Professional Documents
Culture Documents
سالی پورے گھر والی
سالی پورے گھر والی
اب کی بار عمران نے پھر اپنا لن باہر نکاال اور مجھے ڈوگی سٹائل میں آنے کو کہا۔ میں
نے اپنے دونوں بازو باتھ ٹب کے ساتھ بچھا لیے اور اپنی گانڈ اوپر اٹھا کر ڈوگی سٹائل
میں عمران کو چودائی کی دعوت دی۔ عمران میرے پیچھے سے آئے اور لن میری چوت
پر رکھ کر ایک ہی جھٹکے میں اند ر ڈال کر دھکے مارنے لگے۔ اس پوزیشن میں
مجھے تھوڑا درد بھی محسوس ہورہا تھا کیونکہ میری چوت تھوڑی ٹائٹ ہوگئی تھی
اور لن کی رگڑ زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ عمران کے جاندار دھکے جاری تھے اور
پانی کا ہلنا بھی عمران کے دھکوں کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا تھا۔ لذت اہستہ آہستہ
درد پر حاوی ہونے لگی تو میں نے بھی عمران کا ساتھ دینا شروع کیا۔ جب عمران لن
باہر کی طرف نکالتے تو میں اپنی گانڈ آگے کی طرف لے جاتی اور جب عمران نے
واپس لن چوت میں داخل کرنا ہوتا تو عمران کے دھکے کے ساتھ ہی میں اپنی گانڈ
عمران کی طرف لے جاتی جس سے لن اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ میری چوت کو
چیرتا ہوا اندر تک جاتا۔ اب عمران نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے 34سائز کے
ممے اپنے ہاتھو میں زور سے پکڑ لیے اور میری چدائی اور بھی مزیدار ہونے لگی۔
وہ اپنی انگلیوں سے میرے نپل دبانے لگے اور دھکوں کی سپیڈ میں اضافہ ہوگیا یہ
اضافہ اتنا شدید تھا کہ میں سمجھ گئی عمران کا لن اب کی بار منی نکالنے لگا ہے ،میں
نے عمران کو فورا لن باہر نکالنے کو کہا تاکہ منی میری چوت میں نا جا سکے۔ عمران
نے ہاں میں سر ہالیا اور دھکوں کی سپیڈ میں اور اضافہ کر دیا پھر ایک دم سے اپنا لن
باہر نکاال اور ہاتھ میں پکڑ کر خود ہی مٹھ مارنے لگے اور ساری منی میری گانڈ اور
چوتڑوں پر نکال دی۔ کچھ قطرے میری کمر تک بھی گئے۔ عمران نے چند جھٹکے
مارے اور اپنی ساری منی نکالنے کے بعد پر سکون ہوگئے مگر میرا پانی ابھی نہیں
نکال تھا اس لیے مجھے مزید چدائی کی ضرورت تھی میں نے ٹب میں اپنی گانڈ اور
کمر سے منی صاف کی اور عمران کو دوبارہ سے بیڈ روم میں چلنے کو کہا۔ عمران
مجھے اٹھا کر بیڈ روم میں لے گئے اور بیڈ پر لٹا کر میرے ساتھ لیٹ گئے اور میرے
نپل چاٹنا شروع کر دیا۔ میں نے فورا ہی عمران کا لن جو اب دوبارہ سے چھوٹا ہو چکا
تھا اپنے ہاتھ میں لیا اور اسکو پھدی کے ساتھ مال کر اندر ڈالنے کی کوشش کرنے لگی
کیونکہ میری پھدی ابھی جل رہی تھی۔ عمران نے کہا یہ ایسے نہیں جائے گا پہلے اسے
منہ میں لے کر کھڑا کرو پھر اپنی چوت کی پیاس بجھاو ا س سے میں نے یہ سنتے ہی
فورا عمران کو نیچے لٹایا اور خود انکے اور آکر لن منہ میں لیکر کسی قلفی کی طرح
چوسنے لگی۔ میرے منہ کی گرمی سے لن نے آہستہ آہستہ انگڑائی لینا شروع کی اور
2منٹ میں ہی دوبارہ سے کھڑا ہوکر چدائی کے لیے تیار ہوگیا۔ یہ دیکھتے ہی میں
فورا لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں پھیال کر عمران کو چودنے کی دعوت دی ،عمران نے
میری دونوں ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھیں اور لن چوت میں ڈال کر فل سپیڈ میں
چدائی شروع کر دی۔ میں نے بھی گانڈ اٹھا کر عمران کا بھرپور ساتھ دینا شروع کر دیا۔
اس بار میرے دونوں ہاتھ اپنے مموں پر تھے اور میں ممے دبانے کے ساتھ ساتھ
بھرپور سسکیاں بھی نکال رہی تھی جس سے چدائی کا مزہ دوباال ہوگیا تھا۔ پھر عمران
نے اپنی پوزیسشن بدلی اور میری دونوں ٹانگیں نیچے بیڈ پر رکھ کر سیدھی بچھا دیں۔
میں اب بیڈ پر بالکل سیدھے لیٹی تھی اور ٹانگیی کھولنے کی بجائے لمبی پھیالئی ہوئی
تھیں۔ عمران بھی میرے اوپر لیٹ گئے سیدھے اور اپنا لن میری پھدی پر رکھ کر اپنا
وزن میرے اوپر ڈاال تو لن خود بخود پھدی میں چال گیا مگر میری چیخیں ایک بار پھر
کمرے میں گونجنے لگیں کیونکہ ٹانگیں ملی ہونے کی وجہ سے پھدی بالکل ٹائٹ
ہوگئی تھی اور اس میں عمران کا موٹا لن پھدی کی دیواروں سے مسلسل ٹکرا رہا تھا۔
عمرا ن میرے اوپر بالکل سیدھے لیٹے تھے اور اب صرف وہ اپنی گانڈ ہال کر
مجھےچودنے میں مصروف تھے۔ 2منٹ اسی پوزیشن میں چدائی کے بعد میرے جسم
میں سوئیاں سی چبھنے لگی اور میں نے عمران کو سپیڈ بڑھانے کا کہا ،عمران نے
جیسے ہی اپنے دھکے پڑھائے میرے جسم نے جھٹکے کھانا شروع کیے اور پھدی نے
پانی چھوڑ دیا۔ اب عمران نے میرے اوپر سے اٹھ کر میری ٹانگیں اٹھا کر مزید چودنا
چاہا تو میں نے کہا کہ میں اب مزید چودائی نہیں کروا سکتی میری چوت کا برا حال ہو
چکا ہے۔ مگر عمران نے کہا کہ انہیں بھی ابھی فارغ ہونا ہے اور اگر وہ فارغ نہیں
ہوئے تو چین نہیں آئے گا۔
یہ سن کر میں عمران کے سامنے ڈوگی سٹائل میں بیٹھ گئی مگر اس بار عمران کے لن
کی طرف میری گانڈ کی بجائے میرا منہ تھا۔ میں نے عمران کا لن اپنے منہ میں لیا اور
اسکو لولی پاپ کی طرح اپنے ہونٹوں اور زبان سے چوسنے لگی۔ آہستہ آہستہ پورا لن
میرے منہ میں تھا اور اب عمران میرے منہ کی چدائی کر رہے تھے۔ میرا پورا منہ کھال
ہوا تھا اور عمران اس میں اپنے لن کے دھکے لگا رہے تھے میرے دانت ہلکے سے
عمران کے لن سے رگڑ کھا رہے تھے جس سے عمران کو کچھ تکلیف بھی ہورہی تھی
مگر عمران نے دھکوں کا سلسلہ جاری رکھا اور میں منہ کھولے عمران کو فارغ کرنے
میں مدد دیتی رہی۔ کچھ ہی دیر میں عمران کے لن میں تناو بڑھ گیا اور سپیڈ بھی بڑھ
گی ٫پھر عمران ک لن نے 5 ،4جھٹکوں میں ہی اپنی منی میرے منہ میں چھوڑ دی،
اس بار میں پہلے سے تیار تھی جیسے ہی منی نکلی میں نے اسکو منہ سے باہر نکالنا
شروع کر دیا اور منہ میں جمع ہونے نہیں دی۔ 5جھٹکے مارنے کے بعد عمران کو
بھی سکون مل گیا۔ اور عمران نڈھال ہوکر بیڈ پر لیٹ گئے۔ جبکہ میں منہ دھونے واش
روم میں چلی گئی۔ اتنے میں عمران کو صائمہ کا فون آیا کہ مجھے لینے آجاو۔ عمران
نے کپڑے پہنے اور صائمہ کو لینے چلے گئے جب کہ میں نے بھی اپنے کپڑے الماری
میں رکھے اور دوسرے کپڑے نکال کر پہنے اور کھانا بنانے کے لیے کچن میں چلی
گئی۔ میرے لیے چلنا دشوار ہو رہا تھا کیوں کہ آج اپنی پہلی چدائی میں ہی میں اپنی
چوت کا برا حشر کروا بیٹھی تھی۔ لیکن میں خوش تھی کہ میری زندگی کی پہلی چدائی
مکلمل ہوچکی تھی۔ اور مجھے چودنے واال کوئی اور نہیں میرا اپنا بہنوئی تھا۔ اور میں
اب آدھی گھر والی سے پوری گھر والی بن چکی تھی۔
اب سب لوگ گھر واپس آ چکے تھے سب نے مل کر رات کا کھانا کھایا اور امی ابو
اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلے گئے۔ بھائی ب ِھی اپنے کمرے میں چال گیا تیسرا
کمرہ میرا تھا۔ جب بھی صائمہ اور عمران بھائی ہمارے ہاں رہتے تھے ہم تینوں ایک ہی
کمرے میں سوتے تھے کیونکہ فیاض یعنی کہ میرا بھائی اپنے کمرے میں کسی کو
گھسنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ صائمہ اور عمران بیڈ پر لیٹ گئے جب کہ میں بیڈ سے
نیچے چارپائی بچھا کر چار پائی پر لیٹ گئی۔ کمرے میں اے سی چل رہا تھا اور اچھی
ٹھنڈ تھی میں کھیس لے کر لیٹی ہوئی تھی کہ اچانک مجھے عمران کی ہلکی سی آواز
سنائی دی "جان کرنے دو نہ" میں نے کھیس سے تھوڑا سا منہ باہر نکال کر دیکھا تو
زیرو بلب کی روشنی میں عمران نے اپنی ایک ٹانگ صائمہ کے اوپر رکھی ہوئی تھی
اور اپنے ایک ہاتھ سے صائمہ کے ممے کو دبا رہے تھے۔ صائمہ نے سرگوشی کی کہ
مجھے ماہورای ہے کل تک صبر کر جاو کل میں اپنی چوت خود اپنی جان کے حوالے
کرونگی۔ مگر عمران نے کہا کہ میرا لن فل تناو میں ہے اور اسکو تم سکون نہیں دو
گی تو اور کون دے گا؟؟ صائمہ کی آواز آئی کہ فائزہ بھی کمرے میں موجود ہے وہ
دیکھ لے گی ،عمران نے میری طرف دیکھا تو میں نے فورا اپنی آنکھیں بند کر لیں
جیسے میں سو چکی ہوں۔ عمران نے کہا وہ سو رہی ہے اور میں نے کونسا تمہیں
چودنا ہے کہ تمہاری آوازوں سے اسکی آنکھ کھلنے کا خدشہ ہو۔ میں نے ہلکی سی
آنکھ کھول کر دیکھا تو اب عمران کی ساری توجہ صائمہ کے مموں پر تھی ایک ہاتھ
سے ایک مما دبا رہے تھے تو دوسرے ممے پر اپنا چہر پھیر رہے تھے۔ یہ بھی بتاتی
چلوں کہ یہ سب کچھ کپڑوں کے اوپر سے ہی ہورہا تھا ۔
تب صائمہ نے اپنا جسم اپنی جان کے حوالے کر دیا جو ک اب میری بھی جان تھی۔
عمران نے ایک ہاتھ سے صائمہ کا مما اپنے ہاتھ میں لیا رکھا اور ساتھ ہی اپنے ہونٹ
صائمہ کے ہونٹوں سے لگا دیے۔ صائمہ بھی کسی ماہر عورت کی طرح عمران کے
ہونٹ چوسنے لگی ٫دونوں کی زبانیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں اور انکے چوسنے کی
ہلکی سی آواز میرے کانوں میں پہنچح کر مجھے بھی گرم کر رہی تھی۔ اب عمران نے
صائمہ کو اٹھا کر بٹھا دیا اور صائمہ کی قمیض اتارنے لگے۔ صائمہ نے بھی میری
طرف دیکھنا چاہا تو میں نے فورا اپنی آنکھیں بند کر لیں اور کچھ ہی دیر بعد جب
آنکھیں کھولی تو دونوں کے ہونٹ شہد کا مزہ لے رہے تھے اور زبانیں آپس میں ٹکرا
ٹکرا کر اپنی محبت کا اظہار کر رہے تھے صائمہ کی جسم سے قمیض غائب تھی اور
کالے رنگ کے بریزئیر میں سے اسکے گورے چٹے مموں کا ابھار نظر آرہا تحا۔ اب
عمران کے ہاتھ صائمہ کی کمر پر گئے اور برا کی ہک کھولنے لگے۔ اب صائمہ کے
38سائز کے بڑے بڑے ممے آزاد ہو چکے تھے اور عمران پاگلوں کی طرح صائمہ
کے ممے منہ میں لیکر چاٹ رہے تھے۔ صا ئمہ نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں اور
مزے سے ہلکی ہلکی آوازیں اسکے منہ سے نکل رہی تھیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر میرا
ہاتھ بے اختیار کھیس میں سے سرکتا ہوا اپنی چوت تک چال گیا اور 2انگلیوں سے
میں اپنی چوت کو سہالنے لگی جو کہ پہلے سے ہی گیلی ہو چکی تھی۔
کچھ دیر بعد ہی صائمہ کا ہاتھ میں عمران کا لن تھا اور وہ اپنا ہاتھ شلوار کے اوپر سے
ہی عمران کے لن پر پھیر رہی تھی۔ عمران بدستور صائمہ کے 38سائز کے مموں کو
چوسنے میں مصروف تھے۔ صائمہ کی آنکھیں ابھی تک بند تھیں مموں سے فارغ ہوکر
عمران نے اپنی شلوار اتار دی اور اپنا 7انچ کا لن صائمہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا اور
خود بیڈ پر لیٹ گئے۔ عمران کے پاووں کا رخ میری چارپائی کی طرف تھا۔ عمران دیوار
کے ساتھ تکیہ لگا کار اپنا سینہ تھوڑا اوپر اٹھا کر لیٹے تھے ،صائمہ نے عمران کا لن
اپنے ہااتھ میں پکڑا اور اس پر اپنے ہونٹوں سے ایک بوسہ دیا۔ اور پیار سے بولی کہ
کل میں اپنے یار کے لن کی پیاس کو اپنی چوت کے پانی سے بجھا دوں گی اور ساتھ
ہی ٹوپی پر اپنی زبان پھیرنے لگی۔ صائمہ اب جھکی ہوئی تھی لن کے اوپر اور اسکے
38سائز کے ممے جھکے ہونے کی وجہ سے اور بھی بڑے لگ رہے تھے۔ صائمہ
نے پورا لن اپنی زبان سے گیال کر دیا تھا۔ صائمہ اپنی زبان لن کی جڑ سے پھیرت ہوئی
لن کی ٹوپی تک التی اور پھر ٹوپی منہ میں لے کار اپنے ہونٹ اس پر گول گول گھماتی
جس سے عمران کو بہت مزہ آرہا تھا۔ پھر صائمہ نے عمران کے ٹٹے اپنے منہ میں لے
کار انکو چاٹنا شروع کیا تو عمران ک جسم میں ہلکے ہلکے جھٹکے لگنے لگے
جیسے انہیں مزہ آرہا ہو۔ میری انگلیاں بھی مسسلسل پھدی کا مساج کر رہی تھی اور
میری نظریں لن پر تھیں جو کبھی صائمہ کے منہ میں ہوتا تو کبھی صائمہ اس پر اپنے
منہ سے تھوک پھینک کر دونوں ہاتھوں سے لن کا مساج کرتی۔ اتنے میں عمران کی
نظر مجھ پر پڑی اور ہماری نظریں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور عمران ایک دم
چونک گئے۔ صائمہ نے لن منہ سے باہر نکال کر پوچھا کیا ہوا تو عمران نے گھبرائی
ہوئی آواز میں کہا نہیں کچھ نہیں جان بہت مزہ آرہا ہے۔ یہ سن کر صائمہ نے دوبارہ
سے لن اپنے منہ میں لیا اور قلفی سمجھ کر چوسنے لگی۔ میں نے عمران کو آنکھ
ماری اور اشارہ دیا کے شو جاری رکھو مزے کا ہے۔ اور اپنے ہونٹوں سے کس کرنے
کا اشارہ کیا۔ یہ دیکھ کر عمران ریلیکس ہوگئے اور دوبارہ سے اپنی توجہ اپنے لن کی
طرف کر لی جو اس وقت صائمہ کے منہ میں تھا جو کسی ماہر کی طرح لن کا چوپا لگا
رہی تھی۔ صائمہ کی مہارت سے پتا لگ رہا تھا کو وہ اکثر عمران کے لن کا چوپا لگاتی
رہتی ہے اور عمران کو اپنے چوپوں سے سکون پہنچاتی ہے۔
صائمہ کے چوپے جاری تھے کہ عمران نے بڑے پیار سے صائمہ کو اپنی بانہوں میں
لیا اور اپنے لہجے میں پیار بھر کے کہا کہ آج تو اپنی جان کو اپنی گانڈ مارنے کی
اجازت دے دو۔ تمہاری چوت تو آج مجھے نہیں مل سکتی مگر اپنی گانڈ آج میرے
حوالے کر دو میں بہت پیار سے اپنی جان کی گانڈ ماروں گا۔ صائمہ نے صاف انکار کر
دیا کہ میں کبھی گانڈ کی چدائی نہیں کروا سکتی۔ عمران نے کہا کہ اگر تم مجھے اپنی
گانڈ چودنے کی اجازت دو گی تو میں تمہاری چوت کو اپنی زبان سے بھی چاٹوں گا اور
تمہاری چوت کا شربت اپنی زبان سے نکلوا کار پیوں گا۔ صائمہ نے کہا آپ بھلے میری
چوت نا چاٹیں مگر میں اپنی گانڈ آپکو نہیں دے سکتی کیونکہ یہ گناہ ہے اور اس سے
نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ آپ نے مجھے جیسے چودنا ہے جتنی بار چودنا ہیے آپ چودیں
مگر گانڈ میں نہیں دے سکتی۔ یہ کہ کر صائمہ دوبارہ کسی ماہر کی طرح عمران کے لن
کے چوپے لگانے لگی۔ لن پر تھوک پھینکا اسکو اپنے ہاتھوں سے لن پر مسل کر
مساج کیا اور دوبارہ سے لن منہ میں لیکر عمران کو مزہ دینے لگی۔ صائمہ کے ممے
لٹک رہے تھے اور لن کے بالکل قیرب تھے اور چوپے لگانے کی ہلکی ہلکی آوازوں
نے میری پھدی کا برا حال کیا ہوا تھا۔ مموں کو لن کے قریب دیکھ کر مجھے انگریزی
فلموں کا وہ سین یاد آگیا جسمیں مموں کی بھی چدائی کی جاتی ہے اور اپنا لن مموں
کے درمیان پھیر کر مزہ لیا جاتا ہے۔ جیسے ہی میرے ذہن میں یہ سین آیا میں نے اپنا
کھیس تھوڑا اور نیچے کیا اور عمران کو اشارہ کار ک متوجہ کیا اپنی طرف ،صائمہ
چوپا لگانے میں مصورف تھی جب عمران نے میری طرف دیکھا تو میں نے اپنی بڑی
انگلی باہر نکال کر اپنے مموں کی الئن کے درمیان پھیر کر دکھائی اور یہ اشارہ دیا کہ
صائمہ کے مموں کی چدائی کرو۔ عمران میرا اشارہ سمجھ گئے اور صائمہ کو بیٹھنے
کو کہا۔ صائمہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی تو اسکے سامنے عمران بھی آکر بیٹھ گئے اور
اسکو دونوں ہاتھوں سے اپنے ممے پکڑ کر آپس میں مالنے کو کہا۔ صائمہ نے ایسے
ہی کیا اور عمران نے مموں کے نیچے سے اپنا 7انچ کا لن داخل کیا جو 38سائز کے
مموں ک اندر چھپ گیا اور اوپر سے ہلکی سی ٹوپی نکلتی ہوتئ دکھائی دی ۔ یہ دیکھ
کر صائمہ ہنس دی اور کہا کہ یہ خیال تمہیں کہاں سے آگیا۔ عمران بولے کہ بس آج میں
اپنی جان کے مموں کی چدائی کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر صائمہ خوش ہوئی اور بولی
میرے ممے حاضر ہیں اور نیچے سے اپنے مموں کی کلیوج میں سے لن کو اوپر نیچے
ہوتا دیکھنے لگی۔ صائمہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنے ممے آپس میں مال کر دبائے
ہوئے تھے۔ اور عمران انکی چدائی میں مصروف تھے۔ کچھ ہی دیر بعد عمران نے اپنا
لن دوبارہ سے صائمہ کے منہ میں ڈال دیا اور صائمہ نے چوپے لگانے شروع کر دی۔
پھر عمران نے صائمہ کو بیڈ پر لٹایا اور صائمہ کا سر اس بار میری چارپائی کی طرف
تھا اس لیے وہ مجھے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ پھر عمران صائمہ کے پیٹ کے اوپر آکر
بیٹح گئے مگر وزن نہیں ڈاال اور اپنا لن صائمہ کے مموں کے درمیان پھیرنے لگے۔
صائمہ نے ایک بار پھر اپنے ہاتھوں سے دونوں مموں کو آپس میں مال کر لن کا راستہ
تنگ کر دیا جس سے عمران کو مزہ آنے لگا۔
اب صائمہ لیٹی ہوئی تھی اور عمران اسکے اوپر بیٹحے اسکے مموں کو چود رہے
تھے۔ میری انگلیوں کی رفتار کافی بڑھ چکی تھی اور اب میں اپنی انگلی شلوار میں ڈال
کر پھدی میں داخل کر چکی تھی اور اپنی ہی انگلی سے اپنی پھدی کی چدائی کرنے میں
مصروف تھی۔ عمران بیچ بیچ میں میری طرف دیکھ کر مسکرا بھی دیتے اور ساتھ
ساتھ مموں کی چدائی کی سپیڈ میں اضافہ کر دیا۔ میری چوت بھی اب اپنی منزل کو
پہنچنے ہی والی تھی اس لیے میں نے بھی اپنی رفتار تیز کردی اور کچھ ہی دیر میں
میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔ اور مجھے سکون مال۔ اب صائمہ کے ممے عمران کے
لن کی طوفانی رفتار سے چدائی کروا رہے تھے اچانک عمران ک جسم نے جھٹکے
مارنا شروع کیے اور مموں کے درمیان میں ہی لن نے اپنی منی نکال دی۔ لن کی منی
نے صائمہ کا سینہ بھر دیا تھا اور کچھ قطرے صائمہ کے چہرے پر بھی گرے جب کے
چند ایک چھوٹے قطرے میرے چہرے تک بھی پہچ گئے جنکو میں نے لیٹے َ
لیٹ ہی
اپنے منہ سے صاف کر لیا۔ مگر مموں کی ان چدائی کے بعد صائمہ اپنا جسم صاف
کرنے واش روم چلی گئی اور میں نے عمران کی طرف دیکھ کر ایک پیاری سی چمی
دی اور اپنا منہ کھیس میں کر کے سوگئی۔
عمران اور صائمہ کو سیکس کرتا دیکھ کر میری چوت میں آگ لگ گئی تھی اور میں
مزید اپنے بہنوئی سے اپنی چوت کی آگ بجھوانا چاہتی تھی۔ اور یہ آگ عمران کے 7
انچ لن سے نکلنے والی منی ہی بجھا سکتی تھی۔ اگلے دن صائمہ کی ماہواری ختم ہو
چکی تھی اور اس نے غسل بھی کر لیا تھا۔ میں نے بھی موقع دیکھ کر عمران کو کہ دیا
کہ آج رات صائمہ کو میری موجودگی میں ہی چودے میں اپنی بہن کی چودائی کو اپنی
آنکھوں سے دیکھنا چاہتی تھی۔ عمران نے بھی کہا کہ وہ کو شش کریں گے۔ سارا دن
گزر گیا ،رات کے کھانے کے بعد سب لوگ اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے ،میں
صائمہ اور عمران بھی ہمارے کمرے میں آگئے۔ میں نے شام سے ہی صائمہ کہ کہنا
شروع کر دیا کہ آج تو مجھے بہت نیند آرہی ہے میں کمرے میں جاتے ہی سوجاوں گی۔
اسکی وجہ یہی تھی کہ اسکو یقین آجائے کہ فائزہ سو چکی ہے اور وہ سکون کے
ساتھ اپنے شوہر سے اپنی چدائی کروا سکے۔
کمرے میں جاتے ہی میں اپنی چارپائی پر لیٹ گئی اور سونے کی ایکٹنگ کرنے لگی۔
اتنے میں عمران نے صائمہ کو اپنے پاس آنے کو کہا تو صائمہ بولی پہلے فائزہ کو
سونے دو۔ عمران نے کہا تم اپنے بیگ سے اپنی پنک کلر کی نائٹی نکالو اور وہ پہن کر
آو تب تک فائزہ بھی گہری نیند سوجائے گی۔ صائمہ نے ایسے ہی کیا اور بیگ سے
نائٹی نکال کر واش روم چلی گئی اسکے واش روم جاتے ہی میں نے عمران کو کہا کہ
الئٹ بند نہ کرنا میں سارا سین اچھے طریقے سے دیکھنا چاہتی ہوں۔ جیسے ہی واش
روم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی میں نے دوبارہ سے اپنی آنکھیں بند کی اور بازو
آنکھوں کے اوپر رکھ لیا تاکہ چپکے چپکے ان دونوں کو دیکھ سکوں۔ میں بازو کے
نیچے سے دیکھ رہی تھی صائمہ نے پنک کلر کی شارٹ نائٹی پہنی ہوئی تھی جو مشکل
سے اسکی پینٹی کو چھپا رہی تھی۔ گہرے گلے والی نائٹ سے صائمہ کے 38سائز
کے مموں کا ابھار واضح دکھائی دے رہا تھا اور نائٹی میں سے صائمہ کے نپل بھی
ابھرے ہوئے نظر آرہے تھے ،شائد اسنے برا نہیں پہنا ہوا تھا۔ صائمہ الئٹ بند کرنے
لگی تو عمران نے روک دیا کہ پہلے مجھے دل بھر کر اپنی جان کو دیکھنے تو دو۔ یہ
سن کر صائمہ عمران کی گود میں جا کر بیٹھ گئی جوٹانگیں پھیالئے تقریبا لیٹنے والی
پوزیشن میں تھے صائمہ کا منہ دوسری طرف تھا تو میں نے اپنی آنکھیں پوری کھول
دیں۔ صائمہ کی نائٹی بہت سیکسی تھی پیچھے سے آدھی کمر ننگی تھی۔ گوری چٹی
اور بھر ی بھری کمر پنک نائٹی میں بہت ہی سیکسی لگ رہی تھی ۔ اور نائٹی شارٹ
ہونے کی وجہ سے اب نیچے سے صائمہ کی پینٹی بھی واضح نظر آرہی تھی۔ صائمہ
نے جی سٹرنگ پینٹی پہن رکھی تھی جو پیچھے سے انتہائی باریک ہوتی ہے اور کپڑا
نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ پیچھے سے دونوں چوتڑ ننگے تھے پینٹی صرف گانڈ والی
الئن کو چھپا رہی تھی۔ اپنی بہن کو اس نائٹ میں دیکھ کو مجھے خود بھی اپنی سیکسی
بہن پر پیار آنے لگ گیا۔
اب عمران اور صائمہ پاگلوں کی طرح کسنگ کرنے میں مصروف تھے ،صائمہ بدستور
عمران کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی۔ عمران کا ایک ہاتھ صائمہ کی ننگی کمر پر تھا تو
دوسرے ہاتھ سے صائمہ کے چوتڑ دپا رہے تھے ۔ کسنگ کرتے کرتے عمران صائمہ
کی گردن پر آئے اور صائمہ کی گردن پر وحشی درندے کی طرح پیار کرنے لگے۔ یہ
پیار ہونٹوں سے کم اور دانتوں سے زیادہ تھا ،صائمہ کی اف ف ف ف ف ف ،،آہ آہ آہ
آہ آہ ،ام ام ام م م م م م کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اب عمران صائمہ کے کندھوں پر
اپنے ہونٹوں اور زبان سے پیار کرنے میں مصروف تھے اور اس پوزیشن میں عمران
اور میں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے مگر صائمہ مجھنے نہیں دیکھ سکتی تھی
کیونکہ اسکا منہ دوسری طرف تھا۔ عمران کے دونوں ہاتھ صائمہ کی کمر پر تھے جن
سے وہ صائمہ کی شارٹ نائٹی کو اوپر اٹھا چکے تھے اور میرے سامنے صائمہ کی
ننگی کمر موجود تھی اور پینٹی بھی اب بالکل واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی۔
دونوں ایک دوسرے کو پیار کرنے میں مصروف تھے کہ اچانک صائمہ نے عمران کی
شرٹ کے بٹن کھولنا شروع کیے اور فورا ہی شرٹ اتار دی۔ اور عمران کے سینے پر
پیار کرنے لگی۔ سینے پر پیار کرتے کرتے اس نے عمران کے نپلز پر بھی پیار کرنا
شروع کر دیا جس سے عمران کو مزہ آنے لگا جو میں واضح طور پر عمران کے
چہرے پر دیکھ سکتی تھی۔ صائمہ اپنی زبان گول گول عمران کے نپل پر گھماتی تو
کبھی جلدی جلدی نپل کے اوپر پھیرتی۔ پھر صائمہ نے نپل پر اپنے دانت بھی گاڑھ دیے۔
جس سے عمران کی بھی ہلکی ہلکی آوازیں نکلنے لگیں جن سے اندازہ ہو سکتا تھا کہ
عمران مزے میں ہے۔ اب صائمہ نیچے پیٹ تک آئی ،عمران اپنے گھٹنوں کے بل
بیٹھے ہوئے تھے اور صائمہ اب انکے سامنے ڈوگی سٹائل میں بیٹھی تھی۔ صائمہ کی
گانڈ میری طرف تھی ،صائمہ نے فورا عمران کی پینٹ اتاری ،جیسے ہی پینٹ اتری
عمران کا 7انچ کا لن پھنکارتا ہوا باہر نکال اور بالکل سیدھا کھڑا ہوگیا۔ صائمہ نے
فورا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسکی ٹوپی پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اب صائمہ لن کی
ٹوپی پر اپنی زبان گول گول گھما رہی تھی اب عمران لیٹ گئے اور صائمہ بدستور ڈوگی
سٹائل میں عمران کے لن کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ صائمہ کی موٹی گانڈ جی سٹرنگ
پینٹی میں میری طرف تھی اور اب صائمہ عمران کے ٹٹوں سے بھی کھیل رہی تھی ایک
ہاتھ سے عمران کے ٹٹے سہال رہی ت ِھ تو دوسرے ہاتھ سے لن پکڑ کر منہ میں ڈاال ہوا
تھا۔ اپنے ہونٹوں اور زبان کی مدد سے صائمہ بہت ہی مہارت کے ساتھ عمران کے لن
کا چوپا لگا رہی تھی۔ وہ 5انچ لن اپنے منہ میں لیتی اور باقی کے لن کو ہاتھ سے پکڑ
کر اسکی مٹھ مارنے لگتی ۔ پھر لن کو اپنے منہ میں اندر باہر کرتی جس سے عمران
کو مزہ آرہا تھا۔ صائمہ کے چوپوں سے ہلکی ہلکی آواز بھی کمرے میں گونج رہی تھی۔
اب عمران کے ٹٹے صائمہ کے منہ میں تھے۔ صائمہ کبھی عمران کے ٹٹے چوستی تو
کبھی اپنی زبان کو عمران کی ٹانگوں پر پھیرتی۔ پھر عمران اٹھے اور صائمہ بھی
گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی ،عمران نے صائمہ کی نائٹی اتاری اور فورا ہی صائمہ کے
مموں پر جھک کر دودھ پینے لگے۔
صائمہ کے 38سائز کے ممے عمران کے ہاتھ میں تھے اور نپل عمران کے منہ میں۔
عمران کی زبان تیز تیز صائمہ کے نپلز کا مساج کر رہی تھی اور ایک ہاتھ سے عمران
نے صائمہ کی پینٹی اتار کر صائمہ کے چوتڑ بھی دبانا شروع کر دیے تھی۔ میرا ہاتھ
میری شلوار سے ہوتا ہوا میری چوت کے دانے پر تھا اور میری چوت مکمل گیلی تھی۔
ادھر عمران کی انگلی بھی اب صائمہ کی پھدی کی چدائی میں مصروف تھی اور صائمہ
شدت جزبات سے ام م م م م م م م ،آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ،اف ف ف ف ف ف ف ف ف
میری جان عمران یہ کیا کر رہے ہو؟؟ اپنی صائمہ کو بہت شدت سے چودو آج ،بہت مزہ
آرہا ہے میری جان ،اب مزید نا تڑپاو اپنا لوڑا اب میری پھدی کے حوالے کر دو۔ اب
عمران نے صائمہ کو اس طرح لٹایا کہ اکسا سر میری طرف تھا اور وہ سیدھا چھت کی
طرف دیکھ سکتی تھی مگر میں نے احتیاط کے طور پر دوبارہ سے اپنی آنکھوں پر
بازو رکھ لیا تھا تا کہ اگر صائمہ چدائی کے دوران گردن ہالتے ہوئے میری طرف
دیکھتی ہے تو اسے پتا نہ لگے کہ اسکی بہن اسکی چدائی الئیو دیکھ رہی ہے۔
اب عمران نے صائمہ کی دونوں ٹانگوں کو کھوال اور درمیان میں بیٹھ کر اپنا لن صائمہ
کی چوت پر سیٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں پورا 7انچ کا لن صائمہ کی پھدی میں
تھا۔ صائمہ نے یہ جھٹکا بڑے آرام سے برداشت کر لیا اور ہلکی سی آواز اسکے منہ
سے نکلی ،کیونکہ وہ مسلسل 5مہنیے سے اسی لن سے اپنی چدائی کرواتی تھی۔
اسکی شادی کو 5مہینے ہو چکے تھے مگر وہ ابھی تک کنڈوم کا استعمال کرتے تھے
یا پھر منی پھدی سے باہر نکالتے تھے تاکہ بچہ نہ ہونے پائے۔ اب عمران صائمہ کے
اوپر لیٹے ہوئے تھے اور لن مسلسل صائمہ کی چوت کی چدائی کرنے میں مصروف
تھا ،عمران نے ایک ہاتھ سے صائمہ کو سر سے پکڑ کر اپنے سینے کے ساتھ چپکایا
ہوا تھا۔ میری چارپائی بالکل نزدیک ہی تھی دوسرا ہاتھ لمبا کر کے عمران نے میرا ایک
ممہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے بھی دبانے لگے۔ ساتھ ساتھ عمران کے چودنے کی
سپیڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اور میری پھدی ایک بار انگلی کی چدائی سے پانی چھوڑ
چکی تھی۔ اتنے میں صائمہ کے جسم میں بھی تناو پیدا ہوا اور وہ زور زور سے آوازیں
نکالنے لگی عمران میری جان اور زور سے چودو ،پورا لن ڈال دو اپنی صائمہ کی چوت
میں یہ سنتے ہی عمران نے اپنے دھکوں کی رفتار اور تیز کر دی اور صائمہ کی آوازیں
کمریں میں گونجنے لگی اور ایک زور دار آواز کے ساتھ ہی صائمہ کی چوت نے پانی
چھوڑ دیا تھا۔
اب کی بار صائمہ نے عمران کو لیٹنے کو کہا اور عمران کو اسطرح لٹایا کے اب عمران
کا سر میری طرف تھا اور صائمہ فورا ہی عمران کے لن کے اوپر سوار ہوگئی ،اس
پوزیسشن میں صائمہ کا منہ میری طرف تھا اس لیے مجھے دوبارہ سے اپنی آنکھوں
پر بازو رکھنا پڑا کیونکہ اب صائمہ مجھے بالکل واضح دیکھ سکتی تھی اور مجھے
محسوس ہورا تھا کہ صائمہ کی نظریں مجھ پر ہی ہیں۔ وہ آہستہ آہستہ عمران کے لن
کی سواری کر رہی تھی۔ میں یہ نظارہ دیکھنا چاہتی تھی مگر ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں
صائمہ مجھے دیکھ نہ لےء۔ اسی دوران صائمہ کی آوازیں آنا شروع ہوئیں کیونکہ
عمران نے نیچے سے اپنے لن کی سپیڈ میں اضافہ کر دیا تھا ،میں نے ہلکا سا بازو
اٹھا کر دیکھا تو صائمہ نے ہلکی سے اپنی گانڈ اوپر اٹھائی ہوئی تھی اور اسکی آنکھیں
اب بند تھی اور وہ چدائی کا مزہ لینے میں مصروف تھی ۔ عمران کا لن واضح طور پر
صائمہ کی پھدی میں جاتا ہو دکھائی دے رہا تھا۔ اور صائمہ کے بڑے بڑے ممے ہلتے
ہوئے بہت ہی خوبصورت نظارہ دے رہے تھے۔ صائمہ آنکھیں بند کیا چدوانے میں
مصورف تھی اور میں اس چدائی کا فل مزہ لے رہی تھی۔
اب عمران نے سٹائل چینج کرنا چاہا اور صائمہ کو ڈوگی سٹائل میں بیٹھنے کو کہا۔
صائمہ ڈوگی سٹائیل میں بیٹھ گئی اور اب کی بار اسکی گانڈ میری طرف تھی میں بہت
ہی سکون کے ساتھ اسکو چدتے ہوئے دیکھ سکتی تھی ،عمران صائمہ کے پیچھے کی
طرف آئے اور لن چوت میں ایک ہی جھٹکے میں داخل کر دیا۔ عمران نے ایک ٹانگ
اٹھائی ہوئی تھی اپنی یعنی پاوں بیڈ پر تھا اور ٹانگ دہری تھی اور دوسری ٹانگ سے
گھٹنے کے بل بیٹھ کر میری بہن کو ڈوگی سٹائل میں چودنے میں مصورف تھے۔ صائمہ
بھی اپنا سر جھکائے چدائی میں عمران کا پورا ساتھ دے رہی تھی اور اسکی آوازیں
میرے کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ عمران نے صائمہ کو اپنی پھدی ٹائٹ کرنے کو
کہا تو صائمہ نے اپنی پھدی ٹائٹ کر لی دبا کر اور عمران کا لن اب ایک بار تو پھنسا
مگر پھر عمران کے طوفانی دھکے شروع ہوگئے اور صائمہ کی چیخوں میں اضافہ
ہونے لگا۔ عمران نے کہا کہ میں بس فارغ ہونے واال ہوں تو صائمہ بولی اند مت نکالنا
کنڈوم نہیں ہے آج۔ لیکن عمران نے طوفانی رفتار کو اور زیادہ بڑھا کر صائمہ کی چدائی
جاری رکھی اتنے میں صائمہ کے جسم میں بھی کھچاو پیدا ہوا اور اسکی چیخیں اور
بلند ہونے لگیں اور ساتھ ہی اسکی چوت نے دوسری بار پانی چھوڑ دیا اب وہ کھڑی
ہونے لگی کہ عمران بھی اپنی منی چوت سے باہر نکال دیں مگر عمران نے ایسا نا
کرنے دیا اور دھکے جاری رکھے اچانک ہی عمران کے جسم نے 5 ،4دھکے مارے
اور ساری منی صائمہ کی پھدی کے اندر ہی چھوڑ دی۔
اب دونوں ایک دوسرے کے اوپر لیٹے ہوئے تھے اور انکے جسم بے جان تھے۔ اور
عمران صائمہ کہ کہ رہے تھے کہ اب انہیں بچے کی خواہش ہے لہزا آج سے وہ اپنی
منی صائمہ کی پھدی کے اندر ہی نکاال کریں گے ،صائمہ نے بھی اس بات پر کوئی
اعتراض نہیں کیا۔ اور دونوں اکٹھے ایک ہی کھیس میں لیٹ کر باتیں کرنے لگے ۔ اتنے
میں مں نے بھی انہیں یہ محسوس کروایا کہ میں نیند سے اٹھنے لگی ہوں مجھے ہلتا
دیکھ کر صائمہ فورا ہی سیدھی ہوگئی اور کھیس اور بھی اپنے اوپر کھینچ لیا۔ میں نے
اپنی آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر بیٹھ گئی اور آنکھیں مسلنے لگی جیسے میں ابھی ابھی
نیند سے بیدار ہوئی ہوں ۔ پھر میں نے ان دونوں کی طرف مسکرا کر دیکھا اور چارپائی
سے نیچے اتر آئی اور صائمہ کو کہا مجھے بھوک لگی ہے میں کچن میں جا رہی ہوں
تم بھی آجاو۔ مگر وہ ابھی تک ننگی لیٹی ہوئی تھی اس لیے اس نے جھجکتے ہوئے
انکار کیا اور کہا تم چلی جاو اور ہم دونوں کے لیے بھی دودھ لے آو۔ عمران نے کہا کہ
میرا دودھ کا گالس گرم کر کے النا جب کہ صائمہ نے نیم گرم دودھ کا کہا۔ اتنے میں
میری نظر صائمہ کے ساتھ پڑی ہوئی نائٹی پر پڑی اور صائمہ کو ب ِھ پتا لگ گیا کہ میں
اسکی نائٹی دیکھ رہی ہوں ،میں نے اسکو ہلکی سی آنکھ ماری اور حیران ہونے والی
نظروں سے دیکھا کہ یہ کیا فلم ہے؟ وہ ہلکی سی مسکرائی اور منہ نیچے کر لیا اور
میں کچن میں چلی گئی۔
عمران کا گرم دودھ کا گالس اور صائمہ کا نیم گرم دودھ کا گالس ٹرے میں رکھنے کے
بعد ایک گالس میں نے بھی اپنے لیے رکھا اور صائمہ کے نیم گرم دودھ میں نیند کی
آدھی گولی مال دی جو آج ہی عمران نے مجھے ال کر دی تھی کے صائمہ کی چدائی کے
بعد کسی طرح یہ گولی اسکو کھال دینا۔ جب میں دودھ کمرے میں الئی تو صائمہ کی
نائٹی غائب تھی اور وہ اپنے کپڑے پن چکی تھی مگر عمران شاید ابھی تک ویسے ہی
لیٹے تھے کیونکہ وہ کھیس میں ہی تھے۔ میں نے پہلے دودھ کا گالس صائمہ کو پکڑایا
پھر عمران کو اور پھر اپنی چارپائی پر بیٹھ کر خود بھی دودھ پینے لگی۔ سب نے اپنا
اپنا گالس ختم کیا تو 5منٹ بعد ہی صائمہ پر غنودگی چھانے لگی اور وہ بیڈ پر ہی
گہری نیند سوگئی۔ جب مجھے یقین ہوگیا کہ صائمہ سوگئی ہے تو میں نے فورا اپنے
کپڑے اتارے اور عمران کے پاس جا کر انکے اوپر لیٹ گئی اور انکو کسنگ کرنے
لگی۔ نیچے سے مجھے اپنی چوت پر عمران کے لن کا دباو محسوس ہوا جو مجھے
ننگا دیکھ کر دوبارہ سے کھڑا ہو چکا تھا۔ اب ہمارے پاس چدائی کے لیے محض ایک
گھنٹہ ہی بچا تھا کیونکہ آدھی رات کا ٹائم تھا اور 4بج چکے تھے اور ہمارے گھر میں
5بجے تک امی ابو اٹھ جاتے تھے۔ لہزا تھوڑی سی ہی کسنگ کے بعد عمران نے
فوران اپنا کھیس ہٹایا اور اپنا لن مجھے چوسنے کے لیے دے دیا جسکو میں نے بہت
ہی پیار کے ساتھ چوپا لگانا شروع کیا۔ صائمہ کو میں چوپا لگاتے دیکھ چکی تھی جو
اس کام میں کافی مہارت رکھتی تھی لہزا اب میں اسکا طریقہ استعمال کرتے ہوئے
عمران کے لن کا چوپا لگا رہی تھی جس سے عمران کو بہت مزہ آرہا تھا میں عمران
کو پورا لن اپنے منہ میں لینے کی کوشش کر رہی تھی مگر مجھے ناکامی ہوئی اور
تھوڑا سے پھر بھی باہر رہ گیا۔
اب عمران نے مجھے اٹھا کر اپنے لن پر بیٹھنے کو کہا میں فورا ہی عمران کے اوپر
آئی اور ہاتھ سے لن کو اپنی چوت کے سوراخ پر سیٹ کر کے اس پر بیٹھنے کی
کوشش کرنے لگی جس سے مجھے بہت تکلیف ہوئی کیونکہ صرف ایک دن پہلے ہی
میری کنواری پھدی کی چدائی ہوئی تھی اور وہ ابھی بھی بہت ٹائٹ تھی۔ تھوڑی سی
کوشش کے بعد میں آدھا لن اپنے اندر لینے میں کامیاب ہوئی تو باقی کا آدھا لن ایک ہی
ظالم جھٹکے سے عمران نے میری پھدی میں ڈال دیا اور میری ایک زوردار چیخ نکل
گئی اور میں نے فورا صائمہ کی طرف دیکھا جو ساتھ ہی لیٹی تھی۔ مگر وہ بہت گہری
نیند میں تھی۔ شروع میں ہلکے ہلکے دھکوں کے بعد عمران نے اپنے دھکوں کی رفتار
میں اضافہ کیا تو مجھنے بھی مزہ آنے لگا اور میں نے بھی اپنی گانڈ ہال کر عمران کا
ساتھ دینا شروع کیا۔ 7انچ کا لن میری چوت کی سیر کر کرہا تھا جو کسی آگ کی بھٹی
کی طرح گرم تھی اور میرے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں جو عمران کو پاگل کر
رہی تھیں۔ عمران نے مجھے اپنی طرف کھینچا اور مجھے اپنے اوپر لٹا لیا۔ میں نے
اپنی گانڈی تھوڑی سے اوپر اٹھائی تو نیچے سے عمران کے لن نے اپنی سپیڈ میں بے
پناہ اضافہ کر دیا اور مجھے بنا رکے چودنے لگا۔ میں بھی مزے کی بلندیوں پر تھی اور
اپر سے اب عمران نے میر ے 34سائز کے ٹائٹ اور گول ممے اپنے منہ میں لے لیے
تھے۔ وہ انکو بہت ہی شدت کے ساتھ چوس رہے تھے اور نیچے سے مسلسل چدائی
جاری تھی جس نے مجھے پاگل کر دیا تھا۔ میری پھدی جو پہلے ہی بہت گرم تھی
صائمہ کی چدائی دیکھ کر وہ زیادہ دیر لن کو برداشت نہیں کر سکی اور محض 3منٹ
کی چدائی میں ہی برسات کردی۔ اب عمران نے مجھے نیچے لٹایا اور میری ٹانگیں اٹھا
کر اپنے کندھے پر رکھی اور لن ایک ہی جھٹکے میں پھدی میں ڈال کر طوفانی چدائی
کا سلسلہ پھر سے سٹارٹ کر دیا۔ اب میری ٹانگیں عمران کے کندھوں پر تھیں اور میں
نے اپنے پاوں عمران کی گردن کے گرد لپیٹ کر اپنی گانڈ اوپر اٹھائی ہوئی تھی جس کی
وجہ سے لن بہت آسانی کے ساتھ میری ٹائٹ پھدی کو چیرتا ہوا کبھی اندر جاتا تو کبھی
باہر آتا۔
اب عمران نے میری ٹانگیں فولڈ کر کے میرے سینے کے ساتھ لگائیں اور اپنا وزن
میرے اوپر ڈاال ،اس پوزیشن میں میری پھدی تھوڑی کھل گئی تھی اور لن کو آسانی
سے اندر جانے کا راستہ مل گیا تھا ۔ عمران کی چدائی نے میری سسکیوں میں مزید
اضافہ کر دیا تھا ۔ اس پوزیسشن میں میں بہت جلد تھک گئی اور میں نے اپنی ٹان ِگیں
سائیڈ پر پھیال کر کھولیں تو عمران ٹانگوں کے درمیان میرے اوپر ہی لیٹ گئے اور
اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر چومنے لگے ۔ میں نے اپنی ٹانگیں عمران کی کمر
کے گرد لپیٹ لیں تھیں اور اپنے ہاتھوں سے بھی عمران کی کمر پر مساج کرنے لگی۔
عمران کے ہاتھ میرے ممے دبانے میں مصروف تھے ،زبان میرے منہ میں تھی اور
لن اپنی سالی کی زور دار چدائی کرنے میں مصوف تھا۔ 6منٹ کی مزید چدائی کے بعد
مجھے محسوس ہوا کہ میں دوبارہ فارغ ہونے والی ہوں تو عمران نے اپنے دھکوں کی
رفتار میں اور اضافہ کر دیا اور میری چوت نے ایک بار پھر پانی چھوڑ دیا جس سے
عمران کا لن بھیگ گیا مگر عمران نے اپنی پوزیشن چینج نہیں کی اور نا ہی چدائی میں
کوئی وقفہ آنے لگا ،وہ مسلسل میری چدائی میں مصروف تھے اور کچھ ہی دیر میں وہ
بولے میں بھی فارغ ہونے واال ہوں تو میں نے کہا میرے اندر مت چھوڑنا اپنا پانی تو
انہوں نے اپنے دھکوں کی رفتار میں مزید اضافہ کیا اور 2منٹ کے طوفانی دھکوں
کے بعد ایک دم سے اپنا لن باہر نکاال اور اپنی ساری منی میرے پیٹ پر چھوڑ دی۔
منی نکالنے کے بعد وہ بے سدھ ہو کر لیٹ گئے اور میں نے واش روم میں جا کر اپنے
جسم کی صفائی کی۔ واپس آئی تو عمران شلوار پہننے لگے تھے مگر میں نے فورا جا
کر منع کر دیا اور کہا میں ایک بار اور آپ کے اس طاقتور لن کی سواری کرنا چاہتی
ہوں۔ وہ بولے میں بہت تھ چکا ہوں اب اور سونا بھی ہے ،مگر میری آگ ابھی بجھی
نہیں تھی کیونکہ آج صائمہ کا آخری دن تھا ہماری طرف اور صبح ہوتے ہیں انہوں نے
واپس الہور چلے جانا تھا۔ اس لیے میں ایک بار اور چدائی کا مزہ لینا چاہتی تھی
عمران کا موڈ نہیں تھا مگر میں نے انکی شلوار اتار کر لن منہ میں لیا اور 3منٹ کی
محنت کے بعد لن کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اب عمران کا لن دوبارہ سے میری
چدائی کرنے کو تیار تھا۔ اب کی بار عمران نے مجھے ڈوگی سٹائل میں بھی چودا اور
اپنی گود میں اٹھا کر بھی میری چدائی کی۔ کھڑے ہوکر میری ایک ٹانگ اوپر اٹھا کر
بھی مجھے چودا اور مجھے ہر طرح سے بہت مزہ دیا۔ اس چدائی کے دوران میری
پھدی نے 3بار پانی چھوڑا اور 20منٹ کی جاندار چدائی کے بعد عمران بھی فارغ
ہوگئے۔
ہم دونوں نے کپڑے پہنے اور اپنے اپنے بستر میں جا کر سوگئے۔
صبح 10بجے اٹھ کر میں نے سب کے لیے ناشتہ بنایا اور صائمہ نے میری مدد کی
ناشتہ بنانے میں۔ اس دوران میں نے صائمہ سے پوچھا کہ رات میری پیاری سے بہن
نے نائٹی پہن کر میرے بہنوئی کو مزے دیے تھے ؟؟؟؟ تو وہ بولی کہ ہاں کافی دنوں
سے انہوں نے چدائی نہیں کی تھی میری ماہواری کی وجہ سے تو آج انکا بہت دل کر
رہا تھا اس لے میں نائٹ پہن کر آئ تھی اور پھر کھیس کے اندر ہی انہوں نے الئٹ بند
کر کے مجھے چودا تھا۔ میں دل ہی دل میں مسکرائی کہ ایک دن پہلے ہی عمران کے
لن نے اپنی سالی کی 3بار چودائی کی تھی اور رات بھی کھیس میں نہیں بلکہ میری
آنکھوں کے سامنے ہی تمہیں چودا ہے مگر یہ بات میں نے صائمہ کو نہیں بتائی۔
دوپہر کے وقت وہ لوگ الہور کے لیے روانہ ہوگئے۔ اور میں سوچتی رہی کہ یہ 2دن
میری زندگی کے سب سے اچھے دن ہیں جن میں میں نے نہ صرف اپنے بہنوئی کے لن
کی دل کھول کر سواری کی بلکہ اپنی سیکسی بہن کی الئیو چودائی بھی دیکھی۔ جب تک
میں کنواری تھی مجھے اپنے اوپر کنٹرول تھا مگر اب لن کا مزہ چکھنے کے بعد میری
پھدی لن کی دیوانی ہوگئی تھی اور اب اسے مزید لن چاہیے تھا۔ میں نے آج تک اپنے
منگیتر رضوان کو اپنے زیادہ قریب نہیں آنے دیا تھا یہاں تک کہ کبھی کس بھی نہیں
کی تھی مگر اب اپنی پھدی کی پیاس بجھانے کے لیے میرے پاس صرف ایک ہی راستہ
تھا اور وہ تھا رضوان کو اپنے قریب آنے دینا اور اسکے لن سے اپنی پھدی کی پیاس
بجھانا۔ اب کی بار جب رضوان ہمارے گھر آیا اور اس نے پہلے کی طرح میرے سے
کس کی فرمائش کی تو میں نے بال جھجک اپنے ہونٹ رضوان کے ہونٹوں پے رکھ کر
اسے ایک مزیدار سی کس دی۔ جس سے رضوان بہت حیران بھی ہوا اور اسے خوشی
بھی ہوئی۔ اس کس کے ساتھ ہی میں نے رضوان کا لن حاصل کرنے کا سفر شروع کر
دیا تھا۔
رضوان سے یہ پہلی کس بڑی مختصر تھی ،جیسے ہی میرے ہونٹ رضوان کے ہونٹوں
سے لگے ہم دونوں کے جسم میں ایک کرنٹ دوڑ گیا ،مگر میں نے فورا ہی اپنے اوپر
کنٹرول کیا اور اپنے ہونٹ رضوان کے ہونٹوں سے علیحدہ کر دیے کیونکہ میں رضوان
کو یہ محسوس نہیں ہونے دینا چاہتی تھی کہ مجھے اسکا لن چاہیے۔ اور یہ پہلی کس
تھی ہم دونوں کی اس لیے اسکو میں نے زیادہ لمبا کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ مگر اس
مختصر سی کس سے بھی رضوان بہت خوش تھا ،اس نے پہلی بار میرے ہونٹوں کا
ذائقہ چکھا تھا ،اور میں نے محسوس کیا کہ رضوان بار بار اپنی زبان اپنے ہونٹوں پر
پھیر رہا تھا۔ اسکو شاید میرے ہونٹوں کا لمس اور ذائقہ ابھی تک اپنے ہونٹوں پر
محسوس ہورہا تھا جسکو وہ اپنی زبان سے چاٹ رہا تھا۔ رضوان رات تک ہمارے گھر
ہی رکا ،رات کے کھانے پر بھی وہ چوری چوری مجھے دیکھ رہا تھا اور جیسے ہی
موقع ملتا مجھے ایک فالئنگ کس بھی کر دیتا۔ باالآخر رات کے کھانے کے بعد رضوان
واپس اپنے ہوسٹل چال گیا۔
اسکے بعد موبائل پر ہماری میسیجنگ اور بھی زیادہ ہاٹ ہوگئی اور موبائل پر بات
کرتے ہوئے بھی وہ بار بار مجھے کس کرتا اور کہتا دوبارہ کب دو گی کس تو میں کہ
دیتی کے بس موبائل پر ہی کرو جتنی کرنی ہیں آمنے سامنے اب نہیں ہوگی۔ مگر اندر
ہی اندر تو میں بھی مری جا رہی تھی کہ رضوان آئے اور مجھے اپنی بانہوں میں بھر
کر خوب پیار کرے۔ میرے انگ انگ سے کھیلے ،میرے جسم کے ہر حصے پر اپنے
پیار کا نشان ثبت کر دے۔ لیکن میں کھل کر اسکا اظہار نہیں کر سکتی تھی۔ اب رضوان
نے مجھ سے اپنی ننگی تصویریں مانگنا بھی شروع کر دی تھیں موبائل پر۔ کبھی وہ
کہتا کہ مجھے اپنے ممے دکھاو تو کبھی کہتا کہ اپنی چوت اور گانڈ دکھاو مگر میں ہر
بار انکار کر دیتی۔ البتہ برا اور پینٹی پہن کر اپنی سیکسی تصویریں بھیج دیتی تھی
اسے۔ اس دوران مجھے رضوان کا ایک ایم ایم ایس موصول ہوا جسکو دیکھ کر میری
چوت کے اندر تک آگ لگ گئی اور پوری چوت گیلی ہوگئی۔ رضوان نے اپنے لن کی
تصویر بھیجی تھی۔ کچھ تصویریوں میں وہ موبائل سے دور کھڑا تھا بالکل ننگا اور
اسکا لن بھی مکمل طور پر کھڑا تھا اور کچھ تصویریں صرف لن کی تھی۔ تصویروں
میں لن کے سائز کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ مجھے لگا کہ رضوان کا لن عمران کے لن
سے تھوڑا چھوٹا ہے مگر سختی میں بہت زبردست لگ رہا تھا اور بغیر ہاتھ لگائے لن
سیدھا کھڑا چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔
یہ ایم ایم ایس ملنے کے بعد میں نے مصنوعی غصہ دکھایا رضوان کو کہ یہ کیا
بدتمیزی ہے تو عمران بوال یہی تو تمہارا اصل خزانہ ہے جو تم نے مجھ سے لینا ہے۔
میں نے بھی کہ دیا کہ شادی کے بعد ہی لینا ہے تو شادی کے بعد میں خود دل بھر کر
دیکھ لوں گی مگر ابھی مجھے اسکی کوئی ضرورت نہیں۔ حاالنکہ اندر ہی اندر میں بہت
خوش تھی اور یہ لن اپنی چوت میں لینے کے لیے بیتاب بھی تھی پھر کچھ دن بعد
رضوان دوبارہ سے ہمارے گھر آیا تو وہ بار بار مجھے چھت پر آنے کا اشارہ کر رہا
تھا کیونکہ نیچے امی موجود تھیں اور انکے ہوتے ہوئے ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے
جب کہ رضوان مرا جا رہا تھا میرے ہونٹوں کے لیے۔ لیکن میرے لیے رضوان کے
ساتھ اوپر چھت پر جانا ممکن نہیں تھا۔ لیکن اتنا ضرور ہوا کہ جب میں کچن میں
رضوان کے لیے چائے بنانے گئی اور کچھ ہی دیر بعد امی نے رضوان کو کہا کہ فائزہ
سے جا کر کہو فریج میں سے نگٹس نکال کر وہ بھی چائے کے ساتھ لے آئے۔ رضوان
تو پہلے ہی اس انتظار میں تھا۔ وہ فورا آیا اور مجھے پیچھے سے پکڑ کر جپھی ڈال
لی زور سے ،میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رضوان نے بغیر دیر لگائے اپنے ہونٹ
میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ رضوان کا ایک ہاتھ میرے پیٹ کے گرد تھا تو دوسرا ہاتھ
میرے سینے پر مموں سے کچھ اوپر تھا اور وہ بہت بیتابی سے میرے ہونٹ چوس رہا
تھا۔ میں نے تھوڑی مزاحمت کر کے اسکو پیچھے ہٹانا چاہا مگر اس نے مجھے
مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا اور کسنگ جاری رکھی۔ مجھے ب ِھی اسکا اس بیتابی سے
اپنے ہونٹ چوسنا اچھا لگ رہا تھا لیکن ڈر تھا کہ کہیں امی نہ آجائیں۔ ابھی میں یہی
سوچ رہی تھی کہ مجھے اپنی گانڈ پر سخت اور مضبوط راڈ لگتا محسوس ہوا ،میں
سمجھ گئی کہ یہ رضوان کا لن ہے ،مگر انجان بن کر اپنا ہاتھ سیدھا رضوان کے لن پر
رکھا اور پیچھے ہٹاتے ہوئے بولی یہ کیا ہے مجھے چبھ رہا ہے۔ جیسے ہی میرا ہاتھ
رضوان کے لن پر گیا ،رضوان بھی ایک دم مجھے چھوڑ کر سیدھا ہوگیا اور میں نے
بھی جب اسکے لن پر نظر ڈالی تو ایک دم سے چھوڑ دیا اور یہ شو کروایا کہ مجھے
پتا نہیں تھا کہ یہ لن ہے اور غلطی سے پکڑ لیا تھا۔ اور شرمندہ ہوکر میں نے اپنی
آنکھیں جھکا لیں اور لن فوری طر پر چھوڑ دیا۔ مگر رضوان بہت خوش تھا کہ آج
اسکی منگیتر نے پہلی بار اسکا لن پکڑا تھا۔
مجھے شرمندہ دیکھ کر اسنے اپنے ہونٹ میرے ماتھے پر رکھ دیے اور بوال کیا ہوا؟ یہ
تمہارے لیے ہی تو ہے۔ تم پکڑ سکتی ہو اسکو۔ مگر میں نے مسلسل اپنا سر جھکائے
رکھا اور اسکو کہا کہ وہ جائے یہاں سے امی آجائیں گی۔ اسنے ایک بار پھر میرے
ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے اور کسنگ کرنے لگا مگر میں نے فورا ہی ہونٹ سائیڈ پر کر
لیے اور دوبارہ سے اسکو کہا کہ تم جاو کچن سے اور کمرے میں جا کر بیٹھو۔ پھر اس
نے مجھے امی کا پیغام دیا اور کچن سے چال گیا۔ اسکے جاتے ہی میں کھل کر
مسکرائی اور اپنی اس چاالکی پر اپنے آپ کو شاباش دی کہ آج رضوان کا لن بھی پکڑ
کر دیکھ لیا اور اسکو پتا بھی نہیں لگنے دیا کہ میں اس لن کے لیے مری جا رہی ہوں۔
کچھ ہی دیر بعد چائے تیار تھی جو لیکر میں کمرے میں گئی۔ امی اور رضوان ڈائنگ
ٹیبل پر بیٹھے تھے ،میں نے درمیان میں چائے اور نگٹس رکھے اور رضوان کے ساتھ
جا کر بیٹھ گئی۔ اتنی بے تکلفی ہم میں تھی کہ امی یا ابو کے سامنے ہم اکٹھے بیٹھ
جاتے تھے ،مگر اکیلے کمرے میں جانا یا چھت پر اکیلے جانا ممکن نہیں تھا۔ اب چائے
پیتے ہوئے میں نے بھی رضوان کو ایک سمائل پاس کی جس سے اسے اندازہ ہوا کہ
اندر جو کچھ ہوا میں نے اسکا برا نہیں منایا۔ مگر میرے چہرے پر شرم کے تاثرات
ضرور تھے۔ امی میں اور رضوان چائے پیتے گئے اور ساتھ میں باتیں بھی کرتے رہے۔
چائے پینے کے بعد امی اٹھیں اور واش روم چلی گئیں۔ جیسے ہی امی واش روم گئیں
رضوان نے ایک بار پھر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے اور انہیں چوسنے لگا۔
اور میرا ہاتھ پکڑ کر فورا ہی اپنے لن پر رکھ دیا۔ مگر میں نے بھی محض کچھ سیکنڈز
کے لیے ہی اسکا لن پکڑا اور پھر فورا ہی یہ کہتے ہوئے چھوڑ دیا کہ نہیں یہ سب
شادی کے بعد ہوگا ابھی نہیں۔ اتنے میں واش روم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو ہم
دونوں سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ اب رضوان اور امی دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے
اور بیچ بیچ میں رضوان کوئی نہ کوئی بات میرے بارے میں بھی کر دیتا ،کبھی میرے
بچپن کا کوئی قصہ سنا دیتا میری شرارتوں کا ۔ مجھے یہ باتیں سن کر اچھا لگ رہا تھا
اور رضوان پر پیار بھی آرہا تھا رضوان نے مزید کچھ میرے بچپن کی شرارتوں کا ذکر
کیا تو میں نے رضوان کو تنگ کرنے کے لیے ٹیبل کے نیچے سے ہی اپنا ہاتھ رضوان
کے لن پر رکھ دیا۔ مگر اس وقت میرے ہاتھ میں ایک نرم سی بوٹی ہی آئی۔ رضوان کا
لن بیٹھ چکا تھا۔ میں نے کچھ سیکنڈ پکڑے رکھا تو دیکھتے ہی دیکھتے اس میں
سختی آنا شروع ہوگئی اور ایک بار پھر سے میرے ہاتھ میں رضوان کا مضبوط لن تھا۔
ت حالرضوان کو ایک شاک بھی لگا مگر وہ فورا ہی سنبھل کر بیٹھ گیا اور اس صور ِ
سے محضوض ہونے لگا۔ میں نے 2سے 3منٹ رضوان کا لن پکڑے رکھا اور ہلکا
ہلکا اسکو دباتی بھی رہی اور اسکے بعد لن کو چھوڑ کر اپنا ہاتھ دوبارہ اوپر ٹیبل پر
رکھ دیا۔
کچھ دیر مزید باتیں کرنے کے بعد رضوان نے مجھ سے میرا موبائل مانگا اور اپنے لیپ
ٹاپ سے لگا کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اب ابو کے آنے کا بھی ٹائم ہوگیا تھا۔ رات کے 8بجے
ابو گھر آئے تو رضوان ان سے مال اور 15منٹ رکنے کے بعد میرا موبائل مجھے دیا
اور واپس ہاسٹل چال گیا۔ موبائل دیتے ہوئے اس نے مجھے کہا کہ ویڈیو کے فولڈر میں
پرسنل کا فولڈر چیک کرنا اس میں ایک مووی رکھی ہے وہ اکیلے میں دیکھینا۔ میں نے
موبائل پکڑ کر خاموشی سے ایک سائیڈ پر رکھ دیا۔ اور جب رات کو سونے کے لیے
اپنے کمرے میں گئی تو ہینڈز فری لگا کر رضوان کے کہے ہوئے فولڑر میں سے ایک
مووی دیکھنے لگی۔ یہ ایک ٹرپل ایکس مووی تھی یعنی کہ پورن مووی تھی۔ اس میں
ایک ینگ لڑکا کالج کی ینگ لڑکی کو چود رہا تھا۔ لڑکی نے لڑکے کا لن بھی چوسا اور
اپنی چوت بھی لڑکے کے ہونٹوں کے آگے کی۔ یہ تقریبا 20منٹ کی مووی تھی ،میں
نے پوری مووی دیکھی اور اس دوران میری چوت مکمل گیلی ہو چکی تھی۔
کچھ ہی دیر گزری کہ رضوان کی کال بھی آگئی اور اسنے فورا ہی پہلے تو مجھے
موبائل سے ہی کسنگ کی اور اسکے بعد مووی کے بارے میں پوچھا کہ دیکھ لی تو
میں نے بتایا کہ ہاں دیکھ لی اچھی تھی ۔ رضوان جانتا تھا کہ میں پہلے بھی پورن
مووی دیکھ چکی ہوں۔ رضوان نے ہی مجھے پہلے ایک بار اپنے موبائل میں 3منٹ کا
سیکس سین دکھایا تھا جس میں لڑکے نے اپنا 7انچ کا لن لڑکی کی چوت میں ڈاال ہوا
تھا اور بہت بے دردی سے اسکی چدائی کر رہا تھا۔ مگر اب کی بار رضوان نے مجھ
سے پوچھا کہ جب لڑکی نے لڑکے کا لن اپنے منہ میں لیا تھا تب دیکھا؟؟؟ میں سمجھ
گئی کہ رضوان کو جب بھی موقع مال وہ مجھ سے لن چوسنے کی فرمائش ضرور کرے
گا ،اور میں ب ِھی یہی چاہتی تھی۔ مگر میں نے رضوان کو کہا ہان دیکھا مگر دیکھ کر
بہت نفرت آئی۔ رضوان بوال نفرت کیسی؟؟ لڑکیاں تو بہت شوق سے اپنے بوائے فرینڈ کا
لن منہ میں لے کر چوستی ہیں۔ مگر میں نے یہی ظاہر کیا کہ مجھے یہ دیکھ کر نفرت
آئی اور اسکے کوئی ہنٹ نہیں دیا کہ میں بھی رضوان کا لن چوسنا چاہتی ہوں۔ اب رات
کافی ہوگئی تھی ہم نے کچھ دیر مزید سیکسی باتیں کیں اور پھر مجھے نیند آگئی۔
اسکے بعد یہ سلسلہ کچھ مزید چال۔ 2ماہ کے دوران رضوان تقریبا 5سے 7چکر
ہمارے گھر کے لگا چکا تھا اور ہر چکر میں وہ موقع ملتے ہی مجھے کسنگ کرتا اور
کبھی کبھار میں اپنا ہاتھ اسکے لن پر بھی رکھ دیتی۔ ایک یا دو بار اسنے اپنا بازو
میرے سینے پر مموں کے بالکل اوپر بھی رکھ دیا جس سے اسکے بازہ اور ہاتھ نے
میرے مموں کی سختی کو بھی محسوس کیا مگر یہ محض چند لمحوں کے لیے ایسا ہوا۔
2ماہ تک یہ سلسلہ ایسے ہی چال اور میں نے رضوان کو اپنے جسم سے زیادہ
کھیلنے نہیں دیا کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ اسکو محسوس ہو کہ میں ان لذتوں
سے گزر چکی ہوں اور اپنا جسم پہلے بھی کسی کے حوالے کر چکی ہوں۔ اس لیے ہر
بار میں اسکو یہی محسوس کرواتی کہ مجھے ایسا کرتے ہوئے بہت شرم آرہی ہے اور
میں ایسا صرف رضوان کی خوشی کے لیے کرتی ہوں۔
میری پھدی کی چدائی ابھی محض 2بار ہی ہوئی تھی عمران کے لن سے اور 2ماہ کا
عرصہ بیت چکا تھا اس لیے پھدی ایک بار پھر سے ٹائٹ ہو چکی تھی۔ اور کوئی چدائی
کا ماہر جو کنواری چوت کی لذت کو جانتا ہو یہ بتا سکتا تھا کہ میری چوت کنواری
نہیں۔ جس نے پہلے کبھی چوت کا مزہ نہیں لیا اسکے لیے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ
میری چوت پہلے اپنے اندر ایک موٹا لن سما چکی ہے۔ ایک دن رضوان گھر آیا اور
اسنے بتایا کہ اسکی یونیورسٹی میں فنکشن ہے اور وہاں پاکستانی سنگر شیرا اُپل اور
فاخر آرہے ہیں۔ جیسے ہی اسنے یہ بتایا میں فورا بولی کہ مجھے ب ِھی جانا ہے اس
فنکشن میں۔ ابو بھی ساتھ بیٹھے تھے انہوں نے ایکدم سے میری طرف دیکھا۔ تو میں
نے ابو سے منت کی کہ پلیز مجھے جانے دیں۔ ابو بھی جانتے تھے کہ مجھے شیرا ا ُپل
کا گانا "تیرا تے میرا" بہت پسند تھا اور فاخر بھی میرا فیورٹ سنگر تھا۔ اور ویسے
بھی ابو بہت تنگ نظر انسان نہیں تھے مگر انہوں نے پہلے مجھے رضوان کے ساتھ
ایسے کہیں باہر نہیں بھیجا تھا۔ مگر میرے اصرا پر اور رضوان کے کہنے پر ابو راضی
ہوگئے مجھے بھیجنے پر۔ یہ فنکشن شام 6بجے شروع ہونا تھا اور رات گئے 2بجے
تک چلنا تھا۔ مگر ابو نے رضوان سے وعدہ لیا کہ 11بجے تک تم فائزہ کو لیکر
واپس گھر پہنچو گے۔ رضوان نے حامی بھر لی اور اسطرح میرے جانے کا پروگرام بن
گیا۔
اس وقت میرے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ میں رضوان کے ساتھ سیکس
کروں گی ،مجھے تو باس فنکشن اٹینڈ کرنا تھا۔ 2دن بعد فنکشن تھا اور رضوان
مجھے لینے گھر آگیا۔ اور بتایا کہ ایسے فنکشن عموما لیٹ ہوجاتے ہیں تو ہم 7بجے
تک پہنچیں گے یونیورسٹی۔ اور رضوان نے مجھے تیار ہونے کو کہا۔ میں پینٹ شرٹ
پہننے لگی تو رضوان نے مجھے ساڑھی لگانے کو کہا جو میں نے اپنی بہن صائمہ کی
شادی پر لگائی تھی۔ یہ بلیک کلر کی ساڑھی تھی اور اور اسکے بالوز کا گال تھوڑا کھال
تھا جس سے میری کلیوج نظر آتی تھی۔ مگر ساڑھی کا پلو سینے پر ڈالنے کے بعد
کلیوج چھپ جاتی تھی۔ میں نے رضوان کی فرمائش پر وہی ساڑھی لگائی۔ اور میک اپ
کیا ،رضوان بار بار مجھے دیکھ رہا تھا اور تعریفی نظروں سے مجھے بتا رہا تھا کہ
میں بہت سیکسی لگ رہی ہوں۔ رضوان موٹر سائکل پر آیا تھا اور ہمارا پروگرام موٹر
سائکل پر ہی جانے کا تھا۔ مگر ابو نے گاڑی کی چابی دیتے ہوئے کہا کہ تم دونوں
گاڑی لے جاو موٹر سائیکل پر جانا مناسب نہیں۔ رضوان بھی مان گیا اور ہم دونوں
گاڑی میں بیٹھے اور ٹھیک 7بج کر 25منٹ پر ہم یونیورٹی میں تھے۔ راستے میں
رضوان نے میرے جسم کے ساتھ تھوڑی چھیڑ خانی بھی کی اور ایک سنسان جگہ پر
میری طرف جھک کر مجھے کس بھی کر ڈالی۔
یونیورسٹی گئے تو میں نے دیکھا وہاں بہت بڑی تعداد آئی ہوئی تھی لڑکے اور لڑکیوں
کی۔ لڑکے لڑکیاں ایکدوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے گھوم رہے تھے۔ کچھ لڑکیوں
نے شلوار قمیص پہن رکھی تھی ،کچھ لڑکیاں جینز میں تھیں تو کچھ لڑکیاں میری طرح
ساڑھی میں بھی تھیں۔ لیکن جو لڑکیاں ساڑھی میں تھی وہ کھ زیادہ ہی بولڈ تھیں اور
انہوں نے شارٹ بالوز پہن رکھا تھا جو کسی حد تک بیک لیس بھی تھے۔ اور انکے
پیٹ اور کمر کا کچھ حصہ ننگا تھا۔ رضوان بھی بڑے فخر سے میرا بازو پکڑے گھوم
رہا تحھا۔ اسی دوران رضوان نے مجھے اپنے دوستوں سے بھی ملوایا اور میرا تعارف
کروایا۔ رضوان کے کچھ دوستوں نے میرا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیا جیسے میرا
مکمل ایکسرے کرنا چاہتے ہوں جب کہ کچھ دوستوں نے بڑی خوش اخالقی کے ساتھ
مجھ سے ہاتھ مالیا اور میرے جسم کا جائزہ لینے کی بجائے میرا حال چال پوچھا اور
پارٹی انجوائے کرنے کا کہا۔
اب رضوان اور میں ایک سائیڈ پر کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے اور ہمارے ساتھ رضوان
کے 3قریبی دوست اور 2اسکی کالس کی لڑکیاں بھی تھیں اور ہم سب خوش گپیوں
میں مصروف تھے۔ اب رات کے 8:30ہو چکے تھے تو فاخر سٹیج پر آیا اور گانا
گانے لگا جسکو ہم سب نے بہت مزے سے سنا اور خوب ہال گال کیا۔ گانے کے بیچ میں
کچھ لڑکوں نے ہوٹنگ بھی کی۔ لڑکیاں بھی کسی طور پر کم نہیں تھیں ہوٹنگ کرنے
میں۔ کچھ لڑکیاں لو یو فاخر کی آوازیں بھی لگا رہی تھی۔ فاخر نے 4گانے گائے اور
چال گیا پھر کوئی لوکل سنگر آگیا جسکا تعلق ملتان سے ہی تھا اور ساتھ میں یہ بھی پتا
لگا کہ شیراز اُپل نے نہیں آنا اسکا پروگرام کینسل ہوگیا تھا۔ مجھے بہت افسوس ہوا۔
کچھ دیر مزید اسی طرح میں رضوان کے ساتھ پھرتی رہی۔ :9بج کر 30منٹ ہوئے
تھے کہ مجھے اپنے جسم پر پانی کے قطرے گرےتے محسوس ہوئے ،یہ بارش کے
قطرے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے بارش تیز ہونے لگی۔ رضوان فورا مجھے لیکر
پارکنگ کی طرف بڑھا اور ہم دونوں گاڑی میں جا کر بیٹھ گئے۔ میری ساڑھی کچھ گیلی
ہوگئی تھی اور خاص طور پر سامنے پلو گیال ہونے کی وجہ سے اب اسکے آر پار نظر
آرہا تھا۔ میری کلیوج اب واضح تھی اور رضوان کی نظریں بھی ادھر ہی تھی۔
رضوان نے گاڑی ریورس کی اور یونیورسٹی سے باہر نکل آیا ،مگر اسکا رخ گھر کی
بجائے بوسن بائی پاس روڈ کی طرف تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کدھر جا رہے ہو تو
رضوان بوال 11بجنے میں ابھی ٹائم ہے یہ سنسان سڑک ہے ادھر کہیں گاڑی روک کر
تمیں پیار کرنا ہے۔ میں بھی ہنس دی کیونکہ میں رضوان کو تھوڑا موقع دینا چاہتی
تھی۔ میں جانتی تھی کہ مجھے اس سیکسی ساڑھی میں دیکھ کر اسکا لن پینٹ سے
باہر نکلنے کی بھرپور کوشش میں تھا۔ کچھ ہی دیر بعد رضوان کو ایک سائیڈ پر
درختوں کا جھنڈ نظر آیا تو رضوان نے گاڑی روڈ سے نیچے اتاری اور درختوں کے
جھنڈ میں اندر لیجاکر روک دی۔ اور گاڑی کی الئٹس بھی بند کر دیں تاکہ اگار کوئی اور
گاڑی ادھر سے گزرے تو وہ ہمیں نہ دیکھ پائے۔ بارش بھی کافی تیز تھی جس کی وجہ
سے مشکل ہی تھا کہ ہمیں یا ہماری گاڑی کو کوئی دیکھ پاتا۔ گاڑی روکتے ہی رضوان
نے مجھے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ
دیے۔ کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد میں نے رضوان کو پچھلی سیٹ پر جانے کو بوال
کیونکہ رضوان ڈراوئینگ سیٹ پر تھا اور مجھے سٹیرینگ اور گئیر کی وجہ سے
الجھن ہورہی تھی۔ رضوان نے فورا دروازہ کھوال اور پچھلی سیٹ پر آگیا میں نے بھی
اپنی سائڈ کا دروازہ کھوال اور پچھلی سیٹ پر آکر بیٹھ گئیی۔ رضوان نے ایک بار پھر
مجھے پکڑ کر اپنے سینے سے لگایا اور میرے ہونٹ چوسنے لگا۔ اب میں رضوان کی
گود میں بیٹھی تھی اور رضوان بہت شدت کے ساتھ میرے ہونٹ چوس رہا تھا۔ اس نے
اپنی زبان بھی میرے منہ میں ڈالی تو میں نے اسکی زبان کو چوسنا شروع کر دیا۔
پچھلے دو ماہ میں رضوان اور میں نے کسنگ کی اور زبان چاٹنے کی خوب پریکٹس
کی تھی اور یہاں بھی وہی کچھ کر رہے تھے۔ رضوان کی گود میں بیٹھے ہوئے مجھے
مسلسل رضوان کا لن اپنی گانڈ پر محسوس ہو رہا تھا۔ میں خود بھی اپنی گانڈ نیچے کی
طرف دبا کر اسکے لن کا مزہ لیتی۔
اب رضوان نے کسنگ کرتے کرتے میرے کندھوں کو چومنا شروع کردیا اور کندھے
چومتے سومتے میرے سینے تک آگیا۔ میری ساڑھی کا پلو وہ میرے سینے سے ہٹا
چکا تھا اور میرے سینے پر اپنی زبان پھیرتا اور ہونٹوں سے پیار کرتا۔ میں نے بھی
رضوان کو روکنا مناسب نہیں سمجھا لیکن میرا چودائی کا یہاں کوئی پروگرام نہیں تھا۔
کیونکہ ایسی جگہ پر چودائی نہ صرف خطرناک تھی بلکہ مشکل بھی کیونکہ میں نے
ساڑھی پہن رکھی تھی جسکو اتارنا اور پھر سے پہننا آسان کام نہیں تحا۔ رضوان کافی
دیر تک میرے سینے پر پیار کرتا رہا پھر اچانک ہی اسنے اپنے دونوں ہاتھوں سے
میرے ممے پکڑ لیے۔ یہ فرسٹ ٹائم تھا کہ رضوان نے میرے ممے پکڑے تھے۔ اور وہ
میرے ممے پکڑ کر بہت خوش تھا۔ میں نے اسکے ہاتھ اپنے مموں سے ہٹانا چاہے
مگر اسنے نہ ہٹائے اور بوال یہ اتنے پیارے پیارے ممے میرے لیے ہی تو ہیں اگر میں
نہیں پکڑوں گا تو اور بھال کون پکڑے گا۔ اور یہ کہ کر وہ اپنی زبان میری کلیوج میں
پھیری لگا اور ساتھ ساتھ میرے ممے بھی دباتا رہا۔ اب مجھے مزہ آنے لگا تھا کیونکہ
میرے مموں کا اصل مالک میرے مموں پر پیار کر رہا تھا۔ گو کہ اسنے میرا بالوز نہیں
اتارا تھا اور اوپر سے ہی پیار کر رہا تھا مگر مجھے اسکا بھی بہت مزہ آنے لگا۔
اب میری گانڈ پر رضوان کے لن کا پریشر بڑھنے لگا تو میں نے سائڈ پر ہوکر اسکے
لن پر ہاتھ رکھ دیا۔ اسکو بھی میری یہ دیدہ دلیری اچھی لگی اور وہ سب کچھ چھوڑ
چھاڑ کر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا اور مجھے کہا کہ میں اچھی طرح اسکے لن کا معائنہ کر
سکتی ہوں۔ کچھ دیر میں اسکے لن کو پینٹ کے اوپر سے ہی دباتی رہی اور وہ
مزےلیتا رہا۔ پھر اچانک اسنے اپنی پینٹ کی زپ کھولی اور اندر ہاتھ ڈال کر انڈر وئیر
سائڈ پر کیا اور زپ میں سے ہی اپنا لن باہر نکال لیا۔۔۔ لن جیسے ہی باہر آیا میری
آنکھوں میں ایک چمک آگئی۔ رضوان کا لن 7انچ کا تھا اور بہت مضبو ط تھا۔ لیکن
میں نے رضوان کو اوپر اوپر سے منع کیا کہ یہ بری بات ہے اسکو واپس اند ڈال لو۔
مگر رضوان نے کہا کہ ایک بار پکڑ کے دیکھو میرا لن۔ می نے ابھی تک رضوان کا لن
پینٹ کے اوپر سے ہی پکڑا تھا اور اب رضوان چاہتا تھا کہ میں اسکا ننگا لن بھی اپنے
ہاتھ سے پکڑوں۔ کچھ دیر انکار کرنے کے بعد میں رضوان کا لن پکڑنے کے لیے تیار
ہوگئی کیونکہ میرا اپنا بھی دل کر رہا تھا اس کو چوسنے کا۔ جیسے ہی میں نے رضوان
کا لن پکڑا مجھے بہت خوشی ہوئی۔ یہ ایک مکمل لوہے کا راڈ تھا۔ انتہائی سخت اور
جاندار۔ میں نے رضوان کو یہ شو کروایا کہ مجھے لن پکڑتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے اور
میری آنکھوں میں خوف ہے مگر رضوان نے مجھے حوصلہ دیا کہ پکڑ لو اسے کچھ
نہیں ہوتا۔ پھر آہستہ آہستہ میں نے رضوان کے لن کو سہالنا شروع کر دیا جس سے
رضوان کو مزہ آنے لگا۔ کچھ دیر لن کو پیار کے ساتھ سہالنے کے بعد اب میں رضوان
کے لن کی مٹھ مار رہی تھی۔ 7انچ کا موٹا لن پکڑ کر میری چوت میں پانی بھرتا جا رہا
تھا اور میرا دل کر رہا تھا کہ میں فورا یہ لن اپنی چوت میں داخل کر لوں مگر میں ابھی
ایسا نہیں کر سکتی تھی اور کرنا بھی نہیں چاہتی تھی۔
کچھ دیر رضوان میرے ہاتھوں کےلمس سے خوش ہوتا رہا اور اس نے مجھے بتایا کہ
آج تک وہ اپنے ہاتھ سے اپنے لن کی مٹھ مارتا تھا مگر جو مزہ اسے میرے ہاتھ نے
دیا وہ پہلے کبھی نہیں آیا۔ اب رضوان نے فرمائش کر ڈالی کہ میں اسکا لن اپنے منہ
میں لوں۔ میں اس کام کے لیے مکمل تیار تھی اور خواہش بھی تھی مگر رضوان کو
دکھانے کے لیے میں نے انکار کیا اور کہا مجھے نفر ت آتی ہے میں اسے منہ میں
نہیں لے سکتی یہ گندہ ہے۔ لیکن رضوان کہاں باز آنے واال تھا وہ مسلسل اصرار کر رہا
تھا اور مجھے سمجھا رہا تھا کہ سب لڑکیاں منہ میں لیکر چوستی ہیں لن۔ اس نے
مجھے وہ فلم بھی یاد کروائی مگر مین نے پھر بھی کہا کہ نہیں میں ایسا نہیں کر
سکتی۔ اب رضوان میری منتیں کرنے پر آگیا اور مجھ پر اپنا پیار بھی جتانے لگا اور
اسنے مجھے بتایا کہ اسکے دوست اسے بتاتے ہیں کہ انکی گرل فرینڈز انکےلن کے
دل کھول کر چوپے لگاتی ہیں تو اسکا بھی بہت دل کرتا ہے کہ کوئی اسکے لن کا چوپا
لگائے۔ اب اگر تم میرے لن کو منہ میں نہیں لوگی تو میں اپنی یہ خواہش کیسے پوری
کروں گا؟
میں نے بھی زیادہ تڑپانا مناسب نہیں سمجھا اور آہستہ آہستہ رضوان کے اوپر جھکنے
لگی ،اب میرا منہ بالکل لن کے قریب تھا اور میرے منہ میں اتنا مضبوط لن دیکھ کر
پانی آرہا تھا۔ مگر میں ابھی رضوان کو یہی شو کروا رہی تھی کہ مجھے نفرت آرہی ہے
اور محض رضوان کی خواہش پر میں ایسا کر رہی ہوں۔ رضوان بھی بیتابی سے انتظار
کر رہا تھا کہ کب میں اسکا لن اپنے منہ ِمیں لیتی ہوں۔
جب میں اپنی قمیص پہن کر واش روم سے نکلی تو کمرے میں امی موجود تھیں۔ اور
رضوان بھی کمرے میں ہی بیٹھا تھا۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد رضوان نے امی سے
اجازت لی اور واپس ہاسٹل چال گیا۔ اس طرح کی چھیڑ خانی کا جب بھی ہمیں موقع ملتا
ہم ضرور کرتے۔ مگر دوبارہ رضوان کو کبھی میری قمیص اتارنے کا موقع نہیں مال۔ وہ
اوپر اوپر سے ہی میرے ممے دباتا اور کبھی کبھی میری چوت پر اپنا ہاتھ پھیرتا ،البتہ
میں نے ایک بار پھر سے رضوان کے لن کا چوپا لگا کر اسکی منی نکالی۔
اب اس واقعہ کو 2مہینے کا ٹائم گزر چکا تھا۔ ایک دن رضوان نے مجھے بتایا کے
انکے دوست ایک پارٹی ارینج کر رہے ہیں جس میں انکی گرل فرینڈز بھی انکے ساتھ
ہونگی اوررضوان نے مجھے کہا کہ میں ب ِھ یہ پارٹی جوائن کروں۔ میں نے حامی بھر
لی مگر مسئلہ ابو سے اجازت لینے کا تھا۔ اور یہ کام میں نے رضوان کے ذمے لگا دیا۔
رضوان نے جانے ابو کو کیا کہانی سنائی کہ ابو نے خوشی خوشی اجازت دے دی۔
رضوان نے مجھے بتایا کہ یہ ہائی کالس پارٹی ہوگی لہذا میں کوئی سیکسی سا ڈریس
پہن کر جاوں۔ میں نے اپنی ٹائٹ جینز نکال کر پہنی اسکے ساتھ فوم کے کپس واال
وائرڈ برا پہن لیا اور اپر سے ایک ٹائٹ شرٹ پہن لی۔ میرے ٹائٹ ممے اس شرٹ میں
پھنس کر رہ گئے اور بڑی مشکل سے سینے کے اوپر واال بٹن بند کیا۔ ساتھ میں نے
ایک لمبی سی شال لی اور اپنے کندھوں پر ڈال لی جو میرے گھٹنوں تک جا رہی تھی۔
یہ تیاری کر کے میں رضوان کے ساتھ ابو کی گاڑی میں پارٹی میں شریک ہونے چلی
گئی۔ گھر سے تھوڑا دور جا کر میں نے شال اتار دی تو رضوان نے میرے مموں کی
طرف دیکھتے ہوئے بتایا کہ فائزہ تم بہت سیکسی لگ رہی ہو آج تو مزہ آجائے گا۔ میں
بھی مسکرا دی۔
کچھ دیر میں ہم رضوان کے دوست کے گھر پہنچ گئے۔ یہ ایک بہت بڑی کوٹھی تھی اور
گھر کے باہر سے ہی پتہ لگتا تھا کہ کو ئی بہت امیر شخص ہوگا اس گھر کا مالک۔ گیٹ
کھال تھا رضوان نے گاڑی اندر لے جا کر روکی تو رضوان کا دوست ویلکم کرنے کے
لیے وہیں آگیا۔ اسنے مجھ سے ہاتھ مالیا اور میرا اوپر سے نیچے تک کا جائزہ لیکر
مجھے تعریفی نظروں سے دیکھا اور پھر رضوان سے مال اور رضوان کو کہا کہ
بھابھی تو آج قیامت ڈھا رہی ہیں۔ رضوان یہ بات سن کر قہقہ لگا کر ہنسا اور ہم اکٹھے
اندر چلےگئے۔ اندر جا کر رضوان کا دوست جسکا نام علی تھا وہ ہمیں ایک بیسمینٹ
میں لے گیا جہاں سے میوزک کی آواز آرہی تھی۔ جبیسے ہی ہم بیسمینٹ میں داخل
ہوئے تو اند ر کا ماحول میرے لیے بالکل نیا تھا۔ یہ واقعی ایک ہائی کالس پارٹی تھی
اورلڑکے اور لڑکیاں ڈانس کرنے میں مصروف تھے۔ کمرے میں قریب 6لڑکے اور 8
لڑکیاں موجود تھیں۔ ہمیں مال کر کل 8لڑکے اور 9لڑکیاں ہوگئیں تھں۔ ہمیں اندر آتا
دیکھ کر سب لوگ ہمیں ملے۔ لڑکے رضوان سے گلے ملے اور میرے ساتھ سب نے
ہاتھ مالیا۔ جب کہ لڑکیاں مجھ سے بھی گلے ملیں اور 3لڑکیاں رضوان کے ساتھ بھی
گلے ملیں جو مجھے بہت عجیب لگا۔ رضوان نے بھی بہت گرم جوشی سے انہیں گلے
لگایا اور فورا ہی ڈانس دوبارہ شروع ہوگیا۔
رضوان نے مجھے بھی ڈانس کرنے کی دعوت دی مگر میں جھجھک محسوس کر رہی
تھی اس لیے رضوان کو کہا کہ وہ ڈانس کرے اور میں خود ایک سائیڈ پر جا کر بیٹھ
گئی۔ اور رضوان کو ڈانس کرے دیکھنے لگی۔ رضوان دوسرے لڑکے اور لڑکیوں کے
ساتھ محو ہو کر ڈانس کر رہا تھا۔ تمام لڑکیاں بہت بولڈ تھیں اور بال جھجھک مختلف
لڑکوں کے ساتھ ڈانس کرنے میں مصروف تھیں۔ مجھے اکیال بیٹھا دیکھ کر علی میرے
پاس آیا اور مجھے ایک کولڈ ڈرنک آفر کی جو میں نے لے لی۔ اور علی میرے ساتھ ہی
بیٹھ کر مجھ سے باتیں کرنے لگا۔ اس نے میرے سے پوچھا کہ میں ڈانس کیوں نہیں
کر رہی تو میں نے بتا یا کہ میں نے کبھی ڈانس کیا ہی نہیں اس لیے عجیب لگ رہا ہے۔
اس پر علی قہقہ لگا کر ہنسا اور بوال ہم کونسا ایکسپرٹ ڈانسر ہیں۔ بس میوزک کے
ساتھ ساتھ جسم ہی تو ہالنا ہوتا ہے اور خود بخود ڈانس ہوتا رہتا ہے۔ علی نے مجھے
اپنے ساتھ ڈانس کرنے کو کہا مگر میں نے معذرت کر لی۔ جس پر علی نے برا منائے
بغیر میرے سے باتیں جار رکھیں۔ میری نظریں رضوان پر تھیں۔ رضوان جن لڑکیوں کے
ساتھ ڈانس کر رہا تھا وہ بہت بولڈ اور سیکسی تھیں۔ رضوان بیچ بیچ میں ان لڑکیوں
کے چوتڑوں پر بھی ہاتھ پھیرتا اور کبھی کبھی وہ لڑکیاں اپنی گانڈ پیچھے کو نکال کر
رضوان کے ساتھ ٹچ کرتیں جو تقریبا رضوان کے لن پر ہی لگتی ہوگی۔ باقی لڑکے ب ِھی
اسی طرح کی بیہودہ حرکتیں کر رہے تھے۔ علی نے نوٹ کر لیا کہ میں رضوان کو دیکھ
رہی ہوں تو اس نے کہا کیا آپکو برا لگ رہا ہے رضوان کا دوسری لڑکیوں کے ساتھ
ڈانس کرنا ؟؟ تو میں نے کہا نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں بس مجھے عادت نہیں ۔ تو
اس پر علی نے کہا کہ میں ہمت کروں اور ڈانس شروع کروں۔ اسنے کھڑے ہوکر اپنا
ہاتھ میری طرف بڑھایا ،میں نے کچھ سوچتے ہوئے ڈرنک سائیڈ پر رکھی اور علی کا
ہاتھ تھام کر ڈانس فلور کی طرف بڑھنے لگی ،اب میں بھی ذرا سیکسی انداز میں اپنی
گانڈ ہالتے ہوئے چل رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ مجھے علی کے ساتھ دیکھ کر رضوان
ان لڑکیوں کو چھوڑ کر میری طرف بڑھے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ مجھے علی
کے ساتھ آتا دیکھ کر رضوان نے خوشی سے چیخ ماری اور مجھے ویلکم کہا اور اپنا
ڈانس جاری رکھا۔
میں نے بھی پھر چارو نچار علی کے ساتھ ہی ڈانس کرنا بہتر سمجھا۔ علی نے مجھے
کہا کہ زیادہ مشکل نہیں بس میوزک کے ساتھ ساتھ جیسے آپکو سمجھ لگے اپنا جسم
ہالنا ہے۔ میں نے اونچی ایڑی والی ہیل پہن رکھی تھی جسکی وجہ سے میں تھوڑا ڈر
بھی رہی تھی ،مگر باقی لڑکیوں کی طرف دیکھ کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور میں نے
میوزک کے ساتھ ساتھ ہلکا پھلکا ڈانس شروع کیا۔ علی نے میرا ہاتھ ابھی تک پکڑا ہوا
تھا اور وہ بھی میرے ساتھ ہلکا ہکا ڈانس کر رہا تھا۔ وہاں تمام موجود لڑکیاں اپنی گانڈ
ہال ہال کر ہی ڈانس کر رہی تھی اور یہی انکے نزدیک ڈانس تھا۔ میں نے بھی یہی کام
جاری رکھا۔ کچھ دیر بعد جب میری جھجھک ختم ہوئی تو میں نے زیادہ اعتماد کےساتھ
ڈانس کرنا شروع کیا ،گانڈ ہالنے کے ساتھ ساتھ میں ہاتھوں اور ٹانگوں کا استعمال بھی
کر رہی تھی ۔ میرا اعتماد بحال ہوتے دیکھ کر علی نے اپنے ہاتھ میری گانڈ پر رکھ دیے
،پہلے تو میں اسکے ہاتھ ہٹانے لگی لیکن پھر میں نے سوچا جب رضوان یہ سب کچھ
دوسری لڑکیوں کے ساتھ کر رہا ہے تو میں کیوں نا انجوائے کروں۔ لہذا میں نے علی
کو روکنے کی بجائے اپنی گانڈ کو اور بھی ہالنا شروع کر دیا۔ میرا یہ رسپانس دیکھ کر
علی کو اور حوصلہ ہوا اور اب اسنے اپنے ہاتھ مضبوطی کے ساتھ میری گانڈ پر رکھ
دیے اور اپنے ہاتھوں سے میری گانڈ کو اپنی مرضی سے ہالنے لگا۔ اب میں یہ سب
انجوائے کر رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد رضوان کا ایک اور دوست میرے پاس آیا اورمیرا
ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف موڑ لیا اور علی کسی دوسری لڑکی کی طرف چال گیا۔
مجھے اس لڑکے کا نام تو نہیں معلوم تھا مگر میں نے ڈانس جاری رکھا اور یہ لڑکا
مجھ سے علی کے مقابلے میں زیادہ فری تھا۔ اس نے فورا ہی اپنا بازو میری کمر کے
گرد رکھا اور مجھے اپنے قریب کر کے ڈانس کرنے لگا۔ اب میرا ایک ہاتھ اس لڑکے
نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا اور میرا دوسرا ہاتھ اسکے کندھے پر تھاجب کہ اسکا
دوسرا ہاتھ میری کمر پر اور نظریں میرے مموں پر تھیں۔ کچھ دیر ڈانس کرنے کے بعد
اسکا ہاتھ بھی میری گانڈ پر چال گیا اور میری گانڈ پکڑ کر اسنے مجھے اپنے ساتھ اور
بھی مضبوطی سے لگا لیا۔ مجھے اسکے لن کا ابھار محسوس ہوا جو میرے ممے کا
ابھار دیکھ کر کھڑا ہو چکا تھا۔ پھر اسنے میرا منہ دوسری طرف کیا اور اب میری کمر
اس لڑکے کی طرف تھی اسنے اپنا ہاتھ میرے پیٹ پر رکھا ہواتھا اور دوسرا ہاتھ میرے
کولہے پر رکھ کر انہیں ہال رہا تھا۔ اسکی پوری کوشش تھی کے میری گانڈ کو اپنے لن
پر پھیرے جیسے باقی لڑکیاں کر رہی تھی۔ تھوڑی سی جھجھک کے بعد میں نے بھی
اپنی گانڈ ایک بار اسکے لن پر پھیری۔ اس ڈانس کے دوران میری شرٹ کا سینے کے
اوپر واال بٹن بھی کھل گیا تھا جس کی وجہ سے میرے مموں کا ابھار اور کلیوج بہت
واضح نظر آرہے تھے اور سرخ رنگ کا برا بھی تھوڑا سا نظر آرہا تھا۔ کچھ دیر ڈانس
کرنے کے بعد میوزک بند ہوگیا اور ڈانس ختم کر دیا سب نے۔
اب ایک سائیڈ پر کھانا لگنے لگا۔ رضوان بھی میرے پاس آیا اور پوچھا کہ انجوائے کر
رہی ہو پارٹی تو میں نے بتایا کہ ہاں مزہ آرہا ہے۔ اسنے میرا کھال ہوا بٹن دیکھا اور
بوال واہ کیا جلوے دکھا رہی ہو۔۔۔ میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا کہ وہ بس ڈانس
کرتے ہوئے کھل گیا اور بند کرنے لگی مگر رضوان نے منع کر دیا کہ کھال رہنے دو
سیکسی لگ رہی ہو۔ ۔ میں نے ب ِھی پھر بٹن بند نہیں کیا۔ اب کھانا لگ چکا تھا اور سب
لوگ کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ کھانا کھانے کے دوران ایک اور لڑکا بھی
بیسمینٹ میں آگیا اور ہم سب کے ساتھ گرمجوشی سے مال۔ اب تمام کپل اکٹھے بیٹھے
کھانا کھا رہے تھے۔ ہکا پھلکا کھانا کھانے کے بعد گیم کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا۔
اس گیم میں سب لڑکیاں اپنے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ ایک لڑکی جو زیادہ
ہی بولڈ تھی وہ تو اپنے بوائے فرینڈ کی گود میں بیٹھی تھی ،رضوان نے مجھے بھی
اشارہ کیا تو میں ب ِھ بال جھجھک رضوان کی گود میں ایک ٹانگ پر بیٹھ گئی جس سے
رضوان بہت خوش ہوا۔ سب سے پہلے ایک لڑکی سے پوچھا گیا کہ وہ کیا سیلیکٹ کرے
گی؟ ٹرتھ یا پھر ڈئیر۔ اس نے ٹرتھ سیلیکٹ کیا تو اس سے سوال پوچھا گیاکہ کیا وہ
اپنے بوائے فرینڈ سے حقیقی پیار کرتی ہے یا صرف ٹائم پاس۔ تو اسنے ہنستے ہوئے
اپنے بوائے فرینڈ کی ایک فرینچ کس کی اور کہا کہ ٹائم پاس۔ حقیقی پیار ابھی اسکو
نہیں ہوا۔
پھر دوسی لڑکی نے ڈئیر سیلیکٹ کیا تو اسکو کہا گیا کہ وہ شیلہ کی جوانی پر ڈانس کر
کے دکھائے۔ وہ فورا ہی اٹھ کھڑی ہوئی اور اسکے لیے گانا لگایا گیا۔ جس پر اس نے
بالکل کترینا کیف کی طرح ڈانس کیا اور سب نے تالیان بجا کر اسکو داد دی۔
پھر ایک لڑکی نے ٹرتھ سیلیکٹ کیا تو اس سے پوچھا گیا کہ اسنے آج تک کتنے لڑکوں
کے ساتھ سیکس کیا ہے؟؟؟ تو اسنے بھی اپنے بوائے فرینڈ کی طرف دیکھا اور بڑے
فخر سے بتا دیا کہ 3لڑکوں کے ساتھ وہ سیکس کر چکی ہے جس پر تمام لڑکوں نے
ہوٹنگ کی اور کہا ہمیں بھی موقع دو اوروہ لڑکی بھی سب کو انگوٹھا دکھا کر انکار
کرتی رہی۔
اسی طرح اور لڑکیوں کو بھی ڈئیر اور ٹرتھ دیے گئے۔ میری باری آئی تو میں نے ڈئیر
سیلیکٹ کیا۔ جیسے ہی میں نے ڈئیر کا کہا تو علی فورا بوال کے رضوان کے عالوہ یہاں
موجود کسی بھی لڑکے کی گود میں بیٹھ کر اسکو پورے 2منٹ تک فرنچ کس کرو۔
میں یہ سن کر فورا بول اٹھی کہ یہ کیسا ڈئیر ہے مگر سب نے کہا کہ آپ انکار نہیں کر
سکتی ہماری مرضی ہم جو مرضی کریں۔ میں نے رضوان کی طرف شکایتی نظروں سے
دیکھا کہ انہیں منع کرے مگر رضوان نے بھی کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ میں کیا کر
سکتا ہوں تم نے ہی ڈئیر کرنے کا کہا ہے تو اب انکی مرضی یہ جو مرضی کریں۔ میں
کچھ دیر تو خاموشی سے کھڑی رہی مگر پھر سوچا کہ جب رضوان دوسری لڑکیوں کو
کس کر رہا تھا تو میں کیوں نا کسی اور لڑکے کو کس کروں؟ اور ویسے بھی جب
رضوان کو اعتراض نہیں تو پھر کیا مسئلہ ہے۔ میں نے تمام لڑکوں کی طرف دیکھا سب
میری طرف فرمائشی نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ میری گود میں آکر بیٹھو۔ میں نے
پپہلے علی کی گود میں بیٹھنے کا سوچا مگر پھر جس لڑکے کے ساتھ بعد میں ڈانس
کیا تھا اسکی طرف بڑھنے لگی اور اسکی آنکھوں میں چمک آگئی۔ وہ ایک سٹول نما
چئیر پر بیٹھا تھا میں اسکے پاس گئی اور اپنی ٹانگیں کھول کر اسکی گود میں بیٹھ
گئی۔ اسکو سر سے پکڑ کر اسکے ہونٹ اپنے قریب کیے اور اسکے ہونٹوں پر اپنے
ہونٹ رکھ کر انکو چوسنے لگی۔ اسنے بھی بھرپور رسپانس دیا اور وہ بھی میرے
ہونٹوں کو چوسنے لگا۔ چند ہی لمحوں نے اسکے لن نے بھی رسپانس دینا شروع کر
دیا اور مجھے اپنی گانڈ پر اسکے لن کا دباو محسوس ہونے لگا مگر میں نے کسنگ
جاری رکھی۔ 2منٹ کی کسنگ کے دوران باقی کے لوگ مسلسل تالیاں بجاتے رہے اور
شور کرتے رہےاور 2منٹ کی کسنگ سے میری چوت بھی گیلی ہوچکی تھی۔ اور میں
اپنی زبان بھی اس لڑکے کے منہ میں ڈال چکی تھی جسکو وہ بہت مزے سے چوس رہا
تھا۔ 2منٹ پورے ہوتے ہی میوزک سٹارٹ ہوگیا اور سب لوگ دوبارہ سے ڈانس فلور
پر جا کر ڈانس کرنے لگے۔ ہم دونوں بھی اٹھے اور ڈانس فلور پر پہنچ کر ڈانس کرنے
لگے۔ ہم دونوں کے جسم کسنگ کرنے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی گرم تھے اس لیے
اب میں بھی دوسری لڑکیوں کی طرح بال جھجھک بولڈ ڈانس کر رہی تھی۔ بار بار میری
گانڈ اسکے لن سے ٹچ ہورہی تھی جسکو ہم دونوں ہی انجوائے کر رہے تھے۔ موقع
دیکھ کر میں نے چند لمحوں کے لیے اسکے لن پر اپنا ہاتھ ب ِھی رکھ دیا جس کو اسنے
بہت انجوائے کیا۔ پھر میں علی کے پاس چلی گئی اور اسکے ساتھ ڈانس کرنے لگی۔
میں نے بھی مختلف لڑکوں کے ساتھ ڈانس کیا اور انکے لن اپنی گانڈ پر محسوس
کیے۔
کافی دیر یہ سلسلہ جاری رہا نہ رضوان کو میری فکر تھی اور نہ مجھے رضوان کی
فکر۔ لیکن جب کافی دیر گزر گئی تو مجھے گھر کا بھی خیال آیا دیر ہورہی تھی ،میں
رضوان کے پاس گئی تو اسنے میری گانڈ پر ہاتھ رکھ کر ویسے ہی ڈانس کرنا شروع
کر دیا جیسے وہ باقی لڑکیوں کے ساتھ کر رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کے گھر سے دیر
ہورہی ہے چلو چلیں۔ اس نے اسرار کیا کہ ابھی کچھ دیر اور رکو ابھی تو پارٹی لیٹ
نائٹ چلے گی مگر میں نے بھی واپسی پر اصرار کیا تو چارو ناچار رضوان کو چلنا پڑا۔
وہ سب دوستوں سے مال اور انسے اجازت لیکر مجھے لیکر بیسمینٹ سے نکل آیا۔
جیسے ہی بیسمینٹ سے نکلے رضوان نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا
اور میرے ہونٹ چوسنے لگا۔ میں بھی اپنی گانڈ پر مختلف لن محسوس کرکے اس وقت
گرم تھی میں نے بھی کسنگ میں ساتھ دیا ،کچھ ہی دیر بعد میرا کھال ہوا بٹن کھول کر
رضوان نے اپنے ہونٹ میرے مموں کے ابھاروں پر رکھ دیے جو برا سے نظر آرہے
تھے اور ساتھ ہی میرے مموں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر دبانے لگا اور بوال کہ تم
بہت سیکسی ہو آج تم نے تمام لڑکوں کے لن کھڑے کیے ہیں۔ مجھے رضوان کے منہ
سے یہ سن کر بہت اچھا لگا کہ میرے جسم کے ابھار کسی بھی لڑکے کا لن کھڑا کر
سکتے ہیں۔ رضوان نے میری شرٹ کے بٹن کھول کر میرا برا بھی اتارنا چاہا مگر یہ
مناسب جگہ نہیں تھی اور دیر بھی کافی ہورہی تھی تو میں نے رضوان کو منع کر دیا
اور گھر چلنے کو کہا۔ کچھ دیر مزید میرے مموں پر کسنگ کرنے کے بعد رضوان کا
جنون کم ہوا تو وہ مجھے لیکر کار تک گیا۔ ہم دونوں کار میں بیٹَھے اور گھر کی طرف
جانے لگے۔ راستے میں میں نے اپنی شرٹ کے بٹن بند کیے اور دوبارہ سے شال اپنے
اوپر لے لی۔ راستے میں رضوان نے مجھ سے پوچھا کہ ندیم کی گود میں بیٹھ کر
کسنگ کرنے کا مزہ آیا؟ تو مجھے پتا لگا کہ اس لڑکے کا نام ندیم تھا۔ میں نے کہا کہ
تمہیں شرم نہیں آئی تمہیں میرا ساتھ دینا چاہیے تھا اور منع کرتے ان لوگوں کو تو
رضوان ہنس پڑا اور بوال کہ یار میرے تمام دوست ہائی کالس فیمیلیز سے ہیں تو انکے
لیے یہ معمولی بات ہے۔ وہاں منع کرنا عجیب لگتا سب مجھے کہتے کہ تم بھی ہماری
گرل فرینڈز کو کس کرتے ہو تو تمہاری گرل فرینڈ یا منگیتر ہمیں کس کیوں نہیں کر
سکتی۔ تو میں نے رضوان کو کہا کہ مزہ تو آیا مگر جو مزہ تمہاری کس میں اور
تمہارے ہونٹ چوسنے میں ہے وہ اسمیں نہیں۔ میری یہ بات سن کر رضوان بڑا خوش
ہوا مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کسنگ نے میری چوت گیلی کر دی تھی۔
رضوان نے مجھے گھر چھوڑا اور کچھ دیر بیٹھنے کے بعد واپس چال گیا۔ دن گزرتے
گئے اور رضوان گاہے بگاہے گھر آتا رہتا۔ اسکو جب بھی موقع ملتا وہ مجھے پکڑ لیتا
اور کسنگ شروع کر دیتا ،میرے ممے دباتا ،شلوار میں ہاتھ بھی ڈالتا اور چوتڑوں کو
بھی دباتا۔ مگر ابھی تک میں نے اسکو اپنے ممے نہیں دکھائے تھے اور نہ ہی چوت
اور گانڈ دکھائی تھی۔ البتہ جیسے ہی تھوڑا سا بھی موقع ملتا وہ اپنا لن نکال کر میرے
سامنے کر دیتا اور میں اسکو قلفی سمجھ کر منہ میں لیتی اور دل بھر کر اسکے چوپے
لگاتی۔ اسکے ٹٹوں سے کھیلتی انکو منہ میں لیتی اور چوپے لگا لگا کر اسکے لن کا
جوس نکال دیتی۔
اب گرمیوں کے دن تھے اور میرا کالج بھی بند تھا تو دوستوں سے ملنا جلنا بھی کم
ہوگیا تھا۔ سارا دن گھر میں بیٹھی بور ہتی رہتی تھی۔ ایک دن جب رضوان ہمارے گھر
آیا ہوا تھا تو میرے کالج کی دوست سائرہ بھی گھر آگئی۔ سائرہ کا تعلق بہت امیر
گھرانے سے تھا۔ وہ ہمیشہ گاڑی میں کالج آتی تھی کالے رنگ کی مرسڈیز چمکتی ہوئی
جب کالج گیٹ کے سامنے رکتی تو ڈرائیور فوری سے پہلے اترتا اور سائرہ کے لیے
دروازہ کھولتا سائرہ کسی مہارانی کی طرح گاڑی سے نکلتی اور ڈرائیور گاڑی کا
دروازہ بند کر کے گاڑی واپس لے جاتا اور جب سائرہ نے واپس جانا ہوتا تو وہ ڈرائیور
کو کال کرتی اور ڈرائیور جھٹ سے گاڑی لے کر کالج کے گیٹ کے سامنے پہنچ جاتا۔
سائرہ کافی حد تک مغرور لڑکی تھی اور لڑکوں سے فلرٹ کرنا اسکا شوق تھا۔ مگر
کسی بھی لڑکے کو وہ ضرورت سے زیادہ فری نہیں ہونے دیتی تھی۔ وہ یہ چاہتی تھی
کہ وہ ہر لڑکے کو اپنی مرضی سے ٹریٹ کرے۔ جب سائرہ چاہے اسکے ساتھ فلرٹ
کرے اور جب چاہے اسکو کسی جوتی کی طرح اتار کر سائڈ پر پھینک دے۔ وہ اپنے
حسن کے جلوے دکھا کر لڑکوں کو گرماتی تھی مگر کبھی اپنا جسم کسی لڑکے کے
حوالے نہیں کیا تھا۔ کالج میں اسکی دوستی میرے ساتھ بھی اتفاق سے ہوگئی کالج کا
پہال دن تھا اور وہ کالس روم میں آئی تو اسکو میرے ساتھ والی سیٹ ہی خالی ملی۔ اور
اکثر وہ اسائنمنٹ بھی میری ہی کاپی کرتی تھی اس لیے اس کی میرے سے دوستی
ہوگئی۔
سائرہ پہلے بھی بہت بار ہمارے گھر آچکی تھی مگر یہ اسکا بڑا پن تھا کہ اسنے کبھی
گھر آتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی اور کوئی نخرہ نہیں کیا تھا۔ لیکن میں
اسکے گھر کبھی نہیں گئی تھی۔ اسکا ڈرائیور اسے چھوڑ کر واپس چال گیا تھا۔ سائرہ
آتے ہی مجھ سے گلے ملی پھر امی سے ملی اور رضوان پر نظر پڑی تو اسنے میری
طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا کہ یہ کون ہے تو میں نے رضوان کا تعارف کروایا۔
سائرہ رضوان سے بھی بڑی زندہ دلی سے ملی اور آگے بڑھ کر ہاتھ مالیا۔ میں سائرہ
کے لیے چائے بنا کر الئی اور ساتھ میں نمکو اور بسکٹس وغیرہ رکھے۔ دوپہر کا ٹائم
تھا تو سائرہ نے بتایا کہ اسکی بھابھی بھی آئی ہوئی ہے اور اس نے مجھے دعوت دی
کہ میں اسکے گھر چلوں اسکی بھابھی سے بھی ملوں۔ میں تو پہلے ہی اسکا گھر
دیکھنا چاہتی تھی اس نے آج تک کبھی دعوت ہی نہیں دی تھی۔ میں نے فورا حامی
بھری اور امی سے اجازت مانگی تو امی نے کہا کہ اپنے ابو سے فون کرکے پتا کر لو۔
یہ کام میں نے سائرہ کو کہا ،سائرہ نے میرے موبائل سے ابو کو فون کیا اور اپنی
خواہش کا اظہار کیا۔ ابو پہلے سائرہ سے بہت بار مل چکے تھے اور جانتے تھے لہذا
ابو نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی پوچھا کہ جاو گی کیسے اور
فائزہ کی واپسی کیسے ہوگی؟ تو سائرہ نے کہا کے میں ڈرائیور کو بلوا لیتی ہوں اور
اسی کے ساتھ فائزہ واپس آجائے گی یا پھر رضوان بھائی بھی گھر پر ہیں تو رضوان
بھائی ہمیں لے جائیں اور واپسی فائزہ کو لے بھی آئیں گے۔ ابو نے یہ بات مان لی
کیونکہ ابو نہیں چاہتے تھے کہ میں کسی بھی ڈرائیور کے ساتھ اکیلی واپس آوں ۔ ابو
نے رضوان کو فون کیا اور کہا کہ میرے آفس آکر اپنی موٹر سائکل مجھے دے جاو اور
میری گاڑی لے جاو۔ ابو کا آفس گھر سے محض 2کلومیٹر ہی دور تھا۔ رضوان فورا
ہی آفس سے گاڑی لے آئے اور ہم 30منٹ بعد سائرہ کے گھر کے سامنے تھے۔
سائر کا گھر کیا تھا بس ایک محل تھا۔ شہر سے باہر ایک بڑی حویلی تھی جسکا اونچا
گیٹ اور گیٹ پر 2گن مین کھڑے تھے اور اندر داخل ہوئے تو ایک بڑی سی روڈ تھی
جو کم سے کم 300میٹر لمبی تھی اور اسکے ارد گرد بڑا الن تھا جس میں درخت اور
پودے لگے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم کسی بادشاہ کے گھر آگئے ہوں۔ ایک
سائیڈ پر ایک بڑا سا گیراج تھا جس میں کوئی 5کے قریب لمبی لمبی کاریں اور لینڈ
کروزر کھڑی تھیں اور انکے سامنے ہماری گاڑی کوئی کھلونا لگ رہی تھی۔ رضوان
بھی یہ شان و شوکت دیکھ کر ایک دم دنگ رہ گیا تھا۔ اور میری بھی آنکھیں کھلی کی
کھلی رہ گئیں تھیں۔ ہم نے ایک سائڈ پر گاڑی کھڑی کی تو سائرہ ہمیں لے کر اندر چلی
گئی۔ یہ ایک بڑا ہال نما کمرہ تھا جس میں صوفے رکھے تھے اور ایک سائڈ پر ڈائنگ
ٹیبل رکھا تھا۔ ہمارے اندر جاتے ہی ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس شخص دورٹا ہوا آِیا اور
سائرہ کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا اور حکم کا انتظار کرنے لگا۔ دور سے آتا ہوا
تہ مجھے یہی لگا کہ یہ سائرہ کا بھائی ہوگا لیکن جس طرح سے وہ کھڑا تھا وہ مالزم
تھا۔ سائرہ نے اسکو کہا کہ پہلے رضوان صاحب اور فائزہ میم کے لیے پانی لیکر آو
اسکے بعد انکے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرواو اور پانی میرے کمرے میں ہی لے
آنا۔ وہ ج بی بی جی کہتا ہوا الٹے قدموں واپس چال گیا۔
سائرہ نے ہمیں اپنے پیچھے آنے کا کہا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔ اسکا
کمرہ بھی بہت اچھے انداز میں دیکوریٹد تھا۔ کسی ماہر انٹیریر ڈیکوریٹر سے کمرہ
سیٹ کروایا گیا تھا۔ ایک سائِد پر بڑے سے شیشے والی کھڑکی تھی جسکے باہر نیچے
ایک سوئمنگ پول نظر آرہا تھا۔ جس میں صاف شفاف نیال پانی نظر آرہا تھا۔ سائرہ نے
ہمیں یہیں بیٹھنے کو کہا اور بولی میں بھابھی کو بال الوں۔ یہ کہ کر وہ باہر چلی گئی
اورکچھ ہی منٹ بعد دروازے پر ناک ہوئی اور وہی مالزم ٹرے میں پانی لے کر آن کھڑا
ہوا۔ اسنے ٹرے پہلے رضوان کے آگے کی اور پھر میرے آگے کی۔ اور خالی ٹرے لیکر
مودب انداز میں گالس خالی ہونے کا ویٹ کرنے لگا۔ ہم نے پانی پی کر خالی گالس
واپس رکھے اور وہ ایسے ہی واپس چال گیا۔ کچھ ہی دیر بعد سائرہ کمرے میں داخل
ہوئی تو اسکے ساتھ ایک اور لڑکی تھی جو سائرہ کی بھابھی تھی۔ سائرہ نے اس سے
میرا اور رضوان کا تعارف کروایا تو وہ بڑی گرمجوشی کے ساتھ مجھ سے گلے ملی
اور رضوان سے بھی ہاتھ مالیا۔ اور اس نے مجھے بتا یا کہ اسنے میرے بارے میں
بہت سنا ہے سائرہ سے۔ سائرہ کی ٹوٹل 3یا 4ہی دوست تھیں ملتان میں جن میں سے
ایک میں بھی تھی لہذا اس نے میرا تذکرہ اپنی بھابھی سے کیا تھا۔
اب سائرہ نے اپنی بھابھی کا بھی تعارف کروایا ،اسکا نام سمیرا تھا۔ جی ہاں وہی سمیرا
جسکا ذکر میں نے اپنی دوسری کہانی "تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے" میں کیا تھا۔
سائرہ نے بتایا کہ سمیرا کا تعلق اسالم آباد سے ہے اور یہ اپنی چھٹیاں گزارنے ہمارے
ہاں آئی ہے۔ گھر میں اس وقت ہم 4لوگوں کے عالوہ صرف مالزم تھے۔ کچھ دیر ہم
آپس میں باتیں کرتے رہے۔ بہت خوشگوار ماحول میں ہم نے وقت گزارا ،رضوان کو
ب ِھی بوریت کا احساس نہیں ہوا کیونکہ سمیرا اور سائرہ دونوں ہی بال جھجکرضوان
سے بات کر رہی تھیں اور ہم چاروں ایسے خوش گپیوں میں مصروف تھے جیسے سب
ایکدوسرے کو عرصے سے جانتے ہوں۔ سمیرا خاص طور پر بہت اچھے اخالق کی
مالک تھی اور رکھ رکھاو والی لگ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد مالزم نے آکر اطالع دی کہ
کھانا تیار ہے تو ہم چاروں نے نیچے جا کر کھانا کھایا۔ کھانا بہت ہی پر تکلف تھا اور
بہت اقسام کی ڈشز میز پر موجود تھیں۔
کھانا کھانے کے بعد سائرہ نے مجھے کہا کہ چلو سوئمنگ کرتے ہیں۔ میں سوئمنگ
کرنا نہیں جانتی تھی تو سائرہ نے کہا کوئی بات نہیں ہمارا پول گہرا نہیں ہے تم نہیں
ڈوبتی اس میں۔ گرمی بہت ہے تو سوئمنگ پول میں نہا کر تھوڑا فریش ہوجائیں گے۔
میں نے حامی بھر لی۔ سمیرا بھی تیا ر تھی۔ مگر مسئلہ رضوان کا تھا کہ وہ اکیال تھا۔
سائرہ نے رضوان کو کہا کہ اب کچھ دیر آپکو اکیلے بیٹھ کر بور ہونا پڑے گا۔ یا تو
میرے بھائی کے کمرے میں جا کر کوئی مووی دیکھ لیں یا نیچے الن میں چہل قدمی
کریں ۔ سائرہ کا بھائی گھر پر موجود نہیں تھا ابو اسکے ویسے ہی گھر پر نہیں ہوتے
تھے اور امی بھی گاوں گئی ہوئیں تھیں۔ رضوان نے کہا کہ آپ بے فکر ہوکر سوئمنگ
کرو میں الن میں چہل قدمی کر لوں گا۔
سائرہ نے مالزم کو بال کر کہا کہ رضوان صاحب کو الن تک لے جاو اور ہم تینوں
سوئمنگ پول کی طرف چلی گئیں۔ سوئمنگ پول کے چاروں سائڈ پر بڑی چار دیواری
تھی۔ یہ چار دیواری ب ِھی کم و بیش 2کنال کی ہوگی۔ اور بیچ میں ایک سوئمنگ پول
تھا۔ یہ اصل میں سوئمنگ پول اور ٹیوب ویل کا مکسچر تھا۔ اس میں سوئمنگ پول کی
طرح پانی کھڑا نہیں تھا بلکہ مسلسل ایک سائڈ سے پانی آرہا تھا اور دوسری سائیڈ
سے پانی خارج ہو رہاتھا۔ سائرہ نے بتایا کہ یہ سارہ دن چلتا ہے اور پول میں پانی تازہ
رہتا ہے۔ اور جو پانی خارج ہورہا ہے وہ حویلی کی پچھلی سائڈ پر انکی زمینوں کو
سیراب کرتا ہے۔ پول کے اندر نیلے رنگ کی ٹائلز لگی ہوئیں تھیں۔ اس مٹی نام کی
کوئی چیز نہیں تھی۔ پانی بالکل شفاف تھا اور نیلی ٹائل کی وجہ سے اور بھی نیال لگ
رہا تھا۔ پانی کی گہرائی تقریبا 5فٹ سے کچھ اوپر تھی اور یہ اوپن ائیر میں تھا۔ یعنی
چار دیواری تو تھی مگر چھت نہیں تھی۔ اور آس پاس دور دور تک کوئی گھر بھی نہیں
تھا۔ کیونکہ انکی یہ حویلی شہر سے باہر تھی اور اور آس پاس کی ساری زمین انکی
اپنی تھی۔
پول پر پہنچتے ہیں سائرہ اور سمیرا نے اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دیے۔ دونوں نے
