ہو گئیں۔۔۔۔تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ‬
‫لیا۔۔۔اور کہنے لگیں۔۔ انگلیاں باہر نکالو تو میں ان سے بوال وہ کیوں‬
‫جی؟ تو وہ شہوت بھرے لہجے میں بولیں۔۔۔۔ میری پھدی تیار ہو گئی‬
‫ہے تو میں نے بھی شہوت بھرے لہجے بوال۔۔۔۔ آپ کی پھدی کس‬
‫لیئے تیا ر ہو گئی ہے تو وہ شہوت سے چور لہجے میں بولیں بہن‬
‫چود تیرے لن کے لیئے بلکل ریڈی ہے چل جلدی سے اند ر ڈال۔۔‬
‫پھر کہنے لگی تم سیٹ کو تھوڑا پیچھے کر میں تیرے لن پر بیٹھوں‬
‫گی۔۔۔۔ اسکے بعد میں نے اپنی سیٹ کو تھوڑا سا پیچھے کیا۔ تو وہ‬
‫ادھر ادھر دیکھ کر میرے اوپر آ گئیں۔۔۔۔اور لن کو پکڑ کر بولیں یہ‬
‫ابھی بھی تنا ہوا ہے تو میں ان سے بوال۔۔۔ یہ سب آپ کی پھدی کی‬
‫گرمی ہے میری بات سن کر انہوں نے اپنی دو انگلیوں پر تھوک‬
‫لگایا ۔۔۔اور پھر وہی تھوک میرے ٹوپے پر لگا کر بولی۔۔۔ اب میں‬
‫تیرے لن پربیٹھنے لگی ہوں۔۔اور پھر اپنی دونوں ادھر ادھر کر کے‬
‫اپنی پھدی کو عین میرے لن کی سیدھ میں لے ائیں اور پھر آہستہ‬
‫اہستہ اس پر بیٹھنا شروع ہو گئیں۔۔ جب سارا لن ان کی پھدی میں گم‬
‫ہو گیا تو انہوں نے ہلکی سی چیخ ماری اور کہنے لگیں۔۔۔ میں نے‬
‫تیرا سارا لال اندر لے لیا ہے۔۔انتی بات کروہ میرے ساتھ لپٹ‬
‫گئیں۔۔اور میرے لن پر اوپر نیچے ہونے لگیں۔انہوں نے اپنے دونوں‬
‫ہاتھ میری گردن میں باہیں حمائل کیئے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بڑے ڈیسنٹ‬
‫طریقے سے اوپر نیچے ہو رہیں تھیں۔۔۔۔اور میں آنکھیں موندیں ان‬
‫کے اوپر نیچے ہونے کو انجوائے کر رہا تھا۔۔کار میں سیکسی‬
‫ماحول چھایا ہوا تھا۔اس کی گرم گرم آہیں مجھے مست کر رہیں‬
‫تھیں۔۔۔۔۔ کہ اچانک میری چھٹی حس نے مجھے سگنل دینا شروع کر‬
‫دئے لیکن میں مامی کے ڈینٹک گھسوں کو انجوائے کر رہا تھا۔۔اس‬
‫لیئے اس طرف زیادہ دھیا ن نہ دیا۔۔۔۔۔۔ "بمب" تو اس وقت پھوٹا جب‬
‫کسی نے بڑے بھونڈے طریقے سے ہماری سائیڈ مرمر بجا۔۔۔۔۔اور‬
‫اس نے اتنے ذور سے بجا۔۔۔۔۔۔ کہ۔۔۔۔ہم دونوں نے چونک کرگاڑی‬
‫کے باہر دیکھا۔۔تو سائیڈ مرمر پر دو پولیس والے کھڑے تھے۔۔پولیس‬
‫کو دیکھتے ہی میری تو بنڈ پھٹ گئی۔۔۔ یہی حال مامی کا ہوا۔۔اور وہ‬
‫میرے اوپر بیٹھے بیٹھے چال کر بولی۔۔۔ بھاگ سالے بھاگ۔۔ورنہ‬
‫لینے کے دینے پڑ جائیں گے۔ان کی بات سن کر میں نے اگنیشن کی‬
‫طرف ہاتھ بڑھایا۔۔۔اور چابی گھمائی۔۔۔تو انجن اسٹارٹ نہ ہوا۔۔۔ اس پر‬
‫مامی خوف زدہ آواز میں بولی۔۔۔۔۔۔۔کک کیا ہوا؟ تو میں ان سے بوال‬
‫۔۔گگ گاڑی اسٹارٹ نہیں ہو رہی۔۔۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔اوہ شٹ۔۔۔ کچھ‬
‫کر ۔۔۔۔کچھ کر۔۔۔میں نے ایک بار پھر اگنیشن میں چابی‬
‫گھمائی۔۔۔لیکن۔۔۔ گاڑی اسٹارٹ نہ ہوئی۔۔۔۔۔اب میں گھبرا کر مامی سے‬
‫بوال۔۔۔ مامی گاڑی۔۔۔ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا ۔۔ کہ ایک موٹا سا‬
‫سپاہی۔۔۔۔۔۔گن کی بیک سائیڈ سے سائیڈ مرمر پردےماری۔۔۔ ٹھس کی‬
‫آواز آئی اور شیشے پر کریک پڑ گیا۔۔۔اس پر مامی چال کر‬
‫بولی۔۔۔شیشہ ٹوٹ گیا تو ہم لوگ بے موت مر جائیں‬
‫گے۔۔پلیززززززززز کچھ کر۔۔اتنی دیر میں اسی موٹے سپاہی نے‬
‫بندوق کا بٹ اُٹھایا۔۔اور فل زور سے شیشے پر مارنے کے لیئے‬
‫دوڑا۔۔۔۔۔۔۔۔اسی وقت گاڑی میں چھناکے کی آواز سنائی دی۔۔۔۔۔۔اور‬
‫اس‬

‫کے ساتھ ہی مامی کی خوف سے بھر پور چیخ فضا میں‬


‫گونجی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے مامی کی طرف‬
‫دیکھا۔اوررررررررررررررررررررررررررررررر‬

‫)آخری قسط(‬

‫مامی کی چیخ کے ساتھ ہی میں نے آخری چارے کے طور پر‬


‫ایگنیشن میں چابی گھمائی۔۔۔گھررررررررر۔۔کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔‬
‫۔۔۔اور ایک دم سے گاڑی اسٹارٹ ہو گئی گاڑی سٹارٹ ہوتے ہی میں‬
‫نے فاتحانہ نظروں سے مامی کی طرف دیکھا جو کہ میری گود میں‬
‫لن لیئے بیٹھی تھی تو وہ اسی وقت چال کر بولیں۔۔۔۔۔بھاگ حرامی۔۔۔‬
‫۔۔۔۔۔ بھاگ۔۔۔۔۔اور اس سے پہلے کہ وہ موٹا سپاہی ٹوٹے ہوئے شیشے‬
‫سے ہاتھ ڈال کر دروازے کا الک کھولتا ۔۔۔ میں نے گئیر لگاکر ۔۔۔۔۔‬
‫فل ایکسیلیٹر دے دیا۔۔۔ گاڑی نے خوف ناک آواز کے ساتھ ایک‬
‫جھٹکا مارا۔۔۔۔۔۔اور بھاگنا شروع ہو گئی۔۔۔ خوف ناک آواز سے‬
‫بھاگنے کا یہ فائدہ ہوا ۔۔۔۔۔۔کہ وہ سپاہی جو کہ ٹوٹے ہوئے شیشے میں‬
‫ہاتھ ڈال کر دروازے کا الک کھولنے لگا تھا۔۔۔۔۔ڈر کر پیچھے ہٹ‬
‫گیا۔۔۔۔ اسی اثنا میں مامی کی خوف زدہ آواز سنائی دی وہ کہہ رہی‬
‫تھی شاہ۔۔۔۔وہ ۔۔۔وہ۔حرامزادہ ۔۔۔ گاڑی کا نمبر نوٹ کر رہا ہے تو میں‬
‫ایکسیلیٹر کو مزید دباتے ہوئے بوال۔۔۔۔ لن پہ چڑھے ۔۔۔تو وہ حیران‬
‫ہو کر بولی ۔۔کیا مطلب بعد میں تمہارے لیئے مسلہ نہیں ہو سکتا ؟ تو‬
‫میں مامی کا منہ چوم کر بوال۔۔۔۔پہلی بات تو یہ ہے کہ گاڑی میری‬
‫نہیں۔۔۔ بلکہ میرے ایک دوست کی ہے جو کہ خود بھی حرامی ٹائپ‬
‫کا بندہ ہے اور ایف آئی اے میں کام کرتا ہے۔۔میری بات سن کر‬
‫مامی نے ایک گہری سانس لی ۔۔۔اور پھر کہنے لگی۔۔۔۔مطلب میں‬
‫بےفکر ہو جاؤں تو میں ان سے بوال ۔۔۔۔بلکل بےفکر ہو جائیں۔۔ہاں‬
‫اگر ہم موقعہ پر پکڑے جاتے تو پھر روال ہو سکتا تھا۔۔ تو وہ ہنس‬
‫کر کہنے لگی ۔۔۔۔تمہیں کیا روال ہونا تھا بنڈ تو میری " بجنی" تھی۔۔تو‬
‫میں حیران ہو کر بوال کیا مطلب ؟ تو وہ کہنی لگی الہور میں میری‬
‫ایک دوست اسی حالت میں پکڑی گئی تھی۔۔۔پولیس والوں نے ان سے‬
‫پیسے بھی لیئے۔۔۔۔اور میری دوست کو بھی چودا ۔۔۔۔۔اس پر میں ان‬
‫سے بوال فرض کریں اگر ہم دونوں پکڑے جاتے تو ؟ ۔۔۔۔۔۔۔میری بات‬
‫سن کر انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی۔۔۔۔ تمہاری جگہ‬
‫اگر کوئی اور ہوتا تو میں اس کے ساتھ ساتھ ان پولیس والوں سے‬
‫بھی چدوانا پسند کرتی ۔اس پر میں بوال۔۔ وہ کس لیئے؟ تو وہ کہنے‬
‫لگی۔۔ میری اس دوست نے بتالیا تھا کہ پولیس والوں نے اسے بڑا‬
‫رف اینڈ ٹف۔چودا تھا۔۔۔۔۔۔اس پر میں حیرانی سے کہنے لگا۔۔۔ رف اینڈ‬
‫ٹف؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔مطلب اسے چودتے وقت ننگی گالیاں دے‬
‫رہے تھے ۔۔۔۔اور دوران چودائی اس کے ساتھ انتہائی بے رحمانہ‬
‫سلوک کیا تھا وحشیوں کی طرح اس کی چھاتیاں چوسیں۔۔۔اور ان کو‬
‫چوستے ہوئے دانت بھی کاٹے۔۔۔۔۔۔زبردستی منہ میں لن ڈاال۔۔۔ اور‬
‫پورا اندر ڈالنے کے چکر میں حلق تک لے گئے۔۔۔۔۔اور ۔۔۔اور اتنی‬
‫ہی سفاکی سے اندر باہر بھی کیا۔۔۔ ۔۔۔۔ اس پر میں مامی کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔ ۔۔کیا خیال ہے واپس چلوں؟ تو وہ مست آواز‬
‫میں کہنے لگیں۔۔ نو نو آج کے دن مجھے صرف تیرا ساتھ چاہیئے تو‬
‫میں ان سے بوال میرا ساتھ کس لیئے ؟؟؟؟؟۔۔۔۔۔۔تو وہ شہوت بھرے‬
‫لہجے میں بولیں ۔۔۔۔ ۔۔۔ وہ اس لیئے میری جان!!۔۔۔۔کہ اس وقت مجھ‬
‫پر تمہاری شدید طلب چڑھی ہوئی ہے ۔۔۔۔اتنی دیر میں ہماری گاڑی‬
‫مین روڈ پر پہنچ گئی اور میں گاڑی سائیڈ پر روک کر ان سے‬
‫بوال۔۔۔۔۔ آپ اپنی سیٹ پر چلی جائیں۔۔۔۔۔۔تو وہ مخمور لہجے میں‬
‫بولیں۔۔۔ مجھے چودو گے نہیں؟ میں نے ان کی فٹ بال جیسی‬
‫چھاتیوں کی طرف دیکھا اور اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر کر بوال ۔۔۔۔‬
‫آپ کی رس بھری جوانی کا رس پینے سے کوئی کافر ہی انکار کر‬
‫سکتا ہے۔۔تو وہ الڈ بھرے لہجے میں کہنے لگی ۔۔‬

‫۔کافر نہ بن۔۔۔بلکہ۔۔میری جوانی کا سارا رس نچوڑ لے۔۔۔پھر شہوت‬


‫سے چور لہجے میں بولیں ۔۔۔ میں بہت گرم ہوں جان!!!! مجھے چود‬
‫کے ٹھنڈا کر۔۔۔۔۔۔اتنا چود کہ میری پھدی کا پھدا بن جائے۔۔۔ تو میں ان‬
‫سے بوال میں کچھ کرتا ہوں۔۔۔۔ پہلے آپ لن سے تو اتریں ۔۔۔میری‬
‫بات سن کر وہ جمپ مار کر میرے ساتھ والی سیٹ پر بیٹھ گئیں‬
‫۔۔۔تاہم انہوں نے شلوار پہننے کی زحمت گوارہ نہیں کی۔۔۔ اور سیٹ‬
‫پر بیٹھتے ہی بولی۔۔۔ چلو !!! ۔۔اور میں دل ہی دل میں سوچ رہا تھا‬
‫کہ آنٹی کو لے کر جاؤں تو کہاں جاؤں ؟؟؟۔۔۔کہ اچانک میرے دماغ‬
‫میں رمشا کی ماما آ گئی جنہوں نے مجھ سے ہ ہاؤسنگ سوسائیٹوں‬
‫کی درختوں والی جگہ پر چدوایا تھا۔ وہ جگہ یاد آتے ہی میں نے‬
‫گاڑی کو ان سوسائیٹیز کی طرف موڑ دیا۔۔۔۔۔مجھے گاڑی موڑتے‬
‫دیکھ کر وہ بڑے اشتیاق سے کہنے لگیں لگتا ہے تیرے دماغ میں‬
‫کوئی جگہ آ گئی ہے۔تو میں ان سے بوال جی ایک جگہ دھیان میں‬
‫آئی تو ہے۔۔۔۔۔۔میری بات سن کر وہ مطمئن ہو گئیں۔۔۔۔اور میری‬
‫دونوں ٹانگوں کے بیچ میں ہاتھ لے جا کر لن پکڑ لیا۔۔۔اور اسے‬
‫سہالتے ہوئے۔۔ بولیں۔۔۔ارے یہ تو مرجھا گیا ہے۔۔۔ تو میں ان سے‬
‫بوال۔۔ آپ اسے دوبارہ زندہ کر دیں۔ ۔۔۔۔ انہوں نے شہوت بھری‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھا اور پھر کہنے لگیں ۔۔۔ اسے منہ سے‬
‫زندہ کرنا ہے یا پھر ہاتھ سے؟ تو میں ان سے بوال کہ ۔۔۔نہ منہ سے‬
‫نہ ہاتھ سے۔۔۔ اگر آپ زبان سے چاٹو گی۔۔۔۔۔۔ تو مزہ آ جائے‬
‫گا۔۔۔میری بات سن کر میڈم نے اپنے منہ سے زبان نکالی اور میرے‬
‫سامنے لہراتے ہوئے بولیں۔۔۔تجھے میری زبان پسند آئی ہے۔۔؟؟؟ تو‬
‫میں ان سے کہنے لگا۔۔۔۔۔ زبان ہی نہیں میڈم ۔۔۔۔ مجھے تو آپ کی‬
‫پھدی بھی بڑی پسند آئی ہے تو وہ اٹھالتے ہوئے بولی میری پھدی‬
‫میں ایسی کیا خاص بات ہے جو تمہیں پسند آ گئی؟؟؟۔۔ تو میں ان سے‬
‫کہنے لگا۔۔۔آپ کی پھدی باقی لیڈیز کی نسبت بہت گرم اور پانی بہت‬
‫چھوڑتی ہے ۔۔۔۔ ۔۔۔۔اور آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ۔۔۔۔۔ میرے لن کو گرم‬
‫پانی کے تاالب میں تیرنے کا بہت مزہ آتا ہے۔ میری بات سن کر وہ‬
‫نیچے جھکنے کی بجائے میرے گالوں پر زبان پھیر کر بولی۔۔۔جانتے‬
‫ہو ناں کہ میں بہت گرم لیڈی ہوں۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔اس لیئے میری پھدی بھی‬
‫گرم ہے تو میں ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن کی طرف لے گیا۔۔۔ جو‬
‫اس وقت نیم کھڑا تھا ۔۔۔اور اس پر ہاتھ رکھ کر بوال۔۔۔ ابھی یہ ابھی‬
‫پوری طرح کھڑا نہیں ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔زرا اس کی گرمی بھی مالحظہ کرو‬
‫۔۔۔تو وہ میرے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ہالتے ہوئے بولی۔۔۔میں اس کی‬
‫اکڑاہٹ اور گرماہٹ ہی چیک کرنے آئی ہوں ۔۔۔پھر کہنے لگی ۔۔۔ وہ‬
‫یہاں سے جگہ کتنی دور ہے؟ تو میں ان سے بوال۔۔۔آپ دو منٹ کے‬
‫لیئے میرا لن چاٹو۔۔۔۔جگہ آ جائے گی۔۔۔میری بات سن کر انہوں نے‬
‫اپنے دونوں ہونٹ جوڑ کر میرے ہونٹوں پر رکھے اور مختصر سی‬
‫چمی دے کر نیچے جھک گئی۔۔۔۔اور بڑے مزے سے لن کو چاٹنا‬
‫سرور‬
‫شروع ہو گئی۔۔ وہ میرے لن کو چاٹتی رہی اور میں لذت اور ُ‬
‫سے بھری سسکیاں بھرتا ہوا گاڑی چالتا رہا ۔۔۔ لن چاٹنے کے کچھ‬
‫دیر بعد وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولیں اور کتنی دور ہے؟ تو میں‬
‫ان سے بوال کیوں بہت جلدی ہے؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔ جلدی مجھے‬
‫نہیں۔۔۔۔۔ میری پھدی کو ہے یقین کرو ۔ تیرے لن کے لیئے دھائیاں‬
‫دے رہی ہے۔ تو میں ا ن سے بوال۔۔۔ بس تھوڑا سا اور چاٹیں ۔۔۔۔ جگہ‬
‫آ جائے گی میری بات سن کر وہ دوبارہ نیچے جھکی۔۔۔اور ٹوپے کو‬
‫چاٹنا شروع ہو گئی۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد میں گاڑی کو لیئے انہی‬
‫درختوں میں پہنچ گیا کہ جہاں پر میں دو تین دفعہ پہلے بھی رمشا‬
‫کی ماما کو چود چکا تھا۔۔۔۔۔چنانچہ درختوں کے جھنڈ میں پہنچ کر‬
‫جیسے ہی میں نے گاڑی کی بریک لگائی تو وہ لن سے سر اُٹھا کر‬
‫بولی۔۔۔۔ ۔۔۔ لگتا ہے مطلوبہ جگہ آ گئی ہے۔۔۔ تو میں ان سے بوال خود‬
‫ہی دیکھ لیں۔۔۔ چنانچہ میرے کہنے پر انہوں نے آس پاس کے ماحول‬
‫کا جائزہ لیا اور پھر کہنے لگی بظاہر تو جگہ بہت محفوظ ہے۔۔پھر‬
‫بولیں۔۔۔ پتہ ہے جس طرح تمہیں گرم پانی کے تاالب میں نہانے کا‬
‫مزہ آتا ہے ۔۔ٹھیک اسی طرح۔۔۔۔مجھے بھی اوپن ائیر سیکس کرنے‬
‫کا بہت شوق ہے۔۔۔۔۔ پھر میرا ہاتھ پکڑ کر بولیں ۔۔ میری پھدی چیک‬
‫کرو ۔۔۔۔۔ میں اپنے ہاتھ کو ان کی ننگی پھدی پر لے گیا۔۔۔وہ درست‬
‫کہہ رہیں تھیں۔۔۔واقعی میں ان کی پھدی بہت ہی تپی ہوئی تھی۔۔۔ سو‬
‫میں نے ان کی پھدی پر ہاتھ پھیرا اور کہنے لگا۔۔۔ ۔۔ آپ کی چوت تو‬
‫بہت گرم ہے تو شہوت بھرے لہجے میں بولیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک انگلی‬
‫اندر ڈال کر دیکھو ۔۔۔ کتنے بھانبڑ مچے ہوئے ہیں ۔۔ میں نے اپنی‬
‫ایک انگلی ان کی چوت میں ڈال دی۔۔۔اُف ف فف ف ف ف فف فف‬
‫فف ف ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُف ان کی پھدی تو ایک طرف۔۔۔۔۔۔۔۔پھدی کا پانی بھی‬
‫بہت گرم تھا ۔۔۔ اس پر میں نے ان کی طرف دیکھا اور کہنے لگا۔۔۔۔‬
‫اندر سے بھی آپ کی پھدی بہت ہاٹ ہے۔۔۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔میری‬
‫پھدی میں انگلیاں مار۔۔۔۔ اور میں نے دو انگلیوں کو ان کے اندر ڈاال‬
‫اور ان آؤٹ کرنے لگا تو تھوڑا موڈ میں کہنے لگی۔۔۔‬

