You are on page 1of 8

‫استحسان‬

‫اسائنمنٹ نمبر ‪2‬‬

‫عبدالرزاق ولد بشیر احمد‬ ‫نام‪:‬‬


‫رول نمبر‪27203 :‬‬

‫پروفیسر‪ :‬ڈاکٹر محمد باقر خان خاکوانی صاحب‬


‫سیشن‪2023‬ء۔‪2025‬ء‬
‫پی ایچ ڈی شعبہ علوم اسالمیہ‬

‫فیکلٹی آف سوشل سائنسز اینڈ ہیو مینیٹیز‬

‫رفاہ انٹرنیشنل یونیورسٹی فیصل آباد کیمپس‬


‫فیصل آباد‬
‫‪1‬‬

‫استحسان‬
‫(‪)Juristic Preference/Lenient Interpretation‬‬
‫استحسان کی تشریح‪:‬‬
‫استحسان فقہ اسالمی کا پانچواں ماخذ اور ایسا ذیلی ماخذ ہے جس میں فقہاء کرام کے مابین اختالف ہے۔‬

‫حتی کہ امام شافعی بانی مذہب شافعیہ فرماتے ہیں کہ جو استحس‪gg‬ان کے ذریعہ مس‪gg‬ائل ح‪gg‬ل ک‪gg‬رے گ‪gg‬ا ُاس نے‬
‫نئی شریعت ایجاد کی۔ یعنی اسالمی شریعت کو چھوڑ کر اپنی شریعت بنائی۔‬
‫استحسان کی تعریف قدرے مشکل ہے جس کا مطالعہ آپ آئندہ س‪g‬طور میں ک‪g‬ریں گے لیکن آس‪g‬ان پ‪g‬یرایہ میں‬
‫یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہر وقت اور عم‪gg‬ومی کلیہ کے ط‪gg‬ور پ‪gg‬ر نہیں بلکہ بعض اوق‪gg‬ات چن‪gg‬د مخص‪gg‬وص ح‪gg‬االت کی‬
‫وجہ سے مجتہد کسی مسئلہ کو قرآن یا سنت کے ذریعے حل کرتے ہوئے یہ محسوس کرتا ہے کہ اس پر عمل کرنے‬
‫سے لوگوں کو مشکالت کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ عوام الناس کو سہولت‪ ،‬آس‪gg‬انی اور ف‪gg‬راخی مہی‪gg‬ا ک‪gg‬رنے کے ل‪gg‬ئے‬
‫قرآن‪ ،‬سنت یا اجماع کے واضح حکم یا واضح آیات کے مخالف حکم دیتا ہے ت‪gg‬ا کہ اس‪gg‬الم کی مجم‪gg‬وعی تعلیم‪gg‬ات کے‬
‫مطابق لوگوں کو سہولتیں مہیا کی جائیں ۔ حکم استحسان کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔‬
‫یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن وسنت کے احکام کا مقصد اور شریعت کے عمومی مقاص‪gg‬د لوگ‪gg‬وں ک‪gg‬و س‪gg‬ہولت‬
‫دینا ہیں ان کے لئے مشکالت پیدا کرنا نہیں ہیں۔ اس لئے اگر قرآن یا سنت کے کس‪gg‬ی خ‪gg‬اص حکم کے ذریعہ ُاس وقت‬
‫کے مخصوص حاالت یا کسی خاص عالقہ کے لوگوں کو مشکالت اور تنگی کا سامنا ہو رہا ہو تو مجتہد ایک مح‪gg‬دود‬
‫وقت اور خاص عالقہ کے لئے ُاس حکم کو ختم کر کے لوگوں کو سہولت میسر کرنے کے لئے کوئی اور آس‪gg‬ان حکم‬
‫دے سکتا ہے۔ مثًال حضرت عمؓر کے دور میں حجاز میں قحط رونما ہو گیا اور لوگوں کو کھ‪gg‬انے کے ل‪g‬ئے گن‪gg‬دم بھی‬
‫میسر نہیں ہوتی تھی۔ اس صورت حال میں آپ نے غلہ کے چور کے لئے صرف حج‪gg‬از کے عالقہ میں ای‪gg‬ک مح‪gg‬دود‬
‫مدت یعنی قحط کے دوران ہاتھ کاٹنے کی سزا موقوف کر دی کیونکہ اب جو غلہ چوری کرے گا مجبوری اور بھوک‬
‫کی وجہ سے کرے گا شوق یا عادت کی وجہ سے نہیں کرے گا۔ اب اس مثال میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا قرآن مجید‬
‫سے ثابت ہے اس کو قیاس جلی کہیں گے اور لوگوں کو سہولت اور آسانی پہنچانے کے لئے محدود عالقہ اور متعین‬
‫مدت کے لئے ناسازگار حالت کی وجہ سے سزا کو موقوف کر دینا قیاس نفی کہالئے گ‪gg‬ا۔ گوی‪gg‬ا کہ کس‪gg‬ی خ‪gg‬اس مس‪gg‬ئلہ‬
‫میں مخصوص حاالت کی وجہ سے ایک متعین مدت کے ل‪g‬ئے ش‪g‬ریعت کے واض‪g‬ح حکم (قی‪gg‬اس جلی) ک‪gg‬و چھ‪gg‬وڑ ک‪gg‬ر‬
‫شریعت کے عمومی مقاصد ( قیاس خفی) پر عمل کرتے ہوئے مسائل کا حل پیش کرنا استحسان ہے۔‬

