Professional Documents
Culture Documents
Islamiat 9th
Islamiat 9th
اسالمیات (الزمی(
ح ّ
صہ نہم
میعاد اول
َ ُ َاْل َ ْ
سورۃا نفال
َ َّ ْ ُ اْل َ
الف +ب +ج س ا َّو ْل الدر
َ َّ ْ ُ َّ
الف +ب +ج س الثا ِن ْیالدر
َ َّ ْ ُ َّ ْ
الف +ب س الث ِالثالدر
احادیث ُمبارکہ
،5 ،4 ،3 ،2، نمبر 1
سبق:۔
قرآن مجید تعارف،حفاظت،فضائل 1۔
رسول کی محبت و اطاعت
ؐ ہللا تعالی اور اُس کے (2
تحریر کنندہ
ن
موال ا مفتی
عمران ہللا
اَل َّدرْ سُ ااْل َ َّولْ (الف)
اِس سبق میں مومنوں کی کیا صفات بیان کی گئی ہیں؟ سوال1۔
تعالی نے مومنوں کی مندرجہ ذیل صفات بیان فرمائی ہیں۔
ٰ جواب۔ سورۃ انفال میں ہللا
2
کرام کو لے کر
ہللا صحابہ ؓمال غنیمت لینے کیلئے رسول ؐ تجارتی قافلہ سے ِ
مدینہ منورہ سے باہر نکل آئے۔جس کی خبر ابو سفیان کو ہوئی تو انہوں نے ابو جہل کو
اطالع دے دی کہ مسلمان ہمیں لُوٹنا چاہتے ہیں۔ل ٰہذا ہماری مدد کو پہنچو۔تو ابو جہل نے
فوراَ تقریبا َ ایک ہزارکفار کا لشکر تیار کرکے مدینہ منورہ کی طرف مسلمانوں کو ختم
کرنے کی نیت سے روانہ کیا۔
ترجمہ:۔
”پس ہللا سے ڈرو اور اپنے آپس کے تعلقات ُدرست رکھو۔“
مفہوم:۔
تعالی سے ڈرنے اور آپس کے تعلقات کو ُدرست رکھنے
ٰ اِس آیت مبارکہ میں ہللا
کا حکم دیا گیا ہے۔
پس منظر:۔
مال غنیمت کی وجہ سے مسلمانوں میں جو بدمزگیپیدا ہوئی تھی
غزوہ بدر میں ِ
رسول کا
ؐ مال غنیمت ہللا اور اُس کے
تعالی نے اس کو ختم کرنے کیلئے فرمایا کہ ِ
ٰ تو ہللا
آپ کی خدمت ہے۔اس لئے ہللا سے ڈرتے رہو اور آپس میں اتفاق سے رہو اور تمام مال ؐ
میں پیش کردو۔
1۔ہللا سے ڈرو:۔
ہللا سے ڈرنے کا مطلب ہے کہ ہللا کے تمام احکامات کو ماننا اور اس پر عمل
کرنا اور ہر اُس کام سے بچنا جس سے بچنے کا حکم دیا گیا ہے۔
2۔ آپس کے تعلقات ُدرست رکھو:۔
آپس میں تعلقات ُدرست رکھنے کا مطلب ہے کہ اپنے دلوں سے ایک دوسرے
ہللا تمہیں
مال غنیمت میں سے جو مال رسول ؐ
کیلئے نفرت،بغض اور کینہ نکال دو اور ِ
دے دیں تو اس پر راضی اور خوش ہو جاؤ اور آپس میں اتفاقسے رہو۔
4
عبارت (ب)
ُ َ ّٰ َ
َوا ِط ْے ُعو الل َہ َو َر ُس ْولہ‘ٓ ِا ْن ک ْن ُت ْم ُّم ْؤ ِم ِن َینo
ترجمہ:۔
رسول کی اطاعت کرو اگر تم مومن ہو۔“
ؐ ”اور ہللا اور اُس کے
مفہوم:۔
تعالی مسلمانوں کو حکم دیتا ہے کہ اگر تم لوگ اپنے آپ
ٰ ( )iاس آیت ُمبارکہ میں ہللا
رسول کے احکامات پر چلو۔
ؐ کو مومن کہتے ہو تو ہللا اور اُس کے
ت مبارکہ غزوہ بدر کے موقع پر نازل ہوئی جس میں مسلمانوں کو حکم دیا( )iiیہ آی ِ
ہللا کی مکمل تابعداری کرو کیونکہ ایمان کا تقاضا ہے کہ ہللا
گیا ہے کہ تم لوگ رسول ؐ
رسول کے ہر فیصلے پر راضی اور خوش ہوجاؤ۔ؐ اور اس کے
ہللا ما ِل غنیمت میں سے جو چیز تمہیں دے
( )iiiاس لئے ہللا کا فرمان ہے کہ رسول ؐ
دیں اس پر راضی اور خوش ہوجاؤ اور کسی قسم کا اعتراضنہ کرو۔
( )ivاور تم لوگ مومن صرف اُس وقت ہوسکتے ہو جب تم مکمل طور پر ہللا اور اُس
رسول کی اطاعت کرو۔
ؐ کے
عبارت (ج)
ْ َ َ ُ ْ َ
یت َعلْے ِھ ْم ا ُیتہ‘ َز َادت ُھ ْم ِا َیم ًاناo ِاذ ت ِل
ترجمہ:۔
”جب اُن کو ہماری آیتیں پڑھ کر سُنائی جاتی ہیں تو ان کے ایمان میں اضافہ
ہوجاتا ہے۔“
مفہوم:۔
تعالی اپنے مومن بندوں کی ایک صفتبیان کررہا کہ جب
ٰ ت ُمبارکہ میں ہللا
اس آی ِ
مومنوں کے سامنے ہللا کا کوئی بھی حکم آتاہے تو فوراَ اس کو مانتے ہوئے اپنا سر
5
جھکا دیتے ہیں اور خوشی کے ساتھ اس پر عمل کرتے ہیں جس سے ان کو سکون ملتا
ہے اور ان کے ایمان میں اضافے کے سا تھ ساتھ پختگیپیدا ہوتی ہے۔
کفار کے ساتھ مقابلے کی صورت میں سورۃ انفال کی ان آیات میں کیا سوال2۔
ہدایات دی گئی ہیں؟
تعالی نے کفار کے ساتھ مقابلے کی صورت میں مندرجہ ذیل ہدایات دی ہیں۔
ٰ جواب۔ ہللا
پیٹھ نہ پھیرنا:۔ 1۔
تعالی نے مومنوں کو حکم دیا ہے۔
ٰ قرآن کریم میں ہللا
”اے ایمان والو!جب کفار کے ساتھ تمہارا مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا۔“
ت ُمبارکہ میں مومنوں کو حکم دیا گیا ہے کہ وہ میدا ِن جنگ میں بزدلی نہ
اس آی ِ
دکھائیں بلکہ بہادری کے ساتھ کفار کا مقابلہ کریں اور کسی صورت میں بھی میدا ِن
جنگ سے نہ بھاگیں۔
اگر جنگی چال چلنی ہوتو 2۔
7
ترجمہ:۔
”اے مومنو!جب کفار سے تمہارا مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ نہ پھیرنا“۔
مفہوم
تعالی مومنوں کو حکم دے رہا ہے کہ جب کفار سے ٰ ت مبارکہ میں ہللا
( )iاِس آی ِ
تمہارا مقابلہ ہو تو ان سے پیٹھ پھیر کر بزدلی دکھانا نہیں بلکہ بہادری اور ثابت قدمی
تعالی سے مدد کی دعائیں کرتے رہنا ہللا ضرور
ٰ کے ساتھ مقابلہ کرنا ہے۔اور ہللا
تمہاری مدد فرمائے گا۔
( )iiاور کسی بھی مومن کے لیے جائز نہیں کہ وہ میدا ِن جنگ چھوڑ کر بھاگ جائے
میدان جنگ سے بھاگے گا وہ ہللا کے غضب میں گرفتار ہوگا اور اُس کا ٹھکانہ
ِ اور جو
جہنم ہے.
