You are on page 1of 293

‫سالی‪ :‬پور ے گھر والی‬

‫فز کامران‬ ‫تحریر ‪:‬‬


‫دوستو آج میں آپکو ایک انتہائی خوبصورت سیکس کہانی سنانے جا رہی ہوں۔ یہ کہانی‬
‫میری زندگی کے پہلے سیکس کی ہے میں اپنی جوانی کے جوبن پر تھی اور میرا حسن‬
‫دیکھ کر ہر لڑکا مجھے چودنے کی خواہش کرتا تھا۔ کہانی شروع کرنے سے پہلے میں‬
‫اپنے بارے میں آپ دوستوں کو تھوڑا بتانا چاہوں گی۔‬
‫میرا نام فائزہ ہے عمر ‪ 22‬سال اور میں ملتان شہر کی رہنے والی ہوں۔ ہم ‪ 2‬بہنیں‬
‫ہیں‪ ،‬بڑی بہن کا نام صائمہ ہے اور انکی شادی ہو چکی ہے اور میری بھی عنقریب‬
‫شادی ہونے والی ہے۔ میرا ‪ 1‬بھائی ہے جو مجھ سے چھوٹا ہے اور ابھی بی اے کے‬
‫امتحانات دے رہا ہے۔ ۔ میری منگنی بھی ہو چکی ہے منگیتر کا نام رضوان ہے جواب‬
‫اپنا بزنس چالتے ہیں۔ ہم دونوں ایکدوسرے سے بہت پیار کرتے ہیں۔‬
‫تو دوستو یہ اس وقت کی بات ہے جب میری عمر ‪ 19‬سال تھی‪ ،‬یعنی آج سے ‪ 3‬سال‬
‫پہلے۔ تب میں گورنمنٹ ڈگری کالج ملتان میں پڑھتی تھی جو کچہری چوک کے ساتھ‬
‫واقع ہے۔ اس زمانے میں مجھ پر نئی نئی جوانی آئی تھی اور میرا حسن اپنے جوبن پر‬
‫تھا۔ ‪ 34‬سائز کے گول اوپر کو اٹھے ہوئے ممے ‪ 29 ،‬کی پتلی کمر اور ‪ 34‬سائز‬
‫کے میرے چوتڑ ہر دیکھنے والے کو ایک بار مٹھ مارنے پر مجبور کر دیتے تھے۔ کالج‬
‫کا زمانہ تھا ہم لڑکیاں کالج میں آپس میں سیکس کے بارے میں بات بھی کرتی تھیں اور‬
‫چند ایک گندی فلمیں بھی دیکھ رکھی تھیں۔‬
‫تو دوستو آج سے تین سال پہلے میری بہن اپنے شوہر یعنی میرے بہنوئی کے ساتھ‬
‫میکے رہنے کے لیے آئیں تھیں۔ میرے بہنوئی ایک نہایت شریف اور اچھے انسان ہیں‬
‫ہر کسی سے بہت پیار محبت اور اخالق کے ساتھ ملنے والے ۔ اور میری بہن انکے‬
‫ساتھ بہت اچھی ازدواجی زندگی بسر کر رہی ہے۔ صائمہ یعنی میری بہن کبھی کبھی‬
‫میرے ساتھ سیکس کی باتیں بھی کرتی تھی اور بتاتی تھی کے اسکے میاں کیسے‬
‫اسکی جم کے چودائی کرتے ہیں۔ میں اپنے بہنوئی کا نام ہی بتانا بھول گئی آپ دوستوں‬
‫کو۔ میرے بہنوئی کا نام عمران ہے جو الہور میں ایک پرائیویٹ فرم میں کام کرتے ہیں۔‬
‫ہمارا گھرانہ تھوڑا بولڈ ہے اور میں اپنے بہنوئی عمران کے ساتھ بھی خاصی فری تھی‬
‫اور ان سے رضوان کے بارے میں بھی بات کر لیا کرتی تھی۔ جب صائمہ عمران کے‬
‫ساتھ ہمارے ہاں رہنے کے لیے آئی تو ان دنوں رضوان بھی پڑھائی کے لیے ملتان آئے‬
‫ہوئے تھے جو اس وقت بہاوالدین زکریا یونیورسٹی میں پڑھتے تھے۔ اسی بہانے انکو‬
‫بھی گھر آکر مجھ سے ملنے کا موقع مل گیا۔ صائمہ اور عمران کی موجودگی میں‬
‫رضوان آتے اور ہم سب مل کر خوب شغل کرتے اور باہر سیر کرنے بھی جاتے۔ جب‬
‫رضوان یونیورسٹی میں ہوتے تو میرا رابطہ ان سے موبائل پر ہوتا تھا ہم لمبی باتیں‬
‫کرتیں اور ایکدوسرے کو اپنی سیکسی تصویریں بنا کر بھی بھیجتے تھے۔‬
‫اس دن جب صائمہ اور عمران دونوں شاپنگ کے لیے شام کے ٹَائم کینٹ چلے گئے اور‬
‫امی ابو بھی گھر پر موجود نہیں تھے تو میں نے رضوان کو کال کی اور کافی دیر ہم‬
‫نے ایکدوسرے سے پیار محبت اور پھر سیکس کے بارے میں باتیں کیں۔ پھر رضوان‬
‫نے مجھے کہا کہ میں انہیں کچھ سیکسی تصاویر بنا کر ایم ایم ایس کروں۔ میں فورا‬
‫راضی ہوگئی۔ میں نے اپنا فیورٹ نیلے رنگ کا برا پہنا جس میں فوم بھی لگا ہوا تھا‬
‫اور وہ مموں کو اور بھی بڑا کر کے دکھاتا تھا‪ ،‬اسکے ساتھ اسی رنگ کی پینٹی پہنی‬
‫اور اوپر سے ایک ٹائٹ شرٹ جو لمبائی میں میری ناف تک تھی اور نیچے ایک سکن‬
‫ٹائٹ جینز جس میں میرے گول چوتڑ باہر نکلے ہوئے تھے۔ ابھی میں تیار ہی ہوئی تھی‬
‫کے باہر مجھے کارکا ہارن سنائی دیا۔ یہ عمران یعنی میرے بہنوئی کی کار تھی۔ مجھے‬
‫اس وقت انکے واپس آنے کی بالکل خوشی نہیں ہوئی لیکن کیا کرتی دروازہ کھوال تو پتا‬
‫لگا کہ وہ اکیلے آئے ہیں صائمہ کو کینٹ میں اپنی کوئی پرانی دوست مل گئی تھی اور‬
‫وہ اسکے ساتھ اسکےگھر چلی گئی تھی اس لیے عمران جلدی واپس آگئے۔ اندر آکر‬
‫انہوں نے میرا اوپر سے نیچے تک بغور جائزہ لیا اور پھر ہنس کر بولے رضوان کے‬
‫ساتھ ڈیٹ پر جانے کا تو ارادہ نہیں کیا تمہارا؟؟؟ میں بھی ہنس دی کہ نہیں ایسی قسمت‬
‫کہاں ہماری کے اکیلے گھومنے جا سکیں باہر۔ یہ کہ کر میں کچن میں چلی گئی کہ رات‬
‫کے لیے کھانے کا کچھ بندوبست کروں کیوں کہ تصویریں بنانا تو اب مشکل تھا اور‬
‫ساتھ ہی میں نے رضوان کو بھی میسج کر کے بتا دیا کہ آج میں تصویریں نہیں بھیج‬
‫سکتی۔‬
‫جب میں کچن میں کام میں مصروف تھی تو عمران کچن میں آئے اور مجھ سے پانی‬
‫مانگا‪ ،‬میں نے گالس میں پانی ڈال کر دیا اور خود دوبارہ چولہے کی طرف منہ کر کے‬
‫کھانا بنانے میں مصروف ہوگئی۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ عمران‬
‫ابھی تک کچن میں موجود ہیں۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ میرے پیچھے ہی کھڑے‬
‫تھے اور انکی نظزیں میرے چوتڑوں پر تھیں‬
‫جب میں کچن میں کام میں مصروف تھی تو عمران کچن میں آئے اور مجھ سے پانی‬
‫مانگا‪ ،‬میں نے گالس میں پانی ڈال کر دیا اور خود دوبارہ چولہے کی طرف منہ کر کے‬
‫کھانا بنانے میں مصروف ہوگئی۔ کچھ دیر گزرنے کے بعد مجھے احساس ہوا کہ عمران‬
‫ابھی تک کچن میں موجود ہیں۔ میں نے مڑ کر دیکھا تو وہ میرے پیچھے ہی کھڑے‬
‫تھے اور انکی نظزیں میرے چوتڑوں پر تھیں۔ یہ دیکھ کر مجھے خوشی بھی ہوئی اور‬
‫شرمندگی بھی۔ خوشی اس لیے کہ مجھے اپنی خوبصورتی پر فخر ہونے لگا جس نے‬
‫میرے بہنوئی کو بھی تھوڑا بہکا دیا تھا اور شرمندگی اس لیے کہ عموما ً میں گھر میں‬
‫ایسا لباس نہیں پہنتی تھی اور یہ واال کچھ زیادہ ہی ٹائٹ تھا جسمیں میرے جسم کے‬
‫تمام ابھار بڑے واضح نظر آرہے تھے۔ میں نے عمران کو مخاطب کر کے پوچھا کہ‬
‫عمران بھائی کیا ہوا؟ کچھ اور چاہیے کیا آپکو؟ وہ ایک دم چونکے اور میرے چوتڑوں‬
‫سے نظریں ہٹا کر میری طرف دیکھ کر بولے نہیں کچھ نہیں۔ بس ایسے ہی کمرے میں‬
‫اکیال بیٹھے بور ہورہا تھا تو سوچا کچھ دیر اپنی سالی سے گپ شپ ہی لگا لی جائے۔‬
‫میں بھی مسکرا دی اور کہا جی ضرور۔ ہم دونوں نے باتیں شروع کر دیں ادھر ادھر کی۔‬
‫کچھ دیر بعد عمران نے میری تعریف کرتے ہوئے کہا کہ تم تو ان کپڑوں میں قیامت ڈھا‬
‫رہی ہو۔ میرا چہرہ خوشی اور شرم سے سرخ ہوگیا۔ مجھے اپنی تعریف سننا بہت اچھا‬
‫لگتا تھا۔‬
‫پھر عمران بولے کے رضوان تو بڑا خوش قسمت ہے جسکو تم جیسی سیکسی لڑکی‬
‫ملی ہے۔ انکے منہ سے "سیکسی" کا لفظ سن کر میں ہکا بکا رہ گئی کیونکہ ہم نے‬
‫پہلے کبھی ایسی بات آپس میں نہیں کی تھی۔ مگر حاالت کو نارمل رکھنے کے لیے میں‬
‫نے کہا کہ میری بہن بھی کچھ کم خوبصورت تو نہیں۔ جس پر وہ مسکرا دیے کہ ہاں تم‬
‫دونوں بہنیں بہت خوبصورت ہو‪ ،‬مگر صائمہ اب کچھ موٹی ہو چکی ہے اور اسمیں وہ‬
‫پہلے جیسی بات نہیں رہی جبکہ تم ابھی جوان ہو اور بہت خوبصورت بھی۔ یہ کہ کر وہ‬
‫میرے تھوڑا قریب آگئے اور میرا ہاتھ پکڑ لیا۔ میرے لیے یہ حیران کن بات تھی اور میں‬
‫پریشان بھی ہوگئی کیونکہ عمران کی نیت ٹھیک نہیں لگ رہی تھی۔ اور اسی وقت میری‬
‫نظر عمران کی پینٹ پر پڑی تو وہاں ناف سے کچھ نیچے ایک ابھار نظر آرہا تھا۔ میں‬
‫سمجھ گئی کہ مجھے ایسے ٹائٹ کپڑوں میں دیکھ کر میرے بہنوئی کا لن بھی کافی ٹائٹ‬
‫ہوگیا ہے۔ میں تھوڑا پیچھے ہٹتے ہوئے بولی کہ مجھے ان کپڑوں میں الجھن ہورہی‬
‫ہے میں شلوار قمیض پہن کر آتی ہوں۔ مگر انہوں نے میرا ہاتھ دوبارہ پکڑ لیا اور کہا‬
‫کہ نہیں تم ان کپڑوں میں بہت پیاری لگ رہی ہو کچھ دیر ٹھہر کر چینج کر لینا۔ میں اور‬
‫بھی پریشان ہوگئی اور مجھے ڈر لگنے لگا کہ آج میرا کنوارہ پن ختم ہوجائے گا۔‬
‫مجھے ڈرتا دیکھ کر عمران نے اپنے اوپر تھوڑا قابو پایا اور مجھے ریلیکس کرنے‬
‫کے لیے بولے کہ ڈرو نہیں تم میری بیوی نہیں سالی ہو۔ بس میں ان کپڑوں میں تمہاری‬
‫کچھ تصویریں بنا لوں پھر چینج کر لینا۔ مجھے تھوڑا حوصلہ ہوا۔ اور میں نے شکر کیا‬
‫کہ عمران کا کچھ غلط ارادہ نہیں۔ یہ کہ کر وہ مجھے میرے کمرے میں لے گئے اور اپنا‬
‫موبائل نکال کر میری ایک تصویر بنائی۔ پہلے انہوں نے کچھ تصویریں دور سے بنائیں‬
‫مگر پھر ایک تصویر موبائل میرے مموں کے قریب کر کے انکی بھی تصویر بنا ڈالی۔‬
‫میں نے منع کیا اور کہا یہ آپ کیا کر رہے ہیں تو عمران بولے کہ کچھ نہیں تم نے‬
‫کونسا بعد میں ایسا ڈریس پہننا ہے تو ابھی تمہاری خوبصورتی کو محفوظ کرلوں تاکہ‬
‫بار بار دیکھ سکوں۔ پھر انہوں نے میرا منہ دوسری طرف کر کے میرے چوتڑوں کی‬
‫بھی تصویر بنائی اور میں پریشان کھڑی تھی کہ آخر یہ سب کیا ہورا ہے۔‬
‫پھر عمران نے میری شرٹ کا اوپر واال بٹن کھول دیا میں نے مزاحمت کرنا چاہی تو‬
‫عمران بولے بس کچھ سیکسی تصویریں بنانی ہے تمہاری۔ انہوں نے زبردستی میرا‬
‫اوپر واال بٹن کھوال اور میرے کندھے سے شرٹ ہٹا کر میری تصویر بنائی۔ پھر دوسرے‬
‫کندھے سے بھی شرٹ ہٹا دی۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں کیا کروں‪،‬‬
‫نظریں جھکائے چپ چاپ کھڑی تھی میں کہ عمران نے اپنا موبائل ٹیبل پر رکھا اور‬
‫میرے قریب آکر میرہ چہرہ اپنے ہاتھوں میں لیا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ‬
‫دیے۔ میرے تن بدن میں جیسے آگ سی لگ گئی مگر میں نے مزاحمت کرنے کی‬
‫کوشش کی کہ عمران بھائی یہ سب ٹھیک نہیں یہ غلط ہے۔ مگر انہوں نے دوبارہ اپنے‬
‫ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیا اور انکو چوسنے لگے۔ وہ بڑے پیار اور آہستگی کے‬
‫ساتھ میرے ہونٹ چوس رہے تھے ‪ ،‬میں نے پیچھے ہٹنے کی کوشش کی تو انہوں نے‬
‫اپنا دایاں ہاتھ میری کمر پر رکھ کر مجھے اپنی طرف کھینچ لیا۔ میرے ممے زور سے‬
‫عمران کے سینے میں دھنس گئے‪ ،‬یہ پہال موقع تھا جب مجھے کسی مرد نے چوما تھا‬
‫اور مجھے اپنے گلے سے لگایا تھا۔ میں نے فلموں میں تو سب کچھ دیکھا ہوا تھا مگر‬
‫کبھی کسی مرد کے اتنا قریب نہیں گئی تھی یہاں تک کہ رضوان سے بھی کبھی اتنی‬
‫قربت نہیں ہوئی تھی۔‬
‫عمران مسلسل میرے ہونٹ چوس رہے تھے اور اب انکا ہاتھ میری کمر سے ہوتا ہوا‬
‫میرے چوتڑوں پر جا چکا تھا۔ ٹائٹ جینز سے باہر نکلتے ہوئے چوتڑوں کو انہوں نے‬
‫زور سے اپنے ہاتھ سے دبا لیا تھا جیسے کبھی چھوڑنے کا ارادہ نہ ہو۔ میری ہلکی‬
‫سی مزاحمت اب بھی جاری تھی مگر عمران کے ہونٹوں کا لمس مجھے مدہوش کر رہا‬
‫تھا۔ اب وہ اپنی زبان میرے منہ میں ڈال چکے تھے اور ہماری زبان آپس میں ٹکرا رہی‬
‫تھی۔ پھر انہوں نے میری زبان کو اپنے منہ میں لے کر زور زور سے چوسنا شروع کر‬
‫دیا جس نے میرے پورے جسم میں آگ لگا دی اور میری مزاحمت بالکل ختم ہوگئی اور‬
‫اب میں بھی کسنگ میں عمران کا ساتھ دینے لگی۔ اور انکی زبان کو چوسنا شروع‬
‫کردیا ۔ کافی دیر ہم دونوں ایک دوسرے کی زبان چوستے رہے کبھی عمران کی زبان‬
‫میرے منہ میں ہوتی تو کبھی میری زبان عمران کے منہ میں۔ مجھے یہ سب کچھ اچھا‬
‫لگنے لگا تھا۔ پھر عمران نے میرے اوپر والے ہونٹ کو اپنے ہونٹوں سے چوسنا‬
‫شروع کر دیا۔ عمران کبھی اوپر والے ہونٹ کو اپنے منہ میں لیتے تو کبھی نیچے والے‬
‫ہونٹ کو۔ ہونٹوں سے دل بھرا تو عمران نے میرے کندھوں کو چومنا شروع کر دیا جو‬
‫وہ پہلے ہی ننگے کر چکے تھے۔ پہلے تو اپنے ہونٹوں سے میرے کندھے چومتے‬
‫رہے پھر زبان پھیرنا شروع کردی۔ جب زبان سے بھی دل نہیں بھرا تو اپنے دانت میرے‬
‫کندھوں پر گاڑھ دیے۔ اور ساتھ میں میرے چوتڑ بھی دباتے رہے۔ پھر میری گردن پر‬
‫بھی یہی مشق دہرائی‪ ،‬ہونٹوں سے زبان سے اور دانتوں سے کاٹ کر میری گردن پر‬
‫پیار کیا۔ جب وہ میری گردن پر زبان پھیرتے اور کاٹتے تو جیسے مجھے ‪ 240‬وولٹ‬
‫کا جھٹکا لگتا۔ میں تڑپنے لگی اور میرے منہ سے خود بخود سسکیاں نکلنے لگیں جن‬
‫سے عمران کو اور حوصلہ مال اور پھر آہستہ آہستہ وہ میرے مموں تک پہنچ گئے اور‬
‫میری شرٹ اتار دی۔ شرٹ اتارنے کے بعد وہ کچھ دیر مجھے ایسے ہی دیکھتے رہے‬
‫اور بولے کہ فائزہ تم قیامت ہو یہ پتلی کمر اور بڑے بڑے ممے میں نے آج تک نہیں‬
‫دیکھے۔ اسکے بعد انہوں نےمیری جینز کا بٹن اور زپ کھول کر میری جینز بھی اتار‬
‫دی۔ اب میں صرف برا اور پینٹی میں تھی۔‬
‫عمران نے مجھے چوتڑوں سے پکڑ کر اپنی گود میں اٹھا لیا اور میری دونوں ٹانگیں‬
‫عمران کی کمر کے گرد تھیں۔ وہ کبھی میرے ہونٹ چوستے کبھی کندھے پر اپنی زبان‬
‫اور ہونٹ پھیرتے تو کبھی برا کے اوپر سے ہی میرے ممے چومتے۔ کافی دیر یہ‬
‫سلسلہ جاری رہا پھر انہوں نے مجھے بیڈ پر لٹا دیا اور خود میرے اوپر آکر میرے‬
‫دائیں ممے پر سے برا ہٹا دیا۔ میرے گول اور بڑے ممے دیکھ کر تو عمران جیسے‬
‫اپنے آپ میں نہیں رہے انہوں نے فورا میرے دوسرے ممے سے بھی برا ہٹایا اور‬
‫پاگلوں کی طرح میرے مموں پر پیار کرنے لگے۔ میرے نپل بہت سخت ہورے تھے جو‬
‫عمران نے اپنے منہ میں لیے ہوئے تھے اور ان پر زور زور سے اپنے دانتوں سے‬
‫کاٹ رہے تھے۔ میرا ایک نپل انکے منہ میں تھا تو دوسرا نپل اپنے ہاتھ سے مسل رہے‬
‫تھے۔ میں اس مزے کو الفاظ میں بیان نہیں کر سکتی جو اس وقت مجھے آرہا تھا‪،‬‬
‫میری ہلکی سسکاریاں نکل رہی تھیں‪ ،‬آہ ہ ہ ہ ۔اف آہ آہ آہ او یاہ۔۔۔ عمران آرام سے کرو‬
‫پلیز درد ہوتا ہے۔ عمران بولے جان ابھی تمہیں ایسا مزہ دوں گا کہ تم ساری عمر یاد‬
‫رکھو گی۔ اور دوبارہ وحشیوں کی طرح میرے مموں کو کاٹنے لگے۔‬
‫میں بھی پاگل ہو چکی تھی میں نے عمران کو اپنے اوپر سے ہٹایا اور انہیں لٹا کر خود‬
‫انکے اوپر بیٹھ گئی۔ جیسی ہی میں انکے اوپر بیٹھی مجھے اپنے نیچے ایک موٹی سی‬
‫چیز کا احساس ہوا۔ میں عمران کے لن کے بالکل اوپر بیٹھی تھی جس سے مجھے‬
‫سرور سا مال۔ میں نے اپنی برا کی ہک کھول کر برا کو اپنے جسم سے علیحدہ کیا اور‬
‫عمران کی شرٹ اتار کر انکے سینے پر پیار کرنے لگی۔ بالوں سے بھرا ہوا سینہ مرد‬
‫کی شان ہوتا ہے اور عمران کا سینہ کچھ ایسا ہی تھا۔ سینے پر پیار کرتی ہوئی میں‬
‫نیچے ناف تک آئی اور عمران کی بیلٹ کھول کر پینٹ کا بٹن اور زپ کھولی اور پینٹ‬
‫اتارنے میں عمران کی مدد کی۔ عمران نے نیچے سفید رنگ کا انڈر ویئیر پہنا ہوا تھا‬
‫جس میں سے لن کا تناو اور موٹائی واضح طور پر نظر آرہی تھی۔‬
‫پینٹ اتار کر میں پھر سے عمران کے اوپر لیٹ گئی اور ہم ایکدوسرے کو پیار کرنے‬
‫لگے۔ ایکدوسرے کے جسم کی گرمی ہم دونوں کو بہت سکون دے رہی تھی۔ کبھی میں‬
‫اوپر ہوتی اور عمران نیچے تو کبھی عمران اوپر اور میں نیچے۔ پھر عمران نے اپنا‬
‫انڈر ویئر بھی اتار دیا اور انکا ‪ 7‬انچ کا لمبا اورموٹا لن میرے سامنے تھا۔ میں نے‬
‫فلموں میں ایسے لن دیکھے ہوئے تھے مگر آج یہ لن دیکھ کر مجھے ڈر لگنے لگا کہ‬
‫اتنا موٹا لن میری کنواری اور چھوٹی سی پھدی میں کیسے جائے گا؟؟ عمران نے اپنا‬
‫لن میرے ہاتھ میں پکڑایا جو میں نے بغیر جھجک کے پکڑ لیا اور اسکی مٹھ مارنے‬
‫لگی جیسے میں نے فلموں میں دیکھا ہوا تھا۔ عمران نے شاید ‪ 2‬یا ‪ 3‬دن پہلے ہی‬
‫نیچے کی شیو کی تھی لن کے ارد گرد باریک باریک بال تھے جب میں ان باریک بالوں‬
‫پے ہاتھ پھیرتی تو عمران کو بڑا مزہ آتا۔ کچھ دیر مٹھ مارنے کے بعد عمران نے‬
‫مجھے کہا کہ اب اسکو منہ میں لے کر چوسو۔ میں نے لن منہ کے قریب کیا تو مجھے‬
‫اس سے نفرت آنے لگی اور میں نے انکار کیا۔ لن سے پانی بھی نکل رہا تھا تھوڑا اور‬
‫ٹوپی پوری گیلی تھی جسکی وجہ سے مجھے نفرت آ رہی تھی۔ مگر عمران نے کہا کہ‬
‫یہ بہت مزے کا ہوتا ہے صائمہ بھی بڑے شوق سے چوستی ہے تم بھی چوسو مزہ آئے‬
‫گا۔ پھر میں نے اپنی زبان لن کی سائڈ پر پچھلے حصے پر پھیرا جہاں پانی نہیں تھا۔ لن‬
‫کی گرمی میری زبان پے محسوس ہوئی تو مجھے بہت اچھا لگا۔ میں نے لن کے نچلے‬
‫حصے پر خوب زبان پھیری اور آہستہ آہستہ اوپر کی طرف جانے لگی کے اچانک‬
‫مجھے اپنے منہ میں کچھ نمکین سے ذائقہ محسوس ہوا۔ یہ لن سے نکلنے واال پانی‬
‫تھا جو لن کو گیال کر رہا تھا اور میری زبان اس گیلے حصے تک پہنچ چکی تھی۔‬
‫مچھے کچھ ہی دیر میں یہ پانی اچھا لگنے لگا اور میں نے اس پر بھی زبان پھیرنا‬
‫شروع کر دی اور پھر لن کے ٹوپے پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اور آہستہ آہستہ آدھا لن‬
‫میرے منہ میں تھا۔ عمران کو میرے لن چوسنے سے شاید تکلیف بھی ہورہی تھی‬
‫کیونکہ مجھے چوپا لگانے کا تجربہ نہیں تھا صرف فلموں میں چوپا لگاتے دیکھا تھا۔‬
‫عمران نے مجھے سمجھایا کے دانت لن پر زور سے مت پھیرو زیادہ زبان اور ہونٹوں‬
‫کا استعمال کرو۔ میں نے ایسا ہی کیا اور کچھ ہی دیر میں عمران کو مزہ آنے لگا۔ ‪3‬‬
‫سے ‪ 4‬منٹ تک چوپا لگانے کے بعد عمران نے میرے منہ میں اپنی سپیڈ تیز کر دی‬
‫اور زور زور سے لن اندر باہر کرنے لگے‪ ،‬میں سمجھ گئی کہ منی نکلنے والی ہےمیں‬
‫نے لن منہ سے باہر نکالنے کی کوشش کی مگر عمران نے مجھے بالوں سے پکڑ رکھا‬
‫فوارہ میرے منہ میں ہی نکل‬‫تھا اور مجھے لن باہر نہیں نکالنے دیا اتنے میں منی کا ّ‬
‫گیا۔ منی کا ذائقہ بھی نمکین تھا اور مزیدار تھا مگر وہ بہت گاڑھی اور زیادہ مقدار میں‬
‫تھی جسکی وجہ سے مجھے بہت زیادہ کھانسی آئی اور میرا چہرہ سرخ ہوگیا میرا‬
‫سانس لینا مشکل ہوگیا تھا۔ میں نے ساری منی کارپٹ پر تھوک دی اور فوران اپنی‬
‫شرٹ اٹھا کر منہ میں ڈالی اور منہ کی صفائی کی پھر کلی کی اور عمران نے مجھے‬
‫پانی پالیا۔ کچھ دیر کے بعد جب میں نارمل ہوئی تو میں نے عمران سے پوچھا کہ صائمہ‬
‫تو کہتی تھی آپ اسکی ساری رات چدائی کرتے ہو مگر آپ تو ‪ 5‬منٹ میں ہی فارغ‬
‫ہوگئے۔ یہ سن کر وہ بولے کہ صائمہ کو ماہواری ہے جسکی وجہ سے ‪ 6‬دن سے‬
‫چدائی نہیں کی اس لیے جلدی فارغ ہوگیا لیکن تم فکر نہیں کرو ابھی تمہاری جم کے‬
‫چدائی کروں گا۔ میں نے اپنی پینٹی اتار دی اور عمران کو دعوت دی کہ اب وہ اپنی زبان‬
‫سے میری پھدی چاٹیں اور مجھے بھی مزہ دیں۔ مگر عمران نے کہا کہ وہ ایسا نہیں کر‬
‫سکتے انکو پھدی کے پانی سے نفرت آتی ہے۔ یہ سن کر مجھے بہت غصہ آیا اور میں‬
‫زور سے چالئی مادر چود تیرے لن سے بھی تو نفرت آتی تھی میں نے بھی چوسا ہے‬
‫چل اب تو بھی میری پھدی چاٹ اور مجھے مزہ دے۔ مگر عمران نہ مانے اور مجھے‬
‫لٹا کر میرے ممے اپنے منہ میں لے لیے اور اپنی بڑی انگلی میری پھدی پر پھیرنے‬
‫لگے۔ پہلے تو میں غصے میں گالیاں دیتی رہی کہ اب میری پھدی چاٹو مگر پھر آہستہ‬
‫آہستہ انگلی پھرنے سے میری پھدی گیلی ہونے لگی اور مجھے مزہ آنے لگا۔ پھر‬
‫عمران نے اپنی آدھی انگلی میری کنواری پھدی میں ڈال دی تو میری جیسے جان ہی‬
‫نکل گئی۔ مجھے انگلی جانے سے بہت تکلیف ہوئی تھی اور آنکھوں سے آنسو نکل‬
‫آئے تھے عمران اپنی پوری انگلی اندر ڈال چکے تھے اور انگلی سے میری چدائی کر‬
‫رہے تھے۔ ‪ 3‬سے ‪ 4‬منٹ کی چدائی کے بعد مجھے انگلی کا مزہ آنے لگا اور میں نے‬
‫اپنی گانڈ اوپر نیچے ہالنی شروع کر دی۔ ‪ 10‬منٹ تک مجھے انگلی سے چودنے ک‬
‫بعد جب انگلی روانی سے پھدی میں جانے لگی تو مزہ اور بڑھ گیا اور مجھے اپنے‬
‫جسم میں عجیب سے سرور محسوس ہوا۔ میرے منہ سے مسلسل آوازیں نکل رہی تھیں‬
‫اور مزے سے مدہوش ہو رہی تھی۔ آہ آہ آہ او و‪ ،‬یس۔۔۔ آ آ آ اف آہ آہ آہ کی آوازوں سے‬
‫کمرہ گونج رہا تھا اور ساتھ ہی میری آوازوں میں تیزی آنے لگی تو عمران نے بھی‬
‫اپنی انگلی سے میری چدائی کی سپیڈ بڑھادی اور اگلے ‪ 2‬منٹ میں ہی میری چوت نے‬
‫پانی چھوڑ دیا ۔ جب چوت نے پانی چھوڑا تو اس وقت جو مزہ آیا وہ میں الفاظ میں بیان‬
‫نہیں کر سکتی۔ جب میں فارغ ہوگئی تو عمران میری ٹانگیں کھول کر درمیان میں آگئے‬
‫۔‬
‫عمران نے اپنے لن کا ٹوپہ میری پھدی کے اوپر رکھا اور آہستہ آہستہ رگڑنے لگے۔ لن‬
‫کو پھدی کے اوپر دیکھ کر تو میری ویسے ہی پھٹ گئی کہ ایک انگلی نے اتنی تکلیف‬
‫دی تو اس لن سے کیا ہوگا۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ مجھے ایسے لگا جیسے‬
‫کسی نے میری پھدی کے اندر لوہے کا راڈ گھسا دیا ہوا میری زور دار چیخ نکلی مگر‬
‫عمران نے فورا اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے اور میری چیخ کو دبا دیا۔ عمران‬
‫کا آدھا لن میری پھدی میں جا چکا تھا اور تکلیف کے مارے میں کسی مچھلی کی طرح‬
‫تڑپ رہی تھی اور عمران کی منتیں کر رہی تھی کہ مجھے چھوڑ دو مجھے نہیں چدوانا۔‬
‫مگر وہ کہاں چھوڑنے والے تھے کنواری پھدی کو۔ کچھ دیر وہ ایسے ہی میرے اوپر‬
‫لیٹے رہے اور آہستہ آہستہ لن کو ہالنا شروع کیا۔ کچھ دیر بعد جب میرا رونا بند ہوا تو‬
‫ساتھ ہی ایک اور زور دار دھکا لگا اور میری کنواری چوت کو عمران کا لن چیرتا ہوا‬
‫مکمل گہرائی میں جا چکا تھا۔ پورا کمرہ میری دبی دبی چیخوں سے گونج رہا تھا اور‬
‫عمران میرے اوپر لیٹے میرے ہونٹوں کو دبائے ہوئے تھے۔ ‪ 5‬منٹ تک انہوں نے‬
‫پھدی میں لن کو حرکت نہیں دی‪ ،‬اور میرے ہونٹوں پر میرے گالوں پر پیار کرتے رہے‬
‫ساتھ میں ایک ہاتھ سے میرے ممے بھی دباتے رہے اور نپل کو بھی دانت سے کاٹتے‬
‫رہے۔ ‪ 5‬منٹ بعد آہستہ آہستہ لن کو آگے پیچھے کرنا شروع کیا تو میری ہلکی ہلکی‬
‫سسکاریاں نکلنے لگیں‪ ،‬آنکھیں ابھی بھی بھیگیں ہوئی تھیں۔ جیسے جیسے لن اندر‬
‫باہر ہو رہا تھا میری خشک پھدی دوبارہ سے گیلی ہونے لگی۔ گیلی پھدی میں لن آسانی‬
‫سے اندر باہر ہونے لگا اور مجھے مزہ آنے لگا۔‬
‫عمران ابھی بھی میرے اوپر لیٹے تھے اور لن میری پھدی کو چیرتا ہوا کبھی اندر جاتا‬
‫تو کبھی باہر آتا یہ سلسلہ مزید کچھ دیر جار رہا اور میں اب چدائی کے مزے لینے لگی‬
‫تھی۔ میں نے آہستہ آہستہ اپنی گانڈ ہالنی شروع کی اور چدائی میں تھوڑی سی سپیڈ کا‬
‫اضافہ ہوا۔ اب عمران کا منہ میرے ہونٹوں پر نہیں بلکے میرے مموں پر تھا‪ ،‬وہ میرے‬
‫نپل بھی کاٹ رہے تھے اور ساتھ ساتھ اپنے موٹے اور لمبے لن سے میری گیلی پھدی‬
‫کی چدائی بھی کر رہے تھے۔ ‪ 20‬منٹ کی چدائی کے بعد اب میں مکمل مزے میں تھی‬
‫اور عمران کا خوب ساتھ دے رہی تھی۔ میری ٹانگیں تھک چکی تھیں۔ میں نے عمران‬
‫کو بتایا تو وہ خود نیچے لیٹ گئے اور مجھے اپنے اور بیٹھنے کو کہا۔ میں جب اٹھی‬
‫تو مجھے بیڈ پر سرخ رنگ کی کوئی چیز نظر آئی۔ غور سے دیکھنے پر پتا لگا وہ‬
‫خون تھا جو میری پھدی پھٹنے پر نکال تھا۔ تھوڑی دیر کو خیال آیا کہ یہ ٹھیک نہیں ہوا‬
‫مگر اس وقت تو لن کی پیا سی پھدی نے کچھ اور سوچنے نہیں دیا اور میں عمران کے‬
‫اوپر بیٹھ کر لن کو اپنی پھدی کے سوراخ پر رکھ کار آہستہ آہستہ لن اندر لینے لگی۔‬
‫ایک بار پھر تکلیف ہو رہی تھی مگر مجھے پتہ تھا کہ ابھی یہ تکلیف مزے میں تبدیل‬
‫ہوجائے گی۔ وہی ہوا کچھ ہی دیر بعد میں عمران کے لن کے اوپر اچھل رہی تھی۔ عمران‬
‫نے اپنے دونوں ہاتھ میرے چوتڑوں کے نیچے رکھے ہوئے تھے اور مجھے اچھلنے‬
‫میں مدد کر رہے تھے۔ کمرہ جو پہلے چیخوں سے گونج رہا تھا وہ اب ہمارے جسم کے‬
‫ٹکرانے کی آواز سے اور ہماری مزے میں ڈوبی ہوئی سسکاریوں سے گونج رہا تھا۔ لن‬
‫کا اندر جانا اور باہر آنا مجھے بہت مزہ دے رہا تھا۔ پھر عمران نے مجھے اپنے اوپر‬
‫لٹا لیا‪ ،‬میرا ایک مما اپنے منہ میں لیا اور میری گانڈ اوپر اٹھا کر خود دھکے مارنے‬
‫لگے پھدی میں۔‬
‫اب عمران کی سپیڈ بہت اچھی تھی اور میرے منہ سے آوازیں نکل رہی تھیں۔۔۔۔۔ آآ آآہ ہ‬
‫ہ ہ ۔۔۔۔ آہ آہ آہ ۔ ۔ اُف۔۔۔ آہ آہ آہ ۔ ۔ زور سے چودو عمران اور زور سے۔۔۔ جیسے ہی میں‬
‫عمران کو زور سے چودنے کا کہتی عمران کی سپیڈ بڑھ جاتی اور میری پھدی بھی‬
‫ساتھ دیتی۔ اب تک میری پھدی ‪ 2‬بار اپنا پانی چھوڑ چکی تھی‪ ،‬مگر ابھی تک دل نہیں‬
‫بھرا تھا۔‬
‫اب ہم صوفے پر تھے عمران صوفے پر ٹیک لگا کر بیٹھے تھے اور میں انکی گود میں‬
‫لن کی سواری کر رہی تھی میرے اچھلتے ہوئے ممے کبھی عمران کے منہ میں ہوتے‬
‫تو کبھی انکے ہاتھوں میں۔ میری پھدی پھٹے ہوئے ایک گھنٹا گزر چکا تھا اس ایک‬
‫گھنٹے میں ‪ 10‬سے ‪ 15‬منٹ آرام سے لن میری پھدی میں ٹِکا رہا اور باقی کا وقت‬
‫میری پھدی کو چودتا رہا۔ ایک گھنٹے کے بعد لن کی سپیڈ حیرت انگیز طور پر تیز‬
‫ہونے لگی اور عمران نے مجھے دوبارہ سے بیڈ پر لٹا کر چودنا شروع کیا ۔ میری‬
‫ٹانگیں کھلی ہوئی تھیں اور ‪ 7‬انچ لمبائی کا موٹا لن فل سپیڈ کے ساتھ میری چدائی کر‬
‫رہا تھا عمران فارغ ہونے والے تھے۔ میں نے عمران کو کہا کہ پلیز اندر مت فارغ ہونا‬
‫عمران نے ہاں میں سر ہالیا اور اپنی سپیڈ اور بڑھا دی ساتھ ہی عمران کی آوازیں بھی‬
‫اونچی ہوتی گئی اور اچانک عمران نے اپنا لن میری پھدی سے نکال کر ہاتھ میں پکڑا‪،‬‬
‫‪ 2‬جھٹکے مارے اور اپنی منی میری ناف کے اوپر نکال دی۔ منی فوارے کی طرح نکلی‬
‫میری ناف سے ہوتی ہوئی میرے مموں تک منی کی الئن بن گئی۔ کچھ سیکنڈ تک لن کو‬
‫جھٹکے لگتے رہے اورمنی نکلتی رہی۔ جب ساری منی نکل گئی تو عمران میرے اوپر‬
‫لیٹ گئے۔ انکا جسم ڈھیال پڑ چکا تھا۔ میں نے پیار سے انکو اپنے سینے سے لگا لیا‬
‫اور انہیں چومنے لگی۔ ‪ 5‬منٹ ہم یونہی ایکدوسرے کے اوپر لیٹے رہے۔‬
‫کچھ دیر تک اکٹھے لیٹے رہنے کے بعد میں اپنا جسم صاف کرنے واش روم چلی گئی‬
‫اور باتھ ٹب میں کھڑی ہوکر شاور کھول لیا اور اپنے جسم کو دھونے لگی۔ اتنے میں‬
‫عمران بھی واش روم میں آگئے اور میں پیچھے کھڑے ہوکر میرے پیٹ پر ہاتھ پھیرنے‬
‫لگے اور جسم صاف کرنے میں میری مدد کی۔ پھر انکے ہاتھ میرے مموں پر آگئے اور‬
‫انہیں بھی صاف کرنے لگے۔ صاف کرنے کے بعد دھیرے دھیرے عمران نے میرے‬
‫مموں کو دبانا شروع کر دیا۔ اور ساتھ ہی میری گردن پر اپنی زبان سے مساج شروع کر‬
‫دیا۔ گردن پر زبان سے مساج اور ساتھ میں ممے دبانے سے مجھے بے پناہ لذت مل‬
‫رہی تھی اور میں نے ہلکی سسکاریاں بھرنی شروع کر دیں۔ شاور کا پانی ہم دونوں کے‬
‫اوپر گر رہا تھا۔ پھر عمران نے مجھے ٹب سے باہر نکاال اور ٹب میں پانی بھرنا شروع‬
‫کر دیا‪ ،‬ساتھ ہی باہر نکل کر ہینڈ شاور کے زریعے میرے جسم کو دھونا شروع کیا۔ اب‬
‫وہ میرے سامنے کھڑے تھے ایک ہاتھ میں ہینڈ شاور لیے میرے مموں پر پانی ڈال‬
‫رہے تھے تو دوسرا ہاتھ میرے گول چوتڑوں پر رکھ کر مجھے اپنے قریب کیا ہوا تھا‬
‫اور زبان سے میرے نپل پر گول گول دائیرے بنا رہے رہے تھے۔ میری لذت میں مسلسل‬
‫اضافہ ہو رہا تھا اور اب مجھے اپنی چوت گیلی محسوس ہورہی تھی۔‬
‫پھر عمران نے شاور میرے ہاتھ میں پکڑا دیا اور مجھے اپنے سینے سے لگا کر اپنے‬
‫ہاتھ میری کمر پر مسلنے لگے اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر لگا دیے۔ عمران میرے‬
‫دونوں ہونٹوں کو بڑی شدت کے ساتھ چوم رہے تھے میرے گیلے ہونٹوں سے بہتا پانی‬
‫انہیں کسی شربت سے کم نہیں لگ رہا تھا۔ پھر میں بھی عمران کا بھرپور ساتھ دینے‬
‫لگی اور اپنی زبان عمران کے منہ میں داخل کر کے عمران کی زبان کو چوسنے لگی۔‬
‫میرے ہاتھ عمران کی کمر کا مساج کر رہے تھے اور عمران کا ایک ہاتھ میری کمر اور‬
‫دوسرا میرے چوتڑوں کو دبا رہا تھا۔ ہم دونوں ایکدوسرے کی زبان چوسنے میں‬
‫مصروف تھے اور زبان کو منہ میں گول گول گھما بھی رہے تھے۔ پھر عمران نے‬
‫میرے منہ سے اپنی زبان نکالی اور میری گردن پر پیار کرنا شروع کر دیا‪ ،‬گردن سے‬
‫ہوتے ہوئے میرے مموں تک آگئے اور میرے ممے چوسنے لگے۔ میرے نپل جو مکمل‬
‫طور پر کھڑے تھے اور سخت ہو رے تھے انکو عمران ہلکے ہلکے کاٹ رہے تھے‬
‫اور مزے کی شدت سے میرے منہ سے ام م م م ۔۔۔ آہ ہ ہ ہ ہ ۔۔۔ اف ف ف ف ف ف‬
‫جیسی سسکاریاں نکل رہی تھیں۔ میں نے اپنے ہاتھ عمران کی کمر سے ہٹا کر لن پکڑنا‬
‫چاہا تو وہ ابھی بہت چھوٹا اور نرم تھا جیسے کسی بچے کا ہوتا ہے۔ میں نے ہاتھ میں‬
‫پکڑ کر اسکی مٹھ مارنی شروع کی تو اس میں کچھ تناو پیدا ہوا پھر میں عمران کے‬
‫سامنے گھٹنوں ے بل بیٹھ گئی اور عمران کے لن پے اپنی زبان پھیرنی شروع کی۔ اب‬
‫ہینڈ شاور عمران کے ہاتھ میں تھا اور پانی عمران کے جسم سے بہتا ہوا لن تک آرہا‬
‫تھا جسکو میں چوس رہی تھی ۔ پھر میں نے اپنی زبان کی نوک لن کی ٹوپی پر گھمانی‬
‫شروع کی جس سے عمران کو مزہ آنے لگا اور انہوں نے میرا سر زور سے پکڑ کر‬
‫اپنی طرف کھینچا اور میں نے لن اپنے منہ میں ڈال کر چوسنا شروع کردیا۔ میری پوری‬
‫کوشش تھی کہ اس بار لن کو اپنے دانتوں سے محفوظ رکھوں اور زیادہ سے زیادہ زبان‬
‫اور ہونٹوں کا استعمال کروں۔ میرے منہ کی گرمی نے عمران کے لن کو دوبارہ سے ‪7‬‬
‫انچ لوہے کا راڈ بنا دیا تھا اور عمران بھی مزے سے منہ سے ہلکی ہلکی آوازیں نکال‬
‫رہے تھے اور ساتھ ساتھ کہ رہے تھے فائزہ اور زور سے لن چوسو۔ ایک ہاتھ سے لن‬
‫پکڑ کر منہ میں لیا ہوا تھا تو دوسرے ہاتھ سے میں عمران کے ٹٹے سہال رہی تھی‬
‫جس کی وجہ سے عمران کو دہری لذت مل رہی تھی۔‬
‫‪3‬منٹ تک عمران کے لن نے میرے منہ میں ہی چدائی کی اور اسکے بعد عمران نے‬
‫مجھے کھرڑا ہونے کو کہا۔ میں نے دوبارہ سے عمران کہ کہا کہ میری چوت چاٹ کر‬
‫مجھے بھی مزہ دیں مگر عمران نے ایک بار پھر انکار کار دیا اور میرا منہ دیوار کی‬
‫طرف کرکے مجھے دونوں ہاتھ دیوار پر رکھنے کو کہا اور کہا کہ اپنی گانڈ باہر کی‬
‫طرف نکالو یعنی اب میرا منہ دیوار کی طرف تھا اور میں نے اپنے چوتڑ عمران کی‬
‫طرف نکالے ہوئے تھے۔ عمران نے اپنی ‪ 2‬انگلیاں میری چوت پر رکھ کر میرا گیال پن‬
‫چیک کیا اور چوت کی گرمی سے اندازہ لگایا کہ میں ایک بار پھر چدنے کے لیے تیار‬
‫ہوں‪ ،‬یہ دیکھ کر عمران نے ایک بار پھر سے اپنا ‪ 7‬انچ کا لن میر چوت پر سیٹ کیا‬
‫اور دھیرے سے دھکا لگایا‪ ،‬مجھے ایک بار پھر سے تکلیف ہونا شروع ہوئی‪ ،‬اور‬
‫میرے منہ سے چیخ نکلی اب کی بار عمران نے مجھے ِچیخ مارنے دی اور واش روم‬
‫میری چیخوں سے گونجنے لگا۔ عمران نے ہلکا ہلکا پریشر بڑھانا شروع کیا میری‬
‫چوت پر اور کچھ ہی سیکنڈز میں سارا لن میری چوت میں تھا۔ پھر عمران نے لن کو‬
‫آہستہ آہستہ آگے پیچھے کرنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر درد محسوس کرنے کے بعد‬
‫مجھے مزہ آنے لگا تو میں بھی گانڈ ہال کر عمران کا ساتھ دینے لگی۔ یہ دیکھتے ہوئے‬
‫عمران نے میری چوت میں اپنے لن سے زور دار دھکے لگانے شروع کر دیے۔ عمران‬
‫نے اپنے دونوں ہاتھ میرے کولہوں کی سائیڈ پر رکھ کر میری گانڈ کو اپنی طرف نکاال‬
‫ہوا تھا جسکی وجہ سے میری کمر میں ہکا سا درد بھی شروع ہوگیا‪ ،‬مگر چوت میں‬
‫لگنے والی ضربوں نے وہ معمولی درد بھال کر لذتیں دینا شروع کر دیں۔ عمران کے‬
‫دھکوں کی سپیڈ بڑھتی جا رہی تھی اور مجھے اپنے جسم میں طاقت ختم ہوتی ہوئی‬
‫محسوس ہونے لگی۔ میری چوت اب پانی چھوڑنے ہی والی تھی اور مزے کی شدت سے‬
‫میرے منہ سے آوازاں کا نا رکنے واال سلسلہ جاری تھا‪ ،‬آہ ہ ہ آہ ہ ہ آہ ہ‪ ،‬اف ف ف ف‬
‫عمران اور زور سے چودو مجھے‪ ،‬عمران تمہارا لن مجھے بہت مزہ دے رہا ہے‪ ،‬یہ‬
‫چوت اب تمہاری ہے اسے پھاڑ ڈالو‪ ،‬اس طرح کی بے ربط باتیں کرتے ہوئے میری‬
‫چوت نے پانی چھوڑ دیا‬
‫اب باتھ ٹب بھی پانی سے بھر چکا تھا عمران نے اپنا لن میری چوت سے باہر نکاال اور‬
‫ہم دونوں باتھ ٹب میں بیٹھ گئے۔ پانی بہت ٹھنڈا تھا جس سے میرے جسم کو سکون مال‬
‫مگر عمران کے جسم کی گرمی ابھی ختم نہیں ہوئی تھی‪ ،‬عمران ٹب میں اپنی ٹانگیں‬
‫پھیال کر لیٹنے والی پوزیشن میں آگئے مگر انکا سر اور کندھے پانی سے باہر تھے‪،‬‬
‫عمران نے مجھے اپنے لن پر سواری کرنے کی دعوت دی جو میں نے بغیر جھجک‬
‫قبول کر لی اور عمران کی گود میں بیٹھ کر لن اپنے ہاتھ سے پکڑ کر چوت پر سیٹ کیا‬
‫اور ایک جھٹکے سے لن پر بیٹھ کر پورا لن اپنی چوت میں لے لیا۔ اب میں نے اپنی‬
‫ٹانگیں فولڈ کر لی تھیں اور اپنے دونوں ہاتھ عمران کے سینے پر رکھ کر اپنی گانڈ کو‬
‫ہلکا سا اوپر اٹھا کر ہال نے لگی۔ آہستہ آہستہ میں نے اپنی سپیڈ میں اضافہ کر دیا اور‬
‫لن بڑی روانی کے ساتھ میرے چوت کو چودنے لگا۔ کچھ دیر اسی پوزیشن میں چودائی‬
‫کروانے کے بعد میں تھک گئی تو عمران نے مجھے اپنی طرف کھیچ کر گلے سے لگا‬
‫لیا اور اپنے دونوں ہاتھ میرے چوتڑوں پر رکھ کر گانڈ اوپر اٹھانے میں سہارا دیا اور‬
‫خود نیچے سے دھکے مارنےجاری رکھے۔ لن مسلسل میری چدائی کر رہا تھا اور‬
‫میری پھدی ایک بار پھر پانی چھورنے کو تیار تھی۔ میں نے عمران کو بتایا کہ میں‬
‫چھوٹنے والی ہوں تو عمران نے اپنے دھکو کی سپیڈ اور بھی بڑھا دی۔ اب پانی میں‬
‫چدائی کی وجہ سے پانی مسلسل ہل رہا تھا اور پانی کا اپنا ہی ایک شورتھا ‪ ،‬پانی کے‬
‫اس شور اور میری سیکس میں ڈوبی سسکیوں نے ماحول کو بہت ہی سیکسی بنا دیا‬
‫تھا کچھ ہی دھکوں کے بعد میری پھدی نے دوسری بار پانی چھوڑ دیا۔‬

