You are on page 1of 14

ASSIGNMENT#0

1
COURSE CODE:9401
COURSE TITLE:ISLAMIYAT
SMESTER: AUTUMN 2022
SUBMITTED BY:ANAM FATIMA
‫سوال نمبر ‪1‬‬
‫سورة الحجرات كا تعارف تحریر كرین نیزسورة الحجرات میں مذکور‬
‫مضامین پراجمالی نوٹ تحریرکریں۔‬

‫الحجرات کا تعارف‬
‫نام ‪:‬‬

‫حجرات کا لفظ اس سورت کی چوتھی آیت میں ذکر ہوا ہے اور اسی وجہ سے اس سورت کو ُح ُجرات کا نام دیا گیا ہے۔[‬
‫‪ ]1‬حجرات ُح جرہ کی جمع ہے اور ان کمروں کو کہا گیا ہے جو مسجد نبوی کے اطراف میں ازواج نبی کے لیے بنائے‬
‫گئے تھے۔‬

‫ترتیب اور محل نزول ‪:‬‬

‫اکرم پر نازل ہونے والی سورتوں‬


‫سورہ حجرات مدنی سورتوں میں سے ہے اور ترتیب نزول کے اعتبار سے پیغمبر ؐ‬
‫میں ‪107‬ویں سورت ہے جبکہ قرآن مجید کے موجودہ مصحف میں ‪49‬ویں سورت ہے۔یہ سورت قرآن کے ‪26‬ویں‬
‫پارے میں واقع ہے۔‬

‫آیات اور کلمات کی تعداد ‪:‬‬

‫سورہ حجرات میں ‪ ۱۸‬آیات ‪ 353‬کلمات اور ‪ 1533‬حروف ہیں۔ یہ سورت مثانی سورتوں میں سے ہے اور ایک حزب‬
‫کے آدھے حصے پر مشتمل ہے۔‬

‫اس سورت کو ممتحنات سورتوں میں بھی شمار کیا گیا ہےاور کہا جاتا ہے کہ یہ سورت مضمون کے اعتبار سے سورہ‬
‫ممتحنہ سے زیادہ تناسب رکھتا ہے۔‬

‫مضمون‬
‫اکرم کے ساتھ‬
‫تفسیر المیزان کے مطابق اس سورت میں اخالقی کچھ احکام ہیں۔ جیسے ہللا تعالی سے ارتباط‪ ،‬پیغمبر ؐ‬
‫جن آداب کی رعایت کرنی چاہیے اور معاشرے میں لوگوں سے رابطے کے دوران کیسا اخالق ہونا چاہیے۔ اسی طرح‬
‫اس سورت میں لوگوں کو ایک دوسروں پر برتری کا معیار بھی ذکر ہوا ہے اور آخر میں ایمان اور اسالم کی حقیقت کی‬
‫طرف ب ِھ ی اشارہ کیا ہے۔اس سورت میں مسلمانوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ افواہوں پر کان نہ دھریں‪ ،‬دوسروں کی‬
‫غیبت اور بدگوئی سے پرہیز کریں اور دوسروں کے عیوب میں تجسس نہ کریں‪ ،‬گمانوں سے اجتناب کریں اور‬
‫مسلمانوں کے درمیان صلح قائم کریں۔‬
‫سورہ حجرات کے مضامین‬

‫سورت کا موضوع مسلمانوں کو ان آداب کی تعلیم دینا ہے جو اہل ایمان کے شایان شان ہیں۔ ابتدائی پانچ آیتوں میں ان‬
‫کو وہ ادب سکھایا گیا ہے جو انہیں ہللا اور اس کے رسول کے معاملے میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔ پھر یہ ہدایت دی گئی‬
‫ہے کہ ہر خبر پر یقین کر لینا اور اس پر کوئی کارروائی کر گذرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص یا گروہ یا قوم کے‬
‫خالف کوئی اطالع ملے تو غور سے دیکھنا چاہیے کہ خبر ملنے کا ذریعہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ قابل اعتماد نہ ہو تو‬
‫اس پر کارروائی کرنے سے پہلے تحقیق کر لینا چاہیے کہ خبر صحیح ہے یا نہیں۔ اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ اگر کسی‬
‫وقت مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اس صورت میں دوسرے مسلمانوں کو کیا طرز عمل اختیار کرنا‬
‫چاہیے۔ پھر مسلمانوں کو ان برائیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرتی ہیں اور‬
‫جن کی وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑانا‪ ،‬ایک دوسرے پر طعن کرنا‪ ،‬ایک‬
‫دوسرے کے برے برے نام رکھنا‪ ،‬بد گمانیاں کرنا‪ ،‬دوسرے کے حاالت کی کھوج کرید کرنا‪ ،‬لوگوں کو پیٹھ پیچھے ان‬
‫تعالی نے‬ ‫کی برائیاں کرنا‪ ،‬یہ وہ افعال ہیں جو بجائے خود بھی گناہ ہیں اور معاشرے میں بگاڑ بھی پیدا کرتے ہیں۔ ہللا ٰ‬
‫نام بنام ان کا ذکر فرما کر انہیں حرام قرار دے دیا ہے۔ اس کے بعد قومی اور نسلی امتیازات پر ضرب لگائی گئی ہے جو‬
‫دنیا میں عالمگیر فسادات کے موجب ہوتے ہیں۔ قوموں اور قبیلوں اور خاندانوں کا اپنے شرف پر فخر و غرور اور‬
‫دوسروں کو اپنے سے کمتر سمجھنا اور اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے دوسروں کو گرانا‪ ،‬ان اہم اسباب میں سے ہے‬
‫تعال ی نے ایک مختصر سی آیت فرما کر اس برائی کی جڑ کاٹ دی ہے کہ‬ ‫جن کی بدولت دنیا ظلم سے بھر گئی ہے۔ ہللا ٰ‬
‫تمام انسان ایک ہی اصل سے پیدا ہوئے ہیں اور قوموں اور قبیلوں میں ان کا تقسیم ہونا تعارف کے لیے ہے نہ کہ‬
‫تفاخر کے لیے اور ایک انسان پر دوسرے انسان کی فوقیت کے لیے اخالقی فضیلت کے سوا اور کوئی جائز بنیاد نہیں‬
‫دعوی نہیں ہے بلکہ سچے دل سے ہللا اور اس کے‬ ‫ٰ‬ ‫ہے۔ آخر میں لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اصل چیز ایمان کا زبانی‬
‫رسول کو ماننا‪ ،‬عمالً فرماں بردار بن کر رہنا اور خلوص کے ساتھ ہللا کی راہ میں اپنی جان و مال کھپا دینا ہے۔ حقیقی‬
‫مومن وہی ہیں جو یہ روش اختیار کرتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو دل کی تصدیق کے بغیر محض زبان سے اسالم کا اقرار‬
‫کرتے ہیں اور پھر ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ گویا اسالم قبول کر کے انہوں نے کوئی احسان کیا ہے‪ ،‬تو دنیامیں ان‬
‫کا شمار مسلمانوں میں ہو سکتا ہے‪ ،‬معاشرے میں ان کے ساتھ مسلمانوں کا سا سلوک بھی کیا جا سکتا ہے‪ ،‬مگر ہللا‬
‫کے ہاں وہ مومن قرار نہیں پا سکتے۔‬
‫سوال نمبر ‪2‬‬

‫سنت کا مفہوم واضح کریں نیز احادیث کی روشنی میں سنت کی اہمیت بیان کریں۔‬

‫سنت کی تعریف‬
‫لغت میں سنت کا لفظ طریقہ اور عادت کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ امام کسائی رحمہ ہللا کا کہنا ہے کہ اس کے معنی‬
‫میں دوام کی کیفیت ہے‪":‬یقال سنت الماء اذاوالیت فی صبہ" امام خطابی رحمہ ہللا کہتے; ہیں کہ جب مطلق طور پر سنت کا‬
‫لفظ بوالجاتا ہے تو اس سے طریقہ محمود مراد ہوتا ہے اور کبھی سنت سے غیر محمود طریقہ بھی مراد ہوتا ہے‬
‫سنت دین کا وہ پسندیدہ معمول و مروج (قائم‪-‬شدہ‪ ،‬جاری) طریقہ جو خواہ نبی صلی هللا علیہ و سلم سے ثابت ہو یا صحابہ‬
‫(رضی هللا عنھم) سے۔‬
‫‪:‬جیسے قرآن مجید میں ہے‪ :‬اچھے طریقے کے بارے میں‬

‫ثُ َّم نُ ْتبِ ُعهُ ُم اآْل ِخ ِرينَ‬


‫تم سے پہلے جو رسول ہم نے بھیجے ان کی سنت یعنی ان کا قابل_پیروی طریقہ رہ_حق پر ثابت قدمی ہے‬

