You are on page 1of 37

ALLAMA IQBALL OPEN UNIVERSITY ISLAMBAD

SUBMITTED by

Name. GHULAM RABANI

Student id 18bkt00032

SEMESTER Spring 2022

CORSE CODE 6475

ASSIGNMENT No 2
‫‪.‬‬

‫‪ANS 01‬‬
‫پوری نماز پڑھنے کا طریقہ جو قبل ازیں بیان ہوا ہے اس میں کچھ نماز کی شرائط‪ ،‬کچھ فرائض‪ ،‬کچھ واجبات اور‬
‫کچھ سنن و مستحبات ہیں۔ نمازی کو چاہیے کہ انہیں الگ الگ یاد رکھے تاکہ نماز میں کسی قسم کا نقص واقع نہ ہو۔‬
‫شرائطِ نماز‬
‫نماز کی چھ شرطیں ہیں‪:‬‬
‫‪ .1‬طہارت یعنی نمازی کا بدن اور کپڑے پاک ہوں۔‬
‫‪ .2‬نماز کی جگہ پاک ہو۔‬
‫ستر عورت یعنی بدن کا وہ حصہ جس کا چھپانا فرض ہے وہ چھپا ہوا ہو۔ مردکے لیے ستر ناف سے لے کر‬
‫ِ‬ ‫‪.3‬‬
‫گھٹنے تک ہے اور عورت کے لیے ہاتھوں‪ ،‬پاؤں اور چہرہ کے عالوہ سارا بدن ستر ہے۔‬
‫استقبال قبلہ یعنی منہ اور سینہ قبلہ کی طرف ہو۔‬
‫ِ‬ ‫‪.4‬‬
‫‪ .5‬وقت یعنی نماز کا اپنے وقت پر پڑھنا۔‬
‫‪ .6‬نیت کرنا ‪ .‬دل کے پکے ارادہ کا نام نیت ہے اگرچہ زبان سے کہنا مستحب ہے۔‬
‫نماز شروع کرنے سے پہلے ان شرطوں کا ہونا ضروری ہے ورنہ نماز نہیں ہوگی‪.‬‬
‫فرائض نماز‬
‫ِ‬
‫نماز کے سات فرائض ہیں‪:‬‬
‫تکبیر تحریمہ یعنی اَﷲُ اَ ْک َب ُر کہنا۔‬
‫ِ‬ ‫‪.1‬‬
‫بالعذر صحیح اگر‬
‫ِ‬ ‫‪ .2‬قیام یعنی سیدھا کھڑے ہوکر نماز پڑھنا۔فرض‪ ،‬وتر‪ ،‬واجب اور سنت نماز میں قیام فرض ہے‪،‬‬
‫یہ نمازیں بیٹھ کر پڑھے گا تو ادا نہیں ہوں گی‪ .‬نفل نماز میں قیام فرض نہیں۔‬
‫‪ .3‬قرآت یعنی مطلقاًایک آیت پڑھنا۔ فرض کی پہلی دو رکعتوں میں اور سنت وتر و نوافل کی ہررکعت میں فرض ہے‬
‫جب کہ مقتدی کسی نماز میں قرآت نہیں کرے گا۔‬
‫‪ .4‬رکوع کرنا۔‬
‫‪ .5‬سجدہ کرنا۔‬
‫‪ .6‬قعدئہ اخیرہ یعنی نماز پوری کرکے آخرمیں بیٹھنا۔‬
‫‪ .7‬خروج بصن ِع ِہ یعنی دونوں طرف سالم پھیرنا۔‬
‫اِن فرضوں میں سے ایک بھی رہ جائے تو نماز نہیں ہوتی اگرچہ سجدئہ سہو کیا جائے۔‬
‫واجبا ِ‬
‫ت نماز‬
‫نماز میں درج ذیل چودہ امور واجبات میں سے ہیں‪:‬‬
‫‪ .1‬فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں قرآ ت کرنا (یعنی تنہا نماز پڑھنے والے یا باجماعت نماز میں اِمام کے‬
‫لیے)‪.‬‬
‫‪ .2‬فرض نمازوں کی تیسری اور چوتھی رکعت کے عالوہ تمام نمازوں کی ہر رکعت میں سورہ فاتحہ پڑھنا۔‬
‫‪ .3‬فرض نمازوں کی پہلی دو رکعتوں میں اور واجب‪ ،‬سنت اور نفل نمازوں کی تمام رکعتوں میں سورہ فاتحہ کے بعد‬
‫کوئی سورت یا بڑی آیت یا تین چھوٹی آیات پڑھنا۔‬
‫‪ .4‬سورہ فاتحہ کو کسی اور سورت سے پہلے پڑھنا۔‬
‫‪ .5‬قرآ ت‪ ،‬رکوع‪ ،‬سجدوں اور رکعتوں میں ترتیب قائم رکھنا۔‬
‫‪ .6‬قومہ کرنا یعنی رکوع سے اٹھ کر سیدھا کھڑا ہونا۔‬
‫‪ .7‬جلسہ یعنی دونوں سجدوں کے درمیان سیدھا بیٹھ جانا۔‬
‫تعدیل ارکان یعنی رکوع‪ ،‬سجدہ وغیرہ کو اطمینان سے اچھی طرح ادا کرنا۔‬
‫ِ‬ ‫‪.8‬‬
‫‪ .9‬قعدۂ ا ُ ٰ‬
‫ولي یعنی تین‪ ،‬چار رکعت والی نماز میں دو رکعتوں کے بعد تشہد کے برابر بیٹھنا۔‬
‫دونوں قعدوں میں تشہد پڑھنا۔‬ ‫‪.10‬‬
‫نماز فجر‪ ،‬مغرب‪ ،‬عشاء‪ ،‬عیدین‪ ،‬تراویح اور رمضان المبارک کے وتروں میں بلند آواز سے قرآ ت کرنا‬
‫امام کا ِ‬ ‫‪.11‬‬
‫اور ظہر و عصر کی نماز میں آہستہ پڑھنا۔‬
‫اَل َّساَل ُم َع َل ْيکُ ْم َو َرحْ َم ُۃ ا ِ‬
‫ﷲ کے ساتھ نماز ختم کرنا۔‬ ‫‪.12‬‬
‫نماز وتر میں قنوت کے لیے تکبیر کہنا اور دعائے قنوت پڑھنا۔‬
‫ِ‬ ‫‪.13‬‬
‫عیدین کی نمازوں میں زائد تکبیریں کہنا۔‬ ‫‪.14‬‬
‫نماز کے واجبات میں سے اگر کوئی واجب بھولے سے رہ جائے تو سجدئہ سہو کرنے سے نماز درست ہوجائے گی‪.‬‬
‫سجدئہ سہو نہ کرنے اور قصداً تر ک کرنے سے نماز کا لوٹانا واجب ہے۔‬
‫سنن نماز‬
‫ِ‬
‫جو چیزیں نماز میں حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم سے ثابت ہیں لیکن ان کی تاکید فرض اور واجب کے‬
‫برابر نہیں سنن کہالتی ہیں۔ نماز میں درج ذیل سنن ہیں‪:‬‬
‫‪ .1‬تکبیر تحریمہ کہنے سے پہلے دونوں ہاتھ کانوں تک اٹھانا۔‬
‫‪ .2‬دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو معمول کے مطابق کھلی اور قبلہ رخ رکھنا۔‬
‫‪ .3‬تکبیر کہتے وقت سر کو نہ جھکانا۔‬
‫‪ .4‬امام کا تکبیر تحریمہ اور ایک رکن سے دوسرے رکن میں جانے کی تمام تکبیریں بلند آواز سے کہنا۔‬
‫‪ .5‬سیدھے ہاتھ کو بائیں ہاتھ پر ناف کے نیچے باندھنا۔‬
‫‪ .6‬ثناء پڑھنا۔‬
‫ان الرَّ ِجي ِْم پڑھنا۔‬
‫ْط ِ‬ ‫‪ .7‬تعوذ یعنی اَع ُْو ُذ ِبا ِ‬
‫ﷲ م َِن ال َّشي َ‬
‫ﷲ الرَّ حْ ٰم ِن الرَّ ِحي ِْم پڑھنا۔‬
‫‪ .8‬تسمیہ یعنی ِبسْ ِم ا ِ‬
‫‪ .9‬فرض نماز کی تیسری اور چوتھی رکعت میں صرف سورہ فاتحہ پڑھنا۔‬
‫آمین کہنا‬ ‫‪.10‬‬
‫ثنا‪ ،‬تعوذ‪ ،‬تسمیہ اور آمین سب کا آہستہ پڑھنا۔‬ ‫‪.11‬‬
‫قرآن مجید پڑھنا سنت ہے اتنا پڑھنا۔‬
‫ِ‬ ‫سنت کے مطابق قرآت کرنا یعنی نماز میں جس قدر‬ ‫‪.12‬‬
‫رکوع اور سجدے میں تین تین بار تسبیح پڑھنا۔‬ ‫‪.13‬‬
‫رکوع میں سر اور پیٹھ کو ایک سیدھ میں برابر رکھنا اور دونوں ہاتھوں کی کھلی انگلیوں سے گھٹنوں کو پکڑ‬ ‫‪.14‬‬
‫لینا۔‬
‫قومہ میں امام کا تسمیع یعنی َسم َِع اﷲُ لِ َمنْ َحمِدَ ہُ اور مقتدی کا تحمید َر َّب َنا َلکَ ْال َحمْ ُد کہنا اور منفرد کا تسمیع اور‬ ‫‪.15‬‬
‫تحمید دونوں کہنا۔‬
‫سجدے میں جاتے وقت پہلے دونوں گھٹنے‪ ،‬پھر دونوں ہاتھ‪ ،‬پھر ناک‪ ،‬پھر پیشانی رکھنا اور اٹھتے وقت اس‬ ‫‪.16‬‬
‫کے برعکس عمل کرنا یعنی پہلے پیشانی‪ ،‬پھر ناک‪ ،‬پھر ہاتھ اور اس کے بعد گھٹنے اٹھانا۔‬
‫جلسہ اور قعدہ میں بایاں پاؤں بچھا کر اس پر بیٹھنا اور سیدھے پاؤں کو اس طرح کھڑا رکھنا کہ اس کی‬ ‫‪.17‬‬
‫انگلیوں کے سرے قبلہ رخ ہوں اور دونوں ہاتھ رانوں پر رکھنا۔‬
‫تشہد میں اَ ْش َھ ُد اَنْ اَّل ا ِٰل َہ پر شہادت کی انگلی سے اشارہ کرنا اور ِااَّل اﷲُ پر انگلی گرا دینا۔‬ ‫‪.18‬‬
‫قعدۂ اخیرہ میں تشہد کے بعد درو ِد ابراہیمی پڑھنا۔‬ ‫‪.19‬‬
‫درود اِبراہیمی کے بعد دعا پڑھنا۔‬ ‫‪.20‬‬
‫پہلے دائیں طرف پھر بائیں طرف سالم پھیرنا۔‬ ‫‪.21‬‬
‫ان سنتوں میں سے اگر کوئی سنت سہواً رہ جائے یا قصداً ترک کی جائے تو نماز نہیں ٹوٹتی اور نہ ہی سجدۂ سہو‬
‫واجب ہوتا ہے لیکن قصداً چھوڑنے واال گنہگار ہوتا ہے۔‬
‫مستحبا ِ‬
‫ت نماز‬
‫نماز میں درج ذیل اُموربجا النا مستحب ہے‪:‬‬
‫‪ .1‬قیام میں سجدہ کی جگہ نگاہ رکھنا۔‬
‫‪ .2‬رکوع میں قدموں پر نظر رکھنا۔‬
‫‪ .3‬سجدہ میں ناک کی نوک پر نظر رکھنا۔‬
‫‪ .4‬قعدہ میں گود پر نظر رکھنا۔‬
‫‪ .5‬سالم پھیرتے وقت دائیں اور بائیں جانب کے کندھے پر نظر رکھنا۔‬
‫ت قیام میں دائیں ہاتھ سے منہ ڈھانک لیں اور دوسری حالتوں میں بائیں‬
‫‪ .6‬جمائی کو آنے سے روکنا‪ ،‬نہ رکے تو حال ِ‬
‫ہاتھ کی پیٹھ سے۔‬
‫‪ .7‬مرد تکبیر تحریمہ کے لیے کپڑے سے ہاتھ باہر نکالیں اور عورتیں اندر رکھیں۔‬
‫‪ .8‬کھانسی روکنے کی کوشش کرنا۔‬
‫‪َ .9‬ح َي َع َلی ْال َفاَل ِح پر امام و مقتدی کا کھڑے ہونا۔‬
‫ت قیام میں دونوں پاؤں کے درمیان کم از کم چار انگلیوں کا فاصلہ ہو۔‬
‫حال ِ‬ ‫‪.10‬‬
‫مفسدا ِ‬
‫ت نماز‬
‫ت نماز کہتے ہیں۔‬
‫بعض اعمال کی وجہ سے نماز ٹوٹ جاتی ہے اور اسے لوٹانا ضروری ہو جاتا ہے‪ ،‬انہیں مفسدا ِ‬
‫نماز کو فاسد بنانے والے اعمال درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪ .1‬نماز میں بات چیت کرنا۔‬
‫‪ .2‬سالم کرنا۔‬
‫‪ .3‬سالم کا جواب دینا۔‬
‫‪ .4‬درد اور مصیبت کی وجہ سے آہ و بکا کرنا یا اُف کہنا (لیکن جنت و دوزخ کے ذکر پر رونے سے نماز فاسد نہیں‬
‫ہوتی)‪.‬‬
‫‪ .5‬چھینک آنے پر اَ ْل َحمْ ُِد ِ‬
‫ﷲ کہنا۔‬
‫‪ .6‬کسی کی چھینک پر َيرْ َح ُمکَ اﷲُ یا کسی کے جواب میں َي ْھ ِد ْيکُ ُم اﷲُ کہنا۔‬
‫ﷲ َو ِا َّنا ِا َل ْي ِہ َرا ِجع ُْو َن پڑھنا۔‬
‫‪ .7‬بری خبر پر ِا َّن ِا ِ‬
‫‪ .8‬اچھی خبر پر اَ ْل َحمْ ُد ہّٰلِل ِ کہنا۔‬
‫‪ .9‬دیکھ کر قرآن پڑھنا۔‬
‫کھانا پینا۔‬ ‫‪.10‬‬
‫عمل کثیر یعنی ایسا کام کرنا کہ دیکھنے واال یہ گمان کرے کہ وہ نماز میں نہیں ہے۔‬
‫ِ‬ ‫‪.11‬‬
‫نمازی کا اپنے امام کے سوا کسی اور کو لقمہ دینا۔‬ ‫‪.12‬‬
‫قہقہہ کے ساتھ ہنسنا۔‬ ‫‪.13‬‬
‫مکروہا ِ‬
‫ت نماز‬
‫بعض امور کی وجہ سے نماز ناقص ہو جاتی ہے یعنی نمازی اَصل اَجر و ثواب اور کمال سے محروم رہتا ہے‪ ،‬انہیں‬
‫مکروہات کہتے ہیں۔ ان سے اِجتناب کرنا چاہیے۔ نماز کو مکروہ بنانے والے امور درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪ .1‬ہر ایسا کام جو نماز میں اﷲ کی طرف سے توجہ ہٹا دے مکروہ ہے۔‬
‫‪ .2‬داڑھی‪ ،‬بدن یا کپڑوں سے کھیلنا۔‬
‫‪ .3‬اِدھر اُدھر منہ پھیر کر دیکھنا۔‬
‫‪ .4‬آسمان کی طرف دیکھنا۔‬
‫‪ .5‬کمر یا کولہے وغیرہ پر ہاتھ رکھنا۔‬
‫‪ .6‬کپڑا سمیٹنا۔‬
‫‪َ .7‬س ْد ِل ثوب یعنی کپڑا لٹکانا مثالً سر یا کندھوں پر اس طرح ڈالنا کہ دونوں کنارے لٹکتے ہوں۔‬
‫‪ .8‬آستین آدھی کالئی سے زیادہ چڑھی ہوئی رکھنا۔‬
‫‪ .9‬انگلیاں چٹخانا۔‬
‫دوران نماز میں یہ کیفیت پیدا ہو‬
‫ِ‬ ‫بول و براز (پاخانہ ‪ /‬پیشاب) یا ہوا کے غلبے کے وقت نماز ادا کرنا۔ اگر‬ ‫‪.10‬‬
‫جائے اور وقت میں بھی گنجائش ہو تو نماز توڑ دینا واجب ہے۔‬
‫قعدہ یا سجدوں کے درمیان جلسہ میں گھٹنوں کو سینے سے لگانا۔‬ ‫‪.11‬‬
‫بالوجہ کھنکارنا۔‬ ‫‪.12‬‬
‫ناک و منہ کو چھپانا۔‬ ‫‪.13‬‬
‫جس کپڑے پر جاندار کی تصویر ہو اس کو پہن کر نماز پڑھنا۔‬ ‫‪.14‬‬
‫کسی کے منہ کے سامنے نماز پڑھنا۔‬ ‫‪.15‬‬
‫پگڑی یا عمامہ اس طرح باندھنا کہ درمیان سے سر ننگا ہو۔‬ ‫‪.16‬‬
‫کسی واجب کو ترک کرنا مثالً رکوع میں کمر سیدھی نہ کرنا‪ ،‬قومہ یا جلسہ میں سیدھے ہونے سے پہلے سجدہ‬ ‫‪.17‬‬
‫کو چلے جانا۔‬
‫قرآن حکیم پڑھنا۔‬
‫ِ‬ ‫قیام کے عالوہ اور کسی جگہ پر‬ ‫‪.18‬‬
‫رکوع میں قرآ ت ختم کرنا۔‬ ‫‪.19‬‬
‫صرف شلوار یا چادر باندھ کر نماز پڑھنا۔‬ ‫‪.20‬‬
‫امام سے پہلے رکوع و سجود میں جانا یا اٹھنا۔‬ ‫‪.21‬‬
‫قرآن حکیم پڑھنا۔‬
‫ِ‬ ‫قیام کے عالوہ نماز میں کسی اور جگہ‬ ‫‪.22‬‬
‫چلتے ہوئے تکبیر تحریمہ کہنا۔‬ ‫‪.23‬‬
‫امام کا کسی آنے والے کی خاطر نماز کو بال وجہ لمبا کرنا۔‬ ‫‪.24‬‬
‫قبر کے سامنے نماز پڑھنا۔‬ ‫‪.25‬‬
‫غصب کی ہوئی زمین‪/‬مکان‪/‬کھیت میں نماز پڑھنا۔‬ ‫‪.26‬‬
‫الٹا کپڑا پہن‪/‬اوڑھ کر نماز پڑھنا۔‬ ‫‪.27‬‬
‫اچکن وغیرہ کے بٹن کھول کر نماز پڑھنا جبکہ نیچے قمیص نہ ہو۔‬ ‫‪.28‬‬
‫‪ANS 02‬‬
‫ٰ‬
‫زکوۃ اسالم کی ایک عبادت اور اس کے ارکان خمسہ سے تیسرا اہم رکن ہے‪ ،‬جس کی فرضیت کتاب و سنت اور‬
‫اجماع امت سے ثابت ہے‪ ،‬اس کا منکر کافر ہے‪ ،‬اسے انکار ٰ‬
‫زکوۃ سے فورا ً توبہ کرنی چاہیے ورنہ قتل کا مستوجب‬
‫ہے۔‪(( ‬یُسْ َت َتابُ َثاَل ًثا َفاِنْ َت َ‬
‫اب َواِنْ اَّل قُ ِت َل))‪( ‬مغنی البن قدامہ)‬
‫ٰ‬
‫زکوۃ کی فرضیت‪:‬‬
‫کتاب وسنت میں ٰ‬
‫زکوۃ کی فرضیت پر داللت کرنے والی اس قدر ٓایات اور احادیث وارد ہوئی ہیں‪ ،‬کہ ان سب کے بیان‬
‫کرنے کے لیے ایک مستقل کتاب کی ضرورت ہے‪ ،‬ان میں سے چند درج ذیل ہیں۔‬
‫فرضیت ٰ‬
‫زکوۃ پر داللت کرنے والی ٓایات‪:‬‬
‫الرّ ِک ِعیْن}َ (البقرہ‪)۴۳:‬‬ ‫{و اَ ِق ْیمُوا الص َّٰلوة َو ٰا ُتوا َّ‬
‫الز ٰکوة َو ارْ َکع ُْوا َم َع ٰ‬ ‫َ‬
‫’’نماز قائم کرو‪ٰ ،‬‬
‫زکوۃ دو‪ ،‬اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔‘‘(جماعت کے ساتھ مل کرنماز پڑھو)‬
‫‪ :۲‬کفار کے متعلق فرمایا‪:‬‬
‫{ َفاِنْ َتاب ُْوا َو اَ َقامُوا الص َّٰلوة َو ٰا َتوُ ا َّ‬
‫الز ٰکوة َف َخلُّ ْوا َس ِب ْی َلہُم} (توبة‪)۵ :‬‬
‫’’اگر یہ کفر سے توبہ کریں نماز کے پابند ہو جائیں‪،‬اور ٰ‬
‫زکوۃ دیں‪ ،‬تو ان کا راستہ چھوڑ دو۔‘‘‬
‫یعنی اب وہ تمہارے ہم مذہب اور مسلمان ہیں‪ ،‬ان کے قتل سے ہاتھ روک لو‪ ،‬جیسا کہ ٓاگے چل کر فرمایا‪:‬‬
‫{ َفاِنْ َتاب ُْوا َو اَ َقامُوا الص َّٰلوة َو ٰا َتوُ ا َّ‬
‫الز ٰکوة َفا ِْخ َوا ُنکُ ْم فِی ال ِّدیْن} (التوبة‪)۱۱:‬‬
‫’’اگر یہ لوگ کفر چھوڑ دیں‪ ،‬نماز قائم کریں اور ٰ‬
‫زکوۃ دیں‪ ،‬تو پھر یہ دین میں تمہارے بھائی ہیں۔‘‘ (ان کا حکم وہی‬
‫ہے جو تمہارا ہے۔)‬
‫ٰ‬
‫تعالی کا فرمان ہے‪:‬‬ ‫‪ :۳‬خدا خوف لوگوں کے اوصاف بیان کرتے ہوئے ہللا‬
‫ب َو ُی ِق ْیم ُْو َن الص َّٰلوة َو ِممَّا َر َز ْق ٰن ُہ ْم ُی ْن ِفقُ ْو َن} (البقرۃ‪)۳:‬‬
‫{الَّ ِذی َْن َیْٔو ِم ُن ْو َن ِب ْال َغ ْی ِ‬
‫ٰ‬
‫تعالی پر ایمان التے ہیں‪ ،‬نماز قائم کرتے ہیں ‪ ،‬اور‬ ‫ٰ‬
‫تعالی سے ڈرنے والے وہ لوگ ہیں جو دیکھے بغیر ہللا‬ ‫’’ہللا‬
‫ہمارے دیے ہوئے مال سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘‬
‫فرضیت ٰ‬
‫زکوۃ پر داللت کرنے والی احادیث‪:‬‬
‫(‪(( )۱‬عن ابْن ُعمر َقال رس ُْو ُل ہّٰللا ص ٰلّی ہّٰللا ع َلیْه وسلَّم ُبنِی ااْل سْ اَل م ع ٰلی َخمْس َشہادَ ة اَنْ اَّل ا ِٰله ااَّل ہّٰللا واَنَّ مُح َّم ًدا رَّ س ُْو ُل ہّٰللا‬
‫ِ‬ ‫َ‬ ‫َ َ‬ ‫ِ‬ ‫ٍ َ‬ ‫ُ َ َ َ َ َ ِ ِ َ‬ ‫ِ َ‬ ‫ِ ِ َ َ َ َ‬
‫ان))‪( ‬بخاری شریف)‬ ‫ض َ‬ ‫وم َر َم َ‬
‫ص ِ‬ ‫الز ٰکوة َو ْال َح ِّج َو َ‬