‫اب کی بار عمران نے پھر اپنا لن باہر نکاال اور مجھے ڈوگی سٹائل میں آنے کو کہا۔ میں‬
‫نے اپنے دونوں بازو باتھ ٹب کے ساتھ بچھا لیے اور اپنی گانڈ اوپر اٹھا کر ڈوگی سٹائل‬
‫میں عمران کو چودائی کی دعوت دی۔ عمران میرے پیچھے سے آئے اور لن میری چوت‬
‫پر رکھ کر ایک ہی جھٹکے میں اند ر ڈال کر دھکے مارنے لگے۔ اس پوزیشن میں‬
‫مجھے تھوڑا درد بھی محسوس ہورہا تھا کیونکہ میری چوت تھوڑی ٹائٹ ہوگئی تھی‬
‫اور لن کی رگڑ زیادہ محسوس ہو رہی تھی۔ عمران کے جاندار دھکے جاری تھے اور‬
‫پانی کا ہلنا بھی عمران کے دھکوں کے ساتھ ساتھ بڑھتا جا رہا تھا۔ لذت اہستہ آہستہ‬
‫درد پر حاوی ہونے لگی تو میں نے بھی عمران کا ساتھ دینا شروع کیا۔ جب عمران لن‬
‫باہر کی طرف نکالتے تو میں اپنی گانڈ آگے کی طرف لے جاتی اور جب عمران نے‬
‫واپس لن چوت میں داخل کرنا ہوتا تو عمران کے دھکے کے ساتھ ہی میں اپنی گانڈ‬
‫عمران کی طرف لے جاتی جس سے لن اور بھی زیادہ شدت کے ساتھ میری چوت کو‬
‫چیرتا ہوا اندر تک جاتا۔ اب عمران نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے ‪ 34‬سائز کے‬
‫ممے اپنے ہاتھو میں زور سے پکڑ لیے اور میری چدائی اور بھی مزیدار ہونے لگی۔‬
‫وہ اپنی انگلیوں سے میرے نپل دبانے لگے اور دھکوں کی سپیڈ میں اضافہ ہوگیا یہ‬
‫اضافہ اتنا شدید تھا کہ میں سمجھ گئی عمران کا لن اب کی بار منی نکالنے لگا ہے‪ ،‬میں‬
‫نے عمران کو فورا لن باہر نکالنے کو کہا تاکہ منی میری چوت میں نا جا سکے۔ عمران‬
‫نے ہاں میں سر ہالیا اور دھکوں کی سپیڈ میں اور اضافہ کر دیا پھر ایک دم سے اپنا لن‬
‫باہر نکاال اور ہاتھ میں پکڑ کر خود ہی مٹھ مارنے لگے اور ساری منی میری گانڈ اور‬
‫چوتڑوں پر نکال دی۔ کچھ قطرے میری کمر تک بھی گئے۔ عمران نے چند جھٹکے‬
‫مارے اور اپنی ساری منی نکالنے کے بعد پر سکون ہوگئے مگر میرا پانی ابھی نہیں‬
‫نکال تھا اس لیے مجھے مزید چدائی کی ضرورت تھی میں نے ٹب میں اپنی گانڈ اور‬
‫کمر سے منی صاف کی اور عمران کو دوبارہ سے بیڈ روم میں چلنے کو کہا۔ عمران‬
‫مجھے اٹھا کر بیڈ روم میں لے گئے اور بیڈ پر لٹا کر میرے ساتھ لیٹ گئے اور میرے‬
‫نپل چاٹنا شروع کر دیا۔ میں نے فورا ہی عمران کا لن جو اب دوبارہ سے چھوٹا ہو چکا‬
‫تھا اپنے ہاتھ میں لیا اور اسکو پھدی کے ساتھ مال کر اندر ڈالنے کی کوشش کرنے لگی‬
‫کیونکہ میری پھدی ابھی جل رہی تھی۔ عمران نے کہا یہ ایسے نہیں جائے گا پہلے اسے‬
‫منہ میں لے کر کھڑا کرو پھر اپنی چوت کی پیاس بجھاو ا س سے میں نے یہ سنتے ہی‬
‫فورا عمران کو نیچے لٹایا اور خود انکے اور آکر لن منہ میں لیکر کسی قلفی کی طرح‬
‫چوسنے لگی۔ میرے منہ کی گرمی سے لن نے آہستہ آہستہ انگڑائی لینا شروع کی اور‬
‫‪ 2‬منٹ میں ہی دوبارہ سے کھڑا ہوکر چدائی کے لیے تیار ہوگیا۔ یہ دیکھتے ہی میں‬
‫فورا لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں پھیال کر عمران کو چودنے کی دعوت دی‪ ،‬عمران نے‬
‫میری دونوں ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھیں اور لن چوت میں ڈال کر فل سپیڈ میں‬
‫چدائی شروع کر دی۔ میں نے بھی گانڈ اٹھا کر عمران کا بھرپور ساتھ دینا شروع کر دیا۔‬
‫اس بار میرے دونوں ہاتھ اپنے مموں پر تھے اور میں ممے دبانے کے ساتھ ساتھ‬
‫بھرپور سسکیاں بھی نکال رہی تھی جس سے چدائی کا مزہ دوباال ہوگیا تھا۔ پھر عمران‬
‫نے اپنی پوزیسشن بدلی اور میری دونوں ٹانگیں نیچے بیڈ پر رکھ کر سیدھی بچھا دیں۔‬
‫میں اب بیڈ پر بالکل سیدھے لیٹی تھی اور ٹانگیی کھولنے کی بجائے لمبی پھیالئی ہوئی‬
‫تھیں۔ عمران بھی میرے اوپر لیٹ گئے سیدھے اور اپنا لن میری پھدی پر رکھ کر اپنا‬
‫وزن میرے اوپر ڈاال تو لن خود بخود پھدی میں چال گیا مگر میری چیخیں ایک بار پھر‬
‫کمرے میں گونجنے لگیں کیونکہ ٹانگیں ملی ہونے کی وجہ سے پھدی بالکل ٹائٹ‬
‫ہوگئی تھی اور اس میں عمران کا موٹا لن پھدی کی دیواروں سے مسلسل ٹکرا رہا تھا۔‬
‫عمرا ن میرے اوپر بالکل سیدھے لیٹے تھے اور اب صرف وہ اپنی گانڈ ہال کر‬
‫مجھےچودنے میں مصروف تھے۔ ‪ 2‬منٹ اسی پوزیشن میں چدائی کے بعد میرے جسم‬
‫میں سوئیاں سی چبھنے لگی اور میں نے عمران کو سپیڈ بڑھانے کا کہا‪ ،‬عمران نے‬
‫جیسے ہی اپنے دھکے پڑھائے میرے جسم نے جھٹکے کھانا شروع کیے اور پھدی نے‬
‫پانی چھوڑ دیا۔ اب عمران نے میرے اوپر سے اٹھ کر میری ٹانگیں اٹھا کر مزید چودنا‬
‫چاہا تو میں نے کہا کہ میں اب مزید چودائی نہیں کروا سکتی میری چوت کا برا حال ہو‬
‫چکا ہے۔ مگر عمران نے کہا کہ انہیں بھی ابھی فارغ ہونا ہے اور اگر وہ فارغ نہیں‬
‫ہوئے تو چین نہیں آئے گا۔‬
‫یہ سن کر میں عمران کے سامنے ڈوگی سٹائل میں بیٹھ گئی مگر اس بار عمران کے لن‬
‫کی طرف میری گانڈ کی بجائے میرا منہ تھا۔ میں نے عمران کا لن اپنے منہ میں لیا اور‬
‫اسکو لولی پاپ کی طرح اپنے ہونٹوں اور زبان سے چوسنے لگی۔ آہستہ آہستہ پورا لن‬
‫میرے منہ میں تھا اور اب عمران میرے منہ کی چدائی کر رہے تھے۔ میرا پورا منہ کھال‬
‫ہوا تھا اور عمران اس میں اپنے لن کے دھکے لگا رہے تھے میرے دانت ہلکے سے‬
‫عمران کے لن سے رگڑ کھا رہے تھے جس سے عمران کو کچھ تکلیف بھی ہورہی تھی‬
‫مگر عمران نے دھکوں کا سلسلہ جاری رکھا اور میں منہ کھولے عمران کو فارغ کرنے‬
‫میں مدد دیتی رہی۔ کچھ ہی دیر میں عمران کے لن میں تناو بڑھ گیا اور سپیڈ بھی بڑھ‬
‫گی‪ ٫‬پھر عمران ک لن نے ‪ 5 ،4‬جھٹکوں میں ہی اپنی منی میرے منہ میں چھوڑ دی‪،‬‬
‫اس بار میں پہلے سے تیار تھی جیسے ہی منی نکلی میں نے اسکو منہ سے باہر نکالنا‬
‫شروع کر دیا اور منہ میں جمع ہونے نہیں دی۔ ‪ 5‬جھٹکے مارنے کے بعد عمران کو‬
‫بھی سکون مل گیا۔ اور عمران نڈھال ہوکر بیڈ پر لیٹ گئے۔ جبکہ میں منہ دھونے واش‬
‫روم میں چلی گئی۔ اتنے میں عمران کو صائمہ کا فون آیا کہ مجھے لینے آجاو۔ عمران‬
‫نے کپڑے پہنے اور صائمہ کو لینے چلے گئے جب کہ میں نے بھی اپنے کپڑے الماری‬
‫میں رکھے اور دوسرے کپڑے نکال کر پہنے اور کھانا بنانے کے لیے کچن میں چلی‬
‫گئی۔ میرے لیے چلنا دشوار ہو رہا تھا کیوں کہ آج اپنی پہلی چدائی میں ہی میں اپنی‬
‫چوت کا برا حشر کروا بیٹھی تھی۔ لیکن میں خوش تھی کہ میری زندگی کی پہلی چدائی‬
‫مکلمل ہوچکی تھی۔ اور مجھے چودنے واال کوئی اور نہیں میرا اپنا بہنوئی تھا۔ اور میں‬
‫اب آدھی گھر والی سے پوری گھر والی بن چکی تھی۔‬
‫اب سب لوگ گھر واپس آ چکے تھے سب نے مل کر رات کا کھانا کھایا اور امی ابو‬
‫اپنے کمرے میں سونے کے لیے چلے گئے۔ بھائی ب ِھی اپنے کمرے میں چال گیا تیسرا‬
‫کمرہ میرا تھا۔ جب بھی صائمہ اور عمران بھائی ہمارے ہاں رہتے تھے ہم تینوں ایک ہی‬
‫کمرے میں سوتے تھے کیونکہ فیاض یعنی کہ میرا بھائی اپنے کمرے میں کسی کو‬
‫گھسنے کی اجازت نہیں دیتا تھا۔ صائمہ اور عمران بیڈ پر لیٹ گئے جب کہ میں بیڈ سے‬
‫نیچے چارپائی بچھا کر چار پائی پر لیٹ گئی۔ کمرے میں اے سی چل رہا تھا اور اچھی‬
‫ٹھنڈ تھی میں کھیس لے کر لیٹی ہوئی تھی کہ اچانک مجھے عمران کی ہلکی سی آواز‬
‫سنائی دی "جان کرنے دو نہ" میں نے کھیس سے تھوڑا سا منہ باہر نکال کر دیکھا تو‬
‫زیرو بلب کی روشنی میں عمران نے اپنی ایک ٹانگ صائمہ کے اوپر رکھی ہوئی تھی‬
‫اور اپنے ایک ہاتھ سے صائمہ کے ممے کو دبا رہے تھے۔ صائمہ نے سرگوشی کی کہ‬
‫مجھے ماہورای ہے کل تک صبر کر جاو کل میں اپنی چوت خود اپنی جان کے حوالے‬
‫کرونگی۔ مگر عمران نے کہا کہ میرا لن فل تناو میں ہے اور اسکو تم سکون نہیں دو‬
‫گی تو اور کون دے گا؟؟ صائمہ کی آواز آئی کہ فائزہ بھی کمرے میں موجود ہے وہ‬
‫دیکھ لے گی‪ ،‬عمران نے میری طرف دیکھا تو میں نے فورا اپنی آنکھیں بند کر لیں‬
‫جیسے میں سو چکی ہوں۔ عمران نے کہا وہ سو رہی ہے اور میں نے کونسا تمہیں‬
‫چودنا ہے کہ تمہاری آوازوں سے اسکی آنکھ کھلنے کا خدشہ ہو۔ میں نے ہلکی سی‬
‫آنکھ کھول کر دیکھا تو اب عمران کی ساری توجہ صائمہ کے مموں پر تھی ایک ہاتھ‬
‫سے ایک مما دبا رہے تھے تو دوسرے ممے پر اپنا چہر پھیر رہے تھے۔ یہ بھی بتاتی‬
‫چلوں کہ یہ سب کچھ کپڑوں کے اوپر سے ہی ہورہا تھا ۔‬
‫تب صائمہ نے اپنا جسم اپنی جان کے حوالے کر دیا جو ک اب میری بھی جان تھی۔‬
‫عمران نے ایک ہاتھ سے صائمہ کا مما اپنے ہاتھ میں لیا رکھا اور ساتھ ہی اپنے ہونٹ‬
‫صائمہ کے ہونٹوں سے لگا دیے۔ صائمہ بھی کسی ماہر عورت کی طرح عمران کے‬
‫ہونٹ چوسنے لگی‪ ٫‬دونوں کی زبانیں آپس میں ٹکرا رہی تھیں اور انکے چوسنے کی‬
‫ہلکی سی آواز میرے کانوں میں پہنچح کر مجھے بھی گرم کر رہی تھی۔ اب عمران نے‬
‫صائمہ کو اٹھا کر بٹھا دیا اور صائمہ کی قمیض اتارنے لگے۔ صائمہ نے بھی میری‬
‫طرف دیکھنا چاہا تو میں نے فورا اپنی آنکھیں بند کر لیں اور کچھ ہی دیر بعد جب‬
‫آنکھیں کھولی تو دونوں کے ہونٹ شہد کا مزہ لے رہے تھے اور زبانیں آپس میں ٹکرا‬
‫ٹکرا کر اپنی محبت کا اظہار کر رہے تھے صائمہ کی جسم سے قمیض غائب تھی اور‬
‫کالے رنگ کے بریزئیر میں سے اسکے گورے چٹے مموں کا ابھار نظر آرہا تحا۔ اب‬
‫عمران کے ہاتھ صائمہ کی کمر پر گئے اور برا کی ہک کھولنے لگے۔ اب صائمہ کے‬
‫‪ 38‬سائز کے بڑے بڑے ممے آزاد ہو چکے تھے اور عمران پاگلوں کی طرح صائمہ‬
‫کے ممے منہ میں لیکر چاٹ رہے تھے۔ صا ئمہ نے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھیں اور‬
‫مزے سے ہلکی ہلکی آوازیں اسکے منہ سے نکل رہی تھیں۔ یہ سب کچھ دیکھ کر میرا‬
‫ہاتھ بے اختیار کھیس میں سے سرکتا ہوا اپنی چوت تک چال گیا اور ‪ 2‬انگلیوں سے‬
‫میں اپنی چوت کو سہالنے لگی جو کہ پہلے سے ہی گیلی ہو چکی تھی۔‬
‫کچھ دیر بعد ہی صائمہ کا ہاتھ میں عمران کا لن تھا اور وہ اپنا ہاتھ شلوار کے اوپر سے‬
‫ہی عمران کے لن پر پھیر رہی تھی۔ عمران بدستور صائمہ کے ‪ 38‬سائز کے مموں کو‬
‫چوسنے میں مصروف تھے۔ صائمہ کی آنکھیں ابھی تک بند تھیں مموں سے فارغ ہوکر‬
‫عمران نے اپنی شلوار اتار دی اور اپنا ‪ 7‬انچ کا لن صائمہ کے ہاتھ میں پکڑا دیا اور‬
‫خود بیڈ پر لیٹ گئے۔ عمران کے پاووں کا رخ میری چارپائی کی طرف تھا۔ عمران دیوار‬
‫کے ساتھ تکیہ لگا کار اپنا سینہ تھوڑا اوپر اٹھا کر لیٹے تھے‪ ،‬صائمہ نے عمران کا لن‬
‫اپنے ہااتھ میں پکڑا اور اس پر اپنے ہونٹوں سے ایک بوسہ دیا۔ اور پیار سے بولی کہ‬
‫کل میں اپنے یار کے لن کی پیاس کو اپنی چوت کے پانی سے بجھا دوں گی اور ساتھ‬
‫ہی ٹوپی پر اپنی زبان پھیرنے لگی۔ صائمہ اب جھکی ہوئی تھی لن کے اوپر اور اسکے‬
‫‪ 38‬سائز کے ممے جھکے ہونے کی وجہ سے اور بھی بڑے لگ رہے تھے۔ صائمہ‬
‫نے پورا لن اپنی زبان سے گیال کر دیا تھا۔ صائمہ اپنی زبان لن کی جڑ سے پھیرت ہوئی‬
‫لن کی ٹوپی تک التی اور پھر ٹوپی منہ میں لے کار اپنے ہونٹ اس پر گول گول گھماتی‬
‫جس سے عمران کو بہت مزہ آرہا تھا۔ پھر صائمہ نے عمران کے ٹٹے اپنے منہ میں لے‬
‫کار انکو چاٹنا شروع کیا تو عمران ک جسم میں ہلکے ہلکے جھٹکے لگنے لگے‬
‫جیسے انہیں مزہ آرہا ہو۔ میری انگلیاں بھی مسسلسل پھدی کا مساج کر رہی تھی اور‬
‫میری نظریں لن پر تھیں جو کبھی صائمہ کے منہ میں ہوتا تو کبھی صائمہ اس پر اپنے‬
‫منہ سے تھوک پھینک کر دونوں ہاتھوں سے لن کا مساج کرتی۔ اتنے میں عمران کی‬
‫نظر مجھ پر پڑی اور ہماری نظریں ایک دوسرے سے ٹکرائیں اور عمران ایک دم‬
‫چونک گئے۔ صائمہ نے لن منہ سے باہر نکال کر پوچھا کیا ہوا تو عمران نے گھبرائی‬
‫ہوئی آواز میں کہا نہیں کچھ نہیں جان بہت مزہ آرہا ہے۔ یہ سن کر صائمہ نے دوبارہ‬
‫سے لن اپنے منہ میں لیا اور قلفی سمجھ کر چوسنے لگی۔ میں نے عمران کو آنکھ‬
‫ماری اور اشارہ دیا کے شو جاری رکھو مزے کا ہے۔ اور اپنے ہونٹوں سے کس کرنے‬
‫کا اشارہ کیا۔ یہ دیکھ کر عمران ریلیکس ہوگئے اور دوبارہ سے اپنی توجہ اپنے لن کی‬
‫طرف کر لی جو اس وقت صائمہ کے منہ میں تھا جو کسی ماہر کی طرح لن کا چوپا لگا‬
‫رہی تھی۔ صائمہ کی مہارت سے پتا لگ رہا تھا کو وہ اکثر عمران کے لن کا چوپا لگاتی‬
‫رہتی ہے اور عمران کو اپنے چوپوں سے سکون پہنچاتی ہے۔‬
‫صائمہ کے چوپے جاری تھے کہ عمران نے بڑے پیار سے صائمہ کو اپنی بانہوں میں‬
‫لیا اور اپنے لہجے میں پیار بھر کے کہا کہ آج تو اپنی جان کو اپنی گانڈ مارنے کی‬
‫اجازت دے دو۔ تمہاری چوت تو آج مجھے نہیں مل سکتی مگر اپنی گانڈ آج میرے‬
‫حوالے کر دو میں بہت پیار سے اپنی جان کی گانڈ ماروں گا۔ صائمہ نے صاف انکار کر‬
‫دیا کہ میں کبھی گانڈ کی چدائی نہیں کروا سکتی۔ عمران نے کہا کہ اگر تم مجھے اپنی‬
‫گانڈ چودنے کی اجازت دو گی تو میں تمہاری چوت کو اپنی زبان سے بھی چاٹوں گا اور‬
‫تمہاری چوت کا شربت اپنی زبان سے نکلوا کار پیوں گا۔ صائمہ نے کہا آپ بھلے میری‬
‫چوت نا چاٹیں مگر میں اپنی گانڈ آپکو نہیں دے سکتی کیونکہ یہ گناہ ہے اور اس سے‬
‫نکاح ٹوٹ جاتا ہے۔ آپ نے مجھے جیسے چودنا ہے جتنی بار چودنا ہیے آپ چودیں‬
‫مگر گانڈ میں نہیں دے سکتی۔ یہ کہ کر صائمہ دوبارہ کسی ماہر کی طرح عمران کے لن‬
‫کے چوپے لگانے لگی۔ لن پر تھوک پھینکا اسکو اپنے ہاتھوں سے لن پر مسل کر‬
‫مساج کیا اور دوبارہ سے لن منہ میں لیکر عمران کو مزہ دینے لگی۔ صائمہ کے ممے‬
‫لٹک رہے تھے اور لن کے بالکل قیرب تھے اور چوپے لگانے کی ہلکی ہلکی آوازوں‬
‫نے میری پھدی کا برا حال کیا ہوا تھا۔ مموں کو لن کے قریب دیکھ کر مجھے انگریزی‬
‫فلموں کا وہ سین یاد آگیا جسمیں مموں کی بھی چدائی کی جاتی ہے اور اپنا لن مموں‬
‫کے درمیان پھیر کر مزہ لیا جاتا ہے۔ جیسے ہی میرے ذہن میں یہ سین آیا میں نے اپنا‬
‫کھیس تھوڑا اور نیچے کیا اور عمران کو اشارہ کار ک متوجہ کیا اپنی طرف‪ ،‬صائمہ‬
‫چوپا لگانے میں مصورف تھی جب عمران نے میری طرف دیکھا تو میں نے اپنی بڑی‬
‫انگلی باہر نکال کر اپنے مموں کی الئن کے درمیان پھیر کر دکھائی اور یہ اشارہ دیا کہ‬
‫صائمہ کے مموں کی چدائی کرو۔ عمران میرا اشارہ سمجھ گئے اور صائمہ کو بیٹھنے‬
‫کو کہا۔ صائمہ گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی تو اسکے سامنے عمران بھی آکر بیٹھ گئے اور‬
‫اسکو دونوں ہاتھوں سے اپنے ممے پکڑ کر آپس میں مالنے کو کہا۔ صائمہ نے ایسے‬
‫ہی کیا اور عمران نے مموں کے نیچے سے اپنا ‪ 7‬انچ کا لن داخل کیا جو ‪ 38‬سائز کے‬
‫مموں ک اندر چھپ گیا اور اوپر سے ہلکی سی ٹوپی نکلتی ہوتئ دکھائی دی ۔ یہ دیکھ‬
‫کر صائمہ ہنس دی اور کہا کہ یہ خیال تمہیں کہاں سے آگیا۔ عمران بولے کہ بس آج میں‬
‫اپنی جان کے مموں کی چدائی کرنا چاہتا ہوں۔ یہ سن کر صائمہ خوش ہوئی اور بولی‬
‫میرے ممے حاضر ہیں اور نیچے سے اپنے مموں کی کلیوج میں سے لن کو اوپر نیچے‬
‫ہوتا دیکھنے لگی۔ صائمہ نے دونوں ہاتھوں سے اپنے ممے آپس میں مال کر دبائے‬
‫ہوئے تھے۔ اور عمران انکی چدائی میں مصروف تھے۔ کچھ ہی دیر بعد عمران نے اپنا‬
‫لن دوبارہ سے صائمہ کے منہ میں ڈال دیا اور صائمہ نے چوپے لگانے شروع کر دی۔‬
‫پھر عمران نے صائمہ کو بیڈ پر لٹایا اور صائمہ کا سر اس بار میری چارپائی کی طرف‬
‫تھا اس لیے وہ مجھے نہیں دیکھ سکتی تھی۔ پھر عمران صائمہ کے پیٹ کے اوپر آکر‬
‫بیٹح گئے مگر وزن نہیں ڈاال اور اپنا لن صائمہ کے مموں کے درمیان پھیرنے لگے۔‬
‫صائمہ نے ایک بار پھر اپنے ہاتھوں سے دونوں مموں کو آپس میں مال کر لن کا راستہ‬
‫تنگ کر دیا جس سے عمران کو مزہ آنے لگا۔‬
‫اب صائمہ لیٹی ہوئی تھی اور عمران اسکے اوپر بیٹحے اسکے مموں کو چود رہے‬
‫تھے۔ میری انگلیوں کی رفتار کافی بڑھ چکی تھی اور اب میں اپنی انگلی شلوار میں ڈال‬
‫کر پھدی میں داخل کر چکی تھی اور اپنی ہی انگلی سے اپنی پھدی کی چدائی کرنے میں‬
‫مصروف تھی۔ عمران بیچ بیچ میں میری طرف دیکھ کر مسکرا بھی دیتے اور ساتھ‬
‫ساتھ مموں کی چدائی کی سپیڈ میں اضافہ کر دیا۔ میری چوت بھی اب اپنی منزل کو‬
‫پہنچنے ہی والی تھی اس لیے میں نے بھی اپنی رفتار تیز کردی اور کچھ ہی دیر میں‬
‫میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔ اور مجھے سکون مال۔ اب صائمہ کے ممے عمران کے‬
‫لن کی طوفانی رفتار سے چدائی کروا رہے تھے اچانک عمران ک جسم نے جھٹکے‬
‫مارنا شروع کیے اور مموں کے درمیان میں ہی لن نے اپنی منی نکال دی۔ لن کی منی‬
‫نے صائمہ کا سینہ بھر دیا تھا اور کچھ قطرے صائمہ کے چہرے پر بھی گرے جب کے‬
‫چند ایک چھوٹے قطرے میرے چہرے تک بھی پہچ گئے جنکو میں نے لیٹے َ‬
‫لیٹ ہی‬
‫اپنے منہ سے صاف کر لیا۔ مگر مموں کی ان چدائی کے بعد صائمہ اپنا جسم صاف‬
‫کرنے واش روم چلی گئی اور میں نے عمران کی طرف دیکھ کر ایک پیاری سی چمی‬
‫دی اور اپنا منہ کھیس میں کر کے سوگئی۔‬
‫عمران اور صائمہ کو سیکس کرتا دیکھ کر میری چوت میں آگ لگ گئی تھی اور میں‬
‫مزید اپنے بہنوئی سے اپنی چوت کی آگ بجھوانا چاہتی تھی۔ اور یہ آگ عمران کے ‪7‬‬
‫انچ لن سے نکلنے والی منی ہی بجھا سکتی تھی۔ اگلے دن صائمہ کی ماہواری ختم ہو‬
‫چکی تھی اور اس نے غسل بھی کر لیا تھا۔ میں نے بھی موقع دیکھ کر عمران کو کہ دیا‬
‫کہ آج رات صائمہ کو میری موجودگی میں ہی چودے میں اپنی بہن کی چودائی کو اپنی‬
‫آنکھوں سے دیکھنا چاہتی تھی۔ عمران نے بھی کہا کہ وہ کو شش کریں گے۔ سارا دن‬
‫گزر گیا‪ ،‬رات کے کھانے کے بعد سب لوگ اپنے اپنے کمرے میں چلے گئے‪ ،‬میں‬
‫صائمہ اور عمران بھی ہمارے کمرے میں آگئے۔ میں نے شام سے ہی صائمہ کہ کہنا‬
‫شروع کر دیا کہ آج تو مجھے بہت نیند آرہی ہے میں کمرے میں جاتے ہی سوجاوں گی۔‬
‫اسکی وجہ یہی تھی کہ اسکو یقین آجائے کہ فائزہ سو چکی ہے اور وہ سکون کے‬
‫ساتھ اپنے شوہر سے اپنی چدائی کروا سکے۔‬

