Professional Documents
Culture Documents
Anoka Hadsa True Story
Anoka Hadsa True Story
مرا نام ناصر ہے اور میرا تعلق ایک مڈل کال
س فیملی سے ہے امی ابو دونوں سرکاری مال
زم ہیں اور ہم تین بہنیں اور ایک بھائی ہیں مج
ھ سے بڑی دو بہنیں نصرت اور فائزہ پھر میں
اور میری بعد فروا جو سب سے چھوٹی ہے ۔
بڑی دو بہنوں کی شادی ہو چکی اور میری بھ
ی ،وہ اپنے اپنے گھر کی ہو چکی گھر میں ا
می ابو اور میں میری بیوی اور فروا ہوتے ہیں
یہ کہانی اس وقت سے شروع ہوتی ہے ۔ اس
سے پہلے کی زندگی ایک سادہ زندگی تھی ج
س میں کوئی بھی غلطی شامل نہ تھی ،سکول
سے کالج یونیورسٹی اور پھر شادی سارا کچھ
ایک دم ہی ہو گیا میں نے بھی زندگی میں کبھ
ی کسی خرابی کی طرف بڑھنے کی کوشش نہ
یں کی ۔ تعلیم کے سولہ سال گزرنے کے بعد م
یری فورا سے نوکری بھی لگ گئی اس کے لی
ے میرے ابو کی بھرپور کوشش رہی اور میر
ی نوکری لگتے ہی میری شادی کرا دی گئی ج
یسا کہ زیادہ تر گھروں میں یہی ہوا کرتا ہے ۔
میری جب شادی ہوئی جب میری عمر تقریبا تئ
یس سال تھی اور میری بیوی یعنی حنا کی عم
ر اٹھارہ سال تھی اور میری بہن فروا کی عمر
سولہ سال تھی۔ میری بیوی ایک معصوم اور
سادہ طبعیت کی ہے اور فروا اتنی ہی شرارتی
اور نٹ کھٹ سی تو اس کے باوجود ان دونوں
میں گہری دوستی ہو گئی اور زندگی اپنی تمام
تر خوشیوں کے ساتھ گزرنے لگی ۔ ایک دن م
یں تقریبا دو بجے گھر میں داخل ہوا تو گرمی
کا موسم اور شائد مئی کا مہینہ تھا میں جیسے
ہی گھر داخل ہوا تو گھر میں خاموشی تھی میں
نے یہی سوچا کہ سب سو چکے ہوں گے تو ا
پنے کمرے کی طرف بڑھتا گیا ہمارا گھر دو م
نزلہ ہے دو بیڈ روم ڈرائنگ روم کچن اور الون
ج نیچے جبکہ تین بیڈ روم اوپر اور ہر کمرے
کے ساتھ الگ باتھ روم بھی ہیں میں اور حنا او
پر کے پورشن میں رہتے تھے امی ابو نیچے ا
یک روم میں اور دوسرے میں فروا ہوتی تھی
۔ تو میں الونج سے گزرا تو مجھے کچن میں ک
چھ آواز آئی جیسے کسی نے برتن اٹھا کہ رکھ
ے ہوں میں دبے قدموں کچن کی طرف بڑھا م
یرا ارادہ تھا کہ جو بھی کچن میں ہو گی اسے
ڈراوں گا ۔ فروا اور حنا تقریبا ایک جیسی ہی ت
ھیں تب تک میں نے ان پہ اتنا غور نہیں کیا تھ
ا بیوی کا تو ظاہر ہے سارا جسم دیکھ چکا تھا
مگر بہن کیسی دکھتی ہے یہ کبھی سوچا تک ن
ہ تھا کہ عام طور پہ ایسی سوچ کو گندگی اور
غالظت ہی سمجھا جاتا ہے اور ایسا ہی ہے ۔ م
یں جب کچن کے دروازے میں پہنچا تو مجھے
لگا کہ حنا برتن دھو رہی ہے اور اس کی پش
ت میری طرف ہے اس نے وہی کپڑے پہنے ہ
وئے تھے جو وہ ایک دن قبل پہنے ہوئی تھی ل
یکن رات کی گرمجوشی کے بعد صبح اس نے
کپڑے بدل لیے تھے اور پرانے کپڑوں میں ا
سے دیکھ کر مجھے یہی خیال آیا کہ اس نے ی
ہی دوبارہ کیوں پہنے ہوں گے ۔ میں دبے قدمو
ں آگے ہوا اور ہاتھ کو تیزی سے اس کے کولہ
وں کے درمیان گھسا دیا میں نے یہی سمجھا ت
ھا کہ حنا ہی ہو گی اور میرا ہاتھ لگنے سے و