‫َو ِا َق ِام الصَّلوة اَ ِا ْی َتاِئ َّ‬
‫’’عبد ہللا بن عمر رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ‪ٓ ،‬انحضرتﷺ نے فرمایا‪ :‬اسالم کی بنا پانچ ستونوں پر‬
‫ٰ‬
‫تعالی کے رسول‬ ‫تعالی کے بغیر کوئی الئق عبادت نہیں‪ ،‬اور محمدﷺ ہللا‬
‫ٰ‬ ‫ہے‪ )۱( ‬اس بات کی گواہی دینا کہ ہللا‬
‫ٰ‬
‫)‪ ‬زکوۃ دینا‪ )۴( ،‬حج کرنا‪ )۵( ،‬رمضان شریف کے روزے رکھنا۔‘‘‬‫ہیں‪ )۲( ،‬نماز قائم کرنا‪۳( ،‬‬
‫(‪ )۲‬حضرت عبدا ہلل بن عباس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪ ،‬جب ٓانحضرتﷺ نے معاذ رضی ہللا عنہ کو یمن کی‬
‫ٰ‬
‫تعالی کی الوہیت اور‬ ‫طرف بھیجا‪ ،‬تو فرمایا تم ایک ایسی قوم کی طرف جا رہے ہو‪ ،‬جو اہل کتاب ہے‪ ،‬پہلے انہیں ہللا‬
‫ٰ‬
‫تعالی نے ان پر دن اور رات میں پانچ‬ ‫میری رسالت قبول کرنے کی دعوت دینا‪ ،‬اگر مان لیں تو انہیں بتانا کہ ہللا‬
‫زکوہ فرض کی‬ ‫ٰ‬
‫تعالی نے ان کے مال پر ٰ‬ ‫نمازیں فرض کی ہیں‪ ،‬اگر یہ بھی تسلیم کر لیں‪ ،‬تو انہیں اطالع دینا کہ ہللا‬
‫ہے‪ ،‬جو ان کے مالداروں سے لے کر غرباء و مساکین میں تقسیم کر دی جائے گی‪ ،‬اگر وہ اس پر ٓامادہ ہو جائیں تو ان‬
‫ٰ‬
‫تعالی کے ہاں اس کی‬ ‫کے بہترین مال لینے سے پرہیز کرنا‪ ،‬اور مظلوم کی بدعا سے بچنا‪ ،‬کیونکہ اس کے اور ہللا‬
‫قبولیت میں کوئی پردہ نہیں۔ (متفق علیہ)‬
‫(‪ )۳‬حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪ ،‬کہ ایک اعرابی ٓانحضرتﷺ کی خدمت میں ٓایا‪ ،‬اور کہنے لگا‪،‬‬
‫یا حضرت! مجھے کوئی ایسا عمل بتائیے کہ اس کے کرنے سے میں جنت میں داخل ہو جائوں‪ٓ ،‬اپ نے فرمایا‪ :‬ہللا‬
‫تعالی کی عبادت کرو‪ ،‬اور کسی چیز کو اس کا شریک نہ بنأو‪ ،‬فرض نماز قائم کرو‪ ،‬فرض ٰ‬
‫زکوۃ دو‪ ،‬اور رمضان‬ ‫ٰ‬
‫شریف کے روزے رکھو‪ ،‬یہ سن کر اعرابی بوال‪ ،‬جس خدا کے ہاتھ میں میری جان ہے‪ ،‬اس کی قسم! میں اس سے‬
‫زیادہ کچھ نہیں کروں گا‪ ،‬جب وہ پیٹھ پھیر کر جانے لگا‪ ،‬تو ٓانحضرتﷺ نے فرمایا‪ :‬جسے جنتی ٓادمی دیکھا پسند‬
‫ہو‪ ،‬وہ اسے دیکھ لے۔ (بخاری شریف)‬
‫(‪ )۴‬جب ٓانحضرتﷺ کے انتقال کے بعد ٰ‬
‫زکوۃ دینے سے انکار کرنے پر حضرت صدیق اکبر رضی ہللا عنہ نے‬
‫بعض عرب قبائل کے خالف اعالن جنگ کا فیصلہ کیا‪ ،‬تو حضرت عمر رضی ہللا عنہ نے مزاحمت کی‪ ،‬اور کہا ٓاپ‬
‫ان سے کیسے جنگ کر سکتے ہیں‪ ،‬جب کہ ٓانحضرتﷺ نے فرمایا ہے‪ ،‬کہ مجھے لوگوں سے اس وقت تک جنگ‬
‫کرنے کا حکم دیا گیا ہے‪ ،‬جب تک کہ وہ ال الہ اال ہللا کہہ کر اسالم میں داخل نہیں ہو جاتے جس نے یہ کلمہ کہہ لیا‪،‬‬
‫ٰ‬
‫تعالی کے سپرد ہو گیا‪ ،‬اس‬ ‫اس نے بجز اسالم کے حقوق کے اپنا خون اور مال محفوظ کر لیا‪ ،‬اور اس کا حساب ہللا‬
‫زکوۃ میں فرق کریں گے ان سے لڑوں گا‪ٰ ،‬‬
‫زکوۃ‬ ‫پر حضرت صدیق رضی ہللا عنہ نے فرمایا‪ :‬بخدا‪ ،‬جو لوگ نماز اور ٰ‬
‫مال کا حق ہے‪ ،‬جو کبھی چھوڑا نہیں جا سکتا‪ ،‬بخدا! اگر وہ مجھے ایک رسی دینے سے انکار کریں گے‪ ،‬جو‬
‫ٓانحضرتﷺ کے زمانہ میں ادا کیا کرتے تھے‪ ،‬تو میں اس کے روکنے پر بھی ان سے لڑوں گا‪ ،‬حضرت عمر‬
‫رضی ہللا عنہ نے کہا خدا کی قسم! یہ سن کر میں مطمئن ہو گیا‪ ،‬اور مجھے یقین ٓا گیا‪ ،‬کہ یہی بات حق ہے‪ ،‬اور اس‬
‫ٰ‬
‫تعالی نے حضرت ابو بکر رضی ہللا عنہ کا سینہ کھول دیا ہے۔ (بخاری شریف)‬ ‫کے لیے ہللا‬
‫ٰ‬
‫معنی‪:‬‬ ‫ٰ‬
‫زکوۃ کا‬
‫لغت میں ٰ‬
‫زکوۃ کا لفظ دو معنوں میں استعمال ہوتا ہے‪ ،‬بڑھنا‪ ،‬اور پاک و صاف ہونا‪ ،‬سال گزرنے کے بعد جو حصہ‬
‫بطور وجوب اور فرض ادا کیا اجتا ہے‪ ،‬ان ہی دو معنوں کے پیش نظر اسے ٰ‬
‫زکوۃ کہا جاتا ہے‪ ،‬کیونکہ اس سے دینے‬
‫والے کی نیکیاں بڑھتی ہیں‪ ،‬اور اس کے مال میں برکت ہوتی ہے‪ ،‬نیز ہو خود گناہ و رزیلہ بخل سے اور اس کا مال‬
‫ٰ‬
‫تعالی فرماتا ہے‪:‬‬ ‫غرباء و مساکین کا حق نکل جانے کی بنا پر خبث و حرام سے پاک و صاف ہو جاتا ہے‪ ،‬چنانہ ہللا‬
‫صدَ َقة ُت َط ِّہ ُرہُ ْم َو ُت َز ِّکی ِْہ ْم ِب َہا} (التوبۃ‪)۱۰۳:‬‬ ‫{ ُخ ْذ مِنْ اَ َ‬
‫مْوال ِِہ ْم َ‬
‫’’اے نبی! ٰ‬
‫زکوۃ لے کر ان کے جان و مال کا تزکیہ کرو‪ ،‬اور ان کو پاک وصاف بنا دو۔‘‘‬
‫ٓانحضرتﷺ نے فرمایا ہے‪:‬‬
‫الز ٰکوة ِااَّل لِی َ‬ ‫ہّٰللا‬
‫مْوا َلکُ ْم))‬
‫ِّب َما َبق َِی مِنْ اَ َ‬
‫ُطی َ‬ ‫ض َّ‬‫((اِنَّ ِ َلنْ َی ْف ِر ِ‬
‫تعالی نے تمہارے باقی ماندہ مال کو پاک و صاف کرنے کے لیے تم پر ٰ‬
‫زکوۃ فرض کی ہے۔‘‘‬ ‫ٰ‬ ‫’’ہللا‬
‫اور ایک حدیث میں ٓایا ہے‪:‬‬
‫الز ٰکوة َمااًل َق ُّط ِااَّل اَھْ َلکَ ْتہُ۔ َر َواہُ‬ ‫ہّٰللا‬ ‫ہّٰللا‬ ‫((عنْ َعاِئ َشة رضی ہّٰللا عنه َقا َل ْ‬
‫ت َّ‬‫صلَّی ُ َع َلیْه َو َسلَّ َم َیقُ ْو ُل َما َخا َل َط ِ‬ ‫ت َرس ُْو َل ِ َ‬ ‫ت َسمِعْ ُ‬ ‫َ‬
‫ٰ‬
‫))‪( ‬مشکوۃ)‬ ‫صدَ َقة َفاَل ُت ْخ ِر ُج َہا َف ُی ْھلِکُ ْال َح َرا ُم ْال َحاَل َل‬ ‫ب َع َل ْیکَ َ‬ ‫ال َّشا ِفعِیُّ فِیْ َت ِ‬
‫ار ْیحِه َو َق َل َیک ُْونُ َق ْد َو َج َ‬
‫ٰ‬
‫’’زکوۃ کسی مال میں بھی مخلوط نہیں ہوتی‪ ،‬مگر اسے ہالک کر ڈالتی ہے‪ ،‬امام بخاری رحمۃ ہللا علیہ نے اس کا‬
‫مطلب یہ بتایا ہے کہ وجاب ہو جانے کے بعد جس مال سے تم ٰ‬
‫زکوۃ نہیں نکالتے‪ ،‬اس میں حرام کی ٓامیزش ہو جاتی‬
‫ہے‪ ،‬جو کسی وقت بھی حالل مال کو لے ڈوبے گی۔‘‘‬
‫زکوۃ نہ دینے سے مال ناپاک ہو جاتا ہے‬ ‫ٰ‬
‫تعالی اور اس کے رسول پاک کے کالم سے معلوم ہوا کہ وجوب کے بعد ٰ‬ ‫ہللا‬
‫اور حرام سے مخلوط مال کا نتیجہ زود یا بدری ہالکت ہے‪ ،‬اور ٰ‬
‫زکوۃ دینے سے نہ صرف مال پاک و صاف ہو جاتا‬
‫ٰ‬
‫تعالی کی طر ف سے برکت کا نزول شروع ہو جاتا ہے۔‬ ‫ہے‪ ،‬بلکہ معنوی طور پر اس میں ہللا‬
‫فرضی و نفلی صدقہ دینے سے مال میں برکت‪:‬‬
‫جو شخص خدا اور رسولﷺ کے حکم کے مطابق اپنے مال سے غرباء و مساکین کا حق نکال دیتا ہے‪ ،‬عام اس‬
‫سے کہ وہ حق فرض ٰ‬
‫زکوۃ کی شکل میں ہو‪ ،‬یا نفلی صدقہ و خیرات کی صورت میں اس کے مال میں برکت اور‬
‫ترقی ہوتی ہے‪ ،‬صبح و شام مالئکہ اس کے مال میں زیادتی کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں‪ ،‬جو کبھی رائیگاں نہیں‬
‫تعالی نے قرٓان میں اس ترقی کا وعدہ فرمایا ہے‪ ،‬اور ٓانحضرتﷺ نے بھی متعدد احادیث میں اس کو‬
‫ٰ‬ ‫جاتی‪ ،‬ہللا‬
‫دہرایا ہے‪ ،‬قرٓان حکیم میں ہے‪:‬‬
‫مْح ُق ہّٰللا ُ الرِّ ٰبو َویُرْ ِبی الصَّدَ َقاتِ}‪( ‬بقرۃ)‬
‫(‪َ { )۱‬ی َ‬
‫ٰ‬
‫تعالی سود کو مٹاتا ہے اور صڈقات و خیرات کو بڑھاتا ہے۔‘‘‬ ‫’’ہللا‬
‫(‪ )۲‬سورت روم میں اس کی مزید وضاحت یوں فرمائی ہے‪:‬‬
‫ک ہُ ُم‬ ‫{و مٓا ٰا َت ْی ُتم مِّنْ رِّ بًالِّیرْ بُو ْا ف ِْٓی اَمْوال ال َّناس َفاَل یرْ ب ُْوا عِ ْندَ ہّٰللا ومٓا ٰا َت ْی ُتم مِّنْ َز ٰکوة ُتر ْی ُد ْون وجْ ه ہّٰللا َفا ُ ٰ ٓ‬
‫ولِئ َ‬ ‫ِ‬ ‫َ َ‬ ‫ِ‬ ‫ْ‬ ‫ِ َ َ‬ ‫َ‬ ‫ِ‬ ‫َ ِ‬ ‫َ َ‬ ‫ْ‬ ‫َ َ‬
‫ْالمُضْ ِعفُ ْو َن}‪( ‬روم‪)۳۹:‬‬
‫ٰ‬
‫تعالی کے نزدیک اس سے زیادتی نہیں‬ ‫’’اور لوگوں کے مال میں زیادتی کرنے کے لیے جو سود تم دیتے ہو‪ ،‬ہللا‬
‫زکوۃ دیتے ہو‪ ،‬تو ایسے لوگ کئی گنا مال اور کئی‬ ‫ٰ‬
‫تعالی کی رضا مندی حاصل کرنے کے لیے تم جو ٰ‬ ‫ہوتی‪ ،‬ہاں ہللا‬
‫گنا اجر و ثواب کے مستحق ہیں۔‘‘‬
‫ت َسب َْع َس َن ِاب َل فِیْ ُک ِّل ُس ْن ُب َلة ِّماَئ ة َحبَّة َو ہّٰللا ُ ی ٰ‬
‫ُضعِفُ لِ َمنْ َّی َشٓاُئ َو‬ ‫مْوا َل ُہ ْم فِیْ َس ِبی ِْل ہّٰللا ِ َک َم َث ِل َحبَّة اَ ْن َب َت ْ‬
‫(‪َ { )۳‬م َث ُل الَّ ِذی َْن ُی ْن ِفقُ ْو َن اَ َ‬
‫ہّٰللا ُ َواسِ ٌع َعلِ ْی ٌم}‪( ‬البقرۃ‪)۲۶۱:‬‬
‫ٰ‬
‫تعالی کی را ہ میں خرچ کرتے ہیں‪ ،‬ان کی مثال ایسی ہے‪ ،‬جیسے ایک دانہ بویا جائے‪ ،‬جس‬ ‫’’جو لوگ اپنے مال ہللا‬
‫ٰ‬
‫تعالی جس کے‬ ‫سے سات بالیں نکلیں اور ہر بال میں سو دانے ہوں‪(،‬ایک دانہ سے سات سو دانے پیدا ہوئے اور ہللا‬
‫ٰ‬
‫تعالی وسعت اور علم واال ہے۔‘‘‬ ‫مال کو چاہتا ہے‪ ،‬اس سے بھی کئی گناہ زیادہ کر دیتا ہے‪ ،‬اور ہللا‬
‫حدیث پاک میں ٓایا ہے‪:‬‬
‫(‪ )۱‬حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ کا بیان ہے‪ ،‬کہ ٓانحضرتﷺ نے فرمایا‪ :‬ایک دفعہ ایک ٓادمی بیابان جنگل سے‬
‫گزر رہا تھا‪ ،‬اس نے بادل سے ٓاواز سنی‪ :‬فالں شخص کے باغ کو پانی دو‪ ،‬ادھر دیکھتا ہے کہ بادل ایک طرف ہٹ‬
‫گیا‪ ،‬اور کھلے میدان میں برسنے لگا‪ ،‬وہ وہاں پہنچا تو دیکھا کہ اس میدان کی تمام چھوٹی موٹی ندی نالوں کا پانی‬
‫جمع ہو کر ایک بڑے نالے میں بہنے لگا ہے‪ ،‬وہ بھی اس پانی کے پیچھے ہو لیا‪ٓ ،‬اگے چل کر ایک باغ ٓایا‪ ،‬اس نے‬
‫دیکھا کہ باغ کا مالک اپنے کھیتوں کو پانی دے رہا ہے‪ ،‬ایک کھیت بھر جاتا ہے‪ ،‬تو پانی دوسرے کھیت کی طرف کر‬
‫دیتا ہے‪ ،‬مسافر نے اس سے پوچھا‪ ،‬بھائی باغ والے تمہارا نام کیا ہے؟ اس نے وہی نام بتایا جو مسافر نے بادل سے‬
‫سنا تھا ‪ ،‬پھر باغ واال بوال‪ ،‬ہللا کے بندے‪ٓ ،‬اپ نے میرا نام کیوں پوچھا ہے‪ ،‬مسافر نے کہا‪ ،‬جس بادل کا یہ پانی ٓارہا‬
‫ہے‪ ،‬اس سے میں نے سنا‪ ،‬کہ کوئی تمہارا نام لے کر کہہ رہا ہے‪’’ :‬فالں ٓادمی کے باغ کو پانی دو۔‘‘ اب بتائیے‪ٓ ،‬اپ‬
‫اس میں کیا عمل کرتے ہیں‪ ،‬کہ اس کو پانی دینے کے لیے بادلوں کو حکم مل رہا ہے‪ ،‬باغ کے مالک نے کہا‪ ،‬جب‬
‫ٓاپ نے پوچھ ہی لیا ہے‪ ،‬تو سنئیے! میں اس کی پیداوار کو تین برابر حصوں میں تقسیم کرتا ہوں‪ ،‬ایک حصہ سائلین‪،‬‬
‫مسافروں اور مسکینوں میں خرچ کرتا ہوں‪ ،‬ایک حصہ سے اپنا اور اپنے بال بچوں کا پیٹ پالتا ہوں‪ ،‬تیسرا حصہ اس‬
‫ٰ‬
‫(مشکوۃ از صحیح مسلم)‬ ‫باغ کی اصالح اور دیکھ بھال میں لگا دیتا ہوں۔‬
‫(‪ )۲‬حضرت انس رضی ہللا عنہ سے روایت ہے کہ بنو تمیم کے ایک ٓادمی نے ٓانحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضر‬
‫ہو کر کہا‪ :‬یا رسول ہللا میں مالدار ہوں‪ ،‬اہل و عیال بھی رکھتا ہوں‪ ،‬اور میرے گھر میں مہمانوں کی ٓامدورفت بھی‬
‫اکثر رہتی ہے‪ ،‬فرمائیے میں اپنا مال کس طرح خرچ کروں‪ ،‬اور اس میں کیا طریقہ اختیار کروں ٓاپ نے فرمایا‪ :‬اپنے‬
‫مال کی ٰ‬
‫زکوۃ ادا کرو‪ ،‬یہ تمہارے مال کو خبث و ناپاکی سے اور تمہیں بخل اور گناہوں سے پاک کر دے گی‪ ،‬اس کے‬
‫عالوہ اپنے رشتہ داروں سے صلہ رحمی کرو‪ ،‬سائلین‪ ،‬ہمسایوں اور مسکینوں کے حقوق کی نگاہ داشت رکھو‪ ،‬وہ‬
‫بوال یا رسول ہللا! ذرا مختصر بیان فرمائیے‪ٓ ،‬اپ نے فرمایا‪:‬‬
‫ت َذا ْالقُرْ ٰبی َح َّقه َو ْالمِسْ کِی َْن َواب َْن الس َِّبی ِْل َواَل ُت َب ِّذرْ َت ْب ِذیْرً ا}‪( ‬االسرائیل)‬
‫{ َف ٰا ِ‬
‫(‪ )۳‬حضرت ابو کبشہ روایت کرتے ہیں کہ ٓانحضرتﷺ نے فرمایا ‪ :‬میں تین چیزوںپر قسم کھاتا ہوں انہیں یاد رکھو‬
‫‪ ،‬ایک یہ کہ صدقہ کرنے سے کبھی مال میں کمی نہیں ٓاتی‪ ،‬تیسرے یہ کہ جو شخص اپنے اوپر سوال کا دروازہ‬
‫ٰ‬
‫تعالی اس پر تنگ دستی اور محتاجی کا دروازہ کھول دیتا ہے۔ (ترمذی)‬ ‫کھولتا ہے‪ ،‬ہللا‬
‫(‪ )۴‬حضرت ابو درداء سے روایت ہے کہ ٓانحضرتﷺ نے فرمایا‪ :‬جب سورج طلوع ہوتا ہے تو اس کے دائیں بائیں‬
‫دو فرشتے ہوتے ہیں‪ ،‬وہ منادی کرتے ہیں‪ ،‬جسے جنوں اور انسانوں کے بغیر تمام اہل زمین سنتے ہیں‪ ،‬اے لوگو!‬
‫اپنے رب کی طرف ٓائو (اپنے فالتو مال اس کی راہ میں خرچ کرو‪ٰ ،‬‬
‫زکوۃ و خیرات کے بعد) جو تھوڑا بہت بچ جائے‪،‬‬
‫ٰ‬
‫تعالی کی‬ ‫اور صاحب مال کی ضرورت پورا کرنے کے لیے کافی ہو‪ ،‬وہ اس کثیر سرمائے سے بہتر ہے جو ہللا‬
‫طرف رجوع ہونے اور نیکیوں میں صرف کرنے سے غافل کر دے‪ ،‬اسی طرح جب سورج غروب ہوتا ہے‪ ،‬تو اس‬
‫کے ساتھ دائیں بائیں دو فرشتے منادی کرتے ہیں‪ ،‬جسے جنوں اور انسانوں کے بغیر تمام اہل زمین سنتے ہیں۔‬
‫((اَل ٰلّ ُھ َّم اعْ طِ ُم ْن ِف ًقا َخ َل ًفا َواعظِ مُمْسِ کًا َمااًل َت َل ًفا)) (مسند احمد و ابن حبان و ھاکم‪ ،‬بحوالہ تہویب المسند‪ :‬ص‪)۸/۱۸۵‬‬
‫’’یعنی اے ہللا! اپنی راہ میں خرچ کرنے والے کو خلیفہ (ثواب اور مال دے) اور بخل کی بنا پر مال بند رکھنے والے‬
‫کو ضائع کر۔‘‘‬
‫ٰ‬
‫تعالی صدقات قبول فرماتا ہے‪ ،‬اور ان کو دائیں ہاتھ‬ ‫(‪ )۵‬حضرت ابو ہریرہ کہتے ہیں ‪ٓ ،‬انحضرتﷺ نے فرمایا‪ :‬ہللا‬
‫میں لے کر اس طرح بڑھاتا ہے‪ ،‬جس طرح تم اپنے بچھرے یا اونٹ کے بچے کو پالتے ہو (جو تھوڑے عرصہ کے‬
‫بعد ایک تنومند اور قوی ہیکل گھوڑا یا اونٹ بنا جاتا ہے‪ ،‬اسی طرح ایک حقیر لقمہ احد پہاڑ جتنا بڑا ہو جاتا ہے‪ ،‬امام‬
‫وکیع کہتے ہیں‪ ،‬اس کی تصدیق قرٓان کیرم میں موجود ہے‪ ،‬جو یہ ہے‪:‬‬
‫مْح ُق ہّٰللا ُ الرِّ ٰبوا َویُرْ ِبی الصَّدَ َقاتِ))‪( ‬تبویب المسند بحوالہ مسند احمد و‬ ‫((وھ َُو الَّذِیْ َی ْق َب ُل ال َّت ْو َبة َعنْ عِ َبادِہٖ َو َیٔا ُخ ُذ الصَّدَ َقا ِ‬
‫ت َو َی َ‬ ‫َ‬
‫ترمذی)‬
‫ٰ‬
‫تعالی سود کو‬ ‫ٰ‬
‫تعالی ہی ہے جو اپنے بندوں کی توبہ قبول فرماتا ہے‪ ،‬اور ان کے صدقات کو پکڑتا ہے‪ ،‬اور ہللا‬ ‫’’ہللا‬
‫مٹاتا ہے‪ ،‬اور صدقات کو بڑھاتا ہے۔‘‘‬
‫(‪ )۶‬حضرت عائشہ رضی ہللا عنہا کا بیان ہے کہ ٓانحضرتﷺ نے فرمایا‪ :‬جب کوئی مومن حالل مال سے صدقہ‬