‫‪:‬برے طریقے میں استعمال‬

‫ُوا َأن يَجْ َعلُوهُ فِي َغيَابَ ِة ْالجُبِّ َوَأوْ َح ْينَآ ِإلَ ْي ِه لَتُنَبَِّئنَّهُم بَِأ ْم ِر ِه ْم هَـ َذا َوهُ ْم الَ يَ ْش ُعرُونَ‬
‫ُوا بِ ِه َوَأجْ َمع ْ‬
‫َوهّلِل ِ يَ ْس ُج ُد َمن فِي ‪ Ra‬فَلَ َّما َذهَب ْ‬
‫صا ِل‬‫ض طَوْ عًا َوكَرْ هًا َو ِظاللُهُم بِ ْال ُغ ُد ِّو َواآل َ‬
‫ت َواَألرْ ِ‬
‫اوا ِ‬ ‫ال َّس َم َ‬

‫اسی طرح ہم اس تکذیب وضالل کو گنہگاروں کے دلوں میں داخل کر دیتے; ہیں۔ سو وہ اس پر ایمان نہیں التے اور پہلوں‬
‫‪ .‬کی روش بھی یہی رہی ہے‬

‫‪:‬جیسا کہ رسول ہللاﷺ نے بھی فرمایا ہے‬

‫من سن سنۃ حسنۃ فلہ اج رہا واجر من عمل بہا الی یوم القیامۃ ومن سن سنۃ سیئۃ کان علیہ وزرھا ووزر من عمل بہا"‬
‫الی یوم القیامۃ"۔‬
‫جس نے کوئی اچھا طریقہ جاری کیا تواس کا اجر اورقیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا اجروثواب ملے گا اور‬
‫جس نے غلط رواج قائم کیا تو اسے اس عمل کا گناہ اور قیامت تک اس پر عمل کرنے والوں کا گناہ اسے ہوگا۔‬
‫لیکن محدثین اور فقہا جب سنت کا لفظ بولتے ہیں تو اس سے رسول ہللاﷺ کی طرف منسوب قول وفعل مراد ہوتا ہے؛‬
‫دہلوی‪:‬‬
‫ؒ‬ ‫چنانچہ محدثین; سنت کی یہ تعریف کرتے ہیں "ہی ماصدر عن النبیﷺ قول اوفعل أوتقریر" (مقدمہ شیخ عبد الحق‬
‫‪ ) 3‬مگرفقہاء سنت کی اصطالح استعمال کرتے ہیں توان کے یہاں قول وفعل اور تقریر کے عالوہ صحابہ کرام کے اقوال‬
‫اور افعال بھی مراد ہوتے ہیں‪ ،‬امام سرخسی رحمہ ہللا لکھتے ہیں‪" :‬والمراد بھا شرعا ً ماسنہ رسول ہللاﷺ والصحابۃ بعدہ‬
‫عندنا"۔ (السنۃ ومکانتھا فی االسالم‪)47:‬‬
‫قول رسول‬
‫ِ‬

‫قول رسول سے مراد ہروہ لفظ ہے جورسول ہللاﷺ کی زبان سے بیداری کی حالت میں نبوت کے بعد قرآن کے عالوہ ادا‬ ‫ِ‬
‫ہوا ہو‪ ،‬اس کی مثال حضورﷺ کا ارشاد ہے‪ ;:‬انمااالعمال بالنیات‪ ،‬البیّعان بالخیار مالم یتفرقا۔[‪]2‬‬

‫فعل رسول‬
‫ِ‬

‫ٰ‬
‫ومقتدی بناکر ان کی اتباع کا حکم دیا‬ ‫تعالی نے رسول اکرمﷺ کو امام‬
‫ٰ‬ ‫سنت میں افعا ِل رسول بھی داخل ہیں؛ کیونکہ ہللا‬
‫ہے‪ ،‬ارشا ِد خداوندی ہے‬

‫وا بِاهّلل ِ َو َرسُولِ ِه‬


‫يت فَآ ِمنُ ْ‬ ‫ت َواَألرْ ِ‬
‫ض ال ِإلَـهَ ِإالَّ هُ َو يُحْ يِـي َويُ ِم ُ‬ ‫قُلْ يَا َأيُّهَا النَّاسُ ِإنِّي َرسُو ُل هّللا ِ ِإلَ ْي ُك ْم َج ِميعًا الَّ ِذي لَهُ ُم ْل ُ‬
‫ك ال َّس َما َوا ِ‬
‫النَّبِ ِّي اُأل ِّم ِّي الَّ ِذي يُْؤ ِمنُ بِاهّلل ِ َو َكلِ َماتِ ِه َواتَّبِعُوهُ لَ َعلَّ ُك ْم تَ ْهتَ ُدونَ " (نبی) کا اتباع کرو؛ تاکہ تم را ِہ راست پر آجاؤ۔‬
‫لَقَ ْد َكانَ لَ ُك ْم فِي َرسُو ِل هَّللا ِ ُأ ْس َوةٌ َح َسنَةٌ لِّ َمن َكانَ يَرْ جُو هَّللا َ َو ْاليَوْ َم اآْل ِخ َر َو َذ َك َر هَّللا َ َكثِيرًا‬

‫تم لوگوں کے لیے رسول ہللا کا ایک عمدہ نمونہ موجود تھا۔‬

‫اس لیے علما اصول نے سنت قولیہ کے ساتھ سنت فعلیہ کو بھی بیان کیا ہے؛البتہ سنت قولیہ مقدم ہے اور سنت فعلیہ‬
‫مؤخر ‪،‬یہی وجہ ہے کہ علما اصول اسے ملحق بالسنۃ کہتے; ہیں۔‬

‫تقریر رسول‬
‫ِ‬

‫حضورﷺ نے کسی چیز کو کرتے ہوئے دیکھا اور اس پر سکوت فرمایا تو یہ اس کے صحیح ہونے پر دلیل ہوگی اور‬
‫یہ اس بات پر داللت کرے گا کہ بیان وضاحت کے موقع پر سکوت حقیقۃ بیان ہی ہے‪ ،‬عالمہ شوکانی رحمہ ہللا نے سنت‬
‫سکوتی کے بارے میں لکھا ہے‪" :‬وصورته أن يسكت النبيﷺ عن إنكار قول قيل بين يديه; أوفي عصره وعلم به‪ ،‬أويسكت‬
‫عن إنكار فعل فعل بين يديه; أوفي عصره وعلم به‪ ،‬فإن ذلك يدل على الجواز"۔سنت سکوتی کی صورت یہ ہے کہ نبی‬
‫کریمﷺ کے سامنے کچھ کہا گیا‪ ،‬یاآپﷺ کے زمانے میں کہا گیا اور آپﷺ کومعلوم ہوا مگراس پر نکیر کرنے سے‬
‫آپ خاموش رہے؛ اسی طرح آپﷺ کے سامنے یاآپﷺ کے عہد میں کوئی عمل ہوا اور آپﷺتک اس کی خبر پہنچی‬
‫مگرآپﷺ نے اس پر نکیر نہیں کی تو یہ جواز پر محمول ہوگا۔ مثالً غزوہ بنی قریظہ کے موقع پر جب صحابہ کرام نے‬
‫صلِّيَ َّن َأ َح ٌد ْال َعصْ َر ِإاَّل فِي بَنِي قُ َر ْيظَةَ" [‪ ]4‬تم‬
‫عصر کی نماز کے سلسلے میں اجتہاد کیا تھا جب کہ آپﷺ کا حکم تھا "اَل يُ َ‬
‫میں سے کوئی شحص نماز نہ پڑھے مگربنی قریظہ میں جاکر؛ چنانچہ بعض صحابہ نے اس کو حقیقت پر محمول کیا‬
‫اور انھوں نے مغرب کی نماز کوموخر کیا اور بنوقریظہ پہنچ کر نماز ادا کی‪ ،‬جب کہ دوسرے بعض صحابہ نے یہ‬
‫سمجھا کہ اس حکم سے مراد جلدی جانے پر ابھارنا ہے توانھوں نے راستہ ہی میں وقت پر نماز پڑھ لی‪ ،‬جب حضورﷺ‬
‫کودونوں فریقوں کے اجتہاد کا پتہ چال توآپﷺ نے خاموشی اختیار کی اور کسی پر نکیر نہیں کی۔‬

‫حضورﷺ کی زبان مبارک سے‬


‫مالک(‪93‬ھ)کہتے ہیں کہ حضور اکرمﷺ نے فرمایا‬
‫ؓ‬ ‫حضرت انس بن‬

‫ب فِي النِّ َك ِ‬
‫اح‪ ،‬حدیث"‬ ‫سنَّتِي فَلَ ْي َ‬
‫س ِمنِّي"۔ (بخاری‪،‬بَاب الت َّْر ِغي ِ‬ ‫سا َء َف َمنْ َر ِغ َب عَنْ ُ‬ ‫ص ْو ُم َوُأ ْف ِط ُر َوُأ َ‬
‫صلِّي َوَأ ْرقُ ُد َوَأتَ َز َّو ُج النِّ َ‬ ‫اَ ُ‬
‫نمبر‪،4675:‬شاملہ‪،‬موقع االسالم)‬