‫استحسان کی لغوی و اصطالحی تعریف‪:‬‬


‫لغت میں استحسان کسی چیز کو اچھا سمجھنے کو کہ‪gg‬تے ہیں۔ اور اس چ‪gg‬یز پ‪gg‬ر بھی اس ک‪gg‬ا اطالق ہوت‪gg‬ا ہے۔‬
‫جس کو انسان چاہتا ہو‪ ،‬اوراسکی طرف مائل ہو‪ ،‬چاہے دوس‪g‬را ش‪g‬خص اس ک‪g‬و ب‪g‬را س‪g‬مجھتا ہ‪g‬و۔ استحس‪g‬ان کے مع‪g‬نی‬
‫کسی شے کو اچھا اور مستحسن سمجھنا ہیں۔‬
‫عد الشني حسنا ‪)56( .‬‬
‫اصطالح میں اسکی بہت سی تعریفیں کی گ‪g‬ئی ہیں۔ ان میں س‪g‬ے ای‪g‬ک تعری‪g‬ف یہ ہے ج‪g‬و فخ‪g‬ر االس‪g‬الم ام‪g‬ام‬
‫بزودی نے کی ہے۔‬
‫االستحسان هو العدول عن موجب قياس اقوى منه‪ ،‬او تخصيص قياس‬ ‫(‪)1‬‬
‫بدليل اقوى منہ‪)53( .‬‬
‫یعنی قیاس جس چیز کا تقاضا کرتا ہو اس کو چھوڑ کر اس سے قوی تر قیاس پر عمل کرنے کا نام استحسان‬
‫ہے۔ یا اس کی دوسری تعریف یہ ہے‪ :‬کسی قوی تر دلیل کی بنا پر کسی قیاس کو خاص کرنااستحسان کہالتا ہے۔‬
‫امام ابوالحسن کرخی حنفی نے استحسان کی تعریف یہ کی ہے‪:‬‬ ‫(‪)2‬‬
‫کسی مسئلہ میں عالم دین‪ ،‬فقیہ‪ ،‬مجد یا مفتی کوئی ایسا فیصلہ ک‪gg‬رے ج‪gg‬و ان فیص‪gg‬لوں کے خالف ہ‪gg‬و ج‪gg‬و اس‬
‫جیسے‬
‫مسئلوں میں ! اس سے پہلے کئے جاچکے ہیں۔ اور اس مخالفت کا کوئی ایس‪gg‬ا ش‪gg‬رعی س‪gg‬بب بھی موج‪gg‬ود ہ‪gg‬و‬
‫جو سابق فیصلوں سے مخالفت کا باعث ہو۔ (‪)54‬‬
‫بعض خیلی فقہاء نے اس کی تعریف یہ کی ہے۔‬ ‫(‪)3‬‬
‫العدول بحكم المسألة عن نظائرها لدليل شرعي خاص (‪)55‬‬
‫یعنی کسی مسئلہ میں کسی خاص شرعی دلیل کی بنا پر ایک حکم کا اطالق کرنا ‪ ،‬اور اسی جیسے دوس‪gg‬رے‬
‫مسائل میں اس حکم کو چھوڑ دینا استحسان کہالتا ہے۔‬
‫ان تمام تعریفوں سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ استحسان سے مقصود لوگوں کے مسائل حل کرنے کےلئے‬ ‫(‪)4‬‬
‫قیاس جلی یعنی قرآن و سنت کے واضح حکم کو چھوڑ کر قیاس خفی یعنی قریعنی وسنت میں بندوں کےلئے عم‪gg‬ومی‬
‫ہدایات اور شریعت کے عمومی فلسفہ کو اختیار کرنا ہے۔‬
‫جب مجتہد کو کوئی ایسا مسئلہ در پیش ہو جس میں دو قیاس کا باہمی ٹکراؤ ہوتا ہو ایک قیاس جلی ‪ ،‬یعنی‬ ‫(‪)5‬‬
‫واضح قیاس کا حکم ہو جو اس حکم کا تقاضا کرت‪gg‬ا ہ‪gg‬و ج‪gg‬و اس مس‪gg‬ئلہ کے ب‪gg‬ارے میں مق‪gg‬رر ہے یع‪gg‬نی عم‪gg‬ومی حکم ۔‬
‫دوسرا قیاس خفی۔ جو دوس‪g‬رے حکم ک‪gg‬ا متقاض‪g‬ی ہ‪gg‬و۔ اس وقت مجتہ‪gg‬د کے ذہن میں ایس‪g‬ی دلی‪gg‬ل موج‪g‬ود ہ‪gg‬وتی ہے ج‪g‬و‬
‫دوسرے قیاس کو پہلے پر ترجیح کا تقاضا کرتی ہے۔ یا قی‪gg‬اس جلی جس حکم ک‪gg‬ا تقاض‪gg‬ا کرت‪gg‬ا ہے۔ قی‪gg‬اس خفی اس ک‪gg‬و‬
‫چھوڑنے کا تقاضا کرتا ہے۔ یہ عدول ( گریز ) یا ترجیح استحسان کہالتا ہے۔ اور جو دلیل اس مخالفت کا تقاضا کرتی‬
‫ہے اس کو وجہ استحسان کہتے ہیں۔‬
‫اور فقہاء کی اصطالح میں مسئلہ کے دو پہلوؤں میں ایک کو کسی معقول دلیل کی بنا پر ترجیح دینے کا نام‬ ‫(‪)6‬‬
‫استحسان ہے ‪ ،‬ذیل میں افادہ کے لحاظ سے مزید چند تعریفیں نقل کی گئی ہیں۔‬
‫قطع المسئلة عن نظائر ها بما هو اقوى‪ .‬کسی مسئلہ کے حکم کو قوی دالئل وجہ کی بناء پر اس کے نظائر‬ ‫(‪)7‬‬
‫سے الگ کر لینا۔‬
‫العدول عن قياس الى قياس اقوى‪ ،‬العدول في مسئلة عن مثل ما حكم به في نظائرها الى خالفه بوجه هو اقوى‪.‬‬ ‫(‪)8‬‬
‫ایک قیاس چھوڑ کر اس سے زیادہ قومی قیاس اختیار کرنا‪ ،‬یعنی مسئلہ کے نظائر میں ج‪gg‬و حکم موج‪gg‬ود ہے اور جس‬
‫بنیاد‪ ،‬آیت قرآنی یا حدیث کی وجہ سے ایک مسئلہ کا مروجہ حل بتایا جاتا ہے کسی قوی وجہ یعنی لوگوں کو س‪gg‬ہولت‬
‫میسر کرنے کی بناء پر اس کو چھوڑ کر اس کے خالف حکم لگانا۔‬
‫االستحسان ترك القياس واالخذ بما هو اوفق للناس‪)57( .‬‬ ‫(‪)9‬‬
‫استحس‪gg‬ان‪ ،‬ظ‪gg‬اہری قی‪gg‬اس ‪ ،‬واض‪gg‬ح حکم چھ‪gg‬وڑ ک‪gg‬ر اس چ‪gg‬یز ک‪gg‬و اختی‪gg‬ار ک‪gg‬رنے ک‪gg‬ا ن‪gg‬ام ہے ج‪gg‬و لوگ‪gg‬وں کی‬
‫ضرورتوں سے زیادہ موافق ہو۔ یعنی شریعت کا واضح حکم جس کی طرف ذہن جلدی متوجہ ہو ظاہری قیاس یا قیاس‬
‫جلی ہے۔ اگر اس حکم کو نافذ کرنے میں لوگوں کی مشکالت بڑھ رہی ہوں تو ش‪gg‬ریعت کی عم‪gg‬ومی تعلیم‪gg‬ات جس کی‬
‫طرف ذہن جلدی متوجہ نہ ہو بلکہ غور وفکر سے معلوم ہو کہ وہ لوگوں ک‪gg‬و مش‪gg‬کالت میں مبتال نہ ک‪gg‬رو ہے۔ اس پ‪gg‬ر‬
‫عمل کرنا قیاس خفی کہالتا ہے اس پر عمل کرتے ہوئے کوئی ایسا حکم دینا جو ظاہری حکم کے خالف ہو لیکن عوام‬
‫کو اس سے سہولت حاصل ہو جائے استحسان کہالتا ہے۔ یعنی قیاس جلی کی مخالفت کر کے قیاس جلی پر عمل کرنا۔‬
‫اس حکم ذریعہ لوگوں کے لئے سہولت تالش کی گئی ہے۔ کیونکہ دین کا اصل مقص‪g‬د لوگ‪gg‬وں ک‪gg‬و س‪g‬ہولت دین‪gg‬ا ہے ان‬
‫کے لئے مشکالت پیدا کرنا نہیں۔ بہکای مصلحت قیاس خفی‪ ،‬یا قیاس جلی سے عدول وغیرہ کہالتی ہے۔ (‪)58‬‬
‫االستحسان طلب السهولة فى االحكام فيما يتبلى فيه الخاص والعام‪ .‬استحسان ان صورتوں میں سہولت طلب‬ ‫(‪)9‬‬
‫کرنا ہے جن میں خاص و عام سب مبتال ہوتے ہیں۔‬
‫االخن بالسما و ابتغاء ما فيه الراحة‪)59( .‬‬ ‫(‪)10‬‬
‫"استحسان مشکل مسائل میں عوام کے لئے آسانیاں تالش کرنے ‪،‬فراخی پر عم‪gg‬ل ک‪gg‬رنے اور اس میں راحت‬
‫کی صورت تالش کرنے کا نام ہے۔‬
‫االخذ بالو سعة وابتغاء الراحة‪)60( .‬‬ ‫(‪)11‬‬
‫استحسان وسعت کو اختیار کرنے اور فراخی کو تالش کرنے کا نام ہے“۔‬

