You are on page 1of 11

‫انسانیت پرستی کیاےہ؟‬

‫انسانیت پرستی کی فکر اور اس کے ماتحت علوم انسانی (معاشرنی ومعاشی علوم) اک تاتاتاتا یوتانی فکر سے نکلیا‬
‫م‬
‫ےہ جیسا کہ تاتچویں صدی قبل سیح اک یوتانی مفکر ’’پروتاغور‘‘ کہیا ےہ‪:‬‬

‫"انسان اکنیات کی تمام اشیاء اک پیمانہ ےہ۔"‬

‫یعتی اس اکنیات میں مقصود تالذات ہستی انسان ےہ اور انسان اشی اکنیات کی ہر شئے کو اپتی مرضی‬

‫‪Decision‬اور میساء ‪ Will‬کے تابع کرتا چاہیا ےہ۔ انسانیت پرشتوں کے پزدیک دراصل انسان کی‬

‫اسیہاء اور خواہش ہی اس اک مقصود ےہ اور خو چکھ اس کی خواہش ومیساء کے مطابق ےہ وہ سب چکھ‬

‫خیر ےہ۔ دراصل مغرنی یظرنہ انسان پرستی ےن شہ کے حصول میں ہر لمحہ اس جیسا کونی دوشرا انسان‬

‫مذاحم ےہ لہٰذاوہ شہ کے حصول میں اس شخص سے تھی یطور ایک شہ )‪(Agent‬کے پرتاؤ کرتا ےہ‬

‫اور وہ زندگی کے ہر موڑ پر وخود لغیرنہ )‪ (Being other than itself‬کے واہمہ میں مبتال‬

‫رہیا ےہ۔ اشی لئے وہ ہر لمحہ مطاہر اشیاء کی فسوں اکری اک شاکر رہیا ےہ۔ دراصل انسانیت پرستی‬

‫‪Humanism‬مغرب کی اکروتاری ذہبیت کی آئبنہ دار ےہ جس کی تمویوآتادی فکر سے ہونی اور‬

‫اس کی جڑ ئبیاد ان یوآتادتانی عالقوں سے چھیتی گتی دولت پر رکھی گتی۔ اس مال مفت ےن مغرنی‬
‫انسان کی اسیہاء کےلئے جلتی پر نبل اک اکم کیا اور اس کو رواپتی معاشرہ وتہذیب (عیسانیت) کے‬

‫جالف معاشرنی‪ ،‬معاشی اور شیاشی طور پر یعاوت پر اکساتا اور انسانی زندگی میں ایفالب عظیم پرتا کرکے‬

‫اس کو شرتا تا لذات پرست‪ ،‬قوم پرست‪ ،‬شرمانہ دار‪ ،‬لیرل اور شتکولر نیا دتا۔‬

‫خودھویں صدی سے انسانیت پرستی کو عروج چاصل ہوا اور خدا پرستی کی جگہ انسانیت پرستی ےن لی‬

‫اور اس فکر ےن خدا اور کیاب (تانبل) سے رشنہ اکٹ کر نئے شرے سے رومی اور یوتانی ادنیات وفلسفہ‬

‫سے مغرب اک رشنہ خوڑا نہ تحریک دراصل مذہب اور عیسانیت سے یعاوت کی تحریک تھی۔ مذہب‬

‫وعیسانیت کو پرک کرکے رومی اور یوتانی فلسفہ وفکر کی روستی میں وضع کئے گئے اور جن کی روستی‬

‫میں سائنس اور اکروتار صنعت ‪ Trade & Industry‬کو ان علوم کی روستی میں انسانی ضرورتات‪،‬‬

‫خواہسات واسیہاء سے ہم آہنگ کیا چاسکے۔ اس ضمن میں ہانڈنگر‪ ،‬ولیم جیمز‪ ،‬چان دیوی اور شلر کی‬

