You are on page 1of 39

‫حمب ت ی ا عادت‬

‫رات کس ی پہ ر م یری آنکھ کھلی ت و‬

‫عجیب سا احساس ہوا۔‬

‫اچان ک س انس رکی تھی ی ا دل کی‬

‫دھڑکن جیسے کسی نے بہت‬

‫بھاری پتھر میرے سینے پرال رکھا ہ و‬

‫مجھے تو ابھی دل کا کوئی‬

‫عارض ہ نہیں ت و پھ ر ایس ا کی وں‬

‫محسوس ہو رہا ہے شاید بہت‬

‫دیر سے بائیں جانب کروٹ ل یے س وتا‬

‫رہا ہوں اب مجھے‬

‫ک روٹ ب دلنی چ اہیے ۔ ویس ے بھی‬

‫کروٹ نہ بدلنے کی وجہ‬

‫بھی تو نہیں رہی۔ ایک بار پھر میرا دل‬

‫اچھل کر حلق میں آ‬

‫گی ا ارے میں ایس ا س وچ بھی کیس ے‬

‫سکتا ہوں؟ میں نے خود کو‬


‫جھڑ کا‪ ،‬نہیں رہی ؟ نہیں ایسا نہیں ہ و‬

‫سکتا۔ ایسے کیسے‬

‫جاس کتی ہے‪ ،‬مان ا میں نے کبھی اس‬

‫کا ہاتھ تھام کر ساتھ جینے‬

‫مرنے کی قسمیں نہیں کھائیں مگر کی ا‬

‫ہم مشرقی لوگ‬

‫ش ادی ک رتے وقت غ یرارادی ط ور پ ر‬

‫اپنے دلوں میں ایسے‬

‫ہی عہ د و پیم ان نہیں ک ر لی تے کس ی‬

‫کے سمجھائے بغیر ایک‬

‫دوسرے کو ٹھیک سے جانے پہنچانے‬

‫بغیر ہی ہمیں ایک‬

‫دوسرے سے محبت ہو جاتی ہے۔ ایس ا‬

‫میں نہیں‪ ،‬میری‬

‫مرح وم ام اں بی کہ ا ک رتی تھیں جب‬

‫شادی سے ایک رات‬


‫پہلے میں نے ان کی گود میں منہ چھپا‬

‫کر ڈرتے ڈرتے کہا تھا‬

‫کہ۔ ام اں بی بھال میں کس ی اجن بی‬

‫عورت سے محبت کیسے کر‬

‫سکتا ہوں جس کو بس ایک نظر دیکھا‬

‫ہو جس کی آواز تک‬

‫کی پہچ ان نہ ہ وئی ہ و‪ ،‬جس کی آہٹ‬

‫کبھی محسوس نہ کی ہو ‪،‬‬

‫جو خوشبو کون سی لگائی ہے وہ تک‬

‫نہ معلوم ہو تو بھال ایسے‬

‫کسی ک و کیس ے دل دی ا جات ا ہے؟ اور‬

‫اماں بی نے ہمیشہ کی طرح‬

‫کس قدر پیارسے س مجھایا تھ ا۔ محبت‬

‫تم نہیں ‪ .‬وہ تم سے‬

‫ک رے گی اور تمہیں بس اس کی محبت‬

‫کی عادت ہو جائے‬


‫گی بیٹ ا ! ع ورت ت و ہے ہی محبت ‪،‬‬

‫سرتا پیر محبت مگر مرد‪ ،‬مرد‬

‫زی ادہ ترع ادی ہوت ا ہے۔ ع ورت ک و‬

‫معلوم ہے مرد کو عادی‬

‫بنانا ہے۔ عقل مند عورت کبھی مرد کو‬

‫محبت کرنے پر‬

‫مجبور نہیں کرتی بس اپنی کا محبت کا‬

‫عادی بنا دیتی ہے اور ہے‬

‫اور مجھے اپنی بہ و پ ر پ ر پ ورا پ ورا‬

‫بھروسا ہے‪ -‬تم زیادہ فکر نہ‬

‫ک رو‪ ،‬ای ک دن تم آنکھ کھل و گے اور‬

‫تمہیں لگے گا کہ بس آج‬

‫س ے تم اس کے بغ یر نہیں رہ س کتے‬

‫تمہیں اس کے کھو جانے‬

‫س ے ڈر لگ نے لگے گ ا۔ تم اس کی‬

‫چھوٹی چھوٹی نادانیوں پر ہنسو‬


‫گے۔ مذاق اڑاؤ گے اس کی بیوقوفی وں‬

‫پر طنز بھی کرو گے‬

‫مگر اس س ے دور ہ و ج انے ک ا خی ال‬

‫ہی تمہیں بے چین کر‬

‫دے گ ا۔ ام اں بی کی ب اتوں س ے مجھ‬

‫میں چھپا ضدی مرد ابھر‬

‫کر سامنے آگیا‬

‫ہ ونہہ! میں ایس ا ویس ا ک وئی معم ولی‬

‫بندہ نہیں کہ ذرا سی‬

‫ع ورت کی محبت کے ج ال میں پھنس‬

‫جاؤں۔ اماں بی تو مجھے‬

‫ابھی ت ک چھوٹ ا س ا بچہ ہی س مجھتی‬

‫ہیں۔ میں چھوٹا بچہ نہیں تھا‬