‫کبھی کسی پھدی میں انگلی نہیں ماری ؟ تو میں ان سے بوال بہت‬
‫دفعہ ماری ہے تو وہ خفگی سے بولیں۔۔۔۔تو گانڈو ٹھیک سے انگلی‬
‫مار نا۔۔۔ تو اس پر میں بوال۔۔۔ مار تو رہا ہوں ۔۔۔تو وہ کہنے لگی جس‬
‫طرح تو انگلی مار رہا ہے اس طرح پھدی میں لن ڈالتے ہیں تو میں‬
‫ان سے بوال ۔۔۔اس طرح لن ڈالنے سے مزہ نہیں آتا ؟ تو وہ کہنے‬
‫لگی۔۔۔۔۔بہن چود ۔۔۔۔۔ لن کا اپنا مزہ ہے۔۔۔۔۔۔انگلی کا اپنا ۔۔۔۔ پھر مجھے‬
‫گائیڈ کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔اپنی انگلی کو پھدی کی ہڈی سے اوپر کی‬
‫طرف کر کے ذور سے ان آؤٹ ۔۔۔۔۔۔تو میں ان سے بوال ۔۔۔۔اس سے‬
‫کیا ہو گا؟ تو وہ نشیلی آواز میں کہنے لگیں ۔۔۔اس طرح انگلی مارنے‬
‫سے ۔۔۔۔۔۔ میں تو کیا۔۔۔۔۔۔ہر عورت مزے سے پاگل ہو جاتی ہے۔۔۔اور‬
‫یہ ایسا مزہ ہوتا ہے کہ جو کوئی بھی لن نہیں دے سکتا۔۔۔ ان کی بات‬
‫سن کر میں بوال ۔۔۔آپ سیٹ کو پیچھے کر و ۔۔۔میں انگلی مارتا‬
‫ہوں۔۔۔چنانچہ انہوں نے سیٹ کو پیچھے کیا اور دونوں ٹانگیں ہوا میں‬
‫بلند کر کے انہیں کھولتے ہوئے بولیں۔۔۔۔۔۔جلدی ڈال۔۔۔چنانچہ میں نے‬
‫پہلے تو اپنی دو انگلیاں ان کے منہ میں ڈال کر چکنی کیں ۔۔پھر یہی‬
‫انگلیاں ان کی پھدی میں ڈال کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔حسب ہدایت اوپر کی طرف ان‬
‫آؤٹ کرنا شروع ہو گیا۔۔۔۔ وہ درست کہہ رہیں تھیں۔۔۔میرے ایسا‬
‫کرنے سے تھوڑی ہی دیر بعد۔۔۔۔ مامی کے منہ سے سسکیاں نکلنا‬
‫شروع ہو گئیں۔۔۔۔اور وہ بولی۔۔۔یس۔۔۔۔ایسے انگلی مارو۔۔۔۔ا ُف‬
‫۔۔۔۔آہ۔۔۔پھر کہنے لگیں۔۔۔اور تیز مار۔۔۔۔اور تیزززززززز۔۔۔اور ۔۔۔۔تیز‬
‫اور جب میں نے تیزی کی حد کر دی تو اس سے تھوڑی دیر بعد۔‬
‫انہوں نے ایک زبردست سی چیخ ماری اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔پھر چڑھتی ہوئی‬
‫سانسوں میں ایک بڑا سا آرگیزم کر دیا۔۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی میں نے‬
‫ان کی پھدی سے انگلیاں باہر نکالیں ۔۔۔تو وہ جمپ مار کر سیٹ سے‬
‫اُٹھیں۔۔۔۔اور فورا ً ہی ۔۔۔۔۔ میرے لن پر جھک گئیں۔۔۔۔ اس پر بہت‬
‫تھوک پھینکا۔۔پھر اسے پورے لن پر مل دیا ۔۔۔۔اور بنا کوئی بات‬
‫کیئے میرے اوپر چڑھ گئیں پھر اپنی دونوں ٹانگوں کو ادھر ادھر کر‬
‫کے ۔۔۔۔۔میرے لن کو اپنی پھدی میں لے کر۔۔۔۔۔۔۔ میرے ساتھ چمٹ‬
‫گئیں۔۔۔اور لن پر بیٹھے بیٹھے ہپس کو آگے پیچھے کرنے لگیں۔۔۔۔‬
‫کبھی تو وہ لن پر بیٹھ کر جمپیں مارتیں ۔۔۔اور کبھی۔۔ اسے اندر لیئے‬
‫ہپس کو آگے پیچھے کرتیں۔۔۔۔اس وقت وہ لن پر ہپس کو رکھے آگے‬
‫پیچھے ہو رہیں تھیں کہ اچانک ان کے گھسوں کی رفتار تیز ہو‬
‫گئی۔۔۔اور وہ اونچی آواز میں سسکیاں لینے لگیں۔۔۔۔ پھر جیسے‬
‫جیسے ہپس ہالنے کی رفتار تیز سے تیز تر ہوتی گئی۔۔۔۔۔۔ویسے‬
‫ویسے ان کی سسکیاں چیخوں میں بدلنا شروع ہو گئیں۔۔ اس کے ساتھ‬
‫ساتھ نیچے سے ان کی پھدی بھی ٹائیٹ ہونا شروع ہوگئی۔۔۔۔۔اور‬
‫پھرررررررررررررررر۔۔۔۔۔ایک دفعہ۔۔۔۔پھر انہوں نے تیز تیز‬
‫سانسوں میں ایک ۔۔۔۔ زبردست سی چیخ ماری۔۔۔ اور اس آخری چیخ‬
‫کے ساتھ ہی ۔۔۔وہ چھوٹنا شروع ہو گئیں۔۔۔ ۔۔۔ان کی پھدی نے ڈھیر‬
‫سارا پانی چھوڑا۔۔۔۔۔لیکن میں دوسری طرف میں ابھی تک نہیں‬
‫چھوٹا تھا۔۔وہ کچھ دیر تک لن پر ہی بیٹھی اپنے سانس بحال کرتی‬
‫رہیں۔۔۔۔ اور جب ان کی سانسیں کچھ بحال ہوئیں تو وہ مجھ سے‬
‫کہنے لگیں۔۔۔۔تیرا ہو گیا؟ تو میں نےنفی میں سر ہال۔۔۔۔یہ دیکھتے ہی‬
‫وہ تیزی سے نیچے اتریں ۔۔۔اور لن کو منہ میں لے کر چوسنا شروع‬
‫کر دیا۔۔۔وہ لن کو پاگلوں کی طرح چوس رہیں تھیں۔۔ کہ اس دوران‬
‫میرے لن میں کچھ ارتعاش سا پیدا ہوا۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی لن ان‬
‫کے منہ میں ہی پھولنا شروع ہو گیا۔۔۔اور پھر ان کی طرح ۔۔۔۔ میں‬
‫نے بھی ایک چیخ ماری۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور ان کے‬
‫منہ میں ہی چھوٹنا شروع ہو گیا‪ -‬۔‬

‫واپسی پر وہ مجھ سے کہنے لگیں۔۔ آج بڑے عرصے کے بعد میں‬


‫نے بڑا زبردست آگیزم کیا ہے ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے میرے‬
‫جسم سے کوئی بہت بڑا بوجھ اتر گیا ہو۔۔۔۔۔جس کی وجہ سے میں‬
‫ہلکی پھلکی ہو گئی ہوں۔۔۔۔پھر مجھ سے کہنے لگیں ۔۔اب تمہارا کیا‬
‫پروگرم ہے؟ تو میں گاڑی کے ٹوٹے ہوئے شیشے کی طرف اشارہ‬
‫کر تے ہوئے بوال۔۔۔آپ کو اتارنے کے بعد میں اس میں نیا شیشہ ڈلوا‬
‫کے گاڑی دوست کو واپس کروں گا تو وہ کہنے لگی تو کیا وہ اسی‬
‫حالت میں گاڑی نہیں لے گا؟ تو میں کہنے لگا ۔۔۔لے تو لے گا لیکن‬
‫مجھے اچھا نہیں لگے گا۔۔۔ کہ ایک تو اس کی گاڑی استعمال کروں‬
‫اور دوسرا ٹوٹے شیشے کے ساتھ گاڑی اس کے حوالے کروں‬
‫۔۔۔میری بات سن کر وہ کہنے لگیں کہہ تو تم ٹھیک رہے ہو۔۔ ایسے‬
‫ہی چلتے ہوئے ہم ان کے گھر کے قریب پہنچ گئے تو گھر سے‬
‫تھوڑی دور اترتے ہوئے اچانک ہی انہوں نے سو ڈالر گاڑی کی‬
‫سیٹ پر رکھے اور یہ کہہ کر چلتی بنی کہ شیشہ میری طرف سے‬
‫ڈلوا لینا ۔۔۔ انہوں نے یہ حرکت اتنی تیزی سے کی کہ میں جواب میں‬
‫کچھ بھی نہ کر سکا۔۔۔ خیر میں نے ان کے سو ڈالر جیب میں ڈالے‬
‫اور "سلطان کے ک ُھوہ" سے نیا شیشہ ڈلوا کے دوست کو گاڑی واپس‬
‫ت حال خاص کر نمبر نوٹ‬ ‫کی اور اس سے ساتھ ساتھ ساری صور ِ‬
‫کرنے والی بات بھی بتائی تو پہلے تو وہ شیشہ ڈالنے سے تھوڑا سا‬
‫خفا بھی ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر نمبر نوٹ کرنے والی بات پر ہنس کر‬
‫بوال۔۔۔۔فکر نہ کر یہ میرا در ِد سر ہے اب تو یہاں سے دال فے عین‬
‫ہو جاؤ۔ چنانچہ میں دوست سے دفع ہو کر گھر آ گیا اور وہاں سے‬
‫نہانے دھونے کے بعد شام کو دوبارہ عدیل کے گھر چال گیا کہ میں‬
‫نے گوری میم صاحب کو ان کی "دوائی " بھی دینی تھی۔۔۔ عدیل کے‬
‫گھر حسب ِ معمول میلہ لگا ہوا تھا ۔۔مامی باجی صائمہ اور آج تو‬
‫مجھے فرزند صاحب بھی نظر آئے۔۔۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی کہنے‬
‫لگے ۔۔کیا بات ہےیار ۔۔۔۔۔ تم نے کبھی چکر ہی نہیں لگایا ؟ تو میں‬
‫مامی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بوال ۔۔ جی آج کل ان کی خدمت‬
‫ہو رہی ہے تو وہ کہنے لگے اچھا ہوا کہ تم مل گئے۔۔۔۔۔پھر کہنے‬
‫لگے بات دراصل یہ ہے کہ ہم نے ممانی جی کے اعزاز میں آج‬
‫رات کا کھانا رکھا ہے۔۔ تو میں ان سے بوال۔۔۔ کہاں؟ تو وہ کہنے‬
‫لگے۔۔۔۔‬

