Professional Documents
Culture Documents
فصل اول سورۃالبقرہ
فصل اول سورۃالبقرہ
صل اول
سورۃ البقرہ 129 :بعثت نبوی ﷺ) ،سورہ ۃالبقرہ 142تا 144
(تحویِل قبلہ)
اس فصل میں منتخب آیات قرانیہ کا ذکر ہے جن میں ڈاکٹر اسرار احمد
ؒاور موالنا اشرف علی تھانویؒ نے آئمہ مفسرین اور محدثین کے اقوال و
اراء کی روشنی میں بعثت نبوی صلی ہللا علیہ والہ وسلم اور تحویل قبلہ
ق
کے متعلق وضاحت کی ہے۔
ث ت ق
رآن می ں م اصدِ ب ع تنکا ذکرہ
ق ق ت ت ق
تف رآن کری م میق ں ہللا عالی ے ی ضن م اماتؑمپر آپﷺ کے م اصِد ب عث ُات کو ب ی ان
اس کا ذکر ہ نوا ،ن کی ی ہ م ن ا خن سے ان بز کی ی ت رما اے ،پ ہالم ام وہ ے ہاں رت ا راہ
ب ہ جس ضح ہ خ ی ن
دان اور سل سے ہ وں ؛ ن ا کے
ق ی ہئآپ ف ﷺ ت دمحم رت ل
سی ن حالر د الزمان ر آ ی ب نھی کہ
ہ
ے آپ ےخ ج ب ب ی ت ہللا کی عمی ر رما ی ،ی ہ تو ت چ و کہتب ڑی ا می ت کا چ ن ا چ ہ تاس کے ئی
ل
ے عمی ر ک ی ا گ ی ا ھا ،ناس حسا س اور ئکا پ ہال گھر اس کی ب ن دگی کے ی
ل اتج می تں دا
س
حامل ق ھا ،اس کا ن
ن
ن م
ے رکھ کر آپ ے ہ وے اور کری م پروردگار کی ال طاف وع ای ات کو سام اہنم مو ع کی زاکت کو ھ
ے دعاکی
َر َّب َن ا َو ٱْب َع ْث ِفيِه ْم َر ُسواًل ِّم ْن ُهْم َي ْت ُلو۟ا َع َلْي ِه ْم َء اَٰي ِتَك َو ُيَع ِّلُمُهُم ٱْلِك َٰت َب َو ٱْلِح ْك َم َة َو ُي َز ِّك يِه ْم ۚ ِإَّن َك َأنَت
1
ٱْلَع ِز يُز ٱْلَح ِكيُم
ن ب ن ن
ک ایسا رسول ب ھی یھ ج ا ج و ا ہیعمی ں سے ہ و،ج و ان کے نسامئ
ے ت روردگار !ان می ں ای ن ت تہ مارےت پ
کمت کی لی م دے ،اور ان کو پ اکی زہ ب اے،
م ی شری آی توں کی الوت تکرے ،ا ھی ں کت اب اور ح ق
ے ،جس کی حکمت ب ھی ب
ے جس کا ا ت دار ھی کا ل ہ ب ی م ک ی ری اور صرف ی ری ذات وہ ہ
ت کا ل۔ ‘‘
ن ن ت ن ن
ﷺ ہ ی ں ۔ ؑمب ینکری م ئﷺ رسول ہللا ض ت دمحم
اس سے مراد ن فجس ب یتکی تآپ ے م انکی ھی
ن ہ
اپ اخب نرا ی م کی دعا نکا ی ج ہ ہ وں ۔ شح رت ابرا ی ے کا ات کیہ
ص ہ ےب ن ے تکہ می ںہ اپ ت
رمای ا کرے ھ
ع
ے سعادت کو حا ل ے ا دان می ں ما گ ل ی ا اور می ہ کے یل سب سے ظ ی م ری ن س ی کو اپ
کرل ی ا۔
ق ت ئ ف ن ب ن ت
ے ہ وے رمای ا ے ج اے کو احسان راردی دوسری ج گہ ہللا عالی ے آپ کے یھج
ق
1الب رہ129:
َلَق ْد َم َّن ٱُهَّلل َع َلى ٱْلُمْؤ ِمِنيَن ِإْذ َبَع َث ِفيِه ْم َر ُسواًل ِّمْن َأنُفِس ِه ْم َي ْت ُلو۟ا َع َلْي ِه ْم َء اَٰي ِتِهۦ َو ُي َز ِّك يِه ْم
َو ُيَع ِّلُمُهُم ٱْلِك َٰت َب َو ٱْلِح ْك َم َة َو ِإن َك اُنو۟ا ِمن َقْبُل َلِفى َض َٰل ٍل ُّم ِبي
ن ق
1
ن
ٍن
ن ح ق
وں پر ب ڑا اح تسان ک ی ا تکہ ان کے درم ی نان ا ھی ں می ں سے
ت نم ت مؤ ے ہللا کہ ے ٰ ’’ ی بی ہ
ہ ت
وصاف