‫پھر بھی کتنی دیر تک اماں بی کی گود‬

‫میں منہ چھپائے پڑا رہا۔‬

‫ام اں بی غل ط کہہ رہی ہیں کہ م رد‬

‫محبت نہیں کرتا صرف‬


‫عادی ہوتا ہے۔ مجھے کسی قدر محبت‬

‫ہے اماں بی سے۔ ہمیشہ‬

‫سے تھی گو میں گھر میں تین بھائیوں‬

‫اور ایک چھوٹی بہن کا‬

‫سب سے بڑا بھ ائی ہ وں اور اب ا می اں‬

‫کے گزر جانے کے‬

‫بعد میں نے ہی کم عمری سے ابا میاں‬

‫کی جگہ سنبھال لی اور‬

‫گھر کا کاروبار اپنے کندھوں پر الد لی ا‬

‫تو کیا یہ سب صرف‬

‫ع ادی ہ ونے پ ر کی ا ؟ نہیں میں محبت‬

‫کرتا ہوں بھائیوں سے‬

‫ننھی سی بہن سے اور س ب س ے ب ڑھ‬

‫کر اپنی اماں بی سے‪ ،‬ایسا‬

‫الزام کیسے لگا سکتی ہیں ام اں بی ہم‬

‫مردوں پر کہ مرد محبتؕ‬


‫نہیں کرتا ؟ میں چاہت ا ت و ام اں بی ک و‬

‫باتوں میں گھیر سکتا تھا مگر‬

‫میں ام اں بی س ے الجھن ا نہیں چاہت ا‬

‫تھا۔ وہ کتنے دنوں بعد‬

‫م یری ش ادی کے سلس لے میں ہ ونے‬

‫والے ہنگاموں میں دن‬

‫رات مص روف ہ و ک ر بھی بے ح د‬

‫مسرور تھیں۔ شاید ابا‬

‫می اں کے بع د وہ پہلی ب ار اس ق در‬

‫ہشاش بشاش تھیں تو اب‬

‫میں ان کا م زاج ب رہم کی وں کرت ا۔ میں‬

‫کوئی گندا بچہ تھوڑی‬

‫ہوں ۔ میں بچوں کی طرح کئی دوس ری‬

‫باتوں میں مگن اماں‬

‫بی کی محبت و شفقت ک ا م زہ لیت ا رہ ا‬

‫تھا مگر دل ہی دل میں‬


‫کہیں میرا خود سرمرد مکم ل ط ور پ ر‬

‫جاگ چکا تھا۔‬

‫خی الوں ک ا سلس لہ ٹوٹ ا گھ ر کی غ یر‬

‫معمولی خاموشی کو محسوس‬

‫کی ا مگ ر پھ ر مطمئن ہ و گی ا۔ دون وں‬

‫بچے تو شام سے ہی اپنی‬

‫پھوپھو کے ساتھ چلے گئے تھے۔ چلو‬

‫اچھا ہوا ورنہ میں بھال‬

‫ان کو کیس ے س نبھالتا۔ یہ ک ام ت و وہی‬

‫کر سکتی ہے۔ مجھے تو‬

‫ویس ؕے بھی بچ وں ک و ص اف س تھرا‪،‬‬

‫مطمئن اور سکون‬

‫سے بیٹھا دیکھنے کی ع ادت ہے۔ میں‬

‫نہیں چاہتا تھ ا کہ اس کے بغ یر بچ وں‬

‫کے ساتھ وقت گزاروں‪ ،‬کسی‬


‫نامناس ؕب ب ات پ ر ان ک و جھڑک وں وہ‬

‫ہوتی ہے تو میرے‬

‫سامنے پتا نہیں کیسے دون وں بہت ہی‬

‫شرارتی بچے مکمل طور‬

‫پ ر ادب کے دائ رے میں رہ تے ہیں‪،‬‬

‫مجھے ابھی تک نہیں‬

‫معل وم کہ ب اپ کی ہ زار ہ ا ش فقت و‬

‫محبت کے باوجود کس‬

‫طرح ماں بچوں کے دلوں میں باپ کے‬

‫لیے بے انتہا ادب‬

‫ڈال دیتی ہے جیسے کوئی مالی بیج کو‬

‫پانی دیتے دیتے تناور‬

‫درخت بنا لیتا ہے ت و اچھ ا ہی ہے س و‬

‫بچے اپنی پھوپھو کے‬

‫س اتھ چلے گ ئے۔ یہ ہ دایات بھی اس ی‬

‫نے دی ہوں گی۔‬

‫وہ نہ ہو کر بھی موجود ہے۔‬


‫میں نے س وچتے س وچتے ک روٹ‬

‫سوچنے کروٹ بدلی اور بستر‬

‫کے دوس ری ج انب س پاٹ خ الی جگہ‬

‫نے مجھے مکمل طور پر‬

‫بیدار کر دیا‪ -‬پتا نہیں کی وں ش ادی کے‬

‫گزرے آٹھ سالوں‬

‫میں تقریب ا ہ ر رات میں نے اس کی‬

‫جانب کروٹ لے کر‬

‫س ونے میں قب احت محس وس کی۔‬

‫مجھے کس بات کا خوف رہا‬