‫استحسان کی ُم جیت‪:‬‬
‫ان سب کا حاصل مشکل کو چھوڑ کر آسمان صورت اختیار کرن‪gg‬ا ہے‪ ،‬ت‪gg‬رک العس‪gg‬ر لليس‪gg‬ر یع‪gg‬نی مش‪gg‬کل ک‪gg‬و‬
‫آسانی میں بدلنا کیونکہ حکمت الہی یہی ہے ‪ ،‬جس طرح وارد ہے۔‬
‫ُيِريُد ُهللا ِبُك ُم اْلُيْس َر َو اَل ُيِريُد ِبُك ُم اْلُعْس َر ﴾ (البقرة ‪ )185‬ہللا تمہارے لئے آسانی اور س‪gg‬ہولت چاہت‪gg‬ا ہے تم ک‪gg‬و دش‪gg‬واری اور‬
‫مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا“۔‬
‫رسول ہللا صل العلم کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫ان هذا الدين يسرا)‪)61( .‬‬
‫بے شک یہ دین آسان ہے۔‬
‫حضرت علی اور معاد کو یمن بھیجتے وقت ارشاد فرمایا‪:‬‬
‫يسر واال تعسروا بشروا ال تنفر وا‪)62( .‬‬
‫لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرنا مشکل میں نہ ڈالنا ان کو قریب ال نا تنفر نہ کرنا۔‬