ھ ک ے ہللا ععالی کی آی وں کی الوت کرے،ا ہی ں پ اکق ک رسولن یھ ج ا ج و ان کے سام ا نی ئ
ے ی ی ن ا لیہ
اب اور کمت کی لی م دے؛ ج ب کہ ی ہ لوگ اس سے پ ل ح ب ائے اور ا ہی ں کت ت
ے۔‘‘ ہ و ی گمراہ ی می ں مب ت ال ھ
ت ئ ف ث ق ن ت ت
ہ ب
یسری ج گہ ہللا عالی ے م اصدِ ع ت کو ب ی ا ن کرے وے رمای ا:
ُه َو ٱَّلِذى َبَع َث ِفى ٱُأْلِّم ِّي ۧـ َن َر ُسواًل ِّم ْن ُهْم َي ْت ُلو۟ا َع َلْي ِه ْم َء اَٰي ِتِهۦ َو ُي َز ِّك يِه ْم َو ُيَع ِّلُمُهُم ٱْلِك َٰت َب َو ٱْلِح ْك َم َة
َو ِإن َك اُنو۟ا ِمن َقْبُل َلِفى َض َٰل ٍل ُّم ِبي
ن ن ُا
2
ٍن
ن ’’وہ ی ے جس ے می لوگوں می ں ا ھی ں می ں سے ان ک رسول کو ب یھ ا ج و ان ت
ے کے سام ع ج ی نئ ت ہت
اس کی آی وں کی الوت کرکی ں اور ان کو پ اکی زہ ب ا ی ں اور ا ھیئں تکت اب و کمت کی لی م دی ں ؛
ح ئ
ے۔‘‘ ے ھلی ہ و ی گمراہ ی می ں پ خڑے ہ وے ھ ج ب کہ وہ اس سے پہل
ت ئ ن ت ق ن ض
ح ترت موال ا ع ب د الماج د دری اب ادیؒ م اصِد ب عث ت کو م صر ل ی کن ج امع ا داز می ں ب ی ان کرے ہ وے
ےہی ں: لک
ئ ھ
ئ ت ن فق ف
ےہی ں۔ گ رسول اعظ مﷺ کے ج ملہ را ض کماِل ای ج از کے سا ھ چ د روں می ں آ
ن ت تنت پن ْو ْم َک
ے ،ی ع ی ہللا ہ ا و ہ ات
ِت ی ُم ت َب آ الو ے م سا کے امت ی ا کام ال ہ پ کا رسول "َی ْتُل ا َعَلْیِھ ن ٰا نٰیِت
م
‘‘
ے۔ت’’ُیَعِّلُمُھ ا تْلِکٰت ‘‘ ترسول ع ہ
کا کالم پ ہ چ ا ت ا،گوی ا رسول کی پن لی خح یت ث ی نت ب لِغ ا ت ظ م کی ہ و ی
ہ
رسا ی ر م ہی ں ہ و ا ا،اس کاکام کت انبِ اٰلہی کی ب لیخ غ کے ب خ کاکام محض ب لی غ وپ ام ت ت
عد اس ت ش ج ن پ ع ی عت
ص ،صی ص ص ع کی لی م کا ب ھی ے،اس لی م کے ا در کت ف
رح ،رجت ما ی ،ئمی م می ں ی ن ب
اب کی ہ ئ مں ع
ج ہ
کج موں کی ھی ردی د وگ ی و رسول کا م ع صب ہ ان
س سے ں یہ ی اور ی گآ ھ ک
چ سب م می ی
جم ت ق
ے ہ ی ں ،گوی ا رسول کی دوسری ح ی ث ی ت م ل اعظ م ھ طرح کی
ع
عاذ ہللا) صرف ڈاک ہ ا اصد ت
َۃ ی ی َو ئ م (
ِم م
کی ہ و ی۔’’ اْلِحْکَم ‘‘ ھر رسول م حض
لی پ
ق نئ ت
ب ن
گے،احکام امت کو کری ں خ ب ہ ی کی ہ دی قں گے ب لکہ حکمت و دا ا یخ کی ل ی ن ھی ئ کت ا ئ
واص کی واص سب کو سکھا ی ں گے اور ئ اعدے اور آداب ،عوام و ت ومنسائ ل ،دی ن کے
ع ش ح
گے،گوی ا رسول کی یسری ی ث ی ت مر ف دِ ا ظ م کی ہ ظو ی۔ ب
اسرارو رموزمی ں ھی کری ں ف ئ رہ َزما ی
ت ْم
کام محض ال خاظ اور احکامِ اہ ری کی ے ،رسول کا ن ت ت ش’’ُی ِّک تْیِھ ‘‘ زکی ہ نسے مراد دلوں کی ص ا خی ہ
ب
اور ی وں کے ا ئ الص کے ھی ے گا؛ ب لکہ وہ ا تالق کی پ اکی زگی ف ریئ ح ن
ع ص ک محدود ہی ں رہ
3
را ض ا ج ام دی ں گے،گوی ا رسول کی ی ہ چ و ھی ح ی ث ی ت م ِحل ا ظ م کی ہ و ی۔