‫ایف سیون کے اسی ہوٹل میں ہے کہ جہاں ہم عموما ً کھایا کرتے ہیں‬
‫اگر تم بھی آ جاؤ گے تو مجھے خوشی ہو گی۔فرزند صاحب کی بات‬
‫ختم ہوتے ہی صائمہ باجی جو کہ ہمارے پاس ہی کھڑی تھی ا ن کو‬
‫پکڑ کر ایک سائیڈ پر لے گئی۔۔۔۔۔۔اور وہ دونوں کافی دیر تک بحث و‬
‫تکرار کرتے رہے یہ دیکھ کر مامی میرے قریب آ کر کہنے لگی پتہ‬
‫ہے یہ لوگ کیا باتیں کر رہے ہیں؟ تو میں حیرانی سے بوال۔۔۔رئیلی‬
‫مجھے اس بارے میں بلکل علم نہیں ہے۔۔۔تو وہ مسکراتے ہوئے‬
‫بولیں۔۔۔۔۔ میرے خیال میں صائمہ اس کو کہہ رہی ہے کہ شام کو تو‬
‫میں (مامی) نے ثانیہ کا رشتہ مانگنے آنا ہے اور آپ شاہ کو انوائیٹ‬
‫کر رہے ہو۔۔۔ اس پر میں مامی کی طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔ اگر‬
‫ایسی بات ہے تو میں فرزند صاحب سے معذرت کر لیتا ہوں ۔۔اس پر‬
‫مامی ترنت ہی کہنے لگیں۔۔بلکل بھی نہیں بلکہ اگر تم کھانے میں‬
‫نہیں آؤ گے تو پھر میں بھی نہیں جاؤں گی۔۔۔ اس پر میں ان سے بوال‬
‫لیکن مامی آپ کو تو پتہ ہی ہے کہ ۔۔۔۔ رشتے واال معاملہ زیادہ اہم‬
‫ہے تو وہ کہنے لگیں۔۔ ۔۔۔ یہ اللچی لوگ اس رشتے کے لیئے مرے‬
‫جا رہے ہیں پھر کہنے لگی یقین کرو شاہ۔۔۔ اگر میں ان سے کہہ دوں‬
‫نا کہ یہ سب کے سامنے تمہیں بے عزت کر کے گھر سے نکالیں تو‬
‫مجھے پکا یقین ہے کہ یہ ایسا کرنے سے بلکل بھی دریغ نہیں کریں‬
‫گے ابھی مامی نے اپنی بات ختم کی ہی تھی کہ فرزند صاحب نے‬
‫دور سے ہی ہانک لگائی ۔۔کس بات سے دریغ نہیں ہو گا ؟ تو مامی‬
‫کہنے لگی کچھ نہیں بھائی یہ ہم دونوں کی آپسی بات ہے اس سے‬
‫پہلے کہ فرزند صاحب مجھ سے کچھ کہتے۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ انہیں لے کر‬
‫دوسرے کمرے میں چلی گئی۔۔ اسی اثنا میں صائمہ باجی میرے پاس‬
‫آ کھڑی ہوئی ان کا موڈ کچھ آف لگ رہا تھا تو میں نے ان سے‬
‫پوچھا کہ کیا بات ہے سجنوں ! آج کچھ آف لگ رہے ہو۔۔۔خیر تو‬
‫ہے؟ میری بات کا جواب دینے سے پہلے انہوں نے ایک نظر کمرے‬
‫کی طرف دیکھا کہ جہاں مامی اور فرزند باتیں کر رہے تھے۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫پھر میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔کیا بتاؤں یار ۔۔۔۔۔ میرا‬
‫میاں بھی نا۔۔۔ ایک نمبر کا احمق آدمی ہے تو میں نے اس سے‬
‫پوچھا۔۔۔ یہ انکشاف آپ پر کب ہوا ؟ ان سے شادی سے پہلے یا شادی‬
‫کے بعد؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ یہ انکشاف تو مجھ پر بہت پہلے ہو چکا‬
‫تھا۔۔۔۔ لیکن اسے منکشف آج کر رہی ہوں تو میں نے بولی۔۔۔ اتنی‬
‫گاڑھی اردو بول کے میرے ٹٹے ہوائی نہ کرو۔۔۔۔۔بلکہ مجھے یہ بتاؤ‬
‫کہ چکر کیا ہے ؟ تو وہ کہنے لگی شاید تمہیں معلوم نہیں کہ آج رات‬
‫کے کھانے پر مامی نے رسمی طور پر اپنے تانیہ کے لیئے۔۔۔۔اپنے‬
‫بھانجے کا رشتہ مانگنا تھا تو میں ان سے بوال ۔۔۔ کیا خیال ہے یہ‬
‫لوگ ہاں کر دیں گے؟ تو وہ کہنے لگیں لو کر لو گل ۔۔۔ یہ لوگ تو‬
‫میری جان۔۔۔۔ تیار بیٹھے ہیں لیکن۔۔۔۔ فرزند نے تمہیں۔۔۔ انوائیٹ کر‬
‫کے رنگ میں بھنگ ڈال دی ہے پھر بڑبڑاتے ہوئے بولی اچھی‬
‫خاصی تیری جان چھوٹ رہی تھی۔سانپ بھی مر رہا تھا اور الٹھی‬
‫بھی نہیں ٹوٹنی تھی۔۔۔۔۔۔۔ اس پر میں ان سے بوال ۔۔کہو تو میں‬
‫معذرت کر لوں؟ تو وہ کہنے لگی تم کر کے دیکھ لو۔۔۔‬

‫لیکن میرے خیال میں مامی ایسا نہیں ہونے دیں گےاس پر میں ان‬
‫سےبوال۔۔وہ کیوں جی ؟ تو باجی جواب دیتے بولیں وہ اس لیئے‬
‫میرے چاند کہ میری ممانی بہت رکھ رکھاؤ والی خاتون ہیں۔اس لیئے‬
‫وہ ایسا کبھی بھی نہیں ہونے دیں گے۔۔۔۔۔باجی سے باتیں کرتے ہوئے‬
‫اچانک ہی میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں ان سے کہنے لگا‬
‫کہ رشتہ مانگتے وقت اگر میری غیر حاضری اتنی ہی ضروری ہے‬
‫تو اس کے لیئے میرے پاس ایک قاب ِل عمل تجویز ہے اگر کہو تو آپ‬
‫کے حضور پیش کروں ۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں‬
‫ہاں بول؟۔۔۔ تو میں ان سے کہنے لگا آپ ایسا کریں کہ کھانے سے‬
‫پہلے یا بعد ۔۔ جب مامی نے رشتے والی بات کرنی ہو تو مجھے ثانیہ‬
‫کے ساتھ کسی کام کے بہانے بھیج دیں۔۔۔۔میری بات سن کر وہ‬
‫کھلکھال کر ہنسیں ۔۔۔اور پھر کہنے لگیں۔۔۔تو واقعی ہی بڑا چودو لڑکا‬
‫ہے تمہارا مطلب اسی بہانے تو اس معصوم کلی کو مسل دو۔۔۔ تو میں‬
‫ان سے بوال۔۔۔اس ریسٹورنٹ میں۔۔۔ میں بھال اس کو کہاں چودوں گا؟‬
‫ہاں کسنگ وغیرہ کی میں گارنٹی نہیں دے سکتا تو وہ کہنے لگیں‬
‫بات تو تمہاری کسی حد تک قاب ِل عمل ہے چل میں اس پر غور‬
‫کروں گی مامی اور فرزند سے مشورہ کرنے کے بعد تم کو بتاؤں‬
‫گی پھر کہنے لگی ویسے اگر تم چاہو تو اس کو چود ددددد۔۔۔اتنا‬
‫کہتے ہی ۔۔۔۔ایسا لگا کہ جیسے انہیں کوئی بات یاد آ گئی ہو۔۔۔۔۔چنانچہ‬
‫انہوں نے مجھ پر بڑی گہری نگاہ ڈالی اور پھر کہنے لگیں۔۔۔ آج‬
‫دوپہر تم مامی کو لے کر کہاں گئے تھے؟ تو میں ان سے بوال ۔۔مم‬
‫کہیں نہیں ۔۔۔پھر ان سے بوال۔۔۔لیکن آپ کیوں پوچھ رہیں ہو ؟ تو وہ‬
‫جواب دیتے ہوئے بولیں ۔۔ وہ اس لیئے میرے چاند کہ جب مامی‬
‫واپس آئیں ہیں۔۔۔ بڑی ہی خوش اور چہک رہیں ہیں۔۔۔۔اس کے ساتھ‬
‫ساتھ ان کے چہرے سے وہی اطمینان اور سکون چھلک رہا تھا جو‬
‫کہ ایک عورت کو بہت بڑے آرگیزم کے بعد۔۔۔۔۔یا پھر اپنے پسندیدہ‬
‫بندے سے پھدی مروا نے کے بعد حاصل ہوتا ہے۔۔‬

‫تو میں ان سے بوال میری پیاری باجی ۔۔۔۔۔۔ مجھے ان سے ملے‬


‫۔۔۔ابھی جمعہ جمعہ آٹھ دن بھی نہیں ہوئے۔۔۔اس لیئے۔۔۔ میں ان کا‬
‫پسندیدہ بندہ کیسے بن گیا؟ تو وہ جواب دیتے ہوئے بولیں۔۔۔وہ اس‬
‫لیئے جان جی کہ آج کل وہ تیرے بڑے گن گانے رہی ہیں ۔۔۔ پھر‬
‫آنکھیں نکالتے ہوئیں کہنے لگیں۔۔ ۔۔۔ سچ سچ بتا چکر کیا ہے؟ تو میں‬
‫انجان بنتے ہوئے بوال ۔۔چکر لن ہے آپ ایسے ہی خواہ مخواہ مجھ‬
‫معصوم پر شک کر رہی ہیں۔۔۔۔ تو وہ میرے اور نزدیک ہو کر بولیں‬
‫۔۔بکواس نہیں۔۔۔ سچ سچ بتا انہیں کہاں لے کر گیا تھا؟ تو میں ان سے‬
‫جھوٹ بولتے ہوئے بوال ۔۔۔ ایک دوست کا گھر خالی تھا وہاں لے کر‬
‫گیا تھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کیا بات ہے کہ میری بات سنتے ہی اچانک ان‬
‫کی آنکھوں میں شہوت کے الل ڈورے تیرنے لگے۔۔۔۔۔ اور وہ‬
‫بولیں۔۔ہُوں۔۔۔ تو تم نے مامی کو بھی چود لیا ۔۔ تو میں دانت نکال کر‬
‫بوال۔۔۔ آپ کی دعا سے۔۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔اچھا یہ بتا کہ تم نے اکیلے‬
‫ہی چودا ہے ۔۔۔یا دوست نے بھی مزے کیئے ہیں؟ ۔۔۔اس پر میں بوال‬
‫نہیں صرف میں نے ہی انہیں چودا ہے۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ وہ کہنے لگیں۔۔ فرزند‬
‫کے جانے کے بعد۔۔۔۔تم نے مجھے تنہائی دینی ہے۔۔ تو میں ان سے‬
‫کہنے لگا۔۔۔اتنے بندوں کے ہوتے ہوئے کیسے مرواؤ گی؟ ۔۔۔تو وہ‬
‫کہنے لگیں۔۔۔۔۔ تم نے سنا نہیں جہاں چاہ ہوتی ہے وہیں پہ راہ نکلتی‬
‫ہے ۔۔۔اس لیئے۔۔۔۔ کوئی نہ کوئی جگاڑ کر ہی لیں گے۔۔۔۔ اور تجھ‬
‫سے چدنے کے لیئے۔۔۔۔۔ میں راستہ نکال ہی لوں گی ۔۔۔ ہم یہ باتیں‬
‫کر ہی رہے تھے کہ کمرے سے مامی ۔فرزند اور آنٹی برآمد ہوئیں‬
‫۔۔۔۔ فرزند صاحب میرے پاس آئے اور کہنے لگے۔۔۔۔ کھانے پر تمہارا‬
‫انتظار کروں گا۔۔ ابھی میں کچھ کہنے ہی واال تھا کہ وہ بولے۔۔۔ نو‬
‫ایکسکیوز۔۔۔ میرے بھائی آپ نے ہر صورت آنا ہو گا۔پھر وہ ہم سب‬
‫کی طر ف ہاتھ ہالتے ہوئے وہ گیٹ کی طرف چل دیئے اور باجی‬
‫ان کو سی آف کرنے ان کے ساتھ چل دیں۔‬

‫فرزند کے جانے کے بعد آنٹی مجھ سے مخاطب ہو کر بولیں۔۔۔ بیٹا‬


‫آپ ڈرائینگ روم میں چل کر بیٹھو میں آپ کے لیئے جوس التی ہوں۔‬
‫تو مامی ہنس کر بولی ۔ کونسا جوس پال رہی ہو۔۔۔ تو آنٹی جواب‬
‫دیتے ہوئے بولیں۔۔ مینگو جوس ! اس پر مامی کہنے لگی باجی یہ‬
‫آفر کیا صرف مہمان کے لیئے ہے یا پھر۔۔۔۔۔کوئی پردیسی بھی پی‬
‫سکتا ہے؟ تو آنٹی بیر ہنس کر بولیں ۔ ایسی بات نہیں ہے بھابھی ۔۔۔۔‬
‫تم شاہ کے ساتھ بیٹھو تمہارے لیئے بھی آ جاتا ہے۔۔ اتنا کہہ کر آنٹی‬
‫تو کچن کی طرف چلی گئیں جبکہ مامی اور میں ڈرائینگ روم کی‬
‫طرف بڑھ گئے۔۔۔۔۔ راستے میں ۔۔۔۔میں نے کن اکھیوں سے ادھر‬
‫ادھر دیکھا کہ جس سالی ( گوری میم) کے لیئے میں آیا تھا وہ کہیں‬
‫نظر آ جائے لیکن وہ دکھائی نہیں دے رہی تھی۔۔۔ جبکہ دوسری‬
‫طرف مامی مجھ سے کہہ تھیں وہ ساال واقعی تم سے معذرت کرنے‬
‫واال تھا لیکن میں نے جب اسے منع کیا تو وہ کہنے لگا۔۔۔ باجی میں‬
‫اس لیئے معذرت کرنے لگا تھا کہ یہ اور تانیہ آپس میں بہت اٹیچ ہو‬
‫گئے ہیں اس لیئے آپ کی طرف سے رشتے کی بات سن کر ۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ایسا نہ ہو کہ اس کا دل دکھ جائے۔۔۔اس پر وہ کہنے لگی تو میں آج‬
‫رات تم سے لوگوں سے رشتے کی بات نہیں کروں گی ۔۔۔۔تو فرزند‬
‫نے جواب دیتے ہوئے بوال۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫نہیں آپ کھل کر بات کرنا۔۔۔ میں اسے ثانیہ کو کہہ دوں گا وہ اسے‬
‫کسی بہانے باہر لے جائے گی۔۔۔۔۔ مامی کی بات سن کر حیرانی سے‬
‫میرا منہ کھلے کا کھال رہ گیا۔۔۔مامی نے میری یہ حالت نوٹ کر لی‬
‫اور کہنے لگی۔۔۔۔ارے تمہیں کیا ہوا؟ تو میں ان سے بوال۔۔۔۔۔ سیم یہی‬
‫بات میں نے صائمہ باجی سے بھی کہی تھی۔۔۔۔ پھر ان کے استفسار‬
‫پر۔۔۔۔۔میں نے سیکس والی بات نکال کر صائمہ باجی کے ساتھ ہونے‬
‫والی ساری بات ان کے گوش گذار دی ۔۔۔۔ سن کر وہ بھی حیران‬
‫ہوئیں۔۔۔اتنی دیر میں آنٹی مینگو جوس لے آئیں۔۔اور ہمارے سامنے‬
‫گالس رکھتے ہوئے۔۔۔۔ وہیں بیٹھ گئیں۔۔۔ ۔۔۔ مامی نے جلدی سے‬
‫مینگو جوس پیا اور آنٹی سے کہنے لگی تھینک یو باجی جوس بہت‬
‫مزے کا تھا ۔۔۔۔۔اب میں تھو ڑا ریسٹ کرنے کے لیئے اپنے روم میں‬
‫جا رہی ہوں پھر وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولیں ۔۔۔۔تمہارا کیا‬
‫پروگرام ہے ؟ تو میں ان سے بوال کس بارے ؟ تو وہ کہنے لگیں کیا‬
‫تم ریسٹورنٹ باہر و باہر پہنچو گے یا ہمارے ساتھ چلو گے؟ اس‬
‫سے پہلے کہ میں کوئی جواب دیتا۔۔۔۔۔۔۔ آنٹی کہنے لگیں ارے بابا یہ‬
‫نہیں آئے گا تو۔۔۔۔۔۔۔گاڑی کون چالئے گا ؟۔۔۔پھر میری طرف دیکھتے‬
‫ہوئے کہنے لگیں۔۔۔ تم تیار شیار ہو کر آٹھ بجے تک آ جانا ۔۔ ۔۔۔ پھر‬
‫یہاں سے اکھٹے ہی ہم ریسٹورنٹ کی طرف چلیں گے۔۔ چنانچہ مامی‬
‫اور آنٹی کو الوداع کر کے جیسے ہی میں باہر نکال تو گیلری میں‬
‫مجھے گوری میم مل گئی۔۔۔اسے دیکھ کر نا جانے کیوں میرے دل‬
‫کی دھڑکن تیز تر ہو گئی۔۔ اور میں بمشکل اس سے ہائے بوال۔۔۔تو وہ‬
‫مسکرا کر کہنے لگی آپ کب آئے؟ تو میں اس قات ِل جاں سے بوال‬
‫جی کافی دیر ہو گئی ہے پھر میں اس سے بوال میں آپ کی "دوائی"‬
‫الیا ہوں ۔۔۔ دوائی کا نام سن کر وہ ہنس کر کہنے لگی عدیل نے کیسا‬
‫پیارا نام تجویز کیا ہے پھر ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔کدھر‬
‫ہے میری دوائی۔۔۔۔۔تو میں ان سے بوال میری "ڈب " میں ۔۔۔ڈب کا نام‬
‫سن کر وہ بڑی حیرانی سے بولیں۔۔۔۔واٹ ڈب؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو میں نے‬
‫جلد ی سے اپنے نیفے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ ادھر۔۔۔‬
‫جیسے ہی میں نے نیفے کی طرف اشارہ کیا تو بدقسمتی یہ اشارہ لن‬
‫کی طرف بھی جاتا تھا۔۔۔۔۔ اس لیئے میرا اشارہ دیکھ کر ۔۔۔ایک لمحے‬
‫کے لیئے اس کا چہرہ سرخ ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔اور وہ میرے لن والی جگہ کو‬
‫دیکھ کر گھبرا گئی۔۔۔اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔آ۔۔آآپ‬
‫میری دوائی اس جگہ (گملے میں ) میں رکھ دو میں اُٹھا لوں گی۔۔۔‬
‫اس کی بات سن کر میں نے بھی ادھر ادھر دیکھا۔۔اور نیفے میں‬
‫اڑسی ہوئی شراب کی بوتل ۔۔۔۔۔۔۔بجائے گملے میں رکھنے کے اس‬
‫کے ہاتھ میں پکڑائی۔۔۔۔۔۔۔ اور تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا باہر نکل گیا۔۔۔‬