‫ترجمہ‪:‬میں روزے رکھتا اور چھوڑتا بھی ہوں‪،‬تہجد بھی پڑھتا ہوں اور سوتا بھی ہوں اور نکاح بھی کیے ہیں‪ ،‬جو‬
‫میری سنت سے منہ پھیرے وہ مجھ سے نہیں۔ اس حدیث میں آپﷺ نے اپنے طریق کو سنت کے لفظ سے بیان فرمایا‬
‫ہے اور یہ بھی بتالیا ہے کہ سنت اس لیے ہے کہ امت کے لیے نمونہ ہو اور وہ اسے سند سمجھیں‪ ،‬جو آپ کے‬
‫طریقے سے منہ پھیرے اور اسے اپنے لیے سند نہ سمجھے وہ آپ کی جماعت میں سے نہیں ہے۔‪#‬ام المؤمنین حضرت‬
‫سلَّ َم بَ َع َث ِإلَى ُع ْث َمانَ ْب ِن َم ْظ ُعو ٍن فَ َجا َءهُ فَقَا َل يَا ُع ْث َمانُ َأ َر ِغبْتَ عَنْ‬ ‫صلَّى هَّللا ُ َعلَ ْي ِه َو َ‬‫عائشہ ؓ سے مروی ہے کہ‪" :‬اَنَّ النَّبِ َّي َ‬
‫ْؤ‬
‫صو ُم َو ف ِط ُر‪،‬الخ"۔ (ابو داؤد‪،‬بَاب َما يُ َم ُر بِ ِه ِمنْ‬ ‫ْ‬ ‫ُأ‬ ‫َأ‬
‫صلي َو ُ‬ ‫ِّ‬ ‫ُأ‬ ‫َ‬ ‫َأ‬ ‫ِّ‬
‫ب قا َل فِإني نا ُم َو َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫َأ‬
‫سنَّتَ َك طل ُ‬ ‫سنَّتِي قَا َل اَل َوهَّللا ِ يَا َر ُ‬
‫سو َل هَّللا ِ َولَ ِكنْ ُ‬ ‫ُ‬
‫صاَل ِة‪،‬حدیث نمبر‪،1162:‬شاملہ‪،‬موقع االسالم)‬ ‫َّ‬ ‫ال‬ ‫ي‬ ‫ا ْل ْ ِ ِ‬
‫ف‬ ‫د‬‫ص‬ ‫َ‬ ‫ق‬

‫عثمان آپ کی خدمت میں حاضر‬ ‫ؓ‬ ‫ترجمہ‪:‬نبیﷺ نے کسی کو حضرت عثمان بن مظعون کو بالنے کے لیے بھیجا‪ ،‬حضرت‬
‫ہوئے‪ ،‬آپ نے کہا اے عثمان! کیا تم میری سنت سے ہٹنا چاہتے ہو؟ انہوں نے کہا‪ :‬نہیں! خدا کی قسم اے ہللا کے رسول‬
‫؛بلکہ میں آپ کی سنت کا طلب گار ہوں‪ ،‬آپ نے فرمایا‪:‬میں سوتا بھی ہوں اور نماز کے لیے جاگتا ہوں‪،‬روزے بھی‬
‫سنَّتِي‬‫سنَّةً ِمنْ ُ‬ ‫رکھتا ہوں اور انہیں چھوڑتا بھی ہوں ۔ حضور اکرمﷺ نے حضرت بالل بن حارث کو فرمایا‪َ " :‬منْ َأ ْحيَا ُ‬
‫ضي هَّللا َ‬ ‫ص ِمنْ ُأ ُجو ِر ِه ْم َ‬
‫ش ْيًئا َو َمنْ ا ْبتَ َد َع بِ ْد َعةَ َ‬
‫ضاَل لَ ٍة اَل ت ُْر ِ‬ ‫قَ ْدُأ ِميتَتْ بَ ْع ِدي فَِإنَّ لَهُ ِمنْ اَأْل ْج ِر ِم ْث َل َمنْ َع ِم َل بِ َها ِمنْ َغ ْي ِر َأنْ يَ ْنقُ َ‬
‫اجتِنَا ِ‬
‫ب‬ ‫ش ْيًئا"۔ (ترمذی‪،‬بَاب َما َجا َء فِي اَأْل ْخ ِذ بِال ُّ‬
‫سنَّ ِة َو ْ‬ ‫س َ‬ ‫ص َذلِ َك ِمنْ َأ ْو َزا ِر النَّا ِ‬
‫سولَهُ َكانَ َعلَ ْي ِه ِم ْث ُل آثَ ِام َمنْ َع ِم َل بِ َها اَل يَ ْنقُ ُ‬‫َو َر ُ‬
‫َع‪،‬حدیث نمبر‪،2601:‬شاملہ‪،‬موقع االسالم)‬ ‫ا ْلبِد ِ‬

‫ترجمہ‪:‬جس نے میری کوئی سنت زندہ کی جو میرے بعد چھوڑدی گئی ہو تو اسے ان تمام لوگوں کے برابر اجر ملے گا‬
‫جو اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ عمل کرنے والوں کے اجر میں کوئی کمی ہو اورجس نے کوئی غلط راہ‬
‫نکالی جس پر ہللا اور اس کے رسول کی رضا مندی موجود نہیں تو اسے ان تمام لوگوں کے گناہوں کا بوجھ ہوگا جو‬
‫اس پر عمل کریں گے بغیر اس کے کہ ان کے بوجھ میں کمی آئے۔ اس حدیث میں دین کی فروعی باتوں کو بھی سنت‬
‫کہا ہے اور انہیں زندہ رکھنے کی تلقین کی ہے‪،‬دین اسالم ایک زندہ مذہب ہے اور اس کے اصول ہمیشہ زندہ رہنے‬
‫چاہئیں‪ ،‬ان پر کبھی موت نہیں آسکتی‪ ،‬اسالم کا تاریخ کے ہر دور میں قائم وباقی رہنا ضروری ہے اور یہی اس کی‬
‫مسلسل زندگی ہے ایک فرع دب گئی تو دوسری ضرور زندہ ہوگی یہ نہیں ہو سکتا کہ اصول کی تمام کڑیاں ایک ایک‬
‫کرکے ٹوٹتی جائیں‪ ،‬ہاں! یہ ہو سکتا ہے کہ ایک فرع دبنے لگے اور اس پر عمل ترک ہو جائے ؛لیکن اسے پھر سے‬
‫زندہ کرنے کا اسالم میں پورا اہتمام کیا جائے گا‪ ،‬حضورﷺ کی ہدایت اسے پھر سے زندہ کرنے کی ایک بڑی بشارت‬
‫شافعی فرماتے ہیں‪" :‬فنعلم أن المسلمين كلهم ال‬
‫ؒ‬ ‫ہے‪ ،‬ناممکن ہے کہ کل مسلمان کسی سنت سے ناآشنا رہیں‪ ،‬امام‬
‫يجهلون سنة"۔ (کتاب االم‪،7/305:‬شاملہ‪،‬موقع یعسوب)‬

‫ترجمہ‪:‬ہم یقینی طور پر جانتے ہیں کہ سارے کے سارے مسلمان کبھی بھی سنت سے ناآشنا نہیں رہ سکتے۔‬

‫سوال نمبر‪2‬‬
‫حدیث کی روشنی میں امر بالمعروف پر جامع نوٹ لکھیں۔‬

‫امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی اھمیت‬


‫قرٓان مجید کی ٓایات کے عالوہ بہت سی معتبر احادیث اور اسالمی مصادر میں بھی ان دو عظیم اجتماعی و ظائف کی‬
‫اہمیت بیان کی گئی ہے کہ جن میں ان خطرات اور برے نتائج کی نشاندہی کی گئی ہے جو ان دو ذمہ دار یوں کے ترک‬
‫‪ :‬کرنے کی صورت میں جنم لیتے ہیں ۔ جیسا کہ امام محمد با قر سے مروی ہے کہ‬
‫ان االبالمعروف و النھی عن المنکر فریضہ عظیمہ بھا تقام الفرائض و تاٴمن المذاہب و تحل المکاسب و ترد المظالم و تعمر‬
‫االرض و ینتصف من االعداء و یستقیم االمر ۔‬
‫امر بالمعروف اور نہی عن المنکر عظیم خدائی فریضہ ہے ۔ باقی فرائض انہی کی بدولت قائم ہوتے ہیں ۔ ان کی وجہ‬
‫سے راستے محفوظ رہتے ہیں ‪ ،‬لوگوں کو کسب و کار حالل ہوتا ہے اور لوگوں کے حقوق انہی کی وجہ سے واپس‬
‫ملتے ہیں اور ان کے سبب زمین ٓاباد رہتی ہے ‪ ،‬دشنوں سے انتقام لیا جاتا ہے اور انہی کے طفیل تمام کام چلتے رہتے‬
‫ہیں ۔‬
‫‪ :‬پیغمبر اکرم صلی ہللا علیہ و ٓالہ وسلم فرماتے ہیں‬
‫َمنْ جو نیکی کا حکم دے اور برائی سے روکے وہ زمین پر خدا ‪ ،‬اس کے رسول اور اس کی کتاب کا جانشین ہے ۔‬
‫اس حدیث سے واضح طور پر پتہ چلتا ہے کہ یہ عظیم فریضہ ہر چیز سے پہلے ایک خدائی پروگرام ہے ‪ ،‬انبیاء کی‬
‫بعثت اور ٓاسمانی کتب کا نزول سب کے سب اسی پروگرام کا حصہ ہیں ۔‬

