Professional Documents
Culture Documents
Assignment#01 Islamiyat
Assignment#01 Islamiyat
1
COURSE CODE:9401
COURSE TITLE:ISLAMIYAT
SMESTER: AUTUMN 2022
SUBMITTED BY:ANAM FATIMA
سوال نمبر 1
سورة الحجرات كا تعارف تحریر كرین نیزسورة الحجرات میں مذکور
مضامین پراجمالی نوٹ تحریرکریں۔
الحجرات کا تعارف
نام :
حجرات کا لفظ اس سورت کی چوتھی آیت میں ذکر ہوا ہے اور اسی وجہ سے اس سورت کو ُح ُجرات کا نام دیا گیا ہے۔[
]1حجرات ُح جرہ کی جمع ہے اور ان کمروں کو کہا گیا ہے جو مسجد نبوی کے اطراف میں ازواج نبی کے لیے بنائے
گئے تھے۔
سورہ حجرات میں ۱۸آیات 353کلمات اور 1533حروف ہیں۔ یہ سورت مثانی سورتوں میں سے ہے اور ایک حزب
کے آدھے حصے پر مشتمل ہے۔
اس سورت کو ممتحنات سورتوں میں بھی شمار کیا گیا ہےاور کہا جاتا ہے کہ یہ سورت مضمون کے اعتبار سے سورہ
ممتحنہ سے زیادہ تناسب رکھتا ہے۔
مضمون
اکرم کے ساتھ
تفسیر المیزان کے مطابق اس سورت میں اخالقی کچھ احکام ہیں۔ جیسے ہللا تعالی سے ارتباط ،پیغمبر ؐ
جن آداب کی رعایت کرنی چاہیے اور معاشرے میں لوگوں سے رابطے کے دوران کیسا اخالق ہونا چاہیے۔ اسی طرح
اس سورت میں لوگوں کو ایک دوسروں پر برتری کا معیار بھی ذکر ہوا ہے اور آخر میں ایمان اور اسالم کی حقیقت کی
طرف ب ِھ ی اشارہ کیا ہے۔اس سورت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں ،دوسروں کی
غیبت اور بدگوئی سے پرہیز کریں اور دوسروں کے عیوب میں تجسس نہ کریں ،گمانوں سے اجتناب کریں اور
مسلمانوں کے درمیان صلح قائم کریں۔
سورہ حجرات کے مضامین
سورت کا موضوع مسلمانوں کو ان آداب کی تعلیم دینا ہے جو اہل ایمان کے شایان شان ہیں۔ ابتدائی پانچ آیتوں میں ان
کو وہ ادب سکھایا گیا ہے جو انہیں ہللا اور اس کے رسول کے معاملے میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔ پھر یہ ہدایت دی گئی
ہے کہ ہر خبر پر یقین کر لینا اور اس پر کوئی کارروائی کر گذرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص یا گروہ یا قوم کے
خالف کوئی اطالع ملے تو غور سے دیکھنا چاہیے کہ خبر ملنے کا ذریعہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ قابل اعتماد نہ ہو تو
اس پر کارروائی کرنے سے پہلے تحقیق کر لینا چاہیے کہ خبر صحیح ہے یا نہیں۔ اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ اگر کسی
وقت مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اس صورت میں دوسرے مسلمانوں کو کیا طرز عمل اختیار کرنا
چاہیے۔ پھر مسلمانوں کو ان برائیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرتی ہیں اور
جن کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑانا ،ایک دوسرے پر طعن کرنا ،ایک
دوسرے کے برے برے نام رکھنا ،بد گمانیاں کرنا ،دوسرے کے حاالت کی کھوج کرید کرنا ،لوگوں کو پیٹھ پیچھے ان
تعالی نے کی برائیاں کرنا ،یہ وہ افعال ہیں جو بجائے خود بھی گناہ ہیں اور معاشرے میں بگاڑ بھی پیدا کرتے ہیں۔ ہللا ٰ
نام بنام ان کا ذکر فرما کر انہیں حرام قرار دے دیا ہے۔ اس کے بعد قومی اور نسلی امتیازات پر ضرب لگائی گئی ہے جو
دنیا میں عالمگیر فسادات کے موجب ہوتے ہیں۔ قوموں اور قبیلوں اور خاندانوں کا اپنے شرف پر فخر و غرور اور
دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنا اور اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے دوسروں کو گرانا ،ان اہم اسباب میں سے ہے
تعال ی نے ایک مختصر سی آیت فرما کر اس برائی کی جڑ کاٹ دی ہے کہ جن کی بدولت دنیا ظلم سے بھر گئی ہے۔ ہللا ٰ
تمام انسان ایک ہی اصل سے پیدا ہوئے ہیں اور قوموں اور قبیلوں میں ان کا تقسیم ہونا تعارف کے لیے ہے نہ کہ
تفاخر کے لیے اور ایک انسان پر دوسرے انسان کی فوقیت کے لیے اخالقی فضیلت کے سوا اور کوئی جائز بنیاد نہیں
دعوی نہیں ہے بلکہ سچے دل سے ہللا اور اس کے ٰ ہے۔ آخر میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اصل چیز ایمان کا زبانی
