Professional Documents
Culture Documents
Class 5
Class 5
} ٰ َيٓأَيﱡ َها ٱلﱠذِينَ َءا َمنُ ٓواْ ِإ َذا لَ ِقيت ُ ُم ﱠٱلذِينَ َكف َُرواْ زَ ۡح ٗفا فَ َﻼ ت ُ َولﱡو ُه ُم ٱ ۡﻷ َ ۡد َب َ
ار{
ۡ
ب ِ ّمنَ ٱ ﱠ ِ َو َمأ َو ٰىهُ َج َهنﱠ ۖ ُم َوبِ ۡئ َ
س{ َو َمن ي َُو ِلّ ِه ۡم يَ ۡو َمئِ ٖذ ُدب َُرهُۥٓ إِ ﱠﻻ ُمتَ َح ِ ّر ٗفا ِلّ ِقتَا ٍل أَ ۡو ُمتَ َحيِّ ًزا إِلَ ٰى فِئ َٖة فَقَ ۡد بَا ٓ َء بِغَ َ
ض ٖ
ير
ص ُ ۡ
}ٱل َم ِ
اور جو شخص ان سے اس موقع پر پشت پهيرے گا مگر ہاں جو لڑائﯽ کے ليے پينترا بدلتا ہو يا جو
مستثنﯽ ہے) (1۔ باقﯽ اور جو ايسا کرے گا وه ﷲ کے ٰ )اپنﯽ( جماعت کﯽ طرف پناه لينے آتا ہو وه
)(2غضب ميں آجائے گا اور اس کا ٹهکانہ دوزخ ہوگا وه بہت ہﯽ بری جگہ ہے۔
ۡ ۖ
عن ُك ۡم فِئَت ُ ُك ۡم ش َۡي ٗـٔا َولَ ۡو { إِن ت َۡست َۡفتِ ُحواْ فَقَ ۡد َجا ٓ َء ُك ُم ٱلفَ ۡت ُﺢ َو ِإن تَنتَ ُهواْ فَ ُه َو خ َۡي ٞر لﱠ ُك ۡ ۖم َوإِن تَﻌُودُواْ َنﻌُ ۡد َولَن ت ُ ۡغنِ َ
ي َ
} َكث ُ َر ۡت َوأَ ﱠن ٱ ﱠ َ َم َع ۡٱل ُم ۡؤ ِمنِينَ
اگر تم لوگ فيصلہ چاہتے ہو تو وه فيصلہ تمہارے سامنے آموجود ہوا) (1اور اگر باز آجاؤ تو يہ
تمہارے ليے نہايت خوب ہے اور اگر تم پهر وہﯽ کام کرو گے تو ہم بهﯽ پهر وہﯽ کام کريں گے اور
تﻌالﯽ
ٰ تمہاری جمﻌيت تمہارے ذرا بهﯽ کام نہ آئے گﯽ گو کتنﯽ زياده ہو اور واقﻌﯽ بات يہ ہے کہ ﷲ
ايمان والوں کے ساته ہے۔
ع ۡنهُ َوأَنت ُ ۡم ت َۡس َمﻌُونَ { } ٰيَٓأَيﱡ َها ٱلﱠذِينَ َءا َمنُ ٓواْ أ َ ِطيﻌُواْ ٱ ﱠ َ َو َر ُ
سولَهُۥ َو َﻻ ت ََولﱠ ۡواْ َ
اے ايمان والو! ﷲ کا اور اس کے رسول کا کہنا مانو اور اس )کا کہنا ماننے( سے روگردانﯽ مت کرو
سنتے جانتے ہوئے۔
ع ِل َم ٱ ﱠ ُ فِي ِه ۡم خ َۡي ٗرا ﱠﻷ َ ۡس َمﻌَ ُه ۡۖم َولَ ۡو أَ ۡس َمﻌَ ُه ۡم لَت ََولﱠواْ ﱠوهُم ﱡمﻌۡ ِرضُونَ {
}ولَ ۡو َ
َ
تﻌالﯽ ان ميں کوئﯽ خوبﯽ ديکهتا تو ان کو سننے کﯽ توفيﻖ دے ديتا) (1اور اگر ان کو اب
ٰ اور اگر ﷲ
)(2سنا دے تو ضرور روگردانﯽ کريں گے بے رخﯽ کرتے ہوئے۔
Explanation:
Ayat 15:
زَ حْ فًا کے مﻌنﯽ ہيں ايﮏ دوسرے کے مقابل اور دوبدو ہونا ۔ يﻌنﯽ مسلمان اور کافر جب ايﮏ دوسرے کے بالمقابل صف آرا )(1
