You are on page 1of 91

‫رساله‬

‫ﻃﺮﯾﻘﮧ ﻋﺎﻟﯿﮧ‬

‫ﻧﻘﺸﺒﻨﺪﯾﮧ ﳎﺪﺩﯾﮧ‬
‫أردو‬
‫ماخوذ از‪:‬‬
‫گاه دوست‪ ،‬تحرير حضرت خواجہ محبوب سجن سائيں مدظلہ العالی‬
‫جلوه ِ‬
‫‪www.sirajia.com‬‬
‫مرتب ‪:‬‬
‫فقير حقير خاك پاۓ بزرگان ال شئ مسكين‬
‫حضرت مولوي جاللالدين أحمد الراوي األماني عفى عنه‬
‫نقشبندي مجددي أويسي‬
RISALAH
TARIQAH 'ALIYAH
NAQSHBANDIYAH
MUJADDIDIYAH
URDU
TAKEN FROM:
JALWAH GAHI DOST
TAHRIR HADHRAT KHWAJAH MAHBUB SAJAN SAEEN
WWW.SIRAJIA.COM

COMPILED BY:
FAQIR HAQIR KHAK PAEY BUZURGAN LA SYAIK MISKIN
HADHRAT MAWLAWI JALALUDDIN AHMAD
AR-ROWI AL-AMANI 'AFA 'ANHU
NAQSHBANDI MUJADDIDI UWAISI

1431 H / 2010 M
KHANQAH ALIYAH NAQSHBANDIYAH MUJADDIDIYAH
‫فضيلت سلسلہ نقشبنديہ‬
‫اہل السنۃ والجماعۃ کے تمام مسالک برحق ہيں۔ قادريہ‪،‬‬
‫چشتيہ‪ ،‬سہرورديہ اور دوسرے طريقے‪ ،‬انکے مشائخ قابل‬
‫قدر و قابل تعظيم ہيں۔ ليکن صوفيائے کرام کے دوسرے‬
‫سالسل طريقت سے طريقہ عاليہ نقشبنديہ کو کئی وجوه سے‬
‫ِ‬
‫فضيلت حاصل ہے۔‬

‫اول‪ :‬اس سلسلہ کی ابتدا ميں ذکر قلبی ہے‪ ،‬جس ميں جذب‬
‫ربانی ہے۔ جبکہ ذکر زبانی ميں سلوک ہے۔ جذب اور‬
‫سلوک دو عليحده عليحده چيزيں ہيں۔ سلوک ميں بنده ذکر‬
‫اذکار اور رياضت و مجاہده کے ذريعے خدا تک پہنچنے‬
‫کی کوشش کرتا ہے‪ ،‬جبکہ جذب ميں جو کہ ذکر قلبی کے‬
‫ذريعے پيدا ہوتا ہے‪ ،‬خدا خود بنده کو اپنی طرف کھينچ ليتا‬
‫ہے۔‬

‫عبدالرحمن جامی نقشبندی رحمۃ ﷲ عليہ فرماتے ہيں‬


‫ٰ‬ ‫موالنا‬

‫نقشبنديہ عجب قافلہ ساالر انند‬


‫ره پنہاں بحرم قافلہ را‬
‫کہ برند از ِ‬

‫صحبتشاں‬
‫ِ‬ ‫ره جاذبۂ‬
‫دل سالک ِ‬
‫از ِ‬
‫می برد وسوسۂ خلوت و فکر چلہ را‬
‫حضرات نقشبند عجب قافلہ کے ساالر ہيں کہ اپنے متعلقين‬
‫کو پوشيده طريقہ سے بارگاه ٰالہی تک ليجاتے ہيں۔ انکی‬
‫صحبت کی کشش سالک کے دل سے خلوت کے خيال اور‬
‫چلہ کشی کے فکر کو ختم کرديتی ہے۔‬

‫دوم‪ :‬سلسلہ نقشبنديہ کی فضليت کی دوسری وجہ يہ ہے کہ‬


‫اس سلسلہ ميں اتباع رسول ﷲ صلّی ﷲ عليہ وسلم پر سب‬
‫سے زياده زور ديا جاتا ہے۔ اس طريقہ کی ترقی و کمال کا‬
‫اتباع سنت پر ہے اور قرآن پاک کے ارشاد‬‫ِ‬ ‫تمام تر انحصار‬
‫کے مطابق محبوبيت ٰالہی کے مقام پر فائز ہونے کا يہی‬
‫ايک طريقہ ہے۔‬

‫تحبون ﷲ َ ﱠ ِ ُ ْ‬
‫فاتبعونِْی يُ ْ ِ ْ ُ ُ‬
‫حببکم ﷲ‬ ‫ان ُ ْ ُ ْ‬
‫کنتم ُ ِ ﱡ ْ َ‬ ‫ُْ‬
‫قل ِ ْ‬

‫اے محبوب صلّی ﷲ عليہ وسلم لوگوں کو بتائيں کہ اگر تم‬


‫ﷲ سے محبت کرتے ہو تو ميری تابعداری کرو ﷲ تمہيں‬
‫اپنا دوست بنائے گا۔‬

‫سوم‪ :‬سلسلہ نقشبنديہ کے اقرب طرق يعنی خدا تعالٰی کی‬


‫معرفت حاصل کرنے کا سب سے نزديکی راستہ ہونے کی‬
‫وجہ يہ بھی ہے کہ اس سلسلہ ميں آنحضرت صلّی ﷲ عليہ‬
‫وسلم تک پہنچنے کا وسيلہ حضرت ابوبکر صديق رضی ﷲ‬
‫عنہ ہيں جو کہ انبياء عليہم السالم کے بعد تمام مخلوقات ميں‬
‫سب سے افضل ہيں۔ ظاہر ہے وسيلہ جس قدر قوی ہوگا‬
‫راستہ اتنی ہی جلدی اور آسانی سے طے ہوگا۔‬
‫چہارم‪ :‬جہاں پر دوسرے طريقوں کی انتہا ہوتی ہے وہاں‬
‫سے اس طريقہ کی ابتدا ہوتی ہے۔ اس طرح يہ طريقہ‬
‫وصول الٰی ﷲ کا قريب ترين راستہ ہے۔ حضرت امام ربانی‬
‫مجدد منور الف ثانی نور ﷲ مرقده فرماتے ہيں‪:‬‬

‫”مشائخ طريقہ نقشبنديہ قدس ﷲ تعالٰی اسرار ہم ابتدائے‬


‫سير از عالم امر اختيار کرده اند۔۔۔ تا۔۔ مندرج گشت“۔‬

‫ترجمہ‪ :‬سلسلہ عاليہ نقشبنديہ کے مشائخ نے سير باطنی کی‬


‫ابتدا عالم امر سے اختيار کی ہے‪ ،‬عالم خلق کو اسی کے‬
‫ضمن ميں طے کرليتے ہيں۔‬

‫برخالف دوسرے طريقوں کے مشائخ کے کہ وه سيرکی‬


‫ابتدا عالم خلق سے کرتے ہيں اور وه عالم خلق طے کرلينے‬
‫کے بعد ہی عالم امر ميں قدم رکھتے اور مقام جذبہ ميں‬
‫پہنچتے ہيں۔ يہی و جہ ہے کہ طريقہ نقشبنديہ تمام طريقوں‬
‫سے اقرب ہے اور يقينی طور پر دوسروں کی انتہا اسکی‬
‫ابتدا ميں ہے۔‬

‫اسی موضوع پر حضرت خواجہ احمد سعيد فاروقی قدس‬


‫سره لکھتے ہيں‬
‫ٗ‬

‫”اس زمانہ ميں ﷲ تعالٰی سے لو لگانے کی کمی ہوگئی ہے‪،‬‬


‫اس ليے صوفيائے نقشبند ايسے طالب کو پہلے ذکر قلبی کا‬
‫طريقہ سکھاتے ہيں اور بجائے رياضات و مجاہدات شاقہ‬
‫کے عبادات کا حکم فرماتے ہيں اور تمام حاالت ميں اعتدال‬
‫قائم رکھتے ہيں اور ان نقشبندی صوفيائے کرام کی توجہات‬
‫دوسروں کی کئی چلہ کش توجہات سے بہتر اور اعلٰی ہوتی‬
‫ہيں اور طالبوں کو سنت رسول صلّی ﷲ عليہ وسلم کی اتباع‬
‫اور بدعۃ سے اجتناب کا حکم فرماتے ہيں اور جہاں تک‬
‫ممکن ہوتا ہے ان کے حق ميں رخصت پر عمل تجويز نہيں‬
‫فرماتے۔‬