‫کوششیں قابل ذکر ہیں۔ انسان پرستی یعتی ‪ Humanism‬کو یطور اصطالح تہلی تار ’’شلر‘‘ ہی‬

‫ےن اشنعمال کیا تھا۔ انسانیت پرستی میں چاص طور پر اس دنیا میں زور دتا چاتا ےہ خوپراہ راست انسانی‬

‫تحرنہ اور مساہدے میں آجکی ےہ۔‬

‫انسانیت پرستی کی اصل اور حصوضی اقدار ‪ Values‬نساۃ الیاننہ ‪ Renaissance‬کے عہد سے‬

‫وانسنہ ہیں ان کی نہ اصلیت اور حصوصیت کسی اور عہد اور مقام ‪ Time & Space‬کے لئے‬
‫موزوں تہیں۔ نساۃ الیاننہ کے فلسفہء انسان پرستی اک یعلق یوتانی اور رومی فکر سے اس خد یک وانسنہ‬

‫ےہ کہ یوتانی وردی فکر نالشنہ عفلی ‪ Rational‬اور غاتانی ‪ Telos‬پر میتی تھا۔ نہ لوگ عفلی وخدان‬

‫پر تھروشہ کرےت تھے۔ لتکن موخودہ انسانیت پرستی کی فکر کلبی ًا خواس وادراک پر میتی ےہ۔ ضرف‬

‫‪Consumption‬لذت پرستی‪ ،‬اقادۂ پرستی‪ ،‬ایفرادیت نسندی کی دلدادہ۔ یوتانی وردی فکر کے‬

‫پرجالف انسانیت پرست عقل ووخدان کو خواس وادراک اک ممابل خیال کرےت ہیں۔ رومی اور یوتانی فکر‬

‫کے اصول ایک چاص روچانی )‪ (Moral‬اصول پر قائم اور مفرر تھے لتکن موخودہ انسانیت پرستی‬

‫کے فکری اصول مفروضات ‪ ، Axiome‬قیاسات ‪ Proposition‬پر قائم ہیں۔ دراصل تہی وہ‬

‫ئبیادی اصول ہیں جن پر مغرنی طرز فکر کی اساس رکھی گتی ےہ۔‬

‫رومی اور یوتانی فکر میں قدرت تا فظرت کو ایک مقصد سمجھا چاتا تھا لتکن موخودہ زماےن میں متاکنیت‬

‫ہی کو سب چکھ سمجھا چاتا ےہ۔ گوکہ مغرب کی انسانیت پرست تہذیب انیا یعلق ماضی میں رومی اور‬

‫یوتانی تہذیب سے وانسنہ کرنی ےہ اور اس تحریک کو غالمگیر نیاےن کی پیہم کوشسوں میں مصروف ےہ‬

‫لتکن رومی اور یوتانی تہذیب ےن انئے مقام سے یکل کر کیھی تھی انئے یظرتات واقدار کو غالمگیر نیاےن‬

‫کی شرمانہ کے زپر سانہ کوشش تہیں کی۔ انسانیت پرست اقدار کو غالمگیریت عطا کرےن کی نہ کوشش‬

‫ضرف نساۃ الیاننہ کے عہد سے ہوکر شرمانہ داری کے عہد کی ایک کہانی ےہ۔ خو تادساہت سے‬
‫چمہوریت یک درتار سے منڈی یک شنطان پرستی سے یفس پرستی یک زرپرستی سے شرمانہ پرستی اور‬
‫ت‬
‫یوع وقوم پرستی ‪ Nationalism‬سے خودنسندی اور مادر ندر‪ ،‬آزادی ‪ Freedom‬یک ھتلی ہونی‬

‫ےہ۔‬

‫ی‬
‫انسانیت پرستی کی ایک اچمالی فہیم‪:‬‬

‫اگر انسان پرستی کی یغریف انسانیت پرستی کے لیرتحر کی مدد سے نیان کرےن کی کوشش کی چاےئ یو‬

