You are on page 1of 131

‫فہرست‬

‫صفحہ نمبر‬ ‫ابواب کے نام‬ ‫باب نمبر‬

‫منتخب قرآنی آیات واحادیث‬


‫‪2‬‬

‫‪5‬‬ ‫اسالم کا تعارف اور بنیادی عقائد‬ ‫اول‬

‫‪38‬‬ ‫اسالمی تشخص‬ ‫دوم‬

‫‪108‬‬ ‫اسوۃ رسول اکرم ﷺ‬


‫سوم‬

‫‪121‬‬
‫تعارف قرآن وحدیث‬ ‫چہارم‬

‫منتخب قرآنی آیات‬


‫دا‬‫ِيً‬ ‫َوالً سَد‬
‫ُوُلوا ق‬‫َق‬ ‫َُ‬
‫وللاا و‬ ‫ُوا اَّ‬
‫تق‬ ‫من‬‫َ آَ‬
‫ِين‬‫ها اَّلذ‬
‫يَ‬‫َُّ‬
‫ٰأ‬‫‪ )1‬ي‬
‫َ‬
‫َقد‬ ‫َسُ َ‬
‫وله ف‬ ‫َر‬‫ِ للااَ و‬
‫ِع‬ ‫من ُ‬
‫يط‬ ‫ََ‬‫ُم و‬
‫بك‬‫نوَ‬ ‫ُ‬
‫ُم ذُ‬ ‫ِر َلك‬
‫يغف‬ ‫ُم و‬
‫ََ‬ ‫َ َ‬
‫الك‬ ‫َ‬
‫ُم أعم‬ ‫ِح َلك‬‫يصل‬‫ُ‬
‫َوز‬
‫ًا‬ ‫ف‬ ‫َ‬
‫َاز‬‫ف‬
‫ً‬
‫ِيما‬‫َظ‬
‫ع‬
‫االحزاب‬ ‫(‬

‫‪ 1 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪) 71 ،70:‬‬
‫"اے ایمان والو ! ڈرتے رہو ہللا سے اور کہو بات سیدھی کہ سنوار دے تمھارے واسطے تمھارے کام‬
‫اور بخش دے تم کو تمھارے گناہ اور جو کوئی کہنے پر چال ہللا کے اور اس کے رسول ﷺکے پائی‬
‫بڑی مراد "۔‬
‫ٌَ‬
‫ة‬ ‫َسَن‬
‫ة ح‬ ‫ُسو‬
‫ٌَ‬ ‫َسُول‬
‫ِ للااِ ا‬ ‫ِى ر‬ ‫ُم ف‬‫َ َلك‬
‫َان‬‫َد ك‬ ‫‪َ )2‬لق‬
‫االحزاب ‪) 21 :‬‬ ‫(‬
‫"بے شک تم لوگوں کے لیے رسول ہللا ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے "۔‬

‫ُوا‬ ‫َر‬
‫َّق‬ ‫تف‬ ‫ََّ‬
‫ال َ‬‫ًاو‬ ‫ِيع‬ ‫َم‬ ‫َبل‬
‫ِ للااِ ج‬ ‫ِح‬‫ُوا ب‬ ‫َص‬
‫ِم‬ ‫َاعت‬‫‪ )3‬و‬
‫آل عمران ‪) 103:‬‬ ‫(‬
‫"اورمضبوط پکڑو رسی ہللا کی سب مل کر اور پھوٹ نہ ڈالو ۔"‬

‫ٰك‬
‫ُم‬ ‫َتق‬
‫أ‬ ‫للااِ‬ ‫ِنَ‬
‫د‬ ‫ع‬ ‫ُم‬‫مك‬ ‫َكر‬
‫ََ‬ ‫أ‬ ‫َِّ‬
‫ن‬ ‫‪ )4‬إ‬
‫الحجرات ‪)13 :‬‬ ‫(‬
‫"بےشک تم میں سے ہللا کے ہاں وہی زیادہ عزت کا مستحق ہےجو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے ۔"‬

‫ّالُول‬
‫ِی‬ ‫ٰتٍ ِ‬ ‫َِالٰي‬ ‫َّه‬
‫َار‬‫َالن‬ ‫ِ و‬ ‫ِالَفِ َّ‬
‫اليل‬ ‫َاخت‬‫ض و‬ ‫َاألَرِ‬
‫ٰتِ و‬ ‫ِ السَّم‬
‫ٰو‬ ‫َلق‬ ‫ِى خ‬ ‫َّ ف‬‫ِن‬‫‪ )5‬إ‬
‫(آل عمران ‪) 190 :‬‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫االلبابِ‬
‫"بے شک آسمان اور زمین کے بنانے میں اور رات اور دن کے آنے جانے میں نشانیاں ہیں عقل والوں کے‬
‫لیے ۔"‬

‫ُّ َ‬
‫ون‬ ‫ِب‬ ‫ُ‬
‫تح‬ ‫َّا‬
‫ِم‬‫م‬ ‫ُوا‬‫ِق‬
‫تنف‬ ‫ُ‬ ‫َّى‬
‫ٰ‬ ‫َت‬ ‫ح‬ ‫َّ‬
‫ِر‬ ‫الب‬ ‫َ ُ‬
‫الوا‬ ‫تن‬‫َ‬ ‫‪َ )6‬لن‬
‫( آل عمران ‪) 92 :‬‬
‫"تم ہرگز نیکی میں کمال حاصل نہ کرسکو گے جب تک اپنی پیاری چیزمیں سے خرچ نہ کرو ۔"‬

‫ُوا‬‫َانت‬
‫َه‬ ‫ُ ف‬ ‫َنه‬‫ُم ع‬
‫َاك‬ ‫ما َ‬
‫نه‬ ‫ََ‬ ‫َخُُ‬
‫ذوُ‬
‫ه و‬ ‫ل ف‬ ‫َّسُوُ‬
‫ُ الر‬‫ُم‬
‫تاك‬‫مآ آَ‬ ‫ََ‬
‫‪ )7‬و‬
‫( الحشر ‪) 7 :‬‬
‫"اور جو دے تم کو رسول ﷺ سو لے لو اور جس سے منع کرے اسے چھوڑ دو ۔"‬

‫َر‬
‫ِ‬ ‫َالم‬
‫ُنك‬ ‫و‬ ‫َحشَآِ‬
‫ء‬ ‫الف‬ ‫َنِ‬
‫ع‬ ‫هى‬
‫ٰ‬ ‫َ‬
‫تنَ‬ ‫َٰ‬
‫ة‬ ‫َّلو‬
‫الص‬ ‫َِّ‬
‫ن‬ ‫‪ )8‬إ‬
‫العنکبوت ‪) 45 :‬‬ ‫(‬
‫"بے شک نماز روکتی ہے بے حیائی اور بُری بات سے "۔‬

‫َى‬
‫ٰ‬ ‫ُخر‬
‫َ أ‬ ‫ٌ و‬
‫ِزر‬ ‫َة‬ ‫َاز‬
‫ِر‬ ‫ُ و‬ ‫ِر‬ ‫َالَ َ‬
‫تز‬ ‫ها و‬‫ليَ‬ ‫ََ‬‫ِالَّ ع‬ ‫ُّ َ‬
‫نفسٍ إ‬ ‫ُل‬ ‫ُ ك‬
‫ِب‬‫تكس‬ ‫َالَ َ‬
‫‪ )9‬و‬
‫( االنعام ‪) 165 :‬‬
‫"اور جو کوئی گناہ کرتا ہے ‪،‬سو وہ اس کے ذمہ ہے اور بوجھہ نہ اٹھائے گا ایک شخص دوسرے کا "۔‬

‫َاإلحسَان‬ ‫َدل‬
‫ِ و‬ ‫ِالع‬‫ُ ب‬‫مر‬‫يأُ‬ ‫َِّ‬
‫ن للااَ َ‬ ‫‪)10‬إ‬
‫( النحل ‪) 90 :‬‬
‫"بے شک ہللا حکم کرتا ہے انصاف کرنے کا اور بھالئی کرنے کا "۔‬

‫‪ 2 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫منتخب احادیث‬
‫َی‬
‫ٰ‬ ‫م َ‬
‫انو‬ ‫ِیء َّ‬ ‫ّ امر‬ ‫ُل‬
‫ِ‬ ‫َا ِ‬
‫لک‬ ‫َِّ‬
‫نم‬ ‫َ ا‬
‫َّاتِ و‬‫ّي‬
‫ِ‬
‫ِالن‬ ‫ُ ب‬ ‫َال‬‫َا االَعم‬ ‫‪ )1‬اَّ‬
‫ِنم‬
‫(بخاری ‪ ،‬مسلم ‪ ،‬ابو داؤد ‪ ،‬نسائی ‪ ،‬ابن ماجہ ‪،‬‬
‫اصول کافی )‬
‫"بے شک اعمال کا دارومدار نیتوں پر ہے ۔ اور بے شک انسان وہی کچھ پائے گا جو اس نے نیت کی ہوگی "۔‬

‫االَخالَق‬
‫ِ‬ ‫َ‬
‫ُسن‬
‫ح‬ ‫َ‬
‫ِم‬‫ّ‬
‫تم‬‫َ‬ ‫ِالُ‬ ‫ُ‬
‫ِثت‬ ‫ُ‬
‫بع‬ ‫َا‬ ‫‪ )2‬اَّ‬
‫ِنم‬
‫( مؤطا امام مالک )‬
‫اعلی اخالق کی تکمیل کروں" ۔‬
‫ٰ‬ ‫"بے شک مجھے اس لیے رسول بناکر بھیجا گیا ہے کہ میں‬

‫َّاسِ‬
‫َالن‬ ‫ِه و‬ ‫ََلد‬‫َ و‬‫ِه و‬ ‫َّاِ‬
‫لد‬ ‫ِن و‬ ‫ِ م‬ ‫َّ اَ‬
‫ِليہ‬ ‫َح‬
‫َب‬ ‫َ ا‬‫ُون‬ ‫َک‬‫ّٰی ا‬ ‫ُم ح‬
‫َت‬ ‫د ک‬ ‫َح‬
‫َُ‬ ‫ُ ا‬‫ِن‬‫يؤم‬‫‪ )3‬الَ ُ‬
‫( بخاری ‪ ،‬مسلم )‬ ‫َ ۔‬‫ِين‬ ‫َجم‬
‫َع‬ ‫ا‬
‫"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اسے اسکے والدین اور اوالد اور‬
‫سب لوگوں سے بڑھ کر محبوب نہ ہو جاؤں"۔‬

‫ِہ‬‫َفس‬ ‫لن‬‫ُّ ِ‬
‫ِب‬ ‫ما ُ‬
‫يح‬ ‫ِ َ‬‫ِيہ‬‫َّ ِالَخ‬
‫ِب‬ ‫ّٰی ُ‬
‫يح‬ ‫َت‬‫ُم ح‬‫دک‬‫َُ‬‫ُ اح‬ ‫ِن‬
‫يؤم‬‫الُ‬‫‪َ )4‬‬
‫( بخاری ‪ ،‬ترمذی ‪ ،‬نسائی ‪ ،‬ابن ماجہ‬
‫‪ ،‬سنن دارمی ‪ ،‬مسند احمد بن حنبل ‪ ،‬اصول‬
‫کافی )‬
‫"تم میں سے کوئی شخص اس وقت تک مؤمن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی کے لیے وہ چیز پسند نہ‬
‫کرے جو اپنے لیے پسند کرتا ہے "۔‬

‫ِه‬
‫يد‬‫َ َ‬‫ِہ و‬ ‫لسَان‬‫ِن ّ‬
‫ِ‬ ‫ُ َ‬
‫ون م‬ ‫ِم‬ ‫َ الم‬
‫ُسل‬ ‫من سَل‬
‫ِم‬ ‫ُ َ‬ ‫ُسل‬
‫ِم‬ ‫َلم‬‫‪ )5‬ا‬
‫( بخاری ‪ ،‬مسلم ‪ ،‬نسائی ‪ ،‬سنن‬
‫دارمی ‪ ،‬مسند احمد بن حنبل ‪ ،‬اصول‬
‫کافی )‬
‫"مسلمان وہ ہے جس کی زبان اور ہاتھ سے دوسرے مسلمان محفوظ ہوں "۔‬

‫َّاسَ‬
‫الن‬ ‫ُ‬
‫َم‬ ‫َ‬
‫يرح‬ ‫َّ‬
‫ال‬ ‫من‬ ‫َ‬ ‫للااُ‬ ‫ُہ‬
‫ُ‬‫َم‬‫يرح‬ ‫‪َ )6‬‬
‫الَ‬
‫(مسلم ‪ ،‬ترمذی ‪ ،‬مسند احمد بن حنبل )‬
‫تعالی اس پر رحم نہیں کرتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا "۔‬
‫ٰ‬ ‫"ہللا‬

‫ُہ‬
‫ِرض‬‫َ ع‬ ‫الہ و‬ ‫م ُ‬
‫َ َ‬ ‫مہ و‬ ‫ٌ َ‬
‫دُ‬ ‫َام‬ ‫َر‬
‫م ح‬ ‫ُسل‬
‫ِِ‬ ‫لی الم‬ ‫ََ‬ ‫ِم‬
‫ِ ع‬ ‫ُسل‬‫ُّ الم‬‫ُل‬‫‪ )7‬ک‬
‫(ابن ماجہ ‪ ،‬مسند احمد بن حنبل )‬
‫" ہر مسلمان کا سب کچھ دوسرے مسلمان پر حرام ہے ۔ اس کا خون ‪ ،‬اس کا مال ‪ ،‬اور اس کی عزت "۔‬

‫د‬‫َص‬
‫ََ‬ ‫منِ اقت‬ ‫َاَ‬
‫ل َ‬ ‫‪َ )8‬‬
‫ما ع‬
‫(مسند احمد بن حنبل ‪ ،‬اصول کافی‬
‫)‬
‫"جس نے میانہ روی اختیار کی وہ محتاج نہیں ہوگا "۔‬

‫‪ 3 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ََّ‬
‫ۃ‬ ‫َن‬ ‫ُق‬
‫ِ الج‬ ‫ُر‬
‫ِن ط‬‫ًا م‬‫ِيق‬‫َر‬ ‫َکَ للااُ ب‬
‫ِہ ط‬ ‫ًا سَل‬ ‫ِلم‬ ‫ِ ع‬‫ِيہ‬‫ُ ف‬‫لب‬‫يطُ‬
‫ًا َ‬ ‫لکَ طر‬
‫ِيق‬ ‫من سََ‬ ‫‪َ )9‬‬
‫( بخاری ‪ ،‬ابو داؤد ‪ ،‬ترمذی ‪ ،‬ابن ماجہ )‬
‫تعالی اسے جنت کے راستوں میں سے کسی‬
‫ٰ‬ ‫"جو شخص علم کی تالش میں کسی راستے پر چلتا ہے تو ہللا‬
‫راستے پر لے جاتا ہے" ۔‬

‫ََ‬
‫د‬ ‫َج‬
‫و‬ ‫ِنہ‬
‫ً‬
‫ُ‬ ‫ًا ّ‬
‫م‬ ‫ٰ شَيئ‬‫َکی‬‫ِنِ اشت‬ ‫ِ ا‬ ‫َاح‬
‫ِد‬ ‫ِ الو‬ ‫َسَد‬‫َالج‬‫ِنِ ک‬ ‫ُوا الم‬
‫ُؤم‬ ‫َخ‬
‫ُ ا‬ ‫َلم‬
‫ُؤم‬
‫ِن‬ ‫‪)10‬ا‬
‫ِه‬‫َسَد‬
‫ِ ج‬ ‫ِی سَآئ‬
‫ِر‬ ‫ِک ف‬‫َ‬ ‫ٰ‬
‫َ ذل‬ ‫َ‬
‫الم‬‫َ‬
‫(مسلم ترمذی احمد بن حنبل ‪،‬‬
‫اصول کافی )‬
‫صہ بھی تکلیف میں مبتال‬
‫"ہر مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے ۔ جیسے ایک جسم ۔ اگر کوئی جسم کا کوئی ح ّ‬
‫ہو تو وہ اپنے سارے جسم میں تکلیف محسوس کرے گا "۔‬

‫باب اول‬

‫‪ 4 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫بنیادی عقائد‬ ‫۔توحید‬
‫۔رسالت‬
‫۔مالئکہ‬
‫۔آسمانی کتب‬
‫۔یوم آخرت‬
‫۔تقدیر‬

‫سوال نمبر‪ :۱‬درج ذیل اصطالحات کی وضاحت کریں‪:‬‬


‫‪ .4‬عقیدہ‬ ‫‪ .3‬کفر‬ ‫‪ .2‬ایمان‬ ‫‪.1‬اسالم‬
‫‪ .7‬رسالت‬ ‫‪ .6‬توحید‬ ‫‪ .5‬اسالمی عقائد‬
‫ختم نبوت‬
‫‪ِ .8‬‬
‫‪ .11‬صحابی‬ ‫‪ .10‬مالئکہ‬ ‫‪ .9‬آخرت‬
‫‪)1‬اسالم‪ :‬اسالم کے لفظی معنی کسی کا حکم ماننا‪ ،‬کسی کے سامنے گردن جھکادینا اور اپنے آپ کو‬
‫کسی کے سپرد کردینا ہے۔‬
‫شریعت کی اصطالح میں انبیائے کرام ؑ کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق ہللا کے احکامات‬
‫ماننے‪ ،‬ہللا کے سامنے سر جھکانے اور اپنے آپ کو ہللا کے سپرد کردینے کا نام اسالم ہے۔‬
‫‪ )2‬ایمان‪ :‬ایمان اس پختہ عقیدے کو کہتے ہیں جو انسان کے دل کی گہرائیوں میں اتر جائے اور اس‬
‫میں کسی شک و شبہ کی گنجائش باقی نہ رہے۔‬

‫‪ 5 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫شریعت کی اصطالح میں ہللا کی وحدانیت‪ ،‬رسالت اور آخرت وغیرہ کا زبان سے اقرار کرنے‬
‫کے بعد ان پر دل سے پختہ یقین قائم کرلینا ایمان کہالتا ہے۔‬
‫ایک فرد کی ذات کی تربیت اور اس کے اعمال کی بنیاد ایمان پر ہوتی ہے۔ ایمان دین کا ایک‬
‫بنیادی جزء ہوتا ہے جس کی وجہ سے اس دین پر عمل پیرا ہونے کا راستہ فراہم ہوتا ہے۔‬
‫‪)3‬کفر‪ :‬کفر کے معنی انکار کرنا‪ ،‬بے دینی اختیار کرنا‪ ،‬ناشکری کرنا اور حق کو تسلیم نہ کرنے کے‬
‫ہیں۔‬
‫شریعت کی اصطالح میں ہللا اور اس کے رسول ﷺ کے بتائے ہوئے طریقوں کو تسلیم نہ کرنے‬
‫اور ان کا انکار کرنے کا نام کفر ہے۔‬
‫ہللا رب العزت نے کفار کے انجام کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے‪:‬‬
‫ِيها‬ ‫ُم ف‬ ‫َّار ھ‬ ‫ُ الن‬ ‫َصح‬
‫ٰب‬ ‫ولئکَ ا‬ ‫ُ ٰ‬ ‫ِنا ا‬ ‫يت‬‫ٰٰ‬‫ِا‬‫بوا ب‬ ‫َذُ‬ ‫َک‬‫ُوا و‬ ‫َر‬‫َف‬
‫َ ک‬ ‫ِين‬ ‫َالذ‬ ‫و‬
‫دون‬‫ُِ‬‫ٰل‬‫خ‬
‫ترجمہ‪:‬اور جو لوگ کفر کا ارتکاب کریں گے اور ہماری آیتوں کو جھٹالئیں گےوہ دوزخ والے لوگ ہیں‬
‫جہاں وہ ہمیشہ رہیں گے۔‬
‫”عقد“ سے نکال ہے جس کے معنی گرہ لگانے کے ہوتے‬ ‫‪)4‬عقیدہ‪ :‬عقیدہ عربی زبان کے لفظ‬
‫ہیں۔ ان بنیادی نظریات اور خیاالت کا مجموعہ جنہیں زندگی گزارنے اور اعمال کی راہ منتخب کرنے‬
‫کے لئے پختہ طور پر قبول کرلیا گیا ہو ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔شرعی اصطالح میں عقیدہ وہ ہے جس کے‬
‫ساتھ دل کو باندہ دیا گیا ہو یعنی دل کی گہرائیوں سے کسی بات کا پختہ یقین رکھنا‪ ،‬دل و دماغ سے‬
‫تسلیم کرنا اور ہر لحاظ سے مطمئن ہونا ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔‬
‫‪ )5‬عقائد اسالم‪ :‬وہ بنیادی نظریات و خیاالت جو دین اسالم میں انسانوں کی زندگی میں اعمال کی راہ‬
‫منتخب کرنے اور ایک مخصوص طرز زندگی اختیار کرنے کے لیئے پیش کئے گئے ہیں وہ عقائد‬
‫اسالم یا اسالم کے بنیادی عقائد کہالتے ہیں۔‬
‫اسالم کے بنیادی عقائد مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪۲‬۔رسولوں پر ایمان‬ ‫‪۱‬۔ہللا پر ایمان‬
‫‪۴‬۔آسمانی کتابوں پر ایمان‬ ‫‪۳‬۔فرشتوں پر ایمان‬
‫‪۶‬۔موت کے بعد کی زندگی پر ایمان‬ ‫‪۵‬۔آخرت پر ایمان‬
‫‪۷‬۔تقدیر پر ایمان‬
‫‪)6‬توحید‪:‬توحید کا لغوی معنی ”ایک ماننا“ ہے۔ شرعی اصطالح میں توحید کا معنی ایک خدا پر یقین‬
‫رکھنا ہے۔ ساری کائنات کا مالک اور مختار صرف ایک یعنی ہللا تعالی کو سمجھنا‪ ،‬اسی پر ایمان النا‬
‫اور ہللا تعالی کو ہی عبادت کے الئق سمجھنا عقیدہ توحید کہالتا ہے۔‬
‫توحید کا وسیع مفہوم یہ ہے کہ ہللا تعالی اپنی ذات اور صفات میں اکیال ہے‪ ،‬اس کا کوئی شریک‬
‫نہیں ہے‪ ،‬کائنات اور اس کی تمام چیزیں اس ہی کی تخلیق کردہ ہیں۔ موت و زندگی‪ ،‬صحت و بیماری‪،‬‬
‫نفع و نقصان غرض سب کچھ اس ہی کے اختیار میں ہے۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر پیغمبر آخر الزماں‬
‫حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیاء کرام نے لوگوں کو توحید کا درس دیا ہے ۔‬
‫توحید کی اقسام ‪:‬توحید کی تین اقسام ہیں ‪:‬۔‬
‫‪ ‬ذات میں توحید‬
‫‪ ‬صفات میں توحید‬

‫‪ 6 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪ ‬صفات کے تقاضوں میں توحید‬
‫تعالی کی طرف سے نیک اور برگزیدہ بندوں کو انسانوں‬ ‫ٰ‬ ‫‪)7‬رسالت‪ :‬رسالت ایک منصب ہے جو ہللا‬
‫عالی‬
‫کی ہدایت کے لئے عطا کیا جاتا ہے اور اس منصب کے ہمراہ انسانوں کی رہنمائی کے لئے ہللا ت ٰ‬
‫کی طرف سے ایک کتاب بھی عطا کی جاتی ہے ۔‬
‫معنی " پیغام پہنچانا " اور رسول کے لغوی‬ ‫ٰ‬ ‫معنی ‪:‬رسالت کے لفظی‬ ‫ٰ‬ ‫رسالت کے لفظی واصطالحی‬
‫معنی ہیں " پیغام دے کر بھیجا ہوا یعنی پیغام پہنچانے واال"‬ ‫ٰ‬
‫تعالی نے انسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫کو‬ ‫جس‬ ‫ہے‬ ‫شخص‬ ‫وہ‬ ‫رسول‬ ‫میں‬ ‫اصطالح‬ ‫کی‬ ‫دین‬
‫معنی "خبر دینے واال" ۔ رسول کو ہم‬ ‫ٰ‬ ‫لیے منتخب فرمایا ہو ۔ رسول کو نبی بھی کہتے ہیں ۔ جس کے‬
‫پیغمبر بھی کہتے ہیں ‪ ،‬یعنی " پیغام النے واال" ۔‬
‫رسالت ملنے سے پہلے بھی رسول کی زندگی اپنی قوم میں بہترین زندگی ہوتی ہے وہ پاکباز ‪ ،‬نرم ُخو ‪،‬‬
‫تعالی کا پیغام سناتے وقت کوئی اس کو بے اعتبار یا جھوٹا نہ‬ ‫ٰ‬ ‫نیک‪ ،‬سچا اور امانتدار ہوتا ہے تاکہ ہللا‬
‫کہہ سے ۔‬
‫ہللا تعالی کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫َسُوال‬‫أمۃ ر‬ ‫ّ َّ‬ ‫ُل‬
‫ِ‬ ‫ِی ک‬ ‫َا ف‬ ‫َثن‬ ‫بع‬ ‫َد َ‬ ‫ََلق‬
‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجیے۔ (سورۃ النحل‪)۳۶ :‬‬
‫معنی ہیں " مہر لگانا ‪ ،‬بند کرنا ‪ ،‬آخر تک پہنچانا ‪،‬کسی کام کو پورا‬ ‫ٰ‬ ‫‪)8‬ختم نبوت‪ :‬ختم کے لغوی‬
‫کرکے فارغ ہوجانا " ۔‬
‫اصطالحی لحاظ سے اس سے مراد یہ ہے کہ نبوت ورسالت کا سلسلہ جو حضرت آدم ؑ سے شروع ہوا‬
‫وہ حضرت محمد ﷺ پر ختم کردیا گیا ۔ آپ ﷺ سلسلہ نبوت کی آخری کڑی ہیں ۔ آپ ﷺ کے بعد کسی‬
‫شخص کو منصب نبوت پر فائز نہیں کیا جائےگا۔‬
‫عقیدہ ختم نبوت یہ ثابت کرتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ ہللا تعالی کی طرف سے انسانوں کی‬
‫رہنمائی کے لئے بھیجے گئے انبیاء میں آخری نبی ہیں۔ حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے‬
‫گا۔ حضرت محمد ﷺ کے وسیلہ سے تمام انسانوں کو ایک جامع اور ہمیشہ رہنے والی کتاب قرآن مجید‬
‫مہیا کردی گئ ہے جس میں تمام شریعتوں کا خالصہ موجود ہے۔ اس کے بعد انسانوں کو کسی اور رہبر‬
‫کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔ ہللا تعالی نے خود قرآن میں آپ ﷺ کو آخری نبی قرار دیا ہے‪:‬‬
‫َ‬ ‫َاَ‬
‫تم‬ ‫َخ‬‫َ للاا و‬‫َّسُول‬ ‫ِن ر‬ ‫َلک‬‫ُم و‬ ‫لک‬‫َاِ‬ ‫ّج‬ ‫من ر‬ ‫ِِ ّ‬ ‫َد‬‫َح‬ ‫با أ‬ ‫ََ‬‫د أ‬‫ٌَّ‬
‫َم‬ ‫مح‬‫َان ُ‬ ‫ماک‬‫َ‬
‫ِيين۔‬ ‫ّب‬‫الن‬
‫ترجمہ‪ :‬محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ ہللا کے رسول اور آخری نبی‬
‫ہیں۔(االحزاب‪)۴ ۰ :‬‬
‫آپ ﷺ نے خود بھی اپنے آخری نبی ہونے کا اعالن کیا ہے‪:‬‬
‫ِی۔‬ ‫َ‬
‫ِیَّ بعد‬ ‫نب‬ ‫ِيين َال َ‬ ‫ّب‬ ‫ُ الن‬ ‫تم‬ ‫َاَ‬ ‫نا خ‬ ‫ََ‬
‫أ‬
‫ترجمہ‪ :‬میں آخری نبی ہوں‪ ،‬میرے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔‬
‫تعالی کے انصاف اور دنیا میں‬‫ٰ‬ ‫‪)9‬عقیدہ آخرت ‪:‬اسالم کا وہ عقیدہ جو موت کے بعد کی زندگی اور ہللا‬
‫کیے گئے اعمال کی بنیاد پر سزا اور جزا کے تصور کی وضاحت کرتا ہے " عقیدہ آخرت " کہالتا ہے‬
‫۔ اسالمی ع قائد میں عقیدہ آخرت کو ایک اہم مقام حاصل ہے ۔ قرآن کریم میں اکثر مقامات پرعقیدہ توحید‬
‫کے ساتھ ساتھ عقیدہ آخرت پر ایمان النے کا حکم دیا گیا ہے ۔‬

‫‪ 7 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫معنی" بعد میں ہونے والی چیز یا واقعہ"کے ہیں۔آ خرت کا‬ ‫ٰ‬ ‫معنی‪ :‬لفظ آ خرت کے‬ ‫ٰ‬ ‫آ خرت کے لغوی‬
‫لفظ دنیا کا متضاد ہے۔ جس کے معنی ہیں ”قریب کی چیز“۔‬
‫معنی ‪ :‬اصطالحی طور پر عقیدہ آخرت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد ہمیشہ‬ ‫ٰ‬ ‫اصطالحی‬
‫ُ‬
‫عالی اس‬
‫کے لئے فنا نہیں ہوجاتا بلکہ اس کی روح باقی رہتی ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا جب ہللا ت ٰ‬
‫کی روح کو اس کے جسم میں منتقل کر کے اسے دوبارہ زندہ کردے گا اور پھر انسان کو اس کے نیک‬
‫وبد اعمال کا حقیقی بدلہ دیا جائے گا ۔‬
‫عقید ٔہ آ خرت سے مرادیہ ہے کہ " ایک دن یہ دنیا فنا ہوجائے گی لیکن انسان مرنے کے بعد‬
‫ہمیشہ ہمیشہ کے لئے فنا نہیں ہوتا اس کی روح باقی رہتی ہے اور دنیا فنا ہوجانے پر اس کو دوبارہ زندہ‬
‫کیا جائے گا ‪ ،‬قیامت قائم ہوگی اور ان کے اعمال کا حساب کتاب ہوگا او ر نیک عمل کرنے والوں کا‬
‫ٹھکانہ جنت اور برے اعمال کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے "۔‬
‫معنی "پیغام رساں " کے ہیں‬ ‫ٰ‬ ‫ک " ہے جس کے‬ ‫‪ )10‬مالئکہ‪:‬مالئکہ کا لفظ جمع ہے ۔ اس کا واحد "مل ٌ‬
‫تعالی کے احکام بندوں تک التے اور نافذکرتے ہیں اس لیے انہیں مالئکہ کہا جاتا‬ ‫ٰ‬ ‫۔ چونکہ یہ فرشتے ہللا‬
‫تعالی کی اطاعت کرتے ہیں ۔‬‫ٰ‬ ‫تعالی کی نورانی مخلوق ہیں اور ہر حال میں ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫ہے ۔ فرشتے ہللا‬
‫مالئکہ یا فرشتوں پر ایمان النا ‪ ،‬دین کے بنیادی عقائد میں شامل ہے ۔ مالئکہ گناہ یا خطا سے پاک‬
‫ہوتے ہیں اور حسب ضرورت مختلف جسمانی شکلیں اختیار کر سکتے ہیں۔‬
‫ان میں سے چار مشہور فرشتے ہیں جن کے کام درج ذیل ہیں ‪:‬‬
‫ان کا کام انبیاء کے پاس وحی النا ہے ۔ ( وحی النا )‬ ‫(‪ )1‬حضرت جبرائیل ؑ ‪:‬‬
‫ان کے ذمے بارشوں اور ہواؤوں کے نظام کی نگرانی ہے ۔‬ ‫(‪ )2‬حضرت میکائیل ؑ ‪:‬‬
‫ان کےذمے قیامت پرپا کرنے اور پھر مردوں کو دوبارہ زندہ کرنے‬ ‫(‪ )3‬حضرت اسرافیل ؑ‪:‬‬
‫کیلئے ہللا کے حکم سے صور پھونکنا ہے ۔ (صور پھونکنا )‬
‫ان کے ذمے روح قبض کرنا ہے ( روح قبض کرنا ) ۔‬ ‫(‪ )4‬حضرت عزرائیل ؑ ‪:‬‬
‫‪)11‬صحابی‪ :‬صحابی کے معنی ہیں صحبت اٹھانے واال‪ ،‬ساتھ رہنے واال۔ صحابی کی جمع صحابہ‬
‫ہے۔‬
‫شریعت کی اصطالح میں صحابی سے مراد وہ خوش نصیب شخص ہے جس نے ایمان کی‬
‫حالت میں جاگتی آنکھوں سے سرور کونین ﷺ کی زیارت کی‪ ،‬آپ ﷺ کی رفاقت کا شرف حاصل کیا اور‬
‫بحالت ایمان دنیا سے رخصت ہوا۔ نبوت و رسالت کے بعد سب سے بڑا درجہ ”صحابیت“ کا ہے۔‬
‫صحابہ کے مقام و مرتبہ کے بارے میں قرآن میں بہت سی آیات موجود ہیں‪ ،‬ہللا تعالی کی طرف‬
‫سے صحابہ کے لیے یہ اعالن ہے کہ ہللا ان سے راضی ہوگیا۔ یہ ان کے بلند مقام کو ظاہر کرتا ہے۔‬
‫ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ہ۔‬ ‫َنُ‬ ‫ُوا ع‬ ‫َض‬‫َر‬
‫ُم و‬ ‫َنه‬
‫ِیَ للاا ع‬‫َض‬‫ر‬
‫ترجمہ‪ :‬ہللا ان سے راضی ہوا اور یہ ہللا سے راضی ہوئے۔(سورۃ البینۃ‪)۰۸ :‬‬

‫سوال نمبر ‪:2‬مومن اور مسلم میں کیا فرق ہے؟‬


‫‪۱‬۔مومن کا مطلب ہے ایمان النے واال۔‬ ‫مومن‪:‬‬
‫‪۲‬۔ عقائد اسالم کو دل سے تسلیم کرنے واال شخص مومن کہالتا ہے۔‬
‫‪۳‬۔ایمان کا تعلق دل سے ہے۔‬
‫‪۱‬۔مسلم کا مطلب ہے اسالم قبول کرنے واال۔‬ ‫مسلم‪:‬‬
‫‪ 8 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۲‬۔تعلیمات اسالم پر عمل کرنے واال شخص مسلم کہالتا ہے۔‬
‫‪۳‬۔اسالم کا تعلق ظاہری اعضاء سے ہے۔‬
‫سوال نمبر‪ :3‬شرک کسے کہتے ہیں ؟ اور اسکی اقسام بیان کریں ۔‬
‫معنی "حصہ داری اور ساجھے پن " کے ہیں ۔‬ ‫ٰ‬ ‫جواب ‪ :‬شرک کے لغوی‬
‫تعالی کی ذات ‪ ،‬یا صفات ‪ ،‬یا صفات کے تقاضوں‬
‫ٰ‬ ‫دین کی اصطالح میں شرک کا مفہوم یہ ہے کہ ہللا‬
‫میں کسی کو اس کا حصہ دار اور ساجھی ٹھرایا جائے۔ شرک وہ عظیم گناہ ہے جس کی کوئی بخشش‬
‫نہیں ہے اور اس کو ظلم عظیم کہا گیا ہے ۔‬
‫شرک کی مذمت قرآن کی روشنی میں ‪:‬‬
‫قرآن مجید میں ارشاد ہے ‪:‬‬
‫( لقمان ‪)31 :‬‬ ‫ٌ "‬ ‫ِيم‬ ‫َظ‬‫ٌ ع‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫َّ الشَّرک لظلم‬
‫َ‬ ‫ِن‬ ‫" ا‬
‫"بے شک شرک بہت بڑا ظلم ہے " ۔‬
‫ایک دوسری جگہ ارشاد فرمایا ‪:‬‬
‫(‬ ‫َ‬
‫ِک "‬ ‫ٰ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫ما دون ذ ل‬ ‫ُ َ‬
‫ِر‬ ‫يغف‬‫ََ‬‫ِہ و‬ ‫َ‬
‫َک ب‬‫يشر‬ ‫َن ُّ‬ ‫ُ ا‬ ‫ِر‬‫يعف‬ ‫َّ للااَ َالَ‬‫ِن‬‫" ا‬
‫النسائ ‪) 48 :‬‬
‫تعالی ( یہ بات ) معاف نہیں کرتا ہے اس کے ساتھ کسی کو شریک بنایا جائے لیکن اس‬ ‫ٰ‬ ‫" بے شک ہللا‬
‫کے عالوہ ( اور گناہ ) جس کسی کو بھی چاہے گا بخش دے گا "۔‬
‫تعالی نے اپنی بندگی کرنے اور شرک سے بچنے کا حکم دیا ہے ۔ جیساکہ ہللا کا‬ ‫ٰ‬ ‫اور ایک مقام پر ہللا‬
‫فرمان ہے ‪:‬‬
‫( النسآء ‪) 36 :‬‬ ‫ً‬
‫ِہ شيئا "‬‫َ‬ ‫ِکوا ب‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫َاعبدوا للاا وال تشر‬
‫َ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫" و‬
‫" اور ہللا کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ ٹھراؤ " ۔‬
‫شرک کی اقسام‪:‬شرک کی تین اقسام ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ذات میں شرک‪:‬اس سے مراد یہ ہے کہ کسی کو ہللا کا ہم جنس یا باپ بیٹا وغیرہ قرار دینا۔‬
‫‪۲‬۔صفات میں شرک‪ :‬اس کا مفہوم یہ ہے کہ ہللا تعالی جیسی صفات کو کسی دوسرے میں ماننا اور‬
‫اس جیسا علم‪ ،‬قدرت یا ارادہ وغیرہ کو کسی دوسرے کے لیے ثابت کرنا۔‬
‫‪۳‬۔صفات کے تقاضوں میں شرک‪ :‬ہللا تعالی کی صفات کے جو تقاضے ہیں مثال اس ہی کی عبادت‬
‫کرنا‪ ،‬اس ہی سے مدد مانگنا وغیرہ‪ ،‬ان میں کسی کو ہللا کے ساتھ شریک کرنا۔‬
‫ب سماوی سے کیا مراد ہے؟ مشہور آسمانی کتب کے نام تحریر کیجئے۔‬ ‫سوال نمبر‪ُ :4‬کت ُ ِ‬
‫آسمانی کتابیں‪ :‬ہللا تعالی نے انسانیت کی ہدایت و رہنمائی کے لیے ہر دور میں انبیاء کرام کو مبعوث‬
‫فرمایا جنہیں لوگوں کی رہنمائی کے لیے کتب اور صحائف (صحیفہ کی جمع) دئے گئے۔ ہر مسلمان‬
‫کے لیے ضروری ہے کہ وہ یہ عقیدہ رکھے کہ ہللا کی نازل کردہ تمام الہامی کتب بر حق تھیں اور ان‬
‫میں انسان کی ہدایت و رہنمائی کا سامان موجود تھا لیکن سابقہ امتوں نے ان کتابوں میں تحریف کردی‬
‫اور اب قرآن کے عالوہ کوئی آسمانی کتاب اپنی اصل حالت میں موجود نہیں ہے۔ چار مشہور آسمانی‬
‫کتابوں کے نام مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫حضرت داؤد علیہ السالم پر نازل ہوئی۔‬ ‫‪۱‬۔زبور‪:‬‬
‫حضرت موسی علیہ السالم پر نازل ہوئی۔‬ ‫‪۲‬۔توریت‪:‬‬
‫حضرت عیسی علیہ السالم پر نازل ہوئی۔‬ ‫‪۳‬۔انجیل‪:‬‬

‫‪ 9 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۴‬۔قرآن مجید‪ :‬حضرت محمد ﷺ پر نازل ہوا۔‬
‫یہ سب کتابیں دین کی بنیادی باتوں میں مشترک تھیں۔ قرآن مجید نے باقی تمام کتابوں کو منسوخ‬
‫کردیا۔ اب صرف قرآن کے احکامات پر ہی عمل کیا جاسکتا ہے۔‬
‫سوال نمبر‪:5‬عمل صالح سے کیا مراد ہے؟‬
‫تعالی کے احکام بجا النے کو عمل صالح کہتے‬
‫ٰ‬ ‫عمل صالح‪ :‬اسالم کی رو سے ایمان کی بنیاد پر ہللا‬
‫ہیں ۔ قرآن میں ہللا نے عمل صالح کی اہمیت کو یوں بیان کیا ہے‪:‬‬
‫ب ایمان بھی ہو تو ہم اسے یقینا بہترین‬
‫”جو شخص نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت اور صاح ِ‬
‫زندگی عطا فرمائیں گے“(النحل‪)۹ ۷ :‬‬
‫عمل صالح کی اقسام‪:‬‬
‫‪۱‬۔عبادات‪ :‬عبادت دراصل ہللا کے سامنے انتہائی عاجزی‪ ،‬محتاجی‪ ،‬بے کسی اور بے بسی کے‬
‫اظہار کا نام ہے۔ عبادت محبت کے جذبہ کے ساتھ معبود کے سامنے دل کو جھکانے کا نام ہے۔ شریعت‬
‫زکوۃ وغیرہ جیسے احکام کی بجا آوری عبادت کہالتی ہے۔‬
‫کی اصطالح میں نماز‪ ،‬روزہ‪ٰ ،‬‬
‫‪۲‬۔معامالت‪ :‬لغت میں باہم مل جل کر کام کرنے کو معاملہ کہتے ہیں۔ شریعت کی اصطالح میں‬
‫معاشرتی حقوق و فرائض کی بجا آوری کو معامالت کہتے ہیں۔‬
‫‪۳‬۔اخالق‪ :‬اخالق‪ُ ،‬خلق کی جمع ہے جس کا معنی ہے عادت۔ شریعت کی اصطالح میں اخالق سے‬
‫مراد انسانی سیرت و کردار کی وہ خوبیاں ہیں جو اس کی شخصیت کو نکھارتی ہیں اور ہللا تعالی کو‬
‫پسند ہیں۔‬
‫سوال نمبر‪ :6‬کراما کاتبین کسے کہتے ہیں؟‬
‫کراما کاتبین‪ :‬فرشتوں کو ہللا تعالی نے نور سے پیدا فرمایا ہے۔ فرشتوں کی مختلف جماعتیں ہللا تعالی‬
‫کی طرف سے مقرر کردہ مختلف امور انجام دیتی ہیں۔ انسانوں کے برعکس فرشتے اپنی ذمہ داریوں‬
‫کو بخوبی نبھاتے ہیں اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہیں برتتے۔‬
‫”کراما“ کے لفظی معنی ”معزز“ کے ہیں اور ”کاتبین“ کے معنی ہیں ”لکھنے والے“۔ کراما‬
‫کاتبین بھی فرشتوں کی ایک جماعت ہے جسے ہللا تعالی نے انسان کے اعمال کی نگرانی کے لیے‬
‫مقرر فرمایا ہے۔ یہ انسان کے ہر چھوٹے بڑے عمل کو محفوظ کرتے ہیں جو کہ قیامت کے دن اعمال‬
‫ناموں کی شکل میں ہر شخص کے سامنے پیش کردئے جائیں گے۔ قرآن پاک میں ہللا تعالی کا ارشاد‬
‫پے‪:‬‬
‫ِين۔‬ ‫َات‬
‫ِب‬ ‫ً ک‬
‫َاما‬ ‫َ۔ک‬
‫ِر‬ ‫ِين‬ ‫َاف‬
‫ِظ‬ ‫ُم َلح‬ ‫َ‬
‫َليک‬ ‫ّ ع‬
‫ِن‬‫َا‬
‫و‬
‫”بے شک تم پر نگران (فرشتے) مقرر کئے گئے ہیں۔ بہت معزز اور (تمہارے اعمال) لکھنے والے‬
‫ہیں۔(االنفطار‪)۱۰،۱۱ :‬‬
‫سوال نمبر ‪ :7‬تقدیر پر ایمان النے سے کیا مراد ہے؟‬
‫تقدیر‪ :‬تقدیر کے معنی لغت میں اندازہ کرنے کے ہیں مثال اگر مکان بنانے کا ارادہ ہوتا ہے تو پہلے‬
‫اس کا نقشہ تیار کرتے ہیں تاکہ مکان کی عمارت اس نقشہ کے مطابق بنائی جائے اسی طرح ہللا تعالی‬
‫علم ازلی میں اس عالم کا‬
‫نے جب اس دنیا کے بنانے کا ارادہ کیا تو بنانے سے پہلے ہللا تعالی نے اپنے ِ‬
‫نقشہ بنایا اور ابتداء سے انتہا تک ہر چیز کا اندازہ لگالیا۔ اس اندازہ خداوندی کا نام تقدیر ہے۔‬
‫ہللا تعالی کا ارشاد ہے‪:‬‬

‫‪ 10 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫َا۔‬‫َدر‬ ‫ّ شَيئ ق‬ ‫ُل‬‫لک‬‫َ للاا ِ‬‫َل‬ ‫َد ج‬
‫َع‬ ‫ق‬
‫”ہللا نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کیا ہے۔“(الطالق‪)۳:‬‬
‫سوال نمبر‪ :8‬درج ذیل اصطالحات کے درمیان فرق واضح کریں۔‬
‫‪ .2‬کافر اور منافق‬ ‫‪ .1‬مومن اور منافق‬
‫‪ .4‬رسول اور نبی‬ ‫‪ .3‬توحید اور شرک‬
‫‪ .6‬فرشتہ اور جن‬ ‫‪ .5‬معجزہ اور کرامت‬
‫‪ .7‬قرآن اور دیگر الہامی کتب‬

‫منافق‬ ‫مومن‬
‫دین اسالم کی‬
‫ایک ایسا فرد جو ظاہری طور پر ِ‬ ‫دین اسالم اور اس کی‬ ‫ایک ایسا فرد جو ِ‬ ‫‪)1‬‬
‫تعلیمات کو قبول کرتا ہو لیکن دل سے ان پر حقیقی‬ ‫تعلیمات پر ظاہری اور باطنی طور پر درست‬
‫ایمان نہ رکھتا ہو وہ "منافق" کہالتا ہے۔‬ ‫اندازسے عمل پیرا ہو "مومن" کہالتا ہے۔‬
‫ایک منافق صرف ظاہری طور پر باایمان ہونے کا‬ ‫ایک مومن کا دل حق و صداقت کی روشنی‬ ‫‪)2‬‬
‫دکھاوا کرتا ہے۔‬ ‫سے منور ہوتا ہے اس لئے وہ اپنی زندگی‬
‫میں قرآن و سنت کی صحیح پیروی کرتا ہے۔‬
‫ایک منافق یا تو ضرورت پڑنے پر مسلمانوں کا‬ ‫ایک مومن مسلمانوں کے ساتھ دلی ہمدردی‬
‫‪)3‬‬
‫ساتھ دینے سے دور ہٹ جاتا ہے یا پھر پوشیدہ‬ ‫اور محبت رکھتا ہے اور ہر معاملہ میں اپنے‬
‫رہتے ہوئے مسلمانوں کی صفونمیں شامل رہ کر‬ ‫مسلمان بھائیوں کی مدد اور ان سے تعاون‬
‫انہیں نقصان پہنچاتا ہے۔‬ ‫کے لئے تیار رہتا ہے۔‬
‫ایک منافق ہمیشہ دھوکہ اور دغابازی سے کام لیتا‬ ‫ایک مومن کبھی دھوکہ باز نہیں ہوتا۔‬
‫‪)4‬‬
‫ہے۔‬
‫طرز عمل کی وجہ سے ہللا تعالی کی‬‫ِ‬ ‫‪ )5‬ایک مومن نیک اعمال کو اختیار کرتا ہے‪ ،‬منافق اپنے‬
‫اس لئے اسے دنیا میں بھی کامیابی حاصل رحمت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسے دنیا میں بھی‬
‫ہوتی ہے اور آخرت میں بھی اس کے لئے ذلت و رسوائی ملتی ہے اور آخرت میں بھی اس‬
‫کے لئے فالح نہیں ہے۔‬ ‫فالح ہے۔‬

‫منافق‬ ‫کافر‬
‫دین اسالم کی‬
‫ایک ایسا فرد جو ظاہری طور پر ِ‬ ‫دین اسالم اور اس کی‬ ‫ایک ایسا فرد جو ِ‬ ‫‪)1‬‬
‫تعلیمات کو قبول کرتا ہو لیکن دل سے ان پر حقیقی‬ ‫تعلیمات کا برمال اور کھلے طور پر انکار‬
‫ایمان نہ رکھتا ہو وہ "منافق" کہالتا ہے۔‬ ‫کرتا ہو "کافر" کہالتا ہے۔‬
‫ایک منافق صرف ظاہری طور پر باایمان ہونے کا‬ ‫ایک کافر کا دل حق و صداقت کی روشنی‬ ‫‪)2‬‬
‫دکھاوا کرتا ہے۔‬‫سے منور نہیں ہوتا ہے اس لئے وہ کھلے‬
‫طور پر حق کی مخالفت کرتا ہے۔‬
‫اہل ایک منافق پوشیدہ رہتے ہوئے اہ ِل حق کی صفوں‬ ‫ایک کافر کھلے طور پر مدمقابل آکر ِ‬ ‫‪)3‬‬
‫حق کے ساتھ اپنی دشمنی اور مخالفت کو میں ان ہی جیسا لبادہ اوڑھ کر شامل ہوجاتا ہے اور‬
‫انہیں نقصان پہنچاتا ہے۔‬ ‫ظاہر کرتا ہے۔‬
‫کافر حق و صداقت کا کھال دشمن ہے اس منافق حق و صداقت کا پوشیدہ دشمن ہے او اہ ِل‬ ‫‪)4‬‬
‫حق کی صفوں میں موجود ہونے کی وجہ سے اس‬ ‫لئے اس کی شناخت آسان ہے۔‬

‫‪ 11 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫کی شناخت آسان نہیں۔‬
‫طرز عمل کی وجہ سے ہللا تعالی کی‬ ‫ِ‬ ‫‪ )5‬کافر اپنے کفر کی وجہ سے آخرت میں ہللا منافق اپنے‬
‫رحمت سے محروم ہوجاتا ہے۔ اسے دنیا میں بھی‬ ‫تعالی کے عذاب کا مستحق ٹہرتا ہے۔‬
‫ذلت و رسوائی ملتی ہے اور آخرت میں بھی اس‬
‫کے لئے فالح نہیں ہے۔‬

‫شرک‬ ‫توحید‬
‫توحید کے لغوی معنی ایک‪ ،‬اکیال اور تنہا شرک کے لفظی معنی ہے حصہ داری کرنا اور‬ ‫‪)1‬‬
‫شریک ہونا۔‬ ‫کے ہوتے ہیں۔‬
‫ہللا تعالی کو اس کی ذات‪ ،‬صفات اور صفات ہللا تعالی کی ذات‪ ،‬صفات یا صفات کے تقاضوں‬ ‫‪)2‬‬
‫کے تقاضوں کے لحاظ سے ایک ماننے کا میں کسی اور کو حصہ دار بنانے کا نام شرک ہے۔‬
‫نام توحید ہے۔‬
‫توحید پر عمل کرنے واال ایمان پر قائم رہتا شرک کرنے والے کا ایمان فاسد ہوجاتا ہے اور وہ‬ ‫‪)3‬‬
‫بخشش کا مستحق نہیں رہتا۔‬ ‫ہے اور اس کی بخشش ہوتی ہے۔‬
‫توحید ایمان کی بنیاد اور ہللا تعالی کے قرب شرک بہت بڑا ظلم اور گناہ عظیم ہے۔‬ ‫‪)4‬‬
‫کا وسیلہ ہے۔‬
‫شرک کفر کی بنیاد ہے۔‬ ‫توحید دین اسالم کا بنیادی عقیدہ ہے۔‬ ‫‪)5‬‬

‫نبی‬ ‫رسول‬
‫لغت میں رسول کا مطلب ہے پیغام پہنچانے لغت میں نبی کا مطلب ہے خبر دینے واال۔‬ ‫‪)1‬‬
‫واال۔‬
‫نبی کو نئی کتاب نہیں دی جاتی۔‬ ‫رسول کو نئی کتاب دی جاتی ہے۔‬ ‫‪)2‬‬
‫نبی سابقہ شریعت ہی کی تعلیم دیتا ہے۔‬ ‫رسول کونئی شریعت عطا کی جاتی ہے۔‬ ‫‪)3‬‬
‫رسولوں کی تعداد مشہور قول کے مطابق مشہور قول کے مطابق انبیاء کی تعداد ایک الکھ‬ ‫‪)4‬‬
‫چوبیس ہزار ہے۔‬ ‫‪ ۳۱۳‬ہے۔‬
‫ہر نبی رسول نہیں ہوتا۔‬ ‫ہر رسول نبی بھی ہوتا ہے۔‬ ‫‪)5‬‬

‫کرامت‬ ‫معجزہ‬
‫لغت میں عاجز کرنے والی چیز کو معجزہ لغت میں بزرگی اور شرف کو کرامت کہا جاتا ہے۔‬ ‫‪)1‬‬
‫کہتے ہیں۔‬
‫کوئی غیر یقینی اور خالف عقل کام جو کسی کوئی غیر یقینی اور خالف عقل کام جو کسی ولی‬ ‫‪)2‬‬
‫رسول یا نبی کے ہاتھ سے ہللا کے وسیلہ کے ہاتھ سے ہللا کے وسیلہ سے ظاہر ہو کرامت‬
‫کہالتا ہے۔‬ ‫سے ظاہر ہو معجزہ کہالتا ہے۔‬
‫معجزہ کسی نبی یا رسول کی نبوت یا رسالت کرامت کا ظہور کسی بھی لحاظ سے کسی کے‬ ‫‪)3‬‬
‫ولی‪،‬قطب‪،‬ابدال یا اہل ہللا ہونے کی تصدیق کے‬ ‫کی تصدیق کے لیے ظاہر ہوتا ہے۔‬
‫لیے نہیں ہوتا۔‬
‫معجزہ ایک نبی یا رسول کے دعوے کی کرامت کسی ولی‪،‬قطب‪ ،‬ابدال یا اہل ہللا کی دلیل کی‬ ‫‪)4‬‬
‫دلیل اور اس کی سچائی کے لیے گواہ ہوتا سچائی کا ثبوت نہیں ہوتا بلکہ یہ ہللا کی قدرت کا‬

‫‪ 12 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫اظہار ہوتا ہے۔‬ ‫ہے۔‬
‫‪ )5‬معجزہ لوگوں کے طلب کرنے پر ہللا کے کرامت کے ظہور کے لیے لوگوں کی طلب کی‬
‫حکم کے مطابق نبی یا رسول کے ہاتھ پر ضرورت نہیں ہوتی۔‬
‫ظاہرہوتا ہے۔‬

‫جن‪:‬‬ ‫فرشتہ‪:‬‬
‫‪ )1‬ہللا تعالی کی پیدا کردہ نورانی مخلوق جو ہللا تعالی کی پیدا کردہ وہ ناری مخلوق جو اس‬
‫اس کے احکامات کے مطابق اپنے فرائض کائنات میں خودمختار رہ کر زندگی گزارے‬
‫"جن" کہالتی ہے۔‬ ‫سرانجام دے "فرشتہ" کہالتی ہے۔‬
‫‪ )2‬فرشتہ مکمل طور سے نفس سے عاری ہوتا جن ایک نفس کی حامل مخلوق ہے۔‬
‫ہے۔‬
‫‪ )3‬فرشتہ ہمیشہ ہللا تعالی کا حکم بجاالتا ہے جن ہللا تعالی کا حکم بجاالنے واال بھی ہوسکتا‬
‫ہے البتہ اسے حکم عدولی کا اختیار بھی ہوتا ہے۔‬ ‫اور اس کی حکم عدولی نہیں کرتا۔‬
‫اس لحاظ سے ایک جن نیک یا شریر ہوسکتا ہے۔‬

‫ب علم ہوسکتا ہے۔ وہ اپنے علم کو‬ ‫‪ )4‬فرشتہ صرف اتنا ہی علم رکھتا ہے جتنا کہ جن صاح ِ‬
‫ہللا تعالی نے اُسے عطا کیا ہے اور اس علم مختلف مقاصد کے لئے استعمال کرسکتا ہے ۔‬
‫کے مطابق وہ اپنی ذمہ داری کو پورا کرتا‬
‫ہے۔‬
‫‪ )5‬فرشتہ چونکہ ہللا تعالی کی حکم عدولی نہیں جن کو چونکہ حکم عدولی کا اختیار حاصل ہوتا‬
‫کرتا اس لئے اس سے حساب کتاب نہیں ہے اس لئے اُس کے اعمال کا حساب کتاب ہوگا۔‬
‫ہوگا۔‬

‫دیگر الہامی ُکتُب‬ ‫قرآن‬


‫قرآن مجید ہللا تعالی کی نازل کردہ کتابوں ہللا تعالی کی طرف سے نازل کردہ دیگر الہامی‬ ‫‪)1‬‬
‫کُتُب میں سے تین مشہور ہیں جو زبور‪ ،‬توریت اور‬ ‫میں آخری الہامی کتاب ہے۔‬
‫انجیل ہیں۔‬
‫توریت حضرت موسٰ ی علیہ السالم پر‪ ،‬زبور‬ ‫قرآن مجید حضور اکرم ﷺ پر نازل ہوا۔‬ ‫‪)2‬‬
‫حضرت داؤد علیہ السالم پر اور انجیل حضرت‬
‫عیسٰ ی علیہ السالم پر نازل ہوئی۔‬
‫دیگر تینوں الہامی کتابیں عبرانی زبان میں نازل‬ ‫قرآن مجید عربی زبان میں نازل کیا گیا۔‬ ‫‪)3‬‬
‫ہوئیں۔‬
‫قرآن مجید کی حفاظت کی ذمہ داری ہللا تعالی دیگر الہامی کُتُب کی حفاظت کی ذمہ داری ہللا‬ ‫‪)4‬‬
‫تعالی نے نہیں لی۔‬ ‫نے خود لی ہے۔‬
‫قرآن کی تعلیمات قیامت تک تمام انسانوں کے دیگر الہامی کُتُب کی شریعتیں ایک مخصوص‬ ‫‪)5‬‬
‫عرصہ تک نافذ العمل رہیں اور قرآن کے نزول‬ ‫لئے ہدایت کا سرچشمہ ہیں۔‬
‫کے بعد ان الہامی کتب کی شریعتیں منسوخ‬
‫ہوچکہی ہیں۔‬

‫‪ 13 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫سوال نمبر‪:1‬عقیدہ توحید کی وضاحت کیجئے اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات تحریر‬
‫کیجئے۔‬
‫”عقد“ سے نکال ہے جس کے معنی گرہ لگانے کے ہوتے ہیں۔‬ ‫عقیدہ‪ :‬عقیدہ عربی زبان کے لفظ‬
‫ان بنیادی نظریات اور خیاالت کا مجموعہ جنہیں زندگی گزارنے اور اعمال کی راہ منتخب کرنے کے‬
‫لئے پختہ طور پر قبول کرلیا گیا ہو ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔شرعی اصطالح میں عقیدہ وہ ہے جس کے ساتھ‬
‫دل کو باندہ دیا گیا ہو یعنی دل کی گہرائیوں سے کسی بات کا پختہ یقین رکھنا‪ ،‬دل و دماغ سے تسلیم‬
‫کرنا اور ہر لحاظ سے مطمئن ہونا ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔‬
‫عقیدہ توحید‪:‬توحید کا لغوی معنی ”ایک ماننا“ ہے۔ شرعی اصطالح میں توحید کا معنی ایک خدا پر‬
‫یقین رکھنا ہے۔ ساری کائنات کا مالک اور مختار صرف ایک یعنی ہللا تعالی کو سمجھنا‪ ،‬اسی پر ایمان‬
‫النا اور ہللا تعالی کو ہی عبادت کے الئق سمجھنا عقیدہ توحید کہالتا ہے۔‬
‫توحید کا وسیع مفہوم یہ ہے کہ ہللا تعالی اپنی ذات اور صفات میں اکیال ہے‪ ،‬اس کا کوئی شریک‬
‫نہیں ہے‪ ،‬کائنات اور اس کی تمام چیزیں اس ہی کی تخلیق کردہ ہیں۔ موت و زندگی‪ ،‬صحت و بیماری‪،‬‬
‫نفع و نقصان غرض سب کچھ اس ہی کے اختیار میں ہے۔ حضرت آدم ؑ سے لے کر پیغمبر آخر الزماں‬
‫حضرت محمد ﷺ تک تمام انبیاء کرام نے لوگوں کو توحید کا درس دیا ہے ۔‬
‫توحید کی اقسام ‪:‬توحید کی تین اقسام ہیں ‪:‬۔‬
‫یعنی خدا اپنی ذات میں اکیال ہے۔‬ ‫‪۱‬۔ذات میں توحید‪:‬‬
‫یعنی اپنی صفات کا واحد مالک ہے۔‬ ‫‪۲‬۔صفات میں توحید‪:‬‬
‫ہللا تعالی کی صفات کاملہ تمام نوع انسانی سے‬ ‫‪۳‬۔صفات کے تقاضوں میں توحید‪:‬‬
‫اس بات کی متقاضی ہیں کہ ایک ہللا کا حکم مانا جائے‪ ،‬اس ہی کی عبادت کی جائے اور اس ہی کو مدد‬
‫کے لئے پکارا جائے۔‬
‫تعالی نے جگہ جگہ انسانوں کو توحید کا‬ ‫عقیدہ توحید قرآن کی روشنی میں ‪:‬قرآن مجید میں ہللا ٰ‬
‫درس دیا ہے ۔ قرآن مجید میں ارشاد ہے ‪ :‬۔‬
‫ُ‬
‫َّحِيم‬ ‫ُ الر‬ ‫ٰن‬ ‫َ الر‬
‫َّحم‬ ‫ُو‬‫ِال ھ‬‫َ اَّ‬ ‫د َال اٰ‬
‫ِلہ‬ ‫َّاحُِ‬
‫ُ و‬ ‫ُم اٰ‬
‫ِلہ‬ ‫ُک‬ ‫َاٰ‬
‫ِله‬ ‫و‬
‫( البقرۃ ‪)163 :‬‬
‫" اور تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں بڑا مہربان نہایت رحم واال ہے"۔‬
‫تا "‬ ‫دَ‬
‫َسََ‬‫َِّال للااُ َلف‬‫ٌ ا‬‫َۃ‬ ‫له‬‫ِٰ‬
‫َا ا‬ ‫ِم‬
‫ِيه‬ ‫َ ف‬‫َان‬ ‫" َلو ک‬
‫( االنبیاء ‪)22 :‬‬
‫"اگر ان دونوں زمین وآسمان میں ہللا کے عالوہ اور معبود ہوتے تو ان دونوں میں فساد برپا ہوجاتا "۔‬
‫اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا ‪:‬۔‬
‫‪ 14 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫(‬ ‫َہ "‬ ‫ِالَّ و‬
‫َجه‬ ‫لکٌ ا‬ ‫َاِ‬‫ء ھ‬ ‫ُّ شَیٍ‬
‫ُل‬ ‫" ک‬
‫القصص ‪) 88 :‬‬
‫" ہر چیز اس کی ذات کے سوا فنا ہونے والی ہے "۔‬
‫ہللا تعالی اپنی ذات وصفات میں یکتا ہے وہ اکیلی ذات ہے ۔‬
‫قرآن مجید میں ارشاد ہے ‪:‬‬
‫ُن َّلہ‬‫يک‬‫ََلم َ‬‫يوَلد و‬ ‫ََلم ُ‬‫ِد و‬ ‫يل‬‫د َلم َ‬ ‫ٌَ‬‫َّم‬ ‫َّٰ‬
‫ّٰللُ الص‬ ‫د ا‬ ‫َح‬
‫ٌَ‬ ‫َ ّٰ‬
‫اّٰللُ ا‬ ‫ُو‬ ‫ُل‬
‫ُ ھ‬ ‫" ق‬
‫( االخالص)‬ ‫د "‬ ‫ٌَ‬ ‫َ‬
‫ًا اح‬ ‫ُف‬
‫ُو‬ ‫ک‬
‫"آپ کہہ دیجئے ہللا ایک ہے ۔ ہللا بے نیاز ہے ۔ نہ اسکی کوئی اوالد ہے ‪ ،‬نہ وہ کسی کی اوالد ہے ۔ اور‬
‫نہ کوئی اسکا ہمصر ہے "۔‬
‫عقیدہ توحید احادیث کی روشنی میں‪ :‬رسول ہللا ﷺکی پوری زندگی توحید کی تبلیغ و اشاعت اور‬
‫نظام توحید کے قیام میں صرف ہوئی۔ اس مقصد کے لئے آپﷺ نے سخت مصائب برداشت کئے‪ ،‬رسول‬
‫ہللا ﷺ نے زخم کھائے‪ ،‬دندان مبارک شہید کروائے‪ ،‬شعب ابی طالب میں قید رہے۔ نت نئے مظالم سہے‪،‬‬
‫آخر اپنے ہی گھر اور شہر سے ہللا کے حکم پر ہجرت فرمائی‪ ،‬مگر توحید کا پرچم سرنگوں ہونے نہ‬
‫دیا۔ توحید کی اہمیت کے حوالے سے آپ ﷺ کے چند ارشادات درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ ”جس نے ال الہ اال ہللا کہا‪ ،‬جہنم سے نکال دیا جائے گا۔“(صحیح بخاری)‬
‫‪۲‬۔”جس شخص نے اخالص کے ساتھ ال الہ اال ہللا کہا وہ جنت میں داخل ہوگا۔“ (صحیح بخاری)‬
‫‪۳‬۔” اسالم کی بنیاد پانچ چیزوں پر رکھی گئی ہے‪ ،‬اس بات کی گواہی دینا کہ ہللا کے سوا کوئی‬
‫معبود نہیں اور محمد ﷺ ہللا کے رسول ہیں‪،‬‬
‫نماز قائم کرنا‪ ،‬زکوۃ ادا کرنا‪ ،‬حج کرنا اور رمضان کے روزے رکھنا۔“ (سننن نسائی)‬
‫عقیدہ توحید کے انسانی زندگی پر اثرات‪:‬‬
‫انفرادی زندگی پر توحید کے اثرات‪:‬‬
‫عقیدہ توحید انسان کی عملی زندگی میں دیرپا انقالب برپا کرتا ہے اور انسان کی زندگی پر‬
‫مندرجہ ذیل اثرات مرتب کرتا ہے۔‬
‫‪1‬۔جذبہ خودداری‪ :‬توحید پر یقین رکھنے واال شخص خوددارہوتا ہے اور وہ ہللا کے عالوہ ہر شے‬
‫سے بے نیاز ہوجاتا ہے۔ اسے یقین ہوجاتا ہے کہ قدرت رکھنے واال ہللا ہے‪ ،‬باقی سب میرے جیسے‬
‫ضعیف‪ ،‬کمزور اور بے بس انسان ہیں‪ ، ،‬اس لئے اس کا سر صرف ہللا کے سامنے جھکتا ہے۔ وہ نہ‬
‫اپنے جیسے انسانوں کے دروازوں پر حاضری دیتا ہے نہ انسانوں کی بنائی ہوئی بے جان مورتیوں کو‬
‫سجدہ کرتا ہے۔ اس کو یہ یقین ہوتا ہے کہ اس کے لئے ایک ہللا ہی کافی ہے۔‬
‫‪2‬۔عجزوانکساری‪ :‬عقیدہ توحید سے عجز و انکساری پیدا ہوتی ہے کیونکہ توحید پر یقین رکھنے واال‬
‫جانتا ہے کہ وہ ہللا کے سامنے بے بس ہے۔ اس کے پاس جو کچھ ہے سب اسی کا دیا ہوا ہے۔ جو ہللا‬
‫دینے پر قادر ہے وہ چھین لینے پر بھی قادر ہے۔ لہذا بندے کے لئے تکبر و غرور کی کوئی گنجائش‬
‫نہیں ہے۔ اسے تواضع ہی زیب دیتا ہے۔‬
‫‪ .3‬بے خوفی اور بہادری ‪ :‬عقیدہ توحید انسان کو بے خوف بنادیتا ہے اور اس عقیدہ کی وجہ‬
‫سے اسکے دل سے لوگوں کا خوف نکل جاتا ہے اور وہ استقامت اور بہادری کی تصویر بن جاتا ہے ۔‬
‫‪4‬۔وسعت نظری‪ :‬عقیدہ توحید کا قائل تنگ نظر اور تنگ دل نہیں ہوتا کیونکہ وہ اس رحمن و رحیم پر‬
‫ایمان رکھتا ہے جو کائنات کی ہر چیز کا خالق اور سب جہانوں کا پالنے واال ہے۔ اس کی رحمت سے‬

‫‪ 15 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫سب فیضیاب ہوتے ہیں۔ اس عقیدہ کے نتیجہ میں مومن کی ہمدردی‪ ،‬محبت اور خدمت عالمگیر ہوجاتی‬
‫ہے۔‬
‫‪5‬۔رجائیت(پر امید ہونا)‪ :‬کامیاب انسان کی زندگی بیم و رجاء یعنی خوف اور امید کے درمیان چلتی‬
‫ہے۔ عقیدہ توحید کا حامل شخص کسی حال میں مایوس نہیں ہوتا بلکہ دکھ اور سکھ دونوں کو ہللا کی‬
‫جانب سے سمجھ کر صبروشکر کا مظاہرہ کرتا ہے کیونکہ ہللا تبارک و تعالی کا حکم ہے‪:‬‬
‫َۃ‬
‫ِ للاا‬ ‫َّحم‬
‫ِن ر‬ ‫ُوا م‬ ‫َط‬ ‫تقن‬ ‫َال َ‬
‫ترجمہ‪ :‬ہللا کی رحمت سے مایوس نہ ہو۔‬
‫چنانچہ عقیدہ توحید رکھنے واال شخص مایوسی کو باالئے طاق رکھ کر ہللا کے دربار میں سجدہ‬
‫ریز ہوکر اپنی حاجت روائی کے لئے دعا کرتا ہے۔‬
‫‪6‬۔اطمینان قلب‪ :‬انسانوں کے دلوں کا سکون واطمینان ہللا کے ذکر ہی میں پوشیدہ ہے۔ جیسا کہ ہللا‬
‫تعالی کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫ُوب‬ ‫ُل‬
‫ّ الق‬ ‫َئُ‬
‫ن‬ ‫ِللاا تطم‬ ‫ِکر‬‫ِذ‬ ‫ََالب‬
‫ا‬
‫ترجمہ‪:‬خوب سمجھ لو کہ ہللا کے ذکر سے دلوں کو اطمینان ملتا ہے۔ (سورۃ الرعد‪)۲ ۸ :‬‬
‫عقیدہ توحید رکھنے واال شخص ہر وقت ذکر میں مشغول رہ کر اپنے دل کو مطمئن رکھتا ہے۔‬
‫‪7‬۔تہذیب نفس‪:‬انسانی نفس ہر حال میں تہذیب و تنقیح کا محتاج ہوتا ہے۔ عقیدہ توحید انسانی نفوس میں‬
‫سے غیر ہللا کے اثرات کو ختم کرکے انسان کی تہذیب میں اہم اور بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔‬
‫‪8‬۔ تقوی اور پرہیزگاری‪ :‬عقیدہ توحید سے انسان کے دل میں پرہیزگاری پیدا ہوتی ہے کیونکہ ہر‬
‫مومن کا عقیدہ ہے کہ ہللا تعالی تمام ظاہر و پوشیدہ باتوں کا جاننے واال ہے اگر بندہ چھپ کر کوئی جرم‬
‫کرلے تو ممکن ہے کہ لوگوں کی نگاہوں سے چھپ جائے مگر ہللا کی نظر سے نہیں چھپ سکتا‬
‫کیونک ہ وہ تو دلوں کے ارادوں کو بھی جانتا ہے۔ یہ ایمان انسان میں یہ جذبہ پیدا کرتا ہے کہ وہ خلوت و‬
‫جلوت میں کہیں بھی گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور ہمیشہ نیک اعمال بجا الئے۔اس تقوی کے سبب ہللا‬
‫تعالی اپنے فضل و کرم سے اس کے ہر کام میں آسانیاں پیدا فرماتے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬
‫ً‬
‫َجا‬ ‫مخر‬ ‫ہ َ‬‫َل َلُ‬ ‫يجع‬‫ِ للاا َ‬‫َّق‬
‫يت‬‫من َّ‬ ‫ََ‬‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور جو کوئی ہللا سے ڈرے گا‪ ،‬ہللا اس کے لئےمشکل سے نکلنے کا راستہ پیدا کردے گا۔‬
‫(سورۃ الطالق‪)۲:‬‬
‫‪9‬۔ہللا پر بھروسہ‪ :‬عقیدہ توحید کے نتیجہ میں مسلمان ہللا پر بھروسہ کرنے لگ جاتا ہے۔ اس کا ہر گز‬
‫یہ مطلب نہیں کہ انسان ہر قسم کی کوشش چھوڑ کر بیٹھ جائے بلکہ اچھے مقاصد کے لئے حتی المقدور‬
‫کوشش کرے اور نتیجہ کو ہللا پر چھوڑ دے۔‬
‫ُہ‬
‫ُ‬ ‫َسب‬ ‫َ ح‬ ‫ُو‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫َلی للاا فه‬‫َکل ع‬ ‫َّ‬ ‫َو‬
‫يت‬ ‫من َّ‬ ‫ََ‬
‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬جو ہللا پر بھروسہ رکھتا ہے تو وہی اس کے لئے کافی ہے۔(سورۃ الطالق‪)۳:‬‬
‫اجتماعی زندگی پر توحید کے اثرات‪:‬‬
‫انفرادی زندگی کی طرح عقیدہ توحید کے حامل معاشرہ پر بھی توحید کے گرانقدر اثرات مرتب‬
‫ہوتے ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪1‬۔ہللا کی حاکمیت‪ :‬جس معاشرہ میں رہنے والے عقیدہ توحیدپر یقین رکھتے ہوں وہاں ہللا تعالی کی‬
‫حاکمیت قائم ہوتی ہے ۔اسی کے حکم کردہ امور کو حق اور سچ قرار دیا جاتا ہے اور اسی کے منع کردہ‬
‫امور کو باطل سمجھ کر ترک کردیا جاتا ہے۔‬

‫‪ 16 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ُ اَّ‬
‫ِالِّٰلل‬ ‫ُکم‬ ‫ِنِ الح‬ ‫ا‬
‫ترجمہ‪ :‬حکم تو صرف ہللا ہی کا (چلتا)ہے۔(سورہ یوسف‪)۴ ۰ :‬‬
‫پیغام سالمتی ہے۔ ہللا تعالی‬
‫ِ‬ ‫‪2‬۔ عالمی امن و اتحاد‪:‬یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے کہ اسالم ِ‬
‫دین امن اور‬
‫کی وحدانیت کا اقرار کرنے والوں سے ایک ایسا معاشرہ وجود میں آتا ہے جو عالمی امن و سکون اور‬
‫ترقی کی ضمانت دیتا ہے۔ اسالم کا مطلب ہی سالمتی ہے۔ اسالم دراصل ہللا تعالی کی مکمل‬
‫فرمانبرداری کا نام ہے اور فرمانبرداری را ِہ امن کی طرف رہنمائی کرتی ہے۔‬
‫ت اسالمی اور وحدت کا درس دیا ہے۔ طلوعِ اسالم‬ ‫‪3‬۔ اخوت (بھائی چارگی)‪:‬اسالم نے ہمیشہ اخو ِ‬
‫سے پہلے عرب نفرتوں اور فرقہ وارانہ فساد میں گھرے ہوئے تھے۔ ذرا ذرا سی باتوں پر تلواریں بے‬
‫نیام ہوجاتی تھیں۔ یہ عقیدہ توحید ہی تھا جس کے سبب ان کے پتھر دل موم ہوگئے اور انہیں یہ بات‬
‫سمجھ آگئی کہ وہ سب ہللا کے بندے اور آپس میں بھائی بھائی ہیں۔ قرآن نے کہا‪:‬‬
‫ٌ‬
‫َة‬‫ِخو‬‫َ ا‬ ‫ُون‬‫ِن‬ ‫َا المؤم‬ ‫اَّ‬
‫ِنم‬
‫ترجمہ‪ :‬بے شک مومن (آپس میں) بھائی بھائی ہیں۔ (سورۃ الحجرات‪)۱ ۰ :‬‬
‫‪:‬عقیدہ توحید مسلمانوں کو ایک مشترکہ نظریہ کی وجہ سے ایک دوسرے کے‬ ‫‪4‬۔اتحاد کا فروغ‬
‫ساتھ منسلک کردیتا ہے ۔ اس طرح انسانوں کے باہمی اتحاد اور تعاون کی وجہ سے ایک مستحکم اور‬
‫پائیدار معاشرہ وجود میں آجاتا ہے جس میں تمام مسلمانوں کے باہمی اتحاد کو تقویت حاصل ہوتی ہے۔‬
‫‪.5‬پرامن معاشرہ ‪:‬عقیدہ توحید کی بنیاد پر ایک پُر امن معاشرہ قائم ہوتا ہے جس میں شامل تمام افراد‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ ہمدردی ‪ ،‬ایثار اور قربانی کے جذبات رکھتے ہیں ۔‬
‫تعالی اور اسکے رسول کے‬ ‫ٰ‬ ‫‪.6‬سماجی قوانین کا نفاذ ‪ :‬عقیدہ توحید کو ماننے والے مسلمان ہللا‬
‫بتائے ہوئے احکامات کی پیروی کرتے ہیں اور وہ ان تمام احکامات وقوانین کا دل سے احترام کرتے‬
‫ہیں جو قرآن اور حدیث میں بیان کیے گئے ہیں ۔‬
‫‪ .7‬شعور کا حصول ‪:‬عقیدہ توحید تمام مسلمانوں میں یہ شعور اجاگر کرتا ہے کہ ہللا تعال ٰی ان تمام‬
‫ظاہری اور پوشیدہ اعمال سے پوری طرح واقف ہے ۔ ہللا نہ صرف ان باتوں کو جانتا ہے جنہیں وہ‬
‫ظاہر کردیتے ہیں بلکہ ان باتوں سے بھی واقف ہے جو وہ چھپاتے ہیں اس لئے تمام انسان معاشرے میں‬
‫ایک متوازن زندگی گذارنے کی طرف راغب ہوجاتے ہیں ۔‬
‫‪.8‬انتشار اور تصادم کا خاتمہ ‪ :‬عقیدہ توحید کو ماننے کی وجہ سے معاشرے سے انتشار اور تصادم‬
‫کا خاتمہ ہوجاتا ہے کیونکہ یہ عقیدہ اپنے ماننے والوں کو پیار ‪ ،‬محبت اور ایثار کا درس دیتا ہے۔‬
‫‪.9‬تہذیبوں کا میل ‪ :‬عقیدہ توحید میں وہ طاقت ہے کہ وہ اس پوری دنیا جو مختلف تہذیبوں میں تقسیم‬
‫ہوچکی ہے یکجا کردے اور اس پوری دنیا کو امن کا گہوارہ بنادیتا ہے ۔ جب مختلف تہذیبوں سے تعلق‬
‫تعالی کی حاکمیت کو تسلیم کریں گے اور اپنے تمام اعمال کو ہللا تعال ٰی کے‬ ‫ٰ‬ ‫رکھنے والے افراد ہللا‬
‫احکامات کے تابع کردیں گے تو ان کی سوچ مشترک ہوجائے گی جس کی وجہ سے ان مختلف تہذیبوں‬
‫کے درمیان تعاون کی راہ ہموار ہوگی ۔‬
‫سوال نمبر ‪ :2‬عقیدہ رسالت کی وضاحت کرتے ہوئے انبیاء کی خصوصیات بیان کیجئے۔‬
‫”عقد“ سے نکال ہے جس کے معنی گرہ لگانے کے ہوتے ہیں۔‬ ‫عقیدہ‪ :‬عقیدہ عربی زبان کے لفظ‬
‫ان بنیادی نظریات اور خیاالت کا مجموعہ جنہیں زندگی گزارنے اور اعمال کی راہ منتخب کرنے کے‬
‫لئے پختہ طور پر قبول کرلیا گیا ہو ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔شرعی اصطالح میں عقیدہ وہ ہے جس کے ساتھ‬
‫دل کو باندہ دیا گیا ہو یعنی دل کی گہرائیوں سے کسی بات کا پختہ یقین رکھنا‪ ،‬دل و دماغ سے تسلیم‬
‫کرنا اور ہر لحاظ سے مطمئن ہونا ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔‬

