Professional Documents
Culture Documents
XI Islamiat Urdu 2021-2022
XI Islamiat Urdu 2021-2022
121
تعارف قرآن وحدیث چہارم
1 / 131صفحہ نمبر
) 71 ،70:
"اے ایمان والو ! ڈرتے رہو ہللا سے اور کہو بات سیدھی کہ سنوار دے تمھارے واسطے تمھارے کام
اور بخش دے تم کو تمھارے گناہ اور جو کوئی کہنے پر چال ہللا کے اور اس کے رسول ﷺکے پائی
بڑی مراد "۔
ٌَ
ة َسَن
ة ح ُسو
ٌَ َسُول
ِ للااِ ا ِى ر ُم فَ َلك
َانَد ك َ )2لق
االحزاب ) 21 : (
"بے شک تم لوگوں کے لیے رسول ہللا ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے "۔
ُوا َر
َّق تف ََّ
ال ًَاو ِيع َم َبل
ِ للااِ ج ِحُوا ب َص
ِم َاعت )3و
آل عمران ) 103: (
"اورمضبوط پکڑو رسی ہللا کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو ۔"
ٰك
ُم َتق
أ للااِ ِنَ
د ع ُممك َكر
ََ أ َِّ
ن )4إ
الحجرات )13 : (
"بےشک تم میں سے ہللا کے ہاں وہی زیادہ عزت کا مستحق ہےجو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے ۔"
ّالُول
ِی ٰتٍ ِ َِالٰي َّه
َارَالن ِ و ِالَفِ َّ
اليل َاختض و َاألَرِ
ٰتِ و ِ السَّم
ٰو َلق ِى خ َّ فِن )5إ
(آل عمران ) 190 : َ َ
االلبابِ
"بے شک آسمان اور زمین کے بنانے میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے
لیے ۔"
ُّ َ
ون ِب ُ
تح َّا
ِمم ُواِق
تنف ُ َّى
ٰ َت ح َّ
ِر الب َ ُ
الوا تنَ َ )6لن
( آل عمران ) 92 :
"تم ہرگز نیکی میں کمال حاصل نہ کرسکو گے جب تک اپنی پیاری چیزمیں سے خرچ نہ کرو ۔"
ُواَانت
َه ُ ف َنهُم ع
َاك ما َ
نه ََ َخُُ
ذوُ
ه و ل ف َّسُوُ
ُ الرُم
تاكمآ آَ ََ
)7و
( الحشر ) 7 :
"اور جو دے تم کو رسول ﷺ سو لے لو اور جس سے منع کرے اسے چھوڑ دو ۔"
َر
ِ َالم
ُنك و َحشَآِ
ء الف َنِ
ع هى
ٰ َ
تنَ َٰ
ة َّلو
الص َِّ
ن )8إ
العنکبوت ) 45 : (
"بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی اور بُری بات سے "۔
َى
ٰ ُخر
َ أ ٌ و
ِزر َة َاز
ِر ُ و ِر َالَ َ
تز ها وليَ ََِالَّ ع ُّ َ
نفسٍ إ ُل ُ ك
ِبتكس َالَ َ
)9و
( االنعام ) 165 :
"اور جو کوئی گناہ کرتا ہے ،سو وہ اس کے ذمہ ہے اور بوجھہ نہ اٹھائے گا ایک شخص دوسرے کا "۔
َاإلحسَان َدل
ِ و ِالعُ بمريأُ َِّ
ن للااَ َ )10إ
( النحل ) 90 :
"بے شک ہللا حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھالئی کرنے کا "۔
2 / 131صفحہ نمبر
منتخب احادیث
َی
ٰ م َ
انو ِیء َّ ّ امر ُل
ِ َا ِ
لک َِّ
نم َ ا
َّاتِ وّي
ِ
ِالن ُ ب َالَا االَعم )1اَّ
ِنم
(بخاری ،مسلم ،ابو داؤد ،نسائی ،ابن ماجہ ،
اصول کافی )
"بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ اور بے شک انسان وہی کچھ پائے گا جو اس نے نیت کی ہوگی "۔
االَخالَق
ِ َ
ُسن
ح َ
ِمّ
تمَ ِالُ ُ
ِثت ُ
بع َا )2اَّ
ِنم
( مؤطا امام مالک )
اعلی اخالق کی تکمیل کروں" ۔
ٰ "بے شک مجھے اس لیے رسول بناکر بھیجا گیا ہے کہ میں
َّاسِ
َالن ِه و ََلدَ وِه و َّاِ
لد ِن و ِ م َّ اَ
ِليہ َح
َب َ اُون َکّٰی ا ُم ح
َت د ک َح
َُ ُ اِنيؤم )3الَ ُ
( بخاری ،مسلم ) َ ۔ِين َجم
َع ا
"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اسکے والدین اور اوالد اور
سب لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں"۔
ِہَفس لنُّ ِ
ِب ما ُ
يح ِ َِيہَّ ِالَخ
ِب ّٰی ُ
يح َتُم حدکَُُ اح ِن
يؤمالَُ )4
( بخاری ،ترمذی ،نسائی ،ابن ماجہ
،سنن دارمی ،مسند احمد بن حنبل ،اصول
کافی )
"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہ چیز پسند نہ
کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے "۔
ِه
يدَ َِہ و لسَانِن ّ
ِ ُ َ
ون م ِم َ الم
ُسل من سَل
ِم ُ َ ُسل
ِم َلم )5ا
( بخاری ،مسلم ،نسائی ،سنن
دارمی ،مسند احمد بن حنبل ،اصول
کافی )
"مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں "۔
َّاسَ
الن ُ
َم َ
يرح َّ
ال من َ للااُ ُہ
َُميرح َ )6
الَ
(مسلم ،ترمذی ،مسند احمد بن حنبل )
تعالی اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا "۔
ٰ "ہللا
ُہ
ِرضَ ع الہ و م ُ
َ َ مہ و ٌ َ
دُ َام َر
م ح ُسل
ِِ لی الم ََ ِم
ِ ع ُسلُّ المُل )7ک
(ابن ماجہ ،مسند احمد بن حنبل )
" ہر مسلمان کا سب کچھ دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔ اس کا خون ،اس کا مال ،اور اس کی عزت "۔
دَص
ََ منِ اقت َاَ
ل َ َ )8
ما ع
(مسند احمد بن حنبل ،اصول کافی
)
"جس نے میانہ روی اختیار کی وہ محتاج نہیں ہوگا "۔
3 / 131صفحہ نمبر
ََّ
ۃ َن ُق
ِ الج ُر
ِن طًا مِيقَر َکَ للااُ ب
ِہ ط ًا سَل ِلم ِ عِيہُ فلبيطُ
ًا َ لکَ طر
ِيق من سََ َ )9
( بخاری ،ابو داؤد ،ترمذی ،ابن ماجہ )
تعالی اسے جنت کے راستوں میں سے کسی
ٰ "جو شخص علم کی تالش میں کسی راستے پر چلتا ہے تو ہللا
راستے پر لے جاتا ہے" ۔
ََ
د َج
و ِنہ
ً
ُ ًا ّ
م ٰ شَيئَکیِنِ اشت ِ ا َاح
ِد ِ الو َسَدَالجِنِ ک ُوا الم
ُؤم َخ
ُ ا َلم
ُؤم
ِن )10ا
ِهَسَد
ِ ج ِی سَآئ
ِر ِک فَ ٰ
َ ذل َ
المَ
(مسلم ترمذی احمد بن حنبل ،
اصول کافی )
صہ بھی تکلیف میں مبتال
"ہر مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے ۔ جیسے ایک جسم ۔ اگر کوئی جسم کا کوئی ح ّ
ہو تو وہ اپنے سارے جسم میں تکلیف محسوس کرے گا "۔
باب اول
4 / 131صفحہ نمبر
بنیادی عقائد ۔توحید
۔رسالت
۔مالئکہ
۔آسمانی کتب
۔یوم آخرت
۔تقدیر
5 / 131صفحہ نمبر
شریعت کی اصطالح میں ہللا کی وحدانیت ،رسالت اور آخرت وغیرہ کا زبان سے اقرار کرنے
کے بعد ان پر دل سے پختہ یقین قائم کرلینا ایمان کہالتا ہے۔
ایک فرد کی ذات کی تربیت اور اس کے اعمال کی بنیاد ایمان پر ہوتی ہے۔ ایمان دین کا ایک
بنیادی جزء ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس دین پر عمل پیرا ہونے کا راستہ فراہم ہوتا ہے۔
)3کفر :کفر کے معنی انکار کرنا ،بے دینی اختیار کرنا ،ناشکری کرنا اور حق کو تسلیم نہ کرنے کے
ہیں۔
شریعت کی اصطالح میں ہللا اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کو تسلیم نہ کرنے
اور ان کا انکار کرنے کا نام کفر ہے۔
ہللا رب العزت نے کفار کے انجام کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
ِيها ُم ف َّار ھ ُ الن َصح
ٰب ولئکَ ا ُ ٰ ِنا ا يتِٰٰابوا ب َذُ َکُوا و َرَف
َ ک ِين َالذ و
دونُِٰلخ
ترجمہ:اور جو لوگ کفر کا ارتکاب کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹالئیں گےوہ دوزخ والے لوگ ہیں
جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔
”عقد“ سے نکال ہے جس کے معنی گرہ لگانے کے ہوتے )4عقیدہ :عقیدہ عربی زبان کے لفظ
ہیں۔ ان بنیادی نظریات اور خیاالت کا مجموعہ جنہیں زندگی گزارنے اور اعمال کی راہ منتخب کرنے
کے لئے پختہ طور پر قبول کرلیا گیا ہو ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔شرعی اصطالح میں عقیدہ وہ ہے جس کے
ساتھ دل کو باندہ دیا گیا ہو یعنی دل کی گہرائیوں سے کسی بات کا پختہ یقین رکھنا ،دل و دماغ سے
تسلیم کرنا اور ہر لحاظ سے مطمئن ہونا ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔
)5عقائد اسالم :وہ بنیادی نظریات و خیاالت جو دین اسالم میں انسانوں کی زندگی میں اعمال کی راہ
منتخب کرنے اور ایک مخصوص طرز زندگی اختیار کرنے کے لیئے پیش کئے گئے ہیں وہ عقائد
اسالم یا اسالم کے بنیادی عقائد کہالتے ہیں۔
اسالم کے بنیادی عقائد مندرجہ ذیل ہیں:
۲۔رسولوں پر ایمان ۱۔ہللا پر ایمان
۴۔آسمانی کتابوں پر ایمان ۳۔فرشتوں پر ایمان
۶۔موت کے بعد کی زندگی پر ایمان ۵۔آخرت پر ایمان
۷۔تقدیر پر ایمان
)6توحید:توحید کا لغوی معنی ”ایک ماننا“ ہے۔ شرعی اصطالح میں توحید کا معنی ایک خدا پر یقین
رکھنا ہے۔ ساری کائنات کا مالک اور مختار صرف ایک یعنی ہللا تعالی کو سمجھنا ،اسی پر ایمان النا
اور ہللا تعالی کو ہی عبادت کے الئق سمجھنا عقیدہ توحید کہالتا ہے۔
توحید کا وسیع مفہوم یہ ہے کہ ہللا تعالی اپنی ذات اور صفات میں اکیال ہے ،اس کا کوئی شریک
نہیں ہے ،کائنات اور اس کی تمام چیزیں اس ہی کی تخلیق کردہ ہیں۔ موت و زندگی ،صحت و بیماری،
نفع و نقصان غرض سب کچھ اس ہی کے اختیار میں ہے۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر پیغمبر آخر الزماں
حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیاء کرام نے لوگوں کو توحید کا درس دیا ہے ۔
توحید کی اقسام :توحید کی تین اقسام ہیں :۔
ذات میں توحید
صفات میں توحید
6 / 131صفحہ نمبر
صفات کے تقاضوں میں توحید
تعالی کی طرف سے نیک اور برگزیدہ بندوں کو انسانوں ٰ )7رسالت :رسالت ایک منصب ہے جو ہللا
عالی
کی ہدایت کے لئے عطا کیا جاتا ہے اور اس منصب کے ہمراہ انسانوں کی رہنمائی کے لئے ہللا ت ٰ
کی طرف سے ایک کتاب بھی عطا کی جاتی ہے ۔
معنی " پیغام پہنچانا " اور رسول کے لغوی ٰ معنی :رسالت کے لفظی ٰ رسالت کے لفظی واصطالحی
معنی ہیں " پیغام دے کر بھیجا ہوا یعنی پیغام پہنچانے واال" ٰ
تعالی نے انسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے ٰ ہللا کو جس ہے شخص وہ رسول میں اصطالح کی دین
معنی "خبر دینے واال" ۔ رسول کو ہم ٰ لیے منتخب فرمایا ہو ۔ رسول کو نبی بھی کہتے ہیں ۔ جس کے
پیغمبر بھی کہتے ہیں ،یعنی " پیغام النے واال" ۔
رسالت ملنے سے پہلے بھی رسول کی زندگی اپنی قوم میں بہترین زندگی ہوتی ہے وہ پاکباز ،نرم ُخو ،
تعالی کا پیغام سناتے وقت کوئی اس کو بے اعتبار یا جھوٹا نہ ٰ نیک ،سچا اور امانتدار ہوتا ہے تاکہ ہللا
کہہ سے ۔
ہللا تعالی کا ارشاد ہے:
َسُوالأمۃ ر ّ َّ ُل
ِ ِی ک َا ف َثن بع َد َ ََلق
و
ترجمہ :اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجیے۔ (سورۃ النحل)۳۶ :
معنی ہیں " مہر لگانا ،بند کرنا ،آخر تک پہنچانا ،کسی کام کو پورا ٰ )8ختم نبوت :ختم کے لغوی
کرکے فارغ ہوجانا " ۔
اصطالحی لحاظ سے اس سے مراد یہ ہے کہ نبوت ورسالت کا سلسلہ جو حضرت آدم ؑ سے شروع ہوا
وہ حضرت محمد ﷺ پر ختم کردیا گیا ۔ آپ ﷺ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں ۔ آپ ﷺ کے بعد کسی
شخص کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائےگا۔
عقیدہ ختم نبوت یہ ثابت کرتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ ہللا تعالی کی طرف سے انسانوں کی
رہنمائی کے لئے بھیجے گئے انبیاء میں آخری نبی ہیں۔ حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے
گا۔ حضرت محمد ﷺ کے وسیلہ سے تمام انسانوں کو ایک جامع اور ہمیشہ رہنے والی کتاب قرآن مجید
مہیا کردی گئ ہے جس میں تمام شریعتوں کا خالصہ موجود ہے۔ اس کے بعد انسانوں کو کسی اور رہبر
کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ہللا تعالی نے خود قرآن میں آپ ﷺ کو آخری نبی قرار دیا ہے:
َ َاَ
تم َخَ للاا وَّسُول ِن ر َلکُم و لکَاِ ّج من ر ِِ ّ َدَح با أ ََد أٌَّ
َم محَان ُ ماکَ
ِيين۔ ّبالن
ترجمہ :محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ ہللا کے رسول اور آخری نبی
ہیں۔(االحزاب)۴ ۰ :
آپ ﷺ نے خود بھی اپنے آخری نبی ہونے کا اعالن کیا ہے:
ِی۔ َ
ِیَّ بعد نب ِيين َال َ ّب ُ الن تم َاَ نا خ ََ
أ
ترجمہ :میں آخری نبی ہوں ،میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔
تعالی کے انصاف اور دنیا میںٰ )9عقیدہ آخرت :اسالم کا وہ عقیدہ جو موت کے بعد کی زندگی اور ہللا
کیے گئے اعمال کی بنیاد پر سزا اور جزا کے تصور کی وضاحت کرتا ہے " عقیدہ آخرت " کہالتا ہے
۔ اسالمی ع قائد میں عقیدہ آخرت کو ایک اہم مقام حاصل ہے ۔ قرآن کریم میں اکثر مقامات پرعقیدہ توحید
کے ساتھ ساتھ عقیدہ آخرت پر ایمان النے کا حکم دیا گیا ہے ۔
7 / 131صفحہ نمبر
معنی" بعد میں ہونے والی چیز یا واقعہ"کے ہیں۔آ خرت کا ٰ معنی :لفظ آ خرت کے ٰ آ خرت کے لغوی
لفظ دنیا کا متضاد ہے۔ جس کے معنی ہیں ”قریب کی چیز“۔
معنی :اصطالحی طور پر عقیدہ آخرت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد ہمیشہ ٰ اصطالحی
ُ
عالی اس
کے لئے فنا نہیں ہوجاتا بلکہ اس کی روح باقی رہتی ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا جب ہللا ت ٰ
کی روح کو اس کے جسم میں منتقل کر کے اسے دوبارہ زندہ کردے گا اور پھر انسان کو اس کے نیک
وبد اعمال کا حقیقی بدلہ دیا جائے گا ۔
عقید ٔہ آ خرت سے مرادیہ ہے کہ " ایک دن یہ دنیا فنا ہوجائے گی لیکن انسان مرنے کے بعد
ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فنا نہیں ہوتا اس کی روح باقی رہتی ہے اور دنیا فنا ہوجانے پر اس کو دوبارہ زندہ
کیا جائے گا ،قیامت قائم ہوگی اور ان کے اعمال کا حساب کتاب ہوگا او ر نیک عمل کرنے والوں کا
ٹھکانہ جنت اور برے اعمال کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے "۔
معنی "پیغام رساں " کے ہیں ٰ ک " ہے جس کے )10مالئکہ:مالئکہ کا لفظ جمع ہے ۔ اس کا واحد "مل ٌ
تعالی کے احکام بندوں تک التے اور نافذکرتے ہیں اس لیے انہیں مالئکہ کہا جاتا ٰ ۔ چونکہ یہ فرشتے ہللا
تعالی کی اطاعت کرتے ہیں ۔ٰ تعالی کی نورانی مخلوق ہیں اور ہر حال میں ہللا ٰ ہے ۔ فرشتے ہللا
مالئکہ یا فرشتوں پر ایمان النا ،دین کے بنیادی عقائد میں شامل ہے ۔ مالئکہ گناہ یا خطا سے پاک
ہوتے ہیں اور حسب ضرورت مختلف جسمانی شکلیں اختیار کر سکتے ہیں۔
ان میں سے چار مشہور فرشتے ہیں جن کے کام درج ذیل ہیں :
ان کا کام انبیاء کے پاس وحی النا ہے ۔ ( وحی النا ) ( )1حضرت جبرائیل ؑ :
ان کے ذمے بارشوں اور ہواؤوں کے نظام کی نگرانی ہے ۔ ( )2حضرت میکائیل ؑ :
ان کےذمے قیامت پرپا کرنے اور پھر مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے ( )3حضرت اسرافیل ؑ:
کیلئے ہللا کے حکم سے صور پھونکنا ہے ۔ (صور پھونکنا )
ان کے ذمے روح قبض کرنا ہے ( روح قبض کرنا ) ۔ ( )4حضرت عزرائیل ؑ :
)11صحابی :صحابی کے معنی ہیں صحبت اٹھانے واال ،ساتھ رہنے واال۔ صحابی کی جمع صحابہ
ہے۔
شریعت کی اصطالح میں صحابی سے مراد وہ خوش نصیب شخص ہے جس نے ایمان کی
حالت میں جاگتی آنکھوں سے سرور کونین ﷺ کی زیارت کی ،آپ ﷺ کی رفاقت کا شرف حاصل کیا اور
بحالت ایمان دنیا سے رخصت ہوا۔ نبوت و رسالت کے بعد سب سے بڑا درجہ ”صحابیت“ کا ہے۔
صحابہ کے مقام و مرتبہ کے بارے میں قرآن میں بہت سی آیات موجود ہیں ،ہللا تعالی کی طرف
سے صحابہ کے لیے یہ اعالن ہے کہ ہللا ان سے راضی ہوگیا۔ یہ ان کے بلند مقام کو ظاہر کرتا ہے۔
ارشا ِد باری تعالی ہے:
ہ۔ َنُ ُوا ع َضَر
ُم و َنه
ِیَ للاا عَضر
ترجمہ :ہللا ان سے راضی ہوا اور یہ ہللا سے راضی ہوئے۔(سورۃ البینۃ)۰۸ :
9 / 131صفحہ نمبر
۴۔قرآن مجید :حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا۔
یہ سب کتابیں دین کی بنیادی باتوں میں مشترک تھیں۔ قرآن مجید نے باقی تمام کتابوں کو منسوخ
کردیا۔ اب صرف قرآن کے احکامات پر ہی عمل کیا جاسکتا ہے۔
سوال نمبر:5عمل صالح سے کیا مراد ہے؟
تعالی کے احکام بجا النے کو عمل صالح کہتے
ٰ عمل صالح :اسالم کی رو سے ایمان کی بنیاد پر ہللا
ہیں ۔ قرآن میں ہللا نے عمل صالح کی اہمیت کو یوں بیان کیا ہے:
ب ایمان بھی ہو تو ہم اسے یقینا بہترین
”جو شخص نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت اور صاح ِ
زندگی عطا فرمائیں گے“(النحل)۹ ۷ :
عمل صالح کی اقسام:
۱۔عبادات :عبادت دراصل ہللا کے سامنے انتہائی عاجزی ،محتاجی ،بے کسی اور بے بسی کے
اظہار کا نام ہے۔ عبادت محبت کے جذبہ کے ساتھ معبود کے سامنے دل کو جھکانے کا نام ہے۔ شریعت
زکوۃ وغیرہ جیسے احکام کی بجا آوری عبادت کہالتی ہے۔
کی اصطالح میں نماز ،روزہٰ ،
۲۔معامالت :لغت میں باہم مل جل کر کام کرنے کو معاملہ کہتے ہیں۔ شریعت کی اصطالح میں
معاشرتی حقوق و فرائض کی بجا آوری کو معامالت کہتے ہیں۔
۳۔اخالق :اخالقُ ،خلق کی جمع ہے جس کا معنی ہے عادت۔ شریعت کی اصطالح میں اخالق سے
مراد انسانی سیرت و کردار کی وہ خوبیاں ہیں جو اس کی شخصیت کو نکھارتی ہیں اور ہللا تعالی کو
پسند ہیں۔
سوال نمبر :6کراما کاتبین کسے کہتے ہیں؟
کراما کاتبین :فرشتوں کو ہللا تعالی نے نور سے پیدا فرمایا ہے۔ فرشتوں کی مختلف جماعتیں ہللا تعالی
کی طرف سے مقرر کردہ مختلف امور انجام دیتی ہیں۔ انسانوں کے برعکس فرشتے اپنی ذمہ داریوں
کو بخوبی نبھاتے ہیں اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتتے۔
”کراما“ کے لفظی معنی ”معزز“ کے ہیں اور ”کاتبین“ کے معنی ہیں ”لکھنے والے“۔ کراما
کاتبین بھی فرشتوں کی ایک جماعت ہے جسے ہللا تعالی نے انسان کے اعمال کی نگرانی کے لیے
مقرر فرمایا ہے۔ یہ انسان کے ہر چھوٹے بڑے عمل کو محفوظ کرتے ہیں جو کہ قیامت کے دن اعمال
ناموں کی شکل میں ہر شخص کے سامنے پیش کردئے جائیں گے۔ قرآن پاک میں ہللا تعالی کا ارشاد
پے:
ِين۔ َات
ِب ً ک
َاما َ۔ک
ِر ِين َاف
ِظ ُم َلح َ
َليک ّ ع
ِنَا
و
”بے شک تم پر نگران (فرشتے) مقرر کئے گئے ہیں۔ بہت معزز اور (تمہارے اعمال) لکھنے والے
ہیں۔(االنفطار)۱۰،۱۱ :
سوال نمبر :7تقدیر پر ایمان النے سے کیا مراد ہے؟
تقدیر :تقدیر کے معنی لغت میں اندازہ کرنے کے ہیں مثال اگر مکان بنانے کا ارادہ ہوتا ہے تو پہلے
اس کا نقشہ تیار کرتے ہیں تاکہ مکان کی عمارت اس نقشہ کے مطابق بنائی جائے اسی طرح ہللا تعالی
علم ازلی میں اس عالم کا
نے جب اس دنیا کے بنانے کا ارادہ کیا تو بنانے سے پہلے ہللا تعالی نے اپنے ِ
نقشہ بنایا اور ابتداء سے انتہا تک ہر چیز کا اندازہ لگالیا۔ اس اندازہ خداوندی کا نام تقدیر ہے۔
ہللا تعالی کا ارشاد ہے:
10 / 131صفحہ نمبر
َا۔َدر ّ شَيئ ق ُللکَ للاا َِل َد ج
َع ق
”ہللا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کیا ہے۔“(الطالق)۳:
سوال نمبر :8درج ذیل اصطالحات کے درمیان فرق واضح کریں۔
.2کافر اور منافق .1مومن اور منافق
.4رسول اور نبی .3توحید اور شرک
.6فرشتہ اور جن .5معجزہ اور کرامت
.7قرآن اور دیگر الہامی کتب
منافق مومن
دین اسالم کی
ایک ایسا فرد جو ظاہری طور پر ِ دین اسالم اور اس کی ایک ایسا فرد جو ِ )1
تعلیمات کو قبول کرتا ہو لیکن دل سے ان پر حقیقی تعلیمات پر ظاہری اور باطنی طور پر درست
ایمان نہ رکھتا ہو وہ "منافق" کہالتا ہے۔ اندازسے عمل پیرا ہو "مومن" کہالتا ہے۔
ایک منافق صرف ظاہری طور پر باایمان ہونے کا ایک مومن کا دل حق و صداقت کی روشنی )2
دکھاوا کرتا ہے۔ سے منور ہوتا ہے اس لئے وہ اپنی زندگی
میں قرآن و سنت کی صحیح پیروی کرتا ہے۔
ایک منافق یا تو ضرورت پڑنے پر مسلمانوں کا ایک مومن مسلمانوں کے ساتھ دلی ہمدردی
)3
ساتھ دینے سے دور ہٹ جاتا ہے یا پھر پوشیدہ اور محبت رکھتا ہے اور ہر معاملہ میں اپنے
رہتے ہوئے مسلمانوں کی صفونمیں شامل رہ کر مسلمان بھائیوں کی مدد اور ان سے تعاون
انہیں نقصان پہنچاتا ہے۔ کے لئے تیار رہتا ہے۔
ایک منافق ہمیشہ دھوکہ اور دغابازی سے کام لیتا ایک مومن کبھی دھوکہ باز نہیں ہوتا۔
)4
ہے۔
طرز عمل کی وجہ سے ہللا تعالی کیِ )5ایک مومن نیک اعمال کو اختیار کرتا ہے ،منافق اپنے
اس لئے اسے دنیا میں بھی کامیابی حاصل رحمت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسے دنیا میں بھی
ہوتی ہے اور آخرت میں بھی اس کے لئے ذلت و رسوائی ملتی ہے اور آخرت میں بھی اس
کے لئے فالح نہیں ہے۔ فالح ہے۔
منافق کافر
دین اسالم کی
ایک ایسا فرد جو ظاہری طور پر ِ دین اسالم اور اس کی ایک ایسا فرد جو ِ )1
تعلیمات کو قبول کرتا ہو لیکن دل سے ان پر حقیقی تعلیمات کا برمال اور کھلے طور پر انکار
ایمان نہ رکھتا ہو وہ "منافق" کہالتا ہے۔ کرتا ہو "کافر" کہالتا ہے۔
ایک منافق صرف ظاہری طور پر باایمان ہونے کا ایک کافر کا دل حق و صداقت کی روشنی )2
دکھاوا کرتا ہے۔سے منور نہیں ہوتا ہے اس لئے وہ کھلے
طور پر حق کی مخالفت کرتا ہے۔
اہل ایک منافق پوشیدہ رہتے ہوئے اہ ِل حق کی صفوں ایک کافر کھلے طور پر مدمقابل آکر ِ )3
حق کے ساتھ اپنی دشمنی اور مخالفت کو میں ان ہی جیسا لبادہ اوڑھ کر شامل ہوجاتا ہے اور
انہیں نقصان پہنچاتا ہے۔ ظاہر کرتا ہے۔
کافر حق و صداقت کا کھال دشمن ہے اس منافق حق و صداقت کا پوشیدہ دشمن ہے او اہ ِل )4
حق کی صفوں میں موجود ہونے کی وجہ سے اس لئے اس کی شناخت آسان ہے۔
11 / 131صفحہ نمبر
کی شناخت آسان نہیں۔
طرز عمل کی وجہ سے ہللا تعالی کی ِ )5کافر اپنے کفر کی وجہ سے آخرت میں ہللا منافق اپنے
رحمت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسے دنیا میں بھی تعالی کے عذاب کا مستحق ٹہرتا ہے۔
ذلت و رسوائی ملتی ہے اور آخرت میں بھی اس
کے لئے فالح نہیں ہے۔
شرک توحید
توحید کے لغوی معنی ایک ،اکیال اور تنہا شرک کے لفظی معنی ہے حصہ داری کرنا اور )1
شریک ہونا۔ کے ہوتے ہیں۔
ہللا تعالی کو اس کی ذات ،صفات اور صفات ہللا تعالی کی ذات ،صفات یا صفات کے تقاضوں )2
کے تقاضوں کے لحاظ سے ایک ماننے کا میں کسی اور کو حصہ دار بنانے کا نام شرک ہے۔
نام توحید ہے۔
توحید پر عمل کرنے واال ایمان پر قائم رہتا شرک کرنے والے کا ایمان فاسد ہوجاتا ہے اور وہ )3
بخشش کا مستحق نہیں رہتا۔ ہے اور اس کی بخشش ہوتی ہے۔
توحید ایمان کی بنیاد اور ہللا تعالی کے قرب شرک بہت بڑا ظلم اور گناہ عظیم ہے۔ )4
کا وسیلہ ہے۔
شرک کفر کی بنیاد ہے۔ توحید دین اسالم کا بنیادی عقیدہ ہے۔ )5
نبی رسول
لغت میں رسول کا مطلب ہے پیغام پہنچانے لغت میں نبی کا مطلب ہے خبر دینے واال۔ )1
واال۔
نبی کو نئی کتاب نہیں دی جاتی۔ رسول کو نئی کتاب دی جاتی ہے۔ )2
نبی سابقہ شریعت ہی کی تعلیم دیتا ہے۔ رسول کونئی شریعت عطا کی جاتی ہے۔ )3
رسولوں کی تعداد مشہور قول کے مطابق مشہور قول کے مطابق انبیاء کی تعداد ایک الکھ )4
چوبیس ہزار ہے۔ ۳۱۳ہے۔
ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔ ہر رسول نبی بھی ہوتا ہے۔ )5
کرامت معجزہ
لغت میں عاجز کرنے والی چیز کو معجزہ لغت میں بزرگی اور شرف کو کرامت کہا جاتا ہے۔ )1
کہتے ہیں۔
کوئی غیر یقینی اور خالف عقل کام جو کسی کوئی غیر یقینی اور خالف عقل کام جو کسی ولی )2
رسول یا نبی کے ہاتھ سے ہللا کے وسیلہ کے ہاتھ سے ہللا کے وسیلہ سے ظاہر ہو کرامت
کہالتا ہے۔ سے ظاہر ہو معجزہ کہالتا ہے۔
معجزہ کسی نبی یا رسول کی نبوت یا رسالت کرامت کا ظہور کسی بھی لحاظ سے کسی کے )3
ولی،قطب،ابدال یا اہل ہللا ہونے کی تصدیق کے کی تصدیق کے لیے ظاہر ہوتا ہے۔
لیے نہیں ہوتا۔
معجزہ ایک نبی یا رسول کے دعوے کی کرامت کسی ولی،قطب ،ابدال یا اہل ہللا کی دلیل کی )4
دلیل اور اس کی سچائی کے لیے گواہ ہوتا سچائی کا ثبوت نہیں ہوتا بلکہ یہ ہللا کی قدرت کا
12 / 131صفحہ نمبر
اظہار ہوتا ہے۔ ہے۔
)5معجزہ لوگوں کے طلب کرنے پر ہللا کے کرامت کے ظہور کے لیے لوگوں کی طلب کی
حکم کے مطابق نبی یا رسول کے ہاتھ پر ضرورت نہیں ہوتی۔
ظاہرہوتا ہے۔
جن: فرشتہ:
)1ہللا تعالی کی پیدا کردہ نورانی مخلوق جو ہللا تعالی کی پیدا کردہ وہ ناری مخلوق جو اس
اس کے احکامات کے مطابق اپنے فرائض کائنات میں خودمختار رہ کر زندگی گزارے
"جن" کہالتی ہے۔ سرانجام دے "فرشتہ" کہالتی ہے۔
)2فرشتہ مکمل طور سے نفس سے عاری ہوتا جن ایک نفس کی حامل مخلوق ہے۔
ہے۔
)3فرشتہ ہمیشہ ہللا تعالی کا حکم بجاالتا ہے جن ہللا تعالی کا حکم بجاالنے واال بھی ہوسکتا
ہے البتہ اسے حکم عدولی کا اختیار بھی ہوتا ہے۔ اور اس کی حکم عدولی نہیں کرتا۔
اس لحاظ سے ایک جن نیک یا شریر ہوسکتا ہے۔
ب علم ہوسکتا ہے۔ وہ اپنے علم کو )4فرشتہ صرف اتنا ہی علم رکھتا ہے جتنا کہ جن صاح ِ
ہللا تعالی نے اُسے عطا کیا ہے اور اس علم مختلف مقاصد کے لئے استعمال کرسکتا ہے ۔
کے مطابق وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کرتا
ہے۔
)5فرشتہ چونکہ ہللا تعالی کی حکم عدولی نہیں جن کو چونکہ حکم عدولی کا اختیار حاصل ہوتا
کرتا اس لئے اس سے حساب کتاب نہیں ہے اس لئے اُس کے اعمال کا حساب کتاب ہوگا۔
ہوگا۔
13 / 131صفحہ نمبر
سوال نمبر:1عقیدہ توحید کی وضاحت کیجئے اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات تحریر
کیجئے۔
”عقد“ سے نکال ہے جس کے معنی گرہ لگانے کے ہوتے ہیں۔ عقیدہ :عقیدہ عربی زبان کے لفظ
ان بنیادی نظریات اور خیاالت کا مجموعہ جنہیں زندگی گزارنے اور اعمال کی راہ منتخب کرنے کے
لئے پختہ طور پر قبول کرلیا گیا ہو ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔شرعی اصطالح میں عقیدہ وہ ہے جس کے ساتھ
دل کو باندہ دیا گیا ہو یعنی دل کی گہرائیوں سے کسی بات کا پختہ یقین رکھنا ،دل و دماغ سے تسلیم
کرنا اور ہر لحاظ سے مطمئن ہونا ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔
عقیدہ توحید:توحید کا لغوی معنی ”ایک ماننا“ ہے۔ شرعی اصطالح میں توحید کا معنی ایک خدا پر
یقین رکھنا ہے۔ ساری کائنات کا مالک اور مختار صرف ایک یعنی ہللا تعالی کو سمجھنا ،اسی پر ایمان
النا اور ہللا تعالی کو ہی عبادت کے الئق سمجھنا عقیدہ توحید کہالتا ہے۔
توحید کا وسیع مفہوم یہ ہے کہ ہللا تعالی اپنی ذات اور صفات میں اکیال ہے ،اس کا کوئی شریک
نہیں ہے ،کائنات اور اس کی تمام چیزیں اس ہی کی تخلیق کردہ ہیں۔ موت و زندگی ،صحت و بیماری،
نفع و نقصان غرض سب کچھ اس ہی کے اختیار میں ہے۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر پیغمبر آخر الزماں
حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیاء کرام نے لوگوں کو توحید کا درس دیا ہے ۔
توحید کی اقسام :توحید کی تین اقسام ہیں :۔
یعنی خدا اپنی ذات میں اکیال ہے۔ ۱۔ذات میں توحید:
یعنی اپنی صفات کا واحد مالک ہے۔ ۲۔صفات میں توحید:
ہللا تعالی کی صفات کاملہ تمام نوع انسانی سے ۳۔صفات کے تقاضوں میں توحید:
اس بات کی متقاضی ہیں کہ ایک ہللا کا حکم مانا جائے ،اس ہی کی عبادت کی جائے اور اس ہی کو مدد
کے لئے پکارا جائے۔
تعالی نے جگہ جگہ انسانوں کو توحید کا عقیدہ توحید قرآن کی روشنی میں :قرآن مجید میں ہللا ٰ
درس دیا ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے :۔
ُ
َّحِيم ُ الر ٰن َ الر
َّحم ُوِال ھَ اَّ د َال اٰ
ِلہ َّاحُِ
ُ و ُم اٰ
ِلہ ُک َاٰ
ِله و
( البقرۃ )163 :
" اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں بڑا مہربان نہایت رحم واال ہے"۔
تا " دَ
َسَََِّال للااُ َلفٌ اَۃ لهِٰ
َا ا ِم
ِيه َ فَان " َلو ک
( االنبیاء )22 :
"اگر ان دونوں زمین وآسمان میں ہللا کے عالوہ اور معبود ہوتے تو ان دونوں میں فساد برپا ہوجاتا "۔
اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا :۔
14 / 131صفحہ نمبر
( َہ " ِالَّ و
َجه لکٌ ا َاِء ھ ُّ شَیٍ
ُل " ک
القصص ) 88 :
" ہر چیز اس کی ذات کے سوا فنا ہونے والی ہے "۔
ہللا تعالی اپنی ذات وصفات میں یکتا ہے وہ اکیلی ذات ہے ۔
قرآن مجید میں ارشاد ہے :
ُن َّلہيکََلم َيوَلد و ََلم ُِد و يلد َلم َ ٌََّم َّٰ
ّٰللُ الص د ا َح
ٌَ َ ّٰ
اّٰللُ ا ُو ُل
ُ ھ " ق
( االخالص) د " ٌَ َ
ًا اح ُف
ُو ک
"آپ کہہ دیجئے ہللا ایک ہے ۔ ہللا بے نیاز ہے ۔ نہ اسکی کوئی اوالد ہے ،نہ وہ کسی کی اوالد ہے ۔ اور
نہ کوئی اسکا ہمصر ہے "۔
عقیدہ توحید احادیث کی روشنی میں :رسول ہللا ﷺکی پوری زندگی توحید کی تبلیغ و اشاعت اور
نظام توحید کے قیام میں صرف ہوئی۔ اس مقصد کے لئے آپﷺ نے سخت مصائب برداشت کئے ،رسول
ہللا ﷺ نے زخم کھائے ،دندان مبارک شہید کروائے ،شعب ابی طالب میں قید رہے۔ نت نئے مظالم سہے،
آخر اپنے ہی گھر اور شہر سے ہللا کے حکم پر ہجرت فرمائی ،مگر توحید کا پرچم سرنگوں ہونے نہ
دیا۔ توحید کی اہمیت کے حوالے سے آپ ﷺ کے چند ارشادات درج ذیل ہیں:
۱۔ ”جس نے ال الہ اال ہللا کہا ،جہنم سے نکال دیا جائے گا۔“(صحیح بخاری)
۲۔”جس شخص نے اخالص کے ساتھ ال الہ اال ہللا کہا وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ (صحیح بخاری)
۳۔” اسالم کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے ،اس بات کی گواہی دینا کہ ہللا کے سوا کوئی
معبود نہیں اور محمد ﷺ ہللا کے رسول ہیں،
نماز قائم کرنا ،زکوۃ ادا کرنا ،حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔“ (سننن نسائی)
عقیدہ توحید کے انسانی زندگی پر اثرات:
انفرادی زندگی پر توحید کے اثرات:
عقیدہ توحید انسان کی عملی زندگی میں دیرپا انقالب برپا کرتا ہے اور انسان کی زندگی پر
مندرجہ ذیل اثرات مرتب کرتا ہے۔
1۔جذبہ خودداری :توحید پر یقین رکھنے واال شخص خوددارہوتا ہے اور وہ ہللا کے عالوہ ہر شے
سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ قدرت رکھنے واال ہللا ہے ،باقی سب میرے جیسے
ضعیف ،کمزور اور بے بس انسان ہیں ، ،اس لئے اس کا سر صرف ہللا کے سامنے جھکتا ہے۔ وہ نہ
اپنے جیسے انسانوں کے دروازوں پر حاضری دیتا ہے نہ انسانوں کی بنائی ہوئی بے جان مورتیوں کو
سجدہ کرتا ہے۔ اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کے لئے ایک ہللا ہی کافی ہے۔
2۔عجزوانکساری :عقیدہ توحید سے عجز و انکساری پیدا ہوتی ہے کیونکہ توحید پر یقین رکھنے واال
جانتا ہے کہ وہ ہللا کے سامنے بے بس ہے۔ اس کے پاس جو کچھ ہے سب اسی کا دیا ہوا ہے۔ جو ہللا
دینے پر قادر ہے وہ چھین لینے پر بھی قادر ہے۔ لہذا بندے کے لئے تکبر و غرور کی کوئی گنجائش
نہیں ہے۔ اسے تواضع ہی زیب دیتا ہے۔
.3بے خوفی اور بہادری :عقیدہ توحید انسان کو بے خوف بنادیتا ہے اور اس عقیدہ کی وجہ
سے اسکے دل سے لوگوں کا خوف نکل جاتا ہے اور وہ استقامت اور بہادری کی تصویر بن جاتا ہے ۔
4۔وسعت نظری :عقیدہ توحید کا قائل تنگ نظر اور تنگ دل نہیں ہوتا کیونکہ وہ اس رحمن و رحیم پر
ایمان رکھتا ہے جو کائنات کی ہر چیز کا خالق اور سب جہانوں کا پالنے واال ہے۔ اس کی رحمت سے
15 / 131صفحہ نمبر
سب فیضیاب ہوتے ہیں۔ اس عقیدہ کے نتیجہ میں مومن کی ہمدردی ،محبت اور خدمت عالمگیر ہوجاتی
ہے۔
5۔رجائیت(پر امید ہونا) :کامیاب انسان کی زندگی بیم و رجاء یعنی خوف اور امید کے درمیان چلتی
ہے۔ عقیدہ توحید کا حامل شخص کسی حال میں مایوس نہیں ہوتا بلکہ دکھ اور سکھ دونوں کو ہللا کی
جانب سے سمجھ کر صبروشکر کا مظاہرہ کرتا ہے کیونکہ ہللا تبارک و تعالی کا حکم ہے:
َۃ
ِ للاا َّحم
ِن ر ُوا م َط تقن َال َ
ترجمہ :ہللا کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔
چنانچہ عقیدہ توحید رکھنے واال شخص مایوسی کو باالئے طاق رکھ کر ہللا کے دربار میں سجدہ
ریز ہوکر اپنی حاجت روائی کے لئے دعا کرتا ہے۔
6۔اطمینان قلب :انسانوں کے دلوں کا سکون واطمینان ہللا کے ذکر ہی میں پوشیدہ ہے۔ جیسا کہ ہللا
تعالی کا ارشاد ہے:
ُوب ُل
ّ الق َئُ
ن ِللاا تطم ِکرِذ ََالب
ا
ترجمہ:خوب سمجھ لو کہ ہللا کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ (سورۃ الرعد)۲ ۸ :