‫کمرے میں جاتے ہی میں اپنی چارپائی پر لیٹ گئی اور سونے کی ایکٹنگ کرنے لگی۔‬
‫اتنے میں عمران نے صائمہ کو اپنے پاس آنے کو کہا تو صائمہ بولی پہلے فائزہ کو‬
‫سونے دو۔ عمران نے کہا تم اپنے بیگ سے اپنی پنک کلر کی نائٹی نکالو اور وہ پہن کر‬
‫آو تب تک فائزہ بھی گہری نیند سوجائے گی۔ صائمہ نے ایسے ہی کیا اور بیگ سے‬
‫نائٹی نکال کر واش روم چلی گئی اسکے واش روم جاتے ہی میں نے عمران کو کہا کہ‬
‫الئٹ بند نہ کرنا میں سارا سین اچھے طریقے سے دیکھنا چاہتی ہوں۔ جیسے ہی واش‬
‫روم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی میں نے دوبارہ سے اپنی آنکھیں بند کی اور بازو‬
‫آنکھوں کے اوپر رکھ لیا تاکہ چپکے چپکے ان دونوں کو دیکھ سکوں۔ میں بازو کے‬
‫نیچے سے دیکھ رہی تھی صائمہ نے پنک کلر کی شارٹ نائٹی پہنی ہوئی تھی جو مشکل‬
‫سے اسکی پینٹی کو چھپا رہی تھی۔ گہرے گلے والی نائٹ سے صائمہ کے ‪ 38‬سائز‬
‫کے مموں کا ابھار واضح دکھائی دے رہا تھا اور نائٹی میں سے صائمہ کے نپل بھی‬
‫ابھرے ہوئے نظر آرہے تھے‪ ،‬شائد اسنے برا نہیں پہنا ہوا تھا۔ صائمہ الئٹ بند کرنے‬
‫لگی تو عمران نے روک دیا کہ پہلے مجھے دل بھر کر اپنی جان کو دیکھنے تو دو۔ یہ‬
‫سن کر صائمہ عمران کی گود میں جا کر بیٹھ گئی جوٹانگیں پھیالئے تقریبا لیٹنے والی‬
‫پوزیشن میں تھے صائمہ کا منہ دوسری طرف تھا تو میں نے اپنی آنکھیں پوری کھول‬
‫دیں۔ صائمہ کی نائٹی بہت سیکسی تھی پیچھے سے آدھی کمر ننگی تھی۔ گوری چٹی‬
‫اور بھر ی بھری کمر پنک نائٹی میں بہت ہی سیکسی لگ رہی تھی ۔ اور نائٹی شارٹ‬
‫ہونے کی وجہ سے اب نیچے سے صائمہ کی پینٹی بھی واضح نظر آرہی تھی۔ صائمہ‬
‫نے جی سٹرنگ پینٹی پہن رکھی تھی جو پیچھے سے انتہائی باریک ہوتی ہے اور کپڑا‬
‫نہ ہونے کے برابر ہوتا ہے۔ پیچھے سے دونوں چوتڑ ننگے تھے پینٹی صرف گانڈ والی‬
‫الئن کو چھپا رہی تھی۔ اپنی بہن کو اس نائٹ میں دیکھ کو مجھے خود بھی اپنی سیکسی‬
‫بہن پر پیار آنے لگ گیا۔‬
‫اب عمران اور صائمہ پاگلوں کی طرح کسنگ کرنے میں مصروف تھے‪ ،‬صائمہ بدستور‬
‫عمران کی گود میں بیٹھی ہوئی تھی۔ عمران کا ایک ہاتھ صائمہ کی ننگی کمر پر تھا تو‬
‫دوسرے ہاتھ سے صائمہ کے چوتڑ دپا رہے تھے ۔ کسنگ کرتے کرتے عمران صائمہ‬
‫کی گردن پر آئے اور صائمہ کی گردن پر وحشی درندے کی طرح پیار کرنے لگے۔ یہ‬
‫پیار ہونٹوں سے کم اور دانتوں سے زیادہ تھا‪ ،‬صائمہ کی اف ف ف ف ف ف‪ ،،‬آہ آہ آہ‬
‫آہ آہ ‪ ،‬ام ام ام م م م م م کی آوازیں نکل رہی تھیں۔ اب عمران صائمہ کے کندھوں پر‬
‫اپنے ہونٹوں اور زبان سے پیار کرنے میں مصروف تھے اور اس پوزیشن میں عمران‬
‫اور میں ایک دوسرے کو دیکھ سکتے تھے مگر صائمہ مجھنے نہیں دیکھ سکتی تھی‬
‫کیونکہ اسکا منہ دوسری طرف تھا۔ عمران کے دونوں ہاتھ صائمہ کی کمر پر تھے جن‬
‫سے وہ صائمہ کی شارٹ نائٹی کو اوپر اٹھا چکے تھے اور میرے سامنے صائمہ کی‬
‫ننگی کمر موجود تھی اور پینٹی بھی اب بالکل واضح طور پر دیکھی جا سکتی تھی۔‬
‫دونوں ایک دوسرے کو پیار کرنے میں مصروف تھے کہ اچانک صائمہ نے عمران کی‬
‫شرٹ کے بٹن کھولنا شروع کیے اور فورا ہی شرٹ اتار دی۔ اور عمران کے سینے پر‬
‫پیار کرنے لگی۔ سینے پر پیار کرتے کرتے اس نے عمران کے نپلز پر بھی پیار کرنا‬
‫شروع کر دیا جس سے عمران کو مزہ آنے لگا جو میں واضح طور پر عمران کے‬
‫چہرے پر دیکھ سکتی تھی۔ صائمہ اپنی زبان گول گول عمران کے نپل پر گھماتی تو‬
‫کبھی جلدی جلدی نپل کے اوپر پھیرتی۔ پھر صائمہ نے نپل پر اپنے دانت بھی گاڑھ دیے۔‬
‫جس سے عمران کی بھی ہلکی ہلکی آوازیں نکلنے لگیں جن سے اندازہ ہو سکتا تھا کہ‬
‫عمران مزے میں ہے۔ اب صائمہ نیچے پیٹ تک آئی ‪ ،‬عمران اپنے گھٹنوں کے بل‬
‫بیٹھے ہوئے تھے اور صائمہ اب انکے سامنے ڈوگی سٹائل میں بیٹھی تھی۔ صائمہ کی‬
‫گانڈ میری طرف تھی‪ ،‬صائمہ نے فورا عمران کی پینٹ اتاری ‪ ،‬جیسے ہی پینٹ اتری‬
‫عمران کا ‪ 7‬انچ کا لن پھنکارتا ہوا باہر نکال اور بالکل سیدھا کھڑا ہوگیا۔ صائمہ نے‬
‫فورا لن اپنے ہاتھ میں پکڑا اور اسکی ٹوپی پر اپنے ہونٹ رکھ دیے۔ اب صائمہ لن کی‬
‫ٹوپی پر اپنی زبان گول گول گھما رہی تھی اب عمران لیٹ گئے اور صائمہ بدستور ڈوگی‬
‫سٹائل میں عمران کے لن کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ صائمہ کی موٹی گانڈ جی سٹرنگ‬
‫پینٹی میں میری طرف تھی اور اب صائمہ عمران کے ٹٹوں سے بھی کھیل رہی تھی ایک‬
‫ہاتھ سے عمران کے ٹٹے سہال رہی ت ِھ تو دوسرے ہاتھ سے لن پکڑ کر منہ میں ڈاال ہوا‬
‫تھا۔ اپنے ہونٹوں اور زبان کی مدد سے صائمہ بہت ہی مہارت کے ساتھ عمران کے لن‬
‫کا چوپا لگا رہی تھی۔ وہ ‪ 5‬انچ لن اپنے منہ میں لیتی اور باقی کے لن کو ہاتھ سے پکڑ‬
‫کر اسکی مٹھ مارنے لگتی ۔ پھر لن کو اپنے منہ میں اندر باہر کرتی جس سے عمران‬
‫کو مزہ آرہا تھا۔ صائمہ کے چوپوں سے ہلکی ہلکی آواز بھی کمرے میں گونج رہی تھی۔‬
‫اب عمران کے ٹٹے صائمہ کے منہ میں تھے۔ صائمہ کبھی عمران کے ٹٹے چوستی تو‬
‫کبھی اپنی زبان کو عمران کی ٹانگوں پر پھیرتی۔ پھر عمران اٹھے اور صائمہ بھی‬
‫گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی‪ ،‬عمران نے صائمہ کی نائٹی اتاری اور فورا ہی صائمہ کے‬
‫مموں پر جھک کر دودھ پینے لگے۔‬
‫صائمہ کے ‪ 38‬سائز کے ممے عمران کے ہاتھ میں تھے اور نپل عمران کے منہ میں۔‬
‫عمران کی زبان تیز تیز صائمہ کے نپلز کا مساج کر رہی تھی اور ایک ہاتھ سے عمران‬
‫نے صائمہ کی پینٹی اتار کر صائمہ کے چوتڑ بھی دبانا شروع کر دیے تھی۔ میرا ہاتھ‬
‫میری شلوار سے ہوتا ہوا میری چوت کے دانے پر تھا اور میری چوت مکمل گیلی تھی۔‬
‫ادھر عمران کی انگلی بھی اب صائمہ کی پھدی کی چدائی میں مصروف تھی اور صائمہ‬
‫شدت جزبات سے ام م م م م م م م ‪ ،‬آہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ہ ‪ ،‬اف ف ف ف ف ف ف ف ف‬
‫میری جان عمران یہ کیا کر رہے ہو؟؟ اپنی صائمہ کو بہت شدت سے چودو آج‪ ،‬بہت مزہ‬
‫آرہا ہے میری جان‪ ،‬اب مزید نا تڑپاو اپنا لوڑا اب میری پھدی کے حوالے کر دو۔ اب‬
‫عمران نے صائمہ کو اس طرح لٹایا کہ اکسا سر میری طرف تھا اور وہ سیدھا چھت کی‬
‫طرف دیکھ سکتی تھی مگر میں نے احتیاط کے طور پر دوبارہ سے اپنی آنکھوں پر‬
‫بازو رکھ لیا تھا تا کہ اگر صائمہ چدائی کے دوران گردن ہالتے ہوئے میری طرف‬
‫دیکھتی ہے تو اسے پتا نہ لگے کہ اسکی بہن اسکی چدائی الئیو دیکھ رہی ہے۔‬
‫اب عمران نے صائمہ کی دونوں ٹانگوں کو کھوال اور درمیان میں بیٹھ کر اپنا لن صائمہ‬
‫کی چوت پر سیٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں پورا ‪ 7‬انچ کا لن صائمہ کی پھدی میں‬
‫تھا۔ صائمہ نے یہ جھٹکا بڑے آرام سے برداشت کر لیا اور ہلکی سی آواز اسکے منہ‬
‫سے نکلی‪ ،‬کیونکہ وہ مسلسل ‪ 5‬مہنیے سے اسی لن سے اپنی چدائی کرواتی تھی۔‬
‫اسکی شادی کو ‪ 5‬مہینے ہو چکے تھے مگر وہ ابھی تک کنڈوم کا استعمال کرتے تھے‬
‫یا پھر منی پھدی سے باہر نکالتے تھے تاکہ بچہ نہ ہونے پائے۔ اب عمران صائمہ کے‬
‫اوپر لیٹے ہوئے تھے اور لن مسلسل صائمہ کی چوت کی چدائی کرنے میں مصروف‬
‫تھا‪ ،‬عمران نے ایک ہاتھ سے صائمہ کو سر سے پکڑ کر اپنے سینے کے ساتھ چپکایا‬
‫ہوا تھا۔ میری چارپائی بالکل نزدیک ہی تھی دوسرا ہاتھ لمبا کر کے عمران نے میرا ایک‬
‫ممہ اپنے ہاتھ میں لے لیا اور اسے بھی دبانے لگے۔ ساتھ ساتھ عمران کے چودنے کی‬
‫سپیڈ بھی بڑھتی جا رہی تھی۔ اور میری پھدی ایک بار انگلی کی چدائی سے پانی چھوڑ‬
‫چکی تھی۔ اتنے میں صائمہ کے جسم میں بھی تناو پیدا ہوا اور وہ زور زور سے آوازیں‬
‫نکالنے لگی عمران میری جان اور زور سے چودو‪ ،‬پورا لن ڈال دو اپنی صائمہ کی چوت‬
‫میں یہ سنتے ہی عمران نے اپنے دھکوں کی رفتار اور تیز کر دی اور صائمہ کی آوازیں‬
‫کمریں میں گونجنے لگی اور ایک زور دار آواز کے ساتھ ہی صائمہ کی چوت نے پانی‬
‫چھوڑ دیا تھا۔‬
‫اب کی بار صائمہ نے عمران کو لیٹنے کو کہا اور عمران کو اسطرح لٹایا کے اب عمران‬
‫کا سر میری طرف تھا اور صائمہ فورا ہی عمران کے لن کے اوپر سوار ہوگئی‪ ،‬اس‬
‫پوزیسشن میں صائمہ کا منہ میری طرف تھا اس لیے مجھے دوبارہ سے اپنی آنکھوں‬
‫پر بازو رکھنا پڑا کیونکہ اب صائمہ مجھے بالکل واضح دیکھ سکتی تھی اور مجھے‬
‫محسوس ہورا تھا کہ صائمہ کی نظریں مجھ پر ہی ہیں۔ وہ آہستہ آہستہ عمران کے لن‬
‫کی سواری کر رہی تھی۔ میں یہ نظارہ دیکھنا چاہتی تھی مگر ڈر لگ رہا تھا کہ کہیں‬
‫صائمہ مجھے دیکھ نہ لےء۔ اسی دوران صائمہ کی آوازیں آنا شروع ہوئیں کیونکہ‬
‫عمران نے نیچے سے اپنے لن کی سپیڈ میں اضافہ کر دیا تھا‪ ،‬میں نے ہلکا سا بازو‬
‫اٹھا کر دیکھا تو صائمہ نے ہلکی سے اپنی گانڈ اوپر اٹھائی ہوئی تھی اور اسکی آنکھیں‬
‫اب بند تھی اور وہ چدائی کا مزہ لینے میں مصروف تھی ۔ عمران کا لن واضح طور پر‬
‫صائمہ کی پھدی میں جاتا ہو دکھائی دے رہا تھا۔ اور صائمہ کے بڑے بڑے ممے ہلتے‬
‫ہوئے بہت ہی خوبصورت نظارہ دے رہے تھے۔ صائمہ آنکھیں بند کیا چدوانے میں‬
‫مصورف تھی اور میں اس چدائی کا فل مزہ لے رہی تھی۔‬
‫اب عمران نے سٹائل چینج کرنا چاہا اور صائمہ کو ڈوگی سٹائل میں بیٹھنے کو کہا۔‬
‫صائمہ ڈوگی سٹائیل میں بیٹھ گئی اور اب کی بار اسکی گانڈ میری طرف تھی میں بہت‬
‫ہی سکون کے ساتھ اسکو چدتے ہوئے دیکھ سکتی تھی‪ ،‬عمران صائمہ کے پیچھے کی‬
‫طرف آئے اور لن چوت میں ایک ہی جھٹکے میں داخل کر دیا۔ عمران نے ایک ٹانگ‬
‫اٹھائی ہوئی تھی اپنی یعنی پاوں بیڈ پر تھا اور ٹانگ دہری تھی اور دوسری ٹانگ سے‬
‫گھٹنے کے بل بیٹھ کر میری بہن کو ڈوگی سٹائل میں چودنے میں مصورف تھے۔ صائمہ‬
‫بھی اپنا سر جھکائے چدائی میں عمران کا پورا ساتھ دے رہی تھی اور اسکی آوازیں‬
‫میرے کانوں میں رس گھول رہی تھیں۔ عمران نے صائمہ کو اپنی پھدی ٹائٹ کرنے کو‬
‫کہا تو صائمہ نے اپنی پھدی ٹائٹ کر لی دبا کر اور عمران کا لن اب ایک بار تو پھنسا‬
‫مگر پھر عمران کے طوفانی دھکے شروع ہوگئے اور صائمہ کی چیخوں میں اضافہ‬
‫ہونے لگا۔ عمران نے کہا کہ میں بس فارغ ہونے واال ہوں تو صائمہ بولی اند مت نکالنا‬
‫کنڈوم نہیں ہے آج۔ لیکن عمران نے طوفانی رفتار کو اور زیادہ بڑھا کر صائمہ کی چدائی‬
‫جاری رکھی اتنے میں صائمہ کے جسم میں بھی کھچاو پیدا ہوا اور اسکی چیخیں اور‬
‫بلند ہونے لگیں اور ساتھ ہی اسکی چوت نے دوسری بار پانی چھوڑ دیا اب وہ کھڑی‬
‫ہونے لگی کہ عمران بھی اپنی منی چوت سے باہر نکال دیں مگر عمران نے ایسا نا‬
‫کرنے دیا اور دھکے جاری رکھے اچانک ہی عمران کے جسم نے ‪ 5 ،4‬دھکے مارے‬
‫اور ساری منی صائمہ کی پھدی کے اندر ہی چھوڑ دی۔‬
‫اب دونوں ایک دوسرے کے اوپر لیٹے ہوئے تھے اور انکے جسم بے جان تھے۔ اور‬
‫عمران صائمہ کہ کہ رہے تھے کہ اب انہیں بچے کی خواہش ہے لہزا آج سے وہ اپنی‬
‫منی صائمہ کی پھدی کے اندر ہی نکاال کریں گے ‪ ،‬صائمہ نے بھی اس بات پر کوئی‬
‫اعتراض نہیں کیا۔ اور دونوں اکٹھے ایک ہی کھیس میں لیٹ کر باتیں کرنے لگے ۔ اتنے‬
‫میں مں نے بھی انہیں یہ محسوس کروایا کہ میں نیند سے اٹھنے لگی ہوں مجھے ہلتا‬
‫دیکھ کر صائمہ فورا ہی سیدھی ہوگئی اور کھیس اور بھی اپنے اوپر کھینچ لیا۔ میں نے‬
‫اپنی آنکھیں کھولیں اور اٹھ کر بیٹھ گئی اور آنکھیں مسلنے لگی جیسے میں ابھی ابھی‬
‫نیند سے بیدار ہوئی ہوں ۔ پھر میں نے ان دونوں کی طرف مسکرا کر دیکھا اور چارپائی‬
‫سے نیچے اتر آئی اور صائمہ کو کہا مجھے بھوک لگی ہے میں کچن میں جا رہی ہوں‬
‫تم بھی آجاو۔ مگر وہ ابھی تک ننگی لیٹی ہوئی تھی اس لیے اس نے جھجکتے ہوئے‬
‫انکار کیا اور کہا تم چلی جاو اور ہم دونوں کے لیے بھی دودھ لے آو۔ عمران نے کہا کہ‬
‫میرا دودھ کا گالس گرم کر کے النا جب کہ صائمہ نے نیم گرم دودھ کا کہا۔ اتنے میں‬
‫میری نظر صائمہ کے ساتھ پڑی ہوئی نائٹی پر پڑی اور صائمہ کو ب ِھ پتا لگ گیا کہ میں‬
‫اسکی نائٹی دیکھ رہی ہوں‪ ،‬میں نے اسکو ہلکی سی آنکھ ماری اور حیران ہونے والی‬
‫نظروں سے دیکھا کہ یہ کیا فلم ہے؟ وہ ہلکی سی مسکرائی اور منہ نیچے کر لیا اور‬
‫میں کچن میں چلی گئی۔‬
‫عمران کا گرم دودھ کا گالس اور صائمہ کا نیم گرم دودھ کا گالس ٹرے میں رکھنے کے‬
‫بعد ایک گالس میں نے بھی اپنے لیے رکھا اور صائمہ کے نیم گرم دودھ میں نیند کی‬
‫آدھی گولی مال دی جو آج ہی عمران نے مجھے ال کر دی تھی کے صائمہ کی چدائی کے‬
‫بعد کسی طرح یہ گولی اسکو کھال دینا۔ جب میں دودھ کمرے میں الئی تو صائمہ کی‬
‫نائٹی غائب تھی اور وہ اپنے کپڑے پن چکی تھی مگر عمران شاید ابھی تک ویسے ہی‬
‫لیٹے تھے کیونکہ وہ کھیس میں ہی تھے۔ میں نے پہلے دودھ کا گالس صائمہ کو پکڑایا‬
‫پھر عمران کو اور پھر اپنی چارپائی پر بیٹھ کر خود بھی دودھ پینے لگی۔ سب نے اپنا‬
‫اپنا گالس ختم کیا تو ‪ 5‬منٹ بعد ہی صائمہ پر غنودگی چھانے لگی اور وہ بیڈ پر ہی‬
‫گہری نیند سوگئی۔ جب مجھے یقین ہوگیا کہ صائمہ سوگئی ہے تو میں نے فورا اپنے‬
‫کپڑے اتارے اور عمران کے پاس جا کر انکے اوپر لیٹ گئی اور انکو کسنگ کرنے‬
‫لگی۔ نیچے سے مجھے اپنی چوت پر عمران کے لن کا دباو محسوس ہوا جو مجھے‬
‫ننگا دیکھ کر دوبارہ سے کھڑا ہو چکا تھا۔ اب ہمارے پاس چدائی کے لیے محض ایک‬
‫گھنٹہ ہی بچا تھا کیونکہ آدھی رات کا ٹائم تھا اور ‪ 4‬بج چکے تھے اور ہمارے گھر میں‬
‫‪ 5‬بجے تک امی ابو اٹھ جاتے تھے۔ لہزا تھوڑی سی ہی کسنگ کے بعد عمران نے‬
‫فوران اپنا کھیس ہٹایا اور اپنا لن مجھے چوسنے کے لیے دے دیا جسکو میں نے بہت‬
‫ہی پیار کے ساتھ چوپا لگانا شروع کیا۔ صائمہ کو میں چوپا لگاتے دیکھ چکی تھی جو‬
‫اس کام میں کافی مہارت رکھتی تھی لہزا اب میں اسکا طریقہ استعمال کرتے ہوئے‬
‫عمران کے لن کا چوپا لگا رہی تھی جس سے عمران کو بہت مزہ آرہا تھا میں عمران‬
‫کو پورا لن اپنے منہ میں لینے کی کوشش کر رہی تھی مگر مجھے ناکامی ہوئی اور‬
‫تھوڑا سے پھر بھی باہر رہ گیا۔‬
‫اب عمران نے مجھے اٹھا کر اپنے لن پر بیٹھنے کو کہا میں فورا ہی عمران کے اوپر‬
‫آئی اور ہاتھ سے لن کو اپنی چوت کے سوراخ پر سیٹ کر کے اس پر بیٹھنے کی‬
‫کوشش کرنے لگی جس سے مجھے بہت تکلیف ہوئی کیونکہ صرف ایک دن پہلے ہی‬
‫میری کنواری پھدی کی چدائی ہوئی تھی اور وہ ابھی بھی بہت ٹائٹ تھی۔ تھوڑی سی‬
‫کوشش کے بعد میں آدھا لن اپنے اندر لینے میں کامیاب ہوئی تو باقی کا آدھا لن ایک ہی‬
‫ظالم جھٹکے سے عمران نے میری پھدی میں ڈال دیا اور میری ایک زوردار چیخ نکل‬
‫گئی اور میں نے فورا صائمہ کی طرف دیکھا جو ساتھ ہی لیٹی تھی۔ مگر وہ بہت گہری‬
‫نیند میں تھی۔ شروع میں ہلکے ہلکے دھکوں کے بعد عمران نے اپنے دھکوں کی رفتار‬
‫میں اضافہ کیا تو مجھنے بھی مزہ آنے لگا اور میں نے بھی اپنی گانڈ ہال کر عمران کا‬
‫ساتھ دینا شروع کیا۔ ‪ 7‬انچ کا لن میری چوت کی سیر کر کرہا تھا جو کسی آگ کی بھٹی‬
‫کی طرح گرم تھی اور میرے منہ سے سسکاریاں نکل رہی تھیں جو عمران کو پاگل کر‬
‫رہی تھیں۔ عمران نے مجھے اپنی طرف کھینچا اور مجھے اپنے اوپر لٹا لیا۔ میں نے‬
‫اپنی گانڈی تھوڑی سے اوپر اٹھائی تو نیچے سے عمران کے لن نے اپنی سپیڈ میں بے‬
‫پناہ اضافہ کر دیا اور مجھے بنا رکے چودنے لگا۔ میں بھی مزے کی بلندیوں پر تھی اور‬
‫اپر سے اب عمران نے میر ے ‪ 34‬سائز کے ٹائٹ اور گول ممے اپنے منہ میں لے لیے‬
‫تھے۔ وہ انکو بہت ہی شدت کے ساتھ چوس رہے تھے اور نیچے سے مسلسل چدائی‬
‫جاری تھی جس نے مجھے پاگل کر دیا تھا۔ میری پھدی جو پہلے ہی بہت گرم تھی‬
‫صائمہ کی چدائی دیکھ کر وہ زیادہ دیر لن کو برداشت نہیں کر سکی اور محض ‪ 3‬منٹ‬
‫کی چدائی میں ہی برسات کردی۔ اب عمران نے مجھے نیچے لٹایا اور میری ٹانگیں اٹھا‬
‫کر اپنے کندھے پر رکھی اور لن ایک ہی جھٹکے میں پھدی میں ڈال کر طوفانی چدائی‬
‫کا سلسلہ پھر سے سٹارٹ کر دیا۔ اب میری ٹانگیں عمران کے کندھوں پر تھیں اور میں‬
‫نے اپنے پاوں عمران کی گردن کے گرد لپیٹ کر اپنی گانڈ اوپر اٹھائی ہوئی تھی جس کی‬
‫وجہ سے لن بہت آسانی کے ساتھ میری ٹائٹ پھدی کو چیرتا ہوا کبھی اندر جاتا تو کبھی‬
‫باہر آتا۔‬
‫اب عمران نے میری ٹانگیں فولڈ کر کے میرے سینے کے ساتھ لگائیں اور اپنا وزن‬
‫میرے اوپر ڈاال‪ ،‬اس پوزیشن میں میری پھدی تھوڑی کھل گئی تھی اور لن کو آسانی‬
‫سے اندر جانے کا راستہ مل گیا تھا ۔ عمران کی چدائی نے میری سسکیوں میں مزید‬
‫اضافہ کر دیا تھا ۔ اس پوزیسشن میں میں بہت جلد تھک گئی اور میں نے اپنی ٹان ِگیں‬
‫سائیڈ پر پھیال کر کھولیں تو عمران ٹانگوں کے درمیان میرے اوپر ہی لیٹ گئے اور‬
‫اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر چومنے لگے ۔ میں نے اپنی ٹانگیں عمران کی کمر‬
‫کے گرد لپیٹ لیں تھیں اور اپنے ہاتھوں سے بھی عمران کی کمر پر مساج کرنے لگی۔‬
‫عمران کے ہاتھ میرے ممے دبانے میں مصروف تھے ‪ ،‬زبان میرے منہ میں تھی اور‬
‫لن اپنی سالی کی زور دار چدائی کرنے میں مصوف تھا۔ ‪ 6‬منٹ کی مزید چدائی کے بعد‬
‫مجھے محسوس ہوا کہ میں دوبارہ فارغ ہونے والی ہوں تو عمران نے اپنے دھکوں کی‬
‫رفتار میں اور اضافہ کر دیا اور میری چوت نے ایک بار پھر پانی چھوڑ دیا جس سے‬
‫عمران کا لن بھیگ گیا مگر عمران نے اپنی پوزیشن چینج نہیں کی اور نا ہی چدائی میں‬
‫کوئی وقفہ آنے لگا‪ ،‬وہ مسلسل میری چدائی میں مصروف تھے اور کچھ ہی دیر میں وہ‬
‫بولے میں بھی فارغ ہونے واال ہوں تو میں نے کہا میرے اندر مت چھوڑنا اپنا پانی تو‬
‫انہوں نے اپنے دھکوں کی رفتار میں مزید اضافہ کیا اور ‪ 2‬منٹ کے طوفانی دھکوں‬
‫کے بعد ایک دم سے اپنا لن باہر نکاال اور اپنی ساری منی میرے پیٹ پر چھوڑ دی۔‬