9
عبارت (ب)
ّٰ ََ ََْ َ ْ ََ َ ٰ
یت َول ِک ِ ّن الل َہ َر ٰمیO وما رمیت ِاذ رم
ترجمہ
آپ نے نہیں بلکہ
آپ نے کنکریاں پھینکی تھیں تو وہ ؐ
محمد! جس وقت ؐ
ؐ ”اور اے
ہللا نے پھینکی تھیں۔“
مفہوم
ہللا کے ایک خاص معجزے کا بیان ہے جس کا ت ُمبارکہ میں رسول ؐ اِس آی ِ
ہللا نے لشکر کفار کی طرف
مشاہدہ دوست اور دشمن سب نے کیا کہ جب رسول ؐ
بھری ہوئی ایک مٹھی پھینک دی تو کفار کے لشکر میں ایسا کوئی کنکریوں سے
بندہ نہ تھا جس کی آنکھوں میں کنکریاں نہ پہنچی ہوں،جس کی وجہ سے کفار دیکھنے
سے محروم ہوگئے اور وہ کچھ ایسے ڈر گئے کہ سب کچھ چھوڑ کر بھاگ گئے۔
آپ نے کنکریاں پھینکیمحمد! جس وقت ؐ
ؐ تعالی نے فرمایاکہ ”اے
ٰ جس کے متعلق ہللا
تعالی کی تھی۔“
ٰ آپ کا تھا مگر اس میں طاقت ہللا تھیں تو ہاتھ ؐ
محبوب کی مدد کرتے ہوئے کفار کو شکست
ؐ تعالی نے اپنے
ٰ اور اسی طرح ہللا
دی۔
عبارت (ج)
َ َُ ُُ َ ُ َ ُْ
َو ل ْن تغ ِن َی َع ْنک ُم ِف َءتک ْم ش ًیءا َّو ل ْو کث َر ْت o
ترجمہ
”اور تمہاری جماعت خواہ کتنی ہی کثیر ہو تمہارے کچھ کام نہ آئے گی۔“
مفہوم
تعالی کفار سے مخاطب ہو کر فرماتا ہے کہ تم لوگ اپنیٰ ت ُمبارکہ میں ہللا
( )iاس آی ِ
تعداد،طاقت اور اسلحہ پر ناز کرتے ہو مگر یاد رکھو کہ یہ تمہاری حفاظت نہیں
تعالی کی مدد ہوتی ہے۔
ٰ کرسکتی کیونکہ مسلمانوں کے ساتھ ہللا
10
تعالی سے مدد
ٰ ( )iiاور مومن اپنی تعداد اور طاقت پر ناز نہیں کرتے بلکہ ہللا
مانگتے ہیں اور اُسی پر بھروسہ رکھتے ہیں۔
تعالی اپنے مومن بندوں کی مدد کرتے ہوئے کفار کو شکست
ٰ ( )iiiاس وجہ سے ہللا
دیتا ہے۔اس لیے کبھی بھی اپنی تعداد اور طاقت پر غرور و تکبّر نہ کرنا۔
اَل َّدرْ سُ ااْل َ َّولْ (ج)
اب سے کیا مراد ہے؟ سوال نمبر1۔ َش َّر ّ َ
الد و ِ
ِ
جواب۔ (َ )1ش َّر ّ
الد َواب کے معنی:
ِ
خیانت سے مراد ہے کہ کسی کے مال(حق) میں کمی بیشی کر نااور فرائض میں
کوتاہی کرنا خیانت کہالتا ہے۔
رسول کے ساتھ خیانت
ؐ ہللا اور اُس کے 1۔
رسول کے
ؐ رسول کے ساتھ خیانت یہ ہے کہ ہللا اور اُس کے
ؐ ہللا اور اُس کے
احکامات سے انکار کرنا یا اس پر عمل کرنے میں کوتاہی کرنا خیانت ہے۔
مال میں خیانت 2۔
مال میں خیانت سے ُمراد یہ ہے کہ کسی کی چیز کو چُرالینا،اس میں کمی بیشی
کرنا یا اسے نقصان پہنچانا خیانت ہے۔
فرائض میں خیانت 3۔
جس انسان کو جو ذمہ داریاں دی گئی ہیں اس کو صحیح طریقے سے نہ نبھانا
فرائض میں خیانت ہے۔
راز میں خیانت 4۔
کسی انسان کی باتوں یا رازوغیرہ lکو دوسروں پر ظاہر کرنا بھی خیانت ہے۔
عہد میں خیانت 5۔
ہر انسان وعدے کا پابند ہے اور وعدہ پُورا کرنا ضروری ہے کیونکہ وعدے کی
خالف ورزی خیانت ہے۔
ترجمہ
12
”اور اُن لوگوں جیسے نہ ہونا جو کہتے ہیں کہ ہم نے ( ُح ِکم خدا)سُن لیا مگر
حقیقت میں نہیں سُنتے۔“
مفہوم
تعالی مومنوں سے فرماتا ہے کہ اُن لوگوں جیسے نہ ہونا
ٰ ت ُمبارکہ میں ہللا
( )iاس آی ِ
جو کہتے ہیں کہ ہم نے ُح ِکم خدا سُن لیا مگر حقیقت یہ ہے کہ وہ سُنتے نہیں۔یعنی سُن
بعد اس پر عمل نہیں کرتے۔ لینے کے
تعالی کے احکامات کا مذاق اُڑاتے ہیں۔
ٰ اور کافروں کا یہ طریقہ ہے کہ وہ ہللا ()ii
تعالی کی طرف سے سُن
ٰ ( )iiiاس لیے مومنوں کو خبردار کیا ہے کہ جواحکامات ہللا
لو تو اس کو سمجھ کر فوراَ اس پر عمل کرلو اور کبھی بھی ان کی خالف ورزی نہ
آپ کے سامنے اقرار کرتےطرز عمل تھا کہ ؐ
ِ کرنا جس طرح مدینہ کے منافقین کا یہ
مگر دل سے منکر رہتے۔
عبارت (ب)
ُّ ُّ ْ ُ ْ ُ َّ َ اَل ْ ُ ّٰ ا َّن َش َّر َّ
یع ِقل ْو َن o آِب ِع ْن َد الل ِہ الصم البکم ال ِذین
الد َو ّG
ِّ ِ
ترجمہ
”کچھ شک نہیں کہ خدا کے نزدیک تمام جانداروں سے بدتر بہرے گونگے ہیں
وہ لوگ جو کچھ نہیں سمجھتے۔“
مفہوم
( )iشرالداب کے معنی ہیں بدترین قسم کے جانور۔ جانداروں میں انسان اور حیوان
تعالی نے انسان کو سُننے،بولنے،
ٰ دونوں شامل ہیں اور ان میں بنیادی فرق یہ ہے کہ ہللا
سوچنے اور سمجھنے کی قوتیں عطا کی ہیں۔جبکہ حیوانوں کو ان قوتوں سے