عقیدہ توحید رکھنے واال شخص ہر وقت ذکر میں مشغول رہ کر اپنے دل کو مطمئن رکھتا ہے۔
7۔تہذیب نفس:انسانی نفس ہر حال میں تہذیب و تنقیح کا محتاج ہوتا ہے۔ عقیدہ توحید انسانی نفوس میں
سے غیر ہللا کے اثرات کو ختم کرکے انسان کی تہذیب میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔
8۔ تقوی اور پرہیزگاری :عقیدہ توحید سے انسان کے دل میں پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے کیونکہ ہر
مومن کا عقیدہ ہے کہ ہللا تعالی تمام ظاہر و پوشیدہ باتوں کا جاننے واال ہے اگر بندہ چھپ کر کوئی جرم
کرلے تو ممکن ہے کہ لوگوں کی نگاہوں سے چھپ جائے مگر ہللا کی نظر سے نہیں چھپ سکتا
کیونک ہ وہ تو دلوں کے ارادوں کو بھی جانتا ہے۔ یہ ایمان انسان میں یہ جذبہ پیدا کرتا ہے کہ وہ خلوت و
جلوت میں کہیں بھی گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور ہمیشہ نیک اعمال بجا الئے۔اس تقوی کے سبب ہللا
تعالی اپنے فضل و کرم سے اس کے ہر کام میں آسانیاں پیدا فرماتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
ً
َجا مخر ہ ََل َلُ يجعِ للاا ََّق
يتمن َّ ََو
ترجمہ :اور جو کوئی ہللا سے ڈرے گا ،ہللا اس کے لئےمشکل سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا۔
(سورۃ الطالق)۲:
9۔ہللا پر بھروسہ :عقیدہ توحید کے نتیجہ میں مسلمان ہللا پر بھروسہ کرنے لگ جاتا ہے۔ اس کا ہر گز
یہ مطلب نہیں کہ انسان ہر قسم کی کوشش چھوڑ کر بیٹھ جائے بلکہ اچھے مقاصد کے لئے حتی المقدور
کوشش کرے اور نتیجہ کو ہللا پر چھوڑ دے۔
ُہ
ُ َسب َ ح ُو َ َ
َلی للاا فهَکل ع َّ َو
يت من َّ ََ
و
ترجمہ :جو ہللا پر بھروسہ رکھتا ہے تو وہی اس کے لئے کافی ہے۔(سورۃ الطالق)۳:
اجتماعی زندگی پر توحید کے اثرات:
انفرادی زندگی کی طرح عقیدہ توحید کے حامل معاشرہ پر بھی توحید کے گرانقدر اثرات مرتب
ہوتے ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1۔ہللا کی حاکمیت :جس معاشرہ میں رہنے والے عقیدہ توحیدپر یقین رکھتے ہوں وہاں ہللا تعالی کی
حاکمیت قائم ہوتی ہے ۔اسی کے حکم کردہ امور کو حق اور سچ قرار دیا جاتا ہے اور اسی کے منع کردہ
امور کو باطل سمجھ کر ترک کردیا جاتا ہے۔
16 / 131صفحہ نمبر
ُ اَّ
ِالِّٰلل ُکم ِنِ الح ا
ترجمہ :حکم تو صرف ہللا ہی کا (چلتا)ہے۔(سورہ یوسف)۴ ۰ :
پیغام سالمتی ہے۔ ہللا تعالی
ِ 2۔ عالمی امن و اتحاد:یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ اسالم ِ
دین امن اور
کی وحدانیت کا اقرار کرنے والوں سے ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جو عالمی امن و سکون اور
ترقی کی ضمانت دیتا ہے۔ اسالم کا مطلب ہی سالمتی ہے۔ اسالم دراصل ہللا تعالی کی مکمل
فرمانبرداری کا نام ہے اور فرمانبرداری را ِہ امن کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔
ت اسالمی اور وحدت کا درس دیا ہے۔ طلوعِ اسالم 3۔ اخوت (بھائی چارگی):اسالم نے ہمیشہ اخو ِ
سے پہلے عرب نفرتوں اور فرقہ وارانہ فساد میں گھرے ہوئے تھے۔ ذرا ذرا سی باتوں پر تلواریں بے
نیام ہوجاتی تھیں۔ یہ عقیدہ توحید ہی تھا جس کے سبب ان کے پتھر دل موم ہوگئے اور انہیں یہ بات
سمجھ آگئی کہ وہ سب ہللا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ قرآن نے کہا:
ٌ
َةِخوَ ا ُونِن َا المؤم اَّ
ِنم
ترجمہ :بے شک مومن (آپس میں) بھائی بھائی ہیں۔ (سورۃ الحجرات)۱ ۰ :
:عقیدہ توحید مسلمانوں کو ایک مشترکہ نظریہ کی وجہ سے ایک دوسرے کے 4۔اتحاد کا فروغ
ساتھ منسلک کردیتا ہے ۔ اس طرح انسانوں کے باہمی اتحاد اور تعاون کی وجہ سے ایک مستحکم اور
پائیدار معاشرہ وجود میں آجاتا ہے جس میں تمام مسلمانوں کے باہمی اتحاد کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔
.5پرامن معاشرہ :عقیدہ توحید کی بنیاد پر ایک پُر امن معاشرہ قائم ہوتا ہے جس میں شامل تمام افراد
ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ،ایثار اور قربانی کے جذبات رکھتے ہیں ۔
تعالی اور اسکے رسول کے ٰ .6سماجی قوانین کا نفاذ :عقیدہ توحید کو ماننے والے مسلمان ہللا
بتائے ہوئے احکامات کی پیروی کرتے ہیں اور وہ ان تمام احکامات وقوانین کا دل سے احترام کرتے
ہیں جو قرآن اور حدیث میں بیان کیے گئے ہیں ۔
.7شعور کا حصول :عقیدہ توحید تمام مسلمانوں میں یہ شعور اجاگر کرتا ہے کہ ہللا تعال ٰی ان تمام
ظاہری اور پوشیدہ اعمال سے پوری طرح واقف ہے ۔ ہللا نہ صرف ان باتوں کو جانتا ہے جنہیں وہ
ظاہر کردیتے ہیں بلکہ ان باتوں سے بھی واقف ہے جو وہ چھپاتے ہیں اس لئے تمام انسان معاشرے میں
ایک متوازن زندگی گذارنے کی طرف راغب ہوجاتے ہیں ۔
.8انتشار اور تصادم کا خاتمہ :عقیدہ توحید کو ماننے کی وجہ سے معاشرے سے انتشار اور تصادم
کا خاتمہ ہوجاتا ہے کیونکہ یہ عقیدہ اپنے ماننے والوں کو پیار ،محبت اور ایثار کا درس دیتا ہے۔
.9تہذیبوں کا میل :عقیدہ توحید میں وہ طاقت ہے کہ وہ اس پوری دنیا جو مختلف تہذیبوں میں تقسیم
ہوچکی ہے یکجا کردے اور اس پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنادیتا ہے ۔ جب مختلف تہذیبوں سے تعلق
تعالی کی حاکمیت کو تسلیم کریں گے اور اپنے تمام اعمال کو ہللا تعال ٰی کے ٰ رکھنے والے افراد ہللا
احکامات کے تابع کردیں گے تو ان کی سوچ مشترک ہوجائے گی جس کی وجہ سے ان مختلف تہذیبوں
کے درمیان تعاون کی راہ ہموار ہوگی ۔
سوال نمبر :2عقیدہ رسالت کی وضاحت کرتے ہوئے انبیاء کی خصوصیات بیان کیجئے۔
”عقد“ سے نکال ہے جس کے معنی گرہ لگانے کے ہوتے ہیں۔ عقیدہ :عقیدہ عربی زبان کے لفظ
ان بنیادی نظریات اور خیاالت کا مجموعہ جنہیں زندگی گزارنے اور اعمال کی راہ منتخب کرنے کے
لئے پختہ طور پر قبول کرلیا گیا ہو ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔شرعی اصطالح میں عقیدہ وہ ہے جس کے ساتھ
دل کو باندہ دیا گیا ہو یعنی دل کی گہرائیوں سے کسی بات کا پختہ یقین رکھنا ،دل و دماغ سے تسلیم
کرنا اور ہر لحاظ سے مطمئن ہونا ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔
17 / 131صفحہ نمبر
تعالی کی طرف سے نیک اور برگزیدہ بندوں کو انسانوں کی ٰ رسالت :رسالت ایک منصب ہے جو ہللا
الی کی
ہدایت کے لئے عطا کیا جاتا ہے اور اس منصب کے ہمراہ انسانوں کی رہنمائی کے لئے ہللا تع ٰ
طرف سے ایک کتاب بھی عطا کی جاتی ہے ۔
معنی " پیغام پہنچانا " اور رسول کے لغوی
ٰ معنی :رسالت کے لفظی ٰ رسالت کے لفظی واصطالحی
معنی ہیں " پیغام دے کر بھیجا ہوا یعنی پیغام پہنچانے واال" ٰ
تعالی نے انسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے
ٰ دین کی اصطالح میں رسول وہ شخص ہے جس کو ہللا
معنی "خبر دینے واال" ۔ رسول کو ہمٰ لیے منتخب فرمایا ہو ۔ رسول کو نبی بھی کہتے ہیں ۔ جس کے
پیغمبر بھی کہتے ہیں ،یعنی " پیغام النے واال" ۔
رسالت ملنے سے پہلے بھی رسول کی زندگی اپنی قوم میں بہترین زندگی ہوتی ہے وہ پاکباز ،نرم
تعالی کا پیغام سناتے وقت کوئی اس کو بے اعتبار یا جھوٹا
ٰ ُخو ،نیک ،سچا اور امانتدار ہوتا ہے تاکہ ہللا
نہ کہہ سے ۔
ہللا تعالی کا ارشاد ہے:
َسُوال ِ َّ
أمۃ ر ّ ُ
ِی کل َثنا ف َ بع َلقد ََ َو
ترجمہ :اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجیے۔ (سورۃ النحل)۳۶ :
بعض روایتوں میں انبیاء اور رسولوں کی تعداد ایک الکھ چوبیس ہزار بتائی گئی ہے ۔ نبوت اور رسالت
کا یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر آکر ختم ہوگیا اور انہیں قیامت تک تمام انسانوں کے لئے ہادی اور رہبر
بناکر بھیج دیا گیا ۔ تمام انبیاء کرام کی نبوت پر بھی ایمان النا ہر مسلمان پر ضروری ہے ۔
نبی اور رسول میں فرق :
ب شریعت نہیں ہوتے ۔ جبکہ رسول ب کتاب اور صاح ِ نبی اور رسول میں فرق یہ ہے کہ نبی صاح ِ
ب کتاب اور صاحب شریعت ہوتے ہیں ۔ صاح ِ
تعالی نے بندوں کو ان کی طاقت کے مطابق انہیں ایسے کاموں کاٰ رسالت کی ضرورت واہمیت :ہللا
پابند کیا جن میں ان کی بہتری ہو اور ایسے کاموں سے روکا جن میں خود ان کا نقصان ہوتا کہ وہ
احکامات پر عمل پیرا ہوکر سعادت حاصل کریں معاشرہ کی اصالح ہو ۔ اس مقصد کے حصول کے
لئے کسی نہ کسی رسول کا بھیجنا الزمی ہے تاکہ وہ احکام شریعت کی تبلیغ کرے اور انہیں ان امور
کی پہچان کرائے جو ان کی اصالح وبہبود اور دنیا وآخرت کی سعادت کا سبب ہیں ۔ عقل انسانی ان تمام
چیزوں کا ادراک نہین کر سکتی جن میں ان کے لئے اچھائی اور سعادت مندی ہے ۔ لہذا حکمت کا
تعالی کسی نبی یا رسول کو بھیجے تا کہ وہ لوگوں کو شرعی احکام اور ان کے اصول ٰ تقاضا تھا کہ ہللا
وضوابط سے آگاہ کرے ۔
انبیاء کرام کی خصوصیات
انبیاء کرام کی بے شمار خصوصیات ہیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ۔
1۔ بشریتِ :
انبیاء کرام علیہم السالم کی اہم ترین اور ّاولین خصوصیت بشریت ہے۔ ہللا تعالی نے انسانوں
کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے جتنے بھی نبیوں اور رسولوں کو بھیجا وہ انسان تھے۔ کبھی کسی جن یا
فرشتہ کو نبی یا رسول بناکر نہیں بھیجا گیا۔ انبیاء کرام علیہم السالم اگرچہ انسان ہوتے ہیں مگر ہللا
نےانہیں ایس ے اوصاف سے نوازا ہوتا ہے جو دوسروں میں موجود نہیں ہوتے۔ انبیاء کرام علیہم السالم
کے حوالے سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ کوئی پیغمبر انسان نہیں ہوسکتا۔ اس کے جواب
میں ہللا تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایا:
18 / 131صفحہ نمبر
”اگر زمیں میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان کے لئے آسمان سے ضرور کوئی
فرشتہ رسول بناکر بھیجتے(لیکن چونکہ زمین میں انسان رہتے ہیں اس لئے انسانوں میں سے ہی رسول
بناکر بھیجے گئے)۔“(سورۃ بنی اسرائیل)۹ ۵ :
2۔معصومیت:انبیاء کرام کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ تمام انبیاء ہر قسم کے صغیرہ اور کبیرہ
گناہوں سے پاک رہے۔ یہ انبیاء کی ہی خصوصیت ہے کہ نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد انبیاء کرام
سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔ انبیاء کرام کے عالوہ کوئی معصوم نہیں ہے۔
3۔حسن اخالق :انبیاء کا کام لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچانا تھا۔ اگر کسی سے بداخالقی سے پیش آیا
جائے ت و بات ماننا تو دور کی بات وہ بات سننے کو بھی تیار نہیں ہوگا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء
بہترین اخالق کے مالک تھے تاکہ لوگ ان کے قریب آئیں اور خدا کا پیغام سنیں۔
4۔وہبیت”:وہبیت“ کا مطلب ہے کہ نبوت و رسالت کو کوشش اور جدوجہد سے حاصل نہیں کیا جاسکتا
ہے بلکہ یہ تو خدا کا عطیہ ہوتا تھا جو صرف اسی کو ملتا تھا جسے ہللا تعالی دینا چاہتے تھے۔ اس میں
انسانی کوشش اور ارادے کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
يشَاء من َّ ِ َِيہ يؤت َضل
ُ للاا ُ ِکَ فَال ذ
ترجمہ:یہ ہللا تعالی کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے۔(سورۃ الجمعۃ)۴:
5۔زہد و تقوی :اگرچہ نبوت ایک کسبی(خود محنت کرکے حاصل کیا جانے واال) منصب نہیں ہے
لیکن تمام انبیاء کرام نبوت ملنے سے پہلے ہی نہایت برگزیدہ اور متقی اور پرہیزگار ہوتے ہیں۔ وہ عام
انسانوں کی بنسبت کہیں درجہ زیادہ ہللا تعالی کی عبادت اور بندگی کرتے ہیں۔ جیسے آپ ﷺ نبوت ملنے
سے پہلے غار حرا جاکر ہللا کی عبادت کیا کرتے تھے۔
قدر مشترک رہی کہ تمام انبیاء کا ایک ہی نعرہ اور ایک ہی دعوت 6۔ دعوت الی ہللا:تمام انبیاء میں ِ
تھی کہ:
ِلہ اَّ
ِال للاا ُوُلوا َالاٰ ق
”کہہ دو ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں۔“
تمام انبیاء کی ایک ہی دعوت رہی کہ ایک ہللا کی عبادت کرو ،اسی کے حضور سجدہ
ریز رہو ،اسی میں تمہاری کامیابی پوشیدہ ہے۔
7۔بہترین رہنما:ہر نبی اپنی قوم کے لئے ایک مکمل اور بہترین رہنما کا کردار ادا کرتا ہے۔ تمام
انسانوں کی بنسبت ایک نبی میں کہیں زیادہ قائدانہ صالحیتیں ہوتی ہیں جن کو استعمال کرکے وہ اپنی
قوم کی اصالح کی بہترین کوشش کرتا ہے۔
8۔تعلیمات من جانب ہللا :انبیاء و ُرسُل لوگوں کے سامنے جو تعلیمات پیش کرتے رہے وہ ان کی
اپنی طرف سے نہ تھیں بلکہ ہللا تعالی کی جانب سے ہوتی تھیں۔ انبیاء جو کچھ بھی کہتے تھے وہ وحی
حکم ٰالہی کے مطابق ہوتا تھا۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ:
ِ اور
ٰی يوح َحیٌ ُِّال وََّ ا ُو ِن ھ ٰی۔ا َو
َنِ اله ُ عِقينط ما َ ََو
ترجمہ :وہ اپنی خواہش نفس سے کالم نہیں کرتے بلکہ وہ تو وہی کہتے ہیں جو ہللا کی طرف سے وحی
کیا جاتا ہے۔(سورۃ النجم۴:۔)۳
ب ایمان پر انبیاء کی اطاعت واجب ہوتی ہے کیونکہ انبیاء اپنی طرف سے 9۔واجب االطاعت:ہر صاح ِ
کچھ نہیں کہتے بلکہ ہللا کے احکامات ہی لوگوں تک پہنچارہے ہوتے ہیں۔ ارشا ِد باری تعالی ہے:
ِذنِ للاا ِاَ بَاع ُط لي َّسُول اَّ
ِال ِ ِن ر َا م َرسَلن ما ا ََو
19 / 131صفحہ نمبر
ترجمہ :اور ہم نے ہر رسول کو اس لئے بھیجا کہ ہللا کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(سورۃ
النساء)۶ ۴ :
10۔ غلبہ دین کی کوشش:نبوت کااصل مقصد ”اعالئے کلمۃ ہللا“ رہا ،یعنی اس بات کی کوشش کرنا
ادیان باطلہ پر غالب آجائے۔ اس بات کو قرآن
ِ کہ زمین پر ہللا کا قانون جاری ہوجائے اور ہللا کا دین تمام
ان الفاظ میں بیان کرتا ہے:
ّ
َلی الدينِ َ ُ عَهِرُظه ليّ َِقِينِ الح َدُدی وَ ِاله ُ ب َ
َسُولہَ رَرسَلِی ا الذ َ َّ ُوھ
ّ
کلہُ
ترجمہ :وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر
غالب کردے۔(سورۃ الصف)۹:
20 / 131صفحہ نمبر
۳۔ جامعیت:حضور ﷺ سے پہلے تمام انبیاء کی رسالت کسی خاص جگہ ،خاص قوم اور مخصوص
دور کے لئے ہوتی تھی۔ نبی کریم ﷺ پر رسالت کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔اس لئے یہ تاقیامت تمام جہانوں
اور انسانوں کے لئے رسول قرار پائے۔ حضور ﷺ کی تعلیمات اس قدر جامع اور مکمل ہیں کہ تاقیامت
انسان خواہ کسی بھی قوم یا دور سے تعلق رکھتے ہوں ،تعلیمات نبوی ﷺ سے رہنمائی حاصل کرتے
رہیں گے۔
ہللا تعالی نے اپنے آخری رسول ﷺ پر قرآن مجید اتارا۔ اس سے پہلے اتاری ت کتاب:۴۔حفاظ ِ
جانے والی کتابیں ”توریت ،زبور اور انجیل“ اپنی اصل حالت میں محفوظ نہیں رہی تھیں۔ لیکن قرآن
مجید چودہ سو سال گزرنے کے باوجود بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ سابقہ آسمانی کتابوں میں
ردوبدل کیا گیا جب کہ قرآن مجید میں کسی قسم کے ردوبدل کی گنجائش نہیں۔ اس کا ایک حرف بھی
تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ یہ کتابی صورت میں بھی محفوظ ہے اور الکھوں
حفاظ کے سینوں میں بھی محفوظ ہے۔قرآن کی اس طرح حفاظت کی وجہ یہ ہے کہ اس کی حفاظت کا
ذمہ خود ہللا نے لیا ہے ،چنانچہ فرمایا:
ِظونُ ٰف َ
ُ لح َ
ِنا لہ ََّاَو ّ
نزلنا الذکر َ َّ ُ َ نحن ِنا َ اَّ
ترجمہ:بے شک یہ ذکر(قرآن) ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے محافظ ہیں (سورۃ الحجر)۹:
۵۔سنت نبوی ﷺ کی حفاظت :ہللا تعالی کی طرف سے رسول اکرم ﷺ کی سنت کی حفاظت کا بھی
مکمل انتظام کیا گیا۔ ہر دور میں محدثین کرام کی ایسی جماعت موجود رہی جنہوں نے سنت نبوی ﷺ
کی حفاظت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ چونکہ سنت رسول ﷺقرآن کی تفسیر ہے جو قیامت تک
آنے والے تمام انسانوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اسی لئے قدرت نے جس طرح قرآن مجید کی
حفاظت کا انتظام کیا اسی طرح سنت نبوی ﷺ کی حفاظت کا بھی زبردست انتظام کیا۔
۶۔تکمی ِل دین:جس دین کی ابتدا حضرت آدم ؑ سے ہوئی تھی اس کی تکمیل حضرت محمد ﷺ پر کی
دین کامل عطا کیا گیا جو تمام انسانیت کے لئے کافی و شافی گئی۔ آپ ﷺ کو ہللا تعالی کی جانب سے وہ ِ
ہے۔ اسی لئے اب کسی دوسرے دین کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ارشا ِد باری تعالی ہے کہ:
ُم
ُ ُ َلکِيتَضَر
ِی و َتِعمُم ن َيکَلُ ع َمت َتم َاُم و ُکِين ُم د ُ َلک َلت َکم َ اَومَلي ا
َ
ِينا َ َ
ِسالم د اال
ترجمہ :آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ،تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور اسالم کو
بطور دین پسند کیا۔(سورۃ المائدہ)۳:
ِ تمہارے لئے
۷۔معراج:حضور اکرم ﷺ کو ہللا تبارک و تعالی نے عرش خداوندی پر طلب فرمایا اور آپ ﷺ سے ہم
کالم ہوئے۔ حضور ﷺ کے عالوہ کسی نبی کو معراج کی فضیلت سے نہیں نوازا گیا۔ اسی رات مومنوں
پر پانچ وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ آپ ﷺ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ اس وجہ سے آپ ﷺ کو
”امام االنبیاء“ بھی کہا جاتا ہے۔
۸۔رحمت اللعالمین:حضور ﷺ کی رسالت کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کو ہللا
تعالی نے کُل کائنات کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔آپ ﷺ نے دنیا کو ہللا کا پیغام پہنچا کر اس کو
عذاب سے بچایا۔ ایک ہللا کی عبادت اور اس سے محبت سکھائی۔ ایک ایسا نظام زندگی دیا جو انسانیت
کو امن و سالمتی کی طرف لے جاتا ہے اس طرح آپ ﷺ تمام جہانوں کے لیے ہللا کی رحمت ثابت
ہوئے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
ِين۔ َ
َالم ّ
ً للع َۃَحم َّ
ِال ر َ
ما أرسَلناکَ ا َ ََ
و
21 / 131صفحہ نمبر
ترجمہ :اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو سوائے اس کے کہ آپ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔(االنبیاء۷ :
)۱۰
۹۔ مکمل ضابطہ حیات:رسول ﷺ نے جو تعلیمات مسلمانوں کو دیں وہ زندگی کے تمام پہلوؤں کا
احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ جس میں عبادات ،معامالت ،اخالقیات ،شادی ،غمی غرض زندگی کے سارے
معامالت میں ان سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
َۃ
ٌ ٌ ح
َسَن َةُسو ِ للاا اَسُولِی ر ُم ف َ َلکَانَد ک َلق
ترجمہ :بے شک تمہارے لئے رسول ہللا ﷺ (کی ذات)میں بہترین نمونہ (سیرت) ہے۔(سورۃ االحزاب۱ :
)۲
۱۰۔ختم نبوت :آپ ﷺ کی ایک نمایاں خصوصیت ختم نبوت بھی ہے۔
آدم سے نبوت کا سلسلہ شروع ہوا اور تقریبا ایک الکھ ختم نبوت کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت ؑ
کرام اس دنیا میں تشریف الئے۔ نبوت کا یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر آکر ختم ؑ چوبیس ہزار انبیائے
ہوگیا اور پچھلی تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا گیا۔اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی اس دنیا میں نہیں
آئے گا۔ ختم نبوت کا واضح اعالن قرآن میں ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا:
ِيين۔ ّب َ الن َاَ
تم َخَ للاا و
َّسُولِن ر َلک ُم و لکَاِّجمن ر َد ّ َحبا أ ََ
د أٌَّ
َم محَ َُانماکَ
ترجمہ :محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ ہللا کے رسول اور آخری نبی
ہیں۔(االحزاب)۴ ۰ :
ختم نبوت پر تفصیلی نوٹ تحریر کریں۔ سوال نمبرِ :۵
ختم نبوت :عربی میں ختم کے معنی ہیں ”مہر لگانا یا بند کرنا“۔
آدم سے نبوت کا سلسلہ شروع ہوا اور تقریبا ایک الکھ ختم نبوت کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت ؑ
کرام اس دنیا میں تشریف الئے۔ نبوت کا یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر آکر ختم ؑ چوبیس ہزار انبیائے
ہوگیا اور پچھلی تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا گیا۔
عقیدہ ختم نبوت یہ ثابت کرتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ ہللا تعالی کی طرف سے انسانوں کی
رہنمائی کے لئے بھیجے گئے انبیاء میں آخری نبی ہیں۔ حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے
گا۔ حضرت محمد ﷺ کے وسیلہ سے تمام انسانوں کو ایک جامع اور ہمیشہ رہنے والی کتاب قرآن مجید
مہیا کردی گئی ہے جس میں تمام شریعتوں کا خالصہ موجود ہے۔ اس کے بعد انسانوں کو کسی اور
رہبر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔
عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت :عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ان باتوں سے بخوبی لگایا جاسکتا
ہے:
۱۔قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔
۲۔ 210متواتر احادیث میں عقیدہ ختم نبوت کو بیان کیا گیا ہے۔
۳۔ صحابہ کا سب سے پہال اتفاق مسیلمہ کذاب (نبوت کے جھوٹے دعویدار) کے خالف جہاد کے
حوالے سے ہوا۔
۴۔ آپﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوکر ۲۵ ۹صحابہ نے اپنی جانیں قربان کیں۔ جب کہ مسیلمہ
کذاب کے خالف لڑتے ہوئے ۱۲۰۰مسلمان شہید ہوئے۔
عقیدہ ختم نبوت قرآن کی روشنی میں:
22 / 131صفحہ نمبر
ویسے تو قرآن میں ایک سو آیات میں ختم نبوت کے مسئلہ کو ذکر کیا گیا ہے ،لیکن یہاں صرف
تین آیات کو ذکر کیا جاتا ہے:
۱۔قرآن میں واضح طور پر آپ ﷺ کی ختم نبوت کا ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشادِباری تعالی
ہے:
ِيين۔ ّ
َ النب َ
َخاتمَ َ
َّسُول للاا وِن ر َلک لکم و ُ ّج
َاِ من ر َد ّ َ
با أح َ
َّد أٌَ َم
مح َ
ماکان َُ َ
ترجمہ :محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ ہللا کے رسول اور آخری نبی
ہیں۔(االحزاب)۴ ۰ :
۲۔ارشاد باری تعالی ہے:
ِيعا َمُم ج َ
ِليکُ للاا ا َسُولِنی ر َّّاسُ اَا الن ُل ي ُّ
ٰايه ق
ترجمہ :فرمادیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف ہللا کا رسول بن کر آیا ہوں۔(سورۃ االعراف۵۸ :
)۱
اس آیت میں واضح طور پر اعالن کیاگیا ہے کہ آپ ﷺ تمام انسانوں کی طرف رسول بناکر
بھیجے گئے ہیں۔اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ قیامت تک کے انسانوں کے لئے رسول بنا کر
بھیجے گئے ہیں۔ بالفرض اگر حضور ﷺ کے بعدکوئی اور رسول آئے تو آپ ﷺ تمام انسانوں کے رسول
نہیں کہالئیں گے۔
۳۔ہللا تعالی نے اپنے کالم میں دین کی تکمیل کا اعالن ان الفاظ میں کیا ہے:
ُ ُ َ
ِيت لکم ُ َضَر
ِی و َتِعم ُم ن َيک َلُ ع َمت َتم ُم و
َا َکِينُم دُ َلکَلت َکم َ اَوم َلي ا
َا(سورۃ المائدہ)۳: ِينَ دِسَالم
اال
ترجمہ :آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا ،اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور اسالم کو
بطور دین پسند کیا۔
ِ تمہارے لئے
یوں تو ہر نبی اپنے اپنے زمانہ کے مطابق دینی احکام التے رہے مگر آنحضرت ؤ کی تشریف
آوری سے پہلے زمانہ کے حاالت اور تقاضے بدلتے رہتے تھے ،اس لئے تمام نبی اپنے بعد آنے والے
نبی کی خوشخبری دیتے رہے ،یہاں تک کہ آپ ﷺ مبعوث ہوئے تو وحی کے نزول کے اختتام پر ہللا
نے واضح طور سے دین کی تکمیل کا اعالن کردیا۔ لہذا دین کے مکمل ہونے کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی
آسکتا ہے اور نہ ہی وحی کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔
عقیدہ ختم نبوت احادیث کی روشنی میں:
ویسے تو سینکڑوں احادیث میں عقیدہ ختم نبوت کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ہم یہاں صرف تین کے
ذکر پر اکتفا کریں گے۔
۱۔رسول ہللا ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ ”:پہلے انبیاء کو خاص ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھااور مجھے تمام انسانوں کی طرف
مبعوث کیا گیا۔“( ٰ
مشکوۃ)
۲۔حضرت ثوبان رضی ہللا تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ ”:میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حاالنکہ میں
خاتم النبیین ہوں ،میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں۔“(جامع الترمذی)
۳۔حضرت ابوہریرہ رضی ہللا تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ ”:میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل
محل بنایا مگر اس کے کسی کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی ،لوگ اس کے گرد گھومنے اور
23 / 131صفحہ نمبر
اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ لگادی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
میں وہی (کونے کی آخری) اینٹ ہوں اور میں نببیوں کے سلسلہ کو ختم کرنے واال ہوں۔“(صحیح مسلم)
حرف آخر :مذکورہ باال آیات و احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ ہللا کے بندے اور ِ
اس کے آخری رسول ہیں۔ آپ ﷺ کو ہللا تعالی نے قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی طرف رسول بنا
کر بھیجا ہے۔لہذا آپ ﷺ کے بعد کسی اور کی نبوت کا اقرار کرنا ایک مسلمان کو اسالم سے کفر میں
لے جاتا ہے۔
سوال نمبر :۶عقیدہ آخرت کی وضاحت کیجئے اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات بیان
کیجئے۔
”عقد“ سے نکال ہے جس کے معنی گرہ لگانے کے ہوتے ہیں۔ عقیدہ :عقیدہ عربی زبان کے لفظ
ان بنیادی نظریات اور خیاالت کا مجموعہ جنہیں زندگی گزارنے اور اعمال کی راہ منتخب کرنے کے
لئے پختہ طور پر قبول کرلیا گیا ہو ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔شرعی اصطالح میں عقیدہ وہ ہے جس کے ساتھ
دل کو باندہ دیا گیا ہو یعن ی دل کی گہرائیوں سے کسی بات کا پختہ یقین رکھنا ،دل و دماغ سے تسلیم
کرنا اور ہر لحاظ سے مطمئن ہونا ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔
تعالی کے انصاف اور دنیا میں
ٰ عقیدہ آخرت :اسالم کا وہ عقیدہ جو موت کے بعد کی زندگی اور ہللا
کیے گئے اعمال کی بنیاد پر سزا اور جزا کے تصور کی وضاحت کرتا ہے "عقیدہ آخرت " کہالتا ہے
۔ اسالمی عقائد میں عقیدہ آخرت کو ایک اہم مقام حاصل ہے ۔ قرآن کریم میں اکثر مقامات پر عقیدہ توحید
کے ساتھ ساتھ عقیدہ آخرت پر ایمان النے کا حکم دیا گیا ہے ۔
معنی:
ٰ آ خرت کے لغوی
معنی" بعد میں ہونے والی چیز یا واقعہ"کے ہیں۔آ خرت کا لفظ دنیا کا متضاد ٰ لفظ آ خرت کے
ہے۔ جس کے معنی ہیں ”قریب کی چیز“۔
معنی :اصطالحی طور پر عقیدہ آخرت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد ہمیشہ ٰ اصطالحی
عالی اُس
کے لئے فنا نہیں ہوجاتا بلکہ اس کی روح باقی رہتی ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا جب ہللا ت ٰ
کی روح کو اس کے جسم میں منتقل کر کے اسے دوبارہ زندہ کردے گا اور پھر انسان کو اس کے نیک
وبد اعمال کا حقیقی بدلہ دیا جائے گا ۔
عقید ٔہ آ خرت سے مرادیہ ہے کہ " ایک دن یہ دنیا فنا ہوجائے گی لیکن انسان مرنے کے بعد ہمیشہ
ہمیشہ کے لئے فنا نہیں ہوتا اس کی روح باقی رہتی ہے اور دنیا فنا ہوجانے پر اس کو دوبارہ زندہ کیا
جائے گا ،قیامت قائم ہوگی اور ان کے اعمال کا حساب کتاب ہوگا او ر نیک عمل کرنے والوں کا ٹھکانہ
جنت اور برے اعمال کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے "۔
آخرت پر ایمان النے کا مطلب:آخرت پر ایمان النے کا مطلب یہ ہے کہ مندرجہ ذیل باتوں کو دل
سے تسلیم کیا جائے:
۱۔ انسان کی پیدائش کا ایک خاص مقصد ہے۔ وہ ایک ذمہ دار ہستی ہے۔ اس کے پیدا کرنے والے
نے اسے زندگی گزارنے کا ایک مکمل ہدایت نامہ دے کر پیدا کیا ہے اس کے مطابق عمل کرنا ہی
نیکی ہے۔ اسے چھوڑ کر اپنی پسند کے طریقہ کو اختیار کرنا گمراہی ہے۔
۲۔ انسان کی زندگی موت کے ساتھ ہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے بعد اسے نئی زندگی دی جائے
گی۔ اس دنیا میں وہ جو کچھ کرتا ہے اس کی جزا اور سزا اسے اگلی زندگی میں ملے گی۔
24 / 131صفحہ نمبر
۳۔قیامت کے دن وہ تمام جاندار جو دنیا کی ابتدا سے آج تک پیدا ہوکر مرچکے ہیں اور قیامت کے
آنے تک پیدا ہوکر مرنے والے ہیں دوبارہ جسم و جان کے ساتھ زندہ ہوکر اٹھیں گے ،اسے حشر کہتے
ہیں۔
۴۔حشر کے بعد سب کو ہللا کی عدالت میں پیش کیا جائے گا اور وہاں اس دنیا کے مطابق فیصلہ کیا
جائے گا۔ جس نے ایمان اور اعمال والی زندگی بسر کی ہوگی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے
گناہوں میں زندگی بسر کی ہوگی وہ جہنم میں جائے گا۔
۵۔ اس حساب و کتاب کے بعد جو زندگی شروع ہوگی وہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ اس زندگی کا نام
آخرت ہے اور اسالم اسی آخرت پر ایمان کا مطالبہ کرتا ہے۔
عقیدہ آخرت قرآن کی روشنی میں :قرآن مجید میں آخرت کا بیان اتنی جگہ اور اتنی آیات میں ہوا
ہے کہ مجموعی طور پر یہ توحید و رسالت کے بیان سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا
جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں آخرت کی اہمیت پر کس قدر زور دیا گیا ہے۔آخرت کے متعلق چند آیات
درج ذیل ہیں:
۱۔ہللا نے قرآن میں اجر عظیم کا وعدہ ان لوگوں سے کیا ہے جو آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔
ارشا ِد باری تعالی ہے:
ِمبهَّ َ
ِند ر ُم ع ُھ َ
ُم اجر َ َ
َا فله لحَاِ ِل ص َ َم
َعِوِ االٰخِر َومَالي ِاہلل وَ ب منَٰمن ا َ
ترجمہ :جو ایمان الئے ہللا پر اور آخرت کے دن پر اور نیک کام کئے ،پس ان کے لئے ان کے رب کے
پاس اجر ہے۔(سورۃ البقرۃ)۶ ۲ :
۲۔ ہللا تعالی نے متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ وہ آخرت کے دن پر یقین
رکھتے ہیں۔ ارشا ِد باری تعالی ہے:
ُون ِنيو ق ُم ُ ِ ھَةِاالٰخِرَبو
ترجمہ(”:متقی وہ ہیں) جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔“(سورۃ البقرۃ)۴:
۳۔ ہللا تعالی نے آخرت کی زندگی کو اصل زندگی قرار دیتے ہوئے فرمایا:
َان َوَيِیَ الح َ َله َة َ اآلخِر َّ
الدار َّ
ِن َا
و
ترجمہ ”:اور حقیقت یہ ہے کہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔“(سورۃ العنکبوت)۶ ۴ :
عقیدہ آخرت احادیث کی روشنی میں:سروردوعالم حضرت محمد ﷺ نے آخرت کے عقیدے کی
اہمیت پر بہت زور دیا ہے اور دنیا اور آخرت کی حقیقتوں کو مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے تاکہ دنیا
اور آخرت کی زندگی کا فرق کرکے انسان آخرت کی زندگی کو بنانے کی فکر میں مگن ہوجائے۔
۱۔دنیا اور آخرت کے تعلق کو آپ ﷺ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
َةُ اآلخِر َۃَع مزر َا َ لدنيَ ُّا
ترجمہ :دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔
۲۔ آخرت میں کامیاب لوگوں کی حالت کو آپ ﷺ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے:
ترجمہ :جو لوگ (آخرت میں کامیاب ہوکر) جنت میں جائیں گے وہ ہمیشہ خوشحال رہیں گے۔
یوم آخرت کے حساب کی سختی کو ان الفاظ میں بیان فرمایا: .3آخرت کی فکر پیدا کرنے کے لئے ِ
( مسلم ) " من نوقش الحساب ھلک "
" جس سے حساب لیا گیا وہ ہالک ہوا " ۔
. 4بندہ مومن اور کافر کے لئے دنیا کے فرق کو ان الفاظ میں بیان فرمایا:
25 / 131صفحہ نمبر
( مسلم ) " الدنيا سجن المؤمن وجنة الكافر " .
" دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے"
مندرجہ باال آیات واحادیث سے آخرت کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس
دنیا میں انسان کو اس لئے بھیجا گیا ہے کہ وہ آخرت کی تیاری کرے اور اس دنیا میں ایک مسافر کی
طرح زندگی بسر کرے کی ونکہ یہ دنیا فانی ہے اور آخرت کی زندگی الفانی ہے ۔
انفرادی زندگی پر عقیدہ آخرت کے اثرات:
عقیدہ آخرت انسان کی عملی زندگی میں دیرپا انقالب برپا کرتا ہے اور انسان کی زندگی پر درج
ذیل اثرات مرتب کرتا ہے۔
)1سوچ میں مثبت تبدیلی :جو شخص آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کی نظر اپنے اعمال کے صرف
ان ہی نتائج پر نہیں ہوتی جو اس زندگی میں ظاہر ہوتے ہیں بلکہ وہ ان نتائج پر بھی نظر رکھتا ہے جو
آخرت کی زندگی میں ظاہر ہوں گے۔ اسے جس طرح زہر کے بارے میں ہالک کرنے اور آگ کے
بارے میں جالنے کا یقین ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ گناہ انسان کو ہالک کردیتا ہے۔ اور
وہ جس طرح غذا اور پانی کو اپنے لئے فائدہ مند سمجھتا ہے اسی طرح نیک اعمال کو بھی اپنے لئے
نجات اور فالح کا ذریعہ سمجھتا ہے۔
)2دنیا کی محبت سے نجات:انسان کا اصلی گھر آخرت ہے لیکن بدقسمتی سے آج انسان دنیا کو ہی
سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے جو کہ ہر برائی کی جڑ ہے۔ جیسا کہ ارشادِنبوی ہے:
َۃ
ِيئ َطّ خُلَاسُ ک َا ر لدنيُّ ا ُّ
ُبح
ترجمہ”:دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔“
عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے سے انسان کے دل سے دنیا کی محبت کا خاتمہ ہوتا ہے اور اسے
دنیا کی محبت سے مکمل نجات مل جاتی ہے۔
)3اعما ِل صالحہ کی رغبت:اعما ِل صالحہ سے مراد ہے نیک اعمال ،یعنی وہ اعمال جو ہللا اور اس
کے رسول ﷺ کے نزدیک پسندیدہ ہیں۔ عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے سے انسان کے دل میں نیکی کی
رغبت اور بدی کی نفرت پیدا ہوتی ہے اور انسان وہی اعمال اختیار کرتا ہے جو آخرت میں اس کی
نجات کا سبب بنیں۔ ارشا ِد باری تعالی ہے:
ِمبهَّ
د ر ِنَ ُم عُھَجر ُم اَهَلً فِحا َال َ ص َم
ِل َعِوِ االٰخِر
َوم َالي ِاہلل و َ بمنَٰ
من ا َ
ترجمہ :جو ایمان الئے ہللا پر اور آخرت کے دن پر اور نیک کام کئے ،پس ان کے لئے ان کے رب کے
پاس اجر ہے۔(سورۃ البقرۃ)۶ ۲ :
)4بہادری اور سرفروشی:ہمیشہ کے لئے مٹ جانے کا ڈر انسان کو بزدل بنادیتا ہے۔ مگر جب دل
میں یہ یقین پیدا ہو کہ اس دنیا کی زندگی چند روزہ ہے ،پائیدار اور دائمی زندگی آخرت کی ہے تو
انسان بہادر ہوجاتا ہے۔ حتی کہ وہ ہللا کی راہ میں جان قربان کرنے سے بھی نہیں کتراتا۔
احساس ذمہ داری :عقیدہ آخرت کی وجہ سے ایک انسان کے دل میں نیک اعمال کرنے کا شوق ِ )5
پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی اور اعمال کا جائزہ لیتا ہے اور نیک اعمال کرتا ہے اور بُرے اعمال سے
بچتا ہے۔ نیک اعمال کی راہ پر چلنے کی وجہ سے وہ اپنے تمام معاشرتی فرائض کو پورا کرتا ہے اور
احساس ذمہ داری پیدا
ِ ہللا کی عبادت کرتا ہے۔ اس طرح آخرت پر ایمان رکھنے سے ایک انسان میں
ہوجاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اپنے فرائض میں کوتاہی کرنا جرم ہے جس پر آخرت میں سزا ملے
گی لہذا اپنے فرائض ادا کئے جائیں۔ آہستہ آہستہ یہ احساس اس قدر پختہ ہوجاتا ہے کہ انسان اپنا ہر
26 / 131صفحہ نمبر
فرض پوری دیانت داری سے انجام دیتا ہے چاہے اس فرض کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہو یا پھر ہللا
تعالی کے حقوق سے ہو۔
)6صبروتحمل :عقیدہ آخرت انسان کو یہ یقین دالتا ہے کہ اسے آخرت میں ہللا تعالی کی طرف سے
انصاف ضرور ملے گا اس لئے اگر دنیا میں اس کے ساتھ کسی طرح کا ظلم ہوتا ہے تو بھی وہ مایوس
نہیں ہوتا بلکہ ہللا تعالی کے حقیقی انصاف پر پورا یقین رکھتا ہے اور صبروتحمل سے کام لیتا ہے
کیونکہ وہ جانتا ہے کہ حق کی خاطر جو بھی تکلیف برداشت کی جائے گی اس کا اجر ہللا تعالی کی
طرف سے آخرت میں ملے گا۔ لہٰ ذا اپنی آخرت پر نظر رکھتے ہوئے ایک مسلمان ہر مصیبت کا
صبروتحمل سے مقابلہ کرتا ہے۔
خوف خدا :چونکہ عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے سے احساس جوابدہی پیدا ہوجاتا ہے اس لئے نتیجتا ِ )7
دل میں ہللا کا خوف پیدا ہو جاتا ہے اور انسان ہر عمل کو انجام دینے سے پہلے اچھی طرح سوچتا ہے
اور برے عمل سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔
)8عجزوانکساری :عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے واال شخص جانتا ہے کہ اس نے ہللا کے حضور پیش
ہونا ہے چنانچہ وہ تکبر جیسی بیماری سے محفوظ رہتا ہے اور انکساری اور تواضع اختیار کرتا ہے۔
جس کے نتیجہ میں ہللا تعالی اسے بلند مقام عطا فرماتے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ:
َہ
ُ للاا َع
َف َ ِّٰ
ّٰلل ر َع
َاض من َ
تو َ
ترجمہ ” :جو ہللا کے لئے تواضع (عاجزی) اختیار کرتا ہے ہللا اسے بلند کردیتے ہیں۔“
اجتماعی زندگی پر عقیدہ آخرت کے اثرات:
عقیدہ آخرت کے اجتماعی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس عقیدہ کی وجہ سے
انسانوں کے باہمی تعلقات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔
)1معیشت کا استحکام :عقیدہ آخرت پر کامل ایمان معاشرے کے دولت مند افراد میں سخاوت جیسی
صفت پیدا کرتا ہے اور پھر یہ افراد اپنی دولت ہللا تعالی کی خوشنودی کے حصول کے لئے معاشرے
کی فالح ،نیک کاموں اور نادار لوگوں کی امداد کے لئے خرچ کرتے ہیں جس کی وجہ سے دولت چند
ہاتھوں میں سمٹ کر نہیں رہتی بلکہ دولت کا بہاؤ ( )Circulation of Wealthجاری رہتا ہے۔ جس
سے معاشرے کی معیشت مستحکم ہوتی ہے۔
)2طبقاتی تقسیم کا خاتمہ:ایک معاشرے کے تمام لوگ اگر عقیدہ آخرت پر کامل یقین رکھتے ہوں
تو وہ اپنے فرائض پوری دیانت داری سے سرانجام دیتے ہیں۔ تمام لوگ نہ صرف ہللا کے حقوق پورے
کرتے ہیں بلکہ بندوں کے حقوق بھی پورے کرتے ہیں۔ اس طرح طبقاتی فرق ختم ہوجاتا ہے اور تمام
لوگ ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں اور امیر اور غریب کا فرق مٹ جاتا ہے۔ اس طرح معاشرے
میں طبقات پیدا نہیں ہوتے اور طبقاتی کشمکش کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔
)3قوانین کا احترام :عقیدہ آخرت چونکہ نیک اعمال کی راہ اختیار کرنے کی طرف راغب کرتا ہے۔
اس لئے عقیدہ آخرت پر ا یمان ایک معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو یہ شعور عطا کرتا
ہے کہ انہیں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا ہے اور حکومت کی طرف سے ان کی بھالئی کے
لئے جو قوانین نافذ کئے گئے ہیں ان کا پوری طرح احترام کرنا ہے۔ عقیدہ آخرت پر ایمان کی وجہ سے
تمام لوگ اپنے فرائض کوادا کرنے میں غفلت نہیں کرتے۔
)4دولت کا صحیح استعمال :اگر معاشرے کے افراد میں عقیدہ آخرت کا صحیح تصور رائج ہو تو ہر
انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس جو دولت ہے وہ ہللا تعالی کی امانت ہے اور اس پر دوسرے
27 / 131صفحہ نمبر
لوگوں کا بھی حق ہے۔ اس لئے وہ اپنی دولت گناہ کے کاموں اور اپنی عیاشیوں کے لئے خرچ کرنے
کے بجائے اسے ہللا تعالی کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں دولت کے صحیح استعمال
کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے کے تمام افراد کو خوشحالی نصیب ہوتی ہے۔
)5ہمدردی اور تعاون:عقیدہ آخرت کی وجہ سے ایک معاشرے کے تمام افراد ایک دوسرے کے
قریب آجاتے ہیں۔ تمام افراد چونکہ عقیدہ آخرت پر ایمان رکھنے کی وجہ سے نیک اعمال اختیار کرتے
ہیں اس لئے وہ نیکی اور بھالئی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ باہمی تعاون کا یہ
جذبہ اُن میں ایک دوسرے سے محبت اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔
28 / 131صفحہ نمبر
۰دل ۰یکتا ماننا ۰بھروسہ کرنا ۰ایمان النا
سے ماننا
12۔ پہلے کلمے کو کہا جاتاہے:
۰کلمہ توحید ۰کلمہ تمجید ۰کلمہ طیبہ
۰کلمہ شہادت
13۔ دوسرے کلمے کو کہا جاتاہے:
۰کلمہ توحید ۰کلمہ تمجید ۰کلمہ طیبہ
۰کلمہ شہادت
14۔ تیسرے کلمے کو کہا جاتاہے:
۰کلمہ توحید ۰کلمہ تمجید ۰کلمہ طیبہ
۰کلمہ شہادت
15۔ چوتھے کلمے کو کہا جاتاہے:
۰کلمہ توحید ۰کلمہ تمجید ۰کلمہ طیبہ
۰کلمہ شہادت
16۔ پختہ اور اٹل نظریات کو کہا جاتا ہے:
۰ایمان ۰عقائد ۰حدیث ۰قرآن
17۔ وہ اپنی ذات میں یکتا ہے:
۰پیغمبر ۰ہللا تعالی ۰فرشتہ ۰رسول
18۔ توحید کی اقسام ہیں:
۰نو ۰سات ۰چھ ۰تین
19۔ قرآن مجید کی اس سورت کو سورۃ التوحید بھی کہا جاتا ہے:
۰سورۃ الرحمن ۰سورۃ البقرہ ۰سورۃ الناس ۰سورۃاالخالص
20۔ شرک کے لفظی معنی ہیں:
۰جاری ۰شروع کرنا ۰بند کرنا ۰سانجھے پن (حصہ داری)
کرنا
21۔ توحید کا متضاد لفظ ہے:
۰منافقت ۰شرک ۰رسالت ۰کذب
22۔ شرک کی اقسام ہیں:
۰پانچ ۰چار ۰تین ۰دو
ظلم عظیم کہا گیا ہے:23۔ قرآن کریم میں اس گناہ کو ِ
۰غیبت ۰شرک کو ۰بدعت کو ۰قتل کو
کو
نعم حقیقی“ ہیں:
24۔ ” ُم ِ
۰والدین ۰اولیاء ۰حضرت محمدﷺ ۰ہللا تعالی
قادر مطلق اور مسبب االسباب کہا جاتا ہے: 25۔ ِ
۰والدین ۰اولیاء کو ۰انبیاء کو ۰ہللا تعالی کو
کو
26۔ توکل علی ہللا سے مراد ہے:
۰نیک ۰ہللا کی اطاعت ۰ہللا پر بھروسہ کرنا ۰ایمان النا
کام کرنا
29 / 131صفحہ نمبر
27۔ ہللا تعالی نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے بھیجے:
۰خلفاء ۰جنات ۰پیغمبر ۰فرشتے
28۔ رسول کے لفظی معنی ہیں:
۰بہترین انسان ۰خبر دینے واال ۰پیغام دینے واال ۰امن قائم کرنے واال
29۔ نبی کے لفظی معنی ہیں:
۰بہترین انسان ۰خبر دینے واال ۰پیغام دینے واال ۰امن قائم کرنے واال
30۔ ُکل انبیاء کی تعداد ہے:
۰ایک الکھ نوے ہزار ۰ایک الکھ بیس ہزار ۰ایک الکھ چوبیس ہزار
۰ایک الکھ بارہ ہزار
31۔ انسانوں میں یہ معصوم ہوتے ہیں:
۰انبیاء ۰علماء ۰صوفی ۰امام
32۔ عربی زبان میں ’ختم‘ کے معنی ہیں:
۰قبول ۰مہر لگانا ۰چھوڑ دینا ۰شروع کرنا
کرنا
33۔ ”خاتم النبیین“ ہیں:
ایوب
ؑ ۰حضرت ۰حضرت محمد ﷺ موسی
ؑ ۰حضرت عیسیؑ ۰حضرت
34۔ آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا ذکر اس سورت میں ہے:
۰سورۃ الرحمن ۰سورۃ االحزاب ۰سورۃ االعراف ۰سورۃ النور
35۔ ہللا کے پہلے نبی ہیں:
ابراہیم
ؑ ۰حضرت ۰حضرت نوح ؑ ۰حضرت محمد ﷺ ۰حضرت آدم ؑ
36۔ ابو البشر اس نبی کو کہا جاتا ہے:
۰حضرت ۰حضرت ابراہیم ؑ ۰حضرت نوح ؑ آدم ۰حضرت ؑ
یعقوب ؑ
37۔ صفی ہللا ان کا لقب ہے:
۰حضرت ۰حضرت ابراہیم ؑ ۰حضرت نوح ؑ آدم ۰حضرت ؑ
یعقوب ؑ
38۔ ”جدّ االنبیاء“ اس نبی کا لقب ہے:
۰حضرت ۰حضرت ابراہیم ؑؑ ۰حضرت نوح ؑ آدم
۰حضرت ؑ
یعقوب ؑ
39۔ ان پیغمبر کو آگ میں ڈاال گیا:
ابراہیم
ؑ ۰حضرت اسماعیل
ؑ ۰حضرت موسی
ؑ ۰حضرت ادریس
ؑ ۰حضرت
40۔ "خلیل ہللا" ان کا لقب ہے:
ابراہیم
ؑ ۰حضرت اسماعیل
ؑ ۰حضرت موسیؑ ۰حضرت ادریس
ؑ ۰حضرت
41۔ اسرائیل اس نبی کا لقب ہے:
۰حضرت یعقوب ؑ ۰حضرت ابراہیم ؑ ۰حضرت نوح ؑ آدم
۰حضرت ؑ
آدم ثانی اس نبی کو کہا جاتا ہے: 42۔ ِ
۰حضرت ۰حضرت ابراہیم ؑ ۰حضرت نوح ؑ آدم۰حضرت ؑ
یعقوب ؑ
43۔ ”کلیم ہللا“ اس پیغمبر کو کہا جاتا ہے:
۰حضرت محمد ﷺ ۰حضرت عیسی ؑ ۰حضرت موسی ؑ آدم ۰حضرت ؑ
30 / 131صفحہ نمبر
44۔ حضرت اسماعیل علیہ السالم کی والدہ ہیں:
۰بی بی ہاجرہ ۰بی بی طاہرہ ۰بی بی سائرہ
۰بی بی حفصہ
45۔ جنات کی تخلیق اس سے ہوئی:
۰خاک (مٹی) ۰آب (پانی) ۰نور (روشنی) ۰نار (آگ)
46۔ مالئکہ کا لفظ جمع ہے ،اس کا واحد ہے:
۰مالک َ
َ ۰ملک ِ ۰ملک َ ۰م ِلک
47۔ مالئکہ کے لفظی معنی ہیں:
۰قاصد (پیغام پہنچانے واال) ۰عبادت کرنے واال ۰صبر کرنے واال
۰طاہر
48۔ مالئکہ کی تخلیق اس سے ہوئی:
۰خاک (مٹی) ۰آب (پانی) ۰نور (روشنی) ۰نار (آگ)
49۔ حضرت میکائیل علیہ السالم کی ذمہ داری ہے:
۰بارش ۰وحی النا ۰رزق دینا ۰صور پھونکنا
برسانا
50۔ حضرت اسرافیل علیہ السالم کی ذمہ داری ہے:
۰بارش ۰وحی النا ۰رزق دینا ۰صور پھونکنا
برسانا
51۔ حضرت عزرائیل علیہ السالم کی ذمہ داری ہے:
۰روح ۰وحی النا ۰رزق دینا ۰صور پھونکنا
قبض کرنا
52۔ حضرت جبرائیل علیہ السالم کے ذمہ داری ہے:
۰بارش ۰وحی النا ۰رزق دینا ۰صور پھونکنا
برسانا
53۔ قبر میں سوال کرنے والے فرشتوں کو کہا جاتا ہے:
۰مالک ۰رضوان ۰کراماََؑ کاتبین ۰منکر نکیر
54۔ انسانوں کے اعمال لکھنے والے فرشتے کہالتے ہیں:
۰ہاروت ۰کراماَََ کاتبین ۰جبرائیل میکائیل ۰منکر نکیر
و ماروت
55۔ جنت کا داروغہ کہالتا ہے:
۰رضوان ۰جبرائیل ۰ریان
۰عزازیل
56۔ جہنم کے نگران فرشتہ کا نا م ہے:
۰آقا ۰مالک ۰شیطان ۰پہرے دار
57۔ ہللا تعالی کا خلیفہ ہے:
۰تمام مخلوقات ۰انسان ۰جنات ۰فرشتے
58۔ دنیا کے لغوی معنی ہیں:
۰فانی ۰قریب کی چیز ۰رنگین ۰دور کی چیز
59۔ آخرت کے معنی ہیں:
۰فانی ۰قریب کی چیز ۰رنگین ۰دور کی چیز
31 / 131صفحہ نمبر
60۔ اشرف المخلوقات ہے:
۰جن ۰انسان ۰فرشتہ ۰حیوان
61۔مشہور آسمانی کتابیں ہیں:
۰ایک ۰تین سو تیرہ ۰چار ۰بہت سی
62۔ صحائف کی تعداد ہے:
۰ایک سو چار ۰تین سو تیرہ ۰چار ۰بہت سی
داؤد پر یہ کتاب نازل ہوئی:63۔حضرت ؑ
۰تالمود ۰صحیفہ ۰انجیل ۰زبور
موسی پر یہ کتاب نازل ہوئی:
ؑ 64۔حضرت
۰تالمود ۰توریت ۰انجیل ۰زبور
عیسی پر یہ کتاب نازل ہوئی:ؑ 65۔حضرت
۰تالمود ۰صحیفہ ۰انجیل ۰زبور
66۔ اس میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے:
۰قرآن مجید ۰تورات ۰زبور ۰انجیل
67۔ قرآن مجید اس ماہ میں نازل ہوا:
۰رجب ۰رمضان ۰ذوالحج ۰شوال
68۔ دین داری کے پردے میں مسلمانوں کو باہم لڑواتے ہیں:
۰نصرانی ۰یہودی ۰منافق ۰کافر
69۔ رسولوں کی تعداد ہے:
124000۰ 100۰ 1000۰ 313۰
70۔ اس نبی پر صحیفے نازل ہوئے:
ابراہیم
ؑ ۰حضرت ہارون
ؑ ۰حضرت ۰حضرت محمد ﷺ ۰حضرت عیسی ؑ
71۔ اس سورت میں ہللا کی وحدانیت کا ذکر ہے:
۰سورۃ االخالص ۰سورۃ الکافرون ۰سورۃ الفلق ۰سورۃ الکوثر
باب دوم
32 / 131صفحہ نمبر
اسالمی تشخص ۔کلمہ شہادت
۔نماز
۔روزہ
۔زکوۃ
۔حج
۔جہاد
۔حقوق العباد
۔معاشرتی ذمہ داریاں
33 / 131صفحہ نمبر
ُ
دهَبًُ عَّداَم مح َن
َّ ُ د ا َشہ
َُ َا ِيکَ َلُ
ہ و ُ َال شَر
دهَحَ ِلہ اَّ
ِال للاا و َن َّال اٰد اََُشہ ا
ُ
ورسُولہ
ُ َ َ
ترجمہ :میں گواہی دیتا ہوں کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں ،وہ اکیال ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور
میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔
اس کلمہ شہادت میں دو باتوں کا اقرار کرنا پڑتا ہے:
۱۔ہللا کی توحید کا اور یہ کہ ہللا کے عالوہ کوئی دوسرا عبادت کے الئق نہیں ہے۔
۲۔ہللا کے بھیجے ہوئے رسول ﷺ پر یہ یقین اور اعتماد کہ وہ ہللا کے احکام ہم تک صحیح اور
محفوظ طریقے سے پہنچانے والے ہیں۔
معنی "دعا کرنا ،قریب ہونا اور
ٰ صلوۃ کہتے ہیں ۔ جس کے لغوی)2صلوۃ(نماز) :نماز کو عربی میں ٰ
استغفار " کے ہیں ۔اصطالحی لحاظ سے نماز وہ طریقہ عبادت ہے جو نبی کریم ﷺ کے ذریعے ہم تک
پہنچا جس میں قیام ،قراۃ ،رکوع ،سجدہ التحیات اور سالم بھی ہے ۔ نماز کی ابتداء تکبیر تحریمہ (ہللا
اکبر) سے ہوتی ہے اور نماز کی انتہا سالم (یعنی السالم علیکم ورحمۃ ہللا) پر ہوتی ہے۔
قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں جابجا نماز قائم کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔قرآن میں 700مقامات پر
نماز کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
ٰ َّ
َاتواالزکوة ُٰ َ ٰ
ُوا الصلوة و ِيم َقَا
و
ترجمہ :اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ (سورۃ البقرۃ)۴ ۳ :
34 / 131صفحہ نمبر
ث مبارکہ میں اس مہینہ کو تین عشروں میں تقسیم فرماکر پہلے کو رحمت ،دوسرے کو حدی ِ
مغفرت اور تیسرے کو جہنم سے نجات کا عشرہ قرار دیا گیا ہے۔
رمضان المبارک کی وہ رات جس میں قرآن نازل کیا گیا اسے لیلۃ القدر کہتے ہیں لیلۃ القدر کی
عبادت کی فضیلت یہ ہے کہ اس رات میں عبادت کرنا ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔
ارشا ِد باری تعالی ہے:
َ
ِن الفِ شَهر َير ّ
م ِ خ َ
ليلۃ القدر َ َ
ب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (سورۃ القدر)3 : ترجمہ :ش ِ
رمضان المبارک کا مہینہ تمام مسلمانوں کے لئے رحمت اور مغفرت کا ذریعہ ہے لیکن پاکستان
کے مسلمانوں کے نزدیک اس ما ِہ مبارک کی اہمیت اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ پاکستان 27رمضان
معرض وجود میں آیا۔
ِ المبارک کی بابرکت رات کو
دین اسالم کا چوتھا اور بنیادی رکن ہے۔ زکوۃ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی )5زکوۃ :زکوۃ ِ
معنی پاک ہونے اور بڑھنے کے ہیں۔ زکوۃ کو اس لئے زکوۃ کہا جاتا ہے کہ اس سے مال پاک و صاف
بھی ہوتا ہے اور مال میں برکت اور اضافہ بھی ہوتا ہے۔
شریعت کی اصطالح میں زکوۃ سے مراد مسلمان کے مال کا وہ حصہ ہے جو ہر صاحب نصاب
شخص سال پورا ہونے پر عبادت کی نیت سے ،ہللا کی رضا کے لئے غریبوں کو دیتا ہے اور انہیں اس
مال کا مالک بنادیتا ہے۔ زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں نماز
زکوۃ کا بیان بیاسی( )82مقامات پر آیا ہے۔ کے ساتھ ٰ
قرآن پاک میں جابجا زکوۃ کی تلقین کی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
ٰوة َّک
تواالز َُٰاَ و ٰوة ُوا الصل ِيم َقَاو
ترجمہ :اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ (سورۃ البقرۃ)۴ ۳ :
زکوۃ :مصارف ،مصرف کی جمع ہے۔ مصرف خرچ کرنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ مصارف ٰ ِ )6
صارف
ِ زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ قرآ ن مجید میں ان م زکوۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں ٰ مصارف ٰ
ِ
زکوۃ کو ذکر کیا گیا ہے جیساکہ ہللا کافرمان ہے ۔ ٰ
َۃ
ِ َّ
َلفُؤ َالم َليها و َ َ ع ِينِلَامَالع َ و ِين َسَاک َالم ء و ُقراِ َ ِلف ُ لدقاتَ ََّ
َا الص نم َِّإ
ِيل
ِ َابنِ السَّب ِ اّ
ّٰللِ و ِيلِي سَب َفَ و ِينِم َار َالغ َابِ و ِقّ
ِي الر َفُم و به ُوُ
ُلق
ٌOِيم َکٌ حِيم َل َاّ
ّٰللُ ع ّٰللِ ط و ِن اَّ ً ّ
م ِيضۃَ فرَ
( التوبہ ) 60:
زکوۃ کے کاموں پر زکوۃ تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کا حق ہے اور ان لوگوں کے لیے جو ٰ " یہ ٰ
مامور ہوں ،اور ان کے لیے جن کی تالیف ِقلب مطلوب ہو ،نیز گردنوں کو چھڑانے اور قرضدارو ں
کی مدد کرنے اور ہللا کی راہ میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ اور ہللا سب کچھ
جاننے واال حکمت واال ہے" .
زکوۃ کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے جو درج ذیل ہیں - : فرمان خداوندی میں آ ٹھ طرح کے لوگوں کو ٰ ِ درج باال
ان تنگ دست لوگوں کی اعانت جن کے پاس کچھ نہ ہو۔ ( )1مساکین :
ان لوگوں کی اعانت جو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں ۔ ( )2فقراء :
زکوۃ کی وصولی پر متعین عملے کی تنخواہیں ۔ ٰ ( )3عاملین ٰ
زکوۃ :
( )4مؤلفتہ القلوب :ان لوگوں کی اعانت جو نو مسلم ہوں تاکہ ان کی تالیف قلب ہوسکے ۔
غالموں اور ان لوگوں کو آزاد کرنے کے مصارف جو قید وبند میں ہوں ۔ ( )5رقاب :
35 / 131صفحہ نمبر
(مقروض /قرضدار ) ایسے لوگوں کے قرضوں کی ادائیگی جو نادار غارمین: ()6
ہوں ۔
( )7فی سبیل ہللا :جہاد فی سبیل ہللا میں جانے والوں کی اعانت میں ۔
مالک نصاب نہ ہو ،اگرچہ اپنے گھر پر دولت رکھتا ِ ( )8ابن السبیل :مسافر جو حالت ِ سفر میں
ہے ۔
)7حج :حج کے لغوی معنی ہیں ”زیارت کا ارادہ کرنا“۔
شریعت کی اصطالح میں مخصوص زمانہ یعنی حج کے مہینوں میں بیت ہللا کی زیارت کرنا
اور مخصوص مناسک (طواف ،سعی ،رمی وغیرہ) کو ادا کرنا حج کہالتا ہے۔
حج اسالم کا پانچواں رکن ہے جو کہ ہر بندہ مومن پر (جو صاحب استطاعت ہو) زندگی میں
ایک بار فرض ہے۔ حج کی فرضیت کا ذکر قرآن میں بھی کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشادِباری تعالی ہے:
ِيالِ سَبِليہَ اَ َاعَطمنِ است َيتِ َ ُّ الب َی الن
َّاسِ حِج َل َِّٰ
ّٰللِ ع و
ترجمہ :اور لوگوں پر ہللا کا حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج
کرے۔ (سورہ آل عمران)۹ ۷ :
استطاعت سے مراد ہے کہ:
۔حج کرنے واال آزاد ہو۔
۔صحت مند ہو۔
۔راستہ میں جان کا کوئی خطرہ نہ ہو۔
۔اتنا پیسہ ہو کہ جس سے وہ اپنا سفر کرسکے اور اپنے گھر والوں کی ضروریات کا بندوبست
کرسکے۔
۔اگر عورت حج پر جارہی ہو تو محرم موجود ہو۔
حج کی فرضیت کا حکم ۹ھ میں نازل ہوا۔ حج فرض ہونے کے پہلے سال یعنی ۹ھ
میں حضرت ابو بکر صدیق رضی ہللا تعالی عنہ کی قیادت میں تین سو ( )۳۰۰صحابہ نے حج کی
سعادت حاصل کی۔۱ ۰ھ میں رسول اکرم ﷺ نے اپنی زندگی کا پہال اور آخری حج تقریبا ایک الکھ
ت مبارکہ میں ایک حج اور چوبیس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ ادا فرمایا۔ رسول اکرم ﷺ نے اپنی حیا ِ
چار عمرے ادا فرمائے۔
مناسک حج سے مراد حج کے ارکان و اعمال ہیں۔ آٹھ ذوالحجہ سے بارہ ذوالحجہ تک حج
ِ )8مناسک حج:
کے مخصوص پانچ دن ہیں ،ان پانچ دنوں میں حج کے تمام فرائض اور واجبات اد ا کئے جاتے ہیں۔
مناسک حج یہ ہیں:
ِ بنیادی
)1میقات :میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حج یا عمرہ پر جانے والے لوگ احرام باندھتے ہیں یا
جہاں سے احرام باندھنا ضروری ہوتا ہے۔
)2احرام :صرف دو چادروں سے جسم کو ڈھانپ لینے کو احرام کہتے ہیں۔
)3طواف :بیت ہللا کے گرد سات چکر لگانے کو طواف کہتے ہیں ۔
)4سعی :صفا اور مروہ پہاڑوں پر چڑھنے اورمخصوص انداز میں ان کے درمیان سات چکر لگانے کو
سعی کہا جاتا ہے۔
میدان عرفات میں ٹہرنا
ِ ب آفتاب کے درمیان )وقوف عرفہ 9 :ذی الحج کو زوال کے وقت سے غرو ِ ِ 5
ت حج میں سے ہے۔ "وقوف عرفہ" کہالتا ہے۔ یہ واجبا ِ
ِ
قیام
)قیام مزدلفہ 9 :ذی الحج کی مغرب سے 10ذی الحج کے طلوعِ آفتاب تک مزدلفہ میں ٹہرنا " ِ ِ 6
مزدلفہ" کہالتا ہے۔
36 / 131صفحہ نمبر
) 7رمی :دس ،گیارہ اور بارہ ذی الحج کو شیطان کے تین عالمتی ستونوں کو کنکریاں مارنا رمی کہالتا
ہے۔
)8نحر :دس ذی الحج کو رمی کے بعد قربانی کی جاتی ہے۔ یہ قربانی تین دن تک کی جاسکتی ہے۔
ارکان حج مکمل کرنے کے بعد سر کے مکمل بال منڈوانا "حلق" کہالتا ہے اور بال چھوٹے ِ )9حلق:
کروانا"قصر" کہالتا ہے۔ مرد کو اختیار ہے کہ حلق کروائے یا قصر لیکن اس کے لئے قصر کروانا
پسندیدہ ہے جب کہ خواتین کے لئے صرف قصر کروانے کا ہی حکم ہے۔
)9احرام :احرام کے لغوی معنی ہیں حرام کرنا ،احرام کو احرام اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ احرام کی
حالت میں بعض حالل کام بھی حرام ہوجاتے ہیں۔
مقام میقات سے پہلے صرف شریعت کی اصطالح میں حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ شہر میں ِ
دو بغیر سلی ہوئی چادروں سے جسم کو ڈھانپ لینے کو احرام کہتے ہیں۔خواتین کے لئے احرام یہ ہے
حْرم کہتے ہیں۔ دراصل یہ ایک کہ وہ چہرہ کو کپڑا لگنے سے بچائیں۔ احرام والے شخص کو ُم ِ
مخصوص کیفیت کا نام ہے جو احرام کی نیت کرنے کے بعد حج اور عمرہ کرنے والے پر الزم ہوتی
ہے۔ اس حالت میں حج اور عمرہ کرنے والے پر مخصوص پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ مثال خوشبو کے
استعمال اور شکار کی ممانعت وغیرہ۔
)10طواف :طواف کے لغوی معنی ہیں چکر لگانا یا کسی چیز کے گرد گھومنا۔
شریعت کی اصطالح میں خانہ کعبہ کے اردگرد عبادت کی نیت سے سات چکر لگانے کو
حجر اسود“ کہتےطواف کہتے ہیں۔ خانہ کعبہ کے ایک کونے میں ایک مبارک پتھر نصب ہے جسے ” ِ
طواف کعبہ کی ابتدا ہوتی ہے اور یہیں آکر طواف کا ایک چکر پورا ہوتا ہے۔ اس طرح ِ ہیں۔ یہاں سے
خانہ کعب ہ کے گرد سات چکر لگانے کو طواف کہتے ہیں۔ طواف حج کا بھی رکن ہے اور عمرہ کا بھی۔
اس کے عالوہ صرف ثواب کی نیت سے یعنی مستقل عبادت کے طور پر بھی طواف کیا جاتا ہے۔
طواف کی اقسام :طواف کی اقسام مندرجہ ذیل ہیں :
طواف قدوم :یعنی آنے کے وقت کا طواف ،یہ اُس شخص کے لئے سنت ہے جو میقات کے باہر سے
آیا ہو اورحج افرادیا حج قران کا ارادہ رکھتا ہو ،حج تمتع اور عمرہ کرنے والوں کے لئے سنت نہیں۔
طواف عمرہ :یعنی عمرہ کا طواف ۔
طواف زیارت :یعنی حج کا طواف جس کو طواف افاضہ بھی کہتے ہیں ،یہ حج کا رکن ہے ،اس
طواف کے بغیر حج پورا نہیں ہوتا ۔
طواف وداع :یعنی مکہ سے روانگی کے وقت کا طواف (یہ میقات سے باہر رہنے والے یعنی آفاقی
کے لئے ضروری ہے)۔
نفلی طواف:ثواب کی نیت سے حج یا عمرہ کے لئے طواف کرنا۔
37 / 131صفحہ نمبر
کے درمیان دوڑے۔ مروہ کی پہاڑی پر پہنچ کر اس کا ایک چکر پورا ہوگیا اب یہاں دوبارہ دعا مانگے
اور صفا کی طرف چلنا شروع کردے۔ اس طرح صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔
صفا و مروہ کے درمیان جگہ جہاں سعی کی جاتی ہے اسے مسعی کہتے ہیں۔
)12میقات :میقات عربی زبان کا لفظ ہے ،جس کا مطلب ہے کام کا وقت یا کام کی جگہ۔
شریعت کی اصطالح میں میقات سے مراد مکہ مکرمہ سے پہلے آنے واال وہ مقام ہے جہاں حج
اور عمرہ کرنے والے حضرات احرام باندہ کر نیت کرتے ہیں اور تلبیہ (لبیک اللھم لبیک۔۔۔۔) پڑھتے
ہیں۔ اگر کوئی شخص میقات سے احرام نہ باندھے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ واپس میقات
جاکر احرام باندھے یا ایک بکرے کی قربانی کرے۔
شریعت نے مختلف عالقوں کی طرف سے آنے والوں کے لئے الگ الگ میقات مقرر کی ہیں۔
پاکستان کی طرف سے جانے والوں کے لئے میقات یلملم ہے۔
)13رمی :عربی زبان میں کنکر مارنے کو رمی کہتے ہیں۔ شریعت کی اصطالح میں منی میں موجود
شیطان کے تین عالمتی ستونوں کو کنکری مارنے کا عمل رمی کہالتا ہے۔
ت حج میں شامل ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السالم رمی واجبا ِ
اور حضرت اسماعیل علیہ السالم کو قربانی کے لئے جاتے ہوئے تین بار بہکانے کی کوشش کی تھی۔
ہر بار جب شیطان کو سات کنکریاں ماری جاتی تھیں تو وہ دھنس جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السالم
کے اس عمل کی یاد میں حج کے لئے جانے والے مسلمان ہر سال ۱۱ ،۱ ۰اور ۱ ۲تاریخ کو شیطان
کے ان عالمتی ستونوں کو کنکریاں مارتے ہیں۔ بعض حاالت میں تیرہ ذوالحجہ کو بھی پتھر مارنے
ضروری ہو جاتے ہیں۔
)14جہاد :جہاد کا لفظ جہد سے نکال ہے جس کا مطلب ہے کوشش کرنا۔ جہاد کے لغوی معنی ایسے
عمل کے ہیں جس میں کسی چیز کے حصول کے لئے انتہائی محنت اور کوشش کی جائے۔
دینی اصطالح میں جہاد سے مراد یہ ہے کہ ہللا کے دین کی سربلندی ،حفاظت اور فروغ کے
لئے ہر قسم کی جدوجہد اور کوشش کرنا اور ہللا کے حکم اور اس کی پسند کے خالف کسی بھی قوت
کے سامنے رکاوٹ بننا۔
تعالی ہے:
ٰ جہاد کو قرآن میں فرض قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشا ِد باری
َال
ُ ِتُ الق ُمَيکَل
َ ع ِبُتک
ترجمہ :تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے۔ (سورۃ البقرۃ)۲۱ ۶ :
فرض کفایہ۔
ِ فرض عین ہوتا ہے اور کبھی
ِ جہاد کبھی
ت الہی سے روکنے والی بنیادی طور پر دو قوتیں ہیں۔ ایک اس کا )15جہاد بالنفس:انسان کو اطاع ِ
اپ نا نفس اور دوسرا شیطان۔ انسان کے دل میں طرح طرح کی خواہشات ابھرتی ہیں۔ ان تمام خواہشات کو
ہللا تعالی کے احکامات کے تابع رکھنا جہاد بالنفس ہے۔یعنی اگر خواہش شریعت کے کسی حکم کے
خالف ہو تو اس خواہش کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے لئے جتنی بھی مشقت اٹھانی پڑے وہ برداشت
کی جائے۔ اسے جہا ِد اکبر بھی کہتے ہیں۔
تعالی کا فرمان ہے :
ٰ ہللا
َ "ِينَمٰـل َنِ الع ِیٌّ ع َ َلغ
َن َّ اللاا
ِنِط ا َفس
ِه لند ِ َُِاھ َا ُ
يج َاَّ
ِنم د ف ََ
َاھمن ج ََ
" و
(العنکبوت)6/ 29 ،
38 / 131صفحہ نمبر
" اور جو شخص (را ِہ حق میں) جدوجہد کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے)لئے تگ و دو کرتا ہے ،بے
شک ہللا تمام جہانوں (کی طاعتوں ،کوششوں اور مجاہدوں) سے بے نیاز ہے " ۔
رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے :
( ترمذی ،رقم الحدیث : ُ"نفسَهد ََََاھمن ج د ََُِاھ َلم
ُج " ا
) 1621
" مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے " ۔
یعنی نفس امارہ جو آدمی کو برائی پر ابھارتا ہے ،وہ اسے کچل کر رکھ دیتا ہے ،خواہشات نفس کا تابع
نہیں ہوتا اور اطاعت ٰالہی میں جو مشکالت اور رکاوٹیں آتی ہیں ،ان پر صبر کرتا ہے ،یہی جہاد اکبر
ہے۔
)16حقوق ہللا:ہللا تعالی نے اس پوری کائنات کو تخلیق کیا ہے اور انسان کو اس وسیع اور المحدود
کائنات میں بلند ترین درجہ عطا فرمایا ہے اور تمام مخلوقات میں افضل بنا کر بھیجا ہے۔ ساتھ ہی اسے
خوبصورت اور متناسب جسم عطا فرمایا ہے۔ اس کے عالوہ انسان کو عقل و حواس سمیت بے شمار
صالحیتوں سے نوازا ہے۔ اس لئے انسانوں کے لئے ہللا تعالی کے حقوق ادا کرنا واجب ہیں۔وہ تمام
حقوق جو انسان پر ہللا تعالی کے لئے فرض ہیں انہیں حقوق ہللا کہا جاتا ہے۔
انسان پر ہللا تعالی کا پہال حق یہ ہے کہ اُسے اس کی ذات ،صفات اور صفات کے تقاضوں کے
ساتھ دل سے تسلیم کیا جائے۔ ہللا تعالی کا یہ بھی حق ہے کہ انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ اس
دین اسالم میں
کے حضور سجدہ شکر بجاالیا جائے یعنی اس کی عبادت کی جائے۔ عبادت کا طریقہ کار ِ
نماز کی صورت میں ہے اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ پابندی کے ساتھ نماز کی ادائیگی کریں۔
معبودیت اور تشکر کے جذبات کا اظہار حقوق ہللا کی ادائیگی کہالتا ہے۔ تمام عبادات جیسے کہ نماز،
روزہ ،زکوۃ اور حج وغیرہ کا شمار حقوق ہللا میں ہوتا ہے۔
)17حقوق العباد :عباد’ ،عبد‘ کی جمع ہے جس کے معنی ہے ’بندے‘۔ لہذا حقوق العباد کا مطلب ہوا
’بندوں کے حقوق‘۔
وہ حقوق جن کی پاسداری انسان کے لئے ضروری ہے وہ دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جن کا
تعلق ہللا سے ہے انہیں ”حقوق ہللا“ کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ حقوق جو انسانوں کے آپس میں ایک
دوسرے سے متعلق ہیں انہیں ”حقوق العباد“ کہا جاتا ہے۔
جہاں حقوق ہللا کی ادائیگی ضروری ہے وہاں حقوق العباد کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔
معاشرے میں بہت سے لوگ مل کر زندگی گزارتے ہیں اور ان کے ایک دوسرے پر کئی طرح سے
دین اسالم جو کہ کاملحقوق ہوتے ہیں ،جن کی ادائیگی سے معاشرہ خوشگوار رہتا ہے۔ ہللا تعالی نے ِ
دین ہے ،کے ذریعہ ہماری اس پہلو کے متعلق بھی رہنمائی فرمائی ہے اور انسانوں کے درمیاں حقوق
الَؑ والدین کے حقوق ،اوالد کے حقوق ،اساتذہ کے حقوق ،پڑوسیوں کے حقوق کا تعین کردیا ہے۔ مث َ
وغیرہ۔
معنی ہے "مالنا" لیکن عام اصطالح میں اس سے مراد ہے ٰ )18صلہ رحمی" :صلہ" کے لغوی
"کسی بھی قسم کی بھالئی اور احسان کرنا"۔ ’’رحم‘‘سے مراد قرابت اور رشتہ داری ہے۔ صلہ رحمی
کا مطلب ہے رشتہ داری کو جوڑنا یعنی رشتہ داروں کے ساتھ نیکی اور بھالئی کا سلوک کرنا۔
قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے :
( االسرائ : َّہ
َقٰی ح ُربَا الق ٰتِ ذَاو
) 26
39 / 131صفحہ نمبر
" اوررشتہ داروں کو اس کا حق دو " ۔
( بخاری ومسلم ) ٌ
ِعَاطَ ق َّۃ
َنُ الجُل
يدخ َال َ
’’قطع رحمی کرنے واال جنت میں داخل نہیں ہوگا"۔
حضرت جابر رضی ہللا عنہ سے روایت ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا پہلے اپنی ذات پر خرچ کرو
،پھر اگر کچھ بچے تو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو ،پھر اگر اپنے اہل و عیال سے کچھ بچے تو اپنے
رشتہ داروں پر ،اور اگر رشتہ داروں سے بھی کچھ بچ جائے تو ادھر ادھر اپنے سامنے ،دائیں بائیں
والوں پر خرچ کرو۔ (مسلم)
حضور اکرم ﷺ نے فرمایا :
ليس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذی إذا قطعت رحمہ
(بخاری) وصلها
“ وہ شخص صلہ رحمی کرنے واال نہیں جو کسی رشتہ دار کے ساتھ احسان کے بدلے میں احسان کرتا
ہے ،بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے واال وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی
کرے۔
40 / 131صفحہ نمبر
زندگی کا حصہ بنائیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں اس بات کی ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ جس معاشرے
میں رہتے ہیں اس کے قوانین کا احترام بھی ان پر فرض ہے۔
ب حالل” :کسب“ عربی زبان کا لفظ ہے ،جس کا مطلب ہے کمانا۔ شریعت کی اصطالح میں .3کس ِ
ب حالل سے مراد ای سی کمائی ہے جو جائز طریقے سے حاصل کی جائے اور تمام ایسے ذرائع سے کس ِ
گریز کیا جائے جو کہ اسالم کی نگاہ میں ناپسندیدہ یا برے ہیں۔ مثالَ َؑ :بددیانتی ،دھوکہ دہی،
رشوت،سودخوری ،ڈکیتی اور ذخیرہ اندوزی وغیرہ۔
قرآن و حدیث میں حالل روزی کمانے والے کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ایک حدیث
میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
ُ للاا َب
ِيب ُ حِب
الکاسَ َ
ترجمہ :حالل روزی کمانے واال ہللا کا دوست ہے۔
دوسری طرف حرام روزی کمانے والوں کے لئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ :حرام رزق پر پلنے والے جسم کو جہنم ہی کا ایندھن بننا چاہئے۔
.4ایثار :ایثار عربی زبان کا لفظ ہےجس کے معنی ہیں " دوسروں کی ضرورتوں کو اپنی ذاتی
ضرورت پر مقدم رکھنا ،قربانی دینا " ۔
شیخ اکبر ایثار کے بارے میں فرماتے ہیں کہ :
" ایثار سے مراد تیرا اپنے بھائی کو وہ چیز دینا ہے جس کا تو خود محتاج ہے " ۔ (مواقع النجوم)
تعالی نے تعریف
ٰ ایثار وقربانی کی صفات کا بہترین نمونہ پیش کرنے والے انصار کے بارے میں ہللا
کرتے ہوئے فرمایا :
َة ( الحشر ) 9 : ٌ َاص َ
ِم خص َ َ
َلو كان ب
ِه َِم و ِه ُ َ
ٰ أنفس َ
َلى َ ع ُونِريؤثَُو
" اور وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں ۔ اگر چہ خود فاقے ہی سے کیوں نہ ہوں " ۔
ایثار وقربانی کے تاریخی واقعات :
جذبہ ایثار اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینے کی ایسی ٔ اسالمی تاریخ میں مسلمانوں کے
بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں ،جس کی نظیر کسی دوسری قوم ومذہب میں نہیں ملتی۔
حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری کے گھر رات کو مہمان آگیا ،ان
