You are on page 1of 10

‫تعالی زمین و آسمان اور تمام مخلوقات کا خالق ہے۔ اسی نے اپنے دونوں ہاتھوں‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬

‫سے آدم ؑ کو مٹی سے بنایا اور ان کی زوجہ حو ؑا کو پیدا فرمایا اور پھر ان دونوں‬
‫سے انسانوں کی نسل جاری فرمائی۔ ہللا نے انسانوں اور جاندار مخلوقات کے لئے‬
‫طرح طرح کے رزق اور نعمتیں پیدا کیں اور وہی مشکل کشا‪ ،‬حاجت روا ار فریاد‬
‫َرس ہے۔‬
‫تعالی ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫ارشا ِد باری‬
‫ص ۡوہَا‬‫ّٰللاِ ََل ت ُ ۡح ُ‬ ‫َو ا ِۡن تَعُد ُّۡوا ِنعۡ َم َۃ ہ‬
‫اور اگر تم ہللا کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے۔ (النحل‪)۱۸ :‬‬
‫بے شمار نعمتوں اور فضل و کرم والے رب سے محبت کرنا ہر انسان پر فرض‬
‫ہے۔‬
‫تعالی ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫ارشاد باری‬
‫شدُّ ُحبًّا ِ ّ ہِّلِ ؕ‬ ‫َوالَّذ ِۡینَ ٰا َمنُ ۡۤۡوا ا َ َ‬
‫اور اہ ِل ایمان سب سے زیادہ ہللا سے محبت کرتے ہیں۔ (البقرۃ‪)۱۶۵:‬‬
‫رسول ہللا ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫ہللا تمھیں جو نعمتیں کھالتا ہے ان کی وجہ سے ہللا سے محبت کرو اور ہللا کی‬
‫محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہ ِل‬
‫بیت سے محبت کرو۔ (سنن الترمذی‪۳۷۸۹ :‬و سندہ حسن‪ ،‬ماہنامہ الحدیث ‪)۲۶:‬‬
‫تعالی فرماتا ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫ک ُر ۡوا ِ ہِّلِ اِ ۡن ُک ۡنت ُ ۡم اِیَّاہُ ت َعۡ بُد ُۡونَ‬ ‫َو ۡ‬
‫اش ُ‬
‫اور ہللا کا شکر ادا کرتے رہو اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔ (البقرۃ‪:‬‬
‫‪)۱۷۲‬‬
‫تعالی کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دل‬‫ٰ‬ ‫(کامل) مومن وہ ہیں جب اُن کے سامنے ہللا‬
‫لرز جاتے ہیں۔ دیکھئے سورۃ اَلنفال (‪)۲‬‬
‫نبی ﷺ کا ارشا ِد مبارک ہے کہ (ثالث من کن فیہ وجد حالوۃ اإلیمان‪ :‬أن یکون ہللا و‬
‫رسولہ أحب إلیہ مما سواھما وأن یحب المرء َل یحبہ إَل ہلل و أن یکرہ أن یعود فی‬
‫الکفر کما یکرہ أن یقذف فی النار)جس شخص میں تین چیزیں ہوں تو اس نے ایمان‬
‫کی مٹھاس پالی‪( :‬اول) یہ کہ اس کے نزدیک ہر چیز سے زیادہ ہللا اور رسول‬
‫محبوب ہوں(دوم) وہ جس سے محبت کرے صرف ہللا ہی کے لئے محبت‬
‫کرے(سوم) وہ کفر میں لوٹ جانا اس طرح ناپسند کرے جیسے وہ آگ میں گرنا‬
‫ناپسند کرتا ہے۔ (صحیح بخاری‪ ،۱۶ :‬صحیح مسلم‪)۴۳:‬‬
‫تعالی اس سے بہت زیادہ اپنے‬
‫ٰ‬ ‫ایک ماں جتنی اپنے بچے سے محبت کرتی ہے ہللا‬
‫بندوں سے محبت کرتا ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری(‪ )۵۹۹۹‬و صحیح مسلم(‪)۲۷۵۴‬‬
‫تعالی ہے‪ :‬میرے بندوں کو بتا دو کہ بے شک میں گناہ معاف کرنے واَل‬
‫ٰ‬ ‫ارشا ِد باری‬
‫اور رحم کرنے واَل ہوں۔(الحجر‪)۴۹:‬‬
‫تعالی فرماتا ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫ع ٰلی ا َ ۡنفُس ِِہ ۡم ََل ت َ ۡقنَ ُ‬ ‫ۤۡ‬
‫ب‬‫ّٰللاَ َی ۡغ ِف ُر الذُّنُ ۡو َ‬ ‫ط ۡوا ِم ۡن َّر ۡح َم ِۃ ہ‬
‫ّٰللاِ ا َِّن ہ‬ ‫ِی الَّذ ِۡینَ ا َ ۡس َرفُ ۡوا َ‬
‫قُ ۡل ٰی ِعبَاد َ‬
‫َج ِم ۡیعًا اِنَّہ ہ َُو ۡالغَفُ ۡو ُر َّ‬
‫الر ِح ۡی ُم‬
‫(میری طرف سے) کہہ دو‪ :‬اے میرے (ہللا کے ) بندو!جنھوں نے اپنی جانوں پر‬
‫ظلم کیا ہے‪ ،‬ہللا کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ بے شک ہللا (شرک کے سوا)‬
‫سارے گناہ معاف فرماتا ہے‪ ،‬بے شک وہ غفور الرحیم ہے۔ (الزمر‪)۵۳ :‬‬