اپنی قمیص اتاری اور پھر شلوار بھی اتار دی۔ اب دونوں محض برا اور پینٹی میں تھیں۔
دونوں نے اپنے کپڑے ساتھ پڑے ہوئے بینچ پر رکھے جس پر پہلے سے ٹاول بھی
رکھے ہوئے تھے۔ سائرہ کو میں نے پہلی بار بغیر کپڑوں کے دیکھا تھا۔ وہ ایک
سمارٹ اور خوبصورت لڑکی تھی۔ اسکا رنگ گورا تھا اور چکنا جسم تھا۔ جسم پر بالوں
کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اسکے ممے میرے مموں جتنے ہی تھی یعنی کہ 34سائز
تھے مگر گانڈ میرے سے چھوٹی تھی۔ سائرہ کی گانڈ 32کی تھی اور پیٹ بھی نہ
ہونے کے برابر تھا۔ اسکے مقابلے میں سمیرا کے ممے ہم دونوں سے بڑے تھے۔ 36
سائز کے مموں پر بلیک برا میں سمیرا کا دودھیا جسم قیامت ڈھا رہا تھا۔ گانڈ بھی 36
سائز کی تھی اور گوشت سے بھری ہوئی ت ِھی۔ میں نے ابھی تک کپڑے نہیں اتارے
تھے اور حیرانگی سے ان دونوں کو دیکھے جا رہی تھی۔ مجھے ایسے اپنی طرف
دیکھتے ہوئے سمیرا بولی کیا ہوا پہلے کبھی کسی ننگی لڑکی کو نہیں دیکھا؟ اور تم تو
ایسے دیکھ رہی ہو جیسے کوئی لڑکا اپنی گرل فرینڈ کو ننگا دیکھ لے۔ میں اس بات پر
ہنس پڑی اور کہا نہیں ایسی بات نہیں ،تم دونوں سوئمنگ کرو میں باہر ہی بیٹھوں گی۔
میری یہ بات سن کر دونوں آگے بڑھیں اور کہا ایسے نہیں اتارتی کپڑے تو ہم خود اتار
دیتے ہیں تمہارے کپڑے۔ اور انہوں نے میری قمیص اتارنی شروع کی میں نے ہلکا سا
روکا مگر سائرہ میری قمیص اتار چکی تھی اور سمیرا میری شلوار اتار رہی تھی۔ اب ہم
تینوں کے کسے ہوئے ممے برا میں تھے اور نیچے سے ہم تینوں نے پینٹی پہن رکھی
تھی۔ سمیرا نے میرے مموں پر ایک چماٹ ماری اور بولی کے بڑے ٹائٹ ممے ہیں
تیرے تو۔ اور یہ کہ کر سوئمنگ پول میں جمپ لگا کر کسی مچھلی کی طرح تیرنے لگی۔
اسکے بعد سائرہ نے بھی چھالنگ لگائی اور مجھے اپنے پیچھے پانی میں آنے کو کہا۔
میں ایک سائیڈ پر گئی جہاں سیڑھیاں نظر آرہی تھی جو پول کے اندر اتر رہی تھیں ،میں
ان سیڑھیوں کی مدد سے ڈرتے ڑتے پول میں اتری۔ پانی میرے مموں سے اوپر
کندھوں تک تھا اور میرا محض سر ہی پانی سے باہر تھا۔ پانی چونکہ بہ رہا تھا اور
ٹیوبویل سے تازہ پانی آرہا تھا اس لیے بہت ٹھنڈا پانی تھا۔ وہ دونوں پول کا ایک چکر
لگا کر میرے پاس آئیں اور مجھے بھی تیرنے کو کہا ،میں نے کہا کہ مجھے تیرنا نہیں
آتا تو انہوں نے مجھے ایک سائڈ سے پکڑا اور پانی میں آگے لے گئیں اور کہا کہ
کوشش کرو تیراکی کی دونوں نے مجھے پیٹ سے سہارا دیا اور کہا کہ ہاتھ اور مار کر
پانی پر تیرنے کی کوشش کروں ،میں نے کوشش کی مگر سیدھا پانی میں غوطہ لگ
گیا۔ سمیرا نے مجھے ہاتھ پکڑ کر دوبارہ کھڑا کیا تو میں نے توبہ کی کہ مجھے نہیں
تیرنا ،میں ایسے ہی کھڑی ہوں تم لوگ تیراکی کرو۔ میں ایسے ہی انجوائے کر لوں گی۔
اس پر سائرہ پول سے باہر نکلی اور ایک کونے میں پڑی ٹیوب اٹھا الئی جو انسان کو
ڈوبنے سے بچاتی ہے۔ سائرہ نے وہ ٹیوب مجھے دی اور کہا اسکی مدد سے تیراکی
کرو۔ میں نے وہ ٹیوب اپنی کمر کے گرد ڈال لی اور اب پانی پر با آسانی تیرنے لگی۔
کچھ دیر ہم پانی میں ایسے ہی تیراکی کرتی رہیں۔ شروع میں تو پانی میرے کندھوں تک
تھا مگر تھوڑا آگے جا کر پول کی گہرائی زیادہ تھی جس کا مجھے سائرہ نے بتا دیا
تھا۔
کچھ دیر ہم پانی میں ایسے ہی تیراکی کرتی رہیں۔ میرے لیے یہ پہال ایکسپیرینس تھا
اور کچھ دیر کی تیراکی کے بعد میں نے کم گہرائی والے پانی میں آکر ٹیوب کے بغیر
بھی تیراکی کی کوشش کی تو کسی حد تک کامیابی ہوئی مگر محض کچھ سیکنڈ کے
لیے ہی میں پانی میں تیر سکی اسکے بعد پھر سے غوطہ لگ گیا تو میں نے دوبارہ
ٹیوب پکڑ کر تیراکی جاری رکھی۔ اب سائرہ میرے پاس آئی اور میرے جسم سے چھیڑ
خانی کرنے لگی۔ اس نے میرے مموں پر ہاتھ رکھا اور بولی کے بہت پیارے ممے ہیں
تمہارے اور انکی گوالئی تو رضوان بھائی کو پاگل کر دے گی۔ پھر میری گانڈ پر ہاتھ
رکھ کر بولی کہ یہ بھی بہت زبردست ہے میں ہنسی اور کہا تجھے کیوں فکر ہورہی ہے
میری ،اپنی بھابھی کے ممے اور گانڈ دیکھ اور سوچ تیرے بھائی کا کیا حال ہوتا ہوگا۔
یہ بات سن کر سائرہ زور سے ہنسی جبکہ سمیرا کے گال شرم سے سرخ ہوگئے۔ پھر
سائرہ نے میرے جسم کا بغور جائزہ لیا اور کچھ سوچنے لگی۔ پھر اچانک بولی کہ یار
رضوان بھائی باہر بور ہورہے ہونگے انکے بھی بال لیتے ہیں ادھر ہی۔ میں ایک دم ہکا
بکا رہ گئی اور کہا یہ کیا بکواس کر رہی ہو؟ سمیرا نے بھی کہا کہ نہیں رضوان کو
ادھر نہں بالو ہم نے کونسا سوئم سوٹ پہنا ہوا ہے ہم تو برا اور پینٹی میں ہیں۔ لیکن
سائرہ بضد رہی کہ نہیں انہیں بالنا چاہیے۔ فائزہ تو ویسے ہی اسکی منگیتر ہے اسنے
الزمی اپنے حسن کے جلوے پہلے بھی دکھائے ہونگے رضوان کو اور مجھے کوئی
فکر نہیں اگر وہ مجھے اس حالت میں دیکھ بھی لے تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے وہ
کونسا میرا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ مگر سمیرا پھر بھی نا مانی تو سائرہ نے سمیرا کو کہا
کہ وہ باہر نکل کر اپنا گاون پہن لے۔ میں رضوان کو بال رہی ہوں۔ وہ بھی فائزہ کے
ساتھ تھوڑا سا انجوائے کر لیں تو کیا حرج ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ
کیا کروں۔ سمیرا نے میری حالت دیکھی تو ہنستی ہوئی سوئمنگ پول سے باہر نکل گئی
اور کہا فائزہ آج تمہاری خیر نہیں۔ سائرہ نے باہر نکل کر میرا فون اٹھایا اور رضوان کا
نمبر مال کر اسے کہا کہ پول کی طرف آجاو اندر فائزہ آپکو بال رہی ہے۔ اور سمیرا نے
باہر نکل کر ٹاول سے اپنا جسم صاف کیا اور برا اور پینٹی اتار کر گاون پہن لیا۔ اور برا
اور پینٹی جگہ پر رکھ دی۔ تھوڑی ہی دیر میں رضوان اندر آتا دکھائی دیا ،اس وقت
سمیرا پول سے باہر گاون پہن کر کھڑی تھی اور سائرہ میرے ساتھ پول میں تھی ،میں
نے بھی باہر نکل کر کپڑے پہننے کا کہا تھا مگر سائرہ نے ایسے نہیں کرنے دیا اور
کہا اپنے منگیتر کو بھی تھوڑے جلوے دکھا دے اپنے جسم کے۔
رضوان جب پول کے قریب آیا تو ایک بار وہ بھی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ سمیرا گاون
میں ہونے کے باوجود کافی سیکسی لگ رہی تھی مگر اصل حیرانگی کی بات میرا اور
سائرہ کا برا پینٹی پہنے پانی میں موجود ہونا تھا۔ رضوان کے آتے ہی سائرہ پانی سے
باہر نکلی اور رضوان کی طرف کمر لچکاتے ہوئے جانے لگی۔ رضوان بھی پھٹی پھٹی
نگاہوں سے سائرہ کو دیکھ رہا تھا اور مجھے بھی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر
یہ سائرہ کو ہوا کیا ہے۔ سائرہ رضوان کے پاس پہنچی اور اپنے مموں پر ہاتھ پھیرتے
ہوئے بولی کیا ہوا رضوان بھائی ایسے کیا دیکھ رہے ہو پہلے کبھی خوبصورت لڑکی
نہیں دیکھی کیا؟ رضوان جو بغیر نظریں جھکائے سائرہ کے جسم کو اوپر سے نیچے
دیکھ رہا تھا واپس ہوش میں آگیا اور کہا نہیں خوبصورت لڑکیاں تو بہت دیکھی ہیں
مگر اس حالت میں کسی کو نہیں دیکھا۔ یہ سن کر سائرہ نے رضوان کے سینے پر ہاتھ
رکھا اور اسکی شرٹ کا بٹن کھولتے ہوئے بولی جھوٹ نہ بولیں ،فائزہ کو تو ضرور
دیکھا ہی ہوگا۔ رضوان نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے میری طرف دیکھا اور کہا کہ کوشش
تو کئی بار کی مگر تمہاری دوست شرماتی بہت ہے کچھ دکھاتی ہی نہیں۔ میں اب ِھی تک
پانی میں ہی تھی اور باہر آنے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں۔ سائرہ نے پھر اپنا ہاتھ اپنے
مموں پر پھیرتے ہوئے پانی نیچے ٹپکایا اور بولی اب ایسی بھی کیا شرم بھال منگیتر
سے بھی کوئی شرماتا ہے کیا اور پھر سے رضوان کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی اب
رضوان میں بھی تھوڑا اعتماد آچکا تحا۔ سائرہ رضوان کی شرٹ کے سارے بٹن کھول
چکی تھی اور پھر شرٹ اتارنے میں بھی سائرہ نے دیر نہیں لگائی۔ شرٹ اتارنے کے
بعد رضوان کی بنیان بھی اتار دی۔ میں نے پہلی بار رضوان کو بغیر شرٹ اور بینان کے
دیکھا تھا۔ رضوان کا سینہ ب ِھی بالوں سے پاک تھا۔ جبکہ میرے بہنوئی عمران کے
سینے پر بال موجود تھے۔ رضوان کا سینہ بہت سیکسی لگا مجھے اور سینہ دیکھ کر
لگتا تحا کہ رضوان باقاعدگی سے ِجم کرتا ہے۔ سائرہ نے اب کی بار رضوان کے سینے
پر ہاتھ پھیرا کہ رضوان بھائی اپنا یہ سینہ کسی بھی جوان لڑکی کو دکھاو وہ خود ہی
اپنا سب کچھ آپ کو دکھا دے گی۔ یہ کہ کر وہ سمیرا کی طرف دیکھ کر بولی کیوں
سمیرا ٹھیک کہ رہی ہوں نہ میں؟ سمیرا ہنستے ہوئے بولی کہ سائرہ تیرا دماغ خراب
ہوگیا ہے۔ کیوں تنگ کر رہی ہے رضوان بھائی کو۔ تو سائرہ بولی میں کب تنگ کر رہی
ہوں انہیں انہی سے پوچھ لو رضوان بھائی آپ تنگ ہورہے ہیں کیا؟؟؟ رضوان بھال
کیوں کہتا کہ وہ تنگ ہورہا ہے اسکے سامنے تو 2ننگی لڑکیاں موجود تھیں اور اسے
کیا چاہیے تھا۔
اب کی بار سائرہ کے ہاتھ رضوان کی بیلٹ پر تھے اور اسنے رضوان کی بیلٹ بھی
کھول دی اور پھر پینٹ کا بٹن بھی کھول دیا۔ میں ابھی تک حیران تھی اور اب مجھے
تھوڑا غصہ بھی آرہا تھا کہ آکر یہ سائرہ کی بچی کرنا کیا چاہتی ہے۔ بٹن کھول کر
سائرہ نے رضوان کو کہا اب کچھ خود بھی اتار لیں آپ تو ایسے کھڑے ہیں جیسے میں
آپکی بیوی ہوں اور میں نے ہی آپکے کپڑے اتارنے ہیں۔ یہ سن کر رضوان ہنسا اور
اپنی پینٹ اتار دی۔ اب رضوان محض انڈر وئیر میں تھا اور انڈر وئیر سے رضوان کے
لن کا ابھار بڑا واضح تھا۔ اب کی بار سائرہ نے پھر سے رضوان کے سینے پر ہاتھ
پھیرا اور نیچے ناف تک ہاتھ ال کر سائڈ پر تھائیز پر ہاتھ لے آئی اور پوچھا سوئمنگ
آتی ہے آپکو؟ اب میرے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا تھا ،کوئی اور میری آنکھوں
کے سامنے میرے منگیتر سے اسطرح فلرٹ کرے اسکے جسم پر ہاتھ پھیرے یہ میں
برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ میں ہی کیا کوئی ب ِھ لڑکی یہ بات برداشت نہیں کر سکتی۔
میں نے ساری شرم ایک سائیڈ پر رکھی اور فوران ہی سوئمنگ پول سے باہر نکل آئی۔
مجھے باہر آتے دیکھا تو اب رضوان کی نظریں میرے جسم پر تھیں اور اسکا بس نہیں
چل رہا تحا کہ آگے بڑھ کر مجھے کھا جائے۔ میں نے رضوان کے پاس آکر رضوان کو
بازو سے پکڑ کر تھوڑا اپنی طرف کھینچا اور کہا آو ہم سوئمنگ کریں۔ یہ سن کر سائرہ
نے زور دار قہقہہ لگایا اور بولی کہ بڑی دیر کر دی تم نے غصہ کرنے میں میرا تو
خیال تھا پینٹ اترنے سے پہلے ہی تم باہر آجاو گی ،مگر تمہیں باہر نکالنے کے لیے
مجھے رضوان بھائی سے فلرٹ بھی کرنا پڑ گیا۔ یہ کہ کر وہ ہنستی ہوئی پانی میں
چھالنگ لگا کر تیراکی کرنے لگی اور ہم دونوں کو بھی کہا کہ آجاو۔ اور ساتھ میں
سمیرا کو ب ِھ اسنے بوال کہ اگر دل کرے تو آجاو تم بھی مگر اس نے انکار کر دیا۔ اور
رضوان نے بھی فوران ہی پانی میں چھالنگ لگائی اور سائرہ کے پیچھے پیچھے جانے
لگا۔ مجھے آج پتا لگا تھا کہ رضوان بھی تیراکی جانتا ہے۔ جب وہ دونوں پانی میں چلے
گئے تو اب میرے پاس باہر رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میں نے بھی پانی میں
چھالنگ لگائی اور ٹیوب کی مدد سے تیراکی کرنے لگی۔ تھوڑی دیر تیراکی کرنے کے
بعد سائرہ باہر نکلی اور ٹاول سے جسم صاف کر کے گاون پہن لیا اور بولی آپ دونوں
انجوائے کرو میں اور سمیرا واپس جا رہے ہیں۔ یہ کہ کر اس نے رضوان کو آنکھ
ماری اور کہا رضوان بھائی اب فائزہ آپکے حوالے اسکے بدلے مجھے کوئی اچھا سا
گفٹ دینا نہ بھولنا۔ رضوان نے بھی ہنستے ہوئے کہا جو تم کہو بال جھجھک مانگ لینا۔
یہ کہ کر رضوان اب میری طرف آیا جبکہ سمیرا اور سائرہ اپنے کپڑے اٹھا کر باہر چلی
گئیں۔
رضوان نے آتے ہی مجھے اپنی بانوں میں لے لیا اور بوال تمہاری دوست تو بہت
سیکسی ہے۔ میں نے اسکو کہنی ماری اور ناراض ہوتے ہوئے کہا تمہیں شرم نہیں آئی
اسکو کیسے دیکھ رہے تھے تم۔ تو رضوان بوال اب اپنے والی کچھ دکھائے ہی نہ تو
دوسری کو ہی دیکھنا پڑے گا نا ،اور وہ بھی تو خود ہی میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئی
اور میری شرٹ بھی اتار دی ،میں بھی آخر مرد ہوں۔ اب خود ہی لڑکی ایسی حرکتیں
کرے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ یہ کہ کر رضوان نے میرے ہونٹوں پر کس کی اور کہا
مگر جو بات تم میں ہے وہ اسمیں نہیں۔ میں نے کہا مکھن نا لگاو مجھے تو رضوان
بوال مکھن تو ابھی تم نکالو گی میرا اور میں صحیح کہ رہا ہوں ،تمہاری گانڈ اسکی گانڈ
سے بڑی ہے۔ میں نے اسکو پھر کہنی ماری اورکہا بڑے ٹھرکی ہو تم اتنی سی دیر میں
دونوں کی گانڈ بھی دیکھ لی۔ تو رضوان بوال مرد کی نظریں عورت میں 2ہی تو چیزیں
دیکھتی ہیں۔ ایک عورت کے ممے اور ایک عورت کی گانڈ۔ میں بھی ہنس دی کیونکہ
رضوان کہ تو صحیح رہا تھا اور ویسے بھی میرے چوتڑ سائرہ کے چوتڑوں سے بڑے
تھے۔ میں نے رضوان کو کہا چلو سوئمنگ کریں اور مجھے سوئمنگ سکھاو تم۔ مگر
رضوان نے کہا کہ یہ بڑا سنہری موقع مال ہے اسکو سوئمنگ میں ضائع نہیں کرنا آج
تو کھا جانا ہے میں نے تمہیں۔ یہ کہ کر رضوان نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ
دیے۔
رضوان نے بڑی ہی شدت سے کسنگ شروع کی تھی اسکی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی
کہ آج پہلی بار رضوان نے مجھے برا اور پینٹی میں دیکھا تھا اس سے پہلے وہ صرف
تصویروں میں ہی دیکھتا رہا تھا مجھے اسطرح سے۔ اور رضوان خود ب ِھی محض انڈر
وئیر میں تھا۔ رضوان نے ایک ہاتھ میرے چوتڑوں پر رکھا ہوا تھا اور دوسرا میری کمر
کے گرد تھا اور اسکے ہونٹوں نے میرے ہونٹوں کو مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا۔ وہ
مسلسل میری گانڈ دبا رہا تھا اور اپنی زبان سے میرے ہونٹوں پر دستک دینے لگا تو
میں نے ب ِھی فورا ہونٹ کھول کر اسکی زبان کو اندر آنے کی اجازت دی۔ میرے منہ میں
زبان ڈالتے ہی وہ میری زبان کو ٹٹولنے لگا اور زبان ملنے پر وہ اپنی زبان کو میری
زبان کو ٹکرانے لگا۔ میں نے بھی اسکی زبان کو چوسنا شروع کر دیا ۔ کب ِھ میری زبان
رضوان کے منہ میں ہوتی تو کبھی رضوان کی زبان میرے منہ میں ہوتی۔ میرے ہاتھ
رضوان کے سینے پر مساج کر رہے تھے۔ تو میرا دل کیا کہ رضوان کے سینے پر ب ِھی
پیار کروں۔ میں رضوان کو سیڑھیوں کی سائیڈ پر لے گئی اور اسکو سیڑھی پر
چھڑھنے کو کہا۔ وہ 2سیڑھیوں پر چھڑھا تو میں نے اسے روک دیا اور کہا ادھر ہی
بیٹھ جاو۔ اب پانی رضوان کے انڈر وئیر تک تھا رضوان کی ٹانگیں پانی می تھیں مگر
سینہ اور ناف سے اوپر کا حصہ پانی سے باہر تھا۔ میں نے پہلی بار رضوان کا سینہ
اتنے قریب سے دیکھا تھا۔ آج سے پہلے کبھی رضوان کی شرٹ نہیں اتاری تھی ،جب
بھی موقع ملتا تھا رضوان اپنا لن نکال کرمیرے منہ میں ڈال دیتا تھا۔ رضوان کا سینہ
بہت پیارا لگ رہا تھا مجھے۔ مینے نے رضوان کے سینے کو چومنا شروع کیا اور
رضوان کی گود میں ٹانگیں کھول کر بیٹھ گئی میں گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی اور
رضوان کے سینے پر پیار کر رہی تھی۔ کبھی میں رضوان کے سینے پر زبان پھیرتی تو
کبھی ہونٹوں سے چومتی۔ رضوان نے دونوں ہاتھ میرے چوتڑوں پر رکھے ہوئے تھے
اور آہستہ آہستہ انہیں دبا رہا تھا جو مجھے بے حد مزہ دے رہا تھا۔ رضوان کب ِھی
میرے چوتڑوں کو دباتا تو کبھی اپنے ہاتھ میری ٹانگوں پر تھائیز پر پھیرتا۔ میری
تھائیز بالوں سے بالکل پاک تھیں اور ان پر رضوان کے ہاتھوں کا لمس مجھے مدہوش
کر رہا تھا۔ میں بھی رضوان کے سینے پر بڑی بیتابی سے پیار کر رہی تھی۔ رضوان
کے نپل بھی کافی سخت ہو رہے تھے جن پر میں اپنی زبان پھیر رہی تھی۔ نپلز پر زبان
پھیرنے سے رضوان کو بھی شاید مزہ آرہا تھا اس لیے جب میں نے زبان پھیری نپل پر
تو رضوان نے میرا سر پکڑ کر تھوڑا سا نپل کی طرف دبایا جس سے مجھے اندازہ
ہوگیا کہ رضوان کو اچھا لگا ہے ۔
کچھ دیر رضوان کے نپلز اور سینے پر پیار کرنے کے بعد میں تھوڑا اور نیچے آئی اور
رضوان کے پیٹ پر بھی پیار کیا ،اب رضوان ایک سیڑھی اور اوپر ہوکر بیٹھ گیا تھا
جس سےپانی اور نیچے ہوگیا۔ اب رضوان کا انڈر وئیر بھی پانی سے باہر تھا۔ رضوان
کی ناف پر پیار کرتے ہوئے میرا بازو رضوان کے لن سے ٹکرایا تو وہ بہت سخت ہو
رہا تھا۔ اب میں نے اپنا دھیان رضوان کےلن کی طرف دیکھا۔ رضوان کی ٹانگوں پربال
تھے اور انڈر وئیر کے اوپر سے لن کا ابھار بہت زیادہ تھا ،میں نے ایک ہاتھ انڈر وئیر
پر رکھ کر اسکو دبانا شروع کیا تو دوسرا ہاتھ رضوان کی ٹانگ پر رکھ کر اسکا مساج
کرنے لگی۔ پھر میں نے اپنا ہاتھ رضوان کے انڈروئیر میں ڈاال اور لن باہر نکال لیا،
رضوان نے بھی فورا ہی تھوڑا سا اوپر ہوکر اپنا انڈر وئیر اتار دیا۔ اب رضوان میرے
سامنے مکمل ننگا تھا۔ میں نے رضوان کا لن تو پہلے دیکھ رکھا تھا مگر رضوان کو
مکمل ننگا فرسٹ ٹائم دیکھا تھا۔ میں نے بغیر ٹائم ضائع کیے رضوان کا لن اپنے منہ
میں لیا اور اسکو چوسنا شروع کر دیا۔ آج رضوان کا لن چوسنے کا علیحدہ ہی مزہ تھا،
اسکی وجہ یہ بھی تھی کہ رضوان مکمل طور پر ننگا تھا اور میں نے بھی صرف برا
سر عام رضوان کا اور پینٹی پہن رکھی تھی۔ اسکے ساتھ ہی یہ احساس بھی تھا کہ میں ِ
لن چوس رہی ہوں کیونکہ ہمارے گرد چار دیواری تو تھی مگر اوپر چھت نہیں تھی۔اور
ایسے لگ رہا تھا کہ میں سب کے سامنے رنڈیوں کی طرح رضوان کا لن چوسنے میں
مصورف ہوں۔ آج لن چوسنے میں جو مزہ آرہا تھا وہ پہلے کبھی نہیں آیا تھا ،میری
چوت مسلسل گیلی ہو رہی تھی۔ گیلی تو وہ پہلے ہی تھی پول کے پانی سے مگر اب
چوت کے اندر کا پانی بہنے لگا تھا۔ میں کبھی رضوان کا لن چوس رہی تھی تو کبھی
رضوان کے ٹٹے منہ میں لیکر چوس رہی تھی۔ رضوان کے لن کی ٹوپی سے بھی پانی
نکل رہا تھا جو میرے منہ کو نمکین کر رہا تھا۔ کچھ ہی دیر چوپے لگانے کے بعد
رضوان نے اپنا لن میرے منہ سے نکال لیا۔ آج سے پہلے رضوان نے ایسا کبھی نہیں
کیا تھا جب تک میں رضوان کو فارغ نہ کروا دیتی وہ اپنا لن میرے منہ سے نہیں نکالتا
تھا۔ میں نے رضوان کو کہا ابھی مکھن تو نکالنے دو مجھے تو وہ بوال وہ بھی نکل
جائے گا تمہارا جسم دیکھنے کا موقع روز روز نہیں ملنا ،آج تو تمہارے ممے دیکھ کر
ہی رہوں گا۔ یہ سنتے ہی میں ہنسی اور شرما کر پیچھے ہوئی اور پانی میں رضوان
سے دور جانے لگی ،رضوان نے بھی ایک ہی جست میں مجھے آن لیا اور مجھے پکڑ
کر جپھی ڈال لی اور میرے ہونٹ چوسنے شروع کر دیا۔ نیچے سے رضوان کا لن کھڑا
ہوکر میری پھدی پر دستک دے رہا تھا ،لن کی یہ دستک مجھے مدہوش کر رہی تھی
کتنے عرصے سے میری پھدی میں لن نہیں گیا تھا۔
کسنگ کے دوران رضوان نے میرے برا کی ہک کھول دی اوربرا اتار کر دور پانی میں
ہی پھینک دیا۔ اب میرے 34سائز کے ممے رضوان کے سامنے تنے کھڑے تھے اور
نپل سخت ہورہے تھے۔ رضوان نے پہلی بار میرے ممے ننگے دیکھے تھے اور دیکھتا
ہی رہ گیا۔ اس نے فورا ہی مجھے گود میں لیا اور میرے ممے پانی سے اونچے کر کے
انکو چوسنے لگا۔ اوپر سے رضوان میرے ممے چوس رہا تھا تو نیچے سے رضوان کا
لن میری پھدی پر لگ رہا تھا۔ اور میں بھی مدہوش ہوئے جا رہی تھی۔ ایک طرف
رضوان میرے نپل چوس کر میرا دودھ پی رہا تھا تو دوسری طرف اسکا لن میری پھدی
کو بغاوت پر مجبور کر رہا تھا۔ رضوان میرے تنے ہوئے نپلز کو بڑی گرمجوشی سے
کاٹ رہا تحا اور میری سسکیاں نکل رہی تھیں۔ میں نے رضوان کے گلے میں ہاتھ ڈالے
ہوئے تھے اور مسلسل سسک رہی تھی۔ میری سسکیاں مسلسل بڑھتی جا رہی تھیں اور
مزے کی شدت سے میں نے خود ہی رضوان کے لن پر اپنی پھدی کا دباو بڑھانا شروع
کر دیا تھا۔ رضوان بھی آج فل موڈ میں تھا۔ اسکو پہلی بار میرے ننگے ممے ملے تھے
اور نیچے اسکے لن پر میری پھدی کا احساس بھی اسکو پاگل کیے جا رہا تھا۔
اب اس نے مجھے گود سے اتارا اور نیچے پانی میں غوطہ لگایا اور میری پینٹی اتار
دی۔ پینٹی اتار کر وہ دوبارہ کھڑا ہوگیا اور اپنا ہاتھ میری پھدی پر رکھ دیا۔ میری
سسکاری نکل گئی۔ اب رضوان میرے ہونٹ چوس رہا تھا اور نیچے ہاتھ سے میری
پھدی مسل رہا تھا۔ میں بھی پاگل ہوئے جا رہی تھی۔ مجھے اب اچانک عمران کی یاد
آئی۔ جب پہلی بار میں نے عمران کا لن چوسا تھا تو میں نے عمران کو کہا تھا کہ میری
پھدی چاٹیں مگر انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ یہ یاد آتے ہی میں نے رضوان کو بے
اختیار کہ دیا کہ جان پلیز میری پھدی چاٹو۔ میرے منہ سے جیسے ہی یہ الفاظ نکلے
رضوان نےمجھے گود میں اٹھایا اور سیڑھیوں پر لیجا کر بٹھا دیا۔ اب رضوان نے
مجھے پیچھے کی طرف لیٹنے کو کہا ،میں کہنیوں کے سہارے سے تھوڑا پیچھے کو
لیٹی تو رضوان نے میرے چوتڑوں کے نیچے ہاتھ رکھ کر مجھے اوپر اٹھایا اور بال
جھجک اپنا منہ میری پھدی پر رکھ دیا۔ جیسے ہی رضوان کی زبان میری پھدی کے
لبوں سے ٹکرائی میں تو جیسے ایک علیدہ ہی دنیا میں پہنچ گئی۔ یہ میری زندگی کا
پہال موقع تھا جب کسی نے میری پھدی پر اپنا منہ رکھا ہو۔ عمران کو بہت بار کہا مگر
عمران نے ایسا نہیں کیا تھا اور باآلخر آج رضوان نے میری پھدی چاٹنی شروع کی
تھی۔ رضوان نے یہ سب فلموں میں دیکھ رکھا تھا اس لیے اسے اندازہ تھا کہ پھدی کو
کیسے چاٹا جاتا ہے۔
رضوان کی زبان میری پھدی میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی مگر پھدی ٹائٹ ہونے
کی وجہ سے وہ محض اوپر ہی اوپر پھیر رہا تھا زبان کو۔ جب رضوان پھدی چاٹ رہا
تھا تو میری پھدی نے بہت شدت کے ساتھ لن مانگنا شروع کر دیا۔ لیکن ساتھ ہی میرے
دل میں ڈر بھی پیدا ہوا کہ کہیں رضوان کو پتہ نہ چل جائے کہ میری پھدی پہلے بھی
کسی مرد کا لن لے چکی ہے اور میں اب کنواری نہیں رہی۔ جیسے ہی یہ خیال میرے
ذہن میں آیا میرےپورے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی اور میری ساری گرمی دور
ہونے لگی اور میں سوچنے لگی کہ اب کیا کروں۔ پھر میں نے سوچا کہ عمران کا لن
لیے 6ماہ ہوچکے اب تک تو میری پھدی دوبارہ سے پہلے کی طرح ٹائٹ ہو چکی ہے
لہذا رضوان کو پتہ نہیں چلے گا۔ یہ سوچ کر مجھے کچھ حوصلہ تو ہوا مگر پھر بھی
ڈر موجود تھا۔ پھر اچانک ہی مجھے یاد آیا کہ جب عمران نے میرے واش روم میں
موجود ٹب میں میری چودائی کی تھی تو میری پھدی بہت زیادہ ٹائٹ ہورہی تھی۔ پھدی
سے نکلنے واال پانی بھی پھدی کو چکنا نہیں کر رہا تھا کیونکہ پھدی میں دوسرے پانی
کی وجہ سے گیلی ہو رہی تھی۔ اور جب پانی سے باہر نکل کر عمران نے میری پھدی
کو خشک کر کے چدائی شروع کی تو پھدی کے پانی نے فورا ہی پھدی کو چکنا کر دیا
تھا اور لن دوبارہ سے روانی سے چدائی کر رہا تھا۔
جیسے ہی میرے ذہن میں یہ خیال آیا تو میں نے سوچا یہ سب سے بہتر موقع ہے
چدائی کرنے کا۔ پانی کے اندر چدائی ہوگی تو پھدی میں چکناہٹ پیدا نہیں ہوگی اور
رضوان کا لن مشکل سے ہی اندر جائے گا جس سے رضوان کو احساس نہیں ہوگا کہ
پھدی پہلے پھٹ چکی ہے۔ یہ سوچ کر میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ آج رضوان کے لن کو
الزمی پھدی کی سیر کروانی ہے۔ یہ سب باتیں سوچتے ہوئے میری پھدی خشک ہوگئی
تھی اور اسکی چکناہٹ ختم ہوگئی تھی کیونکہ میرا ذہن سیکس کی طرف نہیں تھا۔ مگر
جیسے ہی دوبارہ میں نے توجہ رضوان کی طرف دی جو مسلسل میری پھدی چاٹ رہا
تھا تو مجھے دوبارہ سے مزہ آنے لگا اور کچھ ہی سیکنڈ میں میری پھدی کی چکناہٹ
واپس آگئی۔ کچھ دیر مزید پھدی چاٹنے کے بغیر رضوان نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑا اور
میری پھدی پر سیٹ کرنے لگا تو میں نے اسکو منع کر دیا اور کہا تھوڑا اور انتظار
کرے۔ یہ کہ کر میں دوبارہ پانی میں آگئی تاکہ پھدی کی چکناہٹ کو پول کا پانی ختم کر
دے اور لن ڈالنے میں مشکل ہو۔ پانی میں آکر میں نے ایک بار پھر رضوان کا لن اپنے
منہ میں لیا تاکہ رضوان کے لن کو تھوڑا مزہ دیا جاے پھدی میں جانے سے پہلے۔
کچھ دیر رضوان کا لن چوسنے کے بعد رضوان نے کہا اب بس بھی کرو اب مجھے
تمہاری پھدی چاہیے میں واپس پانی میں لے آئی رضوان کو اور اسے کہا کہ مجھے
ادھر ہی چودو۔ رضوان نے کہا ادھر مشکل ہوگی پانی سے باہر نکل آو تاکہ آسانی سے
کر سکیں ،میں نے کہا نہیں مجھے شرم آتی ہے تم ادھر ہی نیچے سے اپنا لن ڈال دو۔۔۔
یہ سن کر رضوان نے میری ایک ٹانگ تھوڑا اوپر اٹھائی اور اپنا لن میری چوت پر
سیٹ کیا اور ایک جھٹکا مارا۔ مگر لن چوت کے اندر نا جا سکا۔ کیونکہ ایک تو رضوان
اناڑی تھا دوسرا ہماری پوزیشن ایسی تھی کہ جس میں لن ڈالنا مشکل ہوتا ہے اور پھر
6ماہ پہلے کی چدائی کی وجہ سے اب پھدی دوبارہ ٹائٹ ہوچکی تھی۔ رضوان نے ایک
بار پھر لن چوت پر رکھا اور دھکا مارا مگر پھر اسکو ناکامی ہوئی۔ تو وہ شرمندہ ہوا
کہ لن اندر نہیں جا رہا ،میں نے اسکے ہونٹوں پر ایک کس کی اور کہا فکر نہیں کرو
چال جائے گا کنواری پھدی میں مشکل سے ہی جاتا ہے ،یہ کہ کر میں نے اسکا لن پکڑا
اور اپنی چوت پر سیٹ کیا اور کہا کہ اب دھکا نا مارو بلکہ آہستہ آہستہ زور لگاو۔
رضوان نے ایسا ہی کیا اور میری چوت پر اپنے لن کا دباو بڑھانے لگا۔ میں نے بھی لن
کو ہاتھ میں پکڑ کر چوت پر رکھا ہوا تھا اور آہستہ آہستہ لن کا دباو بڑھنے پر کچھ
حصہ چوت میں داخل ہوا تحا مگر ابھی یہ نہ ہونے کے برابر ہی تھا۔ اس طرح چدائی
کروانا واقعی فائدے میں رہا میرے لیے کیونکہ رضوان کا لن پھدی میں نہیں جا رہا تھا
اور الٹا وہ شرمندہ ہو رہا تھا کیونکہ اسنے اپنے دوستوں سے سن رکھا تھا کہ وہ ایک
ہی جھٹکے میں پھدی پھاڑ دیتے ہیں۔ خیر اب تھوڑی مزید کوشش کے بعد لن کی ٹوپی
میر پھدی میں جا چکی تھی اور میرا تکلیف سے برا حال تحا۔ کیونکہ میری پھدی
دوبارہ سے ٹائٹ ہو چکی تھی اور چکناہٹ بھی نہیں تھی۔ اب میں نے اپنا ہاتھ لن سے
ہٹا لیا اور رضوان کو کہا کہ وہ دباو بڑھانا جاری رکھے اور ساتھ ہی میری چیخیں
نکلنے لگیں۔ میں نے اپنے دانت تکلیف کی شدت سے رضوان کی گردن میں جڑ دیے
تھے۔ رضوان کے بڑھتے ہوئے دباوسے اب لن کچھ مزید اندر جا چکا تھا تو میں نے
رضوان کو کہا کہ اب جھٹکا مارو زور سے ،رضوان نے تھوڑا سا لن باہر نکاال مگر
ٹوپی اندر ہی تھی اور ایک زور دار جھٹکا مارا تو آدھا لن میری پھدی میں چال گیا اور
میری درد کے مارے زور دار چیخ نکلی۔ اور آنکھوں سے پانی نکل آیا۔ یہ دیکھ کر
رضوان پریشان ہوگیا اور بوال کہ سوری زیادہ زور سے ہوگیا میں باہر نکال لیتا ہوں۔
میں نے اسکو فورا منع کیا کہ باہر مت نکالنا اندر ہی رہنے دو میں تکلیف برداشت کر
لوں گی۔ رضوان پھر بھی پریشان تھا ،میں نے رضوان کو کہا کہ آہستہ آہستہ لن اندر
باہر کرے مگر باہر نہ نکالے۔ رضوان نے ایسے ہی کیا اور آہستہ آہستہ لن اندر باہر
کرنے لگا۔ مگر لن اب بھی بہت پھنس پھنس کر اندر جا رہا تھا کیونکہ پھدی میں
چکناہٹ بالکل نہیں تھی۔ کچھ دیر ایسے ہی آہستہ آہستہ کرنے کے بعد میں نے رضوان
کو کہا کہ ایک اور جھٹکا مارو اور پورا لن میری پھدی میں ڈال دو۔ پھاڑ دو میری
کنواری پھدی کو ،مگر رضوان نے کہا کہ تمہیں درد ہوگی ،میں نے کہا میری درد کی
فکر نہ کرو بس تم اپنا کام کرو اور اپنا مزہ لو۔ رضوان نے کہا پھر تیار ہوجاو رضوان
نے دوبارہ سے لن تھوڑا سا باہر نکاال اور ایک زور دار جھٹکا مارا۔ مجھے ایسا لگا
جیسے کوئی لوہے کی سالخ میری پھدی کو چیرتی ہوئی اندر تک چلی گئی ،میری ایک
اور زور دار چیخ نکلی اور میں زور سے رضوان کے ساتھ لپٹ گئی۔ اور اب میرا جسم
کانپ رہا تھا۔ لن پورا میرے اندر جا چکا تھا۔ میں نے رضوان کو خوشی سے کسنگ
بھی شروع کی اور اسکو شاباش دی کہ اس نے آج میری پھدی پھاڑ دی۔ رضوان بھی
بہت خوش تھا کیونکہ اسکو نہ صرف پہلی بار پھدی ملی تھی بلکہ اسکی دانست میں
اسنے اپنی منگیتر کا کنوارہ پن ختم کر دیا تھا۔
اب رضوان نے آہستہ آہستہ لن اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن اس میں بہت مشکل
ہورہی تھی۔ کچھ دیر بعد ایسے ہی آہستہ آہستہ کرنے کے بعد میرے برداشت بھی جواب
دینے لگی اور اب مجھے ایک جاندار چدائی کی ضرورت تھی تو میں نے رضوان کو کہا
چلو اب پانی سے باہر نکلو۔ رضوان نے ایسے ہی باہر کی طرف نکلنا شروع کیا تو میں
نے کہا اپنا لن نکال لو باہر۔ رضوان بوال کہ پھر تمہیں دوبارہ تکلیف ہوگی تو میں نے
کہا نہیں ایک بار لن اندر تک چال گیا ہے تو اب دوبارہ بھی چال جائے گا۔ پھر رضوان
نے لن باہر نکاال اور پول سے باہر نکل کر بینچ پر جا کر لیٹ گئی میں۔ اب رضوان
میری پھدی کی طرف دیکھ رہا تھا تو میں نے رضوان کو کہا اسکو تھوڑا سا اور چاٹو
تو آسانی ہوگی چدائی میں۔ رضوان نے میری دونوں ٹانگیں پھیالئیں اور بیچ میں آکر
میری پھدی کو چاٹنے لگا تو میری پھدی نے فورا ہی چکناہٹ پیدا کرنی شروع کر دی۔
رضوان جب میری پھدی چاٹ رہا تحا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی ہمیں
دیکھ رہا ہے ،میں نے سر اٹھا کر ادھر ادھردیکھا تو کوئی نہیں تھا ،آس پاس کوئی
بلڈنگ بھی نہیں تھی ،سائرہ کے کمرے کی طرف دیکھا تو وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ تو
میں نے سوچا کہ میرا وہم ہے اور دوبارہ سے اپنی پھدی چٹوانے لگی۔ جب پھدی
دوبارہ سے چکنی ہوگئی تو میں نے رضوان کو کہا اب وہ بینچ پر لیٹ جائے۔ رضوان
بینچ پر لیٹا تو میں نے رضوان کا لن منہ میں لیا اور اور 4 ،3چوپے لگا کر لن کو
بھی گیال کیا ،پھر اس پر تھوک پھینک کر ہاتھوں سے تھوک اس پر مسال اور پھر 2
چوپے لگائے اور رضوان کے اوپر آکر بیٹھ گئی اسکا لن اپنی چوت پر رکھ کر اندر
لینے کی کوشش کرنے لگی تو ایک بار پھر تکلیف ہونے لگی۔ میری پھدی واقعی میں
پہلے کی طرح ہو چکی تھی فل ٹائٹ تھی اور کوئی نہیں کہ سکتا تھا کہ میں پہلے لن
لے چکی ہوں۔ میں نے آہستہ آہستہ لن پر اپنا وزن بڑھایا تو آدھا لن میری چوت میں جا
چکا تھا مگر تکلیف سے میری بس ہو چکی تھی۔ تو میں نے رضوان کو کہا ایک زور
دار جھٹکا مارہ نیچے سے اور پورا لن گھسا دو ،یہ سنتے ہی رضوان نے جھٹکا مارا
اور پورا لن میرے اندر تھا۔ مگر اب کی بار درد کچھ کم تھی کیونکہ میری چوت کافی
چکنی ہو رہی تھی۔ اب آہستہ آہستہ رضوان نے دھکے لگانے شروع کیے تو میں
رضوان کے اوپر لیٹ گئی اور اپنی گانڈ اوپر اٹھا لی تاکہ رضوان با آسانی دھکے لگا
سکے۔۔۔ کچھ دیر بعد جب لن آسانی سے اندر باہر ہونے لگا تو میں نے رضوان کو کہا
دھکوں کی سپیڈ بڑھا دے۔۔۔ رضوان نے جیسے ہی دھکوں کی سپیڈ بڑھائی میری
سسکیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ۔۔ اف اف اف ف ف ف ف۔۔۔۔ آہ آہ آہ آہ ، ،ہائے میری
جان۔۔ ُپھاڑ ڈالی میری پھدی۔۔۔ اآہ آہ آہ آہ ،ام ام ام۔۔۔۔ اس طرح کی آوازیں مسلسل میرے
منہ سے نکل رہی تھی جنکو سن کر رضوا کے دھکے اور بھی تیز ہورہے تھے۔ کچھ
مزید دھکے لگے اور میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔ اب رضوان نے اپنے دھکے روک
لیے اور پانی دیکھنے لگا۔ میں نے رضوان کو اٹھنے کا کہا اور اسکو بوال کہ میری
ٹانگیں اوپر اٹھا کر چودو مجھے۔
اب میں بینچ پر لیٹ گئی اور رضوان نے میری ٹانگییں اٹھا کر اپنے کندھون پر رکھیں
اور لن میری چوت پر سیٹ کر کے ایک ہی دھکےمیں پورا لن اندر ڈال دیا۔ رضوان کا
لن اب با آسانی میری چدائی کر رہا تھا۔ رضوان زور زور سے دھکے لگا رہا تھا۔ کچھ
دھکوں کے بعد میں نے اپنی پوزیشن چینج کی اور رضوان کو کہا کہ میری ٹانگیں
سائیڈ پر پھیال دے اور میرے اوپر جھک کرمجھے چودے۔ رضوان نے ایسے ہی کیا
میری ٹانگیں سائیڈ پر پھیال دیں اور خود میرے اوپر جھک کر مجھے چودنے لگا۔ اب
میرے دونوں ہاتھ رضوان کی گردن کے گرد تھے اور رضوان نے میرے ایک ممے کو
اپنے منہ میں لیا ہوا تھا جبکہ دوسرے کو اپنے ہاتھ سے دبا رہا تھا جبکہ نیچے سے
اسکے لن کی ضربیں میری پھدی کو سکون بخش رہیں تھیں۔ رضوان بڑی شدت سے
میرے ممے چوس رہا تھا اور میں اپنی گانڈ ہال ہال کر چودائی میں رضوان کا بھرپور
ساتھ دے رہی تھی۔ چودائی کے ساتھ ساتھ میں رضوان سے چودائی کا موازنہ عمران
سے کروائی ہوئی چدائی سے کر رہی تھی اور اندازہ لگا رہی تھی کہ کس کی چدائی
سے زیادہ مزہ آیا؟ /ت مجھے لگا کہ عمران کی چدائی زیادہ جاندار تھی اور اس میں
زیادہ مزہ آیا تھا۔ اسکی ایک وجہ تو شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ میرا بہنوئی تھا
اور یہ احساس کچھ عجیب سا تھا کہ میں اپنے بہنوئی کی گود میں بیٹھی چدائی کروا
رہی ہوں اور دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ عمران چدائی میں ایکسپرٹ تھا آخر
وہ 6ماہ سے میری بڑی بہن کی جم کے چوت مار رہا تھا۔
لیکن اس وقت تہ میری چوت میں رضوان کا لن تھا جو مسلسل میری سسکاریاں نکلوا
رہا تحا۔ رضوان کے بے تحاشہ دھکوں کے آگے میری چوت نے ایک بار پھر ہار مان
لی اور پانی چھوڑ دیا۔ اب کی بار میں نے رضوان کا لن نکاال ،اسکو بینچ پر لٹایا اور
خود اسکے اوپر اسطرح لیٹ گئی کہ میری پھدی رضوان کے منہ پر تھی اور میرا منہ
رضوان کے لن کی طرف۔ اب رضوان میری پھدی چاٹ رہا تھا اور میں اسکے لن کے
چوپے لگا رہی تھی جس میں مجھے اپنی پھدی کے پانی کا ذائقہ بھی مل رہا تھا جو کہ
رضوان کے لن پر لگا ہوا تھا۔ ہم 69پوزیشن میں تھے جو رضوان اور مجھے دونوں
کو ہی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ عمران نے تو میری پھدی چاٹنے سے ہی انکار کر دیا
تھا اس لیے اس وقت میں وہ مزہ نہیں لے سکی مگر رضوان کے ساتھ میں نے یہ
تجربہ بھی کیا۔ یہ ب ِھ میری زندگی کا پہال تجربہ تھا۔ فلموں میں دیکھ رکھا تھا 69
پوزیشن میں لن اور پھدی چاٹنا مگر حقیقت میں یہ پہلی بار ہورہا تھا۔ کچھ دیر اسی
پوزیشن میں مزہ لینے کے بعد میں دوبارہ سے رضوان کے لن پر آکر بیٹھ گئی اور ایک
ہی جھٹکے میں پورا 7انچ کا لن اپنی پھدی کی گہرائیوں میں اتار لیا تھا۔ اور میں
مسلسل رضوان کے لن کے اوپر چھالنگیں لگا لگا کر اسکو مزہ دے رہی تھی۔ نیچے
پڑے بینچ کی بھی میری چھالنگوں سے چیخیں نکالن شروع ہوگئی تھیں کچھ دیر
چھالنگیں لگانے کے بعد میں تھک گئی تو میں رضوان کے اوپر لیٹ گئی اور اب نیچے
سے رضوان نے دھکے لگانے شروع کیے۔ میں نے رضوان سے کہا کہ جتنی زور سے
چود سکتے ہو چود دو مجھے تو رضوان نے اپنے دھکوں کی رفتار اور بھی تیز کر
دی۔ اب اسکے طوفانی دھکوں نے مجھے تو جیسے کسی اور ہی دنیا میں پہنچا دیا تھا
جہاں بس مزہ ہی مزہ تھا۔ کچھ ہی دیر تک رضوان کے لن نے اپنی سپیڈ اور تیز کی اور
رضوان بوال کہ اسکا مکھن نکلنے واال ہے ،میں نے رضوان کو کہا بس کچھ دیر اور
روک کے رکھو میری بھی منزل قریب ہی ہے ،تو رضوان نے اپنی سپیڈ تھوڑی سلو کر
دی۔۔۔ میں نے اپنا ایک مما رضوان کے منہ میں ڈال دیا اور اسکو کہا کے دھکے بھی
جاری رکھے اور میرے ممے کو بھی چوس چوس کر بڑا کر دے۔ رضوان نے بہت ہی
شدت سے مما چوسنا شروع کیا تو اس ڈبل مزے سے میری منزل بھی قریب آنے لگی۔
میں نے رضوان کو کہا کہ بس میں بھی اب چھوٹنے لگی ہوں تو اپنی سپیڈ بڑھا دو ،یہ
سنتے ہی رضوان نے ایک بار پھر سے چودائی کی اس گاڑی کا پانچواں گئیر لگا دیا
اور سپیڈ پر پورا پاوں رکھ دیا۔ میری پھدی میں جیسے کوئی مشین چل رہی تھی تو
مسلسل میری پھدی کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر مجھے مزہ دے رہی تھی۔ اچانک ہی
رضوان کے لن نے سپیڈ ختم کر دی مگر رک رک کر زور زور سے دھکے مارنے لگا۔
رضوان کی منی نکل چکی تھی اور انہی سلو مگر زور دار جاندار دھکوں نے مجھے
بھی فارغ کر دیا تھا۔ ہم دونوں اکٹھے ہی فارغ ہوگئے تھے۔ کچھ دیر دونوں کے جسم
نے جھٹکے لیے اور پھر جیسے سکون آگیا۔ رضوان نے اب میرا بدن چومنا شروع کر
دیا۔ اور مجھے کہا کہ آج اسکو بہت مزہ آیا ہے۔ وہ ساری زندی اپنی یہ پہلی چودائی
نہیں بھولے گا۔ میں نے بھی اسکو کہا کہ آج تم نے اپنی فائزہ کو معصوم لڑکی سے
عورت بنا دیا ہے اور لن کے مزے سے آشنا کر دیا ہے۔
اب ہم نے اپنے اپنے کپڑے پہنے اور واپس سائرہ کے کمرے کی طرف جانے لگے تو
ہمں بڑے حال میں ہی مل گئی ہمیں دیکھتے ہی بولی ہاں جی گئی آپ لوگوں کی سمیرا ِ
سوئمنگ؟؟ تو میں نے شرماتے ہوئے کہا ہاں جی ہوگئی۔ اتنے میں سائرہ بھی سیڑھیاں
اترکر نیچے آگئی اور رضوان کو آنکھ مار کر بولی رضوان بھائی فائزہ کو زیادہ تکلیف
تو نہیں دی آپ نے؟؟؟ یہ بات سن کر رضوان پہلے تو تھوڑا جھجک گیا کہ کیا جواب
دے مگر پھر بوال کہ نہیں سوئمنگ میں کیسی تکلیف۔ البتہ آپکا شکریہ جو آپ نے
مجھے فائزہ کے ساتھ سوئمنگ کرنے کا موقع دیا ۔
پھر سائرہ کا مالزم ہم لوگوں کے لیے جوس لے آیا۔ جو پی کر ہم لوگوں نے اجازت
چاہی تو سمیرا نے کہا تم دوبارہ بھی چکر لگانا میں ایک مہینہ ادھر ہی ہوں۔ میں نے
اسے کہا ہاں جی اگر سائرہ نے آنے دیا تو میں ضرور آوں گی۔ پھر میں دونوں سے
گلے ملی اور رضوان کے ساتھ گاڑی میں واپس گھرآگئی۔ راستے میں رضوان بار بار
مجھے کہتا رہا کہ چوپے لگوا کر اور مٹھ مار کر کبھی وہ مزہ نہیں مال جو آج تمہاری
پھدی نے دیا ہے۔ میں نے اسے کہا تمہا لن بھی بہت جاندار ہے ،شروع میں مجھے بہت
تکلیف دی مگر پھر مزہ بھی بہت آیا۔ ایسے ہی ہم گھر پہنچ گئے۔ گھر پہنچ کر رضوان
کچھ دیر رکا اور پھر واپس چال گیا۔ ابو پہلے سے ہی گھر پر تھے۔ میں نے کھانا تیار
کیاابو امی کے ساتھ کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔
کمرے میں جا کر میں نے اپنا موبائل آن کیا اور فیس بک پر رضوان کو میسج کرنے
لگی۔ جب موبائل پر فیس بک میسج کھولے تو کسی انجان آئی ڈی سے مجھے میسج آیا
ہوا تھا۔ میں نے جب وہ میسج کھوال تو میرے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔ اس
میسج میں میری اور رضوان کی چدائی کی تصویریں اور ایک چھوٹی سی چدائی کی
ویڈی تھی۔ اور نیچے لکھا تھا کہ اگر تم نے اپنی چوت مجھے نہ دی تو میں یہ
تصویریں اور ویڈیو انٹرنیٹ پر پھیال دوں گا۔ ابھی میں یہ میسیج ہی پڑھ رہی تھی کہ
مجھے موبائل نمبر پر بھی ایک انجان نمر سے ایس ایم ایس آگیا۔ اس میں لکھا تھا کہ
سر عام پھیال دوں گا تم
اگر تم نے چوت دینے سے انکار کیا تو تمہاری عزت انٹرنیٹ پر ِ
اور تمہارا یار دونوں بدنام ہوجائیں۔ گے۔ چوت کس دن دینی ہے اسکا میں تمہین بعد میں
بتاوں گا۔
یہ میسج پڑھ کر میرا دماغ بالکل ماوف ہوگیا اور مجھے ایسے لگا جیسے میرے ہر
طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔۔۔۔۔
کافی دیر تک تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آخر یہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے؟ پھر جب کچھ
حواس بحال ہوئے تو میں نے ایک بار پھر سے فیس بک میں میسج اوپن کیا اور وہ
تصویریں دوبارہ دیکھنے لگی اور ساتھ ہی ویڈیو بھی دوبارہ دیکھی۔ غور کرنے پر
معلوم ہوا کہ یہ بالکل اسی اینگل سے بنائی گئی ہیں جو اینگل سائرہ کے کمرے سے بن
رہا تھا جس سے مجھے اتنا اندازہ ہوا کہ ویڈیو بنانے واال سائرہ کے کمرے میں موجود
تھا۔ یہ خیال پختہ ہوا تو میں نے سائرہ کے بارے میں سوچنا شروع کیا کہ کہیں اسنے
تو یہ ویڈیو نہیں بنائی؟؟؟ مگر پھر سوچا کہ آخر اسکو کیا فائدہ ہوگا میری ایسی ویڈیو
بنانے کا اور پھر مجھے بلیک میل کرنے کا؟؟؟ پھر میں نے سائرہ کے بھائی حیدر کے
بار میں سوچا کہ ہوسکتا ہے اسنے یہ ویڈیو بنا لی ہو؟ مگر پھر سوچا کہ اس دن تو وہ
گھر پر تھا ہی نہیں۔ جب ہم سائرہ کے گھر گئے اس وقت سے لیکر جب اسکے گھر
سے واپس نکلے تو حیدر گھر پر نہیں تھا۔
پھر میں سوچنے لگی کہ اگر سائرہ بھی نہیں اور حیدر بھی نہیں تو پھر آخر کون بنا
سکتا ہے یہ ویڈیو؟ کافی دیر سوچنے کے بعد اچانک مجھے سائرہ کے اس مالزم کا
خیال آیا جو ہمارے لیے پانی لیکر آیا تھا۔ اس وقت میں نے نوٹ کیا تھا کہ سائرہ کے
سامنے تو وہ بہت مودب اور آنکھیں جھکا کر کھڑا تھا مگر اسکی نظریں میرے مموں
کا دیدار ضرور کر رہی تھیں اسکی آنکھوں میں میرے مموں کی طلب موجود تھی
جیسے وہ انہیں فورا اپنے ہاتھوں میں لیکر دبا دینا چاہتا ہو۔ اسکا خیال آتے ہی میرے
ذہن نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ یہ حرکت اسی کمینے مالزم کی ہوگی۔
اب میں سوچنے لگی کہ صبح ہوتے ہی اسکی شکایت سائرہ سے کروں گی اور ساری
بات اسکو بتاوں گی۔ مگر پھر سوچا کہ سائرہ کیا کر لے گی؟ زیادہ سے زیادہ اس سے
موبائل لے کر وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دے گی اور اسکو نوکری سے نکال دے گی؟؟ مگر اب
تک تو وہ مالزم میری ویڈیو کو نجانے کہاں کہاں سیو کر چکا ہوگا بیک اپ کے طور
پر۔ اور اگر سائرہ کو شکایت لگانے پر اسکو غصہ آگیا تو وہ میری ویڈیو الزمی انٹرنیٹ
پر ڈال دے گا۔ یہ خیال آتے ہی میں نے اپنا ارادہ کینسل کر دیا۔ پھر سوچا کہ کیوں نہ
رضوان کو بتاوں وہ خود ہی اس سے نمٹ لے گا۔ مگر پھر سوچا کہ اگر رضوان نے
غصے میں آکر اسکو قتل کر دیا تو رضوان کا مستقبل کیا ہوگا؟ وہ تو تباہ ہوجائے گا۔
اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الٹا وہ مالزم رضوان کو کوئی نقصان پہنچا دے اور اس میں
بھی پھر وہی رسک تھا کہ اگر اس نے ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دی پھر رضوان بھی میری
عزت نہیں بچا سکے گا۔ آخر کافی سوچنے کے بعد میں اسی نتیجے پر پہنچی کہ اسکو
چوت دینے کے عالوہ اور کوئی حل نہیں اس مسئلے کا۔ یہ سوچ سوچ کر میں روتی
رہی اور نجانے کب میری آنکھ لگی۔ صبح اٹھی تو سر درد سے پھٹا جا رہا تھا اور
آنکھیں سوج چکی تھیں۔ امی نے میری یہ حالت دیکھ کر مجھ سے وجہ پوچھی تو میں
نے کہا کہ ساری رات سر میں درد ہوتی رہی اس لیے طبیعت خراب ہے۔ امی نے مجھے
ناشتہ کروایا اور گولی دی۔ میں بھی سارا دن اسی کے بارے میں سوچتی رہی۔ یہ دن
بھی پریشانی میں گزر گیا اور پھر اگال دن بھی پریشانی میں ہی گزرا۔ 4دن گزرنے کے
بعد جب میں کسی حد تک اس واقعہ کو بھول چکی تھی تو مجھے پھر سے فیس بک پر
اسی کا میسج آیا اور اس میں لکھا تھا کہ آج جمعرات ہے ،اتوار والے دن تم نے اپنی
چوت مجھے دینی ہے ورنہ تمہاری چودائی کی ویڈیو پورا پاکستان اور پوری دنیا
دیکھے گی۔
یہ میسج پڑھ کر میں پھر سے پریشان ہوگئی اور سوچنے لگی کہ آخر اس مصیبت سے
کیسے جان چھڑائی جائے۔ مگر کچھ سمجھ ننہیں آئی۔ پھر میں نے اس مالزم کے بارے
میں سوچنا شروع کر دیا ،وہ کافی لمبا چوڑا اور مضبوط جسم کا انسان تھا۔ اسکے
بارے میں سوچتے ہوئے مجھے اسکے لن کا خیال آیا تو میں نے سوچا کہ اسکا لن
بھی کافی بڑا اور مظبوط ہوگا۔ آہستہ آہستہ میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ وہ میری
چودائی کیسے کرے گا؟ کیا وہ وحشیوں کی طرح میرا جسم نوچ لے گا یا پھر کسی
محبوب کی طرح میرے جسم کو پیار کرے گا اور میری چودائی کرے گا؟ یہ سوچ سوچ
کر مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میری شلوار گیلی ہو رہی تھی۔ تب مجھے شرمندگی
ہوئی تھوڑی کہ وہ زبردستی میری چدائی کرنے کو تیار ہے اور میں اسکے بارے میں
سوچ رہی ہوں کہ وہ میری چودائی کیسے کرے گا۔ پھر اچانک ہی میرے ذہن میں آیا کہ
اسکے چوت دیے بغیر کوئی اور راستہ نہیں مگر کیوں نہ میں بھی اس چودائی کی
ویڈیو بنا لوں ،ہوسکتا ہے بعد میں میرے کسی کام آسکے۔ کیونکہ ظاہری بات ہے وہ
مجھ سے ملتے ہی میری چوت میں اپنا لن تو نہیں گھسائے گا بلکہ کچھ باتیں کرے گا
اور اس دوران میں کوشش کروں گی کہ کچھ ایسی بات ہوجائے جس سے اسکو بعد میں
بلیک میل کیا جا سکے اور اس مصیبت سے جان چھڑوائی جا سکے۔
یہ خیال آتے ہی میں نے فورا شہر کا رخ کیا اور خان پالزہ جا کر ایک خفیہ کیمرہ خرید
لیا جو ایک پین کی کیپ میں لگا ہوا تھا۔ یہ کیمرہ مجھے محض 3500روپے میں مل
گیا۔ گھر آکر میں نے اس خفیہ کیمرے کو اپنے بیگ میں فٹ کر دیا اور چیک کرنے کے
لیے اس سے ویڈیو بنا کر دیکھی۔ میں نے بیگ ایک سائیڈ پر رکھا اور کمرے میں ادھر
ادھر پھرنے لگی۔ روشنی بھی کم زیادہ کر کے دیکھی اور بعد میں ویڈیو چیک کی تو
بالکل صحیح اور واضح ویڈیو تھی آواز کی ریکارڈنگ بھی زبردست تھی۔ یہ کیمرہ 2
گھنٹے تک کی ویڈیو بنا سکتا تھا جو اچھا خاصا ٹائم ہے۔ اب میں پر سکون ہوکر اتوار
کا انتظار کرنے لگی۔
ہفتے کی رات کو مجھے پھر انجان نمبر سے کال آئی ،میں نے ہیلو کہا تو آگے سے
جان من کل کے لیے پھر تیار رہنا اور اپنی چوت کو بھی میرے لیے تیار رکھنا۔ آواز آئی ِ
یہ بہت بھاری آواز تھی جیسے کوئی 40 ،35سال کا مرد بول رہا ہو۔ میں نے اسکو
گالی دی اور کہابہن چود آخر تو میرے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے؟ تجھے جتنے پیسے
چاہیے بتا میں تجھے دیتی ہوں جا کر کسی چکلے پر کسی رنڈی کی چدائی کر لے میرا
جان من تمہاری چوت پیچھا چھوڑ دے۔ میری باتیں سن کر اس نے قہقہ لگایا اور بوال ِ
کی بھی بھال کوئی قیمت ہو سکتی ہے؟ مجھے کچھ نہیں چاہیے سوائے تمہاری چوت
کے۔ اسکے بعد اس نے غصے میں غراتے ہوئے کہا کہ اپنی چوت کی صفائی کر کے
آنا مجھے بالوں والی چوت پسند نہیں۔ اور اچھی طرح تیار ہوکر آنا ورنہ تمہاری
تصویریں فیس بک پر تمہاری پروفائل پر اپلوڈ ہوجائیں گی۔ یہ کہ کر اسنے فون رکھ دیا
اور میں پھر سے رونے لگ گئی۔ پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ کافی دیر رونے
کے بعد میں نے سوچا کہ جب چوت دینی ہی ہے تو کیوں نے آرام اور سکون سے دی
جائے۔ پریشان ہونے کا کیا فائدہ؟ جب اس چوت میں ایک لن جانا ہی ہے تو کیوں نہ اس
لن کا مزہ بھی لیا جائے اور پریشان ہوکر بالوجہ اس مزہ کو کرکرا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ
سوچ کر میں اٹھی اور میں نے واش روم جا کر اپنی چوت اور انڈر آرم بال صاف کیے
اور آرام سے آکر سوگئی۔ صبح 10بجے اٹھ کر ناشتہ کیا اور 11بجے کے قریب
مجھے کال آئی کہ 12:30منٹ تک گلگشت میں موجود پیزا ہٹ کے ساتھ گول باغ
کے سامنے آکر کھڑی ہوجاو اور مجھے کال بیک کرو۔ میں پھر بتاوں گا کہ تمہیں کہاں
آنا ہے۔
میں کال سن کر اٹھی اور تیاری کرنے لگی۔ میں نے ایک جی سٹرنگ نیٹ کی پینٹی پہنی
اور اسکے ساتھ ایک ٹراوزر پہنا۔ اوپر سے میں نے انڈر وائرڈ برا پہنا نیلے رنگ کا
جس نے میرے مموں کو اوپر اٹھا کر اور بھی سیکسی بنا دیا۔ اب دونوں ممے آپس میں
جڑے ہوئے تھے اور سینے کی الئن یعنی کے کلیوج کافی واضح ہوگئی تھی۔ اسکے
اوپر میں نے ایک لوز اپر پہنا۔ تھوڑا سا میک اپ کیا اپنے آپ کو شیشہ میں دیکھا۔ لوز
اپر میں سے کلیوج کافی واضح نظر آرہی تھی جس سے میں بہت سیکسی لگ رہی تھی۔
اوپر سے میں نے ایک چادر لی اور امی کو بتایا کہ میں دوست کے گھر جا رہی ہوں۔
امی نے دوست کا نام پوچھا تو میں نے سائرہ کا ہی نام بتا دیا اور باہر نکل کر سائرہ کو
کال کی کہ میں رضوان سے ملنے جا رہی ہوں اگر امی کا فون آئے تو بتا دینا کہ میں
تمہارے گھر پر ہی ہوں۔ سائرہ نے بھی کہا کے بے فکر ہوکر جاو آنٹی کا فون آیا تو
میں سنبھال لوں گی۔
فون کر کے میں رکسشے میں بیٹھی اور گول باغ جا کر اسکو کال کی۔ اس نے کہا کہ
اب ایسا کرو گردیزی مارکیٹ آجاو۔ یہ مارکیٹ یہاں سے تھوڑا ہی دور تھی میں نے پھر
رکشہ لیا اور گردیزی مارکیٹ چلی گئی۔ وہاں سے میں نے پھر کال کی تو اسنے مجھے
ایک ہوٹل کا نام بتایا اور ایڈریس بتایا کہ اس ہوٹل میں آجاو اور باہر کھڑی ہوکر مجھے
کال کرو۔ یہ کہ کر اسنے کال بند کردی اور میں کھڑی اسکو گالیاں دینے لگی کہ ایک تو
میری چوت مارنا چاہتا ہے زبردستی اوپر سے مجھے جگہ جگہ ذلیل کر رہا ہے۔ پھر
میں نے رکشہ پکڑا اور اسکے بتائے ہوئے ہوٹل کے سامنے پہنچ کر اسکو دوبارہ کال
کی تو اسنے کہا اسی ہوٹل کے کمرہ نمبر 203میں آجاو۔
میں ہوٹل کی ریشیپشن پر گئی اور کمرہ نمبر 203کا پوچھا۔ انہوں نے مجھے سیکنڈ
فلور پر جا کر رائٹ سائد پر تیسرے کمرے کا بتایا۔ میں لفٹ سے اوپر پہنچی اور 203
نمبر کمرے کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی۔ یہاں پہنچ کر اب میری ٹانگیں کانپ رہی تھی
اور میں سوچ رہی تھی کہ معلوم نہیں آگے کیا ہوگا اور یہ شخص میرے ساتھ کیا کرے
گا۔ کمرے کے سامنے پہنچ کر میں نے چادر اتار کر اپنے ہینڈ بیگ میں ڈالی اور بیگ
میں فِٹ کیا ہوا کیمرہ آن کر دیا۔ پھر حوصلہ جمع کیا اور دروازہ ناک کیا۔ اندر سے آواز
آئی کون؟ میں نے اپنا نام بتایا تو دوبارہ آواز آئی اندر آجاو۔ یہ آواز مجھے جانی پہچانی
سی لگی۔ میں نے دروازہ کھوال اور اندر داخل ہوگئی۔ میرے سامنے ایک ڈبل بیڈ تھا
جسکے ساتھ ایک صوفہ پڑا تھا اسکے سامنے ایک ٹیبل پڑی تھی جس پر کچھ مشروب
رکھے ہوئے تھے۔ سامنے ایک شیشے کی ونڈو تھی جسکے سامنے ایک چھوٹے قد کا
شخص کھڑا تھا۔ میں نے پہلے تو پیچھے مڑ کر دروازہ بند کیا کنڈی لگائی اور مناسب
جگہ ڈھونڈنے لگی بیگ رکھنے کے لیے جہاں سے ویڈیو بن سکے۔ میں نے سامنے
ٹیپبل پر ہی بیگ رکھ دیا کیونکہ یہاں سے بیڈ کی ویڈیو با آسانی بن سکتی تھی کیونکہ
آخر کر چدائی تو بیڈ پر ہی ہونی تھی۔
اب میں نے اس شخص کی طرف دیکھا ،اسکی پیٹھ میری طرف تھی۔ میں نے اندازہ لگا
لیا کہ یہ وہ مالزم تو ہرگز نہیں کیونکہ اسکا قد بڑا تھا۔ پھر سوچنے لگی کون ہو سکتا
ہے یہ مگر کچھ سمجھ میں نہ آئی۔ پھر میں نے حوصلہ کیا اور اپنا اعتماد بحال کرتے
ہوئی بولی کہ اب میں اپنی چوت دینے آ گئی ہوں تو اپنی شکل بھی دکھا دو۔ وہ میری
بات سن کر آہستہ آہستہ مڑا اور جیسے ہی میری نظر اس پر پڑی تو میں حیران رہ گئی۔
یہ کوئی اور نہیں بلکہ سائرہ کا بھائی حیدر ہی تھا۔ میرے منہ سے ایک دم نکال حیدر
تم؟؟؟؟؟ وہ میرے سامنے نظریں جھکائے کھڑا تھا اور مجھ سے نظریں نہیں مال رہا
تھا۔ میں دوبارہ اس سے مخاطب ہوئی کہ حیدر آخر تم نے یہ سب کیوں کیا؟ مگر وہ چپ
چاپ کھڑا رہا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر کہ نہیں پا رہا تھا۔ میں آگے گئی اور اسکا
ہاتھ پکڑ کر اسکو بیڈ پر بٹھایا۔ اسکا ہاتھ بہت گرم تھا جیسے اسے 104ڈگری بخار
ہو۔ مگر یہ گرمی بخار کی نہیں بلکہ میری چوت کو چودنے کے لیے تھی۔ اسکو بٹھا کر
میں خود اسکے ساتھ بیٹھ گئی اور اپنے بیگ کی طرف دیکھا۔ اینگل سے مجھے اندازہ
ہوگیا کہ یہاں کی ویڈیو با آسانی بن رہی ہوگی۔ پھر میں نے حیدر سے پوچھا کہ حیدر یہ
سب آخر کیوں؟ تو اسکے منہ سے صرف اتنا ہی نکال کہ "سوری فائزہ آپی"۔ حیدر
سائرہ سے چھوٹا تھا اور وہ مجھے آپی کہتا تھا۔ میری حیدر سے پہلے بھی کافی بار
مالقات ہوئی تھی ۔ اکثر جب ڈرائیور کی غیر موجودگی میں سائرہ کو کالج سے گھر جانا
ہوتا تو حیدر لینے آتا تھا اور میری بھی مالقات ہوجاتی تھی۔
میں نے حیدر سے پوچھا کہ آخر یہ سب تم نے کیوں کیا؟؟؟ وہ پھر بھی خاموش بیٹھا
رہا۔ اور صرف اتنا ہی بوال کہ میں بس آپکو چودنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا وہ تو مجھے
بھی پتا ہے میں اسی لیے آئی ہوں ،مگر میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ
مجھے بلیک میل تم کر رہے ہو؟ اب میرے ذہن میں کچھ سواالت ہیں جو مجھے پریشان
کر رہے ہیں۔ جب تک تم انکے جواب نہیں دیتے تب تک مجھے سکون نہیں ملے گا۔ اور
اس حالت میں سیکس کرنے کا بالکل مزہ نہیں آتا۔ تم میرے سوالوں کے جواب دو
اسکے بعد جو چاہو میرے ساتھ کر لینا۔ تاکہ میں سکون سے کروا سکوں اور چودائی
کا مزہ بھی لے سکوں۔ میری یہ بات سن کر حیدر کچھ مطمئن ہوا اور بوال کہ پوچھیں
آپ کیا پوچھنا چاہتی ہیں؟
میں نے پوچھا کہ تم اتنے امیر ہو تمہارے پاس پیسہ بھی ہے گاڑی بھی ہے اور بہت
سی لڑکیاں تم پر مرتی ہیں۔ وہ خوشی خوشی تم سے دوستی کرنے ک لیے تمہیں اپنی
چوت دینے کو بھی تیار ہیں پھر آخر تم نے میرے ساتھ ہی ایسا کرنے کو کیوں سوچا؟
حیدر نے جواب دیا کہ مجھے کبھی کوئی لڑکی پسند نہیں آئی اور اگر آئی بھی تو میں
اپنی شرم کی وجہ سے اسکو اپنی طرف مائل نہیں کر سکا۔ محض باتھ روم جا کر
اسکے بارے میں سوچ سوچ کر مٹھ مار کر گزارا کرتا رہا۔
حیدر واقعی میں ایک شرمیال لڑکا تھا۔ میں نے اگال سوال کیا کہ اگر تمہیں اتنی شرم آتی
ہے تو تم نے مجھے چودنے کے بارے میں کیسے سوچ لیا؟ اور اتنی ہمت کیسے کر
لی؟
تو اسنے بتایا کہ میں آپکو شروع سے ہی پسند کرتا ہوں۔ جب آپ سائرہ آپکی کے ساتھ
مجھ سے ملتی تھیں تب سے ہی مجھے آپکے ہونٹ بہت پسند تھے میں آپکے ہونٹوں
کو چوسنا چاہتا تھا اور آپکے بڑے بڑے ممے جب میری آنکھوں کے سامنے آتے تو
میرا دل کرتا تھا کہ میں انہیں اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر پیار کروں انکو دباوں اور انہیں
اپنے منہ میں لے کر چوس لوں۔ اب جب آپکی ویڈیو اور تصویریں دیکھیں اور آپکو
اپنے منگیتر کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے دیکھا تو میرا صبر جواب دے گیا اور میں
نے ارادہ کر لیا کہ اب آپکو ہر صورت میں حاصل کرکے آپکے ممے دبانے ہیں اور
آپکی چوت مارنی ہے۔
پھر میں نے پوچھا کہ یہ ویڈیو تم نے کیسے بنا لی ،تم تو اس دن گھر پر تھے ہی
نہیں۔
اس پر پہلے وہ خاموش رہا پھر بوال کہ اس بات کو رہنے دیں آپ۔ میں نے کہا نہیں
مجھے یہ جاننا ہے۔ پھر وہ کچھ دیر خاموش رہا اور کہا پھر آپ مجھ سے وعدہ کریں
کہ آپ اس بارے میں سائرہ آپی کو کچھ نہیں بتائیں گی اور ان سے دوستی بھی ختم
نہیں کریں گی۔ اور انہیں کبھی نہ پتا چلے کہ میں نے یہ بات آپکو بتائی ہے۔ میں نے
وعدہ کیا تو حیدر بوال کہ اصل میں یہ ویڈیو میں نے نہیں بنائی ،میں واقعی اس دن گھر
پر نہیں تھا۔
تو میں نے حیرانگی سے پوچھا اگر تم نے نہیں بنائی تو پھر کس نے بنائی؟ اور
تمہارے پاس کیسے آئی۔ تو حیدر نے بتایا کہ یہ ویڈیو سائرہ آپی نے بنائی ہے اور
انہوں نے ہی مجھے دی ہے۔
یہ سن کر مجھ پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا اور مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا
کہ واقعی حیدر نے سائرہ کا نام لیا ہے یا پھر بات کچھ اور ہے؟ میں نے پھر حیدر سے
پوچھا کہ سائرہ نے کیوں بنائی یہ ویڈیو؟ اور آخر اس نے تمہیں کیوں دی؟؟
اس پر حیدر نے کہا کہ یہ لمبی کہانی ہے۔ میں ایک دن سائرہ آپی کو لیکر انکی ایک
دوست کے گھر گیااور انہیں دوست کے گھر چھوڑ کر میں اپنے دوستوں کے ساتھ
مارکیٹ چال گیا۔ 4 ،3گھنٹے بعد میں دوبارہ سائرہ آپکے کی دوست کے گھر گیاانہیں
لینے کے لیے اور گھر کے اندر داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ سامنے ہی گاڑی میں
سائرہ آپی بیٹھی تھیں اور انکے ساتھ انکی فرینڈ کا بھائی تھا۔ دونوں گاڑی کی پچھلی
سیٹ پر بیٹھے تھے اور کسنگ کر رہے تھے۔ وہ لڑکا سائرہ آپی کے ہونٹ چوس رہا
تھا اور سائرہ آپی بھی کسنگ میں اسکا بھرپور ساتھ دے رہی تھیں۔ سائرہ آپی اس
لڑکے کی گود میں بیٹھیں تھیں اور ہلکا ہلکا اچھل رہی تھیں جیسے اسکے لن کے اوپر
اپنی چوت کو دبا رہی ہوں۔ اور لڑکے کے ہاتھ سائرہ آپی کے مموں پر تھے۔ اور وہ
مسلسل کسنگ کرنے کے ساتھ ساتھ سائرہ آپی کے ممے دبا رہا تھا۔ اچانک ہی سائرہ
آپی کی نظر مجھ پر پڑ گئی تو وہ ہڑ بڑا کر اسکی گود سے اتر گئیں اور اس لڑکے نے
بھی مجھے دیکھا تو چپ چاپ گاڑی سے نکل کر واپس اپنے گھر میں داخل ہوگیا۔
سائرہ آپی فورا گاڑی سے باہر آئیں اور مجھے کھینچتے ہوئے گاڑی کے اندر بٹھا کر
دروازہ بند کیا اور میری منتیں کرنے لگ گئیں کہ پلیز یہ بات کسی کو مت بتانا۔ میں تو
ایسے ہی اسکے ساتھ مستی کر رہی تھی جیسا تم سوچ رہے ہو ویسا کوچھ نہیں۔ مستی
کے عالوہ اور کچھ نہیں کیا میں نے اسکے ساتھ صرف کسنگ ہی کی ہے۔ میں نے
غصے سے کہا آپ اسکی گود میں بیٹھیں کیا کر رہی تھیں؟ صرف کسنگ؟ تو سائرہ آپی
شرمندہ ہوکر بولیں وہ میں ویسے ہی اسکو چھیڑ رہی تھی تنگ کرنے کے لیے لیکن
پلیز میرے بھائی یہ بات کسی کو نا بتانا پلیز پلیز۔
مزید حیدر نے کہا کہ جب میں نے اس لڑکے کو سائرہ آپی کے ممے دباتے ہوئے دیکھا
تو مجھے فورا آپکی یاد آگئی اور میرا بہت دل کیا کہ اس وقت اس لڑکے کی جگہ میں
ہوتا اور سائرہ آپی کی جگہ فائزہ میری گود میں بیٹھی ہوتی اور میں فائزہ کے ممے
دباتا ایسے ہی۔ جب سائرہ آپی نے میری منتیں کیں تو میں نے سوچ لیا کہ اب سائرہ آپی
ہی مجھے یہ موقع دیں گی کہ میں آپکے ممے حاصل کر سکوں۔ تبھی میں نے سائرہ
آپی کو آپکے بارے میں بتایا کہ میں آپکو بہت پسند کرتا ہوں۔ اگر سائرہ آپی آپکو میرے
بیڈ روم تک پہنچا دیں تو میں یہ بات کسی کو نہیں بتاوں گا اور سائرہ آپی فورا ہی مان
گئیں میری بات۔ اور ساتھ ہی کہا مجھے پہلے ہی شک تھا تم جس طرح بھوکی نظروں
سے فائزہ کے مموں کی طرف دیکھتے تھے مجھے پتا تھا تم اسکے مموں کو حاصل
کرنا چاہتے ہو۔ اسکے بعد ہم گھر واپس آگئے اور سائرہ آپی نے وعدہ کیا کہ وہ اس
معاملے میں میری پوری مدد کریں گی۔
پھر اس دن جب سائرہ آپی آپکے گھر آئیں تو انکا مقصد یہی تھا کہ آپکا ہمارے گھر آنا
جانا شروع ہو اور آہستہ آہستہ آپکی میرے ساتھ بھی فریکنیس بڑھ جائے تو آسانی
ہوجائے گی آپکے ممے حاصل کرنے میں ۔ ساتھ میں آپکے منگیتر بھی آگئے ہمارے
گھر۔ اور جب آپ لوگ سوئمنگ کر رہے تھے تبھی سائرہ آپی نے سوچا کہ آپکو اور
آپکے منگیتر کو موقع دیں کہ آپ ایکدوسرے کو پیار کرو۔ سائرہ آپی کو پتہ تھا کہ جب
آپکے منگیتر آپکو برا اور پینٹی میں گیلے جسم کے ساتھ دیکھیں گے تو وہ آپکو پیار
ضرور کریں گے اور سائرہ آپی آپکی تصویریں بنا لیں گی۔ مگر آپ دونوں نے تو حد ہی
کر دی سائرہ آپی نے صرف پیار کرنے کا موقع دیا تھا اور آپ لوگوں نے وہیں پر چدائی
بھی شروع کر دی۔ اور اس طرح میرا کام بن گیا۔
یہ آخری الفاظ کہتے ہوئے حیدر کا لہجہ بڑا معنی خیز تھا جیسے اسنے کوئی فتح
حاصل کر لی ہو اور جو وہ چاہتا تھا وہ ہوگیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ تمہاری منگیتر
سمیرا کو بھی اس بارے میں علم ہے؟
تو اسنے بتایا کہ نہیں سمیرا کو اس پورے معاملے کا کوئی علم نہیں۔ جب سائرہ آپی
اوپر سے آپ دونوں کو سوئمنگ پول میں پیار کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں تو سمیرا
بھی ساتھ تھی ،مگر جیسے ہی آپکے منگیتر نے اپنا لن باہر نکاال تو سمیرا کمرے سے
باہر چلی گئی اور سائرہ آپی نے کمرے کی کنڈی لگا کر آپکا پورا چدائی کا شو ریکارڈ
کیا اور بعد میں ویڈیو اور تصویریں مجھے دے دیں کہ اب آگے جو کرنا ہے تم خود
کرو۔
یہ سب سن کر ہم دونوں کافی دیر خاموشی سے بیٹھے رہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ آخر
سائرہ نے ایسا کیوں کیا؟ اسنے اپنی عزت بچانے کے لیے میری عزت داو پر لگا دی۔
مجھے غصہ بھی آرہا تھا۔ اب مجھے اس ہوٹل کے کمرے میں آئے ہوئے قریبا آدھے
گھنٹے سے زیادہ کا ٹائم گزر چکا تھا۔ پھر میں اپنی سوچوں سے نکل کر واپس کمرے
میں آئی اور مجھے احساس ہوا کہ میرے ساتھ اس وقت ایک لڑکا بیٹھا ہے جو مجھے
چودنے کی شدید خواہش رکھتا ہے اور میں بھی اس سے اپنی چوت مروانے کے لیے
اپنے بال صاف کرکے آئی ہوں۔ یہ سوچ کر میرا جسم گرم ہونے لگا۔
اور میں نے سوچا کہ اب جس کام کے لیے آئی ہوں وہ کر لینا چاہیے۔ میں نے حیدر کا
ہاتھ پکڑا تو وہ اب ٹھنڈا تھا۔ میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی ٹانگ پر رکھ دیا۔ اور اپنا
ہاتھ اسکی ٹانگ پر رکھا۔ پھر آہستہ آہستہ میں اسکی تھائی کو دبانے لگی اور اس سے
پوچھا اب تم اپنی فائزہ آپی کے ممے دبانا چاہتے ہو یا نہیں؟؟ تو حیدر خوشی سے بوال
اسی کے لیے تو اتنی محنت کی ہے۔ اسکی اس بات کے مکمل ہوتے ہی میں اٹھی اور
اسکی گود میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اپنے ہونٹ حیدر کے ہونٹوں پر رکھ کر
انکو چوسنا شروع کر دیا۔ حیدر نے بھی اپنے دونوں ہاتھ میری گردن پر رکھے اور
میرے ہونٹوں پر ااپنے ہونٹ رکھ کر انہیں چوسنے لگا۔ وہ بڑی بیتابی اور شدت سے
میرے ہونٹ چوس رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ہم دونوں کی زبانیں آپس میں لڑائی کر رہی
تھی اور ایکدوسرے کو خوب ٹکریں مار رہی تھیں۔ میں نے اپنا منہ کھوال اور حیدر کی
زبان کو اپنے منہ میں داخل ہونے دیا۔ اسنے جیسے ہی زبان میرے منہ میں ڈالی میں
نے اسکو بڑی گرمجوشی کے ساتھ چوسنا شروع کر دیا۔ ہم دونوں کی کسنگ جاری
تھی ،میں نے حیدر کے ہاتھ پکڑے اور گردن سے ہٹا کر اپنی گانڈ پر رکھ دیے اور کہا
اپنی فائزہ آپی کے چوتڑ بھی دباو۔ اس نے جیسے ہی میرے چوتڑ محسوس کیے جو
گوشت سے بھرے ہوئے تھے تو فورا ہی انکو دبانا شروع کر دیا۔ اب اسکی کسنگ میں
اور بھی تیزی آگئی تھی اور اسکی گرم سانسیں مجھے محسوس ہو رہی تھیں۔
کچھ دیر ایسے ہی کسنگ کرنے کے بعد میں اسکی گود سے اٹھی اور منہ دوسری
طرف کر کے دوبارہ اسکی گود میں بیٹھ گئی۔ اب میری کمر حیدر کی طرف تھی اور میں
اپنی ٹانگیں موڑ کر حیدر کی گود میں بیٹھی تھی میری گانڈ حیدر کے لن کے بالکل اوپر
تھی ۔ اسطرح بیٹھنے کے بعد میں نے حیدر کی طرف گردن موڑی اور دوبارہ سے اپنے
ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیے اور اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے مموں پر رکھ
دیے۔ حیدر کے ہاتھوں نے جیسے ہی میرے مموں کی نرمی کو محسوس کیا تو اسکو
تو جیسے ایک کرنٹ لگ گیا اور اس نے انکو زور زور سے دبانا شروع کر دیا اور بہت
ہی بیتابی کے ساتھ میرے ہونٹ بھی چوسنا شروع کر دیے۔ اب اسکے ہونٹ جیسے
میرے ہونٹوں کو چھیل رہے تھے اور وہ مسلسل میرے مموں کو مسل رہا تھا اپنے
ہاتھوں سے۔ مجھے نیچے اپنی گانڈ پر اسکے لن کا دباو محسوس ہو رہا تھا۔ جب حیدر
میرے ممے زیادہ ہی دور سے دباتا تو درد کی شدت سے میں اپنی گانڈ اوپر ہوا میں
اٹھا لیتی اور میرا جسم اکڑ جاتا۔ وہ میرے مموں کو اور زور سے دبا کر مجھے دوبارہ
سے اپنی گود میں بیٹھنے پر مجبور کر دیتا۔ 2منٹ یہ کھیل جاری رہا۔ اب میں پھر
اسکی گود سے اتری اور اسکی طرف منہ کر کے پھر سے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں
سے مالدیے اور ساتھ ہی اسکی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔ سارے بٹن کھول کے میں
نے اسکی شرٹ اتار دی اور اسکو دھکا دیکر بیڈ پر لٹا دیا۔ اب میں اسکے اوپر جھک
کر اسکے سینے پر پیار کرنے لگی۔ اسکا سینہ بالوں سے صاف تھا اور میں اپنی زبان
سے اسکا سینہ چاٹ رہی تھی۔ کبھی اسکے نپلز پر اپنی زبان پھیرتی تو کبھی اسکا
سینہ چاٹنے لگتی۔ اس نے بھی میرا اپر کمر سے اوپر کر دیا اور اپنے ہاتھ میری کمر
پر مسلنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے میرا اپر بھی اتار دیا۔ اب میرے بڑے بڑے ممے
اسکے سامنے برا میں قید تھے۔ اسنے مجھے اپنے اوپر سے ہٹایا اور مجھے بیڈ پر لٹا
کر خود میرے اوپر آگیا۔
میرے اوپر آتے ہی اس نے پہلے تو اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر چوسنا شروع
کیے اور ساتھ میں اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے مموں کو برا کے اوپر سے ہی
دبانے لگا۔ پھر وہ میرے ہونٹوں کو چھوڑ کر میرے سینے پر زبان پھیرنے لگا اور
وہاں سے ہوتا ہوا اب اسکی زبان میری کلیوج کی گہرائی میں داخل ہوکر گویا میری
کلیوج کی چدائی کر رہی تھی۔ حیدر بڑی شدت سے میری کلیوج کو چاٹ رہا تھا اور
دونوں ہاتھ سے میرے مموں کو دبا بھی رہا تھا۔ اسنے میرا برا اتارنے کی کوشش کی
تو میں نے منع کر دیا کہ نہیں ابھی نہیں۔ پھر وہ مزید میرے ممے برا کے اوپر سے ہی
چوسنے لگا اور مموں سے ہوتا ہوا وہ نیچے آنے لگا۔ ناف پر زبان پھیرنے کے بعد وہ
مزید نیچے آیا اور ٹانگوں اور پیٹ کے مالپ والی جگہ پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔
مجھے حیدر کا اسطرح میرے جسم کو چاٹنا بہت اچھا لگ ر ہا تھا۔ اب اس نے میرے
ٹراوذر کو پکڑا اور ایک ہی جھٹکے میں میرا ٹراوزر بھی اتار دیا۔ میں اب حیدر کے
سامنے ننگی لیٹی تھی ،میرے جسم پر محض ایک برا اور ایک جی سٹرنگ پینٹی تھی۔
اب وہ اپنے ہاتھ میری تھائیز پر پھیر رہا تھا اور انہیں دبا دبا کر خوش ہورہا تھا۔ بالوں
سے پاک نرم اور مالئم تھائیز پر ہاتھ پھیرنے کے بعد اب اسنے میری تھائیز کو زبان
سے چاٹنا شروع کر دا جس سے مجھے عجیب گدگدی سی ہونے لگی۔ وہ میری چوت
کے بالکل قریب اپنا ہاتھ پھیر رہا تھا اور زبان میری تھائز پر مسلسل نیچے سے اوپر
کی طرف پھیر رہا تھا۔ میری چوت گیلی ہو رہی تھی اور یہ گیال پن پینٹی کو بھی گیال کر
چکا تھا۔
اب حیدر نے میری ٹانگیں اٹھائیں اور فولڈ کر کے میرے سینے کے ساتھ لگا دیں۔
میری گانڈ اوپر اٹھ چکی تھی۔ میرے چوتڑوں پر بھرا بھرا گوشت دیکھ کر حیدر کے منہ
میں پانی آنے لگا اور وہ فورا میرے چوتڑوں کے اوپر جھک کر ان پر اپنی زبان
پھیرنے لگا۔ میرے مکمل چوتڑ ننگے تھے اور دودھ کی طرح سفید تھے۔ جی سٹرنگ
پینٹی کی بیک سائڈ محض اتنی ہوتی ہے کہ وہ چوتڑوں کی الئن میں جا کر گانڈ کے
سوراخ کو ڈھانپ سکے۔ اسکے عالوہ تمام چوتڑ ننگے ہوتے ہیں اور حیدر اسکا
بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے میرے چوتڑ چاٹ رہا تھا ،آہستہ آہستہ اسکی زبان چوتڑوں
کے گوشت سے ہوتی ہوئی گانڈ والی الئن میں جانے لگی۔ تھوڑی دیر اس نے گانڈ والی
الئن میں اپنی زبان پھیری جس نے میری چوت کو اور بھی گیال کر دیا ۔
اب حیدر نے میری پینٹی اتارنی چاہی تو میں نے اسے منع کر دیا اور کہا وہ نیچے
لیٹے۔ وہ نیچے لیٹ گیا تو میں نے اوپر آکر اسکا ٹراوزر اتار دیا۔ اب وہ بھی میرے
سامنے ننگا تھا محض انڈر وئیر پہنا ہوا تھا۔ انڈر وئیر میں اسکے لن کا ابھار کافی
واضح تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ اسکے لن کے اوپر رکھا اور اسکا سائز ماپنے کی کوشش
کی۔ اسکا لن چھوٹا تھا شاید 5انچ سے کچھ زیادہ ہوگا۔ یا پھر 6انچ کا ہوگا مگر اس
سے زیادہ نہیں تھا۔ اب میں اسکے لن کے اوپر بیٹھ گئی اور اپنی گانڈ پر اسکے لن کو
محسوس کرنے لگی۔ اسکا لن میری چوت سے ٹکرا رہا تھا جس نے میرے شہوت میں
اور بھی اضافہ کر دیا۔ اب میں نے اسکے اوپر بیٹھے بیٹھے ہی اپنے ہاتھ کمر پر لیجا
کر اپنے برا کی ہک کھول دی اور اپنے مموں کو برا کی قید سے آزاد کر دیا۔ میرے
ممے برا کی قید سے نکلتے ہی حیدر کی آنکھوں کے سامنے اچھلنے لگے۔ میں آہستہ
آہستہ اسکے لن پر اچھل رہی تھی جسکی وجہ سے میرے 34سائز کے ممے میرے
سینے پر لہرانے لگے۔ انکو دیکھ کر حیدر کی تو رال ٹپکنے لگی اور اس اب حیدر سے
مزید نہ رہا گیا اور اسنے فورا ہی مجھے کمر سے پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا۔ اور میرے
ممے اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا۔ اسنے میرے دونوں ممے اپنے دونوں ہاتھوں
سے پکڑے ہوئے تھے اور ایک مما منہ میں لیکر چوس رہا تھا۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر
بعد مما چینج کر کے اپنے منہ میں لیتا اور اسکو چوسنے لگتا۔ حیدر کا بس نہیں چل رہا
تھا کہ وہ پورے کا پورا مما اپنے منہ میں لیکر کھا جائے۔ وہ زیادہ سے زیادہ حصہ منہ
میں لینے کی کوشش کر ررہا تھا۔ تھوڑی دیر میں نے اسکو ایسیے ہی ممے چوسنے
دیے۔ پھر میں نے اسے کہا کہ میرے نپل بھی منہ میں لیکر انکو کاٹے اور انکو
چوسے۔ اسنے فورا ہی میرے نپل کو منہ میں لے لیا اور اسکو ایسے چوسنے لگا
جیسے بچہ اپنی ماں کے سینے سے دودھ پیتا ہے۔ میرے نپل مکمل تنے ہوئے تھے۔
اور حیدر مسلسل اسکو اپنے منہ میں لیکر چوس رہا تھا۔ وہ کبھی نپل کو چوستا تو
کبھی انکو اپنے دانتوں سے ہلکے ہلکے کاٹتا تو کبھی اپنی زبان پھیرتا میرے نپلز پر۔
میرے منہ سے مسلسل اف اف اف۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ آہ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ کی سسکیاں نکل رہی
تھیں مگر میری آواز دھیمی تھی کیونکہ یہ ہوٹل کا کمرہ تھا اور آواز باہر جانے کا
خطرہ تھا۔
جب حیدر نے دل بھر کر میرے ممے چوس لیے تو میں دوبارہ سے اسکے اوپر بیٹھ
گئی۔ اسکا لن میری گانڈ کی الئن میں مجھے محسوس ہورہا تھا۔ اب میں نے اسکے لن
کے اوپر مچلنا شروع کر دیا۔ میں اسکے لن پر مسلسل اپنی گانڈ کو گھما گھما کر مزے
لے رہی تھی اور حیدر میرے اچھلتے ہوئے ممے دیکھ دیکھ کر خوش ہورہا تھا۔ ساتھ
ساتھ اسکی ہلکی ہلکی سسکیاں بھی نکل رہی تھیں۔ میں مسلسل اسکے لن پر اچھل
رہی تھی اور اپنی گانڈ کو اسکے لن پر گول گول گھما رہی تھی ،اچانک حیدر کا جسم
اکڑنے لگا اور اسکے جسم کو جھٹکے لگنے لگے۔ اور مجھے نیچے سے اپنی گانڈ
گیلی محسوس ہوئی۔ میں نے اٹھ کر دیکھا تو حیدر کا انڈر وئیر گیال تھا اور اسکی منی
نکل چکی تھی۔ یہ دیکھ کر میری ہنسی نکل گئی اور میں نے بے تحاشہ ہنسنا شروع کر
دیا۔ میں مسلسل ہنس رہی تھی اور حیدر تھوڑا شرمندہ تھا۔ میں نے اسے کہا کیسے مرد
ہو یار تم ابھی تو تمہارا لن باہر بھی نہیں نکاال اور اس نے پانی بھی چھوڑ دیا۔۔۔ اس
سے کوئی بات نہیں ہورہی تھی بس چہرے سے شرمندگی ٹپک رہی تھی۔ پھر میں نے
اسے حوصلہ دیا کہ کوئی بات نہیں تم نے کبھی کسی لڑکی کی چودائی نہیں کی تو
ہوجاتا ہے ایسے۔ ابھی دوبارہ کھڑا ہوجائے گا۔ یہ کہ کر میں خود لیٹ گئی اور اسکو کہا
تم نے فرمائش کی تھی چوت کے بال صاف کرنے کی اب چوت نہیں دیکھو گے میری؟
میری یہ بات سن کر وہ فورا اٹھا ،سب سے پہلے اس نے اپنا انڈر وئیر اتار کر سائیڈ پر
پھینکا نیچے اسکا چھوٹا سا لن تھا جو پانی چھوڑنے کے بعد سُکڑ گیا تھا اور اب 2
انچ کا رہ گیا تھا۔ اسکو حیدر نے پاس پڑے ٹشو پیپر کے ڈبے سے ٹشو نکال کر صاف
کیا اور پھر میری ٹانگوں کے درمیان میں آکر میری چوت پر پینٹی کے اوپر سے ہی
ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ میری چوت ایک بار پھر سے گیلی ہونے لگی ،حیدر نے پینٹی
اتارے بغیر ہی اپنا منہ میری چوت پر رکھ دیا اور پینٹی کے اوپر سے ہی میری چوت
چاٹنے لگا۔ اب میری سسکیاں تیز ہوگئیں تھیں اور میں چاہنے کے باوجود بھی اپنی
آواز نیچی رکھنے میں ناکام تھی۔ کچھ دیر ایسے ہی میری چوت چاٹنے کے بعد حیدر
نے میری پینٹی اتار دی۔ نیچے اس میری بالوں سے پاک صاف ستھری پھدی نظر آئی۔
وہ شکاری نظروں سے میری پھدی پر نظریں جمائے بیٹھا تھا اور پھر آہستہ آہستہ
جھکتا گیا اور اپنی زبان میری پھدی سے کچھ اوپر پھیرنےلگا جس سے میرے جسم
میں جھر جھری سی آئیاور میری سسکیاں اور تیز ہوگئیں۔ میں نے اسکو سر سے پکڑ
کر اپنی پھدی کے اوپر دبانا شروع کر دیا۔ پھر حیدر نے اپنی زبان نیچے کی اور میری
پھدی کے لبوں پر زبان پھیرنے لگا اب میری پھدی مکمل طور پر گیلی تھی اور مسلسل
سسکیوں سے کمرہ گونج رہا تھا۔ کچھ دیر پھدی کے لبوں کو چوسنے کے بعد حیدر نے
اپنی زبان میری چوت کے اندر داخل کر دی اور اپنی زبان سے میری چوت چاٹنے لگا۔
میں پاگل ہورہی تھی اور بری طرح مچل رہی تھی۔ میں نے اپنی دونوں ٹانگیں فولڈ کی
ہوئی تھیں اور میری ٹانگوں کے درمیان حیدر کا سر تھا اور زبان مسلسل میری پھدی
کی چدائی میں مصروف تھی۔ کچھ دیر مزید پھدی کی چدائی کے بعد اس نے میری
ٹانگیں اوپر اٹھا کر فولڈ کیں اور سینے سے لگا دیں۔ اور میرے چوتڑون والی الئن میں
اپنی زبان پھیرنے لگا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی لڑکا میری گانڈ چاٹ رہا تھا اپنی زبان
سے۔ اس نے اپنی زبان کی نوک میری گانڈ کے سوراخ پر رکھی اور اس پر زور زور
سے ٹکرانے لگا۔ یہ بالکل نیا احساس تھا میرے لیے۔ میری چوت سے شہوت کا پانی
بہہ رہا تھا اور میری سسکیاں تھیں کے رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ ایسے تو
رضوان نے بھی چوت نہیں چاٹی تھی جیسے حیدر چاٹ رہا تھا اور ساتھ میں وہ گانڈ کو
بھی چاٹ رہا تھا۔ کچھ دیر گانڈ چاٹنے کے بعد حیدر دوبارہ سے میری چوت میں زبان
پھیرنے لگا۔ اب اسکی زبان بہت تیزی کے ساتھ میری چوت کی چدائی کر رہی تھی
اورمیری برداشت جواب دے رہی تھی۔ کچھ دیر مزید زبان کی چدائی کے بعد میری ہمت
جواب دے گئی اور چند جھٹکوں کے ساتھ ہی میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔
اب میں حیدر کے نیچے سے نکلی تو اسکا لن دوبارہ سے تھوڑا سخت ہو چکا تھا۔ میں
نے اسکو نیچے لٹایا اور اسکا لن منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ میرے منہ کی گرمی کو
پاکر حیدر کے لن میں اور سختی آنے لگی اور اسکی لمبائی میں بھی اضافہ ہونے لگا۔
کچھ ہی دیر چوسنے کے بعد اسکا لن 5سے 6انچ تک لمبا ہو چکا تھا اور اسکی
سختی دوبارہ سے واپس آ چکی تھی۔ میں اپنے ہاتھ سے اسکے لن کو مسل بھی رہی
تھی اور اسکی ٹوپی کو منہ میں لیکر چوس بھی رہی تھی۔ میں نے اسکے لن کی ٹوپی
پر تھوڑا سا تھوک بھی پھینکا اور اسکو اپنے ہاتھوں سے اسکے پورے لن پر مسل دیا
اور پھر سے اسکا لن منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ اب اسکا پورا لن میرے منہ میں تھا
اور میں اسکو مسلسل اندر باہر کر رہی تھی۔ لن منہ میں اندر باہر کرنے کے ساتھ ساتھ
میری زبان بھی لن کا مساج کرنے میں مصروف تھی۔ ابھی لن چوستے ہوئے مجھے 3
منٹ ہی ہوئے ہونگے کہ حیدر کے لن نے ایک بار پھر سے منی چھوڑ دی۔ اسکی
ساری منی میرے منہ میں ہی نکل گئی۔ اس بات پر مجھے بے تحاشہ غصہ آیا۔ وجہ یہ
نہیں تھی کہ میرے منہ میں منی کیوں نکالی بلکہ غصے کی وجہ یہ تھی کہ دوسری بار
اس نے بہت جلدی منی چھوڑ دی تھی۔ میں ابھی اسکے لن کو اپنی چوت میں ڈالنے کا
سوچ ہی رہی تھی کہ اسکے لن نے منی چھوڑ دی۔
میں نے حیدر کی طرف غصے سے دیکھا اور پوچھا یہ کیا ہے؟ دوسری بار بھی تم
اتنی جلدی فارغ ہوگئے۔ تو حیدر نے کہا معلوم نہیں کیا ہورہا ہے مٹھ مارتے ہوئے تو
7 ،6منٹ مسلسل مٹھ مار لیتا ہوں اسکے بعد ہی منی نکلتی ہے۔ آج بہت جلدی نکل
رہی ہے۔۔ میں نے اسے غصے سے کہا اب اسکوجلدی کھڑا کرو اور میری چوت میں
داخل کرو۔ حیدر شرمندہ ہوکر واش روم گیا۔ وہاں جا کر اسنے اپنے لن کو دھویا اور پھر
میں نے جا کر کلی کی اور اپنا منہ صاف کیا۔ حیدر کا لن اب پھر سے سُکڑ کر 2انچ کا
ہوچکا تھا جسکو حیدر مسلسل ہاتھ میں پکڑ کر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور
میں مسلسل غصے میں اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔ 3 ،2منٹ تک انتظار کرنے کے
باوجود جب اسکا لن کھڑا نہیں ہوا تو میں لیٹ گئی اور اسکو کہا دوبارہ سے میری
چوت کو اپنی زبان سے چاٹے شاید تھوڑا ٹائم گزرنے کے بعد لن کھڑا ہوجائے۔
میری چوت اب بالکل خشک ہو چکی تھی ،حیدر نے میری ٹانگیں کھول کر دوبارہ سے
میری چوت پر اپنی زبان پھیرنی شروع کی تو آہستہ آہستہ میری چوت کا گیال پن واپس
آنے لگا اور میرا جسم ایک بار پھر سے گرم ہونا شروع ہوگیا۔ اس بار حیدر اور بھی
زیادہ شدت کے ساتھ میری چوت کو چاٹ رہا تھا۔ اب میں مکلمل طور پر گرم ہوچکی
تھی اور اب میری چوت تیار تھی لن لینے کے لی۔ حیدر نے اب پیچھے ہٹ کر دوبارہ
سے اپنا لن ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسکو جھٹکےمارنے لگا۔ اب اسکا لن آہستہ آہستہ کھڑا
ہو رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسکا لن مکمل طور پر کھڑا ہوگیا تو میری جان میں
جان آئی۔ میں نے اسکو کہا اب میری ٹانگیں اٹھائے اور اپنا لن داخل کر دے میری چوت
میں۔
حیدر نے میری ٹانگیں اٹھائیں اور آگے بڑھ کر اپنے لن کی ٹوپی میری چوت پر سیٹ
کی اور ایک دھکا لگایا۔ میری چیخ نکل گئی کیونکہ میری پھدی ابھی اتنی کھلی نہیں
ہوئی تھی کہ اتنی آسانی سے لن اندر جا سکے۔ میں نے اسکو کہا کہ آرام آرام سے
داخل کرو۔ اب حیدر نے آہستہ آہستہ اپنے لن کا پریشر میری پھدی پر بڑھایا تو لن اندر
جانے لگا۔ اور مجھے درد بھی شروع ہوگئی تھی۔ کچھ دیر زور لگانے کے بعد حیدر کا
پورا لن میری چوت میں داخل ہو چکا تھا۔ اور اسکے چہرے پر خوشی تھی کہ آخر کار
اسنے میری چوت حاصل کر لی تھی۔ کچھ دیر لن اندر رہنے کے بعد میں نے اسے کہا
کہ اب آہستہ آہستہ دھکے مارنے شروع کرے تو حیدر نے میری چودائی شروع کر دی۔
اسکے دھکوں سے میرے ممے ہلنے لگے تو اسنے میرے اوپر جھک کر ممے
چوسنے شروع کر دیے اور نیچے سے اپنے دھکے جاری رکھے۔ اب میری چوت مکمل
طور پر گیلی ہو چکی تھی اور حیدر کا لن بڑے آرام کے ساتھ میری چودائی کر رہا تھا۔
میں نے حیدر کو کہا کہ اب اپنے لن کی سپیڈ تھوڑی بڑھاو۔ حیدر جیسے اسی بات کے
انتظار میں تھا۔ میری بات سنتے ہی اسنے ایک دم سے زور دار دھکے لگانے شروع
کر دیے۔
مگر اسکے یہ زور دار دھکے ابھی محض 6 ،5ہی لگے تھے کہ اسکے جسم کو
جھٹکے لگے اور اسکے لن نے ایک بار پھر سے منی چھوڑ دی۔ اب تو جیسے میرا
سارا صبر جواب دے گیا۔ میں نے اسکو پیچھے دھکا دیا اور ایک بڑی ساری گالی دی۔
اور کہا کہ شوق تمہیں چوت لینے کے ہیں اور لن تمہارا 2منٹ سے زیادہ چدائی نہیں
کر سکتا۔ اب میرا موڈ بری طرح خراب ہوچکا تھا۔ حیدر کا لن 3بار پانی چھوڑ چکا تھا
جبکہ میری چوت ابھی محض ایک بار ہی پانی چھوڑ سکی تھی۔
میں بستر سے اٹھی ٹشو اٹھا کر اپنی چوت کو صاف کیا اور کپڑے پہننے لگی۔ حیدر
چپ چاپ بیڈ پر بیٹھا تھا اور مجھ سے نظریں نہیں مال رہا تھا جبکہ میں غصے سے
اسے گھور رہی تھی۔ کپڑے پہننے کے بعد میں نے پانی پیا ،اپنا بیگ اٹھایا اور اسکو
پھر سے ایک گالی دی اور نا مردی کا طعنہ دیتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئی اور
تیز تیز قدموں کے ساتھ ہوٹل کے گیٹ پر آگئی۔ اب میں روڈ پر کھڑی تھی اور غصہ
میرا اچھا خاصا تھا ،مگر میری چوت کو ابھی بھی لن چاہیے تھا۔
اور مجھے اس وقت بہت شدت کے ساتھ کسی اصل مرد کے طاقتور لن کی ضرورت تھی
۔ باالآخر میں نے فون نکاال اور رضوان کو کال کر کے پوچھا کہ وہ کہاں پر ہے؟ اس
نے پوچھا خیریت ہے بہت غصے میں لگ رہی ہو۔ اسکی یہ بات سن کر میں نے ایک
گہرا سانس لیا اور اپنے آپ کو نارمل کرتے ہوئے کہا کہ کچھ نہیں غصے میں نہیں ہوں
مگر اس وقت تم سے ملنا چاہتی ہوں۔ رضوان نے پھر پوچھا کہ تم ہو کہاں؟ تو میں نے
بتایا کہ میں سائرہ کے گھر گئی تھی اور سوئمنگ کی تو مجھے وہی وقت یاد آگیا جب
تم میری چدائی کر رہے تھے۔ اور اب میری چوت گیلی ہو رہی ہے میں شہر میں آچکی
ہوں اور تم جیسے بھی ہو ایک بار مل لو میرے سے۔ یہ بات سن کر وہ ہنسا اور کہا واہ
کیا بات ہے۔ اس نے مجھے بتایا کو وہ علی کے گھر ہے۔ وہی علی جسکے گھر وہ
مجھے ایک بار پہلے پارٹی پر لے گیا تھا۔ رضوان نے مجھے کہا کہ یہاں اور لوگ بھی
آئے ہوئے ہیں تم بھی یہیں پر آجاو۔ میں نے فون بند کیا اور ایک رکشہ روک کر اسکو
ایڈریس بتا کر رکشے میں بیٹھ گئی۔ رکشے میں بیٹھ کر میں نے موبائل واپس بیگ میں
ڈاال تو میری نظر خفیہ کیمرے پر پڑی میں نے کیمرے کی ریکارڈنگ بند کی اور پین کو
محفوظ جگہ پر بیگ کے اندر والی جیب میں رکھ دیا۔ اب میرا رخ علی کے گھر کی
طرف تھا اور میں اس وقت رضوان کے لن کے لیے بیتاب ہوئی جا رہی تھی۔
کچھ ہی دیر میں رکشہ علی کے گھر کے سامنے رکا۔ میں نے رکشے والے کو پیسے
دیے اور گیٹ سے علی کے گھر میں داخل ہوگئی۔ مین گیٹ کھال تھا لہذا میں بے دھڑک
اندر چلی گئی۔ اندر جا کر اب میرا رخ اسی دروازے کی طرف تھا جس دروازے پر پہلے
رضوان نے میرے ممے دبائے تھے۔ میں جب اس دروازے پر پہنچی تو وہاں علی اپنی
گرل فرینڈ کے ساتھ موجود تھا۔ دونوں آس پاس سے بے خبر ایک دوسرے کے ہونٹ
چوسنے میں مصروف تھے۔ میں انکے پاس پہنچی مگر انہیں پتہ نہیں چال۔ میں نے
ہلکا سا اونہہ اونہہ کیا ،یعنی کے ہلکا سا کھانسی تو علی کو ہوش آیا۔ اس نے اپنی گرل
فرینڈ کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے اور میری طرف دیکھا۔ میں نے ہائے بوال تو
علی فورا آگے بڑھااور مجھ سے ہاتھ مالیا اور میرا حال وغیرہ پوچھا۔ میں نے کہا میں
ٹھیک ہوں آپ سنائے کیا چل رہا ہے۔ تو علی مسکرایا اور کہا جو چل رہا تھا تم نے
دیکھ ہی لیا ہے۔ یہ کہ کر اس نے قہقہ لگایا اور میرے مموں پر نظر گاڑتے ہوئے بوال
جاو نیچے رضوان نیچے ہی ہے۔ میں فورا نیچے چلی گئی ،نیچے پہنچ کر جیسے ہی
مین ہال میں داخل ہوئی تو وہاں جو میں نے دیکھا وہ دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے۔
میرے سامنے ندیم بالکل ننگا کھڑا تھا۔ یہ وہی لڑکا تھا جسکے ساتھ میں نے ڈانس کیا
تھا اور ڈانس کرتے ہوئے وہ بار بار اپنا لن میری گانڈ سے ٹچ کر رہا تھا اور ایک بار
میں نے اسکی گود میں بیٹھ کر اسکو کسنگ بھی کی تھی اور موقع ملنے پر اسکے لن
پر اپنا ہاتھ بھی رکھا تھا۔
جو لن میں نے کپڑوں میں چھپا ہوا محسوس کیا تھا آج اس لن کو دیکھ بھی لیا۔ ندیم کا
لن مکمل کھڑا تھا اور اسکے سامنے ایک لڑکی بیٹھی تھی وہ بھی ننگی تھی ایک ہاتھ
سے وہ اپنا ایک مما دبا رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے اس نے ندیم کا لن پکڑا ہوا تھا
اور منہ میں ڈال کر ندیم کا 8انچ لمبا اور موٹا لن چوس رہی تھی۔ میرے قدموں کی
آواز سن کر ندیم میری طرف متوجہ ہوا تو لڑکی نے اسکا لن اپنے منہ سے نکال دیا۔
جیسے ہی اس لڑکی نے ندیم کا لن چھوڑا وہ ایک دم سے تن کر کھڑا ہوگیا اور اسکا
رخ چھت کی طرف تھا۔ میں اتنا بڑا لن دیکھ کرپھٹی پھٹی آنکھوں سے اسکو دیکھنے
لگی تو اچانک مجھے ندیم کی آواز آئی "ہیلو فائزہ کیسی ہو تم؟" اسکی آواز سن کر
میں نے اسکی طرف دیکھا اور رضوان کے بارے میں پوچھا اور دوبارہ اسکا لن
دیکھنے لگی تو ندیم نے کہا رضوان اندر کمرے میں ہے تم چلی جاو کمرے میں۔ جس
کمرے کا ذکر کیا ندیم نے وہ اسکے ساتھ ہی تھا جہاں ہو کھڑا تھا۔ میں ندیم کی طرف
بڑھنے لگی اور میری نظریں مسلسل ندیم کے لن پر تھیں جس کو اب اس لڑکی نے
دوبارہ سے منہ میں لے لیا تھا اور اسکو چوس رہی تھی۔ ندیم کے پاس پہنچ کر میں
بائیں جانب بڑھی اور کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔ میری پھدی مکلمل
گیلی ہو چکی تھی اور اب میں جلد سے جلد رضوان کے لن سے اپنی پھدی کی پیاس
بجھانا چاہتی تھی۔ جیسے ہی میں نے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کیا اندر کا
نظارہ دیکھ کر تو میری ساری شہوت ختم ہوگئی اور اسکی جگہ غصے نے لے لی۔
میرے سامنے رضوان ایک لڑکی کے ممے چوسنے میں مصروف تھا۔ لڑکی کی گانڈ
میری طرف تھی اور وہ مکمل ننگی تھی۔ موٹی گانڈ پر رضوان کے ہاتھ تھے اور وہ
اسکی گانڈ کو اپنے ہاتھ سے دبا رہا تھا۔ جبکہ اسکے ممے رضوان کے منہ میں تھے۔
یہ دیکھ کر میں نے زور سے چیختے ہوئے رضوان کا نام لیا ،رضوان کو جیسے ایک
جھٹکا سا لگا اور اسنے ایک دم اسکے مموں کو چھوڑ کر میری طرف دیکھا۔ میں
چالئی کہ یہ کیا کر رہے ہو تم؟ تو رضوان اسکو چھوڑ کر میری طرف بڑھا اور کہا کچھ
نہیں یار تمہارا انتظار کرتے کرتے کافی دیر ہوگئی تو ۔۔۔۔ ابھی وہ اتنا ہی بوال تھا کہ میں
دوبارہ چالئی "تو تم نے دوسری لڑکی کو پکڑ لیا؟" وہ بوال "نہیں یار ،یہ میرے کمرے
میں آئی تو میں تو بس کسنگ کر رہا تھا جیسے اس دن پارٹی میں بھی کی تھی مگر
پھر ۔۔۔۔۔۔۔" یہ کہ کر اس نے سر جھکا لیا۔ وہ شرمندہ تھا اور مجھ سے نظریں نہیں مال
پا رہا تھا۔ میں زور سے چالئی کہ اب اسے سے کام چالو اور آئندہ میرے بارے میں
سوچنا بھی مت۔
یہ کہ کر میں کمرے سے نکلی اور واپس جانے لگی تو رضوان میرے پیچھے بھاگا اور
سوری فائزہ ،سوری یار کہتا ہوا مجھ تک پہنچ گیا اور مجھے منانے لگا۔ مگر میں نے
اسکو سختی سے منع کر دیا کہ خبردار جو مجھے چھوا بھی ۔ رضوان میرا راستہ روک
کر کھڑا تھا اور مسلسل مجھ سے معافی مانگ رہا تھا مگر میں تھی کہ اسکی ایک بات
سننے کو تیار نہیں تھی۔ میرے ساتھ ہی ندیم اسی لڑکی کی چدائی میں مصروف تھا جو
کچھ دیر پہلے اسکا لن چوس رہی تھی۔ ہمیں دیکھ کر اس نے لن اس لڑکی کی چوت
سے نکاال اور ہماری طرف آکر بوالکہ کیا ہوا کس بات پر لڑائی ہو رہی ہے۔ تو رضوان
نے اسکی طرف دیکھا اور کہا کہ یار وہ اندر رافعہ تھی نا میں اسکے ممے چوس رہا
تھا تو یہ دیکھ کر فائزہ کو غصہ آگیا۔ میں ایک بار پھر چالئی کے میرے راستے سے
ہٹ جاو اور جا کر اپنی رافعہ کے ساتھ ہی مستی کرو۔ یہ سن کر ندیم نے رضوان کو کہا
تم اندر جاو میں فائزہ سے بات کرتا ہوں۔ میں نے کہا مجھے کسی سے کوئی بات نہیں
کرنی۔ میں غصے سے کانپ رہی تھی اور اس وقت مجھے ندیم کے کھڑے ہوئے لن میں
بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ندیم نے ایک بار پھر رضوان سے کہا یار تو اندر کمرے
میں جا فائزہ ابھی تیرے پاس آجائے گی۔ رضوان نے اسکی طرف دیکھا اور کہا کہ یار
میں تو فائزہ سے سوری کر رہا ہوں مگر یہ مان ہی نہیں رہی۔ میں پھر سے چالئی کے
رضوان میرے راستے سے ہٹ جاو مجھے واپس جانا ہے۔
یہ سن کر ند یم غصے سے بوال "ابے میں تجھے کہ رہا ہوں نہ تو اندر جا میں فائزہ
سے بات کرتا ہوں ابھی یہ تیرے پاس آجائے گی تو جا اندر یہ کہتے ہوئے ندیم نے
رضوان کو دھکہ دیا اور رضوان مرے ہوئے قدموں کے ساتھ کمرے میں جانے لگا،
میں باہر نکلنے لگی مگر اب کی بار ندیم اپنے لن کے ساتھ میرے سامنے کھڑا تھا۔
اسکا لن ابھی تک کھڑا تھا۔ میں اب چپ چاپ کھڑی تھی مگر پھر مجھے غصہ آیا اور
میں نے اب کی بار ندیم کو کہا کہ میرے راستے سے ہٹ جاو مجھے واپس جانا ہے۔
رضوان کمرے میں جا چکا تھا۔ ندیم بوال کیوں واپس جانا ہے تمہیں؟ تم تو یہاں رضوان
سے چدوانے آئی تھی اب ایسا کیا ہوگیا کہ واپس جانا ہے؟ اسکے منہ سے یہ بات سن
کر میں ایک دم چونکی کہ اسکو کیسے پتا کہ میں نے رضوان کو فون پر یہ کہا تھا؟
مگر میں نے اسکی بات کا جواب دینے کی بجائے کہا کہ یہ میرا مسئلہ ہے تم بیچ میں
نہ آو۔
میری یہ بات سن کر ندیم غصے میں مگر آہستہ آواز میں بوال ،ابے او رنڈی بند کر یہ
ڈرامہ بازی اور چپ چاپ کمرے میں چلی جا اور اپنی چوت مروا۔ خود بھی مزے کر اور
ہمیں بھی مزے کرنے دے۔ ورنہ میں رضوان کو بتا دوں گا کہ تو رضوان سے چدوانے
سے پہلے بھی اپنی چوت کسی اور سے مروا چکی ہے۔ اسکی یہ بات سن کر مجھ پر
جیسے سکتہ طاری ہوگیا۔ اور غصے میں مجھ سے کچھ بوال نہیں جا رہا تھا۔ میرے
چہرے کا رنگ بھی غصے سے سرخ ہو چکا تھا۔ مگر پھر میں ہمت کر کے بولی یہ کیا
بکواس کر رہے ہو تم؟ ندیم بوال کہ رضوان سیدھا سادھا لڑکا ہے وہ تیرے بارے میں
نہیں جانتا مگر سب رضوان جیسے نہیں ہوتے۔ مجھے تو اس دن پارٹی میں ہی پتا چل
گیا تھا کہ تو کنواری نہیں ہے جب کہ رضوان ہم سب کے سامنے قسمیں کھاتا تھا کہ
اسکی منگیتر بہت شریف ہے۔ اسی کی خاطر کسی نے تیری طرف بری نظر سے نہیں
دیکھا ورنہ ہم تو تجھ جیسا مال چھوڑتے ہی نہیں۔
میں اپنے دانت پیستے ہوئے بولی یہ کیا بکواس کیے جا رہے ہو تم۔ میں نے ایسا کچھ
نہیں کیا۔ میری بات سن کر وہ ہنسا اور بوال یہ معصومیت کا ناٹک رضوان کے سامنے
ہی کرنا میں تو لڑکی کی شکل دیکھ کر بتا دیتا ہوں کہ یہ لن لے چکی ہے یا نہیں۔ اور
پھر وہ بوال اس دن میری گود میں بیٹھ کر جس طرح تو نے اپنی گانڈ میرے لن پر
گھمائی تھی میں تو اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ تو پہلے لن کا مزہ لے چکی ہے۔ اور
پھر تو نے ڈانس کرتے ہوئے جس طرح بار بار اپنی گانڈ میرے لن پر دبائی تھی اس
سے بھی اندازہ ہو رہا تھا مجھے کہ تیری چوت کو اس وقت لن کی طلب ہو رہی ہے۔
اور پھر جس طرح تو نے اپنا ہاتھ میرے لن پر پھیرا تھا اس سے تو مجھے یقین ہی
ہوگیا کہ تو کنواری نہیں۔ یہ تو ہمارا دوست ہی معصوم ہے جس نے کبھی کسی لڑکی کو
نہیں چھوا اور ہماری پارٹیز میں شامل ہوتا بھی تھا تو کبھی ڈانس اور کسنگ سے بات
آگے نہیں بڑھائی تھی۔ میں نے پھر دانت پیسے ہوئے کہا تم بکواس کر رہے ہے۔ میں
نے کچھ غلط نہیں کیا میں نے کسی سے چوت نہیں مروائی۔ مگر یہ بات کرتے ہوئے
میری اپنی آواز کانپ رہی تھی اور میری بات میں بالکل بھی اعتماد نہیں تھا۔ کیونکہ
ندیم صحیح کہ رہا تھا۔ میں پہلے ہی اپنی چوت اپنے بہنوئی سے مروا چکی تھی۔ میری
بات سن کر ندیم ایک بار پھر ہنسا اور بوال بند کردو اب یہ ڈرامہ۔ چپ چاپ اندر جاو اور
رضوان کے لن کو سکون دو۔ اپنی چوت کو بھی سکون دو۔ میں اسکو کبھی نہیں بتاوں
گا کہ تم پہلے کسی اور سے چدوا چکی ہو۔ لیکن اگر تم نے یہ ڈرامہ بند نہیں کیا تو میں
ابھی جا کر بتا دوں گا اسے اور میرے لیے یہ بات ثابت کرنا بھی مشکل نہیں ۔
