Professional Documents
Culture Documents
محبت الہی
محبت الہی
سے آدم ؑ کو مٹی سے بنایا اور ان کی زوجہ حو ؑا کو پیدا فرمایا اور پھر ان دونوں
سے انسانوں کی نسل جاری فرمائی۔ ہللا نے انسانوں اور جاندار مخلوقات کے لئے
طرح طرح کے رزق اور نعمتیں پیدا کیں اور وہی مشکل کشا ،حاجت روا ار فریاد
َرس ہے۔
تعالی ہے: ٰ ارشا ِد باری
ص ۡوہَاّٰللاِ ََل ت ُ ۡح ُ َو ا ِۡن تَعُد ُّۡوا ِنعۡ َم َۃ ہ
اور اگر تم ہللا کی نعمتوں کو شمار کرنا چاہو تو شمار نہیں کر سکتے۔ (النحل)۱۸ :
بے شمار نعمتوں اور فضل و کرم والے رب سے محبت کرنا ہر انسان پر فرض
ہے۔
تعالی ہے: ٰ ارشاد باری
شدُّ ُحبًّا ِ ّ ہِّلِ ؕ َوالَّذ ِۡینَ ٰا َمنُ ۡۤۡوا ا َ َ
اور اہ ِل ایمان سب سے زیادہ ہللا سے محبت کرتے ہیں۔ (البقرۃ)۱۶۵:
رسول ہللا ﷺ نے فرمایا:
ہللا تمھیں جو نعمتیں کھالتا ہے ان کی وجہ سے ہللا سے محبت کرو اور ہللا کی
محبت کی وجہ سے مجھ سے محبت کرو اور میری محبت کی وجہ سے میرے اہ ِل
بیت سے محبت کرو۔ (سنن الترمذی۳۷۸۹ :و سندہ حسن ،ماہنامہ الحدیث )۲۶:
تعالی فرماتا ہے: ٰ ہللا
ک ُر ۡوا ِ ہِّلِ اِ ۡن ُک ۡنت ُ ۡم اِیَّاہُ ت َعۡ بُد ُۡونَ َو ۡ
اش ُ
اور ہللا کا شکر ادا کرتے رہو اگر تم صرف اسی کی عبادت کرتے ہو۔ (البقرۃ:
)۱۷۲
تعالی کا ذکر کیا جاتا ہے تو ان کے دلٰ (کامل) مومن وہ ہیں جب اُن کے سامنے ہللا
لرز جاتے ہیں۔ دیکھئے سورۃ اَلنفال ()۲
نبی ﷺ کا ارشا ِد مبارک ہے کہ (ثالث من کن فیہ وجد حالوۃ اإلیمان :أن یکون ہللا و
رسولہ أحب إلیہ مما سواھما وأن یحب المرء َل یحبہ إَل ہلل و أن یکرہ أن یعود فی
الکفر کما یکرہ أن یقذف فی النار)جس شخص میں تین چیزیں ہوں تو اس نے ایمان
کی مٹھاس پالی( :اول) یہ کہ اس کے نزدیک ہر چیز سے زیادہ ہللا اور رسول
محبوب ہوں(دوم) وہ جس سے محبت کرے صرف ہللا ہی کے لئے محبت
کرے(سوم) وہ کفر میں لوٹ جانا اس طرح ناپسند کرے جیسے وہ آگ میں گرنا
ناپسند کرتا ہے۔ (صحیح بخاری ،۱۶ :صحیح مسلم)۴۳:
تعالی اس سے بہت زیادہ اپنے
ٰ ایک ماں جتنی اپنے بچے سے محبت کرتی ہے ہللا
بندوں سے محبت کرتا ہے۔ دیکھئے صحیح بخاری( )۵۹۹۹و صحیح مسلم()۲۷۵۴
تعالی ہے :میرے بندوں کو بتا دو کہ بے شک میں گناہ معاف کرنے واَل
ٰ ارشا ِد باری
اور رحم کرنے واَل ہوں۔(الحجر)۴۹:
تعالی فرماتا ہے: ٰ ہللا
ع ٰلی ا َ ۡنفُس ِِہ ۡم ََل ت َ ۡقنَ ُ ۤۡ
بّٰللاَ َی ۡغ ِف ُر الذُّنُ ۡو َ ط ۡوا ِم ۡن َّر ۡح َم ِۃ ہ
ّٰللاِ ا َِّن ہ ِی الَّذ ِۡینَ ا َ ۡس َرفُ ۡوا َ
قُ ۡل ٰی ِعبَاد َ
َج ِم ۡیعًا اِنَّہ ہ َُو ۡالغَفُ ۡو ُر َّ
الر ِح ۡی ُم
(میری طرف سے) کہہ دو :اے میرے (ہللا کے ) بندو!جنھوں نے اپنی جانوں پر