‫اسی ليے ان بزرگوں نے ذکر خفی کو اپنا طريقہ اختيار‬


‫فرمايا۔‬
‫اصطالحات طريقہ عاليہ نقشبنديہ مجدديہ‬
‫جاننا چاہيے کہ طريقہ عاليہ نقشبنديہ کے چند اصول ہيں جن‬
‫پر طريقہ عاليہ کا دارومدار ہے اور ان پر عمل کيے بغير‬
‫نقشبندی سلسلہ کی نسبت حاصل نہيں ہوتی‪ ،‬االماشاء ﷲ۔‬
‫اصطالحات نقشبنديہ کے نام سے مشہور ان پرتاثير و مفيد‬
‫اصول ميں سے‬
‫ہوش دردم‬
‫نظر بر قدم‬
‫سفر در وطن‬
‫خلوت در انجمن‬
‫ياد کرد‬
‫باز گشت‬
‫نگہداشت‬
‫يادداشت‬
‫يہ آٹھ اصطالحات خواجۂ خواجگان حضرت عبدالخالق‬
‫غجدوانی رحمۃ ﷲ عليہ سے منقول ہيں‪ ،‬جبکہ انکے بعد تين‬
‫اور اصطالحات‬
‫وقوف زمانی‬
‫وقوف عددی اور‬
‫وقوف قلبی‬
‫سره نے‬
‫کا خواجہ خواجگان حضرت شاه نقشبند بخاری قدس ٗ‬
‫اضافہ فرمايا ہے۔ اس طرح اصطالحات سلسلہ نقشبنديہ کی‬
‫تعداد گياره ہے۔‬
‫تشريح اصطالحات‬
‫‪١‬۔ ہوش در دم‬
‫ہوش در دم کا مطلب يہ ہے کہ سالک اپنی ہر سانس کے‬
‫متعلق ہوشيار و بيدار رہے کہ خدا کی ياد ميں صرف ہوا يا‬
‫غفلت ميں‪ ،‬اور يہ کوشش کرے کہ ايک سانس بھی اس کی‬
‫ياد سے غفلت ميں نہ گذرے۔ اس ليے چاہئے کہ ہر ساعت‬
‫کے بعد اس طرح غور کرتا رہے تاوقتيکہ اسے دائمی‬
‫حضور حاصل ہوجائے۔ غور کرنے پر اگر کبھی غفلت‬
‫معلوم ہو تو استغفار کرے اور آئنده کے ليے توبہ کرے اور‬
‫اس سے بچنے کا پختہ اراده کرلے۔‬

‫دم بدم دم را غنيمت دان و ہمدم شو بدم‬


‫واقف دم باش در دم ہيچ دم بيجا مدم‬
‫ِ‬
‫ہر وقت ہر سانس کو غنيمت جان اور دم کے ساتھ ہمدم ہوجا۔‬
‫اپنے ہر ايک سانس سے باخبر ره کوئی ايک سانس بھی بے‬
‫مقصد نہ لے۔‬

‫سره نے فرمايا ہے اس‬


‫حضرت خواجہ بہاؤالدين نقشبند قدس ٗ‬
‫طريقہ کا دارو مدار ہی دم يعنی سانس پر ہے۔ سانس اندر‬
‫آتے يا باہر جاتے وقت غفلت ميں ضايع نہ ہونے پائے۔ ہر‬
‫حضور دل سے ہو۔‬
‫ِ‬ ‫ايک سانس‬
‫سره کا ذاتی عمل کيا تھا اور انہوں‬
‫حضرت شاه نقشبند قدس ٗ‬
‫نے کس طرح اپنے دم کی حفاظت کی‪ ،‬اس بارے ميں‬
‫سره تحفۃ االحرار‬‫عبدالرحمن جامی قدس ٗ‬
‫ٰ‬ ‫حضرت موالنا‬
‫ميں فرماتے ہيں‬

‫کم زده بے ہمدمی وہوش دم‬


‫در نگذشتہ نظرش از قدم‬

‫بس زخودکرده بسرعت سفر‬


‫باز نمانده قدمش ازنظر‬

‫يعنی حضوری اور غور کے سوا کم ہی سانس ليے تھے‪،‬‬


‫انہوں نے قدم سے آگے اپنی نظر نہ بﮍھائی تو جلدی سے‬
‫آگے کا سفر شروع کيا اور ان کا قدم رکا نہ رہا بلکہ قرب‬
‫ٰالہی حاصل کرليا۔‬

‫‪٢‬۔ نظر بر قدم‬


‫نظر بر قدم سے يہ مراد ہے کہ سالک چلتے پھرتے وقت‬
‫اپنی نظر پاؤں پر يا اسکے قريب رکھے۔ آگے دور دور تک‬
‫بالوجہ نہ ديکھے اور بيٹھنے کی صورت ميں اپنے سامنے‬
‫ديکھے‪ ،‬دائيں يا بائيں نہ ديکھے۔ نہ ہی عام لوگوں کی بات‬
‫چيت کی طرف متوجہ ہو کہ ممکن ہے ادھر ادھر ديکھنے‬
‫سے کسی غير محرم پر نظر پﮍجائے يا نامناسب کالم سن‬
‫لے اور اس طرف متوجہ ہوجائے اور مقصد اصلی سے‬
‫توجہ ہٹ جائے جو کہ بہت بﮍا خساره ہے۔‬

‫شرع شريف ميں بحالت نماز قيام کے وقت سجده کی جگہ‬


‫اور رکوع ميں پشت قدم اور سجده ميں ناک کی چوٹی پر‬
‫اور قعده ميں اپنی جھولی پر نظر رکھنے کا حکم بھی اس‬
‫ليے ہے کہ نمازی کو جمعيۃ قلبی حاصل رہے اور اسکے‬
‫خياالت منتشر نہ ہونے پائيں۔‬

‫ايک مفيد نقل‪ :‬حضرت ربيع بن خيثم رضی ﷲ عنہ ہميشہ‬


‫سر جھکائے رہتے تھے‪ ،‬يہاں تک بعض لوگ يہ خيال‬
‫کرتے تھے کہ شايد آپ نابينا ہيں۔‬

‫حضرت مسعود رضی ﷲ عنہ جن کے گھر بيس برس سے‬


‫آتے جاتے تھے‪ ،‬ان سے فرماتے تھے بخدا اے ربيع اگر‬
‫رسول ﷲ صلّی ﷲ عليہ وسلم آپ کو ديکھتے تو بہت خوش‬
‫ہوتے۔ اسی طرح اور بھی بہت سے بزرگوں کے متعلق‬
‫مشہور ہے کہ انہوں نے چاليس چاليس برس تک سر اٹھا کر‬
‫آسمان کی طرف نہ ديکھا۔‬

‫صوفياء کرام کے ديگر اعمال کی طرح نظر بر قدم کا يہ‬


‫عمل بھی قرآن مجيد سے ثابت ہے۔ ارشاد خداوندی ہے ُ ْ‬
‫قل‬
‫ابصارھم۔ اے پيغمبر صلّی ﷲ عليہ‬
‫من َ ْ َ ِ ِ ْ‬
‫غضوا ِ ْ‬ ‫ِْ ُ ِ‬
‫للمؤمنِْيَن ي ُ ﱡ ْ‬
‫وسلم آپ مسلمانوں سے فرماديں اپنی نگاہيں نيچی رکھيں۔‬
‫وقت رفتن برقدم بايدنظر‬
‫ہست سنت خير البشر‬

‫اندريں حکمت بس است وبے شمار‬


‫طالب حق آشکار‬
‫ِ‬ ‫ديده خواہد‬

‫ترجمہ‪ :‬چلتے وقت نظر پاؤں پر ہونی چاہيے کہ يہ نبی کريم‬


‫صلّی ﷲ عليہ وسلم کی سنت ہے اور اس ميں بہت سی‬
‫حکمتيں ہيں‪ ،‬جن کو طالب ظاہر ظہور ديکھے گا۔‬

‫شيخ العرب والعجم حضرت پير فضل علی قريشی مسکين‬


‫قدم‬
‫سره فرمايا کرتے تھے کہ ہر وقت نظر بر ِ‬
‫پور ی قدس ٗ‬
‫رسول ﷲ صلّی ﷲ عليہ وسلم رہے‪ ،‬يعنی ہر لمحہ شريعت و‬
‫سنت پيش نظر ہو اور تمام حرکات و سکنات‪ ،‬اخالق و‬
‫عادات سنت نبويہ کے مطابق ہوں اور يہی طريقہ عاليہ‬
‫نقشبنديہ کی امتيازی عالمت ہے۔‬

‫‪٣‬۔ سفر در وطن‬


‫سفر در وطن سے باطنی و روحانی سفر مراد ہے اور اسکا‬
‫مطلب يہ ہے کہ سالک گھر بيٹھے بری بشری صفات مثالً‬
‫حسد‪ ،‬تکبر‪ ،‬کينہ‪ ،‬حب جاه و مال وغيره کو ترک کرکے‬
‫َملکی يعنی فرشتوں والی صفات مثالً صبر و شکر‪ ،‬رضا‬
‫اعمال صالحہ اور ان ميں اخالص اختيار کرلے۔‬
‫ِ‬ ‫بالقضا‪،‬‬
‫ايسا کرنے سے غير ﷲ کی محبت دل سے ختم ہوجائيگی‬
‫اور روحانی ترقی حاصل ہوگی۔‬

‫اگر کبھی دل ميں غير کی محبت معلوم ہو تو اس کو اپنے‬


‫ليے خساره کا باعث جان کر کلمہ ”ال“ سے اسکی نفی‬
‫کرے اور ”ﱠاال ﷲ“ کے کلمہ مبارکہ سے محبت ٰالہی کا‬
‫اثبات کرے اور پھر سے اپنے خالق و مالک و مولٰی‬
‫عزوجل کی طرف متوجہ ہوجائے اور گھر بيٹھے قرب ٰالہی‬
‫سره‬
‫عبدالرحمن جامی قدس ٗ‬‫ٰ‬ ‫سے لطف اندوز ہو‪ ،‬بقول موالنا‬
‫السامی‬

‫آئينۂ صورت از سفر دور است‬


‫کآں پذيرائے صفت از نور است‬

‫ترجمہ‪ :‬آئينہ صورت کی طرف سفر نہيں کرتا کيونکہ‬


‫صورت کا قبول کرنا اسکی اپنی صفائی اور نورانيت کے‬
‫سبب سے ہے۔‬

‫يہ تو ايک مشاہده کی بات ہے کہ کوئی بھی صورت منعکس‬


‫کرنے کے ليے خود آئينہ کسی کے پاس نہيں جاتا۔ اگر آئينہ‬
‫صاف و شفاف ہے تو جو بھی شکل و صورت اسکے‬
‫سامنے آجائے گی اس ميں نقش دکھائی ديگی۔‬