ہ پیچھے مڑے گی تو اسے بازووں میں بھر لو
ں گا لیکن جیسے ہی میرا ہاتھ کولہوں کے درم
یان لگا مجھے لمحے کے ہزارویں حصے میں
یہ علم ہو گیاکہ یہ کم ازکم حنا نہیں ہے ۔ ادھر
میرا ہاتھ اپنے کولہوں میں لگتا محسوس کر ک
ہ جیسے ہی اس کے منہ سے اوئی کی آواز نک
لی اور وہ بجلی کی تیزی سے پیچھے مڑی تو
میں تو جیسے کاٹو تو لہو نہں ایک دم ساکت
حیران اور پریشان ہو گیا اور وہ بھی کیونکہ و
ہ فروا تھی مجھے دیکھتے ہی اس کا چہرہ بھ
ی سرخ ہو گیا اور آنکھیں نیچے جھک گئیں ،
مجھے تو کچھ سمجھ نہیں آ رہی تھی ہکالتے ہ
وئے میرے منہ سے یہی نکال سس سوری یہ ک
پڑے تو حنا کے تھے ہم دونوں بہن بھائی کی
حالت بہت خراب ہو چکی تھی اور فروا کے ب
ھی ہاتھ پاوں کانپ رہے تھے ۔ ہم دونوں خامو
ش کھڑے تھے کہ سمجھ ہی نہں آ رہی تھی کہ
بات کیا کی جائے ۔ فروا زمین کی طرف دیکھ
رہی تھی اور ہولے ہولے کانپ رہی تھی میں
بھی پوری طرح بوکھال چکا تھا میں نے پھر ک
ہا سوری فری مجھے لگا کہ حنا ہے کہ کپڑے
اس کے تھے ،میں نے اس کی طرف دیکھا لی
کن فروا نے آنکھیں زمین پہ رکھتے ہی جواب
دیا کوئی بات نہیں بھیا لیکن آپ یہ غور کر لو
کہ ہم میں بہت فرق ہے یہ غلطی پھر نہ ہو جا
ئے۔ میں فروا کی بات سن کر بہت شرمندہ ہوا
اور اسے سوری کہتا ہوا تیزی سے کچن سے
باہر نکل گیا ۔
میں اسی طرح بوکھالیا ہوا اوپر کمرے کی ط
رف بھاگا کہ جیسے بھوت دیکھ لیا ہو ،کمرے
میں جیسے ہی داخل ہوا تو حنا سو رہی تھی اس
ے سوتا دیکھ کہ میں نے بھی سکون کا سانس
لیا اور جوتے اتار کہ جلدی سے باتھ میں گھس
گیا ۔ باتھ میں گھستے ہی میں نے اپنے ہاتھ کو
دیکھا جسے میں نے انجانے میں اپنی ہی بہن
کی گانڈ کے لمس سے آشنا کروا دیا تھا ایک ل
محے کے لیے مجھے اپنے ہاتھ کی انگلیاں ش
کریہ کہتی نظر آئیں لیکن اگلے ہی لمحے ضمی
ر صاحب نے میری چھترول شروع کر دی کہ
بیغرت انسان کچھ تو سوچتے ہوئے بھی سوچ
و کیا گندی بات سوچ رہے ہو حرامی اور میں
نے بوکھال کہ ہاتھ کمر کے پیچھے کر لیا اور
پھر خود ہی اپنی اس حرکت پہ بےبسی سے ہن
س پڑا۔ میری زندگی میں ایسا کچھ کبھی کسی
غیر سے بھی نہیں ہوا تھا جو میری ہی حماقت
سے سگی بہن کے ساتھ ہو گیا اور میرے وہم
و گماں میں بھی نہیں تھا کہ فری نے حنا کے
کپڑے پہنے ہوں گے کیونکہ سب سے چھوٹی
اور سب کی الڈلی تھی اور اس کی الماری تو
کپڑوں سے بھری ہوئی تھی اس لیے مجھے س
و فیصد یقین تھا کہ یہ حنا ہی ہو گی عام طور پ
ہ دوپہر کے کام وہی کرتی تھی ۔ میں نے باتھ
میں نہانا شروع کر دیا اور ایک بار پھر غیر ا
رادی طور پہ میرا نظر میرے ہاتھ پہ پڑی تو ا
س بار مجھے اپنا لن جھٹکا لیتا ہوا محسوس ہو
ا جس نےایک بار پھر مجھے پریشان کر دیا ۔
میں اس لمحہ با لمحہ بدلتی حالت سے ایک دم
بہت پریشان ہو گیا میرا دل مجھے سمجھا رہا ت
ھا کہ جو ہوا سو ہوا اسے اب بھولنے کی کرو
اور ضمیر بھی مجھے ڈانٹ رہا تھا کہ جو غل