‫منی نکالنے کے بعد وہ بے سدھ ہو کر لیٹ گئے اور میں نے واش روم میں جا کر اپنے‬
‫جسم کی صفائی کی۔ واپس آئی تو عمران شلوار پہننے لگے تھے مگر میں نے فورا جا‬
‫کر منع کر دیا اور کہا میں ایک بار اور آپ کے اس طاقتور لن کی سواری کرنا چاہتی‬
‫ہوں۔ وہ بولے میں بہت تھ چکا ہوں اب اور سونا بھی ہے‪ ،‬مگر میری آگ ابھی بجھی‬
‫نہیں تھی کیونکہ آج صائمہ کا آخری دن تھا ہماری طرف اور صبح ہوتے ہیں انہوں نے‬
‫واپس الہور چلے جانا تھا۔ اس لیے میں ایک بار اور چدائی کا مزہ لینا چاہتی تھی‬
‫عمران کا موڈ نہیں تھا مگر میں نے انکی شلوار اتار کر لن منہ میں لیا اور ‪ 3‬منٹ کی‬
‫محنت کے بعد لن کھڑا کرنے میں کامیاب ہوگئی۔ اب عمران کا لن دوبارہ سے میری‬
‫چدائی کرنے کو تیار تھا۔ اب کی بار عمران نے مجھے ڈوگی سٹائل میں بھی چودا اور‬
‫اپنی گود میں اٹھا کر بھی میری چدائی کی۔ کھڑے ہوکر میری ایک ٹانگ اوپر اٹھا کر‬
‫بھی مجھے چودا اور مجھے ہر طرح سے بہت مزہ دیا۔ اس چدائی کے دوران میری‬
‫پھدی نے ‪ 3‬بار پانی چھوڑا اور ‪ 20‬منٹ کی جاندار چدائی کے بعد عمران بھی فارغ‬
‫ہوگئے۔‬
‫ہم دونوں نے کپڑے پہنے اور اپنے اپنے بستر میں جا کر سوگئے۔‬
‫صبح ‪10‬بجے اٹھ کر میں نے سب کے لیے ناشتہ بنایا اور صائمہ نے میری مدد کی‬
‫ناشتہ بنانے میں۔ اس دوران میں نے صائمہ سے پوچھا کہ رات میری پیاری سے بہن‬
‫نے نائٹی پہن کر میرے بہنوئی کو مزے دیے تھے ؟؟؟؟ تو وہ بولی کہ ہاں کافی دنوں‬
‫سے انہوں نے چدائی نہیں کی تھی میری ماہواری کی وجہ سے تو آج انکا بہت دل کر‬
‫رہا تھا اس لے میں نائٹ پہن کر آئ تھی اور پھر کھیس کے اندر ہی انہوں نے الئٹ بند‬
‫کر کے مجھے چودا تھا۔ میں دل ہی دل میں مسکرائی کہ ایک دن پہلے ہی عمران کے‬
‫لن نے اپنی سالی کی ‪ 3‬بار چودائی کی تھی اور رات بھی کھیس میں نہیں بلکہ میری‬
‫آنکھوں کے سامنے ہی تمہیں چودا ہے مگر یہ بات میں نے صائمہ کو نہیں بتائی۔‬
‫دوپہر کے وقت وہ لوگ الہور کے لیے روانہ ہوگئے۔ اور میں سوچتی رہی کہ یہ ‪ 2‬دن‬
‫میری زندگی کے سب سے اچھے دن ہیں جن میں میں نے نہ صرف اپنے بہنوئی کے لن‬
‫کی دل کھول کر سواری کی بلکہ اپنی سیکسی بہن کی الئیو چودائی بھی دیکھی۔ جب تک‬
‫میں کنواری تھی مجھے اپنے اوپر کنٹرول تھا مگر اب لن کا مزہ چکھنے کے بعد میری‬
‫پھدی لن کی دیوانی ہوگئی تھی اور اب اسے مزید لن چاہیے تھا۔ میں نے آج تک اپنے‬
‫منگیتر رضوان کو اپنے زیادہ قریب نہیں آنے دیا تھا یہاں تک کہ کبھی کس بھی نہیں‬
‫کی تھی مگر اب اپنی پھدی کی پیاس بجھانے کے لیے میرے پاس صرف ایک ہی راستہ‬
‫تھا اور وہ تھا رضوان کو اپنے قریب آنے دینا اور اسکے لن سے اپنی پھدی کی پیاس‬
‫بجھانا۔ اب کی بار جب رضوان ہمارے گھر آیا اور اس نے پہلے کی طرح میرے سے‬
‫کس کی فرمائش کی تو میں نے بال جھجک اپنے ہونٹ رضوان کے ہونٹوں پے رکھ کر‬
‫اسے ایک مزیدار سی کس دی۔ جس سے رضوان بہت حیران بھی ہوا اور اسے خوشی‬
‫بھی ہوئی۔ اس کس کے ساتھ ہی میں نے رضوان کا لن حاصل کرنے کا سفر شروع کر‬
‫دیا تھا۔‬
‫رضوان سے یہ پہلی کس بڑی مختصر تھی‪ ،‬جیسے ہی میرے ہونٹ رضوان کے ہونٹوں‬
‫سے لگے ہم دونوں کے جسم میں ایک کرنٹ دوڑ گیا‪ ،‬مگر میں نے فورا ہی اپنے اوپر‬
‫کنٹرول کیا اور اپنے ہونٹ رضوان کے ہونٹوں سے علیحدہ کر دیے کیونکہ میں رضوان‬
‫کو یہ محسوس نہیں ہونے دینا چاہتی تھی کہ مجھے اسکا لن چاہیے۔ اور یہ پہلی کس‬
‫تھی ہم دونوں کی اس لیے اسکو میں نے زیادہ لمبا کرنا مناسب نہیں سمجھا۔ مگر اس‬
‫مختصر سی کس سے بھی رضوان بہت خوش تھا‪ ،‬اس نے پہلی بار میرے ہونٹوں کا‬
‫ذائقہ چکھا تھا‪ ،‬اور میں نے محسوس کیا کہ رضوان بار بار اپنی زبان اپنے ہونٹوں پر‬
‫پھیر رہا تھا۔ اسکو شاید میرے ہونٹوں کا لمس اور ذائقہ ابھی تک اپنے ہونٹوں پر‬
‫محسوس ہورہا تھا جسکو وہ اپنی زبان سے چاٹ رہا تھا۔ رضوان رات تک ہمارے گھر‬
‫ہی رکا‪ ،‬رات کے کھانے پر بھی وہ چوری چوری مجھے دیکھ رہا تھا اور جیسے ہی‬
‫موقع ملتا مجھے ایک فالئنگ کس بھی کر دیتا۔ باالآخر رات کے کھانے کے بعد رضوان‬
‫واپس اپنے ہوسٹل چال گیا۔‬
‫اسکے بعد موبائل پر ہماری میسیجنگ اور بھی زیادہ ہاٹ ہوگئی اور موبائل پر بات‬
‫کرتے ہوئے بھی وہ بار بار مجھے کس کرتا اور کہتا دوبارہ کب دو گی کس تو میں کہ‬
‫دیتی کے بس موبائل پر ہی کرو جتنی کرنی ہیں آمنے سامنے اب نہیں ہوگی۔ مگر اندر‬
‫ہی اندر تو میں بھی مری جا رہی تھی کہ رضوان آئے اور مجھے اپنی بانہوں میں بھر‬
‫کر خوب پیار کرے۔ میرے انگ انگ سے کھیلے‪ ،‬میرے جسم کے ہر حصے پر اپنے‬
‫پیار کا نشان ثبت کر دے۔ لیکن میں کھل کر اسکا اظہار نہیں کر سکتی تھی۔ اب رضوان‬
‫نے مجھ سے اپنی ننگی تصویریں مانگنا بھی شروع کر دی تھیں موبائل پر۔ کبھی وہ‬
‫کہتا کہ مجھے اپنے ممے دکھاو تو کبھی کہتا کہ اپنی چوت اور گانڈ دکھاو مگر میں ہر‬
‫بار انکار کر دیتی۔ البتہ برا اور پینٹی پہن کر اپنی سیکسی تصویریں بھیج دیتی تھی‬
‫اسے۔ اس دوران مجھے رضوان کا ایک ایم ایم ایس موصول ہوا جسکو دیکھ کر میری‬
‫چوت کے اندر تک آگ لگ گئی اور پوری چوت گیلی ہوگئی۔ رضوان نے اپنے لن کی‬
‫تصویر بھیجی تھی۔ کچھ تصویریوں میں وہ موبائل سے دور کھڑا تھا بالکل ننگا اور‬
‫اسکا لن بھی مکمل طور پر کھڑا تھا اور کچھ تصویریں صرف لن کی تھی۔ تصویروں‬
‫میں لن کے سائز کا اندازہ لگانا مشکل تھا۔ مجھے لگا کہ رضوان کا لن عمران کے لن‬
‫سے تھوڑا چھوٹا ہے مگر سختی میں بہت زبردست لگ رہا تھا اور بغیر ہاتھ لگائے لن‬
‫سیدھا کھڑا چھت کی طرف دیکھ رہا تھا۔‬
‫یہ ایم ایم ایس ملنے کے بعد میں نے مصنوعی غصہ دکھایا رضوان کو کہ یہ کیا‬
‫بدتمیزی ہے تو عمران بوال یہی تو تمہارا اصل خزانہ ہے جو تم نے مجھ سے لینا ہے۔‬
‫میں نے بھی کہ دیا کہ شادی کے بعد ہی لینا ہے تو شادی کے بعد میں خود دل بھر کر‬
‫دیکھ لوں گی مگر ابھی مجھے اسکی کوئی ضرورت نہیں۔ حاالنکہ اندر ہی اندر میں بہت‬
‫خوش تھی اور یہ لن اپنی چوت میں لینے کے لیے بیتاب بھی تھی پھر کچھ دن بعد‬
‫رضوان دوبارہ سے ہمارے گھر آیا تو وہ بار بار مجھے چھت پر آنے کا اشارہ کر رہا‬
‫تھا کیونکہ نیچے امی موجود تھیں اور انکے ہوتے ہوئے ہم کچھ نہیں کر سکتے تھے‬
‫جب کہ رضوان مرا جا رہا تھا میرے ہونٹوں کے لیے۔ لیکن میرے لیے رضوان کے‬
‫ساتھ اوپر چھت پر جانا ممکن نہیں تھا۔ لیکن اتنا ضرور ہوا کہ جب میں کچن میں‬
‫رضوان کے لیے چائے بنانے گئی اور کچھ ہی دیر بعد امی نے رضوان کو کہا کہ فائزہ‬
‫سے جا کر کہو فریج میں سے نگٹس نکال کر وہ بھی چائے کے ساتھ لے آئے۔ رضوان‬
‫تو پہلے ہی اس انتظار میں تھا۔ وہ فورا آیا اور مجھے پیچھے سے پکڑ کر جپھی ڈال‬
‫لی زور سے ‪ ،‬میں نے پیچھے مڑ کر دیکھا تو رضوان نے بغیر دیر لگائے اپنے ہونٹ‬
‫میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ رضوان کا ایک ہاتھ میرے پیٹ کے گرد تھا تو دوسرا ہاتھ‬
‫میرے سینے پر مموں سے کچھ اوپر تھا اور وہ بہت بیتابی سے میرے ہونٹ چوس رہا‬
‫تھا۔ میں نے تھوڑی مزاحمت کر کے اسکو پیچھے ہٹانا چاہا مگر اس نے مجھے‬
‫مضبوطی سے پکڑ رکھا تھا اور کسنگ جاری رکھی۔ مجھے ب ِھی اسکا اس بیتابی سے‬
‫اپنے ہونٹ چوسنا اچھا لگ رہا تھا لیکن ڈر تھا کہ کہیں امی نہ آجائیں۔ ابھی میں یہی‬
‫سوچ رہی تھی کہ مجھے اپنی گانڈ پر سخت اور مضبوط راڈ لگتا محسوس ہوا‪ ،‬میں‬
‫سمجھ گئی کہ یہ رضوان کا لن ہے‪ ،‬مگر انجان بن کر اپنا ہاتھ سیدھا رضوان کے لن پر‬
‫رکھا اور پیچھے ہٹاتے ہوئے بولی یہ کیا ہے مجھے چبھ رہا ہے۔ جیسے ہی میرا ہاتھ‬
‫رضوان کے لن پر گیا‪ ،‬رضوان بھی ایک دم مجھے چھوڑ کر سیدھا ہوگیا اور میں نے‬
‫بھی جب اسکے لن پر نظر ڈالی تو ایک دم سے چھوڑ دیا اور یہ شو کروایا کہ مجھے‬
‫پتا نہیں تھا کہ یہ لن ہے اور غلطی سے پکڑ لیا تھا۔ اور شرمندہ ہوکر میں نے اپنی‬
‫آنکھیں جھکا لیں اور لن فوری طر پر چھوڑ دیا۔ مگر رضوان بہت خوش تھا کہ آج‬
‫اسکی منگیتر نے پہلی بار اسکا لن پکڑا تھا۔‬
‫مجھے شرمندہ دیکھ کر اسنے اپنے ہونٹ میرے ماتھے پر رکھ دیے اور بوال کیا ہوا؟ یہ‬
‫تمہارے لیے ہی تو ہے۔ تم پکڑ سکتی ہو اسکو۔ مگر میں نے مسلسل اپنا سر جھکائے‬
‫رکھا اور اسکو کہا کہ وہ جائے یہاں سے امی آجائیں گی۔ اسنے ایک بار پھر میرے‬
‫ہونٹوں پر ہونٹ رکھ دیے اور کسنگ کرنے لگا مگر میں نے فورا ہی ہونٹ سائیڈ پر کر‬
‫لیے اور دوبارہ سے اسکو کہا کہ تم جاو کچن سے اور کمرے میں جا کر بیٹھو۔ پھر اس‬
‫نے مجھے امی کا پیغام دیا اور کچن سے چال گیا۔ اسکے جاتے ہی میں کھل کر‬
‫مسکرائی اور اپنی اس چاالکی پر اپنے آپ کو شاباش دی کہ آج رضوان کا لن بھی پکڑ‬
‫کر دیکھ لیا اور اسکو پتا بھی نہیں لگنے دیا کہ میں اس لن کے لیے مری جا رہی ہوں۔‬

‫کچھ ہی دیر بعد چائے تیار تھی جو لیکر میں کمرے میں گئی۔ امی اور رضوان ڈائنگ‬
‫ٹیبل پر بیٹھے تھے‪ ،‬میں نے درمیان میں چائے اور نگٹس رکھے اور رضوان کے ساتھ‬
‫جا کر بیٹھ گئی۔ اتنی بے تکلفی ہم میں تھی کہ امی یا ابو کے سامنے ہم اکٹھے بیٹھ‬
‫جاتے تھے‪ ،‬مگر اکیلے کمرے میں جانا یا چھت پر اکیلے جانا ممکن نہیں تھا۔ اب چائے‬
‫پیتے ہوئے میں نے بھی رضوان کو ایک سمائل پاس کی جس سے اسے اندازہ ہوا کہ‬
‫اندر جو کچھ ہوا میں نے اسکا برا نہیں منایا۔ مگر میرے چہرے پر شرم کے تاثرات‬
‫ضرور تھے۔ امی میں اور رضوان چائے پیتے گئے اور ساتھ میں باتیں بھی کرتے رہے۔‬
‫چائے پینے کے بعد امی اٹھیں اور واش روم چلی گئیں۔ جیسے ہی امی واش روم گئیں‬
‫رضوان نے ایک بار پھر اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے اور انہیں چوسنے لگا۔‬
‫اور میرا ہاتھ پکڑ کر فورا ہی اپنے لن پر رکھ دیا۔ مگر میں نے بھی محض کچھ سیکنڈز‬
‫کے لیے ہی اسکا لن پکڑا اور پھر فورا ہی یہ کہتے ہوئے چھوڑ دیا کہ نہیں یہ سب‬
‫شادی کے بعد ہوگا ابھی نہیں۔ اتنے میں واش روم کا دروازہ کھلنے کی آواز آئی تو ہم‬
‫دونوں سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔ اب رضوان اور امی دونوں آپس میں باتیں کر رہے تھے‬
‫اور بیچ بیچ میں رضوان کوئی نہ کوئی بات میرے بارے میں بھی کر دیتا‪ ،‬کبھی میرے‬
‫بچپن کا کوئی قصہ سنا دیتا میری شرارتوں کا ۔ مجھے یہ باتیں سن کر اچھا لگ رہا تھا‬
‫اور رضوان پر پیار بھی آرہا تھا رضوان نے مزید کچھ میرے بچپن کی شرارتوں کا ذکر‬
‫کیا تو میں نے رضوان کو تنگ کرنے کے لیے ٹیبل کے نیچے سے ہی اپنا ہاتھ رضوان‬
‫کے لن پر رکھ دیا۔ مگر اس وقت میرے ہاتھ میں ایک نرم سی بوٹی ہی آئی۔ رضوان کا‬
‫لن بیٹھ چکا تھا۔ میں نے کچھ سیکنڈ پکڑے رکھا تو دیکھتے ہی دیکھتے اس میں‬
‫سختی آنا شروع ہوگئی اور ایک بار پھر سے میرے ہاتھ میں رضوان کا مضبوط لن تھا۔‬
‫ت حال‬‫رضوان کو ایک شاک بھی لگا مگر وہ فورا ہی سنبھل کر بیٹھ گیا اور اس صور ِ‬
‫سے محضوض ہونے لگا۔ میں نے ‪ 2‬سے ‪ 3‬منٹ رضوان کا لن پکڑے رکھا اور ہلکا‬
‫ہلکا اسکو دباتی بھی رہی اور اسکے بعد لن کو چھوڑ کر اپنا ہاتھ دوبارہ اوپر ٹیبل پر‬
‫رکھ دیا۔‬