‫تھ ا‪ ،‬ش اید اس ب ات ک ا کہ کہیں وہ‬

‫جاگتی نہ ہو جیسا کہ وہ اکثر‬

‫ہی جاگی رہتی تھی اور پھر م یری اس‬

‫کے چہرے پر نظر‬

‫پ ڑی‪ ،‬ہم دون وں کی آنکھیں ملیں ‪،‬‬

‫کمرے کے اندھیرے‬
‫میں بھی اس کے چہ رے ک و دیکھ نے‬

‫سے اجتناب کرتا تھا اور‬

‫آج رات جبکہ وہ میرے برابر میں نہیں‬

‫تھی تو پورے‬

‫بستر پ ر پھی ل ک ر س ونے کے بج ائے‬

‫اس کے حصے کی صاف‬

‫ستھری چ ادر کی س لوٹ خ راب ہ ونے‬

‫کے ڈر سے کب سے‬

‫بیٹھا سوچ رہا ہوں کہ میں ایس ا کی وں‬

‫کرتا رہا تھا ۔ پتا نہیں‬

‫میں یہ آج کس ی قس م کی ب اتوں میں‬

‫الجھتا چال جا رہا ہوں۔‬

‫میں نے ایک بار پھ ر خ ود ک و جھڑک ا‬

‫اور باورچی خانے جا کر‬

‫پ انی پی نے کے ل یے اٹھ کھ ڑا ہ وا۔‬

‫باورچی خانے میں ہر‬


‫طرف شام سے گھ ر میں ہ ر ط رح کے‬

‫آنے جانے والوں‬

‫کے کھانے پینے کے آثار نمایاں تھے۔‬

‫اچانک میں مسکرا گیا‬

‫ایک ی ا ڈی ڑھ ہفتہ پہلے ہی م یرا س ات‬

‫سالہ بڑا بیٹا اسکول‬

‫جانے کے لیے تیار اپنی وین کا انتظار‬

‫کرنے کے دوران اپنی‬

‫ماں سے بیسن ی ا س ینک ک ا اردو میں‬

‫ترجمہ پوچھ رہا تھا‪ ،‬اتفاق‬

‫سے اس وقت میں بھی باورچی خ انے‬

‫کے ایک کونے پر‬

‫رکھی تین کرس یوں میں س ے ای ک پ ر‬

‫بیٹھا سامنے رکھی میز‬

‫پر اخبار پھیالئے ناشتے کا انتظ ار ک ر‬

‫رہا تھا۔ بیٹے کی بات پر‬


‫میں متوجہ ہوا ہی تھا کہ اس نے اپ نی‬

‫دھیمی اور نرم آواز‬

‫میں بیٹے کو ترجمہ بتا دیا۔ واش بیسن‬

‫یا سینک کو اردو میں‬

‫سلفچی کہتے ہیں۔‬

‫جب یہ لف ظ ‪ ،‬س لفچی ‪ ،‬مجھ جیس ے‬

‫اردو کی اچھی خاصی تعلیم‬

‫حاص ل ک یے آدمی کی س مجھ میں نہ‬

‫آسکا تو بیٹا تو بہت چھوٹا تھا۔‬

‫اور آج ک ل کے بچ وں کی ط رح اردو‬

‫بول چال سے دور‬

‫بھی۔ کیا س یلفی چی؟ بی ٹے نے ح یران‬

‫ہو کر ماں کے ساتھ‬

‫ت یزی س ے چل تے ہ وئے پوچھ ا۔ وہ‬

‫توے سے پراٹھا اتار کر‬

‫پلیٹ میں رکھے میری ہی ط رف آ رہی‬

‫تھی۔ اس کے‬
‫دوسرے ہاتھ میں تلے ہوئے ان ڈے کی‬

‫پلیٹ تھی۔ بیٹے‬

‫کی بات پر نجانے کیوں وہ ت یزی س ے‬

‫چلتے ہوئے ٹھٹک کر‬

‫رکی‪ ،‬ہم دون وں کی نظ ریں ملیں اور‬

‫بے اختیار ہم دونوں‬

‫ای ک س اتھ ہنس پ ڑے۔ اور اس ای ک‬

‫بات پر میں پورا دن‬

‫خود سے کس قدر ناراض رہا تھا۔ بھال‬

‫مجھے ایسے ذراسی بات‬

‫پر اس کے بنس نے ک ا س اتھ دی نے کی‬

‫ضرورت ہی کیا تھی‪،‬‬

‫ویسے بھی بی ٹے کی ط رح ت و مجھے‬

‫بھی سلفچی کچھ خاص سمجھ میں‬

‫نہ آسکا تھا تو پھر میں ی وں ہی اپ نے‬

‫اخبار کی طرف متوجہ‬

‫رہتا۔‬
‫ایک ب ار پھ ر س ر جھٹ ک ک ر میں نے‬

‫پلٹ کر سلفچی کو دیکھا۔‬

‫اس میں گندے برتن ک ا ڈھ یر تھے۔ آج‬

‫شام سے میری‬

‫چھ وٹی بہن نے ہی گھ ر س نبھاال ہ وا‬

‫تھا۔ بچے اسکول سے‬

‫واپس آئے ت وان ک و پرس کون رکھن ا‪،‬‬

‫گھر میں آنے والوں کو‬