طی ہوئی وہ بس ایک غلطی تھی اور دوبارہ ای
سا سوچنا بھی مت لیکن کوئی ایک اور قوت تھ
ی جو مجھے سمجھا رہی تھی دیکھو میاں کتن
ی نرم بنڈ ہے ایسی نرم بنڈ تو تمہاری بیوی ک
ی بھی نہیں ہے دیکھو تم نے ہاتھ لگایا تو کیس
ے مکھن کے جیسی نرم اورمالئم تھی کاش کہ
چھونے کے لمحات کو زرا اور طویل کرتے۔
اس قوت کے ساتھ پھر ضمیر میاں مجھے سم
جھاتے کہ بچے جو ہو گیا بہت غلط تھا لیکن ای
ک غلطی تھی اسے دوبارہ نہیں دوہراو گے تو
اچھا ہو گا دوبارہ دوہراو گے تو زلیل ہو جاو
گے ۔ لیکن ساتھ وہ قوت بھی میری برداشت ک
ا برابر امتحان لے رہی تھی کہ کاش تم اسے پی
چھے سے جپھی ڈالتے اور اپنا لن اس بنڈ میں
گھساتے تو لن کو بھی اس غلطی کا مزہ مل جا
تا ،یعنی ایک حرکت نے میری سوچ کا سارا ان
داز بدل دیا تھا۔ خود سے لڑتے لڑتے نہایا اور
بستر پہ آ کر گر گیا حنا بھی بدستور سو رہی ت
ھی انہی سوچوں میں تڑپتے جانے کب میری آ
Incest part 2.نکھ لگ گئی اور میں سو گیا
میری جب آنکھ کھلی تو میری بیوی میرے اوپ
ر جھکی ہوئی مسکرا رہی تھی اس نے مجھے
آنکھیں کھھولتے دیکھا تو مسکراتے ہوئے می
رے ناک کو اپنے ہاتھ کی انگلیوں سے پکڑتے
ہوئے بولی میرا سوہنا جاگ گیا اور میرے جو
اب کا انتظار کرنے سے پہلے ہی میرے ہونٹو
ں پہ اپنے ہونٹ لگا دئیے۔ میں نے بھی مسکرا
تے ہوئے اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں بھر ل
یے اور انہیں چوسنے لگا ۔ وہ بیڈ کے کونے پ
ہ بیٹھی تھی اور میرے اوپر گری ہوئی تھی ا
س کی گانڈ میرے لن کے پاس تھی اور ممے م
یرے سینے پہ تھے لیکن پاوں زمین کی طرف
لٹکے ہوئے تھے۔ میں نے اس کے ہونٹوں کو
چوستے ہوئے ایک ہاتھ سے اس کی کمر کو
سہالنا شروع کر دیا ۔ ہونٹ چوستے چوستے م
یں نے کمر کو سہالنا جاری رکھا اور ہاتھ آہست
ہ آہستہ نیچے کرتا گیا اور اس کے کولہوں ک
ے اوپر ہاتھ رکھا جیسے ہی میرا ہاتھ اس کی
گانڈ تک پہنچا میرے زہہن میں ایک دم فروا ک
ی گانڈ کا لمس جگا اور میرے جسم کو ایک ج
ھٹکا لگا میری آنکھیں ایک دم کھل گئیں اور م
یں نے دیکھا کہ حنا آنکھیں بند کیے میرے ہون
ٹ چوسنے میں مشغول ہے ۔ ایک لمحے میں ہ
ی ضمیر نے مجھے مالمت کی اور میں نے اپ
نی توجہ حنا کی طرف کرتے ہوئے اس کے ہ
ونٹ چوسنا شروع کر دئیے لیکن میرے ہاتھ ک
و بار بار یونہی لگتا جیسے کہ وہ فروا کی گان
ڈ کے درمیان پھر رہے ہوں۔ حنا کی گانڈ پہ ہات
ھ پھیرتے مجھے احساس ہوا کہ یہ گانڈ میری
بہن کی گانڈ کی نسبت چھوٹی ہے اور اس پہ گ
وشت بھی نہیں میں اپنے زہہن کو اس سوچ س
ے ہٹاتا لیکن اگلے ہی لمحے پھر یہ سوچ میر
ے زہہن مینچھا جاتی ۔ حنا اس سب سے بے خ
بر میرے ہونٹ چوسے جار رہی تھی اس نے پ
ہلے میرے نچلے ہونٹ کو چوسا پھر اوپر وال
ے ہونٹ کو اور پھر ایک گہری سی سانس لیک
ر میرے ہونٹ چھوڑ دئیے اور مسکراتے ہوئ
ے مجھے دیکھنے لگی اور بولی ۔ جناب آئے ا
ور آ کہ سو گئے اور مجھے بتایا تک نہیں.