سورۃ البقرہ ( 129:بعثت نبویﷺ)
1
تف
2
3
سی ر ماج دئ ج لد اول ص66
َر َّب َن ا َو ٱْب َع ْث ِفيِه ْم َر ُسواًل ِّم ْن ُهْم َي ْت ُلو۟ا َع َلْي ِه ْم َء اَٰي ِتَك َو ُيَع ِّلُمُهُم ٱْلِك َٰت َب َو ٱْلِح ْك َم َة َو ُي َز ِّك يِه ْم ۚ ِإَّن َك َأنَت
ٱْلَع ِز يُز ٱْلَح ِكيُم
ترجمہ ":اور اے ہمارے پروردگار ان لوگوں میں اٹھائیو ایک رسول
خود انہی میں سے جو انہیں تیری آیات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب
اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کو پاک کر دے یقینا توہی ہے زبردست
" 1اور کمال حکمت واال
تفسیر بیان القران میں مذکورہ آیت کی ذیل میں بعثت سے متعلق
واقعات و مسائل سیرت کا تحقیقی جائزہ آپ صلی ہللا علیہ والہ
وسلم کے بعثت کے لیے ابراہیم علیہ السالم کی دعا کی تفصیل۔
ڈاکٹر اسرار احمد کے مندرجہ باال آیت کی تفسیر میں حضرت ابراہیم کی دعا کا
ذکر کرتے ہیں جو کہ نبی اکرم ﷺسے متعلق ہے ۔حضرت ابراہیمؑ اور
حضرت اسماعیلؑ نے خانہ کعبہ کی تعمیر کے بعد تین دعائیں مانگی ایک تو یہ
کہ
َر َو
َّبَنا ٱْجَعْلَنا ُمْسِلَمْيِن َلَك " 2اے ہمارے پروردگار ہمیں اپنا مطیع و فرمانبردار بنا "
"ہم دونوں کی نسل سے ایک امت اٹھا جو تیری اور دوسری یہ کہ
3
فرمانبردار ہو"
اور تیسری دعا "ا ے ہمارے پروردگار ان میں سے ایک رسول اٹھائیو جو
انہیں تیری ایات پڑھ کر سنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان
4
کو پاک کر دے یقینا تو ہی زبردست اور کمال حکمت واال ہے "
حضرت ابراہیم ؑا ور حضرت اسماعیؑل کی نسل سے مراد بنی اسماعیل ہے۔ وہ
دونوں اپنے پروردگار سے دعا کر رہے تھے کہ اے پروردگار ہماری اسی نسل
تاکہ ان میں ایک رسول مبعوث فرما جو کہ انہی میں سے ہو باہر کا نہ ہو
کے اور اس کے درمیان کوئی اجنبیت نہ ہو۔ کتاب کا صرف پڑھ کر سنا دینا تو
ق
1سورہ قالب رہ129:
2
سورہ الب رہ128:
ق
سورہ ا لب رہ128:
ق
3
4
الب رہ129:
بہت آسان کام ہے اس کے بعد کتاب اور اس میں موجود حکمت کی تعلیم دینا
اور اسے دلوں میں بٹھانا اہم ہے ان کا تزکیہ کرے اور ان کے دلوں میں تیری
محبت اور آخرت کی طلب کے سوا کوئی طلب باقی نہ رہے اس آیت میں آپ
ﷺکی عبادت کے چار بڑے مقاصد ہللا تعالی نے ذکر کیے ہیں یعنی تالوت
کتاب ،تعلیم وحکمت ،تعلیم کتاب اور تزکیہ نفوس ہے ہللا تعالی نے ان کی دعا
قبول کی اور بذریعہ وحی بتال دیا کہ جس رسول صلی ہللا علیہ وسلم کے پیدا
ہونے کی دعا آپ مانگ رہے ہیں وہ آخر زمانہ میں ظاہر ہوگا اور ملت ابراہیمی
کی اطاعت کرنے واال ہوگا اس امت کا نام امت مسلمہ ہوگا جیسا کہ ہللا تعالی کا
ارشاد ہے ُه َو َس َّم ٰى ُك ُم ٱْلُمْس ِلِميَن 1اور چونکہ ایک عظیم امت کا باوجود اختالف آ را
