You are on page 1of 2

‫سانچ کو آنچ نہیں‬

‫‪ ‬‬

‫شیخ عبدالقادر جیالنی جنہیں غوث اعظم بھی کہتے ہیں بہت بڑے‬
‫بزرگ اور ولی ہللا ہو گزرے ہیں۔ آپ کی ساری زندگی تبلیغ واشاعت اسالم میں‬
‫گزری۔ بے شمار لوگوں نے آپ سے روحانی فیض حاصل‪ 3‬کیا۔‬
‫آج بھی دنیا آپ کی تعلیمات سے فیض یاب ہو رہی ہے۔آپ کو بچپن سے ہی علم‬
‫حاصل کرنے کا بے پناہ شوق تھا۔ آپ نے ابتدائی تعلیم تو اپنے قصبے جیالن میں‬
‫اعلی تعلیم حاصل کرنے کے لئے بغداد جانا پڑتا تھا۔‬
‫ٰ‬ ‫ہی حاصل کی لیکن دین کی‬
‫اس زمانے میں گاڑیاں اور موٹر کاریں نہ تھیں اس لئے لوگ قافلوں کی صورت‬
‫میں پیدل سفر کرتے تھے۔‬

‫چنانچہ آپ کی والدہ نے آپ کو بھی بغداد جانے والے ایک قافلے کے ہمراہ‬


‫روانہ کردیا۔ سفر پہ روانہ ہونے سے پہلے آپ کی والدہ نے آپ کو کچھ خوراک‬
‫اور چالیس اشرفیاں گزر اوقات کے لئے دیں۔‬
‫آپ کی والدہ نے یہ اشرفیاں آپ کی قمیض کی تہ میں سی دیں تاکہ محفوظ رہیں‬
‫اور چلتے وقت آپ کو خاص طور پر یہ نصیحت کی کہ بیٹا‪”:‬ہمیشہ سچ بولنا اور‬
‫جھوٹ کے قریب نہ جانا۔‪3‬‬
‫آپ نے ماں کی اس نصیحت کو غور سے سنا اور سفر پہ روانہ ہو گئے ۔قافلے“‬
‫کے لوگ ڈرتے ڈرتے سفر پہ روانہ ہوئے انہیں اس بات کا بھی خدشہ تھا کہ‬
‫کہیں راستے میں ڈاکو قافلے پر حملہ نہ کردیں کیونکہ ان دنوں راستے غیر‬
‫محفوظ تھے اور ڈاکو اکثر قافلوں کو لوٹ لیا کرتے تھے ۔‬
‫آخر وہی ہوا جس بات کا ڈر تھا قافلے نے ابھی سفر کی دو منزلیں ہی طے کی‬
‫تھیں کہ ڈاکوؤں کے ایک گروہ نے رات کی تاریکی میں اس پر حملہ کر دیا۔‬
‫تمام قافلے میں افرا تفری اور بھگدر مچ گئی اور ڈاکوؤں نے اہل قافلہ کو خوب‬
‫لوٹا۔ ایک ڈاکو شیخ عبدالقادر جیالنی کے پاس آیا اور کہنے لگا‪ ”:‬لڑکے!تیرے‬
‫پاس کیا ہے؟“ آپ نے جواب دیا‪”:‬میرے پاس چالیس اشرفیاں ہیں جو میری‬
‫قمیض کی تہ میں سلی ہوئی ہیں۔‬
‫ڈاکو نے آپ کی اس بات کو مذاق سمجھا اور ہنستا ہوا آگے گزر گیا ۔اتنے میں“‬
‫ایک اور ڈاکو آپ کے پاس آیا اور وہی سوال کیا ۔آپ نے پھر وہی جواب دیا۔ وہ‬
‫ڈاکو یہ جو اب سن کر حیران ہوا اور آپ کو پکڑ کر اپنے سر دار کے پاس لے‬
‫گیا ۔ڈاکو کے سر دار نے تعجب سے آپ کو دیکھا اورپوچھا‪ ”:‬لڑکے سچ مچ بتا‬
‫تیرے پاس کیا ہے؟“ آپ نے وہی بات دہرائی آپ کی یہ بات سن کر سردار کی‬
‫حیرت کی انتہا نہ رہی ۔‬
‫آپ نے اپنی قمیض کی تہ کو کھوال تو پوری چالیس اشرفیاں زمین پر گر پڑیں۔‬
‫اشرفیاں دیکھ کر سردار کی آنکھیں حیرت سے کھلی کی کھلی رہ گئیں ۔‬
‫اس نے آپ سے مخاطب ہو کر کہا ‪”:‬لڑکے !تونے سچ بول کر اپنا راز کیوں‬
‫فاش کر دیا حاالنکہ تو آسانی سے اپنی اشرفیاں بچا سکتا تھا ۔‬
‫آپ نے جواب دیا‪”:‬میری ماں نے مجھے نصیحت کی تھی کہ بیٹا!ہمیشہ سچ بولنا‬
‫میں نے اپنی ماں کی نصیحت پر عمل کیا ہے ۔“آپ کا یہ جواب سن کر سردار‬
‫اس قدر متاثر ہوا کہ بے ساختہ اس کی آنکھوں میں آنسو آگئے وہ سوچنے لگا کہ‬
‫ایک طرف یہ لڑکا ہے جسے اپنی ماں کی نصیحت کا اس قدر خیال ہے اور‬
‫دوسری طرف میں ہوں کہ اپنے مالک حقیقی کے احکام سے غافل ہو کر بے‬
‫گناہ لوگوں کو لوٹتا ہوں ۔‬
‫اس کے دل سے غفلت کا پر دہ دور ہو گیا اس نے توبہ کرلی اور قافلے کا لوٹا“‬
‫ہوا مال واپس کر دیا۔ اس طرح آپ کی سچائی کی بدولت ڈاکوؤں کی اصالح ہو‬
‫گئی اور وہ نیکی اور پر ہیز گاری کی زندگی گزارنے لگے۔‬

You might also like