‫نہ تات سامئے آنی ےہ کہ انسانیت پرستی ‪ Humanism‬اک مفہوم دنتوی تمقانلہ دپتی‪ ،‬روچانی تمقانلہ‬

‫اجالقی‪ ،‬کسفی تمقانلہ عفلی‪ ،‬علمی تمقانلہ عملی کے ذریعے طے تاتا ےہ۔ انسانیت پرستی اک مفہوم آزادی‬

‫اور اپتخاب کے ساتھ الزم وملزوم کی خیبیت رکھیا ےہ ان ہی دویوں صالجبتوں کی نیا پر وہ اپتی الوہیت‬

‫اک دغویٰ کرتا ےہ۔ تہی آزادی اور اپتخاب کی صالخیت انسان کے خذتات اور احساسات کو پرانگتخنہ‬

‫کرکے اس کو خدا بیزاری پر اتھارنی ےہ۔ تارتخی طور پر انسانیت پرستی اک مسلک اس خدوچہد اک عماز‬

‫ےہ کہ انسان خود اپتی الوہیت حصوضی اک مقصود نہ ےہ کہ انسان کو اپتی تمام پر صالجبتوں کو پروےئ‬

‫اکر الےت ہوےئ انئے آپ کو ایک مقصود کل کی شکل میں ئنش کیاچاتا چاہئے تاکہ انسان انئے دغویٰ‬

‫میں حقنفت اک روپ تھرسکے اور نہ خیال کیا چاےن لگے کہ اس کی ہر جرکت نتکی وفالح اک ئیتحہ ےہ‬

‫اور وہ خو تھی اعمال اتخام دنیا ےہ وہ فالح ہی فالح اک ئیتحہ ےہ اور وہ خوتھی اعمال اتخام دنیا ےہ وہ‬
‫فالح ہی فالح ےہ اور اس کی نہ تمام خونیاں تاہم مریوط ہیں اور اس کی الوہیت حق کے یصب العین‬

‫کی مختلف کڑتاں ہیں وہ چاےہ یو روستی میں سانہ اور سانہ میں روستی نند اکرے اور اس دنیا کی ہماہمی‬

‫انسانی مہاپرش ےہ اور ایک عظیم ہستی اس لئے اس اک ہر عمل مسرت ‪ Pleasure‬کے حصول اک‬

‫ئنش جیمہ ےہ۔‬

‫انسانیت اک فلسفہ اقدار ‪ Values‬کے تخاےئ ضرورتات ‪ Needs‬پر زور دنیا ےہ بیز مخیت‬

‫‪Love‬کے تخاےئ مسایفت ‪ Competition‬کو اہم قرار دنیا ےہ تاکہ انسان اپتی تمام پر تاطل‬

‫ختلتوں کو پروےئ اکر الکر الوہیت اک حق دار ین چاےئ اور ’’الالٰہ اال انسان‘‘ کہئے اک مکلف ین‬

‫چاےئ۔ وہ اپتی اشی روش اور صالجبتوں کی نیا پر انئے یفسی یظرتات واستحقاق کو قائم تالذات خیبیت‬

‫دے کر رد تا نسند کرےن اک اجبیار رکھیا ےہ یعتی وہ خو چاےہ سو چاےہ۔ انسانیت پرشتوں کے پزدیک‬

‫انسان ہی وہ ہستی ےہ خو انئے حصول مقصد القایونیت واندیت کی طرف اگمزن ےہ۔ اس حصول‬

‫مقصد کے تحت وہ ایک ایسے مقام پر کھڑا ےہ چہاں سے وہ اپتی اس اندیت والوہیت کے اجبیار کی‬

‫نیا پر داپرے کے تمام حصول اور تمام افقوں پر نکساں یظر رکھ شکیا ےہ۔ نہ تمام داپرے اور افق‬