کے پاس صرف اتنا کھانا تھا کہ یہ خود اور ان کے بچے کھاسکیں ،انھوں نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ
بچوں کو کسی طرح سالدو اور گھر کا چراغ گل کردو پھر مہمان کے سامنے کھانا رکھ کر برابر بیٹھ
جاؤ کہ مہمان س مجھے کہ ہم بھی کھارہے ہیں؛ مگر ہم نہ کھائیں؛ تاکہ مہمان پیٹ بھر کھاسکے۔
(ترمذی)
صحابہ کرام میں
ٔ حضرت قشیری نے حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ سے نقل کیاکہ
سے ایک بزرگ کو کسی شخص نے ایک بکری کا سربطور ہدیہ پیش کیا ،اس بزرگ نے خیال کیا کہ
ہمارا فالں بھائی اور اس کے اہل وعیال ہم سے زیادہ ضرورت مند ہیں ،یہ سر ان کے پاس بھیج دیا ،یہ
سر جب دوسرے بزرگ کے پاس پہنچا تو اسی طرح انھوں نے تیسرے کے پاس اور تیسرے نے
حتی کہ سات گھروں میں پھرنے کے بعد یہ سر پہلے بزرگ کے پاس واپس چوتھے کے پاس بھیج دیاٰ ،
آگیا۔
رومیوں کے مقابلے میں جانے والی فوج کے سازوسامان کے لیے مسلمانوں سے مالی اعانت
طلب کی گئی تو حضرت ابوبکر صدیق نے گھر کا سارا سامان لے آئے ۔
.5غیبت :غیبت کے لفظی معنی ہیں ’عدم موجودگی‘۔ شریعت کی اصطالح میں غیبت سے مراد یہ
ہے کہ کسی شخص کی عدم موجودگی میں ایسی بات کہی جائے کہ اگر وہی بات اس شخص کی
41 / 131صفحہ نمبر
موجودگی میں اس کے سامنے کہی جاتی تو اسے ناگوار گزرتی۔ عموماََؑ غیبت کے پیچھے بدنیتی کار
ق مخالف کی بے عزتی اور تحقیر کرنا ہوتا ہے تاکہ اسے لوگوں فرما ہوتی ہے اور اس کا مقصد فری ِ
کی نظروں میں گرایا جاسکے ،جو انتہائی بری حرکت ہے۔ جس سے باہمی تعلقات خراب اور آپس کی
زندگی تباہ ہوکر رہ جاتی ہے اور آپس میں بے اعتمادی اور بدگمانی پیدا ہوجاتی ہے۔
قرآن مجید کی سورۃ الحجرات کی آیت نمبر ۱ ۲میں غیبت سے بچنے کی تلقین اور اس کی
مذمت اس طرح بیان کی گئی ہے:
ترجمہ ” :اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا
ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم کو اس سے گھن آتی ہے۔“
.6اتہام (تہمت لگانا) :کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اُس پر الزام تراشی کرنا
یعنی اُس کے کردار کی ایسی خرابیاں بیان کرنا جو اُس میں نہ پائی جاتی ہوں ”اتہام“ کہالتا ہے۔ اس کا
دین اسالم میں سختی سے منع کیا گیا بنیادی مقصد کسی کی رسوائی ،بدنامی اور ذلت ہوتی ہے۔ اتہام کو ِ
ہے اور اس کی تحقیق کے بعد تہمت لگانے والے فرد پر تعذیر یعنی سخت سزا کا حکم دیا گیاہے۔ اتہام
مکمل طور پر جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ یہ صرف کسی فرد یا افراد کی جماعت کو رسوا اور
بدنام کرنے کے لئے لگایا جاتا ہے۔
ت رسول ﷺ :رسول ہللا ﷺ کا مقام ،مرتبہ اور شان اس لحاظ سے بلند ہے کہ ہللا تعالی نے .7اطاع ِ
ہدایت کی تکمیل رسول ہللا ﷺ پر کی اور نبوت کا خاتمہ کردیا اور دنیا کی تمام تہذیبوں اور معاشروں پر
اس بات کی وضاحت کردی کہ ہللا تعالی کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی اور ہدایت کا سلسلہ ختم کیا
جارہا ہے اور انسانوں کے لئے ایک کامل دین کا انتخاب کردیا گیا۔ اس لئے دنیا کے تمام انسانوں کو
نبی اکرم ﷺ کی سنت کی پیروی کرنی چاہئے اور اُن پر نازل کی جانے والی کتاب قرآن مجید میں
موجود ہللا تعالی کے احکامات کو حتمی اور قیامت تک رہنمائی کا وسیلہ سمجھنا چاہئے تاکہ اس پوری
دنیا کے انسانوں کو نہ صرف دنیا میں کامیابی حاصل ہو بلکہ آخرت میں بھی انہیں ہللا تعالی کی
خوشنودی حاصل ہوسکے۔ رسول ہللا ﷺ کی اطاعت اس لئے ضروری ہے کیونکہ ہللا تعالی نے انہیں اپنا
سل علیہم السالم کی تعلیمات آخری رسول بناکر بھیجا اور آنحضرت ﷺ نے تمام سابقہ انبیائے کرام اور ُر ُ
کو مکمل ا ور حتمی طور پر ازسر نو لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اس کے بعد ہللا تعالی کی طرف
سے انسانوں کی مزید ہدایت اور رہنمائی کی ضرورت باقی نہ رہی۔
ہللا تعالی نے رسول اکرم ﷺ کی زندگی کو ہمارے لئے عملی نمونہ قرار دیا ہے۔ ارشا ِد باری
تعالی ہے:
( ٌ َ
َسَنة َة حٌ ُ
ِ للااِ اسوَسُول ِى ر َد كان لكم ف
ُ َ َ َ َلق
االحزاب ) 21 :
"بے شک تم لوگوں کے لیے رسول ہللا ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے "۔
ہللا تعالی نے رسول ہللا ﷺ کی اطاعت کو اپنی محبت کا ثبوت قرار دیا ہے:
(آل ُ للااُ “ ُمِبکيحب ِی ُ ُون ِع َ َّ
اتب َ للااَ فُّون
تحِبُم ُ ُنتِن کُل ا ق
عمران)31 :
"اے محبوب ﷺ کہدیجئے ! اگر تم محبت رکھتے ہو ہللا کی تو میری پیروی کرو ( اور اس کا نتیجہ یہ
ہوگا کہ ) خود ہللا تم سے محبت کرنے لگے گا " ۔
رسول ہللا ﷺ نے اپنی اطاعت کی اہمیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
42 / 131صفحہ نمبر
َ للااِ
َسُول
يا ربی َ َٰمن ا َََ وِيل ٰی قَبمن ا ِالَّ َ
َ اَّۃ
َن َ الج ُون
ُل ِی َّ
يدخ متَُّ ُل
ُّ ا ک
ٰی “(بخاری)7280 : َ َ
ِی فقد ابَ َان
َصمن ع َََ و َّۃ
َنَل الجَ ِی َ
دخ َن َ
من اطاع َال َ
َ ق
" میرا ہر امتی جنت میں جائے گا ۔ سوائے اس کے جو انکار کردے عرض کیا کہ انکارکرنے واال
شخص کون ہوگا؟ ارشاد فرمایا ۔ جو شخص میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں جائے گا اور جو میری
نافرمانی کرے گا وہ انکار کرنے واال ہوگا "
ارکان اسالم کے نام تحریر کیجئے۔
ِ ارکان اسالم سے کیا مراد ہے؟
ِ سوال نمبر :3
معنی "ستون " کے ہیں ۔ رکن ایسی چیز کو کہتے ہیں
ٰ ارکان اسالم :ارکان رکن کی جمع ہے جس کے
ِ
جس پر کسی عمارت کے قائم رہنے کا دارومدار ہو ۔ یہاں ارکان اسالم سے مراد دین کے وہ بنیادی
اصول واعمال ہیں جن پر اسالم کی پوری عمارت قائم ہے ۔
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے :
ده َبُدا ع ًَّ
َم محَّ َُ
َان ہ اَّ
ِال للااُ و ِلَ َ
ِ ان َّال اٰ دةَاََمسٍ شَه ٰی خ َل
ُ عِسَالمِیَ اال بن" ُ
َ"َان ََ
مض ِ ر َومَصِ وَج
ّ َالح ِ و ٰوة َّک
َائِ الز ِيتَا ِ وٰوةَّل
ِ الص َام َا
ِق َسُوُلہ و َر
و
( بخاری ومسلم )
"اسالم کی عمارت پانچ ستونوں پر اٹھائی گئی ہے ۔ اس بات کی شہادت کہ ہللا کے سوا کوئی معبود
زکوۃ
نہیں اور یہ کہ حضرت محمد ﷺ ہللا کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اور نماز قائم کرنا ۔ اور ٰ
دینا ۔ اورحج کرنا ۔ اور رمضان کے روزے رکھنا "۔
اسالم کے بنیادی ارکان پانچ ہیں۔
۱۔شہادت۔ (یعنی ہللا تعالی کے معبو ِد برحق اور رسو ِل اکرم ﷺ کے آخری رسول ہونے کی گواہی)
(یعنی پانچ وقت کی نماز) ۲۔صلوۃ۔
(یعنی فقراء و مساکین کا حق) ۳۔زکوۃ۔
(یعنی رمضان المبارک کے روزے) ۴۔صوم۔
ت بیت ہللا کے لئے مکہ مکرمہ جانا) (زیار ِ ۵۔حج۔
سوال نمبر:4نماز کے تین فوائد تحریر کریں۔
نماز کے فوائد :نماز کا اصل اور سب سے اہم فائدہ تو ہللا کی رضا کا حصول ہے۔ اس کے عالوہ
دیگر تین فوائد درج ذیل ہیں:
۱۔اگر نماز کو اس کے آداب کی رعایت کے ساتھ پڑھا جائے تو انسان متقی بن جاتا ہے جس کی
وجہ سے اس کے لئے گناہ سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ
تعالی ہے:
ٰ ارشا ِد باری
َ
ُنکر َ َ َ
ٰ عنِ الفحشاء والم َ َ
ٰة تنهی َ َّلو
ِن الص َّ ا
ترجمہ:بیشک نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے۔ (سورۃ العنکبوت)۴ ۵ :
ذکر
ذکر خداوندی کا افضل ترین ذریعہ ہے۔ اس عبادت میں زبان ،جسم اور قلب بیک وقت ِ ۲۔نماز ِ
ٰالہی میں مشغول رہتے ہیں اور بندہ اپنے رب سے براہ راست گفتگو کرتا ہے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے:
ِی
ِکر لذَ ِٰةَّلوِ الصِمَقَاو
ترجمہ :اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ (سورہ طہ)۱ ۴ :
۳۔نماز کی شرائط میں یہ بھی داخل ہے کہ نماز کو اس کے مقررہ وقت میں ہی ادا کیا جائے،
چنانچہ جب انسان نماز کو اس کے وقت میں ادا کرتا ہے تو نماز کی ادائیگی کی بدولت انسان کے اندر
43 / 131صفحہ نمبر
وقت کی پابندی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں ہر کام مقررہ وقت پر کرنے
کا عادی بن جاتا ہے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے:
ُ
موقوتا ً
با َّ َاَِت َ
ِين ک ِنُؤم َلی الم َ انت عَ ََ ک ٰةَّلو َّ الص ِن
ا
ترجمہ :بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت میں فرض کی گئی ہے۔
سوال نمبر :5روزہ کی کتنی اقسام ہیں؟
روزہ کی اقسام:روزہ کی چار بڑی اقسام ہیں:
فرض روزے :ما ِہ رمضان ،کفارہ ،نذر وغیرہ کے روزے۔ .1
سنت :محرم الحرام کی نویں اور دسویں تاریخ کے روزے ،عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ .2
ایام بیض یعنی ہر قمری مہینہ کی تیرہویں ،چودہویں اور پندرہویں تاریخ کے روزے ،پیر ار
اور ِ
جمعرا ت کے روزے۔
مکروہ روزے :صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنا وغیرہ۔ .3
ایام تشریق یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں،
حرام :عید الفطر اور عید االضحی کے دو روزے اور ِ .4
بارہویں اور تیرہویں تاریخ کے تین روزے۔
سوال نمبر :6روزے کے تین فوائد تحریر کریں۔
روزے کے فوائد :روزہ رکھنے کا اصل اور سب سے اہم فائدہ تو ہللا کی رضا کا حصول ہے۔ اس
کے عالوہ دیگر تین فوائد درج ذیل ہیں:
۱۔روزے کا سب سے اہم فائدہ جو قرآن میں بھی بیان کیا گیا ہے وہ تقوی کا حصول ہے۔ ارشا ِد باری
تعالی ہے:
َّقونُ تت ُ
َلکم َ َّ َ ُ
ِکم لع َ
ِن قبل َ
ِين م َّ
َلی الذ َ َ عِب ُ
َا کت َ
ُ کم َامّيُ الص ُ
َليکمَ َ ع ُت
ِب ک
ترج مہ :تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم
پرہیزگار بن جاؤ۔(سورۃ البقرۃ)۱ ۸ ۳ :
۲۔جب انسان روزہ رکھتا ہے تو اس کے دل میں غریبوں کا خیال اور ان کا احساس پیدا ہوتا ہے۔
۳۔روزہ انسان کی روح کے ساتھ ساتھ اس کے جسم کو بھی تقویت بخشتا ہے اور انسان کی اندرونی
مشین کے پورے نظام میں بہتری پیدا کرتا ہے۔
سوال نمبر:7زکوۃ کے تین فوائد تحریر کریں۔
زکوۃ کے فوائد :زکوۃ کی ادائیگی کا اصل اور سب سے اہم فائدہ تو ہللا کی رضا کا حصول ہے۔ اس
کے عالوہ دیگر تین فوائد درج ذیل ہیں:
۱۔زکوۃ کی ادائیگی سے مال گردش میں آتا ہے جس سے معیشت میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔
۲۔ جب امیر لوگ غریبوں کی مدد کرتے ہیں تو معاشرے میں بہتر فضا قائم ہوتی ہے اور اس کے
نتیجے میں جہاں امیروں کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے وہیں غریبوں کو بھی یہ احساس ہوتا ہے
کہ وہ اس غربت کی حالت میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کی مدد کرنے کے لئے ان کے مسلمان بھائی
موجود ہیں۔
۳۔زکوۃ کی ادائیگی سے امیر کا پیسہ غریب کی جیب میں پہنچ جاتا ہے جس سے امیر اور غریب کے
درمیان تفریق کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔
ب نصاب سے کون سا شخص مراد ہے؟
زکوۃ کا نصاب تحریر کریں یا صاح ِ
سوال نمبرٰ :8
44 / 131صفحہ نمبر
زکوۃ فرض نہیں کی ہے بلکہ مال کی ایک خاص حد مقرر کی زکوۃ :شریعت نے ہر فرد پر ٰ ب ٰ نصا ِ
ہے اور حکم دیا ہے کہ جس کے پاس اتنا یا اس سے زیادہ مال موجود ہو اور اس پر سال گزراہو تو وہ
زکوۃ کا نصاب کہالتی ہے اور
زکوۃ ادا کرے۔ مال کی یہ حد ٰ
اپنے مال میں سے ڈھائی فیصد (ٰ )2.5%
زکوۃ کا
ب نصاب کہالتا ہے۔ ٰزکوۃ کے نصاب کے بقدر مال موجود ہو وہ صاح ِ جس شخص کے پاس ٰ
نصاب یہ ہے:
ساڑھے سات تولہ۔ سونا:
ساڑھے باون تولہ۔ چاندی:
سونا /چاندی کے نصاب کے برابر۔ نقدی/ما ِل تجارت:
سوال نمبر :9حج کی اقسام تحریر کریں۔
حج کی اقسام :حج کی تین اقسام ہیں:
۳۔ تمتع۔ ۲۔ قِران ۔ ۱۔اِفراد۔
( )1حج اِفراد:اِفراد کے لغوی معنی ہیں ’’:اکیالاور تنہا ،جب کہ شرعی اصطالح میں صرف حج
کی نیت سے احرام باندھ کر حج کے افعال و مناسک ادا کرنا اور عمرہ ساتھ نہ مالنا ‘حج اِفراد کہالتا
ہے۔ حج اِفراد کرنے والے کو ”مفرد“ کہا جاتا ہے‘‘ ۔
( )2حج قران:قران(ق کے کسرہ کے ساتھ) کے لغوی معنی ہیں’’:دو چیزوں کوباہم مالدینا ،جب کہ
شرعی اصطالح میں عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے احرام باندھنا اور ایک ہی احرام کے ساتھ پہلے
عمرہ اورپھر حج اداکرنا اور درمیان میں احرام نہ کھولنا‘حج قران کہالتا ہے۔حج قران کرنے والے
کو"قارن"کہا جاتا ہے۔امام ابو حنیفہ کے نزدیک حج قران افضل ہے‘‘۔
عازم حج کا میقات
ِ ( )3حج تمتع:تمتع کے لغوی معنی ہیں’’:نفع اٹھانا ،جب کہ شرعی اصطالح میں
سے پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھنا اورعمرہ کے افعال ومناسک ادا کر نے کے بعد احرام کھول
دینا اور پھر 8ذوالحجہ کو پھر حج کا احرام باندھ کر مناسک حج ادا کیے جائیں ۔حج تمتع کرنے والے
کو "متمتع"کہا جاتا ہے‘‘۔
الغرض اِفراد میں ایک سفر میں ایک احرام میں ایک عبادت ہوتی ہے ،تمتع میں ایک سفر میں
دو احرام میں دو عبادتیں ہوتی ہیں اور قِران میں ایک سفر اور ایک احرام میں دو عبادتیں ادا کی جاتی
ہیں۔
سوال نمبر:10حج کے تین فوائد تحریر کریں۔
حج کے فوائد :حج کا اصل اور سب سے اہم مقصد تو ہللا کی رضا کا حصول ہے۔ اس کے عالوہ
دیگر تین فوائد درج ذیل ہیں:
۱۔حج مساوات(برابری) کی بہترین عملی شکل ہے۔حج کے لئے تمام دنیا کے مسلمان ایک لباس میں
ملبوس ہوکر بغیر کسی کالے ،گورے اور امیر و غریب کی تمیز کے اکٹھے ہوتے ہیں اور مل کر
سک حج ادا کرتے ہیں۔
منا ِ
۲۔حج کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ حضور ﷺ کا
ارشاد ہے:
مہ ُ
دتہ اُّ َ
َّلَ
ِ و َوِ
م َ
َ کيَع َجيفسُق رَلم ََ َ
يرفث و َ َ
ّٰلل فلم َ َج
َّ ِّٰ َ
من ح
ترجمہ :جو کوئی خالصتا ہللا تعالی کے حکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اور حج کے دوران گناہ اور بے
حیائی کے کاموں سے باز رہتا ہے تو وہ اس طرح (گناہوں سے پاک ہوکر) لوٹتا ہے جیسے اس دن تھا
جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ (بخاری)
45 / 131صفحہ نمبر
ت مسلمہ کے افراد کے لئے اقتصادی ترقی کا ایک ذریعہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ حج کے دوران
۳۔حج ام ِ
مختلف ممالک سے آئے ہوئے اور مختلف پیشوں اور شعبوں سے منسلک افراد آپس میں ایک دوسرے
سے تبادلہ خیال کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے تجربات اور مشوروں سے مستفید ہوتے ہیں۔
سوال نمبر :11جہاد کی اقسام تحریر کریں۔
جہاد کی اقسام :جہاد کی کئی اقسام ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں :
( )2جہادبالمال ( )3جہادباللّسان ( )4جہادبالسیف ( )1خواہش نفس کے خالف جہاد ( جہاد بالنفس )
( )5جہادبالقلم
خواہش نفس کے خالف جہاد (جہاد اکبر /جہاد بالنفس ): ()1
ت الہی سے روکنے والی بنیادی طور پر دو قوتیں ہیں۔ ایک اس کا اپنا نفس اور دوسرا انسان کو اطاع ِ
شیطان۔ انسان کے دل میں طرح طرح کی خواہشات ابھرتی ہیں۔ ان تمام خواہشات کو ہللا تعالی کے
احکامات کے تابع رکھنا جہاد بالنفس ہے۔یعنی اگر خواہش شریعت کے کسی حکم کے خالف ہو تو اس
خواہش کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے لئے جتنی بھی مشقت اٹھانی پڑے وہ برداشت کی جائے۔ اسے
تعالی کا فرمان ہے :
ٰ جہا ِد اکبر بھی کہتے ہیں۔ہللا
َ
ِين َ
ٰـلم َنِ الع ِیٌّ ع َ َ
َ لغن َّ
ِن اللاا ط
ِ ا ِه َ
لنفسِد َُِاھيج َا ُ ِنمَّ َ
د فا ََ
َاھمن ج ََ" و
(العنکبوت)6/ 29 ، "
" اور جو شخص (را ِہ حق میں) جدوجہد کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے )لیے تگ و دو کرتا ہے ،بے
شک ہللا تمام جہانوں (کی طاعتوں ،کوششوں اور مجاہدوں) سے بے نیاز ہے " ۔
رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے :
( ترمذی ،رقم الحدیث : ُ"نفسَه د َ
ََ َاھ من ج د َ ُِ
َاھ َلم
ُج " ا
) 1621
" مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے " ۔
یعنی نفس امارہ جو آدمی کو برائی پر ابھارتا ہے ،وہ اسے کچل کر رکھ دیتا ہے ،خواہشات نفس کا
تابع نہیں ہوتا اور اطاعت ٰالہی میں جو مشکالت اور رکاوٹیں آتی ہیں ،ان پر صبر کرتا ہے ،یہی
جہاد اکبر ہے۔
جہادبالمال:جہادبالمال سے مراد ہللا کے دیئے ہوئے مال و دولت کو ہللا کی راہ میں ہللا کے ()2
دین کی سر بلندی ،دین اسالم کی حفاظت ،ملک کی حفاظت و بقاء ،دین کی تبلیغ اور جہاد فی سبیل ہللا
میں خرچ کرنا ہے مختصر طور پر یہ ہے کہ ہللا کی رضا کے لئے خرچ کرنا یہ جہاد جہاد بالمال کہالتا
ہے۔
جہاد باللّسان:جہادباللّسان سے مراد معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کے خالف زبان ()3
سے جہاد کرنا ہے ،یہ جہاد وعظ و تقریر کی شکل میں کیاجاسکتا ہے،یا پھر بُرائی کے ارتکاب کرنے
والے فرد کو َبر وقت زبان سے ٹوک کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر برائی کے خالف
زبان سے لڑنے کا نام جہاد باللّسان ہے۔
( )4جہادبالسیف:یہ جہاد کی اہم ترین قسم کا ہے ،جس کا مطلب ہے ہللا کے دین کی حفاظت ،ملک
مادر وطن کی سا لمیت کے لئے سر پر کفن باندھے ہوئے ہاتھ میں ِ کی بقاء ،سرحدوں کے تحفظ اور
ّ
ُشمنان ملک و ملت کے خالف لڑنا جہادبا لسیف کہالتا ہے اور حقیقت میں یہ افضل ِ تلوار لیے ہوئے د
ترین جہادہے کہ جس میں کام آ نے والے شہیداور بچ جانے والے غازی کہالتے ہیں۔ اگر کوئی کفر
46 / 131صفحہ نمبر
کے خالف جنگ کرتا ہوا مارا جائے تو قرآن کے فرمان کے مطابق اسے مردہ نہ کہا جائے بلکہ
تعالی ہے:
ٰ حقیقت میں وہ زندہ ہے۔ ارشاد باری
ِن الَّ ٰ َ ٌ َ َ َ ٌ َ
ِ اّٰللِ أموات بل أحياء ولک َ ّ ِيل َ
ِي سب َل ف
ُ يقتَن ُ لم ولوا ِ ُ ُتقَالَ َ
و
َ
ُون ُرتشع َ
ترجمہ :اور جو لوگ ہللا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں( ،وہ مردہ نہیں)
بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔
(سورۃ البقرۃ)۱۵ ۴ :
( )5جہادبالقلم:یہ اہم ترین فریضہ جہادیہ ہے کہ اہ ِل علم اور صاحب ِقلم افراد اپنے علم اور قلم کے
ذریعے برائیوں کو روکنے اورنیکیوں کو فروغ دینے میں صرف کریں اور ایساعمل کرنے والے
افرادکو مجاہد بالقلم کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ قلم کی طاقت تلوار کی طاقت سے کہیں زیادہ
ہوتی ہے۔
سوال نمبر :12والدین کے حقوق کے متعلق ایک آیت یا حدیث تحریر کیجئے۔
والدین کے حقوق کے متعلق آیت یا حدیثِ :
دین اسالم میں والدین کے حقوق پر بہت زیادہ زور دیا
حسن سلوک کا حکم دیا
ِ گیا ہے۔قرآن مجید میں ہللا تعالی نے جا بجا اپنی عبادت کے فورا بعد والدین سے
ہے۔
ہللا تعالی اگر حقیقی خالق ہیں تو والدین انسان کی دنیا میں پیدائش کا وسیلہ ہیں۔ یہ ایک مسلمہ
حقیقت ہے کہ پیدائش سے موت تک انسان اپنے والدین کا محتاج ہوتا ہے۔ ہر انسان پر والدین کے اتنے
احسانات ہوتے ہیں کہ اگر وہ ساری زندگی بھی ان کی خدمت کرتا رہے تب بھی ان کے احسانات کا بدلہ
نہیں چکاسکتا لیکن وہ ان کے احسانات کے جواب میں ان کی خدمت کرسکتا ہے ،ان کی اطاعت اور ان
حسن سلوک کرسکتا ہے۔ قرآن و حدیث میں والدین کے حقوق کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا ِ سے
ٰ
گیا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ہللا تعالی نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے
۔ ارشا ِد باری تعالی ہے:
ً
ِحسَانا لدينِ ا َ َاِ ِالو َب
ُ و ِياه َّ
ِال اَّ ُدوا اَُالَّ تعب
َ بکَ ا َُّ
ٰی ر َضَق و
( االسراء ) 24 ، 23 :
" اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سواہ کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے
حسن سلوک سے پیش آو "۔ِ ساتھ
رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ :
َ
َّ أيٌّ
ثمَ َُالَا قِهَقتَى و َلُ ع ََّالة
َ الص َال َِلى َّ
اّٰللِ ق ُّ إ
َبَحِ أَل
َمَيُّ الع " أ
(بخاری) دينِ" لََاُِّ الوِرَّ ب
ثمَ َُالق
"ہللا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے" آپ ﷺنے ارشاد فرمایا نماز کو اپنے (مستحب)
وقت میں (پڑھنا) اس نے پھر سوال کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو آپ
نے ارشاد فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک۔
سوال نمبر :13پڑوسیوں کی اقسام بیان کیجئے۔
پڑوسیوں کی اقسام :سورہ نساء میں ہللا تعالی نے پڑوسی کی تین اقسام بیان فرمائی ہیں:
)1وہ پڑوسی جو رشتہ دار ہوں :یہ وہ ہمسایہ ہے جو رشتے دار بھی ہے۔ اس کا حق دیگر پڑوسیوں
کے مقابلے میں مقدم ہے۔
47 / 131صفحہ نمبر
)2وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہ ہوں :اس سے مراد وہ پڑوسی ہے جو رشتے دار نہیں بلکہ صرف
پڑوسی ہے۔ اس کا درجہ پہلے والے سے کم ہے۔
)3عارضی پڑوسی :یعنی جس کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہو۔ اس اصطالح سے مراد ایک گھر یا
عمارت میں رہنے والے مختلف لوگ،دفتر ،فیکٹری یا کسی اور ادارے میں ساتھ کام کرنے والے
افراد ،تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ساتھی ،دوست اور دیگر ملنے جلنے والے احباب شامل
ہیں۔
سوال نمبر:14منافق کی نشانیاں بیان کیجئے۔
منافق کی نشانیاں :حضور ﷺ نے احادی ِ
ث مبارکہ میں منافق کی تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں۔ چنانچہ
ارشا ِد نبوی ﷺ ہے:
َ
ِن ُ َ
ِذا اؤتمَا
َ و َ َ َ
َد اخلفَع َ
ِذا و َا
َ وِب َ َ
َدث کذ َّ َ
ِذا ح َ
ِ ثالث :ا َ ِقَاف ُن
ُ الم يۃَٰا
َ
َان خ
ترجمہ” :منافق کی تین نشانیاں ہیں:
۱۔جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔
۲۔ جب وعدہ کرے تو وعدہ خالفی کرے۔
۳۔ جب (اس کے پاس) امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔“
سوال نمبر :15ایفائے عہد کے سلسلہ میں حضرت ابوجندل رضی ہللا تعالی عنہ کے
معاملہ میں نبی ﷺ نے کیا فیصلہ فرمایا؟
سن 6ہجری میں ہونے والی صلح حدیبیہ میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر کوئی شخص مکہ
سے مدینہ جائے گا تو مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اسے واپس مکہ بھیج دیں۔ ابھی یہ معاہدہ
لکھا گیا تھا اور دستخط ہونا باقی تھے کہ اتنے میں حضرت ابوجندل رضی ہللا تعالی عنہ زنجیروں میں
جکڑے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اپنے جسم کے داغ دکھائے کہ اہ ِل مکہ
نے انہیں مسلمان ہوجانے پر کتنی اذیت دی ہے ،اور درخواست کی کہ انہیں مدینہ ساتھ لے جایا جائے۔
باوجود اس کے کہ آپ ﷺ اپنی امت پہ بہت زیادہ شفقت فرماتے تھے ،آپ ﷺ نے انہیں اپنے ہمراہ مدینہ
لے جانے سے محض اس لئے انکار کردیا کہ قریش سے معاہدہ ہوچکا تھا۔
سوال نمبر :16درج ذیل کے درمیان فرق تحریر کریں۔
.2سعی اور طواف .1عمرہ اور حج
.4جنگ اور جہاد .3میقات و عرفات
.5حقوق ہللا اور حقوق العباد
حج عمرہ
حج فرض عبادت ہے۔ عمرہ نفلی عبادت ہے۔ )1
ایام حج میں ادا کیا جاسکتا ہے۔
عمرہ ایام حج کے عالوہ کبھی بھی ادا کیا حج صرف ِ )2
جاسکتا ہے۔
منی ،مزدلفہ اور عرفات بھی جانا ہوتا حج میں ٰ عمرہ صرف مکہ میں رہتے ہوئے ہوتا ہے۔ )3
ہے۔
حج میں طواف اور سعی کے ساتھ دیگر مناسک عمرہ طواف اور سعی کرنے کا نام ہے۔ )4
بھی ادا کئے جاتے ہیں۔
حج سال میں صرف ایک مرتبہ ادا کیاجاسکتا عمرہ سال میں کئی مرتبہ کیا جاسکتا ہے۔ )5
48 / 131صفحہ نمبر
ہے۔
طواف سعی
ہللا تعالی کے گھر یعنی بیت ہللا شریف کے گرد حجر اسود کے بالمقابل
ِ مسج ِد حرام سے نکل کر )1
حج اور عمرہ کے دوران سات چکر لگانے کے دو ٹیلوں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ کر
عمل کو "طواف" کہا جاتا ہے۔ سات چکر مکمل کرنے کو "سعی" کہا جاتا ہے۔
فرائض حج میں ہوتا ہے۔
ِ طواف کا شمار ت حج میں ہوتا ہے۔ سعی کا شمار واجبا ِ )2
حجر اسود سے شروع ہوتا ہے اور خانہ ِ طواف سعی میں صفا سے مروہ اور مروہ سےصفا )3
کعبہ کے گرد سات چکر لگائے جاتے ہیں۔ تک سات چکر لگائے جاتے ہیں اور ساتواں
چکر مروہ پر ختم ہوتا ہے۔
سعی کے دوران مرد حضرات کا درمیانی چال مرد اور خواتین دونوں کے لئے ضروری ہے )4
سے دوڑنا ضروری ہے جب کہ خواتین کے کہ طواف درمیانی رفتار سے کریں
لئے دوڑنا ضروری نہیں ہے۔
حضرت ہاجرہ کی پانی کی تالش کی کوشش کو طواف ہللا تعالی کی یاد میں کیا جاتا ہے۔ )5
یاد رکھتےہوئے سعی کی جاتی ہے۔
عرفات میقات
عرفات مکہ مکرمہ سے 10میل کے فاصلہ پر )1میقات کے لفظی معنی درست جگہ کے ہیں۔
ایک وسیع و عریض میدانی عالقہ کا نام ہے۔
حج کے دوران 9ذی الحجہ کو زوال کے بعد )2حج کی اصطالح میں وہ مقامات جہاں سے ہر
ب آفتاب تک حاجی عرفات میں سے لے کر غرو ِ حاجی کے لئے احرام باندھنا ضروری ہوجاتا
"وقوف عرفات" کہا جاتا
ِ قیام کرتے ہیں جسے ہے "میقات" کہالتے ہیں۔
ہے۔
فرائض حج میں شامل ہے اور یہ ِ وقوف عرفات
ِ )3حدو ِد میقات کی حرمت کے تحت ان مقامات پر
حج کا ایک رکن ہے اس لئے حج کی ادائیگی احرام باندھنا الزمی قرا دیا گیا ہے۔
کے دوران اس کا ادا کرنا ضروری ہے۔
عرفات ایک میدانی عالقہ ہےجس کے بارے )4حدو ِد میقات چھ مقامات ہیں جہاں پر پہنچ کر
میں روایت ہے کہ اس مقام پر حضرت جبرائیل احرام باندھنا الزمی ہے۔ ان مقامات کی تقسیم
علیہ السالم نے حضرت ابراہیم علیہ السالم کو مختلف عالقوں سے آنے والے حاجیوں کے
مناسک حج کی تعلیم دی تھی۔
ِ لحاظ سے ہے۔
ایام حج میں الزم ہے ِ پابندی کی عرفات وقوف
ِ )5حدو ِد میقات پورے سال کے لئے ہے۔
اور اس کا ادا کرنا ضروری ہے۔
جہاد جنگ
جہاد کے لفظی معنی کوشش کرنا ہیں۔ )1جنگ کے لفظی معنی لڑائی کرنا ہیں۔
دین حق کی سر بلندی کے لئے
)2ذاتی اور دنیاوی مقاصد کے لئے کی جانے والی ہللا کی رضا اور ِ
کی جانے والی لڑائی جہاد کہالتی ہے۔ لڑائی کو جنگ کہتے ہیں۔
49 / 131صفحہ نمبر
)3جنگ کا مقصد کسی مخصوص گروہ یا فرد کے جہاد کا مقصد انسان کو طاغوتی قوتوں کے
خالف جذبہ برتری یا معاشی اور سیاسی غلبہ غلبے سے نجات دالنا اور ان کے شر سے ان
کو بچانا ہوتا ہے۔ حاصل کرنا ہوتا ہے۔
فاتحین جنگ ہر ممکن ظلم ،دہشت گردی اور جہاد میں کامیابی کے بعد فاتح امن اور سالمتی ِ )4
کی فضا قائم کرتا ہے۔ سفاکی سے کام لیتے ہیں۔
جہاد کی صورت میں امن و امان قائم ہوتا ہے۔ )5جنگ کی صورت میں تباہی پھیلتی ہے۔
50 / 131صفحہ نمبر
سوال نمبر :1صلوۃ (نماز)کی اہمیت بیان کیجئے اور نماز کے فوائد تحریر کریں۔
معنی "دعا
ٰ صلوۃ(نماز) :لغوی واصطالحی معنی :نماز کو عربی میں ٰ
صلوۃ کہتے ہیں ۔ جس کے لغوی
کرنا ،قریب ہونا اور است غفار " کے ہیں ۔اصطالحی لحاظ سے نماز وہ طریقہ عبادت ہے جو نبی کریم
ﷺ کے ذریعے ہم تک پہنچا جس میں قیام ،قراۃ ،رکوع ،سجدہ التحیات اور سالم بھی ہے ۔ نماز کی
ابتداء تکبیر تحریمہ (ہللا اکبر) سے ہوتی ہے اور نماز کی انتہا سالم (یعنی السالم علیکم ورحمۃ ہللا) پر
ہوتی ہے۔
قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں جابجا نماز قائم کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
ٰوة َّک
تواالز ُٰ
َا َ وٰوةُوا الصل ِيمَق َا
و
ترجمہ :اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ (سورۃ البقرۃ)۴ ۳ :
حضور ﷺ کا ارشاد ہے:
ِين دالّ
د َاُِم ُ ٰ
َّلوة ع الص َ
ترجمہ :نماز دین کا ستون ہے۔
معراج کے موقع پر نماز فرض ہوئی۔ شروع میں پچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں پھر کم ہوتے
ہوتے پانچ ہوگئیں۔
قرآن کی روشنی میں نماز کی اہمیت:نماز قائم کرنا ہللا تعالی کا حکم ہے اور ہللا تعالی نے جابجا
اس کا حکم دیا ہے اور اس کے قیام کی تاکید فرمائی ہے۔ قرآن میں ۷ ۰۰مقامات پر نماز کا حکم دیا گیا
ہے۔ نماز کی اہمیت کے حوالے سے قرآن کی چند آیات درج ذیل ہیں:
ہللا نے قرآن میں بارہا نماز کے قیام کی تاکید کی ہے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے:
ٰوة َّک
تواالز ُٰ
َا َ وٰوةُوا الصل ِيمَق َا
و
ترجمہ :اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ (سورۃ البقرۃ)۴ ۳ :
ہللا نے متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے ان کے نمازی ہونے کا بھی ذکر کیا ہے:
ٰوةَّلَ الص ُون ِيم يق َيبِ و
َُ ِالغ َ بُون ِنيؤمَ ُ ِينََّلذ
ا
ترجمہ(:متقی وہ لوگ ہیں) جو غیب پر ایمان التے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ (سورۃ البقرہ)۳ :
51 / 131صفحہ نمبر
احادیث مبارکہ کی روشنی میں نماز کی اہمیت:نماز سے متعلق نبی اکرم ﷺ کے بہت سے فرمان
ہیں جو نماز کی دین اسالم میں اہمیت اور مسلمان کی زندگی میں کردار کو واضح کرتے ہیں ان میں
سے چند درج ذیل ہیں:
تعالی اس کے لئے ایک نیکی لکھتے ہیں ،ایک گناہٰ ”جو ہللا کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے ہللا ۰
معاف کرتے ہیں اور ایک درجہ بلند کرتے ہیں۔“
” قیامت کے دن بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا اور یہ حساب سب سے پہلے ہوگا۔ اگر ۰
نماز صحیح تو باقی اعمال بھی ٹھیک رہیں گے اور اگر یہ بگڑی ہوئی تو باقی اعمال بھی بگڑ گئے۔“
” نماز دین کا ستون ہے جس نے اسے قائم کیا گویا اس نے دین کو قائم کیا جس نے اسے گرا •
دیاگویا اس نے دین کو گرا دیا۔“
” نماز پڑھنے سے نمازی کے گناہ جھڑ جاتے ہیں جیسے خزاں کے موسم میں درختوں سے •
پتے۔“
”نمازکفر و اسالم کے مابین امتیاز پیدا کرتی ہے۔“ •
نماز کے انفرادی و اجتماعی اثرات:
ارکان اسالم جو کہ مسلمانوں پر فرض کیے گئے ہیں ان میں ایک خاص مقصد بھی پوشیدہ ہے
تعالی ہماری نمازوں کے محتاج نہیں بلکہ یہ
ٰ اور یہ فوائد خلوص نیت کی بنیاد پر حاصل ہوتے ہیں۔ خدا
تو محض ایک شکرانہ ہے ان تمام نعمتوں کا جو اس نے ہمیں عطا کی ہیں۔
احساس بندگی :پانچ وقت نماز کی ادائیگی مسلمان کی اپنے رب کی بارگاہ میں حضوری کے )1
قیمتی لمحات ہیں۔ بندگی کا یہ احساس متواتر نماز پڑھنے سے ایک مسلمان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے
لی
اور اس کی پوری زندگی تعمیل احکام کا عملی مظاہرہ بن جاتی ہے۔دن میں پانچ مرتبہ حق باری تعا ٰ
کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان خدا کا عاجز اور محتاج بندہ ہے اور یہ عمل
مقصد حیات سے آگاہی کا سبب بنتی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ:
”ہم نے جن و ا نس کو اس لئے پیدا کیا تا کہ وہ ہماری عبادت کریں۔“
قانون ٰالہی کی پابندی :جب دل و دماغ میں احساس بندگی موجزن ہوجائے تو پھر وہ احکام ِ )2
الہی کی پابندی میں سر توڑ کو شش کرتا ہے۔ دین اسالم کے قوانین قرآن کی شکل میں ہمارے پاس آئے ٰ
جنہیں صرف پڑھنا ہی نہیں بلکہ ان پر عمل بھی کرنا ہے۔ اسی طرح نماز بھی خلوص نیت اور خشوع
و خضوع کے ساتھ ادا کرنی چاہئے اگر یہ خیال انسان کے ذہن میں سرایت کر جائے کہ دوران نماز
میں ہللا کو دیکھ رہا ہوں یا اس سے مشرف بالکالم ہوں تو یقینا بہترین نماز ادا ہوگی۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے
کہ:
” نماز پڑھتے وقت یہ سوچا کرو کہ تم ہللا کو دیکھ کر نماز پڑھ رہے ہو اگر یہ سوچ نہیں آئے گی تو
ذہن میں یہ بات رہنی چاہئے کہ ہللا تمہیں دیکھ رہاہے۔“
تعمیر سیرت :دن میں پانچ مرتبہ قرب خداوندی کا احساس مسلمان کو یقین دالتا ہے کہ ہللا )3
تعالی ہر وقت اس کے ساتھ ہے اور یہ احساس انسان کو گناہ کے کاموں سے روکتا ہے اور اس کے ٰ
الہی ہے جو انسان میں نیکیوں اندر کے انسان میں ایک نمایاں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔نماز وہ عبادت ٰ
تعالی ہے کہ:
ٰ کی رغبت اور برائیوں سے روکتی ہے۔ ارشاد باری
”بے شک نماز بے حیائی اور بری بات سے روکتی ہے۔“
52 / 131صفحہ نمبر
ضبط نفس :اگر دن میں پانچ نمازوں کے اوقات دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ انسان کے صبر )۴
کا امتحان ہے۔ ٍنماز کے مختلف اوقات انسان کی مصروفیت کے اوقات ہیں اور وہ اوقات ہیں جب انسان
کو دنیا کے ہنگاموں سے کھینچ کر الیا جاتا ہے اور اس گھڑی ہی مسلمان کا صحیح امتحان ہوتا ہے کہ
آیا وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرنے کو ترجیح دے گا یا دنیاوی کاموں کو۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ:
” منافق اور مسلمان کا فرق یہ ہے کہ منافق ٹال ٹال کر نماز پڑھتا ہے اور مومن اول وقت میں نماز ادا
کرتاہے۔“
وقت کی پابندی :نماز کی ادائیگی ایک تربیتی کورس ہے جس سے وقت کی قدر کی اہمیت کا )5
اندازہ ہوتا ہے اور جب انسان کے اس عمل میں پختگی آتی ہے تو پابندئی وقت اس کی ذات کا خاصہ بن
تعالی ہے کہ:
ٰ جاتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری
” اے مومنو! نماز قائم کرو بے شک مومنوں پر نماز وقت کی پابندی کے ساتھ فرض قرار دی گئی ہے۔“
طہارت و پاکیز گی :نماز کی اولین شرائط میں یہ بنیادی باتیں شامل ہیں کہ نمازی کا جسم، )6
لباس اور جگہ پاک صاف ہو۔اسی پاکی اور صفائی سے ذہن بھی پاک صاف ہوجاتا ہے اور برے خیاالت
تعالی نے نماز سے قبل پاکی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے: ٰ پرورش نہیں پاتے۔ ہللا
”اے ایمان والو!جب تم نماز کے لئے اٹھو تو چاہئے کہ اپنے منہ دھو لیا کرواور اپنے ہاتھ کہنیوں تک
دھو لو اور پاؤں ٹخنوں تک دھولو اور اگر تم ناپاکی کی حالت میں ہوتو اچھی طرح پاکی حاصل
کرلو(یعنی غسل کرلو)۔“
الہی کا ذریعہ:نماز کو عربی میں صلوۃ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ صلوۃ کا مطلب ہے )۷قرب ٰ
تعالی سے بغیر کسی واسطے کے بات چیت کرتاہے،اپنی ضرورتیں اور ٰ دعا اور نماز میں ایک بندہ ہللا
حاجتیں ہللا سے براہ راست طلب کرتا ہے اور پھر نماز کا ہر رکن ہمیں ہللا سے قریب تر کر دیتا ہے جو
بڑی سعادت ہے۔حضورﷺ نے فرمایا:
الہی کا ذریعہ ہے۔“
”نماز قرب ٰ
مومن کی معراج :دنیاوی اعتبار سے نماز کو مومن کی معراج کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی )۸
فرضیت کا حکم معراج نبوی ﷺ کے موقع پر دیا گیا۔ اس واقعہ کے پیش نظر سب سے بڑی فضیلت یہ
قرار دی جاتی ہے کہ جو نماز صحیح مقاصد کے ساتھ پڑھی جائے وہ نمازی کو ایک بلند درجے تک
پہنچادیت ی ہے اور وہ بلند درجہ ہے معراج یعنی وہ مقام جس سے افضل کوئی دوسرا مقام نہیں ہو سکتا
لہذا نماز پورے اہتمام کے ساتھ ادا کرنے کی فضیلت انسانیت کی معراج کے سوا کچھ بھی نہیں۔یہ بات
بھی ہے کہ جس طرح حضور ﷺ کو معراج کی شب ہللا سے ہم کالمی کا شرف حاصل ہوا اسی طرح بندہ
مومن کو بھی نماز میں ہللا سے ہم کالمی کا شرف حاصل ہوتا ہے۔اسی لئے کہا جاتاہے:
”نماز مومن کی معراج ہے۔“