‫ٰ‬
‫تعالی حالل مال ہی کو قبول فرماتا ہے‪ ،‬اور حالل مال ہی ٓاسمان پر پہنچ کر شرف پذیرائی حاصل‬ ‫کرتا ہے‪ ،‬اور ہللا‬
‫ٰ‬
‫تعالی اس کو اپنے ہاتھ میں لے لیتا ہے‪ ،‬اور اس کو اس طرح بڑھاتا ہے‪ ،‬جس طرح تم اپنے بچھپرے‬ ‫کرتا ہے‪ ،‬تو ہللا‬
‫اونٹ کے بچے کو پالتے ہو‪ ،‬حتی کہ ایک کھجور ایک پہاڑ جنتی بڑی ہو جاتی ہے۔ (صحیحین)‬
‫چند مبادیات‬
‫ٰ‬
‫تعالی کی مالی عبادت ہے‪ ،‬اور اسالم کا ایک اہم رکن لیکن واقعاتی اعتبار سے دیکھا جائے‪ ،‬تو اس کو‬ ‫ٰ‬
‫زکوۃ حقیق ًۃ ہللا‬
‫اجتماعی زندگی میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت حاصل ہے‪ ،‬اور ظاہر ہے کہ کوئی قوم مالی استحکام کے بغیر متمدن‬
‫اور ترقی یافتہ کہالنے کی مستحق نہیں ہے‪ٰ ،‬لہذا تفصیالت اور احکام بیان کرنے سے پہلے چند مبادی کا ذکر مناسب‬
‫معلوم ہوتا ہے‪ ،‬جن کے ذہن نشین کرنے سے بصیرت پیدا ہو گی‪ ،‬اور ٓایندہ بیان ہونے والے مسائل کے سمجھنے میں‬
‫مدد ملے گی۔‬
‫اوالً‪ …:‬شریعت اسالمیہ نے مندرجہ ذیل چار قسم کے مال میں ٰ‬
‫زکوۃ فرض کی ہے‪ ،‬جن کے ساتھ انسانی ضروریات‬
‫وابستہ ہیں‪ ،‬اور زندگی میں ہر ٓادمی ان کا محتاج ہے۔‬
‫‪۱‬۔‪    ‬بہائم‪ ،‬چوپائے‪ ،‬جانور‪ ،‬اونٹ‪ ،‬گائے‪ ،‬بکری وغیرہ۔‬
‫‪۲‬۔‪    ‬سونا‪ ،‬چاندی‪ ،‬نقود و زیورات وغیرہ‬
‫‪۳‬۔‪    ‬ہر قسم کا تجارتی مال‪ ،‬جس میں تجارت کی شرعا ً اجازت ہے۔‬
‫‪۴‬۔‪    ‬زمین سے پیدا ہونے والی چیزیں‪ ،‬اجناس خوردنی پھل اور تیل نکالنے کے بیچ۔‬
‫ثانیاً‪ …:‬چونکہ شریعت نے ٰ‬
‫زکوۃ مالداروں پر فرض کی ہے‪ ،‬تاکہ ان کے مال کا کچھ حصہ ہر سال غرباء و مساکین‬
‫کی ضروریات پر صرف کیا جا سکے‪ٰ ،‬لہذا ہر قسم کے مال ٰ‬
‫زکوۃ کا نصاب مقرر کر دیا گیا ہے‪ ،‬اس سے پتہ چلتا ہے‬
‫کہ جو شخص کسی قسم کے نصاب کا مالک ہے‪ ،‬وہ غنی ہے‪ ،‬اور اس پر اپنے مال کی ٰ‬
‫زکوۃ دینا فرض ہے‪ ،‬اور جس‬
‫کے پاس کوئی بھی نصاب نہیں‪ ،‬وہ فقیر ہے‪ ،‬اور مصرف ٰ‬
‫زکوۃ ہے۔‬
‫مذکورہ باال چار قسم کے مال کے نصاب کی تفصیل یہ ہے۔‬
‫‪۱‬۔‪    ‬اونٹ کے لیے پانچ اونٹ‪ ،‬گائے کے لیے تیس گائے‪ ،‬بھیڑ‪ ،‬بکری اور دنبہ کے لیے چالیس بکریاں جسامت اور‬
‫حجم کے اختالف کی بنا پر ان جانوروں کے نصاب میں بھی اختالف ہے۔‬
‫‪۲‬۔‪     ‬چاندی کے لیے ‪ ۲۰۰‬درہم (تقریبا ً ‪ ۲/۱.۵۲‬تولہ)‬
‫‪۳‬۔‪    ‬مال تجارت کی قیمت جس نقدی سے لگائی جائے‪ ،‬اس کا نصاب اسی نقدی کا نصاب ہے‪ ،‬اگر اس کی قیمت دراہم‬
‫سے لگائی جائے‪ ،‬تو نصاب ‪ ۲۰۰‬درہم ہے‪ ،‬اور اگر دینار سے نکالی جائے تو نصاب ‪ ۲۰‬دینار ہے۔‬
‫‪۴‬۔‪    ‬زمین سے پیدا ہونے والے غلہ کا نصاب ‪ ۵‬دستی ہے جس کا وزن تقریبا ً ‪ ۲۰‬من ہے۔‬
‫ثالثاً‪ …:‬شریعت مطہرہ نے ٰ‬
‫زکوۃ ادا کرنے کے لیے ایک سال کی مدت مقرر کی ہے‪ ،‬اور اس میں اغنیاء اور غرباء و‬
‫مساکین دونوں کی مصلحتوں کو ملحوظ رکھا گیا ہے اگر یہ مدت مثالً ایک ہفتہ یا ایک مہینہ مقرر کی جاتی‪ ،‬تو اس‬
‫صورت میں مالداروں پر ناقابل برداشت بوجھ پڑتا‪ ،‬اور اگر حج کی طرح ٰ‬
‫زکوۃ عمر میں صرف ایک دفعہ فرض کی‬
‫جاتی‪ ،‬تو غرباء و مساکین کے لیے جسم و جان کا رشتہ قائم رکھنا مشکل ہو جاتا۔‬
‫ملحوظہ‪:‬‬
‫یاد رہے‪ ،‬سال کی مدت کا اطالق زمین سے نکلنے والی اشیاء کے عالوہ باقی تین قسم کے اموال پر ہوتا ہے‪ ،‬زمین‬
‫سے پیدا ہونے والے غلہ یا زمین سے نکلنے والی معدنیات (سونا‪ ،‬چاندی‪ ،‬لوہا‪ ،‬تانبہ‪ ،‬قلعی‪ ،‬کوئلہ اور نمک وغیرہ) یا‬
‫دفینہ کی ٰ‬
‫زکوۃ اسی وقت دینی پڑتی ہے‪ ،‬جب یہ چیزیں حاصل ہوں‪ ،‬ان میں سال کی شرط نہیں۔‬
‫رابعاً‪ٰ …:‬‬
‫زکوۃ شرعی کی مقدار میں کمی بیشی‪ ،‬مال کی تحصیل میں سہولت اور مشقت پر مبنی ہے‪ ،‬جس مال کے‬
‫حصول میں بٓاسانی اور سہولت پائی جاتی ہے‪ ،‬اس میں مقدار ٰ‬
‫زکوۃ زیادہ ہے اور جس کے حصول میں مشقت اور‬
‫تکلیف اٹھانا پڑتی ہے‪ ،‬اس میں ٰ‬
‫زکوۃ کی مقدار کم ہے‪ ،‬جیسے کسی کو کنواں یا گڑھا کھودتے وقت دفینہ مل جائے‪،‬‬
‫تو اسے یہ مال مفت میں مل گیا ہے‪ ،‬کوئی تکلیف نہیں اٹھانا پڑی‪ ،‬اس لیے دفینہ پانے والے کو کل مال کا پانچواں‬
‫حصہ (‪ )%۲۰‬دینا پڑتا ہے‪ ،‬کھیتی باڑی میں چونکہ مشقت زیادہ کرنی پڑتی ہے‪ٰ ،‬لہذا اس کی پیدوار میں مقدار ٰ‬
‫زکوۃ‬
‫پانچویں حصہ سے کم کر کے دسواں حصہ (‪ )%۱۰‬مقرر کر دی گئی ہے‪ ،‬بشرطیکہ کھیتی بارش یا چشمہ کے پانی‬
‫سے تیار ہوئی ہو‪ ،‬اور اگر کھیتی تیار کرنے کے لیے ٹیوب ویل یا رہٹ وغیرہ مصنوعی ٓاالت کے ذریعہ ٓابپاشی کی‬
‫گئی ہے‪ ،‬تو مقدار ٰ‬
‫زکوۃ دسویں حصہ سے بھی کم ہو کر بیسواں حصہ (‪ )%۵‬رہ جاتی ہے۔‬
‫مال تجارت کے حصول میں ان تمام مذکورہ صورتوں میں زیادہ مشقت اٹھانا پڑتی ہے‪ ،‬مال خریدنے یا بیچنے کے‬
‫لیے مختلف شہروں اور ملکوں کا سفر کرنا پڑتا ہے‪ ،‬جس سے دین کا چین اور رات کی نیند حرام ہو جاتی ہے‪،‬‬
‫خسارے‪ ،‬سرقہ اور ڈاکے وغیرہ کا خطرہ اس کے عالوہ ہے‪ ،‬نیز تاجر کی یہ دوڑ دھوپ مسلسل او رمتواتر جاری‬
‫مصئب کے پیش نظر تاجر کے مال میں ٰ‬
‫زکوۃ بیسویں‬ ‫رہتی ہے‪ ،‬اسے ٓارام کا وقفہ کم ہی ملتا ہے‪ٰ ،‬لہذا ان تمام ٓاالم و ٓ‬
‫حصہ سے گھٹا کر چالیسواں حصہ (‪ )%۲/۱.۲‬حصہ فرض کی گئی ہے۔‬
‫احکام ٰ‬
‫زکوۃ کی تفصیل‪:‬‬
‫ان مبادی کے ذہن نشین کر لینے کے بعد اب مذکورہ باال چار قسم کے اموال کی ٰ‬
‫زکوۃ سے متعلق مختصر تفصیلی‬
‫احکام ترتیب وار مالحظہ فرمائیے۔‬
‫ا۔بہائم‪:‬‬
‫ٓانحضرتﷺ نے حاجت مندوں کی ضرورتوں کو رفع کرنے‪ ،‬اور اسالم کا معاشی نظام مضبوط بنانے کے لیے‬
‫جہاں سونے چاندی کے مالکوں‪ ،‬زراعت پیشہ لوگوں اور تجارتی کاروبار کرنے والوں کے مال میں ٰ‬
‫زکوۃ فرض کی‬
‫ہے‪ ،‬وہاں مویشیوں کے ریوڑ پالنے والوں کو بھی فراموش نہیں کیا‪ ،‬ان کے مال میں بھی ٰ‬
‫زکوۃ فرض کی ہے‪ ،‬کیونکہ‬
‫یہ ریوڑ ان لوگوں کی خوشحالی اور دولت مندی کا بہت بڑا ذریعہ ہیں‪ ،‬یہ لوگ دودھ‪ ،‬گھی‪ ،‬اون‪ ،‬چمڑے اور فالتوں‬
‫جانور بیچ کر ہر سال الکھوں روپے کماتے ہیں‪ ،‬اور بڑی فارغ البالی کی زندگی بسر کرتے ہیں‪ٰ ،‬لہذا دوسرے لوگوں‬
‫ٰ‬
‫مستثنی نہیں ہو سکتے۔‬ ‫کی طرح یہ بھی ٰ‬
‫زکوۃ سے کسی صورت‬
‫مویشیوں میں ٰ‬
‫زکوۃ فرض ہونے کی شرطیں‪:‬‬
‫زکوۃ فرض ہونے کی دو شرطیں ہیں‪ ،‬یہ دونوں پائی جائیں‪ ،‬تو ٰ‬
‫زکوۃ فرض ہو گی‪ ،‬ورنہ‬ ‫ہر قسم کے مویشیوں میں ٰ‬
‫نہیں‪ ،‬پہلی شرط یہ ہے‪ ،‬کہ نصاب کو پہنچنے کے بعد ان پر ایک سا گزر جائے‪ ،‬دوسری یہ کہ ان کی زندگی اور بقا‬
‫کا انحصار سارا سال یا سال کا بیشتر حصہ وادیوں‪ ،‬جنگلوں اور پہاڑوں میں خود رو گھاس چرنے پر ہو‪ ،‬اگر کچھ دن‬
‫یا نصف سال سے کم عرصہ کے لیے گھر پر چارہ ڈاال جائے‪ ،‬تو ٰ‬
‫زکوۃ کی فرضیت میں کوئی فرق نہیں ٓائے گا‪ ،‬ہاں‬
‫اگر سال بھر یا سال کا بیشتر حصہ گھر پر چارہ ڈاال جائے‪ ،‬یا مالک نے ان (بیلوں یا اونٹوں کی صورت میں) زرعی‬
‫کاروبار یا بوجھ برداری کے لیے رکھا ہوا ہے‪ ،‬تو ان میں ٰ‬
‫زکوۃ فرض نہیں ہو گی۔‬
‫بعض ائمہ پورا سال جنگل میں چرنے کی شرط لگاتے ہیں‪ ،‬ان کے نزدیک اگر چند دن بھی اگر پر چارہ ڈاال گیا‪ ،‬تو‬
‫زکوۃ فرض نہیں ہو گی‪ ،‬مگر یہ مسلک صحیح نہیں اس سے ٰ‬
‫زکوۃ سے گریز کرنے والے بڑی ٓاسانی کے ساتھ خیلہ‬ ‫ٰ‬
‫سازی کریں گے‪ ،‬اور اپنے جانوروں کو چند دن گھر میں چارہ ڈال کر ٰ‬
‫زکوۃ کے بارے سبکدوش ہو جائیں گے۔‬
‫مویشیوں سے ٰ‬
‫زکوۃ نہ دینے پر وعید‪:‬‬
‫دوسرے اموال کی طرح ٓانحضرتﷺ نے مویشیوں میں بھی ٰ‬
‫زکوۃ فرض کی ہے‪ ،‬اور اس پر تمام امت کا اجماع‬
‫ٰ‬
‫مشکوۃ شریف میں ہے‪:‬‬ ‫ہے‪ ،‬ان سے ٰ‬
‫زکوۃ نہ دینے والے کے حق میں حدیث پاک میں سخت وعید ٓائی ہے۔‬
‫ال َّن ِبیُّ ﷺ َق َل َما مِنْ رَّ ج ٍُل َّیک ُْونُ َله ا ِِب ٌل اَ ْو َب َق ٌر اَ ْو َغ َن ٌم اَل ُیَٔو ِّدیْ َح ْق َہا ِااَّل اُت َِی ِب َھا َی ْو َم ْال ِق َیا َمة اَعْ َظ َم َما‬ ‫((عنْ اَ ِبیْ ذِرٍّ َع ِن‬‫َ‬
‫اس))‪( ‬صحیحین)‬ ‫ضی َبی َْن ال َّن ِ‬ ‫ت َع َلیْه ا ُ ْو ٰل َھا َح ّتی ُی ْق ٰ‬
‫ت ا ُ ْخ ٰر َھا ُر َّد ْ‬ ‫ِبا َ ْخ َفا ِف َھا َو َت ْن َطھُه ِبقُر ُْو ِن َھا ُکلَّ َھا َج َ‬
‫از ُ‬ ‫َیک ُْونُ َواَسْ َم َنه َتطُٔاہٗ‬
‫’’حضرت ابو ذر رضی ہللا عنہ کہتے ہیں کہ ٓانحضرتﷺ نے فرمایا‪ :‬اونٹ‪ ،‬گائے یا بکریوں کا مالک اگر ان کی‬
‫ٰ‬
‫زکوۃ ادا نہیں کرے گا‪ ،‬تو قیامت کے دن یہ جانور دنیا کی نسبت زیادہ قد ٓاور اور زیادہ فربہ اس کے سامنے الئے‬
‫جائیں گے‪ ،‬وہ اس کو سینگوں سے مارتے ہوئے‪،‬ا ورپیروں تلے کچلتے ہوئے گذریں گے‪ ،‬جب ٓاخر والے ختم ہو‬
‫جائیں گے‪ ،‬تو پہلے پھر اسی طرح گذرنا شروع ہو جائیں گے‪ ،‬اور لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک اس کا یہی‬
‫حال ہوتا رہے گا۔‘‘‬
‫(مشکوۃ)‬ ‫ٰ‬ ‫ایک دوسری حدیث میں‪،‬جو حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ سے روایت ہے‪ ،‬اس کی زیادہ تفصیل ہے۔‬
‫ان َی ْو َم ْال ِق َیا َمة بُطِ َح َله‬ ‫ہّٰللا‬
‫صاحِبُ ا ِِب ًل اَل ُیَٔو ِّدیْ ِم ْن َھا َح َّق َہا َومِنْ َح َّق َہا َح ْل ُب َھا َی ْو َم َو ْز ِد َھا ِااَّل ا َِذا َک َ‬ ‫(( ِق ْی َل َیا َرس ُْو ُل ِ َفااْل ِ ِب ُل َق َل َواَل َ‬
‫ت اَل َی ْف ِق ُد ِم ْن َھا َنصِ ْیاًل َوا ِح ًدا َت َطُٔو ہٗ ِبا َ ْخ َفا ِف َھا َو َت َعضَّه ِبا َ ْف َوا ِھ َِھا ُکلَّ َما َمرَّ َع َلیْه ا ُ ْولة َھا َر َّد َع َلیْه فِیْ َی ْو ٍم َک َ‬
‫ان‬ ‫ِب َق ٍع َقرْ َق ٍر اَ ْو َن َر َما َکا َن ْ‬
‫ار ِق ْی َل َیا َرس ُْو َل ہّٰللا ِ َف ْال َب َق ُر َو ْال َغ َن ُم َف َقا َل‬ ‫ٰ‬
‫ف َس َنة َح ّتی ُی ْقضیی َبی َْن ْال ِع َبا ِد َفی َُری َس ِب ْیلُه ِامَّا ِا َلی ْال َج َّنة َو ِامَّا ِا َلی ال َّن ِ‬ ‫ِم ْقدَ ارُہٗ َخمْسِ ی َْن اَ ْل َ‬
‫اع َقرْ َق ٍر اَل َی ْف ِق ُد ِم ْن َھا ُکلَّ َھا َمرَّ َع َلیْه ا ُ ْو ٰل َہا ُر َّد‬ ‫ْ‬ ‫صاحِبُ َب َق ٍر َواَل َغ َن ٍم اَل ُیَٔو ِّدیْ ِم ْن َھا َح َّق َہا ِااَّل ا َِذا َک َ‬
‫ان َی ْو َم ال ِق َیا َمة بُطِ َح َله ِب َق ٍ‬ ‫َواَل َ‬
‫ار))‪( ‬راوہ‬ ‫ضی َبی َْن ْال ِع َبا ِد َفی ُٰری َس ِب ْیلُه ِامَّا ِا َلی ْال َج َّنة َو ِامَّا ِا َلی ال َّن ِ‬ ‫ف َس َنة َح ٰ ّتی ُی ْق ٰ‬ ‫ان ِم ْقدَ ارُہٗ َخمْسِ ی َْن اَ ْل َ‬ ‫َع َلیْه ا ُ ْخ ٰر َھا فِیْ َی ْو ٍم َک َ‬
‫مشکوۃ شریف)‬ ‫ٰ‬ ‫مسلم‪،‬‬
‫’’ٓانحضرتﷺ مختلف اموال سے ٰ‬
‫زکوۃ نہ دینے والوں کے متعلق وعید بیان فرما رہے تھے‪ ،‬کسی نے پو چھا یا‬
‫رسول ہللاﷺ! اونٹوں کا کیا حکم ہے؟ ٓاپ نے فرمایا‪ :‬جو مالک اپنے اونٹوں کی ٰ‬
‫زکوۃ ادا نہیں کرے گا‪،‬اور ان کے‬
‫نفلی حقوق میں سے پانی پینے کے دن ان کا دودھ دوھ کر غرباء میں تقسیم کران بھی ایک حق ہے قیامت کے دن‬
‫اسے ان کے سامنے ایک چٹیل میدان میں منہ کے بل لٹادیا جائے گا‪ ،‬اور وہ اونٹ دنیا کی نسبت بہت موٹے تازے ہوں‬
‫گے‪ ،‬ان میں سے ایک بچہ بھی غائب نہیں ہو گا‪ ،‬وہ اسے پیروں تلے روندیں گے‪ ،‬اور دانتوں سے کاٹیں گے‪ ،‬جب‬
‫ایک دفعہ پوری قطار اس پر گذر جائے گی‪ ،‬تو پلٹ کر ٓاخر کی طرف سے پھر اس پر مخالف سمت کو گذرنا شروع‬
‫کر دیں گے‪ ،‬اور لوگوں کے درمیاں فیصلہ ہونے تک پچاس ہزار سال کے دن میں اس کا یہی حشر ہوتا رہے گا‪ ،‬پھر‬
‫معلوم نہیں کہ اس کو جنت کا راستہ دکھایا جائے گا‪ ،‬یا جہنم کا‪ ،‬پھر کسی نے پوچھا‪ ،‬یا رسول ہللا! گائیوں اور بکریوں‬
‫کے متعلق فرمائیے‪ ،‬ان کا کیا حکم ہے؟ ٓاپ نے فرمایا‪ :‬گائیوں اور بکریوں کا مالک بھی اگر ان کی ٰ‬
‫زکوۃ نہیں دے‬
‫گا‪ ،‬تو قیامت کے دن ان کے ٓاگے چٹیل میدان میں منہ کے بل گرا دیا جائے گا‪ ،‬سب گائیں اور بکریاں موجود ہوں گی‬
‫ان میں سے کوئی گائے یا بکری غائب نہیں ہو گی‪ ،‬ان میں کوئی گائے یا بکری خمیدہ سینگوں والی نہیں ہو گی‪ ،‬نہ‬
‫کوئی بغیر سینگوں کے ہو گی‪ ،‬اور نہ کسی کے سینگ ٹوٹے ہوں گے‪ ،‬وہ سب اسے اپنے سینگوں سے ماریں گی‪،‬‬
‫اور کھروں سے نوچیں گی‪ ،‬جب ایک دفعہ پوری قطار اس پر گذر جائے گی‪ ،‬تو پلٹ کر ٓاکر کی طرف سے پھر اس‬
‫پر گذرنا شروع کر دیں گی‪ ،‬لوگوں کے درمیان فیصلہ ہونے تک پچاس ہزار سال کے دن میں اس کا یہی حال ہوتا‬
‫رہے گا‪ ،‬پھر معلوم نہیں کہ اسے جنت کا راستہ دکھایا جاء گا یا جہنم کا۔ ‘‘‬
‫وہ بہائم جن کی ٰ‬
‫زکوۃ لی جاتی ہے‪:‬‬
‫زکوۃ ٓانحضرتﷺ اور ٓاپ کے خلفاء نے وصول کی ہے‪ ،‬اور ٓاج تک اس پر تمام‬
‫جن بہائم (چوپائے جانور) کی ٰ‬
‫مسلمانوں کا عمل ہے تین قسم یہ ہی‪ ،‬اونٹ‪ ،‬گائے‪ ،‬بکری۔‬
‫واضح رہے کہ ٰ‬
‫زکوۃ میں بھینس ‪،‬گائے کی‪ ،‬اور بھیڑ‪ ،‬دنبہ‪ ،‬بکری کی قسم شمار ہوتے ہیں‪ ،‬اس لیے ان کا نصاب اور‬
‫زکوۃ وہی ہے‪ ،‬جو گائے اور بکری کا ہے‪ ،‬اب تینوں قسم کے جانوروں کی ٰ‬
‫زکوۃ درج ذیل جدولوں میں مالحظہ‬ ‫ٰ‬
‫فرمائیے۔‬
‫اونٹ کی ٰ‬
‫زکوۃ کا جدول‬
‫‪ ۵        ‬سے ‪ ۹‬تک‪        ‬ایک بکری‬
‫‪ ۱۰        ‬سے ‪ ۱۴‬تک‪        ‬دو بکری‬
‫‪ ۱۵        ‬سے ‪ ۱۹‬تک‪        ‬تین بکری‬