‫قرآن حکیم میں لفظ استحسان کے مفہوم کی طرف اشارہ‪:‬‬


‫علماء حصول کے نزدیک قرآن حکیم میں استحسان کی بنیاد حسب ذیل آیتیں بیان کی آتی ہیں۔‬
‫َفَبِّش ْر ِعَباِد اَّلِذ يَن َيْسَتِم ُعوَن اْلَقْو َل َفَيَّتِبُعوَن َأْح َس َنَة﴾ (الزمر (‪)18‬‬
‫میرے ان بندوں کو خوشخبری دے دیجئے کہ وہ جو بات سنتے ہیں ان میں ”احسن“ کی اتباع کرتے ہیں۔‬
‫َو أُم ُر َقْو َم َك َيْأُخ ُذ وا ِبَأْح َسِنَها﴾ (االعراف ‪)148‬‬
‫اپنی قوم کو حکم دے دیجیے کہ وہ احسن احکام کو اختیار کریں۔‬
‫استحسان کی ضرورت کے بارے میں یہ آیتیں خاص اہمیت رکھتی ہیں۔‬
‫َم ا َجَعَل َع َلْيُك ْم ِفي الِّديِن ِم ْن َحَر ج ﴾ (الحج ‪ )78‬ہللا نے دین میں تمہارے اوپر کوئی تنگی نہیں کی ہے۔‬
‫ُيِريُد ُهللا ِبُك ُم اْلُيْس َر َو اَل ُيِريُد ِبُك ُم اْلُعْس َر ﴾ (البقرة ‪ )185‬ہللا تمہارے س‪gg‬اتھ آس‪gg‬انی چاہت‪gg‬ا ہے مش‪gg‬کل میں ڈالن‪gg‬ا نہیں‬
‫چاہتا۔‬
‫ال ُتَك ِّلُف َنْفٌس ِإاَّل ُو ْس َعَها﴾ (البقرة‪)233 :‬ہللا تعالٰی کسی کو اس کی وسعت سے برداشت سے زی‪g‬ادہ تکلی‪g‬ف نہیں‬
‫دیتا۔‬

‫سنت میں استحسان کے استعمال کی طرف اشارہ‪:‬‬


‫احادیث میں یہ حدیث پیش کی جاتی ہے‬
‫ما راه المسلمون حسنا فهو عند هللا حسن) (‪ )63‬جس ک‪g‬و مس‪g‬لمان اچھ‪g‬ا س‪g‬مجھیں وہ ہللا کے نزدی‪g‬ک بھی اچھ‪g‬ا‬
‫ہے۔‬
‫مگر صحیح یہ ہے کہ حضرت عبدہللا بن مسعود کا قول ہے جو موقوف ہے۔‬
‫تمہارا اچھا دین میسر ( آسانی) ہے“۔‬ ‫(خير دينكم اليسر) (‪)64‬‬
‫یسر کے بارے میں حضرت علی اور معاد کو رسول ہللا کی یی کم کی دی ہوئی ہدایت اوپ‪gg‬ر گ‪gg‬زر چکی ہے۔‬
‫اس طرح پیر اور آسانی سے متعلق رسول ہللا ﷺکے جتنے ارش‪gg‬ادات ہیں وہ س‪gg‬ب اس کے ثب‪gg‬وت میں پیش ک‪gg‬ئے‬
‫جاسکتے ہیں۔‬

‫صحابہ کے طرز عمل سے استحسان کا ثبوت‪:‬‬


‫صحابہ کے طرز عمل سے استحسان کا ثبوت میراث کا مس‪gg‬ئلہ ہے۔ اس ک‪gg‬ا واقعہ یہ ہے کہ ای‪gg‬ک ع‪gg‬ورت ک‪gg‬ا‬
‫انتقال ہوتا ہے۔ اس کے ورثا میں شوہر‪ ،‬والدہ‪ ،‬دو سگے بھائی اور دو ماں شریک بھ‪gg‬ائی ہیں۔ علم م‪gg‬یراث کے قاع‪gg‬دے‬
‫کے مطابق سگے بھائی عصبات میں شمار ہوتے ہیں اور ماں شریک بھائی اصحاب فروض میں شامل ہیں۔‬
‫اص‪gg‬حاب ف‪gg‬روض وہ ہیں جن کے حص‪gg‬ے وحی الہی نے مق‪gg‬رر ک‪gg‬ر دی‪gg‬ئے ہیں اور عص‪gg‬بات وہ ہیں جن کے‬
‫حصے متعین نہیں ہیں۔ بلکہ اصحاب فروض سے جو بچتا ہے وہ اسکے مستحق قرار پاتے ہیں۔‬
‫مذکورہ صورت میں شوہر کو نصف ‪ ،‬والدہ کو چھٹا حصہ اور ماں شریک بھائیوں کو تہائی حص‪gg‬ہ ملے گ‪gg‬ا۔‬
‫قیاسی قاعدہ کے مطابق اس تقسیم کے بعد کچھ نہیں بچتا ہے کہ سگے بھائیوں کو دیا جائے۔ اس بنا پ‪gg‬ر وہ مح‪gg‬روم ہ‪gg‬و‬
‫جائیں گے اور ماں شریک بھائی اپنا حصہ لے لیں گے اور یہ قی‪gg‬اس جلی ہے یع‪gg‬نی ق‪gg‬رآن کی آیت م‪gg‬یراث س‪gg‬ے ث‪gg‬ابت‬
‫ہے۔ ظاہر ہے کہ اس تقسیم میں سگے بھائیوں کا نقصان ہے۔ جب کہ میت س‪gg‬ے ان ک‪gg‬ا دہ‪gg‬را رش‪gg‬تہ (م‪gg‬اں اور ک‪gg‬ر ب‪gg‬اپ‬
‫دونوں جانب سے ) قائم ہے۔ حضرت عمر کے سامنے جب یہ واقعہ پیش آیا تو انہوں نے قیاس خفی یعنی حق دار ک‪gg‬و‬
‫حق سے محروم نہ کرئے پر عمل کرتے ہوئے لگے بھائیوں کے دفعیہ کی غرض سے قیاسی قاعدہ یعنی ق‪gg‬رآن مجی‪gg‬د‬
‫کا واضح حکم چھوڑ دیا اور ان کو ماں شریک بھائیوں میں شامل کر کے تہائی میں سب کو حق دار بنایا۔ اس‪gg‬ی ط‪gg‬رح‬
‫میراث میں پوتے کا مسئلہ ہے۔ جب دادا کی حیات میں باپ کا انتقال ہو جائے اور باپ کے پ‪gg‬اس ک‪gg‬وئی م‪gg‬ال نہ ہ‪gg‬و ت‪gg‬و‬
‫ایسی صورت میں پوتے کو میراث نہ ملے گی یہ قیاس جلی ہے جو قرآن اور حدیث میں موجود ہے۔ کیونکہ دوسرے‬
‫بیٹوں کی موجودگی میں پوتا محروم ہو جاتا ہے۔ یہ مسئلہ بھی استحسان یعنی قیاس خفی کے‬
‫ذریعہ حل کرنے کے قابل ہے۔ (‪+)65‬‬