محروم رکھا گیا ہے۔
( )iiگونگے بہرے وہ لوگ ہیں جو بظاہر سُنتے،بولتے اور دیکھتے ہیں مگر حق کا
پیغام سُن کر اس پر ایمان نہیں التے۔حقیقت میں وہ سمجھتے نہیں۔ایسے لوگوں کو
قرار دیا گیا ہے۔ بدترین جانور
عبارت (ج)
َْ مْل َ َ ْ َ ُ ْ َ َّ ّٰ
یح ْو ُل ْبی َن ا ْر ِء َوقل ِب ِہo
الل َہ ُ وا علموآ ان
13
ترجمہ
”اور جان رکھو کہ خدا آدمی اور اس کے دل درمیان حائل ہوجاتا ہے۔“
مفہوم
تعالی دلوں
ٰ ( )iآدمی اور اس کے دل کے درمیاں حائل ہونے کا مطلب یہ ہے کہ ہللا
کے رازجانتا ہے۔
( )iiہللا سے کوئی چیز پوشیدہ نہیں۔اس lلیے ہللا کا حکم ماننے میں دیر نہیں کرنی
چاہیے۔
( )iiiانسان کا اپنے دل پر اختیار نہیں ہوتا بلکہ ہللا کا ہوتاہے۔
( )ivبے شک ہللا اپنی رحمت سے کسی کو مایوس نہیں کرتا لیکن جب کوئی بندہ
تعالی اپنی رحمت
ٰ احکام ٰالہی پورے کرنے میں سُستی کرتاہے تو اس کے بدلے میں ہللا
ہے۔ روک لیتا
( )vاسی طرح اگر کوئی شخص حق کو چھوڑ کر غلط اور ُدشمنی کا راستہ اپنا لیتا
تعالی اس کے دل پر ُمہر لگا دیتا ہے اور پھر وہ خیر سے محروم رہتا ہے۔
ٰ ہے تو ہللا
عبارت (و)
َ َّ ُ ْ ْ َ َ اَّل ُ ْ َ َّ َّ َ َ َ ُ ْ ْ ُ ْ َ َّ ً
آصۃo واتقوا ِفتنۃ ت ِصےبن ال ِذین ظلموا ِمنکم خ
ترجمہ
”اور اُس فتنے سے ڈرو جوخصوصیت کے ساتھ اُنہیں لوگوں پر واقع نہ ہوگا
جو تم میں گناہگار ہیں۔“
مفہوم
ت مبارکہ میں فتنہ سے مراد وہ عذاب ہے جو کسی بھی صورت میں واقع( )iاِس آی ِ
ہوسکتا ہے۔ جسکی لپیٹ میں نیک اور بد دونوں آئیں گے۔
( )iiاس آیت میں نصیحت کرنے والوں کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ اگر ایک قوم
کے اکثر افراد ہللا کی نافرمانی اور ظلم وستم کرتے ہیں اور کچھ لوگ ان سے الگ ہیں
14
اور انہوں نے ظلم و ستم کرنے سے انہیں روکا نہیں اور نہ ہی ان سے نفرت کا
اظہار کیا پس یہ دونوں برابر ہیں۔
تعالی کی طرف سے عذاب آئے گا تو سب اس میں مبتال ہونگے۔
ٰ ( )iiiاور جب ہللا
( )ivاس لیے ہر مسلمان کا فرض بنتا ہے کہ خود بھی نیک بنے اور دوسروں کو بھی
نیکی کی تلقین کرتا رہے۔
عبارت (ہ)
َ ْ َ ُ ْ َ َّ َ َ ْ َ ُ ُ ْ َ َ ْ اَل ُ ُ ْ ْ َ ُ َّ َ َّ ّٰ َ ّٰ ٗٓ َ
دہ ا ْج ُر َع ِظ ْی ُمo واعلموآ انمآ اموالکم و او دکم ِفتنۃ وان اللہ ِعن
ترجمہ
”اور جان رکھو کہ تمہارا مال اور اوالد بڑی آزمائش ہے اور یہ کہ ُخدا کے پاس
نیکیوں کا بڑا ثواب ہے۔“
تعالی نے اپنے بندوں کو طرح طرح کے احسانات و انعامات سے نوازا ہے
ٰ مفہوم:۔ہللا
جس میں مال و دولت اور
اوالد سرفہرست ہیں۔
فتنہ مال 1۔
ت مبارکہ میں فرماتا ہے کہ تمہارے لیے تمہارا مال اور اوالد
تعالی اس آی ِ
ٰ ہللا
تعالی کے
ٰ ایک آزمائش ہے یعنی جو بھی انسان مال کی محبت میں ڈوب کر اہللا
احکامات کی خالف ورزی کرتا ہے تو یہ مال اسکے لیے عذاب بن جاتا ہے اور اگر
تعالی کے پاس اس کا بہترین بدلہ
ٰ اسی مال کو ہللا کی رضا کے لیے خرچ کرلے تو ہللا
ہے۔
فتنہ اوالد 2۔
اسی طرح اوالد بھی بہت بڑی آزمائش ہے۔جو شخص اوالد کیلئے جائز اور
ناجائز کام کرتا ہے اور لوگوں کا حق مارتا ہے تو یہ شخص ہللا کے سخٹ عذاب میں
گرفتار ہوگا۔اور اگر اپنی اوالد کی صحیح تربیت اسالم کے مطابق کرے تو یہ اوالد اس
کے لیے صدقہ جاریہ رہے گا۔
15
ٰ
تقوی کا تیسرا انعام یہ ہے کہ اگر کوئی مکمل طور پر تو بہ کرلے اور ہللا اور
رسول کی اطاعت کرے تو اس کے تمام گناہوں کو معاف کرکے بخشدیا جاتا ؐ اُس کے
ہے۔
َ ْ َ ْ ُ ُ َ َّ َ َ
ین ک َف ُر ْوا میں کس واقعہ کی طرف اشارہ ہے؟ سوال نمبر2۔و ِاذ ےمکر ِبک ال ِذ
َ ْ َ ْ ُ ُ َ َّ َ َ
ین ک َف ُر ْوا جواب۔ و ِاذ ےمکر ِبک ال ِذ
محمد اس وقت کو یاد کرو جب کافر لوگ تمہارے بارے میں چال چل
ؐ ”اور اے
رہے تھے۔“
آپ نے اسالم کی تبلیغ
ت ُمبارکہ میں اس واقعہ کی طرف اشارہ ہے جب ؐاس آی ِ
زور و شور سے شروع کی تو کفار اسالم کی ترقی دیکھ کر ڈر گئے۔
کفار کے مشورے 2۔
تبلیغ اسالم
ِ آپ کو کس طرح