مجھے نہیں معلوم تھا کہ ندیم کو واقعی یقین تھا کہ میں پہلے چوت مروا چکی ہوں یا
پھر وہ ہوا میں تیر چھوڑ رہا تھا۔ اگر اس نے ہوا میں تیر بھی چھوڑا تھا تب بھی وہ
بالکل ٹھیک نشانے پر لگا تھا اور اب میرے دل میں خوف تھا کہ اگر اس نے رضوان
کو یہ بات کر دی تو رضوان یقین نہ بھی کرے مگر اسکے دل میں شک تو پیدا ہوجائے
گا۔ اور اب میں اپنی جگہ پر ساکت کھڑی تھی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں
کیا کروں۔ اتنے میں مجھے ندیم کا قہقہ سنائی دیا اور وہ بوال اب کیا ارادہ ہے؟ اگر میرا
لن چاہیے تو یہیں کھڑی رہو اور اگر رضوان کا لن چاہیے تو اندر چلی جاو۔ اسکا اتنا
کہنا تھا میں فورا واپس مڑی اور کمرے میں چلی گئی۔
اندر گئی تو بیڈر پر رضوان اپنا سر پکڑ کر بیٹھا تھا اور دوسری لڑکی اسکے ساتھ
بیٹھی اسے کہ رہی تھی کم سے کم میرے ساتھ تو سیکس کرو پورا فائزہ کو بعد میں
مناتے رہنا ،مگر رضوان نے کہا پلیز اس وقت مجھے اکیال چھوڑ دو۔ پھر میں بولی
رافعہ تم پلیز باہر چلی جاو۔ میری آواز سن کر رضوان نے چونک کر میری طرف دیکھا
تو اسکے چہرے پر حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی کے آثار تھے ،وہ ایک دم اپنی جگہ
سے اٹھا اور مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور دوبارہ سوری کرنے لگا۔ میں نے کہا
کوئی بات نہیں بھول جاو اس بات کو اب۔ اتنے میں رافع نے اپنا برا اور اپنے کپڑے
اٹھائے اور مجھے گھورتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔
اسکے جاتے ہی میں نے رضوان کو پیچھے کیا ،کمرے کا دروازہ بند کیا اور واپس آکر
رضوان کے سامنے آکر بیٹھ گئی اور اسکی پینٹ اتارنے لگی۔ پینٹ اتار کر میں نے
رضوان کا انڈر وئیر بھی اتار دیا اور اسکا 7انچ لمبا لن فورا ہی اپنے منہ میں لے لیا
اور اسکے منہ میں اندر باہر کرنے لگی۔ رضوان نے اوپر سے میرا سر پکڑ لیا اور
میرے منہ کو زور زور سے لن کے اوپر دھکیلنے لگا تاکہ پورا لن میرے منہ میں جا
سکے۔ اب میری چوت بھی گیلی ہونے لگی تھی اور میں بہت مزے کے ساتھ رضوان کا
لن چوسنے میں مصروف تھی ،میرے ذہن میں اس وقت حیدر کا لن آرہا تھا جس نے 3
بار منی چھوڑی تھی مگر میری چودائی کرنے میں ناکام رہا تھا۔ اور ایک طرف اب یہ
رضوان کا لن تھا جس نے میری چدائی تب تک کرنی تھی جب تک کہ میں تھک نا جاوں۔
میں نے رضوان کے لن پر تھوک بھی پھینکا اور اسکو اپنے ہاتھوں سے پورے لن پر
مسل دیا اور دوبارہ سے لن منہ میں لیکر چوستی رہی۔ کچھ دیر بعد رضوان نے مجھے
کھڑا کیا اور فورا ہی میرا اپر اتار دیا۔ میرا اپر اتارتے ہی رضوان نے بغیر دیر لگائے
میرا برا بھی اتارا اور پھر میرا ٹراوزر اور پینٹی اتارنے میں بھی دیر نہیں لگائی۔
میری پینٹی اتار کر رضوان نے فورا ہی کھڑے ہوکر میرے ممے اپنے منہ میں لے لیے
اور بڑی ہی شدت کے ساتھ میرے مموں کو چوسنے لگا۔ میرے تنے ہوئے نپلز پر وہ
اپنی زبان پھیرتا اور انکو دانتوں سے کاٹتا تو میری سسکیاں نکلنے لگ جاتی۔ نیچے
سے ایک ہاتھ سے رضوان میری چوت کو مسل رہا تھا جو مکمل طور پر گیلی ہو چکی
تھی۔ کچھ دیر ممے چاٹنے کے بعد رضوان نے مجھے تھوڑا سا پیچھے دھکیال اور
مجھے دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ اور نیچے بیٹھ کر میری ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے کندھے
پر رکھی اور اپنی زبان میری چوت پر پھیرنی شروع کر دی۔ رضوان کی اس حرکت نے
میرے پورے جسم میں آگ لگا دی اور میرا پورا جسم جلنے لگا۔ وہ میری ٹانگ اپنے
کندھے پر رکھے مسلسل اپنی زبان کو میری چوت میں پھیر رہا تھا۔ میرے منہ سے بے
ہنگم آوازیں نکل رہی تھیں آہ آہ آہ۔۔۔۔ اف اف اف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ میری جان۔۔۔۔ اور زور سے
چاٹو میری چوت کو ،میری چوت کو زبان سے چودو ،اف اف اف۔۔۔ مسلسل سسکیوں
سے رضوان کا جوش بھی بڑھتا جا رہا تھا ،کچھ دیر چوت چٹوانے کے بعد مجھے
دوبارہ سے حیدر یاد آیا جس نے پہلی بار میری گانڈ چاٹی تھی۔ جیسے ہی مجھے گانڈ
کی چٹائی یاد آئی میں نے اپنی ٹانگ رضوان کے کندھے سے نیچے اتاری اور دیوار کی
طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی۔ میں نے اپنی گانڈ کو باہر کی طرف نکاال جس سے میری
کمر اندر کی طرف دہری ہوگئی اور میں نے رضوان کو کہا میری گانڈ بھی چاٹے۔ میری
اس فرمائش پر رضوان نے حیرت سے میری طرف دیکھا مگر پھر بغیر کچھ کہے اپنے
ہاتھوں سے میرے چوتڑوں کو کھوال اور اپنی زبان میری گانڈ پر رکھ کر اسکو بھی
چاٹنا شروع کر دیا۔ اُف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا مزہ آیا تھا مجھے جب رضوان نے میری گانڈ
چاٹنی شروع کی۔ میری مسلسل سسکیاں نکل رہی تھی۔
کچھ دیر گانڈ چاٹنے کے بعد رضوان کھڑا ہوا ،میں نے سیدھے ہونے کی کوشش کی تو
رضوان نے مجھے روک دیا اور کہا ایسے ہی کھڑی رہو ،یہ کہ کر اس نے اپنا ایک
ہاتھ میری چوت پر رکھا اور اپنی انگلی میری چوت میں داخل کر دی۔ میں کانپ کر رہ
گئی۔ اسکی انگلی پوری کی پوری میری چوت میں داخل ہوگئی تھی اور وہ انگلی سے
میری چوت کی چودائی کرنے لگا ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنا لن پکڑا اور
اس پر اپنا تھوک پھینک کر اسکی مٹھ مار کر اسکو تیار کرنے لگا کچھ ہی دیر بعد
رضوان نے میری چوت سے اپنی انگلی نکالی اور پیچھے سے اپنا لن میری چوت پر
رکھا کر ہلکا سا زور لگایا تو چوت کے گیلے پن کی وجہ سے رضوان کی ٹوپی میری
چوت میں چلی گئی اور میری ہلکی سی چیخ نکلی ،پھر رضوان نے ایک زور کا دھکا
لگایا تو پورا لن میری چوت میں تھا اور پورا کمرہ میری چیخ سے گونج گیا۔ میری چیخ
الزمی طور پر بھی باہر سنائی دی ہوگی مگر مجھے اس وقت اسکی فکر نہیں تھی،
رضوان کا لن مسلسل میری پھدی میں دھکے لگا رہا تھا اور میں دیوار کے ساتھ ہاتھ
لگائے انکو مسلسل برداشت کر رہی تھی۔ رضوان کے لن کی ضربیں بہت شدید تھیں،
جب پورا لن میری چوت میں جاتا تو اسکے ٹٹے بھی میری چوت کے قریب ٹکراتے جن
سے بڑا مزہ آرہا تھا اسکے ساتھ ساتھ رضوان کا جسم جب میرے گول ،نرم اور گوشت
سے بھرے ہوئے چوتڑوں سے ٹکراتا تو کمرے میں دھپ دھپ کی آواز گونجتی۔ غرض
اس وقت کمرے میں سیکس کا ماحول گرم تھا اور میری سکسکیاں اور دھپ دھپ کی
آوازیں ماحول کو اور سیکسی بنا رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر کی چودائی کے بعد میری چوت
نے رضوان کے لن کی زور دار ضربوں کے آگے ہار مان لی اور پانی چھوڑ دیا۔ پانی
چھوڑتے ہوئے میری ٹانگیں کانپ رہی تھی اور جسم اکڑ گیا تھا۔ جیسے ہی مکمل پانی
چھوڑ دیا چوت نے تو میں سیدھے ہوگئی اور لن میری چوت سے نکل گیا۔
اب رضوان نے میرا منہ اپنی طرف کیا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر چوسنے
لگا اور ساتھ ہی مجھے اپنی گود میں اٹھا لیا۔ گود میں اٹھا کر اسنے دوبارہ سے میری
کمر دیوار کے ساتھ لگائی اور نیچے سے اپنا لن میری چوت میں داخل کر دیا۔ میں نے
اپنی ٹانگیں رضوان کی کمر کے گرد لپیٹ لیں اور اسے زور لگا کر اپنے قریب کر لیا
تاکہ لن اپنی جڑ تک میری چوت میں جا سکے۔ اب میں رضوان کی گود میں تھی اور
رضوان کا لن میری چوت میں تھا۔ رضوان نے ایک بار پھر سے میری چوت میں زور
دار ضربیں لگانی شروع کر دیں۔ اس بار میری سسکیاں دب رہیں تھیں کیونکہ رضوان
نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈالی ہوئی تھی اور میں مسلسل اسکی زبان چوس رہی
تھی۔ اب کی بار لن کی ضربیں پہلے سے زیادہ شدید تھیں کیونکہ اب لن سامنے سے
اندر ڈاال ہوا تھا۔ میں اب زیادہ سے زیادہ مزہ لینے کے لیے اپنی چوت کو تنگ کر رہی
تھی۔ میں نے اپنی چوت کو ٹائٹ کر لیا۔ جب رضوان نے لن باہر نکالنا ہوتا تو میں چوت
کو ڈھیال چھوڑ دیتی ،مگر جیسے ہی لن ٹوپی تک باہر نکلتا اور رضوان دوبارہ سے
اندر دھکا لگانے لگتا تو میں اپنی چوت کو دوبارہ ٹائٹ کر لیتی۔ اس سے لن میری چوت
کی دیواروں کے ساتھ رگڑ کھاتا ہوا اندر تک جاتا اور میری شہوت کو اور زیادہ بڑھانے
لگا۔
اب میری لن کی ہوس اتنی بڑھ چکی تھی کہ رضوان کا لن کافی نہیں تھا۔ اب میرے ذہن
میں ندیم کا 8انچ لمبا لن گھوم رہا تھا جسکو میں کچھ ہی دیر پہلے باہر دیکھ کر آئی
تھی۔ میری چوت ابھی بھی رضوان کے لن کی ضربیں سہ رہی تھی اور میں نے اپنا سر
اسکے کندھے پر رکھا ہوا تھا اور میری سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ مگر
میرے دماغ میں ندیم کا لن گھوم رہا تھا اور سوچ رہی تھی آخر اسکا لن کیسے لوں؟
اچانک ہی میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آگیا۔ میری چودائی جاری تھی میں نے ایسے ہی
سر اٹھایا اور رضوان کی آنکھوں میں پیار سے دیکھنے لگی ،اس نے بھی خوش ہوکر
مجھے دیکھا تو میں نے اس سے پوچھا میرے آنے سے پہلے تم نے صرف رافعہ کے
ممے ہی چوسے تھے یا کچھ اور بھی کیا تھا؟ تو رضوان کے چہرے پر شرمندگی آئی
اور اس نے اپنے لن کی ضربیں روک دیں اور بوال یار اب بھول جاو اس بات کو۔ میں
نے رضوان کو کہا تم چودائی جاری رکھو اسکو نہ روکو تو اس نے دوبارہ سے ضربیں
لگانا شروع کر دیں ،پھر میں نے پوچھا کہ بتاو نا صرف ممے چوسے تھے یا کچھ اور
بھی کیا تھا؟ تو اسنے کہا کہ میں نے رافعہ کی چوت بھی چاٹی تھی اور جب ممے چاٹ
رہا تھا تو تم آگئی۔ تو میں نے پوچھا کیسی تھی اسکی چوت؟ تو رضوان نے بتایا کہ
تمہاری چوت اس سے اچھی ہے۔ میں نے کہا مکھن نہیں لگاو صحیح صحیح بتاو۔ اس
پر رضوان نے پھر کہا کہ ہاں تمہاری چوت کافی ٹائٹ ہے کیونکہ تم تو صرف دوسری
بار ہی چدائی کروا رہی ہو اور میں نے خود تمہاری ٹائٹ چوت کا پردہ پھاڑہ تھا پچھلے
ہفتے۔ مگر رافعہ کی چوت بہت کھلی ہے۔ وہ بہت عرصے سے لن کی سواری کر رہی
ہے۔ ندیم اور علی کے عالوہ بھی وہ بہت لڑکوں کے لن لے چکی ہے اپنی چوت میں۔
میں نے شرارتی انداز میں پھر پوچھا کہ تمہیں کیسے پتا کہ اسکی چوت کھلی ہے ؟ کیا
تم نے لن ڈال کے دیکھا ہے تو بوال نہیں یار انگلی ڈالی تھی۔ اور زبان سے چاٹتے
ہوئے بھی صاف پتہ لگ رہا تھا اسکی چوت کے لب کھلے ہوئے تھے مگر تمہارے
ٹائٹ ہیں اور آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔
میں نے محسوس کیا کہ اب رضوان کا لن اور زیادہ سخت ہوگیا تھا اور اسکی ضربوں
کی شدت میں بھی اضافہ ہوگیا تھا جو مجھے اپنی چوت کی گہرائی تک محسوس ہو رہی
تھی۔ پھر میں نے پوچھا ،اچھا یہ بتاو اسکے ممے کیسے ہیں۔ اس پر وہ بوال کہ اسکے
ممے تمہارے مموں سے بڑے ہیں۔ اسکا سائز 36ہے اور انکو دبانے میں زیادہ مزہ
آرہا تھا۔ میں نے پوچھا اب دبانا چاہتے ہو اسکے ممے؟؟؟ تو رضوان نے بے یقینی
سے میری طرف دیکھا لیکن پھر بوال ،نہیں میں بس اپنی فائزہ کے ممے ہی دباوں گا
اور اسی کی چوت کو چودوں گا۔ میں نے پھر ہنستے ہوئے پوچھا نہیں مجھے بتاو اگر
تم اسکے ممے دوبارہ دبانا چاہتے ہو اور انکو چوسنا چاہتے ہو تو مجھے کوئی
اعتراض نہیں ہوگا۔ میرا یہ کہنا تھا کہ رضوان کے لن کی ضربوں میں اور بھی شدت
آگئی۔ میں ابھی تک رضوان کی گود میں تھی اور میری چوت ایک بار پھر سے پانی
چھوڑنے کے قریب تھی۔ رضوان نے میری طرف دیکھا اسکی آنکھوں سے لگ رہا تھا
کہ وہ رافعہ کے ممے چوسنا چاہتا تھا مگر بول نہیں رہا تھا۔ بس اسکے جسم کا بڑھتا
ہوا جوش مجھے بتا رہا تھا کہ اسکے دماغ میں ابھی رافعہ کے ممے ہی گھوم رہے ہیں
جسکی وجہ سے میری چودائی میں بھی شدت آتی جا رہی تھی۔ میں نے اپنے ہونٹ
رضوان کے ہونٹوں پر رکھ کر ایک بھرپور کس کی ،اور اپنی گانڈ زور زور سے ہال کر
رضوان کا ساتھ دینے لگی۔ جس سے میری سسکیاں اور بھی بڑھ گئیں۔ اور ہم دونوں
کو مزہ آنے لگا۔ میں نے ایک بار پھر رضوان کو کہا بتاو نا جان ،کیا تم رافعہ کے ممے
چوسنے چاہتے ہو؟ کیا تم اسکے مموں کو اپنے ہاتھوں سے دبانا چاہتے ہو؟ کیا تم
اسکے نپلز کو اپنی انگلیوں سے رگڑنا چاہتے ہو؟؟؟ میرے لہجے میں ہوس ہی ہوس
بھری ہوئی تھی اور رضوان کی برداشت بھی اب جواب دے چکی تھی اس نے بھی
کانپتی ہوئی آواز میں کہ دیا کہ ہاں رافعہ کے ممے چوسنے کا بہت مزہ آیا تھا مجھے
اسکے ممے چاہیے ،کہ کہتے ہی اس نے کچھ زور دار ضربیں لگائیں میری پھدی میں
اور اسکے لن نے میری پھدی کے اندر ہی منی چھوڑ دی۔ ان آخری دھکوں نے میری
چوت کی برداشت کو بھی ختم کر دیا اور میں نے ب ِھی پانی چھوڑ دیا۔
اب رضوان نے مجھے اپنی گود سے اتارا تو میں کچھ تھک چکی تھی ،میں نے رضوان
کو بیڈ کی طرف دھکیال اور اسکو بیڈ پر لٹا کر خود اسکے اوپر چڑھ گئی اور اسکے
ہونٹ چوسنے لگی۔ رضوان کا لن اب سکڑ کر چھوٹا ہو چکا تھا۔ میں نے کچھ دیر
رضوان کو کسنگ کی اور دوبارہ سے اسکو پوچھا کہ رافعہ کو بالوں اندر ؟؟ تم اسکے
ممے چوس لینا جی بھر کے؟؟ اسنے للچائی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھا مگر
منہ سے کچھ نہیں بوال۔ میں اسکا اشارہ سمجھ گئی اور ایسے ہی میں باہر چلی گئی۔
میں بالکل ننگی تھی اور میری ٹانگوں پر ابھی رضوان کی منی اور اپنی چوت کا پانی
چمک رہا تھا۔ میں باہر نکلی تو رافعہ ایک ٹیبل پر الٹی لیٹی ہوئی تھی اور ندیم نے
اسکی گانڈ میں اپنا لن ڈاال ہوا تھا۔ اور دوسری لڑکی جو پہلے ندیم سے چدائی کروا رہی
تھی وہ اپنی چوت رافعہ کے منہ کے ساتھ لگا کر بیٹھی تھی اور رافعہ اپنی زبان سے
اسے چاٹ رہی تھی۔ میں باہر نکلی تو رافعہ اور ندیم نے میری طرف دیکھا۔ رافعہ کی
نظروں میں حیرت تھی کیونکہ کچھ دیر پہلے جس طرح میں نے اسکو کمرے سے نکاال
تھا اور اب میں ننگی کمرے سے باہر نکل آئی تھی یہ اسکے لیے حیران کن تھا۔ مگر
ندیم کی آنکھوں میں شیطانیت تھی اور وہ میرا اشارہ سمجھ گیا تھا۔ ایک ایسا اشارہ جو
میں نے کیا بھی نہیں تھا مجض میرے دماغ میں ہی تھا ،مگر ندیم اسکو بھی سمجھ گیا۔
میں نے اسکی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور رافعہ کو کہا کہ پلیز تم اندر آسکتی ہو
کمرے میں؟ تو ندیم نے اسکی گانڈ سے اپنا لن نکال دیا اور دوسری لڑکی کی طرف اپنا
لن کیا جو فورا ہی اس کے اوپر جھک کر اسکو چاٹنے لگی۔ رافعہ اپنی جگہ سے کھڑی
ہوگئی اور اسنے کہا کیوں کیا ہوا؟ تو میں نے اسے کہا ک رضوان تمارے ممے چاٹنا
چاہتا ہے آجاو پلیز۔ یہ کہتے ہوئے میری نظریں ندیم کے لن پر ہی تھیں اور میرے
چہرے پر بھی ایک مسکراہٹ تھی جو ندیم کے لیے واضح اشارہ تھا۔ رافعہ نے میری
بات سن کر میری طرف طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھا اور کہا تو پہلے تمہیں کیا تکلیف
ہوئی تھی۔ یہ کہ کر وہ میری طرف بڑھی اور ہم دونوں اکٹھی ہی واپس کمرے میں
آگئیں۔ 2ننگی لڑکیوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر رضوان کا چہرہ خوشی سے چمک
اٹھا۔ رافعہ نے بھی جیسے ہی ندیم کو ننگا دیکھا تو فوار ہی اسکے اوپر چھالنگ لگا
دی اور اپنے ممے رضوان کے حوالے کر دیے۔
رافعہ رضوان کے اوپر لیٹی ہوئی تھی ،وہ ڈوگی سٹائل میں تھی ،اپنی کہنیوں کے بل وہ
رضوان کے اوپر اس طرح چھکی کہ اسکے ممے رضوان کے منہ کے اوپر لٹکنے
لگے جنکو فورا ہی رضوان نے ہاتھوں سے پکڑ کر زور سے دبایا اور ایک مما اپنے
منہ میں ڈال کر اسکو کسی بچے کی طرح چوسنے لگا۔ پیچھے سے رافعہ اپنے گھٹنوں
کے بل بیٹھی تھی جس سے اسکی گانڈ کافی انچی اور اوپر اٹھی ہوئی تھی۔ میں نے
اسکی گانڈ پر نظر ڈالی تو وہ کسی حد تک کھلی ہوئی تھی ،میں رافعہ کے پیچھے گئی
اور اپنی زبان رافعہ کی گانڈ پر رکھ کر چاٹنے لگی۔
رافعہ کی گانڈ پر زبان رکھی تو مجھے اسکا ٹیسٹ کچھ نمکین سا لگا۔ وہ کچھ دیر پہلے
ہی ندیم سے گانڈ مروا رہی تھی تو اسکے لن کا ذائقہ بھی اسکی گانڈ سے آرہا تھا۔
رضوان رافعہ کے ممے چوسنے میں مصروف تھا اور میں پیچھے سے رافعہ کی گانڈ
چاٹنے میں مصروف تھی۔ رافعہ شاید بہت عرصے سے چدوا رہی تھی اس لیے وہ
چدائی کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرنا جانتی تھی۔ جیسے ہی میں نے اسکی گانڈ
پر اپنی زبان پھیرنا شروع کی تو اس نے منہ سے سسکیاں نکالنا شروع کر دیں۔ اسکی
سسکیاں بہت سیکسی تھیں اور اسکی آواز میں موجود چاشنی کسی بھی سوئے ہوئے
لن کو جگانے کے لیے کافی تھی۔ اسی وجہ سے رضوان کا لن جو میری چدائی کے بعد
اب سو چکا تھا رافعہ کی سیکس سے بھرپور آوازیں سن کر اس نے ایک بار پھر اپنا
سر اٹھانا شروع کر دیا۔ میں پیچھے سے گانڈ چاٹتے ہوئے تھوڑا نیچے ہوئی رافعہ کی
چوت پر اپنی زبان رکھی تو وہ بہت گیلی ہو رہی تھی۔ اس پوزیشن میں چوت چاٹنا کافی
مشکل تھا کیونکہ مجھے کافی جھکنا پڑ رہا تھا۔ اس مشکل سے بچنے کے لیے میں
لیٹ گئی ،میرا سر رضوان کے لن کے تھوڑا ہی اوپر تھا اور میرا منہ اوپر رافعہ کی
چوت کی طرف تھا۔ لیٹنے کے بعد میں نے رافعہ کو چوتڑوں سے پکڑ کر اسکو چوت
کو نیچے کیا تو اس نے فورا ہی اپنی چوت میرے منہ کے اوپر رکھ دی۔ اسکی چوت
کافی کھلی تھی اور میری زبان بہت ہی آرام سے اسکی چوت کی سیر کر رہی تھی۔
مجھے اپنی گردن پر رضوان کے لن کا دباو بھی محسوس ہو رہا تھا جو اب کسی ناگ
کی طرح کھڑا ہوجانا چاہتا تھا۔
رافعہ کی چوت کے گیلے پن میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا جسکا مطلب تھا کہ وہ چدائی
کے لیے مکمل تیار تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ لڑکی چاہے جتنی بھی ماہر ہو چدائی کی
اور جتنے بھی لن لے چکی ہے ،نئے لن کے لیے اسکی چوت ہمیشہ ہی مچلتی ہے۔ اور
یہی کچھ رافعہ کے ساتھ بھی ہورہا تھا۔ رضوان کا لن اسکی چوت کے لیے بالکل نیا تھا
اور اسکو لینے کے لیے وہ مکمل تیار تھی۔ سو میں نے اسکی چوت کو چاٹنا چھوڑ کر
اپنی جگہ سے اٹھی اور رضوان کا لن اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی ،تھوڑا سا لن
چوسنے کے بعد جب لن گیال ہوگیا تو میں نے رضوان کے لن کو پکڑ کر رافعہ کی چوت
پر رکھ دیا ،رافعہ اپنی چوت پر لن کو محسوس کر کے فورا ہی پیچھے ہوئی اور لن کی
ٹوپی بڑے آرام سے اسکی چوت میں داخل ہوگئی ،ساتھ ہی رضوان نے ہلکا سا دھکا
مارا اور رضوان کا پورا لن جڑ تک رافعہ کی چوت پر تھا۔ اور رافعہ بہت ہی حیرت
انگیز طور پر فورا ہی رضوان کے لن پر اچھلنے لگی۔ رضوان ساکت لیٹا تھا اور رافعہ
اپنی گانڈ ہال ہال کر اپنی چوت کو چدوا رہی تھی۔ تھوڑی دیر یہ چدائی دیکھنے کے بعد
میں اٹھی اور رافعہ کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی۔ رضوا نیچے لیٹا تھا میں اسکے
اوپر بیڈ پر کھڑی تھی اور رافعہ اپنی چوت رضوان کے لن سے چدوا رہی تھی۔ میں نے
اپنی چوت رافعہ کے سامنے کی تو اسنے فورا ہی اپنی زبان میری چوت پر رکھ دی۔
میری چوت مکمل خشک ہو چکی تھی ،رافعہ کی زبان کو محسوس کرتے ہی مجھے
چوت کے اندر گیال پن محسوس ہوا۔ یہ پہال موقع تھا جب کسی لڑکی نے میری چوت پر
اپنا منہ رکھا ہو۔ اس سے پہلے میری چوت کو صرف عمران ،حیدر اور رضوان نے ہی
چاٹا تھا۔ مگر آج رافعہ میری چوت کو چاٹ رہی تھی۔ میں نے اسکا سر پکڑ کر اپنی
چوت کی طرف دھکیال ہوا تھا اور رافعہ بہت مہارت کے ساتھ میری چوت چاٹ رہی تھی
اب رافعہ نے اپنی گانڈ ہالنا بند کر دی تھی کیونکہ وہ میری چوت چاٹنے میں مصروف
تھی مگر رضوان کے لن کی ضربیں رافعہ کی چوت میں مسلسل لگ رہی تھی اور
رضوان بھی ہلکی ہلکی آوازیں نکال رہا تھا۔ اسکے لن کو بھی ایک نئی چوت مل گئی
تھی جس پر وہ خوش تھا۔ رافعہ نے میری چوت بہت مہارت سے چاٹی ،اسکے بعد اس
نے اپنا منہ میری چوت سے ہٹایا اور اپنی 2انلگیاں ایک دم سے ہی میری چوت میں
داخل کر دیں۔ رافعہ کا یہ حملہ میرے لیے بالکل غیر متوقع تھا جسکی وجہ سے میری
چیخ نکل گئی۔ رافعہ نے بھی بغیر انتظار کیے اپنی دونوں انگلیوں کو میری چوت میں
اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ پھر رافعہ نے اپنی دونوں انگلیاں باہر نکالیں اور انکو اپنے
منہ میں ڈال کر چوسنے لگی۔ وہ اصل میں میری چوت کا پانی چاٹ رہی تھی۔ انگلیاں
چاٹتے ہوئے اسکی آنکھیں بند تھی اور چہرے پر اطمینان تھا۔ وہ اپنی چودائی کو
انجوائے کر رہی تھی ۔ جبکہ میں ندیم کا انتظار کر رہی تھی کہ کب وہ کمرے میں آئے
اور میری چدائی شروع کرے۔ مگر اسکے آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔
رافعہ نے ایک بار پھر سے اپنی انگلیاں میری چوت میں داخل کر دیں اور اپنی انگلیوں
سے ہی میری چدائی کرنے لگی۔ وہ اپنی انگلیوں کو میری چوت کے اندر مسلسل گھما
رہی تھی اور میری چوت کی دیواروں کے ساتھ رگڑ رہی تھی جیسے کچھ تالش کرنا
چاہتی ہو۔ اچانک ہی اسکی انگلی میری چوت کے ایک اندر ایک مخصوص جگہ کو ٹچ
ہوئی تو میری سسکی نکل کر رہ گئی۔ رافعہ فورا میری طرف متوجہ ہوئی اور دوبارہ
اسی جگہ کو چھوا تو میری پھر سے سسکی نکلی۔ رافعہ سمجھ گئی کہ یہی میرا جی
سپاٹ ہے۔ اس نے اب مسلسل میرے جی سپاٹ کو مسلنا شروع کر دیا تھا اور میری
سسکیاں اب ایسے نکل رہی تھیں جیسے کوئی بڑا سا لن میری چدائی کر رہا ہو۔ میری
سسکیاں بہت شدید تھیں اور میری آوازیں الزمی طور پر کمرے سے باہر جا رہی تھیں۔
میری سسکیاں سن کر رضوان کے جوش میں بھی اضافہ ہوگیا اور اسنے رافعہ کی
چوت اور بھی زور سے مارنی شروع کر دی تھی۔ اوپر سے میری برداشت بھی جواب
دے رہی تھی کیونکہ رافعہ کی انگلیاں مسلسل میرے جی سپاٹ کو سہال رہی تھیں۔ رافعہ
یقینا بہت ماہر تھی سیکس میں تبھی اس نے فورا ہی میری چوت میں جی سپاٹ کو
ڈھونڈ لیا تھا اور اب مجھے ایسے ہی مزہ آرہا تھا جیسے مجھے کوئی لن چود رہا ہو۔
میں نے اپنے دونوں ممے اپنے ہاتھوں سے دبانے شروع کر دیے اور اپنے نپلز کو
مسلنا شروع کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں میری سسکیاں اب چیخوں میں تبدیل ہوگئیں اور
میری ٹانگیں سختی سے اکڑنے لگیں اور میں نے اپنی چوت کو بھی دبانا شروع کر دیا۔
میری یہ حالت دیکھ کر رافعہ سمجھ گئی کہ میں اب فارغ ہونے والی ہوں ،اسنے اپنی
انگلیوں کو مزید تیزی کے ساتھ حرکت دینا شروع کر دی اور جیسے ہی میری چوت نے
پانی چھوڑا اس نے اپنی انگلیاں نکال کر اپنا منہ میری چوت پر رکھ دیا اور زبان نکال
کر میری چوت کو مسلنے لگی۔ میری چوت کا پانی رافعہ کے منہ میں گیا اور رضوان
کے اوپر بھی گرا۔
جب میری چوت سے سارا پانی نکل گیا تو میں نے رافعہ کی طرف دیکھا اس نے پوچھا
سناو مزہ آیا؟؟؟ میں نے جواب دینے کی بجائے نیچے بیٹھ کر اپنے ہونٹ رافعہ کے
ہونٹوں پر رکھ دیے۔ اس نے بھی فور ہی اپنی زبان نکالی اور میرے منہ میں داخل کر
دی۔ اسکی زبان پر میری چوت کے پانی کا ذائقہ تھا جو مجھے بڑا ہی اچھا لگا اور میں
نے اسکی زبان کو چاٹنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر رافعہ سے کسنگ کرنے کے بعد میں
تھوڑا نیچے جھکی اور رافعہ کے ممے چاٹنے لگی۔ اسکے 36سائز کے ممے مجھے
بڑے ہی پیارے لگے۔ کبھی کسی لڑکی کے ممے میں نے نہیں چاٹے تھے یہ میرا پہال
تجربہ تھا اور مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ آگے سے میں رافعہ کے ممے چاٹنے لگی
اور اپنا ایک ہاتھ رافعہ کی گانڈ پر لیجا کر اسکے چوتڑ دبائے اور پھر اپنی بڑی انگلی
رافعہ کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ دی اور ہلکا سا دباو ڈاال تو میری انگلی بہت ہی آرام
سے رافعہ کی گانڈ میں چلی گئی۔ نیچے اسکی چوت میں رضوان کا لن تھا اور پیچھے
گانڈ میں میری انگلی گئی اور رافعہ کے ممے میرے منہ میں تھے۔ اتنا مزہ رافعہ کی
برداشت سے باہر ہونے لگا تو کمرہ اسکی سسکیوں سے گونجنے لگا اور کچھ ہی دیر
بعد اس نے جھٹکے مارنے شروع کیے۔ اسکی چوت اب پانی چھوڑ چکی تھی۔
رافعہ اب رضوان کے لن سے اتری اور فورا ہی اسکا لن اپنے منہ میں لیکر چاٹنے
لگی۔ رافعہ کی چوت کا پانی رضوان کے لن کو بھگو چکا تھا اور رافعہ اب رضوان کے
لن سے اپنی چوت کا پانی چاٹنے میں مصروف تھی۔ رضوان نے پیچھے سے میرے
چوتڑوں کو پکڑا اور کھینچ کر اپنے منہ کی طرف کر لیا اور میری گانڈ چاٹنے لگا۔ گانڈ
چٹوانے میں ایک بار پھر بہت مزہ آرہا تھا مجھے۔ کچھ دیر رافعہ نے رضوان کا لن چاٹا
اور پھر مجھے دعوت دی کہ میں رضوان کے لن کی سواری کروں۔ اصل میں تو مجھے
ندیم کا انتظار تھا کہ کب وہ کمرے میں آئے اور کب میں اسکا لن اپنی چوت میں لوں
مگر اب وہ تو آیا نہیں سو مجھے رضوان کے لن سے ہی اپنی پیاس بجھانی تھی۔ میں
فورا اٹھی اور اپنی چوت رضوان کے لن پر رکھ دی۔ رضوان نے ہلکا ہلکا دباو بڑھانا
سروع کیا تو میں نے کہا ایک ہی جھٹکے میں اپنا لن میری چوت میں داخل کر دو۔ یہ
سن کر رضوان نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور اسکا پورا لن میری چوت میں تھا۔
میری ایک دلخراش چیخ نکلی اور مجھے ایسا لگا جیسے کوئی لوہے کا راڈ میری چوت
کی دیواروں کو رگڑتا ہوا میری چوت کی گہرائیوں تک جا چکا ہو۔
رضوان نے مجھے اپنے اوپر لٹا لیا تھا اور میرے ہونٹوں کو چوس رہا تھا اور نیچے
سے اسکا لن میری چوت چودنے میں مصروف تھا۔ میں جھکی تو رافعہ نے اپنی زبان
میری گانڈ پر رکھ دی اور اسکو چوسنے لگی۔ رافعہ نے جیسے ہی اپنی زبان میری
چوت پر رکھ کر اسکو چوسا تو بولی کہ ارے فائزہ تمہاری گانڈ تو ابھی تک کنواری
ہے۔ کبھی گانڈ نہیں مروائی کیا؟ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتی نیچے سے رضوان
بول پڑا کہ اسکی چوت بھی کنواری ہی تھی جو میں نے ایک ہفتہ پہلے ہی پھاڑی ہے۔
یہ بات کہتے ہوئے رضوان کے لہجے میں فخر تھا کہ اس نے ایک کنواری چوت کو
پھاڑا تھا۔ اس پر رافعہ نے کہا ارے تم تو بہت خوش نصیب ہو۔ پھر تو تمہیں میری چوت
سے وہ مزہ نہیں مال ہوگا جو فائزہ کی چوت مزہ دے رہی ہوگی۔ رضوان نے کہا کہ تم
ایکسپرٹ ہو ،تم جانتی ہو کہ اپنی چوت سے مرد کو مزہ کیسے دینا ہے۔ تمہیں چودنے
میں بھی بہت مزہ آیا ،مگر فائزہ کی چوت واقعی میں بہت ٹائٹ ہے اس میں میرا لن
جکڑا ہوا ہے اور اسکی چوت کا علیحدہ ہی مزہ ہے جو کسی اور چوت میں نہیں مل
سکتا۔
اب میں رضوان کے اوپر ڈوگی سٹائل میں تھی مگر میری گانڈ تھوڑا نیچے تھی اور میں
ہاتھوں کے بل رضوان کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ میری چوت میں مسلسل رضوان کا لن
ضربیں مار رہا تھا جس سے میرے ممے رضوان کے اوپر جھول رہے تھے اور دائیں
بائیں ہل رہے تھے جنکو دیکھ کر رضوان بہت خوش ہو رہا تھا۔ اتنے میں مجھے
دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ میں نے گردن موڑ کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو ندیم کمرے
میں آ چکا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں شکر کیا کہ جس مقصد کے لیے رضوان کو
اجازت دی تھی غیر لڑکی کو چودنے کی باالآخر وہ مقصد پورا ہونے لگا تھا۔ اور وہ
مقصد یہی تھی کہ میں بھی ندیم کا لن اپنی چوت مین داخل کر سکوں۔ ندیم میرے قریب
آیا اور رضوان سے پوچھا ہاں بئی چیتے سنا کیسا لگ رہا ہے 2 ،2لڑکیوں کی چدائی
کر کے۔ رضوان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی وہ بوال بس یار آج تو ایسا لگ رہا
ہے جیسے میری عید ہوگئی ہو۔ ندیم نے ایک شارٹ پہن رکھا تھا جس میں اسکا لن
کھڑا نظر آرہا تھا۔ شارٹ تھوڑا ٹائٹ تھا اسلیے اس میں سے ندیم کے لن کا ابھار بہت
واضح نظر آرہا تھا۔
اب ندیم نے اپنا ہاتھ میری کمر پر پھیرنا شروع کر دیا اور بوال تم سناو فائزہ کیسا لگ ر
رہا ہے رافعہ کے ساتھ ملک کر رضوان سے چدائی کروانا۔ میں بھی بولی کہ اچھا لگ
رہا ہے۔ وہ مسلسل اپنا ہاتھ میری کمر پر پھیر رہا تھا اور مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ مگر
حیرت کی بات یہ تھی کہ رضوان نے بھی برا نہ منایا۔ جس سے مجھے حوصلہ ہوا۔ کمر
پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے ندیم اپنی انگلی میری گانڈ پر لے گیا اور انگلی میری گانڈ میں
داخل کرنے کی کوشش کی تو میں نے گانڈ زور سے دبا لی۔ اور اسکی انگلی میری گانڈ
میں نہ جا سکی۔ تو وہ بھی حیران ہوا اور کہا واہ تمہاری گانڈ تو بالکل ان ٹچ ہے۔ کسی
نے تمہاری گانڈ نہیں ماری کیا؟ اس پر رضوان پھر بوال یار تجھے بتایا تو تھا کہ ابھی
زیر لب مسکرایاپچھلے ہفتے ہی میں نے فائزہ کا کنوارہ پن ختم کیا ہے۔ اس پر رضوان ِ
جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ یہ چوت کنواری نہیں تھی ،مگر بوال کچھ نہیں وہ۔
پھر وہ بوال کہ آج تو فائزہ کی گانڈ کی بھی چدائی ہونی چاہیے۔ جس پر میں فورا بول
اٹھی کہ نہیں مجھے نہیں اپنی گانڈ مروانی۔ اس پر ندیم ہنس پڑا اور بوال اچھا ڈرو نہیں
آرام سے فی الحال اپنی چدائی کرواو اور عیش کرو۔ اس نے پھر سے میری کمر پر ہاتھ
پھیرنا شروع کیا اور اب میرے چوتڑوں پر ہاتھ بھی مارنے لگا۔ وہ میرے چوتڑوں پر
زور سے ہاتھ مارتا تو کمرے میں آواز گونجتی اور میری ہلکی سی سسکی بھی نکلتی۔
جب میں نے دیکھا کہ رضوان نے اس بات کا بھی برا نہیں منایا کہ ندیم میری گانڈ کو
چھو رہا تھا اور میرے چوتڑوں کو دبا رہا تھا تو میں نے ہمت کی اور رضوان کے لن
پر سیدھی ہوکر بیٹھ ہوگئی اور اپنا ہاتھ ندیم کے شارٹ پر سے اسکے لن پر رکھ دیا۔
نیچے سے چوت میں رضوان کا لن دھکے مارنے میں مصروف تھا اور اوپر سے میں
اپنا ہاتھ ندیم کے لن پر پھیر رہی تھی۔
پھر میں نے اپنا ہاتھ ندیم کی شارٹ میں داخل کر دیا۔ اور پہلی بار اسکے لن کو چھوا
اور سائز کا اندازہ کرنے لگی۔ پھر میں نے اسکا لن باہر نکال لیا تو ندیم نے بھی اپنی
شارٹ اتار دی اور اپنا 8انچ کا موٹا تازہ لن میرے سامنے کر دیا۔ میں نے کچھ دیر تو
للچائی ہوئی نظروں سے اسکے لن کو دیکھا اور کہا کہ بہت مظبوط لن ہے تمہارا۔ جس
پر ندیم بوال کہ یہ چودتا بھی بہت خوب ہے۔ میں پھر سے ندیم کے لن پر ہاتھ پھیرنے
لگی تو ندیم بوال اسکو منہ میں نہیں لوگی؟ تو میں نے اسکو قریب کیا اور اسکے لن
کی ٹوپی پر ایک کس کی۔ پھر اس پر اپنے ہونٹ پھیرنے لگی۔ پھر اپنی زبان نکالی اور
ندیم کے لن کی ٹوپی پر پھیرنے لگی۔ اسکا لن آگ کی طرح گرمی چھوڑ رہا تھا جس
نے میری چوت کی گرمی کو بھی بڑھا دیا تھا۔ اور اب میں ندیم کا لن اپنے منہ میں لیکر
اسکو چوس رہی تھی۔ رضوان نے جب مجھے غیر مرد کا لن چوستے ہوئے دیکھا تو
بجائے غصہ کرنے کے اس نے اور بھی شدت کے ساتھ میری چدائی شروع کر دی۔ اب
میں ایک بار پھر فارغ ہونے کے قریب تھی میں نے اپنے منہ سے ندیم کا لن نکاال اور
رضوان کو کہا اور زور سے چدائی کرو میری اور زور دار جھٹکے مارو ،میری بات
سن کر رضوان کے دھکوں میں اور اضافہ ہوا ،میرے ہاتھ میں ابھی بھی ندیم کا لن تھا
مگر اسکو اب میں نے منہ میں نہیں لیا کیونکہ اب سسکیاں برداشت نہیں ہو رہی تھیں
اور کمرہ میری آوازوں سے گونج رہا تھا۔ رضوان کے دھکے حیرت انگیز طور پر پہلے
سے بہت زیادہ ہو چکے تھے اور اسکا جسم بھی اب لذت کی انتہا پر تھا۔ پھر اچانک ہی
ہم دونوں کے جسم کو جھٹکے لگے اور ہم دونوں نے ایک ساتھ پانی چھوڑ دیا۔
جب ہمارے جھٹکے ختم ہوئے اور سارا پانی چھوڑ چکے تو میں رضوان کے لن سے
اتر گئی ،ندیم نے فورا ہی مجھے بیڈ پر لٹا دیا اور بوال اپنی چوت کا پانی تو ٹیسٹ
کرواو کیسا ہے۔ اور یہ کہ کر وہ میری چوت کو چاٹنے لگا میری ٹانگوں پر میری چوت
کا پانی تھا اسنے میری ٹانگوں سے چوت کا پانی چاٹا اور مزے لیکر زبان اپنے ہونٹوں
پر پھیرنے لگا۔ دوسری طرف رضوان کا لن رافعہ کے منہ میں تھا اور وہ بھی رضوان
کی منی اور میری چوت کے پانی کا مکسچر رضوان کے لن سے چوس رہی تھی۔ ندیم
نے جب میری چوت سے سارا پانی چوس لیا تو دوبارہ اپنا لن میرے آگے کر دیا اور
میں بیٹھ کر اسکا لن چوسنے لگی۔ میں بیڈ پر ڈوگی سٹائل میں بیٹھی تھی جبکہ ندیم بیڈ
سے نیچے کھڑا تھا اور میں ندیم کا لن چاٹنے میں مصروف تھی۔ دوسری طرف رافعہ
بیڈ پر لیٹی تھی اور رضوان اسکی ٹانگیں اٹھا کر اپنا سر اسکی چوت پر رکھے اسے
چاٹ رہا تھا۔ رافعہ نے اپنے ہاتھ رضوان کے سر پر رکھے ہوئے تھے اور رضوان
مسلسل رافعہ کی چوت کو چاٹ رہا تھا۔ اتنے میں رافعہ بولی کہ تم نے آج تک کسی گانڈ
کا مزہ نہیں لیا لہذا اب تم میری گانڈ میں لن ڈال کر گانڈ کا مزہ لو۔ تو رضوان بوال آج تو
تمہاری گانڈ بھی ماروں گا اور فائزہ کی بھی۔ اس پر ندیم بوال کہ تم پہلے رافعہ کی گانڈ
مار لو ،فائزہ کی گانڈ میں لن پہلے میں ڈالوں گا ،تمہیں تجربہ نہیں تم ڈالو گے تو فائزہ
کو درد زیادہ ہوگا۔ میں طریقے سے اسکی گانڈ پھاڑوں گا جس سے اسکو کم سے کم
تکلیف ہو۔ پھر بعد ِمں تم جب چاہو فائزہ کی گانڈ مار لینا۔
اس پر رضوان نے تو ہاں میں سر ہال دیا مگر میں چالئی کہ آخر تم لوگ میری گانڈ کے
پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟ مجھے نہیں گانڈ مروانی تم بس میری چوت میں لن ڈالو اور
جان من ایک بار گانڈ مروا کر تو دیکھو بہت مزہ آئے گا بس۔ اس پرندیم ہنسا اور بوال ِ
تمہیں۔ اور ویسے بھی جب تمہاری چوت کھلی ہوجائے گی تو رضوان کو اسکا مزہ نہیں
آئے گا ،پھر وہ بھی تمہاری گانڈ سے ہی مزہ لیا کرے گا۔ تو جب کل بھی گانڈ مروانی ہی
ہے تو کیوں نہ آج ہی مروا لی جائے۔ میں نے ایک بار پھر انکار کیا اور کہا نہیں بس
میری چوت میں لن ڈالو۔ اس پر ندیم نے اپنا لن میرے منہ سے نکاال اور مجھے منہ
دوسری طرف کرنے کو کہا۔ میں نے ایسے ہی بیڈ پر منہ دوسری طرف کیا میں ابھی
بھی ڈوگی سٹائل میں بیٹھی تھی اور ندیم بیڈ سے نیچے تھا۔ رضوان نے اب اپنی
انگلیاں میری چوت میں داخل کیں اور گیلے پن کو چیک کرنے لگا۔ میری چوت پہلے
سے ہی گیلی تھی اورندیم کے لن کا انتظار کر رہی تھی۔ میرے گیلے پن کو محسوس
کرکے ندیم سمجھ گیا کہ میری چوت چدائی کے لیے مکمل تیار ہے۔
اس نے اپنا لن میری چوت کے سوراخ پر سیٹ کیا اور ایک ہی دھکے میں اپنا 8انچ کا
لن میری ٹائٹ چوت میں داخل کر دیا۔ میری دلخراش چیخ نکلی جس سے پورا کمرہ
گونج اٹھا اور میں نے ندیم کو کہا کہ آرام سے کرو۔ تو وہ بوال آرام سے کرنے کا مزہ
نہیں آتا۔ اور ساتھ ہی اسنے میری چوت کی تعریف کی کہ یہ واقعی بہت ٹائٹ ہے عرصہ
ہوگیا ایسی ٹائٹ چوت کی چدائی کیے ہوئے۔ آج تو بہت مزہ آئے گا ،یہ کہ کر اس نے
میری چوت میں اپنا لن تیزی سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ پہلے پہل تو مجھے شدید
درد ہوئی کیونکہ ندیم کا لن نہ صرف رضوان کے لن سے لمبا تھا بلکہ وہ موٹائی میں
بھی موٹا تھا اور اسکے دھکوں کی سپیڈ بھی شروع سے ہی تیز تھی جبکہ رضوان
شروع میں آرام سے چودتا تھا بعد میں سپیڈ پکڑتا تھا۔ ندیم نے سٹارٹ میں ہی تیزی
سےچودنا شروع کیا ،مگر تھوڑی ہی دیر بعد اب میرا درد مزے میں بدل چکا تھا ۔ میں
ڈوگی سٹائل میں بہت مزے سے اپنی چوت چدوا رہی تھی تو دوسری طرف رافعہ بھی
ڈوگی سٹائل میں بیٹھ چکی تھی مگر رضوان نے اپنا لن اسکی چوت پر رکھنے کی
بجائے اسکی گانڈ پر رکھا اور زور دار دھکا مارا مگر لن گاند میں نہیں گیا۔ پھر اس نے
دوبارہ سے گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور آہستہ آہستہ دباو ڈالنا شروع کیا تو رضوان
کے لن کی ٹوپی رافعہ کی گانڈ میں جا چکی تھی مگر رافعہ کے چہرے پر تکلیف کے
آثار تک نہ تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں رضوان کا پورا لن رافعہ کی گانڈ میں تھا۔ اور
رضوان آہستہ آہستہ گانڈ میں لن داخل کرتا اور نکالتا۔
رضوان کے چہرے کے تاثرات اور اسکی آوازوں سے واضح پتہ لگ رہا تھا کہ رضوان
کو گانڈ چودنے میں بے حد مزہ آرہا ہے۔ رافعہ کی گانڈ چاہے کتنی ہی کھلی کیوں نہ ہو
مگر بحر حال وہ میری چوت سے تو تنگ ہی تھی۔ جسکو رضوان بہت مزے سے چود
رہا تھا۔ اور جب رضوان نے اپنے دھکوں کی سپیڈ بڑھائی تو اب رافعہ کی بھی سسکیاں
نکل رہی تھیں اور وہ اپنی گانڈ کی چدائی کو انجوائے کرنے لگی۔ ادھر میری چوت بھی
ندیم کے دھکوں سے بے حال ہوئے جا رہی تھی۔ اب ندیم نے آگے بڑھر کر میرے
مموں کو بھی دبانا شروع کر دیا۔ڈوگی سٹائل میں چدائی کرواتے ہوئے میرے ممے ہوا
میں لٹک رہے تھے جنکو اب ندیم اپنے ہاتھوں سے دبا رہا تھا۔ پھر اچانک ندیم نے
مجھے سینے سے پکڑ کر پیچھے کی طرف کھڑا کر لیا ،میں اب بیڈ پر گھٹوں کے بل
ڈوگی سٹائل میں بیٹھی تھی مگر میری کمر ندیم نے کھینچ کر اپنے قریب کر لی،
اورمیرے مموں کو مسلنے لگا۔ میں نے بھی ایک ہاتھ ندیم کی گردن میں ڈال لیا اور منہ
انچا کر کے اپنے ہونٹ ندیم کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ رضوان کا لن میری چودائی کر رہا
تھا اسکے ہونٹ میرے ہونٹوں کو چوس رہے تھے ایک ہاتھ سے وہ میرے ممے دبا
رہاتھا اور دوسرا ہاتھ وہ آگے سے میری پھدی مسل رہا تھا اور الئن پر مسلسل ہاتھ
پھیر رہا تھا جس سے میری برداشت ختم ہوتی جا رہی تھی۔
ندیم نے اب دھکے بہت ہی زیادہ سپیڈ سے مارنے شروع کیے اور چند ہی دھکو ں کے
بعد میری چوت جواب دے گئی اور اس نے پانی چھوڑ دیا۔ اتنے دھکے سہنے کے بعد
میں اب بری طرح سے تھک چکی تھی۔ اور گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ دوسری
طرف رافعہ نے اب اپنی پوزیشن چینج کر لی تھی۔ وہ اب بیڈ پر لیٹی تھی اور اسنے اپنی
دونوں ٹانگیں ہوا میں اوپر اٹھا رکھی تھیں۔ رضوان اسکے اوپر آیا اور اسکی ٹانگوں
کو فولڈ کر کے اسکے سینے سے لگا دیا۔ اب رضوان کے لن کی ذد میں رافعہ کی پھدی
اور گانڈ دونوں ہی تھے ،رضوان نے رافعہ کی گانڈ کا انتخاب کیا اور ایک بار پھر اپنا
لن رافعہ کی گانڈ میں داخل کر دیا ،اس پوزشن میں شاید رافعہ کو کچھ تکلیف ہوئی اور
اس نے ہلکی ہلکی چیخیں مارنی شروع کر دیں تھی۔ رضوان بہت ہی مزے سے گانڈ
مارنے میں مصروف تھا۔
اب ندیم نے مجھے ایک بار پھر سے بیڈ پر الٹا لٹا دیا اور میرے چوتڑ کھول کر اپنی
زبان میری گانڈ پر چالنے لگا۔ میں سمجھ گئی تھی کہ اب وہ میری گانڈ مارنا چاہتا ہے۔
مگر میجھ میں ہمت نہیں ہورہی تھی اتنا بڑا لن اپنی گانڈ میں لینے کی۔ مگر میں فی
الحال مزاحمت بھی نہیں کر رہی تھی کیونکہ گانڈ چسوانے میں آج مجھے بہت مزہ آرہا
تھا ،پہلے حیدر نے میری گانڈ چوسی ،پھر رضوان نے پھر رافعہ نے اور اب ندیم میری
گانڈ چوس رہا تھا ،پھر اس نے میرے چوتڑوں کو اوپر اٹھایا اور اپنی زبان میری چوت
پر پھرینے لگا اور اپنی ایک انگلی میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ دی۔ میری گانڈ ندیم
کے تھوک سے اب کافی چکنی ہو چکی تھی ،اسکی آدھی سے کم انگلی اب میری گانڈ
میں تھی اور مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میری گانڈ میں مرچیں لگ گئیں ہوں۔ میں
نے ندیم کو سختی سے کہا کہ میری گانڈ سے انگلی نکال لے۔ مگر اس نے نہ نکالی
اور آہستہ آہستہ انگلی میری گانڈ میں گھمانے لگا اور نیچے سے میری چوت بھی چاٹتا
رہا۔ مجھے اب سمجھ نہیں آرہی تھی کہ گانڈ میں ندیم کی انگلی کی درد زیادہ ہے یا پھر
چوت چاٹنے سے جو مزہ مل رہا ہے وہ زیادہ ہے۔
ندیم کی اب آدھی سے زیادہ انگلی میری گانڈ کو چیرتی ہوئی گانڈ میں جا چکی تھی اور
میری برداشت ختم ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے ندیم کو پھر کہا کہ میری گانڈ کا پیچھا
چھوڑ دے اور جتنی بار چوت چودنا چاہے چود لے۔ پھر اچانک ندیم نے اپنی انگلی
میری گانڈ سے نکال دی اور رافعہ کو کہا فائزہ کی گانڈ مارنے میں مدد کرے۔ یہ بات
سن کر رافعہ نے رضوان کو پیچھے کیا اور اپنی گانڈ سے رضوان کا لن نکال لیا۔ ایک
الماری کھول کر وہ ایک کریم لے آئی اور ندیم کو پکڑا دی۔ اور خود بیٹھ کر ندیم کا لن
اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ دوسری طرف رضوان میرے قریب آیا اور اپنا لن
میرے منہ میں داخل کرنے لگا ،میں نے رضوان کا لن اپنے منہ میں لے لیا اور اسکو
چوسنے لگی۔ ندیم نے اپنی انگلی پر کریم لگائی اور میری گانڈ کے سوراخ پر مسلنے
لگا جس سے میری گانڈ کی چکناہٹ میں اضافہ ہونے لگا۔
اب رافعہ ندیم کا لن چوس رہی تھی ،رضوان کا لن میرے منہ میں تھا اور ندیم کی انگلی
میری گانڈ کے اندر کریم لگا کر گانڈ کو اندر سے بھی چکنا کرنے میں مصروف تھیں۔
جب رضوان نے اچھی طرح میری گانڈ پر کریم لگا دی تو رافعہ اٹھی اور ایک اور کریم
لے کر آئی وہ کریم رافعہ نے خود کھولی اور ندیم کے لن پر مسلنے لگی ،ندیم نے اپنی
پوری انگلی میری گانڈ میں داخل کی ہوئی تھی مجھے اس سے تکلیف تو ہو رہی تھی
مگر اتنی نہیں جتنی پہلے تھی۔ شاید اسکی وجہ یہ کریم تھی جس نے میری گانڈ کو
چکنا کر دیا تھا۔
جب رافعہ نے ندیم کے لن پر وہ کریم اچھی طرح مسل دی تو ندیم نے میری گانڈ سے
انگلی نکال کر میری دونوں ٹانگوں کو ہوا میں اٹھا لیا ،میں اندر ہی اندر ڈر رہی تھی
کیونکہ آنے واال وقت بہت ہی تکلیف دہ تھا۔ میں نے ایک بار پھر کہا کہ پلیز میری گانڈ
کو بخش دو چوت جتنی مرضی مار لو۔ مگر ندیم نے میری بات کو سنی ان سنی کر دیا۔
اب ندیم میری ٹانگیں اٹھائے میری گانڈ پھاڑنے کے لیے تیار کھڑا تھا تو رافعہ نے
رضوان کو کہا کہ اگر تمہیں اپنا لن پیارا ہے تو فائزہ کے منہ سے نکال لو ورنہ یہ کاٹ
ڈالے گی تمہارے لن کو۔ رضوان نے اپنا لن میرے منہ سے نکال دیا تو رافعہ نے
مجھے کہا اپنی منہ میں کوئی کپڑا ٹھونس لو درد کی شدت کم ہوجائے گی ،تو میں نے
پاس پڑا ندیم کا شارٹ اٹھایا اور اسکو اپنے منہ میں ڈال لیا۔
اب میں ذہنی تور پر گانڈ مروانے کے لیے تیار تھی مگر میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔
رافعہ میرے ساتھ لیٹ گئی اور میرے نپلز اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی ،رافعہ الٹی
لیٹی تھی اور میری ممے چوس رہی تھی ،اس نے رضوان کو اپنے پیچھے آنے کو کہا
اور کہا چوتڑ کھول کر گانڈ میں ڈال دو لن۔ رضوان فورا رافعہ کے اوپر آیا اور اسکے
چوتڑ کھول کر اپنا لن اسکی گانڈ میں داخل کر دیا اور چودنے لگا۔ اب ندیم نے اپنے لن
کی ٹوپی میری گانڈ کے سوراخ پر رکھی اور مجھے کہا کہ تیار ہوجاو ،اور ساتھ ہی
ایک زور دار جھٹکا مارا۔ کپڑا منہ میں ہونے کے باوجود میری ایک زور دار چیخ نکلی
اور میں نے اپنے آپ کو ندیم سے چحڑوانا چاہا مگر ناکام رہی۔ ندیم کے لن کی ٹوپی
میری گانڈ میں تھی اور میرا درد کے مارے برا حال تھا۔ میری آنکھوں سے ایک ہی
دھکے میں آنسو نکل آئے تھے۔ درد اتنی شدید تھی کے میری ٹانگیں اور پورا جسم
بری طرح کانپ رہا تھا جب کہ رافعہ میرے اوپر میرے نپل چوسنے میں مصروف تھی۔
گانڈ کی درد اتنی شدید تھی کہ نپل چوسنے کا مزہ بھی اب محسوس نہیں ہورہا تھا۔ ندیم
نے میری دونوں ٹانگیں مضبوطی سے پکڑ رکھی تھیں تاکہ میں چھڑوا نہ سکوں۔
کچھ دیر بعد ندیم نے ایک اور زور دار دھکا مارا اور اب کی بار میری چیخ پہلے سبھی
زیادہ تھی۔ اور میں نے مسلسل چیخنا شروع کر دیا تھا اور اپنے جسم کا پورا زور لگانا
شروع کریا کہ مجھے چھوڑ دو مجھے نہیں گانڈ مروانی۔ مگر ندیم نے مجھ پر ذرا بھی
رحم نہ کھایا اور میرے جسم کو مضبوطی سے پکڑے رکھا۔ میں نے رضوان کی بھی
منتیں کیں کہ پلیز مجھے اس مصیبت سے نجات دلواو مگر وہ تو اس وقت رافعہ کی
گانڈ مارنے میں مصروف تھا اور وہ چاہتا تھا کہ ایک بار میری بھی گانڈ کی چودائی
کرے ندیم تاکہ بعد میں رضوان بھی میری گانڈ مار سکے۔ لہذا وہ بھی میری مدد کو نہ
آیا اور مجھے تسلی دینے لگا کہ حوصلہ رکھو ابھی تمہیں مزہ آنے لگے گا جیسے
رافعہ مزے سے گانڈ چدوا رہی ہے۔ آخر کار ندیم نے ایک اور آخری دھکا مارا اور اسکا
لن کافی حد تک میری گانڈ میں غائب ہوچکا تھا اور مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے
میں ابھی بے ہوش ہوجاوں گی۔ ایک تو ندیم کا لن بہت موٹا تھا اوپر سے وہ میری گانڈ
میں تھا۔ میری چیخیں تھیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اور میری ٹانگیں اب
کانپ رہی تھیں۔ اور ٹانگوں میں جسیسے جان بالکل ختم ہوچکی تھی۔ آنکھوں سے
مسلسل آنسو جاری تھے۔ ندیم کچھ دیر ایسی ہی میری گانڈ میں لن ڈالے کھڑا رہا۔ جب
میری درد کی شدت کچھ کم ہوئی تو ندیم نے لن باہر نکالنا شروع کیا تو میری درد ایک
بار پھر تیز ہوگئی اور میں نے پھر سے اسکی منتیں کیں کہ پلیز میری گانڈ مت مارو۔
مگر ندیم نے اپنا پورا لن میری گانڈ سے نکاال صرف ٹوپی اندر رہنے دی اور ایک بار
پھر ایک زور دار دھکا مارا تو اسکا لن میری گانڈ کو چیرتا ہوا اندر تک چال گیا۔ اور
ایک بار پھر میری چیخوں سے کمرہ گونجنے لگا۔
ندیم نے پھر کچھ دیر انتظار کیا اور پھر سے لن باہر نکال کر دھکا مارا ۔ اب کی بار وہ
انتظار نہیں کر رہا تھا وہ بہت آہستہ آہستہ اپنا لن باہر نکالتا اور اک دم سے دھکا مار
کر میری گانڈ پھاڑ کر رکھ دیتا۔ ہر دھکے پر مجھے ایسا لگتا کہ جیسے میری گانڈ کو
کسی لوہے کے راڈ نے چھیل کر رکھ دیا ہو۔ 10منٹ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ندیم
آہستہ آہستہ لن باہر نکالتا اور پھر ایک زور دار دھکا مار کر لن اندر ڈال دیتا۔ اور میں
مسلسل 10منٹ سے تکلیف میں تھی ۔ اب تو میری چیخیں بھی نکلنا بند ہوگئی تھیں
کیونکہ گال خشک ہو کا تھا۔ رضوان ان 10منٹ کے دوران اپنی منی رافعہ کی گانڈ میں
نکال چکا تھا۔ اور اب رافعہ میرے نپل چھوڑ کر اسکا لن چوسنے میں مصروف تھی۔
میرا درد اور پیاس سے برا حال تھا۔ میں نے پانی مانگا تو رافعہ نے مجھے پانی پالیا
تو مجھے کچھ حوصلہ ہوا۔ اب ندیم نے ایک بار اپنا لن میری گانڈ سے نکاال تو مجھے
لگا کہ اس تکلیف سے نجات مل گئی۔ مگر ندیم نے میری گانڈ میں ایک بار پھر کریم
لگائی اور بوال کہ تمہاری گانڈ کچھ زیادہ ہی ٹائٹ ہے ،رافعہ کی گانڈ بھی پہلی بار میں
نے ہی پھاڑی تھی مگر وہ اتنی ٹائٹ نہیں تھی اور 5منٹ بعد ہی رافعہ مزے میں تھی۔
مزید کریم لگا کر ندیم نے ایک بار پھر لن میری گانڈ پر سوراخ پر رکھا اور ایک ہی
دھکے میں پورا لن میری گانڈ میں داخل کر دیا۔ اور مجھے ایک بار پھر لگا کہ میری
گانڈ میں پہلی بار لن گیا ہے۔ لیکن اب کی بار ندیم نے رکنے کی بجائے مسلسل میری
گانڈ کی چدائی جاری رکھی۔ میری آنکھوں میں ابھی بھی آنسو تھے۔ مگر اب تکلیف کا
احساس آہستہ آہستہ کم ہونے لگا تھا۔ مگرمزے کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں
تھا۔ مزید 5منٹ کی چدائی کے بعد اب ندیم کا لن روانی کے ساتھ میری گانڈ میں داخل
ہو رہا تھا اور اب اسکو میری گانڈ کی چدائی کا مزہ آرہا تھا۔
اب رافعہ اٹھی اور اپنی چوت میرے منہ پر رکھ کر بیٹھ گئی تو میں نے اسکی چوت
چاٹنا شروع کی۔ میرا دھیان رافعہ کی چوت کی طرف ہوا تو مجھے اپنی گانڈ کی درد اور
تکلیف ختم ہوتی محسوس ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد ہی میرے منہ میں رافعہ کی چوت کا
پانی تھا اور ندیم ابھی تک میری گانڈ کی چدائی میں لگا ہوا تھا۔ وہ ساتھ ساتھ میری
چوت پر اپنا ہاتھ بھی پھیر رہا تھا جس سے مجھے مزہ آنے لگا تھا۔ اور کچھ دیر بعد
میرے منہ سے سسکیاں نکلنا شروع ہوگئی تھیں۔ ابھی بھی یہ مزہ ویسا تو نہیں تھا
جیسا کہ چوت کی چودائی میں آتا ہے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ مزہ آنے لگا تھا۔ رافعہ
نے ایک بار پھر رضوان کا لن چوس چوس کر کھڑا کر دیا تھا۔ ندیم کو میری گانڈ کی
چودائی کرتے ہوئے 25منٹ ہو چکے تھے۔ اور باال آخر میری گانڈ میں اپنی منی
چھوڑ دی۔ منی چھوڑنے کے بعد وہ میرے اوپر گرگیا اورمجھے چومنے لگا اور کہا آج
بہت عرصے بعد اتنی ٹائٹ گانڈ ملی ہے مزہ آگیا تمہاری گانڈ مار کر۔اب رضوان میری
طرف متوجہ ہوا اور بوال اب میری باری ہے فائزہ کی گانڈ مارنے کی۔
میں نے رضوان کو کہا پلیز اب نہیں۔ پھر کبھی سہی۔ رضوان نے کہا نہیں پلیز مجھے
اپنی گانڈ مارنے دو۔ میں نے پھر اسے کہا کہ آج مزید ہمت نہیں مجھ میں ۔ میری گانڈ
بھی تمہاری ہے میری چوت بھی تمہاری ہے۔ پھر کسی دن مار لینا لیکن آج نہیں پلیز۔
جس پر رضوان نے مجھ پر ترس کھایا اور ایک بار پھر اپنا لن رافعہ کی چوت میں داخل
کر دیا۔ رافعہ رضوان کے اوپر لیٹی اپنی چوت کی چدائی کروا رہی تھی۔ اور اپنی گانڈ ہال
ہال کر لن کے مزے لے رہی تھی۔ اتنے میں ندیم کا لن دوبارہ کھڑا ہوا تو اس نے اپنے
لن کا رخ رافعہ کی گانڈ کی طرف کیا۔ وہ رضوان کے پیچھے جا کر کھڑا ہوا اور رافعہ
کو گانڈ تھوڑی اونچی کرنے کو کہا۔ رافعہ کی چوت میں رضوان کا لن تھا۔ اس نے گانڈ
تھوڑی اونچی کی تو پیچھے سے ندیم نے اپنا 8انچ کا لن رافعہ کی گانڈ میں داخل کر
دیا۔ رافعہ کے چہرے پر اب تکلیف کے آثار تھے اور وہ ہلکی ہلکی چیخیں مار رہی
تھی۔ اب رضوان اور ندیم دونوں ملکر رافعہ کی چودائی کر رہے تھے۔ میں نے ایک ہی
ٹائم میں چوت اور گانڈ میں لن لیتے ہوئے فلموں میں دیکھا تھا۔ اور آج اصل زندگی میں
رافعہ اپنی گانڈ اور چوت ایک ہی وقت میں چدوا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد اسکی تکلیف
مزے میں چینج ہوگئی۔ وہ حیرت انگیز طور پر رضوان اور ندیم کے طوفانی دھکے اپنی
گانڈ اور چوت میں برداشت کر رہی تھی اور اسکی سسکیاں ماحول کو اور سیکسی بنا
رہی تھیں۔
کچھ دیر بعد ان دونوں نے پوزیشن چیج کی۔ اب ندیم کا لن رافعہ کی چوت میں تھا اور
رضوان کا لن رافعہ کی گانڈ میں ۔ 10منٹ کی چودائی کے بعد دونوں نے اپنی منی
رافعہ کی گانڈ اور چوت میں چھوڑ دی۔ اس دوران رافعہ بھی 3بار اپنی چوت کا پانی
چھوڑ چکی تھی۔ اس زبردست چدائی کے بعد بھی رافعہ بہت مزے میں تھی جب کہ میرا
انگ انگ دکھ رہا تھا کیونکہ آج پہلی بار میری گانڈ ماری تھی کسی نے اور وہ بھی 8
انچ کے لمبے اور موٹے لن کے ساتھ۔
کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم نے وہیں پر کھانا کھایا اور پھر رضوان نے مجھے گھر
پر چھوڑ دیا۔ گھر جا کر میں مطمئن تھی۔ گانڈ کی درد تو ابھی بھی محسوس ہو رہی تھی
مگر اب یہ اطمینان تھا کہ رضوان نے اپنی آنکھوں کے سامنے مجھے کسی اور لڑکے
سے چدواتے ہوئے دیکھا تھا تو آئندہ بھی مجھے اسکے کسی دوست کا لن لینے میں
مشکل نہیں ہوگی۔
مگر اسکے ساتھ ساتھ میرے ذہن میں سائرہ اور حیدر گھوم رہے تھے۔ ان دونوں نے
میرے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا۔ سائرہ نے میری ویڈیو بنا کر حیدر کو دی تاکہ اسکی اپنی
عزت بچ سکے اور حیدر نے مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ یہ اور بات کے
اسکا لن اس قابل نہیں تھا کہ میری چوت کو سکون بخش سکے 2جھٹکوں سے زیادہ
وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا اور منی چھوڑ دیتا تھا۔ اب میں اپنے ذہن میں دونوں سے
بدلہ لینے کا سوچ رہی تھی۔ وہ امیر فیملی اور اثرو رسوخ والی فیملی تھی ان سے بدلی
لینا آسان نہیں تھا۔ میں مسلسل 3گھنٹوں سے اسی بارے میں سوچ رہی تھی کہ آخر ان
دونوں بہن بھائیوں سے کیسے بدلہ لیا جائے۔ آخر کار حیدر سے بدلہ لینے کی ترکیب
میرے ذہن میں آگئی جو بہت آسان تھی مگر سائرہ سے بدلہ لینے کی ابھی تک کچھ
نہیں سوجھی تھی۔
آخر کار میں نے سوچا کہ پہلے حیدر سے تو بدلہ لیا جائے بعد میں سائرہ کے بارے
میں بھی سوچ لیں گی۔ اب میں سکون سے لیٹ گئی اور دوبارہ سے ندیم کے تگڑے لن
سے چدائی کے مزے کو یاد کرنے لگی اور یہی یاد کرتے کرتے میری آنکھ لگ گئی۔
صبح بیدار ہوئی تو جسم کو کافی حد تک سکون مل چکا تھا مگر ابھی بھی گانڈ ایسے
جل رہی تھی جیسے کسی نے اندر مرچیں ڈال دیں ہوں۔ گانڈ کی پہلی چودائی میں مزہ نہ
ہونے کے برابر تھا۔ میں بستر سے اٹھی تو چلنے میں بھی دشواری محسوس ہوئی۔
واش روم جا کر میں نے نہانا شروع کر دیا تو مجھے کل کی چودائی دوبارہ یاد آنے
لگی۔ ندیم کا 8انچ کا لن جب میری چوت کو بے دردی سے چود رہا تھا وہ سین اب
میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ میری ڈوگی سٹائل میں اپنی چوت مروا رہی تھی
اور میرے ممے لٹکنے کے ساتھ ساتھ آگے پیچھے ہل رہے تھے۔ یہ یاد آیا تو میں نے
شاور لیتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے اپنے مموں کو دبانا شروع کر دیا۔ میرے مموں پر
شاور کا پانی گر رہا تھا اور نیچے بہ رہا تھا ،واش روم میں لگے ہوئے بڑے شیشے
میں جب میں نے اپنے آپ کو دیکھا تو مجھے اپنے اوپر پیار آنے لگا۔ میں اپنے مموں
کو دیکھنے لگی جو پانی سے بھیگے ہونے کے باعث بہت سیکسی لگ رہے تھے۔ میں
شیشے میں دیکھتے ہوئے اپنے مموں کو دبا رہی تھی اور میرے منہ سے سسکیاں
نکل رہی تھیں۔ پھر میں نے اپنے نپلز کو بھی مسلنا شروع کر دیا۔ مجھے اور مزہ آنے
لگا اور اب میری چوت میں بھی خارش ہونے لگی تو میں نے اپنی انگلی چوت میں ڈال
دی اور اسکو رگڑنے لگی۔ لن واال مزہ تو نہیں تھا مگر پھر بھی انگلی چوت میں ڈال
کر سکون مال تھا۔ آہستہ آہستہ میں نے خود ہی انگلی سے اپنی چودائی شروع کر دی
اور ایک ہاتھ سے اپنے مموں کو بھی دباتی رہی۔ آہستہ آہستہ میری سسکیوں میں
اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور میرے جسم میں جیسے سوئیاں سی چبھنے لگیں تھیں۔ کچھ
دیر مزید آنکھیں بند کر کے میں اپنی انگلی سے اپنی چوت کی چودائی کرتی رہی آخر
کار میری چوت نے ایک دم سے پانی چھوڑ دیا جس سے میرے پورے جسم میں سکون
کی لہر دوڑ گئی۔
اسکے بعد اچھی طرح نہانے کے بعد میں نے کپڑے پہنے اور باہر آگئی۔ باہر آکر میں
نے ناشتہ کیا اور واپس اپنے کمرے میں آکر اپنا خفیہ کیمرے واال پین نکاال اور اسمیں
موجود ویڈیو کو اپنے کمپیوٹر میں سیو کر نے کے بعد اس پر پاسورڈ بھی لگا دیا تاکہ
کوئی اور اسکو نہ دیکھ سکے۔ میں نے ایک بار ویڈیو خود سے بھی دیکھی جس میں
حیدر میری چوت اور گانڈ کو بہت مزے سے چاٹ رہا تھا مگر آخر میں اسکا کمزور لن
میری چدائی کرنے میں ناکام رہا تھا۔ ابھی میں یہ ویڈیو دیکھ ہی رہی تھی کہ حیدر کی
کال آگئی میرے موبائل پر۔ کال اٹینڈ کی تو پہلے تو وہ کافی دیر خاموش رہا پھر کچھ
حوصلہ کر کے مجھ سے معافی مانگنے لگا اور کہنے لگا کہ فائزہ آپی میں آپ سے
بہت شرمندہ ہوں ،میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا مگر میری ہوس نے مجھے ایسا کرنے
پر مجبور کر دیا۔ آپ پلیز کسی کو مت بتائیے گا اس بارے میں۔
اسکی بات سن کر میں نے اسکو کہا کہ تم فکر نہیں کرو۔ بس میں تم سے ملنا چاہتی
ہوں ایک بار۔ جب سائرہ اور سمیرا گھر پر نہ ہوں تو مجھے بتانا۔ میں تم سے ملنے
آوں گی۔ یہ سن کر وہ حیران ہوا اور بوال کہ خیریت تو ہے؟ مگر میں نے اسکو کچھ
بھی بتانا مناسب نہین سمجھا اور کہا بس جب وہ گھر پر نہ ہوں تو مجھے بتانا میں ملنا
چاہتی ہوں تم سے۔ جس پر اس نے مجھے بتایا کہ کل سائرہ اور سمیرا گھر والوں کے
ساتھ بہاولپور جا رہی ہیں اپنے رشتے داروں کے گھر تو وہ گھر پر اکیال ہوگا لہذا کل
مالقات ہو سکتی ہے۔ میں فورا تیار ہوگئی اور اسکو کہا کہ کل میں خود ملنے آوں گی
لہذا وہ گھر پر ہی رہے۔
کل رات میں جو پالن بنایا تھا میں نے بدلہ لینے کا اسکا وقت آگیا تھا۔ اگلے دن میں نے
خود حیدر کو 12بجے کال کی تو اسنے بتایا کہ کچھ ہی دیر میں وہ لوگ نکل جائیں
گے تو میں 1بجے تک اسکے گھر آسکتی ہوں۔ یہ سن کر میں نے کال بند کردی اور
خود تھوڑا تیار ہونے لگی۔ تیار ہو کر میں نے اپنے خفیہ کمیرے سے میموری کارڈ
نکاال اور اپنے بیگ میں ڈال لیا۔ پھر انٹرنیٹ کنیکٹ کر کے اس ویڈیو کو یو ٹیوب پر
اکاونٹ بنا کر اس پر اپلوڈ کر دیا۔ مگر اس ویڈیو کو میں نے یو ٹیوب میں پرائیویٹ
سیٹنگ کے ساتھ اپلوڈ کیا اور اس کو پاسورڈ پروٹیکٹیڈ بھی کر دیا۔ اور پھر میں نے
گھر سے نکلنے کا ارادہ کیا تو پہلے ایک سکارف بھی اٹھا لیا جس سے میں نقاب کر
سکوں۔ وہ سکارف بھی میں نے اپنے بیگ میں رکھا چادر لی اور امی کو دوست کے
گھر جانے کا کہ کر پھر گھر سے نکل گئی۔ اور باہر جا کر رکشے میں بیٹھ کر سکارف
لیا اور نقاب کر لیا۔ اور پھر اوپر سے چادر بھی لپیٹ لی۔ رکشہ واال بھی حیرانی سے
دیکھنے لگا کیونکہ لڑکیاں عموما گھر سے نقاب کر کے نکلتی ہیں مگر باہر نکل کر
نقاب اتار دیتی ہیں۔ جبکہ میں گھر سے بغیر نقاب کے نکلی اور رکشے میں بیٹھ کر
نقاب کیا۔
اسکی وجہ یہ تھی کہ میں عام روٹین میں نقاب نہیں کرتی تھی باہر جاتے ہوئے ،اس
لیے میں نے امی کے سامنے نقاب نہیں لیا کو وہ زیادہ سوال نہ پوچھیں کہ آج کیسے
نقاب کر کے جا رہی ہو؟ انکے سوالوں سے بچنے کے لیے اور انکو کسی قسم کا شک
نہ ہومیں بغیر نقاب کے نکلی تھی۔ مگر نقاب کرنا ضروری تھا کیونکہ آگے جو میں
کرنے جا رہی تھی اس میں ضروری تھا کہ کوئی مجھے پہچان نہ سکے۔ شہر کے ایک
گنجان آباد عالقے میں رکشہ داخل ہوا تو میں نے اسکو ایک بڑے میڈیکل سٹور کے
سامنے رکوا لیا۔ وہاں اتر کر میں سٹور میں داخل ہوئی اور اسکو ایک پرچی تھما دی
جو میں نے گھر پر ہی لکھ لی تھی۔
اس پرچی پر مردانہ ٹائمنگ بڑھانے کے لیے ایک گولی لکھی تھی اور ساتھ میں کنڈوم
کا پیکٹ تھا۔ اس گولی کے بارے میں مجھے ایک بار کالج میں ایک لڑکی نے بتایا تھا
جو اکثر اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ سیکس کرتی تھی اور اسکا بوائے فرینڈ ٹائمنگ
بڑھانے کے لیے گولی کا استعمال کرتا تھا۔ اور کنڈوم کا بھی اسی نے بتایا تھا جو ڈاٹڈ
ہوتے ہیں۔ ان پر چھوٹے چھوٹے ڈاٹ لگے ہوتے ہیں جو چودائی کے دوران عورت کو
زیادہ مزہ اور زیادہ رگڑ دیتے ہیں۔ دکاندار نے وہ پرچی دیکھی اور مجھے گھور گھور
کر دیکھنے لگا ،میں نے بھی کڑک آواز میں کہا جو لکھا ہے جلدی دے دو میں نے
آگے جانا ہے۔ جس سے اس نے میری مطلوبہ چیزیں مجھے دیں اور مجھے معنی خیز
نظروں سے دیکھنے لگا جیسے کہنا چاہتا ہو کہ انکے پیسے دینے کی بجائے بس اپنی
چوت مجھے دے دو۔ مگر میں نے اسکو پیسے تھمائے اور فورا رکشے میں جا کر بیٹھ
گئی اور حیدر کے گھر پہنچ کر حیدر کو کال کی۔ وہ باہر آیا اور مجھے لیکر اندر چال گیا۔
ہمارا رخ حیدر کے کمرے کی طرف تھا۔ اسکے کمرے میں جا کر سب سے پہلے میں
نے اسے کمپیوٹر آن کرنے کو کہا۔ اسنے مجھے سے کھانے پینے کا پوچھا تو میں نے
کہا وہ بھی بتادوں گی مگر پہلے اپنا کمپیوٹر آن کرو۔ اس نے کمپیوٹر آن کیا تو میں نے
اسے میموری کارڈ دیا اور کمپیوٹر میں لگانے کو کہا۔ اسنے پوچھا اس میں کیا ہے؟
میں نے کہا تم لگاو تو تمہیں بتاتی ہوں۔ اسنے کارڈ لگایا تو میں نے اسکو وہ ویڈیو
دکھا دی جو میں نے خفیہ کیمرے سے ہوٹل روم میں بنائی تھی۔
جیسے ہی وہ ویڈیو سٹارٹ ہوئی حیدر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ،وہ کبھی
مجھے دیکھتا اور کبھی ویڈیو کو۔ پھر وہ کپکپاتی آواز میں بوال ۔ ۔ ۔ ف ف ف ف فائزہ آ
آ آ پی یہ ک ک ک کیا؟؟؟؟ میں نے اسکو زہریلی نظروں سے دیکھا اور کہا کہ تم کیا
سمجھتے ہو تم ویڈیو بنا کر کسی لڑکی کو بلیک میل کرو گے اور وہ اپنی حفاظت کے
لیے کچھ نہیں کرے گی؟؟؟ یہ سن کر اسنے فورا وہ ویڈیو بند کی اور کارڈ سے ڈیلیٹ
کرکے مجھے فاتحانہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ تو میں نے ایک قہقہ لگایا اور کہا تم کیا
سمجھتے ہو میں اتنی پاگل ہوں کہ ویڈیو کا بیک اپ لیے بغیر کارڈ تمہیں ال دوں گی؟؟
میں نے اسے بتایا کہ یہ ویڈیو میرے پاس اب سی ڈیز میں بھی محفوظ ہے ،میرے
کمپیوٹر میں بھی محفوظ ہے یو ٹیوب پر بھی اپلوڈ ہو چکی ہے مگر اسکو دیکھ کوئی
نہیں سکتا ابھی کیونکہ وہ میں نے پاسورڈ پروٹیکٹیڈ رکھی ہے۔ مزید میں نے اسکو
فیس بک پیج دکھایا ایک جو میرا تھا اور میں اس پر کچھ سیکسی چیزیں پوسٹ کیا کر
تی تھی۔ اس پیج پر 50،000کے قریب فین بھی تھے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے
ویڈیو کو ایڈیٹ بھی کیا ہے جہاں جہاں میری شکل ہے وہاں سے میں نے ویڈیو کاٹ دی
ہے جہاں میری پیٹھ ہے یا صرف چوت یا گانڈ کیمرے کے سامنے ہے وہ حصہ رہنے
دیا ہے مگر تمہاری شکل بھی ویڈیو میں ہے اور تمہاری وہ ساری باتیں بھی جو تم نے
میرے سے کیں اور اپنی بہن سائرہ کے بارے میں بتائیں کہ کیسے اسنے ویڈیو بنائی
اور مجھے بلیک میل کرنے کا راستہ فراہم کیا۔ اور ویڈیو کے آخر میں تمہارے ابو کا نام
انکا فون نمبر ،تمہارا فون نمبر ،تمہاری بہن کا نمبر ،نام اور اسکا کالج میں موجود
رولنمبر سب کچھ ویڈیو میں دے دیا ہے۔ تاکہ جو بھی وہ ویڈیو دیکھے وہ تمہاری
پوری فیملی تک رسائی حاصل کر سکے۔ اور اس ویڈیو کو ایڈیٹ کرنے کے بعد اور یہ
نمبرز اور تمہاری فیملی کے تفصیالت دینے کے بعد میں نے وہ ویڈیو اپنے اس فیس
بک پیج پر شیڈیول پوسٹنگ میں لگا دی ہے۔ اگر تم نے یہاں مجھے مارنے کی کوشش
کی یا مجھے قید کرنے کی کوشش کی یا مجھے کسی بھی قسم کا نقصان پہنچایا تو
ٹھیک 2دن کے بعد وہ ویڈیو خود بخود فیس بک پر پبلش ہوجائے گی اور تمہاری
پوری فیملی بدنام ہوگی۔
لیکن اگر تم میرے ساتھ معامالت طے کر لو تو میں اس ویڈیو کو پوسٹ ہونے سے
پہلے اسکی ڈیٹ اور آگے بڑھا دوں گی۔ لیکن رہے گی وہ شیڈیولنگ پر ہی اور میں
گاہے بگاہے اسکی ڈیٹ آگے بڑھاتی رہوں گی جب تک تم میرے ساتھ تعاون کرتے رہو
گے۔ جس دن تم نے میرے ساتھ تعاون کرنا بند کر دیا یا پھر مجھے کوئی نقصان پہنچایا
تو میں اس ویڈیو کی ڈیٹ مزید آگے نہیں بڑھا سکوں گی اور وہ خود ہی پوسٹ ہوجائے
گی۔ اور تم اپنی بہن اور پوری فیملی سمیت کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے۔
میری توقعات کے عین مطابق میرا پھینکا ہوا یہ تیر بالکل نشانے پر جا کر لگا۔ حیدر کا
رنگ سفید پڑ چکا تھا اور کمرے میں اے سی چلنے کے باوجود اسکو پسینے آرہے
تھے۔ کافی دیر کمرے میں خاموشی رہی اور میں فاتحانہ نظروں سے اسکو گھورتی
رہی۔ پھر جب اسکے کچھ حواس بحال ہوئے تو اسنے مجھ سے پوچھا بتاو تمہیں کیسا
تعاون چاہیے۔ اور کتنے پیسے چاہیے؟ مگر پلیز میری فیملی کو بدنام نا کرنا تمہیں
نقصان میں نے پہنچایا ہے میری بہن یا میری فیملی کو بیچ میں نہ الو۔ اس پر میں چال
کر بولی کہ تمہاری بہن بھی اس سارے پالن میں شامل ہے۔ لہذا اسکو بھی سزا ملنی
چاہیے۔ اور پیسے مجھے نہیں چاہیے۔ بس تمہارا تعاون چاہیے۔
وہ بوال کہ بتاو تم کیا چاہیتی ہو؟ سب سے پہلے تو میں نے اس سے اسکا موبائل مانگا۔
اور اسکو کہا اس میں ویڈیو دکھائے میری اور رضوان کی ویڈیو کہاں پڑی ہے۔ اس نے
ایک فولڈر اوپن کیا جس پر پاسورڈ لگا ہوا تھا اسکے اندر میری اور رضوان کی ویڈیو
پڑی تھی۔ میں نے وہ ڈیلیٹ کروائی۔ پھر اسکا پورا میموری کارڈ چیک کیا اور جو جو
فولڈر الک تھے ان سب کو اوپن کروا کر چیک کیا کہ کہیں اور تو میری ویڈیو نہیں پڑی۔
مگر اور مجھے پورے موبائل میں کہیں ویڈیو نہیں ملی تو میں نے اسکے موبائل کا
میموری کارڈ کمپیٹر میں لگایا اور اسکو کہا اس کارڈ کو فامیٹ کر دو۔ تاکہ اگر کوئی
فولڈر میری نظروں سے رہ بھی گیا ہو تہو بھی وہ ڈیلیٹ ہوجائے۔ کارڈ فامیٹ کرنے کے
بعد میں نے اسکا کارڈ لیا اور اپنے پاس محفوظ کر لیا۔ پھر میں نے اسکو کہا کہ اپنے
موبائل کو بھی فیکٹری ریسیٹ کرے۔ جس پر وہ بوال کہ وہ موبائل کو ریسیٹ نہیں کرے
گا کیونکہ موبائل کی میموری میں اسکا ضروری ڈیٹا ،سمیرا کے کچھ پیار بھرے
میسیجز اور دوستوں کے ضروری نمبرز وغیرہ بھی ہیں۔ میں نے اسے کہا انتخاب تم
نے کرنا ہے۔ سمیرا کے میسیج اور دوستوں کے نمبر بچالو یا پھر اپنی بہن کی اور اپنی
فیملی کی عزت بچا لو۔ میری یہ بات سن کر وہ بے بسی سے مجھے دیکھنے لگا اور
آخر کار اس نے اپنا موبائل بھی ریسیٹ کر دیا۔ موبائل ریسیٹ کرنے کے بعد وہ اسکو
واپس اپنے پاس رکھنے لگا تو میں نے کہا یہ موبائل بھی مجھے دے دو۔ اس نے
پوچھا وہ کیوں تو میں نے کہا فکر نہ کرو اسکی جو قیمت ہے وہ میں تمہیں دے دوں
گی مگر یہ موبائل تم نہیں رکھ سکتے ویسے ب ِھی تمہارے کسی کام کا نہیں سارا ڈیٹا تو
اڑ گیا ہے اسمیں سے۔ اس نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور پھر
موبائل بھی مجھے دے دیا۔
پھر میں نے اسکو کہا کہ اسکے پاس کوئی اور موبائل بھی ہے تو بتائے اسنے کہا
اسکے پاس کوئی اور موبائل نہیں۔ میں نے اسکے کمرے میں موجود تمام دراز اور
الماریاں چیک کیں مجھے ایک نوکیا کے پرانے موبائل کے عالوہ اور کچھ نہیں مال۔ نہ
کوئی سی ڈی نہ کوئی میموری کارڈ وغیرہ۔ وہ موبائل جو مال وہ اس قابل نہیں تھا کہ
اس میں کوئی ویڈیو سیو کی جا سکے لہذا وہ میں نے اسکو ویسے ہی واپس کر دیا۔
پھر میں نے اسکو کہا اپنا فیس بک کا اکاونٹ اوپن کرے۔ اسنے اکاونٹ اوپن کیا تو
اسکے اکاونٹ میں ویڈیو اور تصویریں پڑی تھیں۔ میں نے اسکے فیس بک اکاونٹ سے
ساری تصویریں ڈیلیٹ کروائیں جو میری اور رضوان کی تھیں اور اسنے مجھے میسج
کی تھی۔اسکے میسجز میں وہ تصویریں محفوظ تھیں۔ وہاں سے ڈیلیٹ کر کے میں نے
اسکے فوٹو البم چیک کیے تاکہ وہاں بھی اگر اسنے پرائیویسی لگا کر اپلوڈ کی ہوں تو
میں ڈیلیٹ کر سکوں۔ اسنے مجھے یقین دالیا کہ ان میسیجز اور موبائل کے عالوہ
تمہاری تصویریں اور کہیں نہیں ۔ اب تم بالکل محفوظ ہو۔ مگر میں اتنی آسانی سے
کیسے یقین کر لیتی۔ میں نے اسکے براوزر کی ہسٹری اور پاسورڈ سیو سیٹنگ میں جا
کر چیک کیا کہ وہ کون کونسے ای میل کے ساتھ فیس بک استعمال کرتا ہے۔ مجھے 2
ای میل اور ملے جن کے ذریعے اس نے فیس بک پر اکاونٹ بنائے ہوئے تھے۔ میں نے
اسکو کہا کہ ان دونوں اکاونٹ کو الگن کرو۔ اس نے فورا الگن کر دیے تو میں نے انکو
بھی اچھی طرح چیک کیا۔ مگر ان میں کچھ نہیں تھا۔
پھر میں نے اسکی براوزنگ ہسٹری میں سے جی میل ،یاہو ،اور ہاٹ میل کے تمام
اکاونٹس چیک کیے جن جن پر وہ الگن کرتا تھا۔ وہ الگن کروا کر میں نے تمام اکاونٹس
کی ای میلز کو اچھی طرح چیک کیا کہ کہیں اس نے میری کوئی ویڈیو تو نہیں رکھی۔
مجھے ادھر بھی کچھ نہیں مال۔ پھر میں نے اسکو کہا کہ اپنی ہارڈ دسک کو بھی
فارمیٹ کر دے۔ جس پر وہ بلبال اٹھا کہ آخر تم چاہتی کیا ہو۔ میرا بہت ضروری ڈیٹا پڑا
ہے اس میں۔ میں نے کہا میری عزت سے زیادہ ضروری نہیں ہو سکتا وہ۔ لہذا میں
کسی بھی قسم کا رسک نہیں لے سکتی لہذا تم بھی وہی کرو جو میں کہ رہی ہوں
کیونکہ تماری بہن کی عزت بھی قیمتی ہے۔ جس پر اس نے مجھ سے اجازت مانگی کہ
کچھ ضروری ڈیٹا وہ میرے سامنے کسی اور جگہ پر سیو کر سکتا ہے ؟؟؟ تو ِمیں نے
اجازت دے دی مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ ایک ایک چیز مجھے دکھا کر سیو کرے گا مگر
اسمیں کوئی تصویر یا کوئی ویڈیو نہیں ہوگی۔ اگر کوئی ڈاکومنٹس ہیں تو انکو سیو کر
لے۔ جس پر اس نے اپنے کچھ ضروری ڈاکومنٹس کو اپنے ای میل ایڈریس پر سینڈ کر
دیا۔ اب اسکا ضروری ڈیٹا محفوظ تھا جس میں کوئی بھی تصویر یا ویڈیو نہیں تھی،
میں نے اسکی ہارڈ دسک فارمیٹ کروائی اور اور اسکو کہا اب کمپیوٹر بند کرے اور یہ
ہارڈ دسک بھی اتار کر مجھے دے دے۔ جس پر اس نے دوبارہ مجھے کھا جانے والی
نظروں سے دیکھا اور غصے میں بوال اب کیا کرو گی اسکا سب کچھ تو تم نے ڈیلیٹ
کروا دیا ہے۔ میں نے اسے کہا میں اتنی بھولی نہیں کہ یہ ہارڈ تمہارے پاس چھوڑ
جاوں اور تم دوبارہ سے ڈیٹا ریکور کر کے مجھے پھر سے بلیک میل کرو۔ میری یہ
بات سن کر وہ بوال بہت تیز ہو تم۔ یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں کہ میں
ایسا کروں گا نہ ہی میرا کوئی لمبا چوڑا پروگرام تھا تمہیں بلیک میل کرنے کا میں تو
بس ایک بار تمہارے ممے چوسنا چاہتا تھا۔ اس پر میں نے کہا میں نہیں جانتی تمہارا
کیا پروگرام تھا مگر اب میں تم پر کسی بھی طرح اعتبار نہیں کر سکتی۔ لہذا مجھے اپنی
حفاظت کے لیے جو چیز بہتر لگے گی اور سمجھ میں آئے گی وہ میں کروں گی۔ آخر
کار اس نے اپنی ہارڈ ڈسک اتاری اور وہ بھی مجھے دے دی۔ وہ میں نے اپنے بیگ
میں رکھ لی۔
یہ سب کرنے کے بعد اب میں نے اسکو ذرا پیار سے دیکھا۔ مگر وہ مجھے کھا جانے
والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ میں جا کر اسکی گود میں بیٹھ گئی جس پر وہ بہت
حیران ہوا۔ میں نے اسکو ایک کس کی اور کہا کہ جسطرح تم نے کل میری چوت چاٹی
اور گانڈ چاٹی تم نے تو مجھے پاگل ہی کر دیا تھا۔ تب سے میری چوت میں خارش ہو
رہی ہے اور میرے نپلز کھڑے ہیں تمہاری زبان کے لمس کو محسوس کرنے کے لیے۔
وہ حیران اور پریشان میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا غصہ نہ کرو تم سمجھ
سکتے ہو کہ یہ سب کچھ میں نے اسی لیے کیا کہ کبھی غلطی سے بھی تمہارے پاس
سے یہ ویڈیو اور تصویریں لیک نا ہوجائیں اور کسی اور کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ جس
طرح تمہیں اپنی بہن اور فیملی کی عزت عزیز ہے ٹھیک اسی طرح مجھے بھی اپنی
عزت عزیز ہے۔ اور یہ سب کرنا میری مجبوری ہے۔ تم نے ایک غلطی کی ہے اسکی
سزا تو ملے گی۔ مگر میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ صرف اپنی حفاظت کے لیے
ضروری اقدامات کیے ہیں۔ اور تم اپنی فیملی کی فکر نہ کرو میں گھر جا کر فیس بک پر
تمہاری ویڈیو کو ایک مہینہ آگے کر دوں گی شیڈیول۔ اور ہر مہینے کی 15تاریخ کو تم
مجھے میسیج کر کے یاد کروا دیا کارہ میں ویڈیو ایک مہینہ آگے شیڈیول کر دیا کروں
گی تاکہ وہ کبھی بھی پوسٹ نہ ہونے پائے۔
تم نے ایک غلط چیز کا آغاز کیا۔ لہذا اب میں تم پر مکمل اعتماد تو نہیں کر سکتی فوری
طور پر۔ مگر کچھ عرصے بعد جب مجھے یقین ہوجائے گا کہ تم مجھے کسی قسم کا
نقصان نہیں پہنچاو گے تو میں وہ ویڈیو پرمانینٹ ڈیلیٹ کر دوں گی۔ جس پر حیدر کچھ
مطمئن ہوا اور کہا تم ٹھیک کہ رہی ہو غلطی میری ہی ہے اور یہ سب جو تم نے کیا
میرا ڈیٹا ڈیلیٹ کروایا اتنی سزا تو ملنی ہی چاہیے مجھے مگر پلیز وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر
دو قسم سے تمہاری ویڈیو اب میرے پاس کہیں بھی محفوظ نہیں۔ میں نے کہا فکر نہیں
کرو کر دوں گی۔ مگر کچھ عرصے کے بعد جب مجھے تم پر یقین ہوجائے گا۔
اس نے کہا ٹھیک ہے تم میرے پر مکمل اعتبار کر سکتی ہو۔ جب تک چیک کرنا چاہو
کر لو پھر اسکو ڈیلیٹ کر دینا۔
میں نے کہا بھول جاو اب اسکو ،اور میری طرف دھیان دو۔ جن مموں کو تم چوسنا
چاہتے تھے وہ تمہارے سامنے ہیں اپنا کام شروع کرو۔ تم نے اس دن مجھے پاگل کر
دیا تھا۔ مجھے آج پھر وہی مزہ دو جو اس دن دیا تھا۔ یہ کہ کر میں نے خود ہی اپنی
قمیص اتار دی۔ اور اپنی برا کی ہک ب ِھی فورا ہی کھول دی۔ میرے ممے اب تنے ہوئے
حیدر کے سامنے تھے جنہیں دیکھتے ہی وہ پاگل ہوگیا اور سب کچھ بھول کر انکو
چوسنے لگا۔ اسنے مجھے فورا ہی بیڈ پر لٹا لیا اور میرے اوپر لیٹ کر میرے مموں کو
زور زور سے دبانے لگا۔ میرے نپلز پکڑ کر وہ انکو دباتا اور کبھی منہ میں لیکر
چوستا۔ میں نے اپنی ٹانگیں اٹھا کر اسکی کمر کے گرد لپیٹ لی تھیں اور اسکے بالوں
میں مسلسل ہاتھ پھیر کر اسکو پیار کر رہی تھی۔ کچھ دیر وہ میرے ممے چوسنے کے
بعد نیچے چوت کی طرف جانے لگا تو میں نے اسکو روکا اور کہا ابھی مزید ممے
چوسے ابھی میرے مموں کو سکون نہیں مال۔ تو اسنے دوبار سے میرے نپلز منہ میں
لیکر زور زور سے چوسنا شروع کر دیے۔ کبھی وہ دانتوں سے کاٹتا میرے نپلز پر تو
کبھی اپنی زبان پھر کر انکے تناو میں اور اضافہ کرتا۔ کوئی 5سے 10منٹ تک وہ
بے دردی سے میرے مموں کو چوستا رہا اور میرے نپلز کو مسلتا رہا۔ اسکے بعد اس
نے پھدی کی طرف رخ کرنا چاہا تو میں نے اسکو روکا اور بیگ سے ٹائمنگ بڑھانے
والی گولی نکال کر اسے دی اور کہا اسے پانی کے ساتھ نگل لے۔ اسنے پوچھا یہ کیا
ہے تو میں نے بتایا کہ اس سے تمہارا لن منی جلدی نہیں چھوڑے گا اور تم مجھے
چود بھی سکو گے اچھی طرح۔ جس پر وہ خوش ہوگیا اور فورا ہی گولی پانی سے لے
لی۔ جتنی دیر میں اسنے گولی نگلی اتنی دیر میں میں اپنی شلوار اور پینٹی اتار کر سائیڈ
پر پھینک چکی تھی اور بیڈ پر ٹانگیں پھیال کر لیٹ گئی۔
گولی کھانے کے بعد حیدر دوبارہ سے میری طرف آیا اور اب اسکی زبان میری چوت کو
چاٹنے میں مصروف تھی۔ وہ بڑی مہارت کے ساتھ میری چوت کو چاٹ رہا تھا۔ کبھی
میری چوت کے دانے کو زبان سے مسلتا تو کبھی اپنی زبان میری چوت میں داخل کر
میری چدائی کرتا۔ میری چوت اس عمل سے گیلی ہو رہی تھی اور مسلسل گرم سے گرم
تر ہو رہی تھی۔ پھر میں نے حیدر کہ کہا کہ اپنی انگلی ڈال کر میری چدائی کرے تو
اسنے میری چوت میں اپنی انگلی داخل کر دی اور تیزی سے انگلی کو اندر باہر کرنے
لگا۔ اس عمل سے محض 2منٹ میں ہی میری چوت نے پانی چھوڑ دیا جو حیدر کے
سینے پر جا کر گرا۔ چوت کا پانی نکالنے کے بعد اس نے میری ٹانگیں اٹھا لیں اور
گھٹنوں سے لگا کر میری گانڈ اوپر کر دی۔ اور میری گانڈ کو چاٹنے لگا۔ اسکو شاید اس
بات کا احساس نہیں ہوا کہ جس گانڈ کو اس نے 2دن پہلے چوسا تھا وہ گانڈ اب
کنواری نہیں رہی بلکہ اس میں ندیم کا 8انچ کا لن چا چکا ہے۔ وہ تو بس گانڈ کو
چوسنے میں مصروف تھا جس سے میری سیکس کی خواہش میں مزید اضافہ ہوتا جا
رہا تھا۔
تھوڑی دیر گانڈ چٹوانے کے بعد میری برداشت جواب دے گئی تو میں نے حیدر کو
سائیڈ پر کیا اور فورا ہی اسکی پینٹ اتار کر اسکا لن انڈر وئیر سے باہر نکال لیا۔ 5انچ
کا لن دیکھ کر مجھے دل ہی دل میں ہنسی آئی مگر فی الحال اسی 5انچح کے لن سے
مجھے اپنی چودائی کروانی تھی۔ حیدر کا لن مکمل کھڑا تھا اور اسمیں سختی بھی تھی۔
میں نے اسکے لن کو منہ میں لیا اور اسکے 3 ،2چوپے لگائے۔ جس سے حیدر کے
منہ سے سسکیاں نکلنے لگیں تھیں۔ میں نے اسکا لن زیادہ نہیں چوسا کیونکہ میں
نہیں چاہتی تھی کہ اسکا لن پانی چھوڑ جائے۔ جس لڑکی نے مجھے ٹائمنگ والی گولی
کا بتایا تھا اور نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب لن پھدی میں ڈلوانا ہو اس سے 15سے
20منٹ پہلے یہ گولی کھانی ہے۔ اور اسکا اثر لن پر صرف تب تک رہے گا جب تک
وہ پانی نہ چھوڑ جائے۔ ایک بار پانی چھوڑ دیا تو دوسری بار یہ گولی اثر نہیں کرے
گی۔
لن کے 3 ،2چوپے لگا کر میں نے لن کو گیال کر دیا اور پھر اسکا انڈر وئیر اتار کر
بیگ سے کنڈوم کا پیکٹ نکاال اور ایک کنڈوم نکال کر اسکے لن پر چڑھانے لگی۔ جس
پر حیدر ہنسنے لگا کہ آج تو تم پوری تیاری کے ساتھ آئی ہو۔ جس پر یں نے اسکو کہا
جان من تم پھدی ہی اتنی چاہت سے چوستے ہو کہ میں تمہاری دیوانی ہوگئی ہوں۔ لن ِ
کے بغیر گزارہ بھی نہیں اسلیے لن سے چدائی کروانے کے لیے یہ بندوبست کرنا پڑا۔
کنڈوم لن پر چڑھانے کے بعد ایک بار پھر میں بیڈ پر لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں کھول کر
اسکو اپنی پھدی کا راستہ دکھایا ،اس نے ایک بار پھر سے اپنی زبان میری پھدی پر
پھیر کر اسکو گیال کیا اور اپنا لن میری پھدی پر سیٹ کر دیا۔ اور آہستہ آہستہ زور
لگانے لگا تو اسکا لن آسانی کے ساتھ پھسلتا ہوا میری پھدی میں مکمل چال گیا۔ 5انچ
کا لن بھی مجھے مزہ دے رہا تھا۔ شاید اسکی وجہ وہ کنڈوم بھی تھا جس پر ڈاٹ لگے
ہوئے تھے جو میری چوت کی دیواروں کے ساتھ رگڑ کھا رہے تھے جس سے مجھے
مزہ مل رہا تھا۔ حیدر نے آہستہ آہستہ دھکے لگانے شروع کیے تو میں نے اسے کہا فل
زور کے ساتھ دھکے لگائے۔ میری بات سن کر اسنے اپنی سپیڈ تیز کر دیا اور میری
ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر زور زور سے دھکے لگانے لگا۔
اس چودائی میں رضوان اور ندیم سے کروائی گئی چدائی کا تو مزہ نہیں تھا مگر پھر
بھی حیدر کی اس دن کی مالقات سے بہت بہتر چدائی تھی یہ۔ کچھ دیر ایسے ہی دھکے
لگانے کے بعد حیدر بوال پلیز گھوڑی بن جاو میں تمہیں گھوڑی بنا کر چودنا چاہتا ہوں۔
میں نے اسکے ہونٹوں پر ایک کس کی اور اسکو کہا جان جیسے تم چاہو میری چدائی
کر سکتے ہو۔ میں تمہاری ہوں۔ یہ کہ کر میں اسکے سامنے گھوڑی بن گئی اور اسنے
پیچھے سے اپنا لن میری چوت میں رکھا اور ایک ہی دھکے میں لن اندر ڈال کر پھر
سے دھکے لگانے شروع کر دی۔ میرے ممے ہلنے لگے اسکی چدائی سے۔ اور میں
نے اسکو خوش کرنے کے لیے زور زور سے سسکیاں لینا شروع کر دیں ۔ بیچ بیچ
میں ہلکی سی چیخ بھی مار دیتی۔ اگرچہ مجھے مزہ تو آرہا تھا مگر اتنا نہیں تھا کہ
میری چیخیں نکلتیں۔ حیدر نے میرے ممے ہلتے ہوئے دیکھے تو اسکے منہ میں پانی
آگیا اور اسنے فورا ہاتھ آگے بڑھا کر میرے مموں کو پکڑ لیا اور پیچھے سے چدائی
جاری رکھی۔ گولی اپنا کام دکھا رہی تھی اور حیدر کے لن نے ابھی تک پانی نہیں چھوڑا
تھا۔ اور کنڈوم بھی مجھے مزہ دے رہا تھا۔
کچھ دیر ایسے ہی گھوڑی بنا کر وہ مجھے چودتا رہا۔ اور اسکے دھکوں میں مسلسل
اضافہ ہو رہا تھا۔ پھر میں نے اسے کہا کہ مجھے کھڑا ہوکر چودے۔ یہ سن کر وہ بیڈ
سے اتر گیا اور میں بھی نیچے اتر کر کھڑی ہوگئی۔ میں اسکے کمپیوٹر ٹیبل کے قریب
گئی اور اسکو کہا میری ٹانگ اٹھا کر ٹیبل پر رکھے جس پر اس نے میری ایک ٹانگ
اٹھائی اور میں نے اپنی وہ ٹانگ کمپیوٹر ٹیبل پر رکھ دی ،اور اسنے نیچے سے اپنا لن
میری چوت میں گھسا کر میری چودائی شروع کر دی۔ اب اسکا منہ میری طرف ہی تھا
تو اسنے چوت کی چودائی کے ساتھ ساتھ میرے ممے بھی چوسنا شروع کر دیے۔ یہ
پوزیشن میں لیے مشکل تو تھی مگر ایسے میں پہلی بار چودائی کر وا رہی تھی اور
فلموں میں بھی لڑکیوں کو ایسے چدائی کرواتے ہوئے دیکھا تھا اس لیے میں برداشت
کرتی رہی۔ پھر کچھ دیر بعد میں نے ٹانگ اٹھا کر نیچے لے آئی دوبارہ اور اسکا لن
اپنی چوت سے نکال دیا۔ میں نے ٹیبل کی طرف منہ کیا اور ٹیبل کے اوپر چھک گئی اور
اپنے چوتڑ باہر کی طرف نکال دیے اور حیدر کو کہا اب لن ڈالے۔ اس نے اپنا لن میری
چوت میں داخل کیا اور پیچھے سے میری چودائی کرنے لگا۔ کمرے میں دھپ دھپ کی
آوازیں آرہی تھیں اور حیدر بڑی خوشی سے میری چودائی کر رہا تھا۔ پھر ایک دم سے
اسکی سپیڈ میں اضافہ ہوگیا اور دھکے میں بھی زور آگیا۔ جس سے میں سمجھ گئی کہ
اسکے لن کی بس ہو چکی ہے اور اب وہ پانی چھوڑنے واال ہے۔ میں نے بھی اپنی گانڈ
کو زور زور سے ہالنا شروع کر دیا اور اپنی چوت کو تھوڑا دبا کر ٹائٹ کر لیا۔ جس
سے کنڈوم کے ڈاٹس کی رگڑ اور بھی زیادہ ہوگئی۔ اور کچھ ہی جھٹکوں کے بعد میری
چوت اور اسکے لن نے اکٹھے ہی پانی چھوڑ دیا۔
پانی نکلنے کے بعد حیدر کچھ دیر کھڑا لمبے لمبے سانس لیتا رہا۔ اسنے تقریبا 10
منٹ میری چودائی کی تھی۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ اگر یہی گولی رضوان
کو کھالوں تو وہ ایک گھنٹے سے بھی زیادہ میری چودائی کر کے میری چوت سُجا دے
گا مگر یہ صرف 10منٹ ہی چود سکا گولی کھا کر بھی۔ مگر یہ چیز میرے لیے بہتر
بھی تھی کیونکہ حیدر سے چدائی کروا کر میرا مقصد مزہ لینا نہیں تھا بلکہ اپنا بدلہ لینا
تھا اور اسی پالن پر عمل کرنے کے لیے میں حیدر کے لن سے چدائی کروا رہی تھی۔
میں نے حیدر کو پیار کیا اور اسکی تعریف کی کہ تم نے تو آج جم کے چودائی کی ہے
میری مزہ آگیا۔ پھر میں بیڈ پر بیٹھ گئی اور اسکو کہا اب کچھ کھالو مجھے بہت بھوک
لگی ہے۔ جس پر وہ فریج میں سے پھل نکال الیا۔ میں نے پھل کاٹے اور ہم دونوں نے
ملک کر پھل کھائے۔ پھل کھانے کے بعد وہ فریج سے جوس نکال کر الیا جو میں نے
خوب مزے سے پیا۔ جوس بہت ٹھنڈا تھا اور تازہ پھلوں کا بنا ہوا تھا۔ ہم دونوں ابھی
تک ننگے تھے جوس پینے کے بعد میں نے ایک بار پھر حیدر کا لن اپنے منہ میں لے
لیا اور اسکو چوسنے لگی۔ وہ کنڈوم اتار چکا تھا۔ میں نے لن اپنے منہ میں لیکر خوب
چوسا اور کچھ ہی دیر بعد وہ دوبارہ کھڑا ہوگیا۔ لن کھڑا ہوا تو میں نے حیدر کو کہا چلو
اب 69پوزیشن بنائیں تم میری چوت چاٹو اور میں تمہارا لن چوسوں گی دیکھتے ہیں
کسکا پانی پہلے نکلتا ہے۔ یہ کہ کر وہ فورا ہی میرے اوپر آگیا مجھے لٹا کر اپنا لن
میرے منہ میں دیا اور خود میری پھدی کی طرف منہ کر کے پھدی کے اوپر جھک کر
پھدی چاٹنے لگا۔ اسکی سپیڈ بہت تیز تھی کیونکہ وہ جلد سے جلد میرا پانی نکلوان
چاہتا تھا۔ وہ پھدی چاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی انگلی بھی میری چوت پر پھیر رہا تھا
جس سے مجھے بہت مزہ آرہا تھا اور مجھے لگ رہا تھا کہ اس بار میری چوت بہت
جلدی پانی چھوڑ جائے گی۔ ساتھ ساتھ میں حیدر کا لن چوس رہی تھی۔
اور پھر وہی ہو جسکی مجھے امید تھی۔ حیدر کی زبردست مہارت تھی چوت چا ٹنے کی
جس کی وجہ سے میری چوت نے تو پانی چھوڑ ہی دیا فورا مگر جو چیز میں چیک
کرنا چاہتی تھی وہ بھی ہوگیا۔ یعنی حیدر کے لن نے بھی محض 2منٹ میں پانی چھوڑ
دیا۔
یہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی مگر میں نے اسے حیدر پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ پھر
میں نے اپنے کپڑے پہنے ،اور حیدر کے گھر سے نکلنے لگی۔ نکلنے سے پہلے اسنے
ایک بار پھر میری منت کی کہ پلیز وہ ویڈیو پوسٹ نہ کرنا تو میں نے کہا تم مجھے
ایسے ہی خوش کرتے رہو میں وہ ویدڈیو پوسٹ نہیں کروں گی۔ جس پر وہ ہنسا اور کہا
اس میں ایسی کونسی بات ہے ،یہ تو میری اپنی بھی خواہش ہے کہ میں اپنی فائزہ
آپکے کے ممے چوسوں اور انکی چوت کی خوب چدائی کروں۔ میں نے کہا بس پھر
پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں جلد ہی میں وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دوں گی۔ یہ کہ کر
میں اسکے گھر سے نکل آئی اور رکشہ لے کر اسے گھر کا ایڈریش بتایا۔
اب مجھے یقین تھا کہ جو میں نے پالن بنایا تھا اس پر عمل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔
اور جلد ہی میں حیدر سے اپنا بدلہ لے سکوں گی۔ رکشے میں بیٹھی میں اپنے پالن پر
غور کر رہی تھی۔ گھر کے راستے میں ایک جگہ پر گندہ ناال آتا تھا میں نے اپنے بیگ
سے حیدر کا میموری کارڈ ،موبائل اور ہارڈ دسک نکالی اور اس نالے میں پھینک دی
تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے ضائع ہوجائے اور نہ کسی کے ہاتھ لگے اور نہ ہی قابل استعمال
ہو۔ اب میں مکمل مطمئن تھی اور آنے والے حاالت کے بارے میں سوچ رہی تھی۔
اپنے پالن کے مطابق میں نے حیدر سے مزید کچھ مالقاتیں کیں اور اسی گولی کے
استعمال ک ذریعے اسکا لن اپنی چوت میں لیتی رہی جو مشکل سے 7سے 10منٹ
نکال جاتا تھا گولی کی وجہ سے مگر اسکے بعد اگلے راونڈ کے لیے حیدر کا لن 2
منٹ میں ہی پانی چھوڑ جاتا تھا۔ اسی دوران میں سائرہ سے بھی بالکل نارمل ملتی رہی
اور اسکو ذرا سا بھی اندازہ نہیں ہونے دیا کہ مجھے حیدر نے اسکی اس گھٹیا حرکت
کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ میں نے سمیرا سے بھی دوستی
بڑھائی۔ ایک دو بار اسکے ساتھ شاپنگ پر بھی گئی۔ اپنے پالن کے پہلے حصے یعنی
حیدر سے بدلہ لینے کے لیے سمیرا سے دوستی بہت ضرور تھی۔
پھر میں نے ایک ویک اینڈ پر سائرہ اور سمیرا دونوں کے ساتھ سوئمنگ کا پروگرام
بھی بنایا۔ لیکن اس بار رضوان ہمارے ساتھ نہیں تھا۔ اور پہلے ہی کی طرح حیدر بھی
اپنے گھر موجود نہیں تھا۔ سائرہ ،سمیرا اور میں ہم تینوں صرف برا اور پینٹی پہن کر
کافی دیر سوئمنگ کرتی رہیں۔ سائرہ سے تو میری پہلے ہی اچھی فرینکیس تھی لہذا
میں بیچ بیچ میں اسکے جسم سے چھیڑ خانی بھی کرتی رہتی۔ اور وہ بھی کسی حد تک
میرے ساتھ چھیڑ خانی کرتی۔ پھر میں نے سائرہ کے کان میں کہا کہ ذرا سمیرا کے
جسم سے بھی کھیلو اسکے ممے ہم دونوں سے بڑے ہیں۔ سائرہ میری بات سن کر ہلکا
سا مسکرائی اور اپنی بھابھی کو جا کر پکڑ لیا اور اسکے جسم پر ہاتھ پھیر کر اسکی
تعریف کرنے لگی کہ میرا بھائی تو بڑا خوش قسمت ہے جسکو تم جیسی سیکسی لڑکی
ملے گی۔ اور ساتھ ہی سائرہ سمیرا کے جسم پر بھی ہاتھ پھیرنے لگی۔ لیکن یہ سب
کچھ مذاق مذاق میں ہی ہورہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد دونوں ایک دوسرے کو کسنگ
کرنے میں مصروف ہوگئی۔ میں نے مزید آگ بڑھانے کے لیے سائرہ کے پیچھے جا کر
اسکے چوتڑ دبانے شروع کر دیے جس کی وجہ سے اسکا جسم گرم ہونے لگا اور
پہلے جو وہ شرارتا سمیرا کی کسنگ کر رہی تھی اب وہ ذرا جوش کے ساتھ سمیرا کے
ہونٹ چوسنے لگی۔ سائرہ کو گرم کرنے کے بعد میں سمیرا کی طرف گئی اور پیچھے
سے اسکی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ کمرے پر ہاتھ پھیرنے ہوئے میں اپنے ہاتھ نیچے
الئی اور اسکے چوتڑوں پر ال کر ہاتھ روک لیے۔ اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکے
نرم نرم چوتڑوں کو دبانے لگی۔ گوشت سے بھرے ہوئے نرم و مالئم چوتڑ چھو کر
مجھے خود کو بھی کچھ ہونے لگا تھا اب۔ جب میں نے چوتڑ دبانا جاری رکھے تو
سمیرا کسنگ چھوڑ کر ہنسنے لگی اور بولی آج تم دونوں کے ارادے اچھے نہیں لگ
رہے۔ باز آجاو تم دونوں۔ یہ غلط حرکتیں مت کرو۔ اس نے اتنا کہا تو میں نے جا کر
اسکے ممے پکڑ لیے اور کہا اپنی نند سے تو ممے دبوا لیے اب مجھے بھی دکھاو ذرا
تمہارے ممے کیسے ہیں اور میں اسکے ممے دبانے لگی۔ سمیرا بولی کیوں تمہارے
اپنے ممے کوئی نہیں جو میرے مموں کے پیچھے پڑ گئی ہو۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا
تھا کہ میں نے اپنے ہونٹ سمیرا کے ہونٹوں پر رکھ دیے اور سائرہ جو پہلے گرم ہو
چکی تھی وہ میرے پیچھے آکر میری کمر پر اپنے ہونٹ رگڑنے لگی اور زبان پھیرنے
لگی۔ جس سے مجھے کافی سکون مل رہا تھا۔ میں نے بھی اپنی زبان سے سمیرا کے
ہونٹوں پر دباو بڑھایا تو تھوڑی سی مزاحمت کے بعد اسنے اپنے ہونٹ کھول دیے اور
میں نے اپنی زبان اسکے منہ میں داخل کر دی۔
اب میری زبان سمیرا کی زبان سے ٹکرا رہی تھی اور ہم دونوں کے ممے جو اس وقت
برا میں قید تھے وہ ایکدوسرے سے کھیل رہے تھے۔ اب سمیرا بھی گرم ہو چکی تھی۔
میرا ارادہ تھا کہ ایک بار سمیرا کو فل ننگا کر دوں اور اسکی چوت کا پانی نکلوا دوں
تاکہ اسکو بھی لن کی طلب محسوس ہونا شروع ہو۔ مگر کچھ ہی دیر بعد سمیرا کے
ہوش بحال ہوئے اور وہ پیچھے ہٹ گئی اور پھر ہنسنے لگی ک بس بہت ہوگیا۔ مزید
نہیں۔ یہ کہ کر وہ سوئمنگ پول سے باہر نکل آئی۔ اسکے بعد میں نے اور سائرہ نے
ایکدوسرے کی طرف دیکھا اور ہم بھی ہنسنے لگیں کہ سمیرا تو بہت ڈرپوک لڑکی ہے۔
پھر ہم دونوں بھی باہر نکل آئیں۔ اور اپنے اپنے جسم وہاں پڑے ٹاول سے خشک کیے
اور پھر گاون پہن کر سائرہ کے کمرے میں آگئیں۔ سائرہ نے فریج سے جوس نکاال اور
ہم تینوں نے جوس پیا۔ جوس پینے کے بعد میں نے سائرہ کا لیپ ٹاپ آن کیا اور
انٹرنیٹ یوز کرنے لگی۔ انٹرنیٹ یوز کرتے ہوئے میں نے سمیرا سے پوچھا کہ اس نے
کبھی لڑکیوں کو آپس میں سیکس کرتے ہوئے دیکھا ہے تو وہ ہنسی اور کہا ہاں دیکھا
ہے۔ میں نے پوچھا کونسی سائٹ پر؟ تو وہ بولی سائٹ پر نہیں الئیو دیکھا ہے ابھی
کچھ دیر پہلے نیچے سوئمنگ پول میں۔ یہ سن کر سائرہ اور میں ہنسنے لگیں اور میں
نے کہا چلو آج تمہیں مکمل سیکس دیکھاتے ہیں لڑکیوں کا۔ یہ کہ کر میں نے ایک
سیکسی سائٹ کھول لی اور اس میں سے ایک لیسبو مووی جو قریبا 20منٹ کی تھی
وہ لگا لی۔
فلم کے سٹارٹ میں ہی دیکھایا کہ دو لڑکیاں پینٹی اور انڈر وئیر پہنے سوئمنگ پول کے
باہر کھڑی ہیں اور ایکدوسرے کو کسنگ کر رہی ہیں۔ کسنگ کرتے ہوئے ایک لڑکی
دوسری لڑکی کے ممے چوسنے لگی تو سائرہ جو پہلے ہی گرم ہوگئی تھی یہ سین
دیکھ کر وہ اور گرم ہوگئی اور اسنے میرا گاون اتار دیا اور اپنا گاون بھی اتار دیا۔ اب
سائرہ اور میں برا اور پینٹی میں تھے جب کہ سمیرا نے ابھی تک گاون پہنا ہوا تھا۔
میرا گاون اتار کر سائرہ بالکل اسی طرف میرے ممے برا کے اوپر سے ہی چوسنے
لگی جیسے وہ لڑکی مووی میں چوس رہی تھی۔ میں نے بھی ہلکی ہلکی سسکیاں لینا
شروع کر دیں۔ اتنی دیر میں مووی میں لڑکی نے دوسری لڑکی کا برا اتار دیا تو میں نے
بھی سائرہ کی برا کی ہک کھول دی۔ جب سائرہ نے محسوس کیا کے اسکے برا کی ہک
کھل گئی ہے تو اسنے بھی اپنا ایک ہاتھ میری کمر پر لیجا کر میرے برا کی ہک کھول
دی۔ اب ہم دونوں کے ممے برا کی قید سے آزاد ہو چکے تھے اور میں لیٹ گئی تھی۔
سائرہ میرے اوپر جھک کر میرے ممے چوسنے میں مصروف تھی۔ میں نے سمیرا کی
طرف دیکھا تو وہ تھوڑی پریشان بیٹھی تھی۔ اسنے شاید پہلے کبھی ایسے دو لڑکیوں
کو اپنے سامنے ننگا ایکدوسرے کو پیار کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔
میں نے ماحول کو مزید گرم بنانے کے لیے سائرہ کو اپنے اوپر کھینچ لیا اور ہم دونوں
