Professional Documents
Culture Documents
409833839 استانی جی.exe PDF
409833839 استانی جی.exe PDF
ا
نئئ۔۔۔۔ نئئ ۔۔۔۔۔ (امید ہے کہ آپ لوگ میری بات سمجھ گئے ہوں گے ) دوستو جیسا کہ
ﺳﺗﺎ
آپ کو معلوم ہے کہ میں نے اپنی ساری زند گی ان پھدیوں کے پیچھے ہی برباد کی
ہے اور آپ لوگ یہ بات بھی خوب اچھی طرح سے جانتے ہیں کہ مجھے میچور
لیڈیز بڑی پسند ہیں بلکہ میں ان پر مرتا ہوں ۔۔۔ وجہ اس کی یہ ہے کہ میچور لیڈیز
سیکس کی ماسٹر ہوتی ہیں نخرہ نہیں کرتیں اور کھل کر مزہ لیتی اور کھل کر مزہ
ﻧﯽ
دیتی ہیں ایک اور مزے کی بات یہ ہے کہ میری زندگی میں زیادہ تر آنٹیاں ہی
آئیں ہیں ۔۔۔ بلکہ بائ چانس اوائیل عمر سے ہی میرا پاال ان عورتوں سے پڑا تھا ۔۔۔
یعنی کہ میری سیکس الئف کی شروعات ہی اس قسم کی عورتوں کو چودنے سے ہوئ
ﺟﯽ
تھی ۔ اور اُس عمر میں یہ عورتیں مجھے اس قدر زیادہ تعداد میں ملیں کہ ۔۔۔۔ پھر
سیکس کے لیے میچور عورتیں ہی میرا ٹیسٹ بن گئ ہیں ۔۔۔ آج جو سٹوری میں آپ کو
کی سنانے جا رہا ہوں یہ بھی انہی دنوں کی ہے ---جب آتش تو ابھی لڑکپن
سرحدیں عبور کر رہا تھا لیکن آتش کا لن اس سے پہلے ہی یہ ساری سرحدیں عبور
@
کر کے فُل جوان ہو چکا تھا – اور پیار دو پیار لو کا کھیل شروع کر چکا تھا ۔ دوستو
یہ ان دنوں کی بات ہے کہ جب ہمارے مالک مکان نے سال سے قبل ہی مکان کا
کرایہ بڑھا دیا تھا اور اتنا بڑھایا ۔۔۔ کہ مجبورا ً ہمیں وہ مکان خالی کرنا پڑا ۔۔ اور بڑے
ہی شارٹ نوٹس پر ہمیں ایک نیا گھر کراۓ پر لینا پڑا اور ہم پہلی سے پہلے وہاں شفٹ
ﺷﺎه
ہو گۓ ۔۔ کچھ دن تو مکان کی سیٹنگ میں لگ گئے ۔۔ جب سارا کام سیٹ ہو گیا تو پھر ایک
دن میں اپنے پرانے محلے میں دوستوں سے ملنے گیا (جو کہ زیادہ دُور نہ تھا ) محلے
میں داخل ہوتے ہی مجھے انجم مل گیا جو کہ میری طرح ہی ایک ٹھرکی روح تھا
چانچہ اس نے باتوں باتوں میں مجھ ے بتایا کہ اس کے پاس "وہی وہانوی" کا مشہور
ناول " استانی جی " آیا ہے جو بڑا زبردست اور سیکس سے بھر پور ہے اور وہ اس کو
ﺟﯽ
پڑھ کر اب تک تین چار دفعہ ُمٹھ مار چکا ہے اس کی یہ بات سن کر میں نے بھی
اس سے ناول پڑھنے کے لیئے مانگا تو اس نے پہلے تو صاف انکار کر دیا ۔ لیکن
پھر کافی منت ترلوں کے بعد وہ بمشکل اس بات پر راضی ہوا کہ میں اسے شام تک
ہر حال واپس کر دوں گا کیونکہ وہ جس الئیبرئیری والے سے الیا تھا اسے میں اچھی
طرح جانتا تھا کہ وہ بڑا سخت اور حرامی بندہ تھا کیونکہ جب بھی ہم اس کو ناول
ا
تڑیاں لگاتا رہتا تھا ہاں تو انجم نے مجھے بتایا کہ یار چونکہ یہ ناول اس الیئبریری میں
ﺳﺗﺎ
ابھی آیا ہے اس لئے اس حرامی نے کہا تھا کہ اسے ہر حال میں آج شام تک واپس کرنا ہو
گا پھر کہنے لگا اور یار تُو تو جانتا ہی ہے کہ وہ اس معا ملے میں کس قدر مادر چود
واقعہ ہوا ہے-
ﻧﯽ
اب میرے ساتھ پرابلم یہ تھی کہ میں نے شام کو ہر صورت ٹیوشن پڑھنے جانا ہوتا
تھا اور بات ایسی تھی کہ میں ٹیوشن سے چھٹی کرنے کا سوچ بھی سکتا تھا کیونکہ میڈم
زیبا عرف استانی جی ( جی ہاں محلے میں وہ اسی نام سے مشہور تھیں ) چھٹی کرنے
پر بڑا مارتی تھی ویسے بھی وہ اتنی سخت تھیں کہ میں تو کیا پورے محلے کے لڑکے ،
ﺟﯽ
ان سے ٹیوشن پڑھتے تھے اور جو نہیں بھی پڑھتے تھے وہ سب نہ لڑکیاں جوبھی
صرف ان سے ڈرتے تھے بلکہ ہم جیسوں کی تو ان کا نام سے ہی جان جایا کرتی
تھی چھوٹوں کے ساتھ ساتھ محلے کے بڑے بھی استانی جی کا بڑا احترام کرتے تھے اور
ان کی کوئ بات نہ ٹالتے تھے ۔ اس لئے محلے کا کوئ بھی لڑکا میڈم زیبا کی ٹیوشن سے
@
دوستو اب میں آپ کو میڈم زیبا کے بارے میں کچھ بتاتا ہوں جس وقت کی یہ بات اس
ﺷﺎه
وقت وہ کوئ 45/ 54کے پیٹے میں ہوں گی – ان کا جسم تھوڑا موٹا اور اس کے ساتھ
ان کا تھوڑا سا پیٹ بھی بڑھا ہوا تھا ۔ لیکن قد لمبا ہونے کی وجہ سے ان کے پیٹ کا اتنا
پتہ نہیں چلتا تھا ۔۔ اس کے ساتھ چھاتیاں ان کی کافی بڑی بڑی تھیں گال گورے اور
سرخی مائل ،ہونٹ البتہ باریک اور پتلے پتلے تھے جو ان کے مزاج کی سختی کا پتہ دیتے ُ
تھے مجموعی طور پر اس عمر میں بھی میڈم زیبا عرف استانی جی اس عمر میں بھی بڑی
ﺟﯽ
خوبصورت اور گریس فُل تھیں۔ مجموعی طور پر میڈم زیبا بڑی اچھی عورت تھی پر ۔۔۔۔۔
جب معاملہ پڑھائ کا آتا تھا تو پتہ نہیں کیوں ان کو جن چڑھ جاتا تھا اور وہ بہت زیادہ
سختی کرتی تھی ں اور اس وقت ان کا غصہ دیکھنے واال ہوتا تھا لگتا ہی نہیں تھا کہ یہ
وہی شفیق عورت ہے جو ابھی تھوڑی دیر پہلے ہی بڑے پیار سے پڑھائ رہی تھی
ان کے خاوند کی باڑہ مارکیٹ راولپنڈی میں کپڑے کی دکان تھی وہ صبع دس بجے
ا
مسلہ یہ تھا کہ وہ سارا دن گھر پر اکیلے پڑے بور ہوتی تھیں اس لئے اپنی بوریت کو دور
ﺳﺗﺎ
کرنے کے لئے وہ بچوں کو فری ٹیوشن پڑھاتی تھیں اور اس مقصد کے لئے وہ خود محلے
کے گھروں میں جا کر بچوں کو اپنے پاس النے کے لئے کہتی تھی اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی
کہ ان کو پڑھانے کا بڑا شوق تھا اسی لئے وہ ٹیوشن کی مد بچوں سے میں کوئ پائ
ﻧﯽ
پیسہ نہ لیتی تھیں تبھی تو محلے کے سارے بچے ان سے پڑھنے آتے تھے ۔۔اور وہ پڑھاتی
بھی بہت اچھا تھیں اور جیسا کہ پہلے بتایا ہے کہ پڑھائ کے معاملے میں وہ کسی
ُرو رعایت کی قائل نہ تھیں اور جہاں ضرورت پڑتی وہ خوب پھینٹی لگاتی تھیں اس سلسلے
میں محلے والوں نے ان کو فری ہینڈ دے رکھا تھا ۔۔۔ ویسے تو وہ ہمیں اکیلے ہی پڑھایا
ﺟﯽ
کرتی تھیں لیکن ان کی ایک دوست جو ان کی قریبی رشتے دار بھی تھیں امتحانوں
وغیرہ لینے میں ان کی ہیلپ کرتی رہتی تھیں یا میڈم کے دنوں میں بچوں کے ٹیسٹ
بزی ہوں تو وہ ہم کو پڑھا دیتی تھیں ورنہ عام طور پر وہ چپ چاپ میڈم زیبا کو پڑھاتے
ہوۓ دیکھتی رہتی تھیں میڈم زیبا کی طرح یہ بھی بہت پڑھی لکھی تھی اور ان کا گھر ان
@
کے ساتھ ہی واقعہ تھا میڈم زیبا کی طرح یہ بھی کافی خوشحال خاتون تھیں اور چونکہ
گھر میں پڑے پڑے بور ہوتیں تھیں اس لئے ان کا زیادہ ٹائم میڈم کے گھر ہی گزارتی تھیں
۔ نام ان کا ندا تھا اور وہ ایک بیوہ خاتون تھیں اور انہوں نے اپنے خاوند کے مرنے
کے بعد دوسری شادی نہ کی تھی بلکہ اپنے اکلوتے بیٹے پر ہی ساری توجہ دی تھی
ﺷﺎه
جو کاف ی پڑھ لکھ تو گیا لیکن نوکری کی بجاۓ وہ اپنی دکان پر بیٹھتا تھا اور سہ بی صبع
جاتا اور رات کو ہی واپس آتا تھا میڈم زیبا کے بر عکس ندا میم بڑی ہی سویٹ اور ہمدرد
خاتون تھیں وہ عمر میں زیبا میڈم سے کافی کم تھیں میرا خیال ہے وہ اس وقت 54،55کی
ہوں گی لیکن ایک دوسرے کے ساتھ اُن کا رویہ ایسا تھا کہ جیسے وہ ہم عمر ہوں العرض
دونوں میں بڑی ہی اچھی انڈرسٹینڈنگ تھی دونوں ہی بڑی پیاری اور رشتے دار ہونے
ﺟﯽ
کے ساتھ ساتھ بڑی گہری دوست بھی تھیں فارغ ٹائم میں دونوں ایک دوسرے کے ساتھ جڑی
باتیں کرتی رہیتں بس ایک فرق یہ تھا کہ میڈم زیبا کے برعکس ندا میم بڑی ہی فرینڈلی اور
نرم مزاج کی عورت تھیں ہم سب نے اگر کوئ بات کہنی ہو تو ان ہی سے کہتے تھے ۔۔۔
کیونکہ ان کے عالوہ میڈم زیبا کے سامنے بات کرنے کی کسی اور میں ہمت نہ تھی ۔۔۔
ا
یہ رکھی تھی کہ وہ مجھے اپنے طریقے سے پڑھائیں گی ان کی بات سمجھ کر امی نے
ﺳﺗﺎ
ا ن کو اجازت دے دی اور کہا کہ جو مرضی ہے کریں میرے بیٹے کو بس الئق بنا دیں
اور یوں شفٹنگ کے ساتھ ہی میری ٹیوشن بھی لگ گئ تھی اور میں نے وہاں آنا جانا
شروع کر دیا ۔۔۔ ان دنوں چونکہ میں بڑا آوارہ پھرا کرتا تھا اور امی میری اس حرکت
سے بڑی تنگ تھیں اس لئے انہوں نے میڈموں کو خاص تاکید کی تھی کہ چاہے کچھ
ﻧﯽ
بھی ہو جاۓ مجھے چھٹی ہر گز نہ کرنے دی جاۓ ۔۔۔۔ اور امی کی یہ بات میڈم زیبا نے
زیر سایہ اپنی
ِ خاص طور پر اپنے پلو سے باندھ لی تھی اور مجھے خاص طور پر اپنے
کڑی نگرانی میں رکھا ہوا تھا ۔ اسی لیئے میں کسی بھی حال میں ٹیوشن سے چھٹی نہ
ﺟﯽ
کر سکتا تھا ۔۔۔ چنانچہ میں نے وہی وہانوی کا ناول گھر میں پڑھنا شروع کر دیا جو کہ
واقعہ ہی بڑا زبردست اور سیکسی تھا لیکن ٹیوشن کا ٹائم ہو گیا تھا اور میرا ناول
دل نہ کر رہا تھا اور دوسری طرف مسلہ یہ بھی تھا کہ مجھے یہ چھوڑنے کو قطعا ً
ناول شام کو ہر حال میں واپس کرنا تھا چنانچہ کافی سوچ و بچار کے بعد میں نے فیصلہ
@
کیا کہ ناول کو اپنے ساتھ ٹیوشن پر لے جاتا ہوں اور وہاں موقع دیکھ کر ناول کا بقایا
حصہ پڑھ لوں گا یہ سوچ کر میں نے اپنے بستے میں وہ ناول رکھا اور ٹیوشن پڑھنے
چال گیا ۔۔۔ یہاں میں یہ بتا دوں کہ میڈم سے ٹیوشن پڑھنے والے ہم کوئ 01 / 05سٹوڈنٹ
تھے جن میں دو چار لڑکیاں بھی شامل تھیں ۔۔ جانچہ وہاں جا کر میں نے جلدی سے اپنا ہوم
ﺷﺎه
ورک ختم کر کے میڈم کو چیک بھی کروا دیا ۔۔ اور چونکہ مجھ پتہ تھا کہ میڈم کسی بھی حال
میں مجھے قبل از وقت چھٹی نہ دے گی اس لیئے میں ُچپ چاپ کمرے کے ایک کونے میں
جا کر بیٹھ گیا اور جب دیکھا کہ میڈم دوسرے بچوں کے ساتھ بزی ہو گئیں ہیں تو میں نے
موقع غنیمت جان کر پالن کے مطابق اپنی انگریزی کی کتاب نکالی اور اس کو کھول
لیا پھر ا دھر ادھر دیکھ کر چپکے سے اس کے اندر استانی جی واال ناول رکھا اور ایک
ﺟﯽ
دفعہ پھر چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔ سب لوگ اپنے اپنے کاموں میں مصروف
نظر آۓ سو ہر طرف سے مطمئن ہو کرمیں نے ناول پڑھنا شروع کر دیا ۔۔۔ دوستو اگر آپ
لوگوں نے وہی وہانوی کی یہ بُک پڑھی ہے تو آپ اچھی طرح سے جانتے ہوں گے کہ یہ
ان کا سب سے زیادہ ہاٹ (اس زمانے کے لحاظ سے) ،سیکسی اورجزبات کو برانگیخت کرنے
واال ناول تھا اوپر سے اس وقت میری بالی عمر ۔۔۔ یہ سونے پر سہاگہ واال کام تھا مجھے
ا
اور بڑا سیسکی تھا ۔۔۔ ہاں تو م یں کہہ رہا تھا کہ میں بڑا ڈوب کر ناول پڑھ رہا تھا اور اس
ﺳﺗﺎ
کی سطر سطر سے لطف اُٹھا رہا تھا اور ۔۔۔۔ ظاہر ہے لن صاحب ۔۔۔۔ تو ظاہر ہے کہ وہ
بھی شلوار میں تنا ہوا مست ہو کر لہرا رہا تھا اور اوپر سے میرا بڑا سا لن شلوار میں
تنا کچھ زیادہ ہی دکھائ دے رہا تھا لیکن فکر کی کوئ بات نہ تھی کہ بندہ آلتی پالتی
مارے (کراس بنا کر ) بیٹھا تھا اور لن کے اوپر کتاب دھری تھی لیکن سچی بات تو یہ تھی
ﻧﯽ
کہ میں کتاب پڑھنے میں اتنا محو تھا کہ مجھے اس بات کا احساس ہی نہ تھا کہ میں کہاں ہوں
؟؟ اور میرا لن کیا کر رہا ہے ۔۔۔۔۔۔۔
ﺟﯽ
احساس تو تب ہوا جب اچانک میڈم زیبا نے مجھے کان سے پکڑا اور اسے اس قدر
زور سے مروڑا ۔۔۔۔ کہ مجھے نانی یاد آ گئ اور میں ہڑبڑا کر اوپر دیکھنے لگا اور زیبا
میڈم پر نظر پڑتے ہی میرے فرشتے کوچ کر گئے ۔۔ پھر میڈم نے مجھے کان سے پکڑ
ے پکڑے اوپر کو اُٹھایا ۔۔ اسی دوران جب میڈ م زیبا مجھے کان سے پکڑ کر اوپر کو اٹھا
@
رہی تھیں تو عین اسی وقت میڈم ندا نے میرے ہاتھ سے انگریزی کی کتاب کہ جس کے اندر
وہ سیکسی ناول بھی تھا چھین لی اور پھر جیسے ہی انہوں نے کتاب کو کھوال تو اس میں تو
ان کی نظر سیکسی ناول پر پڑ گئ اور وہ اسے دیکھنے لگیں ۔۔۔۔ اسی وقت میڈم زیبا نے وہ ناول
ہاتھ میں پکڑا اور ایک نظر دیکھ کر ہی سمجھ گئیں اور پھر وہ میری طرف ُمڑی اور بڑے ہی
ﺷﺎه
غصے میں بولیں ۔۔۔ اچھا تو یہ سبق پڑھا جا رہا تھا ۔۔۔ پھر انہوں نے اپنا منہ ندا میڈم کی
طرف کیا اور بولی میں بھی کہوں یہ لڑکا اتنا محو ہو کر اپنا سبق تو ہرگز نہیں پڑھ سکتا.
اس کے بعد انہوں نے میری طرف دیکھا اور بڑے طنز سے بولیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ تو یہ پڑھ
رہے تھے آپ ؟؟ ناول اتنا سیکسی اور ہاٹ تھا کہ رنگے ہاتھوں پکڑے جانے کے باوجود بھی
ﺟﯽ
لن کو کوئ فرق نہیں پڑا تھا اور وہ ویسے کا ویسے تنا کھڑا تھا اور جب میڈم زیبا مجھے
ڈانٹ پال رہی تھیں تو اس وقت بھی وہ بری طرح اکڑا کھڑا تھا اچانک میڈم ندا کی نظر
میری اٹھی ہوئ شلوار پر پڑ گئ ۔۔۔ تو وہ میری اتنی زیادہ اٹھی ہوئ شلوار کو دیکھ کر
حیرت کے مارے ان کی آنکھیں پھیل گئیں ۔۔۔ اور میں نے کن اکھیوں سے دیکھا تو وہ بڑے
غور سے میرے لن کو دیکھے جا رہی تھیں جو اس وقت شلوار میں تنا کھڑا رہا تھا ۔۔ میرے
ا
کانپتے ہوۓ بولیں ۔ ۔ ابھی اور اسی وقت یہاں سے دفعہ ہو جاؤ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ﺳﺗﺎ
میڈم کا زور دار تھپڑ کھا کر میں نے اپنا بستہ پکڑا اور ُچپ چاپ وہاں سے چال آیا ۔
ت حال سے آگاہ کیا ۔ ۔ ۔ ۔ جیسے اور سیدھا انجم کے پاس چال گیا اور اس کو ساری صور ِ
ہی اس کو پتہ چال کہ اس کا دئیا ہوا ناول میڈم نے ضبط کر لیا ہے تو اس کے تن
ﻧﯽ
بدن میں آگ لگ گئ اور اس نے میری ماں بہن ایک کر دی سب سے پہلے تو وہ اس بات
پر سخت ناراض ہوا کہ میں ناول لیکر وہاں گیا کیوں تھا؟؟ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب میں نے اس کو بتایا
کہ یار تم نے ہی تو جلدی واپس کرنے کا بوال تھا اس لئے میں اسے و ہاں لے گیا تھا
سن کر وہ بوال ۔۔۔ بہن چودا ۔۔۔۔ جیسے بھی ہے مجھے میرا ناول واپس چاہئے ۔ ۔ ۔ ۔ میری بات ُ
ﺟﯽ
۔۔۔ ۔ پھر بوال کیا تم کو معلوم نہیں کہ ربا ۔۔۔۔ (رب نواز جس کی الئیبریری سے ہم یہ ناول الیا
کرتے تھے ) کس قدر حرامی اور مادر چود ہے ۔۔ ۔ ۔ اب اس نے مجھ پانچ سو روپے جرمانے
کے لے لینے ہیں اور میرے پاس پانچ سو روپے تو کیا پھوٹی کوڑی بھی نہ ہے پھر میری
طرف دیکھ کر بوال ۔ ۔ ۔ ۔ اور مجھے تم سے تو ایک پائ کی بھی امید نہیں ہے کہ تم تو ہو
@
ہی ازلی کنگلے ۔۔۔ پھر پریشان ہو کر بوال مسلہ یہ ہے کہ لیکن اتنی بڑی رقم میں بھی
کہاں سے الؤں گا ؟؟ ۔۔۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور بڑے غصے سے بوال بہن چودا
۔ ۔ ۔ ۔ کل تک مجھے ہر حال میں وہ ناول چائیے ورنہ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کی سخت وارننگ اور
سن کر میں بہت پریشان ہوا اور منہ لٹکا کر واپس گھر آ گیا اور میں سوچ میں پڑ گیا جھاڑ ُ
ﺷﺎه
کہ اب میں کیا کروں ؟ ۔ ۔ ۔ اور سوچنے لگا کہ اب میں کیا کروں ۔ ۔ ۔ اوپر سے مجھے یہ
غم بھی کھاۓ جا رہا تھا کہ اگر کتاب نہ ملی تو کیا بنے گا ؟؟ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یونہی سوچتے
سوچتے اچانک مجھے ندا میم کا خیال آ گیا ۔ ۔ ۔ اور میں ان کے بارے میں سوچنے لگا کہ
وہ کتنی اچھی اور مہربان خاتون ہے سوچتے سوچتے میرے َمن میں آیا کہ کیوں نہ اس سلسلے
میں ندا میم سے مدد طلب کی جاۓ کیونکہ اس کیس میں انہوں نے مجھے ایک دفعہ بھی نہیں
ﺟﯽ
ڈانٹا تھا بلکہ کن انکھیوں سے میری اٹھی ہوئ شلوار کو ہی دیکھتی جا رہی تھیں ۔ ۔ ۔ جیسے
جیسے میں ندا میم کے بارے سوچتا گیا میرا حوصلہ مزید بڑھتا گیا ڈوبتے کو تنکے کا
اس سلسلے میں ندا میم سے مدد طلب کروں سہارا ۔ اور میں نے فیصلہ کر لیا کہ میں
گا ۔۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی میں نے اپنا ُرخ ندا میم کے گھر کی طرف کر لیا ۔ ۔ ۔ راستے میں
خیال آیا کہ اگر وہ بھی نہ مانی تو ؟؟ ۔۔ ۔ ۔ تو میں نے یہ خیال زہن سے جھٹک دیا کہ
ا
زیبا کا تھا پھر بھی اپنے گھر سے ان کے گھر تک جاتے جاتے میں نے کوئ پچاس دفعہ سوچا
ﺳﺗﺎ
اور کبھی ُرک گیا اور پھر چال گیا اسی کشمکش میں ندا میم کا گھر آ گیا اور میں ان کے دروازے
کے سامنے جا کر کھڑا ہو گیا اور سوچنے لگا کہ دستک دوں یا نہ دوں ؟؟۔ ۔ ۔ ۔ اسی کشمکش
میں کبھی آگے جاتا اور کبھی پیچھے ہٹتا ۔ ۔ ۔ ۔ اور فیصلہ نہ کر پا رہا تھا کہ میڈم کا دروازہ
کھٹکھٹاؤں یا نہیں ؟ اچانک ندا میم کے گھر کا دروازہ کھال اور ایک خوش شکل سا لڑکا باہر
ﻧﯽ
نکال ۔ ۔ ۔ اور مجھے دیکھ کر تھوڑا حیران ہوا اور بوال ۔ ۔ ۔ کیا بات ہے ؟ تو میں نے کہا ۔ ۔۔ ۔
۔ وہ ۔۔ وہ جی میڈم صاحبہ سے ملنا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو وہ ایک دم چونک کر بوال ۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ کہیں تم
زیبا آنٹی سے ٹیوشن تو نہیں پڑھتے ؟ ۔ ۔ ۔ تو میں نے جلدی سے اثبات میں سر ہال دیا ۔ ۔ ۔ یہ
ﺟﯽ
سن کر وہ بوال ۔ ۔ اوکے ۔۔۔ پھر کہنے لگا ُرکو میں ممی سے پوچھ لوں اور پھر اس نے اپنا منہ ُ
دروازے کے اندر کیا اور آواز دی ۔۔۔ ماما ۔۔ ایک لڑکا آپ سے ملنے آیا ہے ؟ تو مجھے اندر
سے میڈم ندا کی آواز سنائ دی کون ہے بیٹا ؟ تو اس نے جواب دیا آپ کا کوئ سٹوڈنٹ ہے
۔۔ ۔ ۔ ۔ تو پھر میڈم ندا کی آواز سنائ دی ۔ ۔ ۔سٹوڈنٹ تو ہے ۔ ۔ پر ہے کون ؟ تو وہ لڑکا مجھ
@
سے بوال ۔ ۔ یار زرا سامنے آؤ ۔ ۔ ۔ اور میں اس کے پاس چال گیا اور نے مجھے دروازے
میں کھڑا کیا اور بوال ۔۔ ماما یہ ہے وہ لڑکا ۔ ۔ ۔ ندا میم نے ایک نظر مجھے دیکھا اور چونک
سی گئ لیکن بظاہر چپ رہی اور پھر اپنے بیٹے سے کہنے لگی ۔ ۔ ٹھیک ہے اسے اندر
آنے دو ۔ ۔ ۔ اس پر وہ لڑکا جو یقینا ً ندا میم کا بیٹا تھا بوال ۔ ۔ ۔ آپ اندر جاؤ پھر وہ سامنے
ﺷﺎه
کھڑی اپنی ماما سے بوال ۔ ۔ ۔ ماما میں ابھی آیا ۔ ۔ ۔ تو ندا بولی تمھارا ابھی بھی ایک گھنٹے
کا ہوتا ہے ٹھیک سے بتاؤ کہ کہاں جا رہے ہو اور ۔ ۔ ۔ ۔ واپسی کب تک ہو گی ؟ تو وہ
لڑکا بوال ماما ایک تو آپ بھی زیبا آنٹی کے ساتھ رہ رہ کر بڑی سخت ہو گئیں ہیں ۔ ۔ ۔
پھرکہنے لگا ۔ ۔ ۔ماما جی ۔ ۔ ۔ میں زرا دوستوں سے ملنے جا رہا ہوں اور ایک دو گھنٹے
تک لوٹ آؤں گا اور اس سے پہلے کہ میڈم ندا اس سے کچھ کہتی وہ دروازے سے غائب ہو گیا ۔۔
ﺟﯽ
اس کے جاتے ہی میڈم ندا میری طرف متوجہ ہوئ اور بڑے غور سے مجھے
دیکھنے لگی ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کے اس طرح دیکھنے پر میں گھبرا گیا اور اپنا سر جھکا کر نیچے
کی طرف دیکھنے لگا ۔ ۔ ۔ کچھ دیر کے بعد مجھے میڈم ندا کی سخت آواز سنائ دی ۔ ۔ ۔ تم
سن کر میں نے سر اٹھا کر ان کی طرف دیکھا اور بوال ۔۔ ۔ ۔ یہاں کیا کرنے آۓ ہو؟ ان کی بات ُ
وہ میڈم ۔۔۔ وہ ۔ ۔ ۔ وہ آپ کو پتہ ہے ۔۔۔ تو وہ میری بات کاٹ کر بولی مجھے تو پتہ ہے تم بتاؤ ۔ ۔
ا
زرا شرم نہیں آئ حرام زادے اپنی عمر دیکھو اور اپنے شوق دیکھو ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے بعد میڈم
ﺳﺗﺎ
نے مجھے کافی سنائیں لیکن میں ڈھیٹ بنا ُچپ چاپ ان کی جلی کٹی باتیں سنتا رہا ۔۔۔ اور منہ
سے کچھ نہ بوال ۔ ۔ ۔ ۔ اس امید پر کہ جب میڈم کا غصہ ٹھنڈا ہو جاۓ گا تو دوبارہ درخواست
کروں گا۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر ایسا ہی ہوا کچھ دیر بعد جب میڈم کچھ ٹھنڈی پڑی ۔ ۔ ۔ ۔ اور اسے
احساس ہوا کہ اس نے میری کچھ زیادہ ہی بے عزتی کر دی ہے تو وہ تھوڑا نرم پڑ گئ اور نرم
ﻧﯽ
لہجے میں بولی ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو بچے یہ جو تم کر رہے ٹھیک نہ ہے ۔ ۔ پھر انہوں نے میری
یتیم شکل کو دیکھا اور شاید ان کے دل میں کچھ ترس آ گیا بولی ۔۔۔ہاں بتاؤ کہ تم میرے پاس کیا
لینے آۓ ہو ؟ میں نے جب دیکھا کہ میڈم کے دل میں کچھ رحم آ گیا ہے تو میں نے ۔ ۔ ۔ ۔
سن کر پتہ نہیں ان کے دل
ﺟﯽ
کہا وہ میڈم پلیز مجھے میڈم زیبا سے معافی دال دیں ۔ میری بات ُ
چلو اندر چل کر بات کرتے ہیں اور مجھے میں کیا آیا کہ وہ میری طرف دیکھ کر بولی
اپنے ساتھ لیکر ڈرائینگ روم میں آ گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اور صوفے پر بٹھا کر بولی کیا پیو گے ؟ تو
سن کر وہ بولی اوکے ۔ ۔ ۔ میں ابھی آئ اور پھر کچھ میں نے کہا کچھ بھی نہیں میم ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ُ
@
ہی دیر بعد وہ ایک جگ میں روح افزا ڈال کر لے آئ اس جگ کے ساتھ صرف ایک ہی
گالس تھا تو میں نے پوچھا آپ نہیں لیں گی میڈم تو وہ بولی نہیں میرا موڈ نہیں تم پیو اور ایک
گالس بھر کر مجھے دے دیا ۔ ۔ ۔ میں نے گالس اٹھایا اور آہستہ آہستہ پینے گا کچھ دیر بعد وہ
مجھ سے بولی ۔۔۔۔ ہاں اب بتاؤ کہ ۔ تم میرے پاس کیا لینے آۓ ہو ۔ ۔ ۔؟ میں اسی تاک میں تھا ۔ ۔
ﺷﺎه
۔ ۔ چنانچہمیں بڑی ہی عاجزی سے بوال ۔ ۔ ۔ وہ میڈم مجھ سے بڑی غلطی ہو گئی ہے آپ
بھی ۔ واپس وہ ۔ ۔ ۔ میرا ۔ ۔ ۔ناول اور مجھے میڈم زیبا سے معافی دال دیں
سن کر اچانک اسے کچھ یاد آ گیا ۔ ۔ ۔ ۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور لے دیں ۔۔۔ میری بات ُ
اس دفع ہ اسی نرم ٹون میں کہنے لگی ۔ ۔ ۔ تم باز نہیں آئے نا ۔ ۔وہ باہر کیا میں نے تم سے
فارسی بولی تھی ؟ اس سے پہلےکہ وہ مزید لیکچر دیتی میں نے بڑی عاجزی سے کہا میڈم
ﺟﯽ
سن لیں ۔۔۔۔۔ میں نے یہ بات اتنی عاجزی سی کہی تھی کہ وہ کچھ پلیز ایک دفعہ میری بات تو ُ
سنتو ُ سوچ میں پڑ گئیں اور بولیں ہاں بولو اور میں پھر سے اپنی وہی درخواست دھرائ
کر بولی یہ بات تو تم پہلے ہی مجھے بتا چکے ہو پھر اس کے بعد انہوں نے میرے
ساتھ ادھر ادھر کی باتیں شروع کر دیں ۔۔۔۔ اور اس دفعہ وہ اتنی شفقت سے پیش آ رہی تھیں کہ
میں جو پہلے ان کی ڈانٹ سن کر خاصہ مایوس سا ہو رہا تھا پھر ہمت پکڑنے لگا تھا ۔۔۔۔۔ اس
ا
سن کر اٹھا اور ۔۔۔ جانے لگا ۔۔۔۔ پھر َمن میں آیا کہ اب تو میم کافی فری ہو
۔۔۔۔ اور میں ان کی بات ُ
ﺳﺗﺎ
گئ ہے اس لیئےجاتے جاتے ان سے ایک بار پھر درخواست کرلوں چناچہ میں نے پھر اپنا رونا
اگر تم میرے سوالوں کے سن کر وہ سوچ میں پڑ گئیں اور پھر کہنے لگی ۔ ۔ دیکھو رویا ُ
ٹھیک ٹھیک جواب دو گے تو شاید میں تم کو وہ ناول واپس دالنے میں کچھ مدد کر سکوں
۔ ۔ ۔ تو میں نے کہا آپ پوچھیں میڈم میں سچ بولوں گا تو وہ کہنے لگی اچھا یہ بتاؤ کہ یہ ناول
ﻧﯽ
تمھارا اپنا ہے ؟ تو میں نے کہا جی نہیں ایک دوست کا ہے تو انہوں نے دوسرا سوال کیا
کہ اس نے کہاں سے لیا؟ تو میں نے کہا ایک الئیبریری ہے تو وہ بولی کہاں ہے یہ الئیبریری
تو میں نے جواب دینے میں کچھ ہچکچاہٹ کا مظاہرہ کیا تو وہ بولی نہ بتاؤ میں بھی تم
ﺟﯽ
سن کر میری تو گانڈ ہی پھٹ گئی چنانچہ میں نے جلدی سے کہا وہ جی کو ۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ان کی بات ُ
بظاہر تو اس کی سائیکلیں ٹھیک کرنے کی دکان ہے لیکن اس کے ساتھ ساتھ وہ ا س قسم کے
رسالے بھی کراۓ پر دیتا ہے ۔ ۔ ۔ تو وہ بولی اچھا یہ بتاؤ اس ناول کا کرایہ کتنا ہے ؟
ویسے تو اس کا کرایہ دو روپے روز کا تھا پر میں نے میڈم سے جھوٹ بولتے ہوۓ کہا کہ
@
۔ ۔ ۔ جی اس کا 4روپے روز کا کرایہ ہوتا ہے تو وہ کہنے لگی تم لوگ کیسے دے دیتے ہو؟ تو
سن کر وہ کھلکھال کر ہنسی اور بولی ۔ ۔ میں نے کہا کہ جی سب چندہ کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ میری بات ُ
۔ بڑے نیک کام کے لیئے چندہ کرتے ہو آپ لوگ ۔ ۔ پھر کہنے لگی فرض کرو اگر یہ ناول تم کو
نہیں ملتا تو کیا ہو گا ۔ ۔ ۔ ۔ تو میں نے کہا میڈم جی ہونا کیا ہے ۔ ۔ ۔ ۔ وہ کتاب کی قیمت پلس ُجرمانہ
ﺷﺎه
لے گا تو وہ بولی وہ کتنا ہو گا تو میں نے ایک دفعہ پھر جھوٹ بولتے ہوۓ کہا کہ وہ جی مل مال
سن کر وہ ایک دم حیران کر 4/ 5سو روپے ہوں گے اور مار الگ سے پڑے گی ۔ ۔ ۔ ۔ میری بات ُ
ہو گئی اور بولی ۔ پیسوں کی بات تو سمجھ میں آتی ہے یہ مارے گا کس خوشی میں ؟ ۔ تو میں
نے کہا کہ وہ جی اس کا ایک بھائ تھانہ کوتوالی میں حوالدار ہے یہ اس کی تڑی لگا
سن کر وہ کچھ نروس سی ہو گئی تھی اس لیئے میں کر مارتا ہے اور میں دیکھا کہ مار کا ُ
ﺟﯽ
نے اس بات کو مزید نمایاں کرنے کے لیئے ایک جعلی سی جھرجھری لی اور بوال وہ جی ایک
دفعہ ہمارے ایک دوست سے اس کا ناول گم ہو گیا تھا تو اس نے پیسے الگ لیئے تھے اور مارا
بھی بہت تھا میری بات سن کر وہ کہنے لگی یہ تو بہت بری بات ہے لیکن تم لوگ یہ حرکت
کرتے ہی کیوں ہو تو میں نے اسی عاجزی سے کہا کہ وہ جی غلطی ہو گئ آئیندہ ایسا نہ ہو
پھر جاتے جاتے واپس مڑا قدم بڑھا لیا گا ۔۔اور باہر کی طرف جانے کے لیئے
ا
کر بولی ہی ہے میں 4روپے روز کا کرایہ نہیں دے سکتا ۔۔؟ میری بات سن کر وہ سر ہال
ﺳﺗﺎ
ہاں ۔۔۔ مجھے معلوم ہے کہ تم یہ افورڈ نہیں کر سکتے پھر انہوں نے میری طرف دیکھا اور ۔۔۔
بولی ۔۔۔۔ چ لو دو دن کا کرایہ میں تم کو دے دیتی ہوں ۔۔۔ آگے کی پھر دیکھیں گے ۔ ۔ یہ کہہ کر
میڈم ندا نے اپنے سینے پر لیا ہوا دوپٹہ ایک طرف کیا اور میرے دیکھتے دیکھتے اپنا لیفٹ
ہاتھ اپنے رائیٹ سائیڈ والے بریزئیر میں ڈاال اور اسے ٹٹولتے ہوۓ بولی ۔۔۔۔۔ ۔ کہاں گئے پیسے
ﻧﯽ
ابھی تو یہیں رکھے تھے ۔۔۔۔۔ اور ۔۔ اور ۔۔۔۔ پھر اپنے ہاتھ کو بریزئیر کے اندر گھماتے گھماتے
اپنی چھاتی کو قمیض سے باہر نکال لیا ۔۔۔ اور میری طرف گہری نظروں سے دیکھتے ہوۓ بولی
۔۔۔ کہاں رہ گئے پیسے ۔۔۔۔ اور میری نظر ان کی باہر نکلی ہوئ چھاتی پر پڑی ۔۔۔ اُف ف ف
ﺟﯽ
فف ۔۔۔ ان کی یہ چھاتیاں بہت بڑی ۔۔۔ موٹی موٹی ۔۔۔ اور کافی گوری سی تھی اور ان کی اِن
خوبصورت چھاتیوں پر براؤن رنگ کا ۔۔۔ موٹا سا ۔۔۔۔۔ نپل بھی تھا ۔۔۔۔ ان کی اتنی بڑی چھاتی ۔۔
اور اس پر براؤن سا ۔۔۔ نپل ۔۔۔۔ دیکھ کر میرے تو ہوش ہی ُگم ہو گئے اور میرے اوپر کا سانس
اوپر اور نیچے کا نیچے ۔۔۔۔۔ اور منہ کھلے کا کھال رہ گیا اور ۔۔۔ میں کوشش کے باوجود بھی ان
@
کی اس خوبصورت چھاتی سے اپنی نظریں نہ ہٹا سکا ۔۔۔ اور پھر مجھے پتہ بھی نہ چال اور
میری شلوار میں ایک تمبو سا تن گیا ۔۔۔ حاالنکہ موقع بھی نہ تھا پھر بھی نہ جانے کیسے
۔۔۔۔ میری شلوار میں ۔۔۔ میرا بڑا سا لنڈ ۔۔۔۔۔ اکڑ کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔ لیکن یقین کریں ۔۔۔ مجھے اس
بات کا کوئ احساس نہ تھا میں تو بس ان کا گورا ۔۔۔ چٹا ۔۔۔ اور موٹا سا مما دیکھنے میں مگن
ﺷﺎه
تھا ۔ ۔ ۔ انہوں نے کوئ تیس چالیس سکینڈ تک اپنی ننگی چھاتی برا سے باہر رکھی اور بظاہر
بریزئیر کو ٹٹول ٹٹول کر پیسے ڈھونڈتی رہیں ۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ گہری نظروں سے میری
طرف بھی دیکھے جا رہیں تھیں ۔۔۔ لیکن شاید وہ مجھے کم اور میرے لن کو زیادہ گھور رہیں
تھیں پر م یں اس سے بے نیاز۔۔۔ ان کی گوری موٹی اور ننگی چھاتی کو دیکھنے کی لزت لے
رہا تھا ۔ ۔ ۔ پھر انہوں نے اپنی یہ چھاتی واپس اپنے بریزئیر میں ڈال لی اور ۔ ۔ ۔ بولی ۔۔۔
ﺟﯽ
میرا خیال ہے پیسے دوسری سائیڈ پر ہیں اور پھر اپنا دوسرا ہاتھ دوسری سائیڈ والے بریزئیر میں
ڈاال اور کچھ دیر تک اپنا ہاتھ وہاں گھماتی رہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کی نظریں مسلسل میری
شلوار میں تنے ہوۓ میرے لنڈ پر تھیں ۔۔۔ پر ۔۔۔۔ قسم لے لیں جو مجھے اپنے لن کے کھڑے
ہونے کا زرا بھی احساس تھا ۔۔۔ میری تو نظریں میڈم کی دوسری چھاتی پر گڑھی ہوئیں تھیں کہ
کب وہ باہر نکلے اور میں اس کو دیکھ کر اپنی آنکھیں سینک سکوں ۔۔۔۔۔ مجھے زیادہ دیر انتظار
ا
کچھ دیر تک میڈم نے مجھے اپنی اس چھاتی کا بھی نظارہ لینے دیا پھر انہوں نے بریزئیر
ﺳﺗﺎ
میں اپنا ہاتھ ادھر ادھر گھمایا اور 055کا ایک نیا نوٹ باہر نکال لیا اور اس کے بعد اپنی
چھاتی کو واپس بریزئیر میں ڈال کر بولی یہ لو ۔۔۔ اس کو دو دن کا کرایہ دے دینا ۔۔۔۔۔۔ ۔ ۔ ۔ اس
زمانے میں میرے لئے سو کا نوٹ بہت بڑا نوٹ ہوتا تھا اس لئے میں نے میڈم سے کہا کہ میڈم
۔۔۔ جی ۔۔۔ اتنا بڑا نوٹ ۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟ اس وقت میں اس کا چینج کہاں سے الؤں گا ؟ تو وہ بولی تم کو
ﻧﯽ
کس نے کہا کہ تم ابھی مجھے بقایا واپس کرو ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ پھر تھوڑا سوچتے ہوۓ بولی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔۔ تم
ک و چھٹی کب ہوتی ہے؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔ تو میں نے ۔ ۔۔ جواب دیا کہ میڈم ۔۔۔ دو بجے ۔۔۔ تو وہ بولی
نہیں دو بجے تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ نہیں ۔ ۔ ۔ ڈیڑھ بجے تو مجھے ایک ضروری کام سے کہیں جانا ہے ۔
ﺟﯽ
۔۔۔۔ پھر بولی کہ تم ۔۔۔ ایسا کرو کہ ۔۔ کل آدھی چھٹی ساری کر لینا اور اسے دو دن کا کرایہ دے
کر باقی پیسے مجھے دے جانا ۔۔َ۔ اور اس کے ساتھ ہی ندا میڈم نے میرے لن کو گھورتے
ہوۓ مجھے باہر جانے کا اشارہ کیا اور میں باہر آ گیا لیکن میری آنکھوں کے سامنے ابھی
بھی ان کی ننگی چھاتیاں گھوم رہیں تھیں اور ۔۔۔۔ اور نیچے شلوار میں ایک تمبو سا بنا ہوا تھا ۔۔۔
@
آنکھوں میں ان کی ننگی چھاتیوں کی تصویر سجاۓ چال جا رہا تھا ۔ ۔ ۔ اور میں اپنی
ان کے تصور کے ساتھ ہی کچھ دیر بعد مجھے اپنا لن پکڑ کر دبانے کی حاجت محسوس ہوئ
اور بے اختیار میرا ہاتھ اپنے لن کی طرف چال گیا اور میں نے جیسے ہی ہاتھ نیچے کیا تو لن
کھڑا ہوا محسوس ہوا تب مجھے احساس ہوا کہ میں کہاں ہوں ۔۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ فورا ً ہی میں نے ادھر
ﺷﺎه
ادھر دیکھا ۔ ۔ ایک تو رات کا ٹائم تھا دوسرا خوش قسمتی سے گلی بھی خالی تھی سو میں
نے سائیڈ پر ہو کر لن کو اپنی شلوار کے نیفے میں اڑوس لیا اور ادھر ادھر دیکھتے ہوۓ گھر
چال گیا اور جب بستر پر لیٹا تو ایک دفعہ پھر میری آنکھوں کے سامنے میڈم کی ننگی چھاتیاں آ
گئیں اور اس کے ساتھ ہی میرا لن بھی پھر سے اکڑ گیا اور میں کوشش کے باوجود بھی سو نہ
سکا ۔۔۔۔۔ اور کروٹیں بدلتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن لن کی اکڑاہٹ ختم ہونے میں ہی نہ آ رہی تھی پھر
ﺟﯽ
مجبور ہو کر میں اُٹھا اور سیدھا لیٹرین میں چال گیا اور میڈم کی ننگی چھاتیوں کا تصور کر
کے ُمٹھ مار دی ۔۔۔۔۔۔۔ جس سے کچھ سکون مال اور میں واپس آ کر بستر پر لیٹا اور پھر ۔۔ میڈم
کے تصور میں ُگم جانے کب آنکھ لگ گئ۔۔۔
ا
وہ اسے ایک موٹی سی گالی دیکر بوال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اوۓ حرامی تین دن ہو گئے ہیں تم نے ابھی
ﺳﺗﺎ
تک کتاب واپس نہیں کی تو سہمے ہوۓ انجم نے جواب دیا کہ ۔ ۔ ۔ ۔۔ وہ یار تین نہیں ایک دن ہوا
ہے پھر اس نے اپنی جیب سے دو روپے نکال کر ایک دن کا کرایہ ربے کو دیا اور پھر بوال ۔
۔ ۔ ۔ ربا جی ۔۔ ۔ ۔ ۔ آپ کا ناول کل شاہ نے لے لیا تھا باقی دنوں کا کرایہ اور ناول اب اس کے
سن کر ربے نے میری طرف دیکھا تو میں نے ہاں میں سر ہال دیا ۔ ۔ ۔ زمے ہے انجم کی بات ُ
ﻧﯽ
یہ دیکھ کر انجم نے یہ کہتے ہوۓ وہاں سے دوڑ لگا دی کہ اسے زرا جلدی سکول جانا ہے اور
اس کے جاتے ہی ربے نے مجھے بازو سے پکڑ لیا اور بوال ۔ ۔ ۔ ۔ نکال ایک دن کا کرایہ تو میں
نے فورا ً ہی جیب سے سو کا نوٹ نکال کر اسے دیا اور بوال ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ایک دن کا نہیں ۔۔۔ ربا جی
سن کر وہ میری طرف دیکھ کر بڑے معنی
ﺟﯽ ۔۔۔ آپ پورے تین دن کا کرایہ کاٹ لو ۔ ۔ ۔ ۔ یہ ُ
خیز لہجے میں بوال بڑے پیسے ہیں تیرے پاس ۔۔۔۔۔ اور تین دن کا کرایہ کاٹ کے باقی پیسے
میرے ہاتھ پر رکھتے ہوۓ بڑے راز دارانہ انداز میں بوال ۔ ۔ ۔ ۔ میرے پاس انگریزی کے
فوٹوؤں والے رسالے بھی ہیں ۔۔۔۔ الف ننگی گوریوں کے ۔۔ یہ موٹے موٹے ممے اور چٹی پھدیاں
@
وہ بھی بنا بالوں کے ۔۔۔۔ چاہیئں تو دوں ؟ گوریوں کے موٹے ممے اور چٹی پھدیوں کا زکر
سن کر میرے منہ میں پانی بھر آیا ۔۔۔ پر میں بوال کچھ نہیں ۔۔۔۔۔ ربا بڑے غور سے میری طرف ُ
یکھ رہا تھا ۔۔۔ پھر وہ کہنے لگا پر باؤ ان انگریزی رسالوں کا کرایہ 05روپے روز کا ہو گا
۔ ۔ ۔۔ لیکن میں نے انکار کر دیا اور ا س سے بقایا پیسے لیکر سیدھا سکول چال گیا ۔۔۔ اور
ﺷﺎه
کاٹ کر واپس گلی میں آیا تو وہ ریڑھی واال وہاں سے جا چکا تھا سو میں نے ادھر ادھر
دیکھتے ہوۓ میڈم کا دروازہ کھٹکھٹا دیا فورا ً ہی ندا میڈم نے دروازے سے سر نکاال اور گلی میں
دیکھ کر بولی اندر آ جاؤ اور اس طرح میں میڈم کے گھر میں داخل ہو گیا ۔۔۔۔ میڈم نے دروازے
کو کنڈی لگائ اور مجھے اپنے ساتھ ایک کمرے میں لے گئ ۔۔۔ جوشاید ان کا اپنا بیڈ روم
تھا کیونکہ سامنے دیوار پر ان کے کپڑے ٹنگے ہوۓ تھے اور اس کے ساتھ ہی ایک دروازہ
ا
کرسیوں کے درمیان ایک چھوٹا سا ٹیبل بھی پڑا تھا جس کے درمیان میں ایک
ﺳﺗﺎ
خوبصورت سا گلدان پڑا تھا اور اس گل دان میں مصنوعی گالب کے پھول لگے ہوۓ تھے
میں کمرے کا جائزہ لے رہا تھا کہ میڈم کی آواز میرے کانوں میں گونجی ۔۔۔ وہ کہہ رہی
سن کر مجھے یاد آ گیا اور میں نے اپنی تھی کہ وہ ۔۔ کرایہ دے دیا ہے ناں ۔۔۔ ان کی بات ُ
قیمض کی سائیڈ جیب سے بقایا نکاال اور میڈم کو دیتے ہوۓ بوال جی میڈم ۔۔۔ کرایہ تو میں صبع
ﻧﯽ
ہی دے آیا تھا ۔۔۔ انہوں نے میرے ہاتھ سے پیسے پکڑے اور اپنا ہاتھ برا کی طرف لے جاتے ہوۓ
بولی کوئ مسلہ تو نہیں ہوا نا؟ تو میں نے اپنی نظریں ان کے ہاتھ پر گاڑتے ہوۓ کہا کہ
نہیں میڈم ۔۔۔۔ کوئ مسلہ نہیں ہوا ۔ میں جو بڑے غور سے ان کی طرف دیکھ رہا تھا کہ برا
ﺟﯽ
میں پیسے ڈالتے ہوۓ ابھی میڈم اپنا مما باہر نکالے گی اور یہ سوچ کر ہی شلوار میں میرا لن
تن گیا ۔۔۔۔ اور میں بڑے اشتیاق سے میڈم کو دیکھنے لگا کہ کل کی طرح آج بھی وہ اپنی بڑی
سی خوبصورت چھاتی کا دیدار کراۓ گی ۔۔۔۔ لیکن ایسا نہ ہوا میڈم نے وہ پیسے ہاتھ بڑھا
کر برا میں ڈالے اور پھر برا سے ہاتھ باہر نکال لیا ۔۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور جب انہوں نے برا سے اپنا ہاتھ
@
باہر نکاال تو میں خاصہ مایوس ہوا ۔۔ ۔ حاالنکہ ٹیکنکلی برا میں پیس ے ڈالتے ہوۓ وہ اپنا
مما باہر نہ نکال سکتی تھی وہ تو تب دکھا سکتی تھیں جب برا سے پیسے باہر نکالنے ہوں ۔۔۔
میڈم بڑی غور سے مجھے اور میرے تنے ہوۓ لن کو دیکھ رہی تھیں ۔۔۔ میرے چہرے پر مایوسی
کو دیکھ کر وہ پتہ نہیں کیا سمجھی اور بولی ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ پیسے تو نہیں چائیں تم کو تو میں نے
ﺷﺎه
کہا نہیں میم ۔۔۔۔ تو وہ دوبارہ سے اپنی چھاتی میں ہاتھ ڈال کر بولی ارے نہیں اس میں
شرمانے کی کوئ بات نہیں اور پھر سے برا میں ہاتھ ڈال دیا اور پہلے کی طرح اپنی ایک
چھاتی قمیض سے باہر نکالی اور ۔۔۔ کچھ دیر تک مجھے وہ چھاتی دیکھنے دی ۔۔۔۔۔ واؤؤؤؤؤ۔۔۔
ان کی خوبصورت چھاتی دیکھ کر میرا دل باغ باغ ہو گیا اور میرا ناگ جو مایوس ہو کر سونے
کی تیاری کر رہا تھا وہ پھر سے پھن پھیال کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔
ﺟﯽ
کچھ دیرتک میڈم میرے لن اور میں ان کی چھاتی کو دیکھتا رہا پھر انہوں نے پیسے
میری طرف بڑھاتے ہوۓ کہا کہ چاہئے تو کچھ پیسے رکھ لو ۔۔۔ لیکن میں نے انکار کر دیا اور
انہوں نے دوبارہ سے وہ پیسے اپنی برا میں ڈال دیئے اور بولی بیٹھو میں تمھارے لیئے
شربت التی ہوں اور میں ان کے بیڈ روم میں بچھی کرسی پر بیٹھ گیا اور وہ کچن کی طرف روانہ
ہو گئیں کچھ دیر بعد وہ واپس آئ اور مجھے شربت پینے کو دیا اور گپ شپ کرنے لگی دوپٹہ
ا
بھی آیا کہ میں بھی ُچپ وہ بھی ُچپ ۔۔۔ لیکن گرمئ حاالت ادھر بھی تھے اور ادھر بھی ۔۔۔ اور
ﺳﺗﺎ
ایک دھیمی سی آگ ادھر بھی تھی اور ادھر بھی ۔۔۔۔۔۔ پر مسلہ یہ تھا کہ پہل کون کرے ۔۔۔۔ ان
کا تو مجھے پتہ نہیں لیکن میں اس لئے پہل نہیں کر پا رہا تھا کہ کہیں ایسا نہ ہو جاۓ کہیں
دیر بیٹھ بیٹھ کے جب کچھ نہ ہو سکا تو میں نے جانے کا ویسا نہ ہو جاۓ ۔۔۔۔ خیر کافی
سن کر وہ کچھ چونک سی گئ فیصلہ کیا اور بوال اچھا میم اب میں جاؤں ؟؟؟؟ ۔۔۔ میری بات ُ
ﻧﯽ
اور بولی ۔۔۔۔ تم جا رہے ہو ؟ ۔۔ تو میں نے کہا جی میڈم ۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی جانے کےلئے
اُٹھ کھڑا ہوا ۔۔۔ اور بھاری قدموں سے دروازے کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔ تب اچانک پیچھے سے
سنو !!!! ۔۔۔ تو میں نے پیچھے ُمڑ کر دیکھا تو وہ بولی ۔۔ تیم
مجھے ان کی آواز سنائ دی ۔۔۔ ُ
ﺟﯽ
کیل ٹھونک لیتے ہو؟ تو میں بوال یہ بھی کوئ مشکل بات ہے جی تو وہ بولی تو پلیز تم کپڑوں
والی کلی کے ساتھ ایک اور کیل ٹھونک دو اور پھر کہنے لگی رکو میں تم کو ہتھوڑی اور
کیل ال کر دیتی ہوں اور پھر انہوں نے ڈریسنگ کی ڈرا سے ایک ہتھوڑی اور ایک بڑا اور
موٹا اور سا سٹیل کا کیل نکاال اور ایک طرف لگی ہوئ کپڑے ٹانگنے والی کلی کی طرف
@
اشارہ کر کے بولی پلیز اسے اس کے ساتھ لگا دو ۔۔۔ اور میں نے ان کے ہاتھ سے ہتھوڑی
اور کیل لیا اور جو جگہ انہوں نے بتائ تھی وہاں پر کیل کو ٹھونکنے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔
میڈم کی بتائ ہوئ جگہ میرے ہاتھ کے رینج سے تھوڑی سے اوپر تھی اورمیں پنجوں کے بل
کھڑا ہو کر کیل لگانے کی کوشش کرنے لگا لیکن کیل پر میری ضرب ٹھیک سے نہ لگنے کی
ﺷﺎه
وجہ سے کیل دیوار کے اندر نہ جا رہا تھا ۔۔۔ میں نے کافی ٹرائ کی لیکن ہتھوڑے کی ضرب
کبھی کہیں پڑتی کھبی کہیں ۔۔۔ ردا میڈم جو میرے پاس کھڑی یہ سب دیکھ رہیں تھیں فورا ً بولیں
۔۔۔ ٹھہرو میں تمھاری ہیلپ کرتی ہوں اور پھر وہ عین میرے پیچھے کھڑی ہو گئیں اور بولی تم
کیل کو مضبوطی سے پکڑنا میں ضربیں لگاؤں گی پھر ہتھوڑا پکڑے وہ تھوڑا آگے بڑہیں اور
۔۔۔ ان کا نرم نرم جسم جیسے ہی ۔۔۔ اور ان کا فرنٹ جسم میری بیک کے ساتھ ٹچ ہو گیا آہ
ﺟﯽ
میری کمر سے ٹکریا تو میرے جسم نے ایک جھرجھری سی لی ۔۔۔۔ جسے انہوں نے بھی محسوس
کیا ہو گا لیکن وہ بولی کچھ نہیں اور اسی اینگل میں انہوں نے ایک ضرب لگائ ۔۔۔ لیکن میرا خیال
ہے تھوڑا فاصلہ زیادہ ہونے کی وجہ سے وہ ضرب ٹھیک سے نہ لگ سکی ۔۔ یہ دیکھ کر وہ
تھوڑا اور آگے کو کھسک گئیں اور اب ان کی فُل باڈی میری باڈی سے ٹچ ہونے لگی ۔۔۔۔ اُف
اُف ۔ف۔فف۔ف۔ف۔۔۔ مجھے ایسا لگا کہ ان کا نرم جسم میرے ہارڈ باڈی میں ک ُھب رہا ہے ۔۔۔ اور
ا
۔ اب انہوں نے دوبارہ کیل پر ہتھوڑی ماری لیکن میرا خیال ہے کہ اس جگہ پر اینٹ تھی جبکہ
ﺳﺗﺎ
تو کیل اندر نہ جا رہا تھا ۔۔۔۔ اس دفعہ ضرب مارنے سے پہلے وہ بولیں یہ کیل کیوں نہیں اندر جا
رہا ۔۔۔ تو میں نے کہا شاید میم آپ تھوڑا دور کھڑی ہیں اس لئے ۔۔۔ ضرب ٹھیک سے نہ لگ رہی
سن کر وہ منہ سے تو کچھ نہ بولی لیکن ہے آپ ایسا کریں کہ تھوڑا اور آگے آ جائیں میری بات ُ
مزید کھسک کر میرے ساتھ لگ گئی کیا لگی تو وہ پہلے کی تھی اب ان کا نرم نرم جسم میرے
ﻧﯽ
جسم میں تقریبا ً ک ُھب سا گیا اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی گانڈ پر ان کی گرم پھدی کو
محسوس کیا اور میں نے بے اختیار اپنی گانڈ تھوڑی پیچھے کر کے ان کی پھدی کے ساتھ
جوڑنے کی کوشش کر ۔۔۔۔۔ یہ میرا پہال واضع رسپانس تھا جو میں نے ان کو دیا تھا ۔۔۔۔۔
ﺟﯽ
میرا خیال ہے بات ان کی بھی برداشت سے باہر ہوتی جا رہی تھی کیونکہ اس دفعہ وہ کیل
کو ضرب کم اور میری گانڈ کے ساتھ اپنی پھدی کو زیادہ رگڑ رہی تھی ۔۔۔۔ دو تین ضربوں کے
بعد میں نے محسوس کیا کہ انہوں نے اپنی ایک ٹانگ میری دونوں ٹانگوں کے بیچ کر دی ہے
@
اور اس کے ساتھ ہی میں نے بھی چپکے سے اپنی گانڈ ان کی چوت والی جگہ پر رگڑ دی
جس کا نہوں نے فُل رسپانس دیا اور چوت کی اچھی سے ٹچ کیا ۔۔۔ واؤؤؤؤؤ ۔۔۔ ان کی چوت
والی جگہ بڑی ہی ہی ہاٹ تھی ۔۔۔۔۔ اور پھراس کے ساتھ ہی گیم شروع ہو گئ وہ بظاہر تو
ضرب کیل پر مارتی لیکن درپردہ اپنی چوت کو میری پیچھے کی طرف نکلی ہوئ گانڈ سے
ﺷﺎه
رگڑتی تھی اور مجھے ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ جیسے میڈم کی دونوں ٹانگوں کے بیچ
کوئ انگارہ رکھا ہوا ہے ۔۔۔ جو بار بار میری گانڈ سے ٹکرا رہا ہے اس کے ساتھ ساتھ میڈم
کی رگڑائ میں تھوڑی شدت آتی جا رہی تھی ۔۔۔ اور اب وہ ہتھوڑی کو براۓ نام ہی چال رہی تھی
۔۔۔ مجھے بھی بہت مزہ آ رہا تھا چانچہ ایک دفعہ جب میڈم تھوڑی پیچھے ہوئ تو میں نے فورا ً
ﺟﯽ
ہی اپنی گانڈ سے قمیض ہٹا دی اور تھوڑا اور نیچے جھک گیا اور اس کے ساتھ ہی میں نے
دوسرا کام یہ کیا کہ شلوار کی جو سائیڈ میڈم کی چوت کے ساتھ رگڑ کھا رہی تھی اس کو میں
نے اپنی ایڑی کے نیچے پھنسا لیا جس سے شلوار کی وہ سائیڈ ایک دم ہارڈ ہو گئ تھی
ظاہر ہے میری اس ایکٹیوٹی سے میڈم پوری طرح باخبر تھی لیکن وہ بولی کچھ نہیں اور اس
دفعہ جب انہوں نے میری گانڈ پر گھسا مارا ۔۔ تو ۔۔۔ تو اُف کیا بتاؤں دوستو !!!!!!!! ۔۔۔ جیسا کہ
آپ لوگوں کو معلوم ہے کہ میں سکول سے بھاگ کر آیا تھا ۔۔۔۔ اور اس وقت میں نے اپنے سکول
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
کی وردی پہنے ہوئ تھی جو کہ ملیشاء کی شلوار قمیض تھی ۔۔ اب جب میڈم نے اپنی چوت
کو میری گانڈ کے ساتھ رگڑتی تھی تو ان کی ریشمی شلوار میرے کھردرے ملشیاء کی شلوار
سے رگڑائ ۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔ اس دفعہ کی رگڑ سے مجھے ایسا لگا کہ میڈم کی چوت سے ایک
چنگاری نکلی ہو ۔۔۔۔ اور پھر میڈم نے ایک دو گھسوں کے بعد تیز تیز سانس لینا شروع کر دیا
ا
اور ۔۔۔۔ پھر کچھ مزید گھسوں کے بعد وہ کچھ آؤٹ آف کنٹرول ہو گئ اور انہوں نے مجھے کمر
ﺳﺗﺎ
سے پکڑا اور میری گانڈ پر ڈائیرکیٹ ہی گھسے مارنا شروع کر دیئے اور تیز تیز سانسوں میں
بولی ۔۔۔۔ تم سےایک کیل نہیں ٹھونکا جاتا ۔۔۔َ آہ ۔۔۔۔ہ۔ہ۔ہ۔ہ ۔۔ پھر ایک زور دار گھسا مارا اور بولی
۔۔۔۔ اتنا موٹا کیل تم سے کیوں نہیں ٹھونکا گیا ۔ ۔ ۔سالے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر انہوں نے اپنی چوت کو
میری گانڈ کے ساتھ بڑی سختی سے جوڑ لیا اور بُری طرح رگڑائ کرتے کرتے میرے اوپر
ﻧﯽ
تقریبا ً گر سی گئیں اس کے ساتھ میں نے محسوس کیا کہ ان کی ریشمی شلوار سے پانی بہہ بہہ
کر میری کھردری ملیشاء کی شلوار کو گیال کر رہی ہے کچھ دیر تک وہ ایسے ہی رہیں پھر انہوں
نے اپنی باڈی کو میری باڈی سے الگ کیا اور گہرے گہرے سانس لیتی ہوئ جا کر ڈریسنگ ٹیبل
ﺟﯽ کے سامنے پڑے سٹول پر بیٹھ گئیں ۔۔۔
وہ تو چھوٹ کے تھوڑی ٹھنڈی ہو گئیں لیکن میں اپنے لن کا کیا کرتا ۔۔۔ وہ تو اتنی سختی
سے کھڑا تھا کہ مجھے اندیشہ ہوا کہ کہیں اتنی زیادہ سختی آنے کی وجہ سے ٹوٹ ہی نہ جاۓ
۔۔ اور ساتھ ساتھ مجھے یہ احساس ہو رہا تھا کہ خود تو میڈم نے مزہ لے لیا اور میرے لن کا کچھ
@
نہ سوچا ۔۔۔۔ پھر میں نے دل میں کہا اس نے منع بھی تو نہیں کیا نہ ۔۔۔ اور میرا لن مجھے تنگ
کرنے لگا اور پھر اسی کشمکش میں بے اختیار چلتا ہوا میڈم کے پاس چال گیا جو سٹول پر
اور جا کر ان کے پیچھے کھڑا بیٹھی ابھی بھی گہرے گہرے سانس لے رہی تھی
ہوا گیا اور پھر ہمت کر کے تھوڑا اور آگے بڑھا جس سے میڈم کی بغل سے میرا لن ٹکرایا
ﺷﺎه
۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔ میڈم نے ڈریسنگ ٹیبل کے شیشے میں سے ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر فورا ً
ہی اپنا بازو اوپر کر کے کھول دیا جس سے میرا لن ان کی بغل میں گھس گیا ۔۔ جیسے ہی
لن ان کی بغل میں گیا انہوں نے فورا ً ہی اپنا ہاتھ نیچے کر لیا اور میرے لن کو اپنی بغل
میں لیکر اس پر دباؤ بڑھا نا شروع کر دیا اب میرا لن ان کے بازو اور بغل کے درمیان تھا ۔۔۔۔۔
واہ ہ ہ ہ ۔۔۔ کیا نرم بازو تھا کیا گرم بغل تھی ۔۔۔۔ میڈم نے میرے لن پر اپنا بازو دبایا اور بولی
ﺟﯽ
۔۔۔۔ کیا بات ہے ؟ تو میں نے کہا میڈم وہ کتاب تو مجھے مل جاۓ گی نہ ۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی
ایک گھسہ بھی مارا جس سےمیرا لن ان کے بغل کے آر پارہوکر ان کے ممے سے جا کر ٹکرا
یا لیکن انہوں نے ایسا شو کیا کہ جیسے کوئ بات ہی نہ ہوئ ہو ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ
میرے ساتھ نارمل انداز میں باتیں کرنا شروع ہو گئیں ۔۔۔ کچھ دیر بعد میڈم نے اپنا دوسرا
ہاتھ تھوڑا آگے کیا اور اپنی وہ بغل کہ جس میں میرا لن پھنسا ہوا تھا وہاں پر لے آئ
ا
دونوں کے بیچ کچھ بھی نہیں چل رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر کچھ دیر کے بعد انہوں نے انہوں نے اپنی چاروں
ﺳﺗﺎ
انگلیوں میں لن کو لیا اور مجھے سامنے آنے کا اشارہ کیا ۔ ۔ ۔۔ اور میں نے ان کی بغل سے لن
کو نکا ال اور ان کے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور پھر ان کا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا ۔۔۔۔
حیرانگی کی بات ہے کہ اس وقت مجھے ایسے کرتے ہوۓ میڈم سے زرا بھی ڈر نہیں لگا ۔۔۔۔ادھر
میڈم نے بھی فورا ً ہی میرے لن کو اپنی مٹھی میں دبا لیا اور کچھ دیر آگے پیچھے کرنے کے بعد
ﻧﯽ
انہوں نے اپنا دوسرا ہاتھ آگے بڑھایا اور میرا شلوار کا آزار بند کھول دیا ۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی
میری شلوار میری ٹانگوں میں چلی گئ پھر انہوں نے مجھ ے اپنی قمیض اوپر کرنے کا
اشارہ کیا کیونکہ لن کے سامنے جو آ گئی تھی اور میں نےجھٹ سے اپنی قمیض کو اوپر اٹھا
ﺟﯽ
کر اس کا دامن اپنے گریبان میں پھنسا لیا اور میڈم کی طرف دیکھنے لگا ا اب انہوں نے
میرے لن کو اپنے دونوں ہاتھوں میں پکڑا اور مجھے اپنی طرف کھینچا اور خود بھی سٹول
سے تھوڑا سا کھسک کر آگے کی طرف ہو گئیں مجھے ان کے نیکسٹ سٹیپ کا کوئ اندازہ
نہ ہو رہا تھا کہ وہ آگے کیا کرنے والی ہیں اس لیئے ُچپ چاپ کھڑا ان کو دیکھتا رہا اب
@
انہوں نے میرے ننگے لن پر اپنا ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور پھر میری طرف دیکھ کر پہلی
دفعہ سیکسی ٹون میں بولی ۔۔۔۔۔ تمھارا سودا (لن) بہت مست ہے ۔۔ ۔ ۔۔ تو میں نے بھی
ان سے کہا کہ آپ کو پسند آیا ؟؟ تو انہوں نے میرے لن کو سہالتے ہوۓ مختصر سا ۔۔۔ جواب
دیا ۔۔۔۔۔ بہت ۔۔۔ تو ان کی بات سن کو میں تھوڑا سا اور آگے بڑھا اور بوال میڈم اگر آپ کو میرا
ﺷﺎه
یہ سودا پسند آیا ہے تو پلیز اس پر ایک چھوٹا سا کس تو کر دیں تو انہوں نے بجاۓ کوئ
جواب دینے کے فورا ً ہی منہ آگے کیا اور میرا ٹوپے کو اپنے ہونٹوں میں جکڑ لیا ۔۔۔۔ ۔ ان کے
نرم و نازک سے ہونٹوں نے جیسےہی میرے ٹوپے کو چھوا ۔۔۔۔۔ میری سارے بدن میں مستی کی
مست لہریں سی چلنے لگیں ۔۔۔ ادھر انہوں نے اپنے ہونٹوں میں جکڑا ہوا میرا ٹوپا تھوڑا
اور آگے کی طرف اپنے منہ میں لے گئیں اور پھر ہونٹوں کے اندر ہی اندر ان کی زبان نے
ﺟﯽ
میرے پی ہول کو چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔۔ مجھے ان کے اس عمل سے اس قدر زیادہ مزہ آیا کہ
۔۔۔۔نجانے کہاں سے مزی کا ایک موٹا سا قطرہ بھاگتا ہوا آیا اور میرے ٹوپے سے نکل
کر ان کے منہ میں جا گرا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ مزی کا یہ قطرہ ان کے منہ میں جانے کے بعد فورا ً
ہی انہوں نے اسے اپنی زبان کی نوک پر رکھا اور زبان باہر نکال کر مجھے دکھانے لگی
پھر انہوں نے اس میں تھوڑا سا تھوک ایڈ کیا اور میرے لن پر مل دیا جس سے میرے لن
ا
میری طرف دیکھتے ہوۓ بولیں ۔۔۔ ُچھوٹنے لگے ہو۔۔ ؟؟؟؟؟ اور اس سے قبل کہ میں کوئ
ﺳﺗﺎ
جواب دیتا ۔۔۔ انہوں نے میرے لن کے پیچھے کو سختی سے دبا لیا اور لن کے نچلے حصے
میں وہ میری رگ کہ جہاں سے منی کا اخراج ہونا تھا کو اپنے انگھوٹھے سے دبا کر بالک
کر دیا اور پھر ڈریسنگ پر پڑے ٹشو پپیر کے ڈبے سے دو تین ٹشو نکالے اس ان کے
ﻧﯽ
کے آگے کر دیا ۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنا وہ انگھوٹھا کہ جس میرے لن
نے میرے لن کی نیچے والی رگ کو بالک کیا ہوا تھا اس کو وہاں سے ہٹا لیا لن کی رگ
سے دباؤ ہٹتے ہی میں نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور جھٹکے کی وجہ سے میرا
زاویہ خراب ہو گیا جس سے ۔۔۔۔۔ میری منی کی پہلی دھار سیدھی ان کے خوبصورت چہرے
ﺟﯽ
پر جا گری یہ دیکھ کر انہوں نے جلدی سے ٹشو کو میرے لن کے آگے کر دیا اور میری باقی
ماندہ منی اس ٹشو پیپر پر گرنی لگی اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے اپنے دوسرے ہاتھ سے میرے
لن کو پکڑا اور میری طرف دیکھتے ہوۓ اسے آگے پیچھے کرنے لگی اور اس طرح انہوں
نے میرے لن سے منی کا آخری قطرہ بھی نچوڑ کر ٹشو پیپر پر ڈال دیا اور پھر اس ٹشو کو رول
@
کر کے بیڈ کے ایک طرف پڑی ڈسٹ بن میں پھینک دیا ۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے بھی اپنے
پ اؤں میں پڑی شلوار اوپر اٹھائ اور آزار بند باندھ لیا اور ان سے اجازت لیکر کر باہر
جانے لگا وہ بھی مجھے چھوڑنے کے لیئے باہر آئ اور راستے میں بولی ۔۔ کیسا لگا آج کا
تجربہ تو میں نے کہا بہت اچھا ۔۔۔ ۔۔ ۔ تو وہ بولی مزہ آیا کہ نہیں ؟ تو میں نے جواب دیا کہ جی
ﺷﺎه
سن کر وہ چلتے چلتے ُرک گئ اور بولی میں تم کو اس سے بہت مزہ آیا تو میری یہ بات ُ
زیادہ بھی مزہ دے سکتی ہوں ۔۔ تو میں نے کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھتے ہولے
سے کہا وہ کیسے ؟؟ لیکن شاید انہوں نے میری یہ بات نہ سنی تھی یا سنی ان سنی کر تے
ہوۓ کہنے لگی ۔ اور یہ جو آج تمھاری منی ٹشو پیپر پر گری ہے اگلی دفعہ کہیں اور بھی گر
سکتی ہے ۔۔۔ پر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ اور یہ لفظ کہہ کر وہ ڈرامائ انداز میں میری طرف دیکھتے ہوۓ
ﺟﯽ
خاموش ہو گئیں اور میں ان کو ُچپ دیکھ کر بے چین سا ہو گیا اور پوچھا پر ۔ر۔۔ر ۔۔۔۔ پر ۔۔۔ کیا
میڈم ؟ تو وہ ہولے سے بولی ۔ ۔ ۔ ۔ پر اگر تم میری دوستی راز میں رکھو تو پھر کہنے لگی پہلے
کبھی کیا ہے ؟ تو میں نے سفید جھوٹ بولتے ہوکہا نہیں میڈم تو وہ بولی میں تم کو سب سکھا
دوں گی پر شرط وہی ہے کہ یہ راز راز ہی رہے گا ۔۔۔ تو میں پُر جوش انداز میں کہا کہ
میڈم میں اس چیز کی آپ کو گارنٹی دیتا ہوں کہ میرے آور آپ کے عالوہ یہ بات کسی تیسرے
ا
پھر انہوں نے اپنا دایاں ہاتھ آگے کیا اور بولیں وعدہ ۔۔۔ کرو کہ ہمارے تعلقات کے بارے میں
ﺳﺗﺎ
تم کسی کو بھی نہیں بتاؤ گے ؟ تو میں نےہاتھ آگے کیا اور بوال کہ میں وعدہ کرتا ہوں اور
میں قسم کھاتا ہو ں کہ میں آپ کے ساتھ تعلقات کے بارے میں کسی کو کچھ بھی نہیں بتاؤں گا
۔۔۔ میری بات سنتے ہی انہوں نے مجھے اپنے سینے کے ساتھ لگا لیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور ایک بڑا ہی
گرم جوشی کے ساتھ مجھے جھپی لگائ ۔۔۔ جس سے ان کی موٹی چھاتیاں میرے سینے کے ساتھ
ﻧﯽ
رگڑ کھانے لگیں اور جب ہم ایک دوسرے سے علحٰ یدہ ہو ۓ تو میں نے ڈرتے ڈرتے ان سےکہا
کہ میڈم ایک بات کہوں آپ ناراض تو نہیں ہوں گی ۔۔ تو وہ بڑے پیار سے بولی ایک نہیں دس
کہو ۔۔۔ میں بھال تم سے کیوں ناراض ہوں گی تو میں نے پھر ڈرتے ڈرتے کہا۔۔۔ کہ کیا میں آپ
ﺟﯽ
سن کر انہوں نے ایک ہلکا سا قہقہ لگایا اور کی یہ چھاتیاں ننگی دیکھ سکتا ہوں ۔۔۔ میری یہ بات ُ
بولی ں ۔۔۔ ارے بدھو تم ان کو نہ صرف ننگا دیکھ سکتے ہو بلکہ چاہو تو ان کو چوس بھی
سکتے ہو اس اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی قمیض کو اوپر اٹھایا اور برا سے اپنی دونوں
چھاتیاں باہر نکال کر بولیں آ جاؤ ان کو جی بھر کو چوسو ۔۔۔ اور اب میرے سامنے میڈم کی
@
ننگی چھاتیں تھیں ۔۔ موٹی گوری اور دلکش چھاتیا ں کہ جن کے تصور میں میں نے کل رات
ُمٹھ ماری تھی ۔۔۔ میرے سامنے بلکل ننگی میڈم کے جسم پر جمی ہوئیں تھیں اور ان بھاری
چھاتیوں کے دلکش نپل مجھے اپنے منہ میں لینے کو اکسا رہے تھے میڈم کی جھاتیوں کو یوں
ننگا دیکھ کر میرے ہونٹ خشک ہو رہے تھے اور میرا نیچے سے میرا لن پھر سے کھڑا
ﺷﺎه
ہونا شروع ہو گیا تھا ۔۔۔ اور میں اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتا ہوا میڈم کی ننگی چھاتیوں کی
طرف بڑھا ۔ ادھر میڈم مست ٹون میں بار بار مجھے ہال شیری دیکتے ہو ۓ کہہ رہی تھی شرما
نہ آ جا میری جان میری چھاتیوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر جی بھر کر چوسو اور ان
کو اپنے ہاتھوں میں پکڑ کو خوب دباؤ ۔۔ اور پھر جیسے ہی میں نے آگے بڑھ کر ان کی
ایک چھاتی کو پکڑ کر اپنے ہونٹوں میں لینا چاہا بلکل فلمی سین ہو گیا عین اسی وقت کسی
ﺟﯽ
نے باہر سے میڈم کا بڑی زور سے دروازہ کھٹکھٹایا ۔ ۔ ۔ ۔۔ ایک دم سے مجھے اور میڈم
کو ایسا لگا کہ جیسے کسی نے ہمارے قدموں میں بمب پھوڑ دیا ہو ۔اور ہم اچھل کر دور جا
کھڑے ہوۓ ۔۔۔ میڈم نے جلدی سے اپنی قمیض نیچے کی اور دوسرے ہی لمحے وہ حیرت انگیز
طور پر پُر سکونآواز میں بولی کون ۔ ۔ ۔ ؟ اور اس کے ساتھ ہی باہر سے آواز سنائ دی ۔۔۔۔۔ میں
۔ ۔ ۔ دروازہ کھولو ۔۔۔۔ باہر کی آواز سنتے ہی کم از کم مجھے تو ایسا محسوس ہوا کہ
ا
دستک کے ساتھ جس آواز نے میرا اور میڈم کا ِپتہ پانی کیا تھا وہ میڈم زیبا کی
ﺳﺗﺎ
سن کر ایک دفعہ تو میڈم کے پاؤں تلے سے بھی زمین نکل کرخت آواز تھی جسے ُ
گئی تھی لیکن دوسرے ہی لمحے انہوں نے اپنے آپ کو سنبھال لیا ۔۔۔ اور پھر مجھ سے
سرگوشی میں کہنے لگیں ۔ ۔ تم جلدی سے بیٹھک کے راستے سے باہر نکل جاؤ ۔ ۔ ۔ ان
ﻧﯽ
سن کر جیسے ہی میں جانے کے لئے مڑا ۔ ۔ تو وہ ایک بار پھر ہلکی آواز میں کی بات ُ
تیزی سے بولیں ۔ ۔ ۔ سنو ۔ ۔ کل چھٹی کے بعد ضرور آنا اور میں نے ہاں میں سر ہال دیا ۔
۔ ۔ جیسے ہی میں بیٹھک کی طرف بڑھا تو انہوں نے دوبارہ آواز دیکر کر مجھے روکا
اور پھر میرے پاس آ کر آہستہ سے بولیں کہ ۔۔ اور ہاں ۔۔ جب تک میں نہ کہوں تم نے
ﺟﯽ
ٹیوشن پر نہیں آنا ۔۔۔ کیونکہ ابھی زیبا کا ُموڈ بہت سخت خراب ہے ان کی آخری بات
سن کر میں نے وہاں سے دوڑ لگا دی اور دبے پاؤں چلتا ہوا بیٹھک میں پہنچ گیا اور پھر ُ
ڈرائینگ روم کی کنڈی کھول کر باہر چال گیا ۔ باہر نکل کر میں نے کسی سے ٹائم پوچھا تو
چھٹی ہونے میں ابھی تھوڑا وقت تھا اس لیئے میں نے ادھر ادھر گھوم کر ٹائم پاس کیا
@
سوری دوستو ناول استانی جی کی کھتا سنانے میں ،میں آپ سے ایک بات شئیر کرنا
ﺷﺎه
تو بھول ہی گیا اور وہ یہ کہ ہم جب ہم موجودہ گھر میں نئے نئے شفٹ ہوۓ تھے تو
گھر کی سیٹنگ وغیرہ کے فورا ً بعد میں نے جوکام سب سے پہلے کیا تھا وہ یہ تھا کہ میں
شام کو اپنی چھت پر چال گیا اور آس پاس کی تمام چھتوں کا جائزہ لینا لگا کہ دیکھوں کہ شام
کو اس محلے کا کون کون سا چہرہ چھت پر آتا ہے اور ان میں سے کون سا ایسا چہرہ ہے
جس کے ساتھ اپنا ٹانکا فٹ ہو سکتا ہے لیکن اس دن شاید میں کچھ زیادہ ہی لیٹ ہو گیا تھا
ﺟﯽ
یا پتہ نہیں کیا بات تھی کہ مجھے آس پاس کی ساری چھتیں خالی نظر آئیں مطلب یہ کہ
مجھے کوئ بھی خاتون یا کوئ لڑکی اپنی چھت پر کھڑی نظر نہ آئ میں کچھ دیر تک
ادھر ادھر گھومتا رہا پھر واپس نیچے آ گیا اور اگلے دن میں پھر اسی نیت سے اپنی چھت پر
گیا اور اتفاق سے دوسرے دن بھی ایسا ہی ہوا ۔۔۔ اور میں تھوڑا سا مایوس ہو گیا اور نیچے
جانے کے لئے واپس ُمڑنے لگا عین اسی لمحے کہ جب میں واپس جا رہا تھا میرے سامنے والی
ا
سی چادر سے ڈھانپا ہوا تھا ۔ ۔ ۔ اس لئے میں چاہ کر بھی اس کی چھاتی کا ناپ نہ کر سکا
ﺳﺗﺎ
۔۔ اسے چھت پر آتے دیکھ میں نے نیچے جانے کا ارادہ ترک کر دیا اور واپس جا کر اس
لڑکی کو تاڑنے لگا اور پھر میں نے دیکھا کہ اس لڑکی نے اپنی چھت کا ایک چکر لگایا اور
پھر وہ واپس جانےکے لیئے مڑی اور ۔ ۔ ۔ جاتے جاتے اس نے ایک نظر مجھے دیکھا ۔ ۔ ۔
اور پھر وہ اپنے چھت کی ری لینگ کی طرف آئ اور ایک نظر نیچے گلی میں جھانک
ﻧﯽ
کر دیکھا اتنی دیر میں میں بھی اپنی چھت کی ری لنگ پر پہنچ چکا تھا ۔۔۔ چنانچہ جیسےہی
اس نے گلی میں جھانکنے کے بعد اپنا سر اٹھایا تو اس نے مجھے عین اپنے سامنے والے
چھت پر موجود پایا ۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ تھوڑی سی حیران ہوئی ۔۔ اور پھر اس کے بعد اس نے
ﺟﯽ
پور نگاہ ڈالی ۔ ۔ اور چند سیکنڈ تک میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر مجھ پر ایک بھر ُ
دیکھتی رہی اور ۔ ۔ ۔ اور ۔۔۔۔ ہائے مار ڈاال ۔ ۔ دوستو جیسا کہ آپ لوگ اچھی طرح سے
جانتے ہیں کہ کچھ تو ٹھڑکی مزاج تھے ہم بھی ۔ ۔ ۔ اور کچھ اس خاتون کا اس طرح سے
مجھ کو دیکھنا ۔۔۔ سچ کہتا ہوں کہ مجھ سے تو ۔ ۔ ۔ دیکھا نہ گیا ۔ اس کی نگاہ میں ایک عجیب
@
سی مستی اورایک گہری اداسی تھی اور اس مستی اور اداسی کے امتزاج نے میرے اندر
ای ک عجیب سی فیلنگ بھر دی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ضرور اس کی نگاہ میں ایسی کوئ بات تھی کہ میں
کچھ بے چین سا ہو گیا اور اس کا اس طرح میری طرف دیکھنے سے ۔ ۔ ۔ سچ مانو میں
تو گھائل سا ہو گیا اور مجھے ایسا لگا کہ جیسے کوئ چیز میرے دل میں جا کر ُکھب سی
ﺷﺎه
گئ ہو .
خیر وہ تو ایک نگاہ ڈال کر چلی گئی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں کافی دیر تک وہاں کھڑا خالی
خالی نظروں سے اس کی چھت کو دیکھتا رہا ۔۔۔ پھر کافی دیر کے بعد میں نیچے اترا اور سیدھا
اپنے ایک جاننے والے کے پاس کہ جو اسی محلے کا قدیمی رہنے واال تھا اور جس نے ہمیں
یہ گھر لے کر دینے میں بڑی مدد کی تھی کے پاس چال گیا۔ ۔ ۔ وہ میرا دوست تو نہیں تھا لیکن
ﺟﯽ
اچھا جاننے واال ضرور تھا اور اس کے ساتھ میری اچھی خاصی فرینک نس بھی تھی اس
کے ساتھ ساتھ وہ میری طبیعت سے بھی اچھی طرح واقف تھا اس لیئے سالم دعا کے بعد جب
میں نے اس پوچھا کہ ایک بات تو بتا یار !!! یہ ہمارے گھر کے سامنے کون لوگ رہتے ہیں ؟
تو میری بات سنتے ہی اس نے کہا کہ اس کا مطلب یہ ہے کہ تم نے ارمینہ خان عرف مینا کو
سن کردیکھ لیا ہے ۔ ۔ ۔ تو میں نے کہا کون سی ارمینہ اور کون سی مینا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ تو میری بات ُ
ا
سن کر وہ ہنس پڑا اور کہنے لگا سالے وہ لڑکی نہیں پیاری سی ناری ہے ۔ ۔ ۔ تو میری بات ُ
ﺳﺗﺎ
پوری عورت ہے اور عورت بھی وہ جو عمر میں تم سے دو ُگنی ہو گی تو میں نے قدرے
حیران ہو کر اس سے کہا یار لگتی تو وہ بلکل لڑکی جیسی ہے تو وہ کہنے لگا ۔ ۔ تمھاری یہ
بات بھی ٹھیک ہے لیکن حقیقت یہ ہے کہ وہ کافی عمر چور واقعہ ہوئ ہے اور شکل واقعہ
ہی کوئ الہڑ مٹیار لگتی ہے اور پھر کہنے لگا ویسے دوست وہ ہے بڑی شریف عورت ۔۔۔۔
ﻧﯽ
تو میں نے جل کر کہا یار تم سے اس کی شرافت کی گواہی نہیں لینے آیا بلکہ یہ بتاؤ کہ اس کا
حدود دربہ کیا ہے؟ ۔ ۔ ۔ اور اس کی بائیو گرافی کے بارے میں کچھ روشنی ڈالو۔ ۔ ۔تو وہ
میری طرف دیکھ کر بوال یار مینا جتنی خوبصورت عورت ہے نا یہ اتنی ہی بدقسمت واقعہ ہوئ
ﺟﯽ
ہے پھر اس نے مجھے مختصرا ً بتالیا کہ یہ ٹال والے کی سب چھوٹی بیٹی ہے اور اس کی
شادی اپنے کزن سے ہوئ تھی جو شادی کے بعد اپنے سسرال میں ہی رہتا تھا اور اپنے سسر
کے ساتھ ٹال پر کام کرتا تھا تو میں نے اس سے پوچھا کہ کیا ٹال والے کا اپنا کوئ بیٹا نہیں
ہے؟؟؟ تو جوابا ً وہ کہنے لگا نہیں یار اس کی پانچ چھ لڑکیاں ہیں اور آخر میں ایک بیٹا پیدا
@
ہوا ہے ارصال خان ۔۔۔ جو ابھی بہت چھوٹا ہے اور تم نے اسے دیکھا ہی ہو گا وہ بھی
تمھارے ساتھ میڈم زیبا کے ہاں پڑھتا ہے پھر کہنے لگا یار مینا کی شادی کے دو سال بعد ٹال
والوں کا کسی تگڑی پارٹی کے ساتھ لین دین کے معاملے میں جھگڑا ہو گیا تھا جس میں مینا
کے شوہر نے اس پارٹی کے کسی بندے کا کلہاڑا مار کے سر کھول دیا تھا اور اس پر دفعہ
ﺷﺎه
اقدام قتل کا مقدمہ درج ہو گیا تھا اوربعد میں اسے چھ سات سال کی سزا ہو گئی تھی اور ِ 553
اس بات کو اب دو سال ہو گئے ہیں اور پھر کہنے لگا یار اس لڑکی مینا پر محلے کے بہت
سارے سے لوگوں نے بہت ٹرائ ماری لیکن یہ کسی کے بھی ہاتھ نہ آئ ہےہاں اسکا دیکھنا اس
طرح کا ہے کہ جس کو بھی ایک بار دیکھ لیتی ہے وہ یہی سمجھتا ہے کہ ۔ ۔ ۔۔ وہ اس کے ساتھ
سیٹ ہو گئی ہے ۔۔ ۔ ۔ ۔ لیکن ایسی کوئی بات نہ ہے ۔ ۔ بس اس کا دیکھنا ہی ایسا ہے ۔ ۔ ۔ سو
ﺟﯽ
دوست اگر اس نے تم کو بھی نظر بھر کے دیکھ لیا ہے تو کسی خوش فہمی میں نہ رہنا ۔ ۔ ۔ ۔ پھر
کہنے لگا میں تم سے دوبارہ کہہ رہا ہوں کہ اگر تم اس عورت کے چکر میں ہو تو اس بات
کو بھول جاؤ کیونکہ وہ تم کو کبھی بھی نہیں ملنے والی ۔۔۔۔
ا
گئی ۔۔۔ مزید کچھ گپ شپ کے بعد میں وہاں سے آ گیا لیکن میں نے اسے یہ بات ہر گز نہ بتائ
ﺳﺗﺎ
تھی کہ اس دن ارمینہ نے مجھے کن نظروں سے دیکھا تھا ۔ ۔ ۔ کیونکہ ہو سکتا ہے وہ ٹھیک ہی
کہہ رہا ہو ۔۔ اور جو میں سمجھ رہا ہوں وہ میرا وہم ہی ہو ۔ ۔ ۔ لیکن میں نے فیصلہ کر لیا تھا
کہ ٹرائی کرنے میں کیا حرج ہے ضروری نہیں مجھے بھی اورں کی طرح No response
ہی ملے ۔۔۔ کیونکہ اس قسم کی خواتین کے معاملے میں میری قسمت بہت اچھی تھی ۔ سو
ﻧﯽ
اس دن کے بعد میں ارمینہ کی تاڑ میں اپنے چھت پر کھڑا ہونا شروع ہو گیا ۔ ۔ ۔ مینا کبھی
آتی کھبی نا آتی۔ ۔ ۔ لیکن جب بھی وہ اپنی چھت پر آتی تو میں یوں ظاہر کرتا کہ میں صرف
اسی کے لیئے کھڑا ہوتا ہوں ۔۔۔ رفتہ رفتہ اس نے میری اس ان کہی بات کو پِک کر لیا اور
ﺟﯽ
مجھے لفٹ تو ہر گز نہ کرائی۔۔۔۔ لیکن اس نے میرے چھت پر کھڑے ہونے کا نوٹس لینا
شروع کر دیا تھا چنانچہ اب وہ بھی اسی مخصوص ٹائم پر چھت پر آنے لگی جس ٹائم میں
چھت پر کھڑاہوتا تھا ۔ ۔ ۔ اب اس کی روز کی روٹین یہ ہو گئی تھی کہ وہ اپنی چھت پر آتی پھر
وہاں سے باؤنڈری وال کی طرف جاتی جس کے سامنے میں کھڑا ہوتا تھا اور پھر وہ ایک
@
گہری نظر مجھ پرڈالتی اور پھر واپس چلی جاتی تھی ۔۔۔ میرے لیئے یہی بہت تھا ۔ اس کی نظروں
میں ایسا طلسم تھا کہ میں کافی دیر تک اس کی ان نظروں کو سوچ سوچ کر دل ہی دل میں مختلف
ب معمول اپنے ٹائم پر آئی اور منصوبے بناتا رہتا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ ایک دن کی بات ہے کہ وہ حس ِ
پھر اپنی چھت کے ایک کی بجاۓدوتین چکر لگاۓ آج وہ مجھے کچھ بے چین سی لگ رہی
ﺷﺎه
تھی کیونکہ چھت پر چکر لگاتے ہوۓوہ چور نظروں سے مجھے بھی دیکھتی جاتی تھی ۔ ۔ ۔
ب روایت وہ اپنی چھت کی ری لنگ کی طرف آئی اور اس نے ایک نظر نیچے گلی پھر حس ِ
ب روایت اس کے بلکل سامنے والی چھت پر کھڑا اسی کی طرف دیکھ میں ڈالی ۔ ۔ ۔ میں بھی حس ِ
رہا تھا گلی میں نظر ڈالنے کے بعد اس ے اپنا سر اٹھایا اور پھر میری آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر
دیکھنے لگی ۔۔۔۔ پہلے کی نسبت آج اس کا آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے کا دورانیہ کچھ
ﺟﯽ
طویل تھا ۔۔ اور اس پھر اس نے جاتے جاتے دوبارہ ایک نظر مجھ پر ڈالی۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر ۔ ۔ ۔
اپنا نیچے واال ہونٹ اپنے دانتوں میں داب لیا ۔۔۔۔۔ اُف ف فف اس کی یہ ادا اس قدر دل کش اور
سیکسی تھی کہ بے اختیار میں نے اپنا ایک ہاتھ اپنے سینے پر رکھا اور اپنی طرف سے تو
بڑے ہی رومینٹک انداز میں ۔ ۔ ۔ ایک آہ بھر ی ۔ ۔ جیسا کہ میں نے آپ کو بتایا ہے کہ اپنی
طرف سے تو میں نے بڑا ہی رومینٹک انداز اپنایا تھا لیکن میرا خیال ہے کہ میں رومینٹک انداز
ا
پھر وہ اپنے منہ پر ہاتھ رکھ کر میری طرف دیکھتے ہوۓ نیچے کی طرف بھاگ گئی اس
ﺳﺗﺎ
کی یہ ادا دیکھ کر میرے دل میں مسرت کے لڈو پھوٹ گئے ۔ ۔ ۔
آمنے سامنے گھر ہونے کی وجہ سے ہمارا ایک دوسرے کے گھر آنا جانا تو شروع ہو
گیا تھا لیکن یہ آنا جانا ابھی صرف لیڈیز تک ہی محدودتھا وہ بھی بہت کم . . .مطلب ابھی
ﻧﯽ
اتنی بے تکلفی نہ ہوئی تھی کہ ہم لوگ مطلب میں بھی ان کے گھر فرینڈلی آ جا سکوں ۔ خیر
اس سے اگلے دن وہ مجھ سے پہلے ہی چھت پر موجود تھی شاید کپڑے دھو رہی تھی اور
اس کے ساتھ اس کی امی بھی تھی جسے سب لوگ ماسی پٹھانی کہتے تھے ماسی پٹھانی سفید
ٹوپی واال برقعہ پہنتی تھی جس کی ٹوپی کم از کم میں نے تو کبھی بھی نیچے گری ہوئی نہ
ﺟﯽ
دیکھی تھی وہ سارا دن محلے میں ادھر ادھر پھرتی رہتی تھی جبکہ گھر کے سارے کام کاج
ارمینہ ہی کرتی تھی – اور مزے کی بات یہ ہے کہ میں نے آج پہلی دفعہ ماسی پٹھانی کو بغیر
برقعے کے دیکھا تھا ماسی کو دیکھ کر میں ادھر ادھر ہو گیا اور ارمینہ کی طرف دیکھنے
سے پرہیز ہی کیا ۔۔۔ ماسی کچھ دیر تک ارمینہ کے پاس کھڑی رہی پھر وہ واپس نیچے چلی
@
گئی اسے نیچے جاتے دیکھ کر میں بھی اپنے خفیہ ٹھکانے سےباہر نکل آیا اور ارمینہ کو
ب
تاڑنے لگا جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی وہ مسکرا دی اور پھر کچھ دیر بعد وہ حس ِ
معمول اپنی گرل کے پاس آئی اور ایک نظر نیچے گلی میں جھانکا اور پھر میری آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر مجھے دیکھنے لگی پھر کچھ دیر کے بعد وہ واپس جا کر اپنے کپڑوں کے ساتھ
ﺷﺎه
لگ گئی یہ دیکھ کر میں نے بھی اپنا ناکا سخت کر دیا اور وہیں کھڑا رہا اب وہ کپڑے
دھونے کے ساتھ ساتھ کھبی کھبی میری طرف بھی دیکھ لیتی تھی ۔۔۔۔ اس وقت شام اندھیرے
میں بدل رہی تھی جب اس نے اپنے آخری کپڑے مشین میں ڈالے اور پھر اس نے مشین کو
اور وہاں سے ہوتے ہوۓ وہ ان کپڑوں کی طرف گئی کہ جو اس نے پہلے سے چال دیا
سوکھنے کے لئے تار پر ڈالے ہوئے تھے پھر اس نے تار سے سوکھے ہوۓ کپڑے اتارے اور
ﺟﯽ
میرے سامنے آ کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔ اور میری طرف دیکھنے لگی اب میں نے بات آگے بڑھانے
کی غرض کسی پرانے عاشق کی طرح اس کی طرف دیکھتے ہوۓ اپنے سر پر ہاتھ پھیرا
مطلب میں نے اس کو سالم کیا اس نے میرے اشارے کو بڑے غور سے دیکھا لیکن کوئی رسپانس
دئیے بغیر وہ نیچے کی طرف اتر گئی ۔۔۔
ا
ﺳﺗﺎ
کو بتانا چاہتا ہوں کہ سکول سے گھر آتے ہوۓ راستے میں ایک گندا نالہ بھی آتا تھا جس پر
ایک ٹوٹا ہوا پُل بھی تھا اور یہ کافی ویران سی جگہ تھی جب میں وہاں پہنچا تو وہاں
پر میں نے دیکھا کہ تین چار لڑکے مل کے ایک لڑکے کو مار رہے ہیں میں نے ان پر کوئ
خاص توجہ نہ دی کیونکہ مجھے میڈم کے گھر جانے کی بڑی جلدی تھی لیکن جونہی میں
ﻧﯽ
نے وہ گندا نالہ عبور کیا تو میرے کانوں میں ایک آواز سنائی دئ ۔ ۔ ۔ ۔ بھائی جان !!! ۔بھا ئی
سنی کر دی اور جھگڑے میں نہ پڑنے کا فیصلہ کر لیا جان ۔۔۔ ۔ لیکن میں نے وہ آواز سنی اَن ُ
لیکن پھر جب اسی آواز نے مجھے میرا نام لیکر پکارا تو مجھے ُرکنا پڑا اور پھر جب میں نے
ﺟﯽ
ُمڑ کر دیکھا تو وہ آواز دینے واال اورکوئی نہیں ۔۔ارصال خان تھا ارمینہ کا چھوٹا بھائ ۔ اور۔
۔ ہمارا ہمسایہ ۔ ۔۔۔ ۔ جیسے ہی میری نظریں اس کی نظروں سے ٹکرائیں تو اس نے ایک بار
پھر التجائیہ لہجے میں مجھے پکارا ۔۔۔۔۔ اور پھر میں نے دیکھا کہ ایک بچے نے ارصال خان
کو گریبان سے پکڑا ہوا تھا جبکہ باقی دو بچوں نے اس کا ایک ایک بازو پکڑ کر اسے مروڑا
@
ہوا تھا اور وہ لڑکا جس نے اس کو گریبان سے پکڑا تھا وہ ارصال کو مسلسل تھپڑ مار رہا تھا
۔۔ ارصال مار کھاتے ہوئے میری ہی طرف دیکھ رہا تھا اور جب اس نے دیکھا کہ میں اس کو
دیکھ رہا ہوں تو وہ جلدی سےبوال بھائی جان مجھے ان سے بچائیں یہ مل کر مجھے کافی دیر
سن کر میں ان کی طرف بڑھا اور ان بچوں کو ارصال خان کو سے مار رہے ہیں ۔ اس کی بات ُ
ﺷﺎه
چھوڑنے کو کہا لیکن وہ تینوں اس وقت بڑے غصے میں تھے اس لیئے انہوں نے میری بات نہ
سن کر مجھے بھی طیش آ گیا اور میں نے سنی بلکہ مجھے بھی ماں کی گالی دے دی جسے ُ ُ
اس لڑکے کو کہ جس نے ارصالکو گریبان سے پکڑا ہوا تھا اور گالی دی تھی اسے بالوں سے
پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور ایک زور کا مکا اس کی گردن پردے مارا ۔ ۔ جس سے وہ چکرا
کر نیچے گرا ۔۔
ﺟﯽ
اس کے بعد میں ان دو بچوں کی طرف متوجہ ہوا جنہوں نے ارصال کو بازؤں سے پکڑا
ہوا تھا اور ان کو بازو چھوڑنے کو کہا اپنے ساتھی کا حال وہ دیکھ ہی چکے تھے اس لئے انہوں
نے تھوڑی سی مزاحمت کے بعد اس کے بازو چھوڑ دیئے اب میں دوسری طرف وہ بچہ جو
میرے مکے سے نیچے گرا تھا اسے اُٹھتا دیکھ کر ارصال تقریبا ً روتے ہوۓ بوال بھائی اس نے
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
سن کر میں نے اس بچے کو دونوں بازؤں سے پکڑا اور ارصال مجھے بہت مارا ہے اس کی بات ُ
کو کہا کہ اب تم اس کو مارو یہ سن کر ارصال آگے بڑھا اور اس نے اس بچے کو کافی تھپڑ
مارے تھپڑ کھا کے بچہ اور بھی غصے میں آ گیا اور ارصال کو گندی گندی گالیاں دینا شروع
ہو گیا لیکن پھر چوتھے پانچوں تھپڑ پر ہی وہ بس کر گیا اور رونے لگ گیا وہ روتا بھی جاتا
ا
اور ہم دونوں کو گندی گندی گالیاں بھی دیتا جاتا تھا ۔۔ وہ چونکہ چھٹی کا ٹائم تھا اس لئے تھوڑ ی
ﺳﺗﺎ
ہی دیر میں وہاں پر لڑکوں کا کافی رش لگ گیا اور پھر ان کی کوششوں سے ہی ہمارے درمیان
بیچ بچاؤ ہو گیا اور پھر جب ہماری لڑائی ختم ہو گئی تو میں ارصال کو لیکر گھر کی طرف
چل پڑا راستے میں میں نے اس سے پوچھا کہ یہ تم لوگ کس بات پر جھگڑ رہے تھے تو اس
نے مجھے اس بات کا کوئی واضع جواب نہ دیا بلکہ ٹرکانے کو شش کیاور میں سمجھ گیا کہ
ﻧﯽ
وہ مجھے اصل بات نہیں بتانا چاہتا اس لئے میں نے بھی اس سے اس موضو ع پر مزیدکوئی
بات نہ کی اور چپ ہو گیا پھر تھوڑی دیر بعد میں نے اس سے پوچھا کہ یہ بتاؤ کہ تم کو کوئی
چوٹ وغیرہ تو نہیں لگی تو وہ تقریبا ً روہنسا ہو کر بوال بھائی جان آپ کے آنے سے پہلے ان
ﺟﯽ
لوگوں نے مجھے بہت مارا تھا اور پھر وہ ا پنے سر پر ہاتھ رکھ کر بوال بھائی جان ان
سن کر میں نے لوگوں نے میرے سر پر شاید کوئی پتھر وغیرہ بھی مارا تھا اس کی بات ُ
چونک گیا
اور ُرک کر اس کے سر پر ہاتھ پھیرا تو مجھے وہاں دو تین جگہ پر گومڑ سے بنے نظر
@
آئے اور ایک آدھ جگہ سے اس کا سر بھی پھٹا ہوا نظر آیا جس سے بہت تھوڑی مقدار میں
خون بھی رس رہا تھا اس کی یہ حالت دیکھ میں اسے ایک قریبی کلینک لے گیا جہاں کا ڈسپنسر
میرا اچھا واقف اور سابقہ محلے دار تھا اس سے میں نے ادھار پر ارصال کی مرہم پٹی
وغیرہ کروائی اور اس کے ساتھ اسے ایک پین کلر ٹیکہ بھی لگوا دیا ۔ اور اس کے بعد ہم گھر
ﺷﺎه
وہ کہنے لگا میں گھر میں جا کر خوب واویال کروں گا اور کہوں گا کہ
انہوں نے مجھے بہت مارا ہے تو میں نے اس سے پوچھا اس سے کیا ہو گا تو وہ میری
طرف دیکھ کر بوال اور کچھ ہو نہ ہو کل ٍمجھے سکول سے ضرور چھٹی مل جائے گی پھر وہ
مجھ سے منت بھرے لہجے میں بوال ۔۔ پلیز بھائی جان آپ میرا ساتھ دینا اور امی سے بولنا ۔ ۔کہ
سن کر میں ہنس پڑا اور کہا کہ جیسا وہ کہے گا ویسے مجھے بہت مار پڑی ہے ۔ اس کی بات ُ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
ہی کروں گا اور اتنی دیر میں ہم ارصال کے گھر کے قریب پہنچ گئے ارصال کے گھر کےسامنے
پردہ لگا ہوا تھا اور یہ ہمارے محلے کا واحد گھر تھا کہ جس کے دروازے کے سامنے ہر وقت
پر دہ لٹکا رہتا تھا گھر قریب آتے ہی ارصال نے شور مچانا اور قدرے اونچی آواز میں رونا
شروع کر دیا اور اس کے ساتھ ہی وہ پردہ ہٹا کر اندر داخل ہو گیا جبکہ میں باہر کھڑا سوچنے
ا
لگا کہ مجھے اندر داخل ہونا چاہئیے کہ نہیں ؟ ابھی میں یہ سوچ ہی رہا تھا کہ ان کے گھر کا پردہ
ﺳﺗﺎ
ہٹا اورارصال کی ماں ماسی پٹھانی باہر نکلی وہ کافی غصے میں لگ رہی تھی اس نے باہر
نکلتے ہی مجھ سے کہنے لگی تم بتاؤ کہ ہمارا بیٹے کو کس کنجر نے مارا ہے ؟؟ہم اس
کو زندہ نہیں چھوڑے گا ابھی میں اس کو جواب دینے واال ہی تھا کہ ان کا پردہ ایک دفعہ پھر
ہٹا اور اس دفعہ پردے سے باہر آنے والی ہستی اور کوئ نہیں ارمینہ تھی وہ باہر آئی اور اپنی
ﻧﯽ
ماں سے مخاطب ہو کر بولی " شور مکاوا مورے " (امی شور نہیں کرو) پھر وہ اس سے کہنے
لگی کہ اس سے جو بات بھی پوچھنی ہے اندر لے جا کر پوچھو ۔ ۔ ۔گو کہ ماسی بڑے غصے
میں تھی لیکن ارمینہ کے کہنے پر وہ گالیاں بکتی ہوئی اپنے گھر کے اندر داخل ہو گئی جیسے
ﺟﯽ
ہی ماسی گھر میں داخل ہوئی ارمینہ مجھ سے مخاطب ہوئی اور بولی ۔ بھائی آپ بھی اندر آ جاؤ
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ سو میں بھی ارمینہ کے کہنے پر ان کے گھر کے اندر چال گیا ۔ ۔ جہاں ماسی شدید
غصے میں کھڑی ارصال کو مارنے والوں کی ماں بہن ایک کرتی نظر آ رہی تھی خیر ارمینہ
مجھے اور ماسی کو لے کر ایک کمرے میں آ گئی جہاں ارصال پہلے ہی بیڈ پر لیٹا ہوا تھا
@
وہاں جا کر ارمینہ نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اورجب میں کرسی پر بیٹھ گیا تو وہ
مجھ سے بولی ہاں بھائی اب آپ مجھے تفصیل سے بتاؤ کہ یہ واقعہ کیسے ہوا تھا ۔ اسی
دوران ماسی ارصال کو مارنے والوں کو مسلسل اونچی آواز میں بددعائیں دیتی جا رہی تھی جس
کی وجہ سے مجھے بات کرنا مشکل ہو رہا تھا یہ بات ارمینہ نے بھی بھانپ لی اور وہ قدرے تیز
ﺷﺎه
لہجے میں اپنی ماں سے کہنے لگی ۔۔۔ یو منٹ صبرو کا ۔۔ مورے ( امی ایک منٹ صبر کرو
سن کر ماسی حیرت ) مجھے بھائی سے واقعہ کی تفصیل تو پوچھنے دو ۔ ۔ ۔ ارمینہ کی بات ُ
انگیز طور پر ُچپ ہو گئی اور میری طرف دیکھنے لگی چنانچہ موقعہ غنیمت جان کر میں نے
بال کم و کاست سارا واقعہ ان ماں بیٹی کے گوش گزار کر دیا ۔
ﺟﯽ
سن کر انہوں نے میرا بہت بہت شکریہ ادا کیا اور پھر ماسی ارصال کی طرف جسے ُ
متوجہ ہو گئی وہ ابھی تک رونے کا ڈرامہ کر رہا تھا جبکہ ماسی اس کے پاس بیٹھ کر اس کو
ُچپ کر انے کی کوشش کر رہی تھی پھر ماسی نے ارمینہ کو کہا کہ جا کر بھائی کےلئے پانی
الئے اور وہ اُٹھ کر کچن کی طرف چلی گئی کچھ دیر بعد وہ پانی کا گالس لیکر آئی جبکہ اسی
دوران جب ماسی کسی کام سے اُٹھ کر باہر نکلی تو موقعہ دیکھ کر ارمینہ نے ارصال سے کہا
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
۔ ۔ بس بس اب زیادہ ڈرامہ نہ کر مجھے پتہ چل گیا ہے کہ تم کواتنی چوٹیں نہیں آئیں جتنی تم
سن کر ارصال نے میری طرف دیکھا اور بڑی معصومیت سے شو کر رہے ہو ۔ ۔ ارمینہ کی بات ُ
سن کر ارمینہ کھلکھال کر ہنسیبوال بھائی جان آپ نے آپا کو کیوں بتا یا ہے؟؟ ۔ ۔ اس کی بات ُ
اور بولی بھائی نے مجھے کچھ نہیں بتایا ۔ ۔ بلکہ مجھے ویسے ہی تمھاری کرتوتوں کا
ا
سب علم ہے تو ارصال کہنے لگا آپی اگر پتہ چل ہی گیا ہے تو پلیز امی سے اس بات کا زکر نہ
ﺳﺗﺎ
کرنا تو وہ بولی ایک شرط پر نہیں کروں گی کہ تم آئیندہ میرا کہا مانو گے ؟ تو ارصال نے جھٹ
سے اس بات کا وعدہ کر لیا اتنی دیر میں ماسی بھی کمرے میں داخل ہو گئی تھی جسے دیکھتے
ہی ارصال نے ہائے ہائے کرنا شروع کر دیا ۔۔ ماسی نے ایک نظر اپنے بیٹے کی طرف دیکھا
اور پھر میری طرف منہ کر کے بولی ۔ ۔ ابھی ابھی ایک بات میرے زہن میں آئی ہے وہ یہ کہ
ﻧﯽ
اس کی ان لڑکوں سے لڑائی تو ابھی ختم نہیں ہوئی ہے نا تو میں نے کہا جی جی ماسی ایسی ہی
بات ہے تو وہ کہنے لگی اس کا مطلب ہے کہ ان میں پھر سے جنگ ہو سکتی ہے تو میں نے کہا
سن کر فکر منڈی سے بولی اس کامطلب ہے کہ اب میں خود جی ایسا چانس ہے تو وہ میری بات ُ
ﺟﯽ
ارصال کو چھوڑنے جایا کروں اور لے کر بھی آیا کروں ۔ ۔ تا کہ بچوں کی اس لڑائی سے بچا
سن کر ارمینہ فورا ً بولی ۔ ۔ ۔ امی ارصال کو چھوڑنے کے لیئے جا سکے ۔۔ تو ماسی کی بات ُ
آپ کو جانے کی ضرورت نہیں پڑے گی ؟ تو ماسی حیران ہو کر بولی وہ کیسے ؟ تو ارمینہ
کہنےلگی وہ ایسے کہ یہ چھوٹا بھائی بھی تو روز سکول جاتا ہے نا ہم اس سے درخواست کریں
@
گے کہ یہ ہمارے بھائی کو اپنے ساتھ لے بھی جائے اور چھٹی کے بعد اس کو اپنے ساتھ لے آیا
کرے پھر وہ میری طرف دیکھ کر بولی کیوں بھائی آپ ہمارا یہ کام کرو گے نا؟ اس سے پہلےکہ
میں کوئی جواب دیتا ماسی بڑے جوش سے بولی ۔ ۔ ۔ ۔ ارے ہاں یہ بات تو میں نے سوچی ہی
نہ تھی۔۔ ۔ واقعی ہی ارمینہ تم ایک سمجھدار لڑکی ہو پھر وہ میری طرف گھومی اور کہنے لگی
ﺷﺎه
بیٹا ۔ ۔ ۔ کیا آپ کل سے اپنے چھوٹے بھائی کوبھی اپنے ساتھ لے جایا کرو گے نا ؟ تو میں نے
ایک نظر ارصال پر ڈالی اورپھر ارمینہ کی طرف دیکھا کر بوال جو آپ کا حکم ماسی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
اور ماسی نے خوش ہوکر میرا ماتھا چوم لیا اور بولی شکریہ بیٹا اب میری ساری فکر دور ہو
گئی ہے ۔۔ ۔۔
ﺟﯽ
اسی دوران ماسی کے گھر میں محلے کی دو چار عورتیں داخل ہوئیں اور سیدھا ارصال
والے کمرے میں آ گئیں اور پھر ماسی سے مخاطب ہو کر بولیں کہ انہوں نےابھی ابھی سنا ہے
کہ ارصال کو کسی نے بہت پیٹا ہے ؟؟ انہوں نے یہ بات کی اور پھر سیدھی ارصال کے پاس چلی
گئیں ۔ اور اس سے اس کا حال احوال دریافت کرنے لگیں ۔۔۔ ان خواتین کو دیکھ کر میں نے ان
کے لیئے جگہ خالی کی اور میں جو ارصال کے بیڈ کے پاس کھڑا تھا وہاں سے ہٹ کر تھوڑا
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
پیچھے کھڑا ہو گیا جبکہ ان خواتین میں سے کچھ تو پاس پڑی کرسی پر اور کچھ ارصال کے پاس
ت حال یہ تھی کہ ہمارے آگے لیڈیز بیٹھی بڑی ہمدردی سے ارصال کے بیڈ پر بیٹھ گئیں اب صور ِ
ساتھ پیش آئے واقعات کو ۔۔۔۔کچھ ماسی اور کبھی ارصال کی زبانی سن رہیں تھیں جبکہ میں اس
سے تھوڑی دور کھڑا تھا میرے سے کچھ فاصلے پر ارمینہ کھڑی تھی اب میں نے ایک نظر
ا
لیڈیز اور ماسی کو دیکھا تو وہ سب آپس میں بزی نظر آئیں ۔ ۔ ۔ پھر میری دماغ میں ایک بات
ﺳﺗﺎ
کھسک کر ارمینہ کے پاس کھڑا آئی اور ۔۔۔۔ میں ان لیڈیز کی طرف دیکھتے ہوئے ۔۔۔۔ تھوڑا
ہو گیا ارمینہ نے بھی ایک نظر میری اس جسارت کو دیکھا لیکن کچھ نہ بولی نہ ہی اس نے کوئی
ہل جل کی۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں تھوڑا سااور اس کی طرف بڑھ گیا اور ۔پھر ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کرتے کرتے
میں ارمینہ کے ساتھ بلکل ُجڑ کر کھڑا ہو گیا – اور پھر ایک نظر لیڈیز کی طرف دیکھا تووہ
ﻧﯽ
بڑے زور و شور سے باتیں کرنے میں لگی ہوئیں تھیں ان کا جائزہ لینے کے بعد میں نے کھڑے
کھڑے اپنا ایک باتھ ارمینہ کے ہاتھ سے ہلکا سا ٹچ کر دیا اور پھراس کے ردِعمل کا جائزہ
لینے لگا اور پھر جب وہاں سے کوئی رسپانس نہ مال تومیں نے ایک قدم آگےبڑھنے کا فیصلہ
ﺟﯽ
کیا اور دوبارہ اپنا ہاتھ اس کے ہاتھ کے ساتھ ٹچ کر دیا ۔۔۔اور ارمینہ کے ر ِد عمل کا انتظار
کرنے لگا لیکن جب وہاں سے کوئی ردِعمل نہ آیا تو ۔۔۔۔۔ اور پھر کچھ دیر بعد میں نے اپنا وہ ہاتھ
ان کے ہاتھ پر رکھ دیا۔ ۔ آہ ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔مزے کی بڑی ہی تیز لہر اُٹھی جو میرے سارے جسم میں
سرائیت کر گئی اور میں نے جلدی سے ارمینہ کا ہاتھ پکڑ لیا اور اس پر ہلکا ہلکا مساج کرنے
@
لگا ۔۔۔
پھر میں نے اس کی طرف دیکھا تو وہ بظاہر عورتوں کی طرف متوجہ تھی چنانچہ اب کی
بار میں نےارمینہ کی ایک انگلی کو پکڑا اور اس پر اپنی شہادت کی انگلی پھیرنی شروع کر دی
اور دوبارہ چوری چوری اس کی طرف دیکھا لیکن وہاں ایک طویل خاموشی تھی اوراس کہ یہ
ﺷﺎه
خاموشی میری ہلہ شیری میں مسلسل اضافہ کر رہی تھی سو اب میں نے ایک سٹیپ اورآگے
بڑھنے کا سوچا اور پھر میں نے تھوڑی جرات سے کام لیتے ہوۓ اس کے ہاتھ پر ہاتھ رکھا
اور اسے دبا دیا اور پھر اسی پر بس نہیں کیا بلکہ میں نے ان کا ہاتھ دبانے کے کچھ دیر بعد ۔ ۔ ۔
۔ میں اپنا ہاتھ ہولے ہولے ان کی ہپس پر لے گیا اور ان کی ہپس پر رکھ دیا آہ ۔ ۔ ہ ۔ ہ کیا بتاؤں
دوستو ۔ ۔ ۔ ۔ ان کی ہپس بڑی ہی نرم تھی اور اس کا لمس محسوس کرتے ہی میری شلوار میں
ﺟﯽ
سرسراہٹ سی ہونے لگی اور ۔ ۔ ۔ ۔۔ لیکن ابھی میرے ہاتھ نے ان کی ہپس کوچھوا ہی تھا کہ وہ
ایک دم تن گئی اور میرا ہاتھ پکڑ کرایک جھٹکے سے پرے ہٹا دیا ۔ ۔ ۔ ۔ اور ویسے ہی کھڑی
رہی لیکن میں نے ہمت نہ ہاری اور دوبارہ اپنا ہاتھ اس کی گانڈ کی طرف بڑھایا ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن اس
دفعہ وہ تیار تھیں اس لیئے جیسے ہی میرے ہاتھ نے اس کی ہپس کو چھوا ۔ ۔ ۔ تو اس نے اپنے
ہاتھ میں میرا ہاتھ پکڑ لیا اور پھر ۔ ۔ میرے ہاتھ کی پشت پر ایک زور دار چٹکی کاٹ لی ۔ ۔ ۔ ۔
ا
دیکھا کہ ارمینہ اپنا منہ دوسری طرف کر کے مسکرا رہی تھی ۔ ۔ ۔ اب میں نے اس کی طرف
ﺳﺗﺎ
دیکھنے ہوئے اپنے ہاتھ کو ملنا شروع کر دیا اور ایسے ری ایکٹ کیا کہ جیسے مجھے بڑا
سخت درد ہواہو (اور ہوا بھی تھا لیکن اتنا نہیں جتنا کہ میں شو کر رہا تھا ) اور پھر جیسے ہی
ارمینہ نے میری طرف دیکھا تو میں نے اور زیادہ درد میں مبتال ہونے کی ایکٹنگ شروع کر
دی اور خواہ مخواہ برے برے منہ بنا کراپنا چٹکی وال ہاتھ ملنے لگا ۔۔ ۔ ۔ میرا تیر نشانے پر
ﻧﯽ
لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور اس کے چہرے پر مجھے کچھ تشویش کے آثار نظر آئے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن وہ ایسے
ہی کھڑی رہی لیکن کچھ ہی دیر بعد مجھے ان کا ہاتھ اپنی چٹکی والی جگہ پر محسوس ہوا اور
پھر ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔ ۔ یا حیرت۔۔۔۔۔۔۔ یہ میں کیا محسوس کر رہا ہوں ۔۔اورپھر اس نے اپنا نرم و نازک سا
ﺟﯽ
ہاتھ میرے ہاتھ پر رکھ دیا ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ چٹکی والی جگہ پر مساج کرنے لگی ۔ ۔ ۔ اس کا
یوں میرے ہاتھ پر اپنا نرم ہاتھ رکھ کر مساج کرنے سے میری روح تک تو اس کی ۔۔۔۔ مسیحائی
نہ گئی ہاں لن ضرور تن گیا جسے میں نے بڑی مشکل سے قابو گیا اور یہ بات بھی اچھی
طرح محسوس کر لی کہ ارمینہ ۔ ۔ ۔ راضی ۔ ۔ہے ۔ ۔ ۔ یا یہ بھی ہو سکتا ہے کہ یہ میری خوش
@
رہی تھی ارمینہ بیٹی مہمانوں کے لیئے چائے تو بنا الؤ ۔ ۔ ۔ ہر چند کہ آنے والی لیڈیز نے بہت
کہا کہ چائے رہنے دیں ہم ابھی پی کے آئی ہیں پر ماسی نہ مانی ۔۔۔۔اور ارمینہ کو جانے کا اشارہ
کیا اور میں نے ارمینہ کو کچن کی طرف جاتے دیکھ کر دل ہی دل میں ماسی کو گالیاں سو
کروڑ گالیاں دینے لگا کہ اگر ارمینہ کو تھوڑی دیر بعد کہہ دیتی تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پر ۔ ۔ ۔ ۔ مجھ
ﺟﯽ
غریب کی یہاں سننے واال کون تھا ؟؟ سو ُچپ چاپ رہا اور ماسی کی طرف دیکھ کر اسے
منہ ہی منہ میں گالیاں دیتا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔۔
کچھ دیرتک تو میں ایسے ہی منہ بسورے کھڑا رہا ۔ ۔ ۔۔ پھر سوچا کہ آج کے لیئے اتنا
ہی کافی ہے اب گھر چال جائے اور ابھی میں جانے کے بارے میں سوچ ہی رہا تھا کہ اچانک
ان میں سے ایک عورت مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔ ۔ ۔ بیٹا زرا ایک گالس پانی تو پال دینا
ا
کہا باجی گالس کہاں ہے ؟ تو وہ کہنے لگی اندھے ہو کیا نظر نہیں آ رہا ۔۔ پھر وہ سنک کے
ﺳﺗﺎ
اوپر اشارہ کر کے بولی دیکھو کتنے گالس پڑے ۔ ۔ ۔ ہیں ۔۔۔۔ واقعی میں نے نظر اٹھا کر اوپر
دیکھا تو ان کے سنک کے اوپر ایک شلف سی بنی ہوئی تھی اور اس میں بڑی ترتیب سے کانچ
و سٹیل کے جگ گالس رکھے ہوئے تھے ۔ لیکن مسلہ یہ تھا کہ شلف کے عین نیچے ارمینہ برتن
ہنگال رہی تھی اس لیئے میں نے اس سے کہاکہ باجی زرا ہاتھ بڑھا کر مجھے گالس تو پکڑا
ﻧﯽ
دیں تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی خود پکڑ لو نا ۔ ۔ اور پھر برتن ہنگالنے میں مصروف ہو
سن کر میں نے ایک نظر حاالت کا جائزہ لیا اور پھر اچانک میرے ۔ ۔ گئی ۔ ۔ ۔ ۔۔ اس کی بات ُ
دماغ میں ایک چھناکا سا ہوا اور ایک سیکنڈ کے ہزارویں حصے میں سارا نقشہ میرے ذہن میں
ﺟﯽ
آ گیا اور میں ارمینہ سے بوال ٹھیک ہے باجی میں خود ہی لے لیتا ہوں اور پھر میں چلتا ہوا اس
کے عین پیچھے ہو لیا اور اپنا ہاتھ شیلف کی طرف بڑھا دیا ۔۔۔ لیکن شیلف تھوڑی اوپر ہونے کی
وجہ سے میرا ہاتھ نہ پہنچا چانچہ اب میں تھوڑا اور آگے بڑھا اور شلف پر ہاتھ بڑھانے کے
انداز میں اپنا اگال حصہ ارمینہ کی پشت کے ساتھ لگا لیا ۔ ۔ آہ ۔ ۔ کیا مزے کی پشت تھی ۔۔۔ اور
@
ارمینہ کا ردِعمل دیکھنے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن وہ بڑی مگن ہو کر برتن ہنگال ۔ ۔ رہی تھی اب
میں تھوڑا اور آگے بڑھا اور اپنا لن اس کی نرم گانڈ پر لگا کر جان بوجھ کر ایک گالس (جو کہ
سٹیل کا تھا ) اٹھایا اور ارمینہ کے سامنے کر کے بوال باجی یہ ٹھیک رہے گا ؟
تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی بےوقوف مہمانوں کو کانچ کے گالس میں پانی دیتے ہیں
ﺷﺎه
سن کر میں دوبارہ آگے بڑھا اتنی دیر میں میرا لن ارمینہ کی نرم گانڈ کا لمس پا کر اس کی بات ُ
نیم کھڑا ہو چکا تھا ۔ ۔ ۔ اور اتنی دیر میں ۔۔ میں یہ بی جان گیا تھا کہ ۔ ۔ ۔ ارمینہ اب کچھ نہ
کہے گی چنانچہ میں نے بے دھڑک ہو کر ارمینہ کے گانڈ کے ساتھ اپنا نیم کھڑا لن چپکا کر
ایک کانچ کا گالس لیا اور لن کو اس کی گانڈ کے ساتھ چپکائے ہوئے بوال ۔۔ ۔ ۔ باجی یہ کیسا
ہے ؟ تو و ہ بولی ٹھیک ہے پر تم ایسا کرو کہ جگ اور دو تین گالس اور بھی نکال لو ایسا نہ
ﺟﯽ
ہو کہ اور خواتین بھی پانی مانگ لیں اور میں اس کی وہ بات سمجھ گیا جو اس نے نہیں کہی تھی
اور بظاہر اس سے بوال اچھا باجی ۔ ۔ ۔ ۔اور اس کے ساتھ ہی میں نے اپنا لن جو اس وقت تک
فُل کھڑا ہو چکا تھا ارمینہ کی گانڈ کی دراڑ میں پھنسا لیا اور شلیف سے گالس نکالنے لگا ۔۔۔
اور پھر ایک ایک کر کے سارے گالس وہاں سے نیچے اتار کر سنک کے پاس پڑی ٹوکری
میں رکھتا گیا ۔ ۔ جب سارے گالس اُتر گئے تو وہ بولی ۔ ۔ ۔ ارے اتنے سارے گالسوں کا کیا کرنا
ا
ﺳﺗﺎ
اتنے واضع اشارے کے بعد بھی اگر میں موقعہ سے فائدہ نہ اُٹھاتا تو میرے جیسا ُچغد اور
سن کر میں نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑا۔ ۔ ۔ اور بے وقوف اور کوئی نہ تھا چنانچہ اس کی بات ُ
ارمینہ جو کہ تھوڑا جھک کر برتن ہنگال رہی تھی کی کمر پر ہاتھ رکھ کر اس کو تھوڑا سا اور
نیچے کی طرف جھکایا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور حیرت انگیز طور پر۔ ۔ ۔ جیسے ہی ارمینہ نے میرا ہاتھ
ﻧﯽ
اپنی کمر پر محسوس کیا وہ خود ہی کچھ اس طرح سے نیچے کو جھکی کہ جس سے اس کی
بہت خوبصورت اور موٹی گانڈ مزید باہر کو نکل آئی اور اس نے سنک پر اپنی دونوں کہنیاں
ٹکا دیں ۔ ۔ ۔ یہ دیکھ کر میں نے اس کی گانڈ کے دونوں پٹ الگ الگ کر کے اپنی ایک انگلی
ﺟﯽ
اس کی گانڈ کی دراڑ میں ڈالی اور سیدھا اس کی موری پر لے گیا اور پھر وہاں اپنی انگلی
رکھ کر دوسرے ہاتھ سے لن کو پکڑا اور اپنا ٹوپا عین ارمینہ کی موری پر رکھ کر پیچھے
سےایک ہلکا سا دھکا لگایا اور ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔میرے اس عمل سے ٹوپا سیدھا جا کر اس کی گانڈ کی
موری سے ٹچ ہوگیا ۔اُف ۔ف۔ف۔ اس کی گانڈ کا رنگ بہت ہی گرم اور نرم تھا جسے محسوس
کرنےہی میرا لن اور بھی تن گیا ۔ ۔ ۔ اس کے ساتھ ہی میں نے آگے بڑھ کر ایک گالس اٹھایا
@
اور اس کو اوپر شلیف پر رکھنے سے پہلے ایک نظر ارمینہ پر ڈالی تو ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے دیکھا کہ
اس کے ہاتھ میں ایک چائے کی پیالی تھی ۔ ۔ سنک کا نل کھال ہو تھا جس سے پانی نکل کر بہہ
رہا تھا ، ، ،ارمینہ کی آنکھیں بند تھیں اور وہ سٹل حالت میں جھکی میرے لن کو اپنی
خوبصورت گانڈ میں انجوائے کر رہی تھی ۔۔ ۔ ۔ یہ دیکھ کر میرا جوش کچھ اور بڑھ گیا اور میں
ﺷﺎه
نے وہ گالس نیچے سنک پر رکھا اور ارمینہ کو کمر سے پکڑ لیا اور ایک ذور دار گھسا مارا ۔
۔ ۔۔ لن کا اگال سرا جو پہلے ہی ارمینہ کی گانڈ کے رنگ کر ٹچ کر رہا تھا اب تھوڑا کھسک کر
اس کے رنگ میں داخل ہو گیا اور ۔ ۔ ۔ جیسے ہی ٹوپا اس کی موری میں داخل ہوا ۔ ۔ ۔ پہلی بار
سنی ۔۔۔ وئی ۔ ۔وئی ۔ ۔ میں نے ارمینہ کے منہ سے ایک ہلکی مگر لذت آمیز سسکی کی آواز ُ
ﺟﯽ
اس کے ساتھ ہی اس نے اپنی گانڈ کو تھوڑا گھوٹ لیا ۔ ۔ ۔ ۔ جس سے مجھے کنفرم ہو گیا کہ لن
کا تھوڑا سا اگال حصہ اس کی گانڈ میں داخل ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس نے مستی میں آ کر دو
تین دفع اپنی گانڈ کو اوپن کلوز کیا ۔۔ ۔ ۔ آہ کیا بتاؤں دوستو !! . . .۔۔۔۔۔ کہ مجھے اس کام میں کتنی
لزت ملی ۔۔۔۔ اور میرا لن لوہے کی طرح سخت ہو گیا اور بُری طرح سے اکڑ گیا ۔ ۔ ۔ پھر میں
نے اس کو کمر سے پکڑا اور تھوڑا پیچھے ہو کر پہلے سے زرا زیادہ گھسہ مارا ۔ ۔۔ اور اس
دفعہ کپڑوں سمیت تقریبا ً آدھا ٹوپا اس کی گرم گانڈ میں اُتر گیا ۔۔ ۔ اور ارمینہ نے اس دفعہ پھر
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
پہلے سے کچھ بلند آواز ۔ ۔ ۔ اور ۔ ۔ فُل لزت میں ڈوبی ہوئی سسکی لی ۔ ۔ اُف ۔ف۔ف۔ مم ۔ ۔ آہ ہ
ہ ہ ۔ مورے ۔ ۔ ۔۔ ۔اور اپنا ہاتھ بڑھا کر مجھے پیچھے سے اپنی طرف پُش کرنے لگی ۔ ۔ ۔ اس
کے بعد ابھی میں تیسرا گھسا مارنے ہی واال تھا کہ اچانک ماسی کی آواز سنائی دی وہ کہہ رہی
سن کر ہمارا لزت بھرا سارا طلسم تھی ارمینہ بچہ ۔ ۔ ۔ پانی جلدی سے بھیجو ۔ ۔ ماسی کی آواز ُ
ا
ٹوٹ گیا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔اور آواز سنتے ہی ارمینہ بجلی کی سی پھرتی سے میرے آگے سے ہٹی اور
ﺳﺗﺎ
سنک سے فورا ً ایک گالس اٹھا کراس میں پانی بھرا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور مجھے دیتے ہوئے بولی جلدی
جاؤ ۔۔ ورنہ امی آگئیں نا تو ہمیں اس حالت میں دیکھ کر ہم دونوں کے ہی ڈکرے (ٹکڑے ) کر
دے گی ۔۔
ﻧﯽ
پھر اس کی نظر میری شلوار میں تنے ہوۓ لن پر پڑی جس کی وجہ سے شلوار آگے کو
کافی آگے کو اُٹھی ہوئی تھی اور ایک تنبو سا بنا نظر آ رہا تھا کو دیکھ کر فکر مندی سے بولی
ﺟﯽ
اس کو کیا کرو گے؟؟ تو میں نے اس سے کہا کہ باجی آپ اس کی پرواہ نہ کریں اس کا بھی
بندوبست ہے میرے پاس ۔ ۔ ۔۔ اور پھر بنا کوئی بات کیے میں نے لن پکڑ کر اپنی شلوار کے
نیفے میں اڑوس لیا اور پھر شرارتا ً اپنی قمیض کو آگے سے اُٹھا کر اسے اپنا موٹا سا ٹوپا دکھایا
جو شلوار کے نیفے سے باہر نکال ہوا صاف نظر آ رہا تھا اور منہ کھولے کھڑا تھا ارمینہ نے
تھوڑا آگے بڑھ کے میرے ٹوپے کا یہ حال دیکھا اور بولی ۔۔۔ بے چارہ ۔۔۔ پھر میں نے اس نے
@
پوچھا یہ بندبست ٹھیک ہے نا ارمینہ باجی ؟ ۔ ۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔ مجھے نہیں
معلوم ۔۔۔ اور پھر مصنوعی غصے سے مجھے دھکا دیکر کر بولی ۔۔۔ اب دفعہ بھی ہو جاؤ ۔۔۔۔
اور میں وہاں سے چال گیا ۔۔۔ اور آنٹی کو پانی کا گالس دیکر بھاگا بھاگا گھر پہنچا کیونکہ
میرا لن مجھے کسی طور بھی چین نہیں لینے دے رہا تھا کہ آنکھوں کےسامنے ابھی تک ارمینہ
ﺷﺎه
کی نرم گانڈ کا ہیوال آ رہا تھا اس لیئے لن کا عالج کرنے کے لیئے میں سیدھا واش روم میں
گیا اور ارمینہ کی مست اور نرم گانڈ کے نام پر ایک زور دار ُمٹھ ماری کہ اس کے بغیرچارہ
نہ تھا ۔
ﺟﯽ
ُمٹھ مار کے جب میں کچھ ٹھنڈا ہوا اور ارمینہ کی گانڈ کی خماری کچھ کم ہوئی تو مجھے
یاد آیا کہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ میں نے تو میڈم کے گھر جانا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سوچ آتے ہی میں وہاں سے بھاگا
بھاگا میڈم کے گھر پہنچا ۔ ۔ اور دروازہ کھٹکھٹایا ۔ ۔ ۔ تو میڈم نے اندر سے ہی آواز دی کون
سن کر میں گھر کے اندر داخل ہو گیا دیکھا تو وہ ہے؟؟ آ جاؤ دروازہ کھال ہے ان کی آواز ُ
سامنے برآمدے میں کھڑی دروازے ہی کی طرف دیکھ رہی تھیں ۔ مجھ پر نظر پڑتے ہی وہ
ا
تو وہ کہنے لگی وہ اس طرح جان ۔ ۔ کہ تمھاری استانی جی میرا مطلب ہے زیبا کی امی جو
ﺳﺗﺎ
کہ الہور کے ایک مشہور ہسپتال میں گزشتہ کافی دنوں سے داخل تھیں کو آج ڈاکٹروں نے
جواب دے دیا ہے اور وہ آج کل والی پوزیشن میں آ گئی ہے سو اس کو لیکر زیبا کے بھائی اپنے
گاؤں چلے گئے ہیں اور اس کے ساتھ یہاں سے میں اور زیبا بھی ابھی اس کے گاؤں کے لیئے
روانہ ہو رہے ہیں میرا بیٹا دکان سے گاڑی لیکر کر آتا ہی ہو گا اور پھر ہم نکل جائیں گے
ﻧﯽ
میڈم کی یہ بات سن کر میرے تو ٹٹے ہی ہوائی ہو گئے اور میں نے انتہائی پریشانی سے کہا کہ
سن کر وہ اچانک ہی چونک اٹھی اور سر پر ہاتھ مار کر ۔ ۔ میڈم وہ میرا ناول ۔۔۔؟؟؟ میری بات ُ
بولی ۔ ۔ ۔ اوہ ۔ ۔ ۔ سوری یار مجھے یاد نہیں رہا پھر مجھ سے کہنے لگی ۔ ۔ ۔۔ یقین کرو میں صبع
سن کر بھول گئی اور جب
ﺟﯽ
زیبا کے پاس تمھارے ہی کام گئی تھی لیکن اس کی امی کی پریشانی ُ
میں واپس آ رہی تھی یقین کرو میرے دماغ میں یہ بات گھوم رہی تھی کہ میں زیبا کے پاس کسی
کام سے آئی تھی وہ کیا کام تھا ۔۔۔ یقین کرو یاد نہیں آ رہا تھا اب تم نے بتایا تو یاد آ گیا ہے کہ میں
کس کام سے وہاں گئی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ تو میں نے کہا میڈم سے کہا کہ پلیز میڈم اب جا کر میرا کام
@
کر دیں نا تو وہ کہنے لگی سمجھا کرو نا اس وقت تو یہ بات ناممکن ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ان کی بات
سن کر میں نے مایوسی سے ان کی طرف دیکھا اور بوال ۔ ۔۔ میڈم آپ لوگ کب واپس آؤ گے ؟ تو ُ
وہ بولی یار کچھ کہہ نہیں سکتے اگر خدانخواستہ زیبا کہ امی فوت ہو گئیں تو ظاہر ہے کہ ہم
سن کر میں نے ان سے کہا اتنی دیر میں تو میڈم ربا میری لوگ دسواں کر کے ہی آئیں گے یہ ُ
ﺷﺎه
جان نکال دے گا ۔ ۔ ۔ ۔
یہ سن کر جیسے انہیں کچھ یاد آ گیا ہو ۔۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔ ۔ ایسے
ہی وہ تمھاری جان نکال دے گا ۔ ۔ پھر وہ اپنے گلے میں ہاتھ ڈالتے ہوئے بولیں ۔ ۔ ۔ جب تم دس
دن کا کرایہ اس کے منہ پر مارو گے تو وہ تم کو کچھ نہیں کہے گا اور پھراپنے گلے میں ہاتھ
ڈالے ڈالے میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔ کیا خیال ہے ۔۔۔ میں جو بڑےہی اشتیاق سے ان کے ہاتھ
ﺟﯽ
کو گلے میں جاتے دیکھ رہا تھا ۔۔ ۔ ہولے سے بوال ۔ ۔ ایک دفعہ وہ بھی دکھا دیں نا ۔ ۔ تو میڈم
شرارت سے بولی وہ کیا ۔۔ دیکھنا ہے تم نے ؟ ۔ ۔ تو میں نے کہا وہ آپ کی خوبصورت ۔ ۔ ۔۔
چھاتی !! میری بات سن کر ان کو جیسا نشہ سا ہو گیا ہو بولی ۔۔۔ میری چھاتیاں کیا بہت خوبصورت
سن کر وہ خمار آلود لہجے ہیں ؟ تو میں نے کہا میڈم بہت نہیں بہت ہی زیادہ پیاری ہیں ۔ ۔ ۔ یہ ُ
میں بولیں ۔ ۔ ۔ اندر آ جاؤ میں تم کو یہ کوخوبصورت چیز دکھاتی ہوں تو میں نے کہا میں کنڈی
ا
لوجی بھر کر دیکھ لو اپنی پسندیدہ چھاتیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور میری نظروں کے سامنے میڈم کی گوری
ﺳﺗﺎ
چٹی موٹی موٹی چھاتیاں تھیں ۔ ۔ ۔۔ جن کے اوپر براؤن رنگ کا نپل ۔ ۔ ۔۔ عجیب شان سے
کھڑا تھا ۔ ۔ ۔ جسے دیکھ کر میں آپے سے باہر ہو گیا اور جا کراپنے دونوں ہاتھوں میڈم کی
خوبصورت چھاتیوں کو تھام لیا ۔ ۔ ممے ہاتھ میں پکڑتے ہی میرا لن تن گیا اور مجھ پر ایک
عجیب سا نشہ چھا گیا ۔۔۔ اور میں نے میڈم کی طرف دیکھا تو وہ آنکھیں بند کیے اپنے مموں پر
ﻧﯽ
میرے ہاتھوں کا مزہ لے رہی تھیں ۔اور پھر ہولے ہولے۔ ۔ ۔ میں ان کا ممے دبانے لگا ۔
ﺟﯽ
کچھ دیر ان کے ممے دبانے کے بعد میں نے ان کا ایک مما اپنے منہ میں لیا اور زبان
نکال کر ان کے نپل پر پھیرنے لگا ۔۔۔ پھر میں نے اسے اپنے دونوں ہونٹؤں میں دابا اور اس کو
چوسنے لگا۔ ۔ ۔ اور ساتھ ہی میڈم کےمنہ سے ایک آہ نکلی اور وہ کہنے لگی ۔ ۔ ۔ ۔ اگر تم
دوپہر کو آتے نا تو ۔۔ ۔ ۔توکیا ہی بات تھی پھر انہوں نے میرے منہ سے اپنا وہ واال مما نکاال
اور دوسرے میرے آگے ال کر بولی اب اس کو چوسو ۔ ۔۔ ۔ اور پھر میں نے اس کو بھی ویسے
@
ہی چوسنا شروع کر دیا جیسا کہ پہلے کو چوس رہا تھا ۔۔۔ کچھ دیر تک ممے چسوانے کے بعد
انہوں نے شلوار کے اوپر سے ہی میرا لن پکڑ لیا اور اسے دباتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔ سالے اگر تم
پہلے آ جاتے تو ۔۔۔۔۔ اس سے پہلے کہ میم اپنا فقرہ مکمل کرتی ۔ اچانک گلی کی نکڑ سے کار
کے ہارن کی آواز سنائی دی جسے سنتے ہی وہ ایک دم سنبھل سی گئیں اور جلدی سے اپنے
ﺷﺎه
ممے قمیض کےاندر کر لئے اور مجھے دو سو روپے دیکر کر بولی یہ پیسے تم کرائے کی
مد میں الئیبریری والے کو دے دینا اور فکر نہ کرنا اگر ہم مزید لیٹ ہو گئے تو کسی سے ادھار
لیکر کرایہ دے دینا میں آ کر تم کو دے دوں گی پھر انہوں نے مجھے ایک ٹائیٹ سی جھپی لگائی
اور بولی وہ پہلے زیبا کے گھر جائے گا تم جلدی سے نکل جاؤ ۔۔۔ اور میں نے اس سے پیسے
ﺟﯽ
ا
ساتھ النا اور واپس اپنے گھر کی طرف ُمڑ گئی – میں دیکھا کہ ارصال کا موڈ خاصہ خراب تھا
ﺳﺗﺎ
چنانچہ م یں نے اسے ویسے ہی چھیڑنے کے لیئے کہا یار تم نے آج چھٹی کرنی تھی میری بات
سن کر وہ بڑے تلخ لہجے میں بوال ۔ بھائی جان آپا نے نہیں کرنے دی خیر آج تو اس نے میری ُ
چھٹی روک لی ہے دیکھتا ہوں وہ کل کیسے مجھے چھٹی کرنے سے روکتیں ہیں ۔۔ تو میں نے
اس سے کہا کیوں کل کوئی خاص بات ہو گی کیا تو وہ بوال ۔ ۔ خاص نہیں بھائی جان بہت خاص
ﻧﯽ
بات !! تو میں نے اس سے پوچھا کہ کچھ ہمیں بھی تو پتہ چلے تو وہ چلتے چلتے ُرک گیا اور
میری طرف دیکھ کر کہنے لگا بھائی جان آج مرینہ آپا جو آ رہی ہیں ۔ تو میں نے سوالیہ نظروں
سے اس کی طرف دیکھا گویا پوچھ رہا تھا کہ یہ مرینہ آپا کون ہے۔۔
ﺟﯽ
تو وہ میری نظروں کا مفہوم سمجھ کر بوال بھائی جان مرینہ میری سب سے بڑی بہن ہے
جو کہ حیدر آباد میں رہتی ہیں اور آج 5بجے کی ٹرین سے پنڈی آ رہی ہیں تو میں نے اس سے
ویسے ہی پوچھا کہ تو تم اپنی آپا کو لینے ریلوے سٹیشن جاؤ گے ؟ تو وہ کہنے لگا میں ہی نہیں
سن کر میرا کان کھڑے ہو گئے اور میرے امی اور دا جی (ابا) بھی جائیں گے اس کی بات ُ
@
شیطانی دماغ میں یک لخت ایک خیال بجلی کی سی تیزی سے کوندا ۔ ۔ ۔اور میں نے دھڑکتے دل
سے اس سے پوچھا کیوں تم ماسی اور چاچا ہی جاؤ گے ؟ ارمینہ باجی کو ساتھ نہیں لے جاؤ
گے ؟ تو وہ الپرواہی سے بوال دا جی (ابا) کہتے ہیں سٹیشن پر لڑکیوں کا کوئی کام نہیں اس
سن کر میرے دماغ میں شیطانی منصوبہ بننے لیئے وہ گھر پر ہی رہے گی اور ارصال کی بات ُ
ﺷﺎه
لگا اور میں دل ہی دل میں اس کے تانے بانے جوڑنے لگا اور اسی دوران ارصال کا سکول بھی
آ گیا اور وہ مجھے ٹاٹا کرتے ہوئےسکول چالگیا اور میں ۔۔۔۔۔ اپنے منصوبے کے بارے میں
سوچنے لگا ۔۔۔
سکول سے واپسی پر میں نے جلدی جلدی کھانا کھایا اور تین بجے ہی چھت پر جا کر
ﺟﯽ
ناکہ لگا لیا میرا فوکس ماسی کا گھر تھا کہ کب وہ لوگ گھر سے جائیں اور میں وہاں جا کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تقریبا ً سوا تین بجے کے قریب ارصال کا والد جسے وہ دا جی کہتے تھے ایک رکشہ لیکر آیا اور
اسے اپنے دروازے کے پاس کھڑا کرے کے خود اندر چال گیا ۔ ۔ ۔ ۔ کوئی دو تین منٹ بعد ہی
ماسی اور ارصال خان اپنے والد کے ساتھ گھر سے باہر برآمد ہوئے اور وہ سب جلدی سے
رکشے میں بیٹھ گئے ۔۔۔ اور رکشہ چل پڑا ۔۔۔۔ اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ یہ سب دیکھتا رہا
جب رکشے کو گئے ہوئے کوئی دس منٹ ہو گئے تو میں اپنے چھت سے نیچےاترا اور خود
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
بخود میرے قدم ماسی کے گھر کی طرف اُٹھ گئے کہ جہاں اس وقت گھر میں ارمینہ اکیلی تھی
لیکن اس سے قبل میں بھاگا بھاگا بازار گیا اور PCOپر جا کر ریلوے انکوائری والوں سے
پوچھا کہ کیا کراچی سے آنے والی ریل ان ٹائم ہے یا نہیں تو انہوں نے میری توقع کے عین
مطابق بتالیا کہ مطالبہ ٹرین دو گھنٹے لیٹ ہے اور یہ ٹائم بڑھ بھی سکتا ہے ۔۔۔یہاں سے مطمئن
ہو کر میں واپس اپنی گلی کی طرف آیا ۔۔۔ اور ۔۔۔پھر ۔۔ احتیا ً
ا
ط میں نے ادھر ادھر نگاہ دوڑائی
ﺳﺗﺎ
تو ساری گلی کو سنسان پایا ویسے بھی گرمیوں کی دو پہر کو کم ہی لوگ گھروں سے نکلتے
ب معمول دروازے پر پردہ لٹکا ہوا
گھر کے پاس گیا حس ِ ہیں سو میں جلدی سے ارمینہ کے
تھا میں نے وہ پردہ ہٹایا تو دروازے بند تھا یہ پہلی دفعہ تھی کہ میں نے ان کے گھر کا دروزہ
بندپایا تھا ورنہ یہ ہمیشہ ہی کھال ہی ملتا تھا ۔۔۔ خیر میں نے پردے کے اندرہی رہتے ہوئے
ﻧﯽ
دروازے پرہلکی سی دستک دی لیکن کوئی جواب نہ آیا پھر میں نے قدرے ذور کی دستک دی
تو اندر سے ارمینہ کی آواز سنائی دی ۔۔۔ کون ۔؟؟؟؟۔
ﺟﯽ
اور اس کے ساتھ ہی دروازہ کھال اور میں نے دیکھا تو میرے سامنے میرے سپنوں کی
سرخ رنگ کا سوٹ پہن رکھا تھا جس میں قیامت لگ رہی تھی رانی ارمینہ کھڑی تھی اس نے ُ
۔ ۔ ۔ ۔مجھے دیکھتے ہی اس نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے کولہوں پر رکھے اور بولی جی فرماؤ ؟؟
۔۔۔ تو میں نے کہا مجھے اندر آنا ہے تو وہ بولی گھر میں اس دقت کوئی نہیں ہے ۔۔ تو میں نے
@
سن کر وہ قدرے غصے سے بولی جواب دیا کہ اسی لیئے تو میں اندر آنا چاہتا ہوں ۔۔۔۔ میری بات ُ
کیا مطلب ہے تمھارا ؟ تو میں نے جلدی سے کہا وہ ۔۔۔ وہ باجی میرا آپ سے ایک بڑا ضروری
کام ہے پلیز اندر آنے دیں نا ۔ ۔ ۔۔ میر بات سن کر اس نے کچھ دیر سوچا اور پھر مجھے اندر
آنے کے لیئے راستہ دے دیا اور جیسے ہی میں اندر داخل ہوا اس نے دروازہ الک کیا اور
ﺷﺎه
بولی ہاں جی بولو کیا ضروری کام تھا ؟تو میں نے کہا باجی میں یہاں نہیں بتا سکتا آپ پلیز اندر
چلیں نا ۔ ۔ تو وہ کچھ نخروں کے میرے ساتھ اندر جانے پر راضی ہو گئی اور پھر ہم ان کے
ڈرائینگ روم میں آ گئے وہاں اس نے مجھے ایک کرسی پر بیٹھنے کو کہا اور خود میرے سامنے
سن کر گھبرا گیا اور ۔۔۔۔ سر نیچاکھڑی ہو کر بولی جلدی بولو کیا کام ہے ؟ تو میں اس کی بات ُ
ﺟﯽ
کر کے بیٹھا رہا ۔ ۔ ۔ ۔ کچھ دیر تک تو اس نے میرے جواب کا نتظار کیا پھر کہنےلگی ۔۔ کچھ
بولو بھی ۔۔ یہ منہ میں گھونگنیاں ڈالے کیوں بیٹھےہو ۔ ۔ تو میں نے سر اٹھایا اور ڈرتے ڈرتے
ارمینہ سے بوال ۔ ۔ ۔ ۔ باجی آپ بہت خوبصورت ہیں اور مجھے بہت اچھی لگتی ہیں میری
سرخ ہو گیا اور وہ کہنے لگی بس یہی اطالع دینے کے لیئے بات سن کر اس کے چہرے کا رنگ ُ
سن کر میں ایک بار پھر گڑبڑا گیا اور سوچنے لگا کہ آپ یہاں تشریف الئے تھے ؟ اس کی بات ُ
ابتدا کیسے کروں کہ ارمینہ ناراض بھی نہ ہو اور کام بھی بن جائے سوچتے سوچتے میں نے
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
ارمینہ کی طرف دکھا تو وہ میری ہی طرف دیکھ رہی تھی اور ساتھ ساتھ اپنے دوپٹے کے پلو
کو کبھی رول کرتی اور کھبی اسے کھول رہی تھی اس کے ساتھ ساتھ اس کے چہرے کا رنگ
سرخ ہو رہا تھا اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بار بار اپنے ہونٹوں پر زبانبھی کچھ زیادہ ہی ُ
بھی پھیر رہی تھی ۔ ۔ ۔ ۔ ارمینہ کی یہ حالت دیکھ کر میں نے خود پر ایک سو ایک دفعہ لعنت
ا
بھیجی اور کرسی سے اُٹھ کھڑا ہوا اور بلکل ارمینہ کے سامنے کھڑا ہوا اور اس سے بڑے
ﺳﺗﺎ
ہی رومینٹک لہجے میں بوال ۔ ۔ باجی میں آپ کے خوبصورت گال پر ایک چمی کر لوں ؟ اور
پھر ۔ ۔ اس سے پہلے کہ وہ کچھ کہتی ۔ ۔ ۔ ۔ میں ۔ ۔ بنا اسکی اجازت کے اچانک آگے بڑھا اور
اس کے الل گال کو چوم لیا ۔۔۔ اس نے فورا ً ہی مجھے دھکا دیکر پرے کیا اور بولی یہ کیا بے
ہودگی ہے ؟ تو میں نے کہا باجی یہ بے ہودگی نہیں پیار ہے اور پھر آگے بڑھ کر اس کو دوبارہ
ﻧﯽ
چومنے کی کوشش کی ۔ ۔
لیکن اس نےہاتھ ہٹا کر مجھے اپنے سے پرے کر دیا اور بولی تم عجیب لڑکے ہو مجھے
باجی بھی کہتے ہو اور میرے ساتھ بےہودہ حرکات بھی کرتے ہو ۔۔ میں نے محسوس کیا کہ ارمینہ
ت
ﺟﯽ
کا لہجہ بات کرتے ہوئے کوئی غصیال نہ تھا بلکہ کافی ہموار تھا ۔۔ ۔ جیسے وہ اس صور ِ
حال پر مزہ لے رہی ہو ۔ یہ دیکھ کر میں بھی شیر ہو گیا اور اس سے بوال ۔۔۔۔ کہ اگر آپ
سن کر باجی کہنے پر ناراض ہوتی ہیں تو میں آپ کو ڈارلینگ بھی کہہ سکتا ہوں ۔ ۔ میری بات ُ
سرخ ہو گیا اور وہ سامنے لگی گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔ ۔ ۔ اس کا رنگ کچھ اور ُ
@
ڈالنگ کے بچے ۔ ۔ ۔۔ بھاگو یہاں سے ۔ ورنہ ابھی دا جی (ابا) آ گئے نا تو ۔ ۔تمھاری یہ
سن کر میں نے اس سے کہا ساری شوخیاں اور ۔ شرارتیں نکال دیں گے ۔ ۔ ۔ ۔ ارمینہ کی بات ُ
باجی جی آپ ۔ ۔ اپنے دا جی کی آپ فکر نہ کرو کیونکہ وہ کم از کم دو گھنٹے بعد آئیں گے۔ ۔
میری بات سن کر وہ ایک دم چونک گئی اور بولی یہ تم کیسے کہہ سےتن ہو؟ تو میں نے اس
ﺷﺎه
سے کہا میں اسیے کہہ سکتا ہوں کہ آپ کے پاس آنے سے پہلے میں نے پی سی او سے ٹرین کے
بارے میں معلومات کیں تھیں اور ریلوے والوں نے مجھے بتالیا تھا کہ ٹرین کم از کم 1گھنٹے
سن کر ارمینہ نے ایک گہرا سانس لیا اور بولی ۔ ۔ بڑے تیز ہو تم ۔ ۔لیٹ ہے میری بات ُ
ﺟﯽ
سن کر میں آگے بڑھا اور اسے گلے لگا کر بوال میں کوئی تیز نہیں ہوں ارمینہ کی بات ُ
ڈارلینگ یہ سب آپ کے پیار نے سکھایا ہے اور ایک بار پھر اس کو چوم لیا اب کی بار اس نے
واجبی سی مزاحمت کی اور بولی ۔ ۔ مجھے چھوڑو بد تمیز ۔ ۔ لیکن بدتمیز کہاں چھوڑنے وال
تھا ۔ ۔ سو میں نے دوبارہ سے اپنے ہونٹ اس کے الل گالوں پر رکھے اور بوال بس تھوڑا سا
پیار کرنے دو نا جان ۔۔ ۔ تو وہ میری باہوں میں کسمساتے ہوئے بولی ۔ ۔ ۔ اُف اور کتنا پیار کرو
ا
اسکے نرم ہونٹؤں پر پہنچ گئی اور میں نے اپنی زبان ارمینہ کے نرم ہونٹوں پر رکھی اور آہستہ
ﺳﺗﺎ
آہستہ اپنی زبان کو ارمینہ کے نرم ہونٹوں پر پھیرنے لگا ۔ ۔ ارمینہ کے ہونٹ ایسے نرم تھے
کہ جیسے پنکھڑی کوئی گالب کی سی ہو ۔ ۔ ۔۔ کچھ دیر تک تو میں اپنے زبان اس کے ہونٹؤں پر
پھیرتا رہا پھر بڑی ہی آہستگی سے میں نے اپنے زبان کو اس کے منہ میں داخل کرنے کی کوشش
کی پہلے تو اس نے اپنے ہونٹ نہ کھولے لیکن جب میں اپنے زبان سے بار بار اس کے ہونٹوں
ﻧﯽ
پر دستک دیتا رہا تو پھر اس نے تھوڑا سا منہ کھوال اور میں نے بجائے زبان اس کے منہ میں
دینے کے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس کے اوپر وال ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگا ۔اور اس
کے منہ سے صرف ۔ ۔ آہ ہ ۔ کی آواز ہی نکل سکی کیونکہ پھر میں نے اپنا منہ اس کے منہ
ﺟﯽ
سے جوڑ لیا تھا ۔ وہ اس عمل میں ایکٹولی تو میرا ساتھ نہ دے رہی تھی لیکن اب مجھے منع
بھی نہیں کر رہی تھی بلکہ میری ساتھ کسنگ کا لطف اُٹھا رہی تھی ۔ ۔ ارمینہ کے ہونٹ
چوسنے کے ساتھ ساتھ اب میں نے ایک ہاتھ اس کے ممے پر رکھا اور اسے دبانے لگا ۔۔
@
جب میں اس کا مما دباتا تو اس کے منہ سے بے اختیار ایک آہ سی نکلتی تھی ۔ ۔ اؤئی ۔
۔ ارمینہ کے ہونٹ چوستے چوستے میں نے اپنی زبان اس کے منہ میں ڈال دی ۔ ۔ ا ُ ف ف ف
۔۔۔فف ۔۔۔ ارمینہ کے منہ سے بڑی ہی دلکش سی مہک آ رہی تھی اور اس کی زبا ن سے جب
میری زبان ٹکرائی تو ارمینہ کے گرم جسم کو ایک جھٹکا سا لگا اور اس نے میرے گلے میں
ﺷﺎه
اور اس کی اس ٹا ئیٹ جھپی کی وجہ سے میرا لن جو اس وقت تک فُل مستی میں آ چکا تھا
ارمینہ کی رانوں کے عین بیچ میں آ گیا اور پھر میں نے محسوس کیا کہ ارمینہ اپنی نرم رانوں
ﺟﯽ
سے میرے لن کو دبا رہی ہے وہ بار بار اپنی رانیں میرے لن کے گرد ٹائیٹ کر لیتی اور کبھی
کبھی تو لن کو رانوں میں دبا کر تھوڑا سا آگے پیچھے بھی ہو جاتی تھی جس سے میرے لن کو
عجیب لزت ملتی اور ۔ ۔پھر ۔۔ میرے منہ سے بھی لزت بھری سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں اور
پھر میں نے ارمینہ کو دوسری طرف گھما دیا ۔ اور اس کی گانڈ کو اپنے سامنے کر لیا ۔ اب ارمینہ
کی موٹی گانڈ میرے لن سے ٹچ ہو رہی تھی سو میں نےلن پکڑا اور ارمینہ کی گانڈ کی موری پر
ا
انگلیوں میں لیکر انہیں مسلنے لگا ۔ ۔ ۔ ۔ میری اس حرکت سے ارمینہ کے جزبات بے قابو ہو
ﺳﺗﺎ
گئے اور وہ ایک دم اپنے نپل چھڑاکے میری طرف ُمڑی اور میرا لن اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا
اور اسے آگے پیچھے کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں کے ساتھ جوڑ لیئے اور پھر
کسنگ کرنے لگی کچھ دیر کسنگ کے بعد وہ تھوڑا پیچھے ہٹی اور بنا کچھ کہے مجھے اندر
کمرے میں لے گئی اور جا کر بیڈ پر لیٹ گئی ۔ ۔
ﻧﯽ
اس کی دیکھا دیکھی میں نے بھی اپنے جوتے اتارے اور بیڈ پر چال گیا اور عین اس کے
ﺟﯽ
اوپر لیٹ کر اپنا لن اس کی چوت پر رکھا اور پھر اسے کے منہ میں اپنا منہ دیکر کر اسکی لزت
میں گم ہو گیا ۔ پھر میں اپنا منہ اس کے منہ سے الگ کیا اور ۔ ۔ ۔ ۔ آہستہ آستہ نیچے کی طرف
آنا شروع ہو گیا ۔۔۔ اور ارمینہ کی قمیض کو اوپر کر کے اس کے ممے چوسنے لگا ۔۔۔ اور کافی
دیر تک باری باری اس کے ممے چوستا رہا اس دوران میرا لن مسلسل اس کی گرم چوت پر
دستک دیتا رہا تھا جسے وہ کبھی کھبی اپنے ہاتھ میں پکڑ کے اپنی چوت پر رگڑ بھی لیتی تھی
@
۔۔
کافی دیر ممے چوسنے کے بعد میں تھوڑا اور نیچے جھکا اور ارمینہ کی شلوار کا آزار
بند پکڑ کر اسے کھوال اور پھر اس نے خود ہی اپنے چوتڑ اٹھا کر مجھے اپنی شلوار اتارنے
ﺷﺎه
میں مدد دی ۔ ۔ واؤؤؤؤؤؤؤو۔ ۔ ۔ جیسے ہی اس کی شلوار نیچے ہوئی ۔ ۔ ۔ ۔ میرے سامنے ارمینہ
کی موٹی اور ابھری ہوئی چوت میری آنکھوں کے سامنے آگئی ۔ ۔ آہ ہ ۔۔ اس کی چوت کے
دونوں لب اندر کی طرف مڑے ہوئے تھے اور اس ابھری ہوئی چوت پر ہلکے ہلکے سیاہ بال
تھے جو سفید پھدیپر بڑے بھلے لگ رہے تھے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ان بالوں کو دیکھ کر ایسے لگ رہا تھا کہ
جیسےچوت کی ایک ہفتہ قبل شیو کی ہو ۔۔۔ ارمینہ کی شاندار چوت دیکھ کر میں اسے چومنے
ﺟﯽ
کے لئے تھوڑا اور نیچے جھکا ۔ ۔ ۔۔اور ۔ ۔ اچانک ارمینہ نے اپنےدونوں گھٹنے آگے کر دئے
جس کی وجہ سے میرا منہ اس کی چوت تک نہ جا سکا اور میں نے سر اٹھا کر اس کی طرف
سوالیہ نظروں سے دیکھا تو وہ میری ہی طرف دیکھ رہی تھی مجھے اپنی طرف دیکھ کر وہ بولی
۔ ۔ گندی فلمیں دیکھتے ہو؟ تو میں نے کہا بہت ۔ تو وہ پھر کہنے لگی پہلے کبھی ایسا کیا ہے تو
میری چاٹنے کو بہت دل کر رہا ہے ؟ تو میں نے اثبات میں سر ہال دیا تو وہ اپنی چوت
ا
ﺳﺗﺎ
کے دانے پر ہاتھ رکھ کر بولی ۔۔ اسے چھوستے ہیں تم ایسا کر و اس کو اپنے ہونٹوں سے
سن کر میں نے اپنا سر نیچے جھکایا پکڑواور منہ لیکر اس کو خوب چوسو ۔ ۔ ۔ اس کی بات ُ
اور ارمینہ کی چوت پر منہ رکھ دیا ۔ ۔ ۔ ۔ واؤؤؤؤ۔ اس کی چوت سے بڑی ہی سیکسی مہک آ رہی
تھی ---سو سب سے پہلے میں نے اس کی شاندار پھدی کا ایک زور دار چما لیا ۔۔۔ ۔ اور پھر
ﻧﯽ
اس کے بعد اس کا جائزہ لینے لگا ۔۔۔۔
دیر تو میں نے اس کی چوت کے دانے پر زبان پھیری پھر میں نے سر اُٹھا کر ارمینہ کی طرف
دیکھا اور اس سے بوال ۔ ۔ ۔ ارمینہ جی ایک بات پوچھوں تو وہ قدرے نشیلی آواز میں بولی ضرور
پوچھو !! تو میں نے اس سے کہا کہ کیا آپ کے شوہر بھی آپ کی چوت چوستے تھے تو وہ قدرے
افسردگی سے بولی ۔۔۔ نہیں یار وہ پکا پٹھان ہے اس نے کبھی بھی میری چوت کو نہیں چوسا
ﺷﺎه
۔ ۔ ۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ وہ کیا پسند کرتا تھا تو ہو کہنے لگی اس کو تو بس دو ہی کام پسند
تھے تو میں نے پوچھا وہ کون سے۔ ۔ ؟؟؟؟؟ تو وہ بولی ایک تو اپنا ۔ ۔ وہ ۔۔ ۔ ۔چسوانا اور دوسرا
وہ کہتے کہتے ُرک گئی تو میں نے اصرار کے پوچھا دوسرا کام کونسا اور پہال کونساارمینہ جی
؟ تو وہ کہنے لگی دوسرا وہی جو ہر پٹھان کو پسند ہے ۔ تو میں نے کہا وہ کون سا ۔۔ تو وہ قدرے
شرماتے ہوئے بولی ۔ ۔ ۔ ۔ یار وہی ۔ ۔ ۔ گانڈ مارنا ۔۔۔۔ ۔۔ تو میں نے حیرانی سے اس سے پوچھا
ﺟﯽ
ارمینہ جی تو کیا وہ آپ کو آگے سے نہیں کرتے تھے ؟ تو وہ کہنے لگی یار آگے سے کرنے کے
عالوہ اس کو یہ دو کام از حد پسند تھے تو مین نے اس سے کہا اب پہال واال کام بھی بتا دیں پلیز
۔ ۔ تو کہنے لگی تم پکے بدمعاش ہو تم کو سب معلوم ہے لیکن پھر میرے اصرار پر کہنے لگی
سن کر میں نے اسکو کہا ارمینہ جی ۔ ۔ کیا آپ میرا ۔ بھی ۔ چوسو ۔۔ ۔ وہ سکنگ یار ۔۔ یہ ُ
گی نا۔ ؟ تو وہ بال تامل کہنے لگی ہاں میں تمھارا یہ موٹا اور لمبا سا۔۔۔۔ ضرور چوسوں گی ۔۔
ا
دانہ بہت گرم تھا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی چوت سے بڑی ہی مست سمیل بھی آ رہی تھی
ﺳﺗﺎ
۔۔۔ وہ مجھے اپنی چوت کا دانہ چوستے ہوئے دیکھ رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ اپنی انگلیوں
سے میرے بالوں میں کنھی بھی کرتی جا رہی تھی اور وقفے وقفے سے سسکیاں بھی لیتی جا
سنی وہ اپنی مست رہی تھی ۔آہ ہ ہ ۔۔۔ اُف ،ف،ففف ۔۔۔ اوہ ۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد میں نے اس کی آواز ُ
آواز میں کہہ رہی تھی ۔۔۔۔ دانہ چوسنے کے ساتھ ساتھ اپنی دو انگلیاں بھی میری پھدی میں بھی
ﻧﯽ
ڈال دو ۔۔۔ اور پھر میں نے جیسے ہی اس کی گرم پھدی میں اپنی دو انگلیاں ڈالیں وہ ایک دم سے
تھرا کر رہی گئی اور بولی ۔۔آہ ۔ ۔ ۔ ہ ہ ۔۔ فاسٹ ۔۔۔ فاسٹ ۔۔۔ اپنی انیوے ں کو تیزی سے میری
پھدی کے اندر باہر کرو اور میں نے ایسا ہی کیا تو وہ ایک لمبی سی سسکی لیکر بولی ۔۔۔ ش ش
ﺟﯽ ش۔۔ شاباش بچے تم بہت اچھے جا رہے ہو ۔ ۔
بعد وہ مجھ سے بولی اب اپنے منہ سے میرا دانہ ہٹا دو ۔ ۔ ۔ اور میں نے اسکے دانے کو
منہ سے باہر نکال لیا اور بوال اب کیا کروں تو وہ کہنے لگی ۔ ۔ ۔ اب تم میری پھدی چاٹو ۔ ۔ ۔
@
اور اپنے رانوں کو مزید کھول کر بولی اپنی زبان یہاں ۔ ۔ ۔ ( پھدی کے اینڈ کی طرف اشارہ تھا )
پر رکھو ۔ ۔اور پھر کہنے لگی اس سے پہلے تم اپنی دونوں انگلیوں سے میری پھدی کے لب
کھولے کرو ۔ ۔ اس کی بات سن کر میں نے انے دونوں ہاتھوں کی انگلیوں سے اس کی چوت کے
لبوں کو ممکن حد تک کھال کیا اور ۔ ۔ ۔ اب ارمینہ کو پھدی کا اندرونی حصہ میری نظروں کے
ﺷﺎه
سامنے تھا میں نے ایک نظر ارمینہ کو دیکھا اور پھر اپنی زبان اس کی چوت کے اندرونی حے
پر رکھ کر اسے چاٹنا شروع کر دیا ۔اس کی چوت کی دیواریں سالٹی سے پانی سے اٹی پڑیں
تھیں میں نے آہستہ آہستہ ان دیواروں کو اپنی زبان سے صاف کرنا شروع کر دیا ۔ ۔ کچھ ہی دیر
بعد ارمینہ گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے ایسے تڑپی کہ جیسے جل بن مچھلی ۔۔۔۔ اوراس نے
ﺟﯽ
بڑی سختی سے میرا سر پکڑ لیا اور خود اپنی پھدی کو میرے منہ پر رگڑنے لگی ۔۔۔ پھر کچھ
ہی دیر بعد اس کا سارا وجود کانپا اور ۔۔۔ اس کی پھدی سے سالٹی سا پانی بہنے لگا جو سیدھا
میرے منہ میں جا رہا تھا اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس پانی کو اپنے منہ میں لینے پر اس
لیئے مجبور تھا کہ اس نے میرے سر کوبڑے ہی زور سے اپنی پھدی پر دبایا ہوا تھا ۔۔۔ پھر
کچھ دیر بعد ا نے میرا سرسے اپنے ہاتھ ہٹا لیئے اور تیز تیز سانس لینے لگی ۔۔۔۔
ا
لگی اور پھر اس نے میرے ٹوپے کو اپنے منہ میں لے لیا اور اپنے ہونٹوں میں لیکر اس کو
ﺳﺗﺎ
چوسنے لگی ارمینہ کا یہ انداز اس قدر دلکش تھا کہ میں اونچی آواز میں سسکیاں لینے لگا ۔۔ آہ ہ
ہ۔ ۔ ہ ۔ ہ ۔ ۔۔۔ اُف فف۔ف۔ف۔ اور لن پہلے سے زیادہ تن گیا
لیکن وہ اس بات سے بے نیاز مسلسل لن کو چوسے جا رہی تھی ۔۔۔ تھوڑی دیر بعد اس نے
ﻧﯽ
اپنے منہ سے میرا لن نکاال اور مجھے متوجہ کر نے اپنی زبان کی طرف اشارہ کرنے لگی اب
میں نے اس کے اشارے کی طرف دیکھا تو اس نے اپنی لمبی سی زبان اپنے منہ سے کافی باہر
نکالی ہوئی تھی اور اس کی زبان کی نوک پر میری مزی کا ایک موٹا سا قطرہ پڑا ہوا تھا جواس
نے مجھے دکھانے کے بعد اپنےمنہ کے اندر لے گئ اور وہ قطرہ نگھل لینے کے بعد مجھ سے
ﺟﯽ
بولی تمھارے لن بہت مزی چھوڑ رہا ہے ۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا آپ کو کیسی لگتی ہے یہ
مزی ؟ تو وہ کہنے لگی زبردست ۔۔۔ مجھے یہ بڑی پسند ہے اور ایک بار پھر نیچے جھک گئی
اور میرا لن پر اپنی زبان پھیرنے لگئی اور ایک بار پھر میرے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلنے
لگا کچھ دیر تک میرا لن چوسنے کے بعد وہ نیچے لیٹ گئی اور بولی ۔۔۔ میرے اوپر آؤ ۔ ۔ ۔۔ اور
@
میں ارمینہ کی دونوں ٹانگوں میں جا کر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اس نے جلدی اے اپنی ٹانگیں
میرے کندھوں پر رکھ دیں اورپھر اپنا ہاتھ بڑھا کر میرے لن کو پکڑ لیا پھر اس نے اپنے منہ
سے تھوڑا سا تھوک اپنے منہ سے نکال کر ا پنے بائیں ہاتھ کی تین انگلیوں پر لگایا اور میرے
ٹوپے پر مل دیا ۔۔۔ پھر لن کو اپنی چوت کے لبوں پر رکھا اور کچھ دیر وہاں رگڑتی رہی اور
ﺷﺎه
پھر اس نے میرا ٹوپے کو چوت کے آخر میں رکھ دیا اور بولی ۔۔۔۔ دھکا لگا ۔۔۔ میری جان ۔۔۔۔
اور میں نے تھوڑا پیچھے ہو کر ایک ہلکا سا دھکا لگایا تو لن تھوڑا کھسک کر اس کی ٹائیٹ
چوت میں چال گیا ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے ایک لزت آمیز سسکی بھری ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ۔ اور بولی ۔۔ ۔ ۔بڑا موٹا
سن کر میں نے ایک اور زور دار دھکا لن ہے تمھار ا۔۔۔ ۔۔ اس کی یہ لزت آمیز سسکی کی آواز ُ
ﺟﯽ
لگایا تو لن ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھلستا ہوا اس کی چوت کی آخری دیوار سے جا ٹکرایا اور ۔۔۔ اس کے ساتھ
ہی آرمینہ کے منہ سے ایک زور دار چیخ برآمد ہوئی ۔۔۔۔ وئی وئی مورے ۔۔ اس لڑکے نے میری
چوت پھاڑ دی ۔ ۔ ۔۔ ۔۔ اس کی بات سن کر میں نے اس کی چوت میں دھکے لگانا سٹارٹ کر
دئےچ۔ ۔ ۔ اور لن اندر باہر کرنے لگا ۔۔۔ اس کی چوت اندر سے بڑی ہی تنگ اور پانی سے بھری
ہوئی تھی ۔ ۔ ۔ جیسے ہی میں دھکا مارتا وہ ایک دلکش چیخ کے ساتھ میرا حوصلہ بڑھاتی اور
کہتی ۔ ۔ ۔۔ زور سے میری جان ۔۔ آج میری چوت کو پھاڑ دو ۔ ۔ ۔ ۔ اور پھر میں بھی جوش میں آ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
گیا اور پھر نان سٹاپ دھکے پے دھکا مارنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور مارتا گیا وہ چیختی گئی اور مجھے
ہال شیری دیتی گئی ۔۔۔۔۔۔ اور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پھر آخر وہ ٹائم بھی آ ہی گیا جب ۔۔۔۔ میں نے محسوس کیا کہ
۔۔۔ میں اس کے بعد ۔۔۔ اور دھکے نہیں مار سکوں گا ۔۔ اور میں نے دھکوں کو روک دیا ۔۔۔۔ یہ
دیکھ کر وہ مجھ سے بولی کیا ہوا ؟ تو میں نے کہا میرا خیال ہے کہ میں بس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ سنتے ہی
ا
وہ کہنے لگی ۔۔۔ اوکے ۔۔۔ میں بھی بس کچھ ہی دھکوں میں جانے والی ہوں پھر اس نے میرے
ﺳﺗﺎ
کندھوں سے اپنی ٹانگیں نیچے کیں اور فورا ً ہی ڈوگی سٹائل میں ہو گئی اور بولی ۔۔۔ آخری
گھسے فل سپیڈ سے مارنا ۔اورمیں ارمینہ کے پیچھے آ گیا اور لن اس کی چوت پر رکھ کر ایک
زور دار گھسا مارا ۔ اور پھر مارتا گیا ۔۔۔ مارتا گیا ۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ مجھے لگا کہ میری ٹانگوں
کا سارا خون ایک جگہ جمع ہونے لگا ہے ۔۔۔۔۔ اور میں ۔۔ ۔ ۔ ۔ نے ایک زور دار گھسہ مارا ۔۔۔ یہ
ﻧﯽ
میرا گھسہ ۔ ۔ ۔آخری گھسہ ۔ ۔ثابت ہوا اور اس کے ساتھ ہی میرے لن سے منی نکل نکل کر
ارمینہ کی چوت میں گرنے لگی ۔۔۔ ادھر ارمینہ کے سانس بھی تیز ہوئے اور اس کی چوت نے
میرے لن کو چاروں طرف سے جکڑ لیا ۔۔۔۔۔ اور وہ اپنا نچال حصہ میرے نچلے حصے کے
ﺟﯽ
ساتھ جوڑ کر بولی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ چھوٹ میری جان ۔ میراے اندر چھوٹ ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی
اس کا جسم بھی ۔۔ کپکپایا ۔۔۔ تھرتھرایا۔۔ اور اس نے ایک زور دار چیخ ماری ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ آہ ۔۔۔۔۔۔ میں
گئی ۔ئ ئ ئ ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس کی چوت سے گرم گرم پانی بہہ کر میریے لن سے
ہوتا ہوا باہر نکلنا شروع ہو گیا اور یہ گرم گرم پانی میرے لن کو مزید گرم کرنے لگا ۔۔۔ کچھ
@
دیر بعد جب ہم مکمل چھوٹ گئے تو وہ پیچھے مڑی اور مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور میرا
منہ ۔۔چومتی گئی ۔۔۔چومتی گئی ۔۔۔چومتی گئی…………..