‫اسی طرح دل کا آئينہ بھی اگر موجودات کے تصورات کی‬


‫آالئشوں سے پاک و صاف ہوگا تو گھر بيٹھے محبوب حقيقی‬
‫جل وعلٰی کی تجليات کا اس پر نزول ہوگا اور وه دل حديث‬
‫ت ﷲ“ کہ مؤمن کا دل خدا کا گھر‬ ‫المؤمن بَْي ُ‬ ‫نبويہ ” َ ْ ُ‬
‫قلب ْ ُ ْ ِ ِ‬
‫ہے‪ ،‬کے مطابق خدا کا گھر بن جائے گا۔‬

‫مرقده فرمايا کرتے‬


‫ٗ‬ ‫سيدی و مرشدی سوہنا سائيں نور ﷲ‬
‫تھے کہ جس نے اپنے دل ميں مال و دولت اور خواہشات‬
‫نفسانيہ کو جگہ دی تو بمطابق ”ولے سلطان محبوباں غيور‬
‫است“ يعنی محبوبوں کا سردار بہت غيرت مند ہے‪ ،‬تو اس‬
‫دل ميں مالک کون و مکان‪ ،‬خالق انس و جان رب العزة جل‬
‫سبحانہ کا ٹھکانا نہيں ہوسکتا اور اس دل کو قلب‬
‫ٗ‬ ‫تعالٰی‬
‫المؤمن بيت ﷲ کا شرف حاصل نہيں ہوسکتا۔‬

‫البتہ اس صورت ميں يہ ممکن ہے کہ دل ميں ياد ٰالہی ہو‬


‫اور اس ميں ذره برابر بھی غير ﷲ کی محبت و الفت نہ ہو‪،‬‬
‫ساتھ ہی اسکے پاس مال و دولت بھی ہو ليکن اسکا دل اس‬
‫کی محبت سے خالی ہو۔‬

‫فائده‪ :‬ياد رہے کہ انبي ِ‬


‫اء کرام عليہم السالم اور اولياء ﷲ‬
‫عليہم الرحمۃ والرضوان کی محبت اور اسی طرح اگر کسی‬
‫اور چيز يا شخص سے محبت ﷲ تعالٰی کی رضا کے ليے‬
‫ہے تو وه غير ﷲ کی محبت ميں شمار نہيں ہوگی۔ بلکہ انکی‬
‫صحبت و محبت باطنی ترقی اور قرب ٰالہی کا ذريعہ ہے۔‬
‫چنانچہ مفسر قرآن عالمہ صاوی عليہ الرحمۃ آيت نمبر ‪٣۵‬‬
‫سوره مائده کے تحت لکھتے ہيں وسيلہ جس سے قرب ٰالہی‬
‫حاصل ہوتا ہے وه انبياء کرام عليہم السالم اور اولياء ﷲ کی‬
‫محبت‪ ،‬صدقات و خيرات‪ ،‬اہل ﷲ کی زيارت‪ ،‬کثرة دعا‪،‬‬
‫صلہ رحمی‪ ،‬کثرة ذکر وغيره يہ سبھی وسيلہ ميں سے ہيں۔‬
‫مقصد يہ ہے کہ جس چيز سے ﷲ کا قرب حاصل ہو اس کو‬
‫الزم پکﮍو اور جو اس سے دور کرے اس سے دور رہو۔‬

‫‪۴‬۔ خلوة در انجمن‬


‫اس کا مطلب يہ ہے کہ سالک کا دل ہميشہ ياد ٰالہی ميں‬
‫مشغول رہے‪ ،‬خواه خاموش ہو يا بات چيت کر رہا ہو يا کھا‬
‫پی رہا ہو‪ ،‬ليکن اس کا دل پلک جھپکنے کی دير بھی ﷲ‬
‫تعالٰی کی ياد سے غافل نہ ہو۔ بزرگان دين فرماتے ہيں‪:‬‬

‫عن َ ْ ِ‬
‫الخلق‬ ‫بحسب الظَ ِ ِ‬
‫اھر َ َ ِ ٌ‬
‫وبائن َ ِ‬ ‫کائن فِْی َ ْ ِ‬
‫الخلق ِ َ ْ ِ‬ ‫َْ ُ ْ‬
‫الصوفِْی َ ِ ٌ‬
‫الباطن۔‬
‫بحسب َ ِ‬
‫َِ ْ ِ‬

‫يعنی صوفی وه ہے جو ظاہر ميں تو لوگوں سے ميل جول‬


‫رکھتا ہو ليکن اس کا باطن مخلوق سے بالکل جدا ہو۔‬

‫سره فرماتے ہيں کہ آيت کريمہ‬ ‫حضرت شاه نقشبند قدس ٗ‬


‫ذکر ﷲ“ )وه ايسے لوگ‬‫عن ِ ْ ِ‬ ‫ْتجارةٌ ﱠ َ‬
‫وال بَْيٌع َ ْ‬ ‫رجال َ ُ ْ ِ‬
‫التلہْيِھم ِ َ َ‬ ‫”ِ َ ٌ‬
‫ہيں جن کو تجارة اور خريد و فروخت ﷲ تعالٰی کے ذکر‬
‫سے غافل نہيں کرتی( اسی مذکوره حالت کی طرف اشاره‬
‫ہے۔‬
‫يہ آيت حضرات صحابہ کرام رضی ﷲ عنہم کے بارے ميں‬
‫نازل ہوئی ہے‪ ،‬جس ميں انکے ہر وقت ذکر کرنے اور‬
‫متوجہ الی ﷲ رہنے کا ذکر اور ساتھ ہی بعد والوں کے ليے‬
‫اسکی ترغيب ہے۔‬

‫طريقہ عاليہ نقشبنديہ کے ايک اور شيخ حضرت عزيزان‬


‫علی راميتنی رحمۃ ﷲ عليہ فرماتے ہيں‪ ،‬شعر‬

‫از دروں شو آشنا و از بروں بيگانہ اش‬


‫ايں چنيں زيبا روش کم مے شود اندر جہاں‬

‫ترجمہ‪ :‬اپنے باطن کے متعلق باخبر ره اور بيرونی اشياء‬


‫سے بے خبر ہوجا‪ ،‬کيونکہ ايسی عمده وصف جہاں ميں کم‬
‫ہی پائی جاتی ہے۔‬

‫سره‬
‫شاه نقشبند قدس ٗ‬ ‫مروی ہے کہ کسی شخص نے حضرت ِ‬
‫سے دريافت کيا کہ آپکے طريقہ کی بنياد کس چيز پر ہے۔‬
‫آپ نے جوابا ً ارشاد فرمايا خلوت در انجمن پر يعنی ظاہر‬
‫باخلق اور باطن باخدا ہونے پر ہمارے طريقہ عاليہ کا مدار‬
‫ہے۔‬

‫سيدی و مرشدی حضرت سوہنا سائيں رحمۃ ﷲ عليہ ذکر‬


‫قلبی کی تلقين کے وقت عموما ً يہ ارشاد فرماتے تھے دست‬
‫بکار و دل بيار۔ يعنی ہاتھ کام کاج ميں مصروف رہيں ليکن‬
‫دل محبوب حقيقی ﷲ تعالٰی کی طرف متوجہ رہے۔‬
‫مزيد فرماتے تھے کہ ہاتھوں سے جائز و حالل طريقہ پر‬
‫خواه چوبيس گھنٹے تجارت‪ ،‬زراعت‪ ،‬مالزمت يا مزدوری‬
‫کرتے رہو‪ ،‬مگر تمہارے دل ميں ہر وقت يہ خيال رہے کہ‬
‫ميرا دل ذکرکررہا ہے ﷲ‪ ،‬ﷲ‪ ،‬ﷲ۔۔۔۔۔۔‬

‫ان بازارم‬
‫از بروں درمي ِ‬
‫و از دروں خلوتے است بايارم‬

‫ترجمہ‪ :‬ميرا جسم تو بازار ميں ہے ليکن ميرا باطن اپنے يار‬
‫يعنی ﷲ رب العزت کے ساتھ ہے۔‬

‫‪۵‬۔ يادکرد‬
‫يادکرد کا مطلب يہ ہے کہ سالک کو مرشد کامل نے جس‬
‫طرح بھی ذکر اسم ذات کی تلقين کی ہو‪ ،‬اسی کے مطابق‬
‫ذکر ميں مشغول رہے۔ خواه وه ذکر قلبی ہو يا جہری يانفی و‬
‫اثبات۔ اس ميں سستی و کوتاہی نہ کرے۔‬

‫دل کی محبت اور لگن کے ساتھ مسلسل ذکر کرتا رہے يہاں‬
‫حضور حق تعالٰی حاصل ہوجائے۔‬
‫ِ‬ ‫تک کہ‬

‫ذکر کن ذکر کن تا ترا جان است‬


‫زذکر رحمان است‬
‫ِ‬ ‫پاکئے دل‬
‫ترجمہ‪ :‬ذکر کرتے رہو‪ ،‬ذکر کرتے رہو جب تک تمہاری‬
‫جان ميں جان ہے۔ دل کی پاکيزگی ﷲ تعالٰی کے ذکر سے‬
‫ہی حاصل ہوتی ہے۔‬