ریاء سے اجتناب:نماز کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ وہ نمود و نمائش سے پاک ہو )۹
کیونکہ ریاء خلوص کو ختم کر دیتی ہے۔ اور ایک نمازی صرف دکھاوے کے لئے نمازیں ادا کرتا رہتا
ہے۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس کی تعریف کریں اور وہ بہترین عبادت گزار
کی شکل سے پہچانا جائے جبکہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ:
”پس تباہی و بربادی ہے ایسے نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں میں غفلت برتتے ہیں اور دکھاوا
کرتے ہیں۔“
53 / 131صفحہ نمبر
)۱۰خشوع و خضوع کا حصول :نماز محض چند ارکان ادا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ عاجزی
کے ساتھ ہللا کے حضور جھکنے کا نام ہے۔ جسم اور اعضاء کے ساتھ ساتھ ایک نمازی کا دل و دماغ
بھی ہللا کی طرف راغب ہونا ضروری ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا:
”جو نماز خالص خشوع و خضوع کے ساتھ ادا نہ کی جائے وہ مومن کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔“
نماز کے اجتماعی فوائد:
اطاعت امیر کا جذبہ :نما ز کے اجتماعی فوائد میں سب سے پہلی بات یہ واضح ہوتی ہے کہ )۱
اس کی بدولت مسلمان کسی کے ماتحت رہ کر کام سر انجام دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ
ایک امام کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز کا ہر رکن ادا کرتے ہیں تو یہ مظاہرہ ان میں اطاعت امیر کا
جذبہ بھی پروان چڑھاتا ہے۔
اخوت و مساوات کا عملی نمونہ:نما ز باجماعت ادا کرنے سے مسلمانوں کے درمیان )۲
اخوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور خاص طور سے باجماعت نماز کے ذریعے مساوات کا مظاہرہ بھی
ہوتاہے کیونکہ ہللا کے گھر میں ہر آنے واال نمازی چاہے وہ بادشاہ ہو یا فقیر ایک ساتھ صف بندی
کرتے ہیں اور کسی قسم کا فرق باقی نہیں رہتا کیونکہ ہللا کے گھر پہنچ کر تمام مسلمان ایک آدم کی
اوالد ہونے کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔
اجتماعیت کا شعور :نماز باجماعت اور بطور خاص جمعہ اور عیدین کی نمازوں سے )۳
مسلمانوں میں اجتماعیت کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ جب مسلمان رنگ ،نسل ،عالقے اور طبقے کے
امتیازات سے بے نیاز ہو کر شانے سے شانہ مال کر امام کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں تو اس سے ان
کے درمیان فکری وحدت کے ساتھ ساتھ عملی مساوات کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔
نظم و ضبط جماعت :نماز با جماعت نظم و ضبط جماعت کا وصف مسلمانوں میں پیدا کرتی )4
ہے اسالم میں نماز با جماعت مسلمانوں کی زندگی کی عملی مثال ہے۔نماز کے ارکان کی یکساں
ادائیگی مسلمانوں میں تعاون ،مشاورت ،میل جول اور نظم و ضبط پیدا کرتی ہے۔
الفت و محبت :نماز با جماعت کی ادائیگی مسلمانوں میں الفت و محبت پیدا کرنے کا ذریعہ )5
ہے جب مسلمان دن میں پانچ بار آ پس میں ملتے ہیں تو ان کی بیگانگی ختم ہو جاتی ہے۔ اور اس کی
جگہ ایک دوسرے سے محبت و الفت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جس سے وہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے
بھی ہر وقت تیار رہتے ہیں۔
تجزیہ :نماز ہللا تعالی ٰ کی بندگی کا احساس دالتی ہے۔ یہ مجموعہ عبادت ہی نہیں بلکہ رابطہ کا وہ
سلسلہ ہے جو مسلمان کو اس دنیا کو آخرت کی کھیتی
بنانے میں موثر ہے۔ نماز ہی مومن کے لئے وہ ہتھیار ہے جس سے وہ اس دنیاوی امتحان میں سرخرو
ہو سکتاہے۔ مسلمان کی کامیابی کا راز نماز کی مکمل و درست ادائیگی میں ہی پنہاں ہے۔
سوال نمبر :2صوم(روزہ)کی اہمیت بیان کیجئے اور روزہ کے فوائد تحریر کریں۔
صوم (روزہ) :روزہ ِ
دین اسالم کا تیسرا اور اہم رکن ہے۔ عربی زبان میں روزہ کے لئے صوم کا لفظ
استعمال ہوتا ہے ،جس کے لغوی معنی ہیں ”رکنا“۔
ب آفتاب تک کھانے ،پینے اور نفسانی
شریعت کی اصطالح میں صبح صادق سے لے کر غرو ِ
خواہشات سے عبادت کی غرض سے رکنے کا نام روزہ ہے۔روزہ کی فرضیت کے بارے میں ہللا تعالی
کا ارشاد ہے:
54 / 131صفحہ نمبر
َ
ِين َی َّ
الذ َلَ عِب َ ک
ُت َماُ کَام ّيُ الص
ِ ُمَيک َلَ ع ِبُت
ُوا ک منَٰ
َ ا ِين َا َّ
الذ ٰا ُّ
ايه ي
ُ َّ
َّکم تتقون۔َ ُ َ
ِکم لع ُ َ
ِن قبل م
ترجمہ :اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے
گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(سورۃ البقرۃ)۱۸ ۳ :
روزہ ہجرت کے دوسرے سال فرض کیا گیا۔
قرآن کی روشنی میں روزہ کی اہمیت:روزہ اسالم کا ایک اہم رکن ،اسالمی تہذیب کا ایک اہم
عنصر اور اسالمی عبادات میں ایک اہم عبادت ہے جو کہ ہللا تعالی کی طرف سے اہل ایمان پر فرض
ہے۔ قرآن مجید میں ارشا ِد باری تعالی ہے:
َ
ِين َّ ََ
ِب علی الذ َ ُ َ َ ُ
ِيام کما کت َ ّ ُ ُ
ِب عليکم الص َ َ َ ُت
ُوا ک منَٰ
َ ا ِين َا َّ
الذ ٰا ُّ
ايه ي
َّقون۔ُ َ
َّکم تت ُ َ
ِکم لع ُ َ
ِن قبل م
ترجمہ :اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے
گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(سورۃ البقرۃ)۱۸ ۳ :
ایک دوسری جگہ ہللا تعالی نے ارشاد فرمایا ہے:
ُمُ
ہ َصَلي َ ف ُ الشَّهر ُمِنک د م َن شَه
َِ َمف
ترجمہ :جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو الزم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔(سورۃ
البقرۃ)۱ ۸ ۵ :
اجر عظیم کا وعدہ
سورۃ االحزاب کی آیت نمبر ۳ ۵میں ہللا نے جن لوگوں کے لئے مغفرت اور ِ
کیا ہے ان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ روزہ رکھتے ہیں۔
حدیث کی روشنی میں روزہ کی اہمیت:
رسول اکرم ﷺ نے بہت سی احادیث مبارکہ میں روزہ کی اہمیت بیان کی ہے۔ چند احادیث
مندرجہ ذیل ہیں:
رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: روزہ ڈھال ہے:
”روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے۔“
جہنم سے نجات :رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
تعالی اس کے چہرے کو جہنم سے ستر ٰ تعالی کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا ،تو ہللا ٰ ”جس نے ہللا
سال (کی مسافت کے قریب) دور کر دیتا ہے۔“
ریان سے داخلہ :نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا:
”جنت (کے آٹھ دروازوں میں سے) ایک دروازے کا نام ” َریّان“ ہے ،جس سے قیامت کے دن
صرف روزے دار داخل ہوں گے ،ان کے عالوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہوگا ،کہا جائے گا
روزے دار کہاں ہیں؟ تو وہ کھڑے ہو جائیں گے اور (جنت میں داخل ہوں گے) ان کے عالوہ کوئی اس
دروازے سے داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے ،تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی
اس سے داخل نہیں ہوگا۔“
روزہ سفارش کرے گا :رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا :اے میرے رب! میں نے اس
بندے کو دن کے وقت کھانے (پینے) سے اور جنسی خواہش پوری کرنے سے روک دیا تھا ،پس تو اس
55 / 131صفحہ نمبر
کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کہے گا :میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روک
دیا تھا ،پس تو اس کے بارے میں سفارش قبول فرما۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔“
روزہ دار کے منہ کی خوشبو :رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
” قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد(صلی ہللا علیہ وسلم) کی جان ہے ،روزہ دار کے منہ کی
بُو ہللا کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔“
ث قدسی میں ہے کہ ہللا تعالی ارشاد فرماتے ہیں: روزہ کا اجر:ایک حدی ِ
’روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا۔“
تعالی نے یہ ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ الحسن بعشر امثالھا یعنی نیکیٰ یعنی دیگر نیکیوں کے لیے تو ہللا
لی نے اسکا اجر کم از کم دس گنا اور زیادہ سے زیادہ سات سو گناتک ملے گا۔ لیکن روزے کو ہللا تعا ٰ
مستثنی فرما دیا اور یہ فرمایا کہ قیامت والے دن اس کی وہ ایسی خصوصی ٰ عام ضابطے اور کلیہ سے
جزاء عطا فرمائے گا ،جس کا علم صرف اسی کو ہے اور وہ عام ضابطوں سے ہٹ کر خصوصی
نوعیت کی ہوگی۔
روزے کے فوائد:روزہ اسالمی معاشرے کے افراد کے لئے انفرادی و اجتماعی دونوں حیثیتوں سے
بہت فوائد کا باعث ہے۔ ان فوائد و برکات سے وہی فرد اور معاشرہ مستفید ہوتا ہے جہاں حقیقی معنوں
میں روزے کا عمل انجام پذیر ہوتا ہے اور روزے کے آداب و شرائط کا پورا پورا لحاظ رکھا جاتا ہے۔
ایک روزہ دار کو مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں:
انفرادی فوائد:
روزے کے انفرادی فوائد درج ذیل ہیں:
تقوی و پرہیز گاری کو بہت زیادہ اہمیت کی حاصل ٰ تقوی اور پرہیز گاری:دین اسالم میں )1
وی
ہے۔ ہللا ایسے بندوں کو پسند فرماتے ہیں جو متقی اور پرہیز گار ہوں۔ روزے کا اصل مقصد اسی تق ٰ
و پرہیز گاری کا حصول ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ:
َ
ِين َّ
َلی الذ َ َ ع ُ َ
ُ کما کت
ِب َ َام ّيُِ الص ُم َيک
َلَ ع ِبُت
ُوا ک منََٰ اِين الذَا َّ ٰا ُّ
ايه ي
َّقون۔ُ ُ
َّکم َ
تت َ
ِکم لعُ َ
ِن قبل م
ترجمہ :اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے
گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(سورۃ البقرۃ)۱۸ ۳ :
تعمیر شخصیت:روزہ ہماری شخصیت کو تکمیل کے مراحل تک پہنچاتی ہے۔ہماری )2
شخصیت کی تعمیر اسی طرح سے ہو سکتی ہے کہ ہم وہ سب اعمال اختیار کریں جو ہللا کو پسند ہوں۔
اخالص کا حصول:روزہ سے عبادت میں انہماک او ربندگی کو صرف ہللا کے لئے خالص )3
کردینے کا عقیدہ پیدا ہوتا ہے ،کیونکہ روزہ ہللا اور بندے کے درمیان ایک راز ہے اور اخالص ہللا کی
قربت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس عمل اور مشقت کا کوئی فائدہ نہیں جواخالص سے خالی ہو کیونکہ
ہللا اپنے ساتھ کسی غیر کی شرکت کو پسند نہیں کرتا۔ اور صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص
اسی کے لئے کیا گیا ہو۔
نفس پر کنٹرول:روزہ نفس کے تقاضوں اور جسم کے ناجائز میالنات کا مقابلہ کرنے کی قوت )4
ت ارادی پیدا ہوتی ہے۔ جب روزہ دار دن کے وقت اپنے آپ پیدا کرتاہے اور روزہ ہی سے انسان میں قو ِ
کو حالل چیزوں سے بھی روکتا ہے تو اس سے اس کے اندر یہ قوت پیدا ہوتی ہے کہ باقی اوقات میں
اپنے آپ کو حرام چیزوں سے بھی روکے۔
56 / 131صفحہ نمبر
صبر کی قوت کا حصول:روزہ انسان کو صبر اور ضبط نفس کا عادی بناتا ہے جس سے اس )5
کے اندر یہ قوت پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقصد کے راستے میں درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرسکے۔
غصہ پر کنٹرول :روزہ جاہلوں کے ساتھ بردباری کا درس ہے۔ روزہ دار سے جب کوئی )6
جھگڑتا ہے ،گالی دیتا ہے یا اسے جوش دالتا ہے تو وہ غصے کو پی جاتا ،بردباری کا مظاہر کرتا ہے
اور اسے کہتا ہے کہ بھائی میرا روزہ ہے ،لہٰ ذا میں تجھ سے الجھنے کا روادار نہیں ہوسکتا ۔
غریبوں کا احساس:روزہ ،روزہ دار کے دل میں محتاج اور تنگ دست کے لئے شفقت اور )۷
رحم دلی کے جذبات پالتا ہے ،جب وہ بھوک کی تلخی کو محسوس کرتا ہے تو اس کے اندر تنگ دستوں
کے لئے رحم کا جذبہ انگڑائیاں لیتا ہے اور وہ فورا ان کے لئے دست تعاون دراز کردیتا ہے۔
اجتماعی فوائد:
تقوی کے
ٰ تقوی کا ماحول:روزے کا سب سے اہم فائدہ جو اجتماعی طور پر سامنے آتا ہے وہ ٰ )1
ماحول کا پیدا ہونا ہے۔ جب معاشرے کے تمام لوگ برائیوں سے بچ کر نیکیوں کی طرف جائیں گے تو
تقوی کا ماحول پیدا ہوجائے گا۔ اس طرح روزہ پورے انسانی معاشرے کے اندر تبدیلی پیدا کرتا ٰ ایک
ہے۔
تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہمارا فرض ہے۔ رمضان میں ٰ اجتماعی تشکر:ہللا )2
اجتماعی طور پر ہللا کی نعمتوں کا شکر اد اکرنا بہت ثواب کا حامل ہے۔ ہر شخص چھوٹی سے چھوٹی
چیز کے حصول پر ہللا کا شکر ادا کرتا ہے ،تراویح پڑھتا ہے ،رات رات بھر جاگ کر شکرانے کے
نفل ادا کرتا ہے۔ یہ شکرانے اجتماعی حالت میں رمضان میں زیادہ نظر آتے ہیں۔
اجتماعی پیروی :رمضان میں عبادات پر جو لوگ زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے ہیں یہ اس کی )3
نشاند ہی ہے کہ ہم سب لوگ مل کر اجتماعی طور پر ان تمام باتوں کی پیروی کرتے ہیں جو حضرت
تعالی نے ہمیں سکھائی۔
ٰ محمد ﷺ اور ہللا
معاشرتی ہمدردی:روزہ ہمیں ایک خاص وقت کے لیے کھانا پینا چھوڑکر ہمیں غرباء و )4
مساکین کی زندگی کا احساس دالتا ہے اور ہمارے دل میں احساس ہمدردی پیداکرتا ہے یوں روزہ
اجتماعی طور پر ہمدردی کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ:
”یہ مہینہ ہمدردی کا مہینہ ہے یعنی اسے شہر المواسات بھی کہا جاتا ہے۔“
اجتماعیت کا حصول:روزہ ،روزہ دار کے دل میں اجتماعیت کے تصور کومستحکم کرتا ہے، )5
کیونکہ چہار سو عالم میں بسنے والے مسلمان ایک ہی مہینہ میں روزہ رکھتے ہیں اور وہ محسوس
کرتے ہیں کہ یہ خیر روزہ کے سبب سے ہے۔
ما ِہ رمضان نسل ورنگ کے اختالف کے باوجود پورے عالم میں بسنے والے مسلمان بھائیوں کو اس
ت ملت کا شعور مزید مستحکم ہوجاتا عبادت میں شریک کرلیتا ہے جس سے مسلمانوں کے اندر وحد ِ
ہے اور وحدت المسلمین کا شعور پروان چڑھتا ہے۔ یہ تربیت ِمعاشرہ کا انتہائی اہم پہلو ہے۔ جس سے
مسلمانوں کے درمیان انفرادی اور اجتماعی سطح پر تعلقات اور روابط مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتے
ہیں۔
حاصل بحث :روزہ اسالم کا ایک اہم رکن ہے۔ جو خاص رمضان المبارک کے مہینے میں فرض کیے
گئے ہیں۔ اس ایک مہینہ میں مسلمانوں کوایسا پر رونق اور پر نور ماحول ملتا ہے جس میں وہ اپنے
نفس کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی کوشش انہیں باقی کے گیارہ مہینوں میں مدد گار
57 / 131صفحہ نمبر
ہوتی ہے۔ روزہ کے ثمرات کا اندازہ انسانی زندگی میں حاصل ہونے والے فوائد سے بخوبی لگا یا جا
تعالی کی رضا کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔
ٰ سکتا ہے گویا کہ روزہ ہللا
سوال نمبر :3زکوۃ کی اہمیت بیان کیجئے اور اس کے فوائد تفصیل سے تحریر کریں۔
زکوۃ :زکوۃ ِ
دین اسالم کا چوتھا اور بنیادی رکن ہے۔ زکوۃ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی
پاک ہونے اور بڑھنے کے ہیں۔ زکوۃ کو اس لئے زکوۃ کہا جاتا ہے کہ اس سے مال پاک و صاف بھی
ہوتا ہے اور مال میں برکت اور اضافہ بھی ہوتا ہے۔
شریعت کی اصطال ح میں زکوۃ سے مراد مسلمان کے مال کا وہ حصہ ہے جو ہر صاحب نصاب
شخص سال پورا ہونے پر عبادت کی نیت سے ،ہللا کی رضا کے لئے غریبوں کو دیتا ہے اور انہیں اس
مال کا مالک بنادیتا ہے۔ زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں نماز
زکوۃ کا بیان بیاسی ()82مقامات پر آیا ہے۔ کے ساتھ ٰ
قرآن پاک میں جابجا زکوۃ کی تلقین کی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے:
ٰوةَّک
تواالز ُٰ
َاَ وٰوة ُوا الصل ِيم َقَا
و
ترجمہ :اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ (سورۃ البقرۃ)۴ ۳ :
زکوۃ کے واجب ہونے کی شرائط:
ب
۶۔صاح ِ ۴۔عاقل ہونا۔ ۵۔مقروض نہ ہونا۔ ۳۔بالغ ہونا۔ ۱۔مسلمان ہونا۔ ۲۔آزاد ہونا۔
نصاب ہونا۔
ت زندگی سے خارج ہونا۔ ۸۔مال پر سال گزرنا۔ ۷۔مال کا ضروریا ِ
قرآن کی روشنی میں زکوۃ کی اہمیت:ارکان اسالم میں نماز کے بعد دوسرا اہم ترین رکن ٰ
زکوۃ ہے۔
زکوۃ کی فرضیت کا حکم یکجا وارد ہوا ہے۔ قرآن حکیم میں بیاسی ( )82مقامات وہ ہیں جہاں نماز اور ٰ
قرآن کی اہمیت کا اندازہ درج ذیل چند آیات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے:
تقوی سے ب ہرہ یاب ایمانداروں کی عالمات بیان کرتے ٰ ت رشد و ہدایت اور ایک مقام پر دول ِ
ہوئے ارشاد فرمایا گیا:
َّا
ِمَ م َ و ٰوة َ الص
َّل ُونِيم يق َ ُ َيبِ و ِالغ َ بُونِن يؤم َ ُ ِين َ َّ
الذ ِين َّق
ُتِلم ُدیً ل ھ
َ
ِقون۔ ُ ينف ُِم ُ ُ ٰ
َزقنهَ ر
”( قرآن) متقین کیلئے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں ،نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انہیں جو
رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔“ (البقرہ)۳،۲:
اسی طرح ایک اور مقام پر روئے خطاب پھر ایمان والوں کی طرف کرتے ہوئے ہللا جل مجدہ
نے ارشاد فرمایا:
ُمَسَبتما ک ٰتِ َ ّ
ِبَيِن ط ُوا م ُوا انف
ِق من َٰ
َ ا ِين َا َّ
الذ يهَُّٰاا ي
”اے ایمان وا لو! جو پاکیزہ (مال) تم کماؤ اس میں سے (ہللا کی راہ میں) خرچ کرو۔“(البقرۃ)۲۶ ۷ :
اسی پیرایہ میں مزید تاکید کے ساتھ انفاق مال کی ضرورت پر ان الفاظ سے زور دیا گیا:
ُ
َوت ُ الم ُمدکَََحِیَ ايات َن َِّ ا َبلِن ق ُم ّ
م ٰکَقنَز َّا ر ِمُوا م ِقَنف َاو
”ہم نے تمہیں جو رزق عطا کیا اسے اس سے پہلے کہ تم پر موت آ جائے (ہللا کی راہ میں) خرچ کر
لو۔“(المنافقون)۱ ۰ :
58 / 131صفحہ نمبر
زکوۃ کا سبب بنے۔ باریقرآن حکیم نے متعدد مقامات پر ان عوامل کی نشاندہی فرمائی ہے جو فرضیت ٰ
تعالی اہل ایمان سے براہ راست مخاطب ہو کر یوں ارشاد فرماتے ہیں: ٰ
ُمٰک َ
َزقن َّا ر ِمُوا م ِقَنف ُوا ا منَٰ
َ ا ِين َ َّ
االذ َُّ
يه ياا
”اے ایمان والو! ہم نے جو تمہیں رزق دیا اس میں سے خرچ کرو۔“(البقرۃ)۲۵ ۴ :
صاحبان اقتدار و اختیار کے فرائض منصبی اور وظائف ِ قرآن حکیم نے اسالمی ریاست کے ِ
( )Functionsگنواتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
ََ وٰةَوّکتوا الز ُٰ
َ ا َ و ٰوة َّل
موا الص َاُ َق
ض ا ِی االَرِ ُم ف َّن
ّٰه مک َ ا
ِن َّ ِين الذ َّ
ِOمور ُ االََُۃِبَاق َ ِّٰ
ّٰلل ع ِ ِ
و َرُنکَنِ الم َوا ع نهَ َ ُوفِ و َعرِالم ُوا بمر ََ ا
(یہ اہ ِل حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور
زکوۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھالئی کا حکم کریں اور ٰ
(لوگوں کو) برائی سے روک دیں ،اور سب کاموں کا انجام ہللا ہی کے اختیار میں ہے۔(سورۃ الحج۱ :
)۴
ت اسالمیہ کے قیام کے چار بنیادی مقاصد بالترتیب درج ذیل ہیں: ت کریمہ کی رو سے حکوم ِ متذکرہ آی ِ
۔اقامت صلوۃ
زکوۃ
۔ایتائے ٰ
۔امر بالمعروف
۔نہی عن المنکر
ایک اور جگہ ہللا نے ارشاد فرمایا ہے:
ُاتوََٰاَ و ٰوةَّل
موا الص َاُ َقَاٰتِ و
ِح ّٰل ُوا الص ِلَمَعُوا و َٰ
من َ ا ِين َّ َّ
الذ ِنا
َ ُ َ َ
ُ م يح زنون۔ ََ
ِم وال ھ ََ ٌ َ
ِم وال خوف عليه ََ به َ َ
ِند رُ ُم ع ُھ َ
ُم اجر َ َ ٰ
الزکوة له َّ
ترجمہ:بے شک جو لوگ ایمان کے ساتھ (سنت کے مطابق) نیک کام کرتے ہیں ،نمازوں کو قائم کرتے
تعالی کے پاس ہے ،ان پر نہ تو کوئی خوف ہے ،نہ ٰ ہیں اور زکوۃادا کرتے ہیں ،ان کا اجر ان کے رب
اداسی اور غم۔(سورۃ البقرۃ)۲ ۷۷ :
زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے متعلق قرآن میں وعید ان الفاظ میں مذکور ہے:
ترجمہ:اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور ہللا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے،
آتش دوزخ میں تپایا(گرم کیا) جائے گا انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے،جس دن اس خزانے کو ِ
پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم
نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔(سورۃ التوبۃ)۳۵،۳۴ :
حدیث مبارکہ کی روشنی میں ٰ
زکوۃ کی اہمیت:
زکوۃ کی زکوۃ نہ صرف قرآن مجید کے حوالے سے موجود ہے بلکہ حدیث کی روشنی میں بھی ٰ اہمیت ٰ
آپ نے فرمایا؛
فضیلت و اہمیت بیان ہوئی ہے۔ ؐ
تعالی اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے مال کی زک ٰوۃ ادا ٰ ”جو شخص ہللا
کرے۔“
اس طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوا:
زکوۃ دیا کرو یہ مال میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔“
” ٰ
پھر ارشاد ہوا:
59 / 131صفحہ نمبر
زکوۃ لینے واال آئے تو تم کو چاہیئے کہ وہ تمہارے پاس سے اس حالت میں ”جب تمہارے پاس کوئی ٰ
واپس جائے کہ وہ تم سے راضی ہو۔“
حضرت عبد ہللا ابن عمر رضی ہللا عنہما سے روا یت ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا:
”مجھے ہللا پاک نے اس پر مامور کیا ہے کہ َمیں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک وہ یہ
گواہی نہ دیں کہ ہللا کے سوا کو ئی سچا معبود نہیں اور محمد (ﷺ)خدا کے سچے رسول ہیں ،ٹھیک
طرح نماز ادا کریں ،زکوۃ دیں ،پس اگر ایسا کر لیں تو مجھ سے ان کے مال اور جا نیں محفوظ ہو جائیں
گے سوائے اس سزا کے جو اِسالم نے (کسی حد کے سلسلہ میں)ان پر الزم کر دی ہو۔“(صحیح
البخاری)
نبی پاک ﷺ نے حضرت معاذ رضی ہللا عنہ کو جب یمن کی طر ف بھیجا تو فرمایا:
” ان کو بتاؤ کہ ہللا پاک نے ان کے مالوں میں زکوۃ فرض کی ہے جومال داروں سے لے کر فقرا کو دی
جائے۔“(سنن الترمذی)
حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ فرما تے ہیں:
جب رسول پاک ﷺ کا وصا ِل ظاہری ہو گیا اور حضرت ابو بکر رضی ہللا عنہ خلیفہ بنے اور کچھ قبا ئل
عرب مرتد ہو گئے (کہ زکوۃ کی فرضیت سے انکار کر بیٹھے) تو حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے کہا:
آپ لوگوں سے کیسے معاملہ کریں گے جب کہ رسول ہللا ﷺ نے ارشاد فرمایاَ ” :میں لو گوں سے جہاد
کرنے پر ما مور ہوں جب تک وہ َال ا ِٰل َہ ا اِال ہللا نہ پڑھیں۔ جس نے َال ا ِٰل َہ ا اِال ہللا کا اقرار کر لیا اس نے
اپنی جان اور اپنا مال مجھ سے محفوظ کر لیا مگر یہ کہ کسی کا حق بنتا ہو اور وہ ہللا پاک کے ذمے
ہے۔”(یعنی یہ لوگ تو ََل ا ِٰل َہ ا اِال ہللاُ کہنے والے ہیں ،ان پر کیسے جہاد کیا جائے گا)
حضرت ابوبکر رضی ہللا عنہ نے کہا” :ہللا کی قسم! َمیں اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور
زکوۃ میں فرق کرے گا (کہ نماز کو فرض مانے اور زک ٰوۃ کی فرضیت سے انکار کرے) اور زکوۃ مال
کا حق ہ ے بخدا اگر انھوں نے (واجب االداء) ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول ہللا ﷺ کے دور میں دیا
کرتے تھے تو َمیں ان سے جنگ کروں گا۔”حضرت عمر رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں”:وہللا! میں نے
دیکھا کہ ہللا پاک نے صدیق کا سینہ کھول دیا ہے۔ اُس وقت میں نے بھی پہچان لیا کہ وہی حق
ہے۔“(صحیح البخاری)
آپ ﷺ نے زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا:
زکوۃادا نہ کرنے والوں کا مال ودولت گنجا سانپ (یعنی انتہائی زہریال) بناکر ان پر ”قیامت کے روز ٰ
مسلط کردیاجائے گاجو انہیں مسلسل ڈستارہے گا اور کہے گا:میں تیرامال ہوں ،میں تیراخزانہ ہوں۔“
زکوۃ کے فوائد و ثمرات:زکوۃ اسالم کے معاشی و معاشرتی نظام کا ایک اہم ستون ہے۔ کسی بھی
معاشرے میں طبقات کی کشمکش اس وقت ہی شروع ہوتی ہے جب وہاں زکوۃ کا نظام رائج نہ ہو اور
دولت کی تقسیم غیر منصفانہ ہو۔ جس معاشرے میں زکوۃ کا نظام رائج ہو تو اس کے مثبت اثرات اور
فوائد پورے معاشرے پر بخوبی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔
زکوۃ کے انفرادی فوائد :یوں تو زکوۃ کے فوائد بے شمار ہیں جن کا احاطہ ناممکن نہیں تو مشکل
ضرور ہے لیکن ان میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں:
)۱تکمیل ایمان کا ذریعہ:زکوۃ دینا تکمیل ِ ایمان کا ذریعہ ہے جیسا کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد
فرمایا:
”تمہارے اسالم کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکوۃ ادا کرو۔"
60 / 131صفحہ نمبر
ہے۔قرآن پاک میں ُمت ا ِقیْن کی
ِ تقوی حاصل ہوتا
ٰ تقوی وپرہیزگاری کا حصول:زکوۃ دینے سے ٰ )۲
عالمات میں سے ایک عالمت یہ بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
ُون
َ ِق
ينف ُم ُٰه َقن َز َّا ر ِمَمو
اورہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔(البقرۃ)۳:
)۳مال کا پاک ہونا :زکوۃ دینے سے مال پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی ہللا عنہ
سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا:
”اپنے مال کی زکوۃنکال کہ وہ پاک کرنے والی ہے ،تجھے پاک کردے گی۔”
)۴مال میں برکت:زکوۃ دینے والے کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا وآخرت میں بڑھتا ہے۔ ہللا پاک ارشاد
فرماتا ہے:
” اور جو چیز تم ہللا کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے
واال۔“(سورۃ السبا)۹۳ :
زکوۃ نکالتے ہوئے ہماری نیت یہ ہونی چاہئے کہ یہ اسالم کی چند بنیادوں میں سے الہیٰ :
)۵رضائے ٰ
تعالی کا حکم ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے د ٰ ہی نہیں کہ جسے ادا کرنا ہم پر فرض ہے اور یہ ہللا
ل میں ہللا کی منشاء اور مرضی حاصل کرنے کی نیت ہونی چاہئے۔ارشاد خداوندی ہے کہ:
” جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس لیے خرچ کرتے ہو کہ ہللا کی خوشنودی حاصل کر سکو۔“
)۶حب مال کا خاتمہ:زکوۃ کی خاص بات یہ ہے کہ اس سے مال کی محبت ختم یا پھر کسی حد تک
کم ہو جاتی ہے۔ایک انسان کی سب سے زیادہ قیمتی چیزوں میں اوالد ،والدین اور مال و دولت کی
محبت ہمیشہ سر فہرست رہتی ہے لیکن مال کی محبت کسی بھی رشتے سے زیادہ آگے نکل جاتی ہے۔
ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ:
”مال و دولت کی محبت ہمیشہ میری امت کا فتنہ رہے گی۔“
)۷جذبہ ایثار پیدا ہونا:ایثار سے مراد وہ عمل ہے کہ جس میں اپنی ضروریات کو رد کرتے ہوئے
اپنے مسلمان بھائی کی مدد کی جائے یا پھر اپنی ضرورت پر کسی دوسرے کی ضرورت کو ترجیح
دینا۔قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
” تم میں سے اس وقت تک کوئی نیکی میں کمال حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ اپنی پسندیدہ چیز ہللا
کے راستے پر قربان نہ کردے۔“
)۸جذبہ سخاوت:سخاوت سے مراد دریا دلی یا بیش بہا مدد کرنا ہے۔ کوئی بھی شخص جو ایثار کا
جذبہ رکھتا ہے وہ سخی بھی ہوتا ہے۔حضرت عثمان کو غنی کا لقب دیا گیا جس سے مراد بہت زیادہ
خرچ کرنے واال ہے۔ اسی طرح سخاوت سے مراد بھی یہ ہے کہ بخل سے کام لینے کے بجائے زیادہ
خرچ کیا جائے۔
تعالی ہے کہ:
ٰ )۹غریب پروری:ارشاد باری
”بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں“
اس رشتے کے تحت ہللا کے بندوں سے محبت الزمی ہے۔ سب مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے
بھائی ہیں اس لئے ان میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ:
”ہللا کے بندوں آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔“
زکوۃ کی ادائیگی سے اپنے مسلمان بھائیوں کی محبت کے جذبات دل میں پیدا ہوتے ہیں۔
زکوۃ کے اجتماعی فوائد:
61 / 131صفحہ نمبر
زکوۃ کے چند اجتماعی فوائد درج ذیل ہیں
ارتکاز ِ دولت کا خاتمہ :ارتکاز سے مراد ایک جگہ جمع ہو جانا۔ یعنی رقم کا کہیں جاکررک )1
زکوۃ سے دولت ایک ہاتھ سے دوسرے اور پھر تیسرے میں جاتی رہتی ہے یوں اس کی گردش جانا ٰ
ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح دولت کا ایک چھوٹا سا حصہ آگے چل کر بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا
ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ:
زکوۃ دولت مندوں سے لی جائے اور اسی معاشرے کے غریب لوگوں میں تقسیم کر دی جائے۔“ ” ٰ
غربت اور مفلسی کا خاتمہ :طبقات میں غربت و مفلسی کے لحاظ سے لوگ احساس کمتری )۲
کا شکار ہو جاتے ہیں۔ امیروں کو یہ سوچ لینا چاہیئے کہ غریب بندہ ہللا کی مخلوق اور ہمارا بھائی ہے
اگر وہ غریب ہے اسے وہ ذرائع نہیں مل رہے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے اور حقیقت میں وہ
زکوۃ دے کر اسے معاشی طور پر مستحکم بنانا ہمارا فر ض ہے۔ یہ ان ذرائع کی تالش میں ہے تو اسے ٰ
تعالی ہے کہ:
ٰ مومنون کی پہچان ہے۔قرآن پاک میں ارشاد باری
زکوۃ ادا کریں گے ،نیکی کا حکم ”ہم زمین میں انہیں اقتدرا عطا کریں گے تو وہ نماز قائم کریں گےٰ ،
دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔“
امدادِباہمی:زکوۃ کی ایک بڑی افادیت یہ ہے کہ اس کی ادائیگی سے نادار اور مفلس افراد کی )۳
مالی مدد ہوجاتی ہے اور چونکہ زکوۃ ذمہ داری سمجھ کر ادا کی جاتی ہے اس لئے دینے واال برتری
احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتا کیونکہ یہ اس کا حق ہے۔ اس طرح ِ محسوس نہیں کرتا اور لینے واال
زکوۃ امدا ِد باہمی کا کردار ادا کرتی ہے۔
طبقاتی کشمکش کا خاتمہ :وہ معاشرہ جس میں زکوۃ کا نظام رائج نہ ہو ،وہ طبقاتی کشمکش )۴
کا شکار ہوجاتا ہے اور وہاں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہونے لگتی ہے۔ امیر ،امیر تر ہوتا جاتا ہے
اور غ ریب ،غریب تر ،لیکن اسالم کا معاشی نظام جس کی بنیاد زکوۃ کے نظام پر ہے اس میں طبقاتی
کشمکش کا خاتمہ کیا جاتا ہے اور دولت کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کو یقینی بنایا جاتا ہے۔
پُر امن اور خوشحال معاشرے کا قیام:جب غریبوں کو ان کے حقوق ملیں اور ان کی مالی )۵
ا عانت کی جائے تو معاشرے کا کوئی فرد مفلس و نادار نہیں رہتا اور معاشرے میں امن اور خوشحالی
ب نصاب پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ فساد کی اصل جڑ مال اور دولت ہی ہوتا ہے۔ اس لئے اسالم نے ہر صاح ِ
پر زکوۃ فرض کرکے غریبوں کو باعزت زندگی گزارنے کا حق دیا ہے۔
ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ :کسی بھی معاشرے کی معاشی تباہی کا ایک بڑا سبب ذخیرہ اندوزی )۶
بھی ہوتا ہے۔ زکوۃ ایک ایسا مؤثر فریضہ ہے جس کے نافذ ہوتے ہی معاشرہ اس لعنت سے پاک ہوجاتا
ہے۔ دولت چن د دولت مندوں کے ہاتھوں میں ہی جمع ہوکر نہیں رہ جاتی بلکہ ہر مستحق تک پہنچتی ہے۔
ذخیرہ اندوزوں کو وعید سناتے ہوئے قرآن نے کچھ یوں کہا:
ترجمہ:اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور ہللا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے،
آتش دوزخ میں تپایا(گرم کیا) جائے گا انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے،جس دن اس خزانے کو ِ
پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم
نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔(سورۃ التوبۃ)۳۵،۳۴ :
مصارف زکوۃ کو تفصیل سے بیان کریں۔
ِ سوال نمبر :4
62 / 131صفحہ نمبر
مصارف
ِ زکوۃ :مصارف ،مصرف کی جمع ہے۔ مصرف خرچ کرنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔ مصارف ٰ
ِ
زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ ہللا تعالی نے سورہ توبہ کی آیت زکوۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں ٰ ٰ
نمبر ۶ ۰میں ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جن کو زکوۃ دی جاسکتی ہے:
َۃ
ِ ََّ
ُؤلف َالم َليها و َ ِين عَ ِلَام َالع َ و ِين َسَاکَالم ء و َراُِق ِلف َات
ُ ل دقََّ
َا الص نمَِّإ
ِيل
ِ َابنِ السَّب ِ اّ
ّٰللِ و ِيل ِي سَب َ و
َف ِينِمَار
َالغ َابِ وِق ّ
ِي الر َف
ُم و ُوُ
به ُلق
ٌO ِيمَکٌ ح ِيمَل َاّ
ّٰللُ ع َ اّ
ّٰللِ ط و ِنً ّ
م َۃ
ِيض َر
ف
زکوۃ تو صرف ان لوگوں کے لئے جو محتاج اور نادار (مسکین) ہوں اور جو اس کی تحصیل ترجمہٰ ”:
پر مقرر ہیں اور جن کے دلوں کو اسال م سے الفت دی جائے (اسالم کی طرف مائل کرنا ہو) اور
(مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور ہللا کی راہ اور مسافر کو ،یہ ٹھہرایا ہوا
(مقرر شدہ) ہے ہللا کی طرف سے اور ہللا علم و حکمت واال ہے“۔
قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوۃ کے درج ذیل آٹھ مصارف ہیں:
۴۔مؤلفۃ القلوب ۳۔عاملین ۲۔مساکین ۱۔فقراء
۷۔فی سبیل ہللا ۸۔مسافر ۶۔قرض دار ۵۔رقاب(غالم آزاد کرانا)
۱۔فقراء :فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے یا مال
ت اصیل ّہ (ضرورت کی چیزوں)کے عالوہ اس کے پاس کچھ نہیں مثال بقدر نصاب ہے مگر حاج ِ تو ِ
رہنے کا مکان ،پہننے کے کپڑے وغیرہ ہیں اس کے عالوہ کچھ نہیں۔ یونہی اگر مدیون (قرضدار) ہے
بقدر نصاب باقی نہیں رہتا تو وہ فقیر ہے اگرچہ اس کے پاس فی الوقت اور دَین (قرض) نکالنے کے بعد ِ
مال موجود ہو۔
۲۔مساکین:مسکین وہ شخ ص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو ،یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے
کے لیے اس کا محتاج ہے کہ لوگوں سے سوال کرے۔
زکوۃ اور عشر وصول کرنے ۳۔عاملین زکوۃ :عامل وہ ہے جسے اسالمی حکومت کے سربراہ نے ٰ
کے لیے مقرر کیا ہو ،اسے کام کے لحاظ سے اتنا دیا جائے کہ اس کو اور اس کے مددگاروں کو
متوسط (درمیانہ) طور پر کافی ہو مگر اتنا نہ دیا جائے کہ جو کچھ وہ وصول کرکے الیا ہے اس کے
نصف سے زیادہ ہو جائے۔ عامل کے لیے فقیر ہونا شرط نہیں۔
۴۔مؤلفۃ القلوب :اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی دلجوئی اور اسالم کی رغبت پیدا کرنے کے لئے
ابتدائے اسالم میں زکوۃ دی جاتی تھی ،اب چونکہ اسالم کو قوت حاصل ہوگئی ہے لہذا اب ایسے لوگوں
کو زکوۃ کی رقم نہیں دی جاسکتی۔
۵۔رقاب(غالم آزاد کرانا)ِ :رقاب سے مراد ہے غالمی سے گردن رہا کرانا اور یہ اسالم ہی ہے جس
نے سب سے پہلے غالموں کی دستگیری (مدد)کی اور غالموں کی آزادی کے مختلف طریقے مقرر
زکوۃ کا طریقہ ہے کہ زکوۃ کی رقم غالم کے مالک کودے کر غالم کئے ان ہی میں سے ایک طریقہ یہ ٰ
کو آزاد کرایا جائے۔ موجودہ زمانہ میں غالم تو نہیں رہے اب اس کی صورت یہ ہے کہ جنگی قیدیوں
کی رہائی کے لئے زکوۃ کی رقم خرچ کی جائے۔
۶۔غارم (قرض دار):غارم سے مراد َمدیون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا دَین(قرضہ) ہو کہ اسے
نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کے پاس دو الکھ روپے موجود ہیں
لیکن اسے کسی کے پانچ الکھ روپے واپس کرنے ہیں تو ایسا شخص زکوۃ لے سکتا ہے۔یہ بھی اسالم
کے ان عظیم احسان ات میں سے ہے کہ اس نے قرض سے برباد ہونے والوں کے بچاؤ کا ایسا انتظام کر
63 / 131صفحہ نمبر
دیا ،حالیہ زمانہ نے قرضداروں کی سہولت کے لیے بینک قائم کئے ہیں مگر دنیا جانتی ہے کہ
سینکڑوں امالک غریبوں کے قبضہ سے نکل کر بینک کے قبضہ میں چلی گئی ہیں اور عوام میں
افالس و تنگدستی کی ترقی ہو گئی ہے۔