‫کچھ دیر مزید باتیں کرنے کے بعد رضوان نے مجھ سے میرا موبائل مانگا اور اپنے لیپ‬
‫ٹاپ سے لگا کر بیڈ پر بیٹھ گیا۔ اب ابو کے آنے کا بھی ٹائم ہوگیا تھا۔ رات کے ‪ 8‬بجے‬
‫ابو گھر آئے تو رضوان ان سے مال اور ‪ 15‬منٹ رکنے کے بعد میرا موبائل مجھے دیا‬
‫اور واپس ہاسٹل چال گیا۔ موبائل دیتے ہوئے اس نے مجھے کہا کہ ویڈیو کے فولڈر میں‬
‫پرسنل کا فولڈر چیک کرنا اس میں ایک مووی رکھی ہے وہ اکیلے میں دیکھینا۔ میں نے‬
‫موبائل پکڑ کر خاموشی سے ایک سائیڈ پر رکھ دیا۔ اور جب رات کو سونے کے لیے‬
‫اپنے کمرے میں گئی تو ہینڈز فری لگا کر رضوان کے کہے ہوئے فولڑر میں سے ایک‬
‫مووی دیکھنے لگی۔ یہ ایک ٹرپل ایکس مووی تھی یعنی کہ پورن مووی تھی۔ اس میں‬
‫ایک ینگ لڑکا کالج کی ینگ لڑکی کو چود رہا تھا۔ لڑکی نے لڑکے کا لن بھی چوسا اور‬
‫اپنی چوت بھی لڑکے کے ہونٹوں کے آگے کی۔ یہ تقریبا ‪ 20‬منٹ کی مووی تھی‪ ،‬میں‬
‫نے پوری مووی دیکھی اور اس دوران میری چوت مکمل گیلی ہو چکی تھی۔‬
‫کچھ ہی دیر گزری کہ رضوان کی کال بھی آگئی اور اسنے فورا ہی پہلے تو مجھے‬
‫موبائل سے ہی کسنگ کی اور اسکے بعد مووی کے بارے میں پوچھا کہ دیکھ لی تو‬
‫میں نے بتایا کہ ہاں دیکھ لی اچھی تھی ۔ رضوان جانتا تھا کہ میں پہلے بھی پورن‬
‫مووی دیکھ چکی ہوں۔ رضوان نے ہی مجھے پہلے ایک بار اپنے موبائل میں ‪ 3‬منٹ کا‬
‫سیکس سین دکھایا تھا جس میں لڑکے نے اپنا ‪ 7‬انچ کا لن لڑکی کی چوت میں ڈاال ہوا‬
‫تھا اور بہت بے دردی سے اسکی چدائی کر رہا تھا۔ مگر اب کی بار رضوان نے مجھ‬
‫سے پوچھا کہ جب لڑکی نے لڑکے کا لن اپنے منہ میں لیا تھا تب دیکھا؟؟؟ میں سمجھ‬
‫گئی کہ رضوان کو جب بھی موقع مال وہ مجھ سے لن چوسنے کی فرمائش ضرور کرے‬
‫گا‪ ،‬اور میں ب ِھی یہی چاہتی تھی۔ مگر میں نے رضوان کو کہا ہان دیکھا مگر دیکھ کر‬
‫بہت نفرت آئی۔ رضوان بوال نفرت کیسی؟؟ لڑکیاں تو بہت شوق سے اپنے بوائے فرینڈ کا‬
‫لن منہ میں لے کر چوستی ہیں۔ مگر میں نے یہی ظاہر کیا کہ مجھے یہ دیکھ کر نفرت‬
‫آئی اور اسکے کوئی ہنٹ نہیں دیا کہ میں بھی رضوان کا لن چوسنا چاہتی ہوں۔ اب رات‬
‫کافی ہوگئی تھی ہم نے کچھ دیر مزید سیکسی باتیں کیں اور پھر مجھے نیند آگئی۔‬
‫اسکے بعد یہ سلسلہ کچھ مزید چال۔ ‪ 2‬ماہ کے دوران رضوان تقریبا ‪ 5‬سے ‪ 7‬چکر‬
‫ہمارے گھر کے لگا چکا تھا اور ہر چکر میں وہ موقع ملتے ہی مجھے کسنگ کرتا اور‬
‫کبھی کبھار میں اپنا ہاتھ اسکے لن پر بھی رکھ دیتی۔ ایک یا دو بار اسنے اپنا بازو‬
‫میرے سینے پر مموں کے بالکل اوپر بھی رکھ دیا جس سے اسکے بازہ اور ہاتھ نے‬
‫میرے مموں کی سختی کو بھی محسوس کیا مگر یہ محض چند لمحوں کے لیے ایسا ہوا۔‬
‫‪ 2‬ماہ تک یہ سلسلہ ایسے ہی چال اور میں نے رضوان کو اپنے جسم سے زیادہ‬
‫کھیلنے نہیں دیا کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ اسکو محسوس ہو کہ میں ان لذتوں‬
‫سے گزر چکی ہوں اور اپنا جسم پہلے بھی کسی کے حوالے کر چکی ہوں۔ اس لیے ہر‬
‫بار میں اسکو یہی محسوس کرواتی کہ مجھے ایسا کرتے ہوئے بہت شرم آرہی ہے اور‬
‫میں ایسا صرف رضوان کی خوشی کے لیے کرتی ہوں۔‬
‫میری پھدی کی چدائی ابھی محض ‪ 2‬بار ہی ہوئی تھی عمران کے لن سے اور ‪ 2‬ماہ کا‬
‫عرصہ بیت چکا تھا اس لیے پھدی ایک بار پھر سے ٹائٹ ہو چکی تھی۔ اور کوئی چدائی‬
‫کا ماہر جو کنواری چوت کی لذت کو جانتا ہو یہ بتا سکتا تھا کہ میری چوت کنواری‬
‫نہیں۔ جس نے پہلے کبھی چوت کا مزہ نہیں لیا اسکے لیے اندازہ لگانا مشکل تھا کہ‬
‫میری چوت پہلے اپنے اندر ایک موٹا لن سما چکی ہے۔ ایک دن رضوان گھر آیا اور‬
‫اسنے بتایا کہ اسکی یونیورسٹی میں فنکشن ہے اور وہاں پاکستانی سنگر شیرا اُپل اور‬
‫فاخر آرہے ہیں۔ جیسے ہی اسنے یہ بتایا میں فورا بولی کہ مجھے ب ِھی جانا ہے اس‬
‫فنکشن میں۔ ابو بھی ساتھ بیٹھے تھے انہوں نے ایکدم سے میری طرف دیکھا۔ تو میں‬
‫نے ابو سے منت کی کہ پلیز مجھے جانے دیں۔ ابو بھی جانتے تھے کہ مجھے شیرا ا ُپل‬
‫کا گانا "تیرا تے میرا" بہت پسند تھا اور فاخر بھی میرا فیورٹ سنگر تھا۔ اور ویسے‬
‫بھی ابو بہت تنگ نظر انسان نہیں تھے مگر انہوں نے پہلے مجھے رضوان کے ساتھ‬
‫ایسے کہیں باہر نہیں بھیجا تھا۔ مگر میرے اصرا پر اور رضوان کے کہنے پر ابو راضی‬
‫ہوگئے مجھے بھیجنے پر۔ یہ فنکشن شام ‪ 6‬بجے شروع ہونا تھا اور رات گئے ‪ 2‬بجے‬
‫تک چلنا تھا۔ مگر ابو نے رضوان سے وعدہ لیا کہ ‪ 11‬بجے تک تم فائزہ کو لیکر‬
‫واپس گھر پہنچو گے۔ رضوان نے حامی بھر لی اور اسطرح میرے جانے کا پروگرام بن‬
‫گیا۔‬
‫اس وقت میرے ذہن میں ایسی کوئی بات نہیں تھی کہ میں رضوان کے ساتھ سیکس‬
‫کروں گی ‪ ،‬مجھے تو باس فنکشن اٹینڈ کرنا تھا۔ ‪ 2‬دن بعد فنکشن تھا اور رضوان‬
‫مجھے لینے گھر آگیا۔ اور بتایا کہ ایسے فنکشن عموما لیٹ ہوجاتے ہیں تو ہم ‪ 7‬بجے‬
‫تک پہنچیں گے یونیورسٹی۔ اور رضوان نے مجھے تیار ہونے کو کہا۔ میں پینٹ شرٹ‬
‫پہننے لگی تو رضوان نے مجھے ساڑھی لگانے کو کہا جو میں نے اپنی بہن صائمہ کی‬
‫شادی پر لگائی تھی۔ یہ بلیک کلر کی ساڑھی تھی اور اور اسکے بالوز کا گال تھوڑا کھال‬
‫تھا جس سے میری کلیوج نظر آتی تھی۔ مگر ساڑھی کا پلو سینے پر ڈالنے کے بعد‬
‫کلیوج چھپ جاتی تھی۔ میں نے رضوان کی فرمائش پر وہی ساڑھی لگائی۔ اور میک اپ‬
‫کیا‪ ،‬رضوان بار بار مجھے دیکھ رہا تھا اور تعریفی نظروں سے مجھے بتا رہا تھا کہ‬
‫میں بہت سیکسی لگ رہی ہوں۔ رضوان موٹر سائکل پر آیا تھا اور ہمارا پروگرام موٹر‬
‫سائکل پر ہی جانے کا تھا۔ مگر ابو نے گاڑی کی چابی دیتے ہوئے کہا کہ تم دونوں‬
‫گاڑی لے جاو موٹر سائیکل پر جانا مناسب نہیں۔ رضوان بھی مان گیا اور ہم دونوں‬
‫گاڑی میں بیٹھے اور ٹھیک ‪ 7‬بج کر ‪ 25‬منٹ پر ہم یونیورٹی میں تھے۔ راستے میں‬
‫رضوان نے میرے جسم کے ساتھ تھوڑی چھیڑ خانی بھی کی اور ایک سنسان جگہ پر‬
‫میری طرف جھک کر مجھے کس بھی کر ڈالی۔‬
‫یونیورسٹی گئے تو میں نے دیکھا وہاں بہت بڑی تعداد آئی ہوئی تھی لڑکے اور لڑکیوں‬
‫کی۔ لڑکے لڑکیاں ایکدوسرے کی بانہوں میں بانہیں ڈالے گھوم رہے تھے۔ کچھ لڑکیوں‬
‫نے شلوار قمیص پہن رکھی تھی‪ ،‬کچھ لڑکیاں جینز میں تھیں تو کچھ لڑکیاں میری طرح‬
‫ساڑھی میں بھی تھیں۔ لیکن جو لڑکیاں ساڑھی میں تھی وہ کھ زیادہ ہی بولڈ تھیں اور‬
‫انہوں نے شارٹ بالوز پہن رکھا تھا جو کسی حد تک بیک لیس بھی تھے۔ اور انکے‬
‫پیٹ اور کمر کا کچھ حصہ ننگا تھا۔ رضوان بھی بڑے فخر سے میرا بازو پکڑے گھوم‬
‫رہا تحھا۔ اسی دوران رضوان نے مجھے اپنے دوستوں سے بھی ملوایا اور میرا تعارف‬
‫کروایا۔ رضوان کے کچھ دوستوں نے میرا اوپر سے نیچے تک جائزہ لیا جیسے میرا‬
‫مکمل ایکسرے کرنا چاہتے ہوں جب کہ کچھ دوستوں نے بڑی خوش اخالقی کے ساتھ‬
‫مجھ سے ہاتھ مالیا اور میرے جسم کا جائزہ لینے کی بجائے میرا حال چال پوچھا اور‬
‫پارٹی انجوائے کرنے کا کہا۔‬
‫اب رضوان اور میں ایک سائیڈ پر کرسیوں پر بیٹھ گئے تھے اور ہمارے ساتھ رضوان‬
‫کے ‪ 3‬قریبی دوست اور ‪ 2‬اسکی کالس کی لڑکیاں بھی تھیں اور ہم سب خوش گپیوں‬
‫میں مصروف تھے۔ اب رات کے ‪ 8:30‬ہو چکے تھے تو فاخر سٹیج پر آیا اور گانا‬
‫گانے لگا جسکو ہم سب نے بہت مزے سے سنا اور خوب ہال گال کیا۔ گانے کے بیچ میں‬
‫کچھ لڑکوں نے ہوٹنگ بھی کی۔ لڑکیاں بھی کسی طور پر کم نہیں تھیں ہوٹنگ کرنے‬
‫میں۔ کچھ لڑکیاں لو یو فاخر کی آوازیں بھی لگا رہی تھی۔ فاخر نے ‪ 4‬گانے گائے اور‬
‫چال گیا پھر کوئی لوکل سنگر آگیا جسکا تعلق ملتان سے ہی تھا اور ساتھ میں یہ بھی پتا‬
‫لگا کہ شیراز اُپل نے نہیں آنا اسکا پروگرام کینسل ہوگیا تھا۔ مجھے بہت افسوس ہوا۔‬
‫کچھ دیر مزید اسی طرح میں رضوان کے ساتھ پھرتی رہی۔ ‪ :9‬بج کر ‪ 30‬منٹ ہوئے‬
‫تھے کہ مجھے اپنے جسم پر پانی کے قطرے گرےتے محسوس ہوئے‪ ،‬یہ بارش کے‬
‫قطرے تھے اور دیکھتے ہی دیکھتے بارش تیز ہونے لگی۔ رضوان فورا مجھے لیکر‬
‫پارکنگ کی طرف بڑھا اور ہم دونوں گاڑی میں جا کر بیٹھ گئے۔ میری ساڑھی کچھ گیلی‬
‫ہوگئی تھی اور خاص طور پر سامنے پلو گیال ہونے کی وجہ سے اب اسکے آر پار نظر‬
‫آرہا تھا۔ میری کلیوج اب واضح تھی اور رضوان کی نظریں بھی ادھر ہی تھی۔‬
‫رضوان نے گاڑی ریورس کی اور یونیورسٹی سے باہر نکل آیا‪ ،‬مگر اسکا رخ گھر کی‬
‫بجائے بوسن بائی پاس روڈ کی طرف تھا۔ میں نے پوچھا کہ یہ کدھر جا رہے ہو تو‬
‫رضوان بوال ‪ 11‬بجنے میں ابھی ٹائم ہے یہ سنسان سڑک ہے ادھر کہیں گاڑی روک کر‬
‫تمیں پیار کرنا ہے۔ میں بھی ہنس دی کیونکہ میں رضوان کو تھوڑا موقع دینا چاہتی‬
‫تھی۔ میں جانتی تھی کہ مجھے اس سیکسی ساڑھی میں دیکھ کر اسکا لن پینٹ سے‬
‫باہر نکلنے کی بھرپور کوشش میں تھا۔ کچھ ہی دیر بعد رضوان کو ایک سائیڈ پر‬
‫درختوں کا جھنڈ نظر آیا تو رضوان نے گاڑی روڈ سے نیچے اتاری اور درختوں کے‬
‫جھنڈ میں اندر لیجاکر روک دی۔ اور گاڑی کی الئٹس بھی بند کر دیں تاکہ اگار کوئی اور‬
‫گاڑی ادھر سے گزرے تو وہ ہمیں نہ دیکھ پائے۔ بارش بھی کافی تیز تھی جس کی وجہ‬
‫سے مشکل ہی تھا کہ ہمیں یا ہماری گاڑی کو کوئی دیکھ پاتا۔ گاڑی روکتے ہی رضوان‬
‫نے مجھے بازو سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ‬
‫دیے۔ کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد میں نے رضوان کو پچھلی سیٹ پر جانے کو بوال‬
‫کیونکہ رضوان ڈراوئینگ سیٹ پر تھا اور مجھے سٹیرینگ اور گئیر کی وجہ سے‬
‫الجھن ہورہی تھی۔ رضوان نے فورا دروازہ کھوال اور پچھلی سیٹ پر آگیا میں نے بھی‬
‫اپنی سائڈ کا دروازہ کھوال اور پچھلی سیٹ پر آکر بیٹھ گئیی۔ رضوان نے ایک بار پھر‬
‫مجھے پکڑ کر اپنے سینے سے لگایا اور میرے ہونٹ چوسنے لگا۔ اب میں رضوان کی‬
‫گود میں بیٹھی تھی اور رضوان بہت شدت کے ساتھ میرے ہونٹ چوس رہا تھا۔ اس نے‬
‫اپنی زبان بھی میرے منہ میں ڈالی تو میں نے اسکی زبان کو چوسنا شروع کر دیا۔‬
‫پچھلے دو ماہ میں رضوان اور میں نے کسنگ کی اور زبان چاٹنے کی خوب پریکٹس‬
‫کی تھی اور یہاں بھی وہی کچھ کر رہے تھے۔ رضوان کی گود میں بیٹھے ہوئے مجھے‬
‫مسلسل رضوان کا لن اپنی گانڈ پر محسوس ہو رہا تھا۔ میں خود بھی اپنی گانڈ نیچے کی‬
‫طرف دبا کر اسکے لن کا مزہ لیتی۔‬
‫اب رضوان نے کسنگ کرتے کرتے میرے کندھوں کو چومنا شروع کردیا اور کندھے‬
‫چومتے سومتے میرے سینے تک آگیا۔ میری ساڑھی کا پلو وہ میرے سینے سے ہٹا‬
‫چکا تھا اور میرے سینے پر اپنی زبان پھیرتا اور ہونٹوں سے پیار کرتا۔ میں نے بھی‬
‫رضوان کو روکنا مناسب نہیں سمجھا لیکن میرا چودائی کا یہاں کوئی پروگرام نہیں تھا۔‬
‫کیونکہ ایسی جگہ پر چودائی نہ صرف خطرناک تھی بلکہ مشکل بھی کیونکہ میں نے‬
‫ساڑھی پہن رکھی تھی جسکو اتارنا اور پھر سے پہننا آسان کام نہیں تحا۔ رضوان کافی‬
‫دیر تک میرے سینے پر پیار کرتا رہا پھر اچانک ہی اسنے اپنے دونوں ہاتھوں سے‬
‫میرے ممے پکڑ لیے۔ یہ فرسٹ ٹائم تھا کہ رضوان نے میرے ممے پکڑے تھے۔ اور وہ‬
‫میرے ممے پکڑ کر بہت خوش تھا۔ میں نے اسکے ہاتھ اپنے مموں سے ہٹانا چاہے‬
‫مگر اسنے نہ ہٹائے اور بوال یہ اتنے پیارے پیارے ممے میرے لیے ہی تو ہیں اگر میں‬
‫نہیں پکڑوں گا تو اور بھال کون پکڑے گا۔ اور یہ کہ کر وہ اپنی زبان میری کلیوج میں‬
‫پھیری لگا اور ساتھ ساتھ میرے ممے بھی دباتا رہا۔ اب مجھے مزہ آنے لگا تھا کیونکہ‬
‫میرے مموں کا اصل مالک میرے مموں پر پیار کر رہا تھا۔ گو کہ اسنے میرا بالوز نہیں‬
‫اتارا تھا اور اوپر سے ہی پیار کر رہا تھا مگر مجھے اسکا بھی بہت مزہ آنے لگا۔‬
‫اب میری گانڈ پر رضوان کے لن کا پریشر بڑھنے لگا تو میں نے سائڈ پر ہوکر اسکے‬
‫لن پر ہاتھ رکھ دیا۔ اسکو بھی میری یہ دیدہ دلیری اچھی لگی اور وہ سب کچھ چھوڑ‬
‫چھاڑ کر سیدھا ہوکر بیٹھ گیا اور مجھے کہا کہ میں اچھی طرح اسکے لن کا معائنہ کر‬
‫سکتی ہوں۔ کچھ دیر میں اسکے لن کو پینٹ کے اوپر سے ہی دباتی رہی اور وہ‬
‫مزےلیتا رہا۔ پھر اچانک اسنے اپنی پینٹ کی زپ کھولی اور اندر ہاتھ ڈال کر انڈر وئیر‬
‫سائڈ پر کیا اور زپ میں سے ہی اپنا لن باہر نکال لیا۔۔۔ لن جیسے ہی باہر آیا میری‬
‫آنکھوں میں ایک چمک آگئی۔ رضوان کا لن ‪ 7‬انچ کا تھا اور بہت مضبو ط تھا۔ لیکن‬
‫میں نے رضوان کو اوپر اوپر سے منع کیا کہ یہ بری بات ہے اسکو واپس اند ڈال لو۔‬
‫مگر رضوان نے کہا کہ ایک بار پکڑ کے دیکھو میرا لن۔ می نے ابھی تک رضوان کا لن‬
‫پینٹ کے اوپر سے ہی پکڑا تھا اور اب رضوان چاہتا تھا کہ میں اسکا ننگا لن بھی اپنے‬
‫ہاتھ سے پکڑوں۔ کچھ دیر انکار کرنے کے بعد میں رضوان کا لن پکڑنے کے لیے تیار‬
‫ہوگئی کیونکہ میرا اپنا بھی دل کر رہا تھا اس کو چوسنے کا۔ جیسے ہی میں نے رضوان‬
‫کا لن پکڑا مجھے بہت خوشی ہوئی۔ یہ ایک مکمل لوہے کا راڈ تھا۔ انتہائی سخت اور‬
‫جاندار۔ میں نے رضوان کو یہ شو کروایا کہ مجھے لن پکڑتے ہوئے ڈر لگ رہا ہے اور‬
‫میری آنکھوں میں خوف ہے مگر رضوان نے مجھے حوصلہ دیا کہ پکڑ لو اسے کچھ‬
‫نہیں ہوتا۔ پھر آہستہ آہستہ میں نے رضوان کے لن کو سہالنا شروع کر دیا جس سے‬
‫رضوان کو مزہ آنے لگا۔ کچھ دیر لن کو پیار کے ساتھ سہالنے کے بعد اب میں رضوان‬
‫کے لن کی مٹھ مار رہی تھی۔ ‪ 7‬انچ کا موٹا لن پکڑ کر میری چوت میں پانی بھرتا جا رہا‬
‫تھا اور میرا دل کر رہا تھا کہ میں فورا یہ لن اپنی چوت میں داخل کر لوں مگر میں ابھی‬
‫ایسا نہیں کر سکتی تھی اور کرنا بھی نہیں چاہتی تھی۔‬
‫کچھ دیر رضوان میرے ہاتھوں کےلمس سے خوش ہوتا رہا اور اس نے مجھے بتایا کہ‬
‫آج تک وہ اپنے ہاتھ سے اپنے لن کی مٹھ مارتا تھا مگر جو مزہ اسے میرے ہاتھ نے‬
‫دیا وہ پہلے کبھی نہیں آیا۔ اب رضوان نے فرمائش کر ڈالی کہ میں اسکا لن اپنے منہ‬
‫میں لوں۔ میں اس کام کے لیے مکمل تیار تھی اور خواہش بھی تھی مگر رضوان کو‬
‫دکھانے کے لیے میں نے انکار کیا اور کہا مجھے نفر ت آتی ہے میں اسے منہ میں‬
‫نہیں لے سکتی یہ گندہ ہے۔ لیکن رضوان کہاں باز آنے واال تھا وہ مسلسل اصرار کر رہا‬
‫تھا اور مجھے سمجھا رہا تھا کہ سب لڑکیاں منہ میں لیکر چوستی ہیں لن۔ اس نے‬
‫مجھے وہ فلم بھی یاد کروائی مگر مین نے پھر بھی کہا کہ نہیں میں ایسا نہیں کر‬
‫سکتی۔ اب رضوان میری منتیں کرنے پر آگیا اور مجھ پر اپنا پیار بھی جتانے لگا اور‬
‫اسنے مجھے بتایا کہ اسکے دوست اسے بتاتے ہیں کہ انکی گرل فرینڈز انکےلن کے‬
‫دل کھول کر چوپے لگاتی ہیں تو اسکا بھی بہت دل کرتا ہے کہ کوئی اسکے لن کا چوپا‬
‫لگائے۔ اب اگر تم میرے لن کو منہ میں نہیں لوگی تو میں اپنی یہ خواہش کیسے پوری‬
‫کروں گا؟‬
‫میں نے بھی زیادہ تڑپانا مناسب نہیں سمجھا اور آہستہ آہستہ رضوان کے اوپر جھکنے‬
‫لگی‪ ،‬اب میرا منہ بالکل لن کے قریب تھا اور میرے منہ میں اتنا مضبوط لن دیکھ کر‬
‫پانی آرہا تھا۔ مگر میں ابھی رضوان کو یہی شو کروا رہی تھی کہ مجھے نفرت آرہی ہے‬
‫اور محض رضوان کی خواہش پر میں ایسا کر رہی ہوں۔ رضوان بھی بیتابی سے انتظار‬
‫کر رہا تھا کہ کب میں اسکا لن اپنے منہ ِمیں لیتی ہوں۔‬

‫پہلے میں نے رضوان کے لن کی ٹوپی پر ایک کس کی جس سے اسکے لن کو ایک‬


‫جھٹکا لگا۔ اور پھر میں رضوان کے لن کی سائیڈ پر اپنی زبان آہستہ آہستہ پھیرنے‬
‫لگی۔ مگر اسکو بہت جلدی تھی کہ میں اسکا لن اپنے منہ میں لوں۔ اس نے مجھے کہا‬
‫کہ جلدی کرو دیر نہ کرو پھر گھر بھی جانا ہے۔ اب میں نے اپنا منہ لن کی ٹوپی پر رکھ‬
‫دیا اور اپنے ہونٹ ٹوپی پر گھمانے لگی۔ لن کے منہ سے کچھ قطرے بھی نکل رہے‬
‫تھے جو عموما مرد کے لن سے شدت جزبات سے نکلتے ہیں۔ یہ قطرے بھی میرے منہ‬
‫میں گئے اور میں نے انکا ذائقہ محسوس کیا۔ کچھ دیر ٹوپی پر ہونٹ گھمانے کے بعد‬
‫اب میں ٹوپی پر بھی اپنی زبان پھیر رہی تھی۔ اور رضوان کے لن کو تھوڑی تھوڑی دیر‬
‫بعد جھٹکے بھی لگتے۔ پھر آہستہ آہستہ میں نےلن کی ٹوپی اپنے منہ میں لے لی اور‬
‫آہستہ آہستہ چوسنے لگی۔ رضوان کے مزے کی کہوئی حد نہیں تھی اسنے ابھی سے‬
‫سسکیاں لینی شروع کر دی تھیں۔ مجھے شرارت سوجھی اور میں نے رضوان کی ٹوپی‬
‫پر اپنے چبھو دیے۔ رضوان کی ایک دم چیخ نکلی اور اسنے ایکدم سے اپنا لن میرے‬
‫منہ سے نکال لیا۔ اسکو شاید کچھ زیادہ ہی تکلیف ہوئی تھی کیونکہ یہ اسکا پہال تجربہ‬
‫تھا۔ اب وہ اپنا لن میرے منہ میں دیتے ہوئے ڈرنے لگا مگر اب کی بار میں نے شرم‬
‫اتار کر سائیڈ پر رکھی اور فل تیاری کر لی کہ اب رضوان کا لن جڑ تک چوس کر‬
‫رضوان کو مزہ دینا ہے۔ میں نے رضوان سے سوری بھی کی کہ اب دانت نہیں لگتے‬
‫غلطی ہوگئی پہلے اب میں پیار سے لن چوسوں گی۔ اب کی بار رضوان نے ڈرتے ڈرتے‬
‫لن میرے منہ میں جانے دیا اور میں نے آہستہ آہستہ پورا لن اپنے منہ میں لے لیا جس‬
‫سے رضوان کی سسکیاں ایک بار پھر سٹارٹ ہوگئیں۔ اب میں بہت مہارت کے ساتھ‬
‫رضوان کا لن چوس رہی تھی جو مکمل طور پر گیال ہو چکا تھا۔ کچھ تو میرے منہ میں‬
‫جانے سے گیال ہوا اور کچھ اسکے لن سے مسلسل چھوٹے چھوٹے مذی کے قطرے‬
‫نکل رہے تھے۔ جو پریکٹس میں نے عمران کے لن پر کی تھی اسکا مکمل استعمال اب‬
‫میں رضوان کے لن پر کر رہی تھی اور بہت مزے کے ساتھ لن کے چوپے لگا رہی تھی‬
‫جس سے رضوان کو بھی بہت مزہ آرہا تھا۔‬
‫میں کبھی رضوان کا لن جڑ تک اپنے منہ میں لے لیتی تو کبھی محض آدھے لن سے‬
‫ہی اپنے منہ کی چودائی کرتی۔ کبھی لن باہر نکال کر اسکی ٹوپی پر پیار کرتی تو کبھی‬
‫لن کی سائڈ پر نیچے سے اوپر کی طرف زبان پھیرتی۔ رضوان میری ان حرکتوں سے‬
‫بہت مزے لے رہا تھا اور خوش بھی ہو رہا تحھا۔ ‪ 5‬منٹ تک رضوان اپنے مضبوط لن‬
‫سے میرے منہ کی چدائی کرتا رہا اور پھر بوال کہ وہ اب چھوٹنے واال ہے۔ میں ابھی‬
‫رضوان کی منی اپنے منہ میں نہیں لینا چاہتی تھی کیونکہ میں نہیں چاہتی تھی کہ وہ‬
‫کسی بھی طرح سوچے کہ میں پہلے بیھی کسی کے لن کا چوپا لگا چکی ہوں اور اسکو‬
‫مجھ پر شک ہو اسلیے میں نے فورا ہی اسکا لن اپنے منہ سے نکاال اور اسکو کہا منی‬
‫باہر ہی نکالنا۔ رضوان بوال تم اپنے منہ میں نکلوا لو نہیں تو گاڑی خراب ہوگی۔ اب میں‬
‫ادھر ادھر دیکھنے لگی کیونکہ گاڑی میں منی نکالنا بھی ٹھیک نہیں تھا‪ ،‬تو میں نے‬
‫گاڑی کا دروازہ کھوال اور اسکو باہر کی طرف منہ کرنے کو کہا‪ ،‬اب رضوان باہرکی‬
‫طرف منہ کر کے بیٹھے گیا تہ میں نے پیچھے سے آکر ایک بار پھر اسکا لن اپنے منہ‬
‫میں لیا اور اسکے چوپے لگانے لگی۔ ‪ 9‬سے ‪ 10‬چوپوں کے بعد اسکے لن میں ایک‬
‫بار پھر سے ضرورت سے زیادہ سختی ہوئی تو میں نے لن منہ سے نکاال اور اپنے‬
‫ہاتھ سے اسکی مٹھ مارنے لگی۔ کچھ ہی سیکنڈ میں رضوان کے لن نے منی نکالی جو‬
‫بہت پریشر سے نکلی اور گاڑی سے باہر جا گری۔ کچھ قطرے گارڑی کے دروازے پرب ِھ‬
‫گرے جسکو رضوان نے فوری طور پر ایک کپڑے سے صاف کر دیا۔‬
‫اب رضوان مکمل فارخ ہو چکا تھا اور میری طرف مشکور نگاہوں سے دیکھ رہا تھا۔‬
‫رضوان نے کچھ دیر مجھے مزید کسنگ کی اور میرا شکریہ بھی ادا کیا کہ میں نے آج‬
‫اسکو بہت مزہ دیا۔ میں نے بھی رضوان کو پیار سے ایک کس کی اور کہا کہ چلو اب‬
‫دیر ہو رہی ہے گھر چلیں۔ رضوان نے اپنا لن واپس پینٹ میں ڈاال زپ بند کی اور واپس‬
‫اپنی جگہ پر جا کے بیٹھ گیا۔ میں نے بھی ساڑھی کا پلو ٹھیک کیا اور فرنٹ سیٹ پر‬
‫بیٹھ گئی۔ اب ہمارا رخ گھر کی طرف تھا۔‬
‫جب گھر پہنچے تو گھر والے بے چینی سے ہمارا انتظار کر رہے تھے کیونکہ وہ بارش‬
‫کی وجہ سے پریشان تھے۔ مگر جب ہم خیر خیریت سے ٹائم پر پہنچ گئے تو گھر والے‬
‫خوش ہوگئے۔ رضوان کو ابو نے روک لیا کہ بارش رک جائے تو پھر جانا واپس۔ مگر‬
‫بارش نہ رکی اس لیے رضوان ہماری طرف ہی رک گیا رات کو۔ ہم سب نے ملکر چائے‬
‫پی اور پکوڑے بنا کر بھی کھائے۔ رات کافی دیر جاگنے کے بعد سب اپنے اپنے کمروں‬
‫میں جا کر سوگئے۔ رضوان کو میرے چھوٹے بھائی حمزہ کے ساتھ سالیا گیا اور میں‬
‫اپنے کمرے میں سوگئی۔‬
‫صبح اٹھے تو ابو کام پر جا چکے تھے اور حمزہ بھی کالج جا چکا تھا۔ گھر میں‬
‫رضوان ‪ ،‬امی اور میں موجود تھے۔ ہم تینوں نے ملکر ناشتہ کیا۔ ناشتہ کرنے کے کچھ‬
‫دیر بعد تک ہم باتیں کرتے رہے کہ اتنے میں ہمسائیوں سے ایک بچی آئی امی کو‬
‫بالنے۔ انکے گھر پر کوئی مسئلہ تھا جسکے لیے امی کو فورا جانا پڑا۔ اور اب گھر میں‬
‫رضوان اور میں اکیلے تھے۔ جیسے ہی امی گھر سے نکلیں‪ ،‬رضوان نے مجھے پکڑ‬
‫کر اپنے سینے سے لگا لیا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ میں بھی اسی‬
‫موقع کی تالش میں تھی لہذا میں نے بھی رضوان کا پورا ساتھ دیا اسکے ہونٹ چوسے‬
‫زبان اپنے منہ میں لیکر چوسی۔ رضوان کسنگ کرنے کے ساتھ ساتھ میرے چوتڑ‬
‫دبانے میں بھی مصروف تھا۔ جس سے مجھے بہت مزہ آرہا تھا۔ کچھ دیر کسنگ کرنے‬
‫کے بعد رضوان نے میرے ممے پکڑ لیے اور انکو قمیص کے اوپر سے ہی دبانے لگا۔‬
‫رضوان نے آج تک میرے ممے نہیں دیکھے تھے اور آج رضوان چاہتا تھا کو وہ میرے‬
‫ممے دیکھ لے۔ میں بھی چاہتی تھی کہ رضوان کچھ آگے بڑھے‪ ،‬اسکے لن کا تو میں‬
‫چوپا لگا ہی چکی تھی اب میں چاہتی تھی کے رضوان بھی میرے جسم کا مزہ لے اور‬
‫میرے جسم کے ابھاروں سے کھیلے اور میرے جسم سے چھیڑ خانی کرے۔ رضوان نے‬
‫آہستہ آہستہ میری قمیص میں اپنے ہاتھ داخل کیے اور پہلے کمر اور پیٹ پر ہاتھ پھیرے‬
‫اور پھر میری قمیص اوپر اٹھانے لگا‪ ،‬میں نے تھوڑی سی برائے نام مزاحمت کی مگر‬
‫کچھ ہی دیر میں قمیص میرے بدن سے جدا ہو چکی تھی اور میں رضوان کے سامنے‬
‫برا پہنے کھڑی تھی۔ رضوان کی آنکھوں میں چمک تھی میرے مموں کا ابھار دیکھ کر۔‬
‫رضوان نے اپنے دونوں ہاتھ میرے مموں پر رکھ دیے اور برا کے اوپر سے ہی دبانے‬
‫لگا اور ساتھ میں ایک بار پھر میرے ہونٹوں سے رس پینے لگا۔ کچھ دیر میرے ممے‬
‫دبانے کے بعد رضوان نے اپنے ہونٹ میرے مموں کے ابھار پر رکھ دیے۔ اور میرے‬
‫مموں کو چومنا شروع کر دیا۔‬
‫میرے منہ سے سسکیاں نکل رہی تھی اور میں مزے کی وایوں میں گم رضوان کو سر‬
‫سے پکڑ کر مموں کی طرف دبا رہی تھی ۔ کچھ دیر رضوان نے ممے پر کسنگ کرنے‬
‫کے بعد میرا برا اتارنا چاہا تو میں نے سختی سے منع کر دیا۔ کیونکہ میں ابھی رضوان‬
‫کو مزید تھوڑا تڑپانا چاہتی تھی اور ایک دم سے اسکو سب کچھ دینے کے موڈ میں‬
‫نہیں تھی۔ رضوان نے بہت کوشش کی کہ وہ میرا برا اتار کر میرے ممے دیکھ سکے‬
‫مگر میں نے منع کر دیا۔ پھر رضوان نے میرا منہ دوسری طرف کیا اور میری کمر پر‬
‫کسنگ شروع کر دی۔ کچھ دیر میری کمر چاٹنے کے بعد وہ میری گردن پر آگیا اور اپنے‬
‫دونوں ہاتھ سامنے التے ہوئے میرے ممے بھی دبانے لگا۔ رضوان کا لن جو پینٹ سے‬
‫نکلنے کے لیے بے چین تھا وہ میری گانڈ میں گھسا جا رہا تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ‬
‫پیچھے کیا اور اسکے لن پر اپنا ہاتھ رکھ دیا۔ لن کو چھوتے ہی میری چوت گیلی ہونے‬
‫لگی اور لن حاصل کرنے کو تڑپنے لگی۔ ساتھ ہی رضوان نے بھی ظلم کی انہتا کرتے‬
‫ہوئے ایک ہاتھ میری چوت پر رکھ دیا اور شلوار کے اوپر سے ہی میری چوت رگڑنے‬
‫لگا۔ اب رضوان کا ایک ہاتھ میرے مموں پر تھا‪ ،‬ایک ہاتھ سے وہ میری چوت رگڑ رہا‬
‫تھا اور اپنے ہونٹوں سے میری گردن کو چوم رہا تھا۔ اور میرا ہاتھ رضوان کے لن پر‬
‫تھا۔ میری تڑب بڑھتی جا رہی تھی‪ ،‬میں ابھی رضوان کو اپنا مکمل جسم دینے کے موڈ‬
‫میں نہیں تھی مگر چوت پر رضوان کے ہاتھ کی رگڑ اور میرے ہاتھ میں رضوان کا موٹا‬
‫لن مجھے مجبور کر رہا تھا کہ میں آج اپنا سب کچھ رضوان کو سونپ دوں۔ مگر اچانک‬
‫ہی باہر بیل بجی اور ہم دونوں کو ایک کرنٹ لگا اور ایک دوسرے سے دور ہوگئے۔ میں‬
‫نے فورا اپنی قمیص اٹھائی اور باتھ روم میں بھاگی اور رضوان کو کہا کو وہ فورا‬
‫دروازہ کھولے۔‬