‫رات کو تیار شیار ہو کر میں دوبارہ عدیل کے گھر جا پہنچ کر ۔۔۔‬


‫دیکھا تو خواتین میں ایک عجیب سی ہڑبونگ سی مچی ہوئی تھی‬
‫۔۔مجھے دیکھ کر انکل شکر ادا کرتے ہوئے بولے۔۔۔۔یار ان خواتین‬
‫نے تو چھوٹی چھوٹی چیزیں منگوا کر مجھے نیم پاگل کیا ہوا‬
‫تھا۔۔۔اب تو جان اور تیرا کام۔۔۔۔پھر میرے پوچھنے پر انہوں نے بتالیا‬
‫۔۔۔۔۔۔ کہ میرے ساتھ چار خواتین آنٹی‪ ،‬صائمہ باجی ۔۔مامی اور گوری‬
‫میم نے جا رہی ہیں۔۔۔۔۔۔۔جب میں نے ان سے پوچھا کہ آپ کیوں نہیں‬
‫جا رہے؟ تو انہوں نے طبیعت کی خرابی کا بہانہ کر دیا۔۔ ابھی میں‬
‫ان سے ہیلو ہائے کر رہا تھا کہ ایک طرف سے صائمہ باجی کی‬
‫آواز سنائی دی وہ کہہ رہی تھیں۔۔ ڈیڈی ذرا۔۔شاہ جی کو میرے پاس‬
‫بھیجیں۔۔۔ ۔۔تو انکل ہنستے ہوئے بولے ۔۔لو بیٹا اب تم پھنس گئے‬
‫ہو۔۔۔پھر کہنے لگے۔۔۔۔ میں تو بازار کے چکر لگا لگا کے تھک گیا‬
‫۔۔۔۔۔اب تیری باری ہے اور خود آنٹی کے کمرے میں چلے گئے‬
‫پوزیشن یہ تھی کہ عدیل کے کمرے میں گوری میم اور مامی تیار ہو‬
‫رہی تھیں جبکہ ایک کمرے میں آنٹی۔۔۔۔۔۔۔ اور ان کے ساتھ والے‬
‫کمرے میں صائمہ باجی تیار ہو رہی تھیں۔۔۔۔۔انکل کے کہنے پر جب‬
‫میں صائمہ باجی کے کمرے میں پہنچا ۔۔۔۔۔تو وہ تقریبا ً تیار ہو چکی‬
‫تھیں ۔۔۔۔گرین کلر کی ٹائیٹ فٹنگ قمیض کہ جس میں ان کے جسم‬
‫کے نشیب و فراز بہت ہی نمایاں نظر آ رہے تھے خاص کر کھلے‬
‫گلے میں سے ان کی بھاری چھاتیاں ۔۔۔۔۔۔ تو غضب ڈھا رہیں تھیں۔۔۔۔‬
‫ب معمول چست پاجامہ پہنا ہوا‬ ‫جبکہ قمیض کے نیچے انہوں نے حس ِ‬
‫تھا جو کہ اتنا چست تھا کہ اس میں سے ان کی موٹی گانڈ نمایاں نظر‬
‫آ رہی تھی مجھے اپنے جسم کا ایکسرے کرتے دیکھ کر وہ کہنے‬
‫لگیں ۔۔۔ کیسی لگ رہی ہوں؟ تو میں ان سے بوال ۔۔ میرے جیسے‬
‫بندے کو ہارٹ اٹیک کرانے کے لیئے آپ کا یہ لباس نہایت مناسب‬
‫ہے میری بات سن کر وہ مسکراتے ہوئے بولیں ۔۔۔میں تیری ان باتوں‬
‫کو اچھی طرح سمجھتی ہوں۔۔پھر تیوری چڑھا کر کہنے لگیں۔۔۔ شام‬
‫کو ملے بغیر کیوں چلے گئے تھے؟ تو میں کان پکڑ کر بوال۔۔۔‬
‫سوری جان۔۔۔ تو وہ کہنے لگی میں نے کہا تھا نا کہ ۔۔۔۔ میں موقع‬
‫نکال لوں گی۔۔۔دیکھ لو نکال لیا۔۔۔۔۔ پھر کہنے لگی تم اپنے شیر کو‬
‫تیار کرو میں ذرا خواتین کا جائزہ لے کر آتی ہوں۔۔۔۔اتنا کہہ کر‬
‫انہوں نے سونے کا ایک سیٹ پکڑا اور باہر نکل گئیں ۔۔۔۔‬

‫کوئی پانچ منٹ بعد واپس آ کر کہنے لگیں ۔۔۔سب بزی ہیں تو میں بوال‬
‫اور آپ کے ڈیڈ؟ تو وہ کہنے لگی ماما نے انہیں کسی کام سے بازار‬
‫بھیجا ہے اس کے ساتھ ہی وہ میری پینٹ میں بند لنڈ کی طرف اشارہ‬
‫کرتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ یہ ابھی تک کھڑا نہیں ہوا؟ تو میں ان سے بوال‬
‫۔۔۔کہہ رہا تھا کہ باجی خود کھڑا کرے گی تو ہوں گا۔ورنہ نہیں ۔۔ ۔تو‬
‫وہ مسکراتے ہوئے بولیں ۔۔۔سیدھی طرح کہہ نا کہ لن چوسوں۔۔۔ پھر‬
‫دروازے سے باہر جھانک کر دیکھتے ہوئے بولیں۔۔ تم واش روم میں‬
‫جاؤ۔۔۔ میں بوال وہاں کیوں؟ تو وہ کہنے لگی وہاں کم از کم ایک دم‬
‫تو پکڑے جانے کا کوئی امکان نہیں ہوگا ۔۔۔چنانچہ میں واش روم چال‬
‫گیا ۔۔۔تھوڑی دیر کے بعد۔۔ وہ بھی اندر آ گئیں اور میری پینٹ کی‬
‫زپ کھول کر لن کو ہاتھ میں لیتے ہوئے بولی۔۔۔۔ تھوڑا سا اکڑا تو‬
‫ہے۔۔۔اور پھر اکڑوں بیٹھ کر ہلکا ہلکا چوپا لگانے لگیں جیسے ہی‬
‫میر ا لن ۔۔۔۔۔ تن کر کھڑا ہوا۔۔۔تو وہ اوپر اُٹھیں ۔۔اور یہ کہہ کر باہر‬
‫نکل گئیں کہ ایک منٹ۔۔۔۔اور پھر وہاں کا جائزہ لے کر واپس آ گئیں‬
‫آتے ساتھ ہی انہوں نے اپنی ٹائیٹس کو نیچے کیا۔۔۔اور بولی کیسے‬
‫چودو گے ؟ تو میں نے ان کو دیوار کے ساتھ لگا لیا۔۔۔۔اور پھر‬
‫جیسے ہی ان کی پھدی چاٹنے کی غرض سے نیچے بیٹھا تو وہ‬
‫کہنے لگیں نہیں ۔۔نہیں ۔۔۔چاٹنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔۔اسے لال‬
‫چایئے۔۔۔۔۔۔اس پر میں نے ہلکی سی زبان ان کی پھدی پر۔۔۔۔ پھیری‬
‫اور پھر ایک انگلی پھدی میں ڈال کر چیک کیا تو واقعہ ہی ان کی تو‬
‫ت حال دکھ کر میں فرش‬ ‫وہ پانی سے لبریز پائی گئی ۔۔۔ یہ صور ِ‬
‫سے اوپر اُٹھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور لن پر تھوک لگا کر اسے چکنا کیا ۔۔۔۔پھر ان‬
‫کی ایک ٹانگ اوپر اُٹھائی۔۔ اور لن کو ان کی پھدی میں دھکیل‬
‫دیا۔۔۔۔تو وہ مدہوش کن آواز میں کہنے لگیں ۔۔۔۔ دو چار ۔۔۔ طاقتور‬
‫گھسے مار۔۔۔ میں نے ایسا ہی کیا۔ اور میرے ایسا کرنے سے‬
‫دوسرے گھسے میں ہی ان کی پھدی میرے لن کے ساتھ چمٹ‬
‫گی۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہیں نے آرگیزم کر دیا۔۔۔۔جیسے ہی ان کی‬
‫پھدی نے پانی چھوڑا۔۔۔تو وہ شہوت سے ُچور دبی دبی آواز میں‬
‫بولیں۔۔۔ ۔۔۔ بس! آج کے لیئے اتنا ہی کافی ہے۔۔۔۔۔۔پھر انہوں نے ہاتھ‬
‫بڑھا کر لن کو اپنی پھدی سے باہر نکاال ۔۔۔۔اور ٹشو سے اسے صاف‬
‫کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔ لن کو دھو کر آنا تو میں ان سے بوال وہ کیوں‬
‫جی؟ تو وہ مسکرا کر کہنے لگیں۔۔۔۔ وہ اس لیئے میری جان کہ ہو‬
‫سکتا ہے کہ رات موقعہ ملنے پر ثانیہ تیرا لال چوس لے ۔۔۔تو جیسا‬
‫کہ تم کو معلوم ہے کہ میری پھدی بہت زیادہ مہک آور ہے ۔۔۔۔۔۔ایسا‬
‫نہ ہو کہ لن چوسنے کے دوران ۔۔۔ پھدی کی سمیل پا کر وہ کہیں‬
‫بدک ہی نہ جائے۔ اتنا کہہ کر انہوں نے مجھے ایک مختصر سی‬
‫چمی دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور باہر نکل گئی۔۔۔۔۔ ۔۔۔ان کے جانے کے بعد میں نے‬
‫لن کو صابن کے ساتھ اچھی طرح سے دھویا۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ٹشوز کے‬
‫ساتھ خشک کر کے میں بھی باہر نکل آیا۔۔۔ دیکھا تو باجی کمرے میں‬
‫موجود نہ تھیں۔۔۔اس لیئے میں سیدھا ڈرائینگ روم میں جا پہنچا۔۔اور‬
‫وہاں جا کر ایک صوفے پر بیٹھ گیا۔۔۔۔ابھی مجھے بیٹھے تھوڑی ہی‬
‫دیر گزری تھی کہ انکل ڈرائینگ روم میں داخل ہوئے۔ ۔۔۔۔ ان کے‬
‫ہاتھ میں کولڈ ڈرنک تھی جو مجھے دیتے ہوئے بولے میں تمہیں‬
‫صائمہ کے کمرے میں دیکھ رہا تھا تو میں ان سے بوال۔۔۔۔کوئی کام‬
‫نہیں تھا تو میں ادھر آ کر بیٹھ گیا۔۔۔۔ میری ڈرنک ختم کرنے کے‬
‫آدھے گھنٹے بعد زیورات سے لدی پھندی لیڈیز بھی ڈرائینگ روم‬
‫میں داخل ہو گئیں چاروں بہت خوب صورت لگ رہیں تھیں ۔۔۔۔۔اس‬
‫ان میں ماسوائے گوری میم کے سب کو میں نے چودا ہوا تھا۔۔اس‬
‫لیئے میں ایک ایک کو چپکے سے بڑی پیاری لگ رہی ہو ۔۔ کی‬
‫نوید دینے کے بعد میں نے گاڑی کی چابی پکڑی اور باہر نکل گیا ۔۔۔‬
‫ہاں ایک بات بتانا تو میں بھول ہی گیا اور وہ یہ کہ اس دوران میں‬
‫نے جان بوجھ کر گوری میم کو بلکل لفٹ نہیں کرائی۔۔۔۔۔‬
‫ابھی میں گاڑی کو اسٹارٹ کر نے ہی لگا تھا کہ سب سے پہلے‬
‫گوری پورچ میں داخل ہوئی اور گھوم کر میری طرف آ گئی۔۔۔۔اور‬
‫کھڑکی پر جھک کر بولی۔۔ ۔۔آپ ناراض ہو؟ ۔۔۔تو میں پھیکی سی‬
‫ہنسی ہنس کر بوال۔۔۔ نہیں تو۔۔اور سامنے دیکھنے لگا۔۔ تو وہ میری‬
‫ٹھوڑی کو پکڑ کر اپنی طرف کرتے ہوئے بولی اگر میں نے کچھ‬
‫غلط کہا تو ۔۔آئی ایم سوری۔اس نے یہ بات کچھ اس ادا سے کہی کہ‬
‫میں اس حرکت پر ہزار جان سے فدا تو پہلے ہی تھا اب دس ہزار‬
‫جان سے فدا ہو گیا۔۔۔چنانچہ میں اس سے بوال۔۔۔ اٹس اوکے۔۔تو وہ‬
‫میری طرف ہاتھ بڑھا کے۔۔بولی آر یو شؤر۔۔۔۔۔تو میں نے اس کے‬
‫نرم و گداز ہاتھ کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔۔اور اسے دباتے ہوئے بوال۔۔‬
‫۔۔یس ٹو۔۔ مچ شؤر۔۔۔۔۔۔اور اس کے ہاتھ کو چھوڑ دیا۔۔تب گوری نے‬
‫ایک عجیب حرکت کی اور خود ہی اپنے ہاتھ کو میرے ہونٹوں کی‬
‫طرف لے گی ۔۔۔۔۔ میں نے ایک لحظہ کے لیئے اس کے بڑھے ہوئے‬
‫ہاتھ کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بڑی آہستگی کے ساتھ اس کی پشت‬
‫پر بوسہ دے دیا۔۔۔ ایک بوسے کے بعد ۔۔۔۔۔ اس نے عجیب سی‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھا ۔۔۔۔اور پھر۔۔۔کار کا پچھال دروازہ‬
‫کھول کر بیٹھ گئی۔۔۔۔"بات " جاری رکھنے کی غرض سے میں اس‬
‫سے بوال۔۔ یہ بتاؤ کہ باقی لیڈیز کیا کر رہیں تھیں ؟ تو وہ کہنے‬
‫لگی۔۔۔آئی تھنک وہ کسی خاص بات کو ڈسکس کر رہیں تھیں۔۔ میم‬
‫کی بات سن کر میں سمجھ گیا کہ وہ رشتہ پوچھنے کے بارے میں‬
‫صالح و مشورہ کر رہیں ہو ں گی۔اسی اثنا میں تنیوں خواتین پورچ‬
‫کی طرف آتی دکھائی دیں۔گاڑی کے پاس آتے ہی آنٹی فرنٹ ڈور‬
‫کھول کر اس پر ۔۔۔ ۔۔ جبکہ باقی دو خواتین پچھلی سیٹوں پر بیٹھ‬
‫گئیں۔ میں گاڑی اسٹارٹ کر چلنا شروع ہو گیا۔۔۔راستے میں۔۔۔ میں‬
‫نے باجی کو مخاطب کر کے بوال۔۔۔ آپا جی ذرا پتی دیو سے معلوم‬
‫کرو۔۔۔ کہ وہ لوگ گھر سے نکلے ہیں یا نہیں تو وہ جواب دیتے‬
‫ہوئے کہنے لگیں ۔۔ میرے فون سے پہلے ہی ان کا فون آ گیا تھا کہ‬
‫وہ سارا خاندان بمعہ انکل کے ریسٹورنٹ میں پہنچ چکے ہیں اور‬
‫چشم براہ ہیں۔۔۔۔ ۔گاڑی چالتے ہوئے بیک‬
‫ِ‬ ‫اس وقت وہ ہمارے لیئے‬
‫مرمر سے میری نظریں گوری میم کے ساتھ چار ہوئیں۔۔۔۔ اس کے‬
‫ہونٹوں پر ایک دھیمی سی مسکراہٹ کو دیکھ کر " مکیمبو" خوش ہو‬
‫گیا۔۔‬