‫ضرف اس کے چال سے وانسنہ ہوےت ہیں اشی لئے ہر انسانیت پرست این الوقت ہوتا ےہ اس کی ہر‬

‫کوشش چال کو مزین کرےن پر ضرف ہونی ےہ‪ ،‬اشی لئے اس یصب العین ہم عصر زندگی سے وانسنہ‬
‫ہوتا ےہ۔ وہ آےن والے چال یعتی خیت اور زندگی یعد اک کونی ادراک کر ہی تہیں شکیا۔ وہ یو ضرف‬

‫عمرانی علوم کے ذریعہ دنیا اک مساہدہ کرتا ےہ اور اسے انئے حسب میساء وحسب چال نیاتا چاہیا ےہ۔ دنیا‬
‫س‬
‫اور اس کے لوازمات کو اپتی خواہسات اور مقاصد کے حصول اک ذریعہ مجھیا ےہ۔ اشی خذےب کے‬

‫تحت وہ نسخیر اکنیات کرتا چاہیا ےہ۔ اشی خذےب کے تحت وہ نسخیر اکنیات کرتا چاہیا ےہ۔ اشی خذےب‬

‫کو ہوا دے کر انسان کو ماقوق القظری انسان یعتی ‪ Superman‬نیاتاچاتا ےہ۔ اشی لئے انسانیت پرستی‬

‫مذہب اور خدا کے جالف اجتخاج اک تام ےہ۔ نہ ان خیاالت اک پریو ےہ جن کو موخودہ زماےن میں‬
‫ص‬
‫‪Modern World‬میں اکقی اہمیت چاصل ےہ۔ ‪ Modernization‬اور نعتی ایفالب‬

‫‪Industrial Revolution‬حصرت انسان کو اتھاہ تارنکی اور اپیہانی کرب میں مبتال کرجکی ےہ۔‬
‫ص‬
‫اس نعتی ایفالب ےن فکر اجروی کی جگہ دولت اور مادی اشیاء کے حصول کی خواہش کو پرانگتخنہ کیا۔‬
‫ص‬
‫انسانیت پرستی کے ساتھ اشیراکیت کے تال مبل ےن دہریت اور مادیت کو مزند پرقی دی۔ نعتی‬

‫ایفالب کے زپرسانہ مالیانی ایفالب ےن ایک امرنبل کے طور پر آقرئنش چاصل کی اور اس مالیانی ایفالب‬

‫ےن ئبنک‪ ،‬مالیانی اداروں‪ ،‬ملتی ئیستلز کی شکل میں الوہیت یفس کی خواہش کوووٹ اور یوٹ (زر) کی‬
‫م‬
‫شکل میں جسم کیا‪ ،‬جس کے تحت انسان اناکز شرمانہ ) ‪ (Capital Accumulation‬کو‬
‫سم‬
‫الوہیت کے حصول اور ازلی زندگی کی خواہش کے ئیتحہ اک ئنش جیمہ جھئے لاگ۔ ان تمام وخوہ کی نیا‬
‫ت‬
‫پر عہد چاضر اک تمام زور خبل وفکر خواہ انسانیت پرستی کی کسی تھی شکل حقوق انسانی‪ ،‬حقوق حقوق‬

‫طفالں‪ ،‬گرین ئنس‪ ،‬ماخولیات وغیرہ‪ ،‬میں ہو وہ سب اک سب اناکز شرمانہ کے عمل پر مرکوز ےہ‬

‫دراصل ارناکز شرمانہ کی خیایت کو چھیاےن کے لئے ہی ہتومن رایٹ کے مختلف طرابق‪ ،‬بیراےئ اور‬

‫اسالیب وضع کئے گئے ہیں۔‬

‫انسانیت پرستی اور القانیت کی امند)‪:(Humanism & Eternality‬‬

‫انسانیت پرست کہئے ہیں کہ القایونیت کی خواہش اک مستلہ اصل انسانی مستلہ ےہ۔ القانیت کی اس‬