ایک دم ساری بات میرے زہہن میں آ گئی کہ
دن میں کیا ہوا تھا اور میں تھوڑا پریشان ہو گیا
۔ وہ اسی طرح میرے اوپر جھکی ہوئی مسکرا
رہی تھی مجھ سے اور کوئی جواب نہ بن پڑا
تو میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ب
س زرا کچھ طبعیت ٹھیک نہیں تھی سر درد تھ
ا تو بس آ کہ سو گیا کہ تم بھی سو رہی تھیں او
ر باقی سب بھی ۔ اس نے اپنا ایک ہاتھ اپنے ما
تھے پہ ہلکا سا مارا اور مسکراتے ہوئے بولی
چلیں اٹھیں اب ادھر آپ کی بہن صاحبہ کے س
ر میں درد ادھر جناب کے سر میں درد اور آ
پ کی اماں نے شور ڈال رکھا کہ دونوں کو ج
گا کہ الو چائے سب مل کہ پیئں ۔ یہ ایک نارم
ل بات تھی عام حاالت میں لیکن کیونکہ میرے
اندر چور تھا اس لیے فروا کے سر میں درد ک
ا سن کہ میں اندر سے گھبرا گیا اور ہڑ بڑا کہ
اوپر اٹھنے کی کوشش کی لیکن کیونکہ میرے
اوپر حنا تھی اس لیے مکمل اوپر نہ ہو سکا،
میں نے بوکھالہٹ میں پوچھا فرحی کو کیا ہوا
۔ میرے اس طرح بوکھالنے سے حنا کھلکھال
کہ ہنس پڑی اور میرے سر کے نیچے سے با
زو گزارتے ہوئے مجھے اوپر اٹھانے لگی می
ں نے بھی اس کا ساتھ دیا اور اٹھ بیٹھا کہ میر
ی ٹانگیں بیڈ پہ لمبی تھیں اور وہ میرے گلے م
یں بازو ڈالے اپنی ٹانگیں نیچے لٹکائے میرے
طرف مڑی میرے گلے سے لگی ہوئی تھی۔ ح
نا نے مسکراتے ہوئے کہا اسے کچھ نہیں ہوا ب
س یہی سر درد کا کہہ رہی تھی اور یوں چھوٹ
ی چھوٹی بات پہ پریشان نہ ہوا کریں جانو اور
مجھے کس کہ گلے سے لگا لیا۔ میں نے بھی
جوابا اسے جپھی ڈال لی اور دل میں سوچا ج
س وجہ سے پریشان ہوں تمہیں پتہ چلے تو تمہ
اری بھی ہوش اڑ جائیں گے۔ میں نے نارمل ہو
نے کے لیے اس کے گال کو چوما اور اس س
ےپہلے کہ مزید آگے بڑھتا وہ اچھل کہ پیچھ
ے ہو گئی اور ہنستے ہوئی بولی چلیں اب جلد
ی سے ہاتھ منہ دھو کہ نیچے پہنچیں میں فروا
کو لیکر جاتی ہوں ،میں نے بھی ہنستے ہوئ
ے اس کی طرف بازو کھولے اور اسے بازوں
میں آنے کا اشارہ کیا لیکن اس نے منہ سے ز
بان نکال کہ مجھے چڑایا اور دروازہ کھول ک
ر باہر نکل گئی۔ میں بھی جلدی سے بیڈ سےاٹ
ھا اور ہاتھ منہ دھو کر نیچے اتر گیا جہاں امی
الوئنج میں بیٹھی ہوئی سبزی چھیل رہی تھیں
میں نے ان کو سالم کیا تو انہوں نے جواب دیا
اور پوچھا کیا حال ہے اب طبعیت کیسی ہے ان
کی نظر میں ماؤں جیسی ازلی فکر تھی ۔ میں
ہنستے ہوئے ان کے پاس پہنچا اور انہیں کہا ا
رے امی جی اب میں بالکل ٹھیک ہوں دھوپ م
یں زرا سا سر درد ہو گیا تھا۔ امی نے مجھے د
السہ دیا اور موسم کو برا بھال کہنےلگیں اور پ
ھر بولیں جاو فریج میں تمہارے لیے شربت ر
کھا ہے وہ نکال کہ پی لو اور ان نکمیوں سے
بھی بولو کہ چائے الئیں۔
میں امی کے پاس سے مڑا اور کچن کی طرف
جانے لگا اتنے میں سامنے سے ابو بھی آتے
دکھائی دئیے میں نے ان کو سالم کیا اور کچن