کافی دیر تک ارمینہ میرے ساتھ لپٹ کر مجھے چومتی رہی پھر وہ بیڈ سےنیچے اتری
اور واش روم کی طرف جاتے ہوئے ایک پرانا سا کپڑا میری طرف پھینکتے ہوئے بولی ۔ ۔ ۔۔
ﺷﺎه
یہ لو اور اس سے اپنے وہاں (لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) پر لگا ملبہ صاف کر لو ۔۔ اور
میں نے اس سے کپڑالیکر لن اور اس کے آس پاس لگی اپنی اور ارمینہ کی لگی ہوئی منی
اچھی طرح صاف کی اور پھر وہ کپڑاپھینک کر جلدی سے پاس پڑے ہوئے اپنے کپڑےاٹھا
کر پہن لیئے۔۔۔ اتنی دیر میں ارمینہ بھی واش روم سے واپس آ گئی تھی آتے ساتھ ہی اس نے بیڈ
پر رکھی اپنی شلوار پہنی جبکہ قمیض اس نے پہلے ہی پہن رکھی تھی اس کے بعد وہ میری
ﺟﯽ
طرف ُمڑی اور مجھے اپنے گلے سے لگا کر بولی ۔ ۔ ۔ جان جی ۔۔۔جی تو بہت چاہ رہا ہے کہ
تمھارے ساتھ مزید مستیاں کروں ۔ ۔ ۔ ۔ لیکن مجبوری ہے ۔۔کہ ۔ ۔ ۔۔ گھر والوں کے آنے کا ٹائم
بھی ہو گیا ہے اس لئے باقی مستیاں پھرکبھی کریں گے اورپھر اس نے مجھ ہاتھ مالیا اور
میں نے اس کے الل گال پر ایک چمی دی اور گھر آ گیا ۔اور راستے میں اس کے بارے میں ہی
سوچتا رہا کہ بظاہر وہ کس قدر ریزرو قسم کی لڑکی ہے ۔۔۔ پھر مجھے اس کے سینے کی
ا
بھی جانا تھا ۔ ربے کی سوچ آتے ہی ارمینہ کا تصور جانے کہاں چال گیا ۔۔۔ اور اس کی جگہ
ﺳﺗﺎ
میرے ذہن میں ربے کا منحوسچہرہ آ گیا ۔۔جسے سوچ کر میں خاصہ بے مزہ ہوا ۔۔ اور پھر
میں جلدی سے نہا کر ۔۔۔ اس کی دکان کی طرف بھاگا اور راستے میں دعا کرتا رہا کہ اس کی
دکان کھلی ہو۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ اس بہن چود کا موڈ بھی اچھا ہو-
ﻧﯽ
اور جیسے ہی میں ربے کی دکان کے قریب پچاتھ تودُور سے مجھے اس کی دکان بند نظر آئی
۔ ۔ ۔۔ یہ دیکھ کر میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔۔۔ لیکن جب میں نے غور
سے دیکھا تو اس کی دکان پر ایک بڑا سا کاغذ چپکا ہوا نظر آیا ۔۔ اور میں چلتے چلتے اس کی
دکان پر لگے نوٹس کے پاس پہنچا ۔اور اسے پڑھنے لگا ۔۔۔۔ دوستو ۔۔۔ یقین کرو وہ نوٹس پڑھ
ﺟﯽ
کر مجھے ایک عجیب سی کمینی خوشی ہوئی ۔۔۔ اس پر لکھا تھا۔۔
"بوجہ وفات والد صاحب دکان 04دن کے لیئے بند رہے گی"
اور نیچے فٹ نوٹ میں ربے نے اپنے گاؤں کا پتہ بھی لکھا تھا جو ضلع ساہیوال کے قریب کا
@
کوئی گاؤں تھا ۔۔ نوٹس پڑھ کر میں نےساتھ والے دکان دار سے پوچھا کہ ربے کے والد صاحب
کب فوت ہوئے ہیں ؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگا کہ یہ آج صبع کی بات ہے -اس کے بعد میں اپنے پرانے
محلے چال گیا اور یار دوستوں کے ساتھ خوب گپ شپ لڑا کر رات کو واپس گھر آ گیا ۔۔
اگلی صبع تیار ہو کر جب میں سکول جانے کے لیئے گھر سے نکال تو میں کشمکش کا
ﺷﺎه
شکار ہو رہا تھا کہ ارصال کو لینے اس کے گھر جاؤں کہ نہ جاؤں ۔۔ کیونکہ ارصال نے مجھے
بتایا تھا کہ اس کی بڑی باجی اسے چھٹی کروا دے گی پھر سوچا کہ یہ بات تو ارصال نے
مجھے کل بھی بتائی تھی لیکن ارمینہ نے اس کو چھٹی نہ کرنے دی تھی ارمینہ کا نام ذہن
میں آتے ہی میرے انگ انگ میں اک جل ترنگ سا بجنے لگا اور میں خود سے یہ کہتا ہوا
ارمینہ کے گھر کی طرف چل پڑا کہ ارصال سکول جائے یا نہ جائے ۔میری بال سے ۔ میرے
ﺟﯽ
ا
مجھےشرارت سوجھی اور میں ایک دم سیڑھیوں کے درمیان کھڑا ہو گیا اور جیسے ہی ارمینہ
ﺳﺗﺎ
میرے قریب آئی میں نے اپنا سر نیچے کیا اور ارمینہ کی خوبصورت چھاتیوں کو اپنے دونوں
ہاتھوں میں پکڑ لیا ۔۔۔۔ارمینہ کی نرم نرم چھاتیاں میرے ہاتھوں میں تھیں اور میں انہیں بڑے پیار
سے دبا رہا تھا ۔۔ حیرت انگیز بات یہ ہے ارمینہ نے میری چھاتیاں پکڑنے پر نہ تو کوئی
مزاحمت کی تھی اور نہ ہی وہ منہ سے کچھ بولی ۔۔۔۔۔ مزید حیرت کی بات یہ تھی کہ اس نے
ﻧﯽ
اپنی چھاتیوں کو برا سے نہیں ڈھکا ہوا تھا سو۔ ۔ ۔ ۔ اس کی پتلی سی قمیض کے اوپر سے
ہی میں نے اسکے گول گول اور نرم مموں کو پکڑ کرخوب دبایا ۔۔اور پھر ۔۔۔۔۔۔پھر دوسرے ہی
لمحے میں اپنا ایک ہاتھ اس کی دونوں ٹانگوں کے بیچ لے گیا اور اس کی چوت سے اپنا ہاتھ ٹچ
ﺟﯽ
کر دیا ۔۔۔ یہ سب میں نے اتنی جلدی میں اور آنا ً فاننا ً کیا کہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ اس سے قبل کہ وہ مجھ سے
کچھ کہتی یا کوئ ری ایکشن دیتی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔میں جلدی سے سیڑھیاں پھالنگتا ہوا اوپر کی
طرف بھاگ گیا ۔۔۔۔
@
جیسے ہی میں چھت پر پہنچا ۔ ۔۔ ۔۔ تو سامنے ہی ارصال کھڑا تھا اور اس کے ساتھ
۔۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔ اس کے ساتھ ارمینہ کھڑی تھی ۔۔۔۔۔ ارمینہ کو ارصال کے ساتھ کھڑے دیکھ کر کچھ
دیر تو میں ششدر کھڑا اس کو دیکھتا رہا اور پھر یاد آیا کہ اگر ارمینہ یہاں کھڑی ہے تو وہ
۔۔۔ وہ ۔۔ لڑکی جس کے میں نے ابھی ابھی ممے دبائے ہیں ۔۔۔ تو وہ کون تھی ۔۔۔۔۔ ہو نہ ہو وہ ۔۔۔۔
ﺷﺎه
ارصال اور ارمینہ کی بڑی بہن مرینہ ہو گی ۔۔۔تو۔۔ تو ۔۔تو ۔۔کیا میں نے ارمینہ کی جگہ مرینہ
۔۔ یہ بات سوچتے ہی میری ریڑھ کی ہڈی کے ممے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔۔۔ ا ُ ًٖف ف ف ففف
میں سرد سی لہر دوڑ گئی اور میری ٹانگیں جواب دیں گئیں ۔۔ اور کانوں میں سیٹیاں سی بجنے
لگیں اور میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا۔ ۔ ۔ خیر میں گرتا پڑتا ان کے پاس پہنچا اور
ﺟﯽ
ان کے پاس چپ چاپ کھڑا ہو گیا ۔۔۔ ارمینہ جو میری طرف ہی دیکھ رہی تھی ۔۔مجھے دیکھ کر
۔۔ تھوڑا فکر مندی سے بولی ۔ خیر تو ہے نا ؟؟ کافی پریشان لگ رہے ہو ؟؟ ۔۔ تو میں جوابا ً
ایک نے پھیکی سی مسکراہٹ سے کہا ۔ جی ۔۔ میں ۔۔ ۔میں ۔ ٹھیک ہوں ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی اگر
تم ٹھیک ہو تو یہ تمھارے چہرے پر بارہ کیوں بج رہے ہیں ؟ اس سے پہلے کہ میں کوئی جواب
سن کر ارمینہ اس دیتا ارصال کہنے لگا بھائی آپ جاؤ میں آج چھٹی کروں گا ۔۔۔۔ اس کی بات ُ
سے کہنے لگی ۔۔۔۔ ارصال پلیز ۔ ۔ !!! تم پہلے ہی پڑھائی میں کافی کمزور ہو ۔۔۔ لیکن ارصال نے
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
اس کی بات سنی ان سنی کرتےہوئے بوال ۔۔۔جب مرینہ باجی نے بھی چھٹی کا کہہ دیا ہے توآپ
کو کیا تکلیف ہے ؟؟؟؟؟؟ ۔ ۔تو ارمینہ بولی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ دیکھو چندا ۔۔ابھی ارمینہ نے اپنی بات پوری
نہیں کی تھی کی پیچھے سے ماسی کی آواز آئی وہ ارمینہ سے کہہ رہی تھی کہ۔ ۔ ۔ ۔ بیٹا کیوں
ضد کر رہی ہو ارصال کو چھٹی کرنے دو نا ۔۔۔۔۔ بھال ایک دن کی چھٹی سے کیا فرق پڑتا ہے
ا
؟ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔ بیٹا آپ کے آنے کا بہت شکریہ ۔۔۔ ارصال آج چھٹی کرے
ﺳﺗﺎ
سن کر واپس مڑا اور گا تمہیں سکول سے دیری ہو رہی ہو گی تم جاؤ ۔۔ اور میں ماسی کی بات ُ
تیزی سے ان کے گھر سے باہر نکل گیا کیونکہ میرے دل میں مرینہ کا شدید خوف تھا۔۔ سکول
جاتے ہوئے سارے راستے میں ،میں اسی حادثے کے بارے میں سوچتا اور خود کو کوستا رہا
۔۔۔۔ لیکن اب پچھتائے ۔۔۔ کیا ہو سکتا تھا ۔۔۔
ﻧﯽ
سکول پہنچ کر بھی یہ واقعہ میرے دماغ سے چپکا رہا اور میرے سارے وجود پر ایک
عجیب انجانا سا خوف طاری رہا اسی لیئے چھٹی کر کے میں سیدھا گھر گیا اور پھر وہاں
سے اپنے پرانے محلے چال گیا اور شام کو واپس آیا تو گھر والوں نے بتالیا کہ ارصال دو تین
ﺟﯽ
چکر لگا چکا ہے ۔۔۔چونکہ صبع والی بات کے حوالے سے میرے دل میں چور تھا اس لیئے ان
سن کر میری تو گانڈ ہی پھٹ گئی چنانچہ جلدی سے کوئی بہانہ بنا کر گھر سے باہر کی یہ بات ُ
چالگیا کہ اب میں رات کو ہی گھر آؤں گا ۔۔۔ ابھی میں اپنے گھر سے باہر ہی نکال تھا کہ سامنے
سے مجھے ماسی پٹھانی آتی ہوئی دکھائی دی ۔۔۔ مجھے دیکھتے ہی بولی ۔۔۔ ارے بیٹا کہاں
@
رہ گئے تھے تم ۔۔۔؟ میں نے تین چار دفعہ ارصال کو بھیجا لیکن پتہ چال کہ تم گھر پر نہیں ہو
اور اب میں خود آئی تو تم کہیں جا رہے ہو ۔۔ اس کی بات سن کر پتہ نہیں میں کیا سمجھا اور بوال
۔۔ وہ ۔۔وہ ۔۔ ماسی ۔۔ میں ایک کام سے گیا تھا ۔۔۔ تو وہ بولی چلو کوئی بات نہیں ۔۔ پھر میری طرف
دیکھ کر بڑی شفقت سے کہنے لگی ۔تم کافی پریشان سے لگ رہے ہو ۔۔۔ بیٹا خیریت تو ہے نا ؟
ﺷﺎه
۔۔۔پھر کہنے لگی اگر کوئی ایسی بات ہے تو مجھے بتاؤ ؟ اور اب میں اس کو کیا بتاتا کہ صبع
اس کی چھوٹی بیٹی کے بھلیکھے میں ،میں اس کی بڑی بیٹی کے ممے دبا بیٹھا ہوں ۔اور ا س
کی چوت پر بھی ہاتھ لگا بیٹھا ہوں ۔۔ اور اب ڈر کے مارے میری گانڈ پھٹی جا رہی ہے
۔۔لیکن نہ کہہ سکا اور کہا تو بس اتنا کہ نہیں ماسی ایسی کوئی بات نہیں ۔۔۔۔ اور پھر میں نے ان
سے کہا حکم کریں ۔۔ماسی کہ میں نے سنا ہے کہ آپ مجھے یاد کر رہیں تھیں ۔۔۔ ؟؟ تو وہ سر
ﺟﯽ
ہال کر بولی ہاں بیٹا اصل میں بات یہ ہے کہ مرینہ کو ایک بڑے ہی ضروری کام سے ہمارے
رشتے دار کے گھر جانا ہے اور اس کے دا جی (والد صاحب) کے پاس ٹائم نہیں ہے جبکہ میں
نہ تو خود وہاں جانا چاہتی اور نہ ہی کسی بیٹے یا بیٹی کو اس کے ساتھ ان رشتے داروں کے
گھر بھیجنا چاہتی ہوں اور مصیبت یہ ہے کہ اس کے دا جی اس کو اکیال بھی نہیں جانے دے
رہے تو ایسے میں ایک تم ہی مجھے نظر آئے جو کہ جس پر بھروسہ کیا جا سکتا ہے اور
ا
کے طور پر ماسی کے سامنے تھوڑا سا ہیچر میچر کیا لیکن شاید ان کا بھی کام کام ضروری
ﺳﺗﺎ
سن ی اور ۔۔۔ مرتا کیا نہ کرتا ۔۔۔ میں ماسی کے ساتھ اس کے گھر
تھا ۔۔ اس نے میری ایک نہ ُ
کی طرف چل پڑا۔۔۔۔۔۔
ﻧﯽ
ماسی کے گھر پہنچ کر اس نے مجھے ڈرائینگ روم میں بیٹھنے کو کہا اور خود دوسرے
کمرے میں چلی گئی تھوڑی ہی دیر بعد میرے سامنے مرینہ کھڑی تھی ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ
مرینہ اور ارمینہ کا جسم ،قد کاٹھ بلکل ایک جیسا تھا (تبھی تو صبع میں نے دھوکا کھایا تھا )
ﺟﯽ
چہرہ البتہ دونوں کا مختلف تھا جیسے ارمینہ کے گال قدرتی الل تھے اور مرینہ کے گال
گورے تھے ان میں اللگی نہ ہونے کے برابر تھی اسی طرح مرینہ کی آنکھوں میں ایک
شرارت ناچتی تھی اور ارمینہ کی آنکھوں میں گہری اداسی نظر آتی تھی اسی طرح مرینہ کا
چہرہ بیضوی تھا جبکہ ارمینہ کا قدرے لمبوترا تھا ۔ وغیرہ وغیرہ ۔۔۔ مرینہ نے میری طرف ایک
گہری نظر سے دیکھا اور ماسی سے بولی اچھا تو اس لڑکے نے میرے ساتھ جانا ہے ؟ تو
@
ماسی سر ہال کر بولی ۔۔۔ ہاں یہی وہ معشوم (لڑکا) ہے جو تمہارے ساتھ جائے گا اور پھر خود
ہی کہنے لگی ۔۔ بچارہ بڑا ہی نیک اور اچھا لڑکا ہے پھر ماسی مجھ سے مخاطب ہو کر
بولی بچہ جلدی سے جا کر موٹر سائیکل سٹارٹ کرو ۔۔ اور میں ڈرائینگ روم سے نکل کر ان
کے برآمدے میں آ گیا جہاں ان کے دا جی کا موٹر سائیکل کھڑا تھا اور اس پر ایک بڑا سا
ﺷﺎه
کپڑا پڑا ہوا تھا میں نے وہ کپڑا وہاں سے ہٹایا اور بائیک کو کک ماری تو وہ پہلی کک
پر ہی سٹارٹ ہو گیا چنانچہ میں اس پر بیٹھ گیا اور اسے گرم کرنے کی نیت سے ہلکی ہلکی
ریس دینے لگا ۔ کچھ دیر بعد جب مرینہ کمرے سے باہر نکلی تو وہ سر تا پا ایک بڑی سی
چادر سے ڈھکی ہوئی تھی اور اس نے اپنے چہرے پر نقاب بھی کیا ہوا تھا ۔ وہ چپ چاپ
ﺟﯽ
میرے پیچھے بیٹھ گئی اور میرے کندھے پر ہاتھ رکھ کر بولی چلو ۔۔! اور میں نے موٹر سائیکل
چال دی ماسی نے پہلے سے ہی دروازہ کھوال ہوا تھا ۔۔۔ میں موٹر سائیکل بھی چال رہا تھا اور
اس بات پر بھی بڑا حیران ہو رہا تھا کہ میں نے اس کے ممے دبائے اور اس نے ابھی تک
مجھے کچھ بھی نہیں کہا اور نہ اس نے ابھی تک میری کوئی شکایت وغیرہ لگائی تھی ۔۔۔
اس کی خاموشی مجھے بُری طرح ُچبھ رہی تھی ۔۔ اور میں اندیشہ ہائے دور دراز میں کھویا
بائیک چال رہا تھا ۔۔۔ جب ہم لیاقت باغ کے قریب پہنچے تو میں نے پہلی دفعہ مرینہ کی آواز
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
سن کر میں سنی وہ کہہ رہی تھی کہ ذرا بائیک کو لیاقت باغ کے اندر لے چلو !۔۔۔ اس کی آواز ُ
ُ
تھوڑا کنفیوز ہوا اور بوال ۔۔۔ لیکن ماسی جی تو کہ رہی تھیں کہ ہم نے الل کڑتی جانا ہے ؟ تو
سن کر وہ بولی ۔۔ ہاں ہم نے جانا تو الل ُکڑتی ہی ہے ۔۔۔ لیکن فی الحال تم بائیکمیری بات ُ
کو لیاقت باغ لے جاؤ ۔۔شام کا وقت تھا ۔۔ ہلکا ہلکا اندھیرا چھا رہا تھا جب ہم لیاقت باغ
ا
کے اندرنسبتا ً ایک ویران سےگوشے میں واکنگ ٹریک کے ساتھ لگے بینچ پر جا کر بیٹھ گئے
ﺳﺗﺎ
۔۔ اندر سے تو مجھے کچھ کچھ اندازہ تھا ۔۔۔ کہ چکر کیا ہوسکتا ہے ۔۔۔ لیکن پھر بھی بینچ
سن کر تو پر بیٹھتے ہی میں نے اس سے کہا ب ہم یہاں کیوں آئے ہیں باجی ؟؟ ؟ میری بات ُ
وہ جیسے پھٹ پڑی اور بڑے ہی زہر آلود لہجے میں بولی ۔۔
ﻧﯽ
اچھا تو اب یہ بھی مجھے بتانا پڑے گاکہ ہم لوگ یہاں کیوں آئے ہیں ؟ تو میں نے۔۔ جو
سب سمجھ چکا تھا ایکٹنگ کرتے ہوئے بوال ۔۔ سوری ۔۔۔ میں سمجھا نہیں ؟ تو وہ ایک دم
غصے میں آ گئی اور کہنے لگی ۔۔۔ ۔۔۔ ابھی بتاتی ہوں بہن چود !! ۔۔۔ اس کے منہ سے اتنی بڑی
مردانہ گالی سن کر میرا تو پتِہ پانی ہو گیا ۔۔لیکن میں نے ۔ بڑا ہی مسکین سا منہ بنا کر
ﺟﯽ
کہا ۔۔۔ میں نے کیا کیا ہے باجی ؟؟؟؟ ۔۔۔ تو وہ ایک دم غصے سے بولی ۔۔۔ بہن چود کے بچے ۔۔۔
۔۔۔ صبع تم نے میرے ساتھ کیا حرکت کی تھی ؟؟ ۔۔۔۔ اس کی بات سن کر اور اس کا غصہ دیکھ
کر میں نے معافی مانگنے میں ہی عافیت جانی اور بوال ۔۔۔ وہ باجی مجھ سے غلطی ہو گئی تھی
پلیز معاف کر دیں اور ساتھ ہی اپنے دونوں ہاتھ جو ڑ دیئے ۔۔ مجھے یوں معافی مانگتے دیکھ
@
کر شاید اس کو کچھ ترس آ گیا اور وہ بولی ٹھیک ہے میں تم کو معاف کر سکتی ہوں ۔۔۔۔ لیکن
ایک شرط پر ۔۔ تو میں نے جھٹ سے کہہ دیا باجی مجھے آپ کی ہر شرط منظور ہے ۔۔ میری
سن تو لے سالے ۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ یہ جو حرکت بات سن کر وہ قدرے تیزی سے بولی پہلے ُ
صبعتم نے مجھ سے کی تھی ۔۔۔ سچ بتا ۔۔ تم نے مجھے ارمینہ سمجھا تھا نا ؟ اب میں پھنس
ﺷﺎه
گیا تھا ۔۔۔۔ سچ بتاتا ۔۔ تو مرتا ۔۔۔ جھوٹ بولتا تو مرتا ۔۔۔ پھر میں نے سوچا کہ جب مرنا ہے
تو۔۔۔کیوں نہ میں جھوٹ بولوں کہ اس طرح کم از کم ارمینہ کی تو جان بچ سکتی تھی ۔۔
چنانچہ میں نے مرینہ کی طرف دیکھا اور ۔۔۔ اور بوال۔۔۔ نہیں باجی ۔۔۔ وہ میں ۔۔۔ اس سے پہلے
کہ میں فقرہ مکمل کرتا اس نے مجھے تھپڑ مارنے کے لیئے اپنا ہاتھ اُٹھا یا اور بولی ۔۔۔۔
حرامزادے۔۔۔ !!! سچ سچ بتا ۔۔۔۔ ورنہ ابھی ایک دوں گی نا ۔۔۔تو تم کو نانی یاد آ جائے گی۔
ﺟﯽ
سن کر ڈر گیا اور میرے دل میں چونکہ پہلے سے ہی چو رتھا اس لیئے میں اس کی ڈانٹ ُ
آئیں بائیں شائیں کرنے لگا ۔لیکن جب اس نے دوبارہ کڑک لہجے میں کہا تومیں اور بھی ڈر گیا
اور اس سے بوال ۔۔۔ وہ ۔۔باجی ۔۔ وہ باجی ۔۔ اور پھر ایک اور ڈانٹ سن کر میں نے اس کو الف
سے یے تک ساری سٹوری سنا دی لیکن یہاں بھی ارمینہ کو چودنے اور کچن میں ہونے
واال واقعہ گول کر گیا ۔۔۔ جب میں اس کو سٹوری سنا رہا تھا تو اچانک وہ درمیان میں
ا
نیچے بٹھا دیا اور پھر اسی خونخوار لہجے میں بولی ۔۔۔ دیکھو ۔۔۔!!! ارمینہ کے ساتھ تم جو کچھ
ﺳﺗﺎ
بھی کر رہے ہو میرا اس کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے ۔۔۔ تم نے میرے ساتھ ایسی حرکت
کی تھی اس لیئے میں نے تم سے یہ وضاحت مانگی ہے ۔۔۔ پھر وہ اچانک مکا لہرا کر ۔۔۔ بولی
۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ خبردار ۔۔ یہ جو تیرے اور میرے بیچ بات ہوئی ہے اس کی ِبھنک بھی ارمینہ کو نہیں
پڑنی چاہیئے ۔۔۔ اور پھر مزید آنکھیں نکال کر بولی ۔۔۔۔ میری بات سمجھ گئے ہو نا ۔۔۔ تو میں
ﻧﯽ
نے کہا جی میں آپکی بات اچھی طرح سے سمجھ گیا ہوں ۔۔۔۔ تو اس دفعہ وہ تھوڑا نرم لہجے
میں کہنے لگی کہ دیکھو میں تمھارے اور اس کے معاملے میں بلکل نہیں پڑنا چاہتی ۔اور نہ
ہی مجھے اس سے کچھ غرض ہے ۔۔ اور پھر مجھے اُٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ
ﺟﯽ
بات ابھی اور اسی وقت ختم سمجھو ۔۔۔ آج کے بعدہم اس بارے میں کوئی گفتگو نہیں کریں گے
۔ اس کے بعد ہم اللکڑتی چلے گئے ۔۔۔۔ یہ اللکڑتی سے واپسی کی بات ہے کہ مین سڑک پر
اچانک ایک گدھا گاڑی واال میرے سامنے آ گیا اور میں نے بڑی مشکل سے موٹر سائیکل کو
ادھر ادھر کے ایک تنگ سے راستے سے بائیک گزاری ۔۔۔ اس وقت تو مرینہ کچھ نہیں بولی
@
سنو !!۔۔۔لیکن جیسے ہی بائیک تھوڑا آگے بڑھی تو ۔۔ اچانک وہ پیچھے سے کہنے لگی ۔۔ بات ُ
تم وہاں بریک لگا کر ُرک بھی سکتے تھے پھر یہ اتنا رسک لینے کی کیا ضرورت تھی ؟
تو میں نے کہا کہ ۔۔۔ وہ باجی اچانک بریک لگانے سے آپ ناراض بھی ہو سکتی تھی اس لئے
سن کر وہ بولی ۔۔۔ اس میں ناراض ہونے کی بھال کون سی میں نے یہ رسک لیا تھا ۔۔۔ میری بات ُ
ﺷﺎه
بات تھی ؟ میں پیچھے بیٹھی یہ سب کچھ خود بھی تو دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ پھر وہ میری بات کی تہہ
تک پہنچ کر بولی ۔۔۔ بیٹا ہمیں سب پتہ چلتا ہے کہ کب بریک ضرورتا ً لگائی گئی ہے اور کب غیر
ضروری طور پر۔۔۔ اس لئے تم اس بات کی فکر نہ کیا کرو۔۔۔ اور ضرورت کے مطابق کام کیا
کرو ۔۔ خواہ مخواہ رسک لینے کی کوئی ضرورت نہ ہے ۔۔
ﺟﯽ
ہمیں گھر پہنچے پہنچتے رات کے ۔دس گیارہ بج چکے تھے ۔۔چنانچہ جیسے ہی ہم گھر
میں داخل ہوئے تو سامنے ہی ماسی اور ارمینہ کھڑی تھیں ۔۔۔ خیر خیریت کے بعد ماسی نے
سب سے پہلے مرینہ سے میرے بارے میں سوال کیا تو مرینہ کہنے لگی ۔۔۔ بہت اچھا لڑکا
ہے اور بڑی ہی میچور بائیک چالتا ہے ۔۔ یہ کہہ کر وہ جلدی سے واش روم میں ُگھس گئی
اور ماسی کچن میں جاتے ہوئے ارمینہ سے بولی ۔۔۔ ارمینہ بھائی کو باہر چھوڑ کر دروازہ الک
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
کر لو ۔۔۔ جبکہ ارمینہ وہیں کھڑی رہی پھر میرے ساتھ ساتھ چلتے ہوئے ہولے سے بولی ۔۔۔ بات
سنو ۔۔!! مرینہ کے سامنے نہ تو تم نے مجھ سے زیادہ بات کرنی ہے اور نہ ہی کوئی ایسی
ویسی حرکت ۔۔۔ اتنے میں دروازہ آ گیا تو وہ مجھے باہر نکال کر ایک دفعہ پھر مجھ سے
مخاطب ہو کر بولی ۔۔۔ میری بات سمجھ گئے ہو نا ؟؟ تو میں نے اس سے کہا جی میں اچھی
ا
سن کر وہ مطمئن ہو گئی اور اس نے ہاتھ مالنے کی طرح سے سمجھ گیا ہوں ۔۔۔ میری بات ُ
ﺳﺗﺎ
غرض سے اپنا ہاتھ آگے بڑھا یا اور بولی۔۔۔ اوکے اب تم جاؤ ۔۔۔ وہ دروازے کے اندر اور
میں باہر کھڑا تھا اور میرے پیچھے پردہ لگا ہوا تھا سو کسی کے دیکھنے کا ہر گز کوئی
چانس نہ تھا چنانچہ جیسے ہی اس نے اپنا ہاتھ میرے ہاتھ کی طرف بڑھایا میں نے اس کو
اپنی طرف کھینچ کر اپنے سینے سے لگا لیا اور جلدی سے اس کے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیئے
ﻧﯽ
اور ایک زبردست ۔۔۔ اور گیلی سی کس دینے لگا ۔۔اس نے ایک جھٹکےسے خود کو مجھ سے
الگ کیا اور اپنے ہونٹ کہ جن پر میرا تھوڑا سا تھوک لگا رہ گیا تھا صاف کر کے بولی ۔۔ بد
تمیز ۔۔۔ اور دھڑام سے دروازہ بند کے اندر چلی گئی۔۔۔
ﺟﯽ
اگلے ایک دو دن میں روٹین کے مطابق ماسی کے گھر جاتا رہا اور ارصال کو ساتھ لیکر
سکولے جاتا اور التا رہا ۔۔ہاں اصال کو ساتھ لے جاتے وقت اگر مرینہ اُٹھی ہوتی تو ۔مجھ
سے بڑی گرم جوشی سے ملتی ۔۔۔ لیکن وہ اس ٹائم سوئی ہوتی تو واپسی پر مجھ سے ضرور
@
گپ شپ کرتی اس کے بر عکس ارمینہ ہمارے آنے کے ٹائم سے پہلے ہی کہیں ادھر ادھر ہو
جایا کرتی تھی ۔۔۔ پتہ نہیں وہ اس قدر محتاط کیوں تھی ؟؟؟ جبکہ اس کی بڑی بہن بڑی ہی دبنگ
اور کافی کھلی ڈھلی تھی ۔۔دونوں کے مزاج میں زمین آسمان کا فرق تھا ۔ لیکن میرا یہ حال تھا
کہ جب تک میں ارمینہ کو دیکھ نہ ُلوں مجھے سکون نہ ملتا تھا اس لئے میں شام کو بھی گاہے
ﺷﺎه
ان کے گھر چکر لگاتا رہتا تھا ۔۔ جہاں ارمینہ تو نہیں البتہ مرینہ سے گپ شپ ضرورہو جایا
کرتی تھی بلکہ اب تو مرینہ سے بہت اچھی دوستی بھی بن گئی تھی ۔۔ لیکن اس کے باوجود اس
دن کے بعد ۔۔۔ پھر کبھی اس نے بھولے سے بھی میرے اور ارمینہ کے تعلقات کے بارے میں
کوئی بات نہ کی تھی-سالی بات کی بڑی پکی تھی ۔۔
ﺟﯽ
ا
سے پہلے کچن میں پہنچ گیا اور جلدی سے گالس اٹھا کر جو کہ کولر کے پاس ہی پڑا ہوتا تھا
ﺳﺗﺎ
پانی ڈالنے لگا اس لئے جب میں کچن میں پہچا تو وہ کولر سے پانی ڈال رہا تھا سو میں اس
کے پاس کھڑا ہو کر اپنی باری کا انتظار کرنے لگا ۔۔۔۔۔ اسی دوران اچانک ہی میری نظر
ارمینہ پر پڑی ۔۔۔ جو ہم سے بے نیاز کوئنٹر پر جھکی غالبا ً آلو چھیل رہی تھی ۔ چونکہ یہ ہمارا
تقریبا ً روز کا ہی روال ہوتا تھا اس لیئے عام طور پر اس نے کبھی ہمارا نوٹس نہ لیا تھا اور
ﻧﯽ
خاص کر جب سے مرینہ ان کے گھر آئی تھی تو اس کا رویہ مجھ سے کچھ یوں ہو گیا تھا ۔۔کہ
جیسے جانتے نہیں ۔۔۔ اس معاملے میں وہ آخری حد تک محتاط خاتون تھی ۔ ہاں تو میں کہہ رہا
تھا کہ ارصال تو کولر سے پانی ڈال رہا تھا اور میری نظر اتفاق سے ارمینہ سے ہوتی ہوئی اس
ﺟﯽ
کی گانڈ کی طرف چلی گی وہ کچھ اس ادا سے کائنٹر پر جھکی آلو چھیل رہی تھی کہ اس کی
موٹی سے گانڈ خاصی سے زیادہ باہر کو نکلی ہوئی تھی اوپر سے غضب یہ تھا کہ اس کی قمیض
بھی گانڈ والی جگہ سے ہٹی ہوئی تھی ۔۔ جس کی وجہ سے اس کی بُنڈ کے دونوں پٹ بہت ہی
نمایاں نظر آ رہے تھے ۔۔۔ جس کو دیکھ کر میں ۔۔ تو ۔۔۔ پاگل سا ہو گیا ۔اس کی گانڈ کے کریک
@
کو دیکھ کر میرے منہ میں پانی بھر آیا ۔ وہ تو مگن ہو کر اپنا کام کر رہی تھی اور غالبا ً
اسے اس بات کا اندازہ بھی نہ تھا کہ ا س کی گانڈ پیچھے سے کیسا غضب ڈھا رہی ہے ۔۔
ارمینہ کی یہ حالت دیکھ کر بے اختیار میرا ہاتھ اس کی خوبصورت گانڈ کی طرف رینگ گیا ۔۔
لیکن ۔۔۔ اس سے پہلے میں نےکن اکھیوں سےایک نظر ارصال پر ڈالی تو وہ زمین پر
ﺷﺎه
اکڑوں بیٹھا پانی پی رہا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں غیر محسوس طریقے سے کھسکتاہوا کولر کی
اس طرف ہو گیا کہ جہاں پر ارمینہ اپنی بڑی سی گانڈ نکالے آلو چھیل رہی تھی ۔۔۔ اب میں نے
ایک نظر ارصال کی طرف دیکھا تووہ تقریبا ً پانی پی چکا تھا اور اب دوسرا گالس بھرنے کی
تیاری کر رہا تھا ۔۔۔ سو میں اس کی طرف سے تھوڑا مطمئن ہو گیا اور پھر میں نے اپنا بائیاں ہاتھ
آگے کیا ۔۔۔ اور ارصال کی طرف دیکھتے ہوئےبڑی ہی آہستگی سے اپنے ہاتھ کو ارمینہ کی
ﺟﯽ
گانڈ کی طرف لے گیا اور بڑی آہستگی سے اپنے ہاتھ کو وہاں رکھ دیا ۔۔آہ۔ہ۔ہ۔ہ ۔۔ ارمینہ کی
گانڈ بڑی ہی نرم تھی ایسے جیسے روئی کا کوئی گال ہو ۔۔چنانچہ اس کی گانڈ پر ہاتھ لگاتے ہی
۔ میں تو مست ہو گیا اور میرا سارا بدن مستی میں ڈوب گیا ۔اور ارمینہ کی گانڈ پر مساج کرنے
لگا ۔۔گانڈ پر مساج کرتے کرتے ۔ میں نے ارصال کی طرف دیکھتے ہوئے بڑی ہی احتیاط سے
اپنی دو انگلیاں ارمینہ کی گانڈ کے چھید میں دے دیں ۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف جیسے ہی میں نے انگلیاں
ا
ہی نرمی اور مالئمت سے اس کی گانڈ کے چھید کے بیچ مساج کر رہا تھا ۔۔۔اور میرا سارا
ﺳﺗﺎ
وجود ۔۔۔ ۔ ۔ اس کی چھید کی گرمی سے مزید گرم ہو رہا تھا ۔۔اور ساتھ ساتھ میرا ۔ لن بھی
جھٹکے کھا رہا تھا لیکن میری ساری توجہ لن سے زیادہ اس کی نرم گانڈ کی طر ف تھی ۔۔۔
اس وقت تک ارصال پانی پی کر جا چکا تھا اور مجھے پانی پینے کا کوئی ہوش نہ تھا بلکہ میں
تو مست ہو کر مسلسل گانڈ کو سہال رہا تھا ۔۔ اچانک مجھے پتہ نہیں کیا ہوا کہ میں نے جوش
ﻧﯽ
میں آ کر اپنی ایک انگلی اس کے چھید کے عین درمیان اس کی گانڈ کے سوراخ پر رکھی اور
انگلی کو اس سوراخ کے اندر گھسانے کی کوشش کرنے لگا۔ ۔ ۔ ۔ تب اچانک وہ پیچھے کی
طرف مڑی اور ۔۔۔۔۔ میری طرف دیکھ بولی ۔۔۔ آں آں ۔۔۔سوری دوست رانگ نمبر ۔۔ ۔۔۔۔ اوہ ۔۔۔ اوہ
ﺟﯽ
۔۔ میں جس کو ارمینہ سمجھ کے چھیڑخانی رہا تھا ۔۔ وہ ۔ ۔ ۔ وہ ۔۔ وہ ۔ ۔ تو ۔ ارمینہ نہیں بلکہ
مرینہ تھی ۔۔۔ارمینہ کی جگہ مرینہ کو دیکھ کرمجھے بڑا سخت شاک لگا اور میرا تو رنگ ہی اُڑ
گیا اور اس سے پہلے کہ میں کوئی بات اپنی صفائی میں کہتا وہ مجھ سے بنا کوئی بات کئے
کچن سے باہر نکل گئی ۔ ۔ ۔ ۔ اور میں ہکا بکا ہو کر اسے جاتا دیکھتا رہا ۔۔۔ اور پھر جیسے
@
ہی و ہ باہر نکلی کچھ ہی دیر بعد میں بھی وہاں سے تقریبا ً بھاگتا ہو ا وہاں سے نکل گیا اور گھر
آ کر دم لیا ۔۔۔۔
گھر آ کر میں اپنے کمرے میں لیٹ گیا اور اس واقعہ کے بارے میں سوچنے لگا ۔۔۔۔ جیسے
جیسے میں اس واقعہ پر غور کرتا گیا مجھ پر ایک عجیب سا ۔۔ ۔ ۔ انکشاف ۔۔۔۔۔۔ ہوتا گیا ۔اور
ﺷﺎه
اچانک میرے دماغ میں ایک بات ایسی بات آئی کہ میں ۔۔۔ جو لیٹا ہوا تھا ایک دم اُٹھ کر بیٹھ گیا
اور ۔۔۔ اسی بات پر غور کرتا گیا ۔۔۔ وہ بات جو میرے دماغ میں آئی تھی وہ یہ تھی کہ ارمینہ کی
جگہ وہاں مرینہ وہاں کیوں تھی؟ کیونکہ میں نے اس کو کچن میں کم کم ہی دیکھا تھا اور خاص
طور پر جب ہم سکول سے واپس آتے تھے تو اس وقت تو ارمینہ ہی ہانڈی روٹی کرتی تھی ۔۔۔
آج مرینہ کیوں ؟ دوسری بات یہ کہ میں نے اس کی گانڈ پر کافی دیر تک مساج کیا تھا ۔۔۔ وہ اس
ﺟﯽ
وقت کیوں نہیں بولی تھی ؟ وہ چاہتی تو جب میں نے پہلے دفعہ اس کی گانڈ پر ہاتھ رکھا تو ۔۔۔۔۔
تو۔۔ اس کو اسی وقت مجھے منع کر سکتی تھی ۔۔لیکن اس نے مجھے منع نہیں کیا ۔۔۔ کیوں نہیں
کیا ؟ اور کیوں اس نے میری انگلیوں کو اپنی موسٹ پرائیوٹ جگہ (گانڈ کا سوراخ ) تک رسائی
دی ؟ اور جب میں نے انگلی اس کے سوراخ میں دینا چاہی تو اس وقت ہی ۔۔ وہ کیوں بولی ؟
اس سے پہلے کیوں نہ بولی ۔؟؟؟؟؟؟۔۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ ۔ ۔ ۔ ۔ اس نے کہا بھی تو
ا
ﺳﺗﺎ
تقریبا ً 05یا ساڑھے دس کا وقت کا تھا جب ارصال ہمارے گھر آیا تواس وقت میں دینا
کا سب سے بور کام یعنی کہ ہوم ورک کر رہا تھا اس نے آتے ساتھ ہی مجھے کہا کہ بھائی تم
کو ابھی اور اسی ہمارے گھر میں بالیا جا رہا ہے اس پر میں نے اس سے پوچھا کہ خیریت تو
ﻧﯽ
سن ہے نا ؟ تو وہ کہنے لگا بھائ جان خیریت نہیں ہے تو آپ کو بالنے آیا ہوں نا ۔۔۔ اس کی بات ُ
کر میں نے ہوم ورک چھوڑا اور امی کو بتا کر اس کے ساتھ چال گیا ۔۔جب میں اس کے گھر پہنچا
تو برآمدے میں مرینہ اور ماسی بے چینی سے ٹہل رہیں تھیں۔ میرے جاتے ہی ماسی تیزی سے
ﺟﯽ
بولی بچہ جلدی سے بائیک اسٹارٹ کرو تمھارے ساتھ مرینہ نے ایک بڑے ضروری کام سے جانا
ہے میں نے سوالیہ نظروں سے مرینہ کی طرف دیکھا تو وہ بھی جلدی سے بولی تم بائیک
سن کر میں ُچپ چاپ بائیک کر طرف سٹارٹ کرو میں تم کو راستے میں بتاؤں گی اس کی بات ُ
گیا اور اور اسے سٹارٹ کر کے مرینہ کے پاس لے گیا اس نے جلدی سے جمپ ماری اور میرے
پیچھے بیٹھ کر بولی ۔۔۔ ذرا جلدی چلو ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ جانا کہا ں ہے تو وہ کہنے لگی سی ایم
@
ایچ جانا ہے اور پھر مجھ سےبولی ۔۔۔ تم نے سی ایم ایچ ہسپتال دیکھا ہے نا ؟ تو میں نے اثبات
میں سر ہال کر کہا کہ جی دیکھ ہے اور ۔۔۔پھر ہمارا بائیک CMHکی طرف چل پڑا ۔۔راستے میں
میرے پوچھے پر مرینہ نے بتالیا کہ اس کے ایک سسرالی رشتے داروں میں سے ایک بابا
جی وہاں پر داخل ہیں اور ان بابا جی کی حالت خراب ہونے کی وجہ سے ڈاکٹروں نے کل
ﺷﺎه
ایمر جنسی میں ان کا آپریشن تجویز کیا ہے اور آپریشن کرنے کے لیئے جو پیسے ڈیمانڈ کئے
گئے ہیں اس وقت اُتنی رقم ان کے پاس موجود نہ ہے اور رقم انہوں نے کل صبع ہر صورت
میں جمع کرانی ہے اور وقت ہم لوگ وہ رقم ان لوگوں کو دینے جا رہےہیں ۔۔۔ اور چونکہ
مرینہ کے ابا نامعلوم وجوہات کی وجہ سے وہاں جانا نہ چاہتے تھے اس لئے ۔ اس لیئے میری
ﺟﯽ
خدمات حاصل کی گئیں ہیں ۔باتیں کرتے کرتے ۔جب میں ہم لوگ لیاقت باغ پہنچے تو اچانک
سڑک کراس کرتے ہوئے ایک بندہ عین بائیک کے سامنے آ گیا جس کی وجہ سے مجھےایمر
جنسی میں بریک لگانا پڑ گئی ۔۔۔۔۔ اور جیسے ہی میں نے بریک لگائی ۔۔۔۔ مرینہ ۔۔۔۔ پھسل کر
میرے ساتھ لگ گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ ہر چند کہ اس نے ایک بڑی سی چادر لی ہوئی تھی لیکن اس کے
باوجود بھی ۔۔۔ میں نے اپنے دائیں کندھے پر اس کے نرم ممے کا لمس محسوس کیا ۔ ۔۔ اس کے
نرم ممے کا لمس محسوس کرتے ہی مجھے دوپہر واال واقعہ یاد آ گیا اور ۔۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
اس کی گانڈ کی نرمی ۔۔۔ بھی یاد آ گئی ۔۔۔۔ اور گانڈ کا یاد آنا تھا کہ میرا لن کھڑا ہو گیا اور میرے
سارے وجود میں یک ُمشت شہوت سی بھرنے لگی ۔۔۔ تب مجھے اپنا دوپہر واال فیصلہ یاد آگیا
اور اس کے ساتھ ہی میں نے اس سیکسی لیڈی پر ٹرائی مارنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔
ا
ﺳﺗﺎ
بریک کی وجہ سے مرینہ نے بس تھوڑی ہی دیر تک اپنے ایک ممے کو میرے دائیں
کندھےکے ساتھ لگایا تھا ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد وہ نارمل ہو کر دوبارہ اپنی سابقہ پوزیشن
پر واپس چلی گئی تھی ۔۔۔ لیکن اب میں کسی موقعہ کی تاڑ میں تھا کہ کب میں اس کے ممے
کو دوبارہ اپنے ساتھ مس کروں ۔۔۔ اور پھر جلد ہی وہ موقعہ بھی آ گیا ۔۔۔ جیسے ہی ہماری بائیک
ﻧﯽ
موتی محل کے اشارے کے قریب پہنچی تو اچانک اشارہ بند ہو گیا جسے دیکھ کر میرے دل
کی مراد بر آئی ۔۔۔۔۔ چانچہ اشارہ کو بند دیکھ کر میں نے ایک ذور دار بریک لگائی اور ۔۔۔۔۔۔۔
اس کے ساتھ ہی مرینہ ایک دفعہ پھر موٹر سائیکل پر پھسلتی ہوئی میرے ساتھ آ کر لگ گئی
ﺟﯽ
۔۔۔۔ اور اس دفعہ پھر میرے سارے وجود نے اس کے بڑے اور نرم ممے کا لمس اپنے کاندھے
سرور کی ایک تیز لہر میرے سارے جسم پر محسوس کیا ۔۔۔واؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔۔ اور۔۔ایک دفعہ پھر ُ
میں دوڑ گئی اور ۔ میں مزے کے ساتویں آسمان پر پہنچ گیا ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نےبڑے
محتاط انداز میں موٹر سائیکل کے بیک مرمر سے اس ۔۔۔۔ کے تاثرات کو نوٹ کیا ۔۔۔ لیکن اس
کا چہرہ بلکل نارمل تھا ۔پھر میں نےچوری چوری موٹر سائیکل کا بیک شیشہ اس طرح سیٹ
@
کیا کہ مجھے اس چہرہ نظر آتا رہے ۔۔۔ یہ اس لئے کہ میں اس کے تاثرات کو بھی نوٹ کرنا چاہتا
تھا ۔۔ اس لیئے میں مطمئن ہو گیا اور اشارہ کھلنے پر دوبارہ چل پڑا ۔۔۔اشارے سے تھوڑی ہی
دور جا کر میں نے ایک دفعہ پھر بریک لگائی اور وہ پھر سے میرے ساتھ ُجڑ گئی اور میں اس
کے نرم مموں کا لُطف لینے لگا ۔۔۔۔ اس کام میں مجھے اتنا مزہ آیا کہ اس کے بعد میں نے تھوڑے
ﺷﺎه
تھوڑے وقفے سے تین چار دفعہ اور بریک لگادی جب آخری دفعہ بریک لگی تو پیچھے سے
اچانک مرینہ پھٹ پڑی اور وہ بڑے کرخت لہجے میں بولی ۔۔سالے ۔ اگر اب تم نے بریک لگائی
نا ۔۔۔۔تو میں پیچھے سے تمہیں ایک ایسا جھانپڑ دوں گی کہ تم کو نانی یاد آ جائے گی ۔۔۔ پھر
زہر خند لہجے میں بولی ۔۔۔ تم مجھے جانتے نہیں۔۔۔۔۔ ایک منٹ میں تمھاری یہ ساری شوخیاں
ﺟﯽ
سن کر میں نکال دوں گی ۔۔۔ اس نے یہ دھمکی اتنے کھردرے لہجے میں دی تھی کہ جسے ُ
سہم گیا اور میرے ٹٹے ہوائی ہو گئے اور میں خود کو سنے لگا کہ۔۔۔۔ اتنی بھی کیا جلدی تھی
۔۔۔۔ بہن چود تھوڑی ٹھنڈی کر کے نہیں کھا سکتا تھا ۔؟؟ ۔۔ اور پھر میں دل ہی دل میں خود کو
گالیاں دیتا بظاہر چپ چاپ ۔۔ بائیک چالنے لگا ۔۔۔۔ میں اپنے آپ کو مسلسل کوسنے دیتا ہوا چل
رہا تھا میرا خیال ہے اس نے یہ بات محسوس کر لی تھی کہ وہ مجھے کچھ ذیادہ ہی ڈانٹ گئی
تھی اس لئے اس نے مجھ سے بڑے نرم لہجے میں پوچھا ۔۔ کیا بات ہے تم ناراض ہو گئے ہو ؟
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
تو میں نے جواب دیا نہیں باجی ۔۔۔ پھر دوسری ہی سانس میں بوال سوری باجی ۔۔۔ تو وہ کہنے
لگی سوری کی بات نہیں ۔۔۔ تم کو پتہ ہے کہ تم کو یہ ڈانٹ کیوں پڑی ہے ؟ تو میں نے شرم
کے مارے اسے کوئی جواب نہ دیا کچھ دیر تک وہ میرے جواب کا انتظار کرتی رہی ۔ ۔ ۔ ۔۔
پھر ہولے سے بولی ۔۔۔ میں نے تم کو اس لیئے ڈانٹا تھا کہ تمھارے بار بار بریک لگانے کی وجہ
ا
سے ایک کار والے نے مسلسل ہمارا پیچھا کرنا شروع کر دیا تھا تو میں نے کہا لیکن باجی
ﺳﺗﺎ
میں نے تو نہیں دیکھا تو وہ بولی ۔۔۔ یہی تو بات ہےایسی حرکات فرماتے ہوئے اگر تم ادھر
ادھر بھی دیکھنے کی زحمت گوارہ کر لیتے .....تو مجھے تمہیں ڈانٹنے کی نوبت ہر گز نہ آتی
۔۔۔ تو میں نے شرمندہ سا ہو کر کہا آئی ایم سوری باجی ۔۔۔اور پھر میں بڑی شرافت سے بائیک
چالنے لگا ۔۔کچھ دور جا کر ۔۔۔ جب بائیک ..مال روڈ سے ہوتا ہوا ایک ویران سی جگہ پر
ﻧﯽ
پہنچا تو مرینہ ۔خود ہی تھوڑا آگے ہو کر بولی ۔۔ کیا بات ہے تم کچھ اَپ سیٹ سے لگتے ہو ؟؟
۔۔۔۔ اور پھر ۔۔ کھسک کر وہ میرے ساتھ لگ گئی اور اپنا جسم میری بیک کے ساتھ چپکا کر
بولی ۔۔۔۔۔ اب خوش ہو !!!۔۔۔ مرینہ کے یوں میرے ساتھ لگنے سے میری تو گویا الٹری ہی نکل
ﺟﯽ
آئی تھی ۔۔۔ چنانچہ میں نے شیشے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔۔۔ باجی ....تھوڑا
اور ساتھ لگو نا ۔۔۔ میری بات سن کر اس نے میرے سینے پر ہاتھ رکھا اوربلکل میرے ساتھ
چپک گئی ۔۔۔۔ اور میں اس کے نرم جسم کا مزہ لینے لگا ۔۔۔ پھر مجھے دوپہر واال واقعہ یاد
آ گیا اور میں نے مرینہ سے کہا ۔۔باجی ۔۔۔ آپ کو بُرا تو نہیں لگا تھا تو وہ کچھ نہ سمجھتے
@
ہوئے بولی ۔۔ کیا برا نہیں لگا؟ تو میں نے مختصرا ً دوپہر واال واقعہ دھرا دیا سن کر ۔
بولی ۔۔ ارے نہیں وہ تو میں بس ویسے ہی تم سے شرارت کر رہی تھی ۔۔۔ پھر وہ بڑے معنی
سن کر میں خیز لہجے میں بولی ۔۔۔ ویسے تمھاری انگلیاں بڑی مہارت سے چلتی ہیں ۔جسے ُ
خوش بھی ہوا ۔۔ اور تھوڑا سا ۔۔ ۔ ۔ شرمندہ بھی ہو گیا ۔۔۔ پھر میں نے بیک شیشے سے اس
ﺷﺎه
کی طرف دیکھا تو وہ مجھے ہی دیکھ رہی تھی ۔۔۔۔ مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ
کر کہنے لگی ۔۔۔۔ ۔۔آج کل تمھاری ارمینہ سے دوستی کیسی جا رہی ہے ؟ تو میں نے بڑی
افسردگی سے جواب دیا ۔۔کیا بتاؤں باجی ۔۔ جب سے آپ آئی ہو وہ ۔۔۔ وہ تو بلکل بھی نہیں
سن کر وہ کہنے لگی ہاں مجھے خوب اندازہ ہے ۔۔۔ وہ بچپن سے لفٹ کرا رہی ہے ۔۔ ۔ ۔ ۔ ُ
ہی بڑی ۔۔۔ محتاط لڑکی ہے ۔۔۔پھر اپنا ایک بریسٹ میرے کندھے سے رگڑتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔
ﺟﯽ
پریشان نہ ہو ۔۔۔ جب میں یہاں سے چلی جاؤں گی تو وہ تم کو خوب عیش کرائے گی ۔۔۔ اس
کو یوں میرے ساتھ بریسٹ رگڑنے سے مجھے پھر سے ہوشیاری آ گئی اور میں نے کچھ دیر بعد
اس کا ہاتھ جو میرے سینے پر ٹکا تھا ۔۔ کو پکڑ کر اپنی گود میں رکھ دیا ۔۔ فورا ً ہی اس نے
اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا لیا ۔لیکن بولی کچھ نہیں ۔۔ کچھ دیر بعد میں نے پھر وہی حرکت کی۔۔ اور
جیسے ہی اس کا ہاتھ پکڑ ا اس نے دوبارہ تھوڑا سختی سے اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا لیا ۔۔۔۔
ا
ﺳﺗﺎ
سن کر اس نے ہاتھ تو رکھ دیا لیکن ظالم نے اپنا ہاتھ ایسے اینگل سے میری التجا ُ
میری گود میں رکھا کہ جہاں پر صرف ہلکا سا میرا ٹوپا اس کے ساتھ َمس ہو رہا تھا ۔۔
جس کی وجہ سے میں بے چین سا ہو گیا کیونکہ ۔مجھے اس بات کی شدید حاجت ہو رہی تھی کہ
اب وہ میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑے ۔ادھر میری حاجت شدید سے شدید تر ہو جا رہی تھی
ﻧﯽ
۔۔۔۔ اور وہ ۔۔ انجان بنی بیٹھی تھی۔پھر جب بات میرے بس سے باہر ہو گئی تو میں نے اس کا
ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ دیا اور اس سے بوال ۔۔۔ اس کو پکڑیں نا پلیز!!!!!!!۔۔ میری
سن کر اس نے ایک لمحے کے لئے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔اور ۔ پھر
ﺟﯽ درخوست ُ
۔دوسرے ہی لمحے ۔۔ اپنے ہاتھ کو وہاں سے ہٹا لیا ۔۔۔ اور اب بات میری برداشت سے باہر ہو
گئی تھی کیونکہ میرے لن کو اس بات کی شدید طلب ہو رہی تھی کہ وہ اس کو پکڑ کر دبائے ۔۔۔
چنانچہ میں نے اس کے ہاتھ کو دوبارہ پکڑا اور زبردستی اپنے لن پر رکھ کر بوال ۔۔۔ اسے
تھوڑا سا دبا دیں ۔پلیززززز۔۔۔ تو وہ تھوڑا شرارت سے بولی میں کیوں دباؤں ؟؟؟؟؟ ۔۔۔ تو
میں نے دوبارہ کہا ۔۔۔مجھے نہیں معلوم ۔۔۔۔آپ بس سے ہاتھ میں پکڑ کر دبا دیں
@
۔۔۔۔۔پلیز۔زززززززز ۔ اور اپنی بات پر ذور دیتے ہوئے بوال ۔۔۔۔۔۔اس کو تھوڑا سا دبا دیں نا ۔۔۔
سن کر بولی ۔۔۔ ایک تو تمھاری فرمائشیں ہی نہیں پوری ہوتیں اور اس کے ساتھ ہی میری فریاد ُ
مرینہ نے اپنی ُمٹھی میں میرا لن پکڑ لیا۔۔۔۔ ۔۔۔۔ جیسے ہی اس کا ہاتھ میرے لن پر پڑا ۔۔۔ وہ ایک
دم چونک سی گئی ۔۔۔۔ اور پھر اس نے ۔۔اپنی انگلیوں کی مدد سے میرےلن کا ناپ تول کیا ۔۔۔۔ اور
ﺷﺎه
وہ نہ رہ سکی ۔۔۔۔۔ بڑے ہی ستائشی لہجے میں بولی ۔۔۔۔ کمال ہے ۔۔چھوٹے ۔ تمھارا شیر تو
۔۔۔بہت بڑا ہے ۔۔ کسی بڑے آدمی سے بھی بڑا ہے ......اور اس سے قبل کہ میں اس کو کوئی
جواب دیتا اس نے میری گود میں رکھا ہوا اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹایا اور بولی وہ سامنے
فروٹ والی ریڑھی کے پاس با ئیک روک لو اور میں نے وہاں بائیک روکی تو اس نے
ﺟﯽ
کچھ پھل وغیرہ مریض کی تیمار داری کے لیئے ۔۔۔ اور ہم ہسپتال کی جانب روانہ ہو گئے جو اب
تھوڑے ہی فاصلے پر رہ گیا تھا ۔۔ راستے میں ،میں نے مرینہ سے پوچھا کہ باجی یہ ہسپتال
سن کر میں تو میں آپ کا کون داخل ہے تو وہ کہنے لگی ۔ ۔ ۔۔۔ میرا تایا سسر ۔۔۔ اس کی بات ُ
حیران ہی رہ گیا اور اس سے بوال کہ ۔۔ اتنا قریبی رشتہ ......بھی پھر بھی آپ کے والدین میں نے
سن کر وہ ایک دم اداس سی ہو گئی کوئی بھی مریض کی عیادت کے لیئے نہیں آیا تو میری بات ُ
اور کھو ئے ہوئے لہجے میں بولی ۔۔۔ وہ آئیں گے بھی نہیں۔۔۔۔۔ تو میں نے ان سے پوچھ لیا اس
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
کی کیا وجہ ہے تو وہ بولی ۔۔۔ہے ایک وجہ ۔۔جو میں تمہیں ۔ پھر کبھی بتاؤں گی ۔۔۔پھر وہ
موضوع تبدیل کرنے کی خاطر مجھ سے کہنے لگی کہ ۔۔۔ تم کو معلوم ہے کہ میں تم اچھی بائیک
چال سکتی ہوں ؟ تومیں نے حیران ہو کر اس سے پوچھا ۔۔ کیا سچ باجی آپ بھی موٹر سائیکل چال
لیتی ہو تو وہ چمک کر بولی ہاں۔۔ ماڑا ....موٹر سائیکل چالنا کون سا مشکل کام ہے ۔۔۔ پھر میں
ا
نے ا س سے پوچھا کہ ....باجی آپ نے بائیک چالنا کہاں سے سیکھا ...؟؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگی
ﺳﺗﺎ
..جب ہم حیدر آباد رہتے تھے تب سے میں نے اسے چالنا سیکھا اور پھر کہنے لگی مانو
گے بائیک چالنے کے ایک ہفتے کے بعد ہی میں اس میں کافی ماہر ہو چکی تھی ...تو میں
نے حیران ہو کر پوچھا ۔۔ بس ایک ہفتے بعد۔۔؟؟؟؟؟ پر وہ کیسے؟؟ تو وہ کہنے لگی وہ ا یسے
میری جان کہ اس ایک ہفتے میں نے دن رات بس بائیک ہی چالئی تھی ۔۔۔ اتنے میں
ﻧﯽ
CMHکا گیٹ آ گیا جسے دیکھ کر وہ ایک دم پیچھے ہو کر نارمل انداز میں بیٹھ گئی اور میں
نے پارکنگ میں بائیک روکی تو وہ مجھ سے کہنے لگی تم یہاں ُرکو میں بس ابھی آئی ۔۔۔ اور
پھر وہ اس نے مجھ سے فروٹ کا شاپر لیا اور تیز تیز قدموں سے چلتی ہوئی ہسپتال کے اندر
ﺟﯽ داخل ہو گئی...............
وہاں کھڑے کھڑے مجھے کافی دیر ہو گئی تھی جب ایک چھوٹا سا لڑکا ہاتھ میں جوس
کا ڈبہ لیئے میرے پاس آیا اور آکر پوچھنے لگا کہ آپ کا نام شاہ ہے ؟ تو میں نے کہا جی
سن کر اس نے جوس کا ڈبہ میرے ہاتھ میں پکڑایا اور بوال ...یہ
میں ہی شاہ ہوں ۔۔۔ میری بات ُ
@
مرینہ آنٹی نے بھیجا ہے اور وہ کہہ رہی ہیں کہ آپ اندر آجاؤ کیونکہ ان کو تھوڑی اور دیر ہو
سکتی ہے ۔لیکن میں نے جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ ان سے کہیں کہ میں یہاں ہی ٹھیک
ہوں ۔۔ میری اس بات پر ا س نے واجبی سا اصرار کیا اور پھر۔۔ وہ یہ کہتا ہوا چال گیا کہ
جیسے آپ کی مرضی ۔۔۔۔اس کے جانے کے بعد میں نے جوس کے کے ڈبے کے ساتھ چپکا
ﺷﺎه
سٹرا الگ کیا اور پھر مزے سے جوس پینے لگا ۔۔۔ کوئی ایک گھنٹہ کے بعد مجھے مرینہ
پارکنک کی طرف آتی دکھائی دی جسے دیکھ کر میری جان میں جان آئی اور اس سے پہلے کہ
میں کچھ کہتا اس نے خود ہی اپنے دیر سے آنے کی معذرت کرتے ہوئے بتالیا کہ اس وہ تو جلد
آنا چاہ رہی تھی لیکن اس کے تائی ساس اور اس کی فیملی اس کو نہیں آنے دے رہی تھی -
پھر وہ مجھ میرے پیچھے بیٹھ گئی اور ہم گھر کی طرف چل پڑے ۔۔ ۔ اس وقت آدھی رات کا
ﺟﯽ
وقت تھا اور آس پاس کی سڑکیں کافی سنسان تھیں چنانچہ تھوڑا دور جا کر میں نے مرینہ سے
کہا باجی آپ بائیک چالؤ گی ؟ تووہ ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ ہاں ضرور ۔۔ اور میں نے
ایک نسبتا ً اندھیری جگہ پر پہنچ کر اپنی بائیک روک لی اور اسکے ساتھ ہی وہ بائیک
نیچے اتری اورآگے آکر بیٹھ گئی ۔جبکہ میں اس کے پیچھے بیٹھ گیا ۔اور اس نے موٹر سائکل
چالنا شروع کر دیا ۔۔ ۔ اس کے چالنے کا ا نداز بتا رہا تھا کہ وہ ۔۔۔ واقعہ ہی اچھا خاصا
ا
اور موٹی گانڈ کا لمس پاتے ہی میرا سارا جسم گرم ہو گیا اور لن سر اُٹھانے لگا ۔۔۔۔۔۔ اور
ﺳﺗﺎ
میرے ہاتھ جو کہ بائیک کی پشت پر تھے آگے آ گئے اور میں نے اس کے پیٹ کے اوپر ہاتھ رکھ
لیا اور ۔۔۔۔ سفر جاری ہو گیا ۔۔۔
ﻧﯽ
کچھ دیر چلنے کے بعد وہ شیشے میں سے دیکھتے ہوئے مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔میں کیسا
بائیک چال رہی ہوں ؟؟ ۔۔۔ مجھے اس کی بائیک چالنے کی ہوش ہی کہاں تھی میں تو اس کی نرم
گانڈ کی نرمی میں مست تھا ۔۔۔ لیکن اس کے سوال کا جواب بھی دینا ضروری تھا اس لیئے میں
ﺟﯽ
نے اس کا کو ذور سے پکڑ کر دباتے ہوئے کہا۔۔۔۔باجی آپ بڑا ۔۔ ذبر دست بائیک چال رہی ہیں
تو وہ بولی مسکہ نہیں لگاؤ سچ سچ بتاؤ نا ۔۔۔۔ تو میں نے کہا رئیلی میں سچ ہی کہہ رہا ہوں
میری بات سن کر اس نے ایک ادا سے سر جھٹکا اور موٹر سائیکل کی ریس بڑھا دی ۔۔۔۔
@
سا ڈوال اور پھر اس کے منہ سے ایک لذت آمیز سسکی نکلی ۔۔۔ سس س۔س۔س۔س ۔۔اور وہ
شیشے میں میری طرف دیکھ کر دبے دبے لفظوں میں بولی ۔۔۔ کیا کر رہے ہو؟ تو میں نے جواب
دیا میں آپ کو پیار کر رہا ہوں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی دوبارہ اپنے ہونٹ اس کی گردن پر رکھ
دیئے اور تین چار دفعہ لگا تار اس کی گردن کو چوم لیا ۔۔۔ اب کی بار پہلے کی نسبت بائیک ذرا
کم ڈوال ۔۔۔ کہ شاید وہ اس کے لئےپہلے سے تیار تھی اور اسکے ساتھ ہی اس کے منہ سے لذت
ﺟﯽ
بھری سسکیاں نکلنا شروع ہو گئیں ۔۔۔ آہ ۔ہ ۔۔ سس ۔س۔۔س۔س اور وہ پھر ایک گہری سانس لیکر
کر بولی ۔۔۔ مت کرو پلیز ۔۔۔لیکن میں اس کی پلیز ۔۔ کے سننے کے موڈ میں ہر گز نہ تھا چنانچہ
اس دفعہ میں نے اس کی چادر تھوڑی سی پیچھے کی اور اس دایاں کاندھا ننگا کر کے اس
پر ایک شاندار کس کردی ۔۔۔ میرے ہونٹوں کا لمس پاتے ہی وہ پھر سے بے چین ہو گئی اور ۔۔۔
سسکیاں بھرنے لگی ۔۔۔۔ اسی دوران میرا لن بھی شہوت میں آ چکا تھا اور وہ ۔۔بری طرح سے
ا
ایک آئیڈیا آ گیا تھا ۔۔ اور میں نے مرینہ سے کہا کہاگر آپ اپنی سیٹ سے تھوڑا اوپر اٹھو گی
ﺳﺗﺎ
تو اس کا بندوبست ہو سکتا ہے ۔۔۔ وہ میری بات کا مطلب سمجھ گئی اور پھر وہ موٹر سائیکل
پر تقریباًکھڑی ہوگئیں اور بولی یہ لو ۔۔۔۔۔سو میں نے جلدی سے اسکی اور اپنی قمیض کو تھوڑا
سا سائیڈ پر کیا اور لن سیٹ پر رکھ کر ۔۔۔اس کو نیچے بیٹھنے کا اشارہ کیا ۔ ۔ ۔میرا اشارہ پا
کر ۔ وہ دھیرے دھیرے نیچے بیٹھنے لگی اور میں اس کے بیٹھنے کے انداز کو دیکھ کر دیکھتے
ﻧﯽ
ہوئےاپنا لن ان کی گانڈ کے کریک کے بیچ میں سیٹ کرنے لگا ۔۔۔فائنلی وہ بائیک کی سیٹ پر
بیٹھ گئی اور میرا ۔۔۔لن عین اسکی کی گانڈ کے کریک میں دھنس گیا ۔۔۔ یعنی کہ اس کی دونوں
پھاڑیوں کے بیچ میں آ گیا ۔۔۔ ۔چونکہ میرا لن کافی موٹا اور لمبا تھا اور اس حساب سے اس کی
ﺟﯽ
گانڈ کا کریک کافی تنگ تھا اس لئے لن صاحب اس کے کریک میں پھنسا ہوا تھا اور دوسری
بات یہ کہ لمبا ہونے کی وجہ سے لن کا اگال سرا۔۔۔۔ مرینہ کی گرم چوت کے نازک لبوں کو بھی
ٹچ کر رہا تھا ۔۔ میرے تو مزے ہو گئے تھے کہ ۔ لن کے آس پاس اس کی گانڈ کا نرم
کیا گوشت۔۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ف۔ اور ٹوپے کو چھوتے ہوئے ان کی پھدی کے نرم ہونٹ ۔۔۔۔
@
سرور مل رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔ اُفف ف ف فف ۔۔۔بتاؤں یارو۔۔۔مجھے اور میرے لن کو ۔۔۔ مجھے کتنا ُ
۔۔۔اس کے ساتھ ہی میں نے مرینہ کو پیچھے سے پکڑ کر اپنے دونوں ہاتھ ان کے مموں پر رکھ
دیئے ۔۔۔۔ اور ان کو دبانے لگا ۔۔۔۔
ﺷﺎه
اور مرینہ باجی ۔۔۔۔آہستہ آہستہ ۔۔ اب اس کے جزبات بھی بھڑکنے لگے تھے ۔۔۔ اور اب وہ
مستی میں آ کر اپنی گانڈ کو میرے لن کے گرد اپن کلوز کرتی جا رہی تھی ۔۔۔ جس سے میرا
لن ایک انوکھے مزے سے لطرف اندوز ہو رہا تھا۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنی گانڈ کا دباؤ
میرے لن پر بڑھاتی تھی اور کبھی اپنی گانڈ کو لن پر رگڑتی تھی ۔۔۔ گویا آگ دونوں طرف برابر
ﺟﯽ
کی لگی ہوئی تھی ۔۔۔۔خود میرے بدن میں بھی شہوت کا غلبہ دم بدم کچھ ذیادہ ہی ہوتا جا رہا
تھا ۔۔۔ پھر میں اپنے دونوں ہاتھ ان کی قمیض کے اندر لے گیا اور برا کو ہٹا کر ان کے ممے
ننگے کر دیئے اور پھر ان کے ننگے مموں کو دبانے لگا ۔۔۔ انہوں نے ایک تیز سسکی لی ۔۔۔ اور
بیک شیشے میں میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔اُف ۔ ۔ف۔ف۔ف ۔۔۔۔۔ تو میں کہا کیا ہوا باجی ۔۔۔۔ تو وہ
میری طرف دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔۔ کتنے ظالم ہو تم ۔۔۔ تو میں نے بھی ان کی طرف دیکھتے
ہوئے کہا وہ کیسے باجی ؟ تو وہ کہنے لگی کتنی بےدردی سے میرے بریسٹ دبا رہے ہو ۔۔۔ تو
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
میں نے کہا میرے دبانے سے آپ کو درد ہو ہو رہا ہے یا مزے آ رہا ہے ؟ تو وہ شہوت سے بھر
پُور لہجے میں بولی ۔۔۔۔۔ مزہ آ رہا ہے میری جان !!!۔۔ آدھی رات کا وقت تھا سڑک سنسان
تھی ۔۔۔ اور ہم دونوں ۔۔۔ جنسی کھیل میں مشغول تھے ۔۔۔۔ اور اس نے بائیک کی رفتار بھی
بہت کم کر دی تھی ۔۔۔۔ ۔ہم دونوں مسلسل موٹر سائیکل کے بیک شیشے سے ایک دوسرے کو
ا
سرورکے جنسی ڈورے تیرتے صاف نظر آ دیکھ رہے تھے ۔۔۔۔ مجھے مرینہ کی آنکھوں میں ُ
ﺳﺗﺎ
رہے تھے ۔۔۔۔ اس وقت وہ اپنی مستی کے عرج پر تھی ۔۔۔۔ ایسے میں وہ میری طرھ دیکھتے
ہوئے ۔مخمور اور نشلی آواز میں بولی ۔۔۔۔ہے !!!!!!۔۔۔ میرے یہ کیسے ہیں ؟ تو میں نے کہا
مست ہیں میری جان ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ میرے نپلوں کو اپنی انگلیوں میں لیکر مسلو نا ۔۔۔اس
سن کر میں نے اس کے مموں سے ہاتھ ہٹایا اور اس کے موٹے موٹے نپل جو اس کی بات ُ
ﻧﯽ
وقت اس کے مموں پر اکڑے کھڑے تھے کو اپنی انگلیوں میں لیا اور انہیں ۔بڑی بے دردی
سے ۔۔۔ مسلنے لگا۔۔کچھ ہی دیر بعد اس کے جسم نے ایک جھٹکا کھایا اور ۔۔۔ مجھے اپنے لن کی
ٹؤپی پر کچھ گرم سا پانی سامحسوس ہوا اور میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔۔ مرینہ ۔۔۔میری جان ۔۔
ﺟﯽ
آپ کی چوت سے پانی ِر س رہا ہے تو وہ بڑی ہی مست ہو کر بولی ۔۔۔۔ میری چوت کے پانی
سے تمھارا لن گیال ہو رہا ہے نا ؟ تو میں کہا یس۔س۔س۔س۔ ۔۔۔ آپ کی چوت کا پانی آب میرے لن
تک پہنچ گیا ہے۔ تو وہ بولی تمھارے لن کو کیسا لگا میری چوت کا پانی ؟؟؟؟؟ تو میں نے
جواب دینے کی بجائے ایک گھسہ ان کی گانڈ کی طرف مارا ۔۔۔ جس کی وجہ سے میرا ٹوپا اس
@
کی گیلی چوت کے لب سے ٹکرایا ۔۔۔۔ اور بوال ۔۔۔ باجی آپ بتاؤ میرا یہ کیسا لگا ؟ تو وہ بولی
۔۔۔۔۔ بہت اچھا اور بہت ذبردست ۔ہے ۔۔۔ اس نے ابھی سے مجھے گیال کر دیا ہے ۔۔۔۔۔ پھر وہ تھوڑا
سا آگے کو جھکی اور ۔۔۔۔ اپنی گانڈ کو تھوڑا پیچھے کی طرف کر لیا ۔ ۔ ۔ ۔ اس اینگل سے میرا
لن اب ان کی گانڈ کی حد کو عبور کر کے میرا ٹوپا ان کی چوت کے لبوں کے تھوڑا اندر کی
ﺷﺎه
طرف جانے لگا ۔جس سے مجھے از حد مزہ آیا اور ۔۔۔ میں نے جوش میں آ کر ان کے نپلوں کو
بڑی سختی سے مروڑا ۔۔۔۔۔۔اور ان کو باقی جسم کو فل پاور سے ۔۔ اپنی طرف بھینچا ۔ ۔ ۔۔ آہ ۔۔اپنی
اس حرکت سے میں نے مرینہ باجی کی ۔ گانڈ اور چوت دونوں کا ایک ساتھ مزہ لے لیا تھا ۔۔۔ اب
وہ بھی فُل مست ہو چکی تھی اور بار بار آگے ہو کر اپنی چوت کے لبوں کے اندر میرا ٹوپا ۔۔۔لے
رہی تھی ۔۔۔ اسی دوران میں اپنا منہ ان کے کان کے پاس لے گیا اور ان کے کان کی لو کو چو
ﺟﯽ
س کر بوال ۔۔۔۔ مرینہ ۔۔ جی آپ کی چوت بڑی گرم ہے ۔۔۔ انہوں نے ایک ہلکی سی لذت آمیز
سسکی بھری اور کہنے لگی ۔۔۔ یہ جو تم نے میری ۔۔۔ کے بیچ میں کیا ہوا ہے یہ بھی کیا کم گرم
ہے ۔۔۔ تو میں نے کہا مرینہ باجی ۔۔۔ آپ کو پتہ ہے میرا لن جب آپ کی چوت کے لبوں کو چھو
تاہے نا ۔۔۔ تو مرے اندر ایک عجیب سا کرنٹ دوڑ جاتا ہے ۔۔۔۔ تو وہ عجیب سے لہجے میں کہنے
لگی ۔۔۔۔ یقین کرو ۔۔ تمھارے ٹوپے کے اس ٹچ نے میرے اندر ایک ایسی آگ بھڑکا دی ہے جس
ا
نے خود منہ پیچھے کیا اور بولی اپنی زبان نکالو ۔۔۔ تو میں نے اپنی زبان نکالی۔۔۔ اب مرینہ
ﺳﺗﺎ
نے بھی اپنے منہ سے سانپ کی طرح اپنی زبان باہر نکلی اور اسے لہراتے ہوئے میری زبان
سے ٹکرا دی ۔۔ ایک لمحے کو مجھے ایسے لگا کہ جیسے ان کی زبان نے میرے بدن میں آگ
بھر دی ہو ۔۔۔۔ادھر انہوں نے کچھ سیکنڈ کے لیئے اپنی زبان میری زبان سے ٹکرائی اور پھر وہ
۔۔۔ پھر سیدھی ہو کر بائیک چالنے لگ پڑی ۔۔ پھر اگلے ہی لمحے وہ ۔۔۔۔۔ بائیک پر بیٹھے بیٹھے
ﻧﯽ
آگے کو جھکی اور اپنی گانڈ کے دراڑ میں پھنسے لن پر گھسے مارنے لگیں ۔اور اپنی گانڈ کو
میرے لن پر بری طرح رگڑنے لگی ۔۔ اس کے ساتھ ہی وہ جھٹکے لے لے کر لمبے لمبے
سانس بھی لینے لگی ۔۔۔اور پھر میں نے اپنے لن کے اگلے سرے پر ۔ ۔ مرینہ کی پھدی کا
ﺟﯽ
بہت سارا گرم پانی محسوس کیا ۔۔۔ ۔۔۔۔ وہ چھوٹ چکی تھی ۔ ۔۔۔ جب اسکا سانس کچھ بحال ہوا
۔۔۔ اور وہ تھوڑی نارمل ہو گئی تو انہوں نے ادھر ادھر دیکھ کر مجھ سے پوچھا کہ یہ ہم کہاں
آ گئے ہیں؟؟؟ تو میں جو کہ ان کے ساتھ سیکس میں بری طرح سے مگن تھا ۔۔۔ ان کے کہنے پر
ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔۔۔ تو وقت ہمارا بائیک ایوب پارک کراس کر رہا تھا یہ دیکھ کر میں نے کہا
@
سن کر نے بیک مرمر سے میری طرف دیکھا کہ مرینہ باجی ہم کافی آگے نکل آئے ہیں میری بات ُ
اور بڑے سیکسی لہجے میں کہنے لگیں واقعہ ہی ہم کافی آگے نکل چکے ہیں اور ساتھ ہی لن پر
گھسہ مار دیا۔۔۔ پھر وہ بڑے حیرانی سے بولیں ۔۔۔ ہا ۔ ۔ ۔۔ تم بھی تک ڈسچارج نہیں ہوئے ؟؟؟؟؟؟
سن کر وہ بڑی تو میں کہا کہہ میڈم جی میں نے کیا کیا ہے جو ڈسچارج ہووں ،۔ ۔ میری بات ُ
ﺷﺎه
شوخی سے بولی ۔۔ اچھا تو ذرا یہ بتاؤ کہ گزشتہ کافی ٹائم سے میری ۔۔۔۔ گانڈ کے کریک ۔اور
چوت کے لبوں پر تمھارا ۔۔ یہ کیا کر رہا تھا؟ تو میں نے بھی اسی شوخی سے ان کو کہاکہ ۔ ۔ ۔ ۔
کیا کر رہا تھا آپ بتاؤ نا ؟ تو وہ بولی ۔۔۔ بدتمیزیں کر رہا تھا ۔اور کیا کر رہا تھا ۔۔ اور پھر
انہوں نے بائیک کی رفتار تیز کر دی اس پر میں نے ان سے کہا کہ باجی اگلے یو ٹرن سے واپس
موڑ لو۔۔۔۔ تو انہوں نے بجائے آگے جانے کے وہیں بائیک روک لی اور مجھ سے کہنے لگی نہیں
ﺟﯽ
۔۔۔ ۔۔۔۔ اب تم بائیک چالؤ ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ کیوں ڈسٹرب کر رہی ہیں ۔۔۔ اچھا بھال میں مزے
کر رہا تھا ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی فکر ناٹ ۔۔ میں تمھارے مزے میں فرق نہیں آنے دوں گی ۔۔۔ بہت
ہو گیا بس اب تم چالؤ اور پھر بولی ۔۔۔۔مجھے پتہ چل گیا ہے اگر بائیک میں ہی چالتی رہی نا
تو۔۔۔۔۔ صبع تک ہم یقینا ً ہم الہور کے آس پاس ہوں گے اس لئے مہربانی کر کے اب تم بائیک
چالؤ ۔۔
چنانچہ نا چاہتے ہوئے بھی میں آگے آ گیا اور بائیک پر بیٹھ گیا اب وہ میرے پیچھے بیٹھی
لیکن اس دفعہ وہ میرے پیچھے مردانہ سٹائیل میں بیٹھی ۔۔۔ یعنی دونوں ٹانگیں ادھر ادھر کر
کے ۔۔۔ اور پھر اس نے پیچھے سے میری قمیض کو سائیڈ پر کیا اور اور میرے ساتھ ُجڑ کر بیٹھ
ا
گئی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ وہ اس طرح میرے ساتھ ُجڑی بیٹھی تھی کی ان کی گیلی پھدی میری
ﺳﺗﺎ
گانڈ سے بلکل ُجڑی ہوئی تھی اور ان کی پھدی کا گیال پن مجھے بڑا ۔۔مزہ دے رہا تھا ۔۔۔ پھر
میں نے تھوڑا آگے سے یو ٹرن لیا اور بائیک واپس صدر کی طرف موڑ لیا ۔۔۔اور منہ پیچھے
کر کے مرینہ سے کہا ۔۔۔ باجی ایک کس تو دو۔۔۔ تو وہ بائیک سے تھوڑا اوپر اٹھی اور میرے
ﻧﯽ
ہونٹؤں سے ہونٹ جو ڑدیئے اور اس کے ساتھ ہی میں نے بائیک اور سلو کر دی اور ان کے نرم
ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر ایک لحظے کے لیئے چوسا اورپھر چھوڑ دیا ۔۔۔۔ پھر میں نے
مرینہ سے کہا ۔۔۔۔ باجی میرا پکڑیں نا ۔۔۔۔۔۔ یہ سن کر اس نے میرے پیٹ پر رکھا ہوا اپنا ہاتھ
ہٹایا اور لن پر رکھ دیا ۔۔۔ پھر بولی ۔۔۔۔ تمھارا شلوار کیوں گیلی ہے تو میں نے جواب دیا ۔۔۔ کمال
ﺟﯽ
ہے آپ بھول گئیں یہ آپ کی اپنی ہی پھدی کا گیال پن ہے ۔۔۔ سن کر وہ کھیسانی سی ہنسی ہنس
کر بولی ۔۔۔۔۔ ہاں ہاں معلوم ہے یا ر۔۔۔ پھر اس نے میری شلوار کا ناال کھوال اور میرا ننگا لن
اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔ اور دھیرے دھیرے میری ُمٹھ مارنے لگی ۔۔۔ لن کو پکڑنے کے کچھ دیر
بعدوہ پھر سے گرم سے گرم ہوتی گئی اور ۔۔۔۔ اور بولی ۔۔۔۔۔ کمال ہے ۔۔۔ تم ابھی بھی قائم ہو ۔۔۔۔
@
پھر اس نے ۔میرے ۔۔ لن کو اپنا تھوک لگا کر گیال کیا اور ہلکی ہلکی ُمٹھ مارنے لگی ۔۔۔ اور کبھی
کبھی میں منہ پیچھے کی طرف کر کے اس کے ہونٹ چوم لیتا تھا ۔۔۔۔ ہاں جب میں اور وہ اپنی
زبانیں لڑاتے تو ۔۔۔ ہم دونوں مزید گرم سے گرم تر ہو جاتے تھے ۔۔ ۔۔۔ایک آدھ دفعہ میں نے اپنا
ہاتھ پیچھے کر کے شلوار کے اوپر سے اس کی پھدی پر بھی رکھا تو گیلے پن کی وجہ سے
ﺷﺎه
اس کی ریشمی شلوار اس کی چوت کے ساتھ چپکی ہوئی تھی ۔۔۔۔ ایسی ہی ایک بار جب میں نے
شیشے سے اس کی طرف دیکھتے ہوئے اس سے کہا کہ باجی ایک کس تو دو نا ۔۔۔ تو وہ اوپر
اٹھی اور اپنی زبان میرے ہونٹوں پر پھیرنے لگی ۔۔۔۔اور ساتھ ہی بڑی زور سے میرا لن بھی دبا
دیا ۔۔۔ جس سے میری ہوشیاری میں سو گنا اضافہ ہو گیا اور میں نے ۔۔ مرینہ سے کہا باجی ایک
بات پوچھوں؟ تو وہ اسی نشیلے لہجے میں بولی ۔۔۔ پوچھ میرے چندا ۔۔۔۔۔ تو میں نے کہا کیا آپ
ﺟﯽ
نے کبھی سکنگ کی ہے ؟ تو وہ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ تمھارا مطلب ہے لن
چوسنا ہے ؟ تو میں نے کہا جی باجی ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ تمھیں کیا لگتا ہے تو میں نے بے
دھڑک ہو کر کہا کہ میرے خیال میں آپ جیسی سیکسی لڑکی لن ضرور چوستی ہو گی ۔۔۔ تو وہ
کہنے لگی ،۔۔۔ تم درست کہہ رہے ہو ۔۔ جو لڑکی بلیو فلم دیکھ لے خاص طور پر اپنے مرد کے
ساتھ ۔۔۔ تو اس کا ۔۔ چاہے جی چاہے نہ چاہے اسے لن چوسنا پڑتا ہے ۔۔۔ تو میں نے کہا کہ ۔۔۔
ا
نے کہا نہیں باجی کسی سنسان جگہ پر ۔۔۔ تو کہنے لگی ۔۔۔۔ یار پھر کبھی تسلی سے تمھارا لن
ﺳﺗﺎ
چوسوں کی لیکن ۔۔۔۔۔ یہاں ۔۔۔ خطرہ ہو گا یار ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔دیکھیں نا ۔۔۔رات کتنی گہری ہو
گئی ہے ۔۔۔ سڑکیں بھی سنسان ہیں ۔۔۔ ایسے میں بس تھوڑی سی دیر کے لیئے آپ میرا لن اپنے
منہ میں لے لو گی تو کچھ بھی نہیں ہو گا ۔۔۔ وہ نہیں مان رہی تھی لیکن تھوڑے سےاصرار
اور منت ترلوں کے بعد وہ باآلخر مان ہی گئی ۔۔۔ اور میرے لن کو آگے پیچھے کرتے ہوئے
ﻧﯽ
بولی ۔۔ٹھیک ہے بائیک کسی سنسان جگہ پر لے جاؤ۔۔۔
جس وقت مرینہ میرے لن چوسنے پر آمادہ ہوئی اس وقت ہم مریڑ چوک سے تھوڑا پیچھے
تھے فوری طور پر تو مجھے کچھ سمجھ نہ آیا اور پھر میں نے جیسے ہی مریڈ چوک کراس کیا
ﺟﯽ
میرا بائیک خود بخود ہی دائیں طرف ُمڑ گیا اور میں مریڑ چوک سے ساتھ ہی بائیں طرف ُمڑ گیا
۔۔۔ تھوڑا آگے گیا تو وہاں کافی درخت اور اندھیرا تھا ۔۔۔ میں نے بائیک نالہ لئی جانے والے ایک
کچے راستے پر موڑ لی ۔۔۔ مرینہ کے ہاتھ کی گرفت میرے لن پر کافی سخت ہو چکی تھی ۔۔۔اور
میں نے بیک مرر سے دیکھا کہ وہ بار بار اپنے ہونٹوں پر زبان پھیر رہی تھی جیسے خیالوں
@
میں میرا لن چوس رہی ہو ۔۔۔۔پھر جیسے ہی میں کچے راستے پر ُمڑا وہ بولی ۔۔۔ موٹر سائیکل
کی ہیڈ الئیٹ آف کر دو ۔۔۔ اور مین نے موٹر سائیکل کی ہیڈ الئیٹ آف کر دی اور پھر تھوڑا آگے
جا کر ایک محفوظ جگہ پر بائیک روک لی ۔۔۔ وہاں کافی اندھیرا تھا لیکن چاندنی رات کی وجہ
سے ہم دونوں ایک۔۔۔ دوسرے کوباآسانی دیکھ رہے تھے۔۔۔ سامنے ہی نالہ لئی بڑی خاموشی سے
ﺷﺎه
بہہ رہا تھا ۔۔۔ وہ بائیک سے نیچے اتری اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ جگہ تو خاصی
محفوظ لگ رہی ہے اور مجھے اشارہ کیا اب میں بائیک کے ساتھ ٹیک لگا کر کھڑا ہو گیا اور
وہ میرے سامنے زمین پر اکڑں بیٹھ گئی اور میں بائیک کو کھڑا کر کے اس کی طرف پیٹھ کر
کے کھڑا ہوا تھا ۔۔۔ اس نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں لیا ۔۔ اور بولی ۔۔۔ یقین کرو ۔۔۔ میرا دل بھی
لن چوسنے کو کر رہا تھا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔ میری جان تم نے بتانا تھا نا ۔۔۔ تو وہ کہنے
ﺟﯽ
لگی ۔۔۔ تم نے کہہ دیا ایک ہی بات ہے پھر اس نے اپنا سر نیچے کیا اور اپنے نرم ہونٹوں کی
سن کر اس گرفت میں میرا لن کا ہیڈ لے کر اسے اپنے منہ میں لے جانے لگی ۔۔۔ آہ۔ہ ۔ ہ۔۔۔ میری آہ ُ
نے لن کو منہ سے نکاال اوربولی ۔۔۔ جان!! ۔۔ تیرا لن بڑا مزیدار ہے۔۔ ۔ میں یہ سارے کا سارا کھا
جاؤں گی ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔۔۔تو میں نے کہا میری جان ۔۔۔ یہ لن تمھارا اپنا ہے چاہے اسے کھا
ؤ ۔چاہے اسے چوسو ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ٹھیک ہے لیکن پہلے اسے میں کون آئس کریم کی طرح
ا
بڑے مست چوپے لگانے لگی ۔۔۔ اور میرے منہ سے سسکیوں کا طوفان نکلنے لگا ۔۔۔ ایسے ہی
ﺳﺗﺎ
ایک موقعہ پر جب اس نے اپنی زبان کو میرے لن کے نیچے والی وین پر پھیرا تو میں نے قدرے
لؤڈ ۔۔۔ آواز میں ۔۔۔ سسکی بھری ۔۔۔آہ ہ ہ ۔۔۔ اُف ۔ف۔ف۔فف۔ میرا خیال ہے مزے کے مارے میرے
منہ سے کچھ زیادہ ہی اونچی آواز میں سسکیاں نکلنے لگ گئیں تھی ۔۔۔ ایسے ہی ایک لمحے میں
جب میں نے زوردار آواز میں سسکی لی ۔۔۔تو اچانک دور سے ایک آواز آئی۔۔۔
ﻧﯽ
یہ کون خانہ خراب کا بچہ ہے ؟۔۔۔۔۔۔آواز سنتے ہی مرینہ نے اپنے منہ سے میرا لن نکال۔۔۔
ﺟﯽ
اور ادھر ادھر دیکھنے لگی ۔۔ لیکن میں نے اس کو بالوں سے پکڑا اور اپنے لن پر اس کا منہ
رکھ دیا ۔۔۔اس نے اپنا منہ کھوال اورمیرے لن کو اپنے منہ کے اندر لے لیا ۔۔۔ اور ابھی وہ لن
پر اپنے منہ کو نیچے سے اوپر ال ہی رہی تھی کہ ۔۔۔وہی کرخت آواز مردانہ آواز دوبارہ سنائی
دی ۔۔۔۔ادھر کیا ہو رہا ہے ؟؟؟ اور اس کے ساتھ ہی ہمیں دور سے ایک ہیولہ سا اپنی طرف آتا
دکھائی دیا ۔۔۔اس کو دیکھتے ہی مرینہ نے لن منہ سے نکال اور بولی ۔۔۔ میرا خیال ہے کہ کوئی آ
@
گیا ہے ۔۔۔اتنے میں اس ہیولے کی کرخت آواز دوبارہ سنائی دی ۔۔ٹہرو ۔ کتے کا بچہ ۔۔۔ ام آج تم کو
نہیں چھوڑے گا ۔۔۔ وہ آواز سنتے ہی مجھے مرینہ کو خوف سے بھر پور لیکن سرگوشی نما آواز
سنائی دی ۔۔۔۔۔یہ تو افضل اللہ کی آواز ہے پھر اس کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔ بھاگ سالے ۔۔۔۔۔
ورنہ یہ ہم دونوں کو زندہ نہیں چھوڑے گا ۔۔۔ میں نے بھی افضل اللہ کی آواز سن لی تھی ۔۔۔
ﺷﺎه
چونکہ میرا مرینہ لوگوں کے گھر کافی آنا جانا تھا۔اس لیئے میں بھی افضل اللہ کو اچھی طرح
جانتا تھا وہ بے حد کرخت اور ڈنگر ٹائپ بندہ تھا ۔۔جو کہ میرے خیال میں اس عالقے کی
سن کر خود میرے بھی ہاتھوں کے طوطے ا ُڑ گئے تھے چوکیداری کرتا تھا ۔۔۔چنانچہ اس کی آواز ُ
اور میں مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ میں کیا کروں ۔؟؟۔۔۔ اور افضل اللہ دم بدم گالیاں دیتا ہوا
ﺟﯽ
۔۔۔قریب سے قریب تر آ رہا تھا ۔۔۔تب مجھے مرینہ کی انتہائی خوفزدہ آواز سنائی دی ۔۔۔وہ پاس آ
رہا ہے ۔ جلدی کر ۔۔۔۔۔ اور میں نے شلوار اوپر کی ۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ تبھی قدرے اور قریب سے افضل
اللہ کی خونخوار آواز ۔۔۔ آئی۔۔۔۔۔۔ ٹھہر و ۔۔۔خانہ خراب ،۔۔۔ام ابھی تمھارا تکہ بوٹی کرتا ہے ۔۔۔۔ اور
۔۔۔ ایک دفعہ پھر مرینہ مجھ سے مخاطب ہو کر تقریبا ً چیختے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ تم کھڑے
سن کر میں نے کک مارنے کے لیئے اپنا پاؤں کیوں ہو؟ بائیک سٹارٹ کرو۔۔حرامی۔اس کی بات ُ
مارا ۔۔۔ تو مجھے لگا کہ جیسے میرا پاؤں من بر کا ہو گیا ہے اور مجھ سے کک نہ ماری گئی
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
۔۔۔۔یہ دیکھ کر وہ مزید طیش میں آ گئی اور بولی ۔۔۔ کک کیوں نہیں مار رہے ہو َ؟۔ تو میں نے
بجائے اصل بات بتانے کے اس سے بے بسی سے کہا ۔۔۔۔ میری شلوار میں سے ناڑا (آزار بند)
نکل گیا ہے ۔۔۔۔۔تو وہ ہزیانی میں بولی ایسے ہی سٹارٹ کر ۔۔۔۔ جلدی۔۔۔ شلوار ۔۔۔ آگے جا کر پہن
سن کر میں ہمت کی ۔۔۔ اور دوبارہ بائیک کو کک ماری تو وہ لینا ۔۔۔ابھی چل ۔۔۔۔اس کی بات ُ
ا
۔۔۔سٹارٹ نہ ہوا ۔۔۔ تو مرینہ بولی اب کیا ہوا ۔۔۔ تو میں نے کہا ۔یہ سٹارٹ نہیں ہو رہا ہے ۔ پتہ نہیں
ﺳﺗﺎ
شاید پٹرول ختم ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنے میں افضل اللہ اور قریب آ گیا تھا ۔۔۔۔اسے دیکھ کر میری
آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا تا جا رہا تھا ۔۔۔۔ پھر کہیں دور سے مجھے مرینہ کی آواز سنائی
دی ۔۔۔۔۔۔۔ بھاگ۔۔۔ اور میں نے بھاگنے کی کوشش کی تو ۔۔۔۔۔ شلوار میرے ۔۔۔ پاؤں میں پھنس گئی
اورمیں نے پھر بھی بھاگنے کے لئے قدم اٹٹھایا تو میرے قدم من من بھر کے ہو گئے ۔۔ادھر
ﻧﯽ
۔۔۔۔اففل اللہ گالیا ں بکتا ہوا ۔۔ہمارے قریب آتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔قریب ۔۔۔۔ اور قریب آ رہا تھا ۔۔۔۔ اور
قریب ۔۔میرے پاؤں میں شلوار پڑی تھی ۔۔۔۔قدم من من بھر کے ہو رہے تھے اور ۔۔تب میں نے
مرینہ کی طرف بڑی ہی بے بسی سے دیکھا اور کہا آپ جاؤ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ۔۔۔۔۔۔ اور
ﺟﯽ
میری آنکھوں کے آگے اندھیرا چھانے لگا ۔۔اور میں بلکل مایوس ہو گیا تھا ۔۔۔۔۔ ۔۔۔کہ
اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
افضل اللہ کو اپنی طرف آتا دیکھ کر میں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور خود کو ہر
ت حال کے لیئے تیار کر لیا ۔۔ میری یہ حالت دیکھ کر مرینہ نے مجھے دھکا قسم کو صور ِ
@
دیکر پیچھے کیا اور پھر ا س نے موٹر سائیکل کو ہینڈل سے پکڑ کو ایک ذوردار کک ماری تو
یہ دیکھ کر مرینہ نے فورا ً ۔۔۔ خوش قسمتی سے پہلی ہی کک پر بائیک اسٹارٹ ہو گیا
چھالنگ لگائی اور جلدی سے بائیک پر بیٹھ گئی اور پھر چیختے ہوئے بولی ۔۔۔ جلدی بیٹھ
۔۔۔ ۔میں اتنا ڈرا ہوا تھا کہ ۔۔۔ فوری طور پر مجھے کچھ سمجھ نہ آیا ۔۔۔ لیکن جیسےبائیک چال۔۔میں
ﺷﺎه
جیسے ہوش میں آ گیا اور میں نے بھی چھالنگ لگائی اور چلتی ہوئی موٹر سائکل پر عورتوں
کی طرح مرینہ کے پیچھے بیٹھ گیا ۔۔۔۔ مجھے بیٹھتے دیکھ کر مرینہ نے بائیک کو فُل ریس دی
اور موٹر سائیکل کو ہوا کی رفتار سے بھگا نے لگی ۔۔ اتنی دیر میں افضل اللہ ہمارے کافی
قریب پہنچ چکا تھا لیکن جیسے ہی اس نے دیکھا ۔۔۔۔کہ ہم لوگ ۔۔بھاگ رہے ہیں تو وہ گالیاں دیتا
ہوا نیچے جھکا اور زمین سے پتھر اُٹھا کر ہماری طرف پھینکا ۔۔جو اُڑتا ہو ا ہماری طرف آیا
ﺟﯽ
لیکن بائیک سے کچھ ہی فاصلے پر جا گرا ۔۔۔۔۔ مرینہ بائیک کو طوفانی رفتار سے چال رہی تھی
۔۔۔ اور پھر جیسے ہی ہم مریڑ چوک سے کمیٹی چوک کی طرف ُمڑے۔۔ تو تھوڑی دور جا کر اس
نے بائیک کر رفتار نارمل کر لی ۔۔۔ اور پھر ایک ٹھنڈی سانس بھر کر بولی ۔۔۔۔۔ شکر ہے جان
بچی۔۔۔ پھر اس نے کچھ فاصلہ طے کر کے بائیک کو ایک نیم تاریک جگہ پر روکا اور ۔۔۔
بڑے غصے سے بولی ۔۔۔۔ جاؤ وہ سامنے دیوار کے پاس پیشاب کے سٹائل میں بیٹھ کر اپنی شلوار
ا
جگہ پر کھڑے تھے اس لیئے ۔۔ دیکھے جانے کے چانس کافی کم تھے ۔۔۔ اس طرف سے مطمئن
ﺳﺗﺎ
ہو کر میں آگے بڑھا اور مرینہ کو اپنی باہوں میں لے لیا اس نے خود کو مجھ سے چھڑانے کی
بڑی کوشش کی لیکن میں نے اپنی گرفت ہی اتنی مضبوط رکھی تھی کہ وہ خود کو مجھ نہ
چ ُھڑا سکی ۔۔ کچھ دیر بعد اس نے یہ جدوجہد ترک کر دی اور ڈھیلی پڑ گئی ۔۔ یہ دیکھ کر میں
نے اپنے دونوں ہونٹ اس کی صراحی دار گردن پر رکھ دئیے اور اس کو چوم کر بوال ۔بڑے ہی
ﻧﯽ
سن کر وہ تلخی سے بولی ۔۔۔۔ اگر رومینٹک انداز میں بوال ۔۔ آئی لو یو ۔۔۔ ڈارلنگ ۔ ۔ ۔ میری بات ُ
میں بائیک اسٹارٹ نہ کرتی نہ۔۔ تو آج تمھاری یہ ساری آئی لو یو نکل جانی تھی ۔۔۔ اس کی بات
سن کر میں شرمندہ ہوئے بغیر بوال ۔۔ سٹارٹ تو میں بھی کر لیتا ۔۔۔۔لیکن ۔۔۔ میرا ناال (آزار بند ) ُ
ﺟﯽ
سن کر وہ بڑے طنزیہ انداز میں کہنے لگی ۔۔ ۔۔۔۔ جی مجھے پتہ نکل گیا تھا ۔۔میری شیخی ُ
ہے کہ تمھارا ناال نکل گیا تھا لیکن سالے بائیک کو کک مارنی تھی اس میں ناال کہاں سے
آگیا ؟؟؟؟اس کی بات سن کر میں سمجھ گیا کہ ایسے بات نہیں بنے گی ۔۔چنانچہ ۔۔۔ میں نے بجائے
کوئی نیا بہانہ گھڑنے کے ۔۔۔ دوبارہ اپنے ہونٹ اس کی گردن پر رکھے۔۔۔ اور ۔۔۔ انہیں
@
چومتے ہوئے بوال ۔۔۔۔ آئی یم سوری باجی ۔۔ !! ۔۔اور اس کی گردن کو چومتا گیا ۔۔۔۔ میرے منہ
سن کر وہ کچھ ڈھیلی پڑ گئی ۔۔ پھر اس نےہاتھ بڑھا کر میرا منہ اپنی گردن سے سوری ُ
سے ہٹایا ۔۔۔۔ اور میری ٹھوڑی کو انگلی سے پکڑ کر اپنے سامنے کیا اور بولی ۔۔۔۔ دیکھو
مجھے بزدل مردوں سے سخت نفرت ہے ۔۔۔ آج تو معاف کرتی ہوں لیکن آئیندہ اس بات کا خاص
ﺷﺎه
خیال رکھنا ۔۔۔۔ پھر مجھے موٹر سائیکل کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ بائیک چالؤ ۔۔۔ اور
ب سابق مرے ساتھ لگ کر بیٹھ گئی ۔ راستے میں ۔۔ میں نے میں نے بائیک سٹارٹ کیا اور وہ حس ِ
ادھر ادھر کی کافی باتیں کیں جس سے اس کا ُموڈ کافی حد تک بحال ہو گیا ۔اور پھر جب اس
کا ُموڈ پہلے کی طرح اے ون ہو گیا تو میں نے اس سے وہ سوال کیا جو مجھے کافی
پریشان کر رہا تھا ۔۔۔چنانچہ میں نے اس سے کہا باجی ایک بات پوچھوں ؟ تو وہ بولی کہو۔۔
ﺟﯽ
میں نے منع کب کیا ہے؟ تو میں نے کہا کہ باجی ۔۔۔۔ آپ کے سسرال کا اتنا قریبی بندہ ہسپتال
میں ایڈ مٹ ہے لیکن آپ کے گھر سے کوئی بھی انہیں نہیں دیکھنے آیا ؟اس کی کیا وجہ ہے؟؟
سن کر وہ کسی گہری سوچ میں پڑ گئی ۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ کھوئے کھوئے انداز میں بولی ۔۔۔۔ میری بات ُ
۔۔۔۔ میرے والدین اس لیئے اسے دیکھنے نہیں آتے کہ میری یہاں شادی نہیں ہوئی تھی بلکہ میں
ا
میں مجھے سنائی تھی لیکن میں آپ کو مرینہ کی یہ کہانی ایک ہی نشست میں سناؤں گا ۔۔۔ ہاں
ﺳﺗﺎ
اس میں جو زیادہ دکھی باتیں ہیں وہ میں نے اس کی کہانی سے حزف کر دیں ہیں کہ میرا خیال
ہے لوگ پہلے ہی بڑی پرابلمز میں ہیں اور وہ انٹرٹیمنٹ کے لیئے یہاں آتے ہیں نا کہ دکھی
ہونے کے لیئے ۔۔۔ ویسے بھی میرے خیال میں سیکس سٹوری میں دکھی باتیں مزہ نہیں کرتیں
ﻧﯽ
۔۔۔ایک بات اور ۔۔ اس کہانی میں ،میں نے اپنی طرف سے داستان کو رنگین کرنے کے لیئے
کچھ مسالہ بھی ڈاال ہے ۔۔۔ آیئے میں آپ کو مرینہ کی کہانی سنائیں ۔۔۔
مرینہ کے مطابق ان کی فیملی کا تعلق باجوڑ ایجنسی سےہے ۔ اس کے دادا بے
ﺟﯽ
روزگاری کے ہاتھوں تنگ آ کر باجوڑ سے کراچی آئے تھے کہ اس زمانے میں کراچی ہی ایک
ایسی جگہ تھی کہ جہاں لوگ کام کی تالش میں آیا کرتے تھے لیکن بد قسمتی سے ان کے دادا کا
کراچی جیسے شہر میں بھی کام نہ بنا چنانچہ اس کے بعد وہ وہاں سے حیدرآباد آ گئے یہاں
ان کو اپنے گاؤں کے کسی دوست نے لکڑیوں کے ٹال پر جاب دال دی اور یوں انکا کام چال
نکال -دادا کی دیکھا دیکھی خاندان کے باقی فرد بھی حیدر آباد میں آکر بس گئے جس کی وجہ
@
سے حیدرآبا دمیں ان کا اچھا خاصہ خاندان اکھٹا ہو گیا تھا مرینہ کے بقول ان کے دادا کے چار
بیٹے تھے جس میں سے ان کے والد کا نمبر تیسرا تھا ۔دادا کی وفات کے بعد یہ لوگ الگ الگ
ہو گئے پھر ان کے والد نے اپنی محنت اور لگن سے اپنا ایک الگ لکڑیوں کا ٹال بنا لیا جبکہ
اس کے بھائی کسی اور کے ٹال پر کام کرتے تھے -ٹال کے ساتھ ساتھ اس کے والد نے کچھ
ﺷﺎه
دوسرے کام دھندے بھی شروع کر دیئے جس کی وجہ سے یہ لوگ کافی خوش الحال ہوگئے ۔۔
اور اس کے ساتھ ہی ان کے ابا نےاپنی بچیوں کو حیدرآباد کے اچھے سکولوں میں داخل کرا دیا
۔۔۔ ان کےدوسرے بھائی ترقی کی اس دوڑ میں ان سے خاصے پیچھے رہ گئے تھے۔ چنانچہ
وہ اس کے ابا کی خوش حالی کو دیکھ کر ان سے کافی حسد کرنے لگےتھے ۔۔۔
ﺟﯽ
مرینہ کے مطابق اس کے ولد ایک لکی آدمی تھے اور ان میں کاروباری سوجھ بوجھ انتہا
کی تھی یہی وجہ تھی ان کا کام دن دگنی اور رات چوگنی ترقی کر رہا تھا۔۔۔۔ مرینہ اپنے گھر
میں والدین کی سب سے بڑی لڑکی تھی جس کی وجہ سے اس کے والد اس سے بے انتہا پیار
کرتے تھے مرینہ کے بقول وہ بھی اپنے والدسے بہت پیار کرتی تھی پھر اس نے یہ بھی بتالیا
ا
غصے میں آ کر اس کو اینٹ دے ماری۔۔۔ جس کی وجہ سے وہ موقعہ پر ہی ہالک ہو گیا ۔۔۔ اب
ﺳﺗﺎ
اس کے چچا نے اس کے والد کے خالف 551کا مقدمہ درج کروا دیااور جس کے مدعی وہ
خود بنے ۔۔۔۔ پولیس اس کے والد کو گرفتار کر کے لے گئی اور اسکے ساتھ ہی ۔۔۔۔ مرینہ کے
بقول ان لوگوں پر غموں کے پہاڑ ٹوٹ پڑے ۔۔۔ برادری جو پہلے ہی ان لوگوں کی ترقی کی وجہ
سے جیلس تھی ۔۔۔۔ اس قتل کے بعد اور بھی ان کی مخالف ہو گئی اور صورتِحال یہ ہو گئی کہ
ﻧﯽ
ساری برادری ایک طرف تھی اور مرینہ کے گھر والے ایک طرف ۔۔۔ اس پرمزید ستم یہ ہوا کہ
والد کی نرینہ اوالد نہ تھی بلکہ ساری بیٹیں ہی بیٹیں تھی اور جو نرینہ اوالد تھی بھی (ارصال)
وہ ابھی چند ہی ماہ کا تھا ۔۔۔ چنانہا ایسے میں اگر کسی نے ان کی کوئی ہیلپ کی اور وہ بھی
ﺟﯽ
چوری چھپی تو وہ فرید تھا اس کے چچا کا بڑا بیٹا ۔۔۔ فرید اور مرینہ ایک دوسرے کو پسند
کرتے تھے اور بات کافی آگے تک گئی ہوئی تھی لیکن فرید کی امی اور والد چونکہ ان لوگوں
کے سخت خالف تھے اس لیئے یہ دونوں کسی مناسب موقعہ کی تالش میں تھے ۔۔۔ قتل کے کیس
میں جب اس کے والد اندر ہوئے تو ایسے میں کوئی بھی ان کی مدد کو تیار نہ ہوا ۔۔۔ مرینہ کہتی
@
ہے ان لوگوں سے تفتیش کے نام پر پولیس اتنا زیادہ پیسہ لے گئی کہ یہ لوگ تقریبا ً کنگال ہو
گئے یہاں تک کہ ان کے پاس ٹیکیو ں پر بھاگ دوڑ کے بھی پیسے نہ رہے ۔۔۔اور ۔۔ جب ان
لوگوں نے دیکھا کہ اب ان کے حاالت ٹیکسیوں پر پھرنے کی مزید اجازت نہیں دیتے ۔۔۔ تو مرینہ
امر مجبوری ٹیکسی کی نے کہ جس کو پہلے ہی بائیک چالنا آتی تھی اب وکیلوں کے پاس بہ ِ
ﺷﺎه
بجائے بائیک پر جانا شروع کر دیا ۔۔ مرینہ کے بقول یہ دور ان کے لیئے بہت ہی مشکل دور
تھا ۔۔۔ ساری برادری ان سے ناطہ توڑ گئی تھی ایسے میں ایک فرید ہی ان کے کام آیا ۔۔۔۔ وہ
کسی طرح ان کو بتا دیتا تھا کہ آپ لوگ فالں وکیل کے پاس پہنچو میں بعد میں آتا ہوں تو
جب یہ لوگ وہاں پہنچتے تھے تو فرید پہلے سے ہی وہاں موجود ہوتا تھا جس کی وجہ سے
بقول مرینہ اس کی عزت بہت دفعہ صرف فرید کی وجہ سے بچی تھی ۔کیونکہ وہ جس بھی
ﺟﯽ
وکیل کے پاس جاتے تو اس کی سب سے پہلے نگاہ اس کی جوانی پر جاتی تھی ۔۔۔اور ہر کوئی
اس کی جوانی کو ہی دیکھتا تھا ۔قصہ مختصر جب سیشن کورٹ سے ان کے والد کی ضمانت
خارج ہوگئی تو ان لوگوں نے ہائی کورٹ جانے کی ٹھانی ۔۔۔۔ فرید کا ایک کالس فیلو تھا جس کا
والد حیدر آباد کا مشہور وکیل تھا اور جو صرف ہائی کورٹ کے کیس لیتا تھا ۔۔۔ فرید نے منت
انہوں نے ساری فائل پڑھنے کے بعد مرینہ اور اس کی والدہ کو بتایا کہ ان لوگوں نے آپ
ا
ﺳﺗﺎ
کا کیس اتنا پکا بنایا ہوا ہے کہ آپ کے والد کی ہائی کورٹ سے بھی ضمانت ہونا بہت مشکل
ہے ۔۔۔ اور ان کے پوچھنے پر مزید بتاہا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ان کے خیال میں اس کیس میں ان کے والد کا
بچنا بہت مشکل ہے ۔۔۔۔ ان کو سزائے موت بھی ہو سکتی ہے ۔۔۔مرینہ کہتی ہے وکیل صاحب کے
سن کر دونوں ماں بیٹی کے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی تھی اور وہ منہ سے سزائے موت کا ُ
ﻧﯽ
دونوں خود پر قابو نہ رکھ سکیں اور وہیں رونے لگ گئیں ۔۔۔۔ تبھی فرید نے وکیل صاحب سے
پوچھا کہ انکل ۔۔۔ کوئی اور طریقہ ہے جس سے ان کے والد کی جان بخشی ہو سکے؟؟ تو انہوں
ﺟﯽ نے کہا ہاں ایک ہے اگر آپ کر سکو۔۔ تو۔۔ !!!