ءوعقول کے ایک مسلک اور ایک طریقے پر بغیر کسی مربی کے قائم رہنا
ناممکن ہے۔ اس لیے ان میں سے ایک رسول بھیج دیں جو اس امت مسلمہ کو دین
اسالم سکھائے۔اس کے عالوہ جب وہ رسول انہی میں سے ہوگا تو لوگ اس کے
مولد و منشا ،حسب و نصب ،امانت و دیانت ،اخالق و صورت اور سیرت سے بخوبی
واقف ہوں گے اور اس کے اتباع سے جھجک محسوس نہیں کریں گے اور جب
نبی صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ رشتہ داری کی محبت اور مہربانی بھی مل جائے
گی تو اس رسول کی مدد اور اس کی شریعت کی ترویج اور اشاعت میں کوئی
مشکل نہ ہوگی ۔اس نبی کو اپنا سمجھ کر معاملہ کریں گے اجنبی اور غیر کا
معاملہ نہ کریں ۔
پہال مقصد:تالوِت قرآن
رسول ہللاﷺ نے امت میں تالوِت قرآن کی عظمت واہمیت کو عام
فرمایا اور اس کے فوائد وبرکات سے آگاہ کیا اورانسانوں کے ہاتھ میں خدا کا یہ
عظیم کالم سونپا جس کی وجہ سے انسانیت ذلت سےنکلی اور تالوِت قرآن کا
ایسا ذوق ان کو عطا کیا کہ اس سے کسی لمحہ صحابۂ کراؓم کو سیری حاصل
نہیں ہوتی تھی اور خود آپﷺ جب قرآن کریم کی تالوت فرماتے کتنے ہی
پتھر دل موم ہوجاتے اور کیسے کیسے سخت مزاج انسان نرم پڑجاتے اور قرآن
کی حقانیت و عظمت کا اقرار کیے بغیر نہیں رہتے اور بہت سے لوگ اسی قرآن
کی سماعت سے دائر ہ اسالم میں داخل ہوئے۔دنیا میں جو کچھ انقالب نظر آرہا
1
الحج78:
ہے بالشبہ یہ اس عظیم کتاب کی بدولت ہے جو صاحب کتاب سیدنا محمد رسول
ہللا ﷺ نے بطور امانت انسانوں تک پہنچایا اور اس کے تقاضوں کو عملی
طور پر پورا کرکے دکھایا۔قرآن کا نزول عرب کی سرزمین پر ہوا لیکن وہ
پوری دنیا کے لیے اور ہمیشہ کے لیے معجزہ بن کر آیا اور اس کی کرنیں
سارے عالم میں پھیل گئیں اور جہاں قرآن کا نور پہنچا وہاں اندھیریوں کا خاتمہ
ہوا اور کفر و شرک نے دم توڑدیا۔ حضرات صحابۂ کرامؓ کی زندگیوں میں
انقالبی اثرات اسی کالم نے پیدا کیے اور وہ انسانوں کو رہبر اور رہنما بنے بھی
تو اسی قرآن کی تعلیمات پر عمل کرکے بنے۔
قرآن نے ہر شعبۂ زندگی میں مثالی انقالب بر پا کیا۔ تالوِت قرآن کی اہمیت کو
بیان کرتے ہوئے آپ ﷺ نے فرمایا :جو قرآن کریم پڑھنے میں اس قدر
مستغرق ہو کہ اس سے دعا مانگنے کا موقع ملے تو ہللا تعالی نے فرمایا کہ
1
مانگنے والوں سے زیادہ ایسے بندے کو عطاکروں گا۔
آپ ﷺ نے فرمایا کہ کوئی قوم ہللا کے گھروں میں سے کسی گھر میں
مجتمع ہوکر تالوت کرتی ہے تو ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے اور رحمت ڈھانپ
لیتی ہے ،مالئکۂ رحمت ان کو گھیر لیتے ہیں اور حق تعالی اس کا ذکر مالئکہ
2
کی مجلس میں فرماتے ہیں ۔
حضرت انس سؓے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :جس گھر میں