کفار دارُالندوہ میں بیٹھ کر مشورہ کرنے لگے کہ ؐ
سے روکیں۔
آپ کو تاحیات قید کا مشورہ دیا۔ لیکن اس پر اتفاق نہ
مشورہ نمبر1۔ کسی نے ؐ ()i
ہوسکا۔
آپ کو جالوطن کرنے کا مشورہ دیا۔اور اس پر بھی
( )iiمشورہ نمبر2۔ کسی نے ؐ
راضی نہ ہوسکے۔
( )iiiمشورہ نمبر3۔ جبکہ ابوجہل نے کہا کہ تمام قبائل سے ایک ایک جوان مل کر
آپ کو قتل کردیتے ہیں چنانچہ سب کفار اس فیصلے پر راضی ہوگئے۔ ؐ
آپ کو وحی
ؐ 3۔
تعالی کی
ٰ آپ کو دی۔اور ہللا
حضرت جبرائیل ؑنے کفار کی اس سازش کی اطالع ؐ
آپ کو ہجرت کرنے کا حکم مال۔ طرف سے ؐ
آپ کا حفاظت سے نکلنا
ؐ 4۔
17
سوال نمبر3۔ کفار کے مطالبے کے باوجود ہللا نے ان پر عذاب کیوں نازل نہ کیا؟
جواب۔ ( )1کفار کا مطالبہ
تعالی سے مطالبہ کیا کہ اگر یہ قرآن اور رسولئ تیری طرف سے
ٰ کفار نے ہللا
حق پر ہیں تو ہم پر آسمان سے پتھر برسایا کوئی اور درد ناک عذاب نازل کردے۔
ترجمہ
ترجمہ
سوال نمبر4۔ مندرجہ ذیل عبارات کا مفہوم بیان کریں۔
مفہوم
تعالی کا قانون ہے کہ جس بستی میں نبی موجود ہو تو اُس قوم پر عذاب نازل
ٰ ہللا
ہیں۔آپ کے موجود ہونے کی وجہ سے ہللا نے کفار
ؐ نبی تو رحمۃ اللعالمین
نہیں کرتا۔پھر ؐ
آپ کے شان کے کی نہ ُدعا قبول کی اور نہ ہی ان پر عذاب نازل کیا۔کیونکہ یہ ؐ
خالف تھا۔
تعالی نے دو جوہات کی بناء پر عذاب نازل نہیں کیا جو کہ مندرجہ ذیل ہیں۔
ٰ ہللا
تعالی نے دووجوہات کی بنا پر عذاب نازل نہیں کیا۔جسکے متعلق قرآن میں
ٰ ہللا
ارشاد ہے۔
ہللا کا قانون ہے کہ جس بستی میں نبی موجود ہوتو اُس قوم پر عذاب نازل نہیں
ہیں۔آپ کے موجود ہونے کی وجہ سے ہللا نے کفار ؐ کریم تو رحمۃ اللعالمین ؐ کرتا۔پھر نبی
آپ کے شان کے خالف کی نہ ُدعا قبول کی اور نہ ہی ان پر عذاب نازل کیا کیونکہ یہ ؐ
تھا۔
َ َ ُ َُ ّٰ َ
اع ْن َس ْبی ِل الل ِہ ف َس ْین ِف ُق ْو ن َھا ث َّم تک ْو ُن َعل ِیھ ْم
ص ُّد ْو َ ے َن َک َف ُر ْو ْینف ُق ْو َن َا ْم َو َال ُھ ْم ل َی ُ
ِا َّن ا َّل ِذ ْ
ِ ِ
ً ُ َْ
َح ْس َرۃ ث َّم یغل ُب ْون
عبارت (الف)
18
عبارت (ب)
عذاب نازل نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اُس بستی میں ایسے لوگ
تعالی سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے اور جب ٰ موجود تھے جو بار بار ہللا
َک ُغ ْف َرانَک کہا کرتے یعنی(ہم
کعبہ کا طواف کرتے تو ُغ ْف َران َ مکہ والے خانہ
تیری مغفرت کے طلب گار ہیں)۔
عذاب نازل نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اُس بستی میں ایسے لوگ
موجود تھے جو باربار ہللا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے اور جب مکہ
َک ُغ ْف َرانَ َ
ک کہا کرتے یعنی (ہم تیری والے خانہ کعبہ کا طواف کرتے تو ُغ ْف َران َ
مغفرت کے طلب گار ہیں)۔
عذاب نازل نہ کرنے کی دوسری وجہ یہ تھی کہ اُس بستی میں ایسے لوگ موجود تھے
جو باربار ہللا سے اپنے گناہوں کی معافی مانگ رہے تھے اور جب مکہ والے خانہ
َک ُغ ْف َرانَ َ
ک کہا کرتے یعنی (ہم تیری مغفرت کے طواف کرتے تو ُغ ْف َران َ کعبہ کا
طلب گار ہیں)۔
رسول تیری طرف سے ؐ تعالی سے مطالبہ کیا کہ اگر یہ قرآن اور ٰ کفار نے ہللا
حق پر ہیں تو ہم پر آسمان سے پتھر برسا یا کوئی اور دردناک عذاب نازل کردے۔
ّٰ ُ ُ َ ّ َ ُ ْ َ ُ ْ ْ ْ َ َْ َ َ َ َ َ ّٰ ُ َ ّ
یس َتغ ِف ُر ْونo یع ِِّGذ َب ُھ ْم َوانت ِف ِیھ ْم ط َو َما کان اللہ مع ِِّGذ بھم و ھم وما کان اللہ ِل
”اور خدا ایسا نہ تھا کہ جب تک تم ان میں تھے ا نہیں عذاب دیتا۔اور نہ ایسا تھا
کہ وہ بخشش مانگیں اور انہیں عذاب دے“۔
ث افسوس ہوگا اور وہ مغلوب ہوجائے گے۔“
(خرچ کرنا)انکے لیے باع ِ
”بے شک جو لوگ کافر ہیں اپنا مال خرچ کرتے ہیں کہ (لوگوں) کو خدا
کے راستے سے روکیں پس ابھی خرچ کرینگے مگر آخر وہ
”اور خدا ایسا نہ تھا کہ جب تک تم ان میں تھے انہیں عذاب دیتا
اور نہ ایسا تھا کہ وہ بخشش مانگیں اور انہیں عذاب دے۔“
کفار کا مطالبہ 1۔
عذاب نازل نہ کرنے کی وجہ 2۔
عذاب نازل نہ کرنے کی وجہ 2۔