‫‪ 17 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫تعالی کی طرف سے نیک اور برگزیدہ بندوں کو انسانوں کی‬ ‫ٰ‬ ‫رسالت‪ :‬رسالت ایک منصب ہے جو ہللا‬
‫الی کی‬
‫ہدایت کے لئے عطا کیا جاتا ہے اور اس منصب کے ہمراہ انسانوں کی رہنمائی کے لئے ہللا تع ٰ‬
‫طرف سے ایک کتاب بھی عطا کی جاتی ہے ۔‬
‫معنی " پیغام پہنچانا " اور رسول کے لغوی‬
‫ٰ‬ ‫معنی ‪:‬رسالت کے لفظی‬ ‫ٰ‬ ‫رسالت کے لفظی واصطالحی‬
‫معنی ہیں " پیغام دے کر بھیجا ہوا یعنی پیغام پہنچانے واال"‬ ‫ٰ‬
‫تعالی نے انسانوں تک اپنا پیغام پہنچانے کے‬
‫ٰ‬ ‫دین کی اصطالح میں رسول وہ شخص ہے جس کو ہللا‬
‫معنی "خبر دینے واال" ۔ رسول کو ہم‬‫ٰ‬ ‫لیے منتخب فرمایا ہو ۔ رسول کو نبی بھی کہتے ہیں ۔ جس کے‬
‫پیغمبر بھی کہتے ہیں ‪ ،‬یعنی " پیغام النے واال" ۔‬
‫رسالت ملنے سے پہلے بھی رسول کی زندگی اپنی قوم میں بہترین زندگی ہوتی ہے وہ پاکباز ‪ ،‬نرم‬
‫تعالی کا پیغام سناتے وقت کوئی اس کو بے اعتبار یا جھوٹا‬
‫ٰ‬ ‫ُخو ‪ ،‬نیک‪ ،‬سچا اور امانتدار ہوتا ہے تاکہ ہللا‬
‫نہ کہہ سے ۔‬
‫ہللا تعالی کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫َسُوال‬ ‫ِ َّ‬
‫أمۃ ر‬ ‫ّ‬ ‫ُ‬
‫ِی کل‬ ‫َثنا ف‬ ‫َ‬ ‫بع‬ ‫َلقد َ‬‫َ‬ ‫َ‬‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور ہم نے ہر امت میں رسول بھیجیے۔ (سورۃ النحل‪)۳۶ :‬‬
‫بعض روایتوں میں انبیاء اور رسولوں کی تعداد ایک الکھ چوبیس ہزار بتائی گئی ہے ۔ نبوت اور رسالت‬
‫کا یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر آکر ختم ہوگیا اور انہیں قیامت تک تمام انسانوں کے لئے ہادی اور رہبر‬
‫بناکر بھیج دیا گیا ۔ تمام انبیاء کرام کی نبوت پر بھی ایمان النا ہر مسلمان پر ضروری ہے ۔‬
‫نبی اور رسول میں فرق ‪:‬‬
‫ب شریعت نہیں ہوتے ۔ جبکہ رسول‬ ‫ب کتاب اور صاح ِ‬ ‫نبی اور رسول میں فرق یہ ہے کہ نبی صاح ِ‬
‫ب کتاب اور صاحب شریعت ہوتے ہیں ۔‬ ‫صاح ِ‬
‫تعالی نے بندوں کو ان کی طاقت کے مطابق انہیں ایسے کاموں کا‬‫ٰ‬ ‫رسالت کی ضرورت واہمیت ‪:‬ہللا‬
‫پابند کیا جن میں ان کی بہتری ہو اور ایسے کاموں سے روکا جن میں خود ان کا نقصان ہوتا کہ وہ‬
‫احکامات پر عمل پیرا ہوکر سعادت حاصل کریں معاشرہ کی اصالح ہو ۔ اس مقصد کے حصول کے‬
‫لئے کسی نہ کسی رسول کا بھیجنا الزمی ہے تاکہ وہ احکام شریعت کی تبلیغ کرے اور انہیں ان امور‬
‫کی پہچان کرائے جو ان کی اصالح وبہبود اور دنیا وآخرت کی سعادت کا سبب ہیں ۔ عقل انسانی ان تمام‬
‫چیزوں کا ادراک نہین کر سکتی جن میں ان کے لئے اچھائی اور سعادت مندی ہے ۔ لہذا حکمت کا‬
‫تعالی کسی نبی یا رسول کو بھیجے تا کہ وہ لوگوں کو شرعی احکام اور ان کے اصول‬ ‫ٰ‬ ‫تقاضا تھا کہ ہللا‬
‫وضوابط سے آگاہ کرے ۔‬
‫انبیاء کرام کی خصوصیات‬
‫انبیاء کرام کی بے شمار خصوصیات ہیں ان میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ۔‬
‫‪1‬۔ بشریت‪ِ :‬‬
‫انبیاء کرام علیہم السالم کی اہم ترین اور ّاولین خصوصیت بشریت ہے۔ ہللا تعالی نے انسانوں‬
‫کی ہدایت اور رہنمائی کے لئے جتنے بھی نبیوں اور رسولوں کو بھیجا وہ انسان تھے۔ کبھی کسی جن یا‬
‫فرشتہ کو نبی یا رسول بناکر نہیں بھیجا گیا۔ انبیاء کرام علیہم السالم اگرچہ انسان ہوتے ہیں مگر ہللا‬
‫نےانہیں ایس ے اوصاف سے نوازا ہوتا ہے جو دوسروں میں موجود نہیں ہوتے۔ انبیاء کرام علیہم السالم‬
‫کے حوالے سے بعض لوگوں کو یہ غلط فہمی تھی کہ کوئی پیغمبر انسان نہیں ہوسکتا۔ اس کے جواب‬
‫میں ہللا تعالی نے قرآن میں ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫‪ 18 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫”اگر زمیں میں فرشتے اطمینان سے چل پھر رہے ہوتے تو ہم ان کے لئے آسمان سے ضرور کوئی‬
‫فرشتہ رسول بناکر بھیجتے(لیکن چونکہ زمین میں انسان رہتے ہیں اس لئے انسانوں میں سے ہی رسول‬
‫بناکر بھیجے گئے)۔“(سورۃ بنی اسرائیل‪)۹ ۵ :‬‬
‫‪2‬۔معصومیت‪:‬انبیاء کرام کی ایک اور خصوصیت یہ تھی کہ تمام انبیاء ہر قسم کے صغیرہ اور کبیرہ‬
‫گناہوں سے پاک رہے۔ یہ انبیاء کی ہی خصوصیت ہے کہ نبوت سے پہلے اور نبوت کے بعد انبیاء کرام‬
‫سے کوئی گناہ سرزد نہیں ہوا۔ انبیاء کرام کے عالوہ کوئی معصوم نہیں ہے۔‬
‫‪3‬۔حسن اخالق‪ :‬انبیاء کا کام لوگوں کو خدا کا پیغام پہنچانا تھا۔ اگر کسی سے بداخالقی سے پیش آیا‬
‫جائے ت و بات ماننا تو دور کی بات وہ بات سننے کو بھی تیار نہیں ہوگا۔ یہ ہی وجہ ہے کہ تمام انبیاء‬
‫بہترین اخالق کے مالک تھے تاکہ لوگ ان کے قریب آئیں اور خدا کا پیغام سنیں۔‬
‫‪4‬۔وہبیت‪”:‬وہبیت“ کا مطلب ہے کہ نبوت و رسالت کو کوشش اور جدوجہد سے حاصل نہیں کیا جاسکتا‬
‫ہے بلکہ یہ تو خدا کا عطیہ ہوتا تھا جو صرف اسی کو ملتا تھا جسے ہللا تعالی دینا چاہتے تھے۔ اس میں‬
‫انسانی کوشش اور ارادے کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫يشَاء‬ ‫من َّ‬ ‫ِ َ‬‫ِيہ‬ ‫يؤت‬ ‫َضل‬
‫ُ للاا ُ‬ ‫ِکَ ف‬‫َال‬ ‫ذ‬
‫ترجمہ‪:‬یہ ہللا تعالی کا فضل ہے وہ جسے چاہتا ہے دے دیتا ہے۔(سورۃ الجمعۃ‪)۴:‬‬
‫‪5‬۔زہد و تقوی‪ :‬اگرچہ نبوت ایک کسبی(خود محنت کرکے حاصل کیا جانے واال) منصب نہیں ہے‬
‫لیکن تمام انبیاء کرام نبوت ملنے سے پہلے ہی نہایت برگزیدہ اور متقی اور پرہیزگار ہوتے ہیں۔ وہ عام‬
‫انسانوں کی بنسبت کہیں درجہ زیادہ ہللا تعالی کی عبادت اور بندگی کرتے ہیں۔ جیسے آپ ﷺ نبوت ملنے‬
‫سے پہلے غار حرا جاکر ہللا کی عبادت کیا کرتے تھے۔‬
‫قدر مشترک رہی کہ تمام انبیاء کا ایک ہی نعرہ اور ایک ہی دعوت‬ ‫‪6‬۔ دعوت الی ہللا‪:‬تمام انبیاء میں ِ‬
‫تھی کہ‪:‬‬
‫ِلہ اَّ‬
‫ِال للاا‬ ‫ُوُلوا َالاٰ‬ ‫ق‬
‫”کہہ دو ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں۔“‬
‫تمام انبیاء کی ایک ہی دعوت رہی کہ ایک ہللا کی عبادت کرو‪ ،‬اسی کے حضور سجدہ‬
‫ریز رہو‪ ،‬اسی میں تمہاری کامیابی پوشیدہ ہے۔‬
‫‪7‬۔بہترین رہنما‪:‬ہر نبی اپنی قوم کے لئے ایک مکمل اور بہترین رہنما کا کردار ادا کرتا ہے۔ تمام‬
‫انسانوں کی بنسبت ایک نبی میں کہیں زیادہ قائدانہ صالحیتیں ہوتی ہیں جن کو استعمال کرکے وہ اپنی‬
‫قوم کی اصالح کی بہترین کوشش کرتا ہے۔‬
‫‪8‬۔تعلیمات من جانب ہللا‪ :‬انبیاء و ُرسُل لوگوں کے سامنے جو تعلیمات پیش کرتے رہے وہ ان کی‬
‫اپنی طرف سے نہ تھیں بلکہ ہللا تعالی کی جانب سے ہوتی تھیں۔ انبیاء جو کچھ بھی کہتے تھے وہ وحی‬
‫حکم ٰالہی کے مطابق ہوتا تھا۔ ارشاد باری تعالی ہے کہ‪:‬‬
‫ِ‬ ‫اور‬
‫ٰی‬ ‫يوح‬ ‫َحیٌ ُّ‬‫ِال و‬‫َّ‬‫َ ا‬ ‫ُو‬ ‫ِن ھ‬ ‫ٰی۔ا‬ ‫َو‬
‫َنِ اله‬ ‫ُ ع‬‫ِق‬‫ينط‬ ‫ما َ‬ ‫ََ‬‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬وہ اپنی خواہش نفس سے کالم نہیں کرتے بلکہ وہ تو وہی کہتے ہیں جو ہللا کی طرف سے وحی‬
‫کیا جاتا ہے۔(سورۃ النجم‪۴:‬۔‪)۳‬‬
‫ب ایمان پر انبیاء کی اطاعت واجب ہوتی ہے کیونکہ انبیاء اپنی طرف سے‬ ‫‪9‬۔واجب االطاعت‪:‬ہر صاح ِ‬
‫کچھ نہیں کہتے بلکہ ہللا کے احکامات ہی لوگوں تک پہنچارہے ہوتے ہیں۔ ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ِذنِ للاا‬ ‫ِا‬‫َ ب‬‫َاع‬ ‫ُط‬ ‫لي‬ ‫َّسُول اَّ‬
‫ِال ِ‬ ‫ِن ر‬ ‫َا م‬ ‫َرسَلن‬ ‫ما ا‬ ‫ََ‬‫و‬

‫‪ 19 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ترجمہ‪ :‬اور ہم نے ہر رسول کو اس لئے بھیجا کہ ہللا کے حکم سے اس کی اطاعت کی جائے۔(سورۃ‬
‫النساء‪)۶ ۴ :‬‬
‫‪10‬۔ غلبہ دین کی کوشش‪:‬نبوت کااصل مقصد ”اعالئے کلمۃ ہللا“ رہا‪ ،‬یعنی اس بات کی کوشش کرنا‬
‫ادیان باطلہ پر غالب آجائے۔ اس بات کو قرآن‬
‫ِ‬ ‫کہ زمین پر ہللا کا قانون جاری ہوجائے اور ہللا کا دین تمام‬
‫ان الفاظ میں بیان کرتا ہے‪:‬‬
‫ّ‬
‫َلی الدينِ‬ ‫َ‬ ‫ُ ع‬‫َه‬‫ِر‬‫ُظه‬ ‫لي‬‫ّ ِ‬‫َق‬‫ِينِ الح‬ ‫َد‬‫ُدی و‬‫َ‬ ‫ِاله‬ ‫ُ ب‬ ‫َ‬
‫َسُولہ‬‫َ ر‬‫َرسَل‬‫ِی ا‬ ‫الذ‬ ‫َ َّ‬ ‫ُو‬‫ھ‬
‫ّ‬
‫کلہ‬‫ُ‬
‫ترجمہ‪ :‬وہی تو ہے جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا تاکہ اسے تمام ادیان پر‬
‫غالب کردے۔(سورۃ الصف‪)۹:‬‬

‫سوال نمبر ‪ :3‬رسالت محمدی کی خصوصیات بیان کریں ۔‬


‫رسالت محمدی کی خصوصیات‪:‬‬
‫حضرت محمد ﷺ کو ہللا تعالی نے دنیا میں آخری نبی اور رسول کی حیثیت سے منتخب کیا۔‬
‫سل کی تعلیمات کا نچوڑ پیش کیا۔اس طرح حضرت آدم علیہ السالم سے نبوت‬ ‫انہوں نے تمام انبیاء و ُر ُ‬
‫اور رسالت کا جو سلسلہ ہللا تعالی کی طرف سے شروع کیا گیا تھا وہ حضرت محمد ﷺ پر اپنی تکمیل‬
‫ورسُل کو جو کماالت علیحدہ علیحدہ عطا فرمائے تھے وہ تمام نبی‬ ‫کو پہنچ گیا۔ ہللا تعالی نے سابقہ انبیاء ُ‬
‫آخر الزمان حضرت محمد ﷺ کی ذات میں شامل کردئے۔ رسالت محمدی ﷺ بڑی نمایاں خصوصیات‬
‫رکھتی ہے۔ رسالت محمدی ﷺ کی نمایاں خصوصیات مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔عمومیت‪:‬حضور اکرم ﷺ سے پہلے جتنے بھی انبیاء آئے ان کی رسالت ان کی قوم اور زمانے تک‬
‫محدود رہی‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ ایک ہی وقت میں مختلف اقوام میں مختلف انبیاء موجود رہے لیکن‬
‫حضرت محمد مصطفی ﷺ کو عالمگیر رسالت سے نوازا گیا جو کسی وقت‪ ،‬زمانہ یا قوم تک محدود‬
‫نہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫َّ‬
‫ً لناسِ‬ ‫ّ‬ ‫َّ‬ ‫َ‬
‫ِال کافۃ‬ ‫َّ‬ ‫َ‬
‫ما ارسَلناکَ ا‬‫َ‬ ‫ََ‬‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور (اے پیغمبر) ہم نے تو آپ کو سارے ہی انسانوں کے واسطے رسول بناکر بھیجا ہے۔(سورۃ‬
‫السبا‪)۲ ۸ :‬‬
‫حضور اکرم ﷺ کی رسالت کی نمایاں خصوصیت یہ ہے کہ اس‬ ‫‪۲‬۔ سابقہ شریعتوں کی تنسیخ‪:‬‬
‫کے ذریعہ دنیا کے تمام انسانوں کو ایک ایسی شریعت عطاکی گئی جو ہر لحاظ سے جامع اور مکمل‬
‫ہے۔ اس نے پہلے آنے والے تمام انبیاء کی شریعتوں کو منسوخ کردیا۔ اب دنیا میں شریعت محمدی نافذ‬
‫ت محمدی کے عالوہ کسی اور‬ ‫العمل ہے۔ جس پر عمل کرکے ہم کامیابی حاصل کرسکتے ہیں۔ شریع ِ‬
‫طریقہ پر عمل کرکے کوئی شخص کامیابی حاصل کرنا چاہے تو یہ ناممکن ہے۔ اس بات کو قرآن یوں‬
‫بیان کرتا ہے‪:‬‬
‫َ م‬
‫ِنہ‬
‫ُ‬ ‫َل‬‫يقب‬ ‫َن ُّ‬ ‫َل‬‫ًف‬‫ِينا‬‫ِسَالم د‬ ‫َير‬
‫َاال‬ ‫ّغ‬
‫ِ غ‬ ‫ي بت‬ ‫من ّ‬ ‫ََ‬
‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور جو کوئی اسالم کے سوا کسی اور دین کو تالش کرے گا سو وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا‬
‫جائے گا۔(سورۃ آل عمران‪)۸ ۵ :‬‬

‫‪ 20 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۳‬۔ جامعیت‪:‬حضور ﷺ سے پہلے تمام انبیاء کی رسالت کسی خاص جگہ‪ ،‬خاص قوم اور مخصوص‬
‫دور کے لئے ہوتی تھی۔ نبی کریم ﷺ پر رسالت کا سلسلہ ختم کردیا گیا۔اس لئے یہ تاقیامت تمام جہانوں‬
‫اور انسانوں کے لئے رسول قرار پائے۔ حضور ﷺ کی تعلیمات اس قدر جامع اور مکمل ہیں کہ تاقیامت‬
‫انسان خواہ کسی بھی قوم یا دور سے تعلق رکھتے ہوں‪ ،‬تعلیمات نبوی ﷺ سے رہنمائی حاصل کرتے‬
‫رہیں گے۔‬
‫ہللا تعالی نے اپنے آخری رسول ﷺ پر قرآن مجید اتارا۔ اس سے پہلے اتاری‬ ‫ت کتاب‪:‬‬‫‪۴‬۔حفاظ ِ‬
‫جانے والی کتابیں ”توریت‪ ،‬زبور اور انجیل“ اپنی اصل حالت میں محفوظ نہیں رہی تھیں۔ لیکن قرآن‬
‫مجید چودہ سو سال گزرنے کے باوجود بھی اپنی اصل حالت میں موجود ہے۔ سابقہ آسمانی کتابوں میں‬
‫ردوبدل کیا گیا جب کہ قرآن مجید میں کسی قسم کے ردوبدل کی گنجائش نہیں۔ اس کا ایک حرف بھی‬
‫تبدیل نہیں کیا جاسکا۔ قرآن مجید کا اعجاز ہے کہ یہ کتابی صورت میں بھی محفوظ ہے اور الکھوں‬
‫حفاظ کے سینوں میں بھی محفوظ ہے۔قرآن کی اس طرح حفاظت کی وجہ یہ ہے کہ اس کی حفاظت کا‬
‫ذمہ خود ہللا نے لیا ہے‪ ،‬چنانچہ فرمایا‪:‬‬
‫ِظون‬‫ُ‬ ‫ٰف‬ ‫َ‬
‫ُ لح‬ ‫َ‬
‫ِنا لہ‬ ‫َّ‬‫َا‬‫َو‬ ‫ّ‬
‫نزلنا الذکر‬ ‫َ‬ ‫َّ‬ ‫ُ َ‬ ‫نحن‬ ‫ِنا َ‬ ‫اَّ‬
‫ترجمہ‪:‬بے شک یہ ذکر(قرآن) ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے محافظ ہیں (سورۃ الحجر‪)۹:‬‬
‫‪۵‬۔سنت نبوی ﷺ کی حفاظت‪ :‬ہللا تعالی کی طرف سے رسول اکرم ﷺ کی سنت کی حفاظت کا بھی‬
‫مکمل انتظام کیا گیا۔ ہر دور میں محدثین کرام کی ایسی جماعت موجود رہی جنہوں نے سنت نبوی ﷺ‬
‫کی حفاظت کے لئے اپنی زندگیاں وقف کردیں۔ چونکہ سنت رسول ﷺقرآن کی تفسیر ہے جو قیامت تک‬
‫آنے والے تمام انسانوں کے لئے ہدایت کا ذریعہ ہے۔ اسی لئے قدرت نے جس طرح قرآن مجید کی‬
‫حفاظت کا انتظام کیا اسی طرح سنت نبوی ﷺ کی حفاظت کا بھی زبردست انتظام کیا۔‬
‫‪۶‬۔تکمی ِل دین‪:‬جس دین کی ابتدا حضرت آدم ؑ سے ہوئی تھی اس کی تکمیل حضرت محمد ﷺ پر کی‬
‫دین کامل عطا کیا گیا جو تمام انسانیت کے لئے کافی و شافی‬ ‫گئی۔ آپ ﷺ کو ہللا تعالی کی جانب سے وہ ِ‬
‫ہے۔ اسی لئے اب کسی دوسرے دین کی کوئی ضرورت باقی نہیں رہی۔ ارشا ِد باری تعالی ہے کہ‪:‬‬
‫ُم‬
‫ُ‬ ‫ُ َلک‬‫ِيت‬‫َض‬‫َر‬
‫ِی و‬ ‫َت‬‫ِعم‬‫ُم ن‬ ‫َيک‬‫َل‬‫ُ ع‬ ‫َمت‬ ‫َتم‬ ‫َا‬‫ُم و‬ ‫ُک‬‫ِين‬ ‫ُم د‬ ‫ُ َلک‬ ‫َلت‬ ‫َکم‬ ‫َ ا‬‫َوم‬‫َلي‬ ‫ا‬
‫َ‬
‫ِينا‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِسالم د‬ ‫اال‬
‫ترجمہ‪ :‬آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا‪ ،‬تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور اسالم کو‬
‫بطور دین پسند کیا۔(سورۃ المائدہ‪)۳:‬‬
‫ِ‬ ‫تمہارے لئے‬
‫‪۷‬۔معراج‪:‬حضور اکرم ﷺ کو ہللا تبارک و تعالی نے عرش خداوندی پر طلب فرمایا اور آپ ﷺ سے ہم‬
‫کالم ہوئے۔ حضور ﷺ کے عالوہ کسی نبی کو معراج کی فضیلت سے نہیں نوازا گیا۔ اسی رات مومنوں‬
‫پر پانچ وقت کی نمازیں فرض کی گئیں۔ آپ ﷺ نے تمام انبیاء کی امامت فرمائی۔ اس وجہ سے آپ ﷺ کو‬
‫”امام االنبیاء“ بھی کہا جاتا ہے۔‬
‫‪۸‬۔رحمت اللعالمین‪:‬حضور ﷺ کی رسالت کی ایک نمایاں خصوصیت یہ بھی ہے کہ آپ ﷺ کو ہللا‬
‫تعالی نے کُل کائنات کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔آپ ﷺ نے دنیا کو ہللا کا پیغام پہنچا کر اس کو‬
‫عذاب سے بچایا۔ ایک ہللا کی عبادت اور اس سے محبت سکھائی۔ ایک ایسا نظام زندگی دیا جو انسانیت‬
‫کو امن و سالمتی کی طرف لے جاتا ہے اس طرح آپ ﷺ تمام جہانوں کے لیے ہللا کی رحمت ثابت‬
‫ہوئے۔ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ِين۔‬ ‫َ‬
‫َالم‬ ‫ّ‬
‫ً للع‬ ‫َۃ‬‫َحم‬ ‫َّ‬
‫ِال ر‬ ‫َ‬
‫ما أرسَلناکَ ا‬ ‫َ‬ ‫ََ‬
‫و‬

‫‪ 21 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ترجمہ‪ :‬اور نہیں بھیجا ہم نے آپ کو سوائے اس کے کہ آپ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔(االنبیاء‪۷ :‬‬
‫‪)۱۰‬‬
‫‪۹‬۔ مکمل ضابطہ حیات‪:‬رسول ﷺ نے جو تعلیمات مسلمانوں کو دیں وہ زندگی کے تمام پہلوؤں کا‬
‫احاطہ کئے ہوئے ہیں۔ جس میں عبادات‪ ،‬معامالت‪ ،‬اخالقیات‪ ،‬شادی‪ ،‬غمی غرض زندگی کے سارے‬
‫معامالت میں ان سے رہنمائی حاصل کی جاسکتی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫َۃ‬
‫ٌ‬ ‫ٌ ح‬
‫َسَن‬ ‫َة‬‫ُسو‬ ‫ِ للاا ا‬‫َسُول‬‫ِی ر‬ ‫ُم ف‬ ‫َ َلک‬‫َان‬‫َد ک‬ ‫َلق‬
‫ترجمہ‪ :‬بے شک تمہارے لئے رسول ہللا ﷺ (کی ذات)میں بہترین نمونہ (سیرت) ہے۔(سورۃ االحزاب‪۱ :‬‬
‫‪)۲‬‬
‫‪۱۰‬۔ختم نبوت‪ :‬آپ ﷺ کی ایک نمایاں خصوصیت ختم نبوت بھی ہے۔‬
‫آدم سے نبوت کا سلسلہ شروع ہوا اور تقریبا ایک الکھ‬ ‫ختم نبوت کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت ؑ‬
‫کرام اس دنیا میں تشریف الئے۔ نبوت کا یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر آکر ختم‬ ‫ؑ‬ ‫چوبیس ہزار انبیائے‬
‫ہوگیا اور پچھلی تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا گیا۔اب آپ ﷺ کے بعد کوئی نیا نبی اس دنیا میں نہیں‬
‫آئے گا۔ ختم نبوت کا واضح اعالن قرآن میں ان الفاظ کے ساتھ کیا گیا‪:‬‬
‫ِيين۔‬ ‫ّب‬ ‫َ الن‬ ‫َاَ‬
‫تم‬ ‫َخ‬‫َ للاا و‬
‫َّسُول‬‫ِن ر‬ ‫َلک‬ ‫ُم و‬ ‫لک‬‫َاِ‬‫ّج‬‫من ر‬ ‫َد ّ‬ ‫َح‬‫با أ‬ ‫ََ‬
‫د أ‬‫ٌَّ‬
‫َم‬ ‫مح‬‫َ ُ‬‫َان‬‫ماک‬‫َ‬
‫ترجمہ‪ :‬محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ ہللا کے رسول اور آخری نبی‬
‫ہیں۔(االحزاب‪)۴ ۰ :‬‬
‫ختم نبوت پر تفصیلی نوٹ تحریر کریں۔‬ ‫سوال نمبر‪ِ :۵‬‬
‫ختم نبوت‪ :‬عربی میں ختم کے معنی ہیں ”مہر لگانا یا بند کرنا“۔‬
‫آدم سے نبوت کا سلسلہ شروع ہوا اور تقریبا ایک الکھ‬ ‫ختم نبوت کا مفہوم یہ ہے کہ حضرت ؑ‬
‫کرام اس دنیا میں تشریف الئے۔ نبوت کا یہ سلسلہ حضرت محمد ﷺ پر آکر ختم‬ ‫ؑ‬ ‫چوبیس ہزار انبیائے‬
‫ہوگیا اور پچھلی تمام شریعتوں کو منسوخ کردیا گیا۔‬
‫عقیدہ ختم نبوت یہ ثابت کرتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ ہللا تعالی کی طرف سے انسانوں کی‬
‫رہنمائی کے لئے بھیجے گئے انبیاء میں آخری نبی ہیں۔ حضرت محمد ﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے‬
‫گا۔ حضرت محمد ﷺ کے وسیلہ سے تمام انسانوں کو ایک جامع اور ہمیشہ رہنے والی کتاب قرآن مجید‬
‫مہیا کردی گئی ہے جس میں تمام شریعتوں کا خالصہ موجود ہے۔ اس کے بعد انسانوں کو کسی اور‬
‫رہبر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔‬
‫عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت‪ :‬عقیدہ ختم نبوت کی اہمیت کا اندازہ ان باتوں سے بخوبی لگایا جاسکتا‬
‫ہے‪:‬‬
‫‪۱‬۔قرآن مجید کی ایک سو آیات کریمہ میں اس کا ذکر کیا گیا ہے۔‬
‫‪۲‬۔‪ 210‬متواتر احادیث میں عقیدہ ختم نبوت کو بیان کیا گیا ہے۔‬
‫‪۳‬۔ صحابہ کا سب سے پہال اتفاق مسیلمہ کذاب (نبوت کے جھوٹے دعویدار) کے خالف جہاد کے‬
‫حوالے سے ہوا۔‬
‫‪۴‬۔ آپﷺ کے ساتھ جہاد میں شریک ہوکر‪ ۲۵ ۹‬صحابہ نے اپنی جانیں قربان کیں۔ جب کہ مسیلمہ‬
‫کذاب کے خالف لڑتے ہوئے ‪ ۱۲۰۰‬مسلمان شہید ہوئے۔‬
‫عقیدہ ختم نبوت قرآن کی روشنی میں‪:‬‬

‫‪ 22 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ویسے تو قرآن میں ایک سو آیات میں ختم نبوت کے مسئلہ کو ذکر کیا گیا ہے‪ ،‬لیکن یہاں صرف‬
‫تین آیات کو ذکر کیا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪۱‬۔قرآن میں واضح طور پر آپ ﷺ کی ختم نبوت کا ذکر کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشادِباری تعالی‬
‫ہے‪:‬‬
‫ِيين۔‬ ‫ّ‬
‫َ النب‬ ‫َ‬
‫َخاتم‬‫َ‬ ‫َ‬
‫َّسُول للاا و‬‫ِن ر‬ ‫َلک‬ ‫لکم و‬ ‫ُ‬ ‫ّج‬
‫َاِ‬ ‫من ر‬ ‫َد ّ‬ ‫َ‬
‫با أح‬ ‫َ‬
‫َّد أَ‬‫ٌ‬ ‫َم‬
‫مح‬ ‫َ‬
‫ماکان ُ‬‫َ‬ ‫َ‬
‫ترجمہ‪ :‬محمد ﷺ تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں ہیں بلکہ وہ ہللا کے رسول اور آخری نبی‬
‫ہیں۔(االحزاب‪)۴ ۰ :‬‬
‫‪۲‬۔ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ِيعا‬ ‫َم‬‫ُم ج‬ ‫َ‬
‫ِليک‬‫ُ للاا ا‬ ‫َسُول‬‫ِنی ر‬ ‫ّ‬‫َّاسُ ا‬‫َا الن‬ ‫ُل ي ُّ‬
‫ٰايه‬ ‫ق‬
‫ترجمہ‪ :‬فرمادیجئے کہ اے لوگو! میں تم سب کی طرف ہللا کا رسول بن کر آیا ہوں۔(سورۃ االعراف‪۵۸ :‬‬
‫‪)۱‬‬
‫اس آیت میں واضح طور پر اعالن کیاگیا ہے کہ آپ ﷺ تمام انسانوں کی طرف رسول بناکر‬
‫بھیجے گئے ہیں۔اس آیت سے واضح ہوتا ہے کہ آپ ﷺ قیامت تک کے انسانوں کے لئے رسول بنا کر‬
‫بھیجے گئے ہیں۔ بالفرض اگر حضور ﷺ کے بعدکوئی اور رسول آئے تو آپ ﷺ تمام انسانوں کے رسول‬
‫نہیں کہالئیں گے۔‬
‫‪۳‬۔ہللا تعالی نے اپنے کالم میں دین کی تکمیل کا اعالن ان الفاظ میں کیا ہے‪:‬‬
‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ِيت لکم‬ ‫ُ‬ ‫َض‬‫َر‬
‫ِی و‬ ‫َت‬‫ِعم‬ ‫ُم ن‬ ‫َيک‬ ‫َل‬‫ُ ع‬ ‫َمت‬ ‫َتم‬ ‫ُم و‬
‫َا‬ ‫َک‬‫ِين‬‫ُم د‬‫ُ َلک‬‫َلت‬ ‫َکم‬ ‫َ ا‬‫َوم‬ ‫َلي‬ ‫ا‬
‫َا(سورۃ المائدہ‪)۳:‬‬ ‫ِين‬‫َ د‬‫ِسَالم‬
‫اال‬
‫ترجمہ‪ :‬آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کردیا‪ ،‬اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور اسالم کو‬
‫بطور دین پسند کیا۔‬
‫ِ‬ ‫تمہارے لئے‬
‫یوں تو ہر نبی اپنے اپنے زمانہ کے مطابق دینی احکام التے رہے مگر آنحضرت ؤ کی تشریف‬
‫آوری سے پہلے زمانہ کے حاالت اور تقاضے بدلتے رہتے تھے‪ ،‬اس لئے تمام نبی اپنے بعد آنے والے‬
‫نبی کی خوشخبری دیتے رہے‪ ،‬یہاں تک کہ آپ ﷺ مبعوث ہوئے تو وحی کے نزول کے اختتام پر ہللا‬
‫نے واضح طور سے دین کی تکمیل کا اعالن کردیا۔ لہذا دین کے مکمل ہونے کے بعد نہ تو کوئی نیا نبی‬
‫آسکتا ہے اور نہ ہی وحی کا سلسلہ جاری رہ سکتا ہے۔‬
‫عقیدہ ختم نبوت احادیث کی روشنی میں‪:‬‬
‫ویسے تو سینکڑوں احادیث میں عقیدہ ختم نبوت کا ذکر کیا گیا ہے لیکن ہم یہاں صرف تین کے‬
‫ذکر پر اکتفا کریں گے۔‬
‫‪۱‬۔رسول ہللا ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ”:‬پہلے انبیاء کو خاص ان کی قوم کی طرف مبعوث کیا جاتا تھااور مجھے تمام انسانوں کی طرف‬
‫مبعوث کیا گیا۔“( ٰ‬
‫مشکوۃ)‬
‫‪۲‬۔حضرت ثوبان رضی ہللا تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ”:‬میری امت میں تیس جھوٹے پیدا ہوں گے۔ ہر ایک یہی کہے گا کہ میں نبی ہوں حاالنکہ میں‬
‫خاتم النبیین ہوں‪ ،‬میرے بعد کسی قسم کا کوئی نبی نہیں۔“(جامع الترمذی)‬
‫‪۳‬۔حضرت ابوہریرہ رضی ہللا تعالی عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ”:‬میری اور مجھ سے پہلے انبیاء کی مثال ایسی ہے کہ ایک شخص نے بہت ہی حسین و جمیل‬
‫محل بنایا مگر اس کے کسی کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوڑ دی‪ ،‬لوگ اس کے گرد گھومنے اور‬
‫‪ 23 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫اس پر عش عش کرنے لگے اور یہ کہنے لگے کہ یہ ایک اینٹ کیوں نہ لگادی گئی؟ آپ ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫میں وہی (کونے کی آخری) اینٹ ہوں اور میں نببیوں کے سلسلہ کو ختم کرنے واال ہوں۔“(صحیح مسلم)‬
‫حرف آخر‪ :‬مذکورہ باال آیات و احادیث سے یہ واضح ہوتا ہے کہ حضرت محمد ﷺ ہللا کے بندے اور‬ ‫ِ‬
‫اس کے آخری رسول ہیں۔ آپ ﷺ کو ہللا تعالی نے قیامت تک آنے والے تمام انسانوں کی طرف رسول بنا‬
‫کر بھیجا ہے۔لہذا آپ ﷺ کے بعد کسی اور کی نبوت کا اقرار کرنا ایک مسلمان کو اسالم سے کفر میں‬
‫لے جاتا ہے۔‬
‫سوال نمبر ‪ :۶‬عقیدہ آخرت کی وضاحت کیجئے اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات بیان‬
‫کیجئے۔‬
‫”عقد“ سے نکال ہے جس کے معنی گرہ لگانے کے ہوتے ہیں۔‬ ‫عقیدہ‪ :‬عقیدہ عربی زبان کے لفظ‬
‫ان بنیادی نظریات اور خیاالت کا مجموعہ جنہیں زندگی گزارنے اور اعمال کی راہ منتخب کرنے کے‬
‫لئے پختہ طور پر قبول کرلیا گیا ہو ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔شرعی اصطالح میں عقیدہ وہ ہے جس کے ساتھ‬
‫دل کو باندہ دیا گیا ہو یعن ی دل کی گہرائیوں سے کسی بات کا پختہ یقین رکھنا‪ ،‬دل و دماغ سے تسلیم‬
‫کرنا اور ہر لحاظ سے مطمئن ہونا ”عقیدہ“ کہالتا ہے۔‬
‫تعالی کے انصاف اور دنیا میں‬
‫ٰ‬ ‫عقیدہ آخرت ‪:‬اسالم کا وہ عقیدہ جو موت کے بعد کی زندگی اور ہللا‬
‫کیے گئے اعمال کی بنیاد پر سزا اور جزا کے تصور کی وضاحت کرتا ہے "عقیدہ آخرت " کہالتا ہے‬
‫۔ اسالمی عقائد میں عقیدہ آخرت کو ایک اہم مقام حاصل ہے ۔ قرآن کریم میں اکثر مقامات پر عقیدہ توحید‬
‫کے ساتھ ساتھ عقیدہ آخرت پر ایمان النے کا حکم دیا گیا ہے ۔‬
‫معنی‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫آ خرت کے لغوی‬
‫معنی" بعد میں ہونے والی چیز یا واقعہ"کے ہیں۔آ خرت کا لفظ دنیا کا متضاد‬ ‫ٰ‬ ‫لفظ آ خرت کے‬
‫ہے۔ جس کے معنی ہیں ”قریب کی چیز“۔‬
‫معنی ‪ :‬اصطالحی طور پر عقیدہ آخرت کا مفہوم یہ ہے کہ انسان مرنے کے بعد ہمیشہ‬ ‫ٰ‬ ‫اصطالحی‬
‫عالی اُس‬
‫کے لئے فنا نہیں ہوجاتا بلکہ اس کی روح باقی رہتی ہے اور ایک وقت ایسا آئے گا جب ہللا ت ٰ‬
‫کی روح کو اس کے جسم میں منتقل کر کے اسے دوبارہ زندہ کردے گا اور پھر انسان کو اس کے نیک‬
‫وبد اعمال کا حقیقی بدلہ دیا جائے گا ۔‬
‫عقید ٔہ آ خرت سے مرادیہ ہے کہ " ایک دن یہ دنیا فنا ہوجائے گی لیکن انسان مرنے کے بعد ہمیشہ‬
‫ہمیشہ کے لئے فنا نہیں ہوتا اس کی روح باقی رہتی ہے اور دنیا فنا ہوجانے پر اس کو دوبارہ زندہ کیا‬
‫جائے گا ‪ ،‬قیامت قائم ہوگی اور ان کے اعمال کا حساب کتاب ہوگا او ر نیک عمل کرنے والوں کا ٹھکانہ‬
‫جنت اور برے اعمال کرنے والوں کا ٹھکانہ جہنم ہے "۔‬
‫آخرت پر ایمان النے کا مطلب‪:‬آخرت پر ایمان النے کا مطلب یہ ہے کہ مندرجہ ذیل باتوں کو دل‬
‫سے تسلیم کیا جائے‪:‬‬
‫‪۱‬۔ انسان کی پیدائش کا ایک خاص مقصد ہے۔ وہ ایک ذمہ دار ہستی ہے۔ اس کے پیدا کرنے والے‬
‫نے اسے زندگی گزارنے کا ایک مکمل ہدایت نامہ دے کر پیدا کیا ہے اس کے مطابق عمل کرنا ہی‬
‫نیکی ہے۔ اسے چھوڑ کر اپنی پسند کے طریقہ کو اختیار کرنا گمراہی ہے۔‬
‫‪۲‬۔ انسان کی زندگی موت کے ساتھ ہی ختم نہیں ہوجاتی بلکہ اس کے بعد اسے نئی زندگی دی جائے‬
‫گی۔ اس دنیا میں وہ جو کچھ کرتا ہے اس کی جزا اور سزا اسے اگلی زندگی میں ملے گی۔‬

‫‪ 24 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۳‬۔قیامت کے دن وہ تمام جاندار جو دنیا کی ابتدا سے آج تک پیدا ہوکر مرچکے ہیں اور قیامت کے‬
‫آنے تک پیدا ہوکر مرنے والے ہیں دوبارہ جسم و جان کے ساتھ زندہ ہوکر اٹھیں گے‪ ،‬اسے حشر کہتے‬
‫ہیں۔‬
‫‪ ۴‬۔حشر کے بعد سب کو ہللا کی عدالت میں پیش کیا جائے گا اور وہاں اس دنیا کے مطابق فیصلہ کیا‬
‫جائے گا۔ جس نے ایمان اور اعمال والی زندگی بسر کی ہوگی وہ جنت میں جائے گا اور جس نے‬
‫گناہوں میں زندگی بسر کی ہوگی وہ جہنم میں جائے گا۔‬
‫‪۵‬۔ اس حساب و کتاب کے بعد جو زندگی شروع ہوگی وہ کبھی ختم نہیں ہوگی۔ اس زندگی کا نام‬
‫آخرت ہے اور اسالم اسی آخرت پر ایمان کا مطالبہ کرتا ہے۔‬
‫عقیدہ آخرت قرآن کی روشنی میں‪ :‬قرآن مجید میں آخرت کا بیان اتنی جگہ اور اتنی آیات میں ہوا‬
‫ہے کہ مجموعی طور پر یہ توحید و رسالت کے بیان سے بھی زیادہ بنتا ہے۔ اس سے اندازہ لگایا‬
‫جاسکتا ہے کہ قرآن مجید میں آخرت کی اہمیت پر کس قدر زور دیا گیا ہے۔آخرت کے متعلق چند آیات‬
‫درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪ ۱‬۔ہللا نے قرآن میں اجر عظیم کا وعدہ ان لوگوں سے کیا ہے جو آخرت پر بھی یقین رکھتے ہیں۔‬
‫ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ِم‬‫به‬‫َّ‬ ‫َ‬
‫ِند ر‬ ‫ُم ع‬ ‫ُھ‬ ‫َ‬
‫ُم اجر‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫َا فله‬ ‫لح‬‫َاِ‬ ‫ِل ص‬ ‫َ‬ ‫َم‬
‫َع‬‫ِو‬‫ِ االٰخِر‬ ‫َوم‬‫َالي‬ ‫ِاہلل و‬‫َ ب‬ ‫من‬‫َٰ‬‫من ا‬ ‫َ‬
‫ترجمہ‪ :‬جو ایمان الئے ہللا پر اور آخرت کے دن پر اور نیک کام کئے‪ ،‬پس ان کے لئے ان کے رب کے‬
‫پاس اجر ہے۔(سورۃ البقرۃ‪)۶ ۲ :‬‬
‫‪۲‬۔ ہللا تعالی نے متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے یہ بھی ذکر کیا ہے کہ وہ آخرت کے دن پر یقین‬
‫رکھتے ہیں۔ ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ُون‬ ‫ِن‬‫يو ق‬ ‫ُم ُ‬ ‫ِ ھ‬‫َة‬‫ِاالٰخِر‬‫َب‬‫و‬
‫ترجمہ‪(”:‬متقی وہ ہیں) جو آخرت پر یقین رکھتے ہیں۔“(سورۃ البقرۃ‪)۴:‬‬
‫‪۳‬۔ ہللا تعالی نے آخرت کی زندگی کو اصل زندگی قرار دیتے ہوئے فرمایا‪:‬‬
‫َان‬ ‫َو‬‫َي‬‫ِیَ الح‬ ‫َ َله‬ ‫َة‬ ‫َ اآلخِر‬ ‫َّ‬
‫الدار‬ ‫َّ‬
‫ِن‬ ‫َا‬
‫و‬
‫ترجمہ‪ ”:‬اور حقیقت یہ ہے کہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی اصل زندگی ہے۔“(سورۃ العنکبوت‪)۶ ۴ :‬‬
‫عقیدہ آخرت احادیث کی روشنی میں‪:‬سروردوعالم حضرت محمد ﷺ نے آخرت کے عقیدے کی‬
‫اہمیت پر بہت زور دیا ہے اور دنیا اور آخرت کی حقیقتوں کو مختلف انداز میں بیان فرمایا ہے تاکہ دنیا‬
‫اور آخرت کی زندگی کا فرق کرکے انسان آخرت کی زندگی کو بنانے کی فکر میں مگن ہوجائے۔‬
‫‪۱‬۔دنیا اور آخرت کے تعلق کو آپ ﷺ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے‪:‬‬
‫َة‬‫ُ اآلخِر‬ ‫َۃ‬‫َع‬ ‫مزر‬ ‫َا َ‬ ‫لدني‬‫َ ُّ‬‫ا‬
‫ترجمہ‪ :‬دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔‬

‫‪۲‬۔ آخرت میں کامیاب لوگوں کی حالت کو آپ ﷺ نے ان الفاظ میں بیان کیا ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪ :‬جو لوگ (آخرت میں کامیاب ہوکر) جنت میں جائیں گے وہ ہمیشہ خوشحال رہیں گے۔‬
‫یوم آخرت کے حساب کی سختی کو ان الفاظ میں بیان فرمایا‪:‬‬ ‫‪ .3‬آخرت کی فکر پیدا کرنے کے لئے ِ‬
‫( مسلم )‬ ‫" من نوقش الحساب ھلک "‬
‫" جس سے حساب لیا گیا وہ ہالک ہوا " ۔‬
‫‪ . 4‬بندہ مومن اور کافر کے لئے دنیا کے فرق کو ان الفاظ میں بیان فرمایا‪:‬‬
‫‪ 25 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫( مسلم )‬ ‫" الدنيا سجن المؤمن وجنة الكافر " ‪.‬‬
‫" دنیا مومن کے لئے قید خانہ اور کافر کے لئے جنت ہے"‬
‫مندرجہ باال آیات واحادیث سے آخرت کی اہمیت واضح ہوتی ہے اور یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس‬
‫دنیا میں انسان کو اس لئے بھیجا گیا ہے کہ وہ آخرت کی تیاری کرے اور اس دنیا میں ایک مسافر کی‬
‫طرح زندگی بسر کرے کی ونکہ یہ دنیا فانی ہے اور آخرت کی زندگی الفانی ہے ۔‬
‫انفرادی زندگی پر عقیدہ آخرت کے اثرات‪:‬‬
‫عقیدہ آخرت انسان کی عملی زندگی میں دیرپا انقالب برپا کرتا ہے اور انسان کی زندگی پر درج‬
‫ذیل اثرات مرتب کرتا ہے۔‬
‫‪)1‬سوچ میں مثبت تبدیلی‪ :‬جو شخص آخرت پر ایمان رکھتا ہے اس کی نظر اپنے اعمال کے صرف‬
‫ان ہی نتائج پر نہیں ہوتی جو اس زندگی میں ظاہر ہوتے ہیں بلکہ وہ ان نتائج پر بھی نظر رکھتا ہے جو‬
‫آخرت کی زندگی میں ظاہر ہوں گے۔ اسے جس طرح زہر کے بارے میں ہالک کرنے اور آگ کے‬
‫بارے میں جالنے کا یقین ہوتا ہے اسی طرح یہ بھی یقین ہوتا ہے کہ گناہ انسان کو ہالک کردیتا ہے۔ اور‬
‫وہ جس طرح غذا اور پانی کو اپنے لئے فائدہ مند سمجھتا ہے اسی طرح نیک اعمال کو بھی اپنے لئے‬
‫نجات اور فالح کا ذریعہ سمجھتا ہے۔‬
‫‪)2‬دنیا کی محبت سے نجات‪:‬انسان کا اصلی گھر آخرت ہے لیکن بدقسمتی سے آج انسان دنیا کو ہی‬
‫سب کچھ سمجھ بیٹھا ہے جو کہ ہر برائی کی جڑ ہے۔ جیسا کہ ارشادِنبوی ہے‪:‬‬
‫َۃ‬
‫ِيئ‬ ‫َط‬‫ّ خ‬‫ُل‬‫َاسُ ک‬ ‫َا ر‬ ‫لدني‬‫ُّ ا ُّ‬
‫ُب‬‫ح‬
‫ترجمہ‪”:‬دنیا کی محبت ہر برائی کی جڑ ہے۔“‬
‫عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے سے انسان کے دل سے دنیا کی محبت کا خاتمہ ہوتا ہے اور اسے‬
‫دنیا کی محبت سے مکمل نجات مل جاتی ہے۔‬
‫‪)3‬اعما ِل صالحہ کی رغبت‪:‬اعما ِل صالحہ سے مراد ہے نیک اعمال‪ ،‬یعنی وہ اعمال جو ہللا اور اس‬
‫کے رسول ﷺ کے نزدیک پسندیدہ ہیں۔ عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے سے انسان کے دل میں نیکی کی‬
‫رغبت اور بدی کی نفرت پیدا ہوتی ہے اور انسان وہی اعمال اختیار کرتا ہے جو آخرت میں اس کی‬
‫نجات کا سبب بنیں۔ ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ِم‬‫به‬‫َّ‬
‫د ر‬ ‫ِنَ‬ ‫ُم ع‬‫ُھ‬‫َجر‬ ‫ُم ا‬‫َه‬‫َل‬‫ً ف‬‫ِحا‬ ‫َال‬ ‫َ ص‬ ‫َم‬
‫ِل‬ ‫َع‬‫ِو‬‫ِ االٰخِر‬
‫َوم‬ ‫َالي‬ ‫ِاہلل و‬ ‫َ ب‬‫من‬‫َٰ‬
‫من ا‬ ‫َ‬
‫ترجمہ‪ :‬جو ایمان الئے ہللا پر اور آخرت کے دن پر اور نیک کام کئے‪ ،‬پس ان کے لئے ان کے رب کے‬
‫پاس اجر ہے۔(سورۃ البقرۃ‪)۶ ۲ :‬‬
‫‪)4‬بہادری اور سرفروشی‪:‬ہمیشہ کے لئے مٹ جانے کا ڈر انسان کو بزدل بنادیتا ہے۔ مگر جب دل‬
‫میں یہ یقین پیدا ہو کہ اس دنیا کی زندگی چند روزہ ہے‪ ،‬پائیدار اور دائمی زندگی آخرت کی ہے تو‬
‫انسان بہادر ہوجاتا ہے۔ حتی کہ وہ ہللا کی راہ میں جان قربان کرنے سے بھی نہیں کتراتا۔‬
‫احساس ذمہ داری‪ :‬عقیدہ آخرت کی وجہ سے ایک انسان کے دل میں نیک اعمال کرنے کا شوق‬ ‫ِ‬ ‫‪)5‬‬
‫پیدا ہوتا ہے۔ وہ اپنی زندگی اور اعمال کا جائزہ لیتا ہے اور نیک اعمال کرتا ہے اور بُرے اعمال سے‬
‫بچتا ہے۔ نیک اعمال کی راہ پر چلنے کی وجہ سے وہ اپنے تمام معاشرتی فرائض کو پورا کرتا ہے اور‬
‫احساس ذمہ داری پیدا‬
‫ِ‬ ‫ہللا کی عبادت کرتا ہے۔ اس طرح آخرت پر ایمان رکھنے سے ایک انسان میں‬
‫ہوجاتا ہے کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اپنے فرائض میں کوتاہی کرنا جرم ہے جس پر آخرت میں سزا ملے‬
‫گی لہذا اپنے فرائض ادا کئے جائیں۔ آہستہ آہستہ یہ احساس اس قدر پختہ ہوجاتا ہے کہ انسان اپنا ہر‬

‫‪ 26 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫فرض پوری دیانت داری سے انجام دیتا ہے چاہے اس فرض کا تعلق بندوں کے حقوق سے ہو یا پھر ہللا‬
‫تعالی کے حقوق سے ہو۔‬
‫‪)6‬صبروتحمل‪ :‬عقیدہ آخرت انسان کو یہ یقین دالتا ہے کہ اسے آخرت میں ہللا تعالی کی طرف سے‬
‫انصاف ضرور ملے گا اس لئے اگر دنیا میں اس کے ساتھ کسی طرح کا ظلم ہوتا ہے تو بھی وہ مایوس‬
‫نہیں ہوتا بلکہ ہللا تعالی کے حقیقی انصاف پر پورا یقین رکھتا ہے اور صبروتحمل سے کام لیتا ہے‬
‫کیونکہ وہ جانتا ہے کہ حق کی خاطر جو بھی تکلیف برداشت کی جائے گی اس کا اجر ہللا تعالی کی‬
‫طرف سے آخرت میں ملے گا۔ لہٰ ذا اپنی آخرت پر نظر رکھتے ہوئے ایک مسلمان ہر مصیبت کا‬
‫صبروتحمل سے مقابلہ کرتا ہے۔‬
‫خوف خدا‪ :‬چونکہ عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے سے احساس جوابدہی پیدا ہوجاتا ہے اس لئے نتیجتا‬ ‫ِ‬ ‫‪)7‬‬
‫دل میں ہللا کا خوف پیدا ہو جاتا ہے اور انسان ہر عمل کو انجام دینے سے پہلے اچھی طرح سوچتا ہے‬
‫اور برے عمل سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔‬
‫‪ )8‬عجزوانکساری‪ :‬عقیدہ آخرت پر یقین رکھنے واال شخص جانتا ہے کہ اس نے ہللا کے حضور پیش‬
‫ہونا ہے چنانچہ وہ تکبر جیسی بیماری سے محفوظ رہتا ہے اور انکساری اور تواضع اختیار کرتا ہے۔‬
‫جس کے نتیجہ میں ہللا تعالی اسے بلند مقام عطا فرماتے ہیں۔ ایک حدیث میں آتا ہے کہ‪:‬‬
‫َہ‬
‫ُ للاا‬ ‫َع‬
‫َف‬ ‫َ ِّٰ‬
‫ّٰلل ر‬ ‫َع‬
‫َاض‬ ‫من َ‬
‫تو‬ ‫َ‬
‫ترجمہ‪ ” :‬جو ہللا کے لئے تواضع (عاجزی) اختیار کرتا ہے ہللا اسے بلند کردیتے ہیں۔“‬
‫اجتماعی زندگی پر عقیدہ آخرت کے اثرات‪:‬‬
‫عقیدہ آخرت کے اجتماعی زندگی پر بہت گہرے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس عقیدہ کی وجہ سے‬
‫انسانوں کے باہمی تعلقات کو بہتر بنایا جاسکتا ہے۔‬
‫‪)1‬معیشت کا استحکام‪ :‬عقیدہ آخرت پر کامل ایمان معاشرے کے دولت مند افراد میں سخاوت جیسی‬
‫صفت پیدا کرتا ہے اور پھر یہ افراد اپنی دولت ہللا تعالی کی خوشنودی کے حصول کے لئے معاشرے‬
‫کی فالح‪ ،‬نیک کاموں اور نادار لوگوں کی امداد کے لئے خرچ کرتے ہیں جس کی وجہ سے دولت چند‬
‫ہاتھوں میں سمٹ کر نہیں رہتی بلکہ دولت کا بہاؤ (‪ )Circulation of Wealth‬جاری رہتا ہے۔ جس‬
‫سے معاشرے کی معیشت مستحکم ہوتی ہے۔‬
‫‪ )2‬طبقاتی تقسیم کا خاتمہ‪:‬ایک معاشرے کے تمام لوگ اگر عقیدہ آخرت پر کامل یقین رکھتے ہوں‬
‫تو وہ اپنے فرائض پوری دیانت داری سے سرانجام دیتے ہیں۔ تمام لوگ نہ صرف ہللا کے حقوق پورے‬
‫کرتے ہیں بلکہ بندوں کے حقوق بھی پورے کرتے ہیں۔ اس طرح طبقاتی فرق ختم ہوجاتا ہے اور تمام‬
‫لوگ ایک دوسرے کے قریب آجاتے ہیں اور امیر اور غریب کا فرق مٹ جاتا ہے۔ اس طرح معاشرے‬
‫میں طبقات پیدا نہیں ہوتے اور طبقاتی کشمکش کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔‬
‫‪)3‬قوانین کا احترام‪ :‬عقیدہ آخرت چونکہ نیک اعمال کی راہ اختیار کرنے کی طرف راغب کرتا ہے۔‬
‫اس لئے عقیدہ آخرت پر ا یمان ایک معاشرے سے تعلق رکھنے والے تمام افراد کو یہ شعور عطا کرتا‬
‫ہے کہ انہیں ایک دوسرے کے حقوق کا احترام کرنا ہے اور حکومت کی طرف سے ان کی بھالئی کے‬
‫لئے جو قوانین نافذ کئے گئے ہیں ان کا پوری طرح احترام کرنا ہے۔ عقیدہ آخرت پر ایمان کی وجہ سے‬
‫تمام لوگ اپنے فرائض کوادا کرنے میں غفلت نہیں کرتے۔‬
‫‪)4‬دولت کا صحیح استعمال‪ :‬اگر معاشرے کے افراد میں عقیدہ آخرت کا صحیح تصور رائج ہو تو ہر‬
‫انسان یہ سمجھتا ہے کہ اس کے پاس جو دولت ہے وہ ہللا تعالی کی امانت ہے اور اس پر دوسرے‬
‫‪ 27 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫لوگوں کا بھی حق ہے۔ اس لئے وہ اپنی دولت گناہ کے کاموں اور اپنی عیاشیوں کے لئے خرچ کرنے‬
‫کے بجائے اسے ہللا تعالی کی راہ میں خرچ کرتا ہے۔ اس طرح معاشرے میں دولت کے صحیح استعمال‬
‫کی راہ ہموار ہوتی ہے۔ جس کی وجہ سے معاشرے کے تمام افراد کو خوشحالی نصیب ہوتی ہے۔‬
‫‪)5‬ہمدردی اور تعاون‪:‬عقیدہ آخرت کی وجہ سے ایک معاشرے کے تمام افراد ایک دوسرے کے‬
‫قریب آجاتے ہیں۔ تمام افراد چونکہ عقیدہ آخرت پر ایمان رکھنے کی وجہ سے نیک اعمال اختیار کرتے‬
‫ہیں اس لئے وہ نیکی اور بھالئی کے کاموں میں ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہیں۔ باہمی تعاون کا یہ‬
‫جذبہ اُن میں ایک دوسرے سے محبت اور ہمدردی کے جذبات پیدا کرتا ہے۔‬

‫‪1‬۔ اسالم کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬


‫‪۰‬انکار کرنا‬ ‫‪۰‬حکم ماننا‬ ‫‪۰‬سالمتی‬
‫‪۰‬خاموش ہوجانا‬
‫‪2‬۔ ایمان کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬انکار کرنا‬ ‫‪۰‬حکم ماننا‬ ‫‪۰‬سالمتی‬
‫‪۰‬یقین کرنا‬
‫‪3‬۔ اسالم کی بنیاد پر ہللا کا حکم بجا النا کہالتا ہے‪:‬‬
‫یقین کامل‬
‫‪ِ ۰‬‬ ‫‪۰‬صلہ رحمی‬ ‫‪۰‬عم ِل صالح‬ ‫ارکان اسالم‬
‫ِ‬ ‫‪۰‬‬
‫‪4‬۔ عمل صالح کی اقسام ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬پانچ‬ ‫‪۰‬چار‬ ‫‪۰‬تین‬ ‫‪۰‬دو‬
‫‪5‬۔ عبادت کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬نیک کام کرنا‬ ‫‪۰‬اطاعت و بندگی‬ ‫‪۰‬بھروسہ کرنا‬ ‫‪۰‬ایمان النا‬
‫‪6‬۔ اخالق جمع ہے‪ ،‬اس کا واحد ہے‪:‬‬
‫‪۰‬خلقت‬ ‫‪۰‬خالق‬ ‫‪ُ ۰‬خلُق‬ ‫‪َ ۰‬خلَق‬
‫‪7‬۔ اخالق کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬مخلوقات‬ ‫‪۰‬عادات‬ ‫‪۰‬برا سلوک‬ ‫‪۰‬اچھا سلوک‬
‫‪8‬۔ عقیدہ کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬اٹل چیز‬ ‫‪۰‬مضبوط چیز‬ ‫‪۰‬گرہ لگائی گئی چیز‬
‫‪۰‬عقیدت رکھنا‬
‫‪9‬۔ اسالم کے بنیادی عقائد ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬دس‬ ‫‪۰‬سات‬ ‫‪۰‬ایک‬ ‫‪۰‬پانچ‬
‫‪10‬۔ اسالمی عقائد میں سب سے پہال عقیدہ ہے‪:‬‬
‫ختم نبوت‬
‫‪ِ ۰‬‬ ‫‪۰‬رسالت‬ ‫‪۰‬آخرت‬ ‫‪۰‬توحید‬
‫‪11‬۔ توحید کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬

‫‪ 28 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۰‬دل‬ ‫‪۰‬یکتا ماننا‬ ‫‪۰‬بھروسہ کرنا‬ ‫‪۰‬ایمان النا‬
‫سے ماننا‬
‫‪12‬۔ پہلے کلمے کو کہا جاتاہے‪:‬‬
‫‪۰‬کلمہ توحید‬ ‫‪۰‬کلمہ تمجید‬ ‫‪۰‬کلمہ طیبہ‬
‫‪۰‬کلمہ شہادت‬
‫‪13‬۔ دوسرے کلمے کو کہا جاتاہے‪:‬‬
‫‪۰‬کلمہ توحید‬ ‫‪۰‬کلمہ تمجید‬ ‫‪۰‬کلمہ طیبہ‬
‫‪۰‬کلمہ شہادت‬
‫‪14‬۔ تیسرے کلمے کو کہا جاتاہے‪:‬‬
‫‪۰‬کلمہ توحید‬ ‫‪۰‬کلمہ تمجید‬ ‫‪۰‬کلمہ طیبہ‬
‫‪۰‬کلمہ شہادت‬
‫‪15‬۔ چوتھے کلمے کو کہا جاتاہے‪:‬‬
‫‪۰‬کلمہ توحید‬ ‫‪۰‬کلمہ تمجید‬ ‫‪۰‬کلمہ طیبہ‬
‫‪۰‬کلمہ شہادت‬
‫‪16‬۔ پختہ اور اٹل نظریات کو کہا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬ایمان‬ ‫‪۰‬عقائد‬ ‫‪۰‬حدیث‬ ‫‪۰‬قرآن‬
‫‪17‬۔ وہ اپنی ذات میں یکتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬پیغمبر‬ ‫‪۰‬ہللا تعالی‬ ‫‪۰‬فرشتہ‬ ‫‪۰‬رسول‬
‫‪18‬۔ توحید کی اقسام ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬نو‬ ‫‪۰‬سات‬ ‫‪۰‬چھ‬ ‫‪۰‬تین‬
‫‪19‬۔ قرآن مجید کی اس سورت کو سورۃ التوحید بھی کہا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬سورۃ الرحمن‬ ‫‪۰‬سورۃ البقرہ‬ ‫‪۰‬سورۃ الناس‬ ‫‪۰‬سورۃاالخالص‬
‫‪20‬۔ شرک کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬جاری‬ ‫‪۰‬شروع کرنا‬ ‫‪۰‬بند کرنا‬ ‫‪۰‬سانجھے پن (حصہ داری)‬
‫کرنا‬
‫‪21‬۔ توحید کا متضاد لفظ ہے‪:‬‬
‫‪۰‬منافقت‬ ‫‪۰‬شرک‬ ‫‪۰‬رسالت‬ ‫‪۰‬کذب‬
‫‪22‬۔ شرک کی اقسام ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬پانچ‬ ‫‪۰‬چار‬ ‫‪۰‬تین‬ ‫‪۰‬دو‬
‫ظلم عظیم کہا گیا ہے‪:‬‬‫‪23‬۔ قرآن کریم میں اس گناہ کو ِ‬
‫‪۰‬غیبت‬ ‫‪۰‬شرک کو‬ ‫‪۰‬بدعت کو‬ ‫‪۰‬قتل کو‬
‫کو‬
‫نعم حقیقی“ ہیں‪:‬‬
‫‪24‬۔ ” ُم ِ‬
‫‪۰‬والدین‬ ‫‪۰‬اولیاء‬ ‫‪۰‬حضرت محمدﷺ‬ ‫‪۰‬ہللا تعالی‬
‫قادر مطلق اور مسبب االسباب کہا جاتا ہے‪:‬‬ ‫‪25‬۔ ِ‬
‫‪۰‬والدین‬ ‫‪۰‬اولیاء کو‬ ‫‪۰‬انبیاء کو‬ ‫‪۰‬ہللا تعالی کو‬
‫کو‬
‫‪26‬۔ توکل علی ہللا سے مراد ہے‪:‬‬
‫‪۰‬نیک‬ ‫‪۰‬ہللا کی اطاعت‬ ‫‪۰‬ہللا پر بھروسہ کرنا‬ ‫‪۰‬ایمان النا‬
‫کام کرنا‬

‫‪ 29 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪27‬۔ ہللا تعالی نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے بھیجے‪:‬‬
‫‪۰‬خلفاء‬ ‫‪۰‬جنات‬ ‫‪۰‬پیغمبر‬ ‫‪۰‬فرشتے‬
‫‪28‬۔ رسول کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬بہترین انسان‬ ‫‪۰‬خبر دینے واال‬ ‫‪۰‬پیغام دینے واال‬ ‫‪۰‬امن قائم کرنے واال‬
‫‪29‬۔ نبی کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬بہترین انسان‬ ‫‪۰‬خبر دینے واال‬ ‫‪۰‬پیغام دینے واال‬ ‫‪۰‬امن قائم کرنے واال‬
‫‪30‬۔ ُکل انبیاء کی تعداد ہے‪:‬‬
‫‪۰‬ایک الکھ نوے ہزار‬ ‫‪۰‬ایک الکھ بیس ہزار‬ ‫‪۰‬ایک الکھ چوبیس ہزار‬
‫‪۰‬ایک الکھ بارہ ہزار‬
‫‪31‬۔ انسانوں میں یہ معصوم ہوتے ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬انبیاء‬ ‫‪۰‬علماء‬ ‫‪۰‬صوفی‬ ‫‪۰‬امام‬
‫‪32‬۔ عربی زبان میں ’ختم‘ کے معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬قبول‬ ‫‪۰‬مہر لگانا‬ ‫‪۰‬چھوڑ دینا‬ ‫‪۰‬شروع کرنا‬
‫کرنا‬
‫‪33‬۔ ”خاتم النبیین“ ہیں‪:‬‬
‫ایوب‬
‫ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت‬ ‫‪۰‬حضرت محمد ﷺ‬ ‫موسی‬
‫ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت‬ ‫عیسی‬‫ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت‬
‫‪34‬۔ آپ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا ذکر اس سورت میں ہے‪:‬‬
‫‪۰‬سورۃ الرحمن‬ ‫‪۰‬سورۃ االحزاب‬ ‫‪۰‬سورۃ االعراف‬ ‫‪۰‬سورۃ النور‬
‫‪35‬۔ ہللا کے پہلے نبی ہیں‪:‬‬
‫ابراہیم‬
‫ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت‬ ‫‪۰‬حضرت نوح ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت محمد ﷺ‬ ‫‪۰‬حضرت آدم ؑ‬
‫‪36‬۔ ابو البشر اس نبی کو کہا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬حضرت‬ ‫‪۰‬حضرت ابراہیم ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت نوح ؑ‬ ‫آدم‬ ‫‪۰‬حضرت ؑ‬
‫یعقوب ؑ‬
‫‪37‬۔ صفی ہللا ان کا لقب ہے‪:‬‬
‫‪۰‬حضرت‬ ‫‪۰‬حضرت ابراہیم ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت نوح ؑ‬ ‫آدم‬ ‫‪۰‬حضرت ؑ‬
‫یعقوب ؑ‬
‫‪38‬۔ ”جدّ االنبیاء“ اس نبی کا لقب ہے‪:‬‬
‫‪۰‬حضرت‬ ‫‪۰‬حضرت ابراہیم ؑؑ‬ ‫‪۰‬حضرت نوح ؑ‬ ‫آدم‬
‫‪۰‬حضرت ؑ‬
‫یعقوب ؑ‬
‫‪39‬۔ ان پیغمبر کو آگ میں ڈاال گیا‪:‬‬
‫ابراہیم‬
‫ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت‬ ‫اسماعیل‬
‫ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت‬ ‫موسی‬
‫ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت‬ ‫ادریس‬
‫ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت‬
‫‪40‬۔ "خلیل ہللا" ان کا لقب ہے‪:‬‬
‫ابراہیم‬
‫ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت‬ ‫اسماعیل‬
‫ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت‬ ‫موسی‬‫ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت‬ ‫ادریس‬
‫ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت‬
‫‪41‬۔ اسرائیل اس نبی کا لقب ہے‪:‬‬
‫‪۰‬حضرت یعقوب ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت ابراہیم ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت نوح ؑ‬ ‫آدم‬
‫‪۰‬حضرت ؑ‬
‫آدم ثانی اس نبی کو کہا جاتا ہے‪:‬‬ ‫‪42‬۔ ِ‬
‫‪۰‬حضرت‬ ‫‪۰‬حضرت ابراہیم ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت نوح ؑ‬ ‫آدم‬‫‪۰‬حضرت ؑ‬
‫یعقوب ؑ‬
‫‪43‬۔ ”کلیم ہللا“ اس پیغمبر کو کہا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬حضرت محمد ﷺ‬ ‫‪۰‬حضرت عیسی ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت موسی ؑ‬ ‫آدم‬ ‫‪۰‬حضرت ؑ‬
‫‪ 30 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪44‬۔ حضرت اسماعیل علیہ السالم کی والدہ ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬بی بی ہاجرہ‬ ‫‪۰‬بی بی طاہرہ‬ ‫‪۰‬بی بی سائرہ‬
‫‪۰‬بی بی حفصہ‬
‫‪45‬۔ جنات کی تخلیق اس سے ہوئی‪:‬‬
‫‪۰‬خاک (مٹی)‬ ‫‪۰‬آب (پانی)‬ ‫‪۰‬نور (روشنی)‬ ‫‪۰‬نار (آگ)‬
‫‪46‬۔ مالئکہ کا لفظ جمع ہے‪ ،‬اس کا واحد ہے‪:‬‬
‫‪۰‬مالک‬ ‫َ‬
‫‪َ ۰‬ملک‬ ‫‪ِ ۰‬ملک‬ ‫‪َ ۰‬م ِلک‬
‫‪47‬۔ مالئکہ کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬قاصد (پیغام پہنچانے واال)‬ ‫‪۰‬عبادت کرنے واال‬ ‫‪۰‬صبر کرنے واال‬
‫‪۰‬طاہر‬
‫‪48‬۔ مالئکہ کی تخلیق اس سے ہوئی‪:‬‬
‫‪۰‬خاک (مٹی)‬ ‫‪۰‬آب (پانی)‬ ‫‪۰‬نور (روشنی)‬ ‫‪۰‬نار (آگ)‬
‫‪49‬۔ حضرت میکائیل علیہ السالم کی ذمہ داری ہے‪:‬‬
‫‪۰‬بارش‬ ‫‪۰‬وحی النا‬ ‫‪۰‬رزق دینا‬ ‫‪۰‬صور پھونکنا‬
‫برسانا‬
‫‪50‬۔ حضرت اسرافیل علیہ السالم کی ذمہ داری ہے‪:‬‬
‫‪۰‬بارش‬ ‫‪۰‬وحی النا‬ ‫‪۰‬رزق دینا‬ ‫‪۰‬صور پھونکنا‬
‫برسانا‬
‫‪51‬۔ حضرت عزرائیل علیہ السالم کی ذمہ داری ہے‪:‬‬
‫‪۰‬روح‬ ‫‪۰‬وحی النا‬ ‫‪۰‬رزق دینا‬ ‫‪۰‬صور پھونکنا‬
‫قبض کرنا‬
‫‪52‬۔ حضرت جبرائیل علیہ السالم کے ذمہ داری ہے‪:‬‬
‫‪۰‬بارش‬ ‫‪۰‬وحی النا‬ ‫‪۰‬رزق دینا‬ ‫‪۰‬صور پھونکنا‬
‫برسانا‬
‫‪53‬۔ قبر میں سوال کرنے والے فرشتوں کو کہا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬مالک‬ ‫‪۰‬رضوان‬ ‫‪۰‬کراماََؑ کاتبین‬ ‫‪۰‬منکر نکیر‬
‫‪54‬۔ انسانوں کے اعمال لکھنے والے فرشتے کہالتے ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬ہاروت‬ ‫‪۰‬کراماَََ کاتبین‬ ‫‪۰‬جبرائیل میکائیل‬ ‫‪۰‬منکر نکیر‬
‫و ماروت‬
‫‪55‬۔ جنت کا داروغہ کہالتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬رضوان‬ ‫‪۰‬جبرائیل‬ ‫‪۰‬ریان‬
‫‪۰‬عزازیل‬
‫‪56‬۔ جہنم کے نگران فرشتہ کا نا م ہے‪:‬‬
‫‪۰‬آقا‬ ‫‪۰‬مالک‬ ‫‪۰‬شیطان‬ ‫‪۰‬پہرے دار‬
‫‪57‬۔ ہللا تعالی کا خلیفہ ہے‪:‬‬
‫‪۰‬تمام مخلوقات‬ ‫‪۰‬انسان‬ ‫‪۰‬جنات‬ ‫‪۰‬فرشتے‬
‫‪58‬۔ دنیا کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬فانی‬ ‫‪۰‬قریب کی چیز‬ ‫‪۰‬رنگین‬ ‫‪۰‬دور کی چیز‬
‫‪59‬۔ آخرت کے معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬فانی‬ ‫‪۰‬قریب کی چیز‬ ‫‪۰‬رنگین‬ ‫‪۰‬دور کی چیز‬

‫‪ 31 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪60‬۔ اشرف المخلوقات ہے‪:‬‬
‫‪۰‬جن‬ ‫‪۰‬انسان‬ ‫‪۰‬فرشتہ‬ ‫‪۰‬حیوان‬
‫‪61‬۔مشہور آسمانی کتابیں ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬ایک‬ ‫‪۰‬تین سو تیرہ‬ ‫‪۰‬چار‬ ‫‪۰‬بہت سی‬
‫‪62‬۔ صحائف کی تعداد ہے‪:‬‬
‫‪۰‬ایک سو چار‬ ‫‪۰‬تین سو تیرہ‬ ‫‪۰‬چار‬ ‫‪۰‬بہت سی‬
‫داؤد پر یہ کتاب نازل ہوئی‪:‬‬‫‪63‬۔حضرت ؑ‬
‫‪۰‬تالمود‬ ‫‪۰‬صحیفہ‬ ‫‪۰‬انجیل‬ ‫‪۰‬زبور‬
‫موسی پر یہ کتاب نازل ہوئی‪:‬‬
‫ؑ‬ ‫‪64‬۔حضرت‬
‫‪۰‬تالمود‬ ‫‪۰‬توریت‬ ‫‪۰‬انجیل‬ ‫‪۰‬زبور‬
‫عیسی پر یہ کتاب نازل ہوئی‪:‬‬‫ؑ‬ ‫‪65‬۔حضرت‬
‫‪۰‬تالمود‬ ‫‪۰‬صحیفہ‬ ‫‪۰‬انجیل‬ ‫‪۰‬زبور‬
‫‪66‬۔ اس میں ہر مسئلے کا حل موجود ہے‪:‬‬
‫‪۰‬قرآن مجید‬ ‫‪۰‬تورات‬ ‫‪۰‬زبور‬ ‫‪۰‬انجیل‬
‫‪67‬۔ قرآن مجید اس ماہ میں نازل ہوا‪:‬‬
‫‪۰‬رجب‬ ‫‪۰‬رمضان‬ ‫‪۰‬ذوالحج‬ ‫‪۰‬شوال‬
‫‪68‬۔ دین داری کے پردے میں مسلمانوں کو باہم لڑواتے ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬نصرانی‬ ‫‪۰‬یہودی‬ ‫‪۰‬منافق‬ ‫‪۰‬کافر‬
‫‪69‬۔ رسولوں کی تعداد ہے‪:‬‬
‫‪124000۰‬‬ ‫‪100۰‬‬ ‫‪1000۰‬‬ ‫‪313۰‬‬
‫‪70‬۔ اس نبی پر صحیفے نازل ہوئے‪:‬‬
‫ابراہیم‬
‫ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت‬ ‫ہارون‬
‫ؑ‬ ‫‪۰‬حضرت‬ ‫‪۰‬حضرت محمد ﷺ‬ ‫‪۰‬حضرت عیسی ؑ‬
‫‪71‬۔ اس سورت میں ہللا کی وحدانیت کا ذکر ہے‪:‬‬
‫‪۰‬سورۃ االخالص‬ ‫‪۰‬سورۃ الکافرون‬ ‫‪۰‬سورۃ الفلق‬ ‫‪۰‬سورۃ الکوثر‬

‫باب دوم‬

‫‪ 32 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫اسالمی تشخص‬ ‫۔کلمہ شہادت‬
‫۔نماز‬
‫۔روزہ‬
‫۔زکوۃ‬
‫۔حج‬
‫۔جہاد‬
‫۔حقوق العباد‬
‫۔معاشرتی ذمہ داریاں‬

‫سوال نمبر ‪ :۱‬درج ذیل اصطالحات کی وضاحت کریں۔‬


‫‪ .4‬ما ِہ صیام (رمضان‬ ‫‪ .3‬صوم (روزہ)‬ ‫‪ .2‬صلوۃ (نماز)‬ ‫‪.1‬کلمہ شہادت‬
‫المبارک)‬
‫مناسک حج‬
‫ِ‬ ‫‪.8‬‬ ‫‪ .7‬حج‬ ‫مصارف زکوۃ‬
‫ِ‬ ‫‪.6‬‬ ‫‪ .5‬زکوۃ‬
‫‪ .12‬میقات‬ ‫‪ .11‬سعی‬ ‫‪ .10‬طواف‬ ‫‪.9‬احرام‬
‫بالنفس ‪ /‬جہا ِد اکبر ‪.16‬‬
‫َ‬ ‫‪ .15‬جہاد‬ ‫‪ .14‬جہاد‬ ‫‪ .13‬رمی‬
‫حقوق ہللا‬
‫‪ .18‬صلہ رحمی‬ ‫‪.17‬حقوق العباد‬
‫‪)1‬کلمہ شہادت‪ :‬اسالم کا سب سے پہال رکن ”کلمہ شہادت“ ہے۔ کلمہ عربی زبان میں مفید لفظ کو‬
‫کہتے ہیں اور شہادت کا مطلب ہے گواہی دینا تو کلمہ شہادت کا مطلب ہوا وہ الفاظ جن کے ذریعہ ہللا‬
‫کی توحید اور آپ ﷺ کی رسالت کی گواہی دی جائے۔کلمہ شہادت کے الفاظ یہ ہیں‪:‬‬

‫‪ 33 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ُ‬
‫ده‬‫َبُ‬‫ً ع‬‫َّدا‬‫َم‬ ‫مح‬ ‫َن‬
‫َّ ُ‬ ‫د ا‬ ‫َشہ‬
‫َُ‬ ‫َا‬ ‫ِيکَ َلُ‬
‫ہ و‬ ‫ُ َال شَر‬
‫ده‬‫َحَ‬ ‫ِلہ اَّ‬
‫ِال للاا و‬ ‫َن َّال اٰ‬‫د ا‬‫َُ‬‫َشہ‬ ‫ا‬
‫ُ‬
‫ورسُولہ‬
‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ترجمہ‪ :‬میں گواہی دیتا ہوں کہ ہللا کے سوا کوئی معبود نہیں‪ ،‬وہ اکیال ہے اس کا کوئی شریک نہیں اور‬
‫میں گواہی دیتا ہوں کہ حضرت محمد ﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں۔‬
‫اس کلمہ شہادت میں دو باتوں کا اقرار کرنا پڑتا ہے‪:‬‬
‫‪ ۱‬۔ہللا کی توحید کا اور یہ کہ ہللا کے عالوہ کوئی دوسرا عبادت کے الئق نہیں ہے۔‬
‫‪۲‬۔ہللا کے بھیجے ہوئے رسول ﷺ پر یہ یقین اور اعتماد کہ وہ ہللا کے احکام ہم تک صحیح اور‬
‫محفوظ طریقے سے پہنچانے والے ہیں۔‬
‫معنی "دعا کرنا ‪ ،‬قریب ہونا اور‬
‫ٰ‬ ‫صلوۃ کہتے ہیں ۔ جس کے لغوی‬‫‪)2‬صلوۃ(نماز)‪ :‬نماز کو عربی میں ٰ‬
‫استغفار " کے ہیں ۔اصطالحی لحاظ سے نماز وہ طریقہ عبادت ہے جو نبی کریم ﷺ کے ذریعے ہم تک‬
‫پہنچا جس میں قیام ‪،‬قراۃ ‪ ،‬رکوع ‪ ،‬سجدہ التحیات اور سالم بھی ہے ۔ نماز کی ابتداء تکبیر تحریمہ (ہللا‬
‫اکبر) سے ہوتی ہے اور نماز کی انتہا سالم (یعنی السالم علیکم ورحمۃ ہللا) پر ہوتی ہے۔‬
‫قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں جابجا نماز قائم کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔قرآن میں ‪ 700‬مقامات پر‬
‫نماز کا ذکر کیا گیا ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫َّ‬
‫َاتواالزکوة‬ ‫ُ‬‫ٰ‬ ‫َ‬ ‫ٰ‬
‫ُوا الصلوة و‬ ‫ِيم‬ ‫َق‬‫َا‬
‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ (سورۃ البقرۃ‪)۴ ۳ :‬‬