‫لعلکم ُ ْ ِ ُ ْ َ‬
‫تفلحون۔ کہ ﷲ تعالٰی کا‬ ‫آيہ کريمہ َ ْ ُ ُ‬
‫واذکروا ﷲ َکثِْيًرا َ َ ﱠ ُ ْ‬
‫بہت زياده ذکر کرو تاکہ تم کامياب ہوجاؤ۔ سے صراحۃ ثابت‬
‫ہوتا ہے کہ کاميابی و کامرانی کا مدار ذکر ﷲ پر ہے۔‬

‫سره فرماتے ہيں‬


‫حضرت شاه نقشبند قدس ٗ‬

‫الحق‬
‫مع َ ِ‬ ‫دائما َ َ ِ ً‬
‫حاضرا َ َ‬ ‫کون َ ْ ُ‬
‫القلب َ ِ‬ ‫ان يَ ُ َ‬ ‫من ِ ْ ِ‬
‫الذکر َ ْ‬ ‫ان ْ َ ْ ُ ْ َ‬
‫المقصود ِ َ‬ ‫َﱠ‬
‫طرد َ ْ‬
‫الغفلَۃ۔‬ ‫الن ﱢ ْ َ‬
‫الذکر َ ْ ُ‬ ‫والتعظْيِم ِ َ ﱠ‬
‫المحبﱠِۃ َ ْ ِ‬
‫بوصف َ ِ‬‫َِ ْ ِ‬

‫يعنی ذکر سے مقصود يہ ہے کہ دل ہر وقت ﷲ تعالٰی کے‬


‫حضور محبت اور تعظيم کے اوصاف کے ساتھ حاضر‬
‫رہے‪ ،‬اس ليے کہ ذکر نام ہی غفلت دور کرنے کا‬
‫ہے۔حضرت خواجہ عالؤالدين عطار رحمۃ ﷲ عليہ فرماتے‬
‫ہيں۔‬

‫باش دائم اے پسر در يِاد حق‬


‫گر خبر داری زعدل وداد حق‬

‫ترجمہ‪ :‬اے صاحبزاده اگر تجھے ﷲ تعالٰی کے عدل و‬


‫انصاف کا علم ہے تو چاہيے کہ ہر وقت اسے ياد کرتا ره۔‬
‫‪۶‬۔ بازگشت‬
‫يعنی رجوع کرلينا اور اسکا مطلب يہ ہے سالک کچھ دير‬
‫ذکر کرنے کے بعد بارگاه ٰالہی ميں يہ مناجات کرے‬

‫خداوندا مقصود ما توئی و رضائے تو‬


‫محبت معرفت خود مرا بده‬

‫ترجمہ‪ٰ :‬الہی ميرا مقصود تو اور تيری رضا ہے‪ ،‬مجھے‬


‫اپنی محبت و معرفت عطا کردے۔‬

‫يہ کلمات دل ہی دل ميں کمال عجز و انکساری سے کہے‪،‬‬


‫تاکہ ذکر و فکر سے جو سرور يا نور حاصل ہوا ہو اس پر‬
‫طالب مغرور نہ ہو‪ ،‬نہ ہی اسکو اپنا مقصود سمجھ لے‪ ،‬بلکہ‬
‫محبت و رضائے ٰالہی کے ليے کوشاں رہے۔‬

‫موالنا روم عليہ الرحمۃ فرماتے ہيں‬

‫اے برادر بے نہايت در گہے است‬


‫ہرچہ بروے می رسی دروے مأ يست‬

‫ترجمہ‪ :‬بھائی جان يہ بے انتہا درگاه ہے‪ ،‬جس مقام پر بھی‬


‫تو پہنچے وہاں کھﮍا نہ ره جا بلکہ آگے بﮍھتا ره۔‬
‫حضرت شاه ولی ﷲ محدث دہلوی رحمۃ ﷲ عليہ فرماتے‬
‫سره سے سنا ہے کہ‬
‫ہيں کہ ميں نے اپنے والد مرشد قدس ٗ‬
‫ذکر ميں بازگشت شرط عظيم ہے‪ ،‬الئق نہيں کہ سالک اس‬
‫سے غافل رہے‪ ،‬ہم نے جو کچھ پايا اسی کی برکت سے پايا‬
‫ہے۔‬

‫‪٧‬۔ نگہداشت‬
‫نگہداشت کا مطلب يہ ہے کہ سالک ذہنی تصورات اور‬
‫وسوسوں کو دل سے نکال باہر کردے اور ہر وقت ان‬
‫خياالت و خطرات کے دل ميں آنے سے بيدار و ہوشيار‬
‫رہے تاکہ کوئی خطره دل ميں جاکر گھر نہ بنالے کہ پھر‬
‫اس کے نکالنے ميں مشکالت کا سامنا کرنا پﮍے۔‬

‫جب بيرونی خطرات و خياالت کا آنا ختم ہوجائے گا تو‬


‫سالک کو ملکہ جمعيۃ و طمانيت يعنی ايک طرح سے‬
‫سکون و فرحت حاصل ہوجائے گی اور وه فناء قلب کا مقام‬
‫حاصل کرليگا۔‬

‫البتہ اگر پھر بھی خياالت پيدا ہوں يا زائل نہ ہوں تو سالک‬
‫کو چاہيے کہ ذکر ﷲ ميں محو ہوجائے اور اپنے شيخ کامل‬
‫و مکمل کا تصور کرلے تو انشاء ﷲ تعالٰی غير کے خياالت‬
‫اور وسوسوں سے چھٹکاره حاصل ہوجائے گا۔‬
‫سره فرماتے‬
‫حضرت خواجہ بہاؤالدين نقشبند بخاری قدس ٗ‬
‫ہيں‪ ،‬سالک کو چاہيے کہ خطره و خيال کو ابتداء ہی سے‬
‫روک دے ورنہ جب يہ ظاہر ہوجائيں گے تو نفس ان کی‬
‫طرف مائل ہوجائے گا اور جب نفس ميں انکا اثر مضبوط‬
‫ہوجائے گا تو پھر ان کا دور کرنا بہت مشکل ہوجائے گا۔‬

‫نگہداشت کا ملکہ حاصل ہوجانے کے بعد سالک نہ فقط غير‬


‫کے خياالت و خطرات سے دور رہتا ہے‪ ،‬بلکہ بعض اوقات‬
‫اسے اپنی جان تک کا علم نہيں رہتا چنانچہ خواجۂ خواجگان‬
‫حضرت پير مٹھا رحمت پوری رحمۃ ﷲ عليہ کے متعلق‬
‫مشہور ہے کہ تبليغ دين اور وعظ و نصيحت ميں آپ اس‬
‫قدر محو و مستغرق رہتے تھے کہ آپ کو گرمی‪ ،‬سردی‪،‬‬
‫بھوک و پياس کا کوئی احساس نہيں رہتا تھا‪ ،‬اسی برس کے‬
‫قريب عمر اور خوراک چوبيس گھنٹوں ميں فقط ايک‬
‫چھٹانک آٹے کی روٹی‪ ،‬پھر بھی تبليغ دين کا اس قدر جذبہ‬
‫کہ نماز فجر کے بعد جو وعظ شروع فرماتے دوپہر کے‬
‫ايک دو بج جاتے‪ ،‬بعض اوقات تو نماز ظہر ادا کرکے ہی‬
‫دولت خانہ ميں تشريف لے جاتے تھے۔‬

‫‪٨‬۔ يادداشت‬
‫نگہداشت کی مسلسل کوشش کے بعد سالک کا قلب بالتکلف‬
‫خود بخود بے مثل و بے مثال ذات حق تعالٰی کی طرف‬
‫نما ُ ْ ُ ْ‬
‫کنتم“‬ ‫معکم اَْي َ َ‬
‫وھو َ َ ُ ْ‬
‫متوجہ ہوجاتا ہے اور وه آيت مبارکہ ” َ ُ َ‬
‫يعنی وه تمہارے ساتھ ہے جہاں کہيں تم ہو۔‬
‫اسے يادداشت کہتے ہيں اور يادداشت کا ملکہ حاصل‬
‫ہوجانے کے بعد سالک کا دل ذکر حق ميں اس قدر محو و‬
‫مستغرق ہوجاتا ہے کہ خياالت کو پراگنده و منتشر کرنيوالی‬
‫چيزوں کا دل پر گذر بھی نہيں ہوتا۔‬

‫‪٩‬۔ وقوف زمانی‬


‫وقوف زمانی سے مراد يہ ہے کہ سالک اپنے نفس کا جائزه‬
‫ليتا رہے اور ہر ساعت کے بعد غور سے ديکھے‪ ،‬اگر‬
‫گذشتہ وقت ﷲ تعالٰی کی ياد ميں گذارا ہو تو شکر کرے اور‬
‫اگر غفلت ہوئی ہو تو توبہ و استغفار کرے اور آئنده کے‬
‫ليے اس سے بچنے کا پختہ اراده کرلے اور کبھی بھی‬
‫شرعی حدود سے باہر قدم نہ رکھے۔‬

‫نفس ﱠما َ ﱠ َ‬
‫قدمتْ ِ َ ٍ‬
‫لغد“ يعنی ہر جان‬ ‫ارشاد خداوندی ” َ ْ َ ْ ُ ْ‬
‫ولتنظر َ ْ ٌ‬
‫ديکھ لے کہ اس نے کل کے ليے کيا آگے بھيجا ہے۔ ميں‬
‫اسی جانب اشاره ہے۔‬