ایکدوسرے کے ہونٹوں کی کسنگ کرنے لگیں اور میں نے اپنی ٹانگیں اٹھا کر سائرہ
کی کمر کے گرد باندھ لیں۔ اب اسکے چوتڑ میریے ہاتھوں کی پہنچ میں تھے۔ لہذا میں
اسکے چوتڑ دبانے لگی۔ ویسے تو سائرہ نے بھی پہلے مجھے کبھی ننگا نہیں دیکھا
تھا مگر وہ پھر بھی کافی بولڈ لڑکی تھی اور ہم نے پہلے پورن مووی اکٹھے دیکھ
رکھی تھی مگر سیکس اکٹھے نہیں کیا تھا۔ کیونکہ ہم نے مووی کالج میں موبائل پر
دیکھی تھی۔ میرے ساتھ دونوں لڑکیاں سائرہ اور سمیرا کنواری تھیں صرف میں نے ہی
لن کا مزہ لیا ہوا تھا۔ سائرہ کے چوتڑ دبانے شروع کیے تو اسکی بھی سسکیاں نکلنا
شروع ہوگئیں اور ہم دونوں اب ایکدوسرے کو بہت گرمجوشی کے ساتھ کسنگ کر رہی
تھیں۔ ہماری اس گرمی نے سمیرا کو بھی گرم کیا اور وہ بھی اپنا گاون اتار کر بیٹھ گئی۔
مگر وہ تھوڑا ہچکچا رہی تھی۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ اپنا گاون اتار چکی ہے تو میں
سمجھ گئی کہ اب وہ بھی جوائن کرنے کے لیے تیار ہے۔ میں نے فورا سائرہ کو سائڈ
پر کیا اور جا کر سمیرا کو پکڑ لیا اور اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر انکو
چوسنے لگی۔ سمیرا کے ہونٹ بہت ہی نرم و نازک تھے۔ میں اسکے ہونٹوں کا رس
چوسنے لگی تو سائرہ نے پیچھے سے آکر میری پینٹی اتار دی اور میرے چوتڑ پکڑ کر
دبانے لگی۔ میں نے سمیرا کہ نیچے لٹا لیا اور اسکا برا اتار دیا۔ اسکے 36سائز کے
ممے دیکھ کر میرے منہ میں پانی آگیا۔ گول اور سڈول ممے اور گالبی نپل ،واہ کیا
خوبصورت ممے تھے سمیرا کے۔ میں نے فورا ہی سمیرا کے مموں کو منہ میں لے لیا
اور اسکے ایک نپل کو چوسنے لگی۔ سمیرا نے پہلے کبھی مذاق میں بھی اس طرح کی
حرکت نہیں کی تھی لہذا اسکے منہ سے فورا ہی سسکیاں نکلنا شروع ہوگئیں۔ میں
سمیرا کے اوپر لیٹ گئی تھی اور سائرہ میری پینٹی اتار چکی تھی تھی وہ بھی میرے
اوپر جھکی ہوئی تھی مگر اسکا منہ میری گانڈ اور چوتڑوں پر تھا۔
لیب ٹاپ پر مووی ابھی بھی چل رلی تھی اور اسمیں ایک لڑکی دوسری لڑکی کی چوت
چاٹ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر سائرہ نے بھی اپنی زبان میرے چوتڑوں کو کھول کر میری
گانڈ پر رکھ دی۔ اور وہ اپنی زبان زور زور سے میری گانڈ کے سوراخ پر مارنے لگی
جس سے میری چوت گیلی ہونا شروع ہوگئی۔ تھوڑی دیر مزید سمیرا کے گول گول دودھ
سے بھرے ہوئے ممے چوسنے کے بعد میں تھوڑا نیچے ہوئی اور اسکے پیٹ پر اپنی
زبان پھیرنے لگی۔ پیٹ سے ہوتے ہوئے میں اسکی ناف تک آگئی اور اسکی ناف میں
زبان ڈال کر اسکو چاٹنے لگی جس سے سمیرا کو اور بھی زیادہ مزہ آنے لگا۔ اب کمرہ
ہم تینوں لڑکیوں کی گونج سے سسک رہا تھا۔ میں کسی بھی قیمت پر اس موقع کو
ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی لہذا میں نے بغیر وقت ضائع کیے سمیرا کی پینٹی بھی اتار
دی۔ سائرہ کی پینٹی اتاری تو میں نے دیکھا اسکی چوت بالوں سے بالکل صاف تھی
جس پر میں نے شکر کیا چاٹنے میں آسانی رہے گی۔ اس نے شاید ایک دن پہلے ہی
اپنے بال صاف کیے تھے۔ میں نے اسکی چوت دیکھی اور کہا کہ بڑی صاف چوت ہے
تمہاری حیدر کے لیے صاف کی تھی کیا؟؟؟ تو وہ شرما گئی اور بولی بکواس نہ کرو
حیدر نے آج تک مجھے فرنچ کس بھی نہیں کی چوت پر کس کرنا تو دور کی بات۔ میں
ہنسی اور کہا چلو حیدر کو کہتے ہیں کہ ہماری سمیرا کو ایک بار فرنچ کس ضرور کرے
وہ تڑپ رہی ہے۔ اس پر سمیرا کے گال اور بھی سرخ ہوگئے اور بولی پاگل نہیں بنو
کہیں واقعی نا کہ دینا حیدر کو۔ وہ سوچے گا کیسی لڑکی ہے اسکی منگیتر۔ میں نے کہا
اچھا پریشان نہ ہو ،اور یہ کہ کر میں نے اپنی زبان اسکی چوت پر رکھ دی جس سے
اسکی فورا ہی ایک سسکی نکلی۔ میں نے سمیرا کی ٹانگیں تھوڑی سی اوپر اٹھائیں
اور کھول دیں تاکہ چاٹنے میں آسانی رہے۔
اب میں اسکے اوپر جھکی ہوئی اسکی پھدی کو اپینی زبان سے چاٹ رہی تھی اور
میری اپنی گانڈ جو اوپر اٹھی ہوئی تھی اسے پیچھے سے سائرہ چاٹنے میں مصروف
تھی۔ پھر کچھ ہی دیر بعد اس نے بھی میری ٹانگیں کھولیں اور اوپر کی طرف منہ کر
کے لیٹ گئی۔ اسکا منہ اب میری چوت کے بالکل نیچے تھا ،نیچے لیٹ کر اسنے اپنے
ہاتھ میرے چوتڑوں پر رکھے اور کھینچ کر میرے چوتڑ نیچے کیے تاکہ میری چوت
اسکے منہ تک آسکے۔ اور وہ میری چوت چاٹنے لگی جو پہلے ہی گیلی ہو رہی تھی۔
ادھر میں نے بھی سمیرا کی چوت پر اپنی زبان پھرنی شروع کر دی۔ تھوڑی دیر تک
اسکی چوت کو اوپر سے چاٹنے کے بعد میں نے اپنی ایک انگلی بھی اسکی چوت پر
پھیرنا شروع کر دی۔ سمیرا کی چوت سے ہلکا ہلکا نمکین پانی نکل رہا تھا اور میری
زبان پر بھی لگ رہا تھا مگر میں نے اسکی چوت کو چاٹنا نہیں چھوڑا۔ اپنی انگلی سے
جیسے ہی میں نے سمیرا کی چوت کے دانے کو چھیڑا تو اسکا پورا جسم کانپ کر رہ
گیا اور کمرہ اسکی آوازوں سے گونجنے لگا۔ میں نے اسکی چوت پر اپنی زبان اور
تیزی سے پھیرنی شروع کر دی اورساتھ ساتھ اسکے دانے کو بھی سہالنے لگی۔ نیچے
میری چوت کی چٹائی بھی جاری تھی۔ کچھ دیر بعد سائرہ بولی کہ تم دونوں مزے لے
رہی ہو مجھے بھی دو کچھ مزہ تو میں نے اسے کہا کہ اٹھ کے آگے آجاو اور اپنی
چوت سمیرا کے منہ پر رکھ دو۔ یہ کہ کر میں دوبارہ اسکی چوت چاٹنے لگی۔ یہ چوت
میرے لیے بہت اہم تھی اس لیے میں اسکو چھوڑ کر ابھی سائرہ کی طرف نہیں جانا
چاہتی تھی۔
میری بات سنتے ہی سائرہ میری چوت کو چھوڑ کر اٹھی اور اپنی پینٹی خود ہی اتار دی
اور اپنی بھابھی کے منہ کے عین اوپر گٹھنوں کے بل بیٹھ گئی اور اپنی چوت سمیرا
کے منہ پر رکھ دی۔ پہلے تو سمیرا نے اپنی زبان باہر نہ نکالی ،مگر سائرہ کے اثرار
کرنے پر اور لیپ ٹاپ پر مووی دیکھ کر سمیرا نے اپنی زبان باہر نکالی اور سائرہ کی
چوت پر رکھ دی جس سے سائرہ بھی سسکیاں لینے لگی۔ اسکی چوت نے بھی پہلی بار
کسی زبان کا مزہ لیا تھا۔ میں نے اپنا منہ سمیرا کی چوت سے ہٹایا اور اسکو کہا کہ
اپنی انگلی سائرہ کی چوت کے دانے پر پھیرے اور زبان اسکی چوت کے اندر داخل
کرنے کی کوشش کرے۔ اس نے ایسے ہی کیا اور سائرہ کی چوت کے دانے پر سمیرا
کی انگلی جیسے ہی لگی وہ بھی مزے سے چیخنے لگی اور میں نے بھی اپنا کام
دوبارہ شروع کر دیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد میں نے محسوس کیا کہ سمیرا کی ٹانگیں
اکڑنا شروع ہوگئی ہیں اور اب اس نے اپنی گانڈ کو بھی ہالنا شروع کر دیا تھا۔ اسکا
مطلب تھا کہ سمیرا کی چوت اب پانی چھوڑنے کے قریب ہے۔ میں نے اپنی زبان کی
سپیڈ اور تیز کرتے ہوئے اسکی چوت میں داخل کی اور اس کی چوت میں پھیرنے لگی۔
اب سمیرا کی سسکیاں بھی تیز ہوگئں تھیں اور اسنے اپنا منہ سائرہ کی چوت سے ہٹا
لیا تھا اور اپنا سر اوپر اٹھا کر اپنی چوت کی طرف دیکھ رہی تھی کچھ ہی دیر میں
اسکے جسم کو زور دار جھٹکے لگے اور اسکی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ سمیرا کی
چوت کا پانی میرے منہ میں بھی گیا اور منہ کے اوپر بھی گرا اسکے عالوہ میرے
سینے پر اور مموں پر بھی گرا۔
سمیرا اب فارغ ہو چکی تھی مگر اسکی سانسیں ابھی تک بہت تیز چل رہی تھیں۔ میں
نے اب سمیرا کی چوت کو چھوڑا اور سائرہ کو کہا کہ وہ میرے سینے سے سمیرا کی
چوت کا پانی چاٹ کر میرا سینہ صاف کرے۔ اس نے بغیر ایک منٹ ضائے کیے اپنی
زبان میرے سینے پر رکھ کر پہلے سینے سے سمیرا کا پانی صاف کیا پھر میرے ممے
اپنے منہ میں لیکر ممے بھی چوسے اور سمیرا کا پانی بھی چاٹ لیا۔ میں گھٹنوں کے
بل بیٹھی تھی اور سائرہ میرے ممے چوس رہی تھی سمیرا اٹھی اور اسنے اپنا منہ
میری چوت پر رکھ کرمیری چوت کو چاٹنا شروع کر دیا۔ وہ بہت تیزی کے ساتھ اپنی
زبان میری چوت میں داخل کر رہی تھی۔ میری چوت پر زبان پھیرتے ہوئے سمیرا بولی
کہ تمہاری پھدی کچھ کھولی ہوئی ہے جبکہ سائرہ کی پھدی بہت ٹائٹ تھی۔ جس پر میں
نے کہا کہ ہاں یہ رضوان کے لن نے کھولی ہے۔ میری بات سن کر سائرہ نے معنی خیز
نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولی "صرف رضوان کے لن نے؟؟" میں اسکا اشارہ
سمجھ گئی تھی کیونکہ اسے یقین تھا کہ اب تک حیدر مجھے بلیک میل کر کے اپنا لن
میری چوت میں داخل کر چکا ہوگا۔ میں نے سائرہ کی طرف دیکھا اور ایسے ہی جواب
دیا کہ ہاں صرف رضوان کے لن نے۔ اور اسکو یہ محسوس کروایا کہ جیسے میں اس
زیر لب
سے کچھ چھپا رہی ہوں اور حیدر کے بارے میں اسکو نہیں بتانا چاہتی۔ وہ ِ
مسکرائی اور پھر سے میرے ممے چوسنے لگی۔ نیچے سمیرا کی انگلی میری چوت
کے دانے پر تھی اور زبان میری چوت کے اندر 2منٹ میں ہی میری چوت نے بھی
جواب دے دیا اور پانی چھوڑ دیا جس نے سمیرا کا پورا منہ بھر دیا۔ چوت کا پانی
نکلنے کے بعد مجھے سکون ہوا تو میں نے سمیرا کے چہرے پر کسنگ شروع کر دی
اور اپنی ہی چوت کے پانی کا مزہ لینے لگی۔ پھر ہم دونوں نے ملکر سائرہ کو پکڑ لیا
اور میں سائرہ کی چوت کو چاٹ رہی تھی جبکہ سمیرا نے اپنی زبان سائرہ کی گانڈ پر
رکھی ہوئی تھی۔ کچھ ہی دیر کی کوشش کے بعد سائرہ کی پھدی بھی پانی پانی ہوگئی۔
اب ہم تینوں لڑکیاں فارغ ہو چکی تھیں۔ اور جس بیڈ پر ہم سیکس کر رہی تھیں اسکی
چادر بھی کافی گیلی ہوگئی تھی ہماری چوت کے پانی سے۔
اب میں جانتی تھی کہ سمیرا کی چوت اور سائرہ کی چوت دونوں ہی لن کی خواہش بھی
کریں گی۔ سائرہ کو اگر لن کی زیادہ طلب ہوتی تو وہ اپنا بندوبست خود کر سکتی تھی
کیونکہ وہ بہت بولڈ لڑکی تھی اور اسکی کافی لڑکوں کے ساتھ دوستی بھی تھی وہ
کسی بھی لڑکے کے لن سے اپنی پیاس بجھا سکتی تھی۔ مگر سمیرا ان چیزوں سے
دور رہنے والی لڑکی تھی۔ اور اسکے لیے لن کا حصول یقینا مشکل کام تھا۔ مجبورا
اسکو برداشت ہی کرنا تھا۔ اور اسکے لیے لن کا بندوبست مجھے ہی کرنا تھا۔
یہ سارا کام کر کے کچھ دیر مزید میں انکے گھر رکی اسکے بعد سائرہ نے اپنے
ڈرائیور کے ساتھ مجھے میرے گھر تک ڈراپ کروایا اور میں بہت ہی مطمئن اپنے گھر
چلی گئی۔ مجھے میری منزل قریب ہی نظر آرہی تھی۔
میرا پالن کوئی بہت خطرناک نہیں تھا ،مجھے تو محض اپنی تذلیل کا بدلہ لینا تھا جو
حیدر نے بلیک میلنگ کے ذریعے کی تھی۔ اور اسکا بدلہ یقینی طور پر حیدر کی زندگی
لینا اسکو جان سے مارنا ہرگرز نہیں ہو سکتا۔ اور آج سمیرا کے ساتھ لیسبو سیکس
کرنے کے بعد میرا پالن کامیابی کے بالکل قریب تھا۔ بس تھوڑی سی محنت اور کرنا
باقی تھی۔
اس واقعہ کے کوئی ایک ہفتے کے بعد مجھے حیدر کی کال آئی اور اسنے بتایا کہ وہ
گھر میں اکیال ہے اگر میں آنا چاہوں تو آسکتی ہوں۔ میں تو پہلے ہی اس موقع کے
انتظار میں تھی فورا سے پہلے ہی گھر سے نکلنے کا بہانہ گھڑ لیا اور حیدر کے پاس
پہنچ گئی۔ ٹائمنگ بڑھانے والی گولیاں ابھی بھی میرے پاس تھیں کیونکہ میں جب بھی
حیدر سے ملتی تو اسکا لن لینے سے پہلے اسکو ایک گولی کھالتی تھی جس سے وہ
10منٹ تک میری چودائی کر لیتا تھا ۔مجھے بھی کسی حد تک سکون مل جاتا اور وہ
بھی مطمئن ہوجاتا کہ اسکا سارا مسئلہ حل ہوچکا ہے۔ آج بھی جاتے ہی میں نےحیدر
کو وہ گولی کھال دیاور اسے بعد تھوڑی دیر وہ میرے ممے چوستا رہا اور نپلز سے
کھیلتا رہا ،پھر میں نے اسکو اپنی پھدی اور گانڈ چاٹنے کو کہا۔ میں جب بھی حیدر سے
ملتی تھی تو اس سے اپنی گانڈ اور چوت ضرور چاٹنے کو کہتی کیونکہ اس کام میں وہ
ماہر تھا۔ اس کام کے بعد اس نے مختلف پوزیشنز میں میری چودائی کی اور میں کسی
حد تک مطمئن ہوکر پانی چھوڑی رہی۔
چودائی مکمل ہونے کے بعد حیدر بیڈ پر لیٹ گیا تو میں بھی اسکے سینے پر سر رکھ
کر لیٹ گئی اور اسکے سینے سے پیٹ کی طرف ہاتھ پھیرنے لگی۔ اور کچھ دیر بعد اپنا
ہاتھ اسکے لن پر لیجا کر لن سے کھیلنے لگی۔ یہ حرکتیں کرتے ہوئے میں نے باتوں
باتوں میں سمیرا کا ذکر چھیڑ دیا۔ اور حیدر کو بتایا کہ سمیرا کے ممے بہت اچھے ہیں
کبھی ہاتھ لگایا انکو؟ تو وہ بوال نہیں ہمت نہیں پڑتی۔ دل تو کرتا ہے اوپر سے وہ شرٹ
بھی کافی ٹائٹ پہنتی ہے مگر میری ہمت نہیں ہوئی کبھی۔ میں ہنسی اور کہا کہ تم کہو
تو میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں۔ سمیرا بھی تمہارے لیے مری جا رہی ہے۔ وہ 2
مہینے سے ادھر ہے اور مزید کچھ ہی دن ادھر رہے گی پھر واپس اسالم آباد چلی جائے
گی۔ وہ تمہارے ساتھ کسنگ کے لیے ترس رہی ہے مگر تم اسکو لفٹ ہی نہیں
کرواتے۔
حیدر نے مجھے حیرانگی سے دیکھا اور کہا تمہیں یہ سب کچھ سمیرا نے کہا؟ میں
بولی تو اور کس نے کہنا ہے۔ وہ رضوان اور میرے جسمانی تعلقات کے بارے میں
جانتی ہے تو آخر وہ بھی لڑکی ہے اسکا بھی دل کرتا ہوگا کہ اپنے منگیتر کے ساتھ وہ
بھی انجوائے کرے ،اسکے جسم کی گرمی لے اور اپنے جسم کی پیاس بجھائے۔ یہ سن
کر حیدر مزید حیران ہوا اور بوال لیکن اس نے یہ سب کچھ مجھے کیوں نہیں بتایا۔ میں
نے کہا پاگل تم خود لڑکے ہوکر شرماتے ہو وہ تو پھر لڑکی ہے۔ وہ بھی تم سے شرم
کی وجہ سے یہ باتیں نہیں کر سکتی مگر میری وہ اچھی دوست بن گئی ہے تو اس نے
میرے ساتھ اپنے دل کی بات کر لی۔
میری بات ختم ہوئی تو حیدر نے پوچھا مگر یہ سب ہوگا کیسے؟ میں کیسے اسکے
ممے پکڑ سکتا ہوں؟ پہل تو مجھے ہی کرنا ہوگی نا؟؟ میں نے اسکو کہا یہ سب تم مجھ
پر چھوڑ دو وہ تمہیں اپنے ممے بھی دے گی ،تمہارے اس خطرناک لن کے ساتھ بھی
کھیلے گی اور اپنی چوت بھی تمہیں دے گی۔ مگر یہ سب کچھ بہت جلدی کرنا ہوگا
کیونکہ اب وہ صرف 2ہفتے مزید ادھر ہے پھر وہ واپس چلی جائے گی۔
اندھا کیا مانگے 2 ،آنکھیں۔ حیدر کا بھی یہی حال تھا۔ لن تو اسکا بچوں واال تھا مگر
میں ہر چدائی میں اسکی تعریف کرتی تھی جس سے وہ اپنے آپ کو بڑا مرد سمجھنے
لگ گیا تھا اور پھر میری چوت کا مزہ تو وہ لے ہی چکا تھا اب کنواری پھدی کے لیے
اسکا دل للچا رہا تھا۔ اسنے فورا حامی بھر لی اور کہا کہ بس مجھے پھر جلدی سے
سمیرا کے ممے اور چوت دلوا دو۔ میں نے اسکا لن جو اب کھڑا ہو چکا تھا دوبارا سے
وہ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور آہستہ آہستہ اسکی مٹھ مارنے لگی۔ اور حیدر کو کہا کام
تو میں کر دوں گی مگر میری ایک شرط ہے۔ حیدر نے کہا مجھے تمہاری ہر شرط
منظور ہے۔ میں بولی پہلے سن تو لو کہ شرط کیا ہے۔ تم یہ شرط پوری نہیں کر سکتے۔
وہ بوال بتاو۔ تو میں نے اسکو کہا کہ شرط یہ ہے کہ تم سمیرا کو میرے سامنے ہی
چودو گے اور ساتھ ہی میری چدائی بھی کرو گے۔ یعنی سمیرا اور مجھے ایک ساتھ
چودنا پڑے گا۔
یہ سن کر حیدر نے نہ میں سر ہال دیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ سمیرا تو یہ کبھی بھی
نہیں مانے تی۔ وہ تمہارے سامنے مجھے اپنے ممے کیوں دے گی۔ میں نے اسکو پھر
کہا کہ یہ سب تم مجھ پر چھوڑ دو تم اپنی رضامندی بتاو تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں؟؟
وہ بوال کہ اچھا اگر وہ مجھے اپنے ممے دے بھی دے تمہارے سامنے اور چوت بھی
میں اسکی مار لوں ،مگر وہ کبھی بھی یہ برداشت نہیں کرے گی کہ میں تمہاری بھی
چوت ماروں۔ بلکہ مجھے تو ڈر ہے اگر اسکو ابھی پتہ لگ گیا کہ میں تمہاری چوت لیتا
رہتا ہوں تو وہ ابھی مجھے چھوڑ دے گی۔ میں نے پھر اسکو کہا کہ ان سب باتوں کی
فکر تم نہ کرو ،بس مجھے یہ بتا دو کہ تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں؟؟ وہ مجھے آنکھ
مارتے ہوئے بوال اگر اکٹھی ہی 2چوتیں ایک ساتھ مل جائیں تو کون پاگل اعتراض
کرے گا؟؟؟ میں نے کہا بس پھر ٹھیک ہے۔
میں سارا کام کر دوں گی تمہارا ،مگر اب یہ تمہارا کام ہے کہ کچھ ایسا سین بناو کہ
سمیرا گھر میں اکیلی ہو اور سائرہ اور باقی گھر والے گھر پر نہ ہوں۔ میں اس وقت
گھر آوں گی اور سمیرا سے ملوں گی۔ تو وہ بوال کہ ایسا مشکل ہے کیونکہ اگارجب
ممی ڈیڈی گھر پر نہیں ہوتے تو سائرہ آپی اور سمیرا دونوں ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ میں
نے کہا یہ اب تمہارا مسئلہ ہے اگر سمیرا کی چوت چاہیے تو تمہیں ایسا بندوبست کرنا
پڑے گا۔ اب اتنا سا کام تو تم بھی کر لو ،باقی تمہراے لن کو سمیرا کی چوت میں ڈلوانا
میرا کام ہے۔ حیدر نے کہا چلو ٹھیک ہے میں کچھ سوچتا ہوں۔
میں نے کہا کہ سوچو اور جلدی سوچو ،زیادہ ٹائم نہیں ،یہ کہ کر میں نے اسکا لن منہ
میں لیا اور اسکی منی نکلوا کر واپس اپنے گھر چلی آئی۔
تین دن بعد حیدر کا مجھے فون آیا کہ کل دوپہر 12بجے ہمارے گھر آجانا کام ہوجائے
گا جیسے تم نے کہا ہے۔ مگر یہ دیکھ لو مجھے چوت ملنی چاہیے۔ میں نے کہا تم بے
فکر رہو۔ اگلے دن ٹھیک 12بجے میں اسکے گھر پہنچی تو گھر پر سمیرا اور حیدر
تو موجود تھے ہی مگر ساتھ میں سائرہ بھی تھی۔ میں اسے دیکھ کے کچھ حیران ہوئی
اور وہ مجھے دیکھ کر حیران ہوئی کہ تمہارا کیسے آنا ہوا بغیر بتائے؟؟؟ مجھے فوری
طور پر سمجھ نہیں آئی کہ میں کیا جواب دوں ،ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ حیدر بوال
چھوڑیں آپی اس بات کو ،اچھا ہوا فائزہ آپی آگئیں اب ہم دونوں جا سکتے ہیں باہر۔ یہ
سن کر سائرہ نے بھی کہا کہ ہاں یہ تو اچھا ہوا ،اور مجھے کہنے لگی کہ تم سمیرا کے
ساتھ ٹائم گزارو حیدر اور میں باہر جا رہے ہیں شام تک آجائیں گے۔ یہ کہ کر وہ اپنا
بیگ لینے کمرے میں گئی میں نے حیدر کی طرف دیکھا تو اس نے میرے قریب آکر
ہلکی آواز میں بوال کہ سائرہ آپی کو میں دور کے رشتے داروں کی طرف لے کر جا رہا
ہوں ،وہاں چھوڑ کر دوستوں کے ساتھ جانے کا بہانہ بنا کر میں واپس گھر آجاوں گا۔
پھر دیکھتے ہیں تم کیسے مجھے سمیرا کے ممے اور چوت دلواتی ہو۔ میں نے اسکو
کہا تم بے فکر رہو ،مگر زیادہ دیر نا کرنا آنے میں اور سیدھے اپنے کمرے میں آنا
واپس۔
سائرہ اور حیدر گھر سے نکلے تو سمیرا اور میں اوپر چلے گئے اور سائرہ کے کمرے
میں جا کر کمرہ الک کر دیا میں نے۔ کچھ دیر ہم نے باتیں کیں اور پھر میں سمیرا سے
پوچھنے لگی کہ اپنی چوت کا سناو اس دن مزہ آیا تھا؟ تو اسکا چہرہ شرم سے سرخ
ہوگیا اور بولی ہاں مزہ تو بہت آیا تھا۔ میں نے پوچھا کہ جب چوت سے پانی نکال تو
کیسا لگا؟ اس پر وہ بولی کہ بہت سکون مال۔ میں نے پوچھا کہ دوبارہ دل نہیں کیا کہ
کوئی تمہاری چوت چاٹے؟ تو سمیرا بولی دل بھی کیا اور عمل بھی کیا اس پر۔۔ میں نے
حیران ہوکر پوچھا کہ کس نے چاٹی تمہاری چوت تو اس نے کہا تمہارے جانے کے بعد
سائرہ اور میں 2بار سیکس کر چکی ہیں اور ایکدوسرے کا پانی نکلوا چکی ہیں۔ میں
سائرہ کو تو بھول ہی گئی تھی کو وہ بھی ہمارے ساتھ تھی اس کام میں۔ تو میں نے
سمیرا سے پوچھا کہ تم دونوں نے تو اپنی پیاس بجھا لی اب میرے لیے بھی کچھ کرو؟؟
یہ سن کر اس نے سائرہ کا لیپ ٹاپ اٹھایا اور ایک مووی لگا لی جس میں 2لڑکیاں
آیک دوسرے کے مموں سے کھیل رہی تھی۔ مووی لگانے کا مقصد اپنے آپ کو گرم
کرنا تھا۔ کچھ دیر مووی دیکھنے کے بعد میں نے نوٹ کیا کہ سمیرا اپنے ہاتھوں سے
اپنے ممے دبا رہی تھی۔ میں نے یہ دیکھا تو میں سمیرا کے ساتھ جا کر بیٹھ گئی اور
اپنے ہاتھ اسکے مموں پر رکھ دیے۔ میں نے جیسے ہی سمیرا کے مموں پر ہاتھ رکھا
تو وہ تڑپ اٹھی اسنے میرے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ لیے اور میرے ہاتھوں سے اپنے
ممے دبانے لگی۔ میں نے اسکے ممے دبانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہونٹ سمیرا کے
ہونٹوں پر رکھ دیا اور سمیرا نے فورا ہی رسپانس دینا شروع کر دیا وہ بڑی بے صبری
کے ساتھ میرے ہونٹ چوس رہی تھی۔ مجھے یہیں سے اندازہ ہوگیا تھا کہ سمیرا میں
گرمی بہت زیادہ ہے اور اسکی یہ گرمی میرے پالن کو اور آسان بنا دے گی۔
سمیرا نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال لی تھی اور وہ مسلسل میری زبان کے ساتھ
کھیل رہی تھی ،کچھ دیر بعد میں نے سمیرا کے شرٹ اتار دی تھی اور اسکی برا بھی
اتار دی اور اسکے ننگے مموں کو منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ میں سمیرا کے گالبی
اور سخت نپلز کو اپنے دانتوں سے کاٹ رہی تھی ،اور وہ مسسلس سسکیاں لے رہی
تھی اور اسکا جسم کانپ رہا تھا۔ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ اب اسکو سیکس میں
مزہ آن لگا ہے اور بھی سیکس کی دیوانی ہو چکی ہے۔ میں نے اسکو بیڈ پر لٹا دیا اور
خود اسکے اوپر لیٹ گئی۔ میں سمیرا کے پورے جسم پر بھرپور طریقے سے پیار کر
رہی تھی کیونکہ میرا مقصد اسکو زیادہ سے زیادہ گرم کرنا تھا تاکہ اسکی چوت محض
پانی نکلنے سے سکون حاصل نہ کر سکے بلکہ بعد میں اسکو لن کی بھی طلب ہو۔
اب سمیرا اور میں دونوں ہی ننگی ہو چکی تھیں ،میں نے اپنے کپڑے تو خود ہی اتار
دیے تھے اسی دوران سمیرا نے بھی اپنی پینٹ اتار دی تھی اور ہم ایکدوسرے سے
چمٹ کر ایکدوسرے کے جسم کی گرمی حاصل کر رہی تھیں۔ نان سٹاپ کسنگ اور ساتھ
میں ایکدوسرے کے چوتڑوں کو دبانے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ کچھ ہی دیر بعد سمیرا میرے
ممے چوسنے میں مصروف تھی اور میرا ہاتھ سمیرا کی پھدی کر رگڑ رہا تھا جو کافی
گیلی ہو رہی تھی۔ میں نے اپنی انگلی سمیرا کی چوت میں داخل کرنا چاہی تو وہ بہت
ٹائٹ تھی مگر اتنا اندازہ ہوگیا کہ وہ فل گرم ہے اندر سے۔۔۔ میں نے اپنی انگلی کا دباو
بڑھایا تو سمیرا کی چیخ نکلی۔ کنواری پھدی میں انگلی جانے کی بھی تکلیف ایسے
ہوتی ہے جیسے کوئی 9انچح لمبا اور 2انچ موٹا پھدی میں گھس گیا ہو۔ اس نے
تکلیف کی شدت سے میرے مموں پر اپنے دانت زور سے گاڑ دیے جس سے میری بھی
چیخ نکل گئی مگر میں نے انگلی واپس نہیں نکالی۔ کیونکہ میں سمیرا کو پورا مزہ دالنا
چاہتی تھی کہ پھدی میں جب کچھ جائے تو کیسا مزہ آتا ہے۔
اب سمیرا نے میرے ممے چھوڑ دیے اور وہ مزے کی شدت سے اپنے جسم کو کبھی
دائیں پٹخ رہی تھی اور کبھی دائیں۔ ساتھ میں اسکی چیخوں کا سلسلہ جاری تھا۔ کچھ
دیر اسکی پھدی میں انگلی کرنے کے بعد میں نے انگلی نکال لی اور اسکے اوپر 69
پوزیشن میں لیٹ گئی۔ اب میں نے دوبارہ اسکی پھدی میں انگلی بھی ڈال دی اور زبان
سے اسکی پھدی کی الئن کو چاٹنا بھی شروع کر دیا۔ دوسری طرف میری اپنی پھدی
ت جزبات سے اس نے بھی اپنی انگلی اس وقت سمیرا کے منہ کے اوپر تھی اور شد ِ
میری پھدی میں ڈال دی تھی اور پھدی کو بھی چاٹ رہی تھی جس سے مجھے بہت مزہ
آرہا تھا۔ سمیرا کو پھدی چاٹنے میں تھوڑی مشکل ہو رہی تھی کیونکہ اس سے اپنی
چیخیں کنٹرول نہیں ہو رہی تھیں ،جب اسکے لیے چیخ کنٹرول کرنا زیادہ مشکل ہوتا تو
وہ زور سے چیخ بھی مارتی اور اپنی انگلی کی سپیڈ میری پھدی میں بڑھا دیتی۔
میں نے سمیرا کی ہی شرٹ سے اسکا بھی منہ صاف کیا۔ اور اسکے ساتھ لیٹ گئی۔
اسکا جسم ابھی تک گرم تھا۔ ہم نے ایکدوسرے کو مسکرا کر دیکھا اور میں نے پوچھا
مزہ آیا؟ تو اسنے خوش ہوکر کہا بہت زیادہ۔ پہلے تو صرف پھدی چاٹی تھی آج تو تم
نے انگلی ڈال کر مجھے پاگل کر دیا تھا۔ میں نے کہا سوچو جب لن تمہاری پھدی میں
جائے گا تو کتنا مزہ آئے گا۔ اس نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا میری قسمت تم جیسی
نہیں تم تو اپنے منگیتر سے چدوا لیتی ہو میرا منگیتر تو بہت شرمیال ہے اسنے کبھی
مجھے کس تک نہیں کی۔ میں نے بھی ایک آہ بھری اور کہا ابھی تک میری پیاس نہیں
بجھی لن کی شدید طلب ہورہی ہے۔ تو سمیرا ہنس پڑی اور کہا آج تو مجھے بھی کچھ
عجیب سا فیل ہورہا ہے دل کر رہا ہے دوبارہ تمہاری انگلی اندر چلی جائے۔ میں سمیرا
کے اوپر جھکی اور اسکے ہونٹ چوستے ہوئے اپنی انگلی دوبارہ اسکی پھدی پر
مسلنے لگی اور اسکو کہا تمہیں انگلی کی نہیں لن کی طلب ہو رہی ہے۔ وہ بولی ہاں
شاید ایسا ہی ہو۔
میں نے لیپ ٹاپ اٹھا کر مووی چینج کی اور اب کی بار لیسبو سیکس کی بجائے ایک
ٹرپل ایکس مووی لگا دی جس میں ایک مضبوط مرد اپنے 8انچ کے لن سے ایک
خوبصورت پھدی کو چود رہا تھا۔ اور لڑکی بار بار چیخیں مار رہی تھی سسکیاں لے
رہی تھی اور اپنی گانڈ ہال ہال کر چدائی کا بھرپور مزہ لے رہی تھی۔ یہ بہت زبردست
مووی تھی سمیرا بھی مووی دیکھنے میں محو تھی۔ ہم دونوں ابھی تک ننگی ہی بیٹھی
تھیں۔ میں نے اپنی انگلی دوبارہ سے سمیرا کی پھدی میں داخل کر دی تھی ۔ سمیرا کی
پھدی اندر سے بہت زیادہ گیلی تھی اور ٹائٹ بھی تھی۔ انگلی ڈلتے ہی سمیرا کا برا حال
ہوگیا اور وہ تڑپنے لگی ،میں اسکے ساتھ لیٹ گئی میری انگلی اسکی پھدی میں تھی
اور اسکے ممے میرے منہ میں تھے۔ وہ پاگل ہو رہی تھی۔ اس وقت وہ بہت گرم تھی
اور یہی وقت تھا اسکو لن کے لیے راضی کرنے کا۔۔۔
میں نے اسکو کہا سمیرا تمہیں لن چاہیے؟؟ اس نے بغیر سوچے سمجھے کہا ہاں
مجھے لن چاہیے۔۔۔ میں نے کہا رضوان تو الہور گیا ہوا ہے اگر وہ یہاں ہوتا تو میں
اسکو بال لیتی وہ تمہاری اور میری دونوں کی چوت کی پیاس بجھا دیتا۔ رضوان کا نام
سن کر سمیرا بولی کیا رضوان مجھے چودتا؟؟ میں نے اسکی پھدی میں انگلی کی سپیڈ
اور بڑھا دی اور کہا کہ ہاں لڑکوں کو تو پھدی چاہیے ہوتی ہے مل جائے تو کیوں نہیں
چودے گا۔ سمیرا نے ایک بار پھر سے سسکیاں لینا شروع کر دیں۔ تو میں نے پھر کہا
کہ کاش رضوان ہوتا تو میں اسے بال کر تمہاری پھدی کی پیاس بجھا دیتی۔ اسنے
سسکیاں لیتے ہوئے ہی کہا کہ میری پھدی جل رہی ہے پلیز میری پیاس بجھاو۔ میں نے
آہستہ سے کہا کہہ حیدر گھر پر ہی ہے ،اسکا لن لینا ہے؟؟ سمیرا بولی کسی کا بھی مل
جائے یار میری پھدی میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اور سمیرا واقعی جس طرح اپنا جسم دائیں
بائیں پٹخ رہی تھی۔ میں نے اب انگلی اسکی پھدی سے نکالی کیونکہ میں نہیں چاہتی
تھی کہ ابھی اسکا پانی نکلے۔ ابھی اسکو مزید گرم رکھنا تھا ،میں سمیرا کے اوپر لیٹ
گئی اور اسکے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا جو اس وقت جل رہے تھے۔
میں نے نوٹ کیا کہ میری پھدی کے نیچے سمیرا کا ہاتھ ہے میں نے نیچے دیکھا تو
سمیرا اپنی پھدی مسل رہی تھی اپنے ہی ہاتھ سے۔ اسکا مطلب تھا کہ اس وقت سمیرا کا
بہت ہی برا حال تھا۔ میں سائیڈ پر ہوکر لیٹ گئی اور سمیرا کا ہاتھ اسکی پھدی سے ہٹا
کر اپنی پھدی پر رکھ دیا اور اسکو کہا اب وہ میری پھدی مسلے اپنے ہاتھ سے۔ سمیرا
فورا میرے اوپر آگئی مگر اسکو سکون ابھی بھی نہیں تھا اسکا چہرہ سرخ ہورہا تھا
اور جسم انتہائی گرم تھا جیسے بخار ہو رہا ہو۔ مگر اس نے نا چاہتے ہوئے بھی میری
پھدی پر انگلی مسلنا شروع کر دی اور اب سسکیوں کی باری میری تھی۔ مگر سمیرا
سے صبر نہیں ہورہا تھا اسنے ایک بار پھر تڑپتے ہوئے مجھے کہا کہ فائزہ میری
پھدی جل رہی ہے پلیز کچھ کرو میرے لیے۔ میں نے اسکو کہا اس وقت تو تم ہی کچھ
کر سکتی ہو۔ حیدر تمہارا منگیتر ہے اسکو بال لو اپنی بھی پیاس بجھاو اور میری بھی۔
میری یہ بات سن کر سمیرا جیسے سکتے میں آگئی۔ میں نے دل میں سوچا معلوم نہیں
یہ میری اس بات کو کس انداز میں لے گی۔ شاید اسکو برا لگا ہو کہ میں نے حیدر کا لن
مانگا ہے۔ مگر میرا پہلے واال اندازہ صحیح نکال کہ جب عورت کی پھدی کو لن کی شدید
طلب ہو تو پھر وہ ایسی باتوں پر غور کر ہی نہیں سکتی۔ سمیرا بھی یہ نہیں سوچ رہی
تھی بلکہ اس نے مجھے کہا کہ میں حیدر کو کیسے کہوں اس نے تو کبھی مجھے کس
تک نہیں کی۔ میں اس سے ایسی بات نہیں کر سکتی ،پلیز فائزہ تم کچھ کرو حیدر کو
کہو یا رضوان کو بال لو اور کچھ نہیں ہوتا تو کچن سے کوئی گاجر مولی ہی لے آو اور
میری پیاس بجھا دو۔
میں نے اسکو کہا نہیں تمہاری پھدی ابھی کنواری ہے اس میں گاجر مولی لینے کی نہ
سوچو ،اسکو پہلی بار ایک لن سے ہی چدوانا ہے۔ ورنہ تمہیں بہت تکلیف ہوگی۔ میں
نے اسے کہا کہ اگر تم کہو تو میں ٹرائی کر سکتی ہوں حیدرکے لن کے لیے۔ شاید وہ
ہم دونوں کی پیاس بجھا دے۔ سمیرا نے کہا مگر تم اسکو کہو گی کیسے؟ وہ تمہیں آپی
کہتا ہے۔ میں نے اسکو کہا جب مرد ننگی لڑکی دیکھ لے پھر نہ اسکو آپی یاد رہتی ہے
نا باجی پھر اسکی نظر صرف لڑکی کی پھدی پر ہوتی ہے۔ سمیرا بولی بس پھر کرو
کچھ۔ میں نے سمیرا کو کہا کہ تم برا اور پینٹی پہن لو میں نے بھی برا اور پینٹی پہن
لی۔
اسکے بعد میں نے سمیرا کو کہا کہ اپنی شرٹ ب ِھ پہن لو مگر پینٹ نہ پہنو اور لیپ ٹاپ
کے سامنے بیٹھ جاو۔ اسی طرح میں نے بھی شرٹ پہن لی مگر پینٹ نہیں پہنی۔ اب ہم
دونوں کی ٹانگیں ننگی تھیں صرف پینٹی پہنی ہوئی تھی۔ میں نے لیپ ٹاپ کی وہ ونڈو
بند کر دی جس میں وہ مووی چل رہی تھی مگر ونڈو بند کرنے سے پہلے وہی مووی
دوبارہ سے لگا دی تھی اور اسکی آواز بند کر دی تھی۔ میں نے سمیرا کو کہا کہ وہ لیپ
ٹاپ پر فوٹو شاپ کھول کر بیٹھ جائے اور اسمیں ایک تصویر بھی کھول لی جس میں
ایڈیٹنگ کرنی تھی۔ حیدر فوٹو شاپ میں ماہر تھا اور یہ بات سمیرا بھی جانتی تھی۔ میں
نے اسکو کہا کہ ایسے ہی اس میں پنگے لیتی رہو میں بہانے سے حیدر کو بالتی ہوں
کہ فوٹو شاپ سکھا دے ہمیں۔ یہ کہ کرمیں باہر نکلنے لگی تو میں نے دیکھا کہ سمیرا
کا ہاتھ ابھی تک اپنی پھدی پر تھا ،یہ دیکھ کر مجھے ہنسی آئی اور میں نے اسکو کہا
اپنا ہاتھ تو اب وہاں سے ہٹا لو۔ جس پر وہ شرمندہ ہوگئی اور ہاتھ ہٹا لیا۔ میں کمرے
سے باہر نکلی اور حیدر کے کمرے کی طرفج جانے لگی۔
گھر میں ہم تینوں کے عالوہ کوئی نہیں تھا ،جو مالزم تھے وہ نیچے ہوتے تھے اور
بغیر بالئے گھر کے اندر نہیں آسکتے تھے اس لیے میں بال جھجھک ننگی ٹانگیں لیے
محض شرٹ پہنے حیدر کے کمر میں گئی ،میں اندر داخل ہوئی تو وہ بے چینی سے
ٹہل رہا تحا مجھے دیکھتے ہی اسکے چہرے پر خوشی آگئی اور جب اس نے میری
ننگی ٹانگیں دیکھی تو فورا ہی میری ٹانگوں پر ہاتھ پھیرنے لگا اور بوال کہ اب مجھے
سمیرا کے ممے کب ملیں گے۔ میں نے کہا بس 5منٹ بعد۔ تم وہ گولی کھاو ،اور 5
منٹ کے بعد سائرہ کے کمرے میں آجاو۔ اسنے پوچھا ننگا ہو کر آوں؟؟؟ اسکی یہ بات
سن کر میں ہنس پڑی اور کہا نہیں پاگل ،تم نے ایسے ہی آنا ہے ،سمیرا فوٹو شاپ میں
ایک تصویر کھول کر بیٹھی ہے اس کو ایڈیٹ کرنے کے لیے ہیلپ چاہیے۔ تم ہیلپ کرنے
آو گے باقی آگے کا کام میں پھر کروں گی۔ ساتھ ہی اسکو میں نے یہ بھی بتا دیا کہ
سمیرا بھی میری طرح بغیر پینٹ کے صرف پینٹی پہن کر بیٹھی ہے اسکی ٹانگیں ننگی
ہونگی لہذا تم نےتھوڑا حیرانگی کا مظاہرہ بھی کرنا ہے اور زیادہ جلدی بھی نہیں کرنی
اسکے مموں کو پکڑنے کے لیے ،میں خود ہی آہستہ آہستہ ماحول بنا لونگی۔
یہ کہ کر میں کمرے سے باہر آگئی اور واپس سمیرا کے پاس آئی تو اسنے میرے آتے
ہی مجھ سے پوچھا کہاں ہے حیدر؟؟ میں نے کہا صبر کرو آرہا ہے ابھی۔ سمیرا نے کہا
اس نے تمہیں اس طرح دیکھ کر کیا کہا۔ می نے کہا وہ تو کافی شرما رہا تھا شرم کے
مارے اسنے نظریں ہی اوپر نہیں اٹھائیں۔ یہ سن کر سمیرا مطمئن ہوگئی۔ کچھ ہی دیر
بعد دروازہ کھال اور حیدر اندر داخل ہوا ،اسکی نظریں سمیرا پر ہی تھیں اور پھر ساتھ
ہی اسنے سمیرا کی ننگی ٹانگوں کا نظارہ کیا تو اسکے چہرے پر خوشی واضح تھی
اور وہ اپنے چہرے پر حیرانگی کے مصنوعی تاثرات بھی نہیں ال سکا۔ سمیرا نے اسکو
اپنی ٹانگوں کی طرف دیکھتے پایا تو اس نے ٹانگیں لپیٹ لیں اور اپنے ہاتھوں سے
چھپانے کی کوشش کرنے لگی ،سمیرا بھی شرما رہی تھی ،یہ الگ بات کہ اسکی پھدی
اس وقت جل رہی تھی مگر بحرحال وہ خود سے پہل نہیں کر سکتی تھی اور شرمانا
فطری تھا۔
سمیرا کی ٹانگوں سے نظریں ہٹا کر حیدر نے مجھے کہا جی فائزہ آپی کیا کام تھا؟ تو
میں نے اسکو کہا کہ یہ اس تصویر میں بیک گراونڈ ختم کرنا ہے یہ تو سکھا دو۔ حیدر
نے کہا یہ تو مسئلہ ہی کوئی نہیں یہ کہ کر وہ آگے آیا تو میں اپنی جگہ سے ہٹ گئی
اور اسکو سمیرا کے ساتھ جگہ دی۔ وہ سمیرا کے ساتھ ہوکر بیٹھ گیا۔ اور بتانے لگا کہ
کیسے کرتے ہیں۔ میں بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھی تھی اور میں کچھ زیادہ ہی جڑ کر
بیٹھی تھی جبکہ سمیرا کچھ شرما رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں حیدر نے تصویر کا بیک
گراونڈ ختم کر دیا تو میں نے کہا اب اس تصویر کا بیک گراونڈ اسالم آباد یا مری کے
کسی پہاڑی عالقے کا لگا دو جس سے یہ لگے کہ یہ تصویر مری کی ہے۔ اس نے
پوچھا کہ تصویر پڑی ہے آپکے پاس جو اسکے بیک گراونڈ میں لگانی ہے؟ میں نے
کہا نہیں تم انٹرنیٹ سے لے لو۔
میری بات پوری ہوئی تو حیدر نے نیٹ سے تصویر لینے کے لیے انٹرنیٹ براوزر جس
میں مووی چل رہی تھی مگر میں نے اسکو بند کیا ہوا تھا اس پر کلک کر دیا۔ جیسے
ہی براوزر کی ونڈو کھلی تو سامنے ٹرپل ایکس مووی چل رہی تھی۔ لڑکا نیچے لیٹا ہوا
تھا اور لڑکی اسکے اوپر بیٹھی تھی اور اپنی گانڈ اچھال اچھال کر اپنی چدائی کروا رہی
تھی۔ جیسے ہی رضوان نے یہ دیکھا تو ایک بار تو اسکو بھی کرنٹ لگ گیا ،وہ اتنا تو
جانتا تھا کو وہ یہاں ہم دونوں کی چدائی کرنے آیا ہے مگر یہ اسکے وہم و گمان میں
بھی نہیں ہوگا کہ یوں اچانک ہی سیکس سین اسکے سامنے آگیا۔ ایک بار حیران ہوکر
وہ فورا ہی سنبھل گیا اور سمجھ گیا کہ یہ میری ہی حرکت ہے اور پالن کا حصہ ہے۔
اس نے حیران ہوکر مگر تھوڑا مسکراتے ہوئے سمیرا کو دیکھا اور کہا سمیرا صاحبہ
یہ کیا حرکتیں ہورہی ہیں؟؟ یہ چیزیں دیکھتی ہو لیپ ٹاپ پر؟؟ سمیرا بھی گھبرا گئی تھی
اور وہ واقعی نہیں سمجھ سکی تھی کہ یہ پالن کا حصہ ہے ،اسکے ماتھے پر پسینہ
آگیا تھا اور اسنے کہا نہیں حیدر یہ تو فائزہ آپی نے لگائی ہوئی تھی میں تو نہیں
دیکھتی۔ میں فورا بولی سمیرا جھوٹ تو نہ بولو میں نے تمہارے کہنے پر ہی لگائی ہے
تم نے ہی کہا تھا کہ تمہیں فلم دیکھنی ہے سیکس والی۔ اس پر سمیرا کو غصہ آگیا
کیونکہ اسکے ذہن میں یہ تھا کہ حیدر کو یہ بات بری لگے گی اور وہ اسکے بارے
میں غلط رائے قائم کر لے گا اس لیے وہ غصے میں بولی کہ میں جھوٹ نہیں بول رہی
یہ فائزہ نے ہی لگائی ہے۔
اسکی یہ بات سن کر حیدر ہنسنے لگا اور کہا کہ میں بھی سوچ رہا تھا کہ فائزہ آپی
میرے کمرے میں آئی ہیں تواپنی پینٹ پہننا بھول گئیں اور ایسے ہی آگئیں اور ادھر تم
بھی بغیر پینٹ کے بیٹھی ہو۔ یہ بات سن کر سمیرا تو جیسے گونگی ہوگئی ،مووی ابھی
تک چل رہی تھی اور لڑکی اچھل اچھل کر لن اپنے اندر لے رہی تھی۔ کمرے میں
خاموشی ہوئی تو میں نے کہا اچھا چلو اگر تمہیں پتہ لگ ہی گیا ہے تو چھوڑو اب اس
بات کو ہم دونوں مل کر ہی فلم دیکھ رہی تھیں۔ یہ کہتے ہوئے میں حیدر کے اور قریب
ہوگئی اور اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھ دیا۔ اور پھر کہا تم بھی تو دیکھتے ہی ہو نہ
آخر ایسی فلمیں اگر سمیرا اور میں نے دیکھ لی تو کونسا غلط کیا۔ اس پر حیدر نے کہا
نہیں میں نے کب کہا کہ غلط کیا۔ تو میں نے کہا چلو پھر ہم تینوں مل کر دیکھتے ہیں؟
حیدر نے کہا چلیں ٹھیک ہے لیکن اگر سمیرا کو کوئی اعتراض نہ ہو تو۔ یہ کہ کر اسنے
سمیرا کی طرف دیکھا تو میں نے پیچھے سے سمیرا کو اشارہ کیا کہ اوکے کرو۔ اس
نے ڈری ڈری آواز میں کہا نہیں مجھےکوئی اعتراض نہیں۔ میں نے کہا چلو حیدر پھر
آواز بھی کھول دو تاکہ پورا مزہ تو آئے۔ حیدر نے مووی کی آواز کھول دی تو لڑکی کی
چیخیں کمرے میں گونجنے لگیں۔ حیدر کی نظریں لڑکی کی اچھلتے ہوئے مموں پر
تھی۔
میں نے حیدر کو کہا لگتا ہے تمیں اسکے ممے زیادہ ہی پسند آگئے ہیں جو دیکھی جا
رہے ہو؟ تو حیدر ہنسا اور بوال کہ وہ ممے اچھال ہی ایسے رہی ہے کہ مزہ آرہا ہے
دیکھ کر۔ میں نے کہا اسکے ممے زیادہ اچھے ہیں یا سمیرا کے؟؟ تو حیدر نے سمیرا
کے مموں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میں کیا کہ سکتا ہوں؟ سمیرا نے کبھی اپنے
ممے دکھائے ہی نہیں مجھے۔ مجھے کیسے تا کہ سمیرا کہ ممے کیسے ہیں؟ یہ سن
کرسمیرا بولی تم نے کونسا کبھی مجھے کہا ہے کہ اپنے ممے دکھاو؟حیدر نے کہا چلو
اب کہ دیتا ہوں دکھا دو ۔ یہ سن کر سمیرا شرما گئی مگر اسمیں ہمت نہیں ہوئی کہ اپنی
شرٹ اتار سکے۔ میں نے کہا کیسے منگیتر ہو تم ابھی تک تم نے سمیرا کے ممے ہی
نہیں دیکھے۔ یہ کہ کر میں نے سمیر کو کہا کہ یار اتنے پیار سے وہ فرمائش کر رہا
ہے دکھا دو نا اپنے گول گول ممے حیدر کو۔
میری بات سن کر سمیرا کو کچھ حوصلہ ہوا اور اسنے اپنی شرٹ کے بٹن کھولنا شروع
کیے ،میں نے کہا حیدر یہ تو رات تک ہی سارے بٹن کھولے گی تم خود کھول لو اسکی
شرٹ کے بٹن۔ یہ سنتے ہی حیدر فورا اٹھا اور اسنے سمیرا کی شرٹ کے سارے بٹن
کھول کر اسکی شرٹ اتار دی۔ سمیرا کے ممے برا میں چھپے ہوئے تھے مگر پھر بھی
حیدر نے 36سائز کے ممے دیکھے تو اسکی رال ٹپکنے لگی اور وہ ڈرتے ڈرتے
ہاتھ مموں کی طرف بڑھانے لگا تو سمیرا نے اسکا ہاتھ پکڑ کر فورا اپنے ممے پر رکھ
دیا۔ سمیرا کی پھدی اب دوبارہ جلنے لگی تھی جو کچھ وقفہ آنے کی وجہ سے ٹھنڈی ہو
چکی تھی۔ حیدر کسی بچے کی طرح خوش ہورہا تھا جس کو اپنی پسندیدہ چیز مل گئی
ہو۔ وہ برا کے اوپر سے ہی سمیرا کے ممے دبا رہا تھا۔ میں نے کہا ارے بھئی فلم میں
لڑکی کے ممے ننگے ہیں سمیرا تم بھی اپنے ننگے ممے دکھاو نہ ،یہ سنتے ہی سمیرا
نے اپنا برا اتار دیا اور حیدر سمیرا کے ممے دیکھ کر ساکت ہوگیا۔
میرے ممے 34سائز کے تھے جو پہلے حیدر دیکھ چکا تھا سمیرا کے 36سائز کے
ممے دیکھ کر حیدر کی رال ٹپکنے لگی تھی اور وہ فورا ہی اسکے مموں پر جھک کر
مموں کی الئن میں زبان پھیرنے لگا اور اسکے ممے دبانے لگا۔ سمیرا تو جیسے پاگل
ہوگئی تھی۔ پہلی بار کسی مرد نے اسکو مموں کو چھوا تھا۔ سمیرا کی آنکھیں بند تھیں
اور وہ حیدر کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ وہ دونوں شاید مجھے بھول ہی گئے تھے۔
میں نے حیدر کو آواز دی تو اسکو یاد آیا کہ میں بھی کمرے میں ہی موجود ہوں۔ اسنے
میری طرف دیکھا اور بوال جی فائزہ آپی؟؟ میں نے کہا کیسے لگے پھر سمیرا کے
ممے تم نے بتایا نہیں تم تو فورا ہی کھانا شروع ہوگئے۔ اس نے دوبارہ فلم میں لڑکی
کے مموں کو دیکھا اور پھر سمیرا کے مموں کو دیکھا اور کہا کے ممے تو فلم والی
لڑکی کے بڑے ہیں مگر جو گوالئی اور سختی سمیرا کے مموں میں ہے وہ اس لڑکی
کے مموں میں نہیں۔ یہ سن کر سمیرا بہت خوش ہوئی۔ وہ دوبارہ حیدر کو اپنی طرف
متوجہ کرنے ہی لگی تھی کہ میں نے حیدر کو کہا سمیرا کے ممے تو دیکھ لیے اپنی
فائزہ آپی کے ممے نہیں دیکھو گے؟
تو حیدر نے کہا نیکی اور پوچھ پوچھ؟؟ دکھا دیں آپ بھی۔ میں نے ادا کے ساتھ ہاتھ
اوپر اٹھائے اور کہا تم خود ہی آکر میری شرٹ اتار دو اور دیکھ لو ،حیدر نے بغیر وقت
ضائع کیے میری شرٹ بھی اتار دی اور برا بھی اتار دیا۔ اور میرے ممے دبانے شروع
کر دیے۔ مگر اسکا دھیان سمیرا کے مموں میں ہی تھا کیونکہ میرے ممے تو وہ پہلے
بھی چوس چکا تھا مگر سمیرا کے ممے اسکے لیے نئے تھے۔
اب اگال وار میں نے یہ کیا کہ تم نے تو اپنے مطلب کی چیز دیکھ لی ہے اب ہم کیا
کریں؟ اس پر حیدر حیران ہوکر بوال کیا مطلب آپکا؟ میں نے کہا بھئی ایک لڑکا لڑکی
کے ممے ہی دیکھنا چاہتا ہے۔ فلم میں تم نے لڑکی کے ممے دیکھے تو تم نے ہم
دونوں کے بھی دیکھ لیے۔ اب لڑکیاں لڑکوں میں کچھ اور دیکھنا چاہتی ہیں۔ اور مجھے
فلم میں اس لڑکے کا لن نظر آرہا ہے۔ تو تم بھی ہم دونوں کو اپنا لن دکھاو نا۔۔۔۔ یہ سن
کر حیدر نے کہا آپ بھی خود ہی میری پینٹ اتار کر دیکھ لیں۔ میں نے آگے بڑھ کر حیدر
کی شرٹ تو اتار دی۔ مگر پھر میں نے سمیرا کو کہا کہ حیدر کی پینٹ تم خود اتارو۔ وہ
ہچکچانے لگی تو حیدر نے اسکو کہا آو نہ سمیرا پینٹ اتارو اور دیکھ لو لن۔ سمیرا
ڈرتے ڈرتے اسکی پینٹ اتارنے لگی۔ پہلے پینٹ کا بٹن کھوال پھر زب کھولی اور پینٹ
گھٹنوں تک نیچے کر لی۔ نیچے سے حیدر کا لن اچھل کر اوپر آیا۔ سمیرا نے لن پر نظر
ڈالی تو اسکی آنکھوں میں ایک چمک سی آئی۔ حیدر کا لن کھڑا تھا اور سخت تھا۔ مگر
وہ صرف دیکھ ہی رہی تھی ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں کر رہی تھی۔ میں نے بھی کہا واہ
حیدر کیا لن ہے تمہارا۔ یہ کہ کر میں نے حیدر کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسکو
آہستہ آہستہ سہالنے لگی۔ پھر میں نے سمیرا کو کہا کہ وہ بھی اپنے ہاتھ می پکڑ کر
دیکھے۔ تو سمیرا نے بھی حیدر کے لن پر ہاتھ رکھ دیا۔ اور وہ بھی آہستہ آہستہ لن
سہالنے لگی۔ حیدر نے ہم دونوں کا ایک ایک مما ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور دبا رہا تھا۔
پھر حیدر بوال سمیرا اپنی پھدی بھی دکھاو مجھے ۔ سمیرا جو اب کافی گرم ہو چکی تھی
فورا ہی لیٹ گئی اور حیدر کو کہا میری پینٹی اتار لو ،حیدر سمیرا کی ٹانگوں کے
درمیان میں لیٹ گیا اور اسکی پینٹی اتارنے کی بجائے اسکی ران پر ہاتھ پھیرنے لگا۔
جس سے سمیرا کو گد گدی وہ رہی تھی۔ میں نے پیچھے سے حیدر کی پینٹ پوری اتار
دی جو ابھی صرف گھٹنوں تک اتری ہوئی تھی اور اپنی پینٹی بھی اتاری لی۔
حیدر نے کچھ دیر سمیرا کی رانوں پر ہاتھ پھیرا اور پھر اسکی پینٹی کے اوپر سے ہی
اسکے پھدی پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ سمیرا کی پھدی مکمل گیلی ہو چکی تھی۔ ہاتھ پھیرنے
کے بعد حیدر نے سمیرا کی پینٹی اتار دی اور اسکی بالوں سے صاف شفاف پھدی
دیکھنے لگا۔ میں نے کہا دیکھ کیا رہے ہو چوم لو اسکو۔ حیدر نے میری بات سن کر
اپنے ہونٹ سمیرا کی پھدی پر رکھے تو وہ بہت خوش ہوا اسکے سامنے ایک کنواری
پھدی تھی جو پھول کی طرح نرم تھی باہر سے مگر اندر سے انہتائی ٹائٹ اور دہکتے
تندور کی طرح گرم تھی۔ حیدر نے اب اپنی زبان نکالی اور سمیرا کی پھدی پر پھیرنا
شروع کر دی۔ میں سمیرا کے منہ کے اوپر بیٹھ گئی اور اسنے میری پھدی چاٹنی
شروع کر دی۔ کچھ دیر بعد میں اٹھی اور حیدر کو کہا اپنا لن مجھے پکڑائے ،وہ اٹھ کر
بیٹھ گیا تو میں اسکے لن پر جھک کر اسکے لن کی ٹوپی پر پیار کرنے لگی سمیرا بھی
اپنی جگہ سے کھڑی ہوکر مجھے اسکے لن پر پیار کرتے ہوئے دیکھنے لگی ،میں نے
سمیرا کو کہا تم بھی کرو اس پر پیار تو اسنے انکار کر دیا۔ پھر میں نے اسکا لن اپنے
منہ میں لے لیا اور اسکا چوپا لگانا شروع کر دیا۔
سمیرا اپنی جگہ پر کھڑی ہوگئی اور اپنی پھدی حیدر کے منہ کے سامنے کر دی۔ حیدر
نے ایک بار پھر اسکی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا۔ میں نے بھی حیدر کے لن پر زیادہ
چوپے نہیں لگائے کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اس نے بہت جلد پانی چھوڑ جانا ہے۔ گو کہ
وہ گولی کھا کر آیا تھا مگر آج اسنے ایک کنواری پھدی کو پھاڑنا بھی تھا اور اس کی
چودائی بھی کرنی تھی۔ لہذا اسکی ٹائمنگ کم ہونے کا خدشہ تھا۔ میں نے اسکے لن کے
چوپے لگانا بند کیے اور حیدر سے پوچھا کہ پہلے میری پھدی میں لن ڈالو گے یا
سمیرا کی پھدی میں؟ ظاہری بات ہے حیدر سمیرا کی پھدی میں لن ڈالنا چاہتا تھا مگر
سمیرا فورا بول پڑی کہ پہلے فائزہ کی پھدی میں ڈالو مجھے ڈر لگتا ہے۔
میں نے کہا اس میں ڈرنے والی کونسی بات ہے ہر لڑکی لن لیتی ہے۔ تو سمیرا بولی
مگر میں نے سنا ہے کہ پہلی بار پھدی میں لن جاتا ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ لہذا
پہلے آپ لن لو اسکے بعد میں لوں گی۔ یہ سن کر میں نے کہا وقتی تکلیف ہوتی ہے وہ
اسکے بعد بہت مزہ آتا ہے مگر تم کہتی ہو تہ پہلے میں لے لیتی ہوں۔ یہ کہ کر میں
حیدر کی گود میں بیٹھ گئی اور لن اپنی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کر کے ایک ہی
جھٹکے میں حیدر کا پانچ انچ کا لن اندر لے لیا اور اس پر اچھلنے لگی۔ اور جان بوجھ
کر سسکیاں بھی لینے لگی جیسے مجھے بہت زیادہ مزہ آرہا ہو۔ میرا مقصد سمیرا کو
مزید گرم کرنا تھا۔
مجھے اس طرح چدائی کرواتے دیکھ کر سمیرا نے کہا مجھے صحیح نظر نہیں آرہا
کسی اور پوزیشن میں لن اندر ڈلواو تو میں لیٹ گئی اور ٹانگیں سائیڈ پر پھیال کر حیدر
کو بالیا ،حیدر میری ٹانگیں اور زیادہ کھول کر درمیان میں بیٹھ گیا اور اپنا لن میری
چوت کے سوراخ پر رکھ کر سارا اندر ڈال دیا۔ اور پھر مسلسل اندر باہر کرنے لگا۔
سمیرا کی نظروں میں خوف بھی تھا مگر لن کی طلب بھی تھی۔ میں نے حیدر سے زیادہ
نہیں چدوایا کیونکہ میں چاہتی تھی کہ آج سمیرا کی بھی پھدی پھٹ جائے اور وہ لن کا
مزہ لے سکے۔ لہذا میں نے 2منٹ بعد ہی اپنا پانی چھوڑ دیا۔ اور پھر حیدر کو کہا کہ
اب سمیرا کی چدائی کرے۔
حیدر نے سمیرا کو نیچے لیٹنے کو کہا تو سمیرا فورا ہی نیچے لیٹ گئی ،حیدر نے
سمیرا کی ٹانگیں کھولیں اور اس پر لن سیٹ کرنے لگا تو میں نے اسے کہا ابھی نہیں
پہلے اسکی پھدی کو چاٹ چاٹ کر خوب گرم کرو پھر ڈالنا ایسے تکلیف زیادہ ہوگی۔ یہ
سن کر حیدر نیچے جھک کر اسکی پھدی کو چاٹنے لگا ،پھر میں نے کہا اپنی ایک
انگلی اسکی پھدی میں ڈالو آہستہ آہستہ تاکہ اندر بھی گیال پن پیدا ہو سکے۔ حیدر نے
اپنی بڑی انگلی سمیرا کی پھدی میں ڈالی تو سمیرا بری طرح تڑپنے لگی۔ حیدر کی
انگلی آدھی ہی گئی تھی سمیرا کی پھدی میں اور وہ آہستہ آہستہ انگلی اندر باہر کر رہا
تھا ،پھر میں نے حیدر کو کہا اب پوری انگلی اندر کر دو۔ تو حیدر نے پوری انگلی اندر
کر دی۔ اور سمیرا نے اپنا جسم دائیں بائیں پٹخنا شروع کر دیا۔ جب سمیرا فل گرم
ہوچکی اور اسکی پھدی پانی پانی ہوگ ِئ تو میں نے حیدر کو کہا اب ڈالو اس میں اپنا
لن۔
حیدر نے سمیرا کی ٹانگیں کھول لیں میں نے کہا ٹانگیں اٹحا کر کندھے پر رکھ لو اس
طرح آسانی ہوگی ،حیدر نے ایسے ہی کیا اور اپنا لن پھدی کے سوراخ پر رکھ دیا۔ میں
سمیرا کی طرف گئی اور اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے تاکہ وہ زیادہ چیخیں نا
مار سکے۔ حیدر نے آہستہ آہستہ سمیرا کی پھدی پر دباو بڑھایا تو اسکی ٹوپی پھدی
میں داخل ہوگئی جس پر سمیرا کا پورا جسم کانپ گیا اور اسنے چیخنا شروع کیا مگر
اسکی چیخیں میرے منہ میں ہی دم توڑ گئیں۔ سمیرا اپنی ٹانگیں بھی چھڑوانے کی
کوشش کر رہی تھی مگر ناکام رہی۔۔ میں نے حیدر کو کہا ایک زور کا دھکا مارے تاکہ
اسکی پھدی کا پردہ پھٹ سکے۔ حیدر نے وہیں سے ایک زور دار دھکا لگایامگر اسکا
پردہ نہیں پھاڑ سکا البتہ آدھا لن اندر جا چکا تھا اور سمیرا کا جسم پہلے سے بھی
زیادہ کانپ رہا تھا۔
اگرچہ حیدر کا لن لمبا نہیں تھا مگر کنواری پھدی کے لیے یہ لن بھی بہت تکلیف دہ تھا۔
حیدر کچھ دیر رکا رہا تاکہ سمیرا کہ تھوڑا سکون ملے۔ میں نے حیدر کو کہا آہستہ
آہستہ لن اندر باہر کرتے رہو تاکہ پھدی اندر سے خشک نہ ہو تو وہ اپنا لن ہلکا ہلکا
ہالنے لگا۔۔۔ پھر میرے اشارے پر اس نے ایک دھکا اور مارا تو پورا لن سمیرا کی
پھدی کو چیرتا ہوا اندر جا چکا تھا۔ اور سمیرا کسی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی
جسکو پانی سے باہر نکال کر پھینک دیا گیا ہو۔ میں نے حیدر کو کہا کہ اب یہیں پر
رکے ابھی دھکے لگائے۔ سمیرا کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اور وہ رو رہی
تھی۔ میں نے اسکو کہا کہ صبر کرو ابھی مزہ آنا شروع ہوجائے گا۔
کچھ دیر بعد جب سمیرا کا درد کم ہوا تو میں نے حیدر کو کہا آرام آرام سے لن اندر باہر
کرے۔ اس نے لن ہالنا شروع کر دیا۔ اور میں نے سمیرا کے نپلز کو اپنے منہ میں لیکر
کاٹنا شروع کر دیا۔ اب اسکو نپل کاٹننے کا تو مزہ آرہا تھا مگر لن سے اسکو ابھی بھی
درد ہو رہی تھی۔ حیدر نے آہستہ آہستہ لن اندر باہر کرنا جاری رکھا اور رکا نہیں۔ 3
منٹ اسی طرح کی چدائی کے بعد سمیرا کی پھدی کافی گیلی ہوگئی تھی اور اب لن آسانی
سے اندر باہر جا رہا تھا تو میں نے حیدر کو کہا اب سپیڈ کے ساتھ چدائی کرو۔ حیدر
نے اب سپیڈ کے ساتھ دھکے لگانے شروع کیے تو اب سمیرا کو بھی کچھ مزہ آرہا تھا۔
حیدر کو بہت زیادہ مزہ آرہا تھا کیونکہ وہ ایک کنواری پھدی کو پھاڑنے کے بعد برانڈ
نیو پھدی کی چدائی کر رہا تھا جسکی گرفت حیدر کے لن پر بہت مضبوط تھی۔
مجھے پتہ تھا کہ حیدر نے ابھی کچھ ہی دیر میں فارغ ہوجانا ہے اور سمیرا جتنی گرم
تھی وہ بھی جلد ہی فارغ ہو سکتی تھی اسلیے میں نے حیدر کو کان میں کہا کہ سمیرا
کی پھدی میں پانی نا نکالنا جب فارغ ہونے لگو تو لن باہر نکال لینا ورنہ سمیرا کو حمل
بھی ہو سکتا ہے۔ یہ کہ کر میں نے سمیرا کی پھدی کہ ہاتھ سے رگڑنا شروع کر دیا ۔
اس سے سمیرا کو اور بھی مزہ آنے لگا پھدی کے اندر اپنے مجبوب کا لن اور ایک
لڑکی کے ہاتھ سے پھدی کی رگڑائی سے 2منٹ میں ہی سمیرا نے پانی چھوڑ دیا اور
اسکے جسم کو شدید جھٹکے لگے۔ حیدر نے اپنے دھکوں کی سپیڈ اور تیز کر دی۔ اور
پھر اچانک ہی اس نے اپنا لن باہر نکال لیا ،جیسے ہی حیدر نے لن باہر نکاال میں نے
اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور لن منہ میں لیکر اسکا چوپا لگانے لگی۔ حیدر نے اپنا ہاتھ
اپنے لن سے ہٹا لیا اور میرے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ابھی میں نے کچھ دیر ہی چوپا
لگایا تھا کہ حیدر کا لن پھولنے لگا۔ میں سمجھ گئی کہ یہ اب چھوٹنے واال ہے تو میں
نے لن منہ سے نکال لیا اور اسکی ہاتھ سے مٹھ ماری چند سیکنڈ بعد ہی حیدر کے لن
سے منی کا فوارہ نکال اور میرے مموں پر منی کا سپرے ہونے لگا۔
جب حیدر کی ساری منی نکل گئی تو وہ نڈھال ہوکر سمیرا کے ساتھ لیٹ گیا اور اسکو
پیار کرنے لگا۔ سمیرا نے بھی اسکو جپھی ڈال لی۔ اسکو بھی پیار آرہا تھا اپنے محبوب
پر جس نے کچھ ہی دیر پہلے ایک کلی کو پھول بنا دیا تھا ،پہلی بار سمیرا لن کے مزے
سے آشنا ہوئی تھی اور وہ اس پر بہت خوش تھی۔ میں نے چادر سے اپنا سینہ صاف
کیا اور میں بھی ان دونوں کے ساتھ لیٹ گئی۔
حیدر سمیرا کے مموں سے کھیل رہا تھا اور سمیرا پیار بھری نظروں سے حیدر کو
دیکھ رہ تھی۔ میں نے حیدر کی کمر پر تھوڑی دیر ہاتھ پھیرا تو حیدر کا لن کھڑا ہونے
لگا۔ سمیرا کی نظر دوبارہ لن پر پڑی تو بولی یہ تو پھر کھڑا ہو رہا ہے۔ کہا پھر سے
چودو گے مجھے۔ میں نے کہا تمہارا دل نہیں بھرا ابھی؟؟ جس پر وہ تھوڑی شرمندہ
ہوئی میں نے حیدر کو سیدھے لیٹنے کو کہا اور خود لن سیدھا کر کے اسکے اوپر بیٹھ
گئی اور ایک ہی جھٹکے میں لن اندر لے لیا اور لن کے اوپر اچھلنے لگی۔ مجھے دیکھ
کر سمیرا نے بھی اپنا ہاتھ اپنی پھدی پر رکھا اور اسکو مسلنا شروع کر دیا۔ اسکی
پھدی نے دوبارہ لن کی طلب شروع کر دی تھی ،مگر اسکو نہیں پتا تھا کہ اسکے
منگیتر پر دوائی کا اثر پہلی بار ہی تھا دوسری بار میں وہ بہت جلد فارغ ہونے واال تھا۔
میں بہت تیزی کے ساتھ لن پر سواری کر رہی تھی اور میں نے اپنی چوت دبائی ہوئی
تھی تاکہ میری پھدی ٹائٹ رہے اور حیدر کا لن جلدی پانی چھوڑ دے۔ سمیرا بھی اب اٹھ
کر بیٹھ گئی تھی اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگی تھی کہ جیسے ہی فائزہ کی پھدی
پانی چھوڑے تو وہ پہلے کی طرح حیدر کا لن اندر لے سکے۔ لیکن اس سے پہلے کہ
میری پھدی پانی چھوڑتی ،دیکھتے ہی دیکھتے حیدر ٹھنڈا پڑنے لگا اور میرا اچھلنا
بھی بند ہوگیا۔ حیدر کا لن پانی چھوڑ چکا تھا۔
سمیرا نے جب دیکھا کہ میں لن سے اتر گئی ہوں تو وہ فورا اٹھی تاکہ خود بیٹھ سکے،
مگر جب اسکی نظر لن پر پڑی تو وہ سکڑ کر چھوٹا ہو چکا تھا۔ سمیرا نے پوچھا یہ
اسکو کیا ہوا تو اس سے پہلے کہ حیدر کچھ بولتا میں نے ہنستے ہوئے کہا 2بار تو
اسکا لن پانی چھوڑ چکا ہے اور تم کیا چاہتی ہے اس بیچارے سے۔ اب صبر کرو اور
پھر کسی دن چدائی کروا لینا حیدر سے۔
یہ سن کر وہ خاموش ہو کر سائیڈ پر بیٹھ گئی۔ حیدر اپنے کپڑے پہننے لگا اور میں نے
بھی اپنے کپڑے پہن لیے۔ سمیرا ابھی تک ننگی بیٹھی تھی۔ میں نے کہا تم بھی پہن لو
تو وہ بولی میری پھدی ابھی گرم ہے۔ میں نے حیدر کو کہا تم جاو تم نے سائرہ کو بھی
لینا ہے تب تک میں سمیرا کی پھدی کا کچھ کرتی ہوں۔ حیدر اپنے کپڑے صحیح کرکے
باہر نکل گیا اور میں سمیرا کی پھدی پر جھک کر اس پر اسکی پھدی چاٹنے لگی ساتھ
ہی اپنی 2انگلیاں سمیرا کی پھدی میں داخل کر کے تیزی سے اندر باہر کرنے لگی۔
سمیرا کی پھدی واقعی گرم تھی کچھ ہی دیر بعد اسکی پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔
اب اسکو بھی سکون مل چکا تھا۔ وہ اپنے کپڑے پہننے لگی اور مجھ سے پوچھا کہ
رضوان کا لن بھی ایک بار چدائی کے بار دوبارہ کھڑا ہوتا ہے؟ تو میں نے کہا ہاں ہوتا
ہے۔ سب لڑکوں کا ہی ہوتا ہوگا۔ اسنے پوچھا پھر ایک بار چدائی کروانے کے بعد تم نے
کبھی دوبارہ بھی چدائی کروائی ہے؟ میں نے کہا ہاں ہم جب بھی کرتے ہیں کم سے کم
دو بار ہی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی 3بار بھی کر لیتے ہیں۔ سمیرا نے کہا میں نے تو سنا
ہے پہلی بارمیں مرد کا لن جلدی منی چھوڑ دیتا ہے مگر دوسری بار میں وہ زیادہ ٹائم
تک چودتا ہے۔ میں نے کہا ہاں ایسے ہی ہوتا ہے۔ تو سمیرا نے کہا مگر حیدر کا لن تو
دوسری بار بہت جلدی فارغ ہوگیا تھا۔ میں گرم ہوگئی تھی دوبارہ مجھے چاہیے تھا مگر
وہ فارغ ہوگیا ۔
میں سمیرا کو اپنے منہ سے یہ بات نہیں بتانا چاہتی تھی میرا مقصد یہی تھی کہ وہ خود
اس بات کو محسوس کرے۔ اور یہی ہوا۔ اسنے محسوس کر لیا کہ یہ ٹھیک نہیں۔ مگر
میں نے ال پرواہی سے کہا اس میں ایسی کونسی بات ہے۔ نکلنا تو نہیں چاہیے اتنی
جلدی لیکن اگر نکل بھی گیا تو کیا ہوا۔ ویسے بھی وہ 2لڑکیوں کی چدائی کر رہا تھا
اور شاید اس نے بھی آج زندگی میں پہلی بار چدائی کی ہو۔ اس پر سمیرا کچھ مطمئن
ہوگئی۔ اور ہم نے بیڈ کی چادر بھی چینج کر دی اور لیپ ٹاپ پر لگی ہوئی مووی بھی
بند کر دی کیونکہ ابھی کچھ ہی دیر میں سائرہ آنے والی تھی۔
میں اپنے مقصدمیں 90فیصد کامیاب ہوچکی تھی۔ سمیرا کو لن کا مزہ بھی دال دیا تھا۔
اگرچہ وہ پہلی بار کی چدائی کے بعد کافی مطمئن تھی مگر جب حیدر کا لن دوبارہ کھڑا
ہوا اور اسکی پھدی نے دوبارہ خواہش کی لن کی تو اسکو لن نہیں مل سکا۔ اس بات
نے اسکو پریشان کر دیا تھا۔ اور کسی بھی لڑکی کو جب لن چاہیے ہو اور نہ ملے تو وہ
ذہنی طور پر ڈسٹرب ہوجاتی ہے۔ یہی سمیرا کے ساتھ ہوا۔ اگر حیدر ایک چودائی کے
بعد وہاں سے چالجاتا تو سمیرا مطمئن رہتی۔ مگر دوسری بار لن کا کھڑا ہونا اور سمیرا
کا انتظار کرنا مگر لن ملنے سے پہلے ہی حیدر کا فارغ ہوجانا ،اس سے سمیرا کی
خواہش ادھوری رہ گئی اور وہ خوش نہیں تھی۔
اب میری منزل بہت قریب تھی اور حیدر سے بدلہ پورا ہونے واال تھا۔
کچھ ہی دیر بعد سائرہ بھی آگئی تو میں کچھ دیر اسکے ساتھ بیٹھی رہی اور شام کے
ٹائم واپس اپنے گھر آگئی۔ سمیرا کی جھجھک تو میں ختم کر چکی تھی ،وہ سیکس کے
لیے اتنی بےتاب ہوگئی تھی کہ اسنے اپنا کنوارہ پن ختم کروا لیا تھا۔ مگر حیدر کا لن
اس قابل نہیں تھا کہ وہ کسی کنواری اور اتنی گرم پھدی کو سکون پہنچا سکتا۔ اور یہی
میں چاہتی تھی کہ سمیرا جب حیدر سے چدائی کروائے گی تو اس میں سیکس کی
خواہش اور بھی زیادہ جاگے گی۔ میں نے گھر پہنچ کر رات سونے سے پہلے رضوان
کو فون کیا اور کچھ دیر اس سے باتیں کرنے کے بعد میں نے رضوان کو کہا کہ میں کل
اس سے ملنا چاہتی ہوں۔ رضوان نے کہا ٹھیک ہے میں آجاوں گا کل تمہاری طرف۔ میں
نے کہا نہیں ہماری طرف نہیں۔ یہ سن کر رضوان کو تجسس ہوا اور اس نے خوش
ہوتے ہوئے پوچھا پھر کیا علی کے گھر پر ملنے کا ارادہ ہے؟؟ میں نے کہا نہیں علی
کے گھر بھی نہیں ،بس کہیں اکیلے میں۔ رضوان نے پوچھا بتاو تو سہی کوئی خاص کام
ہے کیا؟ میں نے کہا بس چوت میں بہت خارش ہورہی ہے اسی لیے ملنا ہے۔ تو رضوان
بوال کہ اسی لیے تو میں کہ رہا ہوں علی کے گھر آجانا۔
میں نے رضوان کو پھر کہا کہ نہیں اسکے گھر نہیں کسی اور جگہ کا ارینج کرو۔ اب کی
بار رضوان نے پوچھا ندیم سے ڈر گئی ہو کیا؟ اس نے تمہاری گانڈ ماری تھی اسی بات
کا ڈر ہے؟ میں نے پھر کہا نہیں ایسی بات بھی نہیں بس کل کسی جگہ کا بندوبست کرو،
چاہے کسی دوست کا گھر ہو یا کوئی ہوٹل کا کمرہ۔ مگر وہاں تمہارے عالوہ اور کوئی
نہیں ہونا چاہیے۔ رضوان کو ابھی بھی تجسس تھا کہ آخر میں اس سے اس طرح
علیحدگی میں کیوں ملنا چاہتی ہوں حاالنکہ اس سے پہلے علی کے گھر میں رضوان اور
ندیم کا لن لے چکی تھی۔ بحرحال رضوان نے مجھے کہا کہ وہ کل صبح تک کچھ ارینج
کر کے بتائے گا۔ یہ کہ کر اس نے فون بند کر دیا۔
اگلے دن صبح 9بجے مجھے رضوان کا فون آگیا اور اس نے بتایا کہ گھر کا ارینج
ہوگیا ہے اور اس نے مجھے ایڈریس بھی بتادیا۔ اسنے اپنے کسی دوست سے اسکے
فلیٹ کی چابیاں لے لیں تھیں۔ میں نے رضوان کو کہا کہ میں 12سے 1بجے تک
پہنچ جاوں گی تم بھی پہنچ جانا۔ ساتھ میں رضوان کو میں نے یہ بھی کہ دیا کہ کنڈوم
بھی الزمی لے کر آئے۔
فون بند کر کے میں نے سمیرا کو فون کیا۔ مجھے پتا تھا کہ سائرہ اس ٹائم گھر پر نہیں
ہوگی کیونکہ کل اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کچھ فرینڈز کے ساتھ آوٹنگ پر جا رہی
تھی۔ اور ان فرینڈز میں ظاہری بات ہے لڑکے ہی زیادہ تھے کیونکہ لڑکیوں سے کوئی
خاص دوستی نہیں تھی سائرہ کی۔ سمیرا نے کال اٹینڈ کی تو میں نے اسکو بازار بال لیا
اور کہا کچھ شاپنگ کرنی ہے تو تم آجاو۔ اس نے مجھے کہا کہ وہ 11بجے تک کینٹ
پہنچ جائے گی۔
میں بھی تیار ہوئی اور 11بجے کینٹ پہنچ کر سمیرا کو پھر سے کال کی تو اس نے
مجھے پرنس سٹور پر آنے کو کہا ،وہ وہیں پر تھی۔ میں سٹور میں داخل ہوئی تو سمیرا
سامنے میک اپ کا سامان دیکھ رہی تھی۔ میں بھی کچھ دیر اسکے ساتھ مختلف چیزیں
دیکھتی رہی۔ میں نے ایک سوٹ خریدا اور کچھ پرفیوم لیے۔ سمیرا نے بھی تھوڑی سی
شاپنگ کی۔ میں نے باتوں باتوں میں پوچھا کہ کل کا دن کیسا رہا؟ مزہ آیا؟ تو سمیرا نے
کہا ہاں پہلے تو بہت مزہ آیا تھا۔ مگر بعد میں جب حیدر کا لن دوبارہ کھڑا ہوا تو میری
چوت پھر گیلی ہوگئی تھی مگر اس نے فورا ہی پانی چھوڑ دیا اور مجھے لن نہیں مال
تو ساری رات بے چینی میں گزری۔ میں نے بھی سمیرا کو کہا کہ مجھے تو پہلی بار
میں بھی مزہ نہیں آیا اور دوسری بار بھی ابھی میرا پانی نکال ہی نہیں تھا حیدر کا پہلے
نکل گیا۔
پھر سمیرا نے خود ہی میرے سے پوچھ لیا کہ پھر اگر تمہیں مزہ نہیں آیا تو اب رضوان
کا کب لوگی؟ تو میں نے اسکو بتایا ابھی ادھر سے شاپنگ کر کے میں نے رضوان سے
ہی ملنے جانا ہے۔ 2سے 3گھنٹے اسکے ساتھ گزاروں گی اور پھر شام کو گھر جاوں
احساس
ِ گی۔ میری یہ بات سن کر سمیرا کا منہ اور بھی مرجھایا تھوڑا سا۔ جیسے اسے
کمتری پیدا ہوگیا ہو۔ میں نے لوہا گرم دیکھا تو اگال وار کیا۔ اور سمیرا کو کہا تم بھی
چلو میرے ساتھ ،آج ہم دونوں رضوان سے چدواتی ہیں۔ مجھے یقین ہے وہ ہم دونوں
کی پیاس بجھا دے گا۔ میری بات سن کر سمیرا نے مجھے غصے سے دیکھا اور فورا
منع کر دیا کہ نہیں یہ ممکن نہیں۔
میں نے سمیرا کو کہا کہ کل میں نے بھی تو حیدر کا لن لیا ہے۔ تم بھی رضوان کا لے
لو تو کیا حرج ہے؟ سمیرا بولی نہیں اس وقت بات اور تھی تمہاری چوت بھی گرم تھی
میری بھی ،اب اگر تمہیں حیدر کا لن لینے کو کہا جائے تو تم بھی نہیں لوگی۔ میں نے
فورا سمیرا پر ایک اور وار کیا کہ اگر کل حیدر کی چدائی سے مزہ آیا ہوتا تو میں خود
حیدر کو اپنی چوت مارنے کی دعوت دیتی۔ مگر وہ اس قابل نہیں کہ اسکو اپنی چوت دی
جائے۔ وہ خود تو مزے سے فارغ ہوجائے گا مگر میری چوت کو بے چین ہی چھوڑ دے
گا۔ یہ سن کر بھی سمیرا کو برا لگا ،اور وہ جیسے اکتاتے ہوئے بولی کہ اب تم زیادہ
بھی نا حیدر کی برائی کرو۔ رضوان اور حیدر میں تھوڑا بہت ہی فرق ہوگا۔ حیدر 10
منٹ میں فارغ ہوا تو رضوان 15منٹ میں ہوجاتا ہوگا۔
اسکے لہجے سے صاف پتا لگ رہا تھا کہ وہ خود بھی خوش نہیں ہوئی حیدر سے مگر
چونکہ وہ اسکا منگیتر تھا اس لیے اسکی برائی اور وہ بھی مردانہ کمزوری کی برائی
سننا اچھا نہیں لگ رہاتھا سمیرا کو۔ مگر میں نے پھر کہا کہ تم چلو میرے ساتھ اگر
رضوان 30منٹ سے پہلے فارغ ہوجائے تو بات کرنا۔ میری بات سن کر سمیرا تھوڑی
دیر خاموش ہوئی مگر پھر بولی کہ نہیں ایسا ممکن نہیں کسی بھی صورت۔ اور ویسے
بھی رضوان کیا سوچے گا میرے بارے میں۔
میں نے کہا اس نے کیا سوچنا ہے وہ تو خوش ہوجائے گا کہ اسکو تمہاری چوت بھی
مل گئی۔ ویسے بھی جس دن سوئمنگ پول میں رضوان نے میری چدائی کی تھی اس دن
وہ تمہارے مموں کی بہت تعریف کر رہا تھا تمہارے برا میں اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ
تمہارے ممے میرے سے بڑے ہیں۔ مگر سمیرا نے ایک بار پھر انکار کر دیا کہ نہیں وہ
نہیں جائے گی۔ پھر ہم کچھ دیر اور باتیں کرتے رہے۔ میں نے محسوس کیا کہ سمیرا کا
باتوں میں دھیان نہیں۔ وہ بے چین تھی ،اور یے بے چینی یقینا اسکی چوت کی بے
چینی تھی۔ میں نے پھر اچانک ہی سمیرا کو کہا تمہیں ایک اور بات بھی بتاوں؟ سمیرا
نے کہا ہاں بولو کیا بات ہے؟ میں نے کہا حیدر کا لن ہے بھی بہت چھوٹا۔ صرف 5انچ
لمبا تھا اور موٹائی میں بھی کم تھا۔ جبکہ رضوان کا لن 7یا 8انچ کا ہے اور موٹائی
میں بھی حیدر کے لن سے زیادہ ہے۔ یہ سن کر سمیرا نے سر جھکا لیا مگر وہ بولی
کچھ نہیں۔ کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھایا تو اسکی آنکھوں سے مجھے لگا کہ جیسے
وہ ابھی رو دے گی۔
میں سمجھ گئی کہ اسکے ذہن میں یہی باتیں گردش کر رہی ہیں کہ حیدر کے ساتھ
ساری زندگی گزارنی ہے اسکا سٹیمنا بھی نہیں اور لن بھی چھوٹا ہے تو وہ کیسے
سمیرا کو جنسی تسکین پہنچا سکے گا؟؟ میں نے پھر سمیرا کو کہا میری بات مانو،
میرے ساتھ رضوان کے گھر چلو۔ وہاں جا کر اگر تمہارا دل مانا تو رک جانا اور دیکھ
لینا رضوان تمہیں تسکین دے پاتا ہے یا نہیں۔ اور اگر تمہارا دل نہ مانا تو بس چائے
پانی پی کر تم اپنے گھر نکل جانا میں اسکے پاس ہی رکوں گی۔ سمیرا کچھ دیر سوچتی
رہی پھر وہ بولی کہ رضوان سوچے گا تو صحیح کہ آخر یہ سمیرا کیوں ساتھ ہے؟؟؟
میں نے کہا اس نے کیوں سوچنا ،وہ بھی تو اپنے دوستوں کے ساتھ پھرتا ہے ،اور
ویسے بھی اسکو پتا ہے کہ میں اپنی کسی دوست کے ساتھ شاپنگ کرنے آئی ہوئی
ہوں۔ سمیرا کافی دیر خاموش رہی۔ میں سمجھ گئی کہ اب وہ جانا چاہتی ہے مگر اس
سے ہاں نہیں کہا جا رہا۔
یہ سب باتیں ہم نے ایک آئسکریم پارلر میں بیٹھ کر کی تھیں۔ میں نے سمیرا کو اس
الجھن میں دیکھا تو ویٹر کو بالیا ،اسکو بل دیا اور سمیرا کو کہا کہ اچھا چلو مجھے
رضوان کی طرف تو چھوڑ دو اپنی گاڑی میں پھر تم اپنے گھر چلی جانا وہاں سے۔
میری بات سے جیسے سمیرا کو دھچکا لگا۔ کیونکہ وہ شاید اندر سے جانے پر راضی
ہوگئی تھی مگر اس سے پہلے کہ وہ ہاں کہتی میں نے اسکو کہ دیا کہ مجھے چھوڑ کر
وہ واپس چلی جائے۔ سمیرا مزید کچھ نہیں بولی اور کہا کہ اچھا چلو میں تمہیں چھوڑ
آتی ہوں۔ ہم دونوں نے اپنا اپنا سامان اٹھایا اور سمیرا کی گاڑی کی طرف چلے گئے۔
سمیرا بغیر ڈرائیور کے ہی خود ڈرائیو کر کے آئی تھی ۔ میں نے اسکو فلیٹ کا راستہ
بتایا جہاں رضوان موجود تھا۔ فلیٹ کے سامنے جا کر گاڑی رکی تو میں گاڑی سے اتر
آئی اور اپنا سامان گاڑی میں ہی پڑا رہنے دیا ،سمیرا نے مجھے سی آف کرنے کا ارادہ
کیا تو میں نے اسکو پھر سے کہ دیا کہ اب ادھر تک آگئی ہو تو کم سے کم پانی تو پیتی
جاو۔ اچھا نہیں لگتا کہ تم مجھے چھوڑنے آو اور چائے پانی کے بغیر واپس چلی جاو۔
سمیرا نے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں تم جاو رضوان انتظار میں ہوگا۔ میں نے پھر
کہا سمیرا کو کے ارے بابا تمہیں کوئی مجبور نہیں کرے گا کہ رضوان کو اپنی چوت دو،
بس اندر آ کر پانی پی لو پھر چلی جانا۔ کوئی تمہاری عزت نہیں لوٹنے لگا ادھر۔ میں
نے یہ بات ہنستے ہوئے کہی تو سمیرا بھی ہنس پڑی اور بولی کہ اچھا چلو تم کہتی تو
آجاتی ہوں اندر مگر میں فورا واپس جاوں گی۔ میں نے کہا کہ ہاں چلی جانا۔
میں نے فلیٹ کے دروازے کے باہر لگی بیل بجائی تو رضوان پہلی ہی بیل پر باہر آگیا۔
اسنے میرے ساتھ سمیرا کو دیکھا تو ایک دم چونک گیا۔ اور اسکا منہ اتر گیا ،کیونکہ
وہ شاید پوری تیاری میں تھا کہ میرے آتے ہی وہ مجھے پکڑ لے گا اور میرے اوپر
چڑھ جائے گا ،مگر سمیرا کی موجودگی میں وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا ،اسے کیا معلوم
تھا کہ میں سمیرا کو اسی لیے الئی ہوں کہ وہ ہم دونوں کہ اوپر چڑھے۔ اس نے سمیرا
سے ہاتھ مالیا اور حال چال پوچھنے لگا۔ میں نے کہا اندر تو آنے دو ادھر ہی حال چال
پوچھنا ہے۔ یہ سن کر رضوان شرمندہ ہوا اور فورا ہمیں اندر آنے کا راستہ دیا۔
اندر جا کر رضوان نے ہمیں ایک کمرے میں بیٹھنے کو کہا۔ یہ اصل میں بیڈروم تھا
جسمیں صوفہ ٹی وی اور بیڈ سب کچھ پڑا تھا۔ مجھے بٹھا کر اس نے کھانے پینے کا
پوچھا تو میں نے کہا بس جوس پال دو۔ تو رضوان نے کہا تم 2منٹ بیٹھو میں ابھی
سامنے سے لے کر آیا۔ وہ باہر گیا تو سمیرا گھر کا جائزہ لینے لگی۔ ایک سائیڈ پر
اسکو ایک چھوٹی ڈبی نظر آئی تو اس نے اٹھا لی ،اسکو گھما کر دیکھتی رہی اور پھر
اچانک حیران ہو کر اس نے مجھ سے پوچھا فائزہ یہ کنڈوم کی ڈبی ہے؟؟ میں نے ڈبی
دیکھ کر کہا کہ ہاں یہ کنڈوم ہیں۔ اس نے فورا ڈبی واپس رکھ دی جہاں سے اٹھائی تھی۔
مگر اب اسکے ذہن میں یہی بات چل رہی تھی کے اسکے جانے کے بعد میں رضوان
کے لن کا مزہ لوں گی اور وہ مجھے مکمل مطمئن کرے گا جب کہ حیدر مطمئن نہیں
کرسکا تھا۔
کچھ ہی دیر میں رضوان واپس آگیا تو اس نے ہم دونوں کو جوس پینے کو دیا اور ساتھ
کچھ بسکٹ بھی رکھ دیے۔ خود وہ ہمارے سامنے بیٹھ گیا۔ وہ تھوڑا جھجھک رہا تھا
سمیرا کے سامنے اور مجھ سے کھل کر بات نہیں کر رہا تھا۔ میں نے نوٹ کیا کہ سمیرا
کی نظریں رضوان کی پینٹ پر تھیں اور وہ وہاں لن ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی
مگر اسکو کچھ مل نہیں رہا تھا۔ کیونکہ رضوان تو اس وقت پریشان تھا کہ سمیرا کیوں
ساتھ آگئی تو ایسے میں اسکا لن کیسے کھڑا ہوتا۔ کچھ دیر ہم نے مزید باتیں کیں پھر
میں نے رضوان کو کہا کے وہ باہر سے کچھ کھانے کو بھی لے آئے۔ سمیرا نے منع کیا
تو میں نے کہا نہیں کھا پی کر ہی جانا ایسے بھوکی نہیں جا سکتی تم۔ رضوان مرجھایا
ہوا منہ لے کر کھانا لینے چال گیا کیونکہ وہ تو مجھے چودنے کا انتظار کر رہا تھا اور
ادھر میں اس سے اپنی خدمت کروانے میں مصروف تھی۔
مگر میں نے بھی رضوان کو جان بوجھ کر کھانے کے لیے بھیجا تھا۔ کیونکہ میں
جانتی تھی کہ سمیرا کو تھوڑا سا کہوں گی تو وہ راضی ہوجائے گی اور وہ رضوان کی
غیر موجودگی میں ہی کہا جا سکتا تھا رضوان باہر گیا تو میں نے سمیرا کا ہاتھ پکڑا
اور اسکا ہاتھ سہالتے ہوئے اسکی طرف پیار سے دیکھا اور کہا کہ تم بالکل بھی نہ
گھبراو۔ نہ تو رضوان تمہارے ساتھ زبردستی کرے گا ،اور نہ میں اسے زبردستی کرنے
دوں گی۔ اور یہ بات کبھی بھی حیدر تک یا ہم تینوں کے عالوہ کسی اور تک نہیں
پہنچے گی۔ لہذا اگر تمہارا دل کر رہا ہے تو میرے ساتھ رکو ،ہم دونوں مل کر آج
انجوائے کریں گی۔ جو مزہ کل نہیں مل سکا وہ مزہ آج ملے گا۔ اب سمیرا کے ہاتھ کانپ
رہے تھے ،اسکے اندر سیکس کی خواہش تو جاگ گئی تھی مگر وہ بہت زیادہ کنفیوژ
تھی کہ کرے تو کیا کرے۔۔
باالآخر وہ بولی کہ اگر حیدر کو پتہ لگ گیا تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا ،میں نے
کہا یا تو تم بتاو گی حیدر کو یا پھر میں۔ تم خود تو بتاو گی نہیں۔ اور اگر میں اسکو
بتاتی ہوں تو تم بھی تو رضوان کو میرے بارے میں بتا سکتی ہو کہ میں نے حیدر کو
اپنی چوت دی ہے۔ اس لیے ایسا خوف دل میں نہ الو۔ تم میری رازدار وہ میں تمہارا راز
رکھون گی۔ پھر وہ بولی اگر رضوان نے بتا دیا تو؟؟؟ تو میں نے کہا اول تو رضوان
حیدر کو جانتا نہیں۔ نہ کبھی مال ہے اس سے۔ اور اگر مل بھی لے تو وہ بھال کیوں
بتائے گا کہ میں نے تمہاری منگیتر کی لی ہے؟ یہ تو خود موت کی دعوت دینا ہے۔ اور
ویسے بھی جب اسکو ایک چوت ملے گی تو وہ تو خوشی سے مارے گا ،اور اس راز
کو راز رکھے گا تاکہ دوبارہ بھی مل سکے۔
میری بات سن کر سمیرا خاموش ہوگئی تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب تھوڑی سی
زبردستی کرنی پڑے گی ،کیونکہ دل سے تو سمیرا مکمل طور پر راضی ہوچکی تھی
مگر اسکو ہاں کرنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ آخر کار میں اپنی جگہ سے اٹھی اور
اسکی گود میں بیٹھ کر اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ سمیرا نے اپنی آنکھیں
بند کر لیں۔ اسکے ہونٹ مکمل گرم تھے۔ میں نے اسکو کسنگ کرنا شروع کی جس
سے وہ گرم ہوگئی تھی۔ کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد میں نے اپنی قمیص اتار دی تھی
اور میرے جسم پر برا اور شلوار ہی تھی اور میں سمیرا کی گود میں بیٹھی اسکے ہونٹ
چوسنے میں مصروف تھی۔ میں زیادہ سے زیادہ ٹائم ایسے ہی گزارنا چاہتی تھی تاکہ
رضوان آئے تو ہم دونوں کو کسنگ کرتا ہوا پائے۔ اور پھر سارا کام آگے خود سے خود
ہوتا چال جائے گا۔ ایسے ہی ہوا ،رضوان کو گئے 15منٹ ہو چکے تھے اور میں
پچھلے 5منٹ سے سمیرا کی کسنگ کر رہی تھی۔
اتنے میں باہر سے قدموں کی آواز آئی تو میں نے کسنگ اور تیز کر دی ،سمیرا نے
مجھے پیچھے کرنے کی کوشش کی مگر میں نہیں ہٹی میں نے اسکی زبان اپنے منہ
میں لیکر دبائی ہوئی تھی اور اسکو چوس رہی تھی۔ اتنے میں دروازہ کھال اور مجھے
رضوان کی آواز آئی۔۔۔۔۔۔۔ فائزہ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟
میں نے مڑ کر رضوان کی طرف دیکھا تو اسکی آنکھوں میں حیرت ہی حیرت تھی۔ ایک
تو میں صرف برا میں تھی اور نیچے شلوار پہنی ہوئی تھی اور اوپر سے میں سمیرا کی
گود میں بیٹھی اسکو کسنگ کرنےمیں مصروف تھی۔ رضوان کو دیکھ کر میں نے
کسنگ تو روک دی مگر ویسے ہی بیٹھی رہی جب کہ سمیرا کا پورا جسم کاپننے لگ گیا
تھا ،شاید شرمندگی اور سیکس کی خواہش کا مال جال تاثر تھا یہ۔۔۔ رضوان ایک بار پھر
بوال فائزہ یہ کیا حرکت ہے؟؟؟ تو میں نے رضوان کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔۔ وہ
کبھی سمیرا کو دیکھ رہا تھا تو کبھی مجھے مگر سمیرا کی نظریں اوپر اٹھنے کا نام
نہیں لے رہی تھیں۔ رضوان میرے قریب آیا تو میں نے اسکو کہا بیٹھنے کو کہا ،اب
اسکی حیرانگی کچھ کم ہوچکی تھی اور وہ کچھ کچھ سمجھ چکا تھا کہ آج اسکو ایک
نئی چوت ملنے والی ہے۔ مگر وہ کھل کر ابھی اسکا اظہار نہیں کر رہا تھا کیونکہ اسکو
یقین نہیں تھا اس بات کا۔ رضوان صوفے پر میرے بالکل ساتھ بیٹھ گیا جہاں سمیرا بھی
سرکنے کی کوشش کی مگر میں نے اسکو وہیں بیٹھے بیٹھی ہوئی تھی ،سمیرا نے ِ
رہنے پر مجبور کیا اور ہلنے نہیں دیا۔ میں سمیرا کی گود میں بیٹھی بیٹھی رضوان کی
طرف جھکی اور اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ کر چوسنا شروع کر دیے اسنے بھی
فورا اپنا ہاتھ بڑھا کر میری کمر پر رکھا اور ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور وہ بھی میرے
ہونٹ چوس رہا تھا۔
پھر میں نے رضوان کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ کیے اور دوبارہ سے سمیرا کا
چہرہ اوپر اٹھایا۔ سمیرا نے چہرا اوپر کیا تو اسکی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے
پہلے اسکے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر اسکو کس کی۔ اور پھر اسکو کہا کہ سمیرا پریشان
ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔ نہ میں کسی کو بتاوں گی اور نہ رضوان کسی کو
بتائے گا۔ میری یہ بات رضوان نے سنی تو اسکو سو فیصد یقین ہوگیا کہ سمیرا کا یہاں
آنے کا مقصد کیا ہے۔ میری بات سن کر اس نے بھی ہلکی اور پیار بھری آواز میں کہا
کہ سمیرا آپ بالکل فکر نہ کریں آپکو کوئی نقصان نہیں ہوگا اور یہ راز کبھی کسی اور
کو پتا نہیں چلے گا۔ یہ کہ کر رضوان نے سمیرا کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا تو سمیرا
کا جسم ایک بار پھر کانپنے لگا۔ اب کی بار میں سمیرا کی گود سے نیچے ہوگئی تو میں
نے حیدر کو اشارہ کیا کہ وہ سمیرا کے قریب ہو اور اسکو تیار کرے۔ میں پیچھے ہٹی
تو سمیرا اپنی جگہ پر ساکت بیٹھی تھی۔ رضوان اسکے قریب ہوا اور اسکی ران پر ہاتھ
رکھ کر ہلکا سا دبایا اور بوال کہ اگر آپ کا دل مطمئن نہیں تو آپ بال جھجک واپس جا
سکتی ہیں میں ہرگز کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی کرنے کا قائل نہیں۔ اور نہ ہی مجھے
آپکے یہاں آنے کا علم تھا۔ لیکن اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپکے جسم کی
ضرورت پوری کرکے خوشی محسوس کروں گا اور آپکا یہ راز ہمیشہ راز ہی رہے گا۔
یہ بات سن کر بھی سمیرا بت بنی بیٹھی رہی اور اسکا جسم کانپ رہا تھا۔
یہ دیکھ کر میں اٹھی اور بولی کہ میں کھانا کچن میں رکھ کر آئی۔ یہ کہ کر میں نے
کھانے والے شاپر اٹھائے اور کچن میں چلی گئی۔ کچن کی کھڑکی سے مجھے رضوان
اور سمیرا صوفے پر بیٹھے واضح نظر آرہے تھے ،رضوان ابھی بھی سمیرا کی ران پر
ہاتھ رک کر بیٹھا تھا اور سمیرا بت بنی بیٹھی تھی۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد
رضوان نے آگے بڑھ کر اپنے ہونٹ سمیرا کے ہونٹوں پر رکھ کر ایک کس کی اور
پیچھے ہوگیا۔ تب بھی سمیرا نے کوئی رسپان نہیں دیا۔ رضوان نے اس سے پھر پوچھا
کہ اگر آپ سیکس کرنا چاہتی ہیں تو مجھے بتائیں؟؟ مگر سمیرا کچھ نہ بولی،البتہ اسکا
سانس تیز تیز چل رہا تھا اور اسکے سینے کے ابھار تیز سانس کی وجہ سے اوپر
نیچے ہوتے نظر آرہے تھے۔ کچھ دیر جواب کا انتظار کرنے کے بعد رضوان صوفے
سے اٹھنے لگا کہ آپ دل سے راضی نہیں لہذا میں آپکو مجبور نہیں کروں گا یہ کہ کر
وہ صوفے سے اٹھا تو اور بیڈ کی طرف جانے لگا تو سمیرا نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔
حیدر نے پھر مڑ کر دیکھا سمیرا کی طرف تو سمیرا نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے
دونوں ہاتھ آگے پھیال لیے۔
یہ دیکھ کر رضوان نے آگے بڑھ کر اپنے آپ کو سمیرا کے سینے سے لگایا اور ہولے
سے اسکو کس کی ،مگر اب کی بار سمیرا کی ساری برداشت جواب دے چکی تھی ،اس
نے بہت شدت کے ساتھ رضوان کو اپنے سینے سے لگا لیا اور دیوانہ وار اسکی ایک
کس کے بعد رضوان کے ہونٹوں پر حملہ کر دیا۔ رضوان نے سمیرا کی کمر میں دونوں
ہاتھ ڈالے اور اسکو صوفے سے اوپر اٹھا کر اپنی گود میں اٹھا لیا۔ سمیرا نے فورا اپنی
دونوں ٹانگیں رضوان کی کمر کے گرد لپیٹ دیں اور اسکے ہونٹوں پر جھک کر مسلسل
اسکے ہونٹ چوسنا جاری رکھے۔ یہ دیکھ کر میں کچن سے واپس آگئی ،میں خوش
تھی کہ سمیرا نے اپنی جھجک پر قابو پا لیا تھا اب وہ بھی اپنی پیاس بجھا سکے گی
اور ساتھ میں میرا بدلہ بھی پورا ہوسکے گا۔
میں ان دونوں کے پاس گئی اور دونوں کو جپھی ڈال لی ،سمیرا نے مجھے دیکھا تو
رضوان کے ہونٹ چھوڑ کر ایک بار اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر مجھے کس
کیا ،اسکے چہرے پر خوشی تھی اور پھر رضوان نے بھی مجھے کس کی ،پھر دوبارہ
سے وہ دونوں آپس میں شروع ہوگئے۔ کچھ دیر اسی حالت میں کسنگ کرنے کے بعد
رضوان نے سمیرا کو نیچے اتارا تو میں نے سمیرا کو پکڑ لیا اور اسکی قمیص اتار
دی۔ اور اس سے لپٹ کر اس کو پھر سے کسنگ کرنے لگی۔ رضوان کی نظر سمیرا کے
مموں پر تھی وہ سمیرا کے پیچھے سے آکر اسکو کمر پر پیار کرنے لگا تو سمیرا نے
ایک ہاتھ پیچھے لے جا کر رضوان کے بالوں پر پھیرنا شروع کر دیا۔ رضوان اپنے ہاتھ
سمیرا کی کمر پر پھیرتا ہوا ہاتھوں کو آگے الیا اور سمیرا کے مموں پر رکھ دیے۔ میں
نے سمیرا کے ہونٹوں کو چھوڑا اور پیچھے ہوگئی تو سمیرا فورا اپنا منہ رضوان کی
طرف کر کے اسے کسنگ کرنے لگی۔
میں ان دونوں کو پورا ٹائم دینا چاہتی تھی تاکہ سمیرا کو زیادہ سے زیادہ مزہ مل سکے۔
وہ دونوں اب پھر کسنگ میں مصروف تھے اور میں اب سمیرا کی کمر پر پیار کرتے
ہوئے اسکی برا کی ہکس کھول رہی تھی۔ برا کی ہک کھول کر میں نے سمیرا کے مموں
کو برا کی قید سے آزاد کر دیا۔ جیسے ہی سمیرا کے ممے آزاد ہوئے تو رضوان سمیرا
کے ہونٹوں کو چھوڑ کر سمیرا کے مموں پر کسی شکاری کی طرح جھپٹ پڑا ،رضوان
ویسے ہی مموں کا دیوانہ تھا ،اور سمیرا کے ممے بھی میرے سے بڑے تھے۔ میں نے
رضوان کو کہا کہ بیڈ پر چل کر لیٹتے ہیں تو رضوان نے سمیرا کے مموں کو چھوڑے
بغیر ایسے ہی دھکیلتا ہوا بیڈ تک لے گیا اور بیڈ پر لٹا کر مموں سے ایسے چمٹا رہا
جیسے اسے ایلفی لگ گئی ہو۔ اب سمیرا بیڈ پر نیچے لیٹی تھی تو رضوان اسکے مموں
کو دبانے اور چوسنے میں مصروف تھا۔ میں نے اپنا برا خود ہی اتارا اور اپنی شلوار
بھی اتار دی۔ پھر میں نے سمیرا کی بھی شلوار اتاردی۔ اب رضوان سمیرا کے مموں کو
چوس رہا تھا اور میں سمیرا کی چوت پر زبان پھیرنے میں مصروف تھی۔ سمیرا کی
چوت اس وقت مکمل گیلی ہوچکی تھی۔ کچھ دیر اسکی چوت چاٹنے کے بعد سمیرا کی
چوت نے پانی چھوڑ دیا۔
سمیرا تو جیسے مزے کی وادیوں میں کھو چکی تھی۔ رضوان کے جسم کی گرمی اسکو
پاگل کیے دے رہی تھی۔ اب کی بار میں نے رضوان کے کپڑے اتارنا شروع کیے تو
رضوان نے سمیرا کے مموں کی جان چھوڑی جنہیں چوس چوس کر وہ الل کر چکا تھا۔
میں نے رضوان کی پینٹ اتاری تو سمیرا بھی فورا اٹھ کر بیٹھ گئی کیونکہ وہ بھی
دیکھنا چاہتی تھی کہ آخر میں نے جو دعوی کیا تھا کہ رضوان کا لن بڑا ہے وہ واقعی
بڑا ہے بھی صحیح یا نہیں؟؟؟ پینٹ اتارتے ہی رضوان کا 7انچ کا لمبا اور موٹا لن
ایسے باہر نکال جیسے برسوں سے کسی قید میں رہ رہا ہو اور آج آزادی ملی ہو۔
رضوان کا لن اکڑ کر کھڑا ہوگیا تھا اور اسکی ٹوپی اوپر چھت کی طرف اشارہ کر رہی
تھی۔
سمیرا کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں رضوان کا لن دیکھ کر۔ میں نے
سمیرا کو دعوت دی کہ رضوان کا لن منہ میں لیکر چوسے تو اس نے انکار کر دیا ،بس
اسنے ڈر اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ رضوان کے لن کو اپنے ہاتھ میں
پکڑا اور اسکو لمبائی اور موٹائی کا اندازہ کرنے لگی۔ اسکی آنکھوں میں اس وقت
خوشی تھی۔ وہ پیار سے اپنا ہاتھ رضوان کے لن پر پھیر رہی تھی۔ رضوان نے اسے
سے پوچھا کہ پہلے کوئی لن چوسا ہے؟؟؟ تو سمیرا نے انکار میں سر ہال دیا ،رضوان
نے اسکا مطلب یہ لیا کہ شاید سمیرا کنواری ہے۔ ویسے ایک طرح سے کنواری ہی تھی
کیونکہ ایک دن پہلے ہی تو اسکی چوت کا پردہ پھٹا تھا۔
سمیرا کے انکار پر میں نے رضوان کو لیٹنے کو کہا اور خود اسکے لن کو منہ میں
لیکر چوسنے لگی اور سمیرا کو کہا کہ وہ میری چوت کو چاٹے ،سمیرا نے فورا ہی
میری چوت کو چاٹنا شروع کر دیا اور کچھ ہی دیر میں مجھے بھی فارغ کروادیا۔ اتنی
دیر میں رضوان کے لن کے میں نے خوب چوپے لگائے تھے اور اسکو مکمل گیال کر
دیا تھا۔
اب میں نےایک بار پھر سمیرا کو رضوان کے آگے کیا تو دونوں نے پھر کسنگ شروع
کر دی ،مگر اس بار سمیرا کا ایک ہاتھ رضوان کے لن کو سہال رہا تھا ،کچھ دیر بعد
رضوان نے کسنگ چھوڑ کے سمیرا کو نیچے لٹایا اور اسکی ٹانگیں کھول کر اپنی زبان
سمیرا کی بالوں سے پاک چوت پر رکھ دی اور اسکو چاٹنے لگا۔ سمیرا بری طرح تڑپنا
شروع ہوگئی تھی۔ کچھ دیر چوت چاٹنے کے بعد میں نے رضوان کو کنڈوم چڑھانے کو
کہا اور اشارہ کیا کہ ڈال دو اب اسکی چوت فل گرم ہے۔ رضوان نے کنڈوم چڑھایا اور
میرے سے ہلکی آواز میں پوچھا کہ کنواری ہے ؟؟؟ میں نے اسکے کان میں بتایا کہ
کنواری تو نہیں مگر صرف ایک بار سیکس کیا ہے تو آرام سے ہی کرنا شروع میں۔
رضوان نے سمیرا کی چوت پر لن رکھ کر ہلکا سا دھکا مارا تو رضوان کے لن کی ٹوپی
اور لن کا کچھ حصہ سمیرا کی پھدی میں داخل ہوگیا۔ سمیرا کی ایک زوردار چیخ نکلی
کیونکہ رضوان کا لن حیدر کے لن سے موٹا تھا اور یہ فرق سمیرا کی چوت نے محض
ٹوپی کی موٹائی سے ہی محسوس کر لیا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر سمیرا کے ہونٹوں پر
اپنے ہونٹ رکھ دیے اور رضوان کو ایک دھکا مارنے کو کہا رضوان نے دھکا مارا اور
آدھے سے زیادہ لن سمیرا کی چوت میں تھا۔ سمیرا کی اب چیخیں نکل رہی تھی اور وہ
اپنی ٹانگوں کو چھڑوانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔ مگر وہ مرد ہی کیا جو ایک
گیلی چوت کو اپنے لن سے علیحدہ ہونے دے۔
رضوان نے سمیرا کو مضبوطے سے پکڑا ہوا تھا ،کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد
رضوان نے ایک اور زور دار دھکا مارا تو رضوان کا 7انچ کا لن سمیرا کی چوت کی
دیواروں کو سائیڈ پر دھکیل کر اپنی جگہ بناتا ہوا سمیرا کی پھدی کی گہرائیوں تک اتر
گیا۔ اب رضوان سمیرا کے اوپر ساکت ہو کر لیٹ گیا تھا۔ وہ اپنے لن کو حرکت نہیں دے
رہا تھا اور اپنے ہونٹوں سے سمیرا کے ہونٹ چوس کر اسکی پھدی کو گیلی کرنے کی
کوشش کر رہا تھا ،پھر ہونٹوں سے ہوکر وہ سمیرا کے مموں پر آگیا اور انکو چوسنے
لگا مگر لن پھدی میں ساکت تھا۔ کچھ دیر بعد جب سمیرا کی درد کم ہوئی تو رضوان نے
آہستہ آہستہ لن کو پھدی میں رواں کرنا شروع کیا۔ جیسے جیسے رضوان اپنے لن کو
سمیرا کی چوت میں حرکت دے رہا تھا ،سمیرا کی چوت پانی گیلی ہونا شروع ہو رہی
تھی۔ چوت کی چکناہٹ لن پر لگنے سے لن روانی کے ساتھ جانا شروع ہوا تو سمیرا
کی سسکیاں شروع ہوگئیں۔ چیخوں کی جگہ سسکیاں لینے کا مطلب تھا کہ اب سمیرا کو
مزہ آرہا ہے رضوان کے لن کا تو رضوان نے بھی اپنی سپیڈ بڑھا دی۔
سمیرا کی دونوں ٹانگیں سائیڈ پر پھیلی ہوئی تھیں اور اسکی چوت میں لن کا آنا جانا
پچھلے 5منٹ سے جاری تھا۔ اب کی بار رضوان نے سمیرا کی ٹانگیں اٹھائیں اور
انکو فولدڈ کر کے سمیرا کے سینے پر لگا دیا جس سے سمیرا کی گانڈ اوپر ہوگئی اور
چوت کا سوراخ بھی اونچا ہوگیا ،اس پوزیشن میں لن چوت کی گہرائی تک چوٹ لگا رہا
تھا اور رضوان کے ٹٹے سمیرا کی گانڈ سے ٹکرا رہے تھے۔ کچھ ہی دھکے لگے
ہونگے کہ سمیرا کی پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔ سمیرا کے جسم نے جھٹکے لیے اور
کچھ دیر میں ریلیکس ہوگئی ،اس دوران رضوان نے لن کو روکا نہیں بلکہ مسلسل
سمیرا کی چودائی کرتا رہا۔ جب سمیرا کا جسم مکمل پانی چھوڑ چکا تو حیدر نے سمیرا
کو چھوڑا اور مجھے لیٹنے کو کہا مگر میں نے رضوان کو کہا ایک بار اور سمیرا کا
پانی نکلوا دو پھر میں آوں گی۔
میری بات سن کر رضوان نے سمیرا کی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ لیں اور
سمیرا کی چوت کی گہرائیوں میں اپنا لن ایک بار پھر اتار دیا۔ سمیرا کی چوت فورا ہی
گرم ہوگئی تھی اور اب کی بار سمیرا پورے مزے کے ساتھ چودائی میں رضوان کا ساتھ
دے رہی تھی۔ رضوان نے اپنے ہاتھوں سے سمیرا کے ممے پکڑے ہوئے تھے اور
انکو دبا رہا تھا۔ کچھ دیر ایسے ہی چودائی کرنے کے بعد سمیرا کو کروٹ لینے کو کہا
اور اسکی ٹانگیں نیچے کر دیں۔ سمیرا کروٹ لیکر لیٹ گئی تو رضوان اسکے پیچھے
کمر کی طرف کروٹ لیکر لیٹا اور تھوڑا سا نیچے ہوکر لن اسکی چوت میں داخل کر دیا۔
اب کی بار رضوان اپنی گانڈ ہال ہال کر دھکے مار رہا تھا کیونکہ ایسی حالت میں صرف
مرد اپنی گانڈ ہال کر ہی چدائی کر سکتا ہے اور یہ دھکے زیادہ جاندار نہیں ہوتے۔ مگر
سمیرا کو پہلے سے زیادہ مزہ آنے لگا تھا کیونکہ ایک تو نئی پوزیشن تھی اور پھر
دونوں ٹانگیں آپس میں جڑی ہونے کی وجہ سے پھدی ٹائٹ ہوگئی تھی اور لن کی رگڑ
زیادہ مزہ دے رہی تھی۔ اس پوزیشن ِمں 3منٹ چودائی کرنے کے بعد رضوان نے
نیچے لیٹ کر سمیرا کو اوپر آنے کو کہا۔
سمیرا رضوان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر لن کے اوپر بیٹھ گئی اور آہستہ آہستہ لن اندر
کرنے لگی۔ پورا لن اندر گیا تو سمیرا کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے ،کیونکہ اس
پوزیشن میں عورت کا اپنا وزن لن کے اوپر ہوتا ہے اور لن آخرے حصے تک پھدی
میں داخل ہوجاتا ہے۔ جب پورا لن سمیرا کی چوت میں گیا تو سمیرا نے آہستہ آہستہ
اچھلنا شروع کیا ،تھوڑی ہی دیر میں سمیرا کا اچھلنا تیز ہوا تو اسکو مزہ آنے لگا،
مگر ایسی پوزیشن میں عورت زیادہ دیر نہیں اچھل سکتی سمیرا بھی فورا ہی تھک گئی
تو رضوان نے سمیرا کو اپنے اوپر لٹا لیا اور اپنے دونوں ہاتھ سے سمیرا کو گانڈ سے
پکڑ کر اوپر اٹھایا اور نیچے سے اپنے لن کی مشین چال دی۔ اس پوزیشن میں مرد بہت
سپیڈ کے ساتھ مشین چال سکتا ہے اور رضوان کی مشین بھی اس وقت پوری سپیڈ کے
ساتھ چل رہی تھی جسکو سمیرا کی چوت مزے کے ساتھ سسکیاں لے لے کر برداشت
کر رہی تھی۔
اب سمیرا اپنی چودائی کو مکمل انجوائے کر رہی تھی ،شروع میں اسے درد تھی مگر
اب وہ روانی کے ساتھ بغیر تکلیف کے لن لے رہی تھی۔ اُف۔ ۔ ۔ آہ۔۔ ۔ آہ۔ ۔ آہ۔ ۔ ام ،ام ،
ام ،ام ۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔ فک می بے بی ،فک می ہارڈ ،فک می ہارڈ۔۔۔ ہارڈر ،ہارڈر۔۔۔ سمیرا
مسلسل سسکیاں لے رہی تھی اور بار بار رضوان کو فک می فک می کہ کر اسکے
جوش میں بھی اضافہ کر رہی تھی۔ رضوان نے سمیرا کو اپنے اوپر مکمل لٹا لیا اور
کمر کے گرد اپنے بازوں کی گرفت مضبوط کر کے سمیرا کی چود کی کھدائی تیز کر دی،
سمیرا اب دوبارہ پانی چھوڑنے والی تھی تو اسنے ایک بار پھر بھرپور سسکیاں لینے
شروع کردیں۔۔۔ آہ آہ آہ ،،،،فک می بے بی ،فک می ہارڈ ،آہ آہ آہ۔۔۔۔ ڈانٹ سٹاپ ،ڈانٹ
سٹاپ بے بی ،ہارڈر ،مور ہارڈر۔۔۔۔۔ آئی ایم کمنگ ،کمنگ۔۔۔۔۔۔ آہ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور
یوں سمیرا کی چوت نے دوسری بار پانی چھوڑ دیا۔
سمیرا کی گانڈ نے کچھ جھٹکے کھائے اور اسکے بعد سمیرا رضوان کے اوپر ساکت
لیٹ گئی۔ سمیرا تھک چکی تھی وہ مسلسل 20منٹ سے رضوان کے لن کو اپنی چوت
کی وادیوں کی سیر کروا رہی تھی۔ جب سمیرا کو کچھ سکون ہوا تو وہ اوپر اٹھی اور
پیار سے رضوان کو چومنے لگ گئی اور بولی تمہارے لن میں جادو ہے۔ آئی لو یو،
بہت مزہ آیا تم سے چدوا کر۔ یہ کہ کر وہ رضوان کے لن سے اٹھ گئی اور مجھے جگہ
دی۔ میں نے پہلے رضوان کو کہا کہ میری چوت کہ چاٹ کر گرم کرے تو رضوان نے نہ
صرف میری چوت چاٹی بلکہ انگلی ڈال کر میری چوت کو گیال کرنے میں بھی مدد کی۔
پھر رضوان میری چوت میں لن ڈالنے لگا تو میں نے اسے منع کر دیا اور کہا مجھے
اپنی گود میں بٹھا کر چودے۔ رضوان بیڈ پر ہی گھٹنے موڑ کر بیٹھ گیا تو میں اسکی
گود میں بیٹھی اور اپنی ٹانگیں پھیال کر رضوان کے پیچھے لے گئی ،میری چوت
رضوان کے لن کے بالکل سامنے تھی ،رجوان نے چوت پر لن رکھا اور ایک ہی دھکے
میں سارا لن اندر ڈال کر بغیر رکے میری چدائی شروع کر دی۔ رضوان فل سپیڈ کے
ساتھ دھکے لگا رہاتھا۔ میں بھی اپنی گانڈ ہال ہال کر مکمل ساتھ دے رہی تھی رضوان
کا۔
منٹ ایسی ہی چودائی کے بعد رضوان نے بوال کہ وہ مجھے گھوڑی بنا کر چودنا 5
چاہتا ہے تو میں فوران ڈوگی سٹائل میں گھٹنوں اور ہاتھوں کے سہارے بیٹھ گئی اور
اپنی گانڈ رضوان کے لن کے سامنے کر دی ،رضوان نے لن کو میری چوت پر سیٹ کیا
اور اپنے ہاتھ میری چوتڑوں پر رکھ دیے اور اس بار بھی ایک ہی دھکے میں اسکے
لن نے میری چوت کی دیواروں کو ہٹا کر اپنا راستہ بنا لیا اور بغیر رکے گھسے مارنا
شروع کر دیے ،میری چوت اندر سے بہت گیلی تھی جسکی وجہ سے لن بہت تیزی کے
ساتھ میری چوت میں جاتا اور ایسے ہی تیزی سے باہر آتا۔ کچھ دیر بعد رضوان نے
مجھے مموں کی مدد سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو میری کمر دہری ہوگئی اور اب
میرے صرف گھٹنے بیڈ پر تھے ہاتھ میں اوپر اٹھا چکی تھی کیونکہ رضوان نے مجھے
اپنی طرف کھیچ لیا تھا۔ اب میں منہ پیچھے کر کے رضوان کو کس کر رہی تھی اور
میری سسکیاں رضوان کے منہ میں ہی دفن ہو رہی تھی۔
کچھ دیر بعد مجھے اپنے جسمی میں سوئیاں چبھتی محسوس ہوئیں تو میں نے رضوان
کو کہا کہ میں چھوٹنے والی ہوں تو رضوان بوال وہ بھی قریب ہے ،رضوان کے دھکے
اب پوری طاقت سے لگ رہے تھے کہ میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا اور ساتھ ہی
رضوان نے بھی رک رک کر جاندار دھکے لگائے۔ اسکا لن بھی پانی چھوڑ چکا تھا۔
کچھ دیر تک ہم تینوں ننگے ایکدوسرے کے ساتھ لیٹے رہے۔ پھر میں نے رضوان کو
کہا کہ اب وہ ہمارے لیے کھانا بھی گرم کر کے الئے۔ چدائی کے بعد بہت زور سے
بھوک لگی تھی۔ سمیرا نے بھی کہا کہ اسکو بھوک لگی ہے۔ رضوان کچن میں جا کر