‫استحسان کی چار اقسام‬


‫‪ - 1‬استحسان بالنص‬
‫اس سے مراد یہ ہے کہ قرآن یا حدیث میں لوگوں کے مفادات یا ُان کو سہولت دینے کے لئے کس‪gg‬ی عم‪gg‬ومی‬
‫حکم کو ترک کر کے استثنائی حکم دیا گیا ہو۔‬
‫قرآن مجید سے مثال مثًال قرآن مجید کا یہ اصولی فیصلہ ہے کہ مرنے کے بعد انسان کا رابطہ اس دینا س‪gg‬ے‬
‫ختم ہو جات‪g‬ا ہے۔ لیکن م‪g‬رنے والے ش‪g‬خص کی نیکی‪g‬اں بڑھانے کے ل‪g‬ئے ُاس‪g‬ے س‪g‬ورہ البق‪g‬رہ آیت‪ 180 :‬میں وص‪g‬یت‬
‫کرنے کا حکم دیا گیا ہے حاالنکہ مرنے کے بعد ُاس کا اپ‪gg‬نے م‪gg‬ال میں نہ ح‪gg‬ق رہت‪gg‬ا ہے نہ اختی‪gg‬ار ۔ لیکن ق‪gg‬رآن مجی‪gg‬د‬
‫استحسانا اس کو وصیت کا اختیار دے رہا ہے۔‬

‫حدیث سے مثال‬
‫یہ ایک مسلمہ اصول ہے اور قیاس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ہروہ چیز جو انسان کے پاس موجود نہیں۔‬
‫سر دست معدوم ہے تو ایک معدوم اور غیر موجود چ‪g‬یز ک‪g‬و نہیں بیچ‪g‬ا ج‪g‬ا س‪g‬کتا نہ ہی اس ک‪g‬ا س‪g‬ودا کی‪g‬ا ج‪g‬ا‬
‫سکتا۔ یہ قیاس جلی کا تقاضا ہے۔ اسی لئے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو مع‪gg‬دوم ہیں اور ان کی ف‪gg‬روخت ک‪gg‬و ش‪g‬رعا ن‪gg‬ا‬
‫جائز قرار دیا گیا ہے اور اس پر بالکل اتفاق ہے۔‬
‫مثال کے طور پر ایک شخص مزا مین اور طالقیح کی بیع نہیں کر س‪gg‬کتا۔ کی‪gg‬ونکہ رس‪gg‬ل ہللا ی‪gg‬ا میمن نے اس‬
‫سے منع کیا ہے۔‬

‫یهى النبي صلى هللا عليه وس‪gg‬لم عن بيع المض‪gg‬امين و المالقيح‪ .‬مص‪gg‬نف عب‪gg‬دالرزاق مالقح ک‪gg‬ا مطلب یہ ہے کہ‬
‫ایک اونٹ کی پشت میں جومنی ہے جس سے اونٹنی کا بچہ بنے گا اس کو ابھی سے فروخت کر دینا۔ اور مضامین کا‬
‫مطلب یہ ہے کہ اونٹنی کے پیٹ میں جو حمل ہے اسے بیچ دینا‪ ،‬اس کی ممانعت کی گئی ہے۔ اس لئے کہ بالفعل یہ‪gg‬اں‬
‫اونٹنی کا کوئی بچہ موجود نہیں ہے۔ تو اونٹنی کے بچہ کی پیدائش سے پہلے اسے بیچ دینا ن‪gg‬ا ج‪gg‬ائز ہے‪ ،‬اس ل‪gg‬ئے کہ‬
‫وہ معدوم ہے۔ اس طرح ایک شخص اس پرندہ کو نہیں بچ س‪gg‬کتا ج‪gg‬و ہ‪gg‬وا میں اڑا جارہ‪gg‬ا ہ‪gg‬و۔ اس ل‪gg‬ئے کہ ابھی ت‪gg‬ک وہ‬
‫پرندہ اس کے قبضہ میں نہیں آیا اور یہ شخص پرندہ کو سپر د کر دینے پر قادر نہیں ہے اس قسم کے تمام احک‪gg‬ام ک‪gg‬و‬
‫قیاس جلی کہتے ہیں۔‬