وکیل صاحب کی بات سے ہماری کچھ ڈھارس بندھی اور ہم دونوں ماں بیٹی نے رونا دھونا
چھوڑ کر ان سے پوچھا کہ وہ کیا طریقہ ہے؟؟ تو اس نے بتایا کہ ۔۔وہ ہے قصاص !! اگر آپ
لوگ مقتول کے خاندان کو خون بہا ادا کر دیں تو آپ کے بندے کی جان بخشی ہو سکتی ہے
@
سن کر ہم۔۔۔۔ ورنہ دوسری صورت میں آپ کا بندہ پھانسی پربھی لٹک سکتا ہے ۔۔۔ پھانسی کا نام ُ
دونوں کی جان نکل گئی ۔۔۔ جیسا کہ میں نے پہلے بھی بتایا تھا کہ مجھے اپنے والد سے بہت
محبت ہے اس لیے میں نےتہیہ کر لیا تھا کہ میں ہر صورت اپنے والد کی جان بچاؤں گی ۔۔۔
چنانچہ ہم نے اپیل کا فیصلہ مؤخر کر دیا ۔ویسے بھی دا جی( ابو) کو جیل میں گئے ہوئے سات
ﺷﺎه
آٹھ ماہ تو ہو ہی چکے تھے اور میرا خیال تھا کہ چاچا لوگوں کا غصہ اب کافی حد تک ٹھنڈا
صلع کے لیئے بھاگ دوڑ شروع کر دی ۔۔ ہو چکا ہو گا یہ سوچ کو ہم نے ُ
مرینہ کہتی ہے کہ فیصلہ کرنے کے بعد وہ سب سے پہلے اپنے والد کے پاس گئے اور ان
ﺟﯽ
سننے کے بعد ظاہر سے وکیل صاحب سے مالقات اور ان کی رائے سے آگاہ کیا ۔۔ سارا ماجرا ُ
ہے دا جی کافی پریشان ہوئے لیکن اس کے باوجود بھی وہ صلع کے لیئے کسی طور بھی راضی
نہ ہو رہے تھے لیکن جب امی نے ان کو اپنی چھوٹی چھوٹی بچیویوں کا واسطہ دیا اور بتالیا کہ
ان کے اندر ہونے کے ساتھ ہی ٹال پر ان کے مالزموں نے ان کو بہت ہی کم پیسے دیئے ہیں اور
ذیادہ تر مالزم چچا کے ساتھ مل گئے ہیں اور پھر امی نے اس کے ساتھ ہی ان کو جزباتی
ا
انہوں نے ہمیں اپنی مدد کا یقین دال دیا اور ۔۔۔۔ کچھ دن بعد آنے کا کہا ۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے
ﺳﺗﺎ
چچا اور اس کے سالوں کے ساتھ صلع کے لیئے کوششیں کرنا شروع کر دیں ۔۔۔۔ اس بات کے دس
پندرہ دنوں کے بعد ایک دن چھوٹے دادا ہمارے گھر آئے اور بتایا کہ وہ لوگ صلع کے لیئے
تیار ہیں لیکن اس کے ساتھ وہ صلع کے لیئے تین شرطیں پیش کر رہے ہیں ۔۔اور۔ وہ تینوں شرطیں
خاصی ذلت آمیز تھیں ۔جنہیں سن کر میرا تو خون کھول اُٹھا ۔ لیکن ہماری پوزیشن ایسی تھی کہ
ﻧﯽ
۔۔۔ ہم انکار نہ کر سکتے تھے ان کی پہلی شرط یہ تھی کہ ۔۔۔جیل سے رہائی کے بعد ۔ ابا یہ عالقہ
چھوڑ دیں اور بطور تاوان اپنا ٹال چچا کے حوالے کردیں۔۔۔ تیسری شرط ونی کی تھی کیونکہ
مرنے والے کا بڑا بھائی اس کا وارث تھا جو کہ ایک خاصہ خوشحال متمول اور کافی اثر و
ﺟﯽ
رسوخ واال آدمی تھا اور جس کا حیدرآباد میں ٹرانسپورٹ کابہت بڑا کاروبار تھا نام اس کا
قاسم تھا لیکن خاندان کے سب چھوٹے بڑے اس کو قاسم چاچا کہتے تھے اس کیس میں سارا خرچہ
قاسم چا چا ہی کر رہا تھا جبکہ مرینہ کے چچا تو بس برائے نام ۔۔۔ہی صرف اپنے کینے کی
وجہ سے اس کیس میں پیش پیش تھے ۔۔۔ قاسم چاچا کی بیوی کافی عرصہ پہلے فوت ہو چکی
@
تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ قاسم خان جس کی اس وقت عمر بال مبالغہ 35کے قریب ہو گی اور یہ ونی قاسم چا
سن کر ہم نے ان سے کچھ ٹائم مانگا اور پھر چا کے ساتھ ہونی تھی ۔۔۔ چھوٹے دادا کی شرطیں ُ
مشورہ کے لیئے دا جی کے پاس جیل چلے گئے ۔۔۔ پہلی دو شرطوں پر تو انہوں نے کوئی خاص
رسپانس نہ دیا لیکن جب ان کو بتایا گیا کہ میری ونی قاسم چاچا کے ساتھ ہونی ہے ۔۔۔ تو وہ تڑپ
ﺷﺎه
اُٹھے اور بولےان بے غیرتوں کو اتنی بھی شرم نہیں آیہ کہ قاسم خان تو مجھ سے بھی 05۔04
سال بڑا ہےاور میری بیٹی اس کی پوتی کے برابر ہے میں بھال اپنی پیاری بیٹی کو اس کے ساتھ
کیسے ونی کر دوں؟؟ ۔۔۔۔ پھر میں نے ہمت کی اوردا جی کو سمجھایا کہ اس کے بغیر اور کوئی
چارہ بھی نہیں ہے اور پھر ان سے کہا کہ دا جی آپ نے مجھے کسی نہ کسی کے ساتھ تو بیاہنا
تھا نا ۔تو آپ سمجھ لو کہ میرا نصیب ہی یہی تھا ۔ میری قربانی سے کم از کم باقی لوگ تو سکھی
ﺟﯽ
ہو جائیں گے اور ان کو بتایا کہ میری بہنیں جوان ہو رہیں ہیں ان کے سر پر آپ کا سایہ بہت
سن کر وہ کافی دیر تک چپ رہے ۔۔۔ماحول کافی سوگوار ہو گیا تھا ۔ ضروری ہے ۔۔۔ میری بات ُ
میں امی اور دا جی (ابو) ہم تینوں ہی رو رہے تھے اور میں نے پہلے دفعہ اپنے دا جی کو یوں
بچوں کی طرح روتے ہوئے دیکھا تھا وہ ۔۔۔۔ ساری بات سمجھتے تھے لیکن ۔۔۔ میری ونی کے
سن کر وہ پھر سے رونے لگے اور بولے ۔۔۔ بیٹا میری غلطی کی سزا تم کیوں میری بات ُ
ا
ﺳﺗﺎ
جھیلو؟ لیکن میں نے اور امی نے منت سماجت کر کے ان کوبڑی ہی مشکل منا لیا کہ اس کے
بغیر اور کوئی چارہ بھی نہ تھا اور میرا خیال ہے یہ بات وہ بھی اچھے طرح سے سمجھتے
تھےخیر ان کی طرف سے گرین سگنل ملنے کے بعد ہم وہاں سے چھوٹا دادا کے گھر گئیں اور
سن کر انہوں نے کہا کہ ٹھیک ہے لیکن ایک دفعہ وہ خود بھی دا ان کو ساری صورتِحال بتائی ۔۔۔ ُ
ﻧﯽ
جی سے ملنا چاہیں گے کہ مردوں کی بات اور ہوتی ہے اور عورتوں کی بات اور ۔۔۔۔ ان کی یہ
سن کر مجھے غصہ تو بہت آیا لیکن جبر کر گئی اور ہم ماں بیٹی وہاں سے گھر آگئے ۔۔۔۔ بات ُ
دوسرے یا تیسرے دن چھوٹے دادا ۔۔۔ دا جی کے پاس جیل گئے اور ان سے ساری باتیں ڈسکس
ﺟﯽ
کیں اور پھر دا جی کی منظوری کے بعد اگلے جمعہ کو ان کے گھر ہمارے خاندان کا جرگہ ہوا
۔۔۔ جس میں ابا کی طرف سے میں اور امی پیش ہوئیں ۔۔۔ ساری شرطیں پہلے ہی سے طے تھیں
لیکن اس کے باوجود جرگے کے سامنے یہ ساری شرطیں ایک دفعہ پھر رکھی گئیں اور جرگے
کے سامنے چھوٹے دادا نے دا جی کی ضمانت دی ۔۔۔ اور یوں سارے معامالت طے ہو گئے
جرگہ میں ظاہر ہے قاسم چاچا بھی موجود تھا جو بار بار میری طرف میری طرف للچائی ہوئ
@
نظروں سے دیکھ رہے تھے اور ان کا بس نہیں چل رہا تھا کہ وہ مجھے وہیں ۔کھڑے کھڑے
اپنے ساتھ لے جائیں ۔۔ اسی دوران انہوں نے اسی وقت مجھ سے نکاح بھی کرنا چاہا لیکن جرگہ
نے انہیں اس بات کی اجازت نہ دی اور حکم دیا کہ سب سے پہلے دا جی کی رہائی ہو گی پھر
اس کے بعد کوئی اور بات ۔۔۔
ﺷﺎه
اس جرگے کے ایک ماہ بعد دا جی گھر آ گئے اور پھر انہوں نے اپنا ٹال چچا کے نام کر دیا
اور خود یہاں پنڈی میں جانے کی تیاری کرنے لگے جس نے میری فیملی نے پنڈی کے لیئے
ٹرین میں بیٹھنا تھا اسی دن صبع صبع میرا قبل میرا نکاح قاسم خان سے ہو گیا ۔۔۔
گو کہ میرا نکاح صبع صبع ہی ہو گیا تھا لیکن میں نے لڑ بھڑ کر اس وقت تک ُرخصتی
ﺟﯽ
سے انکار کر دیا تھا کہ جب تک میرے والدین گاڑی پر بیٹھ کر چلے نہیں جاتے۔ چنانچہ میری
یہ خواہش مان لی گئی اور وہ لوگ چھوٹے دادا کو وہاں چھوڑ کر واپس چلے گئے ۔۔ جانے سے
پہلے امی مجھے ایک طرف لے گئیں اور کہنے لگیں دیکھو میری بچی یہ جو باتیں میں تم سے
کر رہی ہوں ان کو غور سے سنو اور انہیں اپنے پلو سے باندھ لو اور پھر انہوں نے مجھے
شادی کے متعلق بہت معلومات دیں جن میں سے کافی ساری باتوں کا مجھے پہلے سے ہی علم
ا
کسی طرح بھی ہو اپنے خاوند کا دل جیتنا ہے اور اس کو اپنی ُمٹھی میں کرنا ہے تبھی تمھارا
ﺳﺗﺎ
گزارا ہو گا ورنہ یہ لوگ تم کھا جائیں گے اور خاص طور پر کہا کہ چاہے کچھ بھی ہو تم نے
ہمت نہیں ہارنی ۔۔۔ میں نے بڑے غور سے ماں کی باتیں سنیں اور ان کو یقین دالیا کہ میں ان پر
دل و جان سے عمل کروں گی۔۔۔۔ اور بوجھل دل کے ساتھ ان کو رخصت کیا جسے ہی دا جی لوگ
گھر سے سٹیشن کے لیئے نکلے چھوٹے دادا جی نے مجھے ساتھ لیا اور قاسم چاچا کے گھر
ﻧﯽ
چھوڑ آئے ۔۔۔ قاسم چاچا کی حویلی میں نوکر چاکروں کے عالوہ چار لوگ رہتے تھے جن میں
ایک تو دا جی کے ہاتھوں قتل ہو گیا تھا اور اب کل تین لوگ تھے ایک قاسم چاچا ۔ دوسرا ان کی
بہن صنوبر ۔۔۔ جس کو ہم صنوبر پھوپھو کہتے تھے صنوبر پھوپھو ایک بھاری بھر کم عورت
ﺟﯽ
تھی لیکن حیرت کی بات ہے کہ یہ موٹاپا ان پر بہت جچتا تھا اور اس موٹاپے میں بھی وہ
بڑی ہی خوبصورت اور دلکش نظر آتیں تھیں۔ میں نے اپنی زندگی میں بہت کم ایسی لیڈیز
دیکھیں ہیں جن پر موٹاپا سجتا ہو ۔۔ صنوبر پھوپھو کوئی پینتالیس چھیالس سال کی ۔۔۔ ہوں گی
اور یہ بیوہ تھیں ان کی ایک بچی تھی جس کی شادی کراچی میں ہوئی تھی اور وہ کبھی کبھی
@
ملنے آتی تھی دوسری شخصیت جو قاسم چاچا کے گھر میں رہتی تھی وہ ان کا چھوٹا بھائی ہمت
خان تھا ۔۔۔ جو کبھی کھبار ہی گھر آتا تھا قاسم چاچا کا ٹرانسپورٹ کا کام عمالً اس نے ہی سنبھاال
ہوا تھا ۔۔ سننے میں آیا تھا کہ وہ ایک لوفر بندہ تھا ۔۔۔لیکن اس کو ہم نے کم ہی گھر پر دیکھا تھا
وہ زیادہ تر ٹرانسپورٹ اڈے پر اپنے بنائے ہوئے ڈیرے پر ہی پایا جاتا تھا ۔اورلڑکوں کا زیادہ
ﺷﺎه
شوقین تھا اسی وجہ سے اس نے ابھی تک شادی نہیں کی تھی ۔۔ قاسم چاچا کی دوسری بہن جو
کہ میری چاچی بھی لگتیں تھیں اوروہ اپنے کے گھرمیں رہتی تھیں نہایت ہی خبیث خاتون ہیں
چاچا کو دا جی کے خالف ابھارنے میں اس کا مین کردار تھا ۔
چھوٹے دادا جی مجھے صنوبر پھوپھو کے حوالے کر کے خود باہر مردان خانہ میں چلے
گئے ۔۔جہاں پر برادری کے اچھے خاصے لوگ جمع تھے اور ایک جشن کا سماں تھا ۔۔ یہ شام
ﺟﯽ
کا وقت تھا صنوبر پھوپھو مجھے ایک کمرے میں لے گئیں جو کہ کافی سجا ہوا تھا اور یہ قاسم
چاچا کا کمرہ تھا وہاں جا کرمیرے منہ سے ویسے ہی نکل گیا کہ ۔۔۔۔کہ پھوپھو یہ تو قاسم چاچا
کا کمرہ ہے ۔۔۔میری بات سن کر انہوں نے فورا ً میرے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی اور بولی خبردار
۔۔ چاچا وہ شادی سے پہلے تھے اب وہ تمھارے شوہر اور خان جی ہیں ۔۔۔۔اس لیئے آج سے تم
ان کو خان جی کہا کرو گی ۔اور مجھے صنوبر پھوپھو کی بجائے صنوبر باجی کہو گی ۔۔۔۔ اس
ا
بالوں والی ۔۔۔ کے ساتھ اپنے خاوند کے پاس جاؤ گی ۔۔؟ پھر بڑے معنی خیز لہجے میں بولیں
ﺳﺗﺎ
میرا خیال ہےتم بات کو سمجھ گئی ہو گی ۔۔ان کے کہنے پر مجھے یاد آیا کہ دا جی قتل کی بھاگ
دوڑ میں میں بڑا عرصہ ہوا میں تو اپنے نچلے حصے کی صفائی کرناہی بھول گئی تھی یہ بات
یاد آتے ہی میں نے صنوبر پھو پھو کے ہاتھ سے کریم لی اور واش روم میں گھس گئی ۔۔ واش
روم میں کپڑے اتارتے ہی دیکھا تو سامنے ایک قدِآدم شیشہ لگا ہوا تھا چنانچہ ہینگر پر کپڑے
ﻧﯽ
لٹکاتے ہی میں اس کے سامنے جا کھڑی ہوئی اور اپنا جائزہ لینے لگی ۔۔۔۔اسی دوران میر ی
نظر اپنے کسے ہوئے بدن سے ہوتی ہوئی اپنی چوت کی طرف گئی ۔۔۔۔ دا جی کےقتل کیس میں
اسے بھول ہی گئی تھی ۔۔اب جو دیکھا ۔تو۔۔ وہاں بالوں کا ایک گھنا جنگل اگا ہوا تھا ۔۔۔۔ پھر
ﺟﯽ
میں نے اپنی پھدی پر بڑھے ہوئے بالوں کو اپنے ہاتھ میں پکڑا ۔۔۔ اور ان میں انگلیاں پھیرنے
لگی ۔۔ ۔۔پھر اچانک ۔۔۔۔ مجھے صنوبر ۔۔۔۔ پھوپھو کی کہی ہوئی یہ بات یاد آگئی کہ ۔ آج تمھاری
پہلی رات ہے ۔۔یہ سوچ آتے ہی ۔میں نے ۔شرم سے سوچا ۔۔ اُف ۔ مجھے پہلے کیوں نہ ۔ان بالوں
کو کاٹنا یاد آیا ؟؟۔۔پھر میں نے سوچا کہ ۔ اگر صنوبر پھوپھو مجھے کریم نہ دیتی تو ؟؟ ۔۔۔ میں
@
سرخ ہو گیا ۔۔ اور میں نے ایسی ہی ۔۔وہ کیا سوچتے ؟؟۔۔۔۔ یہ سوچ آتے ہی شرم سے میرا چہرہ ُ
دل ہی دل میں صنوبر پھوپھو کا شکریہ ادا کیا ۔۔۔ صنوبر پھوپھو کے ساتھ ہی مجھے ان کا کہا
ہوا یہ فقرہ بھی یاد آ گیا کہ ۔ آج تمھاری سہاگ رات ہے ۔۔سہاگ رات۔۔۔۔۔ سہاگ رات کا یاد آتے
ہی میرے پورے جسم میں سنسنی سی پھیل گئی اور ۔۔۔ میرے اندر کچھ عجیب سی فیلنگ بھرنے
ﺷﺎه
لگیں ۔اور میں یہ سوچ کر ہی شرم سے دوھری ہو گئی ۔کہ آج رات ۔۔ میری ۔۔۔۔چوت ۔۔ ماری
جائے گئی یہ خیال آتے ہی ۔۔۔ بے اختیار میرا ہاتھ اپنی بالوں والی پھدی کی طرف چال گیا
۔۔۔۔اورمیں نے اپنی پھدی کے بالوں کو ایک طرف ہٹا کر۔ چوت کے لبوں پر لے گئی ۔۔۔ یہ لب
آپس میں ُجڑے ہوئے تھے ۔۔ پھر میں نے انہیں انگلیوں کی مدد سے کھول دیا ۔۔ ۔۔اور ۔۔ شیشے
سرخ سرخ تھی ۔ اور ۔میں اپنی ُکے سامنے اپنی چوت کا معائینہ کرنے لگی ۔اُفف ف ۔ اندر یہ کتنی ُ
ﺟﯽ
سرخ پھدی کو دیکھ مست ہونے لگی ۔۔۔۔ پھر اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی مڈل فنگرکو اپنی پھدی ُ
کے اندر ڈال دیا اور اسے ادھر ادھر گھمانے لگی ۔۔آہ۔ہ۔ہ۔ہ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میرے اوپر ایک
عجیب سا سرور ۔چھانےلگا خصوصا ً یہ سوچ کر کہ ۔۔۔ آج اس پھدی میں قاسم چا چا کا لن
جائے گا ۔پتہ نہیں قاسم چا چا ۔۔۔ او ۔۔ خان جی کا لن کتنا بڑا ہو گا ۔۔۔ میری اس تنگ سی پھدی
میں جا پائے گا بھی کہ نہیں ۔۔؟؟
یہ بات سوچ سوچ کر ۔۔۔۔میں مست ہونے لگی ۔۔۔۔۔۔ کچھ دیر تک میں نے فنگرنگ کی ۔۔ پھر
میں نے اپنے غیر ضروری بالوں پر کریم لگانا شروع کر دی ۔۔۔۔ کریم لگانے کے بعد اچانک
خیال آیا کہ ۔۔۔ یہ لوگ تو ہمارے دشمن ہیں ۔۔ پھر میں ایسا کیوں سوچ رہی ہوں ۔۔۔ لیکن اس کے
ا
سا تھ ہی مجھے امی کی کہی ہوئی بات یاد آ گئی کہ چونکہ میرا جینا مرنا اب اسی گھر میں ہے
ﺳﺗﺎ
۔۔۔۔ اور اس گھر میں رہنے کے لیئے یہ بات اشد ضروری ہے کہ میں ہر صورت میں اپنے
خاوند کا دل جیتوں ۔۔۔ اور اس کا دل اسی صورت میں جیتا جا سکتا ہے کہ ۔۔۔۔۔ اسی طرح میری
اندر مختلف سوچوں نے یلغار کر دی کہ مجھے کیا کرنا چاہیئے ۔۔۔۔ کافی سوچ بچار کے بعد میں
ﻧﯽ
نے یہی فیصلہ کیا کہ جیسا بھی ہے قاسم خان جی اب میرا خاوند ہے اور مجھے سب سے
پہلےاس کو قابو کرنا ہے اور اسے قابو تبھی کیا جا سکتا ہے کہ جب میں اسے ۔۔۔۔۔۔۔ یہ خیال آتے
ہی میں ایک دفعہ پھر گرم ہونا شروع ہو گئی اور ۔۔۔میری ۔۔۔چوت۔۔۔۔میں ہلکی ہلکی آگ لگنے لگی۔
ﺟﯽ
نہانے کے بعد ایک دفعہ پھر میں نے شیشے کے سامنے کھڑے ہو کر اپنے ننگے بدن
خصوصا ً اپنی پھدی کو اندر باہر سے اچھی طرح چیک کیا ۔۔۔۔ تو میری چوت کے لبوں سے
ہلکا ہلکا پانی ِرس کا باہرکی طرف آ رہا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔ پھر میں نے ایک انگلی چوت میں ڈالی وہ
@
اندر سے کافی گیلی ہو رہی تھی ۔۔۔۔پھر میں نے اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹا یا اور آنے والے وقت
کے بارے میں سوچتے ہوئے۔۔۔ کپڑے پہننے لگی ۔۔۔
میں جب واش روم سے باہر آئی تو صنوبر باجی ایک خاتون کے ساتھ پہلےسے موجود تھیں
ﺷﺎه
اورمیرا خیال ہے کہ وہ دونوں میرا ہی انتظار کر رہیں تھیں کیونکہ جیسے ہی میں باہر آئی
صنوبر نے میرا ہاتھ پکڑا اور ڈریسنگ کے سامنے بٹھا دیا ۔۔۔۔ فورا ً ہی دوسری خاتو ن جو کہ
بیوٹیشن تھی آگے بڑھی اور اس نے میرا میک اپ کرنا شروع کر دیا اور ایک دو گھنٹے لگا کر
مجھے تیار کر دیا ۔او وقت رات کے 05/9ہوں گے ۔۔ جب میں میک کرا کے فارغ ہوئی تو
ﺟﯽ
صنوبر باجی نے مجھے پلنگ پر بیٹھنے کو کہا اور پھر انہوں نے سائیڈ پر سرسوں کے تیل کی
بوتل رکھی اور ساتھ ہی ایک صاف سا کپڑا مجھے پکڑاتے ہوئے بولی ۔۔۔ رکھ لو ۔۔اور پھر بڑے
ہی معنی خیز لہجے میں بولی ۔۔۔ یہ بڑے کام آئے گا ۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی تپائی پر بیٹھ
کر وہ میرے ساتھ باتیں کرنے لگیں ۔۔گو کہ ۔ اس وقت تک اس کا میرے ساتھ رویہ بڑا ہی
دوستانہ تھا لیکن پتہ نہیں کیوں مجھے ان کا یہ سارا عمل جعلی جعلی سا لگ رہا تھا ۔۔۔ خیر
رات کے کوئی بارہ ایک بجے خان جی کمرے میں داخل ہوئے ۔۔ اس وقت انہوں نے سفید کاٹن کا
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
سوٹ پہنا ہوا تھا اور اس کے اوپر کالی واسکٹ تھی ۔۔۔ سر پر سفید ٹوپی تھی اور گلے میں کافی
سارے نوٹوں کے ہار پڑے تھے جو غالبا ً ان کے دوستوں نےپہنائے ہوں گے ۔۔۔ خان جی کے
اندر داخل ہوتے ہی صنوبر باجی اُٹھی اور خان کو مبارک دیتے ہوئے کمرے سے باہر چلی گئی
لیکن فورا ً ہی واپس بھی آگئی اس کے ہاتھ میں دودھ کا گالس تھا جو اس نے بڑی خاموشی سے
ا
تپائی پر رکھا اور پھر اسی خاموشی سے چلی گئی۔۔ خان جی بھی اس کے پیچھے پیچھے دروازے
ﺳﺗﺎ
تک گئے اور بولے ۔۔۔ اور تو کچھ نہیں ہے نا ؟ تو وہ بولی ۔۔ اور کچھ نہیں خان جی ۔۔۔ اور وہ باہر
نکل گئی ۔۔ اس کے جاتے ہی خان جی نے دروازے کو الک کیا اور میرے پاس مسہری پر آ گئے
اس وقت تک میں نے اپنے چہرے کو دوپٹے سے چھپا لیا تھا ۔۔۔یعنی کہ گھونگٹ آگے کر لیا تھا
۔۔۔ وہ آئے اور انہوں نے بڑے پیار سے میرا گھونگٹ اُٹھا یا۔۔۔۔ مجھے میک اپ میں دیکھ کر وہ
ﻧﯽ
دنگ ہی رہ گئے ۔۔۔ اور کافی دیر تک وہ مجھے یک ٹک دیکھتے رہے ۔۔۔ پھر ہولے سے بولی ۔۔۔۔
مرینہ ۔۔۔۔ تم تو اپنی ماں سے بھی زیادہ خوبصورت ہو۔ اور پھر انہوں نے اپنی واسکٹ کے جیب
سے ایک انگھوٹھی نکالی اور مجے اپنا ہاتھ آگے کرنے کو کہا میں نے اپنا ہاتھ آگے کیا اور
ﺟﯽ
تو وہ اسے دیکھ کر چونک گئے اور بولے ۔۔۔صنوبر نے تم کو مہندی کیوں نہیں لگائی ۔؟؟ لیکن
میں نے ان کی اس بات کا کوئی جواب نہ دیا اور بس ُچپ چاپ سر جھکائے بیٹھی رہی ۔۔ وہ کافی
دیر تک میرے جواب کے منتظر رہے لیکن جب میں نے کوئی جواب نہ دیا تو وہ خود ہی کہنے
لگے چلو کوئی بات نہیں اس کے بعد انہوں نے مجھ سے بات چیت شروع کر دی اور بولے ۔۔۔۔
@
دیکھو جو ہونا تھا ہو گیا ۔۔۔ اب اس کو یاد کرنے کا کوئی فائدہ نہیں ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد
انہوں نے کافی دیر تک میرے ساتھ باتیں کیں اور اپنے گھر کے بارے میں سمجھاتے رہے کہ
مجھے کیا کرنا ہوگا زیاددہ تر باتیں وہی کر رہے تے میں تو بس ہوں ہاں میں جواب دے رہی
تھی ۔۔۔ ۔ضروری باتیں کرنے کے بعد انہوں نے اپنا ہاتھ میری ٹھوڑی پر رکھا اور میرا چہرہ
ﺷﺎه
اوپر کرتے ہوئے شوخی سے بولے ۔۔ سارا وقت میں ہی بولے جا رہا ہوں کچھ تم بھی بولو نا ۔۔۔
تو میں نے کہا ۔۔میں کیا بولوں خان جی ؟؟ ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگے کچھ بھی ۔۔۔۔ لیکن میں چپ رہی
پھر اس کے بعد انہوں نے میرے حسن کی تعریف کرنی شروع کر دی اوراسکے ساتھ ہی میرے
نزدیک ہو گئے اور پھر انہوں نے اپنے ہونٹوں کو میرے ہونٹوں پر رکھ دیا اور مجھے ہلکا سا
بوسہ دیا ۔۔۔۔ جو مجھے بڑا اچھا لگا اس کے بعد انہوں نے میرے ہونٹوں کو اپنے منہ میں لے
ﺟﯽ
لیا اور ان کو چوسنے لگے ۔۔۔ آہ ،،ہ ۔۔ ان کے اس عمل سے میرے اندر مستی چھانے لگی ۔۔۔
کافی دیر تک وہ میرے ہونٹ چوستے رہے اس کے بعد انہوں نے مجھے نیچے لٹا دیا اور خود
میرے اوپر آ گئے اور ایک دفعہ پھر میرے ہونٹ چوسنے لگے ۔۔۔ جس سے میری مستی میں
اضافہ ہونے لگا ۔۔ پھر انہوں نے میری قیمض اوپر کی اور برا ہٹا کر میری چھاتی کو ننگا کر دیا
۔۔۔ اور خود پاس بیٹھ گئے ۔۔۔ پھر انہوں نے میرے نپل کو اپنی دونوں انگلیوں میں پکڑا اور اسے
ا
۔۔ میرا دل کر رہا تھا کہ خان جی میرے نپلز کو چھوڑ کر اب نیچے لگی آگ کا بھی کچھ کریں ۔۔۔۔
ﺳﺗﺎ
لیکن میں مجبور تھی کچھ کہہ نہ سکتی تھی ۔۔۔
کچھ دیر بعد انہوں نے مر ے نپلز سے اپنا منہ ہٹایا اور میری طرف دیکھ کر بولے کیا
ﻧﯽ
خیال ہے ؟؟ میں کچھ نہ سمجھی اور بولی کس بات کا ؟ تو انہوں نے کوئی جواب نہ دیا اور اپنی
قمیض اتارنے لگے واسکٹ وہ پہلے ہی اتار چکے تھے ۔۔۔۔ قمیض اتارنے کے بعد انہوں نے
اپنی شلوار بھی اتار دی ۔۔۔ جیسے ہی انہوں نے اپنی شلوار اتاری ۔۔۔ میں نے اپنی آنکھوں پر ہاتھ
ﺟﯽ
رکھ لیا جب وہ پورے ننگے ہو گئے تو انہوں نےمیری آنکھوں پر رکھا میرا ہاتھ ہٹایا اور بولے۔۔۔
کس بات سے شرما رہی ہو میری جان ۔۔!!! اور میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا ۔۔۔۔ تب میں
نے ان کے مردانہ عضو کی طرف دیکھا تو حیرت کے مارے میری آنکھیں پھٹنے کے قریب ہو
گئیں ان کا "وہ " بہت بڑا اور خصوصا ً اس کا اگال سرا بہت موٹا تھا ۔ ۔۔۔۔ اور یہ سوچ کر ہی
مجھے غش آنے لگا کہ خان جی کا اتنا بڑا ۔۔ میری تنگ سی چوت میں کیسے جائے گا؟؟ ابھی
@
میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ خان جی بولے اس کو دباؤ ۔۔۔ اور میں نے ان کا وہ پکڑ کا ہلکا سا
دبا یا اور پھر ۔۔ اسے چھوڑ دیا ۔۔۔ ان کا وہ بہت گرم اور سخت اکڑا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔۔جب میں نے ان
کے اس سے ہاتھ ہٹایا تو ۔۔۔۔ہنس پڑے اور بولے ،۔۔۔ کیاگ ہے میرا لن ؟ لیکن میں نے کوئی جواب
نہ دیا پھر وہ مجھ سے بولے میں نے اپنی شلوار اتار دی ہے تم بھی اپنے کپڑے اتارو ۔۔۔ میرا
ﺷﺎه
بھی یہی جی چاہ رہا تھا ۔۔۔ لیکن شرم کے مارے میں کچھ نہ کہہ سکتی تھی ۔۔ انہوں نے بھی
میری یہ حالت بھانپ لی اور پھر وہ آگے بڑھے اور خود ہی میرے کپڑے اتار دئے اب میں ان
کے سامنے ننگی پڑی تھی ۔۔۔ انہوں نے ایک نظر میرے ننگے سراپے پر ڈالی اور پھر وہ ٹانگوں
کے بیچ آ گئے اور دونوں ٹانگوں کے بیچ بیٹھ کرانہوں نے اپنا ہاتھ میری پھدی پر رکھ دیا ۔۔۔
ﺟﯽ
اور بولی ۔۔۔اوئے ۔۔۔۔ کتنی گرم ہے تمھاری۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر میری چوت کے دانے کو مسلنے لگے
۔۔۔ جس سے میری تن میں ایک عجیب سی ہلچل مچ گئی اور مجھے خواہ مخواہ انگڑائیاں آنے
لگیں اور شہوت کی وجہ سے میرا سارا جسم کانپنے لگا ۔۔۔ پھر انہوں نے میری آنکھوں میں
دیکھا تو وہاں بھی انہیں شہوت کے الل ڈورے تیرتےنظر آئے ۔۔۔ یہ دیکھ کر انہوں نے میری ۔۔۔
ہپس کے نیچے ایک تکیہ رکھا اور خود میری ٹانگوں کے درمیان اکڑوں بیٹھ گئے اور پھر پاس
پڑے سرسوں کے تیل کی شیشی سے کافی سارا تیل نکال اور اپنے لن پر اچھی طرح مل دیا پھر
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
انہوں نے اپنے اس کا بڑا سا ٹوپ میری چوت کے لبوں پر رکھا اور میری طرف دیکھ کر بولے
۔۔۔۔ بس تھوڑی سی تکلیف ہوگی ۔اور پھر میری ٹانگیں اپنے کندھوں پر رکھ لیں ۔۔۔ اور اپنے لن
کو میری چوت کے نشانے پر رکھ کر ہلکا سا دھکا لگا دیا ۔۔ ان کے لن کا نوکیال سرا پھسل کر
میری چوت کے تھوڑا سا اندر چال گیا ۔۔۔ جو میں نے اپنی چوت میں محسوس کیا اور پھر میں
ا
نے شرم کے مارے اپنی آنکھوں کو اپنے بازؤں سے ڈھانپ لیا انہوں نے میری اس حرکت کا
ﺳﺗﺎ
کوئی نوٹس نہ لیا ۔۔۔ کیونکہ ان کی سار ی توجہ میری چوت کی طرف تھی ۔۔۔۔۔
اس کے بعد ۔۔۔ پہلےتو انہوں نے میری چوت میں اپنے لن کے اگلے سرے کو بڑے آرام
سے اِن آؤٹ کرنا شروع کر دیا ۔۔ ان کا لن اندر جاتے ہی میری چکنی چوت کی دیواروں نے
ﻧﯽ
مزید چکناہٹ چھوڑنے شروع کر دی ۔۔۔۔ جس کی وجہ سے میری تنگ چوت میں ان کے لن کے
اگلے سرے کو آنے جانے میں کافی آسانی ہو گئی ۔جب ان کے لن کے آنے جانے میں کچھ روانی
آ گئی تو وہ رک گئے اور مجھے مخاطب کر کے بولے ۔۔۔ مرینہ جان ۔اب میں سارا لن تمھارے
اندر ڈالنے لگا ہوں ۔تمھیں ۔بس ۔تھوڑا سا درد ہو گا ۔۔۔۔ پھر اس کے بعد انہوں نے ایک زور
ﺟﯽ
دار ۔۔۔ جھٹکا مارا اور ۔۔۔۔ ان کا سارا لن میری چوت میں اتر گیا ۔۔۔۔۔ لن اندر جاتے ہی درد کی ایک
تیز لہر ۔۔۔ میرے سارے بدن میں پھیل گئی اور پھر ۔۔۔ اس درد کی وجہ سے ۔۔۔ خود بخود ہی
میرے منہ سے چیخیں نکلنا شروع ہو گئیں ۔۔۔۔۔۔ اوئی مورے ۔۔۔ خوگی کی ۔۔۔ خوگی کی ۔۔۔۔۔۔
(ماں مجھے درد ہو رہا ہے ) ۔۔۔ انہی چیخوں کے درمیان مجھے خان جی کی آواز سنائی دی ۔۔۔
@
چپ شا ماڑا ۔۔ اس شے نشتا ۔(چپ ہو جاؤ کچھ بھی نہیں ہے ) لیکن مجھے خود پر کنٹرول نہ تھا
اس لیئے میری چیخیں جاری رہیں ۔۔۔ خان جی کچھ دیر تک تو کہتے رہے ۔۔۔۔ اس شے نشتہ
۔۔۔۔لیکن ان کے ہر گھسے پر میری جان نکل رہی تھی اس لیئے جب انہوں نےدیکھا کہ میر ی
چیخیں نہیں بند ہو رہیں تو انہوں نے ہاتھ آگے بڑھا کر میرے منہ پر رکھ دیا ۔۔۔ اور ۔۔۔ پھر میری
ﺷﺎه
چوت کی دھالئی شروع کر دی ۔۔ مجھے ان کی اس چودائی سے مزہ بھی آ رہا تھا اور درد بھی
ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ اس طرح کافی دیر گزر گئی ۔۔۔اس دوران میں کافی دفعہ فارغ ہوئی لیکن وہ ظالم
نہ ہوا ۔۔ آخر ۔ ۔۔۔۔ کوئی 15،14منٹ بعد میں نے دیکھا کہ خان جی کو سانس چڑھا ہوا ہے اور
وہ بری طرح سے ہانپ رہے ہیں گو کہ اس دوران میں کافی دفعہ چھوٹ چکی تھی ۔۔۔ لیکن خان
جی کی یہ حالت دیکھ کر میں نے یہ بھی محسوس کیا کہ میری پھدی کی ساری دیواریں خان
ﺟﯽ
جی کے لن کے ساتھ چمٹ سی گئیں ہیں ان اس کے ساتھ ہی خان جی نے لمبے لمبے سانس لیئے
۔۔۔ اور ان کے لن نے منی چھوڑنا ۔۔۔۔ شروع کر دی ۔۔۔۔اور میں نے اپنی چوت کے اندر ۔۔۔ خان
جی کے لن کا یہ گرم گرم پانی اپنی پھدی کے اندر جمع ہوتا ہوا محسوس کیا ۔۔۔ اس کے ساتھ
ہی ایک عجیب سا نشہ میرے سارے وجود پہ چھا تا گیا ۔اور اس نشے اور غنودگی کی وجہ
سے خود بہ خود میری آنکھیں بند ہوتی چلی گئیں ۔۔۔۔ ۔۔۔۔
ا
کا برا حال کر دیا تھا ۔۔۔ ابھی میں اپنی چوت اور بیڈ پر بچھی چادر کا جائزہ لے رہی تھی کہ واش
ﺳﺗﺎ
روم سے خان جی باہر آئے اور آکر میرے پاس کھڑےہو گئے اور بیڈ کی چادر پر لگے خون
کو دیکھ کر بڑے خوش ہوئے اور مجھے اپنے گلے سے لگا کر بولے تم نے بڑا مزہ دیا ہے
سنی اور اور واش روم میں چلی گئ وہاں جا کر اچھی طرح اپنی چوت مرینہ ۔۔ میں نے ان کی بات ُ
صاف کی اور اس کے آس پاس کا ایرا صاف کیا اپنی پرائیوٹ جگہوں کو اچھی طرح دھونے
ﻧﯽ
میں کافی دیر لگ گئی ۔۔ چنانچہ فارغ ہو نے کے بعد جب میں واپس آئی تو خان جی ۔۔۔ بیڈ پر
لیٹے تھے اور ان کا وہ ۔۔ کسی کھمبے کی طرح اکڑا کھڑا تھا جسے دیکھ کر میں خاصی
حیران ہوئی کہ ابھی تو ۔۔۔۔۔پھر ۔۔ مجھے بعد میں پتہ چال کہ خان جی نے اس دن سپیشل گولیاں
ﺟﯽ
کھائی ہوئی تھیں ۔جس کی وجہ سے ان کا " وہ" نیچے ہونے کا نام نہیں لے رہا تھا چنانچہ
جیسےہی میں واپس بیڈ پر آئی تو خان جی نے اشارے سے مجھے اپنے ساتھ لیٹنے کو کہا ۔۔۔ اور
میں ان کے ساتھ لیٹی تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر اپنے اس پر رکھ دیا اور بولے اس کے سہالؤ۔
@
ان کے کہنے پر میں نے ان کا اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسے سہالنے لگی ۔۔۔ تو وہ بولے
۔۔۔بتاؤ کیسا لگا ۔۔؟ تو میں نے شرماتے ہوئے جواب دیا کہ ۔۔ بہت اچھا ۔ اور وہاں سے ہاتھ ہٹا لیا
تو وہ کہنے لگے ۔۔۔ ایک اور دفعہ لو گی ؟؟ میں نے ان کی بات تو سنی لیکن کوئی جواب نہ دیا
۔( حال آں کہ میرا دل چاہ رہا تھا لیکن ۔۔ شرم کے مارے بتا نہ سکتی تھی ) ۔۔ وہ کچھ دیر تک
ﺷﺎه
میرے جواب کا انتظار کرتے رہے ۔۔پھر میری خاموشی کو رضامندی سمجھتے ہوئے وہ بیڈ
سے اُٹھے اور بولے ۔۔۔ اب تم اُلٹی ہو جاؤ ۔ میں ان کی اس بات کا مطلب نہ سمجھی اور سوالیہ
نظروں سے ان کی طرف دیکھنی لگی میری بات سمجھ کر انہوں نے ایکشن کرتے ہوئے کہا
ایسے اور وہ ڈوگی سٹائل میں ہو گئے ۔۔۔ ان کی دیکھا دیکھی میں بھی ان کے سامنے ڈوگی بن
ﺟﯽ
گئی اور وہ میرے پیچھے آ گئے اور ایک میری گانڈ پر ہاتھ پھیرنے لگے ۔۔۔ جس کی وجہ سے
مجھے بڑا مزہ مال ۔۔۔ پھر انہوں نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑا اور اس کی نوک میری چوت پر پھیرنے
لگے ۔اُف ف۔ف ۔ف ان کی اس حرکت سے میری چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔ اور جب
انہوں نے دیکھا کہ اب میں فُل گرم ہو گئی ہوں تو انہوں نے پیچھے سے اپنا موٹا لن میری
چوت کے لبوں پر رکھا اور ۔۔۔ دھیرے دھیرے میری چکنی چوت میں اپنا لن اندر ڈال کر ان
آؤٹ کرنا شروع کر دیا ۔سچی بات یہ ہے کہ پہلی بار کی نسبت اس دفعہ مجھے بڑا مزہ مل رہا
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
کہ کیونکہ اس دفعہ ان کا "وہ " میری چوت میں پھنس پھنس کرآ جا رہا تھا اور ان کی اس
رگڑائی سے میں بے حال ہو رہی تھی اور میں مزے کے ساتویں آسمان پر پہنچ چکی تھی ۔۔ ان
کے ہر گھسے سے میں مزے کی نئی منزلوں کو چھو رہی تھی ۔۔۔ پچھلی بار کی طرح اس دفعہ
بھی انہوں نے کافی ٹائم لگایا ۔۔ اور ایک دفعہ پھر ان کے اس نے میرے اندر ہی پچکاری ماری ۔۔
ا
جس سے میرا انگ انگ شانت ہو گیا ۔۔ اور میں نڈھال سی ہو کر بستر پر گر گئی ۔اور پھر جب
ﺳﺗﺎ
ان کے بعد میں واش روم سے واپس آئی تو یہ دیکھ کر میری آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں کہ
ان کو لن ابھی بھی اکڑا کھڑا تھا۔۔میں نے ان کے لن کی طرف دیکھا تو وہ کہنے لگے ۔۔۔
ﻧﯽ
پہلے دو شارٹ تو میں نے آگے سے لگائے تھے اب تیسرا اور آج رات کا آخری شارٹ میں
تمھارے پیچھے سے کروں گا اور مجھے دوبارہ ڈوگی بننے کو کہا ۔۔۔ پیچھے سے کرنے کا
سن کر میری تو جان ہی نکل گئی ۔۔ پر میں بوجہ انکار نہ کرسکتی تھی اس لیئے ان کے حکم
ﺟﯽ ُ
کے مطابق میں ڈوگی بن گئی ۔۔ اس دفعہ کی شارٹ نے جس میں کہ انہوں نے مجھے پیچھے
سے کیا ۔تھا ۔۔ جس نے میرا بُرا حال کر دیا ۔۔ اور میری چھوٹے سے سوراخ میں ان کا تنا بڑا
سا لن جانے کی وجہ سے ۔۔ میری پھٹ گئی اور جب پہلی دفعہ ان کا اندر جا رہا تھا تو مجھے
ایسا لگا کہ ۔۔۔۔ میری گانڈ کے اندر ایک آگ کا گولہ ۔۔ جا رہا ہے ۔۔۔ جس کی وجہ سے درد کے
مارے میرا برا حال ہو گیا اور میری وہاں سے کافی خون بھی نکال ۔۔۔ لیکن اس بے دردی پر
@
میری چیخ و پکار کا کوئی اثر نہ ہوا اور اس نے ویسے ہی میری گانڈ مارنی جاری رکھی ۔۔۔۔
اور مجھ پر زرا ترس نہ کھایا ۔۔۔ادھر میرے درد کا تو پوچھو نا اتنا درد ہوا کہ پہلی دفعہ
شدید درد اور کر ب کی وجہ سے میرے آنسو نکل آئے اور ۔۔۔۔۔ ۔۔
ﺷﺎه
اس طرح میری شادی شدہ زندگی کی شروعات ہو گئیں ۔۔۔ شادی کے ابتدائی دنوں میں خان
جی تقریبا ً روز ہی مجھے چودا کرتے تھے اور خاص طور پر پیچھے ضرور ڈالتے تھے پیچھے
ڈالنے سے شروع شروع میں تو مجھے بڑا درد ہوا لیکن پھر آہستہ آہستہ میری گانڈ کے ٹشو کھل
گئے اور ان کے لن کی موٹائی کے ساتھ ایڈجسٹ ہوگئے اور پھر کچھ عرصہ بعد میں دونوں
ﺟﯽ
طرف سے یوزڈ ٹو ہو گئی اور پھر اس کے بعد ایک وقت وہ بھی آیا کہ مجھے پیچھے
سے بھی کروانے میں مزہ آنے لگا ۔۔کچھ عرصہ تو خان جی نے مجھے جم کر چودا ۔۔۔۔ پھر اس
چودائی میں وقفہ آنا شروع ہو گیا اور خان جی جو روز مجھے چودتے تھے اب دوسرے تیسرے
دن چودنے لگے پھر اس کے بعد انہوں نے ہفتے بعد مجھے چودنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔
ا
ہوتا جا رہا تھا۔۔ ۔ پھر اس کے بعد پتہ نہیں کیا میرا وہم تھا یا کیا تھا کہ میں نے محسوس کیا کہ
ﺳﺗﺎ
دن بدن میرے ساتھ خا ن جی کا برتاؤ کچھ سخت سے سخت ہوتا جا رہا تھا دوسری طرف
صنوبر باجی کا بھی یہی حال تھا ۔۔ شروع شروع میں ان کا میرے ساتھ برتاؤ بڑا ہی دوستانہ تھا
لیکن پھر آہستہ آہستہ انہوں نے بھی میرے ساتھ سختی برتنا شروع کر دی ۔۔شادی سے پہلےانہوں
نے نے گھر میں کام کاج کے لیئے ایک لڑکی رکھی ہوئی تھی جو میری شادی کے کچھ عرصہ
ﻧﯽ
بعد تک تھی لیکن پھر۔۔۔۔ پتہ نہیں کیا ہوا کہ انہوں نے اس کو بھی چھٹی دے دی ۔۔۔ اور مجھ سے
گھر کے سارے کام کروانے شروع کر دئیے۔۔گھر کے کام کرنے میرے لیئے کوئی مشکل نہ تھا
کہ جب میں جوان ہوئی تھی تو میں نے امی کو ُچھٹی دیر خود گھر کے سارے کام اپنے ذمہ
ﺟﯽ
لے لیئےتھے ۔۔ لیکن یہاں مجھے جس چیز کا سخت افسوس تھا وہ ان دونوں کا رویہ تھا ۔۔۔۔اگر
گھر کے لوگ سختی کریں اور خاوند آپ کے ساتھ سیٹ ہو تو کام چل جاتا ہے لیکن اگر گھر والے
بھی ٹھیک نہ ہوں اور شوہر صاحب کا رویہ بھی درست نہ ہو تو بڑی تکلیف ہوتی ہے ۔خاص کر
صنوبر باجی تو ہر وقت غصہ میں رہتی تھیں اور مجھے طعنے دینے دینے کا کوئی موقعہ ہاتھ
@
سے نہیں جانے دیتی تھیں ۔۔۔۔ پتہ نہیں کیوں صنوبر باجی کو طعنے دینے میں کیوں اتنا مزہ آتا
تھا ۔۔۔ خیر میں یہ سب برداشت کرتی گئی اور کوشش کرنے لگی کہ کسی طرح خان جی کو
راضی رکھوں۔۔ لیکن وہ بھی ہر وقت ناک بھوں چڑھائے رکھتے تھے اور میں حیران تھی کہ
ایسا کیوں تھا ۔۔ پھر میں نے اس بات پر غور کرنا شروع کر دیا کہ خان جی کا موڈ کس وقت
ﺷﺎه
اور کس وجہ سے آف ہوتا ہے تا کہ میں اس بات سے پرہیز کروں ۔۔ اور پھر کچھ دنوں کی
جاسوسی کے بعد مجھ پر یہ بات آشکارا ہوئی کہ ۔۔۔۔
یہ سب کیا دھرا صنوبر باجی کا ہے ۔۔۔ وہی خان جی کو اُلٹی سیدھی پٹیاں پڑھاتی رہتی
ﺟﯽ
تھی جس کی وجہ سے خان مجھ سے بات بے بات پر ناراض ہوتا تھا ۔۔۔ یہ سب جان کر میں سوچ
میں پڑ گئی کہ اس صنوبر کا کیا عالج کروں ۔۔۔۔؟؟ میں اس کی شرارتوں سے کیسے توڑ کروں؟؟
کہ میں ان کی ریشہ دوانیوں سے عاجز آ چکی تھی ۔۔۔کافی عرصہ سوچتی رہی لیکن کچھ سمجھ
نہ آیا پھر ۔۔ ایک دن میری ایک پرانی کالس فیلو اور سہیلی مجھ سےملنے آئی ۔۔۔اور مجھے
مرجھائ ے دیکھ کر ۔ وہ بھی پریشان ہو گئی ۔۔۔ اور مجھ سے میری اس پریشانی کا سبب پوچھا
سن کر وہ بھی سوچ میں پڑ گئی تب میں نے اس سے کہا کہ یار تو میں نے ساری حقیقت بتا دی ۔۔۔ ُ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
اس کا آخر حل کیا ہے ؟ سوچ سوچ کر اس نےمجھے کہاکہ میری جان اس کاایک ہی حل ہے کہ
تم صنوبر کی کوئی کمزوری پکڑو ۔۔۔۔ اور پھر اس کی اس کمزوری کو اپنی طاقت بناؤ ۔۔۔بس
یہی ایک طریقہ ہے ۔۔۔ ورنہ یہ عورت تمھاری زندگی میں زہر گھولتی رہے گی ۔ اور تمھارے
خاوند کو مزید تمھارے خالف کرتی رہے گی ۔اپنی دوست کی یہ بات میں نے اپنے پلو سے باندھ
ا
لی اور پھر ۔۔ میں تاڑ میں رہی کہ صنوبر باجی کی کوئی کمزوری پکڑوں ۔۔۔ ایک دفعہ ایسا ہو
ﺳﺗﺎ
جائے تو ۔۔ میں اس صنوبر کی بچی کو ایسا سبق سکھاؤں گی کہ سالی یاد کرے گی ۔۔۔ اور پھر
اس کے بعد میں نے صنوبر کی کمزوریاں تالش کرنا شروع کر دیں ۔
ﻧﯽ
لیکن کافی کوشش کے بعد بھی میں اس کی کوئی خرابی کوئی کمزوری نہ تالش کر سکی
۔۔ یہ بات میں نے اپنی دوست کو بتائی تو اس نے کہا کہ تم اس سلسلہ میں اپنے کام والی کی مدد
لو یہ لوگ اپنے مالکوں کے ہر راز اور ساری کمزوریوں سے خوب واقف ہوتے ہیں ۔۔ دوست
ﺟﯽ
کی یہ بات میرے دل کو لگی اور ایک دن میں اپنے کام والی کے گھر چلی گئی ۔۔۔۔۔ اور پھر بڑی
منت سماجت اور ۔۔ کچھ نقدی خرچ کرنے کے بعد اس نے مجھے ایک ٹپ دی ۔۔۔۔اس کی یہ ٹپ
سن کر میں تو ہکا بکا رہ گئی ۔۔۔ اور پھر بے یقینی کے عالم میں اس سے بار بار اس بات کی
تصدیق کی ۔۔۔ اور جب مجھے پکا یقین ہو گیا کہ ۔ کہ بات ایسی ہی تھی ۔۔ لیکن اس میں کافی
رسک تھا ۔۔۔ لیکن کیا کروں کہ یہ رسک لیئے بنا چارہ بھی نہ تھا ۔۔پھر مجھے خیال آیا کہ اگر
@
سچ مچ یہ کام ہو گیا تو ۔۔۔۔ صنوبرباجی تو بے موت ماری جائے گی ۔۔۔ اور اس کام نہ کرنے
کا سوچا پھر میرے اندر ااچانک یہ سوچا ابھری کہ اس نے تمھارے ساتھ کون سی نیکی کی ہے
جو تم اس کا اتنا خیال کر رہی ہو ؟ اور سالی کی کمزوری پکڑو اور ۔۔۔۔ یہ سوچ کر میں نے اپنا
کام جاری رکھنے کی ٹھانی ۔۔۔۔ ٹپ ہی ایسی تھی کہ ۔۔ جس کی وجہ سے وہ۔۔ ماری جاتی ۔۔۔ اور
ﺷﺎه
پھرجرگہ کی وجہ سے ہمیں وہ ٹال چا چا کے نام کرنا پڑا تھا ۔۔ اس کے بعد جب میں نے
اس سے متعلقہ لڑکے کے بارے میں پوچھا تو وہ جس لڑکے کی بات کر رہی تھی اسے میں
اچھی طرح سے جانتی تھی ۔ اس کا نام دالور خان تھا جسے دا جی نےہی نوکر رکھا تھا ۔دالور
خان ۔ کافی ہینڈسم ۔۔۔ شریف اور اپنے کام سے کام رکھنے و اال لڑکا تھا۔ ۔اسی لیئے میں کام
والی کے منہ سے دالور خان کا نام سن کر بہت حیران ہوئی تھی کیونکہ رشتے میں دالور
ا
اچھی طرح سے جانتی تھی اس وقت یہ کافی بھوال بھاال اور معصوم سا لڑکا ہوا کرتا تھا ۔۔
ﺳﺗﺎ
ت سیکس میں پکڑ لوں تو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میرا کام
اس کام والی کے بقول اگر میں ان دونوں کو عین حال ِ
بن سکتا ۔۔اس میں ایک مسلہ یہ تھا کہ دالور خان روز نہیں ۔۔۔بلکہ ہفتے میں ایک آدھ دن ہی
ہمارے گھر آتا تھا لیکن مجھے نہیں یاد کہ میں نے کبھی اس کو اپنے گھر دیکھا ہو ۔۔ چنانچہ
میں نے اس سے پوچھ ہی لیا کہ آخر دالور کے آنے کا ٹائم کیا ہے ؟؟ ۔۔ تو اس نے بتا یا کہ
ﻧﯽ
عام طور پر یہ لڑکا اس وقت آپ کے گھر آتا ہے جس وقت آپ خان جی کو ناشتہ وغیرہ دے
سن کر مجھے یاد آیا کہ واقعی میں خان جی کے جانے کے کر ریسٹ کرتیں ہیں اس کی بات ُ
بعد ایک دو گھنٹے سوتی تھی پھر اس کے بعد میں اُٹھ کر گھر کی صفائی وغیرہ کیا کرتی
ﺟﯽ
تھی اور میں اکثر اس بات پر بڑی حیران ہوا کرتی تھی کہ ویسے تو صنوبر باجی کو میری ہر
بات بُری لگتی تھی لیکن آج تک اس نے میرے دوبارہ سونے پر کوئی تنقید نہ کی تھی ۔۔۔۔اور
میرے دوبارہ سونے پر ان کی تنقید نہ کرنے کی وجہ آج میری سمجھ آئی تھی ۔۔ خیر اس کی
ساری کہانی سننے کے بعد اب میں اس تاڑ میں رہنے لگی کہ کب دالور صنوبر باجی کے کمرے
@
میں جائے اور میں چھاپہ ماروں ۔۔ اور اس سلسسلہ میں۔۔ میں نے ساری پالنگ بھی کر لی تھی
کافی دن تک ریکی کرنے کے باوجود بھی جب مجھے کوئی موقعہ نہ مال تو میرے دل میں شک
گزرا کہ کہیں کام والی لڑکی نے پیسوں کے اللچ میں مجھے بےوقوف تو نہیں بنا گئی ؟ لیکن
پھر خیال آتا کہ جس وقت وہ یہ بات بتا رہی تھی تو اس وقت وہ ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہی
ﺷﺎه
تھی کہ اگر کسی کو پتہ چال گیا کہ اس نے مخبری کی ہے تو اس کی خیر نہیں ۔۔۔۔ پھر میرے
دل میں ایک اندیشہ آیا کہ کہیں اس نے صنوبر باجی کو نہ بتا دیا ہو کہ میں ا ن کی ٹوہ میں
ہوں ؟ خان اندیشوں کے باوجود بھی میں نے صنبر کی رکھوالی نہ چھوڑی ۔۔ جو کہ بڑی آسان
تھی اب میں آپ کو اپنے گھر کی لوکیشن کے بارے میں بتاتی ہوں یہ ایک بڑا سا گھر ہے جس
میں کافی زیادہ کمرے اور کھال صحن اور بڑا سا برآمدہ تھا ۔۔۔لیکن اس وقت میں آپ کو صرف
ﺟﯽ
اپنی اور صنوبر باجی کے کمرے کی لوکیشن با رہی ہوں ایک طرف خان جی کا یعنی
ہمارا کمرہ تھا ۔۔ کمرے کے آگے بڑا سا برآمدہ تھا پھر صحن اور صحن کے سامنے دو کمرے
تھے جن میں سے ایک صنوبر باجی کے پاس تھا اور مزے کی بات یہ تھی کہ صنوبر باجی
کے کمرے کا دروازہ میری کھڑکی میں سے صاف نظر آتا تھا ۔۔۔ میں روز خان جی کوناشتہ
وغیرہ دیتی پھر انکو دروازے تک الوداع کرنے جاتی ۔۔ اور پھر مین گیٹ الک کر کے بظاہر
ا
ﺳﺗﺎ
ب معمول خان جی کے آگے ناشتہ رکھا تو ناشتہ کرتے ایک دن کی بات ہے کہ میں نے حس ِ
وقت میں نے محسوس کیا کہ وہ کچھ اپ سیٹ سے ہیں تو میں نے ان سے پوچھا کہ کیا ہوا خان
جی کچھ گڑ بڑ ہے کیا۔۔؟؟ تو وہ بولے نہ یارا گڑبڑ کیا ہو گئی اصل میں مجھے کچہری ایک
تاریخ پر جانا ہے اور صنوبر نے بھی جانا ہے سوچ رہا ہوں کہ ٹائم کو کیسے سیٹ کروں کیونکہ
ﻧﯽ
مجھے ٹھیک 8بجے کچہری پہنچنا ہے اور تم کو معلوم ہے کہ ساڑھے آٹھ بجے بُالرا شروع
ہو جاتا ہے اور نو بجے صنوبر کوبھی ایک جگہ چھوڑنا ہے سوچ رہا ہوں کہ میں وہاں
سےکیسے آ کر اسے لے جاؤں گا کہ ٹائم کی بڑی پرابلم ہے ۔۔اور مجھے کچھ سمجھ نہیں آ
ﺟﯽ
سن کر میری ہنسی چھوٹ گئی اور میں نے ان سے کہا رہی کہ کیا کروں ؟؟ ۔۔ ان کی یہ بات ُ
بس یہی بات ہے؟؟ جس کے لیئےآپ اتنے پریشان ہو ؟ تو وہ بولے ۔۔۔ یہ کوئی معمولی بات ہے
؟ پھر میری طرف دیکھ کر بولے ۔۔ نہ یہ تم ہنس کس بات پر رہی ہو ۔۔ تو میں نے کہا ہنسی اس
بات پر ہوں خان جی کہ یہ واقعہ ہی یہ بڑی معمولی بات ہے پھر میں نے ان کو مشورہ
دیتے ہوئے کہا کہ خان جی آپ ایسا کرو کہ جاتے ہوئے صنوبر باجی کو بھی ساتھ لے جاؤ اور
@
سن کر انہوں نے مجھے کہا بات تو تمھاری ٹھیک ہے پھر مجھ سے بولے کہ جا میری بات ُ
کر صنوبر کو کہو کہ وہ تیاری کر لے کہ وہ ابھی میری ساتھ جا رہی ہے ۔۔ میں نے جا کر صنوبر
باجی کو خان جی کا پیغام دیا تو انہوں نے بغیر کسی ہچکچاہٹ ہے کے کہا کہ میں نے کون سا
تیار ہونا ہے ؟ خان جی کو کہوجب کہیں میں آ جاؤں گی ۔۔۔۔۔ قصہ مختصر ناشتہ کے بعد وہ دونوں
ﺟﯽ
گھر سے چلے گئے اور پیچھے میں گھر میں اکیلی رہ گئی ۔۔۔
ان کے جانے کے کوئی دس پندرہ منٹ کے بعد باہر کے دروازے پر بڑی ہی ہلکی آواز
میں دستک کی آواز آئی ۔۔ جسے میں نے اسے اپنا وہم سمجھتے ہوئے سنی ان سنی کر دی ۔۔۔
لیکن پھر جب یہ آواز وقفے وقفے سے دوبار پھر سہ بارہ سنائی دی ۔۔۔ تو میں تھوڑا حیران
بھی ہوئی کہ پتہ نہیں کون ہے جو گھنٹی کی موجودگی میں بھی دستک دے رہا ہے ۔۔۔۔۔ ؟پھر خیال
ا
بوال یہ شاپر ان کو دے دینا اور پھر وہ جانے کے لیئے مڑنے لگا ۔۔ تو میں نے اس سےثمن کے
ﺳﺗﺎ
بارے میں پوچھا ۔۔۔ کہ وہ کیسی ہے؟ تو اس نے کہا ٹھیک ہے اس پر میں نے کہا دالور ۔۔ اندر آ
جاؤ کچھ چائے پانی پی لو ۔۔۔۔۔۔ پہلے تو وہ انکار کرتا رہا پھر میرے اصرار پر اندر آ گیا ۔۔ پتہ
نہیں کیوں وہ اندر آتے ہوئے۔۔۔ کچھ گھبرا رہا تھا ۔۔۔ لیکن میرے اصرار پر وہ اندر آ گیا۔۔۔۔
میں نے دروازہ بند کیا اور اسے اپنے ساتھ لیکر ڈرائینگ روم کی طرف چلنے لگی ۔۔ میرا ذہن
ﻧﯽ
بڑی تیزی کے ساتھ کام کر رہا تھا ۔۔۔ اور میں سوچ رہی تھی کہ کیوں نہ اس سے ہی وہ بات اگلوا
لوں ۔لیکن کیسے ؟ اسی ادھیڑ پن میں اس کے ساتھ جا رہی تھی کہ ڈائیریکٹ پوچھنے میں ۔۔کہیں
بات بگڑ ہی نہ جائے ۔ اس میں کافی رسک ۔تھا لیکن پھر خیال آیا کہ دالور میرا سابقہ سٹوڈنٹ
ﺟﯽ
بھی ہے اور میری دوست کابھائ یھی ۔۔۔ اس لیئے مجھے یقین تھا کہ وہ میری بات مان لے گا
اور مجھے ساری بات بتا دے گا پھر ا س کے بعد سوچیں گے ۔۔۔ چانچہ میں نے اس کے ساتھ
چلتے ہوئے ہوا میں تیر چالتے ہوئے بڑے سرسری سے لہجے میں کہا کہ ۔۔۔ کہ صنوبر باجی
تو کافی دنوں سے تمھارا انتظار کر رہیں تھیں پر پتہ نہیں تم کہاں رہ گئے تھے ؟ میری سرسری
@
سی بات کے کہے ہوئے جال میں وہ آ گیا اور بوال باجی میں خالہ کو بتا کر تو گیا تھا کہ میں ایک
ہفتے کے لیئے کراچی جا رہا ہوں ۔۔۔ پھر وہ ایک دم چونک گیا اور گہری نظروں سے میری
طرف دیکھنے لگا لیکن بوال کچھ نہیں بوال۔۔ادھر میں نے ایسے ظاہر کیا کہ جیسے میں نے
یہ بات معمول کے مطابق کی تھی ۔۔ اور اسے اس بات کا بلکل بھی احساس نہ ہونے دیا کہ میں
ﺷﺎه
نے اس کی غلطی پکڑ لی ہے۔۔۔ میں نارمل رہی اور اس کے ساتھ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگی
۔۔اور پھر میں نے اسے بجائے ڈرائینگ روم میں بٹھانے کے برآمدے میں ہی بٹھانے کا فیصلہ
کر لیا اور اس فیصلے کے تحت ۔۔۔ میں اسے لیکر برآمدے میں چلی گئی کمرے میں اس لیئے
بھی نہ لے گئی کہ ۔۔۔ اگر کوئی اچانک آ جائے تو ہم کو سامنے پا کر کوئی بات نہ بنا سکے اسی
لیئے میں نے مین گیٹ کو بھی الک نہ کیا تھا مقصد صرف یہ تھا کہ اگر صنوبر باجی اچانک آ
ﺟﯽ
بھی جائے تو اسے یہی لگے کہ میں روٹین میں اس کے ساتھ بی ہیو کر رہی ہوں ۔۔
اسے وہاں بٹھا کر میں چائے بنانے کے لیئے کچن میں چلی گئی اور سوچتی رہی کہ بات
کیسے شروع کروں ۔۔ پھر سوچ سوچ کر ایک آئیڈیا ذہن میں آیا ۔۔ اور پھر میں نے اس آئیڈیا پر
کافی غور کیا اور مذید کوئی اچھی تدبیر نہ سمجھ میں آئی تو میں نے اسی ترکیب پر عمل کرنی
کی ٹھان لی۔۔ چائے ال کر میں اس کے پاس پہنچی اور پالن کے مطابق اس کے آگے چائے رکھ
ا
ہوئے لہجے میں اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ بھائی تم تو ۔۔ جانتے ہی ہو کہ میں ۔۔۔ ان
ﺳﺗﺎ
کے گھر جن کا قتل ہوا ہے ونی ہوئی تھی اب تم خود اندازہ لگا لو کہ یہ لوگ میرے ساتھ کیا
سلوک کر رہے ہوں گے؟ اس کے ساتھ ہی میں نے پھر دکھ بھری سانس لی اور اداس نظروں
سے اس کی طرف دیکھا ۔۔۔ میں نے دیکھا کہ میری اس ایکٹنگ سے وہ خاصہ متاثر نظر آ رہا
تھا ۔۔ کیونکہ اس کے چہرے پر میں نے تشویش کے آثار دیکھ لیئے تھے اس لیئے میں نے اس
ﻧﯽ
کی مذید ہمدردی لینے کے لیئے کہا کہ تم کو پتہ ہے کہ لوگ مجھ پر کتنا ظلم ڈھا رہے ہیں ؟
جیسا کہ مجھے پتہ تھا کہ وہ ایک کم سن اور جذباتی لڑکا سا تھا اوپر سے میں نے اداکاری ہی
سن کر وہ ایک دم طیش میں آ ایسی کی تھی کہ وہ میرے جھانسے میں آ گیا اور ۔۔ میری بات ُ
ﺟﯽ
گیا اور بوال کیا ہوا ۔۔ باجی کہ آپ کے والدین یہاں نہیں ہیں ۔۔ لیکن ہم تو موجود ہیں نا ۔۔۔۔ آپ
مجھے اس شخص کا نام بتائیں جو آپ کو تنگ کررہا ہے باقی میرا کام ہے اس کی بات سن
کر میں دل ہی دل میں خوش ہوئی کہ میرا کام بن رہا ہے لیکن بظاہر اسی ٹون میں بولی کہ ۔۔ سب
سے ذیادہ تو تمھاری خالہ مجھے تنگ کرتی ہے اور مجھ پر ظلم کے پہاڑ توڑ رہی ہے اس کے
@
سن کر وہ بعد میں نے اس کو صنوبر کے ظلم کے کچھ جھوٹے سچے واقعات سنائے جسے ُ
بڑا حیران ہوا اور کہنے لگا ۔۔ لیکن باجی صنوبر خالہ تو کہتی ہے کہ اس نے آپ کو پھولوں
کی طرح رکھا ہوا ہے اس پر میں نے بظاہر بڑے سرسری لہجے میں اس سے پوچھا کہ یہ بات
انہوں نے تم سے کب کہی ؟ تو وہ کہنے لگا کہ میں خالہ سے اکثر آپ کے بارے میں
ﺷﺎه
پوچھتا رہتا ہوں ؟ اس پر میں نے اس سے وہ بات پوچھی کہ جس کے لیئے میں نے سارا کھیل
رچایا تھا ۔۔۔ میں نے اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر اس سے بڑے ذومعنی لہجے میں پوچھا
سن کر وہ کچھ گڑبڑا ساگیا اور بوال۔۔ جی ۔جی کہ کیا تم خالہ سے ملتے رہتے ہو؟؟ ۔۔میری بات ُ
ی ی۔وہ ۔۔۔ کام کے سلسلہ میں ۔۔۔ وہ خالہ کو جب بھی کوئی کام ہوتا ہے نا تو میں ہی ان کے سارے
کام کرتا ہوں ۔۔ تب میں نے ڈائیریکٹ اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور بولی ۔۔۔ صنوبر خالہ
ﺟﯽ
کو تم سے کیا کیا کام ہوتے ہیں ؟؟ ۔۔۔ میری اس بات پر ایک دم سے اس کا چہرہ الل ہو گیا اور
وہ ۔۔۔ کھوکھلے لہجے میں کہنے لگا ۔۔۔ وہ ۔ ۔۔وہ ۔ جو بھی کام۔ہو ۔۔۔ ۔۔ پھر وہ ایک دم ُچپ ہو گیا
اور ۔۔۔ اپنا سر نیچے کر لیا ۔۔۔ اور خاموش ہو گیا ۔۔۔ تب میں نے اس سے مخاطب ہو کر کہا ۔۔۔
دالور بھائی مجھے سب پتہ ہے کہ صنوبر بر باجی آپ سے کون کون سے کام کرواتی ہیں ۔۔۔
سن کر وہ تڑپ سا گیا اور بوال ۔۔۔۔ باجی آپ کو غلط فہمی ہوئی ہے ۔۔۔ میرا صنوبر میری بات ُ
ا
ﺳﺗﺎ
تب میں نے اس سے کہا کہ میں نے کب کہا کہ تمھارا صنوبر باجی کے ساتھ ایسا ویسا
کوئی تعلق ہے ؟ تو وہ ایک دم گھبرا گیا اور بوال ۔۔باجی مجھے ایک ضروری کام سے جانا ہے
۔۔۔ اور ا ُٹھ کھڑا ہوا ۔۔ لیکن اب میں اسے اتنی آسانی سے کیسے جانے دیتی ۔؟؟ ۔۔ اس لیئے میں نے
اس کا ہاتھ پکڑ ا اور اسے بٹھاتے ہوئے بولی ۔۔۔ میرے بھائی مجھے سب پتہ ہے کہ تم کس ٹائم
ﻧﯽ
صنوبر باجی کے پاس آتے ہو اور وہاں کیا کیا کرتے ہو۔۔۔ پھر میں نے کام والی سے حاصل کی
ہوئ ی معلومات کی مدد سے اس کو اس کے آنے کا ٹائم اور پھر واردات کے بارےمیں بتا دیا ۔۔۔
سرخ ہو گیا ۔۔ پھر۔اوراس نے اپنا منہ جسے سن کر وہ بڑا پریشان ہوا ۔۔ اور شرم اس اس کا منہ ُ
ﺟﯽ
نیچے کر لیا اور ۔۔۔۔۔۔اپنی انگلیاں چٹخنے لگا ۔۔۔ میں نے اسے کچھ نہیں کہا ۔۔۔بس اس کا ری
ایکشن د یکھتی رہی ۔۔۔ کافی دیر بعد اس نے سر اوپر کیا اور بوال ۔۔ باجی ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔۔۔۔ تب میں
اٹھی اور اس کے سر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔ تم میری بہت اچھی دوست کے چھوٹے بھائی
ہو تو اس لحاظ سے تم میرے بھی چووٹے بھائی ہو ۔۔۔ میں تمھارا یہ راز راز ہی رکھوں گی ۔۔
سن کر اس نے میری طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا بس تم میرا ایک کام کر دو۔۔۔ ؟ میری بات ُ
@
۔۔۔۔ جیسے پوچھ رہا ہو ۔۔ کہ کیا کام ۔۔؟ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ پہلے تم وعدہ کرو کہ تم میرا
سن کر وہ مری ہوئی آواز میں کام کرو گے تو میں تم کو بتاؤں گی کہ کام کیا ہے ۔۔۔ میری بات ُ
بوال ۔۔۔۔ باجی آپ بتاؤ ؟؟ تو میں نے اس سے کہا ایسے نہیں پہلے وعدہ کرو۔۔۔ وہ عجیب شش
وپنج میں پڑ گیا تھا ۔۔۔ لیکن پھر اس نے تھوڑا حوصلہ کیا اور بوال ۔۔۔۔ پہلے آپ بتاؤ ؟؟ تو میں
ﺷﺎه
سن نے اس سے کہا کہ تم مجھے صنوبر باجی کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑوا دو ۔۔ میری بات ُ
کر وہ بولو ۔۔۔ یہ آپ کیا کہہ رہی ہیں ۔۔ میں یہ میرا مطلب ہے اس سے آپ کو کیا فائدہ ہو گا ؟
تب میں نے اس سے کہا کہ میرے بھائی۔۔۔ جیسا کہ تم جانتے ہو کہ صنوبر باجی نہ صرف مجھ
پر بڑے ظلم کرتی ہے ۔بلکہ میرے خالف خان جی کو بھی اُلٹی سیدھی پٹیاں پڑھاتی ہے ۔۔ میں
ﺟﯽ
یہ چاہتی ہوں کہ جب تم اور وہ ۔۔۔ ۔۔۔۔ تو میں تم کو پکڑ لوں ۔۔۔ اس پر وہ بوال ۔ابھی تو آپ کہہ
رہی تھیں کہ آپ نے ہمیں دیکھا ہے ۔۔۔۔تو آپ نے ہمیں اس وقت کیوں نہ پکڑا تھا ؟ ۔۔اس کی بات
میں دم تھا اس لیئے میں نے فورا ً ہی ایک جھوٹ گھڑا اور ۔۔۔۔ اس پر احسان کرتے ہوئےبولی
۔۔ کہ تم کو معلوم ہے کہ اگر میں تم لوگوں کو رنگے ہاتھوں پکڑ لوں ۔۔ جو میرے لیئے کچھ مشکل
نہیں ۔۔۔۔تو تم لوگوں کا کیا انجام ہو گا ۔؟؟ انجام کا سن کر اس نے ایک جھرجھری سی لی اور
سرخ ہو گیا ۔۔۔ لیکن بوال کچھ نہیں تب میں نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے اس سے کانوں تک ُ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
کہا کہ ۔۔ میں یہ بھی کر سکتی تھی ۔۔ لیکن بھائی میرے سامنے تم تھے ۔۔۔ ۔۔۔۔ ۔ مجھے صنوبر کی
سن کر اس کے چہرے پر تشکر تو کوئی پرواہ نہیں لیکن تم بے موت مارے جاتے ۔۔۔ میری بات ُ
بھرے جزبات ابھرے اور اس نے کہا آپ کا بہت بہت شکریہ باجی ۔۔۔۔ لیکن بتاؤ میں کیا کروں؟؟
تو میں نے اس سے کہا کہ۔۔۔۔ میں یہ چاہتی ہوں کہ میں تم دونوں کو ۔۔۔ اُس ۔۔۔ حالت میں دیکھ لو
ا
ں تو وہ کہنے لگا اس سے کیا ہو گا ؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔ تو میں نے اسے جواب دیا کہ ۔۔۔ اس سے یہ ہو
ﺳﺗﺎ
گا کہ تمھاری خالہ میرے سامنے کانی ہو جائے گی اور آئیندہ میرے خالف سازشیں نہیں کرے
گی ۔۔۔ اس کے بعد بھلے تم اس کو روز کرو۔۔۔ میرا اس سے کوئی لینا دینا نہیں ہو گا ۔۔۔ میں یہ
سب صرف اپنی سیفٹی کےلیے کر رہی ہوں ۔۔۔ میری بات سن کر اس نے ایک گہرا سانس لیا اور
بوال ۔۔۔باجی کہیں اس سے کوئی مسلہ تو نہیں ہو گا نا َ؟؟؟؟؟؟۔۔ تو میں نے اس کی طرف دیکھتے
ﻧﯽ
ہوئے اس سے کو کہا کہ اس سلسلہ میں ،میں تم کو ہر قسم کی گارنٹی دینے کے لیئے تیار ہوں۔
ﺟﯽ
سن کر وہ کسی سوچ میں پڑ گیا ۔۔۔ اور کافی دیر بعد اس نے سر اٹھایا اور میری بات ُ
بوال ۔۔۔ باجی ایک بات ہے ۔۔۔ فرض کرو میں آپ کا کام کر دیتا ہوں ۔۔۔ آپ ہمیں ۔۔۔ مطلوبہ حالت
میں پکڑ بھی لیتی ہیں۔۔ فرض کرو صنوبر باجی اپنا وہ ردِعمل نہیں دیتی جس کی آپ ان سے
توقع کر رہی ہو ؟ تو آپ بتاؤ ایسے میں میرا کیا ہو گا ۔۔ ؟ تو میں نے کہا میں تمھارا مطلب نہیں
سمجھی ؟ تو وہ کہنے لگا فرض کرو آپ نے ہمیں پکڑ لیا ۔۔ اور بجائے۔۔۔ شرم سار ہونے کے
@
صنوبر خالہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہو جاتی ہیں یعنی بات اس کے اُلٹ ہو جاتی ہے تو ۔۔؟ اس
کے بعد میرا کیا ہو گا؟ ۔۔ آپ لوگوں کے جھگڑے میں میں تو مفت میں مارا جاؤں گا ۔۔؟ یہ بات
کرتے وقت میں نے محسوس کیا کہ دالور ٹھیک کہہ رہا تھا لیکن میں اس کے سامنے یہ بات نہ
کر سکتی تھی اس لیئے اس سے کہا کہ ایسا ہر گز نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔ تم کوئی غیر نہیں ۔۔۔ بلکہ
ﺷﺎه
رشتے میں اس کے بھانجے لگتے ہو ۔اگر وہ لڑنے مرنے پر آمادہ ہوئی تو ۔۔۔ پھر تم کو پتہ ہے
پھر بات بہت دور تک جائے گی ۔۔ جس میں سراسر اس کا اپنا ہی نقصان ہے اور تم جانتے ہو
کہ ۔ وہ بڑی سمجھدار خاتون ہے اتنا بڑا رسک وہ کبھی بھی نہیں لے گی ۔۔۔میری دلیل سن
کر وہ کہنے لگا ۔۔۔ چلو آپ کی بات مان لیتے ہیں وہ رسک نہیں لیتی ہمیں اس حالت میں دیکھ
ﺟﯽ
ا
اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔ اور بوال ۔۔۔۔ اور ہاں جاتے جاتے آپ کو یہ بات بھی بتا دوں کہ میں آپ کی یہ
ﺳﺗﺎ
ساری گفتگو صنوبر خالہ کو بتاؤں گا ۔۔ اور یہ بھی بتاؤں گا کہ آپ مجھ سے کیا چاہتی تھیں ۔۔۔
سن کر میری تو جان ہی نکل گئی ۔۔۔ کہاں میں نے اس کو اس لڑکے ۔۔ اس کے منہ سے یہ بات ُ
کو جزباتی بلیک میل کر کے اس سے اپنے مطلب کی ساری بات اگلوا لی تھی اور کہاں یہ کہ وہ
لڑکا مجھے سیدھے سیدھے بلیک میل کر رہا تھا ۔۔اس وقت یہ کتنا سیدھا معصوم اور جزباتی
ﻧﯽ
لگ رہا تھا اور اس وقت ۔ جس طرح اچانک اس نے پینترا بدلہ تھا اس نے مجھے حیران کر
دیا تھا اور میں اس سے اس بات کی توقع نہ کر رہی تھی ۔۔۔۔۔؟ ۔۔
ﺟﯽ
سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کاو کروں ؟؟۔۔۔ میں جس دالور کو جانتی تھی وہ ایک سیدھا
سادھا معصوم اور بھوال بھاال سا لڑکا تھا ۔۔ اور میرا خیال تھا کہ وہ آسانی سے میرے جھانسے
میں آ جائے گا ۔۔ اور وہ آ بھی گیا تھا ۔لیکن پھر ۔۔۔ اسے کیا ہوا ۔۔ کہ ۔ اچانک سارا معاملہ ہی
اُلٹ ہو گیا تھا ۔میں اس کے اس ُروپ سے بلکل ناواقف تھی اگر مجھے پتہ ہوتا کہ وہ اس قدر تیز
@
ہو گیا ہے تو میں کی ا بھی اس کے سامنے اپنے سارے پتے نہ شو کر تی ۔لیکن کیا کرتی اب
تو میں اسے سب کچھ بتا چکی تھی جس کے بعد ۔ وہ مجھے سامنے سامنے بلیک میل کر رہا
تھا ۔۔ وہ دالور کتنا بھوال لگ رہا تھا اور یہ ۔۔۔ہ دالور ۔ توبہ توبہ ۔۔۔۔۔ یہ دالور اپنے رویے سے
پکا حرامی لگ رہا تھا ۔۔ اس کی آنکھوں میں ہوس ناچ رہی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔ پھر میں نے اس سے کہا
ﺷﺎه
۔۔۔ شرم کرو میں نہ صرف تمھاری بہن ہوں بلکہ تمھاری بہن کی دوست بھی ہوں۔۔۔ اور میں
سن کر وہ ہنسنے نے آج تک سوئے اپنے خاوند کے کسی کے ساتھ یہ کام نہیں کیا ۔۔میری باس ُ
لگ پڑا اور بوال ۔۔۔ باجی جب میں اپنی خالہ کو کر سکتا ہوں تو پھر آپ کو ۔۔بھی۔۔کرنے میں کیا
حرج ہے؟؟ ۔ پھر وہ مجھے سے بوال ۔۔ کو ئی مجبوری نہیں ہے باجی ۔۔۔۔۔ اگر آپ راضی
ﺟﯽ
نہیں ہیں تو کوئی بات نہیں ۔۔ پھر وہ مجھ سے کہنے لگا اچھا باجی اب میں چلتا ہوں ۔۔ لیکن
بعد میں گلہ نہ کرنا ۔۔۔ اور پھر اس نے جانے کے لیئے قدم بڑھا دیا ۔۔۔ اس کی دھمکی سن کر
میری تو جان ہی نکل گئی تھی اور میں ۔خود کو سنے دینے لگی کہ اس کے ساتھ ڈرامہ کرنے
کی ضرورت تھی ۔چپکے سے ان کو پکڑ لیتی پھر جو ہوتا دیکھا جاتا ۔۔ ۔۔۔ لیکن اب تیر کمان
سے نکل چکا تھا ۔بجائے اس کے کہ میں اس کے جزبات سے کھیلتی وہ مجھے بلیک میل کر
رہا تھا ۔۔۔ کچھ دیر سوچنے کے بعد میں نے اس سے کہا کہ ۔۔ دیکھو بھائی نہیں ۔۔ سمجھ لو۔۔۔ نہ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
میں نے تم سے کچھ کہا نہ تم نے سنا ۔۔۔ میری بات سن کر وہ کہنے لگا سوری باجی ۔۔۔ لیکن
میں صنوبر باجی کو ضرور بتاؤں گا ۔۔ پھر وہ میرے سامنے کھڑ ا ہو گیا ۔۔ تو اچانک میری نظر
اس کی شلوار پر پڑی تو ۔۔ میں نے دیکھا کہ آگے سے اس کی شلوار کافی ا ُ ٹھی ہوئی ہے
۔۔۔مطلب اس کو سخت ہوشیاری آئ ہوئی تھی ۔۔ ۔۔۔تب میں نے اس کے ۔۔۔۔لن کی طرف کن
ا
اکھیوں سے دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ پلیز بھائی سب کچھ بھول جاؤ ۔۔۔۔ اس پر وہ کہنے لگا ایک
ﺳﺗﺎ
شرط پر بھول سکتا ہوں کہ آپ میرا کا م کر دیں ۔۔۔ تو میں نے اس سے قدرے کمزور لہجے میں
کہا کہ ۔ایسا نہ کرو بھائی ۔اس سے تم کو کیا ملے گا ؟ تو وہ بڑی عیاری اور بے باکی سے کہنے
لگا ۔۔۔۔ مجھے نہیں آپ کو بھی مزہ ملے گا باجی ۔۔۔۔ ۔اور پھر اس نے مجھے کمزور پڑتے دیکھ
کر کنے لگا ۔باجی اگر آپ میرا کام کر دیں گی نا تو میں آپ سے وعدہ کرتا ہوں کہ خالہ کو ایسی
ﻧﯽ
حالت میں پکڑواں گا کہ جس کو دیکھ کر آئیندہ وہ آ پ کے سامنے ساری زندگی نہیں ہل
سکے گی ۔۔۔پھر اس کے بعد وہ لن ہاتھ میں پکڑے ہوے میرے اور قریب آ گیا ۔۔۔ اور لن کو
سہالتے ہوئے بوال۔۔۔آپ کی مرضی ہے باجی۔یاتو آپ میرے لئے ۔۔ یا ۔۔۔۔۔۔۔خالہ کے ساتھ ساتھ خان
ﺟﯽ
جی کے غیظ وغضب کے لیئے بھی تیار ہو جاؤ ۔تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔یہ خان جی بیچ میں
کہاں سے آ گئے تو وہ اسی پُر ہوس لہجے میں بوال ۔۔۔۔ جب یہ بات خالہ کو پتہ پڑے گی تو آپ کو
سبق سکھانے کے لیئے وہ خواہ مخواہ یہ بات خان جی کے کانوں تک پہنچائیں گی ۔۔خان جی نام
سن کر میں ایک دم لڑ کھڑا سی گئی اور اس سے بولی ۔۔۔ایسا نہ کرنا پلیز ۔۔ آخر ۔۔۔ میں ۔۔۔ میں ُ
@
سن کروہ ۔کہنے لگا ۔۔۔ ا ایک دفعہ پھر سوچ لو باجی ۔۔۔اور میری بات تمھاری بہن لگتی ہوں ۔۔۔۔ ُ
مان لو ۔۔ورنہ۔۔۔ دوسری صورت میں آپ کی اس گھر میں جو تھوڑی بہت عزت ہے وہ بھی
خاک میں ملنے والی ہے ۔۔۔۔۔ میں اس کی بات سمجھ رہی تھی وہ حرامی ٹھیک کہہ رہا تھا اگر
وہ ویسا ہی کرتا ۔۔ جیسا کہ وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔تو میری اس گھر میں کوئی جگہ نہ تھی۔۔۔۔۔۔۔ مجھے
ﺷﺎه
یوں پریشان دیکھ کر وہ لن ہاتھ میں پکڑے ہوئے میرے اور قریب آ گیا ۔۔۔ اوراپنے لن کو
سہالتے ہوئے بوال۔۔آپ کو آخری موقع دے رہا ہوں ایک دفعہ پھر ۔سوچ لو باجی اگر اپ میرے
ساتھ تعاون کرو گی تو میں گارنٹی سے کہتا ہوں کہ آپ کی آئیندہ زندگی بہت اچھی ہو گی ۔۔۔
جبکہ دوسرے صورت میں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ پھر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بوال باجی ۔۔ آپ کو سب سے
زیادہ خطرہ صنوبر خالہ سے ہے نا ۔تو میں نے ہاں میں سر ہالیا تو وہ کہنے لگا آپ کا یہ خطرہ
ﺟﯽ
صرف اور صرف میں ہی دور کر سکتا ہوں ۔۔۔ ورنہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب میں بری طرح پھنس گئی تھی
۔۔۔۔۔ اور میری سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں لڑکے کی بلیک میلنگ سے خود کو کیسے محفوظ
رکھوں ۔۔۔ پر کچھ بھی نہ سوجھ رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ وہ مجھے ۔۔ یوں گوں مگوں کی حالت میں دیکھ
کر۔۔۔ کہنے لگا سوچنے کا ٹائم نہیں ہے باجی ۔۔۔۔۔۔۔ جو کرنا ہے جلدی سے بتا دو،۔۔۔ مجھے ایک
ضروری کام سےبھی جانا ہے ۔۔۔۔ اور وہ چلنے لگا تو اس جاتے دیکھ کر پتہ نہیں کیسے اچانک
ا
لو۔۔۔ باجی ۔۔۔۔۔۔۔۔ میں پٹھان کا بچہ ہو ں اپنی بات سے کبھی نہیں پھروں گا اس کے ساتھ ہی اس
ﺳﺗﺎ
نے اپنا ایک ہاتھ میرے ممے پر رکھا اور اسے دبانے لگا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اس سے کہا ۔۔۔
یہ۔۔۔ یہ ۔۔۔۔یہ تم کیا کر رہے ہو ۔۔
ﻧﯽ
وہ کہنے لگا کچھ نہیں باجی ۔۔۔ بس تھوڑا سا پیار ہی کروں گا ۔۔۔۔ تب وہ آگے بڑھا اور اس
نے اپنا منہ میرے منہ کے قریب کر لیا اور میرے ہونٹ چومنے کی کوشش کرنے لگا تو میں نے
اس سے کہا کہ دیکھو ۔۔۔ میں یہ کام مجبوری سے کر رہی ہوں ۔۔۔ کوئی شوق سے نہیں ۔۔۔ تم اپنا
ﺟﯽ
کوئی بات نہیں باجی اگر آپ چمی نہیں دیتی تو ایسے کام کرو ۔۔ ۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔
ہی سہی ۔۔ پھر وہ گھوم کر میرے پیچھے آیا اور میرے گانڈ کی دراڑ میں اپنا لن پھنسا کر خود
گرمی آگے پیچھے ہونے لگا ۔۔۔ اس کا لن کافی بڑا اور گرم تھا اور اس کے لن کی یہ
مجھے اپنے گانڈ کے اندر تک محسوس ہو رہی تھی ۔۔جس سے مجھے کچھ کچھ ہونے لگا اور
۔۔۔ ۔۔۔ اور مجھے اپنی گانڈ کی دراڑ میں گھسا اس کا یہ لن اچھا بھی لگ رہا تھا ۔۔ کوئی اور ٹائم
@
ہوتا تو میں اس بات کو انجوائے کرتی ۔۔۔۔ لیکن اس کے طریقہ کار ۔۔ اور بلیک میلنگ نے مجھے
بڑا اپ سیٹ کر دیا تھا ۔۔۔ اس لئے میں نے اس کو نرمی سے پیچھے کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ دیکھو
دالور ۔۔ تم نے جو کرنا ہے جلدی کرو ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ تو وہ ایک دم پیچھے ہٹ گیا اور بوال ٹھیک ہے
باجی ۔۔۔ چلو پھر ۔۔ اندر چلتے ہیں ۔۔۔اس افتاد نے مجھے اتنا چکرا دیا تھا کہ میں یہ بات بھول
ﺷﺎه
ہی گئی تھی ہم برآمدے میں بیٹھے ہیں ۔اور ہمارا مین گیٹ کھال ہے اور کوئی بھی کسی وقت بال
روک ٹوک اندر آ سکتا ہے ۔۔۔ یہ سوچ کر ۔۔۔ چ میں نے اس سے کہا کہ تم اندر جاؤ میں باہر مین
گیٹ کو کنڈی لگا کر ابھی آتی ہوں ۔۔۔ تو وہ کہنے لگا۔۔ نہیں جب تک آپ میرے ساتھ اندر نہیں
جاؤ گی میں ادھر ہی کھڑا رہوں گا آپ جاؤ۔۔۔ کنڈی لگا کر آؤ تب تک میں یہاں آپ کاانتظار کرتا
ﺟﯽ
ط ایک نظر باہر بھی ہوں ۔۔۔۔ چنانچہ میں دروازے کی طرف گئی اور کنڈی لگانے سے پہلے احتیا ً
جھانک کر دیکھا تو باہر گلی سنسان تھی ۔۔۔ ویسے بھی اس ٹائم لوگوں کی آمد و رفت کم ہی ہوتی
تھی ۔۔ باہر سے مطمئن ہونے کے بعد میں نے دروازے کو کنڈی لگائی اور واپس آ گئی۔۔۔۔ دیکھا
تو دالور برآمدے میں کھڑا ۔۔ میری طرف دیکھتے ہوئے اپنے لن کو مسل رہا تھا ۔۔۔ پھر میں اس
کو لیکر اپنے سٹور روم میں چلی گئی جو کہ باقی کمروں سے تھوڑے فاصلے پر تھا ۔۔اور
ا
ایک دفعہ پھر میری گانڈ کی دراڑ میں لن پھنسا کر آگے سے میرے ممے پکڑ لیئے اور ایسے ہی
ﺳﺗﺎ
گھسے مارنے لگا ۔۔۔۔ میں نے اس کو ایک دو گھسے مارنے دئے پھر اس سے بولی۔۔۔ دالور ۔۔
ایک دفعہ تم سے کہہ جو دیا ہے کہ اپنا کام جلدی کرو ۔۔۔ اس نے اپنا بڑا سا لن میرے پیچھے سے
نکاال اور میرے سامنے آ کر کھڑا ہو گیا اور بوال ۔۔۔ باجی اس کو ایک دفعہ پکڑو نا۔۔اس کے بڑے
ﻧﯽ
سے لن کو دیکھ کر میرا دل ۔۔۔۔۔ تو کر رہا تھا ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ میں نے تھوڑی سختی سے اس اس
کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ دیکھو دالور تم کو اچھی طرح پتہ ہے کہ میں ایسی عورت نہیں
ہوں میں نے آج تک اپنے خاوند کے عالوہ کسی اور کے ساتھ یہ کام نہیں کیا ہے ۔۔۔ تم اپنا کام
سن کر وہ ہنسنے لگا اور بوال ۔۔۔۔ میرے سامنے تو ختم کرکے یہاں سے چلتے بنو ۔۔ میری بات ُ
ﺟﯽ
جھوٹ نہ بولو نہ باجی۔۔۔ تو میں نے اس کو کہا نہیں میں سچ کہہ رہی ہوں دالور ۔۔!! تو وہ کہنے
لگا مت بھولو باجی کہ جب ٹال آپ لوگوں کے پاس تھا تو آپ اکثر فرید کے ساتھ وہاں آیاکرتی
تھیں ۔۔۔ اور میرے سامنے فرید نے آپ کے ساتھ یہی کیا تھا جو میں ابھی آپ کے ساتھ کر رہا تھا
۔۔۔۔میرے سامنے فرید نے کئی دفعہ آپ کے ممے چوسے ہیں اور کئی دفعہ آپ نے اس کی ُمٹھ
@
سن کر میرے پاؤں تلے سے زمین نکل گئی اور مجھے یاد آیا کہ میں ماری ہے۔۔۔ اس کی بات ُ
اور فرید ٹال پر ہی مال کرتے تھے اس وقت دالور بہت چھوٹا تھا ۔۔۔ فرید اس کو تھوڑے پیسے
وغیرہ دیکر کسی کام سے بھیجتا تھا ۔۔۔ اور اب مجھے کیا پتہ تھا کہ یہ حرامی بجائے کام کرنے
کے ہمیں ہی تاڑتا رہتا تھا ۔۔۔۔ مجھے یوں سوچ میں پڑا دیکھ کر وہ حرامی کہنے لگا ۔۔ باجی پلیز
ﺷﺎه
سن آپ اسی طرح سے میرا لن پکڑو نہ جس طرح آپ فرید کا پکڑا کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اس کی بات ُ
کر مجبورا ً میں نے اپنا بایاں ہاتھ آگے بڑھایا اور اس کے تنے ہوئے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ
لیا ۔۔۔۔۔۔۔ اسکا لن کافی لمبا اور موٹا تھا میرے خیال میں خان جی جتنا بڑا ہوگا ۔۔۔۔ اور اس کے
کہنے پر میں نے لن کو دبایا تو وہ کافی سخت محسوس ہوا۔۔۔ اپنے لن کو میرے ہاتھ میں پکڑا کر
وہ اور مست ہو رہا تھا۔۔۔۔ اور مسلسل میرے مموں کو چھیڑ رہا تھا جس کی وجہ سے ہولے
ﺟﯽ
ہولے ہی سہی میں بھی موڈ میں آ رہی تھی لیکن میں اس پر یہ بات ظاہر نہ کرنا چاہتی تھی چنانچہ
۔۔۔ کچھ دیر تک اس کا لن آگے پیچھے کرنے کے بعد میں نے اسکا لن چھوڑ دیا اور ۔۔۔۔۔ بولی ۔۔۔
جلدی کر و ۔۔ ان لوگوں کے آنے کا ٹائم ہونے واال ہے ۔۔۔ تب اس نے جلدی سے اپنی شلوار کا نالہ
کھوال اوراپنا ننگا لن مجھے دکھاتے ہوئے بوال ۔۔۔۔ بس آخری دفعہ میرا ننگا لن بھی پکڑ لیں ۔۔
اس کے بعد میں مزید کوئی اور مطالبہ نہیں کروں گا ۔۔۔ اور میں نے اس کا ننگالن ایک دفعہ پھر
ا
گیا اور مجھے نیچے کی طرف جھکنے کو کہا میں نے اپنا ناال کھوال جس سے میری شلوار
ﺳﺗﺎ
میرے قدموں جا گری ۔۔۔
اور اس کے کہنے پر میں شلوار اُتار کر نیچے جھکی لیکن میں نے قمیض کو اپنے ہپس
ﻧﯽ
سے نہ ہٹایا ۔ وہ آگے بڑھا اور ۔۔۔ اس نے میری قمیض کو میری ہپس سے ہٹایا اور پھر ۔۔۔ میری
گوری گوری گانڈ پر ہاتھ پھیرنے لگا۔۔۔۔ اس کے ہاتھ پھیرنے سے میرے اندر کچھ سرسراہٹ سی
ہونے لگی ۔۔۔ لیکن میں نے بڑی سختی سے اپنی گرمی کو روکا ۔۔۔ اور اپنے ہونٹ دانتوں تلے دبا
ﺟﯽ
لیئے کہ کہیں میرے منہ سے کوئی سسکی نہ نکل جائے ۔۔ میرے ہپس پر کچھ دیر تک وہ ہاتھ
پھیرتا رہا ۔۔ پھر وہ مجھ سے بوال ۔۔ باجی اپنی ٹانگیں تھوڑی کھول دو۔۔۔ اور میں نے اپنی ٹانگوں
کو مزید کھول دیا ۔۔ اب وہ تھوڑا نیچے جھکا اور میری چوت کی لیکر پر انگلی پھیرنے لگا ۔۔۔۔
ایک دفعہ پھر ۔۔۔ میرے اندر سرسراہٹ سی ہوئی لیکن میں نے اسے دبا لیا۔۔۔۔۔۔۔۔ وہ کچھ دیر تک
انگلی کو میری چوت کی لر ج پر پھیرتا رہا ۔۔ پھر وہ میری ٹانگوں کے بیچ میں آ کر اکڑوں
@
بیٹھ گیا ۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔ یہ کیا کرنے لگے ہو تو وہ بڑے سیکسی موڈ میں بوال ۔۔۔
باجی مجھے ٹھنڈی چوت بلکل بھی نہیں پسند اس لیئے میں اس کو تھوڑا گرم کرنےلگا ہوں اور
اس کے ساتھ ہی ان نے اپنے منہ سے زبان نکالی اور میری چوت کی لیکر پر رکھ دی
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر وہ میری چوت کو چاٹنے لگا ۔۔۔
ﺷﺎه
یہاں آ کر میری چوت نے مجھ سے بغاوت کر دی اور جیسے ہی اس کی زبان میری پھدی
کے ساتھ ٹچ ہوئی ۔۔۔ میری چوت نے دھڑا دھڑ پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ اور اس سے قبل
کہ میرے منہ سے کوئی سسکی نکلتی میں نے بڑی سختی کے ساتھ اپنے ہونٹوں کو دانتوں تلے
ﺟﯽ
سن کر مجھ سے کوئی لمبی امیدیں داب لیا ۔۔ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ میری لذت بھری سسکیاں ُ
باندھے اور میں یہی ظاہر کرنا چاہتی تھی کہ میں یہ کام بڑی مجبوری کے عالم میں کر رہی ہوں
۔۔۔لیکن میری۔۔ چوت نے مجھے دھوکہ دیا اور ۔۔۔۔۔ پانی چھوڑنا شروع کر دیا تھا ۔۔۔ کچھ دیر تک
وہ میرے دانے پر زبان پھیرتا رہا پھر اس نے اپنی انگلیوں کی مدد سے میری چوت کے دونوں
لبوں کو کھوال اور اپنی زبان اندر داخل کر دی ۔ایک دم سے مزے کی ایک تیز لہر نے مجھے
ا
پانی نکلتے ہوئے دیکھ کر وہ ۔۔۔۔ کیا سوچتا ہو گا ؟؟؟ ۔۔۔۔ عین اسی لمحے اس نے میری چوت
ﺳﺗﺎ
سے اپنا منہ ہٹایا اور بوال ۔۔۔ باجی آپ ایسے کو۔ں ڈرامہ کر رہی ہو۔۔۔ مزے لو نا۔۔۔ پھر کہنے لگا
باجی آپ کی چوت کچھ اور کہک رہی ہے اور آپ کچھ پوز کر رہی ہو ۔۔۔۔ کھل کے مزے لو نا ۔۔
کہ اب پیچھے کیا رہ گیا ہے ۔۔؟ اس کی بات سن کو میں نے کہا کہ دیکھو دالور ۔۔ جو تم چاہتے
سن کر وہ کہنے لگا آپ کی مرضی تھے وہی میں کر رہی ہوں ۔۔ تم اپنا کام کرو ۔۔۔۔ تو میری بات ُ
ﻧﯽ
باجی ۔۔ اور پھر سے نیچے بیٹھ گیا اور میری چوت کے گالبی ہونٹوں کو اپنے منہ میں لیکر
چوسنے لگا ۔۔۔ اور میں اپنی چوت پر اس کی اس زبان کی لذت کو ضبط کر کر کے مرنے والی
ہو گئی ۔۔۔۔لیکن میرے بر عکس ۔۔۔ میری چوت اس کے ساتھ خوب تعاون کر رہی تھی اور اس
ﺟﯽ
کی دیواریں سے آبشار کی طرح پانی بہہ رہا تھا اور میں حیران تھی کہ اتنا ڈھیر سارا پانی میری
چوت ال کہاں سے رہی ہے ؟وہ کافی دیر تک میری چوت کو چاٹتا رہا ۔۔۔ ادھر میری ۔۔ ضبط کی
ہمت جواب دیتی جا رہی تھی لیکن میں نے اس پر یہ بات ظاہر نہیں ہونے دی ۔۔پھر اس سے قبل
کہ میں اپنا کنٹرول کھو دیتی دالور نیچے سے اُٹھا اور میرے سامنے کھڑا ہو گیا ۔اور ۔ میں دیکھا
@
کہ اس کا منہ۔۔میری چوت کے پانی سے چمک رہا تھا ۔۔ کچھ پانی اس کے ہونٹوں سے بہہ رہا
تھا ۔۔۔ اس نے جب دیکھا کہ میں اس کا جائزہ لے رہی ہوں تو کہنے لگا۔۔ باجی آپ کی چوت کا
پانی بہت ۔۔۔ مزے کا ہے ۔۔۔ پھر اس نے اپنی زبان باہر نکالی اور اپنے ہونٹوں کے ارد گرد لگی
میری منی کو چاٹتے ہوئے بوال ۔۔۔ باجی ۔۔۔بس ایک دفعہ مجھے اپنے ممے بھی چوسنے دو ۔۔۔
ﺷﺎه
میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا ۔۔اور اس کی خوہش کو پورا کرتے ہوئے اپنی قمیض
کو برا سمیت اوپر کر دیا۔۔۔۔۔ کیونکہ اس وقت مررا بھی یہی جی چاہ رہا تھا کہ وہ میرے
مموں کو چوسے ۔۔جونہی اس کی نگاہ میرے ننگے مموں پر پڑی ۔۔۔۔۔۔ وہ تو دیوانہ ہو گیا ۔۔۔۔۔اور
اس نے پاگلوں کی طرح ایک نعرہ مارا اور میرے مموں پر پل پڑا ۔۔
اور پھر ایک ایک کر میرے دونوں مموں کو چوسنے لگا ۔۔اس کی اس حرکت سے ۔ایک
ﺟﯽ
دفعہ پھر میری چوت نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔ اور مجھ پر سیکس کا غلبہ ہونے لگا لیکن
وہ میری حالت سے بے نیاز ۔۔۔۔۔۔ میرے ممے چوسے جا رہا تھا ۔۔۔۔۔ کافی دیر تک وہ ایسا کرتا
رہا اور میں اندر ہی اندر مست ہوتی گئی ۔۔ پھر ۔۔ میں نے اس سے کہا ۔۔۔دالور ۔۔ اب بس بھی
سن کر وہ کہنے لگا کیسے بس کروں باجی ۔۔ ان مموں کے نام پر تو میں نے کرو۔۔۔ تو میں بات ُ
بڑی ُمٹھ ماری ہے ۔۔۔ لیکن اس کے بعد اس نے میرے مموں کو چوسنا چھوڑ دیا اور پھر ۔۔۔۔۔
ا
پھدی خاصی ٹائیٹ تھی اس لیئے اس کا لن پھنس پھنس کر میرے اندر جانے لگا ۔۔۔۔۔ اس
ﺳﺗﺎ
کے لن نے میرے اندر ایک آگ سی لگا دی تھی لیکن میں نے بڑی مشکل سے خود پر جبر کیا
۔۔ اور اپنے منہ سے نکلنے والی سسکیوں کو روکا۔۔۔۔ ..
ﻧﯽ
گھسے مارتے مارتے اچانک مجھے محسوس ہوا کہ وہ میری گانڈ پر تھوک لگا کر اسے
چکنا کر رہا ہے۔میں نے محسوس تو کر لیکن ُچپ رہی ۔ جب میری گانڈ اچھی طرح سے چکنی
ہو گئی تو اس نے اپنا انگھوٹھا میری گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور آ ہستہ سے میری گانڈ میں
ﺟﯽ
گھس ا دیا اس پر میں نےاپنا منہ پیچھے کی طرف کر کے اس سے پوچھا ۔۔ یہ کیا کر رہے
ہو ؟ تو وہ ہنستے ہوئے بجائے کوئی جواب دینے کے اُلٹا مجھ سے کہنے لگا ۔۔لگتا ہے ۔۔باجی
سن کر میں نے قاسم چا چا نے آپ کی چوت سے زیادہ آپ کی گانڈ ماری ہے اس کی بات ُ
قدرے غصے سے اس سے کہا کہ بکواس بند کرو ۔۔۔ خان جی تو اس چیز کے شوقین نہیں ہیں وہ
سن کر وہ ہنسنے لگا اور بوال ۔۔۔ کیا کہا خان
تو بس مجھے آگے سے ہی کرتے ہیں ۔۔۔ میری بات ُ
@
جی گانڈ کے شوقین نہیں ہیں ۔۔۔ اور پھر سے گھسے مارتے ہوئے ہنسنے لگا ۔۔۔ تو میں نے چڑ
اس سے کہا ہاں میں ٹھیک کہہ رہی ہوں وہ بلکل بھی گانڈ کے شوقین نہیں ہیں ۔۔ تو وہ مجھ سے
بوال ۔۔۔ جھوٹ مت بولو باجی آپ کے خان جی تو گانڈ کے دیوانے ہیں جس کا جیتا جاگتا ثبوت ۔۔
سن کر میں حیران رہ گئی اور اس سے بولی ۔۔۔ یہ تم اس وقت آپ کی لے رہا ہے ۔۔۔ اس کی بات ُ
ﺷﺎه
کیا کہہ رہے ہو ۔۔ تو وہ بوال چھوڑو باجی ۔۔۔ایک آپ کا خان ہی نہیں بلکہ یہ سارے ہی خان
اسی چیز کے شوقین ہیں … اور پھر اس کے بعد اس نے میری جم کر چودائی شروع کر دی ۔۔۔
اس کے جاندار گھسوں سے میں کوئی تین چار دفعہ فارغ ہوئی ہوں گی لیکن وہ ایک دفعہ بھی
ڈسچارج نہ ہوا تھا ۔۔۔ اور اسی ردھم میں میری چوت کو مسلسل بجاتا رہا ۔۔۔ ۔۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد
ﺟﯽ
میں نے محسوس کیا کہ دالور خان کے گھسوں میں مزید شدت آ گئی ہے ۔۔۔ یہ بات محسوس کرتے
ہی میری چوت گرمی سے بھر گئی اور میری چوت اس کےلن کے گرد ۔۔ کسنا ۔۔ شروع ہو گئی
۔۔ ا ور اس کی دیواروں نے اپنے چکنا پانی اس کےموٹے لن پرانڈیلنا شروع کر دیا ۔۔۔ لیکن وہ
اپنے لن کے گرد میری ٹائیٹ ہوتی ہوئی چوت سے بے نیاز زبر دست دھکے مار رہا تھا ۔۔۔ پھر
اس نے ایک عجیب حرکت کی ۔۔ وہ یہ کہ اس نے اچانک اپنا لن میری چوت سے باہر نکاال اور
میری گانڈ جس کو وہ پہلے ہی اچھی طرح سےچکنا کر چکا تھا میں میں گھسا دیا ۔۔ اندر جاتے
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
ہوئے۔۔۔ بس کچھ سکنڈ کے لیئے مجھے تھوڑا درد ہوا ۔۔۔ پھر ایک دم سے مزے کی بہت سی
لہریں میری گانڈ میں لہرانے لگیں ۔۔۔۔ اور اس دفعہ بھی میں نے اپنی سیکسی چیخ کو بڑی مشکل
سے روکا اور بظاہر بڑے غصے سے اس کی طرف دیکھنے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ کیا بدتمیزی ہے
؟؟ تو اس نے کوئی جواب نہ دیا بلکہ تیز تیز گھسے مارنے لگا ۔۔ اور پھر ۔۔۔ اگلے ہی لمحے میں
ا
نے اپنی گانڈ میں ۔۔۔ اس کے گرم پانی کی تیز دھاریں محسوس کیں ۔۔ اور اس کے اس چھڑکاؤ
ﺳﺗﺎ
نے میرے سارے وجود میں ایک مستی سی بھر دی اور میں نہ چاہتے ہوئے اپنی گانڈ کو اس کے
لن کو چاروں طرف سے لپیٹنے لگی ۔۔۔۔۔
کپڑے پہن کے جب وہ باہر جانے لگا تو میں نے اس کو روک لیا اور اس سے کہا کہ
ﻧﯽ
دیکھو دالور ۔۔ میں نے تمھارا کام کر دیا ہے اب تم بتاؤ کہ تم کب میرا کام کرو گے ؟؟ تو وہ ایک
دم سیریس ہو گیا اور کہنے لگا ۔۔۔۔ باجی میں نے جو وعدہ کیا ہے یقین کرو میں اسے ہر صورت
میں نبھاؤں گا ۔۔۔ بس زرا ۔۔۔ ایک دو دن دے دو ۔۔ کہ اگر میں نے کل ہی اس کو پکڑا دیا تو کہیں
وہ شک میں نہ پڑ جائے ۔۔۔۔ بس ایک دو دفعہ پروگرام کرنے کے بعد میں آپ کو بتا اور سمجھا
ﺟﯽ
دوں گا ۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔ ایک بات یاد رکھیں باجی آپ نے اپنے طور پر کوئی کوئی حرکت
نہیں کرنی۔۔۔ ورنہ نقصان کی آپ خود ذمہ دار ہوں گی ۔۔۔ بلکہ جیسا میں کہہ رہا ہوں آپ نے ویسا
ہی کرنا ہے اور پھر زبردستی سے مجھے چوم کر چال گیا ۔۔۔
@
اگلے دو دن وہ روزانہ ہی ہمارے گھر آتا رہا اور میں بس کھڑکی سے اس کو جاتے
دیکھتی رہی ۔۔ لیکن اس سے بات کرنے کا موقعہ نہ مل سکا ۔۔ وہ آتا اور گھنٹہ سوا گھنٹہ وہاں
گزار کر چال جاتا تھا ۔۔۔ اور میں کھڑکی میں بیٹھی پیچ و تاب کھاتی رہتی تھی ۔لیکن ایک دفعہ
ﺷﺎه
بھی اس نے مجھ سے رابطہ نہ کیا ۔۔۔ لیکن اس کے باوجود بھی مجھے یقین تھا کہ وہ مجھ سے
دھوکہ نیں کرے گا کیونکہ میں اس کو بچپن سے جانتی تھی ۔۔۔ یہ کوئی دو ہفتے کے بعد کی
بات ہے کہ ایک دن صنوبر باجی اپنی بہن سےملنے گئی تھی کہ اس کے جانے کے تقریبا ً آدھے
گھنٹے کے بعد دالور خان گھر میں آیا وہ بڑی جلدی میں تھا ۔۔ آتے ساتھ ہی کہنے لگا باجی تیار
ہو جاؤ کل آپ کا کام ہو جائے گا ۔ اور پھر کہنے لگا کہ سوری کہ پہلے مجھے آپ سے بات
ﺟﯽ
کرنے کا موقعہ ہی نہ مال تھا میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ خالہ آپ کے چچا کے گھر
جانے کے لیئے ٹال پر آئی تھی اور کل آنے کا کہہ گئی ہے جیسے ہی وہ چچا کے گھر میں داخل
ہوئی میں بھاگا بھاگا آپ کے پاس آ گیا ہوں اس کے بعد اس نے مجھے سارا پالن سمجھایا اور آخر
میں کہنے لگا کہ باجی مہربانی کر کے آپ نے کوئی شور نہیں کرنا ۔۔۔ اس کا پالن یہ تھا کہ نمبر
وہ کھڑکی جو کہ برآمدے کی طرف کھلتی تھی اس کے پردہ کو تھوڑا ہٹا دے گا ۔ نمبر 1یہ کہ
ا
تو ہے کہ میں برآمدے والی کھڑکی کا پردہ تھوڑا سا ہٹا دوں گا آپ دیکھتی رہنا جب وہ میرے
ﺳﺗﺎ
(لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) اس پر سوار ہو گی تو آپ نے ایک دو گھسوں کے بعد اندر آ
جانا ہے اور مہربانی فرما کر شور نہیں کرنا بس ایسے ایکٹ کرنا ہے کہ جیسے آپ کسی کام
سے آئی ہو ۔۔ تو میں نے اس سوال کیا ۔۔ کہ تم کو کیسے معلوم ہے کہ وہ تمھارے ۔۔۔اس پر الزمی
ہی سواری کرے گی فرض کرو ۔۔ اگر کل وہ وہاں نہ بیٹھی تو؟ اس پر وہ بڑے یقین سے بوال ۔۔۔
ﻧﯽ
اس بات کا سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔۔ آپ کو معلوم نہیں کہ صنوبر خالہ کی تسلی اوپر جمپ مار
مار کر ہی ہوتی ہے ۔۔۔۔ اس کے بعد ہم دونوں نے پالن کی باقی تفصالت بھی طے کیں ۔۔۔ اور
جب وہ مطمئن ہو گیا تو مجھ سے کہنے لگا اوکے باجی اب میں چلتا ہوں لیکن جانے سے
ﺟﯽ
پہلےایک کس تو دے دو۔۔۔ اور میں نے بظاہر بڑی بے مروتی سے کہا کہ دیکھو اس دن تم اس
کام کا معاوضہ لے چکے ہو ۔۔ تو وہ کہنے لگا ۔۔سوچ لو باجی ۔۔۔ کل کوئی گڑ بڑ بھی ہو سکتی
ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا منہ آگے کر دیا ۔۔۔۔ اور میں اس کی بلیک میلنگ میں آ گئی
اور اس کے ہونٹوں کےساتھ اپنے ہوٹ جوڑ دئے ۔۔۔ کس کرتے کرتے اس نے مجھے اپنی باہوں
@
کے حصار میں لے لیا اور میں نے اپنی رانوں میں اس کا کھڑا لن محسوس کر لیا ۔۔اور میں نے ۔
اپنی رانوں میں اس کا لن کا مزہ لیا ۔۔۔اور پھر ایک دم پرے ہٹ گئی اور بولی ۔۔۔۔ اب تم جاؤ ۔۔
وہ مجھ سے الگ ہو کر جاتے جاتے بوال ۔۔۔ کچھ بھی کر لو میں نے ایک دفعہ اور آپ کی ضرور
لینی ہے ۔۔۔ میں نے بھی دل میں کہا جب چاہے لے لینا ۔۔۔ لیکن اوپر سے بولی ۔۔۔ ذیادہ بکواس
ﺷﺎه
کرنے کی ضرورت نہیں ۔۔۔ اور وہ مجھے ٹاٹا کرتا ہوا چال گیا ۔۔۔
اس رات میں بڑی مشکل سے سو پائی ۔۔۔۔ اور صبع وقت سے بہت پہلے ہی میری
ب معمول ان کو ناشتہ دیکر دواعآنکھ کھل گئی ۔۔ کافی دیر بعد خان جی بھی اُٹھے اور میں نے حس ِ
ﺟﯽ
کیا ۔۔۔ اور دھڑکتے دل کے ساتھ آ کر اپنی کھڑکی کے پاس بیٹھ گئی ۔۔۔ خان جی کے جانے کے
کوئی آدھے گھنٹے کے بعد صنوبر باجی دروازے پر گئی اور جب وہ واپس آئی تو اس کے ساتھ
دالور خان بھی تھا اس کے ہاتھ میں حسب روایت ایک شاپر تھا جس میں مجھے معلوم تھا کہ اس
میں صنوبر باجی کے ناپ والے کپڑے ہوں گے جو کہ وہ بظاہر درزی سے واپس الیا تھا ۔۔۔ وہ
دونوں دھیمی آوازوں میں باتیں کرتے ہوئے۔۔۔صنوبر کے کمرےمیں داخل ہو گئےانہیں اندر جاتے
دیکھ کر میرا دل دھک دھک کرنے لگا ۔۔۔ پھر میں نےبڑی مشکل سے 05منٹ گزارے اور پھر
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
میں اپنے کمرے سے دبے پاؤں چلتے ہوئے صنوبر باجی کےکمرے کی کھڑکی کی طرف چل
پڑی ۔۔۔ اور وہاں جاکر نیچے بیٹھ گئی اس وقت میرا دل کنپٹیوں میں دھڑک رہا تھا ۔۔۔۔ خیر کچھ
دیر تک وہاں بیٹھنےکے بعد میں دھیرے دھیرے اوپر اُٹھی اور ۔۔۔ کھڑکی کے درمیان میں
دیکھنے لگی ۔۔۔ لیکن وہاں پردہ لگا ہوا تھا ۔۔۔ میں تھوڑی مایوس ہوئی اور سوچنے لگی کہ اب کیا
ا
کروں ؟؟ کہ اچانک میری نظر کھڑکی کے دوسرے کونے پر پڑی تو وہاں سے مجھے روشنی
ﺳﺗﺎ
باہر آتی ہوئی نظر آئی میں فورا ً نیچے بیٹھ گئی اور رینگتی ہوئی ۔۔۔ کھڑکی کے اس کونے تک
پہنچی ۔۔۔۔ اور پھر دھیرے دھیرے ۔۔ سر اُٹھا کر دیکھا تو ۔۔۔ تو ۔۔۔ کھڑکی سے تھوڑا ہی دور
صنوبر باجی کا پلنگ تھا ۔۔ اور اس وقت وہ پلنگ پرلیٹی ہوئی تھی اور اس کی دونوں ٹانگیں ہوا
میں تھی ۔۔جسے دیکھ کر ۔ میں سمجھی کہ دالور باجی کو چود رہا ہے لیکن یہ کیا ۔۔۔ وہ تو باجی
ﻧﯽ
کے ٹانگوں کے بیچوں بیچ ۔۔۔۔ بیٹھا تھا اور اس نے اپنا منہ صنوبر کی چوت پر رکھا تھا ۔۔۔ اور
وہ صنوبر کی چوت چاٹ رہا تھا ۔۔اور صنوبر ہلکے ۔کراہ رہی تھی اور مزے کے مارے اپنے
سر کو دائیں بائیں مار رہی تھی ۔۔۔۔دالور کو چوت چاٹتے دیکھ کر مجھے یاد آیا کہ ساال بہت
ﺟﯽ
اچھی چوت چاٹتا ہے اور اس کے ساتھ ہی مجھے اپنی چوت چٹائی یاد آ گئی ۔۔۔ چٹائی یاد آتے ہی
میری پھدی میں ایک چنگاری سی بھڑکی اور مجھے ایسے لگا کہ جیسے میرا پیشاب نکل گیا ہو
۔۔۔ اور میں نے بے دھیانی میں نیچے ہاتھ لگا کر دیکھا تو وہ پیشاب نہیں۔۔۔ تھا بلکہ ۔۔۔ اندر کا
منظر دی کھ کر اور اپنا اپنا منظر یاد کر کے میری چوت پانی چھوڑ رہی تھی ۔۔جس کی وجہ
@
سے میں نیچے سے کافی گیلی ہو گئی تھی ۔۔۔پھر میں نے دیکھا کہ صنوبر کا جسم ایک دم
جھٹکے مارنا شروع ہو گیا ہے ۔۔۔۔ میراخیال ہے کہ صنوبر چھوٹ گئی تھی ۔۔۔۔ جیسے ہی صنوبر
باجی چھوٹی اس نے دالور کا اشارہ کیا اور وہ باجی کی چوت سے اُٹھ گیا ۔اور میں نے دیکھا کہ
باجی کی کافی منی دالور کے چہرے پر لگی ہوئی تھی ۔۔ اس کے باجی بھی پلنگ سے اُٹھی اور
ﺷﺎه
اس نےدالور کا منہ اپنے سامنے کیا اور پھر میں نے دیکھا کہ باجی نے اپنی لمبی سی زبان اپنے
منہ سے باہر نکالی اور پھر دالور کے چہرے کے آس پاس لگی اپنی ساری منی چاٹ گئی۔یہ
دلکش منظر دیکھ کر ایک دفعہ پھر میری پھدی نے پانی چھوڑدیا ۔۔ ۔۔۔
کسنگ کرنے کے بعد اب دالور نیچے لیٹا اور میں نے دیکھا کہ صنوبر باجی اس کے اوپر
آ گئی ہے ۔۔۔ جسے دیکھ کر میرا سانس بند ہو گیا ۔۔ میرا خیال تھا کہ اب باجی دالور کے لن پر
ﺟﯽ
سواری کرے گی ۔۔۔ لیکن یہ کیا ۔۔۔ باجی نیچے جھکی اور دالورکا لن اپنے ہاتھوں میں پکڑ لیا اور
اسے بڑی نرمی اسے آگے پیچھے کرنے لگی ۔۔۔ پھر وہ اور نیچے جھکی اور پھر اس نے دالور
کا لن اپنے منہ میں لے لیا اور اسے مزے لے لے کر چوسنے لگی ۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ باجی
بڑی ہی گرم اور سیکسی عورت تھی ۔۔۔ وہ بڑی ہی مہارت سے دالور کا لن چوسے جا رہی تھی
۔باجی کو لن چوستے دیکھ کر میرا برا حال ہو رہا تھا ۔۔۔ اور میرے نیچے لگی آگ میرے کنٹرول
ا
پر بیٹھ گئی۔۔۔ جسے دیکھ کر میرا دل اچھل کر حلق میں آ گیا ۔۔ کہ اب میرے ایکشن کرنے کا
ﺳﺗﺎ
وقت قریب آ گیا تھا ۔۔۔پھر باجی نے دالور کے لن کو اپنی چوت پر ایڈجسٹ کیا اور ۔۔۔۔۔ آہستہ
آہ ستہ لن پر بیٹھنے لگی۔۔۔۔۔ اور پھر وہ لن پر بیٹھ گئی اور سارا لن اپنی چوت میں لے لیا ۔۔۔ اس
کے بعد اس نے لن کو اپنے اندر باہر کرنا شروع کر دی ۔۔۔ اور اچانک ہی میں ہوش میں آ گئی
مجھے یاد آیا کہ میں یہاں سیکس سین دیکھنے نہیں آئی بلکہ ان دوں کو رنگے ہاتھوں پکڑنے
ﻧﯽ
آئی ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ یہ سوچتے ہی میرا دل دھک دھک کرنے لگا ۔۔۔ اور میں نے جیسے ہی اپنے قدم
صنوبر کے کمرے کی طرف قدم بڑھائے ۔۔۔ پتہ نہیں کیوں میرے دل میں یہ خیال کہاں سے آ گیا
کہ ۔۔۔ اگر ۔۔ صنوبر نے ویسا بی ہیو نہ کیا کہ جیسا میں نے سوچا ہے تو پھر کیا ہو گا ؟؟؟؟؟۔۔
ﺟﯽ
اگر معاملہ اُلٹ ہو گیا تو؟؟؟ ۔۔۔ صنوبر باجی ایک چھٹی ہوئی چاالک عورت تھی ۔۔۔۔ الٹا اس نے
مجھ پر کوئی الزام لگا دیا تو ۔۔۔؟ وہ لوگ پاور میں تھے اور دالور ان کا مالزم تھا ۔۔۔ اگر دالور
بھی صنوبر کے ساتھ مل گیا تو ؟ اور سب سے بڑی بات یہ کہ کیا واقع ہی دالور نے کنڈی
کھولی ہو گی ؟ اگر دروازہ الک ہوا تو؟ سوچوں کا ایک طوفان تھا جس نے میرے سارے وجود
@
کو ہال کر رکھ دیا تھا ۔۔۔۔ اور میں ۔۔۔۔۔۔۔ گو مگو کا شکار ہو رہی تھی ۔۔۔۔ صنوبر کے آگے میری
حیثیت صفر تھی ۔۔۔ اس وقت وہ گھر کی کار مختار تھی ۔۔۔۔ اگر۔۔۔وہ بجنگ آمد ہو گئی تو۔۔۔۔؟؟؟؟
یہ باتیں سوچتے ہوئے میں میں دھیرے دھیرے صنوبر کےکمرےکی طرف بڑھنے لگی۔اور پھر
اس کے دروازے پر پہنچ گئی ۔۔۔۔ اس کے بعد مزید آگے کی طرف بڑھتے ہوئے میرے قدم من
ﺷﺎه
من بھر کے ہو گئے اور میرے سارا بدن پسینے میں نہا گیا ۔جب میں نے دروازے کے ہنڈدل پر
نامعلوم اندیشے سر اُٹھانے لگے ۔۔۔پھر ہاتھ رکھا تو ۔۔۔میرے اندر ۔۔ سوچیں وسوسے ۔اور
میں نے اپنے کانپتے ہوئے ہاتھ سے دروازے کے ہنڈنل پکڑ کر گھمانے کے لیے ذور لگایا
تو۔۔اچانک۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔
پھراچانک ہی میرے ذہن میں آیا کہ میں اتنی کمزور کیوں پڑ رہی ہوں ؟ اگر میں نے ایسے
ﺟﯽ
ہی بزدلی دکھانی تھی تو ۔۔۔ پھر یہ سب کرنے کی کیا ضرورت تھی ؟ ۔اور سب سے بڑی بات یہ
کہ میں نے اس کام کے عوض اپنی عزت لُٹوائی ہے پہلی بار کسی غیر مرد کے نیچے لیٹی ہوں
۔۔ اور اب میں ؟؟ ۔۔۔ پھر میں نے خود سے کہا ہمت پکڑو مرینہ ۔۔۔۔۔وہ تمھارا کچھ بھی نہیں
بگاڑ سکے گی ۔ ۔۔۔ اس بات نے میری کچھ ڈھارس بندھائی اور پھر میں کچھ دیر کے لیئے ُرک
گئی کیونکہ اس وقت میرے منہ پر بارہ بج رہے تھےاور مجھے ایسی حالت میں دیکھ کر صنوبر
ا
۔۔۔۔ اور وہ دالور کے لن پر چڑھ کر زبردست جمپیں لگا رہی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔ یہ سارا منظر دیکھنے
ﺳﺗﺎ
کے بعد میں نے اونچی آواز میں کہا ۔۔۔ ۔۔۔ وہ باجی ۔۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔ پھر ۔۔پھر۔ بظاہر آنکھیں پھاڑ پھاڑ
کر سامنے واال منظر دیکھنے لگی ۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی صنوبر کی مجھ پر نظر پڑی ۔۔۔۔ تو وہ
حقا بقا رہ گئی ۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے چہرے پر ہوائیں اُڑنے لگیں ۔اور اس کی حالت ایسی ہو گئی
کہ کاٹو تو لہو نہیں ۔۔۔ ۔پھر مجھے ایسا لگا کہ چند سکینڈ کے لیئے یہ سارا منظر تھم سا گیا
ﻧﯽ
ہو ۔۔۔۔۔ پھر اچانک جیسےصنوبر کو ہوش سا آ گیا ۔۔۔ اور وہ جلدی سے دالور کے لن سے نیچے
اُتری ۔۔۔ اس کی دیکھا دیکھی دالور نے بھی جمپ لگائی اور پلنگ سے نیچے اترآیا ۔۔۔۔۔۔ اور
اپنے لن کو دونوں ہاتھوں سے ڈھانپ کر میرے سامنے کھڑا ہو گیا ۔۔ قربان جاؤں میں اس کی
ﺟﯽ
ایکٹنگ پر ۔۔کہ ۔۔ وہ میری طرف دیکھ کر۔۔۔ تھر تھر کانتپے ہوئے رونے لگا ۔۔۔ دالور کو
روتے دیکھ کر ۔۔۔۔۔ صنوبر ایک دم مزید پریشان ہو گئی اور اس نے جلدی سے ایک چادر لی اور
اس سے اپنا بدن ڈھانپا اور مجھے نظر انداز کرتے ہوئے دالور سے بولی۔ ۔۔۔۔۔ دالور تم جاؤ ۔۔۔۔
دالور نے ایک نظر مجھے دیکھا ۔۔۔۔ اور میں نے بھی اس کی طرف دیکھا تو اس وقت وہ پلنگ
@
سکڑ کر چھوٹا سا رہ گیا تھا ۔۔۔۔ بال سے اپنی قمیض اُٹھا رہا تھا اور اس وقت اس کا بڑا سا لن ُ
سن کر ایک بار پھر میری طرف دیکھا تو شبہ وہ بڑا اچھا ایکٹر تھا ۔اس نے صنوبر کی بات ُ
سن کر صنوبر میں نے اس سے کہا ۔۔۔ اگر باجی کہہ رہی ہے جاؤ ۔۔۔ تو تم جاؤ۔۔۔۔ ۔۔۔۔ میری بات ُ
نے بڑی تشکر بھری نظروں میری طرف دیکھا اور ۔۔۔ پھر خود بھی کپڑے پہننے لگی ۔۔۔۔ میں
ﺷﺎه
اس ساری کاروائی کے دوران بلکل ُچپ رہی اور پالن کے مطابق اپنا کوئی بھی ر ِد عمل نہ شو
کیا ۔۔۔۔
ادھر دالور نے جلدی جلدی کپڑے پہنے اور خوف ذدہ ہونے کی ایکٹنگ کرتا ہوا دروازہ
کھول کر بھاگ گیا ۔۔۔ اس کے جانے کے بعد میں بھی بنا کوئی لفظ کہے ۔۔۔باہر کی طرف جانے
لگی ۔۔۔ تو اچانک پیچھے سے صنوبر نے آواز لگائی۔۔۔۔۔ ایک منٹ مرینہ !!!!! اور میں وہان ُرک
ﺟﯽ
گئی اور ُمڑ کر صنوبر کی طرف دیکھنے لگی ۔۔۔ وہ چلتی ہوئی میرے قریب آئی اور ۔۔۔ میرے
سامنے کھڑی ہو گئی ۔۔۔۔ کافی دیر تک وہ یوں ہی اپنی نظروں کو جھکائے کھڑی رہی ۔۔ ۔۔ پھر
۔۔۔ اس نے اپنا سر اُٹھا کر میر ی طرف دیکھا اور ٹھہر ٹھہر کر بڑی آہستگی سے بس اتنا ہی
بولی ۔۔۔سوری ۔۔۔۔۔ تھینک یو ۔۔۔ مرینہ ۔۔۔۔ !!! میں نے اس کی بات کا کوئی جواب نہ دیا اور آگے
بڑھ کر صنوبر باجی کو اپنے گلے سے لگا لیا ۔۔۔۔ اور ان سے بولی ۔۔۔۔سوری تو مجھے کہنا
ا
چلتی ہوں ۔۔اور سنجیدہ سا منہ بناتے ہوئے تیز تیز قدم اُٹھا کر باجی کے کمرے سے باہر آگئی
ﺳﺗﺎ
اور پھر تقریبا ً بھاگتے ہوئے اپنے کمرے میں گئی اور کمرے میں داخل ہوتے ہی ۔۔ذور سے۔۔۔"
لوشے" ۔کہا ۔۔۔ اور ۔پھر ۔۔ خوشی کے مارے خٹک ڈانس کرنے لگی ۔۔۔ آج میں بہت خوش تھی
۔۔۔ میں نے اپنی سب سے بڑی دشمن ۔۔ صنوبر کو ایسی اخالقی مار مری تھی ۔۔۔۔ کہ مجھے
یقین تھا کہ آج کے بعد وہ مجھے کبھی بھی تنگ نہیں کرے گی ۔۔۔ کچھ دیر کی اچھل کود کے
ﻧﯽ
بعد میں شانت ہو گئی اور پھر سونے کے لیئے لیٹ گئی ۔۔۔۔
ﺟﯽ
ایک دو گھنٹے بعد جب میں سو کر اُٹھی اور گھر کے کام کاج کرنے کے لئے اپنے کمرے
سے باہر نکلی ۔۔ تو حیرت کے مارے میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔۔۔۔ صنوبر باجی نہ
صرف برآمدے میں بیٹھی میرا انتظار کر رہی تھی بلکہ اس نے میری نیند کے دوران سارے کام
بھی کر دئے تھے۔۔۔ یہ سب دیکھ کر میں نے ان سے کہا کہ باجی آپ نے ناحق زحمت کی ہے
سن کر وہ بولی۔۔۔ کوئی بات نہیں ۔۔۔ مرینے ۔۔۔ کام تم نے کیا یا
میں کس لیئے تھی ۔۔۔ میری بات ُ
@
میں نے ۔۔ بات ۔ ایک ہی ہے۔اور پھر وہ مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ سنو مرینے۔۔۔۔۔ آج سے پہلے میں
نے جو کچھ بھی تمھارے ساتھ کیا ۔۔۔ اس کے لیئے میں تم سے سوری کرتی ہوں ۔۔۔لیکن آج کے
بعد تم سے وعدہ ہے کہ میں تم کو اپنی بھابھی نہیں بلکہ اپنی سگی چھوٹی بہن سمجھوں گی۔۔
پھ ر اس کے بعدصوبر باجی واقع ہی میری بہت اچھی دوست اور بہن بن گئی اور ہم دونوں
ﺷﺎه
اسی طرح دن گزرنے لگے ۔۔۔ اس بات سے یہ کوئی دو ہفتے بعد کی بات ہے کہ ایک روز
صنوبر باجی میرے پاس آئی اور میرے پاس ُچپ کر کے بیٹھ گئی۔وہ کچھ پریشان سی لگ رہی
ﺟﯽ
تھی ۔۔۔۔۔ جب ان کی خاموشی کو کافی دیر گذر گئی تو مجھےکچھ تشویش ہوئی تو میں نے اس
سے پوچھا خیر تو ہے نا باجی؟؟ آپ کچھ اداس اداس سی لگ رہی ہو؟ ۔۔۔۔ تو وہ میری طرف
دیکھتے ہوئے پُر اسرار لہجے میں بولی ۔۔۔ کیا بتاؤں مرینے۔۔ آج میں بہت تنگ ہوں ۔۔۔ تو میں
نے ان سے کہا ۔۔۔ اوہ ۔۔ باجی آپ نے بتایا ہی نہیں ۔۔۔ بولیں کتنے پیسے چاہیں آپ کو ؟؟ میری
سن کر وہ ہنس پڑی اور بولی ۔۔ ارے نہیں یار میں وہ والی تنگ نہیں ہوں ۔۔۔۔۔ بلکہ مجھے بات ُ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
دوسری قسم کی تنگی ہے ۔ ۔۔۔ ۔۔ تو میں نے اس سے کہا باجی میں سمجھی کہ آپ کو کس قسم کی
سن کر باجی نے ایک ایک توبہ شکن انگڑائی لی اور اس سے قبل کہ وہ تنگی ہے ؟ ۔۔میری بات ُ
میرے سوال کا جواب دیتی ۔۔۔۔ میں سارا معاملہ سمجھ گئی تھی ۔۔۔سو ۔۔ میں نے ان سے کہا
۔۔۔ کہو باجی میں آپ کے لیئے کیا کر سکتی ہوں؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ مرینے جی ۔۔ تم کیا کر
ا
سکتی ہو ۔۔۔ کرنا تو میں نے خودہی ہے ۔۔۔ وہ بس ۔۔ تم سے اتنا کہنا ہے کہ ۔اتنے دن ہو گئے ہیں
ﺳﺗﺎ
سن کر میں نے کہا کہو تو ۔۔پھر جھجھک کو بولی ۔۔وہ ۔۔۔ وہ۔۔ دالور ۔۔ کو بُال لوں ؟ ان کی بات ُ
۔۔ باجی یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے ۔۔آپ جب چاہو دالور کو بال سکتی ہو ۔۔۔ مجھے ا س
سن کو وہ خوشی سے نہال ہو گئی اور مجھے گلے سے پر کوئی اعتراض نہ ہے ۔۔۔ میری بات ُ
لگا کر بولی ۔۔۔۔ تھینک یو ڈئیر ۔۔۔۔ اور پھر وہ اُٹھ کر اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔ ان کے جانے
ﻧﯽ
کے بعد مجھے دالور یاد آ گیا ۔۔۔۔۔۔۔ دالور کے یاد آتے ہی مجھے اس کا سخت لن ۔اور۔اس
کے زبردست ۔دھکے یاد آ گئے ۔۔اور ۔۔ یہ سب سوچ سوچ کر میں نیچے سے گیلی ہو گئی۔۔۔اور
مجھے لن کی شدید طلب محسوس ہونے لگی ۔۔
ﺟﯽ
اسی دن شام کا زکر ہےکہ جب خان جی گھر آئے تو اس وقت تک میں نیچے گر م ہو ہو
کر تندور بن چکی تھی چنانچہ خان جی کےگھر آتےہی میں نے ان کو سپیشل ٹریٹ منٹ دینا
شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ ۔۔ وہ کچھ سمجھے کچھ نہ سمجھے ۔۔۔ لیکن کمرے میں جاتے ہوئے میں نے
@
جب بہانے سے اپنی گانڈ کو ان کے ساتھ ٹچ کیا تو گھاگ آدمی فورا ً ہی بات کو سمجھ گیا اور
کہنے لگا ۔۔۔ ۔۔۔ ہوں ۔۔ تو سالی تیرا لینے پر دل کر رہا ہے ؟ تو میں نے ان کو کوئی جواب نہ دیا
اور کمرے میں لے جا کر کھانا ان کے آگے رکھ دیا ۔۔۔کھانا کھانے کے بعد ۔ رات کو بستر پر
جاتے ہی وہ بولے ۔۔چل مرینے اپنے کپڑے اتار ۔۔۔ اور خود بھی ننگے ہو کر لیٹ گئے ۔۔ جب
ﺷﺎه
میں کپڑے اتار کے کر ان کے پاس گئی تو دیکھا تو ان کالن ابھی تک بیٹھا ہوا تھا ۔اور پتہ نہیں
کیوں اور کیسے ان کا بیٹھا ہوا لن دیکھ کر مجھے دالور یاد آ گیا اور یہ بھی یاد آیا کہ اس کا
لن میری رضا مندی سے پہلے ہی اکڑا ہوا تھا ۔اور اس شخص کو دیکھو ۔۔۔ ۔۔۔ کہاں یہ کہ ۔۔
مجھے ننگا دیکھ کر بھی اس کو ہوشیاری نہیں آ رہی ۔۔۔دالور کے لن بارے سوچ آتے ہی میں نے
ﺟﯽ
دل ہی دل میں خود کومالمت کی ۔۔۔ کہ یہ میں کیا سوچ رہی ہوں ۔۔ ۔۔۔۔۔ اور پھر ان کے پاس پلنگ
پر چلی گئی ۔۔ مجھے اپنے پاس آتے دیکھ کربولے چل مرینے اسے (لن کو ) کھڑا کر ۔۔۔ اور
میں نےان کا لن ہاتھ میں پکڑ کر اسے لیکر ہالنا ُجالنا شروع کر دیا لیکن اس نے بھی شاید کھڑا
نہ ہونے کی قسم کھائی ہو ئی تھی ۔۔اور میرے بار بار ۔۔ہالنے جالنے سے بھی ان کا لن ٹس
سے مس نہ ہو رہا تھا ۔۔ اور ویسے ہی ُمردوں کی طرح پڑا رہا ۔۔۔ تو ایک بار پھر مجھے دالور
کا سخت لن یاد آ گیا ۔۔۔ اور اس کالن یاد آتے ہی ایک لمحے کے لیئے میری چوت کی دیواریں
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
آپس میں ملیں اور پھر۔۔۔ انہوں نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا۔۔ ۔ ادھر ۔۔۔ میری اتنی کوششوں
کے با وجود بھی بھی جب خان جی کا لن کھڑا نہ ہوا تووہ تھوڑے شرمندہ سے ہو گئے اور
کہنے لگے ۔۔۔ اصل میں میرا موڈ نہ تھا ۔۔۔ اس لیئے کھڑا نہیں ہو رہا ورنہ تو تم جانتی ہی ہو کہ
میرا شیر کیسا ہے ؟ ،،،پھر اپنی خفت مٹاتے ہوئے بولے ۔۔۔۔ اگر یہ ایسے کھڑا نہیں ہو رہا تو چلو
ا
منہ سے ہی کھڑا کر لو ۔۔۔ ان کی بات سن کر میں نیچے جھکی ان کے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا
ﺳﺗﺎ
اور پھر ۔۔۔۔ اپنی زبان باہر نکال کر ان کے ٹوپے کو چاٹنے لگی ۔میری زبان کا ان کےلن کے
ہیڈکے ساتھ ٹچ ہونا تھا کہ ۔۔۔ اچانک پھرسے مجھے دالور کا لن یاد آگیا ۔۔۔ کیا زبردست لن تھا
۔۔۔۔ اور کیسا ڈنڈے کی طرح کھڑا تھا ۔۔۔ یہ یاد آتے ہی مجھ میں گرمی بھر گئی اور میں نے پُر
جوش طریقے سے خان جی کا لن چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔ ان کے ۔لن میں تھوڑی سی حرکت ہوئی
ﻧﯽ
اور وہ نیم کھڑا ہو گیا ۔۔۔ لیکن ابھی بھی اس میں اتنی سختی نہ آئی تھی کہ ۔۔۔وہ میری تنگ چوت
کو چود سکے ۔۔۔ ۔۔۔ چنانچہ ۔۔ یہ دیکھ کر میں نے ان کا لن اپنےمنہ میں لیا اور دالور کے لن کا
تصور کرتے ہوئے اسے بڑی مستی سے چوسنے لگی ۔۔۔ ۔ خان جی کا لن نیم کھڑا تو پہلے سے
ﺟﯽ
ہی تھا اب میرے منہ کی گرمی پا کر کچھ ڈھیال ڈھال سا کھڑا ہو گیا ۔۔۔ کچھ دیر تک چو پا لگانے
کے بعد وہ اتنا سخت ہو گیا تھا کہ جس سے وہ میری چوت کے اندر جا سکے۔۔خان جی کا لن
کھڑا کر کے میں اوپر اُٹھی اور ان کے کہنے کے مطابق پلنگ پر گھوڑی بن گئی۔۔۔ یہ دیکھ کر
خان جی بھی بستر سے اُٹھے اور میرے پیچھے آ کر گھٹنوں کے بل کھڑے ہو گئے اور ۔۔۔ پھر
@
انہوں نےاپنے لن پرتھوڑا سا تھوک لگایا ۔۔۔ اور ۔۔۔اس اک ٹوپا میری چوت کے منہ پر رکھ کر
ایک چھوٹا سا گھسہ مارا ۔۔۔ ان کا بے جان گھسہ کھا کر مجھے دالور کا لگایا ہوا گھسہ یاد آگیا
۔۔۔ اُف ظالم ۔۔ کا بچہ کس قدر سخت گھسے مارتا تھا ۔۔۔ میری تو اس نے جان ہی نکال دی تھی
۔پھر میں نے سوچا کہ دالور کا لن تھا کہ کوئی بال تھی اس کے جوان لن کے طاقتور گھسوں
ﺷﺎه
ے نے میری چوت میں ہل چل مچا دی تھی اور کہا ں یہ خان جی کا ڈھیال سا لن جو ٹھیک سے
میری چوت کے اندر بھی نہ جا رہا تھا ۔یہ سوچ آتے ہی ایک دفعہ پھر میں چونک گئی اور
سوچنے لگی ۔۔۔کہ مجھے ایسا نہیں سوچنا چاہیئے ۔۔۔ کیونکہ خان جیسا بھی ہے میرا شوہر ہے ۔۔۔
لیکن نیچے سے میری پھدی بولی ۔۔۔ یہ تمھارا شوہر نہیں بلکہ اس نے بطور سزا تمھارے باپ
سے تمھیں ہتھیا یاہے۔۔۔میں نے بڑی مشکل سے اس سوچ پر قابو پایا ۔اور اپنی ساری توجہ خان
ﺟﯽ
جی کے لن پر لگا دی ۔۔اس وقت میں بڑی سخت گرم تھی ۔۔۔ ۔ ادھر خان جی نے اپنے نیم جان لن
کے ساتھ ایک اور کمزور سا گھسا مارا ۔۔ جس نے مجھے نڈھال تو کیا کرنا تھا اُلٹا مجھے مایوس
کر دیا ۔۔ کیونکہ اس وقت میں اپنے سیکس کے عروج پر تھی اس لیئے مجھے تو جناتی قسم کے
گھسوں کی مار چاہیئے تھی ۔۔۔ جناتی قسم کے گھسوں سے ایک بار پھر مجھے دالور یاد آ گیا
۔۔اس کے گھسوں میں کتنا دم تھا ۔۔ یہ خیال آتے ہی میری پھدی نے نیچے سے پانی چھوڑنا شروع
ا
ہوں ۔۔۔ دیکھنا میں آج تمھاری بس کروا دوں گا ۔۔۔اور بس۔۔۔ سے میرا دھیان دالور کی طرف چال
ﺳﺗﺎ
گیا ۔۔۔۔ ۔۔ پھر میں نے سوچا ۔۔۔ کہ میں اسے کیوں یاد کر رہی ہوں؟ مجھے بس اپنے شوہر کے لن
پرہی رہنا ہے ۔۔۔ لیکن نیچے سےمیری چوت نے دھائی دی کہ نہیں ۔۔۔۔ دالور نہ سہی اس جیسا
کوئی جوان لن ہی میری پیاس بجھا سکتا ہے ۔۔۔ مجھے ٹھنڈا کرنا اب اس شخص کے بس کی بات
نہیں۔۔۔ اور پھر مجھے خیال آیا کہ صنوبر کی طر ح ۔۔کیوں نہ میں بھی دالور ۔۔۔۔ اور دالور ۔۔۔
ﻧﯽ
کا نام آتے ہی پتہ نہیں کیوں میری پھدی ایک دم تنگ ہو گئی اور خان جی کی لن کے ساتھ لپٹ
گئی ۔۔۔ ادھر خان جی نے اپنے لن کے گرد میری پھدی کو کسا دیکھا تو بولے ۔۔۔ کیوں ۔۔ کیا ہوا
۔۔ تو میں نے منافقت سے کام لیتے ہوئے کہا کہ خان جی واقع ہی آپ نے میری بس کر دی ہے
ﺟﯽ
۔اس کے بعد خان جی نے کچھ مزید نیم جان سے ۔۔۔ گھسے مارے ۔ اور پھر میرے اندر ہی۔۔
فارغ ہو گئے۔۔۔وہ تو فارغ ہو سو گئے اور میں اندر ہی اندر گیلی لکڑی کی طرح سلگتی رہی۔
اگلی صبع جب میں خان جی کو ُرخصت کر کے واپس آئی اور سونے کے لیئے اپنے کمرے
@
کی گئی تو دیکھا کہ کمرے کے باہر صنوبر باجی کھڑی تھی اور وہ شاید میرا ہی انتظار کر رہی
تھیں ۔۔۔ تو میں نے ان کو دیکھ کر خیریت ہے باجی آپ یہاں کیوں کھڑی ہیں تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔
جیسا کہ تم کو معلوم ہے کہ میرا وہ آ رہا ہے تو تم سے درخواست ہے کہ تم باہر کا خیال رکھنا ۔۔۔
ایسا نہ ہو نہ کہ پھر سے کوئی گڑ بڑ ہو جائے ۔۔۔ پھر کہنے لگیں تم نے تو معاف کر دیا تھا لیکن
ﺷﺎه
اس دفعہ کسی اور نے پکڑ لیا نا ۔۔۔ تو تم جانتی ہی ہو ۔۔۔ میں ان کا مطلب سمجھ گئی اور ان سے
سن کر انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اوربولی ۔۔۔ بے فکر رہو باجی۔۔۔ میں دیکھ لوں گی میری بات ُ
اپنے کمرے میں چلی گئی۔۔۔جبکہ میں وہیں برآمدے میں بیٹھ کر گھر کے چھوٹے موٹے کام کرنے
لگی ۔۔۔ کوئی آدھے گھنٹے کے بعد باجی اپنے کمرے سے نمودار ہوئی اور آ کر میرے پاس بیٹھ
ﺟﯽ
گئی ۔۔۔ وہ خاصی بنی سنوری ہوئی تھی ۔۔۔۔ تو میں نے ان سے مذاق میں کہا کہ ۔۔ اوہو ۔۔۔ بڑی
سن کر وہ مسکرائی اور اس سے قبل کہ وہ کوئی جواب دیتی تیاریاں ۔۔۔ شیاریاں جی ۔۔۔۔ میری بات ُ
سن کر باجی بولی ۔۔۔ لو جی جس کے لیئے یہ ۔۔ باہر دستک کی آواز سنائی دی ۔۔۔ دستک کی آواز ُ
ساری تیاریاں ہوئیں تھیں وہ بھی آن پہنچا ہے پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کے کہنے لگیں ۔۔۔
مرین ے ۔۔۔ ایک تکلیف کرو ۔۔ تم اندر چلی جاؤ ؟ تم نے اس کے سامنے نہیں آنا ۔۔۔ تو میں نے ان
سے پوچھا وہ کیوں باجی تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ یار بچہ تم سے بڑا سخت ڈرا ہوا تھا وہ تو یہاں آنے
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
پر مان ہی نہیں رہا تھا۔۔۔یہ تو میں نے اس سے جھوٹ بوال ۔۔ کہ تم نے خان جی کے ساتھ کہیں
سن کر میں دل ہی دل میں دالور کی ذہانت کی قائل ہو جانا ہے تو تب وہ مانا ہے ۔۔۔ اس کی بات ُ
گئی اور اُٹھتے ہوئے بولی ۔۔ ٹھیک ہے باجی آپ انجوائے کرو۔۔ میں اندر جاتی ہوں ۔۔۔ اور وہاں
اُٹھ کر چلنے لگی تو ۔۔۔ اس نے پیچھے سے آواز دے کر کہا ۔۔ جا کر سو نہ جانا ۔۔۔ بلکہ خیال
ا
رکھنا ۔۔۔۔ اور میں نے ہاں میں سر ہال دیا ۔۔۔۔
ﺳﺗﺎ
اور جا کر کھڑکی سے لگ گئی۔۔۔ کچھ دیر بعد دالور صنوبر باجی کے ساتھ آتا ہوا دکھا ئی
دیا ۔۔۔ اور پھر وہ دونوں تیز تیز قدم اُٹھاتے ہوئے صنوبر کے کمرے میں چلے گئے اسکے بعد
تقریبا ً ڈیڑھ گھنٹے کے بعد وہ باہر آیا اور اسی طرح تیز تیز قدم اُٹھاتا ہوا ۔۔ باہر نکل گیا ۔اس کے
ﻧﯽ
جانے کے بعد میں اپنے کمرے سے نکلی اور آ کر برآمدے میں بیٹھ گئی ۔ کچھ دیر بعد صنوبر
باجی بھی کمرے سے باہر آئ گئی ۔۔۔ اور میرے ساتھ بیٹھ گئی اور ہم ادھر ادھر کی باتیں کرنے
لگیں ۔۔۔ پھر میں نے شرارتا ً ان سے پوچھا کہ باجی ۔۔ آج کی کاروائی کیسی رہی ؟ ۔۔ میری بات
سن کر انہوں نے ایک بھر پُور انگڑائی لی اور کہنے لگی ۔۔۔ ایک دم زبردست ۔۔۔۔۔۔ پھرانہوں نے ُ
ﺟﯽ
میری طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ۔۔ ساال کیا شاندار ۔۔۔۔۔۔ ٹھکائی کرتا ہے میری تو ساری تھکاوٹ
دور ہو گئی اور میں ایک دم فریش ہو گئی ہوں ۔۔۔۔۔ اور پھر ہنسنے لگیں ۔۔۔ اسی دوران میرے دل
میں ایک خیال آیا اور میں نے سیریس ہو کر ان سے کہا کہ باجی اگر آپ مائینڈ نہ کریں تو میں
آپ سے ایک بات پوچھوں؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ لو جی اب ہم میں مائینڈ والی بات کون سی رہی
@
گئی ہےجو مائینڈ کریں ۔۔۔ پھر کہنے لگیں بےدھڑک ہو کر پوچھو ۔۔۔ جو پوچھنا ہے ۔۔۔ تو میں نے
ان سے کہا باجی ۔۔۔ یہ دالور رشتے میں آپ کا بھانجا لگتا ہے ۔۔۔تو میرا مطلب ہے ۔۔۔۔ تو وہ میری
بات کاٹ کر بولیں ۔۔۔ یار رشتے میں بھانجا لگتا ہے نا ۔۔۔ سچ ُمچ کا تو بھانجا نہیں ہے نا ۔۔۔ پھر
ہتےے ہوئے بولیں ویسے آپس کی بات ہے یہ اگر سچ ُمچ کا بھی بھانجا ہوتا نا ۔۔۔۔۔ تو تب بھی
ﺷﺎه
میں اس سے یہی کچھ کرتی جو میں نے ابھی کیا ہے۔۔تو میں نے ان سے کہا کہ اس کی کیا وجہ
سن کر انہوں نے مجھے پشتو کا ایک محاورہ سنایا ۔۔ جس کے مطابق ۔۔۔ عورت ہے ؟ میرا سوال ُ
نہ تخت مانگتی ہے نہ تاج مانگی ہے بلکہ وہ صرف لن سخت مانگتی ہے ۔۔۔ اور پھر میری طرف
دیکھتے ہوئے بڑے ہی سیکسی لہجے میں بولیں ۔۔۔ اور مرینے اس لڑکے کا لن بڑا سخت اور
سن کر میں تھوڑا چھینپ سی گئی ۔۔۔ تو وہ میری حالت سے ۔۔۔۔.۔۔ ان کے منہ سے لن کا لفظ ُ
ﺟﯽ
محظوظ ہوتے ہوئے بولیں ۔۔۔ ارے تم شادی شدہ ہو کر بھی ایسی شرما رہی ہو کہ جیسے تم نے
کبھی لن کا منہ نہیں دیکھا اور پھر خود ہی قہقہہ مار کر ہنسنے لگیں ۔۔۔۔ اور یوں اس کے بعد
میری باجی کے ساتھ سیکس چاٹ کی ابتداء ہو گئی۔۔ انہوں نے مجھے اپنے سیکس کے ایسے
سن کر خواہ مخواہ ہی میری پھدی گیلی ہو گئی ۔۔۔ ایسے قصے سنائے کہ ۔۔جینےر ُ
ا
دالور کے آنے جانے پر نظر رکھتے ہوئے میں نے ایک بات نوٹ کی تھی کہ کبھی تو دالور ان
ﺳﺗﺎ
کے ساتھ ایک گھنٹہ رہتا اور کھبی تو ایسا ہوتا کہ وہ دو تین تین گھنٹے تک ان کے کمرے میں
رہتا تھا۔۔۔ یہ بات مجھے کافی عجیب فیل ہوئی۔۔۔۔ فری تو ہم تھے ہی ۔۔ سو میں نے ان یہ بات
پوچھی تو سن کر وہ ہنس پڑی ۔۔۔اور بولی بس اس بات کے لئے تم اتنی پریشان تھی ؟ پھر کہنے
لگیں یار اصل بات یہ ہے کہ دالور کبھی کبھی ٹرپل ایکس موویز بھی التا ہے ۔۔جسے ہم مل کر
ﻧﯽ
دیکھتے ہیں ۔۔پھر مجھ سے کہنے لگیں تم نے ٹرپل ایکس موویز دکھیں ہیں تو میں نےاثبات میں
سر ہال دیا ۔۔ پھر کہنے لگیں ۔۔۔ دیکھنا پسند کرو گی؟
تو میں ان سے کہا کہ نہ دیکھنے کا تو سوال ہی نہیں پیدا ہوتا ۔۔۔تو وہ مجھ سے بولیں اتفاق
ﺟﯽ
سے آج کل ایک اچھی فلم آئی ہوئی ہے ۔۔ دیکھو گی ؟ پھر ہم دونوں نے مل کر وہ ٹرپل ایکس
مووی دیکھی ۔۔ بڑی ہاٹ فلم تھی ۔اور اس فلم کے چودائی والے مناظر نے میری پھدی کو پانی
پانی کر دیا تھا ۔۔ اس میں ایک دو سین لزبین) (lesbianکے بھی تھے۔۔۔۔جب وہ سین آئے تو
پہلےسے ُچپ صنوبر باجی نے اچانک میری طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ ان پر تبصرہ شروع کر
@
دیا ۔جیسے ہی ایک لڑکی جو کہ میری ہی ہم عمر ہو گی سکرین پر آئی اس نے بڑی ٹائیٹ
فٹنگ والی شرٹ پہنی ہوئی تھی ۔۔۔ تو اسے دیکھتے ہی وہ کہنے لگیں ۔۔ مرینے ۔۔ زرا لڑکی کے
ممے تو دیکھ ۔۔۔ کتنے بڑے بڑے ہیں ۔۔تم سے بھی بڑے ہیں ممے ہیں اس کے ۔کچھ دیر بعد جب
وہ فُل ننگی ہو گئی ۔۔ تو انہوں نے ایک نظر میری اور ایک نظر اس کی چھاتی پر ڈالی اور ۔۔
ﺷﺎه
اور پھر مجھ سے کہنے لگیں ۔۔۔ نہیں یار ۔۔۔ تمھارے ممے اس سے زیادہ بڑے ہیں ۔۔فلم دیکھ
کر میں کافی گر م ہو چکی تھی سو انہوں نے جب میرے مموں کی تعریف کی تو مجھےبہت اچھا
لگا اور میں نے مستی میں آ کر ان سے کہا ۔۔۔ نہیں باجی یہ تو بلکل آپ جتنے ہیں ۔تو میری بات
سن کر وہ بولیں نہیں یار میرے ممے تو تم دونوں سے بڑے ممے ہیں ۔۔۔۔اسی طرح ایک اور ُ
سین میں لڑکی کے نپل دکھائی دئیے جو کہ بہت بڑے اور اکڑے ہوئے تھے تو میں نے ان سے
ﺟﯽ
کہا باجی دیکھو اس لڑکی کے نپل کتنا بڑے ہیں ۔۔۔ تو صنوبر باجی کہنے لگیں کہاں بڑے ہیں
۔۔ اس سے بڑے نپل تو میرے ہیں ۔تو میں نے حیران ہو کر ان سے پوچھا ۔۔۔ واقع ہی آپ کے نپل
سن کر پتہ نہیںاس سے زیادہ بڑے ہیں ؟ تو وہ کہنے لگیں ہاں ۔۔۔۔۔ کہو تو دکھاؤں؟ ان کی بات ُ
کیوں مجھے تھوڑی سی شرم آگئی حاالنکہ جی تو میرا بھی یہی چاہ رہا تھا کہ میں ان کے ہاٹ
نپل دیکھوں۔۔لیکن بوجہ ۔۔۔ خاموش رہی ۔۔۔ ۔ اس طرح کی چھیڑ چھاڑ میں وہ فلم ختم ہو گئی ۔۔
ا
ﺳﺗﺎ
اسی طرح ایک دن اور ایک ٹرپل ایکس فلم دیکھی۔۔۔ عورت مرد کے ایکشن سین دیکھتے
ب معمول باجی بلکل ُچپ ہو کر اور بڑے ہی غور سے وہ سین دیکھتی رہیں لیکن ہوئے حس ِ
جیسے ہی لزبین) (lesbianسین شروع ہوئے ۔۔۔ ایک بار پھر صنوبر باجی ۔۔۔کی زبان قینچی
کی طرح چل پڑی اور وہ ایک ایک سین پر تبصرے کرتی گئی ۔۔۔ اور سچی بات تو یہ ہے کہ فلم
ﻧﯽ
سے زیادہ مجھے ان کےسین پر کئے گئے تبصروں نے زیادہ گرم کر دیا تھا ۔۔۔ اسی فلم میں
لڑکیوں لڑکیوں کا ایک انتہائی گرم زبانوں کا بوسہ بھی تھا ۔۔۔۔جسے دیکھتے ہوئے میرے منہ
سنمیں پانی بھر آیا اور میں نے باجی سے پوچھا ۔۔۔اُف باجی کتنی گرم کس ہے یہ۔۔۔ میری بات ُ
ﺟﯽ
کر وہ کہنے لگی ارے ۔۔۔۔ یہ کیا گرم کس کریں گی ۔۔ اس سے سو گنا گرم کس تو میں کر سکتی
ہوں پھر انہوں نے اپنا منہ بلکل میرے قریب کیا ۔۔۔اتنا قریب کہ مجھے اپنے چہرے پر ان کی گرم
سنی وہ کہہ رہی تھیں مرینے تمھارے سانسیں محسوس ہونے لگیں ۔۔۔پھر میں نے باجی کی آواز ُ
ہونٹ بڑے سیکسی ۔اور رس سے بھرے ہیں اجازت ہو تو میں ان کا رس چوس لوں ؟؟ ۔ میرا بھی
دل تو یہی کر رہا تھا کہ وہ میرے ساتھ ویسی ہی کسنگ کریں جیسے مووی والی لڑکیوں نے
@
کی تھی ۔۔۔ ۔۔۔ پر ۔۔پتہ نہیں مجھے کیا ہوا کہ میں نے ان کو اپنے سے تھوڑا پرے کرتے ہوئے
کہا ۔۔۔ کہ پلیز باجی ۔۔۔ مووی دیکھنے دیں ناں ۔۔۔ اور میرے ہونٹوں کے قریب ہوتے ہوئے ان کے
ہونٹوں کو خود سے الگ کر دیا اور ۔۔۔۔فلم دیکھنے لگی۔۔اسی طرح فلمیں دیکھتے ہوئے کافی
سارے واقعات میرے ساتھ پیش آئے کہ جو باجی میرے ساتھ کرنا چاہتی تھی ۔۔۔ اور اندر سے
ﺷﺎه
میرا بھی یہی دل ہوتا تھا کہ وہ میرے ساتھ لزبین ) (lesbianواال سین کریں ۔وہ پیش رفت بھی
کرتیں تھی ۔۔لیکن ۔۔۔ نہ جانے کیا بات تھی کہ عین وقت پر میں ان کو خود سے الگ کر دیتی تھی۔
ایک دن کی بات ہے کہ میں برآمدے میں بیٹھی سبزی چھیل رہی تھی جبکہ صنوبر باجی
ﺟﯽ
صحن میں جھاڑو لگا رہی تھی ۔۔۔گرمیوں کے دن تھے اورگھر میں دوپٹہ انہوں نے کبھی لیا ہی
نہیں تھا ۔۔ جھاڑو دیتے ہوئے وہ خاصی جھکی ہوئی تھیں ۔۔۔ جس کی وجہ سے میری نظر ان کی
بھاری چھاتیوں پر پڑ گئی ۔جو کہ ان کی کھلے گلے والی قیمض سے باہر جھانک رہیں تھیں ۔۔۔
اور ۔۔ مجھے وہ نظارہ اتنا سیکسی لگا کہ میں یک ٹک ان کو دیکھنے لگی۔۔۔ میرا خیال ہے ان
کی چھٹی حس نے میری اس ٹکٹکی کو اپنی طرف متوجہ کر دیا تھا ۔۔ اسی لیئے انہوں نے
ا
نہیں کہ مجھے کیا ہو گیا تھا کہ ننگی فلمیں دیکھ دیکھ کراور خاص کران فلموں میں لزبین
ﺳﺗﺎ
) (lesbianسین دیکھ کر مجھے بھی عورتوں میں کافی دلچسپی پیدا ہو گئی تھی ۔۔ میر ا خیال ہے
کہ یہی حال صنوبر باجی کا بھی تھا ۔۔ وہ تو کھلم کھال میری طرف مائل تھی ۔۔ لیکن میں نے جانے
کیوں ابھی تک ان کی حوصلہ افزائی نہ کی تھی ۔۔۔۔ اور نہ ہی میں نے نے صنوبر باجی پر اس
بات کا اظہار نہیں کیا تھا کہ مجھے ۔۔ بھی عورتوں میں دل چسپی پیدا ہو گئی ہے ۔۔۔۔لیکن اب ان
ﻧﯽ
کے یہ خوبصورت اور سیکسی ممے مجھے بڑے اچھے لگ رہے تھے اور ۔۔پھر انہوں نے جو
مجھے دیکھتے ہوئے حرکت کی یعنی کہ ۔۔۔ کہ اپنے سارے ممے ننگے کر دئے تھے اس کو
دیکھ کر تو ۔۔۔ میری چوت گیلی ہو گئی ۔تھی ۔لیکن میں بظاہر اپنے دھیان میں مگن رہی ۔۔ پھر
ﺟﯽ
میں نے کن اکھیوں سے دیکھا تو اب صنوبر باجی میری طرف گانڈ کر کے جھاڑو لگا رہی تھی
۔۔۔ اور انہوں نے اپنی گانڈ سے قمیض اٹھائی ہوئی تھی اور ان کی موٹی موٹی رانیں صاف نظر
آ رہی تھیں ۔۔مموں کی طرح ان کی گانڈ بھی بڑی اچھی اور موٹی تھی لیکن ۔۔۔ مموں کی بات ہی
اور تھی ۔۔۔ اس لیئے میں نے ایک نظر ان کی موٹی گانڈ پر ڈالی اور پھر سر جھکا کر سبزی
@
چھیلنے لگی ۔۔۔ لیکن گاہے گاہے کن اکھیوں سے ان کی موٹی گانڈ پر بھی نظر ڈالتی رہتی تھی
۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد جب میں نے اپنی نظریں ان کی طرف کیں تو ۔۔۔۔۔ کیا دیکھتی ہوں کہ ۔۔۔انہوں
نے اپنی گانڈ کی دراڑ میں اپنی قمیض پھنسائی ہے اور وہ میرے قریب آ کر مجھے اپنی کا گانڈ
کا نظارہ کراتے ہوئے بظاہر جھاڑو لگا رہیں تھیں ۔۔اتنے قریب سے یہ نظارہ ۔۔۔۔۔ اُف ۔۔۔ ان کی
ﺷﺎه
موٹی گانڈ کا ایک ایک پٹ مجھ پر قیامت ڈھا رہا تھا ۔اور میرا دل کر رہا تھا کہ میں اُٹھ کرباجی
کو مموں سے پکڑوں اور ان کی گانڈ دباؤں ۔۔۔۔ لیکن میں ایسا نہ کر سکتی تھی ۔۔اس لیئے میں نے
ان کی گانڈ کو جی بھر کر دیکھا اور پھر سر جھکا کر سبزی چھیلنے لگی ۔۔۔پھر کچھ دیر بعد
اچانک میرے کانوں نے باجی کی ایک چیخ نما سسکی سنی ۔۔۔ وئی۔ی ی ی ی۔۔۔۔میں نے فورا ً سر
اٹھایا اور ان سے پوچھا کہ ہوا باجی ۔۔ تو وہ اپنی گانڈ پر ہاتھ مارتے ہوئے بولیں ۔۔۔ یار لگتا ہے
ﺟﯽ
کسی چیز نے کاٹ لیا ہے ۔۔شاید "تربوڑی" ہو ۔۔۔ اور پھر وہ ایسے ہی اپنی گانڈ کو ملتے ملتے
میرے پاس آ گئیں اور اپنا منہ دوسرے طرف کر کے بولیں ۔۔۔ زرا دیکھو تو ۔۔ تو میں نے ان کی
گانڈ کے دونوں پٹ کو غور سے دیکھا اور مجھے کچھ سمجھ نہ آیا اس لیئے میں نے ان سے
کہا۔۔۔ باجی مجھے تو کچھ دکھائی نہیں دے رہا ،۔۔۔ تو انہوں نے کہا جلن سے میری جان نکلی جا
رہی ہے اور تم کہہ رہی ہو کہ تم کو کچھ دکھائی نہیں دے رہا ۔۔۔ اور پھر انہوں نےاپنی شلوار
ا
سن کر وہ بولیں نہیں ۔۔۔ مرینے بڑی زور کی جلن ہو رہی ہے تم تھوڑا نے کاٹا ہے ۔۔۔ میری بات ُ
ﺳﺗﺎ
آگے دیکھو نا ۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی انہوں اپنی شلوار کو مزید نیچے کر دیا ۔۔ اور تھوڑی
اور جھک گئیں ۔۔ اتنی کہ جب میں ان کی گانڈ کا معائینہ کرنے کے لیئے تھوڑی نیچے جھکی تو
مجھے ان کی چوت صاف دکھائی دی ۔۔۔ جسے دیکھ کر میری چوت بھی گرم ہو گئی ۔۔ اور اس
سے پہلے کہ میں کچھ کہتی انہوں نے اپنا ہاتھ ۔۔۔ گانڈ کے اینڈ اور چوت کہ شروع پر رکھا اور
ﻧﯽ
بولیں ۔۔۔۔۔ یہاں پر جلن ہو رہی ہے ۔۔۔ زرا مساج کر دے ۔۔۔۔۔ مرینے ۔۔ ۔ ۔ ۔۔ میں ان کے یہ اشارے
صاف سمجھ رہی تھی یہ سب مجھے پٹانے کے حربے تھے ۔اور مجھےپٹانے کا ان کا یہ حربہ
بہت اچھا لگ رہا تھا ۔۔اور میرا جی بھی یہی چاہ رہاتھا کہ میں ان کی گانڈ اور چوت پر ہاتھ
ﺟﯽ
پھیروں لیکن ۔۔۔ ۔۔۔ ایک دیوار سی تھی ۔۔۔۔جو میرے جزبات اور میرے بیچ آئی ہوئی تھی ۔۔۔ خیر
ان کا حکم مان کر میں نے ان کی گانڈ کے اینڈ پر اور چوت کے پاس تھوڑا مساج کیا ۔۔۔ ۔۔ اُف
ان کی گانڈ کے پٹ۔اتنے نرم ۔۔اتنے نرم تھے ۔۔کہ جن کو ہاتھ لگاتے ہی میرے نپل اکڑ گئے اور
میری پھدی میں پانی جمع ہونا شروع ہو گیا ۔۔۔ جب میں ان کی گانڈ پر مساج کر چکی تو وہ بولیں
@
ایک دفعہ اور مساج کرو یار بڑی جلن ہو رہی ہے ۔۔۔ تو میں نےدل میں کہا آپ کو جو جلن ہو
رہی ہے میں خوب سمجھتی ہوں لیکن ُچپ کر کے ان کی ملو بہ جگہ پر ہاتھ پھیرنے لگی تب
انہوں نے میر ا ہاتھ پکڑا اور پھدی کے پاس لے جا کر بولی یہاں بھی مساج کرو نا ۔۔۔اور پھر
زبردستی میرا ہاتھ اپنی پھدی کے پاس رکھ دیا ۔۔۔۔ مجھے اپنے ہاتھ کے پاس ان کی پھدی کی تپش
ﺷﺎه