ظلم کیا ہے ،ہللا کی رحمت سے مایوس نہ ہو جاؤ بے شک ہللا (شرک کے سوا)
سارے گناہ معاف فرماتا ہے ،بے شک وہ غفور الرحیم ہے۔ (الزمر)۵۳ :
یہاں ہمیں غور کرنا چاہئے کہ وہ کونسے اسباب ہیں جو ہللا کی محبت دل میں پیدا
کرتے ہیں؟
فرمان
ِ )1سب سے پہلے ہللا کی َل تعداد و بے شمار انعام کردہ نعمتوں کو جانیں،
باری تعالی ہے َ :وإِ ْن تَعُدُّوا نِ ْع َمةَ َّ
ّٰللاِ ََل ت ُ ْح ُ
صوھَا اور اگر تم ہللا کی نعمتیں
گننا[ ] ۱۹چاہو تو کبھی ان کا حساب نہ رکھ سکو گے[ النحلَ ،]18 :وأ َ ْحس ِْن َك َما
ّٰللاُ إِلَی َْك اور لوگوں سے ایسے ہی احسان کرو جیسے ہللا تمہارے ساتھ سنَ َّ أ َ ْح َ
بھالئی کی ہے[ القصص]77 :
)2ہللا کے اسماء و صفات کے بارے میں علم حاصل کیا جائے؛ جس نے ہللا کو
پہچان لیا اس نے محبت شروع کردی ،اور جو محبت شروع کر دے اسکی
اطاعت بھی کریگا ،اور جواسکی اطاعت کرے اس پر اپنی کرم نوازی بھی
کریگا ،اور جس پر کرم نوازی ہوگئی ؛ اسے اپنے قریب جگہ دے گا ،اور جسے
ہللا کے قریب جگہ مل جائے اسکے تو وارے نیارے ہونگے۔
)3اہم ترین سبب یہ ہے کہ ہللا کی آسمان و زمین پر بادشاہت اور ان میں موجود
مخلوقات وغیرہ پر غور و فکر کیا جائے جنہیں ہللا تعالی نے اپنی قدرت،
جاللت،کمال ،کبرئیائی ،رحمت و لطافت کی نشانی بنایا ہے ،غور و فکر کے
ت الہی میں اضافہ ہوگا؛ اسی قدر محبت سے بھرپور اطاعت میں باعث جتنا معرف ِ
بھی اضافہ ہوگا۔
)4اسی طرح اگر ہللا کے ساتھ تعلق مکمل سچائی اور اخالص پر مبنی ہو اور
نفسانی خواہشات انسان کی راہنما نہ ہوں تو ہللا کی محبت حاصل ہو سکتی ہے۔
ذکر الہی میں مشغول رہنے سے بھی ہللا کی محبت حاصل ہوتی )5کثرت سے ِ
فرمان باری تعالی ہے :أ َ ََل
ِ ہے ،کیونکہ محبوب کی یاد محبت کی عالمت ہے،
وب غور سے سنو! ہللا کی یاد سے دلوں کو سکون ملتا ّٰللاِ ت َْط َمئِ ُّن ْالقُلُ ُ
ِب ِذ ْك ِر َّ
ہے[الرعد]28 :
ہللا تعالی میرے لئے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت واَل بنائے،
مجھے اور آپ سب کو اس سے مستفید ہونیکی توفیق دے ،میں اپنی بات کو اسی
پر ختم کرتے ہوئے ہللا سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا
ہوں ،آپ سب بھی اسی سے اپنے گناہوں کی بخشش مانگیں وہی بخشنے واَل اور
نہایت رحم کرنے واَل ہے۔
ادنی قسم کی محبت ہے، عربی زبان میں محبت کے معنی دل کی چاہت اور قلبی میالن کے ہیں۔ حسی اور جبلی محبت ٰ
اعلی قسم کی محبت عقلی اور شعوری محبت ہے جس کی بنیاد فضیلت ہے۔ ٰ جب کہ
تعالی کی محبت سب محبتوں پر فائق ہو۔ ٰ عقلی اور شعوری محبت اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ ہللا