‫حضور ﷺ کا ارشاد ہے‪:‬‬


‫ِين‬ ‫دالّ‬
‫د‬ ‫َاُ‬ ‫ِم‬ ‫ُ‬
‫َّلوة ع‬ ‫ٰ‬ ‫الص‬‫َ‬
‫ترجمہ‪ :‬نماز دین کا ستون ہے۔‬
‫معراج کے موقع پر نماز فرض ہوئی۔ شروع میں پچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں پھر کم ہوتے‬
‫ہوتے پانچ ہوگئیں۔‬
‫دین اسالم کا تیسرا اور اہم رکن ہے۔ عربی زبان میں روزہ کے لئے صوم کا‬ ‫‪)3‬صوم (روزہ)‪ :‬روزہ ِ‬
‫لفظ استعمال ہوتا ہے‪ ،‬جس کے لغوی معنی ہیں ”رکنا“۔‬
‫ب آفتاب تک کھانے‪ ،‬پینے اور نفسانی‬ ‫شریعت کی اصطالح میں صبح صادق سے لے کر غرو ِ‬
‫خواہشات سے عبادت کی غرض سے رکنے کا نام روزہ ہے۔روزہ کی فرضیت کے بارے میں ہللا تعالی‬
‫کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫َ‬
‫ِين‬ ‫َّ‬
‫َلی الذ‬ ‫َ‬ ‫َ ع‬
‫ِب‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ُ کما کت‬ ‫َ‬ ‫َام‬ ‫ّي‬
‫ِ‬‫ُ الص‬ ‫ُ‬
‫َليکم‬ ‫َ‬ ‫َ ع‬ ‫ِب‬ ‫ُ‬
‫منوا کت‬ ‫ُ‬ ‫ٰ‬ ‫َ‬
‫ِين اَ‬ ‫َّ‬
‫َا الذ‬ ‫ٰا ُّ‬
‫ايه‬ ‫ي‬
‫َّقون۔‬‫ُ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫َّکم تت‬ ‫َ‬
‫ِکم لع‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ِن قبل‬ ‫م‬
‫ترجمہ‪ :‬اے ایمان وا لو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے‬
‫گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(سورۃ البقرۃ‪)۱۸ ۳ :‬‬
‫روزہ ہجرت کے دوسرے سال فرض کیا گیا۔‬
‫‪ )4‬ما ِہ صیام (رمضان المبارک)‪ :‬رمضان المبارک قمری کلینڈر کا نواں مہینہ ہے۔ یہ وہ مہینہ ہے‬
‫جس میں ہللا تعالی نے قرآن مجید کو نازل فرمایا۔ ارشا ِد ربانی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ُ‬
‫ِل فيہ القران‬ ‫ُنز‬ ‫ِی ا‬ ‫َ الذ‬ ‫َان‬ ‫مض‬‫ََ‬‫ُ ر‬‫شَهر‬
‫ترجمہ‪ :‬رمضان کا مہینہ وہ مہینہ ہے جس میں قرآن نازل کیا گیا۔ (البقرۃ‪)185 :‬‬

‫‪ 34 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ث مبارکہ میں اس مہینہ کو تین عشروں میں تقسیم فرماکر پہلے کو رحمت‪ ،‬دوسرے کو‬ ‫حدی ِ‬
‫مغفرت اور تیسرے کو جہنم سے نجات کا عشرہ قرار دیا گیا ہے۔‬
‫رمضان المبارک کی وہ رات جس میں قرآن نازل کیا گیا اسے لیلۃ القدر کہتے ہیں لیلۃ القدر کی‬
‫عبادت کی فضیلت یہ ہے کہ اس رات میں عبادت کرنا ایک ہزار مہینوں کی عبادت سے بڑھ کر ہے۔‬
‫ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫َ‬
‫ِن الفِ شَهر‬ ‫َير ّ‬
‫م‬ ‫ِ خ‬ ‫َ‬
‫ليلۃ القدر‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ب قدر ایک ہزار مہینوں سے بہتر ہے۔ (سورۃ القدر‪)3 :‬‬ ‫ترجمہ‪ :‬ش ِ‬
‫رمضان المبارک کا مہینہ تمام مسلمانوں کے لئے رحمت اور مغفرت کا ذریعہ ہے لیکن پاکستان‬
‫کے مسلمانوں کے نزدیک اس ما ِہ مبارک کی اہمیت اس وجہ سے بھی زیادہ ہے کہ پاکستان ‪ 27‬رمضان‬
‫معرض وجود میں آیا۔‬
‫ِ‬ ‫المبارک کی بابرکت رات کو‬
‫دین اسالم کا چوتھا اور بنیادی رکن ہے۔ زکوۃ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی‬ ‫‪)5‬زکوۃ‪ :‬زکوۃ ِ‬
‫معنی پاک ہونے اور بڑھنے کے ہیں۔ زکوۃ کو اس لئے زکوۃ کہا جاتا ہے کہ اس سے مال پاک و صاف‬
‫بھی ہوتا ہے اور مال میں برکت اور اضافہ بھی ہوتا ہے۔‬
‫شریعت کی اصطالح میں زکوۃ سے مراد مسلمان کے مال کا وہ حصہ ہے جو ہر صاحب نصاب‬
‫شخص سال پورا ہونے پر عبادت کی نیت سے‪ ،‬ہللا کی رضا کے لئے غریبوں کو دیتا ہے اور انہیں اس‬
‫مال کا مالک بنادیتا ہے۔ زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں نماز‬
‫زکوۃ کا بیان بیاسی(‪ )82‬مقامات پر آیا ہے۔‬ ‫کے ساتھ ٰ‬
‫قرآن پاک میں جابجا زکوۃ کی تلقین کی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰوة‬ ‫َّک‬
‫تواالز‬ ‫ُٰ‬‫َا‬‫َ و‬ ‫ٰوة‬ ‫ُوا الصل‬ ‫ِيم‬ ‫َق‬‫َا‬‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ (سورۃ البقرۃ‪)۴ ۳ :‬‬
‫زکوۃ‪ :‬مصارف‪ ،‬مصرف کی جمع ہے۔ مصرف خرچ کرنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔‬ ‫مصارف ٰ‬ ‫ِ‬ ‫‪)6‬‬
‫صارف‬
‫ِ‬ ‫زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ قرآ ن مجید میں ان م‬ ‫زکوۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں ٰ‬ ‫مصارف ٰ‬
‫ِ‬
‫زکوۃ کو ذکر کیا گیا ہے جیساکہ ہللا کافرمان ہے ۔‬ ‫ٰ‬
‫َۃ‬
‫ِ‬ ‫َّ‬
‫َلف‬‫ُؤ‬ ‫َالم‬ ‫َليها و‬ ‫َ‬ ‫َ ع‬ ‫ِين‬‫ِل‬‫َام‬‫َالع‬ ‫َ و‬ ‫ِين‬ ‫َسَاک‬ ‫َالم‬ ‫ء و‬ ‫ُقراِ‬ ‫َ‬ ‫ِلف‬ ‫ُ ل‬‫دقات‬‫َ‬ ‫ََّ‬
‫َا الص‬ ‫نم‬ ‫َِّ‬‫إ‬
‫ِيل‬
‫ِ‬ ‫َابنِ السَّب‬ ‫ِ اّ‬
‫ّٰللِ و‬ ‫ِيل‬‫ِي سَب‬ ‫َف‬‫َ و‬ ‫ِين‬‫ِم‬ ‫َار‬ ‫َالغ‬ ‫َابِ و‬ ‫ِق‬‫ّ‬
‫ِي الر‬ ‫َف‬‫ُم و‬ ‫به‬ ‫ُوُ‬
‫ُل‬‫ق‬
‫ٌ‪O‬‬‫ِيم‬ ‫َک‬‫ٌ ح‬‫ِيم‬ ‫َل‬ ‫َاّ‬
‫ّٰللُ ع‬ ‫ّٰللِ ط و‬ ‫ِن اّ‬‫َ‬ ‫ً ّ‬
‫م‬ ‫ِيضۃ‬‫َ‬ ‫فر‬‫َ‬
‫( التوبہ ‪) 60:‬‬
‫زکوۃ کے کاموں پر‬ ‫زکوۃ تو دراصل فقیروں اور مسکینوں کا حق ہے اور ان لوگوں کے لیے جو ٰ‬ ‫" یہ ٰ‬
‫مامور ہوں ‪ ،‬اور ان کے لیے جن کی تالیف ِقلب مطلوب ہو‪ ،‬نیز گردنوں کو چھڑانے اور قرضدارو ں‬
‫کی مدد کرنے اور ہللا کی راہ میں اور مسافر نوازی میں استعمال کرنے کے لیے ہیں۔ اور ہللا سب کچھ‬
‫جاننے واال حکمت واال ہے" ‪.‬‬
‫زکوۃ کا حقدار ٹھہرایا گیا ہے جو درج ذیل ہیں ‪- :‬‬ ‫فرمان خداوندی میں آ ٹھ طرح کے لوگوں کو ٰ‬ ‫ِ‬ ‫درج باال‬
‫ان تنگ دست لوگوں کی اعانت جن کے پاس کچھ نہ ہو۔‬ ‫(‪ )1‬مساکین ‪:‬‬
‫ان لوگوں کی اعانت جو زندگی کی بنیادی ضرورتوں سے محروم ہیں ۔‬ ‫(‪ )2‬فقراء ‪:‬‬
‫زکوۃ کی وصولی پر متعین عملے کی تنخواہیں ۔‬ ‫ٰ‬ ‫(‪ )3‬عاملین ٰ‬
‫زکوۃ ‪:‬‬
‫(‪ )4‬مؤلفتہ القلوب‪ :‬ان لوگوں کی اعانت جو نو مسلم ہوں تاکہ ان کی تالیف قلب ہوسکے ۔‬
‫غالموں اور ان لوگوں کو آزاد کرنے کے مصارف جو قید وبند میں ہوں ۔‬ ‫(‪ )5‬رقاب ‪:‬‬

‫‪ 35 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫(مقروض ‪ /‬قرضدار ) ایسے لوگوں کے قرضوں کی ادائیگی جو نادار‬ ‫غارمین‪:‬‬ ‫(‪)6‬‬
‫ہوں ۔‬
‫(‪ )7‬فی سبیل ہللا‪ :‬جہاد فی سبیل ہللا میں جانے والوں کی اعانت میں ۔‬
‫مالک نصاب نہ ہو ‪ ،‬اگرچہ اپنے گھر پر دولت رکھتا‬ ‫ِ‬ ‫(‪ )8‬ابن السبیل‪ :‬مسافر جو حالت ِ سفر میں‬
‫ہے ۔‬
‫‪)7‬حج‪ :‬حج کے لغوی معنی ہیں ”زیارت کا ارادہ کرنا“۔‬
‫شریعت کی اصطالح میں مخصوص زمانہ یعنی حج کے مہینوں میں بیت ہللا کی زیارت کرنا‬
‫اور مخصوص مناسک (طواف‪ ،‬سعی‪ ،‬رمی وغیرہ) کو ادا کرنا حج کہالتا ہے۔‬
‫حج اسالم کا پانچواں رکن ہے جو کہ ہر بندہ مومن پر (جو صاحب استطاعت ہو) زندگی میں‬
‫ایک بار فرض ہے۔ حج کی فرضیت کا ذکر قرآن میں بھی کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشادِباری تعالی ہے‪:‬‬
‫ِيال‬‫ِ سَب‬‫ِليہ‬‫َ اَ‬ ‫َاع‬‫َط‬‫منِ است‬ ‫َيتِ َ‬ ‫ُّ الب‬ ‫َی الن‬
‫َّاسِ حِج‬ ‫َل‬ ‫َِّٰ‬
‫ّٰللِ ع‬ ‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور لوگوں پر ہللا کا حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج‬
‫کرے۔ (سورہ آل عمران‪)۹ ۷ :‬‬
‫استطاعت سے مراد ہے کہ‪:‬‬
‫۔حج کرنے واال آزاد ہو۔‬
‫۔صحت مند ہو۔‬
‫۔راستہ میں جان کا کوئی خطرہ نہ ہو۔‬
‫۔اتنا پیسہ ہو کہ جس سے وہ اپنا سفر کرسکے اور اپنے گھر والوں کی ضروریات کا بندوبست‬
‫کرسکے۔‬
‫۔اگر عورت حج پر جارہی ہو تو محرم موجود ہو۔‬
‫حج کی فرضیت کا حکم ‪ ۹‬ھ؁ میں نازل ہوا۔ حج فرض ہونے کے پہلے سال یعنی ‪ ۹‬ھ؁‬
‫میں حضرت ابو بکر صدیق رضی ہللا تعالی عنہ کی قیادت میں تین سو (‪ )۳۰۰‬صحابہ نے حج کی‬
‫سعادت حاصل کی۔‪۱ ۰‬ھ؁ میں رسول اکرم ﷺ نے اپنی زندگی کا پہال اور آخری حج تقریبا ایک الکھ‬
‫ت مبارکہ میں ایک حج اور‬ ‫چوبیس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ ادا فرمایا۔ رسول اکرم ﷺ نے اپنی حیا ِ‬
‫چار عمرے ادا فرمائے۔‬
‫مناسک حج سے مراد حج کے ارکان و اعمال ہیں۔ آٹھ ذوالحجہ سے بارہ ذوالحجہ تک حج‬
‫ِ‬ ‫‪)8‬مناسک حج‪:‬‬
‫کے مخصوص پانچ دن ہیں‪ ،‬ان پانچ دنوں میں حج کے تمام فرائض اور واجبات اد ا کئے جاتے ہیں۔‬
‫مناسک حج یہ ہیں‪:‬‬
‫ِ‬ ‫بنیادی‬
‫‪)1‬میقات‪ :‬میقات اس مقام کو کہتے ہیں جہاں سے حج یا عمرہ پر جانے والے لوگ احرام باندھتے ہیں یا‬
‫جہاں سے احرام باندھنا ضروری ہوتا ہے۔‬
‫‪ )2‬احرام‪ :‬صرف دو چادروں سے جسم کو ڈھانپ لینے کو احرام کہتے ہیں۔‬
‫‪ )3‬طواف‪ :‬بیت ہللا کے گرد سات چکر لگانے کو طواف کہتے ہیں ۔‬
‫‪)4‬سعی‪ :‬صفا اور مروہ پہاڑوں پر چڑھنے اورمخصوص انداز میں ان کے درمیان سات چکر لگانے کو‬
‫سعی کہا جاتا ہے۔‬
‫میدان عرفات میں ٹہرنا‬
‫ِ‬ ‫ب آفتاب کے درمیان‬ ‫)وقوف عرفہ‪ 9 :‬ذی الحج کو زوال کے وقت سے غرو ِ‬ ‫ِ‬ ‫‪5‬‬
‫ت حج میں سے ہے۔‬ ‫"وقوف عرفہ" کہالتا ہے۔ یہ واجبا ِ‬
‫ِ‬
‫قیام‬
‫)قیام مزدلفہ‪ 9 :‬ذی الحج کی مغرب سے ‪ 10‬ذی الحج کے طلوعِ آفتاب تک مزدلفہ میں ٹہرنا " ِ‬ ‫‪ِ 6‬‬
‫مزدلفہ" کہالتا ہے۔‬
‫‪ 36 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪) 7‬رمی‪ :‬دس‪ ،‬گیارہ اور بارہ ذی الحج کو شیطان کے تین عالمتی ستونوں کو کنکریاں مارنا رمی کہالتا‬
‫ہے۔‬
‫‪ )8‬نحر‪ :‬دس ذی الحج کو رمی کے بعد قربانی کی جاتی ہے۔ یہ قربانی تین دن تک کی جاسکتی ہے۔‬
‫ارکان حج مکمل کرنے کے بعد سر کے مکمل بال منڈوانا "حلق" کہالتا ہے اور بال چھوٹے‬ ‫ِ‬ ‫‪ )9‬حلق‪:‬‬
‫کروانا"قصر" کہالتا ہے۔ مرد کو اختیار ہے کہ حلق کروائے یا قصر لیکن اس کے لئے قصر کروانا‬
‫پسندیدہ ہے جب کہ خواتین کے لئے صرف قصر کروانے کا ہی حکم ہے۔‬
‫‪)9‬احرام‪ :‬احرام کے لغوی معنی ہیں حرام کرنا‪ ،‬احرام کو احرام اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ احرام کی‬
‫حالت میں بعض حالل کام بھی حرام ہوجاتے ہیں۔‬
‫مقام میقات سے پہلے صرف‬ ‫شریعت کی اصطالح میں حج یا عمرہ کی نیت سے مکہ شہر میں ِ‬
‫دو بغیر سلی ہوئی چادروں سے جسم کو ڈھانپ لینے کو احرام کہتے ہیں۔خواتین کے لئے احرام یہ ہے‬
‫حْرم کہتے ہیں۔ دراصل یہ ایک‬ ‫کہ وہ چہرہ کو کپڑا لگنے سے بچائیں۔ احرام والے شخص کو ُم ِ‬
‫مخصوص کیفیت کا نام ہے جو احرام کی نیت کرنے کے بعد حج اور عمرہ کرنے والے پر الزم ہوتی‬
‫ہے۔ اس حالت میں حج اور عمرہ کرنے والے پر مخصوص پابندیاں عائد ہوتی ہیں۔ مثال خوشبو کے‬
‫استعمال اور شکار کی ممانعت وغیرہ۔‬
‫‪)10‬طواف‪ :‬طواف کے لغوی معنی ہیں چکر لگانا یا کسی چیز کے گرد گھومنا۔‬
‫شریعت کی اصطالح میں خانہ کعبہ کے اردگرد عبادت کی نیت سے سات چکر لگانے کو‬
‫حجر اسود“ کہتے‬‫طواف کہتے ہیں۔ خانہ کعبہ کے ایک کونے میں ایک مبارک پتھر نصب ہے جسے ” ِ‬
‫طواف کعبہ کی ابتدا ہوتی ہے اور یہیں آکر طواف کا ایک چکر پورا ہوتا ہے۔ اس طرح‬ ‫ِ‬ ‫ہیں۔ یہاں سے‬
‫خانہ کعب ہ کے گرد سات چکر لگانے کو طواف کہتے ہیں۔ طواف حج کا بھی رکن ہے اور عمرہ کا بھی۔‬
‫اس کے عالوہ صرف ثواب کی نیت سے یعنی مستقل عبادت کے طور پر بھی طواف کیا جاتا ہے۔‬
‫طواف کی اقسام ‪:‬طواف کی اقسام مندرجہ ذیل ہیں ‪:‬‬
‫طواف قدوم ‪ :‬یعنی آنے کے وقت کا طواف‪ ،‬یہ اُس شخص کے لئے سنت ہے جو میقات کے باہر سے‬
‫آیا ہو اورحج افرادیا حج قران کا ارادہ رکھتا ہو‪ ،‬حج تمتع اور عمرہ کرنے والوں کے لئے سنت نہیں۔‬
‫طواف عمرہ ‪ :‬یعنی عمرہ کا طواف ۔‬
‫طواف زیارت ‪:‬یعنی حج کا طواف جس کو طواف افاضہ بھی کہتے ہیں‪ ،‬یہ حج کا رکن ہے‪ ،‬اس‬
‫طواف کے بغیر حج پورا نہیں ہوتا ۔‬
‫طواف وداع ‪ :‬یعنی مکہ سے روانگی کے وقت کا طواف (یہ میقات سے باہر رہنے والے یعنی آفاقی‬
‫کے لئے ضروری ہے)۔‬
‫نفلی طواف‪:‬ثواب کی نیت سے حج یا عمرہ کے لئے طواف کرنا۔‬

‫‪)11‬سعی‪ :‬سعی کے لغوی معنی ہیں کوشش کرنا۔‬


‫شریعت کی اصطالح میں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کے عمل کو سعی کہتے ہیں۔ سعی‬
‫کا آغاز صفا سے اور اختتام مروہ پر ہوتا ہے۔ سعی دراصل حضرت ہاجرہ ؑ کی یادگار ہے۔‬
‫حجر اسود کا استالم کرے‪ ،‬پھر صفا پہاڑی پر چڑھ کر دعا‬
‫ِ‬ ‫سعی کا طریقہ یہ ہے کہ پہلے‬
‫کرے۔ دعا کے بعد مر وہ پہاڑی کی طرف چلنا شروع کردے۔ درمیان میں سبز نشان نظر آئیں گے ان‬

‫‪ 37 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫کے درمیان دوڑے۔ مروہ کی پہاڑی پر پہنچ کر اس کا ایک چکر پورا ہوگیا اب یہاں دوبارہ دعا مانگے‬
‫اور صفا کی طرف چلنا شروع کردے۔ اس طرح صفا اور مروہ کے درمیان سات چکر لگائے۔‬
‫صفا و مروہ کے درمیان جگہ جہاں سعی کی جاتی ہے اسے مسعی کہتے ہیں۔‬
‫‪)12‬میقات‪ :‬میقات عربی زبان کا لفظ ہے‪ ،‬جس کا مطلب ہے کام کا وقت یا کام کی جگہ۔‬
‫شریعت کی اصطالح میں میقات سے مراد مکہ مکرمہ سے پہلے آنے واال وہ مقام ہے جہاں حج‬
‫اور عمرہ کرنے والے حضرات احرام باندہ کر نیت کرتے ہیں اور تلبیہ (لبیک اللھم لبیک۔۔۔۔) پڑھتے‬
‫ہیں۔ اگر کوئی شخص میقات سے احرام نہ باندھے تو اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ واپس میقات‬
‫جاکر احرام باندھے یا ایک بکرے کی قربانی کرے۔‬
‫شریعت نے مختلف عالقوں کی طرف سے آنے والوں کے لئے الگ الگ میقات مقرر کی ہیں۔‬
‫پاکستان کی طرف سے جانے والوں کے لئے میقات یلملم ہے۔‬
‫‪ )13‬رمی‪ :‬عربی زبان میں کنکر مارنے کو رمی کہتے ہیں۔ شریعت کی اصطالح میں منی میں موجود‬
‫شیطان کے تین عالمتی ستونوں کو کنکری مارنے کا عمل رمی کہالتا ہے۔‬
‫ت حج میں شامل ہے۔ یہ وہ مقامات ہیں جہاں شیطان نے حضرت ابراہیم علیہ السالم‬ ‫رمی واجبا ِ‬
‫اور حضرت اسماعیل علیہ السالم کو قربانی کے لئے جاتے ہوئے تین بار بہکانے کی کوشش کی تھی۔‬
‫ہر بار جب شیطان کو سات کنکریاں ماری جاتی تھیں تو وہ دھنس جاتا تھا۔ حضرت ابراہیم علیہ السالم‬
‫کے اس عمل کی یاد میں حج کے لئے جانے والے مسلمان ہر سال‪ ۱۱ ،۱ ۰‬اور‪ ۱ ۲‬تاریخ کو شیطان‬
‫کے ان عالمتی ستونوں کو کنکریاں مارتے ہیں۔ بعض حاالت میں تیرہ ذوالحجہ کو بھی پتھر مارنے‬
‫ضروری ہو جاتے ہیں۔‬
‫‪)14‬جہاد‪ :‬جہاد کا لفظ جہد سے نکال ہے جس کا مطلب ہے کوشش کرنا۔ جہاد کے لغوی معنی ایسے‬
‫عمل کے ہیں جس میں کسی چیز کے حصول کے لئے انتہائی محنت اور کوشش کی جائے۔‬
‫دینی اصطالح میں جہاد سے مراد یہ ہے کہ ہللا کے دین کی سربلندی‪ ،‬حفاظت اور فروغ کے‬
‫لئے ہر قسم کی جدوجہد اور کوشش کرنا اور ہللا کے حکم اور اس کی پسند کے خالف کسی بھی قوت‬
‫کے سامنے رکاوٹ بننا۔‬

‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫جہاد کو قرآن میں فرض قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشا ِد باری‬
‫َال‬
‫ُ‬ ‫ِت‬‫ُ الق‬ ‫ُم‬‫َيک‬‫َل‬
‫َ ع‬ ‫ِب‬‫ُت‬‫ک‬
‫ترجمہ‪ :‬تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے۔ (سورۃ البقرۃ‪)۲۱ ۶ :‬‬
‫فرض کفایہ۔‬
‫ِ‬ ‫فرض عین ہوتا ہے اور کبھی‬
‫ِ‬ ‫جہاد کبھی‬
‫ت الہی سے روکنے والی بنیادی طور پر دو قوتیں ہیں۔ ایک اس کا‬ ‫‪)15‬جہاد بالنفس‪:‬انسان کو اطاع ِ‬
‫اپ نا نفس اور دوسرا شیطان۔ انسان کے دل میں طرح طرح کی خواہشات ابھرتی ہیں۔ ان تمام خواہشات کو‬
‫ہللا تعالی کے احکامات کے تابع رکھنا جہاد بالنفس ہے۔یعنی اگر خواہش شریعت کے کسی حکم کے‬
‫خالف ہو تو اس خواہش کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے لئے جتنی بھی مشقت اٹھانی پڑے وہ برداشت‬
‫کی جائے۔ اسے جہا ِد اکبر بھی کہتے ہیں۔‬
‫تعالی کا فرمان ہے ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫َ "‬‫ِين‬‫َم‬‫ٰـل‬ ‫َنِ الع‬ ‫ِیٌّ ع‬ ‫َ َلغ‬
‫َن‬ ‫َّ اللاا‬
‫ِن‬‫ِط ا‬ ‫َفس‬
‫ِه‬ ‫لن‬‫د ِ‬ ‫ُِ‬‫َاھ‬ ‫َا ُ‬
‫يج‬ ‫َاَّ‬
‫ِنم‬ ‫د ف‬ ‫ََ‬
‫َاھ‬‫من ج‬ ‫ََ‬
‫" و‬
‫(العنکبوت‪)6/ 29 ،‬‬

‫‪ 38 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫" اور جو شخص (را ِہ حق میں) جدوجہد کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے)لئے تگ و دو کرتا ہے‪ ،‬بے‬
‫شک ہللا تمام جہانوں (کی طاعتوں‪ ،‬کوششوں اور مجاہدوں) سے بے نیاز ہے " ۔‬
‫رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے ‪:‬‬
‫( ترمذی ‪ ،‬رقم الحدیث ‪:‬‬ ‫ُ"‬‫نفسَه‬‫د َ‬‫ََ‬‫َاھ‬‫من ج‬ ‫د َ‬‫ُِ‬‫َاھ‬ ‫َلم‬
‫ُج‬ ‫" ا‬
‫‪) 1621‬‬
‫" مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے " ۔‬
‫یعنی نفس امارہ جو آدمی کو برائی پر ابھارتا ہے‪ ،‬وہ اسے کچل کر رکھ دیتا ہے‪ ،‬خواہشات نفس کا تابع‬
‫نہیں ہوتا اور اطاعت ٰالہی میں جو مشکالت اور رکاوٹیں آتی ہیں‪ ،‬ان پر صبر کرتا ہے‪ ،‬یہی جہاد اکبر‬
‫ہے۔‬
‫‪)16‬حقوق ہللا‪:‬ہللا تعالی نے اس پوری کائنات کو تخلیق کیا ہے اور انسان کو اس وسیع اور المحدود‬
‫کائنات میں بلند ترین درجہ عطا فرمایا ہے اور تمام مخلوقات میں افضل بنا کر بھیجا ہے۔ ساتھ ہی اسے‬
‫خوبصورت اور متناسب جسم عطا فرمایا ہے۔ اس کے عالوہ انسان کو عقل و حواس سمیت بے شمار‬
‫صالحیتوں سے نوازا ہے۔ اس لئے انسانوں کے لئے ہللا تعالی کے حقوق ادا کرنا واجب ہیں۔وہ تمام‬
‫حقوق جو انسان پر ہللا تعالی کے لئے فرض ہیں انہیں حقوق ہللا کہا جاتا ہے۔‬
‫انسان پر ہللا تعالی کا پہال حق یہ ہے کہ اُسے اس کی ذات‪ ،‬صفات اور صفات کے تقاضوں کے‬
‫ساتھ دل سے تسلیم کیا جائے۔ ہللا تعالی کا یہ بھی حق ہے کہ انتہائی عاجزی و انکساری کے ساتھ اس‬
‫دین اسالم میں‬
‫کے حضور سجدہ شکر بجاالیا جائے یعنی اس کی عبادت کی جائے۔ عبادت کا طریقہ کار ِ‬
‫نماز کی صورت میں ہے اس لئے مسلمانوں کو چاہئے کہ پابندی کے ساتھ نماز کی ادائیگی کریں۔‬
‫معبودیت اور تشکر کے جذبات کا اظہار حقوق ہللا کی ادائیگی کہالتا ہے۔ تمام عبادات جیسے کہ نماز‪،‬‬
‫روزہ‪ ،‬زکوۃ اور حج وغیرہ کا شمار حقوق ہللا میں ہوتا ہے۔‬
‫‪)17‬حقوق العباد‪ :‬عباد‪’ ،‬عبد‘ کی جمع ہے جس کے معنی ہے ’بندے‘۔ لہذا حقوق العباد کا مطلب ہوا‬
‫’بندوں کے حقوق‘۔‬
‫وہ حقوق جن کی پاسداری انسان کے لئے ضروری ہے وہ دو طرح کے ہیں۔ ایک وہ جن کا‬
‫تعلق ہللا سے ہے انہیں ”حقوق ہللا“ کہا جاتا ہے۔ دوسرے وہ حقوق جو انسانوں کے آپس میں ایک‬
‫دوسرے سے متعلق ہیں انہیں ”حقوق العباد“ کہا جاتا ہے۔‬
‫جہاں حقوق ہللا کی ادائیگی ضروری ہے وہاں حقوق العباد کی ادائیگی بھی ضروری ہے۔‬
‫معاشرے میں بہت سے لوگ مل کر زندگی گزارتے ہیں اور ان کے ایک دوسرے پر کئی طرح سے‬
‫دین اسالم جو کہ کامل‬‫حقوق ہوتے ہیں‪ ،‬جن کی ادائیگی سے معاشرہ خوشگوار رہتا ہے۔ ہللا تعالی نے ِ‬
‫دین ہے‪ ،‬کے ذریعہ ہماری اس پہلو کے متعلق بھی رہنمائی فرمائی ہے اور انسانوں کے درمیاں حقوق‬
‫الَؑ والدین کے حقوق‪ ،‬اوالد کے حقوق‪ ،‬اساتذہ کے حقوق‪ ،‬پڑوسیوں کے حقوق‬ ‫کا تعین کردیا ہے۔ مث َ‬
‫وغیرہ۔‬
‫معنی ہے "مالنا" لیکن عام اصطالح میں اس سے مراد ہے‬ ‫ٰ‬ ‫‪)18‬صلہ رحمی‪" :‬صلہ" کے لغوی‬
‫"کسی بھی قسم کی بھالئی اور احسان کرنا"۔ ’’رحم‘‘سے مراد قرابت اور رشتہ داری ہے۔ صلہ رحمی‬
‫کا مطلب ہے رشتہ داری کو جوڑنا یعنی رشتہ داروں کے ساتھ نیکی اور بھالئی کا سلوک کرنا۔‬
‫قرآن مجید میں ارشاد ربانی ہے ‪:‬‬
‫( االسرائ ‪:‬‬ ‫َّہ‬
‫َق‬‫ٰی ح‬ ‫ُرب‬‫َا الق‬ ‫ٰتِ ذ‬‫َا‬‫و‬
‫‪) 26‬‬
‫‪ 39 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫" اوررشتہ داروں کو اس کا حق دو " ۔‬
‫( بخاری ومسلم )‬ ‫ٌ‬
‫ِع‬‫َاط‬‫َ ق‬ ‫َّۃ‬
‫َن‬‫ُ الج‬‫ُل‬
‫يدخ‬ ‫َال َ‬
‫’’قطع رحمی کرنے واال جنت میں داخل نہیں ہوگا"۔‬
‫حضرت جابر رضی ہللا عنہ سے روایت ہے رسول اکرم ﷺ نے فرمایا پہلے اپنی ذات پر خرچ کرو‬
‫‪،‬پھر اگر کچھ بچے تو اپنے اہل و عیال پر خرچ کرو‪ ،‬پھر اگر اپنے اہل و عیال سے کچھ بچے تو اپنے‬
‫رشتہ داروں پر ‪،‬اور اگر رشتہ داروں سے بھی کچھ بچ جائے تو ادھر ادھر اپنے سامنے‪ ،‬دائیں بائیں‬
‫والوں پر خرچ کرو۔ (مسلم)‬
‫حضور اکرم ﷺ نے فرمایا ‪:‬‬
‫ليس الواصل بالمکافی ولکن الواصل الذی إذا قطعت رحمہ‬
‫(بخاری)‬ ‫وصلها‬
‫“ وہ شخص صلہ رحمی کرنے واال نہیں جو کسی رشتہ دار کے ساتھ احسان کے بدلے میں احسان کرتا‬
‫ہے‪ ،‬بلکہ اصل صلہ رحمی کرنے واال وہ ہے کہ جب اس سے قطع رحمی کی جائے تو وہ صلہ رحمی‬
‫کرے۔‬

‫سوال نمبر‪ :2‬درج ذیل اصطالحات کی وضاحت کریں۔‬


‫‪ .5‬غیبت‬ ‫‪ .4‬ایثار‬ ‫ب حالل‬
‫‪ .3‬کس ِ‬ ‫احترام قانون‬
‫ِ‬ ‫‪.2‬‬ ‫‪.1‬صدق‬
‫ت رسول ﷺ‬ ‫‪ .7‬اطااع ِ‬ ‫‪.6‬اتہام‬
‫‪.1‬صدق‪ :‬صدق کے لغوی معن ٰی ہیں "سچائی اور راست گوئی " ۔‬
‫اصطالحی لحاظ سے صدق سے مراد ہے انسان جو بات کہے تو وہ خالف واقعہ نہ ہو ۔‬
‫سچائی ایک ایسی اچھی صفت ہے جسے ہر مذہب ومعاشرہ میں پسند کیا جاتا ہے ۔ سچائی ہللا تعال ٰی کی‬
‫صفات میں سے ایک صفت ہے ۔ جیساکہ قرآن مجید میں ارشاد ہے‪:‬۔‬
‫ايت ‪) ۸۷ :‬‬ ‫النساء ‪ٓ ،‬‬ ‫َا (‬ ‫ِيث‬ ‫َد‬ ‫َ ّٰ‬
‫اّٰللِ ح‬ ‫ُ م‬
‫ِن‬ ‫َصَ‬
‫دق‬ ‫من ا‬ ‫ََ‬
‫و‬
‫’’ اور کون ہے ہللا سے زیادہ سچ بولنے واال ‘‘ ۔‬
‫اور قرآن مجید میں دوسری جگہ ارشاد ہے ‪:‬‬
‫دا (‬ ‫ِيً‬ ‫َ‬
‫َقولوا قوالً سَد‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫اّٰللَ و‬ ‫ُ‬
‫اتقوا ّٰ‬ ‫ُوا َّ‬ ‫من‬ ‫َ ٓ‬
‫اَ‬ ‫ِين‬
‫الذ‬ ‫َا َّ‬ ‫يه‬‫َُّ‬
‫يا‬‫َ‬
‫" ٓ‬
‫ايت ‪) ۷۰ :‬‬ ‫االحزاب ‪ٓ ،‬‬
‫’’ اے ایمان والو ! ڈرتے رہو ہللا سے اور کہو بات سیدھی ‘‘ ۔‬
‫سچائی کے بارے میں آپ ﷺ نے اپنے امتیوں کے ترغیب دالتے ہوئے فرمایا ‪:‬‬
‫( حديث )‬ ‫ٌ "‬
‫َّۃ‬
‫ِي‬‫َان‬‫َم‬‫ُ ط‬ ‫ِدق‬ ‫َلص‬
‫ّ‬ ‫" ا‬
‫"سچائی اطمینان کا باعث ہے" ۔‬
‫احترام قانون‪ :‬کسی بھی معاشرے کی تشکیل اور اس کے نظام کو چالنے کے لئے کچھ خاص‬ ‫ِ‬ ‫‪.2‬‬
‫قوانین اور اصولوں کی ضرورت ہوتی ہے جو اس معاشرے کے افراد کی سالمتی‪ ،‬آزادی اور بقاء کے‬
‫لئے تشکیل دئے جاتے ہیں اور معاشرے میں ان کا نفاذ کیا جاتا ہے۔ ان قوانین کی تشکیل سیاسی‪،‬‬
‫معاشرتی اور دینی بن یادوں پر کی جاتی ہے۔ ان قوانین کو تسلیم کرنا اور ان پر عمل درآمد کرنا قانون کا‬
‫احترام کہالتا ہے۔ ہللا تعالی نے مسلمانوں کو اس بات کا پابند بنایا ہے کہ وہ ہللا تعالی کی طرف سے بیان‬
‫کردہ اور رسول ہللا ﷺکی طرف سے پیش کردہ قوانین کا پوری طرح احترام کریں اور انہیں اپنی عملی‬

‫‪ 40 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫زندگی کا حصہ بنائیں۔ اس کے ساتھ ہی انہیں اس بات کی ہدایت بھی کی گئی ہے کہ وہ جس معاشرے‬
‫میں رہتے ہیں اس کے قوانین کا احترام بھی ان پر فرض ہے۔‬
‫ب حالل‪” :‬کسب“ عربی زبان کا لفظ ہے‪ ،‬جس کا مطلب ہے کمانا۔ شریعت کی اصطالح میں‬ ‫‪.3‬کس ِ‬
‫ب حالل سے مراد ای سی کمائی ہے جو جائز طریقے سے حاصل کی جائے اور تمام ایسے ذرائع سے‬ ‫کس ِ‬
‫گریز کیا جائے جو کہ اسالم کی نگاہ میں ناپسندیدہ یا برے ہیں۔ مثالَ َؑ‪ :‬بددیانتی‪ ،‬دھوکہ دہی‪،‬‬
‫رشوت‪،‬سودخوری‪ ،‬ڈکیتی اور ذخیرہ اندوزی وغیرہ۔‬
‫قرآن و حدیث میں حالل روزی کمانے والے کی بہت زیادہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔ ایک حدیث‬
‫میں آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ‪:‬‬
‫ُ للاا‬ ‫َب‬
‫ِيب‬ ‫ُ ح‬‫ِب‬
‫الکاس‬‫َ‬ ‫َ‬
‫ترجمہ‪ :‬حالل روزی کمانے واال ہللا کا دوست ہے۔‬
‫دوسری طرف حرام روزی کمانے والوں کے لئے آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪ :‬حرام رزق پر پلنے والے جسم کو جہنم ہی کا ایندھن بننا چاہئے۔‬
‫‪ .4‬ایثار ‪:‬ایثار عربی زبان کا لفظ ہےجس کے معنی ہیں " دوسروں کی ضرورتوں کو اپنی ذاتی‬
‫ضرورت پر مقدم رکھنا ‪ ،‬قربانی دینا " ۔‬
‫شیخ اکبر ایثار کے بارے میں فرماتے ہیں کہ ‪:‬‬
‫" ایثار سے مراد تیرا اپنے بھائی کو وہ چیز دینا ہے جس کا تو خود محتاج ہے " ۔ (مواقع النجوم)‬
‫تعالی نے تعریف‬
‫ٰ‬ ‫ایثار وقربانی کی صفات کا بہترین نمونہ پیش کرنے والے انصار کے بارے میں ہللا‬
‫کرتے ہوئے فرمایا ‪:‬‬
‫َة ( الحشر ‪) 9 :‬‬ ‫ٌ‬ ‫َاص‬ ‫َ‬
‫ِم خص‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫َلو كان ب‬
‫ِه‬ ‫َ‬‫ِم و‬ ‫ِه‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ٰ أنفس‬ ‫َ‬
‫َلى‬ ‫َ ع‬ ‫ُون‬‫ِر‬‫يؤث‬‫َُ‬‫و‬
‫" اور وہ دوسروں کو اپنی ذات پر ترجیح دیتے ہیں ۔ اگر چہ خود فاقے ہی سے کیوں نہ ہوں " ۔‬
‫ایثار وقربانی کے تاریخی واقعات ‪:‬‬
‫جذبہ ایثار اور دوسروں کو اپنے اوپر ترجیح دینے کی ایسی‬ ‫ٔ‬ ‫‪ ‬اسالمی تاریخ میں مسلمانوں کے‬
‫بے شمار مثالیں پائی جاتی ہیں‪ ،‬جس کی نظیر کسی دوسری قوم ومذہب میں نہیں ملتی۔‬
‫‪ ‬حضرت ابوہریرہ رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں کہ ایک انصاری کے گھر رات کو مہمان آگیا‪ ،‬ان‬
‫کے پاس صرف اتنا کھانا تھا کہ یہ خود اور ان کے بچے کھاسکیں‪ ،‬انھوں نے اپنی بیوی سے فرمایا کہ‬
‫بچوں کو کسی طرح سالدو اور گھر کا چراغ گل کردو پھر مہمان کے سامنے کھانا رکھ کر برابر بیٹھ‬
‫جاؤ کہ مہمان س مجھے کہ ہم بھی کھارہے ہیں؛ مگر ہم نہ کھائیں؛ تاکہ مہمان پیٹ بھر کھاسکے۔‬
‫(ترمذی)‬
‫صحابہ کرام میں‬
‫ٔ‬ ‫‪ ‬حضرت قشیری نے حضرت عبدہللا بن عمر رضی ہللا عنہ سے نقل کیاکہ‬
‫سے ایک بزرگ کو کسی شخص نے ایک بکری کا سربطور ہدیہ پیش کیا‪ ،‬اس بزرگ نے خیال کیا کہ‬
‫ہمارا فالں بھائی اور اس کے اہل وعیال ہم سے زیادہ ضرورت مند ہیں‪ ،‬یہ سر ان کے پاس بھیج دیا‪ ،‬یہ‬
‫سر جب دوسرے بزرگ کے پاس پہنچا تو اسی طرح انھوں نے تیسرے کے پاس اور تیسرے نے‬
‫حتی کہ سات گھروں میں پھرنے کے بعد یہ سر پہلے بزرگ کے پاس واپس‬ ‫چوتھے کے پاس بھیج دیا‪ٰ ،‬‬
‫آگیا۔‬
‫‪ ‬رومیوں کے مقابلے میں جانے والی فوج کے سازوسامان کے لیے مسلمانوں سے مالی اعانت‬
‫طلب کی گئی تو حضرت ابوبکر صدیق نے گھر کا سارا سامان لے آئے ۔‬
‫‪ .5‬غیبت‪ :‬غیبت کے لفظی معنی ہیں ’عدم موجودگی‘۔ شریعت کی اصطالح میں غیبت سے مراد یہ‬
‫ہے کہ کسی شخص کی عدم موجودگی میں ایسی بات کہی جائے کہ اگر وہی بات اس شخص کی‬
‫‪ 41 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫موجودگی میں اس کے سامنے کہی جاتی تو اسے ناگوار گزرتی۔ عموماََؑ غیبت کے پیچھے بدنیتی کار‬
‫ق مخالف کی بے عزتی اور تحقیر کرنا ہوتا ہے تاکہ اسے لوگوں‬ ‫فرما ہوتی ہے اور اس کا مقصد فری ِ‬
‫کی نظروں میں گرایا جاسکے‪ ،‬جو انتہائی بری حرکت ہے۔ جس سے باہمی تعلقات خراب اور آپس کی‬
‫زندگی تباہ ہوکر رہ جاتی ہے اور آپس میں بے اعتمادی اور بدگمانی پیدا ہوجاتی ہے۔‬
‫قرآن مجید کی سورۃ الحجرات کی آیت نمبر‪ ۱ ۲‬میں غیبت سے بچنے کی تلقین اور اس کی‬
‫مذمت اس طرح بیان کی گئی ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ” :‬اور تم میں سے کوئی کسی کی غیبت نہ کرے۔ کیا تم میں سے کوئی شخص یہ پسند کرتا‬
‫ہے کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے؟ پس تم کو اس سے گھن آتی ہے۔“‬
‫‪ .6‬اتہام (تہمت لگانا)‪ :‬کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں اُس پر الزام تراشی کرنا‬
‫یعنی اُس کے کردار کی ایسی خرابیاں بیان کرنا جو اُس میں نہ پائی جاتی ہوں ”اتہام“ کہالتا ہے۔ اس کا‬
‫دین اسالم میں سختی سے منع کیا گیا‬ ‫بنیادی مقصد کسی کی رسوائی‪ ،‬بدنامی اور ذلت ہوتی ہے۔ اتہام کو ِ‬
‫ہے اور اس کی تحقیق کے بعد تہمت لگانے والے فرد پر تعذیر یعنی سخت سزا کا حکم دیا گیاہے۔ اتہام‬
‫مکمل طور پر جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے کیونکہ یہ صرف کسی فرد یا افراد کی جماعت کو رسوا اور‬
‫بدنام کرنے کے لئے لگایا جاتا ہے۔‬
‫ت رسول ﷺ‪ :‬رسول ہللا ﷺ کا مقام‪ ،‬مرتبہ اور شان اس لحاظ سے بلند ہے کہ ہللا تعالی نے‬ ‫‪ .7‬اطاع ِ‬
‫ہدایت کی تکمیل رسول ہللا ﷺ پر کی اور نبوت کا خاتمہ کردیا اور دنیا کی تمام تہذیبوں اور معاشروں پر‬
‫اس بات کی وضاحت کردی کہ ہللا تعالی کی طرف سے انسانوں کی رہنمائی اور ہدایت کا سلسلہ ختم کیا‬
‫جارہا ہے اور انسانوں کے لئے ایک کامل دین کا انتخاب کردیا گیا۔ اس لئے دنیا کے تمام انسانوں کو‬
‫نبی اکرم ﷺ کی سنت کی پیروی کرنی چاہئے اور اُن پر نازل کی جانے والی کتاب قرآن مجید میں‬
‫موجود ہللا تعالی کے احکامات کو حتمی اور قیامت تک رہنمائی کا وسیلہ سمجھنا چاہئے تاکہ اس پوری‬
‫دنیا کے انسانوں کو نہ صرف دنیا میں کامیابی حاصل ہو بلکہ آخرت میں بھی انہیں ہللا تعالی کی‬
‫خوشنودی حاصل ہوسکے۔ رسول ہللا ﷺ کی اطاعت اس لئے ضروری ہے کیونکہ ہللا تعالی نے انہیں اپنا‬
‫سل علیہم السالم کی تعلیمات‬ ‫آخری رسول بناکر بھیجا اور آنحضرت ﷺ نے تمام سابقہ انبیائے کرام اور ُر ُ‬
‫کو مکمل ا ور حتمی طور پر ازسر نو لوگوں کے سامنے پیش کیا اور اس کے بعد ہللا تعالی کی طرف‬
‫سے انسانوں کی مزید ہدایت اور رہنمائی کی ضرورت باقی نہ رہی۔‬
‫ہللا تعالی نے رسول اکرم ﷺ کی زندگی کو ہمارے لئے عملی نمونہ قرار دیا ہے۔ ارشا ِد باری‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫(‬ ‫ٌ‬ ‫َ‬
‫َسَنة‬ ‫َة ح‬‫ٌ‬ ‫ُ‬
‫ِ للااِ اسو‬‫َسُول‬ ‫ِى ر‬ ‫َد كان لكم ف‬
‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َلق‬
‫االحزاب ‪) 21 :‬‬
‫"بے شک تم لوگوں کے لیے رسول ہللا ﷺ کی زندگی میں بہترین نمونہ ہے "۔‬
‫ہللا تعالی نے رسول ہللا ﷺ کی اطاعت کو اپنی محبت کا ثبوت قرار دیا ہے‪:‬‬
‫(آل‬ ‫ُ للااُ “‬ ‫ُم‬‫ِبک‬‫يحب‬ ‫ِی ُ‬ ‫ُون‬ ‫ِع‬ ‫َ َّ‬
‫اتب‬ ‫َ للااَ ف‬‫ُّون‬
‫تحِب‬‫ُم ُ‬ ‫ُنت‬‫ِن ک‬‫ُل ا‬ ‫ق‬
‫عمران‪)31 :‬‬
‫"اے محبوب ﷺ کہدیجئے ! اگر تم محبت رکھتے ہو ہللا کی تو میری پیروی کرو ( اور اس کا نتیجہ یہ‬
‫ہوگا کہ ) خود ہللا تم سے محبت کرنے لگے گا " ۔‬
‫رسول ہللا ﷺ نے اپنی اطاعت کی اہمیت کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے‪:‬‬

‫‪ 42 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫َ للااِ‬
‫َسُول‬
‫يا ر‬‫بی َ‬ ‫َٰ‬‫من ا‬ ‫ََ‬‫َ و‬‫ِيل‬ ‫ٰی ق‬‫َب‬‫من ا‬ ‫ِالَّ َ‬
‫َ ا‬‫َّۃ‬
‫َن‬ ‫َ الج‬ ‫ُون‬
‫ُل‬ ‫ِی َّ‬
‫يدخ‬ ‫مت‬‫َُّ‬ ‫ُل‬
‫ُّ ا‬ ‫ک‬
‫ٰی “(بخاری‪)7280 :‬‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِی فقد اب‬‫َ‬ ‫َان‬
‫َص‬‫من ع‬ ‫ََ‬‫َ و‬ ‫َّۃ‬
‫َن‬‫َل الج‬‫َ‬ ‫ِی َ‬
‫دخ‬ ‫َن‬ ‫َ‬
‫من اطاع‬ ‫َال َ‬
‫َ‬ ‫ق‬
‫" میرا ہر امتی جنت میں جائے گا ۔ سوائے اس کے جو انکار کردے عرض کیا کہ انکارکرنے واال‬
‫شخص کون ہوگا؟ ارشاد فرمایا ۔ جو شخص میری اطاعت کرے گا وہ جنت میں جائے گا اور جو میری‬
‫نافرمانی کرے گا وہ انکار کرنے واال ہوگا "‬
‫ارکان اسالم کے نام تحریر کیجئے۔‬
‫ِ‬ ‫ارکان اسالم سے کیا مراد ہے؟‬
‫ِ‬ ‫سوال نمبر ‪:3‬‬
‫معنی "ستون " کے ہیں ۔ رکن ایسی چیز کو کہتے ہیں‬
‫ٰ‬ ‫ارکان اسالم‪ :‬ارکان رکن کی جمع ہے جس کے‬
‫ِ‬
‫جس پر کسی عمارت کے قائم رہنے کا دارومدار ہو ۔ یہاں ارکان اسالم سے مراد دین کے وہ بنیادی‬
‫اصول واعمال ہیں جن پر اسالم کی پوری عمارت قائم ہے ۔‬
‫نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے ‪:‬‬
‫ده‬ ‫َبُ‬‫دا ع‬ ‫ًَّ‬
‫َم‬ ‫مح‬‫َّ ُ‬‫َ‬
‫َان‬ ‫ہ اَّ‬
‫ِال للااُ و‬ ‫ِلَ‬ ‫َ‬
‫ِ ان َّال اٰ‬ ‫دة‬‫َاَ‬‫َمسٍ شَه‬ ‫ٰی خ‬ ‫َل‬
‫ُ ع‬‫ِسَالم‬‫ِیَ اال‬ ‫بن‬‫" ُ‬
‫َ"‬‫َان‬ ‫ََ‬
‫مض‬ ‫ِ ر‬ ‫َوم‬‫َص‬‫ِ و‬‫َج‬
‫ّ‬ ‫َالح‬ ‫ِ و‬ ‫ٰوة‬ ‫َّک‬
‫َائِ الز‬ ‫ِيت‬‫َا‬ ‫ِ و‬‫ٰوة‬‫َّل‬
‫ِ الص‬ ‫َام‬ ‫َا‬
‫ِق‬ ‫َسُوُلہ و‬ ‫َر‬
‫و‬
‫( بخاری ومسلم )‬
‫"اسالم کی عمارت پانچ ستونوں پر اٹھائی گئی ہے ۔ اس بات کی شہادت کہ ہللا کے سوا کوئی معبود‬
‫زکوۃ‬
‫نہیں اور یہ کہ حضرت محمد ﷺ ہللا کے بندے اور اس کے رسول ہیں ۔ اور نماز قائم کرنا ۔ اور ٰ‬
‫دینا ۔ اورحج کرنا ۔ اور رمضان کے روزے رکھنا "۔‬
‫اسالم کے بنیادی ارکان پانچ ہیں۔‬
‫‪۱‬۔شہادت۔ (یعنی ہللا تعالی کے معبو ِد برحق اور رسو ِل اکرم ﷺ کے آخری رسول ہونے کی گواہی)‬
‫(یعنی پانچ وقت کی نماز)‬ ‫‪۲‬۔صلوۃ۔‬
‫(یعنی فقراء و مساکین کا حق)‬ ‫‪۳‬۔زکوۃ۔‬
‫(یعنی رمضان المبارک کے روزے)‬ ‫‪۴‬۔صوم۔‬
‫ت بیت ہللا کے لئے مکہ مکرمہ جانا)‬ ‫(زیار ِ‬ ‫‪۵‬۔حج۔‬
‫سوال نمبر‪:4‬نماز کے تین فوائد تحریر کریں۔‬
‫نماز کے فوائد‪ :‬نماز کا اصل اور سب سے اہم فائدہ تو ہللا کی رضا کا حصول ہے۔ اس کے عالوہ‬
‫دیگر تین فوائد درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪ ۱‬۔اگر نماز کو اس کے آداب کی رعایت کے ساتھ پڑھا جائے تو انسان متقی بن جاتا ہے جس کی‬
‫وجہ سے اس کے لئے گناہ سے بچنا آسان ہوجاتا ہے۔ اس کا ذکر قرآن میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ارشا ِد باری‬
‫َ‬
‫ُنکر‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ٰ عنِ الفحشاء والم‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ٰة تنهی‬ ‫َ‬ ‫َّلو‬
‫ِن الص‬ ‫َّ‬ ‫ا‬
‫ترجمہ‪:‬بیشک نماز بے حیائی اور برائی کے کاموں سے روکتی ہے۔ (سورۃ العنکبوت‪)۴ ۵ :‬‬
‫ذکر‬
‫ذکر خداوندی کا افضل ترین ذریعہ ہے۔ اس عبادت میں زبان‪ ،‬جسم اور قلب بیک وقت ِ‬ ‫‪۲‬۔نماز ِ‬
‫ٰالہی میں مشغول رہتے ہیں اور بندہ اپنے رب سے براہ راست گفتگو کرتا ہے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ِی‬
‫ِکر‬ ‫لذ‬‫َ ِ‬‫ٰة‬‫َّلو‬‫ِ الص‬‫ِم‬‫َق‬‫َا‬‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور میری یاد کے لئے نماز قائم کرو۔ (سورہ طہ‪)۱ ۴ :‬‬
‫‪۳‬۔نماز کی شرائط میں یہ بھی داخل ہے کہ نماز کو اس کے مقررہ وقت میں ہی ادا کیا جائے‪،‬‬
‫چنانچہ جب انسان نماز کو اس کے وقت میں ادا کرتا ہے تو نماز کی ادائیگی کی بدولت انسان کے اندر‬

‫‪ 43 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫وقت کی پابندی کا احساس پیدا ہوتا ہے اور وہ اپنی روز مرہ کی زندگی میں ہر کام مقررہ وقت پر کرنے‬
‫کا عادی بن جاتا ہے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ُ‬
‫موقوتا‬ ‫ً‬
‫با َّ‬ ‫َاَ‬‫ِت‬ ‫َ‬
‫ِين ک‬ ‫ِن‬‫ُؤم‬ ‫َلی الم‬ ‫َ‬ ‫انت ع‬‫َ َ‬‫َ ک‬ ‫ٰة‬‫َّلو‬ ‫َّ الص‬ ‫ِن‬
‫ا‬
‫ترجمہ‪ :‬بے شک نماز مومنوں پر مقررہ وقت میں فرض کی گئی ہے۔‬
‫سوال نمبر ‪ :5‬روزہ کی کتنی اقسام ہیں؟‬
‫روزہ کی اقسام‪:‬روزہ کی چار بڑی اقسام ہیں‪:‬‬
‫فرض روزے‪ :‬ما ِہ رمضان ‪ ،‬کفارہ ‪،‬نذر وغیرہ کے روزے۔‬ ‫‪.1‬‬
‫سنت‪ :‬محرم الحرام کی نویں اور دسویں تاریخ کے روزے‪ ،‬عرفہ یعنی نویں ذی الحجہ کا روزہ‬ ‫‪.2‬‬
‫ایام بیض یعنی ہر قمری مہینہ کی تیرہویں‪ ،‬چودہویں اور پندرہویں تاریخ کے روزے‪ ،‬پیر ار‬
‫اور ِ‬
‫جمعرا ت کے روزے۔‬
‫مکروہ روزے‪ :‬صرف جمعہ کے دن روزہ رکھنا وغیرہ۔‬ ‫‪.3‬‬
‫ایام تشریق یعنی ذی الحجہ کی گیارہویں‪،‬‬
‫حرام‪ :‬عید الفطر اور عید االضحی کے دو روزے اور ِ‬ ‫‪.4‬‬
‫بارہویں اور تیرہویں تاریخ کے تین روزے۔‬
‫سوال نمبر‪ :6‬روزے کے تین فوائد تحریر کریں۔‬
‫روزے کے فوائد‪ :‬روزہ رکھنے کا اصل اور سب سے اہم فائدہ تو ہللا کی رضا کا حصول ہے۔ اس‬
‫کے عالوہ دیگر تین فوائد درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪ ۱‬۔روزے کا سب سے اہم فائدہ جو قرآن میں بھی بیان کیا گیا ہے وہ تقوی کا حصول ہے۔ ارشا ِد باری‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫َّقون‬‫ُ‬ ‫تت‬ ‫ُ‬
‫َلکم َ‬ ‫َّ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫ِکم لع‬ ‫َ‬
‫ِن قبل‬ ‫َ‬
‫ِين م‬ ‫َّ‬
‫َلی الذ‬ ‫َ‬ ‫َ ع‬‫ِب‬ ‫ُ‬
‫َا کت‬ ‫َ‬
‫ُ کم‬ ‫َام‬‫ّي‬‫ُ الص‬ ‫ُ‬
‫َليکم‬‫َ‬ ‫َ ع‬ ‫ُت‬
‫ِب‬ ‫ک‬
‫ترج مہ‪ :‬تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے گئے تھے تاکہ تم‬
‫پرہیزگار بن جاؤ۔(سورۃ البقرۃ‪)۱ ۸ ۳ :‬‬
‫‪ ۲‬۔جب انسان روزہ رکھتا ہے تو اس کے دل میں غریبوں کا خیال اور ان کا احساس پیدا ہوتا ہے۔‬
‫‪۳‬۔روزہ انسان کی روح کے ساتھ ساتھ اس کے جسم کو بھی تقویت بخشتا ہے اور انسان کی اندرونی‬
‫مشین کے پورے نظام میں بہتری پیدا کرتا ہے۔‬
‫سوال نمبر‪:7‬زکوۃ کے تین فوائد تحریر کریں۔‬
‫زکوۃ کے فوائد‪ :‬زکوۃ کی ادائیگی کا اصل اور سب سے اہم فائدہ تو ہللا کی رضا کا حصول ہے۔ اس‬
‫کے عالوہ دیگر تین فوائد درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪ ۱‬۔زکوۃ کی ادائیگی سے مال گردش میں آتا ہے جس سے معیشت میں بہتری پیدا ہوتی ہے۔‬
‫‪۲‬۔ جب امیر لوگ غریبوں کی مدد کرتے ہیں تو معاشرے میں بہتر فضا قائم ہوتی ہے اور اس کے‬
‫نتیجے میں جہاں امیروں کو اپنی ذمہ داری کا احساس ہوتا ہے وہیں غریبوں کو بھی یہ احساس ہوتا ہے‬
‫کہ وہ اس غربت کی حالت میں اکیلے نہیں ہیں بلکہ ان کی مدد کرنے کے لئے ان کے مسلمان بھائی‬
‫موجود ہیں۔‬
‫‪ ۳‬۔زکوۃ کی ادائیگی سے امیر کا پیسہ غریب کی جیب میں پہنچ جاتا ہے جس سے امیر اور غریب کے‬
‫درمیان تفریق کم کرنے میں مدد ملتی ہے۔‬
‫ب نصاب سے کون سا شخص مراد ہے؟‬
‫زکوۃ کا نصاب تحریر کریں یا صاح ِ‬
‫سوال نمبر‪ٰ :8‬‬

‫‪ 44 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫زکوۃ فرض نہیں کی ہے بلکہ مال کی ایک خاص حد مقرر کی‬ ‫زکوۃ‪ :‬شریعت نے ہر فرد پر ٰ‬ ‫ب ٰ‬ ‫نصا ِ‬
‫ہے اور حکم دیا ہے کہ جس کے پاس اتنا یا اس سے زیادہ مال موجود ہو اور اس پر سال گزراہو تو وہ‬
‫زکوۃ کا نصاب کہالتی ہے اور‬
‫زکوۃ ادا کرے۔ مال کی یہ حد ٰ‬
‫اپنے مال میں سے ڈھائی فیصد (‪ٰ )2.5%‬‬
‫زکوۃ کا‬
‫ب نصاب کہالتا ہے۔ ٰ‬‫زکوۃ کے نصاب کے بقدر مال موجود ہو وہ صاح ِ‬ ‫جس شخص کے پاس ٰ‬
‫نصاب یہ ہے‪:‬‬
‫ساڑھے سات تولہ۔‬ ‫سونا‪:‬‬
‫ساڑھے باون تولہ۔‬ ‫چاندی‪:‬‬
‫سونا‪ /‬چاندی کے نصاب کے برابر۔‬ ‫نقدی‪/‬ما ِل تجارت‪:‬‬
‫سوال نمبر‪ :9‬حج کی اقسام تحریر کریں۔‬
‫حج کی اقسام‪ :‬حج کی تین اقسام ہیں‪:‬‬
‫‪۳‬۔ تمتع۔‬ ‫‪۲‬۔ قِران ۔‬ ‫‪۱‬۔اِفراد۔‬
‫(‪ )1‬حج اِفراد‪:‬اِفراد کے لغوی معنی ہیں‪ ’’:‬اکیالاور تنہا‪ ،‬جب کہ شرعی اصطالح میں صرف حج‬
‫کی نیت سے احرام باندھ کر حج کے افعال و مناسک ادا کرنا اور عمرہ ساتھ نہ مالنا ‘حج اِفراد کہالتا‬
‫ہے۔ حج اِفراد کرنے والے کو ”مفرد“ کہا جاتا ہے‘‘ ۔‬
‫(‪ )2‬حج قران‪:‬قران(ق کے کسرہ کے ساتھ) کے لغوی معنی ہیں‪’’:‬دو چیزوں کوباہم مالدینا‪ ،‬جب کہ‬
‫شرعی اصطالح میں عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے احرام باندھنا اور ایک ہی احرام کے ساتھ پہلے‬
‫عمرہ اورپھر حج اداکرنا اور درمیان میں احرام نہ کھولنا‘حج قران کہالتا ہے۔حج قران کرنے والے‬
‫کو"قارن"کہا جاتا ہے۔امام ابو حنیفہ کے نزدیک حج قران افضل ہے‘‘۔‬
‫عازم حج کا میقات‬
‫ِ‬ ‫(‪ )3‬حج تمتع‪:‬تمتع کے لغوی معنی ہیں‪’’:‬نفع اٹھانا‪ ،‬جب کہ شرعی اصطالح میں‬
‫سے پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھنا اورعمرہ کے افعال ومناسک ادا کر نے کے بعد احرام کھول‬
‫دینا اور پھر ‪ 8‬ذوالحجہ کو پھر حج کا احرام باندھ کر مناسک حج ادا کیے جائیں ۔حج تمتع کرنے والے‬
‫کو "متمتع"کہا جاتا ہے‘‘۔‬
‫الغرض اِفراد میں ایک سفر میں ایک احرام میں ایک عبادت ہوتی ہے‪ ،‬تمتع میں ایک سفر میں‬
‫دو احرام میں دو عبادتیں ہوتی ہیں اور قِران میں ایک سفر اور ایک احرام میں دو عبادتیں ادا کی جاتی‬
‫ہیں۔‬
‫سوال نمبر‪:10‬حج کے تین فوائد تحریر کریں۔‬
‫حج کے فوائد‪ :‬حج کا اصل اور سب سے اہم مقصد تو ہللا کی رضا کا حصول ہے۔ اس کے عالوہ‬
‫دیگر تین فوائد درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪ ۱‬۔حج مساوات(برابری) کی بہترین عملی شکل ہے۔حج کے لئے تمام دنیا کے مسلمان ایک لباس میں‬
‫ملبوس ہوکر بغیر کسی کالے‪ ،‬گورے اور امیر و غریب کی تمیز کے اکٹھے ہوتے ہیں اور مل کر‬
‫سک حج ادا کرتے ہیں۔‬
‫منا ِ‬
‫‪ ۲‬۔حج کا ایک فائدہ یہ بھی ہے کہ اس سے انسان کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔ حضور ﷺ کا‬
‫ارشاد ہے‪:‬‬
‫مہ‬ ‫ُ‬
‫دتہ اُّ‬ ‫َ‬
‫َّلَ‬
‫ِ و‬ ‫َوِ‬
‫م‬ ‫َ‬
‫َ کي‬‫َع‬ ‫َج‬‫يفسُق ر‬‫َلم َ‬‫َ‬ ‫َ‬
‫يرفث و‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ّٰلل فلم َ‬ ‫َج‬
‫َّ ِّٰ‬ ‫َ‬
‫من ح‬
‫ترجمہ‪ :‬جو کوئی خالصتا ہللا تعالی کے حکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اور حج کے دوران گناہ اور بے‬
‫حیائی کے کاموں سے باز رہتا ہے تو وہ اس طرح (گناہوں سے پاک ہوکر) لوٹتا ہے جیسے اس دن تھا‬
‫جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ (بخاری)‬
‫‪ 45 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ت مسلمہ کے افراد کے لئے اقتصادی ترقی کا ایک ذریعہ بھی ثابت ہوتا ہے۔ حج کے دوران‬
‫‪۳‬۔حج ام ِ‬
‫مختلف ممالک سے آئے ہوئے اور مختلف پیشوں اور شعبوں سے منسلک افراد آپس میں ایک دوسرے‬
‫سے تبادلہ خیال کرتے ہیں اور ایک دوسرے کے تجربات اور مشوروں سے مستفید ہوتے ہیں۔‬
‫سوال نمبر‪ :11‬جہاد کی اقسام تحریر کریں۔‬
‫جہاد کی اقسام‪ :‬جہاد کی کئی اقسام ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ‪:‬‬
‫(‪ )2‬جہادبالمال (‪ )3‬جہادباللّسان (‪ )4‬جہادبالسیف‬ ‫(‪ )1‬خواہش نفس کے خالف جہاد ( جہاد بالنفس )‬
‫(‪ )5‬جہادبالقلم‬
‫خواہش نفس کے خالف جہاد (جہاد اکبر ‪ /‬جہاد بالنفس )‪:‬‬ ‫(‪)1‬‬
‫ت الہی سے روکنے والی بنیادی طور پر دو قوتیں ہیں۔ ایک اس کا اپنا نفس اور دوسرا‬ ‫انسان کو اطاع ِ‬
‫شیطان۔ انسان کے دل میں طرح طرح کی خواہشات ابھرتی ہیں۔ ان تمام خواہشات کو ہللا تعالی کے‬
‫احکامات کے تابع رکھنا جہاد بالنفس ہے۔یعنی اگر خواہش شریعت کے کسی حکم کے خالف ہو تو اس‬
‫خواہش کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے لئے جتنی بھی مشقت اٹھانی پڑے وہ برداشت کی جائے۔ اسے‬
‫تعالی کا فرمان ہے ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫جہا ِد اکبر بھی کہتے ہیں۔ہللا‬
‫َ‬
‫ِين‬ ‫َ‬
‫ٰـلم‬ ‫َنِ الع‬ ‫ِیٌّ ع‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫َ لغن‬ ‫َّ‬
‫ِن اللاا‬ ‫ط‬
‫ِ ا‬ ‫ِه‬ ‫َ‬
‫لنفس‬‫ِد ِ‬‫ُ‬‫َاھ‬‫يج‬ ‫َا ُ‬ ‫ِنم‬‫َّ‬ ‫َ‬
‫د فا‬ ‫ََ‬
‫َاھ‬‫من ج‬ ‫ََ‬‫" و‬
‫(العنکبوت‪)6/ 29 ،‬‬ ‫"‬
‫" اور جو شخص (را ِہ حق میں) جدوجہد کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے )لیے تگ و دو کرتا ہے‪ ،‬بے‬
‫شک ہللا تمام جہانوں (کی طاعتوں‪ ،‬کوششوں اور مجاہدوں) سے بے نیاز ہے " ۔‬
‫رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے ‪:‬‬
‫( ترمذی ‪ ،‬رقم الحدیث ‪:‬‬ ‫ُ"‬‫نفسَه‬ ‫د َ‬
‫ََ‬ ‫َاھ‬ ‫من ج‬ ‫د َ‬ ‫ُِ‬
‫َاھ‬ ‫َلم‬
‫ُج‬ ‫" ا‬
‫‪) 1621‬‬
‫" مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے " ۔‬
‫یعنی نفس امارہ جو آدمی کو برائی پر ابھارتا ہے‪ ،‬وہ اسے کچل کر رکھ دیتا ہے‪ ،‬خواہشات نفس کا‬
‫تابع نہیں ہوتا اور اطاعت ٰالہی میں جو مشکالت اور رکاوٹیں آتی ہیں‪ ،‬ان پر صبر کرتا ہے‪ ،‬یہی‬
‫جہاد اکبر ہے۔‬
‫جہادبالمال‪:‬جہادبالمال سے مراد ہللا کے دیئے ہوئے مال و دولت کو ہللا کی راہ میں ہللا کے‬ ‫(‪)2‬‬
‫دین کی سر بلندی ‪،‬دین اسالم کی حفاظت‪ ،‬ملک کی حفاظت و بقاء ‪ ،‬دین کی تبلیغ اور جہاد فی سبیل ہللا‬
‫میں خرچ کرنا ہے مختصر طور پر یہ ہے کہ ہللا کی رضا کے لئے خرچ کرنا یہ جہاد جہاد بالمال کہالتا‬
‫ہے۔‬
‫جہاد باللّسان‪:‬جہادباللّسان سے مراد معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کے خالف زبان‬ ‫(‪)3‬‬
‫سے جہاد کرنا ہے ‪،‬یہ جہاد وعظ و تقریر کی شکل میں کیاجاسکتا ہے‪،‬یا پھر بُرائی کے ارتکاب کرنے‬
‫والے فرد کو َبر وقت زبان سے ٹوک کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر برائی کے خالف‬
‫زبان سے لڑنے کا نام جہاد باللّسان ہے۔‬
‫(‪ )4‬جہادبالسیف‪:‬یہ جہاد کی اہم ترین قسم کا ہے‪ ،‬جس کا مطلب ہے ہللا کے دین کی حفاظت ‪،‬ملک‬
‫مادر وطن کی سا لمیت کے لئے سر پر کفن باندھے ہوئے ہاتھ میں‬ ‫ِ‬ ‫کی بقاء ‪ ،‬سرحدوں کے تحفظ اور‬
‫ّ‬
‫ُشمنان ملک و ملت کے خالف لڑنا جہادبا لسیف کہالتا ہے اور حقیقت میں یہ افضل‬ ‫ِ‬ ‫تلوار لیے ہوئے د‬
‫ترین جہادہے کہ جس میں کام آ نے والے شہیداور بچ جانے والے غازی کہالتے ہیں۔ اگر کوئی کفر‬

‫‪ 46 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫کے خالف جنگ کرتا ہوا مارا جائے تو قرآن کے فرمان کے مطابق اسے مردہ نہ کہا جائے بلکہ‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫حقیقت میں وہ زندہ ہے۔ ارشاد باری‬
‫ِن الَّ‬ ‫ٰ‬ ‫َ‬ ‫ٌ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ٌ‬ ‫َ‬
‫ِ اّٰللِ أموات بل أحياء ولک‬ ‫َ‬ ‫ّ‬ ‫ِيل‬ ‫َ‬
‫ِي سب‬ ‫َل ف‬
‫ُ‬ ‫يقت‬‫َن ُ‬ ‫لم‬ ‫ولوا ِ‬ ‫ُ ُ‬‫تق‬‫َالَ َ‬
‫و‬
‫َ‬
‫ُون‬ ‫ُر‬‫تشع‬ ‫َ‬
‫ترجمہ‪ :‬اور جو لوگ ہللا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں‪( ،‬وہ مردہ نہیں)‬
‫بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔‬
‫(سورۃ البقرۃ‪)۱۵ ۴ :‬‬
‫(‪ )5‬جہادبالقلم‪:‬یہ اہم ترین فریضہ جہادیہ ہے کہ اہ ِل علم اور صاحب ِقلم افراد اپنے علم اور قلم کے‬
‫ذریعے برائیوں کو روکنے اورنیکیوں کو فروغ دینے میں صرف کریں اور ایساعمل کرنے والے‬
‫افرادکو مجاہد بالقلم کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ قلم کی طاقت تلوار کی طاقت سے کہیں زیادہ‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫سوال نمبر‪ :12‬والدین کے حقوق کے متعلق ایک آیت یا حدیث تحریر کیجئے۔‬
‫والدین کے حقوق کے متعلق آیت یا حدیث‪ِ :‬‬
‫دین اسالم میں والدین کے حقوق پر بہت زیادہ زور دیا‬
‫حسن سلوک کا حکم دیا‬
‫ِ‬ ‫گیا ہے۔قرآن مجید میں ہللا تعالی نے جا بجا اپنی عبادت کے فورا بعد والدین سے‬
‫ہے۔‬
‫ہللا تعالی اگر حقیقی خالق ہیں تو والدین انسان کی دنیا میں پیدائش کا وسیلہ ہیں۔ یہ ایک مسلمہ‬
‫حقیقت ہے کہ پیدائش سے موت تک انسان اپنے والدین کا محتاج ہوتا ہے۔ ہر انسان پر والدین کے اتنے‬
‫احسانات ہوتے ہیں کہ اگر وہ ساری زندگی بھی ان کی خدمت کرتا رہے تب بھی ان کے احسانات کا بدلہ‬
‫نہیں چکاسکتا لیکن وہ ان کے احسانات کے جواب میں ان کی خدمت کرسکتا ہے‪ ،‬ان کی اطاعت اور ان‬
‫حسن سلوک کرسکتا ہے۔ قرآن و حدیث میں والدین کے حقوق کو بڑی صراحت کے ساتھ بیان کیا‬ ‫ِ‬ ‫سے‬
‫ٰ‬
‫گیا ہے۔ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر ہللا تعالی نے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم دیا ہے‬
‫۔ ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ً‬
‫ِحسَانا‬ ‫لدينِ ا‬ ‫َ‬ ‫َاِ‬ ‫ِالو‬ ‫َب‬
‫ُ و‬ ‫ِياه‬ ‫َّ‬
‫ِال اَّ‬ ‫ُدوا ا‬‫ُ‬‫َالَّ تعب‬
‫َ‬ ‫بکَ ا‬ ‫َُّ‬
‫ٰی ر‬ ‫َض‬‫َق‬ ‫و‬
‫( االسراء ‪) 24 ، 23 :‬‬
‫" اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ اس کے سواہ کسی کی عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے‬
‫حسن سلوک سے پیش آو "۔‬‫ِ‬ ‫ساتھ‬
‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے ایک شخص نے سوال کیا کہ ‪:‬‬
‫َ‬
‫َّ أيٌّ‬
‫ثم‬‫َ ُ‬‫َال‬‫َا ق‬‫ِه‬‫َقت‬‫َى و‬ ‫َل‬‫ُ ع‬ ‫ََّالة‬
‫َ الص‬ ‫َال‬ ‫َِلى َّ‬
‫اّٰللِ ق‬ ‫ُّ إ‬
‫َب‬‫َح‬‫ِ أ‬‫َل‬
‫َم‬‫َيُّ الع‬ ‫" أ‬
‫(بخاری)‬ ‫دينِ"‬ ‫لَ‬‫َاِ‬‫ُّ الو‬‫ِر‬‫َّ ب‬
‫ثم‬‫َ ُ‬‫َال‬‫ق‬
‫"ہللا کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب عمل کیا ہے" آپ ﷺنے ارشاد فرمایا نماز کو اپنے (مستحب)‬
‫وقت میں (پڑھنا) اس نے پھر سوال کیا کہ اس کے بعد کون سا عمل سب سے زیادہ محبوب ہے تو آپ‬
‫نے ارشاد فرمایا والدین کے ساتھ اچھا سلوک۔‬
‫سوال نمبر ‪ :13‬پڑوسیوں کی اقسام بیان کیجئے۔‬
‫پڑوسیوں کی اقسام‪ :‬سورہ نساء میں ہللا تعالی نے پڑوسی کی تین اقسام بیان فرمائی ہیں‪:‬‬
‫‪ )1‬وہ پڑوسی جو رشتہ دار ہوں ‪ :‬یہ وہ ہمسایہ ہے جو رشتے دار بھی ہے۔ اس کا حق دیگر پڑوسیوں‬
‫کے مقابلے میں مقدم ہے۔‬