رسول کو ماننا ،عمالً فرماں بردار بن کر رہنا اور خلوص کے ساتھ ہللا کی راہ میں اپنی جان و مال کھپا دینا ہے۔ حقیقی
مومن وہی ہیں جو یہ روش اختیار کرتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو دل کی تصدیق کے بغیر محض زبان سے اسالم کا اقرار
کرتے ہیں اور پھر ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ گویا اسالم قبول کر کے انہوں نے کوئی احسان کیا ہے ،تو دنیامیں ان
کا شمار مسلمانوں میں ہو سکتا ہے ،معاشرے میں ان کے ساتھ مسلمانوں کا سا سلوک بھی کیا جا سکتا ہے ،مگر ہللا
کے ہاں وہ مومن قرار نہیں پا سکتے۔
سوال نمبر 2
سنت کا مفہوم واضح کریں نیز احادیث کی روشنی میں سنت کی اہمیت بیان کریں۔
سنت کی تعریف
لغت میں سنت کا لفظ طریقہ اور عادت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ امام کسائی رحمہ ہللا کا کہنا ہے کہ اس کے معنی
میں دوام کی کیفیت ہے":یقال سنت الماء اذاوالیت فی صبہ" امام خطابی رحمہ ہللا کہتے; ہیں کہ جب مطلق طور پر سنت کا
لفظ بوالجاتا ہے تو اس سے طریقہ محمود مراد ہوتا ہے اور کبھی سنت سے غیر محمود طریقہ بھی مراد ہوتا ہے
سنت دین کا وہ پسندیدہ معمول و مروج (قائم-شدہ ،جاری) طریقہ جو خواہ نبی صلی هللا علیہ و سلم سے ثابت ہو یا صحابہ
(رضی هللا عنھم) سے۔
:جیسے قرآن مجید میں ہے :اچھے طریقے کے بارے میں
ُوا َأن يَجْ َعلُوهُ فِي َغيَابَ ِة ْالجُبِّ َوَأوْ َح ْينَآ ِإلَ ْي ِه لَتُنَبَِّئنَّهُم بَِأ ْم ِر ِه ْم هَـ َذا َوهُ ْم الَ يَ ْش ُعرُونَ
ُوا بِ ِه َوَأجْ َمع ْ
َوهّلِل ِ يَ ْس ُج ُد َمن فِي Raفَلَ َّما َذهَب ْ
صا ِلض طَوْ عًا َوكَرْ هًا َو ِظاللُهُم بِ ْال ُغ ُد ِّو َواآل َ
ت َواَألرْ ِ
اوا ِ ال َّس َم َ
اسی طرح ہم اس تکذیب وضالل کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کر دیتے; ہیں۔ سو وہ اس پر ایمان نہیں التے اور پہلوں
.کی روش بھی یہی رہی ہے
من سن سنۃ حسنۃ فلہ اج رہا واجر من عمل بہا الی یوم القیامۃ ومن سن سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرھا ووزر من عمل بہا"
الی یوم القیامۃ"۔
جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تواس کا اجر اورقیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا اجروثواب ملے گا اور
جس نے غلط رواج قائم کیا تو اسے اس عمل کا گناہ اور قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ اسے ہوگا۔
لیکن محدثین اور فقہا جب سنت کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے رسول ہللاﷺ کی طرف منسوب قول وفعل مراد ہوتا ہے؛
دہلوی:
ؒ چنانچہ محدثین; سنت کی یہ تعریف کرتے ہیں "ہی ماصدر عن النبیﷺ قول اوفعل أوتقریر" (مقدمہ شیخ عبد الحق
) 3مگرفقہاء سنت کی اصطالح استعمال کرتے ہیں توان کے یہاں قول وفعل اور تقریر کے عالوہ صحابہ کرام کے اقوال
اور افعال بھی مراد ہوتے ہیں ،امام سرخسی رحمہ ہللا لکھتے ہیں" :والمراد بھا شرعا ً ماسنہ رسول ہللاﷺ والصحابۃ بعدہ
عندنا"۔ (السنۃ ومکانتھا فی االسالم)47:
قول رسول
ِ
قول رسول سے مراد ہروہ لفظ ہے جورسول ہللاﷺ کی زبان سے بیداری کی حالت میں نبوت کے بعد قرآن کے عالوہ ادا ِ
ہوا ہو ،اس کی مثال حضورﷺ کا ارشاد ہے ;:انمااالعمال بالنیات ،البیّعان بالخیار مالم یتفرقا۔[]2
فعل رسول
ِ
ٰ
ومقتدی بناکر ان کی اتباع کا حکم دیا تعالی نے رسول اکرمﷺ کو امام
ٰ سنت میں افعا ِل رسول بھی داخل ہیں؛ کیونکہ ہللا
ہے ،ارشا ِد خداوندی ہے
تم لوگوں کے لیے رسول ہللا کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔
اس لیے علما اصول نے سنت قولیہ کے ساتھ سنت فعلیہ کو بھی بیان کیا ہے؛البتہ سنت قولیہ مقدم ہے اور سنت فعلیہ
مؤخر ،یہی وجہ ہے کہ علما اصول اسے ملحق بالسنۃ کہتے; ہیں۔
تقریر رسول
ِ
حضورﷺ نے کسی چیز کو کرتے ہوئے دیکھا اور اس پر سکوت فرمایا تو یہ اس کے صحیح ہونے پر دلیل ہوگی اور
