You are on page 1of 5

‫آج بہت دن بعد میں اپنے کمرے تک آ نکال تھا‬

‫جوں ہی دروازہ کھوال ہے اس کی خوشبو آئی ہے‬

‫نہ جی بھر کے دیکھا نہ کچھ بات کی‬


‫بڑی آرزو تھی مالقات کی‬

‫عشق نازک مزاج ہے بے حد‬


‫عقل کا بوجھ اٹھا نہیں سکتا‬

‫کس کس کو بتائیں گے جدائی کا سبب ہم‬


‫تو مجھ سے خفا ہے تو زمانے کے لیے آ‬

‫گال بھی تجھ سے بہت ہے مگر محبت بھی‬


‫وہ بات اپنی جگہ ہے یہ بات اپنی جگہ‬

‫آپ کے بعد ہر گھڑی ہم نے‬


‫آپ کے ساتھ ہی گزاری ہے‬

‫اب جدائی کے سفر کو مرے آسان کرو‬


‫تم مجھے خواب میں آ کر نہ پریشان کرو‬

‫کوئی سمجھے تو ایک بات کہوں‬


‫عشق توفیق ہے گناہ نہیں‬
‫محبتوں میں دکھاوے کی دوستی نہ مال‬
‫اگر گلے نہیں ملتا تو ہاتھ بھی نہ مال‬

‫تم کو آتا ہے پیار پر غصہ‬


‫مجھ کو غصے پہ پیار آتا ہے‬
‫تم مجھے چھوڑ کے جاؤ گے تو مر جاؤں گا‬
‫یوں کرو جانے سے پہلے مجھے پاگل کر دو‬

‫آج دیکھا ہے تجھ کو دیر کے بعد‬


‫آج کا دن گزر نہ جائے کہیں‬

‫سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا‬


‫اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا‬

‫بدن میں جیسے لہو تازیانہ ہو گیا ہے‬


‫اسے گلے سے لگائے زمانہ ہو گیا ہے‬

‫محبت کرنے والے کم نہ ہوں گے‬


‫تری محفل میں لیکن ہم نہ ہوں گے‬

‫اتنی ملتی ہے مری غزلوں سے صورت تیری‬


‫لوگ تجھ کو مرا محبوب سمجھتے ہوں گے‬
‫آتے آتے مرا نام سا رہ گیا‬
‫اس کے ہونٹوں پہ کچھ کانپتا رہ گیا‬

‫کتنی لمبی خاموشی سے گزرا ہوں‬


‫ان سے کتنا کچھ کہنے کی کوشش کی‬

‫جانے والے سے مالقات نہ ہونے پائی‬


‫دل کی دل میں ہی رہی بات نہ ہونے پائی‬

‫لوگ کہتے ہیں کہ تو اب بھی خفا ہے مجھ سے‬


‫تیری آنکھوں نے تو کچھ اور کہا ہے مجھ سے‬

‫تم میرے لیے اب کوئی الزام نہ ڈھونڈو‬


‫چاہا تھا تمہیں\ اک یہی الزام بہت ہے‬

‫اے دوست ہم نے ترک محبت کے باوجود‬


‫محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی‬

‫تم کیا جانو اپنے آپ سے کتنا میں شرمندہ ہوں‬


‫چھوٹ گیا ہے ساتھ تمہارا اور ابھی تک زندہ ہوں‬

‫تمہیں\ ضرور کوئی چاہتوں سے دیکھے گا‬


‫مگر وہ آنکھیں ہماری کہاں سے الئے گا‬
‫اب تک دل خوش فہم کو تجھ سے ہیں امیدیں‬
‫یہ آخری شمعیں بھی بجھانے کے لیے ٓا‬

‫بھال ہم ملے بھی تو کیا ملے وہی دوریاں وہی فاصلے‬


‫نہ کبھی ہمارے قدم بڑھے نہ کبھی تمہاری جھجک گئی‬

‫تم سے چھٹ کر بھی تمہیں بھولنا آسان نہ تھا‬


‫تم کو ہی یاد کیا تم کو بھالنے کے لئے‬

‫عشق جب تک نہ کر چکے رسوا‬


‫آدمی کام کا نہیں ہوتا‬

‫اس کی آنکھوں کو غور سے دیکھو‬


‫مندروں میں چراغ جلتے ہیں‬
‫عجیب شخص ہے ناراض ہو کے ہنستا ہے‬
‫میں چاہتا ہوں خفا ہو تو وہ خفا ہی لگے‬

‫گھروں پہ نام تھے ناموں کے ساتھ عہدے تھے‬


‫بہت تالش کیا کوئی آدمی نہ مال‬

‫سر جھکاؤ گے تو پتھر دیوتا ہو جائے گا‬


‫اتنا مت چاہو اسے وہ بے وفا ہو جائے گا‬

‫یہ کہہ کے اس نے مجھے مخمصے میں ڈال دیا‬


‫مالؤ ہاتھ اگر واقعی محبت ہے‬
‫ٹینشن سے مرے گا نہ کرونے سے مرے گا‬
‫اک شخص ترے پاس نہ ہونے سے مرے گا‬

‫کچھ روز نصیر آؤ چلو گھر میں رہا جائے‬


‫لوگوں کو ی شکوہ ہے کہ گھر پر نہیں ملتا‬

‫کپڑے بدل کر بال بنا کر کہاں چلے ہو کس کے لیے‬


‫ناصر گھر میں رہو تو بہتر ہے‬
‫ؔ‬ ‫رات بہت کالی ہے‬

‫کوئی ہاتھ بھی نہ مالئے گا جو گلے ملو گے تپاک سے‬


‫یہ نئے مزاج کا شہر ہے ذرا فاصلے سے مال کرو‬

‫اہل ہوس تو خیر ہوس میں ہوئے ذلیل‬


‫وہ بھی ہوئے خراب‪ ،‬محبت جنہوں نے کی‬
‫تو اگر پاس نہیں ہے کہیں موجود تو ہے‬
‫تیرے ہونے سے بڑے کام ہمارے نکلے‬

‫مل ہی جائے گا کبھی دل کو یقیں رہتا ہے‬


‫وہ اسی شہر کی گلیوں میں کہیں رہتا ہے‬

‫نئے دیوانوں کو دیکھیں تو خوشی ہوتی ہے‬


‫ہم بھی ایسے ہی تھے جب آئے تھے ویرانے میں‬

‫مجھے معلوم ہے اہل وفا پر کیا گزرتی ہے‬


‫سمجھ کر سوچ کر تجھ سے محبت کر رہا ہوں میں‬

‫جب شام اترتی ہے کیا دل پہ گزرتی ہے‬


‫ساحل نے بہت پوچھا خاموش رہا پانی‬

‫ارے کیوں ڈر رہے ہو جنگل سے‬


‫یہ کوئی آدمی کی بستی ہے‬

You might also like