‫چائے پ انی دین ا دالن ا‪ ،‬ی وں ت و م یرے‬

‫بھائیوں کی بیویاں بھی‬

‫موج ود تھیں مگ ر خ ود بخ ود جیس ے‬

‫پورے گھر کی باگ دوڑ‬

‫میری چھوٹی بہن نے س نبھال لی تھی۔‬

‫میں جانتا تھا ایک‬

‫میں ہی کیا س ب ہی پریش ان تھے پھ ر‬

‫بھی میں یہی امید کر رہا‬


‫تھ ا کہ چھ وٹی بہن ب اورچی خ انہ اس‬

‫قدر پھیال ہوا چھوڑ کر‬

‫نہیں جائے گی۔ دل تو چاہ ا رات کہ اس‬

‫پہر چھوٹی بہن کو‬

‫اور بھائیوں کی بیویوں کو فون لگا کر‬

‫کھری کھری سنا ڈالوں‬

‫… کیوں بھئی کبھی دیکھا میرے گھ ر‬

‫کا باورچی خانہ اس قدر‬

‫پھیال ہوا بے ہنگم اور گندا اور یہ پانی‬

‫کی ٹھنڈی بوتلیں نکالی‬

‫تھیں ت و بھرک ر واپس بھی نہ رکھی‬

‫گئیں۔ یہ بھی نہیں سوچا‬

‫کہ پیچھے بھی ل وگ آس کتے ہیں ت و‬

‫کیا اب آنے والوں کو اس‬

‫گرمی میں ٹھنڈا پانی بھی نہ ملے یعنی‬

‫میرے گھر میں کوئی‬


‫آئے اور اس ط رح پیاس ا رہے‪ -‬گن دے‬

‫برتن دھونے تو‬

‫دور کی بات سمیٹ کر بھی نہیں رکھے‬

‫گئے جس نے جو چاہا‬

‫فریج سے نکال کر کھای ا پی ا اور بقای ا‬

‫میز پرھی چھوڑ کر چلتا‬

‫بن‪،‬ا کیا جا سکتا ہے تم سب کی ع ادت‬

‫ہی بگڑی ہوئی ہے۔‬

‫میرے گھر میں آ کر تو تم س ب ک و ی اد‬

‫ہی نہیں رہتا کہ انسان‬

‫کے اٹھ نے بیٹھ نے کھ انے پی نے کے‬

‫کچھ آداب ہوتے ہیں‪ -‬یہ‬

‫بار بار م یرا گھ ر ‪ ،‬م یرا گھ ر کی ا لگ ا‬

‫رکھا ہے کسی نے چپکے سے‬

‫میرے ک ان میں کہ ا یہ ج و تم اس ق در‬

‫ترائے ہوئے سب کو‬


‫م یرا گھ ر م یرا گھ ر کہہ ک ر شرمس ار‬

‫کرنے کا سوچ رہے ہو تو‬

‫کبھی س وچا کہ اگ ر وہ اس گھ ر میں‬

‫ہردم چلی پھرتی محنت‬

‫مش قت ک رتی ک ونے ک ونے کی دیکھ‬

‫بھال نہ کرتی ہوتی تو کیا‬

‫فقط ان چار دی واروں ک و تم م یرا گھ ر‬

‫کہہ سکتے تھے؟ سچ بات‬

‫ہے دنیا کا دستور یہی ہے محنت کس ی‬

‫کی اور شاباش کوئی اور‬

‫سمیٹتا ہے۔ چھوٹی بہن یقینا بھول گئی‬

‫تھی۔ شاید اسے‬

‫ی ادہی نہیں رہ ا ہ و کہ آج کی رات میں‬

‫نے خود کو اس کی کمی‬

‫ک و محس وس ک رتے س وچ ک ر جل دی‬

‫سے اپنی توجہ باورچی‬


‫خ انے کی ح الت زار پ ر مرک وز کی۔‬

‫ٹھنڈے پانی کے لیے‬

‫فریج کھوال تو پانی کی ای ک بھی بوت ل‬

‫نہ ملی بلکہ شادی کے بعد‬

‫سے آج پہلی بار مجھے اپ نے گھ ر ک ا‬

‫فریج کھول کر بھی اجنبیت‬

‫کا احساس ہوا تھا۔ ایسا کبھی نہیں ہ وا‬

‫تھا کہ میں نے فریج‬

‫کھ وال ہ و اور گھ ر پ ر ب نے ان واع و‬

‫اقسام کی کھانے پینے کی اشیاء‬

‫سے بھرا ہوا نہ ہو۔‬

‫بجے ت و ہم ارے دو ہی تھے میں بھی‬

‫دن بھر آفس میں رہتا‬

‫مگر ہمارے گھر مہم ان بہت آتے تھے‬

‫اور مہانوں کا اکرام‬

‫کرن ا وہ خ وب ج انتی تھی اور اچان ک‬

‫آنے والی رحمت کو یہ‬


‫بھی اپ نی مہم ان داری س ے م ایوس‬

‫ہونے نہیں دیتی تھی۔‬

‫ہوتے ہیں دی گی۔ ب رکت خ ود ہی ع ود‬

‫آتی۔ اس نے کبھی‬