۷۔فی سبیل ہللا:فی سبیل ہللا کے معنی ہیں را ِہ خدا میں خرچ کرنا ،اس کی چند صورتیں ہیں مثال کوئی
شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے سواری اور دیگر سامان اس کے پاس نہیں تو اسے ما ِل
زکوۃ دے سکتے ہیں اگرچہ وہ کمانے پر قادر ہے۔ ٰ
زکوۃ دے سکتے ہیں مگر اسے حج کے یاکوئی حج کو جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس مال نہیں اس کو ٰ
لیے سوال کرنا جائز نہیں۔
ب علم کو کہ وہ علم دین پڑھنا چاہتا ہے اسے دے سکتے ہیں کہ یہ بھی را ِہ خدا میں دینا ہے۔ یا طال ِ
زکوۃ کا مال صرف کرنا فی سبیل ہللا ہے جب کہ اس میں تملیک(مالک بنانا) پائی یونہی ہر نیک کام میں ٰ
زکوۃ ادا نہیں ہو سکتی۔
جائے کہ بغیر تملیک ِفقیر ٰ
۸۔ابن السبیل (مسافر):ابن السبیل کہتے ہیں مسافر کو اور یہاں اس سے مراد وہ مسافر ہے جس کے
ت سفر میں مال باقی نہ رہے اگرچہ اس کے گھر میں پیسے موجود ہوں۔ شریعت نے ایسی پاس حال ِ
زکوۃ لے سکتا ہے اگرچہ اس کے گھر مال موجود ہے مگر اسی حالت میں اسے اختیار دیا کہ وہ مال ٰ
قدر لے جس سے حاجت پوری ہو جائے ،زیادہ کی اجازت نہیں مگر بہتر یہ ہے کہ قرض ملے تو
قرض لے کر کام چالئے۔ یا مثال اس کے پاس کوئی سامان ضرورت سے زائد موجودہے جس کی قیمت
سے کام نکل سکتا ہے مثال گھڑی تو اسے بیچ دے اور قیمت کا م میں الئے اور سوال کی ذلّت سے
بچے۔
وہ لوگ جن کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی:
۱۔غیر مسلم کو۔
۲۔والدین کو۔
۳۔اوالد کو۔
۴۔میاں اور بیوی آپس میں ایک دوسرے کو۔
۵۔آپ ﷺ کی اوالد کو۔
سوال نمبر :5حج پر تفصیلی نوٹ تحریرکرتے ہوئے اس کے فوائد تحریر کیجئے۔
حج :حج کے لغوی معنی ہیں ”زیارت کا ارادہ کرنا“۔
شریعت کی اصطالح میں مخصوص زمانہ یعنی حج کے مہینوں میں بیت ہللا کی زیارت کرنا
اور مخصوص مناسک (طواف ،سعی ،رمی وغیرہ) کو ادا کرنا حج کہالتا ہے۔
حج اسالم کا پانچواں رکن ہے جو کہ ہر بندہ مومن پر (جو صاحب استطاعت ہو) زندگی میں
ایک بار فرض ہے۔ حج کی فرضیت کا ذکر قرآن میں بھی کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشادِباری تعالی ہے:
ِ سَب
ِيال ِليہَ اَ َاعَطمنِ است َيتِ َُّ الب َی الن
َّاسِ حِج َل َِّٰ
ّٰللِ ع و
ترجمہ :اور لوگوں پر ہللا کا حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج
کرے۔ (سورہ آل عمران)۹ ۷ :
پس منظر:
حج کا تاریخی ِ
۱۔ حج کی فرضیت :حج کی فرضیت کا حکم ۹ھ میں نازل ہوا۔
64 / 131صفحہ نمبر
پہال حج :حج فرض ہونے کے پہلے سال یعنی ۹ھ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی ہللا تعالی
عنہ کی قیادت میں تین سو ( )۳۰۰صحابہ نے حج کی سعادت حاصل کی۔
رسول ہللا ﷺ کی قیادت میں حج۱ ۰ :ھ میں رسول اکرم ﷺ نے اپنی زندگی کا پہال اور آخری
حج تقریبا ایک الکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ ادا فرمایا۔
ت مبارکہ میں ایک حج اور چار رسول ہللا ﷺ کے حج اور عمرے :رسول اکرم ﷺ نے اپنی حیا ِ
عمرے ادا فرمائے۔
حج کی اقسام :حج کی تین اقسام ہیں:
۳۔قِران۔ ۲۔تمتع۔ ۱۔اِفراد۔
.1حج اِفراد:اِفراد کے لغوی معنی ہیں ’’:اکیالاور تنہا ،جب کہ شرعی اصطالح میں صرف حج کی
نیت سے احرام باندھ کر حج کے افعال و مناسک ادا کرنا اور عمرہ ساتھ نہ مالنا ‘حج اِفراد
کہالتا ہے۔ حج اِفراد کرنے والے کو ”مفرد“ کہا جاتا ہے‘‘ ۔
.2حج قران:قران(ق کے کسرہ کے ساتھ) کے لغوی معنی ہیں’’:دو چیزوں کوباہم مالدینا‘‘جب کہ
شرعی اصطالح میں عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے احرام باندھنا اور ایک ہی احرام کے
ساتھ پہلے عمرہ اورپھر حج اداکرنا اور درمیان میں احرام نہ کھولنا‘حج قران کہالتا ہے۔حج
قران کرنے والے کو"قارن"کہا جاتا ہے۔امام ابو حنیفہ کے نزدیک حج قران افضل ہے۔
عازم حج کا میقات
ِ .3حج تمتع:تمتع کے لغوی معنی ہیں’’:نفع اٹھانا‘‘ جب کہ شرعی اصطالح میں
سے پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھنا اورعمرہ کے افعال ومناسک ادا کر نے کے بعد
احرام کھول دینا اور پھر 8ذوالحجہ کو پھر حج کا احرام باندھ کر مناسک حج ادا کیے جائیں
۔حج تمتع کرنے والے کو "متمتع"کہا جاتا ہے۔
الغرض اِفراد میں ایک سفر میں ایک احرام میں ایک عبادت ہوتی ہے ،تمتع میں ایک سفر میں
دو احرام میں دو عبادتیں ہوتی ہیں اور قِران میں ایک سفر اور ایک احرام میں دو عبادتیں ادا کی جاتی
ہیں۔
حج کی اہمیت قرآن کی روشنی میں:حج ہر اس مسلمان مرد اور عورت پر ہللا کی طرف سے
فرض ہے جو بیت ہللا کی طرف جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔چنانچہ ارشادِباری تعالی ہے:
ِيالِ سَبِليہَ اَ َاع َطمنِ است َيتِ َ ُّ الب َّاسِ حِج َی الن َل َِّٰ
ّٰللِ ع و
ترجمہ :اور لوگوں پر ہللا کا حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج
کرے۔ (سورہ آل عمران)۹ ۷ :
استطاعت سے مراد ہے کہ:
۔حج کرنے واال آزاد ہو۔
۔صحت مند ہو۔
۔راستہ میں جان کا کوئی خطرہ نہ ہو۔
۔اتنا پیسہ ہو کہ جس سے وہ اپنا سفر کرسکے اور اپنے گھر والوں کی ضروریات کا بندوبست
کرسکے۔
۔اگر عورت حج پر جارہی ہو تو محرم موجود ہو۔
حج کے مخصوص ایام ہیں جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے:
مات ُوَ معل ُر َّ َشه َج
ُّ ا َلح ا
ترجمہ :حج کے مہینے معلوم (اور مقرر) ہیں۔ (سورۃ البقرۃ)۱۹ ۷ :
65 / 131صفحہ نمبر
مطلب یہ ہے کہ عمرہ سال میں ہر وقت جائز ہے لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہی ہوتا
ہے۔ اس لئے اس کا احرام حج کے مہینوں (یعنی شوال ،ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے پہلے دس دن) کے
عالوہ باندھنا جائز نہیں۔
حج اور عمرہ کا احرام باندھ لینے کے بعد ضروری ہے کہ اس کے تمام آداب و شرائط کا لحاظ
مناسک حج و عمرہ کو پورے اہتمام کے ساتھ ادا کیا جائے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے کہ: ِ رکھا جائے نیز
َ ِّٰ
ّٰلل َة
ُمر َالع َّ وَجُّواالح ِم َ
َات و
ترجمہ:اور حج اور عمرہ کو ہللا تعالی (کی رضا و خوشنودی) کے لئے پورا کرو۔ (سورۃ البقرۃ۹ ۶ :
)۱
حج کی اہمیت احادیث کی روشنی میں:رسول اکرم ﷺ نے بہت سی احادیث میں ہر صاح ِ
ب
استطاعت کو ترغیب دالئی ہے کہ وہ اس فرض کی ادائیگی کو اہمیت دے۔ اس بارے میں چند احادیث
مندرجہ ذیل ہیں:
گناہوں کی معافی :حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مہ ُ َ
َّلدتہ اُّ َِ و َوِ
م َ کيَ َعَجيفسُق ر ََلم َ َث و يرف َم ََل
ّٰلل ف َج
َّ ِّٰ من ح َ
ترجمہ :جو کوئی خالصتا ہللا تعالی کے حکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اور حج کے دوران گناہ اور بے
حیائی کے کاموں سے باز رہتا ہے تو وہ اس طرح (گناہوں سے پاک ہوکر) لوٹتا ہے جیسے اس دن تھا
جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ (بخاری)
حاجی سے دعا کروانا:ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ:
جب تم کسی حاجی سے مالقات کرو تو اُس سے سالم و مصافحہ کرو اور اس سے کہو کہ وہ اپنے گھر
میں داخل ہونے سے پہلے تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے کیونکہ اُس کی مغفرت ہو چکی ہے۔
(مشکاۃ المصابیح)
قیامت تک ثواب کا لکھا جانا:حج کے فضائل کے متعلق ایک حدیث میں آپﷺ فرماتے ہیں کہ:
"جو حج کے ارادے سے نکال ،پھر مرگیا تو ہللا عزوجل اُس کے لیے قیامت تک حج کرنے والے کا
ثواب لکھ دے گا اور جو عُمرے کے ارادے سے نکال ،پھر مر گیا تو ہللا تعالی ا ُ س کے لیے قیامت تک
عمرہ کرنے والے کا ثواب لکھ دے گا۔"
حاجی شفاعت کرے گا :رسو ِل اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
حاجی اپنے گھر والوں میں سے (400مسلمانوں) کی شفاعت کرے گا اور گناہوں سے ایسا نکل جائے گا
جیسے اُس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔
بِال عذر حج ترک کرنے کا وبال:حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ہللا ﷺ
نے فرمایا:
” جو شخص سفر کے خرچ اور سواری کا مالک ہو جو اسے بیت ہللا تک پہنچا سکے اس کے باوجود وہ
حج نہ کرے تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر۔“
حج کے فوائد و ثمرات:حج کا اصل فائدہ ہللا تعالی کی رضا کا حصول ہے۔ اس بنیادی فائدہ کے
عال وہ اور بھی بہت سے انفرادی اور اجتماعی فوائد ہیں۔ جن کا مختصر جائزہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔
حج کے انفرادی فوائد:
۱۔گناہوں کی معافی :حج کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔
اگر خالص ہللا کی رضا کے لئے حج کیا جائے اور حج کی تمام شرائط کو پوری کرنے کے عالوہ کسی
66 / 131صفحہ نمبر
مسلمان کو زبان و ہاتھ سے تکلیف نہ دی جائے تو انسان کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے
ہیں۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
مہ ُ
دتہ اُّ َ
َّلَ
ِ و َوِ
م َ
َ کي َع َجيفسُق ر َلم َ َ َ
يرفث و َم َ َلّٰلل ف َج
َّ ِّٰ من ح َ
ترجمہ :جو کوئی خالصتا ہللا تعالی کے حکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اور حج کے دوران گناہ اور بے
حیائی کے کاموں سے باز رہتا ہے تو وہ اس طرح (گناہوں سے پاک ہوکر) لوٹتا ہے جیسے اس دن تھا
جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ (بخاری)
ت مقدسہ کی زیارت:حج امام االنبیاء سید المرسلین کے حاالت کی یاد اور عظیم ترین مقاماتِ ۲۔مقاما ِ
مقدسہ کی یاد دالتا ہے ،اور یہ یاد اعلی ترین یادوں میں سے ہے کیونکہ وہ عظیم ترین رسولوں ابراھیم
و محمد صلی ہللا علیہ وسلم کے حاالت اور ان کی عظیم الشان یادگاروں ،اور ان کی بہترین عبادتوں کی
یاد دالتا ہے ،جو ان یادگاروں کو یاد کرتا ہے وہ رسولوں پر ایمان النے واال ،اور ان کی تعظیم کرنے
واال ہے ،ان کے بلند مقامات سے متاثر اور ان کے آثار حمیدہ کی اقتداء کرنے واال ہے ،ان کے مناقب و
فضائل کو یاد کرنے واال ہے ،چنانچہ اس سے بندہ کا ایمان اور یقین بڑھ جاتا ہے۔
۳۔ اخالقی بہتری:حج کے محاسن میں سے یہ بھی ہے کہ اس سے نفس صاف ہوتا ہے ،خرچ کرنے
کا عادی بنتا ہے ،مشقتیں برداشت کرنے کی صالحیت پیدا ہوتی ہے ،زینت اور تکبر چھوڑنے کا عادی
ہوتا ہے۔
روز آخرت کی یاددہانی:حج کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اس عظیم اجتماع کو یاد دالتا ہے ۴۔ ِ
جو ایک میدان میں واقع ہونے واال ہے جہاں پکارنے واال لوگوں کو پکارے گا اور یہ اجتماع میدن
حشر میں ہوگا۔
'' جس دن لوگ ہللا رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔“(سورۃ المطففین)
۵۔ موت کی یاد دہانی:حج کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ جب حاجی احرام باندھتا ہے ،تو زندوں کا
سال ہوا لباس اتار کر مردوں کے لباس کے مشابہ لباس پہنتا ہے ،اس طرح وہ اپنے آگے کی منزل کی
تیاری کرتا ہے۔
تقوی کی افزائش:جب ایک حاجی حج کی نیت کرتا ہے تواس نیت کے ساتھ ہی ٰ ۶۔ پرہیزگاری اور
خوف خدا اور پرہیزگاری اور توبہ و استغفار اور نیک اخالق کے اثرات چھانے شروع ہوتے ِ اس پر
ہیں ،اور وہ اپنے عزیزوں ،دوستوں اور ہر قسم کے متعلقین سے اس طرح رخصت ہوتا ہے اور اپنے
معامالت صاف کرنا شروع کرتا ہے کہ گویا اب یہ وہ پہال سا شخص نہیں ہے ،بلکہ خدا کی طرف لَو
لگ جانے کی وجہ سے اس کا دل پاک صاف ہورہا ہے۔
حج کے اجتماعی فوائد:
۱۔ عالم اسالم میں حرکت :آپ جانتے ہیں کہ ایسے مسلمان جن پر حج فرض ہے ایک دو تو ہوتے
نہیں ہیں۔ ہر بستی میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔ ہر شہر میں ہزاروں ،ہر ملک میں الکھوں
ہی ہوتے ہیں اور ہر سال ان میں سے بہت لوگ حج کا ارادہ کرکے نکلتے ہیں۔ اب ذرا تصور کیجیے
کہ دنیا کے کونے کونے میں جہاں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں ،حج کا موسم آنے کے ساتھ ہی کس
طرح اسالم کی زندگی جاگ اٹھتی ہے ،کیسی کچھ حرکت پیدا ہوتی ہے اور کتنی دیر تک رہتی ہے۔
تقریباََؑ رمضان کے مہینے سے لے کر ذی القعدہ تک دنیا کے مختلف حصوں سے مختلف لوگ حج کی
االول بلکہ ربیع الثانی تک واپسی
تیاریا نکرکے نکلتے ہیں اور ادھر ذی الحج کے آخر سے صفر ،ربیع ّ
کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس چھ سات مہینے کی مدت تک گویا مسلسل تمام روئے زمین کی مسلمان
67 / 131صفحہ نمبر
آبادیوں میں ایک طرح کی دینی حرکت جاری رہتی ہے۔ جو لوگ حج کو جاتے اور حج سے واپس آتے
ہیں ،وہ تو دینی کیفیت سے سرشار ہوتے ہی ہیں ،مگر جو نہیں جاتے ان کو بھی حاجیوں کے رخصت
کرنے اور ایک ایک بستی سے ان کے گزرنے اور پھر واپسی پر ان کا استقبال کرنے اور ان سے حج
کے حاالت سننے کی وجہ سے تھوڑا یا بہت اس کیفیت کا کچھ نہ کچھ حصہ مل ہی جاتا ہے۔
ت ملّت کا پُر کیف نظارہ :ذرا آنکھیں بند کر کے اپنے دل میں اس نقشے کا تصور کیجیے ۲۔ وحد ِ
کہ ادھر مشرق سے ،ادھر جنوب سے ،ادھر مغرب سے ،ادھر شمال سے اَن گنت قوموں اور بے شمار
ملکوں کے لوگ ہزاروں راستوں سے ایک ہی مرکز کی طرف چلے آرہے ہیں۔ شکلیں اور صورتیں
مختلف ہیں ،رنگ مختلف ہیں ،زبانیں مختلف ہیں ،مگر مرکز کے قریب ایک خاص حد پر پہنچتے ہی
سب اپنے اپنے قومی لباس اتار دیتے ہیں ،اور سارے کے سارے ایک ہی طرز کا سادہ یونیفارم پہن
سلطان عالم اور بادشا ِہ
ِ لیتے ہیں ،احرام کا یہ یونیفارم پہننے کے بعداعالنیہ یہ معلوم ہونے لگتا ہے کہ
زمین و آسمان کی یہ فوج ،جو دنیا کی ہزاروں قوموں سے بھرتی ہو کر آرہی ہے ،ایک ہی بادشاہ کی
فوج ہے ،ایک ہی اطاعت و بندگی کا نشان ان سب پر لگا ہوا ہے ،ایک ہی وفاداری کے رشتے میں یہ
سب بندھے ہوئے ہیں ،اور ایک ہی دارالسلطنت کی طرف اپنے بادشاہ کے دربار میں پیش ہونے کے
لیے جارہے ہیں۔ یہ یونیفارم پہنے ہوئے سپاہی جب میقات سے آگے چلتے ہیں تو ان سب کی زبانوں
سے وہی ایک نعرہ بلند ہوتا ہے:
لبيک اللهم لبيک ،لبيک ال شريک لک لبيک ّٰ
حاضر ہیں ،پروردگار! ہم حاضر ہیں۔ تیرا کوئی شریک نہیں ہم حاضر ہیں۔
قیام امن کی سب سے بڑی تحریک:اسالم نے الزم کیا ہے کہ سال کے چار مہینے جو حج اور ۳۔ ِ
عمرے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں ،ان میں کوشش کی جائے کہ کعبے کی طرف آنے والے تمام
راستوں میں امن قائم رہے۔ یہ دنیا میں امن قائم رکھنے کی سب سے بڑی دوامی تحریک ہے ،اور اگر
دنیا کی سیاست کی باگیں اسالم کے ہاتھو ں میں ہوں تو مسلمانوں کی پوری کوشش یہ ہوگی کہ دنیا میں
ایسی بدامنی برپا نہ ہونے پائے جس سے حج اور عمرے کا نظام معطل ہوجائے۔
مرکز امن:اسالم نے دنیا کو ایک ایسا حرم دیا ہے جو قیامت تک کے لیے امن کا ِ ۴۔ دنیا میں واحد
شہر ہے۔ جس میں آدمی تو کیا جانور تک کا شکار نہیں کیا جاسکتا ،جس میں گھاس تک کاٹنے کی
اجازت نہیں،جس کی زمین کا کانٹا تک نہین توڑا جاسکتا ،جس میں حکم ہے کہ کسی کی کوئی چیز
گری پڑی ہو تو اسے ہاتھ تک نہ لگاؤ۔ اس نے دنیا کو ایک ایسا شہر دیا ہے جس میں ہتھیار النے کی
ممانعت ہے ،جس میں غلے کو اور دوسری عام ضرورت کی چیزوں کو روک کر مہنگا کرنے سے
بندہ الحاد کی حد تک پہنچ جاتا ہے ،جس میں ظلم کرنے والے کو ہللا نے دھمکی دی ہے کہ:
”ہم اسے دردناک سزا دیں گے“۔ (سورۃ الحج)
۵۔باہمی میل جول :حج کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ سفر حج میں مختلف شہروں میں آنے جانے
سے وہاں کے باشندگان کا حال ،اور ان کی عادات کا علم حاصل ہوتا ہے۔
۶۔مساوات کا قیام :حج کا یہ فائدہ بھی ہے کہ آدمی حج میں خود کو دوسروں کے برابر محسوس کرتا
ہے ،اور وہاں نہ کوئی بادشاہ ہے نہ غالم ،نہ کوئی مالدار ہے نہ فقیر ،بلکہ سب برابر ہیں۔
سوال نمبر :۷جہاد پر تفصیلی نوٹ تحریر کریں۔
جہاد :جہاد کا لفظ جہد سے نکال ہے جس کا مطلب ہے کوشش کرنا۔ جہاد کے لغوی معنی ایسے عمل
کے ہیں جس میں کسی چیز کے حصول کے لئے انتہائی محنت اور کوشش کی جائے۔
68 / 131صفحہ نمبر
دینی اصطالح میں جہاد سے مراد یہ ہے کہ ہللا کے دین کی سربلندی ،حفاظت اور فروغ کے
لئے ہر قسم کی جدوجہد اور کوشش کرنا اور ہللا کے حکم اور اس کی پسند کے خالف کسی بھی قوت
کے سامنے رکاوٹ بننا۔
تعالی ہے:
ٰ جہاد کو قرآن میں فرض قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشا ِد باری
َال
ُ ِت ُ الق ُمَيکَل
َ ع ِبُتک
ترجمہ :تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے۔ (سورۃ البقرۃ)۲۱ ۶ :
فرض کفایہ۔
ِ فرض عین ہوتا ہے اور کبھی
ِ جہاد کبھی
جہاد کی اقسام :جہاد کی کئی اقسام ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں :
ّ
( )1خواہش نفس کے خالف جہاد ( جہاد بالنفس ) ( )2جہادبالمال ( )3جہادباللسان ( )4جہادبالسیف
( )5جہادبالقلم
خواہش نفس کے خالف جہاد (جہاد اکبر /جہاد بالنفس ): ()1
ت الہی سے روکنے والی بنیادی طور پر دو قوتیں ہیں۔ ایک اس کا اپنا نفس اور دوسرا انسان کو اطاع ِ
شیطان۔ انسان کے دل میں طرح طرح کی خواہشات ابھرتی ہیں۔ ان تمام خواہشات کو ہللا تعالی کے
احکامات کے تابع رکھنا جہاد بالنفس ہے۔یعنی اگر خواہش شریعت کے کسی حکم کے خالف ہو تو اس
خواہش کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے لئے جتنی بھی مشقت اٹھانی پڑے وہ برداشت کی جائے۔ اسے
جہا ِد اکبر بھی کہتے ہیں۔
تعالی کا فرمان ہے :
ٰ ہللا
َ " ِينَم ٰـلَنِ الع َن
ِیٌّ ع َ َلغ
َّ اللاا
ِن ِط ا
ِهَفسلن
د ُِِ َاھيجَا ُ َاَّ
ِنم د ف َََاھمن ج ََ
" و
(العنکبوت)6/ 29 ،
" اور جو شخص (را ِہ حق میں) جدوجہد کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے )لیے تگ و دو کرتا ہے ،بے
شک ہللا تمام جہانوں (کی طاعتوں ،کوششوں اور مجاہدوں) سے بے نیاز ہے " ۔
رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے :
( ترمذی ،رقم الحدیث ) 1621 : ُ" َ
د نفسَه ََ
َاھ من ج د َ َُِاھُج َلم" ا
" مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے " ۔
یعنی نفس امارہ جو آدمی کو برائی پر ابھارتا ہے ،وہ اسے کچل کر رکھ دیتا ہے ،خواہشات نفس کا تابع
نہیں ہوتا اور اطاعت ٰالہی میں جو مشکالت اور رکاوٹیں آتی ہیں ،ان پر صبر کرتا ہے ،یہی جہاد اکبر
ہے۔
جہادبالمال:جہادبالمال سے مراد ہللا کے دیئے ہوئے مال و دولت کو ہللا کی راہ میں ہللا کے ()2
دین کی سر بلندی ،دین اسالم کی حفاظت ،ملک کی حفاظت و بقاء ،دین کی تبلیغ اور جہاد فی سبیل ہللا
میں خرچ کرنا ہے مختصر طور پر یہ ہے کہ ہللا کی رضا کے لئے خرچ کرنا یہ جہاد جہاد بالمال کہالتا
ہے۔
جہاد باللّسان:جہادباللّسان سے مراد معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کے خالف زبان ()3
سے جہاد کرنا ہے ،یہ جہاد وعظ و تقریر کی شکل میں کیاجاسکتا ہے،یا پھر بُرائی کے ارتکاب کرنے
والے فرد کو ہر وقت زبان سے ٹوک کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر برائی کے خالف
زبان سے لڑنے کا نام جہاد باللّسان ہے۔
( )4جہادبالسیف :یہ جہاد کی اہم ترین قسم کا ہے ،جس کا مطلب ہے ہللا کے دین کی حفاظت ،ملک
مادر وطن کی سا لمیت کے لئے سر پر کفن باندھے ہوئے ہاتھ میں ِ کی بقاء ،سرحدوں کے تحفظ اور
69 / 131صفحہ نمبر
ُشمنان ملک و ملّت کے خالف لڑنا ،جہادبا لسیف کہالتا ہے اور حقیقت میں یہ افضلِ تلوار لیے ہوئے د
ترین جہادہے کہ جس میں کام آ نے والے شہیداور بچ جانے والے غازی کہالتے ہیں۔ اگر کوئی کفر کے
خالف جنگ کرتا ہوا مارا جائے تو قرآن کے فرمان کے مطابق اسے مردہ نہ کہا جائے بلکہ حقیقت میں
تعالی ہے:
ٰ وہ زندہ ہے۔ ارشاد باری
ِن الَّ َٰ ٌ َ َ َ ٌ
ّٰللِ أموات بل أحياء ولک َ َ ِ اّ ِيل َ
ِي سب ُ َ ُ
لمن يقتل ف َ ولوا ِ ُ ُتقَالَ َ
و
َ
ُون ُرتشعَ
ترجمہ :اور جو لوگ ہللا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں( ،وہ مردہ نہیں)
بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔
(سورۃ البقرۃ)۱۵ ۴ :
( )5جہادبالقلم:یہ جہاد کی اہم ترین قسم ہے کہ اہ ِل علم اور صاحب ِقلم افراد اپنے علم اور قلم کے
ذریعے برائیوں کو روکنے اورنیکیوں کو فروغ دینے میں صرف کریں اور ایساعمل کرنے والے
افرا دکو مجاہد بالقلم کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ قلم کی طاقت تلوار کی طاقت سے کہیں زیادہ ہوتی
ہے۔
قرآن کی روشنی میں جہاد کی اہمیت:
ہللا تعالی نے قرآن میں جابجا جہاد کی فضیلت کو بیان کیا ہے۔ جہاد کا ذکر قرآن کی ایک ہزار
سے زائد آیات میں موجود ہے جن میں جہاد کی اہمیت ،فرضیت ،فضیلت ،احکام و مسائل کو تفصیل
سے بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں ایمان کے بعد سب سے زیادہ جہاد کی فضیلت کو بیان کیاگیا ہے۔جہاد کی
اہمیت کے متعلق چند آیات درج ذیل ہیں:
۰ہللا نے خود آپ ﷺ کو حکم دیا ہے کہ مومنین کو جہاد پر ابھاریں۔ ارشا ِد باری تعالی ہے کہ:
َال
ِ ِتَی الق َلَ عِين ِنُؤم ض الم ِِّ
َر َا النبی ح يا ايه
ترجمہ :اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کاشوق دالئیے۔(سورۃ االنفال)۶ ۵ :
تعالی کا ارشاد گرامی ہے: ٰ ۰ہللا تبارک و
ٌ (البقره۔)۴۴۲ ِيم َلٌ ع ِيعاّٰللَ سَم َّ
ُوا أن َّ َ َ
َاعلم ِ َّ
اّٰللِ و ِيل ِي سَب ُوا ف ِلَاتَقو
تعالی خوب سننے والے اور خوب جاننے والے ٰ اور لڑو ہللا کے راستے میں اور جان لو بے شک ہللا
ہیں۔
۰ہللا جانتے ہیں کہ جہاد میں آنے والی مشکالت کی وجہ سے بہت سے مسلمان جہاد کو ناپسند
کریں گے اس لئے ہللا نے فرمایا:
َ
ُوَھً وُوا شَيئا َھتکر َ
ٰ أن َ َسَیَع ُم و ٌ َلک ُره َ ک ُو َھُ و َال ِتُ الق ُمَيکَل
َ ع ُت
ِب ک
ُ
َأنتم ال َ ُ و َ
يعلم اّٰللُ َ
َ َّ ُ َ
ٌّ لکم و َ
َ شر َھ
ُو ً
ُّوا شيئا و َ ُ
ٰ أن تحِب َ َسَیَع ُ
ٌ لک م وَ َير خ
َ
ُون۔ َ
تعلم َ
ترجمہ :قتال کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو (طبعا) برا لگتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی
بات کو برا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ممکن ہے تم ایک کام کو بھالسمجھو اور وہ
تعالی جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔ (البقرہ۔)۲۱۶ ٰ تمہارے حق میں برا ہو اور ہللا
۰جہاد کن لوگوں سے اور کب تک کرنا ہے اس کے متعلق ہللا تعالی ارشاد فرماتے ہیں:
َ
مون ماَ ُِّ
َريحَال ُِ و ِ اآلخِر َوم ِالي َال ب َ ب َّ
ِاّٰللِ و ُون ِنيؤم َ ال ُ ِين ُوا َّ
الذ ِلَاتق
َ
ِتابَ ُ
ِين أوتوا الکُ َ َّ
ِن الذ َ ّ م َق ِين الح َ َ
ِينون د ُ يدَال َ ُ و ُ
َسُولہ َر َ َّ
اّٰللُ و َّم
َرح
ِ
َ۔(التوبہ۔ )۲۹ُونِرَاغ ُم ص َھٍ و يد َن َ َ ع يۃُوا الجِزَ يعط َّی َُتح
70 / 131صفحہ نمبر
ترجمہ:لڑو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں التے ہللا پر اور نہ آخرت کے دن پر اور حرام نہیں سمجھتے
ان چیزوں کو جن کو ہللا نے اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور سچے دین اسالم کو قبول
نہیں کرتے اہل کتاب میں سے یہاں تک کہ وہ ذلیل (ماتحت) ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دینا منظور نہ
کرلیں۔(التوبہ۔ )۲۹
۰ہللا نے شہداء کی فضیلت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے:
َٰلک
ِن الَّ ء و َاٌ َ
بل أح ي ٌ ََاتَمو ِ اّ
ّٰللِ أ ِيل ِي سَب ُ فَليقتَن ُلم ولوا ِ ُ ُ
تقَالَ َ
و
َ (سورۃ البقرۃ)۱۵ ۴ : ُون ُر
تشعَ
ترجمہ :اور جو لوگ ہللا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں( ،وہ مردہ نہیں)
بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔
جہاد کی اہمیت احادیث کی روشنی میں:
احادیث کی کتابوں میں محدثین کرام نے جو ”کتاب السیر“ کا باب باندھا ہے اس میں جہاد کے
متعلق احادیث ذکر کی گئی ہیں اس کی وجہ علما کرام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ چونکہ حضور اکرم ﷺ
کی سیرت کا غالب حصہ جہاد ،غزوات و سرایا پر مشتمل ہے اس لئے جہاد سے متعلق احادیث پر
مشتمل اس باب کا نام ”کتاب السیر“ رکھا گیا۔
٭حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
تعالی کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں (کافروں) سے قتال کروں یہاں تک کہ ٰ ”مجھے ہللا
وہ ال الہ اال ہللا کا اقرار کرلیں پھر جو ال الہ اال ہللا کا اقرار کر لے گا اُس کا مال اور اُس کی جان مجھ
تعالی کے ذمہ ہوگا۔“ (بخاری)
ٰ سے محفوظ ہو جائے گی سوائے شرعی حق کے اور اُس کا حساب ہللا
٭آپ ﷺ نے فرمایا:
وتعالی نے مجھے مبعوث کیا ہے یہاں تک کہ میری امت کے ٰ ”جہاد جاری رہے گا جب سے ہللا تبارک
آخری لوگ دجال سے لڑیں گے۔ کسی ظالم کا ظلم یا کسی عادل کا عدل اس جہاد کو نہیں روک سکے
گا۔“
تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشا د ٰ ٭ حضرت انس رضی ہللا
فرمایا:
” جہاد کرو مشرکوں کے ساتھ اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے اور اپنی زبانوں سے۔“(ابوداؤد)
٭ حضرت ابوقتادہ رضی ہللا عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے
اپنے خطبے میں جہاد کا ذکر فرمایا اور فرض نماز کے عالوہ کسی عمل کو جہاد سے افضل قرار نہیں
دیا۔ (ابوداؤد ،بیہقی)
مقاصد جہاد :
قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جہاد کے جو مقاصد بیان ہوئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں:
۱۔ دفاع” :وقاتلوا فی سبيل للاا الذين يقاتلونکم“
ترجمہ:جو تم سے جنگ کرتے ھیں تم بھی ان سے را ہ خدا میں جھاد کرو۔
۲۔دفع فتنہ :یہ عام معنی میں مستعمل ہے ،اس میں دفاع بھی شامل ہے” :و قاتلوھم حتی
ٰ ال
تکون فتنۃ“
ترجمہ:اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک سارا فتنہ ختم نہ ہوجائے۔
71 / 131صفحہ نمبر
ٰ ال ۳۔حکومت ٰالھی کا قیام اور سر کشوں کی سر کوبی و اصالح" :و قاتلو ھم حتی
ّہ ّ
ّٰلل“ تکون فتنۃ و يکون الدين کل
ترجمہ :اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف
ہللا کے لئے ہے۔
”الذين عاھدت منهم ثم ينقضون عهدھم فی کل مرة و ھم ال
يتقون“
ترجمہ :جن سے آپ نے عہد لیا اور اس کے بعد وہ ہر مرتبہ اپنے عہد کو توڑ دیتے ہیں اور خدا کا
خوف نہیں کرتے۔
۴۔الہی نظام کی برقراری اور ممکنہ و آئندہ دشمنوں کے حملے کی پیش بندی:قاتلوا
الذين ال يومنون باہلل و ال باليوم االخر و ال يحرمون ما حرم للاا
و رسولہ و ال يدينون دين الحق من الذين اوتوا لکتاب حتی
ٰ
يعطوا الجزيۃ عن يدوھم صاغرون“
ترجمہ :ان لوگوں سے جہاد کرو جو خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جس چیز کو خدا و
رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں سمجھتے اور اہل کتاب ہوتے ہوئے بھی دین حق کا التزام
نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے ذلت کے ساتھ تمہارے سامنے جز یہ پیش کرنے پر آمادہ
ہوجائیں۔
۵۔روئے زمین پر فتنہ و فساد کی روک تھام ” :ولو الد فع للاا الناس بعضهم
ببعض لفسدت االرض“
ترجمہ :اور اگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتا تو ساری زمین میں فساد پھیل جاتا۔
۶۔مراکز عبادت اور دینی مظاہر کا تحفظ ”:و لو ال دفع للاا الناس بعضهم ببعض
لهدمت صوامع و بيع و صلوات و مساجد“
اور اگر خدا بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ نہ روکتا تو تمام گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے
اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منہدم کردی جاتیں۔
سوال نمبر :8والدین کے حقوق تحریر کریں۔
والدین کے حقوقِ :
دین اسالم میں والدین کے حقوق پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔قرآن مجید میں ہللا
حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔
ِ تعالی نے جا بجا اپنی عبادت کے فورا بعد والدین سے
ہللا تعالی اگر حقیقی خالق ہیں تو والدین انسان کی دنیا میں پیدائش کا وسیلہ ہیں۔ یہ ایک مسلمہ
حقیقت ہے کہ پیدائش سے موت تک انسان اپنے والدین کا محتاج ہوتا ہے۔ ہر انسان پر والدین کے اتنے
احسانات ہوتے ہیں کہ اگر وہ ساری زندگی بھی ان کی خدمت کرتا رہے تب بھی ان کے احسانات کا بدلہ
نہیں چکاسکتا لیکن وہ ان کے اح سانات کے جواب میں ان کی خدمت کرسکتا ہے ،ان کی اطاعت اور ان
حسن سلوک کرسکتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اوالد پر والدین کے جو حقوق بیان کئے گئے ہیں ان ِ سے
میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔
۱۔ادب و احترام :والدین کا سب سے پہال حق یہ ہے کہ والدین کا ادب و احترام کیا جائے اور ان سے
ہر قسم کی گستاخی سے بچا جائے۔ بات چیت کے دوران عزت و تکریم کا خیال رکھا جائے۔ ان کو
جھڑکنا یا اونچی آواز میں بات کرنا تو دور کی بات انہیں اُف تک کہنے سے گریز کیا جائے۔ جیسا کہ
ارشا ِد ربانی ہے:
72 / 131صفحہ نمبر
ً
ِيما َرَوالً کَا ق ُل َله
ُم َق َا و ُمَرھ تنه ُف و
ََّال َ َا ا ُمُل َّله ََال َ
تق ف
ُ
ترجمہ :تو انہیں (والدین کو) ”اف“ تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو ،بلکہ ان سے عزت کے ساتھ بات
کیا کرو۔(بنی اسرائیل)۲ ۳ :
حسن سلوک کا مطلب یہ ہے کہ جیسے بھی ہوسکے ان سے اچھا برتاؤ ِ ۔حسن سلوک:والدین سے ِ ۲
کرے۔ ان کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ ان کے حکم پر فورا عمل کرے۔ ان کی تمام تکالیف دور کرے۔
دنیا میں مصروف ہوکر ان سے بے ُرخی نہ برتے بلکہ اپنے اوقات میں سے ان کے لئے وقت نکالے
اور خوش دلی سے ان کے کام بجا الئے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے:
ً
ِحسَانا دينِ ا لَ
َاِِالو َبُ و ِياه دوا اَّ
ِال اَّ ُُ تعب ََّال َ
بکَ ا َُّ
ٰی ر َض
َقو
ترجمہ :اور تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی اور
والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ (بنی اسرائیل)۲ ۳ :
۳۔ اطاعت و خدمت:والدین کی خدمت و اطاعت میں ہللا کی رضا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
ِی سُخط الوالد ُ الرب ف َسُخط ِ و لد َاالو
َاِ ِض ِی ر َّب ف َا الر ِضر
ترجمہ :پروردگار کی خوشی باپ کی خوشی میں ہے اور پروردگار کی ناراضگی والد کی ناراضگی
میں ہے۔ (ترمذی)
والدین کی خدمت کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کو افضل عمل شمار کیا گیا ہے:
ترجمہ :سب سے افضل عمل وقت پر نماز پڑھنا اور والدین سے حسن سلوک کرنا ہے۔(مسلم)
۴۔ کثرت سے دعا کرنا:والدین کی زندگی میں ان کی لمبی زندگی کے لئے اور ان کی وفات کے بعد
ان کی مغفرت کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے۔ ہللا تعالی نے انسان کو اپنے والدین کے لئے دعا کرنے
کا صرف حکم نہیں دیا بلکہ خود اسے وہ الفاظ سکھائے جن کے ذریعہ والدین کے لئے دعا کی جائے۔
چنانچہ ہللا تبارک و تعالی کا ارشاد ہے:
ً
ِيرا َغِی ص َان بي ََّ
َا ر َ
َا کم ُم
َمه ّ ارح َّبُل ر َقو
ترجمہ :اور (والدین کے لئے) یہ دعا کرو کہاے رب! ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں
مجھے پاال۔ (بنی اسرائیل)۲ ۴ :
۵۔ والدین کی نافرمانی نہ کرنا:والدین کی نافرمانی کو سخت ناپسند کیا گیا ہے اور ان سے ہر طرح
کی بدسلوکی سے منع کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔
چنانچہ ارشا ِد نبوی ﷺ ہے:
ترجمہ :بڑے گناہ یہ ہیں)۱ :خدا کا شریک بنانا۔)۲والدین کی نافرمانی کرنا۔ )۳ناحق قتل کرنا۔ )۴جھوٹی
قسم کھانا۔
۶۔ کافر والدین کی بھی اطاعت کرنا:مسلمان تو مسلمان ،والدین اگر کافر بھی ہوں تب بھی دنیاوی
معامالت میں ان کی اطاعت ضروری ہے۔ البتہ اگر وہ دین کے خالف بات کریں تو ان کی بات پر عمل
نہیں کرنا چاہئے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے:
ترجمہ ”:اگر وہ تم پر دباؤ ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرو جس کا تمہیں علم نہیں تو
ان کی بات ہر گز نہ مانو اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے رہو۔“ (سورۃ اللقمان)۱ ۵ :
۷۔ والدین کے دوستوں کی تعظیم:اوالد کو اپنے والد کے دوستوں اور والدہ کی سہیلیوں کی عزت
کرنی چاہئے۔ والدین کا احترام کس قدر زیادہ ہے کہ ان کی وجہ سے ان کی وفات کے بعد بھی ان کے
دوستوں کا احترام کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
73 / 131صفحہ نمبر
ترجمہ” :سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ سے دوستانہ تعلقات رکھنے والوں سے تعلق
جوڑ کر رکھے۔“ (مسلم)
۸۔ مالی تعاون :اوالد خود اور اوالد کا مال والدین ہی کا ہوتا ہے ،لیکن اگر والدین بڑھاپے کو پہنچ
جائیں تو اوالد کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ والدین کی مالی
امداد کرے اور جس طرح بچپن میں والدین نے اس کی ہر خواہش اور حاجت پوری کی اب اوالد کی
ذمہ داری ہے کہ وہ والدین کی ہر حاجت پوری کرے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے:
ِيک م ُ
الکَ ِالَب َ و
ََ َنت ا
ترجمہ” :تُو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔“ (ابو داؤد)
سوال نمبر :9اوالد کے حقوق تحریر کریں۔
اوالد کے حقوق :جس طرح اوالد پر والدین کے کچھ فرائض ہیں بالکل اسی طرح والدین پر بھی اوالد
کے بہت سے فرائض ہیں جنہیں ہم ”اوالد کے حقوق“ کہتے ہیں۔ اوالد کی بقاء ،تحفظ ،بہترین نشوونما
اور بہترین تربیت کا ذمہ دار اسالم نے والدین کو ٹھرایا ہے۔
قرآن و حدیث میں اوالد کے جن حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کو مختصراََؑ یہاں بیان کیا جارہا
ہے:
۱۔زندگی کا حق :اوالد کا فطری حق ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے کیونکہ بچے کی پیدائش کا ہللا
تعالی نے انسان کو ایک ذریعہ بنایا ہے۔ اس لئے اس پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ اپنی اوالد کی حفاظت
کرے۔ پچھلے زمانے میں لوگ اپنی اوالد کو قتل کردیا کرتے تھے جس کو قرآن نے سختی سے منع
فرمایا ہے۔ ارشا ِدباری تعالی ہے:
ُ
ِياکمَاَُّم و ُ ُ َ ُ َّ
ِمالق نحن نرزقه َ َ اَۃَشي دکم خُ َوالَ
َ ُوا ا ُلتقت ََال َ
و
ترجمہ ” :اور اپنی اوالد کو افالس (غربت) کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور
تمہیں بھی۔“ (بنی اسرائیل)۳ ۱ :
۲۔اذان و اقامت اور گھٹی دینا:بچے کی پیدائش پر اسے نہال دھال کردائیں (سیدھے) کان میں اذان
اور بائیں (الٹے) میں اقامت کہی جائے۔ اس کے بعد کوئی میٹھی چیز چبا کر بچہ کو چٹائی جائے۔ بہتر