‫حمد و ثناء اور درود کے بعد!‬


‫میں اپنے آپ اور سب سامعین کو تقوی کی نصیحت کرتا ہوں جیسے کہ ہللا کا‬
‫فرمان ہے ‪:‬یَا أَیُّ َھا الَّذِینَ آ َمنُوا اتَّقُوا َّ‬
‫ّٰللاَ َح َّق تُقَاتِ ِه َو ََل ت َ ُموت ُ َّن ِإ ََّل َوأ َ ْنت ُ ْم ُم ْس ِل ُمونَ اے‬
‫ایمان والو! ہللا سے ایسے ڈرو جیسے اس سے ڈرنے کا حق ہے اور تمہیں موت‬
‫آئے تو صرف اور صرف اسالم کی حالت میں۔ [آل عمران‪]102 :‬‬
‫ہللا کی محبت ایمان کے لوازمات میں سے ہے‪ ،‬عقیدہ توحید اس وقت تک مکمل‬
‫نہیں ہو سکتا جب تک انسان اپنے رب کو ہر اعتبار سے محبوب نہ بنا لے ‪ ،‬اس‬
‫سے بڑھ کر محبت کی وضاحت نہیں کی جاسکتی ‪ ،‬کیونکہ ہللا کے سوا کو ئی‬
‫چیز ایسی نہیں ہے جو انسان کو ہر اعتبار سے محبوب ہو‪ ،‬یہ ہی وجہ ہے کہ‬
‫الوہیت‪ ،‬اور عبادت کے َلئق صرف وہ اکیال ہی ہے‪ ،‬اور وہی کمال عاجزی‬
‫انکساری اور محبت کا حقدار ہے۔‬
‫ہللا کی محبت کا معاملہ ہی کچھ اور ہے؛ دل کو جتنی اپنے خالق سے ہوتی ہے‬
‫کسی سے نہیں‪ ،‬اور کیوں نہ ہو!؟ وہی اسکا خالق ‪ ،‬معبود‪ ،‬ولی‪ ،‬موَل‪ ،‬پروردگار‪،‬‬
‫کارساز ‪ ،‬رازق‪ ،‬مارنے اور زندہ کرنے واَل ہے‪ ،‬جسکی محبت میں نفسانی‬
‫شائستگی‪ ،‬روحانی زندگی‪ ،‬دلوں کی غذا‪ ،‬ذہنی سکون‪ ،‬آنکھوں کی ٹھنڈک‪ ،‬اور‬
‫تعمیر باطن ہے۔‬ ‫ِ‬
‫ب سلیم ‪ ،‬پاکیزہ ارواح ‪ ،‬اور عقلمندوں کے ہاں ہللا کی محبت‪ ،‬اور اسکی مالقات‬ ‫قل ِ‬
‫سے بڑھ کر کوئی چیز نہ تو انہیں لذت دیتی ہے اور نہ ہی محظوظ کرتی ہے۔‬
‫یحیی بن معاذ کہتے ہیں‪" :‬اسکی معافی اتنی وسیع ہے کہ تمام گناہوں کو بہا لے‬
‫جائے ؛تو اسکی رضا کا کیا حال ہوگا!؟ اسکی رضا تمام امیدوں پر غالب آسکتی‬
‫ہے؛ تو اسکی محبت کا کیا حال ہوگا!؟‪ ،‬اسکی محبت میں عقل دنگ ہے؛ تو اسکی‬
‫مودت کا کیا حال ہوگا!؟‪ ،‬جبکہ اسکی مودت ہر چیز بھال دے گی؛ تو اسکی‬
‫لطافت کا کیا حال ہوگا!؟"‬
‫انسان جتنی ہللا کی محبت اکٹھی کریگا اسے اتنی ہی ایمان کی مٹھاس اور لذت‬
‫ب الہی میں غرق کر دے؛ ہللا اسے غنی‬ ‫ملے گی‪ ،‬اسی لئے جو اپنے دل کو ُح ِ‬
‫کردیتا ہے‪ ،‬پھر اسے کسی سے ڈرنے یا کسی پر بھروسہ کرنے کی ضرورت‬
‫ب الہی ہی ایک ایسی چیز ہے جو دل کی پیاس بجھا سکے‬ ‫نہیں رہتی ‪ ،‬چنانچہ ُح ِ‬
‫اور اسکے بعد کسی کی اسے ضرورت پیش نہ آئے۔‬
‫اگر انسان اپنے دل کیلئے دنیا جہان کی آسائشیں اکٹھی کر لےپھر بھی اسے‬
‫ب الہی میں ‪ ،‬اگر دل سے اسکا چین و‬ ‫حقیقی سکون ملے گا تو وہ صرف ُح ِ‬
‫سکون ‪-‬حب الہی‪ -‬چھین لیا جائے تو اسے آنکھ ‪ ،‬کان ‪ ،‬زبان کے ضائع ہونے‬
‫بھی زیادہ تکلیف ہو‪ ،‬بلکہ اگر اس بدن سے روح پرواز کر جائے تواتنا نقصان‬
‫ب الہی سے دل کے عاری ہونے پر ہوتا ہے۔‬ ‫نہیں ہوتا جتنا ُح ِ‬
‫ت محبت کیا ہے؟ محبت اس بات کا نام ہے کہ آپ اپنا سب کچھ اپنے محبوب‬ ‫حقیق ِ‬
‫کے نام پر قربان کردو‪ ،‬اور اپنے لئے کچھ نہ چھوڑو‪ ،‬اسی لئے تو ہللا کی محبت‬