‫گھ ر کے خ رچے ک و بڑھ انے ک ا نہیں‬

‫کہا۔ مجھے اکثر حیرت‬

‫ہ وتی کہ کس ی ط رح وہ م یری مح دود‬

‫آمدنی میں بچوں کے‬

‫س اتھ س اتھ گھ ر کے اخراج ات بھی‬

‫سنبھال رہی تھی مگر‬

‫میں اپ نی ح یرت اپ نے ت ک ہی مح دود‬

‫رکھتا۔ اس سے بالوجہ‬

‫بات چھیڑنا اور بات سے بات نکال ک ر‬

‫باتیں کرنا مجھے کبھی‬

‫ا۔ اس نے بھی مجھے بھی‬ ‫نہیں بھای‬

‫تنگ نہیں کیا اس کی‬


‫مص روفیات ہی اس ق در ہ وتی تھیں۔‬

‫گھر کی صفائی‪ ،‬کھانا‬

‫پکان ا‪ ،‬ک پڑے دھون ا ‪ ،‬اس تری کرن ا‬

‫بچوں کو پڑھانا ‪ ،‬مہمانوں‬

‫کے آنے پر ان کی خ اطر داری‪ ،‬وہ ہ ر‬

‫وقت ایک مشین سی‬

‫بنی پورے گھر میں دوڑتی پھرتی تھی۔‬

‫ہمارا پرانی طرز کا‬

‫ایک سو بیس گز پ ر بن ا آب ائی گھ ر ک ا‬

‫کوئی کونا ایسا نہ تھا جہاں اس‬

‫کی موج ودگی محس وس نہ کی ج ا‬

‫سکتی ہو‪ -‬وہ ہر جگہ ہر وقت ہر‬

‫ط رف اپ نے س لیقے اور محنت کی‬

‫نشانی چھوڑ جاتی تھی اور میں‬

‫چاہ کر بھی اس سے ناراضی ک ا ک وئی‬

‫بہانہ ڈھونڈ نہیں پاتا‬


‫تھ ا۔ م یرے بھ ائی بہن ان کے بچے‬

‫میرے بوڑھے جوان‬

‫رشته دار دوست احباب ان کی بیویاں ‪،‬‬

‫بیٹیاں مائیں سب‬

‫کے س ب اس کے اخالق کے گروی دہ‬

‫تھے۔ اس کی خوش‬

‫مزاجی اور مہم ان ن وازی کے چ رچے‬

‫تھے ہمیں بہت ذوق و‬

‫شوق سے محفلوں میں بالی ا جات ا تھ ا‬

‫غم و خوشی میں ہمیں‬

‫شامل کرن ا ض روری س مجھا جات ا تھ ا‬

‫اور میں جانتا تھا کہ یہ سب‬

‫اس کی ہی خوش اخالقی کی بدولت تھا‬

‫مگر مانتا کہاں تھا۔‬

‫پانی لینے کے لیے گالس اٹھایا ہی تھا‬

‫کہ طبیعت مکدر ہوگئی۔‬


‫کسی نے تیل لگے ہ اتھوں س ے گالس‬

‫پکڑا تھا اور پانی پی کر‬

‫ویسے ہی الٹ کر گالس کے اسٹینڈ پ ر‬

‫رکھ کر چلتا بنا تھا۔‬

‫ح یرت اس ب ات پ ر ہے کہ میں کس ی‬

‫طرح ذرا ذرا سی تفصیل‬

‫پر بھنا رہا تھا حاالنکہ کبھی اسے اس‬

‫طرح ایسی چھوٹی چھوٹی‬

‫ب اتوں پ ر بچ وں ک و ڈانٹ تے ی ا‬

‫سمجھاتے سنتا تو دل میں اس کی‬

‫صفائی پسندی پر ناراض ہ و جات ا۔ میں‬

‫نے دوسرا نسبتًا صاف‬

‫گالس نکال کر سلفچی کے نلکے س ے‬

‫پانی لے کر پیا اور ایک‬

‫عجیب سی اداسی محسوس کرتا پورے‬

‫گھر میں اکیال دیوانوں‬


‫کی طرح گھوم پھر کراپنے کم رے میں‬

‫واپس آ گیا۔ میں‬

‫ج ذباتی انس ان کبھی نہیں رہ ا ۔ بس‬

‫اپنے آپ کو دوسروں‬

‫کے س امنے کھولن ا پس ند نہیں کرت ا۔‬

‫حاالنکہ میں نے بھی کسی‬

‫کے ساتھ ک وئی زی ادتی ی ا دل دکھ انے‬

‫کی بات نہیں کی پھر‬

‫رور‬ ‫وگ مجھے مغ‬ ‫ثر ل‬ ‫بھی اک‬

‫سمجھتے تھے اور مجھ سے بات‬

‫کرنے سے ک تراتے تھے جب س ے وہ‬

‫میری زندگی میں آئی‬

‫تھی۔ س ب نے مجھ س ب س ے ب ات‬

‫کرنے کا ذریعہ اسے بنا‬

‫لی ا تھ ا اور کی ونکہ وہ نہیں تھی‪ ،‬لہ ذا‬

‫گھر پر آئے ہوئے میں‬


‫س ے کس ی نے بھی ج اتے ہ وئے‬

‫مجھے بتایا تک نہیں تھا‪ ،‬شاید‬