19
( )iiiپانی کا بہاؤ کفار کی طرف تھا۔اس لیے وہاں پر کیچڑ بننے کی وجہ سے
کفار کیلئے چلنا مشکل ہوگیا۔
نیند طاری کرنا 2۔
تعالی نے ٹھنڈی،نرم اور ہلکی ہوا چالئی اور مسلمانوں پر نیند
ٰ بارش کے بعد ہللا
طاری کردی اور جب وہ صبح اُٹھے تو بالکل تازہ دم تھے۔
کفار کی تعداد کم کرکے دکھانا 3۔
تعالی نے مسلمانوں کو خواب میں فتح کی بشارت دی اور کفار کی تعداد کو
ٰ ہللا
کم کرکے دکھایا جس سے مسلمانوں کے حوصلے مزید بڑھ گئے۔
خوف کا ُدور کرنا 4۔
تعالی نے مسلمانوں کے دلوں سے شیطانی وسوسے اور خوف ُدور کردیاٰ ہللا
جس سے مسلمانوں کی ہمت بڑھ کر بہادری کے ساتھ مقابلے کے لیے تیار ہوگئے۔
ہللا کا معجزہ
رسول ؐ 5۔
ہللا کو ایک خاص معجزہ بھی عطا کیا کہتعالی نے رسول ؐ
ٰ غزوہ بدر میں ہللا
لشکر کفار کی طرف کنکریوں سے بھری ہوئی ایک مٹھی پھینک ِ ہللا نے
جب رسول ؐ
لشکر میں ایسا کوئی بندہ نہ تھا جس کی آنکھوں میں کنکریاں نہ دی تو کفار کے
پہنچی ہوں،جس کی وجہ سے کفار دیکھنے سے محروم ہوگئے اور وہ کچھ ایسا ڈر
گئے کہ سب کچھ چھوڑ کر بھاگ گئے۔
فرستوں کا آنا 6۔
لشکر کفار میں
ِ تعالی نے مسلمانوں کی مدد کیلئے لگاتار فرشتے بھیجے،جنہوں نے
ٰ ہللا
تباہی مچادی
اور کفار بھاگنے پر مجبورہوگئے۔
سوال نمبر3۔ مندرجہ ذیل عبارت کا مفہوم بیان کریں۔
عبارت
ُ ُ َّ ٗ ّٰ َ ْ َ َ ُ ْ ُ ْ َ ّٰ اَل َ ُ ْ َ ْ ُُٗ َّ ُ
الدین کلہ ِلل ِہo
نٗۃ ویکون ِ وقا ِتلوھم حتی تکون ِفت G
ترجمہ
23
”اور اُن لوگوں سے لڑتے رہو یہاں تک کہ فتنہ (یعنی کفر کا فساد) باقی نہ
رہے۔اور دین سب خدا کا ہوجائے۔“
مفہوم:۔
فتنہ 1۔
فتنہ سے ُمراد ہے زمین پر فساد ہونا ہے اور سب سے بڑا فساد شرک اور
مشرکوں کی حکمرانی ہے۔
جہاد کا حکم 2۔
مسلمانوں کو کفار سے لڑنے کا حکم دیا گیا ہے کہ ان سے اُس وقت تک لڑتے
رہو جب تک کفر اور شرک کا فتنہ ختم نہ ہوجائے۔
جزیہ کا حکم 3۔
مسلمان جہاد اُس وقت تک جاری رکھیں جب تک تمام کفار مسلمان نہ ہو جائیں یا
مسلمانوں کی اقتدار تسلیم کرکے جزیہ ادا کریں۔
دین کا غلبہ 4۔
اعلی کے تحت مسلمانوں کی حکومت ہو۔
ٰ اقتدار
ِ تعالی کے
ٰ دین سے ُمراد یہ ہے کہ ہللا
آپ کے حدیث کاؐ
مفہوم ہے کہ”زمین پر کوئی ایسا مکان اور خیمہ نہ رہے جہاں پر اسالم داخل نہ
ہو۔“
حکم کا عام ہونا 5۔
ہللا کا یہ حکم اب بھی ہے اور قیامت تک جاری رہے گا کہ مسلمان آپس کے
اختالف بُھال کر متحد ہو جائیں اور ہللا کے دین کا بول باال کریں تاکہ زمین پر کفر اور
شرک کا فتنہ نہ رہے۔
ترجمہ
”سب سے زیادہ فضلیت و االعمل”ال ال ٰہ اال ہللا“ ہے۔اور سب سے بہترین ُدعا
”استغفار“ ہے۔“
تشریح
اکرم کی اس حدیث مبارکہ کے دو حصّے ہیں پہلے حصّے میں ہللا حضور ؐ
تعالی کی توحید کو سب سے فضلیت واال عمل قرار دیا گیا ہے جبکہ دوسرے حصّے ٰ
میں استغفار یعنی اپنی غلطیوں اور گناہوں کی معافی مانگنے کو بہترین ُدعا قرار دیا گیا
ہے۔
٭ بہترین عمل
ٰ
الالہ اال ہللا کلمہ توحید ہے جو کہ اسالم کی بنیاد ہے۔ اس سے ُمراد یہ ہے کہ ہللا
تعالی کے سوا کسی کو معبود اور اِ ٰلہ نہ ماننا اور اپنے عمل سے اس کا اظہار کرنا سب
ٰ
سے فضلیت اور عظمت واال عمل ہے۔
تو حید کا مطلب 1۔
تعالی ہی کو عبادت کے الئق ماننا اور اسکے ساتھ
ٰ توحید کا مطلب ہے صرف ہللا
کسی کو شریک نہ ٹھہرانا کیونکہ ہللا کا فرمان ہے۔
”بے شک میں ہی ہللا ہوں میرے سوا کوئی معبود نہیں اور صرف میری
ہی عبادت کرو۔“
فضائل ذکر
ِ 2۔
ہیں۔آپ کے ارشادات ہیں۔
ؐ ٰ
الالہ اال ہللا کے بے شمار فضائل
جس نے کلمہ طیبہ کہا تو ہللا نے اُس پر دوزخ کی آگ حرام کردی۔ ()i
ٰ
الالہ اال ہللا کی شہادت دینا جنت کی کنجی ہے۔ ()ii
موسی ؑ!اگر ساتوں آسمان اور
ٰ موسی ؑسے فرمایا!اےٰ تعالی نے حضرتٰ ( )iiiہللا
ساتوں زمین ایک پلڑے میں اور ٰ
الالہ اال ہللا دوسرے پلڑے میں رکھا جائے تو کلمہ
طیبہ بھاری ہوگا۔
٭ بہترین ُدعا
25
صے میں استغفار کی اہمیت بیان کی گئی ہے۔استغفار کے حدیث کے دوسرے ح ّ