صاف محسوس ہو رہی تھی ۔۔اور میرا جی بھی کر رہا تھا کہ میں اپنی ۔۔ انگلیوں سے ان کی
پھدی کے لب ٹٹولوں ۔۔۔لیکن ۔۔۔ پھر وہی ۔۔۔ ایک انجانی ۔دیوار میرے سامنے حائل ہو گئی اور میں
نے وہاں پر تھوڑا سا مساج کر کے اپنا ہاتھ وہاں سے ہٹالیا ۔۔۔ اب انہوں نے اپنے شلوار اوپر کی
اور ۔۔۔ میری طرف گھوم کر بولی ۔۔۔ کیسی ہے میری ۔؟؟
تو میں نے ان سے بظاہر ہنستے ہوئے کہا ۔۔۔ دیکھو باجی آپ مجھے ورغالنے کی کوشش
ﺟﯽ
کر رہی ہو ۔لیکن میں ایسی نہیں ہوں ۔۔ پھر میں نے کٹی ہوئی سبزی ان کے حوالے کرتے ہوئے
کہا۔۔ باجی ۔۔آپ زرا سبزی چولہے پر رکھیں میں نہا کر آتی ہوں اور ان کی بات سنے بغیر اپنے
کمرے کی طرف چلی گئی پیچھے سے وہ بولیں ۔۔ چندا۔۔۔ یہ گرمی نہانے سے نہیں۔۔۔۔ مروانے
سنی ان سنی کر دی اور اپنے کمرے میں آ گئی ۔ سے جائے گی ۔۔۔ لیکن میں نے ان کی بات ُ
کمرے میں آتے ہی میں واش روم میں گھس گئی ۔۔۔ اور جلدی جلدی کپڑے اتار کر شاور کی کو
ا
ہی رہی۔۔ جو کہ باجی کی گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے اور ان کی پھدی کے لبوں کو دیکھتے ہوئے
ﺳﺗﺎ
چڑھی تھی ۔میں کافی دیر تک ٹھنڈے پانی کے نیچےکھڑی رہی اور پھر خوب اچھی طرح نہا کر
ٹاول سے خود کو صاف نہیں کیا بلکہ اپنے جسم پر تولیہ لپیٹ کر باہر آگئی ۔۔۔کہ اپنے گیلے بدن
کو پنکھے کے نیچے جا کر سوکھاؤں گی ۔۔۔۔
ﻧﯽ
جیسے ہی میں اپنےپلنگ کی طرف بڑھی ۔۔ تو عین اس وقت اچانک میرے کمرے کا
دروازہ کھال اور ۔۔۔۔ صنوبر باجی ۔ بظاہر ۔کسی کام سے میر ے ۔۔ کمرے میں داخل ہوئیں ۔اور
مجھے صرف ٹاول میں لپٹا دیکھ کر وہ ۔۔۔ وہ ٹھٹھک کر ُرک گئیں اور ہوسناک نظروں سے میری
طرف دیکھنے لگیں ۔۔۔ ان کو یوں اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر میں ایک تھوڑی سی شرما
ﺟﯽ
گئی اور ان سے پوچھنے لگی ۔۔ کہ ایسے کیا دیکھ رہی ہو باجی ؟ تو وہ میرے جسم پر نظریں
گاڑتے ہوئے بولیں ۔مرینے ۔۔۔ تمھارا جسم دیکھ کر لگتا ہے کہ قدرت نے تمہیں فرصت میں بیٹھ
کر بنایا ہے پھر کہنے لگیں ۔۔۔۔۔ واؤؤؤؤ ۔۔۔۔کیا مرمریں سا بدن ہے تمھار ا ۔۔۔اس کے بعد وہ آہستہ
آہستہ میری طرف بڑھیں اور بولیں ۔۔۔ مرینے ۔۔۔ یقین کرو اس وقت تمھارا یہ بھیگا بدن ۔۔۔۔ بھیگی
@
ُزلفیں ۔۔۔زلفوں سے ٹپکتا ہوا ۔۔۔ پانی ۔۔۔۔یہ سب ۔مل کر ۔۔۔ مجھ پر ۔ قیامت سی ڈھا رہے ہیں ۔۔۔
اور پھر وہ عین میرےسامنے آ کر کھڑی ہو گئیں ۔اس وقت میرے گیلے بالوں سے پانی کے
قطرے بہہ بہہ کر میرے منہ پر آ رہے تھے ۔۔ اور پانی کے یہ قطرے گرتے ہوئے دیکھ کر ۔۔ وہ
کافی پُرہوس سی ہو رہیں تھیں۔۔۔ اور مجھے ان کی آنکھوں میں شہوت کے الل ڈورے تیرتے
ﺷﺎه
ہوئے صاف نظر آ رہےتھے ۔۔ جن کو دیکھ کر میں بھی اندر ہی اندر مست ہوئے جا رہی تھی
لیکن بظاہر التعلق سی کھڑی رہی ۔۔۔ پھر وہ عین میرے سامنے آ گئیں اور میری طرف دیکھتے
ہوئے بڑی آہستگی سے کہنے لگیں ۔۔ مرینے۔۔۔ مجھے تمھارے بالوں سے گرتے ہوئے ۔۔۔۔
یہ۔۔شبنمی قطرے مجھےبہت ۔۔ہانٹ کر رہے ہیں ۔۔۔ اور بڑے ہی رومینٹک لہجے میں کہنے لگیں
۔۔۔مرینے ۔۔ اگر اجازت ہو تو میں ۔۔۔ تمھارے منہ پر گرنے والے یہ شبنمی قطرے ۔۔۔اپنی زبان
ﺟﯽ
سے ۔ چاٹ لوں ؟؟ ۔۔۔ ان کے لہجے میں اتنا۔۔ رومینس ۔۔۔ اتنا ۔۔۔اشتیاق ۔۔ اتنی چاشنی اور اس قدر
شہوت بھری ہوئی تھی کہ۔۔۔۔۔ میں انکار نہ کر سکی (کیونکہ اندر سے میرا بھی دل یہی چاہ رہا
تا ) اور ان سے بولی ۔۔۔۔۔ اس میں پوچھنے والی کیا بات ہے باجی ۔۔۔۔ پھر پتہ نہیں کیسے اور
کیوں میں بھی جزبات سے بے قابو ہو گئی۔۔۔ اور خود بخود میری آواز سرگوشی میں ڈھل گئی
۔۔۔۔۔۔اور جب میں بولی تو میری آواز میں ۔۔۔ شہوت کی کپکپاہٹ سی تھی اور میں ان سے کہہ
ا
ان کی زبان میں پتہ نہیں کیا جادو تھا کہ جیسے ہی ان کی زبان میرے گالوں سے ٹچ ہوئی میں
ﺳﺗﺎ
سن کر وہ ایک دم کانپ سی گئی اور میرے منہ سے ایک سسکی نکل گئی ۔۔۔۔ سسکی کی آواز ُ
تھوڑی اور پُر جوش ہو گئی اور میرے گال چاٹتے ہوئے کہنے لگیں ۔مرینے تمھارے گال
کیوں اتنے گرم ہو رہے ہیں ۔۔۔ اور یہ تم کانپ کیوں رہی ہو میری جان ۔۔۔ پھر انہوں نے ایک
میرے ماتھے سے ٹپکنے والے قطرے کو چاٹ کر اس سے میرا گال کو صاف کیا اور بولیں ۔۔۔۔
ﻧﯽ
میری زبان مزہ دے ر ہی ہے نا مرینے ؟۔۔۔ تو ۔۔ میں نے مزے سے بے حال ہوتے ہوئے ان
سن کر وہ سے خوابناک سے لہجے میں کہا ۔۔۔۔ ُرکو نہیں ۔۔۔ باجی ۔۔۔۔۔ اور میری ۔۔۔۔ یہ بات ُ
میرے گالوں پر ۔۔۔ اپنی سیکسی زبان پھیرنے لگی ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ اپنی زبان کو ۔۔ میرے جزبات سے
ﺟﯽ
الل ہوتے گالوں سے مساج کرتے ہوئے ۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔وہ ہوتے ہوتے میرے نرم ہونٹوں تک آ گئیں ۔۔۔
اور پھر انہوں نے میرے نر م نرم ہونٹوں پر ۔ چند سیکنڈ تک اپنی ہوس ناک زبان۔ پھیری ۔۔میں
نے ۔ ان کی شہوت بھری زبان کو اپنے نرم ہونٹوں پر محسوس کیا۔۔۔ اور پھر اپنے ہونٹوں کو
ڈھیال چھوڑ دیا ۔۔ انہوں نے بس چند سکینڈ تک ہی میرے ہونٹوں پر اپنی زبان پھیری اور پھر
@
وہاں سے ہٹا لی۔۔ لیکن ان چند سیکنڈز نے میرے اندر اتنی شہوت بھر دی تھی ۔۔۔ کہ میرا دل کر
رہا تھا کہ باجی میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر خوب چوسیں۔۔۔ ۔۔۔ لیکن انہوں نے بس
میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھنےرکھنے پر ہی اکتفا کیا تھا ۔۔ان کی ۔اس بات نے میرے اندر
شہوت کی ایک چنگاری سی بھڑکا دی تھی ۔اور میرا دل چاہ رہا تھا کہ وہ میرے الل ہونٹوں کو
ﺷﺎه
اپنے ہونٹوں میں لیکر خوب چوسیں ۔۔۔ لیکن اس ظالم نے ایسا نہ کیا ۔۔۔۔۔ ۔میرے ہونٹوں سے
ہونٹ ہٹانے کے بعد ۔ وہ۔۔ پھر سے میرے گال چاٹنے لگیں ۔۔۔ اور پھر ۔۔۔۔اچانک ُرک گئیں اور
پیچھے ہٹ کر مجھ سے کہنے لگیں ۔۔۔تھیک یو ۔۔ ڈئیر اور پھر واپس جانے کے لیئے جیسے ہی
ُمڑنے لگیں تو میں نے ان کو ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔ انہوں نے ُمڑ کر میری طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔ کیا
بات ہے ؟ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔۔ کہاں جا رہی ہو باجی ؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ تمھارے گورے
ﺟﯽ
گالوں کا سارا پانی چاٹ لیا ہے ۔۔۔ سو اب میں چلتی ہوں ۔۔ لیکن مجھے آگ لگا کر وہ کہاں جا
سکتی تھی ۔۔ اس لیئے میں نے ان سے بڑے ہی ذومعنی الفاظ میں کہا ۔۔۔نہیں باجی ابھی تو کافی
سن کر انہوں نے بڑی گہری نظروں سارا پانی باقی ہے ۔۔۔۔اس کو کون چاٹے گا ؟؟ ۔۔۔ میری بات ُ
سے میری طرف دیکھا اور وہ بھی ذُومعنی الفاظ میں کہنے لگیں ۔۔۔ کہاں کہاں پانی رہ گیا ہے ؟
تو میں نے بھی ان سے اسی ٹون میں ان سے کہا کہ ۔۔بہت جگہ پر پانی ہے باجی ۔اور پھر اپنے
ا
میں سب کچھ چاٹ جاؤں گی ۔۔۔ باتیں کرتے ہوئے مجھے ان کی آنکھوں میں شہوت ہی شہوت
ﺳﺗﺎ
نظر آ رہی تھی ۔۔۔ اور ادھر میرا بھی حال ان سے کچھ مختلف نہ تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔ گویا دونوں طرف
آگ برابر لگی ہوئی تھی ۔۔
ﻧﯽ
پھر وہ میرے پاس آ گئیں اور مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اورپھر مجھے ایک کس کر
کے بول یں دیکھ لو مرینے میں نے تم آخر میں نے تم کو ورغال ہی لیا ہے نا ۔۔۔۔اور پھر دوبارہ
سے میرے ساتھ چمٹ گئیں اور اپنے بھاری چھاتیاں کو میری چھاتیوں کے ساتھ دبانے لگی ان
ﺟﯽ
کے اس عمل سے ۔۔۔۔ میں ان کے نرم جسم میں دھنس سی گئی ۔۔۔ ان کی چھاتی میری چھاتی سے
ٹچ ہو رہی تھی ۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ وہ اپنا منہ میرے منہ پر لے آئیں ۔۔ ۔۔۔۔ اور میں اپنے چہرے پر باجی
کی گرم سانسیں محسوس کرنے لگی ۔۔۔ اور پھر میں نے مزے کے مارے اپنی آنکھیں بند کر لیں
۔۔۔ تب انہوں نے اپنے نرم ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھے اور ۔۔۔ پھر میرےہونٹوں کو اپنے منہ میں
لے لیا اور اسے چوسنے لگیں ۔۔۔۔ ان کے ہونٹوں کی گرمی ۔۔ان کے منہ کی خوشبو ۔۔۔ یہ کچھ
@
مجھے بڑا بھال لگ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اور میرے نیچے لمحہ بہ لمحہ ۔۔۔۔ آگ تیز سے تیز تر ہوتی جا رہی
تھی ۔۔۔۔ میرے ہونٹ چوستے چوستے انہوں نے بڑی ہی نرمی سے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال
دی اور ۔۔میری زبان کو تالش کرنے لگیں ۔۔۔ سو میں نے بھی اپنی زبان ان کے حوالے کر دی
اور پھر انہوں نے میری زبان کو اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگیں ۔۔۔۔ مزے کی تیز لہریں
ﺷﺎه
ان کی زبان سے نکل کر میرے نیچے والے پوریشن میں جانے لگیں اور بے اختیار میں نے اپنی
پھدی کو ان کی رانوں سے رگڑنا شروع کر دیا ۔۔۔۔وہ کافی دیر تک مجھے سےکسنگ کرتی رہیں
۔۔۔ اور پھر جب ان کی رانوں پر میں نے اپنی چوت کی رگڑائی کو بہت تیز کر دیا ۔۔ تو انہوں نے
کسنگ بند کر دی اور اپنا منہ میرے منہ سے الگ کر دیا ۔۔۔ پھر انہوں نے کچھ دیر تک مجھے
ﺟﯽ
دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔۔ مرینے اس ٹاول کو اپنے جسم سے الگ کر دو۔۔ تو میں نے بڑے ناز
سے کہا جی نہیں ۔۔۔ میں ایسا نہیں کر سکتی ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ وہ کیوں تو میں نے کہا ۔۔۔۔ جس
سنکو مجھے ننگا کرنے کا شوق ہے وہ خود ہی ٹاول کو کیوں نہیں کھینچ لیتا ۔؟ ۔۔ میری بات ُ
رک وہ کہنے لگی اچھا تو یہ بات ہے ۔۔۔ اور پھر اس نے بڑے آرام سے میرے ۔۔۔جسم پر لپٹے
ہوئے ٹاول کو کھی ُچ کر الگ کر لیا ۔۔۔۔۔اور اب میں الف ننگی ان کے سامنے کھڑی تھی ۔۔اور میرا
سارا بدن شہوت کی شدت سے کانپ رہا تھا ۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ مجھ سے کہنے لگیں ۔۔۔۔ مرینے
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
یہ تم کانپ کیوں رہی ہو؟ تو میں نے ان کو جواب دیتے ہوئے کہا ۔۔کہ پتہ نہیں آپ نے کیسی آگ
لگائی ہے ۔۔۔۔ یہ سن کر وہ آگے بڑھی اور میرے ممے پکڑ کر بولی ۔۔۔ فکر نہ کر جان میں نے
ہی آگ لگائی تھی اور میں ہی تمھاری یہ آگ بجھاؤں گی ۔۔۔۔ اور پھر انہوں نے میرا نپل کو اپنے
منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے لگیں ۔۔۔۔۔ اور مجھے ایسا لگا کہ ۔۔۔ میری پھدی سے پانی کی
ا
باریک سی دھار بہہ کر میری ٹانگوں کی طرف آ رہی ہے ۔۔۔ اور میں ۔۔سسکیاں لینے لگی ۔۔۔ اور
ﺳﺗﺎ
وہ کافی دیر تک میرے دونوں مممے باری باری چوستی رہیں ۔۔۔۔ اس کے بعد انہوں نے مجھے
پکڑا اور پلنگ کی طرف النے لگیں تو پلنگ کے پاس جا کر میں نے ان سے کہا کہ باجی یہ
بڑی زیادتی ہے ؟ تو وہ تھوڑا حیران ہو کر کہنے لگیں کیسی زیادتی میری جان ۔۔۔ تو میں نے ان
سے کہا کہ آپ نےمجھے تو ننگا کر دیا اور خود ابھی تک ۔۔۔ کپڑوں میں ہو ۔۔۔ میری بات سن کر
ﻧﯽ
انہوں نے ہوسناک نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئےکہا ۔ کہ مرینے ۔۔۔ میرا جسم تمھاری
سنطرح ۔۔۔ فنٹاسٹک نہیں ہے ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ کوئی بات نہیں ۔۔۔ آئی لو یو باجی ۔۔۔ یہ ُ
کر وہ ایک دم اٹھال کر بولیں ۔۔۔ پرائی عورت کے سامنے بھال ہم کیوں ننگے ہوں ؟ ۔۔۔ تو میں نے
ﺟﯽ
ان سے کہا کہ ۔۔ یہ کیا بات ہوئی ؟ تو وہ پھر وہ ہنس کر بولیں ۔۔ بھائی جسں نے ہم کو ننگا دیکھنا
سن کر میں جلدی سے ان کی طرف بڑھی اور ہے وہ خود آ کر ننگا کرے نا ۔۔۔ اور ان کی یہ بات ُ
ایک ایک کر کے ان کے کپڑے اتارنے لگی ۔۔ ۔۔۔اور پھر کچھ ہی دیر بعد۔۔۔۔۔۔۔ ہم دنوں ننگی ہو
کر ایک دوسرے کے آمنے سامنے کھڑیں ایک دوسرے کو بڑے ہی شہوت بھری نظروں سے
@
بولیں مرینے ۔۔۔ ان کو چوس ۔۔ اب میں نے سر اٹھایا اور ان کے ممے کی طرف بڑھی ۔۔۔اوہ ۔۔۔ان
کے نپل اتنے بڑے تھے کہ جتنےچھوٹے بچے کی للی ہوتی ہے ۔۔۔سو میں نے ان کو کسی بچے
کا لن سمجھتے ہوئے اپنے منہ میں لیا اور باری باری ان کو چوسنے لگی ۔۔ میرے منہ میں اپنے
لمبے اور موٹے نپل دیے کر وہ انہوں نے اپنی آنکھیں بند کر لیں اور لزت آمیز مست سسکیاں
لینے لگیں ۔۔۔ جنہیں سن کر مجھ میں اور بھی شہوت بھرنے لگی ۔۔۔
ﺟﯽ
کچھ دیر بعد انہوں نے اپنی آنھیں کھولیں اور میرے منہ سے اپنے نپل نکال لیئے تو میں
نے ان سےکہا رہنے دیتی نہ باجی ابھی تو مزہ آ رہا تھا تو وہ مجھے پچکارتے ہوئے بولیں ۔۔
میری جان ابھی اور بھی کافی چیزوں سے مزہ لینا رہتا ہے ۔۔۔ اور پھر مجھ سے کہنے لگیں کیا
خیال ہے باری باری چوت چاٹی جائے یا 99کرنا پسند کرو گی تو میں نے کہا ۔۔ نہیں باجی 99
فلموں میں ہی اچھا لگتا ہے ۔۔باری باری کا زیادہ مزے آ۔ئے گا کہ اس طرح ہم دونوں ایک دوسرے
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
کی زبانوں کا مزہ لے سکیں گی ۔۔۔ تو وہ پیچھے ہٹتے ہوئے بولیں ۔۔۔او کے ڈارلنگ تیار ہو جاؤ
۔۔۔ اب میں تماری چوت چاٹنے لگی ہوں ۔۔۔ پھر انہوں نے ایک تکیہ میری ہپس کے نیچے رکھا
اور پھر میری چوت پر جھک گئیں اور اپنا ہاتھ میری پھدی پر رکھ کر بولیں ۔۔۔ مرینے یہ تو بہت
سن کر انہوں نے گرم ہو رہی ہے ۔۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔اسے ٹھنڈا کرو نا باجی ۔۔۔۔۔۔ میری ُ
ا
اپنے ہاتھ میری میری پھدی لی اور اسے مسلتے ہوئے بولیں۔۔۔۔ ہاں مین تم کو ٹھنڈا برف کر دوں
ﺳﺗﺎ
گی ۔۔۔ اور پھر میری پھدی کومسلنے لگیں ۔۔۔ اور بے اختیار میرے منہ سے سسکیوں کا طوفان
سن کر وہ اور بھی مستی سے میری پھدی کو مسلتی تھیں ۔۔۔ پھر انہوں نے اپنا نکلنے لگا۔۔ جسے ُ
منہ میری چوت پر کیا اور میریے دانے پر تھوک پھینکا اور اپنے انگھوٹےم سے میرے دانے پر
مساج کرنے لیکں ۔۔۔ اُف ۔۔ ان کے ایسا کرنے سے مییر پھدی میں طوفان مچ گیا اور میری چوت
ﻧﯽ
کی دیواروں نے پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ ۔۔ میری چوت سے پانی نکلتے ہوئے دیکھ کر
انہوں نے اپنی ایک انگلی میری چوت میں داخل کر دی اوراسے میری چوت میں گھماتے ہوئے
بولیں ۔۔۔۔ واؤؤ ۔۔۔ مرینے ۔۔۔ تمھاری پھدی بڑی تنگ ہے ۔۔۔۔۔ پھر وہ نیچے جھک گئی اور میری
ﺟﯽ
دانے کو اپنے ہونٹونمیں لے لیا اور اسے چوسنے لگیں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ وہ اپنے انگلی
کو بھی چوت میں ان آؤٹ کرتی رہیں ۔۔۔ جس کی وجہ سے میں مزے سے بے حال ہونے لگی اور
سسکیاں لیتے ہوئے شور مچانے لگیں ۔۔۔ جسے سن کر باجی نے میری طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔
مزہ آ رہا ہے ہے نا ۔۔ تو میں نے سسکیوں میں ہی جواب دیا ۔۔۔۔ َمت پوچھو باجی ۔۔۔۔ بس تم اپنا کام
@
کرتی جاؤ ۔۔۔ کافی دیر تک وہ ایسا کرتی ہری ۔۔۔ اور پھر مجھے ایسا لگنے لگا کہ میرے جسم کا
سارا خون پھدی کی طرف بڑھ رہا ہے اور مییر سانسیں تیز ہونے لگیں ۔۔۔ تجربہ کار باجی نے یہ
دیکھتے اور پھر ایک کی بجائے دو انگلیاں میری چوت میں داخل کر دیں اور بڑی ہی تیزی
سے یہ انگلیاں میری چوت میں اندر باہر کرنے لگیں ۔۔۔ جس سے مجھےاتنا مزہ آیا کہ میں اپنا
ﺷﺎه
سر پٹختے ہوئے اونچی آواز میں کہنے لگی ۔۔ باجی ۔اپنی انگلیں اور تیزی سے ۔۔۔اور ۔۔۔اور تیز
۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی ۔۔۔ میری پھدی نے ڈھیر سارا پانی چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔جس سے باجی کی
دونوں انگلیا ں اور ہتھیلی تک میری چوت کے پانی سے بھیگ گئی ۔۔۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ اور مزے کے
مارے ہم دونوں ہانپنے لگیں ۔۔۔
ﺟﯽ
کچھ دیر بعد جب میرا سانس کچھ بحال ہوا تو میں بستر سے اُٹھی اور باجی کے گلے لگ
گئی ۔۔۔ اور وہ بھی میرا منہ چومتے ہوئےبولی ۔۔۔ مزہ آیا مرینے ۔۔۔ تو میں نے کہا مزہ کی کیا
پوچوچھتی ہو میں تو مزے کے مارے بے ہوش ہونے لگی تھی ۔۔۔۔ پھر وہ بستر پر لیٹ گئی اور
بولی اب تم صرف میری چوت چاٹو ۔۔چنانچہ میں بھی نیچے ہوئی اور ان ہی کیطرح ان کی چوت
کے نیچے تکیہ رکھا اور پھر اپنی ان کی چوت کو معائینہ کرنے لگی ۔۔۔ ان کی چوت کافی موٹی
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
اور بھری بھری تھی ۔۔۔ جبکہ ان کی چوت کے ہونٹ کافی موٹے اور باہر کو نکلے ہوئے تھے
بلکہ لٹکے ہوئے تھے اس کی وجہ شاید ان کا بہت زیادہ پھدی مروانا ہوگا۔۔ چوت کے عین اوپر
ان کا دانہ تھا براؤن رنگ کا یہ دانہ کافی موٹا تھا ۔۔۔ جو اس وقت پھول کر چنے کے دانے کے
برابر ہو رہا تھا ۔۔ میں نیچےجھکی اور ان کے دانے کو اپنے منہ میں لےلیا اور اسے چوسنے
ا
گلی ۔۔۔ اور کچھ دیر بعد ۔۔ باجی کی گہری گہری سانسوں کے بیچ ۔۔۔۔ مجھے اس کی ہلکی ہلکی
ﺳﺗﺎ
کراہیں ۔۔۔۔سنائی دیں ۔۔۔ اور پھر جیسے جیسے میں ان کا دانہ چوستی گئی ۔۔۔۔ ان کی کراہوں کی
شدت میں اضافہ ہوتا گیا ۔۔ پھر میں نے اپنی ایک انگلی ان کی چوت میں ڈالی ۔۔۔۔ اوہ ۔ان کی چوت
کافی کھلی اور غار نما تھی اس لیئے ۔۔ میری ایک انگلی ڈالنے سے ان کی چوت کو ئی خاص
فرق نہ پڑا تب میں نے اکھٹی دو انگلیاں ان کی چوت میں ڈالیں ۔۔۔ان کی چوت کافی بھیگی ہوئی
ﻧﯽ
تھی اور اس کے اندر کافی سارا پانی جمع تھا اس لیئےمیری انگلیاں بڑی آسانی کے ساتھ ان کی
چوت میں ان آؤٹ ہونے لگیں ۔۔۔انگلیاں اندر باہر کرنے کے کچھ دیر بعد انہوں نے اچانک اپنے
ہپس اوپر کی طر ف اُٹھانے شروع کر دئے ۔۔۔ جس سے میں سمجھ گئی کہ باجی اب جانے والی
ﺟﯽ
ہے اس لیے میں نے اپنی انگلیوں کی رفتار میں اضافہ کر دیا ۔۔۔ اور پھر چند ہی سکینڈ کے بعد
۔۔۔ باجی کی کراہیں ۔۔۔ چیخوں میں بدل گئیں ۔۔۔۔۔ اور پھر باجی ۔۔۔۔کے منہ سے بے ربط الفاظ نکلنے
لگے ۔۔۔ اُف۔۔۔وئی۔۔۔تیز۔۔۔۔۔۔۔۔آہ۔۔۔ بس۔س۔س۔س۔۔سس۔اور اس کے ساتھ باجی کی چوت نے بھی پانی
چھوڑ دیا ۔۔۔۔۔
@
اس کے بعد تقریبا ً ہر دوسرے تیسرے دن کے بعدہم ایک دوسرے کے ساتھ لزبین سیکس
کے مزے لیتی تھیں ۔۔۔۔دالور بھی آتا رہتا تھا ۔۔۔ اور اکثر میں باجی سے سوال کرتی تھی کہ باجی
آپ کو کہاں زیادہ مزہ آتا ہے دالور کے ساتھ یا میرے ساتھ ۔۔۔ تو وہ کہتی ۔۔۔ ارےپکلی جس طرح
چکن تکہ کا اپنا مزہ ہے اور چکن روسٹ کا اپنا مزہ ۔۔۔ اس طرح ۔۔۔ میں سیکس کے بارے میں
ﺷﺎه
نہیں بتا سکتی کہ مجھے کہاں زیادہ مزے آتا ہے ۔۔۔ایک دن صبع صبع مجھے آرڈر مال کہ میں
اندر جاؤں ۔۔ میں سمجھ گئی کہ دالور آنے واال ہے اور میں اپنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔ کمرے
میں بیٹھے ابھی مجھے 05،04منٹ ہی ہوئے ہوں گے کہ اچانک باجی کمرے میں داخل ہوئی ۔۔۔
اسی اپنے کمرے میں آتے دیکھ کر میں نے ان سے کہا ۔۔۔ کیا بات ہے باجی دالور نہیں آیا ؟ تو
انہوں نے بجائے کوئی بات کہنے کے آ کر مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور اپنا منہ میرے منہ
ﺟﯽ
کے ساتھ لگا لیا ۔۔ اور میں حیران تھی کہ یہ باجی کو کیا ہوا ہے ۔۔۔ کہ پھر اچانک انہوں نے اپنی
زبان سے میرے ہونٹوں پر دستک دی اور جونہی میں نے اپنا منہ کھوال انہوں نےاپنی زبان پر
رکھی ہوئی کوئی چیز میری منہ میں انڈیل دی یہ۔۔ ایک گاڑھا سا پانی تھا جو ذائقے میں تھوڑا
نمکین تھا جو انہوں نے میرے منہ میں داخل کیا تھا ۔۔۔ جیسے وہ نکین پانی میرے منہ میں آیا
انہوں نے اپنا منہ مجھ سے الگ کر لیا اور میری طرف دیکھنے لگی ۔۔۔تو میں نے اشارے سے
ا
میں دالور کے لن کا پانی ہے میں مست ہو گئی ۔۔۔ لیکن باجی میری جزبات سے بے خبر کہہ رہی
ﺳﺗﺎ
تھی کہ یار ۔۔۔مرینے آج تو میں ادھوری رہ گئی اور میرے پوچھنے پر بتالیا کہ۔۔۔ دالور کو آج
بہت جلدی تھی اس لیئے اس نے آتے ساتھ جلدی جانے کی معذرت کر لی اور پھر ٹوکن کے طور
پر لن چسوایا اس باجی کہ منہ میں فارغ ہوتے ہی چال گیا ۔۔۔۔ اور باجی نے کچھ تواس کی گاڑھی
منی پی لی باقی وہ منہ میں لیئے لیئے میرے پاس چلی آئی۔۔۔ ساری بات سنانے کے بعد وہ پلنگ
ﻧﯽ
پر لیٹ گئی اور بولی مرینے میری چوت میں آگ لگی ہوئی ہے اسے بجھا ۔۔۔ اور پھر خود ہی
اپنی شلوار اتار دی اب میں ان کے پاس آئی اور ان کو ٹانگیں کھلی کرنے کو کہا ۔۔ پھر میں جھکی
اور ان کی ان کی چوت کھول کر دانے پر تھوک پھینکا اور اپنے انگھوٹھے کی مدد سے اسے
ﺟﯽ
رگڑنے لگی کچھ دیر بعد میں نے اپنی زبان باہرنکالی اور ان کا دانہ چاٹنے لگی ۔۔۔ اور ساتھ
ساتھ ان کی گرم چوت میں دو انگلیاں بھی ڈال دیں اور ان کو ان آؤٹ کرنے لگی ۔۔ جلد ہی باجی
نے تیز تیز سانس لینے شروع کر دئے اور میں نے ان کے دانے کو اپنےمنہ سے باہر نکاال اور
پوری قوت سے اپنی دونوں انگلیوں کو ان کی چوت کے اندر باہر کرنے لگی اور باجی میری
@
انگلیوں کے نیچے ایسی تڑپی کہ جیسے جل بن مچھلی۔۔۔۔۔۔۔ ابھی میں ان کے تڑپنے کا نظارہ لے
ہی رہی تھی کہ اچانک باہر سے مجھے خان جی کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔ مرینے ۔۔۔۔۔ او مرینے ۔۔
سن رک مجھے اور باجی کو ایک ساتھ جھٹکا لگا ۔۔۔۔اورمیں نے باجی سے پوچھا آپ نے آواز ُ
کنڈی نہیں لگائی تھی ۔۔؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ اوہ سوری ۔۔۔ یاد ہی نہیں رہا ۔۔۔ اتنے میں خانجی
ﺷﺎه
کی آواز کمرے کے باہر سے سنائی دی ۔۔۔ کہاں ہو مرینے ۔۔۔۔ ؟؟ اور ادھر حال یہ تھا کہ صنوبر
باجی کی شلوار اتری ہوئی تھی اور وہ اپنے چڈے کھلے کیئے میرے سامنے لیٹی تھی ۔۔۔ میری
دو انگلیاں ابھی تک ان کی چوت میں تھیں ۔۔ٹائم بلکل بھی نہیں تھا ۔۔اس لیئے میں نے جلدی سے
۔۔۔پلنگ کے پاؤں کی طرف پڑی سفید چادر اٹھائی اور فورا ً باجی کے اوپر ڈال دی ۔۔۔ ادھر باجی
نےبھی فورا ً اپنی شلوار کو پکڑ کر چادر کے نیچے کر دیا ۔۔۔ اور ابھی میرے ہاتھ چادر کے اندر
ﺟﯽ
ہی تھے کہ خان جی کمرے میں داخل ہوئے اور بولے ۔۔۔ کب سے آوازیں دے رہا ہوں کہاں تھی
تم ؟؟ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ وہ وہ۔۔۔ وہ ۔۔ خان جی صنوبر باجی کی طبیعت کچھ خراب تھی
سن کر انہوں نے صنوبر باجی کی طرف دیکھا اس لیئے میں ا ن کو دبا رہی تھی ۔۔۔ میری بات ُ
اور بولے ۔۔۔کیا ہوا تم کو صنوبرے؟؟ تو باجی ہائے ہائے کرتی ہوئے بولی کیا بتاؤں خان جی
۔۔۔۔ جسم بڑا ٹوٹ رہا تھا اس لیئے میں مرینہ سے دبوا رہی تھی تو خان جی کہنے لگے ۔۔۔۔جسم
ا
طرف جاتے ہوئے بولی ۔۔۔زرا میں بھی دیکھوں کہ ہمارے گھر میں کون سا خاص مہمان آیا ہے
ﺳﺗﺎ
اور جاکرکھڑکی سے لگ گئی ۔۔۔ جونہی اس کی نظر مہمان پر پڑی وہ ایک دم میری طرف گھومی
اور ۔۔۔ بڑے ہی ہیجان خیز لہجے میں بولی ۔۔۔۔ مرینے ۔۔او مرینے ۔۔ مجھے اس بندے کا لن
چاہیے۔کچھ بھی ہو مرینے ۔۔۔مجھے اس بندے کا لن لے کر دو۔۔۔۔۔۔۔ان کی بات سن کر مجھے بھی
تجسس ہو ا کہ یہ کون ہے جسے دیکھتے ہی صنوبر باجی نے اس کے لن کا مطالبہ کر دیا ہے
ﻧﯽ
میں بھی کھڑکی کی طرف گئی اور جیسے ہی میری نگاہ۔۔۔ اس مہمان پر پڑی ۔۔۔ میرے ہاتھوں
کے طوطے کیا مینا بھی اُڑ گئی ۔۔۔۔۔۔اور میں حیران پریشان ہو گئی اور میں نے بڑی ہی بے
یقینی سے صنوبر باجی کی طرف دیکھا اور ا ن سے پوچھا ۔۔۔یہ ۔۔۔۔۔ یہ ۔۔آپ کیا کہہ رہی ہیں
ﺟﯽ
باجی۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔ اور پھر میں نے باجی کی آنکھیں میں اس شخص کے لیئے۔۔۔ ہوس دیکھی
۔شہوت دیکھی ۔۔۔ اور اس شخص کو پانے کی تڑپ دیکھی ۔۔ وہ بار بار اس شخص کی طرف دیکھ
رہی تھی اور مجھے کہہ رہی تھی ۔۔۔ پلیز مجھے اس کا لن لے دو میرینہ۔ پلیز زززززززز مجھے
اس کا لن چاہیئے ۔۔۔۔ اور میں ہقا بقا ۔ پریشان ہونقوں کی طرح ۔۔ ان کی طرف اور کبھی باہر
@
مہمان کی طرف دیکھ رہی تھی ۔۔مارے حیرت کے میرا منہ کھال ہوا تھا ۔اور صنوبر باجی بچوں
کی کرح ضد کر رہی تھی کہ انہیں ہر صورت اس بندے کا لن چاہیئے ۔۔اور۔۔ باجی جس مہمان
۔۔ جس شخص کے لن کا مجھ سے مطالبہ کر رہیں تھیں ۔۔۔ وہ ۔۔۔۔وہ۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔
صنوبر باجی جس مہمان ۔۔ جس شخص کے لن کا مجھ سے مطالبہ کر رہیں تھیں ۔۔۔ وہ
ﺷﺎه
۔۔۔۔وہ۔۔۔وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ کوئی اور نہیں صنوبر باجی کا چھوٹا بھائی ہمت خان عرف اللہ تھا ۔۔۔ جو میری
شادی کے بعد پہلی دفعہ ہمارے گھر آیا تھا ۔۔۔ باجی کے بارے میں یہ تو مجھے کنفرم تھا کہ وہ
ایک نمبر کی حرافہ عورت اور بازاری عورت ہے ۔۔۔ لیکن یہ اپنے سگے چھوٹے بھائی پر بھی
گرم ہو گی کم از کم سے مجھے ان سے یہ امید ہر گز ہر گز نہ تھی ۔۔۔اسی لیئے میں نے ایک
دفعہ پھر صنوبر کی طرف دیکھا جو ابھی تک مسلسل اللہ کو ہی دیکھے جا رہی تھی اور اس
ﺟﯽ
کے ساتھ ساتھ ایک ہاتھ سے اپنی پھدی کو بھی مسل رہی تھی ۔۔۔ لیکن پھر میں نےزبردستی ان
کو اپنی طرف متوجہ کیا اور بولی ۔۔۔ باجی ہوش میں تو ہو نا ۔۔ اللہ آپ کا سگا بھائی ہے اور آپ
سن کر وہ تیزی سے مجھ سے بولی ۔۔۔اس کی تفصیل سے میں تم کو بعد میں آگاہ ۔۔۔ ؟؟؟ میری بات ُ
کروں گی فی الحال تم اتنا جان لو کہ تم نے اس بندہ کو میر ے لیئے راضی کرنا ہے تو میں نے
سے کہا کمال کر رہی ہو باجی ۔۔۔ زرا ایک نظر اللہ کی طرف دیکھو کیسی شاندار نوکیلی مونچھیں
ا
طرح سے جانتی ہوں کہ یہ ایک نمبر کا بدمعاش اور چودو آدمی ہے ۔اور میں تم کو یہ بھی بتا
ﺳﺗﺎ
دوں کہ یہ شخص ایک بار جس عورت کو چود لےتوپھر وہ عورت ساری عمر اس کی غالم
رہتی ہے ۔۔۔ ۔۔ پھر انہوں نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں تم کو میری بات کا یقین نہیں آ
رہا نہ ۔۔۔ تو سنو ۔۔اس نے میری دو تین دوستوں کو چودا ہے ۔۔۔ اور یقین کرو مرینے اس شخص
نے میری جس بھی سہیلی کی لی ہے وہ اس شخص کے لن کی فین ہو گئی ہے اللے کے لن
ﻧﯽ
سن کر میرا بھی اس پر دل آ گیا اور نیچے سے میری پھدی نے بھی کی اتنی زیادہ تعریف ُ
دھائی دینی شروع کی کہ کافی دنوں سے اس میں بھی کوئی سخت لن نہیں گیا ۔۔۔اور پھر میں نے
دل ہی میں فیصلہ کیا کہ اگرواقعہ ہی اس کا لن ایسا ہے تو ۔۔۔ باجی کا تو پتہ نہیں لیکن میں اس پر
ﺟﯽ
ضرور ٹرائی کروں گی ادھر صنوبر باجی اپنی ہی دھن میں بولے جا رہی تھی اور کہہ رہی
تھی کہ ۔۔۔مرینے جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے ۔۔۔۔تو یقین کرو ۔۔ کہ تمھارے اس ترچھی
ٹوپی والے اللے نے بھلے دنوں میں کم از کم ہزار دفعہ مجھے ننگا ہوتے ۔۔اور نہاتے
ہوئے دیکھا ہے ۔تو میں نے ان سے کہا کیا آپ کو اس بات کا پتہ ہوتا تھا کہ اللہ آپ کو دیکھ رہا
@
ہے تو وہ کہنے لگی ہاں بلکل پتہ ہوتا تھا ۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ باجی وہی اصل موقعہ تھا
آپ نے اس وقت یہ کام کیوں نہ کیا ؟؟؟ ۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ موقعہ ہی تو نہیں مال ۔۔۔نا میری جان
۔بس دونوں انجان پن میں مارے گئے ۔ ابھی ہماری بحث جاری تھی کہ اچانک خا ن جی باہر سے
سن کر میں نے بھی آواز سنائی دی وہ کہہ رہے تھے ۔۔۔ مرینے ۔۔ جلدی کرو یار۔۔۔۔ ان کی بات ُ
ﺷﺎه
اونچی آواز میں ۔۔ آ رہی ہوں خان جی اور باہر چل پڑی میرے پیچھے پیچھے صنوبر باجی بھی
باہر نکلی اور ۔۔۔ ہمت خان عرف اللہ کو دیکھنے ہی بولی ۔۔۔۔ پخیر اللہ ( ویلکم اللہ ) بڑے دنوں
بعد آئے ہو ۔۔ اور پھر اسے سالم کر کے وہاں ہی ان کے پاس بیٹھ گئی جبکہ میں ان لوگوں کو
سالم کر کے سیدھا کچن میں گئی اور چائے بنانے لگی ۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد ۔۔ صنوبر باجی بھی
کچن میں آگئی اور میرے پاس کھڑی ہو کر بولی ۔۔۔ تم کو عجیب لگ رہا ہے نا ۔۔۔ لیکن یار میں
ﺟﯽ
سن کر میرا بھی دل کررہا سن ُکیا میری دوستوں نے اس کی چودائی کی اتنی تعریف کی ہے کہ ُ
ہے کہ کام از کم ایک دفعہ میں بھی اس کا اپنے اندر لوں ۔۔۔اور دیکھوں کہ اس کے لن میں میں
کتنا دم خم ہے ۔۔۔
پھر وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگیں امید ہے مرینہ ۔۔۔۔ تم میری پرابلم سمجھ گئی
ہو گئی تو میں نے ان پراحسان چڑھاتے ہوئے کہا ۔۔ ٹھیک ہے باجی میں آپ کی خاطر یہ کام بھی
ا
پر کیوں باجی ۔؟؟ ۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔ وہ یوں چندا کہ اللے کا خیال تھا کہ تمھاری ونی اس کے
ﺳﺗﺎ
ساتھ ہو ۔۔۔ اور اس کی ایک وجہ یہ تھی کہ اللہ ابھی تک کنوارہ تھا ۔۔ دوسرا یہ کہ اللہ تم کو بہت
پسند کرتا تھا اور اس نے اس سلسلہ میں کئی بار مجھ سےتمھارے بارے میں کہا بھی تھا ۔۔۔لیکن
تم کو پتہ ہی ہے کہ بڑے بڑے ہوتے ہیں ۔۔۔ سو جب قاسم بھی نے یہ فیصلہ سنایا کہ ونی میں وہ
تم سے شادی کر رہا ہے تو اس بے چارے کا دل ٹوٹ گیا اور چو نکہ اس میں اس بات پر
ﻧﯽ
مخالفت کی ہمت تو تھی نہیں ۔۔اس لیئے بہانہ بنا کر گھر چھوڑ گیا ۔۔۔۔ تو میں نے باجی سے
پوچھا کہ باجی کیا خان کو اس بات کو پتہ نہ تھا تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ کیوں نہیں پتہ تھا ۔۔ لیکن
میری جان ۔۔ تم جیسی ہاتھ آئی دولت کو وہ بھال کسی اور کے حوالے کیوں کرتا ؟ اس لیئے سب
ﺟﯽ
سمجھتے ہوئے بھی انہوں نے دانستہ ُچپ تان لی تھی ۔۔اور تم سے شادی کر لی ۔۔۔ تو میں نے ان
سے کہا ۔۔ باجی مجھ میں ایسی کیا بات ہے کہ جو اللہ گھر چھوڑ کر ہی چال گیا تو وہ ہنستے
ہوئے بولی ارے کیا بات کر رہی ہو میری جان ۔ پھر میرے مموں پر ہاتھ مار کر بولی ۔۔۔ سچ
کہہ رہی ہوں باقی جسم تو ایک طرف رہا ۔۔۔ تمھارے یہ کھڑے کھڑے ممے ہی اگلےبندے کو
@
مارنے کے لیئے کافی ہیں ۔۔ پھر وہ مجھے آنکھ مارتے ہوئے بولی ۔۔۔تم ساری کی ساری آفت
ہو۔میری جان ۔۔ اور پھر ایکدم سنجیدہ ہو گئی اور کہنے لگی وعدہ کر مرینے کہ تم مجھے اس
شخص کا ۔۔۔لے کر دو گی ۔۔ تو میں نے ان سے کہا ۔۔ باجی یہ کیسے ممکن ہے؟ پہلی بات تو یہ
ہے کہ ایک ان کا ہمارے گھر آنا جانا بھی نہ ہے دوسرا یہ کہ اگر یہ ہمارے گھر آ بھی جائیں تو
ﺷﺎه
سن کر وہ کہنے لگی دیکھو میں کس طرح ان سے یہ بات کہوں گی کہ وہ آپ کی لے ؟میری بات ُ
مرینے یہ شخص تم کو بہت پسند کرتا ہے بلکہ تم پر مرتا ہے اور اس بات کا صرف مجھے علم
ہے ۔۔۔ اس لیئے پہلے تم اس کو اپنے جال میں پھنساؤ گی ۔۔ پھر تم ایسے حاالت پیدا کرو گی کہ
یہ میری لینے پر مجبور ہو جائے ۔۔۔رہی یہ بات کہ اس کا ہمارے گھر میں آنا جانا نہیں ہے تو
تمھارا یہ مسلہ میں حل کیے دیتی ہوں اور آج کے بعد یہ شخص روز ہمارے گھر آیا کرے گا ۔۔۔
ﺟﯽ
تو میں نے کہا وہ کیسے باجی ؟؟ ۔۔۔ تو وہ مجھ سے کہنے لگی بس تم دیکھتی جاؤ ۔۔۔۔۔۔ آگے
بھی تم کو بتا دوں گی کہ اس بندے کو کیسے پٹاناہے۔۔۔اور پھر خود ہی کہنے لگی اس جیسا ٹھرکی
بندے کو تم جیسی حسین لڑکی کو پٹانے کی بھی ضرورت نہیں ہو گی بس ۔۔ اس کو تھوڑی لفٹ
کراؤ۔۔ اور پھر انہوں نے مجھے کچھ ٹپس دیں ۔۔۔ اور ہم پھر ہم دونوں چائے لیکر باہر چلی گئیں۔۔
ا
سے نظر بچا کر اپنا مموں سے دوپٹے کو ہٹا کر ایک سائیڈ پر اس طرح کر لیا کہ جیسے یہ
ﺳﺗﺎ
سب غلطی سے ہو گیا ہو ۔۔ اور اور پھر جھک کر اللہ کو چائے دینی لگی ۔۔۔ اور چائے دیتے
ہوئے ایک ادا سے بولی اللہ جی ہم سے ایسی کیا خطا ہو گئی کہ شادی کے بعد آپ ایک دفعہ
بھی گھر نہیں آئے ۔ اور ان کی طرف دیکھا تو وہ نظریں جھکائے بیٹھےتھے ۔۔۔لیکن میرا خیال
ہے کہ وہ میرے آدھ کھلے مموں کو دیکھ کر ایسا کر رہے تھے ۔ ۔۔۔ اور کہنے لگے ایسی کوئی
ﻧﯽ
بات نہیں بس ویسے ہی ٹائم نہیں مال ۔۔۔ بات کرتے ہوئے۔ انہوں نے ایک نظر میرے سینے کی
طرف ڈالی ۔۔۔لیکن اس وقت تک میں اپنا دوپٹہ ٹھیک کر چکی تھی ۔اسی طرح چائے پیتے ہوئے
بھی میں نے ان سے ایک آدھ بات کرنے کی کشش کی لیکن گھاگ اللہ پہلو بچا گیا اور کوئی
ﺟﯽ
خاص جواب نہ دیا ۔۔پھر ادھر ادھر کی باتیں شروع ہو گئیں چائے پی کر جب دونوں بھائی اُٹھ کر
جانے لگےتھے کہ اچانک صنوبر باجی نے خان جی کو مخاطب کرتے ہوئے کہا بھائی اس کو
کہو کہ آئیندہ ۔یہ رات کا کھانا ہمارے ساتھ ہی گھر پر کھایا کرے گا ۔۔ باجی کی اس تجویز
پرخان جی بھی بڑے خوش ہوئے اور اللہ سے مخاطب ہو کر کہنے لگے صنوبر ٹھیک کہہ رہی
@
سن کر اللہ نے تھوڑی سی ہیچر ہے تم کم از کم رات کا کھانا گھر پر کھایا کرو۔۔۔ ان کی بات ُ
میچر کی ۔۔۔ لیکن پھر مان گیا ۔۔۔ اسی رات خان جی نے بستر پر بیٹھ کر مجھ سے کہا کہا دیکھو
مرینے ۔۔۔ یہ ہمت خان ایک عیاش اور آوارہ ٹائپ کا بندہ ہے اس لیئے تمھیں اسکے ساتھ زیادہ
گھلنے ملنے کی ضرورت نہیں ہے اور نہ ہی تم نے اس کے ساتھ زیادہ بات چیت کرنی ہے اور
ﺷﺎه
نہ ہی اسے زیادہ لفٹ کرانی ہے ۔۔۔ ہاں اگر وہ تمھارے ساتھ ایسا کرنے کی کوشش کرے تو
مجھے بتانا ۔۔ ۔۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا ۔جو حکم خان جی ۔پھر میں نے ان سےکہا خان جی اگر
سن کر وہ اللہ اگر واقعہ ہی ایسا ویسا بندہ ہے تو آپ نے اسے اپنے گھر النا ہی نہ تھا میری بات ُ
کہنے لگے مرینے تم کو پتہ ہے کہ میرا ٹرانسپورٹ کا سارا کام اسی نے سنبھاال ہوا ہے اس لیئے
کسی مصلحت کے تحت میں نے اس کے ساتھ صلع کی ہے ورنہ میرا تو ایک لمحہ کے کے لیئے
ﺟﯽ
سن کر میں نے ان کو بھی جی نہیں کرتا کہ یہ شخص میرے گھر میں داخل ہو ۔خان جی کی بات ُ
پچکارتے ہوئے کہا ۔۔۔ فکر نہ کرو خان جی جو آپ نے حکم دے دیا میں اس پر پوری طرح عمل
کروں گی اور پھر اپنا سر ان کی گود میں رکھ دیا اور شلوار کے اوپر سے ہی ان کے مرجھائے
ہوئے لن کو اپنے منہ سے پکڑا ۔۔۔۔اور اس پر ہونٹ پھیرنے لگی ۔۔
ا
یہ بات تم کس بنیاد کر کر رہی ہو؟ تو میں نے کہاکہ باجی دو ہفتے ہو گئے ہیں میں نے اس بندے
ﺳﺗﺎ
پر ہر حربہ آزما لیا ہے لیکن یہ بندہ ٹس سے مس نہیں ہو رہا ۔۔۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ یہ شخص
سن کر صنوبر باجی کہنے لگیں ۔۔ دیکھو وہ کوئی مجھ میں کوئی دلچسپی نہیں رکھتا ۔۔۔میری بات ُ
ٹین ایجر لڑکا تو ہے نہیں کہ ادھر تم ے اس سے لگاوٹ بھری باتیں کیں اور وہ تم پہ ہزار جان
سے فدا ہو گیا ۔۔اور اپنا دل کھول کر تمھارے سامنے رکھ دیا ۔۔۔ ارے بابا یہ ایک تجربہ کار اور
ﻧﯽ
گھاگ آدمی ہے جب تک اس کو پوری طرح یقین نہ ہو جائے یہ کبھی بھی اپنا ردِعمل نہیں شو
کرائے گا ۔۔۔پھر وہ میرے ہونٹوں سے ہونٹ جوڑ کر مجھے ایک کس دیتے ہوئے بولی ۔۔۔۔یہ ہو
نہیں سکتا میری جان کہ تم جیسی سیکسی اور خوبصورت عورت جال پھینکے اور ۔۔۔۔۔ ایک
ﺟﯽ
ٹھرکی آدمی اور ٹھرکی بھی ایسا کہ ۔۔۔ جو اس عورت کو پسندبھی کرتا ہو ۔اس کے جال میں نہ
آئے ۔۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ تم ایسا کرو کہ ایک دو دن مزید اپنا کام جاری رکھو ۔۔۔۔ پھر اس کے
بعد میں تم کو بتاتی ہو ں کہ کیا کرنا ہے ۔۔۔سو میں نے مزید دو تین دن تک اللے کو لفٹ کرائی
اور پھر باجی کے اگلے حکم کا انتظار کرنے لگی۔۔۔
@
اور پھر میر ے پوچھنے پر صنوبر باجی نے اگال حکم یہ دیا کہ آج کے بعد تم نے اللے
کو نہ تو لفٹ کرانی ہے اور نہ ہی اس کے ساتھ کوئی بات کرنی ہے ۔تو میں نے ان سے پوچھا کہ
اس سے کیا ہو گا باجی تو وہ کہنے لگی ۔۔ میری جان اس سے یہ ہو گا کہ ہم کو پتہ چل جائے گا
کہ اللہ نے تمھارا پھینکا ہو ا دانہ اٹھایا ہے یا نہیں۔۔۔۔۔چنانچہ باجی کی ہدایت پر عمل کرتے ہوئے
ﺷﺎه
اگلے دو دن میں بیمار بن گئی اور ان لوگوں کے سامنے کھانا وغیرہ باجی ہی سرو کرتی تھی
۔۔۔۔بقول باجی پہلے دن تو اللے نے اس بات کا کوئی نوٹس نہ لیا پر ۔۔۔ دوسرے دن بقول باجی
وہ خاصہ بے چین لگ رہا تھا اس لیئے کھانے کے بعد جب خان جی کسی کام سے ا ُٹھ کر گئے تو
اس نے باجی سے پوچھا ہی لیا کہ ۔۔وہ ۔۔۔۔ وہ۔۔۔ مرینہ ۔۔ نظر نہیں آ رہی ؟ تو باجی نے جواب دیا
کہ وہ شاید کسی کام کے سلسلہ میں مصروف تھی اس لیئے اس نے مجھ سے درخواست کی ہے
ﺟﯽ
کہ میں کھانا آپ لوگوں کے سامنے رکھوں۔۔ پھر باجی کہتی ہے میں نے اس سے پوچھا کہ کیوں
بھائی کھانا ٹھیک نہیں پکا تھا ؟ تو وہ کہنے لگا کہ ۔۔ نہیں ایسی تو کوئی بات نہیں کھانا تو ٹھیک
ہے لیکن آج دوسرا دن ہے مرینہ نظر نہیں آ رہی تھی اس لیئے میں نے پوچھا لیا کہ اس کی
طبیعیت تو ٹھیک ہے نا ۔۔۔اسی دوران جبکہ خان جی وہانموجود نہ تھے سو اسی وقت پالن
کےعین مطابق میں کھانے کے گندے برتن اُٹھانے کے لیئے برآمدے میں گئی ۔۔۔۔ اورمیں پوری
ا
مسلسل میرے ادھ ک ُھلے بدن پر گڑھی رہیں ۔۔۔ اور میرے جسم پر نظریں جمائے وہ مسلسل اس
ﺳﺗﺎ
کوشش میں تھا کہ میں اس کی طرف دیکھوں تو وہ مجھ سے کوئی بات کرئے ۔۔۔۔ لیکن میں سر
جھکا کر برتن اُٹھاتی رہ اور وہ بار بار میری طرف دیکھ کر کچھ کہنے کی کوشش کرتا ۔۔۔لیکن
اس کی ہمت نہ پڑ رہی تھی۔۔ آخر جب میں برتن اُٹھا کر وہاں سے جانے لگے تو اسی دوران اللہ
سنو ۔۔!!! میں جاتے جاتے ُرک گئی اور بڑیے نخرے ادھر ادھر دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔ مرینہ بات ُ
ﻧﯽ
سے بولی ۔۔۔ جی فرمائیے؟؟ ۔۔تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بوال ۔۔ ناراض ہو؟ تو میں نے اسی
نخریلے انداز میں جواب دیا ۔۔ نہیں بہت خوش ہوں ۔۔ اور چلنے لگی ۔۔۔ تو وہ پھر بوال ۔۔ سوری
مرینے ۔۔۔ تو میں نے ایک دم غصے میں آ کر کہا سوری کس بات کا۔۔؟ اور وہاں سے چل پڑی
ﺟﯽ
سن کر کہنے لگی تو اس کا مطلب یہ ہے کہ ۔۔۔۔۔ اور کچن میں جا کر باجی کو ساری بات بتا دی ُ
مچھلی نے سارہ چار نگھل لیا ہے اور دوسری بات یہ کہ اللہ کو نخرہ کرنے والی لڑکیاں پسند
ہیں ۔۔۔ پھر مجھ سے بولی ٹھیک ہے آج کے بعد تم نے اللے کو لفٹ نہیں کرانی بلکہ اس کو زیادہ
سے زیادہ تڑپانا اور ٹیز کرنا ہے ۔۔۔پھر کہنے لگی اب تم دوبارہ جاؤ ۔۔۔ اور ان کے کہنے پر میں
@
نے ٹرے اُٹھائی اور دوبارہ برآمدے میں چلی گئی ۔۔۔ مجھے اپنی طرف آتے دیکھ کر اللے کی
باچھیں کھل گئیں ۔۔۔ اور وہ میری ادھ کھلے مموں پر نظریں گاڑتے ہوئے بوال ۔۔۔۔ وہ وہ ۔۔ مرینہ
۔۔۔ میں میں ۔۔۔ تم سے سوری کرتا ہوں ۔۔ میں برتن اٹھاتے اٹھاے ُرک گئی اور بڑے نخرے
سےبولی ۔۔ لیکن کس بات کی سوری ؟؟ ۔۔اور سیدھا اس کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے
ﺷﺎه
لگی ۔۔ مجھے یوں اپنی طرف دیکھتے دیکھ کر وہ کچھ گڑبڑا ساگیا اور بوال۔۔۔ تم کھانا بہت اچھا
بناتی ہو۔۔۔اسی دوران پروگرام کے مطابق صنوبر باجی بھی وہاں آ گئیں اور ان کے آنے کے کچھ
ہی دیر بعد خان جی بھی پہنچ گئے ۔۔
ﺟﯽ
اسی طرح اگلے ایک دو ہفتوں میں میں نے اپنے نازو نخروں سے اللہ کی ایسی مت
ماری کے وہ بے چارہ بن بلکل ہی ہلکان گیا میں اس کے ساتھ صاف چھپتے بھی نہیں اور سامنے
آتے بھی نہیں واال سلوک کر رہی تھی اور جہاں تک ممکن تھا اس کو تڑپا رہی تھی اور میری
یہ ناز و ادا دیکھ کر وہ پوری طرح گھائل ہو چکا تھا اور اب وہ منت ترلوں پر آ گیا ایک رات
ب معمول قہوہ کا کپ اللہ کے ہاتھ میں پکڑانی لگی تو عین اس
کھانا کھانے کے بعد میں نے حس ِ
ٹائم خان جی اپنی کرسی سے ا ُ ٹھ کر جاتے ہوئے بولے ۔۔۔ میں ذرا واش روم سے ہو کر آتا ہوں
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
۔۔ چنانچہ جیسے ہی میں نے قہوے کا کپ اللہ کو پکڑایا تو انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ لیا لیکن میں
نے جلدی سے اپنا ہاتھ ان سے چھڑا لیا اور پہلی دفعہ ان کو صاف لفٹ کراتے ہوئے آہستہ سے
کہا کیا کر رہے ہو اللہ ۔۔ باجی دیکھ لی گی ۔۔ میری اس بات سے وہ تو نہال ہو گیا اور میرا ہاتھ
چھوڑ دیا ۔۔ اس کے بعد میں بھی سامنے بیٹھ گئی اور پھر پالن کے مطابق ہم دونوں کھانوں کا
ا
زکر کرنے لگیں اور پھر باتوں باتوں میں باجی مجھ سے کہنے لگی تم کو پتہ ہے مرینے ۔۔ کہ
ﺳﺗﺎ
سن کر میں نے اللہ کی اب دھلی چاٹ واال بھی اللہ کے پاس ہی شفٹ ہو گیا ہے باجی کی بات ُ
طرف دیکھا اور بڑے اشتیاق سے کہنے لگی سچ اللہ تو وہ بوال … ہاں پر اس کو تو شفٹ ہوئے
سن کر میں نے صنوبر باجی کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ دیکھ ایک ماہ ہو گیا ہے ۔۔ اللہ کی بات ُ
مشہور عالم چاٹ والے کو ان کے پاس شفٹ ہوئے ایک ماہ ہو گیا اور ان کو کبھی اس لو باجی
ﻧﯽ
ِ
سن کر بجائے صنوبر بات کی توفیق نہیں ہوئی کہ ہمیں اس کی چاٹ ہی کھال دیں ۔۔ میری بات ُ
کے۔۔۔ اللہ کہنے لگا ۔۔ یہ کون سی بڑی بات ہے آپ کھانے والے بنو۔۔ تو میں آپ کو روزانہ ہی
چاٹ بھیج دیا کروں گا ۔۔ تو اس دفعہ صنوبر باجی نے اس سے کہا لو جی اس میں نہ کھانے والی
ﺟﯽ کون سی بات ہے ۔۔۔۔ آپ بھیج کر تو دیکھو۔۔۔
اگلی صبع کی بات ہے کہ خان جی اپنے کام کے لیئے نکلے ہی تھے کہ ۔۔کہ اچانک
باہردروازے پر دستک ہوئی ۔۔ صنوبر باجی ابھی تک کمرے سے باہر نہیں نکلی تھیں اور ۔آج
چونکہ دالور کا بھی دن نہیں تھا اس لیئے میں دیکھنے کےلیئے باہر چلی گئی اور دروازہ کھول
@
کر دیکھا تو سامنے ایک بڑا ہی کیوٹ سا لڑکا کھڑا تھا اور اس کے ہاتھ میں ایک پارسل پکڑا
ہوا تھا میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ اس پارسل میں چاٹ ہے جو اللہ جی نے مرینہ باجی
سن کر میں تو آگ بگولہ ہو گیا ۔۔اور بڑے ہی کے لیئے بھیجی ہے لڑکے کے منہ سے اپنا نام ُ
غصے سے اس کو کہا کہ یہ پارسل لے جاکر اپنےاس اللے کے منہ پر مارو اور دھڑام سے
ﺷﺎه
دروازہ بند کر دیا ۔۔تھوڑی ہی دیر گزری تھی کہ ایک بار پھر دروازہ پر دستک ہوئی اور
میں نے باہر دروازہ کھوال تو سامنے اس لڑکے کے ساتھ اللہ کھڑا تھا جیسے ہی میں سامنے
ہوئی۔۔۔ اس لڑکے نے اللے کو کہا اللہ یہی وہ عورت ہے کہ جس نے مجھے یہ پیغام دیا تھا ۔۔۔
سن کر اللے نے اس کو کہا کہ تم جاؤ ۔۔ اور جب وہ لڑکا چال گیا تو اللہ مجھ سے اس کی بات ُ
بوال ۔۔ مرینہ جی آپ نے میرا گفٹ کیوں واپس کر دیا ہے تو میں نے قدرے غصے اور الڈ سےکہا۔۔
ﺟﯽ
ا
نے میرا ہزار بار شکریہ ادا کیا ۔۔اور جاتے ہوئے کہنے لگا ۔۔ مرینہ جی اگر اجازت ہو تو کل
ﺳﺗﺎ
سے یہ لڑکا آپ کےلئے چاٹ لے آئے اور پھر خود ہی بوال ۔۔۔۔ آنے کو تو میں بھی سر کے بل
چل کر آ جاتا لیکن آپ کو پتہ ہی ہے کہ لوگوں کو شک ہو جاتا اس لیئے آپ کی بڑی مہربانی ہو
گی کہ اگر آپ اس لڑکے سے اپنا پارسل وصول کر لیاکریں گی۔۔۔ اور میں نے اس کوایسا کرنے
کی اجازت دے دی ۔۔ اورپارسل لے کر جب واپس آئی تو باجی برآمدے میں کھڑی یہ سب دیکھ
ﻧﯽ
رہی تھی اسے دیکھ کر میں نے سارا ماجرا ان کو بتایا اور پھر ان سے پوچھا کہ باجی آپ تو کہتی
ہو کہ یہ ایسا ہے ویسا ہے لیکن میرے سامنے تو یہ شخص بلکل بھیگی بلی بنا ہوتا ہے ۔۔۔ سن کر
باجی کہنے لگی ہاں یار اس کی اس بات سے میں بھی خاصی حیران ہوئی ہوں پھر بولی ۔۔۔ اس کا
ﺟﯽ
یہ روپ میں نے بھی پہلی بارہی دیکھا ہے ۔۔پھر بولی میرے خیال میں تمھارے عشق میں اندھا
ہو گیا ہے ۔۔
اگلے روز سے وہی کیوٹ سا لڑکا جس کا نام کاشف تھا روزانہ ہی میرے لیئے چاٹ کا
پارسل النے لگا ۔۔ جو میں اور باجی مل کر کھاتیں تھیں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ ہمارا آپسی کا
@
سیکس بھی جاری تھی لیکن اب ہر سیکس کے اینڈ پر اس کی مجھ سے ایک ہی ڈیمانڈ کرتی تھی
کہ اسے اللے کا لن چاہیئے ۔۔۔۔۔ پتہ نہیں کیوں باجی اللے کے لیئے اتنی پاگل کیوں ہو رہی تھیں
اور اب تو ان کو ۔۔۔۔ ایک ضد سی ہو گئی تھی اور میری بار بار کی یقین دھانیوں کے باوجود بھی
صبع سے ہی موسم وہ مجھے یہ بات کہنے سے باز نہ آتی تھی ۔۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ اس دن ُ
ﺷﺎه
بڑا سہانا تھا ۔۔ آسمان پر کالی گھٹائیں چھائی ہوئی تھی ۔اور بارش کی آمدآمد تھی ۔۔۔ اور موسم
دیکھ کر میں کافی مست ہو رہی تھی ۔۔ اور میں دل ہی دل میں خان جی کے جانے کے بعد
باجی کے ساتھ سیکس کرنے کا ارادہ بنائی بیٹھی تھی جبکہ اس وقت خان جی میرے سامنے
بیٹھے ناشتہ کر رہے تھے کہ اچانک باجی کمرے میں داخل ہوئی اور خان جی سے بولی کب
سن کر میں چلنا ہے بھائی ۔؟؟ تو خان جی نے کہا بس ناشتہ کر کے چلتے ہیں ۔۔۔۔باجی کی بات ُ
ﺟﯽ
نے نظروں ہی نظروں میں اس سے پوچھا کہ کہاں جا رہی ہو؟؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ ایک بڑے
ضروری کام سے جانا ہے اور پھر بولی میں نے اس بارے میں کل تم کو بتایا بھی تھا اور مجھے
یاد آ گیا کہ واقعہ ہی کل انہوں نے میرے ساتھ اس بارے میں بات کی تھی لیکن پتہ نہیں کیوں
میں ان کی یہ بات بھول گئی تھی ۔ خیر ناشتہ کے بعد باجی اور خان جی ایک ساتھ با ہر چلے
گئے اور میں گھر میں اکیلی رہ گئی ۔ان کے جانے کے تھوڑی ہی دیر بعد ۔۔۔ ہلکی ہلکی بارش
ا
لگا وہ جی اللے کا آرڈر تھا اس لیئے آنا پڑا ۔۔ پھر اس نےمیرے ہاتھ میں پارسل پکڑایا اور واپس
ﺳﺗﺎ
جانے لگا ۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ پیچھے سے اس کی ساری قمیض پر کافی کیچڑ لگا ہوا تھا
اور اس کے ساتھ وہ کچھ لنگڑا بھی رہا تھا تو میں نے اس کو آواز دے کر بالیا اور اس سے
پوچھا کہ کیا ہوا ؟؟ تو وہ روہانسا ہو کر بوال کہ باجی میں بڑے زور سے پھسال ہوں ۔ اس کی
سن کر مجھے بڑا افسوس ہوا اور میں نے اس سے پوچھا کہ زیادہ چوٹ تو نہیں لگی ؟ تو بات ُ
ﻧﯽ
سن کر مجھے مزید افسوس ہوا اور وہ بوال ۔۔۔ نہیں لیکن بایاں پاؤں ٹھیک سے نہیں چل رہا ۔۔۔یہ ُ
میں نے اسے کہا کہ وہ اندر آ جائے تا کہ میں اسے چیک کر کے دوائی وغیرہ لگا سکوں ۔۔۔
پہلے تو وہ اندر آنے سے گھبرا رہا تھا ۔۔۔ لیکن جب میں نے اسے سختی سے اندر آنے کو کہا
ﺟﯽ
تو وہ مان گیا اور ۔میں اس کو ساتھ لیکر برآمدے میں آ گئی اور اسے چارپائی پر لیٹنے کو کہا
۔۔۔ کچھ ہچکچاہٹ کے بعد وہ لیٹ گیا اور میں اس کے پاس کھڑی ہو گئی اور پھر اس کی ٹانگ
کی طرف دیکھتے ہوئے پوچھا کہ بتاؤ کہاں پر ۔۔۔ درد ہو رہا ہے تو اس نے شلوار کے اوپر سے
ہی ایک جگہ پر ہاتھ لگا یا اور بوال ۔۔ باجی یہاں سے بڑی ٹیسیں اُٹھ رہیں ہیں ۔۔ تو میں نے اس
@
سے کہا کہ تم اپنی شلوار تھوڑی اوپر کر لو میں ابھی دوائی لیکر کر آتی ہوں ۔۔۔ ۔۔۔اور جلدی سے
اپنے کمرے میں گئی اور چوٹ پر لگانے والی کریم لےاٹھائی ہی تھی کہ ۔۔۔۔نیچے سے مجھے
اپنی پھدی کا پیغام وصول ہوا ۔کہ کیوں نہ اس لڑکے کے ساتھ انجوائے کیا جائے ؟ ۔۔۔۔۔۔گرم تو
سن کر اور بھی گرم ہو گئی اور ۔۔۔۔۔۔ ۔۔ پھر اچانک ایک آئیڈیےمیں پہلے سے ہی تھی ۔۔۔ لڑکے کا ُ
ﺷﺎه
نے میرے اندر سر ابھارا ۔۔۔۔ اور ۔۔میں نے تھوڑا آگے ہر کر کھڑکی سے ایک نظر کاشف پر ڈالی
۔۔۔ تو وہ اپنے گالبی ہونٹوں پر زبان پھیر رہا تھا ۔۔۔ اور ساتھ ساتھ بے دھیانی میں اپنے لن کو بھی
مسل رہا تھا ۔۔ اس کا ہاتھ اپنے لن پر دیکھ کر میں مزید گرم ہو گئی اور ۔۔۔اس لڑکے کے ساتھ
سیکس کرنے کا پکا ارادہ بنا لیا ۔۔۔ اور پھر میں نے کریم اُٹھا کر جانے سے پہلے ایک نظر آئینے
پر ڈالی تو دیکھا کہ کہ بارش کی وجہ سے میری قمیض بھیگ کر سینے کے ساتھ چپکی ہوئی
ﺟﯽ
نظارہ پیش کر رہے ہیں لیکن میں ہے جس کی وجہ سے میرے کھڑے ممے بڑا ہی دلکش
نے اس پر بس نہیں کیا بلکہ اپنی بھیگی ہوئی قمیض کا ایک بٹن اور کھول دیا اور سینے کے
ابھاروں کو نمایاں کر کے باہر چل دی ۔ اور جب کاشف کے پاس پہنچی تو اس نے اپنی شلوار
کو کافی اوپر کیا ہوا تھا ۔۔۔اب میں اس کے پاس پہنچی اور ایسے اینگل سے جھکی کہ جس سے
میرا آدھ کھال سینہ اسے صاف نظر آئے ۔۔۔ اور اس سے پوچھا کہ چوٹ کہاں لگی ہے ۔۔؟ اس نے
ا
اپنے ممے اس کی طرف کرتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ تم پھسلے تھے ۔۔؟ اور اس نےاثبات میں سر ہال
ﺳﺗﺎ
دیا ۔۔ اور میں نے کن اکھیوں سے دیکھا تو وہ آنکھیں پھاڑے میرے آدھ ک ُھلے مموں کو تاڑ رہا
تھا۔۔ اب میں نے اس کی سہولت کے لیئے ایسے کھڑی ہوئی کہ جہاں سے بڑی آسانی سے میرے
مموں کی گوالئیوں پر اس کی نظریں پڑتی تھیں ۔۔ ۔۔ پھر میں نے اس کے متاثرہ حصہ پر کریم
لگا ئی اور اس کی ہلکی ہلکی مالش کرنے لگی ۔۔اور کن اکھیوں سے اس کی طرف دیکھتی بھی
ﻧﯽ
جاتی تھی ۔۔۔۔ وہ دینا و مافیہا سے بے خبر میرے مموں کو کھا جانے والی نظروں سے دیکھتا جا
رہا تھا ۔۔ جس کا۔۔اثر یہ ہوا ۔۔ کہ آہستہ آہستہ اسکا لن کھڑا ہونے لگا ۔۔۔اور میں بڑے غور سے اس
کی شلوار کو دیکھنے لگی کہ جہاں اس کا لن ناگ کی طرح لہرا کا سر اُٹھا رہا تھا ۔۔۔ اور پھر
ﺟﯽ
دیکھتے دیکھتے اس کا لن تن گیا اور اس کی شلوار کافی اوپر کو اُٹھ گئی ۔ اس کا کھڑا لن دیکھ
کر میں تو ششدر رہ گئی اور ایک لمحے کے لیئے میرے دل میں خیال آیا کہ کاشف اتنا بھی لڑکا
نہیں ہے ۔۔ اور ۔۔ اس سوچ کا آنا تھا کہ نیچے سے میری پھدی میں ُکھدبُد شروع ہو گئی لیکن
میں نے اس پر کچھ ظاہر نہ کیا ۔اور ُچپ چاپ اس کے متاثرہ حصے پر مساج کرتی رہی ۔۔۔۔ ۔
@
اور جب میں نے دیکھ لیا کہ اب وہ پوری طرح سے گرم ہو گیا ہے تو میں نے اپنے ڈرامے پر
عمل کرنے کے لیئے سر اٹھا کر اس کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ اور کہاں پر چوٹ لگی ہے ؟
۔تو وہ بوال باس باجی ۔۔۔اور پھر میں نے اس سے بات کرتے ہوئے ر ایسے شو کیا کہ جیسے
اچانک ہی مییر نظر اس کے تنے ہوئے لن پر پڑی ہے ۔۔۔ شلوار میں اس کا لن پوری طرح تنا ہوا
ﺷﺎه
کھڑا تھا ۔۔۔ ۔ لیکن میں نے اسے پوری طرح قابو میں النے کے لیئے اسے کھڑا ہونے کے لیئے
کہا ۔۔۔ کچھ ہچکچاہٹ کے بعد وہ کھڑا ہو گیا اور ۔۔۔ جیسے ہی وہ کھڑا ہوا ۔۔ تنبو بنی اس کی
شلوار سے اس کا لن صاف دکھائی دینے لگا ۔۔۔ جسے دیکھ کر میں نے آگ بگولہ ہونے کی ایکٹنگ
کی اور بولی ۔۔۔ یہ کیا حرکت ہے ؟ تم کو شرم نہیں آتی کمینے ۔۔میں تمھاری چوٹ پر مرہم لگا
رہی تھی اور تم ۔۔۔ میری اتنی سخت جھاڑ کھا کر وہ بڑا پریشان ہوا اور لگا مجھ سے معافیاں
ﺟﯽ
مانگنے اور بوال ۔۔ باجی مہرباجی کر کے آپ یہ بات اللے کو مت بتانا ورنہ وہ میری جان نکال
دے گا ۔۔۔ میں آپ کی ہر سزا بھگتنے کے لیئےتیار ہوں ۔۔
ا
کر اس کو کچھ ڈھارس ہوئی اور وہ میرے قدموں سے اُٹھ گیا اور میں نے دیکھا کہ خوف کی وجہ
ﺳﺗﺎ
سے اس کا لن بیٹھ چکا تھا جسے دیکھ کر مجھے تھوڑا سا افسوس بھی لیکن پھر سوچا کہ اس
جیسے لڑکے کے لن کو کھڑا کرنے میں کون سی دیر لگتی ہے ۔۔۔
ﻧﯽ
سرخ ہو رہا تھا اور اس کے گالبی ہونٹ نیلے پڑ اب وہ میرے سامنے مؤدب کھڑا تھا او کا چہرہ ُ
چکے تھے ۔۔۔ اس کے ساتھ ساتھ وہ ہولے ہولے کانپ بھی رہا تھا اور سر جھکائے میری سزا
کا منتظر تھا اور مجھے سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ میں کس طریقے سے سیکس کروں کروں
ﺟﯽ
کہ ۔۔ میرا راز ۔۔ راز بھی رہے اور کام بھی بن جائے ۔۔۔ کافی سوچا۔۔ پر کچھ سمجھ نہ آیا ۔۔ ادھر
نیچے میری پھدی نے دھائی مچائی ہوئی تھی ۔۔ اور دماغ کو کوئی آئیڈیا نہ سوجھ رہا تھا ۔۔۔ مجھے
اپنی سوچوں میں ُگم دیکھ کر اس نے سر اُٹھایا اور بوال باجی میں اپنی غلطی کی ایک دفعہ پھر
معانی چاہتا ہوں ۔۔ تب میں نے اس سے کہا ایک شرط پر تم کو معافی مل سکتی ہے کہ تم مجھے
بتاؤ کہ مجھے دیکھتے ہوئے تمھارا ۔۔۔(لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) کب اور کس ٹائم کھڑا
@
سن کر وہ ہکا بکا رہ گیا ۔۔ اور بوال ۔۔۔ وہ باجی ۔۔۔ وہ ۔۔۔ تو میں نے تھوڑا لہجہ
ہوا ۔۔ میری بات ُ
سخت کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ سچ بتاؤ ورنہ ۔۔ مجھے معلوم تھا کہ میری اس۔۔۔ ورنہ ۔۔ سے اس کی
جان جاتی ہے ۔۔۔ اس لیئے وہ جلدی سے بوال ۔۔۔ وہ باجی جب آپ جھک کر میری ٹانگ کا مساج
کر رہی تھیں نا ۔۔ تو ۔۔ تو ۔۔ اس وقت میری نظر آپ کی قمیض پر پڑی تھی ۔۔۔ اور ۔۔۔ اور ۔۔۔ اس
ﺷﺎه
نے اتنا کہا اور ُچپ ہو گیا ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں نے قدرے سخت لہجے میں کہا ۔۔ پوری بات
سن کر ایک لمحے کے لیئے اس کا الل ہوتا بتاؤ ۔۔ یہ اور ۔۔۔اور کیا لگا رکھی ہے ۔۔۔ میرا آرڈر ُ
ہوا چہرہ ٹماٹر ہو گیا ۔۔ اور بوال ۔۔۔ وہ باجی آپ کی قمیض کا بٹن کھال ہوا تھا نا اور اس میں سے
وہ آپ کے ۔۔ آپ کے ۔۔۔ تو میں نے کہا میرے کیا ۔۔۔ تو وہ بوال ۔۔۔ میں اس کا نام نہیں لے سکتا
ﺟﯽ
باجی ۔۔۔ تب میں نے اس سے کہا ۔۔۔ اگر نام نہیں لے سکتے تو ہاتھ لگا کر بتاؤ ۔۔میری اس بات
سے وہ ایسا ہو گیا کہ جیسے میں نے اس کے پاؤں میں بمب پھوڑ دیا ہو۔۔۔تو وہ بوال ۔۔۔ یہ آپ کیا
سن کر اس نے بڑی کہہ رہی ہو باجی ؟ ۔۔ تو میں نے کہا جو کہہ رہی ہوں کرو۔۔۔میری بات ُ
حیرانگی سے میری طرف دیکھا اور مردہ قدموں سے چلتا ہوا ۔۔۔ میرے پاس آ کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔
اور پھر میرے دوبارہ کہنے پر اس نے نیم دلی سے اپنا ایک ہاتھ میرے ممے پر رکھ دیا۔۔۔۔ اور
میں نے اس کو حکم دیا کہ اب ان کو دباؤ ۔۔ اور اس نے میرے ممے کو ہلکا سا دبا بھی دیا ۔اور
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
میں نے اس کے نیچے دیکھا تو خوف کے مارے اس کا لن ابھی بھی بیٹھا ہوا تھا ۔۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر
میں نے اس سے کہا ۔۔ کمال ہے میرے ممے دیکھ کر تمھارا کھڑا ہو گیا تھا اور اب ان کو ہاتھ
میں پکڑ کر بھی کھڑا نہیں ہو رہا یہ کیا چکر ہے ؟۔۔۔ میرے لہجے میری حرکات و سکنات سے
اس نے کچھ کچھ اندازہ لگا لیا تھا کہ باجی کیا چاہتی ہے ۔ ۔۔ لیکن بے چارہ کھل کر اظہار نہ کر
ا
سکتا تھا ۔اس کے بات سمجھ جانے کی نشانی یہ تھی کہ اب اس کے چہرے پر پہلے جیسا خوف
ﺳﺗﺎ
نظر نہ آ رہا تھا ۔اسے ُچپ دیکھ کر میں نے کہا بولو نا ۔۔۔ تم چپ کیوں ہو گئے ہو ۔۔۔ تو وہ کہنے
لگا۔۔باجی وہ بات اور تھی تب میں نے پہلی دفعہ مسکراتے ہوئے اس کی طرف دیکھا اور بولی
سن ۔۔آخر وہ کیا بات تھی ۔۔۔ جس سے تمھارا یہ لن کھڑا ہو گیا تھا ؟ ۔۔ میرے منہ سے لن کا لفظ ُ
کر وہ ساری بات سمجھ گیا اور بوال ۔۔۔باجی ۔۔ تب آپ کا ڈر نہیں تھا ۔۔ تو میں نے اس کو کہا ۔۔۔
ﻧﯽ
تھوڑی دیر کے لئے اپنا ڈر دور کرومیرا اتنا کہنے کی دیر تھی کہ ۔۔ اس نے اپنے دونوں ہاتھوں
سے میرے ممے پکڑ لیئے اور انہیں دبانے لگا ۔۔۔ اور مجھے مزہ آنے لگا ۔۔۔ اس کے ساتھ ہی اس
کی شلوار نےایک دفعہ پھر اوپر کو اُٹھنا شروع کر دیا ۔۔۔ اور کچھ دیر میں اس کا لن مکمل
ﺟﯽ طور پر تن چکا تھا ۔۔۔۔
کچھ دیر ممے دبانے کے بعد وہ بوال باجی ۔۔کیا ۔ میں آپ کے ممے چوس سکتا ہوں ؟ تو
میں نے کہا ابھی تو تم ڈر کے مارے تھر تھر کانپ رہے تھے اور اب کیا کہہ رہے ہو ۔۔اس نے
@
میری بات کا کوئی جواب نہ دیا اور اپنا منہ میرے مموں پر رکھ دیا ۔۔ میں نے اسے ایک منٹ
کے لیئے ُرکنے کو کہا اور پھر اپنی قمیض اوپر کر کے اپنے ممے ننگے کر دیئے۔۔۔ میرے ننگے
ممے دیکھ کر وہ حیران ہو گیا اور ۔۔۔ ستائیش اس کی آنکھوں سے جھلکنے لگی ۔۔۔ لیکن بوال کچھ
نہیں اور ۔۔وہ میری ننگی چھاتی کو دیکھ کر اس پر بھوکوں کی طرح ٹوٹ پڑا ۔۔ اور بڑی بے
ﺷﺎه
صبری سے میرے ممے چوسنے لگا۔۔۔ اس کے ممے چوسنے کا انداز نے مجھے اتنا گرم کر
دیا کہ میں نے اپنا ایک مما اس کے منہ کے آگے کیا اور نشیلے لہجے میں بولی ۔۔۔ پہلے میرے
نپل چوس ۔۔۔۔ اور وہ میرے نپلز کو اپنے منہ میں لیکر اس کو مزے لے لے کر چوستا جس سے
مجھے اپنی سسکیاں روکنا مشکل ہو گیا اور میں ۔۔۔۔ مست ہو کر لذت آمیز سسکیاں لینے لگی ۔۔۔آہ
ﺟﯽ
ہ ہ ہ ہ ۔۔اُف ف ف ف ف۔۔زور سے چوس ۔۔۔۔ جس سے میری پھدی میں مزید پانی بھرنے لگتا ۔۔۔
اور میں اتنی گرم ہو گئی کہ میں نے اچانک اپنے ممے چھوڑے اور شلوار کے اوپر سے ہی
اس کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔ اور اسے دبانے لگی ۔۔ یہ دیکھتے ہوئے اس نے بھی میرے
ممے چوسنے کا عمل روک دیا اور مجھ سے بوال ۔۔ میرے لن کو دباؤ باجی ۔۔ اور میں بے اختیار
اس کے لن کو دبانے لگتی ۔۔۔ پھر میں نے اس سے کہا کہ ۔۔۔ وہ شلوار اتارے ۔۔۔ میں اپنے ہاتھوں
سن کر اس نے جھٹ سے اپنے نالے پر ہاتھ مارا میں اس کا ننگا لن پکڑنا چاہتی ہوں ۔۔۔ میری بات ُ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
اور دوسرے ہی لمحے اس کی شلوار اتری ہوئی تھی ۔۔۔ او ر میری نگاہ اس کے لن پر پڑ گئی ۔۔۔
اس کا لن کاسائز درمیانہ اور رنگ گورا تھا ۔۔ اور اس کے لن کی خاص بات یہ تھی ۔۔کہ اس
کا ۔ اگال ہیڈ بہت موٹا تھا جبکہ لن کا پچھال سرا ہیڈ کی نسبت کافی پتال تھا ۔۔۔ مجھے لن کی
طرف بڑے غور دیکھتے ہوئے کاشف بوال ۔۔ باجی میرے لن کو تھوڑا آگے پیچھے کریں نا۔۔۔ اور
ا
میں نے اس کا لن اپنی مٹھی میں پکڑا اور بڑی نرمی سے اسے آگے پیچھے کرنے لگی ۔۔۔ ابھی
ﺳﺗﺎ
میں نے اس کی تھوڑی سی ہی ُمٹھ ماری تھی ۔۔۔۔ کہ اچانک ۔۔ کاشف کے بدن نے ایک جھٹکا لیا
اور اس کے ساتھ ہی اس کے لن سے گاڑھی منی نکل نکل کر میرے ہاتھ پر گرنے لگی ۔۔۔ اسے
ڈسچارج ہوتے دیکھ میں جوش میں آ گئی اور مزید تیزی سے اس کی ُمٹھ مارنے لگی ۔۔کچھ دیر
بعد اس کے لن نے منی نکالنا بند کر دی تو میں نے اس کے لن سے ہاتھ ہٹایا اور کاشف سے بولی
ﻧﯽ
کہ تم میرے کمرے میں آ کر بیٹھو میں ہاتھ دھو کر آتی ہوں ۔۔۔ اور میں جلدی سے اپنے کمرے
کے واش روم میں گئی اور دروازے بند کر۔۔اپنی زبان باہر نکالی اور ۔ اپنے ہاتھ پر لگی کاشف
کے جوان لن کی ساری کی گاڑھی منی چاٹ لی اور سوچنے لگی ۔۔۔ کہ پتہ نہیں اب دوبارہ اس
ﺟﯽ
کا لن کھڑا بھی ہو گا کہ نہیں ۔کیونکہ میری پھدی کو اس کے لن کی اشد ضرورت محسوس ہو
رہی تھی ۔۔۔۔ کہ پھر اچانک خیال آیا کہ جب خان جی کا لن کھڑا نہیں ہوتا تو میں اسے منہ میں لے
کر چوستی ہوں جس سے وہ کھڑا ہو جاتا ہے اس کا بھی منہ میں لوں گی تو کھڑا ہو جائے گا۔۔
پھر ہاتھ دھو کر کلی کی اور واپس کمرے میں آ گئی تو دیکھا کہ کاشف پلنگ پر بیٹھا میرا انتظار
@
جیسے ہی میں اس کے پاس پہنچی وہ بوال سوری باجی ۔۔۔ میں نے آپ کے ہاتھ گندے کر
دیئے تومیں نے اس سے کہا کہ یہ تم اتنی جلدی فارغ کیوں ہو گئے تو وہ کہنے لگا باجی آپ کے
ﺷﺎه
ہاتھ اتنے نرم اور ُمٹھ مارنے کا انداز اتنا اچھا تھا کہ ۔۔۔ مزے کے مارے میری منی نکل گئی تو
میں نے اس سے پوچھا ۔۔۔اب دوبارہ کھڑا ہو گا؟ تو وہ کہنے لگا ٹرائی کرتا ہوں اور پھر اس نےلن
کو ہاتھ میں پکڑا اور اسے آگے پیچھے کرنے لگا ۔۔۔ تب میں نےاس کا ہاتھ پکڑا اور بولی ۔۔۔
رہنے دو میں ٹرائی کرتی ہوں اور اس کو پلنگ پر ۔۔ بٹھا کر اس کی ساری شلوار اتار دی اور اس
ﺟﯽ
کو اپنی ٹانگیں کھلی کرنے کو کہا ۔۔۔ اور وہ اپنی ٹانگیں چوڑی کر کے بیٹھ گیا پھر میں زمین پر
بیٹھی اور اس کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔ اور اسے آگے پیچھے کرنے لگی ۔۔ اس کے لن میں
ہلکی سی جنبش ہوئی لیکن وہ پوری طرح سے کھڑا نہ ہوا ۔۔۔ یہ دیکھ کر کاشف مجھ سے کہنے
لگا۔۔ باجی آپ لن چوستی ہیں ؟ تو میں نے کہا کیوں ؟ تو وہ کہنے لگا اگر آپ میرا لن اپنے منہ
میں ڈالیں گی نا تو یہ جلدی کھڑا ہو جائے گا ۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ میں نے کبھی لن چوسا
تو نہیں لیکن تم کہنے ہو تو یہ بھی کر لیتی ہوں اور پھر میں نے اپنا منہ اس کے لن کے اوپر
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
رکھ دیا اور زبان نکال کر اس کے خوب صورت ہیڈ پر پھیرنے لگی اس کے ہیڈ پر ابھی بھی اس
کی نمکین منی لگی ہوئی تھی ۔۔۔ جس کومنہ میں لیتے ہی میں گرم ہو گئی اور اس کا مرجھایا ہوا
لن اپنے منہ میں لے لیا اور اسے چوسنے لگی ۔۔۔ میرے منہ کی گرمی اور ہونٹوں کی نرمی پا کر
جلد ہی اس کا لن پھر سےاکڑ گیا ۔۔ اور جیسا کہ آپ جانتے ہی ہو کہ کھڑے لن کے چوسنے کا
ا
یر اثر اس کے نوجوان لن کو اپنا ہی مزہ اور ۔۔اپنا ہی نشہ ہوتا ہے اور میں اس نشے کے ز ِ
ﺳﺗﺎ
چوستی گئی ۔۔۔ یہ دیکھ کر کاشف نے میرے سر پر ہاتھ رکھا اور بوال ۔۔۔ باجی کیا آپ میرا سارا
لن اپنے منہ میں لے جا سکتی ہو؟؟؟ ۔۔۔ تو میں نے اس کے لن سے منہ ہٹا کر کہا کہ ۔۔۔ کوشش
کرتی ہوں ۔۔۔ اور پھر میں نے آہستہ آہستہ اس کے لن کو اپنے منہ میں لینا شروع کر دیا ۔۔۔اور
کرتے کرتے سارا لن اپنے منہ میں لے گئی اور پھر اس کے سخت لن پر پر اپنے نرم ہونٹ
ﻧﯽ
لگاتے ہوئے اوپر کو آنے لگی ۔۔۔ میرے اس چوپے سے وہ اتنا پُر جوش ہوا کہ ۔۔۔ اسکے منہ سے
سسکیاں نکلنے لگیں ۔۔۔۔آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور وہ بوال۔۔۔۔۔یسس۔۔۔۔ باجی ۔۔۔اُف ۔۔۔ اور پھر ۔۔کچھ
ہی دیر بعد وہ اس کا جسم ایک بار پھر سے اکڑنے لگا۔۔۔۔ اور ۔۔۔ اس سے پہلے کہ میں سنبھلتی
ﺟﯽ
۔۔۔ اس کے لن نے میرے منہ میں ہی اپنی گرم گرم گاڑھی اور لذیز منی اگلنا شروع کر دی۔۔۔۔۔
اور میں اپنے منہ میں ہی اس کی یہ قدرے نمکین منی اپنے منہ میں ہی جمع کرتی گئی اور جب
اس کے لن نے منی اگلنا بند کر دی تو ۔۔۔۔ میں نے اس کی لذیز منی کا گھونٹ بھر لیا۔۔
@
لیکن یہ بات میں نےاس کو محسوس نہیں ہونے دی اور ایک بار پھر اُٹھ کر واش روم
میں چلی گئی ۔۔ وہاں جا کر اچھی طرح کلی کی اور سوچنے لگی ۔۔۔ کہ اب کیا کروں ؟پھر خیال
آیا کہ کیوں نہ اس سے اپنی چوت چٹوائی جائے کہ کچھ تو مجھے بھی تھوڑا سا سکون ملے کہ
اس طرح تو میری پھدی ۔۔۔یہی سوچ کر میں دوبارہ باہر آئی اور اس کے پاس جا کر کھڑی ہو گئی
ﺷﺎه
پھر میں نے اس کو کہا کہ کاشف تم پلنگ سے اُتر کو نیچے بیٹھ جاؤ ۔۔اور وہ بال چوں و چرا کیے
پلنگ سے اترا اور نیچے بیٹھ گیا ۔۔ اب میں نے اس کی طرف دیکھا تو ا س کی آنکھوں میں
شرمندگئی صاف نظر آ رہی تھی ۔۔ جس کی وجہ سے میں نے اس کو کچھ نہ کہا اور اپنی شلوار
اتارتے ہوئے اس سے بولی ۔۔ کاشف تم نے کبھی پھدی چاٹی ہے ؟ تو وہ کہنے لگا ۔۔ نہیں باجی
ﺟﯽ
کسی بھی عورت کے ساتھ میری آج پہلی دفعہ ہے۔۔ اور پھر کہنے لگا لیکن آپ فکر نہ کریں میں
نے بہت سی ٹپرپل ایکس موویز دیکھی ہیں ۔۔۔ اور مجھے پتہ ہے کہ جیسے چوت چاٹی جاتی ہے۔۔
سن کر میں نے اپنی شلوار اتاری اور قمیض کواوپر کیا اور پھر اس کو پلنگ کی اس کی بات ُ
بائینتی سے ٹیک لگانے کو کہا اور پھر اپنی دونوں ٹانو ں کو ادھر ادھر کر کے اپنی چوت اس
کے ہونٹوں کی سیدھ پر ال کر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اسے پھدی چاٹنے کو کہا ۔۔۔سب سے پہلے اس نے اپنی ناک
میری چوت سے لگائی اور بوال واہ۔۔۔ باجی آپ کی پھدی سے بڑی سیکسی سی بُو آ رہی ہے ۔۔۔
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
اور کچھ دیر تک وہ میری چوت سے نکلنے والی یہ بُو سونگھتا رہا ۔۔۔ پھر اس نے اپنی زبان باہر
نکالی اور میری چوت چاٹنے لگا۔پھر اس نے منہ ہٹایا اور بوال باجی آپ کی چوت بہت گرم ہے
۔۔۔ لگتا ہے اس میں سے آگ نکل رہی ہے ۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ اس آگ کو ٹھنڈ ا کر نا ۔۔۔
میری جان ۔ اور اس کا سر پکڑا اور بولی ۔۔۔ کاشف میرے دانے کو چاٹو ۔۔ اور اس نے میرے
ا
دانے کو اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے اچھی طرح سے چوسنے لگا۔۔۔ اور میں مستی میں آ کر
ﺳﺗﺎ
سن کر ہر مرد پاگل ہو جاتا ہے ۔۔۔ چنانچہ وہ بھی وہی لذت آمیز سسکیاں بھرنے لگی کہ جسے ُ
سن کر پاگل ہو گیا اور میرے دانے سے منہ ہٹا کر ۔۔ ڈائیرکٹ چوت میں میری مستی بھری آوازیں ُ
ڈال دیا اور پھر اپنی زبان کو گول سا بنا کر وہ زبان میری چوت میں اندر باہر کرنے لگا ۔۔۔
ﻧﯽ
اس دوران میری چوت نے کافی دفعہ پانی چھوڑا ۔۔ جسے اس نے امرت سمجھ کر پی لیا اور
ایک بار بھی نیچے نہیں تھوکا ۔۔۔چوت چاٹتے چاٹتے اچانک اس نے میری چوت سے منہ ہٹا یا
ﺟﯽ
سن کر ۔۔ میں اس سے الگ ہو گئی اور بوال باجی ۔۔۔ میری پھر سے کھڑا ہو گیا ہے ۔۔۔ اس کی بات ُ
اور اسے کھڑا ہونے کو کہا ۔۔۔ اور جب وہ کھڑا ہوا تو میں دیکھا کہ اس کا لن پہلے کی طرح فل
جوبن میں کھڑا لہرا رہا تھا۔۔ جس کو دیکھ کر میرے منہ اور چوت میں پانی بھر آیا اور میں نے
اس سے کہا ۔۔ کاشف اس کو جلدی سے میری پھدی میں ڈال دو اور پھر میں نے زمین پر اپنے
گھٹنے رکھے اور پلنگ کے بازوپر جھک گئی اور ۔۔ اپنی ٹانگیں کھول کر اس سے بولی ۔۔۔۔
@
سن کر کاشف میرے پیچھے آیا اور وہ بھی گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا اور ۔۔۔ جلدی کر ۔۔۔ میری بات ُ
میری گانڈ پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بوال ۔۔۔ باجی ۔۔۔ آپ کی پھدی کی طرح آپ کی گانڈ بھی بڑی
ذبردست ہے تو میں نے اپنے منہ پیچھے کیا اور بولی ۔۔۔ حرامی ۔بک بک نہ کر ۔۔ میری پھدی
سن کر اس نے اپنا لن میری پھدی پر رکھا اور ایک ہلکا سا گھسہ میں لن ڈال ۔۔۔ اور میری بات ُ
ﺷﺎه
مارا ۔۔۔ اس وقت میری پھدی میں اتنا پانی جمع ہو چکا تھا ۔۔ کہ اس کا لن اس پانی میں پھسلتا ہوا
۔۔۔۔ میرے اندر تک چال گیا ۔۔۔ اور میری پھدی میں مزے کی لہرین دوڑنے لگیں ۔۔۔ پہلے تو اس
نے آہستہ آہستہ گھسے مارے پھر تیز ۔۔۔ اور تیز ۔۔۔ اس طرح ۔۔۔ اس نے میری پھدی کو بہت دیر
تک چودا ۔۔۔ ۔۔۔ اور گھسے پر گھسے مارتا رہا ۔۔۔ اور میں مزے سے بے حال ہوتے ہوئے سسکیوں
ﺟﯽ
پر سسکیاں لیتی رہی ۔۔ اور اس کو ہال شیری دیتی رہی ۔۔ ہ کاشف اور زور سے مار ۔۔ مجھ چود۔۔۔
میری پھاڑ دے ۔۔۔ اور اندر ڈال۔۔۔۔۔۔۔ اور ساتھ ساتھ مست سسکیاں بھی لیتی رہی ۔۔۔ گھسے مارتے
مارتے بااالخر ۔۔۔۔ اس نے ایک لمبی سی۔۔۔ اوہ ۔۔۔ہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔ کی اور ۔اس کے ساتھ ہی اس کے لن
نے اپنی ساری کی ساری منی میری ۔ میری چوت کے اندر ہی گرا دی ۔۔ ۔۔۔
ا
جی کے ساتھ ہی واپس لوٹی ۔۔۔ اور اس کے بعد کوئی خاص بات نہ ہوئی جو تحریر کی جا سکے
ﺳﺗﺎ
ب معمول اکھٹے ہی گھر آئے۔۔ اور پھر کھانا ۔۔ اُسی رات کو زکر ہے کہ خان جی اور اللہ حس ِ
کھانےکے بعد صنوبر نے خان جی سے کہا کہ ۔۔ خان جی کتنے دنوں سے مرینہ کہہ رہی ہے
کہ اس نے اپنے لیئے کچھ شاپنگ کرنی ہے ۔۔۔ لیکن اس کی ہمت نہ پڑ رہی تھی تو میں نے اس
سے کہاکہ میں خان جی بات کرتی ہوں ۔۔۔ چنانچہ خان جی میں نے اور مرینہ نے کچھ شاپنگ
ﻧﯽ
کرنی ہے ۔۔ اور مرینہ کہہ رہی ہے کہ وہ گھر میں پڑے پڑے کچھ بور ہو گئی ہے اس لیئے
سن کر خان جی میری شاپنگ کے ساتھ ساتھ ۔۔ اس نے کچھ گھومنا پھرنا بھی ہے۔۔۔صنوبر کی بات ُ
طرف دیکھا تو میں نے سر جھکا لیا ۔۔۔ حقیقت یہ تھی کہ ۔ ۔۔ مجھ سے منسوب کر کے جو باتیں
ﺟﯽ
صنوبر باجی نے کہیں تھیں میرے فرشتوں کو بھی اس کا علم نہ تھا ۔۔ ہاں یہ بات مجھے ضرور
معلوم تھی کہ صنوبر باجی کوئی بھی بات بغیر حکمت کے نہ کرتی تھیں ۔۔ اس لیئے جب میں
سنی جو کہہ رہے تھے کہ ۔۔۔ کیوں مرینے ۔۔۔ یہ سچ کہہ رہی ہے تو میں نے خان جی کی آواز ُ
نے ہاں میں سر ہال دیا ۔۔۔ میری رضامندی دیکھ کر وہ بولے ۔۔۔ یار دو تین دن تک تو میں بہت
@
سن کر زیادہ مصروف ہوں ۔۔ ہاں اگلے ہفتے تم دونوں کو لے جاسکتا ہوں ۔۔ خان جی کی بات ُ
صنوبر کہنے لگی ۔۔۔ رہنے دیں خان جی ۔۔۔ مجھے اچھی طرح سے معلوم ہے کہ اگلے ہفتے تو
سن کر خان جی ہنسنے لگ کیا آپ تو اگلے ماہ تک بھی فارغ نہیں ہوں گے ۔۔۔ صنوبر کی بات ُ
پڑے۔۔۔۔ اور میں نے اور صنوبر نے کاجی بُرا سا منہ بنا لیا۔۔۔ جسے دیکھ کر خان جی کہنے لگے
ﺷﺎه
۔۔۔اچھا بابا ۔۔ ایسا کرو ۔۔ مجھ سے پیسے لے لو اور تم دونوں خود بازار جا کر اپنی پسند کی
خریداری کر لو۔۔۔ اور کچھ پیسے نکال کر صنوبر کے ہاتھ پر رکھ دیئے۔۔۔۔باجی نے وہ پیسے
لیئے اور انہیں گنتے ہوئے بولی ۔۔ خان جی یہ کام ہیں ۔۔۔ نور راکا ۔۔ (اور دو) تو خان جی ہنتے
ہوئے کہا ۔۔۔ کیا سارا بازار خریدنے کا ارادہ ہے کیا تو صنوبر کہنے لگی ۔۔۔ نہیں خان جی آج کال
ان پیسوں کا بھال کیا آتا ہے ۔۔۔ پھر وہ اللے کی طرف متوجہ ہو کر کہنے لگیں ۔۔۔ اللہ خان جی تو
ﺟﯽ
ہمیں شاپنگ کرنے کے لیئے قیامت تک بھی فارغ نہیں ہوں گے ۔۔۔ اب آپ بتاؤ ۔۔۔ آپ کے پاس
سن کر میں ساری بات سمجھ گئی ۔۔۔ اور جال سا لہجہ بھی ٹائم ہے کہ نہیں ۔۔۔۔ صنوبر کی بات ُ
سن کر اللہ بناتے ہوئے بولی ۔۔۔ رہنے دو صنوبر ۔۔ یہ دونوں بھائی ایک جیسے ہیں ۔۔۔ تو میں بات ُ
تڑپ گیا اور بوال ۔۔۔ نہیں ایسی کوئی بات نہیں اصل میں خواتین کے ساتھ ۔۔۔ پھر کہنے لگا ۔۔۔ اگر
سن کر صنوبر نے بڑے پیار سے خان خان جی اجازت دیں تو میں حاضر ہوں ۔۔۔۔ اللے کی بات ُ
ا
گھومنا پھرنے کے لیئے کوئی اور دن رکھ لو۔۔۔
ﺳﺗﺎ
خان جی کی اجازت ملتے ہی میں نے اور صنوبر باجی نے ان کا شکریہ ادا کیا اور پھر ہم
دونوں نے گندے برتن اٹھائے اور کچن میں آگئیں۔۔۔ یہاں آتے ہی میں نے ان سےکہا باجی ۔۔۔ یہ
آج آپ کو کیا سوجید ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔ ارے یار۔۔۔ سوجھنا کیا ہے۔۔۔ میں اب اس ۔۔بات کا اینڈ
ﻧﯽ
چاہتی ہوں تو میں نے ان سے کہا کہ کس بات کا باجی؟؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ بھول گئی اللے والی
بات کا ۔۔۔ اور کس بات کا ۔۔۔ اور پھر اس نے مجھے کل ہونے والی مالقات کے بارے میں بریف
کیا اور ۔۔۔ میں نے ان کی پوری بات کو اپنے پلو سے باندھ لیا ۔۔ اور اگلے دن کے بارے میں
سوچنے لگی ۔۔۔ 00بجے کے قریب اللہ اپنی گاڑی لیکر آیا اور ہم دونوں جو صبع وہی ہی تیار
ﺟﯽ
بیٹھی تھیں۔۔۔۔ جلدی سے گاڑی میں بیٹھ گیئں ۔۔ اگلی سیٹ پر صنوبر باجی بیٹھی تھی جبکہ اس
سے پچھلی سیٹ پر میں بیٹھ گئی۔۔ فورا ً ہی اللے نے بیک مرر سیٹ کیا اور میری طرف دیکھنے
لگا پروگرام کے مطابق میں نے بھی اس کو لفٹ کرانی شروع کردی اور بہانےسے جو بڑی سی
چادر جس نے میرا سینہ ڈھکا ہوا تھا اس کو اپنے سینے سے ہٹایا اور ۔۔ اللے کو اپنے کھڑے
@
کھڑے مموں کو درشن کرانے لگی ۔مجھے یوں بے تکلفی سے پیچھے بیٹھا دیکھ کر اللے کی تو
عید ہو گئی اور وہ نظروں ہی نظروں میں مجھے تاڑنے لگا خاص کر اس کی بھوکی نظریں
میرے کھڑے ہوئے مموں پر تھیں ۔۔ وہ بار بار کبھی میرے چھاتی کو اور کبھی مجھے دیکھ رہا
تھا ۔۔ صنوبر باجی یہ سب دیکھ کر انجان بنی اگلی سیٹ پر بیٹھی تھی ۔۔اور میں اللے کی ہوس
ﺷﺎه
ناک اور بھوکی نظروں کا جواب اپنی لگاوٹ بھری نظروں سے دینے لگی ۔۔۔ گاڑی چلنے کے
کوئی دس منٹ بعد اچانک صنوبر باجی ۔۔۔ چالئی ۔۔۔ ایک منٹ اللہ ۔۔۔ اور میں نے پیچھے سے
پوچھا خیریت تو ہے نا باجی؟ تو وہ بولی ۔۔۔ ۔۔۔ میرے پیٹ میں بڑا سخت مروڑ اُٹھ رہا ہے ۔۔۔ اور
آج صبع سے ہی ۔۔۔مجھے موشن لگے ہوئے ہیں ۔۔۔ تو میں نے اللے سے کہا اللہ گاڑی واپس
موڑیں ۔۔۔ تو صنوبر کہنے لگی ۔۔۔ ارے نہیں ۔۔ میں ٹھیک ہوں ۔۔ تم گاڑی چالؤ اللہ ۔۔۔ اتنے عرصے
ﺟﯽ
بعد تم کو گھر سے باہر جانے کی اجازت ملی ہے میری وجہ سے تم اپنا یہ دن برباد نہ کرو تو
میں نے تشویش بھری لہجے میں ان سے کہا کہ ۔۔۔ باجی یہ بات بھی تو اچھی نہیں ہے نا کہ آپ۔۔
تو وہ میری بات کاٹ کر بولی ۔۔۔ نہیں چندا ۔۔ تم میری فکر نہ کرو ۔۔ پھر اللے سے بولی ۔۔۔ اللہ
یہاں اُلٹے ہاتھ پر میری ایک دوست کا گھر ہے تم مجھے وہاں اتار دو ۔۔ اور مرینے تم شاپنگ کر
سن کر اللے کی تو باچھیں کھل گئیں اور اس نے جھٹ سے کے یہیں آ جانا ۔۔۔ صنوبر کی بات ُ
ا
اگلی سیٹ پر آ جاؤ ۔۔اور تھوڑے سے نخرے کے بعد میں اس کے ساتھ آگے والی سیٹ پر بیٹھ
ﺳﺗﺎ
گئی اور ۔اللے نے۔۔ کار سٹارٹ کر دی ۔۔
کار میں گہری خاموشی چھا ئی ہوئی تھی ۔۔کہ کوئی ایک کلومیٹر چلنے کے بعد جب اللے
نے گئیر بدلنے کے بہانے ۔۔۔۔ میری مخملی رانوں پر اپنا ہاتھ رکھا ۔۔۔۔ اور میرا ردِعمل دیکھنے
ﻧﯽ
لگا ۔۔۔ میں کچھ نہ بولی ۔۔ بلکہ ۔۔۔ میں نے پہلو بدلنے کے بہانے اللہ کی طرف تھوڑی اور کھسک
گئی اوراپنی گانڈ کو اللے کی طرف کر دیا ۔جس سے میری گانڈ کا ایک پٹ ۔۔ صاف اور نمایاں
طور پر اسے نظر آنے لگا ۔۔ ۔۔۔ اور کن اکھیوں سے اللے کا تماشہ دیکھنے لگی ۔کیونکہ مجھے
معلوم تھا کہ اللہ ایک چھوکرے باز اور گانڈ کا شوقین آدمی ہے اس لیئے میں نے اسے اپنے
ﺟﯽ
ڈھب پر النے کے لیئے یہ حربہ اختیار کیا تھا ۔۔ اللے کی جیسے ہی نظر میری موٹی گانڈ کے
پٹ پر پڑی ۔۔۔ تو اس کے تو ہوش اُڑ گئے ۔۔۔۔ اور میں نے شیشے میں دیکھا کہ میری ہپس کو
دیکھتے ہوئے ۔۔۔ اس کے ہونٹ خشک ہو گئے تھے اور وہ بار بار اپنی زبان اپنے ہونٹوں پر پھیر
کر انہیں تر کرنے کی کوشش کر رہا تھا ۔۔ ۔۔۔کچھ دیر بعد اس نے ایک دفعہ اور گئیر بدلنے کے
@
بہانے دھیرے سے اپنے بائیں ہاتھ کا انگھوٹھا میری گانڈ کے ساتھ ٹچ کیا ۔۔۔۔ اور میری ریشمی
سی گانڈ کے پٹ میں اس کا انگھوٹھا کھب سا گیا ۔۔۔اور میں نے چوری چوری اس کو دیکھا تو
سرخ ہو رہا تھا ۔۔۔ اور اس کی آنکھوں میں ہوس ناچ رہی تھی ۔۔۔ جوش کے مارے اس کا چہرہ ُ
اور وہ با ر بار گردن نیچے کر کے میری ریشمی گانڈ کے پٹ کو دکھے جا رہا تھا ۔۔۔ گاڑی میں
ﺷﺎه
مکمل خاموشی تھی ۔۔۔ اور اللے کی یہ حالت دیکھ کر میرا دل دھک دھک کر رہا تھا ۔۔۔ پھر
اچانک میری نظر ۔۔۔ اللے کی گود میں پڑی ۔۔ تو میں نے دیکھا کہ دھیرے دھیرے ایک کنگ
سائز کا لن اس کی گود میں سے سر اُٹھا تھا ۔۔ اور پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس کا لن فُل
کھڑا ہو گیا ۔۔اور اس کے لن کا سائزدیکھ کر میری آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔۔شلوار کے
اندر سے ہی اس کا لن بہت بڑا اور موٹا نظر آ رہا تھا ۔۔۔ جسے دیکھ کر میں خاصہ گھبرا رہی
ﺟﯽ
تھی کہ اتنا بڑا اور موٹا لن میرے اندر کیسے جائے گا ۔۔۔ لیکن بظاہر میں بے نیاز بنی بیٹھی تھی
۔۔ اور اس کے فل گرم ہونے کا انتظار کر رہی تھی تا کہ میں اپنا کام کر سکوں ۔۔۔اب وہ تھوڑی
تھوڑی دیر بعد میری رانوں پر اپنا انگھوٹھا ٹچ کر رہا تھا ۔۔ اس کے کھردرے ہاتھ کے انگھوٹھے
کا یہ ٹچ میری چوت کو بھگو رہا تھا لیکن میں اس کے سامنے یہ بات ظاہر نہ کر سکتی تھی ۔۔۔
اس لیئے ویسے ہی بیٹھی رہی ۔۔پھر میں نے اس پر آخری وار کرنے کا فیصلہ کر لیا اور ۔۔ جیسے
ا
ﺳﺗﺎ
بس یہی وہ وقت تھا ۔۔۔ میں ایک دم گھومی اور بڑے سخت لہجے میں اس سے کہا ۔۔۔ یہ کیا
حرکت ہے ؟ اللہ آپ کو شرم نہیں آتی ۔۔؟ میرے اس ریمارکس سے وہ ہکا بکا رہ گیا ۔۔۔ اور پھر
پتہ نہیں کیا ہوا کہ وہ ایک دم ڈھیٹ بن کر بوال۔۔۔ کیا کیا ہے میں نے ؟ تو میں نے اس کہا ۔۔ یہ جو
ﻧﯽ
آپ حرکت فرما رہے تھے یہ کیا تھی؟ تو وہ بوال ۔۔ یہ تو میرا پیار تھا ۔۔۔ مرینہ جی ۔۔۔ تو میں نے
سن کر تُرت ہی وہ اس سے کہا کہ ۔۔۔ تو ایسا پیار اپنی بہن سے کیوں نہیں کرتے ؟ میری بات ُ
کہنے لگا ۔۔۔۔ اس ٹائم اس وقت میری بہن بھی میرے پاس ہوتی تو میں یہی کرتا ۔۔۔جو اس وقت
ﺟﯽ
سن کر بظاہر دانت پیستے ہوئے تمہارے ساتھ کر رہا تھا اور ہنسنے لگا اور میں نے اس کی بات ُ
کہا ۔۔۔ شرم کرو ۔۔۔ میں تمھاری بھابھی ہوں ۔۔۔تو وہ بوال ۔۔۔ ارے بابا جب میں اپنی بہن سے نہیں
ٹل رہا تو تم تو فقط میری بھابھی ہو ۔۔۔ اور بھابھی بھی ایسی کہ جس پر میں دل و جان سے مرتا
ہوں ۔۔۔ پھر بڑا سیریس ہو کر بوال ۔۔۔ مرینہ ۔۔ آئی لو یو۔۔تو میں نے اس کی آنکھوں میں دیکھا تو
وہ شہوت میں فُل ٹن ہو رہا تھا اور اس کی آنکھوں میرے لیئے شہوت ہی شہوت تھی اور وہ
@
ہوس ناک نظروں سے میری طرف دیکھ رہا تھا ۔۔۔۔مجھے اپنی طرف دیکھ کر وہ بوال ۔۔۔ مرینہ
بولو ۔۔۔ کیا میرے ساتھ دوستی کرو گی ؟ تو میں نے کہا اگر دوستی سے مراد گندی دوستی ہے
تو جا ؤ ۔۔۔جاکر اپنی بہن کے ساتھ یہ والی دوستی کرو ۔۔۔ جو آج کل بڑی تنگ رہتی ہے ۔۔ میر
سن کر وہ بوال ایک تو تم ہر بات میں میری بہن کو کیوں ے پاس تو میرا خاوند ہے ۔۔ تو میری بات ُ
ﺷﺎه
لے آتی ہو۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ بہن کو میں نہیں تم الئے تھے ۔۔۔ یہ شخص گرگٹ کی
طرح رنگ بدلنے کا ماہر تھا ۔۔ پہلے جب ملتا تو اتنی عاجزی سے ۔۔ اور مسکینی سے ملتا تھا
کہ لگتا تھا کہ اس سے زیادوہ چغد اور کوئی ہے ہی نہیں اور اب ۔۔۔ توبہ توبہ۔۔ عجیب آدمی تھا
یہ ۔۔۔تو پھر وہ بوال ۔۔۔اوکے ۔۔۔ میں نے مان لیا کہ میں ہی اپنی بہن کو الیا تھا ۔۔ اب تم میرے سوال
ﺟﯽ
کا جواب دو۔۔۔ تو میں نے کہا کیا سوال ۔۔۔ تو وہ بوال وہی دوستی واال ۔۔ تو میں نے کہا دیکھو میں
ایک شادہ شدہ عورت ہوں ۔۔۔۔ میں تم سے دوستی کر لوں اور بعد میں کہیں پکڑی جاؤں تو ۔۔ تم تو
بھاگ جاؤ گے لیکن میر اکیا بنے گا؟؟ ۔۔۔تو وہ بوال ۔۔۔ مرینے میں تم سے پیار کرتا ہوں ۔۔۔ اور کان
سن لو ۔۔ ہمت خان جو بات کر دیتا ہے پھر جان تو دے سکتا ہے لیکن اپنی بات سے کھول کر ُ
منکر نہیں ہو سکتا ۔۔۔تم چاہو تو آزما لو ۔۔۔ مچھلی پوری طرح سے میرے جال میں آ گئی تھی ۔۔۔بس
آخری وار کرنے کی دیر تھی ۔۔۔ چنانچہ میں نے اس سے کہا ۔۔۔ٹھیک ہے ۔۔اللہ میں تم سے دوستی
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
کروں گی ۔۔۔ لیکن میری ایک شرط ہے ۔۔ ۔۔ تو وہ بوال ۔۔۔ بوال مجھے تمھاری ہر شرط منظور ہے
۔۔تو میں نے کہا سوچ لو ۔۔ تو وہ بوال یہ مرد کی زبان ہے ۔۔۔ تو میں نے کہا کہ پہلے تم میرے
سن کراس کا چہرہ سامنے صنوبر کے ساتھ کرو ۔۔۔ پھر تم جو کہو گے میں مانوں گی ۔۔۔میری بات ُ
ایک دم الل ہو گیا اور وہ ایک گہری سوچ میں پڑ گیا ۔۔ تو میں نے اس سے کہا بس یہی تھی
ا
تمھاری زبان ؟ میرا یہ طعنہ اس پر اثر کر گیا ۔۔۔ اور وہ بوال ۔۔۔ ٹھیک ہے مرینہ ۔۔۔ مجھے تمھاری
ﺳﺗﺎ
یہ شرط بھی منظور ہے میں تمھارے سامنے صنوبر باجی کو چودوں گا لیکن میری بھی ایک
شرط ہے تو میں نے کہا وہ کیا تو وہ بوال وہ یہ کہ ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ٹوکن کے طور پر تم نے ابھی میرے
لن کو اپنے ہاتھ میں لن پکڑنا ہو گا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے گاڑی ایک سائیڈ پر روک
لی۔۔۔ اور میرا جواب سنے بغیر ہی اس نےاپنی شلوار کا آزار بند کھول لیا ۔۔۔۔۔۔ اوراس کے
ﻧﯽ
ساتھ ہی اس کا کاال ناگ ۔۔ پھن پھیالتا ہوا میری آنکھوں کے سامنے آ گیا ۔۔۔۔ جسے دیکھ کر میر
ے منہ میں پانی بھر آیا اور میں نے اس کو اپنے ہاتھ میں پکڑنے کے لیئے ہاتھ بڑھایا ہی تھا کہ
۔۔۔ میں دیکھا کہ ایک ٹریفک سارجنٹ ہاتھ میں چاالن کی بُک لیئے تیزی سے ہماری گاڑی کی
ﺟﯽ
طرف آ رہا تھا ۔۔۔او ر اس سے پہلے کہ میں ۔۔۔ اللے سے کچھ کہتی ۔۔۔ وہ ہمارے بلکل قریب پہنچ
گیا تھا ۔۔۔ ادھر اللہ آس پاس کے ماحول سے بے نیاز ۔۔۔ اپنا لن لہرا لہر کر کا مجھے اس کو
اپنے ہاتھ میں پکڑنے کا مطالبہ کر رہا تھا اور ادھر ۔۔۔ دم بدم سارجنٹ ۔۔۔ گاڑی کے قریب ۔۔۔۔۔۔۔
سے قریب آ رہا تھا ۔۔۔ میں کبھی اللہ کے مست لن کی طرف دیکھ رہی تھی اور کبھی سارجنٹ
@
کی طرف ۔۔۔ اور میرے چہرےکی رنگت اُڑ گئی تھی ۔۔۔ اور پھر میں ہکالتے ہو ئے ۔۔۔ اللے سے
کچھ کہنے ہی لگی تھی ۔۔۔ کہ سارجنٹ کار کے اور قریب پہنچ گیا۔اور قریب۔۔۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔۔۔
ت حال اور اس سے قبل کہ وہ سارجنٹ ہماری گاڑی کا شیشہ ناک کرتا ۔۔ اللہ نے صور ِ
کا ادراک کرتے ہوئے اپنی اوپر اُٹھی ہوئی قمیض کو لن کے اوپر کر لیا اور کہنے لگا کیا ہوا
ﺷﺎه
مرینہ یہ تم اتنی گھبرائی ہوئی کیوں ہو؟ اس کے ساتھ ہی اس نے میری ڈائیریکشن میں گاڑی
کے باہر دیکھا ۔۔۔ اور اس سے قبل کہ سارجنٹ ہمارے قریب آ کر شیشے پر ناک کرتا ۔۔۔۔اللے
نے ایک لمحے میں گاڑی سٹارٹ کی اور پھر بڑی ہی تیزی سے گاڑی کو وہاں ے نکال کر
بھگا لیا ۔۔۔ گاڑی کووہاں سے بھاگتے دیکھ کر میری جان میں جان آئی اور میں نے پیچھے ُمڑ
کر دیکھا تو دور کھڑا سارجنٹ ہماری طرف دیکھ کر غالبا ً دانت پیس رہا تھا ۔۔۔ میرے یوں
ﺟﯽ
پیچھے دیکھنے پر وہ بوال فکر نہ کرو مرینہ ۔۔ سارجنٹ ہمارے پیچھے نہیں آئے گا ۔تو میں
نے اس سے پوچھا کہ وہ کیوں نہیں آئے گا ؟؟ تو کہنے لگا۔۔کہ ۔کیونکہ ہم نو پارکنگ ایریا میں
سن کر ۔میں نے ایک نظر پھر کھڑے تھے اور اب ہم وہاں سے نکل گئے ہیں اللے کی بات ُ
پیچھے کی طرف سارجنٹ کو دیکھا تو وہ کسی اور طرف جا رہا تھا ۔۔۔۔یہ سب دیکھ کر میں
قدرے بے فکر ہو گئی اور پھر اس کے ساتھ ہی مجھے تھوڑی دیر قبل کا واقعہ یاد آ گیا اور
ا
۔۔ اس لیئے اللہ ۔۔ تیزی کے ساتھ اس رش والی جگہ سے گاڑی نکالنے لگا۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے
ﺳﺗﺎ
اس سے کہا ۔۔ کہ آپ مجھے کہاں لے جا رہے ہو؟ تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے بوال۔۔۔۔وعدے
کے مطابق ۔۔ تم نے میرےہتھیار کو اپنے ہاتھ میں پکڑنا ہے ۔۔۔اسی لیئے میں گاڑی کو کسی
سنسان جگہ پر لے جا رہا ہوں۔۔۔تو میں نے اس سے کہا کہ یہ کام کسی اور وقت بھی ہو سکتا ہے
۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر کہنے لگا ۔۔ نہیں میڈم ۔۔ میں آج کا کام کل پر نہیں چھوڑا کرتا ۔اس
ﻧﯽ
لیئے یہ کام ابھی اور اسی وقت ہو گا ۔ اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے گاڑی کو ایک سنسان
سڑک کی طرف موڑ لیا ۔۔۔۔کچھ دیر بعد ہماری گاڑی شہر سے باہر ایک نو تعمیر شدہ ہاؤسنگ
کالونی کے قریب پہنچ گئی ۔۔یہاں پر ہمیں اکا دکا مزدور ٹائپ لوگ نظر آئے ۔۔ جو گھروں کی
ﺟﯽ
تعمیر وغیرہ کا کام کر رہے تھے ۔۔ یہاں سے ہٹ کر وہ اسی ہاؤسنگ سوسائٹی کے ایک اور
بالک میں پہنچ گیا کہ جس کی ابھی تعمیر ہونا تھی۔ یہ ایک بلکل ہی ایک سنسان ایریا تھا ۔۔۔
یہاں آ کر انہوں نے اپنے آس پاس کا اچھی طرح جائزہ لیا اور پھر مطمئن ہو کر انہوں نے دوبارہ
لن سے اپنی قمیض ہٹا لی۔ تو میں نے دیکھا کہ اس وقت اللے کا لن نیم ُمرجھایا ہو اتھا ۔۔ لیکن
@
پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے ۔۔ اللے کا ہتھیار ۔۔جان پکڑنا شروع ہو گیا ۔۔۔۔ اور پھر کچھ
ہی دیر بعد ۔۔اس کا موٹا ۔۔ لمبا اور مضبوط لن لہراتا ہوا میری آنکھوں کے سامنے آ گیا ۔۔ اللہ
کا مضبوط لن دیکھ کر میری پھدی نے گرم ہو کر نیچے سے پانی کا ایک قطرہ چھوڑا دیا ۔۔
جو ۔۔ باہر آ کر میری شلوار میں جزب ہو گیا ۔۔۔ ابھی میں ستائیش بھری نظروں سے اللے کے
ﺷﺎه
لن کو دیکھ ہی رہی تھی کہ اچانک میں نے اللے کی سرسراتی ہوئی آواز سنی وہ کہہ رہا تھا ۔۔
مرینہ ۔۔۔ اپنے نرم ہاتھوں میں میرے لن کو پکڑو ۔۔۔ دل تو میرا بھی یہی چاہ رہا تھا ۔۔۔
لیکن اس کو پکا کرنے کے لیئے تھوڑا ناز نخرہ بھی ضروری تھا۔۔ اس لیئے میں نے اس کے
موٹے لن پر نظریں جماتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ دیکھو اللہ دن کا وقت ہے یہاں کسی وقت بھی کوئی
بھی آ سکتا ہے ۔۔۔۔۔اس لیئے ۔ آپ یہاں سے چلو۔۔۔ تو وہ کہنے لگا ۔۔زرا آس پاس نظر دوڑاؤ
ﺟﯽ
۔۔دور دور تک تمہیں کوئی فرد نظر آ رہا ہے ۔۔۔ اس کے کہنے پر میں نے آس پاس نظر دوڑائی
سنی تو واقعہ ہی وہاں کسی زی روح کا نام و نشان بھی نہ تھا ۔۔۔پھر میں نے اللے کی آواز ُ
وہ کہہ رہا تھا ۔۔۔۔۔ اب شرافت سے اسے پکڑ بھی لو ۔۔۔۔۔۔ اور پھر وہ جزبات سے اتنا بے قابو ہو
گیا کہ اس نے فورا ً ہی میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھ دیا۔۔۔۔۔ اُف کیا بتاؤں کہ اس کا لن
کس قدر گرم اور تپا ہوا تھا ۔۔۔۔ اور اسے پکڑ کر میرا جی کر رہا تھا کہ اس کو ابھی میں
ا
ہو مرینہ ۔۔۔ ابھی تو تم نے میرے لن پر ہاتھ رکھا ہی ہے اسے پکڑا تو نہیں ۔۔تو میں نے قدرے
ﺳﺗﺎ
شوخی سے کہا ۔۔۔ ہاتھ رکھنا یا پکڑنا بات ایک ہی ہے تو وہ کہنے لگا ۔۔ جی نہیں یہ ایک نہیں
۔۔بلکہ ۔۔دو الگ الگ باتیں ہیں ۔۔ اور پھر اس نے میرا ہاتھ پکڑ کے دوبارہ سے اپنے لن پر رکھ
دیا ۔۔۔ اب میں نے اس کے لن کو اپنی مٹھی میں لیا اور تھوڑا سا دبا دیا۔۔۔ اس کا لن کسی پتھر کی
طرھ سخت تھا ۔۔۔۔ اور سے ہاتھ میں پکڑ کر اسے دبا کر مجھے بڑا مزہ آرہا تھالیکن زیادہ دیر
ﻧﯽ
تک میں بوجہ ایسا نہ کر سکتی تھی ۔۔۔ اسلیئے چند سیکنڈ تک اس کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ
کر دبایا اور پھر ہٹا کر بولی ۔۔۔ اب خوش۔۔۔۔اور پھر ساتھ ہی اپنے دونوں ہاتھ سینے پر باندھ
لیئےاور بولی ۔۔ چلو اللہ ہم پہلے ہی بہت لیٹ ہو رہے ہیں ۔۔۔
ﺟﯽ
سن کر اللہ نے ایک ٹھنڈی سانس بھری اور بوال ۔۔۔ تم بہت ظالم ہو مرینہ ۔۔۔ میری بات ُ
اورپھر گاڑی سٹارٹ کر کے چل پڑا ۔۔ تا ہم راستے بھر وہ میری نرم نرم رانوں پر اپنے
کھردرے ہاتھ پھیرتا رہا جو ظاہر ہے مجھے اچھے لگا لیکن میں نے کوئی اس سلسلہ میں
کوئی ریمارکس نہ دیئے اور بس ۔۔۔ یہی کہتی رہی کہ کیا کر رہے ہو ۔۔۔۔ ایسے مت کرو
@
پلیززززز۔۔۔۔لیکن وہ کہاں باز آنے واال تھا ۔۔۔اسی کشمکش میں بازار آ گیا اور وہ مجھے کپڑوں
کی دکان پر لے گیا جہاں پر میں نے اپنے اور باجی کے کپڑے لیئے اور پیسے دینے لگی تو اس
نے مجھے پیسے نہیں دینے دیئے میں نے بھی واجبی سی کوشش کی اور پھر پیسے واپس اپنے
پرس میں ڈال دیئے ۔۔اور ہم واپس آ گئے ۔۔۔صنوبر کی دوست شاہین کے گھر جاتے ہوئے اچانک
ﺷﺎه
اللہ سیریس ہو کر کہنے لگا ۔۔۔۔ مرینہ ایک بات پوچھوں ؟ تو میں نے کہا جی پوچھو۔۔ تو وہ
کہنے لگا یہ تو بتاؤ کہ تم مجھے صنوبر کے ساتھ سیکس کرنے پر اتنا ذور کیوں دے رہی
ہو؟ تو میں نے ایک لمحہ سوچنے کی اداکاری کی پھر ۔۔۔ میں نے اللہ کی طرف ۔۔۔ غور سے
دیکھا اور ۔۔۔ کچھ ہچکچاتے ہوئے بولی۔۔۔ سچ بتاؤں؟؟؟؟ تو وہ بڑی بے تابی سے کہنے لگا ۔۔۔ہاں
ہاں ۔۔۔بولو ۔۔۔ تو میں نے کچھ شرماتے ہوئے ۔۔۔کچھ گھبراتے ہوئے اس سے کہا کہ ۔ اپنی سیفٹی
ﺟﯽ
کے لیئے ۔۔۔ تو وہ میرا مطلب نہ سمجھا اور بوال ۔۔۔ میں سمجھا نہیں ۔۔۔ تو میں نے اس کی طرف
دیکھتے ہئے کہا ۔۔۔وہ۔۔۔۔وہ ۔۔۔دیکھو ۔۔اللہ ۔۔آپ مجھے بڑے اچھے لگتے ہو۔۔۔۔ اور میرا بھی دل
چاہتا ہے کہ میں آپ کے ساتھ ۔۔۔۔۔۔۔۔تعلق رکھوں ۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ تمھاری بہن کے ہوتے ہوئے یہ ممکن
نہیں ۔۔۔۔۔ تو اس کا ایک ہی تو ڑ ۔۔۔ میرے ذہن میں آیا ہے اور وہ یہ کہ۔۔۔۔۔ کیوں نہ وہ میرے
سامنے ۔۔۔۔ کانی۔۔ ہو جائے ۔۔۔ اس کے بعد میں جب ۔۔۔۔۔ یہاں میں نے وقفہ لیا اور اس کی طرف
ا
میرے نرم ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں لے لیا اور انہیں چوسنے لگا۔۔۔یہ سارا عمل چند سکینڈ کا تھا
ﺳﺗﺎ
لیکن مجھے ایسا لگا کہ جیسے اس عمل میں صدیاں لگ گئیں ہوں ۔۔۔پھر اس نےخود ہی میرے
ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں سے آذاد کیا اور ۔۔۔۔۔سوری بول کر دوبارہ گاڑی چالنے لگا ۔۔۔ ادھر پتہ
نہیں مجھے کیا ہوا کہ خود بخود ہی میرا ہاتھ سرکتا ہوا اس کی گود میں گیا اور میں نے اس کا نیم
مرجھایا ہوا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔۔ اس نے ایک نظر مجھے دیکھا اور میرے ہاتھ پر اپنا ہاتھ
ﻧﯽ
رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔ گاڑی چلتی رہی اور میں اس کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑے اسے دباتی رہی ۔پھر آہستہ
آہستہ اس کو مرجھایا ہوا لن سخت پتھر کا ہو گیا اور اسے دبا دبا کر میں نیچے سے پانی پانی ہو
گئی تھی۔۔۔۔۔کار میں گھنی خاموشی چھائی ہوئی تھی۔۔۔وہ گاڑی چال رہا تھا ۔اس کے لن پر میرا ہاتھ
ﺟﯽ
تھا ۔۔۔۔ اور میرا وہ ہاتھ جس میں اس کا لن تھا اس پر اس نے اپنا ہاتھ رکھا ہوا تھا اور گاڑی چل
رہی تھی ۔۔۔۔
شاہین کے گھر کے قریب پہنچ کر میں نے ان کے لن سے اپنا ہاتھ ہٹایا اور ۔۔۔پھر انہوں
@
نے گاڑی روک دی اور میری طرف دیکھ کر بولے ۔۔۔ فکر نہ کرو مرینہ۔۔۔ میں ایسا بندوبست
سن کر میں نے قدرے کروں گا کہ وہ اور تم ایک ساتھ میرے نیچے سیکس کرو گی ۔۔۔ اس کی بات ُ
غصے سے اس کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ جی نہیں میں نے اس کو اپنا کانا کرنا ہے اس کا
سن کر وہ جلدی سے بوال ۔۔۔۔سوری بابا ۔۔۔۔۔ مجھے اس بات کا دھیان
کانا نہیں ہونا ۔۔۔۔۔۔ میری بات ُ
ﺷﺎه
نہیں رہا تھا ۔۔۔۔۔۔ پھر بوال بے غم رہو جیسا تم چاہتی ہو ویسا ہی ہو گا اور ہم دونوں گاڑی سے
باہر آ گئے اور اس شاہین کے گھرکی گھنٹی بجا دی ۔۔۔
واپسی پر کوئی خاص بات نہیں ہوئی لیکن جیسے ہی اللہ ہمیں چھوڑ کر گھر کے گیٹ
ﺟﯽ
سے آؤٹ ہوا تو صنوبر باجی نے مجھے پکڑ لیا اور بولی ۔۔۔۔ مرینہ کی بچی ۔۔۔اب بتاؤ کہ تم نے
میرے پیچھے کیا ُگل کھالئے تو میں نے سٹوری کو تھوڑا حزف کر کے باقی کا سارا احوال
ان کے گوش گزار کر دیا ۔۔۔۔ اور جب انہوں نے یہ سنا کہ ۔۔۔۔۔۔۔ اللہ ان کو چودنے کے لیئے
راضی ہو گیا تو وہ ایک دم خوش ہو گئیں ۔۔۔۔اور بولیں ۔۔۔۔ کوئی پروگرام بنایا ہے اس نے کہ وہ
مجھے کیسے راضی کرے گا؟ تو میں نے ان سے کہا کہ نہ تو میں نے اس بارے ان سے بات کی
ا
ہی میری آنکھوں کے سامنے اللے کا سخت پتھر لن آ جاتا اور میری چوت گیلی سے گیلی ترین
ﺳﺗﺎ
ہو جاتی تھی ۔۔۔
اس دن کے بعد میں نے محسوس کیا کہ اللے کا رجحان صنوبر باجی کی طرف کچھ زیادہ
ﻧﯽ
ہی ہو گیا تھا ۔۔اور اللہ جو باجی کو پھنسانے کے لیئے جو بھی حرکات کرتا باجی اکثر باجی
باتیں مجھ سے شئیر کرتیں تھیں اور ہم دونوں اس کی باتیں کر کے خوب انجوائے کرتیں ۔۔پہلے
تو اللہ روٹی کھاتے ہوئے خان جی سے گپ شپ لگاتا تھا لیکن اس کے بعد وہ زیادہ باتیں صنوبر
ﺟﯽ
باجی سے ہی کرتا تھا ایک رات روٹی کھاتے ہوئے وہ باجی سے کہنے لگا پتہ ہے باجی ۔۔ آپ
کی سہیلی رضیہ بمعہ ا ہل و عیال دوبارہ سے حیدرآباد میں سیٹل ہو گئیں ہیں ۔۔۔ رضیہ کا نام
سن کر باجی ایک دم چونکی اور بولی ۔۔ تمیں کیسے پتہ ؟ تو وہ کہنے ل گا ۔۔ مجھے ایسے پتہ ُ
چال کہ کل مجھے اس کا میاں مال تھا ۔۔۔ اس نے بتایا ۔۔ تو باجی کہنے لگی کراچی چھوڑنے
کی وجہ کیا ہوئی؟ تو اللہ کہنے لگا ٹھیک سے تو پتہ نہیں ۔۔ لیکن اُڑتی اُڑتی یہ سنی ہے کہ وہاں
@
پر ان لوگوں کسی کام میں ایک تو کچھ گھاٹا پڑا ہے دوسر ۔۔۔ رضیہ کی اپنے سسرال سے نہیں
بنی ۔۔اس لیئے رضیہ کے والد نے ان کو یہاں حیدرآباد بُال کر دوبارہ سے سیٹل کرنے کی کوشش
کی ہے تو باجی نے کہا ۔۔۔ دیکھو رضیہ کتنی بدتمیز ہے ۔۔ ایک ماہ ہو گیا لیکن ایک دفعہ بھی
مجھ سے ملنے نہیں آئی تو ۔۔۔ اللہ کہنے لگا ۔۔۔ ابھی وہ اس پوزیشن میں نہیں کہ آپ لوگوں سے
ﺷﺎه
مل سکے ۔۔تو باجی کہنے لگی لیکن اللہ وہ میری بہت اچھی دوست ہے ۔۔۔پھر وہ اللے سے بولی
۔۔۔ تم کو ان کا گھر معلوم ہے؟ تو اللہ کہنے لگا ۔۔ معلوم تو نہیں لیکن اگر آپ کہو تو معلوم ہو
سکتا ہے ۔۔۔ تو باجی نے بڑے اشتیاق سے کہا ۔۔۔۔ ۔۔۔پتہ کرو پلیز میں نے اس سے ملنا ہے باجی
سن کر اللہ نے ہاں میں سر ہالیا ۔۔۔۔۔ اور کھانا کھانے لگا۔۔۔ کھانا کھانے کے بعد ایک کی بات ُ
ﺟﯽ
دفعہ جب اللہ اُٹھ کر جانے لگا تو اچانک صنوبر باجی نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور بولی ۔۔ بیٹھو
سن کر اللے نے ان سے اپنا ہاتھ چھڑانے کی کوئی ۔۔ قہوہ تو پی کر جانا ۔۔۔۔ ۔۔۔ صنوبر کی بات ُ
سنکوشش نہ کی بلکہ کہنے لگا ۔۔ ۔۔ میں کہیں نہیں جا رہا باجی ۔۔بس زرا ہاتھ دھو آؤں ۔۔۔ یہ ُ
کر باجی بولی ہاتھ تو میں نے بھی دھونے ہیں اور وہ بھی اُٹھ کر اس کے ساتھ ہی واش روم کی
طر ف چل دی ۔۔ ۔۔۔ ان کو جاتے دیکھ کر خان جی نے مجھے اور میں نے ان کی طرف دیکھا
لیکن ہم دونوں خاموش رہے ۔۔
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
یہ اسی رات کا ذکر ہے کہ بستر پر جاتے ہی وہ مجھ سے کہنے لگے ۔۔ ۔۔۔۔مرینے ۔۔۔ میں
دیکھ رہا ہوں کہ آج کل صنوبر اور ہمت خان کچھ زیادہ ہی نزدیک نہیں آ رہے ؟ تو میں نے
ا
ﺳﺗﺎ
ان سے کہا کہ اس میں کیا بری بات ہے ؟۔۔۔ ہمت اللہ صنوبر کا چھوٹا بھائی ہے اور بہن بھائیوں
سن کر خان جی کہنے لگے وہ تو ٹھیک میں محبت ہونا ایک فطری بات ہے ۔۔۔ تو میری بات ُ
ہے لیکن پتہ نہیں کیا بات ہے مجھے ان کی یہ فرینک نس بہت عجیب سی لگ رہی ہے ۔پھر
مجھ سے کہنے لگے کہیں یہ دونوں مل کر میرے خالف کوئی سازش تو نہیں کررہے ؟ تو میں
ﻧﯽ
نے ان سے کہا ۔۔۔۔ آپ کیسی باتیں کر رہے ہیں خان جی ؟ یہ دونوں آپ کے بھائی بہن ہیں ۔۔۔۔۔یہ
ایسا کیسے کر سکتے ہیں ؟ ۔اور پھر بڑے پیار سے ان سے بولی کہ ۔یہ آپ کا آپ کا وہم ہے
خان جی ۔۔۔اور ان کا دھیان بٹانے کے لیئے اپنی قمیض اتار کے گھٹنوں کے بل ان کے سامنے
ﺟﯽ
کھڑی ہو گئی اور اپنے نپل ان کے ہونٹوں کے قریب کر کے بولی ۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔ چھوڑو خان جی
۔۔۔ وہ جانے اور ان کی فرینک نس آپ میرے نپل چوسو۔۔۔ اور خان جی ۔۔ نے ایک لمحے کو میری
طرف دیکھا اور پھر میرے نپل اپنے منہ میں لیکر انہیں چوسنے لگے ۔اورساتھ ہی اپنی ایک
ا نگلی میری چوت میں ڈال دی اور اسے اندر باہر کرنے لگے ۔۔اس طرح میں نے خان جی کا
دھیان صنوبر باجی اور اللے سے ہٹا کر سیکس کی طرف کر دیا اور انہوں نے مجھے ویسے
@
ہی چودا جیسا کہ وہ چودا کرتے تھے ۔۔۔۔ لیکن اس رات میں باجی اور اللے کے سیکس کے
بارے سوچ سوچ کر معمول سے زیادہ چھوٹی جسے انہوں نے بھی محسوس کیا اور بولے ۔۔۔
مرینے تم ایک گرم لڑکی ہو۔۔۔ اور میں نے کہا اور یہ گرم لڑکی صرف آپ کے لن سے ہی ٹھنڈی
ہوتی ہے خان جی ۔۔۔ جس کا ثبوت میرا یہ ڈھیر سا را پانی ہے جو آپ نے میری چوت سے نکاال
ﺷﺎه
سن کر خان جی بڑے خوش ہوئے ۔۔ ہے ۔۔۔ میری یہ بات ُ
اس سے اگلے روز کی بات ہے کہ کھانے کی ٹیبل پر اللے نے باجی کو مخاطب کرتے
ہوئے کہا ۔۔۔ باجی ۔۔ میں نے آپ کی دوست کا گھر تالش کر لیا ہے ۔۔۔ اور نہ صرف تالش کر لیا
ﺟﯽ
ہے بلکہ اس اسے مل کر بھی آ رہا ہوں اور اس نے آپ کو اور بھابھی کو کل دوپہر کو کھانے
سن کر صنوبر ایک دم خوش ہو گئی اور بولی ۔۔۔ یہ تو
کی دعوت پر بھی بالیا ہے اللے کی بات ُ
تم نے بڑی اچھی بات کی ہے بھائی ۔۔۔۔کل ہم رضیہ سے بھی مل لیں گے اور اسی بہانے اس کے
گھر دوپہر کا کھانا بھی کھا آئیں گے ۔۔۔۔ پھر صنوبر باجی میری طرف گھومی اور بولی کیا خیال
ہے ۔۔۔ مرینے تمھارا ۔۔۔ تو میں نے خان جی کی طرف دیکھتے ہوئے کہا کہ ۔۔۔ جب تک خان جی
ا
تمھاری پکی دوست ہے اس کے ہاں بھال ۔۔۔۔۔مرینہ کا کیا کام ہو سکتا ہے اور ویسے بھی یہ
ﺳﺗﺎ
ہو گی ۔ اس لیئے تم لوگ اس کو رہنے دو ہاں تم اور ہمت جانا چاہو وہاں پر بور ہی
سن کر صنوبر باجی کہنے لگی ۔۔۔ آپ فکر نہ کریں رضیہ تو ضرور جاؤ ۔۔ ۔۔۔خان جی کی بات ُ
اور میں آپ کی بیگم کو ہر گز بور نہ ہونے دیں گی ۔۔۔ بس آپ اسے ہمارے ساتھ جانے کی
اجازت دے دیں ۔۔۔ اس سے قبل کہ خان جی کچھ اور کہتے۔۔۔ اللہ کہنے لگا۔۔۔۔ اجازت دے دیں
ﻧﯽ
خان جی ۔۔۔ بے چاری سارا دن گھر میں پڑی بور ہوتی رہتی ہے۔۔۔ اور ویسے بھی ۔۔۔رضیہ
نے بھابھی کے لیئے خاص طور پر تاکید کی ہے ۔۔۔ اور پھر دونوں نے بڑی مشکل اور منت
سماجتوں کے بعد خان جی سے مجھے اپنے ساتھ چلنے کی سے اجازت لے ہی دی ۔۔ کھانے
ﺟﯽ
کے بعد جب میں اور باجی کچن میں برتن وغیرہ دھورہی تھیں تو میں نے صنوبر باجی سے
پوچھ ہی لیا کہ باجی یہ رضیہ کون ہے اور دوسرا یہ کہ آپ دونوں مجھے ساتھ لے جانے کی اتنی
ضد کیوں کر رہے تھے ؟ تو باجی کہنے لگیں کہ رضیہ اس کی ایک بہت ہی خاص اور پکی
سہیلی ہے اور یہ وہی سہیلی ہے کہ جسے اللے نے بڑا چودا ہے اور جو اللے کے لن کی دیوانی
@
ہے پھر کہنے لگی کہ سچ پوچھو تو اسی حرامزادی نے ہی مجھے اللے کے لن کا شوق دالیا تھا
۔۔۔ اور پھر کہنے لگی کہ رہی یہ بات کہ میں تم کو لے جانے پر کیوں بضد تھی تو ۔۔۔ اس کی
کوئی خاص وجہ نہیں ہے بس میرا دل کیا کہ تم کو بھی ساتھ لے جاؤں ۔۔۔ پھر راز داری سے
کہنے لگی کہ میں دیکھ رہی ہوں کہ میری اور اللے کی فرینک نس خان جی کو ایک آنکھ نہیں
ﺷﺎه
بھا رہی اس لیئے میں نے سوچا کہ تم ساتھ ہو گی تو شاید وہ کچھ زیادہ شک نہیں کریں گے ۔۔
تو میں نے کہا ۔۔ آپ نے کیسے محسوس کیا کہ خان جی آپ دونوں پر کڑی نگاہ رکھ رہے
ہیں؟؟ تو وہ کہنی لگی ۔۔تم کو پتہ ہے مرینے ۔۔۔ سکول کالج کے زمانے میں بھی یہ مجھے اکثر
ﺟﯽ
اس بات پر ٹوکا کرتے تھے کہ میں اللے کے ساتھ زیادہ فری کیوں ہوتی ہوں تو میں نے ان سے
پوچھا کہ اس کی وجہ ؟ تو وہ کہنے لگی ایک دجہ تو یہ تھی کہ اللہ میری سپورٹ کی وجہ سے
میری دوستوں کو چودا کرتا تھا ۔۔۔ دوسرا ۔۔اس خان جی نے متعدد دفعہ اللے کو پکڑا تھا کہ کبھی
وہ مجھے نہاتے ہوئے دیکھ رہا ہوتا تھا ۔یا میں کپڑے بدال رہی ہوتی تھی ۔۔ تو میں نے ان سے کہا
تو باجی آپ نے خان جی کا بھی کہیں داؤ ۔۔لگوا دینا تھا نہ ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔ مجھے تو کوئی
اعتراض نہیں تھا لیکن ۔۔۔ اس معاملے میں بے چارے خان جی بس ایسے ہی تھے ۔۔۔جبکہ اللہ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
ایک منٹ میں نہ صرف لڑکی پھنسا لیتا تھا بلکہ اگلے منٹ میں اسے چود بھی لیتا تھا ۔۔تب سے
اب تک خان جی اللے سے بہت جیلس ہے ۔۔اور خاص طور پر رضیہ پر تو خان جی نے بڑے
ہی ڈورے ڈالے تھے لیکن اس نے ان کو زرا سی بھی لفٹ نہیں کرائی تھی ۔۔۔۔پھر کہنے لگی
قسمت کی بات ہے اس وقت اللہ پرنس ہوتا تھا اور ۔۔۔ خان جی ایوں سا ۔۔۔ اور اب وہ زمانہ آ گیا
ا
ہے کہ خان جی پیسے واال ہے اور اللہ ۔۔۔
ﺳﺗﺎ
اسی رات کا زکر ہے کہ بستر پر جاتے ہی خان جی مجھ سے کہنے لگے کہ دیکھ مرینے
۔۔۔ میں نے اوپری دل سے صنوبر اور ہمت کے ساتھ تم کو جانے کی اجازت تو دے دی ہے لیکن
ﻧﯽ
میرا دل نہیں کرتا کہ تم ان لوگوں کے ساتھ جاؤ ۔۔۔ تم ایسا کرو کہ ۔۔۔ کل کوئی بہانہ بنا لینا ۔ لیکن
ان لوگوں کے ساتھ مت جانا ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا اس کی وجہ کیا ہے؟؟ تو وہ بولے ۔۔۔ وہ
اس لیئے کہ مجھے لگ رہا ہے کہ یہ لوگ میرے خالف سازش کرر ہے ہیں ۔۔۔۔ تو میں نے ان
ﺟﯽ
سے کہا کہ خان جی اگر یہ لوگ آپ کے خالف کوئی سازش کر رہے ہیں تو پھر تو مجھے ان
کے ساتھ خواہ مخواہ جانا چاہیئے تو وہ کہنے لگے وہ کیوں؟ ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔۔ وہ
اس لیئے تا کہ اگر وہ واقعہ ہی آپ کے خالف کوئی سازش کر رہے ہیں تو میں اس سے باخبر
ہو کر آپ کو بتا سکوں ۔۔۔ پھر میں نے ان کے گلے میں اپنی باہیں ڈالیں اور بولی ۔۔۔ وہ اس لیئے
بھی خان جی کہ اب میرا جینا مرنا آپ کے ساتھ ہے ۔۔ آپ ہی میرے مجازی خدا ہو اور آپ ہی
@
سن کر خان جی بڑے خوش ہوئے اور مجھ میرا سہارا ہو۔۔۔ میرے اس قسم کے جزباتی ڈئیالگ ُ
سے کہنے لگے ۔۔۔ ہاں یار اس بارے میں تو میں نے سوچا ہی نہ تھا ۔۔۔۔ پھر کہنے لگے میں تم
کو حکم دیتا ہوں کہ آج کے بعد تم ان کے درمیان رہو ۔۔۔ اور ان کی ہر سرگرمی سے مجھے
مطلع کرتی رہنا ۔۔۔ میں نے ان کی یہ بات سن کر ا ن سے چمٹ گئی اور لمبی سی کسنگ کر کے
ﺷﺎه
جیمز بانڈ سٹائل میں بولی ۔۔۔ فکر نہ کرو خان جی ۔۔۔ آج کے بعد مرینہ آ پ کی بیوی ہی نہیں ۔۔۔
جاسوسہ بھی ہے جو آپ کو ان دونوں کی ہر قسم کی سرگرمیوں سے آگاہ رکھے گی میرا
سٹائیل دیکھ کر وہ خوب ہنسے اور پھر اپنی شلوار کا ۔۔آزار بند کھولتے ہوئے بولے ۔شاباش میری
جاسوسہ ۔۔۔مجھے تم سے یہی امید ہے ۔ لیکن اس سے پہلے ۔۔۔تم ادھر آ کر میرا لن کی جاسوسی
ﺟﯽ
بھی کرو کہ یہ بڑی شدت سے تمھارے ہونٹوں کو ِمس کر رہا ہے ۔۔ اور ان کی بات سن کر میں
نے اپنا سر نیچے جھکایا اور ان کا مرا ہوا لن اپنے منہ میں لے کر اسے چوسنے لگی ۔۔۔۔
اگلے دن ایک بجے کے قریب اللہ گاڑی لے آیا اور میں اور صنوبر باجی اس کے ساتھ بیٹھ
کر چلی گئیں اور سارا راستہ وہ دونوں بس رضیہ کا ہی زکر کرتے رہے جس سے میں نے
ا
کیوٹ سی عورت اور اس کے ساتھ دو مرد باہر نکلے ۔۔۔باہر نکلتے ہی وہ عورت رضیہ کے
ﺳﺗﺎ
ساتھ چمٹ گئی یقینا ً یہ رضیہ تھی ۔۔۔ اور بعد میں پتہ چال کہ دو مردوں میں ایک تو رضیہ کا
خاوند اور دوسرا اس کا باپ تھا ۔۔۔ جب وہ دونوں گلے سےمل چکیں تو ۔۔۔۔باجی نے اس سے میرا
تعارف کرایا ۔۔۔ اور مجھے دیکھ کر اس نے بڑی ہی خوش دلی سے اپنے دونوں بازو کھولے
اور باجی کی طرف دیکھ کر یہ کہتی ہوئی آگے بڑھی کہ ۔۔۔ صنوبر تمھاری بھابھی کو دیکھ
ﻧﯽ
کر ایسا لگتا ہے کہ قاسم بھائی کی الٹری نکل آئی ہو اور پھر وہ بڑی گرم جوشی سے مجھے
ملی ۔۔۔ اور پھر ہمیں لے کر سیدھا ڈائینگ روم میں آ گئی جہاں کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد
انہوں نے کھانا لگا دیا ہاں ایک بات میں بھول گئی ۔۔۔ تھوڑا آگے جا کر جب باجی نے رضیہ
ﺟﯽ
کو مٹھائی کا ڈبہ پکڑایا تو وہ چلتے چلتے اچانک ُرک گئی اور بولی ۔۔۔ اس کی کیا ضرورت
تھی ۔۔۔ تو صوبر باجی نے اسے آنکھ مارتے ہوئےکہا میری جان مجھے تو یاد بھی نہ تھا ۔۔۔یہ تو
سرخ ہو گئی سن کر وہ تھوڑی ُاللہ تمھارے لیئے الیا ہے ۔۔۔ تو میں نے دیکھا کہ اللے کا ذکر ُ
اور بولی ۔۔۔ اگر اللہ الیا ہے ۔۔۔تو ۔۔۔پھر ٹھیک ہے اور پھر کہنے لگی تم کو تو پتہ ہی ہے کہ
اللہ کا رس ُگال ویسے بھی بڑے مزے کا ہوتا ہے ۔۔ کھا کے مزہ آ جاتا ہے پھر اچانک اسے
@
کچھ یاد آ گیا اور وہ میری طرف دیکھ کر چپ ہو گئی ۔۔۔ تو باجی بولی ۔۔۔ اس سے شرمانے کی
کوئی ضرورت نہیں میری جان ۔۔۔۔یہ میری بھابھی ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔ تمھاری طرح ایک راز دار
سن کر رضیہ ان کی طرف جھک گئی اور دوست ۔۔۔ اور بہن بھی ہے صنوبر باجی کی بات ُ
ﺷﺎه
سرگوشی میں کہنے لگی ۔۔۔ ۔۔۔ پھر تو تم نےاس کے ساتھ بھی وہی کچھ کیا ہو گا ۔۔۔جو اپنی راز
سندار دوست اور ۔۔۔۔ بہن کے ساتھ کرتی ہو ۔۔ اور پھر دونوں ہنسے لگیں اور میں یہ سب کچھ ُ
کر اور سمجھ کر بھی بظاہر انجان رہی ۔۔۔۔۔اور خاموشی سے ان کے پیچھے پیچھے چلتی رہی
۔۔۔کھانا کھانے کے بعد ہماری بہت اچھی گپ شپ ہوئ ۔۔۔اور پھر کچھ دیر رہنے کے بعد ہم واپس
گھر آ گئے ۔۔
ﺟﯽ
اسی طرح اگلے چند دن کوئی خاص واقعہ نہیں پیش آیا جو تحریر کیا جا سکے۔۔۔۔ ایک دن
ب معمول کہیں چلی گئی اور دوپہر کو واپسکا زکر ہے کہ باجی صنوبر۔۔۔خان جی کے ساتھ حس ِ
آئی تو بڑی خوش اور پُرجوش لگ رہی تھی چنانچہ میں نے ان سے پوچھا ۔۔۔کہ کیا بات ہے باجی
سن کر اس نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور پھر آج بڑے ُموڈ میں لگ رہی ہو ۔۔ میری بات ُ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
بڑے شکوہ آمیز لہجے میں کہنے لگیں دیکھ لو جانی ۔۔۔تم نے تو کوئی مدد نہیں کی لیکن پھر
بھی میں اپنے مقصد میں کامیاب ہو گئی ہوں ۔۔۔ تو میں نے ان سے پوچھا کون سا مقصد اور کونسی
کامیابی کچھ بتائیں گی تو پتہ چلے گا نا ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔تمھارا اللہ میرے ساتھ اوپن
ہو گیا ہے تو میں نے کہا وہ کیسے ؟ تو وہ میری طرف دیکھ کر مست لہجے میں بولی ۔مرینہ
ا
میری جان آج میرےدل کی تمنا پوری ہوئی ہے اور۔۔۔ میرا کام ہو گیا ہے ۔۔۔ تو میں نے باجی
ﺳﺗﺎ
سے پوچھا کہ باجی ۔۔ کچھ تفصیل بھی بتاؤ گی ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ سوری میں نے تم کو بتایا
نہیں ۔۔۔صبع میں گئی تو میں خان جی کے ساتھ تھی ۔۔۔ لیکن پھر چونکہ میں نے بینک میں جانا
تھا اور میرا بینک اللے کے آفس کے قریب ہی ہے اس لیئے آج صبع میں اللے کے ساتھ بینک
میں گئی تھی ۔۔۔ اور مجھے یاد نہ رہا تھا کہ آج یکم تاریخ ہے اور تم تو جانتی ہو کہ یکم تاریخ
ﻧﯽ
کو سارے رٹائرڈ لوگ پینشن لیتے ہیں ۔۔۔ پھر کہنے لگی حاالنکہ مجھے اس بات کا علم تھا
کہ ہر یکم کو یہ ریٹائرڈ لوگ پنشن لینےکےلیئے آتے ہیں لیکن پتہ نہیں کیوں یہ بات میرے
جم غفیر تھا ۔۔ اور یہ لمبی سی الئین
ذہن سے نکل گئی تھی وہاں جا کر دیکھا تو لوگون کا ایک ِ
ﺟﯽ
لگی ہوئی تھی ۔۔ خیر میں بھی الئین میں لگ گئی ۔۔۔ اللہ بھی میرے ساتھ ساتھ تھا ۔۔۔ الئین چلتی
چلتی جب ٹوکن والے کے پاس پہنچی تو وہاں مرد و زن اکھٹے کھڑے تھے اور دھکے پہ دھکہ
لگ رہا تا ۔۔۔ چنانچہ میں نے اسے کہا کہ وہ میرے پیچھے کھڑا ہو جائے کیونکہ میرے پیچھے
کافی مرد حضرات کھڑے تھے ۔۔۔ یہ دیکھ کر اللہ میرے پیچھے کھڑا ہو گیا اور ۔۔۔ پھر تھوڑی
@
ہی دیر بعد ایک دھکا لگا تو اللہ کھسک کر عین میرے پیچھے آ گیا ۔۔۔ اور پھر اگال دھکا میں
نے خود مارا اور اللے کے ساتھ اپنی گانڈ لگا دی ۔۔۔ تو میں ان سے کہا کہ باجی آپ کو ایسا
کرتے کسی نے دیکھا نہیں ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ ۔۔۔ ارے ایک تو ہمارا بینک بھی چھوٹا سا ہے
اس پر آج رش بھی کچھ ضرورت سے زیادہ تھا اور اتنے لوگوں میں کیا پتہ چلتا ہے کہ کون کیا
ﺷﺎه
کر رہا ہے ۔۔ ۔۔۔ اور پھر کہنے لگی فرض کرو اگر پتہ چل بھی جائے تو۔۔۔۔۔پھر اس نے مجھے
آنکھ ماری اور بولی ۔۔۔۔۔ اس کی پرواہ بھی کس کو تھی ؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔ اور پھر کہنے لگی جب میں
نے مسلسل اپنی گانڈ اللے کے ساتھ لگانی شروع کر دی تو وہ سمجھ گیا۔۔ تمہیں پتہ ہی ہے کہ ہم
دونوں میں آگ تو کافی دنوں سے لگی ہوئی تھی ۔۔لیکن موقعہ نہ مل رہا تھا ۔۔۔اور اب جو میں
نے اللے کو موقعہ دیا تو ۔۔پھر اس نے بھی اپنا لن کھڑا کیا اور میرے گانڈ کے چھید میں رکھ
ﺟﯽ
دیا ۔۔۔ اس نے بس چند سکینڈ کے لیئے اپنا لن میری گانڈ میں پھنسایا لیکن یقین کرو ۔۔۔ یہاں تک
آتے آتے اسے کئی سال لگ گئے ۔۔۔ پھر وہ کہنے لگی ۔۔۔ جب مجھے یقین ہو گیا کہ وہ جان
بوجھ کر اپنا لن میری گانڈ سے لگا رہا ہے تو میں نے اسے اپنے پاس کھڑا ہونے کے لیئے کہا
اور وہ کیش کاؤنٹر کے پاس میرے ساتھ لگ کر کھڑا ہو گیا اور میں نے ہولے سے اُس کا لن
اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے باجی یک دم مزید پُر جوش سی ہو گئی اور بولی ۔
ا
ٹوکن نمبر پکارا ۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ پیسے لیکر جب ہم گاڑی میں بیٹھے تو کافی دیر تک ہم
ﺳﺗﺎ
دونوں خاموش رہے وہ ابھی بھی جھجھک رہا تھا چنانچہ اس کی جھجھک دور کرنے کے لیئے
میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور اسکی گود میں رکھ دیا اوراور پھر ۔۔۔۔ آہستہ آہستہ ہاتھ آگے بڑھایا ۔۔اس
نے اپنی ٹانگیں بند کرنے کی بڑی کوشش کی لیکن میں نے ۔۔۔اس کا لن پکڑ ہی لیا ۔۔۔یہ دیکھ کر
پہلی دفعہ اس نے اپنی خاموشی توڑی اور کہنے لگا ۔۔۔ یہ کیا کر رہی ہو باجی ؟؟ ۔۔آپ میری
ﻧﯽ
سگی بڑی بہن ہو ۔۔۔ تو میں نے ترت ہی جواب دیا کہ یہ جو تم بینک میں میرے ساتھ کر رہے
سن کرتھے میرے سگے بھائی وہ کیا تھا ۔۔ ؟؟ ۔۔۔ کیا وہ بھائیوں واال کام تھا ؟؟ ۔۔۔۔ میری یہ بات ُ
وہ شرمندہ ہو گیا ۔اور بوال ۔۔۔وہ سوری باجی ۔۔۔ وہ تو بس ۔۔۔ لیکن میں نے اس کی بات نہیں سنی
ﺟﯽ
اور اس سے کہا کہ گاڑی کو ایک سائیڈ پر روک لو ۔۔۔ اور اس نے ایک سائیڈ پر گاڑی کھڑی
کر لی ۔۔۔ تب بنا کوئی بات کیئے میں اس کی طرف جھک گئی اور اس کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ
رکھ دیئے ۔۔۔ اوراس کو ایک ذبردست سی کس دی۔۔اور اس سے بولی ۔۔۔ اللے مجھے تمھارا
۔۔۔جسم ۔۔۔چاہیئے ۔۔میری بات سمجھ کر وہ بڑا ۔۔۔۔ حیران ہوا اور ۔۔۔ کہنے لگا ۔۔ باجی ۔۔۔ آپ نے
@
پہلے کبھی ایسی ۔۔۔ بات نہیں کی ۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا اب تو کر لی ہے نا ۔۔۔۔ اور دوبارہ اس
کی طرف جھک گئی ۔۔۔۔۔اور پھر ہم کافی دیر تک کسنگ کرتے رہے ۔اور اس کے بعد جب
ہمارا دل بھر گیا تو اس نے گاڑی سٹارٹ کی ۔۔ اور پھر ابھی ابھی وہ مجھے باہر اتار کر چال
گیا ہے ۔۔۔ پھر صنوبر کہنے لگی ۔۔۔۔۔ یار کیا بتاؤں بینک سے لیکر ابھی تک میری پھدی مسلسل
ﺷﺎه
پانی چھوڑ رہی ہے اور پھر انہوں اپنی شلوار تھوڑا نیچے کی اور بولی نہیں یقین تو خود چیک
سن کر میں ان کی سن کر میں بھی گرم ہو گئی تھی ۔۔ چنانچہ ان کی آفر ُ کر لو ۔۔۔ ان کی بات ُ
ٹانگوں کے بیچ بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔اور ان سے اپنی ٹانگیں مزید کھلی کرنے کو کہا اور اس کے ساتھ
ہی ان کی شلوار بھی اتار دی ۔۔۔ اور پھر جب میری نظر ان کی پھدی پر پڑی تو اس سے پانی
بہہ بہہ کر ان کی ٹانگوں تک آ رہا تھا ۔۔۔ چنانچہ میں نے اپنی زبان نکالی اور ان کی چوت سے
ﺟﯽ
میری زبان نے جب ان کی پھدی کو اچھی طرح سے چاٹ کر صاف کر دیا تو میں نے ان
سے کہا کہ ۔۔۔ ہاں باجی اب ان کا لینے کا کب ارادہ ہے ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔دیکھو ۔۔۔ میں تو
بڑی اتاؤلی ہو رہی تھی لیکن اس نے مجھ سے ایک دو دن مانگ لیئے ہیں ۔۔۔ اس کےبعد ہم
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
سیکس کریں گے ۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ آپ کہاں پر سیکس رو گے تو وہ کہنے لگی تم بتاؤ
کہاں کرنا ہے؟؟؟؟ تو میں نے کہا یہاں اپنے کمرےمیں کر لیں نا ۔۔۔ تو وہ میری طرف دیکھ کر
کہنے لگی ۔وہ کیوں ؟ تو میں نےکہا کہ وہ اس لیئے کہ میں آپ کا الئیو شو دیکھنا چاہتی ہو ں
سن کر وہ فکر مندی سے کہنے لگیں اتنی مشکل سے وہ راضی ہو ا ہے ۔۔تمھارا کیا ۔۔۔ میری بات ُ
ا
خیال ہے تمھارے سامنے سیکس کرنے پر وہ راضی ہو جائے گا ۔۔؟ تو میں نے ان کو جواب
ﺳﺗﺎ
دیا ۔۔ تو میں نے ان کو جواب دیا کہ کون کم بخت کہہ رہا ہے کہ آپ ان سے اس بات کی اجازت
لیں ۔۔۔ تو وہ سوالیہ نظروں سے میری طرف دیکھ کر بولی ۔۔ کھل کر بتاؤ کہ تم کیا چاہتی ہو ۔۔۔
تو میں نے ان سےکہا کہ جیسے دالور ۔۔۔ کو یہ پتہ ہوتا ہے کہ میں گھر ۔۔۔ میرا اتنا ہی کہنا تھا کہ
باجی نے مجھے ہاتھ کے اشارے سے روک دیا اور بولی ۔۔۔۔ بس بس ۔۔۔۔ میں سمجھ گئی ۔۔۔ اور
ﻧﯽ
پھر بولی ۔۔۔ اور تم کھڑکی کے راستے برا ِہ راست یہ فلم دیکھنا چاہتی ہو ؟ تو میں نے ہاں میں
سر ہال دیا ۔۔۔ تو وہ بولی ۔۔ آئیڈیا تو بُرا نہیں یار ۔۔۔۔پھر کہنے لگی ۔۔ او کےمیں کوشش کروں
گی ۔۔۔ اور پھر شلوار پہن کے اپنے کمرے میں چلی گئی اور میں ۔۔۔ یہ سوچ سوچ کر پاگل ہونے
ﺟﯽ
لگی کہ میں زندگی میں پہلی دفعہ ایک بہن کو اپنے سگے بھائی سے چدواتے ہوئے دیکھوں گی
۔۔۔اس کا لن چوستے ہوئے دیکھوں گی ۔۔۔ اس سوچ کا آنا تھا کہ نیچے سے میری چوت نے دھڑا
دھڑ ۔۔پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔ اور میں نے نیچے ہاتھ لگا کر دیکھا تو ۔۔۔ میری شلوار ۔۔۔چوت
کے ساتھ چپکی ہوئی تھی اور۔۔۔ اس سے پانی ِرس ِرس کر باہر نکل رہا تھا ۔۔۔
@
یہ اس سے اگلے د ن کی بات ہے آج پھر باجی خان جی کے ساتھ رضیہ کو ملنے چلی گئی
تھی اور میں گھر کے کام کاج کر رہی تھی کہ دروازے پر دستک ہوئی اور میں س اسی
دستک کا انتظار کر رہی تھی کیونکہ یہ کاشف کے آنے کا ٹائم تھا اور آج میرا خیال تھا کہ اس
ﺷﺎه
کے ساتھ کچھ موج مستی کی جائے چنانچہ میں نے سارا کام چھوڑا اور باہر بھاگی گئی ۔۔۔ اور
بڑے اچھے ُموڈ میں دروازہ کھوال تو ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر حیران رہ گئی کہ سامنے کاشف نہیں بلکہ
ہاتھ میں چاٹ لیئے اللہ کھڑا تھا .