مائیکرو ویو میں کھانا گرم کر الیا۔ ہم نے ہاتھ دھونے کے بعد کپڑے پہنے اور کھانا
کھانے لگے۔ جب رضوان کھانا گرم رہا تھا تو میں نے سمیرا سے پوچھا مزہ آیا؟؟؟ تو
سمیرا بولی کہ اس نے تو پہلی ہی باری ِمں میری چوت کا برا حال کر دیا تھا۔ دوسری
بار کی چدائی میں تو میری چوت اسکے لن کا پورا ساتھ دے رہی تھی اور دل کر رہا تھا
اور زور سے چدائی ہو۔ سمیرا خوش تھی کہ اسکی چوت کو مکل سکون مل گیا ہے۔ ہم
نے مل کر کھانا کھایا۔ 5بج چکے تھے تو سمیرا نے کہا اب چلیں؟؟؟
رضوان نے آگے بڑھ کر سمیرا کو کس کی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا
اور کہا یہ دیکھو یہ ابھی بھی تمہاری چوت میں جانا چاہتا ہے۔۔ یہ کہ کر رضوان نے
اپنا انڈر وئیر اتار دیا اور سمیرا کو کہا کہ لن منہ میں لیکر چوسے۔ اس بار سمیرا نے
انکار نہیں کیا اور بہت پیار سے رضوان کے لن کا چوپا لگانے لگی۔ کچھ دیر بعد سمیرا
کے کپڑے اتر چکے تھے اور رضوان دوبارہ سے کنڈوم چڑھا چکا تھا۔ سمیرا کی
ٹانگیں ہوا میں لہرا رہی تھیں اور سمیرا کی چوت سے پچک پچک کی آوازیں آرہی
تھیں۔ سمیرا کی چوت رضوان کے طوفانی دھکوں کے سامنے ایک بار پھر پانی چھوڑ
چکی تھی اسی پانی کی وجہ سے رضوان کا لن چوت میں جاتا تہ پچک پچک کی آواز
آتی۔
پھر رضوان نے سمیرا کو الٹا لیٹنے کو کہا۔ سمیرا الٹا لیٹ گئی سینے کے بل تو رضوان
نے ہاتھوں سے سمیرا کے چوتڑ سائیڈ پر کیے اور لن کی ٹوپی سمیرا کی چوت پر رکھ
دی اور ایک ہی دھکے میں پورا لن اندر گھسا دیا۔ اور دھکے لگانا شروع کیے۔ اس
پوزیشن میں سمیرا کی چیخیں نکل رہی تھی کیونکہ چوت بہت ٹائٹ تھی اور رضوان کا
موٹا لن سمیرا کی چوت کی دیواروں کو چھیل رہا تھا۔ کچھ دیر بعد سمیرا کی حالت بری
ہوگئی تو اس نے ایسے چدائی کروانے سے انکار کر دیا ،اب رجوان نے سمیرا کو
ڈوگی سٹائل بنانے کو کہا تو سمیرا کی پیچھے سے چدائی شروع ہوگئی۔ سمیرا کی چوت
ایک بار پھر رضوان کے لن کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔
سمیرا گھوڑی بنی رضوان کے لن کو اپنی چوت کی سیر کروا رہی تھی تو سمیرا کے
36سائز کے ممے ہوا میں لہرانے لگے ہوئے تھے جنہیں رضوان کبھی پکڑ کر دبا
دیتا تو کبھی ایسی ہی ہوا میں لٹکتا چھوڑ دیتا ،سمیرا کی چخیں اور فک می ہارڈ کی
آوازیں دوبارہ آنا شروع ہوئیں تو رضوان سمجھ گیا کہ سمیرا فارغ ہونے والی ہے۔
رضوان نے دھکے بڑھا دیے اور کچھ ہی دھکوں بعد سمیرا کی چوت کا پانی بیڈ شیٹ
کو گیال کر رہا تھا۔ پانی چھوڑتے ہی سمیرا بے جان ہوکر بیڈ پر ڈھے گئی تھی۔
سمیرا کے گرتے ہی رضوان نے مجھے پکڑ لیا اور بغیر میری پھدی کو گیال کیے اپنا
لن فورا ہی میری خشک پھدی میں ڈال دیا جس سے مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ مگر
تھوڑی دیر بعد پھدی گیلی ہوئی تو مزہ بھی آنے لگا۔ اب میں نے رضوان کو کہا کہ اپنا
کنڈوم اتار دے اور میری بغیر کنڈوم کے چدائی کرے۔ رضوان نے فورا کنڈوم اتار دیا
جیسے وہ بھی تنگ ہو کنڈوم سے۔ اب اسکا گیال لن میری چوت میں گیا تو اسکا مزہ ہی
کچھ اور تھا ،رضوان نے مجھے بھی الٹا سینے کے بل لیٹنے کو کہا اور چوتڑ کھول کر
چوت میں لن گھسا دیا۔ اس پوزیشن میں چوت واقعی بہت ٹائٹ ہوجاتی ہے۔
اس پوزیشن میں 5منٹ کی چودائی نے ہی میری چوت کو مات دے دی اور چوت پانی
پانی ہوگئی۔ مگر رضوان کا لن آج کچھ زیادہ ہی موڈ میں تھا وہ ابھی تک فارغ نہیں ہوا
تھا۔ اب رضوان نے میرے سے گانڈ کی فرمائش کر دی۔ پہلے تو میں نے انکار کیا مگر
پھر اسکے آگے ہار ماننا پڑی۔ سمیرا بھی گانڈ کا سن کر حیران ہوئی اور بولی تم کیسے
برداشت کروگی؟؟؟ رضوان یا میں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ میں پہلے گانڈ مروا چکی
ہوں 8انچ لمبے لن سے۔ آج تو 7انچ کا لن ہے۔ رضوان نے میری گانڈ کو پہلے تھوک
سے چکنا کیا پھر تیل لگا کر اپنے لن کو بھی تیل میں بھگو دیا۔ اسکے بعد میں ڈوگی
سٹائل میں اپنی گانڈ رضوان کے لن کو سونپنے کے لیے تیار تھی۔ رضوان نے گانڈ پر
لن رکھ کر زور لگانا شروع کیا تو لن آہستہ آۃستہ اندر جانے لگا ،مگر میری چیخیں
بہت ہی سپیڈ کے ساتھ بڑھنے لگیں۔ 2منٹ کی محنت کے بعد لن جڑ تک میری گانڈ
میں تھا۔ رضوان بار بار میری کمر پر پیار کر رہا تھا کیونکہ وہ خوش تھا کہ میں نے
اسکو اپنی گانڈ دے دی۔ 10منٹ گانڈ کو پھاڑنے کے بعد رضوان کے لن نے میری گانڈ
میں ہی اپنا پانی چھوڑ دیا۔
میں تو ایک بار پھر تکلیف میں تھی کیونکہ گانڈ میں اتنا موٹا لن لینا آسان کام نہیں ہوتا
مگر سمیرا مکمل سکون میں تھی۔ رضوان کے لن نے سمیرا کی چوت کو کھودائی کر
کر کے 4مرتبہ وہاں سے پانی نکلوایا تھا۔ وہ تھکی تو تھی مگر اسکی چوت بہت
خوش تھی اور مزے میں تھی۔ 6بجے ہم فلیٹ سے نکلے تو سمیرا نے مجھے کہا کہ
وہ مجھے میرے گھر تک چھوڑ دے گی۔ سمیرا میرے گھر تک آئی اور پھر گھر بھی
رکی ،رات 9بجے تک سمیرا میرے ساتھ رہی اور اس سارے ٹائم میں وہ رضوان کے
لن کی تعریفیں کرتی رہی ،بیچ میں اس نے خود ہی 2 ،1بار حیدر کی نا مردی کا بھی
ذکر کیا۔ رات 9بجے سمیرا میرے گھر سے چلی گئی۔
مجھے یقین تھا کہ جو میں نے پالن بنایا تھا اور جو اسکا رزلٹ چاہتی تھی وہ رزلٹ
آئے گا۔ میں اپنے پالن پر مکمل عمل کر چکی تھی اب میں نے کچھ نہیں کرنا تھا۔ اب
جو کرنا تھا وہ سمیرا نے کرنا تھا۔ آخر کار مجھے زیادہ ویٹ نہیں کرنا پڑا اور سمیرا
نے اسالم آباد واپس جاتے ہی وہ کام کر دیا جو میرے پالن کا رزلٹ تھا۔
اس واقعہ کے محض 2دن کے بعد ہی میرے چھوٹے بھائی نے مجھے آکر بتایا کہ
اسکے امتحان ہوئے ہیں اور اسکا رزلٹ اچھا نہیں آیا جسکی وجہ سے اسکے فزکس
کے ٹیچر اسکا داخلہ بھیجنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اور وہ ابو سے ملنا چاہتے ہیں۔
لیکن اگر ابو کو پتا چل گیا کہ فیاض کا رزلٹ اچھا نہں آیا تو اس پر بہت پابندیاں لگ
جائیں گی اور مار بھی پڑے گی۔ تو فیاض نے مجھے کہا کہ میں اسکے فزکس کے ٹیچر
اسلم سے ملوں اور ان سے گزارش کروں کہ وہ میرا داخلہ بھیج دیں۔ میں نے ہامی بھر
لی اور کہا کہ کل صبح میں کالج جا کر بات کروں گی تم فکر نہ کرو مسئلہ حل ہوجائے
گا۔
اگلی صبح میں نے کرتا پاجامہ پہنا ،چوڑی دار پاجامہ بہت ہی ٹائٹ ہوتا ہے جس میں
لڑکی کی ٹانگیں بہت سیکسی نظر آتی ہیں اور گانڈ تک بہت واضح نظر آرہی ہوتی ہے۔
اوپر سے میرا تنگ کرتا میرے مموں کہ بہت ہی واضح کر رہا تھا۔ ساتھ میں نے ایک
دوپٹہ جو بہت باریک تھا گلے میں لیا اور اوپر سے بڑی چادر لیکر فیاض کے ساتھ
اسکے کالج چلی گئی۔ فیاض مجھے اپنے ٹیچر اسلم کے پاس لے گیا ۔ اسلم صاحب بڑی
عمر کے آدمی تھے۔ انکی عمر کوئی لگ بھگ 50سال کے قریب رہی ہوگی ،باریش
انسان تھے ۔ توند بھی کافی نکلی ہوئی تھی مگر اچھے پرسنیلٹی کے مالک تھے۔ میں
نے بات کا آغاز کیا کہ فیاض نے مجھے بتایا اسکا رزلٹ اچھا نہیں آیا اور آپ کسی
بڑے سے ملنا چاہتے ہیں۔ تو اسلم صاحب فورا بولے کہ جی ہاں میں نے فیاض کو کہا
تھا کہ اپنے والد صاحب کو بالئے میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ ابو تو
کام کے سلسلے میں شہر سے باہر ہیں ،میں اسکی بڑی بہن ہوں ،جو بھی مسئلہ ہے
آپ مجھ سے ڈسکس کریں میں خود بھی فیاض کی پڑھائی پر توجہ دوں گی اور ابو کے
واپس آنے پر انکو بھی خبر کروں گی۔ یہ سن کر اسلم صاحب نے فیاض کو اپنی کالس
میں جانے کو کہا اسکا کمیسٹری کا پیرئیڈ تھا سو وہ سر کے کہنے پر اپنی کیمسٹری
کی کالس میں چال گیا۔ اب روم میں صرف سر اسلم اور میں موجود تھی۔
میں نے اپنی چادر اتار کر ساتھ والی چئیر پر رکھ دی اور اب میرے گلے میں باریک
دوپٹہ تھا جو میرے مموں کے ابھار کو چھپانے میں بری طرح ناکام ہو رہا تھا۔ میں نے
جان بوجھ کر ایسے سیکسی کپڑے پہنے تھے کیونکہ میرا خیال تھا کہ مرد ٹیچر ہے وہ
اتنے میں اپنی رال ٹپکاتے ہوئے فیاض کا داخلہ خوشی خوشی بھیج دے گا۔ مگر سر
اسلم نے میرے مموں پر نظر تک نا ڈالی۔ البتہ وہ بات کرتے ہوئے میری آنکھوں میں
آنکھیں ڈال کر اعتماد کے ساتھ بات کر رہے تھے جیسے انکو میرے جسم کے ابھاروں
سے کوئی سروکار نہ ہو۔ انہوں نے مجھے فیاض کا رزلٹ دکھانا شروع کیا تو میں کچھ
آگے کو جھک کر کھڑی ہوگئی اور میری قمیص سے میرے ممے واضح نظر آنے لگے
تھے اب۔ سر اسلم نے ایک بار سر اوپر اٹھایا تو انکی نظر سیدھی میری قمیص کے
اندر موجود مموں پر پڑی مگر ایک لمحے سے پہلے انہوں نے اپنی نظر ہٹا لی اور پھر
سے مجھے تفصیالت بتانے لگے۔ فیاض کی کارکردگی واقعی پچھلے 3ماہ سے بہت
بری تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ فیل ہوگیا ،مگر 40فیصد نمبر لیکر پاس ہونا بھی کوئی
اچھی بات نہی ہوتی۔
غرض یہ کہ سر اسلم کا کہنا تھا کہ اسکی کارکردگی مسلسل نیچے کی طرف آرہی ہے
اور انکو ڈر ہے کہ یہ بورڈ کے امتحانات میں فزکس میں فیل ہوجائے گا جس سے نا
صرف انکے کالج کا رزلٹ خراب ہوگا بلکہ انکی اپنی ذات پر بھی بات آئے گی کہ انکا
سٹوڈنٹ فیل ہوگیا جب کہ آج تک اس کالج میں انکا 100فیصد رزلٹ ہوتا ہے۔ اور وہ
یہ رسک نہیں لے سکتے کہ انکا نام خراب ہو۔ میں نے سر کو تھوڑی امید دالئی کہ اگر
وہ داخلہ بھیج دیں گے تو میں فیاض پر پوری توجہ دوں گی اور دل لگا کر پڑھے گا اور
اچھے نمبروں کے ساتھ پاس ہوگا۔ مگر سر نے کہا کہ انکو اسکی بالکل بھی امید نہیں۔
بھیجیں گے۔ اور انکا ابو کو بالنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ انکو
ِ اور وہ یہ داخلہ نہیں
پہلے ہی بتا دیں کہ آپکے بیٹے کا داخلہ اس سال نہیں جائے گا اور اسکا یہ سال ضائع
ت حال میرے لیے بڑی پریشان کن تھی۔ کیونکہ ایسا ہوجاتا تو فیاض ہوجائے گا۔ یہ صور ِ
کے ساتھ ابو نے تو جو کرنا تھا سو کرنا تحا پورے خاندان ِمں اسکی بے عزتی ہونی
تھی۔ اور سب رشتے داروں نے باتیں بنانی تھیں۔
میں نے سر اسلم کی بہت منتیں کی مگر وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے۔ آخر کار میں
نے فیصلہ کیا کہ سر اسلم کے بوڑھے جسم کو اگر میرے جوان اور گرم جسم کا لمس
مل جائے اور وہ اسکا نظارہ کر لیں توہ یقینا مان جائیں گے۔ کونسا مرد ہوگا جو جوان
لڑکی کے گرم جسم کے نظارے سے پگھل نا جائے۔ لہذا میں اپنی چئیر سے اٹھی اور
انکی طرف اور جھک گئی تاکہ میرے ممے نیچے لٹک جائیں اور کرتی سے مزید واضح
نظر آئیں ۔ میں نیچے جھکی تو واقعی میرے مموں کا زیادہ حصہ اب میری قمیص سے
باہر تھا محض نپل ہی تھے جو قمیص کے اندر تھے۔ سر کی نظر ایک بار پھر میرے
مموں پر پڑی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے اور انکا کہنا تھا کہ وہ داخلہ نہیں بھیجیں
گے۔
میں نے اپنی جگہ چھوڑی اور ٹیبل کے دوسری طرف سر کی چئیر کے برابر جا کر
انکی منتیں کرنے لگی کہ آپ میرے بھائی کا داخلہ بھیج دیں میری گارنٹی ہے کہ وہ فیل
نہیں ہوگا بلکہ اچھے نمبر لیکر پاس ہوگا۔ مگر وہ نہ مانے۔ میں نے انکے کندھے پر
ہاتھ رکھا اور ہلکا سا دبایا مگر وہ غصے سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولے
محترمہ آپ واپس اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ جائیں ورنہ میں اب ِھی پئین کو بلوا کر آپکو
یہاں سے نکلوا دوں گا۔ آپکو جو بات کرنی ہے اپنی جگہ پر بیٹھ کر کریں۔ مجھے اپنی
تذلیل تو محسوس ہوئی مگر مرتی کیا نہ کرتی دوبارہ اپنی جگہ پر چلی گئی۔ چئیر کے
پیچھے واٹر کولر پڑا تھا اور ساتھ گالس بھی رکھا تھا۔ میں پانی پینے کے بہانے
پیچھے گئی اور گالس اٹھا کر نیچے جھکی اور واٹر کولر سے پانی ڈالنے لگی۔ میں
نیچے جھکی ہوئی تھی اور میری پیٹھ سر کی طرف تھی۔ میں نے جان بوجھ کر اپنی
کرتی سائیڈ پر ہٹا دی تاکہ میری گانڈ اور بڑے بڑے چوتڑ چوڑی دار پاجامہ سے نظر
آسکیں۔ اور آہستہ آہستہ پانی بھرنے لگی۔ مجھے معلوم تھا کہ سر اسلم کی نظریں
میرے چوتڑوں پر ہیں۔ اور مجھے امید تھی کہ ممے دیکھ کر وہ نہیں مانے مگر چوتڑ
دیکھ کر تو انکا لن انکو مجبور کر دے گا کہ وہ میری بات مان جائیں۔
مگر تب میری امید پر پانی پھر گیا جب مجھے پیچھے سے سر اسلم کی آواز سنائی دی،
محترمہ یہ جو کچھ آپ مجھے دکھا رہی ہیں مجھے اسکی کوئی ضرورت نہیں ۔ لہذا آرام
سے پانی پی کر گھر جائیں ۔ میرا مقصد محض فیاض کے گھر انفارم کرنا تھا کہ اسکا
داخلہ نہیں جا رہا۔ اور آپکی ان حرکتوں سے میں اپنا ارادہ قطعی تور پر نہیں بدلنے واال
۔
انکی اس بات نے مجھے مزید شرمندہ کر دیا۔ اب میرا حلق واقعی خشک ہوگیاتھا اور
مجھے پانی کی ضرورت تھی میں نے پانی پیا اور دوبارہ سے چئیر پر بیٹھ گئی۔ میں
نے سر جھکا لیا تھا اور سوچ رہی تھی کہ ناجانے کس مٹی سے بنا ہے یہ شخص۔ میں
نے پھر سے ایک وار کیا اور کہا سر آپ جو کہیں گے میں کروں گی مگر پلیز آپ میرے
بھائی کا داخلہ بھیج دیں۔ اس پر سر نے فورا جواب دیا کہ آپ اگر میرے بستر پر بھی
میرے ساتھ رات گزار دیں تب بھی آپکے بھائی کا داخلہ نہیں جانے واال۔ میں نے پھر
انکو چڑانے کے لیے کہا کہ آپ نا مرد ہیں کیا جو آپکو ایک جوان لڑکی کے جسم میں
کوئی چاہت نہیں؟؟؟ اس پر وہ ہلکا سا مسکرائے اور بولے چلو تم اپنی تسلی کے لیے
ایسا ہی سمجھ لو مگر داخلہ میں پھر بھی نہیں بھیجوں گا۔ یہ کہ کر وہ بولے کہ میں
30سال کا تھا جب میری بیوی کی وفات ہوگئی اور اس سے میرا ایک بیٹا ہے جو اس
وقت 7سال کا تھا۔ اسکے بعد سے آج تک میں نے کسی اور لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا
کر بھی نہیں دیکھا کیونکہ میں اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا اور آج بھی کرتا ہوں۔
تم تو ابھی بچی ہو تمہارے جیسے حربے بہت سی پیشہ ور رنڈیاں آزما چکی ہیں مجھ
پر ،بہت امیر کبیر گھرانوں کے لڑکوں نے مجھے لڑکیوں کی آفر کروائی یہاں تک کہ
ایک شو بز کے گھرانے سے ایک نامور فنکارہ اور اداکارہ کے جسم کی بھی آفر ہوئی
مگر میں نے وہ بھی ٹھکرا دی تو تم کس کھیت کی مولی ہو؟؟؟؟
اب دفع ہوجاو یہاں سے اپنی شکل گم کرو۔ ورنہ پورے کالج میں یہ بات پتا چل جائے گی
کہ فیاض کی بہن نے رنڈیوں کی طرح سر اسلم کو پھنسانے کی کوشش کی ہے۔ اپنی
عزت بچاو اور نکلو یہاں سے۔
یہ کہ کر سر اسلم نے فیاض کی فائلز واپس الماری میں رکھنا شروع کر دیں اور میں
حیران پریشان کھڑی رہی۔ اور سوچنے لگی کہ اب کیا ہوگا؟؟؟ اتنے میں پھر سے سر
کی آواز آئی ،جاتی ہو یا بالوں پئین کو؟؟؟؟ میں نے فورا اپنی چادر اٹھائی اور انکے
آفس سے نکل کر گھر کی راہ لی۔ فیاض کالج میں ہی تھا اسکو امید تھی کہ اسکا داخلہ
چال جائے گا۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ اور سر اسلم نے پوری کالس کے ایڈمیشن فارم فِل
کر کے بھیج دیے مگر فیاض کہ نا بھیجا۔ فیاض نے گھر آکر فورا ہی سب سے پہلے
مجھے علیحدہ کمرے میں لے گیا اور پوچھا کہ کیا ہوا سر مان گئے کیا؟ میں نے بتایا
کہ نہیں وہ نہیں مانے۔ اب تمہارا داخلہ کسی صورت نہیں جا سکتا۔ اس بات کو سن کر
وہ اور بھی افسردہ ہوگیا اور میری منتیں کرنے لگا کہ پلیز کچھ کرو۔ میری بہت بدنامی
ہوگی خاندان اور دوستوں میں۔ مگر میں کیا کر سکتی تھی بھال۔ اب ایک ہی حل تھا کہ
ابو جا کر بات کریں۔ مگر میں یہ نہیں چاہتی تھی کیونکہ اگر ابو جاتے اور وہ سر پھرا
ٹیچر آگے سے ابو کو میری حرکت کے بارے میں بھی بتا دیتا تو فیاض اور میری
دونوں کی ہی خیر نہیں تھی۔ فیاض تو پھر بھی بچ جاتا مگر میرے ساتھ جو ہونی تھی
اسکا میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے میں نے فیاض کو بھی کہا کہ وہ ابو
کو نا بتائے اور اپنا داخلہ پرائیویٹ بھیج دے کچھ دنوں میں۔ مگر وہ اس پر راضی نہیں
تھا۔ وہ افسردہ سے اٹھا اور اپنے کمرے میں چال گیا۔
اب رات ہو چکی تھی اور ابو گھر آچکے تھے ۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں فیاض ابو کہ نا
کہ دے کالج چلنے کا۔ کھانے کی میز پر جب ہم سب موجود تھے تو اس سے پہلے کہ
فیاض کچھ بولتا امی نے ابو سے کہا کہ کل ہم سب نے الہور چلنا ہے۔ ابو نے پوچھا وہ
کیوں تو امی نے خوشی سے جواب دیا کہ آپ نانا بننے والے ہو۔ یہ بات سنتے ہی ابو
بھی بہت خوش ہوئے اور امی کو مبارک دینے لگے اور میری بھی خوشی سے چیخ
نکل گئی اور میں نے پوچھا کہ یہ آپکو کس نے بتایا؟؟؟ تو امی بولی پگلی صائمہ نے
ہی بتایا ہے۔ آج ہی اسکا فون آیا ہے اسکا 9مہینے پورے ہوچکے اور اب کسی بھی
وقت اسکو ہسپتال جانا پڑ سکتا ہے۔ وہاں اسکی دیکھ بھال کے لیے صرف اسکا شوہر
اور ساس ہے اور کوئی عورت نہیں۔ لہذا ہمارا وہاں ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ سنتے ہی
مجھے تو جیسے خوشی کے مارے کوئی اور ہوش ہی نہ رہا اور میں اپنے آنے والے
بھانجے کے بارے میں سوچنے لگی۔ امی نے مجھے کہا کہ میں اپنی تیاری کر لو کل
شام کو ہم لوگ الہور کے لیے نکلیں گے۔ فیاض بھی یہ سن کر اپنے کالج ایڈمیشن کو
بھول گیا تھا۔
میں خوشی خوشی اپنے کمرے میں آئی اور تیاری کرنے لگی کہ اچانک ہی مجھے ایک
انجان نمبر سے موبائل پر کال آئی۔ میں نے موبائل دیکھا تو سوچا اٹینڈ کروں یا نہ
کروں۔ یہ بھی ذہن میں آیا کہ ہو سکتا ہے سر اسلم کے لن نے انکو مجبور کر دیا ہو
اور اب وہ میری چوت کا مطالبہ کر دیں فیاض کے ایڈمیشن کے لیے۔ میں نے اسی شش
و پنج میں فون اٹینڈ کیا تو میرا یہ اندازہ محض خوش فہمی ثابت ہوئی۔ آگے سمیرا کی
آواز تھی۔ وہ اسالم آباد واپس جا چکی تھی اور وہاں جا کر اسنے اپنے بھائی کے نمبر
سے مجھے کال کی تھی۔ میں نے حال چال پوچھنے کے فورا بعد ہی اسکو بتایا کہ میں
خالہ بننے والی ہوں جس کو سن کر وہ بھی خوش ہوئی اور مجھے مبارک باد دی۔ اور
پھر بولی کہ وہ بھی مجھے ایک بات بتانا چاہتی ہے بہت ضروری۔
میں نے کہا ہاں بتاو کیا بات ہے ،تو وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوئی اور پھر اسکی
مرجھائی ہوئی آواز سنائی دی ،وہ کہ رہی تھی کہ "میں نے حیدر سے اپنی منگنی ختم
کر دی ہے۔" یہ سنتے ہی میرے دل کو سکون مل گیا اور میں خوشی کے مارے چیخی
کیا واقعی؟؟؟؟ وہ حیران ہوکر بولی کہ تم اتنا خوش کیوں ہورہی ہو؟ کیا تم یہی چاہتی
تھی ؟؟؟ میں ایک دم سے سٹپٹا گئی کیونکہ اسکو یہ ہرگز نہیں پتا چلنا چاہیے تھا کہ
میرا اصل پالن یہی تھا کہ حیدر کے لن کے بعد جب سمیرا رضوان کا 7انچ کا لن لے
گی تو وہ کسی بھی صورت اپنی ساری زندگی حیدر جیسے نا مرد کے ساتھ گزارنے کا
سمجھوتہ نہیں کر سکے گی۔ اور آخر کا رشتہ توڑ دے گی۔ اور یہی میرا پالن تھا۔ جو
باآلخر کامیاب ہوگیا تھا اور میرا بدلہ پورا ہوگیا تھا۔ مگر میں نے اپنی خوشی پر تھوڑا
قابو پایا ،اور کہا کہ نہیں میں یہ پہلے تو نہیں چاہتی تھی ،مگر جب رضوان سے چدائی
کے بعد میں نے تمہارے چہرے پر خوشی اور اطمینان دیکھا تو میرا دل کیا تھا کہ کاش
تمہیں بھی حیدر کی بجائے رضوان جیسا کوئی جیون ساتھی ملے جو تمہاری چوت کی
پیاس بجھا سکے ،حیدر تو تمہں پیاسا ہی رکھے گا ساری عمر۔ اس لیے مجھے تمہارے
لیے خوشی ہوئی ہے کہ تم نے اچھا فیصلہ کیا۔ کیونکہ ساری عمر 5انچ کے لن کے
ساتھ گزارنا بہت مشکل ہے خاص کر جب وہ 2منٹ میں ہی منی چھوڑ دیتا ہو۔
میں نے سمیرا کو مزید تھوڑا حوصلہ دیا اور اسے سمجھایا کہ وہ اداس نہ ہو اسنے
مشکل فصلہ ضرور کیا ہے مگر بہت اچھا کیا۔ اور اسکے لیے دعا بھی کی کہ اسے
کوئی اچھا جیون ساتھی ملے جو اسکو خوش رکھ سکے اور اسکی جنسی خواہشات کو
بھی پورا کر سکے۔ مزید کچھ باتیں کر کے سمیرا نے فون بند کر دیا۔ وہ اب مطمئن
تھی۔ اور مجھے بھی خوشی ہورہی تھی۔ اسلیے نہیں کہ سمیرا کی اس سے جان چھوٹ
گئی ،بلکہ اس لیے کو جس طرح حیدر نے مجھے بلیک میل کیا تھا اسکا اس سے اچھا
بدلہ نہیں ہوسکتا تھا کہ اسکے پورے خاندان میں یہ بات مشہور ہوجائے کہ حیدر کی
منگیتر نے اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا اور منگنی توڑ دی۔ اور حیدر کسی
کو وجہ بھی نہیں بتا سکتا تھا کہ سمیرا نے یہ رشتہ اسکے چھوٹے لن کی وجہ سے
توڑا ہے۔
اب میں بہت خوش بیٹھی تھی۔ میرے دل کو سکون مل گیا تھا کہ جو حیدر نے کیا اسکا
صلہ اسکو مل گیا اور میرا پہال پالن کامیاب ہوگیا۔ اب اسکی بہن یعنی کہ سائرہ سے بدلہ
لینے کا پالن بنانا تھا مگر ابھی تک مجھے اسکی کوئی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس
سے کیسے بدلہ لیا جائے جو اس نے میری ویڈیو بنا کر اپنے بھائی کو دی کہ وہ
مجھے بلیک میل کر سکے۔ آج مجھے 2خوشیاں ملی تھیں ایک تو اپنی بہن صائمہ
کے ہاں بچے کی پیدائیش ہونے والی تھی اور دوسرا میرا بدلہ پورا ہوا تھا۔ اب میرے
دل میں سر اسلم کا خیال بھی آیا جس طرح انہوں نے مجھے دھتکارہ تھا۔ اگر وہ میری
چوت بھی مانگتے تو میں دے دیتی۔ لیکن انہوں نے تو میری اچھی خاصی بے عزتی کر
کے رکھ دی تھی۔ دوسرے الفاظ میں میری پھاڑ کر میرے ہاتھ میں دے دی تھی۔
بحر حال ان سوچوں سے نکل کر میں نے دوبارہ سے الہور جانے کی تیاری شروع کی۔
اپنے بیگ میں اپنے کپڑے رکھنے لگی ،جب برا رکھنے کی باری آئی تو مجھے وہی
برا نظر آیا فوم واال جو میں نے اس دن پہنا تھا جس دن پہلی بار میری چوت میں کوئی
لن گیا تھا۔ اور وہ لن کسی اور کا نہیں بلکہ میرے اپنے بہنوئی عمران کا لن تھا۔ 8انچ
کے لن سے جب میری چدائی ہوئی تھی تو ایک انجانا سا پیار ہوگیا تھا اپنے بہنوئی
سے اور اسکے لن سے۔ برا دیکھتے ہی مجھے اپنی پہلی چدائی یاد آگئی کس طرح
عمران نے میری چوت پھاڑی تھی ،پھر باتھ روم میں میری چودائی کی اور اگلے دن
میرے سامنے میرے بہن صائمہ کی چدائی کی اور پھر اسکے سوتے ہوئے اسی کمرے
میں دوبارہ سے اپنی سالی کو اپن لن کی سواری کروائی تھی۔
جیسے جیسے یہ سب یاد آرہا تھا میری چوت گیلی ہونے لگی تھی ،اور میں نہ چاہتے
ہوئے بھی اٹھ کر باتھ روم میں گئی اور ہئیر ریمونگ کریم سے اپنی پھدی کے بال
صاف کرنے لگی ۔ حاالنکہ پہلے جب بہنوئی سے چدائی کروائی تھی تو انکے جانے کے
بعد میں اس بات پر شرمندہ تھی کیونکہ میرے بہنوئی کے لن پر صرف صائمہ کا حق
تھا جو میں نے چھین لیا تھا۔ اور بعد میں جب کبھی عمران سے فون پر بات ہوتی تو وہ
بھی تھوڑے شرمندہ تھے اور ایک بار انہوں نے معذرت بھی کی کیونکہ دوسری بار
بے شک انہوں نے مجھے میری خواہش کے مطابق چودا تھا مگر اسکی وجہ انکی وہ
زبردستی تھی جو پہلی بار انہوں نے میرے ساتھ کی اور میری کنواری پھدی کو اپنے
8انچ کے لن سے پھاڑ ڈاال تھا۔ معذرت کے ساتھ انہوں نے مجھے یقین دالیا تھا کہ
آئندہ سے وہ مجھے اپنی بہن کی طرح ہی سمجھیں گے جیسے کہ پہلے سمجھتے تھے
اور یہ جو کچھ ہوا اسکو میں بھول جاوں۔ اور میں نے بھی یہی سوچا تھا کہ آئندہ ایسا
کبھی نہیں ہوگا۔ مگر آج نجانے کیوں میں الہور جانے ک لیے اپنی پھدی کی صفائی کر
رہی تھی ،جیسا کہ مجھے یقین ہو کہ وہاں مجھے دوبارہ سے اپنے بہنوئی کے لن پر
بیٹھنے کا موقع ملے گا۔ جیسے کوئی دلہن اپنے شوہر کے لیے صفائی کرتی ہے ایسے
ہی میں اپنی صفائی اپنی بہن کے شوہر کے لیے کر رہی تھی۔
اپنی پھدی کی اچھی طرح صفائی کرنے کے بعد میں واش روم سے نہا کر نکل آئی اور
بیگ تیار کر لیا۔ اس میں وہی پہلے واال برا بھی رکھا۔ میں خود حیران تھی کہ میں یہ
کیا کر رہی ہوں ،میں نے تہیہ کیا تھا کہ آئندہ اپنے بہنوئی کے لن کے بارے میں سوچنا
بھی نہیں۔ کیونکہ میرے پاس اپنے منگیتر کا بھی لن تھا جو عمران جیسا تو نہیں مگر
پھر بھی میری چوت کے لیے کافی تھا اور دوسرا رضوان کے دوست ندیم کا لن بھی تھا
جو کسی بھی صورت عمران کے لن سے کم نہیں تھا۔ یہ دونوں لن میں جب چاہتی میری
چوت کی پیاس بجھا سکتے تھے مگر پھر بھی نجانے کیوں مجھے ایک دم سے عمران
کے لن کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔ وہی لن جس نے پہلی بار میری پھدی کے
دروازے پر دستک دی۔ اور میری پھدی نے پہلی بار جس لن کو اپنے اندر سمویا وہ
اسکو دوبارہ لینے کے لیے بے تاب ہو رہی تحی۔ اور اسکی بے تابی کا اندازہ میری
پھدی کے گیلے پن سے ہو رہا تھا جو نا چاہتے ہوئے بھی گیلی ہو رہی تھی۔
نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ صبح اٹھی تو ناشتہ کرنے کے بعد امی کے ساتھ انکی
تیاری میں انکا ہاتھ بٹانے لگی۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ امی کے موبائل پر عمران کی
کال آئی۔ امی نے کال اٹینڈ کی تو عمران کے کچھ کہنے پر عمران کو مبارک دینے لگیں
اور مجھے بھی اپنے گلے لگا لیا اور پوچھا صائمہ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا اور بچہ
کیسا ہے؟؟؟ کچھ دیر بات کرنے کے بعد امی نے بتایا کہ آج صبح اچانک ہی صائمہ کے
درد ہونے لگی تو اسکو ہسپتال لے گئے اور ابھی 15منٹ پہلے اسکی ڈیلیوری ہوگئی
ہے۔ بیٹا ہوا ہے اور دونوں کی صحت بالکل ٹھیک ہے۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ
نہیں تھا۔ میں نے بھی فورا اپنے موبائل سے عمران کو کال کی انہوں نے کال اٹینڈ کی
تو میں نے انہیں مبارک دی اور انہوں نے بھی مجھے مبارک دی اور پوچھا کہ کب
آرہی ہو اپنے بھانجے کو دیکھنے؟؟؟ تو میں نے بتایا کہ میرا تو دل کر رہا ہے ابھی اڑ
کر پہنچ جاوں مگر شام کو ابو آئیں گے تو تبھی نکلیں گے الہور کے لیے۔ میں نے
صائمہ سے بات کرنی چاہی تو عمران نے بتایا کہ وہ ابھی لیبر روم سے باہر نہیں آئی،
جیسے ہی آتی ہے اور کچھ بات کرنے کے قابل ہوتی ہے تو وہ میری بات کروا دیں گے
صائمہ سے۔
اب مجھے بے چینی سے ابو کا انتظار تھا۔ آخر کار شام 4بجے ابو گھر آئے تو ہم
تینوں اپنا سامان تیار کر کے ہی بیٹھے تھے۔ ابو نے گھر آکر کھانا کھایا اور 10منٹ
میں ہی ہم گاڑی میں بیٹھ کر الہور کی طرف سفر کر رہے تھے۔
حاالنکہ میں اپنے ننھے منے بھانجے کو دیکھنے جا رہی تھی اور مجھے بہت خوشی
تھی اپنے بھانجے سے ملنے کی مگر نجانے کیوں گاڑی میں بیٹھے ہوئے بھی میری
پھدی مسلسل پانی چھوڑ کر میری شلوار کو گیال کیے دے رہی تھی۔
کافی دیر تک میری چوت گیلی ہی رہی جسکی وجہ سے میری شلوار بھی گیلی ہورہی
تھی اور مجھے اپنی تھائیز پر پانی کا گیال پن محسوس ہو رہا تھا۔ ملتان سے خانیوال
تک کا سفر انہی سوچوں میں گزرا کہ عمران نے کیسے جاندار چدائی کی تھی میری اور
عمران کا لن کسی بھی پیاسی چوت کی پیاس بجھانے کی صالحیت رکھتا ہے۔ اس قسم
کی سوچوں نے میرا برا حال کر دیا تھا۔ خانیوال سے آگے کے سفر میں مجھے نیند کا
غلبہ ہونے لگا تو نجانے کب میری آنکھ لگ گئی۔
جب میں نیند سے جاگی تو ہم الہور شہر میں داخل ہی ہونے کو تھے اور رات کے 10
بج رہے تھے۔ امی فون پر عمران سے بات کر رہی تھیں اور ہسپتال کا پتہ پوچھ رہی
تھیں۔ یہ ایک پرائیویٹ ہسپتال تھا جو نہ تو بہت زیادہ مہنگا تھا اور نہ ہی سستا ،مگر
اس میں اچھی سہولیات تھیں۔ قریبا ً رات 10:45پر ہم ہسپتال پہنچ گئے جہاں عمران
بھائی نے ہمیں گیٹ پر ہی رسیو کیا۔ وہ بہت خوش تھے وہ ابو سے گلے ملے امی نے
بھی انہیں گلے لگا کر مبارک دی۔ اور مجھے دیکھ کر بھی وہ بہت خوش ہوئے اور
مجھے بھی اپنے سینے سے لگا کر سر پر پیار کیا اور بھانجے کی مبارک دی۔ جب
انہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگایا تو انکے لہجے میں میرے لیے چھوٹی بہنوں
واال پیار ہی تھا ،مگر مجھے اپنے اندر کچھ الگ سا محسوس ہورہا تھا جیسے یہاں میں
اپنے بھانجے سے ملنے نہیں بلکہ عمران کے لن کو اپنی چوت کی سیر کروانے کے
لیے آئی ہوں۔
فیاض سے ملنے کے بعد عمران بھائی ہم سب کو اندر لے گئے جہاں صائمہ اور اسکا
چھوٹا سا ننھا سا عامر موجود تھے۔۔ عمران اور صائمہ نے اپنی خوشی سے نئے آنے
والے مہمان کا نام عامر رکھا تھا ،وہ بہت ہی خوبصورت اور پیارا تھا اسکو دیکھتے ہی
میں تو جیسے سب کچھ بھول گئی اور اسکو اپنی گود میں اٹھا کر پیار کرنے لگی جبکہ
امی صائمہ کو مل رہی تھیں۔ امی کے بعد ابو اور پھر میں بھی صائمہ سے ملی اور
اسے مبارک باد دی۔ ہسپتال میں صائمہ کی ساس یعنی کہ عمران کی امی بھی موجود
تھیں ان سے بھی ملکر انکو مبارک باد دی۔
کچھ ہی دیر میں عمران باہر سے ہمارے لیے برگرز اور بوتلیں لے آئے۔ ہم سب کو بہت
زور کی بھوک لگی تھی سو ہم نے برگرز سے اپنی پیٹ پوجا کی اور مٹھائی بھی کھائی
جو راستے سے ابو نے خرید لی تھی۔ اب رات کے 12بجنے کو تھے امی اور ابو بہت
تھک چکے تھے تو ابو نے عمران کو کہا کہ اب وہ گھر جا کر آرام کرنا چاہتے ہیں۔
عمران کی امی بھی صبح سے ہسپتال میں تھیں انہوں نے بھی گھر جانا تھا۔ عمران نے
امی کو اور مجھے بھی کہا کہ آپ سب گھر چلیں میں رات صائمہ کے پاس ہی رکوں گا۔
مگر میں نے گھر جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں بھی صائمہ آپی کے پاس
رکوں گی۔ رات میں میری ضرورت پڑ سکتی ہے۔ پہلے تو عمران بھائی نے انکار کیا کہ
نہیں یہاں کوئی ضرورت نہیں نرسز اچھی دیکھ بھال کرتی ہیں تم بھی گھر جاو اور آرام
کرو ،مگر میری ضد اور پھر امی کے کہنے پر عمران راضی ہوگئے اور مجھے بھی
وہیں رہنے کی اجازت مل گئی۔
میرا ہسپتال رکنا کسی گیم پالن کا حصہ نہ تھا بلکہ میں واقعی میں اپنی بہن کی خدمت
کے لیے رکنا چاہتی تھی تاکہ اگر رات میں صائمہ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تہ میں
مدد کر سکوں یا عامر روئے تو بھی میں اسے سنبھال سکوں۔ اب ہسپتال میں صائمہ
کے ساتھ میں اور عمران موجود تھے۔ میں اور صائمہ کافی دیر بیٹھے باتیں کرتے
رہے اور عمران بھی اپنے بیٹے کو گود میں اٹھائے ہمارے ساتھ خوش گپیوں میں
مصروف رہے۔ کچھ دیر کے بعد نرس آئی اور اسنے ایک بار عامر کا اور صائمہ کا
معائنہ کیا۔ اس دوران عمران کمرے سے باہر چلے گئے تھے مگر میں کمرے میں ہی
موجود تھی۔ صائمہ کی نارمل ڈیلیوری ہوئی تھی مگر پھر بھی اسکو کافی تکلیف تھی۔
نرس نے صائمہ کی شلوار اتاری اور مخصوص جگہ پر کوئی پیلی سی دوائی لگائی،
وہاں واضح زخم کا اور کاٹنے کا نشان موجود تھا۔ اور ٹانکے بھی لگے ہوئے تھے۔
مجھ سے یہ دیکھا نا گیا تو میں دوسری طرف منہ کر کے کھڑے ہوگئی اور سوچنے
لگی کہ کیسے اتنی چھوٹی سی جگہ سے اتنا بڑا بچہ نکل آتا ہے۔۔۔۔ یہ ایک ماں کی ہی
ہمت ہے جو اتنی تکلیف برداشت کر کے بچے کو جنم دیتی ہے۔ تبھی تو ماں کے قدموں
تلے جنت رکھی گئی ہے۔
صائمہ کی تکلیف کی وجہ سے نرس نے صائمہ کو ایک نیند کی گولی دے دی تاکہ وہ
ساری رات آرام سے سو سکے اسکے بعد عامر کا معائنہ کر کے وہ کمرے سے چلی
گئی اور مجھے کہا کہ اب ہم صبح کو ہی معائنے کے لیے آئیں گے لیکن اگر کوئی بھی
مسئلہ ہو ،ماں یا بچے کو تکلیف محسوس ہو تو آپ کسی بھی وقت انٹر کام سے سے
ہمیں بال سکتے ہیں ڈیوٹی پر موجود نرس فورا آجائے گی۔ یہ کہ کر نرس چلی گئی اور
عمران واپس کمرے میں آگئے اور مجھ سے پوچھا کہ کیا کہا ہے نرس نے تو میں نے
ساری تفصیل عمران کو بتا دی۔ عمران نے پھر سے مجھے کہا کہ اب تو صائمہ ساری
رات سوتی رہے گی تم کہو تہ میں تمہیں بھی گھر چھوڑ آتا ہوں تاکہ تم بھی آرام کر
سکو۔ مگر میں نے کہا کہ نہیں میں ٹھیک ہوں بلکہ آپ سوجائیں صبح سے ادھر ہی
ہیں میں جاگ رہی ہوں۔ مگر عمران نے بھی کہا کہ انہیں نیند نہیں آئے گی وہ بھی جاگ
رہے ہیں۔ لہذا طے پایا کہ ہم میں سے کوئی بھی نا تو سوئے گا نا ہی گھر جائے گا بلکہ
ادھر ہی رہیں گے۔
کچھ دیر میں عامر کو بھی میں نے صائمہ کے ساتھ کارٹ میں لٹا دیا۔ جب سے میں آئی
تھی وہ سویا ہوا تھا اس نے محض ایک بار آنکھیں کھولی تھیں کچھ سیکنڈز کے لیے
اور اسکے بعد پھر سے اسکی آنکھیں بند تھیں۔ ایک دو بار اسکے رونے کی بھی آواز
آئی تھی جس پر صائمہ نے اسے اپنا دودھ پالیا تھا۔ مگر صائمہ کے سونے کے بعد
سے عامر بھی سو رہا تھا۔ اب کمرے میں صرف میں اور عمران ہی جاگ رہے تھے۔
اگر تیسرا کوئی ہمارے ساتھ تھا تو شاید وہ شیطان تھا جس نے ایک بار پھر میرے دل
میں عمران کے بارے میں خیال پیدا کرنے شروع کر دیے۔
کمرے میں کوئی اور بیڈ تو موجود نہیں تھا محض 2کرسیاں اور ایک صوفہ ہی موجود
تھا۔ عمران اور میں صوفے پر بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ وہ مجھ سے میری مصروفیات
،پڑھائی اور فیاض کے بارے میں پوچھ رہے تھے جبکہ میں نے ان سے انکے بزنس
کے بارے میں پوچھا۔ اس دوران میری پھدی دوبارہ گیلی ہونا شروع ہوگئی تھی اور
مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں اسکا کیا کروں۔ ایک طرف عمران نے مجھ سے
وعدہ کیا تھا کہ آئندہ وہ مجھے اپنی چھوٹی بہن کی طرح ہی سمجھیں گے اور کبھی
مجھ پر بری نظر نہیں ڈالیں گے تو دوسری طرف میری پھدی عمران کا لن مانگ رہی
تھی۔
کچھ ہی دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ شیطان صرف میرے دل میں ہی نہیں بلکہ
عمران کے دل میں بھی وسوسے ڈال رہا ہے۔ صوفے پر عمران اچانک ہی میرے قریب
ہوکر بیٹھ گئے تھے ،اور میں نے محسوس کیا کہ انکی نظریں میرے سینے کے
ابھاروں پر ہے۔ اگرچہ میں نے قمیص پہن رکھی تھی اور اوپر دوپٹہ بھی تھا اور میرے
ممے مکمل طور پر قمیص میں چھپے ہوئے تھے مگر انکے ابھار کو چھپانا تو ممکن
نہیں۔ اور عمران کی نظریں بار بار ادھر ہی جا رہی تھیں۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب
کوئی مرد چوری چھپے عورت کے سینے پرہوس بھری نظر ڈالتا ہے تو عورت کو بہت
جلدی اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ کہیں سے ہوس بھری نظریں اسکے مموں کا
نظارہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اور مجھے بھی یہ احساس ہوگیا تھا۔ عمران کی نظریں
میرے مموں پر تھیں اس بات کا احساس ہوتے ہی میری چوت نے اور مچلنا شروع کر
دیا اور گیلے پن میں اضافہ ہونے لگا۔ جبکہ عمران بھی بہانے سے میرے اور قریب
ہوکر بیٹھ گئے اب انکا جسم میرے جسم کو چھو رہا تھا۔ اور انہوں نے اپنا بازو میری
گردن کے گرد لپیٹتے ہوئے مجھے اپنے قریب کر لیا اور بولے تمہیں نیند آرہی ہوگی تم
سوجاو اور میرا سر اپنے کندھے پر رکھ دیا۔
میں نے بھی چپ چاپ انہیں ایسا کرنے دیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ایک تو مجھے
ویسے ہی نیند نہیں آرہی تھی اوپر سے جب چوت ایک لن کی طلب گار ہو اور وہ لن
بھی اسکے ساتھ ہی موجود ہو تو پھر بھال نیند کیسے آسکتی ہے۔ مگر میں اپنی
آنکھیں بند کر کے عمران کے کندھے پر سر رکھ کر بیٹھی رہی۔ کچھ دیر عمران بھی
ایسی ہی ساکت صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھ رہے۔ پھر آہستہ آہستہ انکا ہاتھ حرکت
کرنے لگا اور وہ اپنے ہاتھ سے میرا دایاں کندھا ہلکا ہلکا دبانے لگے۔ کندھے سے
ہاتھ میری گردن کے پچھلے حصے تک بھی آگیا اور میری گردن پر ہاتھ پھیر کر وہ
میرے جسم کی گرمی کو محسوس کرنے لگے۔ گردن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہوں نے
مجھے ہلکی آواز دی مگر میں خاموش رہی اور کچھ نہ بولی۔ پھر انہوں نے میرا سر
اپنے کندھے سے اٹھایا اور مجھے پیچھے کر کے صوفے کے ساتھ ٹیک لگوا دی۔ اب
میرا سر صوفے کی بیک کے سہارے تھا اور میں یہ شو کروا رہی تھی کہ جیسے
مجھے نیند آگئی ہے۔ کچھ دیر میں ایسے ہی بیٹھی رہی اور کچھ نہ ہوا مگر پھر اچانک
عمران کا ہاتھ مجھے اپنے سینے کے اوپر رینگتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ وہ میرے
گلے کے قریب میرے کندھوں پر اور سینے پر اپنا ہاتھ نہایت نرمی کے ساتھ پھیر رہے
تھے۔ کندھوں اور سینے پر ہاتھ پھیرنے کے بعد اب عمران کا ہاتھ میرے سینے کے
ابھاروں تک پہنچ چکا تھا اور وہ ہلکے ہلکے پیار سے میرے مموں پر اپنا ہاتھ پھیر
رہے تھے۔ قمیص کے اوپر سے ہی عمران کا ہاتھ میرے مموں کو گرم کر رہا تھا اور
مجھے اپنی پھدی میں بہت زیادہ گیال پن محسوس ہورہا تھا جس نے میری ٹانگوں کو
گھٹنوں تک گیال کر دیا تھا۔
کچھ دیر ایسے ہی نرمی سے ہاتھ پھیرنے کے بعد اب عمران نے ہلکا ہلکا دباو ڈالنا
شروع کر دیا تھا مموں پر۔ وہ میرے مموں کو اپنے ہاتھ سے آہستہ آہستہ دبا رہے
تھے۔ اور میں بہت ہی مشکل سے اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔ اچانک ہی مجھے
اپنے ہونٹوں کے قریب گرمی محسوس ہونے لگی۔ یہ عمران کی سانسوں کی گرمی
تھی ،عمران کا چہرہ میرے چہرے کے بالکل قریب تھا۔ ابھی میں اس گرمی کو محسوس
کر ہی رہی تھی کہ عمران نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے مال دیا اور انکو بھی بہت
ہی نرمی کے ساتھ چوسنے لگے۔ نیچے سے عمران کا ہاتھ میرے مموں کا مساج کر
رہا تھا اور اوپر سے عمران میرے ہونٹوں پر پیار کرنے میں مصروف تھے۔ یہ سب
کچھ میری برداشت سے باہر ہو رہا تھا اور میرا دل کر رہا تھا کہ ابھی آنکھیں کھول
دوں اور دیوانہ وار عمران کو پیار کرنے لگوں مگر میں پھر بھی اپنے اوپر کنٹرول کر
کے بیٹھی رہی۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ عمران کس حد تک جاتے ہیں مجھے سوتا
سمجھ کر۔
کچھ دیر میرے ہونٹوں کا رس پینے کے بعد اب عمران اپنے ہونٹوں سے میری گردن کا
مساج کر رہے تھے۔ سفر کی تھکن عمران کے گرم ہونٹوں کے مساج سے ختم ہو رہی
تھی اور اسکی جگہ مزہ آنے لگا تھا اب۔ عمران کبھی میری گردن پر ہونٹ پھیرتے تو
کبھی میرے کندھوں پر اپنے ہونٹوں سے پیار کرتے ۔ تھوڑی دیر کے بعد عمران کے
ہونٹ میرے مموں کے بیچ والی الئن میں تھے اور اب ہونٹوں کے ساتھ ساتھ عمران کی
زبان بھی میرے مموں پر تھی۔ مموں کی الئن کے درمیان میں عمران نے جب اپنی زبان
پھیرنی شروع کی تو میرا دل کیا کہ ابھی سسکیاں لینا شروع کر دوں مگر اس پر بھی
میں نے کنٹرول رکھا۔ اب عمران کافی حد تک بے دھڑک ہوکر مجھے پیار کر رہے تھے۔
ایک تو وہ جانتے تھے کہ صائمہ اب صبح تک نہیں اٹھے گی اور پھر انکو میرے بارے
میں بھی گمان تھا کہ سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے میں گہری نیند سو رہی ہوں۔
یہی سوچ کر عمران نے میرے مموں پر اپنے ہاتھوں کا دباو بڑھا دیا تھا اور اب وہ
میرا پورا مما اپنے ہاتھ میں لیکر اسکو دبا رہے تھے اور ساتھ ہی قمیص کے اوپر سے
میرے مموں کے ابھار پر اپنی زبان بھی پھیر رہے تھے۔ کچھ دیر قمیص کے اوپر سے
ہی مزے لینے کے بعد عمران اپنا ہاتھ میری کمر پر لے گئے۔ اور کمر پر قمیص کی زپ
اپنے ہاتھ سے فورا ہی نیچے کر دی۔ یہ زپ تھوڑی بڑی تھی جسکی وجہ سے کمر کا
کافی حصہ نا صرف ننگا ہوگیا تھا بلکہ قمیص بھی کافی کھلی ہوگئی تھی جسکی وجہ
سے اب وہ با آسانی قمیص کو میرے کندھوں سے ہٹا سکتے تھے۔ عمران نے ایسا ہی
کیا اور قمیص کو میرے کندھوں سے ہٹا دیا۔ اب میرے کندھے بالکل ننگے تھے اور ان
پر بلیک برا کی سٹرپس نظر آرہی تھیں جن پر عمران کے ہونٹ اپنا جادو جگانے میں
مصروف تھے۔
اب عمران نے میری ایک سائیڈ کی برا کی سٹرپ بھی میرے کندھے سے ہٹا دی اور
اس پر پیار کرنے لگے۔ اور پھر دوسری سائیڈ کی سٹرپ کے ساتھ بھی یہی کام کیا۔ اب
میرے برا کے کپ تو میرے مموں پر تھے مگر اس سے اوپر کا سارا جسم ننگا تھا اور
عمران اپنے ہونٹوں سے مساج کر رہے تھے ،کبھی زبان سے میرا جسم چاٹتے تو
میرے پورے جسم میں چیونٹیاں ریگنے لگتیں۔ یہ سب کچھ اب ناقاب ِل برداشت ہورہا تھا
میرے لیے کہ اتنے میں عمران نے ایک اور وار کیا ،میرا برا اتار کر میرے مموں کو نا
صرف اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا بلکہ اپنے ہونٹوں سے میرے نپلز بھی چوسنے لگے جو
پہلے سے ہی سخت ہو کر کھڑے ہو چکے تھے۔ عمران کا یہ کرنا تھا کہ میرا صبر کا
پیمانہ لبریز ہوگیا اور میں نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور اپنا ہاتھ عمران کے سر پر
رکھ کر مموں کی طرف دبانے لگی اور عمران کو کہا ذور سے پیار کریں میرے مموں
پر۔ میری آواز سن کر عمران نے کوئی خاص ری ایکشن نہیں دکھایا بلکہ خاموشی سے
میرے مموں سے دودھ پیتے رہے۔ شاید وہ جانتے تھے کہ میں جاگ رہی ہوں اور جان
بوجھ کر سونے کی ایکٹنگ کر رہی ہوں۔ کچھ دیر میرے مموں کو چاٹنے کے بعد
عمران کھڑے ہوئے اور میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولے آج 1مہینے کے بعد
پھدی مل رہی ہے مجھے صائمہ کو حاملہ ہونے کی وجہ سے چود نہیں سکا 1مہینے
سے۔ یہ کہتے ہوئے عمران نے اپنے کپڑے اتار دیے اور اپنا 8انچ کا لوڑا میرے
سامنے کر دیا جو میں نے بغیر سوچے منہ میں ڈال لیا۔ پہلے لوڑے کی ٹوپی پر پیار کیا
اور اسکے بعد اپنی زبان ٹوپی سے نیچے جڑ تک پھیرنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں پورا
لوڑا میری زبان سے گیال ہو چکا تھا۔
اب میں نے ٹوپی اپنے منہ میں ڈالی اور اس پر اپنے ہونٹ گھمانے لگی ،پھر آہستہ
آہستہ پورا لوڑا میرے منہ میں تھا۔ اور میں بہت ہی مہارت اور پیار کے ساتھ چوپا لگا
رہی تھی۔ میں نے ایک ہاتھ سے لن کو جڑ سے پکڑ رکھا تھا اور دوسرا ہاتھ عمران
کے پیچھے لیجا کر کبھی انکے چوتڑوں پر پھیرتی تو کبھی ہاتھ تھوڑا نیچے کر کے
پیچھے سے ہی انکے ٹٹوں کو پکڑ کر سہالنے لگتی۔ اس دوران عمران نے میرے
قمیص اور برا مکمل طور پر اتار دیا تھا اور وہ اپنے ایک ہاتھ سے میرے مموں کو دبا
رہے تھے۔ 5منٹ تک میں خوب جم کر چوپا لگاتی رہی۔ اور تھوک پھینک پھینک کر لن
کو بہت زیادہ چکنا کر دیا تھا۔
اب عمران نے اپنا لن میرے منہ سے نکاال اور میری شلوار اتار دی۔ شلوار اتارتے ہی
انہوں نے میری پھدی پر نظر ڈالی ،انکی نظروں میں اس وقت ایسی بھوک تھی جیسے
کسی بھوکے کو کتنے دن سے کھانا نہ مال ہو۔ اور کھانا ملے تو وہ جیسے ایک دم سے
کھانے پر ٹوٹ پرتا ہے۔ یہی کام عمران نے کیا اور اور اپنی انگلی فوران میری صاف
شفاف پھدی میں داخل کر دی۔ مگر میں نے عمران کو بتایا کہ کل سے ہی یہ پھدی
آپکے لن کے بارے میں سوچ سوچ کر گیلی ہوئے جا رہی ہے اب پلیز مزید انتظار مت
کرواو اور اپنا لن اپنی سالی کی پھدی میں ڈال دو۔
یہ سنتے ہی عمران نے میری ٹانگیں اوپر اٹھائیں تو میری خود ہی صوفے سے ٹیک
لگ گئی ،عمران خود بھی گھٹوں کے بل صوفے پر بیٹھ گئے اور میری گانڈ سے پکڑ
کر مجھے اوپر اٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ پھر فورا ہی اپنا لن میری پھدی پر سیٹ
کیا اور بولے مجھے بھی جب پتا چال کہ میری سالی آرہی ہے تو میں نے بھی شکر کیا
کہ اب میری سالی ہی میرے لن کی بھوک ختم کرے گی اور اپنی گرما گرم پھدی میں
اسکا پانی نکلوائے گی۔ ساتھ ہی ایک جھٹکا لگا اور 3انچ لوڑا میری پھدی میں تھا۔
میری ہلکی سی چیخ نکلی مگر عمران نے فورا ہی اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ
دیے۔ اور میری چیخ دب گئی۔ ساتھ ہی ایک اور جھٹکا لگا اور 8انچ کا لوہے کا لوڑا
میری پھدی کی گہرائیوں میں اتر چکا تھا۔ عمران کو اس بار میری پھدی میں لوڑا
اتارنے میں بالکل بھی مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ میری پھدی تو 2دن سے ہی گیلی
تھی جب کہ عمران کا لوڑا بھی میں نے چاٹ چاٹ کے خوب چکنا کر دیا تھا۔ اور کچھ
ویسے بھی میری پھدی اپ کنواری جیسی نہیں رہی تھی بلکہ کچھ کھلی ہو چکی تھی۔
لوڑا اندر جاتے ہی عمران نے دھکے لگانے شروع کیے اور ساتھ ساتھ میری کسنگ
جاری رکھی۔ لوڑا اندر جاتا تو میں اپنی پھدی کو ٹائٹ کر لیتی اور جب واپس آنا ہوتا تو
میں اپنی پھدی کو ڈھیال چھوڑ دیتی جسکی وجہ سے مجھے بہت رگڑ مل رہی تھی اور
مجض چند جھٹکوں میں ہی میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔ اتنی جلدی پانی چھوڑ دینا
میرے لیے حیرت انگیز تھا مگر اسکی وجہ 2دن کا انتظار تھا جو عمران کا لن لینے
کے لیے پھدی مچل رہی تھی۔ میرے پانی سے عمران کی ٹانگیں گیلی ہوگئیں تھی۔ اب
انہوں نے مجھے اپنی گود سے اتارا اور خود صوفے پر بیٹھ گئے۔ اب میں گھٹنوں کے
بل عمران کی گود میں بیٹھی اور اپنی چوت کو عمران کے لن کے اوپر رکھ کر ایک ہی
باری میں پورا لن اپنے اندر سمو لیا۔ اس بار میں عمران کے اوپر تھی اور پوری طرح
لن کے اوپر بیٹھ چکی تھی اور لن میری پھدی کے اندر تک داخل ہوچکا تھا۔ اب میں
نے خود ہی اچھلنا شروع کیا ،میری سپیڈ کچھ سلو تھی مگر لن جب پورا اندر داخل
ہوتا تو مزہ بھی آتا۔
کچھ ہی دیر اچھلنے کے بعد میں تھک گئی تو عمران نے نیچے سے خود دھکے لگانے
شروع کی ،میں تھوڑا سا جھک گئی عمران کے اوپر جسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران
نے میرے ممے اپنے منہ میں لے لیے اور چوسنا شروع کر دیے اور دھکے لگانا
جاری رکھے۔ میں نے عمران کے بالوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا اور کہا کہ اپنی سالی
کو جی بھر کو چودو آج۔ اپنی سالی کواسکی بہن کے سامنے چودو ،اور زور سے
دھکے لگاو ،پھاڑ دو میری چوت کو ،زور سے چودو ،اور زور سے چودو۔۔۔۔۔۔۔ یہ سن
کر عمران کے دھکے واقعی میں تیز ہوگئے۔ ان دھکوں کی وجہ سے میری پھدی کی
بری حالت ہوئے جا رہی تھی۔ 8انچ کا لن اس وقت کسی لوہے کے راڈ کی طرح میری
پھدی کی کھدائی کر رہا تھا اور میرے نپل عمران نے اپنے دانتوں میں دبا رکھے تھے،
جب عمران دھکا مارتے تو میں اوپر کو اچھلتی اور میرے نپل جو عمران کے دانتوں
میں تھے وہ باہر نکلنے کی کوشش کرتے مگر عمران اپنے دانتوں سے انکو اندر ہی
روک لیتے جسکی وجہ سے نپلز میں بہت ہی عجیب مزہ آرہا تھا۔
عمران اس پوزیشن میں مسلسل 8منٹ میری چودائی کرتے رہے اور میں مزے سے
بہنوئی کے لن پر سواری کرتی رہی۔ اس زبردست چدائی کے بعد مجھے اپنے جسم کی
جان نکلتی ہوئی محسوس ہونے لگی ساتھ ہی عمران کے دھکے بھی طوفانی رفتار کو
چھونے لگے۔ ایک دم عمران کی آواز آئی فائزہ میری منی نکلنے لگی ہے۔۔۔ میں نے
کہا میں بھی فارغ ہورہی ہوں تو عمران بولے میں اپنی سالی کی پھدی میں ہی منی
چھوڑوں گا اس بار۔ پہلی بار جب عمران نے میری چودائی کی تھی تو انہوں نے منی
میری چوت میں نکالنے کی بجائے میرے منہ میں اور میرے مموں پر نکالی تھی۔ میں
نے کہا ٹھیک ہے عمران بھائی اپنی سالی کی پھدی میں منی نکال دو۔ ساتھ ہی میری
چوت نے پانی چھوڑ دیا اور نیچے سے عمران کے جسم نے بھی جھٹکے کھاءے اور
اپنا سفید گاڑھا پانی میری چوت کی گہرائیوں میں نکال دیا۔ کچھ دیر جھٹکے لگانے کے
بعد عمران پرسکون ہوکر صوفے پر لیٹ گئے جب کہ میں بھی انکے سینے سے لگ کر
انکو پیار کرنے لگی ۔
پھر عمران نے میری طرف دیکھا اور میرے ہونٹوں پر ایک کس کرتے ہوئے بولے
شکریہ فائزہ آج تم نے اپنی چوت دے کر مجھے بہت مزہ دیا ہے۔ 1مہینے سے میرے
لن نے چوت کا مزہ نہیں لیا تھا۔ آخر سالی ہی کام آئی میرے۔ میں نے عمران کو کہا
آپکی سالی کی چوت آپکے لیے ہی ہے جب مرضی چاہیں چود دیا کریں۔
عمران کا لن ابھی تک میری پھدی میں تھا اور میں انکی گود میں ہی بیٹھی تھی۔ مگر
لوہے کا لن اب کسی روئی کے گالوں کی طرح نرم ہو چکا تھا ۔ کچھ دیر انتظار کرنے
کے بعد میں نے اپنی پھدی کو دبانا شروع کر دیا۔ میں اپنی پھدی کو دباتی تو مجھے
محسوس ہوتا کہ پھدی میں کوئی چھوٹا سا اور نرم سا لن موجود ہے۔ اور پھر پھدی کو
ڈھیال چھوڑ دیتی ،ساتھ ہی عمران کو کسنگ بھی شروع کر دی۔ کچھ دیر فرینچ کس
کرنے کے بعد میں نے عمران کے کان پر پیار کرنا شروع کیا اور اپنی زبان عمران کے
کان میں پھیرنے لگی۔ میں نے یہ کام پہلی بار کیا تھا ،اس سے عمران کو بہت مزہ آنے
لگا اور انکو جیسے جھٹکے سے لگنے لگے۔ انکے چہرے سے پتا لگ رہا تھا کہ
انکو بہت مزہ آرہا ہے اس چیز سے۔ میں نے بھی زبان کو تیزی سے کان میں پھیرنا
جاری رکھا اور مجھے پھر عمران کے لن میں تھوڑی سی سختی محسوس ہوئی مگر
ابھی تک یہ لن لوڑا نہیں بنا تھا۔
کچھ دیر کان چاٹنے کے بعد میں نے نیچے جھک کر عمران کے نپل پر زبان پھیرنی
شروع کی اس کا بھی عمران کو بہت مزہ آنے لگا اور انکی سسکیاں نکلنے لگی ،میں
نے پہلے ایک نپل کو چاٹا پھر پھر دوسرے نپل کو بھی چاٹا۔ عمران کی سسکیاں بڑھ
رہی تھیں جسکا مطلب تھا کہ عمران کو نپلز پر زبان پھیرنے سے مزہ آرہا ہے 5 ،منٹ
کی محنت کے بعد میری پھدی میں موجود روئی جیسا لن اب لوہے کا لوڑا بن چکا تھا
اور اسکی لمبائی دوبارہ سے 8انچ ہو چکی تھی ،عمران نے بھی بغیر وقت ضائع کیے
جیسے ہی اپنے لن میں تناو محسوس کیا اسکومیری چوت کے اندر آہستہ آہستہ حرکت
دینا شروع کر دی ،اور جب یہ تناو مکمل ہوگیا اور لن تن گیا تو عمران نے اپنی سپید
بڑھائی۔
میں ابھی بھی عمران کی گود میں تھی اور عمران صوفے پر ہی بیٹھے تھے۔ کچھ دیر
دھکے مارنے کے بعد میں نے عمران کو روکا اور انکو کہا مجھے صائمہ کے قریب
لیجا کر چودو۔ یہ سن کر عمران نے کہا وہ جاگ نا جائے۔ تو میں نے کہا میں آواز نہیں
نکالوں گی آپ جتنے بھی تیز دھکے مار لو میں برداشت کروں گی اور ویسے بھی
صائمہ کو نیند کی دوائی دی گئی ہے وہ نہیں اٹھے گی۔ یہ سن کر عمران نے مجھے
اٹھنے کو کہا تو میں عمران کی گود سے اٹھ گئی اور صائمہ کے بیڈ کے قریب چلی گئی۔
صائمہ کے بیٹ کے قریب ایک سائیڈ ٹیبل پڑا تھا عمران نے مجھے کہا کہ اس ٹیبل پر
ہاتھ رکھ کر جھک جاو میں پیچھے سے تمہاری چدائی کروں گا۔ میں نے ایسا ہی کیا،
اب صائمہ کا چہرے میرے کافی قریب تھا محض 3فٹ کا فاصلہ تھا صائمہ اور میرے
چہرے کے درمیان۔ مجھے یہ چیز بہت سیکسی لگ رہی تھی کہ اپنی بہن کے اتنے
قریب ہوکر میں اپنی بہن کے شور سے ہی چدائی کروا رہی ہوں۔
میں ٹیبل پر ہاتھ رکھ کر جھکی تو میری گانڈ باہر نکلی اور عمران نے میرے چوتڑوں
پر ہاتھ پھیرنے کے بعد انگلی سے میری چوت کے سوراخ کا اندازہ لگا کر اپنا لن میری
چوت پر رکھ دیا اور ایک ہی جھٹکے میں لن اندر ڈال کر مجھے چودنا شروع کر دیا۔
عمران کا ایک ہاتھ میری بھاری گانڈ پر تھا اور دوسرا میرے کندھے کے قریب۔ اور وہ
کندھے سے پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچے ہوئے تھے اور اپنی پوری طاقت کے
ساتھ اپنے لن کو میری پھدی میں اندر باہر کر رہے تھے۔ میرے ممے ان دھکوں کی
وجہ سے آگے پیچھے ہل رہے تھے اور میری نظریں بار بار صائمہ کی طرف جا رہی
تھی جو پرسکون انداز میں سو رہی تھی۔ میرے لیے یہ سب کچھ بہت ہی سیکسی تھا۔
اس پوزیشن میں چودائی کرواتے ہوئے بہت مزہ آرہا تھا کہ عمرا ن نے اپنے ہاتھوں
سے میرے دونوں مموں کو پکڑ لیا اور دبانے لگے۔ میرے بازو ابھی بھی ٹیبل پر تھے
اور میں جھکی ہوئی تھی مگر عمران نے مموں سے پکڑ کر مجھے تھوڑا سا اپنی
طرف کھینچا تو چوت اور لن کے درمیاں کا فاصلہ اور بھی کم ہوگیا۔ جس سے لن اور
بھی زیادہ میری چوت میں جانے لگا۔ 5منٹ کی چودائی کے بعد جب عمران نے میرے
نپلز کو اپنے ہاتھوں سے رگڑنا شروع کیا تو مزے کی شدت سے میری چوت نے ہار
مان لی اور میں نے وہیں کھڑے کھڑے اپنی چوت کا پانی نکال دیا۔
میری چوت کا پانی نکلنے کے بعد عمران نے اپنا لن میری چوت سے باہر نکاال اور
اسکو ایک کپڑے سے صاف کیا۔ اسکے بعد میری چوت جو اندر سے مکمل گیلی
ہوچکی تھی اسکے بھی تھوڑا صاف کیا اسکے بعد مجھے دیوار کے ساتھ لگا دیا۔
میری کمر دیوار کے ساتھ تھی اور عمران نے میری ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے بازو پر
رکھ لی اور لن میری چوت میں داخل کر کے میری چودائی شروع کردی۔ اس بار لن بھی
خشک تھا اور میری چوت بھی کافی حد تک خشک تھی جسکی وجہ سے زیادہ رگڑ مل
رہی تھی چوت کو اور مزہ بھی اسی حساب سے زیادہ آرہا تھا مگر کچھ ہی دیر میں
چوت کی چکناہٹ واپس آگئی تھی۔ کچھ ہی دیر کے بعد میری ٹانگوں کی بس ہوگئی
کیونکہ ایک ٹانگ اٹھا کر چدائی کروانا کوئی آسان کام نہیں ،تبھی عمران نے میری
دوسری ٹانگی بھی اٹھائی اور دونوں ٹانگیں اب عمران کے بازووں پر تھیں اور میری
کمر دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ اس پوزیسن میں عمران نے خو جم کر دھکے لگانا
شروع کر دیے۔ اس بار عمران کے لن میں جیسے ایک نئی روح آگئی تھی اور عمران
کے جاندار دھکے میر چوت کی دیواروں کو بری طرح روند رہے تھے۔ میرے لیے اپنی
آواز پر قابو پانا مشکل ہوگیا تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیے اور اپنی
آواز کو برداشت کرنے لگی۔
کچھ دیر کے بعد عمران کے دھکوں میں جب تھوڑی کمی آئی تو میں نے اپنے ہاتھ منہ
سے ہٹائے اور عمران کی گردن کے گرد لپیٹ کر عمران کے گلے لگ گئی مگر کمر
ابھی بھی دیوار کے ساتھ تھی۔ اس حالت میں عمران نے مسلسل 10منٹ میری چودائی
کی۔ پھر ہم نے پوزیشن بدلی اور اس بار عمران نے مجھے نیچے فرش پر لیٹنے کو
کہا۔ میں فرش پر لیٹی تو عمران نے میری دونوں ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ
لیں۔ ِمں صائمہ کے بیڈ کے بالکل ساتھ لیٹی ہوئی تھی ،فرش تھوڑا سخت تھا اور اس
سے تکلیف بھی ہو رہی تھی مگر جب عمران کا لن چوت میں گیا اور میری چودائی
شروع ہوئی تو فرش سے رگڑ کی تکلیف سے زیادہ لن سے ملنے والی رگڑ کا مزہ تھا۔
عمران میری ٹانگوں کو اپنے کندھوں پر رکھے اپنی گانڈ ہال ہال کر میری چودائی کر
رہے تھے۔ پھر عمران نے میری ٹانگوں کو کندھے سے اتارا اور سائیڈ پر پھیال کر
تھوڑا میرے اوپر جھک گئے۔ اس سے چوت تھوڑی کھلی ہوگئ اور لن کے لیے راستہ
بھی زیادہ بن گیا۔ اب میری ٹانگیں کھلی تھیں اور بیچ میں میرا بہنوئی اپنے لن سے
میری چودائی میں مصروف تھا۔ 5منٹ ایسے ہی چودائی کے بعد میں نے دوبارہ سے
پوزیشن بدلی اور اپنی ٹانگیں فرش پر رکھ کر سیدھی کر لی اور عمران کو کہا وہ بھی
اپنی ٹانگوں کو سیدھا کر کے میرے اوپر لیٹ جائیں اور لن چوت میں ہی رہنے دیں۔
عمران نے ایسے ہی کیا۔ میں بالکل سیدھی لیٹے ہونے کی وجہ سے تھوڑا مشکل
محسوس کر رہی تھی مگر اس پوزیشن میں میری چوت کی دیواریں آپس میں مل گئی
ٹھیں اور چوت بہت ٹائٹ ہوگئ تھی جس میں عمران کا موٹا لن میری چوت کی دیواروں
سے بری طرح ٹکرا رہا تھا اور رگڑتا ہوا چوت کی گہرائیوں میں اتراتا۔ اس پوزیسن
میں نا صرف عمران کو مزہ آرہا تھا بلکہ میری چوت بھی مکمل انجوائے کر رہی تھی۔
منٹ میں ہی میری چوت نے ہار مان لی اور پانی چھوڑ دیا۔ جیسے ہی میری پھدی نے 5
پانی چھوڑا عمران نے مجھے الٹا لیٹنے کو کہا ،میں الٹی ہو کر لیٹی اور ٹانگیں سیدھی
ہی رہنے دیں۔ عمران نے مجھے اپنی گانڈ کو تھوڑا سا اوپر اٹھانے کو کہا میں نے
ایسے ہی کیا عمران کے لن کو تھوڑا سا راستہ مل گیا چوت تک پہنچنے کا تو عمران
نے فورا ہی ٹائم ضائے کیے بغیر اپنا لن میری چوت میں اتار دیا۔ یہ پوزیشن پہلے سے
ب ِھی زیادہ ظالم تھی۔ میری چوت کی دیواریں آپس میں بالکل مل گئی تھی اور پیچھے
سے عمران کے سخت لن کسی چھری کی طرح میری پھدی کو چیرتا ہوا اندر جاتا اور
باہر جاتا۔
چوت زیادہ ٹائٹ ہونے کی وجہ سے عمران کا لن مکمل آزادی سے اندر باہر نہیں جا رہا
تھا جسکی وجہ سے وہ مکمل لن باہر نہیں نکال رہے تھے ،محض چند انچ لن باہر
نکالتے اور پھر پوری طاقت کے ساتھ دھکا لگاتے۔ ہر دھکے کے ساتھ میری ہلکی سی
چیخ نکلتی مگر میں ہر دھکے کو برداشت کرتی رہی اور زیادہ آواز نہیں نکلنے دی۔
کچھ دیر پیچھے سے چودائی کرنے کے بعد عمران نے اپنا لن چوت سے باہر نکال لیا
کیونکہ وہ مکمل آزادی کے ساتھ اپنی سالی کو چود نہیں پا رہے تھے۔ لن باہر نکال کر
عمران نے مجھے گھوڑی بننے کو کہا۔
میں فورا ہی اپنے بہنوئی کے سامنے گھوڑی بن گئی۔ بہنوئی نے پیچھے سے اپنی
سالی کی گانڈ کو سہالیا اور پھر چوت کو سہالنے لگے ،ساتھ ساتھ اپنے لن کو ہاتھ میں
پکڑے مٹھ بھی مارتے رہے۔ پھر اپنا لن اپنی سالی کی چوت پر رکھا اور ایک ہی
جھٹکے میں اپنا 8انچ کا لوہے جیسا لوڑا اپنی سالی کی نازک پھدی میں اتار دیا۔ اور
پھر تو جیسے دھکوں کی ایک مشین سی چل پڑی۔ ہر دھکا پہلے سے زیادہ جاندار ہوتا
اور سالی کی چوت کی گہرائیوں میں لن اترنے سے سالی کے مزے میں مسلسل اضافہ
ہورہا تھا۔ بہنوئی کے ٹٹے سالی کی گانڈ سے ٹکرا رہے تھے اور بہنوئی کے مثانے کی
جگہ جب سالی کے نرم نرم چوتڑوں سے ٹکراتی تو کمرے میں دھپ دھپ کی آواز پیدا
ہوتی۔
عمران کی رفتار مسلسل تیز سے تیز تر ہو رہی تھی اور دھکوں کی طاقت میں بھی
طوفانی اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ میں سمجھ گئی تھی کہ اب عمران کا وقت قریب ہے لیکن
اس سے پہلے کہ عمران کا لن ہار مانتا میری چوت نے طوفانی چودائی کے آگے ہار
مان لی اور پانی چھوڑ دیا۔ پانی نکلنے کے بعد بھی عمران کے دھکے نہ رکے تو میں
نے عمران کو کہا کہ اس بار اپنی منی اپنی سالی کے سینے پر نکالنا۔ یہ سنتے ہی
عمران نے اپنا لن میری چوت سے نکال لیا اور مجھے اپنی طرف منہ کرنے کو کہا،
میں فورا سیدھی ہوئی اور عمران کی طرف منہ کر لیا ،عمران نے اپنا لن میرے ہاتھ
میں پکڑایا اور کہا مٹھ مار کے فورا منی نکال دو ،میں نے فورا ہی عمران کی مٹھ
مارنی شروع کر دی کچھ ہی جھٹکوں کے بعد عمران کے لن میں تناو اچانک بڑھ گیا
اور میں نے عمران کے لن کی ٹوپی کا رخ اپنے مموں کی طرف کرکے مٹھ مارنا جاری
رکھا اچانک ہی ایک تیز اور گرم دھار میرے مموں سے ٹکرائی اور ساتھ ہی عمران کی
ہلکی سی سسکی بھی نکلی۔ پھر 4 ،3اور گاڑھی اور گرم گرم دھاریں نکلیں اور میرے
مموں کو سفید پانی میں نہال دیا۔
بہنوئی کی گاڑھی منی سالی کے بڑے بڑے مموں پر جم گئی تھی۔ جب ساری منی نکل
گئی تو میں نے عمران کا لن اپنے منہ میں لیکر اچھی طرح چاٹ لیا۔ اور اس زبردست
چدائی پر عمران کا شکریہ ادا کیا۔ عمران بھی بہت خوش اور مطمئن تھے انہوں نے
بھی میرا شکری ادا کیا کہ میں نے اپنی چوت سے انکے لن کو بہت مزہ دیا۔ پھر میں
کمرے میں موجود واش روم میں گئی اور اپنا جسم دھویا۔ اسکے بعد ایک کپڑا لیکر
صوفے اور فرش پر سے اپنی اور عمران کی منی صاف کی ۔ اس دوران عمران نے بھی
واش روم جا کر اپنی ٹانگیں دھو لی تھیں۔ پھر کپڑے پہن کر ہم صوفے پر بیٹھ گئے۔ ٫
کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد میں صوفے پر ہی لیٹ گئی اور عمران کی گود میں سر
رکھ لیا۔ کب میری آنکھ لگی مجھے کچھ علم نہیں۔ کچھ سفر کی تھکاوٹ اور کچھ
عمران کی جاندار چودائی نے میرے جسم کو چکنا چور کر دیا تھا۔ خوب گہری نیند آئی
مجھے ،صبج جب آنکھ کھلی تو کمرے میں امی ابو ،آنٹی موجود تھے اور آپس میں
باتیں کر رہے تھے جبکہ میرا سر ابھی تک عمران کی گود میں ہی تھا۔
آنکھ کھلنے پر میں اٹھی اور سیدھی واش روم جا کر فریش ہونے لگی۔ باہر نکلی تو
صائمہ کی ساس نے مجھے پیار کیا کہ تم نے ساری رات بہن کا اور عامر کا خیال رکھا
تم بہت اچ ِھی ہو۔ میں نے دل میں کہا کہ آپکے بیٹے کے لن کا خیال رکھا تھا صائمہ تو
سو رہی تھی۔
خیر ،کچھ دیر ہم ہسپتال میں ہی باتیں کرتے رہے ،صائمہ بھی جاگ گئی تھی اور اب
اسکی طبیعت کافی بہتر تھی۔ بیچ میں 2سے 3بار ڈاکٹر نے وزٹ بھی کیا اور شام کے
وقت صائمہ کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا۔ ہسپتال سے صائمہ کو لیکر ہم 8بجے گھر
پہنچے تو جاتے ہی عمران باہر سے کھانا لے آئے ،ہم سب نے کھانا کھایا۔ عمران اوپر
کمرے میں جا کر سوگئے کیونکہ انکا نیند سے برا حال تھا اور وہ اپنی نیند پوری کرنا
چاہتے تھے۔ جبکہ نیچے انکے کمرے میں صائمہ ،میں اور امی موجود تھے۔ میں بھی
تھکی ہوئی تھی اور جلد ہی سو گئی۔
صبح آنکھ کھلی تو امی ابو واپس جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ میں نے امی سے بوال
کہ میں ابھی آپی کے پاس رہنا چاہتی ہوں میں بعد میں آجاوں گی۔ اس پر صائمہ نے بھی
کہا کہ جی امی فائزہ کو چھوڑ جائیں مجھے اسکی ضرورت ہے یہاں پر ،اور صائمہ کی
ساس نے بھی بوال کہ ہاں بہن میں بوڑھی عورت کیسے صائمہ کا اس حالت میں خیال
رکھوں گی ساتھ بہن کو ہونا ہی چاہیے۔ یہ سن کر امی نے ابو سے بات کی تو ابو بھی
مان گئے اور مجھے ایک ہفتہ رکنے کی اجازت دے دی۔ عمران پہلے ہی آفس جا چکے
تھے ،کافی دن سے وہ اپنے آفس میں صحیح ٹائم نہیں دے سکے تھے جسکی وجہ
سے صبح اٹھتے ہی وہ آفس چلے گئے۔
امی ابو اور فیاض کے واپس جانے کے بعد اب گھر میں صائمہ کی ساس ،صائمہ عامر
اور میں خود موجود تھی۔ میں سارا دن عامر کو گود میں اٹھئے رہی ،کبھی جب کوئی
کام ہوتا تو اسکو صائمہ کے ساتھ لٹا کر کام کرتی اور واپس آکر پھر سے اسے اٹھا کر
پیار کرنے لگتی۔ وہ میری گود میں سویا رہا۔ رات 8بجے عمران آئے تو انہوں نے
کھانا مانگا اور صائمہ کے پاس بیٹھ کر اپنے ننے منھے بچے کو پیار کرنے لگے۔ میں
نے کچن میں جا کر انکے لیے کھانا گرم کیا اور صائمہ کے کمرے میں ہی انکو پیش کر
دیا۔ اتنے میں عمران کی امی بھی آگئیں اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں۔ ابھی
عمران کھانا کھا ہی رہے تھے کہ انکی امی بولی بیٹا فائزہ صبح سے کام کر رہی ہے
اسکو الہور ہی گھما ال۔ یہ سن کر عمران بولے یہ ٹھیک ہے ویسے بھی کھانا مزے کا
نہیں تو باہر کچھ کھا بھی لیں گے۔ میں نے کہا کہ نہیں گھر پر آپی اکیلی ہیں کوئی کام
بھی پڑ سکتا ہے جس پر عمران کی امی بولیں کہ بیٹا تم فکر نہ کرو جب تک تم لوگ
آنہیں جاتے ِمں صائمہ کے پاس ہی ہوں۔ صائمہ نے بھی مجھے کہا کہ تم فکر نہ کرو
آرام سے پھرو سیر کرو۔ یہ سن کر میں بھی تیار ہوگئی اور عمران نے اپنی کار نکالی
اور میں انکے ساتھ بیٹھ کر الہور گھومنے نکل گئی۔
عمران نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں چلنا ہے تو میں لبرٹی مارکیٹ چلنے کو کہا۔ عمران
نے کہا وہاں جا کر کیا کروگی؟ ِمں نے کہا لڑکیوں کو ونڈو شاپنگ کا شوق ہوتا ہے وہی
کروں گی۔ سو عمران مجھے وہیں لے گئے۔ کچھ دیر میں مختلف دکانوں پر کپڑے اور
جیولری دیکھتی رہی۔ ایک دکان سے ایک شال خریدی اور ایک جیولری والی دکان سے
آرٹی فیشل رنگ خریدی جسکی پیمینٹ عمران نے کی۔ پھر لبرٹی مارکیٹ کے سامنے
سے عمران نے مجھے پراٹھا رول کھالئے جو یہاں کے مشہور ہیں کراچی پراٹھا
سپیشل۔
پراٹھا رول کھانے کے بعد عمران مجھے پیس لے گئے۔ پیس الہور کا مشہور شاپنگ
پالزہ ہے۔ اسکی فرسٹ فلور پر مشہور برانڈز موجود تھے۔ رات کے 10بج چکے تھے
اور پیس میں اینٹری بند ہو چکی تھی لوگ اب واپس جانا شروع تھے۔ ہم پورے ٹائم پر
پہنچے تھے ہمارے بعد محض چند لوگ ہی اندر داخل ہوئے ہونگے۔ یہاں بھی کچھ دیر
میں نے ونڈو شاپنگ کی اور اسکے بعد ایک جیولری کی شاپ میں داخل ہونے لگی تو
عمران نے مجھے بازو سے پکڑ کر کھینچا اور ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے بولے وہ
دیکھو تمہارے کام کی چیزیں۔ جہاں عمران نے اشارہ کیا میں نے ادھر دیکھا تو وہ
عورتوں کی انڈر گارمنٹس کی شاپ تھی۔ عمران مجھے بازو سے پکڑ کر اس طرف
جانے لگے تو میں بولی عمران بھائی مجھے نہیں جانا اس شاپ میں۔ تو وہ بولے ارے
اس میں ایسی کونسی بات ہے۔ سب لڑکیاں ہی خریدتی ہیں یہ چیزیں تم بھی دیکھ لہو۔
میں نے کہا میرے پاس ہیں۔ تو وہ بولے ہونگے مگر کچھ اور دیکھ لو شاید کوئی
سیکسی نائٹی ہی مل جائے۔ میں نے کہا مجھے کیا کرنی ہے نائٹی شادی کے بعد لے
لوں گی۔ تو عمران نے کہا کہ سمجھ تمہاری میرے ساتھ شادی ہوچکی ہے۔ ایک بار
نائٹی پہن کر میرے سے چدائی ضرور کروانا۔ میں نے پھر مزاحمت کی اور بولی کہ
کوئی دیکھ لے گا ہمیں یہاں پر۔ تو وہ بولے نہ تمہیں کوئی یہاں جانتا ہے اور نہ مجھے۔
اور لوگ ب ِھی لیتے ہیں تمہیں بھی شرمانے کی ضرورت نہیں چپ چاپ آجاو۔ کسی کو
کیا پتا تم میری بیوی نہیں سالی ہو۔
باآلخر ہم نائٹی شاپ میں داخل ہوگئے۔ اندر ایک سائیڈ پر چند عورتیں برا پسند کر رہی
تھیں۔ شاپ کے اندر ایک خاتون اور ایک مرد سیلز میں موجود تھے ،عمران مجھے
لیکر مرد سیلز مین کی طرف جانے لگے تو مجھے شرم آنے لگی اور میں نے کہا میں
آگے جا کر خاتون سے لے لوں گی مگر عمران بولے ک تم میری پسند کی نائٹی لوگی،
میں آگے نہیں جا سکتا تم بھی ایک سائیڈ پر کھڑی ہوجاو۔ مرد سیلز مین نے بڑی خوش
اخالقی سے عمران سے پوچھا سر کیا دکھاوں آپکو تو عمران بولے کہ کوئی اچھی سی
نائٹی دکھاو۔ مرد نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مجھ سے پوچھا "میم آپکا سائز کیا ہے؟"۔
یہ سن کر میں ہکا بکا رہ گئی کہ اسے کیا جواب دوں۔ میں نے کہا میں نے کبھی نائٹی
نہیں خریدی۔ اس پر وہ بوال "میم آپک کونسے نمبر کا برا پہنتی ہیں"۔ میں نے بتایا کہ
34نمبر۔ اس پر وہ دوبارہ بوال کہ آپ اپنا کپ سائز بھی بتا دیں اور یہ پوچھے ہوئے
اسکی نظریں میرے مموں پر ہی تھیں جیسے خود سے اندازہ لگانا چاہ رہا ہو۔ اس پر
میں بولی کہ 34برا کا نمبر ہے اور کپ سائز بی ہے۔ پھر اسنے پوچھا کہ آپکا ہپ سائز
کیا ہے؟ میں یہ سوال سن کر حیران تھی مگر شاید یہاں ہائی کالس خواتین ہی آتی ہیں
اور انکے لیے یہ باتیں اہمیت نہیں رکھتیں اور یہ سیلز مین بھی انہی خواتین کا عادی
تھا۔ اسکے پوچھنے پر میں نے ہپ سائز بھی بتا دیا تو اس نے ایک ریڈ کلر کی نائٹی
دکھائی ۔ عمران نے نائٹی کھولی اور بولے یہ نہیں یار کوئی شارٹ نائٹی دکھاو۔
اس پر اس نے 4 ،3اور نائٹیز نکال کے دکھائیں۔ یہ بھی کافی سیکسی تھیں اور یہ
دیکھ کر مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ ان نائٹیز میں میرا زیادہ تر جسم ننگا ہی رہے گا۔
مگر عمران کو پسند نہیں آئیں اور انہوں نے سیلز میں کو کہا کوئی ہنی مون ٹائپ چیز
دکھاو۔ اس پر اس نے اور بھی زیادہ سیکسی نائٹی نکالی۔ یہ بلیک کلر کی تھی اور
مکمل نیٹ کی تھی۔ اوپر واال حصہ کراس شکل کا تھا ،۔ جو مموں کو ڈھانپنے کے لیے
تھےا اسکے نیچے ایک چھوٹی سی نیٹ کی الئن تھی جو پیٹ سے ہوتے ہوئے نچلے
حصے سے مل رہی تھی۔ اس الئن کے ساتھ اور کوئی کپڑا یا نیٹ نہیں تھا۔ نیچے کا
حصہ بھی نیٹ کا تھا اور ہپس کو بمشکل کور کرتا تھا۔ عمران کو یہ پسند آئی مگر سائز
چھوٹا لگا تو سیلز مین نے بتایا کہ یہ جب آپ پہنیں گی تو نیٹ سٹریچ ہوجائے گی اور
آپکے جسم پر بالکل فٹ آئے گی۔ اگر چھوٹی لگے تو آپ چینج کروا سکتی ہیں۔ اس کے
بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ اسکے ساتھ کوئی برا بھی لینا چاہیں گی کیونکہ یہ
مکمل نیٹ کی ہے اس میں آپکا سینہ بہت واضح نظر آئے گا۔ اب تک میری ہچکچاہٹ
ختم ہو چکی تھی ،میں نے فورا کہا ہاں برا بھی دکھا دو۔ ۔ تب اس نے 34سائز کے
سیکسی برا نکالنے شروع کیے۔ ان میں سے ایک فوم واال برا مجھے پسند آیا۔ یہ ہاف
کپ برا تھا۔ یعنی اسکے کپ بہت چھوٹے تھے مموں کا اوپر واال حصہ نہیں ڈھانپا جا
سکتا تھا اس برا سے۔ یہ محض مموں کو نیچے کی طرف سے سپورٹ دیتے ہیں اور
سائیڈ سے کافی تنگ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ممے آپس میں مل جاتے ہیں اور
کلیویج الئن اچھی بنتی ہے۔ چھوٹے سائز کے ممے بھی ہاف کپ برا سے بڑے دکھنے
لگتے ہیں۔
برا پسند کرنے کے بعد میں نے خود ہی کہا کہ کوئی پینٹی بھی دکھاو۔ تو اسنے بلیک لر
میں ہی کچھ پینٹیز دکھانی شروع کیں۔ زیادہ تر پینٹیاں جی سٹرنگ تھیں یعنی یہ پینٹی
آگے سے محض پھدی والی جگہ کو ہی ڈھانپتی ہے اور پیچھے سے کپڑے کی ایک
باریک سے الئن چوتڑوں کی الئن میں جا کر گانڈ کو چھپاتی ہے۔ باقی چوتڑوں کا مکمل
گوشت ننگا ہوتا ہے۔ ابھی میں پسند ہی کر رہی تھی کہ سیلز مین بوال میڈیم میں آپکو
ایک سپیشل چیز دکھاتا ہوں آپکو پسند آئے گی۔ یہ کہ کر وہ نیچے جھکا اور ایک اور
پینٹی نکالی۔ پینٹی نکال کر وہ کھول کر دکھانے لگا اور بتانے لگا کہ اس سے آپکے
ہپس تو کور ہونگے مگر اسکی فرنٹ میں اوپننگ ہے آپ پینٹی اتارے بغیر بھی کر
سکیں گی۔ یہ کہتے ہوئے اسکے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔ عمران بولے ہاں
یہی صحیح ہے۔ اسکے بعد عمران نے اس سے لیگ سٹاکنگ کا بھی کہا ۔ لیگ سٹاکنگ
بھی نیٹ کی ہی ہوتی ہے جو عموما انگریز عورتیں ہر ٹائم ہی پہنتی ہیں۔ یہ پاوں سے
لیکر گھٹنوں تک کے حصے کو کور کرتی ہیں۔ بلیک کلر میں ہی سٹاکنگ لیکر عمران
نے بل ادا کیا اور ہم شاپ سے باہر آگئے۔
شاپ سے باہر آکر میں نے لمبا اور ٹھنڈا سانس لیا جیسے سکون مل گیا ہو باہر آکر۔
میں نے عمران کو کہا یہ لے تو لی ہیں مگر یہ گھر لیجا کر رکھنی کہاں ہیں۔ عمران
بولے کہ فکر نہ کرو گاڑی میں ہی پڑی رہیں گی جب امی سوجائیں گی تو میں تمہیں ال
دوں گا تم اپنے بیگ میں رکھ لینا۔ میں نے کہا کمرے میں صائمہ بھی ہے تو وہ بولے
وہ بستر سے ابھی اٹھ نہیں سکتی وہ کونسا تمہارا بیگ چیک کرے گی۔ مجھے کچھ
اطمینان ہوا۔ اسکے بعد عمران نے ایک جگہ سے مجھے ڈرنکس پالئیں اور ہم گھر
چلے گئے۔
گھر پہنچے تو عمران کی امی کو بہت گہری نیند آرہی تھی اور وہ بہت مشکل سے
بیٹھی تھیں صائمہ کے پاس جبکہ صائمہ کو بھی ہلکی نیند آرہی تھی۔ میرے پہنچتے ہی
عمران کی امی فورا اپنے کمرے میں چلی گئیں اور صائمہ کو بھی نیند آنے لگی تو
عمران نے مجھے نائٹی واال شاپنگ بیگ چپکے سے پکڑا دیا جو میں نے بیڈ کے
نیچے کھسکا دیا۔ شال اور جیولری میں اپنے ساتھ ہی اندر الئی تھی وہ صائمہ کو دکھا
چکی تھی۔ کچھ دیر عمران ہمارے ساتھ بیٹھے رہے ،مگر پھر وہ سونے کے لیے اوپر
چلے گئے ،رات کا 1بج رہا تھا اور صبح انہیں آفس بھی جانا تھا۔ انکے جانے کے بعد
صائمہ بھی سوگئی تو میں نے نائٹی کا بیگ فورا سے اپنے بیگ میں کپڑوں کے نیچے
کر کے رکھ دیا اور سونے کے لیے لیٹ گئی۔
میں ایک گھنٹے تک آنکھیں بند کیے لیٹے رہی مگر نیند میری آنکھوں سے کوسوں
دور تھی۔ آنکھیں بند کرتی تو اپنے آپکو میں نائٹی میں دیکھتی اور عمران میرے جسم
پر پیار کر رہے ہوتے تھے ۔ کبھی وہ میری ٹانگوں پر پیار کرتے اور کبھی میرے ممے
دبا دبا کر مجھے مزہ دیتے۔ انہی خیالوں میں کبھی میں عمران کے سامنے گھوڑی بن
کر چدائی کرواتی رہی تو کبھی عمران سے اپنی چوت زبان سے چٹواتی رہی۔ میری بہت
خواہش تھی کہ عمران میری چوت کو چاٹیں مگر انہوں نے ایک بار بھی ایسا نہیں کیا
تھا۔ انہی خیالوں نے میری چوت کو گیال کر دیا تحا اور نہی معلوم کب میری آنکھ لگ
گئی۔
صبح آنکھ کھلی تو ذہن میں رات آنے والے خواب تھے۔ خواب میں ساری رات میں
اپننے بہنوئی سے چدائی کرواتی رہی کبھی ڈاگی سٹائل میں کبھی انکی گود میں چڑھ کر
اور کبھی انکے اوپر لیٹ کر۔ ان خوابوں نے کافی دیر میری چوت کو گیال کیے رکھا۔
فریش ہوئی تو کچن میں ناشتہ بنانے چلی گئی۔ عمران کی امی بھی اٹھ چکی تھیں اور
ایک بار کچن میں آکر میرے پاس کھڑی ہوگئیں اور کل کے بارے میں پوچھنے لگیں کہ
کوئی شاپنگ بھی کروائی ہے عمران نے یا نہیں؟؟؟ میں نے شاپنگ کے بارے میں بتایا
بیچ میں ہنی مون نائٹی کا ذکر نکال دیا۔ میں پراٹھے بنانے میں مصروف تھی عمران کی
امی نے چائے چولہے پر چڑھا دی۔ کچھ ہی دیر میں پراٹھے بن گئے تو میں نے فریج
میں سے انڈے نکالے اور انڈے بنانے کے لیے پیازنمک مرچ ڈالنے لگی تو عمران کی
امی نے کہا یہ میں کرتی ہوں تم اوپر جا کر عمران کو اٹھا دو اس نے آفس بھی جانا
ہے۔ اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اچھی طرح اٹھا کر آنا جب تک وہ بستر سے اتر نا جائے
وگرنہ تم اٹھا کر نیچے آو گی تو وہ پھر سو جائے گا۔ میں نے عمران کی امی کو کہا آپ
فکر نہ کریں میں اپنے ساتھ ہی نیچے الوں گی عمران بھائی کو۔
یہ کہ کر میں اوپر چلی گئی اور بغیر دستک دیے دروازہ کھول کر بے دھڑک اندر چلی
گئی۔ عمران بیڈ پر لیٹے بے سدھ سو رہے تھے۔ انہوں نے قمیص اتار رکھی تھی مگر
بنیان پہن رکھی تھی اور نیچے شلوار تھی۔ شلوار میں انکا لن بڑا واضح نظر آرہا تھا
جو کھڑا تھا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ عموما مردوں کے لن صبح کے ٹائم کھڑے ہوتے
ہیں سوتے میں بھی آج دیکھ بھی لیا تھا۔ پہلے تو میں نے سوچا عمران کو جگاوں۔
مگر پھر سوچا عمران کو جگانے کی بجائے اگر عمران کے لن کو جگایا جائے تو بہتر
رہے گا۔ یہ خیال ذہن میں آتے ہی میں نے عمران کی شلوار کا ناال ہاتھ سے کھینچا اور
ایک ہی جھٹکے میں کھول کر شلوار نیچے کر دی۔ عمران کا لن مکمل طور پر تو نہیں
کھڑا تھا مگر پھر بھی اس میں بہت زیادہ سختی تھی اور اسکی لمبائی کوئی 5انچ کے
قریب تھی اس وقت۔ لن کو دیکھتے ہی میرے منہ میں پانی آگیا۔ میں نے منہ میں تھوک
جمع کیا اور لن پر پھینک دیا۔ پھر لن کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سارا تھوک لن پر
مسل دیا۔ جب میں تھوک لن پر مسل رہی تھی تو عمران کے جسم میں تھوڑی حرکت
ہوئی مگر انکی آنکھ نہیں کھلی البتہ لن نے میرے ہاتھوں کے لمس کو فورا ہی
محسوس کر لیا اور میرے احترام میں کھڑا ہونے لگا۔ کچھ ہی سیکنڈز میں لن مکمل
طور پر کھڑا تھا۔ میں نے لن کی ٹوپی پر اپنی زبان پھیرنا شروع کی۔ تو لن کی سختی
میں اور اضافہ ہوگیا۔ عمران کے ٹٹے ب ِھی سخت ہو رہے تھے اور میں اپنے ہاتھوں
سے ٹٹوں کے ساتھ بھی کھیل رہی تھی ساتھ میں عمران کے لن پر اپنی زبان لن کی جڑ
سے لیکر ٹوپی تک نیچے سے اوپر تک پھیر رہی تھی۔ کچھ دیر اسی طرح لن کو
چاٹنے کے بعد میں نے اپنے ہونٹ ٹوپی پر رکھ دیے اور گول گول گھمانے لگی۔ میرے
ہونٹوں کا لمس پا کر ٹوپی کبھی تھوڑی سی پھولتی اور پھر واپس سکڑ جاتی ،پھر
پھولتی اور پھر سکڑ جاتی۔ ٹوپی کا یہ کھیل جاری رہا اور میں نے پوری ٹوپی اپنے منہ
میں لے لی اور اس پر پیار کرنے لگی۔ ٹوپی پر پیار کرتے کرتے میں نے لن اپنے منہ
میں لینا شروع کر دیا اور اب آدھے سے زیادہ لن میرے منہ میں جا چکا تھا۔
میں نے لن کے چوپے لگانے شروع کیے ہی تھے کہ مجھے اچانک سے خیال آیا کہ
میں دروازہ بند کرنا بھول گئی ہوں ،ایک دم سے میں ڈر گئی کہ اگر کوئی آجائے
تو،؟؟؟؟ مگر پھر سوچا کون آئے گا ،صائمہ کی ایسی حالت نہیں اور عمران کی امی
سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتیں اور عمران کا بھائی الہور میں موجود ہی نہیں لہذا میں نے
دروازہ کھال ہی رہنے دیا اور لن کے چوپے لگانے لگی۔
ایک دو چوپوں سے ہی عمران کی آنکھ کھل گئی اور آنکھ کھلیتے ہی انہوں نے سر
اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر ٹائم دیکھا۔ عمران نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور
لن کی طرف دبانے لگے اور بولے فائزہ جان تم نے تو مزہ کروا دیا صبح صبح۔ ساتھ
ہی انکی نظر دروازے پر پڑی تو وہ بولے پاگل دروازہ تو بند کر لیتی۔ میں نے کہا
چھوڑیں عمران بھائی کس نے آنا ہے اوپر جو دروازہ بند کروں۔ یہ کہ کر میں نے
دوبارہ سے عمران کے لن پر توجہ دینا شروع کر دی۔ اب عمران اٹھ کر بیٹھ چکے تھے
اور میں لن کے اوپر جھک کر تیز تیز چوپے لگا رہی تھی۔ عمران بھی کہ رہے تھے
اور چوسو میرا لن ،لولی پاپ سمجھ کر چوسو اسکو۔ میں بھی واقعی میں کسی لولی
پاپ کی طرح چوسنے میں مصروف تھی۔ لن سے نکلنے والی مذی میرے منہ میں
نمکین ذائقہ دے رہی تھی جو مجھے اچھی لگ رہی تھی۔
اب عمران گھٹنوں کے بل بیڈ پر بیٹھ گئے اور میں گھوڑی بن کر ڈاگی سٹائل میں انکا
لن چوسنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں عمران نے میرا سر اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا
اور مجھے منہ مکمل کھال رکھنے کو کہا۔ میں نے ایسے ہی کیا تو عمران نے اپنے لن
سے میرے منہ کی چدائی شروع کر دی اور تیز تیز دھکے مارنے لگے۔ عمران کی
چدائی کی رفتار مسلسل تیز ہو رہی تھی منہ کی چدائی کرتے کرتے عمران نے مجھ سے
پوچھا ناشتے میں اپنے بہنوئی کے لن کا جوس پینا پسند کرو گی؟؟؟ تو میں نے ہاں
میں سر ہال دیا ،یہ دیکھ کر عمران نے دھکوں کی سپیڈ میں اضافہ کیا اور چند ہی
دھکوں کے بعد میرے منہ میں گرما گرم جوس انڈیل دیا۔ کچھ جوس تو میرے منہ میں
نکل گیا جب کہ کچھ جوس میرے چہرے پر نکاال گیا کیونکہ اتنا زیادہ جوس ایک ہی بار
میں منہ میں رکھنا ممکن نہیں۔ عمران کا لن فارغ ہو چکا تھا اور میری چوت مکمل
گیلی تھی اور لن لینے کے لیے بے چین تھی۔ مگر یہ ٹائم نہیں تھا چوت کی پیاس
بجھانے کا کیونکہ نیچے عمران کی امی ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ میں نے جتنا ممکن
ہوسکا جوس پی لیا باقی باہر انڈیل دیا اور اسکے بعد کمرے میں موجود واش روم میں
جا کر اپنا چہرہ صاف کیا اور اچھی طرح سے کلی کرنے کے بعد تولیے سے اپنا منہ
صاف کیا۔ باہر آئی تو عمران بھی اپنے کپڑے پہن چکے تھے۔ اور نیچے جانے کے لیے
تیار تھے۔ اس سارے کام میں محض 5منٹ ہی لگے تھے۔ جب ہم دونوں نیچے گئے تو
عمران کی امی توے پر سے انڈا اتار رہی تھیں۔ مجھے عمران کے ساتھ آتا دیکھ کر
بولیں ارے فائزہ تم نے تو جادو ہی کر دیا اتنی جلدی عمران کو اٹھا بھی دیا اور ساتھ
نیچے بھی لے آئیں۔۔۔ یہ سن کر عمران بولے فائزہ تو واقعی میں جادوگرنی ہے امی
جان ،اور ساتھ ہی ایک قہقہ لگایا اور مجھے آنکھ بھی ماری۔
پھر ہم نے ملکر ناشتہ کیا اور عمران آفس چلے گئے۔ انکے آفس جانے کے بعد صائمہ
نے مجھے عمران کے کپڑے دیے اور کہا کہ یہ استری کرنے ہیں۔ میں عمران بھائی
کے کپڑے لے کر اوپر چلی گئی کیونکہ استری اوپر ہی موجود تھی۔ 10کے قریب سوٹ
تھے جو میں نے 1گھنٹہ لگا کر استری کر دیے اور ہینگر پر لگا کر الماری میں لٹکا
دیے۔ اسکے بعد گھر کے مزید چھوٹے موٹے کام کیے تو دوپہر ہو چکی تھی۔ دوپہر
میں عامر کے کچھ لنگوٹ دھوئے اور صائمہ کو دیکھنے لگی کہ وہ کیسے عامر کو
اپنے مموں سے دودھ پالتی ہے۔ کچھ دیر بعد مجھے نیند آنے لگی تو میں سو گئی۔ اور
شام کو ہی اٹھی۔
شام کو آنکھ کھلی تو کمرے میں عمران کی آواز آرہی تھی۔ وہ گھر اچکے تھے۔ میں
نے انہیں سالم کیا اور فریش ہونے واش روم میں چلی گئی۔ واپس آکر چائے کا پوچھا
تو عمران نے کہا کہ ہاں اچھی سی چائے پالدو۔ میں نے عمران کے لیے اور اپنے لیے
چائے بنائی کیونکہ صائمہ کو زیادہ سے زیادہ دودھ پینے کو کہا گیا تھا اس لیے اسے
چائے کی بجائے دودھ کا مگ ال دیا۔ عمران نے اور میں نے ملکر چائے پی۔ چائے پینے
کے بعد کافی دیر ہم لوگ باتیں کرتے رہے۔ صائمہ بھی ہمارے ساتھ ہی تھی اور ہم ادھر
ادھر کی باتیں کر رہے تھے ۔ باتیں کرتے کرتے رات کے کھانے کا ٹائم ہوگیا ،میں
کھانا لگانے لگی تو عمران نے کہا انکے لیے کھانا نہ لگاوں انہیں بھوک نہیں ابھی۔
سو میں نے عمران کی امی ،صائمہ اور اپنے لیے ہی کھانا لگایا ،کھانا کھانے کے بعد
عمران کی امی سونے چلی گئیں اور عمران پھر سے ہمارے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتے
رہے۔ انہوں نے عامر کو گود میں اٹھا رکھا تھا اور اسے پیار کر رہے تھے صائمہ اور
میں اپنی باتوں میں مصروف تھے۔ رات کے 11بجے تو عمران نے عامر کو صائمہ
کے حوالے کیا اور اوپر جانے لگے۔ اور مجھے کہا کہ مجھے اب بھوک لگ رہی ہے تم
کھانا مجھے اوپر ہی دے دو۔ صائمہ نے پوچھا خیریت تو ہے تو انہوں نے کہا ہاں کچھ
آافس کا کام ہے وہ بھی ابھی دیکھنا ہے ساتھ میں کھانا بھی کھا لوں گا۔ میں نے کہا
ٹھیک ہے آپ اوپر جائیں میں کھانا گرم کر کے التی ہوں۔ عمران چلے گئے اور میں 5
منٹ مزید صائمہ کے پاس بیٹھی رہی۔ عامر سو چکا تھا صائمہ کی آنکھوں میں بھی
نیند تھی مگر وہ میری وجہ سے جاگ رہی تھی۔ صائمہ نے پوچھا کہ تمہیں نیند نہیں
آرہی؟؟؟ تو میں نے کہا میں دوپہر میں سوگئی تھی تو اب نیند نہیں آرہی تم سوجاو ،میں
عمران بھائی کو کھانا بھی دے آوں اور پھر جب وہ کھانا کھا لیں گے تو برتن بھی
نیچے النے ہیں۔ برتن دھو کر پھر میں سوجاوں گی۔
صائمہ نے کہا ٹھیک ہے جلدی آکر سوجانا۔ تو میں نے کہا جلدی مشکل ہی ہے کیونکہ
مجھے نیند نہیں آرہی اور اگر عمران بھائی آفس کے کام سے فارغ ہوگئے تو ہمارا آج
شطرنج کھیلنے کا بھی پروگرام ہے۔ تو صائمہ نے کہا چلو ٹھیک ہے مگر یہ دھیان
رکھنا انہوں نے صبح آفس بھی جانا ہوتا ہے تو ساری رات شطرنج پر ہی نا لگی رہنا۔
میں نے کہا فکر نہیں کرو ٹائم سے ہی آجاوں گی۔ میری بات سن کر صائمہ سونے کے
لیے لیٹ گئی اور میں کچن میں چلی گئی۔ کچن میں تھوڑی دیر رک کر میں نے بالوجہ
2سے 3منٹ ضائع کیے ،کچھ برتن کھڑکائے جیسے میں کام کر رہی ہوں۔ مگر اصل
میں صرف میں ٹائم ضائع کر رہی تھی۔ جب مجھے تسلی ہوئی کہ اب صائمہ لیٹ چکی
ہے نہیں اٹھے گی تو میں اوپر چلی گئی۔ عمران کے کمرے کا دروازہ آدھا کھال تھا اور
وہ اپنا لیپ ٹاپ آن کر کے کچھ کام کرنے میں مصروف تھے۔ میں نے عمران کے کمرے
کے سامنے والے کمرے کا دروازہ کھوال اور بغیر آواز پیدا کیے اندر چلی گئی۔ اندر
میری نائٹی پڑی تھی جو میں دوپہر میں ہی اس کمرے میں ال کر رکھ دی تھی۔
میں نے اپنے کپڑے اتارنا شروع کیے اور پوری ننگی ہوگئی۔ کچھ دیر اپنے جسم کو
دیکھا جو بالکل صاف اور دودھ کی طرح سفید تھا اوپر 34سائز کے گول اور سڈول
ممے اور نیچے بالوں سے پاک گالبی رنگ کی پھدی۔ میں دل ہی دل میں اپنے جسم کی
تعریف کرنے لگی۔ پھر میں نے برا اور پینٹی پہنی اور اوپر سے نیٹ کی نائٹی پہن لی
جو کل ہی عمران نے لی تھی میرے لیے۔ اپنے بالوں کو میں نے جوڑے کی شکل میں
سر کے پیچھے باندھ لیا تکہ میری ساری کمر ننگی ہی رہے بالوں کی وجہ سے چھپ نا
جائے اور ایک بلیک کلر کا ہی ہیل واال سینڈل پہن لیا۔
نائٹی کو میں نے تھوڑا نیچے کھینچا تاکہ اوپر سے میرے مموں کا ابھار واضح نظر
آسکے۔ اب میں نے شیشے میں اپنے آپ کو دیکھا تو میں خود اپنے آپ کو دیکھ کر
شرما گئی۔ میں اس وقت بہت ہی سیکسی لگ رہی تھی اس نائٹی میں اور ساتھ اونچی
ہیل واال جوتا ،بالکل کسی پورن فلم کی ایکٹریس لگ رہی تھی میں جو چدنے کے لیے
مکمل تیار تھی۔ گھٹنوں تک لیگ سٹانگز نے میرے حسن میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔
لیگ سٹانگز کی وجہ سے پاوں سے گھٹنوں تک کا حصہ تھوڑا کاال لگ رہا تھا ،یعنی
دور سے دیکھنے پر محسوس نہیں ہوتا تھا کہ میں نے کچھ پہن رکھا ہے بلکہ ایسا
لگتا تھا کہ میری ٹانگیں کالی ہیں ،مگر ایک دم سے گھٹنوں کے اوپر میری گوری چٹی
تھائز میرے حسن کو چار چاند لگا رہی تھیں۔ غرض اس وقت میں ایک سیکس بومب
لگ رہی تھی کوئی بھی مجھے دیکھتا تو اسکا لن فورا سالمی دینے کے لیے کھڑا
ہوجاتا۔
مکمل تیار ہونے کے بعد میں نے اپنے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگائی اور آخری بار شیشے
میں اپنے آپ کو دیکھا اور اس کمرے سے نکل کر دوبارہ سے عمران کے کمرے کے
باہر آگئی۔ عمران ابھی تک لیپ ٹاپ پر مصروف تھے۔ میں دبے قدموں کمرے میں داخل
ہوئی اور بغیر آواز پیدا کیے دروازہ بند کر دیا اور کنڈی لگای۔ کمرے میں ہلکی آواز
میں عمران نے گانے بھی لگا رکھے تھے لیپ ٹاپ پر اور ساتھ ساتھ اپنے کام بھی کر
رہے تھے۔ دروازہ بند کر کے میں عمران کے پیچھے جا کر کھڑی ہوگئی اور اپنی آواز
میں مٹھاس بھر کر بھرپور سیکسی آواز میں عمران کو آواز دی۔ عمران نے پیچھے مڑ
کر دیکھا تو جیسے وہ نظریں ہٹانا ہی بھول گئے۔ میرے مموں سے لیکر میری ٹانگوں
تک عمران میرے جس کا نظارہ کر رہے تھے۔ جسم کا زیادہ تر حصہ واضح نظر آرہا
تھا۔ مموں کا ابھار تو ویسے ہی سامنے تھے ،البتہ مموں کا نچال حصہ نپلز سمیت برا
کی وجہ سے چھپا ہوا تھا ،نیچے نائٹی نہ ہونے کے برابر تھی اور جہاں جہاں تھی وہ
نیٹ کی تھی جسکی وجہ سے جسم نظر آرہا تھا اور اسکے نیچے پینٹی تھی جس نے
پیچھے سے میرے چوتڑوں کو ڈھانپ رکھا تھا اور اسکے اوپر نائٹی تھی۔ نیچے پھر
گوشت سے بھری ہوئی سیکسی تھائز عمران کو پاگل کیے جا رہی تھی۔
عمران مسلسل مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے نہ منہ سے کچھ کہا نہ اپنی جگہ
سے اٹھے۔ وہ تو بس نظروں ہی نظروں میں گویا مجھے چود رہے تھے۔ کچھ دیر
انتظار کرنے کے بعد میں نے کہا ایسے ہی دیکھ کر ساری رات گزار دو گے یا کچھ
کرنے کا بھی ارادہ ہے؟؟؟ میری آواز سن کر عمران کو ہوش آیا تو وہ فورا بولے فائزہ
ڈارلنگ تم قیا مت لگ رہی ہو اس نائٹی میں۔ بہت سیکسی ہو تم۔ میں نے کہا اس
سیکسی کے ساتھ آکر سیکس بھی کروگے یا وہیں بیٹھے رہو گے۔ میری بات سن کر
عمران فورا کھڑے ہوئے اور میری طرف بڑھےاور آتے ہی اپنے ہاتھ میرے پیٹ پر
پھیرنے لگے اور مجھے کولہو ں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور اوپر سے نیچے تک
پھر سے دیکھنےلگے۔
کچھ دیر اسی طرح دیکھنے کے بعد عمران نے اپنی نظریں میرے ہونٹوں پر جما دیں
اور آہستہ آہستہ میرے قریب ہونے لگے۔ اور پھر ایک دم سے عمران کے ہونٹ میرے
ہونٹوں کو چوسنے لگے۔ تھوڑی سی ہی دیر میں عمران نے میرے ہونٹوں کو چوس
چوس کر ساری لپ اسٹک اتار دی تھی ۔ اور عمران کی زبان میرے منہ میں گول گول
گھومنے لگی۔ میں نے بھی عمران کی زبان کو اپنے منہ میں ویلکم کہتے ہوئے اسکو
چوسنا شروع کر دیا۔
کچھ دیر ہم یوں ہی ایکدوسرے کے منہ میں اپنی زبان گھماتے رہے پھر عمران نے
میرے ہونٹوں کو چھوڑ کر گردن کا رخ کیا اور میری گردن کو اپنے ہونٹوں سے
چوسنے لگے اور زبان سے چاٹنے لگے۔ کسی بھی لڑکی کو جب مرد گردن پر پیار کرتا
ہے تو وہ پاگل ہوجاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا اور میں عمران کو پاگلوں کی طرح
پیار کرنے لگی۔ عمران میری گردن پر پیار کررہے تھے جبکہ میں اپنے ہاتھوں سے
عمران کے سر کو پکڑ کر بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی اور کبھی کبھی انکے
ماتھے پر اپنی زبان پھیر دیتی۔ گردن سے فارغ ہونے کے بعد اب عمران کی زبان میرے
مموں کے درمیاں موجود الئن پر تھی اور وہ مسلسل میرے مموں کے ابھاروں کو
چوس رہے تھے۔ عمران کے ہاتھ میرے چوتڑوں پر تھے جن کو وہ بہت زور سے اور
جوش سے دبا دبا کر خوش ہورہے تھے ۔ اچانک ہی عمران نے میرے چوتڑوں سے
میری نائٹی کو پکڑا اور مموں تک اٹھا دی ،وہاں سے میں نے خود مزید اوپر کی اور
اپنے آپکو نائٹی سے آزاد کیا اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کرتی عمران نے ایک ہی
جھٹکے میں میرے مموں کو برا سے بھی آزادی دال دی اور بغیر وقت ضائع کیے میرے
نپلز منہ مین لیکر میرے مموں کا دودھ پینے لگے۔
عمران کے اس اچانک حملے نے مجھے تو جیسے پاگل ہی کر دیا تھا۔ عمران بڑے زور
سے نپلز چوسنے میں مصروف تھے جب بھی عمران کے دانت میرے نپلز سے ٹکراتے
تو میری سسکی نکل جاتی۔ میں نے عمران کو کہا کہ انکو چوسنے کے ساتھ ساتھ ان
پر دانتوں سے بائٹ بھی کرو ،عمران نے ایسا ہی کرنا شروع کیا کبھی نپلز کو ہونٹوں
سے چوتے تو کبھی ان پر کاٹتے اپنے دانتوں سے۔ اور میں مزے سے پاگل ہوکر
چالنے لگی کھا جاو انکو ،اپنی بہن کے مموں کو کھا جاو۔ چبا جاو اپنی بہن کے نپلوں
کو۔ میری یہ باتیں سن کر اور خاص کر بہن کا لفظ سن کر عمران کا جوش مزید بڑھ گیا
اور اب وہ واقعی میں جیسے میرے مموں کو کھانے لگے۔ ایسے لگ رہا تھا تھوڑا سا
زور اور لگایا تو میرے ممے میرے جسم سے علیحدہ ہوجائیں گے۔
نیچے میری چوت کا بھی برا حال تھا جو مکمل گیلی تھی اس وقت اور لن لینے کے لیے
بیتاب تھی۔ میں نے عمران کو اپنے کپڑے اتارنے کا کہا تو وہ فورا ہی اپنے کپڑے
اتارنے لگے کچھ ہی دیر میں انکا 8انچ کا لمبا اور موٹا تازہ لن میرے سامنے تھا ،میں
اس وقت میں ایک پینٹی اور لیگ سٹاکنگز میں تھی اوپر کا جسم بالکل ننگا تھا میرا
البتہ ہیل والے سینڈل ابھی تک پہن رکھے تحھے۔ عمران نے لن ہاتھ میں پکڑا اور
مجھے نیچے بیٹھنے کو کہا تکہ میں لن منہ میں لیکر چوس سکوں۔ مگر اس وقت
میری چوت کے اندر تندور جل رہا تھا اور آگ تھی کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی
تھی۔ میں نے کہا چوسنے کا ٹائم نہیں ابھی میری چوت کی گرمی مٹا دو۔
عمران نے کہا چلو اپنی پینٹی اتارو تو میں نے منع کیا کہ نہیں پینٹی آگے سے اوپن ہے
ایسے ہی چدائی کرو آج اپنی بہن کی۔ پینٹی میں سے ہی لن گھسا دو اپنی بہن کی چوت
میں۔ یہ سننا تھا کہ عمران نے ایسے ہی کھڑے کھڑے میری ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے
بازو پر رکھی اور لن کو میری چوت کے اوپر سیٹ کر کے ایک جاندار جھٹکا مارا اور
سارا لن میری پھدی میں اتار دیا۔ میری ایک زور دار چیخ نکلی اور مجھے پھدی کی
گہرائیوں میں گرم لوہے کا راڈ ہلتا محسوس ہونے لگا۔ مجھے ڈر ہوا کہ میری یہ چیخ
نیچے تک گئی ہوگی مگر اب تو چیخ نکل چکی تھی۔ عمران نے بھی اسکے بعد میرے
منہ پر ہاتھ رکھا اور بولے اب احتیاط کرنا نہیں تو پکڑے جائیں گے ہم۔ یہ کہ کر عمران