معنی ہیں ”بخشش طلب کرنا“ یعننی ہللا سے اپنے گناہوں اور نافرمانیوں کی معافی
مانگنا ہے۔ انسان بعض اوقات ُدنیا کی ظاہری رنگینیوں lمیں کھو کر اپنے خالق و مالک
کی نافرمانی کرتا ہے اور گناہ میں مبتال ہو جاتا ہے۔انسان خطا کا پُتال ہے۔لیکن بہترین
انسان وہ ہے جو جلد اپنے رب کو راضی کرے اور اپنی غلطیوں اور گناہوں کی
معافی مانگے۔
فضائل استغفار
ِ 1۔
آپ کے ارشادات ہیں۔
استغفار کہنے کے بھی بے شمار فضائل ہیں ؐ
خوشخبری ہے اس شخص کیلئے جس کے اعمال نامہ میں استغفار کی کثرت ہو۔ ()i
( )iiگناہ سے تو بہ کرنے واال شخص ایسا پاک صاف ہوجاتا ہے جیسے اُس نے گناہ
کیا ہی نہیں۔
ن
حدی ث مب ر :۲
ض ٗۃُ ع َٰلی ُک ِّل ُم ْسلِ ٍم طَلَبُ ْال ِع ْل ِم فَ ِر ْ
ے َ
ترجمہ
”علم کی طلب ہر مسلمان(مرد و عورت) پر فرض ہے۔
تشریح
ِعلم کے معانی 1۔
علم کے معنی ہیں جاننا اور آگاہ ہونا یعنی کسی چیزکے متعلق معلومات حاصل
کرنا۔
انسان کی بنیادی ضرورت 2۔
انسان کی فطرت میں ایک جستجو شامل ہے جو ہروقت کسی نہ کسی چیز کے
متعلق سوچتا رہتا ہے۔اس لیے انسانی فطرت کا بنیادی تقاضہ ہے کہ اسے اپنی ذات اور
کے بارے میں علم ہو جس کے بغیر وہ ترقی نہیں کرسکتا۔ کائنات
تعالی کی پہچان کا ذریعہ
ٰ ہللا 3۔
26
ایک انسان کی بنیادی ضرورت یہ ہے کہ اسے اپنے خالق و مالک یعنی ہللا
آپ نے علم کو ہر مسلمان کےتعالی کی پہچان ہو جو علم کے بغیر ممکن نہیں۔اس لئے ؐ
ٰ
لئے الزمی قرار دیا ہے تاکہ وہ صحیح طریقے سے ہللا کی عبادت کرسکے۔
علم ذریعہ نجات 4۔
علم کے بغیر انسان اپنی ذمہ داریاں اور فرائض نہ جان سکتا ہے اور نہ اس کو
تعالی کے احکامات جان کر اور اس پر عمل
ٰ ادا کرسکتا ہے۔علم کے ذریعے انسان ہللا
کرکے ُدنیا اورآخرت میں کامیابی و نجات حاصل کرسکتا ہے۔
لڑکیوں کی تعلیم 5۔
آپ نے (مرد و عورت) دونوں کیلئے علم حاصل کرنا الزمی قرار دیا ہے۔اس ؐ
لئے والدین کا فرض بنتا ہے کہ لڑکوں کے سا تھ ساتھ لڑکیوں کو بھی تعلیم دلوائیں تاکہ
معاشرے میں باعزت مقام حاصل کر سکے۔
علمی شعبے 6۔
آپ کے فرمان کے مطابق علم کے دو شعبے ہیں۔ایک علم االدیان یعنی دینی علم ؐ
اور دوسرا علم االبدان یعنی تمام فنون،سائنسی اور دنیاوی علوم۔انسان کو زندگی میں جن
چیزوں سے واسطہ پڑتا ہے اُن سب کا علم حاصل کرنا ضروری ہے۔
حدیث نمبر3
َّ َ َّ ْ َ ُ
خ ُیرک ْم َم ْن ت َعلم ال ُق ْر َآن َو َعل َم ٗہ
ترجمہ
”تم میں سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور اسے (دوسروں کو)سکھایا۔“
تشریح
آپ نے قرآن سیکھنے اور سکھانے والے فضلیت بیان کی
ث مبارکہ میں ؐ
اس حدی ِ
ہے۔
قرآن کریم کا موضوع 1۔
قرآن کریم کا موضوع انسان ہے جو انسان کی ُدنیاوی اور اُخروی زندگی کے
معامالت کے بارے میں مکمل ہدایت اوررہنمائی فراہم کرتا ہے۔جس پر انسان عمل
کرکے دونوں جہانوں میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے۔
27
ترجمہ
”جس نے مجھ پر ایک مرتبہ درود بھیجا،ہللا نے اُسکے لئے عافیت کا ایک
دروازہ کھول دیا۔
تشریح
تعالی نے تمام عالموں کیلئے رحمت بنا کر
ٰ آپ چونکہ محس ِن انسانیت ہیں اور ہللا
ؐ
ہللا پر زیادہ سے زیادہ درود و سالم
بھیجا ہے۔اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ رسول ؐ
کیونکہ اس کے بے شمار فضائل ہیں۔ بھیجیں
رحمتوں کا نزول 1۔
28
حدیث نمبر5
From 1 to 5 Hadith Part2
اَل ْیؤم ُن َا َح ُد ُک ْم َح ّٰتی ُیک ْو َن َھ َو ُاہ َتب ًعا َا ج ُ
ئت ِب ٖہ ِ مِل ِ ِ
ترجمہ
”تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہوسکتا ہے جب تک کہ اس کی خواہش
اس(تعلیم) کے مطابق نہ ہوجائے جو میں الیا ہوں۔“
تشریح
ہللا نے اپنی اطاعت کا حکم دیا ہے جو کامل مومن
ث مبارکہ میں رسول ؐ
اس حدی ِ
بننے کے لئے ضروری شرط ہے۔
کامل مومن بننے کے لئے شرائط 1۔
رسول کے تمام
ؐ آپ نے ہر مومن بندے کو یہ حکم دیا ہے کہ وہ ہللا اور اُس کےؐ
احکامات کو تسلیم کرلے اوراس پر عمل کرے۔کیونکہ انکار کرنے کی صُورت میں