یہ اس بات پر داللت کرے گا کہ بیان وضاحت کے موقع پر سکوت حقیقۃ بیان ہی ہے ،عالمہ شوکانی رحمہ ہللا نے سنت
سکوتی کے بارے میں لکھا ہے" :وصورته أن يسكت النبيﷺ عن إنكار قول قيل بين يديه; أوفي عصره وعلم به ،أويسكت
عن إنكار فعل فعل بين يديه; أوفي عصره وعلم به ،فإن ذلك يدل على الجواز"۔سنت سکوتی کی صورت یہ ہے کہ نبی
کریمﷺ کے سامنے کچھ کہا گیا ،یاآپﷺ کے زمانے میں کہا گیا اور آپﷺ کومعلوم ہوا مگراس پر نکیر کرنے سے
آپ خاموش رہے؛ اسی طرح آپﷺ کے سامنے یاآپﷺ کے عہد میں کوئی عمل ہوا اور آپﷺتک اس کی خبر پہنچی
مگرآپﷺ نے اس پر نکیر نہیں کی تو یہ جواز پر محمول ہوگا۔ مثالً غزوہ بنی قریظہ کے موقع پر جب صحابہ کرام نے
صلِّيَ َّن َأ َح ٌد ْال َعصْ َر ِإاَّل فِي بَنِي قُ َر ْيظَةَ" [ ]4تم
عصر کی نماز کے سلسلے میں اجتہاد کیا تھا جب کہ آپﷺ کا حکم تھا "اَل يُ َ
میں سے کوئی شحص نماز نہ پڑھے مگربنی قریظہ میں جاکر؛ چنانچہ بعض صحابہ نے اس کو حقیقت پر محمول کیا
اور انھوں نے مغرب کی نماز کوموخر کیا اور بنوقریظہ پہنچ کر نماز ادا کی ،جب کہ دوسرے بعض صحابہ نے یہ
سمجھا کہ اس حکم سے مراد جلدی جانے پر ابھارنا ہے توانھوں نے راستہ ہی میں وقت پر نماز پڑھ لی ،جب حضورﷺ
کودونوں فریقوں کے اجتہاد کا پتہ چال توآپﷺ نے خاموشی اختیار کی اور کسی پر نکیر نہیں کی۔
ب فِي النِّ َك ِ
اح ،حدیث" سنَّتِي فَلَ ْي َ
س ِمنِّي"۔ (بخاری،بَاب الت َّْر ِغي ِ سا َء َف َمنْ َر ِغ َب عَنْ ُ ص ْو ُم َوُأ ْف ِط ُر َوُأ َ
صلِّي َوَأ ْرقُ ُد َوَأتَ َز َّو ُج النِّ َ اَ ُ
نمبر،4675:شاملہ،موقع االسالم)
ترجمہ:میں روزے رکھتا اور چھوڑتا بھی ہوں،تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور نکاح بھی کیے ہیں ،جو
میری سنت سے منہ پھیرے وہ مجھ سے نہیں۔ اس حدیث میں آپﷺ نے اپنے طریق کو سنت کے لفظ سے بیان فرمایا
ہے اور یہ بھی بتالیا ہے کہ سنت اس لیے ہے کہ امت کے لیے نمونہ ہو اور وہ اسے سند سمجھیں ،جو آپ کے
طریقے سے منہ پھیرے اور اسے اپنے لیے سند نہ سمجھے وہ آپ کی جماعت میں سے نہیں ہے۔#ام المؤمنین حضرت
سلَّ َم بَ َع َث ِإلَى ُع ْث َمانَ ْب ِن َم ْظ ُعو ٍن فَ َجا َءهُ فَقَا َل يَا ُع ْث َمانُ َأ َر ِغبْتَ عَنْ صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َعائشہ ؓ سے مروی ہے کہ" :اَنَّ النَّبِ َّي َ
ْؤ
صو ُم َو ف ِط ُر،الخ"۔ (ابو داؤد،بَاب َما يُ َم ُر بِ ِه ِمنْ ْ ُأ َأ
صلي َو ُ ِّ ُأ َ َأ ِّ
ب قا َل فِإني نا ُم َو َ َ َ ُ ْ َأ
سنَّتَ َك طل ُ سنَّتِي قَا َل اَل َوهَّللا ِ يَا َر ُ
سو َل هَّللا ِ َولَ ِكنْ ُ ُ
صاَل ِة،حدیث نمبر،1162:شاملہ،موقع االسالم) َّ ال ي ا ْل ْ ِ ِ
ف دص َ ق
عثمان آپ کی خدمت میں حاضر ؓ ترجمہ:نبیﷺ نے کسی کو حضرت عثمان بن مظعون کو بالنے کے لیے بھیجا ،حضرت
ہوئے ،آپ نے کہا اے عثمان! کیا تم میری سنت سے ہٹنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا :نہیں! خدا کی قسم اے ہللا کے رسول
؛بلکہ میں آپ کی سنت کا طلب گار ہوں ،آپ نے فرمایا:میں سوتا بھی ہوں اور نماز کے لیے جاگتا ہوں،روزے بھی
سنَّتِيسنَّةً ِمنْ ُ رکھتا ہوں اور انہیں چھوڑتا بھی ہوں ۔ حضور اکرمﷺ نے حضرت بالل بن حارث کو فرمایاَ " :منْ َأ ْحيَا ُ
ضي هَّللا َ ص ِمنْ ُأ ُجو ِر ِه ْم َ
ش ْيًئا َو َمنْ ا ْبتَ َد َع بِ ْد َعةَ َ
ضاَل لَ ٍة اَل ت ُْر ِ قَ ْدُأ ِميتَتْ بَ ْع ِدي فَِإنَّ لَهُ ِمنْ اَأْل ْج ِر ِم ْث َل َمنْ َع ِم َل بِ َها ِمنْ َغ ْي ِر َأنْ يَ ْنقُ َ
اجتِنَا ِ
ب ش ْيًئا"۔ (ترمذی،بَاب َما َجا َء فِي اَأْل ْخ ِذ بِال ُّ
سنَّ ِة َو ْ س َ ص َذلِ َك ِمنْ َأ ْو َزا ِر النَّا ِ
سولَهُ َكانَ َعلَ ْي ِه ِم ْث ُل آثَ ِام َمنْ َع ِم َل بِ َها اَل يَ ْنقُ َُو َر ُ
َع،حدیث نمبر،2601:شاملہ،موقع االسالم) ا ْلبِد ِ