‫‪ 47 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪ )2‬وہ پڑوسی جو رشتہ دار نہ ہوں ‪ :‬اس سے مراد وہ پڑوسی ہے جو رشتے دار نہیں بلکہ صرف‬
‫پڑوسی ہے۔ اس کا درجہ پہلے والے سے کم ہے۔‬
‫‪ )3‬عارضی پڑوسی ‪ :‬یعنی جس کے ساتھ دن رات کا اٹھنا بیٹھنا ہو۔ اس اصطالح سے مراد ایک گھر یا‬
‫عمارت میں رہنے والے مختلف لوگ‪،‬دفتر ‪ ،‬فیکٹری یا کسی اور ادارے میں ساتھ کام کرنے والے‬
‫افراد‪ ،‬تعلیمی اداروں میں پڑھنے والے ساتھی‪ ،‬دوست اور دیگر ملنے جلنے والے احباب شامل‬
‫ہیں۔‬
‫سوال نمبر‪:14‬منافق کی نشانیاں بیان کیجئے۔‬
‫منافق کی نشانیاں‪ :‬حضور ﷺ نے احادی ِ‬
‫ث مبارکہ میں منافق کی تین نشانیاں بیان فرمائی ہیں۔ چنانچہ‬
‫ارشا ِد نبوی ﷺ ہے‪:‬‬
‫َ‬
‫ِن‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ِذا اؤتم‬‫َا‬
‫َ و‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫َد اخلف‬‫َع‬ ‫َ‬
‫ِذا و‬ ‫َا‬
‫َ و‬‫ِب‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫َدث کذ‬ ‫َّ‬ ‫َ‬
‫ِذا ح‬ ‫َ‬
‫ِ ثالث‪ :‬ا‬ ‫َ‬ ‫ِق‬‫َاف‬ ‫ُن‬
‫ُ الم‬ ‫يۃ‬‫َٰ‬‫ا‬
‫َ‬
‫َان‬ ‫خ‬
‫ترجمہ‪” :‬منافق کی تین نشانیاں ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔جب بات کرے تو جھوٹ بولے۔‬
‫‪۲‬۔ جب وعدہ کرے تو وعدہ خالفی کرے۔‬
‫‪۳‬۔ جب (اس کے پاس) امانت رکھوائی جائے تو خیانت کرے۔“‬
‫سوال نمبر‪ :15‬ایفائے عہد کے سلسلہ میں حضرت ابوجندل رضی ہللا تعالی عنہ کے‬
‫معاملہ میں نبی ﷺ نے کیا فیصلہ فرمایا؟‬
‫سن ‪ 6‬ہجری میں ہونے والی صلح حدیبیہ میں ایک شرط یہ بھی تھی کہ اگر کوئی شخص مکہ‬
‫سے مدینہ جائے گا تو مسلمانوں کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اسے واپس مکہ بھیج دیں۔ ابھی یہ معاہدہ‬
‫لکھا گیا تھا اور دستخط ہونا باقی تھے کہ اتنے میں حضرت ابوجندل رضی ہللا تعالی عنہ زنجیروں میں‬
‫جکڑے ہوئے آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اپنے جسم کے داغ دکھائے کہ اہ ِل مکہ‬
‫نے انہیں مسلمان ہوجانے پر کتنی اذیت دی ہے‪ ،‬اور درخواست کی کہ انہیں مدینہ ساتھ لے جایا جائے۔‬
‫باوجود اس کے کہ آپ ﷺ اپنی امت پہ بہت زیادہ شفقت فرماتے تھے‪ ،‬آپ ﷺ نے انہیں اپنے ہمراہ مدینہ‬
‫لے جانے سے محض اس لئے انکار کردیا کہ قریش سے معاہدہ ہوچکا تھا۔‬
‫سوال نمبر‪ :16‬درج ذیل کے درمیان فرق تحریر کریں۔‬
‫‪ .2‬سعی اور طواف‬ ‫‪.1‬عمرہ اور حج‬
‫‪ .4‬جنگ اور جہاد‬ ‫‪ .3‬میقات و عرفات‬
‫‪ .5‬حقوق ہللا اور حقوق العباد‬
‫حج‬ ‫عمرہ‬
‫حج فرض عبادت ہے۔‬ ‫عمرہ نفلی عبادت ہے۔‬ ‫‪)1‬‬
‫ایام حج میں ادا کیا جاسکتا ہے۔‬
‫عمرہ ایام حج کے عالوہ کبھی بھی ادا کیا حج صرف ِ‬ ‫‪)2‬‬
‫جاسکتا ہے۔‬
‫منی‪ ،‬مزدلفہ اور عرفات بھی جانا ہوتا‬ ‫حج میں ٰ‬ ‫عمرہ صرف مکہ میں رہتے ہوئے ہوتا ہے۔‬ ‫‪)3‬‬
‫ہے۔‬
‫حج میں طواف اور سعی کے ساتھ دیگر مناسک‬ ‫عمرہ طواف اور سعی کرنے کا نام ہے۔‬ ‫‪)4‬‬
‫بھی ادا کئے جاتے ہیں۔‬
‫حج سال میں صرف ایک مرتبہ ادا کیاجاسکتا‬ ‫عمرہ سال میں کئی مرتبہ کیا جاسکتا ہے۔‬ ‫‪)5‬‬

‫‪ 48 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ہے۔‬

‫طواف‬ ‫سعی‬
‫ہللا تعالی کے گھر یعنی بیت ہللا شریف کے گرد‬ ‫حجر اسود کے بالمقابل‬
‫ِ‬ ‫مسج ِد حرام سے نکل کر‬ ‫‪)1‬‬
‫حج اور عمرہ کے دوران سات چکر لگانے کے‬ ‫دو ٹیلوں صفا اور مروہ کے درمیان دوڑ کر‬
‫عمل کو "طواف" کہا جاتا ہے۔‬ ‫سات چکر مکمل کرنے کو "سعی" کہا جاتا ہے۔‬
‫فرائض حج میں ہوتا ہے۔‬
‫ِ‬ ‫طواف کا شمار‬ ‫ت حج میں ہوتا ہے۔‬ ‫سعی کا شمار واجبا ِ‬ ‫‪)2‬‬
‫حجر اسود سے شروع ہوتا ہے اور خانہ‬ ‫ِ‬ ‫طواف‬ ‫سعی میں صفا سے مروہ اور مروہ سےصفا‬ ‫‪)3‬‬
‫کعبہ کے گرد سات چکر لگائے جاتے ہیں۔‬ ‫تک سات چکر لگائے جاتے ہیں اور ساتواں‬
‫چکر مروہ پر ختم ہوتا ہے۔‬
‫سعی کے دوران مرد حضرات کا درمیانی چال مرد اور خواتین دونوں کے لئے ضروری ہے‬ ‫‪)4‬‬
‫سے دوڑنا ضروری ہے جب کہ خواتین کے کہ طواف درمیانی رفتار سے کریں‬
‫لئے دوڑنا ضروری نہیں ہے۔‬
‫حضرت ہاجرہ کی پانی کی تالش کی کوشش کو طواف ہللا تعالی کی یاد میں کیا جاتا ہے۔‬ ‫‪)5‬‬
‫یاد رکھتےہوئے سعی کی جاتی ہے۔‬

‫عرفات‬ ‫میقات‬
‫عرفات مکہ مکرمہ سے ‪ 10‬میل کے فاصلہ پر‬ ‫‪ )1‬میقات کے لفظی معنی درست جگہ کے ہیں۔‬
‫ایک وسیع و عریض میدانی عالقہ کا نام ہے۔‬
‫حج کے دوران ‪ 9‬ذی الحجہ کو زوال کے بعد‬ ‫‪ )2‬حج کی اصطالح میں وہ مقامات جہاں سے ہر‬
‫ب آفتاب تک حاجی عرفات میں‬ ‫سے لے کر غرو ِ‬ ‫حاجی کے لئے احرام باندھنا ضروری ہوجاتا‬
‫"وقوف عرفات" کہا جاتا‬
‫ِ‬ ‫قیام کرتے ہیں جسے‬ ‫ہے "میقات" کہالتے ہیں۔‬
‫ہے۔‬
‫فرائض حج میں شامل ہے اور یہ‬ ‫ِ‬ ‫وقوف عرفات‬
‫ِ‬ ‫‪ )3‬حدو ِد میقات کی حرمت کے تحت ان مقامات پر‬
‫حج کا ایک رکن ہے اس لئے حج کی ادائیگی‬ ‫احرام باندھنا الزمی قرا دیا گیا ہے۔‬
‫کے دوران اس کا ادا کرنا ضروری ہے۔‬
‫عرفات ایک میدانی عالقہ ہےجس کے بارے‬ ‫‪ )4‬حدو ِد میقات چھ مقامات ہیں جہاں پر پہنچ کر‬
‫میں روایت ہے کہ اس مقام پر حضرت جبرائیل‬ ‫احرام باندھنا الزمی ہے۔ ان مقامات کی تقسیم‬
‫علیہ السالم نے حضرت ابراہیم علیہ السالم کو‬ ‫مختلف عالقوں سے آنے والے حاجیوں کے‬
‫مناسک حج کی تعلیم دی تھی۔‬
‫ِ‬ ‫لحاظ سے ہے۔‬
‫ایام حج میں الزم ہے‬ ‫ِ‬ ‫پابندی‬ ‫کی‬ ‫عرفات‬ ‫وقوف‬
‫ِ‬ ‫‪ )5‬حدو ِد میقات پورے سال کے لئے ہے۔‬
‫اور اس کا ادا کرنا ضروری ہے۔‬

‫جہاد‬ ‫جنگ‬
‫جہاد کے لفظی معنی کوشش کرنا ہیں۔‬ ‫‪ )1‬جنگ کے لفظی معنی لڑائی کرنا ہیں۔‬
‫دین حق کی سر بلندی کے لئے‬
‫‪ )2‬ذاتی اور دنیاوی مقاصد کے لئے کی جانے والی ہللا کی رضا اور ِ‬
‫کی جانے والی لڑائی جہاد کہالتی ہے۔‬ ‫لڑائی کو جنگ کہتے ہیں۔‬

‫‪ 49 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪ )3‬جنگ کا مقصد کسی مخصوص گروہ یا فرد کے جہاد کا مقصد انسان کو طاغوتی قوتوں کے‬
‫خالف جذبہ برتری یا معاشی اور سیاسی غلبہ غلبے سے نجات دالنا اور ان کے شر سے ان‬
‫کو بچانا ہوتا ہے۔‬ ‫حاصل کرنا ہوتا ہے۔‬
‫فاتحین جنگ ہر ممکن ظلم‪ ،‬دہشت گردی اور جہاد میں کامیابی کے بعد فاتح امن اور سالمتی‬ ‫ِ‬ ‫‪)4‬‬
‫کی فضا قائم کرتا ہے۔‬ ‫سفاکی سے کام لیتے ہیں۔‬
‫جہاد کی صورت میں امن و امان قائم ہوتا ہے۔‬ ‫‪ )5‬جنگ کی صورت میں تباہی پھیلتی ہے۔‬

‫حقوق العباد‬ ‫حقوق ہللا‬


‫وہ تمام حقوق جو ہللا تعالی کی ذات سے وابستہ وہ تمام حقوق جو انسانوں پر ایک معاشرے میں‬ ‫‪)1‬‬
‫ہیں اور جن کو احسان مندی اور عاجزی و رہتے ہوئےدوسرے انسانوں کے لئے ادا کرنے‬
‫انکساری کے ساتھ انسانوں پر ادا کرنا فرض ہوتے ہیں "حقوق العباد" کہالتے ہیں۔‬
‫ہے "حقوق ہللا" کہالتے ہیں۔‬
‫حقوق ہللا کا تعلق ایک فرد کی ذات اور اس کے حقوق العباد کا تعلق ایک معاشرہ میں رہتے‬ ‫‪)2‬‬
‫ہوئے معاشرتی زندگی کے ساتھ ہوتا ہے اور یہ‬ ‫روحانی معامالت کے ساتھ ہوتا ہے۔‬
‫انسانوں کے باہمی تعلقات کے ساتھ استوار‬
‫ہوتے ہیں۔‬
‫عقائد کی درستگی اور تمام عبادات مثال نماز‪ ،‬حقوق العباد کی درجہ بندی میں والدین‪ ،‬بہن‬ ‫‪)3‬‬
‫روزہ وغیرہ کا شمار حقوق ہللا میں کیا جاتا ہے۔ بھائی‪ ،‬رشتہ دار‪ ،‬ہمسایوں اور مہمانوں وغیرہ‬
‫کے حقوق میں کی جاتی ہے۔‬
‫اطمینان قلب حاصل حقوق العباد کی ادائیگی سے معاشرتی زندگی‬ ‫ِ‬ ‫حقوق ہللا کی ادائیگی سے‬ ‫‪)4‬‬
‫ہوتا اور دنیاوی زندگی بہتر ہوتی ہے اور آخرت میں اچھے روابط قائم ہوتے ہیں اور معاشرہ‬
‫مجموعی طور پر پُر امن اور خوشحال ہوجاتا‬ ‫میں کامیابی اور فالح نصیب ہوتی ہے۔‬
‫ہے۔‬
‫ب حق کی‬ ‫حقوق ہللا کی ادائیگی سے غفلت پر کچھ حقوق العباد سے غفلت پر بغیر صاح ِ‬ ‫‪)5‬‬
‫مخصوص شرائط کے تحت اگر ہللا تعالی چاہے معافی کے ہللا تعالی معاف نہیں فرمائیں گے۔‬
‫تو معاف فرماسکتا ہے کیونکہ وہ بڑا رحیم ہے۔‬

‫‪ 50 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫سوال نمبر ‪ :1‬صلوۃ (نماز)کی اہمیت بیان کیجئے اور نماز کے فوائد تحریر کریں۔‬
‫معنی "دعا‬
‫ٰ‬ ‫صلوۃ(نماز)‪ :‬لغوی واصطالحی معنی ‪:‬نماز کو عربی میں ٰ‬
‫صلوۃ کہتے ہیں ۔ جس کے لغوی‬
‫کرنا ‪ ،‬قریب ہونا اور است غفار " کے ہیں ۔اصطالحی لحاظ سے نماز وہ طریقہ عبادت ہے جو نبی کریم‬
‫ﷺ کے ذریعے ہم تک پہنچا جس میں قیام ‪،‬قراۃ ‪ ،‬رکوع ‪ ،‬سجدہ التحیات اور سالم بھی ہے ۔ نماز کی‬
‫ابتداء تکبیر تحریمہ (ہللا اکبر) سے ہوتی ہے اور نماز کی انتہا سالم (یعنی السالم علیکم ورحمۃ ہللا) پر‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫قرآن پاک اور احادیث مبارکہ میں جابجا نماز قائم کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰوة‬ ‫َّک‬
‫تواالز‬ ‫ُٰ‬
‫َا‬ ‫َ و‬‫ٰوة‬‫ُوا الصل‬ ‫ِيم‬‫َق‬ ‫َا‬
‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ (سورۃ البقرۃ‪)۴ ۳ :‬‬
‫حضور ﷺ کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫ِين‬ ‫دالّ‬
‫د‬ ‫َاُ‬‫ِم‬ ‫ُ‬ ‫ٰ‬
‫َّلوة ع‬ ‫الص‬ ‫َ‬
‫ترجمہ‪ :‬نماز دین کا ستون ہے۔‬
‫معراج کے موقع پر نماز فرض ہوئی۔ شروع میں پچاس نمازیں فرض ہوئی تھیں پھر کم ہوتے‬
‫ہوتے پانچ ہوگئیں۔‬
‫قرآن کی روشنی میں نماز کی اہمیت‪:‬نماز قائم کرنا ہللا تعالی کا حکم ہے اور ہللا تعالی نے جابجا‬
‫اس کا حکم دیا ہے اور اس کے قیام کی تاکید فرمائی ہے۔ قرآن میں‪ ۷ ۰۰‬مقامات پر نماز کا حکم دیا گیا‬
‫ہے۔ نماز کی اہمیت کے حوالے سے قرآن کی چند آیات درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫ہللا نے قرآن میں بارہا نماز کے قیام کی تاکید کی ہے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰوة‬ ‫َّک‬
‫تواالز‬ ‫ُٰ‬
‫َا‬ ‫َ و‬‫ٰوة‬‫ُوا الصل‬ ‫ِيم‬‫َق‬ ‫َا‬
‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ (سورۃ البقرۃ‪)۴ ۳ :‬‬
‫ہللا نے متقین کی صفات بیان کرتے ہوئے ان کے نمازی ہونے کا بھی ذکر کیا ہے‪:‬‬
‫ٰوة‬‫َّل‬‫َ الص‬ ‫ُون‬ ‫ِيم‬ ‫يق‬ ‫َيبِ و‬
‫َُ‬ ‫ِالغ‬ ‫َ ب‬‫ُون‬ ‫ِن‬‫يؤم‬‫َ ُ‬ ‫ِين‬‫ََّلذ‬
‫ا‬
‫ترجمہ‪(:‬متقی وہ لوگ ہیں) جو غیب پر ایمان التے ہیں اور نماز قائم کرتے ہیں۔ (سورۃ البقرہ‪)۳ :‬‬

‫ہللا نے کامیاب لوگوں کی صفات بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا‪:‬‬


‫ُون‬ ‫ٰش‬
‫ِع‬ ‫ِم خ‬ ‫َال ت‬
‫ِه‬ ‫َ‬‫ِی ص‬ ‫ُم ف‬ ‫َ ھ‬ ‫ِين‬‫َ الذ‬ ‫ُون‬‫ِن‬‫َ المؤم‬ ‫َح‬ ‫َف‬
‫ُل‬ ‫َدا‬
‫ق‬
‫یقینا مومن کامیاب ہوگئے جو اپنی نماز میں عاجزی کرنے والے ہیں۔(سورۃ المومنون‪۲:‬۔‪)۱‬‬
‫ایک جگہ ہللا نے نماز کے قائم کرنے اور شرک سے بچنے کا حکم ان الفاظ میں دیا ہے‪:‬‬
‫ِين‬ ‫ِک‬‫ُشر‬‫َ الم‬ ‫ِن‬‫ونوا م‬ ‫ُ ُ‬‫تک‬‫ََال َ‬
‫َ و‬‫ٰوة‬
‫ُوا الصل‬ ‫ِيم‬‫َق‬
‫َا‬‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور نماز قائم کرو اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔(سورۃ الروم‪)۱ ۳ :‬‬

‫‪ 51 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫احادیث مبارکہ کی روشنی میں نماز کی اہمیت‪:‬نماز سے متعلق نبی اکرم ﷺ کے بہت سے فرمان‬
‫ہیں جو نماز کی دین اسالم میں اہمیت اور مسلمان کی زندگی میں کردار کو واضح کرتے ہیں ان میں‬
‫سے چند درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫تعالی اس کے لئے ایک نیکی لکھتے ہیں‪ ،‬ایک گناہ‬‫ٰ‬ ‫”جو ہللا کے لئے ایک سجدہ کرتا ہے ہللا‬ ‫‪۰‬‬
‫معاف کرتے ہیں اور ایک درجہ بلند کرتے ہیں۔“‬
‫” قیامت کے دن بندے سے نماز کا حساب لیا جائے گا اور یہ حساب سب سے پہلے ہوگا۔ اگر‬ ‫‪۰‬‬
‫نماز صحیح تو باقی اعمال بھی ٹھیک رہیں گے اور اگر یہ بگڑی ہوئی تو باقی اعمال بھی بگڑ گئے۔“‬
‫” نماز دین کا ستون ہے جس نے اسے قائم کیا گویا اس نے دین کو قائم کیا جس نے اسے گرا‬ ‫•‬
‫دیاگویا اس نے دین کو گرا دیا۔“‬
‫” نماز پڑھنے سے نمازی کے گناہ جھڑ جاتے ہیں جیسے خزاں کے موسم میں درختوں سے‬ ‫•‬
‫پتے۔“‬
‫”نمازکفر و اسالم کے مابین امتیاز پیدا کرتی ہے۔“‬ ‫•‬
‫نماز کے انفرادی و اجتماعی اثرات‪:‬‬
‫ارکان اسالم جو کہ مسلمانوں پر فرض کیے گئے ہیں ان میں ایک خاص مقصد بھی پوشیدہ ہے‬
‫تعالی ہماری نمازوں کے محتاج نہیں بلکہ یہ‬
‫ٰ‬ ‫اور یہ فوائد خلوص نیت کی بنیاد پر حاصل ہوتے ہیں۔ خدا‬
‫تو محض ایک شکرانہ ہے ان تمام نعمتوں کا جو اس نے ہمیں عطا کی ہیں۔‬
‫احساس بندگی‪ :‬پانچ وقت نماز کی ادائیگی مسلمان کی اپنے رب کی بارگاہ میں حضوری کے‬ ‫‪)1‬‬
‫قیمتی لمحات ہیں۔ بندگی کا یہ احساس متواتر نماز پڑھنے سے ایک مسلمان کی فطرت ثانیہ بن جاتی ہے‬
‫لی‬
‫اور اس کی پوری زندگی تعمیل احکام کا عملی مظاہرہ بن جاتی ہے۔دن میں پانچ مرتبہ حق باری تعا ٰ‬
‫کے سامنے سجدہ ریز ہونے سے مراد یہ ہے کہ انسان خدا کا عاجز اور محتاج بندہ ہے اور یہ عمل‬
‫مقصد حیات سے آگاہی کا سبب بنتی ہے۔ ارشاد خداوندی ہے کہ‪:‬‬
‫”ہم نے جن و ا نس کو اس لئے پیدا کیا تا کہ وہ ہماری عبادت کریں۔“‬
‫قانون ٰالہی کی پابندی‪ :‬جب دل و دماغ میں احساس بندگی موجزن ہوجائے تو پھر وہ احکام‬ ‫ِ‬ ‫‪)2‬‬
‫الہی کی پابندی میں سر توڑ کو شش کرتا ہے۔ دین اسالم کے قوانین قرآن کی شکل میں ہمارے پاس آئے‬ ‫ٰ‬
‫جنہیں صرف پڑھنا ہی نہیں بلکہ ان پر عمل بھی کرنا ہے۔ اسی طرح نماز بھی خلوص نیت اور خشوع‬
‫و خضوع کے ساتھ ادا کرنی چاہئے اگر یہ خیال انسان کے ذہن میں سرایت کر جائے کہ دوران نماز‬
‫میں ہللا کو دیکھ رہا ہوں یا اس سے مشرف بالکالم ہوں تو یقینا بہترین نماز ادا ہوگی۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے‬
‫کہ‪:‬‬
‫” نماز پڑھتے وقت یہ سوچا کرو کہ تم ہللا کو دیکھ کر نماز پڑھ رہے ہو اگر یہ سوچ نہیں آئے گی تو‬
‫ذہن میں یہ بات رہنی چاہئے کہ ہللا تمہیں دیکھ رہاہے۔“‬
‫تعمیر سیرت‪ :‬دن میں پانچ مرتبہ قرب خداوندی کا احساس مسلمان کو یقین دالتا ہے کہ ہللا‬ ‫‪)3‬‬
‫تعالی ہر وقت اس کے ساتھ ہے اور یہ احساس انسان کو گناہ کے کاموں سے روکتا ہے اور اس کے‬ ‫ٰ‬
‫الہی ہے جو انسان میں نیکیوں‬ ‫اندر کے انسان میں ایک نمایاں تبدیلی رونما ہوتی ہے۔نماز وہ عبادت ٰ‬
‫تعالی ہے کہ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫کی رغبت اور برائیوں سے روکتی ہے۔ ارشاد باری‬
‫”بے شک نماز بے حیائی اور بری بات سے روکتی ہے۔“‬

‫‪ 52 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ضبط نفس‪ :‬اگر دن میں پانچ نمازوں کے اوقات دیکھیں تو پتہ چلتا ہے کہ یہ انسان کے صبر‬ ‫‪)۴‬‬
‫کا امتحان ہے۔ ٍنماز کے مختلف اوقات انسان کی مصروفیت کے اوقات ہیں اور وہ اوقات ہیں جب انسان‬
‫کو دنیا کے ہنگاموں سے کھینچ کر الیا جاتا ہے اور اس گھڑی ہی مسلمان کا صحیح امتحان ہوتا ہے کہ‬
‫آیا وہ اپنے رب کی طرف رجوع کرنے کو ترجیح دے گا یا دنیاوی کاموں کو۔ ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ‪:‬‬
‫” منافق اور مسلمان کا فرق یہ ہے کہ منافق ٹال ٹال کر نماز پڑھتا ہے اور مومن اول وقت میں نماز ادا‬
‫کرتاہے۔“‬
‫وقت کی پابندی‪ :‬نماز کی ادائیگی ایک تربیتی کورس ہے جس سے وقت کی قدر کی اہمیت کا‬ ‫‪)5‬‬
‫اندازہ ہوتا ہے اور جب انسان کے اس عمل میں پختگی آتی ہے تو پابندئی وقت اس کی ذات کا خاصہ بن‬
‫تعالی ہے کہ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫جاتی ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد باری‬
‫” اے مومنو! نماز قائم کرو بے شک مومنوں پر نماز وقت کی پابندی کے ساتھ فرض قرار دی گئی ہے۔“‬
‫طہارت و پاکیز گی‪ :‬نماز کی اولین شرائط میں یہ بنیادی باتیں شامل ہیں کہ نمازی کا جسم‪،‬‬ ‫‪)6‬‬
‫لباس اور جگہ پاک صاف ہو۔اسی پاکی اور صفائی سے ذہن بھی پاک صاف ہوجاتا ہے اور برے خیاالت‬
‫تعالی نے نماز سے قبل پاکی اختیار کرنے کا حکم دیا ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫پرورش نہیں پاتے۔ ہللا‬
‫”اے ایمان والو!جب تم نماز کے لئے اٹھو تو چاہئے کہ اپنے منہ دھو لیا کرواور اپنے ہاتھ کہنیوں تک‬
‫دھو لو اور پاؤں ٹخنوں تک دھولو اور اگر تم ناپاکی کی حالت میں ہوتو اچھی طرح پاکی حاصل‬
‫کرلو(یعنی غسل کرلو)۔“‬
‫الہی کا ذریعہ‪:‬نماز کو عربی میں صلوۃ اس لئے بھی کہا جاتا ہے کہ صلوۃ کا مطلب ہے‬ ‫‪ )۷‬قرب ٰ‬
‫تعالی سے بغیر کسی واسطے کے بات چیت کرتاہے‪،‬اپنی ضرورتیں اور‬ ‫ٰ‬ ‫دعا اور نماز میں ایک بندہ ہللا‬
‫حاجتیں ہللا سے براہ راست طلب کرتا ہے اور پھر نماز کا ہر رکن ہمیں ہللا سے قریب تر کر دیتا ہے جو‬
‫بڑی سعادت ہے۔حضورﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫الہی کا ذریعہ ہے۔“‬
‫”نماز قرب ٰ‬
‫مومن کی معراج‪ :‬دنیاوی اعتبار سے نماز کو مومن کی معراج کہا جاتا ہے کیونکہ اس کی‬ ‫‪)۸‬‬
‫فرضیت کا حکم معراج نبوی ﷺ کے موقع پر دیا گیا۔ اس واقعہ کے پیش نظر سب سے بڑی فضیلت یہ‬
‫قرار دی جاتی ہے کہ جو نماز صحیح مقاصد کے ساتھ پڑھی جائے وہ نمازی کو ایک بلند درجے تک‬
‫پہنچادیت ی ہے اور وہ بلند درجہ ہے معراج یعنی وہ مقام جس سے افضل کوئی دوسرا مقام نہیں ہو سکتا‬
‫لہذا نماز پورے اہتمام کے ساتھ ادا کرنے کی فضیلت انسانیت کی معراج کے سوا کچھ بھی نہیں۔یہ بات‬
‫بھی ہے کہ جس طرح حضور ﷺ کو معراج کی شب ہللا سے ہم کالمی کا شرف حاصل ہوا اسی طرح بندہ‬
‫مومن کو بھی نماز میں ہللا سے ہم کالمی کا شرف حاصل ہوتا ہے۔اسی لئے کہا جاتاہے‪:‬‬
‫”نماز مومن کی معراج ہے۔“‬
‫ریاء سے اجتناب‪:‬نماز کی حفاظت کے لئے ضروری ہے کہ وہ نمود و نمائش سے پاک ہو‬ ‫‪)۹‬‬
‫کیونکہ ریاء خلوص کو ختم کر دیتی ہے۔ اور ایک نمازی صرف دکھاوے کے لئے نمازیں ادا کرتا رہتا‬
‫ہے۔ جس کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ لوگ زیادہ سے زیادہ اس کی تعریف کریں اور وہ بہترین عبادت گزار‬
‫کی شکل سے پہچانا جائے جبکہ قرآن پاک میں فرمایا گیا ہے کہ‪:‬‬
‫”پس تباہی و بربادی ہے ایسے نمازیوں کے لئے جو اپنی نمازوں میں غفلت برتتے ہیں اور دکھاوا‬
‫کرتے ہیں۔“‬

‫‪ 53 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪ )۱۰‬خشوع و خضوع کا حصول‪ :‬نماز محض چند ارکان ادا کرنے کا نام نہیں ہے بلکہ عاجزی‬
‫کے ساتھ ہللا کے حضور جھکنے کا نام ہے۔ جسم اور اعضاء کے ساتھ ساتھ ایک نمازی کا دل و دماغ‬
‫بھی ہللا کی طرف راغب ہونا ضروری ہے۔ حضور ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫”جو نماز خالص خشوع و خضوع کے ساتھ ادا نہ کی جائے وہ مومن کے منہ پر مار دی جاتی ہے۔“‬
‫نماز کے اجتماعی فوائد‪:‬‬
‫اطاعت امیر کا جذبہ‪ :‬نما ز کے اجتماعی فوائد میں سب سے پہلی بات یہ واضح ہوتی ہے کہ‬ ‫‪)۱‬‬
‫اس کی بدولت مسلمان کسی کے ماتحت رہ کر کام سر انجام دینے کے لئے تیار ہوجاتے ہیں کیونکہ وہ‬
‫ایک امام کے پیچھے کھڑے ہو کر نماز کا ہر رکن ادا کرتے ہیں تو یہ مظاہرہ ان میں اطاعت امیر کا‬
‫جذبہ بھی پروان چڑھاتا ہے۔‬
‫اخوت و مساوات کا عملی نمونہ‪:‬نما ز باجماعت ادا کرنے سے مسلمانوں کے درمیان‬ ‫‪)۲‬‬
‫اخوت کے جذبات پیدا ہوتے ہیں اور خاص طور سے باجماعت نماز کے ذریعے مساوات کا مظاہرہ بھی‬
‫ہوتاہے کیونکہ ہللا کے گھر میں ہر آنے واال نمازی چاہے وہ بادشاہ ہو یا فقیر ایک ساتھ صف بندی‬
‫کرتے ہیں اور کسی قسم کا فرق باقی نہیں رہتا کیونکہ ہللا کے گھر پہنچ کر تمام مسلمان ایک آدم کی‬
‫اوالد ہونے کا عملی نمونہ پیش کرتے ہیں۔‬
‫اجتماعیت کا شعور‪ :‬نماز باجماعت اور بطور خاص جمعہ اور عیدین کی نمازوں سے‬ ‫‪)۳‬‬
‫مسلمانوں میں اجتماعیت کا شعور پیدا ہوتا ہے۔ جب مسلمان رنگ‪ ،‬نسل‪ ،‬عالقے اور طبقے کے‬
‫امتیازات سے بے نیاز ہو کر شانے سے شانہ مال کر امام کے پیچھے کھڑے ہوتے ہیں تو اس سے ان‬
‫کے درمیان فکری وحدت کے ساتھ ساتھ عملی مساوات کا احساس بھی پیدا ہوتا ہے۔‬
‫نظم و ضبط جماعت ‪ :‬نماز با جماعت نظم و ضبط جماعت کا وصف مسلمانوں میں پیدا کرتی‬ ‫‪)4‬‬
‫ہے اسالم میں نماز با جماعت مسلمانوں کی زندگی کی عملی مثال ہے۔نماز کے ارکان کی یکساں‬
‫ادائیگی مسلمانوں میں تعاون ‪ ،‬مشاورت‪ ،‬میل جول اور نظم و ضبط پیدا کرتی ہے۔‬
‫الفت و محبت‪ :‬نماز با جماعت کی ادائیگی مسلمانوں میں الفت و محبت پیدا کرنے کا ذریعہ‬ ‫‪)5‬‬
‫ہے جب مسلمان دن میں پانچ بار آ پس میں ملتے ہیں تو ان کی بیگانگی ختم ہو جاتی ہے۔ اور اس کی‬
‫جگہ ایک دوسرے سے محبت و الفت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے جس سے وہ ایک دوسرے کی مدد کے لیے‬
‫بھی ہر وقت تیار رہتے ہیں۔‬
‫تجزیہ‪ :‬نماز ہللا تعالی ٰ کی بندگی کا احساس دالتی ہے۔ یہ مجموعہ عبادت ہی نہیں بلکہ رابطہ کا وہ‬
‫سلسلہ ہے جو مسلمان کو اس دنیا کو آخرت کی کھیتی‬
‫بنانے میں موثر ہے۔ نماز ہی مومن کے لئے وہ ہتھیار ہے جس سے وہ اس دنیاوی امتحان میں سرخرو‬
‫ہو سکتاہے۔ مسلمان کی کامیابی کا راز نماز کی مکمل و درست ادائیگی میں ہی پنہاں ہے۔‬
‫سوال نمبر ‪ :2‬صوم(روزہ)کی اہمیت بیان کیجئے اور روزہ کے فوائد تحریر کریں۔‬
‫صوم (روزہ)‪ :‬روزہ ِ‬
‫دین اسالم کا تیسرا اور اہم رکن ہے۔ عربی زبان میں روزہ کے لئے صوم کا لفظ‬
‫استعمال ہوتا ہے‪ ،‬جس کے لغوی معنی ہیں ”رکنا“۔‬
‫ب آفتاب تک کھانے‪ ،‬پینے اور نفسانی‬
‫شریعت کی اصطالح میں صبح صادق سے لے کر غرو ِ‬
‫خواہشات سے عبادت کی غرض سے رکنے کا نام روزہ ہے۔روزہ کی فرضیت کے بارے میں ہللا تعالی‬
‫کا ارشاد ہے‪:‬‬

‫‪ 54 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫َ‬
‫ِين‬ ‫َی َّ‬
‫الذ‬ ‫َل‬‫َ ع‬‫ِب‬ ‫َ ک‬
‫ُت‬ ‫َما‬‫ُ ک‬‫َام‬ ‫ّي‬‫ُ الص‬
‫ِ‬ ‫ُم‬‫َيک‬ ‫َل‬‫َ ع‬ ‫ِب‬‫ُت‬
‫ُوا ک‬ ‫من‬‫َٰ‬
‫َ ا‬ ‫ِين‬ ‫َا َّ‬
‫الذ‬ ‫ٰا ُّ‬
‫ايه‬ ‫ي‬
‫ُ‬ ‫َّ‬
‫َّکم تتقون۔‬‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ِکم لع‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ِن قبل‬ ‫م‬
‫ترجمہ‪ :‬اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے‬
‫گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(سورۃ البقرۃ‪)۱۸ ۳ :‬‬
‫روزہ ہجرت کے دوسرے سال فرض کیا گیا۔‬
‫قرآن کی روشنی میں روزہ کی اہمیت‪:‬روزہ اسالم کا ایک اہم رکن‪ ،‬اسالمی تہذیب کا ایک اہم‬
‫عنصر اور اسالمی عبادات میں ایک اہم عبادت ہے جو کہ ہللا تعالی کی طرف سے اہل ایمان پر فرض‬
‫ہے۔ قرآن مجید میں ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫َ‬
‫ِين‬ ‫َّ‬ ‫َ‬‫َ‬
‫ِب علی الذ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫ِيام کما کت‬ ‫َ‬ ‫ّ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬
‫ِب عليکم الص‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُت‬
‫ُوا ک‬ ‫من‬‫َٰ‬
‫َ ا‬ ‫ِين‬ ‫َا َّ‬
‫الذ‬ ‫ٰا ُّ‬
‫ايه‬ ‫ي‬
‫َّقون۔‬‫ُ‬ ‫َ‬
‫َّکم تت‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ِکم لع‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ِن قبل‬ ‫م‬
‫ترجمہ‪ :‬اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے‬
‫گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(سورۃ البقرۃ‪)۱۸ ۳ :‬‬
‫ایک دوسری جگہ ہللا تعالی نے ارشاد فرمایا ہے‪:‬‬
‫ُمُ‬
‫ہ‬ ‫َص‬‫َلي‬ ‫َ ف‬ ‫ُ الشَّهر‬ ‫ُم‬‫ِنک‬ ‫د م‬ ‫َن شَه‬
‫َِ‬ ‫َم‬‫ف‬
‫ترجمہ‪ :‬جو شخص اس مہینے کو پائے اس کو الزم ہے کہ اس پورے مہینے کے روزے رکھے۔(سورۃ‬
‫البقرۃ‪)۱ ۸ ۵ :‬‬
‫اجر عظیم کا وعدہ‬
‫سورۃ االحزاب کی آیت نمبر‪ ۳ ۵‬میں ہللا نے جن لوگوں کے لئے مغفرت اور ِ‬
‫کیا ہے ان کی ایک صفت یہ بھی ہے کہ وہ روزہ رکھتے ہیں۔‬
‫حدیث کی روشنی میں روزہ کی اہمیت‪:‬‬
‫رسول اکرم ﷺ نے بہت سی احادیث مبارکہ میں روزہ کی اہمیت بیان کی ہے۔ چند احادیث‬
‫مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫رسول اکرم ﷺ نے فرمایا‪:‬‬ ‫روزہ ڈھال ہے‪:‬‬
‫”روزہ ایک ڈھال ہے جس کے ذریعے سے بندہ جہنم کی آگ سے بچتا ہے۔“‬
‫جہنم سے نجات‪ :‬رسول اکرم ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫تعالی اس کے چہرے کو جہنم سے ستر‬ ‫ٰ‬ ‫تعالی کے راستے میں ایک دن روزہ رکھا‪ ،‬تو ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫”جس نے ہللا‬
‫سال (کی مسافت کے قریب) دور کر دیتا ہے۔“‬
‫ریان سے داخلہ‪ :‬نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪:‬‬
‫”جنت (کے آٹھ دروازوں میں سے) ایک دروازے کا نام ” َریّان“ ہے‪ ،‬جس سے قیامت کے دن‬
‫صرف روزے دار داخل ہوں گے‪ ،‬ان کے عالوہ اس دروازے سے کوئی داخل نہیں ہوگا‪ ،‬کہا جائے گا‬
‫روزے دار کہاں ہیں؟ تو وہ کھڑے ہو جائیں گے اور (جنت میں داخل ہوں گے) ان کے عالوہ کوئی اس‬
‫دروازے سے داخل نہیں ہوگا۔ جب وہ داخل ہو جائیں گے‪ ،‬تو وہ دروازہ بند کر دیا جائے گا اور کوئی‬
‫اس سے داخل نہیں ہوگا۔“‬
‫روزہ سفارش کرے گا‪ :‬رسول اکرم ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫’روزہ اور قرآن قیامت کے دن بندے کی سفارش کریں گے۔ روزہ کہے گا‪ :‬اے میرے رب! میں نے اس‬
‫بندے کو دن کے وقت کھانے (پینے) سے اور جنسی خواہش پوری کرنے سے روک دیا تھا‪ ،‬پس تو اس‬

‫‪ 55 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫کے بارے میں میری سفارش قبول فرما۔ قرآن کہے گا‪ :‬میں نے اس کو رات کے وقت سونے سے روک‬
‫دیا تھا‪ ،‬پس تو اس کے بارے میں سفارش قبول فرما۔ چنانچہ ان دونوں کی سفارش قبول کی جائے گی۔“‬
‫روزہ دار کے منہ کی خوشبو‪ :‬رسول اکرم ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫” قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد(صلی ہللا علیہ وسلم) کی جان ہے‪ ،‬روزہ دار کے منہ کی‬
‫بُو ہللا کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ پسندیدہ ہے۔“‬
‫ث قدسی میں ہے کہ ہللا تعالی ارشاد فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫روزہ کا اجر‪:‬ایک حدی ِ‬
‫’روزہ میرے لیے ہے اور میں اس کی جزا دوں گا۔“‬
‫تعالی نے یہ ضابطہ بیان فرمایا ہے کہ الحسن بعشر امثالھا یعنی نیکی‬‫ٰ‬ ‫یعنی دیگر نیکیوں کے لیے تو ہللا‬
‫لی نے اس‬‫کا اجر کم از کم دس گنا اور زیادہ سے زیادہ سات سو گناتک ملے گا۔ لیکن روزے کو ہللا تعا ٰ‬
‫مستثنی فرما دیا اور یہ فرمایا کہ قیامت والے دن اس کی وہ ایسی خصوصی‬ ‫ٰ‬ ‫عام ضابطے اور کلیہ سے‬
‫جزاء عطا فرمائے گا‪ ،‬جس کا علم صرف اسی کو ہے اور وہ عام ضابطوں سے ہٹ کر خصوصی‬
‫نوعیت کی ہوگی۔‬
‫روزے کے فوائد‪:‬روزہ اسالمی معاشرے کے افراد کے لئے انفرادی و اجتماعی دونوں حیثیتوں سے‬
‫بہت فوائد کا باعث ہے۔ ان فوائد و برکات سے وہی فرد اور معاشرہ مستفید ہوتا ہے جہاں حقیقی معنوں‬
‫میں روزے کا عمل انجام پذیر ہوتا ہے اور روزے کے آداب و شرائط کا پورا پورا لحاظ رکھا جاتا ہے۔‬
‫ایک روزہ دار کو مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں‪:‬‬
‫انفرادی فوائد‪:‬‬
‫روزے کے انفرادی فوائد درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫تقوی و پرہیز گاری کو بہت زیادہ اہمیت کی حاصل‬ ‫ٰ‬ ‫تقوی اور پرہیز گاری‪:‬دین اسالم میں‬ ‫‪)1‬‬
‫وی‬
‫ہے۔ ہللا ایسے بندوں کو پسند فرماتے ہیں جو متقی اور پرہیز گار ہوں۔ روزے کا اصل مقصد اسی تق ٰ‬
‫و پرہیز گاری کا حصول ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ربانی ہے کہ‪:‬‬
‫َ‬
‫ِين‬ ‫َّ‬
‫َلی الذ‬ ‫َ‬ ‫َ ع‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ُ کما کت‬
‫ِب‬ ‫َ‬ ‫َام‬ ‫ّي‬‫ِ‬‫ُ الص‬ ‫ُم‬ ‫َيک‬
‫َل‬‫َ ع‬ ‫ِب‬‫ُت‬
‫ُوا ک‬ ‫من‬‫َٰ‬‫َ ا‬‫ِين‬ ‫الذ‬‫َا َّ‬ ‫ٰا ُّ‬
‫ايه‬ ‫ي‬
‫َّقون۔‬‫ُ‬ ‫ُ‬
‫َّکم َ‬
‫تت‬ ‫َ‬
‫ِکم لع‬‫ُ‬ ‫َ‬
‫ِن قبل‬ ‫م‬
‫ترجمہ‪ :‬اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کئے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کئے‬
‫گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔(سورۃ البقرۃ‪)۱۸ ۳ :‬‬
‫تعمیر شخصیت‪:‬روزہ ہماری شخصیت کو تکمیل کے مراحل تک پہنچاتی ہے۔ہماری‬ ‫‪)2‬‬
‫شخصیت کی تعمیر اسی طرح سے ہو سکتی ہے کہ ہم وہ سب اعمال اختیار کریں جو ہللا کو پسند ہوں۔‬
‫اخالص کا حصول‪:‬روزہ سے عبادت میں انہماک او ربندگی کو صرف ہللا کے لئے خالص‬ ‫‪)3‬‬
‫کردینے کا عقیدہ پیدا ہوتا ہے‪ ،‬کیونکہ روزہ ہللا اور بندے کے درمیان ایک راز ہے اور اخالص ہللا کی‬
‫قربت میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ اس عمل اور مشقت کا کوئی فائدہ نہیں جواخالص سے خالی ہو کیونکہ‬
‫ہللا اپنے ساتھ کسی غیر کی شرکت کو پسند نہیں کرتا۔ اور صرف وہی عمل قبول کرتا ہے جو خالص‬
‫اسی کے لئے کیا گیا ہو۔‬
‫نفس پر کنٹرول‪:‬روزہ نفس کے تقاضوں اور جسم کے ناجائز میالنات کا مقابلہ کرنے کی قوت‬ ‫‪)4‬‬
‫ت ارادی پیدا ہوتی ہے۔ جب روزہ دار دن کے وقت اپنے آپ‬ ‫پیدا کرتاہے اور روزہ ہی سے انسان میں قو ِ‬
‫کو حالل چیزوں سے بھی روکتا ہے تو اس سے اس کے اندر یہ قوت پیدا ہوتی ہے کہ باقی اوقات میں‬
‫اپنے آپ کو حرام چیزوں سے بھی روکے۔‬
‫‪ 56 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫صبر کی قوت کا حصول‪:‬روزہ انسان کو صبر اور ضبط نفس کا عادی بناتا ہے جس سے اس‬ ‫‪)5‬‬
‫کے اندر یہ قوت پیدا ہوتی ہے کہ وہ اپنے مقصد کے راستے میں درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرسکے۔‬
‫غصہ پر کنٹرول‪ :‬روزہ جاہلوں کے ساتھ بردباری کا درس ہے۔ روزہ دار سے جب کوئی‬ ‫‪)6‬‬
‫جھگڑتا ہے‪ ،‬گالی دیتا ہے یا اسے جوش دالتا ہے تو وہ غصے کو پی جاتا‪ ،‬بردباری کا مظاہر کرتا ہے‬
‫اور اسے کہتا ہے کہ بھائی میرا روزہ ہے‪ ،‬لہٰ ذا میں تجھ سے الجھنے کا روادار نہیں ہوسکتا ۔‬
‫غریبوں کا احساس‪:‬روزہ‪ ،‬روزہ دار کے دل میں محتاج اور تنگ دست کے لئے شفقت اور‬ ‫‪)۷‬‬
‫رحم دلی کے جذبات پالتا ہے‪ ،‬جب وہ بھوک کی تلخی کو محسوس کرتا ہے تو اس کے اندر تنگ دستوں‬
‫کے لئے رحم کا جذبہ انگڑائیاں لیتا ہے اور وہ فورا ان کے لئے دست تعاون دراز کردیتا ہے۔‬
‫اجتماعی فوائد‪:‬‬
‫تقوی کے‬
‫ٰ‬ ‫تقوی کا ماحول‪:‬روزے کا سب سے اہم فائدہ جو اجتماعی طور پر سامنے آتا ہے وہ‬ ‫ٰ‬ ‫‪)1‬‬
‫ماحول کا پیدا ہونا ہے۔ جب معاشرے کے تمام لوگ برائیوں سے بچ کر نیکیوں کی طرف جائیں گے تو‬
‫تقوی کا ماحول پیدا ہوجائے گا۔ اس طرح روزہ پورے انسانی معاشرے کے اندر تبدیلی پیدا کرتا‬ ‫ٰ‬ ‫ایک‬
‫ہے۔‬
‫تعالی کی دی ہوئی نعمتوں کا شکر ادا کرنا ہمارا فرض ہے۔ رمضان میں‬ ‫ٰ‬ ‫اجتماعی تشکر‪:‬ہللا‬ ‫‪)2‬‬
‫اجتماعی طور پر ہللا کی نعمتوں کا شکر اد اکرنا بہت ثواب کا حامل ہے۔ ہر شخص چھوٹی سے چھوٹی‬
‫چیز کے حصول پر ہللا کا شکر ادا کرتا ہے‪ ،‬تراویح پڑھتا ہے‪ ،‬رات رات بھر جاگ کر شکرانے کے‬
‫نفل ادا کرتا ہے۔ یہ شکرانے اجتماعی حالت میں رمضان میں زیادہ نظر آتے ہیں۔‬
‫اجتماعی پیروی‪ :‬رمضان میں عبادات پر جو لوگ زیادہ سے زیادہ اہتمام کرتے ہیں یہ اس کی‬ ‫‪)3‬‬
‫نشاند ہی ہے کہ ہم سب لوگ مل کر اجتماعی طور پر ان تمام باتوں کی پیروی کرتے ہیں جو حضرت‬
‫تعالی نے ہمیں سکھائی۔‬
‫ٰ‬ ‫محمد ﷺ اور ہللا‬
‫معاشرتی ہمدردی‪:‬روزہ ہمیں ایک خاص وقت کے لیے کھانا پینا چھوڑکر ہمیں غرباء و‬ ‫‪)4‬‬
‫مساکین کی زندگی کا احساس دالتا ہے اور ہمارے دل میں احساس ہمدردی پیداکرتا ہے یوں روزہ‬
‫اجتماعی طور پر ہمدردی کا نمونہ پیش کرتا ہے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے کہ‪:‬‬
‫”یہ مہینہ ہمدردی کا مہینہ ہے یعنی اسے شہر المواسات بھی کہا جاتا ہے۔“‬
‫اجتماعیت کا حصول‪:‬روزہ‪ ،‬روزہ دار کے دل میں اجتماعیت کے تصور کومستحکم کرتا ہے‪،‬‬ ‫‪)5‬‬
‫کیونکہ چہار سو عالم میں بسنے والے مسلمان ایک ہی مہینہ میں روزہ رکھتے ہیں اور وہ محسوس‬
‫کرتے ہیں کہ یہ خیر روزہ کے سبب سے ہے۔‬
‫ما ِہ رمضان نسل ورنگ کے اختالف کے باوجود پورے عالم میں بسنے والے مسلمان بھائیوں کو اس‬
‫ت ملت کا شعور مزید مستحکم ہوجاتا‬ ‫عبادت میں شریک کرلیتا ہے جس سے مسلمانوں کے اندر وحد ِ‬
‫ہے اور وحدت المسلمین کا شعور پروان چڑھتا ہے۔ یہ تربیت ِمعاشرہ کا انتہائی اہم پہلو ہے۔ جس سے‬
‫مسلمانوں کے درمیان انفرادی اور اجتماعی سطح پر تعلقات اور روابط مضبوط بنیادوں پر استوار ہوتے‬
‫ہیں۔‬
‫حاصل بحث‪ :‬روزہ اسالم کا ایک اہم رکن ہے۔ جو خاص رمضان المبارک کے مہینے میں فرض کیے‬
‫گئے ہیں۔ اس ایک مہینہ میں مسلمانوں کوایسا پر رونق اور پر نور ماحول ملتا ہے جس میں وہ اپنے‬
‫نفس کو قابو میں رکھنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یہی کوشش انہیں باقی کے گیارہ مہینوں میں مدد گار‬

‫‪ 57 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ہوتی ہے۔ روزہ کے ثمرات کا اندازہ انسانی زندگی میں حاصل ہونے والے فوائد سے بخوبی لگا یا جا‬
‫تعالی کی رضا کو حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫سکتا ہے گویا کہ روزہ ہللا‬

‫سوال نمبر ‪ :3‬زکوۃ کی اہمیت بیان کیجئے اور اس کے فوائد تفصیل سے تحریر کریں۔‬
‫زکوۃ‪ :‬زکوۃ ِ‬
‫دین اسالم کا چوتھا اور بنیادی رکن ہے۔ زکوۃ عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی‬
‫پاک ہونے اور بڑھنے کے ہیں۔ زکوۃ کو اس لئے زکوۃ کہا جاتا ہے کہ اس سے مال پاک و صاف بھی‬
‫ہوتا ہے اور مال میں برکت اور اضافہ بھی ہوتا ہے۔‬
‫شریعت کی اصطال ح میں زکوۃ سے مراد مسلمان کے مال کا وہ حصہ ہے جو ہر صاحب نصاب‬
‫شخص سال پورا ہونے پر عبادت کی نیت سے‪ ،‬ہللا کی رضا کے لئے غریبوں کو دیتا ہے اور انہیں اس‬
‫مال کا مالک بنادیتا ہے۔ زکوۃ کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن کریم میں نماز‬
‫زکوۃ کا بیان بیاسی (‪)82‬مقامات پر آیا ہے۔‬ ‫کے ساتھ ٰ‬
‫قرآن پاک میں جابجا زکوۃ کی تلقین کی گئی ہے۔ چنانچہ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰوة‬‫َّک‬
‫تواالز‬ ‫ُٰ‬
‫َا‬‫َ و‬‫ٰوة‬ ‫ُوا الصل‬ ‫ِيم‬ ‫َق‬‫َا‬
‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور نماز قائم کرو اور زکوۃ ادا کرو۔ (سورۃ البقرۃ‪)۴ ۳ :‬‬
‫زکوۃ کے واجب ہونے کی شرائط‪:‬‬
‫ب‬
‫‪۶‬۔صاح ِ‬ ‫‪۴‬۔عاقل ہونا۔ ‪۵‬۔مقروض نہ ہونا۔‬ ‫‪۳‬۔بالغ ہونا۔‬ ‫‪۱‬۔مسلمان ہونا۔ ‪۲‬۔آزاد ہونا۔‬
‫نصاب ہونا۔‬
‫ت زندگی سے خارج ہونا۔ ‪۸‬۔مال پر سال گزرنا۔‬ ‫‪۷‬۔مال کا ضروریا ِ‬
‫قرآن کی روشنی میں زکوۃ کی اہمیت‪:‬ارکان اسالم میں نماز کے بعد دوسرا اہم ترین رکن ٰ‬
‫زکوۃ ہے۔‬
‫زکوۃ کی فرضیت کا حکم یکجا وارد ہوا ہے۔‬ ‫قرآن حکیم میں بیاسی (‪ )82‬مقامات وہ ہیں جہاں نماز اور ٰ‬
‫قرآن کی اہمیت کا اندازہ درج ذیل چند آیات سے بخوبی لگایا جاسکتا ہے‪:‬‬
‫تقوی سے ب ہرہ یاب ایمانداروں کی عالمات بیان کرتے‬ ‫ٰ‬ ‫ت رشد و ہدایت اور‬ ‫ایک مقام پر دول ِ‬
‫ہوئے ارشاد فرمایا گیا‪:‬‬
‫َّا‬
‫ِم‬‫َ م‬ ‫َ و‬ ‫ٰوة‬ ‫َ الص‬
‫َّل‬ ‫ُون‬‫ِيم‬ ‫يق‬ ‫َ ُ‬ ‫َيبِ و‬ ‫ِالغ‬ ‫َ ب‬‫ُون‬‫ِن‬ ‫يؤم‬ ‫َ ُ‬ ‫ِين‬ ‫َ َّ‬
‫الذ‬ ‫ِين‬ ‫َّق‬
‫ُت‬‫ِلم‬ ‫ُدیً ل‬ ‫ھ‬
‫َ‬
‫ِقون۔‬ ‫ُ‬ ‫ينف‬ ‫ُِم ُ‬ ‫ُ‬ ‫ٰ‬
‫َزقنه‬‫َ‬ ‫ر‬
‫”( قرآن) متقین کیلئے ہدایت ہے جو غیب پر ایمان رکھتے ہیں‪ ،‬نماز قائم کرتے ہیں اور ہم نے انہیں جو‬
‫رزق دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔“ (البقرہ‪)۳،۲:‬‬
‫اسی طرح ایک اور مقام پر روئے خطاب پھر ایمان والوں کی طرف کرتے ہوئے ہللا جل مجدہ‬
‫نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ُم‬‫َسَبت‬‫ما ک‬ ‫ٰتِ َ‬ ‫ّ‬
‫ِب‬‫َي‬‫ِن ط‬ ‫ُوا م‬ ‫ُوا انف‬
‫ِق‬ ‫من‬ ‫َٰ‬
‫َ ا‬ ‫ِين‬ ‫َا َّ‬
‫الذ‬ ‫يه‬‫َُّ‬‫ٰاا‬ ‫ي‬
‫”اے ایمان وا لو! جو پاکیزہ (مال) تم کماؤ اس میں سے (ہللا کی راہ میں) خرچ کرو۔“(البقرۃ‪)۲۶ ۷ :‬‬
‫اسی پیرایہ میں مزید تاکید کے ساتھ انفاق مال کی ضرورت پر ان الفاظ سے زور دیا گیا‪:‬‬
‫ُ‬
‫َوت‬ ‫ُ الم‬ ‫ُم‬‫دک‬‫ََ‬‫َح‬‫ِیَ ا‬‫يات‬ ‫َن َّ‬‫ِ ا‬ ‫َبل‬‫ِن ق‬ ‫ُم ّ‬
‫م‬ ‫ٰک‬‫َقن‬‫َز‬ ‫َّا ر‬ ‫ِم‬‫ُوا م‬ ‫ِق‬‫َنف‬ ‫َا‬‫و‬
‫”ہم نے تمہیں جو رزق عطا کیا اسے اس سے پہلے کہ تم پر موت آ جائے (ہللا کی راہ میں) خرچ کر‬
‫لو۔“(المنافقون‪)۱ ۰ :‬‬

‫‪ 58 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫زکوۃ کا سبب بنے۔ باری‬‫قرآن حکیم نے متعدد مقامات پر ان عوامل کی نشاندہی فرمائی ہے جو فرضیت ٰ‬
‫تعالی اہل ایمان سے براہ راست مخاطب ہو کر یوں ارشاد فرماتے ہیں‪:‬‬ ‫ٰ‬
‫ُم‬‫ٰک‬ ‫َ‬
‫َزقن‬ ‫َّا ر‬ ‫ِم‬‫ُوا م‬ ‫ِق‬‫َنف‬ ‫ُوا ا‬ ‫من‬‫َٰ‬
‫َ ا‬ ‫ِين‬ ‫َ َّ‬
‫االذ‬ ‫َُّ‬
‫يه‬ ‫ياا‬
‫”اے ایمان والو! ہم نے جو تمہیں رزق دیا اس میں سے خرچ کرو۔“(البقرۃ‪)۲۵ ۴ :‬‬
‫صاحبان اقتدار و اختیار کے فرائض منصبی اور وظائف‬ ‫ِ‬ ‫قرآن حکیم نے اسالمی ریاست کے‬ ‫ِ‬
‫(‪ )Functions‬گنواتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے‪:‬‬
‫َ‬‫َ و‬‫ٰة‬‫َو‬‫ّک‬‫توا الز‬ ‫ُٰ‬
‫َ ا‬ ‫َ و‬ ‫ٰوة‬ ‫َّل‬
‫موا الص‬ ‫َاُ‬ ‫َق‬
‫ض ا‬ ‫ِی االَرِ‬ ‫ُم ف‬ ‫َّن‬
‫ّٰه‬ ‫مک‬ ‫َ ا‬
‫ِن َّ‬ ‫ِين‬ ‫الذ‬ ‫َّ‬
‫ِ‪O‬‬‫مور‬ ‫ُ االَُ‬‫َۃ‬‫ِب‬‫َاق‬ ‫َ ِّٰ‬
‫ّٰلل ع‬ ‫ِ ِ‬
‫و‬ ‫َر‬‫ُنک‬‫َنِ الم‬ ‫َوا ع‬ ‫نه‬‫َ َ‬ ‫ُوفِ و‬ ‫َعر‬‫ِالم‬ ‫ُوا ب‬‫مر‬ ‫ََ‬ ‫ا‬
‫(یہ اہ ِل حق) وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار دے دیں (تو) وہ نماز (کا نظام) قائم کریں اور‬
‫زکوۃ کی ادائیگی (کا انتظام) کریں اور (پورے معاشرے میں نیکی اور) بھالئی کا حکم کریں اور‬ ‫ٰ‬
‫(لوگوں کو) برائی سے روک دیں‪ ،‬اور سب کاموں کا انجام ہللا ہی کے اختیار میں ہے۔(سورۃ الحج‪۱ :‬‬
‫‪)۴‬‬
‫ت اسالمیہ کے قیام کے چار بنیادی مقاصد بالترتیب درج ذیل ہیں‪:‬‬ ‫ت کریمہ کی رو سے حکوم ِ‬ ‫متذکرہ آی ِ‬
‫۔اقامت صلوۃ‬
‫زکوۃ‬
‫۔ایتائے ٰ‬
‫۔امر بالمعروف‬
‫۔نہی عن المنکر‬
‫ایک اور جگہ ہللا نے ارشاد فرمایا ہے‪:‬‬
‫ُا‬‫تو‬‫َٰ‬‫َا‬‫َ و‬ ‫ٰوة‬‫َّل‬
‫موا الص‬ ‫َاُ‬ ‫َق‬‫َا‬‫ٰتِ و‬
‫ِح‬ ‫ّٰل‬ ‫ُوا الص‬ ‫ِل‬‫َم‬‫َع‬‫ُوا و‬ ‫َٰ‬
‫من‬ ‫َ ا‬ ‫ِين‬ ‫َّ َّ‬
‫الذ‬ ‫ِن‬‫ا‬
‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ُ م يح زنون۔‬ ‫َ‬‫َ‬
‫ِم وال ھ‬ ‫َ‬‫َ‬ ‫ٌ‬ ‫َ‬
‫ِم وال خوف عليه‬ ‫َ‬‫َ‬ ‫به‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِند رُ‬ ‫ُم ع‬ ‫ُھ‬ ‫َ‬
‫ُم اجر‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ٰ‬
‫الزکوة له‬ ‫َّ‬
‫ترجمہ‪:‬بے شک جو لوگ ایمان کے ساتھ (سنت کے مطابق) نیک کام کرتے ہیں‪ ،‬نمازوں کو قائم کرتے‬
‫تعالی کے پاس ہے‪ ،‬ان پر نہ تو کوئی خوف ہے‪ ،‬نہ‬ ‫ٰ‬ ‫ہیں اور زکوۃادا کرتے ہیں‪ ،‬ان کا اجر ان کے رب‬
‫اداسی اور غم۔(سورۃ البقرۃ‪)۲ ۷۷ :‬‬
‫زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے متعلق قرآن میں وعید ان الفاظ میں مذکور ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪:‬اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور ہللا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے‪،‬‬
‫آتش دوزخ میں تپایا(گرم کیا) جائے گا‬ ‫انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے‪،‬جس دن اس خزانے کو ِ‬
‫پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم‬
‫نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔(سورۃ التوبۃ‪)۳۵،۳۴ :‬‬
‫حدیث مبارکہ کی روشنی میں ٰ‬
‫زکوۃ کی اہمیت‪:‬‬
‫زکوۃ کی‬ ‫زکوۃ نہ صرف قرآن مجید کے حوالے سے موجود ہے بلکہ حدیث کی روشنی میں بھی ٰ‬ ‫اہمیت ٰ‬
‫آپ نے فرمایا؛‬
‫فضیلت و اہمیت بیان ہوئی ہے۔ ؐ‬
‫تعالی اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان رکھتا ہے اسے چاہئے کہ اپنے مال کی زک ٰوۃ ادا‬ ‫ٰ‬ ‫”جو شخص ہللا‬
‫کرے۔“‬
‫اس طرح ایک اور جگہ ارشاد ہوا‪:‬‬
‫زکوۃ دیا کرو یہ مال میں اضافے کا باعث بنتی ہے۔“‬
‫” ٰ‬
‫پھر ارشاد ہوا‪:‬‬

‫‪ 59 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫زکوۃ لینے واال آئے تو تم کو چاہیئے کہ وہ تمہارے پاس سے اس حالت میں‬ ‫”جب تمہارے پاس کوئی ٰ‬
‫واپس جائے کہ وہ تم سے راضی ہو۔“‬
‫حضرت عبد ہللا ابن عمر رضی ہللا عنہما سے روا یت ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫”مجھے ہللا پاک نے اس پر مامور کیا ہے کہ َمیں لوگوں سے اس وقت تک جہاد کروں جب تک وہ یہ‬
‫گواہی نہ دیں کہ ہللا کے سوا کو ئی سچا معبود نہیں اور محمد (ﷺ)خدا کے سچے رسول ہیں‪ ،‬ٹھیک‬
‫طرح نماز ادا کریں‪ ،‬زکوۃ دیں‪ ،‬پس اگر ایسا کر لیں تو مجھ سے ان کے مال اور جا نیں محفوظ ہو جائیں‬
‫گے سوائے اس سزا کے جو اِسالم نے (کسی حد کے سلسلہ میں)ان پر الزم کر دی ہو۔“(صحیح‬
‫البخاری)‬
‫نبی پاک ﷺ نے حضرت معاذ رضی ہللا عنہ کو جب یمن کی طر ف بھیجا تو فرمایا‪:‬‬
‫” ان کو بتاؤ کہ ہللا پاک نے ان کے مالوں میں زکوۃ فرض کی ہے جومال داروں سے لے کر فقرا کو دی‬
‫جائے۔“(سنن الترمذی)‬
‫حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ فرما تے ہیں‪:‬‬
‫جب رسول پاک ﷺ کا وصا ِل ظاہری ہو گیا اور حضرت ابو بکر رضی ہللا عنہ خلیفہ بنے اور کچھ قبا ئل‬
‫عرب مرتد ہو گئے (کہ زکوۃ کی فرضیت سے انکار کر بیٹھے) تو حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے کہا‪:‬‬
‫آپ لوگوں سے کیسے معاملہ کریں گے جب کہ رسول ہللا ﷺ نے ارشاد فرمایا‪َ ” :‬میں لو گوں سے جہاد‬
‫کرنے پر ما مور ہوں جب تک وہ َال ا ِٰل َہ ا اِال ہللا نہ پڑھیں۔ جس نے َال ا ِٰل َہ ا اِال ہللا کا اقرار کر لیا اس نے‬
‫اپنی جان اور اپنا مال مجھ سے محفوظ کر لیا مگر یہ کہ کسی کا حق بنتا ہو اور وہ ہللا پاک کے ذمے‬
‫ہے۔”(یعنی یہ لوگ تو ََل ا ِٰل َہ ا اِال ہللاُ کہنے والے ہیں‪ ،‬ان پر کیسے جہاد کیا جائے گا)‬
‫حضرت ابوبکر رضی ہللا عنہ نے کہا‪” :‬ہللا کی قسم! َمیں اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور‬
‫زکوۃ میں فرق کرے گا (کہ نماز کو فرض مانے اور زک ٰوۃ کی فرضیت سے انکار کرے) اور زکوۃ مال‬
‫کا حق ہ ے بخدا اگر انھوں نے (واجب االداء) ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول ہللا ﷺ کے دور میں دیا‬
‫کرتے تھے تو َمیں ان سے جنگ کروں گا۔”حضرت عمر رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪”:‬وہللا! میں نے‬
‫دیکھا کہ ہللا پاک نے صدیق کا سینہ کھول دیا ہے۔ اُس وقت میں نے بھی پہچان لیا کہ وہی حق‬
‫ہے۔“(صحیح البخاری)‬
‫آپ ﷺ نے زکوۃ ادا نہ کرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫زکوۃادا نہ کرنے والوں کا مال ودولت گنجا سانپ (یعنی انتہائی زہریال) بناکر ان پر‬ ‫”قیامت کے روز ٰ‬
‫مسلط کردیاجائے گاجو انہیں مسلسل ڈستارہے گا اور کہے گا‪:‬میں تیرامال ہوں‪ ،‬میں تیراخزانہ ہوں۔“‬
‫زکوۃ کے فوائد و ثمرات‪:‬زکوۃ اسالم کے معاشی و معاشرتی نظام کا ایک اہم ستون ہے۔ کسی بھی‬
‫معاشرے میں طبقات کی کشمکش اس وقت ہی شروع ہوتی ہے جب وہاں زکوۃ کا نظام رائج نہ ہو اور‬
‫دولت کی تقسیم غیر منصفانہ ہو۔ جس معاشرے میں زکوۃ کا نظام رائج ہو تو اس کے مثبت اثرات اور‬
‫فوائد پورے معاشرے پر بخوبی محسوس کئے جاسکتے ہیں۔‬
‫زکوۃ کے انفرادی فوائد‪ :‬یوں تو زکوۃ کے فوائد بے شمار ہیں جن کا احاطہ ناممکن نہیں تو مشکل‬
‫ضرور ہے لیکن ان میں سے چند ایک مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪)۱‬تکمیل ایمان کا ذریعہ‪:‬زکوۃ دینا تکمیل ِ ایمان کا ذریعہ ہے جیسا کہ رسول پاک ﷺ نے ارشاد‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫”تمہارے اسالم کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکوۃ ادا کرو۔"‬

‫‪ 60 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ہے۔قرآن پاک میں ُمت ا ِقیْن کی‬
‫ِ‬ ‫تقوی حاصل ہوتا‬
‫ٰ‬ ‫تقوی وپرہیزگاری کا حصول‪:‬زکوۃ دینے سے‬ ‫‪ٰ )۲‬‬
‫عالمات میں سے ایک عالمت یہ بھی بیان کی گئی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬
‫ُون‬
‫َ‬ ‫ِق‬
‫ينف‬ ‫ُم ُ‬‫ٰه‬ ‫َقن‬ ‫َز‬ ‫َّا ر‬ ‫ِم‬‫َم‬‫و‬
‫اورہماری دی ہوئی روزی میں سے ہماری راہ میں خرچ کرتے ہیں۔(البقرۃ‪)۳:‬‬
‫‪)۳‬مال کا پاک ہونا‪ :‬زکوۃ دینے سے مال پاک ہوجاتا ہے جیسا کہ حضرت انس بن مالک رضی ہللا عنہ‬
‫سے مروی ہے کہ رسول پاک ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫”اپنے مال کی زکوۃنکال کہ وہ پاک کرنے والی ہے‪ ،‬تجھے پاک کردے گی۔”‬
‫‪)۴‬مال میں برکت‪:‬زکوۃ دینے والے کا مال کم نہیں ہوتا بلکہ دنیا وآخرت میں بڑھتا ہے۔ ہللا پاک ارشاد‬
‫فرماتا ہے‪:‬‬
‫” اور جو چیز تم ہللا کی راہ میں خرچ کرو وہ اس کے بدلے اور دے گا اور وہ سب سے بہتر رزق دینے‬
‫واال۔“(سورۃ السبا‪)۹۳ :‬‬
‫زکوۃ نکالتے ہوئے ہماری نیت یہ ہونی چاہئے کہ یہ اسالم کی چند بنیادوں میں سے‬ ‫الہی‪ٰ :‬‬
‫‪)۵‬رضائے ٰ‬
‫تعالی کا حکم ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ہمارے د‬ ‫ٰ‬ ‫ہی نہیں کہ جسے ادا کرنا ہم پر فرض ہے اور یہ ہللا‬
‫ل میں ہللا کی منشاء اور مرضی حاصل کرنے کی نیت ہونی چاہئے۔ارشاد خداوندی ہے کہ‪:‬‬
‫” جو کچھ تم خرچ کرتے ہو اس لیے خرچ کرتے ہو کہ ہللا کی خوشنودی حاصل کر سکو۔“‬
‫‪)۶‬حب مال کا خاتمہ‪:‬زکوۃ کی خاص بات یہ ہے کہ اس سے مال کی محبت ختم یا پھر کسی حد تک‬
‫کم ہو جاتی ہے۔ایک انسان کی سب سے زیادہ قیمتی چیزوں میں اوالد‪ ،‬والدین اور مال و دولت کی‬
‫محبت ہمیشہ سر فہرست رہتی ہے لیکن مال کی محبت کسی بھی رشتے سے زیادہ آگے نکل جاتی ہے۔‬
‫ارشاد نبوی ﷺ ہے کہ‪:‬‬
‫”مال و دولت کی محبت ہمیشہ میری امت کا فتنہ رہے گی۔“‬
‫‪)۷‬جذبہ ایثار پیدا ہونا‪:‬ایثار سے مراد وہ عمل ہے کہ جس میں اپنی ضروریات کو رد کرتے ہوئے‬
‫اپنے مسلمان بھائی کی مدد کی جائے یا پھر اپنی ضرورت پر کسی دوسرے کی ضرورت کو ترجیح‬
‫دینا۔قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے کہ‪:‬‬
‫” تم میں سے اس وقت تک کوئی نیکی میں کمال حاصل نہیں کر سکتا جب تک کہ اپنی پسندیدہ چیز ہللا‬
‫کے راستے پر قربان نہ کردے۔“‬
‫‪)۸‬جذبہ سخاوت‪:‬سخاوت سے مراد دریا دلی یا بیش بہا مدد کرنا ہے۔ کوئی بھی شخص جو ایثار کا‬
‫جذبہ رکھتا ہے وہ سخی بھی ہوتا ہے۔حضرت عثمان کو غنی کا لقب دیا گیا جس سے مراد بہت زیادہ‬
‫خرچ کرنے واال ہے۔ اسی طرح سخاوت سے مراد بھی یہ ہے کہ بخل سے کام لینے کے بجائے زیادہ‬
‫خرچ کیا جائے۔‬
‫تعالی ہے کہ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫‪)۹‬غریب پروری‪:‬ارشاد باری‬
‫”بے شک مومن آپس میں بھائی بھائی ہیں“‬
‫اس رشتے کے تحت ہللا کے بندوں سے محبت الزمی ہے۔ سب مسلمان آپس میں ایک دوسرے کے‬
‫بھائی ہیں اس لئے ان میں کسی قسم کا کوئی امتیاز نہیں ہونا چاہئے۔ حضور ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ‪:‬‬
‫”ہللا کے بندوں آپس میں بھائی بھائی بن جاؤ۔“‬
‫زکوۃ کی ادائیگی سے اپنے مسلمان بھائیوں کی محبت کے جذبات دل میں پیدا ہوتے ہیں۔‬
‫زکوۃ کے اجتماعی فوائد‪:‬‬
‫‪ 61 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫زکوۃ کے چند اجتماعی فوائد درج ذیل ہیں‬
‫ارتکاز ِ دولت کا خاتمہ‪ :‬ارتکاز سے مراد ایک جگہ جمع ہو جانا۔ یعنی رقم کا کہیں جاکررک‬ ‫‪)1‬‬
‫زکوۃ سے دولت ایک ہاتھ سے دوسرے اور پھر تیسرے میں جاتی رہتی ہے یوں اس کی گردش‬ ‫جانا ٰ‬
‫ہوتی رہتی ہے۔ اس طرح دولت کا ایک چھوٹا سا حصہ آگے چل کر بہت سے لوگوں کو فائدہ پہنچاتا‬
‫ہے۔ ارشاد ہوتا ہے کہ‪:‬‬
‫زکوۃ دولت مندوں سے لی جائے اور اسی معاشرے کے غریب لوگوں میں تقسیم کر دی جائے۔“‬ ‫” ٰ‬
‫غربت اور مفلسی کا خاتمہ‪ :‬طبقات میں غربت و مفلسی کے لحاظ سے لوگ احساس کمتری‬ ‫‪)۲‬‬
‫کا شکار ہو جاتے ہیں۔ امیروں کو یہ سوچ لینا چاہیئے کہ غریب بندہ ہللا کی مخلوق اور ہمارا بھائی ہے‬
‫اگر وہ غریب ہے اسے وہ ذرائع نہیں مل رہے کہ وہ اپنے پیروں پر کھڑا ہو سکے اور حقیقت میں وہ‬
‫زکوۃ دے کر اسے معاشی طور پر مستحکم بنانا ہمارا فر ض ہے۔ یہ‬ ‫ان ذرائع کی تالش میں ہے تو اسے ٰ‬
‫تعالی ہے کہ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫مومنون کی پہچان ہے۔قرآن پاک میں ارشاد باری‬
‫زکوۃ ادا کریں گے‪ ،‬نیکی کا حکم‬ ‫”ہم زمین میں انہیں اقتدرا عطا کریں گے تو وہ نماز قائم کریں گے‪ٰ ،‬‬
‫دیں گے اور برائی سے روکیں گے۔“‬
‫امدادِباہمی‪:‬زکوۃ کی ایک بڑی افادیت یہ ہے کہ اس کی ادائیگی سے نادار اور مفلس افراد کی‬ ‫‪)۳‬‬
‫مالی مدد ہوجاتی ہے اور چونکہ زکوۃ ذمہ داری سمجھ کر ادا کی جاتی ہے اس لئے دینے واال برتری‬
‫احساس کمتری کا شکار نہیں ہوتا کیونکہ یہ اس کا حق ہے۔ اس طرح‬ ‫ِ‬ ‫محسوس نہیں کرتا اور لینے واال‬
‫زکوۃ امدا ِد باہمی کا کردار ادا کرتی ہے۔‬
‫طبقاتی کشمکش کا خاتمہ‪ :‬وہ معاشرہ جس میں زکوۃ کا نظام رائج نہ ہو‪ ،‬وہ طبقاتی کشمکش‬ ‫‪)۴‬‬
‫کا شکار ہوجاتا ہے اور وہاں دولت کی غیر منصفانہ تقسیم ہونے لگتی ہے۔ امیر‪ ،‬امیر تر ہوتا جاتا ہے‬
‫اور غ ریب‪ ،‬غریب تر‪ ،‬لیکن اسالم کا معاشی نظام جس کی بنیاد زکوۃ کے نظام پر ہے اس میں طبقاتی‬
‫کشمکش کا خاتمہ کیا جاتا ہے اور دولت کی منصفانہ اور مساویانہ تقسیم کو یقینی بنایا جاتا ہے۔‬
‫پُر امن اور خوشحال معاشرے کا قیام‪:‬جب غریبوں کو ان کے حقوق ملیں اور ان کی مالی‬ ‫‪)۵‬‬
‫ا عانت کی جائے تو معاشرے کا کوئی فرد مفلس و نادار نہیں رہتا اور معاشرے میں امن اور خوشحالی‬
‫ب نصاب‬ ‫پیدا ہوتی ہے۔ کیونکہ فساد کی اصل جڑ مال اور دولت ہی ہوتا ہے۔ اس لئے اسالم نے ہر صاح ِ‬
‫پر زکوۃ فرض کرکے غریبوں کو باعزت زندگی گزارنے کا حق دیا ہے۔‬
‫ذخیرہ اندوزی کا خاتمہ‪ :‬کسی بھی معاشرے کی معاشی تباہی کا ایک بڑا سبب ذخیرہ اندوزی‬ ‫‪)۶‬‬
‫بھی ہوتا ہے۔ زکوۃ ایک ایسا مؤثر فریضہ ہے جس کے نافذ ہوتے ہی معاشرہ اس لعنت سے پاک ہوجاتا‬
‫ہے۔ دولت چن د دولت مندوں کے ہاتھوں میں ہی جمع ہوکر نہیں رہ جاتی بلکہ ہر مستحق تک پہنچتی ہے۔‬
‫ذخیرہ اندوزوں کو وعید سناتے ہوئے قرآن نے کچھ یوں کہا‪:‬‬
‫ترجمہ‪:‬اور جو لوگ سونے چاندی کو جمع کرکے رکھتے ہیں اور ہللا کی راہ میں خرچ نہیں کرتے‪،‬‬
‫آتش دوزخ میں تپایا(گرم کیا) جائے گا‬ ‫انہیں دردناک عذاب کی خبر پہنچا دیجئے‪،‬جس دن اس خزانے کو ِ‬
‫پھر اس سے ان کی پیشانیاں اور پہلو اور پیٹھیں داغی جائیں گی (ان سے کہا جائے گا) یہ ہے جسے تم‬
‫نے اپنے لئے خزانہ بنا کر رکھا تھا۔ پس اپنے خزانوں کا مزہ چکھو۔(سورۃ التوبۃ‪)۳۵،۳۴ :‬‬
‫مصارف زکوۃ کو تفصیل سے بیان کریں۔‬
‫ِ‬ ‫سوال نمبر ‪:4‬‬