ﺟﯽ
یوں اللہ کو اپنے سامنے دیکھ کر میں تو حیران ہی رہ گئی ۔۔۔ اور اس سے قبل کہ میں کچھ
کہتی ۔۔۔وہ مسکراتے ہوئے کہنے لگا ۔۔۔۔۔۔ حیران ہی ہوتی رہو گی یا مجھے اندر آنے کا راستہ
سن کر میں شرمندہ سی ہو گئی اور انہیں اندر آنے کا راستہ دے کر بھی دو گی ؟ اس کی بات ُ
بولی ۔۔۔ آ۔۔آ ؤ نا ۔۔۔اور وہ اندر آ گیا اور دروازہ بند کر کے میرے سامنے کھڑا ہو گیا اور بوال۔۔۔
مرینہ ۔۔۔ میں تم سے ایک بہت ضروری بات کرنے آیا ہوں ۔۔ تو میں نے کہا کہئے؟ تو وہ کہنے
ا
سن کر ا ُ ن کاکو تنگ کرنے کے لیئے کہا کہ جی صنوبر باجی کے ساتھ کیا ۔۔۔؟ میری بات ُ
ﺳﺗﺎ
سرخ ہو گیا اور ۔۔۔ وہ ۔۔۔ میری طرف دیکھ کر اپنے ہونٹ چباتے ہوئے بولے ۔۔۔ وہ ۔۔۔صنوبر چہرہ ُ
سن کر مین باجی کے ساتھ سیکس والی بات ۔۔۔ان کی منہ سے صنوبر باجی کے ساتھ سیکس کا ُ
ویسے ہی گرم ہو گئی اور بولی ۔۔۔ تو کیا آپ نے صنوبر باجی کے ساتھ سیکس کر بھی لیا ؟ تو
وہ کہنے لگے ۔۔نہ نہ نہیں ۔۔۔مرینہ ۔۔۔ لیکن اب کر لیں گے ۔۔۔ اور میں تم سے یہی کہنے آیا تھا ۔
ﻧﯽ
تو مین نے کہا کہاں پر ہو گا آپ لوگوں کا ملن ؟ ۔۔۔ تو وہ بولے ۔۔۔ میرے پاس ایک پرائیویٹ جگہ
سن کر میں نے ان کو آنکھیں نکالتے ہے میرا ارادہ ہے کہ ان کو وہاں لے جاؤں ۔۔ ان کی بات ُ
ہوئے کہا ۔۔۔ جی نہیں شرط کے مطابق آپ نے ان کو میرے سامنے ۔۔۔ تو وہ کہنے لگے یہی وہ
ﺟﯽ
بات ہے ۔۔ جو میں تم سے طے کرنے آیا تھا ۔۔۔ تو میں نے کہا جی کریں طے تو وہ کہنے لگے
میں کہہ رہا تھا کہ میں ۔۔۔ مجھ پر بھروسہ رکھو یار ۔۔ لیکن میں نے صاف انکار کر دیا اور ان
سے بولی ۔۔۔ جی نہیں جناب آپ نے یہ سب کچھ میرے سامنے کرنا ہے ۔۔۔ تو وہ بولے پر کیسے
؟ اور وہی بات کہی جو کل مجھ سے صنوبر باجی نے بھی کہی تھی یعنی کہ ۔۔ کیا ۔۔۔ صنوبر اس
@
بت پر راضی ہو جائے گی؟ اب میں ان کو کیا بتاتی کہ صنوبر باجی تو ۔۔۔ راضی تھی لیکن ۔۔۔ بتا
نہ سکی ۔۔۔ اور بس اتنا کہا کہ ۔۔۔ان کو بتانے کی ضرورت ہی کیا ہے ۔۔۔ اور پھر ان کے پوچھنے
پر میں نے وہ سارا پروگرام ان کو بتا دیا جو میں اور صنوبر بجی پہلے ہی طے کر چکیں تھیں ۔۔
لیکن ظاہر ہے یہ بات ان کو بتا ئی نہیں جا سکتی تھی ۔۔۔
ﺷﺎه
جب میں ان کو سارا پورگرام بتا اور سمجھا چکی ۔۔ تو بولے ٹھیک ہے میری جان جیسے
سن کر میں نے ٹھیک ہے اب آپ جائیں ۔۔۔ میں تم کہو گی بندہ ویسے ہی کرے گا ۔۔۔ ان کی بات ُ
نے یہ کہا اور وہاں سے جانے کے لیئے قدم بڑھا دیا ۔۔ انہوں نے مجھے جاتے دیکھ کر میری
ﺟﯽ
کالئی پکڑی اور بولے ۔۔۔ ایک منٹ مرینہ ۔۔۔ اور مجھے اپنی طرف کھینچا ۔۔۔ ان کے یوں کھینچنے
سے میں اُلٹے پاؤں ان کے پاس آ گئی اور نہوں نے میری بیک کو اپنے فرنٹ کے ساتھ چپکا لیا
۔۔ اچھا تو مجھے بھی بہت لگا لیکن میں جعلی نخرہ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ چھوڑیں نا ۔۔۔۔ یہ کیا
کر رہے ہیں ۔۔۔ تو وہ مجھے مزید اپنی طرف کھینچتے ہوئے بولے ۔۔۔۔۔ کچھ بھی نہیں کر رہا
سن کر میں نے اپنی گردن میری جان بس ۔۔۔ جاتے جاتے ایک چمہ تو دیتی جاؤ ۔۔۔ ان کی بات ُ
ان کی طرف گھو مائی اور بولی ۔۔۔ چمہ کس لیئے جی ؟ ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ انہوں
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
نے اپنے جلتے ہوئے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیئے ۔۔۔ اور میرے ہونٹ چوسنے لگے ۔۔۔ آہ ۔۔۔
مزہ سے میں بے حال ہو رہی تھی ۔۔۔ لیکن میں نے پھر جعلی نخرہ کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ اُف ۔۔
ایک تو آپ کو ہر وقت ۔۔یہی پڑی رہتی ہے ۔۔اب جاؤ بھی ۔۔تو وہ بڑے رومنیٹک لہجے میں بولے
۔۔۔جاتے ہیں جاتے پر ایک اچھی سی کس تو لے لیں آپ کی مرینہ جی ۔۔۔ اور پھر انہوں نے
ا
دوبارہ سے میرے ہونٹوں پر ہونٹ رکھے اور ۔۔۔ اس دفعہ ۔۔۔۔ اپنی زبان کو میرے منہ میں داخل
ﺳﺗﺎ
کرنے کی کوشش کی ۔۔ لیکن میں نے بڑی سختی سے اپنے دانتوں کو آپس میں مال دیا ۔۔ اور ان
کی زبان کو اپنے منہ کے اندر نہ جانے دیا لیکن وہ بھی ہمت نہ ہارے اور اپنی زبان سے مسلسل
اپنی ۔میرے ہونٹوں کو ٹھوکر مارتے رہے ۔۔ کچھ دیر تک ان کو تنگ کرنے کے بعد میں نے
تھوڑا سا منہ کھوال اور انہوں نے تیزی سے اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی ۔۔۔ اور میری
ﻧﯽ
زبان کو تالش کرنے لگے ۔۔ یہاں بھی کچھ دیر تک میں نے اپنی زبان اس سے چھپائے رکھی اور
پھر ۔۔۔۔ ان کا شوق دیکھ کر ۔۔ میں نے اپنی زبان کو ان کی زبان کے حوالے کر دیا ۔۔۔ جیسے ہی
ان کی زبان میری زبان سے ٹکرائی ۔۔۔تو اس کے ساتھ ہی میرے وجود سے ایک چنگاری سی
ﺟﯽ
نکلی ۔۔۔۔ اور ۔۔۔ مجھ پر شہوت نے حملہ کر دیا ۔۔۔ اور نہ چاہتے ہوئے بھی میں نے بڑی گرم
جوشی سے ان کی زبان کے گرد اپنی زبان کو لپیٹ لیا ۔۔۔ اور بھر پور طریقے سے ان کی کس
کا جواب دینے لگی ۔۔۔۔ ہماری زبانوں کے بوسے نے ہم دونوں میں ایک آگ سی بھر دی ۔۔۔ اور
پھر مجھے اپنی بیک پر ان کے لن کی فیلنگ ہونے لگیں ۔۔۔ جو آہستہ آہستہ اکڑ کر میری ہپس
@
میں گھسنے کی کوشش کرنرہا تھا ۔۔۔اور ان کا سخت پتھر لن ۔۔ اپنی گانڈ کے چھید میں محسوس
کرتے ہی ۔۔ میری پھدی نہ صرف تندور بن گئی بلکہ ایڈوانس میں پانی بھی چھوڑنے لگی ۔
اتنی زیادہ جزباتی کسنگ کے بعد ہم دونوں الگ ہوئے اور ۔۔۔ آمنے سامنے کھڑے ہو کر
ﺷﺎه
ایک دوسرے کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر دیکھنے لگے مجھے ان کی آنکھوں میں شہوت کے
ساتھ ساتھ محبت کا ایک دریا بھی بہتا ہوا نظر آ رہا تھا کیونکہ وہ قربان ہو جانے والی نظروں
سے میری طرف دیکھ رہے تھے ۔۔۔ کچھ دیر کے بعد میں نے ان سے کہا ۔۔۔ اللہ جی کسنگ ہو
سن کر وہ ہنس پڑے ۔۔۔ ابھی تو صرف کسنگ ہوئی ہے میری جان گئی ۔۔اب آپ جاؤ ۔۔۔۔ میری بات ُ
ﺟﯽ
۔۔باقی کا سارا کام تو ابھی باقی ہے ۔۔۔۔ تو میں نے بڑے الڈ سے ان کو آنکھیں نکالتے ہوئے کہا
۔۔۔ دیکھیں آپ نے صرف کسنگ کی بات کی تھی ۔۔۔ تو وہ بولے چلو ۔۔۔وہ بھی بات کر لیتے ہیں
۔۔۔ اور پھر انہوں نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا ۔۔۔ اور پھر میرے مموں پر ہاتھ مار کر بولے
۔۔۔مرینے ۔۔۔ تمھارا دودھ پی لوں؟ تو میں نے اٹھالتے ہوئے جواب دیا۔۔۔۔مجھے کوئی دودھ نہیں
آتا جناب ۔۔۔تو وہ بولے تم بس اجازت دے دو ۔۔۔۔ نکال میں خود لوں گا ۔۔ اور پھر میرے جواب کو
انتظار کیئے بغیر انہوں نے میری قمیض کو اوپر کیا اور ۔۔۔ میرا ایک مما ننگا کر دیا ۔۔۔۔۔ اور اس
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
پر ہاتھ پھیرتے ہوئے بولے ۔۔۔ مرینے ۔۔۔ تمھارے نپلز بڑے اکڑے ہوئے ہیں اور ۔۔۔پھر انہوں نے
سر جھکایا اور میرے نپلز کو اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔۔۔ اور ان کو چوسنے لگے ۔۔اُف ف فف ف
فف ۔۔۔ نپل چوسنے کا انداز اس ظالم اک اتنا سیکسی تھا کہ میں ۔۔نیچے سے پانی پانی ہو گئی ۔۔۔اور
آہیں بھرنے لگیں ۔۔ انہوں نے ایک لمحے کے لیئے میری ممے سے منہ ہٹایا اور بولے ۔۔۔۔ کیا ہوا
ا
مرینہ ۔۔۔ تو میں نے ان کو سر سے پکڑ کر کہا ۔۔۔ تمھارا سر ہوا ہے اور ان کے منہ میں اپنے
ﺳﺗﺎ
نپل ڈال دیا۔۔۔۔
ایک کے بعد ایک نپلز چوسنے کے دوران انہوں نے اپنی ایک نگلی میری چوت پر رکھی
ﻧﯽ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر ایک دم ۔۔۔۔وہاں سے ہٹا لی اور میری طرف دیکھ کر بولے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ تمھارے نیچے
تو سیالب آیا ہوا ہے تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔۔۔۔ یہ سیالب بھی تو آپ ہی الیا ہوا ہے ۔۔۔ میری بات
سن کر انہوں نے ادھر ادھر دیکھا اور بولے کیا سارا کام یہاں ہی کرنا ہے ؟ اور پھر انہوں نے
ﺟﯽ ُ
مجھے بازو سے پکڑا اور ہمارے کمرے کی طرف چلنے لگے تو میں نے ان سے کہا کہاں لے
جا رہے ہو ؟ تو وہ کہنے لگے ۔۔۔تمھارے کمرے میں لے جا رہا ہوں ۔۔ جہاں جا کر میں تم سے
خوب پیار کروں گا ۔۔۔۔تو میں نے ان سے کہا نہیں میرے کمرے میں نہیں ۔۔۔ تو وہ حیران ہو کر
سن رک میں نے ان کو بازو سے پکڑا اور صنوبر باجی کہنے لگے تو پھر کہاں ؟ ان کی بات ُ
کے کمرے کی طرف لے جاتے ہوئے بولی ۔۔۔ یہ جگہ بہت محفوظ ہے ۔۔۔
@
کمرے میں پہچتےا ہی ۔۔۔۔ انہوں نے مجھے اپنے بازؤں میں اُٹھا لیا اور ۔۔۔۔پھر بستر پر جا
کر گرا دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر خود میرے اوپر گر گئے اور میرے ہونٹوں کو اپنے ہونٹوں میں لیکر
ﺷﺎه
چوسنے لگے۔۔ ان کا طاقتور لن میری دونوں رانوں کے بیچ میں گھسا ہوا تھا اور ۔۔ان کے لن کا
موٹا سا ہیڈ میری گیلی چوت کے لبوں پر دستک دے رہا تھا ۔۔ میرے ہونٹوں کو چوسنے کے
کچھ دیر بعد وہ نیچے آئے ۔۔۔ اور پھر انہوں نے اپنے کھردرے ہاتھوں میں میرے دونوں ممے
پکڑ لیئے اور اسے ہلکا ہلکا دبانے لگے ۔۔۔ان کے ممے دبانے سے میری تو جان ہی نکل گئی
سن کراور میں تڑپنے لگی ۔۔۔۔ اور میرے منہ سے ویسے ہی سیکسی آوازیں نکلنے لگیں جن کو ُ
ﺟﯽ
وہ مزید جوش میں آ گئے ۔۔۔ اور اب انہوں نے میرے ممے چھوڑ دیئے اور میری شلوار کا آزار
بند کھولنے لگے ۔۔۔۔ اور ۔۔ آزار بند کھولنے کے بعد انہوں نے میری طرف دیکھا اور میں نے
بنا کوئی بات کیئے اپنے ہپس اوپر کو اُٹھا دیئے اور انہوں نے میری شلوار اتار کر سائیڈ پر
پھینک دی ۔۔۔ اور میری پُر گوشت رانوں پر ہاتھ پھیرنے لگے۔۔۔۔۔۔ان کے یوں ہاتھ پھیرنے سے
بارود سا بھرنے لگا ۔۔۔ اور میرے مجھے اتنی لزت ملی کہ ۔۔۔ جس سے میرے سارے وجود میں ُ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
اندر سیکس کی طلب شدید سے شدید تر ہو گئی ۔۔لیکن میں منہ سے کچھ نہ بولی اور ان کے
کھردرے ہاتھوں کو اپنی نرم رانوں پر پھیرتے ہوئے دیکھنے لگی ۔۔۔ کچھ دیر بعد وہ مزید نیچے
جھکے اور میری چوت کو بڑے غور سے دیکھنے لگے ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی انہوں نے اپنی
ایک موٹی سی انگلی کو میری تنگ چوت میں ڈال دیا اور اسے گھماتے ہوئے بولے ۔۔۔ مرینہ ۔۔۔
ا
تمھاری چوت بہت تنگ ہے ۔۔۔ اور پھر وہ مزید نیچے جھکے اور ۔۔۔اور ۔۔ میری چوت پر اپنی
ﺳﺗﺎ
زبان رکھ دی ۔۔۔ اور بڑے سکون کے ساتھ میری چوت کو چاٹنے لگے ۔۔۔۔ چوت کے جس جس
حصے پر ان کی زبان پھیرتی ۔۔۔وہاں سے مجھے ایسا لگتا گویا ۔۔۔ کسی نے آگ بھر دی ہو ۔۔اور
میں ان کی زبان کے نیچے اچھلنے لگتی لیکن انہوں نے اس کا کوئی نوٹس نہ لیا اور مری چوت
کو چاٹتے رہے ۔۔ جس سے میں مزے کی آخری حد تک پہنچ گئی ۔۔۔ اور میری چوت نے پانی
ﻧﯽ
چھوڑ دیا ۔۔۔ میری چوت سے ڈھیر سار ا پانی نکلتے ہوئے دیکھ کر ۔۔۔وہ ایک دم ُرک گئے اور
بڑے پیار سے بولے ۔۔ مرینہ ۔۔ تم نے ابھی سے چھوٹنا شروع کر دیا ہے جبکہ ابھی تو پیار کے
بہت سے مراحل باقی ہیں ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا اللے ۔۔۔ تم میرے چھوٹنے کی فکر نہ کرو۔۔
ﺟﯽ
میری چوت کو چاٹنا جاری رکھو۔۔۔ میری بات سں کر انہوں نے دوبارہ سے میری چوت پر اپنی
زبان رکھی اور اپنی درمیانی انگلی کو میری چوت میں داخل کرتے ہوئے کہنے لگے ۔۔۔ یقین
کرو مرینے میں نے بہت کم چوتیں چاٹی ہوں گی ۔۔ اور ان میں مجھے لزت بھی ملی ہے لیکن
جان ۔۔۔جو لزت تمھاری چوت چاٹ کے مل ہے یقین کرو ۔۔۔ کسی اور میں اتنی لزت نہیں ملی
@
سن کر ظاہر میں بہت خوش ہوئی اور ان کا سر پکڑ کر اپنی چوت پر دبا دیا ۔۔ اب ان کی بات ُ
انہوں نے میری چوت کا دانہ اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگے ۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ف۔ اتنا
مزہ مجھے زندگی میں کسی اور سے نہیں مال تھا کہ جتنا مزہ ۔۔۔۔ اللہ دے رہا تھا ۔۔۔ خیر انہون
نے کافی دیر تک میری چوت چاٹی اور اس دوران میں کوئی تین چار دفعہ ڈسچارج ہوئی ۔۔۔ پھر
ﺷﺎه
وہ اُٹھے بولے چل اب تیری باری اور بستر پر لیٹ گئے ۔۔۔
سن کر میں اٹھی اور ان کے اوپر آ گئی اور ان کے گالوں پر بوسہ دیتے ہوئے ان کی بات ُ
نیچے کی طرف آنے لگی ۔۔۔۔پھرمیں نےان کی چھاتی کے چھوٹے چھوٹے نپل چاٹے ۔۔۔ میری
ﺟﯽ
زبان کا لمس پا کر وہ تھوڑے سے کسمائے ۔۔۔ اور میں اپنی زبان کو نپل سے لیکر اور نیچے
آ گئی اور پھر آہستہ آہستہ ۔۔۔ ان کی ٹانگوں کی طرف آنے گی ۔۔۔۔ نیچے ۔۔۔اور نیچے ۔۔۔۔ اور پھر
میری زبان۔۔۔۔ ان کے ۔۔۔۔ اکڑے ہوئے لن کی طرف آ گئی ۔۔ لیکن میں نے ان کے لن کو کچھ نہ
کہا اور ان کی بھاری بھاری تھائیز پر اپنی زبان پھیرنے لگی ۔۔۔ساتھ ساتھ ۔۔۔ان کے بالز کو
بھی پکڑ کو ان پر مساج کرنے لگی ۔۔۔۔میرے اس عمل سے وہ تڑپنے لگے ۔۔۔۔ اور پھر ان کی
ہمت جواب دے گئی اور بولے ۔۔۔۔۔۔ مرینے میرے لن کی طرف بھی آ۔۔۔۔ نہ ۔۔۔۔۔تو میں نے ان
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
سےکہا ۔۔۔دھیرج رکھیں جناب کہ ابھی اس کی باری نہیں آئی ہے ۔۔۔اور ا ن کی رانوں پر زبان
آخر کاران کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا ۔۔۔وہ اپنے بستر سے اُٹھے اور پھر پھیرتی رہی ۔۔۔۔۔۔ ِ
اور اپنے لن پر میرا منہ رکھتے ہوئے بولے ۔۔۔مرینہ ۔ انہوں نے مجھے بالوں سے پکڑا
اس کا کچھ کر ۔۔۔ اور پھر میں نے ان کے کھمبے کی طرح کھڑے ۔۔۔اور ۔۔ اکڑے ہوئے لن کو
ا
اپنی مٹھی میں پکڑا اور ۔۔۔ اسے آگے پیچھے کرنے لگی ۔۔۔ مجھے اپنا لن پکڑ کر اس سے کھیلتے
ﺳﺗﺎ
ہوئے دیکھ کر وہ تھوڑے مطمئن ہوئے اور دوبارہ بستر پر لیٹ گئے اور مجھے لن چوستے ہوئے
د یکھنے لگے ۔۔۔ ا ب میں نے ایک نظر ان کے موٹے اور بڑے سے لن کو دیکھا اور پھر اپنی
زبان نکال کر ان کے ٹوپے پر پھیرنے لگی ۔۔۔ اور پھر اپنی زبان کو وہاں سے نیچے التے ہوئے
ان کے سارے لن کو چاٹنے لگی ۔۔۔۔ مجھے معلوم تھا کہ ابھی وہ میری زبان کی تاثیر سے جل
ﻧﯽ
بن مچھلی کی طرح تڑپنے لگیں گے ۔۔۔ اور پھر ایسا ہی ہوا ۔۔ جیسے جیسے میں اپنی زبان کو
ان کے موٹے لن کے ارد گرد پھیرتی ۔۔۔ پہلے تو وہ گہرے گہرے سانس لینے لگے پھر ۔۔آہستہ
آہستہ ان کے منہ سے سسکیوں کی آوازیں نکلنے لگیں ۔۔۔آہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔۔اُفف۔۔ف۔ف۔ف۔ ۔۔ام م م۔۔
ﺟﯽ
ادھر میں نے ان کا لن اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگی ۔۔۔ ان کے لن سے کافی تعداد میں
نمکین سا پانی نکل رہا تھا جسے میں ساتھ ساتھ چاٹتی گئی اور ان کے لن کو چوسنا جاری رکھا
۔۔۔۔ ان کے لن کو منہ میں لیئے ابھی کچھ ہی دیر ہوئی تھی ۔۔ کہ اللے کی ہمت جواب دے گئی اور
اچانک ہی وہ بستر سے اُٹھا اور مجھے نیچے لیٹنے کو کہا تو میں نے ان سے بولی ۔۔۔ ابھی تھوڑا
@
اور چوسنے دو نا۔۔۔ تو وہ کہنے لگا ۔۔۔۔ جی تو میرا بھی چاہتا ہے کہ تم میرے لن کو مزید چوسو
۔۔۔ لیکن۔۔۔۔ بس تم لیٹ جاؤ ۔۔۔ان کے کہنے پر میں بستر پر لیٹ گئی اور وہ میرے اوپر آ گئے ۔۔۔
اور پھر وہ میری ٹانگوں کے بیچ آ گئے اور میری دونوں ٹانگوں کو اپنے کندھے پر رکھا اور
۔۔۔ میری طرف دیکھتے ہوئے اپنے لن کے ہیڈ پر تھوڑا سا تھوک لگا کر اسے گیال کیا اور پھر
ﺷﺎه
۔۔۔۔پھر اس ہیڈ کو میری چوت پر رکھ کر بڑے ہی جزباتی انداز میں بولے ۔۔۔ مرینے ۔۔۔ میں تمھاری
مارنے لگا ہوں ۔۔۔ تو نیچے سے میں نے ان کو کہا ۔۔۔۔ مار ۔۔ نا میری جان۔منع کس نے کیا ہے
سن کر ۔۔اور پھر اس سے بھی سیکسی انداز میں بولی ۔۔۔ ۔۔ میری چوت کو مار ۔۔۔۔ نہ ۔۔۔میری بات ُ
انہوں نے اپنا لن جو کہ پہلے سے ہی میری چوت کے لبوں پر ایڈجسٹ کیا ہوا تھا ۔۔۔ ایک دھکہ
مارا ۔۔۔۔ اور ان کا لن پھسلتا ہو ا میر تنگ چوت میں چال گیا۔۔۔۔ جیسے ہی ان کا لن میری چوت
ﺟﯽ
مزے کی ایک تیز ۔۔لہر اُٹھی ۔۔۔۔ اور میری گیلی چوت کی دیواروں سے پانی نکل نکل کر
اسے مزید گیال کرنے لگا ۔۔۔آہ۔۔۔ان کے طاقتور دھکوں نے میرا انگ انگ ہال کر رکھ دیا ۔۔۔
اور میں ان کے دھکے کھاتے ہوئے۔۔۔۔ ان سے ایسا کرنے کےلیئے مزید کی رٹ لگانی لگی ۔۔۔۔
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
مجھے اتنا مزہ آ رہا تھا ۔۔۔ ہکہ مجھے ہوش ہی نہ تھی کہ میں ان سے کیا کہہ رہی ہوں ۔۔۔ میں ان
سے بول رہی تھی کہ ۔۔۔۔ جان ن ن ن ن ن ن۔۔۔سس۔۔۔س۔سس۔۔س۔۔ اور ذور سے دھکے مار ۔۔۔۔
میری چوت پھاڑ دے ۔۔۔ مار مار ۔۔۔۔ اور وہ میری لزت بھری باتیں سن سن کر مزید مشتعل ہو
جاتا اور خوب جم کر میری چودائی کر تا۔۔۔ اس طرح انہوں کافی سارے سٹائلز بنا کر میری
ا
چوت کو خوب مارا ۔۔۔۔لیکن مجھے سب سے ذیادہ مزہ ۔۔۔ ڈوگی سٹائل میں چودوانے پر آیا ۔۔۔ اور
ﺳﺗﺎ
یہ سب سے آخری پوز تھا جو انہوں نے مجھ سے بنوایا ۔۔۔ ان کے کہنے پر جیسے ہی میں ڈوگی
سٹائل میں ہوئی انہوں نے پیچھے آکر میری چوت میں اپنا بڑا سا اور مضبوط لن ڈاال اور پھر
۔۔۔۔ طاقتور گھسوں سے میری چوت کو بار بار چھوٹنے پر مجبور کر دیا ۔۔۔ اس طرح مرے میں
نہ صرف میری بلکہ ان کی بھی لزت آمیز سسکیاں گونجتی رہیں ۔۔۔ اور پھر وہ وقت بھی آ گیا
ﻧﯽ
جب میں نے محسوس کر لیا کہ ۔۔۔اللہ اب جانے واال ہے ۔۔۔۔ اور عین اسی لمحے اللہ نے ۔۔ مجھے
سن کر بتایا ۔۔۔۔ مررررینہ نہ نہ نہ۔۔۔۔۔۔ میں ۔۔۔ جانے واال ہو ں۔۔۔ اور ان کی یہ لزت آمیز بات ُ
یکایک میری چوت کی دیواروں نے ان کے لن کے گرد گھیرا ڈال دیا اور پھر میری چوت
گھسے
ﺟﯽ
کے سارے ٹشو ز نے ان کو لن کو بڑی سختی سے پکڑ لیا ۔۔۔اور ۔وہ آخری آخری
مرنے لگے ۔۔۔۔۔۔اور ۔۔ پھر اس کے بعد انہوں نے ایک لمبی سے ۔۔۔۔اوہ ۔۔ کی اور واضع طور
پر میں نے ان کے لن کا شاور اپنی چوت میں گرتا ہوا محسوس کیا ۔۔ جہاں جہاں ۔۔۔ان کی منی
گرتی ۔۔ مجھے ایسا لگتا کہ جیسے کسی نے میری جلتی ہوئی چوت پر ۔۔۔۔ ٹھنڈا پانی ڈال دیا ہوا۔۔۔
@
اور میں اور میری چوت۔۔۔ شانت ہوتی گئیں ۔۔۔مزے سے میری آنکھیں بند ہو گئیں ۔۔۔ اور میں مزے
کے سمندر میں ڈوب گئی ۔۔۔۔۔۔
اسی رات کا زکر ہے کہ کھانے کے بعد میں اور باجی گندے برتن سمیٹ کر جب
کچن میں پہنچیں تو ۔۔۔ باجی نے مجھ سے کہا کہ ۔۔۔تیار ہو جاؤ مرینہ۔۔۔۔ کل تم سیکس کی دنیا کے
ﺷﺎه
سن کر میں بڑی خوش ہوئی اور دو مشہور لوگوں کی چودائی الئیو دیکھنے والی ہو ۔۔۔ ان کی بات ُ
بولی ۔۔۔۔۔۔ تو آخر ۔۔۔ آپ اللے کا ۔۔۔ لینے میں کامیاب ہو گئیں ۔۔۔ تو وہ مسکرا کر کہنے لگیں ۔۔۔ ہاں
۔کل ۔میں اس عالقے کے سب سے زیادہ سیکسی مرد۔۔۔اور اپنے سگے بھائی کے نیچے لیٹنے
والی ہوں ۔۔ اور میں نے ان سے کہا اپنا وعدہ یاد ہے نا باجی ؟ تو وہ کہنی لگی ۔۔۔ کیسے بھول
سکتی ہوں جانی ۔۔۔ جو بھی ہو گا سب تیرے سامنے ہو گا۔۔۔ باجی کی باتیں سن کر جوش سے
ﺟﯽ
میرا رنگ الل ہو گیا ۔۔۔ اور ۔۔۔۔ پتہ نہیں کیوں میں باجی سے لپٹ گئی اور پھر ہم دونوں نے جلدی
سے ایک کس بھی کر لی ۔۔۔۔۔ اب مجھے بے صبری سے اگلے دن کا انتظار تھا ۔۔۔۔
اگلی صبع جیسے ہی خان جی کام پر گئے ۔۔باجی نے مجھے اشارہ کیا اور میں اپنے کمرے میں
چلی گئی ۔۔ اللہ غالبا ً خان جی کے جانے کا انتظار ہی کر رہا تھا ۔۔۔ کیونکہ خان جی کی گاڑی
ابھی مین روڈ پر بھی نہیں پہنچی ہو گی کہ میں نے اپنی کھڑکی سے باجی کو باہر کی طرف
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
بھاگتے ہوئے ۔۔۔ دیکھا ۔۔۔ اور میرا دل دھک دھک کرنے لگا ۔۔۔ اور یہ سوچ سوچ کر نیچے سے
میری پھدی گیلی ہونے لگی کہ ۔۔۔۔ ابھی میں ۔۔۔۔اوہ ۔۔۔ اور میں نے اپنی پھدی پر ہاتھ رکھا اور اس
کے لبوں کو مسلنے لگی ۔۔۔ نظریں میری بدستور کھڑکی سے باہر کی طرف لگیں ہوئیں تھیں ۔۔۔
اور پھر کچھ ہی دی ر بعد میں نے اللے کو باجی کے کمرے کی طرف جاتے دیکھا ۔۔۔ وہ دونوں
ا
باہنوں میں باہیں ڈالے بڑے آرام اور اطمیان باجی کے کمرے کی طرف ایسے جا رہے تھے کہ
ﺳﺗﺎ
جیسے وہ لوگ کسی باغ میں واک پر آئے ہوں ۔۔۔ ادھر میری دلی خواہش تھی کہ وہ لوگ جلدی
سے کمرے میں پہنچیں تا کہ میں ان کو الئیو پروگرام دیکھ سکوں ۔۔۔ وہ لوگ عین باجی کے
دروازے کے سامنے کھڑے ہو گئے اور صنوبر باجی نے نہ جانے ایسی کیا بات کی کہ اللہ ۔۔۔
ایک دم ُرک گیا اور پھر اس نے باجی کے اپنے گلے سے لگا لیا ۔۔۔ اور کچھ دیر ہی دیر میں
ﻧﯽ
دنوں نے اپنے منہ ایک دوسرے کے ساتھ الک کر لیئے ۔۔۔
اور پھر وہ ایسے ہی منہ سے منہ جوڑے وہ کمرے میں داخل ہو گئے ۔۔ ان کے اندر داخل ہوتے
ہی میں بھی ان کا نظارہ کرنے کے لیئے ۔۔۔ اپنے کمرے سے باہر نکلی ۔۔۔ اور پھر ۔۔۔ یہ سوچ کر
ﺟﯽ
رک گئی کہ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔۔۔ اس لیئے جب معاملہ زیادہ گرم ہو جائے تو پھر
جایا جائے ۔۔۔ چنانچہ دس پندرہ منٹ کے انتظار کے بعد میں دبے پاؤں باجی کے کمرے کی
کھڑکی کی طرف جانے لگی ۔۔۔ ویسے تو ان دونوں کو ہی پتہ تھا کہ میں کھڑکی میں بنفس ِ نفیس
ان کی ساری کاروائی کو مالحظہ کروں گی لیکن ۔۔۔ پھر بھی یہ ڈرامہ ضروری تھا کیونکہ
@
میں نے ایسی گیم ڈالی تھی کہ دونوں کو بس یہ پتہ تھا کہ صرف وہی یہ جانتا ہے کہ میں انہیں
سیکس کرتے ہوئے دیکھ رہی ہوں جبکہ دوسرا اس بات سے بے خبر ہے ۔۔۔ اس لیئے احتیاط
ضروری تھی .دبے پاؤں چلتے ہوئے جب میں کھڑکی کے پاس پہنچی ۔۔تو حسب پروگرام کھڑکی
کے ایک کونے کا پردہ سرکا ہوا تھا ۔جہاں سے مجھے اندر کا نظارہ بڑا صاف اور واضع نظر
ﺷﺎه
آ رہا تھا اور میں نے دیکھا کہ باجی اور اللے دونوں کے کپڑے اترے ہوئے تھے ۔۔۔ اللہ بستر
پر دراز لیٹا ہوا تھااور کی دونوں ٹانگیں کھلی ہوئین تھیں ۔۔۔ جبکہ باجی ننگی ہو کر اللے کے
پاس بیٹھی تھی اس کے ایک ہاتھ میں اللے کا لن تھا جسے وہ اپنے ہاتھ میں پکڑے ہولے ہولے
اس کی ُمٹھ مار رہی تھی ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ اللے کے ساتھ بڑی ہنس ہنس کر باتیں
سن سکوں لیکن کھڑکی کا دروازہ بند بھی کر رہی تھی ۔۔میں نے بڑی کوشش کی کہ ان کی باتیں ُ
ﺟﯽ
ہونے کی وجہ سے میں اس میں کامیاب نہ ہوسکی ۔۔۔۔پھر میں نے دیکھا کہ باجی اللے کے
لن پر جھکی اور اس کے بڑے سے ہیڈ پر تھوک لگایا ۔۔۔۔ اور پھر اس تھوک کو اس کے سارے
لن پر مل کر اسے چکنا کر دیا اور اب بڑی آسانی سے باجی کا ہاتھ اللے کے لن کے اوپر نیچے
ہو رہا تھا۔۔۔ باجی کچھ دیر تک ایسا کرتی رہی پھر۔۔ اللے نے کچھ کہا اور اپنی ٹانگیں مزید کھول
دیں ۔۔۔ اور میں سمجھ گئی کہ اب باجی اللے کی ٹانگوں کے بیچ آئے گی اور اس کا لن چوسے
ا
ہیڈ کے پاس لے گئی اور ۔۔۔۔ اپنے دونوں ہونٹ جوڑ کر اس نے ہیڈ پر بڑا سا تھوک کا گولہ پھینکا
ﺳﺗﺎ
اور ۔۔۔ پھر اپنی زبان سے اللے کے لن پر لگے تھوک کو چاٹنے لگی ۔۔۔ میر ی طرح باجی نے
بھی پہلے اللے کا ہیڈ اور پھر سارا لن چاٹنا شروع کیا ۔۔باجی اللے کا لن اتنی مستی سے چوس
رہی تھی کہ میری پھدی میں بھی آگ لگنا شروع ہو گئی اور ان کو لن چوستے دیکھ کر بے
اختیار میرا ہاتھ اپنی پھدی کی طرف چال گیا اور میں اسے اپنی ُمٹھی میں لیکر مسلنے لگی ۔۔
ﻧﯽ
ادھر باجی نے اب اللے کے ہیڈ کو اپنے منہ میں لے لیا تھا اور اس پر اپنے نرم ہونٹ لگاتے
ہوئے اس کو چوس رہی تھی اور میں نے دیکھا کہ باجی کا ایک ہاتھ اللے کے بالز پر بھی تھا۔۔
اور وہ مزے لے لے کر اس کے ساتھ کھیل رہی تھی ۔۔۔ کچھ دیر تک لن چوسنے کے بعد وہ
ﺟﯽ
اوپر اُٹھی اور گھٹنوں کے بل چلتی ہوئی اپنی پھدی کو اللے کے منہ سے جوڑ دی
۔۔۔۔اُف۔۔ف۔ف۔ف۔۔ف یہ دیکھ کر کہ اللہ اپنی زبان باجی کی چوت میں ڈال رہا ہے میری چوت
خود بخود اوپن کلوز ہونے لگی ۔۔۔کچھ دیر تک ایسا کرنے کے بعد ۔۔۔ باجی نے اللے کہ منہ سے
اپنی پھدی ہٹائی اور ۔۔۔اُلٹی ہو گئی۔۔۔ اور میں سمجھ گئی کہ وہ لوگ 99کرنے والے ہیں ۔۔۔ اُف ف
@
ف ۔۔۔۔ اب بیک وقت اللے باجی کی چوت چاٹ رہا تھا اور باجی کے منہ میں اللے کا لن تھا
دونوں بڑی ہی گرمی سے ایک دوسرے کے پرائیویٹ اعضا ء کو چوس رہے تھے ۔۔۔
کافی دیر تک وہ ایک دوسرے کو چاٹتے رہے پھر وہ الگ ہو گئے اور اللہ کھڑا ہو گیا
ﺷﺎه
۔۔۔اور روشنی میں میں نے دیکھا کہ اللے کا چہرہ باجی کی منی سے چمک رہا تھا ۔۔۔۔ اس کا
مطلب ہے کہ میری طرح باجی بھی کافی دفعہ چھوٹی تھی ۔۔۔۔ پھر میں نے دیکھا کہ بجائے
باجی لیٹنے کے وہ گھوڑی بن گئی اور مین دیکھا کہ بجائے اللہ باجی کے پیچھا جا کر اس کی
چوت میں اپنا لن ڈالتا ۔۔۔۔۔ وہ آگے باجی کے منہ کی طرف آیا اور ۔۔۔ اپنا لن باجی کے منہ کے پاس
ﺟﯽ
لے گیا ۔۔۔۔ اور باجی نے تیزی سے اپنا منہ کھوال اور ۔۔۔اللے کا آدھا لن اپنے منہ میں لے لیا اور
اسے چوسنے لگی ۔۔۔ پھر جلد ہی باجی نے اللے کا لن اپنے منہ سے نکا ال اور اس پر تھوک
پھینکا اور ۔۔۔اللہ اس کا تھوک اپنے لن پر ملتا ہوا ۔۔باجی کے پیچھے آ گیا ۔۔۔۔ اور پھر اس نے
اپنے لن کے ہیڈ کو باجی کی چوت پر رکھا اور ایک ٹھوکر ماری ۔۔۔۔اور ۔۔لن پھسلتا ہوا ۔۔ باجی
کی چوت میں چال گیا ۔۔۔۔۔اور وہ دھکے مارنے لگا ۔۔۔ پہلے آرام آرام سے ۔۔ پھر تیز۔۔۔اور تیز ۔۔۔۔۔
میں ان کے چودائی سین کو ہوش و حواس سے اس قدر بے گانہ ہو کر دیکھ رہی تھی
کہ مجھے آس پاس کا بھی ہوش نہ رہا تھا ۔۔ اور ہوش تب آیا ۔۔۔۔۔ جب ۔۔۔ پیچھے سے کسی نے
مجھے آواز دیکر بالیا ۔۔۔۔ پہلے تو میں اسے اپنا وہم سمجھی ۔۔۔۔ لیکن جب وہی آواز بار بار
ا
میرے کانوں میں گونجی تو میں چونک اُٹھی ۔۔۔کوئی مجھ سے کہہ رہا تھا ۔۔۔ کیا دیکھ رہی ہو
ﺳﺗﺎ
مرینے ۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ ۔۔ اور میں نے ُمڑ کر دیکھا ۔۔۔ تو دیکھا کہ عین۔۔۔۔ میرے۔۔ پیچھے خان
جی کھڑے مجھے گھور رہے تھے۔۔۔۔مجھے اپنی طرف متوجہ دیکھ کر اس دفعہ وہ اشارے
سے بولے ۔۔۔ کیا ہو رہا ہے ۔۔۔۔؟ ان کو دیکھ کر میری تو سیٹی گم ہو گئی ۔چہرے کا رنگ اُڑ
ﻧﯽ
گیا ۔ اور میرا منہ کھلے کا کھال رہ گیا ۔کیونکہ کہ میرے وہم و گمان میں بھی نہ تھا کہ وہ اس
وقت بھی گھر آ سکتے ہیں ۔۔ اور ان کو دیکھ کر میری حالت ایسی ہو گئی تھی ۔۔۔۔۔ کہ جیسے
کاٹو تو لہو نہیں ۔۔۔۔ اور میں تیزی کے ساتھ سوچنے لگی اب میں کیا کروں ۔۔۔ اندر باجی کی دھواں
دھار چودائی جاری تھی ۔اللہ ان کی چوت میں دھکے پہ دھکا مار رہا تھا ۔ان کی ۔ کھڑکی بھی
سن کر وہ دونوں سنبھل جاتے ۔ یا چ ُھپ
ﺟﯽ
بند تھی ۔۔۔ کہ میں اونچی آواز میں باتیں کرتی ۔۔ کہ جے ُ
جاتے لیکن ایسا کچھ نہ تھا ۔۔۔ کچھ بھی نہ تھا ۔۔۔ میرا دماغ ماؤف ہو رہا تھا ۔۔۔ ۔۔ ہاتھ پاؤں شل
ہو رہے تھے ۔۔۔ ڈر کے مارے میرے ہونٹ خشک ہو چکے تھے اور ان پر پیڑیاں سی بن گئی
تھیں۔۔۔اور مجھے اس مشکل سے نکلنے کا کوئی حل نظر نہ آ رہا تھا ۔۔اور میں سوچ رہی تھی
@
کہ ۔۔ کیا کروں ۔۔ کس طرح ۔۔ ان لوگوں کو بچاؤں ۔ کیا کروں یہی سوچ سوچ کر میں پاگل ہو
رہی تھی ۔۔۔ کہ اچانک ۔۔ خان جی بولے ۔۔ذرا میں بھی تو دیکھو ں کہ ۔ تم کھڑکی سے لگی
اندر کیا دیکھ تھی ؟ اور پھر وہ اپنے قدم بڑھاتے ہوئے کھڑکی کی طرف آنے لگے ۔۔۔اور ۔۔۔۔اور
۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔؟؟؟؟؟؟؟ ؟
ﺷﺎه
ادھر خان جی کھڑکی کی طرف بڑھ رہے تھے ۔۔ ادھر ڈر کے مارے میرا حال بہت ہی
بُرا ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔میں شور مچانا چاہتی تھی تا کہ وہ لوگ ہوشیار ہو جائیں اور کچھ کر لیں
۔۔ ۔۔لیکن میری آواز میرے حلق میں ہی کہیں پھنس کر رہ گئی تھی ۔۔اور ۔ویسے بھی اب شور
ﺟﯽ
مچانے کا کوئی فائدہ بھی نہ تھا کہ ۔۔ شیشے والی کھڑکی سے اندر کا نظارہ تو کیا جا سکتا تھا
مگر ۔۔۔ باہر سے کسی آواز کا اندر جانا بہت مشکل تھا اور اگر فرض کریں آواز اندر جاتی
بھی ۔۔۔ تو جس حساب سے وہ لوگ لگے ہوئے تھے انہوں نے کسی بھی آواز پر دھیان
نہیں دینا تھا ۔۔۔۔ یہ سوچ کر میں نے ان کو حاالت کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا اور سوچنے
ت حال میں مجھے کیا کرنا چاہیئے ؟؟۔۔۔۔ اور پھر ایک لمحے کے ہزارویں لگی کہ موجودہ صور ِ
ا
اور وہ سر پکڑ کر نیچے بیٹھ گئے ۔۔۔ یقینا انہیں بہت گہرا صدمہ پہنچا تھا ۔۔۔اب میں آگے بڑھی
ﺳﺗﺎ
اور ان کو سہارا دیکر اوپر اُٹھایا ۔۔۔۔ رنج ۔حیرت ۔ غم اور صدمے کی وجہ سے ان کا چہرہ
دھواں دھواں ہو رہا تھا ۔۔۔۔۔ اور وہ رو رہے تھے ۔۔۔۔میں نے ان کو رسمی سی تسلی دی اور پھر
ان کو سہارا دیکر ۔۔۔۔۔اپنے کمرے کی طرف چلنے لگی ۔۔۔سارا راستہ وہ یہی بات بُڑبڑاتے
رہے ۔۔۔ کہ مجھے اسی بات کا ڈر تھا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ مزید بھی کچھ کہتے رہے لیکن
ﻧﯽ
وہ بات میری سمجھ میں نہ آ رہی تھی ۔۔ ۔۔۔۔۔کمرے میں آ کر میں نے ان کو بستر پر لٹا دیا اور
پاس بیٹھ کر ان کی دل جوئی کرنے لگی ۔۔۔ پھر میں یہ کہتے ہوئے وہاں سے اُٹھی کہ میں آ پ
کے لیئے پانی لیکر آتی ہوں ۔۔ اور بہانے سے باہر گئی اور اپنے کمرے کے سامنے لگا ہوا
ﺟﯽ
نیچے گرا دیا ۔۔۔۔ یہ بھی ہمارا کوڈ تھا ۔۔کہ گھر میں کوئی اور بھی ہے ۔۔۔ اس لیئے پردہ
محتاط ہو جاؤ۔۔۔
پانی پالنے کے بعد میں ان کا سر دبانے لگی ۔۔۔۔ اور ان سے بات چیت کرنے کی بڑی
کوشش کی لیکن وہ میری کسی بھی بات کا کوئی واضع جواب نہ دے رہے تھے میرا خیال
@
ہے گہرے صدمے کی وجہ سے وہ ایسا کر رہے تھے ۔۔۔اور میں سوچ رہی تھی کہ جب انہوں
نے کھڑکی سے صنوبر باجی کا شو دیکھا تھا تو اگر وہ اسی وقت اپنا ردِعمل شو کر دیتے
تو یہ ردِعمل ان کے لیئے بہت اچھا ہونا تھا کہ اس وقت کی چیخ و پکار سے ان کا اندر کا
سارا غبار نکل جاتا ۔لیکن سارا غصہ اپنے اندر ہی دبا کر انہوں نے اچھا نہیں کیا تھا کیونکہ
ﺷﺎه
یہ بات خان جی اوران کی صحت دونوں کے لیئے خطرناک ہو سکتا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن اب ۔۔۔۔ ۔۔۔۔
کیا ہو سکتا تھا ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد انہوں نے مجھے جانے کے لیئے کہا ۔۔۔ لیکن میں نے انکار کر
دیا ۔۔۔اور ڈھیٹ بن کے بیٹھی رہی اور ان کا سر دباتی رہی ۔۔۔۔ اس وقت ان کا چہرہ الل بھبھوکا
ہو رہا تھا اور ان کی آنکھوں سے مسلسل آنسو بہہ رہے تھے اور وہ اپنی ُمٹھیاں بھینچ بھینچ کر
اپنے غصے کو دبانے کی کوشش کر رہے تھے پھر وہ بستر سے اُٹھے اور کمرے میں ٹہلنے
ﺟﯽ
لگے۔۔۔۔ اور میں بھی انتہائی غم ذدہ سا منہ بنائے ان کے سامنے بیٹھی ان کے اگلے ر ِد عمل
کا انتظار کرتی رہی ۔۔۔۔ کافی دیر کے بعد انہوں نے اپنے غصےپر کسی حد تک قابو پا لیا ۔۔۔۔
اور پھر میرے سامنے پلنگ پر بیٹھ کر بڑے ہی جالل سے کہنے لگے ۔۔۔۔ میرے گھر میں ان کا
یہ گندہ کھیل کب سے جاری ہے ؟ تو میں نے ان کی طرف دیکھ کر انتہائی خوفذدہ ہونے کی
ایکٹنک کرتے ہوئے کہا ۔۔ کہ قسم لے لو خان جی آپ کی طرح میں نے بھی ان کو آج پہلی
ا
پڑی ہے اس ہمت کو بھی اس گندے کام کے لیئے صرف اپنی بہن ہی نظر آئی تھی۔۔ انہوں نے
ﺳﺗﺎ
یہ کہا اور پھر پریشانی کے عالم میں اپنے ماتھے پر ہاتھ رکھ لیا اور رونے لگے اب میں اُٹھی
اور ان کو ُچپ کرانے کی کوشش کرنے لگی ۔۔۔۔۔ اب انہوں نے اپنا سر میرے ساتھ جوڑ لیا اور
روتے ہوئے بولے ۔۔۔۔ مرینے میں کیا کروں ؟ کس کو بتاؤں ۔۔؟ اور کیا بتاؤں کہ میرا بھائی
اپنی بہن کے ساتھ خراب ہے اور پھر رونے لگے ۔۔۔ اس دوران میں ان کو مسلسل تسلیاں دیتی
ﻧﯽ
رہی جس سے ان کو کافی ڈھارس بندھی اور پھر میں نے ان کو بستر پر لیٹنے کو کہا اور اور
خود بھی ان کے ساتھ چپک کر لیٹ گئی اور ان کے بالوں میں انگلیاں پھیرتی رہی ۔اور ساتھ ساتھ
ان کے ساتھ ایسی باتیں بھی کرتی رہیں جس سے ان کا صدمہ کچھ کم ہو ۔۔۔میری کوشیشں رنگ
ﺟﯽ
الئیں اور ۔۔ کچھ ہی دیر بعد خان جی گہری نیند سو گئے ۔۔ پھر پتہ نہیں کیا ہوا کہ خان جی کے
ساتھ ہی میں بھی نیند کی آغوش میں چلی گئی ۔۔۔
کوئی ایک گھنےا کے بعد میری آنکھ کھلی تو میں ہڑبڑا کر اُٹھی ۔۔۔ اور چند سیکنڈ تک
@
میں بلکل خالی الذہن بیٹھی رہی پھر آہستہ آہستہ ۔۔۔۔ میری ذہن میں کچھ دیر پہلے کے سارے
واقعات ایک ایک کر کے میری نظروں کے سامنے آنے لگے ۔۔۔۔۔ساری باتیں یاد آتے ہی میں
پھرتی سے پلنگ پر سے اُٹھی اور باہر چلی گئی اور باہر دیکھا تو برآمدے میں صنوبر باجی
بیٹھی سبزی چھیل رہی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجےگ اپنے سامنے پا کر وہ ایک دم اُٹھ کر کھڑی ہو گئی
ﺷﺎه
اور بولی ۔۔۔ سب خیر تو ہے نا؟ تو میں ان کو ان کے کمرے کی طرف لے جاتے ہوئے بولی ۔۔۔
سب خیر نہیں ہے باجی اور پھر بال کم و کاست ساری سٹوری ان کے گوش گزار کر دی ۔۔۔ جسے
سن کر وہ از حد پریشان ہوئیں اور مجھ سے بولیں ۔۔۔۔ اب کیا ہو گا ۔؟ تم ہی کچھ مشورہ دو ُ
کہ اب ہمیں کیا کرنا چاہیئے ؟؟؟ تو میں نے ان سے کہا ۔۔کہ میرا مشور تو یہ ہے کہ ۔ کہ فی الحال
ﺟﯽ
آپ لوگ سین سے غائب ہو جائیں ۔۔۔ اس دوران میں کچھ کرتی ہوں ۔۔۔ اور جیسے ہی حاالت
نارمل ہوئے میں آپ لوگوں کو بتا دوں گی ۔۔۔ میری بات صنوبر باجی کے دل کو لگی اور وہ
بولی ٹھیک ہے میں کچھ دنوں کے لیئے اپنی بیٹی کے پاس کراچی چلی جاتی ہوں ۔۔۔۔ اور
اللے سے بھی کہتی ہوں کہ وہ بھی کچھ دنوں کے لیئے منظر سے غائب ہو جائے ۔۔پھر انہوں نے
جلدی جلدی میں اپنی پیکنگ کی اور پھر اسی تیزی سے وہ گھر سے باہر نکل گئیں ۔۔ اور جاتے
ا
ﺳﺗﺎ
خان جی دوپہر کے قریب اُٹھے اور مجھ سے بنا کوئی بات کئے باہر نکل گئے ۔۔۔ لیکن پھر
وہ جلد ہی واپس لوٹ آئے ۔۔ اور اندر کمرے میں جا کر لیٹ گئے ان کے رویہ سے مجھے
کافی تشویش ہوئی اور میں ان کے پاس چلی گئی اور ان سے ان کا حال احوال وغیرہ دریافت کیا
۔۔۔ اس واقعہ کے بعد آہستہ آہستہ وہ بستر پر لگ گئے ۔۔۔ اور ان کو مختلف بیماریوں نے گھیر
ﻧﯽ
لیا ۔۔۔۔ ہر چند کہ میں نے ان کی صحت کے لیئے کافی بھاگ دوڑ کی ۔۔۔ لیکن ایک دفعہ جب
آخر کار اس حادثے کے چھ ماہ کے خان جی گر گئے تو پھر وہ دوبارہ نہ اُٹھ سکے ۔۔۔۔ اور ِ
جہان فانی سے کوچ کر گئے۔۔۔ اس کے باوجود کہ میری ان کے ساتھ ِ اندر اندر ہی وہ اس
ﺟﯽ
ونی ہوئی تھی محبت تو خیر مجھے کبھی بھی ان کے ساتھ نہ ہو سکی ۔۔۔۔۔۔لیکن اتنا عرصہ
ان کے ساتھ رہ رہ کر مجھے ان کے ساتھ کافی انسیت سی ہو گئی تھی ۔۔اور کچھ بھی ہو آخر
وہ میرے شوہر تھے ۔۔۔چنانچہ ان کے یوں جانے سے میرا دل بہت دکھا ۔۔۔ اور میں نے ان کا
بڑا سوگ منایا ۔۔۔۔۔۔ خان جی مرنے کے بعد اللہ گھر میں ہی شفٹ ہو گیا تھا ۔۔۔۔اور صنوبر باجی
@
بھی واپس آ گئی تھیں ۔۔۔ پھر عدت کے بعد کچھ تو صنوبر باجی کے دباؤ ۔۔۔اور کچھ چونکہ
خان جی کا سارا کاروبار اللہ ہی دیکھتا تھا ۔۔اس لیئے کچھ کاروباری مجبوریوں کی وجہ
سے بھی۔۔۔۔ کیونکہ مجھے کاروبار کی الف بے بھی نہ آتی تھی ۔ اس لیئے ان کے مرنے کے
بعد ۔۔۔۔صنوبر باجی نے اپنے قریبی رشتے داروں کے مشورے اور میری مرضی سے میرا
ﺷﺎه
سن کر مجھے بھی کافی دکھ محسوس ہوا تھا ۔۔۔ اور میں نے تھا ۔۔۔ اور خان جی کی موت کا ُ
دیکھا کہ اتنا عرصہ گزر جانے کے باوجود بھی مرینہ کی انکھوں میں خان جی کی موت
کازکرکرتے ہوئے ایک نمی سی اُتر ائی تھی ۔۔۔۔
دل ہی تو ہے نہ سنگ و خشت درد سے بھر نہ آئے کیوں
ا
کو کافی ناگوار گزر رہی تھی ۔۔۔ اسی لیئے تو میں کچھ دنوں سے دیکھ رہا تھا کہ ارمینہ مجھ
ﺳﺗﺎ
سے کچھ کچھی کچھی سی رہنے لگی تھی ۔میری کسی بھی بات کا وہ سیدھے منہ جواب بھی
نہ دے رہی تھی اور نہ ہی وہ مجھے کوئی لفٹ وغیرہ بھی دے رہی تھی۔۔ لیکن میں کیا
کرتا کہ میں اس سلسہ میں مجبور تھا کیونکہ جیسا کہ آپ جانتے ہیں کہ مرینہ ایک بولڈ خاتون
ﻧﯽ
تھی اور مجھے بڑے دھڑلے سے سب کے سامنے اپنے ساتھ لے جاتی ۔۔ اور میں انکار نہ کر
سکتا تھا کیونکہ اس کے ساتھ جانے میں ایک فائدہ یہ بھی تھا کہ ۔۔وہ اکثر بائیک کے پیچھے
بیٹھی موقعہ ملنے پر میرا لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑ لیتی تھی اور خاص کر اپنے ممے میرے
ساتھ جوڑ کر بیٹھتی تھی ۔۔جس کا مجھے بہت مزہ آتا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن اس کی تمام تر بےباکی اور
ﺟﯽ
کھلے پن کے باوجود بھی میں ابھی تک مرینہ کو چودنے میں ناکام رہا تھا ۔۔اور اس کی وجہ
صرف اور صرف جگہ کا نہ ہونا تھا ۔۔۔۔۔۔ ایک دفعہ میں نے مریڈ کے قریب اس کو لن چسوانے
کی کوشش کی تھی لیکن عین وقت پر اس عالقے کا چوکیدار آ گیا تھا جس کی وجہ سے ہم لوگوں
کو نہ صرف وہاں سے بھاگنا پڑا تھا ۔۔۔۔۔۔بلکہ اس کے بعد مرینہ نے توبہ کر لی تھی کہ وہ کسی
@
بھی سنسان جگہ پر نہ تو میرے ساتھ جائے گی اور نہ ہی کوئی ایسی ویسی کوئی حرکت کرے
گی ۔۔۔ ہاں موٹر سائیکل پر بیٹھے بیٹھے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑنا اور ۔۔۔۔ پیچھے سے
اپنے خوبصورت ممو ں کو میری کمر کے ساتھ جوڑ کر بیٹھنا اس کے بقول اور بات تھی ۔۔۔
اس کے ساتھ ساتھ میں اکثر استانی جی اور میڈم ندا کے گھر کا بھی چکر لگاتا رہتا تھا
ﺷﺎه
۔۔۔۔ اور اسی دوران مجھے یہ افسوسناک خبر بھی ملی تھی کہ استانی جی کی والدہ کا انتقال ہو گیا
تھا جس کی وجہ سے وہ کچھ دن مزید وہا ں پر ُرک گئیں تھیں ۔۔ایک دن کی بات ہے کہ میں
ارمینہ کے گھر گیا تو دیکھا کہ ماسی اور مرینہ برآمدے میں بیٹھی گپ شپ لگا رہی تھیں جبکہ
ب معمول کچن میں گھسی کام کر رہی تھی ۔۔۔۔ میں نے ماسی اور مرینہ باجی کو سالم ارمینہ حس ِ
ﺟﯽ
کیا اور پھر ارصال کے بارے میں پوچھنے لگا تو پتہ چال کہ وہ کہیں گیا ہے ۔۔اسی دوران ارمینہ
کچن سے باہر نکلی اور ماسی سے بولی ۔۔۔۔ مورے ٹماٹر۔۔۔نشتہ۔۔۔ ( ماں ٹماٹر ختم ہو گئے ہیں
)۔۔۔اس کی بات سن کر ماسی کہنے لگی ۔۔۔ابھی منگواتی ہو ں اور پھرماسی نے مجھے پیسے
پکڑاتے ہوئے کہا ۔۔ جاؤ بیٹا بازار سے آدھا کلو ٹماٹر لے آؤ ۔۔۔ میں نے ماسی کے ہاتھ سے
پیسے پکڑے اور بازار چال گیا اور واپسی پر ٹماٹر ال کر باقی پیسے اور ٹماٹر ماسی کو پکڑائے
تو ان سے پہلے ہی مرینہ بولی ۔۔۔۔ بھائی یہ ٹماٹر کچن میں جا کر ارمینہ باجی کو دے آؤ۔۔۔
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
مرینہ کی بات سن کر گویا کہ میرے دل کی مراد بر آئی اور میں ٹماٹروں کا شاپر ہاتھ میں
پکڑے کچن میں گیا اور ۔۔آرمینہ کو ٹماٹروں کا شاپر پکڑاتے ہوئے اس کے مموں پر ہاتھ لگایا
تو وہ پھٹ پڑی اور بولی ۔۔۔یہ کیا بد تمیزی ہے ؟ تو میں نے اس سے کہا یہ بدتمیزی نہیں
ہے محبت ہے میری جان اور ایک دفعہ پھر اس کے ممے دبا دیئے ۔۔۔ اس پر وہ خاصہ تلخی سے
ا
بولی ۔۔۔۔ اچھی محبت ہے ۔۔۔محبت مجھ سے کرتے ہو اور بائیک پر سارا سارا دن اس ماں (
ﺳﺗﺎ
مرینہ ) کوگھماتے رہتے ہو۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا کہ وہ میری ماں نہیں آپ کی بڑی بہن اور
مہمان ہے ۔۔۔ اور پھر بڑا سیرس سا منہ بنایا اور اس سے بوال ۔۔۔میری جان اگر تم کو یہ پسندنہیں
ہے تو آئیندہ سے میرا بائیک چالنا بند ۔۔۔۔ میں نے اتنا کہا اور کچن سے باہر نکل آیا۔۔۔۔
ﻧﯽ
برآمدے میں آ کر دیکھا تو ماسی اور مرینہ ویسے ہی بیٹھی باتیں کر رہی تھیں ۔۔۔ مرینہ
سنکی نظر جیسے ہی مجھ پر پڑی ۔۔۔اس نے مجھےکہا ۔۔۔ایک منٹ رکو زرا ۔۔ مرینہ کی بات ُ
ﺟﯽ
کر میں وہیں ُرک گیا اور وہ چارپائی اُٹھی اور جلدی جلدی چپل پہن کر میرے پاس کھڑی ہو
گئی اور پھر اشارہ سے چلنے کا کہا ۔۔۔دروازے پر جا کر وہ رک گئی اورپھر مجھے بڑے غور
سے دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ کیا بات ہے یہ تمھاری شکل پر بارہ کیوں بج رہے ہیں ؟ارمینہ سے
سن کر مسکراتے ہوئے لڑائی ہو گئی ہے کیا ؟۔۔۔ تو جواب میں نے ان کو ساری بات بتا دی ۔۔۔ ُ
بولی ۔۔ ۔۔ارے یہ کوئی اتنی بڑی بات نہیں ہے ۔۔۔۔ گھبرانے کی کوئی کوئی ضرورت نہیں ہے
@
۔۔۔۔۔ تو میں نے قدرے تلخی سے اس سے کہا کہ گھبرانے کی کیوں ضرورت نہیں ہے جی ؟ تو
وہ کہنے لگی ۔۔ یار ۔۔ بات بس اتنی سی کہ تمھاری یار کا سیکس پر شدید دل آیا ہوا ہے شرم
سن کرکے مارے وہ سیدھا کہہ نہیں سکتی اس لیئے ایسے ڈرامے کر رہی ہے ان کی بات ُ
میں نے ان سے کہا آپ کو کیسے پتہ؟؟ تو کہنے لگیں ارمینہ کو میں بہت اچھی طرح سے جانتی
ﺷﺎه
ہوں اور دوسری بات یہ ہے کہ میں بھی ایک عورت ہوں اور ایک عورت دوسری عورت کے
جزبات خوب سمجھتی ہے ۔۔ اور پھر کہنی لگی مت بھولو کہ میں ارمینہ کی بہن بھی ہوں اور
اس لحاظ سے میں اس کے جزبات کےاتار چڑھاؤ سے خوب اچھی طرح واقف ہوں ۔۔۔ ۔۔۔ پھر
مرینہ نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔۔۔ ۔۔چلوا یسا کرتی ہوں کہ میں تم کو ایک موقع دیتی
ﺟﯽ
ہوں ۔۔۔اور تم اس موقع کا پورا فائدہ اُٹھاؤ اور ارمینہ بے چاری کی طلب مٹا دو۔۔۔ تو میں نے
ا ن سے کہا میں سمجھا نہیں باجی تو وہ کہنے لگی ۔۔۔یار آج رات ہم سب گھر والوں نے ایک
جگہ کھانے پر جانا ہے ۔۔۔ میں ایسے کرتی ہوں کہ کسی بہانے سے ارمینہ کو ڈراپ کر دوں گی
۔۔۔اور تم آ کر اس کو سیکس کی ڈرپ لگا دینا اور اس کی پیاس مٹا دینا تو میں نے ان سے کہا
کہ وہ تو مجھ سے بڑی سخت ناراض ہیں ۔۔۔ مان جائیں گی ؟ ۔۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔میری جان وہ
کوئی ناراض شراض نہیں ہے ۔۔۔۔ بس اپنی سیکس ڈیزائیر کے ہاتھوں تنگ ہے ۔۔۔۔ تم اس کی
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
خواہش پوری کر دو ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا پر کیسے ؟؟ ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔اب یہ بات بھی
مجھے ہی بتانی پڑے گی ۔۔۔اور مجھے ُرخصت کر کے دروازہ بند کر دیا ۔۔۔۔
مرینہ کی انفارمیشن پر میں مقررہ وقت سے کافی پہلے اپنے گھر کی چھت پر چڑھا اور
اس بات کاا نتظار کرنے لگا کہ کب مرینیہ او ر اس کے گھر والے جائیں اور کب میں ان کے
ا
گھر جا کر ارمینہ کی لوں ۔۔۔۔ اور بار بار گھڑی دیکھتا کہ کب مرینہ اپنی فیملی کے ساتھ
ﺳﺗﺎ
سن کر میرا لن بیٹھنے کا نام
جائے اور میں جا کر ارمینہ کو چودوں ۔۔۔ ارمینہ کی چودائی کا ُ
ہی نہیں لے رہا تھا اس لیئے میں نے واش روم میں جا کر ایک دفعہ ارمینہ کے نام کی ُمٹھ مار
لی جس سے مجھے کچھ سکون مال اور میں پھر سے چھت پر کھڑا ہو گیا ۔۔۔ رات کے ساڑھے
ﻧﯽ
آٹھ بجے تھے جب مرینہ کے گھر والے ایک ایک کے اپنے گھر سے نکلنے لگے ۔۔۔ یہ دیکھ
کر میرا لن پھر سے کھڑا ہو گیا اور میں اس انتظار میں کھڑا ہو گیا کہ کب یہ لوگ جائیں اور میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔لیکن تھوڑی ہی دیر بعد میں نے دیکھ تو سب سے آخر میں ارمینہ بھی گھر سے برآمد
ہوئی ۔۔۔ میرے خیال میں وہ تالے وغیرہ لگا رہی ہو گی ۔۔۔ ارمینہ کو اپنے گھر والوں کے ساتھ
ﺟﯽ
جاتے دیکھ کر میں نے دل ہی دل میں مرینہ کو بے شمار گالیاں دیں اور ۔۔۔پھر سخت مایوس ہو
کر لیٹ گیا لیکن نیند کہاں تھی ۔۔ لیکن میں کرتا بھی کیا ۔۔۔ پھر رات کے کسی پہر مجھے نیند آ
ہی گئی ۔۔۔۔ پھر جب میں صبع اُٹھ کر ارصال کو لینے ماسی کے گھر گیا تو میرا موڈ سخت آف
تھا اور اس کے ساتھ ساتھ رات لیٹ سونے اور صبع جلد اُٹھنے کی وجہ سے میری آنکھیں بھی
@
سرخ ہو رہیں تھیں ۔۔ سو جیسے ہی میں ارصال کو لینے اس کے گھر کے اندر داخل ہوا تو کافی ُ
سامنے ہی مرینہ کھڑی تھی مجھے دیکھتے ہی کہنے لگی ۔۔۔تیری صبع کہہ رہی ہے تیرے رات
کا فسانہ ۔۔۔۔اور ہنس پڑی۔۔۔۔ پھر وہ میرے پاس آئی اور کہنے لگی ۔۔ میں نےتو بڑی ٹرائی کی
تھی یار مگر ابا نہ مانے اس لیئے ۔۔ ارمینہ بھی چلی گئی تھی ۔۔پھر کہنے لگی ۔۔ چلو کوئی
ﺷﺎه
بات نہیں پھر سہی ۔۔۔۔ ُکڑی سیٹ تو ہے نا تیرے ساتھ تو میں نے جل کر کہا خاک سیٹ ہے۔۔۔ تو
مرینہ مجھ سے کہنے لگی اچھا غصہ تھوک میں کچھ کرتی ہوں اتنے میں ارصال بھی آگیا اور
ہم دونوں سکول چلے گئے ۔
ﺟﯽ
سکول سے واپسی پر میں نے ارصال کو اس کے گھر چھوڑا اور خود اپنے گھر جانے لگا
تو مرینہ نے مجھے آواز دیکر روک لیا ۔۔۔ اور بولی شام کو ریلوے سٹیشن جانا ہے تو میں نے
اس سے پوچھا کہ وہ کیوں؟؟؟ تو کہنے لگی یار واپسی کا پروگرام ہے اور ٹرین پر حیدرآباد کے
سن کر پتہ نہیں کیوں میں اداس سا ہو
لیئے بکنگ کرانی ہے ۔۔۔ مرینہ کی واپسی کا پروگرام کا ُ
گیا ۔۔ایسا لگا کہ جیسا کوئی اپنا بہت اپنا بچھڑ رہا ہو۔۔۔ اس لیئے میں مردہ قدموں سے اپنے گھر
ا
۔۔۔۔۔رکو۔۔ ُرکو ۔۔ مرینہ کی بات سن کر میں نے فورا ً ہی بائیک کی بریک لگائی ور ُ چالئی
ﺳﺗﺎ
اس سے پوچھنے لگا کہ کیا ہوا باجی خیریت تو ہے نا۔۔۔ لیکن ُمڑ کر دیکھا تو پیچھے مرینہ
بائیک کی سیٹ پر نہ تھی میرے بریک لگاتے ہی وہ چھاللنگ لگا کر نیچے اُتری اور پھر
میرے دیکھتے ہی دیکھتے اس نے ایک خاتون کو پیچھے سے پکڑ لیا اور پھر وہ اس لیڈی کے
ساتھ لپٹ گئی ۔ جیسے ہی مرینہ اس خاتون کے ساتھ لپٹی ۔۔۔۔ اس خاتون نے مرینہ کو دیکھ کر
ﻧﯽ
ایک نعرہ مارا ۔۔۔ مرینہ کی بچی ۔۔۔ یہ تم ہو ۔۔۔ اور پھر وہ دونوں ایک ساتھ چمٹ گئیں ۔۔ اور
میں حیران پریشان اس خاتون کو دیکھنے لگا ۔۔۔ یہ ایک سانولے رنگ کی دبلی پتلی اور نمکین
سی خاتون تھی جس نے سفید رنگ کا باریک سا لباس پہنا ہوا تھا اور اس پر برائے نام سا
ﺟﯽ
دوپٹہ اوڑھا ہوا تھا ۔۔۔ جبکہ پیچھے سے اس کی سفید قمیض میں سے کالے رنگ کی برا کا
سٹیپ بڑی ہی نمایاں نظر آ رہا تھا۔ اوپر سے اس ظالم نے قمیض بھی اتنی تنگ پہنی ہوئی تھی
کہ پیچھےسے دیکھنے پر اس کی بڑی سی گانڈ اس کے بند چاک والی قمیض میں پھنس کر
رہ گئی تھی ۔ ۔۔۔ اور میں کبھی اس کی گانڈ کے ابھاروں کو دیکھتا اور کبھی اس کے برا کے
@
سٹیپ کو ۔۔۔ ۔۔۔ ادھر وہ دونوں مگن ہو کر آپس میں باتیں کر رہیں تھیں ۔۔۔۔ پھر اچانک وہ خاتون
اپنی گھڑی کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔۔۔ چل یار گھر چلتے ہیں ۔۔۔ اُن کے آنے کا ٹائم بھی ہو گیا
سن کر مرینہ شرارت سے بولی ۔۔۔ تمھارا مطلب ہے کہ ۔ فادر کے آنے کا ٹائم ہے ۔۔۔ اس کی بات ُ
سن کر وہ دونوں ہنس پڑیں ۔۔۔پھر وہ خاتون مرینہ سے بولی ۔۔۔ ہو گیا ہے ۔۔ مرینہ کی بات ُ
ﺷﺎه
واؤ۔۔۔۔۔ تم کو ابھی تک یاد ہے ؟ تو مرینہ بولی ۔۔ یہ بھی کوئی بھولنے والی بات تھی ۔۔۔۔ تو اس
خاتون نے مرینہ سے پوچھا اچھا یہ بتا بکنگ کب کی ہوئی تو مرینہ نے جواب دیا ۔۔۔ پرسوں ۔۔۔۔
اس پر وہ خاتون بولی تو کل تم نے ہر صورت میرے گھر آنا ہے ۔۔۔ اور جیسے ہی وہ مرینہ کو
اپنے گھر کا پتہ سمجھانے لگی ۔۔۔ وہ بولی ۔۔ مجھے خاک سمجھ آئے گا تم اس کو اپنا اڈریس
سمجا دو۔۔۔
ﺟﯽ
سن کر پہلی دفعہ اس خاتون نے میری طرف گھوم کر دیکھا ۔۔۔۔ اور میری مرینہ کی بات ُ
طرف ایک بھر پور نگاہ ڈال کر بولی ۔۔۔ یہ صاحبزادہ کون ہے ؟ اور پھر مرینہ کی طرف منہ
کر کے بولی ۔۔۔جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے تمھارا بھائی تو ابھی بہت چھوٹا ہے ۔۔اس پرمرینہ
نے میری طرف دیکھتے ہوئے اس کو جواب دیا ۔۔۔ نہیں یہ ہمارا محلے دار اور فیملی فرینڈ ہے
سن کر وہ بولی اوکے ۔۔۔ پھر مجھ سے کہنےلگی اور پھر اس نے میرا تعارف کروایا ۔۔۔۔ جسے ُ
ا
کر وہ مرینہ کی طر ف ُمڑی اور بولی لو جی بھائی نے سارا کام ہی آسان کر دیا ۔۔۔ اور پھر ۔۔۔
ﺳﺗﺎ
پھر وہ جاتے جاتے مرینہ سکو پھر تاکید کرتے ہوئے بولی ۔۔۔ کل ضرور آنا ۔۔۔ میں تمھارا ویٹ
کروں گی پھر کہنے لگی ۔۔۔ اگر نا آئی نا تو پھر دیکھ لینا ۔۔اور مرینے نے اس کو تسلی دیتے
ہ وئے کہا ۔۔ فکر نہیں کرو میں کال صبع ہر صورت تمھارے پاس ہوں گی ۔۔۔ اس کے بعد وہ
دونوں آپس میں گلے ملیں اور پھر ہاتھ مالیا اور پھر وہ خاتون مرینہ کو اور مجھے ہاتھ ہالکر
ﻧﯽ
ٹاٹا کرتے ہوئے وہاں سے چلی گئی اس کے جانے کے بعد میں نے مرینہ سے پوچھا باجی یہ
کون تھی ؟ تو مرینہ کہنےلگی ۔۔ یہ میرے کالج کی دوست ۔ جوزفین تھی ۔۔۔ بڑی اچھی لڑکی ہے
پھر وہ مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ کل اس کے گھر چلیں گے تو میں نےکہا باجی میں نے تو سکول
ﺟﯽ
جانا ہو گا ۔۔۔ تو وہ ہنس کر بولی ۔۔ ارے یار ایک دن اسکول نہ جاؤ گے تو کون سی قیامت آ
جائے گی ۔۔ ویسے بھی تم نے کون سا کوئی بڑا افسر بننا ہے ۔ پھر مجھ سے کہنے لگی ایسا
کرو کہ کل تم سکول سے پھٹا مارنا ۔۔ سب سے پہلے ہم جولی (جوزفین) کے گھر جائیں گے
اس کے بعد مجھے موتی بازار لے جانا ۔۔۔وہاں میں نےتھوڑی سی شاپنگ کرنی ہے ۔ اس کے
@
سٹارٹ کرنے کو کہا ۔۔۔۔ چنانچہ میں نے بائیک سٹارٹ کیا اور وہ جمپ مار کر پیچھے بیٹھتے
ہوئے بولی ۔۔۔ جولی کا گھر یاد ہے نہ۔۔۔ سب سے پہلے تم مجھے وہاں لے چلو ۔۔۔ ڈھوک کھبہ
کے پاس ہی تو مکھا سنگھ اسٹیٹ ہے ۔۔ چنانچہ کچھ ہی دیر میں ہم وہاں پہنچ گئے۔۔ مرینہ کو
دیکھ کر جولی بڑی خوش ہوئی ۔۔ اور مرینہ کو گلے لگاتے ہوئے بولی۔بڑا انتظار کرایا ہے تم
نے ۔۔ ۔ ابھی ابھی وہ تمھارا انتظار کر کر کے گھر سے نکلے ہیں ۔۔۔ اگر تم تھوڑی دیر پہلے آ
ﺟﯽ
سن کر مرینہ کہنے لگی ۔۔۔ بڑاجاتی تو تمھاری اُن سے مالقات ہو جانی تھی ۔۔۔ جولی کی بات ُ
بے شرم ہے فادر اپنی سالی کے لیئے تھوڑا سا بھی انتظار نہیں کر سکتا تھا؟ اور پھر دونوں اندر
چلے گئیں جاتے جاتے مرینہ کہنے لگی بائیک کو الک کر کے اندر آ جاؤ ۔۔چنانچہ میں نے بھی
ان کے دروازے کے ایک طرف بائیک کھڑا کیا اور اندر داخل ہو گیا ۔۔ یہ ایک کشادہ سا گھر
تھا ۔۔اندر داخل ہو کر میں سوچ ہی رہا تھا کہ کس طرف جاؤں ۔۔۔ کہ اچانک مجھے جولی کی آواز
ا
سن کر مرینہ نے اسے چائے سے بہت منع کیا لیکن ۔۔۔ چائے کا بندبست کرتی ہوں ۔۔ اس کی بات ُ
ﺳﺗﺎ
وہ نہ مانی ۔۔ تب مرینہ بولی ۔ ۔۔میں یہاں بیٹھ کر کیا کروں گی چلومیں بھی تمھارے ساتھ کچن میں
چلتی ہوں اور مجھے بیٹھنے کا کہہ کر وہ دونوں کچن میں چلیں گئیں ۔۔ ابھی ان کو گئے ہوئے
پندرہ بیس منٹ ہی ہوئے تھے کہ میں نے مرینہ کی آواز سنی وہ مجھے بال رہی تھی ۔۔۔ ان
سن کر میں ڈرائینگ روم سے باہر نکال تو دیکھا کہ مین گیٹ کے پاس ہی وہ کچن تھا کی آواز ُ
ﻧﯽ
اور اس وقت وہ کچن کے دروازے میں کھڑی تھی مجھے سامنے دیکھ کر بولی ۔۔۔ بائیک اندر
سن کر میں چلتا ہوا مین گیٹ کی کھڑی کر دو ۔اور واپس کچن میں چلی گئی ۔۔ ۔ مرینہ کی بات ُ
طرف گیا اور جولی لوگوں کا دروازہ کھول کر بائیک اندر النے لگا ۔۔ جب میں ان کی گیلری
ﺟﯽ
میں پہنچا تو مجھے کچن سے ان کی باتیں کرنے کی آوازیں سنائی دینے لگیں ۔۔۔ جولی ۔۔مرینہ
سے کہہ رہی تھی ۔۔۔ اس چھوٹے سے لڑکے کا ۔۔۔ ریئلی ۔۔۔؟؟ تو مرینہ کہنے لگی ۔۔۔یقین کرو
ڈارلنگ شکل سے یہ ۔۔ لڑکا اور نیچے سے پورا مرد ہے بلکہ مرد سے بھی اوپر ہے ۔۔ ان کی
سن کر میں وہیں ُرک گیا اور کان لگا کر ان کی باتیں سننے لگا ۔۔۔ پھر میرے کانوں میں یہ باتیں ُ
@
جولی کی آواز گونجی وہ مرینہ سے کہہ رہی تھی ۔۔ اوکے۔۔ ڈارلنگ تم اس لڑکے کا ڈک (لن)
انجوائے کرو ویسے بھی مجھے موتی بازار میں ایک کام ہے پھر وہ مرینہ سے کہنے لگی
تمھارے پاس پورا ایک گھنٹہ ہے امید ہے اس ایک گھنٹے میں تم اس لڑکے کو نچوڑ لو گی ۔۔۔
سن کر میرے سارے وجود میں ایک جوش سا اور وہ دونوں ہنسیں لگیں۔۔۔ ان دونوں کی گفتگو ُ
ﺷﺎه
بھر گیا اور۔۔۔ میری مالئیشئے کی شلوار میں ۔۔۔۔ ہچل چل سی مچ گئی ۔۔۔ میں نےجلدی سے
بائیک ان کے صحن میں کھڑا کیا اور چپ چاپ ڈرائینگ روم میں داخل ہو گیا ۔۔۔۔ کچھ دیر بعد
صرف مرینہ کمرے میں داخل ہوئی اس کے ہاتھ میں ٹرے تھی جس میں کہ چائے کے ساتھ باقی
کے لوازمات پڑے تھے ۔۔۔میرے سامنے تپائی پر ٹرے رکھتے ہوئے وہ کہنے لگی ۔۔ میں ابھی
آئی اور ۔۔۔ واپس چلی گئی ۔۔۔۔
ﺟﯽ
کچھ دیر بعد وہ ڈرائینگ روم میں داخل ہوئی ۔۔۔ میری طرح آنے والے وقت کا تصور کرتے
سرخ ہو رہا تھا۔۔۔ لیکن اس نے ایس کوئی بات نہیں کی اور مجھےہوئے اس کا چہرہ بھی الل ُ
چائے کا کپ دیتے ہوئے بولی لو چائے پیو ۔۔۔لیکن میرا سارا دھیان اس کی چوت کی طرف تھا
جو میں مارنے وال تھا ۔۔۔ اس لیئے میں نہ رہ سکا اور اس سے بوال ۔۔۔باجی آپ کی دوست کہاں
ہے تو وہ مسکراتے ہوئے بولی زرا چینج کرنے گئی ہے ابھی آتی ہو گی ۔۔اور پھر کچھ دیر بعد
ا
سیٹ سے اُٹھ گیا ۔۔ اندر آتے ہی اس نے ایک بڑی ہی گہری نظر مجھ پر ڈالی اور مرینہ سے
ﺳﺗﺎ
بولی تم لوگ چائے پیو میں ابھی آئی ۔۔۔مرینہ ساتھ چلنے لگی تو وہ بولی نہیں میں باہر سے گیٹ
کو تاال لگا جاؤں گی اس لیئے تم بے فکر ہو کر انجوائے کرنا ۔۔۔ یہ کہتے ہوئے ایک بار پھر اس
نے مجھ پر ایک بھرپور نظر ڈالی اور باہر نکل گئی۔۔۔۔
ﻧﯽ
اس کے جانے کے دو منٹ بعد میں نے مرینہ سے پوچھا باجی آپ کی دوست کہاں گئیں ہیں
تو وہ مسکرا تے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔۔ وہ جہاں بھی گئیں ہیں ۔۔ تم کو اس سے کیا ۔۔۔اور پھر وہ میرے
قریب آ گئی اور بڑی ہی خمار آلود لہجے میں کہنے لگی ۔۔۔ کل میں نے واپس چلے جانا ہے ۔۔۔
ابھی مرینہ نے اتنا ہی کہا تھا کہ میری ہمت جواب دے گئی اور میں نے مرینہ کو اپنے گلے سے
ﺟﯽ
لگا لیا اور پھر اپنے آپ ہی ہمارے ہونٹ آپس میں ُجڑ گئے ۔۔۔ اور میں نے مرینہ کا اوپر واال
ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیا اور اسے چوسنے لگا ۔۔۔۔ مرینہ کے منہ کی مست مہک ۔۔۔ میرے سارے
منہ میں سما گئی اور میں مزید جوش میں آ گیا ۔۔۔ادھر مرینہ بھی اپنے جزبات کے عروج پر لگ
رہی تھی کیونکہ اس کے رسیلے ہونٹ الیفی کی طرح میرے ہونٹوں سے چپک گئے اور ہم
@
ایسے کسنگ کرنے لگے کہ جیسے دینا میں اس کے سوا اس کو کوئی اور کام نہیں ہے میں کچھ
دیر تک اس کے باری باری اس کے دونوں ہونٹؤں کو اپنے منہ میں لیکر چوستا رہا ۔۔۔ پھر میں
نے ہلکے سے اپنی زبان کو ان کے مسوڑہوں پر پھیرنا شروع کر دیا ۔۔۔ وہ مست ہو گئی اور
میری زبان کی ڈیمانڈ کو سمجھ کر اس نے میرے اپنا منہ لیئے کھول دیا ۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ اس
ﺷﺎه
کے منہ سے مست مہک کے ساتھ ساتھ بڑی گرم ہواڑ سی بھی آ رہی تھی ۔۔۔ مرینہ کی سانسوں
کی اس گرمی نے مجھے بے قابو کر دیا اور میری شلوار میں میرا موٹا اور بڑا سا لن ایک دم تن
کر کھڑا ہو گیا اور مرینہ کی رانوں کو ٹچ کرنے لگا ۔۔۔ میرے لن کو اپنی ٹانگوں میں محسوس
کرتے ہی مرینہ نے اپنی دونوں ٹانگوں کو زرا سا کھول دیا اور میرے لن کو اپنے نرم نرم رانوں
کے بیچ کر کے اس پر اپنی رانوں سے دباؤ ڈالنے لگی ۔۔۔ ادھر میں نے مرینہ کی زبان کو
ﺟﯽ
اپنے ہونٹوں میں لیا اور اب اس کی لزت سے بھری زبان کو چوسنے لگا ۔۔۔ مرینہ کی زبان چوسنے
سے مجھے اپنے اندر ایک جانی پہچانی سی آگ محسوس ہونے لگی ہوس کی آگ شہوت کی آگ۔۔
۔۔۔ اور میں اس آگ کو محسوس کر کے جزبات کی شدت میں ہولے ہولے گھسے مارنے لگا۔۔۔۔
اور اس کی نرم نرم رانوں میں اپنا لن آگے پیچھےکرنے لگا۔۔۔ اُف مزے سے میرا بُرا حال ہو رہا
تھا ۔۔۔ اسی دوران اپنی زبان چوسواتے ہوئے مرینہ نےمیرا ہاتھ پکڑا اور اپنے ایک ممے پر رکھ
ا
سن کر مزید دباؤ ڈاال اور اس کے نپلزتو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ مزہ آ رہا ہے اور میں نے اس کی بات ُ
ﺳﺗﺎ
کو مسلنے لگا ۔۔۔۔ اور وہ ۔۔۔ویسے ہی لزت بھری ۔۔۔ آہیں بھرنے لگیں ۔۔۔وئی ۔ئ ۔ئ ۔۔۔۔پھر اس نے
اپنی قمیض کو اوپر کیا اور اپنی برا ہٹاتے ہوئے بولی ۔۔۔۔ اب میرے ممے چوس ۔۔ تو میں نے اس
سے کہا ۔۔۔ مجھے تو آپ کی لزت بھری زبان کو چوسنا ہے تو وہ اسی مست لہجے میں کہنے
لگی ۔۔۔ یہاں بھی لزت ہے میری جان ۔۔۔۔اور اس لزت کو اپنی زبان سی کشید کر لو ۔۔۔ساری لزت
ﻧﯽ
پی لو اور پھر اس نے خود ہی اپنے نپلز کو میرے منہ کے آگے کر دیا اور میں نے اس کے نپلز
کو چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔ اور مین نے دیکھا کہ مزے کے مارے مرینہ کی آنکھیں بند تھیں اور
وہ اسی لزت بھرے لہجے میں کہہ رہی تھی ۔۔۔اور چوس ۔۔۔۔۔میرا سارا دودھ پی جا میری جان ۔۔۔۔
ﺟﯽ آہ ہ ہ۔۔۔۔
کافی دیر تک مرینہ مجھ سے اپنے نپلز چوسواتی رہی ۔۔۔ پھر میں نے اس کو صوفے پر
گرایا اور اس کی شلوار اتارنے لگا ۔۔۔۔۔۔ اس نے خود ہی اپنی شلوار اتار دی اور ننگی ہو کر
صوفے پر بیٹھ گئی اب میں آگے بڑھا اور گھٹنوں کے بل اس کی چوت کے پاس بیٹھ گیا ۔۔۔ اس
@
مرینی کی چوت کا معائینہ کرنے لگا ۔۔۔ مرینہ کی چوت ۔۔۔ ابھری ہوئی تھی اور اس کے ساتھ
ساتھ مرینہ کی چوت کے ہونٹ کافی موٹے اور باہر کو لٹکے ہوئے تھے ۔۔ درمیان میں اس کی
چوت کو شگاف کافی بڑا اور گہرا نظر آ رہا تھا۔۔مجھے اپنی چوت کی طرف گہری نظروں سے
دیکھتے ہوئے وہ مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔۔ میری چاٹو گے نہیں ؟؟ اور میں نے بنا کوئی جواب
ﺷﺎه
دیئے ا س کی چوت پر اپنے ہونٹ رکھ دئے اور آہستہ آہستہ اس کی بڑی سی چوت پر بوسے
دینے لگا۔۔۔ اس کے ساتھ ہی میں نے اپنی ایک انگلی اس کی چوت کے اندر داخل کر دی ۔۔۔ اندر
سے مرینہ کی چوت بڑی گرم اور تھوڑی کھلی تھی اس لیئے میری انگلی آرام سے اس کی چوت
کی سیر کرنے لگی ۔۔۔ پھر میں نے اپنی انگلی کو اس کی چوت سے باہر نکاال اور اس کی دونون
پھانکوں کو اپنی انگلیوں کی مدد سے کھول کر اس میں اپنی زبان داخل کر دی ۔۔۔۔
ﺟﯽ
اُفف۔ف۔ف۔ف۔۔ف۔۔ مرینہ کی نمکین چوت کا سوادیش پانی میری زبان پر لگ گیا اور میں نے
مرینہ کی چوت کو اندر سے چاٹنا شروع کر دیا ۔۔۔ اور اپنی زبان کو گول کر کے اس کی چوت
میں اندر باہر کرنے لگا ۔۔۔۔ میرے اس عمل سے وہ بے حال ہو گئی اور کچھ ہی دیر بعد اس نے
میرے سر کو پکڑا اور بڑی سختی سے اپنی پھدی کے ساتھ جوڑ لیا ۔۔۔ اور اندر کی طرف دبانے
لگی ۔۔۔ یس۔۔۔۔ وہ ۔۔چھوٹ رہی تھی ۔۔اور میرا اندازہ سچ ثابت ہوا ۔۔۔ میرے منہ کو اس کی پھدی
ا
سر پر ڈھیلی پڑگئی اور پھر اس نے اپنے ہاتھوں میں پکڑے ہوئے میرے سر کو آزاد کر دیا اور
ﺳﺗﺎ
جیسے ہی اس نے میرے سر سے اپنے ہاتھ ہٹائے میں نے جلدی سے اپنا چہرہ اس کی چوت سے
الگ کر لیا اور ۔۔۔ گہرے گہرے سانس لینے لگا ۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی مرینہ نے مجھے اُوپر اُٹھنے
کا اشارہ کیاا ور میں اس کا مطلب سمجھ کر کھڑا ہو گیا ۔۔ میرا لن کسی کھمبے کی طرح کھڑا تھا
ﻧﯽ
۔۔۔ جسے جلدی سے اس نے اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور پھر تھوڑا سا دبا کر چھوڑ دیا ۔۔۔اور مجھے
شلوار اتارنے کو کہا میں نے جلدی سے اپنی شلوار اتاری اورساتھ ہی قمیض کو اوپر کر کے
صوفے پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔ میرے ساتھ اورل کرنے کی اب مرینہ کی باری تھی۔۔۔مرینہ میرے پاس آئی
اور مجھے صوفے پر ِچت لیٹنے کو کہا ۔۔۔۔اور اس کے کہنے پر میں چت لیٹ گیا اور پھر مرینہ
ﺟﯽ
نے کھڑے کھڑے اپنے ایک پاؤں کے تلوے سے میرے لن کے خاص کر ٹوپے پر مساج کرنا
شروع کر دیا ۔۔۔ واؤ ۔۔۔۔ یہ کام میرے ساتھ کسی نے پہلی مرتبہ کیا تھا ۔۔۔ اور اس کے نرم تلوے
نے کمال ہی کر دیا ۔۔۔۔وہ اپنے تلوے کو چاروں طرف سے میرے سپارو پر پھیرنے لگی ۔۔۔ اور
میں مزے سے بے حال اس کے سامنے صوفے پر لیٹا رہا اور اس کے اگلے سٹیپ کا انتظار
@
اور اب ۔۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔سوری میں مزاق کر رہا تھا ۔ رئیلی مجھے آپ کو وہ سٹیپ بڑا اچھا
لگا ۔۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ ابھی تو بہت کچھ اور بھی اچھا لگے گا تم بس دیکھتے جاؤ ۔۔۔۔ پھر وہ
میرے لن کو ہولے ہولے آگے پیچھے ۔۔۔اور۔ اوپر نیچے کرنے لگی ۔۔ اور کچھ دیر بعد وہ میرے
لن پر جھکی اور تھوک لگا کر اسے چکنا کیا اور پھر سے لن کو آگے پیچھے کرنے لگی ۔۔۔چکنا
ﺟﯽ
ہونے کی وجہ سے بڑی آسانی سے اس کا نازک ہاتھ جڑ تک میرے لن مساج کر رہا تھا ۔۔۔ کچھ
دیر تک وہ ایسا کرتی رہی ۔۔۔ پھر وہ میری ُمٹھ مارتے ہوئے میری طرف دیکھ کر کہنے لگی
۔۔۔ لن چوسوں تمھارا؟؟ تو میں نے کہا ۔۔۔ پلیز۔زز۔ز۔۔زز۔۔ز۔ز۔اور اس کے ساتھ ہی وہ نیچے جھکی
اور اپنے منہ سے زبان نکال کر میرے لن کی ٹوپی پر پھیرنے لگی۔۔۔۔ اور کچھ دیر تک زبان
پھرتی رہی۔۔۔ اور پھر اس نے آہستہ آہستہ اپنے ہونٹ کھولے اور میرے لن کو اپنے منہ کے اندر
لے جانے لگی ۔۔۔ اُف ۔ف۔ف۔ اس کے ہونٹوں کی نرمی منہ کی گرمی اور لزت بھری سانسیں میں
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
تو مزے کے مارے اپنا سر دائیں بائیں پٹخنے لگا۔۔۔ اور ساتھ ہی خود بخود مزے میں ڈوبی ہوئی
آوازیں اور سسکیاں میرے منہ سے برآمد ہونا شروع ہو گئیں ۔۔۔آ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اُف ف فف ۔۔۔۔۔اوہ ۔ہ
ہ ہ ہ۔۔اور اس جیسی لزت آمیز آوازوں نے مرینہ اور ۔۔۔۔ ماحول کو مزید سیکسی بنا دیا ۔۔۔ اور وہ
جوش میں آ کر پہلے سے بڑھ چڑھ کر میرے لن کو چوسنے لگی ۔۔۔ کافی دیر تک وہ میرے لن
ا
کو چوستی رہی ۔۔۔ پھر وہ اُٹھی اور بولی ۔۔۔ تم مجھے چودو گے یا میں چودں ؟ تو میں نے کہا
ﺳﺗﺎ
سن کر وہ بولی تم کو کونسا سٹائل پسند ہے تو میں جیسی آپ کی مرضی باجی ۔۔۔ تو میری بات ُ
نے کہا کہ ڈوگی ۔۔۔۔ تو وہ بولی ۔۔۔ ٹھیک ہے مجھے بھی یہ ہی سٹائل اچھا لگتا ہے اور پھر اس
نے صوفے کے بازو پر اپنے دونوں ہاتھ رکھ اور مجھ سے کہنے لگی پیچھے سے آ کر میری
سن کر میں صوفے سے اُٹھا اور مرینہ کے پیچھے آ کر کھڑا ہو گیا۔۔۔ چوت مارو۔۔ مرینہ کی بات ُ
ﻧﯽ
اس اس کی خوبصورت گانڈ دیکھتے ہوئے اسے تھوڑا مزید جھکنے کو کہا ۔۔۔۔ اور ساتھ ہی
سن کر اس نے اپنی ٹانگیں کھول دیں اور تھوڑی ٹانگوں کو بھی کھال کرنے کا بوال ۔۔۔میری بات ُ
تھوڑا نیچےکو جھک کر بولی ۔۔۔اب ڈال۔۔۔۔۔اور میں نے اس کی چوت کے لبوں پر اپنا لوڑا سیٹ
ﺟﯽ
کیا۔۔۔ اور ابھی دھکا مارنے ہی واال تھا کہ ۔۔۔ مرینہ خود ہی تھوڑا پیچھے کی طرف ہوئی اور میرا
لن پھسلتا ہوا ۔۔۔ اس کی چکنی چوت کے اندر اتر گیا ۔۔۔۔۔ اور یوں میں نے اس کی چوت مارنی
شروع کر دی ۔۔۔۔ اس وقت مرینہ اتنی مست ہو رہی تھی کہ میرے ہر گھسے کا و ہ اپنی گانڈ
پیچھے کی طرف کرتے ہوئے جواب دیتی تھی ۔۔ بالشبہ مرینہ ایک مست اور گرم عورت تھی
@
اور وہ سیکس کو انجوائے کرنا بڑے اچھی طریقے سے جانتی تھی ۔۔ شروع شروع میں تو اس
نے میرے گھسوں کا جواب دیا لیکن جب میں نے اس کی چوت میں سپیڈی گھسے مارنے شروع
کئے تو اس کی بس ہو گئی اور ۔۔۔وہ چیخنے لگی ۔۔۔۔ اور اپنی اسی سیکسی آواز میں کہتی جاتی
سن کر میں مزید شدت سے اس کی چوت میں ۔۔۔ چودو ۔۔۔۔۔چودو۔۔۔۔مجھے چودو۔۔۔۔۔۔ اس کی بات ُ
ﺷﺎه
لن اندر باہر کرتا اور اس کے ساتھ ساتھ میں کوشش کرتا کہ میرا موٹا ٹوپا ۔۔۔ اس کی بچہ دانی
پر ٹھوکر مارے اور میں اپنے اس مشن میں خاصی حد تک کامیاب رہا تھا ۔۔۔ کیونکہ کچھ ہی دیر
ب عد ۔۔۔۔ اس کی چوت سے پچ پچ کی آوازیں تیز ہونے لگیں ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی مرینہ کی
سسکیاں اب آہوں میں بدلنے لگیں ۔۔۔ اور وہ بڑی شدت سے ۔۔۔۔۔ آہ و بکار کرنے لگی ۔۔۔آہ ۔۔۔وئی
ئ ئ ئ ئ ئ ئ ئ ئ ۔۔۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ف۔ اور تیز مار ۔۔۔۔ مجھے چودو
ﺟﯽ
۔چودو۔۔۔۔۔چو۔۔۔۔د۔۔۔۔و۔۔۔۔۔۔اور پھر میں نے دیکھا کہ مرینہ کا جسم جھٹکے لے رہا تھا ۔۔۔۔اور مرینہ
کا سانس بھی اکھڑ چکا تھا ۔۔۔اور گو کہ لن اندر ڈالتے وقت مرینہ کی پھدی کچھ کھلی تھی لیکن
ت منزل ۔۔ پتہ نہیں کیسے اس کی پھدی ایک دم تنگ ہو گئی اور اس کے ساتھ ہی مرینہ نے بوق ِ
ایک لمبی سے سسکی لی ۔۔۔۔آآ آ۔ہ ہ ہ ۔۔۔۔وئی مورے ۔۔۔رے رے ۔۔۔اور اس کسے ساتھ ہی اس کی
چوت سے گرم پانی کا اخراج ہونے لگا ۔۔۔اور اپنے لن پر مرینہ کی چوت کا گرم پانی محسوس
ا
اس سے اگلے دن مرینہ ہم لوگوں سے ُرخصت ہو کر واپس حیدر آباد چلی گئی ۔۔ سٹیشن
ﺳﺗﺎ
پر سب کے ساتھ میں بھی خصوصی طور پر مرینہ کو الوداع کرنے گیا تھا ۔۔۔ سب سے ملنے کے
بعد جب وہ میرے پاس آئی تو وہ دھیرے سے بولی ۔۔۔۔ تم سے ملنے والے ہر قسم کے مزوں کو
کو میں کبھی نہیں بھال پاؤں گی ۔۔۔ اور پھر ٹرین پر سوار ہو گئی ۔۔۔
ﻧﯽ
اسی طرح چند دن گزر گئے اس دوران میں نے بڑی کوشش کی کہ کسی طرح ارمینہ کو
چوت مار سکوں لیکن کوئی چانس نہ بن پایا ۔۔ایس ستم ظریفی تھی کہ ارمینہ دینے کو تیار تھی
ﺟﯽ
میں لینے کو تیار تھا ۔۔۔ لیکن پتہ نہیں کیا بات تھی کہ ۔۔۔موقع ہی نہ لگ رہا تھا ۔۔۔ پھر ایک دن
کی بات ہے میں اور ارصال چھٹی کر کے گھر آئے تو ماسی بولی ۔۔۔ ارصال جلدی سے روٹی کھا
کر ہوم وورک کر لو کہ پھر تم کو استانی جی کے گھر ٹیوشن پر بھی جانا ہے ۔۔۔ استانی جی کا
سن کر میرا دل باغ باغ ہو گیا اور میں نے ماسی سے پوچھا کہ ماسی یہ لوگ کب آئے ؟؟؟؟؟؟؟؟ نام ُ
@
تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ بیٹے آئے تو یہ لوگ رات کو ہی تھے ۔۔۔ لیکن زیادہ رات ہونے کی وجہ سے
ہم لوگوں کو صبع ہی معلوم پڑا ہے ۔۔۔ وہ بھی ۔۔ندا نے بتال یا ہے ۔۔۔۔ ماسی کے منہ سے ندا
میڈم کا نام سن کر میں نہال ہو گیا اور جلدی سے ان کو سالم کر کے گھر گیا اور بستہ پھینک کر
سیدھا ندا میم کے گھر پہنچ کر ان کا دروازہ کھٹکھٹا دیا ۔۔۔ دستک کی آواز پر وہی باہر نکلیں اور
ﺷﺎه
مجھے د یکھ کر بڑی خوش ہوئیں اور پھر انہوں نے ایک نظر گلی میں دیکھا اور پھر مجھے
اندر آنے کا اشارہ کیا ۔۔۔ جیسے ہی میں ان کے گھر کے اندر داخل ہوا ۔۔دروازہ بند کرتے ہی وہ
مجھ سےاور میں ان سے لپٹ گیا۔۔۔ ان کے زبددست ممے میرے سینے میں کھب رہے تھے اور
وہ بڑی گرم جوشی سے مجھے دبا رہی تھیں ۔۔ پھر میں نے اپنا منہ ان کے آگے کر دیا اور انہوں
نے ایک بڑی ہی شارٹ لیکن مست کسنگ کی پھر اپنے منہ مجھے سے الگ کرتے ہوئے بولی
ﺟﯽ
۔۔۔اس کام کے لیئے یہ مناسب وقت نہیں ہے ۔۔۔ اور میں نے ان سے اپنے ناول کے بارے میں
پوچھا تو کہنے لگی تم سے وعدہ کیا تھا نہ ۔۔سو میری جان تمھارا ناول تم کو مل جائے بس
تھوڑا ٹائم لگے گا ۔۔۔ اور پھر مجھ سے کہنے لگی۔۔ اب تم جاؤ کہ میں بھی زیبا کی طرف جا رہی
ہوں ۔۔تو میں نے اس سے پوچھا ۔۔ میڈم کیا میں ٹیوشن پڑھنے آ جاؤں تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ویسے
بات تو میں نے کلئیر کر دی ہے لیکن پھر بھی تم آج نہ آؤ ۔۔۔ کال میں تم کو بتا دوں گی ۔۔۔ اور
ا
کے گھر کی طر ف پڑ گئی۔۔۔۔دیکھا تو سفید ٹوپی واال برقعہ پہنے ماسی ارصال کو لیکر یقینا
ﺳﺗﺎ
اسی میڈم زیبا کے گھر افسوس کرنے جا رہی تھیں ۔۔۔۔ ماسی کو جاتے دیکھ کر ۔۔۔میرے دماغ کی
بتی جلنے لگی ۔۔۔۔ اور پھر اچانک لن صاحب نے کہا بیٹا ۔۔۔ اس وقت ارمینہ گھر میں اکیلی ہو گی
۔۔۔اتنی سوچ آنا تھی کہ میں بھاگتا ہوا ۔۔۔ ماسی کے گھر کی طرف روانہ ہو گیا ۔۔۔ اور جلدی سے
ﻧﯽ
پردہ ہٹا کر اندر دروازے پر ہلکا سا دباؤ ڈال کر دیکھا تو خوش قسمتی سے دروازہ کھال ہو ا
تھا ۔۔۔ دروازہ کھال دیکھ کر میر ا دل دھک دھک کرنے لگا اور میں دھڑکتے دل کے ساتھ ماسی
کے گھر کے اندر داخل ہو گیا ۔۔۔اور چور نظروں سے ادھر ادھر دیکھنے لگا۔۔۔ مجھے ڈر تھا تو
یہ کہ کہیں ارمینہ کا والد گھر پر نہ ہو ۔۔۔اس کے عالوہ مجھے او ر کوئی ڈر نہ تھا۔۔۔ اس وقت
ﺟﯽ
میرے دماغ پر منی چڑھی ہوئی تھی ۔۔۔ اور مجھے ہر طرف ارمینہ کی چوت نظر آ رہی تھی ۔۔
سن ُگن لینےخیر دبے پاؤں ۔۔۔۔چلتے ہوئے میں نے ان کا صحن عبور کیا ۔۔۔ اور ادھر ادھر کی ُ
لگا ۔۔۔ گھر میں گہری خاموشی اور ہر طرف سناٹے کا راج تھا ۔۔ پھر میں چلتا ہوا ۔۔۔ کچن میں
چال گیا ۔۔۔ دیکھا تو ارمینہ وہاں بھی نہ تھی۔۔۔ ۔۔ ۔۔۔۔ پھر میں چلتا ہوا ۔۔ ارمینہ کے کمرے کی طرف
@
گیا ۔۔۔ تو مجھے ارمینہ کی دبی دبی سسکیوں کی آواز سنائی دی ۔۔۔
سن کر میں حیران رہ گیا اور میں سمجھا کہ شاید وہ کسی اور کے ساتھ ارمینہ کی سسکیاں ُ
ﺷﺎه
رنگ رلیاں منا رہی ہے یہ سوچ کر میں نے اپنے جوتے اتارے اور ننگے پاؤں ارمینہ کے کمرے
کی طرف جانے لگا ۔۔۔ دیکھا تو اس کا دروازہ ادھ کھال تھا اب میں اور احتیاط سے آگے بڑھا
اور جھانک کر دیکھا تو ۔۔۔اندر کوئی نہ تھا ۔۔۔ جبکہ ارمینہ بستر پر لیٹی تھی اور ایک سرہانہ
اسکی ٹانگوں کے بیچ پڑا تھا اور وہ یہ سرہانے کو اپنی چوت پر رگڑ رہی تھی ۔۔۔ یہ دیکھ کر
مجھے جوش آ گیا اور میں نے ہلکی سی آواز نکالی ۔۔۔آواز سنتے ہی ۔۔۔۔ ارمینہ نے چونک کر
ﺟﯽ
اپنی آنکھیں کھولیں ۔۔۔ اور پھر میری طرف دیکھ کر اس کے چہرے پر اطمینان اور سکون چھا
گیا اور وہ مجھے دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔آج میں تقدیر سے کچھ اور مانگ لیتی تو وہ بھی مل جانا
تھا ۔۔۔ اور میں اس کے بستر کے پاس پڑی کرسی کو گھسیٹ کر اس کے پاس لے گیا اور پھر
کرسی پر بیٹھ گیا ۔۔۔
ا
سسکی بھری اور میرے ہاتھ کو اپنے نیچے لے گئی میں اپنے ہاتھ اس کے نیچے لے گیا اور
ﺳﺗﺎ
سب سے پہلے سرہانے کو وہاں سے ہٹایا اور اپنا ہاتھ اس کی پھدی پر رکھ دیا ۔۔۔ جیسے ہی میرا
ہاتھ اس کی پھدی پر پڑا اس نے فورا ً اپنی دونوں ٹانگیں جوڑ لیں اور اپنی دونوں رانوں کو
میرے ہاتھ کے گرد بانے لگی ۔جس کی وجہ سے میرا لن ایک دم اکڑ گیا اور ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں
سمجھ گیا کہ اس وقت ارمینہ سخت گرم ہو رہی ہے چنانچہ میں کوئی بات کئے اس کے بستر پر
ﻧﯽ
چال گیا اور جا کر اس کے اوپر جا کر اس طرح سے لیٹ گیا کہ جس سے میرا کم سے کم وزن
ارمنیہ پر پڑے ۔۔ جیسے ہی میں اس پر لیٹا ۔۔ اس نے میرا لن پکڑ کر اپنی پھدی کی موری پر
رکھ دیا تھا اور ساتھ ہی اپنی نرم رانوں کو میرے لن کے ارد گرد کس لیا تھا ۔۔۔۔۔ اور اب میرا لن
ﺟﯽ
ارمینہ کی دونوں رانوں کے بیچ اس کی پھدی کو ٹچ کر رہا تھا ۔۔ اور میرے ہونٹ ارمینہ کے
ہونٹوں میں پیوست تھے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ میں اپنے نیچے والے دھڑ سے ارمنیہ کی
پھدی پر ہولے ہولے سے گھسے بھی مار رہا تھا ۔۔۔ شلوار کے باوجود بھی میرا لن اس کے
چوت کے رس سے گیال ہو رہا تھا ۔۔۔۔ کچھ دیر تک تو ہم یہ گیلی گیلی کسنگ کرتے رہے ۔۔۔ لیکن
@
چونکہ اس وقت ارمینہ بہت سخت گرم تھی اس لیئے جلد ہی میں نے یہ کسنگ ترک کر دی اور
پھر اس نے مجھے اوپر اُٹھے کو کہا اور میں اوپر اُٹھا تو اس نے میری بیک پر ہاتھ لگا کر مجھے
پاس آنے کو کہا ۔۔ اور میں سمجھ گیاا ور اس کے پاس چال گیا اس نے میری قمیض کو ایک طرف
کیا اور پھر شلوار کے اوپر سے ہی میرے لن کو اپنے منہ میں لے لیا اور اس پر ہلکے ہلکے
ﺷﺎه
دانت کاٹنے لگی ۔۔۔۔لن والی جگہ سے میری شلوار پہلے ہی اس کی چوت کے رس سے کافی گیلی
تھی اب اور گیلی ہو گئی تھی ۔۔۔ پھر اس نے ہاتھ بڑھا کر میرا نالہ کھوال اور میرے ننگے لن کو
اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اپنے منہ کے پاس لے گئی اور پھر ایک بڑا ہی گرم چوپا لگایا ۔۔۔۔ اس
کے بعد اس نے مجھے نیچے جانے کو کہا میں سمجھا وہ پھدی چٹوانا چاہ رہی ہے اس لیئے
میں نے اس کی شلوار کھول کر اس کی چوت پر جیسے ہی اپنا منہ رکھنے لگا ۔۔۔تو اس نے منع
ﺟﯽ
سن کر میں تھوڑا پیچھے ہوا ۔۔۔اورپھر اس کی کر دیا اور بولی ۔۔۔۔میرے اندر ڈالو۔۔۔۔ اس کی بات ُ
شلوار جس کا نالہ پہلے ہی کھال ہوا تھا اس کو اتار کر اس کے پاس رکھا اور پھر اپنی بھی
ساری شلوار اتار کر اس کو ایک سائیڈ پر رکھ دیا ۔۔۔۔
ا
گھسا مارا اور بولی ۔۔۔مجھے چودا کرو نا ۔۔۔ روا ۔۔۔ مجھے چودا کرو نہ ۔۔۔۔۔اس کی یہ سیکسی
ﺳﺗﺎ
سن کر مجھے بھی جوش چڑھ گیا اور میں نے اس کی چوت میں زوردار گھسے مارنے باتیں ُ
شروع کردیئے اور کمرہ ارمینہ کی سسکیوں اور سیکسی باتوں سے گونجنے لگا۔۔۔ وہ مسلسل
۔۔چال رہی تھی مجھے چودا کرو نا ۔میں دودنا چاہتی ہوں ۔۔مجھے چودتے کیوں نہیں ۔۔ بہن چود
مجھے چودتے کیوں نہیں ۔۔ اور اس کی باتیں سن سن کر میں پاگل ہوا جا رہا تھا اور اپنی فُل طاقت
ﻧﯽ
لگا کر اس کی چوت کے سارے کس بل نکال رہا تھا۔۔۔ اور اس کی چوت گرم پانی سے بھری ہوئ
تھی ۔۔۔ ایسا لگ رہا تھا کہ ۔۔اس کی تنگ چوت میں گرم پانی کا سیالب آیا ہوا تھا ۔۔۔ میرے خیال
میں اس سیشن کے دوران ارمنیہ کافی دفعہ چھوٹی تھی لیکن فائینلی وہ۔۔۔ اس وقت شانت ہوئی کہ
ﺟﯽ
جب گھسےمارتے مارتے میں نے اپنے آپ کو چھوٹنے کے قریب محسوس کر تے ہوئے فُل ذور
سن کر ارمینہسے گھسے مارتے ہوئے ارمینہ سے کہا ۔۔ ارمینہ ۔۔۔میں ۔۔۔۔۔جانے لگا ہو ں ۔۔۔ یہ ُ
نے میری کمر پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔چھوٹ جا ۔۔۔ میری جان میری پھدی میں چھوٹ
جا ۔۔۔۔۔اور پھر وہ چالئی ۔۔۔اور پھر اس نے میرے بازو کو بڑی سختی سے پکڑا اور بولی میں
@
بھی ۔۔۔ میں بھی ۔۔اس کے ساتھ ہی اس کی چوت کے سارے ٹشو آٹو میٹک طریقے سے مریے لن
کے گرد کسنا شروع ہو گئے اور ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔۔ اس کی پھدی اور میرے لن نے اکھٹا ہی اپنا اپنا
پانی چھوڑنا شروع کر دیا ۔۔۔ اور اس پانی سے اس کی ساری چوت بھر گئی اور ہم دونوں کا
پانی بہہ بہہ کر اس کی چوت کی لیکر سے باہر لیک ہونے لگا ۔۔۔اس کے ساتھ ہی ہم دونوں ایک
ﺷﺎه
ایک اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں کے ساتھ جوڑ دئے اور ۔۔۔ پھر ہم ایک بھر
پور کسنگ کرنے لگے۔۔۔ ہم آپس میں بدن سے بدن مالئے منہ سے منہ جوڑے ۔اپنی اپنی ۔۔ آنکھوں
کو بند کئے ۔۔۔ ایک بھر پور کسنگ کے مزے لے رہے تھے کہ ۔۔۔اچانک ایک غضب ناک آواز
سن کر ہمیں ایسا لگا کہ جیسے کسی نے ہمارے نے ہمیں چونکا دیا ۔۔۔۔۔ ارمینے ۔۔۔۔۔۔اور یہ آواز ُ
پیروں کے بیچ میں بم پھوڑ دیا ہو۔۔۔۔اور یہ آواز اور کسی کی نہیں بلکہ ارمینہ کی امی اور
ا
کرتا ۔۔۔۔ ماسی بھوکی شیرنی کی طرح میری طرف بڑھی ۔۔۔ اس کے تیور دیکھ کر ۔۔۔ میری آنکھوں
ﺳﺗﺎ
کے سامنے اندھیرا چھانے لگا۔۔۔۔ اور ۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔
ماسی نے بڑے ہی خونخوار انداز میں مجھے گریبان سے پکڑا اور دو تین تھپڑ لگا کر
بولی ۔۔بہن چود ۔۔حرامزادے ۔۔کتے ۔۔۔ میں تم کو اپنا بیٹا سمجھتی تھی اور تم۔کیا نکلے ۔۔۔۔۔۔
ﻧﯽ
غصے کی شدت سے ماسی کے منہ سے جھاگ نکل رہی تھی اور وہ ٹھیک سے بات بھی نہیں
کر پا رہی تھی ۔۔۔ تا ہم اس کے ہاتھ خوب چل رہے تھے ۔۔اور وہ مجھے تھپڑ مکے اور التیں
فری سٹائل میں مار رہی تھی ۔ یہ دیکھ کر ارمینہ مجھے بچانے کے لیئے آگے بڑھی ۔ اور
بولی ۔۔ یو منٹ مورے ۔۔۔۔۔ ارمینہ کی آواز سنتے ہی ماسی نے مجھے چھوڑا اور ارمینہ کی
ﺟﯽ
طرف بڑھ گئی ۔۔۔۔ ماسی کو اپنی طرف آتا دیکھ کر ارمینہ نے مجھے بھاگنے کا اشارہ کیا
۔۔۔۔۔۔کپڑے تو ہم نے پہلے سے ہی پہنے ہوئے تھے اس لیئے ارمینہ کا اشارہ پاتے ہی میں
ماسی کے گھر سے ایسے بھاگا ۔۔۔ جیسا کہ ۔۔۔ ایسے موقعوں پر بھاگنے کا حق ہوتا ہے۔۔۔
مجھے بھاگتے دیکھ کر ماسی رک گئی اور بڑی بڑی گالیاں دیتے ہوئے میرے پیچھے بھاگی
@
اور کہنے لگی ۔۔۔اودرے کا ۔خنزیر بچہ ۔۔(ٹھہرو)۔۔لیکن میں نے وہاں ٹھہر کر مرنا تھا ۔۔۔۔اس
لیئے بھاگتا ہوا گھر آ گیا ۔۔۔لیکن پھر خیال آیا کہ غصے کی ماری ماسی اگر گھر بھی آ گئی
تو مجھے دونوں سائیڈوں سے مار پڑے گی ۔۔۔ خاص کر بے بے (امی) نے تو مار مار کر
میری ٹنڈ کر دینی ہے ۔۔۔۔ یہ سوچ کر میں نے دو تین گالس پانی چڑھایا اور پھر گھر سے بھی
ﺷﺎه
بھاگ گیا اور سیدھا اپنے دوستوں کے پاس پرانے محلے چال گیا اور کافی دیر تک وہاں رہا ۔۔
جب رات کافی بیت گئی تو میرے بیسٹ فرینڈ نے مجھے اپنے گھر دفعہ ہونے کو کہا تو
مجبورا ً میں نے اس کو ساری بات بتا دی ۔۔سن کر بڑا ناراض ہوا کہ میں نے ارمینہ کی
چودائی کی بات اب تک اس سے کیوں چھپائی ۔۔ تاہم تھوڑی گالی گلوچ کے بعد بوال اب بتا
میں کیا کروں؟؟؟؟؟ تو میں نے اس سے کہا کہ یار زرا میرے محلے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔خاص کر میرے گھر
ﺟﯽ
کا چکر لگا کر آئے اور حاالت کا جائزہ لیکر کر مجھے پوزیشن بتا ۔۔۔۔
میری درخواست پر اس نے میرے گھر اور محلے کا چکر لگایا اور بتایا اور پھر واپسی
پر آ کر بتالیا کہ یار ایسی کوئی بات نہیں جو خاص ہو۔۔۔ اور مجھے کافی تسلیاں دیں ۔۔ دوست
ا
لگا کہ پتہ نہیں میرے بعد ارمینہ پر کیا گزری ہو گی۔۔۔
ﺳﺗﺎ
اگلی صبع میں گھر سے سکول جانے کے لیئے جان بوجھ کر لیٹ نکال ۔۔۔۔اور پھر سکول
کی طرف چل دیا تھوڑا دور ہی گیا ہوں گا کہ ارصال کے ساتھ مجھے ماسی نظر آ ئی ۔۔۔ جو
ﻧﯽ
اسے سکول لے جا رہی تھی میں نے ایک نظر ماسی کو دیکھا اور تھوڑا پیچھے ہو کر چلنے
لگا اسی طرح کافی دنوں تک میں دنوں تک میں ماسی سے سامنے نہیں آیا اور اگر کہیں ماسی
نظر آ بھی جاتی تو میں اس سے کنارہ کر لیتا تھا ۔۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ میرے دل میں
ﺟﯽ
یہ ُکھد بُد ضرور تھی کہ ۔۔۔میرے بعد ارمینہ پر کیا گزری ہو گی ۔۔۔ اس کے لیئے میں نے کافی
جتن کیے اور چھت پر کھڑے ہو کر دو دو تین تین گھنٹے تک کھڑا ہو کر ارمینہ کا انتظار
بھی کیا لیکن وہ مجھے کہیں نظر نہ آئی ۔۔۔۔۔ یہ اس واقعہ سے ایک ہفتے بعد کا زکر ہے کہ
سکول سے واپسی پر میں اپنے دوستوں سے ملنے پُرانے محلے جا رہا تھا ( پکڑے جانے کے
بعد میرا معمول بن گیا تھا کہ میں اپنے محلے میں کم سے کم رہتا تھا) کہ میری نگاہ ایک خاتون
@
پر پڑی جس نے اپنے جسم کو ایک بڑی سی چادر سے ڈھانپ رکھا تھا ۔ اور اس کے ساتھ
ارصال کو دیکھ کر میں چونک گیا ۔۔ اتنے ۔میں وہ دونوں میرے قریب پہنچ گئے ۔۔ مجھے
دیکھتے ہی وہ خاتو ن و ارصال ُرک گئے ۔۔میں نے بھی ان کو دیکھ لیا تھا لیکن کنی بچا
کر نکل جانا چاہا تو پیچھے سے ارصال کی آواز سنائی دی ۔۔۔ اب میں نے ُمڑ کر دیکھا تو
ﺷﺎه
وہ چادر والی خاتون اور کوئی نہیں ارمینہ تھی اور اس کے ساتھ ارصال کھڑا تھا ۔۔۔۔ ارمینہ کو
دیکھتے ہی میں بھی ُرک گیا اور ادھر ادھر دیکھتے ہوئے ان کے پاس پہنچ گیا ۔۔۔اور ارمینہ
کے سامنے جا کھڑا ہوا ۔۔۔ وہ مجھے بڑی شکایتی نظروں سے دیکھ رہی تھی ۔۔۔اس سے قبل کہ
وہ کچھ کہتی ارصال بوال ۔۔۔ بھائی جان ایک بات پوچھوں؟ چونکہ میرے دل میں چور تھا اس
ﺟﯽ
لیئے میں نے ڈرتے ڈرتے اس سے پوچھا ۔۔۔ ضرور پوچھو بھائی ۔۔۔۔ تو وہ کہنے لگا کہ امی
کہتی ہیں کہ آپ چور ہو ۔۔اور آپ نے ہمارے گھر میں چوری کی ہے کیا یہ بات سچ ہے ؟ تو اس
سے قبل کہ میں اس کو کوئی جواب دیتا ارمینہ نے اسے ڈانٹ دیا اورکہنے لگی ۔۔۔ چپ ۔۔۔ بے
وقوف ہر وقت انٹ شنٹ بکتے رہتے ہو ۔۔۔ پھر میری طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ اس کی بات کا
بُرا نہ ماننا ۔۔۔۔
پھر وہ ارصال سے مخاطب ہو کر بولی جاؤ دیکھ کر آؤ کہ زرینہ ماسی گھر پر موجو د
سن کر بھی کہ نہیں ۔۔۔؟ ایسا نہ ہو کہ ہمیں خواہ مخواہ کا پھیرا پڑجائے ۔۔۔۔۔۔ارمینہ کی بات ُ
ارصال بھاگ کر ایک طرف چال گیا جبکہ ۔۔۔۔ارمنیہ نے مجھے اشارہ کیا اور ہم گلی کے
ا
موڑ پر کھڑے ہوگئے وہ گلی بند تھی اسلیئے وہاں لوگوں کی آمد رفت نہ ہونے کے برابر تھی
ﺳﺗﺎ
تھوڑا موقع مال تو میں نے ارمینہ سے پوچھاکہ یہ بتاؤ اس دن میرے بعد تم پر کیا گزری اور
دوسرا یہ چور کا کیا چکر ہے؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔ کہ پہلی بات کا جواب یہ کہ تمھارے بعد مجھ
پر بہت بری گزری ۔۔۔ امی نے مجھے بہت مارا ۔۔اتنا مارا کہ میرا سارا بدن نیلو نیل ہو گیا اور
ﻧﯽ
میں ہلنے جلنے کے قابل نہ رہی ہاں ایک اچھی بات یہ کی کہ ابا سے یا کسی اور سے کوئی
سن رک مجھے جہاں اس بات کی بات نہ کی کہ اس میں ان ہی کی بدنامی تھی ۔۔۔ ارمینہ کی بات ُ
خوشی ہوئی کہ ماسی نے کسی سے بات نہیں کی۔۔۔وہاں ارمینہ کی مار پر بڑا افسوس بھی
ہوا اور میں نے اس سے کہا ۔۔۔سوری مینا ۔۔۔یہ سب میری وجہ سے ہوا تو وہ کہنے لگی سارا
ﺟﯽ
قصور تمھارا نہیں ہے اس میں زیادہ قصور میرا اپنا ہے اس لیئے تم خود کو مور ِد الزام نہ
ٹھہراؤ ۔۔۔ پھر اس نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ یہ بتاؤ کہ کیا تم مجھ سے پیار کرتے ہو؟
تو میں نے اپنا سینہ پھیال کر کہا ۔۔۔۔ یقین کرو ارمینہ میں تم سے دل کی گہرائیوں سے پیار کرتا
ہوں ۔۔تو وہ بولی سوچ لو ۔۔ محبت امتحان لیتی ہے تو پتہ نہیں میرے من میں کیا آئی کہ میں نے
@
اس سے کہا کہ تم حکم تو کرو ارمینہ جی۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ایک بار پھر سوچ لو اور اس
کے ساتھ یہ بھی جان لو کہ اس دفعہ اگر ہم پکڑے گئےتو امی اپنے ہاتھوں سے ہم دونوں کو
سنگولی مار د یں گی اور یہ بات میں مذاق میں نہیں کر رہی ۔۔۔ ارمینہ کے منھ سے گولی کا ُ
کر ایک دفعہ تو میری گانڈ تک پسینہ آ گیا لیکن میں نے اس پر ظاہر نہ ہونے دیا اور اسے
ﺷﺎه
ویسے ہی موج میں آ کر کہہ دیا ۔۔۔ جو محبت کرتے ہیں نہ ارمینہ جی وہ گولیوں سے نہیں ڈرتے
اور میں نے دیکھا کہ میرے اس ڈائیالگ سے اس پر خاطر خواہ اثر ہوا۔۔اور اسکا مرجھایا ہوا
چہرہ ایک دم کھل اُٹھا اور وہ بولی ۔۔۔سچ ۔۔۔تم ٹھیک کہہ رہے ہو نا۔۔۔ تو میں نے ایک دفعہ پھر
ڈینگ مارتے ہوئےاس سے کہا میں بلکل ٹھیک کہہ رہا ہوں میری جان ۔جب چاہے آزما لو
۔۔ میری بات سن کر وہ مسکرائی اور کہنے لگی۔۔ تو وعدہ کرتے ہو کہ جب بھی میں تم کو
ﺟﯽ
سن کر میری گانڈ ایک مرتبہ پھر بُالؤں گی تم مجھ سے ملنے ضرور آؤ گے ۔۔۔۔ اس کی بات ُ
پھٹ گئی اور میری آنکھوں کے سامنے ماسی کا پستول سمیت چہرہ آگیا ۔۔۔۔ لیکن میں چونکہ
ارمینہ کو قول دے چ کا تھا اس لیئے جان جائے پر پران نہ جائے کے مصداق میں نے اس
سے کہا ۔۔ ارمینہ جی میں ضرور آؤں گا لیکن آپ کے گھر نہیں تو وہ بولی ۔۔۔ مصیبت یہ
ہے کہ میں باہر کسی بھی صورت تم سے نہیں مل سکتی پھر ۔۔۔۔ پتہ نہیں وہ مجھے مکھن لگا
ا
اور خاص کر تمھارے ۔۔۔۔۔۔۔اس میں کیا جادو ہے کہ ۔۔۔۔۔۔۔ اب میں تمھارے۔۔۔اس ۔۔۔ کے بنا ہر
ﺳﺗﺎ
سن کر میں توگز نہیں رہ سکتی ۔۔۔۔ارمینہ کے منہ سے اپنی اور خاص کر اپنے لن کی تعریف ُ
پھول کر کپُا ہو گیا اور پھر سوچنے لگا کہ اس جیسی خوصورت لڑکی کے لیئے رسک لیا جا
سکتا ہے چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ ارمینہ جی آپ جب بھی بالؤ گی میں آپ کی خدمت
سن کر وہ بڑی خوش ہوئی اور کہنے لگی ۔۔۔ میں نہیں چاہتی میں حاضر ہو جاؤں گا میری بات ُ
ﻧﯽ
کہ تم میری خاطر کوئی رسک لو اس لیئے ایسا کرتے ہیں کہ جب میں تم کو بالؤ ں تم کسی نہ
کسی طرح ہمارے چھت پر آ جایا کرو ۔۔اس کہ یہ بات مجھے کچھ مناسب سی لگی اور میں
نے ہاں کر دی پھر اس کے بعد ہم نے کچھ کورڈ وغیرہ طے کئے اور پھر کچھ دیر کے بعد میں
ﺟﯽ
جانے لگا تو جاتے جاتے مجھے یاد آیا تو میں نے اس سے کہا کہ ارمینہ جی یہ چور کا کیا
سن کر وہ ہنس پڑی اور کہنے لگی ۔۔۔۔ کچھ خاص نہیں بس ارصال کو چکر ہے ؟ میری بات ُ
مطمئن کرنے کے لیئے امی نے یہ ڈرامہ کیا تھا ۔۔۔ اور اس کی بات سن کر میں بھی ہنس پڑا اور
وہاں سے اپنے دوستوں کی طرف چال گیا ۔۔۔ ۔۔۔۔
@
پھر راستے میں خیال آیا کہ ارمینہ کو کہہ تو دیا ہے کہ میں اس کے پاس چھت پر آجایا
کروں گا لیکن اس کے چھت پر جاؤں گا کیسے ؟ ۔۔۔ کیونکہ ارمینہ لوگوں کا گھر ہمارے گھر
کے سامنے والی گلی میں تھا اپنی گلی والی سائیڈ میں ہوتا تو کوئی پراوہ نہ تھی ۔۔۔ یہ
سوچ کر میں راستے سے ہی واپس ہو گیا اور پھر ارمینہ والی گلی کا سروے کرنے لگا
ﺷﺎه
۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ ارمینہ والی گلی کے سارے ہی گھروں کی چھتیں آپس میں ملی ہوئیں
تھیں ۔۔۔۔ اور میں اس خیال سے ارمینہ کے گھر کے ساتھ ملے ہوئے گھروں کا جائزہ لینے لگا
ت ضرورت کس گھر کی چھت پر چڑھ کے ارمینہ کی چھت پر پہنچا جا سکتا ہے کچھ کہ بوق ِ
دیر کی تگ و دو کے بعد آخر کار مجھے وہ گھر مل ہی گیا ۔۔۔ یہ چوہدری اشرف صاحب کا
گھر تھا جس کی عقبی سائیڈ پر گٹر اور پانی کا پائپ ساتھ ساتھ لگا ہوا تھا ۔۔۔ گٹر واال پائپ
ﺟﯽ
غالبا ً ان کے چھت کے واش روم کا تھا اور پانی واال پائپ ان کی پانی والی ٹینکی سے آ رہا
تھا ۔۔۔۔ کچھ دیر تک جائزہ لینے کے بعد میں نے چوہدری اشرف صاحب کے گھر کو فائنل کر لیا
وہ ا س لیئے بھی کہ چوہدری صاحب کے بال بچے نہ تھی اور وہ دونوں میاں بیوی بے اوالد
تھے ۔۔۔ اور ویسے بھی وہ لوگ جلدی سونے کے عادی تھی ۔۔۔ اس لیئے اگر چڑھتے وقت تھوڑا
بہت شور ہو بھی جائے تو ان کے اُٹھنے کی کوئی امید نہ تھی ۔۔۔ ان سے آگے مرزا صاحب
ا
کی بیٹی کو میں نے ایک دو دفعہ ہی دیکھا تھا ۔وہ شکل سے تو کافی شریف اور اپنے کام سے
ﺳﺗﺎ
کام رکھنے والی لڑکی لگتی تھی ۔ گویا ہر طرف ۔۔۔ راوی چین ہی چین لکھتا تھا ۔۔۔
ت حال ۔۔۔۔۔اب میں آپ کو ندا میم کی بات سناتا ہوں اگلے دو یہ تو تھی ارمینہ کی صور ِ
تین دن کے بعد جب میں ندا میم کے گھر گیا تو وہ بڑے تپاک سے ملیں انہوں نے مجھے
ﻧﯽ
گلے سے لگا کر ایک بھر پور کس دی اور کہنے لگیں ۔۔۔۔ کیا یاد کرو گے میں نے تمھارا کام کر
اور جب وہ دیا ہے اور پھر انہوں نے مجھے وہیں ٹھہرنے کو کہا اور خود اندر چلی گئیں
واپس آئیں تو ان کے ہاتھ میں میرا استانی جی ناول تھا ۔۔۔۔۔مجھے ہاتھ میں پکڑاتے ہوئے بولیں
۔۔۔۔۔ اُف کس قدر گرم اور غضب کا ناول ہے یہ۔۔۔۔ تو میں نے ان سے پوچھا میڈم آہپ نے اسے
ﺟﯽ
پڑھا ہے تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ ہاں ایک دفعہ نہیں بلکہ تین دفعہ پڑھا ہے ۔۔۔۔ پھر انہوں نے کہا
کہ یار اس مصنف (وحی وہانوی ) کا کوئی اور ناول ہو تو وہ ضرور لیتے آنا ۔۔۔پھر انہوں نے
مجھے نئے ناول کے ساتھ ساتھ استانی جی والے ناول کا دوبارہ کرایہ دیا ۔۔۔ تو میں نے ان سے
کہا کہ میڈم آپ اس ناول کا کرایہ پہلے ہی مجھے دے چکیں تو وہ کہنے لگیں کوئی بات نہیں
@
۔۔۔ اور پھر مجھے جانے کے لیئے کہا اور میں نے ان سے پوچھا کہ کیا انہوں نے میڈم زیبا سے
میرے بارے میں بات کر لی تھی تو کہنے لگیں ہاں تمھارا یہ کام تو میں نے جب زیبا گاؤں
میں تھی تب ہی کر دیا تھا ۔۔۔۔ پھر وہ مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں کہ ہر چند کہ میں نے
تمھاری اجازت تو لے لی ہے ۔۔۔۔لیکن پھر بھی تم ایک دو دن صبر کر لو تو بہتر ہو گا ۔۔۔ ان
ﺷﺎه
سن کر میں نے ان کو آنکھ مارتے ہوئے کہا ،۔۔۔۔میڈم یہ تو بتائیں کہ مجھے اور کن کن کی بات ُ
چیزوں میں مزید صبر کرنا پڑے گا اور پھر بھوکی نظروں سے ان کے مموں کی ..طرف دیکھنا
لگا ۔۔۔۔ وہ میری بات سمجھ گئیں اور بولیں تم کو تو بس ہر وقت میرے بریسٹ ہی چوسنے ہوتے
ہیں اور پھر انہوں نے مجھے ٹھہرنے کا اشارہ کیا اور خود گلی میں جھانک کر ایک نظر باہر
کی طرف دیکھا اور پھر کنڈی لگا کر واپس آگئیں اور میرے پاس آ کر بولی اندر آ جاؤ۔۔۔اور میں
ﺟﯽ
اندر جا کر انہوں نے مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور بولیں ایک تو تم ہمیشہ ہی غلط
ٹائم پر آتے ہو تو میں نے ان سے کہا کہ میڈم آپ نے خود مجھے اس ٹائم آنے کو کہا تھا تو وہ
ا
کی کسنگ کا یہ دورانیہ بہت مختصر رہا ۔۔۔ پھر انہوں نے میرے ہونٹوں سے ہونٹ ہٹا کر بڑی
ﺳﺗﺎ
ہی گرسنہ نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔ پتہ نہیں کیا بات ہے کہ تم اور تمھارا