قرآن کریم کی تالوت کی جاتی ہے اس میں فرشتے آتے او رشیاطین دور
ہوجاتے ہیں ،وہ اپنے صاحب خانہ کے لیے کشادہ ہوجاتا ہے اور اس میں
بھالئی کی بہتات اور شر کی قلت ہوجاتی ہے ،اور جس گھر میں قرآن کی تالوت
نہ ہو اس میں شیاطین آجاتے ہیں ،فرشتے نکل جاتے ہیں اور وہ گھر اپنے
3
باسیوں پر تنگ ہوجا تا ہے ،خیرکم اور شر بہت بڑھ جاتا ہے۔
ت
1ی رمذی2926:
ص لمس
2
(محمد ")۲۴:یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پرقفل پڑے ہوئے
ہیں "
اس لیے قرآن کریم کو سمجھنا اس کا حق ہے۔ قرآن مجید کی تعلیمات کے مطابق
عمل کرنا بھی اہِل ایمان کی ذمہ داری ہے۔ قرآن صرف پڑھ کر یا سمجھ کر رکھ
دینے کی کتاب نہیں ہے؛ بلکہ اس کے مطابق زندگیوں کو بنانے اور سنوارنے
کی ضرور ت ہے۔ قرآن نے حالل و حرام اور جائز و ناجائز کے لیے اصول
بتائے اور اس کی تشریخ نبی کریم ﷺ نے فرمائی۔ قرآن کریم میں حکم
دیتے ہوئے فرمایا:
َو َٰه َذ ا ِك َٰت ٌب َأنَز ْلَٰن ُه ُم َب اَر ٌك َفٱَّت ِبُعوُه َو ٱَّتُقو۟ا َلَع َّلُك ْم ُتْر َح ُموَن (2االنعام )۱۵۵ :
1
2
"یعنی یہ قرآن مبارک کتاب جو ہم نے نازل کی اس کی اتباع کرو۔"
"جو کچھ تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل کیا گیا ہے ،اس کی
اتباع کرو۔"
جسمِ انسانی میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو تو سارا جسم صحیح
ہوگا اور اگر وہ خراب ہو جائے تو جسم سارا فسا د میں مبتال ہوجائے گا ،غور
2
سے سنو ! وہ دل ہے۔
2
چوتھا مقصد :تعلیم حکمت
چوتھا کام آپ صلی ہللا علیہ وسلم کا امت کو حکمت کی تعلیم دینا ہے۔حکمت سے
مراد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی سنت ہے۔( تفسیر ابن کثیر)۳/۲۵۱:آپ
صلی ہللا علیہ وسلم کی ذاِت گرامی میں انسانوں کے لیے ہر اعتبار سے نمونہ
موجود ہے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی تمام تر تعلیمات انسانیت کے لیے سعادت
وکامیابی کی عالمت ہیں ۔آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایااس پر عمل
پیرا ہونے میں ہی فالح دارین پوشیدہ ہے؛اس لیے آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے
اپنی امت کو سنت کی تعلیمات سے نوازااور طریقۂ زندگی کے اصول وآداب
بتالئے۔ ہللا تعالی نے آپ صلی ہللا علیہ وسلم کی اتباع پر اپنی محبت کو موقوف
رکھا ہے۔ چنا نچہ ا رشاد ہے
1
ُقْل ِإن ُك نُتْم ُتِح ُّبوَن ٱَهَّلل َف ٱَّت ِبُعوِنى ُيْح ِبْب ُك ُم ٱُهَّلل َو َي ْغ ِفْر َلُك ْم ُذ ُنوَب ُك ْم ۗ َو ٱُهَّلل َغ ُفوٌر َّر ِحيٌم
"یعنی کیا آپﷺ نے قریش مکہ اور مشرکین عرب کو نہیں دیکھا جنہوں
نے ہللا تعالی کے انعام کی ناشکری کی گویا کہ نعمت کو کفر سے بدل دیا "
1
سورہ العمرآن164:
2
سورہ اب راھی م28: