Professional Documents
Culture Documents
معاشرتی ذمہ داریاں
معاشرتی ذمہ داریاں
محاسن اخالق
ذیل میں چند ایسی ذمہ داریاں ہیں جو حسن معاشرت کی ضمانت ہیں
انہیں محاسن اخالق بھی کہا جاتا ہے۔
دیانت داری
معنوی وسعت
اسالم میں دیانت کے مفہوم کو صرف آپس کے لین دین تک محدود
نہیں رکھا۔ یقینا کاروبار میں اصولوں کی پابندی یعنی کم نہ تولنا ،غیر
معیاری چیز دھوکے سے نہ بیچنا ،جائز طریقے سے دولت کمانا دیانت
میں شامل ہے۔ اسی طرح حق بات کا کرنا غلط بیانی سے اجتناب حق
بات کہنا دیانت ہے۔
ہر شخص پر عائد ہونے والی ذمہ داریوں کی ادائیگی امانت میں شامل
ہے اور ان کی عدم ادائیگی خیانت ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا محفل میں کی جانے والی باتیں
امانت ہیں۔ یعنی ان باتوں کو دوسروں تک پہنچانا یا دوسروں کا سنانا
بددیانتی ہے۔
صحیح مشورہ دینا بھی امانت ہے
اللہ کی عطا کی ہوئی تمام صالحیتوں کو اللہ کی منشا کے مطابق
صرف کرنا بھی امانت میں شامل ہے۔
حکمرانوں کے پاس اقتدار و اختیار ایک امانت ہے۔ اس امانت کی
حفاظت یہ ہے کہ عوام کو ان کے معاشرتی سیاسی اخالقی معاشی
حقوق ادا کیے جائیں۔
عوام پر جو ذمہ داریاں معاشی اعتبار سے ٹیکس وغیرہ عائد ہوتی ہیں
ان کی ادائیگی بھی امانت ہے۔
اگر باریک نگاہ سے دیکھا جائے تو ایک سرکاری مالزم میں افسر کے
پاس جو اشیاء موجود ہوتی ہیں ان کا درست استعمال بھی امانت میں
داخل ہے مثال فون گاڑی سٹیشنری ماتحت مالزمین بجٹ
اسالم کی تعلیمات میں امانت کی اہمیت
مندرجہ ذیل آیات قرآنی سے امانت کی اہمیت واضح ہوتی ہے
اہل لوگوں تک امانت پہنچانے کا حکم
سورۃ النساء آیت نمبر 58
بے شک اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانتیں امانت والوں کو پہنچا دو
فالح پانے والوں کی ایک عالمت
سورہ المومنون آیت نمبر 8
جو اپنی امانتوں اور عہدوں کی رعایت رکھتے ہوں
سورۃ البقرہ آیت نمبر 283
بس جس پر اعتماد کیا گیا ہے اس چاہیے کہ وہ امانت ادا کر دے
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے
اس کا کوئی ایمان نہیں جو امانت دار نہیں
منافق میں امانت کا لحاظ نہیں ہوتا
منافق میں امانت کا لحاظ نہیں ہوتا اور منافق کی تین نشانیاں ہیں
جب بات کرے تو جھوٹ بولے
جب وعدہ کرے تو خالف ورزی کرے
جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو اس میں خیانت کرے
جنت میں عزت کا مقام پانے کا ذریعہ
سورۃ المعارج آیت نمبر 32
اور وہ جو اپنی امانتوں کا اور اپنے عہد کا پاس کرتے ہیں
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ
بعثت سے قبل حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی امانت کا اتنا چرچا تھا کہ
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آمین کہہ کر پکارا جاتا تھا۔ ہجرت مدینہ کے
وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تمام امانتیں حضرت علی رضی اللہ تعالی
عنہ کے سپورٹر اور اپنے بستر پر لٹایا اور یہ ہدایت فرمائی کہ امانتیں واپس
کر کے مدینہ آنا چنانچہ انہوں نے امانتیں لٹا کر ہجرت فرمائی
ایفاۓ عہد
معنوی وسعت
ایفاۓ عہد کے معنی وعدہ پورا کرنا ہے۔ ایمان النا بھی ایک عہد ہے کہ