یہ شاندار ۔۔۔۔۔( لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے) ۔۔۔۔ مجھ سےکیسے اتنے بچتے جا رہے ہو
۔۔۔۔ پھر وہ اپنی قمیض اوپر کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔ لیکن آخر کب تک؟ ایک نہ ایک دن تو بکرے
کی ماں ۔۔۔۔۔ چھری تلے آئے گی ۔۔۔اتنی دیر میں انہوں نے اپنی قمیض اور برا کو چھاتیوں سے
ﻧﯽ
ہٹا کر اس کو ننگا کر دیا تھا ۔۔۔۔ اور اب میرے سامنے ان کی ننگی چھاتیاں ان کے سینے پر تنی
ہوئیں نظر آ رہی تھیں ۔۔۔ اور ان حسین چھاتیوں کے اکڑے ہوئے براؤن سے نپل ان کے بھاری
مموں پر عجیب سی بہار دکھا رہے تھے ۔۔۔ پھر انہوں نے مجھے اشارہ کرتے ہوئے کہا ۔۔۔ کہ
سن کر میں پی لو۔۔ ان کی بات ُ
ﺟﯽ
آجاؤ میرے راجہ۔۔۔ اور میری بھاری چھاتیوں کا گرم دودھ
آگے بڑھا اور ان کی ایک چھاتی پر اپنا منہ لگا کر ان کا اکڑا ہوا نپل ہونٹوں میں ے لیا اور ان
کا دودھ چوسنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔ ان کے براؤن شیپ اکڑے ہوئے موٹے موٹے نپل میرے ہونٹوں کے
بیچ آ کر مجھے مزے کی دینا سے ہمکنار کر رہے تھے ۔۔۔۔ کچھ دیر تک اپنی چھاتیاں چسوانے
@
کے بعد انہوں نے بمشکل میرا منہ اپنے مموں سے ہٹایا اور بولی ۔۔اب بس بھی کرو ۔۔۔ اور پھر
جیسے ہی میں نے ان کی چھاتیوں سے اپنا منہ ہٹایا ۔۔انہوں نے اپنی قمیض نیچے کر لی ۔۔۔ اور
میرے ساتھ ساتھ چل پڑیں اور دروازے سے نکلتے ہوئے ایک دفعہ پھر انہوں نے مجھے پکی
تاکید کی کہ میں وحی وہانوی کا ناول ضرور لیتا آؤں ۔۔چنانچہ پیسے اور ناول ہاتھ میں پکڑے
ﺷﺎه
میں ربے کے پاس چال گیا کہ جس نےوالد صاحب کی وفا ت کے بعد آج ہی دکان کھولی تھی ۔۔
اسے دیکھتے ہی میں نے سفید جھوٹ بولتے ہوئے کہا ربا جی آپ کے والد صاحب کی وفات کا
بڑا افسوس ہو اہے تو وہ قدرے غصے سے کہنے لگا ۔۔۔ ٹھیک ہے ٹھیک ہے بتا ۔۔ناول الیا ہے
سن کر میں نے بڑی فرمانبرداری سے اپنی شلوار کی ڈب سے استانی جی ناول تو اس کی بات ُ
نکاال اور ربے کے حوالے کرتے ہوئے ایک دفعہ پھر اسے خوش آمدانہ لہجے میں کہا کہ۔۔ وہ
ﺟﯽ
ربا جی اسے واپس کرنے کے لیئے میں نے آپ کی دکان پر کافی پھیرے مارے تھے ۔۔۔ لیکن ہر
دفعہ آپ کی دکان بند ملتی تھی ۔۔۔ پھر بڑی ہی غم ذدہ سی شکل بنا کر اس سے بوال ۔۔۔ ربا جی آپ
کے والد صاحب کو کیا ہوا تھا ۔۔۔ تو وہ اسی تلخی سے بوال تمھارا سر ہوا تھا ۔۔ ناول تم نے جمع
کروا دیاہے اور کچھ چیز لینی ہے تو مزید پیسے نکال ورنہ یہاں سے چلتا پھرتا نظر آ ۔۔۔۔ بڑا
سن کر میں نے دل ہی دل میں اسے دوسو گالیاں دیں آیا میرا ہمدرد ۔۔۔ربے کا روکھا سا جواب ُ
ا
تھا چنانچہ میں نے ربے کے ہاتھ سے وہ ناول پکڑا اور سیدھا میڈم کے گھر پہنچ گیا۔۔۔ اور
ﺳﺗﺎ
ان کے گھر کی دستک دی تو جواب میں میڈم خود نکلی اور پھر میرے ہاتھ سے ناول لیتے ہوئے
سن کر میں منہ لٹکائے گھر واپس بولی ۔۔۔ابھی جاؤ ۔۔۔۔ کل آنا کہ مہمان آ گئے ہیں ۔۔۔ میڈ م کی بات ُ
آگیا ۔۔۔۔
ﻧﯽ
اگلے دن جمعہ تھا اور ہمیں سکول سے چھٹی تھی (اس زمانے میں جمعہ کو چھٹی ہوتی
تھی) اس لیئے امی نے صبع صبع ہی وہ آرڈر جاری کردیا جو وہ ہر جمعہ کی صبع کیا
ﺟﯽ
کرتی تھیں ۔۔۔اور وہ یہ کہ خبردار تم نے کہیں نہیں جانا ۔اس کی وجہ تھی کہ ۔۔ ہم لوگوں نے
جمعہ بازار سے ہفتے بھر کی شاپنگ کرنی ہوتی تھی ۔۔اور میں بطور قلی کے ان کے ساتھ جایا
کرتا تھا ۔۔ چنانچہ جمعہ کے بعد ہم لوگ ہاتھ میں تھیلے وغیرہ پکڑے گھر سے نکل کر جمعہ
بازار کی طرف چل پڑے ۔ ( جو کہ کمیٹی چوک کے ساتھ اور کہکشاں سینما کے سامنے لگتا تھا
) ابھی ہم جمعہ بازار میں داخل ہی ہوئے تھے کہ وہاں پر ہمیں امی کی ایک گہری سہیلی
@
بختو خالہ نظر آ گئی جسے دیکھ کر میرا تو سارا ُمو ڈ ہی خراب ہو گیا ۔۔ وجہ اس کی یہ
تھی کہ اس سے پہلے تو مجھے صرف اپنے ہی گھر کی خریداری کے لیئےلیا گیا سامان
اُٹھا نا تھا جبکہ اب اس محترمہ کا بھی سامان اُٹھانا پڑنا تھا ۔۔ لیکن مرتا کیا نہ کرتا اس سے
بھاگا بھی نہ جاتا تھا ۔اس لیئے خون کے گھونٹ پی کر رہ گیا ۔۔ بختو خالہ نے جیسے ہی امی کو
ﺷﺎه
دیکھا تو وہ ان کے ساتھ لپٹ ہی گئی اور پھر کچھ دیر کی گپ شپ کے بعد دونوں نے طے
کیا کہ وہ اکھٹے ہی چیزیں خریدیں گی کہ اس طرح دکاندار اشیاء کو مزید سستا کر دے گا ۔۔۔ یہ
طے کر کے دونوں خواتین نے خریداری شروع کر دی اور آہستہ آہستہ میرے ہاتھوں میں سامان
سے بھرے شاپروں کی تعداد میں اضافہ ہونا شروع ہو گیا ۔۔۔۔
ﺟﯽ
پھر ایک وقت وہ بھی آیا کہ میرے ہاتھوں میں شاپر اور کندھے پر آلو پیاز سے بھرے
توڑے رکھے ہوئے تھے اور میں اپنی قسمت کو ستا ۔۔۔۔اور دل ہی دل میں بختو خالہ کو گالیاں دیتا
سنی جو ہوا ان کے پیچھے پیچھے جا رہا ۔۔۔ کہ اچانک میں نے ایک جانی پہچانی سی آواز ُ
کہ بختو خالہ کا حال احوال دریافت کر رہی تھی ۔۔۔۔ اور جیسے ہی میرے کانوں میں یہ آواز
سنی ہوئی ہے اور میں نے اک زرا سر گونجی ۔۔ میں نے دل میں سوچا کہ یہ آواز تو میری ُ
ا
گئے ہیں اور آپ نے ابھی تک میرا سوٹ سی کر نہیں دیا ۔۔۔اس پر بختو خالہ جو کہ گھر میں
ﺳﺗﺎ
سالئی کڑھائی کا کام بھی کرتیں تھیں کہنے لو کر لو بات ۔۔۔ بیٹا میں آپ کا سوٹ کیسے سیتی ۔۔۔
جبکہ آپ نے ابھی تک اپنے ناپ کا سوٹ تو مجھے دیا ہی نہیں ہے ۔۔۔
سن کر جولی نے اپنے سر پر ہاتھ مارا ۔۔اور بولی ۔۔۔۔ او۔۔۔سوری خالہ بختو خالہ کی بات ُ
ﻧﯽ
میں تو بھول ہی گئی تھی ۔۔۔ پھر کہنے لگیں ۔۔ خالہ ابھی میرے ساتھ چلو ۔۔ اور ناپ واال سوٹ لے
جاؤ ۔۔۔ تو خالہ اس سے کہنے لگی ۔۔۔۔ ابھی تو بہت مشکل ہے بیٹا ۔۔۔ کہ میں نے جمعہ بازار سے
کافی خریداری کرنی ہے ۔۔۔تم ایسا کرو کہ کل چکر لگا لو ۔۔ تو جولی کہنے لگی چکر تو میں
لگا لوں لیکن خالہ یہ سوٹ مجھے کل شام تک ہر حال میں چایئے کہ مجھے ایک بچے کی
ﺟﯽ
سالگرہ کی پارٹی میں جانا ہے تو بختو خالہ کہنے لگی تو بیٹا جیسا کہ آپ جانتی ہے میری ابھی
کافی خریداری باقی ہے تو تم جلدی سے ناپ واال سوٹ لے آؤ ۔۔۔ میں تم کو یہیں ملوں گی ۔۔۔ پھر
سنمزید بولی ۔۔۔ ویسے بھی جمعہ بازار سے مکھا سنگھ اسٹیٹ دور ہی کتنی ہے ۔۔۔۔ خالہ کی بات ُ
کر جولی ۔۔۔۔سوچ میں پڑ گئی اور بولی ۔۔۔۔میرے لیئے یہ کام بہت مشکل ہے خالہ۔۔۔ دیکھ نہیں
@
رہی کس غضب کی گرمی پڑ رہی ہے ۔۔۔۔اور میں پہلے ہی میں بڑی مشکل سے یہاں پہنچی ہوں
سن کر بختو خالہ روکھا سا جواب دیتے ہوئے بولیں ۔۔۔ اگر یہ بات ہے تو ۔۔۔ جولی کی بات ُ
سن کر جولی روہانسی ہو گئی اورکہنے پھر۔۔بیٹا کچھ نہیں ہو سکتا ۔۔۔۔۔خالہ کا روکھا سا جواب ُ
لگی ۔۔۔۔ خالہ پلیز میری بات سمجھنے کی کوشش کریں مجھے وہ سوٹ ہر حال میں چاہیئے
ﺷﺎه
۔۔۔۔ ابھی ان کی تکرار جاری تھی کہ میری امی نے ان کے بیچ میں دخل در معقوالت کرتے
ہوئے کہا ۔۔۔۔ بخت بیگم اس بے چاری کی مجبوری کو سمجھو اور بیٹی کے ساتھ جاؤ ۔۔۔ ہم
تمھارے آنے تک یہیں انتظار کریں گے تم ۔جاؤ اور ۔۔ جلدی سے بیٹی کے کے ناپ والے
کپڑے لے آؤ ۔۔۔
ﺟﯽ
سن کر بخت بیگم کو اچانک ایک آئیڈیا سوجال اور وہ امی کو مخاطب کر امی کی بات ُ
کے کہنے لگیں ۔۔۔ بیٹی کا مسلہ ایک طرح حل ہو سکتا ہے ۔کہ جس میں نہ مجھے ان کے گھر
سن
جانا پڑے گا اور نہ ہی بیٹی کو گھر سے ناپ واال سوٹ النا پڑے گا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ان کی بات ُ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
کر امی کے ساتھ ساتھ جولی نے بھی خالہ کی طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔ وہ کیسے ؟ تو بخت
بیگم نے میری طرف دیکھتے ہوئے کہا وہ ایسے بہن کہ تمھارا بیٹا اگر جولی بیٹی کے ساتھ ان
سن کر امی نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور پھر کہنے کے گھر چال ج ائے تو ؟ ان کی بات ُ
لگیں لیکن پھر ہمارے سامان کا کیا ہو گا ؟ اتنا سامان کون اُٹھائے گا ؟؟ ۔۔۔۔۔بخت بیگم کا یہ
ا
آئیڈیا جولی کو اس قدر پسند آیاکہ اس نے جلدی سے کہا کہ خالہ آپ اپنا یہ سامان رکشہ پر لے
ﺳﺗﺎ
جائیں اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے پرس کو کھوال اور اس میں سے ۔۔۔کچھ پیسے نکال کر
بختو خالہ کو دیئے جو انہوں نے تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے بعد قبول کر لیئے ۔۔۔۔ اور مجھ سے
کہنے لگیں ۔۔بیٹا سامان رکھ کے باجی کے ساتھ چال جا ۔۔تو میں ایک نظر امی کی طرف دیکھا
سن کر میں نے اپنے تو وہ کہنے لگیں بیٹا بخت بیگم جو کہہ رہیں ہیں وہ کرو ۔۔۔ امی کی بات ُ
ﻧﯽ
کندھے پر لدے آلو بیاز کے توڑے اور شاپر زمین پر رکھے اور اس کے بعد اپنی قمیض کی
اُلٹی سائیڈ سے اپنے چہرے پر آئے پسینے کو صاف کیا اور جولی کے ساتھ چل پڑا۔۔۔۔
مجھے حیرت اس بات پر تھی کہ جولی نے ابھی تک میرے ساتھ کسی قسم کی شناسائی کا
ﺟﯽ
اظہار نہ کیا تھا ۔۔۔لیکن پھر جلد ہی میری یہ حیرت دور ہو گئی ۔۔ کیونکہ جیسے ہی ہم جمعہ
بازار سے واپس ۔۔۔۔ مکھا سنگھ اسٹیٹ کے پاس پہنچے ۔۔۔ جولی نے میری طر ف دیکھا اور بولی
۔۔۔۔ مرینہ کیسی ہے ؟ تو میں نے بھی بنا کسی گھبراہٹ کے ان سے کہہ دیا کہ ۔۔۔وہ تو جی چلی
سن کر وہ تھوڑا چونکی ۔۔پھر کہنے لگی ۔۔اوہ ہاں ۔۔۔ اس نے مجھے بتایا بھی گئیں ۔۔۔ میری بات ُ
@
تھا ۔۔۔پھر اس کے بعد اس نے مجھ سے کوئی بات نہیں کی ۔۔۔ اور پھر چلتے چلتے ہم جولی کے
گھر پہنچ گئے ۔۔۔۔ دروازے کے پاس پہنچ کر اس نے پرس سے چابی نکالی اور گیٹ کھول کر
کہنے لگی ۔۔۔۔ اندر آ جاؤ۔۔۔ اور میں جولی کے پیچھے چلتے ہوئے گھر کے اندر داخل ہو گیا
اور اس نے مجھے ڈرائینگ روم میں بیٹھنے کو کہا تو میں نے جواب دیا کہ باجی آپ جلدی
ﺷﺎه
سے ناپ والے کپڑے دے دو ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی اتنی گرمی سے آئے ہو ۔۔کچھ ٹھنڈا ونڈا تو پی
لو ۔۔۔۔۔ اور پھر اس نے مجھے صوفے پر بیٹھنے کا اشارہ کیا اور یہ کہتے ہوئے باہر نکل گئی
کہ میں تمھارے لیئے ٹھنڈے کا بندوبست کرتی ہوں ۔۔۔ اور میں سامنے صوفے پر بیٹھ کر جولی
کا انتظار کرنے لگا۔۔۔۔۔ کافی دیر بعد جب وہ آئی تو اس کے ہاتھ میں صرف ایک گالس جوس تھا
۔۔۔ جو اس نے میری طرف بڑھایا اوربولی ۔۔یہ پی لو۔۔۔ میں نے تھوڑی سی نا ،،،نا۔۔۔کے بعد جولی
ﺟﯽ
کے ہاتھ سے جوس کا گالس لے لیا ۔۔اور پھر اس کو پینےلگا ۔۔۔ وہ بڑے غور سے مجھے جوس
پیتے ہوئے دیکھ رہی تھی جوس پیتے ہوئے مجھے اس کا ذائقہ کچھ عجیب سا ِفیل ہوا لیکن
ایک تو گرمی اور دوسرا مجھے اس وقت بڑی شدید پیاس لگی ہوئی تھی اس لیئے میں نے وہ
سارا جوس ایک ہی سانسں میں چڑھا لیا ۔۔۔ جیسے ہی جوس ختم ہوا تو وہ بولی اور الؤں ؟ تو
میں نے جی چاہتے ہوئے بھی انکار کر دیا اور اس سے کہا ۔۔۔ باجی مجھے کپڑے دے دیں ۔۔ تو
ا
۔۔پھر آہستہ آہستہ مجھے جوس پینے کے کچھ دیر بعد تو سب ٹھیک رہا ۔۔۔ لیکن
ﺳﺗﺎ
ایسے لگنے لگا کہ جیسے میرے سارے جسم میں چیونٹیاں سی رینگ رہیں ہوں۔اس کے ساتھ
ہی میرا سارا جسم پسینے میں بھیگ گیا ۔ اور مجھے خواہ مخواہ ہی انگڑائیاں آنا شروع ہو
گئیں ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی پتہ نہیں کیوں ایک دم سے میرا لن بھی کھڑا ہو گیا ۔۔۔ جسے میں
ﻧﯽ
نے اپنے طریقے سے بٹھانے کی بڑی کوشش کی لیکن جیسے جیسے میں اس کو بٹھانے کو
کوشش کرتا یہ میری ایک نہ سنتا اور بجائے بیٹھنے کے یہ اور بھی تن کر اکڑاتا جاتا ۔۔ اور
پھر میری حالت یہ ہو گئ کہ جیسے میرا سارا وجود ہی ہوشیاری سے بھر چکا ہو ۔۔ اور یہ
ہوشیاری تھی کہ ختم ہونے کا نام ہی نہ لے رہی تھی ۔۔۔ ۔ اور میں حیران پریشان کہ یہ ماجرا کیا
ﺟﯽ
ہے ؟اور خاص کر یہ سوچ کر ہی میری گانڈ پھٹ رہی تھی کہ اگر اس حالت میں مجھے
جولی نے دیکھ لیا تو وہ کیا سوچے گی؟؟؟؟؟ ۔۔۔۔ پھر میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا اور یہ سوچ
آتے ہی میں جلدی سے باہر گیا اور جولی کے کمرے میں جھانک کر دیکھا ۔ تو ۔اس کے واش
روم کا دروازہ بند تھا اور شاور سے پانی کے گرنے کی آواز آ رہی تھی اس طرف سے مطمئن
@
ہو کر میں واپس ڈرائنگ روم میں آیا اور پھر دروازے کے پیچھے کھڑے ہو کر اپنی شلوار کا
نالہ کھول کر اسے تھوڑا نیچا کیا اور پھر لن کو باہر نکال لیا ۔۔ اس کے بعد ایک نظر پھر باہر
جھانک کر دیکھا تو وہاں کسی کے بھی آثار نہ تھے چنانچہ میں نے جلدی جلدی لن کو اپنے
ہاتھ میں پکڑا اور اسے دیکھنے لگا ۔۔۔۔ ۔۔۔ میں نے اپنے لن کو بڑی دفعہ ہوشیاری آ تے ہوئے
ﺷﺎه
دیکھا تھا ۔۔۔ لیکن یہ ہوشیار کوئی اور ہی طرح کی تھی ۔۔۔۔لن کا ایک ایک ریشہ ۔ایک ایک رگ
۔اکڑاہٹ کے مارے پھڑک رہی تھی ۔۔ میں کچھ دیر تک لن کو دیکھتا رہا پھر میں نے جلدی سے
لن پر تھوک لگا کر اسے چکنا کیا اور پھر ُمٹھ مارنا شروع ہو کر دی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ
ایک نظر باہر بھی دیکھتا رہا کہ مبادا ۔جولی نہ آجائے ۔۔۔ مجھےلن پر ہاتھ مارتے ہوئے کافی
ہی دیر ہو گئی تھی کہ ۔۔ میرا لن چھوٹنے کا نام ہی نہ لے رہا تھا اور میں حیران ہو رہا
ﺟﯽ
تھا کہ آخر چکر کیا ہے کیونکہ اتنا بڑا ماچو مین تو میں ہر گز نہ تھا کہ اتنی دیر تک ہاتھ
مارنے کے باوجود بھی نہ چھوٹ ۔۔۔۔ پا تا ۔۔۔ مجھے ُمٹھ مارتے ہوئے جب کافی دیر ہو گئی
اور میں نہ چھوٹا تو میں نے ُمٹھ مارنی بند کر دی اور دیکھا تو میرا لن تیز تیز ہاتھ مارنے
سے الل ہو رہا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے لن کو شلوار کے اندر کیا اور سوچنے لگا کہ اب میں
کیا کروں ؟؟؟؟؟؟ کیونکہ مجھے بڑی ہی شدید ہوشیاری آئی ہوئی تھی ۔۔۔۔۔
ابھی میں نے لن کو شلوار کے اندر کیا ہی تھا کہ مجھے باہر سے جولی کے قدموں کی
چاپ سنائی دی اور میں نے جلدی سے اپنے لن کو دونوں ٹانگوں کے بیچ کیا اور پھر ٹانگ پر
ٹانگ چڑھا کر بیٹھ گیا اور مجھے اتنا ٹائم نہ مل سکا کہ میں لن کو اوپر کر کے اپنی شلوار
ا
کے نیفے میں اڑس لیتا ۔۔۔ جیسے ہی میں سیٹ فائن ہو کر بیٹھا اگلے ہی لمحے جولی ۔۔۔ ڈرائینگ
ﺳﺗﺎ
روم میں داخل ہو گئی ۔۔۔ اور اسے دیکھ کر میرا منہ کھلے کا کھال رہ گیا ۔۔۔ اس وقت جولی نے
بڑا ہی باریک سا لباس پہنا ہوا تھا ۔۔ اور اس کے ایک ہاتھ میں بالوں پر پھیرنے واال بُرش تھا
۔۔۔ اور اس باریک لباس میں اس کا سانوال اورنمکین سا بدن اچھا خاصہ جھانک رہا تھا ۔۔۔ میں
ﻧﯽ
جو پہلے ہی ہوشیاری کے ہاتھوں خوار تھا جولی کو نیم عریاں دیکھ کر اور بھی خوار ہو گیا ۔۔۔
اتنے میں وہ میرے پاس آ کر ساتھ والے صوفے پر بیٹھ گئی اور پھر بڑے غور سے میری
طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ نہا کے کنگھی کرنے لگی تھی کہ سوچا تم یہاں بیٹھے بور ہو رہے
ہو گئے اس لیئے میں تمھارے پاس آ گئی کہ چلو اس دوران برش بھی کر لوں گی اور تمھارے
ﺟﯽ
ساتھ گپ شپ بھی ہو جائے گی ۔جولی کا نیم عریاں بدن دیکھ میری جنسی ہوس میں اور بھی
اضافہ ہو رہا تھا ۔۔ اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی جولی کے جسم کے ابھاروں کو گھورے جا رہا
تھا ۔۔۔ لیکن حیرت کی بات ہے وہ میری بھوکی نظروں سے بے نیاز بالوں کو برش کر رہی تھی
۔۔۔اور ادھر میرا لن شہوت کے مارے پھٹنے واال ہو رہا تھا پھر جولی نے ایک عجیب حرکت کی
@
وہ یہ کہ برش کرتے کرتے اچانک اس کے ہاتھ سے برش نیچے گر گیا اور وہ میری طرف
دیکھتے ہوئے جھک کر برش اُٹھانے لگی ۔۔۔ جس کی وجہ سے اس کے مخروطی ابھاروں کے
موٹے موٹے نپل مجھے بہت صاف نظر آئے اور ان کو دیکھ کر میرے ہونٹ خشک ہو گئے اور
رانوں میں دبا میرا لن باہر آنے کو بے تاب ہونے لگا۔۔۔
ﺷﺎه
میرا خیال ہے کہ وہ میری اس بے تابی کو خوب سمجھ رہی تھی بس کسی وجہ سے
ایسے بی ہیو کر رہی تھی کہ جیسے کچھ بھی نہ ہوا ہو کیونکہ جیسے ہی میں نے اس کے
ابھروں کی طرف نگاہ ڈال کر اپنے خشک ہونٹوں پر زبان پھیری تو پہلی دفعہ وہ تھوڑا
ﺟﯽ
مسکرائی اور بولی کیا بات ہے ۔۔ بڑی پیاس لگ رہی ہے ۔۔ تو میں نے کہا ۔۔ نہ نہ نہیں ۔۔۔ بس
۔۔۔۔۔۔ تو وہ ہنس پڑی اور بولی پانی الؤں ؟ اور پھر وہ خود ہی اُٹھ کر باہر چلی گئی اور واپسی
پر پانی والی بوتل تھی جو وہ فریج سے نکال کر الئی تھی اس نے میرے سامنے کھڑے کھڑے
بوتل سے پانی انڈیال اور مجھے گالس پکڑاتے ہوئے بڑی گہری نظروں سے دیکھنے لگی
۔۔میں نے اس کے ہاتھ سے پانی کا گالس پکڑا اور پانی پیتے ہوئے نا چاہتے ہوئے بھی اس
ا
جسم اتنا پسند آیا ہے تو۔۔۔ ادھر آ کر نزدیک سے دیکھ لو ۔دور کیوں بیٹھے ہوں ۔۔۔ میں نزدیک
ﺳﺗﺎ
کیا خ اک آتا ۔۔۔میں تو پہلے ہی اس کے پاس بیٹھا تھا ۔۔۔اس لیئے چپکے سے بیٹھا رہا ۔۔۔۔ جب
تھوڑی دیر بعد میں ا س کے پاس نہ گیا تو وہ تھوڑی دور پڑے سٹول کی طرف اشار ہ کرتے
ہوئے بولی ۔۔۔وہ سٹول اُٹھا کر میرے پاس آ جاؤ۔۔ لیکن میں اپنے لن کی وجہ سے اُٹھ نہ سکتا تھا
اس لیئے ُچپ کر کے بیٹھا رہا ۔۔اس نے کچھ دیر انتظار کیا پھر وہ خود ہی اُٹھی اور سٹول اُٹھا
ﻧﯽ
کر میرے بلکل پاس بیٹھ گئی ۔۔۔اس کے جسم سے ایک عجیب سی مہک آ رہی تھی ۔۔۔۔ جو
مجھے اندر ہی اندر کافی پریشان کر رہی تھی ۔۔۔۔لیکن میں سر جھکائے بیٹھا رہا ۔۔۔ یہ دیکھ کر
وہ کہنے لگی کمال ہے جب میں دور بیٹھی تھی تو تم اتنی نظریں پھاڑ پھاڑ کے مجھے دیکھ رہے
ﺟﯽ
تھے اب پاس آئی ہوں تو شرما رہے ہو ۔۔۔ پھر کہنے لگی اس دن مرینہ کے ساتھ بھی ایسے ہی
شرمائے تھے۔کیا ؟
سن کر میرے دماغ میں گھنٹیاں سی بجنے لگیں اور میں معاملہ جولی کی مرینہ والی بات ُ
کو کچھ کچھ سمجھنے لگا۔۔۔۔ چنانچہ میں نے اپنا جھکا ہوا سر اُٹھایا اور جولی کی طرف دیکھنے
@
لگا ۔۔۔اور دیکھا کہ اس ظالم نے اپنے سنےس کے ابھار میری آنکھوں کے عین سامنے کیئے
ہوئے تھے اور میں نہ چاہتے ہوئے بھی اس کی سینے کے بھاری ابھاروں کو دیکھے جا رہا تھا
۔۔۔۔ پھر مجھے جولی کی آواز سنائی دی ۔۔۔۔ اور بات کرتے ہوئے واضع طور پر اس کی آواز میں
سن کر میں کپکپاہٹ سی تھی وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔۔ تم کو یہ بڑے اچھے لگتے ہیں ۔۔۔ اس کی بات ُ
ﺷﺎه
نے اس کی آواز کی لرزش کو صاف محسوس کر لیا اور پھر سمجھ گیا کہ میری طرح جولی بھی
خوار ہے ۔۔۔۔۔اس لیئے میں نے اس کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔ وہ جی اچھی چیز اچھی ہی
لگے گی نا۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔۔ کتنی اچھی لگتی ہے تو میں نے تھوڑی ہمت کرتے ہوئے اس
کے مموں کی طرف ہاتھ بڑھاتے ہوئے کہا ۔۔۔بہت ۔۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ میرا ہاتھ اس کے
موٹے ممے سے ٹچ ہوتا۔۔ اس نے راستے ہی میں میرا ہاتھ پکڑ لیا ۔۔۔۔۔۔۔۔اور بولی ۔۔۔ نو نو ۔۔۔یہ
ﺟﯽ
نہیں کرنا ۔۔۔تو میں نے کہا پلیززززز جولی جی ۔۔۔ دل تو اس کا بھی کر رہا تھا ۔۔۔ بس اوپر اوپر
سے نخرے جھاڑ رہی تھی اس لیئے میری درخواست پر بولی ۔۔۔۔ اوکے ۔۔ میں تم کو ہاتھ لگانے
دیتی ہوں ۔۔۔ لیکن ایک شرط ہے اور وہ یہ کہ تم ان پر جسٹ ہاتھ لگاؤ گئے ۔۔۔۔اس سے آگے
کچھ نہیں کرو گے ۔۔۔ وہ اپنے مموں پر ہاتھ تو لگانے دے رہی تھی نا ۔۔۔میرے لیئے اتنا ہی
کافی تھا ۔۔۔ ۔۔۔سو میں نے جھٹ سے کہہ دیا ٹھیک ہے جولی جی میں صرف ٹچ ہی کروں گا اور
ا
نپل پر مزہ لیتے ہوئے بولی ۔۔۔ لیکن تم ۔۔۔آہ ہ ہ ۔ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔۔۔ میرے ۔۔۔۔کیوں مسل رہے ہو ۔۔۔ تو
ﺳﺗﺎ
میں نے اس کہا ۔۔۔ میں کہاں مسل رہا ہوں جولی جی ؟ اور اس کے ساتھ ہی اس کے نپل
کے موٹے سرے کو اور بھی تیزی کے ساتھ مسل دیا ۔۔۔۔اب اس نے میرا ہاتھ پکڑا اور وہاں
سے ہٹا دیا ۔۔۔ تو میں نے اس سے پوچھا یہ کیوں جولی جی ۔۔؟ تو وہ کہنے لگی یہ اس
لیئے کہ تم نے معاہدے کی خالف ورزی کی ہے تو میں نے کہا ۔۔کہ میں نے تو آپ کے کہنے
ﻧﯽ
پر جسٹ ہاتھ ہی رکھا تھا ۔۔۔تو وہ بولی ،،،وہ جو۔۔۔ وہ جو ۔۔۔تم نے میرے ۔۔تو میں نے کہا آپ
کا مطلب ہے نپل تو وہ ایک دم سرخ ہو گئی ۔۔۔۔۔اور بولی ہاں ۔۔وہی ۔۔وہی ۔۔۔ تب میں نے کہا اوکے
اب ایسا نہیں کروں گا ۔۔پلیززز ایک دفعہ اور چانس دیں۔۔۔۔
ﺟﯽ
سنے بغیر ہی اس کے ایک ممے پر ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔۔ اور جولی کی اور پھر اس کی بات ُ
طرف دیکھنے لگا ۔۔۔۔اور میں نے دیکھا کہ جولی کی آنکھوں میں بھی ہوس کے الل ڈورے تیر
رہے تھے ۔۔۔۔۔اور میری طرح سے اس کے ہونٹ بھی خشک ہو رہے تھے اور وہ بار بار اپنی
@
زبان سے ان کو تر کر رہی تھی۔۔۔ اور میں سمجھ گیا کہ لوہا پوری طرح گرم ہو گیا ہے ۔۔۔۔۔ ظاہر
ہے وہ عورت تھی اور پہل نہ کر سکتی تھی ۔۔۔اس لیئے میں نے اس کے دوسرے ممے پر اپنا
منہ رکھ دیا اور اس کی قمیض کے اوپر سے ہی ان پر زبان پھیرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ میری یہ حرکت
دیکھ کر جولی ۔۔۔ ایک دم پریشان ہو گئی اور بولی ۔۔۔۔یہ ۔۔یہ کیا کر رہے ہو تم۔۔۔۔تو میں نے
ﺷﺎه
کہا جولی جی میں ان کو دبا تھوڑی رہا ہوں میں تو ان کو بس چوم رہا ہوں ۔۔۔اور اس کی پتلی
سی قمیض کے اوپر سے ہی اس کے تنے ہوئے نپل کو اپنے منہ میں لے لیا ۔۔۔۔ برا تو اس نے
پہلے ہی سے نہیں پہنا ہوا تھا ۔۔۔اس لیئے میرے ہونٹوں میں اس کے نپل آتے ہی وہ تڑپ اُٹھی ۔۔۔۔
اور آہیں بھرنے لگی۔۔۔۔ اور بولی دیکھو ۔۔۔یہ تم غلط کر رہے ہو ۔۔۔ حاالنکہ اگراس کے نزدیک
ﺟﯽ
اگر میں غلط کر رہا تھا تو وہ مجھے تھپڑ مار کر خود سے الگ کر سکتی تھی لیکن اس نے
ایسا کچھ نہیں کیا اور بس یہی کہتی رہی نہ کرو نہ ۔۔۔۔۔مت کرو پلیزززززززززززز۔۔۔ لیکن میں
نے اس کا نپل نہیں چھوڑا اور اس کو چوستا رہا ۔۔۔ پھر میں نے دھیرے سے اس کی قمیض کو
تھوڑا اوپر کیا اور اس کے ننگے ممے پر ہونٹ رکھ دیئے تو وہ بولی ۔۔۔ کیا کر رہے ہو بدتمیز
۔۔۔ تو میں نے کہا ۔۔ دودھ پینے کی کوشش کر رہا ہوں ۔۔۔اور پھر اس کی بات سنےبغیر اس کے
مموں پر پل پڑا ۔۔۔۔۔۔
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
اب کی بار اس نے کوئی احتجاج نہین کیا اور مجھے اپنے مموں کا دودھ پینے دیا ۔۔۔ ممے
چوستے چوستے مجھے جوش آ گیا اور میں اپنی سیٹ سے اُٹھ کھڑا ہوا۔۔۔۔ اور میرے اُٹھنے سے
میری ٹانگوں کے بیچ پھنسا ہوا میرا لن بھی آذاد ہو گیا اور جیسے ہی میں کھڑا ہوا ۔۔۔ میرا موٹا
ا
۔۔۔لمبا ڈنڈا ۔۔۔۔ جولی کے چہرے سے جا ٹکرایا ۔اور اس کے ہونٹوں پر رگڑ لگاتا ہوا ۔۔۔پرے ہو گیا
ﺳﺗﺎ
۔۔۔ یہ دیکھ کر میں ایک دم پیچھے ہو گیا اور اپنے لن کے آگے ہاتھ رکھ دیا ۔۔۔اور تھوڑا شرمندہ
بھی ہو ا کہ میرا لن بڑی زور سے اس کے چہرے سے ٹکرایا تھا ۔۔۔ چنانچہ میں نے جولی سے
کہا ۔۔ سوری جولی جی ۔۔۔ تو وہ حیران ہو کر بولی سوری کس بات کا مسٹر؟ اور مسکراتے
ﻧﯽ
ہوئے بولی ۔۔۔ آگے سے اپنا ہاتھ تو ہٹاؤ ۔۔ اور اس کے کہنے پر میں نے اپنا ہاتھ لن سے ہٹا
دیا ۔۔۔۔۔جیسے ہی میرا ہاتھ لن سے ہٹا ۔۔۔۔۔۔ تو وہ پھنکارتا ہوا ۔۔جولی کے سامنے آ گیا ۔۔۔۔ اور جس
سے میری قیمض میں ایک تنبو سا بن گیا تھا ۔۔۔۔۔۔اور وہ بڑی دلچسپ نظروں سے میرے لن کو
گھورے جا رہی تھی ۔۔۔ تب میں آگے بڑھا اور اس کا ہاتھ پکڑ کے اپنے لن پر رکھ دیا ۔۔۔۔۔۔۔۔اس
ﺟﯽ
نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں ایسے پکڑ لیا کہ جیسے وہ نیند میں ہو ۔۔۔ اور پھر بولی
۔۔۔تمہارے اس کے بارے میں مرینہ نے مجھ سے بات کی تھی ۔۔۔لیکن یہ اتنا ہو گا ۔۔۔ ۔۔۔اُف ف ف
ف۔۔۔ اتنے بڑے کا تو میں نے سوچا بھی نہ تھا ۔۔۔۔ ادھر مجھے چونکہ ہوشیاری چڑھی
ہوئی تھی اس لیئے ۔۔۔میں نے اس کے سر کو پکڑا اور اپنے لن کی طرف لے گیا۔۔۔۔۔ اس نے
@
ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر اپنا منہ بند کر لیا تب میں نے اپنے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا
اور قمیض کو اوپر کر کے اپنی شلوار سمیت ہی لن اس کے نازک ہونٹوں پر پھیرنے لگا
۔۔۔۔حیرت انگیز طور پر اس نے کوئی احتجاج نہ کیا اور نہ ہی کوئی ناز نخرہ کیا ۔۔۔۔۔ بلکہ
پہلے جو اس کے ہونٹ سختی سے بند تھے اب اس نے ڈھیلے کر دیئے اور میں ایسے ہی اس
ﺷﺎه
کچھ دیر تک ایسے ہی لن پھیرنے کے بعد میں نے جولی کو اوپر اُٹھانے کی کوشش کی تو
اس نے اپنی آنکھیں کھولیں اور بولی ۔۔۔کیا کروں ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو میں نے اس کو اوپر اُٹھنے کا
ﺟﯽ
اشارہ کیا اور وہ بال چوں و چرا کئے اوپر اُٹھ گئی ۔۔۔اور میں نے جولی کو اپنے گلے سے لگا
لیا ۔۔۔۔۔۔۔پھر میں نے اپنے ہونٹ جولی کے ہونٹوں پر رکھ دیئے تو وہ منہ ہٹا بولی۔۔تم بہت ہاٹ ہو
۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔آپ کو کیسے پتہ ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مرینہ نے بتایا تھا
۔۔۔اور پھر اس نے خود ہی میرے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے اور ان کو چوسنے لگی ۔۔اس
کے بدن اور منہ سے ایک عجیب سی مست مہک آ رہی تھی ۔۔۔۔جو مجھے بے خود بنا رہی تھی
ا
ساتھ میری ہاٹ کسنگ کا بھی اسی طرح جواب دینے لگی ۔۔
ﺳﺗﺎ
ہم کافی دیر تک کسنگ کرتے رہے پھر بات اس کی بھی برداشت سے باہر ہو گئی جبکہ
ﻧﯽ
میں تو پہلے ہی کافی تیار تھا سو ۔۔۔ وہ مجھ سے الگ ہوئی اور ۔۔۔۔ صوفے پر بیٹھ گئی اور مجھے
اپنے کپڑے اتارنے کو کہا ۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے جلدی سے اپنے سارے کپڑے اتار دیئے
اور ایک دفعہ پھر ننگا ہو کر اس کے سامنے آگیا ۔۔۔جیسے ہی میں جولی کے قریب پہنچا ۔۔۔ اس
ﺟﯽ
نے ہاتھ بڑھا کر خود ہی میرا لن پکڑ لیا اور بڑے غور سے میرے ٹوپے دیکھنے لگی ۔۔۔تو میں
نے اس سے پوچھا کہ کیا دیکھ رہی ہو میڈم۔۔؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ میں تمھارے لن کا کٹ
دیکھ رہی ہوں ۔بڑا شاندار ہے ۔۔ میں اس کی بات کو نہ سمجھا اور اس سے پوچھنے لگا ۔۔۔ میں
سمجھا نہیں تو وہ بولی ۔۔۔ میں بتاتی ہوں ۔۔۔اور کہنے لگی تم جانتے ہو کہ میں ایک کرسچئن لڑکی
@
ہوں اور میرا خاوند بھی کرسچئن ہے اور تم یہ بھی جانتے ہو کہ ہم لوگ ختنہ نہیں کرواتے ۔۔۔
تو میں اس کی بات سمجھ کر بوال ۔۔۔اچھا اچھا یہ بات ہے تو وہ بولی ہاں ۔۔۔۔ یہی بات ہے پھر
اس نے میری طرف دیکھا اور کہنے لگی ۔۔ فلموں کی بات اور ہے لیکن تم یقین کرو کہ میں
نے کٹ لن پہلی دفعہ دیکھا ہے تو میں نے اس سے کہا کیسا لگا ؟ تو وہ کہنے لگی تمھارے اس
ﺷﺎه
وہ کافی دیر تک میرے ٹوپے کےبارڈر کے ارد گرد اپنی زبان پھیرتی رہی پھر اس نے
میرا لن اپنے منہ میں ڈال لیا اور اسے چوسنے لگی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر اس کے بعد اس نے میرے
ا
اتارتے ہوئے دیکھنے لگا جب وہ سارے کپڑے اتار چکی تو اس نے ایک خاص ادا سے میری
ﺳﺗﺎ
طرف دیکھا اور صوفے پر بیٹھ گئی ۔۔۔۔ میں اس کا اشارہ سمجھ گیا اور میں نیچے قالین پر بیٹھ
گیا اور اس کی ٹانگیں کھول کر اس کی رانوں پر ہاتھ پھیرنے لگا ۔۔۔ پھر میں بلکل اس کی چوت
کے پاس چال گیا اور میں نے دیکھا کہ اس کی چوت پر ۔۔ہلکے کالے رنگ کے چھوٹے چھوٹے
ﻧﯽ
بال تھےان کو دیکھ کر اندازہ ہو رہا تھا کہ اس نے ایک ہفتے سے اس نے اپنی چوت کے
بال صاف نہیں کیئے تھے ۔۔۔ پھر میں نے اس کی بالوں والی چوت پر انگلیاں پھیرنا شروع
کر دیں اور ساتھ ساتھ اس کی چوت بھی چیک کرتا رہا ۔۔۔ اور میں نے دیکھا کہ میڈم کی چوت
کے دونوں لبوں میں کافی فاصلہ تھا اور درمیان کی گہری لررت بتا رہی تھی کہ میڈم نے کافی
ﺟﯽ
چوت مروائی ہے ۔۔۔ اس کے بالوں پر انگلی پھیرتے پھیرے پھر میں اپنی درمیاں والی انگلی کو
اس کی چوت کی پھانکوں کے درمیان پھیرنے لگا ۔۔۔ وہ تھوڑا سا کسمسائی اور اپنی دونوں رانوں
کو تھوڑا اور کھول دیا اور۔۔۔۔ خود اس نے صوفے پر ٹیک لگا لی اور اپنے جسم کے نیچے
واال حصہ میرے حوالے کر دیا۔۔۔۔
@
سب سے پہلے میں نے اپنی زبان اس کی چوت پر رکھی ۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔ہ ہ ہ ۔۔۔۔ اس کی
چوت سے ایسی سیکسی مہک آ رہی تھی کہ میں نے اس کی چوت چاٹنے کا ارادہ ترک کر
ﺷﺎه
دیا ۔۔۔ اور عین اس کی چوت پر ناک رکھ کر اس کے آس پاس اور اندر سے آنے والی مہک کو
اپنی ناک کے زریعے اپنے سارے جسم میں اتارنے لگا اس کے ساتھ ساتھ میں نے اپنی دو انگلیاں
جولی کی چوت میں بھی ڈال دیں اور بڑے ہی آرام سے اِن آؤٹ کرنے لگا ۔۔۔۔۔ اس کے جسم خاص
کر چوت سے ایسی مست مہک آ رہی تھی کہ جس سے میں اپنے ہوش و حواس کھو بیٹھا تھا ۔۔۔
اور میں مست سے مست تر ہوتا جا رہا تھا۔۔۔پھر میں نے اپنی ناک کو اس کی چوت سے ہٹا کر
ﺟﯽ
اپنی زبان منہ سے باہر نکالی اور اس کی چوت کے بالوں پر ہلکے انداز میں مساج کرنے لگا۔۔۔
میری اس حرکت سے جولی کا جسم تھوڑا سا تڑپا ۔۔۔۔ اور وہ مست سسکیاں لینے لگی ۔۔۔ہو ں ں
۔۔آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔ سس۔۔۔اس کے بالوں پر زبان پھیرتے پھیرتے ۔۔۔ پھر میں نے اپنی زبان اس کی چوت
کے پھانکوں کے درمیاں رکھ دی اور جو دو انگلیاں اس کی چوت میں دیں ہوئی تھیں وہ وہاں
سے ہٹا لیں اور اس کی چوت کے دونوں لبوں کو ادھر ادھر کرکے اپنی زبان اس کی گرم ۔۔۔
ا
سے میرا دل ہی نہ کر رہا تھا کہ میں اس کی چوت سے اپنی زبان کو ہٹاؤں ۔۔لیکن نیچے
ﺳﺗﺎ
سے میرا لن مجھے بہت تنگ کر رہا تھا اس لیئے میں نے اس کی چوت سے منہ ہٹایا اور کھڑا
ہو گیا ۔۔۔ اس دوران جولی کم از کم دو دفعہ تو ضرور چھوٹی ہو گی ۔۔
جیسے ہی میں کھڑا ہوا جولی نے ایک دفعہ پھر سے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور
ﻧﯽ
ُمٹھ مارنے لگی پھر اس نے مجھے اپنے تھوڑا قریب کیا اور ایک بار پھر میرے ٹوپے کے بارڈر
پر اپنی زبان پھیرنے لگی ۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد اس نےاپنا منہ میرے لن سے ہٹایا اور گھوم کر
اپنی پشت میری طرف کر تے ہوئے وہ صوفے سے نیچے اُتری اور گھوڑی بن گئی۔۔۔۔ اب میرے
سامنے اس کی شاندار گانڈ تھی ۔۔۔جس کے نیچے کی طرف ایک بڑی سی لکیر اس کی پھدی کا
ﺟﯽ
راستہ بتا رہی تھی اور گانڈ کے عین اوپر ایک بڑی ہی دل کش اور براؤ ن رنگ کی گول سی
موری تھی ۔۔ اور اس موری کو دیکھ کر میری تو طبعیت مچل اُٹھی اور میں نے جولی سے کہا
سن کر وہ بولی۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔ جولی جی اگر اجازت ہو تو میں آپ کی گانڈ بھی مار لوں ۔۔۔ میری بات ُ
پہلے اس سے زرا نیچے جاؤ ۔۔۔ اور میں اس کی بات سمجھ کر لن کو اس کی چوت پر رکھا اور
@
ایک ہلکا سا دھکا لگایا ۔۔۔جولی میم کی چوت جیسا کہ میں نے پہلے بتایا تھا کہ کافی کھلی تھی
اس لیئے دھکا مارتے ہی میرا لن بڑے آرام سے پھسلتا ہوا اس کی گیلی پھدی میں اتر گیا ۔۔۔ اور
جا کر جولی میم کی بچہ دانی سے ٹکرایا ۔۔۔۔۔جیسے ہی میرا لن کی نوک نے جولی میم کی بچہ
دانی کو ٹھوکر ماری ۔۔۔ جولی کے منہ سے بے اختیار ایک دل کش سی سسکی نکلی ۔۔آؤچ چ چ
ﺷﺎه
چ چ چ ۔۔۔۔ اور پھر اس کے بعد میں نے پہلے آرام آرام سے پھر تیز تیز گھسے مارنے شروع کر
دیئے ۔۔اور پھر میرا لن جولی میم کی گیلی چوت میں تیزی کے ساتھ ان آؤٹ ہونا شروع ہو گیا
۔۔اس کے ساتھ ہی جولی میم کی سسکیوں نے مجھے اور گرم کر دیا خاص کر میرے لن کی جب
بھی جولی میم کی اووری پر بھی ٹھوکر لگتی اس کے منہ سے بے اختیار ۔۔۔۔ ایک دلکش سی
آواز نکلتی ۔۔۔۔۔۔۔آؤؤؤؤچ چ چ چ چ ۔۔۔۔یہ آواز اتنی سیکسی اتنی دلکش اور ۔۔۔۔۔ مست تھی کہ اسے
ﺟﯽ
سننے کے لیئے اگلی باری میں پہلے سے زیادہ زور سے گھسہ مارتا اور ۔۔۔ وہ بھی ظالم پہلے
سے زیادہ دلکش اور مست سیکسی آواز میں ۔۔آؤؤؤؤچ چ چ چ ۔۔۔ کرتی ۔۔۔
ا
ساتھ ساتھ اور اس کی چوت بھی شانت ہو گئی ۔۔ اور اس نے اپنی پھدی سے میرا لن نکاال اور
ﺳﺗﺎ
میرے سامنے قالین پر ڈھیر ہو گئی اور گہرے گہرے سانس لینے لگی ۔۔۔۔۔۔ جولی اور اس کی
چوت تو شانت ہو گئی لیکن میرا لن ابھی تک ویسے کا ویسا اکڑا کھڑا تھا ۔۔۔۔ اس لیئے میں
کھڑے لن کےساتھ سامنے صوفے پر بیٹھ گیا اور لن کو ہاتھ میں پکڑ کر ہلکی ہلکی ُمٹھ مارنے
لگا ۔۔۔۔۔ ادھر جب جولی میم کے سانس کچھ بحال ہوئے تو وہ قالین سے اُٹھی اور سامنے بیٹھ کر
ﻧﯽ
میرا نظارہ دیکھنے لگی تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔ میم آپ تو فارغ ہو گئی ہو ۔۔۔میں اس کا کیا
کروں ؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔فکر نہ کرو میں ابھی اس کا کچھ کرتی ہو ں۔۔بس زرا پانی پی آؤں
پھر بولی تم بھی پیو گے؟ اور پھر ننگی ہی باہر نکل گئی اور فریج سے پانی کی بوتل نکال الئی
ﺟﯽ
اور مجھے پانی دیتے ہوئے بولی ۔۔۔ڈونٹ وری میں ابھی تمھارے اس کھمبے کو نیچے بٹھاتی
ہوں ۔۔۔۔ جب میں نے پانی کا گالس پی لیا تو وہ کہنے لگی۔۔۔۔
اب تم قالین پر لیٹ جاؤ۔۔۔ تو میں اس کی بات سمجھ کر بوال ۔۔۔ جولی جی کیوں نہ آپ کی
@
چوت کی طرح گانڈ کو بھی میں ہی چودوں تو وہ کہنے لگی۔۔۔ نہ بابا۔۔۔ یہ کام میں خود کروں
گی ۔۔ تم تو بڑے ظالم ہو اتنی زور سے گھسے مارتے ہو کہ اگلے کی جان ہی نکل جاتی ہے ۔۔۔
پھراس نے مجھے اشارہ کیا اور میں قالین پر لیٹ گیا ۔۔۔۔ جولی میم نے پانی کی بوتل ایک
طرف رکھی اور میرے اوپر آ کر کھڑی ہو گئی پھر وہ تھوڑا نیچے جھکی اور میرے لن کو
ﺷﺎه
چیک کیا تو وہ پہلے ہی اس کی چوت کے پانی سے کافی چکنا تھا ۔۔۔ چاہنچہ اس نے کافی
سار ا تھوک لگا کر اپنی گانڈ کی موری کو چکنا کیا اور ۔۔۔ پھر وہ آہستہ آہستہ نیچے ہونے
لگی۔۔۔۔۔۔پھر اس کی موٹی گانڈ میرے لن کے عین اوپر آ گئی۔۔۔۔ اب اس نے اپنی ٹانگیں تھوڑی
اور کھلی کیں اور ٹوپے کو اپنی موری پر رکھا اور پھر آہستہ آہستہ ۔۔۔۔۔ ٹوپے کو اپنی موری
ﺟﯽ
کے اندر کرنے لگی ۔۔۔جیسے ہی میرے ٹوپے کی نوک نے جولی میم کی ِرنگ کو چھوا۔۔۔۔ اس
کے منہ سے وہی ۔۔۔دلکش سی آواز برآمد ہوئی۔۔۔۔آ۔۔آ۔۔آ۔ؤؤؤؤ۔۔۔چ چ چ چ چ چ چ۔ اور پھر
اس نے آؤچ کا چ کہتے میری ٹوپے کو اپنی گانڈ میں لے لیا اور دھیرے دھیرے لن پر
بیٹھنے لگی ۔۔۔اُف۔۔۔ اس کی موری اندر سے بڑی ہی گرم اور کافی چکنی تھی جس کی وجہ سے
لن بڑے آرام سے اس کے اندر چال گیا تھا ۔۔اور میں مزے سے بے حال ہو گیا اور جولی میم ۔۔۔
پھر انہی دلکش آوازوں کے ساتھ ہی وہ میرے لن پر بیٹھتی اُٹھتی گئی۔۔۔۔
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
اس نے کافی دیر تک میرے لن پر سواری کی ۔۔۔۔ پھر اچانک مجھے ایسا لگا کہ جیسے
میرے بدن کا سارا خون میرے لن کی طرف آ گیا ہے ۔۔۔ اور پھر میں نے بھی ۔۔تیز سسکیاں
اور آہیں بھرنا شروع کر دیں ۔یہ دیکھ کر جولی میم نے بڑی مہارت سے اپنی گانڈ کے سوراخ
ا
کو میرے لن کے ارد گر تنگ کرنا شروع کر دیا اور اس کی اس سیکسی حرکت سے میرا سارا
ﺳﺗﺎ
وجود کانپنے لگا ۔۔ اور میرے سانس لینے کی رفتار میں اضافہ ہو گیا ۔۔۔۔ اور ۔۔اور ۔۔۔اور اس کے
ساتھ ہی میرے لن سے گرم گرم منی کا فوارا سا نکال اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جولی میم کی گانڈ میں اتر
گیا ۔۔۔۔۔ اپنی گانڈ میں میرے لن کا پانی محسوس کرتے ہی جولی میم مست ہو گئی اور مجھ پر
ﻧﯽ
جھک گئی اور میرا منہ چومنے لگی۔۔۔
کچھ دیر بعد جب ہم دونوں شانت ہو گئے تو وہ اٹھی اور واش روم میں چلی گئی اسی
ﺟﯽ
دوران میں نے بھی کپڑے وغیرہ پہن لیئے تھے اور سیٹ فائن ہو کر صوفے پر بیٹھ گیا تھا کچھ
دیر کے انتظار کے بعد جب جولی میم واپس آئی تو اس نے ڈھنگ کا لباس پہنا تھا اور اس کے
ہاتھ میں ایک شاپر تھا جس میں یقینا ً اس کے ناپ والے کپڑے ہوں گے اور وہ میرے ساتھ باہر
تک آئی ۔۔۔ دروازے پر پہنچ کر جب وہ مجھے الوداع کرنے لگی تو اچانک میرے زہن میں ایک
@
خیال آیا او ر میں نے اس پوچھا ۔۔۔ جولی جی وہ اس جوس میں کیا تھا۔۔ تو وہ مسکرا کر بولی
۔۔۔ اس جوس میں مردانہ قوت کی گولی تھی جو میرے خاوند صاحب کھا کر مجھ پرچڑھتے ہیں
۔۔۔ تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ نے وہ گولی مجھے کیوں دی ۔؟؟۔ تو وہ بڑے معنی خیز لہجے
میں بولی ۔۔۔ تا کہ تم گرم ہو کر مجھ پر چڑھ دوڑو۔۔۔۔
ﺷﺎه
ماسی کو جولی میم کے ناپ والے کپڑے دے کر میں سیدھا گھر گیا اور نہا دھو کر سو گیا
ب معمول ۔۔۔۔ چھت پر چال گیا ۔۔۔۔اور جیسے ہی میں چھت پر گیا میری ۔۔ شام کو اُٹھ کر میں حس ِ
نگاہ ارمینہ کی چھت پر پڑ گئی اور میں چونک گیا کیونکہ ۔۔۔۔ کوڈ کے مطابق اس نے اپنی ا
ﺟﯽ
سرخ یک چارپائی کا منہ ہمارے گھر کی طرف کیا ہوا تھا اور اس کھڑی چارپائی پر اس کا ُ
رنگ کا سوٹ لٹکا ہوا تھا ۔۔۔۔اس کا مطلب تھا کہ آج رات کو میں نے اس سے ملنا ہے ۔۔۔ ٹائم
ہم نے پہلے ہی طے کر رکھا تھا ۔۔چنانچہ میں نے جوابی پیغام کے طور پر اپنی چارپائی کو ان
کے چھت کے سامنے ترچھا کھڑا کر دیا ۔۔۔اور اس کے ساتھ چھت پر پھیرنے واال جھاڑو کو
اس میں اڑا دیا جس کا مطلب یہ تھا کہ بندہ آج رات آپ کے پاس ضرور آئے گا۔۔
رات کے ٹھیک دو بجے تھے اور میں اپنی گلی کی نکڑ پر چھپا کھڑا تھا اور مجھے انتظار
تھا تو اس بات کا کہ کب چوکیدار ہماری گلی کا چکر لگائے ۔۔ تا کہ اس کے بعد میں مطمئن ہو
کر اپنی کاروائی کر سکوں ۔۔۔ کچھ دیر انتظار کے بعد ۔۔ مجھے دور سے سیٹی کی آواز سنائی
ا
دی۔۔ یہ چوکیدار بھی عجیب مخلوق ہوتی ہے دور سی سیٹی بجاتے ہوئے آتے ہیں کہ اگر کوئی
ﺳﺗﺎ
سن کر میں بھی ایک اوٹ میں آس پاس ہے بھی تو ادھر ادھر ہو جا ئے چنانچہ سیٹی کی آواز ُ
ہو گیا ۔۔۔اور پھر کچھ ہی دیر بعد ہامری گلی میں ایک پرانی سی سائیکل پر ہمارے عالقے کا
چوکیدار نمودار ہوا ۔۔ گلی میں داخل ہوتے ہی اس نے ایک دو زور زور کی سیٹیاں بجائیں
ﻧﯽ
اور پھر ۔۔۔ اس کی سائیکل ہماری گلی سے باہر نکل گئی اس کے باوجود بھی میں کچھ دیر اور
وہاں کھڑا رہا ۔۔۔ پھر جب دوبارہ دوسری گلی سے اس کی سیٹی کی آواز سنائی دی تو میں بے
غم ہو گیا اور دبے پاؤں چلتا ہوا ۔۔۔۔ چوہدری اشرف صاحب کے گھر پاس پچھواڑے پہنچ گیا
۔۔۔ اس وقت میرا دل دھک دھک کررہا تھا ۔۔لیکن ارمینہ سے کیا ہوا وعدہ بھی پورا کرنا تھا اس
ﺟﯽ
لیئے ڈرتے ڈرتے میں نے ادھر ادھر دیکھا ۔۔۔گلی میں سنسان تھی ۔۔۔ایک کے بعد میں نے ایک
دو دفعہ پھر جھانک کر دیکھا اور کسی کو نہ پا کر ۔۔۔ میں نے اپنے جوتے اتارے اور چوہدری
اشرف صاحب کا گٹر الئن واال پائپ پکڑ کر آہستہ آہستہ اوپر چڑھنے لگا۔۔۔کچھ اوپر جا کر
میں نے ایک دفعہ پھر نیچے دیکھا تو گلی ابھی تک سنسان تھی چنانچہ میں نے ہمت کی اور
@
چوہدردی صاحب کے چھت پر پہنچ گیا ۔۔۔ ان کے چھت پر جاتے ہی میں ایک دم لیٹ گیا ۔۔۔
اور حاالت کا جائزہ لینے لگا ۔۔۔پھر میں نے سر اُٹھا کر دیکھا تو ۔۔۔ ان کی چھت سنسان
ﺷﺎه
تھی۔۔ چنانچہ جوتی اپنے ہاتھ میں پکڑے میں دبے پاؤں چلتا ہوا ۔۔۔ ان کی چھت کی با ؤنڈی پر
پہنچ گیا اور ۔۔۔ پھر نیچے جھک گیا اور ایک نظر پیچھے ڈالی تو سب امن تھا ۔۔ سو میں آہستہ
آہستہ اوپر کو اُٹھا ۔۔۔ جمپ لگا کر مرزا صاحب کی دیوار پر چڑھ گیا ۔۔ میرا دل دھک دھک دھک
۔۔۔۔۔ کر رہا تھا ۔۔۔۔۔ لیکن وعدہ بھی پورا کرنا تھا ۔۔ اب میں ن نیچے دیکھا تو ۔۔۔ مرزا صاحب کی
چھت بھی سنسان تھی ۔۔۔اس لیئے میں نے ان دونوں کی مشترکہ باؤنڈری وال پر ہاتھ جمائے
ﺟﯽ
اور بڑی آہستگی سے نیچے اتر گیا ۔۔۔۔ اور حالت کا جائزہ لینے لگا ۔۔۔ اب درمیان میں صرف شیخ
صاحب کی ہی چھت رہ گئی تھی اس کے بعد ارمینہ ہو گی اور میں ۔۔۔۔ یہ سوچتے ہوئے میں
دبے پاؤں چلنے لگا ۔۔۔ مرزا صاحب کا گھر تھوڑا بڑا تھا اس لیئے۔۔ان کا چھت بھی کافی بڑا
ہونے کے ناتے ختم ہی نہ ہو رہا تھا لیکن چلتے چلتے آکر میں شیخ صاحب کی دیوار کے
پاس جا پہنچا۔۔۔
جیسے ہی میں شیخ صاحب کی دیوار کے قریب پہنچا تو مجھے دوسری طرف سے کھسر
پھسر کی آوازیں سنائی دینے لگیں۔۔۔۔پہلے تو میں اسے اپنا وہم سمجھا لیکن جب میں نے کان
لگا کر سنا تو دوسری طرف مجھے دبی دبی آوازیں سنائی دینے لگیں میں نے آوازوں کی
ا
سمت کا اندازہ لگایا ۔۔۔۔ یہ شیخ صاحب کی چھت کا کارنر بنتا تھا کہ ۔۔جہاں سے یہ دبی دبی
ﺳﺗﺎ
آوازیں سنائی دے رہیں تھیں۔۔۔چنانچہ میں بھی دبے پاؤں چلتا ہوا اس کونے میں پہنچ گیا ۔۔۔۔ اور
میں ان کی آوازیں سننے کی کوشش کرنے لگا ۔۔۔۔ تھوڑی دیر غور کرنے پر مجھے معلوم ہو گیا
کہ یہ ایک مرد اور عورت کی آوازیں تھیں۔جو ایک دوسرے کو چوم رہے تھے اور دیوار کے
ﻧﯽ
عین دوسری طرف ہونے کی وجہ سے میرے کانوں میں ان کی کسنگ کی۔۔۔ پوچ پوچ۔۔۔ کی آواز
صاف سنائی دے رہی تھی ۔تو گویا ۔۔ دوسری طرف کوئی سیکسی پروگرام چل رہاتھا ۔۔۔ چنانچہ
میں نے سوچا کہ کیوں نہ میں ان کی برا ِہ راست کاروائی کا جائزہ لوں ۔۔ کیونکہ یہ بات تو طے
تھی کہ جب تک یہ لوگ وہاں سے ہٹ نہیں جاتے میں ارمینہ کی چھت پر نہ جا سکتا تھا ۔۔
ﺟﯽ
پھر میں نے ان کی براہ راست کاروائی دیکھنے کے لیئے ادھر ادھر دیکھا تو پاس ہی ان
کی دیوار کے ساتھ لگی ہوئی ایک ٹوٹی پھوٹی سی چارپائی پڑی تھی اسے ان کی دیوار کے
@
ساتھ لگے دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ وہ جو کوئی بھی تھا اسی راستے شیخ صاحب کے گھر گیا
ہو گا ۔۔لیکن سوال یہ تھا کہ یہ خاتون کون تھی اور اس کے ساتھ رنگ رلیاں منانے واال بندہ کون
تھا۔۔۔ چنانچہ میں بڑی احتیاط سے اس چارپائی کے بازو پر چڑھا اور آہستہ آ ہستہ سر اُٹھا کر
شیخ صاحب کی چھت پر نظر ڈالنے لگا۔۔۔۔۔اور پھر میں نے وہ منظر دیکھ لیا ایک مرد تھا ۔۔۔ جس
ﺷﺎه
کا قد میرے ہی جتنا ہو گا اوراس نے گرے رنگ کی پینٹ شرٹ پہنی ہوئی تھی جبکہ اس کے
ساتھ چمٹی ہوئی خاتون نے بھی گہرے رنگ کی شلوار قمیض پہنی تھی یہ شاید اس لیئے کہ دور
سے وہ لوگ نظر نہ آئیں ۔۔۔۔ چونکہ ان دونوں کے منہ آپس میں ُجڑے ہوئے تھے اور کچھ وہاں
پر ہلکہ ہلکہ اندھیرا سا بھی تھا اس لیے میں ٹھیک سے ان کو پہچان نہ پا رہا تھا۔۔۔ لیکن خاص
کر لڑکی بڑی شدت سے اس لڑکے ساتھ چمٹی ہوئی تھی اس سے پتہ چلتا تھا کہ وہ کس قدر
ﺟﯽ
۔۔جزباتی یا گرم عورت ہے ۔۔۔ کچھ دیر کی چوما چاٹی کے بعد وہ دونوں ایک دوسرے سے الگ
ہوئے اور لڑکے نے تھوڑا پیچھے ہٹ کے اپنی پینٹ کی زپ کھولی ۔۔۔۔۔ اوراپنا لن باہر نکال
کر اس عورت سے سرگوشی نما لہجے میں بوال ۔۔۔ تھوڑا اس کو چوسو۔۔۔۔اور جیسی ہی وہ عورت
اس لڑکے کا لن چوسنے کے لیئے زمین پراکڑوں بیٹھی ۔۔۔۔میں نے اس کو پہچان لیا۔۔۔۔۔۔۔
یہ شیخ صاحب کی دوسری بیوی راحیلہ تھی ۔۔۔ جبکہ لڑکے کو میں نے کہیں دیکھا تو تھا
پر کہاں ۔۔۔یہ مجھے یاد نہ آ رہا تھا ۔۔۔۔ کہ وہ کون ہےلیکن یہ بات طے تھی کہ وہ ہمارے محلے
کا لڑکا نہیں تھا ۔۔وہ جو کوئی بھی تھا ۔۔۔ پر تھا بڑا ہی ہی خوبصورت اور پیارا ۔۔۔اور پھر
ا
میرے دیکھتے ہی دیکھتے شیخ صاحب کی دوسری بیوی راحیلہ آگے بڑھی اور ۔۔۔ اس نے
ﺳﺗﺎ
اس لڑکے کا پتال اور چھوٹا سا لن اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگی۔۔واہ کیا مست نظارہ
تھا وہ بلکہ پورن مویز کی لڑکیوں کی طرح اس لڑکے کا لن چوس رہی تھی ۔۔۔اور ۔راحیلہ کو
لن چوستا دیکھ کر میرا بھی لن کھڑا ہو گیا ۔۔۔اور کچھ دیر پہلے جو ڈر اور خو ف مجھ پر
ﻧﯽ
طاری تھا وہ عارضی طور پر ختم ہو گیا اور میں ان دونوں کا برا ِہ راست سیکس سین دیکھنے
لگا ۔۔۔
ﺟﯽ
را حیلہ نے اس لڑکے کا کہ جس کا نام اس وقت میرے زہن میں نہ آ رہا ک تھا کچھ دیر
تک لن چوسا اور پھر کھڑی ہو گئی اور سرگوشی میں اس سے کہنے لگی ۔۔۔۔جان تمہارا لن
بڑے مزے کی مزی چھوڑتا ہے ۔۔۔ تو اس لڑکے نے بھی آگے سے کہا کہ ۔۔۔میری جان میری
مزی کھائی بھی ہے یا تھوک دی ہے ؟ تو وہ کہنے لگی پہلے کبھی تھوکی ہے ؟ اس سے
@
مجھے پتہ چال کہ یہ دونوں پرانے سیکس پارٹنر ہیں اس کے بعد اس لڑکے نے دوبارہ راحیلہ
کا سر پکڑ کر اپنے لن کی طرف دبانا شروع کر دیا اور بوال ۔۔۔بس تھوڑا سا اور چوسو پلیزززز۔
سن کر راحیلہ بولی ۔۔۔ دیکھو ایک تو تم اتنے دنوں کے بعد آئے ہو ۔۔۔ تم کو پتہ ہے اس کی بات ُ
نا کہ میں کتنی گرم ہوں ۔۔۔ اور پھر بھی لن چسوانے کی بات کر رہے ہو ۔۔۔۔ تو وہ لڑکا بوال ۔۔۔ تم
ﺷﺎه
بہت اچھا لن چوستی ہو ۔۔۔۔بس تھوڑا ۔۔۔سا اور چوس لو پلیزززززززز۔ ۔۔ اس کی بات سن کر
راحیلہ دوبارہ نیچے اکڑوں بیٹھی اور پھر اس سے سرگوشی میں بولی ۔۔۔ دیکھو چھوٹنا نہیں ۔۔۔ تو
وہ لڑکا کہنے لگا ۔۔تم منہ میں تو ڈالو۔۔ اور راحیلہ نے ایک بار پھر اس کا لن اپنے منہ میں ڈال
لیا ۔۔۔ اور دو تین چوپے لگائے۔۔۔ اور پھر اُٹھ کھڑی ہوئی اور سرگوشی میں بولی ۔۔۔مجھے تمھارے
حاالت اچھے نظر نہیں آ رہے۔۔۔۔ کیونکہ تمھارا لن بہت زیادہ ہی مزی چھوڑ رہا ہے ۔۔۔ اور پھر
ﺟﯽ
راحیلہ نے خود ہی اپنی شلوار اتاری اور اس نے اپنا منہ دوسری طرف کر کے اپنے دونوں ہاتھ
گھٹنوں پر رکھے اور اس سے بولی ۔۔۔ آ جاؤ۔۔۔
وہ خوبصورت سا لڑکا اس کے پیچھے گیا اور ۔۔۔ اس نے اپنا لن راحیلہ کی چوت میں ڈال
دیا ۔۔۔ راحیلہ ٹھیک ہی کہہ رہی تھی اس کے لن کے حاالت واقعہ ہی خراب تھے کیونکہ ابھی اس
نے راحیلہ کی پھدی مین ایک آدھ ہی گھسا مارا ہو گا کہ ۔۔۔۔ اس نے ایک بڑی سی آہ بھری ۔۔۔۔
ا
سیدھی ہو گئی اور بھوکی شیرنی کی طرح اس لڑکے دیکھ کر دھیمی مگر زہرخند لہجے میں
ﺳﺗﺎ
بولی ۔آخر وہی کیا نا تم نے ۔۔ تو وہ لڑکا اپنے مرجھائے ہوئے لن کو اپنی پینٹ کے اندر کر تے
ہوئے بوال۔وہ ۔۔۔وہ ۔۔تمہاری چوت ہی اتنی گرم ہے کہ میرا لن وہاں کیا کرے ۔۔۔ تو راحیلہ اس
سے دانت پیستے ہوئے بولی پہلی دفعہ لی ہے میری جوتم کو آج پتہ چال ہے پھر اس سے گالی
دیتے ہوئے بولی۔۔۔۔ حرامزادے تم کو ہزار دفعہ کہا ہے کہ اپنا عالج کرو ۔۔۔۔جلدی نہ چھوٹا کرو۔۔۔
ﻧﯽ
سن کر اس لڑکے نے سر جھکا لیا اور بوال ۔۔۔ آئی سوری ۔۔ میں دوبارہ ٹرائی کرتا اس کی بات ُ
سن کر راحیلہ ایک دم بپھر گئی اور بولی ۔۔۔۔دوسری دفعہ پہلے تمھارا کبھی کھڑا ہوا ہوں ۔۔۔ یہ ُ
سن ہے جو آج کھڑا ہو جائے گا ۔۔۔تو وہ لڑکا منماتے ہوئے بوال ۔۔۔تو میں کیا کروں ؟ اس کی بات ُ
ﺟﯽ
کر راحیلہ غصے سے بولی تم دفعہ ہو جاؤ ۔۔۔ اپنی شکل کو مجھ سے دور کر دو۔۔۔
@
راحیلہ کی بات سن کر وہ کہنے لگا ۔۔۔۔۔سچ ُمچ میں جاؤں ؟ تو راحیلہ بولی دفعہ بھی ہو
جاؤ۔۔۔اس کی بات سن کر میرا خیال ہے لڑکے نے شکر کیا اور دیوار کی طرف بڑھنے لگا ۔۔۔ یہ
دیکھ کر میں احتیاط سے نیچے اترا اور اس کے آنے سے پہلےہی میں اس ٹوٹی پھوٹی چارپائی
کے نیچے جا چکا تھا۔۔۔ میری توقعہ کے عین مطابق وہ لڑکا ۔۔۔ نیچے آیا اور پھر آہستہ آہستہ چلتا
ﺷﺎه
ہوا دوسری چھت پر کود گیا ۔میں نیچے سے دیکھ رہا تھا جب اس نے ددوسرے گھر میں چھالنگ
لگائی تو میں چارپائی کے نیچے سے نکال اور ارمینہ کے پاس جانے کے لیئے ہولے ہولے
دیوار سے دوسری طرف دیکھا کہ راحیلہ چلی گئی ہو تو میں ارمینہ سے ملنے جاؤں ۔۔۔۔۔ لیکن
دوسری طرف کا نظارہ ہی ہوش ربا تھا ۔۔۔ اب راحیلہ بیگم نے اپنی پوری شلوار اتاری ہوئی تھی
اور بڑے ٹینشن کے عالم میں اپنی پھدی پر ہاتھ مار رہی تھی ۔۔۔ اور اس کی ایک انگلی اپنی
ﺟﯽ
پھدی کے اندر تھی اور وہ بار بار کہہ رہی تھی ،،،میں کیا کروں ۔۔ مجھے لن چاہیئے ۔۔۔۔ مجھے
لن ۔۔۔آہ ہ ہ ۔۔۔اور وہ اس طرح سسکیاں بھرتی ہلکی ہلکی چیختی ہوئی۔اور۔۔ لن لن کی گردان
کرتے ہوئے فنگرنگ کر رہی تھی ۔۔
ا
تو اسے پتہ چلے کہ لن ہوتا کیا ہے ۔اور چوت کیسے مارتے ہیں ۔۔۔۔۔۔۔ لیکن میں نے بڑی مشکل
ﺳﺗﺎ
سے اپنی اس سوچ سے پیچھا چ ُھڑایا اور دل ہی دل میں کہا کہ راحیلہ بس مجھے جانتی ہے
اور اس کے ساتھ میرے ایسے ویسے کوئی تعلق نہ ہیں ۔۔۔ ویسے بھی ارمینہ میرا انتظار کر رہی
ہو گی ۔۔۔ اور پھر راحیلہ کا نظارہ دیکھنے لگا۔۔۔۔ وہ بدستور ۔۔۔اپنی چوت میں انگلیاں گھماتے ہوئی
۔۔۔ دھیمے دھیمے چال رہی تھی ۔۔۔ مجھے لن چاہیئے ۔۔لن ۔۔۔لن ن ن ن ن ن ن ن۔۔۔اُف۔ف۔ف۔ف۔ف۔
ﻧﯽ
اور میں آپے سن کر میرے دماغ پر منی سوار ہو گئی
اس کی یہ سیکسی اور دلکش سسکی ُ
سے باہر ہو گیا ۔اور بے وقوفی کی انتہا کرتے ہوئے ۔ راحیلہ کے کوٹھے پر اتر گیا ۔۔۔۔۔ میرا لن
تو پہلے ہی کھڑا تھا ۔۔۔ سو جلدی سے شلوار کا آزار بند کھوال اور ۔۔۔۔ راحیلہ کے سامنے اپنے
ﺟﯽ
بڑے سے لن کو لہراتے ہوئے بوال ۔۔۔۔۔ اس کے بارے میں کیا خیال ہے میڈم ۔۔۔۔۔۔۔مجھے یوں
اچانک اپنے سامنے دیکھ کر راحیلہ کی آنکھیں آخری حد تک پھیل گئیں ۔اور وہ پھٹی کی پھٹی رہ
سا چہرہ جو پہلے ہی الل تھا ۔۔۔ اب الل بھبوکا ہو چکا تھا ۔۔۔۔۔ گئ یں ۔۔اس کا خوبصورت
پھر اس نے میری طرف دیکھتے ہوئے جلدی سے اپنی شلوار پہنی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس سے پہلے کہ
@
میں کچھ کرتا اس کے حلق سے ایک خوفناک چیخ برآمد ہوئی ۔۔۔۔۔۔ چورر۔ر۔ر۔ر۔۔ر۔ر۔ر ۔۔۔ اور
پھر جیسے
اس کو چیخون کا دورہ سا پڑ گیا ۔۔۔ اور وہ پوری قوت سے چالتی گئی۔۔ چالتی گئی۔۔۔۔ چور
ﺷﺎه
چور چور۔۔۔۔۔۔چورررررررررررررررررررررررررررررر۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحیلہ نے جب مسلسل چور چور کہنا شروع کر دیا تو مجھے جیسے ہوش آ گیا …اس
لیئے میں نے بجلی کی سی پھرتی اپنی شلوار اوپر کی اور جلدی سے اس آزار بند باندھا ۔اور
ﺟﯽ
۔جوتے ہاتھ میں پکڑے اور دل ہی دل میں خود کو گالیاں دیتا ہوا واپس گھوما ا ور راحیلہ
کے سامنے دیوار پر جا چڑھا ۔۔ اب چونکہ معاملہ زندگی اور موت کا بن گیا تھا ۔۔ اس لیئے
آناًفانا ً ۔۔۔شیخ صاحب کی دیوار سے چھالنگ لگا دی ۔۔ مجھے بھاگتے ہوئے دیکھ کر راحیلہ
زیر اثر بسنے مجھے پکڑنے کی زرا بھی کوشش نہ کی بلکہ وہ کسی تنویمی عمل کے ِ
چیخوں پہ چیخیں ہی مارتی جا رہی تھی اور جیسے جیسے میرے کانوں میں راحیلہ کی
ا
وقت لوگ گہری نیند میں ہوتے ہیں اور کسی بھی شخص کو گہری نیند سے اُٹھ کر بیدار ہونے
ﺳﺗﺎ
۔۔۔۔ حاالت کو سمجھنے ۔۔۔اور پھر بستر سے اُٹھ کر باہر آنے ۔۔۔اور۔۔ شور کی سمت کا تعین
کرنے ......،اور پھر دوڑ کر متعلقہ سمت کی طرف جانے میں میرے حساب سے ۔۔۔ کم از کم
تین سے چار منٹ درکار ہوتے ہیں ۔۔ ۔۔۔ اور یہی تین چار منٹ میری بچت کا سامان تھے
چوہدری صاحب کی دیوار پر چڑھ کر ایک دفعہ پھر میں نے شیخ صاحب کے گھر کی طرف
ﻧﯽ
نگاہ ڈالی ۔۔ تو ۔۔۔ابھی بھی وہاں ۔خیریت ہی نظر آئی ۔۔۔لیکن مجھے اچھی طرح سے اندازہ تھا کہ
اگر میں چند سیکنڈز میں نیچے نہ گیا تو پھر کوئی خیریت نہیں رہنی ۔۔۔ چنانچہ میں نے
چوہدری صاحب کی گٹر الئین کا پائپ پکڑا اور ۔۔۔ نیچے اترنے سے پہلے ایک دفعہ پھر میں
ﺟﯽ
نے راحیلہ کی چھت کی طرف دیکھا اور دل ہی دل میں ایک مشہور شعر کا دوسرا مصرعہ
پڑھا کہ" بڑے بے آبرو ہو کر تیرے کوچے سے ہم نکلے" اور اس کے ساتھ ہی خود کو
بےشمار گالیوں سے بھی نوازا ۔۔۔ کہ راحیلہ کو بھال لن دکھانے کے ایڈوینچر کی کیا
ضرورت تھی ۔۔۔ اور پھر تیزی سے نیچے اترنا شروع ہو گیا ۔۔۔ نیچے اتر کر میں نے اپنے
@
پیروں میں جوتی پہنی اور کسی ایکشن سے پہلے جھانک کر گلی میں دیکھا ۔ تو محلے میں
ہلکی ہلکی ہل چل نظر آئی ۔۔اکا دکا گھروں کی الئیٹس جلنا شروع ہو گئیں تھیں ۔۔۔اور اس سے
پہلے کہ سارے گھروں کی الئیٹس جلتیں ۔اور لوگ باہر نکلنا شروع ہوتے ۔۔میں نیواں نیواں ہو
کر وہاں سے نکل گیا ۔۔۔
ﺷﺎه
جس وقت میں نے گھر کے اندر قدم رکھا اس وقت تک محلے میں ہال گال شروع ہو
چکا تھا ۔۔لیکن میں اس ہلے گلے کو نظرانداز کرتے ہوئے سیدھا اپنے کمرے میں گیا اور
بستر پر جا کر لیٹ گیا اور ابھی میں اس حادثے کے بارے سوچ ہی رہا تھا ۔۔۔کہ امی
کمرے میں داخل ہوئیں انہیں دیکھ کر میں نے جلدی سے اپنی آنکھیں بند کر لیں ۔۔ اور سوتا
بن گیا ۔ وہ میرے قریب آئیں اور مجھے ہال کر بولیں ۔۔۔اُٹھو ۔۔۔۔۔۔ تو میں نے آنکھیں ملتے ہوئے
ﺟﯽ
اُٹھےی کی ادا کاری کرتے ہوئے کہا ۔۔کیا ہوا ؟ تو وہ کہنے لگیں پتہ مجھے بھی نہیں ۔۔لیکن محلے
میں کافی شور مچا ہوا ہے ۔زرا باہر جا کر پتہ کرو کہ یہ شور کیسا ہے ؟۔۔ تومیں نے بستر سے
اُٹھتے ہوئے ان سے کہا اچھا میں دیکھتا ہوں اور ڈھیلے ڈھیلے قدموں سے باہر چال گیا ۔۔۔
دیکھا تو محلے کے مرد حضرات بایرنیں پہنے آنکھیں ملتے ہوئے ۔ایک دوسرے سے ۔ کیا
ہوا ؟؟ ۔۔کیا ہوا ؟؟ ۔۔کی رٹ لگائے جا رہے تھے جبکہ خواتین اپنی اپنی چھتوں پر چڑھی تجسس
ا
چور کی آوازیں سن کر اُٹھے تھے اس سے آگے کیا ہوا کسی کو کچھ معلوم نہ تھا۔۔۔۔ اسی
ﺳﺗﺎ
دوران میری نظر ماسی کی چھت پر پڑی تو وہاں ارمینہ کھڑی تھی گھڑی دو گھڑی ہماری
آنکھیں چار ہوئیں تو اس نے ماسی سے نظر بچا کر آنکھوں ہی آنکھوں میں مجھ سے پوچھا
کہ کیا یہ چور چور کا شور تمھارے لیئے تھا؟؟ ۔۔۔ تو میں نے اسے اشارے سے بتا دیا
کہ جی یہ شور میرے لیئے ہی تھی لیکن میں بچ کر آ گیا ۔۔۔ میرا اشارہ سمجھتے ہی اس
ﻧﯽ
نے بڑے تشکر سے آسمان کی طرف دعا کے لیئے ہاتھ اُٹھا ئے ...اور پھر غالبا ً شکر ادا کر
کے اس نے وہ اٹھے ہوئے ہاتھ اپنے منہ پر ہاتھ پھیرے اور پھر بڑی ہی محبت بھری
نظروں سے مجھے دیکھنے لگی۔۔۔اور اس کی یہ ادا دیکھ کر میں ارمینہ پر دل و جان سے
ﺟﯽ فدا ہو گیا ۔۔
ادھر محلے کے لوگ آپس میں قیاس آرائیں کرتے رہے کسی نےکہاکہ چور پچھلے محلے
سے آیا تھا اور کسی نے کہا کہ وہ واردات کر کے نکل گیا ہے ۔غرض جتنے منہ تھے اتنی
ہی باتیں تھیں ۔جبکہ حقیقت کیا تھی یہ بات صرف میں اور راحیلہ ہی جانتے تھے راحیلہ
@
سے یاد آیا ۔۔۔ کہ اس وقت تقریبا ً سارا محلہ ہی اکھٹا تھا لیکن سب سے زیادہ حیرت انگیز
بات یہ تھی کہ شیخ صاحب نہ تو خود اپنے گھر سے باہر نکلے تھے اور نہ ہی ان کے
ہاں کسی قسم کی ہل چل کے آثار نظر آئے ۔۔پھر آہستہ آہستہ ۔۔ ایک دوسرے کو ہوشیار رہنے
کی تاکید کرتے ہوئے سارے محلے والے اپنے اپنے گھروں کو لوٹ گئے ۔۔۔ان کی دیکھا دیکھی
ﺷﺎه
میں بھی اپنے گھر آ گیا اور بستر پر جاتے ہی سو گیا ۔۔۔
اگلے دو تین دن تک ہمارے محلے میں اس رات والے واقعہ کی بازگشت سنائی دیتی رہی
لی کن کمال کی بات یہ ہے کہ نہ تو شیخ صاحب نے اور نہ ہی ان کی فیملی میں سے کسی نے
ﺟﯽ
اس واقعہ کے بارے میں کوئی بات کی اور نہ ہی اس واردات پر کوئی تبصرہ کیا اس لیئے
چور والی بات محلے کے کاغزوں میں پُراسرار قرار پائی ۔۔۔ اس سے اگلے دن چونکہ
مجھے میڈم ندا نے بالیا ہوا تھا اس لیئے میں نے اپنا بستہ سنبھاال اور میڈم کے گھر چال گیا
۔۔۔ وہاں جا کر دروازے پر دستک دی تو میڈم خود باہر نکلیں اور مجھے اندر لے گئیں اور
جب میں میڈم کے پیچھے پیچھے ان کے گھر میں داخل ہوا تو سامنے صحن میں کرسی پر ایک
ا
اس نے ایک ہاتھ میں سونے کی بارہ چوڑیاں جبکہ دوسرے ہاتھ میں سونے کے کنگن پہنے ہوئے
ﺳﺗﺎ
تھے ۔۔ جبکہ کانوں میں بڑی بڑی بالیاں اور اس نے گلے میں موٹی سی سونے کی چین پہنی
ہو ئی تھی ۔۔۔گویا کہ وہ خاتون کیا تھی امارت کا چلتا پھرتا اشتہار تھا میں نے اس خاتون
کو میڈم کے گھر میں پہلی دفعہ دیکھا تھا ۔۔ ۔ صحن میں پہنچ کر میڈم ندا نے مجھے چارپائی
پر بیٹھنے کا اشارہ کرتے ہوئے کہا کہ شاہ بیٹا تم یہاں بیٹھ کر تھوڑا انتظار کرو ۔۔۔ میں بس
ﻧﯽ
ابھی آئی ۔اور پھر کمرے میں گھس گئی ۔۔۔ میڈم کے کہنے پر میں چارپائی کے بازو پر سر جھکا
کر بیٹھ گیا ۔تو ڑی دیر بعد میڈم کمرے سے برآمد ہوئیں تو انہوں نے ایک بڑی سی چادر اپنے
گرد لپیٹی ہوئی تھی ۔۔اس سے قبل کہ میڈم کچھ کہتی وہ خاتون میڈم سے کہنے لگی ۔۔۔ یہ لڑکا
ﺟﯽ
کون ہے ندا؟؟؟ ۔ میں نے اس کو پہلے کبھی تمھارے ہاں نہیں دیکھا تو میڈم نے جواب دیا کہ
یہ لوگ ہمارے محلے میں نئے آئے ہیں پھر میرے بارے میں بتاتے ہوئے بولی یہ لڑکا زیبا
کے ہاں ٹیوشن پڑھتا تھا لیکن کسی وجہ سے زیبا نے اس کو ٹیوشن سے نکال دیا ہے ۔۔ تو اس
کی امی بے چاری بڑی پریشانی کے عالم میں میرے پاس آئیں تھیں اور بڑی منت سماجت کر
@
رہی تھی کہ میں اس کی سفارش کروں تا کہ زیبا اس کو دوبارہ سے ٹیوشن پر رکھ لے ۔۔۔ پھر
میڈم اس خاتون سے کہنے لگی شاہینہ تم تھوڑا آرام کرو میں بس اس لڑکے کو زیبا کے
پاس چھوڑ کر ابھی آئی ۔۔ندا میم نے ابھی اتنی ہی بات کی تھی کہ اندر سے کسی بچے کی رونے
کی آواز سنائی دی ۔۔جسے سنتے ہی ندا میم بولی لو جی ۔۔۔ارم بیٹی اُٹھ گئی ہے تم اس کو دودھ
ﺷﺎه
پالؤ میں ابھی آئی پھر اس نے مجھے اشارہ کیا اور میں میڈم کے پیچھے پیچھے سر جھکا کر
چلنے لگا ۔۔۔۔ گھر سے باہر نکلتے ہی میں نے میڈ م سے اندر والی خاتون کے بارے میں پوچھا
تو وہ کہنے لگی ۔۔ یہ میری کزن شاہینہ ہے اس کی شادی اوکاڑہ میں ایک بہت بڑے آڑھتی
کے بیٹے سے ہوئی ہے ۔۔۔۔اور جس سے اس کی شادی ہوئی ہے وہ بھی میرا کزن ہی لگتا ہے
اور یہ ہر دوسرے تیسرے مہینے حساب کرنے کے لیئے یہاں غلہ منڈی میں آتے ہیں تو ہمارے
ﺟﯽ
ہی گھر ٹھہرتے ہیں پھر بولی ۔۔۔ یوں سمجھو کہ میرے خاوند کی وفات کے بعد ان لوگوں کے
ہمیں بڑا سہارا دیا ہے۔۔ ویسے تو ان کے چھوٹے موٹے کام میرا بیٹا ہی کر دیتا ہے لیکن پھر
بھی کاروبار ۔۔۔ کے سلسہ میں اس کو ہر دوسرے تیسرے ماہ پنڈی کا چکر لگانا ہی پڑتا ہے
۔۔پھر کہنے لگی ان کی ایک ہی بیٹی ہے جو کہ سات سال بعد پیدا ہوئی ہے ۔۔۔جو ابھی سوا سال
اتنے میں استانی جی کا گھر آ گیا ۔۔تو میڈم نے مجھے دروازے کے قریب رکنے کا اشارہ
ا
ﺳﺗﺎ
کیا اور میں رکا تو وہ بڑی ہی سیریس ہوکر رازدرانہ سی سرگوشی نما آواز میں کہنے لگی
۔۔۔ دیکھو شاہ۔۔۔ یہ جو تیرے میرے بیچ تعلق ہے نا ۔۔۔۔ خبردار اس کی بھنک بھی زیبا کو نہیں
پڑنی چاہیئے ۔۔ پھر اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور ۔۔۔ آنکھیں نکالتے ہوئے بولی ۔۔۔
میری بات کو سمجھ رہے ہو نا۔؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ جی میم میں آپ کی بات کو
ﻧﯽ
سن کر وہ کہنے لگی ُگڈ۔۔۔ اب چلو ۔۔۔ اور مجھے استانی جی اچھی طرح سے سمجھ گیا ہوں یہ ُ
کے گھر لے گئی۔۔
ﺟﯽ
جیسے ہی میں اور ندا میم استانی جی کے گھر میں داخل ہوئے تو وہ صحن میں بچوں کو
سبق پڑھا رہیں تھیں مجھے دیکھ کر ان کی آنکھوں میں ایک شعلہ سا لپکا لیکن پھر ندا میم
کو دیکھ کر وہ شعلہ مدھم پڑ گیا اور وہ اسی بے نیازی سے بچوں کو سبق دینے لگ پڑیں ۔۔۔
جبکہ میں اور ندا میم اس کے پاس جا کر ُرک گئے اور ان کے فارغ ہونے کا انتظار کرنے
@
لگے ۔۔۔ کچھ دیر بعد استانی جی فارغ ہو گئیں اور ندا میم کو مخاطب کر کے بولیں ۔۔۔ شاہینہ
کو بھی لے آنا تھا۔۔ تو ندا میم نے جواب دیا کہ اس کی بچی رو رہی تھی اس لیئے نہ آ سکی
پھر ندا نے مجھے مخاطب کیا اور پہلے سے پڑھائی گئی پٹی کے مطابق کہنے لگیں ۔۔۔ چل
معافی مانگ اپنی میڈم سے۔۔ اور میں نے بمطابق ہدایت استانی جی کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے
ﺷﺎه
اور بڑی مسکین سی آواز میں بوال ۔۔آئی ا یم سوری ٹیچر !!!!۔۔۔ اور مجرم کی طرح سر جھکا
کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر ندا میم نے استانی جی کو کہا کہ دیکھو زیبا یہ اس بچے کی
پہلی غلطی ہے اس لیئے اسے معاف کر دو پھر مزید کہنے لگیں ۔۔۔۔ زیبا جی تم کو تو معلوم ہے
کہ بچوں سے غلطیاں ہو ہی جاتی ہیں۔۔۔ اس لیئے ہمیں ان کو معاف کر نا چایئے ۔۔۔ میڈم ندا
سن کر استانی جی نے اس سے کہا کہ دیکھو ندا میں نے تم کو پہلے بھی کہا تھا کی سفارش ُ
ﺟﯽ
کہ یہ لڑکا بے شک کالس میں بیٹھے لیکن میں اس کو صرف اسی صورت میں پڑھاؤں گی کہ
سن کر ندا میم بولی وہ تو ٹھیک ہے زیبا ۔۔۔
جب تم بھی یہاں موجود ہو گی ۔۔استانی جی کی بات ُ
لیکن تم جانتی ہے کہ میرے گھر میں مہمان آئی ہے اس لیئے کچھ دن تک میں تمھارے ہاں
سن کر ۔۔۔ استانی جی نے نہایت خشک لہجے میں اس سے کہا نہیں آ سکتی ۔۔۔ ندا میم کی بات ُ
سن کر ندا بولی ۔۔۔تو ٹھیک ہے جب تم فارغ ہو جاؤ گی تو تب تم اس کو لے آنا ۔۔۔ اس کی بات ُ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
۔۔۔ زیبا پلیز میری مجبوری سمجھو اور اس لڑکے کو کالس میں بیٹھنے دو۔۔۔ لیکن استانی
جی نے صاف انکار کر دیا ۔۔۔ اور بولی ۔۔۔ سوری ندا Rules are Rulesایک دفعہ جب میں
نے کہہ دیا کہ یہ لڑکا تمھارے بنا اس گھر میں داخل نہیں ہو سکتا تو ۔۔۔ یہ نہیں آ سکتا ۔۔۔
ا
ﺳﺗﺎ
سننے کے بعد بھی ندا میم نے ان سے کافی ریکوسٹیں کیں لیکن وہ استانی کی یہ بات ُ
آخر کار ندا میم نے مجھے اپنے ساتھ لیا اور واپس چل پڑیں ۔۔ اور راستے میں نہ مانی ۔۔۔ اور ِ
بولیں۔اب کیا ہو سکتا ہے ۔۔میں نے تمھارے سامنے اس لکڑ بابی سے کافی درخواستیں کیں ہیں
۔۔۔لیکن وہ نہیں مانی ۔۔پھر کہنے لگیں ۔ اصولوں کی بڑی پکی ہے یہ زیبا بھی ۔۔۔ اسی دوران ہم
ﻧﯽ
استانی جی کے گھر سے باہر نکل آئے ۔باہر آ کر انہون نے مجھ سے کہا کہ تم ۔۔ ایسا کرو ایک
دو دن مزید ریسٹ کر لو تو میں نے اس سے کہا کہ میڈم میرے تو ٹیسٹ شروع ہو رہے ہیں
سن کر وہ کہنے لگیں تمھارے اور آپ کو پتہ ہی ہے کہ مجھے آتا جاتا کچھ بھی نہیں ۔۔۔۔ میری بات ُ
ﺟﯽ
بات بھی ٹھیک ہے چلو ایسا کرو کہ جتنے دن یہ شاہینہ ہے تم میرے گھر میں ٹیوشن پڑھ لو
۔۔۔۔پھر چلتے چلتے ُر ک گئی اور بولی ۔۔۔ویسے تو تم کو پتہ ہے ۔۔۔لیکن ۔۔۔ تم جانتے ہی کہ شاہینہ
میری قریبی رشتے دار ہے اس لیئے اس کے سامنے بھولے سے بھی کوئی ایسی ویسئ حرکت
نہیں کرنی ۔۔۔ اور ہم دوبارہ ان کے گھر میں داخل ہو گئے ۔۔۔
@
جیسے ہی ہم ندا میم کے گھر میں داخل ہوئے تو سامنے ہی شاہینہ بیٹھی تھی اس نے ہمیں
دیکھتے ہی کہا کہ کیا بات ہے منڈے کو چھوڑ کر نہیں آئی؟ تو میڈم نے قدرے غصیلے لہجے
ﺷﺎه
میں جواب دیا کہ یار تم تو زیبا کو اچھی طرح سے جانتی ہو ایک دفعہ اگر کسی بات پر اڑ
گئی تو پھر اڑ گئی ۔۔۔ یہ سن کر شاہینہ کہنے لگی کہ کہتی کیا ہے وہ؟ تو میڈم نے جواب دیا
کہنا کیا ہے یار۔۔اور پھر اس نے اپنی اور استانی جی کے درمیان ہونے والی ساری گفتگوسے
اسے آگاہ کر دیا۔۔۔ساری بات سن کر وہ کہنی لگی بڑی ضدی ہے تمھاری دوست استانی جی ۔۔
ﺟﯽ
شاہینہ نے یہ بات کہی اور پھر بچی کو لیکر اندر کمرےمیں چلی گئی ۔ شاہینہ کو جاتے دیکھ کر
میڈم میری طرف گھومی اور بولی۔۔ چلو اپنا بیگ کھولو ۔اور پڑھائی شروع کرو۔۔اور میں اپنا
بیگ کھولنے لگا ۔۔ اس کے بعد میڈم کہنے لگی کہ اب بتاؤ کہ تم کس سبجیکٹ میں زیادہ کمزور
ہو؟ ؟ تو میں نے میڈم سے کہا ویسے تو میڈم میں سارے کے سا رے سجیکٹس میں بہت کمزور
ہوں ۔۔۔پھر میں میڈ کے سامنے میتھ کی بُک رکھتے ہوئے کہا کہ میڈم یہ سبجیکٹ مجھے بلکل
نہیں آتا ۔۔۔اور اس سے کہا کہ پلیز مجھے کچھ سمجھا دیں ۔۔۔میڈم نے میرے ہاتھ سے میتھ کی
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
کتاب لی اور اسے دیکھنے لگی اتنے میں اندر سے شاہینہ نکلی اور میڈم کو مخاطب کر کے کہنے
لگی کہ ۔۔ندا۔۔ یار بچی کا سیری لیک ختم ہو گیا اور پھر اس نے میڈ م کو پیسے پکڑاتے ہوئے
کہا کہ زرا جلدی سے منگوا دو ۔۔۔تو میڈ م نے اس کو پیسے واپس کرتے ہوئے کہا کہ مجھے پتہ
ہے کہ تیرے پاس بڑے پیسے ہیں اور پھر اس نے شاہینہ کو اس کے پیسے واپس کردئےل اور
ا
اپنی برا میں ہاتھ ڈال کر پیسے نکالے اور مجھے دیتے ہو ئے بولی کہ تم ایسا کرو کہ دوڑ
ﺳﺗﺎ
حبیب جنرل سٹور سے بچی کے لیئے سیری لیک تو لے آؤ اور میں نے میڈم کے جا کے
سے پیسے پکڑے اور بھاگ کر سٹور سے شاہینہ کی بچی کے لیئے سیری لیک لے آیا اور پھر
بقایا پیسوں کے ساتھ میڈم کو سیری لیک دینے لگا تو وہ بولی ۔۔۔ نہیں یہ سیری لیک شاہینہ
کے دے آؤ ۔۔ چنانچہ میں نے ان کے ہاتھ سے سیری لیک کا ڈبہ پکڑا اور اندر کمرے کی طرف
ﻧﯽ
چل پڑا جہاں پر شاہینہ اپنی بچی کے ساتھ موجود تھی ۔۔۔جیسے ہی میں کمرے میں داخل ہوا۔۔۔
تو اس وقت شاہینہ اپنی بچی کو دودھ پال رہی تھی اور جس وقت میں دروازے سے اس کے
کمرے میں داخل ہوا تو عین اس وقت شاہینہ اپنی بچی کے منہ سے اپنا دودھ چھڑا رہی
ﺟﯽ
تھی ۔۔۔۔اور اندر داخل ہوتے ہی میں نے دیکھا کہ شاہینہ کے بہت موٹے ممے کے آگے بڑا سا
براؤن رنگ کا نپل تھا اور جس چیز نے مجھے شہوت سے بھر دیا تھا ۔۔ اور میری ساری
توجہ اپنی جانب کھینچ لی تھی وہ شاہینہ کے نپل سے نکلنے واال دودھ کا قطرہ تھا ۔۔۔ اور
میں دیکھا کہ اس کے نپل سے دودھ کا موٹا سا قطرہ نکل کر باہر کی طرف گر رہا تھا
@
اور یہ اتنا دلکش منظر تھا کہ میں خود پرقابو نہ رکھ سکا اور بے اختیار میرے منہ سے ایک
سسکی سی نکل گئی۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ جسے سن کر شاہینہ نے ایک دم چونک کر میری طرف دیکھا اور
واضع طور پر میری سسکی کی آواز سن کر اس کا منہ الل ہو گیا ۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میرے ٹٹے
ہوائی ہو گئے اور میں سیری لیک کا ڈبہ وہاں رکھ کر باہر بھاگ آیا ۔۔
ﺷﺎه
باہر آ کر دیکھا تو ندا میم میری میتھ کی کتاب کو اُلٹ پُلٹ کر کے دیکھ رہی تھیں مجھے
دیکھتے ہی وہ کہنے لگی سوری یار مجھے تو اس کتاب کی ککھ سمجھ نہیں آرہی۔۔۔ تو میں نے
ان سے کہا کہ میڈم آگے سے میرے ٹیسٹ شروع ہو رہیں اس لیئے پلیز کچھ کریں ۔۔۔تو وہ کچھ
ﺟﯽ
سوچتے ہوئے بولی۔۔ اچھا اگر یہ بات ہے تو میں کچھ کرتی ہوں ۔۔۔ اور پھر اچانک ایسا لگا
کہ جیسے اسے کچھ یاد آ گیا ہو ۔۔۔تبھی وہ میری طرف دیکھ کر بولی لو جی تمھارا کا م ہو
گیا ہے۔۔۔ تو میں نے ان سے پوچھا وہ کیسے میم ۔۔ تو وہ کہنے لگی یار یہ اپنی شاہینہ کس
دن کام آئے گی اور پھر بولی ۔۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ سکول سے لیکر یونیورسٹی تک میتھ اس
کا پسندیدہ مضمون تھا اور یہ اس سبجیکٹ میں ہمیشہ ہی فسٹ کالس رہی ہے ۔۔۔ پھر میڈم
نے وہاں سے ہی صد ا لگانی شروع کر دی ۔۔۔ اور بولی ۔۔۔شاہینہ یار فارغ ہو تو زرا ادھر آؤ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
سن کر میری تو گانڈ ہی پھٹ گئی کیونکہ ابھی تھوڑی دیر قبل ہی میں نے ۔۔۔ ندا میم کی آواز ُ
شاہینہ کے ممے سے دودھ کا ایک قطرہ نکلتا ہوا دیکھ کر ۔۔۔ بے اختیار ایک بڑی ہی گرم
سن کر شاہینہ نے چونک کر سی سسکی لی تھی ۔۔اور واضع طور پر میری سسکی کی آواز ُ
میری طرف دیکھا بھی تھا اور میں سوچ رہا تھا کہ کہیں وہ یہ بات ندا میم کو نہ بتا دے
ا
۔۔ ویسے تو ندا میم نے مجھے کچھ بھی نہیں کہنا تھا کہ وہ خود بھی میرے ساتھ سیٹ تھی لیکن
ﺳﺗﺎ
پھر بھی ایک معشوق ہونے کے ناطے وہ ۔۔۔ مجھ سے ناراض بھی ہو سکتی تھی جو کہ میں ہر
گز افورڈ نہ کر سکتا تھا اسی اثنا میں میڈم کی آواز سن کر شاہینہ بھی کمرے سے باہر نکل
آئی اور مجھ پر ایک گہری نظر ڈال کی بولی۔۔۔ کیا بات ہے ندا کویں شور مچا رہی ہو؟ تو
میم نے اس سے کہا کہ یار زرا میتھ کی یہ بُک دیکھ کربتاؤ کہ یہ تمھاری سمجھ میں آتی ہے
ﻧﯽ
کہ نہیں؟ شاہینہ نے ندا کے ہاتھ سے کتاب پکڑی اور اسے دیکھنے لگی ۔۔۔ اور پھر بولی ۔۔۔
میں چیک کر کے بتاتی ہوں اور پھر وہ کتاب لیکر کر اندر چلی گئی اور کوئی پندرہ بیس منٹ
کے بعد واپس آئی اور میڈم کو کتاب واپس کرتے ہوئی بولی ۔۔۔ میرا خیال ہے یہ کوئی مشکل
ﺟﯽ
سن کر میم نے اس سے کہا ۔۔اگر برا نہ مانو تو اس لڑکے کو میتھ کتاب نہیں ہے اس کی بات ُ
کی یہ بُک پڑھا دو گی ؟ تو وہ کہنے لگی اس میں برا ماننے کی کیا بات ہے میتھ تو ویسے
بھی میرا پسندیدہ سبجیکٹ ہے ۔۔ تم کہتی ہو تو میں اسے ضرور پڑھاؤں گی ۔۔ اور اس کی بات
سن کر ندا میم نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ بیٹا شاہینہ کے ساتھ جا کر میتھ پڑھ لو اور ُ
@
دیکھو جو چیز تمہاری سمجھ میں نہ آئے اسے تم شاہینہ سے بار بار پوچھ سکتے ہو ۔۔اور
پھر اس نے شاہینہ کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ کہ میتھ میں یہ لڑکا بہت ہی کمزور ہے اس
لیئے اس کو اچھے سے پڑھانا اور پھر میم نے میری طرف دیکھا اور بولی اب جاؤ۔۔۔
ﺷﺎه
سن کر شاہینہ کہنے لگی اندر نہیں یہیں پڑھاؤں گی کہ اندر ارم سو رہی ندا میم کی بات ُ
ہے تو ندا بولی کوئی بات نہیں یہاں ہی پڑھا لو ۔۔۔اور پھر ندا میم یہ کہتے ہوئے وہاں سے اُٹھ
گئی کہ میں تم لوگوں کےرات کے کھانے کا بندوبست کرتی ہوں ۔۔ اس کے جانے کے بعد شاہینہ
نے کرسی کو میرے قریب کیا اور بلکل میرے سامنے بیٹھ گئی اور کتاب ہاتھ میں لیکر کر بولی
ﺟﯽ
تم اپنی کاپی پنسل نکالو۔ جب میں نے کاپی پنسل نکال لی تو وہ کہنے لگی بولو کہاں سے تم کو
پڑھانا ہے تو میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے اس سے کہا کہ ۔۔۔وہ جی شروع سے ہی پڑھا دیں تو
سن کر اس نے میری طرف بڑے غور سے دیکھا لیکن بولی کچھ نہیں اچھا ہو گا ۔۔۔ میری بات ُ
۔۔۔پھر اس کے بعد اس نے کتاب کے شروع کی ایک ایکسر سائز نکالی اور بڑے ہی انہماک
سے مجھے وہ ایکسر سائز سمجھانے لگی ۔۔۔ ایکسرسائز سمجھتے سمجھتے اچانک میری نظر
اس کےکھلے گلے کی طرف چلی گئی ۔۔۔ اس وقت اس نے اپنے سینے پر دوپٹہ نہیں پہنا
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
ہوا تھا اور اس کےکھلے گلے والی قمیض میں سے اس کے گورے گورے اور موٹے ممے
آدھے باہر کو نکلے ہوئے تھے ۔۔۔ اور ایک دفعہ جو میری نظر اس کے ادھ کھلے مموں پر پڑی
تو ۔۔۔۔۔ پھر نہیں لوٹ کے نظر آئی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس کے خوبصور ت مموں سے چپک کر رہ
گئی۔۔۔
ا
ﺳﺗﺎ
ایکسر سائز سمجھاتے سمجھاتے اس نے کہیں سر اُٹھا میری طرف دیکھا ۔۔۔ لیکن میں
تو ہر چیز سے بے نیاز اس کے گورے مموں کو گھورتا جا رہا تھا اور ساتھ ساتھ سوچ
ﻧﯽ
بھی رہا تھا ۔۔۔ کہ اس کے ان مموں کے موٹے نپل سے سے دودھ کا کتنا بڑا ۔۔۔۔ قطرہ نکلتا ہو
گا ۔۔۔ میں انہی سوچوں میں گم تھا کہ اچانک میری آنکھوں کے سامنے شاہینہ کا ہاتھ لہرایا ۔اور
میں چونک گیا مجھے چونکتے دیکھ کر اس نے ُچٹکی بجاتے ہوئے کہا ۔۔۔اے مسٹر ۔۔کس
ﺟﯽ
سن کر میں گھبرا کر ۔۔۔ بوال ۔۔۔۔۔ سوری ۔۔سوری سوچ میں ُگم ہو ۔۔۔ اس کی ُچٹکی کی آواز ُ
باجی ۔۔۔ میں وہ۔۔ وہ ۔۔ تب اس نے شرارتی نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔اب مجھے
سمجھ میں آئی ہے کہ ندا کے بغیر استانی جی تم کو کیوں نہیں اپنی کالس میں بٹھا رہی تھی
سنی اور شرم سے سر جھکا لیا اور بوال ۔۔۔وہ سوری باجی ۔۔۔۔ تو وہ ۔۔۔ میں نے اس کی بات ُ
@
کہنےلگی ۔سدھر جاؤ بیٹا ۔۔۔اور ۔ پڑھائی پر دھیان دو ۔۔۔اور پھر یہ کہتے ہوئے اُٹھ کر چلی گئی
کہ میں ابھی آئی ۔۔۔ اور سامنے کمرے میں چلی گئی ۔۔۔ اور جب کچھ ہی دیر بعد واپس لوٹی
تو اس نے اپنے سینے کو ایک بڑی سی چادر سے ڈھانپا ہوا تھا۔۔۔اور وہ آ کر اسی طرح
میرے سامنے بیٹھ گئی اور پھر سے مجھے ایکسر سائز سمجھانے لگی ۔۔۔ اس دفعہ چونکہ اس
ﺷﺎه
نے اپنا مال ڈھانپ کر رکھا ہو ا تھا اس لیئے ایک دو دفعہ میں نے وہاں نظر ڈالی اور کچھ
نہ پا کر ایکسرسائز سمجھنے لگا ۔۔ بال شبہ شاہینہ ایک بڑی ہی انٹیلی جنٹ لیڈی تھی ۔۔۔اور اس
کے سمجھانے کا انداز اتنا دلکش تھا کہ صرف دو تین گھنٹے کی محنت سے مجھ جیسا مہا
ناالئق بندہ بھی میتھ کی وہ ایکسر سائز سمجھ گیا ۔۔۔ دو تین دفعہ سمجھا کر اس نے مجھے ٹیسٹ
دیا ۔۔۔اور میں وہ ٹیسٹ حل کرنے لگا اور وہ خود اُٹھ کر اندر چلی گئی ۔۔۔
ﺟﯽ
اب یہ اس کا روز کا معمول بن گیا تھا کہ جب بھی اس نے مجھے پڑھانا ہوتا تو وہ
اپنے سینے کو بڑی سی چادر سے ڈھانپ لیتی تھی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ حیرت مجھے
ا
ہی اس نے اس بات کا زکر کبھی ندا میم سے کیا تھا ۔البتہ کبھی کبھی مجھے یہ وہم ہوتا تھا کہ
ﺳﺗﺎ
وہ میرے یوں گھورنے کو انجوائے کرتی تھی۔۔ لیکن اس کے برعکس پڑھائی کے معاملےمیں
وہ بڑی سخت استانی تھی اس لیئے جب وہ مجھے پڑھانے کے لیئے بیٹھی تھی ۔۔۔ تو اپنی ہر
دلکش چیز کو ڈھانپ لیتی تھی ۔۔لیکن جیسے ہی پڑھائی ختم ہوتی تو وہ مجھے ۔۔۔خصوصا ً
اپنے گورے گورے مموں کو دیدار کرانے میں کسی بخل سے کام نہ لیتی تھی ۔۔ اور اکثر
ﻧﯽ
ب معمول کچن میں مجھے ان کی جھلک بھی کروا لیتی تھی ۔۔۔ ایک دن کا زکر ہے ندا میم حس ِ
رات کے کھانے کا بندوبست کر رہی تھیں ۔ویسے بھی اس نے مجھے کہا تھا کہ شاہینہ تھوڑے
دنوں کی مہمان ہے اس لیئے جتنا ممکن ہو سکے اس سے میتھ سیکھ لو اس لیئے ان دنوں
ﺟﯽ
میں شاہینہ میم سے صرف اور صرف میتھ ہی سیکھ رہا تھا ۔۔۔۔ سواالت وغیرہ سمجھا کر کہ
اس نے مجھے کافی سارے ٹیسٹ دے دئےی جن کو میں حل بڑی توجہ سے حل کر رہا تھا کیونکہ
مجھے معلوم تھا کہ وہ پڑھانے کے وقت بڑی سیریس ہو کر پڑھاتی ہے اس لیئے میں بھی سیریس
ہو کر ہی پڑھتا تھا ۔۔سو اس دن کا زکر ہے کہ میں بڑی توجہ سے اس کے دئے ہوئے سواالت
@
حل کر رہا تھا ۔۔ ۔۔ کہ اچانک اندر سے ارم کے رونے کی آواز سنائی دی ۔۔اس کے رونے کی
آواز سنتے ہی شاہینہ بھاگتی ہوئی اندر گئی اور اسے ُچپ کراتے ہوئے باہر لے آئی ۔ ویسے
تو ارم کا یوں رونا کوئی اتنی بڑی بات نہ تھی ۔اور نہ شاہینہ میم کا یوں بھاگ کر جانا
کوئی بڑی بات تھی ۔۔لیکن۔۔۔ بات تب بڑی بنی جب وہ روتی ہوئی ارم کو گلے سے لگائے
ﺷﺎه
باہر برآمدے میں (کہ جہاں وہ مجھے ٹیوشن پڑھاتی تھی) لے آئی ۔جہاں آ کر وہ ساتھ پڑی
ت حالچارپائی پر بیٹھنے کی بجائے میرے سامنے کرسی پر آ کر بیٹھ گئی ۔۔۔۔۔ اس وقت صو ِ
یہ تھی کہ میرے سامنے ایک کرسی پڑی تھی درمیان میں ایک میز تھا جس پر میرا بیگ و
کتابیں اور کاپیاں پڑیں ہوئیں تھیں اور میرے بلکل سامنے والی کرسی پر شاہینہ میم بیٹھتی
روتی ہوئی ارم کو ُچپ کرا رہی تھیں ۔۔ میں نے ایک نظر ان دونوں کو د یکھا اور پھر دئیے
ﺟﯽ
گئے سواالت کو حل کرنے لگا ۔۔۔ کچھ دیر بعد مجھے شاہینہ میم کی بڑی پیار بھری آواز
سنیسنائی دی وہ ارم سے کہہ رہی تھی ۔۔۔ دودھ پیو گی میری بچی ۔۔۔ میں نے میم کی آواز ُ
ضرور ۔۔۔ پر اس پر کوئی خاص توجہ نہ دی ۔۔۔لیکن جب کچھ ہی سکینڈ کے بعد میں نے شاہینہ
سنی (جیسے کہ وہ یہ بات مجھے سنا رہی ہو) وہ کی دوبارہ( لیکن تھوڑی الؤڈ ) آواز ُ
ارم کو مخاطب کر کے کہہ رہی تھی ۔۔۔ ماما کی جان ۔۔۔ ماما کا دودھ پپیو گی ؟؟؟ ۔۔۔۔ میم کی
ا
آگے موٹا سا نپل۔۔۔۔ یہ نظارہ دیکھ کر مجھے تو شلوار کے اندر تک مزہ آ گیا اور ۔۔۔ شلوار کے
ﺳﺗﺎ
اندر جس نے مزہ لیا تھا ۔۔۔۔وہ بھی جھوم کر سر اُٹھانے لگا ۔۔۔ اور میں یک ٹک ارم کو شاہینہ
میم کا دودھ پیتے ہوئے دیکھنے لگا۔۔۔۔ اور میں جانے کن سوچوں میں گم تھا کہ اچانک مجھے
شاہینہ میم کی آواز سنائی دی ۔۔۔وہ کہہ رہی تھی ۔۔۔اے مسٹر ۔۔ میرے دئےں ہوئے سوال حل کر
سن کر میں ہڑ بڑا اُٹھا اور چونک کر ان کی طرف دیکھنے لگا ۔۔ مجھے لیئے؟ اس کی آواز ُ
ﻧﯽ
مں تم سے کچھ کہہ رہی ہوں ۔۔۔ اور میں نے اپنی طرف دیکھتے ہوئے وہ کہنے لگی ۔۔۔ مسٹر ُ
اس کی بات سن کر کان ۔۔۔ ج۔ج۔ جی میڈم ۔۔۔ بس ایک سوال رہ گیا ۔۔۔ تو وہ بولی جلدی وہ بھی
سے حل کر لو میں ارم کو دودھ پال کر چیک کروں گی ۔۔ اور انہوں نے جس ادا سے لفظ دودھ
ﺟﯽ
اپنے منہ سے ادا کیا تھا میں تو ان کی اس ادا پر قربان ہو گیا اور ان کے ادا سے کہے ہوئے
سن کر میرے اندر خون کی گردش تیز ہو گئی دودھ میں جانے کیا جادو تھا کہ ۔۔ ۔ اس کی بات ُ
۔۔۔اور میں خواہ مخواہ ہی گرم ہونے لگا۔۔۔۔اور میرے سارے وجود میں ایک انجان سی مستی
چھانے لگی۔۔۔
@
میں شاہینہ کے ممے کے سحر میں کھویا ہوا تھا اور ٹکٹکی باندھے اس کو دیکھ رہا تھا
کہ اس نے ایک دفعہ پھر میری طرف دیکھا اور تھوڑا سختی سے بولی۔۔۔۔ سوال حل کر ۔۔۔اور
میں اس کے دیئے گئے سواالت کو حل کرنے لگا ۔۔۔اسی دوران ۔۔۔ ندا میڈم کچن سے نمودار ہوئی
اور شاہینہ کے سامنے چائے کی ایک بڑی سی پیالی رکھ دی اور بولی ۔۔۔ کیسا جا رہا ہے
ﺷﺎه
تمھارا سٹوڈنٹ ؟ تو شاہینہ بولی ۔۔۔ ویسے تو ٹھیک ہے ۔۔۔بس کچھ کمیاں ہیں وہ میں دور کر
دوں گی ۔۔۔ندا میم نے یہ سنا اور واپس کچن میں چلی گئی جیسے ہی ندا میم کچن میں داخل
ہوئی میں نے دیکھا کہ ارم دودھ پیتے پیتے سو گئی تھی اور یہ چیز شاہینہ میم نے بھی نوٹ کر
لی اس لیئے اس نے ارم ے منہ سے اپنا نپل نکال اور اسے ساتھ والی چاپائی پر ڈال دیا ۔۔۔۔۔ادھر
شاہینہ نے جیسے ہی اپنا نپل ارم کے منہ سےنکاال ۔۔ایک دفعہ پھر میری آنکھوں کے سامنے
ﺟﯽ
میڈم شاہینہ کے گورے اور موٹے ممے کا نظارہ آ گیا ۔۔۔ اور پچھلی دفعہ تو شاہینہ کے نپل سے
نکلنے والے صرف ایک قطرہء دودھ۔۔نے میرے دل و دماغ میں ہلچل مچائی تھی جبکہ
اس دفعہ تو میں نے اس کے سفید ممے کے اوپر براؤن نپل سے دودھ کے کافی سارے قطرے
نکلتے دیکھ لیئے تھے اور میں جو پہلے ہی کافی ہاٹ ہو رہا تھا یہ منظر دیکھ کر اب میں
اور بھی ہاٹ ہو چکا تھا ۔ اور میرا گرمی کے مارے بہت برا حال ہو رہا تھا ۔۔۔ادھر ارم کو
ا
روم کی طرف جانے لگا ۔۔ تو شاہینہ میم نے مجھے سختی سے منع کرتے ہوئے کہ میں اپنے
ﺳﺗﺎ
سوال حل کروں ۔۔۔یہ کام وہ خود کر لے گی چنانچہ میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ ۔۔۔۔۔۔ واش
روم کی طرف چلی گئی اور پھر واپسی سے ایک بڑا سا پروال ( گندا کپڑا جس کو گیال کر کے
صحن وغیرہ صاف کرتے ہیں) برآمدے کے فرش پر رکھا ۔۔۔ پھر اس نے پیچھے سے اپنی قمیض
کو اوپر کیا ۔۔۔۔ جس سے اس کی بڑی سی گانڈ کی دونوں پھاڑیاں نمایاں نظر آنے لگیں ۔۔جنہیں
ﻧﯽ
دیکھ کر میں سوال شوال بھول حل کرنا گیا اور چپکے چپکے اس کی بڑی سی گانڈ کا نظارہ
کرنے لگا ۔۔قمیض اوپر کر کے پھر وہ اکڑوں فرش پر بیٹھی اور فرش پر پروال (صافی)
پھیرنے لگی ۔۔ اسے پروال پھیرتے دیکھ کر اچانک میرے شیطانی زہن میں ایک خیال/پالن آیا
ﺟﯽ
۔۔۔ اور پھر اگلے ہی لمحے میں نے اس پال ن پر عمل کرنے کا فیصلہ کر لیا ۔۔۔اور پھر اس
کے بعد میں نے بظاہر اپنی ساری توجہ ۔۔۔۔سوال حل کرنے پر رکھی لیکن اس کے ساتھ ساتھ
اپنا بایاں پاؤں تھوڑا آگے کر کے اس کے انگھوٹھے کا ُرخ اوپر کی طرف کر لیا ۔۔۔ اور
انتظار کر نے لگا ۔۔۔اور پھر میرے اندازے کے عین مطابق شاہینہ میم پروال پھیرتے پھیرتے
@
۔۔آہستہ آہستہ ۔ اپنی گانڈ میرے بایئں پاؤں کے انگھوٹھے کی طرف بڑھانے لگی ۔۔۔۔
ہوتے ہوتے جیسے ہی اس کی گانڈ میرے انگھوٹھے کی رینج میں آئی میں نے اپنا انگوٹھا
۔۔۔۔تھوڑا آگے کر دیا۔۔۔۔ ۔ ۔جیسے ہی میرے پاؤں کا انگھوٹھا اس کی نرم گانڈ سے ٹچ ہوا ۔۔۔
وہ ایک دم ایسے اچھلی جیسے کہ اسے 555وولٹ کا کرنٹ لگا ہو ۔۔۔ اور میری طرف
ﺷﺎه
دیکھنے لگی ۔۔۔ لیکن میں تو بڑا معصوم بنا اس کے دیئے ہوئے سوال حل کر رہا تھا ۔۔اس نے
چند سکینڈ تک مجھے گھورا ۔۔۔ لیکن میں نے اس کے گھورنے کو مطلق لفٹ نہ کرائی ۔۔۔
اور پہلے سے بھی زیادہ انہماک سے سوال حل کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔ آخر وہ عورت تھی ۔۔۔۔ اور میری
ٹیچر بھی ۔۔۔اس لیئے چند سکینڈ میں ہی وہ میری شرارت کو سمجھ گئی لیکن ۔۔۔ کچھ نہ
بولی ۔اور نہ ہی کوئی ردِعمل شو کیا۔۔اور اس کے بعد ۔ وہ ایک دفعہ پھر نیچے بیٹھی اور
ﺟﯽ
دوبارہ سے پروال پھیرنے لگی ۔۔۔ اس دفعہ بھی جیسے ہی ۔۔۔۔۔۔۔اس کی موٹی گانڈ ۔ میرے
انگھوٹھے کی رینج میں آئی میں نے ایک دفعہ پھر اپنا انگھوٹھا آگے بڑھایا اور اس کی نرم
گانڈ سے ٹچ کر دیا ۔۔۔۔ لیکن پہلی بار کے برعکس اس دفعہ اس کا ردِعمل کافی مختلف تھا
۔۔۔اس نے میرے انگھوٹھے کو اپنی گانڈ پر محسوس تو کیا لیکن بے نیاز بنی رہی ۔۔۔ اور پھر
اسی بے نیازی سے فرش پر پروال پھیرنے لگی ادھر ۔۔۔۔ میرا انگھوٹھا ابھی بھی اس کی حسین
ا
بادشاہو۔۔۔کیونکہ ۔۔ ۔اپنی چوت کے لبوں پر میرے موٹے اور کھردرے انگھوٹھے کو محسوس
ﺳﺗﺎ
کر کے بھی اس نے اپنا کوئی ردِعمل نہ شو کیا اور ۔۔۔۔ ایسے بنی رہی کہ جیسے کچھ بھی نہ
ہوا ہو۔۔۔ ادھر جیسے ہی میرے انگھوٹھے کی نوک نے اس کی چوت کے نرم لبوں کو ٹچ کیا۔۔۔۔۔
میرا سارا وجود مستی میں بھر گیا ۔۔۔۔ اور پھر ایسے ہی پروال پھیرتے پھیرتے اچانک پتہ نہیں
کیسے اس کا ہاتھ میرے سامنے دھری میز پر لگا کہ جس سے میرا سکول بیگ ،کاپی پنسل
ﻧﯽ
اور دیرر اشیاء اس کے پاس نیچے فرش پر گر گئیں ۔۔۔
ﺟﯽ
جیسے ہی میرا سامان فرش پر گرا اس نے ایک مستانی نظر سے مجھے دیکھا اور
بولی ۔۔۔ چلو جلدی سے اپنا سامان اُٹھاؤ بھی کہ میں نے پروال پھیرنا ہے ۔۔۔ اس کی مست
آنکھوں میں کوئی ایسا پیغام ضرور تھا کہ جسے سنتے ہی میں بنا کوئی بات کیئے اس کے
پاس نیچے بیٹھ گیا اور اپنا سامان اکھٹا کر نے لگا ۔۔سامان اٹھاتے اُٹھاتے میں نے دیکھا کہ ۔۔
میری ایک پنسل اور ربڑ اس کے سامنے اور تھوڑا آگے پڑی ہوئی تھی۔۔۔ اور وہ میری طرف
@
سے بظاہر بے نیاز ہولے ہولے پروال پھیر رہی تھی ۔۔۔میں نے ایک نظر شاہینہ میم کی طرف
دیکھا اور پھر اپنی پنسل پر نظر ڈالی ۔۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اس وقت اس کی گانڈ کافی اوپر
کو اُٹھی ہوئی محسوس ہوئی ۔۔ اور میں اتنے قریب سے اس کی گانڈکے زیر و بم اور نشیب و
فراز دیکھ رہا تھا اور اس کی موٹی گانڈ سے تھوڑا آگے ہی تو میری پنسل اور ربڑ پڑی تھی
ﺷﺎه
۔۔۔یہ دیکھ کر میں نے ہمت کی ۔۔۔۔اور میں نے اپنا ہاتھ اس کی دونوں ٹانگوں کے درمیان سے
گزارا اور ۔۔اپنی پنسل اُٹھا لی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔اور پھر ہاتھ کی واپسی پر۔۔۔۔ جان بوجھ کر لیکن بظاہر اتفاقا ً
اپنے اُلٹے ہاتھ کو اس کی گانڈ کی دیواروں پر رگڑ دیا ۔۔۔۔۔آہ۔۔۔ مجھے اس کا م میں اتنا مزہ آیا
لمس سے کہ میرے اندر تک شہوت بھر گئی اور ۔۔۔۔۔ اس کی گانڈ کی نرمی اور زبردست
ﺟﯽ
میرا لن کھڑا ہو گیا ۔۔۔ لیکن اس وقت لن کھڑا ہونے کا کس کافر کو ہوش تھا ۔۔ اپنی گانڈ پر اتنا
واضع مساج ہوتے دیکھ کر بھی اس نے مجھے کچھ نہ کہا اور وہ ویسے ہی اپنی گانڈ اوپر
کئے بظاہر پروال پھیرتی رہی ۔۔۔جس سے میری ہمت میں کچھ اور اضافہ ہوا اور اس دفعہ میں
نے ربڑ اٹھانے کے لیئے اس کی ٹانگوں کے بیچ ہاتھ کیا ۔۔۔ میں چاہتا تو اس وقت پنسل کے
ساتھ ساتھ ربڑ کو بھی ایک ہی بار میں اُٹھا سکتا تھا لیکن بوجہ میں نے ایسا نہ کیا تھا ۔۔۔ کیونکہ
میں سکینڈ چانس بھی لینا چاہتا تھا چنانچہ میں نے اس دفعہ بھی دوبارہ ہاتھ آگے بڑھایا اور
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
اسی طرح اپنے ہاتھ کو اس کی ٹانگوں سے گزارتے ہوئے ۔۔۔۔وہ ربڑ پکڑ لی اور پھر اپنے
ہاتھ کو واپس النے لگا ۔۔۔۔ اوراس دفعہ میں نے اپنا ہاتھ سیدھا رکھا اور اپنی دو انگلیوں کو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تھوڑا اوپر کر کے اس کی چوت کی پھانکوں کے درمیان پری دیا۔۔۔۔۔ جیسے ہی میری دو انگلیوں
سنی نے اس کی چوت کو َمس کیا ۔۔۔۔۔۔ واضع طور پر میں نے شاہینہ کے منہ سے ایک سسکی ُ
ا
۔۔۔۔اور میرا دل بلیوں اچھل پڑا۔
ﺳﺗﺎ
شاہینہ کو چوت کے لبوں کو چھو کر میں اتنا جزباتی ہو گیا تھا کہ موقعہ دیکھ کر میں
نے اس کا ہاتھ اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسے اپنے لن پر رکھ دیا۔پہلے تو اس نے اپنے ہاتھ کو
لن پر نہ رکھا اور اسے سختی سے پیچھے ہٹا لیا ۔۔۔ لیکن جب میں نے زبردستی اس کا ہاتھ
ﻧﯽ
پکڑ کر اٌور اسے اپنے لن پر رکھا ۔۔۔تو ۔۔۔۔ لن پر ہاتھ پڑتے ہی پہلے تو وہ تھوڑا سا چونکی
۔۔۔۔ پھر جیسا کہ اس جیسی ہر عورت کے ساتھ ہوتا ہے پھر اس نے حیرت سے مجھے اور پھر
میری باڈی کو دیکھا ۔۔۔وہ ایک دبلے پتلے لڑکے کے ساتھ لگے اتنے بڑے لن کا تصور بھی
نہ کر سکتی تھی ۔۔۔۔۔ چنانچہ پہلے تو اس نے لن کو ہلکا سا چھو کر دیکھا ۔۔۔اور پھر اس کے
ﺟﯽ
سائیز کا اندازہ لگاتے ہی اس کی آنکھیں پھیل گئیں اور اس نے مرسی طرف دیکھتے ہوئے
اپنے نیچے واال ہونٹ اپنے دانتوں تلے داب لیا اور پھر بے اختیار میرے لن پر اپنے ہاتھ کی
گرفت مضبوط کر لی ۔۔۔ اور میری طرف دیکھتے ہوئے اسے مسلسل دبانے لگی ۔۔۔۔جیسے
اسے ابھی بھی اس بات یقین نہ آ رہا ہو کہ میرا لن اتنا بڑا اور موٹا بھی ہو سکتا ہے۔۔۔۔۔۔۔ وہ
@
میرے لن کو دبا رہی تھی کہ اچانک کچن سے کچھ کھڑ ُکھڑ کی آوار سنائی دی ۔۔۔اور یہ آواز
سنتے ہی وہ ایک دم محتاط ہو گئی اور میرا لن چھوڑ کر میرے سامنے کرسی پر بیٹھ گئی جبکہ
میں سب کام بھول کر سوال حل کرنے لگا۔۔۔۔
اور آنے والے وقت کا اندازہ کرتے ہی لن کو شاباش دیتے ہوئے سوچا کہ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ایک اور
ﺷﺎه
پھر اس کے بعد میں دل ہی دل میں سوچنے لگا کہ خوش قسمتی سے یہ آنٹی بھی کس قدر
آسانی سے میرے ساتھ پھنس گئی ۔۔۔ میری اس شوخ سوچ پر میرے اندر سے آواز آئی کہ
ﺟﯽ
زیادہ اچھلنے کی ضروت نہیں تمہیں کیا معلوم تم نے آنٹی کو گھیرا ہے یا آنٹی نے تم کو
پھنسایا ہے ؟ یہ خیال آتے ہی میں نے اپنی اس بونگی سوچ پر لعنت بھیجی اور پھر اپنا
سامان اُٹھا کر میز پر رکھ دیا ادھر شاہینہ میم نے بھی صافی سے سارا فرش صاف کر لیا تھا
اس لیئے وہ واش روم میں گئی اور واپس آ کر میرے قریب بیٹھ کر بولی ۔۔۔ ٹیسٹ دکھاؤ ؟؟ اور
ا
ﺳﺗﺎ
ب معمول ٹیوشن کے لیئے ندا میم کے گھر جانے اس سے اگلے دن کی بات ہے کہ میں حس ِ
کے لیئے ان کے دروازے پر دستک دی تو اندر سے شاہینہ نکلی ۔۔۔۔ اور یہ پہلے موقع تھا کہ
شاہینہ میم نے دروازہ کھوال تھا اس لیئے میں نے اندر داخل ہوتے ہوئے ان سے پوچھا کہ ۔۔
ندا میم کہاں ہیں ؟ تو وہ بڑے سخت لہجے میں کہنے لگی ۔۔ کہ بکواس نہ کرو اور اندر آ
ﻧﯽ
جاؤ ۔۔۔ اس کا موڈ دیکھ کر میں خاصہ سہم گیا کیونکہ اس خاتون کو کوئی پتہ نہیں چلتا تھا
کہ وہ گھڑی میں تولہ اور گھڑی میں ماشہ ہو جاتی تھیں ۔۔۔چنانچہ میں ُچپ چاپ ان کے ساتھ
گھر میں داخل ہو گیا اور برآمدے میں جا کر اپنے بیگ کر میز پر رکھا اور پھر اپنی مخصوص
ﺟﯽ
کرسی پر بیٹھ گیا اس کے ساتھ ہی انہوں نے پہلے سے بنایا ہوا ایک پرچہ میرے سامنے رکھا
اور بولی ۔۔آج تمھارا گرینڈ ٹیسٹ ہے ۔ چلو یہ سارے سوال حل کرو ۔۔میں نے اپنا بیگ کھوال
اور پھر ایک نظر ۔ پرچہ کی طرف ڈالی اور پھر ایک نظر شاہینہ میم کی طرف دیکھا تو
وہاں مجھے کافی سے زیادہ سختی نظر آئی۔۔۔ جسے دیکھ کر میں نے سر جھکایا اور ان کے
@
دیئے ہوئے سوال حل کرنے لگا ۔۔۔ اسی اثنا میں گیلے بالوں پر تولیہ پھیرتے ہوئے ندا میم کمرے
سے باہر نمودار ہوئی ۔۔۔اور ایک نظر مجھے اور پھر شاہینہ کی طرف دیکھا ۔۔۔۔ برآمدے کا
ماحول بڑا ہی گھمبیر اور تناؤ ذدہ تھا میں بڑا سیریس وہ کر اور پریشانی کے عالم میں پرچہ
حل کر رہا تھا جبکہ میرے سامنے شاہینہ میم بیٹھی مجھے خون خوار نظروں سے گھور رہی
ﺷﺎه
تھی ۔۔۔۔میم نے ایک نظر مجھے اور شاہینہ کو دیکھا ۔۔۔ اور پھر کہنے لگی ۔۔ ۔۔ بڑی سختی کر
سن کر شاہینہ نے اسی سخت لہجے میں کہا کہ التوں کے بھوت رہی ہو اپنے سٹوڈنٹ پر ۔۔۔ یہ ُ
باتوں سے نہ مانیں تو ایسا ہی کرنا پڑتا ہے ۔۔۔ اس پر ندا کہنے لگی اینی وے ۔۔آج جمعرات ہے
سن کر شاہینہ بولی ۔۔۔یار پروگرام تو تھا
اور تم نے زیبا کے ہاں ختم پر نہیں چلنا ؟ ان کی بات ُ
پر ایک تو ارم اور دوسرا یہ صاحبزادے صاحب جو ابھی تک ویسے کے ویسے ہی ہیں ۔۔ اور
ﺟﯽ