‫‪ 62 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫مصارف‬
‫ِ‬ ‫زکوۃ‪ :‬مصارف‪ ،‬مصرف کی جمع ہے۔ مصرف خرچ کرنے کی جگہ کو کہتے ہیں۔‬ ‫مصارف ٰ‬
‫ِ‬
‫زکوۃ کی رقم دی جاسکتی ہے۔ ہللا تعالی نے سورہ توبہ کی آیت‬ ‫زکوۃ سے مراد وہ لوگ ہیں جنہیں ٰ‬ ‫ٰ‬
‫نمبر‪ ۶ ۰‬میں ان لوگوں کا ذکر کیا ہے جن کو زکوۃ دی جاسکتی ہے‪:‬‬
‫َۃ‬
‫ِ‬ ‫َّ‬‫َ‬
‫ُؤلف‬ ‫َالم‬ ‫َليها و‬ ‫َ‬ ‫ِين ع‬‫َ‬ ‫ِل‬‫َام‬ ‫َالع‬ ‫َ و‬ ‫ِين‬ ‫َسَاک‬‫َالم‬ ‫ء و‬ ‫َراِ‬‫ُق‬ ‫ِلف‬ ‫َات‬
‫ُ ل‬ ‫دق‬‫ََّ‬
‫َا الص‬ ‫نم‬‫َِّ‬‫إ‬
‫ِيل‬
‫ِ‬ ‫َابنِ السَّب‬ ‫ِ اّ‬
‫ّٰللِ و‬ ‫ِيل‬ ‫ِي سَب‬ ‫َ و‬
‫َف‬ ‫ِين‬‫ِم‬‫َار‬
‫َالغ‬ ‫َابِ و‬‫ِق‬ ‫ّ‬
‫ِي الر‬ ‫َف‬
‫ُم و‬ ‫ُوُ‬
‫به‬ ‫ُل‬‫ق‬
‫ٌ‪O‬‬ ‫ِيم‬‫َک‬‫ٌ ح‬ ‫ِيم‬‫َل‬ ‫َاّ‬
‫ّٰللُ ع‬ ‫َ اّ‬
‫ّٰللِ ط و‬ ‫ِن‬‫ً ّ‬
‫م‬ ‫َۃ‬
‫ِيض‬ ‫َر‬
‫ف‬
‫زکوۃ تو صرف ان لوگوں کے لئے جو محتاج اور نادار (مسکین) ہوں اور جو اس کی تحصیل‬ ‫ترجمہ‪ٰ ”:‬‬
‫پر مقرر ہیں اور جن کے دلوں کو اسال م سے الفت دی جائے (اسالم کی طرف مائل کرنا ہو) اور‬
‫(مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور ہللا کی راہ اور مسافر کو‪ ،‬یہ ٹھہرایا ہوا‬
‫(مقرر شدہ) ہے ہللا کی طرف سے اور ہللا علم و حکمت واال ہے“۔‬
‫قرآن کی اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ زکوۃ کے درج ذیل آٹھ مصارف ہیں‪:‬‬
‫‪۴‬۔مؤلفۃ القلوب‬ ‫‪۳‬۔عاملین‬ ‫‪۲‬۔مساکین‬ ‫‪۱‬۔فقراء‬
‫‪۷‬۔فی سبیل ہللا ‪۸‬۔مسافر‬ ‫‪۶‬۔قرض دار‬ ‫‪۵‬۔رقاب(غالم آزاد کرانا)‬
‫‪۱‬۔فقراء‪ :‬فقیر وہ شخص ہے جس کے پاس کچھ مال ہے مگر اتنا نہیں کہ نصاب کو پہنچ جائے یا مال‬
‫ت اصیل ّہ (ضرورت کی چیزوں)کے عالوہ اس کے پاس کچھ نہیں مثال‬ ‫بقدر نصاب ہے مگر حاج ِ‬ ‫تو ِ‬
‫رہنے کا مکان‪ ،‬پہننے کے کپڑے وغیرہ ہیں اس کے عالوہ کچھ نہیں۔ یونہی اگر مدیون (قرضدار) ہے‬
‫بقدر نصاب باقی نہیں رہتا تو وہ فقیر ہے اگرچہ اس کے پاس فی الوقت‬ ‫اور دَین (قرض) نکالنے کے بعد ِ‬
‫مال موجود ہو۔‬
‫‪۲‬۔مساکین‪:‬مسکین وہ شخ ص ہے جس کے پاس کچھ نہ ہو‪ ،‬یہاں تک کہ وہ کھانے اور بدن چھپانے‬
‫کے لیے اس کا محتاج ہے کہ لوگوں سے سوال کرے۔‬
‫زکوۃ اور عشر وصول کرنے‬ ‫‪۳‬۔عاملین زکوۃ‪ :‬عامل وہ ہے جسے اسالمی حکومت کے سربراہ نے ٰ‬
‫کے لیے مقرر کیا ہو‪ ،‬اسے کام کے لحاظ سے اتنا دیا جائے کہ اس کو اور اس کے مددگاروں کو‬
‫متوسط (درمیانہ) طور پر کافی ہو مگر اتنا نہ دیا جائے کہ جو کچھ وہ وصول کرکے الیا ہے اس کے‬
‫نصف سے زیادہ ہو جائے۔ عامل کے لیے فقیر ہونا شرط نہیں۔‬
‫‪۴‬۔مؤلفۃ القلوب‪ :‬اس سے مراد وہ لوگ ہیں جن کی دلجوئی اور اسالم کی رغبت پیدا کرنے کے لئے‬
‫ابتدائے اسالم میں زکوۃ دی جاتی تھی‪ ،‬اب چونکہ اسالم کو قوت حاصل ہوگئی ہے لہذا اب ایسے لوگوں‬
‫کو زکوۃ کی رقم نہیں دی جاسکتی۔‬
‫‪۵‬۔رقاب(غالم آزاد کرانا)‪ِ :‬رقاب سے مراد ہے غالمی سے گردن رہا کرانا اور یہ اسالم ہی ہے جس‬
‫نے سب سے پہلے غالموں کی دستگیری (مدد)کی اور غالموں کی آزادی کے مختلف طریقے مقرر‬
‫زکوۃ کا طریقہ ہے کہ زکوۃ کی رقم غالم کے مالک کودے کر غالم‬ ‫کئے ان ہی میں سے ایک طریقہ یہ ٰ‬
‫کو آزاد کرایا جائے۔ موجودہ زمانہ میں غالم تو نہیں رہے اب اس کی صورت یہ ہے کہ جنگی قیدیوں‬
‫کی رہائی کے لئے زکوۃ کی رقم خرچ کی جائے۔‬
‫‪۶‬۔غارم (قرض دار)‪:‬غارم سے مراد َمدیون (مقروض) ہے یعنی اس پر اتنا دَین(قرضہ) ہو کہ اسے‬
‫نکالنے کے بعد نصاب باقی نہ رہے۔ مثال کے طور پر ایک شخص کے پاس دو الکھ روپے موجود ہیں‬
‫لیکن اسے کسی کے پانچ الکھ روپے واپس کرنے ہیں تو ایسا شخص زکوۃ لے سکتا ہے۔یہ بھی اسالم‬
‫کے ان عظیم احسان ات میں سے ہے کہ اس نے قرض سے برباد ہونے والوں کے بچاؤ کا ایسا انتظام کر‬

‫‪ 63 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫دیا‪ ،‬حالیہ زمانہ نے قرضداروں کی سہولت کے لیے بینک قائم کئے ہیں مگر دنیا جانتی ہے کہ‬
‫سینکڑوں امالک غریبوں کے قبضہ سے نکل کر بینک کے قبضہ میں چلی گئی ہیں اور عوام میں‬
‫افالس و تنگدستی کی ترقی ہو گئی ہے۔‬
‫‪۷‬۔فی سبیل ہللا‪:‬فی سبیل ہللا کے معنی ہیں را ِہ خدا میں خرچ کرنا‪ ،‬اس کی چند صورتیں ہیں مثال کوئی‬
‫شخص محتاج ہے کہ جہاد میں جانا چاہتا ہے سواری اور دیگر سامان اس کے پاس نہیں تو اسے ما ِل‬
‫زکوۃ دے سکتے ہیں اگرچہ وہ کمانے پر قادر ہے۔‬ ‫ٰ‬
‫زکوۃ دے سکتے ہیں مگر اسے حج کے‬ ‫یاکوئی حج کو جانا چاہتا ہے اور اس کے پاس مال نہیں اس کو ٰ‬
‫لیے سوال کرنا جائز نہیں۔‬
‫ب علم کو کہ وہ علم دین پڑھنا چاہتا ہے اسے دے سکتے ہیں کہ یہ بھی را ِہ خدا میں دینا ہے۔‬ ‫یا طال ِ‬
‫زکوۃ کا مال صرف کرنا فی سبیل ہللا ہے جب کہ اس میں تملیک(مالک بنانا) پائی‬ ‫یونہی ہر نیک کام میں ٰ‬
‫زکوۃ ادا نہیں ہو سکتی۔‬
‫جائے کہ بغیر تملیک ِفقیر ٰ‬
‫‪۸‬۔ابن السبیل (مسافر)‪:‬ابن السبیل کہتے ہیں مسافر کو اور یہاں اس سے مراد وہ مسافر ہے جس کے‬
‫ت سفر میں مال باقی نہ رہے اگرچہ اس کے گھر میں پیسے موجود ہوں۔ شریعت نے ایسی‬ ‫پاس حال ِ‬
‫زکوۃ لے سکتا ہے اگرچہ اس کے گھر مال موجود ہے مگر اسی‬ ‫حالت میں اسے اختیار دیا کہ وہ مال ٰ‬
‫قدر لے جس سے حاجت پوری ہو جائے‪ ،‬زیادہ کی اجازت نہیں مگر بہتر یہ ہے کہ قرض ملے تو‬
‫قرض لے کر کام چالئے۔ یا مثال اس کے پاس کوئی سامان ضرورت سے زائد موجودہے جس کی قیمت‬
‫سے کام نکل سکتا ہے مثال گھڑی تو اسے بیچ دے اور قیمت کا م میں الئے اور سوال کی ذلّت سے‬
‫بچے۔‬
‫وہ لوگ جن کو زکوۃ نہیں دی جاسکتی‪:‬‬
‫‪۱‬۔غیر مسلم کو۔‬
‫‪۲‬۔والدین کو۔‬
‫‪۳‬۔اوالد کو۔‬
‫‪۴‬۔میاں اور بیوی آپس میں ایک دوسرے کو۔‬
‫‪۵‬۔آپ ﷺ کی اوالد کو۔‬
‫سوال نمبر ‪:5‬حج پر تفصیلی نوٹ تحریرکرتے ہوئے اس کے فوائد تحریر کیجئے۔‬
‫حج‪ :‬حج کے لغوی معنی ہیں ”زیارت کا ارادہ کرنا“۔‬
‫شریعت کی اصطالح میں مخصوص زمانہ یعنی حج کے مہینوں میں بیت ہللا کی زیارت کرنا‬
‫اور مخصوص مناسک (طواف‪ ،‬سعی‪ ،‬رمی وغیرہ) کو ادا کرنا حج کہالتا ہے۔‬
‫حج اسالم کا پانچواں رکن ہے جو کہ ہر بندہ مومن پر (جو صاحب استطاعت ہو) زندگی میں‬
‫ایک بار فرض ہے۔ حج کی فرضیت کا ذکر قرآن میں بھی کیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشادِباری تعالی ہے‪:‬‬
‫ِ سَب‬
‫ِيال‬ ‫ِليہ‬‫َ اَ‬ ‫َاع‬‫َط‬‫منِ است‬ ‫َيتِ َ‬‫ُّ الب‬ ‫َی الن‬
‫َّاسِ حِج‬ ‫َل‬ ‫َِّٰ‬
‫ّٰللِ ع‬ ‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور لوگوں پر ہللا کا حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج‬
‫کرے۔ (سورہ آل عمران‪)۹ ۷ :‬‬
‫پس منظر‪:‬‬
‫حج کا تاریخی ِ‬
‫‪۱‬۔ حج کی فرضیت‪ :‬حج کی فرضیت کا حکم ‪ ۹‬ھ؁ میں نازل ہوا۔‬

‫‪ 64 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫پہال حج‪ :‬حج فرض ہونے کے پہلے سال یعنی ‪ ۹‬ھ؁ میں حضرت ابو بکر صدیق رضی ہللا تعالی‬
‫عنہ کی قیادت میں تین سو (‪ )۳۰۰‬صحابہ نے حج کی سعادت حاصل کی۔‬
‫رسول ہللا ﷺ کی قیادت میں حج‪۱ ۰ :‬ھ؁ میں رسول اکرم ﷺ نے اپنی زندگی کا پہال اور آخری‬
‫حج تقریبا ایک الکھ چوبیس ہزار صحابہ کرام کے ساتھ ادا فرمایا۔‬
‫ت مبارکہ میں ایک حج اور چار‬ ‫رسول ہللا ﷺ کے حج اور عمرے‪ :‬رسول اکرم ﷺ نے اپنی حیا ِ‬
‫عمرے ادا فرمائے۔‬
‫حج کی اقسام‪ :‬حج کی تین اقسام ہیں‪:‬‬
‫‪۳‬۔قِران۔‬ ‫‪۲‬۔تمتع۔‬ ‫‪۱‬۔اِفراد۔‬
‫‪ .1‬حج اِفراد‪:‬اِفراد کے لغوی معنی ہیں‪ ’’:‬اکیالاور تنہا‪ ،‬جب کہ شرعی اصطالح میں صرف حج کی‬
‫نیت سے احرام باندھ کر حج کے افعال و مناسک ادا کرنا اور عمرہ ساتھ نہ مالنا ‘حج اِفراد‬
‫کہالتا ہے۔ حج اِفراد کرنے والے کو ”مفرد“ کہا جاتا ہے‘‘ ۔‬
‫‪ .2‬حج قران‪:‬قران(ق کے کسرہ کے ساتھ) کے لغوی معنی ہیں‪’’:‬دو چیزوں کوباہم مالدینا‘‘جب کہ‬
‫شرعی اصطالح میں عمرہ اور حج دونوں کی نیت سے احرام باندھنا اور ایک ہی احرام کے‬
‫ساتھ پہلے عمرہ اورپھر حج اداکرنا اور درمیان میں احرام نہ کھولنا‘حج قران کہالتا ہے۔حج‬
‫قران کرنے والے کو"قارن"کہا جاتا ہے۔امام ابو حنیفہ کے نزدیک حج قران افضل ہے۔‬
‫عازم حج کا میقات‬
‫ِ‬ ‫‪ .3‬حج تمتع‪:‬تمتع کے لغوی معنی ہیں‪’’:‬نفع اٹھانا‘‘ جب کہ شرعی اصطالح میں‬
‫سے پہلے عمرہ کی نیت سے احرام باندھنا اورعمرہ کے افعال ومناسک ادا کر نے کے بعد‬
‫احرام کھول دینا اور پھر ‪ 8‬ذوالحجہ کو پھر حج کا احرام باندھ کر مناسک حج ادا کیے جائیں‬
‫۔حج تمتع کرنے والے کو "متمتع"کہا جاتا ہے۔‬
‫الغرض اِفراد میں ایک سفر میں ایک احرام میں ایک عبادت ہوتی ہے‪ ،‬تمتع میں ایک سفر میں‬
‫دو احرام میں دو عبادتیں ہوتی ہیں اور قِران میں ایک سفر اور ایک احرام میں دو عبادتیں ادا کی جاتی‬
‫ہیں۔‬
‫حج کی اہمیت قرآن کی روشنی میں‪:‬حج ہر اس مسلمان مرد اور عورت پر ہللا کی طرف سے‬
‫فرض ہے جو بیت ہللا کی طرف جانے کی استطاعت رکھتا ہو۔چنانچہ ارشادِباری تعالی ہے‪:‬‬
‫ِيال‬‫ِ سَب‬‫ِليہ‬‫َ اَ‬ ‫َاع‬ ‫َط‬‫منِ است‬ ‫َيتِ َ‬ ‫ُّ الب‬ ‫َّاسِ حِج‬ ‫َی الن‬ ‫َل‬ ‫َِّٰ‬
‫ّٰللِ ع‬ ‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور لوگوں پر ہللا کا حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی قدرت رکھتا ہو وہ اس کا حج‬
‫کرے۔ (سورہ آل عمران‪)۹ ۷ :‬‬
‫استطاعت سے مراد ہے کہ‪:‬‬
‫۔حج کرنے واال آزاد ہو۔‬
‫۔صحت مند ہو۔‬
‫۔راستہ میں جان کا کوئی خطرہ نہ ہو۔‬
‫۔اتنا پیسہ ہو کہ جس سے وہ اپنا سفر کرسکے اور اپنے گھر والوں کی ضروریات کا بندوبست‬
‫کرسکے۔‬
‫۔اگر عورت حج پر جارہی ہو تو محرم موجود ہو۔‬
‫حج کے مخصوص ایام ہیں جن کا ذکر قرآن میں کیا گیا ہے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫مات‬ ‫ُوَ‬ ‫معل‬ ‫ُر َّ‬ ‫َشه‬ ‫َج‬
‫ُّ ا‬ ‫َلح‬ ‫ا‬
‫ترجمہ‪ :‬حج کے مہینے معلوم (اور مقرر) ہیں۔ (سورۃ البقرۃ‪)۱۹ ۷ :‬‬

‫‪ 65 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫مطلب یہ ہے کہ عمرہ سال میں ہر وقت جائز ہے لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہی ہوتا‬
‫ہے۔ اس لئے اس کا احرام حج کے مہینوں (یعنی شوال‪ ،‬ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے پہلے دس دن) کے‬
‫عالوہ باندھنا جائز نہیں۔‬
‫حج اور عمرہ کا احرام باندھ لینے کے بعد ضروری ہے کہ اس کے تمام آداب و شرائط کا لحاظ‬
‫مناسک حج و عمرہ کو پورے اہتمام کے ساتھ ادا کیا جائے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے کہ‪:‬‬ ‫ِ‬ ‫رکھا جائے نیز‬
‫َ ِّٰ‬
‫ّٰلل‬ ‫َة‬
‫ُمر‬ ‫َالع‬ ‫َّ و‬‫َج‬‫ُّواالح‬ ‫ِم‬ ‫َ‬
‫َات‬ ‫و‬
‫ترجمہ‪:‬اور حج اور عمرہ کو ہللا تعالی (کی رضا و خوشنودی) کے لئے پورا کرو۔ (سورۃ البقرۃ‪۹ ۶ :‬‬
‫‪)۱‬‬
‫حج کی اہمیت احادیث کی روشنی میں‪:‬رسول اکرم ﷺ نے بہت سی احادیث میں ہر صاح ِ‬
‫ب‬
‫استطاعت کو ترغیب دالئی ہے کہ وہ اس فرض کی ادائیگی کو اہمیت دے۔ اس بارے میں چند احادیث‬
‫مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫گناہوں کی معافی‪ :‬حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫مہ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫َّلدتہ اُّ‬ ‫َ‬‫ِ و‬ ‫َوِ‬
‫م‬ ‫َ کي‬‫َ‬ ‫َع‬‫َج‬‫يفسُق ر‬ ‫ََلم َ‬ ‫َث و‬ ‫يرف‬ ‫َم َ‬‫َل‬
‫ّٰلل ف‬ ‫َج‬
‫َّ ِّٰ‬ ‫من ح‬ ‫َ‬
‫ترجمہ‪ :‬جو کوئی خالصتا ہللا تعالی کے حکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اور حج کے دوران گناہ اور بے‬
‫حیائی کے کاموں سے باز رہتا ہے تو وہ اس طرح (گناہوں سے پاک ہوکر) لوٹتا ہے جیسے اس دن تھا‬
‫جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ (بخاری)‬
‫حاجی سے دعا کروانا‪:‬ایک حدیث میں آپﷺ نے فرمایا کہ‪:‬‬
‫جب تم کسی حاجی سے مالقات کرو تو اُس سے سالم و مصافحہ کرو اور اس سے کہو کہ وہ اپنے گھر‬
‫میں داخل ہونے سے پہلے تمہارے لیے مغفرت کی دعا کرے کیونکہ اُس کی مغفرت ہو چکی ہے۔‬
‫(مشکاۃ المصابیح)‬
‫قیامت تک ثواب کا لکھا جانا‪:‬حج کے فضائل کے متعلق ایک حدیث میں آپﷺ فرماتے ہیں کہ‪:‬‬
‫"جو حج کے ارادے سے نکال‪ ،‬پھر مرگیا تو ہللا عزوجل اُس کے لیے قیامت تک حج کرنے والے کا‬
‫ثواب لکھ دے گا اور جو عُمرے کے ارادے سے نکال‪ ،‬پھر مر گیا تو ہللا تعالی ا ُ س کے لیے قیامت تک‬
‫عمرہ کرنے والے کا ثواب لکھ دے گا۔"‬
‫حاجی شفاعت کرے گا‪ :‬رسو ِل اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫حاجی اپنے گھر والوں میں سے ‪(400‬مسلمانوں) کی شفاعت کرے گا اور گناہوں سے ایسا نکل جائے گا‬
‫جیسے اُس دن ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا ہو۔‬
‫بِال عذر حج ترک کرنے کا وبال‪:‬حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول ہللا ﷺ‬
‫نے فرمایا‪:‬‬
‫” جو شخص سفر کے خرچ اور سواری کا مالک ہو جو اسے بیت ہللا تک پہنچا سکے اس کے باوجود وہ‬
‫حج نہ کرے تو اس میں کوئی فرق نہیں کہ وہ یہودی ہوکر مرے یا عیسائی ہوکر۔“‬
‫حج کے فوائد و ثمرات‪:‬حج کا اصل فائدہ ہللا تعالی کی رضا کا حصول ہے۔ اس بنیادی فائدہ کے‬
‫عال وہ اور بھی بہت سے انفرادی اور اجتماعی فوائد ہیں۔ جن کا مختصر جائزہ یہاں پیش کیا جاتا ہے۔‬
‫حج کے انفرادی فوائد‪:‬‬
‫‪۱‬۔گناہوں کی معافی‪ :‬حج کا ایک بہت بڑا فائدہ یہ ہے کہ انسان کے پچھلے گناہ معاف ہوجاتے ہیں۔‬
‫اگر خالص ہللا کی رضا کے لئے حج کیا جائے اور حج کی تمام شرائط کو پوری کرنے کے عالوہ کسی‬
‫‪ 66 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫مسلمان کو زبان و ہاتھ سے تکلیف نہ دی جائے تو انسان کے تمام پچھلے گناہ معاف کردئے جاتے‬
‫ہیں۔حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫مہ‬ ‫ُ‬
‫دتہ اُّ‬ ‫َ‬
‫َّلَ‬
‫ِ و‬ ‫َوِ‬
‫م‬ ‫َ‬
‫َ کي‬ ‫َع‬ ‫َج‬‫يفسُق ر‬ ‫َلم َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫يرفث و‬ ‫َم َ‬ ‫َل‬‫ّٰلل ف‬ ‫َج‬
‫َّ ِّٰ‬ ‫من ح‬ ‫َ‬
‫ترجمہ‪ :‬جو کوئی خالصتا ہللا تعالی کے حکم کی تعمیل میں حج کرتا ہے اور حج کے دوران گناہ اور بے‬
‫حیائی کے کاموں سے باز رہتا ہے تو وہ اس طرح (گناہوں سے پاک ہوکر) لوٹتا ہے جیسے اس دن تھا‬
‫جس دن اس کی ماں نے اسے جنا تھا۔ (بخاری)‬
‫ت مقدسہ کی زیارت‪:‬حج امام االنبیاء سید المرسلین کے حاالت کی یاد اور عظیم ترین مقاماتِ‬ ‫‪۲‬۔مقاما ِ‬
‫مقدسہ کی یاد دالتا ہے‪ ،‬اور یہ یاد اعلی ترین یادوں میں سے ہے کیونکہ وہ عظیم ترین رسولوں ابراھیم‬
‫و محمد صلی ہللا علیہ وسلم کے حاالت اور ان کی عظیم الشان یادگاروں‪ ،‬اور ان کی بہترین عبادتوں کی‬
‫یاد دالتا ہے‪ ،‬جو ان یادگاروں کو یاد کرتا ہے وہ رسولوں پر ایمان النے واال‪ ،‬اور ان کی تعظیم کرنے‬
‫واال ہے‪ ،‬ان کے بلند مقامات سے متاثر اور ان کے آثار حمیدہ کی اقتداء کرنے واال ہے‪ ،‬ان کے مناقب و‬
‫فضائل کو یاد کرنے واال ہے‪ ،‬چنانچہ اس سے بندہ کا ایمان اور یقین بڑھ جاتا ہے۔‬
‫‪۳‬۔ اخالقی بہتری‪:‬حج کے محاسن میں سے یہ بھی ہے کہ اس سے نفس صاف ہوتا ہے‪ ،‬خرچ کرنے‬
‫کا عادی بنتا ہے‪ ،‬مشقتیں برداشت کرنے کی صالحیت پیدا ہوتی ہے‪ ،‬زینت اور تکبر چھوڑنے کا عادی‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫روز آخرت کی یاددہانی‪:‬حج کی ایک خوبی یہ بھی ہے کہ وہ اس عظیم اجتماع کو یاد دالتا ہے‬ ‫‪۴‬۔ ِ‬
‫جو ایک میدان میں واقع ہونے واال ہے جہاں پکارنے واال لوگوں کو پکارے گا اور یہ اجتماع میدن‬
‫حشر میں ہوگا۔‬
‫'' جس دن لوگ ہللا رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔“(سورۃ المطففین)‬
‫‪۵‬۔ موت کی یاد دہانی‪:‬حج کی ایک اہم خوبی یہ بھی ہے کہ جب حاجی احرام باندھتا ہے‪ ،‬تو زندوں کا‬
‫سال ہوا لباس اتار کر مردوں کے لباس کے مشابہ لباس پہنتا ہے‪ ،‬اس طرح وہ اپنے آگے کی منزل کی‬
‫تیاری کرتا ہے۔‬
‫تقوی کی افزائش‪:‬جب ایک حاجی حج کی نیت کرتا ہے تواس نیت کے ساتھ ہی‬ ‫ٰ‬ ‫‪۶‬۔ پرہیزگاری اور‬
‫خوف خدا اور پرہیزگاری اور توبہ و استغفار اور نیک اخالق کے اثرات چھانے شروع ہوتے‬ ‫ِ‬ ‫اس پر‬
‫ہیں‪ ،‬اور وہ اپنے عزیزوں‪ ،‬دوستوں اور ہر قسم کے متعلقین سے اس طرح رخصت ہوتا ہے اور اپنے‬
‫معامالت صاف کرنا شروع کرتا ہے کہ گویا اب یہ وہ پہال سا شخص نہیں ہے‪ ،‬بلکہ خدا کی طرف لَو‬
‫لگ جانے کی وجہ سے اس کا دل پاک صاف ہورہا ہے۔‬
‫حج کے اجتماعی فوائد‪:‬‬
‫‪۱‬۔ عالم اسالم میں حرکت‪ :‬آپ جانتے ہیں کہ ایسے مسلمان جن پر حج فرض ہے ایک دو تو ہوتے‬
‫نہیں ہیں۔ ہر بستی میں ان کی اچھی خاصی تعداد ہوتی ہے۔ ہر شہر میں ہزاروں‪ ،‬ہر ملک میں الکھوں‬
‫ہی ہوتے ہیں اور ہر سال ان میں سے بہت لوگ حج کا ارادہ کرکے نکلتے ہیں۔ اب ذرا تصور کیجیے‬
‫کہ دنیا کے کونے کونے میں جہاں جہاں بھی مسلمان بستے ہیں‪ ،‬حج کا موسم آنے کے ساتھ ہی کس‬
‫طرح اسالم کی زندگی جاگ اٹھتی ہے‪ ،‬کیسی کچھ حرکت پیدا ہوتی ہے اور کتنی دیر تک رہتی ہے۔‬
‫تقریباََؑ رمضان کے مہینے سے لے کر ذی القعدہ تک دنیا کے مختلف حصوں سے مختلف لوگ حج کی‬
‫االول بلکہ ربیع الثانی تک واپسی‬
‫تیاریا نکرکے نکلتے ہیں اور ادھر ذی الحج کے آخر سے صفر‪ ،‬ربیع ّ‬
‫کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ اس چھ سات مہینے کی مدت تک گویا مسلسل تمام روئے زمین کی مسلمان‬

‫‪ 67 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫آبادیوں میں ایک طرح کی دینی حرکت جاری رہتی ہے۔ جو لوگ حج کو جاتے اور حج سے واپس آتے‬
‫ہیں‪ ،‬وہ تو دینی کیفیت سے سرشار ہوتے ہی ہیں‪ ،‬مگر جو نہیں جاتے ان کو بھی حاجیوں کے رخصت‬
‫کرنے اور ایک ایک بستی سے ان کے گزرنے اور پھر واپسی پر ان کا استقبال کرنے اور ان سے حج‬
‫کے حاالت سننے کی وجہ سے تھوڑا یا بہت اس کیفیت کا کچھ نہ کچھ حصہ مل ہی جاتا ہے۔‬
‫ت ملّت کا پُر کیف نظارہ‪ :‬ذرا آنکھیں بند کر کے اپنے دل میں اس نقشے کا تصور کیجیے‬ ‫‪۲‬۔ وحد ِ‬
‫کہ ادھر مشرق سے‪ ،‬ادھر جنوب سے‪ ،‬ادھر مغرب سے‪ ،‬ادھر شمال سے اَن گنت قوموں اور بے شمار‬
‫ملکوں کے لوگ ہزاروں راستوں سے ایک ہی مرکز کی طرف چلے آرہے ہیں۔ شکلیں اور صورتیں‬
‫مختلف ہیں‪ ،‬رنگ مختلف ہیں‪ ،‬زبانیں مختلف ہیں‪ ،‬مگر مرکز کے قریب ایک خاص حد پر پہنچتے ہی‬
‫سب اپنے اپنے قومی لباس اتار دیتے ہیں‪ ،‬اور سارے کے سارے ایک ہی طرز کا سادہ یونیفارم پہن‬
‫سلطان عالم اور بادشا ِہ‬
‫ِ‬ ‫لیتے ہیں‪ ،‬احرام کا یہ یونیفارم پہننے کے بعداعالنیہ یہ معلوم ہونے لگتا ہے کہ‬
‫زمین و آسمان کی یہ فوج‪ ،‬جو دنیا کی ہزاروں قوموں سے بھرتی ہو کر آرہی ہے‪ ،‬ایک ہی بادشاہ کی‬
‫فوج ہے‪ ،‬ایک ہی اطاعت و بندگی کا نشان ان سب پر لگا ہوا ہے‪ ،‬ایک ہی وفاداری کے رشتے میں یہ‬
‫سب بندھے ہوئے ہیں‪ ،‬اور ایک ہی دارالسلطنت کی طرف اپنے بادشاہ کے دربار میں پیش ہونے کے‬
‫لیے جارہے ہیں۔ یہ یونیفارم پہنے ہوئے سپاہی جب میقات سے آگے چلتے ہیں تو ان سب کی زبانوں‬
‫سے وہی ایک نعرہ بلند ہوتا ہے‪:‬‬
‫لبيک اللهم لبيک‪ ،‬لبيک ال شريک لک لبيک‬ ‫ّٰ‬
‫حاضر ہیں‪ ،‬پروردگار! ہم حاضر ہیں۔ تیرا کوئی شریک نہیں ہم حاضر ہیں۔‬
‫قیام امن کی سب سے بڑی تحریک‪:‬اسالم نے الزم کیا ہے کہ سال کے چار مہینے جو حج اور‬ ‫‪۳‬۔ ِ‬
‫عمرے کے لیے مقرر کیے گئے ہیں‪ ،‬ان میں کوشش کی جائے کہ کعبے کی طرف آنے والے تمام‬
‫راستوں میں امن قائم رہے۔ یہ دنیا میں امن قائم رکھنے کی سب سے بڑی دوامی تحریک ہے‪ ،‬اور اگر‬
‫دنیا کی سیاست کی باگیں اسالم کے ہاتھو ں میں ہوں تو مسلمانوں کی پوری کوشش یہ ہوگی کہ دنیا میں‬
‫ایسی بدامنی برپا نہ ہونے پائے جس سے حج اور عمرے کا نظام معطل ہوجائے۔‬
‫مرکز امن‪:‬اسالم نے دنیا کو ایک ایسا حرم دیا ہے جو قیامت تک کے لیے امن کا‬ ‫ِ‬ ‫‪۴‬۔ دنیا میں واحد‬
‫شہر ہے۔ جس میں آدمی تو کیا جانور تک کا شکار نہیں کیا جاسکتا‪ ،‬جس میں گھاس تک کاٹنے کی‬
‫اجازت نہیں‪،‬جس کی زمین کا کانٹا تک نہین توڑا جاسکتا‪ ،‬جس میں حکم ہے کہ کسی کی کوئی چیز‬
‫گری پڑی ہو تو اسے ہاتھ تک نہ لگاؤ۔ اس نے دنیا کو ایک ایسا شہر دیا ہے جس میں ہتھیار النے کی‬
‫ممانعت ہے‪ ،‬جس میں غلے کو اور دوسری عام ضرورت کی چیزوں کو روک کر مہنگا کرنے سے‬
‫بندہ الحاد کی حد تک پہنچ جاتا ہے‪ ،‬جس میں ظلم کرنے والے کو ہللا نے دھمکی دی ہے کہ‪:‬‬
‫”ہم اسے دردناک سزا دیں گے“۔ (سورۃ الحج)‬
‫‪۵‬۔باہمی میل جول‪ :‬حج کے فوائد میں سے یہ بھی ہے کہ سفر حج میں مختلف شہروں میں آنے جانے‬
‫سے وہاں کے باشندگان کا حال‪ ،‬اور ان کی عادات کا علم حاصل ہوتا ہے۔‬
‫‪۶‬۔مساوات کا قیام‪ :‬حج کا یہ فائدہ بھی ہے کہ آدمی حج میں خود کو دوسروں کے برابر محسوس کرتا‬
‫ہے‪ ،‬اور وہاں نہ کوئی بادشاہ ہے نہ غالم‪ ،‬نہ کوئی مالدار ہے نہ فقیر‪ ،‬بلکہ سب برابر ہیں۔‬
‫سوال نمبر ‪ :۷‬جہاد پر تفصیلی نوٹ تحریر کریں۔‬
‫جہاد‪ :‬جہاد کا لفظ جہد سے نکال ہے جس کا مطلب ہے کوشش کرنا۔ جہاد کے لغوی معنی ایسے عمل‬
‫کے ہیں جس میں کسی چیز کے حصول کے لئے انتہائی محنت اور کوشش کی جائے۔‬

‫‪ 68 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫دینی اصطالح میں جہاد سے مراد یہ ہے کہ ہللا کے دین کی سربلندی‪ ،‬حفاظت اور فروغ کے‬
‫لئے ہر قسم کی جدوجہد اور کوشش کرنا اور ہللا کے حکم اور اس کی پسند کے خالف کسی بھی قوت‬
‫کے سامنے رکاوٹ بننا۔‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫جہاد کو قرآن میں فرض قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ ارشا ِد باری‬
‫َال‬
‫ُ‬ ‫ِت‬ ‫ُ الق‬ ‫ُم‬‫َيک‬‫َل‬
‫َ ع‬ ‫ِب‬‫ُت‬‫ک‬
‫ترجمہ‪ :‬تم پر جہاد فرض کیا گیا ہے۔ (سورۃ البقرۃ‪)۲۱ ۶ :‬‬
‫فرض کفایہ۔‬
‫ِ‬ ‫فرض عین ہوتا ہے اور کبھی‬
‫ِ‬ ‫جہاد کبھی‬
‫جہاد کی اقسام‪ :‬جہاد کی کئی اقسام ہیں جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں ‪:‬‬
‫ّ‬
‫(‪ )1‬خواہش نفس کے خالف جہاد ( جہاد بالنفس ) (‪ )2‬جہادبالمال (‪ )3‬جہادباللسان (‪ )4‬جہادبالسیف‬
‫(‪ )5‬جہادبالقلم‬
‫خواہش نفس کے خالف جہاد (جہاد اکبر ‪ /‬جہاد بالنفس )‪:‬‬ ‫(‪)1‬‬
‫ت الہی سے روکنے والی بنیادی طور پر دو قوتیں ہیں۔ ایک اس کا اپنا نفس اور دوسرا‬ ‫انسان کو اطاع ِ‬
‫شیطان۔ انسان کے دل میں طرح طرح کی خواہشات ابھرتی ہیں۔ ان تمام خواہشات کو ہللا تعالی کے‬
‫احکامات کے تابع رکھنا جہاد بالنفس ہے۔یعنی اگر خواہش شریعت کے کسی حکم کے خالف ہو تو اس‬
‫خواہش کو چھوڑ دیا جائے اور اس کے لئے جتنی بھی مشقت اٹھانی پڑے وہ برداشت کی جائے۔ اسے‬
‫جہا ِد اکبر بھی کہتے ہیں۔‬
‫تعالی کا فرمان ہے ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫َ "‬ ‫ِين‬‫َم‬ ‫ٰـل‬‫َنِ الع‬ ‫َن‬
‫ِیٌّ ع‬ ‫َ َلغ‬
‫َّ اللاا‬
‫ِن‬ ‫ِط ا‬
‫ِه‬‫َفس‬‫لن‬
‫د ِ‬‫ُِ‬ ‫َاھ‬‫يج‬‫َا ُ‬ ‫َاَّ‬
‫ِنم‬ ‫د ف‬ ‫ََ‬‫َاھ‬‫من ج‬ ‫ََ‬
‫" و‬
‫(العنکبوت‪)6/ 29 ،‬‬
‫" اور جو شخص (را ِہ حق میں) جدوجہد کرتا ہے وہ اپنے ہی (نفع کے )لیے تگ و دو کرتا ہے‪ ،‬بے‬
‫شک ہللا تمام جہانوں (کی طاعتوں‪ ،‬کوششوں اور مجاہدوں) سے بے نیاز ہے " ۔‬
‫رسول اکرم ﷺ کا فرمان ہے ‪:‬‬
‫( ترمذی ‪ ،‬رقم الحدیث ‪) 1621 :‬‬ ‫ُ"‬ ‫َ‬
‫د نفسَه‬ ‫ََ‬
‫َاھ‬ ‫من ج‬ ‫د َ‬ ‫ُِ‬‫َاھ‬‫ُج‬ ‫َلم‬‫" ا‬
‫" مجاہد وہ ہے جو اپنے نفس سے جہاد کرے " ۔‬
‫یعنی نفس امارہ جو آدمی کو برائی پر ابھارتا ہے‪ ،‬وہ اسے کچل کر رکھ دیتا ہے‪ ،‬خواہشات نفس کا تابع‬
‫نہیں ہوتا اور اطاعت ٰالہی میں جو مشکالت اور رکاوٹیں آتی ہیں‪ ،‬ان پر صبر کرتا ہے‪ ،‬یہی جہاد اکبر‬
‫ہے۔‬
‫جہادبالمال‪:‬جہادبالمال سے مراد ہللا کے دیئے ہوئے مال و دولت کو ہللا کی راہ میں ہللا کے‬ ‫(‪)2‬‬
‫دین کی سر بلندی ‪،‬دین اسالم کی حفاظت‪ ،‬ملک کی حفاظت و بقاء ‪ ،‬دین کی تبلیغ اور جہاد فی سبیل ہللا‬
‫میں خرچ کرنا ہے مختصر طور پر یہ ہے کہ ہللا کی رضا کے لئے خرچ کرنا یہ جہاد جہاد بالمال کہالتا‬
‫ہے۔‬
‫جہاد باللّسان‪:‬جہادباللّسان سے مراد معاشرے میں پائی جانے والی برائیوں کے خالف زبان‬ ‫(‪)3‬‬
‫سے جہاد کرنا ہے ‪،‬یہ جہاد وعظ و تقریر کی شکل میں کیاجاسکتا ہے‪،‬یا پھر بُرائی کے ارتکاب کرنے‬
‫والے فرد کو ہر وقت زبان سے ٹوک کر بھی کیا جا سکتا ہے۔ مقصد یہ ہے کہ ہر برائی کے خالف‬
‫زبان سے لڑنے کا نام جہاد باللّسان ہے۔‬
‫(‪ )4‬جہادبالسیف‪ :‬یہ جہاد کی اہم ترین قسم کا ہے‪ ،‬جس کا مطلب ہے ہللا کے دین کی حفاظت ‪،‬ملک‬
‫مادر وطن کی سا لمیت کے لئے سر پر کفن باندھے ہوئے ہاتھ میں‬ ‫ِ‬ ‫کی بقاء ‪ ،‬سرحدوں کے تحفظ اور‬

‫‪ 69 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ُشمنان ملک و ملّت کے خالف لڑنا ‪ ،‬جہادبا لسیف کہالتا ہے اور حقیقت میں یہ افضل‬‫ِ‬ ‫تلوار لیے ہوئے د‬
‫ترین جہادہے کہ جس میں کام آ نے والے شہیداور بچ جانے والے غازی کہالتے ہیں۔ اگر کوئی کفر کے‬
‫خالف جنگ کرتا ہوا مارا جائے تو قرآن کے فرمان کے مطابق اسے مردہ نہ کہا جائے بلکہ حقیقت میں‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫وہ زندہ ہے۔ ارشاد باری‬
‫ِن الَّ‬ ‫ٰ‬‫َ‬ ‫ٌ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ٌ‬
‫ّٰللِ أموات بل أحياء ولک‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ِ اّ‬ ‫ِيل‬ ‫َ‬
‫ِي سب‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫لمن يقتل ف‬ ‫َ‬ ‫ولوا ِ‬ ‫ُ ُ‬‫تق‬‫َالَ َ‬
‫و‬
‫َ‬
‫ُون‬ ‫ُر‬‫تشع‬‫َ‬
‫ترجمہ‪ :‬اور جو لوگ ہللا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں‪( ،‬وہ مردہ نہیں)‬
‫بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔‬
‫(سورۃ البقرۃ‪)۱۵ ۴ :‬‬
‫(‪ )5‬جہادبالقلم‪:‬یہ جہاد کی اہم ترین قسم ہے کہ اہ ِل علم اور صاحب ِقلم افراد اپنے علم اور قلم کے‬
‫ذریعے برائیوں کو روکنے اورنیکیوں کو فروغ دینے میں صرف کریں اور ایساعمل کرنے والے‬
‫افرا دکو مجاہد بالقلم کہا جاتا ہے اور یہ حقیقت ہے کہ قلم کی طاقت تلوار کی طاقت سے کہیں زیادہ ہوتی‬
‫ہے۔‬
‫قرآن کی روشنی میں جہاد کی اہمیت‪:‬‬
‫ہللا تعالی نے قرآن میں جابجا جہاد کی فضیلت کو بیان کیا ہے۔ جہاد کا ذکر قرآن کی ایک ہزار‬
‫سے زائد آیات میں موجود ہے جن میں جہاد کی اہمیت‪ ،‬فرضیت‪ ،‬فضیلت‪ ،‬احکام و مسائل کو تفصیل‬
‫سے بیان کیا گیا ہے۔ قرآن میں ایمان کے بعد سب سے زیادہ جہاد کی فضیلت کو بیان کیاگیا ہے۔جہاد کی‬
‫اہمیت کے متعلق چند آیات درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬ہللا نے خود آپ ﷺ کو حکم دیا ہے کہ مومنین کو جہاد پر ابھاریں۔ ارشا ِد باری تعالی ہے کہ‪:‬‬
‫َال‬
‫ِ‬ ‫ِت‬‫َی الق‬ ‫َل‬‫َ ع‬‫ِين‬ ‫ِن‬‫ُؤم‬ ‫ض الم‬ ‫ِِ‬‫ّ‬
‫َر‬ ‫َا النبی ح‬ ‫يا ايه‬
‫ترجمہ‪ :‬اے نبی! مسلمانوں کو جہاد کاشوق دالئیے۔(سورۃ االنفال‪)۶ ۵ :‬‬
‫تعالی کا ارشاد گرامی ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫‪۰‬ہللا تبارک و‬
‫ٌ (البقره۔‪)۴۴۲‬‬ ‫ِيم‬ ‫َل‬‫ٌ ع‬ ‫ِيع‬‫اّٰللَ سَم‬ ‫َّ‬
‫ُوا أن َّ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫َاعلم‬ ‫ِ َّ‬
‫اّٰللِ و‬ ‫ِيل‬ ‫ِي سَب‬ ‫ُوا ف‬ ‫ِل‬‫َات‬‫َق‬‫و‬
‫تعالی خوب سننے والے اور خوب جاننے والے‬ ‫ٰ‬ ‫اور لڑو ہللا کے راستے میں اور جان لو بے شک ہللا‬
‫ہیں۔‬
‫‪ ۰‬ہللا جانتے ہیں کہ جہاد میں آنے والی مشکالت کی وجہ سے بہت سے مسلمان جہاد کو ناپسند‬
‫کریں گے اس لئے ہللا نے فرمایا‪:‬‬
‫َ‬
‫ُو‬‫َھ‬‫ً و‬‫ُوا شَيئا‬ ‫َھ‬‫تکر‬ ‫َ‬
‫ٰ أن َ‬ ‫َسَی‬‫َع‬ ‫ُم و‬ ‫ٌ َلک‬ ‫ُره‬ ‫َ ک‬ ‫ُو‬ ‫َھ‬‫ُ و‬ ‫َال‬ ‫ِت‬‫ُ الق‬ ‫ُم‬‫َيک‬‫َل‬
‫َ ع‬ ‫ُت‬
‫ِب‬ ‫ک‬
‫ُ‬
‫َأنتم ال‬ ‫َ‬ ‫ُ و‬ ‫َ‬
‫يعلم‬ ‫اّٰللُ َ‬
‫َ َّ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ٌّ لکم و‬ ‫َ‬
‫َ شر‬ ‫َھ‬
‫ُو‬ ‫ً‬
‫ُّوا شيئا و‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫ٰ أن تحِب‬ ‫َ‬ ‫َسَی‬‫َع‬ ‫ُ‬
‫ٌ لک م و‬‫َ‬ ‫َير‬ ‫خ‬
‫َ‬
‫ُون۔‬ ‫َ‬
‫تعلم‬ ‫َ‬
‫ترجمہ‪ :‬قتال کرنا تم پر فرض کیا گیا ہے اور وہ تم کو (طبعا) برا لگتا ہے اور یہ ممکن ہے کہ تم کسی‬
‫بات کو برا سمجھو اور وہ تمہارے حق میں بہتر ہو اور ممکن ہے تم ایک کام کو بھالسمجھو اور وہ‬
‫تعالی جانتے ہیں اور تم نہیں جانتے۔ (البقرہ۔‪)۲۱۶‬‬ ‫ٰ‬ ‫تمہارے حق میں برا ہو اور ہللا‬
‫‪۰‬جہاد کن لوگوں سے اور کب تک کرنا ہے اس کے متعلق ہللا تعالی ارشاد فرماتے ہیں‪:‬‬
‫َ‬
‫مون ما‬‫َ‬ ‫ُِ‬‫ّ‬
‫َر‬‫يح‬‫َال ُ‬‫ِ و‬ ‫ِ اآلخِر‬ ‫َوم‬ ‫ِالي‬ ‫َال ب‬ ‫َ ب َّ‬
‫ِاّٰللِ و‬ ‫ُون‬ ‫ِن‬‫يؤم‬ ‫َ ال ُ‬ ‫ِين‬ ‫ُوا َّ‬
‫الذ‬ ‫ِل‬‫َات‬‫ق‬
‫َ‬
‫ِتاب‬‫َ‬ ‫ُ‬
‫ِين أوتوا الک‬‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َّ‬
‫ِن الذ‬ ‫َ‬ ‫ّ م‬ ‫َق‬ ‫ِين الح‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِينون د‬ ‫ُ‬ ‫يد‬‫َال َ‬ ‫ُ و‬ ‫ُ‬
‫َسُولہ‬ ‫َر‬ ‫َ َّ‬
‫اّٰللُ و‬ ‫َّم‬
‫َر‬‫ح‬
‫ِ‬
‫َ۔(التوبہ۔ ‪)۲۹‬‬‫ُون‬‫ِر‬‫َاغ‬ ‫ُم ص‬ ‫َھ‬‫ٍ و‬ ‫يد‬ ‫َن َ‬ ‫َ ع‬ ‫يۃ‬‫ُوا الجِزَ‬ ‫يعط‬ ‫َّی ُ‬‫َت‬‫ح‬

‫‪ 70 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ترجمہ‪:‬لڑو ان لوگوں سے جو ایمان نہیں التے ہللا پر اور نہ آخرت کے دن پر اور حرام نہیں سمجھتے‬
‫ان چیزوں کو جن کو ہللا نے اور اس کے رسول نے حرام قرار دیا ہے اور سچے دین اسالم کو قبول‬
‫نہیں کرتے اہل کتاب میں سے یہاں تک کہ وہ ذلیل (ماتحت) ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دینا منظور نہ‬
‫کرلیں۔(التوبہ۔ ‪)۲۹‬‬
‫‪ ۰‬ہللا نے شہداء کی فضیلت ان الفاظ میں بیان فرمائی ہے‪:‬‬
‫َٰلک‬
‫ِن الَّ‬ ‫ء و‬ ‫َاٌ‬ ‫َ‬
‫بل أح ي‬ ‫ٌ َ‬‫َات‬‫َمو‬ ‫ِ اّ‬
‫ّٰللِ أ‬ ‫ِيل‬ ‫ِي سَب‬ ‫ُ ف‬‫َل‬‫يقت‬‫َن ُ‬‫لم‬ ‫ولوا ِ‬ ‫ُ ُ‬
‫تق‬‫َالَ َ‬
‫و‬
‫َ (سورۃ البقرۃ‪)۱۵ ۴ :‬‬ ‫ُون‬ ‫ُر‬
‫تشع‬‫َ‬
‫ترجمہ‪ :‬اور جو لوگ ہللا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مت کہا کرو کہ یہ مردہ ہیں‪( ،‬وہ مردہ نہیں)‬
‫بلکہ زندہ ہیں لیکن تمہیں (ان کی زندگی کا) شعور نہیں۔‬
‫جہاد کی اہمیت احادیث کی روشنی میں‪:‬‬
‫احادیث کی کتابوں میں محدثین کرام نے جو ”کتاب السیر“ کا باب باندھا ہے اس میں جہاد کے‬
‫متعلق احادیث ذکر کی گئی ہیں اس کی وجہ علما کرام نے یہ بیان فرمائی ہے کہ چونکہ حضور اکرم ﷺ‬
‫کی سیرت کا غالب حصہ جہاد‪ ،‬غزوات و سرایا پر مشتمل ہے اس لئے جہاد سے متعلق احادیث پر‬
‫مشتمل اس باب کا نام ”کتاب السیر“ رکھا گیا۔‬
‫٭حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫تعالی کی طرف سے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں (کافروں) سے قتال کروں یہاں تک کہ‬ ‫ٰ‬ ‫”مجھے ہللا‬
‫وہ ال الہ اال ہللا کا اقرار کرلیں پھر جو ال الہ اال ہللا کا اقرار کر لے گا اُس کا مال اور اُس کی جان مجھ‬
‫تعالی کے ذمہ ہوگا۔“ (بخاری)‬
‫ٰ‬ ‫سے محفوظ ہو جائے گی سوائے شرعی حق کے اور اُس کا حساب ہللا‬
‫٭آپ ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫وتعالی نے مجھے مبعوث کیا ہے یہاں تک کہ میری امت کے‬ ‫ٰ‬ ‫”جہاد جاری رہے گا جب سے ہللا تبارک‬
‫آخری لوگ دجال سے لڑیں گے۔ کسی ظالم کا ظلم یا کسی عادل کا عدل اس جہاد کو نہیں روک سکے‬
‫گا۔“‬
‫تعالی عنہ فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشا د‬ ‫ٰ‬ ‫٭ حضرت انس رضی ہللا‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫” جہاد کرو مشرکوں کے ساتھ اپنے مال سے اور اپنی جانوں سے اور اپنی زبانوں سے۔“(ابوداؤد)‬
‫٭ حضرت ابوقتادہ رضی ہللا عنہ ارشاد فرماتے ہیں کہ حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫اپنے خطبے میں جہاد کا ذکر فرمایا اور فرض نماز کے عالوہ کسی عمل کو جہاد سے افضل قرار نہیں‬
‫دیا۔ (ابوداؤد‪ ،‬بیہقی)‬
‫مقاصد جہاد ‪:‬‬
‫قرآن مجید میں مختلف مقامات پر جہاد کے جو مقاصد بیان ہوئے ہیں وہ حسب ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ دفاع‪” :‬وقاتلوا فی سبيل للاا الذين يقاتلونکم“‬
‫ترجمہ‪:‬جو تم سے جنگ کرتے ھیں تم بھی ان سے را ہ خدا میں جھاد کرو۔‬
‫‪۲‬۔دفع فتنہ‪ :‬یہ عام معنی میں مستعمل ہے‪ ،‬اس میں دفاع بھی شامل ہے‪” :‬و قاتلوھم حتی‬
‫ٰ ال‬
‫تکون فتنۃ“‬
‫ترجمہ‪:‬اور ان سے اس وقت تک جنگ جاری رکھو جب تک سارا فتنہ ختم نہ ہوجائے۔‬

‫‪ 71 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ٰ ال‬ ‫‪۳‬۔حکومت ٰالھی کا قیام اور سر کشوں کی سر کوبی و اصالح‪" :‬و قاتلو ھم حتی‬
‫ّہ ّ‬
‫ّٰلل“‬ ‫تکون فتنۃ و يکون الدين کل‬
‫ترجمہ‪ :‬اور تم لوگ ان کفار سے جہاد کرو یہاں تک کہ فتنہ کا وجود نہ رہ جائے اور سارا دین صرف‬
‫ہللا کے لئے ہے۔‬
‫”الذين عاھدت منهم ثم ينقضون عهدھم فی کل مرة و ھم ال‬
‫يتقون“‬
‫ترجمہ‪ :‬جن سے آپ نے عہد لیا اور اس کے بعد وہ ہر مرتبہ اپنے عہد کو توڑ دیتے ہیں اور خدا کا‬
‫خوف نہیں کرتے۔‬
‫‪۴‬۔الہی نظام کی برقراری اور ممکنہ و آئندہ دشمنوں کے حملے کی پیش بندی‪:‬قاتلوا‬
‫الذين ال يومنون باہلل و ال باليوم االخر و ال يحرمون ما حرم للاا‬
‫و رسولہ و ال يدينون دين الحق من الذين اوتوا لکتاب حتی‬
‫ٰ‬
‫يعطوا الجزيۃ عن يدوھم صاغرون“‬
‫ترجمہ‪ :‬ان لوگوں سے جہاد کرو جو خدا اور روز آخرت پر ایمان نہیں رکھتے اور جس چیز کو خدا و‬
‫رسول نے حرام قرار دیا ہے اسے حرام نہیں سمجھتے اور اہل کتاب ہوتے ہوئے بھی دین حق کا التزام‬
‫نہیں کرتے۔ یہاں تک کہ اپنے ہاتھوں سے ذلت کے ساتھ تمہارے سامنے جز یہ پیش کرنے پر آمادہ‬
‫ہوجائیں۔‬
‫‪۵‬۔روئے زمین پر فتنہ و فساد کی روک تھام‪ ” :‬ولو الد فع للاا الناس بعضهم‬
‫ببعض لفسدت االرض“‬
‫ترجمہ‪ :‬اور اگر اسی طرح خدا بعض کو بعض سے نہ روکتا تو ساری زمین میں فساد پھیل جاتا۔‬
‫‪۶‬۔مراکز عبادت اور دینی مظاہر کا تحفظ‪ ”:‬و لو ال دفع للاا الناس بعضهم ببعض‬
‫لهدمت صوامع و بيع و صلوات و مساجد“‬
‫اور اگر خدا بعض لوگوں کو بعض کے ذریعہ نہ روکتا تو تمام گرجے اور یہودیوں کے عبادت خانے‬
‫اور مجوسیوں کے عبادت خانے اور مسجدیں سب منہدم کردی جاتیں۔‬
‫سوال نمبر‪ :8‬والدین کے حقوق تحریر کریں۔‬
‫والدین کے حقوق‪ِ :‬‬
‫دین اسالم میں والدین کے حقوق پر بہت زیادہ زور دیا گیا ہے۔قرآن مجید میں ہللا‬
‫حسن سلوک کا حکم دیا ہے۔‬
‫ِ‬ ‫تعالی نے جا بجا اپنی عبادت کے فورا بعد والدین سے‬
‫ہللا تعالی اگر حقیقی خالق ہیں تو والدین انسان کی دنیا میں پیدائش کا وسیلہ ہیں۔ یہ ایک مسلمہ‬
‫حقیقت ہے کہ پیدائش سے موت تک انسان اپنے والدین کا محتاج ہوتا ہے۔ ہر انسان پر والدین کے اتنے‬
‫احسانات ہوتے ہیں کہ اگر وہ ساری زندگی بھی ان کی خدمت کرتا رہے تب بھی ان کے احسانات کا بدلہ‬
‫نہیں چکاسکتا لیکن وہ ان کے اح سانات کے جواب میں ان کی خدمت کرسکتا ہے‪ ،‬ان کی اطاعت اور ان‬
‫حسن سلوک کرسکتا ہے۔ قرآن و حدیث میں اوالد پر والدین کے جو حقوق بیان کئے گئے ہیں ان‬ ‫ِ‬ ‫سے‬
‫میں سے چند ایک کا یہاں ذکر کیا جارہا ہے۔‬
‫‪۱‬۔ادب و احترام‪ :‬والدین کا سب سے پہال حق یہ ہے کہ والدین کا ادب و احترام کیا جائے اور ان سے‬
‫ہر قسم کی گستاخی سے بچا جائے۔ بات چیت کے دوران عزت و تکریم کا خیال رکھا جائے۔ ان کو‬
‫جھڑکنا یا اونچی آواز میں بات کرنا تو دور کی بات انہیں اُف تک کہنے سے گریز کیا جائے۔ جیسا کہ‬
‫ارشا ِد ربانی ہے‪:‬‬

‫‪ 72 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ً‬
‫ِيما‬ ‫َر‬‫َوالً ک‬‫َا ق‬ ‫ُل َله‬
‫ُم‬ ‫َق‬ ‫َا و‬ ‫ُم‬‫َرھ‬ ‫تنه‬ ‫ُف و‬
‫ََّال َ‬ ‫َا ا‬ ‫ُم‬‫ُل َّله‬ ‫ََال َ‬
‫تق‬ ‫ف‬
‫ُ‬
‫ترجمہ‪ :‬تو انہیں (والدین کو) ”اف“ تک نہ کہو اور نہ انہیں جھڑکو‪ ،‬بلکہ ان سے عزت کے ساتھ بات‬
‫کیا کرو۔(بنی اسرائیل‪)۲ ۳ :‬‬
‫حسن سلوک کا مطلب یہ ہے کہ جیسے بھی ہوسکے ان سے اچھا برتاؤ‬ ‫ِ‬ ‫۔حسن سلوک‪:‬والدین سے‬ ‫ِ‬ ‫‪۲‬‬
‫کرے۔ ان کی خدمت میں پیش پیش رہے۔ ان کے حکم پر فورا عمل کرے۔ ان کی تمام تکالیف دور کرے۔‬
‫دنیا میں مصروف ہوکر ان سے بے ُرخی نہ برتے بلکہ اپنے اوقات میں سے ان کے لئے وقت نکالے‬
‫اور خوش دلی سے ان کے کام بجا الئے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ً‬
‫ِحسَانا‬ ‫دينِ ا‬ ‫لَ‬
‫َاِ‬‫ِالو‬ ‫َب‬‫ُ و‬ ‫ِياه‬ ‫دوا اَّ‬
‫ِال اَّ‬ ‫ُُ‬ ‫تعب‬ ‫ََّال َ‬
‫بکَ ا‬ ‫َُّ‬
‫ٰی ر‬ ‫َض‬
‫َق‬‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور تیرے رب نے فیصلہ کردیا ہے کہ تم کسی کی عبادت نہ کرو مگر صرف اس کی اور‬
‫والدین کے ساتھ نیک سلوک کرو۔ (بنی اسرائیل‪)۲ ۳ :‬‬
‫‪۳‬۔ اطاعت و خدمت‪:‬والدین کی خدمت و اطاعت میں ہللا کی رضا ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫ِی سُخط الوالد‬ ‫ُ الرب ف‬ ‫َسُخط‬ ‫ِ و‬ ‫لد‬ ‫َاالو‬
‫َاِ‬ ‫ِض‬ ‫ِی ر‬ ‫َّب ف‬ ‫َا الر‬ ‫ِض‬‫ر‬
‫ترجمہ‪ :‬پروردگار کی خوشی باپ کی خوشی میں ہے اور پروردگار کی ناراضگی والد کی ناراضگی‬
‫میں ہے۔ (ترمذی)‬
‫والدین کی خدمت کی اتنی اہمیت ہے کہ اس کو افضل عمل شمار کیا گیا ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪ :‬سب سے افضل عمل وقت پر نماز پڑھنا اور والدین سے حسن سلوک کرنا ہے۔(مسلم)‬
‫‪۴‬۔ کثرت سے دعا کرنا‪:‬والدین کی زندگی میں ان کی لمبی زندگی کے لئے اور ان کی وفات کے بعد‬
‫ان کی مغفرت کے لئے دعا کرتے رہنا چاہئے۔ ہللا تعالی نے انسان کو اپنے والدین کے لئے دعا کرنے‬
‫کا صرف حکم نہیں دیا بلکہ خود اسے وہ الفاظ سکھائے جن کے ذریعہ والدین کے لئے دعا کی جائے۔‬
‫چنانچہ ہللا تبارک و تعالی کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫ً‬
‫ِيرا‬ ‫َغ‬‫ِی ص‬ ‫َان‬ ‫بي‬ ‫ََّ‬
‫َا ر‬ ‫َ‬
‫َا کم‬ ‫ُم‬
‫َمه‬ ‫ّ ارح‬ ‫َّب‬‫ُل ر‬ ‫َق‬‫و‬
‫ترجمہ‪ :‬اور (والدین کے لئے) یہ دعا کرو کہاے رب! ان پر رحم فرما جیسا کہ انہوں نے بچپن میں‬
‫مجھے پاال۔ (بنی اسرائیل‪)۲ ۴ :‬‬
‫‪۵‬۔ والدین کی نافرمانی نہ کرنا‪:‬والدین کی نافرمانی کو سخت ناپسند کیا گیا ہے اور ان سے ہر طرح‬
‫کی بدسلوکی سے منع کیا گیا ہے۔ حضور ﷺ نے والدین کی نافرمانی کو کبیرہ گناہوں میں شمار کیا ہے۔‬
‫چنانچہ ارشا ِد نبوی ﷺ ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪ :‬بڑے گناہ یہ ہیں‪)۱ :‬خدا کا شریک بنانا۔‪)۲‬والدین کی نافرمانی کرنا۔ ‪)۳‬ناحق قتل کرنا۔ ‪)۴‬جھوٹی‬
‫قسم کھانا۔‬
‫‪۶‬۔ کافر والدین کی بھی اطاعت کرنا‪:‬مسلمان تو مسلمان‪ ،‬والدین اگر کافر بھی ہوں تب بھی دنیاوی‬
‫معامالت میں ان کی اطاعت ضروری ہے۔ البتہ اگر وہ دین کے خالف بات کریں تو ان کی بات پر عمل‬
‫نہیں کرنا چاہئے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ”:‬اگر وہ تم پر دباؤ ڈالیں کہ تم میرے ساتھ کسی ایسے کو شریک کرو جس کا تمہیں علم نہیں تو‬
‫ان کی بات ہر گز نہ مانو اور دنیا میں ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کرتے رہو۔“ (سورۃ اللقمان‪)۱ ۵ :‬‬
‫‪۷‬۔ والدین کے دوستوں کی تعظیم‪:‬اوالد کو اپنے والد کے دوستوں اور والدہ کی سہیلیوں کی عزت‬
‫کرنی چاہئے۔ والدین کا احترام کس قدر زیادہ ہے کہ ان کی وجہ سے ان کی وفات کے بعد بھی ان کے‬
‫دوستوں کا احترام کرنے کی تلقین کی گئی ہے۔ آپ ﷺ نے فرمایا‪:‬‬

‫‪ 73 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ترجمہ‪” :‬سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ آدمی اپنے باپ سے دوستانہ تعلقات رکھنے والوں سے تعلق‬
‫جوڑ کر رکھے۔“ (مسلم)‬
‫‪۸‬۔ مالی تعاون‪ :‬اوالد خود اور اوالد کا مال والدین ہی کا ہوتا ہے‪ ،‬لیکن اگر والدین بڑھاپے کو پہنچ‬
‫جائیں تو اوالد کی زیادہ ذمہ داری ہے کہ والدین کی مالی‬
‫امداد کرے اور جس طرح بچپن میں والدین نے اس کی ہر خواہش اور حاجت پوری کی اب اوالد کی‬
‫ذمہ داری ہے کہ وہ والدین کی ہر حاجت پوری کرے۔ ایک حدیث میں ارشاد ہے‪:‬‬
‫ِيک‬ ‫م ُ‬
‫الکَ ِالَب‬ ‫َ و‬
‫ََ‬ ‫َنت‬ ‫ا‬
‫ترجمہ‪” :‬تُو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔“ (ابو داؤد)‬
‫سوال نمبر ‪ :9‬اوالد کے حقوق تحریر کریں۔‬
‫اوالد کے حقوق‪ :‬جس طرح اوالد پر والدین کے کچھ فرائض ہیں بالکل اسی طرح والدین پر بھی اوالد‬
‫کے بہت سے فرائض ہیں جنہیں ہم ”اوالد کے حقوق“ کہتے ہیں۔ اوالد کی بقاء‪ ،‬تحفظ‪ ،‬بہترین نشوونما‬
‫اور بہترین تربیت کا ذمہ دار اسالم نے والدین کو ٹھرایا ہے۔‬
‫قرآن و حدیث میں اوالد کے جن حقوق کا تذکرہ کیا گیا ہے ان کو مختصراََؑ یہاں بیان کیا جارہا‬
‫ہے‪:‬‬
‫‪۱‬۔زندگی کا حق‪ :‬اوالد کا فطری حق ہے کہ اس کی حفاظت کی جائے کیونکہ بچے کی پیدائش کا ہللا‬
‫تعالی نے انسان کو ایک ذریعہ بنایا ہے۔ اس لئے اس پر یہ فریضہ عائد کیا ہے کہ اپنی اوالد کی حفاظت‬
‫کرے۔ پچھلے زمانے میں لوگ اپنی اوالد کو قتل کردیا کرتے تھے جس کو قرآن نے سختی سے منع‬
‫فرمایا ہے۔ ارشا ِدباری تعالی ہے‪:‬‬
‫ُ‬
‫ِياکم‬‫َاَّ‬‫ُم و‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َّ‬
‫ِمالق نحن نرزقه‬ ‫َ‬ ‫َ ا‬‫َۃ‬‫َشي‬ ‫دکم خ‬‫ُ‬ ‫َوالَ‬
‫َ‬ ‫ُوا ا‬ ‫ُل‬‫تقت‬ ‫ََال َ‬
‫و‬
‫ترجمہ‪ ” :‬اور اپنی اوالد کو افالس (غربت) کے ڈر سے قتل نہ کرو۔ ہم انہیں بھی رزق دیں گے اور‬
‫تمہیں بھی۔“ (بنی اسرائیل‪)۳ ۱ :‬‬
‫‪۲‬۔اذان و اقامت اور گھٹی دینا‪:‬بچے کی پیدائش پر اسے نہال دھال کردائیں (سیدھے) کان میں اذان‬
‫اور بائیں (الٹے) میں اقامت کہی جائے۔ اس کے بعد کوئی میٹھی چیز چبا کر بچہ کو چٹائی جائے۔ بہتر‬
‫ہے کہ کسی نیک بزرگ سے گھٹی دلوائی جائے تاکہ آگے چل کر یہ بچہ نیک بن سکے۔‬
‫حضرت عائشہ رضی ہللا تعالی عنہ فرماتی ہیں کہ رسول ہللا ﷺ کے پاس بچوں کو الیا جاتا تھا۔ آپ ان‬
‫کے لئے برکت کی دعا کرتے اور گھٹی دیتے تھے۔ (صحیح مسلم)‬
‫‪۳‬۔ عقیقہ کرنا‪:‬اوالد کے حقوق میں سے ہے کہ پیدائش کے ساتویں روز خوشی کے اظہار کے لئے‬
‫بطور خیرات بچے کی طرف سے جانور ذبح کیا جائے۔ جانور کا گوشت خود بھی کھا سکتے ہیں‪،‬‬ ‫ِ‬
‫غریبوں میں بھی تقسیم کرسکتے ہیں اور قریبی رشتہ داروں کی دعوت بھی کرسکتے ہیں۔ حدیث کے‬
‫مطابق عقیقہ کرنے سے بچہ سے بالئیں وغیرہ ٹل جاتی ہیں۔لڑکے کی طرف سے دو اور لڑکی کی‬
‫طرف سے ایک بکری ذبح کی جائے۔ ساتویں دن بچہ کے سر کے بال مونڈ ھ کر اس کے وزن کے‬
‫برابر چاندی صدقہ کی جائے۔‬
‫‪۴‬۔ اچھا نام رکھنا‪ :‬بچہ کا یہ حق ہے کہ اس کا اچھا سا نام رکھا جائے۔ اسالم سے قبل اہ ِل عرب اپنے‬
‫بچوں کے عجیب نام رکھتے تھے۔ آپ ﷺ نے ایسے نام ناپسند فرمائے اور ایسے نام رکھنے کا حکم‬
‫فرمایا جس کا مطلب اچھا ہو۔ آپ ﷺ نے فرمایا‪:‬‬

‫‪ 74 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫روز قیامت تم اپنے اورر اپنے والد کے ناموں سے پکارے جاؤ گے اس لئے اپنے نام اچھے رکھا‬ ‫” ِ‬
‫کرو۔“ (ابو داؤد)‬
‫چاہئے کہ انبیاء یا صحابہ کے ناموں پر بچوں کے نام رکھے جائیں یا ایسے نام رکھنے چاہئے‬
‫جن کا مطلب اچھا ہو۔‬
‫‪۵‬۔رضاعت (دودھ پالنا)‪:‬رضاعت کا مطلب ہے دودھ پالنا۔ رضاعت کی مدت دو سال ہے۔ پیدائش‬
‫کے بعد بچے کی ابتدائی خوراک ماں کا دودھ ہی ہوتا ہے۔ ماں کی ذمہ داری ہے کہ وہ بچے کو دودھ‬
‫پالئے۔اگر خدانخواستہ ماں کا انتقال ہوجائے یا بیماری یا کسی اور وجہ سے ماں دودھ نہ پالسکے تو‬
‫اس صورت میں باپ کی ذمہ داری ہے کہ وہ کسی اور عورت کو اجرت دے کر اپنے بچے کو دودھ‬
‫پلوائے۔ ارشادَ باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ِلين‬‫َ‬ ‫َام‬ ‫َ‬
‫َولينِ ک‬‫َّ ح‬ ‫ُن‬‫دھ‬ ‫َ‬
‫َ اوَالَ‬ ‫ِعن‬ ‫يرض‬ ‫ُ ُ‬ ‫ِدات‬ ‫َال‬‫َالو‬ ‫و‬
‫ترجمہ‪” :‬اور مائیں پورے دو سال تک اپنے بچوں کو دودھ پالئیں۔“ (سورۃ البقرۃ‪)۲ ۳۳ :‬‬
‫‪۶‬۔ اچھی پرورش‪ :‬اوالد کے حقوق میں سے یہ بھی ہے کہ ان کے کھانے پینے اور خوراک و رہائش‬
‫کا مناسب انتظام کیا جائے۔ انہیں اچھا کھانا‪ ،‬اچھی رہائش اور اچھا لباس دیا جائے۔ اوالد کے حقوق کی‬
‫طرف سے بے توجہ رہنا یا ان کو ضائع کرنا جائز نہیں۔ رسو ِل اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ”:‬آدمی کے گناہگار ہونے کے لئے یہ بات کافی ہے کہ اس پر جن کو کھالنے کی ذمہ داری ہے‬
‫ان کی طرف سے بے پرواہ ہوجائے۔“ (ابو داؤد)‬
‫‪۷‬۔اچھی تعلیم و تربیت‪:‬اوالد کی جسمانی پرورش کے ساتھ ساتھ ان کی بہتر تعلیم و تربیت بھی ان کا‬
‫حق ہے۔ والدین پر یہ فرض بھی عائد ہوتا ہے کہ وہ اوالد کی تعلیم و تربیت میں کوئی کمی نہ کرے۔‬
‫حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ِ‬
‫ترجمہ‪” :‬اپنی اوالد کی عزت و توقیر کرو اور ان کی اچھی تربیت کرو۔“‬
‫معاشی ضروریات ‪:‬والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی معاشی ضروریات کو اس وقت تک‬
‫پورا کریں جب تک کہ وہ اس قابل نہ ہوجائیں کہ خود اپنے لئے روزگار حاصل کرسکیں ۔ اپنی اوالد‬
‫کے تمام اخراجات ‪ ،‬کھانے پینے اور دیگر اخراجات کو ہللا کا حکم سمجھ کر پورا کریں ۔‬
‫عبادت کی تعلیم ‪ :‬والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنی اوالد کو دین اسالم کی تعلیم دیں اور انکو امر‬
‫بالمعروف ونہی عن المنکر سے روشناس کرائیں تاکہ وہ دنیا اور آخرت میں فالح ونجات پاسکیں ۔‬
‫جیساکہ ارشاد خداوندی ہے کہ ‪:‬‬
‫ًا ( التحريم ‪6 :‬‬ ‫نار‬‫ُم َ‬ ‫ِيک‬‫َھل‬ ‫َا‬‫ُم و‬ ‫ُسَک‬‫َنف‬‫ُوا ا‬ ‫ُوا ق‬ ‫َٰ‬
‫من‬ ‫َ ا‬‫ِين‬ ‫َا َّ‬
‫الذ‬ ‫يه‬ ‫َُّ‬
‫يا‬‫َ‬
‫ٰ‬
‫)‬
‫" اے ایمان والو ! بچاؤ خود کو اور اپنے اہل وعیال کو جہنم کی آگ سے " ۔‬
‫محبت اور شفقت ‪ :‬والدین کے فرائض میں سے ایک اہم فرض یہ بھی ہے کہ وہ اپنی اوالد کے ساتھ‬
‫محبت اور شفقت کا برتاؤ کریں تاکہ انکی اوالد کے دل میں ماں باپ کے لیے محبت والفت کا جذبہ‬
‫فروغ پائے ۔ اوالد سے محبت اور شفقت کرنا آپ ﷺ کے سنتوں میں سے ایک سنت ہے ۔‬
‫حضرت ابو ہریرہ سے مروی ہے کہ رسول ہللا ﷺ " ایک دن حسن بن علی کو پیار کر رہے تھے اور‬
‫وہاں اقرع بن حابس تمیمی بھی موجود تھے ۔ تو انہوں نے کہا اے ہللا کے رسول! " میرے دس بیٹے‬
‫ہیں میں نے کبھی ان سے اس طرح پیار نہیں کیا ۔ اس پر رسول ہللا ﷺ نے فرمایا‪ ":‬جو شخص رحم‬
‫نہیں کرتا اس پر بھی رحم نہیں کیا جاتا" ۔‬

‫‪ 75 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۸‬۔مساوی سلوک‪ :‬والدین کے لئے ضروری ہے کہ اوالد کے درمیان برابری قائم رکھیں۔ کسی کو‬
‫بالوجہ کسی پر ترجیح نہیں دینی چاہئے اور کسی بھی موقع پر یہ تأثر نہیں دینا چاہئے کہ وہ ایک کو‬
‫دوسرے سے زیادہ چاہتے ہیں۔ اس سے منفی جذبات پیدا ہوتے ہیں اور نفرت کی فضا قائم ہوتی ہے۔‬
‫خصوصا لڑکوں کو لڑکیوں پر ترجیح نہیں دینی چاہئے۔ حضور ﷺ کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪” :‬ہللا سے ڈرو اور اپنی اوالد سے برابری کا سلوک کرو۔“‬
‫‪۹‬۔ مناسب جگہ نکاح‪:‬پرورش‪ ،‬تعلیم و تربیت کے بعد جب اوالد جوان ہوجائے تو والدین کی ذمہ‬
‫داری ہے کہ جلد از جلد ان کے لئے مناسب رشتہ کا بندوبست کریں اور اچھی جگہ نکاح کریں۔ اس میں‬
‫بالوجہ کی تاخیر اور سستی اوالد کو بے راہ روی کا شکار کرسکتی ہے۔ رشتہ کے معاملہ میں اوالد‬
‫حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ِ‬ ‫ملحوظ خاطر رکھا جانا بہت ضروری ہے۔‬
‫ِ‬ ‫کی مرضی کو بھی‬
‫ترجمہ‪ ” :‬تین کاموں میں دیر نہ کرو‪ :‬نماز جب اس کا وقت آجائے‪ ،‬جنازہ جب حاضر ہوجائے اور غیر‬
‫شادی شدہ لڑکی جب تمہیں اس کا مثل مل جائے۔“ (جامع الترمذی)‬
‫میراث میں حق ‪:‬میراث اوالدکا حق ہے والدین کی وفات کے بعد میراث کو اسالمی قانو ِن وراثت کے‬
‫مطابق تقسیم کیا جائے ‪ ،‬باپ کو ہرگز یہ حق نہیں کہ وہ اپنی زندگی میں کسی لڑکے یا لڑکی کی پوری‬
‫جائیداد کا مالک بنادے اور دوسرے کو محروم کردے۔‬
‫سوال نمبر‪ :10‬شوہر کے حقوق تحریر کریں۔‬
‫شوہر کے حقوق‪:‬قرآن پاک میں ہللا تبارک و تعالی نے اوراحادی ِ‬
‫ث مبارکہ میں ہللا کے رسول ﷺ نے‬
‫میاں بیوی کے تعلقات کا ایساجامع دستور پیش کیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہوسکتا۔ اگر ان‬
‫جامع ہدایات کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اس رشتہ میں کبھی بھی تلخی اور‬
‫کڑواہٹ پیدا نہ ہوگی۔‬
‫اسالمی تعلیمات نے شوہر کو گھر کا سربراہ قرار دیا ہے۔ قرآن کریم میں مرد کو عورت کا‬
‫نگہبان اور منتظم قرار دیا گیا ہے۔ ہللا کے رسول ﷺ نے فرمایا ہے کہ‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ” :‬اگر میں ہللا کے سوا کسی اور کے لئے سجدہ کرنے کی اجازت دیتا تو میں کہتا کہ عورت‬
‫اپنے شوہر کو سجدہ کرے۔“ (جامع الترمذی)‬
‫ی ہ حدیث اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ عورت اپنے شوہر کا بھرپور احترام کرے اور اس کے‬
‫حقوق کی ادائیگی میں ذرہ برابر بھی کوتاہی نہ کرے۔ ذیل میں شوہر کے چند حقوق ذکر کئے جاتے‬
‫ہیں۔‬
‫‪۱‬۔اطاعت و خدمت‪ :‬شوہر کا حق ہے کہ بیوی اس کی اطاعت کرے۔ اسالم نے شوہر کی اطاعت و‬
‫خدمت کو عورت کے کمال و خوبی میں شمار کیا ہے اور اس کو عورت پر الزم بھی قرار دیا ہے اور‬
‫جنتی عورت اس کو قرار دیا ہے جو اپنے شوہر کی اطاعت و خدمت کرکے اس کو راضی کرلے۔‬
‫ایک حدیث میں ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ عورت اگر پانچ وقت کی نماز پڑھے‪ ،‬رمضان‬
‫کے روزے رکھے‪ ،‬اپنی شرمگاہ کی حفاظت کرے اور اپنے شوہر کی اطاعت کرے تو وہ جنت کے‬
‫جس دروازے سے چاہے داخل ہوجائے۔ (مشکوۃ)‬
‫قرآن پاک میں ارشاد ہے‪:‬‬
‫َ للاا‬
‫ِظ‬ ‫َا ح‬
‫َف‬ ‫ِم‬‫َيبِ ب‬‫ٌ للغ‬ ‫َات‬ ‫َاف‬
‫ِظ‬ ‫ٌ ح‬‫َات‬‫ِت‬‫َان‬‫ُ ق‬ ‫َا ت‬ ‫لح‬‫َّا ِ‬ ‫َالص‬ ‫ف‬
‫ترجمہ‪” :‬پس نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں‪ ،‬مرد کی غیر موجودگی میں ہللا کی دی ہوئی حفاظت‬
‫سے (اس کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں۔“‬

