You are on page 1of 2

‫سالم اور جدیدیت‬

‫از پروفیسر ڈاکٹر فضل الرحمان‬

‫(انگریزی سے اردو ترجمہ کار‪ :‬ابو بکر)‬

‫وسطی کے اسالمی قانون (فقہ) کے مکاتب فکر (مسلمانوں کی) ابتدائی نسلوں کی حقیقت پسندی کی وجہ سے بھی کسی قدر‬ ‫ٰ‬ ‫دور‬
‫کامیابی سے چلتے رہے۔ انہوں نے اس قانون کی تشکیل کے لیے مفتوح اقوام کی روایات اور اداروں سے خام مواد حاصل کیا‬
‫اور جہاں ضرورت پڑی اسے قرآنی تعلیمات کی روشنی میں تبدیل بھی کیا‪ ،‬اور یوں اسے ان تعلیمات کے ساتھ موافق بنایا۔‬
‫جہاں جہاں مفسرین نے تجریدی انداز میں قرآن سے قانون اخذ کرنا چاہے تو نتائج زیادہ تسلی بخش نہ نکلے۔ مثال کے طور پر‬
‫‘حدود’ کے تعزیری قانون کے معاملے‪ B‬میں ایسا ہوا۔‬

‫اس کی وجہ یہ ہے کہ قانون اور سماجی اداروں کو اخذ کرنے کا آلہ جسے قیاس یعنی مثال کی بنیاد پر دلیل دینا کہتے ہیں‬
‫مطلوبہ معیار تک درست نہ تھا۔ بایں ہمہ ایسے آالت کی نا کاملیت اور عدم درستی کی وجہ قرآن کی تفہیم کے کسی مناسب‬
‫اصول سے العلم ہونا تھا۔ قرآن کی اساسی وحدت کو سمجھ‪ B‬سکنے میں ایک عمومی ناکامی کا مظاہرہ نظر آتا ہے۔‬

‫اس کے ساتھ ہی کئی آیات کو (سیاق سے) کاٹ کر عملی طور پر ان کے الفاظ پر جمے رہنے کا رویہ بھی ملتا ہے۔ اس ‘جزئی’‬
‫طریقہ کار کا نتیجہ یہ نکال کہ ان آیات سے بھی اصول اخذ کیے جانے لگے جو اپنے مقصد میں ہرگز بھی قانونی نہیں تھیں۔‬

‫ایک روزن لکھاری‬

‫ابو بکر‬

‫قرآن کی اساسی وحدت (جو ایک واضح نظریہ حیات پیش کرتی ہے ) کو نہ سمجھ سکنے کی سب سے بھاری قیمت الہیات کے‬
‫میدان میں ادا کرنا پڑی۔ قانون کے میدان میں ہر چند اس اساسی وحدت کی عدم دریافت اضافی طور پر موجود رہی تاہم بیرونی‬
‫مواد کو شامل کرنے سے ایک معقول انداز میں عملیت پسندی کو اختیار کیا گیا ۔‬

‫تاہم حیات و کائنات پر ایک واضح اور مخصوص نقطہ نگاہ کی حامل قرآن کی اساسی وحدت کو دریافت نہ کرکے جب بیرونی‬
‫ٰ‬
‫وسطی میں سنی الہیات کا غالب‬ ‫عوامل کو الہیات میں شامل کیا گیا تو تباہ کن نتائج نکلے خاص طور اشاعرہ کے ساتھ جو دور‬
‫مکتبہ فکر تھا۔ بارہویں صدی میں جب سنی الہیات کے اس غالب مکتبہ فکر کا ٹکراؤ مسلم فلسفیوں کی کلی طور پر عقلی مابعد‬
‫الطبیعات سے ہوا جنہوں نے اپنے نظام فکر کی عمارت ہر چند یونانی بنیادوں پر کھڑی کیں تاہم اسے راسخ العقیدہ بنیاد پرستی‬
‫(آرتھو ڈاکسی) کے ساتھ سمونے کی بھی سنجیدہ کوششیں کی تھیں۔‬
‫اس صورت میں اول الذکر (اشاعرہ) نے ثانی الذکر ( قلی مابعد الطبیعی فالسفہ ) کو تقریبا ً چاروں شانے چت کر دیا۔ نتیجے کے‬
‫طور پر فلسفے کو تشیع کے عقلی و روحانی پس منظر میں نقل مکانی کرنی پڑی یا پھر خود کو تعقلی تصوف میں بدلنا پڑا۔‬

‫یہ مضمون بھی اپنے ذوق کی نذر کیجئے‪ :‬عالمہ اقبال اور علی شریعتی کا انقالبی فلسفہ‪ ،‬از ڈاکٹر شگفتہ بیگم‬

‫فلسفیوں اور اکثر اوقات صوفیاء نے قرآن کی اس اساسی وحدت کو سمجھا تاہم یہ فہم اندرونی طور پر یعنی مطالعہ قرآن سے اخذ‬
‫کرنے کی بجائے بیرونی طور پر قرآن (اور عمومی طور پر اسالم ) پر الگو کیا گیا۔ بعض فکری نظام اور تعینات کو خارجی‬
‫ذرائع سے اپنایا گیا جو الزمی طور پر قرآن سے کلی متصادم تو نہیں تھیں تاہم اس سے بیگانہ اور بعض اوقات عدم مطابق ضرور‬
‫تھیں۔‬

‫انہیں اسالمی رنگ میں رنگ لیا گیا اور زیادہ تر اسالمی اصطالحات میں بیان کیا جانے لگا۔ لیکن اس پتلے پترے کے پیچھے یہ‬
‫حقیقت نہیں چھپائی جا سکتی تھی کہ ان تصورات کا بنیادی ڈھانچہ قرآن سے اخذ شدہ نہیں تھا۔ (چاہے ابن سینا کا فلسفہ ہو یا ابن‬
‫عربی کا تصوف) ان عقلی نظاموں کے کسی حد تک بناوٹی اسالمی حلیے نے ہی آرتھو ڈاکسی کے نمائندوں کو ان پر شدید حملوں‬
‫کے لیے اکسایا۔‬

‫آرتھو ڈاکسی کا اپنا نظام بھی ناکافی تھا اور اس میں داخلی کمزوریاں بھی موجود تھیں بطور خاص اشعری الہیات جس کے بنیادی‬
‫اصول یعنی انسانی ارادے کا غیر موثر ہونا اور الوہی اصول میں مقصد کا نہ ہونا قرآن سے تصادم میں تھے۔ اس کے باوجود‬
‫بھی غزالی اور ابن تیمیہ سمیت کئی اوروں کے نزدیک بھی ابن سینا کی مابعد الطبیعات یا ابن عربی کی تھیوسوفی کے‬
‫اسالمی تعلیمات‪ B‬کے ساتھ بنیادی تضادات کو ڈھونڈ پانا ہرگز بھی مشکل نہ تھا۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ اسالمی دانش‬
‫(انٹیلیکچوئلزم) کا سلسلہ مقطوع رہا۔‬

You might also like