میں سوچ رہی ہوں کہ جانے سے پہلے کچھ تو اس کے پلے ڈال ہی جاؤں۔۔ اس لیئے ۔۔ سوری میں
سن کر ندا میم بولی ۔۔۔ ایسے نہ کہو یار تم تو جانتی ہی ہو کہ
نہیں جا سکتی۔۔ ۔۔شاہینہ میم کی بات ُ
یار زیبا میری ویری بیسٹ فرینڈ ہے اور وہ تم سے بھی اچھی طرح واقف ہے اس لیئے یہ
بڑی بری بات ہے کہ اگر ۔۔۔ تم یہاں ہو کر بھی اس کے ہاں ختم پر نہ جاؤ ۔۔۔اس لیئے پلیز چلو
سن کر شاہینہ کہنے لگی کہتی تو تم ٹھیک ہو ندا ۔۔۔ چلو ایسا کرتی ہوں میں اس ۔۔ ندا کی بات ُ
ا
اپنے کمرے میں چلی گئی اور کچھ دیر میں تیار ہو کر وہ باہر آئی اور مجھ سے بولی کنڈی لگا
ﺳﺗﺎ
لو ۔۔ تو میری بجائے شاہینہ نے اسی کرخت لہجے میں کہا ۔۔۔ کہ دیکھ نہیں رہی یہ ٹیسٹ دے رہا
سن کر ندا میم ہنسہے تم جاؤ میں خود دروازے کو الک کر لوں گی ۔۔۔ شاینہ کا کرخت لہجہ ُ
کر بولی لگتا ہے شاہینہ کہ تم پر بھی ۔۔۔زیبا کا سایہ ہو گیا اور پھر جاتے جاتے ُرک کر بولی
۔۔۔ یاد رکھنا میڈم مغرب کے آس پاس تم نے زیبا کے ہاں ہونا ہے اور باہر چلی گئی ۔۔۔ اس کو
ﻧﯽ
جاتے دیکھ کر شاہینہ میم اُٹھی اور دروازے کو کنڈی لگا کر واپس آ گئی ۔۔ ۔۔۔
اس وقت میں پوری یک سوئی کے ساتھ ایک بڑا ہی گنجالک قسم کا سوال حل کر رہا تھا
۔۔۔ جب میں نے اپنی ٹانگوں کے درمیان کچھ محسوس کیا ۔۔۔ لیکن میں نے اس کو اپنا وہم جانا
ﺟﯽ
اور سوال کو حل کرتا رہا۔۔۔ لیکن پھر کچھ دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ کوئی نرم نرم چیز
میری ٹانگوں کے درمیان سے ہوتی ہوئی میرے لن پر مساج کر رہی ہے ۔۔۔ میں ایک دم چونک
گیا اور تھوڑا چوکنا ہو کر بیٹھ گیا ۔۔۔ اگلے ہی لمحے میں نے شاہینہ میم کا نازک سا پاؤں
بڑے واضع طور پر اپنے لن پر ٹچ ہوتا ہوا محسوس کیا ۔۔۔ یہ محسوس کرتے ہی میں نے سر
@
اُٹھا کر اوپر دیکھا تو میڈم شاہینہ اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ میز پر اپنی دونوں
کہنیاں ٹکائے ۔میری طرف دیکھ رہی تھی اور اس کے ساتھ ساتھ۔۔ میز کے نیچے سے میرے
لن پر اپنا پاؤں بھی پھیر رہی تھی ۔۔۔ تھوڑا آگے جھکنے کی وجہ سے مجھے اس کے گورے
گورے بریسٹ صاف نظر آ رہے تھے۔۔۔ میم کو اس حالت میں دیکھ کر میرا اوپر کا سانس اوپر
ﺷﺎه
اور نیچے کا نیچے رہ گیا ۔۔۔ اور میں خالی خالی نظروں سے ان کو دیکھنے لگا ۔کیونکہ میں ان
سے ہر گز اس بات کی توقع نہ کر رہا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔انہوں نے جب مجھے ایسے بے وقفوں کی
طرح منہ پھاڑے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھا تو مسکرا کر بولی ۔۔ کیوں ؟؟؟ کیا ہوا
ایسے کیوں دیکھ رہے ہو مجھے ۔؟؟۔۔۔تو میں ان کی بات نہ سمجھا اور ویسے ہی ہونقوں کی
طرح ان کی طرف دیکھتے ہوئے کہا ۔۔۔۔ میڈم ۔۔۔ابھی تو آپ ۔۔؟؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔جی ابھی
ﺟﯽ
تھوڑی دیر پہلے جو میں نے آپ کے ساتھ کیا تھا اسی کے بارے میں بات کر رہی ہوں ۔۔۔پھر
سن لو میں نے تمھارے اور ندا کے ساتھ جو کیا تھا ۔۔۔ وہ سب کچھ وقفہ دیکر بولی ۔۔ ُ
سن تو رہا تھا
ڈرامہ تھا ۔۔شاہینہ میم جو کہہ رہی تھی وہ میں ُ
ا
چاند ۔۔۔ کہ مجھے جارحانہ موڈ میں دیکھ کر ندا مجھے اپنے ساتھ لے جانے پر زور نہ
ﺳﺗﺎ
دے ۔اس پر میں نے ان سے پوچھا کہ۔۔ میڈم تو پھر آپ نے جو میرے ساتھ کیا وہ کیا تھا ؟ ۔۔
تو وہ بڑے اطمینان سے کہنے لگی ۔۔ ڈرامے میں حقیقت کا رنگ بھرنے کے لیئے اسے میرا
سن کر میں نے ایک گہری سانس لی ۔اور ان کی طرف دیکھنے سوانگ سمجھ لو ۔۔ان کی بات ُ
لگا ۔۔۔مجھے اپنی طرف دیکھتے ہوئے دیکھ کر وہ تھوڑا مسکرائی اور کہنے لگی ۔۔۔کچھ
ﻧﯽ
سمجھے مسٹر بدھو ۔۔اور میں نے اثبات میں سر ہا دیا ۔۔ اس کے بعد وہ پھر مجھ سے بولیں ۔۔۔
۔۔۔۔ ٹیسٹ والے سواالت حل کر لیئے؟؟ تو میں نے کہا بس تھوڑا سا رہ گئے ہیں تو وہ
کہنے لگی ۔۔۔جلدی کرو کہ ابھی تم کو ایک دوسرا ٹیسٹ بھی دینا ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی
ﺟﯽ
انہوں نے اپنا پاؤں مزید دراز کیا اور میرے لن پر پھیرنے لگی ۔۔ شاہینہ کے پاؤں کا
لمس پاتے ہی میرا لن ایک دم کھڑا ہو گیا ۔۔اور میں اس کے آدھے ننگے ممے دیکھنے لگا
۔۔پھر اس کے پاؤں کے تلوے کو اپنے تنے ہوئے لن پر محسوس کرتے ہی میں نے کرسی تھوڑی
اور آگے کی طرف بڑھائی اور اپنی ٹانگوں کو مزید کھول کر کے اس کے آدھ کھلے مموں کو
@
ٹکٹکی باندھ کے دیکھنے لگا میرے آگے بڑھتے ہی اس نے اپنا دوسرا پاؤں بھی میرے لن
کے پاس رکھ دیا اور اب وہ اپنے دونوں پاؤں کے تلوے میرے لن کے گرد جوڑکر ۔۔۔۔ ُمٹھ
مارنے کےسٹائل میں انہیں اوپر نیچے کرنے لگی ۔۔۔ شاہینہ کی اس حرکت سے مجھے بڑا مزہ آ
رہا تھا ۔۔۔اور وہ میری طرف دیکھتے ہوئے مسلسل اپنے پاؤں کے تلوؤں کو اوپر نیچے کر رہی
ﺷﺎه
تھی ۔ اور میں نے اس کی طرف دیکھا تو اس وقت اس کی آنکھوں میں بال کی جنسی بھوک
اور شہوت کے الل ڈورے تیرتے ہوئے صاف نطر آ رہے تھے ۔۔۔اور اس کے ساتھ ساتھ اس
نے اپنے نچلے ہونٹوں کو اپنے دانتوں تلے بھی دبا کر رکھا ہوا تھا اور یہ سٹائل شاہینہ
میم پر اتنا زیادہ چچ رہا تھا کہ انہیں اس حالت میں دیکھ کر میرا لن سخت سے مزید سخت
سن کر تر ہوتا جا رہا تھا ۔۔۔۔۔تبھی میں نے ان سے پوچھا ۔۔۔ میرا کیسا ہے میم؟ میری بات ُ
ﺟﯽ
انہوں نے اپنے نچلے ہونٹ کو دانتوں سے آزاد کرتے ہوئے کہا ۔۔ یقین کرو تمھارے اس کے (
لن پر پاؤں کا تلوا رگڑتے ہوئے) ۔۔ سائز نے تو مجھے ساری رات سونے نہیں دیا ۔ تو میں
کہا اس کی کوئی خاص وجہ ۔؟؟؟؟؟؟؟۔تو وہ کہنے لگی اس کی خاص وجہ اس کی موٹائی اور
لمبائی ہے ۔۔۔پھر وہ اپنے ہونٹوں پر شہوت بھرے انداز میں زبان پھیرتے ہوئے بولی ۔۔۔
تمہارے جتنا سائز تو میں نے بلیو موویز میں صرف حبشی لوگوں کا دیکھا تھا ۔۔۔۔ ان کی بات
ا
میں بولی ۔۔۔سارے کے سارے ننگے کردووں ۔۔۔؟ تو میں نے بھی اس کی آنکھوں میں آنکھیں
ﺳﺗﺎ
سنی اور پھر بال ڈال کر کہا ۔۔۔ جی میم سارے کے سارے ننگے کردیں ۔۔۔ انہوں نے میری بات ُ
تکلف اپنی کھلے گلے والی قمیض میں ہاتھ ڈاال اور اپنے دونوں ممے باہر نکال دیئے ۔۔میم
کے شاندار اور اتنے گورے بریسٹ دیکھ کر میرے منہ سے ایک بار پھر بلکل اسی طر ح
سیکس سے بھر پُور سسکی نکل گئی جو میں نے ان کے پہلی بار نپل دیکھ کر بھری تھی۔۔۔
ﻧﯽ
جسے سنتے ہی وہ مسکرائی اور بولی۔۔۔ پہلی دفعہ تمھاری اس سسکی نے ہی مجھے تمھارے
بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیا تھا اور تب میں نے فیصلہ کر لیا تھا کہ ۔۔۔۔۔اس کے بعد وہ
کہنے لگی ۔۔۔دیکھو میں نے تو تمہاری پسندیدہ چیز تمہارے سامنے ننگی کر دی اب تم بھی
سن کر میں نے فورا ً اپنا آزار بند
ﺟﯽ
میری پسندیدہ چیز کو ننگا کرو نا ۔۔۔ شاہینہ میم کی بات ُ
کھوال اور اپنی شلوار کو نیچے کر دیا ۔۔۔ اور انہوں نے میرے ننگے لن کو اپنے پیروں کے
نرم تلوؤں سے چھوا اور ایک گرم سی آہ بھر کر اس پر مساج کرنا شروع کر دیا ۔۔۔۔
@
کافی دیر تک وہ میرے لن پر اپنے پیروں کا مساج اور میں ان کے مموں کو دیکھتا رہا ۔۔۔
پھر انہوں نے مجھے کہا ۔۔ کہ میرے بریسٹ کو دیکھتے ہی رہو گے یا ان کو اپنے ہاتھوں
سن کر میں نے اپنے ہاتھوں کو آگے بڑھایا اور ان کا ایک میں پکڑو گے بھی ؟ میم کی بات ُ
بریسٹ اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر اسے دبا دیا ۔۔۔تو ۔۔۔ فورا ً ہی ان کے تنے ہوئے نپل سے
ﺷﺎه
دودھ نکلنے لگا ۔۔۔اور میڈم نے ایک سسکی لی اور بولی ۔۔۔پاگل میرے بریسٹ کو نہیں نپلز
کو مسلو۔۔۔ اور میں نے ان کے دونوں نپلز اپنی دونوں ہاتھوں کی انگلیوں میں پکڑے اور انہیں
مسلنے لگا ۔۔۔ جیسے جیسے میں میم کے نپلز کو اپنی انگلیوں کی مدد سے مسلتا ویسے
ویسے میڈم کے پاؤں تیزی سے میرے لن کے گرد چلنے لگتے اور میں ۔۔۔۔ ان کے پاؤں کے
ﺟﯽ
مساج سے بے حال ہوت ا جاتا پھر میم نے کمال مہارت سے اپنے دائیں پاؤں کا تلوا اوپر اٹھایا
اور اس کو میرے ٹوپے کے اوپر پھیرنے لگی۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی مزے کی تیز لہر میرے جسم
میں بجلی کی طرح دوڑنے لگی اور میں آہیں بھرنے لگا ۔۔۔۔ یہ دیکھ کر میڈم شہوت بھرے لہجے
میں بولی ۔۔۔ مزہ آ رہا ہے ۔۔۔ تو میں نے سر ہال دیا ۔۔۔
ا
اس کو اپنے اندر لیتی ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔ انہوں نے بڑے ہی پیار سے میرے ٹوپے پر دونوں ہونٹ
ﺳﺗﺎ
جوڑ کر کس دی اور بولی ۔۔۔۔ کیسا مشروم کی طرح کا ہیڈ ہے تمھارے لن کا ۔۔۔۔ اور پھر انہوں
نے میرے لن کو اپنے دائیں ہاتھ میں پکڑا اور ُمٹھ مارنی شروع کر دی ۔۔۔ان کے نرم ہاتھوں
کا لمس گو کہ مجھے بہت اچھا لگ تھا پھر بھی میں نے ان سے کہا کہ میڈم لن کو تھوڑا چکنا
سن کر انہوں نے بہت سا تھوک جمع کیا اور لن پر مل کر تیز تیز ۔۔۔ہاتھ کر لیں ۔۔۔۔۔ میری بات ُ
ﻧﯽ
چالنے لگی ۔۔۔ان کے تیز تیز ہاتھ چالنے سے انکی چوڑیوں کی مخصوص جھنکار بھی فضا
مین گونجنے لگی ۔۔۔۔ شڑنگ ۔۔شڑنگ ۔۔۔اور اس کے ساتھ ہی میرے لن نے مزی کاایک موٹا سا
قطرہ چھوڑا جو ٹوپے سے ہوتا ہوا باہر آیا تو اسے دیکھتے ہی میڈم نے اپنی زبان باہر
ﺟﯽ
نکالی اور لن سے باہر نکلنے واال مزی کا وہ موٹا سا قطرہ چاٹ لیا ۔۔۔۔
پھر میری طرف دیکھ کر بڑے مست لہجے میں بولیں ۔۔۔ بڑا نمکین ہے تمھارے لن سے
نکلنے واال قطرہ ۔۔۔اور پھر ُمٹھ مارتے ہوئے بولیں ۔۔۔ جب تم ڈسچارج ہوتے ہو تو تمھارے لن
@
سے کتنی سپیڈ سے منی نکلتی ہے ؟ تو میں نے کہا مجھے یاد نہیں ۔۔۔ تو وہ بڑی حیران ہو کر
میری طرف دیکھنے لگیں اور بولیں ۔۔ ُمٹھ مارتے ہو نا ؟؟؟؟ تو میں نے کہا جی بہت ۔۔۔تو وہ
بولیں پھر بھی ۔۔۔تو میں نے کہا میڈم جب میں چھوٹنے لگتا ہوں تو اس وقت میری آنکھیں خود
سن کر وہ ہنسے بخود بند ہو جاتیں ہیں اس لیئے میں آپ کو کچھ نہیں بتا سکتا ۔۔۔ میری بات ُ
ﺷﺎه
تو میں نے ان سے پوچھا کہ آپ یہ کیوں پوچھ رہی ہو ؟ تو کہنے لگیں کہ ڈسچارج کے
مجھے و ہ منظر وقت مرد کی منی لن سے اچھل کر جب باہر نکلتی ہے تو یقین کرو
ﺟﯽ
بہت بھاتا ہے تو میں نے ان سے کہا ٹھیک ہے میم جب میں چھوٹنے لگوں گا اس وقت آپ کو
سن کر انہوں نے کہا کہ دیکھو
بتا دوں گا ۔۔۔ابھی آپ تھوڑا لن چوس سکتیں ہیں ؟ میری بات ُ
بھولنا نہیں اور۔۔۔پھر اپنا سر ....جھکا کر میرا لن کو اپنے منہ میں لے ..لیا اور پھر مزے سے
چوسنے لگیں ۔۔۔ اور بقول اس کے اس کا خاص نشانہ میرا ” بگ مشروم " تھا جس پر وہ بار
بار اپنی زبان پھیرتی تھی اور جب بھی میرا لن مزے میں آ کر مزی کا کوئی موٹا سا قطرہ
ا
اثبات میں سر ہال دیا ۔۔تو وہ کہنے لگی ۔۔۔ پھر تو میری چوت چوسو گے ؟ تومیں پھر اثبات میں
ﺳﺗﺎ
سر ہالیا تو وہ اُٹھ کر کھڑی ہو گئی اور اپنی شلوار اتار نے سے پہلے ادھر ادھر دیکھ کر بولی
۔۔۔ چلو اندر چلتے ہیں میں نے اپنی شلوار پہلے سے ہی اتاری ہوئی تھی لیکن شاہینہ میم
نے کمرے میں جا کر اپنی شلوار اتاری اور پھر بیڈ کے کنارے پر جا کر بیٹھ گئی اور اپنی
ٹانگیں کھول کر بولی ۔۔ میری چوت چوسو۔۔۔۔
ﻧﯽ
اب میں شاہینہ میم کے پاس جا کر کھڑا ہوا اور پھر اس کے ساتھ ہی بیڈ پر بیٹھ گیا اور
ﺟﯽ
اس کو مزید ٹانگیں کھولنے کو کہا ۔۔۔اس نے مزید ٹانگیں کھولیں اور پھر ہی گرسنہ نظروں سے
میری طرف دیکھنے لگی ۔۔۔ میں نے پہلے تو اپنی دو انگلیاں اس کی ننگی چوت پر پھیریں جس
پر بالوں کا کوئی نشان تک نہ تھا ۔۔۔اور پھر ہولے سے اپنی ایک انگلی اس کی چوت میں داخل
کر دی ۔۔۔۔۔۔۔ اُف۔ف۔۔ف۔ف اس کی چوت اندر سے بہت ہی گرم اور پانی سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔
چنانچہ میں نے اپنی وہ انگلی اس کی چوت میں خوب گھمائی اور پھر ۔۔۔۔ وہ انگلی باہر نکال
@
کر اس کے ہونٹوں کی طرف النے لگا ۔۔۔اس نے اپنی منی سے لتھڑی ہوئی میری انگلی کو دیکھا
اور اپنی زبان باہر نکال دی اور پھر میں نے اس کے سامنے اپنی انگلی کھڑی کی تو اس نے
میری انگلی پر لگی اپنی ساری منی چاٹ لی اور پھر اپنا منہ میری طرف کیا اور ۔۔۔۔ میرے ہونٹوں
پر اپنے ہونٹ رکھ دیئے ۔۔۔اور ۔۔پھر اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی ۔۔۔اس وقت تک اس کی
ﺷﺎه
زبان پر اس کی منی کا ذائقہ موجود تھا جسے میں نے بڑی ہی خوش دلی سے چوسا اور پھر
کافی دیر تک ہم ایک دوسرے کے منہ میں منہ ڈالے ایک دوسرے کی زبانیں چوستے رہے۔
جب ہم نے ایک دوسرے کے ہونٹوں اور زبانوں کا سارا رس پی لیا تو ۔۔۔ ہم الگ ہو
ﺟﯽ
گئے۔۔اور پھر اس نے میرا سر پکڑا اور اپنی چوت کی طرف دبانا شروع کر دیا۔۔۔۔ میں اس کا
اشارہ سمجھ گیا اور نیچے فرش پر گھٹنوں کے بل بیٹھ گیا ۔۔۔اور اس کی چوت کو چومنے لگا
۔۔۔۔۔ پھر آہستہ آہستہ میری زبان اس کی چوت کے نیچے کی طرف جانے لگی جہاں سے اس کی
چوت کا گرم پانی ِرس ِرس کر چوت سے نیچے کی طرف نکل رہا تھا میں نے اپنی زبان اس
کی چوت کے آخری سرے پر رکھی اور پھر ۔۔۔۔اس کی چوت کے اندر سے ِرس ِرس کر آنے
ا
ہی شہوت بھری آواز میں بولی ۔۔۔ میرے دانے کو ایسے چوس جیسے ۔۔بلیو موویز میں ۔۔ لڑکیاں
ﺳﺗﺎ
لن کو چوستی ہیں ۔۔۔اور میں نے اس کا پھوال ہوا دانہ اپنے دونوں ہونٹوں میں لیا اور اسے
چوسنے لگا ۔پھر میں نے اس کا موٹا دانہ اوپر سے نیچے تک اپنی زبان سے چاٹا ۔۔۔۔ اور اس
کے ساتھ اپنی دو انگلیاں میڈم کی کھلی چوت کے دھانے میں ڈال دیں ۔۔۔۔۔اور ان کو تیزی سے ان
آؤٹ کرنے لگا ۔۔۔۔۔۔۔۔ میری اس بات سے میڈم کو ڈبل مزہ ملنے لگا ۔۔۔اور وہ بے اخیتار ہو کر
ﻧﯽ
میرے سر پر ہاتھ پھیرتے ہو ئے بولی ۔۔۔۔۔۔ چوس۔س۔س۔س۔۔س۔س ،،،،میری پھدی چوس۔.۔۔س
۔۔۔میری جان مجھے بڑا مزہ آ ر ہا ہے ۔۔۔۔ اور پھر ۔کچھ ہی دیر بعد میڈم ایک بار اور چھوٹ گئی
اور بولی بس۔۔۔اب بس کرو ۔۔اب اُٹھو اور اپنا یہ موٹا لن میری پیاسی پھدی میں ڈال دو ۔۔۔
ﺟﯽ
سن کر میں اوپر اٹھا اور اس کو گھوڑی بننے کو کہا ۔۔۔جو وہ جلدی سے بن میڈم کی بات ُ
گئی اور پیچھے ُمڑ کر دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔۔۔۔ اپنا وعدہ یاد ہے نا ۔۔۔ تو میں نے لن اندر ڈالنے
سے پہلے شرارتا ً کہا کون سا وعدہ میڈم ؟؟؟؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ میرے سامنے چھوٹنے کا ۔۔اور
@
پھر مجھے آنکھ مارتے ہوئے مستی سے بولی ۔۔۔۔اگر تم میرے سامنے نہ چھوٹے نا تو جان سے
مار دوں گی ۔۔۔اور پھر اپنا منہ آگے کر کے بولی ۔۔۔اب ڈال بھی۔۔۔۔۔۔ اور میں میڈم کے پیچھے آیا
اور اپنا بڑا سا لن اس کی چوت کے دھانے پر رکھا اور ہلکا سا دھکا لگایا ۔۔۔۔۔۔ جیسا کہ میں نے
پہلے بھی بتایاتھا کہ میڈم کی چوت کافی کھلی ،گرم اور پانی سے بھری ہوئی تھی ۔۔۔۔اس لیئے لن
ﺷﺎه
آسانی سے پھسلتا ہوا ۔۔۔ میڈم کی چوت میں چال گیا ۔۔۔اور میڈم نے ایک شہوت بھرا نعرہ لگا
یا۔۔۔آہ۔۔۔۔۔ اور بولی ۔۔۔ میری جان اپنے لن کو میری پھدی کی گہرائی تک لے جاؤ ۔۔۔اورپھر میں
نے پیچھے ہٹ کر ایک فل سپیڈ سے میڈم کی پھدی میں گھسا مارا تو ۔وہ۔۔۔مستی میں چال کر
بولی ۔۔۔۔یس ۔۔۔۔۔ایسے ہی گھسے مار ۔۔۔۔میری جان میری پھدی کو ایسے ہی گھسوں کی ضرورت
ﺟﯽ
ہے ۔۔۔اور پھر میں اس کے بعد میں نے اس کی چوت میں نان سٹاپ گھسوں کی برسات کر دی
۔۔۔اور میرے ہر گھسے پر وہ اوں۔۔۔ اوں ۔۔۔۔آہ ۔۔۔اور سسکیوں میں یہی کہتی ۔۔۔۔یس ۔یس ۔ ۔۔۔
میری پھدی ایسے ہی گھسے مانگتی ہے ۔۔۔۔اس طرح کافی دیر تک میں مختلف سٹائلوں میں اس
کی پھدی مارتا رہا ۔۔۔اور ہر سٹائل میں اس کی پھدی میں جب پاور فل گھسے مارتا تو ۔۔۔ آگے
سے وہ بڑی خوش ہوتی اور کہتی ۔۔۔ کہ۔۔یس ۔۔یس ۔ میری پھدی ایسے ہی گھسے مانگتی ہے
۔۔۔اور پھر گھسے مارتے مارتے وہ ٹائم بھی آ گیا کہ جب لن صاحب کے فارغ ہونے کا ٹائم آگیا
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
۔اس وقت وہ سیدھی لیٹی تھی اور میں اس کے اوپر چڑھ کر گھسے مار رہا تھا ۔۔ چنانچہ جب
میں نے گھسے مارنے بند کئے اور اپنے لن کو اس کی پھدی سے۔تو وہ بولی ۔۔اچھا اچھا ۔۔۔تو وہ
ٹائم آگیا ہے ۔اور جلدی سے اُٹھ کر بیٹھ گئی میں پہلے ہی گھٹنوں کے بل کھڑا تھا ۔۔۔۔اس لیئے
میم نے میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور ٹوپے پر لگی اپنی چوت کی منی کو چاٹ کر بولی ۔۔۔ تم
ا
نے تو میری بس کرا دی تھی ۔۔۔ تم نہ بھی اُٹھتے تو میں تم کو منع کرنے والی تھی ۔۔پھر اس
ﺳﺗﺎ
نے اپنا منہ میرے ٹوپے کی سیدھ سے کافی اوپر کیا اور بولی ۔۔۔ پہلے قطرے کو اچھل کر یہاں
تک آنا چایئے ۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ تیز ی کے ساتھ میرے لن پر ہاتھ چالنے لگی ۔۔۔۔۔۔ اور
اس کی تیز تیز ُمٹھ مارنے سے ۔۔اس کی چوڑیوں کی وہی مخصوص اور دلکش اور مترنم آواز
کمرے میں سنائی دینے لگی ۔۔شڑنگ شڑنگ ۔۔۔۔ شڑنگ ۔۔۔۔۔شڑنگ ۔۔۔۔۔اور اس میوزیکل ۔۔ ُمٹھ
ﻧﯽ
کے دوران ہی میرے لن سے منی کا پہال قطرہ نکال اور ۔۔۔ اچھل کر عین اس کے منہ پر جا
گرا اور پھر اس نے میرے لن کو نیچے سے دبا لیا تا کہ مزیڈ منی باہر نہ نکلے اور میری
طرف دیکھ رک بولی ۔۔۔۔میرا اندازہ ٹھیک تھا نا ۔۔۔ اور پھر اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا منہ
ﺟﯽ
میرے ٹوپے کے عین سامنے کر دیا اور نیچے سے لن پر دباؤ ختم کر دیا ۔۔۔۔۔۔اور اس کے ساتھ
ہی ۔۔۔ میرے لن سے منی کا فوارا نکال ۔۔جو سیدھا اس کے کھلے ہوئے منہ میں جا گرا اور
۔۔اس کے بعد ۔۔۔ جیسے جیسے منی کے قطرے ۔۔۔ میرے لن سے اچھل اچھل کر باہر گرتے گئے
۔۔۔۔وہ سب کے سب اپنے منہ میں لیتی گئی ۔۔اور پھر میری منی کے پانی سے اس کا منہ بھر گیا
@
اس کے بعد میڈم شاہینہ وعدے کے مطابق فارغ ہو کر نہا کر استانی جی کے ہاں ختم
پر چلی گئی اور میں بیگ اُٹھائے ۔۔۔ گھر کی طرف روانہ ہوا ۔۔۔ اور پھر عین اس وقت کہ میرا
ﺷﺎه
ایک پاؤں ۔۔۔گھر کے اندر اور ایک پاؤں باہر تھا میں نے شیخ صاحب کی دوسری بیوی راحیلہ
۔وہ ہامرے گھر سے باہر نکل رہی تھی ۔اور سے دیکھتے ۔۔۔ ہی میرے چودہ طبق کو دیکھا
روشن ہو گئے ۔۔۔اور میرے چہرے کا رنگ فق ہو گیا ۔۔۔ اور میرے زہن میں پہال خیال یہی آیا
کہ ہو نہ ہو یہ میری شکایت لگانے ہی آئی ہوگی ۔۔۔ اس لیئے اسے دیکھتے ہی میں واپسی کے
ﺟﯽ
لیئے ُمڑ ا۔۔۔۔ اور جیسے ہی میں واپس ہوا۔۔۔۔۔۔۔۔ پیچھے سے ایک کرخت آواز سنائی دی ۔۔۔اور
اور ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
راحیلہ کو دیکھ کر جیسے ہی میں واپسی کے لئے ُمڑا ۔۔لیکن ۔۔پیچھےسے ایک کرخت
آواز جو کہ یقینا ً راحیلہ کی ہی تھی نے مجھے رکنے کا بوال ۔۔۔مرتا کیا نہ کرتا میں وہ آواز
سن کر واپس ہو لیا ۔۔۔اور پھر بڑا ہی مسکین سا منہ بنا کر ان کے سامنے کھڑا ہو گیا ُ
ا
پوچھنے لگی کہ یہ تم واپس کہاں جا رہے تھے ؟ تو میں نے بڑی عاجزی سے کہا کہ وہ جی
ﺳﺗﺎ
میری کتاب استانی جی کے گھر رہ گئی تھی وہ لینے جا رہا تھا۔۔تو راحیلہ نے کہا کہ ٹھیک
سن کر میں نے امداد ہے تم کتاب لے آؤ لیکن شام کو تم نے ہمارے گھر آنا ہے راحیلہ کی بات ُ
طلب نظروں سے اپنی بے بے (امی) کی طرف تو وہ مجھ پچکارتے ہوئے بولیں۔۔۔ چال جاویں
پترا ۔۔اور جو بھی کام راحیلہ باجی تم سے کہے وہ کر دینا ۔ کہ ہمسائیوں کا بڑا حق ہوتا ہے ۔۔۔
ﻧﯽ
سن کر میں نے ہاں میں سر ہالیا اور وہاں سے چمپت ہو گیا اب میرے دل میں امی کی بات ُ
ُکھد بُد شروع ہو گئی تھی کہ راحیلہ باجی نے مجھے شام کو اپنے گھر میں کیوں بالیا ہے ؟؟
اور راحیلہ باجی لوگوں کو ایسا کون سا کام آن پڑا ہے جو کہ میرے بغیر نہ ہوتا تھا ۔۔
ﺟﯽ
چنانچہ میں اسی شش وپنج میں ادھر ادھر گھومتا رہا اور پھر ۔کافی دیر بعد واپس گھر
آ گیا اور سیدھا امی کے پاس چال گیا اور ان سے سارا معاملہ دریافت کیا کہ یہ لوگ کیوں آئے
تھے ؟ تو انہوں نے بتالیا کہ جیسا کہ تم جانتے ہی کہ نفیسہ بیگم ( شیخ صاحب کی بڑی بیگم
@
) تو اکثر ہی ہمارے گھر آتی رہتی ہیں بے چاری بڑی سادہ اور اچھی خاتون ہیں اور
اتنے امیر ہو کر بھی تکبر کا ان میں نام و نشان نہیں ہے اب مسلہ یہ ہے کہ چھوٹی بیگم (راحیلہ
) نے اپنے بیڈ روم میں ایک نئی کپڑوں والی الماری اور اس کے ساتھ ساتھ کچھ دیگر
چھوٹی موٹی آلٹریشنز کرانی تھیں ۔ اور اس سلسلہ میں انہوں نے شیخ صاحب سے الماری
ﺷﺎه
بنانے و دیگر چھوٹے موٹے کام کرنے کا کہا تو انہوں نے چھوٹی بیگم کو صرف اس
شرط پر الماری بنوانے اور دیگر کام کرانے کی حامی بھری ہے کہ ان کا کوئی اپنا اعتباری
بندہ مستریوں کے سر پر کھڑا ہو کر یہ کام کرائے گا اور اسکی کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ
ایک تو ان کا گھر سامان سے بھرا پڑا ہے دوسرا ۔۔تم کو معلوم ہی ہے کہ شیخ صاحب پردے
ﺟﯽ
کے معاملے میں خاصے سخت ہیں اور ۔ وہ یہ نہیں چاہتے کہ مستریوں کے سامنے ان کی کوئی
خاتون آئے ۔۔چنانچہ مستریوں کی نگرانی و دیگر کاموں کے لیئے قرعہء فال تمھارے نام
پڑا ہے اور ۔ اسی سلسلہ میں نفیسہ بیگم کو لیکر راحیلہ آج ہمارے گھر آئی تھی اور مجھ سے
تمھارے بارے میں اجازت طلب کر رہی تھی جو میں نے انہیں بخوشی دے دی ہے ۔۔۔ پھر امی
نے مجھے ایک زنانہ سوٹ دکھایا اور بولیں یہ سوٹ راحیلہ ان کے لیئے بطور گفٹ الئیں
تھی ۔اور سوٹ کو دیکھ کر میں سمجھ گیا کہ ان کو امی نے ان کو کیوں اجازت دی تھی ۔۔اصل
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
بات یہ تھی کہ راحیلہ نے نگرانی کے لیئے میرا ہی نام کیوں لیا تھا ؟ یہ بات مجھے کچھ سمجھ
میں آتی تھی اور کچھ نہ آ رہی تھی ۔۔۔
ابھی میں اسی شش و پنج میں تھا کہ امی نے دوسرا حکم سناتے ہوئے کہا کہ میں نفیسہ
ا
ﺳﺗﺎ
بیگم کے گھر جاؤں اور تم کو جو بھی کام راحیلہ باجی کہیں وہ بال چوں و چرا کروں ۔۔
سن کر میں نے سکول بیگ رکھا اور شیخ صاحب کے گھر کی طرف چل پڑا ۔۔۔امی کی بات ُ
گیا ۔۔۔جا کر دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے نفیسہ بیگم نے دروازہ کھوال اور مجھے لیکر اپنے
ڈرائنگ روم میں آ گئیں وہ چونکہ ہمارے گھر اکثر آتی رہتیں تھیں اورامی کی دوست بھی تھیں
ﻧﯽ
اس لیئے میری ان سے اچھی گپ شپ تھی مجھے ڈرائنگ روم میں بٹھا کر نفیسہ بیگم جنہیں
ہم نفیسہ آنٹی کہتے تھے نے بھی مجھے عین وہی کہانی سنائی کہ جسکے بارے میں امی
مجھے پہلے ہی بتا چکیں تھیں بس انہوں نے اس میں ایک نئی بات کا اضافہ کیا اور وہ کہ بات
ﺟﯽ
بات کرتے کرتے اچانک آنیم میری طرف جھکیں اور سرگوشی نما آواز میں کہنے لگیں ۔۔ ۔اس
کام کی نگرانی کے لیئے ۔۔ راحیلہ اپنے ایک رشتے دار کا کہہ رہی تھی لیکن تمہیں تو معلوم
ہے کہ مجھے راحیلہ کے رشتے دار مجھے ایک آنکھ نینے بھاتے اس لیئے میں نے شیخ جی
سے تمھارے بارے میں بات کی تھی جسے انہوں نے مان لیا ہے پھر کہنے لگی اس کی وجہ یہ
تو اپنے گھر کا بندہ ہے اور اپنا دیکھا بھاال بھی ہے اور دوسرا یہ کہ
ہے کہ پتر ایک تو ُ
@
تیری ماں میری بڑی اچھی دوست ہے اس لیئے ہمارے لیئے تم سے زیادہ اور کون بااعتبار
ہو سکتا ہے ؟ پھر وہ اسی سرگوشی میں کہنے لگیں ۔دیکھو بیٹا تم میرے بیٹے جیسے ہو اس
لیئے تم نے راحیلہ کی کڑی نگرانی کرنی ہے اگر یہ کسی کام میں زیادہ خرچہ وغیرہ کرےیا
شیخ صاحب سے طلب کرے تو تم نے مجھے ضرور بتا نا ہے اور اس کے بعد انہوں نے
ﺷﺎه
مجھے میرے خفیہ امور کے بارے میں کہ جن کے لیئے میری خدمات ہائیر کی گئیں تھیں
بریفنگ دی اور بتایا کہ میں نے کس کس بات پر خاص دھیان دینا ہے اور کس بات کی کڑی
نگرانی کرنی ہے اور اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی کہا بس ایک دو دن کی بات ہے تم سکول سے
چھ ٹی کر لینا۔۔ تو تمھاری بڑی مہربانی ہو گی ۔اسی اثنا میں راحیلہ باجی بھی وہاں آ گئیں اور
ﺟﯽ
میرے ساتھ والے صوفے پر بیٹھ کر خاص کر میرے ساتھ باتیں کرنے لگی ۔۔۔ اور میرے ساتھ
گپ شپ کرتے وقت راحیلہ کا رویہ میرے ساتھ اس قدر نارمل تھا کہ ایک پل کے لیئے تو
مجھے شک سا ہونے لگا کہ شاید اس رات چھت پر راحیلہ نہیں کوئی اور تھی پھر دل
میں یہ بھی خیال آتا کہ شاید راحیلہ نے مجھے پہچانا نہیں تھا ۔کیونکہ میں نے اس کی باتوں
سے اور بات کرتے وقت اس کی آنکھوں میں ایک دفعہ بھی اس رات والی کہانی کا شائبہ
تک نہ دیکھا تھا ۔۔ امی اور نفیسہ بیگم کے بعد راحیلہ نے بھی مجھے وہی سٹوری سنائی جو
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
کہ میں پہلے ہی سن چکا تھا اور وہ یہ کہ شیخ صاحب اپنے گھر کا کام کسی اعتباری بندے
کی نگرانی میں کرانا چاہتے تھے اور پھر میری طرف دیکھتے ہوئے وہ کہنے لگی اور تم
کو معلوم ہے کہ جیسے ہی میں نے تمھارا نام صاحب کو بتایا تو وہ فورا ً ہی تمہاری نگرانی
سن کر میں سوچ میں پڑ گیا کہ پتہ نہیں یہ ٹھیک
میں کام کرانے پر راضی ہو گئے اس کی بات ُ
ا
کہہ رہی ہے یا نفیسہ آنٹی درست کہہ رہیں ہیں ۔۔۔اور پھر اس اندازے پر پہنچا کہ نفیسہ بیگم
ﺳﺗﺎ
ہی درست کہہ رہیں ہو ں گی۔کیونکہ اس کام میں صرف میں ہی ان کے لیئے مخبری کا کام
سرانجام دے سکتا تھا ۔۔ اس کے بعد راحیلہ مجھ سے کہنے لگی ۔۔ صبع صبع مستری لوگ آ
جائیں گے اس لیئے ابھی تم میرے آؤ کہ ہم کچھ ہلکا پھلکا سامان سٹور روم میں شفٹ کر لیں
سن کر نفیسہ بولی ۔۔۔۔ پہلے بچے کو کچھ کھانے پینے کے لیئے تو کچھ دو ۔۔۔ راحیلہ کی بات ُ
ﻧﯽ
نا اور پھر یہ کہتے ہوئے خود ہی اُٹھ کر چلی گئی کہ میں اسکے لیئے کچھ کھانے کو التی
ہوں ۔۔ نفیسہ آنٹی کے جانے کے بعد میں اور راحیلہ ڈرائینگ روم میں اکیلے رہ گئے اور وہ پھر
سے میرے ساتھ باتیں کرنے لگی ۔۔۔۔ لیکن حیرت انگیز بات یہ ہے کہ اس نے ایک دفعہ بھول
ﺟﯽ
کر بھی اس رات والے واقعہ کا نہ تو مجھ سے زکر کیا اور نہ ہی اس کے بارے میں کوئی
اشارہ تک کیا کہ جس سے پتہ چلتا ہو کہ اس نے مجھے پہچان لیا ہے میرا خیال ہے کہ وہ
جان بوجھ کر ایساکر رہی تھی کہ بات پر پردہ ہی پڑا رہے تو بہتر ہے ۔۔ اور پھر میں نے
سوچا کہ اگر وہ ایسا چاہتی ہے تو ٹھیک ہے میں بھی اس رات والے واقعہ کے بارے میں
@
نہ تو اس سے کوئی کروں گا اور نہ ہی اس کو کسی اشارہ کنارے میں بھی یہ واقعہ جتالؤں گا
جیسے ہی یہ سوچ میرے دماغ میں آئی مجھے ایک بہت بڑی الجھن سے نجات مل گئی اور میں
بھی راحیلہ کی طرح نارمل ہو گیا پھر اس نے مجھ سے پوچھا کہ اگر تم ایک دو دن چھٹی
کرنے سے تمہاری پڑھائی کا تو کوئی حرج نہیں ہو گا نا؟ تو میں نے کہا ۔۔۔ باجی جی
ﺷﺎه
سکول سے چھٹی کی تو خیر ہے لیکن میں ٹیوشن سے ہر گز چھٹی نہیں کروں گا میری
تم ٹیوشن سے چھٹی سن کر وہ کہنے لگی ٹھیک ہے لیکن کیا میں پوچھ سکتی ہوں کہ بات ُ
کیوں نہیں کرو گے ؟؟ تو میں نے ان سے کہا کہ ایک تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ استانی جی
بڑی سخت ہیں اور دوسری بات یہ کہ اگلے ہفتے میرے کچھ ٹیسٹ بھی ہیں جن کی آج کل وہ
مجھے تیاری کر وا رہی ہیں
ﺟﯽ
اور اگر اس تیاری کے دوران اگر میں نے کوئی چ ُھٹی کر لی تو آپ کو پتہ ہی ہے کہ
سن کر وہ کہنے لگی ٹھیک ہے ٹیوشن کےو قت تم اس سے میرا بڑا حرج ہو گا۔۔میری بات ُ
چلے جانا پھر ہنستے ہوئے بولی ۔۔فکر نہ کرو ۔۔ تم نے یہاں صرف مزدوروں کی نگرانی یا
پھر اگر ان کو کوئی چھوٹی موٹی چیز درکار ہو گی تو وہ ال کر دینی ہے جبکہ ۔۔باقی کا کام
ا
باہر چلی گئی پھر کچھ دیر بعد واپس آئی اور کہنے لگی ۔۔۔۔وہ راحیلہ ۔۔۔۔۔ باہر مستری صاحب
ﺳﺗﺎ
سوزوکی پر لکڑی اور اپنے دیگر اوزار وغیرہ الئے ہیں ۔۔۔ نفیسہ بیگم کی بات سن کر راحیلہ
نے مجھے اشارہ کیا اور ہم دونوں باہر چلے گئے راحیلہ نے مجھے کہا کہ سوزوکی پر الدی
ہوئی لکڑیوں میں سے ایک لکڑی کا تختہ بطور نمونہ اسے ال کر دکھاؤں اور میں نے
ﻧﯽ
مستری صاحب سے لکڑی کا ایک نسبتا ً چھوٹا سا پیس لیا اور راحیلہ کو جا کر دکھا دیا ۔۔۔
میرے ہاتھ میں ہی اس نے لکڑی کے چھوٹے سے تختے کا اچھی طرح معائینہ کیا اور اسے
کافی دیر تک اُلٹ پلٹ کر دیکھتی رہی اور پھر مجھ سے کہنی لگیں کہ تم جاؤ اور مستری
صاحب سے کہو کہ وہ اپنا سامان صحن میں جبکہ لکڑیوں کے پھٹے برآمدے میں رکھو ا دو
ﺟﯽ
۔۔۔۔ اور میں نے سوزوکی کے ساتھ آئے مزدوروں اور مستری صاحب کو راحیلہ بیگم کا پیغام
دے دیا انہوں نے میری ہدایت سنیں اور پھر بڑے سلیقے سے سارا سامان متعلقہ جگہوں پر
رکھ دیا اور پھر جاتے جاتے مستری نے مجھے کہا وہ صبع آٹھ بجے کے قریب آ جائے گا
اتنے میں آپ لوگ کمرہ خالی کر لینا اور چال گیا ۔۔۔اس کے جانے کے بعد راحیلہ اور نفیسہ آنٹی
@
برآمدے میں آگئیں اور ایک بار پھر وہ دونوں وہاں پڑے ہوئے سامان کا بارک بینی سے جائزہ
لینے لگیں ۔۔ اور اس دوران میں شیخ صاحب کی لڑکی کو ڈھونڈنے کی کوشش کرتا رہا جو پتہ
نہیں کس ک ُھڈ میں چھپی بیٹھی تھی کہ باوجود کوشش کے بھی میں ابھی تک اس کی ایک جھلک
بھی نہ دیکھ سکا تھا ۔۔۔
ﺷﺎه
پھر اس کے بعد میں نے اور راحیلہ نے مل کر راحیلہ کے بیڈ روم کا چھوٹا موٹا سامان
ان کے سٹور روم میں شفٹ کر دیا اورجب چھوٹا چھوٹا سارا سامان ان کے سٹور روم میں
شفٹ ہو گیا تو راحیلہ مجھ سے کہنے لگی کہ تھینک یو ڈئیر ۔۔تمھارا آج کا کام ختم ہو
ﺟﯽ
گیا ہے اور اب تم چاہو تو واپس اپنے گھر جا سکتے ہو اور باقی کا ہیوی سامان
صبع مزدور اُٹھا لیں گے ۔۔ راحیلہ کے کہنے پر میں واپس جانے لگا تووہ میری طرف دیکھ
کر بولی ۔۔ یاد رکھنا کہ صبع تم نے ٹھیک سات ساڑھے ساتھ بجے ہمارے گھر میں آنا ہے ۔۔۔
پھر اچانک ہی بولی ۔۔۔۔ ہاں گھر سے ناشتہ کر کے نہ آنا۔۔ کیونکہ تمھارے کل کا ناشتہ ہمارے
سن رک اثبات میں سر ہال یا اور وہاں سے چال آیا ۔۔
ہاں ہو گا ۔۔۔ میں نے اس کی بات ُ
اگلے دن صبع صبع میں بنا ناشتہ کیئے ان کے گھر چال گیا ۔اور جا کر دستک دی تو جواب
میں ۔۔ دروازہ شیخ صاحب نے ہی کھوال تھا اور مجھے دیکھتے ہی انہوں نے بڑی گرم جوشی
سے میرے ساتھ ہاتھ مالیا اور پھر میرا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہنے لگے تھینک یو بیٹا
ا
۔۔ میں تمھار ا بڑا مشکور ہوں تو میں نے ان کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ ایسی کوئی بات
ﺳﺗﺎ
سن کر وہ کہنے لگے ۔۔۔ ویسے یہ کام تو ۔۔ میرا نہیں انکل۔۔ یہ تو میرا فرض تھا ۔۔۔ میری بات ُ
یا میرے بیٹے فہد کے کرنے کا تھا لیکن جیسا کہ تم کو معلوم ہی ہے کہ فہد ( شیخ صاحب کا
بیٹا) اپنی بہن کو لیکر چاچا کے ہاں کراچی گیا ہوا ہے اگر وہ بھی یہاں ہوتا تو تمہیں ہم
ﻧﯽ
کبھی بھی زحمت نہ دیتے۔۔۔ اتنے میں پیچھے سے نفیسہ آنٹی کہنے لگیں کہ ۔۔۔ شیخ جی اس کو
شکریہ کہنے کی کوئی ضرورت نہیں یہ بھی اپنے گھر کا ہی بیٹا اور فہد جیسا ہی ہے ۔۔تو شیخ
صاحب نے اس کو جواب دیا کہ ۔۔۔ بات تو تمھاری ٹھیک ہے لیکن پھر بھی شکریہ ادا کرنے کا
میرا حق بنتا ہے اور پھر آنٹی کو مخاطب کر کے کہنے لگے ۔۔۔ نفیسہ بیگم ۔۔۔ بیٹے کو کچھ
ﺟﯽ
کھانے کو دو اور خود مجھ سے معذرت کرتے ہوئے اندر چلے گئے اور آنٹی نے مجھے بیٹھنے
کا کہا اور خود ناشتہ لینے کچن میں چلی گئیں۔۔۔
@
میں آنٹی کا بنایا ہوا ناشتہ کر رہا تھا کہ اندر سے شیخ صاحب نکلے ان کے پیچھے پیچھے
راحیلہ بھی تھی جس نے شیخ صاحب کا بیگ پکڑا ہوا تھا اور ان کے ساتھ خوش گپیاں کرتی
ہوئی چلی آ رہی تھی ۔۔ راحیلہ کو یوں شیخ صاحب کے ساتھ ہنس ہنس کر باتیں کرتی دیکھ کر
ﺷﺎه
آنٹی مجھ سے سرگوشی میں کہنے لگیں کہ بڑی ہی ففا کٹن ہے یہ عورت بھی ۔۔ اور پھر
زیر لب راحیلہ کی شان میں قصیدے پڑھنے شروع کر دیئے اتنے میں ِ اس کے بعد انہوں نے
شیخ صاحب میرے قریب پہنچ گئے اور بولے پتر زرا دھیان سے کام کروانا اور پھر باہر نکل
گئے ۔راحیلہ بھی ان کے پیچھے پیچھے ان کو باہر تک چھوڑنے گئی اور پھر شیخ صاحب کو
الوداع کر کے واپس ہمارے پاس آگئی اور میرے ساتھ ناشتے میں شریک ہو گئی ۔۔۔ہمارے ناشتہ
ﺟﯽ
ختم کرتے کرتے مستری لوگ بھی آ گئے اور میں نے راحیلہ کی ہدایت کے مطابق مزدوروں
سے سارا ہیوی قسم کا سامان اُٹھوا کر اس کی بتائی ہوئی جگہ پر رکھوا دیا ۔۔۔ اور وہاں سے
واپسی پر جب میں نے راحیلہ کو اس امر کی رپورٹ دی تو اس نے مجھے شاباش دی اور بولی
میں نے مستریوں کے لیئے چائے بنائی ہے یہ جا کر ان کو دے آؤ۔۔
ا
سن کر وہ چونک گئی اور گھڑی کی طرف دیکھتے ہوئے پڑھنے جا سکتا ہوں ؟؟؟؟ میری بات ُ
ﺳﺗﺎ
بولیں کب تک واپس آ جاؤ گے؟ تو میں نے کہا ایک دو گھنٹے تو لگ ہی جائیں گے تو وہ
کہنے لگی زرا جلدی آنے کی کوشش کرنا ۔۔اور میں نے ہاں کہہ کر وہاں سے گھر آ گیا اور اپنا
بیگ اُٹھا کر ندا میم کے گھر کی طرف جانے لگا ۔۔ وہاں جا کر دروازے پر دستک دی تو شاہینہ
میم نے دروازہ کھوال اور میرے اندر داخل ہوتے ہی اس نے دروازہ بند کر کے پہلے تو مجھے
ﻧﯽ
اپنے گلے سے لگا لیا اور پھر بنا کوئی بات کیئے اپنا منہ میرے منہ کےساتھ جوڑ لیا اور کسنگ
کرنے لگی ۔۔۔ پہلے تو میں اس کے اس رویے سے حیران ہوا پھر ۔۔ اس کے بعد ۔ میں نے بھی
اس کی کسنگ کا بھر پور جواب دینا شروع کر دیا اور خاص کر اس کی زبان کو خوب چوسا ۔۔۔
ﺟﯽ
کچھ دیر بعد شاہینہ میم نے خود ہی اپنا منہ میرے منہ سے ہٹایا تو میں نے اس سے پوچھا ۔۔
خیریت تو ہے میم ؟ تو وہ کہنے لگی ہاں خیر ہی ہے ۔۔۔ پھر میں نے ان سے ندا میم کے بارے
پوچھا تو کہنے لگیں تمھاری دستک سے ایک منٹ پہلے ندا نہانے کے لیئے واش روم میں
داخل ہوچکی تھی ۔۔۔تو میں نے ہنس کر کہا تبھی اتنی عیاشیاں ہو رہیں تھیں ۔۔۔۔ میری بات سن کر
@
وہ مسکرائی اور بولی ۔۔عیاشیاں نہیں یار ۔۔۔۔ کل ہم لوگوں نے واپس اپنے شہر چلے جانا ہے ۔۔
اس لیئے میں نے سوچا پتہ نہیں پھر موقعہ ملے نہ ملے ۔۔ چنانچہ تم سے جی بھر کر کسنگ تو
سن کر میں تھوڑا سا اداس ہو گیا اور بوال ۔۔۔ میم واقعہ ہی آپ لوگ کلکر لوں ۔۔۔ اس کی بات ُ
جا رہے ہو؟ تو وہ میری طرف دیکھتے ہوئے کہنے لگی ۔۔۔ ہاں یار جانا تو ہے کہ پیچھے کے
ﺷﺎه
بھی کام دیکھنے ہیں۔۔۔ پھر مجھے کہنے لگی فکر نہ کرو میں اگلے ماہ پھر آؤں گی ۔۔۔۔ البتہ اس
وقت تم سے پیار کرنے کا موقعہ ملے گا یا نہیں اس کے بارے میں میں کچھ نہیں کہہ سکتی یہ
کہہ کر وہ ایک دفعہ پھر میرے ساتھ لگ گئی ۔۔۔ اور پھر میرا نیم کھڑا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ
کر اسے دبانے لگی۔۔۔
پھر ندا کے آنے سے پہلے پہلےاس نے مجھے ایک گرینڈ ٹیسٹ دیا جسے میں حل کرنے
ﺟﯽ
لگا اور اسی دوران ندا میم بھی نہا کر ہمارے پاس ہی بیٹھ گئی اور اپنے بال خشک کرتے ہوئے
شاہینہ سے بولی ۔۔۔کچھ گزارا ہوگیا ہے اس لڑکے کا ؟ تو شاہینہ نے جواب دیا ۔۔۔۔ جو جو بھی
پڑھایا تھا اس کا ٹیسٹ بنا کر دیا ہے ۔۔۔ جسے یہ حل کر رہا ہے ۔اب اس کا یہ ٹیسٹ بتائے گا کہ
اس کو میری ٹیوشن کا کتنا فائدہ ہوا ہے ۔۔۔۔ ٹیوشن سے فارغ ہونے کے بعد میں بوجھل دل
سن کر پتہ نہیں کیوں میں تھوڑا سا اپ سیٹ ہو سے واپس گھر آیا ۔۔۔ شاہینہ میم کے جانے کا ُ
ا
دیتے ہوئےبوال کہ صاحب جی گتے کا یہ کارٹن مجھے ( کمرے کے کونے کی طرف اشارہ
ﺳﺗﺎ
کرتے ہوئے )۔۔ لوہے کی ا لماری کے پیچھے سے ۔مال ہے ۔۔ میں نے ا س کے ہاتھ سے وہ کارٹن
لیا اور باہر نکل کر سٹور روم کی طرف بڑھ گیا ادھر میں سٹور کے دروازے سے کمرے
کے اندر داخل ہو رہا تھا کہ میری نظر راحیلہ پر پڑی جو کہ بڑی تیزی کے ساتھ سٹور سے
باہر نکل رہی تھی ۔۔۔چنانچہ اس کا دروازے سے باہر نکلنا اور میرا دروازے میں اندر داخل
ﻧﯽ
ہونا ۔۔۔۔ ایک ساتھ ہوا جس کی وجہ سے میری اس کے ساتھ ایک زور دار ٹکر ہو گئی جس
کا نتیجہ یہ نکال کہ میرے ہاتھ سے گتے کا وہ کارٹن نیچے گرگیا ۔۔۔ اس کے گتے کی حالت آگے
۔۔۔ اور اس ٹکر کی وجہ سے جو یہ نیچے گرا ۔۔۔۔ تو گتے کا وہ ہی خاصی ناگفتہ بہ تھی
ﺟﯽ
خستہ حال کارٹن پھٹ گیا ۔ جس کی وجہ سے کارٹن کے اندر پڑی اس کی مختلف اشیاء بکھر
کر نیچے گر گئیں ۔۔۔ یہ دیکھ کر بیک وقت میں نے راحیلہ سے اور راحیلہ نے مجھ سے معذرت
کی اور پھر ہم دونوں ہی نیچے جھک کر کارٹن سے گر کر بکھرنے والی اشیاء جمع کرنے
لگے ۔۔۔
@
ایک بات جو میں نے خاص طور پر نوٹ کی تھی وہ یہ کہ اس کارٹن کو دیکھ کر راحیلہ
بُری طرح سے چونکی تھی اور مختلف اشیاء جمع کرتے ہوئے مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔ کہ یہ
کارٹن تم کو کہاں سے مال ہے ؟ تو میں نے جواب دیا کہ یہ کارٹن مجھے ایک مزدور نے دیا
ﺷﺎه
تھا اور اسے یہ کارٹن لوہے کی الماری کے پیچھے سے مال تھا راحیلہ سے بات کرنے کے
ساتھ ساتھ میں ایک فوٹو البم سے بکھری ہوئی تصویریں بھی اکھٹی کر رہا تھا ۔۔۔ تصویریں
اکھٹی کرتے کرتے اچانک میری نظر ایک تصویر پر پڑ گئی ۔۔اور ۔۔۔۔ وہ تصویر دیکھ کر میں
بُری طرح چونک گیاتھا چنانچہ میں نے اس تصویر کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور پھر بڑے ہی
ﺟﯽ
غور سے اس تصویر کا جائزہ لینے لگا ۔۔۔۔وہ تصویر راحیلہ کی تھی جس کے ساتھ ایک لڑکا
کھڑا تھا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ جو لڑکا تھا اس لڑکے کو دیکھ کر ہی تو میں بُری طرح سے چونکا
تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔ یہ ۔۔یہ وہی لڑکا تھا جس نے اس رات راحیلہ کے ساتھ نا کام سیکس کیا تھا اس رات
میں نے اس لڑکے کو دیکھ کر جان تو لیا تھا کہ یہ لڑکا میرا کہیں دیکھا بھاال ہے لیکن
پہچان نہ پایا تھا ۔۔۔اور پھر اس رات کے بعد میرے دماغ میں راحیلہ اور دیگر باتوں کے
ساتھ ساتھ یہ لڑکا بھی چھایا ہوا تھا ۔۔۔ اور باوجود کوشش کے بھی مجھے یاد نہ آ رہا تھا کہ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
اس لڑکے کو میں نے کہاں پر دیکھا ہے؟؟ لیکن راحیلہ کے ساتھ اس کی تصویر کو دیکھتے
ہی مجھے یاد آ گیا کہ یہ لڑکا کون ہے ۔اور اسے میں نے کہاں دیکھا ہے ۔۔ اور مجھے یاد آیا
کہ ایک دن ہمارا فٹ بال کا میچ تھا۔ اور یہ لڑکا بھی مخالف ٹیم کی طرف سے سنٹر ہاف کی
پوزیشن پر کھیل رہا تھا ۔۔ لیکن اس کی گیم انتہائی خراب اور گندی تھی نہ تو یہ پیچھے
ا
سے آئے ہوئے پاس کو آگے فارورڈ کی طرف دھکیل سکتا تھا اور نہ ہی یہ ہماری ٹیم کے
ﺳﺗﺎ
فارورڈ کے کسی کھالڑی سے بال کو چھیننے کی صالحیت رکھتا تھا اس لڑکے کے عالوہ
مخالف ٹیم کے باقی لڑکوں کی گیم بہت اچھی تھی لیکن پھر یہ ہو ا کہ اس لڑکے کے خراب
کھیل کی وجہ سے واضع طور پر وہ لوگ یہ میچ ہار گئے ۔۔ تب میں نے مخالف ٹیم کے
ایک لڑکے سے جو کہ میرا دوست تھا سے پوچھا کہ یار یہ لڑکا اتنا گندہ کھیلتا ہے اس کے
ﻧﯽ
باوجود بھی تم لوگ اس لڑکے کو کھال رہے ہو اسکی کیا وجہ ہے ؟ ۔۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ میری
سن کرمیرے دوست نے بہت برا سا منہ بنایا تھا اور جل کر بوال تھا کہ بھائی اور کوئی بات ُ
یہ کھیلے نہ کھیلے یہ بندہ ضرور کھیلے گا تو میں نے جب اس سے اس کی وجہ پوچھی تو
ﺟﯽ
اس نے کہاکہ اس لیئے کہ یہ لڑکا ہمارے کپتان صاحب کی سویٹ ڈیش ہے ۔۔۔ نام اس کا
سن کر میں نے بڑے غور سے افضال افضال خان ہے ۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ دوست کی یہ بات ُ
کی طرف دیکھا تھا جو اس وقت تک ِکٹ اتار کر نارمل کپڑے پہنے کپتان کے ساتھ کھڑا
باتیں کر رہا تھا ۔۔۔مجھے یوں غور سے دیکھتے ہوئے دیکھ کر دوست کہنے لگا کیوں تمھارا
@
بھی دل آ گیا ہے اس کی موٹی بنڈ کو دیکھ کر ؟ تو میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے اس سے کہا
ہرگز نہیں یار میں تو بس صرف اس کا جائزہ لے رہا تھا یہ سن کر دوست بوال ۔۔ جائزہ جتنا
سن لو کہ یہ لڑکا کپتان کے عالوہ کسی کو نہیں دیتا ۔۔۔۔
مرضی ہے لے لو لیکن میری بھی بات ُ
ﺷﺎه
مجھے یوں غور سے تصو یر کو دیکھتے ہوئے اچانک ہی راحیلہ نے ہاتھ بڑھا کر اس
تصویر کو میرے ہاتھ سے چھین لیا اور پھر تصویر کی طرف دیکھتے ہوئے بولی ۔۔۔ میں بھی
تو دیکھوں کہ بھال تم اس تصویر کو اتنے غور سے کیوں دیکھ رہے ہو؟ اور پھر ۔۔۔۔ جیسے
ہی اس کی نظراپنے ساتھ کھڑے افضال پر پڑی وہ بری طرح سے چونک گئی اور وہ کبھی
ﺟﯽ
مجھے اور کبھی تصو یر کو دیکھنے لگی ۔۔۔۔ پھر خود ہی کہنے لگی ۔۔۔ یہ یہ ۔۔۔ لڑکا میرا کزن
ہے ۔۔۔ تو میں نےاس سے کہا ۔۔ باجی میں نے کب کہا ہے کہ یہ لڑکا آپ کزن نہیں ہے ؟ میں
دیکھ کہ راحیلہ کے چہرے کا رنگ اُڑا ہوا تھا اور ۔۔۔وہ مسلسل میری طرف دیکھ رہی تھی
عزر پیش کہے؟اور پھر جب اس نے بے ۔۔۔ اس کی سمجھ میں نہیں آ رہا تھا کہ وہ مجھ سے کیا ُ
دھیانی میں کوئی چوتھی دفعہ مجھ سے کہا کہ ۔۔۔یہ ۔۔ یہ ۔۔ میرا کزن ہے تو میں نے اس کی حالت
سے محظوظ ہوتے ہو ئے کہا ۔۔۔ راحیلہ باجی یہ آپ کا اچھا کزن ہے جو مین دروازے کی بجائے
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
چھت سے آپ کو ملنے آتا ہے ۔۔۔ میری اس بات کا کرنا تھا کہ ایسا لگا کہ جیسے راحیلہ کو
سن 555وولٹ کا کرنٹ لگا ہو۔۔۔۔ اس کا چہرہ جو کچھ دیر پہلے پیال پڑا ہوا تھا میری بات ُ
کر الل ٹماٹر ہو گیا تھا تب اس نے بڑے غصے اور نفرت سے کہا ۔۔ وہ میرا کزن ہے چاہے
وہ چھت سے آئے یا دروازے سے تم کو اس سے کیا مطلب ہے ؟ راحیلہ کی بات سے زیادہ اس
ا
کے لہجے نے مجھے تپا دیا تھا اور مجھے بھی تھوڑا غصہ آ گیا کہ ایک تو یہ چور ہے
ﺳﺗﺎ
اوپر سے چترف بھی کر رہی ہے چنانچہ میں نے اس سے کہا کہ ٹھیک ہے باجی میں آپ
کی بات کو درست مان لیتا ہوں تو کیا آپ مجھے اس بات کی اجازت دیتی ہیں کہ میں نفیسہ بیگم
سے اس رات جو کچھ آپ کے چھت پر واردات ہوئی اس کا زکر کروں ؟ میری اس بات نے
راحیلہ کے چودہ طبق روشن کر دیئے ۔۔۔ اور وہ بڑی بے یقینی سے میری طرف دیکھتے ہوئے
ﻧﯽ
بولی !!! اوہ۔۔۔۔۔ یو ۔۔۔ یو ۔۔ بلیک میلر ۔۔۔تمہیں شرم نہیں آتی ایسی باتیں کرتے ہوئے ۔۔۔۔ تو میں
نےڈھیٹ بن کر اس سے کہا کہ اس میں شرم کی کون سی بات ہے ۔۔۔ تو وہ تپ کر بولی کہ یہ
بڑی اچھی بات ہے کہ تم دوسروں کے گھروں کی ٹوہ لو ۔۔۔ اور پھر پھونکارتے ہوئے بولی ۔۔اگر
ﺟﯽ
تم نے افضال والی بات نفیسہ بیگم کو بتائی تو تم کو بھی یہ بتانا پڑے گا کہ تم آدھی رات کے
وقت ہمارے چھت پر کیا کر رہے تھے؟
سن کر میں نے اس سے کہا کہ کون کم بخت یہ کہہ رہا ہے کہ میں بھی اس راحیلہ کی بات ُ
@
وقت آپ کی چھت پر موجود تھا ۔۔۔ میں نے تو صرف نفیسہ آنٹی کو صرف یہ بتانا ہے کہ آنٹی
میں نے اپنے چھت سے کیا دیکھا پھر میں نے اس کے غصے سے بھرے الل الل چہرے کو
دیکھ کر کہا ۔۔۔۔ آپ بھول رہیں ہیں راحیلہ باجی کہاگر میں اپنی پانی والی ٹینکی پر چڑھوں تو
مجھے آپ کے گھر کا چھت بلکل صاف نظر آتا ہے ۔۔۔ اور پھر اس کی طرف دیکھتے ہوئے مزید
ﺷﺎه
کہا کہ ۔۔۔ میں نے بس آنٹی کو یہی کہنا ہے کہ اس رات میں نے اپنی چھت سے آپ کے گھر میں
کسی سائے کا اترتے دیکھا تو میں سمجھا چور ہے اور میں بھاگ کر اپنی ٹینکی پر چڑھا اور پھر
میں نے دیکھا کہ ۔۔۔۔ ابھی میں نے اتنا ہی کہا تھا کہ راحیلہ کی ہمت جواب دے گئی اس نے فورا ً
ہی میرے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور ۔۔۔ بولی بس کرو۔۔ پلیزززز ۔۔بس کرو ۔۔۔ اس کے کہنے پر
ﺟﯽ
میں نے مزید کوئی بات نہ کی اور پھر اپنے منہ پر رکھا اس کا ہاتھ ہٹا دیا اور اس کی طرف
دیکھ نے لگا ۔ اور میں نے دیکھا کہ کہ میرے بات سن کر راحیلہ بیگم نہ صرف تھر تھر کانپ
رہی بلکہ جیسے ہی میں نے اس کا ہاتھ اپنے منہ سے ہٹایا تو دیکھا کہ وہ بڑی مشکل سے اپنا
رونا کنٹرول کر رہی تھی ۔۔ اور میں جان گیا تھا کہ میں نے انجانے میں نفیسہ آنٹی اس کی دکھتی
رگ پر ہاتھ رکھ دیا ہے کیونکہ میں جب بھی نفیسہ آنٹی کا نام لیتا تھا تو نہ صرف یہ کہ اس
کے چہرے کا رنگ اُڑ جاتا تھا بلکہ اسی وقت وہ اپنے ہونٹ بھی چبانے لگتی تھی ۔۔۔کافی دیر
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
ُچپ رہنے کے بعد وہ مجھ سے رندھی ہوئی آوا ز میں بولی ۔۔۔ نفیسہ بیگم کو یہ سب بتانے سے
تمیں کیا مل جائے گا؟ تو میں نے اس سے کہا کہ مجھے کچھ ملے نہ ملے کم ازکم حقائق تو
سن کر وہ کمزور سی آواز میں بولی ۔۔۔ تمہیں معلوم ہے کہ سامنے آ جائیں گے ۔۔ میری بات ُ
سن کر مجھے بڑا تمھارے ان حقائق سے کسی غریب کا گھر تباہ ہو جائے گا؟ اس کی بات ُ
ا
افسوس ہوا ۔۔۔ کیونکہ آنٹی کو راحیلہ کا سیکس سین بتانے کا میرا کوئی ارادہ نہ تھا ۔۔ اس کی
ﺳﺗﺎ
وجہ یہ تھی کہ میں بھی لن مار بندہ تھا ۔۔۔ اور جیسے میں نہیں چاہتا تھا کہ میرا کوئی راز
فاش ہو ویسے ہی میں کسی اور کا راز فاش کرنے میں بھی کوئی دلچسپی نہ رکھتا تھا
کیونکہ میں نے کسی سے سنا تھا کہ اگر میں کسی کا راز رکھوں گا تو کوئی میرا راز بھی رکھے
گا ۔۔۔۔۔ اور یہ جو باتیں میں نے راحیلہ سے کیں تھیں پہلے تو محض اس کو چھیڑنے کی غرض
ﻧﯽ
سے ۔۔۔پھر غصے سے کہہ دیں تھیں ۔۔لیکن میں دیکھ رہا تھا میری باتوں کا راحیلہ بیگم نے بڑا
گہرا اثر لیا ہے ۔۔۔ پھر میں نے دیکھاکہ راحیلہ ۔۔ نیچے زمین کی طرف نظریں گاڑے کسی
گہری سوچ میں گم تھی اور اس کے ساتھ ساتھ وہ ہولے ہولے کانپ بھی رہی تھی ۔۔۔ میری
ﺟﯽ
باتوں نے اسے بہت زیادہ ڈرا دیا تھا ۔۔تب میں نے اس کا سر اوپر اٹھایا اور بوال ۔۔۔۔ بس
اتنی ہی بہادری تھی آپ میں؟؟ میرا اتنا کہنا تھا کہ راحیلہ بیگم نے بڑی ہی مجروح نظروں
سے میری طرف دیکھا اور اس کی آنکھوں سے ٹب ٹب آنسو بہنے لگے ۔۔۔۔
@
کہتے ہیں کہ دینا کا سب سے مشکل کام کسی عورت کو روتے ہوئے دیکھنا ہے ۔اور میرا
خیال ہے کہ ٹھیک ہی کہتے ہیں ۔۔کیونکہ راحیلہ بھی انت کی خوبصورت تھی اور اس کی
آنکھوں سے گرنے والے آنسو۔۔۔اُف۔۔۔۔۔ اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے آنسو نکل کر سیدھے میرے
دل میں ترازو ہو رہے تھے ۔۔ اس کے بعد وہ ہچکیاں لے لے کر رونے لگی اور مجھے سمجھ نہ
ﺷﺎه
آ رہا تھا کہ میں کیا کروں ۔۔آخر میں نے اس سے کہا سوری راحیلہ جی ویری سوری ۔۔اوپر سے
مجھے اس بات کا بھی خدشہ پیدا ہو رہا تھا کہ کہیں نفیسہ آنٹی نہ آ جائیں چنانچہ میں نے راحیلہ
کو ہاتھ سے پکڑا اور سٹور روم میں لے گیا اور اندر لے جا کر راحیلہ سے ایک دفعہ پھر سوری
کی ۔۔۔ لیکن وہ مسلسل روئے جا رہی تھی ۔۔۔اور مجھ سے اس کی بڑی بڑی آنکھوں سے گرنے
ﺟﯽ
والے آنسو ۔۔برداشت نہ ہو رہے تھے ۔۔۔اسے ُچپ کراتے کراتے پتہ نہیں کب میں نے اسے اپنے
گلے سے لگا لیا ۔۔اس نے بھی کوئی احتجاج نہ کیا اور میرے گلے سے لگ گئی اور پھر اس
نے میرے کندھوں پر اپنا سر رکھا اور ویسے ہی ہچکیوں کے درمیان روتی رہی ۔میں نے اسے
دالسہ دینے کی بڑی کوشش کی لیکن وہ پیہم روتی ہی رہی ۔۔۔۔پھر میں نے اسے چپ کرانے کی
سرخ ہو رہیں تھیں غرض سے اس کا چہرہ اپنے سامنے کیا رونے کی وجہ سے اس کی آنکھیں ُ
اور ان سرخ آنکھوں سے آنسو بہہ رہے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر مجھے بلکل پتہ نہیں چال کہ کب میں
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
نے اپنا منہ راحیلہ بیگم کے منہ کے پاس کیا اور کب اسے بے تحاشہ چومنے لگا ۔۔۔۔ اور اس کی
گالوں بہنے والے نمکین پانی کے سارے آنسو ۔۔۔اپنے ہونٹوں سے چوس لیئے اس کے بعد میرے
ہونٹ نیچے آئے اور میں نے راحیلہ کو اپنے ہونٹوں میں لے لیا اور اس کے ہونٹوں کا رس پینے
لگا ۔۔۔۔ میرے اس ایکشن سے وہ کچھ دیر تو ہکا بکا رہی لیکن جب میں نے اپنی زبان کو اس کے
ا
منہ کے اندر کی طرف دھکیال تو ۔۔۔۔اسے جیسے ہوش آ گیا اور اس نے پہلے تو اپنی زبان کو
ﺳﺗﺎ
چھپائے رکھا لیکن میری زبان کی مسلسل تالش سے شاید اسے رحم آ گیا اور اس نے اپنی زبان
کو میرے حوالے کردیا ۔۔ اور پھر میں مزے لے لے کر اس کی ذائقہ دار زبان کو چوسنے لگا
۔۔میری اس زبان کے بوسے نے راحیلہ کو بھی شاید مست کردیا تھا
ﻧﯽ
کیونکہ اب وہ رونا دھونا بھول کر ۔۔۔۔ میرے زبان کی چوسائی کے مزے لینے لگی اور
پھر اس دوران وہ میرے ساتھ بلکل چپک کر کھڑی ہو گئی ۔۔۔ اس کے اس طرح چپکنے سے
ﺟﯽ
نیچے سے میرے لن نے سر اُٹھایا اور ایک دم مست ہاتھی کی طرح تن کر اس کی ٹانگوں سے
گزرتا ہوا اس کی پھدی کے نرم لبوں سے جا ٹکرایا۔۔جیسے ہی میرے لن کی نوک نے راحیلہ
کی پھدی کی نوک کو ٹچ کیا جیسے ہی میرے لن نے اس کی چوت کے نرم لبوں کو ٹچ کیا ۔
مزے کی ایک تیز لہر نے میرے سارے بدن میں دوڑنا شروع کر دیا اور ۔۔ میں نے اس کو بڑی
ہی مضبوطی ہے اپنے ساتھ لگا لیا ۔۔ اور اس سکے ساتھ ہی میں نے اس کے منہ سے ۔۔اوئی ۔۔
@
کی آواز سنی اور اس کے ساتھ ہی اس نے ایک سسکی بھری۔۔۔ تو میں نے اس سو پوچھا راحیلہ
سن کر وہ اپنا منہ میرے کان کے قریب ال کر بولی ۔۔۔ تمھارا ۔۔۔یہ۔۔(لن جی۔۔ کیا ہوا ؟؟ میری بات ُ
کو ہاتھ لگا کر) مجھے ُچبھ رہا ہے ۔۔۔ اور پھر اس نے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اپنی
پھدی کی الئین پر سیٹ کر کے میری طرف دیکھ کر دیکھنے لگی ۔۔۔ اسے اپنی طرف دیکھتے
ﺷﺎه
ہوئے دیکھ کر میں تو اس پر نہال ہو گیا اور اس سے بوال ۔۔۔۔۔ آئی لو یو ۔۔۔راحیلہ جی ۔۔ میرا محبت
بھرا جملہ سن کر اس کی آنکھوں میں چمک سی آئی اور پھر وہ سرگوشی میں بولی۔۔۔۔ پھر تو
مجھے نہیں بلیک میل کرو گے ؟ تو میں نے آپ کو اس سے کہا میں پہلے بھی کب بلیک میل
کیا ہے ؟؟؟ تو وہ اسی مستی بھرے لہجے میں بولی ۔۔۔۔ مجھے بلیک میل نہ کرنا ۔۔۔ بس جیسے تم
ﺟﯽ
کہو گے میں کروں گی ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنے ہونٹوں کو ایک بار پھر میرے ہونٹوں
کے ساتھ جوڑ دیا ۔۔۔
ا
ٹھیک کہہ رہے ہونا ؟ تو میں نے کہا کہ جتنی مرضی ہے بڑی قسم اُٹھوا لیں میں آپ کا راز کسی
ﺳﺗﺎ
کو نہ دوں گا ۔۔۔ ہاں اگر ۔۔۔۔ اور ابھی میں اتنی ہی بات کہہ پایا تھا کہ اچانک مجھے نفیسہ آنٹی
کی آواز سنائی دی وہ ڈرائنگ روم کے دروازے پر کھڑی مجھ سے کہہ رہی تھیں بیٹاوہ مستری
سنی اور اچھا آنٹی کہا اور پھر ۔۔۔ میںصاحب تم کو باال رہے ہیں ۔۔۔ میں نے نفیسہ آنٹی کی بات ُ
نے افضال اور راحیلہ کو تصویر کو اٹھا کر اپنی جیب میں ڈاال اور بھاگ کر مستری کی طرف
ﻧﯽ
چال گیا ۔۔۔ وہاں گیا تو اس نے مجھ سے کہا کہ میں جا کر ہارڈ وئیر کی دکان سے گلیو لے آؤں
کے اس کی گلیو ختم ہو گئی ہے میں نے مستی کی بات سنی اور راحیلہ کے پاس چال گیا اور اس
سے پیسے لیکر بازار چال گیا ۔۔۔ واپسی پر میں نے مستری کو گلیو دی اور پھر اس سے کے
ﺟﯽ
پاس ہی کھڑا ہو گیا ۔۔۔ اور پھر ان کی چ ُھٹی کے ساتھ ہی میں بھی راحیلہ لوگوں کو بتا کر گھر آ
گیا ۔۔۔ تو آتے ہوئے نفیسہ بیگم نے مجھ سے کہا بیٹا صبع کا ناشتہ بھی تم نے ہمارے ہاں سے
کرنا ہے میں نے ان کی بات سنی اور۔۔۔ جی اچھا۔۔۔ کہہ کر واپس گھر آ گیا ۔۔۔
@
اگلے دن جب میں شیخ صاحب کے گھر گیا تو راحیلہ نے دروازہ کھوال ۔۔۔ اوروہ مجھے
ڈرائینگ روم میں بٹھا کر چلی گئی ۔۔۔۔اور پھر کچھ دیر بعد پچھلے دن کی طرح شیخ سے کمرے
ﺷﺎه
کرتے ہوئے اس کی آواز میں ہلکی سی لرزش تھی ۔۔ تو میں نےاس پوچھا کہ باجی وہ آنٹی نظر
سن کر اس کے چہرے پر ایک ناگواری کے تاثرات ابھرے اور کہنے نہیں آ رہیں ۔۔۔ میری بات ُ
لگی ۔۔ آج بُڑھیا کی طبیعت کچھ خراب ہے اس لیئے وہ اپنے کمرے میں آرام کر رہی ہے کچھ
دیر بعد نازل ہو جائے گی ۔اور اس کے بعد وہ مجھ سے باتیں کرنے لگی اور پھر باتیں کرتے
کہنے لگی ۔۔۔ نا تم نے ۔ ناشتہ کرنا ہے ؟؟۔۔تو میں نے اثبات میں سر ہال دیا ۔۔تو وہ کہنے لگی
ا
کھا جانا میں نے بھی ناشتہ کرنا ہے ۔۔۔ یہ کہا اور چلی گئی پھر کچھ دیر بعد ایک ٹرے میں چائے
ﺳﺗﺎ
سن کر مجھے لے آئی میز کی طرف دیکھ کر بولی ۔۔ اوہ ۔۔تم نے ابھی تک نہیں کیا ؟ اس کی بات ُ
شرارت سوجھی اور میں نے اپنے لہجے کو ذومعنی بناتے ہوئے کہا کہ راحیلہ جی آپ کہیں
گی تو کروں گا نا ۔آپ کی مرضی کے بغیر تو میں نہیں کر سکتا ۔۔۔میری بات سن کر وہ تھوڑا
چونکی اور پھر مسکراتے ہوئے ویسے ہی ذومعنی لہجے میں بولی ۔۔ چلو اب میں کہہ رہی ہو
ﻧﯽ
۔۔۔ میرے ساتھ کر لو۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔ اور ہم ناشتہ کرنے لگے ۔۔۔ناشتہ کرتے کرتے اچانک اس نے سر اُٹھایا
اور مجھ سے مخاطب ہو کر بولی ۔۔۔ وہ تمھارے پاس میری ایک تصویر تھی ؟ تو میں نے انجان
بنتے ہوئے کہا کہ کون سی تصویر باجی ۔۔۔؟ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔وہ میرے کزن والی۔۔ تو میں نے
ﺟﯽ
جیب سے اس کی تصویر نکالی اور کہا کہ آپ اس کی بات کر رہی ہیں ۔۔۔ تو اس نے میرے ہاتھ
سے تصویر پکڑی اور پھر میری طرف دیکھ کر مسکراتے ہوئے بولی ۔۔۔ دیکھا میرے کزن کتنا
خوبصورت ہے ۔۔۔ تو میں نے جل کر جواب دیا ۔۔۔۔ جی نرا خوبصورت ہی ہے ۔تو وہ کہنے لگی
۔۔ مجھے ۔ تم سے جلنے کی بُو آ رہی ہے ۔۔۔تو میں نے بھی مسکراتے ہوئے کہا اس میں جلنے
@
سن کر وہ کہنے لگی الکھوں میں ایک ہے میرا کزن ۔۔۔اتنی دیر میں کی کیا بات ہے؟ میری بات ُ
میں نے چائے کی طرف ہاتھ بڑھایا تو وہ بولی میں دیتی ہوں ۔۔۔ اور اُٹھ کر میرے لیئے کپ میں
چائے ڈانےلگی ۔۔۔ اور میری نظر اس کے خوبصورت مموں پر جا پڑی جو اس کی فٹنگ والی
قمیض میں پھنسے ہوئےتھے اور میں یک ٹک ان کو دیکھنے لگا ۔۔۔ وہ سمجھ گئی کہ میں اس
ﺷﺎه
کے مموں کو تاڑ رہا ہوں ۔۔۔اس نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ بری بات ۔۔۔۔ کسی کی
چیزوں کو ایسے نہیں تاڑتے تو میں نے کہا ۔۔۔ کیا کروں جی تاڑنے والی چیز کو تو تاڑنا ہی پڑتا
ہے ۔۔۔تو وہ اسی ٹون میں بولی ۔۔۔ پہلے کبھی نہیں دیکھے ؟ تو میں نے مست آواز میں کہا ۔۔۔ اُف
پہلے کی بات نہ پوچھو راحیلہ جی ۔۔۔ کہ پہلے تو ہم نے اس سے بھی زیادہ پرائیویٹ چیزیں دیکھیں
ہیں (یہاں میری مراد اس کی پھدی سے تھی جو اس رات میں نے چھت پر دیکھی تھی) ۔۔۔ میری
ﺟﯽ
بات سن کر اس کے چہرے پر ایک رنگ سا آ گیا تاہم وہ بھی مستی کے موڈ میں تھی بولی۔۔۔تمھیں
پتہ ہے نا ۔۔۔ وہ پرائیوٹ چیز تمھارے لیئے نہیں ہے ۔۔۔ اس لیئے منہ دھو رکھو۔۔۔۔
اتنی دیر میں مستری لوگ بھی آگئے تھے اور میں تھوڑی دیر کے لیئے ان کے پاس کھڑا
ہوا ۔۔ پھر میرا جی نہ لگا اور میں واپس ڈرائینگ روم میں آگیا جہاں راحیلہ بیٹھی تھی ۔۔ مجھے
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
دیکھتےہی بولی کیا چاہیئے؟ تو میں نے کہا ۔۔۔ چاہیے تو ۔۔ پتہ نہیں آپ دیتی ہیں کہ نہیں۔۔؟ میری
سن رک وہ کہنے لگی بڑے بدتمیز ہو تم ۔۔ اور ہنسنے لگی۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولی بات ُ
۔۔۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ یہ سوال تم پہلے بھی مجھ سے کر چکے ہو۔۔۔ تو میں نے اس سے کہا ۔۔۔
جی کیا تھا اور ۔۔ چور بن گیا تھا۔۔۔ میری بات سن کر وہ ہنس پڑی اور بولی ۔۔۔ تم بھی عجیب ہو ۔۔۔
ا
نہ جان نہ پہچان اور آ دھمکے تھے ۔۔۔اس کی بات سن کر میں نے اس سے کہا کہ راحیلہ جی اب
ﺳﺗﺎ
تو جان پہچان ہو گئی ہے ۔۔۔اب تو۔۔کیا خیال ہے آپ کا؟ اس نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔چلو
چلو ۔۔۔ منہ دھو رکھو۔۔۔ اتنے میں مستری نے مجھے آواز دی اور میں اس کے پاس چال گیا دیکھا
تو راحیلہ کی الماری بن چکی تھی ۔۔۔ بس پیچ ورک باقی تھی کہنے لگا ۔۔۔ زرا ایک نظر باجی کو
دکھا دو ۔۔ ویسے تو میں نے ان کی ہدا یت کے مطابق ہی بنائی ہے لیکن اگر اس میں کچھ کمی و
ﻧﯽ
سن کر میں راحیلہ کے پاس گیا اوراسے بیشی کرنی ہے تو ابھی بتا دیں۔۔۔ مستری صاحب کی بات ُ
ساری بات بتائی ۔۔۔ میری بات سن کر اس نے کہا ہاں چلو دیکھتے ہیں اور پھر بولی ۔۔ وہ صوفے
پر میری چادر پڑی ہے زرا دینا ۔۔۔ تو میں نے اس کے ٹائیٹ فٹنگ قمیض میں پھنسے ہوئے
ﺟﯽ
مموں کی طرف دیکھ کر ۔۔۔ اپنے ہونٹوں پر زبان پھیرتے ہوئے کہا۔۔۔رہنے دیں ایسے ہی ا چھی
لگ رہی ہیں تو وہ کہنے لگی ۔۔ بدتمیز جو تم نے دیکھا ہے وہ مستریوں کو تو نہیں دکھا سکتی
نا۔۔۔۔ اور اس کی بات سن کر ۔۔۔ میری شلوار میں لن نے سر اُٹھا کر اس کی اس بات پر غورکرنا
شروع کر دیا۔ ۔۔۔۔۔
@
پھر اس نے اچھی طرح سے چادر اپنے بدن سے لپیٹ لی اور میرے ساتھ اپنے کمرے کی
طرف چل پڑی وہاں پر مستری اکیال ہی کھڑا تھا جبکہ باقی مزدوروں کو اس نے باہر نکال دیا
تھا ۔۔۔وہاں جاکر کچھ ایسی صورت بنی کہ الماری کے پاس مستری اور راحیلہ کھڑے تھے چونکہ
مجھے اس کی الماری میں کوئی دلچسپی نہ تھی اس لیئے میں راحیلہ کے ساتھ لیکن قدرے ہٹ
ﺷﺎه
کے کھڑا تھا ۔۔ادھر جب مستری راحلیہ کو اس کا فائینل ڈئزائن سمجھا رہا تھا تو وہ کمنٹری کے
ساتھ ساتھ ایکشن میں بھی بتاتا جاتا تھا اس کے ساتھ ساتھ راحیلہ بھی اسی ایکشن میں آگے
پیچھے ہو رہی تھی ۔۔۔کرتے کرتے ایک ٹائم وہ بھی آیا کہ مستری کے ساتھ ساتھ چلتے چلتے
راحیلہ عین میرے سامنے کھڑی ہو گئی ۔۔۔ اور پھر پیچھے ہوتے ہوتے ایک لحظے کے لیئے
اس نے اپنی گانڈ میری فرنٹ باڈی سے جوڑ دی ۔۔۔ یہ بس ایک دو سیکڈ ہی ہو ا ہو گا ۔۔۔ لیکن
ﺟﯽ
ان دو سکینڈ میں مجھے اس کے جسم کا اندازہ ہو گیا ۔۔۔ اس کا جسم بڑا ہی نرم تھا ۔۔ اور بڑی سی
گانڈ ۔نری ۔ تباہی تھی ۔۔ اس نے تو چند سیکنڈ تک گانڈ میرے ساتھ جوڑ کر اپنا اشارہ دے دیا اب
میں ہوشیار ہو گیا ۔۔ اور پھر طریقے سے راحیلہ کے پیچھے چلنا شروع ہو گیا ۔۔۔ اور پھر میں
موقعہ ملتے ہی اس کے ساتھ اپنی باڈی ٹچ کر کے اپنا مزہ لے لیتا تھا ۔۔۔۔
ا
ڈارئینگ روم میں پہنچے وہ میری طرف دیکھ کر مسکرائی اور بولی ۔۔ یہ کیا بدتمیزی ہو رہی
ﺳﺗﺎ
تھی ؟ تو میں نے انجان بن کر کہا کس قسم کی بدتمیزی جی ؟ تو وہ کہنے لگی۔۔۔ وہ جو تم مستری
کے سامنے کر رہے تھے۔۔۔ تو میں نے کہا نہیں جی میں تو وہ بدتمیزی مستری کے پیچھے
چھپ کر کررہا تھا ۔۔۔ میری بات سن کر وہ مسکرائی ۔۔۔اور میں نےاس کی آنکھوں میں ایک عجیب
سی چمک دیکھی ۔۔۔ اور مجھے اپنے اور اس کے جسم سے شہوت کی بُو آنے لگی ۔۔۔۔وہ مجھ
ﻧﯽ
سے کہہ رہی تھی ۔۔ ۔۔۔اگر مستری دیکھ لیتا تو۔۔؟ ۔۔ اس کی بات سن کر میں نے فائینل راؤنڈ
کھیلنے کا فیصلہ کیا اور اس کے قریب جا کر بوال مستری کیسے دیکھ سکتا تھا آگے تو آپ تھیں
۔۔۔اور پھر تھوڑا گھوما اور جا کر اس کو پیچھے سے گلے لگا لیا اور فورا ً ہی میرا لن کھڑا ہو
ﺟﯽ
گیا جو اس کی گانڈ کی دراڑ میں جا کر پھنسنے لگا ۔۔۔ اس نے خود کو مجھ سے چھڑانے کی
واجبی سے کوشش کی اور بولی ۔۔۔ ۔۔کیا کر رہے ہو ۔۔۔ اگر اس بڑھیا نے دیکھ لیا تو؟ ۔۔ تو میں
نے اس سے کہا ۔۔۔ آپ نے خود ہی تو مجھ سے کہا ہے کہ ان کی طبیعت کچھ خراب ہے تو وہ
بولی۔۔۔۔ تم ایک منٹ بیٹھو میں دیکھ کر آتی ہوں ۔۔ مجھ میں صبر کہاں تھا میں نےاس سے کہا کہ
@
میں بھی آپ کے ساتھ چلتا ہوں ۔۔۔اور پھر ہم دونوں دبے پاؤں چلتے ہوئے ۔۔۔۔نفیسہ بیگم کے
کمرے میں پہنچے تو وہ سوئی ہوئیں تھیں ۔۔ لیکن پھر جب راحیلہ نے نفیسہ کی نبض دیکھنے کے
لیئے نیچے جھکی تو پیچھے سےمیں نے اپنا لن اس کی گانڈ کی دراڑ میں پھنسا لیا اور ہلکے
ہلکے گھسے مارنے لگا۔۔۔اس نے ایک نظر پیچھے کی طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ تم سے صبر
ﺷﺎه
سنی ان سنی کرتے ہوئے اس کی گانڈ کی طرف اپنے نہیں ہوتا ؟؟؟لیکن میں نے راحیلہ کی بات ُ
لن کو دھکیلنا جاری رکھا ۔۔ پھر اس نے نفیسہ بیگم کی نبض سے ہاتھ ہٹایا اور مجھے مخاطب
کر کے بولی۔۔۔ میں نے صبع جو گولی دی تھی اس سے ان کابخار ٹوٹ گیا ہے اور اب یہ بلکل
ٹھیک ہیں اور اُٹھ کھڑی ہوئی۔۔ اور مجھے اشارہ کیا ور ہم دونوں چلتے ہوئے واپس ڈرائینگ روم
میں پہنچ گئے۔۔
ﺟﯽ
وہاں پہنچ کر اس نے مجھے سامنے بٹھایا اور بولی آخر تم چاہتے کیا ہو ؟ تو میں نے جواب
دیتے ہوئے کہا کہ میں وہی چاہتا ہوں جو اس رات آپ سے کہا تھا ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں نے
اپنی شلوار کے اوپر سے اپنے موٹے اور لمبے لن کو پکڑ کر مسلنا شروع کر دیا ۔۔۔ اور پھر اس
کے سامنے لہراتے ہوئے بوال ۔۔۔۔راحیلہ جی ۔زرا س کا سائز تو مالحظہ فرمائیں؟ ۔۔۔ میری بات
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
سن کر اس نے ایک نظر میری طرف دیکھا اور مسکرا کر بولی ۔۔۔ چور۔۔۔۔۔۔پھر سیریس ہو گئی ُ
اور کہنے لگی آخر تم چاہتے کیا ہو؟ تو میں نے ا ن سے کہا ابھی بھی بتانے کہ ضرورت ہے کہ
میں کیا چاہتا ہوں ؟ تو وہ بولی ۔۔۔ ہاں مجھے پتہ ہونا چاہیئے کہ تم مجھ سے کیا چاہتے ہو تب
اچانک میرے پاؤں کے انگھوٹے سے لیکر دماغ لیکر منی بھر گئی اور میں راحیلہ کے بلکل
ا
قریب آ گیا اور شہوت بھرے انداز میں اس سے کہنے لگا ۔۔۔ راحیلہ جی ۔۔۔ مجھے۔۔۔۔ میرے لن
ﺳﺗﺎ
پھدی کا لفظ سن کر اس نے ایک گرم آہ کو آپ کی پھدی لینی ہے ۔۔۔ میرے منہ سے۔۔۔لن
بھری ۔۔شہوت اس کے سر پر اس پر پہلے ہی چڑھی ہوئی تھی بس ویسے ہی وہ میرے ساتھ
ڈرامہ کر رہی تھی لیکن جب میں نے صاف ننگے الفاظ میں ۔۔ لفظ ۔۔۔لن اور پھدی کہا ۔۔ تو میرے
یہ الفاظ سن کر یک دم وہ بھی شہوت کے نشے میں ٹُن ہوگئی ۔۔۔ اور پھر شہوت بھرے لہجے
ﻧﯽ
میں مجھ سے کہنے لگی ۔۔۔۔ اے مسٹر !!!!۔۔کیا تم جانتے ہو کہ میں ایک جنسی بلی ہوں ۔۔۔
اور میری جنسی خواہش بہت بڑھی ہوئی ہے ۔ تم جو مجھ سے چاہ رہے ہو وہ ٹھیک ہے پر کیا
تم ۔۔ مجھے پورا کر لوگے ؟ یہ سن کر میں نے اس کے ہاتھ پر اپنا ہاتھ رکھا اور بوال ۔۔۔۔۔۔ اگر
ﺟﯽ
آپ جنسی بلی ہو تو میں جنسی بال ہو ں۔۔۔۔ پھر اس کا ہاتھ اُٹھا کر اپنے لن پر رکھ دیا اور بوال ۔۔۔۔۔
اس جنسی بلے کا جنسی اعضاء اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دیکھ لو کہ ۔۔۔۔ اور پھر مجھے بتاؤ کہ
میرا یہ جنسی اعضاء تمھاری جنسی اعضاء کو پورا کر لے گا ۔۔۔اب اس نے میرا لن پکڑا اور
دباتے ہوئے بولی۔۔۔۔ ایسا نہ ہو کہ میں اسے پیار کروں اور یہ میری گرم سانسوں کی تاب نہ التے
@
ہوئے رو پڑے ۔۔ تو میں نے جواب دیا ۔۔۔۔ تم گرم سانسیں کیا گرم پھدی بھی اس پر رکھ کر دیکھ
لو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ جب تک تم کو روال نہ دے گا ۔۔۔۔ یہ نہیں روئے گا۔۔۔ تو وہ بولی ۔۔۔ جب یہ روتا ہے
۔۔۔ تو اس کے پانی کی دھار باریک ہوتی ہے یا ۔۔۔ گاڑھی ؟ تو میں نے کہا تم اس کو منہ میں
ڈالو۔۔۔۔۔ اور خود اس بات کا اندازہ لگاؤ کہ لن سے نکلنے والی پانی کی دھار پتلی ہو گی یا
ﺷﺎه
گاڑھی ۔۔۔۔
سن کر وہ نیچے صوفے پر بیٹھ گئی اور میرے لن کو پکڑ کر اپنے ہونٹوں سے میری بات ُ
ٹچ کرتے ہوئے بولی۔۔میں بہت گرم ہوں اور ۔ میری پھدی تو مجھ سے بھی بہت زیادہ گرم ہے ۔۔۔
ﺟﯽ
اور پھر اس نے اپنے منہ سے ایک گرم سی ہوا چھوڑی اور بولی میرے منہ سے نکلنے والی اس
گرم ہواڑ سے بھی سو گنا زیادہ گرم ہے میری پھدی۔۔۔۔۔اور اپنا منہ کھول کر لن کو اپنے منہ میں
لے لیا ۔۔۔۔اور کپڑے کے اوپر سے ہی چوسنے لگی ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے اپنی شلوار کا آزار بند
کھوال اور ۔۔۔ اس کے منہ سے لن نکل لیا اور کہا ۔۔۔۔۔۔ میری جان میرا ننگا لن چوسو نا ۔۔۔ اس نے
نیچے سے میرے لن کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور ٹوپے پر زبان پھیر کر بولی ۔۔۔۔ ننگے لن کا اپنا
ہی مزہ ہے ۔۔پھر کہنے لگی ۔۔اس وقت ۔ میرے ہونٹوں کو تمھارے ننگے لن کی بہت ضرورت
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
تھی اور منہ کھول کر اپنے ہونٹوں میں میرا لن لے لیا اور منہ کے اندر ہی ٹوپے پر زبان پھیرنے
لگی۔۔۔اور پھر اس نے لن کو اپنے منہ سے نکال اور بولی ۔۔ ہوں ں ں ۔۔۔۔ تمھارا لن بھی بہت گرم
ہے ۔۔۔ اسے چوس کر مجھے بڑا ۔۔صواد آ رہا ہے اور پھر اس نے لن کو چوسنا شروع کر دیا
۔۔۔اور اس کے بعد اس نے لن کو منہ سے باہر نکاال اور اس کی جڑ سے لیکر اوپر تک اس پر
ا
اپنی زبان پھیرنی لگی ۔۔۔ اور پھر میری طرف دیکھ کر شہوت بھرے لہجے میں بولی ۔۔۔۔ میری
ﺳﺗﺎ
زبان کا ٹیسٹ کیا کیساہے ؟؟ تو میں نے کہا راحیلہ جی آپ کی زبان ذائقہ چوسنے اور چوسوانے
۔۔۔دونوں میں شاندار ہے تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔زبان ہی نہیں میری ہر شے شاندار ہے ۔۔۔ اور اس کے
ساتھ ہی اس نے میرا لن اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنا شروع کر دیا ۔۔۔
ﻧﯽ
کافی دیر تک وہ چوپا لگاتی رہی پھر اس نے میرے لن کو منہ سے ہٹایا اور اپنی قمیض
کو اوپر کے بولی ۔۔ جیسے میں نے تمھارا لن چوسا ہے نا ویسے ہی تم بھی میرے مموں کو
ﺟﯽ
چوسو۔۔۔ میں نیچے جھکا تو وہ بولی پہلے اپنی شلوار کو باندھ لو ۔۔۔ اس کی بات کو سن کرمیں
نے اپنی شلوار اوپر کی اور آزار بند باندھ کر گھٹنوں کے بل نیچے بیٹھ گیا ۔۔۔اور اس کی مموں
کو دیکھنے لگا۔۔۔۔ کیا شاندار ممے تھے اس کے ۔۔۔ موٹے ۔۔۔پیور سفید اور اس پر اس کے بڑے
بڑے نپل ۔۔۔ جو اس وقت اکڑے ہوئے تھے۔۔۔ میں نے ایک ہاتھ میں اس کا لیفٹ مما پکڑا اور اس
کا نپل مسلنے لگا جبکہ دوسرے ممے کے نپل پر اپنے ہونٹ لگائے اور پہلے تو زبان لگا کر
@
اسے خوب چاٹا ۔۔۔ پھر اسے اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنے لگا۔۔۔ میری اس ادا سے وہ مزید گرم
وہ گئی اور ہلکی ہلکی سسکیاں لینے لگی ۔۔آہ۔۔۔ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ۔۔۔اُف۔۔۔ تم ۔۔ بڑے ہی سیکسی ہو میری
جان ۔۔۔ اس طرح میں نے باری باری اس کے دونوں ممو چوسے اور ان کے ہارڈ نپلز کو مسال۔۔۔۔
پھر وہ خود ہی صوفے پر نیم دراز ہو گئی اور اپنی ٹانگیں کھول لیں ۔۔ اور میں سمجھ گیا کہ اب
ﺷﺎه
مجھے اس کی چوت چاٹنی ہے۔۔۔ چنانچہ میں نے اس کے مموں کو اپنے منہ سے نکا ال اور پھر
اس کے پیٹ پر زبان پھیرنے لگا ۔۔۔ پیٹ سے ہوتے ہوئے میری زبان اس کی ناف تک آ گئی اور
میں نے اپنی زبان کے اس کی ناف میں ڈال کر چاٹنا شروع کر دیا ۔۔ نیچے سے وہ ایک دم تڑپی
سنی اور اور بولی ۔۔ا ُ ًٖ ف ف ف ۔۔ یہ کیا کر رہے ہو ظالم ۔۔۔ لیکن میں نے اس کی کوئی بات نہ ُ
ﺟﯽ
اس کی ناف کی گہرائی میں اپنی زبان کو پھیرتا رہا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میں اپنا ایک ہاتھ
اس کی پھدی پر لے گیا اور اسے اپنی ُمٹھی میں پکڑ کر دبا دیا ۔۔۔وہ میرے نیچے سے ایک دم
اچھلی ۔۔۔اور بے اختیار اس کے منہ سے ۔۔اوئی ۔۔۔۔ نکل گیا اور بولی۔۔۔۔ تم تم۔۔۔ بڑے سیکسی ہو
میری جان ۔۔۔ اور پھر میں نے شلوار کے اوپر سے ہی اس کی چوت پر انگلیاں رگڑنیاں شروع
کر دیں۔۔۔اور وہ مزے سے بے حال ہوتی گئی ۔۔۔۔اور ۔۔۔ سسکیاں بھرتے ہوئے بس یہی کہتی
ا
کا ٹائم ہو گیا ہے پہلے ان کو جانے دو ۔۔ اس کی بات سن کر مجھے بھی یاد آ گیا کہ ٹھیک ایک
ﺳﺗﺎ
بجے مستری لوگ کھانا کھانے جاتے ہیں چنانچہ میں جلدی سے اُٹھا اور اپنا لن نیفے میں اڑس
کر باہر نکلنے لگا ۔۔۔۔۔تو راحیلہ بولی ایک منٹ ۔۔۔تو میں نے اس سے کہا اب کیا ہے؟ تو وہ
کہنے لگی ۔۔۔زرا اپنے شکل مبارک تو دیکھو ۔۔۔ ملکہء جزبات نظر آ رہے ہو ۔۔۔ اس کی بات سن
ﻧﯽ
کر دو گھڑی وہاں ٹھہر گیا پھر اس نے مجھے پانی کا ایک گالس دیا جو میں نے پیا تو وہ میری
طرف دیکھ کر بولی اب ٹھیک ہے ۔۔۔ اور میں باہر نکل گیا اور راحیلہ کے کمرے کی طرف گیا
تو مستری لوگ ہاتھ وغیرہ دھو رہے تھے پھر میرے دیکھتے ہی دیکھتے وہ کھانا کھانے کے
لیئے قریبی ہوٹل میں چلے گئے ان کے جانے کے بعد میں نے کنُڈی لگائی اور تیز تیز قدموں
ﺟﯽ
سے راحیلہ کے پاس پہنچ گیا ۔۔۔تو وہ بولی کچھ کرنے سے پہلے کیونں نہ پہلے اس بڑھیا کو
دیکھ آئیں ۔۔۔۔ تو میں نے کہا چلو ۔۔۔اور ہم نفیسہ بیگم کے کمرے میں چلے گئے اس دفعہ اس نے
مجھے دروازے پرہی ُرکنے کا اشارہ کیا اور خود اندر چلی گئی ۔۔۔ اور جا کر نفیسہ بیگم کے
پاس بیٹھ گئی اور اس کی نبض چیک کرنے کے بہانے اسے ہال جال کر دیکھا تو وہ ویسے ہی
@
بے سدھ سوئی پڑی تھی ۔۔۔۔ وہاں سے مطئمن ہونےکے بعد وہ اُٹھی اور مجھے بھی ساتھ چلنے
کا اشارہ گیا راستے میں میں نے اس سے پوچھا کہ کیا پوزیشن ہے ؟ تو وہ بولی بُڑھیا ۔۔۔ بے
خبر سو رہی ہے ۔۔
ﺷﺎه
جیسے ہی ہم ڈرائینگ روم میں پہنچے ۔۔۔۔ایک دفعہ پھر وہ مجھ سے لپٹ گئی اور میرے
منہ میں اپنی زبان دے دی ۔۔۔ اور میں نے پوری تندہی سے اس کی زبان کو چوسا اس کے ہونٹوں
کو چوما اس کی گردن پر بوسے دیئے اور پھر اس کو صوفے پر گرا دیا ۔۔۔ اور اپنی شلوار کھولی
۔۔۔اور پھر اس کی شلوار کا ازار بند کھول کر اسے نیچے سے ننگا کر دیا ۔۔۔اور ابھی میں اپنا منہ
ﺟﯽ
اس کی پھدی کے قریب النے ہی لگا تھا کہ وہ کہنے لگی ۔۔۔۔ مجھے تمھارا لن چوسنا ہے چنانچہ
میں نے اس کی پھدی چاٹنے کا پروگرام مؤخر کر دیا اور ۔۔۔ اور اپنے تنے ہوئے لن کو اس کے
قریب کر دیا ۔۔۔۔۔ اُف ۔۔۔۔ اس نے کسی بھوکے کی مانند میرے لن کو اپنے منہ میں داخل کیا اور
اسے چوسنے لگی ۔۔۔۔ اس کے منہ کی گرمی ہونٹوں کی نرمی اور ۔۔۔۔ زبان کا زائقہ ان سب نے
مجھے سسکیاں بھرنے پر مجبور کر دیا اور میں آہستہ آہستہ مزے سے کراہنا شروع ہو گیا ۔۔۔
ا
بھری کراہیں لینے پر مجبور کر دیا۔۔
ﺳﺗﺎ
کچھ دیر لن چوسنے کے بعد اس نے اپنے منہ سے میرا لن نکال اور بولی ۔۔۔ اب تم میری
چاٹو ۔۔۔ اب میں نیچے جھکا اور پہلے تو اس کی چوت کا جائزہ لیا۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ اس کی چوت
ﻧﯽ
پر بہت گوشت تھا اور وہ اوپر کی طرف ابھری ہوئی تھی ۔۔۔۔ ۔۔۔چوت کے لب ۔۔۔ کافی کھلے تھے
اور چوت کے اوپر سے لٹکے ہوئے تھے ۔۔۔اس کا مطلب تھا کہ اس نے بہت سیکس کیا ہے ۔۔۔
خاص بات یہ تھی کہ اس کی چوت بلکل صاف تھی اور تازہ شیو کے آثار صاف نظر آ رہے
ﺟﯽ
تھے ۔۔۔ پھر میں نے اپنی انگلی کے پوروں سے اس کی بنا بالوں والی پھدی پر مساج کرنا شروع
کر دیا ۔۔۔ پہلے تو وہ مزہ لیتی رہی پھر کہنے لگی۔۔۔ چوت چاٹ میری جان ۔۔۔۔ میں تمھاری زبان
سنی اور اپنی زبان نکال کر اس کو اپنی پھدی کے اندر دیکھنا چاہتی ہوں ۔۔۔ میں نے اس کی بات ُ
کی پھدی کی دراڑ ۔۔جو کہ کافی کھلی اور لیس دار پانی سے بھری ہوئی تھی پر زبان رکھی اور
نیچے سےاوپر تک اپنی زبان کو لے گیا ۔۔۔۔۔ اس کی چوت کا لیس دار پانی جو کہ چوت سے نکل
@
کر باہر کی طرف آ رہا تھا اور کچھ پہلے سے ہی اس پر لگا ہوا تھا ساراے کا سارے میری زبان
کی لپیٹ میں آ گیا۔۔۔ اور میں اس کا یہ نمکین پانی چاٹ گیا ۔۔۔ پھر میں نے اپنی زبان کو اس کی
پھدی کے اندر ڈاال ۔۔۔اُف۔ف ف ۔۔۔ اس کی پھدی اندر سے بہت ہی گرم تھی ۔۔۔۔ اور جگہ جگہ لیس
دار پانی لگا ہوا تھا میں نے وہ سارے کا سارا لیس دار پانی چاٹ کر صاف کیا ۔۔۔لیکن جہاں جہاں
ﺷﺎه
سے میں یہ لیس دار پانی چاٹ کر صاف کرتا ۔۔۔اس کی پھدی کی دیواریں دوبارہ وہ پانی چھوڑ
دیتیں تھیں۔۔۔ میری پھدی چاٹنے کے دوران وہ بھی میری طرح ۔۔۔ لزت بھری سسکیاں لیتی رہی
تھی ۔۔۔اُوہ ۔۔۔۔۔۔اُف۔۔۔اوئی ۔۔۔۔۔۔۔آہ ۔۔۔۔۔ تم کتنا گرم ہو ۔۔۔۔ زبان اور اندر لے جا نہ ۔۔۔ جیسی آوازیں
نکلتی رہیں تھیں ۔۔۔
ﺟﯽ
کافی دیر تک میں اس کی پھدی کو چاٹتا رہا اور وہ میرے نیچے ماہیء بے آب کی طرح
تڑپتی رہی ۔۔۔اور اس کی پھدی پانی چھوڑتی رہی ۔۔۔۔ اس کے بعد اچانک وہ اوپر اُٹھی اور بولی
۔۔۔۔ چوت ۔۔چھوڑ ۔۔۔اب میری پھدی مار۔۔۔۔ اس کی بات سن کر جیسے ہی میں نے اپنا منہ اس کی
پھدی سے ہٹایا اور نے بڑی ہی پھرتی سے اپنی پوزیشن تبدیل کی اور اور صوفے پر اُلٹی ہو کر
ا
بچہ دانی سے جا ٹکرایا ۔۔۔۔اور پھر اس کے بعد لن پھدی کی لڑائی شروع ہو گئی ۔۔ میں ایک گھسہ
ﺳﺗﺎ
مارتا اور راحیلہ جواب میں دو دفعہ اپنی چوت کو میرے لن کی طرف دے مارتی ۔۔۔اور ساتھ ساتھ
اس کی سسکیاں ۔۔اُف ۔۔۔ایسا لگ رہا تھا کہ اس کے منہ میں کوئی۔۔۔ سی ڈی ۔۔فٹ ہے جس میں
نان سٹاپ سسکیاں بھری ہوئیں تھیں ۔۔ کما ل کی بات ہے کہ وہ بیک وقت میرے لن کی طرف
گھسے بھی مارتی تھی اور سسکیاں بھی لیتی تھی ۔۔۔اُف۔ف۔ف۔۔ جان۔۔۔ تیرا۔۔۔لن ۔۔۔ہائے ،۔۔۔میری
ﻧﯽ
پھدی۔۔۔اپف۔۔۔آہ۔۔۔۔۔۔اوئی۔۔۔۔ اور مار نا ۔۔۔ شدید گھسے مار۔۔۔ پھاڑ نا۔۔۔ ہائے میری چوت۔۔۔۔ اس ک
پھدی کی گرمی اور اس کے منہ سے نکلنے والی نان سٹاپ سسکیوں نے مجھے بلکل وحشی بنا
دیا تھا اور میں جنگلیوں کی طرح بغیر کسی وقفے کے اس کی چوت مار رہا تھا ۔۔۔ اور پھر۔۔۔۔
ﺟﯽ
اچانک اس نے اپنی پھدی کو میرے لن کے گرد لپیٹنا شروع کر دیا۔۔۔گھسے مارنے بند کر دیئے۔۔۔۔۔
اور ساری توجہ اپنی چوت کو میرے لن کے گرد کسنے میں لگا دی۔۔۔۔۔اور پھر اس نے ایک لمبی
مگر ۔۔۔۔لزت سے بھر پور سسکی لی۔۔۔اور اس کی چوت کی دیواروں سے آبشار کی طرح پانی
بہنے لگا ۔۔۔اور ۔۔پھر ۔ اس ۔۔۔کےس اتھ ہی میں نے بھی ایک لمبی سی ۔۔اوہ ۔۔۔اوہ ۔۔۔۔۔ کی اور۔۔۔
@
میرے لن سے نکلنے واال پانی اس کی چوت کے پانی سے مکس ہونے لگا ۔۔۔۔ اور کچھ سکیڈ تک
ہم دونوں میں جھٹکوں کا مقابلہ ہوتا رہا اور ہم دونوں ہی پانی چھوڑتے رہے۔۔۔
ہم چھوٹنے کے مراحل سے تو نکل گئے تھے مگر ابھی تک ہمارا سانس بحال نہ ہوا تھا ۔۔۔ کہ
کمرے میں ایک تیسری آواز۔۔۔ گونجی ۔۔۔ ہائے میں مر جاؤں ۔۔۔ اور یہ آواز ہمارے لیئےکسی ایٹم
ﺷﺎه
بمب کی آواز سے کم نہ تھی ۔۔۔ ہم نے نے بیک وقت۔۔۔ ُمڑ کر دیکھا ۔۔۔۔ تو نفیسہ بیگم دروازے
میں اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھے پھٹی پھٹی نظروں سے کبھی مجھے اور کبھی راحیلہ
کو دیکھ رہیں تھیں۔۔۔ چند سیکنڈ کے لیئے سارا منظر ہی سٹل ہو گیا تھا۔۔۔۔۔ نفیسہ بیگم باری باری
ہمیں اور ہم دونوں خالی خالی نظروں سے اس کی طرف دیکھ رہے تھے۔۔۔ اور ہمیں ہوش تب آیا
کہ جب ۔۔۔نفیسہ بیگم ۔۔۔ اپنے دونوں ہاتھ منہ پر رکھے الٹے پاؤں واپس بھاگی۔۔۔جیسے ہی نفیسہ
ﺟﯽ
بیگم واپس ہوئی ہم دونوں کو جیسے ہوش آ گیا ہو ۔۔۔ بجلی کی سی پھرتی سے را حیلہ اور میں
نے کپڑے پہنے اور۔۔۔ کپڑے پہن کر ہم دونوں نے بیک وقت ایک دوسرے کی طرف دیکھا۔۔۔ اور
پھر راحیلہ کسی ہارے ہوئے جواری کی طرح نیچے صوفے پر بیٹھ گئی اور اپنے دونوں ہاتھ
سر پر رکھ کر رونے لگی۔۔ اور بولی یہ کیا ہو گیا ۔۔یہ کیا ہو گیا ۔۔ اس کی آنکھوں میں آنسو دیکھ
کر میں بے چین ہو گیا ۔۔۔ اور بوال ۔۔ ُچپ کرو ۔۔ میری جان ۔۔۔ کچھ بھی نہیں ہو گا ۔۔ تو وہ میری
ا
ﺳﺗﺎ
سن کر ایسا لگا کہ جیسے اس کے زہن میں کسی آئیڈیا نے سر اُٹھایا ہے ۔۔۔چنانچہ میری بات ُ
راحیلہ نے میری طرف دیکھا اور بولی۔۔۔ ایک ہی طریقہ ہے کہ یہ بڑھیا کسی کو نہ بتائے۔۔۔۔
وارنہ تو اس نے مجھے زلیل و خوار کر دینا ہے ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ اُٹھ کھڑی ہوئ اور
ﻧﯽ
بولی ۔۔۔ شاہ ۔۔ مجھے تمھاری مدد کی ضرورت ہے ۔۔۔ کیا تم میری مدد کرو گے؟ تو میں نے کہا
تم حکم کر کے دیکھو یار ۔۔۔۔ تو وہ ۔۔بڑے ہی مضبوط لہجے میں بولی ۔۔۔ میری طرح تم نے بڑھیا
کی بھی لینی ہے ۔۔۔ اس کی چوت مارنی ہے ۔۔۔ وہ بھی میرے سامنے ۔۔۔ اس کی بات سن کر میں
ﺟﯽ
حیران رہ گیا اور بوال ۔۔۔ وہ اس بات پر مان جائے گی؟ تو وہ کہنے گلی ۔۔۔ وہ کہاں مانے گی لیکن
سکھ چین سب چھین ہم نے اس کی لینی ہے ۔۔۔ ورنہ یہ مجھے تباہ کر دے کی اور مجھ سے میرا ُ
لے گی۔۔۔ پھر اس نے میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالیں اور بولی۔۔۔۔ بولو میرا ساتھ دو گے نہ؟ تو
میں نے کہا ۔۔ لیکن راحیلہ۔۔۔۔ میں ۔۔نفیسہ آنٹی کو ۔۔۔۔۔میرے جواب سے راحیلہ کا چہر ہ ایک دم
سرخ ہو گیا اور اس کا بلڈ یشر بھی شوٹ کر گیا ۔۔۔۔اور ایک منٹ میں ہی اس پر اس رات والی
@
حالت طاری ہو گئی ۔۔۔ اور پھر اس نے مجھے گریبان سے پکڑ کر کہا ۔۔بولو میرے سامنے نفیسہ
کا ریپ کرو گے ۔۔۔؟ یا میں شور مچاؤں ۔؟؟؟؟؟ ۔۔ میں تو پہلے ہی برباد ہو گئی ہوں ۔۔۔ لیکن تم
کو بھی نہیں چھوڑوں گی۔۔۔ میں اس کی آنکھوں میں دیوانگی کی جھلک دیکھ کر بڑا پریشان ہوا
اور ابھی اتنا ہی بوال تھا کہ ۔۔۔وہ۔۔ کہ اس نے اپنا پورا منہ کھوال اور ابھی وہ چیخ مارنے ہی لگی
ﺷﺎه
تھی کہ میں نے اس کے منہ پر اپنا ہاتھ رکھ دیا اور اس سے بوال ۔۔۔راحیلہ پلیزززززز۔لیکن وہ
اپنے ہوش میں نہ تھی ۔۔۔ اور اس وقت اس کی بلکل وہی کنڈیشن تھی جو اس رات کو تھی ۔۔۔ اس
ی آنکھیں باہر کو نکلی ہوئیں تھیں چہرہ سرخ تھا اور وہ ہولے ہولے کانپتے ہوئے اسی دیوانگی
کے عالم میں بولی ۔مجھ سے ہیچر میچر مت کرو کہ ۔۔ یہ میری زندگی اور موت کا مسلہ ہے۔۔۔۔۔
ﺟﯽ
۔۔۔تم اگر میرا کام کرتے ہو تو ٹھیک ۔۔۔۔ ورنہ میں نہیں تو کوئی بھی نہیں۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی
اس نے چیخ مارنے کے لیئے دوبارہ اپنا منہ کھوال ۔۔۔۔۔ اور اس سے قبل کہ وہ چیخ مارتی میں
نے ہتھیار ڈالتے ہوئے اس سے کہا ۔۔۔۔ ٹھیک ہے جیسا تم کہو گی ویسا ہی میں کروں گا۔۔۔ میری
سن کر اس نے چیخنے کا ارادہ ترک کر دیا اور بولی ۔۔۔ تم ۔۔۔ نے اگر کوئی ہینکی پھینکی بات ُ
کرنے کی کوشش کی تو یاد رکھنا ۔۔۔۔ اور پھر مجھ سے بولی ۔۔۔آؤ میرے ساتھ ۔۔
اور وہ مجھ سے آگے تقریبا ً بھاگتے ہوئے نفیسہ بیگم کے کمرے کی طرف جا رہی تھی
۔۔۔اور میں بھی اسی رفتار سے اس کے پیچھے پیچھے چل رہا تھا ۔۔۔۔آندھی اور طوفان کی طرح
ہم نفسہ آنٹی کے کمرے میں پہنچے ۔۔۔ دیکھا تو نفیسہ آنٹی بڑی پریشانی کے عالم میں کمرے
ا
ٹہل رہیں تھیں۔۔۔ہمارے اندر داخل ہوتے ہی وہ ہم پر برس پڑیں اور بولیں ۔۔۔۔۔ دفعہ ہو جاؤ یہاں
ﺳﺗﺎ
سے۔۔۔۔ تت۔۔تت۔اندر داخل ہونے کی ۔ تمھاری ہمت کیسے پڑی ۔۔فورا ً یہاں سے دفعہ ہو جاؤ
۔۔ورنہ۔۔۔۔ ابھی آنٹی نے اتنا ہی کہا تھا ۔۔ کہ راحیلہ کسی چیل کی طرح نفیسہ آنٹی پر جھپٹی اور
اس کے دونوں بازو قابو میں کر لیئے ۔۔۔ یہ دیکھ کر نفیسہ بولی ۔۔۔۔ یہ ۔۔۔یہ ۔۔۔ تم اچھا نہیں کر
ﻧﯽ
رہی راحیلہ ۔۔۔۔ مجھے چھوڑ دو ورنہ پچھتاؤ گی ۔۔لیکن راحیلہ نے اسے چھوڑنے کے لیئے
تھوڑی پکڑا تھا ۔۔۔اس کے ساتھ ساتھ نفیسہ بیگم نے خود کو راحیلہ سے چھوڑانے کی بڑی کوشش
کی لیکن ۔۔ دھان پان سی آنٹی راحیلہ جیسی ڈشکری عورت سے خود کو کہاں چھوڑا سکتی تھی
۔۔۔ اس لیئے پہلے تو وہ محض دھمکیاں ہی دیتی رہی پھر ۔۔ہمت ہار گئی اور منت ترلوں پر آ گئی۔۔۔
ﺟﯽ
لیکن راحیلہ نے اس کی بات کو سنی ان سنی کرتے ہوئے نفیسہ بیگم کو گھیسٹ کر پلنگ کی
طرف لے گئی اور پھر اس کو پلنگ پر گرا کر مجھ سے بولی ۔۔۔ اس کا ناڑا (آزار بند) کھول
کے مجھے دو۔۔۔ راحیلہ کی بات سنن کر آنٹی کے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے اور بولی ۔۔۔ یہ ۔یہ
بے ہودگی ہے ۔۔۔ خبردار جو کسی نے میرے ناڑے کی طرف ہاتھ بھی بڑھایا تو۔۔۔ لیکن میں اس
@
کے قرب بستر پر پہنچ گیا یہ دیکھ کر نفیسہ بیگم نے کافی ۔۔ٹانگیں چالئیں لیکن ناکام رہیں اور
میں نے ان کی قمیض کو اوپر کیا اور ان کی شلوار سے ازار بند نکال کر راحیلہ کے حوالے
کر دیا۔۔۔ مجھے اپنی شلوار سے نالہ نکالتے ہوئے دیکھ کر حیرت کے مارے نفیسہ بیگم کی آنکھیں
پھٹی کی پھٹی رہ گئیں اور ۔۔۔ وہ مجھ سے کہنے لگیں ۔۔۔ مجھے تم سے یہ امید نہ تھی۔۔۔۔تم تو
ﺷﺎه
جیسے ہی میں نے نفیسہ بیگم کا نالہ راحیلہ کی طرف کیا اس نے پھرتی سے نالہ پکڑ کو
پلنگ کی نکڑ سے نفیسہ بیگم کا ایک ہاتھ باندھ دیا ۔۔۔ اور بولی ۔۔ یہاں کہیں نفیسہ کی دوسری
ﺟﯽ
شلوار دیکھو ۔۔۔اور اس میں سے اس کا دوسرا نالہ نکال کر مجھے دو۔۔۔۔۔۔میں نے ادھر ادھر
دیکھا تو سائیڈ پر ایک ٹوکری میں نفیسہ بیگم کے میلے کپڑے پڑے تھے چنا نچہ میں نے وہاں
سے اس کی شواار کو پکڑااور آزار بند نکال کر راحیلہ کے حوالے کر دیا ۔۔۔۔اس آزار بند سے
راھیلہ نے آنٹی کا دوسرا ہاتھ پلنگ کے دوسرے کونے سے مضبوطی سے باندھ دیا ۔۔۔ نفیسہ بیگم
حیرت کے مارے یہ سب کاروائیاں دیکھ رہیں تھیں ۔۔۔ اور اس کی سمجھ میں نہ آ رہا تھا کہ یہاں
سن کر میں نے نفیسہ بیگم کی طرف دیکھا اور ۔۔۔۔ تھوڑی سی ہچکچاہٹ کے راحیلہ کا حکم ُ
ا
ﺳﺗﺎ
بعد اپنی شلوار اتار دی ۔۔۔ یہ دیکھ کر آنٹی کی سمجھ میں ساری بات آ گئی اور وہ کہنے لگی۔۔۔۔
یہ نا کرو پلیزززززززززز۔۔ ایسا نہ کرو ۔۔۔۔ پھر مجھ سے مخاطب ہو کر کہنے لگی ۔۔۔ میں ۔۔۔۔۔مم
۔۔۔ تمھاری امی کی بیسٹ فرینڈ ہوں ۔۔تم میرے ساتھ ایسا کیسے کر سکتے ہو ۔۔۔ پلیز ۔۔۔۔ میری عزت
پر ہاتھ نہ ڈالو ۔۔ مین نے آنٹی کی بات سنی ان سنی کرتے ہوئے پلنگ پر چڑھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر نفیسہ
ﻧﯽ
بیگم دھائی دینے لگی کہ۔۔۔ میں نے کبھی ایسا گندہ کام نہیں کیا ۔۔پھر مجھ سے بولی۔۔۔۔ بیٹا تم بھی
اس حرافہ کے کہنے میں آ گئے ہو ؟؟؟ حرافہ کا لفظ سن کر ڑاھیلہ اک دم تپ گئی اور اسے ڈانٹ
کر بولی۔۔۔ ُچپ بڑھیا ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ باہر گئی اور بجلی کی سی تیزی سے واپس آئی
ﺟﯽ
تواس کے ہاتھ میں بڑی سی چھری تھی ۔۔۔جو وہ نفیسہ بیگم کے سامنے لہراتے ہوئے دانت پیس
کر بولی۔۔۔۔۔۔ بڑھیا اس کے بعد اگر تم نے ایک لفظ بھی منہ سے نکال تو میں تم کو جان سے مار
دوں گی۔۔۔۔ راحیلہ کی آواز میں ضرور کوئی ایسی بات تھی کہ۔۔۔ نفیسہ بیگم ایک دم ڈر گئی اور
راحیلہ کے ہاتھ میں چھری دیکھ کر ہکالتے ہوئے بولی ۔۔۔ مم ۔۔میں کچھ نہیں بولوں گی ۔۔۔۔
میں۔۔۔مم۔۔۔۔۔ شور بھی نہیں کروں گی۔۔۔ ۔۔۔ بس تم یہ چھری میرے آگے سے ہٹا دو۔۔۔ اور بلکل
@
اب مین بستر پر چڑھا اور آنٹی کی ٹانگیں اپنے کندھے پر رکھنے ہی لگا تھا ۔۔۔ کہ راحیلہ
ﺷﺎه
بولی۔۔۔۔ پہلے اس کو (لن ) کو تو کھڑا کر لو ۔۔۔ پھر وہ میرے پاس آئی اور چھری کو بائیں ہاتھ
میں منتقل کیا اور دائیں ہاتھ سے میرا لن پکڑ کا اسے آگے پیچھے کرنے لگی۔۔۔۔ اور پھر نفیسہ
کی طرف دیکھ کر بولی۔۔۔ دیکھ بڑھیا کیسا زبردست لن ہے اس کا ۔۔۔۔ شیخ صاحب سے ڈبل ہے
نا ۔۔۔ اور پھر میری ُمٹھ مارنے لگی۔۔۔۔اس کے ُمٹھ مارنے سے میرے لن میں جان آنا شروع ہو
گئی اور ۔۔۔ وہ آہستہ آہستہ کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔۔۔۔جیسے جیسے میرا لن بڑا ہوتا جاتا ۔۔۔نفیسہ
ﺟﯽ
بیگم حیرت سے کبھی مجھے اور کھبی میرے لن کی طرف دیکھتی تھی ۔۔۔ ادھر راحیلہ نے اپنا
منہ آگے کیا اور میرے لن پر بہت سارا تھوک لگا کر بولی ۔۔۔ بڑھیا تم نے کبھی شیخ کی ُمٹھ
ماری؟ اور پھر میرے لن پر طرف تیز تیز ہاتھ چال کر بولی ۔۔۔۔ ایسے ُمٹھ مارتے ہیں اس کے
ساتھ ہی وہ ُرک گئی اور بولی ۔۔۔ لیکن شیخ صاحب تو لن چسوانے کے بڑے شوقین ہیں ۔۔ مجھے
یقین ہے بڑھیا تم نے بھی شیخ کے بڑے چوپے لگائے ہوں گے ۔۔۔۔۔آج میرے اس یار کا بھی لن
ا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ غصے میں بھپری ہوئی راحیلہ کی طرف دیکھا اور اپنا منہ کھول دیا اور راھیلہ نے
ﺳﺗﺎ
میرا لن پکڑ کے اس کے منہ میں ڈال دیا ۔۔۔اور بولی ۔۔۔چل چوپا لگا ۔۔۔۔ آنٹی نے بمشکل میرے
لن کو تھوڑا سا چوسا اور بولی۔۔۔۔ راحیلہ پلیززززززززز ۔۔۔میرے ساتھ ایسا نہ کرو۔۔۔ اس کی
بات سن کر راحیلہ بولی چلوا یسا نہیں کرتے اور مجھے پیچھے جانے کو کہا ۔۔۔۔ اور میں پیچھے
ب عادت اس کی پھدی کی طرف دیکھا تو گیا اور آنٹی کی ایک ٹانگ کو اُٹھا نےسے پہلے حس ِ
ﻧﯽ
۔۔۔۔۔۔۔۔اوہ ۔۔۔ آنٹی کی چوت پر کافی گھنے اور کالے رنگ کے بالوں کا ایک جنگل سا اُگا ہوا نظر
آیا ۔۔۔ میں تھوڑا نیچے جھکا تو ان کی چوت سے گھنے بالوں اور چوت کی مکس ۔۔۔ عجیب سی
مہک آ رہی تھی ۔۔۔ابھی میں ان کی چوت کا جائزہ لے ہی ر ہا تھا کہ پیچھے سے راحیلہ نے کہا
ﺟﯽ
۔۔۔اب ڈال بھی دے بڑھیا کی چوت میں اپنا لن ۔۔۔ اور میں نے نفیسہ بیگم کی چوت کو سونگنے
کا ارادہ موقوف کیااور اپنا لن ان کی چوت کے اینڈ پر رکھا اور اندر ڈال دیا ۔۔۔ اور ایک دو
گھسے مرے لیکن مزہ نہ آیا ۔۔اور رک گیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر راحیلہ بولی ۔۔۔۔ کیوں کیا ہوا۔۔۔؟ تو میں
سن کر راحیلہ بولی ۔۔۔اگر خشک ہے تو ابھی نے کہا آنٹی کی چوت بہت خشک ہے ۔۔۔ میری بات ُ
@
تر کئے دیتی ہوں ۔۔۔اور پھر اس نے چھری ایک طرف رکھی اور وہ نفیسہ بیگم کی ٹانگوں کی
طرف آئی اور ان کی پھدی پر اگے گھنے جنگل کو دیکھ کر حیران رہ گئی اور بولی۔۔۔ بال رکھنے
کی بڑی شوقین ہو بڑھیا ۔۔۔۔۔۔
ﺷﺎه
ادھر آنٹی نے شرم کے مارے اپنا سر جھکا دیا ۔۔۔۔ اور کچھ نہ بولی ۔۔۔ اسی اثنا میں راحیلہ
کا منہ ۔۔آنٹی کی چوت تک آ گیا تھا۔۔۔اور ۔۔۔ پھر میری طرح راھیلہ نے بھی اپنی ناک نفیسہ بیگم
کی چوت پر رکھ دی اور چند سیکنڈ تک اس کی مہک سے لطف اندوز ہوتی رہی ۔۔۔ پھر اس نے
سر اوپر اُٹھایا اور بولی۔۔۔۔بڑھیا تیری پھدی سے بڑی مست مہک آ رہی ہے ۔۔۔ اور پھر اس نے
ﺟﯽ
بے کود ہو کر آنٹی کی چوت پر زبان رکھ دی اور اسے چاٹنے لگی۔۔۔۔ ادھر جیسے ہی راحیلہ نے
اپنی زبان آنٹی کی چوت پر رکھی آنٹی کے منہ سے ایک سسکی نکلتے نکلتے رہ گئی اور میں
سمجھ گیا کہ آنٹی چوت چٹوانا اچھا لگتا ہے ۔۔۔کیونکہ جیسے جیسے راحیلہ کی زبان آنٹی کی
چوت کے اندر جاتی مریے خیال میں نفیسہ آنٹی اسے انجوائے کرتی تھی ۔۔۔۔۔۔
ا
کی چوت میں ڈال دیا۔۔ راحیلہ ٹھیک کہہ رہی تھی ۔۔۔ اس دفعہ ایسا لگ رہا تھا کہ وہ پہلی والی
ﺳﺗﺎ
پھدی نہیں میں نے راحیلہ کی چوت میں لن ڈال دیا ہے کیونکہ آنٹی کی پھدی میں راحیلہ کی
چٹائی سے پانی کا سیالب آیا ہوا تھا ۔۔۔۔اور چوت اندر سے کافی گرم ہو گئی تھی ۔۔۔ چنانچہ میں
نے لن ڈاال اور گھسے مارنے لگا ۔۔۔ یہ دیکھ کر راحیلہ بھی جوش میں آ گئی اور ۔۔۔جیسے مجھے
چود رہا تھا ۔۔۔۔ ایسے ہی اس بڑھیا کو بھی چود ۔۔۔ اور۔میں نے آنٹی کی چوت میں بتتدریج گھسوں
ﻧﯽ
کی رفتار میں اضافہ کرنا شروع کر دیا اور ۔۔۔ آنٹی کی تنگ چوت کو بہت مارا۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ
میرے لن سے پانی کا ۔۔۔اخراج نزدیک آ گیا اور مجھے سرخ ہوتے دیکھ کر بولی ۔۔۔چھوٹنے
لگے ہو؟ تو میں نے کہا یس۔۔۔ میں جا رہا ہوں ۔۔۔تو وہ بولی۔۔۔۔ اس بڑھیا کی چوت کو ۔ اپنی منی
ﺟﯽ
سن کر ہی میرے لن نے ۔۔۔۔۔ گاڑھے پانی کا سارا ۔۔۔رس ۔۔۔۔۔نفیسہ سے بھر دے ۔۔۔۔ اور اس کی بات ُ
بیگم کی چوت میں اتارنا شروع کر دیا۔۔۔
جب میرے لن کا پانی پوری طرح سے آنٹی کی چوت میں بہہ گیا ۔۔۔تو میں اُٹھا اور آنٹی
@
کی شلوار سے اپنا لن صاف کیااور کپڑے پہن کر راحیلہ کی طرف اگلے اقدام کے بارے میں
جاننے کے لیئے دیکھا تو ۔۔۔وہ بولی۔۔۔ تم اپنےگھر جاؤ ۔۔۔ میں سب سنبھال لوں گی۔۔۔۔چنانچہ میں
نے جلدی سے گھر آگیا اور۔۔۔ بستر پر لیٹ کر آج کے حادثے کے بارے میں میں سوچنے لگا۔۔۔۔۔
ابھی مجھے گھر آئے ۔۔کچھ ہی دیر ہوئی تھی ۔۔۔ کہ ہمارے دروازے پر ایک ذوردار دستک
ﺷﺎه
ہوئی۔۔۔۔ پھر دوسری ۔۔۔۔۔پھر تیسری۔۔۔۔ اور پھر ہمارا دروازہ مسلسل بجنے لگا۔۔۔۔ میں دوڑ کر باہر
گیا اور دروازہ کھوال تو سامنے والی شخصیت کو دیکھ کر میرے پیروں تلے سے زمیں نکل
گئی۔۔۔۔اور آنکھوں کے آگے اندھیرا چھا گیا ۔۔۔ وہ شخصیت اور کوئی نہیں ۔۔۔نفیسہ بیگم کی تھی
سرخ انگارہ ہو رہیں تھیں اور ان سے ۔۔اس کے بال بکھرے ہوئے تھے اور اس کی آنکھیں ُ
ﺟﯽ
شعلے نکل رہے تھے اور ایک وحشت ناچ رہی تھی۔۔۔۔۔ نفیسہ بیگم کو دیکھ کر جو پہال خیال