‫سيدنا امير المؤمنين حضرت عمر رضی ﷲ عنہ کے اس‬


‫قول سے بھی اس کی تائيد ہوتی ہے‪ ،‬آپ نے فرمايا‬

‫وزنوا َ ْ َ ِ ﱡ ْ‬
‫واستعدوا‬ ‫وزنو ا َ ْ َ‬
‫قبل َان ْتُ ْ َ ُ ْ‬ ‫تحاسبو َ ِ ُ ْ‬ ‫حاسبوا َ ْ َ‬
‫قبل َ ْ‬
‫ان ُ َ َ ُ ْ‬ ‫”َ ُِْ‬
‫للعرض َ ْ َ ِ‬
‫االکبر“۔‬ ‫ِ َْ ِ‬
‫ترجمہ‪ :‬محاسبہ کيے جانے سے پہلے اپنا محاسبہ خود کرلو‬
‫اور وزن کيے جانے سے پہلے خود وزن کرلو اور تيار‬
‫ہوجاؤ عرض اکبر يعنی قيامت کے دن کے واسطے جہاں تم‬
‫سے حساب ليا جائے گا اور تمہارے اعمال تولے جائيں گے۔‬

‫‪١٠‬۔ وقوف عددی‬


‫ذکر نفی و اثبات ميں طاق عدد کی رعايت کرنے کو وقوف‬
‫عددی کہتے ہيں۔ يعنی ايک ہی سانس ميں تين سے ليکر‬
‫اکيس مرتبہ تک کسی بھی طاق عدد پر سانس لے لے‪ ،‬ابتداء‬
‫کم عدد مثالً تين يا پانچ سے کرے اور آہستہ آہستہ تعداد‬
‫بﮍھاتا جائے۔‬

‫حب ْ ِ ْ َ‬
‫الوتر“‬ ‫ان ﷲ ِ ْ ُ‬
‫وتريُ ِ ﱡ‬ ‫”ِ ﱠ‬

‫کہ ﷲ طاق يعنی ايک ہے اور طاق کو پسند کرتا ہے۔‬

‫اس حديث کے مطابق طاق عدد جفت سے افضل ہے۔ عدد‬


‫کی رعايت اس ليے کی جاتی ہے کہ خياالت ادھر ادھر نہ‬
‫بھٹکيں۔ بالفرض اگر اکيس عدد تک پہنچنے کے باوصف‬
‫اسکے اثرات ظاہر نہ ہوں تو چاہيے کہ پھر سے ذکر نفی و‬
‫اثبات شروع کرے۔‬
‫‪١١‬۔ وقوف قلبی‬
‫وقوف قلبی کا مطلب يہ ہے کہ سالک ہر دم اپنے دل کی‬
‫طرف جو بائيں پستان کے نيچے دو انگل کے فاصلہ پر‬
‫واقع ہے‪ ،‬متوجہ رہے۔‬

‫سره فرماتے ہيں کہ حق‬


‫حضرت خواجہ عبيدﷲ احرار قدس ٗ‬
‫تعالٰی کی جناب ميں دل کی ايسی آگاہی اور حاضری کا نام‬
‫وقوف قلبی ہے جسکی بدولت دل کو حق تعالٰی کے سوا‬
‫کسی اور کی ضرورت ہی نہيں رہتی۔‬

‫سره نے حبس‬‫حضرت خواجہ بہاؤالدين نقشبند بخاری قدس ٗ‬


‫دم اور عدد طاق کی رعايت کو ذکر ميں الزم نہيں فرمايا‪،‬‬
‫مگر وقوف قلبی کو ذکر کے ليے ضروری قرار ديا ہے‪،‬‬
‫اس ليے کہ بغير وقوف قلبی کے غفلت کا دور ہونا مشکل‬
‫ہے اور غفلت کے ساتھ کيا جانے واال عمل بے اثر ہوتا ہے۔‬
‫موالنا رومی عليہ الرحمۃ فرماتے ہيں‬

‫بر زبان تسبيح و در دل گاؤ و خر‬


‫ايں چنيں تسبيح کے دارد اثر‬

‫ترجمہ‪ :‬تمہاری زبان پر تسبيح اور دل ميں گائے اور گدھے‬


‫کے خياالت ہيں‪ ،‬اس قسم کی تسبيح کيا اثر رکھے گی۔‬
‫اسباق طريقہ عاليہ نقشبنديہ مجدديہ‬
‫شيخ المشائخ حضرت خواجہ احمد سعيد قدس سره اربع انہار‬
‫نور ﷲ مرقده کے‬‫ميں قيوم ربانی حضرت مجدد الف ثانی ّ‬
‫حوالہ سے تحرير فرماتے ہيں۔‬

‫لطائف عشره‬
‫انسان دس لطائف سے مرکب ہے جن ميں سے پانچ کا تعلق‬
‫عالم خلق سے ہے۔‬
‫عالم امر سے ہے اور پانچ کا تعلق ِ‬

‫لطائف عالم امر يہ ہيں‬

‫‪١‬۔ قلب‬
‫‪٢‬۔ روح‬
‫‪٣‬۔ سر‬
‫‪۴‬۔ خفی‬
‫‪۵‬۔ اخفی‬

‫عالم خلق يہ ہيں‬


‫لطائف ِ‬

‫‪١‬۔ لطيفۂ نفس اور لطائف عناصر اربعہ يعنی‬


‫‪٢‬۔ آگ ‪٣‬۔ پانی ‪۴‬۔ مٹی ‪۵‬۔ ہوا۔‬
‫لطائف عالم امر کے اصول )مرکز( عرش عظيم پر ہيں اور‬
‫المکانيت سے تعلق رکھتے ہيں ليکن ﷲ تعالٰی نے اپنی‬
‫قدرت کاملہ سے ان جواہر مجرده کو انسانی جسم کی چند‬
‫ِ‬
‫جگہوں پر امانت رکھا ہے۔‬

‫دنيوی تعلقات اور نفسانی خواہشات کی وجہ سے يہ لطائف‬


‫اپنے اصول کو بھول جاتے ہيں‪ ،‬يہاں تک کہ شيخ کامل و‬
‫مکمل کی توجہ سے يہ اپنے اصول سے آگاه و خبردار‬
‫ہوجاتے ہيں اور انکی طرف ميالن کرتے ہيں۔‬

‫اس وقت کشش ٰالہی اور قرب ظاہر ہوتا ہے يہاں تک کہ وه‬
‫اپنی اصل تک پہنچ جاتے ہيں۔ پھر اصل کی اصل تک‪ ،‬يہاں‬
‫تک کہ اس خالص ذات يعنی ﷲ تبارک و تعالٰی تک پہنچ‬
‫جاتے ہيں جو صفات و حاالت سے پاک و ّ‬
‫مبرا ہے۔ اس‬
‫وقت ان سالکين کو کامل فنائيت اور اکمل بقا حاصل ہوجاتی‬
‫ہے۔‬
‫اصالح لطائف‬
‫مشائخ سلسلہ عاليہ نقشبنديہ قدس ﷲ اسرارہم کے يہاں باطن‬
‫عالم امر کی‬
‫کی صفائی کے لئے سب سے پہلے لطائف ِ‬
‫اصالح کا معمول ہے اور اس کے لئے ان حضرات نے تين‬
‫طريقے مقرر فرمائے ہيں‬

‫طريق اول‪ :‬ذکر‬


‫ق دوم‪ :‬مراقبہ‬
‫طري ِ‬
‫ق سوم‪ :‬رابطہ شيخ‬ ‫طري ِ‬
‫سالک طريقت جس قدر ان امور کا زياده اہتمام کريگا اسی‬
‫ِ‬
‫سلوک طريقت ميں اسے ترقی حاصل ہوگی اور جس‬ ‫ِ‬ ‫قدر‬
‫قدر ان امور ميں کوتاہی کريگا اسی قدر باطنی راستہ طے‬
‫کرنے ميں اسے تاخير ہوگی۔‬

‫طريق اول‪ :‬ذکر‬


‫ذکر کے دو قسم ہيں۔ اول ذکر اسم ذات۔ دوم ذکر نفی و‬
‫اثبات۔ ذکر اسم ذات کے اسباق يہ ہيں‬
‫سبق اول‪ :‬ذکر لطيفۂ قلب‬

‫وضاحت‪ :‬دل انسان کے جسم ميں بائيں پستان کے نيچے دو‬


‫انگشت کے فاصلہ پر قدرے پہلو کی جانب واقع ہے‪) ،‬اس‬
‫لئے ہمارے مشائخ تلقين ذکر کے وقت اس مقام پر انگشت‬
‫شہادت رکھ کر تين مرتبہ اسم ذات ﷲ‪ ،‬ﷲ‪ ،‬ﷲ‪ ،‬کہتے ہوئے‬
‫سالک کے دل پر خصوصی توجہ فرماتے ہيں( ذکر کرنے‬
‫کا طريقہ يہ ہے کہ سالک اپنے دل کو دنيوی خياالت و‬
‫فکرات سے خالی کرکے ہر وقت يہ خيال کرے کہ دل اسم‬
‫مبارک ﷲ‪ ،‬ﷲ کہہ رہا ہے۔‬

‫زبان سے کچھ کہنے کی ضرورت نہيں بلکہ زبان تالو سے‬


‫چسپاں رہے اور سانس حسب معمول آتا جاتا رہے‪ ،‬بس اس‬
‫طرح اپنے خالق و مالک کی طرف دل کا توجہ ہونا چاہئے‪،‬‬
‫جس طرح ايک پياسا آدمی زبان سے تو پانی پانی نہيں کہتا‬
‫ليکن اسکا دل پانی کی طرف متوجہ ہوتا ہے۔‬