‫وہ س ب مجھے کم رے میں س وتا ہ وا‬

‫سمجھے ہوں اور نیند خراب‬

‫ک رنے کے ڈر س ے ہی مجھے بتای ا نہ‬

‫ہو۔ چھوٹی بہن کا بچوں کو‬

‫لے ج انے ک ا بھی اپ نے موبائ ل پ ر‬

‫چھوٹی بہن کے مسیح سے‬

‫پت ا چال تھ ا ت و اب کی ا ک روں ؟ ک اش‬

‫چھوٹی بہن جاتے جاتے دو‬

‫چ ار منٹ مجھ س ے ب ات ک ر لی تی۔‬

‫مجھے کسی کے سامنے تو اقرار‬

‫کرنا ہی ہے۔ کس ی ک و ت و بتان ا ہی ہے‬

‫کہ میں اس کے بغیر بہت‬

‫بہت اداس ہوں اور اس کے بغیر بالکل‬

‫ادھورا سا لگ رہا‬
‫ہوں اور میں اس کے بغ یر بالک ل نہیں‬

‫رہ سکتا۔‬

‫گھڑی صبح کے ساڑھے چار بج ا رہی‬

‫تھی یعنی میں تقریبًا‬

‫پوری رات ہی اسے سوچتے اسے ی اد‬

‫کرتے گزار چکا ہوں‬

‫اور اس ب ات س ے ہی ڈر رہ ا ہ وں کہ‬

‫کہیں وہ ہمیشہ کے لیے‬

‫ہی نہ کھ و ج ائے۔ دل پھ ر مچال ۔ میں‬

‫نے کچھ سوچے سمجھے بنا‬

‫فون اٹھایا اور اسے میس ج کی ا۔ کیس ی‬

‫طبیعت ہے؟ حاالنکہ اتنا تو‬

‫مجھے معل وم ہی تھ ا کہ ایمرجنس ی‬

‫میں فون لے جانے کی‬

‫اجازت نہیں لہذا اندر فون بند ہی رکھن ا‬

‫پڑتا ہے۔ چند سیکنڈ‬


‫میں ہی ج واب آ گی ا۔ نم از کے ل یے‬

‫اٹھے ہیں؟ خالف توقع‬

‫میسج ملنے پر خوشی اپ نی جگہ مگ ر‬

‫اس کے معمول کے میسج پر‬

‫میں اور بگ ڑ گی ا‪ -‬کی ا کہ ا ڈاک ٹر نے؟‬

‫میں نے بھی جیسے اس‬

‫کے ط ریقے پ ر ہی چلن ا چاہ ا۔ ص بح‬

‫سات بجے تک رپورٹس‬

‫آئیں گی تو ہی بت ائیں ہیں گے۔ آپ کچھ‬

‫کھالیں پلیز‪-‬‬

‫کھ انے ک ا ت و ایس ے کہہ رہی ہے‬

‫جیسے اسے میری ہی پرواہ ہو۔‬

‫خ ود وہ اں ایم ر جنس ی میں آرام س ے‬

‫ہے اور میں یہاں اکیال‬

‫اور بھوک ا بھی‪ ،‬اس کے ج انے س ے‬

‫پہلے کھانا لگانے کا ہی کہہ‬


‫دیتا۔ میں بھی تو اس قدر جذباتی ہو گیا‬

‫فضول میں۔ مجھے‬

‫ش دید غص ہ آنے لگ ا اور وہ بھی‬

‫توصیف پر جو میرے بچپن کا‬

‫دوست تھ ا اور م یرے گھ ر اس ک ا آن ا‬

‫جانا گھر کے ایک فرد کی‬

‫طرح تھا۔ مجھے کی ا معل وم تھ ا کہ وہ‬

‫اس طرح مجھے استعمال‬

‫ک رے گ ا۔ آج ت ک مجھے بے بس ی ک ا‬

‫ایسا احساس نہ ہوا تھا جیسا‬

‫اب ہ و رہ ا تھ ا۔ اب کس ط رح کیس ے‬

‫اظہار کروں وہ پتا نہیں‬

‫کب ت ک رہے اور یہ اں ت و ای ک رات‬

‫گزارنی مشکل ہوگئی‬

‫ہے۔ تو کیا ک روں اپ نے آپ ک و کم زور‬

‫دکھا دوں ۔ یہ بتا دوں‬


‫کہ میں تو بس اپنی بی وی کے بغ یر رہ‬

‫ہی نہیں سکتا۔ کس قدر‬

‫مذاق اڑائیں گے سب‪ -‬جیسے ہی صبح‬

‫کی سفیدی نمودار‬

‫ہوئی میں تی ار ہ و گی ا۔ اس کے ج اتے‬

‫ہوئے میں نے یہی‬

‫ظاہر کیا تھا کہ وہ جاتی ہے تو جائے ۔‬

‫میرے معمول میں‬

‫ذرہ بھ ر بھی ف رق نہیں پ ڑے گ ا۔ میں‬

‫نے آفس سے چھٹی‬

‫ت ک نہیں کی تھی اور جب وہ ج ارہی‬

‫تھی تو میری طرف‬

‫اس نے ک ئی ب ار دیکھ ا تھ ا۔ وہ اچھی‬

‫طرح سمجھ گئی تھی کہ صبح‬

‫میری اس س ے ہ ونے والی ہلکی س ی‬