میرے ذہن میں آیا وہ بھاگنے کا تھا ۔۔۔۔ابھی میں بھاگنے کی سو چ ہی رہا تھا کہ نفیسہ بیگم آگے
بڑھیں ۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہمارے دروازے کے عین سامنے کھڑی نفیسہ بیگم نے مجھے ایک دھکا دیا اور تیزی
سے گھر کے اندر داخل ہو گئی اس کے پیچھے پیچھے میں بھی دروازے سے اندر آ گیا ۔۔اور
ا
اور وہ مزید اشتعال میں آ گئیں اور انہوں والی بات نے گویا جلتی پر تیل کا کام کیا
ﺳﺗﺎ
نے اسی غصے کی حالت میں ایک زور دار الت مجھے رسید کی اور بولی ۔ موقعے کے
سن کربچے ابھی بتاتی ہوں تیری ماں کو کہ تم نے میر ے ساتھ کیا حرکت کی ہے ۔امی کا زکر ُ
حقیقتا ً میری گانڈ پھٹ گئی ۔۔اور میں جواب میں کوئی مناسب الفاظ تالش کر ہی رہا تھا کہ ۔۔۔
اتنے میں امی جو کہ محلے میں کسی ختم پر جانے کے لیئے تیار ہو رہیئں تھیں بھی کمرے
ﻧﯽ
سے باہر آ گئیں اور وہ نفیسہ آنٹی کا حلیہ دیکھ کر ایک دم ٹھٹھک گئیں ۔۔ اور بڑے حیرت بھرے
سن کر آنٹی نے ایک نظر میری لہجے میں کہنے لگیں ۔۔ یہ تمہیں کیا ہوا نفیسہ ؟ امی کا سوال ُ
طرف دیکھ تو میں نے امی سے آنکھ بچا کر ا ن کے آگے ہاتھ جوڑ دیئے۔انہوں نے ایک نظر
ﺟﯽ
میرے بندھے ہاتھوں کی طرف دیکھا اور ایک ٹھنڈی سانس بھر کر امی سے کہنے لگیں ۔۔ کچھ
نہیں یار ۔۔۔کل رات سے بڑا تیز بخار چڑھا ہوا تھا ۔۔۔اور میں دوائی کھا کر سو گئی تھی ۔۔ابھی
اُٹھی ہوں تو سارا جسم درد کر رہا ہے سو میں یہاں آ گئی اور سوچا تمھارے بیٹے سے دوائی
منگوا لوں ۔۔آنٹی کی بات سن کر میری جان میں جان آئی اور میں نے بڑے ہی مشکور انداز میں
@
سن کر امی نے کہا ارے نفیسہ آنٹی کی طرف دیکھ کر ہلکا سا سر جھکا دیا ادھر آنٹی کی بات ُ
تم کیسی بات کر رہی ہو؟ یہ میرا نہیں تمھارا بھی بیٹا ہے ۔۔ پھر ان سے کہنے لگیں تم نے ختم
پر نہیں جانا ؟؟؟؟؟۔۔۔ تو ان کی بات سن کر نفیسہ بیگم کہنے لگی ۔۔۔ میری حالت کو تم دیکھ ہی
رہی ہو ۔۔۔ خود ہی بتاؤ ایسی حالت میں میں تمھارےساتھ سکینہ کے ختم پر جا سکتی ہوں ؟ تو
ﺷﺎه
امی نےنفیسہ بیگم کی طرف دیکھ کر ہمدردری سے سر ہال یا اور بولیں ۔۔۔بات تو تم ٹھیک کہہ
رہی ہے اس کے بعد امی نے میری طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔ بیٹا آنٹی نے جو دوائی کہی ہے
فورا ً ال کر انہیں ال کر کھالؤ ۔۔۔ پھر اس کے بعد وہ آنٹی کی طرف گھومیں اور بولیں ۔۔نفیسہ تم
دوائی کھا کر یہیں ریسٹ کرو میں ختم سے ہو کر آتی ہوں اور اس کے ساتھ ہی امی حضور
ماسی سکینہ کے ختم پر جانے کے کیئے گھر سے نکل گئیں۔۔
ﺟﯽ
امی کے جاتے ہی میں نے آنٹی کی طرف بڑی مشکور نظروں سے دیکھا اور بوال ۔۔۔آنٹی
سن کر وہ کہنے لگیں ۔۔۔ مجھے ایک بات بتاؤ ؟ تو
جی آپ کا بہت بہت شکریہ ۔۔۔ میری بات ُ
میں نے ان سے کہا آپ پوچھو تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ تمھارا اس گشتی کے ساتھ کب سے چکر چل
رہا ہے تو میں نے جواب دیا ۔۔۔ آپ یقین کریں گی کہ آنٹی کہ آج میرا ان کے ساتھ فرسٹ ٹائم
تھا۔۔۔ اور اس سے قبل کہ وہ کوئی مزید بات کرتی میں نے ان سے کہا آنٹی جی کیمسٹ سے کون
ا
سن کر حیران رہ گیا اور
آ گئے اور مجھے ویسے کا ویسا ہی چھوڑ دیا اور میں ان کی بات ُ
ﺳﺗﺎ
ِبٹر بِٹر ان کی طرف دیکھنے لگا یہ دیکھ کر وہ تھوڑے جالل میں بولیں زیادہ حیران ہونے کی
ضرورت نہیں ۔۔۔جلدی سے تم بھی اپنی شلوار اتارو۔۔۔ اور میں ان کا یہ رویہ دیکھ کر حیران ہو
گیاا ور دستی اپنی شلوار اتار کر بستر پر لیٹ گیا ۔۔۔
ﻧﯽ
ادھر آنٹی نے بھی اپنی شلوار اتار دی اور میرے پاس آ کر بیٹھ گئی ۔۔۔اس وقت ظاہر ہے
کہ میرا لن بیٹھا ہوا تھا چنانچہ انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔ اس وقت تو بڑا تنا
ہوا کھڑا تھا تمھارا ۔۔۔یہ۔۔۔ اور اب کیسے مرا ہوا ہے ۔۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولیں کھڑا
کر اسے ؟ تو میں نے کہا وہ جی جی۔۔۔ اور آنٹی کی طرف دیکھتے ہوئے لن کو اپنے ہاتھ میں
ﺟﯽ
پکڑ ا اور اسے ہالنے لگا لیکن خوف کے مارے میرا لن کھڑا نہ ہو رہا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر آنٹی
بولی ۔۔رہنے دو ۔۔۔ میں ہی کچھ کرتی ہوں اور پھر وہ میری ٹانگوں کے بیچ میں بیٹھ گئیں اور
میرا لن ہاتھ میں پکڑ کر بولیں ۔۔۔یہ کیسے کھڑا ہو گا؟ تو میں نے ڈرتے ڈرتے کہا کہ اگر آپ
سن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔ تھوڑا سا ۔۔۔منہ ۔۔۔ میں لے لیں تو یہ دستی کھڑا ہو جائے گا۔۔۔ میری بات ُ
@
ہاں ۔۔۔ منہ میں لینے سے تو مردے کا بھی کھڑا ہو اور پھر وہ نیچے جھکی اور میرے لٹکے
ہوئے بالز کو اپنے ہاتھوں میں پکڑا اور ان پر اپنی زبان کی نوک کو بڑے سویٹ انداز میں
پھیرنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ پھر اس کے بعد ان کی زبان میرے مرجھائے ہوئے لن کی طرف بڑھی اور
پھر اچانک ہی انہوں نے میرا لن اپنے منہ میں لیا اور ایک چوسا لگایا اور پھر فورا ً میرے لن
ﺷﺎه
کو اپنے ہی منہ سے نکال کر بولیں۔۔۔ آ کر دھویا نہیں تھا؟ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔سوری آنٹی
سن کر وہ ُچپ ہو گئیں اور دوبارہ سے لن کو منہ میں لیکر فرصت ہی نہیں ملی ۔۔۔ میری بات ُ
کر چوسنے لگیں ۔۔
ﺟﯽ
ان کی کوششوں سے میرا لن سر اُٹھانے لگا اور جیسے ہی میرا لن نیم جان ہوا ۔۔ آنٹی نے
لن کو منہ سے نکال اور اس پر ہلکے ہلکے تھپڑ مارتے ہوئے ۔۔شہوت سے بھر پور لہجے میں
کہنے لگیں ۔۔۔ جلدی سے کھڑا ہو جا ۔۔ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ تھوڑا صبر کر لیں ۔۔کھڑا ہو
سن رک انہوں نے بڑی مجروح ۔ نظروں سے میری طرف دیکھا جایئے گا آنٹی ۔۔۔ میری بات ُ
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
اور کہنے لگیں کوئی مجبوری ہے تو میں یہ کر رہی ہوں نا۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا شیخ صاحب
سن کر وہ تڑپ اُٹھیں اور کہنے لگیںکے ہوتے ہوئے آپ کو کیا مجبوری ہے آنٹی ؟ میری بات ُ
۔۔۔ یقین کرو گے جب سے شیخ نے اس گشتی کے ساتھ شادی کی ہے میں نے ایک دن بھی اس کو
نہیں کرنے دیا ۔۔۔ نفیسہ بیگم کی بات سن کر میں حیران ہو گیا اور حیرت سے پوچھا ۔۔۔ راحیلہ
ا
کے ساتھ شادی کو کتنا عرصہ ہو گیا ہے ؟ تو وہ کہنے لگیں پانچ سال۔۔۔ ان کی بات سے مجھے
ﺳﺗﺎ
ازحد افسوس ہوا ۔۔۔ اور بوال ۔۔ لیکن کیوں آنٹی ؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔ کچھ بھی بس ضد۔۔۔!!!! کہ
میرے ہوتے ہوئے اس نے دوسری شادی کیوں کی ۔۔ اور پھر میرے لن کی طرف متوجہ ہوئیں
جو اب فل جوبن میں تو نہیں تھا لیکن جوبن کے قریب قریب پہنچ چکا تھا ۔۔۔یہ دیکھ آنٹی
کھڑی ہو گئیں ۔۔۔ اور پھر میرےلن کوہاتھ میں پکڑتے ہوئے اپنی دونوں ٹانگوں کو ادھر ادھر
ﻧﯽ
کیا اور پھر میرے لن کی نوک کو اپنی پھدی کے دانے کے سامنے کیا اور اور پھر میرے لن
کی نوک کو اپنے دانے پر رگڑنے لگیں ۔۔۔۔ اتنی دیر میں میرا لن اپنے فل جوبن پر آ گیا اور
مستی میں لہرانے لگا ۔۔ یہ دیکھ کر انہوں نے ایک نظر میرے لن کی طرف دیکھا اور پھر
ﺟﯽمیری طرف دیکھ کر بولیں بڑی جلدی کھڑ ا ہو گیا ہے ؟
ٹوپے کو اپنے دانے پر رگڑنے کے کچھ انہوں نے لن کو پکڑ کر اپنے چوت کی موری
پر رکھا اور آہستہ آہستہ اپنے اندر لینے لگیں اُف ان کی چوت اتنی ٹائیٹ تھی کہ میرا لن پھنس
@
پھنس کر ان کی چوت میں اترنے لگا جب میرا سارا لن ان کی ٹائیٹ چوت میں اتر گیا تو وہ
تھوڑا سا آگے جھکیں اور اپنی قمیض کو اوپر اُٹھا لیا اور اپنے پستانوں کو ننگا کر کے بولیں
۔۔۔ میں گھسے مارتی ہوں تم میرے پستان چوسو ۔۔۔ سو میں بستر پر لیٹے لیٹے تھوڑا سا اوپر
کو اُٹھا اور اور ایک ہاتھ ان کی کمر پر رکھا اور اپنا منہ ان کے پستانوں کی طرف لے گیا اور
ﺷﺎه
دیکھا تو ان کے دونوں پستانوں کے نپلز اکڑے کھڑے تھے میں نے ان کے بائیں پستان کو
اپنے منہ میں ڈاال اور اسے چوسنے لگا۔۔۔ دوسری طرف آنٹی میرے لن کو اپنی پھدی میں
لیکر کر تھوڑا اور نیچے ہو گئیں اور مجھ پر اس طرح جھکیں کہ جس سے ان کی بالوں والی
چوت کا موٹا دانہ میرے لن کے اوپری حصہ سے ٹچ ہونے لگا ۔۔۔ اس طرف سے مطمئن ہونے
ﺟﯽ
کے بعد انہوں نے اپنے چوت اور دانے کو میرے جسم سے رگڑنا شروع کر دیا ۔۔۔۔ پہلے ان
کی سپیڈ دھیمی تھی ۔۔۔ پھر تیز ہوئی ۔۔۔۔ اور پھر ان کی سپیڈ اپنی بلندیوں کو چھونے لگیں ۔۔۔
پیچھے سے وہ اپنی ٹائیٹ پھدی میں میرا لن ان آؤٹ کر رہیں تھیں جبکہ آگے سے وہ اپنا دانہ
میرے جسم سے رگڑ رہیں تھیں ۔اور ساتھ ساتھ ان کے منہ سے لزت بھری سسکیوں کا طوفان
بھی نکل رہا تھا ۔۔آہ ہ ہ ۔۔۔ ہوں ۔۔۔اُوں ں ں ں ں۔۔۔۔۔۔۔ ان کے پستان چوسنے کے ساتھ ساتھ مجھے
ان کی ٹائیٹ پھدی کا اس قدر مزہ آ رہا تھا کہ ایک دفعہ ان کا نپل منہ سے نکال کر میں نے ان
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
سے پوچھا کہ۔۔آنٹی جی آپ کی چوت کے ٹشو اتنے ٹائیٹ کیوں ہیں؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ ان کو
ڈھیال کرنے کے لیئے ہی تیرے پاس آئی ہوں ۔۔ پھر انہوں نے اپنے دھکوں کی سپیڈ آہستہ کی
اور خود ہی بولیں ۔۔۔۔ یہ جو تیرے لن کے گرد میری چوت کے ٹشو لپٹے ہوئے ہیں اس کی وجہ
صرف یہ ہے کہ میری پھدی کو تمھارے لن کی بڑی سخت ضرورت ہے اور میں اسی ضرورت
ا
کے ہاتھوں مجبور ہو کر تمھارے پاس آئی ہوں ۔۔۔اس پر میں نے ان سے پوچھا کہ ۔۔۔آنٹی چوت
ﺳﺗﺎ
کے یہ ٹشو کس طرح ڈھیلے ہو ں گے تو وہ ۔۔گھسے مارتے ہوئے کہنے لگیں ۔۔۔۔دیکھتے جاؤ
۔۔۔اور پھر تیز تیز گھسے مارنے لگیں ۔۔
ﻧﯽ
انہی گھسوں کے دوران میں نے دیکھا کہ اچانک ہی آنٹی کا چہرہ الل سرخ ہو گیا تھا اور
ان کی سانس لینے کی رفتار بڑھ گئی تھی ۔۔۔۔اس کے ساتھ ہی ان کے منہ سے سسکیوں کے تعداد
میں اضافہ ہونے لگا اور پھر وہ چالنے لگیں ۔۔۔۔۔اُف۔ ف ف ف۔۔میں۔۔۔۔۔ میری
ﺟﯽ
پھ۔۔پھ۔۔دی۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔آہ ہ ہ ہ۔۔۔۔۔ہ ۔۔۔۔۔ان کے منہ سے الفاظ ٹوٹ ٹوٹ کر نکل رہے تھےاور پھر
رررر۔۔میں نے دیکھا کہ ان کی چوت کی ٹشو میرے لن کے گرد مزید ٹائیٹ ہو نا شروع ہو گئے
اور۔۔ اس کے ساتھ ہی آنٹی نے جم کر گھسے پہ گھسا مارنا شروع کر دیا اور ۔۔۔پھر کچھ ہی
دیر بعد میں نے محسوس کیا کہ ان کی چوت کو دیواروں سے پانی بڑی سپیڈ سے نکل نکل کر
نیچے کو بہنے لگا تھا ۔۔۔۔ اور پانی نکلنے کے ساتھ ہی میرے لن پر آنٹی کی چوت کی گرفت
@
ڈھیلی ہونا شروع ہوگئی۔۔۔ یہاں تک کہ آخری گھسے پر بلکل ہی ختم ہوگئی اور اس کے ساتھ ہی
آنٹی نے اپنی چوت سے میرا لن نکال اور بستر پر سیدھا لیٹ کر لمبے لمبے سانس لینے لگیں۔۔۔۔
میں اُٹھا اور اپنی ایک میلی بنیان سے پہلے تو اپنا لن صاف کیا اور پھر آنٹی کی چوت اندر
تک صاف کر دی۔۔۔ جب میں ان کی چوت کو صاف کر رہا تھا تو اس وقت ان کے سانسوں کی
ﺷﺎه
رفتار کافی دھیمی پڑ چکی تھی ۔۔۔ سانس بحال ہوتے ہی انہوں نے مجھ سے پہلے سوال یہ کیا کہ
کیا تم بھی فارغ ہو گئے ہو تو میں نے نفی میں سر ہال دیا ۔یہ سن کر وہ کہنے لگیں میں ہاتھ سے
فارغ کر دو ں تو میں نے کہا نہیں آنٹی ۔ ایسے ہی ٹھیک ہے یہ سن کر وہ بولی۔۔۔اچھا تو مجھے
شلوار پہنا دو ۔۔۔اور میں نے ان کو شلوار پہنائی تو وہ اُٹھیں اور بولیں ۔۔۔۔ بڑے عرصے بعد
ﺟﯽ
چودائی سے اتنی زبردست خماری چڑھی ہے پھر وہ چلتی ہوئیں امی کے کمرے میں گئیں اور
بولی امی کے آنے تک مجھے سونے دینا ۔۔۔۔اور امی کے بستر پر لیٹتے ہی سو گئیں ۔۔۔۔
آن ٹی کے سوتے ہی میں سیدھا واش روم گھسا اور نہا دھو کر ٹیوشن کے لیئے تیار ہو کر
جیسے ہی میں گھر سے نکلنے لگا امی اور ان کی چند دوست گھر میں داخل ہوئیں اور انہوں نے
ا
رکو میں ابھی آئی ۔۔ اور پھر چند ہی سکینڈ کے بعد ندا میم ہاتھ میں الک لیئے باہر آئیں اور گھر
ﺳﺗﺎ
کو تاال لگا کر بولیں چلو چلیں ۔۔۔۔اور ہم استانی جی کے گھر کی طرف چل پڑے ۔۔راستے میں میں
نے ان سے پوچھا ۔۔۔ شاہینہ میم چلی گئیں؟ تو وہ کہنے لگیں ہاں یار آج صبع ہی وہ لوگ روانہ
ہوئے ہیں ۔۔۔ایسی ہی باتیں کرتے کرتے ہم استانی جی کے گھر پہنچ گئے اور اندر جا کر دیکھا تو
استانی جی سبق پڑھا چکیں تھیں اور اب بچوں کا ہوم ورک چیک کر رہیں تھیں۔۔۔ند ا کو دیکھتے
ﻧﯽ
ہی استانی جی مسکرائیں اور بولیں آج لیٹ ہو ۔۔۔ تو ند ا میم نے میری طرف دیکھ کر کہا ۔۔۔ کیا
کروں یار تم کو تو پتہ ہی ہے کہ ایک جندڑی اور دکھ ہزار ہیں ۔۔ پھر میری طرف دیکھ کر بولیں
یہ تو ٹا ئم پر آ گیا تھا لیکن چونکہ میں تھوڑا بزی تھی اس لیئے کام ختم کرتے کرتے یہ وقت
ﺟﯽ
ہو گیا پھر انہوں نے مجھے اشارہ کیا اور میں جا کر باقی سٹوڈنٹس کے ساتھ ٹھیک اسی جگہ جا
کر بیٹھ گیا کہ جہاں پر کچھ عرصہ قبل میں ناول پڑھتا ہوا ۔۔۔پکڑا گیا تھا۔
ابھی میں بیگ رکھ کرپرانے دوستوں سے سالم دعا ہی کررہا تھا کہ میرے کانوں میں
@
استانی جی کی کرخت آواز گونجی ۔وہ مجھے اپنے پاس بال رہیں تھیں ۔۔۔ میں جلدی سے اُٹھا اور
استانی جی کے پاس چال گیا پہلے تو انہوں نے مجھے بڑا سخت گھور کر دیکھا اور پھر بولیں
سن کی تو تمھاری چمڑی ۔۔۔۔۔ اگر تم نے اس دفعہ بھی کوئی حرکت کی ۔۔یا میں نے کہیں سے ُ
ادھیڑ کر رکھ دوں گی۔۔۔ پھر کہنے لگیں ۔۔۔۔اور میری اس بات کو محض دھمکی ہی نہ سمجھنا ۔۔۔
ﺷﺎه
پھر اس کے بعد انہوں نے مجھے کچھ مزید دوائی دی ۔اور اچھی خاصہ ڈانٹ کے ۔۔ مجھے واپس
جانے کہو کہا اور پھر توھڑی دیر بعد انہوں نے ہوم ورک دیا اور خود ندا میم کے ساتھ باتوں
میں مصروف ہو گئیں ۔۔ یوں استانی جی کے گھر میری روٹین کی پڑھائی شروع ہو گئی اس کے
ساتھ ساتھ میری غیر نصابی سرگرمیاں بھی جاری رہیں لیکن اس وقت میں اپنا زیادہ فوکس استانی
ﺟﯽ
جی پر ہی رکھوں گا ۔۔۔ استانی جی کے ہاں میں نے اپنی ساری توجہ پڑھائی اور صرف پڑھائی
پر پر ر کھی اور اس کام میں میڈم ندا نے میرے ساتھ بڑا تعاون کیا ۔۔۔ اور میری طرف سے
استانی جی کا دل کافی حد تک صاف کیا ۔۔۔جس کا نتیجہ یہ نکال کہ چند ہی دنوں میں استانی جی
کا رویہ میرے ساتھ بلکل نارمل ہو گیا ۔۔ورنہ اس سے قبل تو انو ں نے مجھ پر بڑی ہی کڑی
نگاہ رکھی ہوئی تھی ۔۔
اس کےساتھ ساتھ میڈم ندا کے ساتھ میری سیکس سروس بھی جاری تھی لیکن اتفاق ایسا
تھا کہ کوشش کے باوجود بھی ابھی تک میں ان کو چود نہ سکا تھا ۔۔ ایک دن کی بات ہے کہ
چھٹی کے بعد میں میڈم ندا کے ساتھ ہی ان کے گھر گیا او وقت میڈم نداکو میں نے ربے سے
ا
پاکستانی ایکٹریسوں کی ننگی فوٹوؤں اور جنسی کہانیوں واال رسالہ " چٹان" ال کر دیا ہوا تھا ۔۔
ﺳﺗﺎ
چنانچہ استانی جی کے گھر سے واپسی پر جب میں نے ان سے اس رسالہ کی بابت بات کی
اور کہا کہ میڈم اس کا کرایہ چڑھ گیا ہے۔۔ میری بات سن کر میڈم ایک دم چونک گئی اور بولی
۔ ۔۔اوہ۔۔۔ پہےا یاد دالنا تھا نا یار ۔۔۔۔میں زیبا ۔۔۔۔۔ ابھی ان کے منہ سے زیبا ۔۔۔ ہی نکال تھا کہ
ﻧﯽ
اچانک ان کو اپنی غلطی کا احساس ہو گیا اور وہ ایک دم چپ ہو گئیں اور پھر بات کو بناتے
ہوئے بڑی ہی پریشان نظروں سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔ وہ زیبا کے گھر ہی کہہ
دیتے نا ۔۔۔ ان کے منہ سے زیبا میم کا لفظ سن کر میں کچھ کچھ بات سمجھ گیا لیکن چپ رہا ۔۔۔
ادھر وہ تھوڑا ہکال کر کہہ رہیں تھیں ۔۔۔۔ وہ ۔۔۔وہ رسالہ مجھ سے کل لے لینا ۔اورہاں کرائے کی
ﺟﯽ فکر نہ کیا کرو ۔۔۔۔ اور میں نے سر ہال دیا ۔۔۔
سن کرپہلے تو میں میڈم کے سامنے تو میں ُچپ رہا تھا ۔۔میڈم کے منہ سے زیبا کا نام ُ
@
بڑا حیران ہوا ۔۔۔پھر۔۔ میرے ا ندر ہی اندر ۔۔کھچڑی پکنا شروع ہو گئی تھی ۔۔ ۔۔۔۔ اور میں چپکے
چپکے قیافے لگانے لگا ۔۔۔ لیکن کسی نتیجے پر نہ پہنچا ۔۔لیکن ایک شک میرے زہن میں ۔۔
جگہ بنا چکا تھا ۔۔۔۔ یہ اگلے دن کی بات ہے میں میڈم سے سبق لے رہا تھا کہ وہ زیبا میم کو
کہنے لگیں زیبا میں گھر جا رہی ہوں ۔۔۔ اور پھر جاتے جاتے مجھے ایک خفیہ اشارہ کر گئیں
ﺷﺎه
جس کا مطلب تھا کہ چھٹی کے بعد میں اس کے گھر آؤں ۔۔۔ چنانچہ چھٹی کے بعد میں سیدھا ان
کے گھر جا کر دروازہ کھٹکھٹایا تو اندر سے انہوں نے آواز دی آ جاؤ ۔۔۔دروازہ کھال ہے اور
میں ان کے گھر داخل ہو گیا دیکھا تو سامنے ندا میم صحن میں بیٹھی رات کے کھانے کے
لیئے سبزی وغیرہ چھیل رہیں تھیں جبکہ ان کے کام والی ان کے وہیڑے کو دھو رہیں تھی ۔۔۔
مجھے دیکھ کر میم اپنی جگہ سے اُٹھی اور بولی ایک منٹ بیٹھو میں ابھی آئی اور وہ اندر کمرے
ﺟﯽ
میں چلی گئیں ۔۔۔ اور کچھ دیر بعد واپس آئیں تو اخبار میں لپٹی ہوئی کوئی چیز ان کے ہاتھ میں
تھی اور میں سمجھ گیا کہ یہ ۔۔چٹان ۔۔ رسالہ ہو گا ۔۔ انہوں نے ایک نظر اپنی کام والی پر ڈالی
جو اس وقت تک ان سارا وہیڑہ دھو چکی تھی چنانچہ ا نہوں نے اس کی طرف دیکھا اور
پھر اس سے کہنے لگی ۔۔حمیداں ۔۔ زرا بھاگ کر چھت سے سوکھے کپڑے تو اتار الؤ ۔۔۔ اور
سن کر ہاں میں سر ہالیا اور تھکے تھکے قدموں سے سیڑھیاں حمیداں ماسی نے ان کی بات ُ
ا
رسالے کی بابت پوچھا ۔۔ تو انہوں نے جواب دینے سے پہلے ایک نظر اپنے چھت کی طرف
ﺳﺗﺎ
دیکھا اور بولیں ۔۔۔ رسالہ اچھا ہے کہانیاں بھی کافی گرم ہیں لیکن جو مزہ وہی وہانوی کی کہانیوں
سن کر میں نے ان سے کہا ۔۔۔ کا ہے وہ مزہ مجھے ان کہانیوں میں نہیں مل سکا ان کی بات ُ
آپ ٹھیک کہہ رہی ہو میم ۔۔ وہی وہانوی صاحب کی کہانی کا اپنا ایک الگ ہی مزہ ہے ۔۔۔پھر
میں نے بھی ایک نظر چھت پر دیکھا اور ان کے مموں کو دبا کر بوال ۔۔۔اچھا یہ بتائیں۔۔۔تصویریں
ﻧﯽ
کیسی لگیں تو وہ کہنے لگیں تصویریں ۔۔۔ خاص کر اداکارہ رانی کی ننگی فوٹو نے بڑا مزہ دیا
ہے لیکن ایک بات ہے ان کی تصویروں کی کوئی کوالٹی نہیں ہوتی اور اوپر سے یہ تصویریں
ہوتی بھی بلیک انڈ وہائیٹ ہیں ۔۔۔ اور پھر بڑی حیرت سے کہنے لگیں د یکھو رانی کس قدر بڑی
ﺟﯽ
اداکارہ ہے اور دیکھو وہ کس مزے سے بڑے بڑے ممے نکلے ٹانگیں اُٹھا کر پلنگ پر ننگی
لیٹی ہوئی تھی ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا میڈ م آپ نے ہیرؤئین ناول نہیں پڑھا ؟ اس میں یہی تو
بتایا گیا ہے کہ جب کوئی نئی لڑکی آتی ہے تو اس وقت کے فلم ساز و دیگر فلم سے وابسطہ
لوگ کس طرح اس کو بلیک میل کر کے اس کی پھدی مارتے ہیں اور اس کی تصوریں وغیرہ
@
بھی کھینچ لیتے ہیں ۔۔۔اور جب وہ کوئی بڑی ایکٹریس بن جاتی ہے تو اس کی یہی ننگی تصویر
یں کس قدر مہنگی بکتی ہیں ۔۔
میری بات سن کر ندا میم بولی ہاں مجھے یاد آگیا ۔۔۔ پھر کہنے لگی ۔۔۔ ویسے بھی یار یہ
ﺷﺎه
کون سے شریف گھرانوں کی لڑکیاں ہوتی ہیں ۔۔۔ان میں آدھی ہیرا منڈی اور آدھی چکلے سے آتی
ہیں۔ اس لیئے ان کو کوئی فرق نہیں پڑتا ۔۔ ہاں جب یہ مشہور ہو جاتی ہیں تو پھر معزز بن جاتی
ہیں ۔۔اتنی گرم گفتگو کے بعد میرا لن کھڑا ہو گیا اور انہوں نے باتیں کرتے کرتے جب نیچے کی
طرف دیکھا تو بولی ۔۔ہا ہ ہ ہ ۔۔ اس کو کیا ہوا۔۔؟ تو میں نے کہا میڈم یہ آپ کی سیکسی باتوں سے
ﺟﯽ
سن کر انہوں نے ایک بار پھر ایک نظر چھت پر ڈالی اور پھر میرا کھڑا ہو گیا ہے ۔۔۔ میری بات ُ
لن ہاتھ میں پکڑ کر بولی ۔۔۔۔ تم ٹھیک کہہ رہے ہو۔۔ ان باتوں سے میں بھی نیچے سے بھیگ چکی
سن کر میں نے فورا ً ہاتھ بڑھا کر ان کی پھدی پر رکھا تو وہ
ہوں ۔۔۔ ندا میم کے منہ سے یہ بات ُ
نیچے سے ان کی شلوار کافی گیلی ہو چکی تھی ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے ان کو بازو سے پکڑا اور
اندر لے گیا ۔۔۔ وہ میرے ساتھ چلتے ہوئے بولی ۔۔۔ کیا کر رہے ہو ماسی آ جائے گی ۔۔۔ تو میں نے
کہا بس ایک چمی لینی ہے۔۔۔ اور ویسے بھی ایک آپ کی سست ماسی ۔۔۔ جب تک سیڑھیاں اترے
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
گی تب تک میں آپ کے گورے گال چوم چکا ہوں گا۔۔۔ اسی دوران میڈم کا کمرے آ گیا اور اندر
جاتے ہی میں نے میڈ م کے ساتھ ایک زور دار کس کی اور پھر ان کو کرسی پر بٹھا دیا اور ان
کی ٹانگیں اوپر اُٹھانے لگا تو وہ بولی ۔۔۔ارے ارے۔۔۔۔ تو میں نے کچھ نہیں بس ایک آدھ گھسہ ہی
ماروں گا اور پھر میں نے میڈم کی شلوار کے اوپر سے ہی اپنا لن ا ن کی چوت پر رکھا اور کچھ
ا
دیر رگڑتا رہا اسی دوران شاید میرا تھوڑا سا ٹوپا ان کی چوت میں بھی گیا تھا ۔۔۔۔ابھی میں اپنا
ﺳﺗﺎ
لن ان کی چوت میں تھوڑا اور بھی آگے لے جانا چاہتا تھا کہ میڈم نے مجھے دھکا دیا اور
اُٹھ کر بولی ۔۔۔۔ یور ٹائم از اوور ۔۔۔۔۔۔ماسی کسی وقت بھی آ سکتی ہے میرے ساتھ باہر آ گئی ۔اور
پھر اپنے مموں سے پیسے نکالتے ہوئے بولیں آج ان کو نہیں چوسا ۔۔۔تو میں نے کہا کہ آج آپ
کی پھدی کی باری تھی ۔۔۔ تو وہ ہسے کر کہنے لگی۔۔۔ ۔۔ میری پھدی اتنی سی باری سے خوش
ﻧﯽ
نہیں ہو گی ۔۔تو میں نے کہا ۔۔ پھر لمبا ٹائم نکالیں نا ۔۔۔ تو وہ کہنے لگی ۔۔۔جہاں اتنے دن صبر کیا
سن کر میں نے ہے کچھ دن اورصبر کر لو ۔ میرے زہن میں ایک آئیڈیا آ رہا ہے ۔۔۔۔ ان کی بات ُ
ان کے ہاتھ سے ایک دن زائد رسالہ رکھنے پر کرائے کے پیسے لیئے اور جاتے جاتے ۔۔۔ ان
ﺟﯽ
سے پوچھا اب کون سا رسالہ الؤں؟تو وہ کہنے لگی ۔۔۔۔یار ایک فرمائیش۔۔۔۔پھر وہ ایک دم رکیں
اور پھر بڑے مشکوک انداز میں کہنے لگیں۔۔ میرا مطلب ہے اس دفعہ میری فرمائیش پر تم
انگریزی فوٹوؤں واال رسالہ الؤ ۔۔۔ اور پھر کہنے لگی کوشش کرنا کہ اس میں ایسے فوٹو زیادہ
ہوں کہ جس میں گوری کے ساتھ کاال سیکس کر رہا ہو۔۔۔ اور کاال بھی وہ جس کا ہتھیار ۔۔تم سے
@
بھی یا کم از کم تمھارے جتنا ہو۔۔میں نے ان کی بات سنی رسالہ اپنی شلوار کی ڈب میں لگایا
۔۔اور مزاحیہ انداز میں بوال آپ کا مطلب ہے سفید پھدی میں کاال لن ؟ تو وہ بھی ہنس کر بولی ۔۔۔
ہاں حبشی کا کاال لیکن بڑا لن ۔۔۔۔ اور میں نے سر ہال دیا ۔۔۔۔ ۔۔اور دل ہی دل میں ۔۔۔۔ میم کے
منہ سے نکال لفظ ۔۔۔۔فرمائیش ۔۔۔۔ کے بارے میں اندازے لگاتا ہوا ربے کی دوکان کی طرف چال
ﺷﺎه
ب
گیا۔۔۔۔پھر وہاں سے میڈم کی فرمائیش پر گوری میم اور کالے حبشی واال رسالہ لیا اور حس ِ
معمول سب سے پہلے اس کو خود دیکھا۔۔۔واؤؤؤ ۔۔۔ کیا زبردست رسالہ تھا ۔۔۔ کیا زبردست گوریاں
تھیں ۔۔۔۔ ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت ۔ایک سے بڑھ کر ایک سیکسی ۔۔۔ اور ہاں میڈم
کی فرمائیش کے عین مطابق سب حبشیوؤں کے لن کالے موٹے اور لمبے لمبے تھے ۔اور ان
میں خاص بات یہ تھی کہ رسالے میں زیادہ تر تصویریں گانڈ مارنے کی تھیں ۔۔۔ رسالہ دیکھ
ﺟﯽ
کر میں اتنا گرم ہو گیا کہ ۔میں رسالہ ہاتھ مین پکڑے سیدھا ۔۔ واش روم میں گیا اور اپنے پسند کا
فوٹو سامنے رکھ کر ُمٹھ ماری اور پھر ٹھنڈا ہو کر رسالہ ڈب میں لگایا اور میڈ م ندا کے گھر
چال گیا ۔۔۔اسی وقت میڈم کا بیٹا دکان سے چھٹی کر کے گھر آیا تھا ۔۔۔ لیکن اس ٹائم وہ نہانے کے
لیئے واش روم تھا ۔۔۔۔ اس لیئے نے جلد ی سے وہ رسالہ میڈم کے حوالے کیا اور واپس گھر آ
گیا۔۔۔
ب معمول میں استانی جی کے گھر پہنچا تو ان کے پاس دوسرے محلے اگلے دن میں حس ِ
کی کچھ عورتیں بیٹھیں ہوئی تھیں۔۔ جن کی وجہ سے وہ ۔۔۔ ان اجنبی عورتوں سے گپ شپ کرتے
ہوئے ساتھ ساتھ ہم کو بھی ڈیل کر رہی تھیں ۔۔۔ جیسے ۔۔۔ زیادہ شور نہ کرو بچوں ۔۔۔ اوئے فالنے
ا
۔۔۔۔ آرام سے بیٹھ۔۔۔ اور ۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ندا میم سے کہا کہ ندا تم زرا بچوں کا ہوم
ﺳﺗﺎ
سن کر میڈم سب بچوں کو باری باری بال کر ان کے ہوم ورک چیک کر لو۔۔۔ زیبا میم کی بات ُ
ورک وغیرہ چیک کرنے لگیں ۔۔اپنی باری آنے پر میں نے اپنا بیگ اٹھایا اور ندا میم کے پاس
پہنچ گیا ۔۔ اس وقت وہ کسی دوسرے سٹوڈنٹ کی کاپی چیک کر کے اس پر کچھ لکھ رہی تھیں
ﻧﯽ
اس لیئے جیسے ہی میں ان کے پاس پہنچا تو وہ کاپی پر لکھتے ہوئے بولیں کل کے ہوم ورک
والی کاپی نکلو ۔۔ مطلوبہ کاپی میں نے پہلے سے ہی نکال کر اپنے ہاتھ میں پکڑی ہوئی تھی اس
لیئے جیسے ہی انہوں نے کہا کہ کل والے کام کی کاپی نکالو تو میں نے جھٹ سے اپنی کاپی ان
کے حوالے کر دی ۔۔۔ اس وقت وہ اس سٹوڈنٹ کی کاپی پر ستخط کر رہیں تھیں ۔۔۔ جیسے ہی میرا
ﺟﯽ
ہاتھ آگے تو وہ دستخط کرتے ہوئے تھوڑی ناگواری سے بولیں ۔۔۔ ایک منٹ رک نہیں سکتے
اور پھر غصے سے میری طرف دیکھا اور جب ان کی نظر میرے چہرے پر گئی تو وہ ایک دم
مسکرا کر بولی۔۔۔۔ اوہ۔۔۔۔ یہ تم ہو۔۔۔ اور میرے ہاتھ سے کاپی لے لی ۔۔۔ اور اسے چیک کرنے
لگی۔۔۔اسی دوران میں نے ویسےہی ان سے پوچھ لیا ۔۔ میڈم رسالہ کیسا تھا ؟؟ کاپی چیک کرتے
@
کرتے انہوں نے ایک دم میری طرف دیکھا اور بڑی دھیمی آواز میں بولیں ۔۔۔ رسالہ تو پورا
غضب ہےیار ۔۔۔ اتنی مست تصویریں ۔۔۔یہ کہہ کر انہوں نے اپنی کہنی اوپر کی اور میرے لن پر
سن کر لگا کر بولیں ۔۔۔ بعض حبشیو ں کے لن تو تمھارے اس سے بھی بڑے ہیں ۔۔۔ ان کی بات ُ
میں نے ایک نظر پیچھے دیکھا تو استانی جی ان عورتوں کے ساتھ باتوں میں مصروف نظر آئی
ﺷﺎه
۔۔چنانچہ ادھر سے مطمئن ہو کر میں تھوڑا آگے کھسکا اور اپنا لن ندا میم کی کے کندھے سے
لگا لیا۔۔۔ کاپی چیک کرتے ہوئے انہوں نے ایک نظر مجھے دیکھا اور پھر پہلو بدل کر میرے لن
کے ساتھ اپنا کندھے کے ساتھ مزید جوڑ لیا اور اس کے ساتھ ہی میرا لن کھڑا ہو گیا اور میڈم کے
کندھے پر رگڑ کھانے لگا۔۔۔ میرے لن کی رگڑ سے میڈم بھی گرم ہو گئی اور مزید میرے لن کے
ساتھ چپکتے ہوئے بڑے دھیمے مگر ۔۔شہوت بھرے لہجے میں کہنے لگیں۔۔۔تمھارےلن کی رگڑ
ﺟﯽ
۔۔۔ میری پیاس میں مزید اضافہ کر رہی ہے اور پھر انہوں نے اپنا ہاتھ ایسا اوپر کیا جیسے کہ وہ
اپنی کمر کو کھجانے لگیں ہوں ۔۔۔اور پھر کمر کجھاتے کھجاتے انہوں نے ایک سیکنڈ کے لیئے
میرا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور دبا کر بولیں۔۔۔ مجھے یہ لن چاہیئے۔۔۔
ا
نے ویسا ہی کیا اور مجھے کاپی پکڑا کر وہ ایک دم کھڑی ہو گئی اور میں نے پھرتی کے
ﺳﺗﺎ
ساتھکاپی کو اپنے لن کے آگے رکھا اور جا کر اپنی سیٹ پر بیٹھ گیا ۔۔۔۔۔
ﻧﯽ
اگلے دن ویک اینڈ تھا۔۔۔۔ میں جب میڈم زیبا کے گھر پہنچا تو وہاں کوئی اور ہی ماحول تھا
جس جگہ بیٹھ کر ہم پڑھا کرتے تھے وہ جگہ بڑی سجی ہوئی تھی اور میں آنکھیں پھاڑے یہ
ﺟﯽ
سارے منظر دیکھ رہا تھا اور مجھے یقین ہی نہیں آ رہا تھا کہ یہ میڈم زیبا کا ہی گھر ہے ۔۔۔
چنانچہ میں نے پہلے سے کھڑے ایک سٹوڈنٹ سے پوچھا کہ یار آج کیا چکر ہے ؟ پڑھائی نہیں
ہو گی کیا ؟ تو وہ کہنے لگا تمہیں نہیں پتہ؟ تو میں نے کہا ۔۔۔ واقع ہی مجھے نہیں معلوم ۔۔ بتاؤ
چکر کیا ہے تو وہ کہنے لگا ۔۔ کہ پہلی خوش خبری تو یہ ہے کہ آج کوئی پڑھائی نہیں ہو گی
@
اور دوسری خوشخبری یہ ہے کہ آج میڈم کے بیٹے کامران کی سالگرہ ہےاس لیئے ہال گال ہو
گا۔۔ اتنے میں مجھے ندا میم نظر ائیں اس وقت انہوں نے ایک خاصہ زرق برق لباس پہنا ہوا تھا
اور بڑی اچھی لگ رہیں تھیں۔۔۔ میں سیدھا ان کے پاس گیا اور بوال ۔۔ یہ کیا چکر ہے میڈم ؟ تو
حیرت سے مجھے دیکھتے ہوئے بولیں ۔۔۔اوہ۔۔۔ تم کو نہیں معلوم ؟ تو میں نے کہا نہیں اور کسی
ﺷﺎه
نے بتایا بھی نہیں ۔۔۔تو وہ کہنے لگیں کل بتایا تو تھا ۔۔۔ تو میں نے کہا کس وقت بتایا تھا؟ تو وہ
کہنے لگیں۔۔۔ چھٹی کے وقت ۔۔۔ پھر وہ بولیں اوہ اچھا اچھا مجھے یاد آیا کل تم جلدی چلے گئے
تھے پھر کہنے لگیں بات یہ ہے کہ آج تمھاری استانی کے سب سے چھوٹے بیٹے کی اٹھارویں
سالگرہ ہے تو میں نے تھوڑی حیرانگی سے کہا کون سے بیٹےکی تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ کامی یار
۔۔۔کامران ۔۔جو ایبٹ آباد میں پڑھتا ہے ۔۔۔ پھر دھیرے سے مسکرا کر کہنے لگیں ۔۔ سیکس کی
ﺟﯽ
دینا سے باہر جھانک دیکھو تو تم کو باقی دنیا کی کچھ خبر ہو۔۔۔ اور اس کےساتھ ہی وہ آگے بڑھ
گئی۔۔
ا
میں داخل ہوئیں ان کے سارے سٹوڈنٹس جو کہ باتوں میں مصروف تھے میڈم کو دیکھ کر ایک
ﺳﺗﺎ
دم خاموش ہو گئے اور کمرے میں خاموشی چھا گئی۔۔۔ اور سب سٹوڈنٹس میڈم کو سہمی ہوئی
نظروں سے دیکھنے لگے۔۔۔ یہ دیکھ کر ندا میڈم آگے بڑھیں اور ہم سے مخاطب ہو کر بولیں ۔۔۔
چونکہ آج کوئی پڑھائی نہیں ہوگی اس لیئے آپ جیسے چاہیں بیٹھیں اور جتنی چاہیں ۔۔۔۔ باتیں
سن کر میرے سمیت سب سٹوڈنٹس نے زیبا کریں ۔۔۔آپ کو کچھ نہیں کہا جائے گا ۔۔۔ ان کی بات ُ
ﻧﯽ
میم کی طرف دیکھا اور سہم کر سر جھکا لیا۔۔۔۔۔ یہ دیکھ کر کامران نے زیبا میم کی طرف دیکھا
اور بوال ۔۔۔واؤؤؤؤ ۔۔ مام ۔۔آپ کا تو بڑا ٹہکا ہے ۔۔۔ جبکہ دوسری طرف میڈم ندا نے زیبا میم کے
کان میں کچھ کہا اور پھر زیبا میم آگے بڑ ھیں اور ہم سے مخاطب ہو کر کہنے لگیں ۔۔۔ جیسا کہ
ﺟﯽ
آپ کو ندا نے بتایا ہے کہ آج آپ لوگوں کی کوئی پڑھائی نہیں ہو گی پھر کہنے لگی ۔۔۔ پیارے
بچو۔۔آپ مجھے کامران کی طرح عزیز ہو اس لیئے ۔ مجھ سے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں
۔۔میری سختی صرف پڑھائی کے وقت ہوتی ہے اور آج چونکہ پڑھائی نہیں ہو گی اس لیئے آپ
پر کوئی پابندی نہیں ہو گی اس طرح میڈم نے ہمیں کافی تسلیاں دیں لیکن۔۔ پھر بھی ہم پر ان کا
@
ُرعب کم نہ ہوا ۔۔۔ اور ہم لوگ ویسے ہی کھڑے رہے ۔۔ یہ دیکھ کر ندا میم آگے بڑھی اور بولی
۔۔۔بچو۔۔ خوشی کا موقعہ ہے کون بچہ گانا سنائے گا؟ ۔۔۔ اور ہماری طرف دیکھنے لگیں۔۔۔ پھر
انہوں نے ایک دفعہ اور زیبا میم کے کان میں کوئی سرگوشی کی اور کہنے لگیں ۔۔۔ ابھی ڈیک
ب معمول۔۔۔ ہماری پر گانا لگے گا آپ میں سے کوئی ہے جو اس گانے پر ڈانس کرے گا؟؟؟ ۔۔ حس ِ
ﺷﺎه
طرف سے خاموشی دیکھ کر وہ کہنے گلیں ۔۔اوکے آپ ڈانس نہیں کرتے تو کوئی بات نہیں ۔۔ میں
اور زیبا میم ڈانس کریں گی۔۔۔ اس کے ساتھ ہی انہوں نے ڈیک پر ایک ڈسکو گانا پلے کیا۔۔۔۔۔اور
وہ پھر ایک دوسرے کی باہنوں میں باہیں ڈال کر وہ دونوں ڈانس کے نام پر اپنی اپنی گانڈیں ہالنے
لگیں ۔۔۔
ﺟﯽ
حقیقت میں ان دونوں کو ہی ڈانس کرنا نہیں آتا تھا لیکن میرا خیال ہے کہ وہ یہ سب کچھ
صرف اور صرف ہمارا ڈر دور کرنے کے لیئے کر رہیئں تھیں ۔۔ ڈانس کرتے کرتے ندا میم
نے ڈیک کی آواز آہستہ کر کے ہمیں مخاطب کیا اور بولیں ۔۔۔ ہاں جی آپ میں سے کوئی ہے جو
ہمارے ساتھ مل کر ڈانس کرے ۔۔ اور جب کسی نے بھی ہامی نہیں بھری تو انہوں نے میری طرف
دیکھا اور بولیں ۔۔۔اوئے ۔۔۔شاہ۔۔۔ تم ادھر میرے پاس آؤ۔۔۔ان کی آواز سن کر پہلے تو میں نےادھر
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
ادھر دیکھا اور پھر دوبارہ ان کے بالنے پر ان کے پاس پہنچ گیا ۔۔۔ اس کے بعد وہ ڈیک کی
طرف گئیں اور وہی گانا پیچھے کر کے اس کی آواز خاصی اونچی کی اور پھر میرا ہاتھ پکڑ
کر ڈانس کرنے لگیں ۔۔۔۔۔ پہلے تو میں تھوڑا گھبرایا۔۔۔ لیکن ڈانس کرتے کرتےجب انہوں نے جان
بوجھ کر بڑے طریقے سے اپنی رانوں کو میرے لن کے ساتھ رگڑا ۔۔۔تو مجھے بھی جوش آ گیا
ا
اور میں بھی اُلٹا سیدھا ہو کران کے ساتھ ڈانس کرنے لگا اور کوشش کرتا کہ کسی طرح میرا لن
ﺳﺗﺎ
ان کے ساتھ ٹچ ہو تا رہے۔۔۔
پھر ڈانس کرتے کرتے انہوں نے کامران کا ہاتھ پکڑا اور اس کے ساتھ اچھل کود کرنے
ﻧﯽ
لگیں ۔۔یہ دیکھ کر کامران بوال ۔۔ایسے نہیں آنٹی آپ میرے ساتھ پارٹنر /کپل ڈانس کرو ۔ اس کی
سن کر میڈم نے سر ہال یا ۔۔۔ اور پھر بال تکلف کامران کے گلے لگ گئیں اور اس کے بات ُ
ساتھ چمٹ کر ڈانس کرنے لگیں ۔۔۔میڈم کے برعکس کامران اچھا ڈانس کر لیتا تھا ۔۔ چنانچہ اس
ﺟﯽ
نے ندا میم کو اپنے گلے سے لگایا اور پارٹنر ڈانس کرنے لگا ۔۔۔ میڈم نے بھی گرم جوشی سے
اسے اپنے گلے سے لگاتے ہوئے میری طرف بڑھیں اور میرا ہاتھ پکڑ کے زیبا میم کے پاس
لے گئیں ۔۔۔۔ اور اونچی آواز میں کہنے لگی ۔۔۔زیبا تم اس کے ساتھ پارٹنر ڈانس کرو۔۔۔اور اس
کے ساتھ ہی انہوں نے باقی سٹوڈنٹس کی طرف منہ کیا اور اونچی آواز میں بولیں ۔۔۔ کہ جس کو
جس طرح کا ڈانس آتا ہے کرو ۔۔۔۔اور گانے کا والیم مزید تیز کر دیا۔۔۔
@
ان کی آواز سن کر سارے ہی بچے آگے بڑھے اور جس کو جیسا ڈانس آتا تھا کرنے لگا
۔۔۔۔ ادھر میرے سامنے زیبا میم کھڑیں تھیں ۔۔۔ میں نے ڈرتے ڈرتے ان کی طرف دیکھا تو وہ
ﺷﺎه
خود آگے بڑھیں اور میری کمر میں ہاتھ ڈال کر کہنے لگیں ۔۔۔ آج کے دن مت ڈرو۔۔۔ اور مجھے
اپنے ساتھ لگا کر ایسے ہی سٹیپ کرنے لگیں ۔۔۔ جبکہ میری طرح ان کی نظریں بھی کامران کی
طرف تھیں ۔۔۔جو اب ندا میم کے ساتھ چپکا ہوا تھا ۔۔۔اور اس کی پینٹ کا لن واال حصہ ۔۔خاصا
سوجا ہوا تھا۔۔۔اور وہ اپنی پینٹ کا وہی حصہ ندا میم کے ساتھ رگڑ رہا تھا ۔۔۔ اور ندا میم ۔بجائے
اسے منع کرنے کے خود آگے بڑھ بڑھ کر اپنی رانوں کو اس کے لن کے ساتھ بار بار ٹچ کر
ﺟﯽ
رہیں تھیں۔۔ یہ دیکھ کر مجھے تو بڑی ہوشیاری آ گئی اور میں نے ان کی طرف دیکھتے
ہوئے۔۔۔زیبا میم کو اپنی طرف کھینچ لیا اور ان کےساتھ چپک گیا ۔۔۔۔
ا
۔۔۔ لیکن زیبا میم کے آنے سے ڈر کے مارے وہ ایک دم بیٹھ گیا تھا ۔۔۔ لیکن ندا میم اور کامران
ﺳﺗﺎ
کا یہ نظارہ کم از کم مجھے بڑا گرم کر گیا تھا ۔۔ اور میرے سر پر منی سورار ہونے لگی ۔۔۔لیکن
پھر بھی میں نے احتیاط سے کام لیتے ہوئے اور تھوڑی سی ہمت کی ۔۔۔۔۔ اور ڈرتے ڈرتے ۔۔
زیبا میم کی موٹی ران پر ۔۔۔اپنا نیم کھڑے ہوئے لن کو ۔ ہلکا سا ٹچ کیا ۔۔اُف ۔۔زیبا میم کی ران
بڑی ہی نرم تھی اور میرا ۔۔ نیم کھڑا لن ان کی لچکیلی اور ریشمی ران سے ٹکرا کر کچھ
ﻧﯽ
مزید ۔۔۔اکڑ گیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میں نے فورا ً دوسری طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ایسے ڈانس کرنے لگا ۔۔۔ کہ
جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو ۔۔۔ اور کچھ ہی دیر بعد زیبا میم کا ر ِد عمل دیکھنے کے لیئے ڈرتے
ڈرتے زیبا میم کی طرف دیکھا تو ان کا دھیان ابھی تک ندا اور کامران کی طرف ہی تھا جو اب
ﺟﯽ
کپل ڈانس کم اورہاٹ ڈانس زیادہ بن چکا تھا۔۔۔۔ کیونکہ کامران سب کچھ چھوڑ کر اب صرف اپنا
لن میڈم کی رانوں سے مسلسل رگڑ رہا تھا۔۔ جبکہ ندا میم اپنی آنکھیں بند کئے اس کے لن کی
رگڑ کا مزہ لے رہیں تھیں۔۔۔۔۔ ادھر زیبا میم کی نظریں انہی کی طرف مرکوز تھیں ۔۔۔ اور اپنے
بیٹے کی یہ حرکت دیکھ کرجزبات سے ان کا چہرہ الل ہو رہا تھا ۔۔
@
بات یہ تھی کہ زیبا میم کی رانوں نے مجھے بڑا مزہ دیا تھا اور میرا لن بار بار ان سے
ٹچ ہونے کی ضد کر رہا تھا ۔۔۔ آخر میں نے لن صاحب کی بات سنی اور ۔۔ ایک دفعہ پھر ڈرتے
ڈرتے اپنے لن کو استانی جی کی رانوں کے ساتھ ٹچ کر دیا۔۔۔ لیکن پہلے والے ٹچ اور اس دفعہ
ﺷﺎه
کے ٹچ میں یہ فرق تھا ۔۔۔۔ کہ پہلے جب میں نے اپنا لن ان کی ریشمی ران کے ساتھ لگایا تھا تو
اس وقت میرا لن نیم کھڑا تھا ۔۔۔ جبکہ دوسری دفعہ جب میں نے اس کے ساتھ اپنا لن رگڑا تھا
تو اس وقت میرا لن لوہے کی طرح سخت اور کھمبے کی طرح اکڑا ہوا تھا چنانچہ میرے لن کی
رگڑ لگتے ہی وہ ایک دم اچھلی اور میری طرف دیکھنے لگیں ۔۔۔ جبکہ میں تو ندا کامران کی
ﺟﯽ
طرف دیکھ رہا تھا انہوں نے چند سیکنڈ تک میرے چہرے کو بغور دیکھا اور انہوں نے نیچے
نظر کی جہاں پر میرا لن فل جوبن میں اکڑا کھڑا تھا۔۔۔۔پھر میری طرف دیکھا تو میں سامنے ندا
اور کامران کو دیکھ رہا تھا ۔۔۔ یہ دیکھ کر وہ کچھ نہ بولیں ۔۔۔۔ اور میری طرح وہ بھی ندا اور
کامرا ن کو دیکھنے لگیں۔۔۔۔ ادھر میرا لن ایک بار پھر ندا میم کی موٹی ران پر ٹچ کا تقاضہ کر
رہا تھا۔۔۔ پہلے تو میں نے اپنی اس خواہش کو روکے رکھا پھر ۔۔۔۔ مجبور ہو گیا ۔۔اور ایک نظر
اپنی استانی جی کی طرف دیکھا ۔۔۔۔۔ اس دفعہ وہ کسی اور طرف دیکھ رہیں تھیں۔۔۔ چنانچہ میں
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
نے ایک جزباتی سا سٹیپ لیا اور اپنا لن ۔۔۔۔۔۔کو ان کی طرف لے گیا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ لیکن یہ کیا۔۔۔۔ سٹیپ
لینے سےمیرا اور استانی جی کا زاویہ بگڑ گیا تھا ۔۔۔ اور میرا لن جو ان کی ران سے ٹکرانا
چاہئے تھا ۔۔۔ سیدھا جا کر ان کی پھدی کی لکیر سے جا ٹکرایا ۔رانوں کی طرح ان کی چوت بھی
کافی ابھری ہوئی تھی اور میرا خیال ہے وہ ندا میم کا سیکس سین دیکھ کر ۔۔۔ شاید ۔۔ شاید ۔۔۔ان
ا
کی پھدی سے کچھ ۔کچھ ۔۔۔ اخراج بھی ہو رہا تھا ۔ کیونکہ میرے لن کو ان کی چوت پر کچھ
ﺳﺗﺎ
ہلکا سا گیال پن محسوس ہوا تھا ۔۔ ادھر میرے لن کو اپنی پھدی کی دراڑ پر محسوس کرتے ہی
استانی جی ایک دم اچھلی ۔۔ اور میری طرف دیکھنے لگیں ۔ اور میں نے گھبرا کر ادھر ادھر
دیکھا تو سب اپنے اپنے ڈانس میں مگن تھے۔۔اس لیئے کسی نے بھی استانی جی کے اچھلنے
کا کوئی نوٹس نہ لیا ۔اس لیئے میں ایک بار پھر دوسری طرف دیکھنے کا ناٹک کیا ۔۔۔۔ ان کے
ﻧﯽ
اچھلنے سے ان پر میری گرفت کچھ ڈھیلی پڑ گئی تھی ۔۔ لیکن میں نے کوئی پرواہ نہ کی۔۔۔
ادھر وہ میری طرف دیکھ کر وہ اپنے پتلے پتلے ہونٹ چبا رہیں تھیں۔۔۔۔ اور ان کو سمجھ میں
نہیں آ رہا تھا کہ وہ میری حرکت کا کیا ر ِد عمل دے ۔۔۔ ۔۔۔۔
ﺟﯽ
انہوں نے آخری دفعہ مجھے دیکھا اور پھر نارمل ہو کر آگے بڑ ھیں اور ڈیک کی آواز آہستہ
کر اونچی آواز میں کہنے لگیں۔۔۔ تھینک یو بچو۔۔۔ آؤ اب کیک کاٹیں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی ۔۔۔
انہوں نے ڈیک بند کر دیا۔۔۔ ڈیک کی آواز بند ہوتے ہی۔۔۔۔ سب کا ڈانس ُرک گیا ۔۔۔اور اس کے ساتھ
ہی استانی جی کا جو ُرعب ہم سٹوڈنٹس پر تھا وہ بھی اس ڈیک کے ساتھ ہی ُرخصت ہو گیا۔۔ اس
@
کے بعد ہم نے کیک کھایا اور ۔۔۔ کامران کو مبارک باد دیکر اپنے اپنے گھر آ گئے ۔۔
چھٹی سے اگلے دن میں جب پڑھنے کے لیئے ان کے گھر گیا تو آج مجھے واضع طور پر
ﺷﺎه
استانی جی کے رویے میں تبدیلی محسوس ہوئی ۔۔۔ آج نہ صرف ان کا موڈ خاصہ خوش گوار تھا
۔۔ بلکہ وہ اپنے سٹوڈنٹس کا بڑے ہی فرینڈلی ماحول میں کام چیک کر رہیں تھیں۔۔ اپنی باری
آنے پر میں استانی جی کے پاس گیا اور کاپی ان کو پیش کر کے خود خاموش کھڑا ہو گیا۔۔۔۔۔ وہ
کاپی دیکھتے ہوئے پہلے تو انہوں نے میرا حال چال پوچھا ۔۔ پھر کہنے لگیں کیسے جا رہی
ہے تمھاری پڑھائی؟۔۔ تو میں نے کا ٹھیک ہے میم ۔۔۔ تو پھر وہ بولیں ۔۔۔۔۔۔۔ پرسو ں میں نے کیا
ﺟﯽ
کام دیا تھا ۔۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ میم پرسوں آپ نے نہیں ندا میم نے کام دیا تھا ۔۔۔ میری
بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔ہاں یاد آیا پرسوں تم ان کے ساتھ خاصے چپکے کھڑے تھے۔۔۔ تو میں
نے کہا وہ میں میں ان سے ایک سوال سمجھ رہا تھا اور پھر شرارت سے ان کے ساتھ لگ
گیا اور جھک کر بوال میڈم میں ندا میم سے یہ واال سوال سمجھ رہا تھا ۔۔اور اس کے ساتھ ہی
غیر ارادی طور پر میرا ُمرجھایا ہوا لن استانی جی کے کندھے کے ساتھ ٹچ ہو گیا ۔۔۔ اپنے کندھے
ا
بھی کچھ نہ کہا۔۔۔ اس بات نے مجھے کچھ سوچنے پر ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔مجبور کر دیا ۔۔۔۔۔ اور میری ہال
ﺳﺗﺎ
شیری میں ۔کچھ ۔۔۔ اضافہ ہو گیا ۔۔۔ اور میں خواہ مخواہ ۔۔۔۔۔ کچھ سوچنے پر مجبور ہو گیا ۔۔۔۔
اور کاپی کو واپس لیتے ہوئے ایک دفعہ پھر میں نے کچھ احتیاط کے ساتھ اپنا لن ان کے ساتھ
ٹچ کیا اور واپس اپنی جگہ پر بیٹھ گیا۔۔۔۔
ﻧﯽ
ب معمول میں نے اپنا لناسی طرح اگلے دن کی بات ہے کہ کاپی چیک کرواتے ہوئے حس ِ
ایک بار پھر میڈم کے کندھے سے لگایا ۔۔۔ اور پھر دو تین دن تک یہی حرکت کرتا رہا ۔۔۔ میڈم
ﺟﯽ
نے سب جانتے ہوئے بھی نہ تو مجھے کچھ کہا اور نہ ہی انہوں نے ۔اپنا کوئی ر ِد عمل شو
کیا۔۔۔
ایک دن کی بات ہے کہ کاپی چیک کرواتے ہوئے پتہ نہیں کیوں میرا لن کھڑا ہو گیا تھا میں نے
کافی سانس اندر کو کھینچ کر اپنا لن بٹھانے کی کوشش کی لیکن ۔۔۔۔۔۔ لن صاحب نہ بیٹھے ۔۔۔ اور
@
اب میرا دل کر رہا تھا کہ میں استانی جی کے ساتھ اپنا لن ٹچ کروں ۔۔۔۔ کیونکہ استانی جی کا
جسم بڑا ہی نرم اور دلکش تھا ۔۔۔ پھر میں نے اپنے آپ کو سمجھایا کہ ۔۔ نیم کھڑے لن کی اور
بات ہے ۔۔۔۔ میڈم کو اتنے شک نہیں ہوتا لیکن کھڑا لن ۔۔۔تو صاف صاف اس بات کی گواہی ہے
کہ استانی جی میں آپ پر سخت گرم ہوں اور اس وقت ۔اتنا ٹائم بھی نہیں تھا کہ میں لن کو اپنے
ﺷﺎه
نیفے میں اڑس لیتا ۔۔۔۔ اس لیئے میں نے لن کو اپنی رانوں کے بیچ کیا اور دونوں رانوں کو مال
کر استانی جی سی تھوڑا دور ہٹ کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔ کاپی چیک کرتے کرتے استانی جی نے
ایک دو دفعہ میری طرف دیکھا بھی ۔۔۔۔ جو میرے خیال میں اس بات کا اشارہ تھا کہ لن کو میرے
کندھوں سے لگاؤ بھی۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔ بولی کچھ نہیں ۔۔۔ اور پھر اچانک اس نے انگڑائی لینے کے
انداز میں اپنے ہاتھ اوپر کئے کہ کسی طرح میرے لن کو چیک کر سکے لیکن بات نہیں بنی۔۔۔۔پھر
ﺟﯽ
اچانک وہ میری طرف دیکھ بولی ۔۔۔۔ ارے تم ایسے کیوں کھڑے ہو ۔۔؟ تو میں نے ویسے ہی کہہ
دیا ۔۔۔ وہ میڈم مجھے بڑا سخت پیشاب آیا ہے ۔۔۔تو وہ میری طرف دیکھ کر بولی ارے پاگل پیشاب
آیا ہے تو جلدی سے جا کر لو ۔۔۔ کہ پیشاب کو نہیں روکتے کیونکہ پیشاب کو روکنے سے گردے
میں پتھری ہو جاتی ہے ۔۔۔۔اور کاپی کو سائیڈ پر رکھ کر بولی ۔۔۔ یہ تمھارے آنے پر چیک کروں
سن کر میں ان کے واش روم میں چال گیا ۔۔۔اور کچھ نہ کچھ گی ۔۔اب تم جاؤ۔۔۔ میڈم کی بات ُ
ا
کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔ یہ دیکھ کر میڈم بولی ۔۔۔ نزدیک ہو کر دیکھو ۔۔۔ اس بچے کی کتنی اچھی لکھائی
ﺳﺗﺎ
سن کر ان کے نزدیک ہے۔۔۔ تم کو ایسے لکھتے ہوئے موت پڑتی ہے اور میں استانی جی کی بات ُ
کھڑا ہو گیا اور ۔۔۔ پھوڑی دیر بعد میرا ۔۔۔ اور نزدیک ہو گیا۔۔۔۔ اور پھر کھسکتا کھسکتا ۔۔۔ استانی
جی کے ساتھ لگ گیا ۔۔۔۔ جیسے ہی میں استانی جی کے ساتھ لگا ۔۔انہوں نے ایک نظر میری طرف
دیکھا ۔۔ دیکھو ۔۔ کتنی اچھی لکھائی ہے۔۔۔۔ اور میں وہ لکھائی دیکھنے کے بہانے اور قریب ہوا
ﻧﯽ
گیا یہا ں تک کہ میرے لن نے میڈم کے کندھے کو ٹچ کر لیا ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔
ﺟﯽ
میڈم نے جب اس لڑکے کی کاپی چیک کر لی ۔۔۔ تو میرا خیال تھا کہ اب وہ میری کاپی
چیک کرے گی لیکن انہون نے ایسا نہ کیا اور ۔۔۔۔۔ ایک اور لڑکی کو بال لیا ۔۔۔ جب میں نے ان کو
یاد دالیا کہ میڈم میری کاپی۔۔۔ تو اس وقت میڈم پتہ نہیں کس موڈ میں تھی کہنے لگی۔۔۔ ُچپ کر
@
کے کھڑے رہو ان ان بچوں کی لکھائی دیکھ کر شرم کرو۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی اس نے اپنا سر
کھجانے کے بہانے ۔۔۔۔ میرے لن پر اپنی کہنے رکھ دی اور لن کو تھوڑا سا رگڑ دیا۔۔۔۔۔اتاے
واضع اشارہ دیکھ کر میں تو پاگل ہو گیا اور ایک دم سے میرے لن میں شہوت بھرنے لگی ۔۔۔۔
چنانچہ میں استانی جی کے پاس اس زاویہ سے کھڑا ہو گیا کہ جب بھی وہ ستخط کرنے یا کسی
ﺷﺎه
بھی وجہ سے اپنی کہنی کو حرکت دیتی تو ان کی کہنی میرے لن پر ضرور پڑتی ۔۔۔۔ استانی
جی نے میری یہ حرکت بھی اچھی سے نوٹ کی لیکن کچھ نہ بولی ۔۔۔ بلکہ بعض دفعہ تو وہ اپنی
کہنی کو غیر ضروری طور پر حرکت دے کر میرے لن سے چھیڑ خانی کرتی تھی ۔۔۔ جس کا
نیتجہ یہ نکال کہ آہستہ آہستہ میرا لن کھڑا ہونا شروع ہو گیا۔۔۔۔اور پھر ہوتے ہوتے ۔۔۔ اکڑ گیا ۔۔۔
اور پھر جب پہلی دفعہ میرا اکڑا ہوا لن ان کی کہنی پر لگا تو وہ ایک دم چونک کر میری طرف
ﺟﯽ
دیکھنے لگیں اور پھر ذُومعنی الفاظ میں بولیں ۔۔۔ کچھ سمجھ رہے ہو ناالئق ۔۔۔ ایسے لکھا کرو۔۔
ا
پہلے میں نے یہ حرکت ندا میم کے ساتھ کی تھی ۔۔۔ جب وہ سنگار میز پر بیٹھی تھیں تو میں نے
ﺳﺗﺎ
ان کی بغل میں اپنا لن دیا تھا ۔۔۔ جس کا خاطر خواہ فائدہ ہوا تھا ۔۔اور اس کے بعد وہ مجھ سےکھل
گئیں تھیں۔۔۔ اب دیکھنا یہ تھا کہ استانی جی کا کیا ردِعمل ہوتا ہے ۔۔۔۔
ﻧﯽ
جیسے ہی میرا لن ان کی گرم بغل میں گیا ۔۔ و ہ ایک دم چونک گئیں اور کاپی اُٹھا کر بظاہر
اسے چیک کرتے ہوئے مجھ سے بولیں ۔۔۔ یہ ۔۔یہ ۔۔۔ کیا حرکت ہے۔ اور میں نے دیکھا کہ مجھ
ﺟﯽ
سے بات کرتے ہوئے۔ان کے پتلے پتلے ہونٹ کپکپا رہے تھے اور ۔۔ان کا چہرہ خاصہ الل ہو
سن کر میں نے آگے جھکتے ہوئے کہا ۔۔۔ کچھ نہیں میم ۔۔۔ میں تو ۔۔۔بس۔۔۔ ۔۔ گیا تھا۔۔۔ان کی بات ُ
تو وہ تیزی سے بولیں۔۔۔ دیکھو ۔۔۔اس کو یہاں سے نکالو ۔۔۔۔ کہیں ندا آ گئی تو بڑی گڑ بڑ ہو جائے
گی۔۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا ۔۔۔ آپ بھول گئیں میڈم ندا میم دو تین دنوں سے کافی بیمار ہے اور
@
سن کر وہ کہنے لگیں۔۔۔ ندا نہ سہی کوئی اور اسی لیئے وہ آپ کے ہاں نہیں آ رہیں میری بات ُ
بھی آ سکتا ہے۔۔۔۔ اپنے اس کو میری بغل سے نکالو ۔۔۔۔ تو میں نے کہا ٹھیک ہے میم اس کو آپ
کی بغل سے نکالتا ہوں ۔۔ لیکن ایک دفعہ آپ بھی پلیز اس کو دبائیں نا۔۔۔ تو وہ بظاہر کاپی چیک
کرتے ہوئے بولیں ۔۔۔۔ بے وقوف یہ بھی کوئی جگہ ہے دبانے کی ۔۔۔۔؟ تو میں نے کہا۔۔۔تو ٹھیک
ﺷﺎه
سن کر وہ کہنے لگین ۔۔۔ بڑے ہے میں بھی اس کو آپ کی بغل سے نہیں نکالوں گا ۔۔۔ میری بات ُ
ضدی ہو تم ۔۔ اور پھر اپنی بغل کو میرے لن کے ساتھ پریس کر لیا اور بولیں ۔۔۔۔اب ٹھیک ہے ۔۔۔
تو میں نے کہا ۔۔۔ ٹھیک تو ہے ۔۔۔۔ کیا میں آپ کو ایک کس کر سکتا ہوں؟ میری جرات پروہ
حیران ہی رہ گئیں ۔۔۔ اور ایک دم حیرت سے بولیں ۔۔۔ دماغ ٹھیک ہے تمھارا ۔۔۔۔ کس اور وہ بھی
اس وقت؟ تو میں نے کہا نہیں۔۔۔ تھوڑی دیر تک جب سب چھٹی کر لیں گے تو۔۔۔
ﺟﯽ
وہ میری طرف قدرے غصے سے دیکھ کر بولیں ۔۔۔ دماغ ٹھیک ہے تمھارا ۔۔۔۔ تو میں نے
کہا ۔۔۔ اگر آپ کس نہ دیں گی تو۔۔۔۔۔میں اس کو دوبارہ آپ کی بغل میں گھسا دوں گا۔۔۔ میری بات
ا
واپس اپنی جگہ پر آ گیا۔۔۔
ﺳﺗﺎ
کچھ دیر بعد جب ُچھٹی کا ٹائم ہوا تو میڈم نے میری طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔ اے مسٹر ۔۔۔۔
تم چھٹی نہیں کر سکتے ۔۔۔ جب تک کہ تم مجھے اپنا سبق نہ سنا دو۔۔۔ ۔۔ جبکہ باقی لوگ بے شک
ﻧﯽ
سن کر کچھ سٹوڈنٹس نے میری طرف دیکھا اور منہ چڑاتے چھٹی کر لیں۔۔۔۔ استانی جی کی بات ُ
ہوئے بولے ۔۔۔ کیوں پھنسا ہے نا پترا۔۔۔ اور یہ جا وہ جا۔۔۔ جبکہ میں مسکن شکل بنائے سارا دھیان
پڑھنے پر لیکن در پردہ سب کے جانے کا انتظار کر رہا تھا ۔۔۔۔ ادھر استانی جی اپنا آرڈر سنا
ﺟﯽ
کر کچن میں جا چکیں تھیں جہاں پر کہ انہوں نے رات کے کھانے کا کچھ کرنا تھا۔۔۔ اور پھر سب
سٹوڈنٹس کے جانے کے کوئی پندرہ بیس منٹ کے بعد وہ کالس روم میں داخل ہوئیں ۔۔۔ ان کو
دیکھ کر میں کھڑا ہو گیا۔۔۔۔ آتے ساتھ ہی انہوں نے مجھ سے پوچھا ۔۔۔ سب چلے گئے ۔۔۔تو میں
ان کے قریب پہنچ کر بوال ۔۔۔۔ جی سب چلے گئے اور پھر استانی جی کا ہاتھ پکڑ لیا۔۔۔۔ میرا
ہاتھ پکڑنے سے ان کا چہرہ الل ہو گیا اور بولیں۔۔۔ بد تمیز ۔۔۔ ایسے مت کرو ۔۔۔ تاہم میں نے ان
@
کا ہاتھ نہ چھوڑا اور پھر میں اپنا منہ استانی جی کے قریب لے گیا اور ۔۔۔ تو انہوں نے اپنا منہ
دوسری طرف کر لیا اور بولیں ۔۔۔ بد تمیز ی مت کرو۔۔۔ میں تمھاری ٹیچر ہو ں ۔۔۔ تو میں نے ان
سے کہا ۔۔۔۔ میں تو آپ سے کوئی بدتمیزی نہیں کر رہا ۔۔۔ بس آپ کے ہونٹوں کو چومنا چاہتا ہوں
سن کر وہ کسی کنواری لڑکی کی طرح شرمائیں اور پھر ایک دم سیریس ہو کر ۔۔۔ میری بات ُ
ﺷﺎه
کہنے لگیں ۔۔۔ وہ کیوں؟ تو میں نے ان سے کہا کہ وہ اس لیئے جی کہ میرا دل کرتا ہے تو وہ
کہنے لگیں ۔۔۔ پر میرا تو نہیں کر رہا۔۔۔ ابھی انہوں نے اتنا ہی کہا تھا کہ میں نے استانی جی کو
اپنے بازؤں میں دبوچ لیا اور پھر زبردستی ان کے ہونٹوں کو چھو لیا ۔۔۔ اور پھر ان گالوں پر بے
تحاشہ چمیاں کر نے لگا۔۔
ﺟﯽ
میرے بوسوں کی تاب نہ ال کر وہ بھی تھوڑی گرم ہو گئیں اور بولیں ۔۔۔ آرام سے میں کہیں
بھاگی نہیں جا رہی۔۔۔ اور پھر خود ہی اپنے ہونٹ میرے سامنے کر دیئے۔۔۔ اور میں نے ان کو
ہونٹوں کو اپنے منہ میں لیا اور ان کو چوسنے لگا۔۔۔ ان کے پتلے پتلے ہونٹ بڑے ہی زائقے
والے تھے ۔۔ سو میں کافی دیر تک ان کا رس پیتا رہا اور پھر میں نے اپنی زبان کو ان کے منہ
ا
لمحے کے لیئے میرے لن پر اپنا ہاتھ رکھا اور پھر وہاں سے ہٹا لیا ۔۔۔ ان کے ممے دباتے دباتے
ﺳﺗﺎ
میں نے دوبارہ ان کا ہاتھ پکڑا اور اپنے لن پر رکھنے لگا تھا کہ انہوں نے ایک بار پھر اپنا ہاتھ
چھڑا لیا۔۔لیکن بولی کچھ بھی نہیں ۔۔ا ور ویسے ہی میرے ساتھ کسنگ جاری رکھی ۔۔ ممے دبانے
کے بعد پھر جیسے میر ا ہاتھ ان کی رانوں سے ہوتا ہوا چوت کے پاس پہنچا تو اچانک استانی
جی کو ایک جھٹکا لگا اور انہوں نے میرا ہاتھ پکڑ کر وہاں سے بھی ہٹا دیا۔۔۔۔۔۔ اور اس کے
ﻧﯽ
ساتھ ہی اپنی زبان کو منہ کے اندر ڈال کر بولیں ۔۔۔ کسنگ تک ہی بات ٹھیک ہے ۔۔۔۔۔ تو میں نے
کہا ۔۔ زیادہ نہیں کم از کم اس کو (لن کی طرف اشارہ کرتے ہوئے ) ہی پکڑ لیں ۔۔۔ تو وہ بولیں
نہیں ۔۔۔۔ چندا ۔۔۔۔ جو میں تمھارے ساتھ کررہی ہوں وہ بھی بہت زیادہ ہے۔۔۔۔ میرے سر پر منی
ﺟﯽ
سوار تھی اس لیئے میں ایک دم کھڑا ہو گیا ۔۔۔اور بوال میڈم مجھے معلوم ہے کہ آپ نے جان
بوجھ کر مجھے کچھ نہیں کہا اور میرا حوصلہ بڑھا تی رہیں ۔کیا آپ بتا سکتیں ہیں کہ اگر آپ
نے میری خواہش پوری نہیں کرنی تھی تو آپ نے مجھے اتنا آگے کیوں آنے دیا ؟ میری بات
سن کر استانی جی نے بڑی مجروح نظروں سے میری طرف دیکھا اور کہنے لگیں ۔۔۔ تم کو یہ ُ
@
تو میں نے ان سے کہا ۔۔ جس طرح میڈم اسکول کے سبق میں آپ میری استاد ہیں اسی
طرح سیکس کی جانکاری میں آپ سے زیادہ رکھتا ہوں ۔۔۔ بولیں میں ٹھیک کہہ رہا ہوں ۔۔۔میری
سن رک انہوں نے اپنا سر جھکا لیا ۔۔۔ اور بولیں ۔۔۔ پتہ نہیں مجھے کیا ہو گیا ہے ۔۔۔ تب میں
بات ُ
نے ان کو اپنے گلے سے لگایا ۔۔۔ اور بوال ۔۔ایک بات پوچھوں میڈم ؟ تو وہ کہنے لگیں۔۔۔ پوچھو؟؟؟
تو میں نے کہا یہ جو آپ کے اندر تبدیلی آئی ہے ۔۔۔ یہ کامی کی سالگرہ کے بعد آئی ہے نا؟انہوں
ﺟﯽ
نے ایک دم چونک کر میری طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔ تم نے اس بات کو بھی نوٹ کیاہے ؟ تو
میں نے کہا جی میں نے ہی تو نوٹ کیا تھا ۔۔۔ تب استانی جی ایک دم کرسی پر بیٹھ گئیں اور
بولیں ۔۔۔ تم بہت تیز ہو۔۔۔ اور پھر کہنے لگیں ۔۔۔ ہاں تم درست کہہ رہے ہو۔۔۔ اس دن جب میرا بیٹا
۔۔۔ میری بیسٹ فرینڈ کے ساتھ اپنا ۔۔۔۔ مردانہ عضو رگڑ رہا تھا ۔۔۔ پتہ نہیں کیوں مجھے اس کا
یہ انداز برا نہیں لگا ۔۔۔ اور میں ان کو دیکھ دیکھ کر گرم ہو گئی۔اور پھر پتہ نہیں کیسے میرے
ا
اس طرف نہ آ رہے تھے آخر مجبور ہو کر میں نے سیکنڈ چائس پر غور کرنا شروع کیا اور۔۔۔
ﺳﺗﺎ
پھر میری نظر تم پر پڑ گئی۔اور جیسے جیسے میں تمھارے بارے میں سوچتی جاتی ۔۔۔ مجھے تم
ہر طرف سے محفوظ نظر آئے اور ویسے بھی جس طرح تم نے اس دن اپنے عضو کو بار بار
میرے ساتھ ٹچ کیا اس سے مجھے یقین ہو گیا کہ تم کو بس تھوڑی سی ڈھیل دینے کی ضرورت
ہے ۔۔ اور اس کے ساتھ ہی تمھارا ا یک اور پلس پوائینٹ تمھارا یہی ہتھیار تھا ۔۔۔۔ کہ جو کسی
ﻧﯽ
سن کر میں نے استانی جی کے ہونٹ بھی تگڑے مرد کے ہتھیار سے بھی اچھا ہے ۔۔ ان کی بات ُ
چوم لیئے اور بوال ۔۔۔ آپ فکر نہ کریں میڈم میں آپ کے جسم کی ضرورت کو پورا کروں گا۔۔۔
اور اس کے ساتھ ہی میں اپنے لن کو ان کی موٹی مگر نرم رانوں کے بیچ لے گیا ۔۔۔۔ میری یہ
ﺟﯽ
حرکت دیکھ انہوں نے ایک آہ بھری ۔۔۔اور دوبارہ ،مجھ سے الگ ہو کر کھڑی ہو گئیں۔۔۔۔۔ میں
پھر ان کے قریب گیا اور بوال ۔۔۔ کیا ہوا ۔۔۔ میڈم ؟ تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ میرا ضمیر ۔۔۔ مجھے مالمت
کر رہا ہے ۔۔ تم میرے سٹوڈنٹ ہو اور کامی سے بھی چھوٹے ہو ۔۔۔ میں تمھارے ساتھ کیسے کر
لوں؟ میرا ضمیر نہیں مان رہا ۔۔۔
@
استانی جی کی بات سن کر میں سمجھ گیا کہ وہ اس وقت ایمان مجھے روکے ہے تو کھینچے
ﺷﺎه
ہے کفر۔۔۔ والی حالت میں آ گئیں تھی ۔۔۔۔اور دوراہے پر کھڑی سوچ رہیں تھیں کہ کیا کروں ؟ ان
کو دوراہے سے نکالنے کے لیئے میں آگے بڑھا اور ان کو دبوچ لیا پھر میں نے ان قمیض کو
اوپر کیا اور ان کے ممے ننگے کر کے ان پر پل پڑا اور ان کے تنے ہوئے نپلز کو باری باری
چوسنے لگا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی زبردستی سے میں نے اپنا ہاتھ ان کی شلوار میں ڈال دیا اور
ان کی موٹے گوشت والی پھدی کو اپنے دائیں ہاتھ سے پکڑ کر بھینچ لیا ۔۔ ان کے منہ سے ایک
ﺟﯽ
تیز سسکی نکلی۔۔۔۔اوئی۔۔۔۔۔۔ نہ نہ ۔۔۔۔ پلیز نہ۔۔۔۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی وہ میرے ساتھ لپٹ گئیں
۔اور میرے ہونٹ چومنے لگیں ۔پھر اس کے بعد ۔ ابھی میں اپنی انگلی کو ان کی چوت میں ڈالنے
ہی لگا تھا کہ ۔۔۔ باہر سے کسی نے آواز دی۔میڈم ۔۔۔۔۔ یہ آواز سنتے ہی وہ ایک دم مجھ سے
الگ ہو گئیں اور میں بھی کاپی لیکر بیٹھ گیا۔۔۔اتنے میں آواز دینے والی جو کہ میڈم کی ہی ایک
سٹوڈنٹ تھی ۔۔۔ کالس روم میں آ گئی اور میڈم کا الل چہرہ دیکھ کر ایک دم ڈر گئی وہ سمجھی
ا
ﺳﺗﺎ
راستے میں خیال آیا کہ کیوں نہ ندا میم کا حال پوچھتا جاؤں؟ بیگ کو گھر میں رکھا اور
ندا م یم کے گھر چال گیا ۔۔۔ دروازہ خود انہوں نے کھوال اور اپنے ہونٹوں پر انگلی رکھ دی ۔۔۔ یہ
اس بات کا اشارہ تھا کہ گھر میں کوئی اور بھی موجود ہے اس لیئے میں محتاط رہوں ۔۔۔ چنانچہ
اندر داخل ہوتے ہی وہ مجھ سے کہنےلگیں کیسے آنا ہوا بیٹا ۔۔۔۔؟ تو میں نے ان سے کہا وہ میم
ﻧﯽ
میں آپ کی طبیعت کے بارے میں جاننے کے لیئے آیا ہوں ۔۔۔ تو وہ مجھ سے کہنے لگیں تھیک
یو بیٹا آپ کی دعا سے میں تو بلکل ٹھیک ہوں لیکن میرا بیٹا سخت بیمار ہو گیا ہے ۔چنانچہ میں
ان کے ساتھ ان کے بٹے کےکمرے میں چال گیا اور اس سے اس کے حال کی بابت پوچھا تو وہ
ﺟﯽ
بوال ٹھیک ہوں یار ۔۔ پھر میڈم کہنے لگیں ۔۔۔ کچھ بہتر ہے امید ہے کل تک اس کا بخار بھی اتر
جائے گا ۔۔۔ کچھ دیر ان کے بیٹے کے پاس بیٹھ کر جب میں نے اس سے اجازت طلب کی تو
اچانک اس کا بیٹا بوال۔۔ ماما ۔ ۔۔۔ فارم کے بارے میں اس کو کہیں نا؟ آپ کا یہ سٹوڈنٹ پیسے جمع
کرا دے گا۔۔ تو اس کی بات سن کر وہ کہنے لگی ۔۔۔ بیٹا کافی سارے پیسے ہیں ایسا کرتی ہوں
میں اس کے ساتھ خود چلی جاتی ہوں ۔۔ اور پھر مجھ سے کہنے لگیں ۔۔۔ بیٹے کا بحریہ میں
@
پالٹ نکال ہے اور کل پیسے جمع کرانے کی آخری تاریخ ہے تم ایسا کرنا کل دس بجے آجانا ۔۔
میں تمھارے ساتھ پیسے جمع کرانے جاؤں گی۔۔۔
ﺷﺎه
اگلے دن میں نے سکول سی چھٹی ماری اور دس بجے ندا میم کے گھر پہنچ گیا۔۔۔ وہ پہلے
سے تیار بیٹھیں تھیں۔۔۔ مجھے دیکھ کر کہنے لگی ۔۔۔ پانی پیو گے یا چلیں ؟ تو میں نے کہا پانی
کو چھوڑیں پہلے آپ کا کام کر آتے ہیں ۔۔ تو وہ مجھ سے بولی اوکے تم گاڑی میں بیٹھو میں آئی۔۔۔
ﺟﯽ
تو میں نے حیرت سے ان سے پوچھا ۔۔۔آپ گاڑی چال لیتی ہو؟ تو وہ کہنے لگی ہاں ۔۔۔ اس میں
کون سی سائنس لڑانی ہوتی ہے ۔۔اور پھر انہوں نے گاڑی نکالی اور ہم بیک کی طرف چل پڑے
راستے میں گئیر بدالتے ہوئے انہوں نے شرارت سے اپنا ہاتھ میرے لن پر رکھ دیا ۔۔اور اسے
ہلکا سا دبا کر چھوڑ دیا۔۔ ان کی دیکھا دیکھی میں نے بھی ادھر ادھر دیکھ کر اپنا ہاتھ ان کی
رانوں پر رکھا اور ہولے ہولے ان کا مساج کرنے لگا۔۔۔۔ پھر اپنے ہاتھ کو تھوڑا اور آگے لے گیا
اور ان کی چوت پھر پھیرنے لگا۔۔۔اور اب کار میں میڈم کی گرم سسکیاں گونجنے لگیں ۔۔۔ اس
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
کے ساتھ ساتھ ہم آپس میں باتیں بھی کرتے جا رہے تھے ۔۔۔ باتوں باتوں میں میڈم نے مجھے بتالیا
کہ اس کے عالو ہ بھی ان کے پاس تین چار اور بھی پالٹ ہیں۔۔۔ اور بھر بولیں ایک کا تو ہم نے
ڈھانچہ بھی کھڑا کر لیا ہے ۔۔۔ پھر کہنے لگیں چلو بینک سےہو کر ہم اسے بھی دیکھ آئیں گے۔
بینک میں کافی رش تھا ۔۔۔ اس لیئے میڈم نے ایک جگہ گاڑی لگائی اور بولی ۔۔۔ تم بیٹھو
ا
میں پیسے جمع کروا کے ابھی آتی ہوں۔۔۔ اور پھر تقریبا ً دو گھنٹے کے بعد جب وہ واپس آ ئی تو
ﺳﺗﺎ
اس کے ہاتھ میں کولڈ ڈرنکس تھیں ۔۔ پھر وہ گاڑی میں بیٹھ کر بولی۔۔۔ سوری تھوڑی لیٹ ہوگئی
زیر تعمیر
اور پھر گاڑی کو چالنے لگیں ۔۔۔اور میرے لن پر ہاتھ لگا کر بولیں چلو میں تم کو اپنا ِ
زیر تعمیر بستی کی ُمڑ گئیں اور
مکان دکھاتی ہوں ۔۔۔اور پھر وہ شہر سے باہر آ گئیں اور ایک ِ
ﻧﯽ
کافی آگے جا کر دیکھا تو سارے مزدور کام چھوڑ کر کہیں جا رہے تھے انہوں نے گاڑی روکی
اور ایک مزدور کر بال کر پوچھا کہ وہ لوگ کہاں جا رہے ہیں تو وہ مزدور بوال ۔۔۔ وہ بی بی
ہمارے ٹھیکے دار کی بیگم مر گئیں ہیں اس لیئے ہم سب ان کے گھر افسوس کے لیئے جا رہے
ہیں۔۔۔ میڈم نے ان کے ساتھ افسوس کا اظہار کیا اور گاڑی آگے بڑھا دی ۔۔کچھ دور جا کر ایک
ﺟﯽ
جگہ ُرک گئیں اور اور مجھے باہر آنے کو کہا ۔۔ میں باہر آیا تو بولیں یہ سامنے ہمارا گھر ہے
جو ابھی تعمیر ہو رہا ہے ۔۔۔ پھر ہم دونوں باہر آئے اور اس نو تعمیر شدہ عمارت کے اندر
چلےگئے۔۔۔ اور وہ مجھے بتانے لگیں کہ یہ ہمارا ڈرائینگ ڈائینگ ہے یہ بیڈ روم ہے اور پھر
سیڑیوں کے پاس آ کر بولیں آؤ میں تم کو اپنا بیڈ روم دکھاؤں ۔۔۔
@
سیڑھیوں پر کوئی ریلنگ نہ تھی اس لیئے ہم دونوں احتیاط سے اوپر چڑھے ۔۔ اور ایک
بیڈ روم کہ جس پر ایک عارضی سا دروازہ لگا ہوا تھاپہنچ گئے انہوں نے مجھے بتایا کہ ان
ﺷﺎه
کے چوکیدار نے عارضی طور پر یہ دروازہ لگا کر اپنی رہائیش یہاں رکھی اور پھر سامنے
ایک ٹوٹی پھوٹی سی کرسی پر جا کر بیٹھ گئیں ۔۔۔۔۔اب میں آگے بڑھا اور ان کے پاس جا کر کھڑا
ہو گیا اور ان کے ہاتھ میں اپنا لن پکڑا دیا۔۔۔ انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔آخر وہ دن آ
ہی گیا ۔۔۔ اور پھرمیری شلوار کا میرا آزار بند کھولنے لگیں۔۔۔۔۔ اور میری شلوار اتار کر میرے
لن کو ہاتھ میں پکڑ لیا اور بولیں ۔۔۔ یہ تو ابھی تک بیٹھا ہوا ہے۔۔ تو میں نے ان سے کہا۔۔۔ اس کو
ﺟﯽ
کھڑا کرنا آپ کی زمہ داری ہے انہوں نے میری طرف دیکھا اور بولیں ۔۔۔ یہ کون سی بڑی بات
ہے اور پھر لن کو ہاتھ میں پکڑ کر میرے لن کو مسلنے لگیں ۔۔۔۔ ان کے ہاتھ کا لمس پاتے ہی
میرا لن ایک دم تن گیا اور انہوں نے میری طرف فاتحانہ نظروں سے دیکھتے ہوئے کہا۔۔۔ بس
ہاتھ لگانے کی دیر تھی تمھارا کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔ اس پر میں نے ان سے کہا ۔۔ میم پہلے آپ نے ہاتھ
لگایا تھا اب منہ لگائیں ۔۔۔ میری بات سن کر وہ مر ے لن پرجھکیں اور اسے پانے ہاتھ میں پکڑ
ا
ﺳﺗﺎ
اور اس کے ساتھ ہی میرے منہ سے سسکی نکل گئی۔۔آہ۔ ہ ۔ ہ ۔ ہ۔۔۔ اور انہوں نے میری
طرف دیکھ کر کہا ہمیشہ سے تمھاری یہ سسکیاں مجھےاور بھی گرم کرتی ہیں اور دوبارہ لن
چوسنے لگیں ۔۔۔ اور اپنے نرم نرم لبوں سے میرے لن پر مساج بھی کرتیں جاتیں تھیں۔۔۔ کچھ دیر
ﻧﯽ
تک لن چوسنے کے بعد وہ اُٹھیں اور مجھے نیچے بیٹھنےکو کہا ۔۔۔ میں نیچے بیٹھ گیا اور انہوں
نے اپنی شلوار اتاری اور اپنی پھدی کو میرے منہ کے قریب کر کے بولیں ۔۔۔ چاٹ اس فروٹ
چاٹ کو۔۔۔ اور مین نے سب سے پہلے ندا آنٹی کی چوت کا جائزہ لیا۔۔۔ ان کی چوت بھی ابھری
ﺟﯽ
ہوئی تھی اور چوت پر کوئی ایک بال بھی نہ تھا۔۔ اورایسے لگ رہا تھا کہ جیسے وہ اپنی پھدی
کی تازہ تازہ شیو بناکر آئی ہو ۔۔۔ میرے پوچھنے پر وہ کہنے لگیں ۔۔ میرے خاوند کو چوت
پر اگے ہوئے بال زرا بھی پسند نہ تھے ۔۔۔۔ بلکہ ان کا بس چلتا تو وہ میرے جسم سے بالوں کا
صفایا ہی کر دیتے تھے تب سے عادت پڑی ہے اور میں اپنی پھدی کو ہمیشہ ہی صاف رکھتی
ہوں ۔۔۔ اب میں نے پھدی سے اوپر نگاہ کیا تو ان کا موٹا سا دانہ نظر آیا اور دانے کے ساتھ ہی
@
ُجڑا ہوا پھدی کے لب ۔۔۔ جو اس وقت خاصی لٹکے ہوئے تھے ۔۔۔۔ اس کا مطلب یہ تھا کہ ندا میم
نے خاوند کے مرنےکے بعد بھی چوت مروانی بند نہیں کی تھی ۔۔۔ کیونکہ جب میں نے اپنی ایک
انگلی ان کی چوت میں داخل کی تھی تو میری انگلی بڑی آسانی سے ان کی چوت میں داخل ہو
گئی ۔۔ پھر ا س کے بعد میں نے دوسری ڈالی اور پھر دونوں انگلیوں کوان کی چوت میں اچھی
ﺷﺎه
طرح گھما نے لگا۔۔۔ اور میڈم ندا میری طرف دیکھ کر بولیں ۔۔ آہ۔۔۔ آہ۔۔۔۔ تھوڑی زبان کو بھی
حرکت دے نا ۔۔۔۔ اور میں نے ان کی بات سن کر اپنی زبان کو آگے کیا اور ان کی چوت کے لٹکے
ہوئے ہونٹوں کو اپنے منہ میں لیکر کر چوسنے لگا۔۔۔۔ میرے اس عمل سے اس کے ساتھ ساتھ ان
کی چوت سے نکلنے والی مہک کو بھی سونگنے لگا۔۔۔ واؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤؤ۔۔۔ان کی چوت کی
ﺟﯽ
مہک بڑی تیکھی سی تھی جس سے ان میں سیکس کی زیادتی کا پتہ چلتا تھا ۔۔۔ پھر میں نے ان
کی چوت کے لٹکے ہوئے ہونٹوں سے منہ ہٹایا اور اپنی انگلیوں کو ان کی پھدی سے با ہر نکال
کر اپنی زبان کو ان کی چوت میں داخل کر دیا۔۔۔اندر سے ان کی چوت بڑی تپی ہوئی تھی اور
اس کی دیواروں سے نمکین پانی ِرس رہا تھا میں نے اپنی زبان سے ان کی چوت کی ساری
دیواروں کو چاٹ لیا ۔۔ اور پھر زبان کو گول کر کے ان کی کھلی چوت میں اندر باہر کرنے لگا۔۔۔
میں کافی دیر تک ان کی چوت کو چاٹتا رہا اور ان کی گرم پھدی سے نکلنے والی گرم آگ
ا
ﺳﺗﺎ
کو اپنی زبان سے ٹھنڈا کرنے کی کوشش کرتا رہا ۔۔۔ لیکن ان کی چوت کی آگ میری زبان سے
بھال کب ٹھنڈی ہونےوالی تھی اس لیئے کچھ دیر بعد انہوں نے خود ہی مجھے اوپر اُٹھایا اور اپنی
قمیض کو اوپر کر کے بولیں ۔۔۔ تم میری چھاتیوں کو کافی دنوں سے تم نظر انداز کر رہے تھے
اب ان کو بھی چوسو ۔۔ اور میں نے اپنا منہ ان کی چھاتیوں کے تنے ہوئے ایک نپل پر رکھا اور
ﻧﯽ
اسے چوسنے لگا۔۔۔ اور اس کے ساتھ ہی میڈم نے اپنی ران کو آگے کیا اور میرے لن کے ساتھ
رگڑنے لگی۔۔۔ اور پھر انہوں نے اپنی موٹی ران کو میرے لن سے ہٹایا اور اس کو اپنے ہاتھ میں
پکڑ لیا اور اسے دبانے لگی۔۔۔جبکہ میں باری باری اس کے دونوں نپلز کو چوستا رہا۔۔۔۔
ﺟﯽ
پھر وہاں سے ہوتا ہوا میں اوپر گیا اور میڈم کے ہونٹوں کی طرف آیا اور ان کے نیچے
والے ہونٹ کو اپنے ہونٹ میں لیا اور اس کو چوسنے لگا۔۔۔ لیکن میڈم نے زیادہ دیر تک مجھے
اپنے ہونٹ نہ چوسنے دیئے ۔بس تھوڑی سی دیر کے لیئے اپنی زبان میرے حوالے کی ۔۔اور
@
ابھی میں ان کی زبان کو چوستے ہوئے تھوڑی ہی دیر ہوئی تھی کہ وہ بولیں ۔۔۔ بس۔۔۔ کر جانی۔۔۔۔
اب میری نیچے والی کا کچھ کر ۔۔اس کے ساتھ ہی وہ واپس گھومیں اور اس کرسی کے دونوں
بازؤں پر اپنے ہاتھ رکھ دیئے اور اپنی ٹانگیں چوڑی کر کے بولیں ۔۔۔ دیر نہ جانی ۔۔۔ اور میں
انکے پیچھے آیا ۔۔اور ایک نظر میڈم کی موٹی گانڈ پر ڈالی اور نیچے جھک کر ان کے موٹے
ﺷﺎه
موٹے بمب پر ایک کس کی تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ گانڈ پھر کبھی ۔۔۔پھر بھی ۔۔۔۔۔ اس وقت میری
پھدی فرسٹ ہے ۔۔۔ ان کی بات سن کر میں آگے بڑھا اور ان کو اپنی گانڈ تھوڑا اور اوپر کرنے کا
بوال انہوں نے اپنی گانڈ اوپر کی اور ۔۔۔ میں نے اپنا لن پکڑ کر ان کی چوت پر رکھا اور اس کو
ہلکا سا پُش کیا ۔۔۔جیسا کہ میں نے پہلے ہی بتایا تھا کہ میڈم کی پھدی کافی کھلی اور بڑی تھی
۔۔۔اس لیئے میرا لن بنا کسی رکاوٹ کے ان کی چوت میں گھس گیا اور پھر میں نے ان کی پمپنگ
ﺟﯽ
شروع کر دی ۔۔۔ جیسے جیسےمیں ان کی چوت میں گھسے مارتا جاتا وہ اور بھی جوش میں آ
جاتی اور کہتی اور ۔۔۔تیز ۔۔۔۔آہ۔۔۔۔۔ یس۔۔۔۔ یہ ہے نا مردوں واال گھسہ ۔۔۔اور پھر ان کی منہ سے
انہاآئی لذت آمیز سسکیاں نکلتیں جنہیں سن سن کر میں پاگل ہوجاتا اور پھر پاگلوں ہی کی طرح
ان کی چوت میں گھسے مرتا جاتا تھا۔۔۔مجھے ان کی چوت مارتے ہوئے کافی ہی دیر ہو گئی تھی
اور وہ چیختے ہوئے مجھے کہہ رہیں تھیں کہ مرد ہے تو زور لگا ۔۔اور پھر اچانک ہی وہ رونے
ا
گھسے پر ۔۔۔ بس ۔۔۔سس ۔۔سسس۔ اوں ۔۔۔۔اوں ہی کرتی تھی ۔۔۔ اور پھر گھسے مارتے مارتے میرے
ﺳﺗﺎ
لن سے بھی منی کا فواروہ نکال جو سیدھا جا کر ندا میم کی بچی دانی سے ٹکرایا ۔۔۔اور پھر
چھوٹنے کے بعد پہلی دفعہ ندا میم نے ایک طویل سسکی لی اور میرے لن کے چھوٹنے کے بعد
وہ ُمڑی اور میرے ساتھ لپٹ کر بولی۔۔۔۔ بڑے عرصے بعد کسی نے میرے جیسےسیکسی عورت
کی پھدی کو ٹھنڈا کیا ہے ۔۔
ﻧﯽ
جب ہم واپس آ رہے تھے تو اس وقت چھٹی ہو نے والی تھی ۔۔۔ چنانچہ میں نے ندا میم سے
ﺟﯽ
کہا کہ وہ مجھے اپنے سکول کے راستے میں اتار دیں ۔۔اور پھر وہاں سے میں اپنے پرانے محلے
میں چال گیا اور اپنے دوستوں سے گپیں لگانے لگا باتوں باتوں میں نے ان سے اپنی دوست
طاری کے بارے پوچھا تو وہ کہنے لگے یار وہ پی اے ایف سینما فلم دیکھنے گیا ہے ابھی آتا ہی
ہو گا۔۔ اتنی دیر میں طاری بھی وہاں پہنچ گیا اور سب نے اس سے فلم کے بارے میں پوچھا کہ
کیسی تھی تو وہ جل کر بوال ۔۔۔ میرا لن فلم تھی ۔۔۔سارا ہال خالی تھا ۔۔۔۔۔ اوپر سے یہ پنجابی
@
فلموں والے انتا اونچا بولتے ہیں ۔۔۔۔ کہ میرے تو کان کے پردے ہی پھٹ رہے تھے۔۔۔ اس پر ہم
نے اس سے پوچھا کہ سا لے تم کو وہاں جانے کے لیئے کس نے بوال تھا ۔۔تو وہ کہنے لگا یار ہ
بڑی مشہور فلم تھی اور میں نے اپنے ابے سے اس کی بڑی تعریف سنی تھی ۔۔ میں کچھ دیر
اپنے دوستوں کے ساتھ رہا اور پھر گھر آگیا ۔۔
ﺷﺎه
ان سے کہا کہ میں نے سوچا کہ ندا میم سے پہلے ہی میں چال جاتا ہوں اور پھر استانی جی کو
اپنے گلے سے لگا لیا۔۔۔ انہوں نے بڑی خوش دلی سے مجھے گلے سے لگنے دیا اور میں نے ان
کے بڑے بڑے دودھ اپنے جسم کے ساتھ خوب پریس کئے۔۔ اتنے میں میرا لن بھی کھڑا ہو چکا
تھا سو میں نے ان کے ہاتھ میں اپنا لن پکڑایا تو انہوں نے بڑی شرافت کے ساتھ میرا لن پکڑا
اور اسے دبانے لگیں ۔۔۔پھر وہ مجھ سے الگ ہوئیں اور کرسی پر بیٹھ گئیں ۔۔۔۔تو میں نے ان سے
ا
آپ حکم کریں ۔۔۔ تو وہ رک رک کر ٹھہر ٹھہر کر میری طرف دیکھ کر کہنے لگیں ۔۔۔ اس
ﺳﺗﺎ
میں کوئی شک نہیں کہ تم نے مجھے ایک بڑے مخمصے نے نکال لیا ہے ۔۔۔ لیکن ڈئیر میں ایک
میچور عورت ہوں ۔۔۔ اور پتہ نہیں کہاں سے میری جنسی ۔۔۔۔آگ نے مجھے اتنا مجبور کر دیا ہے
کہ ۔۔۔ میں مجبور ہو گئی ہوں۔۔۔ پھر وہ اپنے ہونٹ کاٹتے ہوئے بولیں ۔۔۔ تمھاری اس کسنگ سے
ﻧﯽ
مجھے بھی مزہ آتا ہے پر ۔۔۔۔ یہ کسنگ میرے اندر اور بھی آگ کو بھڑکا دیتی ہے ۔۔۔۔ اس لیئے
۔۔۔ تم میرا کوئی بندوبست کرو۔۔۔ میں ان کی ساری بات سمجھ گیا اور ان سے بوال میڈم ۔۔۔ جب
سب سٹوڈنٹس چلے جائیں تو ۔۔۔۔ میری بات کاٹ کر وہ بولی۔۔۔ نہیں اس میں رسک ہے پھر کہنے
لگیں ۔۔۔ دیکھتے نہیں کل ہمارے ساتھ کیا ہوا تھا ۔۔؟ پھر بولیں۔۔ نہیں یار یہ جگہ کسی بھی طور
ﺟﯽ
مناسب نہیں ہے ۔۔۔ پھر وہ میری آنکھوں میں آنکھیں ڈالکر کہنے لگیں ۔۔۔۔۔۔ تمھارے پاس کوئی
سر دست تو جگہ کا بڑا مسلہ ہے ۔۔۔۔تو وہ جگہ نہیں ہے ؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟ تو میں نے کہا نہیں میم ِ
کہنے لگیں ۔۔۔ تب تم میرے کسی کام کے نہیں ہو ۔۔۔ اور بولیں میں تم سے صرف اپنے جسم کی
گرمی ۔۔۔ اگر تمھارے پاس کوئی محفوظ جگہ نہیں ہے سوری دوست ۔۔۔۔ میں یہ کسنگ والے
@
سین تمھارے ساتھ نہیں کر سکتی ۔۔۔ اور پھر میں نے ان سےکہا کہ آپ مجھے تھوڑی سی مہلت
دے دیں میں کسی جگہ کا بندوبست کر کے آپ کو بتاؤں گا ۔۔۔
ﺷﺎه
تو وہ یہ کہتے ہوئے اُٹھ کر چلی گئیں کہ بتاؤں گا نہیں ابھی بتاؤ ۔۔ اور میں بیٹھ کر سوچنے
لگا کہ کیا میں استانی جی کو کہاں لے جا کر چودوں ۔۔۔۔۔ اور سوچتے سوچتے اچانک میرے زہن
میں جانے کہاں سے طاری کا خیال آگیا۔۔ طاری کا خیال آتے ہی ۔۔۔۔ میرے زہن میں اس کی دیکھی
ہوئی بقول اس کے بور فلم یاد آگئی۔۔۔۔۔۔ اور پھرررررررررررررر۔۔۔۔۔۔۔۔۔ فلم کے یاد آتے ہی ۔۔۔
ﺟﯽ
میرے زہن میں پی اے ایف سینما آ گیا ۔۔۔ اور پھر میرے زہن میں 555وولٹ کا بلب روشن ہوا
۔۔ اور پھر ایک ایک کر میرے زہن میں اپنے پالن کا خاکہ آتا گیا ۔۔۔ اور چند ہی سیکنڈ میں میں
نے سارا پالن تیار کر لیا ۔۔۔اب صرف اور صرف استانی جی کو منانا رہ گیا تھا۔۔۔ چنانچہ یہ سوچ
کر میں کالس روم سے اُٹھا اور سیدھا ان کے صحن کی طرف چلنے لگا ۔۔۔ جہاں پر استانی جی
کسی عورت کے ساتھ بیٹھی ہوئی باتیں کر رہی تھیں ۔۔۔ مجھے اپنی طرف آتا دیکھ کر انہوں نے
ا
ﺳﺗﺎ
کچھ دیر بعد استانی جی کالس روم میں داخل ہوئیں اور میری طرف دیکھ کر بولیں ۔۔ تمھارے
چہرے سے لگ رہا ہے کہ تمھارے پاس کوئی بڑی خبر ہے ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ جی
میڈم ۔۔۔ ایک خبر ہے تو اور پھر میں نے ان کے بتایا کہ آج کل پی اے ایف سینما چکاللہ میں ایک
پرانی پنجابی مووی لگی ہے اور آج ہی میرا ایک دوست وہ فلم دیکھ کر آیا ہے اور اس نےبتالیا
ﻧﯽ
ہے کہ سینما میں کوئی رش نہ تھا ۔۔ اور پورے ہال میں ایک دو بندے ہی بیٹھے تھے ۔۔ میر
سن کر میڈم نے میری طرف دیکھا اور بولی ۔۔۔ نہ بابا ۔۔۔ جس ٹائم شو شروع ہوتا ہے اس ی بات ُ
وقت میں تم لوگوں کو ٹیوشن دیتی ہوں ۔۔۔ تو میں نے ان سے کہا کہ میڈم میں میٹنی شو کی بات
ﺟﯽ
نہیں کر رہا ۔۔۔ اور ان کو بتالیا کہ صرف پی اے ایف میں مارننگ شو بھی لگتا ہے ۔۔ جو صبع
سن کر پہلے تو میڈم انکار کرتی رہیں شروع ہوتا ہے اور دوپہر کو ختم ہو جاتا ہے ۔۔میری با ت ُ
لیکن جوں جوں میں نے ان کو دالئل دیئے وہ میری بات کی کچھ کچھ قائل ہونے لگیں ۔۔۔اور پھر
کافی دیر تک وہ میرے ساتھ اس ٹاپک کے بارے میں ڈسکس کرتی رہیں اور باآلخر وہ میری
@
بات کی قائل ہو گئیں اور پھر ہم ے پروگرام بنایا کہ ہم لوگ وقت سے پہلے ہی سنیما میں پہنچ
جائیں گے ۔۔۔ اور یہ کہ میڈم برقعہ کر کے آئیں گی تا کہ ان کو کوئی پہچان نہ سکے پروگرام
فائنل کر کے اپنی طرف سے ہم دونوں مطمئن ہو گئے اور میں بے چینی سے اگلے دن کا انتظار
کرنے لگا۔۔۔۔
ﺷﺎه
اگلے صبع میں اُٹھا اور امی کو بتایا کہ آج ہمارے سکول میں کوئی فنگشن ہے اس لیئے
سکول والوں نے کہا ہے کہ ہم لوگ بنا وردی کے سکول آئیں اور یہ بات میں نے اس لیئے کی
ﺟﯽ
تھی کہ مجھے معلوم تھی کہ پی اے ایف کی انتظامیہ کسی بھی وردی والے لڑکے کو سنیما میں
نہیں گھسنے دیتے ۔۔۔ بے بے کو چکر دینے کے بعد میں گھر سے نکل گیا اور ادھر ادھر پھرتا
رہا ۔۔۔ اور پھر مقررہ وقت پر استانی جی کے ساتھ طے کی گئی جگہ پر جا کر کھڑا ہو گیا ۔۔۔۔۔
میں سنیما کے باہر اپنی جگہ پر کھڑا تھا کہ اچانک ایک برقعہ پوش خاتون میرے پاس آئی اور
بولی چلیں ۔۔۔ مجھے اس کی آواز کچھ جانی پہچانی سی لگی لیکن میں نے اس کو کوئی رسپانس
ا
برقعہ ہے پھر کہنے لگیں پہلے پہلے میں برقعہ پہنا کرتی تھی اتنے میں سنیما آ گیا اور انہوں
ﺳﺗﺎ
نے مجھے اپنے پرس سے پیسے نکال کر دیتے ہوئے کہا کہ گیلری کا ٹکٹ لینا۔۔ اور میں جا کر
گیلری کا ٹکٹ لے آیا اور ہم دونوں جلدی سے سنیما میں چلے گئے ۔۔۔ گیلری میں داخل ہو کر دیا
تو ساری گیلری سائیں سائیں کر رہیں تھی ۔۔۔ اور ہم پہلے لوگ تھے جو کہ گیلری میں داخل ہوئے
تھے۔۔پروگرم کے مطابق ہم چلتے چلتے سب سے آخری الئین میں دیوار کے ساتھ جا کر بیٹھ
ﻧﯽ
گئے کچھ د یر بعد چند لوگ اور لوگ بھی آ کر بیٹھ گئے لیکن مجموعی طور پر گیلری خالی پڑی
تھی ۔۔ کچھ دیر بعد جب ایک ایک کر کے سنیما کی روشنیاں بند ہونے لگیں تو ایک اور آدمی
اور اس کے ساتھ کوئی خاتون گیلری میں آئیں اور وہ ہماری مخالف سمت میں جا کر بیٹھ
ﺟﯽ
گئے۔۔۔۔پھر کچھ دیر بعد سنیما کی ساری الئیٹ بند ہو گئیں اور قومی ترانہ بجنے لگا۔۔۔۔ قومی
ترانے کی اناؤمنٹ سنتے ہی ہم دونوں ایک ساتھ کھڑے ہو گئے اور پھر میں نے میڈم کا ہاتھ
اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا تو میں نے محسوس کیا کہ استانی جی ہولے ہولے کانپ رہیں تھیں یہ دیکھ
کر میں میڈم کی طرف جھکا اور ان کے کان میں کہا ۔۔۔ گھبرائیں نہیں میم دیکھیں نا سارا حال
@
اور خاص کر ہمارا ایریا تو بلکل خالی پڑا ہے۔۔۔ میرا خیال ہے میری اس بات نے ان پر خاطر
خواہ اثر کیا ۔اس لیئے جب میں نے قومی ترانے کے دوران ہی ان کا ہاتھ اپنے لن پر رکھا تو
انہوں نے بڑی خوش دلی کے ساتھ اپنا ہاتھ میرے لن پر رکھ دیا اور جب قومی ترانہ ختم ہوا تو
انہوں نے میرے لن سے ہاتھ ہٹا کر ہاتھ کو دوبارہ اپنی گود میں رکھ لیا ۔اور سامنے دیکھنے
ﺷﺎه
لگیں ۔۔ادھر جیسے ہی قومی ترانے کے ختم ہونے کے بعد جب ہم لوگ اپنی اپنی سیٹوں پر
بیٹھ گئے تو کچھ دیر بعد میں نے اپنا ہاتھ بڑھایا اور میڈم کے کندھے پر رکھ دیا اور ان کے
کندھے پر ہلکا ہلکا مساج کرنے لگا اس کے بعد میں اپنے ہاتھ کو کھسکا کر تھوڑا نیچے کی
طرف لے گیا ۔۔۔اور میں نے میڈم کے برقعے کے اوپرسے ہی ان کے دودھ پر ہاتھ پھیرنے
لگا ۔۔۔ پھر کچھ دیر بعد میں نے میڈم کے برقعے کے اوپر والے بٹن کھول دیےا اور پھر ان کی
ﺟﯽ
قمیض کے بٹن بھی کھول کر ان کی برا میں ہاتھ ڈال دیا اور پھر میں ان کے ایک دودھ کے
نپل کو اپنی دونوں انگلیوں پکڑ کر میں مسلنے لگا۔۔۔۔
یہ دیکھ کر میڈم نے اپنے بدن کو ڈھیال چھوڑ دیا اور کرسی ے ٹیک لگا کر ایزی سٹائل
میں بیٹھ گئیں اب میں نے ان اپنا منہ ان کے سوپر دودھ کی طرف کیا اور اور ان کو ٹٹول کر ان
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
پر اپنا منہ رکھ دیا اور ان کو چوسنے لگا۔۔اور استانی جی کے منہ سے دھیمی دھیمی سسکیا ں
نکلنے لگیں ۔۔۔۔ جبکہ دسری طرف فلم کے آغاز میں ہی ڈانگ سوٹا چل رہا تھا اور فل والیوم میں
لگی ڈانگ سوٹے کی آوازوں میں میڈم کی سسکیاں دب سی گئیں تھیں ۔۔کچھ دیر بعد میڈم نے
میرے منہ سے اپنا نپل چھڑایا اور اپنی زبان میرے منہ میں ڈال دی۔۔۔ اور میں ان کی زبان کو
ا
ت جزبات سے نہ صرف ہولے ہولے کانپ رہیں تھیں۔۔بلکہ چوسنےلگا ۔۔۔اس وقت استانی جی شد ِ
ﺳﺗﺎ
۔۔اس اس کےساتھ ساتھ وہ اپنی زبان کو بھی میرے منہ میں گھماتی جا رہیں تھی ۔۔۔ پھر میں نے
میڈم کے نییچے واال ہونٹ اپنے ہونٹوں میں لیا ۔۔۔۔۔اور اسے جیسے ہی چوسا تو میڈم کے کے
منہ سے ایک تیز سسکی نکلی ۔۔۔۔اوئی اور ہم ایک ساتھ چونک گئے اور میں نے استانی کے کان
میں کہا کہ پلیز اپنی سسکیوں کی آواز زرا دھیمی رکھیں تو وہ اپنے منہ کو میرے کان کے قریب
ﻧﯽ
کر کے بولیں ۔۔۔ میں تو آواز کو دھیما کر لوں گی لیکن ۔۔۔ تمھاری یہ مستیاں مجھ سے برداشت
نہیں ہو رہیں۔۔
سن کر مجھے ایک بات کی خوشی ہوئی کہ اور استانی جی کا یہ شوخ جملہ ُ
ﺟﯽ
وہ یہ کہ اب وہ ُموڈ میں آ چکیں تھیں ۔۔اور پھر میں نے دوبارہ سےان کے ہونٹ اپنے ہونٹوں
میں لیئے اور مست ہو کر چوسنے لگا۔۔ اس کے ساتھ ہی میڈم بڑے محتاط لیکن دھیمے انداز
میں سسکیاں لینے لگیں ۔۔۔ اور اس کے ساتھ ساتھ انہوں نے میرا ہاتھ پکڑا اور اپنے دودھ پر
رکھ کر بولیں ۔۔۔۔ میرے دودھ دباؤ ۔۔۔۔ تو میں نے ان کے دودھ کو دبانا شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ جیسے
@
جیسے میں ان کے دودھ دباتا ۔۔۔۔۔ وہ سسکی لیتی لیکن ان کا منہ میے منہ کے ساتھ جوڑے ہونے
کی وجہ سے ان کی سسکی میرے منہ میں ہی دم توڑ دی ۔۔ کافی دیر کسنگ کرنے کے بعد میڈم
نے اپنی زبان میرے منہ سے واپس کھینچی اور ۔۔۔۔ پھر میرے گالوں پر پھیرنی شروع کر دی ۔۔۔۔
اور گالوں پر زبان پھیرتے پھیرتے وہ میرے کان کی لو تک آ گئیں اور پھر جیسے ہی ان کی زبان
ﺷﺎه
کی نوک نے میرے کان کو چھوا۔۔۔۔۔۔۔ میرے سارے بدن میں ایک سنسنی سے پھیل گئی اور میں
میڈم سے دو گنا زیادہ گرم ہو گیا اور پھر میں نے ہاتھ بٹھا کر میڈم کی رانوں پر لے گیا اور ان
کی شلوار کے اوپر سے ہی ان کی رانوں پر اپنی انگلیاں پھیرنے لگا۔۔۔۔۔ رانوں پر انگلیاں پھیرتے
پھیرتے میں اپنی ان کی دونوں رانوں کے سنگھم پر لے گیا ۔۔۔۔ اپنی پھدی پر میری انگلیوں کا
لمس پاتے ہی استانی جی نے اپنی دوٹانگیں مزید کھول دیں اور تھوڑا سا آگے کھسک گئی جس
ﺟﯽ
سے ان کی چوت کا ابھار نمایاں ہو گیا ۔۔۔ شلوار کے اوپر سے ہی میں نے محسوس کر لیا تھا
کہ ان کی چوت کا ابھار کافی بڑا ہے ۔۔۔اور مجھے ابھری ہوئی چوت ویسے بھی بڑی پسند تھی
اس لیئے میں نے پہلے توان کی چوت کے نرم گوشت پر انگلیاں پھیریں ۔۔۔ اور پھر اس کے بعد
میں نے اپنی انگلیون کو ان کی چوت کے ہونٹوں پر پھیرنا شروع کر دیا ۔۔۔ کچھ ہی دیر بعد میں
نے اپنی انگلی کے پوروں پر ان کی چوت کے ہونٹوں کی نمی محسوس کی اور ۔۔۔ میں نے
ا
ﺳﺗﺎ
ان کی چوت میں ا نگلیاں ڈالنے کی دیری تھی کہ استانی جی نے تڑپ کر اپنے گرم بدن
کو میرے بدن کے ساتھ رگڑ نا شروع کر دیا ۔۔اور پھر انہوں نے اپنی چوت میں جانے والی
ﻧﯽ
انگلیوں کو اپنے اہاتھ میں پکڑا اور میری انگلیوں کو میرے منہ کے قریب کے سرگوشی میں
سنکہنے لگیں ۔۔۔۔ اپنی انگلیوں کو چاٹ کے بتا ؤ کہ میری پھدی کا ذائقہ کیسا ہے ؟ ان کی بات ُ
کر میں نے اپنی زبان باہر نکالی اور اپنی انگلیاں چاٹنے لگا جب دونوں انگلیوں پر لگی ان کی
ﺟﯽ
چوت کی رطوبت صاف ہو گئی تو ایک دفعہ پھر میری طرف جھکیں اور بڑی ہی شہوت ذدہ
سن بھی ان کی لہجے میں کہنے لگیں ۔۔۔ کیسی لگی میری چوت کی رطوبت ؟ ان کی بات ُ
طرف جھکا اوربوال ۔۔۔ استانی جی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آپ کی چوت ۔۔اور آپ کی چوت کا پانی ۔۔ دونوں ہی
خوش ذائقہ اور لزیذ ہیں ۔۔۔ تب انہوں نے میرا سر اپنی چوت کی طرف دبایا اور سرگوشی میں
@
سن کر میں نےا ن بولیں۔۔۔ تو میری خوش ذائقہ چوت کو چاٹو نا میری جان ۔۔۔ ان کی بات ُ
کی گردن رخسار اور گردن کو چوما اور بوال ۔۔۔۔ جو ُحکم میری استانی جی۔۔۔ اور پھر میں نے
ادھر ادھر دیکھا تو سکرین پر ہیرو کشتوں کے پشتے لگا رہا تھا ۔۔اور دو دوچار لوگ گیلری
میں بیٹھے تھے وہ بڑی ہی توجہ سے یہ دھائیں دھائیں والے سین دیکھ رہے تھے ان کی طرف
ﺷﺎه
سے مطمئن ہو کر میں اُٹھا اور پھر میڈم کی سیٹ کے نیچے بیٹھ گیا ۔۔۔ نیچے والی جگہ کافی
تنگ تھی اس لیئے میڈم نے اپنی ٹانگیں اوپر اٹھا لیں اور میں جلدی سے نیچے بیٹھ گیا اور ان
کی شلوار اتار دی ۔۔۔۔۔۔
ﺟﯽ
ا
تھا جیسے ہی میری انگلی کی پور نے ان کی گانڈ کے رنگ میں داخل ہونے کی کوشش کی
ﺳﺗﺎ
ان کی منہ سے ایک چیخ نما سسکی نکلی ۔۔۔سس۔۔سس۔ اوئی۔۔۔ یہ کر رہے اور پھر وہ نیچے
جھکیں اور میری انگی کو پکڑ کر اپنے چوت پر رکھ لیا اور جھک کر بولیں ۔۔۔۔ چوت ۔۔۔ میری
چوت کے ساتھ کھیلو۔۔۔ اب میں نے اپنی انگلی کو ان کی چوت میں داخل کیا اور ساتھ ہی تھوڑا
آگے ہو کر ان کی چوت پر ہونٹ رکھ دیئے۔۔۔آہ۔ہ۔ہ ۔۔ کی دلکش آواز استانی جی کے منہ سے
ﻧﯽ
برآمد ہوئی اور انہوں نے کرسی پر بیٹھے بیٹھے اپنے چوت کو میرے منہ کے ساتھ جوڑ دیا۔۔۔
ان کی چوت سے بڑی مست سی مہک۔۔ آ رہی تھی ۔۔۔ میں نے اپنا سانس اندر کی طرف کھینچا
اور ان کی پھدی سے نکلنے والی وہ ساری مست مہک اپنے اندر جزب کر لی ۔۔۔
ﺟﯽ
پھر میں نے اپنے منہ سے زبان باہر نکالی اور ان کی چوت کے موٹے لبوں کو چاٹنے لگا۔۔۔
اور ساتھ ساتھ ایک اپنی دو انگلیاں ان کی تنگ چوت کے اندر باہر کرتا رہا ۔ ۔۔۔ان کی چوت کے
لب۔۔۔۔ ان کی چوت کے پانی سے شرابور تھے ۔۔۔۔اور ان کی چوت پر تیزی سے چلتی ہوئی میری
زبان اس ساری نمی کو چوس رہی تھی۔۔ کچھ دیر چوت چاٹنے کے بعد میں نے اپنی زبان اوپر
@
کی اور ان کے دانے ۔۔۔ پر جو کہ اس وقت شہوت کی وجہ سے کافی سوجا ہوا تھا ۔۔۔ کو مختلف
انداز میں چھوا ۔۔۔ پہلے میں نے اس کی انگلیوں میں لیکر کر مسال ۔۔۔ پھر میں نے اس کی نوک
کر پکڑا اور کھینچا ۔۔۔۔ اور آخر میں استانی جی کے دانے کو اپنے ہونٹوں میں لیکر چوسنا
شروع کر دیا ۔۔۔۔۔ استانی جی میرے اس انداز سے اتنی گرم ہوئیں کہ مرے دانے کے چوستے
ﺷﺎه
چوستے ان کی چوت نے کافی دفعہ پانی چھوڑ دیا۔۔۔۔ لیکن میں نے ان کے دانے کو چوسنا نہ بند
کیا اور اسے اپنے ہونٹوں میں لیکر مسلسل چوستا رہا ۔۔۔ اور ساتھ ساتھ استانی جی کے منہ سے
نکلنے والی لذت انگیز ۔۔۔۔ سسکیوں سے لطف اندوز ہوتا رہا۔۔۔۔
میں ان کے دانے کو منہ میں لیئے چوسے جا رہا تھا ۔۔۔ کہ اچانک۔۔۔۔ استانی جی میری
ﺟﯽ
طرف جھکیں اور بولیں بس ۔۔۔ اور مت چاٹو۔۔ تو میں نے کہا پھر میں کیا کروں ؟ تو وہ مست
اور شہوت سے بھر پور لہجے میں بولیں اپنا لن میرے منہ میں ڈالو۔۔۔۔۔۔ ان کی بات سن کر میں
اٹھا اور اپنی شلوار اتار دی اور اپنا لن نکال کر ان کے منہ کے قریب لے گیا ۔۔۔ میرے لن کو
اپنے منہ کے قریب پا کر انہوں نے اپنی زبان منہ سے نکالی اور میرے ٹوپے پر پھیرے ہوئے
بولیں۔۔۔۔ میری پھدی کی طرح تمھارے لن سے بھی مزی ٹپک رہی ہے تو میں نے ان سے کہا
کہ چکھ کر بتائیں نا کہ میری مزی کا ذئقہ کیسا ہے تو وہ ہولے سے ہنس کر بولیں ۔۔۔ چکھ کر
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
یا ۔۔۔۔ کھا کر ۔۔۔۔اور پھر اپنی زبان کو لن کی ٹوپی پھر پھیر کر وہ اپنی زبان کو اپنے منہ کے
اعلی ہے اور پھر
ٰ اعلی ۔۔۔۔ تمہاری مزی کا زائقہ بہت
ٰ اندر لے گئیں اور ۔۔۔۔ پھر ۔۔۔ بولیں۔۔۔۔ بہت
انہوں نے میرے لن کو اپنے منہ میں لیا اور اسے چوسنے لگیں اور پھر انہوں نے اپنی زبان سے
میرے سارے لن پر مساج کیا اور پھر ٹوپے کو منہ میں لیکر خوب چوسا اور پھر ۔۔۔اسے باہر
ا
نکال کر بولیں۔۔۔میری جان تمھارا لن بہت زیادہ مزی چھوڑ رہا ہے۔۔۔ اس سے پہلے کہ یہ۔۔۔۔ منی
ﺳﺗﺎ
چھوڑنا شروع کر دے ۔۔۔ مجھے چودو۔۔۔
سر دست اور میں نے ان سے پوچھا ۔۔۔ میڈم میں آپ کو کیسے چودوں تو وہ وہ کہنے لگیں ۔۔۔۔ ِ
تو میں تمھارے لن پر بیٹھنے لگی ہوں ۔۔۔ پھر اس کے بعد اگلے سٹیپ کا سوچیں گے ۔۔۔ ان کی
ﻧﯽ
سن کر میں اپنی کرسی پر بیٹھ گیا اور وہ اٹھیں مجھے کرسی کے کنارے تک آنے کا کہا بات ُ
اور میں نیم دراز ہو گیا اور کرسی کی آخری حد چال گیا اب انہوں نے اپنی دونوں ٹانگیں ادھر
ادھر کیں اور پھر اپنی گانڈ کو میرے لن کی سیدھ میں لے آئیں ۔۔ اور پھر انہوں نے میرے لن
کو اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اس کی سیدھ میں نیچے ہونے لگیں ۔۔۔۔ اور نیچے ہوتے ہوتے ۔۔۔۔
ﺟﯽ
میرے ٹوپے نے استانی جی کی چوت کے ہونٹوں کو ٹچ کیا لیا ۔۔۔ اور چوت سے لن ٹچ ہونے کی
دیر تھی ۔۔۔ کہ استانی جی نے ایک لذت سے بھر پور سسکی لی اور ایک دم سے میرے لن پر بیٹھ
گئی۔۔۔۔۔ اُف۔ف۔ف۔ف۔ف۔ف۔ ۔۔ چونکہ استانی جی کی چوت کافی تنگ تھی اور میرا لن سخت اور
موٹا تھا۔۔ ا س لیئے میرا لن ان کی چوت میں جاتے ہی ان کے منہ سے ایک گھٹی گھٹی سی
@
چیخ نکل گئی ۔۔اور وہ چالئیں ۔۔ اوئی میں مر گئی۔۔۔۔۔ تو میں نے نیچے سے پوچھا ۔۔۔ کیا ہوا میڈم
۔۔۔تو وہ کہنے لگیں ۔۔۔ ایسا لگا کہ جیسے کوئی جلتا ہوا لوہے کا انگارہ میرے چوت میں چال گیا
ہو ۔۔۔۔ انہوں نے اتنا کہا اور پھر میرے لن پر اپنے ہپس کو ہالنے لگیں۔۔۔ دوسری طرف میرا
موٹا لن ان کی ٹائیٹ چوت میں پھنسا ہوا تھا ۔۔۔ اور ان کی چوت میں خاصی پھسلن بنی ہوئی
ﺷﺎه
تھی ۔۔۔ جس کی وجہ سے میرا لن بڑی آسانی سے ان کی چوت کے اندر باہر آ جا رہا تھا ۔۔۔اس
اس کے ساتھ ساتھ استانی جی کے منہ سے مستانی آوازیں بھی نکل رہیں تھیں ۔۔۔۔آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ کیا
لن ہے یار ۔۔۔۔ کیسا پھنس پھنس کر میرے اندر جا رہا ہے ۔۔۔ کبھی وہ اپنا منہ میری طرف جھکا
کر کہتیں ۔۔۔۔۔ میری ٹائیٹ چوت کا مزہ لے رہا ہے نا تمھار الن؟؟ ۔۔کبھی کہتی پہلے کبھی ایسی
ٹائیٹ چوت ماری ہے تم نے ؟ تو میں کہتا نہیں میڈم ۔۔۔۔تو وہ کہتی پہلے کبھی اتنا موٹا لُال (لن )
ﺟﯽ
بھی نہیں لیا میری چوت نے اور پھر ۔۔۔ وہ تیزی سے میرے لن کے اوپر نیچے ہونے لگیں۔۔۔۔
کافی دیر تک وہ میرے لن کو اپنی چوت کے اندر باہر کرتی رہیں ۔۔۔۔ دفعتا ً وہ میری طرف
جھکیں اور لذت بھرے لہجے میں کہنے لگیں ۔۔۔ میں نے تمہارے لن کو کافی اندر باہر کر لیا ۔۔۔۔
اب میری پھدی تمھارے لن کے گھسے مانگتی ہے ۔۔۔۔ اور پھر وہ جیسے تیزی سے میرے لن پر
بیٹھیں تھیں اسی تیزی سے میرے لن سے اُٹھ گئیں اور پھر بنا کوئی وقفہ لیئے انہوں نے اپنے
لکھاری :شاہ جی
اُستانی جی
آگے والی سیٹ پر پر اپنے جسم کے آگے واال حصہ رکھ دیا اور اپنی ٹانگیں کھول دیں ۔۔۔۔ میں
اپنی سیٹ سے اُٹھا اور ایک نظر حال پر ڈالی ۔۔۔ سب اوکے تھا ۔۔ تب میں کھڑا ہوا اور اپنے لن
کو ہاتھ میں پکڑ کر پہلے تو ان کی موٹی گانڈ پر پھیرا ۔۔۔ تو وہ پیچھے کی طرف منہ کر کے
کہنے لگیں۔۔۔ اندر ڈال۔۔۔۔۔۔۔ اور میں نے اپنا لن ان کی چوت کے موٹے لبوں پر رکھا اور دھکا
ا
لگایا ۔۔۔۔ ان کی چوت کی پھسلن کی وجہ سے لن تھوڑا آگے کو چال گیا ۔۔۔ اور پھر میں نے دوسر
ﺳﺗﺎ
ا گھسہ مارا تو میرا لن جڑ تک ان کی خوبصورت چوت میں اتر گیا ۔۔اور میڈم نے میری طرف
منہ کر کے ایک شہوت بھری سسکی لی اور بولی۔۔۔۔ چود مجھے۔۔۔۔ اور پھر میں نے دھیرے
دھیرے گھسے مارنے شروع کر دیئے ۔۔ اور پہلے آہستہ ۔۔۔پھر تیز اور پھر تیز ۔۔۔۔ اور وہ ہر
گھسے پر یہی کہتیں ۔۔۔۔ میری چوت بڑی پیاسی ہےجان ۔۔۔ن ن ن ۔۔۔اور چود ۔۔۔اور چود۔۔آۃ ہ ہ ۔۔۔۔
ﻧﯽ
ہاں اب پتہ چال نہ کہ کسی لن نے میری پھدی ماری ہے اور ان کی ان لزت اور شہوت بھری
باتوں سے میں نے گھسوں کی رفتار میں خاصہ اضافہ کیا اور پھر ان کی چوت لن مارتا رہا
مارتا رہا۔۔۔۔۔ مارتا رہا۔۔۔۔۔ یہاں تک کہ فواروں کی صورت میں ان کی چوت سے پانی نکلنا
ﺟﯽ
شروع ہو گیا ۔۔۔۔ اور اس کےس اتھ ہی استانی جی مست آوازیں نکالتی ہوےئیں ۔۔۔۔۔ اپنی گانڈ کو
میرے لن سے جوڑنے لگیں۔۔۔۔ اور پھر چند مزید گھسوں کے بعد میں اور استانی جی دونوں اکھٹے
چھوٹ گئے ۔۔۔۔۔۔
اور ہم نے جلدی سے اپنی اپنی شلواریں پہنی اور اتنی دیر میں ہاف ٹائم ہو گیا ۔۔۔ استانی
@
جی نے مجھے سختی سے منع کیا کہ خبردار میں اپنی سیٹ سے اُٹھ کر کہیں نہ جاؤں چنانچہ
میں اور وہ دونوں پورے وقفے میں اپنی سیٹؤں پر بیٹھے رہے ۔۔۔اور پھر جیسے ہی وقفہ ختم ہوا
۔۔۔۔ ہم دونوں کا سیکس پروگرام ایک دفعہ پھر چالو ہو گیا ۔۔۔ اس دفعہ جب ہم فارغ ہوئے تو میں
نے استانی جی سے پوچھا ۔۔ کہ میری چودائی کیسی تھی میڈم ؟ تو انہوں نے مسکرا کر میری
ﺷﺎه
طرف دیکھا اور بولیں ۔۔ پہلے یہ بتاؤ میری پھدی کیسی تھی؟ تو میں نے کہا ایکدم ٹائیٹ ۔۔۔ ایک
دم زبردست ۔۔۔پھر میں نے ان سے اپنے لن کے بارے میں پوچھا تو کہنے لگیں ۔۔۔تمھارا لن کسی
بھی مرد سے سو گنا زیادہ اچھا اور طاقتوار ہے ۔۔اسی قسم کی باتوں میں فلم ختم ہو گئی اور
انہوں نے مجھے منع کیا اور بولیں ہم سب سے آخر میں جائیں گئے اور یہ اچھا ہی ہوا ۔۔۔ کیونکہ
۔۔۔ جیسے ہی ہم سنیما سے باہر جانے کے لیئے گیٹ کی طرف گئے تو ایک دم سے استانی جی
ﺟﯽ
نے میرا بازو پکڑ لیا۔۔۔۔ اور سامنے کی طرف اشارہ کیا۔۔۔۔ اور جب میں نے سامنے دیکھا تو
میرے سامنے ندا میم۔۔۔ کامران کے بازو میں بازو ڈالے گیٹ سے باہر نکل رہی تھی ۔
ختم شدَ