‫کچھ دیر بعد ہم ایف ‪ 7‬کے ریسٹورنٹ میں پہنچ گئے دیکھا تو‬
‫ریسٹورنٹ میں بلکل بھی رش نہ تھا پوچھنے پر پتہ چال کہ رش‬
‫صرف ویک اینڈ میں ہوتا ہے ورنہ عام حاالت میں اس قسم کے‬
‫مہنگے ریسٹورنٹس میں کم ہی لوگ آتے ہیں۔۔۔۔دوسری طرف فرزند‬
‫اور اس کے گھر والے ویسے تو بڑے اخالق سے اور محبت سے‬
‫ملے۔۔۔ لیکن اس کے باوجود میں نے محسوس کیا ماحول میں ایک‬
‫عجیب سا تناؤ تھا۔۔۔ جو کہ شاید میری موجودگی کی وجہ سے تھا۔۔۔۔‬
‫۔۔۔ ۔چنانچہ اس تناؤ کو محسوس کرتے ہوئے میں نے ادھر ادھر‬
‫دیکھا ۔۔۔تو سب خاموشی سے کھانے میں مصروف تھے۔۔۔ اس کے‬
‫بعد میں نے تانیہ کی طرف نظر ڈالی۔۔۔۔ تو وہ بھی سر جھکائے بہت‬
‫ہی سیریس ہو کر بیٹھی تھی ۔۔۔ خیر جیسے تیسے کھانا ختم ہوا‬
‫۔۔۔کھانے کے بعد میں میری نظر ثانیہ کی طرف پڑی تو وہ میری ہی‬
‫طرف دیکھ رہی تھی جیسے ہی ہماری نطریں چار ہوئیں۔۔۔ تو اس‬
‫نے آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھے کچھ کہنے کی کوشش کی ۔۔۔لیکن‬
‫میں ٹینشن کی وجہ سے اس کے اشارے کو سمجھ نہ سکا۔۔ ۔چنانچہ‬
‫میری طرف سے کوئی رسپانس نہ پا کر ۔۔۔۔۔۔اس نے ڈائیریکٹ ہی‬
‫کہہ دیا۔۔ ۔۔۔ بھائی ایک منٹ !!!!۔۔۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی وہ اپنی کرسی‬
‫سے اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔۔۔اور میں جو وہاں سے اُٹھنے کے بہانے ڈھونڈ‬
‫رہا تھا ثانیہ کی بات سن کر اُٹھ ا اور اس کے پیچھے پیچھے چل‬
‫پڑا۔۔ ۔۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ نہ تو مجھے اور نہ ہی ثانیہ کو‬
‫کسی نے روکا اور نہ ہی اتنا پوچھا کہ ہم لوگ کہاں جا رہے‬
‫ہیں۔۔؟۔اس کا یہی مطلب میں آیا کہ فرزند صاحب نے اس کی ڈیوٹی‬
‫لگائی ہو گی کہ رشتے پوچھنے کے وقت وہ مجھے کہیں باہر لے‬
‫جائے۔۔۔تھوڑی دور جا کر ثانیہ رک گئی اور میرا حال چال پوچھتے‬
‫ہوئے بولی آئی ایم سوری بھائی۔۔۔ کہ مجھے نا چاہتے ہوئے بھی آپ‬
‫کو اُٹھانا پڑا۔۔۔تو میں اس سے بوال ۔۔۔اس میں سوری کی کوئی بات‬
‫نہیں۔۔میرے خیال میں تو مجھے یہاں آنا ہی نہیں چایئے تھا ۔۔۔لیکن‬
‫کیا کروں کہ ندرت ممانی کے پر زور اصرار پر آ گیا ۔۔ اس پر وہ‬
‫کہنے لگی۔۔۔ میرے خیال میں آپ کو ساری بات کا پتہ چل گیا ہو گا‬
‫۔۔تو میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے بوال یہ بتاؤ کہ یہ ٹھیک ہو رہا‬
‫ہے یا غلط ؟؟؟؟۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔اگر آپ میری ذات کی بات‬
‫پوچھتے ہو تو عرض ہے کہ آپ کی نسبت مجھے ساؤتھ افریقہ واال‬
‫رشتہ کچھ خاص پسند نہیں آیا‬

‫لیکن مام ڈیڈ اور خاص کر فرزند بھائی کو یہ رشتہ بہت اچھا لگا ہے‬
‫تو اس پر میں نے اس سے پوچھا کہ یہ بتاؤ کہ تانیہ کا اس رشتے‬
‫بارے کیا خیال ہے؟ تو وہ جھجھک کر بولی ۔۔۔ اگر میں سچ کہوں تو‬
‫آپ ناراض تو نہیں ہو گئے؟ تو میں اس سے کہنے لگا۔۔ اس میں‬
‫ناراض ہونے والی کون سی بات ہے تو وہ کہنے لگی وہ آپ سے‬
‫شادی نہیں کرنا چاہتی تھی تو میں اس سے بوال ۔۔ لیکن اس نے‬
‫مجھے کبھی محسوس نہیں ہونے دیا تو وہ کہنے لگی۔۔وہ ایسا ہمارے‬
‫دباؤ کی وجہ سے ایسا کر رہی تھی۔اس پر میں نے کہا اگر اس کی‬
‫ب عادت جھٹ سے بولی میں‬ ‫جگہ تم ہوتی تو کیا کرتی ؟۔۔ تو وہ حس ِ‬
‫تم کو کبھی ہاتھ سے نہ جانے دیتی ۔۔اس پر میں نے ایک خاص نظر‬
‫(شہوت بھری) سے اس کی طرف دیکھا اور بوال۔۔۔ جس طرح ابھی‬
‫میں تم کو ہاتھ سے جانے نہیں دے رہا ۔۔میری بات کا مطلب سمجھ‬
‫کر وہ ایک دم پریشان ہو کر بولی۔۔ ۔۔۔ تمہارا مطلب ہے ابھی؟ ۔۔تو‬
‫میں نے ہاں میں سر ہال دیا۔۔تو وہ تیزی سے بولی سوری یار ۔۔۔میں‬
‫تمہارے ساتھ کہیں نہیں جانے والی۔۔۔تو میں اس سے بوال محترمہ آپ‬
‫کو لے جانے کی بات کون کر رہا ہے؟ تو وہ چونک کر بولی تو‬
‫پھر؟ تو میں اس سے کہنے لگا۔۔۔ میں تمہیں یہیں فک کرنا چاہتا ہوں‬
‫۔۔میری بات سن کر اس کا چہرہ الل ہو گیا۔۔۔۔اور وہ ہاتھ نچا کر بولی‬
‫اے مسٹر یہ یورپ نہیں پاکستان ہے چوری چھپے جو مرضی کر لو‬
‫سر عام ایسا کرنے کی ہر گز اجازت نہیں ۔۔۔۔۔۔ اس پر بوال‬
‫لیکن ِ‬
‫۔۔۔میں تمہیں کونسا سرعام چودنے لگا ہوں بلکہ میں تمہیں واش روم‬
‫میں لے جا کر چودوں گا۔۔۔تو وہ تھوڑے جوش میں آ کر بولی پاگل‬
‫ہو گئے ہو کیا؟ واش روم میں کسی بھی وقت کوئی بھی آ سکتا ہے‬
‫تو میں اس سے بوال۔۔ دیکھ لو سارا ریسٹورنٹ خالی ہے تو وہ میری‬
‫نقل اتارتے ہوئے بولی ۔۔سارا ریسٹورنٹ خالی ہے۔۔۔پھر ناک چڑھا‬
‫کر کہنے لگی ۔خاک خالی ہے۔۔۔میرے سارے گھر والے یہاں موجود‬
‫ہیں۔۔ اور خاص ممانی ندرت ! اگر انہوں نے مجھے اوپر سے پکڑ‬
‫لیا تو؟ پھر بات کو جاری رکھتے ہوئے بولی۔۔۔۔ تمہیں شاید معلوم‬
‫نہیں کہ ممانی اور اس کے گھر والے کس قدر مذہبی لوگ واقع‬
‫ہوئے ہیں ۔۔۔ ممانی کے بارے میں یہ سن کر وہ کٹر مذہبی قسم کی‬
‫عورت ہے۔۔۔۔۔۔۔ہم ہنس دیئے۔۔ہم چپ رہے۔۔۔۔۔اور اس کا پردہ رکھتے‬
‫ہوئے منہ سے کچھ نہ بولے۔۔تب اچانک میرے ذہن میں ایک خیال آیا‬
‫۔اور میں نے ایک ویٹر کو جو کہ اتفاق سے ہمیں سرو کر رہا اسے‬
‫پاس بالیا ۔۔ اور ایک طرف لے کر ۔۔۔۔۔ اس کی جیب میں "دوتین‬
‫کڑکڑاتے نوٹ " ڈالے ۔۔ تو وہ حیران ہو کر بوال۔۔۔ حکم صاحب۔۔۔۔ تو‬
‫میں ا س سے بوال ۔۔۔ یہ بتاؤ کہ میں اس لڑکی کے ساتھ ُگڈ ٹائم کہاں‬
‫گزار سکتا ہوں؟ تو وہ دانت نکالتے ہوئے بوال۔۔۔ سیکنڈ فلور پر چلے‬
‫جائیں۔۔۔تو میں ا س سے بوال ۔۔۔وہاں کیا ہے؟ تو وہ آہستہ سے‬
‫بوال۔۔۔۔وہاں بڑے شاندار واشروم بنے ہیں۔۔ پھر ایک طرف اشارہ‬
‫کرتے ہوئے بوال آپ چیک تو کرو۔۔اور آگے چل دیا۔۔۔ اب میں نے‬
‫ثانیہ کو اپنے پاس بالیا۔۔اور اسے سیکنڈ فلور والے واش روم کے‬
‫بارے میں بریف کیا ۔۔سن کر اس کی آنکھوں میں ایک چمک سی‬
‫آگئی۔۔۔لیکن اگلے ہی لمحے اس کی آنکھوں میں چھائی چمک مانند‬
‫پڑ گئی اور وہ فکر مندی سے بولی۔۔۔۔۔ جو بھی کرنا ہے‬
‫پلیززززززززززززز جلدی کرنا۔۔‬

‫ریسٹورنٹ کا دوسرا فلور ایک دم خالی تھا اس کے ڈائینگ حال سے‬


‫تھوڑے فاصلے پر واش روم بنے تھے اس وقت چونکہ رش بلکل‬
‫بھی نہیں تھا اس لیئے یہ فلور بھائیں بھائیں کر رہا تھا چنانچہ ہم‬
‫لوگ پوری احتیاط سے ۔۔۔۔ " لیڈیز" کی تختی والے آخری واش روم‬
‫میں گھس گئے۔۔اندر پہنچ کر وہ میرے ساتھ چمٹ گئی اور میرے‬
‫گالوں پہ بوسہ دیتے ہوئے بولی۔۔ میرے ساتھ رابطہ رکھنا۔۔تو میں‬
‫نے اس کے نازک ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لے کر تھوڑا سا‬
‫چوسا۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس سے بوال۔۔نہیں ٹوٹے گا میری جان۔۔۔۔ پھر میں‬
‫اس کے شہوت سے الل ہوتے گالوں کو چوم کر بوال۔۔۔۔یہ بتا ۔۔اب‬
‫تیری پھدی کیسی ہے؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔پھدی کا تو پہلے بھی اتنا‬
‫پرابلم نہیں تھا۔۔۔۔۔البتہ گانڈ میں اب بھی تھوڑا تھوڑا درد ہوتا ہے۔۔‬
‫پھر بڑے شوخ لہجے میں بولی۔۔۔ لیکن پھدی اوکے ہے ۔۔۔۔ اس کے‬
‫ساتھ ہی اس نے اپنی شرٹ کو اوپر کیا اور کالے رنگ کی برا میں‬
‫سے ۔۔۔۔اپنی چھوٹی چھوٹی چھاتیاں کو باہر نکالتے ہوئے بولی۔۔‬
‫میری چھاتیاں چوسو۔سو میں نے اس کے نپلز کو منہ میں لے کر‬
‫باری باری چوسنا شروع کر دیا۔۔ہاٹ ثانیہ نے فورا ً ہی سسکیاں لینی‬
‫شروع کر دیں ۔۔۔۔ جس سے واش روم کی فضا گرم ہونا شروع ہو‬
‫گئی۔۔۔ ادھر جیسے ہی میں نے اس کی دوسری چھاتی کو چوسو۔۔۔۔۔‬
‫کچھ ہی دیر بعد اس نے اپنی چھاتی کو میرے منہ سے چھڑایا‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور بولی ٹائم کم ہے۔۔۔ تفصیل سے بعد میں چودنا۔۔۔ اور‬
‫اسکے ساتھ ہی اس نے اپنی ٹائیٹس کو ٹخنوں تک اتار دیا۔۔۔اور‬
‫کہنے لگی۔ ۔ اب جلدی سے میری چوت پر بھی منہ مار۔۔۔۔ چنانچہ‬
‫میں واش روم کی ٹائلز پر اکڑوں بیٹھا۔۔۔۔اور اس کی تنگ چوت پر‬
‫زبان رکھ دی۔۔۔ واہ۔۔۔اس کی پھدی نہایت گرم تھی۔۔۔۔ اور میں اسے‬
‫چاٹنا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔۔ لٹل گرل کی پھدی سے بہت پانی نکل رہا تھا۔۔۔‬
‫یہ دیکھ کر میں اس سے بوال۔ تم تو ایک دم ریڈی لگتی ہو تو وہ‬
‫مست ہو کر بولی ۔۔۔ کیا کروں دوست ۔۔۔ تمہارے لن کا ذہن میں آتے‬
‫ہی۔۔۔۔ میری پھدی سے پانی رسنا شروع ہو جاتا ہے۔۔۔ پھر تھوڑی‬
‫سی پھدی چوسنے کے بعد وہ کہنے لگی اب میری باری۔۔اتنا کہتے‬
‫ہی میری جگہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ واش روم کے ٹائلز پر اکڑوں بیٹھ‬
‫گئی۔۔اور میری پینٹ کی زپ کھولتے ہوئے بڑی مستی سے بولی‬
‫سوری یار۔۔جلدی کی وجہ سے ۔۔۔۔میں تیرے اس شاندر لن کو تھوڑا‬
‫سا ہی چوسوں گی۔۔ ۔۔۔ اتنا کہتے ہی اس نے منہ کھوال۔۔۔اور لن کو‬
‫منہ میں لے کر چوسنا شروع کر دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔کچھ دیر لن چوسنے کے‬
‫بعد وہ اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔اور واش بیسن پر دونوں ہاتھ رکھ کر اپنی‬
‫ٹانگوں کو کھول کر بولی۔۔۔۔مجھے چودو۔۔۔۔۔۔اب میں ثانیہ کے پیچھے‬
‫آ کھڑا ہوا ۔۔۔ٹوپے کو تھوک لگا کر اس گیال کیا۔۔اور اس کی نوک‬
‫۔۔ثانیہ کی تنگ پھدی پر رکھ کر بوال۔۔۔ میں ڈالنے لگا ہوں تو وہ‬
‫مست لہجے میں بولی۔۔۔آرام آرام سے ڈالنا ۔۔لیکن جونہی لن اس کے‬
‫اندر گیا تو وہ منہ پیچھے کرتے ہوئے سرگوشی میں بولی۔۔۔ لن پھدی‬
‫میں چال گیا ہے اب سپیڈی گھسے مار۔۔۔اور میں نے ایسا ہی‬
‫کیا۔۔۔۔۔۔۔۔وہ ۔۔سسکیاں لیتے ہوئے پھدی مرواتی رہی ۔۔۔اور تیز تیز‬
‫گھسے مارنے کا کہتی رہی۔۔۔اور پھر۔۔۔اسی تیزا تیزی میں۔۔۔۔۔۔میں‬
‫اس کی کنواری چوت میں چھوٹتا چال گیا۔۔چھوٹتا چال گیا۔۔۔۔‬

‫واپسی پر گاڑی میں کچھ دیر خاموشی رہی پھر اس خاموشی کو میں‬
‫نے ہی توڑا۔۔۔۔۔ اور آنٹی سے بوال ۔۔ آنٹی جی رشتے کا کیا بنا ؟ تو‬
‫وہ خوشی سے بولیں شکر ہے بیٹا کہ سانپ بھی مر گیا اور الٹھی‬
‫بھی نہیں ٹوٹی۔۔آنٹی کی بات ختم ہوتے ہی مامی کہنے لگیں۔۔۔ مزے‬
‫کی بات یہ ہے انہوں نے رسما ً بھی سوچنے کا وقت نہیں لیا بلکہ‬
‫ترنت ہی ہاں کر دی ۔۔۔ اور خود ہی اگلے ماہ منگنی کی تقریب کا‬
‫بھی اعالن کر دیا ہے پھر فکر مندی سے بولی اس لیئے بھابھی‬
‫اجازت ہو تو کہ میں الہور چلی جاؤں اور میرے خیال میں لڑکے‬
‫والوں سے صالح و مشورے کے بعد کیوں نہ منگی کی بجائے نکاح‬
‫ہی کر دیا جائے۔۔۔۔ اس پر آنٹی کہنے لگیں کہتی تو تو ٹھیک ہی ہو۔۔۔۔‬
‫لیکن اس کے لیئے الہور جانے کی کیا ضرورت ہے یہی بات تم یہاں‬
‫سے فون پر بھی کر سکتی ہو اس پر مامی اپنے کانوں کو ہاتھ لگاتے‬
‫ہوئے بولی ۔۔ نا بابا نا۔۔۔اگر میں نے یہیں سے بیٹھے بیٹھے ایسا کر‬
‫لیا تو آپ کو اپنے بھائی کا اچھی طرح سے پتہ ہے ان کی اجازت و‬
‫مشورے کے بغیر کوئی کام کیا تو وہ میرا سر قلم کر دیں گے اس پر‬
‫آنٹی ہنس کر بولیں نہ کرو یار اب میرا بھائی اتنا بھی خونخوار نہیں‬
‫ہے۔۔اس کے بعد خواتین میں ۔۔۔۔بحث و مباحث کے بعد یہ طے پایا کہ‬
‫اگلی صبع مامی الہور چلی جائیں گی اور اپنے خاوند سے صالح و‬
‫مشورے کے بعد ۔۔منگی یا نکاح کا اعالن کریں گی دوسری طرف‬
‫میں خواتین کی آپسی ڈسکشن کے دوران بیک مرر سے گوری کی‬
‫طرف دیکھا۔۔۔۔۔تو وہ بھی چپکے چپکے میری طرف ہی دیکھ رہی‬
‫تھی۔۔ جب ہماری آنکھیں چار ہوئیں تو وہ نچلے ہونٹ کو دانتوں میں‬
‫داب کے دھیمے سے مسکرا دی۔۔۔۔۔‬