‫‪ 76 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫(سورۃ النساء‪)۳ ۴ :‬‬
‫‪۲‬۔ ادب و احترام‪ :‬بیوی کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کا ادب کرے‪ ،‬اس سے بد کالمی نہ کرے‬
‫اور اس سے نرم لہجے میں گفتگو کرے۔ آنحضرت ﷺ کا ارشا ِد گرامی ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪” :‬اگر ہللا کے عالوہ کسی کو سجدہ کرنا جائز ہوتا تو میں بیوی کو حکم دیتا کہ وہ خاوند کو سجدہ‬
‫کرے۔“‬
‫‪۳‬۔ شکر گزاری‪ :‬شوہر کا یہ حق ہے کہ اس کی بیوی اس کی شکر گزار بن کر رہے۔ جو مل جائے‬
‫اس پر صبر اور شکر کرے۔ ناشکری اور گلے شکوے نہ کرے۔ ایک مرتبہ آنحضرت ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪” :‬عورتیں مردوں کی بنسبت زیادہ جہنم میں جائیں گی۔ اس وجہ سے کہ وہ لعنت و مالمت زیادہ‬
‫کرتی ہیں اور خاوند کی ناشکری کرتی ہیں۔“‬
‫‪۴‬۔ شوہر کے مال و آبرو کی حفاظت‪:‬بیوی کی ایک اور ذمہ داری ہے کہ وہ شوہر کے مال اور‬
‫اس کی عزت کی حفاظت کرے۔ خاص طور پر شوہر کی غیر موجودگی میں شوہر کی تمام چیزوں کی‬
‫حفاظت کرنا عورت کی ذمہ داری ہے۔قرآن پاک میں ارشاد ہے‪:‬‬
‫َ للاا‬
‫ِظ‬ ‫َا ح‬
‫َف‬ ‫ِم‬ ‫َيبِ ب‬ ‫ٌ للغ‬ ‫َات‬ ‫ِظ‬‫َاف‬ ‫ٌ ح‬‫َات‬‫ِت‬‫َان‬ ‫ُ ق‬‫َا ت‬ ‫لح‬‫َّا ِ‬‫َالص‬ ‫ف‬
‫ترجمہ‪ ” :‬پس نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں‪ ،‬مرد کی غیر موجودگی میں ہللا کی دی ہوئی حفاظت‬
‫سے (اس کے حقوق کی) حفاظت کرتی ہیں۔“‬
‫(سورۃ النساء‪)۳ ۴ :‬‬
‫‪۵‬۔ شوہر کی خوشنودی‪:‬ہللا تعالی کی خوشنودی کے بعد عورت کے لئے شوہر کی رضا مندی نہایت‬
‫اہم ہے۔ عورت کو چاہئے کہ وہ اپنے شوہر کو خوش رکھے اور کسی بھی لمحہ اس کو ناراض نہ‬
‫کرے۔ اگر عورت اس حال میں مرتی ہے کہ اس کا شوہر اس سے خوش ہو تو ہللا کے رسول ﷺ نے‬
‫جنت میں اس کے داخلے کی ضمانت دی ہے۔ چنانچہ ارشا ِد نبوی ﷺ ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ” :‬جس عورت کا اس حال میں انتقال ہو کہ اس کا شوہر اس سے راضی رہا ہو تو وہ جنت میں‬
‫داخل ہوجائے گی۔“ (جامع الترمذی)‬
‫‪۶‬۔ زیب و زینت‪:‬ازدواجی زندگی میں جن امور کی بہت زیادہ اہمیت ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے‬
‫کہ عورت شوہر کے لئے زیب و زینت اختیار کرے۔ اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ نبی‬
‫کریم ﷺ ایک غزوہ سے واپس آئے تو صحابہ سے فرمایا کہ ابھی فورا گھر میں داخل نہ ہوں بلکہ‬
‫عورتوں کو ذرا مہلت دو کہ وہ بالوں کو ٹھیک کرلیں۔ قرآن مجید میں واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ‬
‫بیوی اپنے شوہر کے لئے زیب و زینت اختیار کرے۔‬
‫َّ‬
‫ِن‬ ‫ِه‬ ‫َ‬
‫ُولت‬ ‫ُع‬‫لب‬ ‫َّ‬
‫ِال ِ‬ ‫ُن ا‬‫َّ‬ ‫َه‬
‫َت‬‫َين‬‫َ ز‬‫ِين‬ ‫يبد‬‫ََال ُ‬‫و‬
‫ترجمہ‪” :‬اور وہ (عورتیں)اپنے بناﷺ سنگھار کو (کسی پر) ظاہر نہ کریں سوائے اپنے شوہروں کے۔“‬
‫(سورۃ النور‪)۳ ۱ :‬‬
‫ت مال‪ :‬شوہر کا یہ حق ہے کہ اس کی بیوی اس کے مال کی حفاظت کرے۔ اس کو بے جا‬ ‫‪۷‬۔ حفاظ ِ‬
‫خرچ نہ کرے اور نہ اس کی اجازت کے بغیر مال خرچ کرے۔‬
‫‪۸‬۔ گھر میں قیام‪:‬بیوی کا یہ فرض ہے کہ وہ اپنے شوہر کے گھر میں اطمینان سے رہے اور گھر کی‬
‫دیکھ بھال کرے۔ بیوی کو چاہئے کہ وہ گھر میں ہی رہے بالوجہ باہر نہ جائے۔ عورتوں کے لئے قرآن‬
‫میں واضح طور پر حکم دیا گیا ہے کہ‪:‬‬
‫َّ‬‫ُ‬
‫ِکن‬ ‫ُوت‬ ‫بي‬‫ِی ُ‬ ‫َ‬
‫وقرن ف‬‫َ‬ ‫َ‬

‫‪ 77 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ترجمہ‪” :‬اور تم اپنے گھر میں بیٹھی رہا کرو۔“ (سورۃ االحزاب)‬
‫‪۹‬۔ اوالد کی تربیت‪ :‬بیوی کا یہ فرض ہے کہ وہ بچوں کی اچھی تربیت کرے۔ ان کے عادات و اطوار‬
‫سنوارے تاکہ وہ بڑے ہوکر اچھے مسلمان اور اچھے شہری بن سکیں۔ بچوں کی پہلی تربیت گاہ ماں کی‬
‫گود ہوتی ہے۔ بچہ جو کچھ ماں کی گود میں سیکھتا ہے وہ اسے زندگی بھر نہیں بھولتا۔ اس لئے ماں کا‬
‫فرض ہے کہ وہ بچہ کے ذہن میں اچھی باتیں ڈالے۔‬
‫‪۱۰‬۔ شوہر کے والدین اور رشتہ داروں سے اچھا سلوک‪:‬عورت پر الزم ہے کہ شوہر کے‬
‫حسن سلوک سے پیش آئے۔ شوہر کی ماں کو اپنی ماں اور باپ کو اپنا‬ ‫ِ‬ ‫والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ‬
‫باپ سمجھے اور اسی طرح دیگر رشتہ داروں کو درجہ بدرجہ مقام دے کر اس کو اس درجہ و مقام‬
‫کے لحاظ سے دیکھے اور اسی کے مطابق ان سے سلوک کرے۔ عالمہ ذہبی لکھتے ہیں کہ عورت پر‬
‫واجب ہے کہ وہ شوہر کے خاندان والوں اور ان کے رشتہ داروں کا اکرام کرے۔‬
‫سوال نمبر‪ :11‬بیوی کے حقوق تحریر کریں۔‬
‫بیوی کے حقوق‪:‬قرآن پاک میں ہللا تبارک و تعالی نے اوراحادی ِ‬
‫ث مبارکہ میں ہللا کے رسول ﷺ نے‬
‫میاں بیوی کے تعلقات کا ایساجامع دستور پیش کیا ہے جس سے بہتر کوئی دستور نہیں ہوسکتا۔ اگر ان‬
‫جامع ہدایات کی روشنی میں ازدواجی زندگی گزاری جائے تو اس رشتہ میں کبھی بھی تلخی اور‬
‫کڑواہٹ پیدا نہ ہوگی۔‬
‫قرآن پاک کی بیشتر آیات کے مطالعہ سے واضح ہوتا ہے کہ بیوی کو محض نوکرانی اور‬
‫خاد مہ سمجھنا بالکل درست نہیں بلکہ یہ یاد رکھنا چاہئے کہ اس کے بھی کچھ حقوق ہیں جن کی‬
‫پاسداری شریعت میں نہایت ضروری ہے۔ ان حقوق میں جہاں نان و نفقہ اور رہائش کا انتظام شامل ہے‬
‫وہیں اس کی دلجوئی اور راحت رسانی کا خیال رکھنا بھی ضروری ہے۔ شریعت نے بیوی کے جو‬
‫حقوق بیان کئے ہیں ان میں سے چند اہم درج ذیل ہیں۔‬
‫‪۱‬۔مہر کی ادائیگی‪ :‬مہر اس رقم کو کہتے ہیں جو نکاح کے بعد مرد اپنی بیوی کو پیش کرتا ہے۔ یہ ہللا‬
‫کی طرف سے فرض کیا گیا ہے۔ مہر کی ادائیگی ضروری ہے اور زبردستی مہر معاف کرانا عورت‬
‫کی حق تلفی ہے۔ مہر کے متعلق قرآن میں مذکور ہے‪:‬‬
‫َۃ‬‫ِحل‬ ‫َّ ن‬
‫ِن‬‫ِه‬
‫دقات‬ ‫َُ‬ ‫ء ص‬ ‫تواالنسآَ‬ ‫ُٰ‬‫َا‬
‫و‬
‫ترجمہ‪” :‬اور عورتوں کو ان کے مہر خوشی سے دیا کرو۔“ (سورۃ النساء‪)۴:‬‬
‫‪۲‬۔ نان و نفقہ‪ :‬شادی کے بعد بیوی کے تمام اخراجات یعنی اس کا نان نفقہ اور اس کے پہننے اوڑھنے‬
‫کا انتظام شوہر کی ذمہ داری ہے۔ اور جس معیار کی چیزیں وہ خود استعمال کرتا ہے بیوی کی‬
‫ضروریات کو پورا کرتے ہوئے بالکل وہی معیار برقرار رکھنا ضروری ہے۔ قرآن پاک میں ارشا ِد‬
‫باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ُوف‬ ‫َعر‬ ‫ِالم‬ ‫َّ‬
‫ُن ب‬ ‫ته‬‫َُ‬
‫ِسو‬‫َک‬ ‫َّ‬
‫ُن و‬ ‫ُ‬
‫ِزقه‬ ‫ِ لہ ر‬‫َ‬ ‫ُ‬
‫َولود‬ ‫َلی الم‬ ‫َ‬ ‫َع‬
‫و‬
‫ترجمہ‪” :‬بچوں کے باپ (یعنی شوہر) پر عورتوں (یعنی بیوی) کا کھانا اور کپڑادستور کے مطابق الزم‬
‫ہے۔“ (سورۃ البقرۃ‪)۲ ۳۳ :‬‬
‫حسن سلوک‪ :‬بیوی کا یہ حق ہے کہ شوہر اس سے اچھا برتاؤ کرے۔ جب وہ اپنے ماں باپ کا گھر‬ ‫ِ‬ ‫‪۳‬۔‬
‫چھوڑ کر اس کے گھر آگئی ہے تو اب یہ اس کا فرض ہے کہ وہ اس سے اچھا سلوک کرے۔ اس پر‬
‫کسی طرح کی زیادتی نہ کرے۔ اس بارے میں ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ُوف‬‫َعر‬‫ِالم‬ ‫َّ ب‬ ‫ُن‬‫ُوھ‬‫ِر‬‫َاش‬‫َع‬‫و‬

‫‪ 78 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ترجمہ‪” :‬اور ان سے اچھا برتاؤ کرو۔“ (سورۃ النساء‪)۱ ۹ :‬‬
‫حضور اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ” :‬تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو اپنی عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے والے ہوں۔“‬
‫(جامع ترمذی)‬
‫‪۴‬۔ مشورہ‪:‬‬
‫اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ گھر کا انتظام چالنے کی ذمہ داری مرد کے ذمہ رکھی گئی ہے‬
‫حسن معاشرت کے‬‫ِ‬ ‫جیسا کہ قرآن کریم میں مرد کو عورتوں کا نگہبان اور منتظم قرار دیا گیا ہے لیکن‬
‫طور پر عورت سے بھی گھر کے نظام کو چالنے کے لئے گھریلو معامالت میں مشورہ ضرور کرنا‬
‫چاہئے۔ جیسا کہ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪” :‬بیٹیوں (کے رشتے) کے لئے اپنی بیوی سے مشورہ کیا کرو۔“ (ابو داؤد)‬
‫‪۵‬۔ بعض کمزوریوں سے چشم پوشی‪ :‬شوہر کو چاہئے کہ بات بات پر نوک جھونک اور روک‬
‫ٹوک نہ کرے بلکہ بیوی کی بعض کمزوریوں سے چشم پوشی کرے۔ خاص طور پر جب کہ بیوی کے‬
‫اندر دیگر خوبیاں موجود ہوں۔ یہ بات نہیں بھولنی چاہئے کہ ہللا تعالی نے عموما ہر عورت میں کچھ نہ‬
‫کچھ خوبیاں ضرور رکھی ہیں۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ” :‬اگر عورت کی کوئی بات یا عمل ناپسند آئے تو مرد عورت پر غصہ نہ کرے کیونکہ اس کے‬
‫اندر دوسری خوبیاں موجود ہیں جو تمہیں بھی اچھی لگتی ہیں۔“‬
‫‪۶‬۔ عدل‪:‬اگر کسی شخص کی ایک سے زیادہ بیویاں ہوں تو اس پر واجب ہے کہ وہ ان کے درمیان‬
‫برابری کا برتاؤ کرے یعنی ان پر برابر خرچہ کرے اور ہر ایک کی باری بھی ایک جیسی ہو۔ ان‬
‫ظاہری معامالت میں اس کے لئے کسی ایک بیوی کی حق تلفی جائز نہیں ہے۔ اب رہا دلی رجحان یا‬
‫محبت کا معاملہ تو اس میں برابری مطلوب نہیں ہے بلکہ دلی رجحان کے معاملہ میں برابری ہو ہی‬
‫نہیں سکتی۔‬
‫‪۷‬۔ خلع‪ :‬جس طرح سے مرد کو اسالم نے یہ حق دیا ہے کہ وہ اپنی بیوی کو طالق دے سکتا ہے۔ اسی‬
‫ط رح سے اسالم نے عورت کو یہ حق دیا ہے کہ وہ مرد سے طالق لے سکتی ہے۔ عورت کے اس حق‬
‫کو خلع کہا جاتا ہے۔‬
‫‪۸‬۔ وراثت میں حصہ‪:‬جس طرح شوہر کی زندگی میں شوہر کے مال پر عورت کا حق ہے اسی طرح‬
‫مرنے کے بعد بھی عورت کا شوہر کے مال پر حق ہے۔ اسے شوہر کے مرنے کے بعد وراثت میں‬
‫سے حصہ دیا جائے گا۔وراثت میں بیوی کے حصہ کی تفصیل کچھ یوں ہے‪:‬‬
‫‪۰‬اوالد موجود نہ ہونے کی صورت میں بیوی کو ‪ 1/4‬ملے گا۔‬
‫‪۰‬اوالد موجود ہونے کی صورت میں بیوی کو‪1 / 8‬ملے گا۔‬
‫سوال نمبر‪ :12‬اساتذہ کے حقوق تحریر کریں۔‬
‫اساتذہ کے حقوق‪ :‬شریعت کی نظر میں استاد کا مقام بہت بلند ہے۔ تعلیم و تربیت وہ مقدس پیشہ ہے‬
‫جس کی طرف آپ ﷺ نے خود کی نسبت کرتے ہوئے فرمایا کہ مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا ہے۔ استاد‬
‫اپنے طلبہ کی اخالقی و روحانی تربیت کرکے ان کی شخصیت کو نکھارتا ہے۔ گویا والدین بچوں کی‬
‫جسمانی پرورش کرتے ہیں جب کہ اساتذہ روحانی تربیت کرتے ہیں۔ استاد کے مقام اور مرتبہ کی وجہ‬
‫سے شریعت نے استاد کے کچھ حقوق متعین کئے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں۔‬

‫‪ 79 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۱‬۔ ادب و احترام‪:‬استاد اور شاگرد کا رشتہ نہایت مقدس‪ ،‬پاکیزہ اور مضبوط ہونے کے ساتھ ساتھ‬
‫حساس بھی ہے۔ طالب علم کو چاہئے کہ وہ استاد کا ادب اور احترام کرے۔ کہا جاتا ہے با ادب بانصیب‪،‬‬
‫بے ادب بد نصیب۔ جو استاد کا احترام کرتا ہے وہ بہت کچھ پالیتا ہے اور جو اس ادب و احترام سے‬
‫محروم رہتا ہے وہ بہت کچھ کھو دیتا ہے۔ حدیث میں بھی آتا ہے کہ‪:‬‬
‫ترجمہ‪” :‬دین تو سارے کا سارا ادب کا نام ہے۔“‬
‫‪۲‬۔ اطاعت اور خدمت گزاری‪ :‬طالب علم کا فرض ہے کہ استاد کی ہر موقع پر اطاعت اور‬
‫فرمانبرداری کرے۔ کسی بھی موقع پر استاد کی نافرمانی نہ کرے‪ ،‬خدانخواستہ استاد کے دل سے نکلی‬
‫آہ کہیں اسے تباہ و برباد نہ کردے۔ حضرت علی رضی ہللا تعالی عنہ کا ارشا ِد گرامی ہے‪:‬‬
‫” جس سے میں نے ایک حرف بھی سیکھا میں اس کا غالم ہوں۔“‬
‫استاد کی اطاعت اور خدمت گزاری شرف و سعادت کا ذریعہ ہے اور طالب علم کے لئے فخر‬
‫کا باعث ہے۔‬
‫‪۳‬۔ خلوص اور ہمدردی‪ :‬اساتذہ کا حق ہوتا ہے کہ اس کے شاگرد اس کے ساتھ عقیدت‪ ،‬خلوص اور‬
‫ہمدردی کا اظہار کریں اور اس کے ساتھ انتہائی عزت سے پیش آئیں اور شاگردوں کا فرض ہے کہ وہ‬
‫اساتذہ کی عزت کریں اور ان کے احترام میں کسی قسم کی کوتاہی نہ کریں۔ رسول ہللا ﷺ کا ارشا ِد‬
‫گرامی ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ” :‬آدمی کے تین باپ ہوتے ہیں۔ ایک وہ جس کے نطفہ سے یہ پیدا ہوا‪ ،‬دوسرا سسر جس نے اس‬
‫کو اپنی بیٹی نکاح میں دی اور تیسرا استاد جس نے اس کو دین سکھایا۔‬
‫‪۴‬۔توجہ اور دلچسپی‪:‬اساتذہ کا یہ حق ہوتا ہے کہ ان کی باتوں کو پوری دلچسپی اور توجہ سے سنا‬
‫جائے۔ دلچسپی اور توجہ علم کے حصول میں معاون ہوتی ہے۔ اساتذہ کی باتوں کو توجہ اور دلچسپی‬
‫سے سن کر ان پر عمل کرنے کی کوشش کرنی چاہئے اور ہللا تعالی سے دعا کرنی چاہئے جیسا کہ‬
‫قرآن مجید میں ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ً‬
‫ِلما‬ ‫ِدنی ع‬ ‫َب ز‬‫ر‬
‫ترجمہ‪” :‬اے میرے پروردگار! میرے علم میں اضافہ فرما۔“ (سورہ طہ‪)۱۱۴ :‬‬
‫‪۵‬۔ عجز و انکساری‪ :‬استاد کی مثال باپ کی سی ہوتی ہے۔ طالب علم کا فرض ہے کہ استاد کے‬
‫سامنے عجزوانکساری کا مظاہرہ کرے‪ ،‬غروروتکبر سے پرہیز کرے۔ امام غزالی رحمۃ ہللا علیہ‬
‫فرماتے ہیں کہ شاگرد کو استاد کے سامنے مردہ زمین کی طرح ہونا چاہئے‪ ،‬جس پر بارش پڑتی ہے تو‬
‫وہ سرسبزوشاداب ہوجاتی ہے۔ گویا امام صاحب کی نظر میں استاد کی مثال اس بارش کی ہے جس کے‬
‫بغیر زمین بنجر و ناکارہ ہے۔ حدیث نبوی ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ” :‬جن سے علم حاصل کرتے ہو اور جنہیں سکھاتے ہو ان کے لئے تواضع اور عاجزی اختیا‬
‫رکرو۔“‬
‫‪۶‬۔ خوب محنت کرنا‪ :‬طالب علم کو چاہئے کہ تعلیم حاصل کرنے میں خوب محنت سے کام لے تاکہ‬
‫صرف کررہا ہے وہ رنگ السکیں۔ علم مسلسل جدوجہد‪ ،‬محنت‪ ،‬لگن‪،‬‬ ‫استاد جو اس پر اپنی تمام کاوشیں َ‬
‫جستجو‪ ،‬وقت اور خواہشات کی قربانی کا نام ہے۔ طالب علم کو چاہئے کہ ان سے بیزار نہ ہو۔ یہ نہ ہو‬
‫کہ استاد تو محنت کرتا رہے لیکن شاگرد کوئی توجہ نہ دے۔ طالب علم کو چاہئے کہ خوب محنت کرے‬
‫اور اساتذہ سے دعائیں وصول کرے۔‬

‫‪ 80 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۷‬۔ دعائے خیر‪ :‬چونکہ استاد کے اپنے شاگردوں پر بڑے احسانات ہوتے ہیں اس لئے طالب علم کا‬
‫فرض ہے کہ وہ اپنے محسن استادوں کے لئے ان کی زندگی میں اور ان کی وفات کے بعد ان کے لئے‬
‫دعائے خیر و مغفرت کرے۔ بزرگوں کا دستور رہا ہے کہ وہ اپنے اساتذہ کو اپنی دعاؤں میں ہمیشہ یاد‬
‫رکھتے ہیں۔ ارشا ِد نبوی ﷺ ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ” :‬جو شخص تم پر احسان کرے تو اس کا صلہ دو ورنہ کم از کم اس کے لئے دعائے خیر‬
‫ضرور کرو۔“‬
‫سوال نمبر‪ :13‬شاگردوں کے حقوق تحریر کریں۔‬
‫شاگردوں کے حقوق‪ :‬جس طرح شاگردوں پر استاد کے حقوق واجب ہیں بالکل اسی طرح استاد کے‬
‫ذمہ بھی اپنے طلبہ کے کچھ حقوق الزم ہوتے ہیں۔ شاگردوں کی ہر طرح کی تعلیمی‪ ،‬تربیتی اور‬
‫اخالقی اصالح کی ذمہ داری استاد پر الزم ہے۔ استاد کو شاگردوں کے کچھ فرائض سونپے گئے ہیں کہ‬
‫وہ اپنے شاگردوں سے کیسے معامالت کرے۔ ان ہی ذمہ داریوں کو شاگردوں کے حقوق یا استاد کے‬
‫فرائض کہا جاتا ہے۔ ذیل میں ان میں سے چند ایک کا ذکر کیا جاتا ہے۔‬
‫‪۱‬۔اخالص‪:‬علم ایک امانت ہے جو سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی ہے۔ استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس‬
‫امانت کو پورے اخالص کے ساتھ اپنے شاگردوں تک پہنچائے اور اس میں اخالص سے کام لیتے ہوئے‬
‫کسی قسم کی غیر ذمہ داری کا مظاہرہ نہ کرے۔‬
‫‪۲‬۔ بہترین تربیت‪:‬تعلیم صرف مخصوص نصاب پڑھنے اور پڑھانے کا نام نہیں بلکہ یہ تو دراصل‬
‫ایک باطنی قوت کا نام ہے جو انسان کو تہذیب سے بہرہ ور کرتی ہے۔ استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ‬
‫صرف نصاب پڑھانے پر توجہ نہ دے بلکہ ساتھ ساتھ اپنے طلبہ کی تربیت پر بھی کڑی نظر رکھے۔‬
‫قدم قدم پر‬
‫شاگردوں کی اخالقی اصالح کا کام انجام دے۔‬
‫‪۳‬۔ مساوی سلوک‪:‬استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے تمام شاگردوں کے ساتھ مساوی یعنی برابری کا‬
‫سلوک کرے۔ کسی طالب علم کو بالوجہ دوسروں پر ترجیح دینے سے گریز کرے۔ اس سے دوسرے‬
‫طلبہ احساس کمتری کا شکار ہوسکتے ہیں۔ ایک باپ کی طرح سب شاگردوں کو اوالد سمجھتے ہوئے‬
‫سب کو برابر اپنی توجہ سے نوازے۔ ا گرچہ طلبہ اپنی ذہنی صالحیتوں کے تناظر میں مختلف درجات‬
‫رکھتے ہیں مگر استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ کمزور اور غبی طلبہ پر بھی اتنی ہی توجہ دے‬
‫جتنی ذہین و فطین طلبہ پر دیتا ہے۔‬
‫‪۴‬۔ غیر جانبدار رویہ‪ :‬اساتذہ کا فرض ہوتا ہے کہ وہ تعلیم کی فراہمی کے عمل کے دوران بالکل غیر‬
‫طرز فکر کی طرف خصوصی‬ ‫ِ‬ ‫جانبدار رویہ اپنائیں اور کسی بھی خاص سیاسی‪ ،‬سماجی یا مذہبی‬
‫رجحان ظاہر نہ کریں۔اساتذہ کا فرض ہے کہ وہ مکمل طور پر غیر جانبدار رہتے ہوئے صرف حقیقت‬
‫کی تعلیم سے اپنے شاگردوں کو روشناس کرائیں۔ ایک استاد کا غیر جانبدار رویہ اسے شاگردوں میں‬
‫مقبول بناتا ہے اور اس کی عظمت اور رتبہ میں بھی اضافہ ہوتا ہے۔‬
‫‪۵‬۔محبت و شفقت‪ :‬استاد کے لئے ضروری ہے کہ وہ بڑے پن کا مظاہرہ کرتے ہوئے تمام طلبہ کو‬
‫اپنی اوالد سمجھے۔ استاد کی ذمہ داری ہے کہ وہ اپنی حیثیت کو پہچانتے ہوئے اپنے طلبہ کے ساتھ‬
‫حقیقتا روحان ی باپ جیسا سلوک کرے۔ بے جا سختی سے گریز کرے۔ کہیں یہ نہ ہو کہ بے جا سختی کی‬
‫وجہ سے دلبرداشتہ ہوکر کوئی طالب علم علم جیسی عظیم دولت سے محروم ہوجائے۔‬

‫‪ 81 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۶‬۔ خوش اخالقی‪ :‬علم ایک ایسی دولت ہے جو زبردستی کسی کو نہیں دی جاسکتی‪ ،‬اس کے لئے‬
‫خوش اخالقی نہایت ضروری ہے۔ اس تاد کی ذمہ داری ہے کہ درس کے دوران اپنے چہرے کو ہشاش‬
‫بشاش رکھے۔ بد اخالقی کا مظاہرہ نہ کرے۔ بلکہ نہایت خوش اخالقی سے کام لے اور اگر کوئی شاگرد‬
‫سوال کرے تو خندہ پیشانی سے اس کا جواب دے۔‬
‫‪۷‬۔ دعائے خیر‪:‬ہر کام میں صرف اپنی محنت پر بھروسہ نہیں کرنا چاہئے بلکہ ہللا سے اس کام کے‬
‫حوالہ سے مدد مانگنی چاہئے۔ استاد کو چاہئے کہ وہ اپنے شاگردوں کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھے۔ قدم‬
‫قدم پہ ان کی کامیابی کے لئے دعاگو ہو۔ خصوصا وہ طلبہ جو ذہنی طور پر کمزور ہیں ان کو دعامیں‬
‫ضرور یاد رکھے تاکہ دوسرے طلبہ کی طرح وہ بھی اپنی علم کی منازل کو آسانی اور خوش اسلوبی‬
‫سے طے کرسکیں۔‬
‫سوال نمبر‪ :14‬رشتہ داروں کے حقوق تحریر کریں۔‬
‫شریک حیات کے حقوق کے بعداسالم رشتہ داروں کے‬
‫ِ‬ ‫رشتہ داروں کے حقوق‪:‬والدین‪ ،‬اوالد اور‬
‫حقوق پر زور دیتا ہے کیونکہ معاشرتی زندگی میں انسان کا واسطہ گھر والوں کے بعد سب سے زیادہ‬
‫ان ہی سے پڑتا ہے۔ اگر خاندان کے افراد ایک دوسرے کے حقوق اچھے طریقے سے ادا کرتے رہیں‬
‫تو پورے خاندان میں محبت اور اپنائیت کی فضا قائم ہوتی ہے اور اگر معاملہ اس کے برعکس ہو تو‬
‫نفرت اور دوری پیدا ہوجائے گی اور پورا معاشرہ امن سے محروم ہوجائے گا۔ قرآن اور حدیث دونوں‬
‫حسن سلوک کی بار بار تلقین کی گئی ہے۔ شریعت نے رشتہ‬ ‫ِ‬ ‫میں صلہ رحمی یعنی رشتہ داروں سے‬
‫داروں کے جو حقوق بتالئے ہیں ان میں سے چند یہ ہیں۔‬
‫حکم خداوندی‬
‫ِ‬ ‫‪۱‬۔ حسن سلوک‪:‬رشتہ داروں کا اولین حق ہے کہ ان کے ساتھ اچھا برتاؤ کیا جائے۔‬
‫ہے‪:‬‬
‫ُ‬
‫ِی القربی‬ ‫ً‬
‫ِحسَانا وذ‬ ‫دينِ ا‬‫لَ‬
‫َاِ‬‫ِالو‬ ‫َب‬ ‫و‬
‫ترجمہ‪” :‬اور والدین اور رشتہ داروں کے ساتھ اچھا برتاؤ کرو۔“‬
‫‪۲‬۔ مالی مدد‪ :‬رشتہ داروں کا حق ہے کہ ان کی مالی مدد کی جائے اور ان کی مالی مشکالت حل کی‬
‫جائیں بلکہ اگر رشتہ داروں میں کوئی زکوۃکا مستحق ہے تو سب رشتہ داروں کو چاہئے کہ سب سے‬
‫پہ لے اپنے رشتہ دار کو اپنی زکوۃ اور صدقہ ادا کرکے اس کی مالی حالت بہتر بنائیں۔ ارشا ِد باری‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ِی القربی‬ ‫َ‬
‫ُبہ ذو‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫واتی المال علی ح‬ ‫ٰ‬ ‫َ‬
‫ترجمہ‪” :‬اور ہللا کی رضا کی خاطر رشتہ داروں کی مالی مدد کی جائے۔“‬
‫‪۳‬۔ اخالقی و روحانی مدد‪:‬رشتہ داروں کی جس طرح مالی مدد کا حکم ہے اسی طرح سے روحانی‬
‫مدد کا بھی ہے۔ یعنی ان کو اسالمی احکام پر عمل کرنے پر راغب کیا جائے تاکہ ان کی دنیا اور آخرت‬
‫سنور سکے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ِين‬‫َب‬‫َتکَ االقر‬‫َ‬ ‫ِير‬ ‫َش‬
‫ِر ع‬ ‫َ‬
‫َانذ‬‫و‬
‫ترجمہ‪” :‬اور رشتہ داروں کو ہللا کے عذاب سے ڈراؤ۔“‬
‫‪۴‬۔ پیار و محبت‪:‬رشتہ داروں کا یہ بھی حق ہے کہ ان سے پیار و محبت برتا جائے۔ خصوصا خونی‬
‫رشتوں میں خاص پیار و محبت کا مظاہرہ کرنا چاہئے۔ محض دنیاوی امور اور مال و دولت کی خاطر‬
‫اپنے پیاروں سے قطع تعلق نہیں کرنا چاہئے کیونکہ رشتے انمول ہوتے ہیں۔‬

‫‪ 82 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۵‬۔ صلہ رحمی‪:‬اسالم امن و سالمتی کا مذہب ہے جو رشتہ جوڑنے کا حکم دیتا ہے اور رشتہ داروں‬
‫سے تعلقات خراب کرنے سے منع کرتا ہے کیونکہ اس سے معاشرے میں فتنہ و فساد پھیلتا ہے۔ قرآن و‬
‫حدیث میں کئی جگہ رشتہ داروں سے صلہ رحمی کی تلقین کی گئی ہے اور رشتہ قطع کرنے والوں کو‬
‫سخت وعید سنائی گئی ہے چنانچہ ارشاد نبوی ﷺ ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪” :‬قطع رحمی کرنے واال جنت میں نہیں جائے گا۔“‬
‫صلہ رحمی کا تقاضا ہے کہ کوئی آپ سے اچھے تعلقات رکھے یا نہ رکھے آپ اس‬
‫سے اچھے تعلقات رکھیں۔ جیسا کہ ایک موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪” :‬صلہ رحمی کرنے واال وہ نہیں جو صلہ رحمی کے جواب میں صلہ رحمی کرے بلکہ صلہ‬
‫رحمی کرنے واال وہ ہے جو قطع رحمی کا جواب صلہ رحمی سے دے۔“‬
‫‪۶‬۔ خوشی و غمی میں شرکت‪ :‬دوسروں کے خوشی و غم میں شریک ہونا ایمانی تقاضہ ہے۔ رشتہ‬
‫دار ہونے کی صورت میں یہ اور بھی ضروری ہے کہ اگر رشتہ دار کسی غم میں مبتال ہے تو اس کے‬
‫غم میں ش ریک ہوکر اس کا غم بانٹا جائے۔ اگر اس تکلیف کے موقع پر اس کو مدد کی ضرورت ہے تو‬
‫اس کی مدد کی جائے۔ اس طرح اس کی خوشیوں میں شریک ہوکر اسے اپنائیت کا احساس دالیا جائے۔‬
‫‪۷‬۔ زکوۃ و صدقات میں ترجیح‪ :‬جب انسان نفلی یا واجبی صدقہ یا زکوۃ دینے کا ارادہ رکھتا ہوتو‬
‫اسے چاہئے کہ ادھر اُدھر کے غرباء و مساکین تالش کرنے سے پہلے اپنے رشتہ داروں پر نظر‬
‫دوڑائے کہ کہیں ان میں تو کوئی مستحق نہیں؟ اگر مستحق نکل آئے تو دوسرے مساکین پر اپنے غریب‬
‫رشتہ داروں کو ترجیح دے۔ آپ ﷺ کا ارشا ِد گرامی ہے کہ‪:‬‬
‫زیر کفالت ہیں۔“‬
‫ترجمہ‪” :‬اور(صدقہ اور خیرات کا) آغاز ان سے کرو جو تمہارے ِ‬
‫‪۸‬۔ حق وراثت‪ :‬اسالم نے رشتہ داروں کو وراثت کا حصہ دار بنایا ہے۔ ہر رشتہ دار کا یہ حق ہے کہ‬
‫شریعت نے اس کا جو حصہ مقرر کیا ہے وہ اسے دیا جائے اور اس میں کسی قسم کی کوتاہی نہ برتی‬
‫جائے چنانچہ ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬

‫بون‬ ‫َُ‬‫َاالقر‬ ‫دانِ و‬ ‫لَ‬ ‫َکَ الو‬


‫َاِ‬ ‫تر‬‫ّا َ‬ ‫َالی م‬
‫ِم‬ ‫َا َ‬
‫مو‬ ‫َلن‬‫َع‬‫ّ ج‬ ‫ُل‬‫لک‬‫َِ‬
‫و‬
‫ترجمہ‪ ”:‬اور جو مال ماں باپ اور رشتہ دار چھوڑ جائیں تو (حقداروں میں تقسیم کردو کہ)ہم نے ہر ایک‬
‫کے حقدار مقرر کردئے ہیں۔“(سورۃ النساء‪)۳۳:‬‬
‫سوال نمبر‪:15‬پڑوسیوں کے حقوق تحریر کریں۔‬
‫پڑوسیوں کے حقوق‪:‬ہمسایہ کو اردو میں "پڑوسی" کہا جاتا ہے اور عربی زبان میں "جار" کہتے‬
‫ہیں ۔ ہمسایہ فارسی کا لفظ ہے جو اردو میں مستعمل ہے ۔ پڑوسی سے مراد آس پاس کے مکان ‪ ،‬دکان‪،‬‬
‫فلیٹ ‪ ،‬جھگی یا دیگر عمارتوں میں رہنے والے لوگ ہیں۔البتہ پڑوسی کی ایک اور قسم ان لوگوں پر‬
‫مشتمل ہے جو کسی وجہ سے ہم نشینی کا سبب بن جاتی ہے ۔‬
‫اسالم ایک جامع اور معاشرتی اقدار سے بھرپور مذہب ہے جو کسی ایک شخص یا طبقہ کے‬
‫لئے نہیں بلکہ پورے معاشرے کے لئے اپنے احکام جاری کرتا ہے۔ پڑوسیوں کے حقوق جانے بغیر پر‬
‫امن معاشرے کا قیام ممکن نہیں۔ مسلم معاشرے میں پڑوس کا ایک اہم مقام ہے۔ پڑوسیوں سے اچھا‬
‫برتاؤ اور ان کے حقوق کا تحفظ ایمان کی تکمیل کے لئے الزمی شرط ہے اور انسان کے صالح اور‬
‫متقی ہونے کی عالمت ہے۔ قرآن و حدیث میں پڑوسیوں کے حقوق کو نہایت تفصیل سے بیان کیا گیا‬
‫ہے۔ ان حقوق میں سے چند درج ذیل ہیں‪:‬‬

‫‪ 83 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫حسن سلوک کی تلقین کی گئی‬ ‫ِ‬ ‫حسن سلوک‪:‬قرآن مجید میں جہاں ماں باپ اور رشتہ داروں سے‬ ‫ِ‬ ‫‪۱‬۔‬
‫ہے وہاں ہمسایوں سے بھی اچھا برتاؤ کرنے کا حکم ہے۔ ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ” :‬اور ہللا کی عبادت کرو۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹہراؤ اور والدین کے ساتھ اچھا‬
‫سلوک کرو‪ ،‬نیز رشتہ داروں‪ ،‬یتیموں‪ ،‬مسکینوں‪ ،‬رشتہ دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقائے پہلو‬
‫(یعنی پاس بیٹھنے والوں) کے ساتھ (احسان کرو)۔“ (سورۃ النساء‪)۳ ۶ :‬‬
‫ب ایمان کی عالمت بیان کرتے ہوئے فرمایا‪:‬‬ ‫آپ ﷺ نے صاح ِ‬
‫ترجمہ‪ ” :‬وہ شخص مومن نہیں جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں او رتکلیفوں سے محفوظ نہ ہو۔“‬
‫‪۲‬۔ عزت و تکریم‪ :‬پڑوسی کا ایک حق یہ بھی ہے کہ اس کی عزت کی جائے۔ پڑوسی ایک دوسرے‬
‫کی عزت و تکریم کریں گے تب ہی وہ ایک دوسرے کے حقوق ادا کرسکیں گے۔ آپ ﷺ نے ارشاد‬
‫فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ”:‬جو شخص ہللا اور قیامت کے دن پر ایمان رکھتا ہے اسے اپنے ہمسائے کی عزت کرنی‬
‫چاہئے۔“ (صحیح البخاری)‬
‫‪۳‬۔ ایذاء رسانی سے گریز‪ :‬حضور ﷺ کے ارشادات مبارکہ سے ہمیں یہ ہدایت بھی ملتی ہے کہ‬
‫کوئی بھی اپنے پڑوسی کو تکلیف نہ پہنچائے‪ ،‬اسے دکھ نہ دے۔ کوئی ایسی حرکت نہ کرے جس سے‬
‫اسے تکلیف پہنچے۔ آپ ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ” :‬وہ شخص مومن نہیں جس کا ہمسایہ اس کی شرارتوں او رتکلیفوں سے محفوظ نہ ہو۔“‬
‫ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ” :‬جو شخص ہللا پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہے وہ اپنے ہمسائے کو ایذا(تکلیف) نہ‬
‫دے۔“‬
‫‪۴‬۔تحفہ دینا‪:‬پڑوسیو ں کو تحفے تحائف دینے سے آپس میں محبت بڑھتی ہے اور خلوص پیدا ہوتا ہے۔‬
‫حضور ﷺ نے عورتوں سے خاص طور پر خطاب کرکے فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ” :‬اے مسلمان عورتوں! اپنے پڑوسیوں کے ساتھ چھوٹی چھوٹی نیکیوں کو بھی حقیر مت جانو‪،‬‬
‫حتی کہ اگر بکری کی کھری ہی بھیج سکو تو یہ بھی اہم چیز ہے۔“‬
‫‪۵‬۔ جان‪ ،‬مال اور عزت کی حفاظت‪:‬پڑوسی کا حق ہے کہ اس کی جان‪ ،‬مال اور عزت کی حفاظت‬
‫کی جائے۔ آپ ﷺ کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ” :‬چوری حرام ہے لیکن ہمسائے کی چوری دس گھروں کی چوری سے بڑھ کر ہے۔“‬
‫اس کے عالوہ پڑوسیوں کو ایک دوسرے کے دکھ درد میں شریک ہونا چاہئے۔ پڑوسی بیمار ہو‬
‫تو اس کی عیادت کی جائے۔وفات پا جائے تو اس کا جنازہ پڑھا جائے۔ اپنے گھر کی دیوار اتنی اونچی‬
‫نہ کی جائے کہ اس کی ہوا بند ہوجائے۔ گھر میں کچھ پکے تو وہ پڑوسیوں کو بھی بھیجا جائے۔‬
‫سوال نمبر‪:16‬غیر مسلموں (ذمیوں)کے حقوق تحریر کریں۔‬
‫غیر مسلموں (ذمیوں)کے حقوق‪:‬اسالمی ریاست کے غیر مسلم شہریوں کو ”ذمی“ کہا جاتا ہے۔‬
‫جس طرح اسالمی ریاست میں مسلمانوں کو حقوق حاصل ہوتے ہیں اسی طرح ذمیوں کو بھی حقوق‬
‫حاصل ہوتے ہیں۔ذیل میں غیر مسلموں کے حقوق کا مختصر جائزہ پیش کیا جاتا ہے۔‬
‫مذہبی حقوق‪:‬‬
‫اسالمی ریاست میں غیر مسلموں کو مندرجہ ذیل مذہبی حقوق حاصل ہوتے ہیں‪:‬‬

‫‪ 84 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۱‬۔ عقیدہ کی آزادی‪:‬ہر ذمی کو عقیدہ کی آزادی ہوتی ہے اسے عقیدہ بدلنے پر مجبور نہیں کیا جاتا۔‬
‫ہللا تعالی نے اس حکم پر سختی سے عمل کرنے کا حکم دیا ہے‪:‬‬
‫ِی الدين‬ ‫َاه ف‬ ‫ِکر‬‫الا‬
‫ترجمہ‪” :‬دین میں کوئی زبردستی نہیں۔“ (سورۃ البقرہ‪)۲ ۵ ۶ :‬‬
‫دین اسالم اس بات کی اجازت دیتا ہے کہ غیر مسلم شہری‬ ‫‪۲‬۔ عبادت اور عبادت گاہوں کی آزادی‪ِ :‬‬
‫اپنی آبادیوں میں مذہبی شعائر اور رسوم کی علی االعالن ادئیگی میں آزادہوتے ہیں۔ ان کے جلسوں اور‬
‫اجتماعات پر کوئی پابندی نہیں ہوتی البتہ خالص مسلم آبادیوں میں اگر بد نظمی کا خدشہ ہو تو پابندی‬
‫عائد کی جاسکتی ہے لیکن ا س میں بھی خود ان کا فائدہ ہے۔ اسالمی ریاست میں ان کی عبادت گاہیں‬
‫پوری طرح محفوظ اور آزاد ہوتی ہیں۔ حضرت خالد بن ولیدرضی ہللا تعالی عنہ نے حضرت ابوبکر‬
‫دور خالفت میں حیرہ (ایک شہر کا نام) فتح کیا تو یہ معاہدہ لکھ کر دیا‪:‬‬
‫رضی ہللا تعالی عنہ کے ِ‬
‫”ان کے گرجے(عی سائیوں کی عبادت گاہ) برباد نہیں کئے جائیں گے نہ ان کو سنکھ(عبادت کے وقت کا‬
‫اعالن کرنے کے لئے بجایا جانے واال آلہ) بجانے سے منع کیا جائے گااور نہ عید کے دن صلیب‬
‫لٹکانے سے روکا جائے گا۔“‬
‫معاشرتی حقوق‪:‬‬
‫اسالمی ریاست میں غیر مسلموں کو مندرجہ ذیل معاشرتی حقوق حاصل ہوتے ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ جان و مال کا تحفظ‪:‬اسالمی ریاست کی یہ ذمہ داری ہے کہ اپنے غیر مسلم شہریوں کی جان و‬
‫محسن انسانیت ﷺ نے‬
‫ِ‬ ‫مال کی حفاظت کرے۔ اس سلسلہ میں مسلم و غیر مسلم میں کوئی فرق نہ کرے۔‬
‫ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫” جس نے کسی ذمی کو قتل کیا وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونگھ سکے گا جو چالیس سال کی مسافت‬
‫سے محسوس ہوگی۔“‬
‫‪۲‬۔ عزت و آبرو کی حفاظت‪ :‬اسالمی تعلیمات کے مطابق غیر مسلم شہری کی عزت و ناموس اسی‬
‫طرح محفوظ و محترم ہے جس طرح مسلم شہری کی۔ اسے گالی دینا‪ ،‬مارنا‪ ،‬پیٹنااسی طرح ناجائز ہے‬
‫جس طرح مسلمان کے حق میں یہ چیزیں حرام ہیں حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے اپنے گورنروں کو‬
‫تاکیدی حکم دے رکھا تھا کہ‪:‬‬
‫”مسلمانوں کو ذمیوں پر ظلم سے روکو۔“‬
‫‪۳‬۔ تحریر و تقریر کی آزادی‪:‬اسالمی ریاست میں غیر مسلموں کو تحریر و تقریر کی آزادی ہوتی‬
‫ہے۔ وہ اپنے دل کی بات پوری آزادی سے کرسکتے ہیں۔ لیکن ضروری ہے کہ ان کی کسی بات یا عمل‬
‫سے کسی دوسرے کو تکلیف یا دل آزاری نہ ہو۔‬
‫‪۴‬۔ قانونی مساوات‪ :‬اسالمی قانون میں مسلمان اور غیر مسلم برابر ہیں۔ اگر کوئی شخص کسی غیر‬
‫مسلم شہری پر ظلم و زیادتی کرے مثالََؑ چوری کرے‪ ،‬تہمت لگائے‪ ،‬حق تلفی کرے تو ان سب‬
‫صورتوں میں اسی سزا کا حق دار ہے جو مسلمانوں کے باہمی معامالت میں مقرر ہیں یعنی جرائم کی‬
‫سزا دونوں کے لئے یکساں ہے۔‬
‫معاشی حقوق‪:‬‬
‫اسالمی ریاست میں غیر مسلموں کو مندرجہ ذیل معاشی حقوق حاصل ہوتے ہیں‪:‬‬
‫ب معاش‪ :‬ہر ذمی کو جائز طریقہ سے اپنی روزی کمانے کا حق ہوتا ہے‪ ،‬ہاں ناجائز ذرائع پر‬
‫‪۱‬۔ کس ِ‬
‫پابندی ہوتی ہے۔ جیسے چوری‪ ،‬جوا‪ ،‬اسمگلنگ وغیرہ۔‬
‫‪ 85 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۲‬۔ معاشی مساوات‪ :‬تمام غیر مسلموں کو دوسرے مسلمان شہریوں کی طرح روزی کمانے کا مساوی‬
‫حق ہوتاہے۔ وسائ ِل رزق پر کسی کو قبضہ کرنے کا حق نہیں ہوتا۔ ہر شخص کی وسائ ِل رزق تک‬
‫رسائی ہوتی ہے۔ جتنی کسی کی ہمت ہے اتنی روزی کماتا ہے۔‬
‫حق ملکیت‪ :‬اسالمی ریاست میں مسلمانوں کی طرح غیر مسلموں کو بھی مال و جائیداد رکھنے کا‬ ‫‪۳‬۔ ِ‬
‫پورا حق ہوتا ہے۔ حکومت کسی کی جائز ذرائع سے بنائی ہوئی جائیداد پر قبضہ نہیں کرتی۔‬
‫‪۴‬۔ مالی تحفظ‪ :‬ہر غیر مسلم کو حکومت کی طرف سے مالی تحفظ حاصل ہوتا ہے۔ حکومت اس کی‬
‫جان و مال کی حفاظت کرتی ہے۔‬

‫سیاسی حقوق‪:‬‬
‫اسالمی ریاست میں غیر مسلموں کو مندرجہ ذیل سیاسی حقوق حاصل ہوتے ہیں‪:‬‬
‫حق رائے دہی‪ :‬ہر ذمی کو یہ حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ حکومت کو اپنی رائے دے۔ وہ آزادی سے‬ ‫‪۱‬۔ ِ‬
‫اپنی رائے دے سکتا ہے اور اپنے نمائندوں کا انتخاب کرسکتا ہے۔‬
‫حق محاسبہ‪ :‬ہر ذمی کو حق حاصل ہوتا ہے کہ وہ حکمرانوں کا احتساب کرسکے۔ اس پر کوئی‬ ‫‪۲‬۔ ِ‬
‫پابندی نہیں ہوتی۔ وہ اپنی تحریروتقریر سے تعمیری تنقید کرسکتا ہے۔‬
‫حق اپیل‪ :‬ہر غیر مسلم کو حکومت سے اپیل کرنے اور فریاد کرنے کا بھی حق ہوتا ہے۔ وہ اپنے‬ ‫‪۳‬۔ ِ‬
‫مسائل اور مشکالت حکومت تک پہنچا سکتا ہے۔‬
‫‪۴‬۔ حکومت میں شرکت کا حق‪:‬سوائے چند ایک کلیدی اور مرکزی عہدے جن کا تعلق برا ِہ راست‬
‫اسالمی ریاست کی پالیسی سے ہے‪ ،‬باقی ہر طرح کی مالزمت اور حکومتی عہدوں کے دروازے غیر‬
‫مسلم شہریوں پر کھلے ہوتے ہیں۔ وہ صالحیت کی بنیاد پر کام کرنے کا حق رکھتے ہیں۔‬

‫‪1‬۔ تشخص کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬


‫‪ 86 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۰‬شان و‬ ‫‪۰‬نام‬ ‫‪۰‬شخصیت‬ ‫‪۰‬شناخت‬
‫شوکت‬
‫‪2‬۔ ارکان ” ُر ُکن“ کی جمع ہے‪ ،‬جس کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬عبادت‬ ‫‪۰‬طاقت‬ ‫‪۰‬ستون‬ ‫‪۰‬شناخت‬
‫‪3‬۔ اسالم کے بنیادی ارکان ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬چھ‬ ‫‪۰‬تین‬ ‫‪۰‬پانچ‬ ‫‪۰‬چار‬
‫‪4‬۔ سب سے پہلے یہ عبادت فرض ہوئی‪:‬‬
‫‪۰‬روزہ‬ ‫‪۰‬زکوۃ‬ ‫‪۰‬حج‬ ‫‪۰‬نماز‬
‫‪5‬۔ صلوۃ کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫ب خداوندی‬‫‪۰‬قر ِ‬ ‫‪۰‬دوا‬ ‫‪۰‬دعا‬ ‫‪۰‬عبادت‬
‫‪6‬۔ پانچ وقت کی نمازیں کب فرض ہوئیں؟‬
‫‪12۰‬ہجری‬ ‫‪2۰‬ہجری‬ ‫‪10۰‬ہجری‬
‫‪10۰‬نبوی‬
‫‪7‬۔ نماز فرض کی گئی‪:‬‬
‫‪۰‬فتح‬ ‫‪۰‬غزوہ بدر میں‬ ‫‪۰‬معراج کے موقع پر‬ ‫‪۰‬ہجرت کے موقع پر‬
‫مکہ کے وقت‬
‫‪8‬۔ مسجد کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬مرکز‬ ‫‪۰‬ہللا کا گھر‬ ‫‪۰‬عبادت گاہ‬ ‫‪۰‬سجدہ گاہ‬
‫‪9‬۔ نماز کی اقسام ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬سات‬ ‫‪۰‬پانچ‬ ‫‪۰‬تین‬ ‫‪۰‬چار‬
‫‪10‬۔ قرآن میں نماز کا ذکر اتنی مرتبہ آیا ہے‪:‬‬
‫‪100۰‬مرتبہ‬ ‫‪700۰‬مرتبہ‬ ‫‪600۰‬مرتبہ‬ ‫‪300۰‬مرتبہ‬
‫‪11‬۔ قیامت کے روز سب سے پہلے اس کا حساب ہوگا‪:‬‬
‫‪۰‬زکوۃ‬ ‫‪۰‬نماز‬ ‫‪۰‬حج‬ ‫‪۰‬روزہ‬
‫‪12‬۔ نماز اس کی سمت میں ادا کی جاتی ہے‪:‬‬
‫‪۰‬مسجد‬ ‫‪۰‬مسج ِد قبا‬ ‫‪۰‬مسج ِد اقصی‬ ‫‪۰‬مسج ِد نبوی‬
‫الحرام‬
‫‪13‬۔ عربی زبان میں روزہ کو کہا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬امساک‬ ‫‪۰‬صبر‬ ‫‪۰‬صلوۃ‬ ‫‪۰‬صوم‬
‫‪14‬۔ صوم کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬بھوکا رہنا‬ ‫‪ُ ۰‬رکنا‬ ‫‪۰‬دعا کرنا‬ ‫‪۰‬عبادت کرنا‬
‫‪15‬۔ مسلمانوں پر روزے کب فرض ہوئے؟‬
‫‪4۰‬ہجری‬ ‫‪2۰‬ہجری‬ ‫‪2۰‬نبوی‬
‫‪6۰‬ہجری‬
‫‪16‬۔ یہ خالصتاََؑ ہللا کے لئے ہے اور وہ ہی اس کی جزا دے گا‪:‬‬
‫‪۰‬ذکر‬ ‫‪۰‬روزہ‬ ‫‪۰‬جہاد‬ ‫‪۰‬خطبہ‬
‫‪17‬۔ سال میں اتنے دن روزے رکھنا منع ہے‪:‬‬
‫‪۰‬چھ‬ ‫‪۰‬پانچ‬ ‫‪۰‬تین‬ ‫‪۰‬چار‬
‫‪18‬۔ روزہ کی اقسام ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬سات‬ ‫‪۰‬پانچ‬ ‫‪۰‬تین‬ ‫‪۰‬چار‬
‫‪19‬۔ روزے کا اصل مقصد ہے‪:‬‬
‫ضبط‬
‫‪ِ ۰‬‬ ‫‪۰‬رات کو جاگنا‬ ‫‪۰‬پیاسا رہنا‬ ‫‪۰‬بھوکا رہنا‬
‫نفس‬

‫‪ 87 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪20‬۔ اسالمی سال کا نواں مہینہ ہے‪:‬‬
‫‪۰‬ذیقعد‬ ‫‪۰‬رجب‬ ‫‪۰‬رمضان‬ ‫‪۰‬جمادی االول‬
‫حضور اکرم ﷺ نے اس مہینے کو مواسات اور غمگساری کا مہینہ قرار دیا ہے‪:‬‬ ‫ِ‬ ‫‪21‬۔‬
‫‪۰‬رمضان‬ ‫‪۰‬رجب‬ ‫‪۰‬محرم‬ ‫‪۰‬صفر‬
‫‪22‬۔ رمضان میں ُکل کتنے عشرے ہوتے ہیں؟‬
‫‪۰‬دو‬ ‫‪۰‬تین‬ ‫‪۰‬پانچ‬ ‫‪۰‬چار‬
‫‪23‬۔ رمضان کے پہلے عشرے کو کہا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬جہنم کی آگ سے نجات‬ ‫‪۰‬عشرہ مغفرت‬ ‫‪۰‬عشرہ رحمت‬ ‫‪۰‬عشرہ عبادت‬
‫کا عشرہ‬
‫‪24‬۔ رمضان کے دوسرے عشرے کو کہا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬جہنم کی آگ سے نجات‬ ‫‪۰‬عشرہ مغفرت‬ ‫‪۰‬عشرہ رحمت‬ ‫‪۰‬عشرہ عبادت‬
‫کا عشرہ‬
‫‪25‬۔ رمضان کے تیسرے عشرے کو کہا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬جہنم کی آگ سے نجات‬ ‫‪۰‬عشرہ مغفرت‬ ‫‪۰‬عشرہ رحمت‬ ‫‪۰‬عشرہ عبادت‬
‫کا عشرہ‬
‫‪26‬۔ اس رات کی عبادت ہزار سال کی عبادت سے افضل ہے‪:‬‬
‫ب عید‬‫ِ‬ ‫ش‬ ‫‪۰‬‬ ‫معراج‬ ‫ب‬
‫ِ‬ ‫ش‬ ‫‪۰‬‬ ‫ب قدر‬‫‪۰‬ش ِ‬ ‫ب برأت‬ ‫‪۰‬ش ِ‬
‫‪27‬۔ تشکی ِل پاکستان اس اسالمی مہینہ میں ہوئی‪:‬‬
‫‪۰‬رمضان‬ ‫‪۰‬رجب‬ ‫‪۰‬محرم‬ ‫‪۰‬صفر‬
‫‪ 28‬۔ قرآن مجید کی اس سورت میں روزہ کی فرضیت کا حکم آیا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬آ ِل عمران‬ ‫‪۰‬البقرہ‬ ‫‪۰‬االحزاب‬ ‫‪۰‬النساء‬
‫‪29‬۔ اعتکاف کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬بھوکا رہنا‬ ‫‪۰‬ٹھرنا‬ ‫‪۰‬دعا کرنا‬ ‫‪۰‬عبادت کرنا‬
‫‪30‬۔ اعتکاف میں بیٹھنا کیا ہے؟‬
‫‪۰‬نفل‬ ‫‪۰‬سنت‬ ‫‪۰‬واجب‬ ‫‪۰‬فرض‬
‫‪31‬۔ زکوۃ کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬نجات پانا‬ ‫‪۰‬برداشت کرنا‬ ‫‪۰‬پاک کرنا‬ ‫‪۰‬بانٹنا‬
‫‪32‬۔ زکوۃ کی فرضیت کا حکم کب آیا؟‬
‫‪8۰‬ہجری‬ ‫‪7۰‬ہجری‬ ‫‪2۰‬ہجری‬
‫‪9۰‬ہجری‬
‫زکوۃ کا ذکر قرآن مجید کی اس سورت میں ہے ‪:‬‬ ‫‪33‬۔ مصارف ٰ‬
‫‪۰‬سورۃ المائدہ‬ ‫‪۰‬سورۃ النمل‬ ‫‪۰‬سورۃ البقرۃ‬ ‫‪۰‬سورۃ التوبۃ‬
‫‪34‬۔ زکوۃ کے مصارف ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬دس‬ ‫‪۰‬نو‬ ‫‪۰‬آٹھ‬ ‫‪۰‬سات‬
‫‪35‬۔ کن چیزوں پرزکوۃ نہیں دی جاتی؟‬
‫‪۰‬نقدی‬ ‫‪۰‬ذاتی استعمال کی اشیاء‬ ‫‪۰‬چاندی‬ ‫‪۰‬سونا‬
‫ث مبارکہ میں اس عبادت کو آنکھوں کی ٹھنڈک قرار دیا گیا ہے‪:‬‬ ‫‪36‬۔ احادی ِ‬
‫نماز تہجد‬
‫‪ِ ۰‬‬ ‫‪۰‬نماز‬ ‫‪۰‬زکوۃ‬ ‫‪۰‬روزہ‬
‫‪37‬۔ رکوع کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬عبادت کرنا‬ ‫‪۰‬سر جھکانا‬ ‫‪۰‬جھکنا‬ ‫‪۰‬کھڑے ہونا‬
‫نماز تراویح کی ادائیگی کیا ہے؟‬ ‫‪38‬۔ ِ‬
‫‪۰‬واجب‬ ‫‪۰‬فرض‬ ‫‪۰‬سنت‬ ‫‪۰‬نفل‬
‫نماز جمعہ فرض ہوئی‪:‬‬ ‫‪39‬۔ ِ‬
‫‪ 88 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۰‬ہجرت سے پہلے‬ ‫‪۰‬ہجرت کے دوران‬ ‫‪۰2‬ہجری‬
‫‪۰‬ہجرت کے بعد‬
‫‪40‬۔ عید کی نماز میں کتنی زائد تکبیرات کہی جاتی ہیں؟‬
‫‪۰‬تین‬ ‫‪۰‬چھ‬ ‫‪۰‬چار‬ ‫‪۰‬سات‬
‫‪41‬۔ قیامت کے دن سب سے پہلے حساب ہوگا‪:‬‬
‫‪۰‬مال کا‬ ‫‪۰‬نماز کا‬ ‫‪۰‬حقوق العباد کا‬ ‫‪۰‬حقوق ہللا کا‬
‫‪42‬۔ ُخمس کے معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬چھٹا‬ ‫‪۰‬پانچواں‬ ‫‪۰‬چوتھائی‬ ‫‪۰‬تہائی‬
‫‪43‬۔ ُخمس کون سے مال میں سے ادا کیا جاتا ہے؟‬
‫‪۰‬مویشی‬ ‫‪۰‬زرعی زمین‬ ‫‪۰‬ما ِل تجارت‬ ‫‪۰‬ما ِل غنیمت‬
‫‪44‬۔ زکوۃ میں سونے کا نصاب ہے‪:‬‬
‫‪52 1/2 ۰‬تولہ‬ ‫‪ 10۰‬تولہ‬ ‫‪7 1/2 ۰‬تولہ‬ ‫‪ 2 1/2 ۰‬تولہ‬
‫‪45‬۔ زکوۃ میں چاندی کا نصاب ہے‪:‬‬
‫‪52 1/2 ۰‬تولہ‬ ‫‪ 10۰‬تولہ‬ ‫‪7 1/2 ۰‬تولہ‬ ‫‪ 2 1/2 ۰‬تولہ‬
‫‪46‬۔ زکوۃ کی ساالنہ شرح ہے‪:‬‬
‫‪۰‬تین فیصد‬ ‫‪۰‬ڈیڑھ فیصد‬ ‫‪۰‬ڈھائی فیصد‬ ‫‪۰‬دو فیصد‬
‫‪47‬۔ حج کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬زیارت کا ارادہ کرنا‬ ‫‪۰‬جہاد کرنا‬ ‫‪۰‬سفر کرنا‬
‫‪۰‬فرض ادا کرنا‬
‫‪48‬۔ بیت ہللا کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬مرکز‬ ‫‪۰‬ہللا کا گھر‬ ‫‪۰‬عبادت گاہ‬ ‫‪۰‬مسجد‬
‫‪49‬۔ حج کس سن میں فرض ہوا؟‬
‫‪9۰‬ہجری‬ ‫‪8۰‬ہجری‬ ‫‪5۰‬ہجری‬
‫‪10۰‬ہجری‬
‫‪50‬۔ حج کے مناسک کی تعداد ہے‪:‬‬
‫‪5۰‬‬ ‫‪8۰‬‬ ‫‪9۰‬‬ ‫‪10۰‬‬
‫‪51‬۔ زندگی میں حج کتنی مرتبہ فرض ہوئی؟‬
‫‪3۰‬مرتبہ‬ ‫‪2۰‬مرتبہ‬ ‫‪1۰‬مرتبہ‬
‫‪4۰‬مرتبہ‬
‫‪52‬۔ حج کن تاریخوں میں کیا جاتا ہے؟‬
‫‪9۰‬سے‪ 13‬ذوالحجہ‬ ‫‪8۰‬سے‪ 12‬ذوالحجہ‬ ‫‪7۰‬سے‪ 11‬ذوالحجہ‬
‫‪10۰‬سے‪ 14‬ذوالحجہ‬
‫‪53‬۔ حج کا اصل دن ہے‪:‬‬
‫‪9۰‬ذوالحجہ‬ ‫‪8۰‬ذوالحجہ‬ ‫‪7۰‬ذوالحجہ‬
‫‪10۰‬ذوالحجہ‬
‫‪54‬۔ حج کی فرضیت کا ذکر قرآن مجید کی اس سورت میں ہے ‪:‬‬
‫‪۰‬سورہ آل عمران‬ ‫‪۰‬سورۃ النمل‬ ‫‪۰‬سورۃ البقرۃ‬ ‫‪۰‬سورۃ التوبۃ‬
‫‪55‬۔ حج کی کتنی اقسام ہیں؟‬
‫‪۰‬پانچ‬ ‫‪۰‬چار‬ ‫‪۰‬تین‬ ‫‪۰‬دو‬
‫‪56‬۔ حج کے لئے جو لباس پہنا جاتا ہے اسے کہتے ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬مقدس لباس‬ ‫‪۰‬کملی‬ ‫‪۰‬احرام‬ ‫‪۰‬چادریں‬
‫‪57‬۔ احرام کا مطلب ہے‪:‬‬

‫‪ 89 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۰‬حرام کرنا‬ ‫‪۰‬روکنا‬ ‫‪۰‬منع کرنا‬
‫‪۰‬چادریں پہننا‬
‫‪58‬۔ لبیک اللھم لبیک کہالتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬نعرہ لگانا‬ ‫‪۰‬تلبیہ‬ ‫‪۰‬تکبیر‬ ‫‪۰‬اذان‬
‫ارکان حج میں طواف کہالتا ہے‪:‬‬‫ِ‬ ‫‪59‬۔‬
‫‪۰‬کعبہ کے گرد‬ ‫‪۰‬قربانی کرنا‬ ‫‪۰‬کنکریاں مارنا‬ ‫‪۰‬زیارت کرنا‬
‫چکر لگانا‬
‫‪60‬۔ سعی کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬حفاظت کرنا‬ ‫‪۰‬کوشش کرنا‬ ‫‪۰‬لڑنا‬ ‫‪۰‬فروغ دینا‬
‫‪61‬۔ صفا اور مروہ کے درمیان دوڑنے کو کہتے ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬وقوف‬ ‫‪۰‬استالم‬ ‫‪۰‬سعی‬ ‫‪۰‬طواف‬
‫‪62‬۔ شیطان کو کنکریاں مارنے کا عمل کہالتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬رمی‬ ‫‪۰‬استالم‬ ‫‪۰‬سعی‬ ‫‪۰‬طواف‬
‫‪63‬۔ حاجی یہاں شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬عرفات‬ ‫‪۰‬مزدلفہ‬ ‫‪ٰ ۰‬‬
‫منی‬ ‫‪۰‬عرفات‬
‫‪64‬۔ جس مقام سے احرام باندھا جاتا ہے اس مقام کو کہتے ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬میقات‬ ‫‪۰‬صفا‬ ‫‪۰‬یثرب‬ ‫‪۰‬جمرہ‬
‫‪65‬۔ روزہ کس قسم کی عبادت ہے؟‬
‫‪۰‬نفلی‬ ‫‪۰‬تجارتی‬ ‫‪۰‬بدنی‬ ‫‪۰‬مالی‬
‫‪66‬۔ غزوہ طائف اس سن ہجری میں ہوا‪:‬‬
‫‪9۰‬ہجری‬ ‫‪6۰‬ہجری‬ ‫‪8۰‬ہجری‬
‫‪10۰‬ہجری‬
‫ت رضوان اس سن ہجری میں ہوئی‪:‬‬ ‫‪67‬۔ بیع ِ‬
‫‪9۰‬ہجری‬ ‫‪6۰‬ہجری‬ ‫‪8۰‬ہجری‬
‫‪10۰‬ہجری‬
‫‪68‬۔ حج کے دوران شیطان کو کنکریاں مارنے کے عمل کو کہا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬استالم‬ ‫‪۰‬رمی‬ ‫‪۰‬سعی‬ ‫‪۰‬طواف‬
‫‪69‬۔نبی اکرمﷺنے اس سن ھ میں حج ادا کیا۔‬
‫‪13۰‬‬ ‫‪12۰‬‬ ‫‪11 ۰‬‬ ‫‪10 ۰‬‬
‫‪70‬۔ اسے جامع العبادات کہتے ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬حج‬ ‫‪۰‬زکوۃ‬ ‫‪۰‬روزہ‬ ‫‪۰‬نماز‬
‫‪71‬۔ عبادت کی قبولیت کے لئے شرط ہے‪:‬‬
‫ب حالل‬ ‫‪۰‬کس ِ‬ ‫‪۰‬نیت‬ ‫‪۰‬دعا‬ ‫‪۰‬تقوی‬
‫‪72‬۔ صلح حدیبیہ کا معاہدہ اس سال ہوا‪:‬‬
‫‪ 4۰‬ہجری‬ ‫‪6 ۰‬ہجری‬ ‫‪2 ۰‬ہجری‬
‫‪3 ۰‬ہجری‬
‫‪73‬۔ جہاد کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬حفاظت کرنا‬ ‫‪۰‬کوشش کرنا‬ ‫‪۰‬لڑنا‬ ‫‪۰‬فروغ دینا‬
‫‪74‬۔ نفس کی اصالح اور اس کی تربیت کے لئے کوشش کہالتی ہے‪:‬‬
‫‪۰‬جہاد‬ ‫‪۰‬قطعی جہاد‬ ‫‪۰‬افضل جہاد‬ ‫‪۰‬چھوٹا جہاد‬
‫بالمال‬
‫‪75‬۔ جہا ِد اکبر اس جہاد کو کہا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬جہاد بالقلم‬ ‫‪۰‬جہاد بالنفس‬ ‫‪۰‬جہاد بالمال‬ ‫‪۰‬جہاد بالسیف‬

‫‪ 90 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪76‬۔ جہاد اس سال فرض ہوا‪:‬‬
‫‪ ۰4‬ہجری‬ ‫‪6 ۰‬ہجری‬ ‫‪2 ۰‬ہجری‬
‫‪3 ۰‬ہجری‬
‫‪77‬۔ ایسا جہاد جس میں رسو ِل اکرم ﷺ خود شریک ہوئے ہوں وہ کہالتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬لڑائی‬ ‫‪۰‬جنگ‬ ‫‪۰‬سریہ‬ ‫‪۰‬غزوہ‬
‫‪78‬۔ ایسا جہاد جس میں رسو ِل اکرم ﷺ خود شریک نہ ہوئے ہوں وہ کہالتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬لڑائی‬ ‫‪۰‬جنگ‬ ‫‪۰‬سریہ‬ ‫‪۰‬غزوہ‬
‫‪79‬۔ غزوہ بدر اس سن میں پیش آیا‪:‬‬
‫‪3۰‬ہجری‬ ‫‪2۰‬ہجری‬ ‫‪1۰‬ہجری‬
‫‪4۰‬ہجری‬
‫‪80‬۔ غزوہ احد اس سن میں پیش آیا‪:‬‬
‫‪3۰‬ہجری‬ ‫‪2۰‬ہجری‬ ‫‪1۰‬ہجری‬
‫‪4۰‬ہجری‬
‫‪81‬۔ غزوہ بدر میں اتنے مسلمان مجاہد شریک تھے‪:‬‬
‫‪1000۰‬‬ ‫‪515۰‬‬ ‫‪313۰‬‬ ‫‪616۰‬‬
‫‪82‬۔ غزوہ احزاب کا دوسرا نام ہے‪:‬‬
‫‪۰‬غزوہ خیبر‬ ‫‪۰‬غزوہ موتہ‬ ‫‪۰‬غزوہ حنین‬ ‫‪۰‬غزوہ خندق‬
‫‪83‬۔ حدیث کے مطابق شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے‪:‬‬
‫‪۰‬والدین کی‬ ‫‪۰‬منافقت‬ ‫‪۰‬نماز نہ پڑھنا‬ ‫‪۰‬زکوۃ ادا نہ کرنا‬
‫نافرمانی‬
‫‪84‬۔ حقوق العباد میں ان کا درجہ سب سے بڑا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬پڑوسی‬ ‫‪۰‬اساتذہ‬ ‫‪۰‬رشتہ دار‬ ‫‪۰‬والدین‬
‫‪85‬۔ یہ معاشرے کی بنیادی اکائی ہے‪:‬‬
‫‪۰‬گھر‬ ‫‪۰‬یونیورسٹی‬ ‫‪۰‬بازار‬ ‫‪۰‬مسجد‬
‫‪86‬۔ قرآن و حدیث کے مطابق ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬بھائی‬ ‫‪۰‬رشتہ دار‬ ‫‪۰‬ساتھی‬ ‫‪۰‬دوست‬
‫‪87‬۔ جنت کی خوشبو سے محروم رہے گا‪:‬‬
‫‪۰‬سود‬ ‫‪۰‬والدین کا نافرمان‬ ‫‪۰‬استاد کا نافرمان‬ ‫‪۰‬قاتل‬
‫خور‬
‫‪88‬۔ پڑوسی کی اقسام ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬سات‬ ‫‪۰‬پانچ‬ ‫‪۰‬تین‬ ‫‪۰‬چار‬
‫‪89‬۔ عربی زبان میں پڑوسی کو کہتے ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬قہر‬ ‫‪۰‬سہل‬ ‫‪۰‬سحر‬ ‫‪۰‬جار‬
‫‪90‬۔ ایفائے عہد کے معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬وعدہ خالفی‬ ‫‪۰‬وعدہ پورا کرنا‬ ‫‪۰‬وعدہ نہ کرنا‬ ‫‪۰‬جھوٹا وعدہ‬
‫کرنا‬
‫۔اعالن نبوت سے پہلے آپ ﷺ کو کہا جاتا تھا‪:‬‬ ‫ِ‬ ‫‪91‬‬
‫‪۰‬صادق و امین‬ ‫‪۰‬حبیب ہللا‬ ‫‪۰‬کلیم ہللا‬ ‫‪۰‬روح االمین‬
‫‪92‬۔ عدل کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬تقوی‬ ‫‪۰‬ضد نہ کرنا‬ ‫‪۰‬ظلم سے بچنا‬ ‫‪۰‬توازن قائم رکھنا‬
‫اختیار کرنا‬
‫‪93‬۔ کسب کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬

‫‪ 91 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪۰‬ترقی‬ ‫‪۰‬آرام دینا‬ ‫‪۰‬کمانا‬ ‫‪۰‬ترجیح دینا‬
‫دینا‬
‫‪94‬۔ قرآن پاک میں سود کے لئے یہ لفظ ہے‪:‬‬
‫‪۰‬الصدقۃ‬ ‫‪۰‬الربوا‬ ‫‪۰‬الفضہ‬ ‫‪۰‬الذھب‬
‫سن سلوک کہالتا ہے‪:‬‬‫ُ ِ‬ ‫ح‬ ‫سے‬ ‫داروں‬ ‫‪95‬۔ رشتہ‬
‫‪۰‬صبر‬ ‫‪۰‬صلہ رحمی‬ ‫‪۰‬قطع رحمی‬ ‫‪۰‬عدل‬
‫‪96‬۔ ایثار کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬ترقی‬ ‫‪۰‬آرام دینا‬ ‫‪۰‬کمانا‬ ‫‪۰‬ترجیح دینا‬
‫دینا‬
‫‪97‬۔ صدق کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬دریا دلی‬ ‫‪۰‬سخاوت‬ ‫‪۰‬مساوات‬
‫‪۰‬سچائی‬
‫‪98‬۔ انصار کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬صدقہ‬ ‫‪۰‬عبادت کرنے واال‬ ‫‪۰‬مدد کرنے واال‬ ‫‪۰‬قربانی دینے واال‬
‫کرنے واال‬
‫‪99‬۔ تہمت سے مراد ہے‪:‬‬
‫‪۰‬برائی‬ ‫‪۰‬غیبت کرنا‬ ‫‪۰‬جھوٹ بولنا‬ ‫‪۰‬جھوٹا الزام لگانا‬
‫کرنا‬
‫‪100‬۔ مشہور حدیث کے مطابق منافق کی نشانیاں ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬پانچ‬ ‫‪۰‬چار‬ ‫‪۰‬تین‬ ‫‪۰‬دو‬
‫‪101‬۔ تکبر کے معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬خود کو بڑا سمجھنا‬ ‫‪۰‬غلطی پر معافی نہ مانگنا‬ ‫‪۰‬سر اونچا رکھنا‬
‫‪۰‬رعب جمانا‬
‫‪102‬۔حدیث کی ُرو سے جنت میں داخل نہیں ہوگا‪:‬‬
‫‪۰‬جن‬ ‫‪۰‬قاطع تعلق‬ ‫‪۰‬تاجر‬ ‫‪۰‬فرشتہ‬

‫‪ 92 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫باب سوم‬

‫اسوہ رسو ِل اکرم‬


‫ﷺ‬
‫۔رحمۃ للعالمین‬
‫۔اخوت‬
‫۔مساوات‬
‫۔صبر و استقالل‬
‫۔عفوودرگزر‬
‫۔ذکر‬

‫سوال نمبر‪ :۱‬درج ذیل اصطالحات کی وضاحت کریں‪:‬‬

‫‪ 93 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪.4‬‬ ‫‪ .3‬مساوات‬ ‫‪ .2‬اخوت‬ ‫‪.1‬رحمۃ للعالمین‬
‫ٰ‬
‫ذکر الہی‬
‫‪ِ .6‬‬ ‫‪.5‬عفوودرگزر‬ ‫صبرواستقالل‬
‫رحمۃ للعالمین‪ :‬عالمین‪ ،‬عالم کی جمع ہے‪ ،‬جس میں ساری مخلوقات انسان‪ ،‬جن‪ ،‬حیوانات‪ ،‬نباتات‪،‬‬
‫تعالی نے حضور اکرم ﷺکو رحمۃللعالمین یعنی سارے جہانوں کے لئے‬ ‫ٰ‬ ‫جمادات سب ہی داخل ہیں۔ ہللا‬
‫رحمت بنا کر بھیجا۔‬
‫تعالی کا فرمان ہے ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫( االنبيائ ‪) 107 :‬‬ ‫َ‬ ‫ِين‬ ‫َ‬
‫ٰلم‬ ‫ّ‬
‫ً ل‬
‫ِلع‬ ‫َۃ‬ ‫َحم‬‫ِالَّ ر‬
‫ٰکَ ا‬ ‫َ‬
‫ما ارسَلن‬ ‫ََ‬‫و‬
‫" اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجاہے "۔‬
‫حضور ﷺ کی حیات طیبہ تمام انسانوں کے لئے نمونہ ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ رحمت اور محبت کا‬
‫پیکر ہیں اور تمام عمر مخلوق خدا سے لطف وکرم کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں ۔‬
‫‪ .2‬اخوت‪:‬اخوت کا لفظ "ا َ ٌخ " سے مشتق ہے جس کے معنی "بھائی چارہ ‪ ،‬بھائی بندی"کے ہیں۔جس‬
‫میں حقیقی بھائی کے عالوہ ہم قوم اور ہم مذہب بھی شامل ہیں ۔‬
‫دائرہ اسالم میں داخل ہونے والے مختلف اقوام اور قبائل کے لوگ سب آپس میں بھائی بھائی ہیں‬
‫لی نے‬ ‫۔ اخوت سے مراد اسالمی اخوت ہے ۔ اسالمی اخوت وبھائی چارہ کی تعلیم دیتے ہوئے ہللا تعا ٰ‬
‫فرمایا ‪:‬‬
‫( سورة الحجرات ‪)10:‬‬ ‫ٌ‬
‫َة‬ ‫ِخو‬ ‫َ‬
‫ِنو ن ا‬ ‫ُ‬ ‫ُو م‬ ‫َا الم‬ ‫ِنم‬‫َّ‬ ‫ا‬
‫" بے شک مومن تو ایک دوسرے کے بھائی ہیں"‬
‫اسالم سے قبل عرب معاشرے میں فتنہ و فساد اور جنگ و جدل معمول کی بات تھی اوراسکے‬
‫نتیجے میں دشمنیاں نسل در نسل چلتی رہتی تھیں اور ختم ہونے کا نام ہی نہ لیتی تھیں۔اسالم آ نے کے‬
‫بعد ان کے سیرت و کردار میں ایسی انقالبی تبدیلی آ گئی کہ خون کے پیاسے بھائی بھائی بن گئے۔ اس‬
‫کا ذ کر قرآ ن کریم میں اس طرح کیا گیا ہے۔‬
‫ُم ۔۔۔۔۔ الخ ۔ ( آل عمران ‪) 103 :‬‬ ‫َيک‬‫َل‬ ‫َ للااِ ع‬‫َت‬‫ِعم‬‫ُوا ن‬ ‫ُر‬‫َاذک‬ ‫و‬
‫"ہللا تعالی کے اس انعام کو یاد کرو جو اس نے تم پر کیا کہ تم آ پس میں ایک دوسرے کے دشمن تھے‪،‬‬
‫تو اس نے تمہارے دلوں کو آ پس میں جوڑ دیا اور تم اسکی نعمت کی وجہ سے بھائی بھائی بن گئے"۔‬
‫ایک حدیث میں ہللا کے رسولﷺ نے فرمایا ‪:‬‬
‫ََ‬
‫د‬ ‫َج‬‫ِنہ و‬ ‫ً‬ ‫َ‬
‫ٰ ش يئا م‬ ‫َکی‬ ‫ِنِ اشت‬ ‫ِ ا‬‫َاحِد‬ ‫ِ الو‬‫َسَد‬ ‫َالج‬ ‫ِنِ ک‬ ‫ْٔم‬‫ُو‬‫ُوالم‬ ‫َخ‬‫ُ ا‬‫ِن‬ ‫ُو‬
‫ْٔم‬ ‫َلم‬ ‫ا‬
‫ِه ( مسلم ‪ ،‬ترمذی )‬ ‫َسَد‬
‫ِ ج‬ ‫ِی سَآ ئ‬
‫ِر‬ ‫ِکَ ف‬ ‫ٰل‬‫اَلم ذ‬ ‫َ‬
‫" ہر مومن دوسرے مومن کا بھائی ہے۔ جیسے ایک جسم۔اگر اسکے جسم کا کوئی حصہ بھی تکلیف میں‬
‫مبتال ہو تو وہ اپنے سارے جسم میں تکلیف محسوس کرے گا"۔‬
‫‪ .3‬مساوات‪ :‬مساوات کے لفظی معنی ”برابری“ کے ہیں۔مساوات اسالمی معاشرے کی بنیاد ہے۔ یہ‬
‫صرف اسالم ہی کا طرہ امتیاز ہے کہ اسالم اونچ نیچ اور ذات پات کے امتیازات سے پاک و صاف ہے۔‬
‫حضور ﷺ نے اپنے قول و عمل سے مساوات کی بہترین تعلیم دی اور یہ درس دیا کہ امیر و غریب‪،‬‬
‫حاکم و محکوم‪ ،‬آقا و غالم سب برابر ہیں۔‬
‫مسج ِد قبا اور مسج ِد نبوی ﷺ کی تعمیر میں آپ ﷺ نے صحابہ کرام کے ساتھ مل کر کام کیا۔‬
‫غزوہ احزاب کے موقع پر اپنے ہاتھوں سے پتھر توڑے اور خندق کھودی اور کسی بھی موقع پر اپنے‬
‫آپ کو دوسروں سے برتر نہ سمجھا۔ اس برتاؤ سے امت کو یہ تعلیم دینا مقصود تھا کہ امیر و غریب‪،‬‬
‫حاکم و محکوم‪ ،‬آقا و غالم سب برابر ہیں۔‬
‫‪ 94 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫خطبہ حجۃ الوداع کے موقع پر حضور ﷺ نے پوری دنیا کے انسانوں کو مساوات کا درس دیتے‬
‫ہوئے فرمایا‪:‬‬
‫” کوئی فضیلت نہیں عربی کو عجمی پر‪ ،‬نہ عجمی کو عربی پر‪ ،‬نہ گورے کو کالے پر‪ ،‬نہ کالے کو‬
‫گورے پر‪ ،‬سوائے تقوی کے (کہ اس سے فضیلت حاصل ہوسکتی ہے)۔“‬
‫‪ .4‬صبر و استقالل‪:‬صبر کے لغوی معنی روکنے اور برداشت کرنے کے ہیں اور استقالل کے لغوی‬
‫معنی مضبوطی اور استحکام کے ہیں۔ یعنی خوف اور گھبراہٹ سے اپنے آپ کو روکنا اومصائب کو‬
‫برداشت کرنا۔ اسالمی نقطہ نظر سے صبر و استقالل یہ ہے کہ ہللا تعالی کی رضا کے لئے احکاماتِ‬
‫الہی کا پابند رہنا اور اس سلسلے میں نفسانی ناخوشگواری کو تحمل سے برداشت کرلینا۔ یعنی اپنے آپ‬
‫کو را ِہ راست پر قائم و دائم رکھنا اور ثابت قدمی سے کام لینا۔‬
‫ہللا تعالی نے مصیبت اور پریشانی کے وقت اپنے بندوں کو صبر و رضا کی تاکید کی ہے اور‬
‫صبر کرنے والوں کو اپنی نصرت کا یقین دالیا ہے۔‬
‫صبر کے حوالے سے قرآن پاک میں ذکر ہے‪:‬‬
‫ترجمہ‪” :‬بے شک ہللا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔“(سورۃ البقرہ‪)۱ ۵ ۳ :‬‬
‫آپ ﷺ کی حیات طیبہ سے صبر واستقالل کی مثالیں ‪:‬‬
‫آپ کو طرح طرح کی اذیتیں دیں ۔ آ ؐپ کو‬ ‫جب حضرت محمد ﷺ نے نبوت کا اعالن فرمایا تو کفار نے ؐ‬
‫آپ کا مذاق اڑایا۔ کسی نے (معاذ ہللا ) جادوگر کہا اور کسی نے کاہن ‪ ،‬مگر آ ؐپ نے صبر‬ ‫جھٹالیا ۔ ؐ‬
‫واستقالل کا دامن ہاتھ سے نہ چھوڑا اور دین کی تبلیغ سے منہ نہ موڑا ۔‬
‫آپ خانہ کعبہ کے نزدیک نماز پڑھ رہے تھے ۔ حرم شریف میں اس وقت کفار کی ایک جماعت‬ ‫ایک دن ؐ‬
‫آپ‬
‫موجود تھی ۔ عقبہ بن ابی معیط نے ابو جہل کے اکسانے پر اونٹ کی اوجھڑی سجدہ کی حالت میں ؐ‬
‫آپ کی‬ ‫کی پشت مبارک پر ڈال دی ۔ اور مشرکین زور زور سے قہقہے لگانے لگے ۔ کسی نے ؐ‬
‫آپ کی‬‫صاحبزادی حضرت فاطمہ کو اس وقعہ کی اطالع دی ۔ وہ فورا دوڑی ہوئی آئیں اور غالظت ؐ‬
‫پشت سے دور کی اور کافروں کو بد دعا دی ۔ اس پر حضرت محمد ﷺ نے فرمایا ۔ " بیٹی صبر سے کام‬
‫تعالی انھیں ہدایت دے یہ نہیں جانتے کہ ان کی بہتری کس چیز میں ہے " ۔‬ ‫ٰ‬ ‫لو۔ ہللا‬
‫‪ .5‬عفوودرگزر‪ :‬عفو عربی زبان کا لفظ ہے جس کے معنی معاف کرنا‪ ،‬بخش دینا‪ ،‬درگزر کرنا‪ ،‬بدلہ نہ‬
‫اصطالح شریعت میں عفو سے مرادہے کسی کی زیادتی و برائی پر‬ ‫ِ‬ ‫لینا اور گناہ پر پردہ ڈالنے کے ہیں۔‬
‫ت ظرفی کا ثبوت دیتے‬ ‫انتقام کی قدرت و طاقت کے باوجود انتقام نہ لینا اور معاف کردیناہے‪ ،‬یعنی وسع ِ‬
‫ہوئے اپنے کسی مجرم کو دل کی گہرائیوں سے معاف کردینا اور بدلہ لینے کی قوت ہونے کے باوجود‬
‫بدلہ نہ لینا عفوودرگزر کہالتا ہے۔ عفوودرگزر ایک بہترین اخالقی وصف ہے۔ اس سے دشمن دوست بن‬
‫جاتے ہیں اور دوستوں میں محبت بڑھ جاتی ہے۔ ہللا تعالی نے قرآن مجید میں مؤمنین کی جو صفات‬
‫بیان فرمائی ہیں ان میں عفوودرگزر کو بھی شامل کیا ہے۔ چنانچہ ارشا ِد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫َنِ الناس‬ ‫َ ع‬‫ِين‬ ‫َاف‬ ‫َالع‬ ‫َ و‬ ‫َيظ‬ ‫َ الغ‬ ‫ِين‬ ‫ِم‬‫َاظ‬ ‫َالک‬
‫و‬
‫ترجمہ‪ ” :‬اور وہ (مؤمنین) غصہ پی جانے والے اور لوگوں سے درگزر کرنے والے ہیں۔“ (آ ِل عمران‪:‬‬
‫‪)۱ ۳ ۴‬‬
‫معنی ہیں "کسی کو یاد کرنا " ۔‬ ‫ٰ‬ ‫‪ .6‬ذکر ‪ :‬ذکر کے لغوی‬
‫تعالی کو یاد کرنا ہے ۔‬ ‫ٰ‬ ‫دین کی اصطالح میں اس سے مراد ہللا‬
‫قرآن مجید میں بار بار ہللا کو یاد کرنے اور یا رکھنے کا حکم آیا ہے ۔‬