ترجمہ:جس نے میری کوئی سنت زندہ کی جو میرے بعد چھوڑدی گئی ہو تو اسے ان تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا
جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی ہو اورجس نے کوئی غلط راہ
نکالی جس پر ہللا اور اس کے رسول کی رضا مندی موجود نہیں تو اسے ان تمام لوگوں کے گناہوں کا بوجھ ہوگا جو
اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان کے بوجھ میں کمی آئے۔ اس حدیث میں دین کی فروعی باتوں کو بھی سنت
کہا ہے اور انہیں زندہ رکھنے کی تلقین کی ہے،دین اسالم ایک زندہ مذہب ہے اور اس کے اصول ہمیشہ زندہ رہنے
چاہئیں ،ان پر کبھی موت نہیں آسکتی ،اسالم کا تاریخ کے ہر دور میں قائم وباقی رہنا ضروری ہے اور یہی اس کی
مسلسل زندگی ہے ایک فرع دب گئی تو دوسری ضرور زندہ ہوگی یہ نہیں ہو سکتا کہ اصول کی تمام کڑیاں ایک ایک
کرکے ٹوٹتی جائیں ،ہاں! یہ ہو سکتا ہے کہ ایک فرع دبنے لگے اور اس پر عمل ترک ہو جائے ؛لیکن اسے پھر سے
زندہ کرنے کا اسالم میں پورا اہتمام کیا جائے گا ،حضورﷺ کی ہدایت اسے پھر سے زندہ کرنے کی ایک بڑی بشارت
شافعی فرماتے ہیں" :فنعلم أن المسلمين كلهم ال
ؒ ہے ،ناممکن ہے کہ کل مسلمان کسی سنت سے ناآشنا رہیں ،امام
يجهلون سنة"۔ (کتاب االم،7/305:شاملہ،موقع یعسوب)
ترجمہ:ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ سارے کے سارے مسلمان کبھی بھی سنت سے ناآشنا نہیں رہ سکتے۔
سوال نمبر2
حدیث کی روشنی میں امر بالمعروف پر جامع نوٹ لکھیں۔
ایک شخص پیغمبر کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ٓاپ منبر پر جلوہ افروز تھے اس نے پوچھا” َمنْ َخی ُر النّا ِ
س“
:تمام لوگوں میں سے بہتر کون ہے ۔ ٓاپ نے فرمایا
ٓامر بالمعروف و انھا ھم عن المنکر و اتقاھم ہلل و ارضاھم
خشنودی خدا کی راہ میں
ٴ جو سب سے زیادہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتا ہو اور جو زیادہ پر ہیز گار ہو اور جو
زیادہ قدم بڑھا نے واالہو۔
ایک اور حدیث میں ٓاپ نے فرمایا :امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو ورنہ خدا کسی ستم گر ظالم کو تم پر مسلط
کرے گا ۔
جو نہ تمہارے بوڑھوں کا احترام کرے گا اور نہ بچوں پرحم کرے گا۔ تمہارے نیک اور صالح لوگ دعا کریں گے لیکن
مستجاب نہیں ہوگی۔ وہ خدا سے مدد طلب کرےں گے لیکن خدا ان کی مدد نہیں کرے گا یہاں تک کہ اَ َم َر ِبال َم ْع ُر ِ
وف َو
نھی عَنْ ال ُم ْن َک ِر فَ ُھ َو َخلِ ْیفَةُ ہّٰللا ِ فِی اَرضہ َو َخلِیفَةُ رسو ِل ہّٰللا ِ َو َخلِ ْیفَةُ کتابِہ
ٰ
اگر وہ لوگ توبہ کریں گے تو خدا ان کے گناہ معاف نہیں کرے گا۔
یہ سب کچھ اس گروہ کے اعمال کی عکاسی ہے جو اس عظیم معاشرتی ذمہ داری کو پورا نہیں کرں گے کیونکہ جب
عمومی نگرانی کے بغیر معامالت کی باگ ڈور نیک لوگوں کے ہاتھ سے نکل جائے گی تو بر ے اور اہل لوگ معاشرے
کے ہر میدان پر قابض ہو ئیں گے۔
مندرجہ باال حدیث میں ان کی توبہ کی عدم قبولیت کا یہ مطلب ہے کہ برائیوں کے مقابلہ میں مسلسل خاموشی کی وجہ
سے دعا کوئی اثر نہیں رکھتی مگر یہ کہ وہ اپنے عمل میں تجدید ِ نظر کریں ۔
:حضرت علی علیہ السالم فرماتے ہیں
"وما اعمال البر کلھا و الجھاد فی سبیل ہللا عند االمر بالمعروف و النھی عن المنکر االکنفشة فی بحر لجی"
تمام نیک کام یہاں تک کہ ہللا کی راہ میں جہاد بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلے میں ایک گہرے
سمندر میں تھوکنے اور پھوکنے کا مانند ہے ۔5
اس قدر تاکید کا سبب یہی ہے کہ یہ دو عظیم ذمہ داریاں باقی اجتماعی اور انفرادی ذمہ داریوں کے اجراء کی ضامن ہیں
اور ان کی روح شمار ہوتی ہیں ۔
زیر مطالعہ حدیث مسلم شریف کی ہے اور حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے .وہ کہتے ہیں کہ میں نے ہللا کے
رسولﷺ کو فرماتے ہوئے خود سناَ :منْ َر ٰای ِم ْن ُک ْم ُم ْن َک ًرا فَ ْلیُ َغـیِّ ْرہُ بِیَ ِد ٖہ ’’جو شخص بھی تم میں سے کسی منکر(بدی)