کی طرف بڑھ گیا کچن کے دروازے پہ پہنچا ت
و دونوں دوسری طرف مڑی چائے بنا رہی تھی
ں اور آپس میں باتیں کر رہی تھیں میری نظر پ
ڑی تو دونوں کی کمر میری طرف تھی میری
نظر فورا پھسلتی ہوئی ان دونوں کی گانڈ کا مو
ازنہ کرنے لگی اور یہ دیکھتے ہی مجھے بہ
ت عجیب لگا کہ حنا کی نسبت فروا کی گانڈ م
وٹی تھی حاالنکہ وہ عمر میں حنا سے چھوٹی
تھی لیکن ایسا لگ رہا تھا کہ دو چھوٹے سائز
کے تربوز کسی نے کاٹ کہ پتلی کمر پہ لگا دئ
یے ہیں اس کی نسبت حنا کی گانڈ چھوٹی تھی
اور لمبوتری شکل میں تھی۔ میں ان کے پیچھ
ے کچن کے دروازے میں کھڑا بغور ان کی گا
نڈ کا مقابلہ کر رہا تھا کہ اچانک فروا پیچھے ہ
ٹی اور اس نے کچن کے کاونٹر کے نیچے بن
ے دراز کو جھک کہ کھوال اور اس میں سے
کچھ نکالنے لگی۔ اس کے اس طرح جھکنے س
ے اس کی گانڈ پیچھے سے باہر نکل آئی اور
مجھے اس کی درمیانی گلی کا عالقہ واضح ط
ور پہ محسوس ہوا وہ شائد دس سیکنڈ یا اس س
ے بھی کم وقت جھکی لیکن میری نظر جیسے
اس پہ چپک سی گئی اور وہ جب اوپر ہوئی ت
و اس کی کمیض اور شلوار دونوں اس کے چو
تڑوں کے درمیان دھنس گئیں اور کچن کے در
وازے پہ کھڑے ہی میں نے اس شلوار کے کپ
ڑے کی قسمت پہ رشک کیا ۔ میرے دل میں اچ
انک یہ شدید خواہش پیدا ہوئی کاش میی اس شل
وار کا کپڑا ہوتاہر وقت اپنی بہن کے جسم کو
محسوس تو کرتا۔جتنی شدت سے مجھے یہ خو
اہش آئی تھی اتنی ہی شدت سے مجھے شرمند
گی نے گھیرلیا کہ کمینے انسان کچھ بھی سوچ
نے لگ جاتے ہو کچھ تو شرم کرو بہن ہے وہ
تمہاری۔اس سے پہلے کہ ضمیر صاحب میری
اور چھترول کرتے کہ پیچھے مڑ کہ دیکھتی
حنا کی نظر مجھ پہ پڑ گئی اور وہ ہنستے ہوئ
ے حنا سے بولی لو جی امی کا پیغام آ گیا۔ فرو
ا نے بھی مڑ کہ میری طرف دیکھا اور جیسے
ہی ہماری آنکھیں ملیں اس کی آنکھوں میں مج
ھے شرم اور ہونٹوں پہ ہلکی سی مسکراہٹ ن
ظر آئی اور وہ دوسری طرف مڑتے ہوئے بول
ی امی کو بتائیں بس چائے پہنچنے والی ہے ۔
میں نے بھی کہا امی تو کہہ رہی ہیں اتنی دیر
میں تو میں پائے بھی پکا لیتی تھی جتنی دیر ا
ن لڑکیوں نے چائے پہ لگا دی ہے میں جا کہ ب
تاتا ہوں ابھی کہ کہتی ہیں بیس منٹ اور ہیں ۔
میری بات ختم ہوتے ہی فروا فورا پیچھے مڑ
ی اور بولی کوئی ضرورت نہیں ہے ماسی فتن
ہ بننے کی یہیں رکو اور ہمارے ساتھ ہی چائ
ے لے کہ جانا ۔ اس کے یوں کہنے پہ حنا اور
میں مسکرا پڑے اور سچی بات یہی تھی کہ ا
س کی گانڈ میں پھنسی کمیض دیکھنے کا میرا
بھی دل کر رہا تھا اور بار بار میری نظر اس
پہ پڑ رہی تھی ۔ فروا نے پھر حنا سے کہا بھاب
ھی آپ کپ لگا دیں ٹرے میں چائے ابل نہ جائ
ے میں چائے دیکھ لیتی ہوں اور یہ کہتے ہوئ
ے اس نے میری طرف مڑ کہ بھی دیکھا جس
کی مجھے بالکل توقع نہ تھی اور میں مزے س
ے ٹکٹکی باندھے اس کی گانڈ کے نظارے می
Incest part 3.ں گم تھا.