نے میری پھدی میں اپنے لن کی مشین چالنی شروع کر دی۔ اور میں نے بھی اپنی گانڈ
ہال ہال کر عمران کے لن کے مزے لینا شروع کر دیے۔ میں نے اپنا چہرہ عمران کے
کندھے پر رکھ لیا تھا اور عمران ہلکا سا جھک کر میری چدائی کرنے میں مصروف
تھے۔ کچھ ہی دیر میں جب اس پوزیشن میں تھکاوٹ محسوس ہونے لگی تو میں نے
عمران کو کہا پوزیشن چینج کریں۔
عمران بولے ٹھیک ہے آج میں اپنی بہن کو کتیا بنا کر چودنا چاہتا ہو لہذا تم فورا کتیا
بن جاو۔ میں نے عمران کے ہونٹوں پر ایک پیار بھری کس کی اور کہا اج اپنی بہن کی
پھدی کے پرخچے اڑا دو کچھ باقی نا بچے۔ چود دو اپنی بہن کو کسی رنڈی کی طرح۔ یہ
کہ کر میں بیٹ پر گئی اور فورا ہی ڈاگی سٹائل میں اپنی گانڈ باہر نکال لی۔ عمران
پیچھے سے آئے اور میرے چوت میں لن داخل کرنا چاہا مگر پینٹی کی وجہ سے صحیح
جگہ پر نا رکھ سکے لن۔ میں نے پینٹی کے کپڑے کو سائیڈ پر ہٹاتے ہوں سامنے والے
اوپن حصے میں جگہ بنائی اور اپنے ہاتھ سے عمران کا لن پکڑ کر پھدی کے سوراخ
پر رکھا ،اس سے پہلے کہ عمران پیچھے سے دھکا مارتے میں نے خود ہی لن سوراخ
پر رکھتے ہی اپنے گانڈ کو پیچھے جھٹکا مارا اور عمران کا لوڑا اپنی پھدی میں داخل
کر لیا۔ ساتھ ہی عمران نے دھکے مارنے شروع کر دیے۔ کچھ دیر تو دھکے برداشت
کیے میں نے مگر پھر 8انچ کے لن نے میری پھدی کو بے دردی سے چیرنا شروع کیا
اور ہتھوڑے میری پھدی کی گہرائیوں پر لگنے لگے تو کمرہ میری آوازوں سے
گونجنے لگا۔ اف میں مر گئی ،آہ آہ آہ آہ ،زور سے چودو ،اور زور سے چودو ،پھار دو
میری پھدی ،آہ آہ ،اف اف اف ،آہ آہ آہ آہ آہ زور سے چودو بھیا ،اور زور لگاو ،لن
کو اتار دو اپنی بہن کی پھدی میں۔۔۔ میری ان آوازوں نے عمران کو وحشی بنا دیا تھا۔
عمران کے طوفانی دھکوں نے کچھ ہی دیر میں میری چوت کا پانی نکلوا دیا ،میرے
جسم کو کچھ جھٹکے لگے اور ساری بیڈ شیت خراب ہوگئی میری چوت کے پانی سے۔
مگر عمران نے اپنے دھکے نہ روکے اور لگاتار اپنی بہن یعنی کے سالی کی چدائی
کرتے رہے۔ کچھ دیر بعد جب عمران تھک گئے اور سانس لینے کو رکے تو میں نے
آگے ہوتے ہوئے لن پھدی سے جدا کر دیا۔ اور بیڈ پر لیٹ کر عمران کو اپنے اوپر آنے
کو کہا۔ عمران نے میری ٹانگیں کھول دیں ،ٹانگوں پر اب بھی لیگ سٹاکنگ موجود
تھی اور پینٹی بھی تھی۔ عمران نے پینٹی کے ہول سے جگہ بناتے ہوئے دوبارہ لن
میری چوت میں داخل کیا اور اپنی مشین ایک بار پھر سے آن کر دی۔ عمران گھٹنوں اور
پیر کے پنجوں کے بل بیٹھے تھے اور اپنی گانڈ ہال ہال کر میری چودائی کر رہے تھے،
میں نے بھی نیچے سے اپنی گانڈ ہالنا شروع کی اور عمران کے دھکوں کے ساتھ اپنی
سپیڈ کو مالیا تاکہ چدائی کا زیادہ سے زیادہ مزہ لیا جا سکے۔ عمران تھوڑا سا آگے
جھکے اور میرے مموں کو بھی دبانے لگے۔ پھر میرے اوپر لیٹ گئے اور میرے ممے
اپنے منہ سے چوسنے لگے اور نیچے سے لن کے دھکے مسلسل جاری تھے۔ جیسے
ہی میرے ممے عمران کے منہ میں گئے تو میں مزے کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔
پھدی کا چدوانا اور ساتھ میں نپلز کا چسوانا کسی بھی لڑکی کو پاگل کرنے کے لیے
کافی ہے۔ اور یہی میرے ساتھ ہو رہا تھا۔ عمران آج بہت جوش میں تھے اور اسکی
ایک وجہ میری سیکسی پینٹی تھی اور دوسری وجہ میں بار بار اپنے لیے بہن کا لفظ
استعمال کر رہی تھی جس کی وجہ سے عمران کا لن میری چوت کا برا حال کیے دے رہا
تھا۔ 5منٹ کی چدائی نے مجھے دوسری بار جھڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جب عمران
کو محسوس ہوا کے میری چوت پانی چھوڑ چکی ہے تو عمران نے اپنا لن میری پھدی
سے نکاال اور مجھے اپنے اوپر آنے کو بوال۔ میں فورا ہی اٹھی عمران نیچے لیٹے اور
میں عمران کے اوپر آنے لگی ،مگر اس پوزیشن میں مجھے اپنے سینڈل اتارنے پڑے
جو میں نے بغیر ٹائم ضائع کیے اتار دیے اور فورا ہی اپنے بہنوئی کے اوپر چڑھ کر لن
اپنی پھدی پر سیٹ کر کے ایک ہی جھٹکے میں لن پر بیٹھ گئی اور لن کو جڑ تک اپنی
پھدی میں اتار لیا۔ پھر فورا ہی میں نے اپنے ہاتھ عمران کے سینے پر رکھے اور
پنجوں کے بل بیٹھ کر اپنی گانڈ کو اوپر اٹھا کر خود ہی گانڈ ہال ہال کر اپنی چودائی
کرنے لگی۔ عمران نیچے بالکل ساکت لیٹے تھے اور اوپر میں اپنی گانڈ کو اچھال اچھال
کر اپنی پھدی کی پیاس بجھانے میں مصروف تھی۔
کچھ دیر کی اچھل کود کے بعد میں تھک گئی تو عمران کے اوپر ڈھے گئی اور مکمل
دہری ہوگئی۔ عمران نے بغیر ٹائم ضائع کیے میرے گانڈ کو اپنے ہاتھوں سے تھوڑا اوپر
اٹھا کر لن اور پھدی کے درمیان فاصلہ پیدا کیا تاکہ وہ نیچے سے دھکے لگا سکیں۔
اور فورا ہی اپنے مضبوط لن کو میری پھدی میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ عمران
کے جاندار دھکوں نے ایک بار پھر میرے جسم میں جان پیدا کی اور میان عمران کے
سینے کا سہارا لکر اٹھ گئیر اوراپنی چداءی کروانے لگی۔ اب کی بار عمران کی سپیڈ
پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی جسکی وجہ سے کمرہ میری چیخوں سے گونج
رہا تھا مگر چوت کہ رہی تھی کہ کوئی بات نہیں اس سے بھی زیادہ سپیڈ ہو تو بھی
برداشت کرنا ہے کیونکہ مزہ تو اسی چدائی میں ہے جو مضبوط لن سے ہو اور فل سپیڈ
کے ساتھ ہو۔ 5منٹ اسی پوزیشن میں عمران میری چوت میں اپنے لن سے کھدائی
کرتے رہے اور جتنا اندر داخل کر سکتے تھے لن کو کرتے رہے۔ باآلخر میری چوت
نے ایک بار پھر ہار مان لی اور اپنا پانی چھوڑ دیا ،میرے پانی چھوڑتے ساتھ ہی
عمران کے لن نے بھی اپنی کریم نکال دی جو میری چوت کی گہرائیوں میں چلی گئی۔
مجھے اپنی چوت میں گرم پانی کا سیالب آتا محسوس ہوا۔ عمران اب فارغ ہو چکے
تھے اور بے سدھ لیٹے تھے۔
کچھ دیر میں بھی انکے اوپر لیٹی ہانپتی رہی اور جب سانس کچھ بحال ہوئی تو میں نے
پوچھا کیسا لگا پھر آج مزہ آیا اپنی بہن کو چود کر؟؟؟ عمران ہنسے اور بولے آج تو
میں بہن چود بن گیا۔ ایسا مزہ آیا کہ پہلے کبھی نہیں آیا۔ اس پوری چدائی کے دوران
ایک بار بھی عمران نے آرام سے نہیں چودا مجھے بلکہ لن اندر داخل کرتے ہی عمران
کے طوفانی دھکے شروع ہوجاتے تھے۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میں نے اپنی پھدی
کو چادر سے صاف کیا اور دوسرے کمرے ِمں جاکر سٹاکنگ اور پینٹی کے اوپر سے
ہی شلوار پہن لی اور پھر قمیص پہن کر نیچے گئی کچن میں جا کر کھانا گرم کیا اور
عمران کے لیے کھانا لے آئی۔
چودائی کے بعد بھوک ضرور لگتی ہے ،مجھے بھی بھوک لگ رہی تھی میں نے بھی
عمران کے ساتھ کھانا کھایا اور کھانا کھانے کے بعد دونوں نے گرم گرم دودھ کا ایک
ایک گالس پیا۔ دودھ پینے کے بعد میں نے دوبارہ سے اپنے کپڑے اتار دیے اور محض
پینٹی میں ہی عمران کے سامنے بیٹھ گئی۔ عمران نے ابھی تک صرف شلوار ہی پہنی
تھی قمیص یا بنیان نہیں تھی۔ میں نے برتن وغیر سائیڈ پر رکھنے کے بعد عمران سے
پوچھا ایک اور راونڈ ہوجائے؟؟؟ تو عمران بولے کیوں نہیں جب بہن خود اپنی چوت
دے رہی ہے تو کون بہن چود انکار کر سکتا ہے؟
یہ سن کر میں عمران کی گود میں جاکر بیٹھ گئی اور ایک بار پھر سے ہم کسنگ کرنے
لگے کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد عمران نے میرے مموں کو منہ میں بھر لیا اور ان
پر پیار کرنے لگے۔ پھر میں نے عمران کا لن اپنے منہ میں لیا اور اسکو کچھ ہی
چوپوں سے مکمل کھڑا کر دیا اسطرح کہ اب وہ پھر سے اپنی بہن کو چودنے کے لیے
تیار تھا۔ مگر اس سے پہہلے کہ عمران میری چودائی کرتے میں نے عمران سے پوچھا
کہ آپ نہ جب مجھے پہلی بار چودا تھا تو مجھے کہا تھا اپنی گانڈ بھی چودنے دو جس
پر میں نے انکار کر دیا تھا اور آپنے کہا تھا کہ آپکا بہت دل کرتا ہے گانڈ پھاڑنے کو
مگر صائمہ نے کبھی اپنی گانڈ کی چدائی نہیں کرنے دی۔ تو عمران نے کہا کہ ہاں دل تو
کرتا ہے۔
میں نے پھر پوچھا ابھی بھی خواہش ہے گانڈ چودنے کی تو عمران کا چہرہ خوشی سے
تمتمانے لگا اور بولے ہاں ہاں کیوں نہیں میں اپنی بہن کی گانڈ ضرور پھاڑوں گا۔ میں
ذور سے ہنسی اور کہا اتنا خوش ہونے کی ضرورت نہیں میں بھی اپنی گانڈ نہیں
چودنے دوں گی آپکو۔ اس بات پر عمران نے برا سا منہ بنایا اور بولے پھر پوچھ کیوں
رہی ہو؟؟؟ میں نے کہا اگر آپ چاہو تو میں آپکو ایک گانڈ دال سکتی ہوں جسکو آپ جی
بھر کر چود سکتے ہو۔ عمران بولے کس کی گانڈ؟؟؟ میں نے کہا وہ ابھی نہ پوچھو بس
اتنا جان لو کہ ایک جوان لڑکی کی گانڈ ہوگی جو میں آپکو دلوا سکتی ہوں۔ عمران بولے
تڑپاو نہیں بتاو بھی کون ہے؟ اور تم کیسے دلوا سکتی ہو مجھے؟؟؟
میں نے کہا بس ہے ایک لڑکی جو خوشی خوشی آپ سے اپنی گانڈ مروائے گی۔ تو
عمران بولے ٹھیک ہے میں ضرور اسکی گانڈ مار کر اسکی خواہش پوری کروں گا۔
میں نے کہا مگر میں یہ کام ایسے ہی نہیں کر دوں گی آپکو بھی اسکے بدلے میرا ایک
کام کرنا پڑے گا۔ وہ بولے کیا کام؟؟؟
تو میں نے کہا کہ آپ نے آج تک میری پھدی نہیں چاٹی۔ اپ میری پھدی چاٹوا ور بدلے
میں آپکو میں ایک ٹائٹ گانڈ دلواوں گی ۔ یہ سن کر عمران نے برا سا منہ بنایا اور کہا
اچھا طریقہ ہے پھدی چٹوانے کا مگر میں تمہاری اس چال میں نہیں آنے لگا میں
کوئ چال نہیں واقعی میں آپکوِ تمہاری پھدی مار کر ہی مزہ لے لوں گا۔ میں نے کہا یہ
ایک گانڈ مل سکتی ہے اگر آپ میری پھدی کو چاٹ لیں تو۔ عمران بولے میں کیسے
یقین کر لوں؟ میں نے کہا میں بھال آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گی۔ آپ سے جھوٹ بول
کر اگر ایک دفعہ اپنی پھدی چٹوا بھی لی تو جب آپکو پتا لگے گا کہ میں نے جھوٹ بوال
تھا تو آپ غصے میں میری ہی گانڈ مار سکتے ہو اور یا پھر یہ بھی کر سکتے ہو کہ
آئندہ مجھے کبھی نہ چودو۔ اور میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ آپکے اس مضبوط لن سے
ہاتھ دھونا پڑیں مجھے۔
میری یہ بات سن کر عمران سوچ میں پڑ گئے اور پھر بولے نہیں یار پھدی بہت گندی
ہوتی ہے میں نہیں چاٹ سکتا۔ میں نے کہا لن کونسا صاف ہوتا ہے میں بھی تو چوستی
ہوں صائمہ بھی چوستی ہے ،اور تو اور آپکی منی بھی اپنے منہ میں نکلواتی ہوں میں
تو آپ میرے لیے میری پھدی نہیں چاٹ سکتے؟؟؟ اور بدلے میں آپکو گانڈ بھی ملے
گی۔ اس پر عمران بولے تو یار کسی اور کی کیوں تم اپنی گانڈ ہی مارنے دو میں تمہاری
پھدی ایک بار نہیں ہزار بار چاٹنے کو تیار ہوں۔ میں نے کہا نہیں مجھ میں اتنی ہمت
نہیں۔ آپ پھدی چاٹو میں آپکو ضرور ضرور گانڈ دلواوں گی۔ اس پر عمران بولے اچھا
بتاو کب؟؟؟ میں کچھ دیر سوچتی رہی کچھ سمجھ نہ آیا پھر میں نے ایسے ہی کہ دیا
جب چ ِھال نہانے کے بعد آپ صائمہ کو ملتان لیکر آو گے تب میں آپکو ایک لڑکی سے
ملواوں گی جسکی آپ دل کھول کر گانڈ مار سکتے ہو۔
عمران بولے پکی بات ہے؟ دھوکہ تو نہیں کرو گی؟؟؟ میں نے کہا اگر آپکو ایسی لڑکی
نا دلوائی تو آپ میری گانڈ مار لینا۔ اس پر عمران نے کہا ٹھیک ہے پھر مگر یہ نہ ہو
کہ تم کسی 40سالہ عورت کو میرے سامنے لے آو کہ اسکی گانڈ مارو۔۔۔ میں نے کہا
آپ فکر نہ کرو جوان لڑکی ہوگی اور جوان ہی گانڈ ہوگی اسکی۔ اس پر عمران نے کہا
ٹھیک ہے منظور ہے اور مجھے فورا بیڈ پر لٹا کر میری ٹانگیں کھول کر اپنا چہرہ
میری پھدی کے قریب کیا مگر پھر رک گئے۔ اور بولے یار یہ گندی ہے۔ میں نے کہا
گانڈ چاہیے تو یہ کرنا پڑے گا ،پھر عمران نے ڈرتے ڈرتے اپنا چہرہ میری پھدی کے
اور قریب کیا اور اپنی زبان باہر نکالی مگر پھدی کے ساتھ لگائی نہیں ،میں نے ایک دم
سے اپنی پھدی کو اوپر اٹھا لیا اور میری پھدی عمران کی زبان پر لگی۔ پھدی جیسے
ہی عمران کی زبان پر لگی تو عمران کو اسکا گیال پن محسوس ہوا اور وہ فورا پیچھے
ہو گئے۔ اور کہا فائزہ تم کچھ اور لے لو گانڈ کے بدلے میں مگر یہ پھدی چٹوانے واال
کام نا کرواو میرے سے۔۔۔۔
میں نے اب کی بار غصے میں کہا میں آخری بار کہ رہی ہوں میری پھدی چاٹو۔ اگر چاٹو
گے تو آپکو ایک جوان لڑکی کی گانڈ دلواوں گی اور اگر نہیں چاٹنی پھدی تو بھول جاو
گانڈ کو اور چپ کر کے اپنا لن میری پھدی میں ڈال دو۔ یہ سن کر عمران نہ چاہتے
ہوئے بھی ایک پار پھر سے میری پھدی پر جھکے اور اپنے چہرہ میری پھدی پر رکھ
دیا۔ مگر زبان باہر نا نکالی ہونٹ ہی میری پھدی پر رکھے ۔ عمران کے ہونٹوں کو اپنی
پھدی پر محسوس کر کے تو جیسے مجھے ایک کرنٹ سا لگ گیا میں نے ہاتھ آگے
بڑھا کر عمران کے سر پر رکھا اور دبا دیا اور نیچے سے پھدی کو بھی اوپر کو اٹھا کر
عمران کے چہرے پر مضبوطی سے اپنی پھدی کے لب لگا دیے۔ عمران کے ہونٹ میری
پھدی سے ضرور لگ رہے تھے مگر ساکت تھے۔ میں نے عمران کو کہا ایسے ہونٹ
رکھنے کا فائدہ نہیں میری پھدی کو چوسو اپنے ہونٹوں سے تو عمران نے آہستہ آہستہ
اپنے ہونٹوں کو میری پھدی کے ہونٹوں پر پھیرنا شروع کیا۔ میری پھدی بہت زیادہ گیلی
تھی کیونکہ میری بہت خواہش تھی عمران سے اپنی پھدی چٹوانے کی جو آج پوری ہو
رہی تھی۔ اور مزے کی بات یہ کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیسے عمران کو کسی
لڑکی کی گانڈ دلواوں گی۔
لیکن میں نے سوچا وہ بعد میں دیکھی جائے گی ،اگر نہ بھی ملی کوئی لڑکی تو میں
اپنی گانڈ ہی دے دوں گی کیونکہ میری گانڈ پہلے رضوان اور اسکا دوست ندیم پھاڑ ہی
چکے ہیں۔ گانڈ مروانے کا ابھی تک مجھے کوئی مزہ تو نہیں آیا تھا اور نہ ہی شوق
تھا مگر پھدی چٹوانے کے لیے میں گانڈ مروانے کو بھی تیار تھی
بحر حال عمران ابھی تک نہ چاہتے ہوئے میری پھدی چاٹ رہے تھے۔ میں نے کہا اب
بہت ہوگیا جیسے میں آپکا لن پیار سے اور جوش سے چوستی ہوں ایسے ہی آپ بھی
چوسو میری پھدی کو۔ نہیں تو گانڈ کو بھول جاو۔ اب کی بار عمران نے اپنی آنکھیں بند
کی اور اپنہ منہ کھول کر زبان باہر نکالی اور میری پھدی پر پھیرنی شروع کر دی۔
عمران کی زبان نے میری پھدی میں آگ لگا دی۔ کچھ دیر میری پھدی میں زبان پھیرنے
کے بعد اپنی آنکھیں کھولیں اور میری پینٹی اتار دی۔ اور دوبارہ سے میری ٹانگیں
کھول کر اپنی زبان میری پھدی پر رکھ کر سوراخ میں داخل کر دی۔ اور زبان سے ہی
میری چودائی کرنے لگے۔ اب کی بار عمران کی جھجھک بالکل ختم ہوگئی تھی اور وہ
جوش کے ساتھ میری پھدی چاٹ رہے تھے ،میں نے بھی جوش میں اپنی پھدی کو
اوپر اٹھا اٹھا کر ہال ہال کر مزے لینے شروع کر دیے۔ پھر میں نے اپنی ٹانگیں اٹھا کر
عمران کی گردن کے گرد لپیٹ لیں اور نیچے سے اپنی پھدی کو ہالنا شروع کر دیا۔ میں
اپنی گانڈ اوپر نیچے ہال رہی تھی اور عمران کی زبان مجھے پاگل کیے جا رہی تھی۔
مجھے محسوس ہوا کہ میرا پانی نکلنے واال ہے میں نے اور سپیڈ سے اپنی گانڈ ہالنا
شروع کی اور عمران کے گرد اپنی ٹانگیں اور مضبوطی سے جما لیں
عمران کو اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ میں جھڑنے والی ہوں۔ عمران میری پھدی کو
چاٹنے میں مصروف تھے اور میری سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں کہ اچانک ہی
میرے جسم کو جھٹکے لگے اور میری چوت کا پانی عمران کے چہرے پر ڈلتا چال گیا۔
عمران نے فورا پیچھے ہٹنے کی کوشش کی مگر ٹانگیں گردن کے گرد ہونے کی وجہ
سے وہ پیچھے نہیں ہٹ سکے۔ کچھ پانی انکے منہ میں گیا مگر انہوں نے فورا ہی منہ
بند کر لیا باقی کا پانی انکے چہرے پر گرا۔ جب سارا پانی نکل گیا تو میں نے ٹانگیں
کھول دیں اور عمران فورا پیچھے ہوگئے اور واش روم میں بھاگ گئے۔ وہاں جا کر
انہوں نے منہ میں موجود سارا پانی نکال دیا اور کافی دیر تک کلی کرتے رہے۔ اپنا
چہرا دھویا اور پھر باہر آگئے۔
وہ بالکل بھی خوش نہیں تھے مگر میں بہت خوش تھی کہ جس نے آج تک اپنی بیگم
کی پھدی نہیں چاٹی اس نے آج نہ صرف میری پھدی چاٹی بلکہ اپنی زبان سے میرا
پانی بھی نکلوا دیا۔ میں فورا عمران کے پاس گئی اور انکا شکریہ ادا کیا اور کہا اب
آپکو ایسی گانڈ دلواوں گی کہ آپ کو مزہ آجائے گا۔ عمران بولے اگر نہ دلوائی تو
تمہاری گانڈ کی خیر نہیں میں پھاڑ کر ہی رہوں گا۔ میں نے کہا فکر نہ کرو ضرور ملے
گی آپکو گانڈ۔ یہ کہ کر میں نے عمران کا لن جو بالکل بیٹھ چکا تھا اپنے منہ میں لے
لیا اور اسکو چدائی کے لیے تیار کرنے لگی۔ کچھ ہی دیر کے چوپوں کے بعد عمران کا
لن کھڑا ہو چکا تھا اور میں اب عمران کے لن کی سواری کر رہی تھی۔ عمران بھی اس
وقت مجھے پہلے سے زیادہ جوش سے چود رہے تھے کیونکہ انکو میرے پر غصہ
تھا۔ اور وہ اپنے اس غص کا اظہار اپنے لن کے ذریعے کر رہے تھے۔ عمران نے بہت
بے دردی کے ساتھ مجھے چودا اور ہر اس پوزیشن میں چودا جس میں وہ چود سکتے
تھے ۔ رات کے 3بجے عمران میری چودائی سے فارغ ہوئے تو میں نے جلدی جلدی
کپڑے پہنے پینٹی کو واپس ایک شاپنگ بیگ میں ڈال دیا اور عمران کا اس شاندار
چدائی پر شکری ادا کرنے کے بعد نیچے آگئی اور صائمہ کے ساتھ لیٹ کر سوگئی۔
اس دن عمران نے بہت ظالم چدائی کی تھی صبح اٹھی تو مجھ سے ٹھیک سے چال بھی
نہیں جا رہا تھا مگر میں نے کسی کو محسوس نہیں ہونے دی یہ چیز۔ اس دن کے بعد
میں مزید 4دن الہور رہی اور اس دوران عمران نے 2بار مزید میری چودائی کی۔ ہر
چودائی سے پہلے میں نے عمران کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بہن کی پھدی بھی چاٹیں اور
عمران نے ہر بار پھدی چاٹنے کے بعد اپنا غصہ اپنے لن کے ذریعے نکاال۔ باآلخر 4دن
کے بعد عمران مجھے ڈائیو پر بٹھانے لے گئے۔ بس کا انتظار کرتے ہوئے عمران نے
ایک بار پھر کہا کہ اپنا وعدہ نہ بھولنا۔ اگر تم نے جوان لڑکی کی گانڈ نہ دلوائی تو
سمجھو تمہاری گانڈ تو گئی کام سے۔ میں نے بھی عمران کو کہا کہ آپ بے فکر
ہوجائیں۔ ایسی گانڈ دلواوں گی کہ آپ دعائیں دیں گ مجھے۔ پھر کچھ ہی دیر بعد میں
بس میں بیٹھی تھی۔ واپسی پر میرے پاس بہت سی یادیں تھیں۔ ایک ہفتہ بہن کے پاس
رہی ،اپنے ننھے منھے سے بھانجے کی خوبصورت یادیں اور اپنے بہنوئی سے چدائی
کی سیکسی یادیں۔ یہ سب یادیں لیکر میں واپس ملتان آگئی تھی اپنے گھر جہاں میرے
منگیتر کے لن سمیت بہت سے لن مجھے چودنے کے لیے تیار تھے۔
الہور سے ملتان تک کا سفر ڈائیو میں بہت آرام سے گزارا میں۔ گو کہ میں اکیلی تھی
مگر ڈائیو کا سفر ہمیشہ سیف ہوتا ہے۔ 4سے 5گھنٹے کے سفر کے بعد میں شام کے
7بجے اپنے گھر پہنچی تو گھر میں تما م لوگ موجود تھے سب بہت خوشدلی سے
ملے اور صائمہ اور عامر کا حال پوچھا اور میرا موبائل لیکر انکی تصویریں دیکھنے
لگے۔ رضوان بھی الہور سے واپس آچکا تھا ملتان اور وہ بھی گھر پر ہی تھا۔ ہم سب
لوگ اکٹھے تھے کافی دیر تک باتیں ہوتی رہیں پھر رات کو 9بجے کھانا کھایا اور پھر
رضوان واپس ہاسٹل جانے کی تیاری کرنے لگا۔ واپسی کے لیے نکلنے سے پہلے
رضوان نے موقع دیکھ کر مجھے بتایا کے اسکا لن میری پھدی کے لیے بے چین ہورہا
ہے لہذا میں کل ہی اس سے ملنے کا پروگرام بناوں۔ میں تو پہلے ہی تیار تھی۔ میں نے
کوئ پروگرام بن جائے گا۔
ِ بھی کہا کہ فکر نہ کرو کل نہیں تو پرسوں تک کوئی نہ
اسکے بعد رضوان نے میرے لبوں پر اپنے لب رکھ کر ایک لمبی سی کس کی اور پھر
چال گیا۔
رات کو 11بجے کے قریب ہم سب گھر والے اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے
چلے گئے۔ مجھے تو فورا ہی نیند آگئی ،الہور میں سوائے چند دنوں کے میں صحیح
طور پر سو بھی نہ سکی تھی۔ صبح 10بجے اٹھ کر ناشتہ کیا اور اسکے بعد کچھ دیر
پھر امی کے پاس بیٹھ گئی۔ امی پھر سے عامر کے بارے میں پوچھنے لگیں۔ کچھ دیر
بعد جب امی گھر کے کاموں میں مصروف ہوئیں تو میں نے اپنا سامان نکاال بیگ سے
اور واپس اپنی جگہ پر رکھنے لگی۔ اسی سامان میں عمران کی دی ہوئی نائٹی بھی
ملی ،وہ بھی میں نے اپنی الماری میں کپڑوں کے نیچے چھپا کر رکھ دی۔ مگر پھر
مجھے عمران کا لن یاد آنے لگا جس سے میں نے خوب چدائی کروائی تھی الہور میں۔
اور اسکے یاد آتے ہی میری پھدی میں کھجلی ہونے لگی۔ 15منٹ تو میں نے کھجلی
برداشت کی مگر اسکے بعد میری برداشت جواب دینے لگی تو میں نے فورا ہی رضوان
کو فون کیا اور اسکو ملنے کی جگہ پوچھی تو اسنے علی کے گھر ہی آنے کو کہا۔ میں
فورا ہی تیار ہوئی اور امی کو سائرہ کے گھر جانے کا کہ کر گھر سے نکل گئی اور
سیدھا علی کے گھر پہنچی۔ دروازہ کھال ہی تھا میں اندر داخل ہوگئی نیچے کمرے میں
پہچی تو رضوان اور علی دونوں موجود تھے۔
مگر آج اس گھر میں سناٹا تھا۔ پہلے ایک بار پارٹی پر آئی تھی تو کافی ہنگامہ تھا یہاں
پر جب میں پہلی بار ندیم کی گود میں بیٹھی تھی اور پینٹ کے اندر سے اسکے لن کا
ابھار اپنی گانڈ پر محسوس کیا تھا۔ اسکے بعد جب آئی تو بھی یہاں پر لڑکے اور لڑکیاں
موجود تھے اور ندیم ایک لڑکی کی چدائی بھی کر رہا تھا جس کو بعد میں ندیم اور
رضوان نے ملکر چودا تھا اور پھر ندیم نے پہلی بار میری گانڈ پھاڑی تھی۔ مگر آج
یہاں علی اور رضوان کے عالوہ اور کوئی نہیں تھا۔ میرے اندر داخل ہوتے ہی رضوان
آگے بڑھا اور مجھے زور سے جپھی ڈال لی اور میرے ہونٹوں کو چومنے لگا۔ پھر بوال
کہ آج بہت دن کے بعد ملی ہو تم بہت یاد آئی تم مجھے۔ اور میرا لن بھی تمہارے بغیر
بہت اداس رہا۔ میں نے فورا جواب دیا کہ ایسا تو نہیں ہوسکتا تم نے یقینا رافعہ کی
چوت سے اپنے لن کی پیاس بجھائی ہوگی یا پھر علی کی گرل فرینڈ کی گانڈ پھاڑی
ہوگی۔ یہ سن کر رضوان بھی ہنس دیا اور علی کی بھی ہنسنے کی آواز آئی اور وہ بوال
کہ فائزہ جی رضوان نے تو میری گرل فیرنڈ کی چوت میں اپنا لن ڈال دیا مگر رضوان
کی گرل فرینڈ کب ہمارے لنڈ کی سواری کرے گی؟
یہ سن کر رضوان بھی ہنسا اور مجھے علی کے پاس لے گیا اور اسکی گود میں بٹھا
تے ہوئے بوال آج دونوں بھائی مل کر فائزہ کی مارتے ہیں۔ میرے لیے اب یہ کوئی نئی
بات نہیں تھی۔ علی نے بھی فورا ہی اپنی بانہیں پھیال کر مجھے کمر سے کس کر پکڑ
لیا اور مجھے کسنگ کرنے لگا۔ میں نے بھی فورا ہی اسکو رسپانس دیا اور پیچھے
سے رضوان نے میری گردن پر کسنگ شروع کر دی۔
کچھ ہی دیر میں رضوان میری قمیص اتار چکا تھا اور میرے مموں کو برا کی قید سے
آزاد کر چکا تھا۔ اب علی میرے مموں کو اپنے منہ میں لیکر کسی بچے کی طرح انکا
دودھ پی رہا تھا جبکہ رضوان میری کمر پر اپنی زبان سے مساج کرنے میں مصروف
تھا۔ میں زیادہ مزہ لینے کے لیے علی کی گود میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی جس سے
میرے ممے اور اوپر ہوگئے اور علی بڑے آرام سے انہیں اپنے منہ میں لیکر چوسنے
لگا تو رضوان نے میری شلوار گھٹنوں تک نیچے کی اور پیچھے سے میری گانڈ میں
اپنی زبان گھمانے لگا۔ گھر سے چلنے سے پہلے میں نے خاص طور پر ٹب کے پانی
میں گالب کے عرق کے چند قطرے مالئے تھے اور اس پانی سے غسل کیا تھا اور
اسے خاص طور پر اپنی چوت اور گانڈ پر بھی اچھی طرح ڈاال تھا جسکی وجہ سے
میری گانڈ سے گالب کی خوشبو آرہی تھی اور رضوان مسحور ہوکر میری گانڈ چوسنے
میں مصروف تھا ساتھ ہی اسنے ایک ہاتھ آگے بڑھا کر اپنی بڑی انگلی میری چوت میں
داخل کر دی۔ چوت میں انگلی داخل ہوتے ہی چوت کی دیواریں گیلی ہونے لگیں اور میرا
جسم لن کی طلب کرنے لگا۔ میں نے کچھ دیر انگلی سے چدائی کرنے کے بعد رضوان
کو پیچھے کیا اور علی کی گود سے اتر کر نیچے بیٹھ گئی اسکی پینٹ کی زپ کھول کر
اسکا لن نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔
علی کا لن 7انچ کا تھا۔ لمبائی رضوان کے لن کے برابر ہی تھی مگر موٹائی میں تھوڑا
زیادہ تھا خاص کر اسکی ٹوپی کا سائز بڑا تحا۔ ٹوپی کی سائز سے مجھے اندازہ ہوگیا
تھا کہ آج کی چدائی میں بھی بہت مزہ آئے گا۔ میں مکمل ننگی تھی اب اور علی کا لن
اپنے منہ میں لیکر اسکے چوپے لگانے میں مصروف تھی۔ جب کہ رضوان بھی اپنی
پینٹ اتار کر اپنا لن میرے منہ کے قریب ال چکا تھا۔ میں کبھی علی کے لن کو منہ میں
ڈال کر چوپا لگاتی تو کبھی رجوان کے لن سے اسکا جوس پینے کے لیے اسے منہ
میں ڈال لیتی۔ 5منٹ کے چوپوں کے بعد میں اپنی جگہ سے اٹھی اور علی کی گود میں
بیٹھ گئی۔ علی کی گود میں بیٹھ کر میں نے اسکے لن کو اپنی چوت کے سوراخ پررکھا
اور ایک ہی جھٹکے میں پورا لن اپنی چوت میں داخل کر لیا۔ ہلکی سی چیخ کے ساتھ
ہی میں نے علی کے لن پر اچھلنا شروع کر دیا اور نیچے سے علی نے بھی دھکے
لگانے شروع کیے جبکہ رضوان کا لن میرے ہاتھ میں تھا اور میں اسکی مٹھ بھی مار
رہی تھی۔
علی کے لن کا ردھم بہت زبردست تھا اسکی حرکت میری اچھل کود کے ساتھ مکمل
طور پر ہم آہنگ تھی ،جیسے ہی میں اوپر اٹھتی علی اپنے لن کو نیچے کی طرف لیکر
جاتا اور اسکے لن کی ٹوپی قریب قریب میری چوت سے باہر نکلنے کو ہوتی مگر باہر
نکلنے سے پہلے ہی میں واپس نیچے بیٹھتی تو علی بھی اپنے لن سے واپس اوپر کی
طرف دھکا لگاتا۔ اچھل کود کی اس ہم آہنگی کی وجہ سے علی کا لن جڑ تک میری
چوت میں جا کر اپنا کام کر رہا تھا۔ 5منٹ میں ہی میری چوت نے پانی چھوڑ دیا تو
علی نے مجھے اپنی گود سے اتارا اور بیڈ پر لٹا دیا۔ پھر علی میرے اوپر جھکا اور
اپنی زبان سے میری چوت کا پانی چاٹنے لگا۔ میری چوت کا پانی اپنی زبان سے صاف
کرنے کے بعد اب وہ بہت سپیڈ کے ساتھ اپنی زبان سے میری پھدی چاٹ رہا تھا جبکہ
رضوان کا لن میرے منہ میں تھا اور میں اسکے چوپے لگانے میں مصروف تھی۔
کچھ دیر بعد علی نے میری دونوں ٹانگوں کو اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ لیا اور اپنا لن
میری چوت میں داخل کر کے اپنی مشین کو فل سپیڈ میں چال دیا۔ میرے ممے علی کے
لن کے دھکوں کے ساتھ ساتھ اوپر نیچے فل سپیڈ میں ہل رہے تھے اور مجھے اپنی
رحم گاہ تک علی کا لن لگتا محسوس ہو رہا تھا۔ اس بار علی میری ٹانگیں اٹھا کر
مجھے چود رہا تھا اس لیے اسکی سپیڈ پہلے سے زیادہ تھی اور میرے لیے اسکے
دھکوں کو برداشت کرنا مشکل ہورہا تھا۔ میری ہلکی سسکیاں نکلنا شروع ہوئیں تو
رضوان اپنی ٹانگیں پھیال کر میرے سینے ے اوپر آگیا اور اپنا لن میرے منہ میں داخل
کر دیا۔ اب میری چوت میں علی کا لن چودائی کر رہا تھا اور منہ میں رضوان کا ن
چودائی کرنے میں مصروف تھا۔ اب میرے لیے سانس لینا بھی مشکل ہورہا تھا کیونکہ
نیچے علی کے زور دار دھکے تھے اور سینے پر رضوان بیٹھ کر اپنا لن میرے منہ
میں ڈالے ہوئے تھا۔ گوکہ رضوان نے اپنا وزن میرے سینے پر نہیں ڈاال تھا مگر اسکا
لن میرے منہ میں ہونے کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری تحی۔ رضوان چند
سیکنڈ کے لیے اپنا لن باہر نکالتا اور جیسے ہی میری سانس بحال ہوتی وہ دوبارہ اپنا
لن میرے منہ میں ڈال دیتا۔
کچھ دیر میں میرے جسم میں سوئیاں رینگنے لگی اور اور میرے جسم نے چند جھٹکے
کھانے کے بعد اپنا پانی چوت کے راستے چھوڑ دیا۔ چوت کا پانی نکلتے ہی علی سائیڈ
پر ہوگیا اور رضوان بغیر ٹائم ضائع کیے نیچے لیٹ گیا اور مجھے اپنے اوپر آنے کو
کہا۔ میں بھی فورا رضوان کے اوپر بیٹھ گئی اور اسکا لن اپنی چوت میں ڈال کر اس پر
اچھلنے لگی۔ پھر رضوان نے مجھے اپنے اوپر جھکا لیا اور مجھے خوب جوش کے
ساتھ چودنے لگا۔ کچھ دیر اس پوزیشن میں چودائی کے بعد علی بھی میرے پیچھے آگیا
اور میری گانڈ میں انگلی داخل کر کے چکنائی کا اندازہ کرنے لگا۔ پھر اسنے میری گانڈ
پر تھوک کا گوال پھینکا اور انگلی ڈال کر اسکو چکنا کرنے لگا جبکہ رضوان نیچے
سے دھکے لگانے میں مصروف تھا۔
علی نے رضوان کو دھکے روکنے کا کہا اور اپنا لن میری گانڈ پر رکھا تو میں رضوان
کے لن سے اترنے لگی کیونکہ علی میری گانڈ مارنے کے لیے تیار تھا۔ مگر علی نے
مجھے رضوان کے لن سے اترنے نہیں دیا اور کہا ہم اکٹھے تمہیں چودیں گے رضوان
تمہاری چوت مارے گا اور میں گانڈ ماروں گا۔ میں نے منع کیا مگر انہوں نے میری
ایک نہیں سنی اور علی نے اپنے لن کا پریشر میری گانڈ پر بڑھایا تو اسکی ٹوپی میری
گانڈ میں داخل ہوگئی۔ میری ایک زور دار چیخ نکلی۔ ایک ہی وقت میں گانڈ اور چوت
میں لن لینے کا یہ پہال تجربہ تھا جو کہ کافی تکلیف دہ تھا۔ مگر کچھ ہی دیر میں جب
علی کا پورا لن میری گانڈ میں جاچکا تو دونوں نے اچھے اور ہلکے ردھم کے ساتھ
دھکے لگانا شروع کر دیے تھے۔
نیچے چوت میں رضوان کا لن سیر کر رہا تھا تو اوپر گانڈ میں علی کا لن میری چیخیں
نکلوا رہا تھا۔ یہ چیخیں شروع میں تو درد کی وجہ سے تھیں مگر پھر مزے کی شدت
بڑھنے لگی تو یہی چیخیں سسکیوں میں تبدیل ہوگئیں اور دونوں لن اپنی سپیڈ بڑھانے
لگے۔ رضوان کی سپیڈ ابھی تک فل نہیں ہوئی تھی مگر علی کا لن اب فل سپیڈ میں
میری گانڈ بجا رہا تھا اور کچھ ہی دیر میں مجھے اپنی گانڈ میں گیال پن محسوس ہوا۔
علی کا لن پانی چھوڑ چکا تھا۔ کچھ دیر جھٹکے مارنے کے بعد وہ سائیڈ پر ہوگیا تو
رضوان نے بھی اپنا لن میری چوت سے نکال لیا اور مجھے گھوڑی بننے کو کہا۔ میں
گھوڑی بنی تو رضوان نے پیچھے سے اپنا لن میری چوت میں داخل کیا اور میرے
لٹکتے ہوئے مموں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر میری چودائی کرنے لگا۔ اس پوزیشن میں
رضوان اپنی پوری طاقت کے ساتھ دھکے لگا رہا تھا اور چدائی کا مزہ دوباال کر رہا تھا۔
کچھ ہی دیر میں اس نے میری چوت کو پانی چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔
چوت گیلی ہونے اور پانی سے بھرنے کے بعد رضوان نے اپنا لن چوت سے نکاال اور
بغیر ٹائم ضائع کیے اسی پوزیشن میں اپنا لن میری گانڈ میں داخل کر دیا جسکو علی
پہلے ہی کافی کھال کر چکا تھا۔ 3منٹ میری گانڈ مارنے کے بعد رضوان کا لن بھی
چھوٹ گیا۔ میں نڈھال ہوکر گر گئی اور رضوان بھی میرے اوپر ہی لیٹ گیا۔ پھر علی
بھی ساتھ آیا اور مجھ سے پوچھا کہ مجھے اسکا لن کیسا لگا؟؟؟ میں نے مسکرا کر
اسکی طرف دیکھا اور کہا مزہ دیا ہے تمہارے لن نے بھی۔ یہ کہ کر میں تھوڑا سا
اسکی طرف ہوئی اور اسکو کسنگ کرنے لگی اور اسکا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسکو
مسلنے لگی۔ وہ اس وقت بیٹھا ہوا تھا۔ علی نے بھی میرے جسم پر ہاتھ پھیرنا شروع
کیا جس سے میری گرمی پھر بڑھنے لگی اور علی کا لن بھی کھڑا ہونے لگا۔
منٹ کے بعد ایک بار پھر کمرہ میری سسکیوں سے گونجنے لگا اور میری گانڈ اور 5
چوت دونوں میں ایک ساتھ لن اندر باہر جا رہا تھا۔ رضوان اور علی نے دوسرا راونڈ
مکمل کیا اور خوب جم کر میری چوت اور گانڈ کی چدائی کی۔ آج پہلی بار مجھے اپنی
گانڈ مروانے کا مزہ آیا تھا۔ اسکی وجہ شاید یہی تھی کہ بار بار چدائی سے اب گانڈ لن
کی عادی ہوچکی تھی۔ دوسرا راونڈ مکمل ہونے کے بعد ہم تینوں نے اپنے اپنے کپڑے
پہنے اور علی فریج میں سے کچھ پھل اور جوس لے آیا جو ہم تینوں نے ملکر کھائے
اور شام ہونے سے پہلے میں گھر واپس آگئی۔
گھر واپس آئی تو میں بہت خوش اور مطمئن تھی۔ گانڈ میں درد ضرور تھا مگر آج گانڈ
مروانے میں مزہ بھی خوب مال تھا۔ رات کے کھانے پر سب اکٹھے تھے میں بہانے سے
فیاض کو اسکے کمرے میں لے گئی اور اس سے اسکے ایڈمیشن کے بارے میں پوچھا
تو وہ بوال کہ تمام لڑکوں کے ایڈمیشن بھیجے جا چکے ہیں مگر اسکا ایڈمیشن نہیں
بھیجا سر نے اب وہ پرائیویٹ بھیجے گا ایڈیمیشن یا پھر ایک سال ضائع کرے گا۔ یہ سن
کر مجھے بہت مایوسی ہوئی اور سوچا کہ ایک بار پھر سے سر اسلم سے ملوں اور
انسے گزارش کروں۔ مگر پھر مجھے انکا وہ ہتک آمیز رویہ یاد آگیا اور میں نے اپنا
ارادہ ترک کر دیا۔ اور یہی بہتر سمجھا کہ فیاض اپنا ایڈیمیشن پرائیویٹ ہی بھیج دے۔
ایک سال ضائع ہونے سے تو بچ جائے گا۔
یہ طے کر کے میں واپس اپنے کمرے میں آگئی۔ اگلے دن سب کچھ روٹین کے مطابق
چل رہا تھا۔ فیاض سکول تھا جبکہ میں اپنے کالج گئی تھی کافی دن کے بعد۔ کالج میں
سائرہ سے بھی سامنا ہوا اور اسنے مجھ سے پوچھا کہ میں اتنے دن کہاں رہی
کونٹیکٹ کیوں نہیں کیا۔ پہلے تو میرا بالکل دل نہیں کیا اس سے بولنے کو مگر پھر
اسی میں بہتری سمجھی کہ فی الحال اس سے بنا کر رکھی جائے تاکہ اسے معلوم نہ ہو
کے اسکے بھائی حیدر کا سمیرا سے رشتہ تڑوانے میں میرا بڑا ہاتھ تھا۔ میں نے اسے
اپنے بھانجے کی پیدائش کا بتایا جس پر وہ بہت خوش ہوئی۔ کالج سے چھٹی کے بعد
حیدر اپنی گاڑی میں سائرہ کو لینے آیا مجھ سے نظریں ملنے پر اسنے نظریں جھکا
لیں۔ الزمی طور پر وہ مجھ سے شرمندہ تھا اپنی نامردی پر۔ سائرہ اسکے ساتھ گھر
واپس چلی گئی جبکہ میں واپس اپنے گھر آنے کے لیے رکشہ میں بیٹھ گئی۔
گھر پہنچی تو سامنے فیاض میرا ہی انتظار کر رہا تھا۔ میرے گھر داخل ہوتے ہی وہ بوال
کہ آج سر اسلم ملے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ اپنی باجی سے ملواو تمہارے
ایڈیمیشن کے لیے کچھ کرتے ہیں۔ اور مجھے سر اسلم کا نمبر دیتے ہوئے بوال انکو
فون کر لیں وہ کہ رہے تھے آج ہی اپنی باجی سے ملواو نہیں تو ایڈمیشن بھیجنے میں
مسئلہ ہو سکتا ہے۔ دوپہر کے 3بج رہے تھے۔ کال ٹائم تو ختم ہو چکا تھا مگر پھر
بھی میں نے سر اسلم کو کال کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں خوش تھی کہ چلو اب فیاض کا
داخلہ جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی میرے ذہن میں یہ سوال بھی گردش کرنے لگا کہ کیا سر
فیاض اب مجھے چودنا چاہتے ہیں؟؟؟ ہو سکتا ہے کہ وہ میرے بارے میں سوچ رہے
ہوں اور آخر کر اپنے لن کے سامنے ہار مان لی ہو اور یہ فیصلہ کیا ہو کہ میری چدائی
کرنے کی صورت میں وہ فیاض کا داخلہ بھیج دیں گے۔
یہ سوچ کر میں نے سر فیاض کو کال کی۔ میری آواز سنتے ہی انہوں نے کہا "فائزہ
بیٹا" کیسی ہو تم؟؟ یہ سن کر میں ایک بار پھر حیران ہوئی کہ اگر سر نے مجھے
چودنے کا پروگرام بنایا ہے تو مجھے "بیٹا" کہ کر کیوں بال رہے ہیں؟؟؟ میں نے حیرت
بھرے لہجے میں کہا میں ٹھیک ہوں سر آپ کیسے ہیں۔ تو انہوں نے میری بات کا
جواب دینے کی بجائے کہا کہ تم ابھی مجھ سے ملو میں ایڈمیشن بھیج دوں گا۔ مگر
اسکے لیے ضرور ہے کہ ابھی مجھ سے آکر ملو۔ اب مجھے دوبارہ سے یقین ہونے
لگا کہ ہ میری چوت کے لیے تڑپ رہے ہیں میرے جسم نے ان پر اپنا جادو چال دیا ہے۔
میں نے پوچھا کہ سر کالج ٹائم تو ختم ہے تو وہ بولے تم میرے گھر آجاو اور ساتھ ہی
مجھے گھر کا ایڈریس بھی سمجھا دیا۔ اور بولے میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں جلدی آو۔
میں کالج سے تھکی ہوئی آئی تھی اور کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ اب سر سے بات کرنے
کے بعد امی کو بتایا کہ فیاض کے ایڈمیشن فارم میں کوئی مسئلہ ہے تو اسکے سر نے
مجھے بالیا ہے۔ امی نے کہا فیاض کو ساتھ لے جاو۔یہ سن کر مجھے اپنے اوپر غصہ
آنے لگا کہ آخر میں نے ایسا کیوں کہا۔ اب اگر سر کا پروگرام میری چودائی کا ہے تو
فیاض وہاں جا کر کیا کرے گا؟ یہ تو کباب میں ہڈی والی بات ہے۔ اب میں بہانے
سوچنے لگی مگر کوئی بہانہ نہ بن پایا اور مجبورا فیاض کو لیکر میں سر اسلم کے
گھر کی طرف چل پڑی۔
فیاض کے ساتھ میں گھر سے چل تو پڑی مگر راستے میں بھی سوچتی رہی کہ آخر اس
سے کیسے پیچھا چھڑایا جائے۔ میں نے اس سے اسکو دوستوں کے بارے میں پوچھا
کہ آج کل کیا کر رہے ہو تم لوگ ،باتوں باتوں میں اسکو تھوڑا سا کہنے کی کوشش
کری کہ اگر اسکو کسی دوست کی طرف جانا ہے تو وہ چال جائے سر اسلم سے میں کر
لوں گی ساری بات۔ مگر فیاض نے ذرہ برابر بھی ارادہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ کسی دوست
کی طرف جانا چاہتا ہے۔ آخر کار ہمارا رکشہ سر اسلم کے گھر کے سامنے جا کر رکا۔
یہ ایک بڑا اچھا گھر تھا ،بلکہ کوٹھی کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ گیٹ پر چوکیدار کھڑا
تھا میں نے اسکو بتایا کہ سر کو جا کر بتائے کے فائزہ آئی ہے اپنے بھائی کے ساتھ۔
چوکیدار نے ہم دونوں کو اندر الن میں بیٹھنے کو کہا اور خود گھر کے اندر داخل ہوگیا۔
کچھ ہی دیر بعد وہ دوبارہ باہر آیا اور بوال کہ آپ دونوں کو سر بال رہے ہیں اندر۔ فیاض
اور میں اپنی جگہ سے اٹھے اور چوکیدار کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ ایک کمرے کے
سامنے لیجا کر اس نے ہمیں اندر داخل ہونے کو کہا اور خود واپس چال گیا۔
فیاض اور میں کمرے میں داخل ہوئے تو سر فیاض کمرے میں ٹہل رہے تھے انکے
چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ کافی پریشان ہیں۔ انہوں نے مجھے اندر کرسی پر بیٹھنے
کو کہا اور فیاض نے آگے بڑھ کر انسے ہاتھ مالیا۔ انہوں نے فیاض کو کھا جانے والی
نظروں سے دیکھا اور بہت بے رخی سے اسکے ساتھ مصافحہ کیا اور اسے بھی
بیٹھنے کو کہا۔ ہم دونوں بیٹھ گئے تو سر اسلم بھی ہمارے سامنے ہی ایک کرسی رکھ
کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر وہ خاموش بیٹھے رہے پھر مجھ سے بولے "فائزہ بی بی کیا تم
اس بات کی گارنٹی دیتی ہو کہ تمہارا بھائی پاس ہوجائے گا؟ " ۔۔ میں نے کچھ توقف کیا
اور کہا جی سر میں خود اس پر توجہ دوں گی اور والد صاحب کے نوٹس میں بھی الوں
گی کہ فیاض پڑھائی میں توجہ نہیں دے رہا تو والد صاحب بھی اس پر خود توجہ دیں
گے اور یہ اچھے نمبروں سے پاس ہوجائے گا۔
یہ بات کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ سر میری بات سن ہی نہیں رہے بلکہ وہ
کسی سوچ میں گم ہیں۔ پھر اچانک وہ بولے کہ فیاض مجھے مارکیٹ سے ایک بال
پوائینٹ اور ایک سٹیمپ الدو کچھ ضروری ڈاکومنٹس بنانے ہیں تمہارے۔ یہ کہتے ہوئے
انہوں نے جیب سے پیسے نکالے تو فیاض نے کہا نہیں سر آپ رہنے دیں میں لے آوں
گا۔ اس پر سر غصے سے بولے مجھے ایسی رشوت نہیں چاہیے ،تم یہ پیسے پکڑو
اور تھوڑا ہی دور مارکیٹ ہے وہاں سے یہ چیزیں لے آو۔ فیاض نے سر سے پیسے
پکڑے اور کمرے سے نکل گیا۔ سر نے کچھ دیر دروازیں پر ہی نظریں گاڑے رکھیں اور
کچھ نہ بولے۔
پھر اچانک وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور بولے دیکھو فائزہ بیٹا اس دن تم میرے
پاس آئیں تھیں اور تم نے مجھے بہت ہی غلط قسم کے اشارے کیے تھے اور اپنی طرف
مائل کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ میں تمہارے بھائے کا ایڈیمیشن بھیج دوں۔ ۔میں نے
سر کی بات کاٹی اور بولی جی سردراصل میں نہیں چاہتی کہ میرا بھائی پڑھائی میں
پیچھے رہ جائے اس لیے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں اسکے لیے کسی بھی حد تک
جا سکتی ہوں۔
میری بات ختم ہوتے ہی سر دوبارہ سے بولے کہ کیا واقعی تم کسی بھی حد تک جا
سکتی ہو؟؟
سر پھر بولے اگر اس دن میں تمہاری طرف مائل ہوجاتا تو تم کس حد تک جا سکتی
تھیں؟
سر نے پھر ایک دم سے پوچھا اور میں تمہاری عزت پر ہاتھ ڈالتا تو؟؟
میں نے مسکراتے ہوئے کہا سر میں تو کچھ بھی کرنے کو تیار تھی آپکو ہر طرح سے
خوش کرتی مگر آپ نے الٹا میری بے عزتی کردی۔
اب سر ایک دم بولے بیٹا مجھے تمہاری مدد کی بہت سخت ضرورت ہے۔ میں بہت بڑی
مشکل میں ہوں اور اس وقت مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا کروں ۔ صرف تم
ہی ہو جو میری مدد کر سکتی ہو۔ اگر تم نے میری مدد کر دی تو میں تمہارے بھائی کا
داخلہ بھجوا دوں گا۔
پھر سر نے بتایا کہ انکے بیٹے کو آج صبح پولیس اٹھا کر لے گئی ہے اور اس پر
جھوٹا کیس بنا دیا ہے چوری کا۔ جبکہ اسکا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے
تھانے جا کر اسکی رہائی کی کوشش کی مگر ایس ایچ او بہت کمینہ انسان ہے اور مجھ
سے فوری 20الکھ روپے کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ میرے پاس صرف 10الکھ روپے
ہیں جو میں اپنے بیٹے کو تھانے سے نکلوانے کے لیے دے سکتا ہوں۔
اس سے پہلے کہ سر مزید بات کرتے میں نے شرمندہ ہو کر کہا کہ سر ہماری مالی
حیثیت تو اس قابل نہیں کہ اس معاملے میں آپکی مدد کر سکیں۔
سر نے کہا پہلے میری پوری بات سن لو۔ پھر بولے کہ اس وقت میں کسی وکیل کی مدد
بھی نہیں لے سکتا اسکے لیے مجھے پرسوں تک کا انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ کل
چھٹی ہے تو میرا بیٹا 2دن تھانے میں رہے گا۔ جبکہ اسکا کوئی قصور نہیں۔ تھانیدار
خود اسکو پھنسا رہا ہے پیسے بٹورنے کے لیے۔ اب تم ہی ہو جو میری مدد کر سکتی
ہو۔
سر بولے کہ اس دن تم اپنے بھائی کے لیے میرے پاس آئی تھیں۔ اور تب اگر میں بہک
جاتا تو تم اپنا جسم مجھے سونپنے کے لیے تیار تھیں۔ آج مجھے تمہاری ضرورت ہے۔
میں تمہیں 10الکھ دیتا ہوں وہ لیکر تم تھانیدار کے پاس جاو اور اسے تھوڑا بہالو اور
پیار سے بات کرو اور کہو یہی پیسے لیکر اسے چھوڑ دے۔ تم لڑکی ہو ہو سکتا ہے وہ
تمہاری بات مان جائے۔ اور اگر پھر بھی نہ مانا تو جسطرح تم اپنا جسم میرے حوالے
کرنے کے لیے تیار تھیں اسی طرح تھانیدار کو یہ 10الکھ روپیہ اور اپنا جسم دے دینا
پھر وہ میرے بیٹے کو چھوڑ دے گا اور تمہارے بھائی کا ایڈمیشن بھی ہوجائے گا۔
سر کی یہ بات سن کر میرا منہ کھلے کا کھال رہ گیا۔ میں نے تو کبھی زندگی میں تھانے
کی شکل دیکھنا دور کی بات کبھی تھانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ میں نے
کانپتی ہوئی آواز میں کہا سر یہ تو بہت خطرناک کام ہے اگر اس نے مجھے بھی تھانے
میں بند کر دیا کہ میں بھی اسکی ساتھی ہوں تو میرا کیا بنے گا؟؟
اس پر سر بولے نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ وہ تھانیدار بہت کمینہ انسان ہے اور کسی نے
مجھے بتایا ہے کہ اسکو نوجوان لڑکیوں کے جسم کا بہت شوق ہے اور اسکے لیے وہ
کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اگر وہ 10الکھ پر نہ بھی مانا تو جب تم اسکو جسمانی تسکین
دو گی تو وہ ضرور مان جائے گا تمہاری بات۔ اب دیکھ لو فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے
کہ فیاض کا ایڈمیشن بھجوانا ہے یا نہیں۔ یہ میری گارنٹی ہے کہ تمہیں کوئی نقصان
نہیں ہوگا۔
سر کی بات ختم ہوئی تو باہر دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور پھر فیاض بھی کمرے میں
آگیا۔ اسکے پاس مطلوبہ سامان موجود تھا۔ میں سوچ میں گم تھی کہ اب کروں یا نہ
کروں؟؟؟ فیاض نے چیزیں سر کو پکڑاتے ہی پوچھا سر اب میرا ایڈمیشن کب جائے
گا؟؟؟ سر نے کوئی جواب نا دیا تو فیاض نے میری طرف دیکھا میں بھی خاموش تھی۔
فیاض نے مجھے ہلکا سا بازو مارا تو میں اپنی سوچ سے باہر نکلی اور فیاض نے
ہلکے سے اشارے سے پوچھا کہ کیا بنا۔۔۔ اب میں سوچ رہی تھی کہ فیاض کو کیا بتاوں۔
کہ کیا مسئلہ ہے۔ پھر اچانک ہی میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں نے سر کو کہا کہ
سر اس معاملے میں فیاض سے مشورہ کرنا چاہتی ہوں میں۔۔۔ یہ سن کر سر نے حیران
ہوکر میری طرف دیکھا۔ وہ یہی سوچ رہے ہونگے کہ بھال ایسی بات میں اپنے بھائی
سے کیسے کر سکتی ہوں؟
میں نے سر کے جواب کا انتظار کیے بغیر فیاض کو اٹھنے کا اشارہ کیا اور باہر
راہداری میں آگئی اور کہا کہ سر کہ رہے ہیں کہ تمہارا ایڈمیشن چال تو جائے گا مگر
اسکے لیے انہوں نے اپنا ایک کام کروانا ہے جو میری دوست سائرہ کے ابو ہی کر
سکتے ہیں۔ سر کی زمینوں کا مسئلہ ہے کسی نے قبضہ کیا ہوا ہے ،سر کہ رہے ہیں کہ
اپنی دوست کے ابو سے کہو کہ مجھے وہ زمین واپس دلوادیں تو وہ تمہارا ایڈیمیشن
بھیج دیں گے۔ فیاض بھی سائرہ کو جانتا تھا اور اسکو معلوم تھا کہ اسکے ابو ملتان
کے با اثر انسان ہیں اور زمیندار بھی ہیں۔ یہ سن کر فیاض فورا بوال تو کیا وہ کر دیں
گے یہ کام۔ میں نے کہا ہاں انکے لیے تو یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ بس مجھے انکے
گھر جانا پڑے گا کیونکہ فون پر ایسی بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔ میری بات سن کر فیاض
بوال پھر دیر کس بات کی ہے چلو ادھر ہی چلتے ہیں۔
فیاض سے یہ بات کر کے میں واپس آگئی اور سر کو کہا ٹھیک ہے سر آپکا کام ہوجائے
گا۔ میں اپنے انکل کو کہلوا کر آپکی زمین کا قبضہ واپس دلوا دوں گی۔ لیکن ان سے
ابھی ملنا ہوگا آپ مجھے انکے گھر لے چلیں۔
سر اسلم پہلے تو میری بات سن کر تھوڑا سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھنے لگے
کہ یہ زمین کا مسئلہ کہاں سے آگیا بیچ میں؟؟ مگر پھر فورا ہی سمجھ گئے کہ میں نے
اپنے بھائی سے کوئی بہانہ بنایا ہے۔ تو وہ بھی بولے کے چلو ٹھیک ہے۔ فیاض بھی
ہمارے ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔ تو میں نے فیاض کو کہا تم ہمارے ساتھ نہیں آو گے۔ تم گھر
جاو اور اپنے ڈاکومنٹس لے کر آو۔ واپس ادھر ہی آنا ہم بھی ادھر ہی آئیں گے تو پھر
تمارے فارم فِل کر کے بھیج دیں گے۔ اسکے ساتھ ہی سر نے کہا کہ ہاں تم گھر سے
ڈاکومنٹس بھی الو اور اسکے بعد کالج بھی جانا وہاں چوکیدار کو کہنا کہ سر اسلم نے
بھیجا ہے انکے کمرے سے تمہاری فائل النی ہے۔ آفس میں سیکرٹری بیٹھا ہوگا اسکو
کہنا کہ سر اسلم کے روم سے فائل نکال دے۔
فیاض نے فورا ہی حامی بھری اور چال گیا۔ سر اسلم تھوڑی دیر کو اپنی الماری چیک
کرنے لگے جیسے ٹائم ضائع کرنا چاہتے ہوں تاکہ فیاض نکل جائے تو اسکے بعد
مجھے وہ تھانے لیکر جائیں گے۔ اتنی دیر میں فیاض چال گیا تو سر نے گاڑی کی چابی
اٹھائی اور الماری سے پیسے نکال کر میرے حوالے کیے اور کہا کہ چلو میں تمہیں لے
چلوں۔
مگر میں نے سر کو کہا نہیں سر ہم ابھی نہیں کچھ دیر بعد جائیں گے۔ یہ سن کر سر
بولے کہ کیوں اب کس بات کی دیر ہے؟؟ میں نے کہا سر آپکے اس کام کے لیے فیاض
کے ایڈمیشن کے عالوہ میری ایک اور شرط بھی ہے۔ اگر آپ وہ پوری نہیں کریں گے
تو میں آپکا کام نہیں کروں گی۔
میں نے کہا سر اس دن اپنے آفس میں آپ نے میری بہت بے عزتی کی تھی۔ آج آپ سے
اس بے عزتی کا بدلہ لینا ہے۔
یہ کہ کر میں سر کی طرف دیکھنے لگی تو وہ بولے ہاں بولو کیا بدلہ لینا ہے میں
تمہارے پاوں پکڑ کر بھی تم سے معافی مانگنے کو تیار ہوں مگر پلیز میرا کام کر دو۔
میں نے کہا نہیں سر آپکو معافی مانگنے کی ضروت نہیں بس آپکو کچھ دیر کے لیے
میری چوت چاٹنی پڑے گی۔۔
یہ سن کر سر پہلے تو غصے میں میری طرف دیکھنے لگے پھر دانت پیستے ہوئے
بولے یہ کیا بکواس ہے؟؟ میں ایسا نہیں کروں گا۔
میں نے کہا ٹھیک ہے پھر میں بھی آپکا کام نہیں کروں گی۔ سر پھر بولے دیکھو بیٹا تم
غلط بات کر رہی ہو یہ غلط ہے تم میری بیٹیوں کی طرح ہو۔
میں نے کہا آپ خود ہی تو مجھے بھیج رہے ہیں کہ میں تھانیدار کو اپنے جسم سے
خوش کروں اور آپکے بیٹے کو چھڑواوں کیا کوئی باپ اپنی بیٹی کو ایسے کسی کے
ہاتھوں میں کھلونا بنا سکتا ہے؟؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپکا بیٹا آج ہی تھانے سے باہر
آئے تو آپکو میری چوت چاٹنی ہی پڑے گی۔
سر پھر غصے میں بولے کہ اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے میں 2دن بعد خود ہی عدالت جا
کر ضمانت کروا لوں گا میرا 10الکھ بھی بچ جائے گا اور تمہاری یہ بے ہودہ شرط بھی
نہیں ماننی پڑے گی۔
میں نے کہا سر پیسے تو بچ جائیں گے عزت نہیں بچے گی ۔ سارے کالج میں پتا چل
جائے گا کہ آپکا بیٹا 2راتیں تھانے میں قید رہا ہے چوری کے الزام میں۔ آپ خود ہی
سوچ لیں آپ نے کیا کرنا ہے۔۔
یہ سن کر سر میری منتیں کرنے لگے کہ فائزہ ہوش کے ناخن لو میں پہلے ہی پریشان
ہوں اور جلد سے جلد بیٹے کو چھڑوانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا تو دیر تو آپ خود ہی کر
رہے ہیں۔ میری چوت کو چاٹیں اور پھر ہم تھانے جا کر آپکے بیٹے کو چھڑوا لیں گے۔
اب سر چپ چاپ کھڑے تھے۔ ان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ وہ کیا کریں اور کیا
نہ کریں۔ میں نے انکی اس مشکل کو آسان بنا دیا اور خود ہی اپنی شلوار اتار دی۔
شلوار اتار کر میں نے اپنی قمیص بھی اوپر کی اور صوفے پر ٹانگیں کھول کر بیٹھ گئی
اور سر کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ سر اپنی جگہ پر بت بنے کھڑے تھے۔ میں نے
کہا اب دیر نا کریں ورنہ تھانے میں لوگوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے آپکو پتا ہی
ہے۔ بہتر ہے جلدی سے میرا کام کریں تاکہ پھر میں آپکا کام کر سکوں۔
میری یہ بات سن کر سر نے آخری فیصلہ کیا اور چپ چاپ میری طرف آکر صوفے کے
ساتھ زمین پر ہی بیٹھ گئے اور اپنے دونوں ہاتھ میری تھائیز پر رکھ دیے۔ میری تھائیز
گوشت سے بھری ہوئیں تھیں ۔ سر نے جیسے ہی تھائیز پر ہاتھ رکھا تو انہیں دبا کر
انکی نرمی کو چیک کیا۔
پھر سر نے میری طرف دیکھا اور اسکے بعد میری پھدی کی طرف دیکھنے لگے۔ میں
نے 10دن پہلے الہور جاتے ہوئے انڈر شیو کی تھی اس لیے بال بھی بڑھے ہوئے
تھے۔ جن کو دیکھ کر شاید سر کو نفرت آرہی تھی۔ مگر پھر سر نے آنکھیں بند کیں اور
اپنی زبان میری چوت پر رکھ دی۔ اور اسکو زور زور سے رگڑنے لگے۔ سر کی زبان
چوت کے ساتھ لگتے ہی میرے جسم میں آگ لگ گئی۔ میں نے پہلے بھی بہت بار چوت
چٹوائی تھی مگر کبھی ایسا مزہ نہیں آیا تھا جو سر کی زبان لگنے سے آیا۔ اسکی ایک
وجہ شاید یہ تھی کہ میں سر کے ساتھ زبردستی کر رہی تھی۔ جسکی وجہ سے مجھے
سکون مل رہا تھا کہ جس نے مجھے گالیاں دیکر آفس سے نکاال تھا آج وہ میری چوت
پر جھک کر اپنی زبان میری چوت پر پھیر رہا ہے۔
میں نے اپنی دونوں ٹانگیں اوپر اٹھائیں اور سر کے کندھوں پر رکھ کر ٹانگوں کو سر
کی گردن کے گرد لپیٹ لیا اورانکے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنی چوت کی طرف دبانے لگی۔
سر نے پچھلے 20سال سے سیکس نہیں کیا تھا مگر جب انکی بیوی زندہ ہونگی وہ
یقنیا انکی چوت بہت شوق سے چاٹتے ہونگے کیونکہ جسطرح وہ میری چوت کو چاٹ
رہے تھے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ انکو چوت چاٹنے کا کافی تجربہ ہے۔ میری چوت
کو انہوں نے کچھ ہی دیر میں گیال کر دیا تھا۔
میں مزے کی بلندیوں پر تھی اور میری سسکیاں نکل رہی تھیں۔ میں سر کو بار بار کہ
رہی تھی کھا جاو میری چوت کو ،زور سے چاٹو ،زبان اندر ڈال دو۔ اور زور سے چاٹو
زبان پھیرو تیزی سے۔ کھا جاو میری پھدی کو۔ اور میری ان آوازوں کے ساتھ ساتھ سر
کی زبان کی سپیڈ بڑھتی جا رہی تھی۔
کافی دیر تک سر اسی طرح میری چوت کو چاٹتے رہے پھر میں نے سر کو پیچھے کیا
اور انکو کہا کہ وہ صوفے پر لیٹ جائیں سر صوفے پر لیٹے تو میں بیڈ پر چڑھ کر
انکے منہ کے اوپر جا کر بیٹھ گئی۔ میں نے اپنی چوت سر کے منہ کے اوپر کی اور سر
نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے چوتڑ پکر کر اپنی طرف کھینچ لیے اور ایک بار
پھر میری چوت کو چاٹنے لگے۔ اتنے میں میری نظر سر کی پینٹ پر پڑی جہاں لن کا
ابھار واضح نظر آرہا تھا۔ لن کا ابھار دیکھتے ہی میری پھدی میں کھجلی تیز ہوگئی۔
میں سر کی پینٹ کی طرف جھکی اور انکے لن پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ آگے جھکنے کی
وجہ سے میری گانڈ تھوڑی اوپر اٹھ گئی تھی جسکی وجہ سے سر کو اپنا چہرہ اوپر
اٹھانا پڑا۔
سر نے اپنا چہرہ اوپر اٹھا کر پھر سے میری چوت چاٹنا شروع کی۔ میں نے سر کی
پینٹ کی زپ کھول دی اور انکا ہاتھ میں پکڑ کر باہر نکال لیا۔ سر کا لن دیکھ کر میں
حیران رہ گئی۔ اس عمر میں بھی انکا لن کسی جوان مرد کی طرح سخت تھا اور لمبائی
8انچ تھی۔ میں نے اپنے ہاتھ سے سر کا لن مسلنا شروع کیا تو انکی زبان اور زیادہ
تیزی سے چلنے لگی۔ پھر میں اور آگے جھکی اور سر کے لن کی ٹوپی پر اپنی زبان
پھری۔ میرے مزید آگے جھکنے سے اب میری چوت سر کی زبان سے دور ہوئی تو وہ
مزید اوپر اٹھے اور اب کی بار انہوں نے اپنی زبان میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر
گانڈ چاٹنا شروع کر دی ۔ ادھر سر کا آدھا لن میں اپنے منہ میں لے چکی تھی اور اسکو
چاٹ رہی تھی۔ لن کی ٹوپی سے تھوڑا تھوڑا پانی بھی نکل رہا تھا جو بہت نمکین تھا
مگر مجھے اسے چاٹنے میں مزہ آرہا تھا۔
سر نے بھی کچھ دیر گانڈ چاٹنے کے بعد مجھے چوتڑوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا
اور دوبارہ سے میری چوت کو چاٹنے لگے۔ اب کی بار سر اپنی زبان کو میری چوت
میں گھسانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اور کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہے تھے۔ اب
انکی زبان میری چوت میں جانے لگی تو مزے کی شدت سے ایک بار پھر میری
سسکیاں نکلنے لگی۔ اب سر کا لن میرے ہاتھ میں تھا مگر میں اسکے چوپے نہیں لگا
رہیت ھی۔ کچھ دیر بعد مجھے اپنی چوت میں میں سوئیاں سمجھتی محسوس ہوئیں اور
میں سیدھی ہوکر سر کے منہ کے اوپر بیٹھ گئی اور میری سسکیوں میں اضافہ ہوگیا۔
پھر اچانک ہی مجھے محسوس ہو جیسے کوئی ٹیکے کی سوئی میری چوت میں چبھی
ہو اور اسکے ساتھ ہی میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ جب تک میرا سارا پانی نکل نہیں
گیا سر نے اپنی زبان چوت سے نہیں ہٹائی۔
کچھ پانی سر کے منہ میں گیا جب کہ باقی انکے چہرے پر اور گردن پر گرا۔ پانی نکلنے
کے بعد کچھ دیر میں اپنی چوت کو سر کے منہ پر ہی رکھ کر بیٹھی رہی اور گہرے
گہرے سانس لینے لگی۔ آج چوت کی چٹائی میں بہت مزہ آیا تھا۔ پھر میں سر کے منہ
سے اٹھی اور اپنی شلوار پہننے لگی۔ سر ایک دم سے اپنی جگہ سے اٹھے اور بولے
اب جو آگ لگائی ہے وہ تو بجھاو میرا لن بھی چوسو اور اسکا پانی بھی نکلواو۔ میں
نے شلوار پہن لی اور سر کے قریب جا کر انکے ہونٹوں پر ایک کس کی اور انکا لن
اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسکو 3 ،2بار آگے پیچھے کیا اور پھر بولی اب اس لن کا پانی
میری چوت میں ہی نکلے گا۔ لیکن پہلے تھانے چلکر آپکے بیٹے کی خبر لے آئیں۔۔۔ سر
ابھی بھی چاہتے تھے کہ میں انکا لن چوسوں مگر میں نے سر کو مزید تڑپانا مناسب
سمجھا اور انکا لن زپ سے ہی اندر ڈال کر زپ بند کردی۔
سر نے میرے سے پوچھا کہ فیاض کو واپس آنے میں کتنا ٹائم لگے گا؟؟؟ میں نے کہا
کہ ہمارے گھر سے آپکے گھر آنے میں آدھا گھنٹا لگتا ہے اس نے جانا ہے اور پھر آنا
ہے تو 1گھنٹہ تو لگ ہی جائے گا۔ پھر سر نے فون نکاال اور ایک نمبر مالنے لگے۔
پھر سر نے کسی کو فون پر کہا کہ ایک لڑکا فیاض آئے گا تمہارے پاس میرے ڈاکومنٹ
لینے تو اسکو تھوڑا تنگ کرنا اور بٹھائے رکھنا۔ پھر کچھ دیر بعد میرے روم میں جا کر
فائل چیک کرنا اور پھر واپس آکر کچھ دیر بعد اسکو کہنا کہ یہاں وہ فائل موجود نہیں
ہے۔ یہ کہ کر سر نے فون بند کر دیا۔
میں نے سر کو کہا یہ کیا بات ہوئی؟؟ آپ فائل کیوں نہیں دینا چاہ رہے؟؟ ایسے تو میں
آپکا کام نہیں کروں گی۔ سر مسکرائے اور بولے یہ کالج بھیجنے واال تو بہانہ تھا تاکہ
اسکو ٹائم لگے واپس آنے میں۔ اسکے نہ تو کسی ڈاکومنٹس کی ضرورت ہے اور نہ ہی
کسی فائل کی۔ فارم تو اسنے کال میں ہی ِفل کر دیا تھا مگر میں نے اسکا ایڈمیشن نہیں
بھیجا تھا اور فارم اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ یہ کہ کر سر نے ایک فائل نکالی اور مجھے
دکھائی کہ یہ اسکی فائل ہے۔ اسکے بعد سر نے اس پر اپنے سائن کیے اور کالج کی
اسٹیمپ لگائی اور ایک کالج کی ہی بنی ہوئی فائل میں اسکو رکھ دیا جہاں 2فارم اور
بھی تھے۔ اور سر نے بتایا کہ یہ 2فارم بھیجنے تھے تو انکے ساتھ ہی فیاض کا بھی
بھیج دوں گا۔
میں نے کہا ٹھیک ہے اب چلیں آپکا کام بھی ہوجائے۔ سر نے پیسے مجھے پکڑائے جو
میں نے اپنے پرس میں رکھ لیے اور گاڑی میں بیٹھ کر تھانے کی طرف جانے لگے۔
فیاض کو ادھر سے گئے ابھی 20منٹ ہوئے تھے یعنی ہمارے پاس ابھی ایک گھنٹے
سے زیادہ کا وقت تھا۔ 10منٹ میں ہم تھانے پہنچ چکے تھے اور میں ایس ایچ او کے
کمرے میں بیٹھی تھی۔ جب کہ سر باہر گاڑی میں ہی بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے۔
کمرے میں میرے سامنے جو شخص بیٹھا تھا وہ کافی ہینڈسم اور خوبصورت تھا۔ چوڑا
سینہ اور کشادہ جسم وہ ایک صحت مند اور ورزشی جسم کا مالک انسان تھا۔ میں دل ہی
دل میں سوچنے لگی کہ یہ خود نہ بھی کہے تب بھی مجھے خود اسکو چدائی کی دعوت
دینی چاہیے یہ یقنینا مزہ دے گا۔
بہرحال میں نے اس سے بات شروع کی۔ سر کے بیٹے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ
دیکھیں سر وہ بہت معزز لوگ ہیں وہ چوری نہیں کر سکتے آپ پلیز انکو چھوڑ دیں
اور جو لینا دینا کرنا ہے وہ کر لیں۔ اس شخص نے ایک گہری نظر مجھ پر ڈالی اور
کہنے لگا کہ اچھے شریف انسان ہیں بجائے پیسوں کا بندوبست کرتے لڑکی کو بھیج دیا
ہے تھانے میں۔ یہ کہتے ہوئے اسکی نظریں میرے چہرے کی بجائے میرے مموں پر
تھی۔ میں اسکی یہ بات سن کر مسکرائی اور کہا اصل میں وہ میرے ٹیچر ہیں تو انہوں
نے مجھے بتایا کہ انکے پاس پیسوں کی کمی ہے تو انہوں نے میرے سے ریکویسٹ
کی کہ میں آپ سے بات کروں اور اپنے انکل سے بھی آپکی بات کروا دوں پھر شاید آپ
مان جائیں گے۔
اس شخص نے ایک لمبی سی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی اور بوال کونسے انکل ہیں جی آپکے جن
سے آپ نے بات کروانی ہے۔۔ پہلے میں نے سوچا کہ سائرہ کے ابو سے بات کروا دوں
یا انکا نام بتاوں مگر پھر سوچا کہ اگر بات ادھر پہنچی تو ہو سکتا ہے وہ میرے گھر
بھی ذکر کر دیں کہ آپکی بیٹی کو تھانے میں کیا کام پڑ گیا۔ لہذا میں نے دوبارہ اسکو
مسکراتے ہوئے دیا کہ اتنے چھوٹے سے کام کے لیے میں کسی کا احسان نہیں لینا
چاہتی۔ یہ 10الکھ میں الئی ہوں آپ پلیز یہ رکھ لیں اور اس لڑکے کو چھوڑ دیں۔ یہ
کہتے ہوئے میں نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا اور ہلکا سا دبایا۔ میرے ہاتھ کا لمس
محسوس کرکے اسکے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ نمودار ہوئی جیسے وہ مجھے
چودنے کے لیے مکمل تیار ہو۔
اس سے پہلے کہ وہ شخص کچھ بولتا باہر سے ایک اور پولیس واال اندر آیا اور میرے
سامنے جو کرسی پر بیٹھا تھا وہ ایک دم سے کھڑا ہوگیا اور اندر آنے والے کو سلیوٹ
کیا اور فورا ہی اس کرسی سے سائیڈ پر ہٹ گیا۔ اندر آنے واال شخص کرسی کے پاس
آیا اور پہلے والے شخص کو ایک موٹی سی گالی دی اور بوال میری کرسی پر تو ایسے
بیٹھا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے ساتھ الیا تھا یہ کرسی۔ یہ کہ کر وہ کرسی پر بیٹھ
گیا۔ یہ ایک موٹی توند واال مکروہ قسم شخص تھا جسکے چہرے سے ہی خباثت ٹپیک
رہی تھی ۔ اور جب اسکی نظر میرے اوپر پڑی تو وہ پہلے شخص کی طرف دیکھتے
ہوئے بوال یہ کون سی خاتون ہیں ؟؟ دوسرے شخص نے جواب دیا سر جی یہ وہ کالج
والے استاد کے بیٹے کو چھڑوانے آئی ہے اور کہتی ہے کچھ لے دے کر معاملہ ختم
کریں۔ مگر اس استاد نے 10الکھ ہی بھیجا ہے 20الکھ نہیں۔
یہ سن کر نئے آنے والے شخص نے میرا اوپر سے نیچے تک بغور جائزہ لیا اور میرے
مموں کو بغور دیکھ کر انکے سائز کا اندازہ کرنے لگا۔ پھر بوال لے جاو بی بی یہ 10
الکھ ہمیں نہیں چاہیے۔ ہم چوروں کو ایسے نہیں چھوڑتے اپنے اس استاد سے کہو
پرسوں کو آکر ضمانت کروا لے اپنے بیٹے کی۔
مجھے اتنی تو سمجھ آگئی تھی کہ پہلے واال شخص ایس ایچ او نہیں تھا بلکہ ایس ایچ
او یہ شخص ہے جو اتنی بڑی توند ساتھ لیے پھر رہا ہے۔ اور اسکودیکھتے ہی میری
سیکس کی ساری خواہش ختم ہوگئی تھی۔ مگر مجھے اس سے بھی پیار سے ہی بات
کرنی تھی لہذا میں اپنی جگہ سے اٹھی اور ٹیبل پر تھوڑا سا جھک کر اسکے ہاتھ پر
ہاتھ رکھ کر دبایا اور کہا دیکھیں سر آپ بڑے لوگ ہیں ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں
ہیں آپ مہربانی کریں اور انہی پیسوں کے عوض لڑکے کو چھوڑ دیں اسکا کوئی قصور
نہیں ہے ۔ جب میں یہ بات کر رہی تھی تو میری قمیص جھکنے کی وجہ سے نیچے
ڈھلک گئی اور اس موٹی توند والے انسان کی نظریں میری قمیص کے اندر جھانک کر
میرے مموں کا نظارہ کر رہی تھی ٫مگر ساتھ ہی اسنے ایک بار پھر کہا کہ جاو بی بی
ایک دفعہ کہا نا کہ 10الکھ کافی نہیں ہیں لے جاو انہیں۔
میں نے کہا سر پیسے تو 10الکھ ہی ہیں آپ بتائیں آپکو اور کیا چاہیے؟؟ میں اب پہلے
سے زیادہ جھک گئی تھی تاکہ میرے مموں کا نظارہ اس شخص کو میری بات ماننے پر
مجبور کر سکے۔ اس نے میرے مموں پر اپنی نظریں گاڑتے ہوئے کہا بی بی جو کچھ
تمہارے پاس ہے اسکے بدلے تو ہم چھوڑ سکتے ہیں اس لڑکے کو۔ یہ کہ کر اس نے
ایک قہقہ لگایا اور دوسرے پولیس والے کی طرف دیکھا اور وہ بھی ہلکی آواز میں
ہنسنے لگا۔ مجھے اسکی بات کی سمجھ آگئی تھی مگر میں نے انجان بنتے ہوئے کہا
کہ سر میرے پاس یہی 10الکھ ہی ہیں۔
وہ بوال کہ بی بی 10الکھ کہ عالوہ بھی تمہارے پاس بہت کچھ ہے۔ میں نے پھر انجان
بنتے ہوئے کہا وہ کیا سر؟؟
اس نے میرے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ جو کچھ تم اپنی قمیص میں
چھپائے پھر رہی ہو یہ بھی تو ہے نہ۔۔ اسکی یہ بات سن کر میں نے تھوڑا شرمانے کی
ایکٹینگ کی کہ چلیں اب جو چھپا ہوا تھا آپنے دیکھ ہی لیا ہے اب چھوڑ دیں اسے۔
اس خبیث نے مجھے بھی ایک گالی دی اور پھر بوال کہ صرف دیکھنے سے کام نہیں
چلے گا رنڈی بنا کر چودوں گا پہلے تجھے پھر تیرا کام ہوگا۔ یہ بات اس نے دوسرے
پولیس والے کے سامنے ہی کہی تھی۔ میں نے ایس ایچ او کو کہا کہ آپ اس لڑکے کو
چھوڑ دیں پھر کسی ہوٹل میں چل کر آپ مجھے اپنی رنڈی بھی بنا لینا۔
یہ سن کر اسنے ایک اور گالی دی اور کہا میں تجھے پاگل لگتا ہوں کہ تجھے کسی
ہوٹل میں لیجاوں۔ یہیں کمرے کے پیچھے گاڑی کھڑی ہے چل تجھے اسی گاڑی میں جا
کر چودتا ہوں۔ میں پہلے سے ہی اس چیز کے لیے تیار تھی مگر مسئلہ صرف اسکا
حلیہ اور جسامت تھی جس سے مجھے نفرت آرہی تھی۔ مگر مرتی کیا نہ کرتی میں چپ
چاپ کھڑی ہوگئی۔ اس پر وہ شخص تھوڑا حیران ہوا اور بوال لگتا ہے تو پہلے ہی
چدوانے کے لیے آئی تھی۔ چل تیری کھجلی مٹاتا ہوں آج۔ یہ کہ کر اس نے اپنے ماتحت
کو کہا تو پیسے سنبھال میں ذرا اس وحشیہ کی گرمی نکال کے آتا ہوں۔ یہ کہ کر اس
نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ور میں چل دی اسکے پیچھے۔
وہ کمرے سے نکال اور ایک چھوٹی سی راہداری سے ہوتا ہوا تھانے کی عمارت کے
پچھلے حصے میں لے آیا جہاں مکمل سناٹا تھا محض ایک پولیس کی بس کھڑی تھی
جس میں مجرموں کو الیا اور لے جایا جاتا ہوگا۔ اس نے مجھے بس کے اندر جانے کو
کہا تو میں چپ چاپ اندر چلی گئی پیچھے سے وہ بھی آیا اور بس کا دروازہ بند کر لیا۔
اندر آتے ہی اس نے اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دیے۔ پولیس کا یونیفارم اتار کر اس
نے اپنی گندی سی بنیان اتاری تو نیچے بالوں سے بھرا ہوا بھدا سا سینہ اور موٹی
لٹکی ہوئی توند برآمد ہوئی۔ اسکے بعد اس نے اپنی پینٹ اتاری اور پھر اپنا کچھا نما
انڈر وئیر بھی اتار دیا۔ نیچے اسکا 7انچ کا کاال بھدا لن پھنکارتا ہوا ایک دم کھڑا ہوگیا۔
اپنے کپڑے اتار کر وہ میری طرف متوجہ ہوا اور جب دیکھا کہ میں ویسے ہی کھڑی
ہوں تو وہ بوال اب خود کپڑے اتارے گی یا میں پھاڑ دوں تیرے کپڑے؟؟؟
یہ سنتے ہی میں ڈر گئی کہ کہیں یہ واقعی کپڑے نا پھاڑ دے۔ میں نے فورا اپنی شلوار
اتاری اور پھر اپنی قمیص بھی اتار دی۔ اس سے پہلے کہ میں اپنا برا اتارتی وہ سانڈ
نما شخص آگے بڑھا اور مجھے اپنے بازوں میں جکڑ کر اپنی توند سے چپکا دیا۔
اسکے جسم سے بہت گندی بدبو آرہی تھی شاید پسینے کی تھی۔ اس بھوکے انسان نے
شاید کبھی کوئی خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی تھی ،میرا گورا جسم دیکھ کر وہ پاگل
ہوگیا تھا پہلے اس نے میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کیا ور پھر اپنے ہاتھ میرے
چوتڑوں پر رکھ کر انکو دبانے لگا اور کہا واہ تیری گانڈ تو بڑی تگڑی ہے ،اسکو
مارنے کا تو بہت مزہ آئے گا۔ پھر اس نے مجھے اوپر اٹھا لیا اور اپنی توند پر بٹھا لیا
اور میرے مموں پر اپنے ہونٹوں سے پیار کرنے لگا۔ میں اپنے ہاتھ پیچھے لے گئی اور
برا کی ہک کھول دی اور برا اتار کر سائیڈ پر پھینک دیا۔
میرے ممے جیسے ہی برا کی قید سے آزاد ہوئے وہ کسی بھوکے بھیڑیے کی طرح ان
پر ٹوٹ پڑا اور میرے نپلوں پر کاٹنے لگا۔ اسکے اس طرح پیار کرنے سے مجھے
بالکل بھی مزہ نہیں آرہا تھا بلکہ اس سے نفرت آنے لگی تھی اور تکلیف بھی ہو رہی
تھی۔ وہ بہت ہی سختی سے میرے نپلز چاٹ رہا تھا۔ جسکی وجہ سے میری سسکیاں
نکل رہی تھیں مگر یہ سسکیاں مزے کی وجہ سے نہیں بلکہ تکلیف کی شدت سے نکل
رہیں تھیں۔ مجھے آج تک کسی نے اس بے دردی سے پیار نہیں کیا تھا جو بھی چودتا
تھا بہت ہی پیار کے ساتھ چودتا تھا۔ مگر یہ وحشی تو واقعی میں میرے مموں کو کھا
جانا چاہتا تھا۔
کچھ دیر میرے ممے چاٹنے اور کھانے کے بعد اس نے مجھے اپنی توند سے نیچے
اتارا اور اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر مجھے دکھانے لگا اور بوال کبھی دیکھا ہے اتنا
بڑا لن تو نے؟؟؟
میں نے دل میں سوچا اس سے بڑے لن سے گانڈ بھی مروا چکی ہوں ،مگر میں نے
انکار میں سر ہالتے ہوئے کہا کہ نہیں تمہارا لن بڑا ہے۔ پلیز مجھے آرام سے چودنا۔ یہ
سن کر اس نے فخریہ انداز میں ایک قہقہ لگایا اور بوال آرام سے تو نا مرد چودتے ہیں۔
مرد تو ہمیشہ جان لگا کر چودائی کرتے ہیں۔
یہ کہ کر اس نے مجھے کہا چل اپنی ٹانگیں کھول تجھے اصل مرد کے لن کا مزہ
چکھاوں۔ یہ سن کر میں نے شکر کیا کہ اس نے لن کے چوپے لگانے کو نہیں کہا۔ میں
نے کہا ادھر سیٹ پر لیٹ جاوں؟ تو اسنے کہا ہان لیٹ جا۔ میں ابھی پوری طرح لیٹی
بھی نہیں تھی کہ وہ بھی ایک ٹانگ رکھ کر سیٹ پر آیا اور میری دونوں ٹانگیں پکڑ کو
ہوا میں اٹھا لیں اور اپنا لن میری چوت پر رکھ کر ایک جھٹکا مارا اور پورا لن میری
چوت میں اتار دیا۔ میں اسکےلیے ابھی تیار نہیں تھی میری ایک زور دار چیخ نکلی۔
اور میں نے اسکو کہا آرام سے چودو۔ وہ زور زور سے ہنستا ہوا بوال وہ مرد ہی کیا
جو آرام سے چودے۔ آج تو میں تجھے رنڈیوں کی طرح چودوں گا تیرے گورے دودھیا
جسم نے تو مجھے پاگل کر دیا ہے اور میرے اندر کے مرد کو جگا دیا ہے۔ اب تیری
پھدی کو پھدا بنا کر چھوڑوں گا۔
یہ کہ کر اس نے اپنے لن سے میری پھدی کی چدائی شروع کر دی۔ اسکے دھکوں میں
واقعی میں جان تھی اور وہ پوری قوت کے ساتھ دھکے لگا رہا تھا اور آہستہ آہستہ
اپنی سپیڈ بڑھا رہا تھا۔ اسکے اس بے دردی سے چودنے کی وجہ سے میری پھدی میں
درد ہو رہا تھا اور میری چیخیں نکل رہی تھیں۔ میں نے چیخیں روکنے کی کوشش کی
تو وہ بوال فکر نا کر یہاں تیری آواز کوئی نہیں سن سکتا جتنا چیخنا ہے چیخ لے۔ یہ
سن کر میں نے اپنا ہاتھ منہ سے ہٹا لیا اور جیسے جیسے اسکے دھکے لگتے ویسے
ویسے میری چیخیں نکلتیں۔ گو کہ اسکا لن زیادہ لمبا نہیں تھا مگر وہ وحشیوں کی
طرح چود رہا تحا جسکی وجہ سے کچھ ہی دیر میں میری پھدی نے ہار مان لی اور پانی
چھوڑ دیا۔
پھدی کا گیال پن محسوس کر کے اس نے اپنا لن باہر نکاالاور بوال بہت جلدی چھوٹ گئی
ہے تو۔ ابھی تو میں بہت دیر تک تجھے چودوں گا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے پاس پڑی
اپنی بنیان سے اپنا لن صاف کیا اور میری پھدی پر بھی بنیان پھیر ی۔ اور دوبارہ سے
لن اندر ڈالنے لگا تو میں نے کہا میں تھک گئی ہوں اب تم نیچے آجاو میں اوپر آجاتی
ہوں۔ یہ سن کر وہ سیٹ پر لیٹ گیا اور مجھے اپنے اوپر آنے کو کہا۔
میں اسکے اوپر بیٹھ تو گئی مگر اسکے اوپر لیٹنا مشکل تھا ایک تو راستے میں اسکی
توند اوپر سے اسکے جسم کی بدبو۔ میں اسکے لن کو پھدی میں ڈال کر اوپر ہی بیٹھی
رہی اور لیٹنے سے گریز کیا۔ اس نے پہلے تو مجھے اچھلنے کو کہا تو مں خود ہی
اسکے لن پر اچھلنے لگی مگ پھر اس نے مجھے پکڑا اور اپنے اوپر لٹا لیا۔ اب میرا
گورا بدن اسکے کالے اور بدبودار جسم سے ٹکرا رہا تھا ،ساتھ ہی اس نے پیچھے سے
لن کے گھسے مارنے شروع کر دیے۔ اسکی سپیڈ اب پہلے سے بھی تیز تھی اور وہ
بغیر رکے میری چوت کا ستیاناس کر رہا تھا۔
اب میری چوت اسکی اس جاندار چودائی کو برداشت کرنے لگی تھی اور مجھے مزہ
آرہا تھا۔ اس بے دردی سے پہلے کسی نے نہیں چودا تھا اس لیے شروع میں تکلیف
ہوئی مگر اب اس سانڈ کی تکلیف دہ چودائی مجھے مزہ دے رہی تھی۔ اور میں مزے
میں سسکیاں نکالنے کے ساتھ ساتھ اسکو اپنی سپیڈ بڑھانے کا کہ رہی تھی۔ کچھ دیر
ایسے ہی چودنے کے بعد اس نے مجھے اپنے سے علیدہ کیا اور کھڑا ہونے کو کہا۔
میں اسکے لن سے اٹھی اور بس میں کھڑی ہوگئی۔ اسنے مجھے کہا کہ سیٹ کی طرح
منہ کر کے نیچے جھک جاوں۔ اور اپنی ٹانگیں کھول لوں۔ میں نے ایسے ہی کیا اور
سیٹ کی ٹیک پر ہاتھ جما کر تھوڑا سا جھکی اور اپنی گانڈ باہر نکال لی۔ وہ پیچھے
سے آیا اور اپنا لن میری چوت میں داخل کر کے پھر سے اپنی مشین چالنی شروع کر
دی۔ اب کی بار وہ میرے مموں کو پکڑ کر دبا رہا تھا اور ساتھ ساتھ میری پھدی کا
بھرتا بنا رہا تھا۔ جب وہ لن اندر داخل کرتا تو میں اپنی پھدی کو ٹائٹ کر لیتی جس سے
پھدی کو زیادہ رگڑ ملتی اور جب وہ لن باہر کھینچتا تو میں پھدی ڈھیلی چھوڑ دیتی۔ اب
کھڑے ہوکر چودائی کرنے میں وہ اور بھی زیادہ جاندار دھکے لگا رہاتھا جسکی وجہ
سے بس تھوڑی تھوڑی ہل رہی تھی اورمیری چیخوں سے گونج رہی تھی۔ مگر ساتھ
ساتھ میں اسکو زور دار دھکے لگانے کا بھی کہتی رہی۔ جب اسکا لن اندر جاتا تو
اسکی توند کانچال حصہ میرے چوتڑوں سے ٹکراتا اور دھپ دھپ کی آوازیں نکلتی ۔ یہ
دھپ دھپ کی آوازیں جاری تھیں کہ میری چوت نے ایک بار پھر پانی چھوڑ دیا۔
یہ بھدا انسان چھوٹے لن کے باوجود بڑی اچھی چودائی کر رہا تھا اور اسکا سٹیمنا بھی
اچھا تھا۔ اب کی بار جب میری پھدی گیلی ہوئی تو اس نے لن میری پھدی سے نکال دیا
اور کہا کہ اور زیادہ جھک جو سیٹ پر ہاتھ رکھ لو۔ میں نے اپنے ہاتھ ٹیک سے اٹھا کر
سیٹ پر رکھ لیے اور ایسے جھک گئی کہ میری کمر سیدھی تھی۔ اب کی بار اس نے
میرے چوتڑوں کو دبانا شروع کیا اور ان پر تھپڑ مارنے لگا۔ پھر اس نے اپنی ایک
انگلی میری گانڈ میں داخل کرنے کی کوشش کی۔ جو تھوڑی سی کوشش کے بعد پوری
اندر چلی گئی۔
پھر وہ بوال تو پکی رنڈی ہے گانڈ بھی مرواتی رہی ہے پہلے۔ چل اب تیار ہوجا تیری
گانڈ میں جارہا ہے میرا لن۔ یہ کہ کر اس نے اپنی ٹوپی میری گانڈ کے سوراخ پر رکھی
اور آہستہ آہستہ زور لگا کر پورا لن اندر داخل کر دیا۔ کچھ دیر وہ آہستہ آہستہ اپنے لن
کو اندر باہر کرنے لگا۔ پھر جب لن تھوڑی روانی سے گانڈ کی چودائی کرنے لگا تو اس
نے دھکے بڑھا دیے اور بہت ہی ظالم طریقے سے میری گانڈ مارنے لگا۔ 3منٹ تک
میری گانڈ کی چٹنی بنا کے رکھ دی تھی اس نے۔ پھر اس کے دھکے حد سے زیادہ تیز
ہوگئے اور اسکی اپنی سسکیاں نکلنا شروع ہوئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے مجھے اپنی
گانڈ میں گیال پن محسوس ہونے لگا اور وہ بھی رک رک کر 4 ،3دھکنے مار کر سیٹ
پر نڈھال ہوکر لیٹ گیا۔
میری بھی بری حالت ہو چکی تھی۔ اس نے تقریبا 20منٹ میری چودائی کی تھی۔ اور
اس دوران اس نے اپنی سپیڈ کہیں پر بھی کم نہیں کی تھی اور پورا ٹائم جاندار نان
سٹاپ دھکے مارے تھے۔ کچھ دیر گہرے سانس لیکر میں نے اپنے آپ کو سنبھاال تو وہ
بوال بتا کیسا لگا میرے سے چدائی کروا کر۔ میں نے کہا تم واقعی میں اچھا چود لیتے
ہو۔ اگر میرے پاس ٹائم ہوتا تو میں مزید چدواتی تم سے ایک بار۔ یہ سن کر وہ فخریہ
انداز میں بوال اب تیری چوت اس لن کے لیے مچلے گی اور تو خود دوبارہ آئے گی اپنی
چوت اور گانڈ مروانے کے لیے۔ یہ کہ کر اس نے اپنے کپڑے پہننے شروع کیے اور
وہی گندی بنیان پہن لی جس سے اس نے اپنے لن پر موجود میری پھدی کا پانی صاف
کیا تھا۔ میں نے بھی اپنا برا پہن کار قمیص اور شلوار پہنی۔ اور اسکے پیچھے پیچھے
واپس تھانے میں چلی گئی۔
اسکا ماتحت پھر سے اسکی سیٹ پر بیٹھا تھا جس پر اسے ایک بار پھری موٹی سی
گالی سننے کو ملی اور ساتھ ہی کہا کہ جا اس ماسٹر کے بیٹے کو لے کر آ۔ جب اسکا
ماتحت اسکو لینے گیا تو اسکی نظریں مجھ پر تھیں جیسے کہنا چاہتا ہو کہ وہ بھی
اپنے لن سے میری خدمت کرنا چاہتا ہے۔ مگر اپنے افسر کے سامنے مجبور ہے۔ جب
وہ چال گیا تو میں نے ایس ایچ او کو خوش کرنے کے لیے کہا کہ آپکی بیوی تو آپ
سے بہت خوش ہوگی۔ آج کل کے نوجوان تو 5منٹ میں ہی جھڑ جاتے ہیں مگر آپ کی
چدائی نے تو میری پھدی کا 2بار پانی نکلوا دیا۔ اس پر وہ خوش ہوا اور زور زور سے
ہنسنے لگا پھر بوال میں نے کہا ہے نہ تیری چوت تجھے دوبارہ ادھر آنے پر مجبور کر
دے گی۔
پھر میں نے اسکو کہا ایک مہربانی اور کر دیں۔ وہ بوال ہاں بتا کیا کام ہے؟ میں نے کہا
آپ اس لڑکے کے سامنے کہ دینا کہ یہ اپنے ابو کو بتا دے کہ اب تمہاری شکایت آئی تو
تمہیں کسی قیمت پر نہیں چھوڑے گا۔ اور آپ اس بارے میں مجھ سے پوچھتے رہیں
گے۔ اس نے ہاں میں سر ہالیا اور ساتھ ہی پیچھے سے پولیس والے کے ساتھ ایک
لڑکا اندر داخل ہوا۔ اسکی عمرا کوئی 22سے 24کے درمیان لگ رہی تھی۔ وہ بہت ڈرا
ہوا لگ رہا تھا۔ وہ آیا تو تھانیدار نے اسکو کہا کہ شرم کر تیرا باپ نہیں آیا تجھے
چھڑوانے کے لیے نہ ہی اسنے پیسوں کا بندوبست کیا۔
شکر کر یہ بی بی آگئیں تیری مدد کے لیے۔ اور خبردار جو آئندہ کسی چور کے آس پاس
بھی نظر آیا مجھے تو۔ یہ سن کو وہ لڑکا بوال سر میں نے تو پہلے بھی چوری نہیں کی
تھی آپکے لوگوں کو غلط فہمہی ہوئی تھی وہ مجھے پکڑ الئے۔ اس کی آواز میں خوف
تھا اور لگ رہا تھا ابھی رو پڑے گا۔ اسکی بات ختم ہونے سے پہلے ہی تھانیدار نے
اسکو ڈانٹ کر چپ کروایا اور کہا بکواس نہ کر سب چور ایسے ہی کہتے ہیں۔
اس بی بی کا شکریہ ادا کر انکو تیرے ابو نے سفارش کے لیے بھیجا تھا تیری قسمت
اچھی ہے کہ یہ ہماری جاننے والی ہیں۔ انکے کہنے پر تجھے چھوڑ رہے ہیں۔ لیکن اگر
آئندہ تیری کوئی شکایت آئی یا اس بی بی نے تیری کوئی شکایت کی تو تیرا باپ اپنی
گانڈ بھی مروا لے مجھ سے تب بھی تجھے نہیں چھوڑوں گا میں۔ یہ کہ کر اس نے
میری طرف دیکھا اور شیطانی نظروں سے بوال جائیں جی آپ۔ آپکا کام ہوگیا اس ماسٹر
کو کہیے گا آئندہ خیال رکھے اپنے بیٹے کا۔ اور آپکو جب بھی کوئی کام ہو بال جھجک
خدمت کا موقع دیجیے گا۔ یہ کہتے ہوئے اسکے لہجے میں کچھ زیادہ ہی خباثت تھی۔
میں نے مسکراتے ہوئے اسکا شکریہ ادا کیا اور سر کے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر اسکو
اپنے ساتھ تھانے سے باہر لے آئی جہاں سر اسلم بے چینی سے میراانتظار کر رہے
تھے ۔ ہمیں آتا دیکھ کر وہ بے حد خوش ہوئے اور آگے بڑھ کر اپنے بیٹے کو گلے
لگالیا۔ انکا بیٹا بھی بہت ڈرا ہوا تھا وہ رونے لگ گیا۔ سر نے پہلے اسکو تسلی دی۔ پھر
انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا بیٹا یہ تم نے میرے اوپر بہت بڑا احسان کیا ہے۔
میں کبھی نہیں بھولوں گا تمہارا یہ احسان۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اتنی دیر سے واپسی
کا مطلب ہے کہ تھانیدار مجھے چودنے پر ہی راضی ہوا ہے۔
پھر ہم گاڑی میں بیٹھے اور واپس سر کے گھر کی طرف چل دیے۔ راستے میں لڑکے
نے سر سے پوچھا بابا یہ کون ہیں؟؟؟ تو سر نے کہا یہ ہمارے ایک سٹوڈنٹ کی بہن
ہیں انہوں نے کہا تھا انکے کوئی انکل ہیں جو تمہیں وہاں سے نکلوا سکتے ہیں تو اس
لیے میں انہیں یہاں ال یا تھا۔ میں نے اسکو کہا ڈرنے والی کوئی بات نہیں اب یہ تمہیں
تنگ نہیں کرے گا۔ بس تم خیال کرنا باہر نکلتے ہوئے۔ سر نے میرے سے پوچھا بیٹا
کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا؟؟؟ یہ پوچھتے ہوئے وہ تھوڑا جھجک رہے تھے کیونکہ وہ
جانتے تھے کہ اندر کیا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی انکے بیٹے نے میرا
شکریہ ادا کیا اور کہا آپ تھانیدار صاحب کو یقین دال دیجیے گا کہ انکو کوئی شکایت
نہیں ملے گی بلکہ میں تو اب گھر سے بھی نہیں نکلوں گا پورا مہینہ۔ یہ کہ کر اس نے
سر کو بتایا کہ تھانیدار نے کہا ہے آئندہ احتیاط کرنا یہ ہماری بھی عزیز ہیں تو وہ
انسے میرے بارے میں پوچھتے رہیں گے۔ کسی شکایت کی صورت میں وہ پھر مجھے
تھانے لے جائے گا۔ سر نے بھی فورا کہا نہیں بیٹا اب تمہیں میں اسالم آباد بھیج دوں گا
تم 4 ،3ماہ اپنے ماموں کی طرف رہ کے آو تب تک یہ معاملہ ختم ہوجائے گا۔
پھر سر نے دوبارہ سے میرا شکریہ ادا کیا۔ میں سر تک یہی بات پہنچانا چاہتی تھی کہ
میری شکایت پر آپکا بیٹا دوبارہ اندر جا سکتا ہے ۔ یہ بات پہنچانے کا مقصد تھا کہ اپنا
کام ہونے پر سر کہیں فیاض کا ایڈمیشن دوبارہ نہ روک لیں۔
کچھ دیر بعد ہم گھر واپس پہنچے تو فیاض دروازے پر کھڑا ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ اب
سر کا بیٹا بھی ساتھ تھا اس لیے سر نے مجھے اپنے الن میں ہی رکنے کو کہا اور
بیٹے کو لیکر اندر چلے گئے۔ انکے اندر جانے پر فیاض نے میری طرف غصے سے
دیکھا اور بوال کالج سے کوئی فائل نہیں دی اس نے۔ مجھے ایسے ہی آدھا گھنٹہ
بٹھائے رکھا۔ پھر کہتا ہے فائل نہیں ہے تم واپس سر کے گھر جاو وہیں ہوگی۔ میں نے
کہا فکر نہیں کرو تمہارا ایڈمیشن چال جائے گا۔ پھر فیاض نے پوچھا کہ سر کے کام کا
کیابنا؟ میں نے کہا وہ بھی ہوجائے گا مگر اسکا ذکر گھر میں نہیں کرنا اور نہ ہی سائرہ
کے گھر یا سائرہ کے ساتھ کبھی اس بات کا ذکر کرنا۔ یہ بات بس ہم تینوں اور سائرہ
کے ابو کے درمیان ہے۔ فیاض نے کہا آپ فکر نہ کریں میں کسی سے اس کا ذکر نہیں
کروں گا۔
اتنے میں سر اسلم بھی باہر آگئے تو فیاض فورا انکی طرف گیا اور کہا سر وہاں تو
کوئی فائل نہیں تھی جس پر سر نے کہا ہاں میں بھول گیا تھا وہ فائل میں گھر لے آیا
تھا وہ میرے کمرے میں ہی پڑی ہے صبح کالج آجانا اور ایک فارم پر تمہارے سائن
ہونگے اور تمہارے ڈاکومنٹس میں بھجوادوں گا۔ اس پر فیاض نے اپنے ڈاکومنٹس سر
کو دینا چاہے جو وہ گھر سے الیا تھا مگر سر بولے نہیں انکی بھی ضرورت نہیں
تمہارے پہلے والے ڈاکومنٹس مل گئے ہیں وہی بھیج دوں گا۔ اس پر فیاض نے سر کا
بہت بہت شکریہ ادا کیا اوراسکو کہا آپ گاڑی میں بیٹھو مجھے فائزہ سے ایک پرسنل
بات کرنی ہے۔
فیاض چپ کر کے گاڑی میں بیٹھ گیا تو سر نے مجھ سے پوچھا کہ تھانے میں کیا ہوا؟؟
تو میں نے سر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا جس کام کے لیے آپ نے بھیجا تھا
وہ تو ہوگیا۔ آپکا بیٹا واپس آگیا۔ اب تھانے میں کیا ہوا اس کو چھوڑیں۔ مگر سر نے پھر
پوچھا کہ وہ 10الکھ پر مان گئے تھے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے بات مکمل نہیں کی۔
میں نے کہا نہیں سر آپ نے ٹھیک کہا تھا وہ بہت کمینہ ہے۔ اس نے بہت بے دردی
سے مجھے چودا ہے۔
میری یہ بات سن کر سر تھوڑا شرمندہ ہوئے۔ مگر پھر کچھ کہنے کے لیے منہ کھوال
اور پھر سے چپ ہوگئے۔ میں نے کہا کیا بات ہے سر؟؟؟ تو سر نے پھر کہا وہ میں یہ
کہنا چاہتا تھا کہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہ کر وہ پھر خاموش ہوگئے۔ میں نے پھر کہا بتائیں
سر کیا بات ہے؟؟ پھر وہ بولے وہ جو کام گھر میں ادھورا رہ گیا تھا اسکو کب مکمل
کروگی؟؟؟؟
میں سمجھ گئی کہ آج عرصے بعد چوت چاٹنے کے بعد اور اپنے لن کا چوپا لگوانے
کے بعد اب سر کی برداشت جواب دے گئی ہے اور اب انکا لن میری چوت کا طلب گار
ہے۔ میں ہلکا سا مسکرائی اور کہا سر جب آپ کہیں گے میں اس کام کو بھی مکمل کر
دوں گی۔ مگر یہ کام اب آپکے گھر کی بجائے کالج میں آپکے آفس میں ہوگا۔ وہیں پر
میں آپکے لن کی سواری کروں گی۔ یہ سن کر وہ حیران ہوئے کہ کالج میں کیسے۔۔۔۔
گھر میں آسان ہے۔ میں نے کہا یہ آپکا مسئلہ ہےمگر میں تو آپکے آفس میں ہی اپنی
چوت آپکو دوں گی۔
یہ سن کر سر نے کہا اچھا چلو ٹھیک ہے میں کوشش کرتا ہوں جلد سے جلد کوئی موقع
پیدا کروں اب میرے لن کو سکون نہیں ملے گا جب تک تم اسکا پانی نہیں نکلواو گی۔
میں نے کہا آپ فکر نہیں کریں آپکو بہت مزہ دوں گی میں۔
یہ سن کر سر مسکرائے اور کہا چلو میں تم دونوں کو گھر چھوڑ دوں ۔ رات کے 8بج
رہے ہیں تمہارا اکیلے جانا ٹھیک نہیں۔ یہ کہ کر سر گاڑی میں بیٹھے ،فیاض اگلی سیٹ
پر بیٹھا تھا میں پیچھے بیٹھے گئی اور سر ہمارے گھر کی طرف چل دیے۔ راستے میں
سر بار بار بیک ویو مرر میں مجھے دیکھتے رہے اور انکی نظریں بار بار میرے مموں
کا نظارہ کر رہی تھیں۔
سر کی نظریں مجھے اپنے مموں کے اندر تک گھستی محسوس ہورہی تھیں اور میری
شلوار یہ سوچ سوچ کر ہی گیلی ہو رہی تھی کہ جس شخص نے اتنے عرصے سے
پھدی کی شکل تک نہیں دیکھی اور وہ آج میری پھدی حاصل کرنے کے لیے مچل رہا
ہے۔ اور تھانے جانے سے پہلے جو سر نے میری چوت چاٹی تھی اس سے مجھے بڑا
اچھے سے اندازہ ہوگیا تھا کہ بوڑھے ہونے کے باوجود ان میں کافی گرمی موجود ہے
اور انکا لن منہ میں لیکر ایسا بالکل نہیں لگا کہ میں ایک 50سال کے لگ بھگ
بوڑھے مرد کا لن چوس رہی ہوں۔
بحر حال کچھ دیر میں سر نے مجھے اور فیاض کو گھر اتار دیا۔ میں نے سر کا شکریہ
ادا کیا تو سر نے کہا جلد ہی مجھے بھی شکریہ کا موقع دو۔ یہ کہ کر سر واپس چلے
گئے اور فیاض اور میں خوشی خوشی گھر گئے ،ہم نے کافی دیر باتیں کیں ،فیاض نے
باتوں باتوں میں مجھ سے پوچھنا چاہا کہ اسکی غیر موجودگی میں کیا ہوا ،سائرہ کی
طرف کتنی دیر رکے اسکے ابو نے کیا بات کی۔۔۔۔ مگر میں نے کسی نا کسی طرح اسکو
ٹال دیا اور اس موضوع پر زیادہ بات کرنے کی بجائے اسکو پڑھائی پر توجہ دینے کی
نصیحت کی۔ رات ہونے پر ہم لوگ اپنے اپنے کمروں میں سوگئے۔
اگلے دن فیاض اپنے کالج گیا تو دوپہر کے ٹائم میرے موبائل پر اسکی کال آئی۔ میں تب
اپنے کالج میں سائرہ کے ساتھ کینٹین پر بیٹھی تھی۔ میں نے کال اٹینڈ کی تو فیاض نے
بتایا کہ آج سر اسلم نے میرا ایڈمیشن فارم بھیج دیا ہے اور اب میں اپنے کالج کی طرف
سے ہی پیپر دے سکوں گا۔ ساتھ ہی فیاض نے بتایا کہ سر اسلم نے اسے اپنے آفس
میں بالیا اور پڑھائی کی تلقین کے ساتھ ساتھ میرے بارے میں بھی پوچھا اور کہا کہ
اپنی سسٹر کو کہنا پیپرز سٹارٹ ہونے سے پہلے کم سے کم ہفتے میں ایک بار ان سے
ضرور ملوں تاکہ وہ مجھے فیاض کے بارے میں باقاعدگی سے آگاہ کرتے رہیں۔ سر
اسلم کا یہ پوشیدہ پیغام میں سمجھ گئی تھی مگر فیاض کے لیے یہ سمجھنا ممکن نہیں
تھا۔ اسکے تو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اسکے ایڈمیشن کے لیے اسکی بہن
نے ایک ایس ایچ او سے اپنی چوت مروائی ہے۔
فون بند ہونے کے بعد سائرہ نے پوچھا کا مسئلہ ہے تو میں نے اسکو سرسری طور پر
مسئلے سے آگاہ کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ ایڈمیشن بھیجنے کے لیے مجھے کیا کرنا پڑا
ہے۔ جب سے سمیرا اور حیدر کی منگنی ختم ہوئی تھی میں کبھی سائرہ کے گھر نہیں
گئی تھی۔ آج معلوم نہیں سائرہ کو کیا ہوا کہ اسنے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دے
ڈالی اور میں نے بھی انکار نہیں کیا۔ کچھ ہی دیر بعد سائرہ نے فون کر کے اپنی گاڑی
منگوائی اور ہم دونوں گاڑی میں بیٹھ کر اسکے گھر چلے گئے۔
سائر کے گھر پر کچھ مہمان آئے ہوئے تھے اور اسکے سب گھر والے گھر پر ہی تھی۔
میں اسکے ابو اور امی سے ملی اور اسکے بعد سائرہ مجھے کھینچتی ہوئی اوپر اپنے
کمرے میں لے گئی۔ کمرے میں لیجانے کے بعد سائرہ نے مالزم کو بلوایا اور آم کا تازہ
جوس النے کو کہا۔ کچھ ہی دیر میں آم کا جوس آگیا جو ہم دونوں نے چسکیاں لے لیکر
پیا۔ جوس بہت ہی فریش تھا جس سے جسم میں تازگی آگئی۔
جوس پینے کے بعد سائرہ نے کمرے کا دروازہ الک کر دیا اور اپنی شرٹ اتار دی۔ شرٹ
اتارنے کے بعد اس نے اپنی پینٹ بھی اتار دی۔ سائرہ نے نیچے بلیک رنگ کا برا اور
پینٹی پہن رکھی تھی۔ گورے جسم پر بلیک برا اور پینٹی قیامت ڈھا رہی تھی۔ میں ابھی
کچھ حیرت سے سائرہ کو دیکھ ہی رہی تھی کہ وہ خود سے بولی یار جب سے سمیرا
گئی ہے ہم نے ملکر کبھی سیکس ہی نہیں کیا۔ آج ذرا موڈ ہورہا ہے۔ یہ کہ کر وہ میرے
قریب آگئی اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ مجھے اسکی یہ بےتابی اچھی
لگی اور میں نے بھی اپنی زبان سائرہ کے منہ میں ڈال دی جسکو وہ بہت پیار سے
چوسنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں میرے جسم سے بھی کپڑے علیحدہ ہو چکے تھے اور
سائرہ کپڑوں کے بغیر اپنی ٹانگیں کھول کر بیٹھی تھی اور میں اسکی کنواری چوت کو
چاٹنے میں مصروف تھی۔ سائرہ کی گالبی کنواری چوت ایسی تھی کہ جس نے کبھی
چوت نہ بھی چاٹی ہو وہ بھی سائرہ کی چوت کو دیکھ کر فورا چاٹنے کی خواہش کرے۔
سائرہ ابھی تک کنواری تھی اور اسکی چوت یا گانڈ نے کبھی لن کا مزہ نہیں لیا تھا۔
اسکی چوت چاٹتے ہوئے مجھے بہت مزہ آرہا تھا اور سائرہ کی سسکیاں بھی نکل رہی
تھیں۔ کچھ ہی دیر میں سائرہ کی پیاسی چوت نے پانی چھوڑ دیا جو کچھ بیڈ شیٹ میں
جزب ہوگیا تو کچھ میرے منہ میں چال گیا۔ اسکے بعد میری باری آئی اور میں ٹانگیں
کھول کر سائرہ کے سامنے آگئی۔ سائرہ نے میری چوت چاٹنی شروع کی تو اسکو فورا
ہی پہلے میں اور اب میں فرق محسوس ہوگیا۔
سائرہ نے مجھے کہا ارے یار فائزہ تمہاری چوت تہ پہلے سے بہت کھلی ہو چکی ہے۔
تو میں نے کہا بس کیا کروں جب سے تم نے رضوان کو چوت کا چسکا دلوایا ہے اپنے
سوئمنگ پول میں وہ میری چوت کو چھوڑتا ہی نہیں ،جب موقع ملتا ہے مار دیتا ہے۔ تو
یہی حال ہونا تھا میری بیچاری نازک چوت کا۔ یہ سن کر سمیرا ہنس پڑی اور کہا چلو تم
لوگ مزے تو خوب کرتے ہو ،مجھے دیکھو ابھی تک لن کا مزہ نہیں لیا۔
میں نے سائرہ کو کہا اتنی ہی پیاسی ہو تو اپنے کسی بوائے فرینڈ سے چدوا کیوں نہیں
لیتی۔ کتنے ہی لڑکے تمہارے آگے پیچھے پھرتے ہیں اپنے لن کو تیار رکھے ۔ مگر
سائرہ نے کہا نہیں یار پہال لن اپنے شوہر کا ہی لوں گی سہاگ رات پر۔ اس سے پہلے
کسی سے بھی نہیں چدائی کروانی۔ اسکی یہ بات سن کر میں دوبارہ سے اپنی چوت
چٹوانے میں مصروف ہوگئی مگر میرے ذہن میں سائرہ کے لیے نفرت اور بڑھ گئی۔ کہ
اسی نے جان بوجھ کر رضوان اور مجھے اتنا قریب کر دیا کہ ہم اس طرح چدائی
کروانے لگے اور پھر اپنے بھائی حیدر کی خوشی کے لیے میری ویڈیو بھی بنوائی تاکہ
وہ بھی اپنے لن سے میری چوت پھاڑ سکے۔ وہ تو اسکا بھائی نامرد نکال ورنہ وہ بھی
میری خوب بجاتا۔
سائرہ میری چوت چاٹنے میں مصروف تھی مگر میرا زہن اس سے بدلہ لینے کا سوچ
رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں میری چوت نے پانی چھوڑ دیا ،مگر آج وہ مزہ نہیں آیا جو
پہلے پانی نکلنے پر آتا تھا۔ اس کام سے فارغ ہوکر میں نے اپنے کپڑے پہنے ،سائرہ
ابھی مزید چاہتی تھی کہ میں ایک بار پھر اسکی چوت چاٹوں مگر میں نے کہا کہ گھر
میں امی ویٹ کر رہی ہیں آج میں نہیں رک سکتی پھر کبھی سہی۔
اس پر سائرہ نے مجھے اپنے ڈرائیور کے ساتھ واپس گھر چھوڑ دیا۔ رات کو گھر میں
بستر میں لیٹی میں یہی سوچتی رہی کہ آخر سائرہ سے بدلہ کیسے لیا جائے۔ میرے ذہن
میں اسکی یہ بات آئی کہ پہلی بار وہ سہاگ رات پر اپنے شوہر کا لن لینا چاہتی ہے۔ تو
اگر کسی طرح شادی سے پہلے ہی اسکا کنوارہ پن ختم کر دیا جائے تو میرے لیے یہی
بدلہ ہوگا۔ یہ خیال آتے ہی میں پالن بنانے لگی کہ آخر کیسے سائرہ کی چوت کا پردہ
پھاڑہ جائے ۔
پہلے میں نے سوچا کہ کیوں نہ سائرہ کی مالقات رضوان اور اسکے دوستوں سے
کرواوں جب وہ اس ماحول میں جا کر لڑکیوں کو چدائی کرواتا دیکھے گی تو خود ہی
راضی ہوجائے گی چدائی کے لیے۔ مگر پھر سوچا کہ ایسے رضامندی کے ساتھ اپنی
چوت کا پردہ پھاڑنے کی اجازت دینے سے تو بدلہ پورا نہیں ہوگا۔ مزہ تو تب آئے گا
جب وہ بھی میری طرح بلیک میل ہو۔ یا اسکے ساتھ کوئی زبردستی سیکس کرے۔
پھر مجھے عمران سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا کہ میں نے انہیں ایک کنواری گانڈ دلوانی
ہے۔ اور کچھ ہی دنوں میں عمران اور صائمہ ملتان بھی آنے والے تھے۔ مگر پھر
سوچا کہ عمران کبھی بھی کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی نہیں کریں گے۔ اور اگر
تھوڑی زور زبردستی کرتے بھی ہیں تو کم سے کم وہ سائرہ کے ساتھ نہیں کروانا
چاہیے کیونکہ اگر اس نے زبردستی کی چدائی کے بعد بدلہ لینے کی ٹھان لی تو اسکے
ابو اور اسکا خاندان بہت پاور فل لوگ ہیں وہ تو راتوں رات عمران کو غائب کروا دے
گی کہیں۔ لہذا میں نے یہ ارادہ بھی ترک کر دیا۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ
آخر سائرہ سے بدلہ کیسے لیا جائے۔ ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ مجھے
سمیرا کی کال آئی۔ اس نے بتایا کہ وہ اگلے ہفتے ملتان آرہی ہے کچھ دنوں کے لیے تو
وہ سائرہ کے گھر رہنے کی بجائے میری طرف رہنے کو ترجیح دے گی اگر مجھے
کوئی اعتراض نہ ہو تو۔ میں نے کہا بھال مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے تم جب چاہے
آو تمہارا اپنا گھر ہے۔ مگر تم سائرہ کی طرف کیوں نہیں رہا چاہتی وہ تو رشتے دار
ہیں۔ جس پر سمیرا نے بتایا کہ وہاں ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو منگنی توڑی ہے تو
اچھا نہیں لگتا کہ میں وہاں جا کر رہوں۔ بس امی ابو کے ساتھ جانا پڑ تو رہا ہے مگر
میرا وہاں رہنے کو بالکل دل نہیں کرے گا۔ اس پر میں نے اسکو تسلی دی اور کہا وہ
فکر نہ کرے جتنے دن چاہے وہ میرے ساتھ رہ سکتی ہے۔
اس واقعہ کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ الہور سے صائمہ اور عمران بھائی ہمارے ہاں
ملتان آگئے۔ انہوں نے اپنے آپنے کی خبر بالکل نہیں دی اور اچانک ہی گھر پر دھاوا
بول دیا۔ شام کے 6بجے کا ٹائم تھا گھر پر صرف امی اور میں موجود تھے۔ دروازے پر
بیل ہوئی میں نے جا کر دروازہ کھوال تو میری حیرت کی انہتا نہ رہی۔ سامنے صائمہ
اپنے ننھے منے عامر کو گود میں اٹھائے کھڑی تھی اور اسکے پیچھے عمران بھائی
ایک بڑا سا بیگ اٹھائے کھڑے تھے۔ صائمہ کو دیکھتے ہی میں نے ایک زور دار چیخ
ماری اور آگے بڑھ کر اسکو گلے سے لگا لیا۔ اور پھر عامر کو اپنی گود میں لیکر
اسکو پیار کرنے لگی۔ پیچھے سے عمران بھائی کی آواز آئی کہ ہماری سالی ہمیں تو
بھول ہی گئی عامر کو دیکھ کر۔ یہ سن کر میں نے عمران بھائی کی طرف دیکھا اور
انکو سالم کیا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر میرے سے ہاتھ مالیا اور ہلکے سے میرا ہاتھ
دبایا۔ پھر ہم لوگ اندر چلے گئے اور صائمہ امی سے ملی۔ امی نے بھی صائمہ سے
ملنے کے فوری بعد میری گود سے عامر کو پکڑ لیا اور اسکو پیار کرنے لگیں۔ میں
دونوں کے لیے پانی بنانے کچن میں چلی گئی۔
کچھ ہی دیر بعد پانی بن گیا تو میں نے صائمہ اور عمران کو پانی پالیا اور کھانے کا
پوچھا تو عمران بولے کہ ہاں بہت زور کی بھوک لگی ہے بنا لو کچھ اچھا سا آج۔
صائمہ نے بھی کہا کہ اسے بھی بھوک لگ رہی ہے۔ میں کچن میں چلی گئی اور چائے
بنانے لگی چائے بنا کر ساتھ میں نے فریزر سے مینیو کے سموسے نکالے اور جلدی
سے تیل میں تل لیے اور دونوں کے سامنے پیش کر دیے تاکہ جب تک کھانا تیار ہو تب
تک دونوں کی بھوک کسی حد تک برداشت ہو سکے۔ چائے پینے کے دوران میں اور
امی صائمہ سے چپکے رہے اور عامر کو باری باری پیار کرنے لگے۔ اس دوران لگ
رہا تھا کہ عمران کوئی انجان شخص ہے جو ہم تینوں خواتین میں موجود ہے۔
چائے سے فارض ہوکر میں نے برتن اٹھائے اور کچن میں چلی گئی اور کھانا بنانے
میں مصروف ہوگئی۔ کچن میں تھوڑی گرمی تھی جسکی وجہ سے مجھے پسینہ آرہا تھا
اور میری قمیص کسی حد تک جسم کے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔ میں کھانا بنانے میں
مصروف تھی کہ اچانک ہی میرے چوتڑوں پر ایک مردانہ ہاتھ لگا جس نے میرے ایک
چوتڑ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مسل ڈاال۔ میں نے ایک دم سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو
وہ عمران بھائی تھے۔ میں نے فورا ہی کچن سے باہر نظر ماری کہ کوئی اور نہ ہو
مگر عمران نے کہا فکر نہ کرو تمہاری امی اپنی بیٹی سے باتیں کرنے میں مصروف
ہیں وہ اب ادھر کا رخ نہیں کریں گی۔ یہ کہتے ہوئے عمران کی نظریں میرے مموں پر
تھیں۔ سفید قمیص کے نیچے سے سرخ رنگ کا برا نظر آرہا تھا اور قمیص کا گال تھوڑا
گہرا ہونے کی وجہ سے کلیوج الئن یعنی مموں کے بیچ والی الئن بھی واضح نظر آرہی
تھی۔ گرمی کی وجہ سے میں نے اپنا دوپٹہ اتار کر دروازے پر لٹکایا ہوا تھا۔ عمران
آگے بڑھے اور میرے ہونٹون پر ایک ِکس کر ڈالی۔ اور ایک ہاتھ سے میرا چوتڑ پکڑ
کر دوبارہ سے مسل ڈاال۔ عمران کے ہونٹون کی گرمی نے میرے اندر آگ لگا دی تھی
مگر یہ وقت سیکس کرنے کا ہرگز نہیں تھا۔ میں نے عمران کو پیچھے کیا اور کہا کوئی
آجائے گا آپ پلیز ابھی جائیں یہاں سے۔ یہ سن کر عمرا ن بولے ارے میری سیکسی
سی سالی کوئی نہیں آتا ادھر بے فکر رہو تم۔ یہ کہ کر عمران کا ہاتھ میرے ممے دبانے
میں مصروف ہوگیا۔ عمران نے میرے دونوں ممے اپنے ہاتھ میں پکڑے اور زور سے
دبا ڈاال۔ میری تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ پورے جسم میں ایک بجلی سی دوڑ گئی اور
میرا ہاتھ بال اختیار عمران کی شلوار پر چال گیا ۔ جیسے ہی شلوار پر ہاتھ لگایا تو 8انچ
کا لمبا لوڑا میرے ہاتھ میں آگیا۔ لوڑے پر ہاتھ لگتے ہی مجھے اپنی پھدی میں گیال پن
محسوس ہونے لگا تھا۔
میں نے عمران کا لوڑا ہاتھ میں پکڑ کر ایک دو بار ہالیا اور عمران نے میرے ممے
دبانا جاری رکھے۔ مگر پھر اچانک مجھے احساس ہوا کہ کوئی آسکتا ہے تو میں
دوبارہ سے عمران کو دور ہٹاتے ہوئے کہا کہ نہ کریں ایسا کوئی آجائے گا۔ مگر عمران
تھے کہ مجھے چھوڑنے پر تیار ہی نہیں تھے۔ وہ بولے کہ یہ لوڑا تمہارے ہونٹوں کی
نرمی اور منہ کی گرمی حاصل کرنے کے لیے مرا جا رہا ہے ۔ اسکو تو سکون پہنچاو۔
میں نے پھر سے کہا کہ عمران بھائی ایسا نہ کریں مناسب موقع دیکھ کر میں اپنے
پیارے سے لوڑے کی آگ بجھا دوں گی۔ مگر عمران تھے کہ ماننے کو تیار ہی نہیں
تھے۔ وہ بولے کہ ایک بار بس میرا لوڑا منہ میں لے لو پھر میں چال جاوں گا۔ میں نے
کہا کہ نہیں صائمہ کسی بھی وقت آسکتی ہے کچن میں آپ پلیز ایسا نہ کریں اگر اس نے
دیکھ لیا تو قیامت آجائے گی۔ یہ سن کر عمران بولے اچھا تم کھانا دیکھو میں ذرا
کمرے کا ماحول دیکھ کے آتا ہوں دوبارہ۔
یہ کہ کر عمران کچن سے نکل گئے اور میں نے بھی شکر ادا کیا اور دوبارہ سے کھانا
دیکھنے لگی۔ مگر مجھے اپنی پھدی میں گیال پن ابھی تک محسوس ہورہا تھا۔ ابھی
میں نے 2چمچ ہی ہالئے تھے کہ پیچھے سے پھر عمران آگئے اور فورا مجھے اپنی
طرف کھینچتے ہوئے بولے کہ ماں بیٹی گم ہیں اپنی دنیا میں انکو آس پاس کا کوئی
ہوش نہیں تم جلدی سے میرے لوڑے کی پیاس بجھا دو۔ یہ کہ کر انہوں نے اپنی شلوار
کا ناڑا کھولنا شروع کیا۔ میں نے فورا عمران کو روکا اور کہا کہ پورا ناڑا نہ کھولیں
ہلکا سا ڈھیال کر لیں تاکہ لن باہر نکل سکے۔ اور اگر کوئی آیا تو اسکو فورا اندر بھی
کیا جا سکے۔
میری یہ بات سن کر عمران نے ناڑا دوبارہ سے باندھ دیا مگر ٹائٹ کر کے نہیں باندھا
تھوڑا ڈھیال رہنے دیا۔ میں نے شلوار میں ہاتھ ڈاال اور لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دبانے
لگی۔ لن کی موٹائی مجھے پاگل کر رہی تھی ،کسی کے آنے کا خوف بھی تھا مگر لن
کی لمبائی اور موٹائی میری پھدی کو گرم کیے جا رہی تھی۔ میں نے ایک نظر کچن سے
باہر ڈالی کوئی موجود نہیں تھا تو میں نے فورا ہی عمران کا لوڑا باہر نکال لیا اور
نیچے بیٹھ کر بغیر اس پر پیار کیے اپنے منہ میں گھسا دیا۔ لوڑا منہ میں جاتے ہی
عمران کی ایک ہلکی سی سسکی نکلی۔ مگر میں نے اس پر توجہ نہیں دی اور لن کو
چوسنا شروع کر دیا۔ عمران کا آدھا لن میں اپنے منہ میں لیکر چوس رہی تھی ۔ نچال
حصہ میں نے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا اور اوپر واال حصہ ٹوپی سمیت میرے منہ میں تھا۔
میں کبھی ٹوپی پر زبان پھیرتی تو کبھی لن کی سائیڈوں کو اپنی زبان سے چاٹنے لگتی
۔ اور پھر سے لوڑا منہ میں ڈال کر اسکو اندر باہر کر کے چوسنے لگتی۔ عمران وقفے
وقفے سے ہلکی ہلکی سسکیاں لے رہے تھے۔
میں کچن میں بیٹھی ہوئی تھی اور اپنے بہنوئی کا لوڑا پوری دلجمعی سے چوس رہی
تھی میری پھدی سے مسلسل پانی نکل رہا تھا جس نے میری شلوار کو مکمل گیال کر
دیا تھا۔ یہ گیال پن مجھے اپنی تھائیز پر اور چوتروں پر محسوس ہورہا تھا۔ پھر میں نے
اپنے منہ میں ایک تھوک کا گوال بنایا اور اسے عمران کے لن کی ٹوپی پر پھینک کر
اپنے ہاتھوں سے پورے لن پر مسل دیا۔ اس سے عمران کا لن جو آدھا گیال تھا اب پورا
گیال ہوگیا تھا اور چمکنے لگا تھا۔ لن پر اچھی طرح تھوک مسلنے کے بعد ایک بار پھر
سے میں نے لن کو اپنے منہ میں لیا اور اور اسکا چوپا لگانا شروع کر دیا۔
لن کا چوپا لگانے کے ساتھ ساتھ میں ایک ہاتھ سے عمران کے ٹٹے بھی مسل رہی تھی
جس سے عمران کو بہت مزہ آرہا تھا۔ عمران بولے کہ تم تو ماہر ہوگئی ہو چوپا لگانے
میں۔ پہلے صائمہ سے چوپا لگوانے کا مزہ آتا تھا مگر جب سے تم نے چوپا لگانا
شروع کیا ہے اب صائمہ کے چوپے میں وہ مزہ نہیں رہا۔ یہ سن کر میں نے اور بھی
تیزی کے ساتھ عمران کا چوپا لگانا شروع کیا جس سے عمران کی سسکیاں نکلنے
لگیں۔ عمران نے مجھے بالوں سے پکڑا ہوا تھا اور میرا سر اپنے لن کی طرف دھکیل
رہے تھے جبکہ میں عمران کے لن کو مکمل منہ میں لیکر اپنے منہ کی چودائی کروا
رہی تھی ۔ عمران نے آہستہ آہستہ خود ہی اپنے لن کو میرے منہ میں اندر باہر کرنا
شروع کر دیا تھا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اب چھوٹنے ہی والے ہیں۔
لہذا میں نے بھی اپنے منہ کی گرفت لن پر اور مضبوط کی تاکہ جلد سے جلد انکا پانی
نکل سکے۔ میں عمران کے لن کا چوپا لگانے میں مصروف تھی کہ اچانک ہی مجھے
صائمہ کی آواز سنائی دی جو امی کو کہ رہی تھی کہ آج تو کچن سے بڑی اچھی خوشبو
آرہی ہے۔ یہ آواز کانوں میں پڑتے ہی میں بجلی کی سی تیزی سے کھڑی ہوگئی اور
عمران کو بھی احساس ہوا کہ صائمہ کچن کے قریب ہی ہے۔ میں نے فورا اپنا منہ
چولہے کی طرف کیا آخری نظر عمران کے لن پر پڑی تو وہ عمران کے ہاتھ میں تھا
اور وہ اسکو اپنی شلوار کے اندر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اتنے میں صائہ کی
آواز ایک بار پھر سے آئی اور وہ بولی کہ ارے آپ بھی کچن میں ہی ہیں۔ میں تو
سمجھی کہ آپ کہیں باہر نکل گئے ہیں۔ یہ سن کر میں نے مڑ کر دیکھا تو عمران اپنا لن
واپس شلوار میں ڈالنے میں کامیاب ہو چکے تھے مگر انکا منہ ابھی تک میری طرف
تھا اور وہ بھی کافی گھبرائے ہوئے تھے۔ انہوں نے پھر صائمہ کی طرف دیکھا اور
بولے کہ ہاں تم آنٹی کے ساتھ مصروف تھی تو میں بور ہورہا تھا میں نے سوچا فائزہ
سے تھوڑی گپ شپ ہی لگا لی جائے۔ یہ کہتے ہوئے عمران کی آواز تھوڑی کانپ رہی
تھی۔ صائمہ نے پھر میری طرف دیکھا اور بولی ارے تمہارے چہرے پر کیوں ہوائیاں
اڑی ہوئیں ہیں۔ کیا ہوا تمہیں؟؟؟ مجھے فوری طور پر تو سمجھ نہ آئی کہ کیا کہوں پھر
ایک دم سے بہانہ بنا ڈاال کہ ایک تو کچن میں گرمی اوپر سے کھانا خران نہ ہوجائے
اس چیز کی ٹینشن۔ صائمہ نے کہا میں کونسا یہاں مہمان ہوں کہ تم کھانا خراب بناو گی
تو میں برا منا جاوں گی۔ آرام سے اطمینان سے بناو کچھ نہیں ہوگا کھانے کو اگر ٹینشن
سے بناو گی تو خراب ہوجائے گا۔ یہ کہ کر صائمہ میرے قریب آئی۔ مجھے لگا جیسے
اسکو شک ہوگیا ہے۔ میرے دل میں چور تھا مگر صائمہ میرے قریب سے گزرتی ہوئی
چولہے کی طرف گئی اور بولی واہ بریانی بن رہی ہے۔ عمران کو اور مجھے بریانی بہت
پسند ہے۔ یہ کہ کر اسنے عمران کو مسکرا کر دیکھا اور عمران بھی بولے کہ ہاں آج
دیکھتے ہیں سالی کے ہاتھ کی بریانی اچھی ہے یا پھر بیوی کے ہاتھ کی۔ امی کچن کے
دروازے میں کھڑی تھیں اور عامر کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔ امی مجھ سے بولیں بیٹا
اگر میری مدد کی ضرورت ہے تو بتاو میں ساتھ بنوا دوں؟؟ مگر میں نے کہا نہیں امی
جان آپ آرام کریں میں بنا لوں گی۔ یہ سن کر امی واپس کمرے میں چلی گئیں صائمہ
وہیں کچن میں کھڑی رہی اور عمران کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی جبکہ میں دوبارہ
سے چولہے کی طرف منہ کر کے پتیلے میں چمچ ہالنے لگی اور دل ہی دل میں شکر
کرنے لگی کہ آج تو بال بال بچ گئی۔
صائمہ کچھ دیر عمران کے پاس کھڑی عمران سے باتیں کرتی رہی پھر وہ بھی یہ کہ
کر کمرے میں چلی گئی کہ کافی تھک گئی ہوں سفر سے تھوڑا آرام کر لوں میں۔ اسنے
عمران کو بھی بالیا مگر عمران بولے کہ نہ بھائی تمہارے ساتھ تو میں بور ہو رہا تھا
تم ماں بیٹی کی باتیں ہی ختم نہیں ہوتیں ادھر فائزہ کے ساتھ مزہ تو آرہا ہے۔ یہ سن کر
صائمہ ہنسی اور بولی چلو آپ فائزہ کے ساتھ مزے لو میں تو چلی آرام کرنے۔ یہ کہ کر
صائمہ چلی گئی اور میں عمران کو دیکھنے لگی اور صائمہ کے جاتے ہی پوچھا یہ
کونسے مزے کی بات ہورہی ہے؟؟؟ عمران بولے میں نے تو اسی مزے کی بات کی ہے
جو تم نے چوپے لگا کر دیا ہے مگر صائمہ کو کیا پتہ میں کونسے مزے کی بات کر رہا
ہوں۔ یہ کر عمران کا ہاتھ ایک بار پھر اپنے لن کی طرف گیا اور وہ اسکو شلوار سے
نکالنے لگے تو میں نے فورا ہی انکا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا عمران بھائی بس کریں اب
پہلے ہی بال بال بچے ہیں اب دوبارہ ایسا رسک نہیں لینا۔ مگر عمران بولے کہ یار میرا
پانی نکلنے ہی واال تھا بس 2منٹ چوپا لگا دو اور میں فارغ ہوجاوں گا۔
میں نے کہا نہیں ہرگز نہیں اور اب 2منٹ کے چوپے سے کچھ نہیں ہونا درمیان میں
وقفہ آگیا ہے اب دوبارہ سے محنت کرنی پڑے گی لہذا اب آپ برداشت کریں پھر مناسب
وقت میں کچھ کریں گے۔ پھر عمران آگے بڑھے اور مجھے زور سے اپنی بانہوں میں
لیکر جپھی ڈالی لی اور بولے یار فائزہ تم بہت سیکسی ہو۔ میرا لن تو ہر وقت تمہاری
پھدی کے لیے ترستا ہے۔ صائمہ کو چودتے ہوئے بھی تمہارا خیال دل میں آرہا ہوتا ہے۔
یہ سن کر میں نے عمران کے ہونٹ چوسے اور پھر بولی کہ آپکا لن بھی بہت تگڑا ہے۔
بہت مزہ دیتا ہے میری پھدی کو۔ جب سے الہور سے آئی ہوں آپ کے لن کی طلب رات
کو بہت ترساتی ہے ۔ پھر عمران نے کچھ دیر میرے ہونٹ چوسے اور پھر کچن سے
چلے گئے۔
کھانا تقرتبا تیار ہوچکا تھا اور ابو کے آنے کا بھی ٹائم ہوگیا تھا۔ باہر بیل ہوئی تو میں
دروازہ کھولنے گئی سامنے فیاض تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ابو بھی آگئے تو میں نے سب
کو کھانے کی میز پر بیٹھنے کو کہا۔ اور خود برتنوں میں کھانا ڈالنے لگی۔ کھانا ڈال کر
جب میں ٹیبل پر گئی تو سب لوگ اپنی اپنی چئیر پر بیٹھ چکے تھے عمران کے ساتھ
والی چئیر خالی تھی۔ امی اور ابو سائیڈ والی چئیر پر بیٹھے تھے جو آمنے سامنے تھیں
جبکہ بیچ والی 2چئیرز پر ایک سائیڈ پر صائمہ اور فیاض تھے تو دوسری سائیڈ پر
عمران بیٹھے تھے لہذا انکے ساتھ والی چئیر پر جا کر میں بیٹھ گئی اور ہم سب کھانا
کھانے لگے۔ کھانا کھاتے ہوئے بھی عمران کو چین نہ آیا تو انہوں نے اپنا ہاتھ میری
ٹانگ پر رکھ دیا اور آہستہ آہستہ میری تھائیز کو سہالنے لگے۔ اس سے میری چوت
گرم ہورہی تھی۔ میں نے ہلکی سی ٹانگ ہالئی اور عمران کو اشارہ کیا کہ اپنا ہاتھ ہٹا
لیں مگر انہیں کوئی اثر نہ ہوا۔ اور انہوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ پھر اچانک ہی انہوں
نے اپنا ہاتھ میری شلوار کے اندر ڈال دیا اور میری گوشت سے بھری ہوئی تھائیز کو
ہاتھ میں پکڑ کر دبانے لگے۔ انکی یہ حرکت میرے لیے بالکل بھی متوقع نہیں تھی۔ اس
غیر متوقع حرکت سے میرے لیے کھانا کھانا مشکل ہونے لگا تھا۔ اور میرا چہرہ ڈر
کے مارے سرخ ہوگیا تھا کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا۔ مگرعمران کو کسی چیز
کی فکر نہیں تھی۔ انکے سر پر تو اس وقت سیکس سوار تھا۔
وہ ساتھ ساتھ ابو سے باتیں بھی کر رہے تھے اور باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ ابو کی
ت حال میں میں بیٹی کی شلوار میں ہاتھ ڈالے پھدی کو بھی مسل رہے تھے۔ اس صور ِ
مکمل بے بس تھی۔ میں نہ تو عمران کو منع کر سکتی تھی اور نہ ہی سسکیاں نکال
سکتی تھیں۔ اپنی آواز کہ بہت مشکل سے کنٹرول کر رہی تھی۔ میری پھدی گیلی ہو رہی
تھی اور اس میں عمران ایک انگلی ڈال کر ہالنے میں مصروف تھے۔ عمران کی انگلی
نے میری پھدی میں آگ لگائی ہوئی تھی اور مجھ سے صحیح طرح سے کھانا بھی نہیں
کھایا جا رہا تھا۔ میں بس اپنے دونوں ہاتھ میز پر رکھ کر بیٹھی تھی اور کوشش کر رہی
تھی کہ نا تو سسکی نکلے اور نہ ہی جسم کانپنا شروع ہو۔ کیونکہ جب کوئی لڑکی کی
پھدی میں انگلی کرے تو اسکا جسم تو مزے کی شدت سے الزمی کانپنا شروع کرتا
ہے۔
مجھے عمران پر غصہ بھی آرہا تھا مگر انکی انگلی مزہ بھی بہت دے رہی تھی۔ اپنے
ابو اور امی کے ہوتے ہوئے پھدی میں انگلی ڈلوانے کا یہ پہال تجربہ تھا۔ ڈر اور مزے
کی ملی جلی کیفیت اس سے پہلے کبھی اس طرح محسوس نہیں کی تھی میں نے۔ اب
میں مزے لینے میں مصروف تھی کہ صائمہ نے عمران کو کہا کہ وہ سالن واال برتن
اسکو پکڑا دیں جس پر مجبورا عمران نے میری پھدی سے اپنی انگلی نکالی سالن واال
برتن اٹھا کر صائمہ کو پکڑایا۔ جیسے ہی عمران نے میری شلوار سے اپنا ہاتھ باہر
نکاال میں نے دونوں ہاتھ نیچے لیجا کر اپنی شلوار اور قمیص کو صحیح طرح سے
سیٹ کیا اور اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور ابو سے پوچھا کسی اور چیز کی
ضرورت ہے؟ تو ابو نے کہا بریانی کی یہ ٹرے لیجاو اور اس میں گرم بریانی ڈال الو یہ
ٹھنڈی ہوگئی ہے۔ میں نے سکھ کا سانس لیا اور ٹرے اٹھا کر کچن میں چلی گئی۔
واپس آکر میں نے ٹرے تو واپس رکھ دی مگر دوبارہ سے اپنی کرسی پر نہیں بیٹھی
بلکہ ادھر ادھر اپنی مصروفیت ظاہر کرنے لگی ۔ جب سب کھانا کھا چکے تو میں نے
برتن سمیٹے اور پھر سے صائمہ ،میں اور امی کمرے میں بیٹھ کر باتوں میں مصروف
ہوگئے۔ جب کہ دوسری طرف عمران اب ابو جی کے ساتھ بیٹھے تھے اور میں انکو
دیکھ دیکھ کر ہنس رہی تھی کیونکہ وہ ایک بار پھر ابو کی باتوں سے بور ہورہے
تھے۔
اب رات کے 12بچ چکے تھے فیاض اور ابو سو چکے تھے۔ امی کو بھی اب نیند آرہی
تھی اور صائمہ بھی تھکاوٹ کی وجہ سے سونا چاہ رہی تھی۔ لہذا میں نے صائمہ اور
عمران کا بستر اپنے کمرے میں کیا اور خود اپنے لیے چارپائی بچھا کر اس پر بستر
لگا دیا۔ صائمہ لیٹے ہی سوگئی اور عمران بھی اسکے ساتھ لیٹ کر سونے کی کوشش
کرنے لگے۔ میں ب ِھ اپنے بستر پر لیٹ گئی اور کچھ ہی دیر بعد میری آنکھ لگ گئی۔
رات کے پچھلے پہر مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی میری پھدی چاٹ رہا ہے۔ مجھے
ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے میں اپنے بستر پر لیٹی ہوں اور عمران اپنی زبان سے
میری پھدی کو چاٹنے میں مصروف ہیں۔ مجھے ایسے لگا کہ جیسے میں کوئی خواب
دیکھ رہی ہوں۔ مگر اچانک ہی میری آنکھ کھلی اور میں نے دیکھا کہ عمران میری
اوپر جھکے ہوئے ہیں اور انہوں نے میری شلوار اتاری ہوئی ہے اور وہ اپنی زبان
سے میری پھدی چاٹنے میں مصروف ہیں۔ یہ دیکھتے ہی مجھے ایک جھٹکا لگا اور
میں نے فورا صائمہ کی طرف دیکھا جو گہری نیند سو رہی تھی۔
عمران کو بھی محسوس ہوگیا کہ میں جاگ گئی ہوں تو انہوں نے میری ایک ٹانگ اٹھا
کر اپنے کندھے پر رکھ لی دوسری ٹانگ سائیڈ پر کر دی اور خود اپنا چہرہ میری پھدی
پر رکھ کر مسلنے لگے۔ میں نے ہلکی سی آواز میں عمران کو کہا کہ کیا ہوگیا ہے آپکو
صائمہ اٹھ جائے گی تو وہ بولے وہ بہت گہری نیند سو رہی ہے اگر تم اپنا منہ بند رکھو
تو وہ نہیں اٹھے گی۔ یہ کہ کو وہ دوبارہ سے میری پھدی چاٹنے لگے۔ اور میں مزے
کی شدت سے تڑپنے لگی۔ عمران کی زبان میری پھدی کی الئن میں تیزی کے ساتھ اپنا
جادو دکھا رہی تھی اور میں اپنا سر دائیں بائیں مار کر اپنی سسکیوں کو منہ سے
نکلنے سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اچانک عمران کی زبان رک گئی میں نے
اپنا منہ اوپر اٹھا کر عمران کی طرف دیکھا اور اشارے سے پوچھا کہ کیا ہوا رک کیوں
گئے؟؟؟ عمران نے آہستہ سے کہا تمہیں اپنا وعدہ یاد ہے؟؟؟ ایک گانڈ دلوانی ہے تم نے
مجھے ۔۔ میں نے فورا کہا ہاں ہاں یاد ہے آپ گانڈ کی فکر نہ کریں مل جائے گی فی
الحال آپ میری چوت پر توجہ دیں۔ یہ کہ کر میں نے عمران کا سر پکڑ کر دوبارہ سے
اپنی پھدی پر رکھ دیا عمران نے دوبارہ سے پھدی چاٹنا شروع کی اور مجھے پھر سے
مزہ آنے لگا۔ پھر عمران نے ایک بار پھر سے اپنی زبان روک دی اور بولے اگر تم نے
مجھے کوئی اور گانڈ نہ دلوائی تو میرا لن تمہاری گانڈ پھاڑ دے گا۔۔۔ اس پر میں نے کہا
آپ بے فکر ہوجاو آپکو اور گانڈ بھی دلواوں گی اور اپنی گانڈ بھی آپ سے چدوا لوں
گی لیکن اب رکنا نہیں جب تک میری پھدی پانی نہ چھوڑ دے۔ میری بات سن کر عمران
بولے کیا واقعی؟؟؟ میں نے کہا ہاں واقعی اب اور کوئی بات کیے بغیر میری چوت چاٹنا
شروع کرو نہیں تو کوئی گانڈ بھی نہیں ملے گی۔ یہ سن کر عمران ایک بار پھر سے
میری چوت چاٹنے میں مصروف ہوگئی۔
اب کی بار عمران نے اپنی ایک انگلی میری پھدی میں داخل کر دی اور اس سے میری
چدائی کرنے لگے اور اپنی زبان میری پشاب والی جگہ پر تیز تیز چالنے لگے۔ عمران
کی زبان جب میرے دانے سے ٹکراتی تو میرا دل کرتا زور زور سے سسکیاں بھروں
مگر پھر صائمہ کے خیال سے میں اپنا ارادہ ترک کر دیتی۔ کچھ دیر عمران کی انگلی
میری پھدی میں اپنا جادو دکھاتی رہی پھر اچانک ہی میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا جو
عمران کے منہ چال گیا۔ عمران نے فوری طور پر اپنا چہرہ ہٹا لیا تو باقی کا پانی میری
شلوار پر جا گرا اور مجھے سکون کا سانس مال۔ شام سے ہی عمران نے میری چوت
میں آگ لگا رکھی تھی اور اب جا کر مجھے سکون مال تھا۔
عمران فورا واش روم گئے اور جا کر کلی کرنے لگے۔ کلی کر کے واپس آئے تو میں
دوبارہ سے سونے کی تیاری کر ری تھی مگر عمران نے مجھے کہا کہ یہ کیا حرکت
ہے ؟ تمہارا پانی نکل گیا اب میرا پانی کون نکالے گا؟؟؟ یہ سن کر میں نے کہا آپکی
بیوی ساتھ ہے اسکو اٹھائیں اور اسکی چودائی کریں۔ میں سونے کی ایکٹنگ کروں گی
اور اپنی بہن کی چودائی دیکھتی رہوں گی۔ مگر عمران بولے نہیں محترمہ ابھی تم میرا
لن چوسو گی۔ جو مزہ تمہارے چوپوں میں ہے وہ صائمہ کے چوپوں میں نہیں۔ اسکو تو
میں بعد میں بھی چودتا رہوں گا مگر جب تک ادھر ہوں اپنی سالے سے ہی اپنے لن کی
پیاس بجھاوں گا۔ چلو اٹھو اور چوپا لگاو۔ یہ کہ کر عمران نے اپنا لوڑا شلوار سے نکال
لیا۔
اب کی بار عمران نے اپنی شلوار گھٹنوں تک نیچے کر دی تھی اور انکا لوڑا چھت کی
طرف دیکھ رہا تھا۔ ٹٹے بالوں سے پاک تھے میں نے بھی بال جھجھک عمران کا لوڑا
منہ میں ڈال لیا اور اسکو چوسنے لگی۔ میں چارپائی پر ہی لیٹی تھی اور عمران کی
طرف کروٹ لی ہوئی تھی جب کہ عمران چارپائی کے ساتھ کھڑے تھے ۔ انکا لوڑا منہ
میں ڈالنے کے لیے مین نے اپنا چہرہ تھوڑا سا اوپر بھی اٹھایا ہوا تھا۔ 5منٹ تک میں
عمران کے لوڑے کا چوپا لگاتی رہی۔ کبھی عمران کی ٹوپی پر اپنے ہونٹ پھرتی تو
کبھی اپنی زبان سے عمران کا لوڑا گیال کرتی۔ کبھی انکے ٹٹے اپنے منہ میں لیکر
چوستی تو کبھی پورا لن منہ میں ڈال کر اپنے منہ کی چدائی کرواتی۔ 5منٹ کے چوپوں
کے بعد عمران کے لن میں سختی بڑھنے لگی اور انکے جھٹکے بھی میرے منہ میں
تیز ہونے لگے۔ پھر ایک جھٹکے کے ساتھ عمران نے اپنا پانی چھوڑ دیا۔ پہلے جھٹلوں
کا پانی میرے منہ میں گیا جبکہ باقی کے جھٹکوں کا پانی میرے چہرے پر گرا۔
جب عمران کے لن نے جھٹکے مارنا بند کر دیے تو میں نے عمران کا لوڑا چوس کر
اسکو صاف کیا اور جو پانی ٹوپی پر لگا ہوا تھا اسکو بھی اپنی زبان سے چاٹ لیا۔
اسکے بعد میں اٹھ کر واش روم چلی گئی اور اپنا چہرہ صاف کرنے لگی جب کہ عمران
صائمہ کے ساتھ لیٹ کر گہری نیند سوگئے۔
اگلے دن بھی عمران اسی انتظار میں تھے کہ کب انہیں موقع ملے اور وہ میری چودائی
کریں مگر افسوس کے انکو ایسا کوئی موقع نہ مل سکا۔ دوپہر 1بجے مجھے سراسلم
کا فون آیا۔ میں نے فون پر سر کا نام پڑھا تو باہر صحن میں چلی گئی اور وہاں جاکر
جان من کہاں غائب ہوگئی ہو۔ میرا لن
فون اٹینڈ کیا۔ میرے فون اٹینڈ کرتے ہی سر بولے ِ
کب سے تمہاری چوت کے لیے ترس رہا ہے۔ آج آفس میں کام نہیں ہے زیادہ آج آجاو
اور میری برسوں کی پیاس اپنی گرم گرم جوانی سے مٹا جاو۔ میں نے سر کو بتایا کہ
گھر مہمان آئے ہوئے ہیں ابھی کچھ دن آنا مشکل ہے۔ مگر سر بولے کہ نہیں اب کوئی
بہانہ نہیں چلے گا۔ تم آج ہی آو میں آفس میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ میں آج ہی
تمہاری چودائی کروں گا۔ یہ کہ کر سر نے فون بند کر دیا اور میں سوچنے لگی کہ اب
کیسے جاوں سر کے پاس؟؟
دوپہر 1بجے کا ٹائم تھا اور فیاض کو بھی اپنے کالج سے چھٹی ہونے والی تھی۔
دوسری اوپر سے سر کا فون بھی اس ٹائم آیا اور وہ فورا ملنا چاہ رہے تھے۔ دوسری
طرف عمران بھائی بھی موقع کی تالش میں تھے کہ کسی طرح اپنی سالی کو چودنے کا
موقع مل جائے انہیں۔ لیکن میں نے فیصلہ کر لیا کہ آج سر سے تو ضرور ملوں گی۔
میں نے سن رکھا تھا بڑی عمر کے مرد چودائی کرنے میں بہت ماہر ہوتے ہیں کیونکہ
انکہ تجربہ بہت ہوتا ہے اور وہ جانتے ہیں عورت کو کیسے خوش کرنا ہے۔ لہذا میرے
دل میں تمنا تھی کہ جلد سے جلد سر اسلم سے بھی چودائی کرواوں مگر اسطرح اچانک
انکا فون آجائے گا اسکی مجھے امید نہیں تھی۔
لہذا میں نے امی کو بتایا کہ فیاض کے کالج سے فون ہے اور اسکے ٹیچر ملنا چاہتے
ہیں۔ امی نے پوچھا ایسا کیا مسئلہ ہوگیا؟ پہلے بھی گئی تھیں تم۔ تو میں نے امی کو
بتایا کہ اصل میں فیاض کے ایڈمیشن کا مسئلہ تھا وہ تو حل ہوگیا مگر سر نے مجھے
کہا تھا کہ جب تک اسکے پیپر نہیں ہوتے تو اسکی رپورٹ وغیرہ باقاعدگی سے چیک
کرتی رہنا تاکہ یہ امتحان میں فیل نہ ہوجائے۔ میری بات سن کر امی نے کہا تو تمہارا
جانا کونسا ضروری ہے تمہارے ابو کو فون پے بتاو وہ مل آئیں گے۔ میں نے فورا سے
کہا نہیں ابو کو نہ بتائیے گا فیاض پہلے ہی ڈرا ہوا ہے ابو سے۔ اگر ابو کو پتا لگے گا
تو وہ فیاض کو ڈانٹیں گے اور وہ صحیح سے پڑھ نہیں سکے گا اسکی پڑھائی کا حرج
ہوگا اسطرح۔ میں دیکھ آتی ہوں اور جو بھی صورتحال ہوئی آپکو بتا دوں گی آپ پھر
اسکو پیار سے سمجھائیے گا کہ دل لگا کر پڑھے۔
میری بات سن کر امی نے برا سا منہ بنایا اور بولیں پتا نہیں آجکل کے لڑکے اتنے
چھوئی موئی سے کیوں ہوتے ہیں ذرا سی ڈانٹ پڑ جائے تو انسے پڑھائی نہیں ہوتی۔ یہ
کہتے ہوئے امی نے عمران کو آواز دی اور کہا کہ بیٹا یہ فائزہ نے فیاض کے سکول
جانا ہے تم بھی ساتھ چلے جاو۔ یہ کہ کر امی نے میری طرف دیکھا اور کہا اپنے بھائی
کے ساتھ جاو اور ٹائم سے واپس آجانا۔ میں امی کے اس اچانک فیصلے سے سٹپٹا
گئی۔ اور سوچنے لگی کہ اب اس مصیبت سے کیسے نجات حاصل کروں۔ عمران بھائی
کے ساتھ سر سے ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔
خیر میں نے سوچا کہ فی الحال تو جانے کی تیاری کروں راستے میں کچھ بہانہ بناوں
گی عمران بھائی کو ٹرخا دوں گی۔ یہ سوچ کر میں اپنے کمرے میں گئی اور الماری
سے اپنی بلیو جینز نکال کر پہن لی۔ جینز کے نیچے میں نے عمران کی دی ہوئی پینٹی
بھی پہنی جو درمیان سے سوراخ والی تھی اور بغیر اتارے چودائی ممکن تھی۔ ساتھ
میں نے سرخ رنگ کا پُش اپ برا پہنا جس سے ممے اوپر کو اٹھ کر کلیویج بناتے ہیں
اور اسکے اوپر میں نے بغیر شمیض پہنے ایک کرتی نکال کر پہن لی۔ ہلکا سا میک اپ
کرنے کے بعد میں نے اوپر سے ایک چادر لپیٹ لی اور نیچے ہائی ہیل والی سینڈل نکال
کر پہن لی۔
تیار ہوکر میں عمران بھائی کے پاس گئی جو صائمہ کے ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے
تھے اور انکو کہا چلیں عمران بھائی دیر ہورہی ہے۔ صائمہ نے پوچھا کہاں کی تیاری
ہے تو میں نے بتایا کہ فیاض کے سکول جا رہی ہوں۔ عمران بھی فورا اٹھے اور گاڑی
نکالی ۔ میں انکے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اور گاڑی چل پڑی۔ عمران نے میری طرف
دیکھتے ہوئے کہا تیاری تو تم نے ایسے کی ہے جیسے کسی بوائے فرینڈ سے ملنے
جا رہی ہو۔ یہ کہ کر عمران ہنسنے لگے اور پھر بولے یار فائزہ تم بہت سیکسی لگ
رہی ہو اس ڈریس میں۔ میرے شیطانی ذہن میں فورا ہی آئیڈیا آیا اور میں نے عمران کو
کہا اصل میں عمران بھائی بات یہ ہے کہ فیاض کے سکول نہیں جانا بلکہ میری ایک
دوست کی کال آئی تھی۔ ہم لڑکیوں نے مل کر ایک پارٹی ارینج کی ہے۔ اگر امی کو پارٹی
کا کہتی تو وہ کبھی اجازت نہ دیتیں اس لیے میں نے امی سے کالج کا بہانہ کرا ہے۔
میری یہ بات سن کر عمران مسکرائے اور بولے مجھے تو پہلے ہی شک تھا دال میں
کچھ کاال ہے۔ ورنہ کوئی بھی سر بھال اسطرح اچانک کیوں بالئیں گے اور بالنا بھی ہو
تو والدین کو بالتے ہیں بہن کو بھال کیوں بالنے لگے۔ میں بھی ہنس دی اور کہا بس
عمران بھائی کوئی بہانہ تو کرنا ہی تھا نہ امی سے۔ میری یہ بات سن کر عمران
کھلکھال کر ہنس پڑے اور بولے مگر تمہاری امی نے کہا ہے کہ میں تمہیں لیکر ہی
واپس آوں۔ میں نے عمران بھائی کی منت کی کہ آپ پلیز مجھے ادھر مارکیٹ میں اتار
دیں میری دوست یہیں ہوگی اسکے ساتھ میں اسی کی گاڑی میں چلی جاوں گی پھر جب
پارٹی سے فارغ ہوئے تو میں آپکو کال کر دوں گی آپ آکر مجھے لیجانا۔ اس بات پر
عمران بولے کے پارٹی تو دیر تک چلے گی امی سے کیا کہو گی اتنی دیر کہاں لگ گئی؟
میں نے کہا آپ کہ دیجیے گا کہ مجھے کچھ شاپنگ کرنی تھی تو کالج سے ہم دونوں
شاپنگ کرنے چلے گئے۔
میری اس بات پر عمران نے کہا شاپنگ تو انہیں واقعی میں کرنی ہے کچھ ۔ میں ایکدم
بولی تو بس ٹھیک ہے آپ تب تک شاپنگ کریں میں اس ٹائم میں دوست کی طرف ہو
پارٹی اٹینڈ کرتی ہوں۔ فارغ ہوکر میں آپکو کال کر دوں گی۔ عمران نے کہا اچھا چلو
ٹھیک ہے مگر جلدی فارغ ہوجانا کیونکہ میں نے اپنے لیے ہی شاپنگ کرنی ہے زیادہ
سے زیادہ 1گھنٹہ ہی لگے گا مجھے۔ میں نے عمران کو یقین دالیا کہ میں پوری
کوشش کروں گی جلدی فارغ ہونے کی۔ آپ بے فکر ہوجائیں۔
پھر عمران نے کینٹ میں گاڑی روکی اور میں وہاں سے رکشہ میں بیٹھ کر فیاض کے
کالج چلی گئی جو وہاں سے نزدیک ہی تھا اور عمران کینٹ مارکیٹ گھومنے لگے۔
کالج پہنچی تو وہاں چھٹی ہو چکی تھی۔ میں سیدھی سر اسلم کے آفس چلی گئی۔ آفس
کے باہر پہنچ کر دروازے پر ناک کیا تو اندر سے آواز آئی یس ،کم اِن۔ میں دروازہ
کھول کر اندر گئی تو اندر سر اسلم سامنے ہی ایک کرسی پر بیٹھے تھے اور انکے
سامنے ایک سٹوڈنٹ بھی بیٹھا تھا جو عمر میں لگ بھگ 16یا 17سال کا ہوگا۔ سر
نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا اور دوبارہ سے اپنے سٹوڈنٹ سے بات کرنے لگے۔
وہ شاید کسی کالج کے کام کے سلسلے میں بات کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں سر نے
اس لڑکے کو فارغ کر دیا اور وہ آفس سے نکل گیا۔ اسکے جاتے ہی سر اسلم نے
مجھے مسکراتے ہوئے دیکھا اور بولے سوری یار تمہیں انتظار کرنا پڑا۔۔
میں نے کہا کوئی بات نہیں سر آپ سنائیں کیا حال ہیں۔ سر فورا بولے بس برا حال ہے
تمہارے انتظار میں ۔ نہ دن کو سکون ہے نا رات کو چین ہے۔ جب سے تم نے اپنی ----
-دکھائی ہے میں تو بے چین ہوگیا ہوں۔ میں نے بھی سر کو ہنستے ہوئے کہا فکر نہ
کریں آج آپکی ساری بے چینی ختم کر دوں گی۔ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی چادر اتار
دی اور سائیڈ والی کرسی پر رکھ دی۔ نیچے سے میری باریک کرتی دیکھ کر سر تو
جیسے پاگل ہوگئے۔ انکی آنکھوں میں چمک آگئی ،میں اپنی کرسی سے کھڑی ہوئی اور
دروازے کی طرف گئی۔ دروازے کی کنڈی لگاتے ہوئے میں نے سر سے پوچھا کہ سر
آب آنا تو کسی نے نہیں ادھر؟؟ تو سر بولے نہیں اب کوئی نہیں آئے گا سب سٹوڈنٹ جا
چکے ہیں۔
میں نے کنڈی لگانے کے بعد سر کی طرف مڑکر دیکھا تو سر کی نظریں میری ٹانگوں
پر تھیں۔ ٹائٹ جینز میں میری لمبی ٹانگیں قیامت ڈھا رہی تھیں۔ میں اپنا لک لہراتی ہوئی
سر کی طرف گئی اور انکے سامنے پڑھے ہوئے ٹیبل پر ان سے تھوڑا سا ہٹ کر بیٹھ
گئی۔ میری ایک ٹانگ زمین پر تھی اور ایک ٹانگ اٹھا کر میں ٹیبل پر اس طرح بیٹھی
تھی کہ میرا ایک چوتڑ ٹیبل کے سہارے پر تھا اور دوسرا ہوا میں۔ اس طرح جب لڑکیاں
بیٹھتی ہیں تو لڑکوں کے لن فورا سالمی کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اس طرح
لڑکیوں کی گانڈ کافی واضح نظر آتی ہے اور تھائیز بھی کافی واضح نظر آرہی ہوتی ہیں۔
سر اسلم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ انکی پینٹ کا ابھار واضح ہو رہا تھا۔
میں نے اپنی آواز کو رومانٹک بناتے ہوئے کہا سر پھر کیا ارادے ہیں آج آپکے؟؟؟ سر
اپنے دونوں ہاتھ مسلتے ہوئے بولے بس آج سب کچھ کر گزرنا ہے۔ یہ کہتے ہوئے
انکی آواز میں خوشی بھی تھی اور تھوڑی کپکپی بھی۔ میں نے پھر سے پوچھا سر
آپکا ہتھیار کب سے فارغ پڑا ہے؟ آخری بار آپ نے اپنا یہ ہتھیار کس پر استعمال کیا؟؟؟
میری بات سن کر سر تھوڑا سا افسردہ ہوئے اور بولے آخری بار اپنی مرحوم بیوی کے
لیے ہی اس ہتھیار کا استعمال کیا تھا۔ بہت سال بیت گئے۔ اسکے بعد سے کبھی کبھار
مٹھ مار کر گزارا کرتا ہوں۔ لیکن آج مٹھ کی بجائے تمہاری چوت ماروں گا میں۔ یہ کہ
کر سر اپنی کرسی سے کھڑے ہوگئے اور میرے قریب آگئے۔ میں بھی اسی طرح بیٹھی
رہی۔ میں سر کو موقع دینا چاہتی تھی کو وہ خود شروع کریں۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ
میچور مرد کسطرح سیکس کی شروعات کرتے ہیں۔ سر میرے قریب آئے اور میرے کان
کے قریب اپنا چہرہ ال کر آہستہ سے بولے تم تیار ہو؟
میں نے اپنے دونوں ہاتھ پیچھے پھیالئے اور ٹیبل پر رکھ دیے اور بولی میں تو کب
سے انتظار کر رہی ہوں اس لمحے کا۔ میری طرف سے گرین سگنل ملنے پر سر نے اپنا
ایک ہاتھ میری ران پر رکھ دیا۔ اور میں خود ہی ٹیبل پر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔ اب میری
دونوں ٹانگیں ہوا میں تھیں اور میں پوری طرح ٹیبل کے اوپر بیٹھی تھی۔ سر نے آہستہ
آہستہ اپنا ہاتھ میری ران پر مسلنا شروع کیا اور میرے قریب ہونے لگے۔ جیسے ہی سر
کا جسم میرے جسم سے ٹچ ہوا تو سب سے پہلے سر کے لن کا اور میرے گھٹنے کا
مالپ ہوا آپس میں۔ سر نے اپنا لن سیدھا میرے گھٹنے کے ساتھ ٹچ کیا تھا۔ ابھی پینٹ
میں ہونے کی وجہ سے اسکے مکمل ابھار کا تو پتہ نہیں لگ رہا تھا مگر لن کی سختی
بتا رہی تھی کہ وہ مکمل کھڑا ہوچکا ہے۔ میں نے بھی اپن گٹھنے کا دباو لن پر بڑھایا
جس سے اسکی سختی اور بھی بڑھ گئی تھی۔
پھر نجانے سر کو کیا ہوا ،انکے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ کسی بچے کی طرح
مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے اپنے ایک ہاتھ میری گردن میں ڈاال اور میرا چہرہ اپنے
قریب کر کے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ اور دیوانہ وار میرے ہونٹوں کو
چوسنے لگے۔ انکا دوسرا ہاتھ میری کمر پر تھا اور وہ ایسے مجھے چوم رہے تھے
جیسے کسی اناڑی کو پہلی بار کوئی لڑکی ملی ہو۔ اسکی وجہ شاید 20برس کی پیاس
تھی۔ سر کو 20برس سے کوئی پھدی نہیں ملی تھی یہی وجہ رہی ہوگی کہ اچانک ہی
وہ بچوں کی طرح مجھے پیار کرنے لگے تھے۔ سر نے میری کمر کو اپنے ہاتھ کے
ساتھ دبا کر مجھے اپنے قریب کر لیا تھا۔ میرے کسے ہوئے ممے سر کے سینے میں
گھس رہے تھے اور سر کے ہونٹ میرے ہونٹوں کو چوسنے میں مصروف تھے۔
میری یہ حسرت تو پوری نہ ہوسکی کہ کوئی بڑی عمر کا آدمی کیسے سیکس کی
شروعات کرتا ہے مگر میں نے بھی اسکو غنیمت جانا ،ایک تو ٹائم کم تھا ،کسی بھی
ٹائم عمران کا فون آسکتا تھا دوسرے پھدی تو میری بھی لن کے لیے گیلی ہو رہی تھی۔
لہذا میں نے بھی سر کا بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور اپنے ہونٹ کھول کر سر کی
زبان کو راستہ دیا۔ سر نے راستہ ملتے ہی اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی اور
اسے گول گول میرے منہ کے اندر گھمانے لگے۔ میں نے اپنی زبان سر کی زبان سے
ٹکرائی اور پھر اپنا منہ بند کر کے سر کی زبان کو چوسنے لگی۔ اب سر کے دونوں
ہاتھ میری کمر پر تھے۔ مگر ایک ہاتھ میری کرتی کو اوپر اٹھا کر کرتی کے اندر جا
چکا تھا جبکہ دوسرا ہاتھ باہر سے ہی میری کمر کا مساج کر رہا تھا۔ میں نے اپنے
دونوں ہاتھ سر کی گردن میں حائل کر رکھے تھے اور ہماری زبان آپس میں ایکدوسرے
کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔ کبھی میری زبان سر کے منہ میں ہوتی اور وہ اسے چوستے
تو کبھی سر کی زبان میرے منہ میں ہوتی اور میں اسے چوستی۔
کچھ دیر یہ سلسلہ جاری رہا ،پھر سر نے اپنے ہونٹ میری گردن پر رگڑنا شروع کر
دیے۔ اب سر میری کرتی آدھی سے زیادہ اوپر اٹھا چکے تھے اور میری آدھی کمر
ننگی تھی اور سر کے ہاتھ میری ننگی کمر کا مساج کر رہے تھے۔ جبکہ وہ اپنے
ہونٹوں سے میری گردن کے ایک ایک حصے پر اپنے پیار کے نشان ثبت کر رہے تھے۔
آفس میں سیکس کرنے کا علیحدہ ہی نشہ تھا۔ سر کی کسنگ کے دوران میری ہلکی
ہلکی آواز بھی نکل رہی تھی جو کمرے کے ماحول کو اور سیکسی بنا رہی تھی۔ اب سر
نے اپنے ایک ہاتھ سے میری کرتی کندھے سے ہٹا دی اور اپنے ہونٹ میرے کندھے پر
رگڑنا شروع ہوگئے۔ کرتی ہٹانے سے میرے برا کی سرخ رنگ کی سٹرپ بھی نظر آرہی
تھی اور سر اسے بھی میرے جسم کا حصہ سمجھ کر چوسنے میں مصروف تھے۔ میں
ابھی بھی ٹیبل پر ہی بیٹھی تھی اور میرا گھٹنہ سر کے لن کی سختی کو مسلسل
محسوس کر رہا تھا۔ پھر سر نے میری کرتی کو دوسرے کندھے سے بھی ہٹا دیا۔
اب میرا آدھا پیٹ کمر اور کندھے ننگے ہوچکے تھے۔ اور یوں سمجھے کرتی بس
مموں کو ہی ڈھانپ رہی تھی۔ اور کندھوں سے ہٹ جانے کی وجہ سے میری کلیویج جو
پش اپ برا کی وجہ سے کافی ابھری ہوئی تھی وہ بھی واضح نظر آرہی تھی۔ سر نے
کچھ دیر میرے سینے پر اپنے ہونٹ اور زبان رگڑے کے بعد اپنی زبان میری کلیویج
میں گھسا دی۔ مموں کے درمیان بننے والی الئن میں سر کی زبان بہت مزہ دے رہی
تھی۔ سر کسی بچے کی طرح میری کلیویج کو پیار کر رہے تھے مگر ابھی تک انہوں
نے میرے مموں کو نہیں چھوا تھا۔
پھر اچانک ہی سر پیچھے ہٹے اور میری کرتی میرے جسم سے علیحدہ کر دی۔ کرتی
ڈھیلی ہونے کی وجہ سے بہت آرام سے اتر گئی ۔ کرتی اتری تو میرا گورا جسم سر کو
پاگل کرنے کے لیے کافی تھا۔ میں نے جینز بہت نیچے باندھی تھی ۔ لو ویسٹ جینز کی
وجہ سے میرا مکمل پیٹ ننگا تھا اور اوپر گورے جسم پر سرخ رنگ کا برا قیامت ڈھا
رہا تھا۔ تنے ہوئے بڑے ممے کسی بھی مرد کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے کافی
تھے۔ سر کچھ دیر ساکت کھڑے میری خوبصورتی کو دیکھتے رہے۔ پھر بولے میری
جان تمہارا جسم قیامت ہے۔ پھر سے کی نظریں میرے تنے ہوئے مموں پر ٹک گئیں ۔
اب پہلی بار سر نے میرے مموں پر اپنے ہاتھ رکھے۔ سر نے دونوں مموں پر اپنے
دونوں ہاتھ بہت ہی نرمی کے ساتھ رکھے اور آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنے لگے۔ سر کے
ہاتھ مموں کے اوپر والے حصے پر تھے جو حصہ ننگا ہوتا ہے۔ ان پر اپنے ہاتھ
پھیرنے اور انکا لمس محسوس کرنے کے بعد سر نے میرے مموں کو نچلے حصے
سے بھی پکڑا اور پھر انکو دبا کر انکی سختی کا اندازہ کرنے لگے۔
نوجوان لڑکیوں کے مموں میں تھوڑی سختی ہوتی ہے جس مموں کے ابھار کا سبب
بنتی ہے ،ڈھلتی عمر کے ساتھ مموں کی سختی کم ہونے لگتی ہے اور چھاتی کا ابھار
بھی ختم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے بڑے ممے بھی لٹکنے لگتے ہیں۔ میری چھاتیاں
ابھی کافی ٹائٹ تھیں۔ جسکی وجہ سے مموں کا ابھار بھی اچھا بنتا تھا۔ کچھ دیر ممے
دبانے کے بعد سر نے اپنے ہونٹ میرے مموں کے ننگے حصے پر رکھ دیا اور ان پر
پیار کرنے لگے۔ پھر سر کا ایک ہاتھ میری کمر کے پیچھے گیا اور نیچے سے ہوتا ہوا
اور برا کی ہُک تک آگیا۔ سر نے ایک ہی ہاتھ سے بہت مہارت کے ساتھ میرے برا کی
ہک کھول دی اور میرے مموں کو برا کی قید سے آزاد کر دیا۔ سر نے برا اتار کر اپنے
گلے میں ڈال لیا اور میرے مموں پر پیار کرنے لگے۔
گول اور سڈول ممے کسی بھی مرد کی کمزوری ہوسکتے ہیں۔ اور میرے ممے کچھ
ایسے ہی تھے۔ اس پر قریبا ایک انچ کا براون دائرہ اور اس پر تنے ہوئے سخت گالبی
نپل سر کر پاگل کیے جا رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں میرے ممے سر کے منہ میں تھے۔
سر بہت ہی شوق کے ساتھ میرے مموں کو چوسنے میں مصروف تھے اور کبھی کبھی
میرے نپل اپنے دانتوں میں لیکر ان پر ہلکے سے کاٹ دیتے جس سے میری سسکی
نکل جاتی۔
میرے نپل چوسنے کے دوران سر نے میری دونوں ٹانگوں کو کھول کر اپنی کمر کے
گرد لپیٹ لیا اور پھر مجھے چوتڑوں سے پکڑ کر اوپر اٹھا لیا۔ اب میں سر کی گود میں
تھی اور وہ اپنا سر جھکائے مسلسل میرے مموں پر پیار کر رہے تھے۔ میرے منہ سے
بھی مسلسل سسکیاں نکل رہی تھی اور میں سر کو مزید اکسا رہی تھی کہ میرے نپل
اپنے منہ میں لیکر انکو زور زور سے چوسیں۔ سر بھی مجھے بہت مزہ دے رہے
تھے۔ پھر سر نے مجھے اپنی گود سے اتارا اور اپنی ٹیبل پر لٹا دیا۔ ٹیبل پر لٹانے کے
بعد سر میرے اوپر جھک گئے اور ایک بار پھر سے میرے مموں پر پیار کرنے لگے۔
میں ب ِھ اپنے ہاتھ سر کی گردن پر پھیر کر انکو پیار کر رہی تھی۔ کچھ دیر میرے مموں
کو چوسنے کے بعد سر آہستہ آہستہ اپنی زبان میرے مموں کے نچلے حصے پر
پھیرنے لگے اور پھر میرے پیٹ پر پیار کرنے لگے۔
اب سر کی زبان میری ناف میں گھوم رہی تھی اور سر کا ایک ہاتھ میری ران کو دبانے
میں مصروف تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر سر کے لن پر رکھ دیا جو ابھی تک
انکی پینٹ میں قید تھا۔ میں نے کوشش کر کے سر کی زپ کھول دی اور اپنا ہاتھ اندر
داخل کر دیا۔ پینٹ کے اندر سر نے انڈر وئیر بھی پہن رکھا تھا۔ میں انڈر وئیر کے اوپر
سے ہی سر کے لن کو سہالنے لگی۔ سر کا انڈر وئیر کافی گیال ہورہا تھا۔ پھر سر نے
زیر ناف اپنی زبان کو گھمانے لگے۔ اب میرا جسم اپنی زبان میری ران سے ہٹائی اور ِ
کانپنا شروع ہوچکا تھا اور میری پھدی بھی کافی گیلی ہورہی تھی۔ میں نے سر کو کہا
کہ پلیز اپنا ہتھیار باہر نکا ل لیں۔ میری فرمائش پر سر فوری طور پر پیچھے ہٹے اور
اپنی بیلٹ کھول کر اپنی پینٹ اتار دی۔ پینٹ اتارنے کے بعد سر نے جیسے ہی اپنا انڈر
وئیر نیچے کیا انکا 8انچ کا لن تن کر کھڑا ہوگیا۔ پھر ر نے اپنی شرٹ اور بنیان بھی
اتار دی۔
اب آفس میں سر مکمل ننگے کھڑے تھے اور میں انکے ٹیبل پر لیٹی ہوئی تھی۔ میرے
ممے ننگے تھے اور میرے ہاتھ میں سر کا لن تھا جسکو میں آہستہ آہستہ سہال رہی
زیر ناف بالوں والی
تھی جبکہ سر نے میری جینز کی زپ کھول دی تھی اورانکا ہاتھ ِ
جگہ پر ہلکے ہلکے مساج کرنے میں مصروف تھا اور انکی زبان ابھی تک میری ناف
کے آس پاس گھوم رہی تھی۔
پھر سر میری ٹانگوں کی طرف گئے اور مجھے اپنے چوتڑ اوپر اٹھانے کو کہا۔ میں نے
پاوں کی مدد سے ٹیبل کا سہارا لیا او ر اپنے چوتڑ اوپر اٹھائے تو سر نے میری جینز
گھٹنوں تک نیچے کر دیے۔ نیچے بلیک کلر کی پینٹی دیکھ کر سر بہت خوش ہوئے۔
کیونکہ پینٹی میں موجود سوراخ سے میری پھدی واضح نظر آرہی تھی جکہ سائیڈ واال
حصہ چھپا ہوا تھا۔ سر نے ایک بار اپنا ہاتھ میری پھدی پر پھیرا اور پھر مجھے مکمل
ننگا کر دیا۔ میری جینز اتار کر سر نے ایک سائیڈ پر پھینک دی اور میں نے سر کے
گلے میں موجود برا کو پکڑ کر انہیں اپنی پھدی کی طرف کھینچا۔ سر ایسے ہی جھکتے
چلے گئے اور انکی زبان پینٹی میں موجود سوراخ سے ہوتی ہوئی سیدھی میری پھدی
کے اوپر جا کر رکی۔
سر نے بغیر کسی توقف کے میری پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا۔ پھدی کے لب ہلکے
سے کھول کر سر نے اپنی زبان کو پھدی کا اندرونی حصہ دکھایا اور زبان سے اسکی
چدائی شروع کی۔ اب سر کا آفس میری سسکیوں سے گونج رہا تھا۔ اف ،اف ،آہ ،آہ ۔۔۔۔
ام ام ام ۔۔۔ مزہ آرہا ہے سر ،کھاجائیں میری پھدی کو ،اور زور سے چوسیں اسکو۔۔۔ ان
آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا اور سر بغیر کسی خوف کے میری پھدی چاٹنے میں
مصروف تھے۔ سر نے 3منٹ میں ہی میری چوت سے پانی نکلوا دیا تھا۔ پانی نکلتے
ہوئے میرے جسم کو شدید جھٹکے لگے اور سر بھی اس دوران مسلسل میری پھدی
ب
چاٹتے رہے۔ کچھ پانی سر کے چہرے پر گرا تو کچھ انکے منہ میں گیا جسکو وہ آ ِ
حیات سمجھ کر پی گئے۔
میرا پانی نکالنے کے بعد سر نے اپنا لن میرے حوالے کر دیا۔ میں فورا ہی ٹیبل سے
نیچے اتری سر کی کرسی پر بیٹھ گئی اور سر کو کہا وہ ٹیبل پر بیٹھ جائیں۔ سر نے ایسا
ہی کیا اور ٹیبل پر بیٹھ گئے اور میں نے سر کی کرسی ٹیبل کے قریب کر دی اور اس پر
بیٹھ کر سر کا 8انچ کا لوڑا اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ لوڑا اس وقت کسی بھی
لوہے کے راڈ سے کم سخت نہیں تھا۔ میں نے لوڑے کی ٹوپی پر موجود مذی کے
قطروں کو اپنی زبان سے چاٹ کر صاف کیا اور پھر لعاب کا گوال بنا کر ٹوپی کی نوک پر
پھینک دیا۔ پھر اپنے ہاتھوں سے اس لعاب کو سر کے پورے لن پر مسل کر اسکو اچھی
طرح چمکا دیا۔ اور دوبارہ سے لن کو منہ میں لیکر اللی پاپ کی طرح چوسنے لگی۔
ابھی میں نے محض کچھ دیر ہی سر کا لن چوسا تھا کہ سر نے اپنا لن میرے منہ سے
نکال لیا اور بولے اب میری برداشت جواب دے چکی ہے۔ مجھے اب تمہاری پھدی
چاہیے۔ یہ کہ کر سر نے مجھے آفس میں موجود صوفے پر لیٹنے کو کہا۔ میں فوری
صوفے پر جا کر لیٹ گئی۔ میری ایک ٹانگ صوفے سے نیچے زمین پر تھی تو دوسری
صوفے کے اوپر
سر بھی فوری صوفے کے قریب آئے اور میری ٹانگوں کے قریب آگئے ،سر نے میری
ایک ٹانگ کو اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھا اور دوسری ٹانگ کو سائید پر پھیال کر اپنے
لیے پھدی تک کا راستہ کلئیر کیا۔ اسکے بعد سر نے ایک ہاتھ سے اپنے لن کو پکڑ کر
میری پھدی کے سوراخ پر رکھا اور اس پر آہستہ آہستہ پھیرنے لگے۔ میں امید کر رہی
تھی کہ سر فورا ہی اپنا لن میری پھدی میں گھسا دیں گے مگر سر اپنے لن کی ٹوپی کو
میری پھدی کے سوراخ پر آہستہ آہستہ پھیر رہے تھے۔ پھر سر نے لن کو اپنے ہاتھ
سے پکڑ کر اپنی ٹوپی کو میری پھدی پر مارنا شروع کر دیا۔ سر اپنا لن کافی زور سے
میری پھدی پر مار رہے تھے اور مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی لوہے کا راڈ
میری پھدی سے ٹکرا رہا ہو۔
سر کے لن نے میری پھدی کو ایک بار پھر گیال کر دیا تھا۔ جب سر کو محسوس ہوا کہ
میری پھدی گیلی ہوچکی ہے اور اب لن لینے کے لیے مکمل تیار ہے تو سر نے لن کو
پھدی کے سوراخ پر سیٹ کر کے ہلکا سا دباو ڈاال جس سے ہلکی سی ٹوپی اندر چلی
گئی۔ سر نے لن دوبارہ نکال کر ایک بار پھر آہستہ سے دباو ڈاال اور اپنی ٹوپی پھدی
میں داخل کر دی۔ سر دوبارہ سے اپنا لن باہر نکالنے لگے اور لن کو ہاتھ سے پکڑ کر
باہر کرنے ہی لگے تھے کہ میں نے اپنے چوتڑوں کو ہوا میں ایک جھٹکے سے اٹھایا
جس سے میری پھدی سر کے لن کی طرف اٹھی اور سر کا آدھے سے زیادہ لن میری
پھدی میں داخل ہوگیا۔
یہ دیکھ کر سر بولے تمہاری پھدی تو مکمل تیار ہے لن کے لیے میں بالوجہ ہی ٹائم
ضائع کر رہا ہوں۔ یہ کہ کر سر نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور 8انچ کا لوڑا میری
پھدی میں کہیں غائب ہوگیا۔ میرے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی "اوئی میں مر گئی۔
امی جی۔۔۔۔۔" میری آواز سن کر سر ہنسے اور بولے ابھی تو امی یاد آئی ہے ابھی تمہیں
نانی بھی یاد آئے گی۔ یہ کہ کر سر نے اپنی مشین چالنا شروع کر دی۔ میں نے بھی
چیخوں سے کمرہ سر پر اٹھا لیا۔ اوئی۔۔۔ آہ آہ ،اور زور سے۔۔۔ اندر تک چودو ،آہ ،آہ،
مزہ آگیا تمہارے لن کا۔۔۔۔ زور سے چودو مجھے۔ پھاڑ دو میری پھدی آج۔۔۔۔ کمرہ ان
آوازوں سے گونج رہا تھا۔ اور میری ہر آواز کے ساتھ سر کے دھکے تیز سے تیز اور
شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے تھے۔
سر دھکے لگانے کے ساتھ ساتھ میری ران پر اپنی زبان بھی پھیر رہے تھے۔ جو ٹانگ
انہوں نے اپنے کندھے پر رکھی تھی اس پر اپنا سر جھکا کرتھائی پر اپنی زبان پھیر
رہے تھے جس سے میری ٹانگ میں گد گدی محسوس ہورہی تھی اور ساتھ ہی سر کا
لن میری پھدی کی گہرائیوں میں اتر کر ہر جھٹکے کے ساتھ مجھے چیخیں مارنے پر
مجبور کر رہا تھا۔ جب سر اپنا لن اندر داخل کرتے تو انکے ٹٹے پھدی کے نچلے حصے
سے ٹکراتے اور جب باہر نکالتے تو سر کے لن کی ٹوپی میری پھدی کے سوراخ تک
باہر آجاتی۔ قریب قریب پورا لن باہر نکال کر سر کا اگال دھکا دوبارہ سے لگتا تو میری
پھدی کو چیرتا ہوا بچہ دانی کو ٹچ کرتا۔ ہر دھکے کے ساتھ میرے ممے بھی اچھل رہے
تھے۔
سر نے 5منٹ تک مسلسل اپنی مشین نان سٹاپ چالئے رکھی اور پھر مجھے محسوس
ہوا کہ میری چوت پانی چھوڑنے والی ہے۔ میں نے سر کو کہا کہ مجھے اور سپیڈ کے
ساتھ چودیں اور سر نے اپنی سپیڈ اور بڑھا دی۔ اچانک ہی مجھے اپنے جسم میں
سوئیاں چبھتی محسوس ہوئیں اور میرے جسم کو جھٹکے لگنے لگے۔ میری پھدی نے
پانی چھوڑ دیا تھا۔ مگر اسکے ساتھ ہی سر نے بھی 2زبردست ضربیں لگانے کے بعد
اپنے جسم کو جھٹکے دیے اور اپنا سارا پانی میری پھدی میں چھوڑ دیا۔ کچھ دیر میری
پھدی میں لن نے جھٹکے کھائے اور اسکے بعد سر نے اپنا لن پھدی سے نکال کر
گہری سانسیں لینا شروع کر دیں اور صوفے پر نڈھال ہوکر بیٹھ گئے۔
سر نے پھدی سے لن نکاال تو کچھ پانی میری پھدی سے باہر نکال اور میری پینٹی کو
گیال کر دیا۔ میں نے بھی کچھ دیر لیٹے لیٹے ہی گہری سانسیں لیں اور پھر اپنی اٹھ کر
سر کی گود میں بیٹھ گئی اور انکو دوبارہ کسنگ کرنے لگی۔ میرا برا ابھی تک سر کے
گلے میں تھا۔ سر کو کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد میں انکی گود سے اٹھی اور انکو
برا سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے واپس انکے ٹیبل تک لے آئی۔ سر کو ٹیبل تک النے
کے بعد میں خود ٹیبل پر چڑھ گئی اور ٹیبل پر ہی گھوڑی بن کر سر کو اپنی گانڈ چاٹنے
کا کہا۔ سر نے بال تردد میرے چوتڑوں پر پہلے تو زور زور سے تھپڑ مار کر انکو الل
کر دیا اور اسکے بعد میری پینٹی کو چوتڑوں کی الئن سے نکال کر سائیڈ پر کیا اور
اپنی زبان گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر اسے چاٹنے لگے۔ گانڈ چاٹنے کے ساتھ ساتھ سر
میرے چوتڑوں پر بھی وقفے وقفے سے تھپڑ مارتے اور پھر ایک ہاتھ آگے بڑھا کر
میرے نیچے لٹکے ہوئے مموں کو پکڑ کر زور سے دبا دیتے۔ میں ٹیبل پر ہی گھوڑی
بنی ہوئی تھی اور اپنا سر ٹیبل پر رکھا ہوا تھا اور گانڈ فل اوپر اٹھائی ہوئی تھی تاکہ سر
با آسانی کھڑے ہوکر میری گانڈ کو چوس سکیں۔
سر اپنی زبان کی نوک میری گانڈ کے سوراخ پر زور زور سے پھیر رہے تھے جس
سے مجھے بہت سرور مل رہا تھا اور اوپر سے چوتڑوں پر سر کے تھپڑ میری سیکس
کی طلب کو اور بڑھا رہے تھے۔ کچھ دیر گانڈ چٹوانے کے بعد میں ٹیبل پر الٹی ہوکر
لیٹ گئی اور اپنا چہرہ سر کے لن کی طرف کر دیا۔ سر کا لن اب آدھا کھڑا تھا ،میں نے
اسکو منہ میں لیکر چند سیکنڈز میں ہی مکمل کھڑا کروا دیا۔ اور اس بار میں نے خوب
مزے سے سر کے لن کا چوپا لگایا۔
سر کو بھی اب کی بار چوپا لگوانے میں مزہ آرہا تھا۔ میں ایک ہاتھ سے سر کے ٹٹے
مسل رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے سر کا لن پکڑ کر منہ میں ڈاال ہوا تھا۔ سر بھی بار
بار کم آن بے بی ،سک اِٹ ،سک اِٹ بے بی ،اور زور سے چوسو فائزہ ڈارلنگ خوب
زور کا چوپا لگاو ۔۔۔ اور ایسے ہی کچھ بے ہنگم سے الفاظ بول رہے تھے۔ 5منٹ تک
میں نے سر کے لن کا خوب جم کے چوپا لگایا۔ اب سر کا لن ایک بار پھر ناگ بنا ہوا
تھا اور میرے بِل میں جانے کے لیے بے تاب ہوئے جا رہا تھا۔
سر نے اپنا لن میرے منہ سے نکاال اور مجھے ٹیبل سے اترنے کو کہا تاکہ وہ میری
چودائی کر سکیں۔ مگر میں ٹیبل سے اترنے کی بجائے ٹانگیں نیچے لٹکا کر ٹیبل پر ہی
بیٹھی رہی اور اپنی پھدی بالکل ٹیبل کے کنارے پر کر دی اور اپنے ہاتھ پیچھے لیجا کر
ٹیبل کا سہارا لے لیا اور سر کو کہا مجھے اسی پوزیشن میں چودیں۔ ٹیبل پر بیٹھ کر
چودائی کرواتے ہوئے میں نے بہت سی لڑکیوں کو دیکھا تھا بلیو فلموں میں۔ آج میں
بھی انہی پورن سٹارز کی طرح ٹیبل پر بیٹھ کر چودائی کروانا چاہتی تھی۔ سر نے اپنے
لوڑے پر ہلکا سا تھوک مال اور اسکا ٹوپا میری پھدی پر رکھ کر ایک ہی جھٹکے میں
سارے کا سارا لوڑا میری چوت میں اتار دیا۔
ایک زور دار سسکاری کے ساتھ میں نے سر کے لوڑے کو اپنی پھدی ِمں خوش آمدید
کہا اور سر کی مشین ایک بار پھر سے چالو ہوگئی۔ اس پوزیشن میں سر کا لن مکمل
طور پر میرے اندر تو نہیں جارہا تھا مگر پھر بھی ایسی چدائی کا اپنا ہی ایک مزہ تھا۔
شاید سر کا ٹوپا میری پھدی میں موجود جی سپاٹ کو ٹچ کر رہا تھا اس لیے مجھے اس
پوزیشن میں چودائی کا بہت مزہ آرہا تھا اور میں مسلسل چیخیں مار مار کر سر کو مزید
زور کا چودا لگانے کا کہ رہی تھی ۔ سر نے گھسے مارنے کے ساتھ ساتھ مجھے گردن
سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔ نیچے سے پھدی
کی چودائی اور اوپر سے ہونٹوں کا چوسنا ،واہ۔۔۔۔۔ کیا خوب مزہ تھا اس چودائی کا
اس پوزیشن میں کچھ ہی دیر چودائی کے بعد میری چوت نے سر کے جاندار لوڑے کے
آگے ہتھیار ڈال دیے اور اپنا سارا پانی نکال کر سر کے لوڑے کو نہال دیا۔ پھدی سے
پانی نکلنے کے بعد سر نے اپنا لن باہر نکاال اور پاس پڑے ٹشو سے میری پھدی کو
صاف کیا۔ پھر مجھے ٹیبل سے نیچے اتار کر ٹیبل کی طرف منہ کرنے کو اور جھکنے
کو کہا۔ میں نے ٹیبل کی طرف منہ کیا اور اپنے ہاتھوں کا سہارا لیکر ٹیبل کے اوپر
جھک گئی۔ سر نے میرے چوتڑوں کو پکڑ کر زور سے دبایا اور پھر پیچھے کی طرف
چوتڑ نکالنے کو کہا۔ میں نے اپنی گانڈ تھوڑا اور باہر نکالی تو سر نے اپنا لن میری
پھدی پر فٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں اندر ڈال کر بغیر رکے اپنی مشین چالو کر دی۔
اس بر سر کی مشین پانچویں گئیر میں چل رہی تھی۔ اور اس مشین کی بریکیں بھی فیل
ہو چکی تھیں۔ میں نے ہائی ہیل ابھی تک پہن رکھی تھی جسکی وجہ سے میری گانڈ
خاصی اونچی تھی اور سر کا لن با آسانی میری پھدی میں کھدائی کر رہا تھا۔ سر کے ہر
جھٹکے کے ساتھ میرے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑ انکے پیٹ کے سات لگتے تو
کمرے میں دھپ دھپ کی آوازیں آتیں۔ اب میں نے اپنا چہرہ ٹیبل کے اوپر ہی رکھ دیا
تھا۔ اب میری پوزیشن یہ تھی کہ میرا سینہ اور چہرہ ٹیبل کے ساتھ ٹچ ہورہا تھا اور
میری گانڈ میرے چہرے سے ہائیٹ میں اونچی تھی۔ اور پیچھے سے سر کا لن مسلسل
مزے دے رہا تھا۔ سر میرے چوتڑوں سے پکڑ کر خوب جم کر میری چودائی کر رہے
تھے۔
ایک بار پھر میری چوت نے سر کے لن کو اپنے چکنے پانی سے نہال دیا۔ مگر سر کا
لن ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔ اب کی بار میں نے سر کو کہا کے وہ خود ٹیبل پر لیٹ
جائیں۔ سر فورا ہی ٹیبل پر چڑھے اور لیٹ گئے۔ میں بھی ٹیبل پر کھڑی ہوگئی اور اپنی
ہیل اتار دی۔ ٹیبل پر کھڑے ہوکر میں نے اپنی پینٹی بھی اتار دی اور ایک بار اپنی پھدی
سر کے چہرے کے اوپر رکھ دی۔ سر نے فورا ہی میری پھدی کو گیال ہونے کے باوجود
چاٹنا شروع کر دیا۔ پھر میں نے سر کے منہ سے اپنی پھدی کو اٹھایا اور اپنی
ڈائریکشن چینج کر کے دوبارہ اپنی پھدی سر کے منہ کے اوپر رکھی اور خود سر کے
لن کے اوپر جھک کر انکا 8انچ کا لوڑا چاٹنے لگی۔ ہم دونوں سر کے آفس میں انکے
ٹیبل پر 69پوزیشن میں تھے۔ سر بہت ہی تیزی کے ساتھ اپنی زبان میری پھدی پر چال
رہے تھے اور میں انکے لن کا چوپا لگانے میں مصروف تھی۔ کچھ دیر انکے لن کا
چوپا لگانے کے بعد میں اٹھی اور اپنی پھدی کو سر کے لن کی ٹوپی پر فٹ کر دیا۔ اور
ایک ہی جھٹکے میں انکے لن پر بیٹھ گئی۔ سر کا لن اپنی جڑ کے آخری حصے تک
میری پھدی کے اندر تھا۔ میں نے اپنے ہاتھ سر کے سینے پر رکھے اور گھٹنوں کے بل
بیٹھ کر اپنی گانڈ اوپر اٹھائی اور خود ہی سر کے لن پر اچھلنا شروع کر دیا۔
تھوڑی دیر اچھلنے کے بعد میں تھک گئی تو نیچے سے سر نے دھکے لگانا شروع کر
دیے۔ انکا لن میری پھدی کی دیواروں کو چیرتا ہوا اندر جاتا تو پورے جسم میں مزے
کی لہر دوڑ جاتی۔ میں سر کے اوپر جھک گئی تو سر نے اپنا سر اوپر اٹھا کر میرا ایک
مما اپنے منہ میں لیکر اسکا نپل اپنے دانتوں میں دبا لیا اور نیچے سے چدائی بھی
جاری رکھی۔ مجھے اب دہرا مزہ آرہا تھا۔ ایک تو میرے سخت نپل پر سر کے دانتوں کی
مضبوط گرفت تھی اور نیچے سے سر کا ہتھیار میری نازک چوت پر زور دار ضربیں
لگا رہا تھا۔ مزے کی شدت جب تمام حدیں پار کر گئیں تو میں نے سر کو بتایا کہ میں
چھٹنے والی ہوں ،سر نے اپنی چودائی کی سپیڈ مزید بڑھا دی اور کچھ مزید گھسوں
کے بعد اور کا لن اور میری چوت اکٹھے ہی پانی چھوڑ گئے۔ میری چوت میں تو جیسے
سیالب آگیا تھا۔ سر نے پانی چھوڑنے کے بعد کافی جھٹکے لیے اور پھر پر سکون
ہوگئے میں بھی سر کے اوپر ہی لیٹ گئی۔
ہم دونوں کو فارغ ہوئے 3منٹ گزر چکے تھے مگر سر کا لن ابھی تک میری پھدی
میں تھا اور میں انکے سینے پر سر رکھ کر انکے اوپر ہی لیٹی تھی۔ پھر کچھ دیر میں
نے ایسے ہی لیٹے لیٹے سر کے ہونٹون پر کسنگ کی اور اسکے بعد ٹیبل سے نیچے
اتر آئی۔ نیچے اتر کر میں نے سر کے گلے سے اپنا برا نکاال اور اپنے مموں پر
چڑھانے لگی۔ تو سر نے کہا ٹھہرہ تمہاری برا کی ہک میں خود بند کروں گا۔ می نے
ایسے ہی سر کی طرف کر دی برا کی ہک۔ سر سامنے سے آئے مجھے اپنے سینے
سے لگا لیا اور ہاتھ پیچھے لیجا کر میری کمر پر برا کی ہک بند کر دی۔ اسکے بعد سر
نے مجھے کچھ دیر دوبارہ کسنگ کی اور کہا جان آج تم نے عرصے بعد میرے لن کی
پیاس بجھائی ہے۔ اگلی دفعہ مجھے جب دوبارہ خدمت کاموقع دو گی تو میں تمہیں اور
بھی زیادہ مزہ اور سکون دوں گا۔ میں نے بھی سر کو پیار کیا اور کہا آج آپکے آفس
میں چودائی کروا کے بہت مزہ آیا۔ اگلی بار چدائی آپکے گھر میں ہی ہوگی۔ ۔
یہ کہ کر میں نے اپنی پینٹی پہن لی اور پھر جینز اور کرتی بھی پہن لی۔ اور ساتھ
موجود واش روم میں جا کر اپنے بال سیٹ کیے۔ پھر میں باہر آئی تو سر بھی کپڑے پہن
چکے تھے۔ میں نے اپنی چادر لی اور سر سے اجازت چاہی۔ سر نے ایک بار پھر
مجھے ایک زور کی جپھی ڈالی اور اپنے ہاتھ سے میرے چوتڑوں کو دباتے ہوئے
بولے دوبارہ موقع ضرور دینا۔ ایسی چدائی کروں گا کہ ساری زندگی یاد رکھو گی۔ میں
نے سر سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور کالج سے نکل گئی۔
باہر نکل کر رکشہ لیا اور ساتھ ہی موجود مارکیٹ میں جا کر عمران بھائی کو فون کیا۔
پہلی ہی کال پر عمران بھائی نے فون اٹینڈ کیا اور بولے کہاں رہ گئی فائزہ بے بی2 ،
گھنٹے ہوگئے تمہیں گئے ہوئے میں کب سے فارغ بیٹھا ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں
کینٹ مارکیٹ ہوں آپ ادھر ہی آجاو میں آپکا انتظار کر رہی ہوں۔
عمران نے کہا وہ بس 10منٹ میں پہنچ رہے ہیں۔ اس دوران میں ایک دکان میں
جیولری دیکھنے چلی گئی۔ کچھ دیر بالوجہ جیولری دیکھتی رہی اور پھر دکان سے باہر
نکل کر دوسری دکان کی طرف جانے ہی والی تھی کے مجھے پیچھے سے کسی نے
آواز دی۔ فائزہ میڈیم کیسی ہیں آپ؟؟ یہ آواز سن کر میں نے پیچھے دیکھا تو میرے
پیچھے ایک پولیس کا آدمی کھڑا تھا۔ یہ وہی شخص تھا جس سے میں پہلے تھانے میں
ملی تھی جو بہت سمارٹ اور خوبصورت تھا مگر بعد میں اسکے سینئیر نے آکر میری
خوب چودائی کی تھی۔
اسکو اچانک یوں دوبارہ دیکھ کر میں گھبرا گئی کہ کہیں کسی مصیبت میں ہی نہ پھنس
جاوں۔ میری خاموشی کو دیکھ کر اسنے دوبارہ کہا لگتا ہے فائزہ جی آپ نے مجھے
پہچانا نہیں۔ آپ تھانے آئیں تھیں نا اس ماسٹر کے بیٹے کو چھڑوانے۔ ہمارے ایس ایچ
زیر لب مسکرایا اور خاموش ہوگیا۔ اسکی یہ بات
او صاحب نے آپکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہ کر وہ ِ
سن کر مجھے تھوڑی شرمندگی بھی ہوئی۔ مگر یہاں پبلک پلیس پر میں اسکے ساتھ
کوئی جھگڑا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے بھی اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے اسے کہا میں
ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں۔ اس پر وہ بوال میں بھی ٹھیک ہوں۔ بس انتظار میں ہوں کہ
آپ کبھی ہمیں بھی خدمت کا موقع دیں۔ مایوس نہیں کروں گا میں آپکو۔ یہ کہتے ہوئے
وہ بڑی ہی خباثت کے ساتھ میرے کسے ہوئے مموں کو دیکھ رہا تھا۔
مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ اسکی اس بات کا کیا جواب دوں۔ پھر وہ خود ہی بوال آپ
اپنا نمبر مجھے دے دیں کبھی کبھار آپ سے گپ شپ ہی لگا لیا کریں گے۔ اب نمبر دینا
بھی حماقت ہوتی ،تو میں نے فوری طور پر کہا آپ اپنا نمبر مجھے دے دو کبھی
ضرورت پڑی تو میں آپکو ضرور بتاوں گی۔ یہ کہتے ہوئے میں نے بھی مجبورا اسکی
طرف ایک شیطانی مسکراہٹ پھینکی۔ جس سے وہ سمجھ گیا کہ میں کونسی ضرورت
کی بات کر رہی ہوں۔ پھر اس نے مجھے اپنا نمبر لکھوایا اور چال گیا۔ ابھی میں اسکو
جاتے ہوئے دیکھ ہی رہی تھی کہ عمران بھی آگئے اور میں انکے ساتھ گاڑی میں بیٹھ
گئی۔ اور شکر ادا کیا کہ عمران کے آنے سے پہلے یہ مصیبت چلی گئی۔
گاڑی وہاں سے نکالنے کے بعد عمران نے پوچھا کیسی رہی پارٹی تو میں نے عمران
کو بتایا کہ بہت زبردست تھی۔ بہت مزہ آیا۔ ہم فرینڈز نے خوب انجوائے کیا اور ہال گال
کیا۔ عمران بھائی نے پوچھا اب کیا پروگرام ہے؟ گھر چلنا ہے یا کچھ پھرنا ہے؟؟ میں
نے کہا گھر ہی چلتے ہیں۔ مجھے بھوک بھی بہت زور کی لگی تھی مگر میں نے
عمران بھائی کو نا بتایا۔ بتاتی تو وہ پوچھتے کہ پارٹی میں کھانے کو کچھ نہیں مال؟؟؟
مگر عمران بھائی نے خود ہی ایک دکان کے سامنے گاڑی روک دی اور بولے یہاں
سے آئسکریم کھا لیتے ہیں پھر چلتے ہیں۔
عمران اور میں آئسکریم پارلر میں داخل ہوئے تو وہاں موجود ایک کیبن میں جا کر بیٹھ
گئے۔ کیبن بہت ہی تنگ تھا جس میں اگر آمنے سامنے بیٹھا جائے تو بیٹھنے والوں کی
ٹانگیں ایک دوسرے کی ٹانگوں میں گھس جائیں اور اگر ساتھ ساتھ ایک ہی جگہ پر
بیٹھیں تو جڑ کر بیٹھنا پڑے۔ خیر ہم دونوں آہمنے سامنے بیٹھ گئے اور ہمارے درمیان
ایک چھوٹا سا ٹیبل پڑا تھا جسکے نیچے سے عمران کی ٹانگیں میری ٹانگوں کو با
آسانی چھو رہی تھیں۔ ہمارے بیٹھتے ہی ایک لڑکا آیا اور بوال سر آرڈر کر دیں۔ عمران
نے 2آئسکریم کا آرڈر کیا تو وہ لڑکا 2منٹ میں ہی آئسکریم لے آیا اور اسکے بعد
کیبن پر لگا پردہ گرا دیا۔
کیبن کا پردہ گرتے ہی عمران تھوڑا اور آگے ہوکر بیٹھ گئے اور اب انکی ایک ٹانگ
میری دونوں ٹانگوں کے درمیان آگئی اور انکا گھٹنا میری چوت کے بالکل قریب تھا۔
انہوں نے مجھے بھی آگے ہوکر بیٹھنے کو کہا۔ میں آگے ہوئی تو عمران کا گھٹنا سیدھا
میری چوت سے چھو گیا اور میرا گھٹنا عمران کے لن کو چھونے لگا جو پہلے سے ہی
کھڑا تھا۔ عمران نے اپنا چہرہ آگے کیا اور میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔ میں
نے عمران کو منع کرنے کی کوشش کی اور کہا عمران بھائی یہ کیا کر رہے ہیں آپ
کوئی آجائے گا۔ تو وہ بولو ارے پاگل کوئی نہیں آتا یہاں ،ایسی جگہوں پر ایسے کام
ہوتے رہتے ہیں۔ لڑکے اپنی گرل فرینڈز کو ایسی جگہوں پر ال کر ہی ان سے فلرٹ
کرتے ہیں۔ یہ کہ کر عمران نے دوبارہ سے میرے لبوں کو چوسنا شروع کر دیا اور
ایک ہاتھ سے میرے مموں کو پکڑ کر دبانے لگے۔ میں نے بھی تھوڑا سا ساتھ دیا مگر
پھر کہا کہ عمران بھائی یہ جگہ محفوظ نہیں کسی اور جگہ چلتے ہیں۔ چاہیں تو گاڑی
میں ہی کر لیں مگر اس جگہ سے چلیں۔
اس بات پر عمران نے کہا چلو ٹھیک ہے پھر اپنی آئسکریم ختم کرو۔ میں نے اور
عمران نے فوری اپنی آئسکریم ختم کی اور وہاں سے چل دیے۔ اب عمران کی گاڑی کا
رخ شہر سے باہر کی طرف تھا۔ ہمارا رخ بہاولپور روڈ کی طرف تھا۔ شہر سے باہر نکل
کر عمران نے گاڑی آہستہ کر لی اور بغور آس پاس کے ایریا کا جائزہ لینے لگے۔ پھر
عمران نے ایک مکمل سنسان جگہ دیکھ کر گاڑی سڑک سے نیچے اتاری اور کچے کی
طرف روڈ سے کافی دور لے گئے۔
یہاں ایک پرانا ٹیوبویل لگا ہوا تھا جسکی حالت دیکھ کر لگتا تھا کہ یہاں عرصے سے
کوئی نہیں آیا ہوگا۔ پاس ہی ایک خستہ حالت دیوار تھی عمران نے اسکے پیچھے جا کر
اپنی گاڑی روکی اور گاڑی روکتے ہی اپنا رخ میری طرف کر کے کسنگ کرنے لگے۔
میں نے عمران کو کہا پچھلی سیٹ پر چلتے ہیں تو عمران فورا ہی گاڑی سے اترے اور
پچھلی سیٹ پر چلے گئے میں بھی انکے ساتھ ہی پچھلی سیٹ پر پہنچ گئی اور سیٹ پر
پہنچتے ہی میں نے اپنی کرتی ایک دفع پھر اتار دی۔
عمران نے مجھے اس حالت میں دیکھا تو انہوں نے سیدھا میرے مموں پر حملہ کیا
انہوں نے آن کی آن میں میرا پش اپ برا اتار پھینکا اور میرے مموں کو منہ میں لیکر
چوسنے لگے۔ میں نے بھی ایک ہاتھ انکی شلوار پر رکھ دیا اور لن شلوار کے اوپر
سے ہی مسلنے لگی۔ کچھ دیر میرے ممے چوسنے کے بعد عمران نے اپنی شلوار اتار
دی اور اپنا 8انچ کا لوڑا میرے سامنے کر دیا جسکو میں نے کل رات ہی اپنے چوپوں
سے سکون دلوایا تھا۔ میں کار کی پچھلی سیٹ پر جھک گئی اور عمران کے لوڑے کا
چوپا لگانے لگی۔ تھوڑی دیر کے چوپوں کے بعد عمران نے میرے منہ میں لن آگے
پیچھے کرنا شروع کر دیا تو میں نے انکا لن منہ سے نکاال۔ اور اپنی جینز اتار دی۔
عمران نے میری پینٹی دیکھی تو بہت خوش ہوئے اور بولے یہ تو وہی پینٹی ہے جو
میں نے تمہیں الہور لے کر دی تھی۔ میں نے کہا ہاں جی یہ وہی ہے۔
جب امی نے مجھے کہا تھا کہ تم عمران بھائی کے ساتھ جاو میں نے تبھی سوچ لیا تھا
کہ آج آپ کا لن اپنی چوت میں داخل کروں گی جب سے الہور سے واپس آئی ہوں آپکے
لن کے لیے چوت مچل رہی ہے۔ اس لیے میں نے یہ پینٹی پہن لی کے دوست کے گھر
سے واپسی پر اگر موقع مال تو آپکے ساتھ تھوڑا مزہ کر لونگی۔ میری بات ختم ہوتے
ہی عمران نے مجھے کار کی سیٹ پر لٹایا اور میری ٹانگیں کھول کر میری چوت چاٹنے
لگ گئے۔ عمران کو جب سے میں نے گانڈ دلوانے کا وعدہ کیا تھا وہ بغیر کہے میری
چوت چاٹنے لگ جاتے تھے۔ مجھے بھی اور کیا چاہیے تھا میں بھی مزے سے اپنی
چوت میں عمران کی زبان کے مزے لینے لگی۔
میری چوت چاٹتے ہوئے عمران نے کہا تمہاری پینٹی سے تو پہلے ہی بہت سمیل آرہی
ہے تمہاری چوت کے پانی کی۔ اصل میں جب سراسلم نے میری چوت کا پانی نکاال تھا
تو اس سے میری پینٹی گیلی ہوگئی تھی جسکی وجہ سے وہ سمیل ابھی موجود تھی۔
میں نے فوری بہانہ بنا لیا کہ کل رات جو آپ نے میری چوت چاٹ کر مجھے مزہ دیا اس
کی وجہ سے آج سارا دن میری چوت گیلی ہی رہی ہے۔ خاص طور پر جب آئسکریم پارلر
گئے ہیں تو میری چوت نے بہت پانی چھوڑا ہے۔ اسی کی وجہ سے ہے یہ۔ اس پر
عمران مسکرائے اور بولو یعنی تم تڑپ رہی ہو میرے لن کے لیے۔ میں نے بھی ہاں
میں سر ہالیا۔ اب عمران کو کیا پتا تھا کہ میں تو ابھی آدھا گھنٹہ پہلے ہی سر اسلم کے
لن کی سواری کر آئی ہوں۔
خیر کچھ دیر میری چوت چاٹنے کے بعد عمران نے میری ٹانگ اٹھا کر اپنے کندھے پر
رکھی اور دوسری ٹانگ سائیڈ پر کر کے اپنے لیے جگہ بنائی اور اپنا لن میری چوت پر
فِٹ کر کے ایک زور دار دھکا مارا جس سے انکا آدھے سے زیادا لوڑا میری چوت کو
چیرتا ہوا اندر داخل ہوگیا۔ پھر ایک اور جھٹکا لگا اور عمران کا پورا لوڑا جڑ تک میری
پھدی کی گہرائیوں میں غائب ہوگیا۔ گاڑی میں یہ میری پہلی چدائی تھی اور وہ بھی اس
طرح کھلی فضا میں ،مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا کہ کہیں کوئی آ نہ جائے مگر مزہ بھی
بہت آرہا تھا۔
گاڑی میں عمران کے لیے جگہ تھوڑی کم تھی وہ کھل کر دھکے نہیں لگا پا رہے تھے
مگر پھر بھی مجھے پہلی چدائیوں سے زیادہ مزہ آرہا تھا آج اور اسکی وجہ یہی تھی
کہ یہ چودائی ایک ایڈوینچر کی سی تھی۔ عمران اس پوزیشن میں 5منٹ تک مجھے
چودتے رہے مگر میری چوت نے ہار نہیں مانی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ کچھ دیر پہلے
سر اسلم اس چوت کا 3بار پانی نکلوا چکے تھے۔ پھر عمران نے پوزیشن چینج کرنے
کو کہا اور وہ گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ میں انکی گود میں آکر بیٹھ گئی اور اپنی
پھدی انکے لن پر رکھ دی جس پر انہوں نے نیچے سے دھکا مارا اور پورا لوڑا میرے
اندر داخل کر دیا اور لن پھدی کا کھیل پھر سےشروع ہوگیا۔ 5منٹ کی مزید چودائی کے
بعد عمران اور میں ایک ساتھ فارغ ہوگئے۔ ہمارے نکلنے والے پانی سے گاڑی کی
سیٹ بھی خراب ہوئی مگر گاڑی میں پڑے ڈ سٹر سے ہم نے سیٹ صاف کی اور گھر کو
چل دیے
گھنٹے کے ٹائم میں پہلے میں نے سر اسلم سے انکے آفس جا کر چدائی کروائی اور 3
انہوں نے دو بار چودا مجھے اور اسکے بعد گاڑی میں اپنے بہنوئی عمران کی چودائی
نے مجھے بہت مزہ دیا۔ ایک ہی دن میں دو مختلف مردوں سے چدوانا بہت مزے کا
تجربہ تھا۔ شام کے 6بجے ہم گھر پہنچے تو امی نے پوچھا اتنی دیر کہاں لگادی؟ جس
پر عمران نے خود ہی جواب دیا کہ کالج کے بعد مجھے کچھ شاپنگ کرنی تھی تو ہم
ادھر چلے گئے اسکے بعد اپنی پیاری سی سالی کو آئسکریم کھالئی اور اب آپکے
سامنے ہیں۔
گھر پہنچنے کے بعد میں روٹین کے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ کھانا بنایا اور رات کو
سب نے مل کر کھانا کھایا۔ اسکے بعد عمران اور صائمہ اکٹھے لیٹ گئے جبکہ میں بھی
اپنی چارپائی پر لیٹ گئی۔ آج رات میں کسی ایڈوینچر کا چانس نہیں تھا کیونکہ کچھ دیر
پہلے عمران نے اپنے لن سے مجھے اپنی گاڑی میں چودا تھا اور کل میں نے انکا چوپا
لگا کر انکی پیاس بجھائی تھی اس لیے آج انکی طرف سے کسی قسم کا رسک لینے کا
چانس نہیں تھا۔ میں کافی دیر اپنی چارپائی پر کروٹیں بدلتی رہی اور پھر موبائل نکال کر
کینڈی کرش گیم کھیلنے لگ گئی۔ گیم کھیلتے کھیلتے مجھے وہی پولیس واال یاد آیا جس
نے آج مجھے اپنا نمبر دیا تھا۔ اور جو میرے ساتھ سیکس کرنے کے لیے بےتاب ہوا
جا رہا تھا۔ میں نے اسکے بارے میں سوچنا شروع کیا اور پھر اچانک ہی میرے دماغ
میں ایک شیطانی آئیڈیا آیا سائرہ سے بدلہ لینے کا۔
کچھ ہی دیر بعد میں نیند کی وادیوں میں کھوگئی۔ اگلی صبح روٹین کے مطابق کام چل
رہا تھا کہ شام کو سمیرا کا فون آگیا۔ وہ کچھ ہی دیر میں ملتان پہنچنے والی تھی۔ اس
نے مجھے فون پر بتایا کہ وہ آج اپنے والدین کے ساتھ سائرہ کے گھر ہی رہے گی مگر
اگلے دن وہ میری طرف آجائے گی۔ میں نے اسکے ساتھ پروگرام طے کیا اور فون بند
کر دیا۔ اس دوران عمران کی میرے جسم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری رہی۔ کبھی کچن
میں تو کبھی کھانے کی ٹیبل پر۔ جہاں انہیں موقع ملتا وہ کبھی میرے مموں کو اور
کبھی میرے چوتڑوں کو ہاتھ میں پکڑ کر زور سے دبا دیتے۔
رات کو جب سب لوگ سوگئے تو عمران ایک بار پھر میرے سر پر سوار ہوگئے۔ انہوں
نے میری چارپائی پر لیٹ گئے اور میرے ہونٹوں کو چوسنے لگے۔ میں نے بھی اپنا
ساتھ سیدھا انکے لوڑے پر رکھ دیا جو پورے جوبن کے ساتھ کھڑا تھا ،میں نے
عمران کے لوڑے کی مٹھ مارنا شروع کی اور اپنے آپ کو چدائی کے لیے تیار کرنے
لگی۔ مگر کچھ ہی دیر بعد عمران نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے ہٹا دیے اور بولے
کہ اب بہت ہوگئی فائزہ۔ اب یا تو مجھے کسی بچی کی گانڈ دلواو یا پھر اپنی گانڈ کی خیر
مناو میں نے ہر صورت الہور جانے سے پہلے ایک گانڈ کی چودائی کرنی ہے۔ یہ سن
کر میں نے عمران کو ایک بار پھر یقین دالیا کہ وہ فکر نہ کریں انکو جلد ہی گانڈ مل
جائے گی۔ میری یقین دہانی پر عمران نے ایک بار پھر میرے ہونٹوں کا رس چوسا اور
پھر واپس صائمہ کے پاس جا کر لیٹ گئے۔
عمران تو چلے گئے مگر میری چوت میں آگ لگا گئے تھے۔ کچھ دیر میں اپنی چوت
میں انگلی کرتی رہی اور اپنی انگلی سے ہی اپنا پانی نکاال۔ جب چوت کے پانی نے
گرمی بجھائی تو میں بھی سوگئی۔ اگلی دوپہر باہر گاڑی کا ہارن ہوا۔ میں کچن میں تھی
عمران دروازہ کھولنے گئے۔ میں نے کھڑکی سے باہردیکھا تو عمران 2لڑکیوں کو اندر
آنے کا کہ رہے تھے۔ اور وہ دونوں بھی عمران کے پیچھے پیچھے اندر آتی گئیں۔ یہ
دونوں سمیرا اور سائرہ تھیں۔ انکو دیکھ کر میں باہر نکلی اور دونوں سے گلے ملی،
پیچھے عمران کھڑے تھے اور مجھ سے اشاروں میں پوچھنے لگے کہ کون ہیں یہ
دونوں؟ مگر میں نے انہیں کوئی جواب نہ دیا اور دونوں کو لیکر اپنے کمرے میں چلے
گئی۔ انکو بٹھا کر میں کمرے سے نکلی اور انکے لیے کچھ چائے پانی کا بندوبست
کرنے کچن میں چلی گئی۔
میرے کچن میں آتے ہی عمران بھی پیچھے ہی آگئے اور بولے ان دونوں میں سے کس
کی گانڈ دلوا رہی ہو مجھے؟؟ میں نے یہ سن کر عمران کی طرف دیکھا تو وہ ہنس
رہے تھے میں نے بھی ہلکی سی مسکراہٹ دی جس پر وہ بولے اب بتا بھی دو کونسی
گانڈ ملنے والی ہے مجھے؟ یا پھر دونوں کی گانڈ ہی میرے لن کا شکار ہونے والی
ہے؟؟؟ یہ سن کر میں نے قہقہ لگایا اور بولی توبہ ہے عمران بھائی کیسے گانڈ چودنے
کے لیے بے تاب ہورہے ہیں۔ صبر کر جائیں وقت آنے پر پتا چل جائے گا آپکو۔ پھر
عمران بولے کہ مجھے بھی ملواو ان دونوں سے۔ میں نے کہا آپ نے اندر جانا ہے تو
اندر جا کر بیٹھ جائیں وہ دونوں پردہ نہیں کرتیں۔ اور کافی کھلے ذہن کی مالک ہیں۔ اس
پر عمران بولے کہ نہیں پہلے تم چلی جاو پھر میں آجاوں گا اندر۔
کچھ ہی دیر میں انکے لیےچائے تیار ہوگئی تو میں چائے لیکر اندر کمرے میں چلی
گئی۔ اور انکے سامنے چائے اور ساتھ ہلکا پھلکا کھانے کے لیے چیزیں رکھ دیں۔ 5
منٹ بعد عمران بھی اندر کمرے میں بہانے سے آگئے تو میں نے دونوں سے تعارف
کروایا عمران کا اور عمران کو بھی ان دونوں کے بارے میں بتایا۔ عمران کچھ دیر
کمرے میں رکے سائرہ اور سمیرا سے رسمی گفتگو کی اور پھر باہر چلے گئے۔ کچھ
دیر بعد امی اور صائمہ بھی میرے کمرے میں آگئیں اور سائرہ اور سمیرا سے ملیں۔
شام تک ہم سب نے خوب گپ شپ لگائی بیچ میں 3 ،2بار عمران بھی اپنی آنکھوں کو
ٹھنڈک پہنچانے کسی نہ کسی بہانے سے اندر آتے رہے۔ شام کے ٹائم سائرہ نے اپنے
ڈرائیور کو فون کیا تو کچھ ہی دیر میں ڈرائیور آگیا اور سائرہ اسکے ساتھ اپنے گھر
چلی گئی جبکہ سمیرا میری طرف ہی رک گئی۔
میں نے سمیرا کو کمرے میں ہی چھوڑا ساتھ صائمہ آپی کو بٹھایا اور خود فیاض کے
کمرے میں چلی گئی اور وہاں سمیرا کے رہنے کا بندوبست کرنے لگی ،فیاض کا ضرور
سامان کمرے سے باہر نکال کر ابو کے کمرے میں رکھ دیا اور کمرے کی صفائی کرنے
لگی تاکہ سمیرا نے جتنے دن بھی رکنا ہے وہ اس کمرے میں آرام سے ٹھہر سکے۔
رات ہونے پر ابوبھی آگئے سمیرا ان سے بھی ملی ،ابو نے اسکے سر پر پیار دیا اور
بولے کو وہ اس گھر کو اپنا ہی گھر سمجھے اور جتنے دن رکنا چاہے رک سکتی ہے۔
کھانا کھانے کے بعد میں سمیرا کو لیکر فیاض کے کمرے میں چلی گئی اورفیاض منہ
بسورتا ہوا ابو کے کمرے میں چال گیا۔ سمیرا اور میں نے خوب گپ شپ لگائی۔ جب سب
سوگئے تو میرے اندر کا شیطان جاگنے لگا۔ میری نظریں اب سمیرا کے مموں پر تھیں۔
اسکے 36سائز کے ممے چودائی کے دوران ہلتے ہوئے بڑے خوبصورت لگتے تھے۔
میں نے دروازے کی کنڈی لگائی اور اسکے مموں پر حملہ کر دیا ،وہ بھی شاید یہی
چاہتی تھی اس نے بھی جوابی حملہ کیا اور اپنا ہاتھ سیدھا میری شلوار میں داخل کر
کے میری چوت کو سہالنے لگی اور ہم نے کوئی 30منٹ سے زیادہ لیسبو سیکس کیا۔
ہم دونوں نے ایکدوسرے کو ننگا کر کے باری باری ایکدوسرے کی چوت زبان سے
چاٹ کر پانی نکلوایا اور پھر اپنی اپنی پھدی کو آپس میں رگڑ رگڑ کر بھی فارغ کروایا۔
اس دوران سمیرا کو لن کی طلب بھی محسوس ہوئی اور اسنے مجھ سے کہا کہ کسی
طرح رضوان سے ملنے کا پالن بناو اس نے بہت اچھی چدائی کی تھی میری۔ میں نے
اسکو کہا کہ رضوان سے چدائی کروانی ہے تو اسکو اپنی گانڈ بھی دینی پڑے گی۔
آخری مرتبہ ہم دونوں نے جب رضوان سے چدائی کروائی تھی تو رضوان نے میری گانڈ
کا مزہ لیا تھا اور سمیرا سے بھی گانڈ مانگی تھی مگر اس نے انکار کر دیا تھا۔ سمیرا
کے جسم کی گرمی نے اسکو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ کوئی بات نہیں اگر تم اپنی
گانڈ میں رضوان کا لن لے سکتی ہو تو میں بھی لے لوں گی۔ مگر اس چوت کی گرمی
تو رضوان کا لن ہی مٹا سکتا ہے۔ میں نے اسکو کہا کہ ایک دو دن میں کوئی پروگرام
بناتے ہیں رضوان سے ملنے کا ،مگر حقیقت میں رضوان کی بجائے میں سمیرا کو
عمران سے چدوانا چاہتی تھی۔ کیونکہ عمران بھائی کو ایک گانڈ دلوانے کا وعدہ کیا ہوا
تھا اور سمیرا کی گانڈ سے اچھی اور ٹائٹ گانڈ اور بھال کس کی مل سکتی تھی۔
اور اب تو سمیرا گانڈ مروانے ک لیے تیار بھی تھی۔ مگر اسے نہیں معلوم تھا کہ میں
اسکو اپنے منگیتر کے لن کی بجائے اپنے بہنوئی کے لن کے نیچے لے جانا چاہ رہی
ہوں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ سمیرا نہیں جانتی تھی کہ میں اپنے بہنوئی سے بھی چدائی
کرواتی ہوں۔ اسکو تو صرف یہ پتا تھا کہ میں اپنے منگیتر سے ہی سیکس کرتی ہوں۔
اور میں سمیرا کو یہ بات بتانا بھی نہیں چاہتی تھی کہ میرا کنوارہ پن میرے بہنوئی کے
لن نے ہی ختم کیا تھا۔ جانے یہ سن کو وہ میرے بارے میں کیا سوچتی۔ اس لیے میں
کچھ اچھا سا پالن بنانا چاہتی تھی کہ جس سے سمیرا کے لن کی طلب بھی پوری
ہوجائے ،عمران کو ایک تازہ اور کنواری گانڈ بھی مل جائے اور سمیرا کو یہ پتا بھی نہ
چلے کہ میرے اپنے بہنوئی کے ساتھ پہلے سے ہی جسمانی تعلقات ہیں۔
یہ ایک مشکل صورتحال تھی۔ اگرچہ عمران بھائی کے لن سے سمیرا کی چدائی کروانا
کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ عمران بھائی تو پہلے سے ہی گانڈ کے لیے مرے جا رہے
تھے اور انکا خیال بھی یہی تھا کہ میں سمیرا کی گانڈ کا ہی بندوبست کر رہی ہوں انکے
لن کو سکون پہنچانے کے لیے اور دوسری طرف سمیرا کو بھی ایک لن چاہیے تھا
جس سے وہ اپنی چوت کی پیاس بجھا سکے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اسکے وہم و گمان
میں بھی نہیں تھا کہ وہ عمران بھائی کے لن پر بھی سواری کا مزہ لے سکتی ہے،
اسکے زہن میں بس رضوان کا لن تھا جس نے 3جاندار راونڈز میں سمیرا کی چدائی
کی تھی۔ مگر اصل مسئلہ اس بات کا چھپانا تھا کہ عمران بھائی اپنی سالی کو ،یعنی کے
مجھے ،کافی بار چود چکے ہیں۔ یہی سوچتے سوچتے اگال سارا دن گزر گیا مگر میری
سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔
شام کا وقت ہو چکا تھا اور عمران بھائی کافی مرتبہ مجھ سے پوچھ چکے تھے کہ کیا
سمیرا ہی وہ لڑکی ہے؟ وہ چاہتے تھے کہ میں انکو واضح بتا دوں اگر سمیرا ہی وہ
لڑکی ہے جسکی گانڈ انکو ملنے والی ہے تو وہ خود سے ہی سمیرا کو راضی کر لیں
گے چدائی کے لیے مگر میں انکو ہر بار ٹالتی رہی اور انکو کوئی بھی واضح جواب
نہیں دیا۔ دوسری طرف سمیرا بھی رضوان کے بارے میں پوچھ چکی تھی۔ لیکن میں
مسلسل اسی بارے میں سوچ رہی تھی کہ ہم دونوں ملکر عمران کے لن کی سواری
کیسے کر سکتی ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور الٹھی بھی نہ ٹوٹے۔
شام ہونے پر عمران نے ایک بار پھر مجھے کچن میں پکڑ لیا اور بولے کہ اب اتنا مت
ترساو یا تو سمیرا کی گانڈ دلواو مجھے یا پھر اپنی گانڈ مروانے کے لیے تیار ہوجاو
مجھ سے اب مزید انتظار نہیں ہوتا۔ یہ بات سن کر میں عمران بھائی کے ساتھ صحن
میں چلی گئی اور وہاں موجود کرسی پر بیٹھنے کو بوال اور خود بھی کرسی پر بیٹھ
گئی۔ یہاں پہنچ کر میں نے انکو ساری بات بتا دی کہ سمیرا ہی وہ لڑکی ہے جسکی گانڈ
آپکو ملنے والی ہے۔ وہ اپنی چوت میں لن لینے کی خاطر گانڈ مروانے کے لیے مکمل
آمادہ ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہی ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ میں پہلے سے ہی آپکے لن
سے چدائی کروا چکی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ اسکو یہ بات پتہ بھی نہ لگے۔
اس پر عمران بولے بس اتنی سی بات ہے۔۔۔ سمجھو تمہارا مسئلہ حل ہوگیا۔ سمیرا کو
اس بارے میں بالکل پتا نہیں لگے گا کہ تم مجھ سے چدائی کروا چکی ہو اور ساتھ ہی
ساتھ میں اسکو چودنے کا موقع بھی خود ہی بنا لوں گا۔ یہ کہ کر عمران اندر چلے گئے
اور مجھے بھی اندر آنے کے لیے کہا۔ ہم دونوں فیاض کے کمرے میں جا کر بیٹھ گئے
جہاں سمیرا پہلے سے ہی موجود تھی۔ سمیرا کو اسطرح عمران کا اندر آنا شاید ناگوار
گزرا کیونکہ یہ کمرہ ایک طرح سے اب سمیرا کا کمرہ تھا اور اس میں بغیر اجازت
کسی مرد کا اندر جانا ٹھیک نہیں تھا مگر وہ خاموش رہی البتہ اسکے چہرے پر ہلکی
سی ناگواری کے آثار میں نے محسوس کر لیے تھے۔
اندر چل کر عمران بالوجہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ عمران مجھ سے باتیں کر
رہے تھے مگر بیچ میں بار بار سمیرا کو بھی مخاطب کرتے۔ وہ اصل میں سمیرا کے
ساتھ تھوڑا فری ہونا چاہ رہےتھے اور باتوں ہی باتوں میں وہ کافی حد تک فری ہو بھی
گئے تھے۔ عمران قریب ایک گھنٹہ سمیرا کے کمرے میں بیٹھے رہے اور ہم تینوں
باتیں کرتے رہے۔ کچھ طنز و مزاح اور کچھ شعر و شاعری بھی ہماری باتوں کا حصہ
رہی۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ عمران کی نظریں بار بار سمیرا کے 36سائز
کے گول مموں پر مرکوز رہیں۔ وہ بار بار سمیرا کے سینے کے ابھاروں سے اپنے آپ
کو لطف اندوز کر رہے تھے۔ شاید سمیرا نے بھی یہ بات محسوس کی ہوگی۔ جب عمران
کمرے سے نکل گئے تو سمیرا نے مجھے فوری طور پر کہا کہ تمہارا بہنوئی تو بہت
ہی ٹھرکی انسان ہے۔ میں نے سمیرا سے حیران ہوتے ہوئے پوچھا کیوں ایسا کیا ہوگیا؟
تو وہ بولی انکی نظریں بار بار میرے مموں کے ارد گرد ہی گھوم رہی تھیں۔ جیسے
ابھی انکو کھا جانا چاہتے ہوں۔ اس بات پر میں نے ہنستے ہوئے کہا تو اچھی بات ہے
نا تمہیں بھی تو ایک لن چاہیے پھنسا لو عمران بھائی کو۔
میری یہ بات سن کر سمیرا نے زور کا قہقہ لگایا اور بولی نہیں وہ تمہارے بہنوئی ہیں
البتہ تمہارے منگیتر سے چدائی تو ضرور کرواوں گی۔ میں بھی کچھ دیر سمیرا کے
ساتھ ہی بیٹھ رہی۔ پھر اٹھ کر گھر کے کام کاج کرنے لگی۔
یہ دن بھی اسی طرح گزر گیا اور رات دوبارہ سے سمیرا اور میں نے ایکدوسرے کے
جسم کی گرمی حاصل کی اور اپنی اپنی چوت کا پانی نکاال
اگلے دن عمران نے مجھے بتایا کہ آج شام تیاررہو آج موقع مل سکتا ہے چدائی کا۔ میں
نے پوچھا وہ کیسے تو انہوں نے ٹال دیا اور کہا بس میں دیکھتا ہوں امید ہے آج موقع
مل جائے گا۔ اور ہوا بھی ایسے ،دوپہر کو امی نے بتایا کہ انہیں انکی ایک قریبی دوست
نے کھانے پر بالیا ہے اور وہ صائمہ اور عامر سے بھی ملنا چاہتی ہیں۔ امی نے مجھ
سے بھی پوچھا کہ تم بھی چلو ساتھ۔ مگر میں نے امی کو بتایا کہ سمیرا آئی ہوئی ہے
تو اسکو یوں اکیال چھوڑ کر جانا ٹھیک نہیں ہوگا آپ لوگ چلی جائیں میں اور سمیرا
گھر پر ہی رکیں گی۔
امی نے بھی کہاں ہاں ٹھیک ہے ویسے بھی سمیرا کو ادھر لیجانا مناسب نہ ہوگا
کیونکہ انہوں نے صائمہ کو بالیا ہے اور ہم ساتھ میں تمہاری دوست کو بھی بن بالئی
مہمان بنا دیں تو یہ مناسب نہیں۔ پھر امی نے عمران بھائی کو کہا ک تم بھی ساتھ چلو
تو عمران تو پہلے سے ہی بہانہ بنائے بیٹھے تھے اور انہوں نے فورا کہ دیا کہ میری
طبیعت بھی ٹھیک نہیں اور میں وہاں جا کر کیا کروں بور ہی ہونا ہے تو آپ لوگ چلے
جائیں میں گھر پر ہی رکوں گا طبیعت ٹھیک ہوئی تو کسی دوست کی طرف نکل جاوں گا۔
امی نے کہا چلو صائمہ اور مجھے انکے گھر تو چھوڑ آو گے؟؟ اس پر عمران نے کہا
میں فیاض کو گاڑی کی چابی دیتا ہوں وہ آپکو لے بھی جائے گا اور واپس بھی لیتا آئے
گا۔ فیاض یہ سن کر چہک اٹھا اس نے نئی نئی گاڑی چالنا سیکھی تھی اور اسکو شوق
بھی تھا وہ فورا تیار ہوگیا۔ ساتھ ہی اس نے چپکے سے عمران بھائی سے پوچھا کہ
امی کو انکی دوست کے گھر چھوڑنے کے بعد اگر میں کسی دوست کی طرف چال جاوں
تو آپکو اعتراض تو نہیں ہوگا۔ عمران کو بھال کیا اعتراض ہو سکتا تحا وہ بھی فورا بول
اٹھے جب تک تمہیں تمہاری امی کا فون نا آجائے کہ ہمیں واپس لے آو تم باہر گھومو
پھرو دوستوں کے ساتھ اور پھر امی کو لیکر ہی گھر آنا۔
ابو تو پہلے سے ہی آفس تھے اور شام کے بعد ہی آتے تھے سو گھر میں اب صرف
میں ،سمیرا اور عمران بھائی ہی موجود تھے۔ عمران کو اصل میں کل ہی پتا لگ گیا تھا
کہ امی کی دعوت ہوگی کیونکہ انہوں نے امی کو فون پر بات کرتے سنا تھا۔ اور عمران
اسی موقع کے انتظار میں تھے۔
جب سب لوگ چلے گئے تو سمیرا اور میں اپنے کمرے میں جا کر بیٹھ گئے یعنی کے
فیاض کے کمرے میں۔ اسی وقت باہر سے عمران بھائی نے مجھے آواز دی کہ میں
کسی کام سے باہر جانے لگا ہوں کچھ منگوانا ہے تو بتا دو۔ میں اٹھ کر باہر گئی تو
عمران نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے دوسرے کمرے میں کھینچ لیا اور بولے کہ میں
ابھی واش روم جا رہا ہوں تم کسی بھی بہانے سے سمیرا کو اسی واش روم بھیج دو۔
میں انکی یہ بات سن کر حیران ہوئی اور بولی کہ کیا آپ اسکے ساتھ زبردستی کرنا
چاہتے ہیں ؟؟؟ تو عمران بولے میں کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا بس جتنا تمہیں
کہا ہے تم اتنا کرو اور پہلے اندر جا کر بتانا کہ عمران چال گیا ہے پھر کسی بہانے سے
سمیرا کو واش روم بھیجنا۔
عمران کی یہ بات سن کر میں اندر کمرے میں آگئی اور باتوں میں مصروف ہوگئی۔
سمیرا نے کہا کہ کچھ منگوا ہی لیتی اپنے بہنوئی سے کھانے کے لیے تو میں نے کہا
کہ ہاں میں نے انہیں کہا ہے آتے ہوئے آئسکریم لیتے آئیں۔ یہ سن کر سمیرا نے کہا یہ
ٹھیک ہے اسکا دل کسی ٹھنڈی چیز کو کر رہا ہے۔ پھر کچھ دیر ہم ادھر ادھر کی باتیں
کرنے لگے اور پھر اچانک میں نے سمیرا کو کہا کہ رضوان نے مجھے ایک بہت
خوبصورت نائٹی خرید کر دی ہے تم دیکھو گی؟؟ یہ سن کر سمیرا مسکرائی اور بولی
اچھا تو بات نائٹی تک بھی پہنچ چکی ہے۔ پھر بولی کہ چلو دکھاو تو۔
یہ بات کرنے سے پہلے میں نے موبائل پر ایک گیم لگا لی تھی تاکہ بہانے سے اسے
بھیج سکوں ۔ میں نے سمیرا کو کہا میں گیم کھیل رہی ہوں تم میرے کمرے میں واش
روم میں جاو وہاں دروازے کے پیچھے میرے کپڑے لٹک رہے ہیں انکے نیچے نائٹی
ہے وہ لے آو۔ میری بات سن کر سمیرا فورا اٹھی اور میرے کمرے میں چلی گئی۔
میں گیم چھوڑ کر انتظار کرنے لگی کہ اب کیا ہوگا ک اچانک ہی مجھے سمیرا کی چیخ
سنائی دی اور اسکے بعد مکمل خاموشی ہوگئی۔ پہلے تو میں اٹھ کر دیکھنے لگی کہ
آخر ہوا کیا مگر پھر اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ پھر اچانک سمیرا کے قدموں کی آواز آئی وہ
بھاگی بھاگی واپس کمرے میں آئی اور سیدھی آکر میری گلے لگ گئی۔ وہ بری طرح
ہانپ رہی تھی ۔ میں اسے دیکھ کر پریشان ہوگئی کہ آخر اسکو کیا ہوا ہے؟؟؟ میں نے
اسکو کہا کہ بتاو تو وہاں کیا دیکھ لیا جو تمہاری چیخ نکل گئی؟؟ مگر سمیرا کچھ بھی
نہیں بول پا رہی تھی اور لمبے لمبے سانس لے رہی تھی اسکا چہرہ سرخ تھا اور
آنکھوں میں آنسو تھے۔ 3 ، 2منٹ وہ ایسے ہی میرے گلے سے لگی رہی۔ اسکا جسم
کانپ رہا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد جب وہ سنبھلی تو اسنے مجھ سے پانی مانگا۔ میں نے
پاس پڑے فریج میں سے ٹھنڈا پانی نکال کر اسکو پالیا وہ بوتل کو ہی منہ لگا کر
غٹاغٹ آدھی بوتل خالی کر گئی۔ اور پھر تیز تیز سانس لینے لگی۔
میں نے دوبارہ اس سے پوچھا کہ آخر بتاو تو ہوا کیا؟ پھر وہ تھوڑی پرسکون ہوئی
اور آہستہ آواز میں بولی کہ عمران بھائی واش روم میں تھے جب میں اندر داخل ہوئی
تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنا کہ کر سمیرا خاموش ہوگئی۔ میں نے پریشان ہوکر پوچھا تو کیا ہوا؟
کیا انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی بدتمیزی کی؟؟؟ میری بات سن کر سمیرا نے انکار میں
سر کو دائیں اور بائیں جانب گھمایا۔ تو میں نے پوچھا تو پھر تم نے چیخ کیوں ماری؟؟؟
سمیرا کچھ دیر خاموش رہی پھر باہر کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تم نے تو کہا تھا کہ