انسان مومن نہیں بلکہ نافرمان بن کر کافر ٹھہرتا ہے۔
رسول
ؐ ت
تعلیما ِ 2۔
تعالی کی تعلیمات یعنی قرآن کریم کو لے کر تمام انسانوں کو عملی
ٰ آپ نے ہللا
ؐ
آپ نے خود ہی ہر عمل ہللا کی مرضی کے مطابق کیا اس لئے طور پر پیش کردیا۔اور ؐ
قرآن کریم اور اپنی سنت پر عمل کرنے کا حکم دیا جو کہ ایک مومن کے آپ نے
ؐ
لئے فرض ہے۔
رسول اطاعت الہٰی ہے
ؐ ت
اطاع ِ 3۔
ہللا کی
ہللا کی اطاعت کرنے کا حکم دیا ہے اور رسول ؐ
تعالی نے بھی رسول ؐ
ٰ ہللا
اطاعت کو اپنی اطاعت قرار دیا ہے۔قرآن کریم میں ارشاد ہے کہ
ہللا کی اطاعت کی اُس نے حقیقت میں ہللا کی اطاعت کی۔“
”جس نے رسول ؐ
خواہشات کی نفی 4۔
30
ث ُمبارکہ میں نفس کی مخالفت کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ مسلمان اس حدی ِ
رسول کے احکامات کی پیرویؐ اپنے نفسانی خواہشات کی پیروی نہ کریں بلکہ ہللا اور
تعالی کا ارشاد ہے۔
ٰ کریں۔ ہللا
”کیا تُو نے اُسے دیکھا جو اپنی خواہش کو اپنا معبود بناتا ہے۔“
موضوعی مطالعہ
سبق :قرآن مجید
تعارف ،حفاظت اور فضائل
سوال نمبر 1.قرآن مجید کا مختصر تعارف بیان کریں۔
جواب۔ 1۔ قرآن کے معنی
لفظ قرآن قراۃ سے بنا ہے جس کے معنی پڑھنے کے ہیں اور قرآن کے معنی
ہیں بار بار پڑھی جانی والی کتاب۔چونکہ یہ کتا ب بار بار اور بکثرت پڑھی جاتی ہے
اس لئے اس کا نام قرآن رکھا گیا ہے۔
نزول قرآن
ِ 2۔
ہللا پر ایک ہی وقت میں نازل نہیں ہوا بلکہ تقریبا ً تیئس(
( )iقرآ ِن مجید رسول ؐ
)23سال کے عرصے میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا۔
ب وحی یعنی حضرت زید بن ؓ
ثابت کو بلوا آپ کات ِ
( )iiجونہی کچھ آیات نازل ہوتیں تو ؐ
کر لکھوا دیتے۔
آپ یہ رہنمائی بھی فرماتے کہ انہیں کس سورۃ سے پہلے یا بعد میں کو نسی
(ؐ )iii
سورۃ میں کن آیات کے ساتھ رکھا جائے۔
( )ivمسجد نبوی میں ایک مقام مقرر تھا جہاں یہ عبارت رکھ دی جاتی اور صحابہ
کرام اس کی نقل کرکے لے جاتے اور یاد کرلیتے۔
ؓ
یہ آیات فرشتہ حضرت جبرائیل ؑالیا کرتے تھے۔ ()v
( )viقرآن مجید میں 30پارے114،سورتیں اور سات منزلیں ہیں۔
شک سے پاک کتاب 3۔
31
قرآ ِن مجید سے پہلے جتنی بھی کتابیں نازل ہوئی تھیں وہ اپنی اصلی حالت میں
محفوظ نہ رہ سکیں لیکن قرآن وہ واحد اور محفوظ کتا ب ہے جو ہر قسم کی غلطی اور
پاک ہے اور قیامت تک قائم رہے گی۔ شک وشبہ سے
مھیمن /محفوظ ترین کتاب 4۔
قرآ ِن مجید کو پچھلی کتابوں کیلئے مھیمن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ ان کتابوں
میں جو تعلیمات اور عقائد اپنی اصلی حالت میں محفوظ نہ رہ سکے انہیں قرآ ِن مجید
قرآن کریم کی حفاظتِ نے اپنے اندر از سر نو بیان کرکے محفوظ کردیا ہے اور یہ کہ
تعالی ہے
ٰ کا ذمہ ہللا نے خود لیا ہے۔ ارشاد باری
”بے شک یہ ذکر ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے محافظ ہیں“۔
آخری کتاب اور ہدایت کا ذریعہ 5۔
تعالی کی آخری کتاب ہے اور اس کے بعد قیامت تک کوئی کتاب
ٰ ( )iقرآ ِن کریم ہللا
نازل نہیں ہوگی۔
یہ کتاب انسانوں کے تمام معامالت کے متعلق مکمل ہدایت و رہنمائی دیتا ہے۔ ()ii
سوال نمبر 2.قرآ ِن حکیم کی حفاظت کے بارے میں آپ کیا جانتے ہیں؟
تعالی بہترین محافظ
ٰ جواب۔ 1۔ ہللا
تعالی کی طرف سے نازل شدہ محفوظ ترین اور مکمل کتاب ہے۔
ٰ قرآ ِن مجید ہللا ()i
تعالی ہے۔
ٰ تعالی نے خود لیا ہے۔ارشاد باری
ٰ اس کی حفاظت کا ذمہ بھی ہللا ()ii
”بے شک یہ ذکر ہم نے نازل کیا ہے اور ہم خود اس کے محافظ ہیں“۔
تعالی کا قرآ ِن کریم کی حفاظت کا یہ وعدہ اس طرح پورا ہوا کہ پورہ دنیا میں
ٰ ( )iiiہللا
موجود قرآ ِن مجید کے نسخوں میں ایک لفظ یا زیر زبر کا بھی فرق نہیں۔
عہد رسالت میں قرآن کی حفاظت 2۔
ہللا پر ایک ہی وقت میں نازل نہیں ہوا بلکہ تقریباًتیئس()23سال
( )iقرآ ِن مجید رسول ؐ
کے عرصے میں تھوڑا تھوڑا کرکے نازل ہوا۔
32
( )iقرآ ِن کریم میں ہر زمانے اور ہر خطے کے تمام انسانوں کیلئے مکمل ہدایت و
رہنمائی موجود ہے۔