فروا نے میری طرف دیکھا اور مجھے اپنی گا
نڈ کی طرف دیکھتے محسوس کر کہ اس نے ا
یک عجیب سی نظر مجھ پہ ڈالی جس میں ہزا
روں شکوے اور شکایت تھی۔ آنکھوں کی زبا
ن دنیا کی آسان ترین زبان بھی ہے اور مشکل
ترین بھی کہ اگر احساسات ملتے ہوں تو یہ زبا
ن بہت ہی آسان ہے احساس اور محبت نہ ہو تو
یہ زبان سب سے مشکل بن جاتی ہے۔ اپنی یہ
بہن کہ جو مجھے شائد اپنی جان کے برابر ہی
عزیز تھی جس سے بے انتہا پیار بھی تھا میں
اس کی نگاہ کا شکوہ ایک دم سمجھ گیا کہ اس
ے یوں میرا اس کا جسم دیکھنا اچھا نہیں لگا۔ ا
ب بچی تو وہ بھی نہیں رہی تھی اور نہ میں بچ
ہ تھا بس ایک حادثے نے مجھے میرے مقام س
ے گرا دیا تھا اور افسوس یہ تھا کہ میں سنبھلن
ے کے بجائے مزید گرتا ہی جا رہا تھا شائد می
ری بہن کی سفید گول مٹول گانڈ جس کی اٹھان
برفیلی پہاڑیوں کے جیسی تھی اور جس کی گ
ئرائی بھی ناقابل بیان کہ جس گہرائی میں گرن
ے والے ہمیشہ اسی گہرائی میں رہنا چاہیں ۔۔ ل
یکن اس کا جسم جتنا بھی حسین ہو معاشرتی م
زہبی اخالقی طور پہ میرا اس پہ کوئی حق نہ ت
ھا اور یہی ہمیں پڑھایا سمجھایا بھی گیا تھا کہ
تم اس پھل کے مالی اور رکھوالے تو ضرور
ہو لیکن یہ کھانا کسی اور کے نصیب میں ہے
اور بالکل اسی طرح وہ بھی جانتی تھی کہ مال
ی جتنا بھی توجہ دے جتنا بھی پیار کرے یہ پھ
ل یہ پہاڑیاں یہ گہرائیاں اس کی نہیں ہیں چھون
ا تو درکنار یہ انہیں دیکھنے کا بھی حقدار نہی
ں تو اسی لیے معاشرتی سچائی کو سامنے رک
ھتے ہوئے اس کا یہ عمل اپنی جگہ درست تھا
وہیں مجھے بھی یہ عمل زلت کی گہرائی میں
گراتا گیا اور مجھے اپنا آپ بہت برا اور کم ظ
رف محسوس ہوا میں کچن کے دروازے میں ہ
ی کھڑا تھا لیکن مجھ پہ جیسے گھڑوں پانی پ
ڑ چکا تھا ۔ میں اپنے آپ کو کوس رئا تھا کہ ا
چانک فروا کی مسکراتی آواز میرے کانوں می
ں پڑی میں نے بوکھال کہ دیکھا تو وہ میرے
سامنے کھڑی تھی مجھے یوں اپنی طرف دیک
ھتے ہوئے وہ بولی اگر آپ کا ارادہ یہیں بت ب
ن کہ کھڑے ہونے کا نہیں تو چلیں چائے تیار ہ
و چکی ہے۔
میں نے اس کے ہنستے چہرے اور اس کے پی
چھے کھڑی حنا کے چہرے کی طرف دیکھا ت
و وہ بھی مسکرا رہی تھی میں ایک دم کورنش
بجا النے والے انداز میں جھکا اور اسے فرش
ی سالم کرتے ہوئے بوال ملکہ عالیہ کا اقبال بل
ند ہو خادم استقبال کے لیے تیار ہے ۔میرے یہ
کہنے پہ حنا بھی مسکرائی اس کے ہاتھ میں بھ