کو دیکھے‘ اس کا فرض ہے کہ اسے اپنی طاقت سے بدل دے‘‘.غور کیجیے یہ فرض ہے .یہ نہیں کہ انسان سوچے
کہ جو کوئی برائی کرتا ہے کرتا رہے‘ خود عذاب سہے گا.ہرگز نہیں!اسے برائی سے روکنا ٓاپ پر فرض ہے اور اگر
ٓاپ نہیں روک رہے تو ٓاپ گناہ کا ارتکاب کررہے ہیں.چنانچہ جہاں آپ کا اختیار ہو وہاں اپنے زو ِر بازو سے برائی کو
روکیں .حکومتی سطح پر تو طاقت موجود ہوتی ہے‘ چنانچہ حکومت وقت اپنے اہلکاروں کے ذریعے برائی کو بزور
سانِ ٖہ ’’پھراگر اس کی ست َِط ْع فَبِلِ َ
روک سکتی ہے اور اچھائی کا نفاذ کرا سکتی ہے.لیکن اگر طاقت نہیں ہے تو :فَاِنْ لَّ ْم یَ ْ
استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اسے بدل دے‘‘ .یعنی اپنی زبان سے برائی کو روکے .غلط کام کرنے والے
سے برمال کہےـ کہ خدا کے بندے ‘ یہ غلط کام مت کرو‘یہ حرام کا م ہے‘ اس سے باز ٓاجأو.اور اگر زبان سے روکنے
کی بھی طاقت نہیں ہے‘ یعنی معاشرے میں زبانوں کے اوپر بھی اس طریقے سے تالے ڈال دیے جائیں کہ بولنا بھی
ست َِط ْع فَبِقَ ْلبِ ٖہ
گویا جرم شمارہورہا ہو اور ٓاواز اُٹھانے پر زبان کھینچ دی جاتی ہو تو اس صورت میں یہ ہے کہ :فَاِنْ لَّ ْم یَ ْ
ک ٰ
’’پھر اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہوتو کم سے کم اپنے دل میں (اس کے خالف) ایک نفرت کا معاملہ رکھے‘‘َ .وذلِ َ
ض َعفُ ااْل ِ ْی َما ِن ’’اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘.اگر دل میں بھی گناہ اور بدی سے نفرت کا معاملہ نہ ہو تو پھر اَ ْ
.ایمان کی مطلق نفی ہے
اس حدیث کی ہم مضمون ایک اور روایت ہے جو ذرا مفصل انداز میں ہے‘وہ بھی آپ سن لیجیے.اسے بھی امام مسلم
نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور یہ حضرت عبدہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ سے مروی ہے .وہ فرماتے ہیں کہ
ہّٰللا
تعالی نے مجھ ٰ اب ’’ہللا ص َح ٌ رسول ہللاﷺ نے ارشاد فرمایاَ :ما ِمنْ نَبِ ٍّی َب َعثَہُ ُ ِف ْی اُ َّم ٍۃ قَ ْبلِ ْی اِالَّ َکانَ لَ ٗہ ِمنْ اُ َّمتِ ٖہ َح َوا ِر ُّی ْونَ َواَ ْ
سے پہلے کوئی نبی کسی اُمت میں نہیں بھیجا مگر اس کے لیے اس کی امت میں سے کچھ نہ کچھ حواری اور اصحاب
سنَّتِ ٖہ ’’وہ اس کی سنت کو مضبوطی ہوتے تھے‘‘.وہ خصوصی طور پر دوکام کرتے تھے‘پہال کام یہ تھاکہ :یَاْ ُخ ُذ ْونَ بِ ُ
سے تھامتے تھے‘‘ اور دوسرا کام یہتھا کہ َویَ ْقتَد ُْونَ بِا َ ْم ِر ٖہ ’’اور وہ اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے‘‘.وقت گزرنے
کے ساتھ اور نئی نسل کے ٓاجانے سے جذبہ ٹھنڈا پڑنا شروع ہوجاتا ہے اورپھر ناخلف اور نافرمان لوگ پیدا ہوتے
ہیں.نبی اکرمﷺ نے اس بات کو بایں الفاظ فرمایا :ثُ َّم اِنَّ َھا ت َْخلُفُ ِمنْ بَ ْع ِد ِھ ْم ُخلُ ْوفٌ ’’پھر ہمیشہ یہ ہوتا رہا کہ ان نبیوں
کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہوتے رہے‘‘.ان کے دوکام یہ تھے کہ :یَـقُ ْولُ ْونَ َما اَل یَ ْف َعلُ ْونَ َویَ ْف َعلُ ْونَ َما اَل یُْٔو َم ُر ْونَ ’’جو
کہتے تھے وہ کرتے نہیں تھے اور کرتے وہ تھے جس کا انہیں حکم نہیں ہواتھا‘‘.آگے فرمایا :فَ َمنْ َجا َھ َد ُھ ْم بِیَ ِد ٖہ فَ ُھ َو
ُمْٔو ِمنٌ ’’تو جو شخص ان (ناخلف لوگوں)کےـ خالف اپنی طاقت سے جہاد کرے تووہ مٔومن ہے‘‘ و َمنْ َجا َھ َد ُھ ْم ِبلِ َ
سانِ ٖہ
فَ ُھ َو ُمْٔو ِمنٌ ’’اور جو کوئی ان کے خالف اپنی زبان سے جہاد کرے وہ بھی مٔومن ہے‘‘ و َمنْ َجا َھ َد ُھ ْم بِقَ ْلبِ ٖہ فَ ُھ َو ُمْٔو ِمنٌ
س َو َراَئ ٰذلِ َ
ک ِمنَ ااْل ِ ْی َما ِن ’’اور جو ان کے خالف اپنے دل سے جہاد کرے (یعنی نفرت رکھے)وہ بھی مٔومن ہے‘‘َ .ولَ ْی َ
‘‘َ .حبَّۃُ َخ ْر َد ٍل(’’ )۱اور اس کے بعد تو ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے
سوال نمبر4
دین کا مفہوم واضح کریں نیز ین ِ اسالم کی اہمیت پر نوٹ لکھیں۔
دین
سولَهُ بِا ْل ُهدَى َو ِد ِ