وہ اللہ اور اس کے رسول کے احکام کی پیروی کا وعدہ کرتا ہے۔
اسالم کی تعلیمات میں ایفائے عہد کی اہمیت
قرآن میں وعدہ پورا کرنے کی بار بار تلقین کی گئی ہے
ایفائے عہد بنیادی نیکیوں میں سے ہے
سورۃ البقرہ آیت نمبر 177
وہ اپنا وعدہ پورا کرتے ہیں جب وہ وعدہ کرتے ہیں
ایفائے عہد کا حکم
سورہ المائدہ کی پہلی ہی آیت میں فرمایا
اے ایمان والو اپنے عہد پورے کرو
اللہ سے کئے گئے عہد سے مراد وہ واحد ہے جو انسان نے اللہ سے اس
وقت کیا جب ابھی اس کی روحی ہی پیدا ہوئی تھی۔ یہ اللہ کو ایک
ماننے کا عہد تھا اللہ سے کیا گیا ایک عید وہ ہے کہ جب انسان
مسلمان ہوتا ہے تو وہ اللہ سے عہد کرتا ہے کہ آج کے بعد وہ اسی کے
احکام مانے گا۔
سورہ بنی اسرائیل آیت نمبر 34
وعدہ پورا کیا کرو بے شک وعدے کی پوچھ ہوگی
سورۃ االنعام آیت 153
اور اللہ کا وعدہ پورا کرو۔
منافق بدعہد ہوتا ہے
منافق کی تین نشانیاں ہیں کہ جب بات کرے تو جھوٹ بولے جب وعدہ کرے
تو خالف ورزی کرے اور جب اس کے پاس امانت رکھی جائے تو خیانت
کرے۔
جنت میں عزت داروں کی عالمت
سورۃ المعارج آیت نمبر 32
وعدے کا لحاظ رکھنے والوں کو جنت میں عزت کا مقام دیا جائے گا۔
فالح پانے والوں کی عالمت
سورہ مومنون کی آیت میں فالح پانے والوں کی عالمت یہ بیان ہوئی ہے کہ
وہ اپنے وعدوں کی پاسداری کرتے ہیں۔
بدعہدوں کے قیامت کے دن رسوائی
قیامت کے دن بد عہدوں کو لوگوں کی نگاہوں میں بےعزت کرنے کے لئے
انہیں ایک جھنڈے تلے جمع کیا جائے گا اور سب لوگوں کو بتایا جائے گا کہ
یہ لوگ بد عہد ہیں۔
ایفاۓ عہد کے مختلف صورتیں
ایفائے عہد کے مختلف صورتیں یہ ہے کہ عزیزواقارب کے درمیان عہد ،ہمسایوں اور
دیگر لوگوں سے مل جل کر رہنے کا عہد ،باہمی لین دین کے معاہدات ،حکمران اور
عوام کے درمیان عہد
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا عملی نمونہ
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایفاۓ عہد کی صرف تلقین ہی نہیں فرمائی بلکہ
عملی نمونہ بھی پیش فرمایا۔صلح حدیبیہ کے موقع پر ایک شرط یہ تھی کہ مکہ
سے جب کوئ مسلمانوں کے پاس آئے گا تو اسے واپس کر دیا جائے گا۔ معاہدہ طے
پانے کے فورا بعد ایک نوجوان مسلمان حضرت ابو جندل زنجیروں میں جکڑے ہوئے
تشریف الئے۔ ان کی حالت کو دیکھ کر صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ تڑپ اٹھے۔
آنکھیں اشکبار ہو گئیں لیکن حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے معاہدے کی پابندی
فرماتے ہوئے انہیں مکہ واپس بھیج دیا۔
غزوہ بدر کے موقع پر دو صحابی نبی حضرت حذیفہ رضی اللہ تعالی عنہ اور حضرت
ابو جبل رضی اللہ تعالی عنہ کو کفار کے نرغے میں آ گئے تو کفار نے انھیں اس
شرط پر رہا کیا کہ وہ مسلمانوں کے ساتھ جنگ میں شریک نہیں ہوں گے۔ ان دونوں
نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو یہ واقعہ سنایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم
نے وعدہ پورا کرنے کا حکم دیا اور لڑائی میں شریک نہ ہوئے۔
ایفائے عہد کے فوائد
وعدے کا پابند شخص لوگوں میں محترم ہو جاتا ہے۔ اس کا اعتماد
لوگوں پر قائم ہوتا ہے۔ اس کی بات وزن دار بن جاتی ہے۔