ی ٹرے تھی اور مسکراتے ہوئے بولی آپ بہن
بھائی یہاں شاہی انداز بناتے رہو میں تو جا رہ
ی ہوں چائے لیکر اور ہمارے پاس سے گزرت
ی گئی ،فروا نے اچٹتی ہوئی نظر مجھ پہ ڈالی
اور وہ بھی حنا کے پیچھے چل پڑی ،میں بھ
ی ان دونوں کے پیچھے چل پڑا لیکن ایک دو
قدم اٹھاتے ہی میری نظر ایک بار پھر بھٹک گ
ئی اور سیدھی بہن کی تازہ رس بھری جوان م
ٹکتی ہوئی گانڈ کی اچھل کود میں کھو گئی جو
اس کے ہر قدم کے ساتھ اچھل کہ اوپر نیچے
ہو رہی تھی۔ میں نے ایک بار پھر اپنی نظر ک
و اپنے دل کو کوسا لئکن بہت کوشش کے باوج
ود بھی اپنی نظر کو وہاں سے نہ ہٹا سکا اور
چلتے چلتے الونج میں پہنچ گئے وہاں امی ابو
کی موجودگی کے پیش نظر میں نے آنکھیں ج
ھکا لیں اور شریف بچہ بن کہ بیٹھ گیا لیکن دل
میں چور گھس چکا تھا اس سے چھٹکارا کیس
ے ممکن تھا۔ میں نے جیسے ہی اپنے سامنے
پڑی پیالی کو اٹھا کہ منہ سے لگایا تو اور ای
ک گھونٹ بھرا تو مجھے یوں لگا جیسے میں
نے نمک اور مرچ سے بھری کوئی چیز پی ل
ی ہو ،میں سمجھ تو گیا کہ یہ شرارت کی گئی
ہے کیونکہ باقی سب نارمل انداز میں چائے پی
رہے تھے میں نے ایک نظر سب کو دیکھا تو
سبھی نارمل تھے لیکن اس دشمن جاں کے چہ
رے پہ دبی دبی مسکراہٹ تھی میں سمجھ گیا
کہ یہ شرارت اسی کی ہے ۔ میں نے سوچا کہ
بول دوں لیکن پھر کچھ سوچ کہ چپ ہو گیا او
ر نمک اور مرچ سے بھری چائے پینے لگا ج
و کہ آسان کام تو نہ تھا لیکن میں باقیوں کی ط
رح نارمل رہتے ہوئے چائے کے گھونٹ بھرن
ے لگا۔ اس دوران ہم لوگ باتیں بھی کرتے رہ
ے باقی سب کی چائے تقریبا ختم ہو رہی تھی
جبکہ میں مشکل سے آدھا کپ پی پایا تھا لیکن
میں نے ایک دو بار فروا کی طرف دیکھا ج
س کے چہرے پہ اب بےچینی کے تاثرات تھ
ے اور مجھے چائے پیتا دیکھ کہ وہ بار بار پہل
و بدل رہی تھی لیکن میں نارمل انداز میں گھون
ٹ بھر رہا تھا ۔ جیسے ہی ابو نے کپ نیچے چ
ھوڑا فروا تیزی سے اٹھی اور میرے آگے س
ے آدھا کپ فورا اٹھا لیا اور تھوڑا چہرے پہ ج
بری مسکراہٹ التے ہوئے بولی ارے بھائی آ
پ نے بھی جلدی چائے ختم کر لی جب کہ ابھ
ی آدھا کپ باقی تھا وہ ٹرے میں باقی کپ اس
طرح رکھ رہی تھی کہ میرا آدھا کپ کسی کو ن
ظر نہ آئے۔ میں نے اس کی طرف دیکھا تو ا
س کی آنکھوں کے کونوں میں پانی جھلمال رہا
تھا ۔میں سمجھ گیا کہ وہ میرے چپ رہنے س
ے اب خود پہ ناراض ہو رہی ہے اور تبھی ا
س نے مجھ سے آدھا کپ پکڑلیا ہے.