‫جب میں اپنی قمیص پہن کر واش روم سے نکلی تو کمرے میں امی موجود تھیں۔ اور‬
‫رضوان بھی کمرے میں ہی بیٹھا تھا۔ کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد رضوان نے امی سے‬
‫اجازت لی اور واپس ہاسٹل چال گیا۔ اس طرح کی چھیڑ خانی کا جب بھی ہمیں موقع ملتا‬
‫ہم ضرور کرتے۔ مگر دوبارہ رضوان کو کبھی میری قمیص اتارنے کا موقع نہیں مال۔ وہ‬
‫اوپر اوپر سے ہی میرے ممے دباتا اور کبھی کبھی میری چوت پر اپنا ہاتھ پھیرتا‪ ،‬البتہ‬
‫میں نے ایک بار پھر سے رضوان کے لن کا چوپا لگا کر اسکی منی نکالی۔‬
‫اب اس واقعہ کو ‪ 2‬مہینے کا ٹائم گزر چکا تھا۔ ایک دن رضوان نے مجھے بتایا کے‬
‫انکے دوست ایک پارٹی ارینج کر رہے ہیں جس میں انکی گرل فرینڈز بھی انکے ساتھ‬
‫ہونگی اوررضوان نے مجھے کہا کہ میں ب ِھ یہ پارٹی جوائن کروں۔ میں نے حامی بھر‬
‫لی مگر مسئلہ ابو سے اجازت لینے کا تھا۔ اور یہ کام میں نے رضوان کے ذمے لگا دیا۔‬
‫رضوان نے جانے ابو کو کیا کہانی سنائی کہ ابو نے خوشی خوشی اجازت دے دی۔‬
‫رضوان نے مجھے بتایا کہ یہ ہائی کالس پارٹی ہوگی لہذا میں کوئی سیکسی سا ڈریس‬
‫پہن کر جاوں۔ میں نے اپنی ٹائٹ جینز نکال کر پہنی اسکے ساتھ فوم کے کپس واال‬
‫وائرڈ برا پہن لیا اور اپر سے ایک ٹائٹ شرٹ پہن لی۔ میرے ٹائٹ ممے اس شرٹ میں‬
‫پھنس کر رہ گئے اور بڑی مشکل سے سینے کے اوپر واال بٹن بند کیا۔ ساتھ میں نے‬
‫ایک لمبی سی شال لی اور اپنے کندھوں پر ڈال لی جو میرے گھٹنوں تک جا رہی تھی۔‬
‫یہ تیاری کر کے میں رضوان کے ساتھ ابو کی گاڑی میں پارٹی میں شریک ہونے چلی‬
‫گئی۔ گھر سے تھوڑا دور جا کر میں نے شال اتار دی تو رضوان نے میرے مموں کی‬
‫طرف دیکھتے ہوئے بتایا کہ فائزہ تم بہت سیکسی لگ رہی ہو آج تو مزہ آجائے گا۔ میں‬
‫بھی مسکرا دی۔‬
‫کچھ دیر میں ہم رضوان کے دوست کے گھر پہنچ گئے۔ یہ ایک بہت بڑی کوٹھی تھی اور‬
‫گھر کے باہر سے ہی پتہ لگتا تھا کہ کو ئی بہت امیر شخص ہوگا اس گھر کا مالک۔ گیٹ‬
‫کھال تھا رضوان نے گاڑی اندر لے جا کر روکی تو رضوان کا دوست ویلکم کرنے کے‬
‫لیے وہیں آگیا۔ اسنے مجھ سے ہاتھ مالیا اور میرا اوپر سے نیچے تک کا جائزہ لیکر‬
‫مجھے تعریفی نظروں سے دیکھا اور پھر رضوان سے مال اور رضوان کو کہا کہ‬
‫بھابھی تو آج قیامت ڈھا رہی ہیں۔ رضوان یہ بات سن کر قہقہ لگا کر ہنسا اور ہم اکٹھے‬
‫اندر چلےگئے۔ اندر جا کر رضوان کا دوست جسکا نام علی تھا وہ ہمیں ایک بیسمینٹ‬
‫میں لے گیا جہاں سے میوزک کی آواز آرہی تھی۔ جبیسے ہی ہم بیسمینٹ میں داخل‬
‫ہوئے تو اند ر کا ماحول میرے لیے بالکل نیا تھا۔ یہ واقعی ایک ہائی کالس پارٹی تھی‬
‫اورلڑکے اور لڑکیاں ڈانس کرنے میں مصروف تھے۔ کمرے میں قریب ‪ 6‬لڑکے اور ‪8‬‬
‫لڑکیاں موجود تھیں۔ ہمیں مال کر کل ‪ 8‬لڑکے اور ‪ 9‬لڑکیاں ہوگئیں تھں۔ ہمیں اندر آتا‬
‫دیکھ کر سب لوگ ہمیں ملے۔ لڑکے رضوان سے گلے ملے اور میرے ساتھ سب نے‬
‫ہاتھ مالیا۔ جب کہ لڑکیاں مجھ سے بھی گلے ملیں اور ‪ 3‬لڑکیاں رضوان کے ساتھ بھی‬
‫گلے ملیں جو مجھے بہت عجیب لگا۔ رضوان نے بھی بہت گرم جوشی سے انہیں گلے‬
‫لگایا اور فورا ہی ڈانس دوبارہ شروع ہوگیا۔‬
‫رضوان نے مجھے بھی ڈانس کرنے کی دعوت دی مگر میں جھجھک محسوس کر رہی‬
‫تھی اس لیے رضوان کو کہا کہ وہ ڈانس کرے اور میں خود ایک سائیڈ پر جا کر بیٹھ‬
‫گئی۔ اور رضوان کو ڈانس کرے دیکھنے لگی۔ رضوان دوسرے لڑکے اور لڑکیوں کے‬
‫ساتھ محو ہو کر ڈانس کر رہا تھا۔ تمام لڑکیاں بہت بولڈ تھیں اور بال جھجھک مختلف‬
‫لڑکوں کے ساتھ ڈانس کرنے میں مصروف تھیں۔ مجھے اکیال بیٹھا دیکھ کر علی میرے‬
‫پاس آیا اور مجھے ایک کولڈ ڈرنک آفر کی جو میں نے لے لی۔ اور علی میرے ساتھ ہی‬
‫بیٹھ کر مجھ سے باتیں کرنے لگا۔ اس نے میرے سے پوچھا کہ میں ڈانس کیوں نہیں‬
‫کر رہی تو میں نے بتا یا کہ میں نے کبھی ڈانس کیا ہی نہیں اس لیے عجیب لگ رہا ہے۔‬
‫اس پر علی قہقہ لگا کر ہنسا اور بوال ہم کونسا ایکسپرٹ ڈانسر ہیں۔ بس میوزک کے‬
‫ساتھ ساتھ جسم ہی تو ہالنا ہوتا ہے اور خود بخود ڈانس ہوتا رہتا ہے۔ علی نے مجھے‬
‫اپنے ساتھ ڈانس کرنے کو کہا مگر میں نے معذرت کر لی۔ جس پر علی نے برا منائے‬
‫بغیر میرے سے باتیں جار رکھیں۔ میری نظریں رضوان پر تھیں۔ رضوان جن لڑکیوں کے‬
‫ساتھ ڈانس کر رہا تھا وہ بہت بولڈ اور سیکسی تھیں۔ رضوان بیچ بیچ میں ان لڑکیوں‬
‫کے چوتڑوں پر بھی ہاتھ پھیرتا اور کبھی کبھی وہ لڑکیاں اپنی گانڈ پیچھے کو نکال کر‬
‫رضوان کے ساتھ ٹچ کرتیں جو تقریبا رضوان کے لن پر ہی لگتی ہوگی۔ باقی لڑکے ب ِھی‬
‫اسی طرح کی بیہودہ حرکتیں کر رہے تھے۔ علی نے نوٹ کر لیا کہ میں رضوان کو دیکھ‬
‫رہی ہوں تو اس نے کہا کیا آپکو برا لگ رہا ہے رضوان کا دوسری لڑکیوں کے ساتھ‬
‫ڈانس کرنا ؟؟ تو میں نے کہا نہیں تو ایسی کوئی بات نہیں بس مجھے عادت نہیں ۔ تو‬
‫اس پر علی نے کہا کہ میں ہمت کروں اور ڈانس شروع کروں۔ اسنے کھڑے ہوکر اپنا‬
‫ہاتھ میری طرف بڑھایا‪ ،‬میں نے کچھ سوچتے ہوئے ڈرنک سائیڈ پر رکھی اور علی کا‬
‫ہاتھ تھام کر ڈانس فلور کی طرف بڑھنے لگی‪ ،‬اب میں بھی ذرا سیکسی انداز میں اپنی‬
‫گانڈ ہالتے ہوئے چل رہی تھی۔ میرا خیال تھا کہ مجھے علی کے ساتھ دیکھ کر رضوان‬
‫ان لڑکیوں کو چھوڑ کر میری طرف بڑھے گا مگر ایسا کچھ نہیں ہوا بلکہ مجھے علی‬
‫کے ساتھ آتا دیکھ کر رضوان نے خوشی سے چیخ ماری اور مجھے ویلکم کہا اور اپنا‬
‫ڈانس جاری رکھا۔‬
‫میں نے بھی پھر چارو نچار علی کے ساتھ ہی ڈانس کرنا بہتر سمجھا۔ علی نے مجھے‬
‫کہا کہ زیادہ مشکل نہیں بس میوزک کے ساتھ ساتھ جیسے آپکو سمجھ لگے اپنا جسم‬
‫ہالنا ہے۔ میں نے اونچی ایڑی والی ہیل پہن رکھی تھی جسکی وجہ سے میں تھوڑا ڈر‬
‫بھی رہی تھی‪ ،‬مگر باقی لڑکیوں کی طرف دیکھ کر مجھے کچھ حوصلہ ہوا اور میں نے‬
‫میوزک کے ساتھ ساتھ ہلکا پھلکا ڈانس شروع کیا۔ علی نے میرا ہاتھ ابھی تک پکڑا ہوا‬
‫تھا اور وہ بھی میرے ساتھ ہلکا ہکا ڈانس کر رہا تھا۔ وہاں تمام موجود لڑکیاں اپنی گانڈ‬
‫ہال ہال کر ہی ڈانس کر رہی تھی اور یہی انکے نزدیک ڈانس تھا۔ میں نے بھی یہی کام‬
‫جاری رکھا۔ کچھ دیر بعد جب میری جھجھک ختم ہوئی تو میں نے زیادہ اعتماد کےساتھ‬
‫ڈانس کرنا شروع کیا‪ ،‬گانڈ ہالنے کے ساتھ ساتھ میں ہاتھوں اور ٹانگوں کا استعمال بھی‬
‫کر رہی تھی ۔ میرا اعتماد بحال ہوتے دیکھ کر علی نے اپنے ہاتھ میری گانڈ پر رکھ دیے‬
‫‪ ،‬پہلے تو میں اسکے ہاتھ ہٹانے لگی لیکن پھر میں نے سوچا جب رضوان یہ سب کچھ‬
‫دوسری لڑکیوں کے ساتھ کر رہا ہے تو میں کیوں نا انجوائے کروں۔ لہذا میں نے علی‬
‫کو روکنے کی بجائے اپنی گانڈ کو اور بھی ہالنا شروع کر دیا۔ میرا یہ رسپانس دیکھ کر‬
‫علی کو اور حوصلہ ہوا اور اب اسنے اپنے ہاتھ مضبوطی کے ساتھ میری گانڈ پر رکھ‬
‫دیے اور اپنے ہاتھوں سے میری گانڈ کو اپنی مرضی سے ہالنے لگا۔ اب میں یہ سب‬
‫انجوائے کر رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد رضوان کا ایک اور دوست میرے پاس آیا اورمیرا‬
‫ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف موڑ لیا اور علی کسی دوسری لڑکی کی طرف چال گیا۔‬
‫مجھے اس لڑکے کا نام تو نہیں معلوم تھا مگر میں نے ڈانس جاری رکھا اور یہ لڑکا‬
‫مجھ سے علی کے مقابلے میں زیادہ فری تھا۔ اس نے فورا ہی اپنا بازو میری کمر کے‬
‫گرد رکھا اور مجھے اپنے قریب کر کے ڈانس کرنے لگا۔ اب میرا ایک ہاتھ اس لڑکے‬
‫نے اپنے ہاتھ میں لے رکھا تھا اور میرا دوسرا ہاتھ اسکے کندھے پر تھاجب کہ اسکا‬
‫دوسرا ہاتھ میری کمر پر اور نظریں میرے مموں پر تھیں۔ کچھ دیر ڈانس کرنے کے بعد‬
‫اسکا ہاتھ بھی میری گانڈ پر چال گیا اور میری گانڈ پکڑ کر اسنے مجھے اپنے ساتھ اور‬
‫بھی مضبوطی سے لگا لیا۔ مجھے اسکے لن کا ابھار محسوس ہوا جو میرے ممے کا‬
‫ابھار دیکھ کر کھڑا ہو چکا تھا۔ پھر اسنے میرا منہ دوسری طرف کیا اور اب میری کمر‬
‫اس لڑکے کی طرف تھی اسنے اپنا ہاتھ میرے پیٹ پر رکھا ہواتھا اور دوسرا ہاتھ میرے‬
‫کولہے پر رکھ کر انہیں ہال رہا تھا۔ اسکی پوری کوشش تھی کے میری گانڈ کو اپنے لن‬
‫پر پھیرے جیسے باقی لڑکیاں کر رہی تھی۔ تھوڑی سی جھجھک کے بعد میں نے بھی‬
‫اپنی گانڈ ایک بار اسکے لن پر پھیری۔ اس ڈانس کے دوران میری شرٹ کا سینے کے‬
‫اوپر واال بٹن بھی کھل گیا تھا جس کی وجہ سے میرے مموں کا ابھار اور کلیوج بہت‬
‫واضح نظر آرہے تھے اور سرخ رنگ کا برا بھی تھوڑا سا نظر آرہا تھا۔ کچھ دیر ڈانس‬
‫کرنے کے بعد میوزک بند ہوگیا اور ڈانس ختم کر دیا سب نے۔‬
‫اب ایک سائیڈ پر کھانا لگنے لگا۔ رضوان بھی میرے پاس آیا اور پوچھا کہ انجوائے کر‬
‫رہی ہو پارٹی تو میں نے بتایا کہ ہاں مزہ آرہا ہے۔ اسنے میرا کھال ہوا بٹن دیکھا اور‬
‫بوال واہ کیا جلوے دکھا رہی ہو۔۔۔ میں نے شرمندہ ہوتے ہوئے کہا کہ وہ بس ڈانس‬
‫کرتے ہوئے کھل گیا اور بند کرنے لگی مگر رضوان نے منع کر دیا کہ کھال رہنے دو‬
‫سیکسی لگ رہی ہو۔ ۔ میں نے ب ِھی پھر بٹن بند نہیں کیا۔ اب کھانا لگ چکا تھا اور سب‬
‫لوگ کھانا کھانے میں مصروف تھے۔ کھانا کھانے کے دوران ایک اور لڑکا بھی‬
‫بیسمینٹ میں آگیا اور ہم سب کے ساتھ گرمجوشی سے مال۔ اب تمام کپل اکٹھے بیٹھے‬
‫کھانا کھا رہے تھے۔ ہکا پھلکا کھانا کھانے کے بعد گیم کھیلنے کا فیصلہ کیا گیا۔‬

‫‪ Truth or Dare‬گیم کا نام تھا‬

‫اس گیم میں سب لڑکیاں اپنے اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ بیٹھ گئیں۔ ایک لڑکی جو زیادہ‬
‫ہی بولڈ تھی وہ تو اپنے بوائے فرینڈ کی گود میں بیٹھی تھی‪ ،‬رضوان نے مجھے بھی‬
‫اشارہ کیا تو میں ب ِھ بال جھجھک رضوان کی گود میں ایک ٹانگ پر بیٹھ گئی جس سے‬
‫رضوان بہت خوش ہوا۔ سب سے پہلے ایک لڑکی سے پوچھا گیا کہ وہ کیا سیلیکٹ کرے‬
‫گی؟ ٹرتھ یا پھر ڈئیر۔ اس نے ٹرتھ سیلیکٹ کیا تو اس سے سوال پوچھا گیاکہ کیا وہ‬
‫اپنے بوائے فرینڈ سے حقیقی پیار کرتی ہے یا صرف ٹائم پاس۔ تو اسنے ہنستے ہوئے‬
‫اپنے بوائے فرینڈ کی ایک فرینچ کس کی اور کہا کہ ٹائم پاس۔ حقیقی پیار ابھی اسکو‬
‫نہیں ہوا۔‬
‫پھر دوسی لڑکی نے ڈئیر سیلیکٹ کیا تو اسکو کہا گیا کہ وہ شیلہ کی جوانی پر ڈانس کر‬
‫کے دکھائے۔ وہ فورا ہی اٹھ کھڑی ہوئی اور اسکے لیے گانا لگایا گیا۔ جس پر اس نے‬
‫بالکل کترینا کیف کی طرح ڈانس کیا اور سب نے تالیان بجا کر اسکو داد دی۔‬
‫پھر ایک لڑکی نے ٹرتھ سیلیکٹ کیا تو اس سے پوچھا گیا کہ اسنے آج تک کتنے لڑکوں‬
‫کے ساتھ سیکس کیا ہے؟؟؟ تو اسنے بھی اپنے بوائے فرینڈ کی طرف دیکھا اور بڑے‬
‫فخر سے بتا دیا کہ ‪ 3‬لڑکوں کے ساتھ وہ سیکس کر چکی ہے جس پر تمام لڑکوں نے‬
‫ہوٹنگ کی اور کہا ہمیں بھی موقع دو اوروہ لڑکی بھی سب کو انگوٹھا دکھا کر انکار‬
‫کرتی رہی۔‬

‫اسی طرح اور لڑکیوں کو بھی ڈئیر اور ٹرتھ دیے گئے۔ میری باری آئی تو میں نے ڈئیر‬
‫سیلیکٹ کیا۔ جیسے ہی میں نے ڈئیر کا کہا تو علی فورا بوال کے رضوان کے عالوہ یہاں‬
‫موجود کسی بھی لڑکے کی گود میں بیٹھ کر اسکو پورے ‪ 2‬منٹ تک فرنچ کس کرو۔‬
‫میں یہ سن کر فورا بول اٹھی کہ یہ کیسا ڈئیر ہے مگر سب نے کہا کہ آپ انکار نہیں کر‬
‫سکتی ہماری مرضی ہم جو مرضی کریں۔ میں نے رضوان کی طرف شکایتی نظروں سے‬
‫دیکھا کہ انہیں منع کرے مگر رضوان نے بھی کندھے اچکاتے ہوئے کہا کہ میں کیا کر‬
‫سکتا ہوں تم نے ہی ڈئیر کرنے کا کہا ہے تو اب انکی مرضی یہ جو مرضی کریں۔ میں‬
‫کچھ دیر تو خاموشی سے کھڑی رہی مگر پھر سوچا کہ جب رضوان دوسری لڑکیوں کو‬
‫کس کر رہا تھا تو میں کیوں نا کسی اور لڑکے کو کس کروں؟ اور ویسے بھی جب‬
‫رضوان کو اعتراض نہیں تو پھر کیا مسئلہ ہے۔ میں نے تمام لڑکوں کی طرف دیکھا سب‬
‫میری طرف فرمائشی نظروں سے دیکھ رہے تھے کہ میری گود میں آکر بیٹھو۔ میں نے‬
‫پپہلے علی کی گود میں بیٹھنے کا سوچا مگر پھر جس لڑکے کے ساتھ بعد میں ڈانس‬
‫کیا تھا اسکی طرف بڑھنے لگی اور اسکی آنکھوں میں چمک آگئی۔ وہ ایک سٹول نما‬
‫چئیر پر بیٹھا تھا میں اسکے پاس گئی اور اپنی ٹانگیں کھول کر اسکی گود میں بیٹھ‬
‫گئی۔ اسکو سر سے پکڑ کر اسکے ہونٹ اپنے قریب کیے اور اسکے ہونٹوں پر اپنے‬
‫ہونٹ رکھ کر انکو چوسنے لگی۔ اسنے بھی بھرپور رسپانس دیا اور وہ بھی میرے‬
‫ہونٹوں کو چوسنے لگا۔ چند ہی لمحوں نے اسکے لن نے بھی رسپانس دینا شروع کر‬
‫دیا اور مجھے اپنی گانڈ پر اسکے لن کا دباو محسوس ہونے لگا مگر میں نے کسنگ‬
‫جاری رکھی۔ ‪ 2‬منٹ کی کسنگ کے دوران باقی کے لوگ مسلسل تالیاں بجاتے رہے اور‬
‫شور کرتے رہےاور ‪ 2‬منٹ کی کسنگ سے میری چوت بھی گیلی ہوچکی تھی۔ اور میں‬
‫اپنی زبان بھی اس لڑکے کے منہ میں ڈال چکی تھی جسکو وہ بہت مزے سے چوس رہا‬
‫تھا۔ ‪ 2‬منٹ پورے ہوتے ہی میوزک سٹارٹ ہوگیا اور سب لوگ دوبارہ سے ڈانس فلور‬
‫پر جا کر ڈانس کرنے لگے۔ ہم دونوں بھی اٹھے اور ڈانس فلور پر پہنچ کر ڈانس کرنے‬
‫لگے۔ ہم دونوں کے جسم کسنگ کرنے کی وجہ سے کچھ زیادہ ہی گرم تھے اس لیے‬
‫اب میں بھی دوسری لڑکیوں کی طرح بال جھجھک بولڈ ڈانس کر رہی تھی۔ بار بار میری‬
‫گانڈ اسکے لن سے ٹچ ہورہی تھی جسکو ہم دونوں ہی انجوائے کر رہے تھے۔ موقع‬
‫دیکھ کر میں نے چند لمحوں کے لیے اسکے لن پر اپنا ہاتھ ب ِھی رکھ دیا جس کو اسنے‬
‫بہت انجوائے کیا۔ پھر میں علی کے پاس چلی گئی اور اسکے ساتھ ڈانس کرنے لگی۔‬
‫میں نے بھی مختلف لڑکوں کے ساتھ ڈانس کیا اور انکے لن اپنی گانڈ پر محسوس‬
‫کیے۔‬
‫کافی دیر یہ سلسلہ جاری رہا نہ رضوان کو میری فکر تھی اور نہ مجھے رضوان کی‬
‫فکر۔ لیکن جب کافی دیر گزر گئی تو مجھے گھر کا بھی خیال آیا دیر ہورہی تھی ‪ ،‬میں‬
‫رضوان کے پاس گئی تو اسنے میری گانڈ پر ہاتھ رکھ کر ویسے ہی ڈانس کرنا شروع‬
‫کر دیا جیسے وہ باقی لڑکیوں کے ساتھ کر رہا تھا۔ میں نے اسے بتایا کے گھر سے دیر‬
‫ہورہی ہے چلو چلیں۔ اس نے اسرار کیا کہ ابھی کچھ دیر اور رکو ابھی تو پارٹی لیٹ‬
‫نائٹ چلے گی مگر میں نے بھی واپسی پر اصرار کیا تو چارو ناچار رضوان کو چلنا پڑا۔‬
‫وہ سب دوستوں سے مال اور انسے اجازت لیکر مجھے لیکر بیسمینٹ سے نکل آیا۔‬
‫جیسے ہی بیسمینٹ سے نکلے رضوان نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچا‬
‫اور میرے ہونٹ چوسنے لگا۔ میں بھی اپنی گانڈ پر مختلف لن محسوس کرکے اس وقت‬
‫گرم تھی میں نے بھی کسنگ میں ساتھ دیا‪ ،‬کچھ ہی دیر بعد میرا کھال ہوا بٹن کھول کر‬
‫رضوان نے اپنے ہونٹ میرے مموں کے ابھاروں پر رکھ دیے جو برا سے نظر آرہے‬
‫تھے اور ساتھ ہی میرے مموں کو اپنے ہاتھوں سے پکڑ کر دبانے لگا اور بوال کہ تم‬
‫بہت سیکسی ہو آج تم نے تمام لڑکوں کے لن کھڑے کیے ہیں۔ مجھے رضوان کے منہ‬
‫سے یہ سن کر بہت اچھا لگا کہ میرے جسم کے ابھار کسی بھی لڑکے کا لن کھڑا کر‬
‫سکتے ہیں۔ رضوان نے میری شرٹ کے بٹن کھول کر میرا برا بھی اتارنا چاہا مگر یہ‬
‫مناسب جگہ نہیں تھی اور دیر بھی کافی ہورہی تھی تو میں نے رضوان کو منع کر دیا‬
‫اور گھر چلنے کو کہا۔ کچھ دیر مزید میرے مموں پر کسنگ کرنے کے بعد رضوان کا‬
‫جنون کم ہوا تو وہ مجھے لیکر کار تک گیا۔ ہم دونوں کار میں بیٹَھے اور گھر کی طرف‬
‫جانے لگے۔ راستے میں میں نے اپنی شرٹ کے بٹن بند کیے اور دوبارہ سے شال اپنے‬
‫اوپر لے لی۔ راستے میں رضوان نے مجھ سے پوچھا کہ ندیم کی گود میں بیٹھ کر‬
‫کسنگ کرنے کا مزہ آیا؟ تو مجھے پتا لگا کہ اس لڑکے کا نام ندیم تھا۔ میں نے کہا کہ‬
‫تمہیں شرم نہیں آئی تمہیں میرا ساتھ دینا چاہیے تھا اور منع کرتے ان لوگوں کو تو‬
‫رضوان ہنس پڑا اور بوال کہ یار میرے تمام دوست ہائی کالس فیمیلیز سے ہیں تو انکے‬
‫لیے یہ معمولی بات ہے۔ وہاں منع کرنا عجیب لگتا سب مجھے کہتے کہ تم بھی ہماری‬
‫گرل فرینڈز کو کس کرتے ہو تو تمہاری گرل فرینڈ یا منگیتر ہمیں کس کیوں نہیں کر‬
‫سکتی۔ تو میں نے رضوان کو کہا کہ مزہ تو آیا مگر جو مزہ تمہاری کس میں اور‬
‫تمہارے ہونٹ چوسنے میں ہے وہ اسمیں نہیں۔ میری یہ بات سن کر رضوان بڑا خوش‬
‫ہوا مگر وہ نہیں جانتا تھا کہ اس کسنگ نے میری چوت گیلی کر دی تھی۔‬
‫رضوان نے مجھے گھر چھوڑا اور کچھ دیر بیٹھنے کے بعد واپس چال گیا۔ دن گزرتے‬
‫گئے اور رضوان گاہے بگاہے گھر آتا رہتا۔ اسکو جب بھی موقع ملتا وہ مجھے پکڑ لیتا‬
‫اور کسنگ شروع کر دیتا‪ ،‬میرے ممے دباتا‪ ،‬شلوار میں ہاتھ بھی ڈالتا اور چوتڑوں کو‬
‫بھی دباتا۔ مگر ابھی تک میں نے اسکو اپنے ممے نہیں دکھائے تھے اور نہ ہی چوت‬
‫اور گانڈ دکھائی تھی۔ البتہ جیسے ہی تھوڑا سا بھی موقع ملتا وہ اپنا لن نکال کر میرے‬
‫سامنے کر دیتا اور میں اسکو قلفی سمجھ کر منہ میں لیتی اور دل بھر کر اسکے چوپے‬
‫لگاتی۔ اسکے ٹٹوں سے کھیلتی انکو منہ میں لیتی اور چوپے لگا لگا کر اسکے لن کا‬
‫جوس نکال دیتی۔‬
‫اب گرمیوں کے دن تھے اور میرا کالج بھی بند تھا تو دوستوں سے ملنا جلنا بھی کم‬
‫ہوگیا تھا۔ سارا دن گھر میں بیٹھی بور ہتی رہتی تھی۔ ایک دن جب رضوان ہمارے گھر‬
‫آیا ہوا تھا تو میرے کالج کی دوست سائرہ بھی گھر آگئی۔ سائرہ کا تعلق بہت امیر‬
‫گھرانے سے تھا۔ وہ ہمیشہ گاڑی میں کالج آتی تھی کالے رنگ کی مرسڈیز چمکتی ہوئی‬
‫جب کالج گیٹ کے سامنے رکتی تو ڈرائیور فوری سے پہلے اترتا اور سائرہ کے لیے‬
‫دروازہ کھولتا سائرہ کسی مہارانی کی طرح گاڑی سے نکلتی اور ڈرائیور گاڑی کا‬
‫دروازہ بند کر کے گاڑی واپس لے جاتا اور جب سائرہ نے واپس جانا ہوتا تو وہ ڈرائیور‬
‫کو کال کرتی اور ڈرائیور جھٹ سے گاڑی لے کر کالج کے گیٹ کے سامنے پہنچ جاتا۔‬
‫سائرہ کافی حد تک مغرور لڑکی تھی اور لڑکوں سے فلرٹ کرنا اسکا شوق تھا۔ مگر‬
‫کسی بھی لڑکے کو وہ ضرورت سے زیادہ فری نہیں ہونے دیتی تھی۔ وہ یہ چاہتی تھی‬
‫کہ وہ ہر لڑکے کو اپنی مرضی سے ٹریٹ کرے۔ جب سائرہ چاہے اسکے ساتھ فلرٹ‬
‫کرے اور جب چاہے اسکو کسی جوتی کی طرح اتار کر سائڈ پر پھینک دے۔ وہ اپنے‬
‫حسن کے جلوے دکھا کر لڑکوں کو گرماتی تھی مگر کبھی اپنا جسم کسی لڑکے کے‬
‫حوالے نہیں کیا تھا۔ کالج میں اسکی دوستی میرے ساتھ بھی اتفاق سے ہوگئی کالج کا‬
‫پہال دن تھا اور وہ کالس روم میں آئی تو اسکو میرے ساتھ والی سیٹ ہی خالی ملی۔ اور‬
‫اکثر وہ اسائنمنٹ بھی میری ہی کاپی کرتی تھی اس لیے اس کی میرے سے دوستی‬
‫ہوگئی۔‬
‫سائرہ پہلے بھی بہت بار ہمارے گھر آچکی تھی مگر یہ اسکا بڑا پن تھا کہ اسنے کبھی‬
‫گھر آتے ہوئے ہچکچاہٹ محسوس نہیں کی تھی اور کوئی نخرہ نہیں کیا تھا۔ لیکن میں‬
‫اسکے گھر کبھی نہیں گئی تھی۔ اسکا ڈرائیور اسے چھوڑ کر واپس چال گیا تھا۔ سائرہ‬
‫آتے ہی مجھ سے گلے ملی پھر امی سے ملی اور رضوان پر نظر پڑی تو اسنے میری‬
‫طرف سوالیہ نظروں سے دیکھا کہ یہ کون ہے تو میں نے رضوان کا تعارف کروایا۔‬
‫سائرہ رضوان سے بھی بڑی زندہ دلی سے ملی اور آگے بڑھ کر ہاتھ مالیا۔ میں سائرہ‬
‫کے لیے چائے بنا کر الئی اور ساتھ میں نمکو اور بسکٹس وغیرہ رکھے۔ دوپہر کا ٹائم‬
‫تھا تو سائرہ نے بتایا کہ اسکی بھابھی بھی آئی ہوئی ہے اور اس نے مجھے دعوت دی‬
‫کہ میں اسکے گھر چلوں اسکی بھابھی سے بھی ملوں۔ میں تو پہلے ہی اسکا گھر‬
‫دیکھنا چاہتی تھی اس نے آج تک کبھی دعوت ہی نہیں دی تھی۔ میں نے فورا حامی‬
‫بھری اور امی سے اجازت مانگی تو امی نے کہا کہ اپنے ابو سے فون کرکے پتا کر لو۔‬
‫یہ کام میں نے سائرہ کو کہا‪ ،‬سائرہ نے میرے موبائل سے ابو کو فون کیا اور اپنی‬
‫خواہش کا اظہار کیا۔ ابو پہلے سائرہ سے بہت بار مل چکے تھے اور جانتے تھے لہذا‬
‫ابو نے کوئی اعتراض نہیں کیا۔ لیکن ساتھ میں یہ بھی پوچھا کہ جاو گی کیسے اور‬
‫فائزہ کی واپسی کیسے ہوگی؟ تو سائرہ نے کہا کے میں ڈرائیور کو بلوا لیتی ہوں اور‬
‫اسی کے ساتھ فائزہ واپس آجائے گی یا پھر رضوان بھائی بھی گھر پر ہیں تو رضوان‬
‫بھائی ہمیں لے جائیں اور واپسی فائزہ کو لے بھی آئیں گے۔ ابو نے یہ بات مان لی‬
‫کیونکہ ابو نہیں چاہتے تھے کہ میں کسی بھی ڈرائیور کے ساتھ اکیلی واپس آوں ۔ ابو‬
‫نے رضوان کو فون کیا اور کہا کہ میرے آفس آکر اپنی موٹر سائکل مجھے دے جاو اور‬
‫میری گاڑی لے جاو۔ ابو کا آفس گھر سے محض ‪ 2‬کلومیٹر ہی دور تھا۔ رضوان فورا‬
‫ہی آفس سے گاڑی لے آئے اور ہم ‪ 30‬منٹ بعد سائرہ کے گھر کے سامنے تھے۔‬
‫سائر کا گھر کیا تھا بس ایک محل تھا۔ شہر سے باہر ایک بڑی حویلی تھی جسکا اونچا‬
‫گیٹ اور گیٹ پر ‪ 2‬گن مین کھڑے تھے اور اندر داخل ہوئے تو ایک بڑی سی روڈ تھی‬
‫جو کم سے کم ‪ 300‬میٹر لمبی تھی اور اسکے ارد گرد بڑا الن تھا جس میں درخت اور‬
‫پودے لگے ہوئے تھے۔ ایسا لگ رہا تھا جیسے ہم کسی بادشاہ کے گھر آگئے ہوں۔ ایک‬
‫سائیڈ پر ایک بڑا سا گیراج تھا جس میں کوئی ‪ 5‬کے قریب لمبی لمبی کاریں اور لینڈ‬
‫کروزر کھڑی تھیں اور انکے سامنے ہماری گاڑی کوئی کھلونا لگ رہی تھی۔ رضوان‬
‫بھی یہ شان و شوکت دیکھ کر ایک دم دنگ رہ گیا تھا۔ اور میری بھی آنکھیں کھلی کی‬
‫کھلی رہ گئیں تھیں۔ ہم نے ایک سائڈ پر گاڑی کھڑی کی تو سائرہ ہمیں لے کر اندر چلی‬
‫گئی۔ یہ ایک بڑا ہال نما کمرہ تھا جس میں صوفے رکھے تھے اور ایک سائڈ پر ڈائنگ‬
‫ٹیبل رکھا تھا۔ ہمارے اندر جاتے ہی ایک پینٹ شرٹ میں ملبوس شخص دورٹا ہوا آِیا اور‬
‫سائرہ کے آگے ہاتھ باندھ کر کھڑا ہوگیا اور حکم کا انتظار کرنے لگا۔ دور سے آتا ہوا‬
‫تہ مجھے یہی لگا کہ یہ سائرہ کا بھائی ہوگا لیکن جس طرح سے وہ کھڑا تھا وہ مالزم‬
‫تھا۔ سائرہ نے اسکو کہا کہ پہلے رضوان صاحب اور فائزہ میم کے لیے پانی لیکر آو‬
‫اسکے بعد انکے لیے کھانے پینے کا بندوبست کرواو اور پانی میرے کمرے میں ہی لے‬
‫آنا۔ وہ ج بی بی جی کہتا ہوا الٹے قدموں واپس چال گیا۔‬
‫سائرہ نے ہمیں اپنے پیچھے آنے کا کہا اور اپنے کمرے کی طرف جانے لگی۔ اسکا‬
‫کمرہ بھی بہت اچھے انداز میں دیکوریٹد تھا۔ کسی ماہر انٹیریر ڈیکوریٹر سے کمرہ‬
‫سیٹ کروایا گیا تھا۔ ایک سائِد پر بڑے سے شیشے والی کھڑکی تھی جسکے باہر نیچے‬
‫ایک سوئمنگ پول نظر آرہا تھا۔ جس میں صاف شفاف نیال پانی نظر آرہا تھا۔ سائرہ نے‬
‫ہمیں یہیں بیٹھنے کو کہا اور بولی میں بھابھی کو بال الوں۔ یہ کہ کر وہ باہر چلی گئی‬
‫اورکچھ ہی منٹ بعد دروازے پر ناک ہوئی اور وہی مالزم ٹرے میں پانی لے کر آن کھڑا‬
‫ہوا۔ اسنے ٹرے پہلے رضوان کے آگے کی اور پھر میرے آگے کی۔ اور خالی ٹرے لیکر‬
‫مودب انداز میں گالس خالی ہونے کا ویٹ کرنے لگا۔ ہم نے پانی پی کر خالی گالس‬
‫واپس رکھے اور وہ ایسے ہی واپس چال گیا۔ کچھ ہی دیر بعد سائرہ کمرے میں داخل‬
‫ہوئی تو اسکے ساتھ ایک اور لڑکی تھی جو سائرہ کی بھابھی تھی۔ سائرہ نے اس سے‬
‫میرا اور رضوان کا تعارف کروایا تو وہ بڑی گرمجوشی کے ساتھ مجھ سے گلے ملی‬
‫اور رضوان سے بھی ہاتھ مالیا۔ اور اس نے مجھے بتا یا کہ اسنے میرے بارے میں‬
‫بہت سنا ہے سائرہ سے۔ سائرہ کی ٹوٹل ‪ 3‬یا ‪ 4‬ہی دوست تھیں ملتان میں جن میں سے‬
‫ایک میں بھی تھی لہذا اس نے میرا تذکرہ اپنی بھابھی سے کیا تھا۔‬
‫اب سائرہ نے اپنی بھابھی کا بھی تعارف کروایا‪ ،‬اسکا نام سمیرا تھا۔ جی ہاں وہی سمیرا‬
‫جسکا ذکر میں نے اپنی دوسری کہانی "تبدیلی آ نہیں رہی تبدیلی آگئی ہے" میں کیا تھا۔‬
‫سائرہ نے بتایا کہ سمیرا کا تعلق اسالم آباد سے ہے اور یہ اپنی چھٹیاں گزارنے ہمارے‬
‫ہاں آئی ہے۔ گھر میں اس وقت ہم ‪ 4‬لوگوں کے عالوہ صرف مالزم تھے۔ کچھ دیر ہم‬
‫آپس میں باتیں کرتے رہے۔ بہت خوشگوار ماحول میں ہم نے وقت گزارا‪ ،‬رضوان کو‬
‫ب ِھی بوریت کا احساس نہیں ہوا کیونکہ سمیرا اور سائرہ دونوں ہی بال جھجکرضوان‬
‫سے بات کر رہی تھیں اور ہم چاروں ایسے خوش گپیوں میں مصروف تھے جیسے سب‬
‫ایکدوسرے کو عرصے سے جانتے ہوں۔ سمیرا خاص طور پر بہت اچھے اخالق کی‬
‫مالک تھی اور رکھ رکھاو والی لگ رہی تھی۔ کچھ دیر بعد مالزم نے آکر اطالع دی کہ‬
‫کھانا تیار ہے تو ہم چاروں نے نیچے جا کر کھانا کھایا۔ کھانا بہت ہی پر تکلف تھا اور‬
‫بہت اقسام کی ڈشز میز پر موجود تھیں۔‬
‫کھانا کھانے کے بعد سائرہ نے مجھے کہا کہ چلو سوئمنگ کرتے ہیں۔ میں سوئمنگ‬
‫کرنا نہیں جانتی تھی تو سائرہ نے کہا کوئی بات نہیں ہمارا پول گہرا نہیں ہے تم نہیں‬
‫ڈوبتی اس میں۔ گرمی بہت ہے تو سوئمنگ پول میں نہا کر تھوڑا فریش ہوجائیں گے۔‬
‫میں نے حامی بھر لی۔ سمیرا بھی تیا ر تھی۔ مگر مسئلہ رضوان کا تھا کہ وہ اکیال تھا۔‬
‫سائرہ نے رضوان کو کہا کہ اب کچھ دیر آپکو اکیلے بیٹھ کر بور ہونا پڑے گا۔ یا تو‬
‫میرے بھائی کے کمرے میں جا کر کوئی مووی دیکھ لیں یا نیچے الن میں چہل قدمی‬
‫کریں ۔ سائرہ کا بھائی گھر پر موجود نہیں تھا ابو اسکے ویسے ہی گھر پر نہیں ہوتے‬
‫تھے اور امی بھی گاوں گئی ہوئیں تھیں۔ رضوان نے کہا کہ آپ بے فکر ہوکر سوئمنگ‬
‫کرو میں الن میں چہل قدمی کر لوں گا۔‬
‫سائرہ نے مالزم کو بال کر کہا کہ رضوان صاحب کو الن تک لے جاو اور ہم تینوں‬
‫سوئمنگ پول کی طرف چلی گئیں۔ سوئمنگ پول کے چاروں سائڈ پر بڑی چار دیواری‬
‫تھی۔ یہ چار دیواری ب ِھی کم و بیش ‪ 2‬کنال کی ہوگی۔ اور بیچ میں ایک سوئمنگ پول‬
‫تھا۔ یہ اصل میں سوئمنگ پول اور ٹیوب ویل کا مکسچر تھا۔ اس میں سوئمنگ پول کی‬
‫طرح پانی کھڑا نہیں تھا بلکہ مسلسل ایک سائڈ سے پانی آرہا تھا اور دوسری سائیڈ‬
‫سے پانی خارج ہو رہاتھا۔ سائرہ نے بتایا کہ یہ سارہ دن چلتا ہے اور پول میں پانی تازہ‬
‫رہتا ہے۔ اور جو پانی خارج ہورہا ہے وہ حویلی کی پچھلی سائڈ پر انکی زمینوں کو‬
‫سیراب کرتا ہے۔ پول کے اندر نیلے رنگ کی ٹائلز لگی ہوئیں تھیں۔ اس مٹی نام کی‬
‫کوئی چیز نہیں تھی۔ پانی بالکل شفاف تھا اور نیلی ٹائل کی وجہ سے اور بھی نیال لگ‬
‫رہا تھا۔ پانی کی گہرائی تقریبا ‪ 5‬فٹ سے کچھ اوپر تھی اور یہ اوپن ائیر میں تھا۔ یعنی‬
‫چار دیواری تو تھی مگر چھت نہیں تھی۔ اور آس پاس دور دور تک کوئی گھر بھی نہیں‬
‫تھا۔ کیونکہ انکی یہ حویلی شہر سے باہر تھی اور اور آس پاس کی ساری زمین انکی‬
‫اپنی تھی۔‬