اس سے اسالمی اقدار معاشرے میں پیدا ہوتی ہے۔ اخالقیات اور
روحانیت کا دور دورہ ہو تا ہے۔
مستحکم معاشرہ معرض وجود میں آتا ہے۔
سچائی
معنوی وسعت
ہم سچ کا لفظ گفتگو تک محدود رکھتے ہیں مگر قرآن مجید میں سچ
کے مفہوم میں قول کے ساتھ عمل اور خیال تک کی سچائی شامل
ہے۔ سچا وہ ہے جو نہ صرف زبان سے سچ بولے بلکہ فکروعمل سے
بھی اس کا اظہار کرے
دل کی سچائی
زبان کی سچائی
عمل کی سچائی
اسالمی تعلیمات میں سچائی کی اہمیت
سچائی کا حکم
سورۃ توبہ آیت نمبر 119
اے ایمان والو اللہ سے ڈرو اور سچے لوگوں کے ساتھ رہو
سچائی اللہ کے صفت
سورہ نساء آیت نمبر 87
کہ نہیں ہے کوئی شک جس نے اور کون ہے زیادہ سچا اللہ سے بات
میں
سورہ نساء آیت نمبر 122
یہ وعدہ ہے اللہ کا سچا اور کون ہے زیادہ سچا اللہ سے بات میں
اہل جنت کی خصوصیات میں سچائی
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہیں
سچائی نجات دالتی ہے اور جھوٹ ہالک کرتا ہے
حضور سے پوچھا گیا مومن بزدل ہو سکتا ہے؟ فرمایا ہاں پھر پوچھا گیا
بخیل ہو سکتا ہے؟ فرمایا ہاں سائل نے پھر سوال کیا کیا وہ جھوٹا ہو
سکتا ہے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نہیں
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا سچائی اپنے اوپر الزم رکھو کہ
سچائی نیکی کی طرف لے جاتی ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ
حضور صلی اللہ علیہ وسلم بعثت سے قبل اپنی سچائی کی وجہ سے
الصادق کے نام سے مشہور تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے زندگی بھر
صدق قولی صدق قلبی اور صدق عملی کا اعالن نمونہ پیش فرمایا۔
سچائی کے فوائد
باہمی اعتماد
عزت و وقار
نیکی کی طرف رہنمائی
عدل و انصاف
عدل کے لغوی معنی یہ ہے کہ کسی چیز کو اس کے اصل مقام پر رکھنا۔
عدل کی یہ بھی معنی بیان کئے جاتے ہیں سیدھا رکھنا توازن قائم کرنا
افراط و تفریط اور کسی ایک طرف جھکاو پیدا نہ کرنا۔
انصاف اور عدل میں فرق
انصاف کا معنی ہے کسی چیز کو برابر برابر دو حصوں میں تقسیم کرنا۔ جبکہ
عدل اس سے وسیع تر اصطالح ہے جس کا معنی ہے جس کا جتنا حصہ بنتا
ہے اسے وہ حصہ ادا کرنا۔ ضروری نہیں کہ کسی چیز کو دو یا زیادہ سے زیادہ
بندوں میں برابرتقسیم کیاجائے۔
عدل کی اہمیت
رسولوں کی بعثت کا بنیادی مقصد
سورۃ الحدید کی آیت نمبر 25
البتہ تحقیق ہم نے اپنے رسولوں کو واضح دلیل کے ساتھ بھیجا اور ان کے
ساتھ کتابیں نازل کی تاکہ وہ لوگوں کے درمیان عدل قائم کریں۔
عدل کا حکم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو
سورہ مائدہ کی آیت نمبر 42آپ کو براہراست عدل قائم کرنے کا حکم دیا گیا
ہے
سورہ نساء آیت نمبر 58
جب آپ ان کے درمیان فیصلے کریں تو عدل کے مطابق فیصلہ کیا کریں
عدل کرنے کا عمومی حکم
سورۃ النحل کی آیت نمبر 90
بے شک اللہ تعالی تمہیں عدل اور احسان کا حکم دیتا ہے
سورہ الحجرات کی آیت نمبر 9
اس آیت میں باہمی معامالت میں مسلمانوں کو عدل کا حکم دیا گیا
عدل کرنے والوں کو اللہ پسند کرتا ہے
سورۃ الحجرات کی آیت نمبر 9
عدل کیا کرو بے شک اللہ تعالی عدل کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔
عدل تقوی کے قریب ہے
سورۃ المائدہ کی آیت نمبر 8
عدل کیا کرو کیوں کے یہ تقوی کے بہت قریب ہے
اللہ کی رضا کی خاطر انصاف کی گواہی دینا
سورہ نساء کی آیت نمبر 145اردو سورہ المائدہ کی آیت نمبر 8میں فرمایا گیا
کہ تم اللہ کی رضا کی خاطر عدل کے قیام کے لیے سچی گواہی دینے والے بن
جاؤ۔ گویا حقدار تک اس کا حق پہنچانے کے لیے اللہ کی رضا کی خاطر گواہی
دینے والے بن جاؤ۔
قوموں کے عروج و زوال کے اسباب اور عدل
ایک دفعہ ایک معزز خاندان کی عورت نے چوری کی تو اس کو سزا سے بچانے
کے لئے سفارش کی گئی۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غصے میں آکر فرمایا
تم میں سے پہلی قومیں اس لئے تباہ ہوئیں کہ جب ان میں سے کوئی بااثر
شخص کسی جرم کا ارتکاب کرتا تو اسے چھوڑ دیا جاتا اور جب کوئی کمزور
آدمی جرم کر بیٹھتا تو اس پر سزا عائد کردی جاتی تھی۔
حسنی
ٰ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا اپنا اسوائے
عدل کے حوالے سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہماری تعلیم کی خاطر
ہم اپنی زندگی کا بہترین نمونہ پیش فرمایا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک
معاملے میں فرمایا
اللہ کی قسم اگر میری اپنی بیٹی فاطمہ بھی چوری کے جرم کا ارتکاب کرتی تو
ضرور اس کا ہاتھ میں سزا میں کاٹ دیتا
ایک دفعہ مسلمان اور یہودی کا معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے
پیش ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بات سن کر یہودی کے حق میں فیصلہ
دیا۔
حدیث نبوی میں عدل کی اہمیت
ارشاد نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ہے قیامت کے دن جب کہ خدا کے عرض
کے سایہ کے سوا کوئی دوسرا سایہ نہ ہوگا 7شخصوں کو خدا اپنے سایہ میں لے
لے گا جن میں سے ایک شخص امام عادل ہوگا۔
ایک اور حدیث میں آیا ہے کہ
جو شخص مسلمانوں کا حاکم ہو اور اس نے ان کے ساتھ خیانت کی اور وہ اس
حالت میں مر گیا تو اللہ تعالی اس پر جنت حرام کر دے گا۔
عدل کی مختلف صورتیں
اہل و عیال سے عدل
یتیموں سے عدل
ناپ تول میں عدل
دستاویزات لکھنے میں عدل
لڑائی جھگڑوں میں عدل سے فیصلہ کرو
دولت کی تقسیم میں عدل
عدل کے فوائد
عدل کرنے سے تمام انسانوں کے حقوق محفوظ ہو جاتے ہیں
عدل ہی معاشرے کے افراد کے درمیان محبت اخوت اور بھائی چارے کا رشتہ
مضبوط کرتا ہے اور معاشرہ مستحکم ہوتا ہے
اسی سے باہمی رنجشیں دور ہوتی ہیں
عدل کرنے والی حکومت کو بھی استحکام ملتا ہے
عدل کرنے واال لوگوں کی نگاہوں میں معزز اور معتبر بن جاتا ہے۔
احترام قانون
مفہوم و اہمیت
اسالم ایک فطری دین ہے۔ ملکی قوانین کا احترام ایک فطری ضرورت
ہے ورنہ نظام زندگی درہم برہم ہو کر رہ جائے۔
احترام قانون کا حکم و اہمیت
اطاعت کے بارے میں حکم ہے سورہ نساء آیت نمبر 59
اللہ اور رسول کی اطاعت کرو اور اس کی بھی جو تم میں صاحب امر
ہے۔
سورۃ البقرہ آیت نمبر 60
زمین میں فساد پھیالنے والے مت بنو
جنگی سفر میں بھی نظم و ضبط کا حکم
اسالم میں نظم و ضبط کا اس قدر خیال کرتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ
وسلم نے جنگی سفر میں بھی نظم و ضبط کو ملحوظ رکھنے کا حکم دیا۔
نظام کائنات سے قانون کے احترام کی طرف اشارہ
اللہ تعالی نے قرآن میں بار بار فرمایا ہے کہ ساری کائنات چاند سورج ستارے
سبھی میرے ایک قانون اور طے شدہ ضابطے پر عمل کرتے ہوئے اپنے اپنے
راستے پر گامزن ہے انسان جو اشرف المخلوقات ہے ہیں اسے بھی کائنات
سے سبق سیکھتے ہوئے اللہ کے احکام یا ملکی قوانین کی پابندی کرنی
چاہیے سورہ یاسین 48-83
حکمران کی اطاعت
سورۃ النساء آیت نمبر 58
اے ایمان والو تم اللہ کی طاقت اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم
کی اور اپنے صاحب اختیار کی۔۔۔
اگر حاکم وقت خدا اور رسول کی اطاعت کرتا ہے اور کوئی حکم ایسا نہیں
دیتا جو شرعی احکام کے خالف ہو۔ تب تو اس کی اطاعت واجب ہوگی اگر
خالف شریعت حکم دے گا تو اس کی اطاعت واجب نہ ہو گی۔ ارشاد ہے
خالق یعنی اللہ تعالی کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت نہیں کی جائے
گی۔
مسلمان حاکم کی اطاعت کے بارے میں رسول خدا نے بڑی تاکید
فرمائے درج ذیل احادیث سے بھی اس کی اہمیت مزید واضح ہو جاتی
ہے
جو شخص میری فرمانبرداری کرتا ہے وہ خدا کی فرمانبرداری کرتا ہے
اور جو شخص میران فرمان ہے وہ خدا کا نافرمان ہے اور جو شخص امیر
یعنی حاکم ریاست کی اطاعت کرتا ہے وہ میری اطاعت کرتا ہے اور
جو امیر کی نافرمانی کرتا ہے وہ میری نافرمانی کرتا ہے۔
ایک اور حدیث میں وارد ہے
سنو سنو اور اطاعت کرو اگرچہ تم پر ایک حبشی کو حاکم بنا دیا
جائے۔
اسالمی عبادات اور احترام قانون کی تربیت
اگر غور کیا جائے تو اسالمی عبادات احترام قوانین کی تربیت کا ذریعہ
ہے۔
مثال نماز میں امام کے الفاظ کی پیروی کرنا ،کسی بھی کام میں مسئلہ
رکوع و سجود یا سالم وغیرہ کہنے میں امام سے پہلے کوئی فعل کرنے
کی سخت ممانعت ہے۔ حج سراپا نظم و ضبط کا نمونہ ہے روزہ بھی
اپنی پسندیدہ اشیاء اللہ کے حکم کی وجہ سے ایک دورانیہ کے لیے
چھوڑ دیتا ہے۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا عملی نمونہ
ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک سے ایک لکڑی
کسی کے منہ پر لگ گئی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس شخص
سے کہا تو مجھ سے انتقال لے لیکن اس نے معاف کر دیا۔
احترام قانون کے تقاضے
قانون کی باالدستی
عدلیہ کی آزادی
قوانین میں مفاد عامہ کا لحاظ
احترام قانون کے فوائد
امن و سکون
افراتفری سے نجات
نظم و ضبط
انسانی شخصیت کی تعمیر
ترقی اور ارتقا
کسب حالل
اہمیت
کسب حالل کا مطلب ہے حالل طریقوں اور ذریعہ سے روزی کمانا۔
انسانوں اور حیوانوں میں ایک فرق یہ ہے کہ انسان صرف حالل اور طیب
کھاتے ہیں اور ہر شے کھا جاتے ہیں۔
اسالم کی تعلیمات میں کسب حالل کی اہمیت
حالل کھانے اور حرام سے بچنے کا حکم
سورۃ البقرہ آیت نمبر 168
اے لوگو جو چیزیں زمین میں موجود ہیں ان میں سے حالل اور پاک کھاؤ
سورۃ البقرہ آیت نمبر 188
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاؤ
سورۃ البقرہ آیت نمبر 172
اے ایمان والو پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ
اسالم کی تعلیمات میں کسب حالل کی اہمیت