تعالی کی رضا کےٰ تعالی کے لیے بغض رکھا ،اور ہللا ٰ تعالی کے لیے محبت کی اور ہللا ٰ ث مبارکہ ہے ’’جس نے ہللا حدی ِ
تعالی کے لیے روکا تو اس نے ایمان مکمل کیا۔‘‘ ٰ ہللا اور کیا عطا لیے
تعالی ماں
ٰ تعالی بھی اپنے بندے سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں ،ماں کی محبت مثالی ہوتی ہے اور ہللا ٰ چونکہ ہللا
سے بھی کئی گنا زیادہ محبت کرتے ہیں تو بندے کا بھی فرض ہے کہ وہ جس سے محبت کرے ہللا کی رضا کے لیے
کرے۔
قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے ’’اور جو ایمان والے ہیں وہ ہللا کی محبت زیادہ سخت رکھتے ہیں۔‘‘ ہللا کی خاطر محبت
ث مبارکہ سے کیا جاسکتا ہے۔ کرنے والوں کا مرتبہ بہت بلندہے ،اس کا اندازہ اس حدی ِ
تعالی کے بندوں میں سے کچھ ایسے لوگ ہیں جو نہ نبی ہیں نہ شہید، ٰ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہللا
تعالی کے ہاں ملے گا۔‘‘ ٰ پھر بھی انبیاء اور شہدا قیامت کے دن ان کے مرتبے پر رشک کریں گے جو انہیں ہللا
لوگوں نے کہا کہ ’’اے ہللا کے رسول صلی ہللا علیہ وسلم وہ کون لوگ ہوں گے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا ’’یہ وہ لوگ ہوں
گے جو آپس میں ایک دوسرے کے رشتے دار نہ تھے اور نہ آپس میں لین دین کرتے تھے بلکہ محض خدا کے دین
کی بنیاد پر ایک دوسرے سے محبت کرتے تھے۔ بخدا ان کے چہرے نورانی ہوں گے اور ان کے چاروں طرف نور ہی
نور ہوگا۔ انہیں کوئی خوف نہ ہوگا اُس وقت جب لوگ خوف میں مبتال ہوں گے ،اور کوئی غم نہ ہوگا اُس وقت جب
لوگ غم میں مبتال ہونگے۔‘‘
پھر آتا ہے کہ انسان کسی سے بغض رکھے تو ہللا کے لیے رکھے ،یعنی اگر مومن کسی سے دشمنی رکھے تو صرف
اس بات پرکہ اگر وہ ہللا کے دین کے خالف ہو۔ اس کی بہترین مثال صحابہ کرامؐ تھے جو مکہ مکرمہ میں اپنے
قریبی رشتے داروں ،اور کئی تو اپنے بیوی بچوں کو بھی چھوڑ کر آگئے تھے۔ جنگِ بدر میں مومن اپنے قریبی
تعالی کے دین اور ہللا کے رسولؐ کے دشمن تھے۔ ٰ رشتے داروں ،اپنے بھائیوں سے لڑ رہے تھے ،کیونکہ وہ ہللا
جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے ’’الحب ہللا وبغض ہللا۔
اسی طرح اگر مومن ہللا کی راہ میں کچھ دیتا ہے یا دینا چاہے تو اس کی غرض و غایت صرف ہللا کی رضا ہونی
چاہیے نہ کہ ریاکاری ،دکھاوا یا کوئی ذاتی مفاد۔
زکوۃ ،صدقہ ،خیرات ،مساجد کی امداد اور جہادی فنڈ وغیرہ صرف اُسی وقت قبول ہوتے ہیں اور خیر و برکت و ہماری ٰ
تعالی کی رضا ہوتی ہے۔ ٰ ہللا مقصود سے ان جب ہیں بنتے باعث ثواب کا
تعالی کی رضا شامل ہونی ٰ اور اسی طرح حدیث کے آخری حصے میں آتا ہے کہ کسی کی امداد روکنے میں بھی ہللا