ين ساَل ُم﴾﴿ ،ه َُو الَّ ِذي َأ ْر َ
س َل َر ُ اسالم نے مذہب کے لیے دین کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ﴿ِإنَّ الدِّينَ ِع ْن َد هَّللا ِ اِإْل ْ
ا ْل َحقِّ الصف﴾ لغوی تعریف :عربی میں دین کے معنی ،اطاعت اور جزا کے ہیں۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں :الطاعۃ
والجزاء ”دین ،اطاعت اور جزا کے معنی میں ہے۔شریعت کو اس لیے دین کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی اطاعت کی جانی
“چاہیے۔
عقائد اور احکامات عملی کا وہ مجموعہ جو اس مجموعے کے النے والے کے ذریعے خالق کائنات کی طرف سے
بھیجا گیا ہے۔ دی ِن حق ،صرف وہی دین ہو سکتا ہے جو خالق کائنات کی طرف سے بھیجا گیا ہو۔ اس صورت میں ایسا
الہی دین حقیقت سے مطابقت رکھتے ہوئے یقینی طور پرانسانی سعادت کاضامن ہو سکتا ہے
قرآن کریم میں ”دین“ کا استعمال
قرآن کریم میں دین ،مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ کبھی جزا اور حساب کے معنی میں تو کبھی قانون و شریعت
اور کبھی اطاعت اور بندگی کے معنی میں۔
ترجمہ":اور ہم نے آپ کی طرف ایک ایسی کتاب بازل کی ہے جو خود بھی سچائی کے ساتھ موصوف ہے،اور اس
سے پہلے جو (آسمانی)کتابیں ہیں ان کی بھی تصدیق کرتی ہے اور ان کی محافظ ہے۔"(سورۃ المائدہ آیت )48
ہر دور،ہر جگہ اور ہر امت کے لیے دین اسالم کے درست اور قابل عمل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس دین کے ساتھ
مضبوط تعلق کسی بھی زمانہ ،مقام اور قوم کی مصلحتوں کے ہر گز منافی نہیں ہو سکتا بلکہ یہ تو ان کے عین مطابق
ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دین ہر دور ،ہر جگہ اور ہر قوم کا تابع ہے،جیسا کہ بعض کج فہم لوگ سمجھتے ہیں۔
تعالی نے اس کی مدد
ٰ دین اسالم بالکل سچا اور برحق دین ہے ،جو اس کے دامن کو مضبوطی سے تھام لے ،ہللا
تعالی کا ارشاد ہے
ٰ :فرمانے اور اسے غالب کرنے کی ضمانت دی ہے،ہللا
ق لِيُ ْظ ِه َرهۥُ َعلَى ٱلدِّي ِن ُكلِّ ِۦه َولَ ْو َك ِرهَ ٱ ْل ُم ْ
ش ِر ُكونَ ين ٱ ْل َح ِّ
سولَهۥُ بِٱ ْل ُهد َٰى َو ِد ِ ى َأ ْر َ
س َل َر ُ ه َُو ٱلَّ ِذ ٓ
ترجمہ":ہللا وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے تمام دینوں پر
غالب کر دے،خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔"(سورہ الصف،آیت
ست َْخلَفَ ٱلَّ ِذينَ ِمن قَ ْبلِ ِه ْم َولَيُ َم ِّكنَنَّ لَ ُه ْم ِدينَ ُه ُم ٱلَّ ِذى ست َْخلِفَنَّ ُه ْم فِى ٱَأْل ْر ِ
ض َك َما ٱ ْ وا ٱل ٰ َّ
صلِ ٰ َح ِ
ت لَيَ ْ وا ِمن ُك ْم َو َع ِملُ َ۟و َع َد ٱهَّلل ُ ٱلَّ ِذينَ َءا َمنُ ۟
ٓ ٰ
سقُونَ ﴿55 ش ْيا ۚ َو َمن َكفَ َر بَ ْع َد َذلِكَ فَُأ ۟و ٰلَِئكَ ُه ُم ٱ ْل ٰفَ ِ
ش ِر ُكونَ بِى َض ٰى لَ ُه ْم َولَيُبَ ِّدلَنَّ ُهم ِّم ۢن بَ ْع ِد َخ ْوفِ ِه ْم َأ ْم ۭنًا ۚ يَ ْعبُدُونَنِى اَل يُ ْ
ٱرتَ َ
﴾ ْ
سوال نمبر5
عقیدہ رسالت اور عقیدہ توحید کےباہمی تعلق پر جامع نوٹ لکھیں۔
جواب
ت توحید و رسالت ہے۔ جس کی ُرو سے ایک مومن کے لئے اسالم کے ارکا ِن خمسہ میں سے پہال اور بنیادی رکن شہاد ِ
تعالی کی وحدانیت کی گواہی دے اور ساتھ ہی حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کیٰ ضروری ہے کہ وہ اﷲ
تعالی پر
ٰ ت مصطفوی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم پرایمان ال ئے بغیر مجرد توحید باری رسالت کا بھی اقرار کرے کیونکہ ذا ِ
دعوی لغو بے حقیقت اور محض خام خیالی ہے۔ٰ ایمان کا
ایمان و اتباع کے باب میں دونوں سے بیک وقت اور ایک ساتھ رشتہ قائم کرنا ہی اسالم کی اصل اور بنیاد ہے اس
ت ایمان میں سے ہے۔ ان میں کسی ایک کا بھی انکار کفر ہے۔ نبی آخر عقیدے کو دل و دماغ میں راسخ کرنا مبادیا ِ
ت
ِ رسال قبل سے النے ایمان پر واحدانیت کی اﷲتعالی
ٰ وہ کہ ہے ضروری الزمان کی بعثت کے بعد اہل ایمان کے لئے