‫حسب الحکم مامی ۔۔۔۔ اگلے دن صبع صبع میں آنٹی کے گھر پہنچ گیا‬
‫جہاں سے میں نے مامی کو لے کر ڈائیو کے اڈے پر پہچانا تھا‬
‫۔۔وہاں پہنچ کر معلوم ہوا کہ مامی اپنے کمرے میں تیار ہو رہی تھیں‬
‫وقت کم تھا اس لیئے میں ان میں آنٹی سے ہیلو ہائے کر کے سیدھا‬
‫آنٹی کے کمرے میں چال گیا دیکھا تو وہ تیار ہو کر کمرے سے باہر‬
‫نکل رہی تھیں مجھے دیکھتے ہی رک گئیں میں ان سے بوال۔۔ ان‬
‫کپڑوں میں آپ بہت پیاری لگ رہی ہو۔۔میری بات سن کر وہ آگے‬
‫بڑھیں۔۔اور مجھے گلے سے لگتے ہوئے بولیں ۔۔۔تھینک یو دوست!‬
‫تم نے مجھے بہت اچھے سے چودا ۔۔ تو میں ان سے بوال ۔۔۔آپ کا‬
‫بھی شکریہ جی۔۔۔۔کہ آپ نے بڑے مزے سے پھدی مروائی۔۔ تو وہ‬
‫کہنے لگی اگلے ماہ آؤں گی تو ایک دفعہ پھر وہیں جا کر چدائی‬
‫کریں گے کہ جہاں تم نے مجھے چودا تھا۔۔ مختصر سی کسنگ کے‬
‫بعد ۔۔۔ میں نے مامی کا بیگ پکڑا اور ہم کمرے سے باہر آ گئے۔۔‬
‫مامی کو ڈائیو پر سوار کرنے کے بعد ۔۔ آنٹی کہنے لگی ناشتے کئے‬
‫بغیر نہیں جانا سو میں نے گیراج میں گاڑی کھڑی کر کے۔۔ ابھی‬
‫میں ڈرائینگ روم میں بیٹھا ہی تھا کہ گوری میم بھی کمرے میں‬
‫داخل ہو گئی۔۔۔اس نے لباس ہی ایسا پہنا تھا کہ اسے دیکھ کر میں‬
‫مچل گیا۔۔۔اس نے ڈھیلی ڈھالی سفید شرٹ پہنی ہوئی تھی قمیض کے‬
‫نیچے اس نے کالے رنگ کا ڈھیال ڈھاال سا ٹراؤزر پہنا ہوا تھا۔ شرٹ‬
‫کے اوپر اس نے ایک پتلی سی چادر لی ہوئی تھی کمرے میں داخل‬
‫ہو کر اس نے وہی سیکسی مسکراہٹ میری طرف اچھالی( کہ جسے‬
‫دیکھ کر راہی راستہ بھول جاتے ہیں ۔۔۔ جبکہ میں غریب تو ایک‬
‫ٹھرکی سا بندہ تھا )۔۔۔ اور کہنے لگی آنٹی (مامی) کو چھوڑ آئے؟‬
‫میں اس کو جواب دینے ہی واال تھا کہ کمرے میں آنٹی داخل ہوئیں‬
‫اور مجھ سے کہنے لگیں۔۔ناشتہ یہیں کرو گے یا ڈائینگ ٹیبل پر لگا‬
‫دوں ۔۔۔اس پر میں کاہلی سے بوال کہ یہیں لے آئیں تو وہ گوری سے‬
‫مخاطب ہو کر بولیں ماریہ بیٹی میرے ساتھ آؤ ۔۔۔کچھ دیر بعد گوری‬
‫ہاتھ میں ٹرے پکڑے کمرے میں داخل ہوئی اچھی بات یہ ہے کہ اس‬
‫دفعہ اس نے اپنا دوپٹہ ۔۔ چھاتیوں کی بجائے۔۔۔ اپنے رائیٹ کندھے پر‬
‫رکھا ہوا تھا ۔ اس نے کچھ زیادہ ہی جھک لر میرے سامنے پڑے‬
‫۔۔۔میز پر ٹرے رکھی۔۔۔۔ اور میری نظر ۔۔۔پھسل کر اس کی ڈھیلی‬
‫ڈھالی۔۔۔شرٹ کی طرف چلی گئی جس کے اوپر والے دو بٹن کھلے‬
‫ہوئے تھے۔۔۔ اف۔ف۔ف۔ف اس کھلی شرٹ میں سے گوری کی بھاری‬
‫چھاتیاں صاف دکھائی دے رہی تھیں۔۔گوری میم کی تنی ہوئی چھاتیاں‬
‫کو اتنے قریب سے دیکھ کر میرے جیسے تجربہ کار بندے کا بھی‬
‫گال خشک ۔۔۔اور ہو ش اُڑ گئے ۔۔۔چنانچہ ان بھاری چھاتیوں کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے میں نے اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری تو‬
‫وہ شرارت سے بولی۔۔۔ کیسا لگا؟ تو میں ہکال کر بوال ۔۔۔کک کیا کیسا‬
‫لگا؟ تو وہ بڑے اطمینان سے کہنے لگی۔۔۔ بریک فاسٹ کیسا لگا؟‬
‫۔۔۔اگر نہیں پسندآیا۔۔۔۔ تو میں دوسرا لے آؤں ؟ اس پر میں نے اس کی‬
‫آدھ کیا ۔۔۔ بلکہ پون ننگی چھاتیوں کی طرف بڑی ہی بھوکی نظروں‬
‫سے دیکھا۔۔اور نیم شہوت بھرے لہجے میں بوال۔۔۔یہ تو کھا کر ہی پتہ‬
‫چلے گے۔۔میری بات سن کر اس نے ٹرے کو میز پر رکھا اور واپس‬
‫چلی گئی۔۔ ناشتہ کر کے جب میں واپس آفس جا رہا تھا تو میرے پاس‬
‫آ کر بولی ڈئیر ایمبیسی والوں نے کل بالیا ہے اس لیئے آپ کل صبع‬
‫‪ 9‬بجے آ جانا۔۔ گوری کی بات سن کر میرا دل باغ باغ ہو گیا کہ اسی‬
‫بہانے گوری کے ساتھ تنہائی کے کچھ لمحات میسر آ جائیں گے۔۔‬

‫چنانچہ اگلے دن میں تیار ہو کر خوشی خوشی گوری کے پاس پہنچا‬


‫تو یہ دیکھ کر میرے ارمانوں پر اوس پڑ گئی کہ گوری کے ساتھ‬
‫آنٹی بھی ریڈی تھیں انہیں تیار دیکھ کر میرا موڈ خاصہ خراب ہوا‬
‫لیکن میں نے ان پر ظاہر نہ ہونے دیا۔۔۔اور انہیں لے کر گاڑی میں‬
‫ب معمول آنٹی فرنٹ سیٹ اور گوری بیک سیٹ پر بیٹھ‬ ‫بیٹھ گیا ۔۔۔ حس ِ‬
‫گئی۔۔ گاڑی چالنے کے کچھ دیر بعد مکمل خاموشی چھائی رہی۔۔۔‬
‫اس دوران اچانک میری نظر بیک سیٹ پر پڑی تو گوری کو اپنی‬
‫طرف متوجہ پایا ۔۔۔ ہم دونوں کی آنکھیں ملیں تو اس نے آنکھوں ہی‬
‫آنکھوں میں پوچھا کہ موڈ کیوں خراب ہے؟ تو میں آنٹی کی طرف‬
‫اشارہ کرتے ہوئے جواب دیا کہ اس بال کو جو ساتھ الئی ہو؟ تو وہ‬
‫کندھے اچکا کر اشارے میں ہی کہنے لگی۔۔۔ اسے میں نہیں الئی‬
‫بلکہ یہ خود آئی ہے اس کے بعد ہم نے آنکھوں ہی آنکھوں میں بہت‬
‫سی باتیں کیں۔۔۔۔ اسی دوران اس نے سیٹ پر کچھ اس طریقے سے‬
‫پہلو بدال کہ اس کی چھاتیاں نمایاں ہو کر سامنے آ گئیں۔۔۔ اس کی‬
‫جوانی سے بھر پور۔۔۔۔چھاتیوں کو دیکھ کر میری رال ٹپک‬
‫پڑی۔۔۔اور میں نے اسے دکھانے کے لیئے۔۔۔ بار بار اپنے ہونٹوں پر‬
‫زبان پھیرنا شروع کر دی۔۔۔۔ جسے دیکھ کر وہ دھیمے سے‬
‫مسکرائی۔۔۔۔۔۔۔۔۔تھوڑی دیر کے بعد گوری نے ایک بار پھر پہلو بدال‬
‫۔۔۔۔اور اب کی بار جب وہ سیدھی ہو کر بیٹھی تو میں اس کی‬
‫چھاتیوں کو دیکھ کر میرے اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے‬
‫رہ گیا۔۔کیونکہ اس بار اس نے شرٹ کے اوپر والے بٹن کھول دیئے‬
‫تھے جس کی وجہ سے اس کی گوری گوری۔۔ چھاتیاں آدھ ننگی ہو‬
‫کر سامنے آ گئیں ۔۔جنہیں آدھ ننگا دیکھ کر میری رالیں ٹپکنے کے‬
‫ساتھ ساتھ آنکھوں میں شہوت کی چمک بھی آ گئی۔۔۔اس لیئے جب‬
‫میں نے گرسنہ نظروں اس کی طرف دیکھا تو اس کی آنکھوں میں‬
‫بھی کچھ اسی قسم کی چمک نظر آئی۔۔۔جسے دیکھ کر" مکیمبو" کا‬
‫دل باغ باغ ہو گیا۔۔۔۔ یوں وہ سارا راستہ مختلف اینگل سے۔۔۔ مجھے‬
‫اپنی چھاتیاں دکھاتی اور رجھاتی رہی۔۔۔۔۔۔۔ البتہ واپس آتے ہوئے۔۔ اس‬
‫نے دوسرے طریقے سے مجھے لُوٹا۔۔۔اور وہ یہ کہ ۔۔سالی۔۔۔ گاڑی‬
‫کی سیٹ پر ایک ٹانگ رکھ کر کچھ اس انداز سے بیٹھی۔۔۔۔ کہ جس‬
‫کی وجہ سے اس کی فومی گانڈ کی ایک سائیڈ اس قدر نمایاں ہو کر‬
‫سامنے آئی۔۔۔ کہ جسے دیکھ کر مجھے فل ہوشیاری آ گئی۔۔۔۔۔۔ اگر‬
‫اس وقت میرے اور گوری کے درمیان آنٹی نہ ہوتی تو یقینا ً میرے لن‬
‫نے پینٹ پھاڑ کے باہر آ آنا تھا۔۔۔۔‬

‫سفارت خانے سے واپسی پر وہ بہت خوش تھی بولی ویزا لگ گیا‬


‫ہے لیکن میں نے کچھ شاپنگ کرنی ہے تو میں اس سے بوال۔۔ ابھی‬
‫چلو تو وہ کہنے لگی نہیں شام کو چلیں گے۔(مطلب ابھی آنٹی ساتھ‬
‫ہے) ۔۔۔شام کو تیار ہو کر جب میں آنٹی کے گھر پہنچا تو ہمارے‬
‫ساتھ جانے کے لیئے۔۔۔۔ آنٹی بھی ریڈی تھیں۔۔ انہیں تیار دیکھ کر‬
‫غصہ تو بہت آیا لیکن میں پی گیا۔۔۔ اور انہیں لے کر شاپنگ مال آ‬
‫ت حال کو‬ ‫گیا۔۔شاپنگ مال میں بھی وہ ہمارے ساتھ ساتھ رہیں ۔ صور ِ‬
‫بھانپ کر گوری نے بھی زیادہ تر ونڈو شاپنگ ہی کی۔۔۔۔۔۔۔ مسلہ یہ‬
‫تھا کہ ہم آنٹی کو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے تھے اور خاص کر میں‬
‫گوری کے بنا رہ بھی نہیں سکتا تھا ۔۔۔۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ وہ‬
‫مجھے حیلے بہانوں سے بہت زیادہ ٹیز کر رہی تھی جس کی وجہ‬
‫سے اسے حاصل کرنے کا میرا شوق۔۔۔ جنون میں بدلتا رہا تھا مثالً‬
‫جس شام میں اسے شاپنگ مال لے کر گیا تھا تو آنٹی سے آنکھ بچا‬
‫۔۔۔۔اور رش کا فائدہ اُٹھا کر اس نے دو تین بار بڑے طریقے سے اپنی‬
‫فومی گانڈ کو میرے ساتھ ٹچ کیا تھا۔۔۔۔خاص کر پبلک پلیس پر وہ‬
‫اپنی موٹی گانڈ کو اس طرح سے ۔۔۔ میرے نازک اعضاء ( لن) کے‬
‫ساتھ ٹچ کرتی کہ ۔۔۔۔اس ٹچ سے مزے کے ساتھ ساتھ میرے تن بدن‬
‫میں بھی آگ لگ جاتی تھی۔۔۔لیکن۔ ۔۔۔۔میں آنٹی کی وجہ سے مجبور‬
‫تھا۔۔ ۔۔۔ ایک دفعہ کی بات ہے کہ اس دن کسی وجہ سے آنٹی ہمارے‬
‫ساتھ نہ جا سکی تو انہوں نے انکل کو ساتھ بھیج دیا۔۔۔ اس وقت ہم‬
‫لوگ شاپ کے کاؤنٹر پر کھڑے تھے سب سے آگے گوری ۔۔پھر میں‬
‫ب معمول شاپ‬ ‫اور میرے ساتھ انکل صاحب کھڑے تھے۔۔۔ ۔۔۔۔۔ حس ِ‬
‫پر بہت رش تھا ۔۔اس وقت گوری نے ایک نظر مجھے اور پھر انکل‬
‫کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔اور پھر میرے آگے کھڑی ہو گئی۔۔اور بڑے ہی‬
‫غیر محسوس طریقے سے اپنی گانڈ کو میرے لن پر رکھ دیا۔۔عام‬
‫طور پر اس کی عادت تھی کہ وہ گانڈ ٹچ کرنے کے فورا ً بعد آگے‬
‫سے ہٹ جاتی اور پھر میرے ر ِد عمل کا جائزہ لیتی ۔۔۔ایسے حاالت‬
‫میں عموما ً میں صبر سے کام لیا کرتا تھا۔۔۔۔۔ لیکن۔۔۔۔اس دفعہ میں نے‬
‫بھی گوری کو جواب دینے کا سوچا چنانچہ اپنی گانڈ ٹچ کرنے کے‬
‫بعد ۔۔۔۔۔ جیسے ہی وہ آگے سے ہٹنے لگی تو میں نے اسے قمیض‬
‫سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا ۔۔۔اور پھر۔۔۔اس کی گانڈ کے کریک‬
‫میں اپنے نیم کھڑے لن کو رکھ کر ایک ہلکا سا گھسہ مار دیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬
‫ساتھ ہی اس کے کان میں سرگوشی کرتے ہوئے بوال۔۔۔۔ لو یو‬
‫ڈارلنگ!! ۔۔۔اتنا کہہ کر میں نے اسے چھوڑ دیا۔۔۔اور اس دفعہ ۔۔۔۔۔میں‬
‫نے اس کا ردِعمل جاننے کے لیئے دیکھا ۔۔۔۔تو میری بجائے اس کا‬
‫چہرہ سرخ تھا۔۔۔۔اس نے مڑ کر بڑی ہی عجیب نظروں سے میری‬
‫طرف دیکھا ۔۔۔۔۔۔۔ ہماری آنکھیں چار ہوئیں ۔۔۔۔اور میں نے اس کا ہاتھ‬
‫پکڑ کر دبا دیا۔۔۔ ر ِد عمل کے طور پر وہ تھوڑا پیچھے ہوئی ۔۔اور‬
‫میرے نیم کھڑے لن پر ایک لمحے کے لیئے ہاتھ رکھ کر اُٹھا‬
‫لیا۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔اس کے اتنے بولڈ سٹیپ کو دیکھ کر سے اب کی بار میرا‬
‫چہرہ بھی الل ہو گیا۔۔۔۔۔۔ اس واقعہ کے بعد ہم دونوں نے ۔۔۔۔۔(انکل‬
‫سے نظر بچا کر) ایک دوسرے کے جسموں کے ساتھ خوب انجوائے‬
‫کیا۔۔۔۔ ۔۔‬