‫‪ 95 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫( االحزاب‬ ‫"‬ ‫ًا‬‫ِير‬ ‫َث‬ ‫ًا ک‬ ‫ِکر‬ ‫ُوا للااَ ذ‬ ‫ُر‬‫ُوا اذک‬ ‫من‬ ‫َٰ‬
‫َ ا‬‫ِين‬ ‫َا َّ‬
‫الذ‬ ‫يه‬‫َُّ‬
‫يا‬‫" َ‬
‫‪) 41 :‬‬
‫" اے ایمان والو ! تم ہللا کو بہت زیادہ یاد کرو "۔‬
‫تعالی نے فرمایا ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫مؤمنین کے بارے میں ہللا‬
‫( النور‬ ‫ِ للااِ "‬ ‫ِکر‬ ‫َ‬ ‫ٌ‬ ‫َ‬
‫َارة وال بيع عن ذ‬ ‫َ‬ ‫َّ‬ ‫ٌ‬‫َ‬ ‫ِج‬ ‫ِم ت‬ ‫ِيه‬ ‫تله‬ ‫ٌ الَّ ُ‬
‫َال‬‫َج‬‫" ر‬
‫‪) 37 :‬‬
‫" وہ ایسے مرد ہیں جن کو نہ تجارت ہللا کی یاد سے غافل کرتی ہے اور نہ خریدوفروخت " ۔‬
‫تعالی ہے ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ہللا کے ذکر سے ہی انسان کو قلبی سکون واطمینا ن مل سکتا ہے جیساکہ ارشاد باری‬
‫( الرعد ‪) 28 :‬‬ ‫ُ "‬‫ُوب‬ ‫ُل‬ ‫ُّ الق‬ ‫ِن‬‫َئ‬ ‫ِ للااِ َ‬
‫تطم‬ ‫ِکر‬ ‫َالَ ب‬
‫ِذ‬ ‫" ا‬
‫" معلوم رہے ہللا کے ذکر ہی سے دل کو سکون ملتا ہے "۔‬
‫تعالی کی طرف متوجہ ہوجاتا ہے‬ ‫ٰ‬ ‫سب سے بہتر ذکر ِ الہٰ ی نماز ہے ۔ اس میں ‪ ،‬زبان اور پورا جسم ہللا‬
‫اس لیے آپ ﷺ بکثرت نماز پڑھا کرتےتھے ۔‬
‫نبی اکرم ﷺ نے فرمایا ہے کہ بہترین ذکر َال ا ِٰل َہ اِالا ہللا ہے۔ ذکر کے اور بھی بہت مسنون طریقے ہیں‬
‫جو کہ احادیث کی کتابوں میں تفصیل سے مذکور ہیں ۔ نماز کے بعد ‪ 33‬بار سبحان ہللا ‪ 33،‬بار الحمد ہلل‬
‫اور ‪ 34‬بار ہللا اکبر کہنا بھی ذکر مسنون ہے ۔‬
‫ذکر کی اقسام ‪ :‬ذکر کی تین اقسام ہیں جو کہ مندرجہ ذیل ہیں ‪:‬‬
‫(‪ )1‬ذکر باللسان ‪ :‬اس مراد زبان سے ہللا کو یاد کرنا ۔‬
‫تعالی کا ذکر دل سے کرنا ۔‬ ‫ٰ‬ ‫(‪ )2‬ذکر بالقلب ‪ :‬اس مراد ہللا‬
‫(‪ )3‬ذکر باالعمال‪ :‬اس ذکر میں تمام جانی و مالی عبادات شامل ہیں۔‬

‫سوال نمبر‪:2‬رسو ِل پاک ﷺ کے ساتھ اہ ِل طائف نے کیسا سلوک کیا؟‬


‫اہ ِل طائف کا رویہ‪:‬مکہ مکرمہ میں کفار و مشرکین نے جب دعو ِ‬
‫ت حق کو قبول نہیں کیا بلکہ وہ دین‬
‫کی مخالفت میں کمر بستہ ہوگئے تو آپ ﷺ نے نبوت کے دسویں سال اسالم کی دعوت دینے کے لئے‬
‫حضرت زید بن حارثہ کے ساتھ طائف کا سفر کیا۔عبدیالیل‪ ،‬مسعود اور حبیب ان تینوں بھائیوں پر جو‬
‫وہاں کے سرداروں میں سے تھے اسالم پیش کیا۔ بجائے اس کے کہ کلمہ حق کو سنتے نہایت بدتمیزی‬
‫سے جواب دیا اور بازاری لڑکوں کو کہا کہ وہ آپ ﷺ پر پتھر برسائیں۔ انہوں نے اس قدر پتھر برسائے‬
‫کہ آپ ﷺ زخمی ہوگئے۔ جب آپ زخموں کی تکلیف سے بیٹھ جاتے تو یہ بدنصیب آپ کے بازوپکڑ کر‬
‫دوبارہ پتھر برسانے کے لئے کھڑا کردیتے۔‬

‫سوال نمبر‪:3‬آپ ﷺ نے اہ ِل طائف کے لئے کیا دعا فرمائی؟‬


‫حضور اکرم ﷺ اہل طائف کا ظلم سہتے ہوئے ایک باغ میں پہنچے۔ باغ کے‬
‫ِ‬ ‫اہ ِل طائف کے لئے دعا‪:‬‬
‫مالک نے آپ ﷺ کو پناہ دی۔ وہاں ہللا کے حکم سے حضرت جبرائیل ؑ پہاڑوں کے فرشتے کو لے کر‬
‫حاضر ہوئے اور عرض کیا کہ‪:‬‬
‫”اے ہللا کے رسول! اگر آپ فرمائیں تو میں وادئ طائف کے دونوں پہاڑوں کو مالدوں کہ ان کے بیچ‬
‫میں ان کو پیس کر صفحہ ہستی سے مٹادوں۔“‬

‫‪ 96 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫رسو ِل کریم ﷺ تو پوری کائنات کے لئے ہللا کی رحمت ہیں۔ امت کو تکلیف میں ڈالنا آپ‬
‫بان‬
‫ت رحمت بلند کئے اور ز ِ‬ ‫ت عالم ﷺ نے بارگا ِہ ٰالہی میں اپنے دس ِ‬
‫ﷺ کو کہاں گوارا تھا۔ چنانچہ رحم ِ‬
‫مبارک سے وہ دعائیہ ک لمات ادا فرمائے جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫ترجمہ‪ ” :‬اے ہللا! میری قوم کو ہدایت دے۔بیشک یہ نہیں جانتے کہ یہ کیا کررہے ہیں۔“‬

‫سوال نمبر ‪ :4‬قبیلہ دوس کے لئے آپ ﷺ نے کیا دعا فرمائی ؟‬


‫قبیلہ دوس کے لئے دعا‪:‬قبیلہ دوس کے لئے آپ ﷺ نے یہ دعا ارشاد فرمائی ‪-:‬‬
‫ِم‬
‫ِه‬‫َائتِ ب‬ ‫دوسًا و‬ ‫ِ َ‬‫َّ اھد‬ ‫َ ّٰ‬
‫للُ‬
‫هم‬ ‫ا‬
‫"اے ہللا ۔ قبیلہ دوس کو ہدایت دے اور ان کو دائرہ اسالم میں ال "‬

‫ذکر ٰالہی کی کتنی اقسام ہیں؟‬


‫سوال نمبر ‪ِ :5‬‬
‫ذکر ٰالہی کی اقسام‪ِ :‬‬
‫ذکر ٰالہی کی تین قسمیں ہیں‪:‬‬ ‫ِ‬
‫‪1‬۔ ذکر باللسان‪ :‬اس میں زبان کے ذریعہ ہللا کا ذکر‪ ،‬حمد و ثنا اور اس کی نعمتوں کا بار بار اعتراف کیا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫‪2‬۔ ذکر بالقلب‪ :‬اس میں انسان اپنے دل کی گہرائیوں سے ہللا کا ذکر‪ ،‬حمد و ثنا اور اس کی نعمتوں کا‬
‫بار بار اعتراف کرتا ہے۔‬
‫اس میں جانی و مالی عبادات کے ذریعہ ہللا تعالی کا ذکر کیا جاتا ہے۔ ہللا تعالی‬ ‫‪3‬۔ ذکر باالعمال‪:‬‬
‫کا شکر ادا کیا جاتا ہے۔ اس میں تمام جسمانی و مالی عبادات شامل ہیں۔‬

‫سوال نمبر‪ :6‬عشرہ مبشرہ سے کیا مراد ہے؟‬


‫عشرہ مبشرہ‪ :‬حضرت محمد ﷺ کے وہ دس صحابہ ہیں جنہیں زندگی میں ہی جنت کی بشارت دے‬
‫دی گئی۔ ان کے نام یہ ہیں‪:‬‬
‫‪۲‬۔ حضرت عمر فاروق۔‬ ‫‪۱‬۔حضرت ابو بکر صدیق۔‬
‫‪۴‬۔ حضرت علی۔‬ ‫‪۳‬۔ حضرت عثمان غنی۔‬
‫‪۶‬۔ حضرت زبیر بن عوام۔‬ ‫‪۵‬۔ حضرت طلحہ۔‬
‫‪۸‬۔ حضرت سعد بن ابی وقاص۔‬ ‫‪۷‬۔ حضرت عبدالرحمن بن عوف۔‬
‫‪۱۰‬۔ حضرت ابو عبیدہ بن جراح رضوان ہللا‬ ‫‪۹‬۔ حضرت سعید بن زید۔‬
‫تعالی علیھم اجمعین۔‬

‫سوال نمبر‪:7‬منافق کی تعریف اور اس کی اقسام تحریر کریں۔‬


‫منافق‪ :‬منافق عربی زبان کا لفظ ہے جس کے لغوی معنی ہیں وہ شخص جو دورنگی‪ُ ،‬‬
‫دورخی اور‬
‫دوغلی پالیسی یا طرز عمل اختیار کرے یعنی منافق وہ شخص ہے جس کا ظاہر الگ اور باطن الگ ہو۔‬
‫شریعت کی اصطالح میں منافق سے مراد وہ شخص ہے جو بظاہر مومن اور درحقیقت کافر ہو۔‬
‫منافق کفر کو چھپاتا ہے اور ایمان کو ظاہر کرتا ہے تاکہ لوگ اسے ایماندار سمجھیں حاالنکہ منافق کا‬
‫دل ہللا کی وحدانیت‪ ،‬انبیاء کی رسالت اور آخرت وغیرہ کے یقین سے یکسر خالی ہوتا ہے۔‬
‫قرآن حکیم میں ہللا تعالی جہنم کو منافقین کا ٹھکانہ قرار دیتے ہیں۔ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬

‫‪ 97 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫ّار۔‬‫َ الن‬ ‫ِن‬‫ِ م‬‫َل‬‫درکِ االسف‬ ‫ِی الّ‬ ‫َ ف‬ ‫ِين‬ ‫ِق‬‫ٰف‬ ‫َّ الم‬
‫ُن‬ ‫ِن‬‫ا‬
‫”منافق تو یقینا جہنم کے سب سے نیچے کے طبقے میں جائیں گے“(النساء‪)۱۴ ۵ :‬‬
‫منافق کی اقسام‪:‬منافق کی دو قسمیں ہیں‪:‬‬
‫‪۲‬۔ عملی منافق۔‬ ‫‪۱‬۔اعتقادی منافق۔‬
‫اعتقادی منافق‪:‬اعتقادی منافق وہ شخص ہے جو د ُو رخا‪ ،‬دورنگا اور دوغال ہو۔‬
‫شریعت کی اصطالح میں اعتقادی منافق وہ ہے جو دل سے اسالم کی صداقت کا قائل نہیں ہوتا‬
‫بلکہ کسی مصلحت‪ ،‬خوف‪ ،‬اللچ یا مفاد کی وجہ سے اسالم کا لبادہ اوڑھ کر مسلمانوں کو دھوکہ دیتا‬
‫ہے۔ اعتقادی م نافق مومن نہیں ہوتا۔ یہ منافق اسالم‪ ،‬قرآن‪ ،‬حدیث اور پیغمبر ﷺ کے بارے میں شکوک و‬
‫شبہات پیدا کرکے مسلمانوں کو باہم دست و گریباں کرنا چاہتا ہے۔ اعتقادی منافق کی نجات ناممکن ہے۔‬
‫قرآن و سنت کے مطابق یہ دوزخ کے سب سے نچلے درجہ میں ہوگا۔ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ّار۔‬‫َ الن‬ ‫ِن‬‫ِ م‬‫َل‬‫درکِ االسف‬ ‫ِی الّ‬ ‫َ ف‬ ‫ِين‬ ‫ِق‬‫ٰف‬ ‫َّ الم‬
‫ُن‬ ‫ِن‬‫ا‬
‫”منافق تو یقینا جہنم کے سب سے نیچے کے طبقے میں جایئیں گے“(النساء‪)۱۴ ۵ :‬‬
‫عملی منافق‪ :‬عملی منافق وہ شخص ہے جو عمل میں دورنگا اور دورخا ہو یعنی ایسا شخص عقیدہ میں‬
‫سچا اور عمل میں نہایت کمزور ہوتا ہے۔‬
‫شریعت کی اصطالح میں عملی منافق وہ ہے جو دل سے اسالم کی صداقت و حقانیت کا قائل‬
‫ہوتا ہے لیکن خراب ماحول‪ ،‬بری صحبت اور تعلیم و تربیت کی کمی کی وجہ سے عملی احکام میں‬
‫کوتاہی کرتا ہے۔ عملی منافق مسلمان اور صاحب ایمان ہوتا ہے لیکن عمل میں کمزور ہوتا ہے۔ اسے‬
‫اصالح و تربیت کی ضرورت ہوتی ہے جو کسی نیک متقی معلم و مربی کے فیضان صحبت سے اسے‬
‫حاصل ہوسکتی ہے۔ عملی منافق کی نجات ممکن ہے۔ اگر وہ اسالم کے عملی احکام پر پوری طرح‬
‫کاربند ہوجائے تو جنت میں داخل ہوگا۔‬

‫سوال نمبر‪ :8‬درج ذیل کے درمیان فرق تحریر کریں۔‬


‫‪ .2‬عدل اور احسان‬ ‫ق رذیلہ‬
‫ق فاضلہ اور اخال ِ‬
‫‪.1‬اخال ِ‬
‫‪ .4‬غیبت اور اتہام‬ ‫‪ .3‬حسد اور رشک‬
‫اخالق رذیلہ‬
‫ِ‬ ‫اخالق فاضلہ‬
‫ِ‬
‫وہ تمام اخالق جن کو اختیار کرکے ایک انسان‬ ‫‪ )1‬ایسے تمام اخالق جن کو اختیار کرکے ایک‬
‫اپنے رویہ اور کردار کے لحاظ سے حیوانی‬ ‫انسان دنیا میں بھی اعلی اوصاف کا مالک بن‬
‫درجہ میں جاگرتا ہے اور دنیا میں بھی رسوا‬ ‫جاتا ہے اور آخرت میں بھی کامیابی اور فالح‬
‫ہوتا ہے اور آخرت میں بھی ہللا تعالی کی‬ ‫ق فاضلہ" کہالتے ہیں۔‬
‫حاصل کرتا ہے "اخال ِ‬
‫ق رذیلہ"‬
‫رحمت سے محروم ہوجاتا ہے‪" ،‬اخال ِ‬
‫کہالتے ہیں۔‬
‫ق رذیلہ کا تعلق ایک انسان کے کردار کی‬ ‫اخال ِ‬
‫ق فاضلہ کا تعلق ایک انسان کے کردار‬
‫‪ )2‬اخال ِ‬
‫پستی اور شرانگیزخصائل سے ہوتا ہے اور یہ‬ ‫کی بلندی اور اعلی اوصاف سے ہوتا ہے اور‬
‫طرز عمل کو بگاڑتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫انسان کے سماجی‬‫طرز عمل کو نکھارتے‬
‫ِ‬ ‫یہ انسان کے سماجی‬
‫ہیں۔‬
‫ق رذیلہ ایک فرد کی ظاہری شخصیت کو‬ ‫ق فاضلہ ایک شخص کی ظاہری شخصیت اخال ِ‬ ‫‪ )3‬اخال ِ‬
‫کو سنوارتے ہیں اور اس کے باطن کو نکھار داغ دار بنادیتے ہیں اور اس کے باطن کو بھی‬

‫‪ 98 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫آلودہ کردیتے ہیں۔‬ ‫دیتے ہیں۔‬
‫ق رذیلہ‬
‫ایک معاشرہ میں شامل افراد کے اخال ِ‬ ‫‪ )4‬ایک معاشرہ میں شامل افراد کے اخالق فاضلہ‬
‫اس معاشرہ میں بدامنی اور انتشار اور جرائم‬ ‫اس معاشرہ میں امن و سکون پیدا کرنے کے‬
‫پھیالنے کے ذمہ دار ہوتے ہیں۔‬ ‫ذمہ دار ہوتے ہیں۔‬
‫جھوٹ‪ ،‬غیبت‪ ،‬تہمت‪ ،‬منافقت‪ ،‬تکبر‪ ،‬حسد‬ ‫‪ )5‬دیانت داری‪ ،‬ایفائے عہد‪ ،‬سچائی‪ ،‬عدل و‬
‫ق رذیلہ میں کیا جاتا ہے۔‬
‫وغیرہ کا شمار اخال ِ‬ ‫ق فاضلہ‬
‫احترام قانون وغیرہ کو اخال ِ‬
‫ِ‬ ‫انصاف‪،‬‬
‫میں شمار کیا جاتا ہے۔‬

‫احسان‬ ‫عدل‬
‫کسی کام میں اس کی اصل مقدار سے زیادہ‬ ‫چیزوں کو اُن کے صحیح مقام پر رکھنا اور‬ ‫‪)1‬‬
‫تجاوز یا کسی فرد کو اس کے حق سے زیادہ‬ ‫برابری یا مساوات کا رویہ اختیار کرنا "عدل"‬
‫عطا کرنے کا نام احسان ہے۔‬ ‫کہالتا ہے۔‬
‫احسان کا رویہ اختیار کرنے سے معاشرتی‬ ‫عدل اختیار کرنے سے زندگی کے معامالت میں‬ ‫‪)2‬‬
‫تعلقات میں بہتری آتی ہے۔‬ ‫توازن پیدا ہوتا ہے۔‬
‫احسان کی روش اختیار کرنے سے نیکی کے‬ ‫عدل و انصاف زندگی کے تمام معامالت میں‬ ‫‪)3‬‬
‫درجات بلند ہوتے ہیں۔‬ ‫اختیار کرنا فرض ہے۔‬
‫احسان کی روش اختیار کرنے سے انسان کے‬ ‫عدل و انصاف مظلوموں کا حق فراہم کرنے اور‬ ‫‪)4‬‬
‫اخالق سنورتے ہیں اور اس کے اعلی اوصاف‬ ‫معاشرہ کے قیام کے لئے بے حد ضروری ہے۔‬
‫بہتر ہوتے ہیں۔‬
‫احسان کا رویہ اپنانے سے فرد کے ذاتی‬ ‫‪ )5‬عدل و انصاف اختیار کرنے سے معاشرہ منظم‬
‫اوصاف میں نکھار آجاتا ہے۔‬ ‫ہوتا ہے۔‬

‫رشک‬ ‫حسد‬
‫کسی فرد کی کامیابی‪ ،‬مقام‪ ،‬رتبہ یا قابلیت کو‬ ‫‪ )1‬کسی فرد کی کامیابی‪ ،‬مقام اور رتبہ یا قابلیت کو‬
‫دیکھ کر خوشی محسوس کرنا اور ہللا تعالی سے‬ ‫دیکھ کرجلنے کڑھنے اور رقابت محسوس‬
‫ویسا ہی رتبہ حاصل کرنے کے لئے دعا کرنا‬ ‫کرنے کا عمل یا جذبہ "حسد" کہالتا ہے۔‬
‫"رشک" کہالتا ہے۔‬
‫رشک ایک مثبت جذبہ ہے جو ایک فرد کو کسی‬ ‫‪ )2‬حسد ایک نفسیاتی کیفیت ہے جو خارجی اور‬
‫دوسرے فرد سے تقابل پر کوشش اور محنت‬ ‫داخلی انتشار میں ایک فرد کو مبتال کردیتی ہے۔‬
‫کرنے کی طرف مائل کرتا ہے۔‬
‫رشک کا جذبہ اختیار کرنے واال شخص خوش‬ ‫‪ )3‬ایک حسد رکھنے والے فرد کی گفتگومیں نرمی‬
‫اخالق اور نرم مزاج ہوتا ہے اور وہ خوش‬ ‫اور خوش اخالقی باقی نہیں رہتی۔‬
‫اخالقی سے گفتگو کرتا ہے۔‬
‫احساس کمتری کے‬‫ِ‬ ‫رشک کرنے واال شخص‬ ‫‪ )4‬حسد کرنے والے شخص کے دل و دماغ پر‬
‫احساس میں کبھی مبتال نہیں ہوتا بلکہ دوسروں‬ ‫احساس کمتری غالب آجاتی ہے اور وہ خود کو‬
‫ِ‬
‫کی کامیابی پر خوش ہوتا ہے اور اپنی بہتری‬ ‫دوسروں سے کم تر محسوس کرکے مایوسی کی‬
‫کے حصول کے لئے ہللا تعالی سے رجوع کرتا‬ ‫کیفیت میں مبتال ہوجاتا ہے۔‬
‫ہے۔‬
‫رشک کرنے والے شخص کی سوچ ہمیشہ‬ ‫‪ )5‬ایک حسد کرنے والے فرد کی تعمیری سوچ‬
‫‪ 99 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫معدوم ہوجاتی ہے اور وہ خود اپنے آپ کو تعمیری رہتی ہے۔ اس لئے وہ عمل کی راہ‬
‫اختیار کرتا ہے اور کوشش کے ذریعے اپنے‬ ‫تکلیف میں مبتال کرلیتا ہے۔‬
‫حاالت بدلنے کی راہ اختیار کرتا ہے۔‬

‫اتہام(تہمت)‬ ‫غیبت‬
‫کسی شخص کی موجودگی یا غیر موجودگی میں‬ ‫‪ )1‬کسی شخص کی غیر موجودگی میں اُس کی‬
‫اُس پر الزام تراشی کرنا یعنی اُس کے کردار کی‬ ‫کردارکشی کرنا اور اس کی برائیاں بیان کرنا‬
‫ایسی خرابیاں بیان کرنا جو اُس میں نہ پائی‬ ‫جو درحقیقت اُس میں پائی جاتی ہو "غیبت"‬
‫جاتی ہوں "اتہام" کہالتا ہے۔‬ ‫کہالتا ہے۔‬
‫اتہام کسی شخص کی موجودگی اور غیر‬ ‫‪ )2‬غیبت ہمیشہ کسی کی پیٹھ پیچھے اُس کا مذاق‬
‫موجودگی دونوں صورتوں میں لگایا جاسکتا ہے‬ ‫اڑانے اور اس کے کردار کی خامیوں اور‬
‫۔اس کا بنیادی مقصد کسی کی رسوائی‪ ،‬بدنامی‬ ‫خرابیوں کو سامنے النے کے لئے کی جاتی‬
‫اور ذلت ہوتی ہے۔‬ ‫ہے۔‬
‫دین اسالم میں سختی سے ممانعت‬ ‫ِ‬ ‫اتہام کی‬ ‫دین اسالم میں ممانعت ہے اور قرآن‬
‫‪ )3‬غیبت کی ِ‬
‫ہےاور اس کی تحقیق کے بعد تہمت لگانے‬ ‫پاک میں غیبت کرنے والے کے عمل کو مردہ‬
‫والے فرد پر تعذیر یعنی سخت سزا کا حکم دیا‬ ‫بھائی کے گوشت کھانے کے عمل کے مساوی‬
‫گیا ہے۔ اس میں معافی اور گرمانہ دونوں شامل‬ ‫قرار دیا گیا ہے۔‬
‫ہوسکتے ہیں۔‬
‫اتہام مکمل طور پر جھوٹ پر مبنی ہوتا ہے اور‬ ‫‪ )4‬غیبت میں بعض اوقات سچائی پائی جاتی ہے‬
‫اس میں ذرا بھی سچائی نہیں پائی جاتی کیونکہ‬ ‫لیکن اگر اس میں سچائی بھی پائی جاتی ہو تو‬
‫یہ صرف کسی فرد یا افراد کو رسوا اور بدنام‬ ‫دین اسالم میں اس سے بچنے کی تلقین کی‬
‫بھی ِ‬
‫کرنے کے لئے لگایا جاتا ہے۔‬ ‫گئی ہے۔‬
‫ت اسالمی میں اتہام کو کسی بھی صورت‬ ‫شریع ِ‬ ‫‪ )5‬غیبت کرنا بعض صورتوں میں جائز ہے۔‬
‫میں جائز قرار نہیں دیا گیا۔‬ ‫جیسے ایک مظلوم کی ظالم کے خالف فریاد کی‬
‫شکل میں اور دوسرے کسی کی فریب کاری‬
‫کے فریب سے آگاہ کرنے کے لئے۔‬

‫سوال نمبر ‪ :1‬حضرت محمد ﷺ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں ‪ ،‬تفصیل سے بیان‬
‫کیجئے ۔‬
‫تعالی نے حضور اکرم ﷺکو رحمۃللعالمین یعنی‬
‫ٰ‬ ‫رسول اکرم ﷺ تمام جہانوں کے لئے رحمت ‪ :‬ہللا‬
‫سارے جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا۔‬
‫تعالی کا فرمان ہے ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫( االنبيائ ‪) 107 :‬‬ ‫َ‬
‫ِين‬ ‫َ‬
‫ٰلم‬ ‫ِلع‬ ‫ّ‬
‫ً ل‬ ‫َۃ‬
‫َحم‬ ‫َّ‬
‫ِال ر‬ ‫ٰکَ ا‬ ‫َ‬
‫ما ارسَلن‬ ‫ََ‬‫و‬
‫" اور ہم نے آپ ﷺ کو تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجاہے "۔‬

‫‪ 100 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫حضور ﷺ کی حیات طیبہ تمام انسانوں کے لئے نمونہ ہے کیونکہ نبی اکرم ﷺ رحمت اور محبت کا‬
‫پیکر ہیں اور تمام عمر مخلوق خدا سے لطف وکرم کے ساتھ پیش آتے رہے ہیں جس کی تفصیل درج‬
‫ذیل ہے ۔‬
‫امت پر رحمت و شفقت ‪ :‬حضور اکرم ﷺ اپنی امت کے لئے رحمت کا ایک بحر بے کراں تھے۔ اور آپ‬
‫تعالی کا فرمان ہے ‪:‬‬‫ٰ‬ ‫ﷺاہل ایمان پر خصوصی رحمت و شفقت فرماتے تھے۔ جیسا کہ ہللا‬
‫ِيصٌ‬ ‫َر‬‫ُّم ح‬ ‫ِت‬‫َن‬
‫ما ع‬ ‫ِ َ‬
‫َليہ‬ ‫َ‬ ‫ٌ ع‬ ‫ِيز‬ ‫َز‬‫ُم ع‬ ‫ُس‬
‫ِک‬ ‫َنف‬ ‫ِن ا‬ ‫ٌ ّ‬
‫م‬ ‫َسُو ل‬‫ُم ر‬ ‫َآ ئَ ک‬ ‫َد ج‬ ‫َلق‬
‫َحِيم ( التوبۃ ‪) 128 :‬‬ ‫ٌ ر‬ ‫َو‬
‫ُٔف‬ ‫َ ر‬ ‫ِين‬
‫ِن‬ ‫ُو‬
‫ْٔم‬ ‫ِلم‬ ‫ُم با‬ ‫َيک‬ ‫َل‬ ‫ع‬
‫" تمہارے پاس ہللا کا رسول آ یا ہے جو تم ہی میں سے ہے ‪ ،‬تمہاری تکلیف اس پر گراں گزرتی ہے ‪،‬‬
‫تمہاری بھالئی کا خواہش مندرہتا ہے ‪،‬اہل ایمان کے ساتھ بڑے ہی شفیق اور مہر با ن ہیں "۔‬
‫آپﷺ اپنے ساتھیوں کو تکلیف میں دیکھ کر بے قرار ہوجاتے تھے ‪ ،‬ویسے تو آ پ کی رحمت سب کے‬
‫حتی کہ آ پ دینی معامالت میں‬ ‫لئے ہے مگر اپنی امت کے اہل ایمان پر آ پ کی شفقت بے حساب ہے ٰ‬
‫تعالی کی بارگاہ میں امت کے‬ ‫ٰ‬ ‫بھی امت کی سہولت کا خاص خیال رکھتے تھے۔ معراج کے موقع پر ہللا‬
‫حتی کہ پانچ رہ گئیں۔ حضوراکرم ﷺ بوقت ضرورت نماز‬ ‫لئے سفارش کی اور‪ 50‬نمازوں کو کم کروایا ٰ‬
‫و خطبہ مختصر فرمادیتے تھے۔ غرض یہ کہ آپ ﷺاہل ایمان کے لئے رحمت تھے۔‬
‫کفار پر رحمت‪ :‬حضوراکرم ﷺ کی رحمت سے صرف مسلمان ہی فیض یاب نہیں ہوئی بلکہ ان کے‬
‫تعالی ارشاد فرماتا ہے کہ ‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫ساتھ ساتھ آپ ﷺکی ذات کفار کے لئے بھی باعث رحمت رہی جیسا کہ ہللا‬
‫ِم ( االنفال ‪) 33 :‬‬ ‫ِيه‬ ‫َ ف‬ ‫َنت‬ ‫َا‬ ‫ُم و‬ ‫به‬ ‫ّ‬
‫َِ‬
‫َذ‬‫ُع‬
‫لي‬‫َ للااُ ِ‬
‫َان‬‫ما ک‬ ‫ََ‬‫و‬
‫" اور ہللا ان پر عذاب نازل نہیں کرے گا جب تک آپ ﷺ ان کے درمیان موجود ہیں " ۔‬
‫تعالی نے اس دنیا میں سخت‬ ‫ٰ‬ ‫یعنی گذشتہ انبیاء کرام کی امتوں جیسے قوم عاد ‪،‬قوم ثمود وغیرہ کو ہللا‬
‫تعالی نے اس امت پر اور کفار پر سخت عذاب نہیں‬ ‫ٰ‬ ‫عذاب میں مبتالکیا ‪ ،‬آپ ﷺکی رحمت کے طفیل ہللا‬
‫فرمایا۔ اس لحاظ سے آپ ﷺکی ذات کفار کے لئے بھی رحمت ثابت ہیں۔‬
‫عورتوں کے لئے رحمت و شفقت ‪ :‬اسالم سے قبل عورت طرح طرح کے مظالم کا شکار تھی اور‬
‫اس کو کسی حوالے سے عزت نہیں دی جاتی تھی۔ عورت کا جائیداد میں کوئی حصہ نہ تھااور بیٹیوں‬
‫کو زندہ درگور کیا جاتا تھا۔ تاریخ انسانی میں اسالم نے پہلی مرتبہ عورتوں کو عزت و احترام کا مقام‬
‫دیا ہے۔ اسالم نے عورتوں کو بہن ‪ ،‬بیٹی اور بیوی ہر حیثیت سے عزت و احترام دیا اور اس کا مرتبہ‬
‫اتنا بلند رکھا کہ اسالم سے پہلے کسی مذہب یا معاشرے میں عورت کو ایسا شرف اور مرتبہ حاصل‬
‫نہیں ہوا تھا۔‬
‫حضور ﷺ نے فرمایا ‪:‬‬
‫( حديث)‬ ‫َاتِ‬ ‫مه‬‫ِ االَُّ‬
‫دام‬ ‫َ‬
‫َ اقَ‬ ‫تحت‬‫ُ َ‬ ‫َّۃ‬
‫َن‬ ‫َلج‬‫ا‬
‫"جنت ماؤں کے قدموں تلے ہے " ۔‬
‫یتیموں کے لئے رحمت ‪:‬آپ ﷺ یتیموں کے ساتھ بہت زیادہ شفقت کا برتاؤ فرماتے اور انکی کفالت کی‬
‫بھی تلقین فرماتے ۔ یتیموں کی نگہداشت اور اور پرورش کے حوالے سے رسول ہللا ﷺ نے فرمایا ‪:‬‬
‫(متفق‬ ‫َا‬‫َذ‬ ‫ٰک‬
‫ِ ھ‬ ‫َّۃ‬‫َن‬
‫ِی الج‬ ‫ِ ف‬‫ِيم‬‫َت‬ ‫ُ الي‬ ‫ِل‬‫َاف‬ ‫َک‬‫نا و‬ ‫ََ‬‫ا‬
‫عليہ )‬
‫"میں اور یتیم کی نگہداشت کرنے واال جنت میں یوں ہوں گے "‬
‫غالموں کے لئے رحمت ‪ :‬اسالم سے قبل عرب معاشرے میں غالموں پر طرح طرح کے مظالم‬
‫ڈھائے جاتے تھے اور انکے ساتھ اچھا سلوک نہیں کیا جاتا تھا ۔ آپ ﷺ نے غالموں کے ساتھ شفقت‬
‫‪ 101 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫کرنا سکھایا اور حجۃ الوداع کے موقع پر فرمایا " جو تم خود کھاؤ وہی اپنے غالموں کو کھالؤ اور جو‬
‫تم خود پہنو وہی انکو پہناؤ "‬
‫بچوں کے لئے رحمت ‪:‬آپ ﷺ بچوں پر شفقت فرماتے اور ان سے بے انتہا پیار ومحبت کرتے تھے ۔‬
‫بچوں سے محبت وشفقت اتنی تھی کہ راست میں ٹہر کر بچوں کو سالم کرتے اور ان سے پیار کرتے ۔‬
‫رسول ہللا ﷺ کا فرمان ہے کہ ‪:‬‬
‫االدب‬ ‫(‬ ‫َ‬
‫َنا‬‫ِير‬ ‫َ‬
‫ِ کب‬‫ِر‬‫ّ‬
‫يؤق‬ ‫َ‬
‫َلم ُ‬‫َنا و‬ ‫َ‬‫ِير‬‫َغ‬‫َم ص‬ ‫يرح‬ ‫من َّلم َ‬ ‫َّا َ‬‫ِن‬ ‫َليسَ م‬
‫المفرد )‬
‫" ج و ہماررے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کا ادب نہ کرے وہ ہم میں سے نہیں " ۔‬
‫جانوروں پر رحمت‪ :‬آپﷺ صرف انسانوں کیلئے ہی نہیں جانوروں کے لئے بھی رحمت تھے۔‬
‫کیونکہ آ پ " رحمۃ للعالمین" یعنی سارے جہاں کے لئے رحمت تھے۔حضرت عبدہللا ابن عمر سے‬
‫روایت ہے کہ حضور اکرم ﷺکا ارشاد ہے‬
‫“ ایک عورت ایک بلی کی وجہ سے دوزخ میں گئی اس نے اسے قید کردیا ‪ ،‬نہ تو خود کھالیا اور نہ‬
‫ہی آ زا دکیا تاکہ وہ خود اپنا شکار تالش کرتی "۔‬

‫‪1‬۔ ”اسوہ“ کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬


‫‪۰‬اخالق‬ ‫‪۰‬کام‬ ‫‪۰‬زندگی‬ ‫‪۰‬نمونہ‬
‫‪2‬۔ صبر کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬دل‬ ‫‪۰‬ڈٹے رہنا‬ ‫‪۰‬غصہ پی لینا‬ ‫‪۰‬روکنا‬
‫مارنا‬
‫‪3‬۔ نبی اکرم ﷺ نے اس قبیلہ کے لئے دعا فرمائی‪:‬‬
‫‪۰‬قبیلہ ہاشم‬ ‫‪۰‬قبیلہ دوس‬ ‫‪۰‬قبیلہ اسد‬
‫‪۰‬قبیلہ عدی‬
‫‪4‬۔ مدینہ منورہ کا پرانا نام تھا‪:‬‬
‫‪۰‬طائف‬ ‫‪۰‬یثرب‬ ‫‪۰‬یمن‬ ‫‪۰‬عرفات‬
‫‪5‬۔ حضرت محمد ﷺ کی والدہ کا نام ہے‪:‬‬
‫‪۰‬حضرت ام ایمن‬ ‫‪۰‬حضرت آمنہ‬ ‫‪۰‬حضرت حلیمہ‬ ‫‪۰‬حضرت صفیہ‬
‫‪6‬۔ حضور ﷺ کے دادا کا نام ہے‪:‬‬
‫‪۰‬حضرت‬ ‫‪۰‬جناب ابو طالب‬ ‫‪۰‬حضرت عبدہللا‬ ‫‪۰‬حضرت عبدالمطلب‬
‫عبدالوہاب‬
‫ب ابی طالب میں قید رہے‪:‬‬ ‫‪7‬۔ آپ ﷺ شع ِ‬
‫‪۰‬تین سال‬ ‫‪۰‬دو سال‬ ‫‪۰‬ایک سال‬
‫‪۰‬چار سال‬
‫‪8‬۔ ابو لہب حضور ﷺ کا تھا‪:‬‬
‫‪۰‬دادا‬ ‫‪۰‬بھائی‬ ‫‪۰‬ماموں‬ ‫‪۰‬چچا‬
‫‪9‬۔ مساوات کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬

‫‪ 102 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫‪۰‬انصاف‬ ‫‪۰‬بھائی چارہ‬ ‫‪۰‬دل مارنا‬
‫‪۰‬برابری‬
‫‪10‬۔ ذکر کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬مراقبہ کرنا‬ ‫‪۰‬گانا‬ ‫‪۰‬پڑھنا‬ ‫‪۰‬یاد کرنا‬
‫‪11‬۔ ذکر کی کتنی اقسام ہیں؟‬
‫‪۰‬تین‬ ‫‪۰‬چھ‬ ‫‪۰‬چار‬ ‫‪۰‬دو‬
‫‪12‬۔ دل کو سکون ملتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬محبت‬ ‫‪۰‬موسیقی سے‬ ‫‪۰‬خوش رہنے سے‬ ‫‪۰‬ہللا کے ذکر سے‬
‫کرنے سے‬
‫‪13‬۔ اسالم کی پہلی مسجد اس شہر میں تعمیر کی گئی‪:‬‬
‫‪۰‬طائف‬ ‫‪۰‬قباء‬ ‫‪۰‬مدینہ‬ ‫‪۰‬مکہ‬
‫‪14‬۔ ہجرت کے سفر میں آپ ﷺ کے ساتھ تھے‪:‬‬
‫‪۰‬حضرت علی‬ ‫‪۰‬حضرت عثمان‬ ‫‪۰‬حضرت عمر‬ ‫‪۰‬حضرت ابوبکر‬
‫‪15‬۔ تحوی ِل قبلہ کا حکم اس مسجد میں آیا‪:‬‬
‫‪۰‬مسج ِد قبا‬ ‫‪۰‬مسج ِد ضرار‬ ‫‪۰‬مسجدِنبوی‬ ‫‪۰‬مسج ِد قبلتین‬
‫‪16‬۔ منافقین نے مدینہ میں جو مسجد تعمیر کی اس کا نام تھا‪:‬‬
‫‪۰‬مسج ِد قبا‬ ‫‪۰‬مسج ِد ضرار‬ ‫‪۰‬مسجدِنبوی‬ ‫‪۰‬مسج ِد قبلتین‬
‫‪17‬۔ سورہ لہب ان دونوں کی ہالکت کے لئے نازل کی گئی‪:‬‬
‫‪۰‬ابو لہب اور اُم جمیل‬ ‫‪۰‬اُم جمیل اور ابو جہل‬ ‫‪۰‬ابو جہل اور ابو لہب‬
‫‪۰‬عقبہ بن ابی معیط اور ابو جہل‬

‫باب چہارم‬

‫‪ 103 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫تعارف قرآن و‬
‫حدیث‬
‫۔قرآن کا تعارف‬
‫۔وحی کی اقسام‬
‫۔قرآن کی خصوصیات‬
‫۔حفاظت قرآن‬
‫۔حدیث اور سنت کا تعارف‬
‫۔تدوین حدیث‬

‫سوال نمبر‪ :۱‬وحی کی تعریف تحریر کریں۔‬


‫وحی‪ :‬وحی کے لغوی معنی خفیہ طور پر اشارے سے بات کرنے کے ہیں۔ شریعت کی اصطالح میں‬
‫سل علیھم السالم کو عطا‬
‫وحی سے مراد وہ پیغام ہے جو ہللا تعالی کی طرف سے انبیائے کرام اور ُر ُ‬
‫ہوتا ہے۔ حواس‪ ،‬عقل اور دیگر مادی ذرائع سے ملنے والے علم کے مقابلے میں وحی کے ذریعے‬
‫سل علیھم السالم وحی الہی کی رہنمائی‬‫ملنے واال علم یقینی اور قطعی ہوتا ہے۔ تمام انبیائے کرام اور ُر ُ‬

‫‪ 104 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫میں اپنی اپنی امتوں کے لئے فریضہ تبلیغ و رسالت ادا کرتے رہے۔ حضرت محمد ﷺ پر دین کی تکمیل‬
‫روز قیامت تک‬
‫ِ‬ ‫ہوچکی ہے اور قرآن مجید کی صورت میں آخری وحی الہی محفوظ ہوچکی ہے جو‬
‫ہدایت کے لئے کافی ہے۔ اس لئے حضرت محمد ﷺ کے بعد وحی کا نزول اور نبوت و رسالت کا سلسلہ‬
‫ہمیشہ کے لئے منقطع ہوچکا ہے۔‬

‫سوال نمبر ‪ :2‬وحی کی اقسام تحریر کریں۔‬


‫وحی کی اقسام‪ :‬وحی کی دو اقسام ہیں‪:‬‬
‫‪۲‬۔ وحی غیر متلو‬ ‫‪۱‬۔ وحی متلو‬
‫‪)۱‬وحی متلو‪ :‬و ہ وحی جو ہللا تعالی نے کالم کے ساتھ حضرت جبرائیل ؑ کے وسیلہ سے پیغمبر آخر‬
‫الزماں حضرت محمد ﷺ پر نازل فرمائی۔ یہ وحی قرآن مجید کی صورت میں کتابی شکل میں محفوظ‬
‫ہے۔ اس وحی کے لئے ضروری قرار دیا گیا کہ جس طرح وہ نازل ہوئی ہے ان ہی الفاظ سے اس کی‬
‫تالوت کی جائ ے اور اس کے خالف اسے پڑھنا حرام قرار دے دیا گیا ہے۔ اس کی تاکید اس قدر کی گئی‬
‫ہے کہ قریش کے رسم الخط کے عالوہ کسی بھی آیت کا اس کے خالف لکھنا حرام قرار دے دیا گیا۔‬
‫مصحف عثمانی یعنی اس تحریر شدہ قرآن مجید کی ہے جسے صحابہ کرام‬ ‫ِ‬ ‫وحی متلو کی صورت‬
‫رضوان ہللا عل یھم اجمعین کے اصرارپر حضرت عثمان نے لکھوا کر ایک جلد میں مرتب کروادیا تھا۔‬
‫‪ )۲‬وحی غیر متلو‪ :‬وہ وحی جو ہللا تعالی نے رسول ہللا ﷺ کے قلب پر نازل فرمائی ”وحی غیر متلو“‬
‫کہالتی ہے۔ یہ وہ وحی ہے جس کے الفاظ ہللا تعالی کی طرف سے نازل نہیں ہوئے صرف مفہوم رسول‬
‫ہللا ﷺ کو سمجھادیا گیا جسے آپ ﷺ نے اپنے الفاظ میں بیان کیا۔ محدثین کرام نے اس وحی کے بارے‬
‫میں احتیاط کرنے اور اسے ان ہی الفاظ کے ساتھ بیان کرنے کی تاکید کی ہے جن الفاظ کو آپ ﷺ نے‬
‫ادا کیا تھا۔ وحی غیر متلو احادیث کی مستند کتابوں کی صورت میں تحریری شکل میں محفوظ ہے۔ وحی‬
‫ت رسول ﷺ کو بیان کرتی ہے۔ وحی متلو (قرآن) کی تالوت کی جاتی ہے جب کہ وحی غیر‬ ‫غیر متلو سن ِ‬
‫متلو (احادیث) کی تالوت نہیں کی جاتی۔‬
‫سوال نمبر‪ :3‬قرآن کی تین خصوصیات تحریر کریں۔‬
‫قرآن کی خصوصیات‪ :‬قرآن کی نمایاں خصوصیات میں سے تین درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪ ۱‬۔قرآن مجید میں جو احکامات اور تعلیمات بیان ہوئی ہیں وہ ہر لحاظ سے جامع اور مکمل ہیں‬
‫اور ان سے ہر دور اور دنیا کے کسی بھی خطے میں استفادہ کیا جاسکتا ہے۔‬
‫‪ ۲‬۔ قرآن کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ یہ دنیا میں سب سے زیادہ پڑھی اور یاد کی جانے‬
‫والی کتاب ہے۔‬
‫‪ ۳‬۔ تمام الہامی کتابوں میں قرآن کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ اس کی حفاظت کی ذمہ داری خود‬
‫ہللا تعالی نے لی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہے‪:‬‬
‫ُ‬
‫ِظون‬‫َاف‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِنالہ لح‬‫َ‬ ‫ّ‬ ‫َا‬‫و‬ ‫َا الذکر‬ ‫نزلن‬ ‫ُ َ‬‫نحن‬ ‫ِنا َ‬‫اَّ‬
‫ترجمہ‪ :‬اور ہم نے اس ذکر (قرآن) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‬

‫ت قرآن کے متعلق ایک آیت ترجمہ کے ساتھ تحریر کریں۔‬ ‫سوال نمبر‪ :4‬حفاظ ِ‬
‫ت قرآن کے متعلق آیت‪:‬ہللا تعالی نے سورۃ الحجر میں واضح طور سے قرآن کی حفاظت کا‬‫حفاظ ِ‬
‫ذمہ خود لیتے ہوئے ارشاد فرمایا ہے‪:‬‬

‫‪ 105 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫ُون‬‫ِظ‬‫َاف‬‫ََّلہ َلح‬
‫ِنا‬‫َا‬‫َا الذکر و‬ ‫نزلن‬ ‫ُ َ‬‫نحن‬ ‫ِنا َ‬
‫اَّ‬
‫ترجمہ‪ :‬اور ہم نے اس ذکر (قرآن) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‬
‫ت قرآن والی کمیٹی کی وضاحت کیجئے۔‬ ‫سوال نمبر ‪:5‬کتاب ِ‬
‫ت قرآن‪:‬جنگِ یمامہ میں جب حفاظ صحابہ کی ایک بہت بڑی تعداد شہید ہوگئی تو‬‫کمیٹی برائے کتاب ِ‬
‫حضرت عمر فاروق کے مشورہ سے حضرت ابوبکر نے قرآن لکھنے کے لئے ایک کمیٹی تشکیل‬
‫دی۔ اس کمیٹی کے سربراہ حضرت زید بن ثابت تھے۔ اس کمیٹی میں ‪ 75‬صحابہ شامل تھے جن میں‬
‫انصار کی تعداد‪ 50‬اور مہاجرین کی تعداد‪ 25‬تھی۔ اس طرح مشترکہ کوششوں سے قرآن مجیدکا ایک‬
‫نسخہ کتابی صورت میں تیار کروایا گیا۔‬
‫سوال نمبر ‪ :6‬قرآن پاک میں وحی کا لفظ تین معنوں میں استعمال ہوا ہے۔ تینوں تحریر‬
‫کیجئے۔‬
‫وحی‪ :‬وحی کے لغوی معنی خفیہ طور پر اشارے سے بات کرنے کے ہیں۔ شریعت کی اصطالح میں‬
‫وحی سے مراد وہ پیغام ہے جو ہللا تعالی کی طرف سے انبیائے کرام اور ُرسُل علیھم السالم کو عطا‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫قرآن پاک میں وحی کا لفظ ان تین معنوں میں استعمال ہوا ہے‪:‬‬
‫‪ .1‬وحی قلبی‪ :‬ہللا تعالی کسی فرشتے وغیرہ کے واسطے کے بغیر برا ِہ راست کوئی بات نبی کے‬
‫دل میں ڈال دے۔ پھر اس کی دو صورتیں ہیں‪:‬‬
‫(‪ ) 1‬بیداری میں۔‬
‫(‪ ) 2‬خواب میں۔‬
‫کالم ٰالہی‪ :‬ہللا تعالی برا ِہ راست نبی کو اپنی ہم کالمی کا شرف عطا فرماتے ہیں‪ ،‬اس میں بھی‬ ‫ِ‬ ‫‪.2‬‬
‫فرشتہ یا کسی کا واسطہ نہیں ہوتا۔ یہ وحی کی سب سے اعلی قسم ہے۔‬
‫‪ .3‬وحی َملَکی‪ :‬ہللا تعالی کسی فرشتہ کے ذریعہ اپنا پیغام بھیجتے ہیں اور وہ فرشتہ پیغام پہنچاتا‬
‫ہے۔پھر اس کی تین صورتیں ہیں‪:‬‬
‫(‪ )1‬کبھی فرشتہ نظر نہیں آتا‪ ،‬صرف اس کی آواز سنائی دیتی ہے۔‬
‫(‪ )2‬بعض مرتبہ کسی انسانی شکل میں آتا ہے۔‬
‫(‪ )3‬کبھی کبھی اپنی اصل صورت میں بھی نظر آجاتا ہے۔‬
‫قرآن کریم کی درج ذیل آیت میں اِن ہی تین اقسام کی طرف اشارہ ہے‪:‬‬
‫(الشوری ‪) 51 :‬‬
‫ٰ‬ ‫" َو َما کَانَ ِلبَش ٍَر ۔۔۔۔۔ الخ" ۔‬
‫" اور کسی بشر کا یہ مقام نہیں کہ ہللا اس سے روبرو بات کرے ۔ اس کی بات یا تو وحی کے طور پر‬
‫ہوتی ہے یا پردے کے پیچھے سے ‪ ،‬یا وہ کسی قاصد کو بھیجتا ہے اور وہ اس کے حکم سے جو کچھ‬
‫وہ چاہتا ہے وحی کرتا ہے" ۔‬

‫سوال نمبر‪:7‬مکی اور مدنی سورتوں سے کیا مراد ہے؟‬


‫مکی سورتیں‪:‬۔مکی سورتوں سے مراد وہ سورتیں ہیں جو ہجر ِ‬
‫ت مدینہ سے پہلے نازل ہوئیں۔‬
‫۔ مکی سورتوں کے نزول کا عرصہ‪ 13‬سال ہے۔‬
‫۔ مکی سورتوں کی تعداد ‪87‬ہے۔‬
‫۔ مکی سورتوں میں زیادہ تر بنیادی عقائد اور گزشتہ اقوام کے واقعات بیان کئے گئے ہیں۔‬

‫‪ 106 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫مدنی سورتیں‪:‬۔مدنی سورتوں سے مراد وہ سورتیں ہیں جو ہجر ِ‬
‫ت مدینہ کے بعد نازل ہوئیں۔‬
‫۔مدنی سورتوں کے نزول کا عرصہ‪ 10‬سال ہے۔‬
‫۔مدنی سورتوں کی تعداد‪ 27‬ہے۔‬
‫۔مدنی سورتوں کا عمومی موضوع عبادات و احکامات ہے۔‬

‫سوال نمبر‪:۹‬حدیث کی تعریف اور اقسام بیان کریں۔‬


‫حدیث‪ :‬حدیث کے لغوی معنی ہیں ”خبر یا بات چیت۔“ شریعت کی اصطالح میں حدیث وہ خبر ہے جس‬
‫کے ذریعے رسو ِل اکرم ﷺ کا کوئی قول‪ ،‬فعل یا تقریر معلوم ہو۔ اس طرح حدیث کی تین قسمیں بنتی‬
‫ہیں‪:‬‬
‫حضور اکرم ﷺ نے کسی کام کے کرنے یا نہ کرنے کے بارے‬ ‫ِ‬ ‫ث قولی‪ :‬وہ حدیث جس میں‬ ‫‪ .1‬حدی ِ‬
‫حضور اکرم ﷺ کی زبانی ہدایات کا ذکر ہو۔‬
‫ِ‬ ‫میں ہدایات عطا کی ہوں یعنی اس میں‬
‫ث فعلی‪ :‬وہ حدیث جس میں حضور اکرم ﷺ کا اختیار کردہ کوئی بھی کام اور طریقہ ذکر کیا‬ ‫‪ .2‬حدی ِ‬
‫جائے۔‬
‫ث تقریری‪ :‬وہ حدیث جس میں ایسے امور کا تذکرہ ہو جو حضور ﷺ کے سامنے کئے گئے‬ ‫‪ .3‬حدی ِ‬
‫اور آپ ﷺنے ان پر خاموشی اختیار کی‪ ،‬یعنی اگر ان امور کے بارے میں کوئی ممانعت یا وضاحت‬
‫ہوتی تو آپ ﷺ ضرور رہنمائی فرماتے۔ آپ ﷺ کا ان امور پر خاموش رہنا اس کی تصدیق کے‬
‫مترادف ہےاور اس عمل کے جواز کو دلیل فراہم کرتا ہے۔‬

‫سوال نمبر‪ :10‬سنت سے کیا مراد ہے؟‬


‫سنت‪ :‬سنت کے لغوی معنی ہیں ”طریقہ یا راستہ۔“ شریعت کی اصطالح میں سن ِ‬
‫ت رسول کا مطلب‬
‫حضور اکرم ﷺ کے وہ امور جو‬
‫ِ‬ ‫حضور اکرم ﷺ کے اختیار کردہ امور ہیں۔جمہور محدثین کے نزدیک‬
‫آپ ﷺ نے مستقل طور پر سرانجام دئے انہیں سنت کہا جاتا ہے۔ اسی کے بارے میں ارشاد ہے‪:‬‬
‫َّت‬
‫ِی‬ ‫ُم ب‬
‫ِسُن‬ ‫َيک‬‫َل‬
‫ع‬
‫ترجمہ‪ :‬تم پر میری سنت (پر عمل کرنا) الزم ہے۔‬

‫تدوین حدیث سے کیا مراد ہے؟‬‫ِ‬ ‫سوال نمبر‪:11‬‬


‫تدوین حدیث‪ :‬عربی زبان میں لفظ تدوین سے مراد ترتیب دینا اور رجسٹر تیار کرنا ہے۔ تد ِ‬
‫وین حدیث‬ ‫ِ‬
‫ث رسول ﷺ کو لکھنے کارواج نہیں تھا۔ صحابہ کرام اپنے عمدہ‬ ‫سے مراد یہ ہے کہ ابتداء میں احادی ِ‬
‫حافظے کی بدولت احادیث سُن کر یاد کرلیتے تھے۔ عہ ِد صحابہ کے بعد تابعین کے دور میں بھی عام‬
‫حفظ حدیث کی جانب رہی۔تاہم چونکہ لکھنے کا رواج عام ہورہا تھا اس لئے اکثر‬ ‫ِ‬ ‫طور پر زیادہ توجہ‬
‫لوگ اپنے طور پر احادیث لکھنے لگے تھے۔‬
‫آگے چل کر تابعین نے صحابہ کرام کے لکھے ہوئے احادیث کے نسخوں کو حاصل کیا اور‬
‫دیگر صحابہ سے سنی احادیث کا ان میں اضافہ کرکے نئے مسودے ترتیب دے دئے۔‬
‫تدوین حدیث کے کُل تین مراحل ہیں جو اس تاریخ کو اپنے اندر سموئے‬ ‫ِ‬ ‫تدوین حدیث کے مراحل‪:‬‬ ‫ِ‬
‫ث رسول ﷺ کس طرح مرحلہ وار تاریخی اور تحقیقی معیارات سے گزرکر ہم تک‬ ‫ہوئے ہیں کہ حدی ِ‬
‫تدوین حدیث کے درج ذیل تین مراحل ہیں‪:‬‬‫ِ‬ ‫پہنچی۔‬

‫‪ 107 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫دور صحابہ و تابعین ہے۔‬ ‫عصر نبوی اور ِ‬ ‫ِ‬ ‫یہ‬ ‫‪:‬‬ ‫پہال مرحلہ‬
‫دوسرا مرحلہ‪ :‬یہ دوسری اور تیسری صدی ہجری کا زمانہ ہے۔‬
‫تیسرا مرحلہ‪ :‬امام بخاری رحمہ ہللا اور ان کے بعد کا زمانہ۔‬
‫‪ )۱‬عہ ِد صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین و تابعین‪:‬صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین‬
‫کو رسول ہللا ﷺ سے بے حد عقیدت و محبت تھی اس لئے وہ چاہتے تھے کہ رسول اکرم ﷺ کی زبان‬
‫مبارک سے نکلنے والے ہر لفظ کو محفوظ کرلیں اور رسول اکرم ﷺ کے ہر طریقہ کو دیکھ کر اسے‬
‫ت رسول ﷺ کی پیروی میں کسی قسم کی‬ ‫یاد رکھیں اور اسے دوسروں کے سامنے بیان کریں تاکہ سن ِ‬
‫کوئی کسر باقی نہ رہ جائے۔لیکن رسول اکرم ﷺ نے اپنے زمانہ میں عمومی طور سے احادیث لکھنے‬
‫سے منع فرمایا تھا ۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ قرآن کو بھی لکھا جارہا تھا لہذا اگر احادیث کو بھی لکھا‬
‫جاتا تو بعد میں دونو ں میں فرق کرنا مشکل ہوجاتا۔ اس کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اس زمانہ میں احادیث‬
‫کو بالکل نہیں لکھا گیا تھا۔ اس کی کئی مثالیں موجودہیں کہ اس دور میں احادیث کو لکھا بھی گیا تھا۔‬
‫حفظ حدیث کے قائل تھے مگر بعد میں انہوں‬ ‫ِ‬ ‫مثال کے طور پر حضرت ابوہریرہ شروع میں صرف‬
‫نے اپنی تمام تر مرویات کو تحریری طور پر محفوظ کرلیا تھا۔‬
‫تدوین حدیث کا دوسرا دور‪:‬ساتویں صدی ہجری بمطابق ‪ ۹۹‬ہجری کو جب حضرت عمر بن‬ ‫ِ‬ ‫‪)۲‬‬
‫تدوین حدیث کا دوسرا دور شروع ہوا۔ یہ وہ وقت تھا جب‬ ‫ِ‬ ‫عبدالعزیز رحمہ ہللا خلیفہ بنے تو اس وقت‬
‫تقریبا تمام صحابہ کرام رضوان ہللا علیھم اجمعین اس دنیا سے کوچ کرچکے تھے اور بزرگ تابعین بھی‬
‫اٹھتے جارہے تھے۔ خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز نے حدیث کی حفاظت کے سلسلہ میں تمام شہروں‬
‫ث نبوی ﷺ کو تالش کریں اور انہیں‬ ‫کے حکام کے نام فرامین بھیجے اور انہیں تلقین کی کہ وہ احادی ِ‬
‫ت حدیث کا کام شروع ہوا۔‬ ‫جمع کریں۔ اس طرح باقاعدہ طور پر کتاب ِ‬
‫تدوین حدیث کا تیسرا دور کہالتا ہے۔ یہ دور آٹھویں‬ ‫ِ‬ ‫تدوین حدیث کا تیسرا دور‪:‬تبع تابعین کا دور‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫‪)۳‬‬
‫ث نبوی ﷺ پر مشتمل ضخیم کتابیں مرتب کی گئیں‬ ‫صدی عیسوی میں شروع ہوا اور اس دور میں احادی ِ‬
‫تدوین حدیث کا سنہری دور کہا جاتا ہے۔ تاہم اس دور میں احادیث کو جمع کرنے‬ ‫ِ‬ ‫اس لئے اس دور کو‬
‫کے لئے کچھ اصول بھی وضع کئے گئے۔ صحابہ کرام اور تابعین قاب ِل اعتماد تھے لیکن بعد میں جب‬
‫دوسرے لوگوں نے ان کی جگہ لی تو ان کے لئے احتیاط کا دعوی نہیں کیا جاسکتا تھا۔ لہذا اس دور میں‬
‫بخاری و مسلم جیسی کتابوں میں احادیث کو جمع کیا گیا۔ نیز اصو ِل روایت و درایت کے ذریعہ احادیث‬
‫کے ضعیف یا صحیح ہونے کا حکم لگایا گیا۔‬

‫سوال نمبر‪ :12‬صحاح ستہ اور ان کے مصنفین کے نام مع ان کے سن وفات لکھیں ۔‬


‫‪:‬ستہ کے معنی ہیں ”چھ“ اور صحاح‪ ،‬صحیح کی جمع ہے۔ صحاح ستہ سے مراد‬ ‫صحاح ستہ‬
‫حدیث کی وہ چھ کتابیں ہیں جنہیں سند اور رواۃ کے لحاظ سے مستند اور معتبر تسلیم کیا جاتا‬
‫ہے۔صحاح ستہ مندرجہ ذیل ہیں‪:‬‬
‫ِ‬
‫امام ابو عبد ہللا محمد بن اسماعیل بخاری ؒ (‪ 194‬تا ‪ 256‬ہجری )‬ ‫صحیح بخاری ‪:‬‬ ‫(‪)1‬‬
‫قشیری ( ‪ 202‬تا ‪ 261‬ہجری)‬
‫ؒ‬ ‫امام مسلم بن حجاج بن مسلم‬ ‫صحیح مسلم ‪:‬‬ ‫(‪)2‬‬
‫عیسی ؒ ۔ الترمذی (‪ 209‬تا ‪ 279‬ہجری )‬
‫ٰ‬ ‫امام ابو‬ ‫جامع الترمذی ‪:‬‬ ‫(‪)3‬‬
‫امام ابو داؤد سلیمان بن اشعث ؒ ( ‪ 202‬تا ‪ 275‬ہجری )‬ ‫سنن ابی داؤد ‪:‬‬ ‫(‪)4‬‬
‫امام ابو عبد الرحمان احمد بن علی النسائی ؒ ( ف ‪ 303‬ہجری )‬ ‫سنن النسائی ‪:‬‬ ‫(‪)5‬‬
‫امام ابو عبدہللا محمد بن یزید ابن ماجہ القزوینی ؒ (‪ 209‬تا ‪ 273‬ہجری )‬ ‫سنن ابن ماجہ ‪:‬‬ ‫(‪)6‬‬

‫‪ 108 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫سوال نمبر‪ : 13‬اصول اربعہ اور ان کے مصنفین کے نام مع ان کے سن وفات لکھیں ۔‬
‫اصول اربعہ ‪:‬مندرجہ ذیل چار کتابیں فقہ جعفریہ کی مستند ترین ذخائر حدیث ہیں ‪:‬‬
‫ابو جعفر محمد بن یعقوب الکلینی ؒ ( ف ‪ 339‬ہجری )‬ ‫الکافی ‪:‬‬ ‫(‪)1‬‬
‫ابو جعفر محمد بن علی بن بابویہ قمی ؒ ( ف ‪ 381‬ہجری )‬ ‫من ال یحضرہ الفقیہہ‪:‬‬ ‫(‪)2‬‬
‫ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی ؒ ( ف ‪ 460‬ہجری )‬ ‫االستبصار ‪:‬‬ ‫(‪)3‬‬
‫تہذیب االحکام‪ :‬ابو جعفر محمد بن الحسن الطوسی ؒ( ف ‪ 460‬ہجری )‬ ‫(‪)4‬‬

‫سوال نمبر‪:14‬قرآن مجید کا تعارف بیان کریں۔‬


‫تعارف قرآن‪ِ :‬‬
‫لفظ قرآن ”قراء ۃ“ سے مشتق ہے جس کے معنی پڑھنے کے ہیں۔ اس طرح قرآن کے‬ ‫ِ‬
‫تعالی کی آخری کتاب ہے‬‫ٰ‬ ‫معنی ہیں وہ کتاب جو بار بار اور کثرت سے پڑھی جاتی ہے۔ قرآن مجید ہللا‬
‫جو حضرت محمد ﷺ پر ‪ 23‬برس کی مدت میں آہستہ آہستہ حاالت وضرورت کے پیش نظر نازل ہوئی‬
‫۔ یہ نہایت پاکیزہ اور مقدس کتاب ہے ۔ جس میں سب سے انسانوں کے ہدایت ورہنمائی کا پیغام ہے ۔‬
‫قرآن کے عالوہ بھی چند دیگر آسمانی کتابیں ہیں جو پہلے زمانے میں رسولوں پر نازل ہوئیں ۔ مثال‬
‫تورات ‪ ،‬زبور ‪ ،‬انجیل۔ اس کے عالوہ صحیفے بھی ہیں جو دوسرے پیغمبروں پر نازل ہوئے ۔ سب‬
‫آسمانی کتابوں میں بنیادی تعلیمات مثال توحید‪ ،‬شرک‪ ،‬اخالق وعبادات سے متعلق احکامات مشترک رہے‬
‫ہیں ۔ مگر وہ تمام سابقہ کتابیں ایک خاص دور کے لیے تھیں۔ یہ چونکہ پوری دنیائے انسانیت کے لیے‬
‫نہ تھیں ‪ ،‬اس لیے اکثر احکام بھی خاص وقت کے لیے تھے ۔ جو دوسرے زمانے کے لیے قابل عمل نہ‬
‫تھے ۔ مگر قرآن مجید ایک ایسی جامع کتاب ہے جو زندگی کے ہر شعبے میں رہنمائی کرتی ہے اور‬
‫اس کی یہ رہنمائی کسی خاص وقت اور قوم کے لیے نہیں ‪ ،‬بلکہ قیامت تک کی تمام دنیائے انسانیت‬
‫کے لیے ہے ۔‬

‫سوال نمبر‪ :1‬فصائل قرآن مجید پر نوٹ لکھیں ۔‬


‫تعالی نے ارشاد‬
‫ٰ‬ ‫فضائل قرآن‪ :‬اس ابدی دستور اور کامل ترین کتاب ہدایت کے بارے میں خود ہللا‬
‫فرمایا ‪:‬‬
‫َا ف‬
‫ِى‬ ‫لم‬‫ء ّ‬
‫ِ‬ ‫َـآٌ‬‫ِف‬ ‫ُم و‬
‫َش‬ ‫َّّ‬
‫ِك‬
‫ب‬ ‫ِن ر‬ ‫م‬ ‫ٌ‬
‫َـة ّ‬‫ِظ‬
‫موع‬‫ُم َّ‬‫ءتك‬ ‫َآَ‬ ‫َ‬
‫َّاسُ قد ج‬ ‫َا الن‬ ‫يـه‬ ‫َ‬
‫يآ اُّ‬ ‫" َ‬
‫(يونس ‪) 57 :‬‬ ‫َ "‬ ‫ِين‬
‫ِن‬‫ُؤم‬‫ِلم‬‫ٌ ّل‬‫َة‬
‫َحـم‬‫َّر‬
‫دى و‬ ‫ًُ‬‫َھ‬
‫ِۙ و‬
‫دور‬
‫ِ‬ ‫ُُّ‬
‫الص‬
‫"اے لوگو! تمہارے رب سے نصیحت اور دلوں کے روگ کی شفا تمہارے پاس آئی ہے‪ ،‬اور ایمان‬
‫داروں کے لیے ہدایت اور رحمت ہے۔"‬
‫ب اَجر وثواب ہے ۔ جیسا کہ حضور ﷺ کا فرمان ہے ‪:‬‬
‫ث برکت اور موج ِ‬
‫قرآن مجید کی تالوت باع ِ‬

‫‪ 109 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫ً من كتاب للاا فله به حسنة ‪ ،‬والحسنة بعشر‬ ‫" من قرأ حرفا‬
‫أمثالها ال أقول الم حرف ولكن ‪ :‬ألف حرف والم حرف ‪ ،‬وميم‬
‫حرف"‬
‫(صحيح البخاری‪:‬‬
‫‪)6469‬‬
‫" جو شخص قرآن پاک کا ایک حرف پڑھے اس کو دس نیکیوں کے برابر نیکی ملتی ہے۔ میں یہ نہیں‬
‫کہتا کہ کہ الم ایک حرف نہیں بلکہ الف ایک حرف ہے‪ ،‬الم ایک حرف ہےاور میم ایک حرف ہے"۔ لہٰ ذا‬
‫فقط اتنا پڑھنے سے تیس نیکیاں ملیں گے ۔‬
‫حضرت معاذ جہنی رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ حضور ﷺ نے فرمایا ‪:‬‬
‫"جو شخص قرآن پڑھے اور اس پر عمل کرے تو قیامت کے دن اس کے ماں باپ کو ایسا تاج پہنایا‬
‫جائے گا جس کی چمک آفتاب سے بڑھ کر ہوگی" ۔‬
‫حضور ﷺ کا فرمان ہے کہ ‪:‬‬
‫َ "‬ ‫ِين‬‫َر‬‫ِه آخ‬ ‫ُ ب‬ ‫َع‬‫يض‬‫ََّ‬
‫ما و‬ ‫َاً‬ ‫َ‬
‫َابِ أقو‬ ‫ٰذا الك‬
‫ِت‬ ‫َ‬ ‫ِه‬‫ُ ب‬ ‫َع‬‫يرف‬‫َّ للااَ َ‬
‫ِن‬ ‫" إ‬
‫(رواه مسلم)‬
‫تعالی اس کتاب یعنی قرآن پاک کی وجہ سے کتنے لوگوں کا مرتبہ بلند کردیتا ہے اور‬ ‫ٰ‬ ‫"بے شک ہللا‬
‫کتنی ہی لوگوں کو پست وذلیل کرتا ہے "۔‬
‫حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے فرمایا ‪:‬‬
‫(صحيح البخاري)‬ ‫َه"‬‫َّم‬
‫َل‬ ‫َ و‬
‫َع‬ ‫ُرآن‬‫َ الق‬ ‫َّم‬‫َل‬
‫تع‬‫من َ‬ ‫ُم َ‬ ‫َير‬
‫ُك‬ ‫"خ‬
‫" تم میں سے بہترین شخص وہ ہے جو خود قرآن سیکھے اور دوسروں کو سکھائے " ۔‬

‫ت قرآن مجید کو بیان کریں۔‬ ‫سوال نمبر ‪ :2‬حفاظ ِ‬


‫قرآن مجید کی حفاظت‪ :‬قرآن کریم آسمانی کتابوں میں سب سے بلند اور ممتاز اس سبب سے بھی ہے‬
‫تعالی نے اسے کسی تحریف اور تبدیلی سے محفوظ رکھنے کا خود ذمہ لیا ہے اور فرمایا‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫کہ ہللا‬
‫ِظون‬‫ُ‬ ‫َاف‬ ‫َ‬
‫ِنالہ لح‬‫َ‬‫َ‬ ‫ّ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ِنا نحن نزلنا الذکر وا‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َّ‬ ‫ا‬
‫ترجمہ‪ :‬اور ہم نے اس ذکر (قرآن) کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں۔‬
‫تعالی نے قرآن کی حفاظت کا ذمہ نہ لیا ہوتا تو اس میں بھی تحریف اور تبدیلی کا وہی‬ ‫ٰ‬ ‫اگر ہللا‬
‫حال ہوتا جو سابقہ آسمانی کتابوں کا ہوا‪ ،‬کیونکہ سابقہ آسمانی کتابوں کی حفاظت کی ذمہ داری ہللا نے‬
‫انہی لوگوں کو سونپی تھی جن کی طرف ہللا نے وہ کتابیں اتاری تھیں۔‬
‫قرآن کریم کو اس عظیم خوبی کے ذریعے دوسری آسمانی کتابوں سے بلند اور ممتاز کرنے کی‬
‫حکمت یہ ہے کہ یہ آسمانی کتابوں میں سے آخری کتاب ہے اور آسمانی کتابوں کے سلسلے کو ختم‬
‫تعالی نے اس کی حفاظت کے لیے ایسے اسباب تیار اور مہیا فرمائے جو اس‬ ‫ٰ‬ ‫کرنے والی ہے۔ لہٰ ذا ہللا‬
‫کے عالوہ کسی بھی اور کتاب کے لیے میسر نہیں تھے۔‬
‫ت قرآن کے طریقے‪:‬‬
‫حفاظ ِ‬