‫جھڑپ کے نتیجے میں‬


‫اسے توصیف کے ساتھ بھیج ا ج ا رہ ا‬

‫ہے۔ اس نے مجھے آفس‬

‫فون کر کے ب ات ختم ک رنی چ اہی تھی‬

‫مگر میں ضد پر اترا ہوا‬

‫تھا۔ آخر جب کچھ نہ بن پڑا تو وہ ب ول‬

‫پڑی۔ آپ ہی بتائیں۔‬

‫م یرا ت و میکہ بھی نہیں ہے کہ میں‬

‫کچھ دنوں کے لیے بچوں‬

‫ک و لے ک ر وہ اں چلی ج اؤں کہ آپ ک ا‬

‫غصہ کچھ کم ہو‬

‫سکے۔اور جب وہ قدرت کے پیدا ک ردہ‬

‫موقع پر واقعی جا تو‬

‫رہی تھی تو میں دونوں ہاتھ سینے پ ر‬

‫باندھے ایک ضدی بچے‬

‫کی طرح فاتحانہ انداز میں دروازے پ ر‬

‫کھڑا بس اسے‬
‫جاتے دیکھ رہا تھا اور دل میں عہد کر‬

‫چکا تھا کہ میں اس کی‬

‫غ یر موج ودگی میں م زے ک روں گ ا‬

‫لیکن اب مجھے واقعی مزہ‬

‫آ گیا تھا۔‬

‫تمام بھائیوں اور چھوٹی بہن کو م یری‬

‫اس سے ان بن کا پتا‬

‫چ ل گی ا تھ ا اور وہ س ب کے س ب اس‬

‫کے جاتے ہی میرے‬

‫گھر آ ک ر بھی بس ادھ ر ادھ ر بیٹھ ک ر‬

‫کھاپی کر چلے گئے تھے‬

‫کی ونکہ ب ات ت و مجھ س ے ک رنے کی‬

‫لیے کسی کی بھی ہمت نہ‬

‫تھی۔ تی ار ہ و ک ر میں نے چھ وٹی بہن‬

‫کو فون کر دیا کہ وہ‬

‫بچ وں ک و اس کول نہ بھیجے اور پھ ر‬

‫سوچ بچار کر کے کہ ان سب‬


‫کی بھی ج ان میں ج ان آج ائے یہ بھی‬

‫لکھ ڈاال کہ اب بچوں‬

‫کی ماں ہی واپس آ ک ر اس کول بھیجے‬

‫گی۔ یوں تو میری الڈلی‬

‫چھ وٹی بہن ش ادی ش دہ دو بچ وں کی‬

‫ماں تھی مگر اپنے بچوں‬

‫کے لیے میں ایک تو کسی کو پریش ان‬

‫کرنا نہیں چاہتا تھا اور‬

‫کہیں کہیں مجھے اپنی بہن پر بھروس ا‬

‫یا اعتبار کی کمی بھی‬

‫محس وس ہ وتی تھی۔ مجھے اس ک ا‬

‫اپنے بچوں کے لیے بہت‬

‫حس اس ہون ا پس ند تھ ا اور میں خ ود‬

‫بھی اس کے رنگ میں‬

‫رنگ چکا تھا۔ یہ م یرے بچے ہیں اور‬

‫ہماری ذمہ داری‬


‫ہیں۔ میں آفس کی تی اری ک ر کے نکال‬

‫مگر میرا رخ ہسپتال کی‬

‫ط رف ہ و گی ا۔ بہت س مجھایا۔ خ ود ک و‬

‫بہت منایا ایسی کمزوری‬

‫ساری عمر کا روگ بن جای ا ک رتی ہے‬

‫اب ہّم ت کر کے کہ‬

‫کے ای ک فیص لہ کی ا ہی۔ ض د ہے ت و‬

‫نبھاؤں مگرنا بھئی دل‬

‫نے ت و س ینے میں اس ق در ادھم مچ ا‬

‫دیا کہ مردانگی‪ ،‬ضد‪ ،‬خود‬

‫س ری س ب دھ ری کی دھ ری رہ گ ئی۔‬

‫ہسپتال کے ایمر جنسی‬

‫وارڈ کے باہر توص یف ٹہلت ا نظ ر آ گی ا‬

‫اور میرا غصہ سے پارا‬

‫ایک بار پھر اوپ ر پہنچ گی ا۔ ہ اں بھ ئی‬

‫کیا پروگریس ہے؟ کب‬


‫ت ک رہ و گے یہ اں؟ میں نے تن ک ک ر‬

‫پوچھا توصیف جو مجھے‬

‫دیکھ کر ایک کر م یرے گلے لگ ا تھ ا۔‬

‫جھٹکا کھا کر پیچھے ہٹ‬

‫گی ا۔ ابے ت و ت و ایس ے کہہ رہ ا ہے‬

‫جیسے کب سے بھابی کو میں‬

‫نے روک رکھ ا ہ و؟ توص یف ہمیش ہ‬

‫سے میرے دل کی بات‬

‫کو فورًا س مجھ جای ا کرت ا تھ ا اور اس‬

‫کی عادت تھی بغیر لیپا پوتی‬

‫کے میرے منہ پر جواب مار دیت ا تھ ا ۔‬

‫لہذا میں پہلے گڑ بڑایا۔‬