‫‪ ۲۰        ‬سے ‪ ۲۴‬تک‪        ‬چار(؎‪ )۱‬بکری‬
‫‪ ۲۵        ‬سے ‪ ۳۵‬تک‪        ‬ایک بنت مخاص (ا سال کی اونٹنی)‬
‫‪ ۳۶        ‬سے ‪ ۴۵‬تک‪        ‬ایک بنت لبون (‪ ۲‬سال کی اونٹنی)‬
‫‪ ۴۶        ‬سے ‪ ۶۰‬تک‪        ‬ایک حقہ (‪ ۳‬سال کی اونٹنی)‬
‫‪ ۶۱        ‬سے ‪ ۷۵‬تک‪        ‬ایک جذعہ (‪ ۴‬سال کی اونٹنی)‬
‫‪ ۷۸        ‬سے ‪ ۹۰‬تک‪ ۲        ‬بنت لبون‬
‫‪ ۹۱        ‬سے ‪ ۱۲۰‬تک‪ ۲        ‬حقہ‬
‫(؎‪ )۱‬بکری اگر بھیڑ یا دنبہ کی قسم سے دی جائے‪ ،‬تو جذعہ (ایک سال کی ) کفایت کر سکتی ہے‪ ،‬اور اگر بکری‬
‫کی قسم سے دی جائے‪ ،‬تو مسنہ( جس کے ساتھ دو دانت ٹوٹ کر ٓاگ چکے ہوں) ضروری ہے‪ ،‬نیز مادہ لی جائے‬
‫گی‪ ،‬نر قبول نہیں کیا جائے گا۔‪۱۲‬‬
‫‪ ۱۲۰‬کے ٓاگے ہر دس کے بعد کل تعداد چالیس اور پچاس کے دو ہندسوں پر تقسیم ہو جاتی ہے‪ ،‬اسی لیے‬
‫ٓانحضرتﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫ت َع ٰلی مِائة وَّ عِ ْش ِری َْن َففِیْ ُک ِّل اَرْ َب َعی َْن ِب ْن ُ‬
‫ت لُب ُْو ٍن َوفِیْ ُک ِّل َخمْسِ ی َْن ِح َّقة))‬ ‫(( َفاِنْ َزادَ ْ‬
‫’’یعنی اگر اونٹ ‪ ۱۲۰‬سے بڑھ جائیں‪ ،‬تو ہر چالیس میں بنت لبون اور ہر پچاس میں حقہ ہے۔‘‘‬
‫‪ٓ ‬ائندہ بھی یہی حساب ہزاروں الکھوں تک جاری رہے گا‪ ،‬کسی موقعہ پر بھی ابتدائی نصاب کی طرف رجوع نہیں کیا‬
‫جائے گا‪ ،‬جیسا کہ بعض ائمہ کا مذہب ہے‪ ،‬مثالً ‪ ۱۲۰‬پر ‪ ۱۱۰‬اونٹ زیادہ ہوئے‪ ،‬تو ‪ ۱۲۰‬ہو جائیں گے‪ ،‬یہ دو دفعہ‬
‫‪ ،۴۰‬اور ایک دفعہ ‪ ۵۰‬پر تقسیم ہو جاتے ہیں‪ ،‬اس لیے ان میں دو بنت لبون اور ایک حقہ ٰ‬
‫زکوۃ ہو گی‪ ،‬اور ‪ ۱۴۰‬دو‬
‫دفعہ ‪ ،۵۰‬اور ایک دفعہ ‪ ۴۰‬پر تقسیم ہو جاتے ہیں‪ ،‬اس لیے ان میں دو حقے اور ایک بنت لبون دینا ہو گی‪ ،‬اور ‪۱۵۰‬‬
‫تین دفعہ ‪ ۵۰‬پر تقسیم ہو جاتے ہیں‪ٰ ،‬لہذا ان میں تین حقے ہوں گے وعلی ہذا القیاس۔‬
‫نوٹ‪ …:‬اگر ٰ‬
‫زکوۃ میں بنت مخاض (ایک سال کی اونٹنی) ٓاتی ہو‪ ،‬اور وہ مالک کے پاس نہیں ہے‪ ،‬اس کے پاس ابن‬
‫لبون (دو سال کا نر اونٹ) ہے تو وہی لے لیا جائے گا‪ ،‬اور مالک کو کچھ واپس نہیں دیا جائے گا‪ ،‬اور اگر اس کے‬
‫پاس بنت لبون (دو سال کی اونٹنی) ہے تو وہ بھی قبول کر لی جائے گی‪ ،‬مگر اب عامل مالک کو ‪ ۲‬بکریاں یا ان کی‬
‫قیمت واپس کرے گا‪ ،‬اسی طرح اگر ٰ‬
‫زکوۃ میں بنت لبون ٓاتی ہے‪ ،‬اور وہ موجود نہیں‪ ،‬تو اس کی جگہ بنت مخاض‬
‫قبول کر لی جائے گی‪ ،‬لیکن اب مالک کو اس کے ساتھ دو بکریاں یا ان کی قیمت دینا ہو گی‪ ،‬اس سے ٓاگے بھی ٰ‬
‫زکوۃ‬
‫میں لیے جانے والے جانور کی عمر ایک سال کی کمی و بیشی کی صورت میں اس طریقہ پر عمل کیا جائے گا‪ ،‬اگر‬
‫عمر ایک سال کم ہوئی‪ ،‬تو مالک کو اس کے ساتھ ‪ ۲‬بکریاں‪،‬یا ان کی قیمت دینا پڑے گی‪ ،‬اور اگر عمر ایک سال‬
‫زیادہ ہوئی‪ ،‬تو عالم کو ہی کچھ دینا پڑے گا۔‬
‫ملحوظ‪:‬‬
‫ایک سال کی اونٹنی کے عوض دو سال کا نر لیا جاتا ہے‪ ،‬اس کے عالوہ کسی صورت میں اونٹوں کی ٰ‬
‫زکوۃ میں نر‬
‫قبول نہیں کیا جائے گا‪ ،‬ہمیشہ مادہ ہی لی جائے گی۔‬
‫(‪ )۲‬گائے کی ٰ‬
‫زکوۃ‬
‫‪ ۳۰        ‬سے ‪ ۳۹‬تک‪        ‬تبیع یا تبیعہ (ایک سال کا بچھڑا یا بچھڑی)‬
‫‪ ۴۰        ‬سے ‪ ۵۹‬تک‪        ‬مسن یا مسنہ (‪ ۲‬سال کا نر یا مادہ جس کے دودھ کے دانٹ ٹوٹ‬
‫‪                    ‬چکے ہوں‬
‫‪ ۶۰        ‬سے ‪ ۶۹‬تک‪ ۳        ‬تبیع یا ‪ ۲‬تبیعہ‬
‫اونٹوں کی طرح یہاں بھی ‪ ۶۰‬سے ٓاگے ہر دس کے بعد کل تعداد ‪ ،۲۰‬اور ‪ ۴۰‬کے دو ہندسوں پر تقسیم ہو جاتی ہے‪،‬‬
‫ٰلہذا ٓانحضرتﷺ کے ارشاد کے مطابق‪:‬‬
‫ٰ‬
‫ومشکوۃ بحوالہ سنن ابی داود)‬ ‫(( َیاْ ُخ ُذ م َِن ْال َب َق ِر مِنْ ُک ِّل َثاَل ِثی َْن َت ِب ْیعًا اَ ْو َت ِبی َْوة َومِنْ ُک ِّل اَرْ َب ِعی َْن مُسِ َّنة))‪( ‬مغنی ابن قدامہ‬
‫یعنی ہر عامل ‪ ۳۰‬گائیوں سے ایک سال کا نر یا مادہ اور ‪ ۴۰‬سے مسنہ لے‪ ۷۰ ،‬سے ایک ایک سال کا نر یا مادہ اور‬
‫ایک دو سال کا نر یا مادہ لیا جائے گا‪ ۸۰ ،‬سے ‪ ۲‬سال کے نر ‪۹‬یا مادہ‪ ،‬اور ‪ ۹۰‬سے ‪ ۹۹‬تک‪ ۳ ،‬۔ ایک سال کے نر یا‬
‫مادہ وعلی ہذا لقیاس۔‬
‫نوٹ‪ …:‬گائے کی ٰ‬
‫زکوۃ میں صرف تبیع اور مسن مقرر ہے‪ ،‬دوسرے کسی عمر کے جانور کا ذکر نہیں۔ ہاں مالک‬
‫اپنی خوشی سے بڑی عمر جا جانور دے ‪ ،‬تو جائز ہے‪ ،‬اس میں نر اور مادہ کا کوئی امتیاز نہیں‪ ،‬بعض علما کہتے‬
‫ہیں کہ مسنہ ہر حال میں مادہ ہونی چاہیے‪ ،‬جیسا کہ مذکورہ باال حدیث میں مسنہ ہی کا ذکر ہے‪ ،‬مسن کا نہیں‪ ،‬مگر یہ‬
‫درست نہیں‪ ،‬طبرانی میں ابن عباس رضی ہللا عنہ کی مرفوع حدیث میں مسن کا ذکر موجود ہے‪ ،‬اس کے الفاظ یہ ہیں۔‬
‫((فِیْ ُک ِّل َثاَل َثی َْن َت ِب ْی ٌع َوفِیْ ُک ِّل اَرْ َب ِعی َْن مُسِ نٌّ اَ ْو مُسِ َّنة))‪( ‬مرعاۃ المفاتیح ص ‪ ۶۹‬ج ‪)۳‬‬
‫لہذا مختار یہی ہے کہ اونٹ کی طرح ٰ‬
‫زکوۃ میں لی جانے والی گائے میں نر یا مادہ کا فرق نہیں ہے‪ ،‬جو موجود ہو‪،‬‬
‫مالک ادا کر سکتا ہے۔‬
‫ملحوظ‪:‬‬
‫دو نصاب کے درمیان واقع ہونے والے عدد و قص کہالتے ہیں‪ ،‬مثالً ‪ ۲۰‬اور ‪ ۴۰‬کے درمیان‪ ،‬اسی طرح ‪ ۴۰‬اور ‪۶۰‬‬
‫کے درمیان (وعلی ہذا القیاس) ان میں ٰ‬
‫زکوۃ نہیں ہے‪ ،‬لیکن امام ابو حنیفہ رحمۃ ہللا علیہ فرماتے ہیں‪ ،‬کہ ‪ ۴۰‬پر ایک‬
‫گائے بڑھ جائے گی‪ ،‬تو اس میں مسنہ کا چالیسواں حصہ ٰ‬
‫زکوۃ دینا پڑے گی‪ ،‬اگر مسنہ کی قیمت چالیس روپے ہے‪،‬‬
‫تو ‪ ۴۰‬کے بعد ایک گائے میں ایک روپیہ دینا پڑے گا‪ ،‬اسی طرح گائیں جنتی زیادہ ہوں گی‪ ،‬اتنے روپے دینے پڑیں‬
‫گے‪ ،‬مگر یہ حدیث پاک کی تصریحات کے خالف ہے‪ ،‬اس لیے صاحبین نے بھی امام صاحب کے ساتھ اتفاق نہیں کیا۔‬
‫(‪ )۳‬بکریوں کی ٰ‬
‫زکوۃ‬
‫‪ ۴۰        ‬سے ‪ ۱۲۰‬تک‪        ‬ایک بکری‬
‫‪ ۱۲۱        ‬سے ‪ ۲۰۰‬تک‪ ۲        ‬بکری‬
‫‪ ۲۰۱        ‬سے ‪ ۳۰۰‬تک‪ ۳        ‬بکری‬
‫اس کے بعد ہر سو پر ایک بکری ٰ‬
‫زکوۃ دینا پڑے گی‪ ،‬چنانچہ ‪ ۳۹۹‬میں بھی ‪ ۳‬بکریاں ہیں‪ ،‬جیسا کہ ‪ ۳۰۰‬میں تین‬
‫بکریاں ہیں‪ ۴۰۰ ،‬پوری ہوں گی‪ ،‬تو ‪ ۴‬بکریاں دینا پڑتی ہیں‪ ۵۰۰ ،‬ہوں گی تو ‪ ۵‬بکریاں ہوں گی‪ ،‬اور ‪ ۵۰۰‬سے کم‬
‫ہوں گی‪ ،‬تو ٰ‬
‫زکوۃ میں ‪ ۴‬ہی بکریاں فرض ہوں گی‪( ،‬وعلی ہذا القیاس)‪ ‬اس کے ٓاگے جتنے سینکڑے پورے ہوں گے ‪،‬‬
‫اتنی بکریاں دی جائیں ی‪ ،‬جو سینکڑہ کم ہو گا‪ ،‬اس میں ٰ‬
‫زکوۃ نہیں ہو گی۔‬
‫ملحوظ‪:‬‬
‫زکوۃ میں قبول نہیں کیے جائیں گے‪ٰ ،‬‬
‫زکوۃ میں صرف بھیڑ جذعہ‬ ‫بکریوں میں بچے بھی شمار ہوں گے مگر بچے ٰ‬
‫(ایک سال کی) یا بکری مسنہ لی جائے گی۔‬
‫ٰ‬
‫زکوۃ میں کیسا جانور لیا جائے‪:‬‬
‫زکوۃ لے‪ ،‬جس‬ ‫ٰ‬
‫ادنی اور متوسط تین درجوں میں تقسیم کرے ‪ ،‬اور متوسط درجہ سے ٰ‬ ‫ٰ‬
‫اعلی‬ ‫مصدق سارے مال کو‬
‫ٰ‬
‫اعلی قسم کا مال لینا منع‬ ‫ٰ‬
‫))‪( ‬مشکوۃ از صحیحین) کے مطابق‬‫مْر ِالِی ِْھ ْم‬ ‫طرح ٓانحضرتﷺ کے فرمان‪َ (( ‬ف ِای َ‬
‫َّاک َو َک َراِئ َم اَ َ‬
‫ار َواَل َتیْنٌ ِااَّل اَنْ یشاء‬ ‫فرمان‪(( ‬واَل ُت ْخ َر ُج فِی الصَّدَ َقة‪َ ،‬ھ ِر َمة َواَل َذ ُ‬
‫ات َع َو ٍ‬ ‫َ‬ ‫ہے‪ ،‬اسی طرح ٓاپ کے دوسرے‬
‫))‪( ‬مشکوۃ بحوالہ صحیح بخاری) کے مطابق کوئی بوڑھا عیب دار سانڈھ قبول نہیں کیا جائے گا‪ ،‬ہاں اگر‬ ‫ٰ‬ ‫ْالم َ‬
‫ُص ِّد ُق‬
‫مصدق (عامل) ان تینوں قسم کے جانور لینے میں فقراء ومساکین کا بھال سمجھے‪ ،‬تو لے سکتا ہے‪ ،‬اسی طرح اگر‬
‫ٰ‬
‫اعلی قسم کا جانور دینا چاہے‪،‬تو دے سکتا ہے۔‬ ‫کوئی مالک اپنی رضا مندی اور خوشی سے‬
‫حضرت ابن بن کعب انصاری رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں‪ ،‬ایک دفعہ ٓانحضرتﷺ نے ٰ‬
‫زکوۃ وصول کرنے کے لیے‬
‫عامل بنا کر بھیجا ‘ میں اونٹوں کے ایک مالک کے پاس گیا ‘اور اسے ٰ‬
‫زکوۃ دینے کے لیے کہا ‘ اس نے میرے‬
‫سامنے ال کر سارے اونٹ جمع کر دیئے میں نے شمار کر کے کہا ‘ ان کی ٰ‬
‫زکوۃ ایک بنت مخاض بنتی ہے ‘ اس پر‬
‫وہ کہنے لگا اس کو لے کر کیا کرو گے ‘ نہ یہ سواری کے قابل ہے اور نہ ہی دودھ دے سکتی ہے ‘ اس کی بجائے‬
‫یہ موٹی ‘تازہ ‘ جوان اور قد آور اونٹنی لے جاؤ ‘میں نے کہا میں یہ بغیر اجازت نہیں لے سکتا ‘ رسول ہللاﷺ یہاں‬
‫قریب ہی ہیں ‘ اگرتم چاہو‘تو میرے ساتھ چلو ‘ اور یہ اونٹنی آپ پر پیش کرو ‘اگر آپ نے اجازت دے دی ‘تو میں قبول‬
‫کر لوں گا ورنہ رد کر دوں گا چنانچہ ہم دونوں اونٹنی ساتھ لے کر آنحضرت ﷺ کی خدمت میں حاضرہوئے اس‬
‫تعالی کے رسول ﷺ یا ان کے عامل میرے پاس ٰ‬
‫زکوۃ لینے کے لیے نہیں آئے آج‬ ‫ٰ‬ ‫نے کہا یا رسول ہللا !آج تک ہللا‬
‫پہال موقعہ ہے کہ آپ کے یہ عامل آئے ہیں اور مجھ سے ٰ‬
‫زکوۃ کا مطالبہ کیا ہے میں نے اپنا سارا مال ان کے سامنے‬
‫الکر جمع کر دیا انہوں نے کہا اس سارے مال کی ٰ‬
‫زکوۃ ایک بنت مخاض ہے میں عرض کیا یہ سواری اور دودھ‬
‫دینے کے قابل نہیں اس کی بجائے یہ موٹی تازہ جوان اونٹنی لےجاؤ مگر یہ نہیں مانے اب میں اسے اے ہللا کے‬
‫رسول !آپ کی خدمت میں الیا ہوں آپ اسے قبول فرمائیے آنحضرت ﷺنے فرمایا تمہارے مال کی ٰ‬
‫زکوۃ تو وہی‬
‫بنت مخاض ہے جو ہمارے عامل نے بتائی ہے اب اگر تم اپنی مرضی سے یہ اونٹنی دینا چاہتے ہو تو ہم قبول کر‬
‫لیتے ہیں اس کا اجر تم ہللا سے پاؤ گے وہ بوال یہ لیجئے ! اسی لیے تو میں اسے الیا ہوں آپ نے اسے قبول کرنے کا‬
‫حکم دیا اور اس کے مال میں برکت کی دعا فرمائی ‪-‬ابوداؤد)‬
‫مسند امام احمد میں ہے کہ عمارہ نے کہا میں حضرت معاویہ کے زمانہ میں ٰ‬
‫زکوۃ وصول کرنے پر عامل مقررتھا اس‬
‫وقت اس کے اونٹ بڑھ کر کر ‪15‬سو ہو چکے تھے چنانچہ میں نے اس سے ‪30‬حقے ٰ‬
‫زکوۃ وصول کی شارح کہتے‬
‫ہیں یہ ای کے دو سخا ‘ اخالص اور آنحضرت ﷺ کی دعا کا نتیجہ ہے کہ ہللا نے اس کے مال میں اتنی برکت عطا‬
‫فرمائی (الفتح الترتیب مسند االمام احمد الشیبانی ج‪8‬ص‪)227‬‬
‫ایک ہی قسم کا مال ہو تو اس کا حکم‬
‫ٰ‬
‫اعلی یا صرف‬ ‫ٰ‬
‫‘ادنی اور متوسط تین درجوں میں تقسیم نہیں ہو سکتا بلکہ اس کے پاس صرف‬ ‫ٰ‬
‫اعلی‬ ‫اگر کسی کا مال‬
‫ٰ‬
‫ادنی یا صرف متوسط ہے ‘ اسی طرح اس کے پاس صرف ذکور یعنی نر ہیں ‘ مادہ نہیں ہے تو ان سب صورتوں میں‬
‫ادنی سے ٰ‬
‫ادنی اور ذکور سے‬ ‫اعلی ‘ ٰ‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫ہے‘اعلی سے‬ ‫اسی سے اسی قسم کا جانور لیا جائے گا ۔ جو اس کے پاس موجود‬
‫نر ہی قبول کر لیا جائے گا ‘ یہاں متوسط اور مادہ کی پابندی نہیں ہے ‘‬
‫مال مخلوط کسے کہتے ہیں‬
‫ٰ‬
‫علیحدہ مویشی (اونٹ ‘گائے ‘ بکری ) ہوں ‘ لیکن انہوں نے ان کے چرانے کےلیے‬ ‫اگر دو یا زیادہ آدمیوں کے ٰ‬
‫علیحدہ‬
‫ایک چرواہا مقرر کر رکھا ہے ‘ رات کے وقت ان کو ایک ہی باڑہ میں بند کرتے ہیں نیزان کی چراگاہ ‘ پانی پالنے‬
‫کا آلہ ‘ اور نسل کشی کے لیے سانڈھ بھی ایک ہے ‘ تو یہ مال مخلوط ہے ‘اور ان کے مالکوں کو دو ہوں ‘تو خلیطین‬
‫اور دو سے زیادہ ہوں ‘ تو خلطاءکہتے ہیں‬
‫مال مخلوط (مشترکہ ) کی ٰ‬
‫زکوۃ کا طریقہ‬
‫سارے شریک کاروں کا مال مل کر نصاب کو پہنچے ‘ یا ان میں سے ہر ایک کا پورا پورا نصاب ہے مگر اس کو‬
‫مخلوط کئے ہوئے ایک سال ہو گیا ہے ‘تو مصدق اس سے اس طرح ٰ‬
‫زکوۃ لے گا جیسے یہ ایک آدمی کا مال ہے سب‬
‫مال کو شمار کرے گا ‘ اور اس پر جو ٰ‬
‫زکوۃ آئے گی وصول کرے گا پھر یہ خلیط (جن کا مال مشترک ہوا ) اپنے‬
‫اپنے حصہ کے مطابق ایک دوسرے سے حساب لے دے لیں گے ‘مثال کے طور پر ایک آدمی کی ‪20‬بکریاں اور‬
‫دوسرے کی ‪40‬بکریاں ہیں ان دونوں کو اپنا مال مخلوط کئے ہوئے ایک سال ہو گیا تو مصدق ‪60‬بکریاں سے ٰ‬
‫زکوۃ‬
‫کی ایک بکری لے گا اب اگر یہ بکری ‪20‬والے کی ہے ‘ تو وہ اپنے ساتھی سے اس بکری کی دو ثلث قیمت لے گا‬
‫اور اگر وہ بکری ‪40‬والے کی ہے تو وہ دوسرے سے اس کی ایک ثلث قیمت لے گا اگر تین آدمی خلیط ہیں اور ہر‬
‫ایک کے ملک میں ‪40‬بکریاں ہیں تو یہ کل ‪120‬ہوئیں سال کے بعد مصدق ان سے ایک بکری لے گا مال چونکہ‬
‫تینوں کا برابر ہے اس لیے جس کی بکری جائے گی وہ اپنے ساتھیوں سے دو ثلث قیمت وصول کرے گا اس طرح ہر‬
‫زکوۃ پڑی‘ یہ اختالط کا فائدہ ہے اگر وہ باہم خلیط نہ ہوتے ‘ تو ان کو تین بکریاں ٰ‬
‫زکوۃ دینا پڑتی‬ ‫ایک کو ثلث بکری ٰ‬
‫‘امام مالک کے نزدیک خلیطین یا خلطاء میں سے ہر ایک کا مال نصاب کو پہنچے ‘تو سب پر ٰ‬
‫زکوۃ ہے ‘ اور جس کا‬
‫زکوۃ فرض نہیں مثالً دو آدمیوں کی ‪ 40‘40‬بکریاں ہیں اور ایک کی بیس ہیں ‘ سب‬
‫مال نصاب کو نہ پہنچے ‘اس پر ٰ‬
‫مل کر ‪ 100‬ہوگئیں ان میں ایک بکری ٰ‬
‫زکوۃ دینا پڑے گی اور یہ ان دونوں پر ہو گی ‘ جن کی بکریاں ‪40‘40‬‬
‫بکریاں ہیں اور ‪ 20‬بکریاں والے پر ٰ‬
‫زکوۃ نہیں۔(موطا)‬
‫اس کے برعکس امام شافعی ‘ امام احمد ‘عطاء ‘ لیث اور اسحاق فرماتے ہیں کہ سب خلطاکا مال مل کر نصاب کو‬
‫زکوۃ دینا‬ ‫زکوۃ واجب ہے ٰ‬
‫حتی کہ اگر چالیس آدمیوں کی ‪ 40‬بکریاں ہیں ان میں ایک بکری ٰ‬ ‫پہنچ جائے تو اس میں ٰ‬
‫پڑے گی ‘پھر جس کی بکری جائے گی وہ دوسروں سے ان کے حصے کی قیمت وصول کرے گا یہی مذہب مختار‬