‫خواہش کو وہ اپتی ‪ Metaphysics‬مایعدالطبنعات (الٰہیات) کہئے ہیں۔ القانیت ‪ Eternality‬کی‬


‫نک‬
‫اس طرح کی خواہش کی مبل کے لئے انسان ےن اب یک غیرمعمولی اکرتامے اتخام دنئے ہیں۔‬

‫القانیت ‪ Eternality‬کی اس طرح کی خواہش اک اظہار انسانی تاریخ کے مصدقہ رناکرڈ میں کہیں‬

‫تہیں ملیا۔ القانیت کی نہ خواہش چاصہ ےہ موخودہ خدند دور ےن انسان کی خواہش الوہیت اک خو‬

‫مغرب ےہ موخودہ خدند دور کے انسان کی خواہش الوہیت اک خو ضرف مغرب کے تاطل مادی فکر اک‬

‫اکرتامہ ےہ۔ آج اک مغرنی انسان القایونیت کی زپردست خواہش رکھیا ےہ۔ وہ کہیا ےہ کہ انسانیت کی‬
‫مس‬
‫تاریخ اس خیانیانی ‪ Biological‬چادنہ سے ماورا ےہ جسے موت کہاچاتا ےہ۔ لتکن انسان لسل انسی‬

‫شرگرمتوں اک متالشی ےہ خو اس کی خیانی زندگی کو طوبل سے طوبل پر کرسکے۔ اس لئے کہ میں‬


‫م‬
‫خوالقانیت کے حصول کے لئے خو تھی اکم کرتا چاہیا ہون جھے اس کے لئے وقت دراکر ےہ۔ وہ‬

‫وقت تہیں خواب یک جیم ہوجاک ےہ نلکہ وہ وقت آےن واال ےہ۔ خیاتحہ میں اس عتوری وففہ میں اپتی‬

‫صالجبتوں کو القانیت کے حصول کے لئے ضرف کرتا ہوں کسی اکم تا کسی سوق کو اتخام دنئے کے‬

‫لئے جن صالجبتوں‪ ،‬قانلبتوں اور قویوں کی ضرورت ےہ اتہیں پرقرار رکھیا ہی زندگی ےہ ان‬
‫م‬ ‫ص‬
‫صالجبتوں‪ ،‬قانلبتوں اور قویوں اک حیح اظہار ارناکز شرمانہ میں پیہاں ہیں۔ ارناکز شرمانہ ہی وہ شکتی تا حفی‬
‫م‬
‫قوت ےہ خو جھے اور میری صالجبتوں کو القانیت عطا کرنی ےہ۔ تہی ارادہ کی وہ آزادی ےہ۔ تہی وہ‬

‫اکم ےہ خو اس لمحے سے ماورا ےہ جسے موت کہئے ہیں۔ اس مفہوم کے اعبیار سے جبیا مرےن سے اناکر‬

‫کرتا ےہ۔ ارناکز شرمانہ ‪ Capital Accumulation‬اور تحت ‪ Saving‬ہی میری کل آےن‬
‫ل‬
‫والی د جشبتوں کی امند پرقرار رکھتی ےہ اور اس شلسلہ المبیاہی کو پرقرار رکھتی ےہ جس کو زندگی‬

‫کہئے ہیں۔ تہی جبئے اک مقصد اور جبئے کی آروزو ےہ خو تمام جزوی خواہسوں کی ندتہی حقنفت ےہ‬

‫ی‬‫ح‬ ‫م‬
‫ش‬
‫جس ےن ہر خواہش کو اناکز شرمانہ کی خواہش میں مع کردتا ےہ۔ انسانیت پر توں کے پزدیک موت‬

‫ایک غالمگیر دسمن ےہ س لئے اس خوقیاک مفہور کے جالف صف آراء ہوتا انسان کو نہ امند دالتا‬