ہوں تو پيٹه پهير کر بهاگنے کﯽ اجازت نہيں ہے۔ ايﮏ حديث ميں ہے »اجْ تَ ِنبُوا ال ﱠس ْب َع ْال ُمو ِب َقاتِ« ”سات ہﻼک کر دينے والﯽ چيزوں
الزحْ فِ )قابلے والے دن پيٹه پهير جانا ہے( ) صحيﺢ بخاري ،نمبر ٢٧٦٦كتاب الوصايا سے بچو!“ ان سات ميں ايﮏ الت ﱠ َولِّي َي ْو َم ﱠ
وصحيﺢ مسلم ،كتاب اﻹيمان(
Ayat 16:
ف کﯽ اور دوسری تَ َحي ٌﱡز کﯽ۔ )(1 گزشتہ آيت ميں پيٹه پهيرنے سے جو منع کيا گيا ہے ،دو صورتيں اس سے مستثن ٰﯽ ہيں :ايﮏ تَ َح ﱡر ٌ
ف کے مﻌنﯽ ہيں ايﮏ طرف پهر جانا۔ يﻌنﯽ لڑائﯽ ميں جنگﯽ چال کے طور پر يا دشمن کو دهوکے ميں ڈالنے کﯽ غرض سے ت َ َح ﱡر ٌ
لڑتا لڑتا ايﮏ طرف پهر جائے ،دشمن يہ سمجهے کہ شايد يہ شکست خورده ہو کر بهاگ رہا ہے ليکن پهر وه ايﮏ دم پينترا بدل
کر اچانﮏ دشمن پر حملہ کر دے۔ يہ پيٹه پهيرنا نہيں ہے بلکہ يہ جنگﯽ چال ہے جو بﻌض دفﻌہ ضروری اور مفيد ہوتﯽ ہے تَ َحي ٌﱡز
کے مﻌنﯽ ملنے اور پناه لينے کے ہيں ۔ کوئﯽ مجاہد لڑتا لڑتا تنہا ره جائے تو بہ لطائف الحيل ميدان جنگ سے ايﮏ طرف ہو
جائے ،تاکہ وه اپنﯽ جماعت کﯽ طرف پناه حاصل کرے اور اس کﯽ مدد سے دوباره حملہ کرے ۔ يہ دونوں صورتيں جائز ہيں ۔
يﻌنﯽ مذکوره دو صورتوں کے عﻼوه کوئﯽ شخص ميدان جنگ سے پيٹه پهيرے گا ،اس کے ليے يہ سخت وعيد ہے۔۔۔ )(2
Ayat 17:
يﻌنﯽ جنگ بدر کﯽ ساری صورت حال تمہارے سامنے رکه دی گئﯽ ہے اور جس جس طرح ﷲ نے تمہاری وہاں مدد فرمائﯽ(1) ،
اس کﯽ وضاحت کے بﻌد تم يہ نہ سمجه لينا کہ کافروں کا قتل ،يہ تمہارا کارنامہ ہے۔ نہيں ،بلکہ يہ ﷲ کﯽ اس مدد کا نتيجہ ہے
جس کﯽ وجہ سے تمہيں يہ طاقت حاصل ہوئﯽ۔ اس ليے دراصل انہيں قتل کرنے واﻻ ﷲ تﻌال ٰﯽ ہے۔
جنگ بدر ميں نبﯽ )صلى ﷲ عليه وسلم( نے کنکريوں کﯽ ايﮏ مٹهﯽ بهر کر کافروں کﯽ طرف پهينکﯽ تهﯽ ،جسے ايﮏ تو )(2
ﷲ تﻌال ٰﯽ نے کافروں کے مونہوں اور آنکهوں تﮏ پہنچا ديا اور دوسرے ،اس ميں يہ تاثير پيدا فرما دی کہ اس سے ان کﯽ آنکهيں
چندهيا گئيں اور انہيں کچه سجهائﯽ نہيں ديتا تها ،يہ مﻌجزه بهﯽ ،جو اس وقت ﷲ کﯽ مدد سے ظاہر ہوا ،مسلمانوں کﯽ کاميابﯽ ميں