‫ایک شخص پیغمبر کی خدمت اقدس میں حاضر ہوا اور ٓاپ منبر پر جلوہ افروز تھے اس نے پوچھا” َمنْ َخی ُر النّا ِ‬
‫س“‬
‫‪:‬تمام لوگوں میں سے بہتر کون ہے ۔ ٓاپ نے فرمایا‬
‫ٓامر بالمعروف و انھا ھم عن المنکر و اتقاھم ہلل و ارضاھم‬
‫خشنودی خدا کی راہ میں‬
‫ٴ‬ ‫جو سب سے زیادہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر کرتا ہو اور جو زیادہ پر ہیز گار ہو اور جو‬
‫زیادہ قدم بڑھا نے واالہو۔‬
‫ایک اور حدیث میں ٓاپ نے فرمایا‪ :‬امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کرو ورنہ خدا کسی ستم گر ظالم کو تم پر مسلط‬
‫کرے گا ۔‬
‫جو نہ تمہارے بوڑھوں کا احترام کرے گا اور نہ بچوں پرحم کرے گا۔ تمہارے نیک اور صالح لوگ دعا کریں گے لیکن‬
‫مستجاب نہیں ہوگی۔ وہ خدا سے مدد طلب کرےں گے لیکن خدا ان کی مدد نہیں کرے گا یہاں تک کہ اَ َم َر ِبال َم ْع ُر ِ‬
‫وف َو‬
‫نھی عَنْ ال ُم ْن َک ِر فَ ُھ َو َخلِ ْیفَةُ ہّٰللا ِ فِی اَرضہ َو َخلِیفَةُ رسو ِل ہّٰللا ِ َو َخلِ ْیفَةُ کتابِہ‬
‫ٰ‬
‫اگر وہ لوگ توبہ کریں گے تو خدا ان کے گناہ معاف نہیں کرے گا۔‬
‫یہ سب کچھ اس گروہ کے اعمال کی عکاسی ہے جو اس عظیم معاشرتی ذمہ داری کو پورا نہیں کرں گے کیونکہ جب‬
‫عمومی نگرانی کے بغیر معامالت کی باگ ڈور نیک لوگوں کے ہاتھ سے نکل جائے گی تو بر ے اور اہل لوگ معاشرے‬
‫کے ہر میدان پر قابض ہو ئیں گے۔‬
‫مندرجہ باال حدیث میں ان کی توبہ کی عدم قبولیت کا یہ مطلب ہے کہ برائیوں کے مقابلہ میں مسلسل خاموشی کی وجہ‬
‫سے دعا کوئی اثر نہیں رکھتی مگر یہ کہ وہ اپنے عمل میں تجدید ِ نظر کریں ۔‬
‫‪ :‬حضرت علی علیہ السالم فرماتے ہیں‬
‫"وما اعمال البر کلھا و الجھاد فی سبیل ہللا عند االمر بالمعروف و النھی عن المنکر االکنفشة فی بحر لجی"‬
‫تمام نیک کام یہاں تک کہ ہللا کی راہ میں جہاد بھی امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے مقابلے میں ایک گہرے‬
‫سمندر میں تھوکنے اور پھوکنے کا مانند ہے ۔‪5‬‬
‫اس قدر تاکید کا سبب یہی ہے کہ یہ دو عظیم ذمہ داریاں باقی اجتماعی اور انفرادی ذمہ داریوں کے اجراء کی ضامن ہیں‬
‫اور ان کی روح شمار ہوتی ہیں ۔‬
‫زیر مطالعہ حدیث مسلم شریف کی ہے اور حضرت ابوسعید خدری سے مروی ہے‪ .‬وہ کہتے ہیں کہ میں نے ہللا کے‬
‫رسولﷺ کو فرماتے ہوئے خود سنا‪َ :‬منْ َر ٰای ِم ْن ُک ْم ُم ْن َک ًرا فَ ْلیُ َغـیِّ ْرہُ بِیَ ِد ٖہ ’’جو شخص بھی تم میں سے کسی منکر(بدی)‬
‫کو دیکھے‘ اس کا فرض ہے کہ اسے اپنی طاقت سے بدل دے‘‘‪.‬غور کیجیے یہ فرض ہے ‪ .‬یہ نہیں کہ انسان سوچے‬
‫کہ جو کوئی برائی کرتا ہے کرتا رہے‘ خود عذاب سہے گا‪.‬ہرگز نہیں!اسے برائی سے روکنا ٓاپ پر فرض ہے اور اگر‬
‫ٓاپ نہیں روک رہے تو ٓاپ گناہ کا ارتکاب کررہے ہیں‪.‬چنانچہ جہاں آپ کا اختیار ہو وہاں اپنے زو ِر بازو سے برائی کو‬
‫روکیں‪ .‬حکومتی سطح پر تو طاقت موجود ہوتی ہے‘ چنانچہ حکومت وقت اپنے اہلکاروں کے ذریعے برائی کو بزور‬
‫سانِ ٖہ ’’پھراگر اس کی‬ ‫ست َِط ْع فَبِلِ َ‬
‫روک سکتی ہے اور اچھائی کا نفاذ کرا سکتی ہے‪.‬لیکن اگر طاقت نہیں ہے تو‪ :‬فَاِنْ لَّ ْم یَ ْ‬
‫استطاعت نہ رکھتا ہو تو اپنی زبان سے اسے بدل دے‘‘‪ .‬یعنی اپنی زبان سے برائی کو روکے‪ .‬غلط کام کرنے والے‬
‫سے برمال کہےـ کہ خدا کے بندے ‘ یہ غلط کام مت کرو‘یہ حرام کا م ہے‘ اس سے باز ٓاجأو‪.‬اور اگر زبان سے روکنے‬
‫کی بھی طاقت نہیں ہے‘ یعنی معاشرے میں زبانوں کے اوپر بھی اس طریقے سے تالے ڈال دیے جائیں کہ بولنا بھی‬
‫ست َِط ْع فَبِقَ ْلبِ ٖہ‬
‫گویا جرم شمارہورہا ہو اور ٓاواز اُٹھانے پر زبان کھینچ دی جاتی ہو تو اس صورت میں یہ ہے کہ‪ :‬فَاِنْ لَّ ْم یَ ْ‬
‫ک‬ ‫ٰ‬
‫’’پھر اگر اس کی بھی استطاعت نہ ہوتو کم سے کم اپنے دل میں (اس کے خالف) ایک نفرت کا معاملہ رکھے‘‘‪َ .‬وذلِ َ‬
‫ض َعفُ ااْل ِ ْی َما ِن ’’اور یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے‘‘‪.‬اگر دل میں بھی گناہ اور بدی سے نفرت کا معاملہ نہ ہو تو پھر‬ ‫اَ ْ‬
‫‪.‬ایمان کی مطلق نفی ہے‬
‫اس حدیث کی ہم مضمون ایک اور روایت ہے جو ذرا مفصل انداز میں ہے‘وہ بھی آپ سن لیجیے‪.‬اسے بھی امام مسلم‬
‫نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے اور یہ حضرت عبدہللا بن مسعود رضی ہللا عنہ سے مروی ہے‪ .‬وہ فرماتے ہیں کہ‬
‫ہّٰللا‬
‫تعالی نے مجھ‬ ‫ٰ‬ ‫اب ’’ہللا‬ ‫ص َح ٌ‬ ‫رسول ہللاﷺ نے ارشاد فرمایا‪َ :‬ما ِمنْ نَبِ ٍّی َب َعثَہُ ُ ِف ْی اُ َّم ٍۃ قَ ْبلِ ْی اِالَّ َکانَ لَ ٗہ ِمنْ اُ َّمتِ ٖہ َح َوا ِر ُّی ْونَ َواَ ْ‬
‫سے پہلے کوئی نبی کسی اُمت میں نہیں بھیجا مگر اس کے لیے اس کی امت میں سے کچھ نہ کچھ حواری اور اصحاب‬
‫سنَّتِ ٖہ ’’وہ اس کی سنت کو مضبوطی‬ ‫ہوتے تھے‘‘‪.‬وہ خصوصی طور پر دوکام کرتے تھے‘پہال کام یہ تھاکہ ‪ :‬یَاْ ُخ ُذ ْونَ بِ ُ‬
‫سے تھامتے تھے‘‘ اور دوسرا کام یہتھا کہ َویَ ْقتَد ُْونَ بِا َ ْم ِر ٖہ ’’اور وہ اس کے حکم کی پیروی کرتے تھے‘‘‪.‬وقت گزرنے‬
‫کے ساتھ اور نئی نسل کے ٓاجانے سے جذبہ ٹھنڈا پڑنا شروع ہوجاتا ہے اورپھر ناخلف اور نافرمان لوگ پیدا ہوتے‬
‫ہیں‪.‬نبی اکرمﷺ نے اس بات کو بایں الفاظ فرمایا‪ :‬ثُ َّم اِنَّ َھا ت َْخلُفُ ِمنْ بَ ْع ِد ِھ ْم ُخلُ ْوفٌ ’’پھر ہمیشہ یہ ہوتا رہا کہ ان نبیوں‬
‫کے بعد ایسے ناخلف لوگ پیدا ہوتے رہے‘‘‪.‬ان کے دوکام یہ تھے کہ‪ :‬یَـقُ ْولُ ْونَ َما اَل یَ ْف َعلُ ْونَ َویَ ْف َعلُ ْونَ َما اَل یُْٔو َم ُر ْونَ ’’جو‬
‫کہتے تھے وہ کرتے نہیں تھے اور کرتے وہ تھے جس کا انہیں حکم نہیں ہواتھا‘‘‪.‬آگے فرمایا‪ :‬فَ َمنْ َجا َھ َد ُھ ْم بِیَ ِد ٖہ فَ ُھ َو‬
‫ُمْٔو ِمنٌ ’’تو جو شخص ان (ناخلف لوگوں)کےـ خالف اپنی طاقت سے جہاد کرے تووہ مٔومن ہے‘‘ و َمنْ َجا َھ َد ُھ ْم ِبلِ َ‬
‫سانِ ٖہ‬
‫فَ ُھ َو ُمْٔو ِمنٌ ’’اور جو کوئی ان کے خالف اپنی زبان سے جہاد کرے وہ بھی مٔومن ہے‘‘ و َمنْ َجا َھ َد ُھ ْم بِقَ ْلبِ ٖہ فَ ُھ َو ُمْٔو ِمنٌ‬
‫س َو َراَئ ٰذلِ َ‬
‫ک ِمنَ ااْل ِ ْی َما ِن‬ ‫’’اور جو ان کے خالف اپنے دل سے جہاد کرے (یعنی نفرت رکھے)وہ بھی مٔومن ہے‘‘‪َ .‬ولَ ْی َ‬
‫‘‘‪َ .‬حبَّۃُ َخ ْر َد ٍل(‪’’ )۱‬اور اس کے بعد تو ایمان رائی کے دانے کے برابر بھی نہیں ہے‬