‫ےہ کہ وہ ایک دن موت پر غالب آچاےئ اگ اور اپتی الوہیت کے مقصد کو نسخیر اکنیات کی شکل میں‬

‫ماقوق القظری انسان ین کر چاصل کرلے اگ۔ انسانیت پرشتوں کے پزدیک القانیت اک مطلب ےہ کہ‬
‫زندگی اک کھانہ کیھی نند تہیں ہوتا‪ ،‬دیوالنہ ین کی یویت کیھی تہیں آنی‪ ،‬کونی تاقابل نالقی یقصان تہیں‬
‫مسن‬
‫قبل کی دنیا میں لے چانی ےہ۔ چہاں چال سے زتادہ اکمیانی‬ ‫ہوتا۔ القانیت کی خواہش انسا ن کو‬

‫ومسرت ذانی اک حصول ممکن ےہ۔ اس لئے ہر انسان کو اپتی موخودہ زندگی کو تہیر سے تہیر نیاےن کی‬

‫کوشش کرنی چاہئے۔ نہ کوشش اس وقت مسرت والقانیت سے شرسار ہوگی جب اس کے تاس زتادہ‬

‫سے زتادہ شرمانہ ہواگ۔‬

‫ت‬
‫دوشری طرف خیات یعد الموت کی دنیا مذہتی خبل کی دنیا ےہ ایک انسی قرضی دنیا جس یک رسانی اس‬

‫دنیا میں ممکن تہیں۔‬

‫یعوذتاﷲ من ذالک ھذا االعنقاد القاسد‪:‬‬

‫ت‬
‫"اے تار خدا ہم مسلمایوں کو محقوظ قرما ہر تاطل ھتکی ہونی گمراہی سے۔"‬

‫مغرنی تہذیب اور مغرنی فکر سے مراد وہ طرز زندگی اور وہ یطام ےہ خو قدئم یوتان سے شروع ہوکر‬

‫موخودہ خدندیت (ماڈرن ازم) اور پس خدندیت (یوسٹ ماڈرن ازم) میں آکر انئے اتخام کو تہتخا ےہ۔‬

‫مغرنی فکر کی اساس ’’عقل‘‘ کی پرپری پر رکھی گتی ےہ عقل ہی سب چکھ ےہ اور تہی الٰہ ہی ین‬

‫جکی ےہ‪ ،‬مغرب اس کی پرسنش میں مصروف ےہ۔ لہٰذا صداقت ضرف وہی ےہ جسے ہم خواس چمسہ‬
‫سے معلوم کرشکیں۔ خد ااور روح کے یصورات کو اشی لئے مغرنی علوم سے چارج کردتا گیا کہ وہ‬

‫حقنفت ہی تہیں خو خواس کی گرقت میں نہ آسکے‪ ،‬جسے عقل مجسوس نہ کرسکے اور خو ماوراےئ عقل‬

‫ہو لہٰذا مغرب میں ’’حق )‪‘‘ (Right‬اور انسان )‪ (Human‬کو ہر خیز پر قوقیت چاصل ےہ‬
‫م‬
‫اور خیر ضرف اس آرزو تمیا اور خواہش اک تام ےہ خوکسی انسان کے دل میں چلتی ےہ اور انئے لئے‬

‫عمل اک بیرہن نالش کرنی ےہ۔ خواہش یفس الٰہ ےہ (جسے قرآن ےن شرک سے یعبیر کیا ےہ)‬

‫مغرب کسی مذہب‪ ،‬کسی خدا‪ ،‬کسی اجالقی قدر‪ ،‬کسی ففہ‪ ،‬کسی شریعت‪ ،‬کسی وحی اور کسی قایون کو تہیں‬
‫ن‬
‫مانیا‪ ،‬وہ انسان کے رب ہوےن اک مدعی ےہ اور یفس انسانی کو وحی الٰہی نلکہ ’’الٰہ واخد‘‘ سلیم کرتا ےہ‬