بہت مددگار ثابت ہوا ۔ ﷲ تﻌال ٰﯽ فرما رہا ہے کہ اے پيغمبر! کنکرياں بےشﮏ آپ نے پهينکﯽ تهيں ،ليکن اس ميں تاثير ہم نے پيدا
کﯽ تهﯽ ،اگر ہم اس ميں يہ تاثير پيدا نہ کرتے تو يہ کنکرياں کيا کرسکتﯽ تهيں؟ اس ليے يہ بهﯽ دراصل ہمارا ہﯽ کام تها نہ کہ آپ
کا ۔
بﻼء يہاں نﻌمت کے مﻌنﯽ ميں ہے۔ يﻌنﯽ ﷲ کﯽ يہ تائيد ونصرت ،ﷲ کا انﻌام ہے جو مومنوں پر ہوا۔۔ )(3
Ayat 18:
دوسرا مقصد اس کا کافروں کﯽ تدبير کو کمزور کرنا اور ان کﯽ قوت وشوکت کو توڑنا تها۔ )(1
Ayat 19:
ابوجہل وغيره روسائے قريش نے مکہ سے نکلتے وقت دعا کﯽ تهﯽ کہ ”يا ﷲ ہم ميں سے جو تيرا زياده نافرمان اور قاطع )(1
رحم ہے ،کل کو تو اسے ہﻼک کر دے“ اپنے طور پر وه مسلمانوں کو قاطع رحم اور نافرمان سمجهتے تهے ،اس ليے اس قسم کﯽ
دعا کﯽ۔ اب جب ﷲ تﻌال ٰﯽ نے مسلمانوں کو فتﺢ نصيب فرما دی تو ﷲ تﻌال ٰﯽ ان کافروں سے کہہ رہا ہے کہ تم فتﺢ يﻌنﯽ حﻖ اور
باطل کے درميان فيصلہ طلب کر رہے تهے تو وه فيصلہ تو سامنے آچکا ہے ،اس ليے اب تم کفر سے باز آجاؤ ،تو تمہارے ليے
بہتر ہے اور اگر پهر تم دوباره مسلمانوں کے مقابلے ميں آؤ گے تو ہم بهﯽ دوباره ان کﯽ مدد کريں گے اور تمہاری جماعت کثرت
کے باوجود تمہارے کچه کام نہ آئے گﯽ۔۔
Ayat 21:
يﻌنﯽ سن لينے کے باوجود ،عمل نہ کرنا ،يہ کافروں کا طريقہ ہے ،تم اس رويے سے بچو ۔ اگلﯽ آيت ميں ايسے ہﯽ لوگوں کو )(1
بہره ،گونگا ،غير عاقل اور بدترين خﻼئﻖ قرار ديا گيا ہے ۔ د ََوابّ ،دَا ﱠبةٌ کﯽ جمع ہے ،جو بهﯽ زمين پر چلنے پهرنے والﯽ چيز ہے
وه دابہ ہے۔ مراد مخلوقات ہے۔ يﻌنﯽ يہ سب سے بدتر ہيں جو حﻖ کے مﻌاملے ميں بہرے گونگے اور غير عاقل ہيں۔
Ayat: 22:
Ayat 23:
يﻌنﯽ ان کے سماع کو نافع بنا کر ان کو فہم صحيﺢ عطا فرما ديتا ،جس سے وه حﻖ کو قبول کر ليتے اور اسے اپنا ليتے ۔ )(1
ليکن چونکہ ان کے اندر خير يﻌنﯽ حﻖ کﯽ طلب ہﯽ نہيں ہے ،اس لئے وه فہم صحيﺢ سے ہﯽ محروم ہيں ۔
پہلے سماع سے مراد سماع نافع ہے اس دوسرے سماع سے مراد مطلﻖ سماع ہے -يﻌنﯽ اگر ﷲ تﻌال ٰﯽ انہيں حﻖ بات سنوا )(2
بهﯽ دے تو چونکہ ان کے اندر حﻖ کﯽ طلب ہﯽ نہيں ہے ،اس لئے وه بدستور اس سے اعرا ض ہﯽ کريں گے۔