اور انسان کی ُدنیا و آخرت کی حقیقی فالح کا دارمدار اس پر عمل کرنے میں ()ii
ہے۔
بہترین انسان 2۔
قرآ ِن کریم کو بڑی فضلیت حاصل ہے۔جس طرح یہ کالم تمام کالموں سے بہتر
ہے،اسی طرح وہ انسان بھی تمام انسانوں سے بہتر ہے جو خود بھی اس کا علم حاصل
کرے اور دوسروں کو بھی سکھائے۔
نبوی ہے۔
ؐ ارشا ِد
”تم میں سے بہتر وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور سکھایا“۔
ایک حرف پر دس نیکیاں 3۔
قرآ ِن کریم کی تالوت بڑی نیکی ہے۔ ()i
اس کے ایک ایک حرف کی تالوت پر دس نیکیاں ملتی ہیں۔ ()ii
حافظ کے والدین کو تاج پہنایا جائے گا 4۔
قرآن کریم کی تعلیم دی اور اس کو حفظ کروایا تو
ِ جس انسان نے اپنی اوالد کو
قیامت کے دن اس بچے کے والدین کو ایک تاج پہنایا جائے گا۔اور بہت سی دوسری
قوموں کو اس کی غفلت کی وجہ سے گرا دے گا۔
قوموں کی سربلندی 5۔
نبوی ہے کہ
ؐ ارشاد
”ہللا بہت سی قوموں کو اس قرآن کی وجہ سے سربلندی عطا فرمائے گا۔
اور بہت سی دوسری قوموں کو اس سے غفلت کی وجہ سے گرا دے گا“۔
قرآن سفارش کرے گا 6۔
جس انسان نے قرآن کی تالوت کی،اس کو سمجھا اور اس پر عمل کیا تو قیامت
کے روز یہ قرآن اُس انسان کی مغفرت کی سفارش کرے گا۔
34
ایمان کی تکمیل محبت کے بغیر ممکن نہیں اور ہللا سllے محبت کllرنے کllا مطلب
تعlالی کے تمllام احکامlات پllر
ٰ ہے کہ انسان زیادہ سے زیادہ ہللا کی عبادت کllرے اور ہللا
تعالی کا ارشاد ہے۔ٰ پوری طرح سے عمل کرے۔ کیونکہ ہللا
َََ ُ ُ َّ
اع ُب ُد ْوا َر َّبک ُم ال ِذ ْی خلقک ْم۔
اس ْ آیھا َّ
الن ُ ے َٰ
ترجمہ ”اے لوگوں اپنے اُس رب کی عبادت کرو جس نے تمہیں پیدا کیا“۔
ہللا سے محبت کی صورتیں ٭
انسان کا فرض ہے کہ ہللا کا ُشکر ادا کرتا رہے۔ ()i
صرف ہللا کی عبادت اور بندگی کرے۔ ()ii
تعالی کے احکامات پر خوشی سے عمل کرے۔
ٰ ( )iiiہللا
( )ivہللا کی مخلوق کی خدمت کرے۔
ہللا کی نافرمانی سے بچیں اور دوسروں کو بھی تلقین کریں۔ ()v
ہللا کی اطاعت کیوں ضروری ہے؟
سوال نمبر 2.رسول ؐ
جواب۔ 1۔ اطاعت کے معنی
اطاعت کے لغوی معنی ہے تابعداری،فرمانبرداری۔یعنی lکسی کا حکم مان کر اس
پر عمل کرنا۔
اسالم میں اطاعت کا مفہوم 2۔
جllائے۔آپ کے
ؐ آپ کی سllنت پllر عمllل کیllا
رسllول سllے ُمllراد ہے کہ ؐ
ؐ ت
اطllاع ِ
lول کی
ت رسؐ l
اعمال،اخالق ا ور ارشادات کی پllیروی کی جllائے۔اور کسllی بھی لمحہ ُسlن ِ
خالف نہ کی جائے۔
رسول کی ضرورت
ؐ ت
اطاع ِ 3۔
ہللا
lالی کی اطllاعت کے لllیے ضllروری ہے کہ رسllول ؐ ایمان کی تکمیل اور ہللا تعٰ l
آپکی اطاعت کی جائے۔اور حقیقت یہ ہے کہ انسان کے پاس کامیابی و نجات کے لllیے ؐ
lالی نے واضllح طllور پllر
کی اطاعت کے سوا کوئی دوسرا راسllتہ نہیں۔کیllونکہ ہللا تعٰ l
فرمایا ہے۔جیسے!
36
ترجمہ
”آج میں نے تمہارے لئے دین مکمllل کردیllا،تمllپر اپllنی نعمت تمllام کllردی
اور تمہارے لئے اسالم کو بطور دین پسند کرلیا“۔
lرم ٰ
دین مکمل،نعمت مکمل اور اسالم پر رضائے الہی کا واضllح اظہlار رسlول اکؐ l
پر آخری نllبی اور رسlول ہllونے کlا اعالن ہے کہ اب کسllی اور نlبی کی ضlرورت نہیں
مشعل راہ بنانا ہے اور
ِ رسول کو تا ابد
ؐ رہی اس لئے احکام ٰالہی مکمل ہوگئے۔اب اسوہ
دستور حیات سمجھنا ہے۔
ِ پیغام ٰالہی کو اپنا
ختم نبوت کے حوالے سے سورۃ االحزاب میں ارشاد ہے: ِ
َ َ َ ُ َ َّ ُٗ َ َ َ َ ّ ْ ّ َ ُ ْ َ ْ َّ ُ ْ َ ّٰ
اللہ َو َخ َات َم َّ
النب َ
یین ِ ِ ماکان محمد ابآ اح ٍد ِِّGمن ِِّ Gرج ِالکم و ِلکن رسول
ترجمہ
lالی کے رسllول
آپ تllو ہللا تعٰ l
”محمد تم میں سے کسی مllرد کے بllاپ نہیں ؐ
ؐ
اور انبیاء کے خاتم ہیں“۔
ختم نبوت کاعقیدہ اسالم کے بنیllادی عقائllد میں سllے ہے جس کllا مطلب یہ ہے کہ
ِ
آپ کے بعد کوئی دوسرا نبی یllا رسllول ّنے واال نہیں۔
محمد خاتم النبین ہیں یعنی ؐ
ؐ حضرت
ختم نبوت پر ایمان نہیں رکھتا وہ دائرہ اسالم سے خارج ہے اور جو شخص ِ
ہللا فرماتے ہیں کہ
رسول ؐ
”میں آخری نبی ہوں اور میرے بعد کوئی نبی نہیں“۔