‫پھ ر ش یر ہ ونے میں ع افیت س مجھی‬

‫ہمیشہ سے احسان فراموش‬

‫ہے ت و …‪ .‬مانن ا ت و تجھے ہے نہیں۔‬

‫مجھ سے جواب نہ بن پڑا تو‬


‫تلمال گی ا اور توص یف ک و چھ وڑ ک ر‬

‫ایمرجنسی میں جانے کے‬

‫ل یے بڑھ ا۔ ا ہے ٹھہ ر ج ا م یرے ت یر‬

‫کمان کمرے میں‬

‫شفٹ کر دیا ہے۔ تجھے بتا نہیں سکے‬

‫تھے۔ اسی لیے میں‬

‫یہاں کھڑا تھا۔ ایسی شاندار جوڑی ہے‬

‫تیری ‪ ،‬سبحان ہللا کہ‬

‫مجھے بھابی نے صبح پانچ بجے سے‬

‫ہی کہہ دیا تھا کہ تو آتا ہو گا‬

‫اب چ ل ج نرل وارڈ میں نے پلٹ ک ر‬

‫توصیف کو گھورا تو وہ‬

‫کھلکھال کر ہنس پڑا۔‬

‫ابے چل ناں مجھ سے بھی چھپائے گ ا‬

‫کیا ۔ بیٹا۔ امی نے تو‬

‫رات میں ہی کہہ دیا تھا کہ ناحق بھائی‬

‫کو تکلیف دی ‪ ،‬امی‬


‫کے س اتھ رات میں رک نے کے ل یے‬

‫میری دونوں بہنیں‬

‫بھی ت و ہیں پ ر ت و اس وقت اس ق در‬

‫بضد تھا کہ ہم بھابی کو لے‬

‫آئے ۔ اب بتا ‪ ،‬ہمارا کیا قصور؟ ب ات یہ‬

‫ہے کہ بچے پریشان‬

‫ہیں‪ ،‬آج ان کی اس کول کی چھ ٹی بھی‬

‫ہو گئی اس لیے بس‬

‫مجبوری ہے یار سمجھا ک رو۔ میں نے‬

‫بات بنائی مگر وہ بھی‬

‫م یرے بچپن ک ا دوس ت تھ ا۔ آپ بالک ل‬

‫درست فرما رہے‬

‫ہیں جن اب ومک رمی مگ ر کبھی کبھی‬

‫سچ بولنے میں حرج نہیں‬

‫چلو ہم سے نہ سہی‪ ،‬اپنے آپ سے ت و‬

‫سچ بولو اور لگے ہاتھوں‬


‫کبھی کبھار اپنی بیوی سے اظہ ار بھی‬

‫کر دیا کرو۔ آخر بیوی‬

‫ہے یار ! وہ بھی اکلوتی دیکھو ن اں تم‬

‫نے زبردستی بھابی‬

‫مطلب اپ نی بی وی ک و م یری امی کے‬

‫ہسپتال جانے کا سن کر‬

‫روانہ ک ر دی ا اور حکم بھی ص ادر ک ر‬

‫دیا کہ جب تک امی ٹھیک‪ 4‬ہو کر گھ ر‬

‫نہیں چلی جاتیں وہ امی کے ساتھ ہی‬

‫رہیں۔ ناراض ی ناچ اقی ت و ہ وتی رہ تی‬

‫ہے میاں بیوی میں مگر‬

‫ایسے کوئی تھوڑی ناں کرت ا ہے۔ خ یر‬

‫اچھا ہوا کہ تمہارا موڈ‬

‫رات بھ ر میں ہی ٹھی ک ہ و گی ا ‪ ،‬اب‬

‫بھابی کو لے کر جاؤ اگر‬

‫تم نہیں بھی آتے میں خود چھوڑ آتا ان‬

‫کو …‪ .‬اور آج کا دن‬


‫ص رف ان کے س اتھ گ زارو۔ بچے‬

‫چھوٹی بہن کے پاس‬

‫رہ نے دو۔ رات میں ج ا ک رلے آن ا‪،‬‬

‫سمجھے اتنی اچھی سمجھ دار‬

‫بھ ابی ہیں ہم اری۔ ق در ک رو م یرے‬

‫بھائی اور امی الحمد ہللا‬

‫بالکل ٹھیک ہیں ‪ ،‬ہو سکتا ہے کل تک‬

‫ان کو ڈسچارج بھی کر‬

‫دیں۔ تمہ ارا اور بھ ابی ک ا ش کریہ کہ‬

‫انہوں نے اس مشکل‬

‫وقت میں ساتھ دیا۔ بار بار م یرے ذہین‬

‫میں اماں بی‬

‫مرح وم کی ای ک ہی ب ات بازگش ت ک ر‬

‫رہی تھی۔ مرد محبت‬

‫نہیں کرتا عادی ہوت ا ہے۔ میں نے س ر‬

‫جھٹک کر اماں بی‬


‫مرحوم کی بات کا جواب دیا۔ نہیں ام اں‬

‫بی ! مجھے اس کی‬

‫ع ادت نہیں‪ ،‬اس س ے محبت ہ و گ ئی‬

‫ہے۔ گو توصیف‬

‫میرے بچپن کا دوست تھا مگر آج سے‬

‫پہلے وہ مجھے اتنا پیارا‬

‫کبھی نہیں لگا تھا۔‬

You might also like