‫اور احوط ہے ‘(مرعاۃ المفاتیح )‬
‫ٰ‬
‫زکوۃ کے خوف سے مال کی جمع اور تفریق‬
‫ٰ‬
‫علیحدہ مال اکٹھا نہ کیا‬ ‫آنحضرت ﷺ کا ارشاد ہے ‘اليجمع خشية الصدقة‪( ‬بخاری شریف)’’یعنی ٰ‬
‫زکوۃ کے ڈر سے‬
‫جائے اور اکٹھے مال کو الگ الگ نہ کیا جائے ‘‘آنحضرت ﷺ کی یہ ہدایت مالک اور عامل دونوں کے لیے ہے‬
‫کیونکہ اس کے سلسلہ میں دونوں سے کمزوری متوقع ہے‪ ،‬مالک کا ڈر تو یہ ہے ‪ ،‬کہ ٰ‬
‫زکوۃ کہیں واجب نہ ہو جائے‬
‫یا زیادہ نہ دینی پڑے‪ ،‬جیسے خلیطین کی ‪ ۶۰‬بکریاں‪ ،‬مصدق ٓائے‪ ،‬تو ہر ایک ‪ ۳۰‬بکریاں لے کر علیحدہ ہو جائے‪،‬‬
‫اس طرح دونوں ٰ‬
‫زکوۃ سے بچ گئے‪ ،‬یا دونوں میں سے ہر ایک کے پاس ‪ ۱۰۱‬بکری ہے‪ ،‬دونوں کی بکریاں مل کر‬
‫زکوۃ واجب ہے‪ ،‬لیکن مصدق کی ٓامد سن کر ٰ‬
‫علیحدہ کر لیتے ہیں‪،‬ا ب ہر ایک کو‬ ‫‪ ۲۰۲‬ہوتی ہیں‪ ،‬ان میں تین بکریاں ٰ‬
‫ایک بکری دینا پڑے گی‪ ،‬اور ایک بکری کی بچت ہو جائے گی‪ ،‬اسی طرح دو ٓادمیوں کے پاس الگ الگ ‪ ۴۰‬بکریاں‬
‫ہیں‪ ،‬وہ ٓاپس میں خلیط نہیں ہیں‪ ،‬مگر عامل کے پاس اپنے ٓاپ کو خلیط ظاہر کرتے ہیں‪ ،‬اور اپنے علیحدہ علیحدہ مال‬
‫کو جمع کر کے پیش کرتے ہیں‪ ،‬اس صورت میں انہیں ایک بکری دینا پڑے گی‪ ،‬اور ایک بکری بچ رہے گی‪ ،‬اس‬
‫قسم کی گھٹیا حرکات سے ٓانحضرتﷺ نے مذکورہ باال فرمان میں منع فرمایا ہے‪ ،‬عامل کا ڈر یہ ہے‪ ،‬کہ کہیں‬
‫زکوۃ ساقط یا کم نہ ہو جائے‪ ،‬اس لیے کوشش کرنا ہے‪ ،‬کہ زیادہ سے زیادہ ٰ‬
‫زکوۃ وصول کرے‪ ،‬یا کم از کم کوئی مال‬ ‫ٰ‬
‫زکوۃ لیے بغیر نہ چھوڑے‪ ،‬مثالً ‪ ۳۰ ،۳۰‬بکریاں کے علیحدہ ریوڑوں کو جمع کر کے مخلوط بنا دے‪ ،‬اور ان میں‬
‫ٰ‬
‫سے ایک بکری ٰ‬
‫زکوۃ لے لے‪ ،‬یا خلیطین کی ‪ ۱۱۰‬بکریوں کو دو برابر حصوں میں بانٹ کر دو بکریاں وصول کر‬
‫لے‪ ،‬حاالنکہ ان میں ایک بکری ٰ‬
‫زکوۃ پڑھتی تھی‪ ،‬مصدق کے لیے بھی مذکورہ باال فرمان عالی کے پیش نظر یہ‬
‫حرکت ناجائز ہے۔‬
‫جہاں مال ہے عامل ٰ‬
‫زکوۃ کے لیے وہاں جائے‪:‬‬
‫عامل کے لیے جائز نہیں کہ ایک جگہ بیٹھ جائے‪ ،‬اور سارے عالقے کے لوگوں کو حکم دے کہ اپنے اپنے مال میں‬
‫یہاں ال کر ٰ‬
‫زکوۃ دو‪ ،‬اسی طرح اصحاب مال کے لیے بھی جائز نہیں‪ ،‬کہ عامل کی ٓامد سن کر اپنا مال دس بیس میل‬
‫دور لے جائیں‪ ،‬تاکہ عامل مشقت اٹھا کر ٰ‬
‫زکوہ کے لیے وہاں جائے‪ ،‬یہ حدیث پا ک میں ٓایا ہے۔‬
‫ب َواَل ُتْٔو َخ ُذ َ‬
‫صدَ َقا ُت ُھ ْم ِااّل فِیْ ُد ْو ِر ِھ ْم))‪( ‬ابو داود)‬ ‫((ع ِن ال َّن ِبیُّ ﷺ َقا َل اَل َج َل َ‬
‫ب َواَل َج َن َ‬ ‫َ‬
‫’’یعنی ٓاپ نے فرمایا کہ عامل ایک جگہ بیٹھ کر عالقے کے مال اپنے پاس نہ منگوائے اور مویشیوں کے مالک اپنا‬
‫مال دور نہ لے جائیں۔ بلکہ جہاں کوئی رہتا ہے‪ ،‬اس کی ٰ‬
‫زکوۃ وہیں جا کر لی جائے۔‘‘‬
‫گھوڑوں اور غالموں میں ٰ‬
‫زکوۃ نہیں‪:‬‬
‫اگر کسی کے پاس سواری یا افزائش نسل کے لیے گھوڑے ہیں‪ ،‬جنگل میں چرتے ہوں‪ ،‬یا گھر پر پلتے ہوں‪ ،‬ان میں‬
‫زکوۃ نہیں ہے‪،‬یہی حال غالموں کا ہے‪ ،‬ان میں بھی سوائے صدقۃ الفطر کے ٰ‬
‫زکوۃ نہیں ہے‪ ،‬ہاں اگر گھوڑے یا غالم‬ ‫ٰ‬
‫تجارت کے لیے ہیں تو تجارت کے دوسرے مال کی طرح بھی ٰ‬
‫زکوۃ فرض ہو گی‪ ،‬امام ابو حنیفہ رحمۃ ہللا علیہ کے‬
‫نزدیک اگر گھوڑے نر و مادہ یا صرف مادہ جنگل میں چرنے والے ہوں‪ ،‬تو ان میں ٰ‬
‫زکوۃ واجب ہے‪ ،‬کیونکہ ان سے‬
‫افزائش نسل ہوتی ہے‪ ،‬اور یہی ان کے پالنے کا مقصد ہے‪ ،‬اگر صرف نر ہوں‪ ،‬تو ان میں ٰ‬
‫زکوۃ نہیں ہے‪ ،‬اس لیے کہ‬
‫ان سے نسل نہیں بڑھ سکتی پھر مالک کو اختیار ہے کہ ہر گھوڑے سے ایک دینار ٰ‬
‫زکوۃ دے‪ ،‬یا ان کی قیمت لگا کر‬
‫ہر دو سو درہم پر پانچ درہم ادا کرے‪ ،‬مگر یہ مذہب جمہور کے خالف ہے‪ ،‬صاحبین نے بھی اس میں جمہور کی‬
‫فتوی صاحبین کے قول پر ہے‪ ،‬جمہور کی دلیل یہ حدیث ہے‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫مموافقت کی ہے‪ ،‬اور محققین علماء احناف کے نزدیک‬
‫ہّٰللا‬ ‫ہّٰللا‬
‫ْس َع َلی ْالمُسْ َلم َ‬
‫صدَ َقة فِیْ َع ْبدِہٖ َواَل فِیْ فُرْ سِ ه َوفِیْ ِر َوا َیة َقا َل‬ ‫((عنْ اَ ِبیْ ھ َُری َْرة رضی عنه َقا َل َقا َل َرس ُْو ُل ِ ﷺ َلی َ‬ ‫َ‬
‫صدَ َقة ْالف ِْط ِر))‪( ‬صحیحین)‬ ‫صدَ َقة ِااَّل َ‬ ‫َلی َ‬
‫ْس فِیْ َع ْبدِہٖ َ‬
‫’’یعنی حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ کا بیان ہے کہ ٓانحضرتﷺ نے فرمایا مسلمان کے غالم اور گھوڑے میں‬
‫زکوۃ نہیں‪ ،‬ایک روایت میں ہے‪ٓ ،‬اپ نے فرمایا اس کے غالم میں صدقہ الفطر کے سوا کوئی ٰ‬
‫زکوۃنہیں۔‘‘‬ ‫ٰ‬
‫گدھے اور خچر‪:‬‬
‫ْس َع َلی ْال َع َوام ِِل َ‬
‫صدَ َقة))‪ ‬ان‬ ‫گدھے اور خچر عموما ً مال برداری کے لیے استعمال کیے جاتے ہیں‪ ،‬اس لیے بحکم‪َ (( ‬لی َ‬
‫زکوۃ نہیں ہے‪ ،‬اگر افزائش نسل کے لیے پالے جائیں‪ ،‬تب بھی احادیث میں ان کی ٰ‬
‫زکوۃ کی تصریح نہیں ہے‪ ،‬بلکہ‬ ‫میں ٰ‬
‫گیا‪(( ،‬و َقالُ ْوا َف ْالحُمْ رُ))کہ یا رسول ہللا گدھوں کے بارے میں کیا ارشاد ہے‪ ،‬تو ٓاپ نے‬
‫َ‬ ‫ٓانحضرتﷺ سے پوچھا‬
‫صرف اتنا فرمایا کہ‪:‬‬
‫(( َما اَ ْن َز َل ہّٰللا ُ ِف ْی َھا َش ْیًئ ا ِااَّل ٰھ ِذ ِہ ااْل ٰ َی ِۃ ْال َجام َِعة ْال َف َّاذة َف َمنْ یَّعْ َم ْل م ِْث َقا َل َذرَّ ة َخیْرً ا ی ََّرہٗ َو َمنْ َیعْ َم َل م ِْث َقا َل َذرَّ ة َش ًّرا َی َرہٗ ))‪( ‬مسلم‬
‫شریف)‬
‫ٰ‬
‫تعالی نے بجز ایک ہی جامع ٓایت کے (جو ہر قسم کی نیکی اور برائی کو شامل ہے) کوئی‬ ‫یعنی ان کے متعلق ہللا‬
‫خاص حکم نہیں اتارا کہ ’’ جو شخص ذرہ کے برابر نیکی کرے گا‪ ،‬وہ اس کا ثمرہ پا لے گا‪ ،‬اور جو شخص ذرہ کے‬
‫برابر برائی کرے‪ ،‬وہ بھی اس کا اثر ضرور دیکھے گا‪ ،‬مطلب یہ ہے‪ ،‬کہ گدھوں اور خچروں کا مالک اگر ان کے‬
‫ٰ‬
‫تعالی کی راہ میں کچھ خرچ کرے گا‪ ،‬تو اس کا نفلی صدقہ ہو گا‪ ،‬اور اس کا اجر رائیگاں نہیں جائے‬ ‫سلسلہ میں ہللا‬
‫گا۔‬
‫ایک دوسری حدیث میں ہے‪:‬‬
‫صدَ َقة ْال َج ْب َہة َو ْالکسْ َعة َوال َّن َخة َقا َل َب ِقیَّة ْال َج ْبہُة َو ْالکُسْ َعة ْال ِب َغا ُل‬ ‫((عنْ اَ ِبیْ ھ َُری َْرة رضی ہّٰللا عنه َمرْ فُ ْوعًا َقا َل َعفُ ْو ُ‬
‫ت َلکُ ْم َعنْ َ‬ ‫َ‬
‫ات فِی ْال ُبی ُْوتِ))‪( ‬البیہقی بحوالہ مرعاۃ المفاتح ص ‪ ۹۰‬ج ‪)۳‬‬ ‫َو ْال َح ِم ْی ُر َوال ُّن َّخة ْالم َُر ِّب َی ُ‬
‫’’یعنی رسول ہللاﷺ نے فرمایا‪ :‬میں نے تمہارے لیے گھوڑے‪ ،‬گدھے‪ ،‬خچر اور گھر میں پلنے والے جانوروں کی‬
‫ٰ‬
‫زکوۃ معاف کر دی ہے۔‘‘‬
‫ہاں اگر کوئی شخص ان جانوروں کی تجارت کرے‪ ،‬تو ان میں تجاری مال کی حیثیت سے ٰ‬
‫زکوۃ فرض ہے۔‬
‫عامل کی رضامندی اور اس سے متعلقہ تفصیل‪:‬‬
‫زکوۃ وصول کرنے والے ٓائیں‪ ،‬ان کی خندہ پیشانی سے استقبال کریں‪ ،‬اور وصولی ٰ‬
‫زکوۃ کی‬ ‫ارباب مال کو چاہیے کہ ٰ‬
‫راہ میں مشکالت پیدا نہ کریں‪ ،‬کیونکہ عامل کو خوش و خرم لوٹانا تکمیل ٰ‬
‫زکوۃ کے لیے ضروری ہے‪ٓ ،‬انحضرت‬
‫ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫((س َیٔا ِت ْیکُ ْم ُر َکیْبٌ ُّمب َْغض ُْو َن َفا َِذا َجأُئ ُک ْم َف َرحِّ ب ُْوا ِب ِھنْ َو َخلُ ْوا ِب ْی َن ُھ ْم َو َبی َْن َما َی ْب َت ُغ ْو َن َفا َِذا َعدَ لُ ْوا َفاِل َ ْنفُسِ ِہ ْم َواِنْ َظ َلم ُْو َف َع َل ْی َھ ْم‬
‫َ‬
‫ضا ُھ ْم َو ْل َی ْدع ُْوا َلکُ ْم))‪( ‬ابو داود)‬ ‫َوارْ ض ُْو ُھ ْم َفاِنَّ َت َمام َز ٰکو ِتکُ ْم ِر َ‬
‫ٰ‬
‫(زکوۃ وصول کرنے والوں کے) چھوٹے چھوٹے ناپسندیدہ قافلے ٓایا کریں گے‪ ،‬جب وہ ٓائیں‪ ،‬تو انہیں‬ ‫’’تمہارے پاس‬
‫مرحبا اور خوش ٓامدید کہو‪ ،‬اور جو کچھ وہ ٰ‬
‫زکوۃ کے سلسلہ میں تم سے طلب کریں‪ ،‬انہیں لینے دو‪ ،‬اگر عدل کریں‬
‫گے‪ ،‬تو انہیں ثواب ہو گا‪ ،‬اور اگر ظلم کریں گے‪ ،‬تو ان کی سزا پائیں گے‪ ،‬تم ان کو راضی کیا کرو‪ ،‬ان کے خوش‬
‫زکوۃ پوری ہو گی‪ ،‬ورنہ ادھوری رہے گی‪ ،‬اور ٰ‬
‫زکوۃ وصول کرنے کے بعد انہیں تمہارے حق‬ ‫ہونے سے تمہاری ٰ‬
‫میں خیر و برکت کی دعا کرنی چاہیے۔‘‘‬
‫نیز ٓاپ نے فرمایا‪:‬‬
‫ُص ِّد ُق َف ْل َیصْ ُدرْ َع ْنکُ ْم َوھ َُو َع ْنکُ ْم َر ٍ‬
‫اض)) (مسلم)‬ ‫((ا َِذا اَ َتا ُک ْم ْالم َ‬
‫’’جب عامل تمہارے پاس ٰ‬
‫زکوۃ لینے ٓائے تو اس سے ایسا برتأو کرو کہ وہ تم سے خوش ہو کر واپس جائے۔‘‘‬
‫ایک اور حدیث میں ہے‪:‬‬
‫ُص ِّد ِقی َْن َیْٔا ُت ْو َنا َف َی ْظ َلم ُْو َّنا َف َقا َل‬ ‫ہّٰللا‬ ‫ہّٰللا‬
‫ب ا ِٰلی َرس ُْو ِل ِ ﷺ َف َقالُ ْوا اِنَّ َناسًا م َِن ْالم َ‬ ‫ْن َع ْب ِد ِ َقالَ َجاَئ َناسٌ م َِن ااْل َعْ َرا ِ‬ ‫((عنْ َج ِاب ِر ب ِ‬ ‫َ‬
‫ُص ِّد ِق ْیکُ ْم َواِنْ ُ‬ ‫ہّٰللا‬
‫ظلِمْ ُت ْم))‪( ‬ابو داود)‬ ‫ُص ِّد ِق ْیکُ ْم َقالُ ْو َیا َرس ُْو َل ِ َواِنْ َظ َلم ُْو َنا َقا َل اَرْ ض ُْوا م َ‬
‫اَرْ ض ُْوا م َ‬
‫’’حضرت جابر بن عبد ہللا کا بیان ہے کہ دیہات کے رہنے والے کچھ لوگ ٓانحضرتﷺ کی خدمت میں ٓائے اور کہا‬
‫ٓاپ کے فرستادہ ٰ‬
‫زکوۃ وصول کرنے والے (عامل) ہمارے پاس ٓاتے ہیں‪ ،‬وہ ہم پر ظلم کرتے ہیں‪ ،‬اور واجب حق سے‬
‫زکوۃ لیتے ہیں‪ ،‬یہ سن کر ٓاپ نے فرمایا‪ٰ ،‬‬
‫زکوۃ لینے والوں کو خوش کیا کرو‪ ،‬وہ کہنے لگے‪ ،‬یا رسول ہللا!‬ ‫بڑھ کر ٰ‬
‫خواہ وہ ہم پر ظلم کریں‪ ،‬فرمایا‪ٰ :‬‬
‫زکوۃ لینے والوں کو خوش کیا کرو‪ ،‬اگرچہ تم پر ظلم کیا جائے۔‘‘‬
‫لیکن یہ بات خاص ذہن میں رہے کہ ٓانحضرتﷺ کے عامل قطعا ً ظلم نہیں کرتے تھے‪ ،‬اور نہ حق سے زیادہ‬
‫وصل کرنے کی کوشش کرتے تھے‪ ،‬جیسے کہ اس کی ایک روشن مثال پہلے بیان ہو چکی ہے‪ ،‬اور ٓاپ کے سب‬
‫عامل (تحصیلدار) ایسے ہی تھے‪ ،‬لیکن چونکہ انسان جب طبعی بخل کی وجہ سے چاہتا ہے کہ اسے یا تو سرے سے‬
‫کچھ دینا ہی نہ پڑے‪ ،‬یا کم سے کم دینے سے خالصی ہو جائے‪ ،‬اس لیے پورا شرعی حق وصول کرنے کو بھی اپنے‬
‫حق میں ظلم اور زیادتی سمجھتا ہے‪ ،‬اور پورا پورا حق لینے والے عامل سے بالوجہ بغض رکھتا ہے‪ ،‬اور اسے‬
‫ناپسند کرتا ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ ٓاپ نے ان کی شکایت کا ازالہ نہیں فرمایا‪ ،‬اور نہ اسے قابل التفات سمجھا ہے‪،‬‬
‫کیونکہ ٓاپ جانتے تھے‪ ،‬کہ ٓاپ کے فرستادہ عامل ٰ‬
‫زکوۃ وصول کرنے کے سلسلہ میں ہر گز ہر گز زیادتی نہیں کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫اس کی کچھ مثالیں حدیث کی کتابوں میں ٓائیں ہیں‪ ،‬مختصر ایک مثال فرمائیے سوید بن غفلہ فرماتے ہیں کہ ہمارے‬
‫پاس ٓانحضرت ﷺ کا مصدق ٓایا‪ ،‬میں نے اسے کہتے ہوئے سنا کہ مجھے ہدایت کی گئی ہے‪ ،‬کہ میں کوئی دودھ‬
‫دینے واال جانور ٰ‬
‫زکوۃ میں نہ لوں‪ ،‬اور نہ علیحدہ علیحدہ مال کو جمع کروں‪ ،‬اور نہ اکٹھے مال کو الگ الگ کروں‬
‫اس مصدق کو ایک ٓادمی نے اپنے اونٹوں کی ٰ‬
‫زکوۃ میں ایک بڑی کوہان والی موٹی تازی اونٹنی ال کر دی‪ ،‬اور کہا‬
‫میں چاہتا ہوں کہ ٓاپ میرے مال سے بہترین اونٹنی قبول کریں‪ ،‬مگر مصدق نے لینے سے انکار کر دیا‪ ،‬پھر وہ اس‬
‫سے کم درجہ کی اونٹنی الیا‪ ،‬مصدق نے اسے بھی لینے سے انکار کر دیا‪ ،‬پھر وہ اس سے بھی کم درجہ کی اونٹنی‬
‫الیا‪ ،‬مصدق نے وہ قبول کر لی‪ ،‬او رکہا اب مجھے ڈر ہے کہ ٓانحضرتﷺ خفا ہوں گے‪ ،‬اور فرمائیں گے‪ ،‬تم ایک‬
‫مسلمان کا بہترین مال لے ٓائے ہو۔ (ابو دأود)‬
‫اس کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ اگر کوئی عامل فی الواقع ہٹ دھرمی کرتا ہے‪ ،‬اور حق سے زیادہ وصول کرنا چاہتا‬
‫ہے‪ ،‬تو اسے من مانی کاروانی کرنے کی کھلی چھٹی ہے‪ ،‬بلکہ اسے ایسا کرنے سے روکا جائے گا اور اس کا یہ فعل‬
‫اعلی کے نوٹس میں الیا جائے گا‪ ،‬خود ٓانحضرتﷺ نے فرمایا ہے کہ ایسی صورت میں حق سے زیادہ نہ دیا‬
‫ٰ‬ ‫حاکم‬
‫جائے۔‬
‫کیا ظلم عامل کے خوف سے کچھ مال چھپا لیا جائے‪:‬‬
‫کسی شخص کو یہ حق نہیں پہنچتا کہ عامل کے فرضی ظلم سے بچنے کے لیے کچھ مال چھپا لے‪ ،‬مثالً ایک شخص‬
‫کے پاس ‪ ۱۲۰‬بکریاں ہیں‪ ،‬سال کے بعد اس میں ایک بکری ٰ‬
‫زکوہ دینا پڑتی ہے‪ ،‬وہ ڈرتا ہے کہ عامل اس سے دو‬
‫بکریاں وصول کرے گا‪ ،‬اس لیے وہ عامل کے سامنے صرف ‪ ۴۰‬بکریاں پیش کرتا ہے‪ ،‬اور ‪ ۸۰‬بکریاں چھپا لیتا‬
‫زکوۃ دینا پڑے‪ ،‬جو درحقیقت اس کے مال کی ٰ‬
‫زکوۃ ہے‪ ،‬ایسا کرنا ناجائز ہے‪ ،‬ایک حدیث‬ ‫ہے‪ ،‬تاکہ اسے ایک بکری ٰ‬
‫میں ہے کہ صحابہ نے عرض کیا‪:‬‬
‫ہّٰللا‬
‫اب الصَّدَ َقة َیعْ َت ُد ْو َن َع َل ْی َنا اَ َف َتکْ ُت ُم مِنْ اَ َ‬
‫مْوالِ َنا ِب َق ْد ِر َما َیعْ َت ُد ْو َن َقا َل اَل ))‪( ‬رواہ ابو داود)‬ ‫(( َیا َرس ُْو َل ِ اِنَّ اَصْ َح َ‬
‫زکوہ لینے والے ہم پر زیادتی کرتے ہیں‪ ،‬اور اصل حق سے زیادہ مانگتے ہیں (مثالً ‪ ۱۲۰‬بکریاں سے ‪۲‬‬
‫یا رسول ہللا! ٰ‬
‫بکریاں مانگتے ہیں) اگر اجازت ہو تو جس قدر وہ زیادتی کرتے ہیں‪ ،‬اس کے مطابق ہم اپنا مال چھپا لیں (تاکہ پوری‬
‫پوری ٰ‬
‫زکوۃ بھی ادا ہو جائے‪ ،‬اور ہم ظلم سے بھی محفوظ رہیں‪ ،‬جیسے ‪ ۱۲۰‬بکریوں میں سے ‪ ۸۰‬بکریاں چھپا لیں‪،‬‬