‫بیع سلم اور استحسان ‪:‬‬


‫ان نظائر پر قیاس کرتے ہوئے قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ بیع سلم جس میں معدوم چ‪gg‬یز ک‪gg‬و نق‪gg‬د روپے لے ک‪gg‬ر‬
‫بیچا جاتا ہے بھی نا جائز ہے ۔ بیع سلم دو آدمیوں کے درمیان ُاس معاہدہ کو کہتے ہیں جس میں ایک کسان یا زمین‪gg‬دار‬
‫اپنے باغ یا کھیت کی ایسی فصل یا پھ‪g‬ل ک‪g‬و ج‪g‬و ابھی موج‪g‬ود ہی نہیں ای‪g‬ک س‪g‬ال کے بع‪g‬د مہی‪g‬ا ک‪g‬رنے کے وع‪g‬دہ پ‪g‬ر‬
‫فروخت کر کے رقم نقد حاصل کر لیتا ہے۔ مثًال پاکستان میں گندم کی بجائی عمومی طور پر اکت‪gg‬وبر نوم‪gg‬بر میں ہ‪gg‬وتی‬
‫ہے اور اپریل مئی میں ُاس کی کٹائی ہوتی ہے اب کوئی کسان جون کے ماہ میں کسی شخص کو ایس‪gg‬ی گن‪gg‬دم ف‪gg‬روخت‬
‫کر رہا ہے جو موجود نہیں اور ابھی ُاس نے ُاس کی بجائی بھی نہیں کی اور ُاس کی رقم نقد اس وعدہ پر لے لیت‪gg‬ا ہے‬
‫کہ جب اگلے سال وہ اپریل مئی میں گندم کاٹے گا کا تو وہ گندم ُاس‪gg‬ے دے گ‪gg‬ا۔ یہ معاہ‪gg‬د و خری‪gg‬د و ف‪gg‬روخت بی‪gg‬ع س‪gg‬لم“‬
‫کہالتا ہے۔ اس کو فقہی اصلطالح میں بیع الغائب بالحاظر" کہتے ہیں۔ یعنی غیر موجود چیز کا سودا حاضر م‪gg‬ال س‪gg‬ے‬
‫کرنا۔ کسی ایسی چیز کی رقم یا نقدی فورًا وصول کر لینا جو ابھی معدوم ہے ی‪gg‬ا موج‪gg‬ود ہی نہیں ہے بی‪gg‬ع س‪gg‬لم ہے۔ ت‪gg‬و‬
‫قیاس جلی کا تقاضا یہ ہے کہ جس طرح ان تمام نظائر میں معدوم اش‪gg‬یاء کی بی‪gg‬ع ن‪gg‬ا ج‪gg‬ائز ہے اس ط‪gg‬رح بی‪gg‬ع س‪gg‬لم بھی‬
‫ناجائز ہو اس لئے کہ یہ معدوم ہے۔‬
‫اس سلسلہ میں حنفیہ یہ کہتے ہیں کہ ہم نے اس قیاس جلی سے ہٹ کر یہ رائے قائم کی ہے کہ بیع سلم جائز‬
‫ہے۔ اس لئے کہ ن‪gg‬بی اک‪gg‬رم لی لی یم کی ح‪g‬دیث ہم‪gg‬ارے پ‪gg‬اس موج‪g‬ود ہے جس میں آپ م‪gg‬الی ص‪g‬لى هللا عليه وس‪g‬لم نے‬
‫لوگوں کو سہولت اور آسانی دینے کے لئے فرمایا ہے‪:‬‬
‫من اسلم منكم فليسلم في كيل معلوم و وزن معلوم الى اجل معلوم‪.‬‬
‫وہ شخص جو تم میں سے بیع سلم کرتا ہے پس چ‪g‬اہئے وہ س‪g‬لم ک‪gg‬رے کی‪gg‬ل معل‪g‬وم اور وزن معل‪g‬وم میں یع‪gg‬نی‬
‫ایک متعین اور معلوم چیز کو جو کیل اور پیم‪gg‬انہ کے ذریعے بیچی ج‪g‬اتی ہ‪gg‬و ی‪gg‬ا وزن کے ذریعے بیچی ج‪g‬اتی ہ‪gg‬و اس‬
‫کے کیل اور وزن کو معلوم ہونا چاہئے ۔‬
‫الى اجل معلوم“ (‪ )66‬اور سلم کرے ایک خاص مقرر مدت تک‬
‫اس مدت کا تعین ہونا چاہئے کہ درمیان میں مدت کتنی ہے۔‬
‫اس سے معلوم ہوتا ہے کہ بیع سلم جائز ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ یہ اصول کی ایسی چیز جو انس‪gg‬ان کے پ‪gg‬اس‬
‫بالفعل موجود نہیں ہے اس کے بیج کی ممانعت کی گئی ہے جیسے مالقیح اور مضامین کے ب‪gg‬ارے آپ او پ‪gg‬ر مط‪gg‬العہ‬
‫کر آئے ہیں۔ اس اصول کی روایت خود نبی اکرم علی علیم سے بھی کی گئی ہے۔ لیکن اس کے ساتھ س‪g‬اتھ لوگ‪gg‬وں کی‬
‫سہولت کے لئے بیع سلم کا استثناء بھی ہے۔ چنانچہ حدیث میں آیا ہے کہ‬
‫نهى النبي اال هللا عن بيع ماليس عند االنسان و رخص في السلم نبی اکرم علی ایم نے ممانعت کی ہے اس چ‪gg‬یز‬
‫کو بیچنے کی جو انسان کے پاس نہیں ہے۔ اور آپ کی ایم نے بیع سلم کے سلسلہ میں رخصت دی ہے کہ بیع سلم ک‪gg‬ر‬
‫سکتے ہو۔ اسے استحسان بالنص استحسان سنت بھی کہتے ہیں۔ ظاہر بات ہے کہ اس قسم کا استحسان سنت اور حدیث‬
‫سے باہر نہیں ہے بلکہ حنفیہ کا استدالل اس قسم کے مقامات میں سنت پر ہی ہے۔‬