‫سوال نمبر‪4‬‬
‫دین کا مفہوم واضح کریں نیز ین ِ اسالم کی اہمیت پر نوٹ لکھیں۔‬

‫دین‬
‫سولَهُ بِا ْل ُهدَى َو ِد ِ‬
‫ين‬ ‫ساَل ُم﴾‪﴿ ،‬ه َُو الَّ ِذي َأ ْر َ‬
‫س َل َر ُ‬ ‫اسالم نے مذہب کے لیے دین کا لفظ استعمال کیا ہے۔ ﴿ِإنَّ الدِّينَ ِع ْن َد هَّللا ِ اِإْل ْ‬
‫ا ْل َحقِّ الصف﴾ لغوی تعریف‪ :‬عربی میں دین کے معنی‪ ،‬اطاعت اور جزا کے ہیں۔ راغب اصفہانی لکھتے ہیں‪ :‬الطاعۃ‬
‫والجزاء ”دین‪ ،‬اطاعت اور جزا کے معنی میں ہے۔شریعت کو اس لیے دین کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی اطاعت کی جانی‬
‫“چاہیے۔‬
‫عقائد اور احکامات عملی کا وہ مجموعہ جو اس مجموعے کے النے والے کے ذریعے خالق کائنات کی طرف سے‬
‫بھیجا گیا ہے۔ دی ِن حق‪ ،‬صرف وہی دین ہو سکتا ہے جو خالق کائنات کی طرف سے بھیجا گیا ہو۔ اس صورت میں ایسا‬
‫الہی دین حقیقت سے مطابقت رکھتے ہوئے یقینی طور پرانسانی سعادت کاضامن ہو سکتا ہے‬
‫قرآن کریم میں ”دین“ کا استعمال‬
‫قرآن کریم میں دین‪ ،‬مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ کبھی جزا اور حساب کے معنی میں تو کبھی قانون و شریعت‬
‫اور کبھی اطاعت اور بندگی کے معنی میں۔‬

‫دین اسالم کی اہمیت و برکت‬


‫دین اسالم پر ایمان کا مطلب یہ ہے کہ رسول ہللا ﷺ پر جو کچھ بطور دین نازل ہوا ہے ننہ صرف اس کی تصدیق کی‬
‫جائے بلکہ (دل سے)اسے قبول کرنا اور اس کی پیروی کرنا بھی ضروری ہے۔‬
‫چنانچہ رسول ہللا ﷺ جو دین لے کر آئے تھے اس کی تصدیق ‪،‬اور اس بات کی گواہی کہ یہ دین تمام دینوں سے بہتر‬
‫ہے‪،‬ایمان کا الزمی جزہے۔یہی وجہ ہے کہ ابو طالب رسول ہللا ﷺ پر ایمان النے والوں میں شامل نہیں ہو سکے۔‬
‫دین اسالم ان تمام مصلحتوں کا ضامن ہے جن کی ضمانت سابقہ ادیان میں موجود تھی۔اس دین کی امتیازی خصوصیات‬
‫تعالی اپنے رسول (ﷺ)کو مخاطب کرتے‬
‫ٰ‬ ‫یہ ہے کہ یہ ہر زمانہ ‪،‬ہر جگہ ہر امت کے لیے درست اور قابل عمل ہے۔ہللا‬
‫‪:‬ہوئے فرماتا ہے‬

‫ص ِّد ۭقًا لِّ َما بَيْنَ يَ َد ْي ِه ِمنَ ٱ ْل ِك ٰتَ ِ‬


‫ب َو ُم َه ْي ِمنًا َعلَ ْي ِه‬ ‫ۖ وَأنزَ ْلنَآ ِإلَ ْي َك ٱ ْل ِك ٰتَ َب بِٱ ْل َح ِّ‬
‫ق ُم َ‬ ‫َ‬

‫ترجمہ‪":‬اور ہم نے آپ کی طرف ایک ایسی کتاب بازل کی ہے جو خود بھی سچائی کے ساتھ موصوف ہے‪،‬اور اس‬
‫سے پہلے جو (آسمانی)کتابیں ہیں ان کی بھی تصدیق کرتی ہے اور ان کی محافظ ہے۔"(سورۃ المائدہ آیت ‪)48‬‬

‫ہر دور‪،‬ہر جگہ اور ہر امت کے لیے دین اسالم کے درست اور قابل عمل ہونے سے مراد یہ ہے کہ اس دین کے ساتھ‬
‫مضبوط تعلق کسی بھی زمانہ ‪،‬مقام اور قوم کی مصلحتوں کے ہر گز منافی نہیں ہو سکتا بلکہ یہ تو ان کے عین مطابق‬
‫ہے۔اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ دین ہر دور ‪،‬ہر جگہ اور ہر قوم کا تابع ہے‪،‬جیسا کہ بعض کج فہم لوگ سمجھتے ہیں۔‬
‫تعالی نے اس کی مدد‬
‫ٰ‬ ‫دین اسالم بالکل سچا اور برحق دین ہے ‪،‬جو اس کے دامن کو مضبوطی سے تھام لے ‪،‬ہللا‬
‫تعالی کا ارشاد ہے‬
‫ٰ‬ ‫‪:‬فرمانے اور اسے غالب کرنے کی ضمانت دی ہے‪،‬ہللا‬
‫ق لِيُ ْظ ِه َرهۥُ َعلَى ٱلدِّي ِن ُكلِّ ِۦه َولَ ْو َك ِرهَ ٱ ْل ُم ْ‬
‫ش ِر ُكونَ‬ ‫ين ٱ ْل َح ِّ‬
‫سولَهۥُ بِٱ ْل ُهد َٰى َو ِد ِ‬ ‫ى َأ ْر َ‬
‫س َل َر ُ‬ ‫ه َُو ٱلَّ ِذ ٓ‬

‫ترجمہ‪":‬ہللا وہی ذات ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور سچا دین دے کر بھیجا ہے تاکہ اسے تمام دینوں پر‬
‫غالب کر دے‪،‬خواہ مشرکین کو یہ کتنا ہی ناگوار ہو۔"(سورہ الصف‪،‬آیت‬