‫ٓاپ نے فرمایا ‪ ،‬نہیں اس کی اجازت نہیں ہے۔ ٓانحضرت ﷺ نے اس طرح مال چھپانے کو ناجائز قرار دے کر ایک‬
‫بہت بڑے فتنے کا دروازہ بند فرما دیا‪ ،‬ورنہ اکثر لوگ عمال کی زیادتی کا بہانہ بنا کر اپنا اپنا مال چھپا لیتے‪ ،‬اور‬
‫زکوۃ وصول ہوتی‪ ،‬اور یوں نظام ٰ‬
‫زکوۃ کا پورا ڈھانچہ غیر مٔوثر ہو کر رہ جاتا‪ ،‬رہا عوام کو ظالم عامل کو‬ ‫بہت کم ٰ‬
‫دستبرد سے بچانے کا مسئلہ تو اس کا حل یہ ہے کہ اگر عوام میں اتنا شعور ہے کہ وہ ٰ‬
‫زکوۃ کے مسائل جانتے ہیں‪،‬‬
‫اور سمجھتے ہیں کہ عامل واقعی ظلم کر رہا ہے‪ ،‬اور اپنے حق سے زیادہ مانگ رہا ہے‪ ،‬تو وہ اس کو دالئل و براہین‬
‫کے ذریعہ صحیح صحیح ٰ‬
‫زکوۃ لینے پر مجبور کریں‪ ،‬اور اسے حق سے زیادہ ہر گز نہ دیں‪ ،‬لیکن اگر ظلم و ستم‬
‫ٰ‬
‫اعلی کے روپرو پیش کریں۔‬ ‫سے باز نہ ٓائیں ‪ ،‬تو اس کا معاملہ اسالمی حاکم‬
‫شریعت کے مطابق ٰ‬
‫زکوۃ لینے واال عامل‪:‬‬
‫جو عامل حق پر قائم رہے‪ ،‬صدقہ ٰ‬
‫زکوۃ کے سلسلہ میں کسی نوع کی خیانت اور بددیانتی کا ارتکاب نہ کرے‪ ،‬ارباب‬
‫اموال سے واجب حق سے زیادہ وصول نہ کرے‪ ،‬اور نہ کوتاہی سے کام لے تو ٓانحضرتﷺ نے اسے مجاہد اور‬
‫غازی کی طرح اجر و ثواب کا مستحق قرار دیا ہے‪ ،‬نمازی کی طرح یہ بھی گھر سے جانے کے وقت سے واپسی‬
‫تک برابر اجر و درجہ پاتا ہے‪ ،‬چنانچہ حدیث میں ہے‪:‬‬
‫ازیْ فِیْ َس ِبی ِْل ہّٰللا ِ َح ٰ ّتی َیرْ ِج َع ا ِٰلی َب ْیتِه))‪( ‬سنن‬ ‫ہّٰللا‬
‫ْج َقا َل َقا َل َرس ُْو ُل ِ ﷺ ْال َعا ِم ُل َع َلی الصَّدَ َقة ِب ْال َح ِّق َک ْال َغ ِ‬
‫ْن َخ ِدی ٍ‬
‫((عنْ َراف ِِع ب ِ‬
‫َ‬
‫ابی داود)‬
‫مال مستفاد کی تعریف اور حکم‪:‬‬
‫زکوۃ دیتے ہوئے (مثالً) نصف سال گذر چکا ہے پھر اسے ورثہ یا ہبہ کی صورت میں کچھ اور‬
‫اگر کسی ٓادمی کو ٰ‬
‫مال مل جاتا ہے‪ ،‬یا وہ نیا مال خرید لیتا ہے‪ ،‬تو اس کو مال مستفاد کہتے ہیں‪ ،‬جیسے ایک ٓادمی کے پاس ‪ ۸۰‬بکریاں‬
‫ہیں‪ٰ ،‬‬
‫زکوۃ دینے کے چھ مہینے بعد اسے ‪ ۴۰‬بکریاں ورثہ میں مل جاتی ہیں‪ ،‬تو یہ ‪ ۴۰‬بکریاں مال مستفاد ہوں گی‪،‬‬
‫اب سوال یہ ہے کہ اس مال مستفاد کی ٰ‬
‫زکوۃ پہلے سال کے ساتھ ادا کی جائے‪ ،‬یا سال پورا ہونے کے بعد‪ ،‬اس میں‬
‫اختالف ہے‪ ،‬تفصیل ٓاگے ٓا رہی ہے۔‬
‫مال مستفاد کی مختلف سورتیں‪:‬‬
‫الف‪ …:‬مال مستفاد پہلے مال سے حاصل ہوا ہے‪ ،‬مثالً ‪ ۱۰۰‬بکریوں کی ٰ‬
‫زکوۃ ادا کی گئی‪ ،‬پھر اگال سال ٓانے تک وہ‬
‫بچے دے کر ‪ ۲۰۰‬ہو گئیں‪ ،‬یا تجارتی مال کی صورت میں ‪ ۱۰۰۰‬روپے کی ٰ‬
‫زکوۃ ادا کی‪ ،‬اگال سال پورا ہونے تک‬
‫نفع وغیرہ مل کر ‪ ۲۰۰۰‬روپے ہو گیا۔‬
‫ب‪ …:‬مال مستفاد پہلے مال کی قسم سے نہیں ہے‪ ،‬جیسے کسی کے پاس ‪ ۱۰۰‬بکریاں تھیں‪ ،‬چھ ماہ کے بعد اسے ‪۴۰‬‬
‫اونٹ ورثہ یا ہبہ میں مل گئے۔‬
‫ج‪ …:‬مال مستفاد پہلے مال کی قسم سے نہیں ہے‪ ،‬جیسے کسی کے پاس پہلے ‪ ۱۰۰‬بکریاں تھیں‪ ،‬سات ٓاٹھ ماہ کے‬
‫بعد اسے مزید ‪ ۱۰۰‬بکریاں ورثہ یا ہبہ میں مل گئیں۔‬
‫پہلی صورت میں باالتفاق تمام علماء کے نزدیک مال مستفاد کی ٰ‬
‫زکوۃ پہلے مال کے ساتھ دی جائے گی‪ ،‬اس کے لیے‬
‫علیحدہ سال کا انتظار نہ کیا جائے گا۔‬
‫دوسری صورت میں سب کے نزدیک باالتفاق مال مستفاد کی ٰ‬
‫زکوۃ پہلے مال کے ساتھ نہیں دی جائے گی‪ ،‬بلکہ اس‬
‫کے لیے الگ سال پورا کیا جائے گا‪ ،‬جب اس کا سال پورا ہو گا‪ ،‬تو اس کی ٰ‬
‫زکوۃ دی جائے گی۔‬
‫تیسری صورت میں اختالف ہے‪ ،‬امام ابو حنیفہ رحمۃ ہللا علیہ کے نزدیک مال مستفاد کی ٰ‬
‫زکوۃ پہلے مال کے ساتھ ادا‬
‫کی جائے گی‪ ،‬اس کے لیے الگ سال اور علیحدہ حساب کی ضرورت نہیں ہے‪ ،‬دوسرے ائمہ کرام اور محدثین عظام‬
‫فرماتے ہیں کہ اس صورت میں الگ سال پورا ہونے کے بعد مال مستفاد کی ٰ‬
‫زکوۃ ادا کی جائے گی‪ ،‬اس کو پہلے مال‬
‫میں شامل نہیں کیا جائے گا‪ ،‬اور یہی مذہب حق اور صحیح ہے‪ ،‬حدیث پاک اس کی تائید کرتی ہے‪ ،‬چنانچہ‬
‫ٓانحضرتﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫ْن َع َم َر َقا َل َقا َل َرس ُْو ُل ہّٰللا ِ ﷺ َم ِن اسْ َت َفادَ َمااًل َفاَل َز ٰکوة ع َلیْه َح ٰ ّتی َیح ُْو ُل َع َلیْه ْال َح ْولُ))‪( ‬ترمذی)‬
‫((عنْ اب ِ‬
‫َ‬
‫’’یعنی جس کو مال مستفاد ملے‪ ،‬وہ سال گزرنے کے بعد اس کی ٰ‬
‫زکوۃ دے۔‘‘‬
‫‪۲‬۔‪ ‬سونا‪ ،‬چاندی یا نقدی کی ٰ‬
‫زکوۃ‪:‬‬
‫جن چار قسم کے مالوں میں ٰ‬
‫زکوۃ فرض ہے‪ ،‬ان میں دوسری قسم سونا‪ ،‬چاندی ہے‪ ،‬اور اسی کے حکم میں نقدی ہے‪،‬‬
‫زکوۃ کی فرضیت کتاب و سنت سے ثابت ہے‪ ،‬جو اس سے انکار کرے وہ کافر ہے‪ ،‬اسے اس سے فوراً توبہ‬
‫ان میں ٰ‬
‫کرنی چاہیے‪ ،‬ورنہ شرعا ً مستوجب قتل ہے‪ ،‬اور جو انکار نہ کرے‪ ،‬اور ادا بھی نہ کرے‪ ،‬وہ فاسق ہے۔‬
‫نقدی کی ٰ‬
‫زکوۃ نہ ادا کرنے کی وعید‪:‬‬
‫اس کے متعلق قرٓان و حدیث میں سخت وعید ٓائی ہے‪ ،‬جس سے بچنا ایک سچے مسلمان کا فرض ہے‪ ،‬حدیث شریف‬
‫میں ٓایا ہے‪:‬‬
‫((عن ابی ھریرة قال قال رسول ہّٰللا ﷺ ما من صاحب ذھب وال فضة ال یٔودی منھا حقہا اال اذا کان یوم القیامة ُ‬
‫ص ِّف َح ْ‬
‫ت‬
‫ص ٗفائح من نارفاحمی علیھا فِیْ نار جہنم فیُکوی بھا جنبه وجبینه وظہرہ کلما ُر َّدت اعیدت َله فی یوم کان مقدارہ خمسین‬
‫َله َ‬
‫فیری سبیلُ ٗہ ِامَّا الی الجنة واما الی النار الخ))‪( ‬صحیح مسلم)‬
‫الف سنة حتی یقضی بین العباد ٰ‬
‫’’حضرت ابو ہریرہ رضی ہللا عنہ روایت کرتے ہیں کہ ٓانحضرتﷺ نے فرمایا‪ :‬سونے چاندی کا جو مالک ان کا‬
‫حق ادا نہیں کرتا‪ ،‬قیامت کے دن اس کے لیے اس سونے چاندی کی چوڑی چوڑی سالخیں بنائی جائیں گی‪ ،‬پھر انہیں‬
‫جہنم میں ٓاگ کی طرح سرخ کیا جائے گا‪ ،‬اور ان سے اس کی پیشانی‪ ،‬پہلو اور پیٹھ پر داغ دئیے جائیں گے‪ ،‬جب وہ‬
‫سرد پڑ جائیں گے تو جہنم کی ٓاگ گرم کر کے دوبارہ داغ دینے شروع کیے جائیں گے‪ ،‬اور لوگوں کے درمیان فیصلہ‬
‫ہونے تک پچاس ہزار سال کے دن اس کے ساتھ یہی سلوک ہوتا رہے گا‪ ،‬اس کے بعد اسے جہنم کا راستہ دکھایا‬
‫جائے گا‪ ،‬یا جنت کا۔‘‘‬
‫تعالی نے قرٓان حکیم میں اس کی تائید اس طرح نازل فرمائی‪:‬‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫ار َج َہ َّن َم َف ُتک ْٰوی ِب َہا‬ ‫ب َو ْال ِفضَّة َو اَل ُی ْن ِفقُ ْو َن َہا فِیْ َس ِبی ِْل ہّٰللا ِ َف َب ِّشرْ ہُ ْم ِب َع َذا ٍ‬
‫ب اَلِی ٍْم ط ی َّْو َم یُحْ ٰمی َع َل ْی َہا فِیْ َن ِ‬
‫{و الَّ ِذی َْن َیکْ ِن ُز ْو َن َّ‬
‫الذ َہ َ‬ ‫َ‬
‫ظہ ُْو ُرہُ ْم ٰہ َذا َما َک َن ْز ُت ْم اِل َ ْنفُسِ کُ ْم َف ُذ ْوقُ ْوا َما ُک ْن ُت ْم َتکْ ِن ُز ْو َن} (التوبة‪۳۴:‬۔‪)۳۵‬‬ ‫ِج َباہُ ُہ ْم َو ُج ُن ْو ُب ُہ ْم َو ُ‬
‫ٰ‬
‫تعالی کے راستہ میں خرچ نہیں کرتے‪ٓ ،‬اپ ان کو‬ ‫’’جو لوگ سونا‪ ،‬چاندی جمع کر کے رکھتے ہیں‪ ،‬اور اسے ہللا‬
‫دردناک عذاب کی بشارت دے دیں‪ ،‬جس دن ان کے اس مال کو جہنم کی ٓاگ میں گرم کیا جائے گا‪ ،‬پھر اس سے ان‬
‫کی پیشانیوں‪ ،‬پہلؤوں‪ ،‬اور پیٹھوں پر داغ دئیے جائیں گے‪ ،‬اور ان سے کہا جائے گا‪ ،‬یہ وہی مال ہے‪ ،‬جسے تم نے‬
‫اپنے لیے جمع کر رکھا تھا‪ ،‬اب اپنے جمع کیے ہوئے مال کا مزہ چکھو۔‘‘‬
‫ان تین اعضاء کو داغ دینے کی وجہ یہ ہے کہ جب کوئی ضرورت مند سوال کرتا ہے‪ ،‬تو سب سے پہلے کراہت اور‬
‫ناپسندیدگی کے ٓاثار ان کے چہروں پر ظاہر ہوتے ہیں‪ ،‬اپنی پیشانیوں پر شکن ڈالتے ہیں‪ ،‬اور تیوری چڑھا کر سائل‬
‫کو غضب ناک نظر سے دیکھتے ہیں‪ ،‬تاکہ وہ اپنا حق طلب کرنا چھوڑ دے‪ ،‬اگر ضرورت مند زیادہ توجہ دالئے‪ ،‬تو‬
‫پہلو بدل کر دوسری طرح متوجہ ہو جاتے ہں‪ ،‬اگر سائل نے پھر جرٔات سے کام لیا‪ ،‬توپیٹھ پھیر کر چل دیتے ہیں‪ ،‬یہ‬
‫ہللا کے انعام اور فضل کی انتہائی ناسپاسی ہے‪ ،‬جس کا ارتکاب عموما ً بخیل سرمایہ دار کرتے ہیں‪ ،‬بخاری شریف میں‬
‫ہے‪:‬‬
‫ُطوَّ قُه َی ْو َم ْال ِق َیا َمة ُث َّم َیاْ ُخ ُذ ِب َلھ ِْز َم َتیْه َیعْ نِیْ شِ ْد‬
‫ان ی َ‬ ‫(( َمنْ ٰا َتاہُ ہّٰللا ُ َمااًل َف َل ْم یُوَّ ِّد َز ٰکو َته م ُِّث َل َمالُه َی ْو َم ْال ِق َیا َمة‪ُ ،‬‬
‫ش َجاعًا اَ ْق َر َع َله َز ِب ْی َب َت ِ‬
‫ک ُث َّم َواَل َیحْ َس َبنَّ الَّ ِذی َْن َیب َْخلُ ْو َن ِب َما ٰا َتا ُھ ُم ہّٰللا ِ مِنْ َفضْ َله ھ َُو َخیْرً ا لَّ ُھ ْم َب ْل ھ َُو َشرٌّ َل ُھ ْم َسی َ‬
‫ُطوَّ قُ ْو َن َما‬ ‫ِقیْه َف َیقُ ْو ُل اَ َنا َمالُکَ َواَ َنا َک ْن ُز َ‬
‫َب ِخلُ ْوا ِبه َی ْو َم ْال ِق َیا َمة))‬
‫زکوۃ ادا نہ کی ہو‪ ،‬تو قیامت کے دن اس‬ ‫ٰ‬
‫تعالی نے مال (سونا چاندی) دیا ہو اور اس نے اس کی ٰ‬ ‫’’جس شخص کو ہللا‬
‫کے مال کو ایک نہایت زہریلے سانپ کی شکل دی جائے گی‪ ،‬اور طوق کی طرح اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا‪،‬‬
‫وہ اس کے منہ پر دونوں جانب ڈنگ مارے گا‪ ،‬اور کہے گا‪ ،‬میں تیرا ما ل ہوں‪ ،‬میں تیرا خزانہ ہوں‪ ،‬جسے توجمع کر‬
‫کے دنیا میں چھوڑ ٓایا‪ ،‬پھر ٓانحضرتﷺ نے اس کی تصدیق کرنے والی قرٓان پاک کی یہ ٓایت پڑھی‪ ،‬جو لو گ ہللا‬
‫ٰ‬
‫تعالی کے دئیے ہوئے مال میں بخل سے کام لیتے ہیں‪ ،‬وہ ہر گز نہ سمجھیں کہ یہ ان کے لیے بہتر ہے‪ ،‬بلکہ یہ ان‬
‫کے حق میں بدتر ہے‪ ،‬جس مال کے ساتھ انہوں نے بخل کیا ہے‪ ،‬قیامت کے دن اسے (سانپ بنا کر) ہار کی طرح ان‬
‫کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔ ‘‘‬
‫ایک روایت میں ہے‪ ،‬وہ سانپ سے ڈر کر بھاگے گا‪ ،‬سانپ اس کے پیچھے دوڑے گا‪ ،‬حتی کہ وہ تھک ہار کر اپنا‬
‫ہاتھ اس کے منہ میں ڈال دے گا‪ ،‬اور وہ اسے اونٹ کی طرح چباتا ہوا نکل جائے گا۔‬
‫مذکورہ باال ٓایات و احادیث سے معلوم ہوا کہ ٰ‬
‫زکوۃ نہ دینے والے بخیل کو قیامت کے دن قسم قسم کے عذاب میں مبتال‬
‫کیا جائے گا‪ ،‬کبھی اس کے سیم و زر کی چوڑی چوڑی سالخیں بنائی جائیں گی‪ ،‬کبھی اس کو زہریلے سانپ کی شکل‬
‫دی جائے گی‪ ،‬اور اس کے گلے میں طوق کی طرح ڈال دیا جائے گا‪ ،‬کبھی وہ اس کے ٓاگے دوڑے گا اور سانپ اس‬
‫کے پیچھے پیچھے حتی کہ بخیل تھک ہار کر اپنا ہاتھ اس کے منہ میں ڈال دے گا‪ ،‬جسے وہ چبا کر نگل جائے گا‪،‬‬
‫اِئر َج َسدِہٖ ))‪ ‬کے الفاظ سے ظاہر ہے۔‬ ‫ُ‬
‫کہ‪(( ‬ث َّم ْ ُی ِبعُه َس َ‬ ‫اور پھر اس کے جسم کو کھا جائے گا‪ ،‬جیسا‬
‫نقدی اور سونے‪ ،‬چاندی کی ٰ‬
‫زکوۃ کے تفصیلی احکام‪:‬‬
‫مال کی دیگر اقسام بہائم‪ ،‬اجناس خوردنی اور مال تجارت کی طرح نقدی اور سونے چاندی کے مالکوں پر بھی ٰ‬
‫زکوۃ‬
‫فرض ہے‪ ،‬اور اس کی فرضیت کتاب و سنت اور اجماع امت سے ثابت ہے‪ ،‬جو شخص نقدی اور سونے چاندی کے‬
‫نصاب کا مالک ہے‪ ،‬اور اس پر سال بھی گذر چکا ہے‪ ،‬پھر ہر سال اس کی ٰ‬
‫زکوۃ ادا نہیں کرتا‪ ،‬اور اس سلسلہ میں‬
‫غفلت اور سستی سے کام لیتا ہے‪ ،‬اس کے لیے قرٓان حکیم اور حدیث پاک میں سخت وعید وارد ہوئی ہے‪ ،‬جس کا‬
‫زکوۃ ادا کرنا اس انعام کا شکر ہے‪ ،‬اس‬ ‫ٰ‬
‫تعالی کا انعام ہے‪ ،‬اس میں ٰ‬ ‫ذکر اوپر کیا جا چکا ہے‪ ،‬یہ مال‪ ،‬دولت محض ہللا‬
‫ٰ‬
‫تعالی کی وعید کا خطرہ مول نہیں لینا چاہیے۔‬ ‫لیے کسی مسلمان کو اس نعمت کی ناسپاسی کر کے ہللا‬
‫سونے چاندی کا نصاب‪:‬‬
‫بہائم اور اجناس خوردنی کی طرح سونے چاندی کے لیے بھی نصاب مقرر ہے‪ ،‬جیسا کہ مندرجہ ذیل احادیث اس‬
‫سلسلہ میں وارد ہوئی ہیں‪:‬‬
‫ت َلکَ ِماَئ َتا دِرْ َھ ٍم َو َحا َل َع َل ْی َھا ْال َح ْو ُل َف ِف ْی َھا َخ َ‬
‫مْسة دَ َرا ِھ َم َو َلی َ‬
‫ْس‬ ‫ب َع ِن ال َّن ِبیَّ ﷺ َقا َل ا َِذا َکا َن ْ‬ ‫ْن اَ ِبیْ َطالِ ِ‬‫(الف)‪(( ‬عنْ َعلِیِّ اب ِ‬
‫َ‬
‫ار))‪( ‬ابو داود)‬ ‫ب َح َّتی َیک ُْو َن َلکَ عِ ْشر ُْو َن ِد ْی َنارً ا َو َحا َل ْال َح ْو ُل َف ِف ْی َھا نِصْ فُ ِد ْی َن ٍ‬ ‫َع َل ْیکَ َشیٌْئ فِی َّ‬
‫الذ َھ ِ‬
‫’’حضرت علی رضی ہللا عنہ کا بیان ہے کہ ٓانحضرتﷺ نے فرمایا‪ :‬جب تمہارے پاس دو سو درہم ہوں‪ ،‬اور ان پر‬
‫سال بھی گذر جائے‪ ،‬تو ان میں ٰ‬
‫زکوۃ پانچ درہم ہو گی‪ ،‬اور جب تمہارے پاس بیس دینار سونا ہو تو سال کے بعد اس‬
‫زکوہ ادا کرنا فرض ہے۔‘‘‬ ‫میں نصف دینار ٰ‬
‫مْس َذ ْو ٍد م َِن ااْل ِ ِب ِل‬ ‫ہّٰللا‬
‫یص ِف ْی َم ُد ْو َن َخ ِ‬ ‫اق م َِن ْال َو ِر ِق َ‬
‫صدَ َقة َو َل َ‬ ‫(ب)‪(( ‬عنْ َج ِاب ٍر َقا َل َقا َل َرس ُْو ُل ِ ﷺ َلی َ‬
‫ْس ِف ْی َما ُد ْو َن َخ ِ‬
‫مْس اَ َو ٍ‬ ‫َ‬
‫صدَ َقة))‪( ‬احمد ‪ ،‬بخاری من حدیث ابی سعید)‬ ‫ُق م َِن َّ‬
‫الث َم ِر َ‬ ‫صدَ َقة َو َلی َ‬
‫ْس ِف ْی َما ُد ْو َن َخ َ‬
‫مْسة اَ ْوس ِ‬ ‫َ‬
‫زکوۃ نہیں ہے‪،‬‬ ‫’’جابر رضی ہللا عنہ کہتے ہیں کہ ٓانحضرت ﷺ نے فرمایا‪ ۵ :‬اوقیہ (‪ ۲۰۰‬درہم) سے کم چاندی میں ٰ‬
‫زکوۃ نہیں ہے‪ ،‬اور ‪ ۵‬وسق‪ ،‬تقریبا ً ‪ ۲۰‬من سے کم غلہ میں ٰ‬
‫زکوۃ نہیں ہے۔‘‘‬ ‫اور ‪ ۵‬سے کم اونٹوں میں ٰ‬
‫ان اور کتب احادیث میں مروی دیگر بیسیوں احادیث سے ثابت ہوتا ہے کہ شارع علیہ السالم نے چاندی کے لیے ‪۲۰۰‬‬
‫درہم اور سونے کے لیے ‪ ۲۰‬دینار مقرر کیا ہے‪ ،‬اور ان پر وجوب ٰ‬