‫بيشک دنيا کے کام کاج کرتے رہيں اس سے کوئی منع نہيں‪،‬‬


‫ليکن دست بکار و دل بيار کے مصداق دل کا توجہ اور خيال‬
‫ہر وقت اپنے خالق و مالک کی طرف رہے۔‬

‫يوں سمجھے کہ فيضان ٰالہی کا نور حضور نبی کريم صلّی‬


‫ﷲ عليہ وسلم کے سينہ اطہر سے ہوتا ہوا پيرومرشدکے‬
‫سينہ سے ميرے دل ميں آرہا ہے اورگناہوں کے زنگ و‬
‫کدورات ذکر کی برکت سے دور ہورہے ہيں۔‬
‫اگرادھر ُادھر کے خياالت دل ميں آئيں تو ان کو دور کرنے‬
‫کی کوشش کريں۔ انشاء ﷲ تھوڑا ہی عرصہ اس طريقہ پر‬
‫محنت و توجہ کرنے سے دل ذاکر ہوجائيگا اور جب دل‬
‫ذاکر ہوگيا تو سوتے جاگتے‪ ،‬کھاتے پيتے ہر وقت دل ذکر‬
‫ﷲ‪ ،‬ﷲ‪ ،‬ﷲ‪ ،‬کرتا رہے گا۔‬

‫فائده‪ :‬لطيفۂ قلب جاری ہونے کی ظاہری عالمت يہ ہے کہ‬


‫سالک کا دل نفسانی خواہشات کی بجائے محبوب حقيقی کی‬
‫طرف متوجہ ہوجائے‪ ،‬غفلت دور ہو اور شريعت مطہره کے‬
‫مطابق عمل کرنيکا شوق پيدا ہو۔‬

‫ذکر جاری ہونے کے لئے يہ ضروری نہيں کہ اسکا دل‬


‫حرکت کرنے لگے يا اسے کشف ہونے لگے‪ ،‬بلکہ ان‬
‫چيزوں کے درپے ہونا سالک کے لئے مفيد نہيں۔ سالک کا‬
‫اول و آخر مقصد رضائے ٰالہی ہونا چاہئے نہ کہ کشف و‬
‫کيفيات کا حصول۔‬

‫جب سالک کا لطيفہ قلب جاری ہوجاتا ہے تو پيرومرشد‬


‫مذکوره طريقہ پر لطيفۂ روح کی تلقين فرماتے ہيں۔‬

‫سبق دوم‪ :‬ذکر لطيفۂ روح‬

‫لطيفۂ روح کا مقام داہنے پستان کے نيچے دو انگشت کے‬


‫فاصلہ پر قدرے پہلو کی جانب واقع ہے۔ سالک کو چاہئے‬
‫اسم ذات ﷲ‪ ،‬ﷲ کا توجہ و خيال کرے۔‬
‫کہ اس مقام پر بھی ِ‬
‫لطيفۂ روح جاری ہونے سے باطن کی مزيد صفائی ہوتی‬
‫ہے۔‬

‫فائده‪ :‬لطيفہ روح جاری ہونے کی عالمت يہ ہے کہ طبيعت‬


‫ميں صبر کی وصف پيدا ہوتی ہے اور غصہ پر قابو کرنا‬
‫آسان ہوجاتا ہے۔‬

‫سر‬
‫سبق سوم‪ :‬ذکر لطيفۂ ّ‬

‫لطيفۂ سر کی جگہ بائيں پستان کے برابر دو انگشت سينہ‬


‫کی جانب مائل ہے۔ اس لطيفہ ميں بھی اسم ذات ﷲ کا خيال‬
‫رکھنے سے ذکر جاری ہوجاتا ہے اور مزيد باطنی ترقی‬
‫حاصل ہوتی ہے۔‬

‫فائده‪ :‬لطيفہ سر جاری ہونے کی عالمت يہ ہے کہ ذکر کے‬


‫وقت عجيب و غريب کيفيات کا ظہور ہوتا ہے‪ ،‬حرص و‬
‫ہوس ميں کمی اور نيکی کے کاموں ميں خرچ کرنے کا‬
‫شوق پيدا ہوتا ہے۔‬

‫سبق چہارم‪ :‬ذکر لطيفۂ خفی‬

‫لطيفۂ خفی کا مقام داہنے پستان کے برابر دو انگشت وسط‬


‫ف‬ ‫سينہ کی جانب ہے۔ اس لطيفہ کے ذکر کے وقت ”يا َ ِ‬
‫لطْي ُ‬
‫الخفِﱢی“ پﮍھنا مفيد ہے۔‬ ‫ادرکنِْی ِ ُ ْ ِ َ‬
‫بلطفک ْ َ‬ ‫َْ ِْ‬
‫فائده‪ :‬اس لطيفہ کے جاری ہونے کی عالمت يہ ہے کہ‬
‫صفات رذيلہ حسد و بخل سے بيزاری حاصل ہوجاتی ہے۔‬

‫سبق پنجم‪ :‬ذکر لطيفہ اخفی‬

‫اس لطيفہ کا مقام وسط سينہ ہے۔ سابقہ لطائف کی طرح اس‬
‫لطيفہ ميں بھی ذکر کا تصور و خيال کرنا چاہئے۔‬

‫فائده‪ :‬ذکر لطيفہ اخفٰی کرنے سے فخر و تکبر وغيره زائل‬


‫ہوجاتے ہيں اور يہی لطيفۂ اخفٰی جاری ہونے کی عالمت‬
‫ہے۔ نيز سالک کو چاہئے کہ لطائف ميں ترقی کے ساتھ‬
‫ساتھ پہلے والے لطائف پر بھی عالحده عالحده ذکر کرتا‬
‫رہے يہاں تک کہ تمام لطائف جاری ہوجائيں۔‬

‫سبق ششم‪ :‬ذکر لطيفہ نفس‬

‫لطيفہ نفس کی جگہ وسط پيشانی ہے۔ اس لطيفہ ميں بھی‬


‫سابقہ لطائف کی طرح ذکر کا خيال ہی کرنا ہے۔‬

‫فائده‪ :‬لطيفہ نفس کی اصالح کی عالمت يہ ہے کہ سالک‬


‫ذکر کی لذت ميں اس قدر محو ہوجاتا ہے کہ نفس کی‬
‫رعونت و سرکشی بالکل ختم ہوجاتی ہے۔‬
‫سبق ہفتم‪ :‬ذکر لطيفہ قالبيہ‬

‫اس لطيفہ کا دوسرا نام سلطان االذکار ہے۔ اسکا مقام وسط‬
‫سر ہے‪ ،‬اس لئے اسکی تعليم ديتے وقت مشائخ وسط سر‬
‫يعنی دماغ پر انگلی رکھ کر ﷲ‪ ،‬ﷲ کہتے ہوئے توجہ ديتے‬
‫ہيں‪ ،‬جس سے بفضلہ تعالی تمام بدن ذاکر ہوجاتا ہے اور‬
‫جسم کے روئيں روئيں سے ذکر جاری ہوجاتا ہے۔‬

‫فائده‪ :‬لطيفہ قالبيہ جاری ہونے کی ظاہری عالمت يہ ہے کہ‬


‫جسم کا گوشت پھﮍکنے لگتا ہے‪ ،‬کبھی بازو کبھی ٹانگ اور‬
‫کبھی کسی اور حصہ جسم ميں حرکت محسوس ہوتی ہے۔‬
‫بعض اوقات تو پورا جسم حرکت کرتا محسوس ہوتا ہے۔‬

‫سبق ہشتم‪ :‬ذکر نفی و اثبات‬

‫ﷲُ“ کے ذکر کو نفی‬ ‫توجہ و خيال کی زبان سے ” َال ِ ٰالہَ ِ ﱠاال ٰ ّ‬


‫و اثبات کہتے ہيں۔ اس کا طريقہ يہ ہے کہ سالک پہلے اپنے‬
‫باطن کو ہر قسم کے خياالت ماسوٰی ﷲ سے پاک و صاف‬
‫کرے‪ ،‬اس کے بعد اپنے سانس کو ناف کے نيچے روکے‬
‫اور محض خيال کی زبان سے کلمہ ”ال“ کو ناف سے ليکر‬
‫اپنے دماغ تک لے جائے‪ ،‬پھر لفظ ” ِ ٰالہَ“ کو دماغ سے دائيں‬
‫کندھے کی طرف نيچے لے آئے اور کلمہ ” ِاالﱠ ﷲُ“ کو‬
‫پانچوں لطائف عالم امر ميں سے گذارکر قوت خيال سے دل‬
‫پر اس قدر ضرب لگائے کہ ذکر کا اثر تمام لطائف ميں پہنچ‬
‫جائے۔‬
‫اس طرح ايک ہی سانس ميں چند مرتبہ ذکرکرنے کے بعد‬
‫رسول ٰ ّ‬
‫ﷲِ“ کہے۔‬ ‫سانس چھوڑتے ہوئے خيال سے ” ُ َ ﱠ ُ‬
‫محمد ﱠ ُ ْ ُ‬

‫ذکر نفی و اثبات کے وقت کلمہ طيبہ کی معنٰی کہ سوائے‬


‫ذات پاک کے کوئی اور مقصود و معبود نہيں‪ ،‬کا خيال‬
‫رکھنا اس سبق کے لئے شرط ہے۔ کلمہ ”ال“ ادا کرتے وقت‬
‫اپنی ذات اور تمام موجودات کی نفی کرے اور ” ِ ﱠاال ٰ ّ‬
‫ﷲُ“‬
‫کہتے وقت ذات حق سبحانہ و تعالٰی کا اثبات کرے۔‬