‫سب محبتوں پر غالب رہتی ہے‪ ،‬تو کامیاب شخص بھی اپنی تمام تر محبتوں کو‬
‫اپنے رب کی محبت کے تابع رکھتا ہے کہ اسی میں اسکی کامیابی کا راز پنہاں‬
‫ہے۔‬
‫محبت کے سب مدعی آپس میں برابر نہیں ؛ اسی لئے ہللا تعالی نے مؤمنوں کو‬
‫شدید محبت کرنے واَل کہا‪ ،‬فرمایا ‪َ :‬والَّذِینَ آ َمنُوا أ َ َ‬
‫شدُّ ُحبًّا ِ َِّّلِ جو لوگ ایمان َلئے وہ‬
‫ہللا سے شدید محبت کرتے ہیں[البقرۃ‪]165 :‬‬
‫شدُّ دعوی محبت میں درجہ بندی کی دلیل ہے‪ ،‬جسکا مطلب ہے‪ :‬ایک سے‬ ‫لفظ أ َ َ‬
‫ِ‬
‫بڑھ کر ایک محبت کرنے واَل۔‬
‫ب الہی ‪ :‬ہللا تعالی کی ذات اور اسکے پسندیدہ اعمال کو اپنی جان ‪ ،‬روح‪ ،‬اور‬ ‫ُح ِ‬
‫مال پر ترجیح دینے کا نام ہے‪ ،‬جسکا تقاضا ہے کہ خلوت وجلوت ہر حالت میں‬
‫اسکے فرامین کی پیروی کی جائے‪ ،‬اور یہ بات ذہن میں رہے کہ اسکی محبت‬
‫میں کوتاہی ہو رہی ہے‪ ،‬دوسرے لفظوں میں یوں کہیں کہ ‪ :‬ہمہ وقت اپنے آپ کو‬
‫محبوب کی یاد میں مشغول کر دیں‪ ،‬اس پر اپنی جان نچھاور کردیں‪ ،‬اور دل میں‬
‫محبوب کی چاہت کے عالوہ اور کچھ نہ ہو‪ ،‬زبان ہمیشہ اسی کی یاد سے تر‬
‫رہے‪ ،‬اسی لئے تو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے دعا مانگی« ‪:‬وأسألُك حبَّك‪،‬‬
‫ب إلى ُحبِّك »یا ہللا! تجھ سے محبت کا سوال کرتا‬ ‫قر ُ‬
‫وحبَّ من یُحبُّك‪ ،‬وحبَّ عم ٍل یُ ِ ّ‬
‫ہوں‪ ،‬اور تیرے محبوب کی محبت کا ‪ ،‬اور ہر ایسے عمل کی محبت کا جو تیری‬
‫محبت کے قریب تر کر دے۔‬
‫(ولَہ ) "دیوانہ پن" میں تبدیل‬
‫ُم ِحب کے دل میں محبت شدت اختیار کر جائے تو یہ َ‬
‫ب الہی اور‬‫ہو جاتی ہے‪ ،‬اسی صفت سے متصف ہو کر ہللا کی عبادت کرنا ہی ُح ِ‬
‫ب شریعت کا اعلی درجہ ہے‪ ،‬اس "محبت "کی "غذا "سے زیادہ لوگوں کو‬ ‫ُح ِ‬
‫ب‬
‫ضرورت ہے‪ ،‬کیونکہ غذا کی عدم دستیابی سے جسم کو نقصان ہوگا‪ ،‬جبکہ ُح ِ‬
‫الہی کی عدم موجودگی میں روح برباد ہو جائے گی جو زیادہ نقصان دہ ہے۔‬
‫مؤمن اپنے رب کو پہچان لے تو اس سے محبت کرنے لگتاہے ‪ ،‬جب محبت ہو‬
‫جائے تو اسکی جانب متوجہ رہنے کی کوشش کرتا ہے‪ ،‬اور جب اسے چاشنی‬
‫اور لذت ملنے لگے تو دنیا کو شہوت کی نگاہ سے اور آخرت کو کاہلی اور‬
‫سستی کی نگاہ سے نہیں دیکھتا۔‬
‫ب الہی انسان کو اسکے ذمہ واجب کام کرنے اور تمام ممنوعہ کاموں سے دور‬ ‫ُح ِ‬
‫رہنے پر ابھارتی ہے‪ ،‬اور اس سے بڑھ کر مستحبات پر ترغیب ‪ ،‬اور مکروہات‬
‫سے انسان کو دور رکھتی ہے۔‬
‫فرمان رسالت ہے‪( :‬جو‬
‫ِ‬ ‫ت ایمان سے بھر دیتی ہے‪،‬‬ ‫ب الہی انسانی دل کو حالو ِ‬ ‫ُح ِ‬
‫شخص ہللا کو رب مانے‪ ،‬اسالم کو اپنا دین جانے‪ ،‬محمد ‪-‬صلی ہللا علیہ وسلم‪ -‬کو‬
‫اپنا رسول مانے تو اس نے ایمان کا ذائقہ چکھ لیا)‬
‫ب الہی دل سے ہللا کی تمام نا فرمانیوں کو باہر نکال کر انسانی جسم کو‬ ‫حقیقی ُح ِ‬
‫اطاعت پر مجبور کر دیتی ہے‪ ،‬جس سے نفس مطمئن ہو جاتا ہے‪ ،‬حدیث قدسی‬
‫ہے (جب میں کسی بندے سے محبت کرنے لگوں تو میں اسکے کان‪ ،‬آنکھ ‪ ،‬ہاتھ‪،‬‬
