You are on page 1of 1

‫"کیا اب میں کبھی اس زندگی میں اپنے دادا سے نہیں مل پاؤں گی" یہ تصور اور سوچ جب بھی دماغ

میں آتی ہے‬


‫مجھے تڑپا کر رکھ دیتی ہے اب تو ہر وقت دن رات صبح و شام دل میں ایک آگ سی رہتی ہے دل کرتا ہے سب‬
‫کچھ چھوڑ کر کہیں گوشہ نشین ہوجاؤں کاش جانے والے اپنے ساتھ اپنی یادیں بھی لے جاتیں جان سے پیارے چلے‬
‫جاتے ہیں ساتھ میں ہمارا سکھ چین بھی لے جاتے ہیں ۔‬
‫میں جب کبھی غمگین ہوتی تھی میرے دادا جان میرا غم بانٹ لیتے تھے لیکن اب انہیں کا غم لگ گیا ہے کوئی‬
‫میرے دادا جیسا نہیں جس سے اپنا غم بانٹوں اے کاش اتنا پیار نہ دیا ہوتا کہ اب ان کی جدائی کاٹ رہی ہے ۔ہللا‬
‫کتنی جلدی چلے گئے ۔کیا کیا خواب دیکھے تھے ہم نے مل کر ۔رمضان گاؤں میں گزارنے کا ارادہ کیا کہا تھا ابھی‬
‫میں چال جاتا ہوں رمضان میں تم لوگ آنا پھر مل کر واپس آجائیں گے پھر چلے تو گئے لیکن اپنے پیروں پر نہیں‬
‫دوسروں کے کندھوں پر اور ہمیشہ کیلئے ‪،‬اب واپس آنے کا وعدہ کون پورا کرے گا ۔کہتے تھے جئیوں یا مروں‬
‫رہوں گا تم لوگوں کے پاس دوسرے چچاؤں کے پاس جاتے جلد ہی واپس آجاتے اور کہتے سمیہ اسماء میرے بغیر‬
‫اداس ہوتی ہیں ‪،‬ہر بات میں ہمارے بارے میں سوچتے ‪،‬سارے خاندان والے خاص طور پر دیگر پوتے پوتیاں ان‬
‫سے شکوہ کرتے کہ کیا ہم آپ کے کچھ نہیں ہر وقت سمیہ اسماء تو ہنستے ہوئے کہتے وہ تو سمیہ اسماء ہے ناں ‪،‬‬
‫اور کبھی کبھار جب کسی اور چھوٹے پوتے یا پوتی سے پیار کرتے تو کبھی میں اور کبھی سمیہ ان سے بڑے مان‬
‫سے پوچھتے ابو آپ کو کون زیادہ پیارا ہے ہم یا یہ اور ہمیشہ جواب ایک ہی ہوتا تم دونوں کے برابر کون ہوسکتا‬
‫ہے ‪،‬اور کبھی ہم پوچھتے ہم دونوں میں کون زیادہ پیارا ہے تو کبھی ایک کا نام نہیں لیتے جتنا بھی اصرار کرتے‬
‫کہتے دونوں ایک جیسی پیاری ہو مجھے‪، H‬اب ہم کس سے پوچھے کوئی بھی تو آپ جیسا محبت کرنے واال نہیں اب‬
‫میں اور سمیہ مل کر کس سے وہ سب باتیں کریں گے جو ہم آپ سے ہی کرسکتے تھے کتنا تنہا کردیا ہمیں ۔جب ہم‬
‫مل کر بیٹھتے تو اپنے فوج کے زمانے کے قصے سناتے اور ہم ہنس ہنس کر نڈھال ہوجاتے جب اپنے مخصوص‬
‫لہجے میں اردو میں بولتے تو ہماری ہنسی ہی نہیں رکتی تھی اور وہ بھی ہنستے تھے ‪،‬‬
‫ان کو پسند تھا کہ ہم ان کو دادا کہیں لیکن میں کبھی ان کو سامنے دادا نہیں پکارتی میں کہتی تھی آپ میرے ابو ہے‬
‫میں آپ کو ابو ہی کہوں گے دادا تھوڑا دور ہوتا ہے ناں بیچ میں ایک واسطہ ہونے کی وجہ سے لہذا میں ابو کہوں‬
‫گی تو خاموش ہوجاتے ۔‬
‫کبھی ہم اپنے والد سے کچھ مانگتے تو مذاق میں والد صاحب کہتے تم لوگوں کے ابو تو وہ ہے ناں جاؤں ان سے‬
‫مانگو ۔اور دادا ابو تو بات پوری ہونے سے پہلے مان جاتے ۔کبھی ایسا ہوتا کہ انکار کردیتے پھر اچانک سے وہ‬
‫چیز لے آتے اور ہم خوشی سے ان سے لپٹ جاتے اور وہ ہنس دیتے‬
‫میرے دادا ابو کی عادت تھی کندھے پر ایک چھوٹا سا اسکارف لینے کی تو کبھی کبھار کہیں باہر جاتے تو واپسی‬
‫میں اپنے اسکارف میں سب سے چھپا کر ہمارے لئے کوئی کھانے کی چیز الگ سے التے سب کے لیے التے‬
‫لیکن کبھی ہمارے لئے چھپ کر اس طرح التے ۔‬
‫آہ میرے دادا جان اب تو میں اور سمیہ جب بھی بیٹھتی ہے آپ کی باتیں کرتی ہے ۔‬
‫ت‬
‫کہاں سے الئے جسے تجھ سا کہیں‬
‫آسمان تیرے لحد پر شبنم افشانی کرے‬
‫سبزہ نورستہ تیرے در کی نگہبانی کرے‬
‫آمین‬

You might also like