‫ست َْخلَفَ ٱلَّ ِذينَ ِمن قَ ْبلِ ِه ْم َولَيُ َم ِّكنَنَّ لَ ُه ْم ِدينَ ُه ُم ٱلَّ ِذى‬ ‫ست َْخلِفَنَّ ُه ْم فِى ٱَأْل ْر ِ‬
‫ض َك َما ٱ ْ‬ ‫وا ٱل ٰ َّ‬
‫صلِ ٰ َح ِ‬
‫ت لَيَ ْ‬ ‫وا ِمن ُك ْم َو َع ِملُ ۟‬‫َو َع َد ٱهَّلل ُ ٱلَّ ِذينَ َءا َمنُ ۟‬
‫ٓ‬ ‫ٰ‬
‫سقُونَ ﴿‪55‬‬ ‫ش ْيا ۚ َو َمن َكفَ َر بَ ْع َد َذلِكَ فَُأ ۟و ٰلَِئكَ ُه ُم ٱ ْل ٰفَ ِ‬
‫ش ِر ُكونَ بِى َ‬‫ض ٰى لَ ُه ْم َولَيُبَ ِّدلَنَّ ُهم ِّم ۢن بَ ْع ِد َخ ْوفِ ِه ْم َأ ْم ۭنًا ۚ يَ ْعبُدُونَنِى اَل يُ ْ‬
‫ٱرتَ َ‬
‫﴾ ْ‬

‫تعالی وعدہ فرما چکے ہیں‬


‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪:‬تم میں سے ان لوگوں کے ساتھ جو ایمان الئے ہیں اور نیک اعمال کرتے ہیں‪،‬ہللا‬
‫کہ ان کو زمین میں خالفت عطا فرمائے جس طرح ان سے پہلے (اہل ہدایت)لوگوں کو خالفت عطا کی تھی اور جس دین‬
‫تعالی نے)ان کے لیے پسند فرمایا ہے اس دین کو ان کے لیے جما دے گا‪،‬اور ان کے خوف و خطر کو امن و‬ ‫ٰ‬ ‫کو (ہللا‬
‫امان میں بدل دے گا۔پس وہ میری عبادت کریں‪،‬میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھہرائیں اور اس کے بعد بھی جو کفر‬
‫کریں وہ یقینا فاسق ہیں۔"(سورۃ النور‪،‬آیت ‪)55‬‬
‫اسالم ایک توحیدی مذہب ہے جو ہللا کی طرف سے آخری رسول و نبی‪ ،‬محمد بن عبد ہللا بن عبد المطلب صلی ہللا علیہ و‬
‫آلہ وسلم کے ذریعے انسانوں تک پہنچائی گئی آخری الہامی کتاب (قرآن مجيد) کی تعلیمات پر قائم ہے۔ یعنی دنیاوی‬
‫اعتبار سے بھی اور دینی اعتبار سے بھی اسالم (اور مسلم نظریے کے مطابق گذشتہ ادیان کی اصالح) کا آغاز‪610 ،‬ء‬
‫تا ‪632‬ء تک ‪ 23‬سال پر محیط عرصے میں محمد صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم پر ہللا کی طرف سے اترنے والے الہام‬
‫(قرآن) سے ہوتا ہے۔ قرآن عربی زبان میں نازل ہوا (برائے وجہ ‪ :‬اللسان القرآن اور اسی زبان میں دنیا کی کل آبادی کا‬
‫کوئی ‪ %24‬حصہ یعنی لگ بھگ ‪ 1.6‬تا ‪ 1.8‬ارب افراد[‪ ]3‬اس کو پڑھتے ہیں ؛ ان میں (مختلف ذرائع کے مطابق) قریبا ً‬
‫‪ 20‬تا ‪ 30‬کروڑ ہی وہ ہیں جن کی مادری زبان عربی ہے جبکہ ‪ 70‬تا ‪ 80‬کروڑ‪ ،‬غیر عرب یا عجمی ہیں جن کی مادری‬
‫زبان عربی کے سوا کوئی اور ہوتی ہے۔ متعدد شخصی ماخذ سے اپنی موجودہ شکل میں آنے والی دیگر الہامی کتابوں‬
‫کے برعکس‪ ،‬بوسیلۂ وحی‪ ،‬فر ِد واحد (محمد صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم) کے منہ سے ادا ہوکر لکھی جانے والی کتاب‬
‫اور اس کتاب پر عمل پیرا ہونے کی راہنمائی فراہم کرنے والی شریعت ہی دو ایسے وسائل ہیں جن کو اسالم کی‬
‫معلومات کا منبع قرار دیا جاتا ہے۔‬
‫لفظ اسالم لغوی اعتبار سے سلم سے ماخوذ ہے‪ ،‬جس کے معنی اطاعت اور امن‪ ،‬دونوں کے ہوتے ہیں۔ ایسا در حقیقت‬
‫عربی زبان میں اعراب کے نہایت حساس استعمال کی وجہ سے ہوتا ہے جس میں کہ اردو و فارسی کے برعکس اعراب‬
‫کے معمولی رد و بدل سے معنی میں نہایت فرق آجاتا ہے۔ اصل لفظ جس سے اسالم کا لفظ ماخوذ ہے‪ ،‬یعنی سلم‪ ،‬س پر‬
‫زبر اور یا پھر زیر لگا کر دو انداز میں پڑھا جاتا ہے۔‬

‫سلم جس کے معنی امن و سالمتی کے آتے ہیں۔‬


‫َ‬
‫سلم جس کے معنی اطاعت‪ ،‬داخل ہو جانے اور بندگی کے آتے ہیں۔‬
‫ِ‬
‫یہاں وضاحت‪ ،‬اسالم کیا ہے؟ کو دوبارہ درج کرنے کی ضرورت اس لیے نہیں کہ اس کا جواب مضمون کے ابتدائیہ میں‬
‫آچکا ہے۔ جہاں تک رہی بات اس سوال کی کہ اسالم ہے کیا؟ یعنی وہ کیا اجزاء ہیں کہ جو اسالم کی تشکیل کرتے ہیں؟‬
‫تو اس وضاحت کی الگ سے ضرورت مختلف خود ساختہ فرقوں کے باعث پیدا ہونے والی غلط فہمیوں کو دور کرنے‬
‫کے لیے ایک درکا ِر الزم حیثیت رکھتی ہے۔ ماسوائے چند (جیسے اھل القرآن) تمام فرقے قرآن اور سیرت النبی (سنت)‬
‫ہی کو اسالمی تعلیمات کی بنیاد قرار دینے پر نا صرف اجتماع رکھتے ہیں بلکہ اپنے اپنے طور اس پر قائم ہونے کا‬
‫ٰ‬
‫دعوی ِء اص ِل اسالم‪ ،‬اھل تصوف سے متعلق کتب و‬ ‫دعوی بھی کرتے ہیں جیسے اھل سنت۔اور اھل حدیث وغیرہ۔ یہی‬‫ٰ‬
‫دستاویزات میں بھی دیکھا جاتا ہے[‪ ]9‬اھل تشیع فرقے والے سنت پر ایک خاص اور محتاط نقطۂ نظر بیان کرتے ہیں‬
‫اور سنیوں کے برعکس ان کے نزدیک جو سنت (حدیث)‪ ،‬اھل بیت سے منحرف ہوتی ہو وہ مستند نہیں‪ ،‬مزید یہ کہ اس‬
‫فرقے میں قرآن اور سنت کی بجائے قرآن اور اھل بیت کا تصور بھی ملتا ہے‬

‫سوال نمبر‪5‬‬
‫عقیدہ رسالت اور عقیدہ توحید کےباہمی تعلق پر جامع نوٹ لکھیں۔‬
‫جواب‬
‫ت توحید و رسالت ہے۔ جس کی ُرو سے ایک مومن کے لئے‬ ‫اسالم کے ارکا ِن خمسہ میں سے پہال اور بنیادی رکن شہاد ِ‬
‫تعالی کی وحدانیت کی گواہی دے اور ساتھ ہی حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کی‬‫ٰ‬ ‫ضروری ہے کہ وہ اﷲ‬
‫تعالی پر‬
‫ٰ‬ ‫ت مصطفوی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم پرایمان ال ئے بغیر مجرد توحید باری‬ ‫رسالت کا بھی اقرار کرے کیونکہ ذا ِ‬
‫دعوی لغو بے حقیقت اور محض خام خیالی ہے۔‬‫ٰ‬ ‫ایمان کا‬