‫‪ 110 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫‪ )۱‬سینہ بہ سینہ حفاظت‪:‬ابتدائے نزول سے قرآن مجید کی حفاظت جس طرح لکھ کر ہوئی‪ ،‬ا س‬
‫سے کہیں زیادہ ”حفظ“ کے ذریعہ ہوئی۔ قرآن کریم نزول کے ساتھ ساتھ زبانی حفظ اور یاد کرلیا جاتا‬
‫تھا چنانچہ حضور اکرم ﷺ نے اس کو یاد کرنے اور رکھنے کا اہتمام فرمایا۔ صحابہ کرام کی بڑی‬
‫ت دو عالم ﷺ کے عالوہ چاروں خلفائے راشدین بھی حافظ تھے۔ قرآن مجید‬ ‫حافظ قرآن تھی۔ رحم ِ‬ ‫ِ‬ ‫تعداد‬
‫کے سلسلے میں ہللا تعالی نے رسول ہللا ﷺ کو خطاب فرماتے ہوئے ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫َاء‬‫ُہ الم‬ ‫ِل‬ ‫يغس‬ ‫ً الَ‬‫َابا‬ ‫ِت‬‫َيکَ ک‬ ‫َل‬‫َزل ع‬ ‫من‬‫َُ‬‫و‬
‫ترجمہ‪ ” :‬میں آپ پر ایسی کتاب نازل کرنے واال ہوں جس کو پانی نہیں دھوسکے گا۔“‬
‫سرکار دو عالم ﷺ نے قرآن کی حفاظت‬ ‫ِ‬ ‫‪ )۲‬کتابت کا اہتمام‪:‬زبانی یاد کرنے اور کرانے کے ساتھ ہی‬
‫کے لئے کتابت (لکھوانے) کا بھی خوب اہتمام فرمایا‪ ،‬نزول کے ساتھ ہی بال تاخیر آیات قلم بند کرادیتے‬
‫تھے اور ارشاد فرماتے کہ اس آیت کو اس سورت میں لکھو۔‬
‫سامان کتابت‪:‬نزو ِل قرآن مجیدکے زمانہ میں ایجادات و مصنوعات کی کمی ضرور تھی‪ ،‬جس طرح‬ ‫ِ‬
‫آج کاغذ ‪ ،‬قلم اور دوات کی بے شمار قسمیں دریافت ہوچکی ہیں‪ ،‬اس زمانہ میں اتنی ترقی ہرگز نہ تھی۔‬
‫لیکن ایسا بھی نہیں تھا کہ اس وقت کتابت کا کوئی انتظام نہیں تھا۔ قرآن مجید کی کتابت کے لئے بھی‬
‫اس وقت کی ایسی پائدار چیزیں استعمال کی گئیں جن میں حوادث و آفات کے مقابلے کی صالحیت نسبتا‬
‫ابن حجر رحمہ ہللا کی تحقیق کے مطابق‬ ‫ت دراز تک محفوظ رکھا جاسکے۔ حافظ ِ‬ ‫زیادہ تھی‪ ،‬تاکہ مد ِ‬
‫ت قرآن میں درج ذیل چیزیں استعمال کی گئیں‪:‬‬ ‫کتاب ِ‬
‫‪۱‬۔ زیادہ تر پتھروں کی چوڑی اور پتلی سلوں کو استعمال کیا گیا۔‬
‫‪۲‬۔اونٹوں کے مونڈھوں کی چوڑی گول ہڈیوں پر بھی لکھا گیا۔‬
‫‪ ۳‬۔ چمڑوں کے کافی باریک ٹکڑوں پر بھی قرآن مجید لکھا جاتا تھا۔‬
‫‪۴‬۔ بانس کے ٹکڑوں پر بھی آیات لکھی جاتی تھیں۔‬
‫‪۵‬۔ درخت کے چوڑے اور صاف پتے بھی کتابت کے لئے استعمال ہوتے تھے۔‬
‫‪۶‬۔ کھجور کی شاخوں کی چوڑی جڑوں اور کھجور کے ُجڑے ہوئے پتوں کو کھول کر ان کو‬
‫بھی استعمال کیا گیا۔‬
‫ت قرآن کا ذکر کیا ہے۔‬
‫‪۷‬۔ محدثین نے کاغذ پر بھی کتاب ِ‬
‫ت قرآن‪:‬رسول ہللا ﷺ نزو ِل وحی کے ساتھ ہی آیات لکھوالیا کرتے تھے اور‬ ‫عہ ِد نبوی میں کتاب ِ‬
‫لکھوانے کے ساتھ سُن بھی لیتے تھے۔ رسول ہللا ﷺ کے زمانہ میں قرآن مجید کو لکھنے کا تو انتظام‬
‫کیا گیا لیکن علیحدہ کتابی صورت میں قرآن کہیں موجود نہیں تھا۔‬
‫حضرت ابوبکر صدیق کے عہد خالفت میں حفاظت قرآن‪:‬‬
‫حضور اکرم ﷺ کے زمانے میں جتنے قرآن کریم کے نسخے لکھے گئے تھے وہ عموما متفرق‬
‫اشیاء پر لکھے ہوئے تھے۔ حضرت ابوبکر صدیق کے عہد خالفت میں جب جنگ یمامہ کے دوران‬
‫حفاظ قرآن کی ایک بڑی جماعت شہید ہوگئی تو حضرت عمر فاروق نے حضرت ابوبکر صدیق کو‬
‫قرآن کریم کو ایک جگہ جمع کروانے کا مشورہ دیا۔ حضرت ابوبکر صدیق ابتداء میں اس کام کے لئے‬
‫تیار نہیں تھے لیکن شرح صدر کے بعد وہ بھی اس عظیم کام کے لئے تیارہوگئے اور کاتب وحی‬
‫حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنہ کو اس اہم وعظیم عمل کا ذمہ دار بنایا۔ اس طرح قرآن کریم کو ایک‬
‫جگہ جمع کرنے کا اہم کام شروع ہوگیا۔‬

‫‪ 111 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫حضرت زید بن ثابت خود کاتب وحی ہونے کے ساتھ پورے قرآن کریم کے حافظ تھے۔وہ اپنی‬
‫یادداشت سے بھی پورا قرآن لکھ سکتے تھے‪ ،‬اُن کے عالوہ اُس وقت سینکڑوں حفاظ قرآن موجود‬
‫تھے‪،‬مگر انہوں نے احتیاط کے پیش نظر صرف ایک طریقہ پر بس نہیں کیا بلکہ ان تمام ذرائع سے‬
‫بیک وقت کام لے کر اُس وقت تک کوئی آیت اپنے صحیفے میں درج نہیں کی جب تک اس کے متواتر‬
‫ہونے کی تحریری اور زبانی شہادتیں نہیں مل گئیں۔ اس کے عالوہ حضور اکرم ﷺ نے قرآن کی جو‬
‫آیات اپنی نگرانی میں لکھوائی تھیں‪ ،‬وہ مختلف صحابہ کرام کے پاس محفوظ تھیں‪ ،‬حضرت زید بن‬
‫ثابت نے انہیں یکجا فرمایاتاکہ نیا نسخہ ان ہی سے نقل کیا جائے۔ اس طرح خلیفہ ّاول حضرت ابوبکر‬
‫صدیق کے عہد خالفت میں قرآن کریم ایک جگہ جمع کردیا گیا۔‬
‫حضرت عثمان غنی کے عہد خالفت میں حفاظت قرآن‪:‬‬
‫جب حضرت عثمان غنی رضی ہللا عنہ خلیفہ بنے تو اسالم عرب سے نکل کر دو دراز عجمی‬
‫عالقوں تک پھیل گیا تھا۔ ہر نئے عالقہ کے لوگ ان صحابہ وتابعین سے قرآن سیکھتے جن کی بدولت‬
‫انہیں اسالم کی نعمت حاصل ہوئی تھی۔ صحابہ کرام نے قرآن کریم حضور اکرم ﷺسے مختلف قرأتوں‬
‫کے مط ابق سیکھا تھا۔ اس لئے ہر صحابی نے اپنے شاگردوں کو اسی قراء ت کے مطابق قرآن پڑھایا‬
‫جس کے مطابق خود انہوں نے حضور اکرم ﷺ سے پڑھا تھا۔ اس طرح قرأتوں کا یہ اختالف دور دراز‬
‫ممالک تک پہنچ گیا۔ لوگوں نے اپنی قراء ت کو حق اور دوسری قرأتوں کو غلط سمجھنا شروع کردیا‬
‫تعالی ہی کی طرف سے اجازت ہے کہ مختلف قرأتوں میں قرآن کریم پڑھا جائے۔ حضرت‬ ‫ٰ‬ ‫حاالنکہ ہللا‬
‫عثمان غنی رضی ہللا عنہ نے حضرت حفصہ رضی ہللا عنہا کے پاس پیغام بھیجا کہ اُن کے پاس‬
‫(حضرت ابوبکر صدیق کا تیار کروایا ہوا) جوصحیفہ موجود ہے‪ ،‬وہ ہمارے پاس بھیج دیں۔ چنانچہ‬
‫حضرت زید بن ثابت رضی ہللا عنہ کی سرپرستی میں ایک کمیٹی تشکیل دے کر ان کو مکلف کیا گیا کہ‬
‫وہ حضرت ابوبکر صدیق کے صحیفہ سے نقل کرکے قرآن کریم کے چند ایسے نسخے تیار کریں جن‬
‫میں سورتیں بھی مرتب ہوں۔ چنانچہ قرآن کریم کے چند نسخے تیار ہوئے اور ان کو مختلف جگہوں پر‬
‫ارسال کردیا گیا تاکہ اسی کے مطابق نسخے تیار کرکے تقسیم کردئے جائیں۔ اس طرح امت مسلمہ میں‬
‫اختالف باقی نہ رہا اور پوری امت مسلمہ اسی نسخہ کے مطابق قرآن کریم پڑھنے لگی۔ بعد میں لوگوں‬
‫کی سہولت کے لئے قرآن کریم پر نقطے وحرکات (یعنی زبر‪ ،‬زیر اور پیش) بھی لگائے گئے‪ ،‬نیز‬
‫بچوں کو پڑھانے کی سہولت کے مدنظر قرآن کریم کو تیس پاروں میں تقسیم کیا گیا۔ نماز میں تالوت‬
‫قرآن کی سہولت کے لئے رکوع کی ترتیب بھی رکھی گئی۔‬

‫سوال نمبر‪ : 3‬حدیث کی دینی حیثیت پر نوٹ لکھیں ۔‬


‫حدیث کی دینی حیثیت ‪:‬حدیث شریف کا دین میں کیا درجہ ہے ؟ اس کو ذہن نشین کرنے کے لئے‬
‫ب ذیل حیثیات کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے‪ ،‬جن کو قرآن پاک نے نہایت‬ ‫حضرت محمد ﷺ کی حس ِ‬
‫صراحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے ۔‬
‫(‪ )1‬آپ ﷺ کی ذات قدسی صفات میں ہر مومن کے لیے اسوہ حسنہ ہے ۔‬
‫ٌ ۔۔۔۔۔الخ " ۔ (‬ ‫َۃ‬ ‫ٌ ح‬
‫َسَن‬ ‫َة‬‫ُسو‬ ‫َسُول‬
‫ِ للااِ ا‬ ‫ِی ر‬ ‫ُم ف‬‫َ َلک‬ ‫َد ک‬
‫َان‬ ‫" َلق‬
‫االحزاب ‪) 21 :‬‬
‫" بے شک رسول ہللا ﷺ کا ایک عمدہ نمونہ موجود ہے تمھارے لیے یعنی اس کے لیے جو ڈرتا ہو ہللا‬
‫اور روز آخرت سے اور ذکر ٰالہی کثرت سے کرتا ہو ۔‬
‫(‪ )2‬آپ ﷺ کی اتباع سب پر فرض ہے ۔‬

‫‪ 112 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫۔‬ ‫ِی ۔۔۔۔۔ الخ"‬ ‫ِ َّ‬
‫الذ‬ ‫ِیّ‬‫ِ االُم‬ ‫َّب‬
‫ِیّ‬ ‫ِ الن‬ ‫لہ‬‫َسُوِ‬‫َر‬‫ِاہللِ و‬ ‫ُوا ب‬ ‫ِن‬ ‫ٰم‬
‫َا‬‫"ف‬
‫( االعراف ‪) 158 :‬‬
‫" سو ایمان الؤ ہللا پر اس بھیجے ہوئے نبی اُمی پر کہ جو یقین رکھتا ہے ہللا پر اور اس کے سب‬
‫کالموں پر اور اس کی پیروی کرو۔‬
‫(‪ )3‬جو کچھ آپ ؐ دین اس کو لینا اور جس چیز سے منع فرمائیں اس سے باز رہنا ضروری ہے ۔‬
‫(‬ ‫ُوا"‬ ‫َه‬‫َانت‬ ‫ہ ف‬ ‫َنُ‬‫ُم ع‬ ‫ٰک‬‫نه‬‫ما َ‬ ‫ََ‬‫ُ و‬‫ُوه‬ ‫َخُذ‬
‫ُ ف‬ ‫َّسُول‬
‫ُ الر‬ ‫ُم‬‫تک‬‫ٰٰ‬
‫ما ا‬ ‫ََ‬
‫" و‬
‫الحشر ‪) 7 :‬‬
‫" اور جو دے تم کو رسول ؐ سو لے لو اور جس سے منع کرے سو چھوڑ دو " ۔‬
‫(‪ )4‬آپ ؐ کی اطاعت تمام مسلمانوں پر فرض ہے ۔‬
‫(‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َّ‬
‫ِيعوا الرسول "‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫ُوا للاا واط‬
‫َ‬ ‫ِيع‬ ‫َط‬
‫ُوا ا‬ ‫من‬‫َٰ‬‫َ ا‬‫ِين‬ ‫الذ‬‫َا َّ‬ ‫َُّ‬
‫يه‬ ‫" َ‬
‫يا‬
‫محمد ‪) 33 :‬‬
‫" اے ایمان والو ! حکم پر چلو ہللا اور اس کے رسول کے " ۔‬
‫(‪ )5‬ہدایت آپ ؐ کی اطاعت سے وابستہ ہے ۔‬
‫( النور ‪) 54 :‬‬ ‫دوا "‬ ‫َُ‬‫تهت‬ ‫ُ َ‬ ‫ُوه‬ ‫ِيع‬ ‫ِن ُ‬
‫تط‬ ‫َا‬
‫" و‬
‫" اور اگر اس کا کہا مانو تو راہ پاؤ گے "۔‬
‫ان آیات سے معلوم ہوا کہ حضرت محمد ﷺنے جس قدر امت کو ہدایتیں دیں ‪ ،‬جو جو چیزیں ان سے‬
‫بیان فرمائیں اور کتاب وحکمت کی تعلیم کے ذیل میں جو کچھ ارشاد فرمایا ‪ ،‬جن چیزوں کو حالل ٹھرایا‬
‫‪ ،‬باہمی معامالت وقضا میں جو کچھ فیصلہ فرمایا ‪ ،‬ان سب کی حیثیت دینی اور تشریعی ہے ۔ یہی نہیں‬
‫بلکہ آپ ؐ کی پوری زندگی امت کے لیے بہترین نمونہ عمل ہےجس کی پیروی کا ہم کو حکم دیا گیا ہے ۔‬
‫آپ ؐ کی اطاعت ہر امتی پر فرض ہے جو آپ ؐ حکم دیں اس کو بجا النا اور جس سے منع کریں اس‬
‫سےرک جانا ‪ ،‬ہر مومن کے لیے الزم اور ضروری ہے ۔ مختصر یہ کہ آپ ؐ کی اطاعت ہی حقیقت میں‬
‫تعالی کی اطاعت ہے ۔ چنانچہ قرآن میں تصریح ہے ۔‬ ‫ٰ‬ ‫حق‬
‫ِ فقد اطاع للااَ " ( النسائ ‪) 80 :‬‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫َّ‬
‫ِ الرسول‬ ‫ِع‬ ‫ُّ‬
‫" من يط‬ ‫َ‬
‫اور جس نے حکم مانا رسول کا اس نے حکم مانا ہللا کا ۔‬
‫تعالی کی بات ماننا فرض اور ضروری ہے اسی طرح حضرت محمد ﷺ کی بات‬ ‫یعنی جس طرح ہللا ٰ‬
‫ماننا بھی الزمی اور حتمی ہے۔ ظاہر ہے کہ جملہ احکام دین کے متعلق کلی احکام قرآن مجید میں‬
‫موجود ہیں لیکن ان احکام کی تشریح ‪ ،‬ان کی جزئیات کی تفصیل اور ان کی عملی تشکیل رسول کریم‬
‫ﷺ کے اقوال واعمال اور آپ ؐ کے احوال کے جانے بغیر ناممکن اور محال ہے ۔‬

‫‪ 113 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫‪1‬۔ قرآن کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬ٹوٹ جانا‬ ‫‪۰‬مالنا‬ ‫‪۰‬لکھنا‬ ‫‪۰‬پڑھنا‬
‫‪2‬۔ الفرقان کا مطلب ہے‪:‬‬
‫‪۰‬سچ‬ ‫‪۰‬عبرت کا سامان‬ ‫‪۰‬ہدایت دکھانے والی‬ ‫‪۰‬روشنی‬
‫اور جھوٹ میں فرق کرنے والی‬
‫‪3‬۔ مدنی سورتوں کی تعداد ہے‪:‬‬
‫‪70۰‬‬ ‫‪27۰‬‬ ‫‪87۰‬‬ ‫‪60۰‬‬
‫‪4‬۔ مکی سورتوں کی تعداد ہے‪:‬‬
‫‪70۰‬‬ ‫‪27۰‬‬ ‫‪87۰‬‬ ‫‪60۰‬‬
‫‪5‬۔ وحی کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬خطا‬ ‫‪۰‬نشانی‬ ‫‪۰‬اشارہ‬ ‫‪۰‬بات‬
‫‪6‬۔ آیت کے معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬خطا‬ ‫‪۰‬نشانی‬ ‫‪۰‬اشارہ‬ ‫‪۰‬بات‬
‫‪7‬۔قرآنی آیات کی ُکل تعداد ہے‪:‬‬
‫‪7000۰‬‬ ‫‪6666۰‬‬ ‫‪5555۰‬‬ ‫‪6671۰‬‬
‫‪8‬۔ قرآن میں ُکل رکوع کتنے ہیں؟‬
‫‪557۰‬‬ ‫‪600۰‬‬ ‫‪560۰‬‬ ‫‪540۰‬‬
‫‪9‬۔ قرآن مجید اس مہینے میں نازل ہوا‪:‬‬
‫‪۰‬شوال‬ ‫‪۰‬رمضان‬ ‫‪۰‬ربیع االول‬ ‫‪۰‬محرم‬
‫‪10‬۔ قرآن کریم میں سورتوں کی تعداد ہے‪:‬‬
‫‪150۰‬‬ ‫‪110۰‬‬ ‫‪114۰‬‬ ‫‪200۰‬‬
‫‪11‬۔ قرآن مجید کی سب سے چھوٹی سورت ہے‪:‬‬
‫‪۰‬سورۃ العصر‬ ‫‪۰‬سورۃ الکوثر‬ ‫‪۰‬سورۃ یس‬ ‫‪۰‬سورۃ البقرہ‬
‫‪12‬۔ قرآن مجید کی سب سے بڑی سورت ہے‪:‬‬
‫‪۰‬سورۃ العصر‬ ‫‪۰‬سورۃ الکوثر‬ ‫‪۰‬سورۃ یس‬ ‫‪۰‬سورۃ البقرہ‬
‫‪13‬۔ قرآن مجید میں قرآن کے کتنے نام بیان ہوئے ہیں؟‬
‫‪100۰‬‬ ‫‪35۰‬‬ ‫‪25۰‬‬ ‫‪55۰‬‬
‫‪14‬۔ قرآن مجید کا ایک حرف پڑھنے کے عوض کتنی نیکیاں ملتی ہیں؟‬
‫‪۰‬تیس‬ ‫‪۰‬بیس‬ ‫‪۰‬دس‬ ‫‪۰‬پانچ‬
‫‪15‬۔ نبوت سے پہلے آپ ﷺ عبادت کے لئے کہاں جایا کرتے تھے؟‬

‫‪ 114 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫غار طور‬
‫‪ِ ۰‬‬ ‫غارثور‬
‫‪ِ ۰‬‬ ‫غار حرا‬
‫‪ِ ۰‬‬
‫‪۰‬خانہ کعبہ‬
‫‪16‬۔ پہلی وحی میں نازل ہونے والی سورت کا نام ہے‪:‬‬
‫‪۰‬سورۃ العلق‬ ‫‪۰‬سورۃ االخالص‬ ‫‪۰‬سورۃ المدثر‬ ‫‪۰‬سورۃ البقرہ‬
‫‪17‬۔ حضور ﷺ پر پہلی وحی یہاں نازل ہوئی‪:‬‬
‫غار طور‬
‫‪ِ ۰‬‬ ‫غارثور‬
‫‪ِ ۰‬‬ ‫غار حرا‬‫‪ِ ۰‬‬
‫غار نور‬ ‫‪ِ ۰‬‬
‫غار حرا اس پہاڑ میں واقع ہے‪:‬‬ ‫‪18‬۔ ِ‬
‫‪۰‬ہمالیہ‬ ‫‪۰‬فاران‬ ‫‪۰‬نور‬ ‫‪۰‬طور‬
‫‪19‬۔ پہلی وحی میں کتنی آیات نازل ہوئیں؟‬
‫‪۰‬سات‬ ‫‪۰‬پانچ‬ ‫‪۰‬چار‬ ‫‪۰‬دو‬
‫‪20‬۔ اقراء کے معنی ہیں‪:‬‬
‫سن‬
‫‪ُ ۰‬‬ ‫‪۰‬جان‬ ‫‪۰‬پڑھ‬ ‫‪۰‬تدبر کر‬
‫‪21‬۔ دو وحی کے درمیان کچھ عرصہ کے لئے وحی نہ آنے کا زمانہ کہالتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬نہایۃ الوحی‬ ‫‪۰‬بدء الوحی‬ ‫‪۰‬فترۃ الوحی‬
‫‪۰‬وقفہ‬
‫‪ 22‬۔ قرآن مجید کو باقاعدہ کتابی صورت میں النے کی تجویز اس صحابی نے پیش کی‪:‬‬
‫‪۰‬حضرت عثمان‬ ‫‪۰‬حضرت زید بن ثابت‬ ‫‪۰‬حضرت عمر‬ ‫‪۰‬حضرت علی‬
‫تدوین قرآن میں کتنے مہاجرین و انصار صحابہ شامل تھے؟‬ ‫ِ‬ ‫‪23‬۔‬
‫‪25۰‬مہاجر‪ 50‬انصار‬ ‫‪20۰‬مہاجر‪ 55‬انصار‬ ‫‪50۰‬مہاجر‪ 25‬انصار‬
‫‪40۰‬مہاجر‪ 35‬انصار‬
‫‪24‬۔ کس صحابی کا لہجہ آپ ﷺ کے مشابہ تھا؟‬
‫‪۰‬حسان بن ثابت‬ ‫‪۰‬ابی بن کعب‬ ‫‪۰‬سعید بن العاص‬ ‫‪۰‬سعید بن معاذ‬
‫‪25‬۔ قرآن کی اس سورت کے شروع میں بسم ہللا نہیں ہے‪:‬‬
‫‪۰‬سورۃ االنعام‬ ‫‪۰‬سورۃ المائدہ‬ ‫‪۰‬سورۃ توبہ‬ ‫‪۰‬سورۃ یوسف‬
‫‪26‬۔ قرآن مجید میں اتنی منزلیں ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬سات‬ ‫‪۰‬چھ‬ ‫‪۰‬پانچ‬ ‫‪۰‬تین‬
‫درس قرآن کے لئے جو چبوترہ بنایا گیا اس کا نام تھا‪:‬‬ ‫ِ‬ ‫میں‬ ‫نبوی‬ ‫‪27‬۔ مسج ِد‬
‫‪۰‬دارالعلوم‬ ‫‪۰‬دارالقرآن‬ ‫‪۰‬مدرسہ‬ ‫صفّہ‬ ‫‪ُ ۰‬‬
‫‪28‬۔ قرآن مجید میں سجدوں کی تعداد ہے‪:‬‬
‫‪20۰‬‬ ‫‪15۰‬‬ ‫‪14۰‬‬ ‫‪13۰‬‬
‫‪29‬۔ پہلی وحی کے نزول کے بعد حضرت خدیجہ رضی ہللا عنہا آپ ﷺ کو ان کے پاس لے گئیں‪:‬‬
‫‪۰‬مخرمہ بن نوفل‬ ‫‪۰‬ورقہ بن نوفل‬ ‫‪۰‬حضرت ابوبکر‬ ‫‪۰‬عبدہللا بن سالم‬
‫‪30‬۔ ورقہ بن نوفل حضرت خدیجہ رضی ہللا عنہا کے تھے‪:‬‬
‫‪۰‬چچا‬ ‫‪۰‬ماموں زاد بھائی‬ ‫‪۰‬ماموں‬ ‫‪۰‬چچا زاد بھائی‬
‫‪31‬۔ جامع القرآن اس صحابی کو کہا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬حضرت عثمان‬ ‫‪۰‬حضرت عمر‬ ‫حضرت ابوبکر‬ ‫‪۰‬حضرت زید بن ثابت ‪۰‬‬
‫‪32‬۔ قرآن پاک نزول سے پہلے لکھا ہوا تھا‪:‬‬
‫‪۰‬جنت‬ ‫‪۰‬لوحِ محفوظ میں‬ ‫‪۰‬جبرائیل ؑ کے دل میں‬ ‫‪۰‬آسمان میں‬
‫میں‬
‫‪33‬۔ صحیفہ کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬صحیح چیز‬ ‫‪۰‬مکتوب‬ ‫‪۰‬خط‬ ‫‪۰‬رسالہ‬
‫‪34‬۔ کئی سو حفاظ و قراء اس جنگ میں شہید ہوئے‪:‬‬

‫‪ 115 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫‪۰‬جنگِ قادسیہ‬ ‫‪۰‬جنگِ یمامہ‬ ‫‪۰‬جنگِ جمل‬ ‫‪۰‬جنگِ صفین‬
‫ت قرآن کے لئے جو کمیٹی بنائی گئی اس کے سربراہ تھے‪:‬‬ ‫‪35‬۔ کتاب ِ‬
‫‪۰‬حضرت عثمان‬ ‫‪۰‬حضرت عمر‬ ‫‪۰‬حضرت ابوبکر‬ ‫‪۰‬حضرت زید بن ثابت‬
‫ت قرآن والی کمیٹی میں صحابہ کی تعداد تھی‪:‬‬ ‫‪36‬۔ کتاب ِ‬
‫‪50۰‬‬ ‫‪25۰‬‬ ‫‪70۰‬‬ ‫‪75۰‬‬
‫‪ 37‬۔ جمع قرآن اور مصحف کی کتابت کا کام اس سال مکمل ہوا‪:‬‬
‫‪11-12۰‬ہجری‬ ‫‪15-16۰‬ہجری‬ ‫‪20-21۰‬ہجری‬ ‫‪24-25 ۰‬ہجری‬
‫‪ 38‬۔ حضرت عثمان رضی ہللا عنہ نے مصحف کی کتابت کے بعد اسے یہ نام دیا‪:‬‬
‫مصحف قرآنی‬
‫ِ‬ ‫‪۰‬‬ ‫مصحف امام‬
‫ِ‬ ‫‪۰‬‬ ‫مصحف عربی‬
‫ِ‬ ‫‪۰‬‬ ‫مصحف اصلی‬
‫ِ‬ ‫‪۰‬‬
‫‪39‬۔ آنحضرت ﷺ کے اقوال و افعال پر عمل کرنا کہالتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬سنت‬ ‫‪۰‬نفل‬ ‫‪۰‬واجب‬ ‫‪۰‬فرض‬
‫‪40‬۔ سنت کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬نئی چیز‬ ‫‪۰‬زحمت‬ ‫‪۰‬بات چیت‬ ‫‪۰‬طریقہ‬
‫‪41‬۔ سنت کی ضد ہے‪:‬‬
‫‪۰‬زحمت‬ ‫‪۰‬بدعت‬ ‫‪۰‬شرکت‬ ‫‪۰‬حدیث‬
‫‪42‬۔ شریعت کا دوسرا ماخذ ہے‪:‬‬
‫‪۰‬قیاس‬ ‫‪۰‬اجماع‬ ‫‪۰‬حدیث‬ ‫‪۰‬قرآن‬
‫‪43‬۔ حدیث کے لفظی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬پرانی چیز‬ ‫‪۰‬ایجاد‬ ‫‪۰‬طریقہ‬ ‫‪۰‬بات چیت‬
‫‪44‬۔ حدیث کی اقسام میں صحیحین سے مراد ہے‪:‬‬
‫‪۰‬جامع الترمذی‬ ‫‪۰‬صحاح ستہ‬ ‫‪۰‬قرآن و حدیث‬ ‫‪۰‬بخاری و مسلم‬
‫‪45‬۔ صحاح ستہ میں حدیث کی کتنی کتابیں شامل ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬چار‬ ‫‪۰‬چھ‬ ‫‪۰‬سات‬ ‫‪۰‬پانچ‬
‫‪46‬۔ قرآن پاک اتنے عرصہ میں نازل ہوا‪:‬‬
‫‪23۰‬سال‬ ‫‪24۰‬سال‬ ‫‪25۰‬سال‬
‫‪30۰‬سال‬
‫‪47‬۔ حضور ﷺ کو نبوت اس عمر میں ملی‪:‬‬
‫‪23۰‬سال‬ ‫‪40۰‬سال‬ ‫‪25۰‬سال‬
‫‪50۰‬سال‬
‫‪48‬۔ تقوی کے معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬ریاضت‬ ‫‪۰‬عبادت‬ ‫‪۰‬سخاوت‬
‫‪۰‬پرہیزگاری‬
‫تدوین قرآن کا کام ان کے سپرد کیا‪:‬‬‫ِ‬ ‫‪49‬۔ حضرت ابوبکر صدیق رضی ہللا عنہ نے‬
‫‪۰‬حضرت عثمان‬ ‫‪۰‬حضرت زید بن ثابت‬ ‫‪۰‬حضرت عمر‬ ‫‪۰‬حضرت علی‬
‫‪50‬۔ وحی النے والے فرشتے کا نام ہے‪:‬‬
‫‪۰‬اسرافیل‬ ‫‪۰‬میکائیل‬ ‫‪۰‬جبرائیل‬
‫‪۰‬عزرائیل‬
‫‪51‬۔ عشرہ مبشرہ کی تعداد ہے‪:‬‬
‫‪۰‬دس‬ ‫‪۰‬چھ‬ ‫‪۰‬پانچ‬ ‫‪۰‬تین‬
‫‪52‬۔ قرآن مجید کی موجودہ ترتیب کہالتی ہے‪:‬‬
‫لوح قرآنی‬
‫‪ِ ۰‬‬ ‫‪۰‬متواتر‬ ‫‪۰‬توقیفی‬ ‫‪۰‬نزولی‬
‫‪53‬۔ آیت کے لغوی معنی ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬چیز‬ ‫‪۰‬ثواب‬ ‫‪۰‬اختتام‬ ‫‪۰‬نشانی‬

‫‪ 116 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫‪54‬۔ نبوت کے بعد آپ ﷺ کی مکی زندگی ہے‪:‬‬
‫‪10۰‬سال‬ ‫‪13۰‬سال‬ ‫‪12۰‬سال‬
‫‪15۰‬سال‬
‫‪55‬۔ آپ ﷺ کی مدنی زندگی ہے‪:‬‬
‫‪10۰‬سال‬ ‫‪13۰‬سال‬ ‫‪12۰‬سال‬
‫‪15۰‬سال‬
‫‪56‬۔ رسو ِل اکرم ﷺ نے اس دنیا میں اتنے سال گزارے‪:‬‬
‫‪64۰‬سال‬ ‫‪63۰‬سال‬ ‫‪62۰‬سال‬
‫‪65۰‬سال‬
‫‪57‬۔ حضرت عمر بن عبدالعزیز اس سن ہجری میں خلیفہ بنے‪:‬‬
‫‪89۰‬ہجری‬ ‫‪99۰‬ہجری‬ ‫‪100۰‬ہجری‬
‫‪150۰‬ہجری‬
‫‪58‬۔ فتح مکہ کے بعد آپ ﷺ نے جو خطبہ ارشاد فرمایا وہ ان کے لئے لکھوا کر دیا گیا‪:‬‬
‫‪۰‬حضرت ابو‬ ‫‪۰‬حضرت علی‬ ‫‪۰‬حضرت ابوبکر‬ ‫‪۰‬حضرت عمر‬
‫شاہ یمنی‬
‫تدوین حدیث کا دوسرا دور شروع ہوا‪:‬‬ ‫ِ‬ ‫‪59‬۔ ان خلیفہ کے عہد میں‬
‫‪۰‬حضرت علی‬ ‫‪۰‬حضرت عمر بن عبدالعزیز‬ ‫‪۰‬حضرت عثمان‬ ‫‪۰‬حضرت ابوبکر‬
‫ت حدیث کی نیت سے تمام شہروں کے حکام کو فرامین بھیجے‪:‬‬ ‫‪60‬۔ ان خلیفہ نے حفاظ ِ‬
‫‪۰‬حضرت علی‬ ‫‪۰‬حضرت عمر بن عبدالعزیز‬ ‫‪۰‬حضرت عثمان‬ ‫‪۰‬حضرت ابوبکر‬
‫‪61‬۔ مشہور عالم محمد بن مسلم بن شہاب زہری کا تعلق تھا‪:‬‬
‫‪۰‬مصر سے‬ ‫‪۰‬بغداد سے‬ ‫‪۰‬یمن سے‬
‫‪۰‬حجاز و شام سے‬
‫‪62‬۔ امام بخاری ؒ کا تعلق یہاں سے تھا‪:‬‬
‫‪۰‬عراق‬ ‫‪۰‬بخارا‬ ‫‪۰‬دہلی‬ ‫‪۰‬دمشق‬
‫‪63‬۔ حدیث کی کتاب ”االستبصار“ کا تعلق اس فقہ سے ہے‪:‬‬
‫‪۰‬فقہ‬ ‫‪۰‬فقہ احمدیہ‬ ‫‪۰‬فقہ جعفریہ‬ ‫‪۰‬فقہ حنفیہ‬
‫مالکیہ‬
‫‪64‬۔ صحیح بخاری کے مؤلف ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬محمدبن عیسی‬ ‫‪۰‬مسلم بن ابراہیم‬ ‫‪۰‬مسلم بن حجاج‬ ‫‪۰‬محمد بن اسماعیل‬
‫‪65‬۔ صحیح مسلم کے مؤلف ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬محمد بن عیسی‬ ‫‪۰‬مسلم بن ابراہیم‬ ‫‪۰‬مسلم بن حجاج‬ ‫‪۰‬محمد بن اسماعیل‬
‫‪66‬۔ جامع ترمذی کے مؤلف ہیں‪:‬‬
‫‪۰‬محمد بن‬ ‫‪۰‬مسلم بن ابراہیم‬ ‫‪۰‬مسلم بن حجاج‬ ‫‪۰‬محمد بن اسماعیل‬
‫عیسی‬
‫‪67‬۔ فقہ جعفریہ کے حدیث کے مستند ترین ذخائر کو کہا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪۰‬اصو ِل‬ ‫صحاح ستہ‬
‫ِ‬ ‫‪۰‬‬ ‫‪۰‬اصو ِل اربعہ‬ ‫‪۰‬صحیحین‬
‫کافی‬
‫ذخائر احادیث کی تعداد ہے‪:‬‬ ‫ِ‬ ‫‪68‬۔ فقہ جعفریہ کے مستند‬
‫‪۰‬چار‬ ‫‪۰‬تین‬ ‫‪۰‬دو‬ ‫‪۰‬ایک‬
‫‪69‬۔ اصو ِل اربعہ میں شامل کتابوں کی تعداد ہے‪:‬‬
‫‪۰‬چار‬ ‫‪۰‬پانچ‬ ‫‪۰‬چھ‬ ‫‪۰‬دس‬
‫‪70‬۔ وہ کبھی محتاج نہیں ہوگا جس نے اختیار کی ‪/‬کیا‪:‬‬
‫‪۰‬صدق‬ ‫‪۰‬صبر‬ ‫‪۰‬میانہ روی‬ ‫‪۰‬توکل‬

‫‪ 117 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫‪71‬۔اور سب مل کر مظبوطی سے اسے تھام لو او پھوٹ نہ ڈالو‪:‬‬
‫‪۰‬ہللا کا‬ ‫‪۰‬ہللا کا وعدہ‬ ‫‪۰‬ہللا کی رسی‬ ‫‪۰‬ہللا کی فرمانبرداری‬
‫حکم‬
‫‪72‬۔ بے شک ہللا کے ہاں تم میں زیادہ وہ ہے جو تم میں سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔‬
‫‪۰‬عزت واال‬ ‫‪۰‬اوالد واال‬ ‫‪۰‬مال واال‬
‫‪۰‬شہرت واال‬
‫‪73‬۔ بے شک مجھے اس لئے رسول بناکر بھیجا گیا ہے کہ میں تکمیل کروں۔‬
‫‪۰‬اعلی اخالق کی‬ ‫‪۰‬شریعت کی‬ ‫‪۰‬اعلی عبادت کی‬ ‫‪۰‬اعلی قیادت کی‬
‫‪74‬۔ مسلمان وہ ہے جس کی ہاتھ اور زبان سے محفوظ ہوں‪:‬‬
‫‪۰‬دوسرے مسلمان‬ ‫‪۰‬دوسرے غیر ملکی‬ ‫‪۰‬دوسرے پڑوسی‬
‫‪۰‬دوسرے رشتہ دار‬

‫سائنس کے سابقہ پرچہ جات‬


‫‪200‬‬ ‫‪2009‬‬ ‫‪2010‬‬ ‫‪2011‬‬ ‫‪2012‬‬ ‫‪2013‬‬ ‫‪2014‬‬ ‫‪2015‬‬ ‫‪2016‬‬ ‫‪2017‬‬ ‫‪2018‬‬ ‫منتخب قرآنی آیات‬
‫‪8‬‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫ُوا‬ ‫من‬‫آَ‬ ‫َ‬
‫ِين‬‫اَّلذ‬ ‫َا‬ ‫َُّ‬
‫يه‬ ‫يأ‬‫ٰ‬
‫ً‬
‫ِيدا‬ ‫َ‬ ‫ً‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫َللاا وقولوا قوال سد‬ ‫ُ‬
‫تقو‬‫اَّ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫َسُول‬
‫ِ للااِ‬ ‫ِى ر‬‫ُم ف‬‫َ َلك‬ ‫َد ك‬
‫َان‬ ‫َلق‬

‫‪ 118 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫ٌ‬
‫َة‬‫َسَن‬‫ة ح‬‫ٌَ‬ ‫ُسو‬ ‫ا‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ِ للااِ‬‫َبل‬ ‫ِح‬‫ُوا ب‬ ‫ِم‬‫َص‬
‫َاعت‬ ‫و‬
‫ُوا‬ ‫َر‬
‫َّق‬ ‫ال َ‬
‫تف‬ ‫ََّ‬
‫ًاو‬‫ِيع‬ ‫َم‬ ‫ج‬
‫ُم‬‫ٰك‬ ‫َ‬ ‫ِنَ‬ ‫ُم ع‬ ‫ََ‬ ‫َ‬
‫َّ أكر‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫د للااِ أتق‬ ‫مك‬ ‫ِن‬ ‫إ‬
‫ض‬ ‫َ‬
‫َاألرِ‬ ‫ٰتِ و‬ ‫ٰو‬ ‫ِ السَّم‬ ‫َ‬
‫ِى خلق‬ ‫ِن ف‬ ‫َّ‬ ‫إ‬
‫يتٍ‬ ‫َِ‬
‫الٰٰ‬ ‫َار‬‫َّه‬‫َالن‬ ‫ِ و‬ ‫ِالَفِ َّ‬
‫اليل‬ ‫َاخت‬ ‫و‬
‫َابِ‬‫ِی االَلب‬ ‫ّ‬
‫الُول‬
‫ِ‬
‫َّى‬ ‫َّ ح‬ ‫َ ُ‬ ‫َلن َ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ٰ‬ ‫َت‬
‫َ‬
‫ِر‬‫الوا الب‬ ‫تن‬
‫ُّون‬ ‫تحِب‬‫َّا ُ‬‫ِم‬‫ُوا م‬ ‫ِق‬ ‫تنف‬ ‫ُ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ُوه‬
‫ُ‬ ‫َخُذ‬‫ُ ف‬ ‫َّسُول‬ ‫ُ الر‬ ‫ُم‬‫تاك‬ ‫مآ آَ‬ ‫ََ‬ ‫و‬
‫ُوا‬ ‫َانت‬
‫َه‬ ‫ُ ف‬ ‫َنه‬ ‫ُم ع‬ ‫َاك‬ ‫نه‬‫ما َ‬ ‫ََ‬ ‫و‬
‫َنِ‬ ‫ٰ ع‬ ‫َى‬‫تنه‬ ‫َ َ‬‫ٰة‬‫َّلو‬‫َّ الص‬ ‫ِن‬ ‫إ‬
‫َر‬
‫ِ‬ ‫ُنك‬ ‫َالم‬ ‫ء و‬ ‫َحشَآِ‬ ‫الف‬
‫ِالَّ‬
‫نفسٍ إ‬ ‫ُّ َ‬‫ُل‬
‫ُ ك‬ ‫ِب‬‫تكس‬ ‫َالَ َ‬ ‫و‬
‫َ‬
‫ِزر‬ ‫ٌ و‬ ‫َة‬‫ِر‬ ‫َاز‬ ‫ُ و‬ ‫ِر‬‫تز‬‫َالَ َ‬
‫َا و‬ ‫َيه‬ ‫َل‬ ‫ع‬
‫َى‬ ‫أخر‬‫ُ‬
‫ٰ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫َدل‬
‫ِ‬ ‫ِالع‬ ‫ُ ب‬‫مر‬‫يأُ‬ ‫َّ للااَ َ‬
‫ِن‬ ‫إ‬
‫َاإلحسَان‬ ‫و‬

‫‪200‬‬ ‫‪2009‬‬ ‫‪2010‬‬ ‫‪2011‬‬ ‫‪2012‬‬ ‫‪2013‬‬ ‫‪2014‬‬ ‫‪2015‬‬ ‫‪2016‬‬ ‫‪2017‬‬ ‫‪2018‬‬ ‫منتخب احادیث‬
‫‪8‬‬
‫َ‬ ‫ّي‬
‫َّاتِ و‬ ‫ُ ب‬ ‫َا االَعم‬
‫َال‬ ‫اَّ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫م َ‬
‫ِ‬
‫ِالن‬ ‫ِنم‬
‫َِّ‬
‫ٰ‬‫َی‬
‫انو‬ ‫ّ امر‬
‫ِیء َّ‬ ‫ِ‬‫ُل‬
‫لک‬‫َا ِ‬
‫نم‬ ‫ا‬

‫َ‬ ‫َ ح‬ ‫ّ‬ ‫الُ َ‬


‫ُ ِ‬ ‫َا ُ‬ ‫اَّ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ُسن‬ ‫ِم‬‫تم‬ ‫ِثت‬ ‫بع‬ ‫ِنم‬
‫ِ‬‫االَخالَق‬
‫َ‬
‫ُون‬‫َک‬‫ّٰی ا‬ ‫ُم ح‬
‫َت‬ ‫د ک‬ ‫َح‬
‫َُ‬ ‫ُ ا‬ ‫ِن‬‫ُؤم‬ ‫الَ ي‬
‫َ‬
‫ِه و‬ ‫َّاِ‬
‫لد‬ ‫ِن و‬ ‫ِ م‬‫ِليہ‬ ‫َّ اَ‬ ‫َب‬‫َح‬‫ا‬
‫َ ۔‬ ‫ِين‬ ‫َجم‬
‫َع‬ ‫َّاسِ ا‬‫َالن‬ ‫ِه و‬ ‫ََلد‬‫و‬
‫َّ‬ ‫ّٰی ي‬ ‫ُم ح‬ ‫َُ‬‫ُ اح‬ ‫َ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ُحِب‬ ‫َت‬ ‫دک‬ ‫ِن‬‫ُؤم‬ ‫الي‬
‫ِہ‬‫َفس‬‫لن‬‫ُّ ِ‬‫ُحِب‬
‫ما ي‬ ‫ِ َ‬ ‫الَخِيہ‬
‫ِ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫َ‬
‫ُون‬‫ِم‬‫ُسل‬ ‫َ الم‬ ‫ِم‬‫من سَل‬ ‫ُ َ‬ ‫ِم‬‫ُسل‬ ‫َلم‬ ‫ا‬
‫ِه‬‫يد‬‫َ َ‬ ‫ِہ و‬ ‫لسَان‬‫ِن ّ‬
‫ِ‬ ‫م‬
‫ُ‬‫َم‬ ‫ال َ‬‫من َّ‬ ‫ُ للااُ َ‬
‫ُہ‬‫َم‬ ‫َ‬
‫الَ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫يرح‬ ‫يرح‬
‫َّاسَ‬‫الن‬
‫٭‬ ‫ِم‬
‫ِ‬ ‫ُسل‬ ‫َی الم‬ ‫َل‬‫ِ ع‬‫ِم‬‫ُسل‬ ‫ُّ الم‬ ‫ُل‬‫ک‬
‫ُہ‬‫ِرض‬‫َ ع‬ ‫الہ و‬‫م ُ‬ ‫َ َ‬ ‫ُہ و‬ ‫ٌ َ‬
‫دم‬ ‫َام‬ ‫َر‬‫ح‬

‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ََ‬


‫د‬ ‫َص‬
‫منِ اقت‬ ‫َ َ‬ ‫َال‬‫ما ع‬ ‫َ‬
‫ِيہ‬
‫ِ‬ ‫ُ ف‬ ‫ُب‬
‫يطل‬‫ًا َ‬ ‫ِيق‬ ‫َکَ طر‬ ‫من سَل‬ ‫َ‬
‫ِن‬‫ًا م‬‫ِيق‬‫َر‬‫ِہ ط‬‫َکَ للااُ ب‬‫ًا سَل‬ ‫ِلم‬‫ع‬
‫َّۃ‬
‫َ‬ ‫َن‬‫ِ الج‬ ‫ُر‬
‫ُق‬ ‫ط‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫ِنِ‬
‫ُؤم‬‫ُوا الم‬ ‫َخ‬‫ُ ا‬ ‫ِن‬‫ُؤم‬‫َلم‬‫ا‬
‫َکی‬
‫ٰ‬ ‫ِنِ اشت‬ ‫ِ ا‬‫َاحِد‬‫ِ الو‬ ‫َالج‬
‫َسَد‬ ‫ک‬
‫ََلم‬
‫َ‬ ‫د ا‬‫ََ‬
‫َج‬‫ً و‬‫ُضو‬‫ہ ع‬ ‫ِنُ‬ ‫ًا ّ‬
‫م‬ ‫شَيئ‬
‫َسَد‬
‫ِه‬ ‫ِ ج‬ ‫ِر‬‫ِی سَآئ‬ ‫ف‬

‫کامرس کے سابقہ پرچہ جات‬


‫‪200‬‬ ‫‪2009‬‬ ‫‪2010‬‬ ‫‪2011‬‬ ‫‪2012‬‬ ‫‪2013‬‬ ‫‪2014‬‬ ‫‪2015‬‬ ‫‪2016‬‬ ‫‪2017‬‬ ‫‪2018‬‬ ‫منتخب قرآنی آیات‬
‫‪8‬‬
‫٭‬ ‫ُوا‬ ‫من‬‫آَ‬ ‫َ‬
‫ِين‬‫اَّلذ‬ ‫َا‬‫يه‬‫َُّ‬
‫يأ‬‫ٰ‬
‫دا‬‫ِيً‬ ‫َوالً سَد‬ ‫ُوُلوا ق‬ ‫َق‬ ‫ُو‬
‫َللاا و‬ ‫تق‬‫اَّ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫َسُول‬
‫ِ للااِ‬ ‫ِى ر‬ ‫ُم ف‬ ‫َ َلك‬‫َان‬ ‫َد ك‬ ‫َلق‬
‫ٌ‬
‫َة‬‫َسَن‬‫ٌ ح‬ ‫َة‬‫ُسو‬ ‫ا‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ِ للااِ‬
‫َبل‬‫ِح‬ ‫ُوا ب‬ ‫ِم‬‫َص‬‫َاعت‬ ‫و‬
‫ُوا‬ ‫َر‬
‫َّق‬ ‫تف‬ ‫ََّ‬
‫ال َ‬ ‫ًاو‬ ‫ِيع‬ ‫َم‬‫ج‬

‫‪ 119 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ُم‬‫ٰك‬ ‫َتق‬‫د للااِ أ‬‫ِنَ‬ ‫ُم ع‬ ‫ََ‬
‫مك‬ ‫َكر‬‫َّ أ‬ ‫ِن‬ ‫إ‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫ٰو‬ ‫َّ‬ ‫َ‬ ‫َّ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ض‬
‫ٰتِ واألرِ‬
‫َِ‬ ‫ََّ‬
‫ِ السم‬ ‫ِى خلق‬ ‫ِن ف‬
‫ِالَفِ َّ‬
‫إ‬
‫يتٍ‬‫الٰٰ‬ ‫هار‬ ‫َالن‬ ‫ِ و‬ ‫اليل‬ ‫َاخت‬ ‫و‬
‫َابِ‬‫ِی االَلب‬ ‫ّ‬
‫الُول‬
‫ِ‬
‫َّى‬ ‫َّ ح‬ ‫َ ُ‬ ‫َلن َ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ٰ‬ ‫َت‬
‫َ‬
‫ِر‬‫الوا الب‬ ‫تن‬
‫ُّون‬‫تحِب‬‫َّا ُ‬‫ِم‬‫ُوا م‬ ‫ِق‬ ‫تنف‬ ‫ُ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ُوه‬
‫ُ‬ ‫َخُذ‬‫ُ ف‬ ‫َّسُول‬‫ُ الر‬ ‫ُم‬‫تاك‬‫مآ آَ‬ ‫ََ‬ ‫و‬
‫ُوا‬ ‫َانت‬
‫َه‬ ‫ُ ف‬ ‫َنه‬ ‫ُم ع‬ ‫َاك‬‫نه‬‫ما َ‬ ‫ََ‬ ‫و‬
‫َنِ‬ ‫َى‬ ‫َ َ‬‫ٰة‬ ‫َّ الص‬
‫َّلو‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ٰ ع‬ ‫تنه‬ ‫ِن‬ ‫إ‬
‫ِ‬‫َر‬‫ُنك‬ ‫َالم‬ ‫ء و‬‫َحشَآِ‬ ‫الف‬
‫ِالَّ‬ ‫ُّ َ‬
‫ُل‬‫ُ ك‬ ‫َالَ َ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫نفسٍ إ‬ ‫ِب‬‫تكس‬ ‫و‬
‫َ‬
‫ِزر‬ ‫ٌ و‬ ‫َة‬‫ِر‬ ‫َاز‬ ‫ُ و‬ ‫ِر‬ ‫َالَ َ‬
‫تز‬ ‫َا و‬ ‫َيه‬ ‫َل‬ ‫ع‬
‫َى‬ ‫أخر‬‫ُ‬
‫ٰ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫َدل‬
‫ِ‬ ‫ِالع‬ ‫ُ ب‬‫مر‬‫يأُ‬‫َّ للااَ َ‬
‫ِن‬ ‫إ‬
‫َاإلحسَان‬ ‫و‬

‫‪200‬‬ ‫‪2009‬‬ ‫‪2010‬‬ ‫‪2011‬‬ ‫‪2012‬‬ ‫‪2013‬‬ ‫‪2014‬‬ ‫‪2015‬‬ ‫‪2016‬‬ ‫‪2017‬‬ ‫‪2018‬‬ ‫منتخب احادیث‬
‫‪8‬‬
‫َ‬ ‫ّي‬
‫َّاتِ و‬ ‫ِ‬
‫ِالن‬‫ُ ب‬ ‫َا االَعم‬
‫َال‬ ‫اَّ‬
‫ِنم‬
‫ٰ‬‫َی‬ ‫م َ‬
‫انو‬ ‫ّ امر‬
‫ِیء َّ‬ ‫ِ‬‫ُل‬
‫لک‬‫َا ِ‬
‫نم‬‫َِّ‬
‫ا‬

‫َ‬ ‫َ ح‬ ‫ّ‬ ‫الُ َ‬


‫ُ ِ‬ ‫َا ُ‬ ‫اَّ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ُسن‬ ‫ِم‬‫تم‬ ‫ِثت‬ ‫بع‬ ‫ِنم‬
‫ِ‬‫االَخالَق‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫َ‬
‫ُون‬‫َک‬‫ّٰی ا‬ ‫ُم ح‬
‫َت‬ ‫د ک‬ ‫َح‬
‫َُ‬ ‫ُ ا‬ ‫ِن‬‫ُؤم‬ ‫الَ ي‬
‫َ‬
‫ِه و‬ ‫َّاِ‬
‫لد‬ ‫ِن و‬ ‫ِ م‬‫ِليہ‬ ‫َّ اَ‬ ‫َب‬‫َح‬‫ا‬
‫َ ۔‬ ‫ِين‬ ‫َجم‬
‫َع‬ ‫َّاسِ ا‬‫َالن‬ ‫ِه و‬ ‫ََلد‬‫و‬
‫َّ‬ ‫ّٰی ي‬ ‫ُم ح‬ ‫َُ‬‫ُ اح‬ ‫َ‬
‫٭‬ ‫ُحِب‬ ‫َت‬ ‫دک‬ ‫ِن‬‫ُؤم‬ ‫الي‬
‫ِہ‬‫َفس‬‫لن‬‫ُّ ِ‬‫ُحِب‬
‫ما ي‬ ‫ِ َ‬ ‫الَخِيہ‬
‫ِ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫َ‬
‫ُون‬‫ِم‬‫ُسل‬ ‫َ الم‬ ‫ِم‬‫من سَل‬ ‫ُ َ‬ ‫ِم‬‫ُسل‬ ‫َلم‬ ‫ا‬
‫ِه‬‫يد‬‫َ َ‬ ‫ِہ و‬ ‫لسَان‬‫ِن ّ‬
‫ِ‬ ‫م‬
‫ُ‬‫َم‬ ‫ال َ‬‫من َّ‬ ‫ُ للااُ َ‬
‫ُہ‬‫َم‬ ‫َ‬
‫الَ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫يرح‬ ‫يرح‬
‫َّاسَ‬‫الن‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ِم‬
‫ِ‬ ‫ُسل‬ ‫َی الم‬ ‫َل‬‫ِ ع‬‫ِم‬‫ُسل‬ ‫ُّ الم‬ ‫ُل‬‫ک‬
‫ُہ‬‫ِرض‬‫َ ع‬ ‫الہ و‬‫م ُ‬ ‫َ َ‬ ‫ُہ و‬ ‫ٌ َ‬
‫دم‬ ‫َام‬ ‫َر‬‫ح‬

‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ََ‬


‫د‬ ‫َص‬
‫منِ اقت‬ ‫َ َ‬ ‫َال‬‫ما ع‬ ‫َ‬
‫ُ ف‬ ‫ُ‬ ‫ً‬
‫ِيقا َ‬ ‫َ‬
‫من سَلکَ طر‬ ‫َ‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫ِيہ‬
‫ِ‬ ‫يطلب‬
‫ِن‬‫ًا م‬‫ِيق‬‫َر‬‫ِہ ط‬‫َکَ للااُ ب‬‫ًا سَل‬ ‫ِلم‬‫ع‬
‫َّۃ‬
‫َ‬ ‫َن‬‫ِ الج‬ ‫ُر‬
‫ُق‬ ‫ط‬
‫٭‬ ‫٭‬ ‫٭‬ ‫ِنِ‬
‫ُؤم‬‫ُوا الم‬ ‫َخ‬‫ُ ا‬ ‫ِن‬‫ُؤم‬‫َلم‬‫ا‬
‫َکی‬
‫ٰ‬ ‫ِنِ اشت‬ ‫ِ ا‬‫َاحِد‬‫ِ الو‬ ‫َالج‬
‫َسَد‬ ‫ک‬
‫ََلم‬
‫َ‬ ‫د ا‬‫ََ‬
‫َج‬‫ً و‬‫ُضو‬‫ہ ع‬ ‫ِنُ‬ ‫ًا ّ‬
‫م‬ ‫شَيئ‬
‫َسَد‬
‫ِه‬ ‫ِ ج‬ ‫ِر‬‫ِی سَآئ‬ ‫ف‬

‫بنیادی عقائد‬
‫مختصر سواالت‬
‫‪Science:2019‬‬ ‫شرک کیا ہے؟ اس کی اقسام تحریر کیجئے۔‬
‫‪Commerce:2018‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫ب سماوی سے کیا مراد ہے؟ مشہور آسمانی کتب کے‬‫کُت ُ ِ‬
‫‪Commerce:2018‬‬ ‫نام تحریر کیجئے۔‬

‫فرق‬

‫‪ 120 / 131‬صفحہ نمبر‬


Science: ‫عمل صالح‬
ِ ‫ایمان اور‬
Commerce:2016
Science: ‫کفر اور شرک‬
Commerce:2016
Science: ‫کافر و منافق‬
Commerce:2013,2011,
Science: ‫ارکان اسالم‬
ِ ‫عقائد اور‬
Commerce:2015
Science:2016,2012,2011,2009 ‫ ایمان اور نفاق‬/‫مومن اور منافق‬
Commerce:2015,2013,2011,2010
Science:2013,2011 ‫ایمان اور اسالم‬
Commerce:2014
Science: 2012,2015,2009 ‫توحید اور شرک‬
Commerce: 2013,2012,2011,2010,2009
Science:2016,2014,2013 ‫رسالت و نبوت‬
Commerce:2013,2012,2014
Science: ‫معجزہ اور کرامت‬
Commerce:2010
Science: ‫فرشتہ اور جن‬
Commerce:2011,2010
Science: ‫قرآن اور دیگر آسمانی کتابیں‬
Commerce:2014

‫اصطالحات‬
Science: ‫اسالم‬
Commerce:2010
Science: ‫عقیدہ‬
Commerce:2012
Science:2016,2015,2009 ‫اسالمی عقائد‬
Commerce:2014
Science:2010 ‫توحید‬
Commerce:2016
Science:2014,2011 ‫شرک‬
Commerce:2014,2013
Science:2012,2011,2010 ‫رسالت‬
Commerce:
Science: ‫انبیاء کی خصوصیات‬
Commerce:2014
Science:2015,2009 ‫ختم نبوت‬
ِ
Commerce:2014,2013,2012,2011,2010
Science: ‫آخرت‬
Commerce:2011,2010,2009
Science:2012,2011,2010 ‫مالئکہ‬

‫ صفحہ نمبر‬121 / 131


‫‪Commerce:2009‬‬
‫‪Science:2013‬‬ ‫صحابی‬
‫‪Commerce:2014,2011‬‬

‫ارکان اسالم‬
‫ِ‬
‫مختصر سواالت‬
‫‪Science:‬‬ ‫کلمہ شہادت مع ترجمہ تحریر کیجئے۔‬
‫‪Commerce:2017‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫صلوۃ کے تین فوائد بیان کیجئے۔‬
‫ٰ‬
‫‪Commerce:2017‬‬
‫‪Science:2017‬‬ ‫زکوۃ کے تی‪ ،‬ن فوائد بیان کیجئے۔۔‬
‫‪Commerce:‬‬
‫‪Science:2017‬‬ ‫حج کی اقسام بیان کیجئے۔‬
‫‪Commerce:‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫سعی سے کیا مراد ہے؟‬
‫‪Commerce:2018, 2017,2012‬‬
‫‪Science:2018‬‬ ‫حج کے تین فوائد بیان کیجئے۔۔‬
‫‪Commerce:‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫ٰؑ جہاد کی تین اقسام تحریر کیجئے۔‬
‫‪Commerce: 2017‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫جنگ اور جہاد کے مابین فرق واضح کیجئے‬
‫‪Commerce:2018‬‬

‫فرق‬
‫‪Science:‬‬ ‫عمرہ اور حج‬
‫‪Commerce:2014‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫سعی اور طواف‬
‫‪Commerce:2012‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫میقات و عرفات‬
‫‪Commerce:2013‬‬
‫‪Science:2015,2013,2011,2010‬‬ ‫جنگ اور جہاد‬
‫‪Commerce:2016,2012,2009‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫مدافعانہ جہاد اور مصلحانہ جہاد‬
‫‪Commerce:2016‬‬

‫اصطالحات‬
‫‪Science:2014,2009‬‬ ‫ارکان اسالم‬
‫ِ‬
‫‪Commerce:2013,‬‬
‫‪Science:2016‬‬ ‫کلمہ شہادت‬
‫‪Commerce:2015‬‬

‫‪ 122 / 131‬صفحہ نمبر‬


Science:2016,2009 ‫صلوۃ‬
Commerce:2012,2011
Science:2011 ‫صوم‬
Commerce:2011
Science: ‫ما ِہ صیام‬
Commerce:2015
Science: ‫زکوۃ‬
Commerce:2011,2010
Science:2014,2019 ‫مصارفِ زکوۃ‬
Commerce:2016,2013
Science:2010 ‫حج‬
Commerce:2009
Science: ‫مناسکِ حج‬
Commerce:2015
Science: ‫احرام‬
Commerce:2012
Science:2011 ‫طواف‬
Commerce:2011
Science:2013 ‫میقات‬
Commerce:2014,2012
Science:2009 ‫جہاد‬
Commerce:
Science:2015,2014,2012,2019 ‫ جہاد اکبر‬،‫جہاد بالنفس‬
Commerce:2013

‫حقوق العباد‬
‫مختصر سواالت‬
Science: ‫والدین کے حقوق کے متعلق ایک آیت یا حدیث تحریر‬
Commerce:2018 ‫کیجئے۔‬
Science:2019 ‫اوالد کے کوئی تین فرائض بیان کیجئے۔‬
Commerce:
Science:2019 ‫پڑوسیوں کی اقسام تحریر کیجئے۔‬
Commerce:

‫فرق‬
Science: ‫حقوق ہللا اور حقوق العباد‬
Commerce:2014,2012

‫اصطالحات‬
Science: ‫حقوق ہللا‬
Commerce:2015

‫ صفحہ نمبر‬123 / 131


‫‪Science:‬‬ ‫حقوق العباد‬
‫‪Commerce:2011,2010‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫صلہ رحمی‬
‫‪Commerce:2016‬‬

‫معاشرتی ذمہ داریاں اور اسوہ رسول‬


‫اکرم ﷺ‬
‫مختصر سواالت‬
‫‪Science:‬‬ ‫ایفائے عہد کے سلسلہ میں حضرت ابوجندل رضی‬
‫‪Commerce:2018‬‬ ‫ہللا تعالی عنہ کے معاملہ میں نبی ﷺ نے کیا فیصلہ‬
‫فرمایا؟‬
‫‪Science:2015,2009‬‬ ‫عدل اور احسان‬
‫‪Commerce:2011‬‬
‫‪Science:2018‬‬ ‫منافق کی نشانیاں بیان کیجئے۔‬
‫‪Commerce:‬‬
‫‪Science:2019‬‬ ‫حسد اور رشک کے مابین فرق واضح کیجئے۔‬
‫‪Commerce:‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫اخوت سے کیا مراد ہے؟ بیان کیجئے۔‬
‫‪Commerce:2017‬‬
‫‪Science:2017‬‬ ‫عفو سے کیا مراد ہے؟‬
‫‪Commerce:‬‬
‫‪Science:2018‬‬ ‫اہل طائف نے کیسا سلوک‬
‫رسو َل پاک ﷺ کے ساتھ ِ‬
‫‪Commerce:‬‬ ‫کیا؟‬
‫‪Science:2017‬‬ ‫اہل طائف کے لئے حضور ﷺ نے کیا دعا فرمائی؟‬
‫‪Commerce:‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫ذکر کی تین اقسام بیان کیجئے۔‬
‫‪Commerce:2017,‬‬
‫‪Science:2018‬‬ ‫عشرہ مبشرہ سے کیا مراد ہے؟‬
‫‪Commerce:‬‬
‫فرق‬
‫‪Science:‬‬ ‫ق رذیلہ‬
‫ق فاضلہ اور اخال ِ‬
‫اخال ِ‬
‫‪Commerce:2011‬‬
‫‪Science:2016,2014,2012,2010‬‬ ‫غیبت و اتہام‬
‫‪Commerce:2013,2011,2009‬‬
‫‪Science:2015,2010,2009‬‬ ‫حسد اور رشک‬
‫‪Commerce:2016,2013,2012,2011,‬‬
‫‪Science:2016,2014‬‬ ‫اعتقادی منافقت اور عملی منافقت‬
‫‪Commerce:2015,‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫اخوت اور مساوات‬

‫‪ 124 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫‪Commerce:2014,‬‬

‫اصطالحات‬
‫‪Science:2015,2013,2011‬‬ ‫صدق‬
‫‪Commerce:2014,2012,2011‬‬
‫‪Science:2017,2016‬‬ ‫احترام قانون‬
‫ِ‬
‫‪Commerce:2014‬‬
‫‪Science:2014,2013,2012‬‬ ‫کسبِ حالل‬
‫‪Commerce:2013‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫ایثار‬
‫‪Commerce:2014‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫غیبت‬
‫‪Commerce:2016‬‬
‫‪Science:2018‬‬ ‫اتہام‬
‫‪Commerce:‬‬
‫‪Science:2014,2013,2012‬‬ ‫رحمت اللعالمین‬
‫‪Commerce:‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫اخوت‬
‫‪Commerce:2013,2012‬‬
‫‪Science:2018,2015‬‬ ‫مساوات‬
‫‪Commerce:2012‬‬
‫‪Science:2016,2009‬‬ ‫صبر و استقالل‬
‫‪Commerce:2016‬‬
‫‪Science:2016‬‬ ‫ذکر الہی‬
‫ِ‬
‫‪Commerce:2014,2013,2012,2009‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫ت رسول‬
‫اطاع ِ‬
‫‪Commerce:2013‬‬

‫قرآن و حدیث‬
‫مختصر سواالت‬
‫‪Science:‬‬ ‫قرآن پاک میں وحی کا لفظ تین معنوں میں استعمال ہوا‬
‫‪Commerce:2018,2017‬‬ ‫ہے۔ تحریر کیجئے۔‬

‫‪Science:‬‬ ‫قرآن کے کوئی بھی پانچ اسماء تحریر کیجئےجو قرآن‬


‫‪Commerce:2018‬‬ ‫میں مذکور ہیں۔‬
‫‪Science:‬‬ ‫قرآن پاک کی تین خصوصیات تحریر کیجئے۔‬
‫‪Commerce:2017‬‬
‫‪Science:2018‬‬ ‫ت قرآن پاک مع ترجمہ‬
‫ت قرآن کے متعلق کوئی آی ِ‬
‫حفاظ ِ‬
‫‪Commerce:‬‬ ‫تحریر کیجئے۔‬
‫‪Science:2018,‬‬ ‫ت قرآن والی کمیٹی کی وضاحت کیجئے۔‬ ‫کتاب ِ‬
‫‪Commerce:‬‬

‫‪ 125 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫‪Science:2019,‬‬ ‫تدوین حدیث سے کیا مراد ہے؟‬
‫ِ‬
‫‪Commerce:‬‬
‫‪Science:2017‬‬ ‫صحاح ستہ یا اصو ِل اربعہ کے مؤلفین کے نام تحریر‬
‫‪Commerce:‬‬ ‫کیجئے۔‬
‫‪Science:2017‬‬ ‫کر َمکُم عِندہللا ٰ‬
‫اتقکم سے کیا مراد ہے؟‬ ‫اِن ا َ َ‬
‫‪Commerce:‬‬

‫فرق‬
‫‪Science:2014,2013,2011,2009‬‬ ‫وحی متلو اور وحی غیر متلو‬
‫‪Commerce:2014,2012,‬‬
‫‪Science:2015,2012‬‬ ‫قرآن اور حدیث‬
‫‪Commerce:2015,2013,2012,2011,2010‬‬
‫‪Science:2017,2016,2014,2013,2012,2010‬‬ ‫مکی اور مدنی سورتیں‬
‫‪Commerce:2012,2009‬‬
‫‪Science:2011,2010‬‬ ‫حدیث اور سنت‬
‫‪Commerce:2014,2009‬‬
‫‪Science:2019‬‬ ‫صحاح ستہ اور اصو ِل اربعہ‬
‫‪Commerce:2015,2012‬‬

‫اصطالحات‬
‫‪Science:2015,2013,2010‬‬ ‫وحی‬
‫‪Commerce:2016,2011,2010,2009‬‬
‫‪Science:2012,2010‬‬ ‫آخری الہامی کتاب (قرآن)‬
‫‪Commerce:2015,2013,2009‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫رمضان المبارک اور قرآن حکیم‬
‫‪Commerce:2013‬‬
‫‪Science:‬‬ ‫سنت‬
‫‪Commerce:2011‬‬

‫تفصیلی سواالت‬
‫)‪2014®, 2013(P‬‬ ‫عقیدہ توحید کی وضاحت کیجئے اور انسانی زندگی پر عقیدہ توحید کے اثرات بیان‬
‫کیجئے۔‬
‫‪2017, 2016 2014(P),‬‬ ‫عقیدہ رسالت کی وضاحت کیجئےاور انبیائے کرام کی خصوصیات بیان کیجئے۔‬
‫)‪2012(P‬‬
‫®‪2011‬‬ ‫عقائد اسالم سے کیا مراد ہے؟ عقیدہ رسالت کی اہمیت بیان کرتے ہوئے رسالت‬
‫محمدی ﷺ کی خصوصیات تحریر کیجئے۔‬
‫‪2018‬‬ ‫ختم نبوت قرآن کی روشنی میں بیان کیجئے۔‬
‫عقیدہ ِ‬
‫‪2019, 2015, 2013®,‬‬ ‫عقیدہ آخرت کی وضاحت کیجئے اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات تحریر‬
‫‪2012®, 2010‬‬ ‫کیجئے ۔‬
‫®‪2013‬‬ ‫صلوۃ کی اہمیت کیا ہے؟ اس کے فوائد بیان کیجئے۔‬
‫)‪2019, 2014(P‬‬ ‫صوم کی اہمیت بیان کیجئےاور اس کے فوائد تحریر کیجئے۔‬
‫)‪2012(P‬‬ ‫صوم کا مفہوم اور اس کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کیجئے۔‬

‫‪ 126 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫®‪2015, 2014‬‬ ‫زکوۃ کا مفہوم اور اس کی اہمیت قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کیجئے۔‬
‫‪2018‬‬ ‫زکوۃ کی اہمیت بیان کیجئے نیز اس کے معاشرتی اور معاشی اثرات تحریر کیجئے۔‬ ‫ٰ‬
‫®‪2012‬‬ ‫زکوۃ کی اہمیت تحریر کیجئے اور زکوۃ کے معاشی اور سماجی فوائد بیان کیجئے۔‬
‫®‪2011‬‬ ‫ب زکوۃ اور اس کے مصارف‬ ‫قرآن و حدیث کی روشنی میں زکوۃ کی اہمیت‪ ،‬نصا ِ‬
‫تحریر کیجئے۔‬
‫‪2017‬‬ ‫قرآن پاک کی روشنی میں مصارفِ زکوۃ بیان کیجئے۔‬
‫®‪2013‬‬ ‫حج کے معنی اور اس کی اہمیت قرآن اور احادیث کی روشنی میں تحریر کیجئے۔‬
‫‪2011(P),2010‬‬ ‫حج کا فلسفہ کیا ہے؟ حج کے انفرادی اور اجتماعی فوائد تحریر کیجئے۔‬
‫‪2019‬‬ ‫عبادت کی قبولیت کے لئے کسبِ حالل شرط ہے۔ وضاحت کیجئے۔‬
‫®‪2017, 2014‬‬ ‫قرآن و سنت کی روشنی میں والدین کے کیا حقوق ہیں؟‬
‫®‪2012®,2012(P),2013‬‬ ‫قرآن و حدیث کی روشنی میں والدین کے حقوق و فرائض کی وضاحت کیجئے۔‬
‫)‪2014(P‬‬ ‫قرآن و حدیث کی روشنی میں حقوق زوجین کی وضاحت کیجئے۔‬
‫‪2011(P),2011®,2015‬‬ ‫اساتذہ کے حقوق و فرائض واضح کیجئے۔‬
‫‪2016‬‬ ‫آسمانی کتابوں سے کیا مراد ہے؟ قرآن کریم کی امتیازی خصوصیات بیان کیجئے۔‬
‫‪2016‬‬ ‫قرآن و سنت کی روشنی میں ہمسایوں کے حقوق کی وضاحت کیجئے۔‬
‫‪2018‬‬ ‫رشتہ داروں کے حقوق قرآن و حدیث کی روشنی میں بیان کیجئے۔‬
‫®‪2013‬‬ ‫حقوق العبادسے کیا مراد ہے؟پڑوسیوں کے حقوق واضح کیجئے۔‬
‫‪2011(P),2010‬‬ ‫حضرت محمد ﷺ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں۔ وضاحت کیجئے۔‬

‫این سی آر – سی ای ٹی انٹرمیڈیٹ کالج کراچی‬


‫اسالمی تعلیم(الزمی)‬

‫‪ 127 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫کل نمبر ‪10 :‬‬ ‫وقت ‪ 15 :‬منٹ‬
‫صہ 'الف'( کثیر االنتخابی سواالت‪)M.C.Qs. -‬‬
‫ح ّ‬
‫(‪ )i‬اس حصہ میں دس جزوی سواالت ہیں۔ تمام سواالت کے جوابات مطلوب ہیں اور ہر ایک سوال کا ایک نمبر ہے۔‬ ‫نوٹ‪:‬‬

‫(‪ )ii‬سوال یا اس کا جزو امتحانی کاپی میں نقل نہ کیجئے ۔ سوال کے اصل نمبر اور جزو کے سامنے مکمل جواب تحریر کیجئے ۔‬

‫‪ - 1‬مندرجہ ذیل میں سے ہر ایک کے لئے درست جواب منتخب کیجئے‪ :‬۔‬

‫مدینہ منورہ کا پرانا نام تھا ۔‬ ‫‪۱‬۔‬


‫*طائف‬ ‫*یثرب‬ ‫*یمن‬ ‫* عرفات‬
‫حدیث کے مطابق شرک کے بعد سب سے بڑا گناہ ہے ‪:‬‬ ‫‪۲‬۔‬
‫*والدین کی‬ ‫* منافقت‬ ‫*حج ادا نہ کرنا‬ ‫* ٰ‬
‫زکوۃ ادا نہ کرنا‬
‫نافرمانی‬
‫قرآن مجید کی اس سورۃ میں روزہ کی فرضیت کا حکم آیا ہے ‪:‬‬ ‫‪۳‬۔‬
‫*آل عمران‬ ‫*البقرۃ‬ ‫* االحزاب‬ ‫*النساء‬
‫قرآن مجید کے مطابق عظیم ترین گناہ ہے‪:‬‬ ‫‪۴‬۔‬
‫*تکبر‬ ‫*شرک‬ ‫*جھوٹ‬ ‫*چوری‬
‫حضرت اسماعیل علیہ السالم کی والدہ ہیں ‪:‬‬ ‫‪۵‬۔‬
‫*بی بی ہاجرہ‬ ‫*بی بی طاہرہ‬ ‫*بی بی سائرہ‬
‫*بی بی حفصہ‬
‫اس میں تمام عبادات کی روح شامل ہے ‪:‬‬ ‫‪۶‬۔‬
‫*حج‬ ‫* ٰ‬
‫زکوۃ‬ ‫*روزہ‬ ‫*نماز‬
‫حجاج یہاں شیطان کو کنکریاں مارتے ہیں ‪:‬‬ ‫‪۷‬۔‬
‫*یثرب‬ ‫*مزدلفہ‬ ‫*م ٰنی‬ ‫*عرفات‬
‫قرآن پاک میں سود کے لئے یہ لفظ ہے ‪:‬‬ ‫‪۸‬۔‬
‫*الصدقۃ‬ ‫* ٰ‬
‫الربو‬ ‫*الفضۃ‬ ‫*الذھب‬
‫ان کا لہجہ رسول پاک ﷺ سے مشابہ تھا ‪:‬‬ ‫‪۹‬۔‬
‫*حضرت‬ ‫*حضرت انس‬ ‫*حضرت سعید بن العاص‬ ‫*حضرت عمر‬
‫عثمان‬
‫رشتہ داروں سے حسن سلوک کہالتا ہے ‪:‬‬ ‫‪۱۰‬‬
‫*صبر‬ ‫*صلہ رحمی‬ ‫*قطع رحمی‬ ‫*عدل‬

‫این سی آر – سی ای ٹی انٹرمیڈیٹ کالج کراچی‬


‫کل‬ ‫اسالمی تعلیم (الزمی)‬ ‫وقت ‪ 1 :‬گھنٹہ ‪ 45‬منٹ‬
‫نشانات ‪40:‬‬
‫(کل‬ ‫صہ "ب" (مختصر جواب کے سواالت)‬
‫ح ّ‬
‫نشانات‪)25 :‬‬

‫نوٹ ‪ :‬تمام سوال الزمی ہیں ۔‬


‫‪ :۲‬مندرجہ ذیل آیات و احادیث میں سے کسی پانچ کا اردو ‪ ،‬سندھی یا انگریزی میں ترجمہ کیجئے ۔‬
‫‪۱۰‬‬
‫‪2‬۔‬ ‫دا‬ ‫َوالً سَد‬
‫ِيً‬ ‫ُوُلوا ق‬
‫َق‬ ‫ُو‬
‫َللاا و‬‫تق‬‫ُوا اَّ‬
‫من‬‫َ آَ‬
‫ِين‬‫َا اَّلذ‬ ‫َُّ‬
‫يه‬ ‫ٰأ‬‫ي‬ ‫‪ 1‬۔‬
‫ُ‬
‫َّقوا‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫َ‬
‫َّال تفر‬‫ًاو‬
‫ِيع‬ ‫ِ للااِ جَم‬
‫ِحَبل‬ ‫َصِم‬
‫ُوا ب‬ ‫َاعت‬
‫و‬

‫‪ 128 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫ُ‬
‫َّسُول‬ ‫ُم‬
‫ُ الر‬ ‫مآ آَ‬
‫تاك‬ ‫ََ‬
‫‪4‬۔ و‬ ‫ٰك‬
‫ُم‬ ‫َتق‬ ‫ُم عِنَ‬
‫د للااِ أ‬ ‫مك‬ ‫َكر‬
‫ََ‬ ‫ن أ‬‫َِّ‬
‫إ‬ ‫‪3‬۔‬
‫ُوا‬ ‫َه‬
‫َانت‬ ‫ُم عَنه‬
‫ُ ف‬ ‫هاك‬ ‫نَ‬‫ما َ‬
‫ََ‬ ‫ُوه‬
‫ُ و‬ ‫َخُذ‬
‫ف‬
‫َی‬
‫ٰ‬ ‫م َ‬
‫انو‬ ‫ِیء َّ‬‫ّ امر‬ ‫ُل‬
‫ِ‬ ‫َا ِ‬
‫لک‬ ‫نم‬‫َِّ‬
‫َ ا‬ ‫ّي‬
‫َّاتِ و‬ ‫ِ‬ ‫ُ ب‬
‫ِالن‬ ‫َال‬‫َا االَعم‬ ‫اَّ‬
‫ِنم‬ ‫‪5‬۔‬
‫َ عِرضُہ‬ ‫ُ‬
‫مالہ و‬ ‫َ َ‬
‫مہ و‬ ‫دُ‬‫ٌ َ‬
‫َام‬ ‫َر‬ ‫ِم‬
‫ِ ح‬ ‫ُسل‬ ‫َ‬
‫ِ عَلی الم‬ ‫ِم‬ ‫ُسل‬ ‫ُل‬
‫ُّ الم‬ ‫‪ 6‬۔ ک‬

‫َفس‬
‫ِہ ۔‬ ‫لن‬‫ُّ ِ‬ ‫ما ُ‬
‫يحِب‬ ‫الَخِيہ‬
‫ِ َ‬ ‫َّ ِ‬ ‫ّٰی ُ‬
‫يحِب‬ ‫ُم حَت‬
‫دک‬ ‫ُ اح‬
‫َُ‬ ‫ِن‬ ‫َالُ‬
‫يؤم‬ ‫‪7‬۔‬

‫‪ :۳‬مندرجہ ذیل میں سے پانچ سواالت کے جوابات تحریر کیجئے ۔ تمام سواالت کے نشانات مساوی ہیں ‪:‬‬
‫‪15‬‬
‫حج کے تین فوائد بیان کیجیے ۔‬ ‫‪.1‬‬
‫ت قرآن پاک والی کمیٹی کی وضاحت کیجیے ۔‬ ‫کتاب ِ‬ ‫‪.2‬‬
‫حفاظت قرآن کے متعلق کوئی آیت قرآن پاک مع ترجمہ تحریر کیجیے۔‬ ‫‪.3‬‬
‫رسول پاک ﷺ سے اہل طائف نے کیا سلوک کیا ؟‬ ‫‪.4‬‬
‫عشرہ مبشرہ سے کیا مراد ہے؟‬ ‫‪.5‬‬
‫مساوات سے کیا مراد ہے ؟‬ ‫‪.6‬‬
‫منافق کی نشانیاں بیان کیجیے۔‬ ‫‪.7‬‬
‫اتہام سے کیا مراد ہے؟‬ ‫‪.8‬‬

‫(تفصیلی جواب کے سواالت)‬ ‫صہ ج‬


‫ح ّ‬
‫نوٹ‪:‬اس حصہ سے کسی دو سواالت کے جواب تحریر کیجئے۔ تمام سوالوں کے نشانات مساوی ہیں۔‬
‫(کل نشانات ‪)15 :‬‬
‫‪ : 4‬عقیدہ توحید واضح کیجیے اور انسانی زندگی پر اس کے اثرات تحریر کیجیے ۔‬
‫‪:5‬نماز کی اہمیت قرآن وحدیث کی روشنی میں بیان کیجیے ۔‬
‫‪:6‬والدین کے حقوق کے بارے میں تحریر کیجیے ۔‬

‫‪ 129 / 131‬صفحہ نمبر‬


‫‪ 130 / 131‬صفحہ نمبر‬
‫‪ 131 / 131‬صفحہ نمبر‬

You might also like