‫پول پر پہنچتے ہیں سائرہ اور سمیرا نے اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دیے۔ دونوں نے‬
‫اپنی قمیص اتاری اور پھر شلوار بھی اتار دی۔ اب دونوں محض برا اور پینٹی میں تھیں۔‬
‫دونوں نے اپنے کپڑے ساتھ پڑے ہوئے بینچ پر رکھے جس پر پہلے سے ٹاول بھی‬
‫رکھے ہوئے تھے۔ سائرہ کو میں نے پہلی بار بغیر کپڑوں کے دیکھا تھا۔ وہ ایک‬
‫سمارٹ اور خوبصورت لڑکی تھی۔ اسکا رنگ گورا تھا اور چکنا جسم تھا۔ جسم پر بالوں‬
‫کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اسکے ممے میرے مموں جتنے ہی تھی یعنی کہ ‪ 34‬سائز‬
‫تھے مگر گانڈ میرے سے چھوٹی تھی۔ سائرہ کی گانڈ ‪ 32‬کی تھی اور پیٹ بھی نہ‬
‫ہونے کے برابر تھا۔ اسکے مقابلے میں سمیرا کے ممے ہم دونوں سے بڑے تھے۔ ‪36‬‬
‫سائز کے مموں پر بلیک برا میں سمیرا کا دودھیا جسم قیامت ڈھا رہا تھا۔ گانڈ بھی ‪36‬‬
‫سائز کی تھی اور گوشت سے بھری ہوئی ت ِھی۔ میں نے ابھی تک کپڑے نہیں اتارے‬
‫تھے اور حیرانگی سے ان دونوں کو دیکھے جا رہی تھی۔ مجھے ایسے اپنی طرف‬
‫دیکھتے ہوئے سمیرا بولی کیا ہوا پہلے کبھی کسی ننگی لڑکی کو نہیں دیکھا؟ اور تم تو‬
‫ایسے دیکھ رہی ہو جیسے کوئی لڑکا اپنی گرل فرینڈ کو ننگا دیکھ لے۔ میں اس بات پر‬
‫ہنس پڑی اور کہا نہیں ایسی بات نہیں‪ ،‬تم دونوں سوئمنگ کرو میں باہر ہی بیٹھوں گی۔‬
‫میری یہ بات سن کر دونوں آگے بڑھیں اور کہا ایسے نہیں اتارتی کپڑے تو ہم خود اتار‬
‫دیتے ہیں تمہارے کپڑے۔ اور انہوں نے میری قمیص اتارنی شروع کی میں نے ہلکا سا‬
‫روکا مگر سائرہ میری قمیص اتار چکی تھی اور سمیرا میری شلوار اتار رہی تھی۔ اب ہم‬
‫تینوں کے کسے ہوئے ممے برا میں تھے اور نیچے سے ہم تینوں نے پینٹی پہن رکھی‬
‫تھی۔ سمیرا نے میرے مموں پر ایک چماٹ ماری اور بولی کے بڑے ٹائٹ ممے ہیں‬
‫تیرے تو۔ اور یہ کہ کر سوئمنگ پول میں جمپ لگا کر کسی مچھلی کی طرح تیرنے لگی۔‬
‫اسکے بعد سائرہ نے بھی چھالنگ لگائی اور مجھے اپنے پیچھے پانی میں آنے کو کہا۔‬
‫میں ایک سائیڈ پر گئی جہاں سیڑھیاں نظر آرہی تھی جو پول کے اندر اتر رہی تھیں‪ ،‬میں‬
‫ان سیڑھیوں کی مدد سے ڈرتے ڑتے پول میں اتری۔ پانی میرے مموں سے اوپر‬
‫کندھوں تک تھا اور میرا محض سر ہی پانی سے باہر تھا۔ پانی چونکہ بہ رہا تھا اور‬
‫ٹیوبویل سے تازہ پانی آرہا تھا اس لیے بہت ٹھنڈا پانی تھا۔ وہ دونوں پول کا ایک چکر‬
‫لگا کر میرے پاس آئیں اور مجھے بھی تیرنے کو کہا‪ ،‬میں نے کہا کہ مجھے تیرنا نہیں‬
‫آتا تو انہوں نے مجھے ایک سائڈ سے پکڑا اور پانی میں آگے لے گئیں اور کہا کہ‬
‫کوشش کرو تیراکی کی دونوں نے مجھے پیٹ سے سہارا دیا اور کہا کہ ہاتھ اور مار کر‬
‫پانی پر تیرنے کی کوشش کروں‪ ،‬میں نے کوشش کی مگر سیدھا پانی میں غوطہ لگ‬
‫گیا۔ سمیرا نے مجھے ہاتھ پکڑ کر دوبارہ کھڑا کیا تو میں نے توبہ کی کہ مجھے نہیں‬
‫تیرنا‪ ،‬میں ایسے ہی کھڑی ہوں تم لوگ تیراکی کرو۔ میں ایسے ہی انجوائے کر لوں گی۔‬
‫اس پر سائرہ پول سے باہر نکلی اور ایک کونے میں پڑی ٹیوب اٹھا الئی جو انسان کو‬
‫ڈوبنے سے بچاتی ہے۔ سائرہ نے وہ ٹیوب مجھے دی اور کہا اسکی مدد سے تیراکی‬
‫کرو۔ میں نے وہ ٹیوب اپنی کمر کے گرد ڈال لی اور اب پانی پر با آسانی تیرنے لگی۔‬
‫کچھ دیر ہم پانی میں ایسے ہی تیراکی کرتی رہیں۔ شروع میں تو پانی میرے کندھوں تک‬
‫تھا مگر تھوڑا آگے جا کر پول کی گہرائی زیادہ تھی جس کا مجھے سائرہ نے بتا دیا‬
‫تھا۔‬
‫کچھ دیر ہم پانی میں ایسے ہی تیراکی کرتی رہیں۔ میرے لیے یہ پہال ایکسپیرینس تھا‬
‫اور کچھ دیر کی تیراکی کے بعد میں نے کم گہرائی والے پانی میں آکر ٹیوب کے بغیر‬
‫بھی تیراکی کی کوشش کی تو کسی حد تک کامیابی ہوئی مگر محض کچھ سیکنڈ کے‬
‫لیے ہی میں پانی میں تیر سکی اسکے بعد پھر سے غوطہ لگ گیا تو میں نے دوبارہ‬
‫ٹیوب پکڑ کر تیراکی جاری رکھی۔ اب سائرہ میرے پاس آئی اور میرے جسم سے چھیڑ‬
‫خانی کرنے لگی۔ اس نے میرے مموں پر ہاتھ رکھا اور بولی کے بہت پیارے ممے ہیں‬
‫تمہارے اور انکی گوالئی تو رضوان بھائی کو پاگل کر دے گی۔ پھر میری گانڈ پر ہاتھ‬
‫رکھ کر بولی کہ یہ بھی بہت زبردست ہے میں ہنسی اور کہا تجھے کیوں فکر ہورہی ہے‬
‫میری‪ ،‬اپنی بھابھی کے ممے اور گانڈ دیکھ اور سوچ تیرے بھائی کا کیا حال ہوتا ہوگا۔‬
‫یہ بات سن کر سائرہ زور سے ہنسی جبکہ سمیرا کے گال شرم سے سرخ ہوگئے۔ پھر‬
‫سائرہ نے میرے جسم کا بغور جائزہ لیا اور کچھ سوچنے لگی۔ پھر اچانک بولی کہ یار‬
‫رضوان بھائی باہر بور ہورہے ہونگے انکے بھی بال لیتے ہیں ادھر ہی۔ میں ایک دم ہکا‬
‫بکا رہ گئی اور کہا یہ کیا بکواس کر رہی ہو؟ سمیرا نے بھی کہا کہ نہیں رضوان کو‬
‫ادھر نہں بالو ہم نے کونسا سوئم سوٹ پہنا ہوا ہے ہم تو برا اور پینٹی میں ہیں۔ لیکن‬
‫سائرہ بضد رہی کہ نہیں انہیں بالنا چاہیے۔ فائزہ تو ویسے ہی اسکی منگیتر ہے اسنے‬
‫الزمی اپنے حسن کے جلوے پہلے بھی دکھائے ہونگے رضوان کو اور مجھے کوئی‬
‫فکر نہیں اگر وہ مجھے اس حالت میں دیکھ بھی لے تو مجھے کیا فرق پڑتا ہے وہ‬
‫کونسا میرا کچھ بگاڑ سکتا ہے۔ مگر سمیرا پھر بھی نا مانی تو سائرہ نے سمیرا کو کہا‬
‫کہ وہ باہر نکل کر اپنا گاون پہن لے۔ میں رضوان کو بال رہی ہوں۔ وہ بھی فائزہ کے‬
‫ساتھ تھوڑا سا انجوائے کر لیں تو کیا حرج ہے۔ مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ‬
‫کیا کروں۔ سمیرا نے میری حالت دیکھی تو ہنستی ہوئی سوئمنگ پول سے باہر نکل گئی‬
‫اور کہا فائزہ آج تمہاری خیر نہیں۔ سائرہ نے باہر نکل کر میرا فون اٹھایا اور رضوان کا‬
‫نمبر مال کر اسے کہا کہ پول کی طرف آجاو اندر فائزہ آپکو بال رہی ہے۔ اور سمیرا نے‬
‫باہر نکل کر ٹاول سے اپنا جسم صاف کیا اور برا اور پینٹی اتار کر گاون پہن لیا۔ اور برا‬
‫اور پینٹی جگہ پر رکھ دی۔ تھوڑی ہی دیر میں رضوان اندر آتا دکھائی دیا‪ ،‬اس وقت‬
‫سمیرا پول سے باہر گاون پہن کر کھڑی تھی اور سائرہ میرے ساتھ پول میں تھی‪ ،‬میں‬
‫نے بھی باہر نکل کر کپڑے پہننے کا کہا تھا مگر سائرہ نے ایسے نہیں کرنے دیا اور‬
‫کہا اپنے منگیتر کو بھی تھوڑے جلوے دکھا دے اپنے جسم کے۔‬
‫رضوان جب پول کے قریب آیا تو ایک بار وہ بھی دیکھ کر حیران رہ گیا۔ سمیرا گاون‬
‫میں ہونے کے باوجود کافی سیکسی لگ رہی تھی مگر اصل حیرانگی کی بات میرا اور‬
‫سائرہ کا برا پینٹی پہنے پانی میں موجود ہونا تھا۔ رضوان کے آتے ہی سائرہ پانی سے‬
‫باہر نکلی اور رضوان کی طرف کمر لچکاتے ہوئے جانے لگی۔ رضوان بھی پھٹی پھٹی‬
‫نگاہوں سے سائرہ کو دیکھ رہا تھا اور مجھے بھی کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ آخر‬
‫یہ سائرہ کو ہوا کیا ہے۔ سائرہ رضوان کے پاس پہنچی اور اپنے مموں پر ہاتھ پھیرتے‬
‫ہوئے بولی کیا ہوا رضوان بھائی ایسے کیا دیکھ رہے ہو پہلے کبھی خوبصورت لڑکی‬
‫نہیں دیکھی کیا؟ رضوان جو بغیر نظریں جھکائے سائرہ کے جسم کو اوپر سے نیچے‬
‫دیکھ رہا تھا واپس ہوش میں آگیا اور کہا نہیں خوبصورت لڑکیاں تو بہت دیکھی ہیں‬
‫مگر اس حالت میں کسی کو نہیں دیکھا۔ یہ سن کر سائرہ نے رضوان کے سینے پر ہاتھ‬
‫رکھا اور اسکی شرٹ کا بٹن کھولتے ہوئے بولی جھوٹ نہ بولیں‪ ،‬فائزہ کو تو ضرور‬
‫دیکھا ہی ہوگا۔ رضوان نے ٹھنڈی آہ بھرتے ہوئے میری طرف دیکھا اور کہا کہ کوشش‬
‫تو کئی بار کی مگر تمہاری دوست شرماتی بہت ہے کچھ دکھاتی ہی نہیں۔ میں اب ِھی تک‬
‫پانی میں ہی تھی اور باہر آنے کی ہمت نہیں تھی مجھ میں۔ سائرہ نے پھر اپنا ہاتھ اپنے‬
‫مموں پر پھیرتے ہوئے پانی نیچے ٹپکایا اور بولی اب ایسی بھی کیا شرم بھال منگیتر‬
‫سے بھی کوئی شرماتا ہے کیا اور پھر سے رضوان کی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی اب‬
‫رضوان میں بھی تھوڑا اعتماد آچکا تحا۔ سائرہ رضوان کی شرٹ کے سارے بٹن کھول‬
‫چکی تھی اور پھر شرٹ اتارنے میں بھی سائرہ نے دیر نہیں لگائی۔ شرٹ اتارنے کے‬
‫بعد رضوان کی بنیان بھی اتار دی۔ میں نے پہلی بار رضوان کو بغیر شرٹ اور بینان کے‬
‫دیکھا تھا۔ رضوان کا سینہ ب ِھی بالوں سے پاک تھا۔ جبکہ میرے بہنوئی عمران کے‬
‫سینے پر بال موجود تھے۔ رضوان کا سینہ بہت سیکسی لگا مجھے اور سینہ دیکھ کر‬
‫لگتا تحا کہ رضوان باقاعدگی سے ِجم کرتا ہے۔ سائرہ نے اب کی بار رضوان کے سینے‬
‫پر ہاتھ پھیرا کہ رضوان بھائی اپنا یہ سینہ کسی بھی جوان لڑکی کو دکھاو وہ خود ہی‬
‫اپنا سب کچھ آپ کو دکھا دے گی۔ یہ کہ کر وہ سمیرا کی طرف دیکھ کر بولی کیوں‬
‫سمیرا ٹھیک کہ رہی ہوں نہ میں؟ سمیرا ہنستے ہوئے بولی کہ سائرہ تیرا دماغ خراب‬
‫ہوگیا ہے۔ کیوں تنگ کر رہی ہے رضوان بھائی کو۔ تو سائرہ بولی میں کب تنگ کر رہی‬
‫ہوں انہیں انہی سے پوچھ لو رضوان بھائی آپ تنگ ہورہے ہیں کیا؟؟؟ رضوان بھال‬
‫کیوں کہتا کہ وہ تنگ ہورہا ہے اسکے سامنے تو ‪ 2‬ننگی لڑکیاں موجود تھیں اور اسے‬
‫کیا چاہیے تھا۔‬
‫اب کی بار سائرہ کے ہاتھ رضوان کی بیلٹ پر تھے اور اسنے رضوان کی بیلٹ بھی‬
‫کھول دی اور پھر پینٹ کا بٹن بھی کھول دیا۔ میں ابھی تک حیران تھی اور اب مجھے‬
‫تھوڑا غصہ بھی آرہا تھا کہ آکر یہ سائرہ کی بچی کرنا کیا چاہتی ہے۔ بٹن کھول کر‬
‫سائرہ نے رضوان کو کہا اب کچھ خود بھی اتار لیں آپ تو ایسے کھڑے ہیں جیسے میں‬
‫آپکی بیوی ہوں اور میں نے ہی آپکے کپڑے اتارنے ہیں۔ یہ سن کر رضوان ہنسا اور‬
‫اپنی پینٹ اتار دی۔ اب رضوان محض انڈر وئیر میں تھا اور انڈر وئیر سے رضوان کے‬
‫لن کا ابھار بڑا واضح تھا۔ اب کی بار سائرہ نے پھر سے رضوان کے سینے پر ہاتھ‬
‫پھیرا اور نیچے ناف تک ہاتھ ال کر سائڈ پر تھائیز پر ہاتھ لے آئی اور پوچھا سوئمنگ‬
‫آتی ہے آپکو؟ اب میرے صبر کا پیمانہ بھی لبریز ہوچکا تھا‪ ،‬کوئی اور میری آنکھوں‬
‫کے سامنے میرے منگیتر سے اسطرح فلرٹ کرے اسکے جسم پر ہاتھ پھیرے یہ میں‬
‫برداشت نہیں کر سکتی تھی۔ میں ہی کیا کوئی ب ِھ لڑکی یہ بات برداشت نہیں کر سکتی۔‬
‫میں نے ساری شرم ایک سائیڈ پر رکھی اور فوران ہی سوئمنگ پول سے باہر نکل آئی۔‬
‫مجھے باہر آتے دیکھا تو اب رضوان کی نظریں میرے جسم پر تھیں اور اسکا بس نہیں‬
‫چل رہا تحا کہ آگے بڑھ کر مجھے کھا جائے۔ میں نے رضوان کے پاس آکر رضوان کو‬
‫بازو سے پکڑ کر تھوڑا اپنی طرف کھینچا اور کہا آو ہم سوئمنگ کریں۔ یہ سن کر سائرہ‬
‫نے زور دار قہقہہ لگایا اور بولی کہ بڑی دیر کر دی تم نے غصہ کرنے میں میرا تو‬
‫خیال تھا پینٹ اترنے سے پہلے ہی تم باہر آجاو گی‪ ،‬مگر تمہیں باہر نکالنے کے لیے‬
‫مجھے رضوان بھائی سے فلرٹ بھی کرنا پڑ گیا۔ یہ کہ کر وہ ہنستی ہوئی پانی میں‬
‫چھالنگ لگا کر تیراکی کرنے لگی اور ہم دونوں کو بھی کہا کہ آجاو۔ اور ساتھ میں‬
‫سمیرا کو ب ِھ اسنے بوال کہ اگر دل کرے تو آجاو تم بھی مگر اس نے انکار کر دیا۔ اور‬
‫رضوان نے بھی فوران ہی پانی میں چھالنگ لگائی اور سائرہ کے پیچھے پیچھے جانے‬
‫لگا۔ مجھے آج پتا لگا تھا کہ رضوان بھی تیراکی جانتا ہے۔ جب وہ دونوں پانی میں چلے‬
‫گئے تو اب میرے پاس باہر رہنے کا کوئی جواز نہیں تھا۔ میں نے بھی پانی میں‬
‫چھالنگ لگائی اور ٹیوب کی مدد سے تیراکی کرنے لگی۔ تھوڑی دیر تیراکی کرنے کے‬
‫بعد سائرہ باہر نکلی اور ٹاول سے جسم صاف کر کے گاون پہن لیا اور بولی آپ دونوں‬
‫انجوائے کرو میں اور سمیرا واپس جا رہے ہیں۔ یہ کہ کر اس نے رضوان کو آنکھ‬
‫ماری اور کہا رضوان بھائی اب فائزہ آپکے حوالے اسکے بدلے مجھے کوئی اچھا سا‬
‫گفٹ دینا نہ بھولنا۔ رضوان نے بھی ہنستے ہوئے کہا جو تم کہو بال جھجھک مانگ لینا۔‬
‫یہ کہ کر رضوان اب میری طرف آیا جبکہ سمیرا اور سائرہ اپنے کپڑے اٹھا کر باہر چلی‬
‫گئیں۔‬
‫رضوان نے آتے ہی مجھے اپنی بانوں میں لے لیا اور بوال تمہاری دوست تو بہت‬
‫سیکسی ہے۔ میں نے اسکو کہنی ماری اور ناراض ہوتے ہوئے کہا تمہیں شرم نہیں آئی‬
‫اسکو کیسے دیکھ رہے تھے تم۔ تو رضوان بوال اب اپنے والی کچھ دکھائے ہی نہ تو‬
‫دوسری کو ہی دیکھنا پڑے گا نا‪ ،‬اور وہ بھی تو خود ہی میرے سامنے آکر کھڑی ہوگئی‬
‫اور میری شرٹ بھی اتار دی‪ ،‬میں بھی آخر مرد ہوں۔ اب خود ہی لڑکی ایسی حرکتیں‬
‫کرے تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ یہ کہ کر رضوان نے میرے ہونٹوں پر کس کی اور کہا‬
‫مگر جو بات تم میں ہے وہ اسمیں نہیں۔ میں نے کہا مکھن نا لگاو مجھے تو رضوان‬
‫بوال مکھن تو ابھی تم نکالو گی میرا اور میں صحیح کہ رہا ہوں‪ ،‬تمہاری گانڈ اسکی گانڈ‬
‫سے بڑی ہے۔ میں نے اسکو پھر کہنی ماری اورکہا بڑے ٹھرکی ہو تم اتنی سی دیر میں‬
‫دونوں کی گانڈ بھی دیکھ لی۔ تو رضوان بوال مرد کی نظریں عورت میں ‪ 2‬ہی تو چیزیں‬
‫دیکھتی ہیں۔ ایک عورت کے ممے اور ایک عورت کی گانڈ۔ میں بھی ہنس دی کیونکہ‬
‫رضوان کہ تو صحیح رہا تھا اور ویسے بھی میرے چوتڑ سائرہ کے چوتڑوں سے بڑے‬
‫تھے۔ میں نے رضوان کو کہا چلو سوئمنگ کریں اور مجھے سوئمنگ سکھاو تم۔ مگر‬
‫رضوان نے کہا کہ یہ بڑا سنہری موقع مال ہے اسکو سوئمنگ میں ضائع نہیں کرنا آج‬
‫تو کھا جانا ہے میں نے تمہیں۔ یہ کہ کر رضوان نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ‬
‫دیے۔‬
‫رضوان نے بڑی ہی شدت سے کسنگ شروع کی تھی اسکی ایک وجہ شاید یہ بھی تھی‬
‫کہ آج پہلی بار رضوان نے مجھے برا اور پینٹی میں دیکھا تھا اس سے پہلے وہ صرف‬
‫تصویروں میں ہی دیکھتا رہا تھا مجھے اسطرح سے۔ اور رضوان خود ب ِھی محض انڈر‬
‫وئیر میں تھا۔ رضوان نے ایک ہاتھ میرے چوتڑوں پر رکھا ہوا تھا اور دوسرا میری کمر‬
‫کے گرد تھا اور اسکے ہونٹوں نے میرے ہونٹوں کو مضبوطی سے جکڑا ہوا تھا۔ وہ‬
‫مسلسل میری گانڈ دبا رہا تھا اور اپنی زبان سے میرے ہونٹوں پر دستک دینے لگا تو‬
‫میں نے ب ِھی فورا ہونٹ کھول کر اسکی زبان کو اندر آنے کی اجازت دی۔ میرے منہ میں‬
‫زبان ڈالتے ہی وہ میری زبان کو ٹٹولنے لگا اور زبان ملنے پر وہ اپنی زبان کو میری‬
‫زبان کو ٹکرانے لگا۔ میں نے بھی اسکی زبان کو چوسنا شروع کر دیا ۔ کب ِھ میری زبان‬
‫رضوان کے منہ میں ہوتی تو کبھی رضوان کی زبان میرے منہ میں ہوتی۔ میرے ہاتھ‬
‫رضوان کے سینے پر مساج کر رہے تھے۔ تو میرا دل کیا کہ رضوان کے سینے پر ب ِھی‬
‫پیار کروں۔ میں رضوان کو سیڑھیوں کی سائیڈ پر لے گئی اور اسکو سیڑھی پر‬
‫چھڑھنے کو کہا۔ وہ ‪ 2‬سیڑھیوں پر چھڑھا تو میں نے اسے روک دیا اور کہا ادھر ہی‬
‫بیٹھ جاو۔ اب پانی رضوان کے انڈر وئیر تک تھا رضوان کی ٹانگیں پانی می تھیں مگر‬
‫سینہ اور ناف سے اوپر کا حصہ پانی سے باہر تھا۔ میں نے پہلی بار رضوان کا سینہ‬
‫اتنے قریب سے دیکھا تھا۔ آج سے پہلے کبھی رضوان کی شرٹ نہیں اتاری تھی‪ ،‬جب‬
‫بھی موقع ملتا تھا رضوان اپنا لن نکال کرمیرے منہ میں ڈال دیتا تھا۔ رضوان کا سینہ‬
‫بہت پیارا لگ رہا تھا مجھے۔ مینے نے رضوان کے سینے کو چومنا شروع کیا اور‬
‫رضوان کی گود میں ٹانگیں کھول کر بیٹھ گئی میں گھٹنوں کے بل بیٹھی تھی اور‬
‫رضوان کے سینے پر پیار کر رہی تھی۔ کبھی میں رضوان کے سینے پر زبان پھیرتی تو‬
‫کبھی ہونٹوں سے چومتی۔ رضوان نے دونوں ہاتھ میرے چوتڑوں پر رکھے ہوئے تھے‬
‫اور آہستہ آہستہ انہیں دبا رہا تھا جو مجھے بے حد مزہ دے رہا تھا۔ رضوان کب ِھی‬
‫میرے چوتڑوں کو دباتا تو کبھی اپنے ہاتھ میری ٹانگوں پر تھائیز پر پھیرتا۔ میری‬
‫تھائیز بالوں سے بالکل پاک تھیں اور ان پر رضوان کے ہاتھوں کا لمس مجھے مدہوش‬
‫کر رہا تھا۔ میں بھی رضوان کے سینے پر بڑی بیتابی سے پیار کر رہی تھی۔ رضوان‬
‫کے نپل بھی کافی سخت ہو رہے تھے جن پر میں اپنی زبان پھیر رہی تھی۔ نپلز پر زبان‬
‫پھیرنے سے رضوان کو بھی شاید مزہ آرہا تھا اس لیے جب میں نے زبان پھیری نپل پر‬
‫تو رضوان نے میرا سر پکڑ کر تھوڑا سا نپل کی طرف دبایا جس سے مجھے اندازہ‬
‫ہوگیا کہ رضوان کو اچھا لگا ہے ۔‬