‫اور پاؤں کو اپنےکنٹرول میں کر لیتا ہوں)‬
‫محبت کی لذت سے انسان آنیوالی تمام مصیبتوں کو بھول جاتا ہے‪ ،‬اور دوسروں‬
‫ب الہی گناہوں سے بچنے‬ ‫کی طرح اسے تکلیف بھی نہیں ہوتی‪ ،‬اسی لئے ُح ِ‬
‫کیلئے انتہائی مضبوط ترین ڈھال ہے‪ ،‬کیونکہ ہر کوئی اپنے محبوب کی بات مانتا‬
‫ہے۔‬
‫یہ ہی وجہ ہے کہ دل میں جتنی مضبوط محبت ہوگی انسان اتنی ہی ہللا کی‬
‫اطاعت کریگا اور نافرمانی سے بچے گا‪ ،‬اور جیسے جیسے محبت کمزور پڑتی‬
‫جائے گی؛ نافرمانیوں کی گرفت مضبوط ہو جائے گی۔‬
‫سچے ُم ِحب پر ہللا کی جانب سے ایک نگہبان مقرر کیا جاتا ہے جو اسکے دل و‬
‫اعضاء کی نگرانی کرتا ہے‪ ،‬جبکہ خالی دعوں کی محبت اسوقت تک ان سہولیات‬
‫سے عاری ہوتی ہے‪ ،‬جب تک وہ محبت میں سچا نہ ہو جائے‪ ،‬چنانچہ جیسے ہی‬
‫محبت میں سچائی پیدا ہو تو انسان برائیوں سے دور رہتے ہوئے اطاعت گزاری‬
‫کرتا ہے‪ ،‬جبکہ جھوٹی محبت سے انسان اپنے تئیں تو بڑا خوش باش نظر آتا ہے‬
‫لیکن حقیقت میں اسکے اثرات سے بالکل عاری ہوتا ہے‪ ،‬اس لئے انسان کبھی‬
‫اپنے دل میں ہللا کی محبت تو پاتا ہے لیکن یہ محبت اسے برائیوں سے نہیں‬
‫روک پاتی۔‬
‫اسکی وجہ کیا ہے؟ وجہ یہ ہے کہ محبت میں سچائی نہیں‪ ،‬ہللا کی تعظیم اور‬
‫جاللت اس میں شامل نہیں‪ ،‬جبکہ محبت کے ساتھ ساتھ ہللا کی عظمت اور جاللت‬
‫مل جائے تو یہ ہللا کی بہت بڑی اور افضل ترین نعمت ہے ‪ ،‬وہ جسے چاہے یہ‬
‫نعمت عنائت فرماتاہے۔‬
‫جب محبت عاجزی ‪ ،‬انکساری سے عاری ہوتو وہ صرف زبانی جمع خرچ ہے؛‬
‫جسکی کوئی وقعت نہیں‪ ،‬یہی حال ہے ان محبت کے دعوے داروں کا جو اپنے‬
‫دعوے کے مطابق ہللا کے احکامات کی پاسداری نہیں کرتے‪ ،‬اور نہ ہی اپنی‬
‫زندگی کو رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے فرامین ‪ ،‬اور سنت کے مطابق‬
‫ڈھالتے ہیں۔‬
‫لہذا جس شخص نے اپنی زندگی میں آئیڈیل رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو نا‬
‫بنایا ؛ اس نے ہللا سے محبت ہی نہیں کی‪ ،‬اس طرح تو یہود و نصاری دعوے کیا‬
‫ارى ن َْح ُن أ َ ْبنَا ُء َّ‬
‫ّٰللاِ‬ ‫ص َ‬‫ت ْالیَ ُھود ُ َوالنَّ َ‬‫فرمان باری تعالی ہے ‪َ :‬وقَالَ ِ‬ ‫ِ‬ ‫کرتے تھے‪،‬‬
‫َوأ َ ِحبَّاؤُ ہُ یہودیوں اور عیسائیوں نے کہا کہ ہم ہللا کے بیٹے اور محبوب‬
‫ہیں[ المائدۃ‪]18 :‬‬
‫دعوی کرنے میں تو ہر کوئی شیر ہے‪ ،‬جبکہ ہللا تعالی نے ان تمام زبانی دعوں‬
‫کی جڑ اکھیڑ کر رکھ دی ‪ ،‬اور سب پر حقیقت عیاں کردی فرمایا ‪:‬قُ ْل إِ ْن ُك ْنت ُ ْم‬
‫ور َر ِحی ٌم آپ کہہ دیجئے‪:‬‬ ‫غفُ ٌ‬ ‫ّٰللاُ َویَ ْغ ِف ْر لَ ُك ْم ذُنُوبَ ُك ْم َو َّ‬
‫ّٰللاُ َ‬ ‫ّٰللاَ فَات َّ ِبعُونِي یُ ْح ِب ْب ُك ُم َّ‬
‫ت ُ ِحبُّونَ َّ‬
‫کہ اگر تم ہللا سے محبت رکھتے ہو تو میری پیروی کرو۔ ہللا خود تم سے محبت‬
‫کرنے لگے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور ہللا بہت بخشنے واَل اور رحم‬
‫کرنے واَل ہے[ آل عمران‪]31 :‬‬

