Professional Documents
Culture Documents
استحسان
()Juristic Preference/Lenient Interpretation
استحسان کی تشریح:
استحسان فقہ اسالمی کا پانچواں ماخذ اور ایسا ذیلی ماخذ ہے جس میں فقہاء کرام کے مابین اختالف ہے۔
حتی کہ امام شافعی بانی مذہب شافعیہ فرماتے ہیں کہ جو استحسggان کے ذریعہ مسggائل حggل کggرے گggا ُاس نے
نئی شریعت ایجاد کی۔ یعنی اسالمی شریعت کو چھوڑ کر اپنی شریعت بنائی۔
استحسان کی تعریف قدرے مشکل ہے جس کا مطالعہ آپ آئندہ سgطور میں کgریں گے لیکن آسgان پgیرایہ میں
یہ سمجھا جا سکتا ہے کہ ہر وقت اور عمggومی کلیہ کے طggور پggر نہیں بلکہ بعض اوقggات چنggد مخصggوص حggاالت کی
وجہ سے مجتہد کسی مسئلہ کو قرآن یا سنت کے ذریعے حل کرتے ہوئے یہ محسوس کرتا ہے کہ اس پر عمل کرنے
سے لوگوں کو مشکالت کا سامنا کرنا پڑے گا تو وہ عوام الناس کو سہولت ،آسggانی اور فggراخی مہیggا کggرنے کے لggئے
قرآن ،سنت یا اجماع کے واضح حکم یا واضح آیات کے مخالف حکم دیتا ہے تggا کہ اسggالم کی مجمggوعی تعلیمggات کے
مطابق لوگوں کو سہولتیں مہیا کی جائیں ۔ حکم استحسان کے ذریعہ سے ہوتا ہے۔
یہ ایک حقیقت ہے کہ قرآن وسنت کے احکام کا مقصد اور شریعت کے عمومی مقاصggد لوگggوں کggو سggہولت
دینا ہیں ان کے لئے مشکالت پیدا کرنا نہیں ہیں۔ اس لئے اگر قرآن یا سنت کے کسggی خggاص حکم کے ذریعہ ُاس وقت
کے مخصوص حاالت یا کسی خاص عالقہ کے لوگوں کو مشکالت اور تنگی کا سامنا ہو رہا ہو تو مجتہد ایک محggدود
وقت اور خاص عالقہ کے لئے ُاس حکم کو ختم کر کے لوگوں کو سہولت میسر کرنے کے لئے کوئی اور آسggان حکم
دے سکتا ہے۔ مثًال حضرت عمؓر کے دور میں حجاز میں قحط رونما ہو گیا اور لوگوں کو کھggانے کے لgئے گنggدم بھی
میسر نہیں ہوتی تھی۔ اس صورت حال میں آپ نے غلہ کے چور کے لئے صرف حجggاز کے عالقہ میں ایggک محggدود
مدت یعنی قحط کے دوران ہاتھ کاٹنے کی سزا موقوف کر دی کیونکہ اب جو غلہ چوری کرے گا مجبوری اور بھوک
کی وجہ سے کرے گا شوق یا عادت کی وجہ سے نہیں کرے گا۔ اب اس مثال میں چوری کی سزا ہاتھ کاٹنا قرآن مجید
سے ثابت ہے اس کو قیاس جلی کہیں گے اور لوگوں کو سہولت اور آسانی پہنچانے کے لئے محدود عالقہ اور متعین
مدت کے لئے ناسازگار حالت کی وجہ سے سزا کو موقوف کر دینا قیاس نفی کہالئے گggا۔ گویggا کہ کسggی خggاس مسggئلہ
میں مخصوص حاالت کی وجہ سے ایک متعین مدت کے لgئے شgریعت کے واضgح حکم (قیggاس جلی) کggو چھggوڑ کggر
شریعت کے عمومی مقاصد ( قیاس خفی) پر عمل کرتے ہوئے مسائل کا حل پیش کرنا استحسان ہے۔
استحسان کی ُم جیت:
ان سب کا حاصل مشکل کو چھوڑ کر آسمان صورت اختیار کرنggا ہے ،تggرک العسggر لليسggر یعggنی مشggکل کggو
آسانی میں بدلنا کیونکہ حکمت الہی یہی ہے ،جس طرح وارد ہے۔
ُيِريُد ُهللا ِبُك ُم اْلُيْس َر َو اَل ُيِريُد ِبُك ُم اْلُعْس َر ﴾ (البقرة )185ہللا تمہارے لئے آسانی اور سggہولت چاہتggا ہے تم کggو دشggواری اور
مشکل میں ڈالنا نہیں چاہتا“۔
رسول ہللا صل العلم کا ارشاد ہے:
ان هذا الدين يسرا))61( .