‫‪۲‬۔استحسان باال جماع‪:‬‬


‫مثال ایک شخص کسی موچی کے پاس جاتا ہے اور اپنے پیروں کا ناپ دیتا ہے کہ اس ن‪gg‬اپ کے مط‪gg‬ابق اس‬
‫قسم کی چپلیاں بناؤ اور ُاس کو کچھ رقم ایڈوانس یا مکمل قیمت بھی ادا ک‪gg‬ر دیت‪gg‬ا ہے ۔ وہ اس کے ل‪gg‬ئے چپلی‪gg‬اں بن‪gg‬ا دی‪gg‬ا‬
‫ہے۔‬
‫قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ کہ اس قسم کا سودا ج‪gg‬ائز نہ ہ‪gg‬و اس ل‪gg‬ئے کہ وہ چپلیں ابھی ت‪gg‬ک مع‪gg‬دوم اورغ‪gg‬یر‬
‫موجود یعنی تیار نہیں ہیں‪ ،‬وہ تو بعد میں بنیں گی ۔ تو ایک ایسی چیز جو سرے سے موچی کے پاس موجود نہیں اور‬
‫اس جوتی کا نقشہ صرف ذہن میں ہے‪ ،‬اس کا سودا کیسے کرتا ہے۔ لیکن نبی اکرم کی نیلم کے زمانہ سے لے ک‪gg‬ر آج‬
‫یک تمام مسلمانوں کا اس پر عمل رہا ہے اور نبی مال لیا اور آپ مال لینے کے صحابہ نے اس پ‪g‬ر نک‪g‬یر نہیں کی ہے۔‬
‫اس کا مطلب یہ ہے کہ اس عام کلیہ یعنی قیاس جلی سے کہ معدوم کی بیچ نہیں ہو سکتی ‪ ،‬تعامل و قی‪gg‬اس خفی کی ن‪gg‬ا‬
‫پر اور خونبی اکرم کی ٹیم کی خاموشی کی بنا پر اس کی حیثیت ایک استثناء کی ہے اور یہ عام اصول کہ معدوم چیز‬
‫جس کا بھی وجود بھی نہیں بچی نہیں جاسکتی سے مستثنٰی ہے۔ اس استحسان کا نام استحسان اجماع ہے۔‬

‫‪ ۳‬استحسان ضرورت‬
‫اسی طرح کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ استحسان‪ ،‬ضرورت کی بنا پر ہوتا ہے۔‬
‫مثال کے طور پر قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایک برتن جب ایک بار نا پاک ہو ج‪gg‬ائے ت‪gg‬و وہ بالک‪gg‬ل پ‪gg‬اک نہ‬
‫ہو سکے اور خاص طور پر مٹی کے برتن دوبارہ پاک نہیں ہو سکتے ۔ اس لئے کہ جب ایک بار نا پا کی پہنچ ج‪gg‬ائے‬
‫تو مٹی کا برتن ناپاکی کے بعض اجزاء کو جذب کر لیتا ہے۔ اس کے بعد اگ‪gg‬ر آپ اس‪gg‬ے دھوتے ہیں ت‪gg‬و دھوتے رہیں‬
‫لیکن جو اجزاء جذب کئے گئے ہیں وہ تو جذب کئے گئے ہیں۔ اب ہمارے پاس اس کا کیا ذریعہ ہے کہ وہ اج‪gg‬زاء بھی‬
‫باہر نکل جائیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ایک برتن جب ایک دفعہ ناپاک ہ‪gg‬و ج‪g‬ائے ت‪gg‬و اس‪g‬ے ختم ک‪gg‬ر دو ‪ ،‬ت‪gg‬وڑ دو اور ن‪gg‬ئے‬
‫سرے سے نیا برتن ہونا چاہئے تو اس صورت میں لوگوں کے لئے بہت زیادہ حرج ہے۔ قرآن مجی‪gg‬د میں ہللا تع‪gg‬الٰی ک‪gg‬ا‬
‫ارشاد ہے کہ‬
‫َو َم ا َجَعَل َع َلْيُك ْم ِفي الِّديِن ِم ْن َحَر ج‪( .‬الحج‪)۷۸ .‬‬
‫قرآن مجید کے ان ارشاد کا تقاض‪g‬ا یہ ہے کہ اس قی‪gg‬اس جلی ک‪gg‬و ہم چھ‪gg‬وڑ دیں اور قی‪gg‬اس خفی کے مط‪g‬ابق ہم‬
‫کہیں کہ اس قسم کا برتن پاک ہوسکتا ہے اگر اسے تین مرتبہ دھو لیا جائے۔‬
‫تو اس قسم کا استحسان ضرورت ہے۔ اور یہ حقیقت میں قرآن مجید کے بعض ارش‪gg‬ادات کی بن‪gg‬ا پ‪gg‬ر ہے۔ جن‬
‫کا آپ مطالعہ کر چکے ہیں۔‬