‫اور خواہش یفس کی عالمی کو مقصد زندگی مانیا ےہ۔ مغرب اک خیر وشر اک معیار ضرف اور ضرف‬

‫یفسانی خواہسات اک حصول ےہ۔ اس کے علم کی ئبیاد اتمان پر تہیں شک )‪ (Doubt‬پر کھی گتی‬

‫ےہ اور علم اک واخد مقصد نسخیر اکنیات رہ گیا ےہ۔ اس تہذیب اک ئبیادی المنہ نہ ےہ کہ قر د کی‬

‫پرسنش کے تاوخود نہ ’’تہذیب قرد کی داجلی کنقیات اک کونی ادراک تہیں رکھتی۔ نہ تہذیب عرقان‬

‫ذات سے قاضر تہذیب ےہ۔ اس کی دنیا اور اس اک فلب دویوں ےب یور ہیں۔ دل کی دنیا کو تاریک‬

‫کرےن والی نہ تہذیب خدا کی موت کی قابل ےہ لہٰذا وہ کسی اجالقیات کو مانئے پر نیار تہیں ۔ اس‬

‫تہذیب کی یظر میں قرد کی زندگی کے چار مقاصد ہیں‪ )1( :‬دولت (‪ )2‬آمدنی (‪ )3‬قوت (‪)4‬‬
‫اجبیار۔ تہی اقدار مطلق ہیں اور اتہیں اضافے کی خدوچہد ہی چاصل زندگی ےہ۔ اس تہذیب اک ایک‬

‫یغرہ ’’مذہتی آزادی ئبیادی ےہ‘‘ ایک دل قریب یغرہ ےہ۔ لیرل ازم اک سب سے تماتاں فلسفی‬

‫‪John Rawls‬اپتی کیاب ‪ Political Liberalism‬میں لکھیا ےہ کہ ’’مذہتی آزادی کو‬

‫لیرل ازم کے لئے حظرہ ئبئے کی اچازت تہیں دی چاشکتی‪ ،‬وہ مذہتی یظرتات خو لیرل آزادیوں اک اناکر‬

‫کردیں ان کو عمالً کچل دنیا انیا ہی ضروری ےہ جبیا امراض کو جیم کرتا تاگزپر ےہ۔‘‘‬

‫فکر مغرب نندے کو رب ماپتی ےہ ‪ ،‬وہ الوہیت انسا نی کی قابل ےہ ختکہ اشالم عندیت اور عیادت اک‬

‫قابل ےہ‪ ،‬عندیت قرب اک اعلیٰ پرین درجہ ےہ۔ چائم المعصومین صلی اللہ علنہ وشلم ےن انئے نندے‬

‫ہوےن پر فحر قرماتا اور اسے انسانیت کی مغراج قرار دتا ےہ۔ مگر مغرب عند کے تخاےئ انسان کو رب‬
‫ن‬
‫سلیم کرتا ےہ۔ اشالم میں نہ اللہ اک نندہ ےہ‪ ،‬وہاں یفس اک نندہ‪ ،‬نلکہ اپتی ذات میں خود خدا ےہ۔ اس‬

‫فلسفے سے انسانی حقوق اور ئبیادی حقوق کے فلسفے اتھے اور قرابض پس نست چلے گئے‪ ،‬انسان اور‬

‫حقوق ہی زندگی اک اصل مقصد ین گئے۔ مغرب کے غالمی یظرنہ ‪ World View‬اک مچور ومرکز‬

‫انسانی )‪ (Humanities‬ےہ ختکہ اشالم اک مرکز ومچور خدا ےہ۔ اشالم خدا پرستی اک قابل ےہ ختکہ‬

‫مغرب انسان پرستی اک علمیردار ےہ۔‬

You might also like