بے شک یہ دین آسان ہے۔
حضرت علی اور معاد کو یمن بھیجتے وقت ارشاد فرمایا:
يسر واال تعسروا بشروا ال تنفر وا)62( .
لوگوں کے لئے آسانی پیدا کرنا مشکل میں نہ ڈالنا ان کو قریب ال نا تنفر نہ کرنا۔
حدیث سے مثال
یہ ایک مسلمہ اصول ہے اور قیاس کا تقاضا بھی یہ ہے کہ ہروہ چیز جو انسان کے پاس موجود نہیں۔
سر دست معدوم ہے تو ایک معدوم اور غیر موجود چgیز کgو نہیں بیچgا جgا سgکتا نہ ہی اس کgا سgودا کیgا جgا
سکتا۔ یہ قیاس جلی کا تقاضا ہے۔ اسی لئے بہت سی چیزیں ایسی ہیں جو معggدوم ہیں اور ان کی فggروخت کggو شgرعا نggا
جائز قرار دیا گیا ہے اور اس پر بالکل اتفاق ہے۔
مثال کے طور پر ایک شخص مزا مین اور طالقیح کی بیع نہیں کر سggکتا۔ کیggونکہ رسggل ہللا یggا میمن نے اس
سے منع کیا ہے۔
یهى النبي صلى هللا عليه وسggلم عن بيع المضggامين و المالقيح .مصggنف عبggدالرزاق مالقح کggا مطلب یہ ہے کہ
ایک اونٹ کی پشت میں جومنی ہے جس سے اونٹنی کا بچہ بنے گا اس کو ابھی سے فروخت کر دینا۔ اور مضامین کا
مطلب یہ ہے کہ اونٹنی کے پیٹ میں جو حمل ہے اسے بیچ دینا ،اس کی ممانعت کی گئی ہے۔ اس لئے کہ بالفعل یہggاں
اونٹنی کا کوئی بچہ موجود نہیں ہے۔ تو اونٹنی کے بچہ کی پیدائش سے پہلے اسے بیچ دینا نggا جggائز ہے ،اس لggئے کہ
وہ معدوم ہے۔ اس طرح ایک شخص اس پرندہ کو نہیں بچ سggکتا جggو ہggوا میں اڑا جارہggا ہggو۔ اس لggئے کہ ابھی تggک وہ
پرندہ اس کے قبضہ میں نہیں آیا اور یہ شخص پرندہ کو سپر د کر دینے پر قادر نہیں ہے اس قسم کے تمام احکggام کggو
قیاس جلی کہتے ہیں۔
۳استحسان ضرورت
اسی طرح کبھی کبھی یہ بھی ہوتا ہے کہ استحسان ،ضرورت کی بنا پر ہوتا ہے۔
مثال کے طور پر قیاس کا تقاضا تو یہ ہے کہ ایک برتن جب ایک بار نا پاک ہو جggائے تggو وہ بالکggل پggاک نہ
ہو سکے اور خاص طور پر مٹی کے برتن دوبارہ پاک نہیں ہو سکتے ۔ اس لئے کہ جب ایک بار نا پا کی پہنچ جggائے
تو مٹی کا برتن ناپاکی کے بعض اجزاء کو جذب کر لیتا ہے۔ اس کے بعد اگggر آپ اسggے دھوتے ہیں تggو دھوتے رہیں
لیکن جو اجزاء جذب کئے گئے ہیں وہ تو جذب کئے گئے ہیں۔ اب ہمارے پاس اس کا کیا ذریعہ ہے کہ وہ اجggزاء بھی
باہر نکل جائیں۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ایک برتن جب ایک دفعہ ناپاک ہggو جgائے تggو اسgے ختم کggر دو ،تggوڑ دو اور نggئے
سرے سے نیا برتن ہونا چاہئے تو اس صورت میں لوگوں کے لئے بہت زیادہ حرج ہے۔ قرآن مجیggد میں ہللا تعggالٰی کggا
ارشاد ہے کہ
َو َم ا َجَعَل َع َلْيُك ْم ِفي الِّديِن ِم ْن َحَر ج( .الحج)۷۸ .
قرآن مجید کے ان ارشاد کا تقاضgا یہ ہے کہ اس قیggاس جلی کggو ہم چھggوڑ دیں اور قیggاس خفی کے مطgابق ہم
کہیں کہ اس قسم کا برتن پاک ہوسکتا ہے اگر اسے تین مرتبہ دھو لیا جائے۔
تو اس قسم کا استحسان ضرورت ہے۔ اور یہ حقیقت میں قرآن مجید کے بعض ارشggادات کی بنggا پggر ہے۔ جن
کا آپ مطالعہ کر چکے ہیں۔