‫ایمان و اتباع کے باب میں دونوں سے بیک وقت اور ایک ساتھ رشتہ قائم کرنا ہی اسالم کی اصل اور بنیاد ہے اس‬
‫ت ایمان میں سے ہے۔ ان میں کسی ایک کا بھی انکار کفر ہے۔ نبی آخر‬ ‫عقیدے کو دل و دماغ میں راسخ کرنا مبادیا ِ‬
‫ت‬
‫ِ‬ ‫رسال‬ ‫قبل‬ ‫سے‬ ‫النے‬ ‫ایمان‬ ‫پر‬ ‫واحدانیت‬ ‫کی‬ ‫اﷲتعالی‬
‫ٰ‬ ‫وہ‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫ضروری‬ ‫الزمان کی بعثت کے بعد اہل ایمان کے لئے‬
‫محمدی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم پر ایمان الئیں کیونکہ محض توحید پر ایمان النا ایمان کی ضمانت فراہم نہیں کرتا‪،‬‬
‫ت محمدی صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم کے منکر ہیں اس لئے کافر کہالتے‬ ‫جیسے یہودی توحید پرست تو ہیں لیکن رسال ِ‬
‫ہیں۔‬
‫قرآن میں جا بجا انتہائی تاکید کے ساتھ بنی نوع انسان کو عقیدہ توحید پر ایمان النے کی دعوت دی گئی ہے اور شرک‬
‫اور بت پرستی سے منع کیا گیا ہے اور جھوٹے خداؤں کو خدائے ال شریک کے ساتھ شریک قرار دینے کی سختی سے‬
‫مذمت ہوئی ہے بلکہ ایسا کرنے والوں کے لیے شدید ترین عذاب کی وعید بھی سنائی گئی ہے۔ لہذا بنی نوع انسان پر‬
‫الزم ہے کہ وہ ہللا تعالی کی وحدانیت کا اقرار کرے تاکہ وہ اپنی دنیوی اور اخروی زندگی میں اس عقیدے کے صحیح‬
‫مثبت اثرات سے مستفید ہو سکے اور انکا ِر توحید کے منفی اور برے اثرات سے دنیا و آخرت میں محفوظ رہ سکے۔‬

‫عقیدہ توحید کے مختلف پہلو (اقسام) ہیں جن میں سے ہر پہلو پر ایمان اور یقین سے انسانی طر ِز زندگی پر مختلف‬
‫اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ لہذا انسانی زندگی کو قرآنی سانچے میں ڈھالنے اور قرآنی طر ِز زندگی پر مشتمل انسانی‬
‫معاشرے کی تشکیل کے لیے ضروری ہے کہ عقیدہ توحید کےانسانی زندگی پر اثرات کو اجاگر کیا جائے۔‬
‫تعالی کی عبادت میں اس کے ساتھ کسی کو شریک قرار نہ دیا جائے‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫عقیدہ توحید کا ایک پہلو یہ ہے کہ ہللا تبارک و‬
‫جیسے ہللا نے قرآن میں دوٹوک فیصلہ سناتے ہوئے فرمایا ہے‪ :‬و قضی ربک اال تعبدوا اال ایاہ۔۔۔ (اسرا‪ )23 ،‬اور آپ‬
‫کے پروردگار نے فیصلہ کر دیا ہے کہ تم اس کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو۔ ایک اور مقام پر فرمایا‪ :‬اننی انا ہللا ال الہ‬
‫اال انا فاعبدنی و اقم الصلوۃ لذکری (طہ‪ )14 ،‬میں ہی ہللا ہوں‪ ،‬میرے سوا کوئی معبود نہیں‪ ،‬پس صرف میری بندگی کرو‬
‫اور میری یاد کے لیے نماز قائم کرو۔ ایک اور مقام پر فرمایا‪ :‬و الھکم الہ واحد ال الہ اال ھو الرحمن الرحیم۔(بقرہ‪،‬‬
‫‪) 163‬اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے اس رحمن و رحیم کے سوا کوئی معبود نہیں۔ سورہ ھود میں فرمایا‪ :‬اال‬
‫تعبدوا اال ہللا‪ ،‬اننی لکم منہ نذیر و بشیر۔(ھود‪ )2 ،‬کہ تم ہللا کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو‪ ،‬میں ہللا کی طرف سے‬
‫تمہیں تنبیہ کرنے واال اور بشارت دینے واال ہوں۔ پھر سورہ انبیاء میں ارشاد فرمایا‪ :‬قل انما یوحی ال ّی انما الھکم الہ‬
‫واحد فھل انتم مسلمون۔(انبیاء‪ )108 ،‬کہدیجیے‪ :‬میرے پاس وحی آئی ہے کہ تمہارا معبود بس ایک ہی معبود ہے‪ ،‬تو کیا‬
‫تم تسلیم کرتے ہو؟‬
‫یعنی عبادت ہو گی تو صرف ہللا ہی کی ہو گی‪ ،‬اس کے ساتھ کسی کو حتی مالئکہ‪ ،‬انبیائے کرام‪ ،‬اولیائے الہی‪ ،‬ائمہ‬
‫طاہرین وغیرہ کو بھی اس کی عبادت میں شریک قرار نہیں دیا جا سکتا‪ ،‬ایسا کرنا شرک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ہم کلمہ‬ ‫ؑ‬
‫طیبہ میں بھی اسی حقیقت کی گواہی دیتے ہیں جیسے‪ :‬ال الہ اال ہللا‪ ،‬یعنی کوئی معبود نہیں ہے سوائے ہللا کے۔ اور اکثر‬
‫یہی شہادت دیتے ہیں۔ اشھد ان ال الہ اال ہّللا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں ہے۔‬

‫عبادت اور پرستش انسان کی فطرت میں شامل ہے یہی وجہ ہے کہ انسانی تاریخ میں ایسے لوگ بھی گزرے ہیں جو‬
‫اسی فطری جذبے کی وجہ سے ہمیشہ کسی نہ کسی کے سامنے جھکتے اور اس کی پرستش کرتے رہے ہیں۔ انسانی‬
‫وجود کے اندر پوشیدہ اسی فطری جذبے ہی کی وجہ سے انسان چاند‪ ،‬ستارے‪ ،‬سورج‪ ،‬آگ‪ ،‬پتھر‪ ،‬درخت‪ ،‬حتی اپنے‬
‫جیسے انسانوں اور دیگر مختلف اشیاء کی پرستش اور عبادت کرتے آئے ہیں۔ اور اس طرح اپنے وجود کے اندر‬
‫پوشیدہ پرستش اور عبادت کی تشنگی کو بھجانے کی کوشش کرتے رہے ہیں البتہ اپنی جہالت اور نادانی کی وجہ سے‬
‫حقیقی معبود یعنی ہللا تعالی کے سامنے جھکنے کے بجائے متعدد جھوٹے خداؤں کے سامنے جھکتے رہے ہیں۔ جبکہ‬
‫الئق پرستش ذات تو صرف ہللا تعالی کی ہی‬ ‫ِ‬ ‫حقیقت یہ ہے کہ یہ سارے فرضی اور جھوٹے معبود ہیں۔ حقیقی معبود اور‬
‫تعالی کی‬
‫ٰ‬ ‫کرام لوگوں کو جھوٹے معبودوں کی پرستش سے روک کر حقیقی معبود یعنی ہللا‬ ‫ہے‪ ،‬اسی لیے انبیائے ؑ‬
‫پرستش کی دعوت دیتے تھے‪ ،‬اور قرآن کریم میں بھی جا بجا ہللا تعالی کے حقیقی معبود ہونے کو مختلف آیتوں میں‬
‫بیان کر دیا گیا ہے۔‬

‫اور یہی انسانی عظمت کا تقاضا بھی ہے کہ وہ صرف معبو ِد برحق کے سامنے جھکے‪ ،‬چونکہ ہللا تعالی نے بنی نوع‬
‫انسان کو کرامت عطا فرمایا ہے جیسے ارشاد باری تعالی ہے‪ :‬و لقد کرمنا بنی آدم و حملناھم فی البر و البحر و رزقناھم‬
‫من الطیبات و فضلناھم علی کثیر ممن خلقنا تفضیال۔(اسراء‪ )70 ،‬اور بتحقیق ہم نے اوالد آدم کو عزت اور تکریم سے‬
‫نوازا اور ہم نے انہیں خشکی اور سمندر میں سواری دی اور انہیں پاکیزہ چیزوں سے روزی عطا کی اور اپنی بہت سی‬
‫ب کرامت ہونے اور باقی مخلوقات پر اس کی‬ ‫مخلوقات پر انہیں بڑی فضیلت دی۔ یہاں ہللا تعالی نے انسان کے صاح ِ‬
‫برتری اور فضیلت کا تذکرہ فرمایا ہے‪ ،‬لہذا انسان کی عظمت اور فضیلت کا تحفظ اسی میں ہے کہ وہ اپنے سے پست‬
‫تر چیزوں کے سامنے نہ جھکے۔ دوسری جگہ ہللا نے فرمایا‪ :‬لقد خلقنا االنسان فی احسن تقویم۔(تین‪ )4 ،‬بتحقیق ہم نے‬
‫انسان کو بہترین اعتدال میں پیدا کیا۔‬