‫اس شام جب میں گوری اور انکل کو گھر چھوڑ کر واپس جا رہا تھا‬
‫تو آنٹی کہنے لگیں ۔۔۔ بیٹا آپ کو تکلیف تو ہو گی لیکن کل دوپہر آپ‬
‫نے پھر آنا ہو گا۔۔۔اتفاق سے اس وقت میں اور آنٹی اکیلے ہی تھے ۔۔‬
‫میں نے ایک نظر کمرے کے باہر ڈالی ۔۔۔اور آنٹی کو چوم کر بوال‬
‫۔۔لیکن میری ایک شرط ہو گی اور وہ یہ کہ آپ یا انکل ساتھ نہیں‬
‫جائیں گے تو وہ تیوری چڑھا کر کہنے لگی۔۔۔ وہ کیوں؟؟؟ تو میں ان‬
‫کی طرف دیکھتے ہوئے بوال ۔۔۔ وجہ آپ جانتی ہو ۔ تب وہ مسکراتے‬
‫ہوئے بولیں ۔۔ میں پہلے دن ہی سمجھ گئی تھی کہ تم میری بہو پر‬
‫بہت گرم ہو ۔۔۔اس لیئے میں جان بوجھ کر تمہارے ساتھ جاتی ہوں تو‬
‫میں ان سے بوال ۔۔۔۔ ۔۔۔ وہ کیوں میڈم؟ تو وہ کہنے لگیں تا کہ تم‬
‫مجھے ساتھ جانے سے منع کرو۔۔۔۔ تو میں حیران ہو کر بوال ۔۔۔۔۔میں‬
‫آپ کو منع کروں؟ تو وہ سر ہالتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔ہاں مجھے۔۔۔ تو‬
‫میں مزاقا ً بوال۔۔۔تو ٹھیک ہے آنٹی ۔۔ کل سے آپ ہمارے ساتھ نہیں‬
‫چلیں گی تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں۔۔۔اوکے۔۔ کل سے‬
‫میں تمہارے ساتھ نہیں جاؤں گی۔۔۔ لیکن میری بھی ایک شرط ہے تو‬
‫میں بوال کیسی شرط ؟ تو وہ کہنے لگی اتنے دنوں سے ہمارے ہاں آ‬
‫جا رہے ہو اور۔۔۔۔۔ چودا صرف ایک بار ہے۔۔۔اگر تم مجھ سے وعدہ‬
‫کرو کہ گوری کے جانے کے بعد ۔۔۔۔ تم گاہے بگاہے مجھے چودتے‬
‫رہو گے۔۔۔ تو کل سے میں کباب میں ہڈی نہیں بنوں گی۔۔۔ پنجابی کی‬
‫ایک مثال ہے کہ ایہہ جہاں مٹھا ۔۔۔۔ تے اگال کس نے ڈیٹھا؟ مطلب آج‬
‫مزے کر لو۔۔ کل کا کوئی پتہ نہیں ۔۔۔۔سو میں نے جھٹ سے وعدہ کر‬
‫لیا۔۔۔لیکن خرانٹ آنٹی نے بھی کچی گولیاں نہیں کھیلیں تھیں۔۔۔ کہنے‬
‫لگی جیسا کہ تمہیں معلوم ہے کہ آج رات صائمہ کے ہاں ہماری‬
‫دعوت ہے اور صائمہ کہہ رہی تھی کہ اس نے آج کی رات بھابھی‬
‫کو اپنے پاس رکھنا ہے اس لیئے ۔۔۔۔۔ رات ٹھیک گیارہ بجے تم کو‬
‫میرے گھر پر ہونا ہے تو میں ان سے پوچھنے لگا ۔۔۔۔کہ آنٹی جی۔۔۔۔‬
‫انکل گھر پر نہیں ہوں گے؟ تو وہ کہنے لگیں تمہیں شاید معلوم نہیں‬
‫کہ تمہارے انکل نیند کی گولیاں لے کر ٹھیک دس بجے سو جاتے‬
‫ہیں ۔۔۔اسی لیئے۔۔۔ میں نے تمہیں گیارہ بجے کا وقت دیا ہے ۔۔ چنانچہ‬
‫اس رات میں گیارہ بجے کے قریب آنٹی کے گھر جا پہنچا ۔۔ حسب ِ‬
‫توقع انکل سوئے ہوئے ملے چنانچہ میں آنٹی کو عدیل والے کمرے‬
‫میں لے گیا۔۔۔۔جہاں پر میں نے ان کی پیاسی پھدی کو خوب سیراب‬
‫کیا۔۔۔۔۔اور گانڈ کو بجانے کے بعد بارہ ساڑھے بارہ بجے واپس گھر آ‬
‫گیا۔۔‬

‫آنٹی نے مجھے رات ہی بتا دیا تھا کہ فرزند صاحب گوری کو لنچ‬
‫کے بعد واپس گھر چھوڑ دیں گے اس لیئے میں چار بجے کے قریب‬
‫ان کے گھر پہنچ جاؤں ۔۔انکل کے بارے میں پوچھنے پر وہ کہنے‬
‫لگیں کہ کام کے رش کی وجہ سے وہ کل رات گئے واپس آئیں گے‬
‫۔۔۔۔۔اگلے دن ٹھیک چار بجے میں آنٹی کے گھر پہنچ گیا۔ ۔۔ گیٹ‬
‫گوری نے کھوال ۔۔ مجھے دیکھ کر وہ خوش ہو گئی۔اور گیٹ سے‬
‫اندر داخل ہوتے ہی میں نے گوری سے جپھی لگائی پھر اس کے‬
‫رس بھرے ہونٹوں پر ایک کس کر دی۔۔۔اور اس کے ساتھ ڈرائینگ‬
‫روم میں پہنچ گیا۔۔ دیکھا تو آنٹی تیار کھڑی تھیں ۔ انہیں تیار دیکھ کر‬
‫۔۔۔۔میں ڈرامہ کرتے ہوئے بوال گوری سے بوال آنٹی از ریڈی۔۔۔ ۔۔۔‬
‫لیکن آپ ابھی تک تیار نہیں ہوئی؟َ۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ گوری کچھ‬
‫کہتی بمطابق اسکرپٹ آنٹی کہنے لگی۔۔۔ بیٹا آج کا جانا کینسل کر دو‬
‫کہ میں اپنی ایک دوست لے کر ماریہ اور عدیل کے لیئے سرپرائز‬
‫گفٹ لینے جا رہی ہوں اس پر میں بوال اس کا مطلب آج کے دن میں‬
‫فری ہوں ۔۔تو وہ کہنے لگی نہیں آپ ماریہ بیٹی کے ساتھ گپ لگاؤ‬
‫۔۔۔اور اگر اس کا جی چاہے تو اسے بازار لے جاؤ ۔۔ پھر گوری کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے بولی میں تمینک بھی ساتھ لے جاتی ۔۔۔ لیکن‬
‫اس سے سارا سرپرائز ختم ہو جائے گا۔۔۔ ۔۔اس لیئے میں اپنی ایک‬
‫دوست کو لے کر جا رہی اور آٹھ بجے تک واپس آ جاؤں گی اتنا‬
‫کہنے کے بعد۔۔۔۔ انہوں نے پرس پکڑا اور باہر کی طرف چلنے لگیں‬
‫۔۔جبکہ میں ان کو باہر چھوڑنے کے لیئے ان کے ساتھ ساتھ باہر نکل‬
‫گیا۔۔۔ گیٹ پر پہنچتے ہی میں نے ان سے تھینک یو بوال۔۔۔ ۔۔تو وہ‬
‫کہنے لگی۔۔۔ میری طرف سے فری ہینڈ ہے۔۔۔اس گوری کو جیسے‬
‫مرضی ہے چودو۔۔۔۔۔۔ لیکن یاد رکھنا ۔۔۔۔۔کہ اس کے جانے کے بعد تم‬
‫نے میرا خیال ضرور کرنا ہے تو میں کہنے لگا رات کو خیال نہیں‬
‫رکھا تھا۔۔۔؟ تو وہ ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی۔۔ایک بات‬
‫ہے۔۔۔۔۔۔اور وہ یہ کہ۔۔۔۔ تم چدائی کمال کی کرتے ہو۔۔۔۔ اور گیٹ سے‬
‫باہر نکل گئیں۔‬
‫گیٹ کو الک کرنے کے بعد میں سیدھا ڈرائینگ روم میں پہنچا ۔۔۔‬
‫مجھے دیکھتے ہی گوری آہستہ سے بولی ۔۔۔سو وی آر الون‬
‫ناؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔(ہم اب ہم اکیلے ہیں ) تو میں اس کی طرف بڑھتے ہوئے‬
‫بوال۔۔۔یس بےبی ۔۔۔۔تو وہ میرے گلے سے لگتے ہوئے بولی۔۔لیٹس‬
‫پارٹی ڈارلنگ۔۔۔۔۔اور میرے ساتھ گلے لگ گئی۔۔۔۔اس نے اس قدر‬
‫ٹائیٹ جپھی لگائی کہ۔۔۔۔ اس کی بھاری چھاتیاں میرے سینے کے‬
‫ساتھ دب گئیں۔۔۔۔ اس کے ساتھ ہی ہمارے ہونٹ الک ہو گئے۔۔۔ اور‬
‫میں نے انہیں چوسنا شروع کر دیا ۔۔ ۔ گوری کے اَنمول اور رس‬
‫بھرے ہونٹوں سے اب تک نجانے کتنے لوگوں نے رس کشید کیا ہو‬
‫سر ُمو فرق نہیں آیا‬‫گا لیکن ابھی تک ۔۔۔۔۔ان کے ذائقے اور رس میں ِ‬
‫تھا بلکہ (شاید) پہلے سے زیادہ رس بھرے ہو گئے تھے۔۔۔ ادھر‬
‫گوری جس بے باقی کے ساتھ اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں میں‬
‫پیوست کیے چوس رہی تھی اس سے میری مستی میں دو چند اضافہ‬
‫ہو رہا تھا ۔۔۔ہونٹ چوسنے کے دوران ہی گوری نے اپنا منہ‬
‫کھوال۔۔۔۔اور اپنے ہونٹوں سے بھی سو گنا زیادہ۔۔۔ رسیلی زبان کو‬
‫میرے منہ میں ڈال دیا۔۔۔اور میری زبان کے ساتھ اپنی زبان کو اس‬
‫قدر آرٹ فُلی گھمایا۔۔۔ کہ میرے اندر کی شہوت آپے سے باہر ہونے‬
‫لگی۔۔۔ ۔۔۔۔ تھوڑی سی کسنگ کے بعد وہ بڑی مستی سے‬
‫بولی۔۔۔۔۔اتنے دنوں بعد تنہائی ملی ہے تم میرے ساتھ کیا سلوک کرنے‬
‫والے ہو ؟ تو میں اس کی بھاری چھاتیوں پر ہاتھ رکھ کر بوال۔۔ میں‬
‫ان کو چوموں گا تو وہ بڑے نخرے سے بولی۔۔ اونہہ صرف چومو‬
‫گے ؟ تو میں اس سے کہنے لگا کہ چھاتیاں چوسوں ۔۔اور نپلز کو‬
‫مسلوں گا۔۔۔۔۔۔ تو وہ شرٹ کے بٹن کھولتے ہوئے بولی اور کیا کرو‬
‫گے؟ تو میں اس کے چہرے کو اپنے دونوں ہاتھوں میں لے کر‬
‫بوال۔۔۔ میں تمہارے اس پیارے سے چہرے پر کسنگ کی بوچھاڑ کر‬
‫دوں گا ۔۔اتنا کہتے ہی میں نے۔۔۔۔ اپنے ہونٹوں کو کسنگ کی غرض‬
‫سے جیسے ہی گوری کی طرف بڑھایا ۔۔۔۔اور اپنے ہونٹوں کو اس‬
‫کے گالوں پر رکھنا چاہا۔۔۔۔۔۔۔ تو ناجانے کیوں گوری اسی وقت جگہ‬
‫پر گھوم گئی جس کا نتیجہ یہ نکال کہ گھومنے سے ۔۔ فرنٹ کی جگہ‬
‫۔۔۔۔۔ اس کی فومی گانڈ میرے لن کے ساتھ دب گئی اور اب پوزیشن‬
‫یہ تھی کہ میرے دونوں ہاتھ اس کی ادھ ننگی چھاتیوں پر دھرے‬
‫تھے۔۔۔۔۔ اور۔۔۔ اس کی بیک سائیڈ میری فرنٹ کے ساتھ چپکی ہوئی‬
‫تھی۔۔۔۔۔ لن کو اپنی نرم بنڈ کے ساتھ محسوس کرتے ہی اس نے بڑی‬
‫بے باقی کے ساتھ اپنی بنڈ کو لن صاحب کے ساتھ رگڑا۔۔۔۔۔۔اور منہ‬
‫پیچھے کر کے بولی۔۔۔۔۔اے مسٹر۔۔۔۔۔تیرا ڈِک (لن) پوزیشن میں آ رہا‬
‫ہے تو میں اس کے کان کی بیک سائیڈ کو چوم کر بوال۔۔ پتہ ہے یہ‬
‫کیوں پوزیشن لے رہا ہے ؟ تو وہ شہوت سے بولی۔۔۔۔۔ میرے اندر‬
‫جانے کے لیئے ۔۔۔ اس پر میں لن کو اس کی نرم گانڈ کے چھید میں‬
‫دباتے ہوئے بڑی آہستگی سے بوال۔۔۔۔۔یہ تمہارے اندر جانے واال ہے‬
‫تو وہ بنڈ کو رگڑتے ہوئے بولی۔۔۔۔ اسے کہنا مجھے خوب چودے۔۔۔۔‬
‫اب میں نے گوری کی بات کا کوئی جواب نہیں دیا اور آہستہ آہستہ‬
‫اس کی گردن کو چومنا شروع ہو گیا میں اس کی لمبی گردن کے‬
‫ایک ایک اینچ کو چومتا جا رہا تھا اور دوسری طرف وہ بھی میرے‬
‫لن کو اپنی گانڈ کے چھید میں پھنسائے ہلتی جا رہی تھی۔۔گردن کو‬
‫چومنے کے بعد جیسے ہی میرے ہونٹ اس کے شولڈر (کندھوں) پر‬
‫پہنچے تو وہاں ہونٹ لگتے ہی۔۔۔ گوری تڑپ اُٹھی۔۔ ۔۔۔ پہلے تو میں‬
‫نے اس بات پر غور نہیں کیا ۔۔لیکن جب دوسری تیسری دفعہ ایسا ہوا‬
‫۔۔۔تو گوری کا تڑپنا دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ ۔۔۔‬
‫رائیٹ واال شولڈر گوری کا بہت حساس ہے ۔۔۔میں نے گوری کے‬
‫بدن میں "سیکس کی" دریافت کر لی تھی۔۔۔ ۔۔۔چنانچہ۔۔اب میں نے‬
‫اپنی پوری توجہ اس کے رائیٹ شولڈر پر مرکوز کر دی تھی۔۔۔ اور‬
‫پہلے تو اسے آہستہ آہستہ چوما۔۔۔۔۔پھر زبان نکال کر جیسے ہی اسے‬
‫۔۔۔چاٹنا شروع کیا۔۔۔ گوری میری زبان کے نیچے کسمسانا شروع ہو‬
‫گئی اور اس کسمساہٹ کے دوران اس نے اپنی گانڈ کو بڑی سختی‬
‫کے ساتھ میرے لن پر دبانا شروع کر دیا۔۔اسی دوران میں اسکے کان‬
‫میں سرگوشی کرتے ہوئے کہا۔۔۔ مزہ آ رہا ہے؟ تو وہ گانڈ کو فُل‬
‫پیچھے کی طرف دباتے ہوئے بولی۔۔یس ۔۔ڈو اٹ مور۔۔۔۔چنانچہ اب‬
‫میں نے اس کے شولڈر کو چاٹنے کے ساتھ ساتھ اس پر ہلکا ہلکا‬
‫کاٹنا بھی شروع کر دیا۔۔۔۔کچھ ہی دیر میں گوری بہت مست ہو گئی۔۔۔۔‬
‫اور میری طرف منہ کرتے ہوئے بے تابی سے بولی۔۔۔ مجھے اپنا‬
‫ڈک (لن ) دکھاؤ ۔۔۔تو میں اس سے بوال۔۔۔ لن بھی چیک کرا دوں گا‬
‫۔۔پہلے تھوڑا پیار تو کرنے دو۔۔۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔ ۔۔۔ میں بھی تو‬
‫تیرے لن کو پیار کرنا چاہتی ہوں ۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی وہ گھوم کر‬
‫سیدھی ہوئی اور ۔۔۔میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر بڑے ہی شہوت‬
‫بھرے لہجے میں۔۔۔ بولی۔۔۔آئی ۔۔ایم ۔۔۔یور بچ (کتیا) ۔۔بےبی۔۔۔۔۔۔۔ تو‬
‫میں نے بھی اسی لہجے میں کہا۔۔۔۔ ۔۔۔ کیا بولی ؟۔۔۔۔ تو وہ دوبارہ اسی‬
‫ٹون میں کہنے لگی۔۔۔ آئی ایم یور بچ بےبی ۔۔تو میں اس کے منہ میں‬
‫زبان ڈالنے سے پہلے بوال۔۔۔ ۔۔۔۔تو تم میری کتیا ہو؟ تو وہ شہوت سے‬
‫چور لہجے میں بولی۔۔۔۔ یس جان!۔۔ میں تیری کتیا ہوں ۔۔۔۔۔اور اپنی‬
‫کتیا کے ساتھ جو چاہے سلوک کرو۔۔اور میری زبان کو چوسنے لگی‬
‫۔۔زبان چوسنے کے دوران ہی اس نے ہاتھ بڑھا کر پینٹ سے لن کو‬
‫باہر نکاال۔۔۔۔اور اسے مسلنے لگی۔۔۔۔۔۔۔پھر اپنے منہ سے میری زبان‬
‫کو باہر نکال۔۔۔۔ اور لن کی طرف دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔نائیس‬
‫ڈک۔۔۔پھر بڑے ہی پیار سے اس پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔۔۔۔‬
‫مجھے ایسے ہی شاندار لن کی تالش تھی جو میری چوت کی آگ‬
‫اور گانڈ کی جلن کو مٹا سکے۔۔۔۔۔۔۔۔پھر میری طرف دیکھتے ہوئے‬
‫بولی۔۔ بولو میری پھدی کو ٹھنڈا کرو گے نا؟ تو میں اس کی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے بوال۔۔نہ صرف یہ کہ تمہاری پھدی میں لگی آگ کو‬
‫ٹھنڈا کروں گا بلکہ۔۔۔۔۔۔تیری گانڈ میں ہونے والی جلن کو بھی ختم کر‬
‫دوں گا تو وہ شہوت سے بولی اپنے اس موٹے ڈنڈے سے میری‬
‫خوب بجانا۔۔لیکن ان سب سے پہلے میرا لن چوسنا ضروری ہے ۔۔اتنا‬
‫کہتے ہی گوری نے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔۔اور سرگوشی‬
‫کرتے ہوئے بولی۔۔۔۔اٹس سو ہاٹ بےبی۔۔۔۔پھر کہنے لگی۔۔۔۔ تیرا لوڑا‬
‫بہت مست ہے۔۔اسے دیکھ دیکھ کر میری پھدی بھیگتی چلی جا رہی‬
‫ہے تو میں اس سے بوال۔۔۔ لن چوس کتیا۔۔۔۔ میری بات سن کر اس نے‬
‫ہاں میں سر ہالیا ۔۔۔اور منہ کھول کر پوری زبان باہر نکالی۔۔اور‬
‫ٹوپے کو دیکھتے ہوئے بولی۔۔۔ بہت فیٹ (موٹا) لنڈ ہے ۔اور پھر اپنی‬
‫زبان کی نوک کو میرے ٹوپے پر گول گول پھیرنا شروع ہو گئی۔۔۔۔‬
‫تھوڑی دیر تک وہ ٹوپے کے ساتھ ساتھ پورے لن پر زبان پھیر کر‬
‫اسے گیال کرتی رہی ۔۔ جب میرا لن اس کے تھوک سے تر ہو گیا‬
‫۔۔۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔اب میں لن کو چوسنے لگی ہوں۔۔۔۔‬