‫زکوۃ کے لیے ایک سال کی میعاد کو شرط قرار‬
‫دیا ہے‪ ۲۰۰ ،‬درہم یعنی ‪ ۲/۱.۵۲‬تولہ‪ ،‬اور ‪ ۲۰‬دینار سونے کا وزن‪ ۲/۱.۷‬تولہ ہے۔ اس سے معلوم ہوا کہ سونے‬
‫زکوۃ ادا کرنا الزم ہے‪ ،‬نقدی کی ٰ‬
‫زکوۃ چاندی کی قیمت‬ ‫چاندی کے مالک ہر مسلمان کے لیے اس نصاب کے مطابق ٰ‬
‫کے مطابق ہو گی‪ ،‬بنا بریں چونکہ اس وقت چاندی کا نرخ ساڑھے تین روپے تولہ ہے‪ ،‬اس حساب سے ‪ ۲/۱.۵۲‬تولہ‬
‫چاندی کی قیمت رائج الوقت شرح کے لحاظ سے تقریبا ً ‪ ۱۸۴‬روپے بنتی ہے‪ ،‬اس لیے نقدی کا نصاب ‪ ۱۸۴‬روپے ہو‬
‫گا‪ٓ ،‬اج اگر کسی کے پاس اتنی یا اس سے زیادہ نقدی ہو‪ ،‬اور اس پر ایک سال کا عرصہ بھی گزر چکا ہو تو اس کو‬
‫اس تمام رقم سے ‪ %۲/۱.۲‬فی صد کے حساب سے ٰ‬
‫زکوۃ ادا کرنی چاہیے۔‬
‫‪ANS 03‬‬
‫قرآن کریم کی روشنی میں روزہ کے اغراض و مقاصد‪":‬‬
‫* یہ کہ مسلمان ہللا تعالی کی کبریائی اور اس کی عظمت کا اظہار کریں‪.‬‬
‫* ہدایت الہی ملنے پر خدائے کریم کا شکر بجا الئیں کہ اس نے پستی وذلت کے عمیق غار سے نکال کر‪ ،‬رفعت و‬
‫عزت کے اوج کمال تک پہنچایا‪.‬‬
‫* یہ کہ مسلمان پرہیزگار بنیں اور ان میں تقوی پیدا ہو‪.‬‬
‫"تقوی" دل کی اس کیفیت کا نام ہے جس کے حاصل ہو جانے کے بعد دل کو گناہوں سے جھجک محسوس ہونے لگتی‬
‫ہے اور نیک کاموں کی طرف اس کو بیتابانہ تڑپ ہوتی ہے اور روزہ کا مقصود یہ ہے کہ انسان کے اندر یہی کیفیت‬
‫پیدا ہو‪.‬‬
‫دوسرے الفاظ میں ہم یوں کہ سکتے ہیں کہ روزے‪ ،‬خدا ترسی کی طاقت انسان کے اندر محکم کر دیتے ہیں‪ .‬جس کے‬
‫باعث انسان اپنے نفس پر قابو پا لیتا ہے اور خدا کے حکم کی عزت اور عظمت اس کے دل میں ایسی اجاگر ہو جاتی‬
‫ہے کہ کوئی جذبہ اس پر غالب نہیں آتا‪ .‬اور یہ ظاہر ہے کہ ایک مسلمان‪ ،‬خدا کے حکم کی وجہ سے حرام و ناجائز‬
‫اور گندی عادتیں چھوڑ دے گا اور ان کے ارتکاب کی کبھی جرأت نہ کرے گا‪ .‬اسی اخالقی برتری کو ہم تقوی کہتے‬
‫ہیں‪.‬‬
‫"احادیث مبارکہ کی روشنی میں روزہ کے فضائل‪":‬‬
‫* جب رمضان آتا ہے آسمان کے دروازے کھول دیئے جاتے ہیں اور ایک روایت میں ہے کہ رحمت کے دروازے‬
‫کھول دیئے جاتے ہیں اور جہنم کے دروازے بند کر دیئے جاتے ہیں‪ .‬اور شیاطین زنجیروں میں جکڑ دیئے جاتے‬
‫ہیں‪( .‬بخاری و مسلم)‬
‫* جنت میں آٹھ دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازہ کا نام "ریان" ہے‪ .‬اس دروازے سے وہی جائیں گے جو روزہ‬
‫رکھتے ہیں‪( .‬ترمذی)‬
‫* روزہ دار کیلئے دو خوشیاں ہیں‪ .‬ایک افطار کے وقت اور ایک اپنے رب سے ملنے کے وقت‪ .‬اور روزہ دار کے‬
‫منہ کی بو‪ ،‬ہللا رب العزت کے نزدیک مشک سے زیادہ پاکیزہ اور خوشبودار ہے‪( .‬بخاری و مسلم)‬
‫* رمضان المبارک وہ مہینہ ہے کہ اس کا پہال عشرہ رحمت کا ہے‪ .‬دوسرا عشرہ مغفرت کا ہے‪ .‬اور اس کا تیسرا‬
‫عشرہ جہنم سے آزادی کا ہے‪( .‬بیہقی)‬
‫* روزہ خالصتا ہللا رب العزت کیلئے ہے اس کا ثواب ہللا رب العزت کے سوا کوئی نہیں جانتا‪( .‬طبرانی)‬
‫* ہر شے کیلئے زکوة ہے اور بدن کی زکوة روزہ ہے اور نصف صبر ہے‪( .‬ابن ماجہ)‬
‫* روزہ دار کی دعا افطار کے وقت رد نہیں کی جاتی‪( .‬بیہقی)‬
‫* اگر بندوں کو معلوم ہوتا کہ رمضان کیا چیز ہے تو میری امت تمنا کرتی کہ پورا سال رمضان ہی ہو‪( .‬ابن خزیمہ)‬
‫* ہللا رب العزت رمضان میں ہر روز دس الکھ بندوں کو جہنم سے آزاد فرماتا ہے اور جب رمضان کی انتیسویں رات‬
‫ہوتی ہے تو مہینے بھر میں جتنے آزاد کئے ان کے مجموعہ کے برابر اس ایک رات میں آزاد فرماتا ہے‪ .‬پھر جب‬
‫عید الفطر کی رات آتی ہے تو مالئکہ خوشی کرتے ہیں اور ہللا جل مجدہ اپنے نور کی خاص تجلی فرماتا ہے اور‬
‫فرشتوں سے فرماتا ہے‪:‬‬
‫"اے میرے مالئکہ اس مزدور کا کیا بدلہ ہے جس نے کام پورا کر لیا؟ "‬
‫فرشتے عرض کرتے ہیں "اس کو پورا اجر دیا جائے‪".‬‬
‫اس پر خالق کائنات جل مجدہ فرماتا ہے‪:‬‬
‫"میں تمہیں گواہ کرتا ہوں کہ میں نے ان سب کو بخش دیا‪( ".‬اصبہانی)‬
‫روزہ جسے عربی میں صوم کہتے ہیں اس کے معنی ہیں "رکنا اور چپ رہنا‪".‬‬
‫قرآن کریم میں "صوم" کو صبر سے تعبیر کیا گیا ہے‪ .‬جس کا خالصہ ضبط نفس‪ ،‬ثابت قدمی اور استقالل ہے‪ .‬اس‬
‫سے ظاہر ہوتا ہے کہ اسالم کے نزدیک روزہ کا مفہوم یہ ہے کہ آدمی نفسانی ہوا و ہوس اور جنسی خواہشوں میں‬
‫بہک کر غلط راہ پر نہ پڑے اور اپنے اندر موجود ضبط اور ثابت قدمی کے جوہر کو ضائع ہونے سے بچائے‪.‬‬
‫لیکن اصطالح شریعت میں "مسلمان کا بہ نیت عبادت‪ ،‬صبح صادق سے غروب آفتاب تک اپنے آپ کو قصدا کھانے‬
‫پینے اور جماع سے باز رکھنے کا نام روزہ ہے‪".‬‬
‫دین اسالم میں روزہ کی اہمیت کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ یہ اسالم کے بنیادی ارکان میں سے چوتھا رکن ہے‪.‬‬
‫اور ہللا رب العزت نے روزہ کی صورت میں حضرت انسان کو جن فوائد سے نوازا ہے وہ یہ ہیں‪:‬‬
‫* روزے جسمانی صحت کو برقرار رکھتے بلکہ اسے بڑھاتے ہیں‬
‫* روزے رکھنے سے دل کی پاکی‪ ،‬روح کی صفائی اور نفس کی طہارت حاصل ہوتی ہے‪.‬‬
‫* روزے‪ ،‬دولت مندوں کو‪ ،‬غریبوں کی حالت سے عملی طور پر باخبر رکھتے ہیں‪.‬‬
‫* روزے‪ ،‬شکم سیروں اور فاقہ مستوں کو ایک سطح پر کھڑا کر دینے سے قوم میں مساوات کے اصول کو تقویت‬
‫دیتے ہیں‪.‬‬
‫* روزے‪ ،‬ملکوتی قوتوں کو قوی اور حیوانی قوتوں کو کمزور کرتے ہیں‪.‬‬
‫* روزے‪ ،‬جسم کو مشکالت کا عادی اور سختیوں کا خوگر بناتے ہیں‪.‬‬
‫* روزوں سے بھوک اور پیاس کے تحمل اور صبر و ضبط کی دولت ملتی ہے‪.‬‬
‫* روزوں سے انسان کو دماغی اور روحانی یکسوئی حاصل ہوتی ہے‪.‬‬
‫* روزے بہت سے گناہوں سے انسان کو محفوظ رکھتے ہیں‪.‬‬
‫* روزے نیک کاموں کیلئے اسالمی ذوق و شوق کو ابھارتے ہیں‪.‬‬
‫* روزہ ایک مخفی اور خاموش عبادت ہے جو ریا و نمائش سے بری ہے‪.‬‬
‫* قدرتی مشکالت کو حل کرنے اور آفات کو ٹالنے کیلئے روزہ بہتریں ذریعہ ہے‪.‬‬
‫اس کے عالوہ بھی روزہ کے بہت سے فوائد ہیں جن کا قرآن و حدیث میں بڑی تفصیل کے ساتھ ذکر آیا ہے‪ .‬امت‬
‫مسلمہ کو اس وقت دین اسالم کی تعلیمات کو سمجھنے اور ان پر عمل کرنے کی اشد ضرورت ہے اسی میں ہی‬
‫مسلمانوں کی بقا ہے‪ .‬ہللا رب العزت ماہ مقدس کی شایان شاں عزت و تکریم کی توفیق عطا فرمائے اور حقیقی معنوں‬
‫میں روزہ اہمیت اور افادیت کو سمجھنے اور اس پر عمل کی توفیق عطا فرمائے‬
‫‪ANS 04‬‬
‫جس وقت انسان ”احرام“ باندھتا ہے تو ظاہری امتیازات‪ ،‬رنگ برنگ کے لباس اور زر و زیور جیسی تمام مادیات سے‬
‫ُحرم کا ایک فریضہ ہے) انسان کو‬
‫باہر نکال دیتا ہے‪ ،‬لذائذ کا حرام ہونا‪  ‬اور اصالح‪  ‬نفس میں مشغول ہونا (جو کہ م ِ‬
‫مادیات سے دور کردیتا ہے اور نور و پاکیزگی اور روحانیت کے عالم میں پہنچا دیتا ہے اور عام‪  ‬حاالت میں خیالی‬
‫امتیازات اور ظاہری افتخارات کے بوجھ کو اچانک ختم کردیتا ہے جس سے انسان کو راحت اور سکون حا صل‬
‫ہوتاہے‪،‬اس کے بعد حج کے دوسرے‪  ‬اعمال یکے بعد دیگرے انجام پاتے ہیں‪ ،‬جن سے انسان ‪،‬خدا سے لمحہ بہ لمحہ‬
‫نزدیک ہوتا جاتا ہے اور خدا سے رابطہ مستحکم تر ہوتا جاتا ہے‪ ،‬یہ اعمال انسان کوگزشتہ گناہوں‪  ‬کی تاریکی سے‬
‫نکال کر نور وپاکیزگی کی وادی میں پہنچا دیتے ہیں۔‬
‫حج کے اندر ایک ایسا منظر نظر ٓاتا ہے کہ کالے گورے ‪،‬عربی عجمی‪،‬ایشین افریقن ‪،‬پوری دنیا سے مختلف نسلوں‬
‫اور رنگوں سے اورمختلف مسلکوں سے تعلق‪ ‬رکھنے والےسب‪ ‬کے سب اس کیفیت میں نظر ٓاتے ہیں کہ فی الواقع‬
‫ایک گروہ ‪،‬ایک امت ‪،‬ایک جماعت‪،‬ایک برادری اور ایک خاندان ہیں۔‬
‫انما المومنون اخوۃ‪ ‬کی عملی تصویراگر کسی نے دیکھنی ہو تووہ حج کے دوران نظر ٓاتی ہے‪،‬کہ مومنین ٓاپس میں‬
‫بھائی بھائی ہیں‪،‬کسی کوتکلیف ہوتی ہے تو ساتھ واال تڑپ اُٹھتا‪ ‬ہے اور اگر کسی سے تکلیف پہنچتی ہے تو‬
‫عفوودرگزرسے کام لیا جاتا ہے ‪،‬گویا جومساوات کا درس ہللا کے حبیب ﷺ نے ٓاج سے چودہ سو سال قبل دیا تھا‬
‫اس کا مظاہرحج میں ٓاج بھی نظر ٓاتا ہے‬
‫بندہ و صاحب محتاج و غنی ایک ہوئے‬
‫تیری سرکار میں پہنچے تو سبھی ایک ہوئے‬
‫یہ بال وجہ اسالمی روایات میں بیان نہیں ہوا ہے کہ ”حج کرنے واال اپنے گناہوں سے اس طرح پاک ہوجاتا ہے جیسے‬
‫ابھی شکم مادر سے پیدا ہوا ہو“۔‬
‫البتہ یہ تمام ٓاثار و برکات ان لوگوں کے لئے نہیں ہیں جن کا حج صرف ظاہری پہلو رکھتا ہے جو حج کی حقیقت سے‬
‫دور ہبں‪ ،‬اور نہ ہی ان لوگوں کے لئے جو حج کو ایک سیر و‪ ‬تفریح سمجھتے ہیں یا ریاکاری اور سامان کی خرید و‬
‫فرو خت کے لئے جاتے ہیں ‪ ‬اور جنھیں حج کی حقیقت کا علم نہیں ہے‪ ،‬ایسے لوگوں کا حج میں وہی حصہ ہے جو‬
‫انھوں نے‪ ‬حاصل کرلیا ہے‬
‫‪  ‬سیاسی مقاصد‪ :‬اسالم نے ہمیں ایک نظام دیا محلہ کی سطح پر اجتماع‪،‬نماز باجماعت ہے‪،‬عالقہ کی سطح پر اجتماع‬
‫جمعہ ہے ‪،‬شہر کی سطح پر اجتماع عیدین اور عالمی سطح پر اجتماع حج‪  ‬ہے‪،‬اس مجمع غفیر کو مسلمانوں کا ساالنہ‬
‫اجتماع اور کانفرنس بھی کہہ سکتے ہیں مناسک حج ‪ ‬کےعالوہ مزید موجودہ حاالت کو سامنے رکھتے ہوئے ہونا تو‬
‫یہ چاہیے تھا کہ یہ ایک‪  ‬ایسا اجتماع‪  ‬ہوتا جس میں تمام امتیازات کو ختم کر کے خطبہ ہجۃالوداع کو سامنے رکھتے‬
‫ہوئے ہم سب مسلمانوں کا مشن اعالئے کلمۃہللا ہوتا ‪،‬حج کے موقع پر سیاسی ‪،‬قومی اورعالمی سطح پر پالیسز بناتے‬
‫ہیں۔‬
‫دنیا میں جہاں کہیں مظالم ہورہے ہیں خصوصا مسلمانوں پر ان کے خالف ایک ٓاوازہوتے‪،‬عمومی و خصوصی مسائل‬
‫پر ‪  ‬سیمینارہوتے‪،‬امیر حج پورا سال محنت کرتا اپنی ٹیموں کو مختلف ملکوں میں بھیج کر تجزیہ کرتاکہ مسلمان‬
‫اسوقت پوری دنیا سے پیچھے کیوں رہ گئے ہیںاورجو سازشیں کرنے‪  ‬والےہیں ‪،‬اہل اسالم کو ہر وقت ظلم وجبر کی‬
‫چکی میں پیس رہے ہیں ان سے چھٹکارا کیونکر ممکن ہے ‪،‬امیر حج پوری دنیا سے ٓائے ہوئے نمائندوں کو سال بھر‬
‫کا الئحہ عمل‪  ‬دیتاکہ وہ نمائندے اپنے ملکوں میں جا کر یہ پیغام لوگوں تک پہنچاتے ‪،‬پھر پورا سال نگرانی ہوتی سال‬
‫کے بعد حج کے موقع پر تجزیہ کیا جاتاکیا کمی بیشی ہوئی‪،‬کیا فوائد‪  ‬ہوئے اور کہاں تک اہداف حاصل کئے‪،‬حج‬
‫کےموقع پر لوگوں کی تربیت وغیرہ کے ذریعے کوئی ایسی چیز دی جاتی کہ مسلمان اپنا کھویا ہوا مقام پھر حاصل‬
‫کر لیتے۔۔‬
‫اقبال کوئی پوچھے یہ زائرین حرم سے‪ ‬‬
‫کیا حرم کا تحفہ زمزم کے سوا کچھ اور نہیں ہے‬
‫مطلب حرمین شریفین سے اعالئے کلمۃہللا کا تحفہ التے‪ ‬لبیک اللھم لبیک ال شریک لک لبیک‪ ‬کی صدا یہاں بھی سنائی‬
‫دیتی‪،‬کوئی عفو ودرگزر یہاں بھی دیکھنے کو ملتا‪،‬مساوات‪ ‬کا عملی مظاہرہ ہوتا ‪،‬یہاں پر غلطی یا کسی پر زیادتی‬
‫کےبعد صدقہ وکفارہ ادا کیا جاتا‪،‬بال تفریق ایک اجتماع ہوتا ‪،‬جمرات کی طرح یہاں بھی ہرشیطانی عمل قول و فعل‬
‫اورطاغوتی طاقتوں سے اعالن جنگ ہوتا۔‬
‫افسوس!بد قسمتی سے اس عظیم عبادت کے اثرات ہماری زندگیوں میں نظر نہیں ٓاتے اور نہ ہی حج کرنے والوں کی‬
‫زندگی میں کوئی تبدیلی نظر ٓاتی ہے نہ ہی اجتماعی طور‪ ‬امت مسلمہ کے وجود میں اجتماعی طور پر اپنی ذمہ داریوں‬
‫کو ادا کرنے کے لئے اس سے تحریک پیدا ہو رہی ہے؟ ‪ ‬االماشاہللا‬
‫رگوں میں وہ لہو باقی نہیں ہے‬
‫وہ دل وہ ٓارزو باقی نہیں ہے‪ ‬‬
‫صف قدح دل پریشاں سجدہ بے ذوق‬
‫کہ حزب اندروں باقی نہیں ہے‬
‫نماز وروزہ‪ ،‬قربانی و حج‪ ‬‬
‫یہ سب باقی ہیں تو باقی نہیں ہے‬
‫کرنا‪،‬روح سیاست یعنی خلق خدا پر توجہ کرنا ہے اور یہ دونوں چیزیں حج کے موقع پر‬
‫ِ‬ ‫روح عبادت ‪،‬خدا پر توجہ‬
‫ِ‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ متحد ہیں!‬
‫حج مسلمانوں کی صفوں میں اتحاد کا بہترین سبب ہے۔‬
‫حج نسل پرستی اور عالقائی طبقات کے فرق کو ختم کرنے کے لئے بہترین ذریعہ ہے۔‬
‫حج اسالمی ممالک میں فوجی ظلم و ستم کے خاتمہ کا وسیلہ ہے۔‬
‫حج اسالمی ممالک کی سیاسی خبروں کو دوسرے مقامات تک پہنچانے کا وسیلہ ہے‪ ،‬خالصہ یہ کہ حج؛ مسلمانوں پر‬
‫ظلم و ستم اور استعمار کی زنجیروں کو کاٹنے اور مسلمانوں کو‪ٓ ‬ازادی دالنے کا بہترین ذریعہ ہے۔‬
‫اور یہی وجہ ہے کہ حج کے موسم میں بنی امیہ اور بنی عباس جیسی ظالم و جابر حکومتیں اس موقع پر حجاج کی‬
‫مالقاتوں پر نظر رکھتی تھیں تاکہ ٓازادی کی تحریک کو وہیں کچل دیا‪ ‬جائے‪ ،‬کیونکہ حج کا موقع مسلمانوں کی ٓازادی‬
‫کے لئے بہترین دریچہ تھا تاکہ مسلمان جمع ہوکر مختلف سیاسی مسائل کو حل کریں۔‬
‫حضرت علی رضی ہللا عنہ ‪،‬جس وقت فرائض اور عبادات کا فلسفہ بیان کرتے ہیں تو حج کے بارے میں فرماتے‬

‫ہیں‪” :‬الح ُّج َت ْق ِو َی ُة لِل ِّد ِ‬


‫ین“(خداوندعالم نے حج کو‪ٓ ‬ائین اسالم کی تقویت کے لئے واجب قرار دیا ہے‬ ‫َ‬
‫بال وجہ نہیں ہے کہ ایک غیر مسلم سیاست داں اپنی پُر معنی گفتگو میں کہتا ہے‪” :‬وائے ہو مسلمانوں کے حال پر اگر‬
‫حج کے معنی کو نہ سمجھیں اور وائے ہو اسالم کے دشمنوں پر کہ‪ ‬اگر حج کے معنی کوسمجھ لیں“!‬
‫یہاں تک اسالمی روایات میں حج کو ضعیف او رکمزور لوگوں کا جہاد قرار دیا گیا ہے اور ایک ایسا جہاد جس میں‬