‫‪ -۴‬استحسان قیاس (خفی)‬


‫کبھی کبھی استحسان قیاس خفی کی بنا پر ہوتا ہے۔‬
‫اس کی مث‪gg‬ال ہیں س‪gg‬باع الطی‪gg‬ور یع‪gg‬نی وہ پرن‪gg‬دے جوش‪gg‬کاری پرن‪gg‬دے ہیں ُان ک‪gg‬ا جھوٹ‪gg‬ا ہے۔ س‪gg‬وال یہ ہے کہ‬
‫شکاری پرندے اگر کسی برتن میں پانی پی لیں تو ان کا جھوٹا پ‪gg‬اک ہے ی‪gg‬ا ن‪gg‬ا پ‪gg‬اک قی‪gg‬اس جلی ک‪gg‬ا تقاض‪gg‬ا یہ ہے یہ کہ‬
‫شکاری پرندوں کو جھوٹا نا پاک ہو۔ اس لئے کہ شکاری پرندوں کے جھوٹے کا قیاس ان کے گوشت پر کی‪gg‬ا ج‪gg‬ا س‪gg‬کتا‬
‫ہے۔ جس طرح وہ حیوانات جو درندے ہیں جیسے شیر چیتا وغیرہ ان کے جھوٹے ناپاک ہیں اس لئے کہ ان کا گوشت‬
‫نا پاک ہے۔ تو اسی طرح قیاس کا تقاضا یہ ہے کہ شکاری پرندوں کے جھوٹے کو بھی ان کے گوشت پر قیاس کر لی‪gg‬ا‬
‫جائے جس طرح ان کا گوشت تا پا کی کی بنا پر حرام ہے‪ ،‬اسی طرح ان کے جھوٹے کو بھی ناپاک ہونا چاہیے۔ لیکن‬
‫قیاس خفی کا تقاضا یہ ہے کہ شکاری پرندوں کا جھوٹا پاک ہے اور اس کی وجہ یہ ہے کہ ہم البھائم السبعہ کا مع‪gg‬املہ‬
‫ان کے ساتھ نہیں کر سکتے۔ اس لئے کہ سباع البھائم یعنی وہ حیوان جو درندہ ہے‪ ،‬وہ پانی پیتے میں اپ‪gg‬نے زب‪gg‬ان کے‬
‫ذریعہ سے اور ان کی زبان کے ساتھ لعاب کا اختالط ہوتا ہے۔ وہ لعاب گوشت سے پیدا ہوتا ہے اور ان ک‪gg‬ا گوش‪gg‬ت ن‪gg‬ا‬
‫پاک ہے۔ اس وجہ سے ان کا پس خوردہ جھوٹا بھی نا پاک ہے۔ لیکن یہ شکاری پرندے پانی پیتے ہیں اپنے چونچ کے‬
‫ذریعہ اور چونچ تو صرف ایک خشک سی ہڈی ہے اور اس کے ساتھ کسی بہت بڑے پیمانہ پر لع‪gg‬اب ک‪gg‬ا اختالط نہیں‬
‫ہے۔ اس بنا پر شکاری پرندوں کو ہم قیاس کرتے ہیں ان پرندوں پر جن کا گوشت کھایا جاتا ہے۔ جس ط‪gg‬رح وہ چ‪gg‬ونچ‬
‫سے پانی پیتے ہیں اسی طرح یہ بھی چونچ سے پانی پیتے ہیں اور چونچ کی ہڈی بذات خود ایک خشک ہ‪gg‬ڈی ہے اس‬
‫میں نجاست کا کوئی سوال پی‪gg‬دا نہیں ہوت‪gg‬ا ۔ لہ‪gg‬ذا ان کے جھ‪gg‬وٹے ک‪gg‬و ہم ن‪gg‬ا پ‪gg‬اک نہیں ق‪gg‬رار دے س‪gg‬کتے۔ جس ط‪gg‬رح وہ‬
‫پرندے جن کا گوشت کھایا جاتا ہے ان کے جھوٹے کو نا پاک نہیں قرار دیا جا سکتا۔ ( ‪) 67‬‬

‫استحسان و مصالح مرسلہ میں فرق‪:‬‬


‫استحسان اور مصالح مرسلہ میں فرق یہ ہے کہ استحس‪gg‬ان میں ق‪gg‬رآن وس‪gg‬نت کے کس‪gg‬ی واض‪gg‬ح حکم کی کلی‬
‫طور پر نہیں بلکہ جزئی طور پر محدود وقت‪ ،‬محدود عالقہ اور محدود اشیاء میں مخ‪gg‬الفت ک‪gg‬رتے ہ‪gg‬وئے دوس‪gg‬را حکم‬
‫دیا جاتا ہے لیکن مصالح مرسلہ میں کسی ش‪g‬رعی حکم کی مخ‪g‬الفت نہیں ہ‪gg‬وتی بلکہ جس ن‪gg‬ئے مس‪g‬ئلہ میں ش‪g‬ریعت ک‪gg‬ا‬
‫کوئی حکم موجود نہ ہو ُاس میں مجموعی اسالمی تعلیمات کو مدنظر رکھ نیا حکم دیا جاتا ہے جس میں کس‪gg‬ی ش‪gg‬رعی‬
‫حکم کی مخالفت نہیں ہوتی ۔ جس‬
‫طرح ٹریفک کے سڑکوں پر چلنے کے اصول بنانا یا دفتری اوقات کا تعین کرنا وغیرہ ہیں۔‬

You might also like