فروا کپ سمیٹ رہی تھی تو امی نے حنا سے
کہا بیٹی تم میرے اور ان کے کپڑے استری کر
دو اور فرحی تم برتن دھو کہ رکھ دو شاباش،
فرحی تو برتن سمیٹ کر کچن کی طرف چلی
گئی اور حنا کپڑے استری کرنے چلی گئی اور
میں امی ابو کے پاس بیٹھ کر باتیں کرنے لگ
گیا دل تو میرا چاہ رہا تھا کہ جا کہ فرحی کو
دیکھوں لیکن میں وہاں سے نہ اٹھا ہمیں باتیں
کرتے کوئی پانچ منٹ گزرے تھےکہ امی نے
مجھے کہا جاو فریج سے میری دوائی تو نکال
الو آج دن میں مجھے کھانا یاد ہی نہیں رہی۔ ا
س سے پہلے کہ میں کچھ کہتا ابو نے زرا سخ
ت لہجے میں امی سے کہا بیگم تم کم از کم اپنا
خیال تو رکھا کرو گھر بچیوں نے سنبھاال ہوا
ہے ماشاہللا سے اور تم اپنی صحت کا خیال خو
د کیا کرو ۔ میں چپکے سے اٹھا اور کچن کی
طرف چل دیا کچن کے دروازے میں پہنچا تو
فرحی برتن دھو رہی تھی اس نے قدموں کی چ
اپ سے مڑ کہ مجھے دیکھا تو اس کی آنکھیں
جھلمالئی ہوئی تھیں وہ پھر برتن دھونے لگ
گئی میں نے کچھ بولے بغیر فریج کھول کہ ام
ی کی دوائی اور پانی نکاال اور واپس چل دیا ۔
امی کو دوائی دی اور پانی بھی دیا انہوں نے د
وائی کھا کہ مجھے دوائی اور گالس پکڑایا او
ر میں وہ لیکر کچن کی طرف چل دیا ،کچن ک
ے قریب پہنچا تو فرحی کچن سے باہر نکل رہ
ی تھی مجھے دیکھتے ہی واپس پیچھے ہٹ گئ
ی میں جونہی کچن میں داخل ہوا اس نے ہاتھ
بڑھا کہ مجھ سے گالس اور دوائی لے لی اور
گالس کو سینک میں رکھ کہ فریج میں دوائی
رکھنے لگی۔ جیسے ہی وہ فریج میں دوائی رک
ھنے کے لیے جھکی میری نظر ایک بار پھر ا
س کی گانڈ کے درمیان پڑی اور میں وہاں کھ
ڑا ہو کہ اسے دیکھنے لگ گیا ۔ اس نے فریج
کا دروازہ بند کیا اور میری طرف مڑ کہ مسک
راتے ہوئے بولی کیا ایک بار مرچوں کی دھون
ی سے فرق نہیں پڑا جناب کو اور باز بالکل نہ
یں آئے۔ میں سمجھ گیا کہ وہ کیا کہہ رہی ہے ل
یکن میں نے ظاہر نہ ہونے دیا اور چہرے پہ م
سکراہٹ التے ہوئے کہا ارے گڑیا یہ تو مرچی
ں تھیں تم زہر بھی پال دو تو قسم سے ایسے ہ
ی خوشی سے پی جاؤں ۔ میری بات پوری ہوت
ے ہی وہ بجلی کی تیزی سے آگے ہوئ اور م
جھے تھپڑ مارنے کی کوشش کی اس کی آنکھ
وں میں ایک دم آنسو بھر آئے اور روئانسی آوا
ز میں مجھے مارنے کو لپکی۔ وہ جیسے ہی م
یرے قریب ہوئی اور اس نے بازو مجھے مارن
ے کے لیے اوپر اٹھایا میں نے وہی بازو پکڑ
کہ اسے اپنے طرف کھینچ لیا اور وہ اپنے ہی
زور میں میرے سینے سے آ لگی۔ جیسے ہی و
ہ میری سینے سے لگی تو اس کی نرم اور موٹ
ے تازے ممے بھی میرے سینے سے لگے او
ر میں نے ایک بازو اس کی کمر کے گرد س
ے لپٹا کہ اس کو اپنے ساتھ جوڑ لیا۔ ہم بہن بھا
ئی آپس میں بہت فری تھے اور عید پہ کسی خ
وشی کے موقعہ پہ گلے مل لینا یہ عام سی بات
تھی اور اس سے کبھی کوئی گندہ خیال زہہن
Incest part 4.میں نہیں آیا تھ