‫محبت ِ الہی کی عالمت یہ ہے کہ ‪ ،‬اسکے نیک بندوں سے محبت کی جائے ‪،‬‬


‫اولیاء ہللا سے تعلق قائم کیا جائے‪ ،‬بدکاروں سے دوری اختیار کی جائے‪ ،‬فرائض‬
‫کی ادائیگی میں مکمل جد و جہد کی جائے‪ ،‬ہللا کے دین کی مدد کرنیوالوں کا ہاتھ‬
‫ب الہی کی جڑیں مضبوط ہونگی یہ کام بھی اسی‬ ‫بٹایا جائے‪ ،‬جس قدر دل میں ُح ِ‬
‫قدر زیادہ ہونگے۔‬

‫یہاں ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کونسے اسباب ہیں جو ہللا کی محبت دل میں پیدا‬
‫کرتے ہیں؟‬
‫فرمان‬
‫ِ‬ ‫)‪1‬سب سے پہلے ہللا کی َل تعداد و بے شمار انعام کردہ نعمتوں کو جانیں‪،‬‬
‫باری تعالی ہے ‪َ :‬وإِ ْن تَعُدُّوا نِ ْع َمةَ َّ‬
‫ّٰللاِ ََل ت ُ ْح ُ‬
‫صوھَا اور اگر تم ہللا کی نعمتیں‬
‫گننا[ ‪] ۱۹‬چاہو تو کبھی ان کا حساب نہ رکھ سکو گے[ النحل‪َ ،]18 :‬وأ َ ْحس ِْن َك َما‬
‫ّٰللاُ إِلَی َْك اور لوگوں سے ایسے ہی احسان کرو جیسے ہللا تمہارے ساتھ‬ ‫سنَ َّ‬ ‫أ َ ْح َ‬
‫بھالئی کی ہے[ القصص‪]77 :‬‬
‫)‪2‬ہللا کے اسماء و صفات کے بارے میں علم حاصل کیا جائے؛ جس نے ہللا کو‬
‫پہچان لیا اس نے محبت شروع کردی‪ ،‬اور جو محبت شروع کر دے اسکی‬
‫اطاعت بھی کریگا‪ ،‬اور جواسکی اطاعت کرے اس پر اپنی کرم نوازی بھی‬
‫کریگا‪ ،‬اور جس پر کرم نوازی ہوگئی ؛ اسے اپنے قریب جگہ دے گا‪ ،‬اور جسے‬
‫ہللا کے قریب جگہ مل جائے اسکے تو وارے نیارے ہونگے۔‬
‫)‪3‬اہم ترین سبب یہ ہے کہ ہللا کی آسمان و زمین پر بادشاہت اور ان میں موجود‬
‫مخلوقات وغیرہ پر غور و فکر کیا جائے جنہیں ہللا تعالی نے اپنی قدرت‪،‬‬
‫جاللت‪،‬کمال ‪ ،‬کبرئیائی‪ ،‬رحمت و لطافت کی نشانی بنایا ہے‪ ،‬غور و فکر کے‬
‫ت الہی میں اضافہ ہوگا؛ اسی قدر محبت سے بھرپور اطاعت میں‬ ‫باعث جتنا معرف ِ‬
‫بھی اضافہ ہوگا۔‬
‫)‪4‬اسی طرح اگر ہللا کے ساتھ تعلق مکمل سچائی اور اخالص پر مبنی ہو اور‬
‫نفسانی خواہشات انسان کی راہنما نہ ہوں تو ہللا کی محبت حاصل ہو سکتی ہے۔‬
‫ذکر الہی میں مشغول رہنے سے بھی ہللا کی محبت حاصل ہوتی‬ ‫)‪5‬کثرت سے ِ‬
‫فرمان باری تعالی ہے ‪:‬أ َ ََل‬
‫ِ‬ ‫ہے‪ ،‬کیونکہ محبوب کی یاد محبت کی عالمت ہے‪،‬‬
‫وب غور سے سنو! ہللا کی یاد سے دلوں کو سکون ملتا‬ ‫ّٰللاِ ت َْط َمئِ ُّن ْالقُلُ ُ‬
‫ِب ِذ ْك ِر َّ‬
‫ہے[الرعد‪]28 :‬‬
‫ہللا تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت واَل بنائے‪،‬‬
‫مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے‪ ،‬میں اپنی بات کو اسی‬
‫پر ختم کرتے ہوئے ہللا سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا‬
‫ہوں‪ ،‬آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے واَل اور‬
‫نہایت رحم کرنے واَل ہے۔‬
‫ادنی قسم کی محبت ہے‪،‬‬ ‫عربی زبان میں محبت کے معنی دل کی چاہت اور قلبی میالن کے ہیں۔ حسی اور جبلی محبت ٰ‬
‫اعلی قسم کی محبت عقلی اور شعوری محبت ہے جس کی بنیاد فضیلت ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫جب کہ‬
‫تعالی کی محبت سب محبتوں پر فائق ہو۔‬ ‫ٰ‬ ‫عقلی اور شعوری محبت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہللا‬
‫تعالی کی رضا کے‬‫ٰ‬ ‫تعالی کے لیے بغض رکھا‪ ،‬اور ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کے لیے محبت کی اور ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫ث مبارکہ ہے ’’جس نے ہللا‬ ‫حدی ِ‬
‫تعالی کے لیے روکا تو اس نے ایمان مکمل کیا۔‘‘‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫اور‬ ‫کیا‬ ‫عطا‬ ‫لیے‬
‫تعالی ماں‬
‫ٰ‬ ‫تعالی بھی اپنے بندے سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں‪ ،‬ماں کی محبت مثالی ہوتی ہے اور ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫چونکہ ہللا‬
‫سے بھی کئی گنا زیادہ محبت کرتے ہیں تو بندے کا بھی فرض ہے کہ وہ جس سے محبت کرے ہللا کی رضا کے لیے‬
‫کرے۔‬
‫قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ’’اور جو ایمان والے ہیں وہ ہللا کی محبت زیادہ سخت رکھتے ہیں۔‘‘ ہللا کی خاطر محبت‬
‫ث مبارکہ سے کیا جاسکتا ہے۔‬ ‫کرنے والوں کا مرتبہ بہت بلندہے‪ ،‬اس کا اندازہ اس حدی ِ‬
‫تعالی کے بندوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو نہ نبی ہیں نہ شہید‪،‬‬ ‫ٰ‬ ‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہللا‬
‫تعالی کے ہاں ملے گا۔‘‘‬ ‫ٰ‬ ‫پھر بھی انبیاء اور شہدا قیامت کے دن ان کے مرتبے پر رشک کریں گے جو انہیں ہللا‬