‫پھر اسے منہ میں لے کر چوسنا شروع ہو گئی ۔۔ جب اس کے نرم‬


‫نرم ہونٹ میرے سخت لن پر لگے۔۔۔ تو مزہ آ گیا۔۔۔ ۔۔اور میں سسکیاں‬
‫لیتے ہوئے بوال ۔۔اوہ۔ اوہ۔۔۔۔۔۔۔۔ لن چوس کتیا۔۔۔۔۔۔۔اور وہ بھر پور انداز‬
‫میں اسے چوستی رہی۔۔۔۔۔ تھوڑی دیر بعد اس نے اپنے منہ سے لن‬
‫نکاال اور میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔ میں لن اچھا چوستی ہوں نا؟‬
‫تو میں اس سے بوال۔۔۔ یس ڈارلنگ!۔۔ تم بہت اچھا لن چوستی ہو تو وہ‬
‫کہنے لگی ۔۔۔اب تم بھی پھدی چوسو۔۔۔۔ اور جیسا مزہ میں نے دیا‬
‫ہے۔۔۔ایسا مزہ تم بھی دو۔۔۔۔اتنا کہتے ہی وہ کھڑی ہو ئی۔۔ ۔۔۔اور اپنے‬
‫کپڑے اتارتے ہوئے بولی۔۔۔تم بھی ننگے ہو جاؤ۔۔۔چنانچہ اس کی‬
‫دیکھا دیکھی میں نے بھی اپنے کپڑے اتار دیئے اور بھوکی نظروں‬
‫سے گوری کی پھدی کو دیکھنے لگا۔۔۔ ۔۔۔اس کی پھدی کافی ابھری‬
‫ہوئی ۔۔۔۔اور اس کے ہونٹ بہت موٹے تھے۔۔ جبکہ اس وقت پھدی پر‬
‫برائے نام بال بھی نہ تھا۔۔۔ مجموعی طور پر گوری کی پھدی بہت‬
‫کیوٹ لگ رہی تھی۔۔۔۔مجھے پھدی کی طرف متوجہ پا کر وہ اس پر‬
‫ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔ میری پھدی کیسی ہے؟؟ تو میں جواب‬
‫دیتے ہوئے بوال۔۔۔ایک دم پیاری اور چودنے الئق ہے تو وہ اس پر‬
‫ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی۔۔۔اسے میں نے صرف تمہارے لیئے صاف‬
‫کیا ہے تو میں اس سے بوال۔۔ میرے لیئے کیوں؟ تو وہ اٹھالتے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔ تا کہ تم میری نیٹ اینڈ کلین پھدی مارو۔۔۔۔۔۔ پھر بڑی ادا سے‬
‫کہنے لگی۔۔۔ ۔۔ میں نے پھدی صاف کر کے اچھا کیا ہے نا؟ تو میں‬
‫اس سے بوال۔۔ ہاں بہت اچھا کیا‪،‬۔۔۔تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔ اتنے دن سے‬
‫اسے کسی نے نہیں چوسا ۔۔۔ اس لیئے۔۔۔ میرے پاس آ۔۔۔ اور میری‬
‫کیوٹ پھدی کو چوس۔۔۔سو میں اس کے پاس چال گیا۔۔۔ اس نے میرا‬
‫ہاتھ پکڑا۔۔۔اور پاس پڑے بیڈ پر جا کر لیٹ گئی۔۔۔۔اور دونوں ٹانگیں‬
‫کھول کر بولی۔۔۔۔جلدی سے آ جا۔۔۔ اب میں کرالنگ کرتا ہوا اس کی‬
‫دونوں ٹانگوں کے بیچ پہنچ گیا ۔۔۔دور سے ہی پھدی کی مست مہک آ‬
‫رہی تھی میں نے اپنی ناک کو اس کی پھدی پر رکھا۔۔۔اور اس مست‬
‫مہک کو سونگھنے لگا۔۔۔تو وہ میرے بالوں میں انگلیاں پھیرتے ہوئے‬
‫بولی۔۔۔ میری پھدی کی سمیل ۔۔۔۔ اچھی ہے نا؟ تو میں اس کی پھدی‬
‫کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتے ہوئے بوال ۔۔۔۔۔۔ سمیل از سو‬
‫ُگڈ ۔۔۔۔( پھدی کی مہک بہت اچھی ہے)۔۔‬

‫اسے کچھ دیر تک سونگھنے کے بعد۔۔۔ میں نے منہ سے زبان باہر‬


‫نکالی اور اس کی ننگی پھدی پر رکھتے ہوئے بوال ۔۔۔۔۔ یہ تو بہت‬
‫گرم ہے۔۔۔تو وہ مست لہجے میں جواب دیتے ہوئے بولی۔۔ زبان اندر‬
‫لے جاکر دیکھ۔۔۔یہ بہت گیلی بھی ہے۔۔۔سو میں اس کی پھدی کی‬
‫دونوں پھانکوں کو کھوال۔۔۔۔اور زبان کو اندر ڈال دیا۔۔۔۔۔جیسے ہی‬
‫میری زبان اس کی پھدی میں داخل ہوئی ۔۔۔۔گوری نے ایک سسکی‬
‫لی۔۔آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ اور میرے سر کو اپنی پھدی پر دباتے ہوئے بولی۔۔۔۔‬
‫ِلک مائی پُسی۔۔۔( میری پھدی چاٹ)۔۔۔۔۔۔ ۔۔چنانچہ میں گوری کی پھدی‬
‫میں زبان کو اندر تک لے گیا۔۔۔اور اس کی پھدی کو اچھی طرح‬
‫چاٹا۔۔۔ کچھ دیر چاٹنے کے بعد۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے زبان کو پھدی سے‬
‫باہر نکاال ۔۔۔تو میری نظر اس کے پھولے ہوئے دانے پر پڑ‬
‫گئی۔۔۔۔اس کا براؤن رنگ کا دانہ بڑی مستی کے عالم میں کھڑا‬
‫تھا۔۔۔۔۔ اس پیارے سے دانے کو دیکھ کر میں نے اس پر تھوک‬
‫پھینکا۔۔۔۔اور دو انگلیوں کی مدد سے اس پر مساج کرنا شروع کر‬
‫دیا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔پھر گوری کی طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔مزہ آ رہا ہے؟؟‬
‫تو وہ کہنے لگی۔۔ پہلے یہ بتا کہ۔۔۔اسے چھوال کیوں کہتے ہیں تو‬
‫میں اس سے بوال کیونکہ اس کی شکل چنے کے دانے جیسی ہوتی‬
‫ہے اور چنے کو یو نو پنجابی میں چھوال کہتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔تو وہ مست‬
‫آواز میں کہنے لگی۔۔۔ڈئیر شاہ ۔۔ تیرا چھولے پہ مساج کرنا بہت مزہ‬
‫دے رہا ہے۔۔۔تو میں چھولے کو کھجالتے ہوئے بوال۔۔۔ یہ تو بہت بڑا‬
‫ہے۔۔تو وہ کہنے لگی بڑا چھوال ۔۔۔ بڑی شہوت کی نشانی ہے نا؟ تو‬
‫میں کہنے لگا۔۔۔ ۔۔تم درست کہہ رہی ہو۔۔اور اسے کافی دیر تک۔۔‬
‫مسلتا رہا۔۔۔۔‬

‫جس سے وہ بہت زیادہ ہاٹ ہو گئی۔۔۔۔۔تب وہ بیڈ سے اوپر اُٹھی اور‬


‫خمار آلود لہجے میں بولی۔۔۔۔آئی ایم یور بچ بےبی۔۔۔۔۔۔فک میں‬
‫ناؤ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور میرے سامنے کتیا بن گئی۔۔۔ جیسے ہی وہ میرے‬
‫سامنے کتیا بنی تو میں گوری کی فومی گانڈ کو دیکھ کر دنگ رہ‬
‫گیا۔۔۔ جو کہ بہت ہی نرم اور کافی موٹی تھی۔۔میں نے اس کی دونوں‬
‫پھاڑیوں کو الگ کر کے اس کی گانڈ کا سوراخ دیکھا۔۔تو اسے کافی‬
‫مست اور کھال ہوا پایا۔۔۔ ۔۔۔اس کا مطلب چوت کے ساتھ ساتھ گوری‬
‫نے گانڈ بھی خوب مروائی تھی۔۔۔ اب میں اپنی دو انگلیوں کو تھوک‬
‫سے تر کیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور اس کی کھلی گانڈ میں دے دیں۔۔۔۔۔ انگلیاں اندر‬
‫جانے سے گوری نے ہلکی سی چیخ ماری۔۔آؤؤؤچ۔چ۔چچ۔چ۔۔۔۔۔ اور‬
‫منہ موڑ کر بولی۔۔۔ پہلے گانڈ مارنی ہے ؟ تو میں بوال نہیں پہلے‬
‫پھدی ہی مارو ں گا ۔۔۔ گانڈ تو جسٹ چیک کر رہا تھا ۔۔تو وہ مست‬
‫لہجے میں بولی۔۔۔ چیک ہی کرنی ہے تو لن ڈال کر کرو۔۔ مزہ نہ آیا‬
‫تو مجھے کہنا۔۔۔تو میں کہنے لگا۔۔۔۔ لن ڈال کے بھی چیک کر لوں‬
‫گا۔۔۔۔۔ابھی تو بس مزے رہا ہوں۔۔۔۔۔۔ اس پر گوری کہنے لگی۔۔۔چیک‬
‫بعد میں کرنا۔۔۔ پہلے میرے دنوں کولہوں کو مضبوطی سے‬
‫پکڑو۔۔۔۔لن کو میری بے چین پھدی میں ڈالو۔۔۔اور تیز تیز جھٹکے‬
‫مارو۔۔۔۔۔۔گوری کی بات سن کر میں نے انگلیوں کو اس کی گانڈ سے‬
‫باہر نکاال ۔۔اور لن پر تھوک لگا کر اسے چکنا کیا۔۔۔۔اور پھر گوری‬
‫کی چوت پر رکھ۔۔۔۔۔۔۔کر پوری قوت سے جھٹکا مارا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔میرے‬
‫جھٹکا مارنے سے لن پوری قوت سے اس کی گرم اور گیلی پھدی‬
‫میں اتر گیا۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی گوری کے منہ سے دل کش چیخ‬
‫نکلی۔۔۔۔ آؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤچ۔۔۔۔چ۔۔ اور سیکسی چیخ مارنے کے بعد اس‬
‫نے منہ پیچھے موڑااور۔۔۔۔۔۔۔۔ کہنے لگی۔۔۔فک می ہارڈر۔۔۔اور میں‬
‫اس کو پورے جوش چودنے لگا۔۔پھر تو گوری کی مست چیخوں نے‬
‫آسمان سر پر اُٹھا لیا۔۔۔ اس کی ہر چیخ پر میں پہلے سے بھی زیادہ‬
‫ذور سے گھسہ مارتا ۔۔۔۔ہر گھسہ کھا کر و ہ یہی کہتی۔۔فاسٹ۔۔۔۔فک‬
‫می ہارڈر۔۔۔۔۔۔۔۔اس دوران اس نے کافی دفعہ اسٹائل تبدیل کیا۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔‬
‫اور ایک دفعہ تو میں نے اس کی گانڈ میں بھی لن دے دیا۔۔۔۔جسے‬
‫اس نے گانڈ بھینچ بھینچ کر خوش آمدید کہا۔۔۔‬

‫میں کچھ دیر تک اس کی گانڈ مارتا رہا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہاں سے لن‬


‫نکال کر اس کی پھدی مارنا شروع ہو گیا۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت گوری سیدھی‬
‫لیٹی ہوئی تھی اس کی دونوں ٹانگیں میرے کندھوں پر تھیں ۔۔اور‬
‫میں برق رفتار سے گھسے مار رہا تھا ۔۔۔ ۔۔۔ گوری کی دلکش اور‬
‫سیکسی چیخوں کا نہ رکنے واال سلسلہ جاری تھا۔۔۔ ۔۔۔ اس دوران‬
‫مجھے ایسے محسوس ہوا کہ جیسے گوری کی چوت لن کے آس پا‬
‫س تیزی سے پھڑ پھڑا رہی ہو ۔۔۔۔ تب میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔ تم‬
‫ڈسچارج تو نہیں ہونے والی؟؟۔۔۔تو وہ چڑھتے سانسوں میں بولی‬
‫۔۔۔یس آئی ایم۔۔فک میں ہارڈررررررررررررررر۔۔۔اور میں نے مزید‬
‫۔۔ تیز تیز گھسے مارنے شروع کر دیئے۔۔۔۔اور پھر اگلے چند سیکنڈز‬
‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔دوران گھسے میرا لن بھی پھولنا شروع ہو گیا۔۔۔ادھر‬
‫ِ‬ ‫کے بعد‬
‫گوری نے اپنی دونوں ٹانگوں کو میرے کندھوں سے اتار کر بیڈ پر‬
‫لے آئی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور دونوں ٹانگوں کو کھول کر بولی۔۔کامان‬
‫فاسٹ۔۔فک می ہارڈر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ابھی میں نے آدھا گھسہ ہی مارا تھا‬
‫کہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔وہ میرے ساتھ لپٹ کر چھوٹنا شروع ہو گئی۔۔۔اور اسی‬
‫دوران میرے لن نے بھی اسکی چوت میں ۔۔۔ منی اگلنا شروع کر‬
‫دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اس وقت میں اس کے اوپر چڑھا ہوا تھا اور ہم دونوں‬
‫جھٹکے مار مار کر چھوٹتے جا رہے تھے۔۔۔ کچھ دیر بعد جب ہم‬
‫مکمل طور پر فارغ ہو گئے۔۔تو میں گوری کے اوپر سے اتر‬
‫گیا۔۔۔اور ایک نظر اس کی طرف دیکھا۔۔۔۔۔تو گوری کے بال‬
‫بکھرے۔۔۔۔ اور جسم پسینے سے شرابور تھا۔۔۔۔۔۔۔۔ اور وہ ہلنے جلنے‬
‫کے قابل نہ رہی تھی۔۔۔ پھر میری نظر اس کی پھدی پر جا پڑی۔۔‬
‫جہاں سے میری اور اسکی منی کا پانی آہستہ آہستہ باہر نکل رہا‬
‫تھا۔۔۔خود مجھ پر بھی مدہوشی کا غلبہ چھا رہا تھا۔۔۔ میں نے‬
‫سرشاری کے عالم میں گوری کی طرف دیکھا جو کہ میرے پہلو میں‬
‫ادھ موئی پڑی تھی ۔۔۔ میں اسے چود کر بہت خوش اور مطمئن تھا ۔۔‬
‫میں‬
‫نے ایک بار پھر۔۔۔۔ نیم جان گوری کر طرف دیکھا۔۔۔۔۔۔۔۔پھر مزے‬
‫اور مدہوشی کے سبب میرا سر بھی ایک طرف ڈھلک گیا۔۔۔۔۔۔‬

‫۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ختم شد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

You might also like