ہے کہ کسی نیک بزرگ سے گھٹی دلوائی جائے تاکہ آگے چل کر یہ بچہ نیک بن سکے۔
حضرت عائشہ رضی ہللا تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ رسول ہللا ﷺ کے پاس بچوں کو الیا جاتا تھا۔ آپ ان
کے لئے برکت کی دعا کرتے اور گھٹی دیتے تھے۔ (صحیح مسلم)
۳۔ عقیقہ کرنا:اوالد کے حقوق میں سے ہے کہ پیدائش کے ساتویں روز خوشی کے اظہار کے لئے
بطور خیرات بچے کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے۔ جانور کا گوشت خود بھی کھا سکتے ہیں، ِ
غریبوں میں بھی تقسیم کرسکتے ہیں اور قریبی رشتہ داروں کی دعوت بھی کرسکتے ہیں۔ حدیث کے
مطابق عقیقہ کرنے سے بچہ سے بالئیں وغیرہ ٹل جاتی ہیں۔لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی
طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے۔ ساتویں دن بچہ کے سر کے بال مونڈ ھ کر اس کے وزن کے
برابر چاندی صدقہ کی جائے۔
۴۔ اچھا نام رکھنا :بچہ کا یہ حق ہے کہ اس کا اچھا سا نام رکھا جائے۔ اسالم سے قبل اہ ِل عرب اپنے
بچوں کے عجیب نام رکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے ایسے نام ناپسند فرمائے اور ایسے نام رکھنے کا حکم
فرمایا جس کا مطلب اچھا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
74 / 131صفحہ نمبر
روز قیامت تم اپنے اورر اپنے والد کے ناموں سے پکارے جاؤ گے اس لئے اپنے نام اچھے رکھا ” ِ
کرو۔“ (ابو داؤد)
چاہئے کہ انبیاء یا صحابہ کے ناموں پر بچوں کے نام رکھے جائیں یا ایسے نام رکھنے چاہئے
جن کا مطلب اچھا ہو۔
۵۔رضاعت (دودھ پالنا):رضاعت کا مطلب ہے دودھ پالنا۔ رضاعت کی مدت دو سال ہے۔ پیدائش
کے بعد بچے کی ابتدائی خوراک ماں کا دودھ ہی ہوتا ہے۔ ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کو دودھ
پالئے۔اگر خدانخواستہ ماں کا انتقال ہوجائے یا بیماری یا کسی اور وجہ سے ماں دودھ نہ پالسکے تو
اس صورت میں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی اور عورت کو اجرت دے کر اپنے بچے کو دودھ
پلوائے۔ ارشادَ باری تعالی ہے:
ِلينَ َام َ
َولينِ کَّ ح ُندھ َ
َ اوَالَ ِعن يرض ُ ُ ِدات َالَالو و
ترجمہ” :اور مائیں پورے دو سال تک اپنے بچوں کو دودھ پالئیں۔“ (سورۃ البقرۃ)۲ ۳۳ :
۶۔ اچھی پرورش :اوالد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کے کھانے پینے اور خوراک و رہائش
کا مناسب انتظام کیا جائے۔ انہیں اچھا کھانا ،اچھی رہائش اور اچھا لباس دیا جائے۔ اوالد کے حقوق کی
طرف سے بے توجہ رہنا یا ان کو ضائع کرنا جائز نہیں۔ رسو ِل اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ ”:آدمی کے گناہگار ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ اس پر جن کو کھالنے کی ذمہ داری ہے
ان کی طرف سے بے پرواہ ہوجائے۔“ (ابو داؤد)
۷۔اچھی تعلیم و تربیت:اوالد کی جسمانی پرورش کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر تعلیم و تربیت بھی ان کا
حق ہے۔ والدین پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ اوالد کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ کرے۔
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ِ
ترجمہ” :اپنی اوالد کی عزت و توقیر کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔“
معاشی ضروریات :والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی معاشی ضروریات کو اس وقت تک
پورا کریں جب تک کہ وہ اس قابل نہ ہوجائیں کہ خود اپنے لئے روزگار حاصل کرسکیں ۔ اپنی اوالد
کے تمام اخراجات ،کھانے پینے اور دیگر اخراجات کو ہللا کا حکم سمجھ کر پورا کریں ۔
عبادت کی تعلیم :والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی اوالد کو دین اسالم کی تعلیم دیں اور انکو امر
بالمعروف ونہی عن المنکر سے روشناس کرائیں تاکہ وہ دنیا اور آخرت میں فالح ونجات پاسکیں ۔
جیساکہ ارشاد خداوندی ہے کہ :
ًا ( التحريم 6 : نارُم َ ِيکَھل َاُم و ُسَکَنفُوا ا ُوا ق َٰ
من َ اِين َا َّ
الذ يه َُّ
ياَ
ٰ
)
" اے ایمان والو ! بچاؤ خود کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے " ۔
محبت اور شفقت :والدین کے فرائض میں سے ایک اہم فرض یہ بھی ہے کہ وہ اپنی اوالد کے ساتھ
محبت اور شفقت کا برتاؤ کریں تاکہ انکی اوالد کے دل میں ماں باپ کے لیے محبت والفت کا جذبہ
فروغ پائے ۔ اوالد سے محبت اور شفقت کرنا آپ ﷺ کے سنتوں میں سے ایک سنت ہے ۔
حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول ہللا ﷺ " ایک دن حسن بن علی کو پیار کر رہے تھے اور
وہاں اقرع بن حابس تمیمی بھی موجود تھے ۔ تو انہوں نے کہا اے ہللا کے رسول! " میرے دس بیٹے
ہیں میں نے کبھی ان سے اس طرح پیار نہیں کیا ۔ اس پر رسول ہللا ﷺ نے فرمایا ":جو شخص رحم
نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا" ۔
75 / 131صفحہ نمبر
۸۔مساوی سلوک :والدین کے لئے ضروری ہے کہ اوالد کے درمیان برابری قائم رکھیں۔ کسی کو
بالوجہ کسی پر ترجیح نہیں دینی چاہئے اور کسی بھی موقع پر یہ تأثر نہیں دینا چاہئے کہ وہ ایک کو
دوسرے سے زیادہ چاہتے ہیں۔ اس سے منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور نفرت کی فضا قائم ہوتی ہے۔
خصوصا لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح نہیں دینی چاہئے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے:
ترجمہ” :ہللا سے ڈرو اور اپنی اوالد سے برابری کا سلوک کرو۔“
۹۔ مناسب جگہ نکاح:پرورش ،تعلیم و تربیت کے بعد جب اوالد جوان ہوجائے تو والدین کی ذمہ
داری ہے کہ جلد از جلد ان کے لئے مناسب رشتہ کا بندوبست کریں اور اچھی جگہ نکاح کریں۔ اس میں
بالوجہ کی تاخیر اور سستی اوالد کو بے راہ روی کا شکار کرسکتی ہے۔ رشتہ کے معاملہ میں اوالد
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ِ ملحوظ خاطر رکھا جانا بہت ضروری ہے۔
ِ کی مرضی کو بھی
ترجمہ ” :تین کاموں میں دیر نہ کرو :نماز جب اس کا وقت آجائے ،جنازہ جب حاضر ہوجائے اور غیر
شادی شدہ لڑکی جب تمہیں اس کا مثل مل جائے۔“ (جامع الترمذی)
میراث میں حق :میراث اوالدکا حق ہے والدین کی وفات کے بعد میراث کو اسالمی قانو ِن وراثت کے
مطابق تقسیم کیا جائے ،باپ کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ اپنی زندگی میں کسی لڑکے یا لڑکی کی پوری
جائیداد کا مالک بنادے اور دوسرے کو محروم کردے۔
سوال نمبر :10شوہر کے حقوق تحریر کریں۔
شوہر کے حقوق:قرآن پاک میں ہللا تبارک و تعالی نے اوراحادی ِ
ث مبارکہ میں ہللا کے رسول ﷺ نے
میاں بیوی کے تعلقات کا ایساجامع دستور پیش کیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہوسکتا۔ اگر ان
جامع ہدایات کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اس رشتہ میں کبھی بھی تلخی اور
کڑواہٹ پیدا نہ ہوگی۔
اسالمی تعلیمات نے شوہر کو گھر کا سربراہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں مرد کو عورت کا
نگہبان اور منتظم قرار دیا گیا ہے۔ ہللا کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ:
ترجمہ ” :اگر میں ہللا کے سوا کسی اور کے لئے سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو میں کہتا کہ عورت
اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔“ (جامع الترمذی)
ی ہ حدیث اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ عورت اپنے شوہر کا بھرپور احترام کرے اور اس کے
حقوق کی ادائیگی میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کرے۔ ذیل میں شوہر کے چند حقوق ذکر کئے جاتے
ہیں۔
۱۔اطاعت و خدمت :شوہر کا حق ہے کہ بیوی اس کی اطاعت کرے۔ اسالم نے شوہر کی اطاعت و
خدمت کو عورت کے کمال و خوبی میں شمار کیا ہے اور اس کو عورت پر الزم بھی قرار دیا ہے اور
جنتی عورت اس کو قرار دیا ہے جو اپنے شوہر کی اطاعت و خدمت کرکے اس کو راضی کرلے۔
ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت اگر پانچ وقت کی نماز پڑھے ،رمضان
کے روزے رکھے ،اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو وہ جنت کے
جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔ (مشکوۃ)
قرآن پاک میں ارشاد ہے:
َ للاا
ِظ َا ح
َف ِمَيبِ بٌ للغ َات َاف
ِظ ٌ حَاتِتَانُ ق َا ت لحَّا ِ َالص ف
ترجمہ” :پس نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں ،مرد کی غیر موجودگی میں ہللا کی دی ہوئی حفاظت
سے (اس کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں۔“
76 / 131صفحہ نمبر
(سورۃ النساء)۳ ۴ :
۲۔ ادب و احترام :بیوی کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کا ادب کرے ،اس سے بد کالمی نہ کرے
اور اس سے نرم لہجے میں گفتگو کرے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشا ِد گرامی ہے:
ترجمہ” :اگر ہللا کے عالوہ کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ خاوند کو سجدہ
کرے۔“
۳۔ شکر گزاری :شوہر کا یہ حق ہے کہ اس کی بیوی اس کی شکر گزار بن کر رہے۔ جو مل جائے
اس پر صبر اور شکر کرے۔ ناشکری اور گلے شکوے نہ کرے۔ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ” :عورتیں مردوں کی بنسبت زیادہ جہنم میں جائیں گی۔ اس وجہ سے کہ وہ لعنت و مالمت زیادہ
کرتی ہیں اور خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔“
۴۔ شوہر کے مال و آبرو کی حفاظت:بیوی کی ایک اور ذمہ داری ہے کہ وہ شوہر کے مال اور
اس کی عزت کی حفاظت کرے۔ خاص طور پر شوہر کی غیر موجودگی میں شوہر کی تمام چیزوں کی
حفاظت کرنا عورت کی ذمہ داری ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ہے:
َ للاا
ِظ َا ح
َف ِم َيبِ ب ٌ للغ َات ِظَاف ٌ حَاتِتَان ُ قَا ت لحَّا َِالص ف
ترجمہ ” :پس نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں ،مرد کی غیر موجودگی میں ہللا کی دی ہوئی حفاظت
سے (اس کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں۔“
(سورۃ النساء)۳ ۴ :
۵۔ شوہر کی خوشنودی:ہللا تعالی کی خوشنودی کے بعد عورت کے لئے شوہر کی رضا مندی نہایت
اہم ہے۔ عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھے اور کسی بھی لمحہ اس کو ناراض نہ
کرے۔ اگر عورت اس حال میں مرتی ہے کہ اس کا شوہر اس سے خوش ہو تو ہللا کے رسول ﷺ نے
جنت میں اس کے داخلے کی ضمانت دی ہے۔ چنانچہ ارشا ِد نبوی ﷺ ہے:
ترجمہ ” :جس عورت کا اس حال میں انتقال ہو کہ اس کا شوہر اس سے راضی رہا ہو تو وہ جنت میں
داخل ہوجائے گی۔“ (جامع الترمذی)
۶۔ زیب و زینت:ازدواجی زندگی میں جن امور کی بہت زیادہ اہمیت ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے
کہ عورت شوہر کے لئے زیب و زینت اختیار کرے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ نبی
کریم ﷺ ایک غزوہ سے واپس آئے تو صحابہ سے فرمایا کہ ابھی فورا گھر میں داخل نہ ہوں بلکہ
عورتوں کو ذرا مہلت دو کہ وہ بالوں کو ٹھیک کرلیں۔ قرآن مجید میں واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ
بیوی اپنے شوہر کے لئے زیب و زینت اختیار کرے۔
َّ
ِن ِه َ
ُولت ُعلب َّ
ِال ِ ُن اَّ َه
َتَينَ زِين يبدََال ُو
ترجمہ” :اور وہ (عورتیں)اپنے بناﷺ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کریں سوائے اپنے شوہروں کے۔“
(سورۃ النور)۳ ۱ :
ت مال :شوہر کا یہ حق ہے کہ اس کی بیوی اس کے مال کی حفاظت کرے۔ اس کو بے جا ۷۔ حفاظ ِ
خرچ نہ کرے اور نہ اس کی اجازت کے بغیر مال خرچ کرے۔
۸۔ گھر میں قیام:بیوی کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں اطمینان سے رہے اور گھر کی
دیکھ بھال کرے۔ بیوی کو چاہئے کہ وہ گھر میں ہی رہے بالوجہ باہر نہ جائے۔ عورتوں کے لئے قرآن
میں واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ:
َُّ
ِکن ُوت بيِی ُ َ
وقرن فَ َ
77 / 131صفحہ نمبر
ترجمہ” :اور تم اپنے گھر میں بیٹھی رہا کرو۔“ (سورۃ االحزاب)
۹۔ اوالد کی تربیت :بیوی کا یہ فرض ہے کہ وہ بچوں کی اچھی تربیت کرے۔ ان کے عادات و اطوار
سنوارے تاکہ وہ بڑے ہوکر اچھے مسلمان اور اچھے شہری بن سکیں۔ بچوں کی پہلی تربیت گاہ ماں کی
گود ہوتی ہے۔ بچہ جو کچھ ماں کی گود میں سیکھتا ہے وہ اسے زندگی بھر نہیں بھولتا۔ اس لئے ماں کا
فرض ہے کہ وہ بچہ کے ذہن میں اچھی باتیں ڈالے۔
۱۰۔ شوہر کے والدین اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک:عورت پر الزم ہے کہ شوہر کے
حسن سلوک سے پیش آئے۔ شوہر کی ماں کو اپنی ماں اور باپ کو اپنا ِ والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ
باپ سمجھے اور اسی طرح دیگر رشتہ داروں کو درجہ بدرجہ مقام دے کر اس کو اس درجہ و مقام
کے لحاظ سے دیکھے اور اسی کے مطابق ان سے سلوک کرے۔ عالمہ ذہبی لکھتے ہیں کہ عورت پر
واجب ہے کہ وہ شوہر کے خاندان والوں اور ان کے رشتہ داروں کا اکرام کرے۔
سوال نمبر :11بیوی کے حقوق تحریر کریں۔
بیوی کے حقوق:قرآن پاک میں ہللا تبارک و تعالی نے اوراحادی ِ
ث مبارکہ میں ہللا کے رسول ﷺ نے
میاں بیوی کے تعلقات کا ایساجامع دستور پیش کیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہوسکتا۔ اگر ان
جامع ہدایات کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اس رشتہ میں کبھی بھی تلخی اور
کڑواہٹ پیدا نہ ہوگی۔
قرآن پاک کی بیشتر آیات کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ بیوی کو محض نوکرانی اور
خاد مہ سمجھنا بالکل درست نہیں بلکہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کی
پاسداری شریعت میں نہایت ضروری ہے۔ ان حقوق میں جہاں نان و نفقہ اور رہائش کا انتظام شامل ہے
وہیں اس کی دلجوئی اور راحت رسانی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ شریعت نے بیوی کے جو
حقوق بیان کئے ہیں ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں۔
۱۔مہر کی ادائیگی :مہر اس رقم کو کہتے ہیں جو نکاح کے بعد مرد اپنی بیوی کو پیش کرتا ہے۔ یہ ہللا
کی طرف سے فرض کیا گیا ہے۔ مہر کی ادائیگی ضروری ہے اور زبردستی مہر معاف کرانا عورت
کی حق تلفی ہے۔ مہر کے متعلق قرآن میں مذکور ہے:
َۃِحل َّ ن
ِنِه
دقات َُ ء ص تواالنسآَ َُٰا
و
ترجمہ” :اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دیا کرو۔“ (سورۃ النساء)۴:
۲۔ نان و نفقہ :شادی کے بعد بیوی کے تمام اخراجات یعنی اس کا نان نفقہ اور اس کے پہننے اوڑھنے
کا انتظام شوہر کی ذمہ داری ہے۔ اور جس معیار کی چیزیں وہ خود استعمال کرتا ہے بیوی کی
ضروریات کو پورا کرتے ہوئے بالکل وہی معیار برقرار رکھنا ضروری ہے۔ قرآن پاک میں ارشا ِد
باری تعالی ہے:
ُوف َعر ِالم َّ
ُن ب تهَُ
ِسوَک َّ
ُن و ُ
ِزقه ِ لہ رَ ُ
َولود َلی الم َ َع
و
ترجمہ” :بچوں کے باپ (یعنی شوہر) پر عورتوں (یعنی بیوی) کا کھانا اور کپڑادستور کے مطابق الزم
ہے۔“ (سورۃ البقرۃ)۲ ۳۳ :
حسن سلوک :بیوی کا یہ حق ہے کہ شوہر اس سے اچھا برتاؤ کرے۔ جب وہ اپنے ماں باپ کا گھر ِ ۳۔
چھوڑ کر اس کے گھر آگئی ہے تو اب یہ اس کا فرض ہے کہ وہ اس سے اچھا سلوک کرے۔ اس پر
کسی طرح کی زیادتی نہ کرے۔ اس بارے میں ارشا ِد باری تعالی ہے:
ُوفَعرِالم َّ ب ُنُوھِرَاشَعو
78 / 131صفحہ نمبر
ترجمہ” :اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔“ (سورۃ النساء)۱ ۹ :
حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ ” :تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے ہوں۔“
(جامع ترمذی)
۴۔ مشورہ:
اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گھر کا انتظام چالنے کی ذمہ داری مرد کے ذمہ رکھی گئی ہے
حسن معاشرت کےِ جیسا کہ قرآن کریم میں مرد کو عورتوں کا نگہبان اور منتظم قرار دیا گیا ہے لیکن
طور پر عورت سے بھی گھر کے نظام کو چالنے کے لئے گھریلو معامالت میں مشورہ ضرور کرنا
چاہئے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ” :بیٹیوں (کے رشتے) کے لئے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کرو۔“ (ابو داؤد)
۵۔ بعض کمزوریوں سے چشم پوشی :شوہر کو چاہئے کہ بات بات پر نوک جھونک اور روک
ٹوک نہ کرے بلکہ بیوی کی بعض کمزوریوں سے چشم پوشی کرے۔ خاص طور پر جب کہ بیوی کے
اندر دیگر خوبیاں موجود ہوں۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہللا تعالی نے عموما ہر عورت میں کچھ نہ
کچھ خوبیاں ضرور رکھی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ ” :اگر عورت کی کوئی بات یا عمل ناپسند آئے تو مرد عورت پر غصہ نہ کرے کیونکہ اس کے
اندر دوسری خوبیاں موجود ہیں جو تمہیں بھی اچھی لگتی ہیں۔“
۶۔ عدل:اگر کسی شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو اس پر واجب ہے کہ وہ ان کے درمیان
برابری کا برتاؤ کرے یعنی ان پر برابر خرچہ کرے اور ہر ایک کی باری بھی ایک جیسی ہو۔ ان
ظاہری معامالت میں اس کے لئے کسی ایک بیوی کی حق تلفی جائز نہیں ہے۔ اب رہا دلی رجحان یا
محبت کا معاملہ تو اس میں برابری مطلوب نہیں ہے بلکہ دلی رجحان کے معاملہ میں برابری ہو ہی
نہیں سکتی۔
۷۔ خلع :جس طرح سے مرد کو اسالم نے یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طالق دے سکتا ہے۔ اسی
ط رح سے اسالم نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ مرد سے طالق لے سکتی ہے۔ عورت کے اس حق
کو خلع کہا جاتا ہے۔
۸۔ وراثت میں حصہ:جس طرح شوہر کی زندگی میں شوہر کے مال پر عورت کا حق ہے اسی طرح
مرنے کے بعد بھی عورت کا شوہر کے مال پر حق ہے۔ اسے شوہر کے مرنے کے بعد وراثت میں
سے حصہ دیا جائے گا۔وراثت میں بیوی کے حصہ کی تفصیل کچھ یوں ہے:
۰اوالد موجود نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو 1/4ملے گا۔
۰اوالد موجود ہونے کی صورت میں بیوی کو1 / 8ملے گا۔
سوال نمبر :12اساتذہ کے حقوق تحریر کریں۔
اساتذہ کے حقوق :شریعت کی نظر میں استاد کا مقام بہت بلند ہے۔ تعلیم و تربیت وہ مقدس پیشہ ہے
جس کی طرف آپ ﷺ نے خود کی نسبت کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ استاد
اپنے طلبہ کی اخالقی و روحانی تربیت کرکے ان کی شخصیت کو نکھارتا ہے۔ گویا والدین بچوں کی
جسمانی پرورش کرتے ہیں جب کہ اساتذہ روحانی تربیت کرتے ہیں۔ استاد کے مقام اور مرتبہ کی وجہ
سے شریعت نے استاد کے کچھ حقوق متعین کئے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔
79 / 131صفحہ نمبر
۱۔ ادب و احترام:استاد اور شاگرد کا رشتہ نہایت مقدس ،پاکیزہ اور مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ
حساس بھی ہے۔ طالب علم کو چاہئے کہ وہ استاد کا ادب اور احترام کرے۔ کہا جاتا ہے با ادب بانصیب،
بے ادب بد نصیب۔ جو استاد کا احترام کرتا ہے وہ بہت کچھ پالیتا ہے اور جو اس ادب و احترام سے
محروم رہتا ہے وہ بہت کچھ کھو دیتا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ:
ترجمہ” :دین تو سارے کا سارا ادب کا نام ہے۔“
۲۔ اطاعت اور خدمت گزاری :طالب علم کا فرض ہے کہ استاد کی ہر موقع پر اطاعت اور
فرمانبرداری کرے۔ کسی بھی موقع پر استاد کی نافرمانی نہ کرے ،خدانخواستہ استاد کے دل سے نکلی
آہ کہیں اسے تباہ و برباد نہ کردے۔ حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ کا ارشا ِد گرامی ہے:
” جس سے میں نے ایک حرف بھی سیکھا میں اس کا غالم ہوں۔“
استاد کی اطاعت اور خدمت گزاری شرف و سعادت کا ذریعہ ہے اور طالب علم کے لئے فخر
کا باعث ہے۔
۳۔ خلوص اور ہمدردی :اساتذہ کا حق ہوتا ہے کہ اس کے شاگرد اس کے ساتھ عقیدت ،خلوص اور
ہمدردی کا اظہار کریں اور اس کے ساتھ انتہائی عزت سے پیش آئیں اور شاگردوں کا فرض ہے کہ وہ
اساتذہ کی عزت کریں اور ان کے احترام میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔ رسول ہللا ﷺ کا ارشا ِد
گرامی ہے:
ترجمہ ” :آدمی کے تین باپ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس کے نطفہ سے یہ پیدا ہوا ،دوسرا سسر جس نے اس
کو اپنی بیٹی نکاح میں دی اور تیسرا استاد جس نے اس کو دین سکھایا۔
۴۔توجہ اور دلچسپی:اساتذہ کا یہ حق ہوتا ہے کہ ان کی باتوں کو پوری دلچسپی اور توجہ سے سنا
جائے۔ دلچسپی اور توجہ علم کے حصول میں معاون ہوتی ہے۔ اساتذہ کی باتوں کو توجہ اور دلچسپی
سے سن کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہللا تعالی سے دعا کرنی چاہئے جیسا کہ
قرآن مجید میں ارشا ِد باری تعالی ہے:
ً
ِلما ِدنی ع َب زر
ترجمہ” :اے میرے پروردگار! میرے علم میں اضافہ فرما۔“ (سورہ طہ)۱۱۴ :
۵۔ عجز و انکساری :استاد کی مثال باپ کی سی ہوتی ہے۔ طالب علم کا فرض ہے کہ استاد کے
سامنے عجزوانکساری کا مظاہرہ کرے ،غروروتکبر سے پرہیز کرے۔ امام غزالی رحمۃ ہللا علیہ
فرماتے ہیں کہ شاگرد کو استاد کے سامنے مردہ زمین کی طرح ہونا چاہئے ،جس پر بارش پڑتی ہے تو
وہ سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے۔ گویا امام صاحب کی نظر میں استاد کی مثال اس بارش کی ہے جس کے
بغیر زمین بنجر و ناکارہ ہے۔ حدیث نبوی ہے:
ترجمہ ” :جن سے علم حاصل کرتے ہو اور جنہیں سکھاتے ہو ان کے لئے تواضع اور عاجزی اختیا
رکرو۔“
۶۔ خوب محنت کرنا :طالب علم کو چاہئے کہ تعلیم حاصل کرنے میں خوب محنت سے کام لے تاکہ
صرف کررہا ہے وہ رنگ السکیں۔ علم مسلسل جدوجہد ،محنت ،لگن، استاد جو اس پر اپنی تمام کاوشیں َ
جستجو ،وقت اور خواہشات کی قربانی کا نام ہے۔ طالب علم کو چاہئے کہ ان سے بیزار نہ ہو۔ یہ نہ ہو
کہ استاد تو محنت کرتا رہے لیکن شاگرد کوئی توجہ نہ دے۔ طالب علم کو چاہئے کہ خوب محنت کرے
اور اساتذہ سے دعائیں وصول کرے۔
80 / 131صفحہ نمبر
۷۔ دعائے خیر :چونکہ استاد کے اپنے شاگردوں پر بڑے احسانات ہوتے ہیں اس لئے طالب علم کا
فرض ہے کہ وہ اپنے محسن استادوں کے لئے ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد ان کے لئے
دعائے خیر و مغفرت کرے۔ بزرگوں کا دستور رہا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کو اپنی دعاؤں میں ہمیشہ یاد
رکھتے ہیں۔ ارشا ِد نبوی ﷺ ہے:
ترجمہ ” :جو شخص تم پر احسان کرے تو اس کا صلہ دو ورنہ کم از کم اس کے لئے دعائے خیر
ضرور کرو۔“
سوال نمبر :13شاگردوں کے حقوق تحریر کریں۔
شاگردوں کے حقوق :جس طرح شاگردوں پر استاد کے حقوق واجب ہیں بالکل اسی طرح استاد کے
ذمہ بھی اپنے طلبہ کے کچھ حقوق الزم ہوتے ہیں۔ شاگردوں کی ہر طرح کی تعلیمی ،تربیتی اور
اخالقی اصالح کی ذمہ داری استاد پر الزم ہے۔ استاد کو شاگردوں کے کچھ فرائض سونپے گئے ہیں کہ
وہ اپنے شاگردوں سے کیسے معامالت کرے۔ ان ہی ذمہ داریوں کو شاگردوں کے حقوق یا استاد کے
فرائض کہا جاتا ہے۔ ذیل میں ان میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔
۱۔اخالص:علم ایک امانت ہے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہے۔ استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس
امانت کو پورے اخالص کے ساتھ اپنے شاگردوں تک پہنچائے اور اس میں اخالص سے کام لیتے ہوئے
کسی قسم کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرے۔
۲۔ بہترین تربیت:تعلیم صرف مخصوص نصاب پڑھنے اور پڑھانے کا نام نہیں بلکہ یہ تو دراصل
ایک باطنی قوت کا نام ہے جو انسان کو تہذیب سے بہرہ ور کرتی ہے۔ استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ
صرف نصاب پڑھانے پر توجہ نہ دے بلکہ ساتھ ساتھ اپنے طلبہ کی تربیت پر بھی کڑی نظر رکھے۔
قدم قدم پر
شاگردوں کی اخالقی اصالح کا کام انجام دے۔
۳۔ مساوی سلوک:استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام شاگردوں کے ساتھ مساوی یعنی برابری کا
سلوک کرے۔ کسی طالب علم کو بالوجہ دوسروں پر ترجیح دینے سے گریز کرے۔ اس سے دوسرے
طلبہ احساس کمتری کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ایک باپ کی طرح سب شاگردوں کو اوالد سمجھتے ہوئے
سب کو برابر اپنی توجہ سے نوازے۔ ا گرچہ طلبہ اپنی ذہنی صالحیتوں کے تناظر میں مختلف درجات
رکھتے ہیں مگر استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ کمزور اور غبی طلبہ پر بھی اتنی ہی توجہ دے
جتنی ذہین و فطین طلبہ پر دیتا ہے۔
۴۔ غیر جانبدار رویہ :اساتذہ کا فرض ہوتا ہے کہ وہ تعلیم کی فراہمی کے عمل کے دوران بالکل غیر
طرز فکر کی طرف خصوصی ِ جانبدار رویہ اپنائیں اور کسی بھی خاص سیاسی ،سماجی یا مذہبی
رجحان ظاہر نہ کریں۔اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ مکمل طور پر غیر جانبدار رہتے ہوئے صرف حقیقت
کی تعلیم سے اپنے شاگردوں کو روشناس کرائیں۔ ایک استاد کا غیر جانبدار رویہ اسے شاگردوں میں
مقبول بناتا ہے اور اس کی عظمت اور رتبہ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔
۵۔محبت و شفقت :استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام طلبہ کو
اپنی اوالد سمجھے۔ استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حیثیت کو پہچانتے ہوئے اپنے طلبہ کے ساتھ
حقیقتا روحان ی باپ جیسا سلوک کرے۔ بے جا سختی سے گریز کرے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ بے جا سختی کی
وجہ سے دلبرداشتہ ہوکر کوئی طالب علم علم جیسی عظیم دولت سے محروم ہوجائے۔
81 / 131صفحہ نمبر
۶۔ خوش اخالقی :علم ایک ایسی دولت ہے جو زبردستی کسی کو نہیں دی جاسکتی ،اس کے لئے
خوش اخالقی نہایت ضروری ہے۔ اس تاد کی ذمہ داری ہے کہ درس کے دوران اپنے چہرے کو ہشاش
بشاش رکھے۔ بد اخالقی کا مظاہرہ نہ کرے۔ بلکہ نہایت خوش اخالقی سے کام لے اور اگر کوئی شاگرد
سوال کرے تو خندہ پیشانی سے اس کا جواب دے۔
۷۔ دعائے خیر:ہر کام میں صرف اپنی محنت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہللا سے اس کام کے
حوالہ سے مدد مانگنی چاہئے۔ استاد کو چاہئے کہ وہ اپنے شاگردوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھے۔ قدم
قدم پہ ان کی کامیابی کے لئے دعاگو ہو۔ خصوصا وہ طلبہ جو ذہنی طور پر کمزور ہیں ان کو دعامیں
ضرور یاد رکھے تاکہ دوسرے طلبہ کی طرح وہ بھی اپنی علم کی منازل کو آسانی اور خوش اسلوبی
سے طے کرسکیں۔
سوال نمبر :14رشتہ داروں کے حقوق تحریر کریں۔
شریک حیات کے حقوق کے بعداسالم رشتہ داروں کے
ِ رشتہ داروں کے حقوق:والدین ،اوالد اور
حقوق پر زور دیتا ہے کیونکہ معاشرتی زندگی میں انسان کا واسطہ گھر والوں کے بعد سب سے زیادہ
ان ہی سے پڑتا ہے۔ اگر خاندان کے افراد ایک دوسرے کے حقوق اچھے طریقے سے ادا کرتے رہیں
تو پورے خاندان میں محبت اور اپنائیت کی فضا قائم ہوتی ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو
نفرت اور دوری پیدا ہوجائے گی اور پورا معاشرہ امن سے محروم ہوجائے گا۔ قرآن اور حدیث دونوں
حسن سلوک کی بار بار تلقین کی گئی ہے۔ شریعت نے رشتہ ِ میں صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں سے
داروں کے جو حقوق بتالئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔
حکم خداوندی
ِ ۱۔ حسن سلوک:رشتہ داروں کا اولین حق ہے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔
ہے:
ُ
ِی القربی ً
ِحسَانا وذ دينِ الَ
َاِِالو َب و
ترجمہ” :اور والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔“
۲۔ مالی مدد :رشتہ داروں کا حق ہے کہ ان کی مالی مدد کی جائے اور ان کی مالی مشکالت حل کی
جائیں بلکہ اگر رشتہ داروں میں کوئی زکوۃکا مستحق ہے تو سب رشتہ داروں کو چاہئے کہ سب سے
پہ لے اپنے رشتہ دار کو اپنی زکوۃ اور صدقہ ادا کرکے اس کی مالی حالت بہتر بنائیں۔ ارشا ِد باری
تعالی ہے:
ِی القربی َ
ُبہ ذو َ َ َ
واتی المال علی ح ٰ َ
ترجمہ” :اور ہللا کی رضا کی خاطر رشتہ داروں کی مالی مدد کی جائے۔“
۳۔ اخالقی و روحانی مدد:رشتہ داروں کی جس طرح مالی مدد کا حکم ہے اسی طرح سے روحانی
مدد کا بھی ہے۔ یعنی ان کو اسالمی احکام پر عمل کرنے پر راغب کیا جائے تاکہ ان کی دنیا اور آخرت
سنور سکے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے:
ِينَبَتکَ االقرَ ِير َش
ِر ع َ
َانذو
ترجمہ” :اور رشتہ داروں کو ہللا کے عذاب سے ڈراؤ۔“
۴۔ پیار و محبت:رشتہ داروں کا یہ بھی حق ہے کہ ان سے پیار و محبت برتا جائے۔ خصوصا خونی
رشتوں میں خاص پیار و محبت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ محض دنیاوی امور اور مال و دولت کی خاطر
اپنے پیاروں سے قطع تعلق نہیں کرنا چاہئے کیونکہ رشتے انمول ہوتے ہیں۔
82 / 131صفحہ نمبر
۵۔ صلہ رحمی:اسالم امن و سالمتی کا مذہب ہے جو رشتہ جوڑنے کا حکم دیتا ہے اور رشتہ داروں
سے تعلقات خراب کرنے سے منع کرتا ہے کیونکہ اس سے معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلتا ہے۔ قرآن و
حدیث میں کئی جگہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کی تلقین کی گئی ہے اور رشتہ قطع کرنے والوں کو
سخت وعید سنائی گئی ہے چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے:
ترجمہ” :قطع رحمی کرنے واال جنت میں نہیں جائے گا۔“
صلہ رحمی کا تقاضا ہے کہ کوئی آپ سے اچھے تعلقات رکھے یا نہ رکھے آپ اس
سے اچھے تعلقات رکھیں۔ جیسا کہ ایک موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ” :صلہ رحمی کرنے واال وہ نہیں جو صلہ رحمی کے جواب میں صلہ رحمی کرے بلکہ صلہ
رحمی کرنے واال وہ ہے جو قطع رحمی کا جواب صلہ رحمی سے دے۔“
۶۔ خوشی و غمی میں شرکت :دوسروں کے خوشی و غم میں شریک ہونا ایمانی تقاضہ ہے۔ رشتہ
دار ہونے کی صورت میں یہ اور بھی ضروری ہے کہ اگر رشتہ دار کسی غم میں مبتال ہے تو اس کے
غم میں ش ریک ہوکر اس کا غم بانٹا جائے۔ اگر اس تکلیف کے موقع پر اس کو مدد کی ضرورت ہے تو
اس کی مدد کی جائے۔ اس طرح اس کی خوشیوں میں شریک ہوکر اسے اپنائیت کا احساس دالیا جائے۔
۷۔ زکوۃ و صدقات میں ترجیح :جب انسان نفلی یا واجبی صدقہ یا زکوۃ دینے کا ارادہ رکھتا ہوتو
اسے چاہئے کہ ادھر اُدھر کے غرباء و مساکین تالش کرنے سے پہلے اپنے رشتہ داروں پر نظر
دوڑائے کہ کہیں ان میں تو کوئی مستحق نہیں؟ اگر مستحق نکل آئے تو دوسرے مساکین پر اپنے غریب
رشتہ داروں کو ترجیح دے۔ آپ ﷺ کا ارشا ِد گرامی ہے کہ:
زیر کفالت ہیں۔“
ترجمہ” :اور(صدقہ اور خیرات کا) آغاز ان سے کرو جو تمہارے ِ
۸۔ حق وراثت :اسالم نے رشتہ داروں کو وراثت کا حصہ دار بنایا ہے۔ ہر رشتہ دار کا یہ حق ہے کہ
شریعت نے اس کا جو حصہ مقرر کیا ہے وہ اسے دیا جائے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتی
جائے چنانچہ ارشا ِد باری تعالی ہے:
83 / 131صفحہ نمبر
حسن سلوک کی تلقین کی گئی ِ حسن سلوک:قرآن مجید میں جہاں ماں باپ اور رشتہ داروں سے ِ ۱۔
ہے وہاں ہمسایوں سے بھی اچھا برتاؤ کرنے کا حکم ہے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے:
ترجمہ ” :اور ہللا کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہراؤ اور والدین کے ساتھ اچھا
سلوک کرو ،نیز رشتہ داروں ،یتیموں ،مسکینوں ،رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقائے پہلو
(یعنی پاس بیٹھنے والوں) کے ساتھ (احسان کرو)۔“ (سورۃ النساء)۳ ۶ :
ب ایمان کی عالمت بیان کرتے ہوئے فرمایا: آپ ﷺ نے صاح ِ
ترجمہ ” :وہ شخص مومن نہیں جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں او رتکلیفوں سے محفوظ نہ ہو۔“
۲۔ عزت و تکریم :پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کی عزت کی جائے۔ پڑوسی ایک دوسرے
کی عزت و تکریم کریں گے تب ہی وہ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرسکیں گے۔ آپ ﷺ نے ارشاد
فرمایا:
ترجمہ ”:جو شخص ہللا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے ہمسائے کی عزت کرنی
چاہئے۔“ (صحیح البخاری)
۳۔ ایذاء رسانی سے گریز :حضور ﷺ کے ارشادات مبارکہ سے ہمیں یہ ہدایت بھی ملتی ہے کہ
کوئی بھی اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے ،اسے دکھ نہ دے۔ کوئی ایسی حرکت نہ کرے جس سے
اسے تکلیف پہنچے۔ آپ ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ ” :وہ شخص مومن نہیں جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں او رتکلیفوں سے محفوظ نہ ہو۔“
ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا:
ترجمہ ” :جو شخص ہللا پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو ایذا(تکلیف) نہ
دے۔“
۴۔تحفہ دینا:پڑوسیو ں کو تحفے تحائف دینے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور خلوص پیدا ہوتا ہے۔
حضور ﷺ نے عورتوں سے خاص طور پر خطاب کرکے فرمایا:
ترجمہ ” :اے مسلمان عورتوں! اپنے پڑوسیوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو بھی حقیر مت جانو،
حتی کہ اگر بکری کی کھری ہی بھیج سکو تو یہ بھی اہم چیز ہے۔“
۵۔ جان ،مال اور عزت کی حفاظت:پڑوسی کا حق ہے کہ اس کی جان ،مال اور عزت کی حفاظت
کی جائے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے:
ترجمہ ” :چوری حرام ہے لیکن ہمسائے کی چوری دس گھروں کی چوری سے بڑھ کر ہے۔“
اس کے عالوہ پڑوسیوں کو ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا چاہئے۔ پڑوسی بیمار ہو
تو اس کی عیادت کی جائے۔وفات پا جائے تو اس کا جنازہ پڑھا جائے۔ اپنے گھر کی دیوار اتنی اونچی
نہ کی جائے کہ اس کی ہوا بند ہوجائے۔ گھر میں کچھ پکے تو وہ پڑوسیوں کو بھی بھیجا جائے۔
سوال نمبر:16غیر مسلموں (ذمیوں)کے حقوق تحریر کریں۔
غیر مسلموں (ذمیوں)کے حقوق:اسالمی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو ”ذمی“ کہا جاتا ہے۔
جس طرح اسالمی ریاست میں مسلمانوں کو حقوق حاصل ہوتے ہیں اسی طرح ذمیوں کو بھی حقوق
حاصل ہوتے ہیں۔ذیل میں غیر مسلموں کے حقوق کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔
مذہبی حقوق:
اسالمی ریاست میں غیر مسلموں کو مندرجہ ذیل مذہبی حقوق حاصل ہوتے ہیں:
84 / 131صفحہ نمبر
۱۔ عقیدہ کی آزادی:ہر ذمی کو عقیدہ کی آزادی ہوتی ہے اسے عقیدہ بدلنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔
ہللا تعالی نے اس حکم پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیا ہے:
ِی الدين َاه ف ِکرالا
ترجمہ” :دین میں کوئی زبردستی نہیں۔“ (سورۃ البقرہ)۲ ۵ ۶ :