‫ث شرم ہے کہ وہ افضل خلق کیے جانے کے باوجود ہللا کو چھوڑ کر اپنے سے پست‬ ‫لہذا بنی نوع انسان کے لیے یہ باع ِ‬
‫ٰؑ‬
‫موسی‬ ‫تر اور حقیر چیزوں کے سامنے جھکے اور پھر انہیں عبادت میں ہللا کے ساتھ شریک قرار دے۔ جیسے حضرت‬
‫نے بھی اپنی قوم بنی اسرائیل کی جانب سے عبادت کے لئے بت نما معبود بنائے جانے کے غیر منصفانہ‪ ،‬جاہالنہ اور‬
‫عظمت انسانی کی بے توقیری پر مشتمل ناحق مطالبے کے جواب میں انہیں اپنی عظمت اور فضیلت یاد دالتے ہوئے‬
‫فرمایا‪ :‬قال اغیر ہللا ابغیکم الھا و ھو فضلکم علی العالمین۔( اعراف‪ )140 ،‬موسی نے کہا‪ :‬کیا میں تمہارے لیے ہللا کے‬
‫سوا کوئی اور معبود تالش کروں؟ حاالنکہ اس نے تمہیں عالمین پر فضیلت دی ہے۔‬
‫عالوہ ازیں جب ہللا تعالی نے فرشتوں کو حکم دیا کہ وہ حضرت آدم کو سجدہ کریں‪ ،‬تو اس سے بھی انسان کی عظمت‬
‫اور فضیلت واضح ہو جاتی ہے چونکہ یہاں ہللا نے انسان کو مسجود مالئکہ بنا دیا۔جیسے قرآن میں ہے‪ :‬و اذ قلنا‬
‫للمالئکۃ اسجدوا آلدم فسجدوا اال ابلیس ابی و استکبر و کان من الکافرین۔(بقرہ‪ )34 ،‬اور (اس وقت کو یاد کرو) جب ہم‬
‫نے فرشتوں سے کہا‪ :‬آدم کو سجدہ کرو تو ان سب نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے‪ ،‬اس نے انکار اور تکبر کیا اور وہ‬
‫کافروں میں سے ہو گیا۔‬

‫لہذا قرآنی آیات کے مطابق جب انسان کی عظمت اور کرامت مسلّم ہے تو اسے اپنی عظمت اور کرامت کا لحاظ رکھتے‬
‫ہوئے جھوٹے معبودوں کے سامنے جھکنے سے بچتے ہوئے صرف معبود حقیقی کے سامنے جھکنا چاہیے۔‬

‫الئق عبادت سمجھ کر صرف اسی کے سامنے جھکنے کے اخروی فوائد تو اپنی جگہ مسلم ہیں‬ ‫ِ‬ ‫ہللا تبارک و تعالی کو‬
‫ہی‪ ،‬اس عقیدے کے آثار اور فوائد اس دنیا میں بھی بے شمار ہیں۔ اس سے ہللا تعالی نے انسان کو جو مقام اور مرتبہ‬
‫عطا فرمایا ہے اس کا تحفظ ہوتا ہے‪ ،‬چونکہ جو ہللا کے سامنے جھکے اسے ہر ایک کے سامنے جھکنے کی ضرورت‬
‫نہیں پڑتی‪ ،‬وہ لوگ جو ہللا کے سامنے نہیں جھکتے انہیں ہر کسی کے سامنے جھکنے کی ضرورت پیش آتی ہے‪،‬‬
‫کبھی وہ کسی کے سامنے جھک رہے ہوتے ہیں تو کبھی کسی اور کے سامنے۔ حتی کبھی کبھی تو اپنے سے پست تر‬
‫اور حقیر تر چیزوں کے سامنے بھی انہیں جھکنا پڑتا ہے‪ ،‬لیکن جو خدائے وحدہ ال شریک کے سامنے جھک جائے تو‬
‫‪:‬وہ باقی لوگوں اور چیزوں کےسامنے جھکنے سے بے نیاز ہو جاتا ہے۔ بقول شاعر مشرق عالمہ اقبال‬

‫یہ ایک سجدہ جسے تو گراں سمجھتا ہے‬

‫ہزار سجدے سے دیتا ہے آدمی کو نجات‬


‫ہللا تعالی کی بندگی اور اطاعت کا نام آتے ہی فطری طور پر ہللا تعالی کے احکام اور رضا کا سوال سامنے آکھڑا ہوجاتا‬
‫ہی۔ کیونکہ جب بھی ایک انسان اپنے پروردگار کا اطاعت گزار بن کر رہنے کا فیصلہ کرے گا تو وہ جاننا چاہے گا کہ‬
‫اس کے مالک کے احکام کیا ہیں۔ وہ کن باتوں کو پسند کرتا ہے اور کن باتوں کو ناپسند کرتا ہے۔ اس کا وفادار رہنے‬
‫کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے اور اس کی نافرمانی سے محفوظ رہنے کے لئے اسے کیا کرنا چاہئے۔ ان ساری باتوں‬
‫ت الہی کی راہ میں پہال قدم نہیں اٹھایا جاسکتا۔ اس صورت حال کا واضح مطالبہ یہ تھا کہ اس‬
‫کو جانے بغیر اطاع ِ‬
‫معاملے میں انسان کو بھٹکنے کے لئے چھوڑنے کے بجائے اس کی رہنمائی کی جاتی کیونکہ اس کی فکری اور‬
‫روحانی قوتوں میں یہ صالحیت نہ تھی کہ مراتب اور ھدایت معلوم کرلیتے حاالنکہ انسان کو اس بات کی اتنی ہی‬
‫ضرورت ہے جتنی پانی‪ ،‬ہوا اور روشنی کی ضرورت ہوتی ہے۔ ایک طرف تویہ انسان کی سب سے بڑی ضرورت تھی‬
‫اور دوسری ہللا کا عدل اس کی رحمت اور اس کی ہرصفت کا مطالبہ یہ تھا کہ وہ انسان کو یوں بھٹکنے کے لئے نہ‬
‫چھوڑ دے بلکہ وہ انسان کے لئے اخالقی‪ ،‬دینی‪ ،‬سماجی ضرورتوں کو پورا کرنے کےلئے انتظام کرے۔ یہی وہ انتظام‬
‫تھا جسے دین کی اصطالح میں رسالت کہاجاتا ہے۔‬
‫الہام ہدایت ار انبیاءکی تعلیم کی ضرورت ہے یہی وجہ ہے‬
‫انسان کو جس طرح ہوا اور پانی کی ضرورت ہے اسی طرح ِ‬
‫ب نبوت سے سرفراز کیا۔ حضرت آدم ؑ کے‬ ‫کہ ہللا تعالی نے سب سے پہلے انسان (حضرت آدم ؑ) کو بھیجا اور اسے منص ِ‬
‫موسی‬
‫ٰ‬ ‫بعد مختلف جگہوں پر مختلف انبیاءکو انسانوں کی ہدایت اور راہمائی پر فائز کیا۔ ان میں حضرت ابراہیم ؑ‪ ،‬حضرت‬
‫یحی ؑ کے نام ہم اچھی طرح مانوس ہیں۔ ان کے عالوہ کئی‬
‫عیسی ؑ‪ ،‬حضرت نوح ؑ ‪ ،‬حضرت اسحق ؑ اور حضرت ٰ‬ ‫ٰ‬ ‫ؑ‪ ،‬حضرت‬
‫انبیاءآئے ایک اندازے کے مطابق ان کی تعدادکم و بیش ایک الکھ چوبیس ہزار ہے۔‬
‫ان باتوں کے عالوہ قرآن ہمیں یہ بتاتا ہے کہ انبیاءہر قوم پر بھیجے گئے ہیں قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے‬
‫کوئی بھی ایسی قوم نہیں گزری جس میں کوئی ڈرانے واال (رسول) نہ آیا ہو۔‬
‫اس کی وجہ ظاہر ہے کہ تمام انسان برابر ہیں اور سب ایک مقصد کے لئے پیدا کئے گئے ہیں۔ ہللا کی بندگی سب کا‬
‫فریضہ ہے اور آخرت میں اس فرض کے مطابق ہر ایک سے پوچھ گچھ ہوگی۔‬
‫ان تم حضرت آدم ؑ سے نبوت کا جو سلسلہ شروع ہوا وہ خاتم النبی حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم پر آکر ختم ہوا۔ ہللا‬
‫تعالی نے پہلے انبیاءکو علیحدہ علیحدہ کماالت عطا فرمائے تھے۔ نبی آخری زماں کی ذات میں وہ تمام شامل کردئیے۔ام‬
‫انبیاءکو ماننا ہر مسلمان کا فرض ہے اور نہ صرف ماننا بلکہ ان کا احترام کرنا بھی ضروری ہے۔‬

You might also like