‫لوگوں نے کہا کہ ’’اے ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم وہ کون لوگ ہوں گے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’یہ وہ لوگ ہوں‬
‫گے جو آپس میں ایک دوسرے کے رشتے دار نہ تھے اور نہ آپس میں لین دین کرتے تھے بلکہ محض خدا کے دین‬
‫کی بنیاد پر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ بخدا ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور ان کے چاروں طرف نور ہی‬
‫نور ہوگا۔ انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اُس وقت جب لوگ خوف میں مبتال ہوں گے‪ ،‬اور کوئی غم نہ ہوگا اُس وقت جب‬
‫لوگ غم میں مبتال ہونگے۔‘‘‬
‫پھر آتا ہے کہ انسان کسی سے بغض رکھے تو ہللا کے لیے رکھے‪ ،‬یعنی اگر مومن کسی سے دشمنی رکھے تو صرف‬
‫اس بات پرکہ اگر وہ ہللا کے دین کے خالف ہو۔ اس کی بہترین مثال صحابہ کرامؐ تھے جو مکہ مکرمہ میں اپنے‬
‫قریبی رشتے داروں‪ ،‬اور کئی تو اپنے بیوی بچوں کو بھی چھوڑ کر آگئے تھے۔ جنگِ بدر میں مومن اپنے قریبی‬
‫تعالی کے دین اور ہللا کے رسولؐ کے دشمن تھے۔‬ ‫ٰ‬ ‫رشتے داروں‪ ،‬اپنے بھائیوں سے لڑ رہے تھے‪ ،‬کیونکہ وہ ہللا‬
‫جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے ’’الحب ہللا وبغض ہللا۔‬
‫اسی طرح اگر مومن ہللا کی راہ میں کچھ دیتا ہے یا دینا چاہے تو اس کی غرض و غایت صرف ہللا کی رضا ہونی‬
‫چاہیے نہ کہ ریاکاری‪ ،‬دکھاوا یا کوئی ذاتی مفاد۔‬
‫زکوۃ‪ ،‬صدقہ‪ ،‬خیرات‪ ،‬مساجد کی امداد اور جہادی فنڈ وغیرہ صرف اُسی وقت قبول ہوتے ہیں اور خیر و برکت و‬ ‫ہماری ٰ‬
‫تعالی کی رضا ہوتی ہے۔‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫مقصود‬ ‫سے‬ ‫ان‬ ‫جب‬ ‫ہیں‬ ‫بنتے‬ ‫باعث‬ ‫ثواب کا‬
‫تعالی کی رضا شامل ہونی‬ ‫ٰ‬ ‫اور اسی طرح حدیث کے آخری حصے میں آتا ہے کہ کسی کی امداد روکنے میں بھی ہللا‬
‫چاہیے‪ ،‬یعنی کسی دوست کو مالی امداد دی جاتی ہو اور پتا چلے کہ وہ اس امداد کو برائی کے راستوں پر خرچ کرتا‬
‫ہے تو اس کی امداد بند کردو‪ ،‬ہللا کی رضا کے لیے۔‬
‫اس حدیث ِمبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ مومن کا ہر کام‪ ،‬ہر عمل ہللا کی رضا کے لیے ہونا چاہیے۔ ان طریقوں پر‬
‫عمل کرکے ہی انسان ہللا کی قربت اور محبت کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔‬
‫دلوں کو معرفت کے نور سے ت ُو نے کیا روشن‬
‫دکھایا بے نشاں ہو کر اپنا نشاں ت ُو نے‬
‫حضرت ابوذرؐ بیان کرتے ہیں کہ رسو ِل خدا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ’’افضل ترین عمل یہ ہے کہ ہللا ہی کے‬
‫لیے دوستی رکھی جائے اور ہللا ہی کے لیے دشمنی رکھی جائے۔‘‘‬
‫یعنی کسی سے محبت کی جائے تو اس لیے کہ ہللا کو ایسا کرنا پسند ہے‪ ،‬مثالً جیسے رسولؐ سے محبت‪ ،‬صحابہ‬
‫کرامؐ سے محبت‪ ،‬نیک ل وگوں سے محبت‪ ،‬والدین‪ ،‬رشتے داروں سے محبت وغیرہ۔ اور ایسے ہی کسی سے نفرت ہو‬
‫تو کسی ذاتی غرض کے لیے نہ ہو مثالً اُس مشرک سے نفرت کرنا جو سمجھانے کے باوجود شرک سے باز نہیں آتا‪،‬‬
‫اُس بدزبان سے نفرت کرنا جو سمجھانے بجھانے کے باوجود ہر ایک کی عزت خراب کرتا ہو۔‬
‫تعالی قیامت کے دن فرمائے گا کہ‬ ‫ٰ‬ ‫حضرت ابوہریرہؐ بیان کرتے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہللا‬
‫کہاں ہیں وہ لوگ جو میری بزرگی اور عظمت کے خیال سے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے۔ آج کے دن جب کہ‬
‫میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا۔‘‘ (مسلم)‬
‫تعالی کی محبت کا جگہ پکڑ لینا وہ خوش بختی ہے کہ جب یہ حاصل ہوجائے تو یہ دنیوی زندگی‬ ‫ٰ‬ ‫ہمارے دلوں میں ہللا‬
‫ب الہی کا جذبہ دنیوی زندگی کی مشکالت و مصائب کی شدت اور اذیت کو بے انتہا‬ ‫ٰ‬ ‫بہشت بن جاتی ہے‪ ،‬یعنی جب ُح ِِّ‬
‫ب ٰالہی کا جذبہ‬ ‫ح‬
‫ُ ِِّ‬ ‫ہیں‬ ‫سمجھتے‬ ‫مصیبتیں‬ ‫بڑی‬ ‫لوگ‬ ‫عام‬ ‫جنہیں‬ ‫واقعات‬ ‫و‬ ‫حادثات‬ ‫ایسے‬ ‫کمزور کردیتا ہے اور بہت سے‬
‫ب الہی کا جذبہ ایک ایسا مخلص‪ ،‬ہمدرد اور دل‬ ‫ٰ‬ ‫رکھنے والوں کے لیے سرے سے مصیبتیں بنتی ہی نہیں۔ غرضیکہ ُح ِِّ‬
‫سوز رفیق ہے جو ہر دم ساتھ رہتا‪ ،‬ہر پریشانی میں دل جوئی کرتا‪ ،‬ہر بے کار غم سے بچاتا اور ہر کارآمد غم میں‬
‫ب ٰالہی کو دل کی تمام بیماریوں کا عالج بتایا ہے اور فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫سہارا بنتا ہے۔ موالنا رومؐ نے ُح ِِّ‬
‫عشق خوش سودائے ما‬ ‫ِ‬ ‫شاد باش اے‬
‫ب جملہ علِّت ہائے ما‬
‫اے طبی ِ‬