دین اسالم اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ غیر مسلم شہری ۲۔ عبادت اور عبادت گاہوں کی آزادیِ :
اپنی آبادیوں میں مذہبی شعائر اور رسوم کی علی االعالن ادئیگی میں آزادہوتے ہیں۔ ان کے جلسوں اور
اجتماعات پر کوئی پابندی نہیں ہوتی البتہ خالص مسلم آبادیوں میں اگر بد نظمی کا خدشہ ہو تو پابندی
عائد کی جاسکتی ہے لیکن ا س میں بھی خود ان کا فائدہ ہے۔ اسالمی ریاست میں ان کی عبادت گاہیں
پوری طرح محفوظ اور آزاد ہوتی ہیں۔ حضرت خالد بن ولیدرضی ہللا تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر
دور خالفت میں حیرہ (ایک شہر کا نام) فتح کیا تو یہ معاہدہ لکھ کر دیا:
رضی ہللا تعالی عنہ کے ِ
”ان کے گرجے(عی سائیوں کی عبادت گاہ) برباد نہیں کئے جائیں گے نہ ان کو سنکھ(عبادت کے وقت کا
اعالن کرنے کے لئے بجایا جانے واال آلہ) بجانے سے منع کیا جائے گااور نہ عید کے دن صلیب
لٹکانے سے روکا جائے گا۔“
معاشرتی حقوق:
اسالمی ریاست میں غیر مسلموں کو مندرجہ ذیل معاشرتی حقوق حاصل ہوتے ہیں:
۱۔ جان و مال کا تحفظ:اسالمی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے غیر مسلم شہریوں کی جان و
محسن انسانیت ﷺ نے
ِ مال کی حفاظت کرے۔ اس سلسلہ میں مسلم و غیر مسلم میں کوئی فرق نہ کرے۔
ارشاد فرمایا:
” جس نے کسی ذمی کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا جو چالیس سال کی مسافت
سے محسوس ہوگی۔“
۲۔ عزت و آبرو کی حفاظت :اسالمی تعلیمات کے مطابق غیر مسلم شہری کی عزت و ناموس اسی
طرح محفوظ و محترم ہے جس طرح مسلم شہری کی۔ اسے گالی دینا ،مارنا ،پیٹنااسی طرح ناجائز ہے
جس طرح مسلمان کے حق میں یہ چیزیں حرام ہیں حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے اپنے گورنروں کو
تاکیدی حکم دے رکھا تھا کہ:
”مسلمانوں کو ذمیوں پر ظلم سے روکو۔“
۳۔ تحریر و تقریر کی آزادی:اسالمی ریاست میں غیر مسلموں کو تحریر و تقریر کی آزادی ہوتی
ہے۔ وہ اپنے دل کی بات پوری آزادی سے کرسکتے ہیں۔ لیکن ضروری ہے کہ ان کی کسی بات یا عمل
سے کسی دوسرے کو تکلیف یا دل آزاری نہ ہو۔
۴۔ قانونی مساوات :اسالمی قانون میں مسلمان اور غیر مسلم برابر ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی غیر
مسلم شہری پر ظلم و زیادتی کرے مثالََؑ چوری کرے ،تہمت لگائے ،حق تلفی کرے تو ان سب
صورتوں میں اسی سزا کا حق دار ہے جو مسلمانوں کے باہمی معامالت میں مقرر ہیں یعنی جرائم کی
سزا دونوں کے لئے یکساں ہے۔
معاشی حقوق:
اسالمی ریاست میں غیر مسلموں کو مندرجہ ذیل معاشی حقوق حاصل ہوتے ہیں:
ب معاش :ہر ذمی کو جائز طریقہ سے اپنی روزی کمانے کا حق ہوتا ہے ،ہاں ناجائز ذرائع پر
۱۔ کس ِ
پابندی ہوتی ہے۔ جیسے چوری ،جوا ،اسمگلنگ وغیرہ۔
85 / 131صفحہ نمبر
۲۔ معاشی مساوات :تمام غیر مسلموں کو دوسرے مسلمان شہریوں کی طرح روزی کمانے کا مساوی
حق ہوتاہے۔ وسائ ِل رزق پر کسی کو قبضہ کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ ہر شخص کی وسائ ِل رزق تک
رسائی ہوتی ہے۔ جتنی کسی کی ہمت ہے اتنی روزی کماتا ہے۔
حق ملکیت :اسالمی ریاست میں مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں کو بھی مال و جائیداد رکھنے کا ۳۔ ِ
پورا حق ہوتا ہے۔ حکومت کسی کی جائز ذرائع سے بنائی ہوئی جائیداد پر قبضہ نہیں کرتی۔
۴۔ مالی تحفظ :ہر غیر مسلم کو حکومت کی طرف سے مالی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ حکومت اس کی
جان و مال کی حفاظت کرتی ہے۔
سیاسی حقوق:
اسالمی ریاست میں غیر مسلموں کو مندرجہ ذیل سیاسی حقوق حاصل ہوتے ہیں:
حق رائے دہی :ہر ذمی کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ حکومت کو اپنی رائے دے۔ وہ آزادی سے ۱۔ ِ
اپنی رائے دے سکتا ہے اور اپنے نمائندوں کا انتخاب کرسکتا ہے۔
حق محاسبہ :ہر ذمی کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ حکمرانوں کا احتساب کرسکے۔ اس پر کوئی ۲۔ ِ
پابندی نہیں ہوتی۔ وہ اپنی تحریروتقریر سے تعمیری تنقید کرسکتا ہے۔
حق اپیل :ہر غیر مسلم کو حکومت سے اپیل کرنے اور فریاد کرنے کا بھی حق ہوتا ہے۔ وہ اپنے ۳۔ ِ
مسائل اور مشکالت حکومت تک پہنچا سکتا ہے۔
۴۔ حکومت میں شرکت کا حق:سوائے چند ایک کلیدی اور مرکزی عہدے جن کا تعلق برا ِہ راست
اسالمی ریاست کی پالیسی سے ہے ،باقی ہر طرح کی مالزمت اور حکومتی عہدوں کے دروازے غیر
مسلم شہریوں پر کھلے ہوتے ہیں۔ وہ صالحیت کی بنیاد پر کام کرنے کا حق رکھتے ہیں۔
87 / 131صفحہ نمبر
20۔ اسالمی سال کا نواں مہینہ ہے:
۰ذیقعد ۰رجب ۰رمضان ۰جمادی االول
حضور اکرم ﷺ نے اس مہینے کو مواسات اور غمگساری کا مہینہ قرار دیا ہے: ِ 21۔
۰رمضان ۰رجب ۰محرم ۰صفر
22۔ رمضان میں ُکل کتنے عشرے ہوتے ہیں؟
۰دو ۰تین ۰پانچ ۰چار
23۔ رمضان کے پہلے عشرے کو کہا جاتا ہے:
۰جہنم کی آگ سے نجات ۰عشرہ مغفرت ۰عشرہ رحمت ۰عشرہ عبادت
کا عشرہ
24۔ رمضان کے دوسرے عشرے کو کہا جاتا ہے:
۰جہنم کی آگ سے نجات ۰عشرہ مغفرت ۰عشرہ رحمت ۰عشرہ عبادت
کا عشرہ
25۔ رمضان کے تیسرے عشرے کو کہا جاتا ہے:
۰جہنم کی آگ سے نجات ۰عشرہ مغفرت ۰عشرہ رحمت ۰عشرہ عبادت
کا عشرہ
26۔ اس رات کی عبادت ہزار سال کی عبادت سے افضل ہے:
ب عیدِ ش ۰ معراج ب
ِ ش ۰ ب قدر۰ش ِ ب برأت ۰ش ِ
27۔ تشکی ِل پاکستان اس اسالمی مہینہ میں ہوئی:
۰رمضان ۰رجب ۰محرم ۰صفر
28۔ قرآن مجید کی اس سورت میں روزہ کی فرضیت کا حکم آیا ہے:
۰آ ِل عمران ۰البقرہ ۰االحزاب ۰النساء
29۔ اعتکاف کے لغوی معنی ہیں:
۰بھوکا رہنا ۰ٹھرنا ۰دعا کرنا ۰عبادت کرنا
30۔ اعتکاف میں بیٹھنا کیا ہے؟
۰نفل ۰سنت ۰واجب ۰فرض
31۔ زکوۃ کے لغوی معنی ہیں:
۰نجات پانا ۰برداشت کرنا ۰پاک کرنا ۰بانٹنا
32۔ زکوۃ کی فرضیت کا حکم کب آیا؟
8۰ہجری 7۰ہجری 2۰ہجری
9۰ہجری
زکوۃ کا ذکر قرآن مجید کی اس سورت میں ہے : 33۔ مصارف ٰ
۰سورۃ المائدہ ۰سورۃ النمل ۰سورۃ البقرۃ ۰سورۃ التوبۃ
34۔ زکوۃ کے مصارف ہیں:
۰دس ۰نو ۰آٹھ ۰سات
35۔ کن چیزوں پرزکوۃ نہیں دی جاتی؟
۰نقدی ۰ذاتی استعمال کی اشیاء ۰چاندی ۰سونا
ث مبارکہ میں اس عبادت کو آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا گیا ہے: 36۔ احادی ِ
نماز تہجد
ِ ۰ ۰نماز ۰زکوۃ ۰روزہ
37۔ رکوع کے لفظی معنی ہیں:
۰عبادت کرنا ۰سر جھکانا ۰جھکنا ۰کھڑے ہونا
نماز تراویح کی ادائیگی کیا ہے؟ 38۔ ِ
۰واجب ۰فرض ۰سنت ۰نفل
نماز جمعہ فرض ہوئی: 39۔ ِ
88 / 131صفحہ نمبر
۰ہجرت سے پہلے ۰ہجرت کے دوران ۰2ہجری
۰ہجرت کے بعد
40۔ عید کی نماز میں کتنی زائد تکبیرات کہی جاتی ہیں؟
۰تین ۰چھ ۰چار ۰سات
41۔ قیامت کے دن سب سے پہلے حساب ہوگا:
۰مال کا ۰نماز کا ۰حقوق العباد کا ۰حقوق ہللا کا
42۔ ُخمس کے معنی ہیں:
۰چھٹا ۰پانچواں ۰چوتھائی ۰تہائی
43۔ ُخمس کون سے مال میں سے ادا کیا جاتا ہے؟
۰مویشی ۰زرعی زمین ۰ما ِل تجارت ۰ما ِل غنیمت
44۔ زکوۃ میں سونے کا نصاب ہے:
52 1/2 ۰تولہ 10۰تولہ 7 1/2 ۰تولہ 2 1/2 ۰تولہ
45۔ زکوۃ میں چاندی کا نصاب ہے:
52 1/2 ۰تولہ 10۰تولہ 7 1/2 ۰تولہ 2 1/2 ۰تولہ
46۔ زکوۃ کی ساالنہ شرح ہے:
۰تین فیصد ۰ڈیڑھ فیصد ۰ڈھائی فیصد ۰دو فیصد
47۔ حج کے لغوی معنی ہیں:
۰زیارت کا ارادہ کرنا ۰جہاد کرنا ۰سفر کرنا
۰فرض ادا کرنا
48۔ بیت ہللا کے لغوی معنی ہیں:
۰مرکز ۰ہللا کا گھر ۰عبادت گاہ ۰مسجد
49۔ حج کس سن میں فرض ہوا؟
9۰ہجری 8۰ہجری 5۰ہجری
10۰ہجری
50۔ حج کے مناسک کی تعداد ہے:
5۰ 8۰ 9۰ 10۰
51۔ زندگی میں حج کتنی مرتبہ فرض ہوئی؟
3۰مرتبہ 2۰مرتبہ 1۰مرتبہ
4۰مرتبہ
52۔ حج کن تاریخوں میں کیا جاتا ہے؟
9۰سے 13ذوالحجہ 8۰سے 12ذوالحجہ 7۰سے 11ذوالحجہ
10۰سے 14ذوالحجہ
53۔ حج کا اصل دن ہے:
9۰ذوالحجہ 8۰ذوالحجہ 7۰ذوالحجہ
10۰ذوالحجہ
54۔ حج کی فرضیت کا ذکر قرآن مجید کی اس سورت میں ہے :
۰سورہ آل عمران ۰سورۃ النمل ۰سورۃ البقرۃ ۰سورۃ التوبۃ
55۔ حج کی کتنی اقسام ہیں؟
۰پانچ ۰چار ۰تین ۰دو
56۔ حج کے لئے جو لباس پہنا جاتا ہے اسے کہتے ہیں:
۰مقدس لباس ۰کملی ۰احرام ۰چادریں
57۔ احرام کا مطلب ہے:
89 / 131صفحہ نمبر
۰حرام کرنا ۰روکنا ۰منع کرنا
۰چادریں پہننا
58۔ لبیک اللھم لبیک کہالتا ہے:
۰نعرہ لگانا ۰تلبیہ ۰تکبیر ۰اذان
ارکان حج میں طواف کہالتا ہے:ِ 59۔
۰کعبہ کے گرد ۰قربانی کرنا ۰کنکریاں مارنا ۰زیارت کرنا
چکر لگانا
60۔ سعی کے لغوی معنی ہیں:
۰حفاظت کرنا ۰کوشش کرنا ۰لڑنا ۰فروغ دینا
61۔ صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کو کہتے ہیں:
۰وقوف ۰استالم ۰سعی ۰طواف
62۔ شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل کہالتا ہے:
۰رمی ۰استالم ۰سعی ۰طواف
63۔ حاجی یہاں شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں:
۰عرفات ۰مزدلفہ ٰ ۰
منی ۰عرفات
64۔ جس مقام سے احرام باندھا جاتا ہے اس مقام کو کہتے ہیں:
۰میقات ۰صفا ۰یثرب ۰جمرہ
65۔ روزہ کس قسم کی عبادت ہے؟
۰نفلی ۰تجارتی ۰بدنی ۰مالی
66۔ غزوہ طائف اس سن ہجری میں ہوا:
9۰ہجری 6۰ہجری 8۰ہجری
10۰ہجری
ت رضوان اس سن ہجری میں ہوئی: 67۔ بیع ِ
9۰ہجری 6۰ہجری 8۰ہجری
10۰ہجری
68۔ حج کے دوران شیطان کو کنکریاں مارنے کے عمل کو کہا جاتا ہے:
۰استالم ۰رمی ۰سعی ۰طواف
69۔نبی اکرمﷺنے اس سن ھ میں حج ادا کیا۔
13۰ 12۰ 11 ۰ 10 ۰
70۔ اسے جامع العبادات کہتے ہیں:
۰حج ۰زکوۃ ۰روزہ ۰نماز
71۔ عبادت کی قبولیت کے لئے شرط ہے:
ب حالل ۰کس ِ ۰نیت ۰دعا ۰تقوی
72۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ اس سال ہوا:
4۰ہجری 6 ۰ہجری 2 ۰ہجری
3 ۰ہجری
73۔ جہاد کے لغوی معنی ہیں:
۰حفاظت کرنا ۰کوشش کرنا ۰لڑنا ۰فروغ دینا
74۔ نفس کی اصالح اور اس کی تربیت کے لئے کوشش کہالتی ہے:
۰جہاد ۰قطعی جہاد ۰افضل جہاد ۰چھوٹا جہاد
بالمال
75۔ جہا ِد اکبر اس جہاد کو کہا جاتا ہے:
۰جہاد بالقلم ۰جہاد بالنفس ۰جہاد بالمال ۰جہاد بالسیف
90 / 131صفحہ نمبر
76۔ جہاد اس سال فرض ہوا:
۰4ہجری 6 ۰ہجری 2 ۰ہجری
3 ۰ہجری
77۔ ایسا جہاد جس میں رسو ِل اکرم ﷺ خود شریک ہوئے ہوں وہ کہالتا ہے:
۰لڑائی ۰جنگ ۰سریہ ۰غزوہ
78۔ ایسا جہاد جس میں رسو ِل اکرم ﷺ خود شریک نہ ہوئے ہوں وہ کہالتا ہے:
۰لڑائی ۰جنگ ۰سریہ ۰غزوہ
79۔ غزوہ بدر اس سن میں پیش آیا:
3۰ہجری 2۰ہجری 1۰ہجری
4۰ہجری
80۔ غزوہ احد اس سن میں پیش آیا:
3۰ہجری 2۰ہجری 1۰ہجری
4۰ہجری
81۔ غزوہ بدر میں اتنے مسلمان مجاہد شریک تھے:
1000۰ 515۰ 313۰ 616۰
82۔ غزوہ احزاب کا دوسرا نام ہے:
۰غزوہ خیبر ۰غزوہ موتہ ۰غزوہ حنین ۰غزوہ خندق
83۔ حدیث کے مطابق شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے:
۰والدین کی ۰منافقت ۰نماز نہ پڑھنا ۰زکوۃ ادا نہ کرنا
نافرمانی
84۔ حقوق العباد میں ان کا درجہ سب سے بڑا ہے:
۰پڑوسی ۰اساتذہ ۰رشتہ دار ۰والدین
85۔ یہ معاشرے کی بنیادی اکائی ہے:
۰گھر ۰یونیورسٹی ۰بازار ۰مسجد
86۔ قرآن و حدیث کے مطابق ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا ہے:
۰بھائی ۰رشتہ دار ۰ساتھی ۰دوست
87۔ جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا:
۰سود ۰والدین کا نافرمان ۰استاد کا نافرمان ۰قاتل
خور
88۔ پڑوسی کی اقسام ہیں:
۰سات ۰پانچ ۰تین ۰چار
89۔ عربی زبان میں پڑوسی کو کہتے ہیں:
۰قہر ۰سہل ۰سحر ۰جار
90۔ ایفائے عہد کے معنی ہیں:
۰وعدہ خالفی ۰وعدہ پورا کرنا ۰وعدہ نہ کرنا ۰جھوٹا وعدہ
کرنا
۔اعالن نبوت سے پہلے آپ ﷺ کو کہا جاتا تھا: ِ 91
۰صادق و امین ۰حبیب ہللا ۰کلیم ہللا ۰روح االمین
92۔ عدل کے لغوی معنی ہیں:
۰تقوی ۰ضد نہ کرنا ۰ظلم سے بچنا ۰توازن قائم رکھنا
اختیار کرنا
93۔ کسب کے لغوی معنی ہیں:
91 / 131صفحہ نمبر
۰ترقی ۰آرام دینا ۰کمانا ۰ترجیح دینا
دینا
94۔ قرآن پاک میں سود کے لئے یہ لفظ ہے:
۰الصدقۃ ۰الربوا ۰الفضہ ۰الذھب
سن سلوک کہالتا ہے:ُ ِ ح سے داروں 95۔ رشتہ
۰صبر ۰صلہ رحمی ۰قطع رحمی ۰عدل
96۔ ایثار کے لغوی معنی ہیں:
۰ترقی ۰آرام دینا ۰کمانا ۰ترجیح دینا
دینا
97۔ صدق کے لغوی معنی ہیں:
۰دریا دلی ۰سخاوت ۰مساوات
۰سچائی
98۔ انصار کے لغوی معنی ہیں:
۰صدقہ ۰عبادت کرنے واال ۰مدد کرنے واال ۰قربانی دینے واال
کرنے واال
99۔ تہمت سے مراد ہے:
۰برائی ۰غیبت کرنا ۰جھوٹ بولنا ۰جھوٹا الزام لگانا
کرنا
100۔ مشہور حدیث کے مطابق منافق کی نشانیاں ہیں:
۰پانچ ۰چار ۰تین ۰دو
101۔ تکبر کے معنی ہیں:
۰خود کو بڑا سمجھنا ۰غلطی پر معافی نہ مانگنا ۰سر اونچا رکھنا
۰رعب جمانا
102۔حدیث کی ُرو سے جنت میں داخل نہیں ہوگا:
۰جن ۰قاطع تعلق ۰تاجر ۰فرشتہ
92 / 131صفحہ نمبر
باب سوم
93 / 131صفحہ نمبر
.4 .3مساوات .2اخوت .1رحمۃ للعالمین
ٰ
ذکر الہی
ِ .6 .5عفوودرگزر صبرواستقالل
رحمۃ للعالمین :عالمین ،عالم کی جمع ہے ،جس میں ساری مخلوقات انسان ،جن ،حیوانات ،نباتات،
تعالی نے حضور اکرم ﷺکو رحمۃللعالمین یعنی سارے جہانوں کے لئے ٰ جمادات سب ہی داخل ہیں۔ ہللا
رحمت بنا کر بھیجا۔
تعالی کا فرمان ہے :
ٰ ہللا
( االنبيائ ) 107 : َ ِين َ
ٰلم ّ
ً ل
ِلع َۃ َحمِالَّ ر
ٰکَ ا َ
ما ارسَلن ََو
" اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجاہے "۔
حضور ﷺ کی حیات طیبہ تمام انسانوں کے لئے نمونہ ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ رحمت اور محبت کا
پیکر ہیں اور تمام عمر مخلوق خدا سے لطف وکرم کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں ۔
.2اخوت:اخوت کا لفظ "ا َ ٌخ " سے مشتق ہے جس کے معنی "بھائی چارہ ،بھائی بندی"کے ہیں۔جس
میں حقیقی بھائی کے عالوہ ہم قوم اور ہم مذہب بھی شامل ہیں ۔
دائرہ اسالم میں داخل ہونے والے مختلف اقوام اور قبائل کے لوگ سب آپس میں بھائی بھائی ہیں
لی نے ۔ اخوت سے مراد اسالمی اخوت ہے ۔ اسالمی اخوت وبھائی چارہ کی تعلیم دیتے ہوئے ہللا تعا ٰ
فرمایا :
( سورة الحجرات )10: ٌ
َة ِخو َ
ِنو ن ا ُ ُو م َا الم ِنمَّ ا
" بے شک مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں"
اسالم سے قبل عرب معاشرے میں فتنہ و فساد اور جنگ و جدل معمول کی بات تھی اوراسکے
نتیجے میں دشمنیاں نسل در نسل چلتی رہتی تھیں اور ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔اسالم آ نے کے
بعد ان کے سیرت و کردار میں ایسی انقالبی تبدیلی آ گئی کہ خون کے پیاسے بھائی بھائی بن گئے۔ اس
کا ذ کر قرآ ن کریم میں اس طرح کیا گیا ہے۔
ُم ۔۔۔۔۔ الخ ۔ ( آل عمران ) 103 : َيکَل َ للااِ عَتِعمُوا ن ُرَاذک و
"ہللا تعالی کے اس انعام کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا کہ تم آ پس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے،
تو اس نے تمہارے دلوں کو آ پس میں جوڑ دیا اور تم اسکی نعمت کی وجہ سے بھائی بھائی بن گئے"۔
ایک حدیث میں ہللا کے رسولﷺ نے فرمایا :
ََ
د َجِنہ و ً َ
ٰ ش يئا م َکی ِنِ اشت ِ اَاحِد ِ الوَسَد َالج ِنِ ک ْٔمُوُوالم َخُ اِن ُو
ْٔم َلم ا
ِه ( مسلم ،ترمذی ) َسَد
ِ ج ِی سَآ ئ
ِر ِکَ ف ٰلاَلم ذ َ
" ہر مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے۔ جیسے ایک جسم۔اگر اسکے جسم کا کوئی حصہ بھی تکلیف میں
مبتال ہو تو وہ اپنے سارے جسم میں تکلیف محسوس کرے گا"۔
.3مساوات :مساوات کے لفظی معنی ”برابری“ کے ہیں۔مساوات اسالمی معاشرے کی بنیاد ہے۔ یہ
صرف اسالم ہی کا طرہ امتیاز ہے کہ اسالم اونچ نیچ اور ذات پات کے امتیازات سے پاک و صاف ہے۔
حضور ﷺ نے اپنے قول و عمل سے مساوات کی بہترین تعلیم دی اور یہ درس دیا کہ امیر و غریب،
حاکم و محکوم ،آقا و غالم سب برابر ہیں۔
مسج ِد قبا اور مسج ِد نبوی ﷺ کی تعمیر میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام کے ساتھ مل کر کام کیا۔
غزوہ احزاب کے موقع پر اپنے ہاتھوں سے پتھر توڑے اور خندق کھودی اور کسی بھی موقع پر اپنے
آپ کو دوسروں سے برتر نہ سمجھا۔ اس برتاؤ سے امت کو یہ تعلیم دینا مقصود تھا کہ امیر و غریب،
حاکم و محکوم ،آقا و غالم سب برابر ہیں۔
94 / 131صفحہ نمبر
خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور ﷺ نے پوری دنیا کے انسانوں کو مساوات کا درس دیتے
ہوئے فرمایا:
” کوئی فضیلت نہیں عربی کو عجمی پر ،نہ عجمی کو عربی پر ،نہ گورے کو کالے پر ،نہ کالے کو
گورے پر ،سوائے تقوی کے (کہ اس سے فضیلت حاصل ہوسکتی ہے)۔“
.4صبر و استقالل:صبر کے لغوی معنی روکنے اور برداشت کرنے کے ہیں اور استقالل کے لغوی
معنی مضبوطی اور استحکام کے ہیں۔ یعنی خوف اور گھبراہٹ سے اپنے آپ کو روکنا اومصائب کو
برداشت کرنا۔ اسالمی نقطہ نظر سے صبر و استقالل یہ ہے کہ ہللا تعالی کی رضا کے لئے احکاماتِ
الہی کا پابند رہنا اور اس سلسلے میں نفسانی ناخوشگواری کو تحمل سے برداشت کرلینا۔ یعنی اپنے آپ
کو را ِہ راست پر قائم و دائم رکھنا اور ثابت قدمی سے کام لینا۔
ہللا تعالی نے مصیبت اور پریشانی کے وقت اپنے بندوں کو صبر و رضا کی تاکید کی ہے اور
صبر کرنے والوں کو اپنی نصرت کا یقین دالیا ہے۔
صبر کے حوالے سے قرآن پاک میں ذکر ہے:
ترجمہ” :بے شک ہللا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“(سورۃ البقرہ)۱ ۵ ۳ :
آپ ﷺ کی حیات طیبہ سے صبر واستقالل کی مثالیں :
آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دیں ۔ آ ؐپ کو جب حضرت محمد ﷺ نے نبوت کا اعالن فرمایا تو کفار نے ؐ
آپ کا مذاق اڑایا۔ کسی نے (معاذ ہللا ) جادوگر کہا اور کسی نے کاہن ،مگر آ ؐپ نے صبر جھٹالیا ۔ ؐ
واستقالل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور دین کی تبلیغ سے منہ نہ موڑا ۔
آپ خانہ کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے ۔ حرم شریف میں اس وقت کفار کی ایک جماعت ایک دن ؐ
آپ
موجود تھی ۔ عقبہ بن ابی معیط نے ابو جہل کے اکسانے پر اونٹ کی اوجھڑی سجدہ کی حالت میں ؐ
آپ کی کی پشت مبارک پر ڈال دی ۔ اور مشرکین زور زور سے قہقہے لگانے لگے ۔ کسی نے ؐ
آپ کیصاحبزادی حضرت فاطمہ کو اس وقعہ کی اطالع دی ۔ وہ فورا دوڑی ہوئی آئیں اور غالظت ؐ
پشت سے دور کی اور کافروں کو بد دعا دی ۔ اس پر حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ۔ " بیٹی صبر سے کام
تعالی انھیں ہدایت دے یہ نہیں جانتے کہ ان کی بہتری کس چیز میں ہے " ۔ ٰ لو۔ ہللا
.5عفوودرگزر :عفو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی معاف کرنا ،بخش دینا ،درگزر کرنا ،بدلہ نہ
اصطالح شریعت میں عفو سے مرادہے کسی کی زیادتی و برائی پر ِ لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں۔
ت ظرفی کا ثبوت دیتے انتقام کی قدرت و طاقت کے باوجود انتقام نہ لینا اور معاف کردیناہے ،یعنی وسع ِ
ہوئے اپنے کسی مجرم کو دل کی گہرائیوں سے معاف کردینا اور بدلہ لینے کی قوت ہونے کے باوجود
بدلہ نہ لینا عفوودرگزر کہالتا ہے۔ عفوودرگزر ایک بہترین اخالقی وصف ہے۔ اس سے دشمن دوست بن
جاتے ہیں اور دوستوں میں محبت بڑھ جاتی ہے۔ ہللا تعالی نے قرآن مجید میں مؤمنین کی جو صفات
بیان فرمائی ہیں ان میں عفوودرگزر کو بھی شامل کیا ہے۔ چنانچہ ارشا ِد باری تعالی ہے:
َنِ الناس َ عِين َاف َالع َ و َيظ َ الغ ِين ِمَاظ َالک
و
ترجمہ ” :اور وہ (مؤمنین) غصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔“ (آ ِل عمران:
)۱ ۳ ۴
معنی ہیں "کسی کو یاد کرنا " ۔ ٰ .6ذکر :ذکر کے لغوی
تعالی کو یاد کرنا ہے ۔ ٰ دین کی اصطالح میں اس سے مراد ہللا
قرآن مجید میں بار بار ہللا کو یاد کرنے اور یا رکھنے کا حکم آیا ہے ۔
95 / 131صفحہ نمبر
( االحزاب " ًاِير َث ًا ک ِکر ُوا للااَ ذ ُرُوا اذک من َٰ
َ اِين َا َّ
الذ يهَُّ
يا" َ
) 41 :
" اے ایمان والو ! تم ہللا کو بہت زیادہ یاد کرو "۔
تعالی نے فرمایا :
ٰ مؤمنین کے بارے میں ہللا
( النور ِ للااِ " ِکر َ ٌ َ
َارة وال بيع عن ذ َ َّ ٌَ ِج ِم ت ِيه تله ٌ الَّ ُ
َالَج" ر
) 37 :
" وہ ایسے مرد ہیں جن کو نہ تجارت ہللا کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ خریدوفروخت " ۔
تعالی ہے :
ٰ ہللا کے ذکر سے ہی انسان کو قلبی سکون واطمینا ن مل سکتا ہے جیساکہ ارشاد باری
( الرعد ) 28 : ُ "ُوب ُل ُّ الق ِنَئ ِ للااِ َ
تطم ِکر َالَ ب
ِذ " ا
" معلوم رہے ہللا کے ذکر ہی سے دل کو سکون ملتا ہے "۔
تعالی کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے ٰ سب سے بہتر ذکر ِ الہٰ ی نماز ہے ۔ اس میں ،زبان اور پورا جسم ہللا
اس لیے آپ ﷺ بکثرت نماز پڑھا کرتےتھے ۔
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ بہترین ذکر َال ا ِٰل َہ اِالا ہللا ہے۔ ذکر کے اور بھی بہت مسنون طریقے ہیں
جو کہ احادیث کی کتابوں میں تفصیل سے مذکور ہیں ۔ نماز کے بعد 33بار سبحان ہللا 33،بار الحمد ہلل
اور 34بار ہللا اکبر کہنا بھی ذکر مسنون ہے ۔
ذکر کی اقسام :ذکر کی تین اقسام ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں :
( )1ذکر باللسان :اس مراد زبان سے ہللا کو یاد کرنا ۔
تعالی کا ذکر دل سے کرنا ۔ ٰ ( )2ذکر بالقلب :اس مراد ہللا
( )3ذکر باالعمال :اس ذکر میں تمام جانی و مالی عبادات شامل ہیں۔
96 / 131صفحہ نمبر
رسو ِل کریم ﷺ تو پوری کائنات کے لئے ہللا کی رحمت ہیں۔ امت کو تکلیف میں ڈالنا آپ
بان
ت رحمت بلند کئے اور ز ِ ت عالم ﷺ نے بارگا ِہ ٰالہی میں اپنے دس ِ
ﷺ کو کہاں گوارا تھا۔ چنانچہ رحم ِ
مبارک سے وہ دعائیہ ک لمات ادا فرمائے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ارشاد فرمایا:
ترجمہ ” :اے ہللا! میری قوم کو ہدایت دے۔بیشک یہ نہیں جانتے کہ یہ کیا کررہے ہیں۔“
97 / 131صفحہ نمبر
ّار۔َ الن ِنِ مَلدرکِ االسف ِی الّ َ ف ِين ِقٰف َّ الم
ُن ِنا
”منافق تو یقینا جہنم کے سب سے نیچے کے طبقے میں جائیں گے“(النساء)۱۴ ۵ :
منافق کی اقسام:منافق کی دو قسمیں ہیں:
۲۔ عملی منافق۔ ۱۔اعتقادی منافق۔
اعتقادی منافق:اعتقادی منافق وہ شخص ہے جو د ُو رخا ،دورنگا اور دوغال ہو۔
شریعت کی اصطالح میں اعتقادی منافق وہ ہے جو دل سے اسالم کی صداقت کا قائل نہیں ہوتا
بلکہ کسی مصلحت ،خوف ،اللچ یا مفاد کی وجہ سے اسالم کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو دھوکہ دیتا
ہے۔ اعتقادی م نافق مومن نہیں ہوتا۔ یہ منافق اسالم ،قرآن ،حدیث اور پیغمبر ﷺ کے بارے میں شکوک و
شبہات پیدا کرکے مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کرنا چاہتا ہے۔ اعتقادی منافق کی نجات ناممکن ہے۔
قرآن و سنت کے مطابق یہ دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوگا۔ ارشاد باری تعالی ہے:
ّار۔َ الن ِنِ مَلدرکِ االسف ِی الّ َ ف ِين ِقٰف َّ الم
ُن ِنا
”منافق تو یقینا جہنم کے سب سے نیچے کے طبقے میں جایئیں گے“(النساء)۱۴ ۵ :
عملی منافق :عملی منافق وہ شخص ہے جو عمل میں دورنگا اور دورخا ہو یعنی ایسا شخص عقیدہ میں
سچا اور عمل میں نہایت کمزور ہوتا ہے۔
شریعت کی اصطالح میں عملی منافق وہ ہے جو دل سے اسالم کی صداقت و حقانیت کا قائل
ہوتا ہے لیکن خراب ماحول ،بری صحبت اور تعلیم و تربیت کی کمی کی وجہ سے عملی احکام میں
کوتاہی کرتا ہے۔ عملی منافق مسلمان اور صاحب ایمان ہوتا ہے لیکن عمل میں کمزور ہوتا ہے۔ اسے
اصالح و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی نیک متقی معلم و مربی کے فیضان صحبت سے اسے
حاصل ہوسکتی ہے۔ عملی منافق کی نجات ممکن ہے۔ اگر وہ اسالم کے عملی احکام پر پوری طرح
کاربند ہوجائے تو جنت میں داخل ہوگا۔
98 / 131صفحہ نمبر
آلودہ کردیتے ہیں۔ دیتے ہیں۔
ق رذیلہ
ایک معاشرہ میں شامل افراد کے اخال ِ )4ایک معاشرہ میں شامل افراد کے اخالق فاضلہ
اس معاشرہ میں بدامنی اور انتشار اور جرائم اس معاشرہ میں امن و سکون پیدا کرنے کے
پھیالنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔ ذمہ دار ہوتے ہیں۔
جھوٹ ،غیبت ،تہمت ،منافقت ،تکبر ،حسد )5دیانت داری ،ایفائے عہد ،سچائی ،عدل و
ق رذیلہ میں کیا جاتا ہے۔
وغیرہ کا شمار اخال ِ ق فاضلہ
احترام قانون وغیرہ کو اخال ِ
ِ انصاف،
میں شمار کیا جاتا ہے۔
احسان عدل
کسی کام میں اس کی اصل مقدار سے زیادہ چیزوں کو اُن کے صحیح مقام پر رکھنا اور )1
تجاوز یا کسی فرد کو اس کے حق سے زیادہ برابری یا مساوات کا رویہ اختیار کرنا "عدل"
عطا کرنے کا نام احسان ہے۔ کہالتا ہے۔
احسان کا رویہ اختیار کرنے سے معاشرتی عدل اختیار کرنے سے زندگی کے معامالت میں )2
تعلقات میں بہتری آتی ہے۔ توازن پیدا ہوتا ہے۔
احسان کی روش اختیار کرنے سے نیکی کے عدل و انصاف زندگی کے تمام معامالت میں )3
درجات بلند ہوتے ہیں۔ اختیار کرنا فرض ہے۔
احسان کی روش اختیار کرنے سے انسان کے عدل و انصاف مظلوموں کا حق فراہم کرنے اور )4
اخالق سنورتے ہیں اور اس کے اعلی اوصاف معاشرہ کے قیام کے لئے بے حد ضروری ہے۔
بہتر ہوتے ہیں۔
احسان کا رویہ اپنانے سے فرد کے ذاتی )5عدل و انصاف اختیار کرنے سے معاشرہ منظم
اوصاف میں نکھار آجاتا ہے۔ ہوتا ہے۔
رشک حسد
کسی فرد کی کامیابی ،مقام ،رتبہ یا قابلیت کو )1کسی فرد کی کامیابی ،مقام اور رتبہ یا قابلیت کو
دیکھ کر خوشی محسوس کرنا اور ہللا تعالی سے دیکھ کرجلنے کڑھنے اور رقابت محسوس
ویسا ہی رتبہ حاصل کرنے کے لئے دعا کرنا کرنے کا عمل یا جذبہ "حسد" کہالتا ہے۔
"رشک" کہالتا ہے۔
رشک ایک مثبت جذبہ ہے جو ایک فرد کو کسی )2حسد ایک نفسیاتی کیفیت ہے جو خارجی اور
دوسرے فرد سے تقابل پر کوشش اور محنت داخلی انتشار میں ایک فرد کو مبتال کردیتی ہے۔
کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔
رشک کا جذبہ اختیار کرنے واال شخص خوش )3ایک حسد رکھنے والے فرد کی گفتگومیں نرمی
اخالق اور نرم مزاج ہوتا ہے اور وہ خوش اور خوش اخالقی باقی نہیں رہتی۔
اخالقی سے گفتگو کرتا ہے۔
احساس کمتری کےِ رشک کرنے واال شخص )4حسد کرنے والے شخص کے دل و دماغ پر
احساس میں کبھی مبتال نہیں ہوتا بلکہ دوسروں احساس کمتری غالب آجاتی ہے اور وہ خود کو
ِ
کی کامیابی پر خوش ہوتا ہے اور اپنی بہتری دوسروں سے کم تر محسوس کرکے مایوسی کی
کے حصول کے لئے ہللا تعالی سے رجوع کرتا کیفیت میں مبتال ہوجاتا ہے۔
ہے۔
رشک کرنے والے شخص کی سوچ ہمیشہ )5ایک حسد کرنے والے فرد کی تعمیری سوچ
99 / 131صفحہ نمبر
معدوم ہوجاتی ہے اور وہ خود اپنے آپ کو تعمیری رہتی ہے۔ اس لئے وہ عمل کی راہ
اختیار کرتا ہے اور کوشش کے ذریعے اپنے تکلیف میں مبتال کرلیتا ہے۔
حاالت بدلنے کی راہ اختیار کرتا ہے۔
اتہام(تہمت) غیبت
کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں )1کسی شخص کی غیر موجودگی میں اُس کی
اُس پر الزام تراشی کرنا یعنی اُس کے کردار کی کردارکشی کرنا اور اس کی برائیاں بیان کرنا
ایسی خرابیاں بیان کرنا جو اُس میں نہ پائی جو درحقیقت اُس میں پائی جاتی ہو "غیبت"
جاتی ہوں "اتہام" کہالتا ہے۔ کہالتا ہے۔
اتہام کسی شخص کی موجودگی اور غیر )2غیبت ہمیشہ کسی کی پیٹھ پیچھے اُس کا مذاق
موجودگی دونوں صورتوں میں لگایا جاسکتا ہے اڑانے اور اس کے کردار کی خامیوں اور
۔اس کا بنیادی مقصد کسی کی رسوائی ،بدنامی خرابیوں کو سامنے النے کے لئے کی جاتی
اور ذلت ہوتی ہے۔ ہے۔
دین اسالم میں سختی سے ممانعت ِ اتہام کی دین اسالم میں ممانعت ہے اور قرآن
)3غیبت کی ِ
ہےاور اس کی تحقیق کے بعد تہمت لگانے پاک میں غیبت کرنے والے کے عمل کو مردہ
والے فرد پر تعذیر یعنی سخت سزا کا حکم دیا بھائی کے گوشت کھانے کے عمل کے مساوی
گیا ہے۔ اس میں معافی اور گرمانہ دونوں شامل قرار دیا گیا ہے۔
ہوسکتے ہیں۔
اتہام مکمل طور پر جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے اور )4غیبت میں بعض اوقات سچائی پائی جاتی ہے
اس میں ذرا بھی سچائی نہیں پائی جاتی کیونکہ لیکن اگر اس میں سچائی بھی پائی جاتی ہو تو
یہ صرف کسی فرد یا افراد کو رسوا اور بدنام دین اسالم میں اس سے بچنے کی تلقین کی
بھی ِ
کرنے کے لئے لگایا جاتا ہے۔ گئی ہے۔
ت اسالمی میں اتہام کو کسی بھی صورت شریع ِ )5غیبت کرنا بعض صورتوں میں جائز ہے۔
میں جائز قرار نہیں دیا گیا۔ جیسے ایک مظلوم کی ظالم کے خالف فریاد کی
شکل میں اور دوسرے کسی کی فریب کاری
کے فریب سے آگاہ کرنے کے لئے۔
سوال نمبر :1حضرت محمد ﷺ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں ،تفصیل سے بیان
کیجئے ۔
تعالی نے حضور اکرم ﷺکو رحمۃللعالمین یعنی
ٰ رسول اکرم ﷺ تمام جہانوں کے لئے رحمت :ہللا
سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔
تعالی کا فرمان ہے :
ٰ ہللا
( االنبيائ ) 107 : َ
ِين َ
ٰلم ِلع ّ
ً ل َۃ
َحم َّ
ِال ر ٰکَ ا َ
ما ارسَلن ََو
" اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجاہے "۔
باب چہارم
ت قرآن کے متعلق ایک آیت ترجمہ کے ساتھ تحریر کریں۔ سوال نمبر :4حفاظ ِ
ت قرآن کے متعلق آیت:ہللا تعالی نے سورۃ الحجر میں واضح طور سے قرآن کی حفاظت کاحفاظ ِ
ذمہ خود لیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے:
200 2009 2010 2011 2012 2013 2014 2015 2016 2017 2018 منتخب احادیث
8
َ ّي
َّاتِ و ُ ب َا االَعم
َال اَّ
٭ ٭ ٭ ٭ م َ
ِ
ِالن ِنم
َِّ
َٰی
انو ّ امر
ِیء َّ ُِل
لکَا ِ
نم ا
200 2009 2010 2011 2012 2013 2014 2015 2016 2017 2018 منتخب احادیث
8
َ ّي
َّاتِ و ِ
ِالنُ ب َا االَعم
َال اَّ
ِنم
َٰی م َ
انو ّ امر
ِیء َّ ُِل
لکَا ِ
نمَِّ
ا
بنیادی عقائد
مختصر سواالت
Science:2019 شرک کیا ہے؟ اس کی اقسام تحریر کیجئے۔
Commerce:2018
Science: ب سماوی سے کیا مراد ہے؟ مشہور آسمانی کتب کےکُت ُ ِ
Commerce:2018 نام تحریر کیجئے۔
فرق
اصطالحات
Science: اسالم
Commerce:2010
Science: عقیدہ
Commerce:2012
Science:2016,2015,2009 اسالمی عقائد
Commerce:2014
Science:2010 توحید
Commerce:2016
Science:2014,2011 شرک
Commerce:2014,2013
Science:2012,2011,2010 رسالت
Commerce:
Science: انبیاء کی خصوصیات
Commerce:2014
Science:2015,2009 ختم نبوت
ِ
Commerce:2014,2013,2012,2011,2010
Science: آخرت
Commerce:2011,2010,2009
Science:2012,2011,2010 مالئکہ
ارکان اسالم
ِ
مختصر سواالت
Science: کلمہ شہادت مع ترجمہ تحریر کیجئے۔
Commerce:2017
Science: صلوۃ کے تین فوائد بیان کیجئے۔
ٰ
Commerce:2017
Science:2017 زکوۃ کے تی ،ن فوائد بیان کیجئے۔۔
Commerce:
Science:2017 حج کی اقسام بیان کیجئے۔
Commerce:
Science: سعی سے کیا مراد ہے؟
Commerce:2018, 2017,2012
Science:2018 حج کے تین فوائد بیان کیجئے۔۔
Commerce:
Science: ٰؑ جہاد کی تین اقسام تحریر کیجئے۔
Commerce: 2017
Science: جنگ اور جہاد کے مابین فرق واضح کیجئے
Commerce:2018
فرق
Science: عمرہ اور حج
Commerce:2014
Science: سعی اور طواف
Commerce:2012
Science: میقات و عرفات
Commerce:2013
Science:2015,2013,2011,2010 جنگ اور جہاد
Commerce:2016,2012,2009
Science: مدافعانہ جہاد اور مصلحانہ جہاد
Commerce:2016
اصطالحات
Science:2014,2009 ارکان اسالم
ِ
Commerce:2013,
Science:2016 کلمہ شہادت
Commerce:2015
حقوق العباد
مختصر سواالت
Science: والدین کے حقوق کے متعلق ایک آیت یا حدیث تحریر
Commerce:2018 کیجئے۔
Science:2019 اوالد کے کوئی تین فرائض بیان کیجئے۔
Commerce:
Science:2019 پڑوسیوں کی اقسام تحریر کیجئے۔
Commerce:
فرق
Science: حقوق ہللا اور حقوق العباد
Commerce:2014,2012
اصطالحات
Science: حقوق ہللا
Commerce:2015
اصطالحات
Science:2015,2013,2011 صدق
Commerce:2014,2012,2011
Science:2017,2016 احترام قانون
ِ
Commerce:2014
Science:2014,2013,2012 کسبِ حالل
Commerce:2013
Science: ایثار
Commerce:2014
Science: غیبت
Commerce:2016
Science:2018 اتہام
Commerce:
Science:2014,2013,2012 رحمت اللعالمین
Commerce:
Science: اخوت
Commerce:2013,2012
Science:2018,2015 مساوات
Commerce:2012
Science:2016,2009 صبر و استقالل
Commerce:2016
Science:2016 ذکر الہی
ِ
Commerce:2014,2013,2012,2009
Science: ت رسول
اطاع ِ
Commerce:2013
قرآن و حدیث
مختصر سواالت
Science: قرآن پاک میں وحی کا لفظ تین معنوں میں استعمال ہوا
Commerce:2018,2017 ہے۔ تحریر کیجئے۔
فرق
Science:2014,2013,2011,2009 وحی متلو اور وحی غیر متلو
Commerce:2014,2012,
Science:2015,2012 قرآن اور حدیث
Commerce:2015,2013,2012,2011,2010
Science:2017,2016,2014,2013,2012,2010 مکی اور مدنی سورتیں
Commerce:2012,2009
Science:2011,2010 حدیث اور سنت
Commerce:2014,2009
Science:2019 صحاح ستہ اور اصو ِل اربعہ
Commerce:2015,2012
اصطالحات
Science:2015,2013,2010 وحی
Commerce:2016,2011,2010,2009
Science:2012,2010 آخری الہامی کتاب (قرآن)
Commerce:2015,2013,2009
Science: رمضان المبارک اور قرآن حکیم
Commerce:2013
Science: سنت
Commerce:2011
تفصیلی سواالت
)2014®, 2013(P عقیدہ توحید کی وضاحت کیجئے اور انسانی زندگی پر عقیدہ توحید کے اثرات بیان
کیجئے۔
2017, 2016 2014(P), عقیدہ رسالت کی وضاحت کیجئےاور انبیائے کرام کی خصوصیات بیان کیجئے۔
)2012(P
®2011 عقائد اسالم سے کیا مراد ہے؟ عقیدہ رسالت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے رسالت
محمدی ﷺ کی خصوصیات تحریر کیجئے۔
2018 ختم نبوت قرآن کی روشنی میں بیان کیجئے۔
عقیدہ ِ
2019, 2015, 2013®, عقیدہ آخرت کی وضاحت کیجئے اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات تحریر
2012®, 2010 کیجئے ۔
®2013 صلوۃ کی اہمیت کیا ہے؟ اس کے فوائد بیان کیجئے۔
)2019, 2014(P صوم کی اہمیت بیان کیجئےاور اس کے فوائد تحریر کیجئے۔
)2012(P صوم کا مفہوم اور اس کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کیجئے۔
( )iiسوال یا اس کا جزو امتحانی کاپی میں نقل نہ کیجئے ۔ سوال کے اصل نمبر اور جزو کے سامنے مکمل جواب تحریر کیجئے ۔
- 1مندرجہ ذیل میں سے ہر ایک کے لئے درست جواب منتخب کیجئے :۔
َفس
ِہ ۔ لنُّ ِ ما ُ
يحِب الَخِيہ
ِ َ َّ ِ ّٰی ُ
يحِب ُم حَت
دک ُ اح
َُ ِن َالُ
يؤم 7۔
:۳مندرجہ ذیل میں سے پانچ سواالت کے جوابات تحریر کیجئے ۔ تمام سواالت کے نشانات مساوی ہیں :
15
حج کے تین فوائد بیان کیجیے ۔ .1
ت قرآن پاک والی کمیٹی کی وضاحت کیجیے ۔ کتاب ِ .2
حفاظت قرآن کے متعلق کوئی آیت قرآن پاک مع ترجمہ تحریر کیجیے۔ .3
رسول پاک ﷺ سے اہل طائف نے کیا سلوک کیا ؟ .4
عشرہ مبشرہ سے کیا مراد ہے؟ .5
مساوات سے کیا مراد ہے ؟ .6
منافق کی نشانیاں بیان کیجیے۔ .7
اتہام سے کیا مراد ہے؟ .8