وہ چلے گئے ہیں باہر۔ مگر وہ اندر کیوں تھے؟؟؟ میں نے کہا ہاں تو مجھے تو انہوں
نے یہی کہا تھا کہ میں جا رہا ہوں اب مجھے کیا معلوم کہ وہ کب اندر چلے گئے۔ میں
نے پھر سے پوچھا آخر بتاو تو سہی تم ڈری ہوئی کیوں ہو اور چیخ کیوں ماری؟؟
تو سمیرا کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد آہستہ آہستہ بولی ،وہ میں جب۔ ۔ ۔ ۔ اندر
کمرے۔۔ ۔ ۔ میں گئی تو ۔ ۔ ۔ واش روم کا دروازہ۔ ۔ ۔ ۔ آدھا کھال تھا ۔ ۔ ۔ میں نے بغیر
دیکھے ۔ ۔ ۔ ۔ دروازہ پورا کھوال تو اندر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اندر۔ ۔ ۔ ۔ اندر عمران بھائی تھے۔۔۔۔۔۔
میں نے چال کر پوچھا تو عمران بھائی تھے تو اسمیں چیخنے والی کونسی بات تھی؟؟
تو سمیرا نے غصے سے میری طرف دیکھا اور اپنے دانت پیستے ہوئی بولی وہ ننگے
کھڑے تھے اور۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ایکٹینگ کرتے ہوئے اپنے منہ پر ہاتھ
رکھتے ہوئے کہا اوہ ۔۔۔۔۔۔ واقعی ننگے کھڑے تھے ؟؟؟؟ سمیرا نے کہا اور کیا میں
جھوٹ بول رہی ہوں؟؟ /میں نے پوچھا اچھا اور تم آگے کیا کہ رہی تھیں؟؟؟ تو وہ بولی
اور انہوں نے اپنا وہ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور اسکو آگے پیچھے کر رہے تھے۔۔۔
میں نے مزید حیرانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کیا واقعی؟؟؟ وہ بولی ہاں۔۔۔ انکا منہ
بھی میری طرف تھا اور جیسے ہی میری نظر ان پر پڑی تو میں تو ساکت ہوگئی اور
مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میں کیا کروں۔ اور جب انہوں نے مجھے دیکھا تو وہ بھی
مٹھ مارنا بھول گئے اور انہوں نے اپنا ہاتھ لن سے ہٹا لیا اور جب میں نے انکا لن
دیکھا تو میری چیخ نکل گئی اور میں بھاگ آئی وہاں سے۔ یہ کہ کر وہ گہرے گہرے
سانس لینے لگی اور ایک بار پھر بوتل کو منہ لگا کر پانی پینے لگی۔ اور میں مصنوعی
ایکٹنگ کا مظاہرہ کرنے لگی۔ پھر میں نے آہستہ سے پوچھا کتنا لمبا لن ہے عمران
بھائی کا۔۔۔۔ میری بات سن کر سمیرا ہلکا سا مسکرائی اور آنکھ مارتے ہوئے بولی لن تو
بہت زبردست ہے تمہارے بہنوئی کا۔ تمہاری بہن کے تو مزے ہیں۔
میں نے پھر پوچھا بتاو نہ کتنا بڑا ہے؟؟ تو وہ بولی اب ایسے کیسے بتاوں میں؟؟ بس
رضوان کے لن سے زیادہ لمبا ہی لگ رہا تھا مجھے تو۔ میں نے پوچھا اور موٹا بھی
ہے؟؟؟ تو وہ بولی ہاں موٹا بھی ہے۔ میں نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا کاش میں تجھے
بھیجنے کی بجائے خود ہی چلی جاتی تو میں بھی عمران بھائی کا لن دیکھ لیتی۔ میری
بات سن کر سمیرا بولی پاگل ہو کیا؟؟ بہنوئی ہیں وہ تمہارے۔۔ میں نے کہا تو میں کونسا
ان کے لن کو منہ میں ڈالنے لگی ہوں ،میں تو بس دیکھنے کی بات ہی کر رہی ہوں۔
میری بات سن کر سمیرا نے ہلکا سا قہقہ لگایا اور بولی ویسے انکا لن منہ میں لینا اتنا
آسان بھی نہیں ہوگا۔ بہت بڑا اور موٹا لن ہے انکا۔ پھر ہم دونوں رضوان اور عمران کے
لن کے بارے میں ہی باتیں کرتے رہے جس نے ہم دونوں کو گرم کر دیا۔ مجھے معلوم
تھا کہ عمران کا یہی پالن تھا کہ ایک بار وہ سمیرا کو اپنا لن دکھا دیں تو انکے لیے
سمیرا کی چودائی کرنا آسان ہوجائے گا۔ مگر عمران کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ
سمیرا اور میں آپس میں بھی لیسبو سیکس کرتی ہیں۔ میرے ذہن میں فورا یہ بات آئی
کہ عمران نے اپنا لن تو دکھا ہی دیا ہے سمیرا کو اب وہ فوری طور پر کوئی اگال وار
بھی کرنا چاہیں گے اور معافی مانگنے کے بہانے یا کسی بھی بہانے سے کمرے میں
ضرور آئیں گے۔ لہذا مجھے یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔
عمران اور رضوان کے لن کی لمبائی کا موازنہ کرتے ہوئے سمیرا اور میں ویسے ہی
گرم ہو چکی تھی تو میں نے فورا سمیرا کو جپھی ڈال لی اور اسکے ہونٹ چوسنے
لگی۔ اور اپنے ہاتھ اسکے چوتڑوں پر رکھ کر انکو دبانے لگی۔ سمیرا نے ابھی ابھی
موٹا لن دیکھا تھا جسکی وجہ سے اسکی چوت ویسے ہی آگ ہو رہی تھی وہ بھی فورا
ہی مجھ سے لپٹ گئی اور میری قمیص اتار کر میرے مموں پر پیار کرنے لگی۔ میں نے
بھی بغیر ٹائم ضائع کیے سمیرا کی قمیص اتار دی اور اسکے مموں کو برا کی قید سے
آزاد کر دیا۔ اس نے بھی میرا برا اتار دیا اور اب ہم دونوں بیڈ پر ایک دوسرے کے ساتھ
لیٹی تھیں اور کسنگ کر رہی تھیں۔ اس دوران سمیرا نے کہا کمرے کی کنڈی تو لگا
لیں؟؟ تو میں نے کہا چھوڑو اب عمران بھائی اندر نہیں آئیں گے وہ شرمندہ ہونگے تم
بس میرے ممے چوسو۔ یہ سن کر سمیرا نے میرے ممے چوسنا شروع کر دیے اور
میں نے اپنے ہاتھ اسکی شلوار میں داخل کر کے اسکے چوتڑ دبانا شروع کر دیے۔
تھوڑی ہی دیر کے بعد میں نے سمیرا کو نیچے لٹایا اور خود اسکے اوپر آکر اسکی
شلوار اتار دی۔ اب سمیرا مکمل ننگی تھی میرے سامنے اور اسکی چوت پانی سے
بھری پڑی تھی ،میں نے بغیر انتظار کیے اپنی 2انگلیاں سمیرا کی چوت میں داخل کر
دیں۔ سمیرا کی چوت اندر سے تندور بنی ہوئی تھی۔ اندر آگ دہک رہی تھی اور میری
انگلیوں کے جاتے ہی یہ آگ اور بڑھ گئی اور سمیرا کی سسکیاں نکلنے لگیں۔ مجھے
معلوم تھا کہ عمران کسی بھی ٹائم اندر آسکتے ہیں۔ لہذا میں سمیرا کو مکمل طور پر
گرم کرنا چاہتی تھی۔ اور میری دونوں انگلیاں یہ کام بہت اچھے طریقے سے کر رہی
تھی۔ ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ سمیرا کی چوت کو اپنی زبان سے چاٹنا شروع
کروں کہ کمرے کا دروازہ ہلکا سا ہال۔
مگر دروازے کی آواز نہیں آئی میں نے دیکھا تو سامنے ہلکی سی جگہ سے عمران
اندر دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے پھر تھوڑا سا اور دروازہ کھال تو عمران کا چہرہ
نظر آیا مجھے۔ انکی نظر مجھے پر پڑی تو انکے چہرے پر کئی رنگ آئے اور گئے۔ وہ
ہکا بکا مجھے دیکھ رہے تھے جبکہ سمیرا کی آنکھیں بند تھیں اور وہ چوت میں
گھومنے والی انگلیوں کے مزے سے سرشار ہو کر سسکیاں لینے میں مصروف تھی۔
جب عمران کی نظر سمیرا کے ننگے جسم پر پڑی تو وہ اور بھی حیران ہوئے ۔ وہ شاید
واقعی میں معافی مانگنے کے بہانے سے آنا چاہتے تھے مگر اندر ماحول فل گرم تھا
اور انکے لیے بہترین موقع تھا 2گرم جوانیوں کی چدائی کرنے کا۔ عمران نے میری
طرف دیکھا تو میں نے انہیں آنکھ سے اشارہ کیا اندر آنے کا۔ وہ اندر آگئے تو میں نے
ایک دم سے چیخ ماری اور بولی عمران بھائی آپ؟؟؟؟ اور فوری سمیرا کی چوت سے
اپنی انگلیاں نکال لیں۔ میری آواز سن کر سمیرا کو بھی ہوش آیا تو وہ بھی ایک دم اٹھ
کر بیٹھ گئی اور عمران پر نظر پڑتے ہی میرے پیچھے چھپ گئی۔
میں چاہتی تو ساتھ پڑی چادر سے پنا جسم ڈھانپ سکتی تھی مگر میں نے ایسا نہیں کیا
بلکہ جھوٹ موٹ کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اپنے مموں کو اپنے ہاتھوں سے چھپا لیا۔ اور
ہکالنے لگی اور عمران کو بتانے کی کوشش کرنے لگی کو وہ بس ۔ ۔ ۔ ہم دونوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ایسے ہی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
عمران بھی سمجھ گئے تھے کہ یہ سب یری ایکٹنگ ہے انہوں نے بھی جانے کا نام
نہیں لیا اور بناوٹی غصے سے بولے یہ تم دونوں کیا کر رہی ہو؟؟؟ اس دوران سمیرا
مکمل طور پر میرے پیچھے چھپی ہوئی تھی اسکے ہاتھ میرے کندھوں پر تھے اور
اسنے اپنا چہرہ میری کمر کے ساتھ لگا کر اپنے آپ کو چھپایا ہوا تھا۔ اسکے وہم و
گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سارا کھیل اسی لیے کھیال گیا ہے کہ وہ عمران کے لن کی
سواری کر سکے۔ جب عمران نے غصے سے پوچھا کہ یہ کیا ہورہا ہے تو میں نے
انکو دوبارہ سے ہکالتے ہوئے جواب دینے کی کوشش کی عمران بھائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اصل
میں ۔ ۔ ۔ ہم دونوں بس ایسے ہی۔ ۔ ۔ ۔ عمران پھر بولے کیا بس ایسے ہی؟؟؟ میں نے کہا
وہ سمیرا نے آپکو واش روم میں ننگا دیکھ لیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ تو وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بار عمران
نے اپنی آواز کو دھیمی رکھتے ہوئے کہا تو کیا؟؟؟؟ میں نے کہا تو سمیرا نے آپکا وہ
بھی دیکھ لیا اور وہ مجھے بتارہی تھی کہ وہ بہت لمبا ہے۔ بس اس بات سے وہ گرم
ہوگئی اور میرے جسم پر پیار کرنے لگی اور کہنے لگی کہ میرے اندر اپنی انگلی ڈال
کر میری گرمی نکالو۔
یہ پوری بات میں ایک ہی سانس میں کر گئی۔ میری بات سن کر سمیرا نے مجھے چٹکی
کاٹی اور زور سے بولی فائزہ یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔ مگر میں تو اپنی بات
کر چکی تھی۔ میری بات سن کر عمران بولے کہ ہاں وہ بس میں بھی واش روم میں
اپنی گرمی نکال رہا تھا۔ جب سے تمہاری دوست کو دیکھا ہے ہر وقت اسکے گول گول
ممے آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں اس لیے واش روم میں اسکے مموں کا تصور کر
کے مٹھ مار رہا تھا۔ آئ ایم سوری۔ یہ کہ کر عمران اندر آگئے اور سمیرا نے بھی اپنا
چہرہ اوپر کر لیا۔ لیکن وہ ابھی بھی میرے پیچھے چھپی ہوئی تھی۔
عمران کی بات سن کر وہ فورا بولی دیکھا میں نے تمہیں کہا تھا نہ کہ تمہارا بہنوئی
ٹھرکی ہے اسکی نظریں میرے مموں پر تھیں۔ یہ کہ کر سمیرا غصے سے عمران کو
گھورنے لگی۔ عمران ہلکا سا مسکرائے اور پھر بولے بس میں کیا کروں آپ ہو ہی اتنی
خوبصورت اور اب تو آپکو بغیر لباس کے بھی دیکھ لیا اب میں کیا کروں۔ میرے ہاتھ
ابھی تک میرے مموں پر تھے ۔ اور عمران کا ہاتھ اب انکے لن تک پہنچ چکا تھا۔ میرا
دل زور زور سے دھڑک رہا تھا کہ پتا نہیں آگے کیا ہوگا۔ مجھے امید تو پوری تھی کہ
کام بن جائے گا مگر ڈر بھی لگ رہا تھا کہ اگر سمیرا نے شور مچا دیا تو عمران بھائی
کی مفت میں ہی بدنامی ہوجائے گی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی سمیرا کی آواز
آئی آپ کچھ تو شرم کریں سامنے آپ کی سالی ننگی ہے اور آپ بے شرموں کی طرح
یہیں کھڑے ہو چلو جاو باہر۔۔۔ یہ بات سن کر عمران بولے لیکن مجھے دیکھ کر جس
طرح آپکی چو ت میں آگ لگی ہے اسی طرح آپ دونوں کو ننگا دیکھ کر میرے لن کو
بھی چین نہیں آرہا۔
سمیرا جو ابھی تک میرے پیچھے چھپی ہوئی تھی فورا میرے پیچھے سے نکل آئی اور
پھر سے بولی کچھ تو شرم کر لو۔ اپنی سالی کے ساتھ سیکس کرو گے کیا؟؟ یہ سن
کرمیں فورا بیڈ سے نیچے اتر گئی اور سمیرا کو دیکھ کر کہا میں تو باہر جارہی ہوں،
میں نے اپنے کپڑے اٹھائے اور باہر بھاگنے لگی مگر عمران نے مجھے بازو سے پکڑ
لیا اور واپس بیڈ کی طرف دھکا دیا۔ اور بولے کہ تم باہر نا جاو ادھر ہی رہو۔ میں وہیں
بیڈ پر بیٹھی رہی اور دیکھنے لگی اب عمران کیا کریں گے۔
سمیرا اب عمران بھائی کے سامنے مکمل ننگی کھڑی تھی نا تو اسنے اپنے ممے
چھپائے تھے اور نہ ہی اپنی چوت ۔ شاید وہ بھی عمران کا لن لینے کے لیے بے چین
ہو رہی تھی۔ عمران سمیرا کے قریب گئے اور بولے کہ فائزہ کی انگلیوں سے آپکی
پیاس نہیں بجھے گی یہ صرف میں بجھا سکتا ہوں اگر آپکی اجازت ہو تو۔ سمیرا یہ بات
سن کر تذبذب کا شکار ہوگئی اور میری طرف دیکھنے لگی۔ میں نے اسکو آنکھ ماری
اور اشارہ کیا کہ یہی اچھا موقع ہے۔ لیکن وہ ابھی تک یہی سوچ رہی تھی کہ میں
عمران کی سالی ہوں تو میری موجودگی میں یہ سب کیسے ہوسکتا ہے۔ اس بدھو کو
ابھی تک یہ سمجھ نہیں آئی تھی کہ یہ ہماری پالننگ تھی۔
سمیرا ایک دم پھر گھبرائے ہوئے لہجے میں بولی مگر فائزہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہ کر وہ چپ
ہوگئی اس سے پہلے کہ عمران کچھ بولتے میں فورا بول اٹھی میں کسی کو نہیں بتاوں
گی اس بارے میں۔ سمیرا پھر سے بولی نہیں مگر فائزہ کے سامنے کیسے۔۔ اسکی بات
سن کر عمران بولے کہ فائزہ کو باہر نہیں جانے دینا ایسا نہ ہو کہ یہ باہر جا کر کسی
کو بتا نا دے۔ سمیرا نے فورا میری طرف دیکھا اور بولی مگر یہ کسی کو کیوں بتائے
گی؟
اب ایک بات تو واضح تھی کہ سمیرا مکمل طور پر عمران بھائی کا لن لینے کے لیے
تیار تھی مگر وہ چاہتی تھی کہ یہ سب کچھ میرے سامنے نا ہو بلکہ وہ اکیلے میں ہی
عمران کے لن کی سواری کرے۔ سمیرا میری طرف دیکھتے ہوئے بولی تو پھر اب کیا
کریں۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی عمران بول پڑے کہ ہم تینوں ملکر سیکس کریں
گے۔ اسطرح فائزہ کسی کو نہیں بتا سکے گی۔ کیونکہ اگر وہ بتائے گی تو یہ بھی بتانا
پڑے گا کہ اسنے خود بھی میرے ساتھ سیکس کیا ہے۔ یہ سن کر میں نے مزید ایکٹنگ
کرتے ہوئے کہا نہیں عمران بھائی میں کسی کو نہیں بتاوں گی آپ پلیز مجھے باہر
جانے دو۔ میری بات سن کر سمیرا بولی نہیں نہیں تم باہر نہیں جاو گی۔ میں نے کہا پھر
مجھے یہیں بیٹھی رہنے دو مگر مجھے اس کام میں شامل نہ کرو آخر آپ میرے بہنوئی
ہو آپ کیسے میری چوت پھاڑ سکتے ہو۔
میری یہ بات سن کر سمیرا اپنی جگہ سے اٹھی اور بولی اچھا فی الحال تم یہیں بیٹھو
سوچتے ہیں تمہارا بھی یہ کہ کر وہ سیدھی عمران کے پاس گئی اور اپنا ہاتھ انکے لن
پر رکھ کر اپنے ہونٹ سیدھے عمران کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ ننگی لڑکی سامنے دیکھ
کر عمران کے تو ہوش ہی اڑ گئے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ سمیرا کے چوتڑوں پر
رکھے اور ایک دم سے اسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔ گود میں اٹھا کر دونوں نے
ایکدوسرے کے ہونٹ چوسنا شروع کر دیے اور میں ایک سائیڈ پر بیٹھی اپنی باری کا
انتظار کرنے لگی۔ میں دونوں کو پورا موقع دینا چاہتی تھی۔ سمیرا گرم تو ہو ہی گئی
تھی اور عمران کی گود تک پہنچ گئی تھی اسکی چدائی تو اب پکی تھی۔ اسکی طرف
سے بغاوت کا اب کوئی خطرہ نہیں تھا اور ظاہری بات ہے میری چودائی بھی الزمی تھی
اس لیے مجھے کوئی جلدی نہیں تھی۔ میں چاہتی تھی کہ دونوں ایکدوسرے کا اچھی
طرح مزہ لیں۔ کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد عمران نے سمیرا کو گود سے اتارا اور بیڈ
پر لٹا دیا۔
سمیرا کو بیڈ پر لٹانے کے بعد عمران نے اپنا رخ میری طرف کیا ،میں صوفے پر
بیٹھی تھی میرے ممے ابھی تک ننگے تھے مگر شلوار پہن رکھی تھی۔ عمران نے
مجھے بھی اپنی گود میں اٹھایا اور سمیرا کے ساتھ بیڈ پر ال کر لٹا دیا۔ اور بولے آج تو
بہت مزہ آئے گا تم دونوں کی چوت مارنے کا۔ میں نے پھر ایکٹنگ کا مظاہرہ کرتے
ہوئے کہا عمران بھائی پلیز مجھے جانے دیں۔ عمران بولے نہیں میری جان آج میں بھی
تو دیکھوں کہ سالی کو چودنا کیسا مزہ دیتا ہے۔ یہ بات سنر کر سمیرا بولی اسکو ایک
بار اپنا لن دکھاو پھر یہ نہیں رک پائے گی خود مانگے گی آپکا لن۔ یہ کہ کر سمیرا خود
اٹھی اور عمران کی شلوار اتار دی۔ پھر قمیص اٹھا کر عمران کا بڑا سا لن پھٹی ہوئی
آنکھوں سے دیکھنے لگی پھر لن ہاتھ میں پکڑ کر اسکا رخ میری طرف کیا اور بولی
یہ لو اب خود ہی دیکھ لو کہ کتنا بڑا لن ہے تمہارے بہنوئی کا۔ یہ کہ کر سمیرا ہنسی اور
عمران کو بتانے لگی کہ جب میں نے واش روم میں آپکا لن دیکھا اور آکر فائزہ کو بتایا
تو یہ بار بار پوچھ رہی تھی کہ عمران بھائی کا لن کتنا بڑا ہے۔ اسکو بھی دکھاو اب اپنا
لن تاکہ اسکو پتا چل سکے کتنا بڑا لن ہے۔ یہ سن کر عمران ہنسے اور بولے ارے
میری جان اگر میرا لن ہی دیکھنا تھا تو خود مجھے کہ دیتی میں بھال اپنی اتنی پیاری
سی سالی کو انکار کیوں کرتا۔ یہ کہ کر انہوں نے اپنا لن میری سامنے کر دیا۔ عمران کا
لن اپنی آنکھوں کے سامنے لہراتا دیکھ کر میں نے دل میں سوچا بھاڑ میں گئی ساری
ایکٹنگ چل ٹوٹ پڑ اس جاندار لن پر۔
ساتھ ہی میں نے عمران کے لن پر ہاتھ پھیرا اور پھر اپنے ہونٹ عمران کے لن پر رکھ
دیے۔ عمران کے ٹوپے پر ہونٹ پھیرنے کے بعد میں نے اپنے ہاتھ سے عمران کے لن
کا مساج شروع کیا تو سمیرا اٹھ کر عمران کے پاس آئی اور انہیں کسنگ کرنے لگی
عمران نے اپنا ہاتھ سمیرا کی چوت پر پھیرنا شروع کر دیا اور میں عمران کے لن کے
چوپے لگانے لگی۔ کچھ دیر چوپے لگوانے کے بعد عمران بولے ارے مجھے تو معلوم
ہی نہیں تھا کہ میری چھوٹی سی سالی اتنے مزے کے چوپے لگاتی ہے۔ ایسے چوپے
تو کبھی تمہاری بڑی بہن نے بھی نہیں لگائے۔
عمران کی بات سن کر سمیرا بولی چلو اب میرے چوپے چیک کرو ،یہ کہ کر اسنے
مجھے پیچھے کیا اور عمران کے لن پر جھک کر آدھا لن اپنے منہ میں داخل کر لیا اور
زور زور سے چوپے لگانے لگی۔ سمیرا کو چوپے لگاتا دیکھ کر میں نے عمران کو
آنکھ ماری اور اب کی بار عمران کے ہونٹ چوسنے کی باری میری تھی۔ عمران کا شاید
یہ پہال تجربہ تھا ایک ہی وقت میں 2جوان لڑکیوں کے جسم سے کھیلنے کا۔ جب کہ
میں اس سے پہلے بھی یہ حرکت کر چکی تھی۔
عمران بیڈ پر لیٹ چکے تو سمیرا عمران کی ٹانگوں کی طرف بیٹھ کر دوبارہ سے
عمران کے لوڑے کا چوپا لگانے میں مصروف ہوگئی جبکہ میں نے اپنے ممے عمران
کے حوالے کر دیے جنکو عمران بہت ہی پیار کے ساتھ چوسنے لگے ۔ عمران ممے
چوستے جاتے اور ساتھ ساتھ کہتے کہ واہ سالی کے مموں میں جو مزہ ہے وہ بیگم
کے مموں میں نہیں۔ عمران میرے نپل اپنے منہ میں لیکر زور زور سے چوس رہے
تھے جسکی وجہ سے میرے نپل بہت زیادہ سخت ہوچکے تھے اور ساتھ ہی ساتھ میری
پھدی بھی مسلسل پانی چھوڑ رہی تھی۔ میں نے عمران کے کان میں کہا کہ چوت چاٹنے
کا صلہ اچھا مل رہا ہے یا نہیں؟؟ تو عمران نے مجھ سے پھر آہستہ سی آواز میں
پوچھا کہ یہ گانڈ تو مروائے گی نا مجھ سے ؟؟؟ تو میں نے کہا یہ بھی گانڈ مروائے گی
اور آج میں آپکے لن کو اپنی گانڈ کی بھی سیر کرواوں گی جس پر عمران بہت خوش
ہوئے اور بولے لے آو پھر اپنی چوت اسکو کھاجاوں گا میں۔
میں اٹھی اور عمران کے چہرے کے اوپر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔ اور اپنی چوت بالکل
عمران کے منہ کے اوپر کر دی۔ جسکو عمران بہت ہی لگاو کے ساتھ چوسنے لگے۔
کچھ دیر عمران میری چوت چوستے رہے اور سمیرا عمران کے لن کے چوپے لگاتی
رہی پھر سمیرا بولی کہ اسکو بھی اپنی چوت چٹوانی ہے تو وہ عمران کے اوپر 69
پوزیشن میں لیٹ گئی۔ اب عمران کے منہ کے اوپر سمیرا کی چوت تھی جسکو عمران
نے فورا ہی چاٹنا شروع کر دیا جبکہ سمیرا خود عمران کے لن کے اوپر جھکی ہوئی
تھی اور اسکے چوپے لگانے میں مصروف تھی۔ سمیرا پوری کوشش کر رہی تھی کہ
عمران کا پورا 8انچ کا لن اپنے منہ میں غائب کر دے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو
پا رہی تھی۔
سمیرا 69پوزیشن میں لیٹی تو میں عمران کے سر کی طرف جا کر لیٹ گئی اور اپنا
چہرہ عمران کے سر کی طرف کیا ،جس پر سمیرا کی چوت تھی میں نے کہنیوں کے بل
اپنا منہ اوپر اٹھایا اور اپنی زبان سمیرا کی گانڈ پر پھیرنے لگی۔ جس سے سمیرا کو
دہرا مزہ آنے لگا۔ آج سمیرا کی گانڈ پھٹنے والی تھی لہذا اسکو نرم کرنا بھی ضرور تھا
اس لیے میں نے خوب تھوک لگا لگا کر سمیرا کی گانڈ کو چوسا جس کی وجہ سے
پورا کمرہ سمیرا کی سسکیوں سے گونجنے لگا۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ ہی دیر میں
سمیرا کی چوت نے ہار مان لی اور سارا پانی عمران کے چہرے پر چھوڑ دیا۔ اب سمیرا
عمران کے لن کو چھوڑ کر عمران کے ساتھ لیٹ گئی اور اپنے 36سائز کے گول کسے
ہوئے ممے عمران کے حوالے کر دیے اور میں عمران کے لن کو منہ میں لیکر اسکو
اللی پاپ کی طرح چوسنے لگی۔
ہمارے پاس چدائی کے لیے بہت ٹائم تھا اس لیے ہم پوری تسلی سے مزے لے رہے
تھے۔ کچھ دیر عمران کے لن کو چوسنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اب سمیرا کو
عمران کے لن پر سوار کیا جائے۔ میں نے عمران کو کہا کہ اب میں آپکا لن سمیرا کی
چوت میں جاتا دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔ عمران نے سمیرا سے پوچھا کہ تم تیار ہو تو وہ
اپنی چوت کو مسلتے ہوئے بولی جان میں تو تب سے تیار جب تم میرے مموں کو گھور
گھور کر دیکھ رہے تھے۔ یہ کہ کر وہ فوری طور پر سیدھی ہوکر لیٹ گئی اور اپنی
ٹانگیں کھول کر عمران کو بیچ میں آنے کو کہا۔ عمران بھی فوری اٹھے اور سمیرا کی
گوری گوری ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ دیں اور اپنا لن سمیرا کی گیلی چوت
کے اوپر رکھ کر آرام سے دباو بڑھایا تو لن کا اگال حصہ اندر چال گیا۔ جس پر سمیرا کی
ہلکی چیخ بھی نکلی۔ پھر عمران نے اپنا لن دوبارہ سے باہر نکاال اور اس بار ایک زور
دار دھکا لگایا جس سے عمران کا آدھے سے زیادہ لن سمیرا کی چوت میں اترتا چال گیا
اور سمیرا کی ایک زور دار چیخ نکلی جس سے پورا کمرہ گونج اٹھا۔ اور اس نے اپنے
ناخن عمران کی کمر میں گاڑھ دیے جس سے کمر پر نشان بھی پڑ گئے مگر عمران نے
ایک بار پھر لن کو باہر کی طرف نکاال اور صرف ٹوپی اندر رہنے دی اسکے بعد ایک
اور جاندار دھکا اور پورا 8انچ کا لن سمیرا کی پھدی کو چیرتا ہوا اسکی گہرائیوں میں
اترتا چال گیا۔
اسکے بعد عمران کے لن نے سمیرا کی پھدی کی کھدائی جاری رکھی ،لن کی پوری
کوشش تھی کہ وہ کسی طرح ٹٹوں سمیت سمیرا کی چوت میں داخل ہوجائے مگر وہ
بمشکل اپنی جڑ تک ہی چوت میں اتر رہا تھا۔ سمیرا نے عمران کو کمر سے کس کر
پکڑا ہوا تھا اور اسکی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ ان سسکیوں میں درد بھی
تھا اور مزہ بھی ۔ کچھ دیر کی چدائی کے بعد ان سسکیوں سے درد کا عنصر ختم ہوگیا
اور صرف مزہ ہی مزہ رہ گیا۔ اب سمیرا بھی اپنے چوتڑ ہال کر چودائی میں عمران کا
بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ عمران سمیرا کے اوپر جھک گئے اور اسکے ممے اپنے
منہ میں لیکر چوسنے لگے جبکہ اپنے چوتڑ اور کمر ہال ہال کر اپنا لن سمیرا کی چوت
میں مسلسل کسی پمپ کی طرح چال رہے تھے۔
جب عمران نے سمیرا کے ممے چوسنے شروع کیے تو میں نے اپنی چوت سمیرا کے
منہ کے اوپر کر دی جسکو سمیرا نے فورا ہی چوسنا شروع کر دیا۔ اسکی زبان کا مزہ
ملتے ہی میری چوت گیلی ہونا شروع ہوگئی اور سمیرا کے مزے میں بھی اضافہ ہوتا
چال گیا۔ کچھ ہی دیر کی چدائی نے سمیرا کی چوت کی بری حالت کر دی تھی اور آخر کا
اس نے پانی چھوڑ دیا۔
جیسے ہی سمیرا کی چوت نے پانی چھوڑا میں نے عمران کو نیچے لیٹنے کو کہا اور
خود عمران کے اوپر آکر بیٹھ گئی اور اپنی چوت کو عمران کے تنے ہوئے لن کے عین
اوپر الکر ایک ہی جھٹکے میں اسکے اوپر بیٹھ گئی اور عمران کا پورا لن میری چوت
کی گہرائیوں میں گم ہوگیا۔ اسکے بعد میں نے بھی اوپر نیچے اچھلنا شروع کیا اور
عمران نے میرے چوتڑوں کے نیچے ہاتھ رکھ کر مجھے اوپر نیچے ہونے میں مدد بھی
دی۔ کچھ دیر ایسے ہی جمپنگ کرنے کے بعد عمران نے مجھے اپنے اوپر لٹا لیا اور
میری کمر کو کس کر پکڑ لیا ۔ اب میری گانڈ تھوڑی اوپر اٹھ چکی تھی تو عمران نے
نیچے سے اپنے لن کو 200کلومیٹر فی گھنٹا کی سپیڈ سے چالنا شروع کر دی جس
سے میرے جسم کے سارے پرزے ہل کر رہ گئے اور گرمی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ مگر
پھدی کی چکناہٹ لن کو اندر باہر ہونے میں بہت مدد دے رہی تھی۔ میں نے زور زور
سے چالنا شروع کر دیا ،اور تیز عمران بھائی ،چود دو اپنی بہن کو ،اپنی دیوانی بنا دو
جان
اپنی بہن کو ،پھاڑ دو عمران بھائی میری پھدی۔ اور تیز آ آ ،آ آ ،آ آ۔۔۔۔۔۔۔ اور تیز ِ
من اور تیز۔۔۔۔ ان آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا۔ اور عمران نے بھی میری چوت کو
چودنے میں کوئی کثر نہ چھوڑی اور باآلخر کچھ ہی منٹوں کی چدائی نے میری چوت
میں ایک فوارہ چھوڑ دیا۔ عمران اور میں اکٹھے ہی فارغ ہوگئے تھے۔ آخر میں عمران
نے کچھ زور دار جھٹکے لگائے اور پھر انکا جسم چند جھٹکوں کے ساتھ ہی ڈھیال پڑ
گیا۔
عمران اور میں کچھ دیر ایک دوسرے کے اوپر لیٹے رہے اور گہرے گہرے سانس لیتے
رہے۔ پھر سمیرا بیچ میں آئی اور بولی آج بہنوئی نے اپنی سالی کو چود دیا ،بہت مزہ
آیا تم دونوں کی چدائی دیکھ کر۔ اس پر عمران نے کہا ابھی اور مزہ آئے گا جب میں
اپنی سالی کی گانڈ بھی ماروں گا جس پر سمیرا مسکرا دی اور میری طرف دیکھ کر
آنکھ مارتے ہوئے بولی ہاں ہاں کوئی بات نہیں آپ اپنی سالی کی گانڈ ضرور ماریں
اسکو کچھ نہیں ہوگا۔ اسکا اشارہ رضوان کی طرف تھا کیونکہ میں رضوان سے پہلے
بھی گانڈ مروا چکی تھی سمیرا کے سامنے۔ اور وہ جانتی تھی کہ میں یہ آرام سے
برداشت کر لوں گی اب۔
ویسے بھی ندیم اور رضوان سے گانڈ مروا مروا کر اب مجھے بھی گانڈ مروانے میں
مزہ آنے لگا تھا۔ سمیرا کی بات سن کر عمران نے سمیرا کو کہا وہ تو برداشت کر لے
گی آپ اپنا بتاو جان آپ کی گانڈ میرے لن کو برداشت کرے گی؟؟؟ یہ سن کر سمیرا کا
چہرہ سرخ ہوگیا ،اور وہ ڈر کر بولی نا بابا نہ ،اتنا موٹا لن میں کیسے لے سکتی ہوں
گانڈ میں۔ تو عمران نے کہا جب پھدی میں لیا جا سکتا ہے تو گانڈ میں بھی لے لو گی
فکر نہیں کرو میں تمہیں تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔ یہ کہ کر عمران اٹھے اور سمیرا کو
الٹا لٹا کر خود اسکی گانڈ چوسنے بیٹھ گئے۔ عمران نے تھوڑا سا تھوک سمیرا کی گانڈ
پر پھینکا اور اسکے بعد اپنی انگلی سے اسکو گانڈ پر اچھی طرح مسل دیا اور پھر اپنی
زبان سے گانڈ کو چاٹنے لگے۔
میں بھاگ کر دوسرے کمرے میں گئی اور وہاں سے تیل کی بوتل اٹھا الئی۔ میرے ہاتھ
میں تیل دیکھ کر عمران بھائی بولے چلو سمیرا کی گانڈ پر اور میرے لن پر تیل لگاو
پھر میں سمیرا کی گانڈ ماروں گا مگر میں نے کہا نہیں ابھی اتنی جلدی نہیں پہلے
اسکی گانڈ کو تھوڑا سا کھال کر لو اور اپنی انگلی سے اسکی گانڈ کی چدائی کرو۔ سمیرا
نے ایک بار پھر کہا کہ گانڈ مارنے کو رہنے دو چوت میں ہی ڈال دو بہت مزہ آتا ہے
چوت میں۔ مگر عمران کو تو آج گانڈ الزمی چاہیے تھی اسی کے لیے تو عمران نے
میری پھدی چاٹنا شروع کی تھی۔ بحرحال عمران نے میرے ہاتھ سے تیل کی بوتل لی
اور تھوڑا سا تیل سمیرا کی گانڈ پر الٹا دیا اور اسکے بعد اپنی ایک انگلی سمیرا کی گانڈ
پر پھیری اور پھر آہستہ سے انگلی سمیرا کی گانڈ میں گھسا دی۔
ابھی عمران کی انگلی کا تیسرا حصہ ہی گانڈ میں گیا ہوگا مگر سمیرا کی چیخوں نے
پورا کمرہ سر پر اٹھا لیا۔ اور وہ چالنے لگی کہ انگلی نکالو میری گانڈ سے۔ مگر
عمران کہاں نکالنے والے تھے میں سمیرا کے ساتھ لیٹ گئی اور اسکو کسنگ کرنے
لگی اور اسکی چیخوں کو روکنے لگی۔ میں نے سمیرا کے کان میں کہا کچھ نہی ہوتا
یار شروع میں درد ہوگا مگر پھر ایسے ہی مزہ آئے گا جیسے پھدی میں لن لینے کا
مزہ آتا ہے۔ بس تھوڑا سا برداشت کرو۔ یہ بات سن کر سمیرا نے مزید کوشش کی کہ وہ
عمران کی انگلی اپنی گانڈ میں برداشت کر سکے مگر اسکی چیخیں ابھی تک رک نہیں
پائیں تھی۔ لیکن اب عمران کی پوری انگلی سمیرا کی گانڈ کے اندر گھوم رہی تھی۔
گانڈ میں 5منٹ تک انگلی کرنے کے بعد عمران نے سمیرا کو گھوڑی بننے کو کہا تو
وہ ڈرتے ڈرتے گھوڑی بن گئی۔ میں نے سمیرا کی گانڈ پر اچھی طرح سے تیل انڈیل دیا
جسکو عمران نے ایک بار پھر اپنی انگلی سے گانڈ کے اندر تک مسل دیا۔ اسکے بعد
میں نے تیل عمران کے لن پر انڈیل دیا اور اپنے ہاتھ سے اچھی طرح عمران کے لن پر
تیل کو مسل مسل کر اسکو چکنا کر دیا۔ پھر میں نے سمیرا کی گانڈ پر تھوک کا گوال بنا
کر پھینکا اور عمران کو کہا کہ اب اسکی گانڈ میں لن اتار دیں۔ عمران نے اپنا لن سمیرا
کی گانڈ کے اوپر رکھا تو عمران کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ آج میں نے عمران
بھائی کی پرانی خواہش پوری کی تھی ،وہ بہت عرصے سے کسی کی گانڈ مارنا چاہتے
تھے مگر انکی بیوی اس بات کے لیے راضی نہیں ہوتی تھی اور سالی نے یعنی کہ میں
نے بھی انکے لن سے اپنی گانڈ کو بچا کر رکھا ہوا تھا۔ مگر آج انکے لن کی ٹوپی ایک
کنواری گانڈ کے اوپر پڑی تھی اور ایک ہی جھٹکی میں انکا لن ایک کنواری گانڈ کو
پھاڑنے واال تھا۔ تو خوشی تو چہرے سے واضح ہونا ہی تھی۔ عمران نے اپنے ہاتھوں
سے سمیراکے چوتڑوں کو پکڑ لیا اور لن کی ٹوپی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر آہستہ
آہستہ دباو بڑھانا شروع کیا جس پر سمیرا کی چیخیں نکلنے لگیں مگر لن ابھی مکمل
باہر ہی تھا میں نے عمران کے کان میں کہا ایسے لن گانڈ میں نہیں جائے گا ایک زور
دار جھٹکا لگاو۔ پھر عمران نے ایک زور دار جھٹکا لگایا تو ٹوپی گانڈ میں داخل ہوگئی
اور سمیرا نے پورا گال پھڑا کر چیخ ماری۔ عمران ایک اور دھکا مارنے لگے تھے کہ
میں نے عمران کو روک دیا اور کہا ابھی لن اتنا ہی اندر رکھو مزید اندر نہ کرنا لیکن
اسکو نکلنے بھی نہیں دینا۔ سمیرا کسی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی اور اپنا جسم
عمران کے چنگل سے چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ گالیاں بھی
دینا شروع ہوگئی تھی۔ اور اپنی امی کو یاد کر کے انسے شکایت بھی کر رہی تھی اوئی
امی جی میری گانڈ پھاڑ دی اس بہن چود نے۔۔۔ چھوڑ دو مجھے ،چھوڑ دو میری گانڈ،
پلیز میری گانڈ نہ مارو۔۔۔۔ وہ مسلسل چال رہی تھی۔۔۔ میں نے آگے جا کر سمیرا کو
حوصلہ دیا تو اسنے مجھے بھی گالی دی اور بولی کیوں تم نے مجھے مشورہ دیا تھا
گانڈ مروانے کا مگری میں نے سمیرا کو کہا کہ بس تھوڑا اور درد ہوگا اسکے بعد مزہ
آئے گا یہ کہ کر میں نے سمیرا کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور عمران کو
اشارہ کیا اگال دھکا لگانے کا۔ عمران نے ایک اور دھکا لگایا تو اب آدھا لن گانڈ میں جا
چکا تھا اور سمیرا کی گانڈ پھٹ چکی تھی۔
یہا ں پر عمران نے پھر اپنے لن کو روک لیا اور سمیرا کی آنکھوں سے آنسو جاری
ہوگئے۔ اور وہ منتیں کرنے لگی کہ مجھے چھوڑ دو ،مجھے بے شک ساری رات
چودتے رہو مگر میری گانڈ نا مارو۔ لیکن گانڈ مارنے کو شوقین کو جب پہلی بار گانڈ
ملے وہ بھی کنواری اور ٹائٹ گانڈ تو وہ بھال کہاں چھوڑتا ہے۔
کچھ دیر سمیراکی چیخیں جاری رہیں پھر عمران نے آہستہ آہستہ لن کو اندر باہر داخل
کرنا شروع کیا جس سے سمیرا کی چیخوں میں اور اضافہ ہوا مگر وقت کے ساتھ ساتھ
چیخوں میں کمی آنے لگی۔ شروع میں لن بہت پھنس پھنس کر اندر جا رہا تھا مگر پھر
تھوڑا روانی سے جانے لگا تو سمیرا کی چیخوں کے ساتھ ساتھ سسکیاں بھی شروع
ہوگئیں۔ چند چیخوں کے بعد 3 ،2سسکیاں اور اسکے بعد پھر سے چیخیں اور پھر
مزے کی سسکیاں۔ یہ سلسلہ جاری تھا اور اب عمران روانی کے ساتھ سمیرا کی گانڈ
مار رہے تھے۔
میں نے عمران سے آہستہ سے پوچھا کیسا لگا گانڈ میں لن ڈال کر تو عمران خوشی
سے بولے مزہ آگیا آج تو۔ ایسا مزہ تو کنواری چوت پھاڑنے کا بھی نہیں آتا جتنا مزہ
اس گانڈ کو مار کر آرہا ہے۔ اب عمران کا 6انچ لن گانڈ کے اندر تھا جب کے 2انچ ابھی
بھی باہر ہی تھا۔ می نے عمران کو کہا اس سے زیادہ لن اندر داخل نہ کرنا ورنہ مسئلہ
خراب بھی ہوسکتا ہے۔عمران نے ہاں میں سر ہالیا اور سمیرا کی گانڈ کی چدائی جاری
رکھی۔
سمیرا گھوڑی تو بنی ہوئی تھی مگر اسکی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور اب سسکیوں اور
چیکوں کے ملے جلے آوازوں سے ماحول بہت سیکسی ہوگیا تھا۔ 5منٹ تک عمران
سمیرا کی گانڈ روانی کے ساتھ چودتے رہے اسکے بعد سمیرا نے کہا اب پلیز مجھے
چھوڑ دو میری گانڈ کا برا حال ہوگیا ہے۔ مگر عمران نے اسکی بات نہ سنی اور مسلسل
دھکے لگانا جاری رکھے۔ مگر ساتھ میں عمران نے سمیرا کی چوت میں بھی انگلی
کرنا شروع کر دی تھی جسکی وجہ سے سمیرا کو اب مزہ آنے لگا تھا۔ گانڈ میں لن اور
چوت میں انگلی سے اب درد کم اور مزے سے سسکیاں زیادہ نکل رہی تھیں۔
باآلخر 2منٹ کی مزید چدائی نے سمیرا کی چوت کو پانی پانی کر دیا تھا۔ سمیرا کی
چوت نے پانی چھوڑا تو عمران نے سمیرا کی گانڈ کی جان چھوڑی۔ جیسے ہی عمران
نے سمیرا کی گانڈ سے اپنا لن باہر نکاال سمیرا بستر پر ڈھے گئی اور گہرے گہرے
سانس لینے لگی وہ بری طرح تھک چکی تھی اور اسکی گانڈ کی چٹنی بن گئی تھی۔
اب عمران نے میری طرف دیکھا اور مجھے لیٹنے کو کہا تاکہ میری چوت میں اپنا لن
ڈال کر ایک بار پھر میری چدائی کر سکیں۔ مگر میں خود سے گھوڑی بن گئی اور
عمران کو اپنی گانڈ مارنے کی دعوت دی ۔ اس پر عمران حیران ہوئے اور بولے کیا
واقعی تم بھی اپنی گانڈ مروانا چاہتی ہو؟ تم نے وعدہ پورا کر تو دیا کنواری گانڈ دلوادی۔
مگر میں نے کہا کہ نہیں مجھے بھی اپنی گانڈ مروانی ہے آپ سے۔ آپکا لن بہت
خوبصورت ہے میں اسکو اپنی گانڈ کی سیر کروانا چاہتی ہوں۔ اس پر عمران نے کہا
ٹھیک ہے اگر تم خود اپنے پاوں پر کلہاڑا مارنا چاہتی ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ یہ کہ
کر عمران نے تیل کی بوتل اٹھائی اور میری گانڈ میں انڈیل دی ،اسکو انگلی سے چکنا
کیا اور پھر اپنے لن پر بھی تیل لگا کر میری گانڈ کے سوراخ پر ٹوپی رکھی اور مجھے
چوتڑوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ کر ایک زور دار جھٹکا مارا۔ اس جھٹکے نے
میرے سارے پیچ پرزے ڈھیلے کر دیے ۔ میں چونکہ پہلے بھی گانڈ مروا چکی تھی اس
لیے آدھے سے زیادہ لن ایک ہی دھکے میں میری گانڈ میں اتر گیا مگر تکلیف کی
شدت اتنی تھی کہ میں سمیرا سے بھی زیادہ زور سے چالئی ۔ عمران کے ایک ہی
جھٹکے نے میری جان نکال دی تھی کیونکہ عمران کا لن رضوان کے لن کے مقابلے
میں موٹا بھی تھا او ر لمبا بھی۔ عمران کے لن سے ویسی ہی تکلیف ہوئی جیسی ندیم
کے لن سے ہوئی تھی جب اس نے میری گانڈ ماری تھی۔
کچھ دیر میری چیخیں سننے کے بعد عمران نے گانڈ میں دھکے لگانا شروع کیے اور
کچھ ہی دیر میں عمران کا لن روانی سے میری گانڈ کی چدائی کر رہا تھا۔ 8انچ کا لن
میری گانڈ کی گہرائی تک جاتا اور پھر ٹوپی تک واپس باہر نکلتا۔ ساتھ ہی عمران نے
میری چوت کو بھی سہالنا شروع کیا جس سے میں مزے کی بلندیوں تک پہنچ گئیں۔ اور
اب میں عمران کو مزید زور سے دھکے لگانے پر اکسا رہی تھی۔ میرے اکسانے پر
عمران نے اور بھی جاندار دھکے لگانا شروع کیے مگر ساتھ ہی ساتھ حیران بھی
ہوئے کہ میں کیسے اتنے آرام سے اپنی گانڈ مروا رہی ہوں اور پہلے سے زیادہ زور
کے ساتھ چودنے کا ہ رہی ہوں۔ عمران کو اس بات کا نہیں پتا تھا کہ اس گانڈ میں پہلے
بھی بہت مرتبہ لن جا چکے ہیں۔
منٹ کی چدائی کے بعد میری چوت نے ہار مان لی اور ڈھیر سارا پانی چھوڑ دیا 10
ساتھ ہی عمران کے لن نے بھی اپنی ساری منی میری گانڈ کے اندر ہی نکال دی۔ اسکے
بعد ہم تینوں کافی دیر تک بستر پر لیٹے رہے اور ایکدوسرے کو پیار کرتے رہے۔ پھر
میں کچن سے جوس لیکر آئی اور ہم تینوں نے ملکر جوس پیا۔ پھر عمران نے سمیرا کا
شکریہ ادا کیا کہ اسنے اپنی چوت اور گانڈ دونوں عمران کے حوالے کیں اور اسکی
وجہ سے آج عمران نے اپنی سالی کی چوت اور گانڈ بھی مار لی۔ سمیرا ابھی تک اس
بات سے بے خبر تھی کہ میں پہلے بھی عمران بھائی کے لن کی سواری کر چکی ہوں
اور انہیں بیوی سے زیادہ پیار اور مزہ دے چکی ہوں۔
اسکے بعد سمیرا ایک ہفتہ مزید ہمارے گھر رکی۔ اس دوران عمران بھائی بھی ادھر ہی
تھے۔ انہوں نے ایک بار پھر موقع ڈھونڈ کر ہم دونوں کی گانڈ ماری۔ اسکے عالوہ ایک
بار میں نے سمیرا کو رضوان سے بھی ملوایا اور ہم دونوں نے ملکر رضوان سے بھی
اپنی اپنی گانڈ مروائی۔
پھر عمران بھائی اور صائمہ بھی الہور چلے گئے اور سمیرا بھی واپس اسالم آباد چلی
گئی۔ سمیرا کے اسالم آباد جانے کے بعد اب میرے پاس وقت ہی وقت تھا۔ اور اب مجھے
دوبارہ سائرہ کا خیال آیا تو میں نے اسی پولیس والے کو کال کی اور اسکے ساتھ ملنے
کا ٹائم طے کیا۔ میں ایک آئسکریم کیفے میں اس پولیس والے سے ملی اور اسکو اپنے
پالن کے بارے میں بتایا۔ پہلے تو اسنے صاف انکار کر دیا مگر جب میں نے اسکے
معاوضے کے طور پر ملنے والے انعامات کا ذکر کیا تو اسکی رال ٹپکنے لگی۔ اور وہ
راضی ہوگیا میرے پالن پر عمل کرنے کے لیے۔ میں نے اس کے ساتھ مزید ضروری
معامالت ڈسکس کیے اور آئسکریم کھا کر چل نکلے ۔
ٹھیک ایک ہفتے بعد سائرہ اور میں کالج میں تھے۔ میں اسکے ساتھ ساتھ سارا دن رہی
اور اپنے پالن پر عمل درآمد کرنے کے لیے مناسب موقع کے انتظار میں تھی۔ آج کا دن
سائرہ سے اپنی تذلیل اور بلیک میلنگ کا بدلہ لینے کا دن تھا۔ کالج سے چھٹی ہوئی تو
سائرہ اور میں کینٹ مارکیٹ کی طرف اسکی گاڑی میں نکلے۔ ہمارا پروگرام آئسکریم
کھانے کا تھا۔ ابھی ہم کینٹ سے تھوڑا ہی دور تھے اور ایک ویران روڈ سے گزر رہے
تھے کہ اچانک ہی ہماری گاڑی کے سامنے ایک گاڑی آکر رکی۔ یہ گاڑی کہاں سے آئی
ہمیں کوئی پتہ نہیں لگا۔ ڈرائیور نے ایک دم سے بریک لگا کر بڑی ہی مشکل سے
گاڑی روکی اور دوسری گاڑی والوں سے لڑنے کے لیے نیچے اترا مگر اس گاڑی میں
سے 4ہٹے کٹے نقاب پوش برآمد ہوئے۔ ایک نے ڈرائیور کو پکڑا جب کہ ایک سائرہ
کی طرف آیا اور دوسرا میری طرف آیا۔
ان لوگوں نے ہم دونوں کو زبردستی گاڑی سے باہر نکال کر اپنی گاڑی میں ڈاال اور
ہمارے منہ پر رومال رکھ دیا۔ ہم دونوں زور زور سے چیخیں مارنے لگیں بچاو بچاو۔۔۔۔
مگر جیسے ہی ہماری ناک پر رومال رکھا اسکے بعد۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔
ان لوگوں نے جیسے ہی ہماری ناک پر رومال رکھا ہم دونوں نے چیخیں مارنا شروع کر
دیں۔ ۔۔۔۔ سائرہ بے بسی سے میری طرف دیکھ رہی تھی اور میں سائرہ کی طرف دیکھ
رہی تھی۔ لیکن ہماری چیخیں ہمارے منہ تک ہی محدود رہیں کیونکہ انہوں نے رومال
اس قدر زور سے دبا کر منہ اور ناک پر رکھا تھا کہ ہماری چیخیں اندر ہی دم توڑ گئیں۔
ابھی ہمارے ناک اور منہ پر رومال رکھے محض چند سیکینڈ ہی گزرے ہونگے کہ
مجھے محسوس ہوا جیسے سائرہ کی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہو رہی ہیں اور اس پر
غنودگی چھا رہی ہے۔ گاڑی چل رہی تھی اور کالے شیشے ہونے کی وجہ سے باہر سے
گاڑی کے اندر کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ ایک ہٹے کٹے شخص نے سائرہ کو اپنی گود میں
بٹھایا ہوا تھا اور سائرہ اسکی گود میں مچل رہی تھی اور اپنے بچاو کی کوشش کر رہی
تھی۔ مگر رومال میں موجود بے ہوشی کی دوا نے جلد ہی سائرہ کی جدو جہد کو ختم کر
دیا۔
آخر کار سائرہ نے ہاتھ پیر مارنا بند کیے اور بے ہوش ہوگئی۔ جیسے ہی پیچھے بیٹھے
دونوں لوگوں کو یقین ہوگیا کہ سائرہ اب بے ہوش ہو چکی ہے انہوں نے میرے منہ
سے رومال ہٹا دیا۔ اور میں سیدھی ہوکر سائرہ کا جائزہ لینے لگی کہ آیا وہ واقعی بے
ہوش ہوئی بھی ہے یا نہیں؟؟ سائرہ مکمل بے ہوش تھی اور میں پرسکون ہوکر انہی
لوگوں کے درمیان بیٹھ گئی۔ اصل میں یہ لوگ سب انسپیکٹر ماجد خان کے لوگ تھے ۔
جی ہاں وہی ماجد خان جو مجھے تھانے میں مال تھا اور بعد میں میرے کہنے پر وہ
میرے پالن پر عملدرآمد کرنے کے لیے ہمیں اغواہ کر رہا تھا۔ میرے ناک اور منہ پر
جو رومال رکھا گیا اس میں کسی قسم کی دوائی موجود نہیں تھی ،وہ محض سائرہ کو
دکھانے کے لیے رکھا گیا تھا جب کہ سائرہ بے ہوش ہو چکی تھی اور بے ہوش ہونے
سے پہلے وہ مجھے بے بسی کے عالم میں دیکھ رہی تھی۔ وہ شاید یہی سوچ رہی
ہوگی کے اسکے بابا کے دشمنوں نے ہمیں اغوا کیا ہے اور بے چاری فائزہ مفت میں
ہی پھنس گئی ہے۔۔۔
بحر حال کچھ دیر کے بعد ہماری گاڑی ایک ویران سی جگہ میں موجود ایک حویلی کے
سامنے جا کر رکی۔ ہارن دینے پر چوکیدار نے بڑا سا گیٹ کھوال تو گاڑی اندر چلی گئی ۔
اندر جا کر گاڑی رکی تو پہلے میرے ساتھ بیٹھا ہوا شخص نیچے اترا جو کہ سب
انسپکٹر ماجد خان تھا اور اسکے پیچھے میں بھی نیچے اتری۔ پھر باری باری سب
لوگ اترے۔ ان میں سے ایک شخص نے سائرہ کو گود میں اٹھایا اور اندر کمرے میں
لے گئے۔ میں بھی انکے ساتھ ساتھ اندر تک گئی۔
یہ ایک ویران سا گھر تھا۔ جہاں شاید کافی عرصے سو کوئی نہیں آیا ہوگا۔ کمرے میں
جا کر جس شخص نے سائرہ کو گود میں اٹھا رکھا تھا اس نے سائرہ کو کمرے میں
موجود بیڈ پر لٹایا اور ماجد خان کی طرف دیکھتے ہوئے بوال باس اب کیا کرنا ہے؟؟؟
تو ماجد خان نے کہا کہ تم سب لوگ اپنے اپنے چہرے سے ماسک نہیں اتارو گے اور
جتنا ہو سکے اپنا بچاو کرو گے تاکہ کیمرے میں بھی تم لوگ پہچانے نا جا سکو۔ اور
اس لڑکی کے ہوش میں آنے کا انتظار کرو گے۔ ساتھ ہی اسنے ڈرائیور کو کہا کہ وہ
گاڑی لیکر یہاں سے چال جائے اور اس گاڑی کو کہیں غائب کر دے اور اسکی جگہ
کوئی اور پرانی چوری شدہ گاڑی لے آئے۔
اسکے بعد ماجد نے مجھے ایک مردانہ لباس ال کر دیا جو میں نے اپنے کپڑوں کے
اوپر سے ہی زیب تن کر لیا اور اسکے نیچے مردانہ جوتے جو سائز میں تھوڑے بڑے
تھے مگر میں نے وہ بھی پہن لیے۔ اور جس طرح کے ماسک انہوں نے اپنے چہرے
پر چڑھا رکھے تھے اسی طرح کا ایک ماسک مجھے بھی دے دیا گیا جو میں نے اپنے
چہرے پر لگا لیا۔ میرے ہاتھ میں ایک کیمرہ موجود تھا جس سے میں نے سائرہ کی
چدائی یعنی کے اسکے ریپ کی ویڈیو بنانی تھی ۔ اور مردانہ لباس پہننے کا مقصد یہ
تھا کہ جب سائرہ کی نظر مجھ پر پڑے تو وہ مجھے پہچان نہ پائے۔
اب ان میں سے ایک شخص نے گالس میں پانی لیا اور سائرہ کے چہرے پر چھینٹے
مارے جس سے کچھ ہی دیر میں سائرہ کو ہوش آگیا اور وہ چالنے لگی دوبارہ سے۔
اس نے ادھر ادھر دیکھا اور اپنے آپکو 4غنڈوں میں گھرا ہوا پایا۔ اصل میں 3غنڈے
تھے چوتھا غنڈہ میں خود تھی جو مردانہ لباس میں ملبوس تھی۔ سائرہ نے کچھ دیر
بچاو بچاو کی آوازیں ماری پھر رونے لگی اور ان لوگوں سے پوچھنے لگی کہ وہ کون
ہیں اور کیوں اغوا کیا ہے اسے؟ اور فائزہ کہاں ہے؟ مگر باقی 3لوگ اس پر ہنسنے
لگے اور میں خاموشی سے سائرہ کا تماشہ دیکھنے لگی۔ میں اپنا کیمرہ آن کر چکی
تھی اور ماجد خان سائرہ کی طرف بڑھنے لگا تھا۔ سائرہ ڈر کے مارے بیڈ کی ٹیک کے
ساتھ جڑ کر بیٹھی تھی رونے کے ساتھ ساتھ چیخیں بھی مار رہی تھی۔ اس نے بھاگنے
کی بھی کوشش کی مگر ماجد خان نے ایک ہی ہاتھ سے اسکو دبوچ لیا اور اسکو اپنے
سینے سے لگا لیا۔
جیسے ہی ماجد خان نے سائرہ کو اپنے سینے سے لگایا سائرہ نے اور زور سے چالنا
جان من
شروع کر دیا۔ ماجد خان نے ایک قہقہ لگایا اور بوال جتنا چالنا ہے چال لو میری ِ
یہاں دور دور تک تمہاری آوازیں سننے واال کوئی نہیں ہے۔ یہ کہ کر ماجد خان نے
اپنے ہونٹ سائرہ کے ہونٹ پر رکھ دیے اور انکو چوسنے لگا جب کہ سائرہ بری طرح
سے اپنے آپکو چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔ مگر ماجد خان کی مضبوط گرفت میں
وہ بے بس تھی۔ میرا کیمرہ سائرہ اور ماجد کے جڑے ہوئے ہونٹوں کی ویڈیو بنا رہا
تھا ماجد بہت ہی پیار اور شدت کے ساتھ سائرہ کے خوبصورت ہونٹ چوسنا چاہ رہا تھا
جنکو سائرہ نے مضبوطی کے ساتھ بند کر رکھا تھا۔ لیکن ماجد خان پھر بھی اسکے
ہونٹوں پر ہونٹ پھیرتا اور کبھی اپنی زبان نکال کر ان پر پھیرنے لگتا۔
سائرہ کسی بن پانی مچھلی کی طرح اسکی بانہوں میں تڑپ رہی تھی اور اپنے آپ کو
چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اتنے میں دوسرا غنڈہ بھی سائرہ کے قریب گیا اور
پیچھے سے سائرہ کی قمیص اٹھائی اور ایک ہی جھٹکے میں پھاڑ ڈالی۔ جب اس
شخص نے سائرہ کی قمیص جھٹکے سے کھینچی تو اسکی پوری کمر ننگی ہوگئی۔
سائرہ کی گوری کمر دیکھتے ہی وہ سائرہ کی کمر پر زبان پھیرنے لگا اور اس پر پیار
کرنے لگا جبکہ ماجد خان ابھی بھی سائرہ کے خوبصورت گالبی ہونٹوں کو چوسنے کی
کوشش کر رہا تھا۔ جب کچھ دیر ماجد نے ہونٹ چوس لیے تو وہ تھوڑا سا پیچھے ہٹا
اور آگے سے سائرہ کی قمیص پکڑ کر کھینچ ڈالی اسکا پچھال حصہ تو پہلے ہی پھٹ
چکا تھا اور اب قمیص کا اگال حصہ بھی اسکے جسم سے علیحدہ ہو چکا تھا۔ اب سائرہ
کا گورا جسم سرخ رنگ کے برا میں بہت ہی پیارا لگ رہا تھا اور میرا اپنا دل کرنے لگا
کہ میں بھی جا کر سائرہ کے جسم پر پیار کروں ،مگر مجھے اسکی مووی بنانی تھی۔
میں نے کیمرے کا فوکس سائرہ کے برا پر کیا اور اسکی کمر سے لیکر سامنے سینے
تک کی ویڈیو بنا ڈالی۔ اسکے مموں کا ابھار اس برا میں بہت ہی پیارا لگ رہا تھا۔ ماجد
خان نے سائرہ کو چوتڑوں سے پکڑا اور نیچھے جھک کر اسکے مموں پر پیار کرنے
لگا۔ اور میں اس پیار کی ریکارڈنگ کرنے میں مصروف تھی۔
سائرہ ابھی تک چال رہی تھی اور اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی مگر
اسکی ساری کوششیں ناکام تھیں۔ کچھ دیر اسکے مموں کے ابھاروں پر پیار کرنے کے
بعد ماجد خان نے سائرہ کو بیڈ پر دھکا دیا تو سائرہ بیڈ پر اوندھے منہ گر گئی اور
گرتے ہی اس نے پھر سے بھاگنے کی کوشش کی مگر اس بار دوسرے غنڈے نے
سائرہ کو اوپر سے ہی دبوچ لیا اور دوبارے سے اسکی کمر پر پیار کرنے لگا۔ ماجد
خان بھی کسی بھوکے بھیرڑیے کی طرح سائرہ کی گوری کمر کو نوچنے میں مصروف
ہوگیا ،اب کی بار تیسرا غنڈہ جو میرے ساتھ ہی کھڑا تھا وہ بھی آگے بڑھا اور اسنے
سائرہ کی شلوار پکڑ کر ایک ہی جھٹکے میں اتار دی۔
سائرہ نے نیچے سے پینٹی نہیں پہنی ہوئی تھی ،شلوار اترتے ہی اسکے گول گول اور
نرم نرم گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑ اس شخص کے سامنے اگئے جسکو اسنے پہلے
اپنے ہاتھوں سے دبایا اور پھر اسکے اوپر اپنا منہ رکھ کر چوسنے لگا۔ پورا کمرہ
سائرہ کی چیخوں سے گونج رہا تھا مگر وہ تینوں کسی بھوکے بھیڑیے کی طرح سائرہ
کے پھولوں جیسے نرم اور مالئم جسم کو نوچنے میں مصروف تھے۔ ایک غنڈہ سائرہ
کے چوتڑوں کو کھول کر اسکی گانڈ پر اپنی زبان پھیر رہا تھا جبکہ ماجد خان اور
دوسرا غنڈہ سائرہ کی گردن اور کمر پر پیار کرنے میں مصروف تھے۔ ماجد نے سائرہ
کے برا کی ہُک پیچھے سے کھول دی تھی اور اب وہ سائرہ کی گردن سے لیکر اسکے
چوتڑوں کے ابھار تک اپنی زبان سائرہ کے جسم پر پھیر رہا تھا جب کے نیچے واال
شخص سائرہ کے چوتڑوں اسکی گانڈ اور اسکی ٹانگوں پر پیار کرنے میں مصروف
تھا۔ اور تیسرا شخص اپنے کپڑے اتار کر اپنے 8انچ کے لوڑے کو سہال رہا تھا۔
کچھ دیر بعد ماجد نے سائرہ کو سیدھا کیا اور اسکا برا اسکے مموں سے علیحدہ کر
دیا۔ جیسے ہی سائرہ کا برا مموں سے علیحدہ ہوا ،اسکے 34سائز کے ممے دیکھ کر
ماجد اپنی زبان ہونٹون پر پھیرنے لگا اور فورا ہی اسکے اوپر جھک کر اسکے مموں
کو چاٹنا شروع کردیا۔ سائرہ نے اپنے ہاتھ اپنے مموں پر رکھ کر انکو چھپانا چاہا مگر
پہلے شخص نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے لوڑے پر رکھ دیا ۔ لوڑے کو ہاتھ لگتے ہی
سائرہ کو جھٹکا لگا اور اسنے اپنی مٹھی بند کر لی مگر اس شخص نے پھر بھی
زبردستی اسکی مٹھی کہ ہی اپنے لوڑے کے ساتھ لگائے رکھا۔ وہ چاہتا تھا کہ سائرہ
اسکا لوڑا اپنے ہاتھ میں پکڑے مگر سائرہ اسطرح نہیں کر رہی تھی اور اسکی آنکھوں
سے مسلسل آنسو جاری تھے۔ نیچے موجود دوسرے غنڈے نے سائرہ کے سیدھے
ہونے کے بعد اسکی پھدی پر نظر ڈالی تو اسکی آنکھوں میں بھی چمک آگئی۔ کنواری
پھدی کا اپنا ہی نشہ ہوتا ہے۔ سائرہ کی پھدی کے لب آپس میں جڑے ہوئے تھے اور
اسکے پھدی کے اوپر ہلکے ہلکے سے براون بال بہت دلکش لگ رہے تھے۔ شاید کچھ
دن پہلے ہی سائرہ نے اپنی پھدی کی شیو کی تھی۔ اس شخص نے سائرہ کی ٹانگیں
کھولیں اور اپنی انگلی اسکی پھدی کی الئن کے اوپر بہت ہی پیار سے پھیرنے لگا۔
سائرہ کی پھدی بالکل خشک تھی جسکا مطلب تھا کہ ابھی تک وہ اپنی چدائی کے لیے
راضی نہیں ہوئی تھی اور مسلسل بچاو کا ہی سوچ رہی تھی۔ میں کبھی ماجد خان کو
سائرہ کے ممے چوستے ہوئے کی ویڈیو بنا رہی تھی تو کبھی پہلے شخص کے لوڑے
پر سائرہ کے ہاتھ کی ویڈیو بنا رہی تھی اور کبھی نیچے موجود شخص کی ویڈیو بنا
رہی تھی جو سائرہ کی نرم و نازک پھدی پر بہت ہی پیار سے اپنی انگلی پھیر رہا تھا۔
اب کی بار ماجد خان نے سائرہ کے مموں کی جان چھوڑی اور کھڑا ہوکر اپنے کپڑے
اتارنے لگا۔ ماجد خان نے ایک ہی باری میں اپنے سارے کپڑے اتار دیے۔ جیسے ہی
ماجد خان نے اپنے کپڑے اتارے میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ
گیا۔ اور میری زبان خود بخود باہر نکل آئی۔ ماجد خان کا لن کسی لوہے کے راڈ کی طرح
سخت تحا۔ اسکی ٹوپی کا سائز بھی بہت بڑا تھا اور اسکا رخ سیدھا چھت کی طرف تھا۔
اتنی سختی میں نے پہلے کسی کے لن میں نہیں دیکھی تھی اور اسکی لمبائی 9انچ
تھی جب کہ موٹائی میں بھی وہ کسی طرح کم نہیں تھا۔ میں نے کیمرہ کا فوکس ماجد
خان کے لن پر کیا اور اسکے لن کی ٹوپی سے لیکر اسکے ٹٹوں تک کی ویڈیو بنا
ڈالی۔
ماجد نے کپڑے اتارنے کے بعد کپڑے ایک سائیڈ پر پھینکے اور دوبارہ سائرہ کے قریب
ہوکر بیٹھ گیا اور اسکو اپنا لن پکڑنے کے لیے کہا۔ سائرہ کی نظر جب اسکے تگڑے لن
پر پڑی تو اسکی بھی آنکھیں خوف کے مارے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ جان گئی تھی
کہ اب اسکا جان بچانا ممکن نہیں آج اسکی کنواری پھدی کی چدائی ہوکر ہی رہے گی۔
اور اتنا موٹا اور تگڑا لن دیکھ کر اسکی پھدی اور گانڈ ویسے ہی پھٹ گئی تھیں۔ جب
ماجد نے اسکو اپنا لن پکڑے کو کہا تو سائرہ نے انکار کر دیا اور اپنا ہاتھ پیچھے
کھینچ لیا مگر ماجد خان نے اسکو گالی دی اور بوال اگر ہاتھ میں نہیں پکڑے گی تویہیں
تیرے منہ میں ڈال دوں گا چپ کر کے اسکو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر پیار کر۔ منہ میں
ڈالنے کی دھمکی کام کر گئی اور سائرہ نے فورا ہی ماجد کا 9انچ لمبا لن اپنے ہاتھ میں
پکڑ لیا۔ اور بغیر کچھ کہے اسکی مٹھ مارنی شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر پہلے واال شخص
بھی تیار ہوگیا اور اسنے سائرہ کے دوسرے ہاتھ میں اپنا لن پکڑا دیا ،اب کی بار سائرہ
نے اسکا لن بھی اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور ان دونوں کی مٹھ مارنے لگی۔ مگر ابھی
بھی اسکی آنکھوں سے آنسو جاری تھی اور وہ کسی بھی طرح اس صورتحال سے
خوش نہیں تھی۔
دونوں کے لمبے لن دیکھ کر تیسرے شخص سے بھی رہا نہیں گیا اور اس نے بھی اپنا
لوڑا اپنے کپڑوں کی قید سے آزاد کروا لیا۔ اسکا لن بھی لمبا تھا مگر پہلے دونوں کا لن
اسکے لن سے بڑا تھا۔ اب اس تیسرے شخص نے اپنے لن کی اپنے ہی ہاتھ سے کچھ
دیر مٹھ ماری اور اسکے بعد سائرہ کی ٹانگیں کھول کر اسکے درمیان گھٹنوں کی مدد
سے بیٹھ گیا اور اپنا چہرہ سائرہ کی نرم و نازک پھدی کے اوپر رکھ دیا جو ابھی تک
خشک پڑی تھی۔ اس شخص نے سائرہ کی چوت کی الئن میں اپنی زبان پھیرنا شروع کر
دی۔ زبان کا مزہ ملتے ہی سائرہ نے اپنی ٹانگوں کو آپس میں مال کر اپنی پھدی کو
چھپانا چاہا مگر وہ ایسا نہ کر سکی کیونکہ درمیان میں وہ شخص خود بیٹھا تھا جو
اپنی زبان سے سائرہ کی چوت کو چاٹنے میں مصروف تھا۔ اسکی زبان نے سائرہ کی
چوت میں جادو جگانا شروع کر دیا تھا۔ اب سائرہ کی چیخیں ختم ہو چکی تھیں اور
اسکے آنسو بھی تھم گئے تھے مگر اسنے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھی اور اسکے
چہرے پر کسی بھی قسم کے تاثرات نہیں تھے۔ وہ کسی بھی طور پر اپنے آپ کو ان تین
غنڈوں کے حوالے کرنے پر تیار نہیں تھی۔ مگر اسکے ہاتھ ابھی تک ماجد خان اور
پہلے شخص کے لن کی مٹھ مارنے میں مصروف تھے۔
اب کی بار ماجد خان نے اپنا لن اسکے ہاتھ سے چھڑوایا اور اسکے منہ کے قریب کیا
اور سائرہ کو حکم دیا کہ اب اسکا لن اپنے منہ میں لیکر چاٹے مگر سائرہ نے انکار کر
دیا۔ جس پر ماجد خان نے اپنا لن اسکے ہونٹوں کے ساتھ لگا دیا اور اسکے ہونٹوں پر
رگڑنے لگا۔ سائرہ نے اپنے دونوں ہونٹ زور سے بھینچ لیے اور اپنا منہ ادھر ادھر
مارنے لگی اور دوسرا لن بھی اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیا۔
ماجد خان مسلسل اپنا 9انچ لمبا لن سائرہ کے ہونٹوں پر رگڑ رہا تھا۔ اسکے لن کی
ٹوپی پر مذی کے 2قطرے بھی تھے جو اسنے سائرہ کے گالبی ہونٹوں پر مسل دیے۔
پہال شخص سائرہ کے مموں پر جھکا اور اسکے چھوٹے مگر سخت گالبی نپل کو اپنے
منہ میں لیکر زور سے چوس ڈاال۔ اس نے کچھ ایسے زور سے سائرہ کے نپل کو چوسا
تھا کہ سائرہ کی ایک سسکی نکلی اور اسنے اپنا منہ کھول دیا۔ جیسے ہی سائرہ نے
اپنا منہ کھوال ماجد خان نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا لن سائرہ کے منہ میں ڈال
دیا۔ سائرہ نے فورا ہی دوبارہ سے اپنا منہ زور سے بند کیا تو اسکے دانت ماجد کے لن
پر لگے جس سے ماجد کی بھی ایک چیخ نکلی اور اس نے سائرہ کو ایک بڑی سی
گالی دی اور اسکے منہ پر تھپڑ مارا۔ مگر اسنے اپنا لن سائرہ کے منہ سے نہیں نکاال
اور اپنے ہاتھ سے اسکا منہ سائڈوں سے پکڑ لیا جیسے کسی بچے کو دوائی پالتے
ہوئے ماں بچے کا منہ پکڑ کر کھولتی ہے۔ اس طرح منہ کھول کر ماجد نے اپنا لن مزید
اندر گھسا دیا اور سائرہ کا منہ اب ماجد کے لن کو چوس رہا تھا۔
ماجد خان اپنا لن مسلسل سائرہ کے منہ میں اندر باہر کر رہا تھا جسکی وجہ سے سائرہ
کا منہ تھوک سے بھر چکا تھا۔ یہ تھوک سائرہ نے باہر پھینکا اور ایک بار پھر سائرہ
کے منہ میں ماجد خان کا لن چدائی کرنے میں مصروف ہوگیا۔ نیچے سائرہ کی چوت پر
مسلسل تیسرے غنڈے کی زبان اپنا جادو دکھا رہی تھی۔ لیکن ابھی تک سائرہ کی چوت
کو گیال کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اسکا مطلب تھا کہ سائرہ نے ابھی تک مزہ لینا شروع
نہیں کیا تھا بلکہ اسکو ابھی تک اپنے اس گینگ ریپ کی فکر تھی۔ دوسرا غنڈہ سائرہ
کے سخت نپلز کو چوسنے میں مصروف تھا اور دوسرا مما اپنے ہاتھ سے پکڑ کر دبا
رہا تھا۔
لیکن اب سائرہ کے لیے مزید ممکن نہیں تھا کہ وہ کوئی مزاحمت کر سکتی کیونکہ
اسکی چوت پر مسلسل ایک زبان رگڑائی کر رہی تھی اور اسکا ایک نپل بھی مسلسل
چوسا جا رہا تھا۔ آخر کا سائرہ نے ان کے سامنے ہار مان لی اور اب اسکی چوت پر
پانی واضح ہونے لگا۔ یہ چکنا پانی سائرہ کی چوت کو گیال کر رہا تھا جسکا مطلب تھا
کہ اب اسکی چوت لن مانگ رہی ہے۔ اب ماجد خان نے سائرہ کو اٹھ کر بیٹھنے کو کہا
تو وہ چپ چاپ اٹھ کر بیٹھ گئی ،ماجد خان نے اسکو گھٹنوں کے بل بیٹھنے کو کہا تو
وہ گھٹنے بیڈ پر لگا کر اونچی ہوکر بیٹھ گئی اور ماجد خان نے اسکے سامنے اپنا لن
کیا تو اس نے خود ہی اسکا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اپنے منہ میں ڈال لیا اور اسکو
چوسنا شروع کر دیا۔ دوسرے غنڈے نے بھی اپنا لن سائرہ کو پکڑایا تو سائرہ نے اسکا
لن پکڑ کر اسکی بھی مٹھ مارنی شروع کر دی جبکہ تیسرا غنڈہ نیچے لیٹ گیا اور اپنا
چہرہ سائرہ کے گھٹنوں کے درمیان رکھ دیا پھر اسنے سائرہ کو چوتڑوں سے پکڑا اور
تھوڑا نیچے کیا تو سائرہ نے اپنی چوت اسکے منہ کے اوپر رکھ دیا جس پر نیچے سے
زبان چلنا شروع ہوگئی۔
مجھے یہ سارا سین بہت سیکسی لگ رہا تھا اور میرا اپنا دل کر رہا تھا کہ میں بھی
انکو جوائن کر لوں مگر اس وقت یہ کسی بھی طور پر ممکن نہیں تھا۔ میں نے چہرے
پر ماسک چڑھا رکھا تھا اور باقی تین غنڈوں کے چہرے پر بھی ماسک تھا۔ انکی صرف
آنکھوں کی جگہ سے اور منہ سے ماسک میں گیپ تھا باقی پورا چہرہ ماسک نے چھپا
رکھا تھا۔ سائرہ اپنی چوت ایک غنڈے کے چہرے پر رکھ کر بیٹھی تھی اور اسکے ہاتھ
میں 2لمبے اور تگڑے لن تھے جنکو وہ باری باری چوسنے میں مصروف تھی۔ کچھ
دیر ااپنا لن چوسوانے کے بعد ماجد خان نے اپنا ہاتھ سائرہ کی چوت پر رکھ کر وہاں
موجود چکناہٹ کو اپنی انگلی پر لگا کر اپنے منہ میں لے لیا۔
سائرہ کی چوت کی چکناہٹ نے ماجد خان کو بتا دیا کہ اب یہ لن لینے کے لیے تیار ہے۔
ماجد خان نے سائرہ کو اب بیڈ پر لٹا دیا اور خود اسکی ٹانگوں کو اٹھا کر اپنے بازوں
پر رکھا اور ٹانگیں کھول کر بیچ میں چوت کے قریب ہوکر بیٹھ گیا۔ باقی دونوں سمیرا
کے پاس بیٹھے تھے سمیرا نے دونوں کے لوڑے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے اور
انکی مٹھ مار رہی تھی۔ مگر جیسے ہی اسکی نظر اپنی ٹانگوں کے درمیان پڑی جہاں
ماجد خان اپنا 9انچ کا لوڑا تیار کیے بیٹھا تھا اور سائرہ کی نازک اور کنواری پھدی کو
پھاڑنے واال تھا تو سمیرا کی آنکھوں میں ایک دم خوف کے آثار نظر آنے لگے اور وہ
مٹھ مارنا بھول گئی۔ سائرہ نے اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش بھی کی مگر ماجد خان
نے اپنے مضبوط بازوں سے اسکی ٹانگوں کو اپنی طرف کھینچ کر اسے اور بھی قریب
کر لیا ،اب ماجد کے لن کا ٹوپا سائرہ کی چوت کے ساتھ تث ہونے لگا تھا۔
جیسے ہی لن کا ٹوپا سائرہ کی چوت کے ساتھ لگا تو اسنے ایک بار پھر چالنا شروع
کر دیا اور ماجد کی منتیں کرنےلگی کہ پلیز مجھے چھوڑ دو میں نے تمہارا کیا بگاڑا
ہے۔ اسکی یہ بات سن کر میں نے دل ہی دل میں اسے جواب دیا کہ تم نے اپنے بھائی
کی خوشی کے لیے ایک لڑکی کی ویڈیو بنا کر اسکو بلیک میل کرنے میں مدد کی ہے
لہذا اب اسکی سزا بھگتو۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ سائرہ کی ایک زور دار
چیخ سنائی دی۔ میں اپنے خیالوں سے باہر نکلی تو سائرہ کا چہرہ آنسووں سے تر تھا
اور اس پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔ پھرمیں نے سائرہ کی چوت کی طرف دیکھا تو
ماجد کے لن کا ٹوپا سائرہ کی چوت میں غائب ہو چکا تھا۔ ماجد نے ایک بار لن باہر
نکاال اور اپنا ٹوپا سائرہ کی چوت پر رکھ کر ایک دھکا اور مارا تو سائرہ نے پورا گال
پھاڑ کر چیخ ماری۔ اسکی چوت پھٹ چکی تھی۔ اور جب ماجد نے دوبارہ لن باہر نکاال
تو اس پر سرخی واضح تھی۔ سائرہ کی چوت کا خون ماجد کے لن پر لگا ہوا تھا اور
تھوڑا سا خون نکل کر بیڈ پر بھی لگا۔ مگر ماجد رکا نہیں اور اس نے ایک دھکا اور
مارا اور اپنے لن کا 7انچ تک حصہ سائرہ کی چوت میں اتار دیا۔ سائرہ بری طرح تڑپ
رہی تھی اور رحم کی بھیک مانگ رہی تھی مگر ماجد خان نے اس پر بالکل بھی ترس
نہیں کھایا۔
کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد ماجد خان نے ایک بار پھر لن باہر نکاال اور ایک اور
جاندار دھکا لگایا جس سے اسکا 9انچ کا الوڑا سائرہ کی چوت میں گم ہوگیا۔ ماجد اپنا
لن جڑ تک سائرہ کی چوت میں اتار چکا تھا اور اب ماجد کے ٹٹے سائرہ کی چوت کے
نچلے حصے سے ٹکرا رہے تھے درد کی شدت سے سائرہ کی چیخیں بھی بند ہوگئیں
تھیں اور اسکی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ درد کی شدت اتنی تھی کہ وہ چیخیں بھی نہیں
مار پا رہی تھی اور ماجد خان نے اپنے لوڑے سے سائرہ کی چوت میں کھدائی شروع
کر دی تھی ،ماجد خان کے ہر دھکے پر سائرہ کا پورا جسم ہل جاتا مگر وہ کسی الش
کی طرح پڑی اپنی چدائی کروا رہی تھی۔ اس میں نہ تو چخیں مارنے کی ہمت تھی اور
نہ ہی اسکی سسکیاں نکل رہی تھی ،آنکھوں سے آنسو مسلسل جاری تھی اور ماجد
خان کے دھکے نان سٹاپ مشین کی طرح چل رہے تھے۔
میرا کیمرا کبھی سمیرا کے چہرے کو اور کبھی اسکی چوت میں جاتے ماجد کے لن کی
ویڈیو بنا رہا تھا۔ 5منٹ کی چودائی کے بعد جب ماجد کا لن باہر نکال تو اس پر کافی
چکناہٹ موجود تھی۔ سائرہ کی چوت نے پانی چھوڑ دیا تھا مگر ماجد خان کے لوڑے
کی سختی کی وجہ سے اسکے چہرے پر مزے کے آثار بالکل بھی نہیں تھے بلکہ ابھی
تک وہ کسی زندہ الش کی طرح بستر پر پڑی تھی اور ماجد کے دھکوں سے اسکا جسم
اوپر نیچے ہل رہا تھا۔
ماجد نے جب اپنے لن پر سائرہ کی چوت کا پانی دیکھا تو بہت خوش ہوا اور اسکو گالی
دیتا ہوا بوال تیری چوت نے تو خوب مزہ لیا ہے میرے لوڑے کا اب تو بھی مزے لے ۔
یہ کہ کر اس نے اپنا لوڑا بستر سے صاف کیا اور دوسرے شخص کو چدائی کی دعوت
دی۔ وہ تہ پہلے ہی اس انتظار میں تھا کہ کب اسے کنواری چوت جہ محض 5منٹ پہلے
ہی پھٹی تھی چودنے کا موقع ملے۔ دوسرا شخص فورا سمیرا کی ٹانگوں کے درمیان
میں آکر بیٹھ گیا ،اس نے ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھی اور دوسری ٹانگ
اٹھا کر اپنے بازو پر رکھی۔ اپنے لن کی ٹوپی سائرہ کی چوت کے سوراخ پر رکھ کر
آہستہ سے دباو ڈاال تو چوت کی چکنائی کی وجہ سے لن خود بخود پھسلتا ہوا سائرہ کی
چوت میں غائب ہوگیا۔ اس شخص کا لن ماجد خان کے لن جیسا نہیں تھا اس لیے سائرہ
کو زیادہ تکلیف نہیں ہوئی۔
اس نے بھی سائرہ کی چدائی شروع کی اور مسلسل 5منٹ سائرہ کی چوت مارتا رہا ،
اب سائرہ کی سسکیاں نکلنا شروع ہوگئیں تھی۔ اسکو شاید مزہ آنے لگا تھا چدائی کا۔ 5
منٹ کی چدائی کے بعد اس شخص نے اپنے دھکے تیز کر دیے اور سائرہ کی بھی آوچ
چ چ چ آوچ ، ،اف ، ،ام ،ام ،ام آہ ،آہ ،اف آوچ کی آوازیں نکل رہی تھیں ساتھ ہی
سائرہ اپنی گانڈ ہال ہال کر اسکی چدائی کا ساتھ دے رہی تھی۔ 2منٹ کی مزید چدائی کے
بعد سائرہ کی چوت نے پانی کا فوارہ چھوڑ دیا اور ساتھ ہی دوسرا شخص بھی سائرہ
کی چوت کے اندر ہی پچکاریاں مارنے لگا۔
اب سائرہ کے چہرے پر تھوڑا سکون تھا اور اس نے اپنی چدائی کا بھرپور مزہ لیا تھا۔
دوسرے شخص کے فارغ ہونے کے بعد وہ بھی اپنا لن بستر سے صاف کر کے ایک
سائیڈ پر لیٹ گیا اور تیسرا شخص اپنا لوڑا ہاتھ میں پکڑے سائرہ کی ٹانگوں کے
درمیان آگیا۔ اسکا لوڑا 8انچ لمبا تھا جو یقیننا سائرہ کو تکلیف دے سکتا تھا۔ ماجد خان
نے اپنا لوڑا اب سائرہ کے منہ میں ڈال دیا تھا جسکو سائرہ بہت مزے سے چوپے لگا
رہی تھی۔ تیسرے شخص نے بھی سائرہ کی ٹانگوں کے درمیان میں آکر اسکی ٹانگیں
اٹھا لیں اور اپنا لوڑا سائرہ کی چوت کے سوراخ پر رکھا تو ایک زور دار دھکا لگایا
اور اپنا آدھے سے زیادہ لن سائرہ کی چوت میں اتار دیا۔ سائرہ نے ایک بار پھر چیخ
ماری مگر اس نے پرواہ نہیں کی اور ساتھ ہی دوسرا دھکا مار کر اپنا پورا لوڑا سائرہ
کی چوت میں اتار دیا۔ سائرہ کچھ دیر کو رکی اور اوپر اٹھ کر اپنی چوت کی طرف
دیکھنے لگی جس میں 8انچح کا لوڑا اپنی پوری سپیڈ کے ساتھ چودائی کرنے میں
مصروف تھا پھر سائرہ نے دوبارہ سے اپنا سر نیچے تکیے پر رکھ دیا اور ماجد کا
لوڑا چوسنے لگی۔
اس شخص نے بھی 5منٹ تک جم کر دھکے مارے سائرہ کی چوت میں اور اسکے بعد
سائرہ کواٹھ کر بیٹھنے کو کہا۔ سائرہ نے ماجد کا لن منہ سے نکاال اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔
اس شخص نے سائرہ کو کہا کہ وہ بیڈ کی ٹیک کے ساتھ اپنے بازو رکھے اور اپنی گانڈ
باہر کی طرف نکالو۔ سائرہ نے اپنے بازو بیڈ کی بیک سائیڈ پر رکھ دیے اور گھٹنوں
کے بل بیٹھ گئی ،اسکی گانڈ ہوا میں تھی اور باہر کی طرف نکالی ہوئی تھی۔ وہ شخص
پیچھے سے آیا اور اسکے چوتڑوں پر 2تھپڑ مارے اور اسکے بعد اپنا لوڑا سائرہ کی
چوت میں کے سوراخ پر رکھ کر ایک زور دار دھکا مارا اور پورا لن سائرہ کی چوت
میں اتار دیا۔ سائرہ کے منہ سے اب سسکیاں نکل رہی تھیں اور وہ اس چدائی کو
انجوائے کر رہی تھی۔ آہ ،اف ،اف ،آہ آہ آہ ،ہمممم ،اس طرح کی آوازوں سے سائرہ
کی چدائی جاری تھی۔
اس پوزیشن میں چودائی کے دوران جب سائرہ کے چوتڑ اس شخص کے پیٹ کے ساتھ
ٹکراتے تو کمرے میں دھپ دھپ کی آوازیں آتیں۔ جن سے کمرے کا ماحول اور سیکسی
بن رہا تھا۔ سائرہ اب بالکل نارمل ہوکر اپنی چدائی کروا رہی تھی۔ کبھی کبھی وہ میری
طرف بھی دیکھتی تھی مگر وہ مجھے پہچان نہیں پائی کیونکہ میں مردانہ لباس میں
تھی اور اسکے ذہن میں یہی ہوگا کہ میں صرف ویڈیو بنانے کے لیے یہاں موجود ہوں۔
اچانک پیچھے سے چودنے والے شخص نے اپنے دھکوں میں بال کا اضافہ کر دیا اور
سائرہ کی چیخوں میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ کچھ مزید دھکے لگانے کے بعد سائرہ کے
جسم نے جھٹکے کھائے اور ساتھ ہی اس شخص کے جسم کو بھی جھٹکے لگے اور
اس نے اپنی منی سائرہ کی چوت میں نکال دی۔
سائرہ کو چودنے کے بعد یہ شخص بھی سائیڈ پر ہوگیا اوگ گہرے گہرے سانس لینے
لگا۔ کچھ دیر بعد اسکی سانسیں بحال ہوئیں تو وہ ماجد سے بوال استاد اس لڑکی کی
چوت تو بہت ہی ٹائٹ ہے۔ مزہ آگیا اسکو چود کر تو۔ اس پر ماجد بوال دعائیں دے اپنے
استاد کو جس نے تجھے اتنی چکنی چوت دالئی۔ ابھی وہ یہ بات کر ہی رہا تھا کہ سائرہ
نے ماجد کو مخاطب کر کے پوچھا کہ فائزہ کہاں ہے؟؟؟ اپنا نام سن کر میں ایک دم
چونک گئی۔۔۔ اور ماجد خان بھی ایک دم چپ ہوگیا۔ مگر پھر اس نے پوچھا کون
فائزہ؟؟؟ تو سائرہ نے کہا وہ دوسری لڑکی جسکو تم نے میرے ساتھ ہی اغوا کیا تھا۔ تو
اسکی بات سن کر ماجد بوال کہ دوسری لڑکی کو اسکا دوست اپنی گاڑی میں لے گیا وہ
ادھر اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اسکی چدائی کر رہا ہوگا۔ یہ سن کر سائرہ کے
چہرے پر فکر کے آثار نظر آئے۔ وہ میرے لیے فکر مند تھی۔ مجھے پہلے پہل تو اس
پر ترس آیا مگر پھر سوچا کہ اس نے بھی میرے ساتھ کچھ اچھا سلوک تو نہیں کیا جو
میں اس پر ترس کھاوں۔
اب کی بار ماجد خان نے سائرہ کو گھوڑی بننے کے لیے کہا تو سائرہ چپ چاپ گھوڑی
بن گئی۔ ماجد خان پیچھے سے آیا اور اسکی چوت پر ہاتھ رکھ کر اسکی چکناہٹ کو
چیک کیا۔ وہ ابھی تک چکنی تھی۔ پھر ماجد نے اپنے لن کا ٹوپا سائرہ کی چوت پر رکھا
اور ایک ہی دھکے میں آدھا لن اندر گھسا دیا۔ گھوڑی بن کر چدائی کرواتے ہوئے چوت
تھوڑی ٹائٹ ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ سائرہ نے ایک بار پھر دلخراش چیخ ماری
جس سے پورا کمرہ گونچ اٹھا مگر ظالم ماجد نے ساتھ ہی ایک اور دھکا مارا اور پورا
لن سائرہ کی چوت میں گھسا دیا۔ پھر ماجد نے سائرہ کو اسکے چوتڑوں سے پکڑ لیا
اور نان سٹاپ دھکے لگانا شروع کر دیے۔
جیسے جیسے ماجد خان دھکے لگاتا ویسے ویسے سائرہ کی اف ،آوچ چ چ چ چ اف،
اف آہ ،ہ ہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ آوچ آوچ کی آوازیں آتیں اور ساتھ ہی ساتھ دھپ دھپ کی
آوازیں بھی ارہی تھیں جو سائرہ کے چوتڑ اور ماجد کے پیٹ کے مالپ پر نکلتی تھی۔ 5
منٹ کی چدائی کے بعد سائرہ کی چوت نے ایک بار پھر ہار مان لی اور پانی چھوڑ دیا۔
مگر ماجد کا لن ابھی بھی پوری سختی کے ساتھ کھڑا تھا۔
اب کی بار ماجد نے سائرہ کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور لوڑا اسکی چوت میں ڈال کر
خود اپنی ایڑیوں کے بل بیٹھ گیا۔ سائرہ نے ٹانگیں ماجد کے جسم کے گرد لپیٹ لیں اور
ماجد نے تھوڑا سا اوپر اٹھ کر نان سٹاپ دھکے لگانے شروع کیے تو سائرہ کی چوت
کے پرخچے اڑ گئے۔ ماجد کا لن ٹوپے تک باہر آتا اور پھر سپیڈ کے ساتھ اپنی جڑ تک
سائرہ کی چوت میں گم ہوجاتا۔ سائرہ نے اپنے دونوں ہاتھ ماجد کی گردن کے گرد لپیٹے
ہوئے تھے اور اسکی چیخیں اور سسکیاں ساتھ ساتھ جاری تھیں جب کے دھپ دھپ کی
آوازیں کمرے کے ماحول کو اور بھی سیکسی بنا رہی تھی۔
اب کی بار ماجد خان کے دھکے طوفانی تھے مگر اس بار سائرہ بھی اسکا پورا پورا
مقابلہ کر رہی تھی۔ اب اسکی چوت ماجد کے لن کے موٹائی کے برابر کھلی ہو چکی
تھی اور اس نے اپنی چوت سے ماجد کے لن کو جکڑ رکھا تھا سائرہ کے چہرے پر
مزے کے آثار واضح تھے اور وہ ماجد کے لن کو پوری طرح انجوائے کر رہی تھی۔
باآلخر 5منٹ کے مزید دھکوں کے بعد سائرہ کی چوت اور ماجد کے لن نے اکٹھے ہی
الٹی کر دی اور اپنا اپنا پانی باہر نکال دیا۔ اسکے بعد سائرے بستر پر ڈھے گئی اور
لمبے لمبے سانس لینے لگی۔
ابھی سائرہ اپنے سانس بحال کر رہی تھی کہ ان میں سے ایک شخص نے دوبارہ سے
سائرہ کے منہ پر ایک رومال رکھا اور سائرہ تھوڑی دیر ٹانگیں مارنے کے بعد بے
ہوش ہوگئی۔ اسکے بے ہوش ہوتے ہی میں نے بھی اپنے چہرے سے ماسک اتارا اور
سکھ کا سانس لیا۔ ماجد خان کے دونوں غنڈے اپنے کپڑے پہن چکے تھے انکو ماجد
نے حکم دیا کہ لڑکی کو پرانی گاڑی میں ڈال کر گاڑی کینٹ کے کسی بھی چوک میں
کھڑی کر آو۔ اس سے پہلے کہ وہ سائرہ کو اٹھاتے میں نے اسکے جسم کو اچھی طرح
چادر سے ڈھانپ دیا اور انکو سائرہ کے گھر کا ایڈریس سمجھایا اور کہا اسکو گھر کے
آس پاس ہی چھوڑ آو اور کسی پبلک کال آفس سے اسکے گھر فون کر کے بتا دینا۔
یہ کرنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اسکی زیادہ بدنامی نہ ہو اور یہ بات باہر کسی کو
پتہ نہ لگے۔ ماجد خان نے اپنے بندوں کو کہا کہ جیسے فائزہ نے کہا ویسا ہی کرو۔ یہ
سن کر ان میں سے ایک نے سائرہ کو اٹھایا اور دوسرا اسکے ساتھ ساتھ چل پڑا۔ ماجد
خان ابھی تک ننگا بیٹھا تھا اور اسکا لوڑا اب بالکل چھوٹا ہو چکا تھا۔ کسی بوٹی کی
طرح۔ مں نے کمرہ ایک سائیڈ پر رکھا اور اپنے مردانہ کپڑے اور بوٹ اتار دیے۔ اسکے
بعد میں فورا جمپ لگا کر ماجد خان کے لن کے قریب پہنچ گئی اور اسکا لوڑا اپنے منہ
میں لے لیا۔ ماجد خان اس اچانک حملے پر حیران بھی ہوا اور خوش بھی کیونکہ وہ
مجھے چودنا تو چاہتا ہی تھا مگر میں نے اسکو کہا تھا کہ مجھے بھول جائے البتہ
اسکی جگہ اسے ایک اچھی چوت دلواوں گی۔ جو میں نے سائرہ کی دلوا دی۔ اب اسکو
امید نہیں تھی کہ اسکو فورا ہی ایک چوت اور مل جائے گی۔ ماجد خان کا لوڑا دیکھ
دیکھ کر میں نے ویڈیو بناتے ہوئے بہت مششکل سے اپنے اوپر کنٹرول کرا تھا۔ ایک
بار تو میری چوت نے پانی بھی چھوڑ دیا تھا۔
ایسے زبردست لوڑے سے چدائی کروانے کا موقع میں ضائع نہیں جانے دینا چاہتی
تھی۔ سائرہ کے چلے جانے کے بعد میں نے محض 5منٹ کے چوپوں سے ماجد خان
کے لوڑے کو پہلے کی طرح لوہے کا راڈ بنا دیا اور اس پر سواری شروع کر دی۔ ماجد
کے لن نے میری بھی بس کروا دی تھی حاالنکہ میں پہلے بھی ندیم کا 9انچ کا لن اپنی
چوت میں لے چکی تھی مگر ماجد کے لن کی بات ہی کچھ اور تھی۔ ایک تو اسکے
ٹوپے کا سائز بڑا تھا دوسرا اسکی موٹائی بھی زیادہ تھی اور پولیس واال ہونے کی وجہ
سے اسکا جسم بھی ورزشی تھا۔ اسکے نان سٹاپ دھکوں نے میری چوت سے 3بار
پانی نکلوا دیا۔
اسکے بعد میں اپنے گھر چلی گئی اور جاتے ہی بستر پر لیٹ کر سونے کی ایکٹنگ
کرنے لگی۔ امی نے پوچھا تو میں نے کہا طبیعت خراب ہے مجھے سونے دیں۔ آج
سائرہ کی کنواری چوت کا گینگ ریپ کروا کر مجھے دلی سکون مال تھا۔ اور میرا بدلہ
پورا ہوگیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ سونے پر سہاگہ ماجد خان کے لن سے چدائی کا موقع بھی
مل گیا۔ اسکے لن کو میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ بستر پر لیٹی میں سائرہ کے بارے
میں ہی سوچ رہی تھی کہ میرے موبائل پر بیل بجی۔ میں نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو یہ
سائرہ کی ہی کال تھی ۔ ٹائم دیکھا تو رات کے 2بج رہے تھے۔ میں سمجھ گئی کہ اب
سائرہ ہوش میں آئی ہوگی اور اس نے فورا ہی مجھے کال کی۔ میں نے اسکی کال اٹینڈ
نہیں کی۔ اسکی ایک بار پھر کال آئی میں نے پھر اٹینڈ نہیں کی۔ پھر تیسری بار دوبارہ
اسکی کال آئی تو میں نے اٹینڈ کی۔
میں نے اپنی آواز میں نقاہت پیدا کی اور روہانسی آواز نکال کر ہیلو کہا اور ساتھ ہی رو
پڑی۔ آگے سے سائرہ کی بھی رونے کی آواز آئی اور اس نے مجھے سے پوچھا کہ تم
گھر پہنچ گئی ہو؟؟؟ تو میں نے اسے بتایا کہ ہاں مجھے نہیں پتا کہ میں کب اور کیسے
گھر پہنچی بس پہنچ گئی ہوں۔ سائرہ نے بتایا کہ وہ ہسپتال میں ہے اور ساتھ اسکے
امی ابو بھی ہیں۔ جو شاید اس وقت سو چکے تھے۔ اس نے روتے ہوئے بتایا کہ 3
غنڈوں نے اسکا زبردستی ریپ کیا ہے اور ریپ کرنے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں
ایک پرانی سی گاڑی میں ڈال کر چھوڑ گئے ہیں۔
میں نے بھی اسی طرح کی سٹوری گھڑ کر اسکو سنا دی اور یہ شو کروایا کہ میرے
سے بات نہیں ہو پار ہی۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے خود ہی فون بند کر دیا۔ اسکے بعد
دوبارہ بھی سمیرا کی کال آئی مگر میں نے اٹینڈ نہیں کی۔ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ شاید
فائزہ کا بھی ریپ ہوا ہے اس لیے وہ صدمے میں ہے اور اس سے بات نہیں ہو پارہی ۔
کچھ دن اسی طرح گزر گئے میں گھر سے باہر نہیں نکلی۔ جس کیمرے سے ویڈیو بنائی
تھی وہ میرے پاس ہی تھا میں نے اس کی ویڈیو دیکھی اور اسکو کسی حد تک ایڈیٹ
کر لیا جس سے ماجد خان اور اسکے لوگوں کے پہچانے جانے کا بالکل بھی احتمال نہ
ہو محض چند جگہوں پر سائرہ کا چہرہ دکھایا باقی کی ویڈیو اسکی چیخوں اور اسکی
چدائی کی ہی تھی جسمیں لن اسکی چوت کے آر پار ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔
یہ ویڈیو ایڈیٹ کر کے میں نے ماجد خان کو بھجوا دی اور 4دن بعد میں نے سائرہ
سے بات کی۔ وہ ابھی تک صدمے کی حالت میں تھی مجھ سے صحیح بات نہ کر سکی
مگر اس نے میرے سے معافی مانگی کہ ہمیں اغوا کرنے والے لوگ ابو کے دشمن
تھے انہوں نے ابو سے بدلہ لینے کے لیے مجھے اغوا کر کے میرا ریپ کرنا تھا مگر
ساتھ میں تم بھی تھی اس لیے تمہیں بھی انکے انتقام کا نشانہ بننا پڑا۔ یعنی وہ سمجھ
رہی تھی کہ ہم دونوں کے ساتھ ریپ ہوا ہے ،اسے نہیں معلوم تھا کہ اسکا ریپ میں نے
ہی کروایا ہے اور اسکے وہاں سے جانے کے بعد میں نے ماجد کے لن پر بیٹھ کر خوب
مزے کی چودائی کروائی تھی۔
ایک ہفتے بعد میں سائرہ سے ملنے اسکے گھر گئی تو وہ اپنے کمرے میں بند تھی۔
میری مالقات اسکی امی سے ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ جب سے ہسپتال سے واپس
آئی ہے اپنے کمرے سے باہر ہی نہیں نکلتی۔ میں نے بھی بہت مسکین سا چہرہ بنا
رکھا تھا کیونکہ آنٹی کے ذہن میں بھی یہی بات تھی کہ اس دن صرف انکی بیٹی کا ہی
نہیں بلکہ فائزہ یعنی میرا ریپ بھی ہوا ہے۔ انہوں نے میرے سے بھی ہمدردی کی اور
پھر مجھے کہا کہ میں سائرہ کو کسی طرح کمرے سے باہر نکالوں۔
میں سائرہ کے کمرے میں گئی تو وہ میرے گلے لگ کر خوب روئی ۔ گو کہ اس نے
آخر میں اپنی چدائی کا مزہ لیا تھا مگر بعد میں یہ احساس اسے جینے نہیں دے رہا تھا
کہ اسکا گینگ ریپ ہوا ہے۔ جب وہ خوب رو چکی تو وہ بولی کہ فائزہ مجھے معاف کر
دو۔ میں نے تمہاری ویڈیو بنا کر اپنے بھائی کو دی تھی جسکو استعمال کر کے اسنے
تمہیں بلیک میل کیا تھا اور تمہاری چودائی کی تھی ۔ اسی بات کی مجھے سزا ملی ہے
کہ میرا بھی ریپ ہوگیا اور میری بھی کسی نے ویڈیو بنا ڈالی۔ اب وہ میرے بابا کو بلیک
میل کر سکتے ہیں اس ویڈیو کے ذریعے۔ میں نے اسے تسلی دی کہ فکر نہ کرو ایسا
کچھ نہیں ہوگا مگر وہ بولی کہ نہیں میرے بابا کے بہت دشمن ہیں انکا مقصد یہی ہے۔
ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ سائرہ کی امی کمرے میں آئیں اور انہوں نے بتایا
کہ باہر کوئی سب انسپیکٹر ماجد خان آیا ہے۔ وہ تمہارے ابو کے پاس بیٹھا ہے اور
اسکو کسی طرح پتا لگ گیا ہے اس گینگ ریپ کے بارے میں لہذا تم دونوں اندر ہی رہنا
اور باہر نہ نکلنا۔ ہم اسکو کسی طرح پیسے دیکر اس معاملے کو دبانے کی کوشش
کریں گے۔
یہ کہ کر آنٹی چلی گئیں اور سائرہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ وہ بولی دیکھا میں
نے کہا تھا نہ۔ یہ انسپیکٹر بھی ابو کو بلیک میل کرنے ہی آیا ہوگا۔ میں نے اسکو تسلی
دی اور کہا تم ادھر ہی رہو میں دیکھ کر آتی ہوں۔ سائرہ نے مجھے روکا کہ امی منع کر
کے گئی ہیں مگر میں نے سائرہ کو کہا فکر نہیں کرو وہ انسپیکٹر تمہیں جانتا ہوگا
مجھے نہیں۔ میں دیکھتی ہوں کیا معاملہ ہے۔
یہ کہ کر میں نیچے ڈرائنگ روم میں چلی گئی جہاں مہمانوں کو بٹھایا جاتا تھا۔ مجھے
دیکھ کر ماجد خان اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا اور بوال تو یہ ہیں آپکی بیٹی۔ اس پر آنٹی
بھاگ کر میرے پاس آئیں اور بولیں بیٹا میں نے تمہیں منع کیا تھا ادھر نہیں آنا تو میں
نے آنٹی کو کہا آنٹی آپ فکر نہ کریں آپ اوپر جائیں سائرہ کے پاس میں دیکھنا چاہیتی
ہوں کہ یہ یہاں کیوں آیا ہے۔ میری بات سن کر آنٹی اوپر چلی گئیں جبکہ سائرہ کے ابو
اور وہ سب انسپیکٹر وہیں بیٹھا رہا۔
مجھے سائرہ کے ابو نے بھی کہا کہ بیٹا آپ اوپر سائرہ کے پاس جاو میں ان سے بات
کر لوں گا۔ مگر میں نہ مانی اور وہیں بیٹھ گئی۔ میں نے ماجد خان سے پوچھا کہ آپ
یہاں کیوں آئے ہیں۔ تو اس نے کہا کہ پہلے آپ اپنا تعارف کروائیں۔ تو میں نے کہا میں
انکی بیٹی سائرہ کی دوست ہوں اور اس سے ملنے انکے گھر آئی ہوں۔ میری بات سن
کر ماجد خان نے کہا کیا آپکو معلوم ہے کہ پچھلے کچھ دنوں کے دوران آپکی دوست
سائرہ کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے؟؟؟
میں نے کہا نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا وہ بالکل ٹھیک ہے۔ اور میرے ساتھ ہی ہوتی ہے
وہ۔ سائرہ کے ابو نے بھی کہا کہ ہاں اسکو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا آپکو کوئی غلط
فہمی ہوئی ہے۔ اس پر ماجد خان نے کہا آپ پولیس سے کچھ چھپائیں گے تو یہ بھی
جرم ہوگا۔ بہتر ہے میرے ساتھ تعاون کریں اور اصل حقیقت مجھے بتائیں کہ آپکو کیا
معلوم ہے۔ سائرہ کے ابو نے بھی اسکو کرخت لہجے میں بوال کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں
ہے آپ نے بالوجہ زحمت کی ہے آنے کی ہم سب بالکل ٹھیک ہیں۔ آپ برائے مہربانی
یہاں سے جائیں۔
اس پر ماجد خان نے پرسکون لہجے میں کہا کہ 3دن پہلے اسکو بہالپور روڈ سے ایک
چوری شدہ گاڑی ملی ہے۔ اس گاڑی میں ایک لڑکی کے پھٹے ہوئے کپ َڑ موجود تھے
اور ایک بیگ موجود تھا۔ اس بیگ میں آپکا کارڈ تھا جسکا مطلب ہے کہ وہ لڑکی آپکو
جانتی ہے۔ اور ساتھ ہی ایک الش بھی ملی ہے ۔ جو کسی نامی گرامی غنڈے کی ہے۔
اس الش کے کپڑوں میں سے ایک موبائل مال ہے جس میں ایک لڑکی کے ریپ کی
ویڈیو موجود ہے۔ ریپ کرنے والے 3لوگ تھے اور لڑکی کا چہرہ بہت واضح طور پر
اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لہذا آپ پولیس کے ساتھ تعاون کریں تاکہ ہم مجرموں
تک پہنچ سکیں۔
ویڈیو کا سن کر میں نے بھی حیران ہونے کی ایکٹنگ کی اور سائرہ کے ابو بھی حیران
ہوگئے۔ میں نے ہکالتی ہوئی آواز میں کہا کہ وہ لڑکی سائرہ نہیں کوئی اور ہوگی۔ آپ
جائیں پلیز یہاں سے ،مگر ماجد خان نے موبائل میرے سامنے کیا اور ایک ویڈیو آن کر
دی جو کہ سائرہ کی چدائی کی تھی اور میں نے ہی بنائی تھی۔ اسکو دیکھتے ہی میں
نے اسکو بند کرنے کا کہا اور سائرہ کے ابو کے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگی۔ وہ
بھی سمجھ گئے تھے کہ یہ ویڈیو سائرہ کی ہی ہے اور اب بدنامی سے بچنے کا کوئی
راستہ انہیں سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ انہوں نے مجھے بھی دالسہ دیا اور کپکپاتی ہوئی
آواز میں سب انسپیکٹر ماجد خان کو بولے کہ دیکھو میاں ہم پہلے ہی بہت پریشان ہیں
ہم اس معاملے کی تحقیقات نہیں کروانا چاہتے۔ اگر ہم نے کوئی رپورٹ درج کروائی تو
میری بہت بدنامی ہوگی بات میڈیا تک جائے گی۔
مگر ماجد خان بضد رہا کہ اسکو اس کیس کی انویسٹیگیشن کرنی ہے۔ وہ مجرموں تک
پہنچنا چاہتا ہے۔ ماجد خان نے سائرہ کے ابو کو کہا آج آپکی بیٹی کے ساتھ ایسا ہوا ہے
کل کسی اور کی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ میں ایک ایماندار اور فرض
شناس پولیس واال ہوں میرا فرض ہے کہ میں معاملے کی تحقیقات تک پہنچوں۔ آپکی
بیٹی کا ریپ کس نے کیا اور کیوں کیا؟ اور وہ الش کس کی تھی۔ کیا اسی شخص کی
تھی جس نے آپکی بیٹی کا ریپ کیا اور آپ نے اسکو قتل کروا دیا یا کوئی اور تھا
وہ؟؟؟
اس بات پر سائرہ کے ابو بولے کو وہ کسی الش کے بارے میں نہیں جانتے مگر وہ ان
پر رحم کرے اور اس معاملے کو یہیں پر چھوڑ دے۔ مگر ماجد خان کسی بھی طرح
راضی نہیں تھا۔ سائرہ کے ابو نے اسکو 1کروڑ روپے کی آفر بھی دی مگر وہ نہیں
مانا ۔ بال آخر وہ اٹھ کر جانے لگا اور بوال کہ اگر آپ تعاون نہیں کریں گے تو میں یہ
ویڈیو اپنے اعلی افسران تک پہنچا وں گا اور پھر یہ میڈیا پر بھی خبر آئے گی۔ وہ ہر
صورت میں اس کیس کی تحقیقات کرے گا۔ اب سائرہ کے ابو کی شکل دیکھنے الئق
تھی۔ انکو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے اس بدنامی سے چھٹکارا پائیں۔
تبھی میں نے مداخلت کی اور کہا کہ دیکھو اس کیس کی تحقیقات کر کے آپکو کچھ نہیں
ملے گا۔ صرف انکل کی بدنامی ہوگی ،جس نے یہ کام کیا وہ تو مارا گیا۔ اور اسکو انکل
نے نہیں بلکہ انکل کے کسی دشمن نے مروایا ہوگا تاکہ شک انکل پر جائے۔ آپکے اوپر
جو افسر بیٹھے ہیں وہ سب کے سب بے ایمان اور رشوت خور ہیں۔ مگر آپ رشوت
بھی نہیں لیتے۔ آپکے افسر اس کیس کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گے اگر آپنے یہ ویڈیو ان
تک پہنچا دی۔ اور اس میں نقصان سرا سر انکل کا ہوگا۔ پہلے ہی انکی بیٹی کے ساتھ
زیادتی ہوگئی ہے اب اگر آپ اس ویڈیو کو اپنے افسران تک پہنچائیں گے تو اس سے
انکل کی مزید بدنامی ہوگی۔ اور مجرم پھر بھی بچ جائیں گے۔
آپ ہم پر رحم کریں اور اس ویڈیو کو یہیں پر ضائع کر دیں بدلے میں ہم آپکی پروموشن
کروا دیں گے اور تھانے کا ایس ایچ و بنوا دیں گے۔ تاکہ آپ اپنے تھانے سے بے
ایمانی اور رشوت خوری کا خاتمہ کر سکو۔ اس طرح آپ آنے والے ایسے کسی حادثے
کو پہلے ہی روک سکو گے۔ کیونکہ اگر پولیس کے افسر اچھے اور ایماندار ہونگے تو
بہت سے جرائم کو انکے ہونے سے ہہلے ہی روکا جا سکتا ہے۔
میری یہ بات سن کر انکل فورا بول اٹھے کہ ہاں میں کل ہی اعلی حکام سے بات کر کے
تمہاری پروموشن کروا دوں گا۔ بس تم یہ ویڈیو مجھے دے دو اور اس کیس کو یہیں پر
بند کر دو۔ اس پر ماجد خان سوچ میں پڑ گیا اور باآلخر مان گیا۔ مانتا کیسے نا وہ ،آخر
کار یہ سب ہمارے پالن کا حصہ تھا۔ ماجد خان پہلے ہی اپنے ایس ایچ و سے گالیں سن
سن کر اسے ناخوش تھا اور جب میں نے آئسکریم پارلر میں بیٹھ کر اسکو سائرہ کے
ساتھ یہ کرنے کو کہا تو اس نے فورا ہی انکار کر دیا کہ اسکے ابو بہت طاقتور انسان
ہیں وہ اسکو چھوڑیں گے نہیں۔ مگر میں نے اسکو پورا پالن بتایا کہ کس طرح وہ ہم
دونوں کو اغوا کرے گا پھر اسکی ویڈیو بنے گی اور پھر کچھ دنوں کے بعد وہ انکے
گھر پولیس والے کی حیثیت سے آئے گا اور کسی نہ کسی طرح اسکی پروموشن کروا
دی جائے گی۔ کیونکہ میں جانتی تھی کہ سائرہ کے ابو کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ یہ
بات پولیس تک پہنچے اور انکی بدنامی ہو۔
سب کچھ پالن کے مطابق ہوگیا تھا۔ میں جانتی تھی کہ آج ماجد خان نے آنا ہے اسی
لیے میں سائرہ کے گھر گئی تھی کہ بات کو کسی طرح اسکی پروموشن کی طرف لے
جا سکوں۔ اور آخر کار ماجد خان پروموشن کا سن کر مان گیا اور وہ ویڈیو انکل کے
حوالے کر دی۔ مگر ساتھ ہی بوال کہ اسکی ایک کاپی اسکے پاس موجود ہے جو وہ
پروموشن ہونے کے بعد دے گا۔
نا تو کوئی اور کاپی اسکے پاس موجود تھی اور نہ ہی کوئی الش ملی تھی اور نہ ہی
کسی لڑکی کے پھٹے ہوئے کپرڑے ملے تھے گاڑی سے۔ یہ سب جھوٹ تھا جو پالن
کے مطابق بوال گیا۔ اسطرح میرا بدلہ بھی پورا ہوگیا اور ماجد خان کی پروموشن بھی
ایک ماہ کے اندر ہوگئی۔
سائرہ اس گینگ ریپ کے بعد کسی طور بھی نارمل نہیں ہورہی تھی دوسری طرف سائرہ
کا بھائی بھی اپنی حرکت پر شرمندہ تھا اور چپ چپ رہنے لگ گیا تھا۔ وہ بھی یہی سوچ
رہا تھا کہ اسکی بہن کے ساتھ جو ہوا وہ فائزہ کو بلیک میل کرنے کی سزا ملی ہے۔
دونوں بچوں کی حالت دیکھ کر انکل سے رہا نہیں گیا اور نہوں نے پاکستان چھوڑنے کا
ارادہ کر لیا۔ سائرہ کے گینگ ریپ کے 2ماہ کے بعد وہ سب لوگ پاکستان چھوڑ کر
امریکا شفٹ ہوگئے۔
اس واقعہ کے ایک سال بعد تک مسلسل ہر ہفتے باقاعدگی سے سائرہ مجھے کال کرتی
اور مجھ سے باتیں کرتی۔ وہ اکثر اوقات مجھ سے معافی بھی مانگتی لیکن آہستہ آہستہ
اسکی حالت بہتری کی طرف جا رہی تھی۔ ایک سال بعد مجھے پتہ لگا کہ وہاں کسی
بڑے بزنس میں کے بیٹے کے ساتھ سائرہ کی شادی ہوگئی ہے اور وہ اسکے ساتھ بہت
خوش ہے۔
ادھر رضوان کے ساتھ میرے جنسی تعلقات لمبے عرصے تک رہے۔ وہ بال تردد اپنے
دوستوں کے سامنے مجھے چودتا اور انکو بھی دعوت دیتا کہ وہ اسکی منگیتر کو جی
بھر کر چودیں۔ میں نے بھی رضوان کے ساتھ مل کر بہت سے لوڑوں کی سواری کی
کسی سے گانڈ چدوئی تو کسی سے چوت۔ بہت سے لن اپنے منہ میں لیے۔ مگر اب
رضوان کی نظر میں میری عزت نہیں رہی تھی۔ حاالنکہ اپنے دوستوں کے ساتھ چدائی
کروانے واال رضوان ہی تھا۔ میرے ساتھ دوسری لڑکی رافعہ کی چودائی کا شوق رضوان
کو تھا اور اسی کے لیے اس نے مجھے ندیم سے چدائی کروانے پر بھی منع نہیں کیا۔
اور بھی اسکے جتنے دوست تھے وہ مجھے چود چکے تھے۔
پھر ایک دن رضوان نے میرے ساتھ اپنی منگنی توڑ دی۔ مجھ پر یہ خبر پہاڑ بن کر
ٹوٹی۔ میں نے رضوان سے وجہ جاننی چاہی تو اس نے حقارت کے ساتھ کہا تم جیسی
لڑکی سے کون شادی کرے گا جو پتا نہیں کس کس کے لن کو اپنی چوت میں لے چکی
ہے۔ میں نے اسکو چال کر کہا کہ تم بھی تو دوسری لڑکیوں کو چودتے ہو اور تمہاری
اجازت سے ہی یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ جس پر وہ بوال میں تو مرد ہوں۔ جو مرضی
کروں مگر تم ایک لڑکی ہو تمہیں اپنی عزت کی حفاظت خود کرنی چاہیے۔ اسنے میرے
گھر والوں کے سامنے بھی کہ دیا کہ آپکی بیٹی کا کریکٹر ٹھیک نہیں اس لیے میں اس
سے شادی نہیں کر سکتا۔
میں اسکے آگے کچھ نہ بول پائی اور میرے والدیں کو بھی رضوان کے سامنے رسوا
ہونا پڑا۔ میرے بہنوئی عمران نے بھی میرے ساتھ جنسی تعلق قائم رکھا انکو جب کبھی
موقع ملتا وہ میری چوت الزمی لیتے۔ ایک دن جب میں انکے لن پر سواری کر رہی تھی
تو ہم دونوں کو صائمہ نے دیکھ لیا۔ اور عمران بھی فوری طور پر سارا الزام مجھ پر
لگانے لگے کہ رضوان نے اس سے منگنی اسی لیے توڑی کہ یہ ٹھیک لڑکی نہیں آج
اس نے اپنے بہنوئی کو بھی نہیں چھوڑا اور اپنے ننگے جسم سے مجھے ورغالنے
لگی اور بال آخر میرا لن اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ اور بات یہاں تک پہنچ گئی
کہ اب یہ میرے لن پر سوار ہے۔ صائمہ نے بھی انے شوہر کی بات پر یقین کیا اور
مجھے دھتکار دیا ۔ اس نے یہ بات امی ابو کو تو نہیں بتائی مگر وہ دوبارہ کبھی مجھ
سے نہیں ملی۔ اور اسی طرح عمران بھی اپنا دامن بچا کر نکل گئے۔ آخر وہ بھی ایک
مرد تھے انکے لیے سب کچھ جائز تھا۔ جب انہوں نے پہلی بار مجھے گھر میں اکیال پا
کر میری چدائی کی تب میرا کریکٹر برا نہں تھا۔ لیکن جب انکی بیوی نے پکڑ لیا تو
میرا کریکٹر برا ہوگیا۔
مجھے اس غلط راستے پر لگانے والے عمران ہی تھی۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی کم
عمر میں مجھے لن کا مزہ چھکایا۔ اسکے بعد رضوان نے مجھے سیکس کے لیے
ابھارا۔ مگر جب میں رضوان کے ساتھ کھل کر سیکس کرنے لگی تو اسکو لگنے لگا کہ
میں اسکے قابل نہیں۔ اور جب عمران کے ساتھ پکڑی گئی تو عمران نے بھی اپنا دامن
جھاڑ لیاا ور مجھے تنہا چھوڑ دیا۔
اب گھر میں میری خوب بدنامی ہوچکی تھی۔ کوئی بھی مجھے اچھی نظر سے نہیں
دیکھتا۔ میری اس کہانی میں ان تمام لڑکیوں کے لیے ایک سبق ہے جو غلط راستے پر
چل نکلی ہوں۔ یہ معاشرہ مردوں کا ہے صرف۔ اس میں لڑکی کی کوئی عزت نہیں۔
میں مانتی ہوں کہ میری بھی غلطی ہے اس سب میں۔ مگر کیا باقی لوگوں کی عمران
اور رضوان کی کوئی غلطی نہیں؟؟ کیا انہوں نے مجھے اس غلط راستے پر ڈالنے میں
اہم کردار ادا نہیں کیا؟؟ بالشبہ وہ اس میں برابر کے شریک تھے۔ مگر وہ تو بہت
صفائی کے ساتھ اپنا دامن بچا کر نکل گئے۔ اگر کسی کا نقصان ہوا تو صرف میرا۔
کیونکہ میں ایک لڑکی ہوں۔
میری ان تمام لڑکیوں کو نصیحت ہے جو شادی سے پہلے سیکس کا مزہ لینا چاہتی ہیں۔
اپنی عزت کی حفاظت آپ نے خود کرنی ہے۔ مشکل وقت میں کوئی آپکے ساتھ نہیں
ہوگا۔ سب آپ پر ہی انگلیاں اٹھائیں گے۔ لہذا اپنے جسم کی اور اپنی عزت کی حفاظت
الزمی کریں۔ چاہے آپکا منگیتر ہی کیوں نہ ہو اسکو بھی شادی سے پہلے اپنے قریب نہ
آنے دیں۔ ورنہ وہ آپکے جسم سے لطف اندوز ہوتا رہے گا اور جب اسکا دل بھر جائے
گا تب وہ آپکو ایک بد کردار لڑکی کہ کر ٹھوکر مار دے گا۔
سائرہ آج اپنے گھر میں خوش ہے ،اسکی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ اسنے جو غلط کام
کیا تھا اسکا میرے سامنے اقرار کیا اور مجھ سے معافی بھی مانگی۔ مگر میں نے
اسکے ساتھ جو کیا نہ تو اسکو آج تک پتا لگا اور نہ ہی مجھ میں اس سے معافی
مانگنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ جسکی مجھے یہ سزا ملی۔
آپ سب بھی اپنے گناہوں کی معافی ضرور مانگیں۔ ورنہ آپکا کونسا گناہ آپکو لے ڈوبے
گا انسان کو اس چیز کا پتا بھی نہیں لگتا۔
ختم شد