‫"ہللا کی محبت ایسا مقام ہے کہ جس میں تمام رغبت کرنے والے رغبت کرتے‬
‫رہتے ہیں‪ ،‬اس کی خاطر تمام سبقت لے جانے والے مستعد و کمربستہ رہتے ہیں‪،‬‬
‫اور اسی بلند مرتب قائم و فائز رہ کر محبت کرنے والوں نے اپنی زندگیوں کو فنا‬
‫کر دیایہ قلوب و أرواح کی غذا ہے‪ ،‬اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے ‪.‬‬
‫اور یہ ایک ایسی زندگی ہے کہ اس سے محروم رہنے والوں کا شمار ُمردوں میں‬
‫ہوتا ہے‪ .‬یہ ایک ایسا نور ہے جسے کھو دینے واَل ہمیشہ تاریکیوں کے سمندر‬
‫میں غوطے کھاتا رہتا ہے‪ .‬یہ ایک ایسی شفاء ہے کہ جس کے نا ہونے سے تمام‬
‫بیماریاں دل پر حملہ آور ہوتی ہیں‪ ،‬یہ ایک ایسی لذت ہے‪ ،‬جو اسے حاصل‬
‫کرنے میں کامیاب نا ہو سکا‪ ،‬اس کی پوری زندگی ہموم و غموم اور تکالیف و‬
‫آَلم کی آئینہ دار بن جاتی ہے‬
‫ہللا کی محبت ایمان و اعمال اور مقامات و احوال کی روح ہے‪ .‬کہ اس سے‬
‫محروم رہنے والی پر چیز اس جسم کی مانند ہے جس میں روح نا ہو‪ ،‬یہ محبت‬
‫راہ چلتوں کے بوجھ اٹھا کر انہیں بآسانی منزل مقصود پر پہنچا دیتی ہے‪ .‬اور‬
‫ایسے منازل تک پہنچانے کے شرف سے مشرف کرتی ہے اگر محبت نہ ہوتی‬
‫وہاں تک پہنچنے کا کوئی تصور نا ہوتا‪ ،‬اور یہ محبت جنت میں ایسے مقام پر‬
‫پہنچا دیتی ہے کہ اس کی عدم موجودگی میں جنت کا داخلہ نا ممکن ہوتا‪.‬‬
‫ہللا کی قسم! ہللا سے محبت کرنے والے دنیا و آخرت کے شرف کے خزانے‬
‫سمیٹ گئے‪ ،‬اور ہللا تعالی نے اپنی مشیت اور حکمت بالغہ کے ساتھ اسی دن یہ‬
‫فیصلہ فرما دیا تھا جس دن تمام خالئق کی تقدیریں لکھیں کہ انسان قیامت کے دن‬
‫اس کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ دنیا میں محبت ہو گی‪ .‬تو محبین صادقین( ہللا‬
‫سے اچھی محبت کرنے والوں کے لیے یہ کتنی عظیم نعمت ہے)‬
‫محبت الہی کے دس اسباب۔‬