محمدی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم پر ایمان الئیں کیونکہ محض توحید پر ایمان النا ایمان کی ضمانت فراہم نہیں کرتا،
ت محمدی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کے منکر ہیں اس لئے کافر کہالتے جیسے یہودی توحید پرست تو ہیں لیکن رسال ِ
ہیں۔
قرآن میں جا بجا انتہائی تاکید کے ساتھ بنی نوع انسان کو عقیدہ توحید پر ایمان النے کی دعوت دی گئی ہے اور شرک
اور بت پرستی سے منع کیا گیا ہے اور جھوٹے خداؤں کو خدائے ال شریک کے ساتھ شریک قرار دینے کی سختی سے
مذمت ہوئی ہے بلکہ ایسا کرنے والوں کے لیے شدید ترین عذاب کی وعید بھی سنائی گئی ہے۔ لہذا بنی نوع انسان پر
الزم ہے کہ وہ ہللا تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرے تاکہ وہ اپنی دنیوی اور اخروی زندگی میں اس عقیدے کے صحیح
مثبت اثرات سے مستفید ہو سکے اور انکا ِر توحید کے منفی اور برے اثرات سے دنیا و آخرت میں محفوظ رہ سکے۔
عقیدہ توحید کے مختلف پہلو (اقسام) ہیں جن میں سے ہر پہلو پر ایمان اور یقین سے انسانی طر ِز زندگی پر مختلف
اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لہذا انسانی زندگی کو قرآنی سانچے میں ڈھالنے اور قرآنی طر ِز زندگی پر مشتمل انسانی
معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ عقیدہ توحید کےانسانی زندگی پر اثرات کو اجاگر کیا جائے۔
تعالی کی عبادت میں اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا جائے، ٰ عقیدہ توحید کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہللا تبارک و
جیسے ہللا نے قرآن میں دوٹوک فیصلہ سناتے ہوئے فرمایا ہے :و قضی ربک اال تعبدوا اال ایاہ۔۔۔ (اسرا )23 ،اور آپ
کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ ایک اور مقام پر فرمایا :اننی انا ہللا ال الہ
اال انا فاعبدنی و اقم الصلوۃ لذکری (طہ )14 ،میں ہی ہللا ہوں ،میرے سوا کوئی معبود نہیں ،پس صرف میری بندگی کرو
اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ ایک اور مقام پر فرمایا :و الھکم الہ واحد ال الہ اال ھو الرحمن الرحیم۔(بقرہ،
) 163اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اس رحمن و رحیم کے سوا کوئی معبود نہیں۔ سورہ ھود میں فرمایا :اال
تعبدوا اال ہللا ،اننی لکم منہ نذیر و بشیر۔(ھود )2 ،کہ تم ہللا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو ،میں ہللا کی طرف سے
تمہیں تنبیہ کرنے واال اور بشارت دینے واال ہوں۔ پھر سورہ انبیاء میں ارشاد فرمایا :قل انما یوحی ال ّی انما الھکم الہ
واحد فھل انتم مسلمون۔(انبیاء )108 ،کہدیجیے :میرے پاس وحی آئی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے ،تو کیا
تم تسلیم کرتے ہو؟
یعنی عبادت ہو گی تو صرف ہللا ہی کی ہو گی ،اس کے ساتھ کسی کو حتی مالئکہ ،انبیائے کرام ،اولیائے الہی ،ائمہ
طاہرین وغیرہ کو بھی اس کی عبادت میں شریک قرار نہیں دیا جا سکتا ،ایسا کرنا شرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کلمہ ؑ
طیبہ میں بھی اسی حقیقت کی گواہی دیتے ہیں جیسے :ال الہ اال ہللا ،یعنی کوئی معبود نہیں ہے سوائے ہللا کے۔ اور اکثر
یہی شہادت دیتے ہیں۔ اشھد ان ال الہ اال ہّللا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔
عبادت اور پرستش انسان کی فطرت میں شامل ہے یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جو
اسی فطری جذبے کی وجہ سے ہمیشہ کسی نہ کسی کے سامنے جھکتے اور اس کی پرستش کرتے رہے ہیں۔ انسانی
وجود کے اندر پوشیدہ اسی فطری جذبے ہی کی وجہ سے انسان چاند ،ستارے ،سورج ،آگ ،پتھر ،درخت ،حتی اپنے
جیسے انسانوں اور دیگر مختلف اشیاء کی پرستش اور عبادت کرتے آئے ہیں۔ اور اس طرح اپنے وجود کے اندر
پوشیدہ پرستش اور عبادت کی تشنگی کو بھجانے کی کوشش کرتے رہے ہیں البتہ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے
حقیقی معبود یعنی ہللا تعالی کے سامنے جھکنے کے بجائے متعدد جھوٹے خداؤں کے سامنے جھکتے رہے ہیں۔ جبکہ
الئق پرستش ذات تو صرف ہللا تعالی کی ہی ِ حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے فرضی اور جھوٹے معبود ہیں۔ حقیقی معبود اور
تعالی کی
ٰ کرام لوگوں کو جھوٹے معبودوں کی پرستش سے روک کر حقیقی معبود یعنی ہللا ہے ،اسی لیے انبیائے ؑ
پرستش کی دعوت دیتے تھے ،اور قرآن کریم میں بھی جا بجا ہللا تعالی کے حقیقی معبود ہونے کو مختلف آیتوں میں
بیان کر دیا گیا ہے۔
اور یہی انسانی عظمت کا تقاضا بھی ہے کہ وہ صرف معبو ِد برحق کے سامنے جھکے ،چونکہ ہللا تعالی نے بنی نوع
انسان کو کرامت عطا فرمایا ہے جیسے ارشاد باری تعالی ہے :و لقد کرمنا بنی آدم و حملناھم فی البر و البحر و رزقناھم
من الطیبات و فضلناھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیال۔(اسراء )70 ،اور بتحقیق ہم نے اوالد آدم کو عزت اور تکریم سے
نوازا اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سواری دی اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی اور اپنی بہت سی
ب کرامت ہونے اور باقی مخلوقات پر اس کی مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی۔ یہاں ہللا تعالی نے انسان کے صاح ِ
برتری اور فضیلت کا تذکرہ فرمایا ہے ،لہذا انسان کی عظمت اور فضیلت کا تحفظ اسی میں ہے کہ وہ اپنے سے پست
تر چیزوں کے سامنے نہ جھکے۔ دوسری جگہ ہللا نے فرمایا :لقد خلقنا االنسان فی احسن تقویم۔(تین )4 ،بتحقیق ہم نے
انسان کو بہترین اعتدال میں پیدا کیا۔
ث شرم ہے کہ وہ افضل خلق کیے جانے کے باوجود ہللا کو چھوڑ کر اپنے سے پست لہذا بنی نوع انسان کے لیے یہ باع ِ
ٰؑ
موسی تر اور حقیر چیزوں کے سامنے جھکے اور پھر انہیں عبادت میں ہللا کے ساتھ شریک قرار دے۔ جیسے حضرت
نے بھی اپنی قوم بنی اسرائیل کی جانب سے عبادت کے لئے بت نما معبود بنائے جانے کے غیر منصفانہ ،جاہالنہ اور
عظمت انسانی کی بے توقیری پر مشتمل ناحق مطالبے کے جواب میں انہیں اپنی عظمت اور فضیلت یاد دالتے ہوئے
فرمایا :قال اغیر ہللا ابغیکم الھا و ھو فضلکم علی العالمین۔( اعراف )140 ،موسی نے کہا :کیا میں تمہارے لیے ہللا کے
سوا کوئی اور معبود تالش کروں؟ حاالنکہ اس نے تمہیں عالمین پر فضیلت دی ہے۔
عالوہ ازیں جب ہللا تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم کو سجدہ کریں ،تو اس سے بھی انسان کی عظمت
اور فضیلت واضح ہو جاتی ہے چونکہ یہاں ہللا نے انسان کو مسجود مالئکہ بنا دیا۔جیسے قرآن میں ہے :و اذ قلنا
للمالئکۃ اسجدوا آلدم فسجدوا اال ابلیس ابی و استکبر و کان من الکافرین۔(بقرہ )34 ،اور (اس وقت کو یاد کرو) جب ہم
نے فرشتوں سے کہا :آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے ،اس نے انکار اور تکبر کیا اور وہ
کافروں میں سے ہو گیا۔
لہذا قرآنی آیات کے مطابق جب انسان کی عظمت اور کرامت مسلّم ہے تو اسے اپنی عظمت اور کرامت کا لحاظ رکھتے
ہوئے جھوٹے معبودوں کے سامنے جھکنے سے بچتے ہوئے صرف معبود حقیقی کے سامنے جھکنا چاہیے۔
الئق عبادت سمجھ کر صرف اسی کے سامنے جھکنے کے اخروی فوائد تو اپنی جگہ مسلم ہیں ِ ہللا تبارک و تعالی کو
ہی ،اس عقیدے کے آثار اور فوائد اس دنیا میں بھی بے شمار ہیں۔ اس سے ہللا تعالی نے انسان کو جو مقام اور مرتبہ
عطا فرمایا ہے اس کا تحفظ ہوتا ہے ،چونکہ جو ہللا کے سامنے جھکے اسے ہر ایک کے سامنے جھکنے کی ضرورت
نہیں پڑتی ،وہ لوگ جو ہللا کے سامنے نہیں جھکتے انہیں ہر کسی کے سامنے جھکنے کی ضرورت پیش آتی ہے،
کبھی وہ کسی کے سامنے جھک رہے ہوتے ہیں تو کبھی کسی اور کے سامنے۔ حتی کبھی کبھی تو اپنے سے پست تر
اور حقیر تر چیزوں کے سامنے بھی انہیں جھکنا پڑتا ہے ،لیکن جو خدائے وحدہ ال شریک کے سامنے جھک جائے تو
:وہ باقی لوگوں اور چیزوں کےسامنے جھکنے سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ بقول شاعر مشرق عالمہ اقبال