‫فائده‪ :‬ذکر نفی و اثبات ميں طاق عدد کی رعايت کرنا بہت‬
‫ہی مفيد ہے۔ اس طور پر کہ سالک ايک ہی سانس ميں پہلے‬
‫تين بار پھر پانچ بار اس طريقہ پر يہ مشق بﮍھاتا جائے يہاں‬
‫تک کہ ايک ہی سانس ميں اکيس بار يہ ذکر کرے۔‬

‫البتہ يہ شرط و الزم نہيں ہے۔ طاق عدد کی اس رعايت کو‬


‫اہل تصوف کی اصطالح ميں وقوف عددی کہا جاتا ہے۔ نيز‬
‫چاہئے کہ ذکر کے وقت بزبان حال کمال عجز و انکساری‬
‫سے بارگاه ٰالہی ميں يہ التجا کرے۔‬

‫خداوندا مقصود من توئی و رضائے تو‬


‫محبت و معرفت خود مرا بده‬

‫ترجمہ‪ٰ :‬الہی تو ہی ميرا مقصود ہے اور ميں تيری ہی رضا‬


‫کا طالب ہوں۔ تو مجھے اپنی محبت و معرفت عطا فرما۔‬
‫چونکہ ذکر نفی و اثبات ميں غير معمولی حرارت و گرمی‬
‫ہوتی ہے‪ ،‬اسلئے ہمارے مشائخ عموما ً سردی کے موسم ميں‬
‫اسکی اجازت ديتے تھے۔‬

‫جبکہ بعض لوگوں کو سرديوں ميں بھی سانس روکنا دشوار‬


‫ہوتا ہے‪ ،‬ايسے لوگوں کو سانس روکے بغير اور بال رعايت‬
‫تعداد ذکر نفی و اثبات کی اجازت دی جاتی ہے۔‬

‫چونکہ ذکر نفی و اثبات تمام سلوک کا خالصہ اور مکھن‬


‫ہے اور اس سے غير کے خياالت کی نفی‪ ،‬محبت ٰالہی ميں‬
‫اضافہ اور قلب ميں رقت پيدا ہوتی ہے تو اس سے بعض‬
‫اوقات تو کشف بھی حاصل ہوتا ہے۔ ٰلہذا سالک کو چاہئے‬
‫کہ اسکے حصول کی پوری طرح کوشش کرے۔‬

‫اگر کچھ عرصہ ذکر کرنے کے باوجود مذکور فوائد حاصل‬


‫نہ ہوں تو سمجھے کہ ميرے عمل ميں کسی قسم کی کمی ره‬
‫گئی ہے۔ ٰلہذا پھر سے بتائے گئے طريقے کے مطابق ذکر‬
‫شروع کرے۔‬

‫نيز مشائخ نے فرمايا ہے کہ اس ذکر کے دوران اعتدال طبع‬


‫ّ‬
‫مرغن غذا اور ہضم کے‬ ‫کا خصوصی اہتمام کيا جائے۔‬
‫مطابق دودھ استعمال کرنا چاہئے تاکہ گرمی کی وجہ سے‬
‫دماغ ميں خشکی پيدا ہوکر ترقی کی راه ميں رکاوٹ نہ بنے۔‬
‫سبق نہم‪ :‬ذکر تہليل لسانی‬

‫ذکر تہليل لسانی کا طريقہ بعينہ وہی ہے جو ذکر نفی و اثبات‬


‫ميں بيان ہوا۔ فرق يہ ہے کہ اس ميں سانس نہيں روکا جاتا‬
‫اور کلمہ طيبہ ” َال ِ ٰالہَ ِ ﱠاال ٰ ّ‬
‫ﷲُ“ کا ذکر زبان سے کيا جاتا ہے۔‬

‫فائده‪ :‬رات اور دن ميں کم ازکم گياره سو مرتبہ کلمہ طيبہ‬


‫کا يہ ذکر کيا جائے۔ اسکی اعلٰی تعداد پانچ ہزار ہے۔ اس‬
‫سے زياده جتنا چاہے کلمہ شريف کا يہ ورد کرے۔ اس سے‬
‫زياده فائده حاصل ہوگا۔‬

‫ايک ہی وقت ميں يہ تعداد مکمل کرنا بھی ضروری نہيں‬


‫اورنہ ہی باوضو ہونا شرط ہے۔ البتہ باوضو ہونا بہتر ہے۔‬
‫رات اور دن ميں جب چاہے حضور قلب کے ساتھ معنی کا‬
‫خيال کرکے ذکر کيا جائے۔‬

‫ذکر تہليل لسانی سے حضور قلب حاصل ہوتا ہے اور‬


‫لطائف کو اپنے موجوده مقامات سے اوپر کی طرف ترقی‬
‫حاصل ہوتی ہے اور غير کے خطرات و خياالت کی نفی‬
‫ہوتی ہے۔ بعض اوقات واردات کا نزول بھی ہوتا ہے۔‬
‫ق سوم‪ :‬مراقبہ ورابطہ شيخ‬
‫طريق دوم وطري ِ‬
‫لطائف عالم امر کی اصالح کا دوسرا طريقہ مراقبہ ہے۔ جس‬
‫کامطلب يہ ہے کہ ذکر اور رابطہ شيخ کے سوا تمام خياالت‬
‫و خطرات سے دل کو خالی کرکے رحمت ٰالہی کا انتظار کيا‬
‫جائے۔‬

‫اسی انتظار کا نام مراقبہ ہے۔ چونکہ فيض و رحمت ٰالہی کا‬
‫نزول لطائف پر ہوتا ہے اس لئے لطائف کی مناسبت سے ان‬
‫مراقبات کے نام بھی جدا جدا اور انکی نيات بھی مختلف‬
‫ہيں۔‬

‫سبق دہم‪ :‬مراقبہ احديت‬

‫مراقبہ احديت کی نيت کرتے وقت سالک دل ميں يہ پختہ‬


‫خيال رکھے کہ ميرے لطيفہ قلب پر اس ذات واالصفات سے‬
‫فيض آرہا ہے جو اسم مبارک ﷲ کا مسمٰی )مصداق( ہے۔‬

‫وہی جامع جميع صفات کمال ہے اور ہر عيب و نقص سے‬


‫پاک ہے۔‬
‫يہ خيال کرکے فيض ٰالہی کے انتظار ميں بيٹھ جائے۔ اس‬
‫مراقبہ سے سالک کو حق تعالٰی کا حضور اور اسکے ماسوا‬
‫سے غفلت حاصل ہوتی ہے۔‬
‫فائده‪ :‬مراقبہ احديت کے بعد واليت صغرٰی کے مراقبات‬
‫مشارب کا مقام آتا ہے جسے دائره ممکنات بھی کہا جاتا ہے۔‬
‫اس قسم کے مراقبات مشارب پانچ ہيں۔‬

‫ان ميں سے ہر ايک لطيفہ کا مراقبہ کرتے وقت سالک کو‬


‫چاہئے کہ آنحضرت صلّی ﷲ عليہ وسلم تک اپنے سلسلہ‬
‫کے تمام مشائخ کے ان لطائف کو اپنے لطيفہ کے سامنے‬
‫تصور کرکے يہ خيال کرے کہ اس لطيفہ کا خاص فيض جو‬
‫بارگاه ٰالہی سے حضور اکرم صلّی ﷲ عليہ وسلم کے اس‬
‫ِ‬
‫لطيفہ مبارک ميں آرہا ہے‪ ،‬بترتيب مشائخ سلسلہ عاليہ کے‪،‬‬
‫اسی لطيفہ سے ہوتا ہوا ميرے اس لطيفہ ميں پہنچ رہا ہے۔‬

‫نيز جاننا چاہئے کہ ان ميں سے ہر ايک لطيفہ کا اثر و فائده‬


‫دوسرے سے مختلف ہے۔ اسلئے جب تک پہلے والے لطيفہ‬
‫کا اثر سالک کے لطيفہ ميں محسوس نہ ہو‪ ،‬دوسرا مراقبہ‬
‫شروع نہ کيا جائے۔ ورنہ سلوک کا اصل مقصد يعنی مقام فنا‬
‫تک رسائی نصيب نہ ہوگی۔‬
‫مراقبات مشارب‬
‫سبق يازدہم‪ :‬مراقبہ لطيفہ قلب‬

‫اس مراقبہ ميں سالک اپنے لطيفہ قلب کو حضور اکرم صلّی‬
‫ﷲ عليہ وسلم کے لطيفہ قلب کے بالکل سامنے تصور‬
‫بارگاه ٰالہی ميں يہ التجاکرے‬
‫ِ‬ ‫زبان خيال سے‬
‫ِ‬ ‫کرکے‬

‫يا ٰالہی تجليات افعاليہ کا وه فيض جو آپ نے ہمارے آقا و‬


‫مولٰی صلّی ﷲ عليہ وسلم کے لطيفہ قلب سے حضرت آدم‬
‫عليہ السالم کے لطيفہ قلب ميں القا فرمايا ہے وه حضرات‬
‫پيران کبار کے طفيل ميرے لطيفہ قلب ميں القا فرما۔‬

‫فائده‪ :‬سالک کو جب لطيفہ قلب کی فنا حاصل ہوجاتی ہے تو‬


‫اپنے افعال بلکہ تمام مخلوق کے افعال کو حضرت حق‬
‫سبحانہ و تعالٰی کے افعال کا اثر و پرتو سمجھنے لگتا ہے‬
‫اور کائنات کی تمام ذات و صفات کو حق تعالی کی ذات و‬
‫صفات کا مظہر سمجھتا ہے اور اسکا قلب دنيا کی خوشی‬
‫خواه غم سے متاثر نہيں ہوتا۔‬