‫‪1.‬قرآن کو تدبر کے ساتھ اور اسکے معانی کو سمجھ کر پڑھانا۔‬

‫‪2.‬فرائض کے بعد نوافل( کی ادائیگی) سے ہللا تعالی کا قرب حاصل کرنا۔‬

‫‪3.‬ہر حال میں زبان و قلب اور عمل و حال کے ساتھ ہللا کے ذکر پر ہمیشگی‬
‫کرنا۔‬

‫‪4.‬خواہشات کے غلبے کے وقت ہللا کی پسند کے آگے اپنی پسند کو قربان کرنا‪،‬‬
‫اور ہللا کی پسند کی طرف مائل ہو جانا‪ ،‬اگرچہ یہ آسان کام نہیں ہے۔‬

‫‪5.‬حضورے قلبی کے ساتھ ہللا کے اسماء و صفات کا مطالعہ کرنا‪ ،‬اور انکا‬
‫مشاہدہ کرتے ہوئے معرفت حاصل کرنا۔‬

‫‪6.‬ہللا کے فضل و احسان‪ ،‬ظاہری و باطنی نعمتوں کو مدنظررکھنا۔‬

‫‪7.‬ان اسباب میں سب سے بہترین یہ ہےکہ ہللا کے سامنے دلوں کو مکمل عاجز‬
‫بنا لینا۔‬
‫‪8.‬ہللا رب العزت کے (آسمان دنیا پر) اترنے کے وقت خلوت اختیار کرنا۔‬

‫‪9.‬سچے اور محبوب لوگوں کی مجلس اختیار کرنا۔‬

‫‪10.‬دل اور ہللا کے درمیان حائل ہونے والے اعمال سے دوری اختیار کرنا۔‬

You might also like