حالل کھانے اور حرام سے بچنے کا حکم
شادی خداوندی ہے
سورۃ البقرہ 168
اے لوگو جو چیزیں زمین میں موجود ہیں ان میں سے حالل اور پاک
کھاؤ۔
ایک اور جگہ ارشاد خداوندی ہے
سورہ بقرہ 188
اور آپس میں ایک دوسرے کا مال ناحق مت کھاؤ
سورۃ البقرہ 172
اے ایمان والو پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ
فتوی فروشی کی ممانعت
یہودی لوگ ان کی مرضی کے مطابق فتوے دے کر ناجائز دولت کماتے تھے
ان لوگوں میں مذمت کی گئی ہے۔
سورہ البقرہ 174
بے شک جو لوگ چھپاتے ہیں اسے جو اللہ نے کسی سے نازل کیا ہے اور
وہ اس کی تھوڑی سی قیمت لیتے ہیں یہ وہ لوگ ہیں جو اپنے پیٹوں میں
آگ ڈالتے ہیں۔
حالل کمائی نیک اعمال کا ذریعہ
قرآن مجید میں اللہ تعالی نے رسولوں کو بھی خطاب کرتے ہوئے فرماتا
ہے اے میرے رسولو تم پاکیزہ چیزیں ہی کھاؤ اور نیک اعمال اختیار کرو۔
روحانیت کا خاتمہ
حرام کھانے سے انسان کی روحانیت مر جاتی ہے انسان میں عبادت کا
جذبہ ختم ہو جاتا ہے اور وہ اللہ کی رحمت سے دور ہو جاتا ہے۔ اس کی
دعائیں قبول نہیں ہوتیں اور سخت دل ہو جاتا ہے۔
ارشادات نبوی اور رزق حالل
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خستہ حاالت میں بڑی
عاجزی اور انکساری سے گڑگڑا کر اللہ سے دعا کرتا ہے لیکن اس
کی دعا قبول نہیں ہوتی۔ فرمایا کہ اسکی دعائیں کیسے قبول
نہیں ہوتی۔ فرمایا کہ اس کی دعائیں کیسے قبول ھوں جس کا
کھانا حرام کمائی ہے اس کا لباس حرام کمائ یے
جو شخص حرام کا ایک لقمہ کھاتا ہے اس کی چالیس دن کی
عبادت قبول نہیں ہوتی۔ لقمہ حالل کا انتظار کرو دعا قبول ہوگی۔
حصول معاش کے ناجائز طریقے کی
سود
اس میں غریب کا معاشی استحصال ہوتا ہے اس لیے فرمایا
اگر تم سود سے باز نہ رہے تو اللہ اس کے رسول کی طرف سے
اعالن جنگ سن لو۔
رشوت
حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے رشوت دینے واال اور لینے واال
دونوں جہنمی
جواء
قرآن مجید میں سے شیطانی عمل اور نجس کمائ قرار دیا ہے
چوری
چوری کے ذریعے دوسرے کے مال کو اپنے قبضے میں لیا جاتا ہے اس لیے یہ فعل حرام قرار دیا
گیا ہے
ناپ تول میں کمی
کم تولنا بڑی اخالقی بیماری ہے اس لئے اللہ نے فرمایا ہالکت ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لیے
ذخیراندوزی
یہ ایک اخالقی معاشرتی اور معاشی جرم ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ذخیرہ
اندوزوں کو ملعون قرار دیا ہے۔ ذخیرہ اندوز کو گناہگار بھی قرار دیا گیا۔
مالوٹ
یہ بھی دھوکہ دہی سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا
یعنی جس نے مالوٹ کی وہ ہم میں سے نہیں
پورا کام کیے بغیر معاوضہ لینا
خواہ کوئی تنخواہ دار مالزم ہو یہ روزانہ اجرت کی بنیاد پر کام کرنے والے مزدور اگر پورا کام
کیے بغیر معاوضہ لے تو یہ بھی باطل طریقہ ہے جس کی اسالم ہرگز اجازت نہیں دیتا۔
غبن
سرکاری یا غیر سرکاری ادارے سے غبن کرنا بھی حرام طریقہ آمدنی ہے۔ قرآن اسے غلول کہتا
ہے۔
تجارت میں باہمی رضامندی
قرآن میں ارشاد ہے تم ایک دوسرے کے مال تجارت میں باہمی رضامندی کے عالوہ کسی اور طریقے
سے نہ کھاو۔ انسان اپنی روزی کے حصول کے لیے مختلف پیشے اختیار کرتا ہے ان تمام پیشوں کے
بارے میں اسالم واضح ہدایت دیتا ہے۔
کسب حالل کے فوائد
معاشی ترقی
حالل روزی کمانے کے لئے انسان کو محنت کرنا پڑتی ہے جس کے نتیجے میں پورا معاشرہ خوشحال
ہو جاتا ہے۔
معاشرے کا امن و سکون
میں نے سے کمائی بھی روزی معاشرے میں امن و سکون کا باعث بنتی ہے کہ جو دوسرے کے مال
ناجائز طریقے سے حاصل کرتا ہے تو اسے باہمی جھگڑے ہوتے رہتے ہیں۔
جرائم میں کمی
میں نے اس کمائی بھی روزانہ اپنی جائز ضروریات کو پورا کرنے کے لیے استعمال کرتا ہے معاشرہ
جرائم سے پاک ہو جاتا ہے۔
نیکی کی رغبت
حالل روزی کھانے واال انسان کو نیکی کی طرف رغبت ہو جاتی ہے جبکہ حرام خور انسان بدی کی
طرف مائل ہو جاتا ہے
عبادت و دعا کی قبولیت
حالل روزی کی بدولت انسان کی عبادت اور دعا اللہ کی بارگاہ میں قبول ہوتی ہے۔
ایثار
مفہوم
ایثار کے لغوی معنی ترجیح دینا ہے یا ذاتی ضروریات پر دوسروں کی
ضروریات کو مقدم رکھنا مثال خود نہ کھاے اور دوسروں کو کھالے۔ اپنے
آرام کو دوسروں کے آرام پر مقدم رکھنا خود تکلیف اٹھا کر دوسروں کو
راحت و آرام پہنچانا۔ اس قسم کی باتیں جن میں ایک مسلمان اپنی
ذات کے بجائے اپنے بھائی کو مقدم رکھے ایثار کہالتی۔
اسالمی معاشرہ جن بنیادوں میں مستحکم ہوتا ہے اس میں پہال مرحلہ
اخوت و بھائی چارہ ،دوسرا خیر خواہی ،تیسرا تعاون ،اور چوتھا مرحلہ
ایثا رکھا ہے۔ ایثار اور پہلے تین صفات میں فرق یہ ہے کہ انسان خود
کسی چیز کی ضرورت ہو طلب ہو اور اس کے باوجود اس چیز کو
استعمال کرنے کے بجائے دوسرے کو ترجیح دے۔
اسالم کی تعلیمات میں ایثار کی اہمیت
پہلے مان کے شیوہ یہ بھی بیان کیا گیا ہے کہ وہ ایسا کرنے والے ہوتے
ہیں
ارشاد خداوندی ہے
سورہ حشر 9
اپنی ذات پر دوسروں کو ترجیح دیتے ہیں خواہ خود فاقے سے ہوں
سورۃ البقرۃ 219
آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھتے ہیں اللہ کیراہ میں کیا خرچ
کریں آپ فرما دیجئے جو ضرورت سےزائد ہو۔
سورہ آل عمران 92
تم ہرگز نیکی کو نہیں پا سکو گے جب تک اپنی محبوب چیزوں میں
سے اللہ کیراہ میں خرچ نہ کرو۔
حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا نمونہ
حضور صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایثار کا بہترین نمونہ پیش فرمایا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جو بھی مال کسی بھی ذریعہ سے آتا
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم اسے غربا میں تقسیم فرما دیتے۔ آپ صلی
اللہ علیہ وسلم کے در سے کبھی کوئی سائل بھی محروم نہیں گیا۔ اگر
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس کچھ نہ ہوتا تو قرض لے کر حاجت
مند کی ضرورت کو پورا فرماتے۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے گھر
میں ہفتوں چولہا نہ جلتا۔
انصار کا ایثار
ہجرت کے موقع پر انصار مدینہ مہاجرین مکہ کے ساتھ جو ایثار و قربانی
کا نمونہ پیش کیا اس کی مثال تاریخ عالم میں نہیں ملتی
زمین والے نے اپنی آدھی زمین مہاجر کودے دی۔ کاروبار والے نے آدھا
کاروبار دوسرے مہاجر کے نام کردیا۔ یہ الگ بات ہے کہ معاشی بحالی
کے بعد مہاجرین نے یہ چیزیں انسان کو واپس کر دیں۔