چاہیے ،یعنی کسی دوست کو مالی امداد دی جاتی ہو اور پتا چلے کہ وہ اس امداد کو برائی کے راستوں پر خرچ کرتا
ہے تو اس کی امداد بند کردو ،ہللا کی رضا کے لیے۔
اس حدیث ِمبارکہ سے واضح ہوتا ہے کہ مومن کا ہر کام ،ہر عمل ہللا کی رضا کے لیے ہونا چاہیے۔ ان طریقوں پر
عمل کرکے ہی انسان ہللا کی قربت اور محبت کی بلندیوں کو چھو سکتا ہے۔
دلوں کو معرفت کے نور سے ت ُو نے کیا روشن
دکھایا بے نشاں ہو کر اپنا نشاں ت ُو نے
حضرت ابوذرؐ بیان کرتے ہیں کہ رسو ِل خدا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ’’افضل ترین عمل یہ ہے کہ ہللا ہی کے
لیے دوستی رکھی جائے اور ہللا ہی کے لیے دشمنی رکھی جائے۔‘‘
یعنی کسی سے محبت کی جائے تو اس لیے کہ ہللا کو ایسا کرنا پسند ہے ،مثالً جیسے رسولؐ سے محبت ،صحابہ
کرامؐ سے محبت ،نیک ل وگوں سے محبت ،والدین ،رشتے داروں سے محبت وغیرہ۔ اور ایسے ہی کسی سے نفرت ہو
تو کسی ذاتی غرض کے لیے نہ ہو مثالً اُس مشرک سے نفرت کرنا جو سمجھانے کے باوجود شرک سے باز نہیں آتا،
اُس بدزبان سے نفرت کرنا جو سمجھانے بجھانے کے باوجود ہر ایک کی عزت خراب کرتا ہو۔
تعالی قیامت کے دن فرمائے گا کہ ٰ حضرت ابوہریرہؐ بیان کرتے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہللا
کہاں ہیں وہ لوگ جو میری بزرگی اور عظمت کے خیال سے ایک دوسرے سے محبت رکھتے تھے۔ آج کے دن جب کہ
میرے سائے کے سوا کوئی سایہ نہیں میں انہیں اپنے سائے میں جگہ دوں گا۔‘‘ (مسلم)
تعالی کی محبت کا جگہ پکڑ لینا وہ خوش بختی ہے کہ جب یہ حاصل ہوجائے تو یہ دنیوی زندگی ٰ ہمارے دلوں میں ہللا
ب الہی کا جذبہ دنیوی زندگی کی مشکالت و مصائب کی شدت اور اذیت کو بے انتہا ٰ بہشت بن جاتی ہے ،یعنی جب ُح ِِّ
ب ٰالہی کا جذبہ ح
ُ ِِّ ہیں سمجھتے مصیبتیں بڑی لوگ عام جنہیں واقعات و حادثات ایسے کمزور کردیتا ہے اور بہت سے
ب الہی کا جذبہ ایک ایسا مخلص ،ہمدرد اور دل ٰ رکھنے والوں کے لیے سرے سے مصیبتیں بنتی ہی نہیں۔ غرضیکہ ُح ِِّ
سوز رفیق ہے جو ہر دم ساتھ رہتا ،ہر پریشانی میں دل جوئی کرتا ،ہر بے کار غم سے بچاتا اور ہر کارآمد غم میں
ب ٰالہی کو دل کی تمام بیماریوں کا عالج بتایا ہے اور فرماتے ہیں: سہارا بنتا ہے۔ موالنا رومؐ نے ُح ِِّ
عشق خوش سودائے ما ِ شاد باش اے
ب جملہ علِّت ہائے ما
اے طبی ِ
"ہللا کی محبت ایسا مقام ہے کہ جس میں تمام رغبت کرنے والے رغبت کرتے
رہتے ہیں ،اس کی خاطر تمام سبقت لے جانے والے مستعد و کمربستہ رہتے ہیں،
اور اسی بلند مرتب قائم و فائز رہ کر محبت کرنے والوں نے اپنی زندگیوں کو فنا
کر دیایہ قلوب و أرواح کی غذا ہے ،اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے .
اور یہ ایک ایسی زندگی ہے کہ اس سے محروم رہنے والوں کا شمار ُمردوں میں
ہوتا ہے .یہ ایک ایسا نور ہے جسے کھو دینے واَل ہمیشہ تاریکیوں کے سمندر
میں غوطے کھاتا رہتا ہے .یہ ایک ایسی شفاء ہے کہ جس کے نا ہونے سے تمام
بیماریاں دل پر حملہ آور ہوتی ہیں ،یہ ایک ایسی لذت ہے ،جو اسے حاصل
کرنے میں کامیاب نا ہو سکا ،اس کی پوری زندگی ہموم و غموم اور تکالیف و
آَلم کی آئینہ دار بن جاتی ہے
ہللا کی محبت ایمان و اعمال اور مقامات و احوال کی روح ہے .کہ اس سے
محروم رہنے والی پر چیز اس جسم کی مانند ہے جس میں روح نا ہو ،یہ محبت
راہ چلتوں کے بوجھ اٹھا کر انہیں بآسانی منزل مقصود پر پہنچا دیتی ہے .اور
ایسے منازل تک پہنچانے کے شرف سے مشرف کرتی ہے اگر محبت نہ ہوتی
وہاں تک پہنچنے کا کوئی تصور نا ہوتا ،اور یہ محبت جنت میں ایسے مقام پر
پہنچا دیتی ہے کہ اس کی عدم موجودگی میں جنت کا داخلہ نا ممکن ہوتا.
ہللا کی قسم! ہللا سے محبت کرنے والے دنیا و آخرت کے شرف کے خزانے
سمیٹ گئے ،اور ہللا تعالی نے اپنی مشیت اور حکمت بالغہ کے ساتھ اسی دن یہ
فیصلہ فرما دیا تھا جس دن تمام خالئق کی تقدیریں لکھیں کہ انسان قیامت کے دن
اس کے ساتھ ہو گا جس کے ساتھ دنیا میں محبت ہو گی .تو محبین صادقین( ہللا
سے اچھی محبت کرنے والوں کے لیے یہ کتنی عظیم نعمت ہے)
محبت الہی کے دس اسباب۔
3.ہر حال میں زبان و قلب اور عمل و حال کے ساتھ ہللا کے ذکر پر ہمیشگی
کرنا۔
4.خواہشات کے غلبے کے وقت ہللا کی پسند کے آگے اپنی پسند کو قربان کرنا،
اور ہللا کی پسند کی طرف مائل ہو جانا ،اگرچہ یہ آسان کام نہیں ہے۔
5.حضورے قلبی کے ساتھ ہللا کے اسماء و صفات کا مطالعہ کرنا ،اور انکا
مشاہدہ کرتے ہوئے معرفت حاصل کرنا۔
7.ان اسباب میں سب سے بہترین یہ ہےکہ ہللا کے سامنے دلوں کو مکمل عاجز
بنا لینا۔
8.ہللا رب العزت کے (آسمان دنیا پر) اترنے کے وقت خلوت اختیار کرنا۔
10.دل اور ہللا کے درمیان حائل ہونے والے اعمال سے دوری اختیار کرنا۔