‫يہ اسلئے ہے کہ اسوقت اسے فاعل حقيقی يعنی ﷲ سبحانہ و‬


‫تعالٰی کے سوا کسی اور کا فعل نظر ہی نہيں آتا۔‬
‫سبق دوازدہم‪ :‬مراقبہ لطيفۂ روح‬

‫اس مراقبہ کے وقت سالک اپنے لطيفۂ روح کو آنحضرت‬


‫سرور عالم صلّی ﷲ عليہ وسلم کے لطيفہ روح کے سامنے‬
‫تصور کرکے بزبان خيال بارگاه ٰالہی ميں يہ عرض کرے‬

‫يا ٰالہی ان صفات ثبوتيہ يعنی علم قدرت‪ ،‬سمع‪ ،‬بصر و اراده‬
‫وغيره کی تجليات کا فيض جو تونے آنحضرت صلّی ﷲ‬
‫عليہ وسلم کے لطيفۂ روح سے حضرت نوح عليہ السالم‬
‫کے لطيفہ روح اور حضرت ابراہيم عليہ السالم کے لطيفہ‬
‫روح ميں مرحمت فرمايا تھا‪ ،‬حضرات پيران کبار کے طفيل‬
‫ميرے لطيفہ روح ميں القا فرما۔‬

‫فائده‪ :‬سالک کو جب لطيفہ روح ميں فنا حاصل ہوجاتی ہے‬


‫تو اسکی نظر سے اپنی اور تمام مخلوقات کی صفات اوجھل‬
‫ہوجاتی ہيں اور وه تمام صفات حق تعالٰی ہی کے لئے‬
‫سمجھنے لگتا ہے۔‬
‫سبق سيزدہم‪ :‬مراقبہ لطيفہ سر‬

‫اس مراقبہ ميں سالک اپنے لطيفہ سر کو حضور اکرم صلّی‬


‫ﷲ عليہ وسلم کے لطيفہ سر مبارک کے سامنے تصور‬
‫بارگاه ٰالہی ميں يہ التجا کرے‬
‫ِ‬ ‫زبان خيال سے‬
‫ِ‬ ‫کرکے‬

‫يا ٰالہی ان تجلي ِ‬


‫ات ذاتيہ کا فيض جو تونے سيد المرسلين‬
‫صلّی ﷲ عليہ وسلم کے لطيفہ سر سے حضرت موسٰی عليہ‬
‫السالم کے لطيفہ سر ميں القا فرمايا ہے‪ ،‬حضرات پيران‬
‫کبار کے صدقے ميں ميرے لطيفہ سر ميں القا فرما۔‬

‫فائده‪ :‬سالک کو جب لطيفہ سر ميں فنا حاصل ہوجاتی ہے تو‬


‫ذات حق تعالٰی ميں اس قدر مٹا ہوا پاتا ہے‬
‫وه اپنی ذات کو ِ‬
‫کہ اسے ذات حق سبحانہ و تعالی کے سوا کوئی اور ذات‬
‫نظر ہی نہيں آتی۔ اس مقام پر سالک کو نہ تو کسی کی‬
‫تعريف و توصيف کرنے سے خوشی حاصل ہوتی ہے‪ ،‬نہ‬
‫کسی کے طعن و مالمت کی پرواه ہوتی ہے۔ بس ہر وقت‬
‫ذات حق سبحانہ وتعالٰی ميں مستغرق رہتا ہے۔‬
‫سبق چہاردہم‪ :‬مراقبہ لطيفہ خفی‬

‫اس سبق ميں سالک اپنے لطيفہ خفی کو سرور عالم صلّی ﷲ‬
‫زبان‬
‫ِ‬ ‫عليہ وسلم کے لطيفہ خفی کے سامنے تصور کرکے‬
‫خيال سے بارگاه ٰالہی ميں يہ التجا کرے‬

‫يا ٰالہی تجليات صفات سلبيہ کا فيض جو تونے آنحضرت‬


‫سرور عالم صلّی ﷲ عليہ وسلم کے لطيفہ خفی مبارک سے‬
‫حضرت عيسٰی عليہ السالم کے لطيفہ خفی ميں القا فرمايا‬
‫ہے‪ ،‬حضرات پيران کبار کے طفيل ميرے لطيفہ خفی ميں‬
‫القا فرما۔‬

‫فائده‪ :‬صفات سلبيہ سے وه تمام صفات مراد ہيں جو نقص و‬


‫عيب ميں شمار ہوتی ہيں اور ذات باری تعالٰی ان سے پاک و‬
‫منزه ہے۔ مثالً اوالد‪ ،‬بيوی‪ ،‬جسم‪ ،‬جوہر‪ ،‬عرض‪ ،‬زمان و‬
‫مکان وغيره۔‬
‫سبق پانزدہم‪ :‬مراقبہ لطيفہ اخفٰی‬

‫اس سبق ميں سالک اپنے لطيفہ اخفٰی کو آنحضرت سرور‬


‫عالم صلّی ﷲ عليہ وسلم کے لطيفہ اخفٰی کے سامنے تصور‬
‫کرکے زبان خيال سے يہ عرض کرے‬

‫يا ٰالہی تجليات شان جامع کا وه فيض جو آپ نے آنحضرت‬


‫صلّی ﷲ عليہ وسلم کے لطيفہ اخفٰی مبارک ميں القا فرمايا‬
‫ہے‪ ،‬حضرات پيران کبار کے طفيل ميرے لطيفہ اخفٰی ميں‬
‫القا فرما۔‬

‫فائده‪ :‬سالک کو جب لطيفہ اخفی ميں فنائيت حاصل ہوجاتی‬


‫ہے تو اسے حضرت حق سبحانہ وتعالٰی کا خصوصی قرب‬
‫حاصل ہوجاتا ہے۔ اسلئے اس کے لئے اخالق ٰالہی اور‬
‫ٰ‬
‫الصلوة والسالم سے متصف ہونا‬ ‫اخالق نبوی علٰی صاحبہا‬
‫آسان ہوجاتا ہے۔ بالخصوص نماز ميں بہت لذت حاصل ہوتی‬
‫ہے۔‬

‫فائده‪ :‬عالم امر کے ان پانچوں لطائف کی فنائيت کے بعد‬


‫دائره امکان کی سير ختم ہوجاتی ہے۔ بعض مشائخ نے انوار‬
‫و تجليات ديکھنے کو اس دائره کے طے کرنے کی عالمت‬
‫فرمايا ہے۔ واضح رہے کہ دائره امکان کا نصف زمين سے‬
‫عرش تک ہے اور دوسرا نصف عرش سے اوپر ہے۔ جبکہ‬
‫عالم خلق عرش سے نيچے ہے۔ اسکی شکل يہ ہے‬
‫أصل‬
‫أصل‬ ‫أخفىٰ‬ ‫أصل‬
‫سرﱡ‬ ‫خفيﱡ‬

‫أصل‬ ‫أصل‬
‫قلب‬ ‫عالم أمر‬ ‫روح‬
‫عرش معلىٰ‬
‫نفس‬ ‫عالم خلق‬ ‫آگ‬

‫پانی‬ ‫ہوا‬
‫مٹی‬

‫اس کے بعد مراقبہ معيت کيا جاتا ہے۔‬


‫سبق شانزدہم‪ :‬مراقبہ معيت‬

‫نما ُ ْ ُ ْ‬
‫کنتم“ يعنی وه ہر جگہ‬ ‫معکم اَْي َ َ‬
‫ھو َ َ ُ ْ‬
‫اس مراقبہ ميں آيت کريمہ ” َو ُ َ‬
‫تمھارے ساتھ ہے‪ ،‬کی معنٰی کا خيال کرکے خلوص دل کے ساتھ يہ‬
‫خيال و تصور کرے کہ ‪:‬‬

‫اس ذات پاک سے ميرے لطيفہ قلب پر فيض آرہا ہے‪ ،‬جو‬
‫ميرے ساتھ اور تمام موجودات کے ہر ذره کے ساتھ ہے‪،‬‬
‫اس شان کے مطابق جو وه چاہتا ہے۔ اس سبق ميں منشاء‬
‫فيض واليت صغرٰی کا دائره ہے جو اولياء عظام کی واليت‬
‫اور اسماء حسنہ اور صفات مقدسہ کا سايہ ہے۔‬

‫اس مقام ميں تہليل لسانی يعنی ”ال ٰالہ اال ﷲ“ کا زبانی ذکر‬
‫معنی کا لحاظ کرتے ہوئے‪ ،‬اس طرح کہ سالک کی توجہ‬
‫قلب کی طرف ہو اور قلب کی توجہ ﷲ تعالی کی طرف ہو‪،‬‬
‫بہت فائده ديتا ہے۔‬

‫فائده‪ :‬اس مقام پر سالک کو فنائے قلبی اور بقائے قلبی و‬


‫دوام حضور حاصل ہوتا ہے۔ يعنی ياد ٰالہی ميں اس قدر‬
‫مستغرق ہوجاتا ہے کہ اس کے ماسوا کو بالکل بھول جاتا‬
‫ہے اور کسی بھی لمحہ اس کی ياد سے غافل نہيں ہوتا۔ اس‬
‫مقام پر سالک کو لوگوں سے وحشت اور بيگانگی ہوتی ہے‬
‫اور وه ہميشہ ذکر اور مقام حيرت ميں محو رہتا ہے۔‬
‫واضح رہے کہ دائمی حضور و بقا پر دائره واليت صغرٰی‬
‫کی تکميل ہوتی ہے۔‬

You might also like