‫کمزور ضعیف مرد اور ضعیف عورتیں بھی حاضر ہوکر اسالمی‪ ‬شان و شوکت میں اضافہ کرسکتی ہیں‪ ،‬اور خانہ‬
‫کعبہ میں نماز گزاروں میں شامل ہوکر تکبیر اور وحدت کے نعروں سے اسالمی دشمنوں کو خوف زدہ کرسکتے ہیں۔‬
‫‪ ‬ثقافتی مقاصد‪ :‬مسلمانوں کا ایام حج میں دنیا بھر کے مسلمانوں سے ثقافتی رابطہ اور فکر و نظر کے انتقال کے لئے‬
‫بہترین اور موثر ترین عامل ہوسکتا ہے۔‬
‫خصوصا ً اس چیز کے پیش نظر کہ حج کا عظیم الشان اجتماع دنیا بھر کے مسلمانوں کی حقیقی نمائندگی ہے (کیونکہ‬
‫حج کے لئے جانے والوں کے درمیان کوئی مصنوعی عامل موثر‪ ‬نہیں ہے‪ ،‬اور تمام قبائل‪ ،‬تمام زبانوں کے افراد حج‬
‫کے لئے جمع ہوتے ہیں)‬
‫جیسا کہ اسالمی روایات میں بیان ہوا ہے کہ حج کے فوائد میں سے ایک فائد ہ یہ ہے کہ اس کے ذریعہ پیغمبر اکرم‬
‫(ص) کی احادیث اور اخبار ؛عالم اسالم میں نشر ہوں۔‬
‫فلسفہ‬
‫ٴ‬ ‫”ہشام بن حکم“ حضرت امام صادق رضی ہللا عنہ کے اصحاب میں سے ہیں کہتے ہیں‪ :‬میں نے امام صادق سے‬
‫حج اور طواف کعبہ کے بارے میں سوال کیا تو ٓاپ‪ ‬نے فرمایا‪” :‬خداوندعالم نے ان تمام بندوں کو پیدا کیا ہے اور دین‬
‫و دنیا کی مصلحت کے پیش نظر ان کے لئے احکام مقرر کئے‪ ،‬ان میں مشرق و مغرب سے (حج کے‪ ‬لئے) ٓانے والے‬
‫لوگوں کے لئے حج واجب قرار دیا تاکہ مسلمان ایک دوسرے کو اچھی طرح پہچان لیں اور اس کے حاالت سے باخبر‬
‫ہوں‪ ،‬ہر گروہ ایک شہر سے‪ ‬دوسرے شہر میں تجارتی سامان منتقل کرے اور پیغمبر اکرم (ص) کی احادیث و ٓاثار‬
‫کی معرفت حاصل ہو اور حجاج ان کو ذہن نشین کرلیں ان کو کبھی فراموش نہ کریں‪( ،‬اور‪ ‬دوسروں تک‬
‫پہونچائیں)اسی وجہ سے ظالم و جابر خلفاء اور سالطین ؛مسلمانوں کو ان چیزوں کے نشر کرنے کی اجازت نہیں‬
‫دیتے تھے ‪ ،‬وہ خود اس موقع سے فائدہ‪ ‬اٹھاتے ہوئے اپنی مشکلوں کو دور کرتے تھے ‪ ،‬ائمہ کرام اور بزرگ علمائے‬
‫دین سے مالقات کرکے قوانین اسالمی اور سنت پیغمبر پر پردہ ڈالتے تھے۔‬
‫اس کے عال وہ حج ؛عالمی پیمانہ پر ایک عظیم الشان کانفرنس کا نام ہے جس میں دنیا بھر کے تمام مسلمان مکہ‬
‫معظمہ میں جمع ہوتے ہیں اور اپنے افکار اورابتکارات کو دوسرے‪ ‬کے سامنے پیش کرتے ہیں۔‬
‫اصولی طور پر ہماری سب سے بڑی بد بختی یہ ہے کہ اسالمی ممالک کی سرحدوں نے مسلمانوں کی ثقافت میں‬
‫جدائی ڈال دی ہے‪ ،‬ہر ملک کا مسلمان صرف اپنے بارے‪ ‬میں سوچتا ہے‪ ،‬جس سے اسالمی معاشرہ کی وحدت نیست‬
‫و نابود ہوگئی ہے‪ ،‬لیکن حج کے ایام میں اس اتحاد اور اسالمی ثقافت کا مظاہرہ کیا جاسکتا ہے۔‬
‫چنانچہ کیا خوب فرمایا ہے (اسی ہشام بن حکم کی روایت کے ذیل میں)‪ :‬جن قوموں نے صرف اپنے ملک ‪،‬شہروں‬
‫اور اپنے یہاں در پیش مسائل کی گفتگو کی تو وہ ساری‪ ‬قومیں نابود ہوجائیں گی اور ان کے ملک تباہ و برباد اور ان‬
‫ت پردہ رہ جائیں گی۔‬
‫کے منافع ختم ہوجائیں گے اور ان کی حقیقی خبریں پش ِ‬
‫‪  ‬اقتصادی مقاصد ‪ :‬اس میں کیا حرج ہے کہ اس عظیم الشان اجتماع میں اسالمی مشترک بازار کی بنیاد ڈالیں اور‬
‫تجارتی اسباب و وسائل کے سلسلہ میں ایسا قدم اٹھائیں جس سے دشمن کی جیب‪ ‬میں پیسہ نہ جائے اور نہ ہی‬
‫مسلمانوں کا اقتصاد دشمن کے ہاتھوں میں رہے‪ ،‬یہ دنیا پرستی نہیں ہے بلکہ عین عبادت اور جہاد ہے۔‬
‫ہشام بن حکم کی اسی روایت میں امام صادق علیہ الرحمہ نے حج کے فلسفہ کو بیان کرتے ہوئے صاف صاف اس‬
‫موضوع کی طرف اشارہ کیا ہے کہ مسلمانوں کی‪ ‬تجارت کو فروغ دینا اور اقتصادی تعلقات میں سہولت قائم کرنا ؛حج‬
‫کے اغراض و مقاصدمیں سے ہے۔‬
‫ْس َع َل ْیکُ ْم ُج َنا ٌح اٴَنْ َت ْب َت ُغوا َفضْ اًل مِنْ َر ِّبکُ ْم>کے ذیل میں بیان فرمایا‪ :‬اس ٓایت‬
‫ٓایہ شریفہ‪َ < ‬لی َ‬
‫‪ ‬امام صادق رضی ہللا عنہ نے ٴ‬
‫سے مراد کسب روزی‪ ‬ہے‪،‬جس وقت انسان احرام سے فارغ ہوجاتا ہے اور مناسکِ حج کو انجام دے لیتا ہے تو اسی‬
‫موسم حج میں خرید و فروخت کرے‪،‬‬
‫فلسفہ حج کے بارے میں ایک تفصیلی حدیث کے ذیل میںیہی معنی بیان‬
‫ٴ‬ ‫اور امام رضا علیہ الرحمہ سے منقول‬
‫ہیں‪” ،‬لِ َی ْش َھ ُدوا َم َناف َِع َلھُم“یہ معنوی منافع کو بھی شامل‪ ‬ہوتی ہے اور مادی منافع کو بھی‪ ،‬لیکن ایک لحاظ سے دونوں‬
‫معنوی منافع ہیں۔‬
‫مختصر یہ کہ اگر اس عظیم الشان عبادت سے صحیح اور کامل طور پر استفادہ کیا جائے ‪ ،‬اور خانہ خدا کے زائرین‬
‫ان دنوں میں جبکہ وہ اس مقدس سر زمین پر بڑے جوش و جذبہ‪ ‬کے ساتھ حاضر ہیں اور ان کے دل ٓامادہ ہیں تو‬
‫اسالمی معاشرہ کی مختلف مشکالت دور کرنے کے لئے سیاسی‪ ،‬ثقافتی اور اقتصادی کانفرنس کے ذریعہ فا ئدہ‬
‫اٹھائیں‪ ،‬یہ‪ ‬عبادت ہر پہلو سے مشکل کشا ہوسکتی ہے‪ ،‬اور شاید اسی وجہ سے امام صادق علیہ الرحمہ نے‬
‫خانہ کعبہ باقی ہے اس وقت تک اسالم بھی باقی رہے گا“‬
‫ٴ‬ ‫فرمایا‪” :‬جب تک‬
‫اور اسی طرح حضرت علی نے فرمایا‪ :‬خانہ خدا کو نہ بھالٔو کہ اگر تم نے اسے بھال دیا تو ہالک ہوجأو گے‪،‬‬
‫اور اس موضوع کی اہمیت کے پیش نظر اسالمی روایات میں ایک فصل اس عنوان سے بیان کی گئی کہ اگر ایک‬
‫سال ایسا ٓاجائے کہ مسلمان حج کے لئے نہ جا ئیں تو اسالمی‪ ‬حکومت پر واجب ہے کہ مسلمانوں کو مکہ معظمہ‬
‫جانے پر مجبور کرے۔‬
‫‪ANS 05‬‬
‫قرٓان میں اسالمی جہاد کا مقصد بیان کیا گیا ہے۔ آیت کے مطابق جنگ کا ہدف وہ اغراض نہیں ہیں جو عموما‬
‫جنگوںمیں لوگوں کی ہوتی ہیں۔ اسالمی جہاد نہ زمین پر فرماں روائی اور کشور گشائی کے لیے ہے اور نہ غنائم پر‬
‫قبضہ کر نے کے لیے‬
‫اس کا مقصد اپنے مال کی فروخت کے لیے منڈیوں کا حصول ہے نہ خام مال پر قبضہ اور نہ ہی یہ جہاد ایک نسل‬
‫کی دو سری نسل پر فوقیت قائم کر نے کے لیے ہے بلکہ اس کا مقصد ہے فقط پروردگار کی خوشنودی کا حصول‬
‫‪،‬اجتماعی عدالت کا قیام‪ ،‬ان لوگوں کی حمایت جو مکرر و فریب اور گمراہی کی رد میں ہیں ‪ ،‬انسانی معاشر ے سے‬
‫شرک اور بت پرستی کی بساط الٹنا اور احکام الہی کا نفاذ ۔ اس بناء پر جیسا کہ مشاہدہ بتاتا ہے کہ اسالمی جنگ اس‬
‫لیے ہوتی ہے کہ انسانی معاشرے میں فتنہ باقی نہ رہے اور توحید پرستی کا دین تمام انسانی معاشروں میں رواج‬
‫پاجائے ۔‬
‫آیت کے ذیل میں مزید ارشاد ہو تا ہے کہ لوٹ آنے اور کفر ‪ ،‬فساد اور بت پرستی سے دست بردار ہو جانے کی‬
‫صورت میں مسلمانوں کو چا ہئیے کہ وہ ان سے متعرض نہ ہوں اور گذشتہ واقعات کا انتقام لینے کے در پے نہ ہوں‬
‫اور ماضی کو بھول جائیں کیونکہ تعرض اور تجاوز فقط ستمگر اور ظالم لوگ ہی کیا کر تے ہیں۔‬
‫اسالمی جہادوں کو حقیقت میں تین حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے‪:‬‬
‫‪۱‬۔ ابتدائی جہاد آزادی‪:‬‬
‫خداوند عالم کے احکام اور پرواگرام نوع انسان کی سعادت ‪،‬آزادی‪ ،‬تکامل ‪ ،‬خوش بختی اور آسایش و آرام کے لیے‬
‫ہیں اور اس نے اپنے انبیاء و مرسین کا یہ فریضہ قرار دیا ہے کہ وہ ان احکام کو لوگوں تک پہنچائیں۔ اب اگر کوئی‬
‫شخص یا گروہ ان احکام کی تبلیغ کو اپنے پست منافع سے مزاحم سمجھتے ہوئے اس کی راہ میں روڑے اٹکائے تو‬
‫انہیں حق پہچنتاہے کہ وہ پہلے صلح و آشتی سے اور اگر اس سے ممکن نہ ہو تو قوت و طاقت سے اپنے دعوت کی‬
‫راہ سے یہ رکاوٹیں ہٹادیں اور اپنے لیے تبلیغ کی آزادی حاصل کریں ۔‬
‫دوسر ے لفظوں میں تمام معاشروں میں لوگ یہ حق رکھتے ہیں کہ راہ حق کی طرف دعوت دینے والوں کی آواز‬
‫سنیں اور ان کی دعوت قبول کرنے میں آزاد ہوں اب اگر کچھ لوگ انکا یہ جائز حق چھیننا چاہیں اور انھیں اجازت نہ‬
‫دیں کہ وہ راہ حق پکارنے والوں کی پکار گوش دل سے سن سکیں اور فکری و اجتماعی قید و بند سے آزاد ہوں تو‬
‫پھران پروگراموں کے طرفداروں کو حق پہچتا ہے کہ وہ حصول آزادی کے لیے ہر ذریعہ استعمال کریں ۔ یہیں سے‬
‫اسالم اور دیگر آسمانی ادیان میں ابتدائی جہاد کی ضرورت واضح ہو تی ہے۔ اس طرح اگر کچھ لوگ مومنین پردباد‬
‫ڈالیں کہ وہ اپنے پرانے مذہب کی طرف جائیں تو یہ دباؤ دور کر نے کے لیے بھی ہر ذریعہ استعمال کیا جا سکتا ہے‬
‫۔‬
‫‪۲‬۔ دفاعی جہاد‬
‫بعض اوقات کسی فرد یا گروہ پر جنگ ٹھونسی جاتی ہے اور اس پر تجاوز کیا جا تا ہے یا دشمن اس کی غفلت سے‬
‫فائدہ اٹھا کراچانک حملہ کردیتا ایسی صورت میں حملے کا نشانہ نبنے والے فرد یا گروہ کو تمام آسمانی اور انسانی‬
‫قوانین دفاع کا حق دیتے ہیں ۔ ا ُ سے حق پہنچتا ہے کہ ایسے ہیں جو کچھ اس سے اپنے وجود کی بقاء کے لیے بن پڑ‬
‫ے کر ے اور اپنی حقاظت کے لیے کوئی دقیقہ فرو گذاشت نہ کر ے ۔ جہاد کی اس قسم کو دفاعی جہاد کہتے ہیں ۔‬
‫احد ‪ ،‬احزاب‪ ،‬موتہ‪ ،‬تبوک ‪ ،‬حنین‪ ،‬اور بعض دیگر اسالم جنگیں جہاد کے اسی حصے کا جزء ہیں اور یہ سب جنگیں‬
‫دفاعی پہلوکی حامل ہیں ۔‬
‫‪۳‬۔ شرک و بت پرستی کے خالف جہاد‪:‬‬
‫اسالم لوگوں کو یہ آخری اور بلند ترین دین انتخاب کرنے کی دعوت دیتا ہے اس کے با وحود وہ عقید ے کی آزادی‬
‫کو بھی محترم شمار کرتا ہے ۔ اسی لیے آسمانی کتب کی حامل قوموں کو اسالم نے کافی مہلت اور رعایت دی ہے کہ‬
‫وہ مطالعہ اور غور و فکر سے دین اسالم کو قبول کریں اور اگر وہ اسے قبول نہ کریں تب بھی ان سے اسالم ایک ہم‬
‫پیمان اقلیت واال معاملہ کرتا ہے اور مخصوص شرائط کے ساتھ جو پیچیدہ ہیں نہ مشکل ان سے صلح آشتی سے باہمی‬
‫زندگی گذار تا ہے۔‬
‫لیکن۔۔۔شرک اور بت پرستی کوئی دین اور آئین نہیں اور نہ ہی وہ قابل احترام ہے بلکہ وہ تو ایک قسم کی بے ہودگی‪،‬‬
‫کجروی اور حماقت ہے ۔ در اصل وہ ایک فکری اور اخالقی بیماری ہے حبس کی ہر قیمت پر ریشہ کنی ضروری‬
‫ہے دو سروں کی فکر و نظر کی آزادی اور احترام کے الفاظ ان کے لیے استعمال ہو تے ہیں جن کے فکر و عقیدہ کی‬
‫کم از کم کوئی صحیح بنیاد تو ہو لیکن کجروی ‪ ،‬بے ہودگی ‪ ،‬گمراہی ‪ ،‬اور بیماری تو کوئی ایسی چیز نہیں جسے‬
‫محترم سمجھا جا ئے ۔ اسی لیے اسالم حکم دیتا ہے کہ جیسے بھی ہو انسانی معاشر ے سے بت پرستی کی ریشہ کنی‬
‫کی جائے چاہے اس کے لیے جنگ مول لینا پڑ ے ۔ بت خانے اور بت پرستی کے آثار صلح صفائی سے نہ مٹ سکیں‬
‫تو قوت و طاقت کے بل بوتے پر انہیں ویران و منہدم کیا جانا چا ہئیے۔‬
‫مدینہ میں جہاد کا حکم کیوں دیا گیا‬
‫ہم جانتے ہیں کہ جہاد ہجرت کے دوسرے سال مسلمانوںپر واجب ہوا اس سے پہلے واحب نہ تھا۔ اس کی وجہ یہ ہے‬
‫کہ مکہ میں ایک تو مسلمانوں کی تعداد اتنی کم تھی کہ مسلح قیام عمال خود کشی کے مترادف تھا اور دسری طرف‬
‫مکہ میں دشمن بہت زیادہ طاقتور تھا لہذا مکہ کے اندر ان کا مقابلہ کرنا ممکن نہ تھا۔‬
‫جب پیغمبر اکرم ﷺ مدینہ میں تشریف الئے تو بہت لوگ آپ پر ایمان لے آئے اور آپ نے اپنی دعوت مدینہ کے‬
‫اندر اور با ہر ہر طرف پھیالئی ۔ اس طرح آپ ایک مختصر سی حکومت کے قیام اور دشمن کے مقابلے میں‬
‫ضروری وسائل جمع کر نے کے قابل ہو گئے ۔ مدینہ چونکہ مکہ سے کافی دور تھا اس لیے یہ امور آسانی سے انجام‬
‫پاگئے ۔ انقالب اور آزادی پسند قوتیں دشمن سے مقابلے اور دفاع کے لیے تیار ہو گئیں۔‬
‫فتنہ کا قرانی مفہوم‬
‫نفظ فتنہ اور اس کے مشتقات قرآن میں مختلف معانی میں استعمال ہوئے ہیں ۔ ان میں سے چند یہ ہیں‪:‬‬
‫‪۱‬۔ آزمائش و امتحان ۔۔۔۔۔جیسے یہ آیت ہے‬
‫احسب الناس ان یترکوآ ان یقولوا امنا و ہم ال یفتنون‪ ‬عنکبوت آیہ ‪۲‬‬
‫کیا لوگ سمجھتے ہیں کہ ان کا یہ کہنا کافی ہے کہ وہ ایمان لی آئے ہیں اور ان کا امتحان اور آزمائش نہیں ہوگی؟‬
‫‪۲‬۔ فریب دہی ۔۔۔۔۔ارشاد الہی ہے‪:‬‬
‫یا بنی آدم ال یفتننکم الشیطان اعراف‪ : ‬آیت‪۲۷‬‬
‫ای اوالد آدم شیطان تمہیں مکر و فریب نہ د ے‬
‫‪۳‬۔ بالء اور عذاب ۔۔۔۔۔فرمان الہی ہے‪:‬‬
‫و اتقوا فتنة ال تصیبن الذین ظلموا منکم خاصة‪ ‬انفال آیت ‪۲۵‬‬
‫اس عذاب سے ڈرو جو فقط ظالموں ہی کے لیے نہیں ( بلکہ ان کے لیے بھی ہے جنہوں نے خود تو ظلم نہیں کیا لیکن‬
‫ظلم ہوتا رہااور وہ چب سادھے(رہے)‬
‫‪۴‬۔ شرک‪ ،‬بت پرستی اور مومنین کی راہ میں رکاوٹ بننا ۔۔۔۔۔۔ارشاد ہوتا ہے‪:‬‬
‫وا قاتلو ہم حتی ال تکون فتنہ و یکون الدین کلہ ہلل‪ ‬انفال آیت‪۳۹‬‬
‫اور ان سے جنگ کرو یہاں تک کہ شرک اور بت پرستی بافی نہ رہے اور دین صرف ہللا سے مخصوص ہو جا ئے‬
‫‪۵‬۔ گمراہ کرنا اور گمراہی ۔۔۔۔۔سورہ مائدہ میں ہے‪:‬‬
‫و من یرد ہللا فتنتہ فلن تملک لہ من ہللا شیئا‪ ‬مائدہ آیت ‪۴۱‬‬
‫اور جسے خدا گمراہ کرد ے ( اور اس سے توفیق سب کرلے تو تم اس کے مقابلے میں کوئی قدرت نہیں رکھتے‬
‫بعید نہیں کہ ان تمام معانی کی ایک ہی بنیاد ہو( جیسے مشترک الفاظ کی یہی صورت ہوتی ہے) اور وہ بنیاد یہ ہے کہ‬
‫فتنہ کا اصل لغوی معنی ہے کہ سو نے اور چاندی کو آگ کے دباؤ کے نیچے رکھنا تا کہ خالص اور ناخالص حصہ‬
‫جدا ہو جائے۔ اس لیے جہاں کہیں دباؤ اور سختی ہو یہ لفظ استعمال ہو تا ہے ۔ مثال امتحان کے مواقع پر شدت اور‬
‫مشکل در پیش ہو تی ہے جو انسان کے امتحان کا باعث بنتی ہے۔ یہی حال کفر اور مخلوق کی ہدایت کے راستے میں‬
‫رکاوٹیں پیدا کرنے کا ہے ۔ ان میں سے ہر ایک میں ایک قسم کاد باؤ اور شدت پائی جاتی ہے۔‬

You might also like