‫کچھ دیر رضوان کے نپلز اور سینے پر پیار کرنے کے بعد میں تھوڑا اور نیچے آئی اور‬
‫رضوان کے پیٹ پر بھی پیار کیا‪ ،‬اب رضوان ایک سیڑھی اور اوپر ہوکر بیٹھ گیا تھا‬
‫جس سےپانی اور نیچے ہوگیا۔ اب رضوان کا انڈر وئیر بھی پانی سے باہر تھا۔ رضوان‬
‫کی ناف پر پیار کرتے ہوئے میرا بازو رضوان کے لن سے ٹکرایا تو وہ بہت سخت ہو‬
‫رہا تھا۔ اب میں نے اپنا دھیان رضوان کےلن کی طرف دیکھا۔ رضوان کی ٹانگوں پربال‬
‫تھے اور انڈر وئیر کے اوپر سے لن کا ابھار بہت زیادہ تھا‪ ،‬میں نے ایک ہاتھ انڈر وئیر‬
‫پر رکھ کر اسکو دبانا شروع کیا تو دوسرا ہاتھ رضوان کی ٹانگ پر رکھ کر اسکا مساج‬
‫کرنے لگی۔ پھر میں نے اپنا ہاتھ رضوان کے انڈروئیر میں ڈاال اور لن باہر نکال لیا‪،‬‬
‫رضوان نے بھی فورا ہی تھوڑا سا اوپر ہوکر اپنا انڈر وئیر اتار دیا۔ اب رضوان میرے‬
‫سامنے مکمل ننگا تھا۔ میں نے رضوان کا لن تو پہلے دیکھ رکھا تھا مگر رضوان کو‬
‫مکمل ننگا فرسٹ ٹائم دیکھا تھا۔ میں نے بغیر ٹائم ضائع کیے رضوان کا لن اپنے منہ‬
‫میں لیا اور اسکو چوسنا شروع کر دیا۔ آج رضوان کا لن چوسنے کا علیحدہ ہی مزہ تھا‪،‬‬
‫اسکی وجہ یہ بھی تھی کہ رضوان مکمل طور پر ننگا تھا اور میں نے بھی صرف برا‬
‫سر عام رضوان کا‬ ‫اور پینٹی پہن رکھی تھی۔ اسکے ساتھ ہی یہ احساس بھی تھا کہ میں ِ‬
‫لن چوس رہی ہوں کیونکہ ہمارے گرد چار دیواری تو تھی مگر اوپر چھت نہیں تھی۔اور‬
‫ایسے لگ رہا تھا کہ میں سب کے سامنے رنڈیوں کی طرح رضوان کا لن چوسنے میں‬
‫مصورف ہوں۔ آج لن چوسنے میں جو مزہ آرہا تھا وہ پہلے کبھی نہیں آیا تھا‪ ،‬میری‬
‫چوت مسلسل گیلی ہو رہی تھی۔ گیلی تو وہ پہلے ہی تھی پول کے پانی سے مگر اب‬
‫چوت کے اندر کا پانی بہنے لگا تھا۔ میں کبھی رضوان کا لن چوس رہی تھی تو کبھی‬
‫رضوان کے ٹٹے منہ میں لیکر چوس رہی تھی۔ رضوان کے لن کی ٹوپی سے بھی پانی‬
‫نکل رہا تھا جو میرے منہ کو نمکین کر رہا تھا۔ کچھ ہی دیر چوپے لگانے کے بعد‬
‫رضوان نے اپنا لن میرے منہ سے نکال لیا۔ آج سے پہلے رضوان نے ایسا کبھی نہیں‬
‫کیا تھا جب تک میں رضوان کو فارغ نہ کروا دیتی وہ اپنا لن میرے منہ سے نہیں نکالتا‬
‫تھا۔ میں نے رضوان کو کہا ابھی مکھن تو نکالنے دو مجھے تو وہ بوال وہ بھی نکل‬
‫جائے گا تمہارا جسم دیکھنے کا موقع روز روز نہیں ملنا‪ ،‬آج تو تمہارے ممے دیکھ کر‬
‫ہی رہوں گا۔ یہ سنتے ہی میں ہنسی اور شرما کر پیچھے ہوئی اور پانی میں رضوان‬
‫سے دور جانے لگی‪ ،‬رضوان نے بھی ایک ہی جست میں مجھے آن لیا اور مجھے پکڑ‬
‫کر جپھی ڈال لی اور میرے ہونٹ چوسنے شروع کر دیا۔ نیچے سے رضوان کا لن کھڑا‬
‫ہوکر میری پھدی پر دستک دے رہا تھا‪ ،‬لن کی یہ دستک مجھے مدہوش کر رہی تھی‬
‫کتنے عرصے سے میری پھدی میں لن نہیں گیا تھا۔‬
‫کسنگ کے دوران رضوان نے میرے برا کی ہک کھول دی اوربرا اتار کر دور پانی میں‬
‫ہی پھینک دیا۔ اب میرے ‪ 34‬سائز کے ممے رضوان کے سامنے تنے کھڑے تھے اور‬
‫نپل سخت ہورہے تھے۔ رضوان نے پہلی بار میرے ممے ننگے دیکھے تھے اور دیکھتا‬
‫ہی رہ گیا۔ اس نے فورا ہی مجھے گود میں لیا اور میرے ممے پانی سے اونچے کر کے‬
‫انکو چوسنے لگا۔ اوپر سے رضوان میرے ممے چوس رہا تھا تو نیچے سے رضوان کا‬
‫لن میری پھدی پر لگ رہا تھا۔ اور میں بھی مدہوش ہوئے جا رہی تھی۔ ایک طرف‬
‫رضوان میرے نپل چوس کر میرا دودھ پی رہا تھا تو دوسری طرف اسکا لن میری پھدی‬
‫کو بغاوت پر مجبور کر رہا تھا۔ رضوان میرے تنے ہوئے نپلز کو بڑی گرمجوشی سے‬
‫کاٹ رہا تحا اور میری سسکیاں نکل رہی تھیں۔ میں نے رضوان کے گلے میں ہاتھ ڈالے‬
‫ہوئے تھے اور مسلسل سسک رہی تھی۔ میری سسکیاں مسلسل بڑھتی جا رہی تھیں اور‬
‫مزے کی شدت سے میں نے خود ہی رضوان کے لن پر اپنی پھدی کا دباو بڑھانا شروع‬
‫کر دیا تھا۔ رضوان بھی آج فل موڈ میں تھا۔ اسکو پہلی بار میرے ننگے ممے ملے تھے‬
‫اور نیچے اسکے لن پر میری پھدی کا احساس بھی اسکو پاگل کیے جا رہا تھا۔‬
‫اب اس نے مجھے گود سے اتارا اور نیچے پانی میں غوطہ لگایا اور میری پینٹی اتار‬
‫دی۔ پینٹی اتار کر وہ دوبارہ کھڑا ہوگیا اور اپنا ہاتھ میری پھدی پر رکھ دیا۔ میری‬
‫سسکاری نکل گئی۔ اب رضوان میرے ہونٹ چوس رہا تھا اور نیچے ہاتھ سے میری‬
‫پھدی مسل رہا تھا۔ میں بھی پاگل ہوئے جا رہی تھی۔ مجھے اب اچانک عمران کی یاد‬
‫آئی۔ جب پہلی بار میں نے عمران کا لن چوسا تھا تو میں نے عمران کو کہا تھا کہ میری‬
‫پھدی چاٹیں مگر انہوں نے انکار کر دیا تھا۔ یہ یاد آتے ہی میں نے رضوان کو بے‬
‫اختیار کہ دیا کہ جان پلیز میری پھدی چاٹو۔ میرے منہ سے جیسے ہی یہ الفاظ نکلے‬
‫رضوان نےمجھے گود میں اٹھایا اور سیڑھیوں پر لیجا کر بٹھا دیا۔ اب رضوان نے‬
‫مجھے پیچھے کی طرف لیٹنے کو کہا‪ ،‬میں کہنیوں کے سہارے سے تھوڑا پیچھے کو‬
‫لیٹی تو رضوان نے میرے چوتڑوں کے نیچے ہاتھ رکھ کر مجھے اوپر اٹھایا اور بال‬
‫جھجک اپنا منہ میری پھدی پر رکھ دیا۔ جیسے ہی رضوان کی زبان میری پھدی کے‬
‫لبوں سے ٹکرائی میں تو جیسے ایک علیدہ ہی دنیا میں پہنچ گئی۔ یہ میری زندگی کا‬
‫پہال موقع تھا جب کسی نے میری پھدی پر اپنا منہ رکھا ہو۔ عمران کو بہت بار کہا مگر‬
‫عمران نے ایسا نہیں کیا تھا اور باآلخر آج رضوان نے میری پھدی چاٹنی شروع کی‬
‫تھی۔ رضوان نے یہ سب فلموں میں دیکھ رکھا تھا اس لیے اسے اندازہ تھا کہ پھدی کو‬
‫کیسے چاٹا جاتا ہے۔‬
‫رضوان کی زبان میری پھدی میں گھسنے کی کوشش کر رہی تھی مگر پھدی ٹائٹ ہونے‬
‫کی وجہ سے وہ محض اوپر ہی اوپر پھیر رہا تھا زبان کو۔ جب رضوان پھدی چاٹ رہا‬
‫تھا تو میری پھدی نے بہت شدت کے ساتھ لن مانگنا شروع کر دیا۔ لیکن ساتھ ہی میرے‬
‫دل میں ڈر بھی پیدا ہوا کہ کہیں رضوان کو پتہ نہ چل جائے کہ میری پھدی پہلے بھی‬
‫کسی مرد کا لن لے چکی ہے اور میں اب کنواری نہیں رہی۔ جیسے ہی یہ خیال میرے‬
‫ذہن میں آیا میرےپورے جسم میں ایک سنسنی سی دوڑ گئی اور میری ساری گرمی دور‬
‫ہونے لگی اور میں سوچنے لگی کہ اب کیا کروں۔ پھر میں نے سوچا کہ عمران کا لن‬
‫لیے ‪ 6‬ماہ ہوچکے اب تک تو میری پھدی دوبارہ سے پہلے کی طرح ٹائٹ ہو چکی ہے‬
‫لہذا رضوان کو پتہ نہیں چلے گا۔ یہ سوچ کر مجھے کچھ حوصلہ تو ہوا مگر پھر بھی‬
‫ڈر موجود تھا۔ پھر اچانک ہی مجھے یاد آیا کہ جب عمران نے میرے واش روم میں‬
‫موجود ٹب میں میری چودائی کی تھی تو میری پھدی بہت زیادہ ٹائٹ ہورہی تھی۔ پھدی‬
‫سے نکلنے واال پانی بھی پھدی کو چکنا نہیں کر رہا تھا کیونکہ پھدی میں دوسرے پانی‬
‫کی وجہ سے گیلی ہو رہی تھی۔ اور جب پانی سے باہر نکل کر عمران نے میری پھدی‬
‫کو خشک کر کے چدائی شروع کی تو پھدی کے پانی نے فورا ہی پھدی کو چکنا کر دیا‬
‫تھا اور لن دوبارہ سے روانی سے چدائی کر رہا تھا۔‬
‫جیسے ہی میرے ذہن میں یہ خیال آیا تو میں نے سوچا یہ سب سے بہتر موقع ہے‬
‫چدائی کرنے کا۔ پانی کے اندر چدائی ہوگی تو پھدی میں چکناہٹ پیدا نہیں ہوگی اور‬
‫رضوان کا لن مشکل سے ہی اندر جائے گا جس سے رضوان کو احساس نہیں ہوگا کہ‬
‫پھدی پہلے پھٹ چکی ہے۔ یہ سوچ کر میں نے پکا ارادہ کر لیا کہ آج رضوان کے لن کو‬
‫الزمی پھدی کی سیر کروانی ہے۔ یہ سب باتیں سوچتے ہوئے میری پھدی خشک ہوگئی‬
‫تھی اور اسکی چکناہٹ ختم ہوگئی تھی کیونکہ میرا ذہن سیکس کی طرف نہیں تھا۔ مگر‬
‫جیسے ہی دوبارہ میں نے توجہ رضوان کی طرف دی جو مسلسل میری پھدی چاٹ رہا‬
‫تھا تو مجھے دوبارہ سے مزہ آنے لگا اور کچھ ہی سیکنڈ میں میری پھدی کی چکناہٹ‬
‫واپس آگئی۔ کچھ دیر مزید پھدی چاٹنے کے بغیر رضوان نے اپنا لن ہاتھ میں پکڑا اور‬
‫میری پھدی پر سیٹ کرنے لگا تو میں نے اسکو منع کر دیا اور کہا تھوڑا اور انتظار‬
‫کرے۔ یہ کہ کر میں دوبارہ پانی میں آگئی تاکہ پھدی کی چکناہٹ کو پول کا پانی ختم کر‬
‫دے اور لن ڈالنے میں مشکل ہو۔ پانی میں آکر میں نے ایک بار پھر رضوان کا لن اپنے‬
‫منہ میں لیا تاکہ رضوان کے لن کو تھوڑا مزہ دیا جاے پھدی میں جانے سے پہلے۔‬

‫کچھ دیر رضوان کا لن چوسنے کے بعد رضوان نے کہا اب بس بھی کرو اب مجھے‬
‫تمہاری پھدی چاہیے میں واپس پانی میں لے آئی رضوان کو اور اسے کہا کہ مجھے‬
‫ادھر ہی چودو۔ رضوان نے کہا ادھر مشکل ہوگی پانی سے باہر نکل آو تاکہ آسانی سے‬
‫کر سکیں‪ ،‬میں نے کہا نہیں مجھے شرم آتی ہے تم ادھر ہی نیچے سے اپنا لن ڈال دو۔۔۔‬
‫یہ سن کر رضوان نے میری ایک ٹانگ تھوڑا اوپر اٹھائی اور اپنا لن میری چوت پر‬
‫سیٹ کیا اور ایک جھٹکا مارا۔ مگر لن چوت کے اندر نا جا سکا۔ کیونکہ ایک تو رضوان‬
‫اناڑی تھا دوسرا ہماری پوزیشن ایسی تھی کہ جس میں لن ڈالنا مشکل ہوتا ہے اور پھر‬
‫‪ 6‬ماہ پہلے کی چدائی کی وجہ سے اب پھدی دوبارہ ٹائٹ ہوچکی تھی۔ رضوان نے ایک‬
‫بار پھر لن چوت پر رکھا اور دھکا مارا مگر پھر اسکو ناکامی ہوئی۔ تو وہ شرمندہ ہوا‬
‫کہ لن اندر نہیں جا رہا‪ ،‬میں نے اسکے ہونٹوں پر ایک کس کی اور کہا فکر نہیں کرو‬
‫چال جائے گا کنواری پھدی میں مشکل سے ہی جاتا ہے‪ ،‬یہ کہ کر میں نے اسکا لن پکڑا‬
‫اور اپنی چوت پر سیٹ کیا اور کہا کہ اب دھکا نا مارو بلکہ آہستہ آہستہ زور لگاو۔‬
‫رضوان نے ایسا ہی کیا اور میری چوت پر اپنے لن کا دباو بڑھانے لگا۔ میں نے بھی لن‬
‫کو ہاتھ میں پکڑ کر چوت پر رکھا ہوا تھا اور آہستہ آہستہ لن کا دباو بڑھنے پر کچھ‬
‫حصہ چوت میں داخل ہوا تحا مگر ابھی یہ نہ ہونے کے برابر ہی تھا۔ اس طرح چدائی‬
‫کروانا واقعی فائدے میں رہا میرے لیے کیونکہ رضوان کا لن پھدی میں نہیں جا رہا تھا‬
‫اور الٹا وہ شرمندہ ہو رہا تھا کیونکہ اسنے اپنے دوستوں سے سن رکھا تھا کہ وہ ایک‬
‫ہی جھٹکے میں پھدی پھاڑ دیتے ہیں۔ خیر اب تھوڑی مزید کوشش کے بعد لن کی ٹوپی‬
‫میر پھدی میں جا چکی تھی اور میرا تکلیف سے برا حال تحا۔ کیونکہ میری پھدی‬
‫دوبارہ سے ٹائٹ ہو چکی تھی اور چکناہٹ بھی نہیں تھی۔ اب میں نے اپنا ہاتھ لن سے‬
‫ہٹا لیا اور رضوان کو کہا کہ وہ دباو بڑھانا جاری رکھے اور ساتھ ہی میری چیخیں‬
‫نکلنے لگیں۔ میں نے اپنے دانت تکلیف کی شدت سے رضوان کی گردن میں جڑ دیے‬
‫تھے۔ رضوان کے بڑھتے ہوئے دباوسے اب لن کچھ مزید اندر جا چکا تھا تو میں نے‬
‫رضوان کو کہا کہ اب جھٹکا مارو زور سے‪ ،‬رضوان نے تھوڑا سا لن باہر نکاال مگر‬
‫ٹوپی اندر ہی تھی اور ایک زور دار جھٹکا مارا تو آدھا لن میری پھدی میں چال گیا اور‬
‫میری درد کے مارے زور دار چیخ نکلی۔ اور آنکھوں سے پانی نکل آیا۔ یہ دیکھ کر‬
‫رضوان پریشان ہوگیا اور بوال کہ سوری زیادہ زور سے ہوگیا میں باہر نکال لیتا ہوں۔‬
‫میں نے اسکو فورا منع کیا کہ باہر مت نکالنا اندر ہی رہنے دو میں تکلیف برداشت کر‬
‫لوں گی۔ رضوان پھر بھی پریشان تھا‪ ،‬میں نے رضوان کو کہا کہ آہستہ آہستہ لن اندر‬
‫باہر کرے مگر باہر نہ نکالے۔ رضوان نے ایسے ہی کیا اور آہستہ آہستہ لن اندر باہر‬
‫کرنے لگا۔ مگر لن اب بھی بہت پھنس پھنس کر اندر جا رہا تھا کیونکہ پھدی میں‬
‫چکناہٹ بالکل نہیں تھی۔ کچھ دیر ایسے ہی آہستہ آہستہ کرنے کے بعد میں نے رضوان‬
‫کو کہا کہ ایک اور جھٹکا مارو اور پورا لن میری پھدی میں ڈال دو۔ پھاڑ دو میری‬
‫کنواری پھدی کو‪ ،‬مگر رضوان نے کہا کہ تمہیں درد ہوگی‪ ،‬میں نے کہا میری درد کی‬
‫فکر نہ کرو بس تم اپنا کام کرو اور اپنا مزہ لو۔ رضوان نے کہا پھر تیار ہوجاو رضوان‬
‫نے دوبارہ سے لن تھوڑا سا باہر نکاال اور ایک زور دار جھٹکا مارا۔ مجھے ایسا لگا‬
‫جیسے کوئی لوہے کی سالخ میری پھدی کو چیرتی ہوئی اندر تک چلی گئی‪ ،‬میری ایک‬
‫اور زور دار چیخ نکلی اور میں زور سے رضوان کے ساتھ لپٹ گئی۔ اور اب میرا جسم‬
‫کانپ رہا تھا۔ لن پورا میرے اندر جا چکا تھا۔ میں نے رضوان کو خوشی سے کسنگ‬
‫بھی شروع کی اور اسکو شاباش دی کہ اس نے آج میری پھدی پھاڑ دی۔ رضوان بھی‬
‫بہت خوش تھا کیونکہ اسکو نہ صرف پہلی بار پھدی ملی تھی بلکہ اسکی دانست میں‬
‫اسنے اپنی منگیتر کا کنوارہ پن ختم کر دیا تھا۔‬
‫اب رضوان نے آہستہ آہستہ لن اندر باہر کرنا شروع کر دیا تھا۔ لیکن اس میں بہت مشکل‬
‫ہورہی تھی۔ کچھ دیر بعد ایسے ہی آہستہ آہستہ کرنے کے بعد میرے برداشت بھی جواب‬
‫دینے لگی اور اب مجھے ایک جاندار چدائی کی ضرورت تھی تو میں نے رضوان کو کہا‬
‫چلو اب پانی سے باہر نکلو۔ رضوان نے ایسے ہی باہر کی طرف نکلنا شروع کیا تو میں‬
‫نے کہا اپنا لن نکال لو باہر۔ رضوان بوال کہ پھر تمہیں دوبارہ تکلیف ہوگی تو میں نے‬
‫کہا نہیں ایک بار لن اندر تک چال گیا ہے تو اب دوبارہ بھی چال جائے گا۔ پھر رضوان‬
‫نے لن باہر نکاال اور پول سے باہر نکل کر بینچ پر جا کر لیٹ گئی میں۔ اب رضوان‬
‫میری پھدی کی طرف دیکھ رہا تھا تو میں نے رضوان کو کہا اسکو تھوڑا سا اور چاٹو‬
‫تو آسانی ہوگی چدائی میں۔ رضوان نے میری دونوں ٹانگیں پھیالئیں اور بیچ میں آکر‬
‫میری پھدی کو چاٹنے لگا تو میری پھدی نے فورا ہی چکناہٹ پیدا کرنی شروع کر دی۔‬
‫رضوان جب میری پھدی چاٹ رہا تحا تو مجھے ایسا محسوس ہوا جیسے کوئی ہمیں‬
‫دیکھ رہا ہے‪ ،‬میں نے سر اٹھا کر ادھر ادھردیکھا تو کوئی نہیں تھا‪ ،‬آس پاس کوئی‬
‫بلڈنگ بھی نہیں تھی‪ ،‬سائرہ کے کمرے کی طرف دیکھا تو وہاں بھی کوئی نہیں تھا۔ تو‬
‫میں نے سوچا کہ میرا وہم ہے اور دوبارہ سے اپنی پھدی چٹوانے لگی۔ جب پھدی‬
‫دوبارہ سے چکنی ہوگئی تو میں نے رضوان کو کہا اب وہ بینچ پر لیٹ جائے۔ رضوان‬
‫بینچ پر لیٹا تو میں نے رضوان کا لن منہ میں لیا اور اور ‪ 4 ،3‬چوپے لگا کر لن کو‬
‫بھی گیال کیا‪ ،‬پھر اس پر تھوک پھینک کر ہاتھوں سے تھوک اس پر مسال اور پھر ‪2‬‬
‫چوپے لگائے اور رضوان کے اوپر آکر بیٹھ گئی اسکا لن اپنی چوت پر رکھ کر اندر‬
‫لینے کی کوشش کرنے لگی تو ایک بار پھر تکلیف ہونے لگی۔ میری پھدی واقعی میں‬
‫پہلے کی طرح ہو چکی تھی فل ٹائٹ تھی اور کوئی نہیں کہ سکتا تھا کہ میں پہلے لن‬
‫لے چکی ہوں۔ میں نے آہستہ آہستہ لن پر اپنا وزن بڑھایا تو آدھا لن میری چوت میں جا‬
‫چکا تھا مگر تکلیف سے میری بس ہو چکی تھی۔ تو میں نے رضوان کو کہا ایک زور‬
‫دار جھٹکا مارہ نیچے سے اور پورا لن گھسا دو‪ ،‬یہ سنتے ہی رضوان نے جھٹکا مارا‬
‫اور پورا لن میرے اندر تھا۔ مگر اب کی بار درد کچھ کم تھی کیونکہ میری چوت کافی‬
‫چکنی ہو رہی تھی۔ اب آہستہ آہستہ رضوان نے دھکے لگانے شروع کیے تو میں‬
‫رضوان کے اوپر لیٹ گئی اور اپنی گانڈ اوپر اٹھا لی تاکہ رضوان با آسانی دھکے لگا‬
‫سکے۔۔۔ کچھ دیر بعد جب لن آسانی سے اندر باہر ہونے لگا تو میں نے رضوان کو کہا‬
‫دھکوں کی سپیڈ بڑھا دے۔۔۔ رضوان نے جیسے ہی دھکوں کی سپیڈ بڑھائی میری‬
‫سسکیوں میں بھی اضافہ ہوگیا ۔۔ اف اف اف ف ف ف ف۔۔۔۔ آہ آہ آہ آہ‪ ، ،‬ہائے میری‬
‫جان۔۔ ُپھاڑ ڈالی میری پھدی۔۔۔ اآہ آہ آہ آہ‪ ،‬ام ام ام۔۔۔۔ اس طرح کی آوازیں مسلسل میرے‬
‫منہ سے نکل رہی تھی جنکو سن کر رضوا کے دھکے اور بھی تیز ہورہے تھے۔ کچھ‬
‫مزید دھکے لگے اور میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔ اب رضوان نے اپنے دھکے روک‬
‫لیے اور پانی دیکھنے لگا۔ میں نے رضوان کو اٹھنے کا کہا اور اسکو بوال کہ میری‬
‫ٹانگیں اوپر اٹھا کر چودو مجھے۔‬
‫اب میں بینچ پر لیٹ گئی اور رضوان نے میری ٹانگییں اٹھا کر اپنے کندھون پر رکھیں‬
‫اور لن میری چوت پر سیٹ کر کے ایک ہی دھکےمیں پورا لن اندر ڈال دیا۔ رضوان کا‬
‫لن اب با آسانی میری چدائی کر رہا تھا۔ رضوان زور زور سے دھکے لگا رہا تھا۔ کچھ‬
‫دھکوں کے بعد میں نے اپنی پوزیشن چینج کی اور رضوان کو کہا کہ میری ٹانگیں‬
‫سائیڈ پر پھیال دے اور میرے اوپر جھک کرمجھے چودے۔ رضوان نے ایسے ہی کیا‬
‫میری ٹانگیں سائیڈ پر پھیال دیں اور خود میرے اوپر جھک کر مجھے چودنے لگا۔ اب‬
‫میرے دونوں ہاتھ رضوان کی گردن کے گرد تھے اور رضوان نے میرے ایک ممے کو‬
‫اپنے منہ میں لیا ہوا تھا جبکہ دوسرے کو اپنے ہاتھ سے دبا رہا تھا جبکہ نیچے سے‬
‫اسکے لن کی ضربیں میری پھدی کو سکون بخش رہیں تھیں۔ رضوان بڑی شدت سے‬
‫میرے ممے چوس رہا تھا اور میں اپنی گانڈ ہال ہال کر چودائی میں رضوان کا بھرپور‬
‫ساتھ دے رہی تھی۔ چودائی کے ساتھ ساتھ میں رضوان سے چودائی کا موازنہ عمران‬
‫سے کروائی ہوئی چدائی سے کر رہی تھی اور اندازہ لگا رہی تھی کہ کس کی چدائی‬
‫سے زیادہ مزہ آیا؟‪ /‬ت مجھے لگا کہ عمران کی چدائی زیادہ جاندار تھی اور اس میں‬
‫زیادہ مزہ آیا تھا۔ اسکی ایک وجہ تو شاید یہ بھی ہو سکتی ہے کہ وہ میرا بہنوئی تھا‬
‫اور یہ احساس کچھ عجیب سا تھا کہ میں اپنے بہنوئی کی گود میں بیٹھی چدائی کروا‬
‫رہی ہوں اور دوسری وجہ یہ بھی ہو سکتی تھی کہ عمران چدائی میں ایکسپرٹ تھا آخر‬
‫وہ ‪ 6‬ماہ سے میری بڑی بہن کی جم کے چوت مار رہا تھا۔‬
‫لیکن اس وقت تہ میری چوت میں رضوان کا لن تھا جو مسلسل میری سسکاریاں نکلوا‬
‫رہا تحا۔ رضوان کے بے تحاشہ دھکوں کے آگے میری چوت نے ایک بار پھر ہار مان‬
‫لی اور پانی چھوڑ دیا۔ اب کی بار میں نے رضوان کا لن نکاال‪ ،‬اسکو بینچ پر لٹایا اور‬
‫خود اسکے اوپر اسطرح لیٹ گئی کہ میری پھدی رضوان کے منہ پر تھی اور میرا منہ‬
‫رضوان کے لن کی طرف۔ اب رضوان میری پھدی چاٹ رہا تھا اور میں اسکے لن کے‬
‫چوپے لگا رہی تھی جس میں مجھے اپنی پھدی کے پانی کا ذائقہ بھی مل رہا تھا جو کہ‬
‫رضوان کے لن پر لگا ہوا تھا۔ ہم ‪ 69‬پوزیشن میں تھے جو رضوان اور مجھے دونوں‬
‫کو ہی بہت اچھی لگ رہی تھی۔ عمران نے تو میری پھدی چاٹنے سے ہی انکار کر دیا‬
‫تھا اس لیے اس وقت میں وہ مزہ نہیں لے سکی مگر رضوان کے ساتھ میں نے یہ‬
‫تجربہ بھی کیا۔ یہ ب ِھ میری زندگی کا پہال تجربہ تھا۔ فلموں میں دیکھ رکھا تھا ‪69‬‬
‫پوزیشن میں لن اور پھدی چاٹنا مگر حقیقت میں یہ پہلی بار ہورہا تھا۔ کچھ دیر اسی‬
‫پوزیشن میں مزہ لینے کے بعد میں دوبارہ سے رضوان کے لن پر آکر بیٹھ گئی اور ایک‬
‫ہی جھٹکے میں پورا ‪ 7‬انچ کا لن اپنی پھدی کی گہرائیوں میں اتار لیا تھا۔ اور میں‬
‫مسلسل رضوان کے لن کے اوپر چھالنگیں لگا لگا کر اسکو مزہ دے رہی تھی۔ نیچے‬
‫پڑے بینچ کی بھی میری چھالنگوں سے چیخیں نکالن شروع ہوگئی تھیں کچھ دیر‬
‫چھالنگیں لگانے کے بعد میں تھک گئی تو میں رضوان کے اوپر لیٹ گئی اور اب نیچے‬
‫سے رضوان نے دھکے لگانے شروع کیے۔ میں نے رضوان سے کہا کہ جتنی زور سے‬
‫چود سکتے ہو چود دو مجھے تو رضوان نے اپنے دھکوں کی رفتار اور بھی تیز کر‬
‫دی۔ اب اسکے طوفانی دھکوں نے مجھے تو جیسے کسی اور ہی دنیا میں پہنچا دیا تھا‬
‫جہاں بس مزہ ہی مزہ تھا۔ کچھ ہی دیر تک رضوان کے لن نے اپنی سپیڈ اور تیز کی اور‬
‫رضوان بوال کہ اسکا مکھن نکلنے واال ہے‪ ،‬میں نے رضوان کو کہا بس کچھ دیر اور‬
‫روک کے رکھو میری بھی منزل قریب ہی ہے‪ ،‬تو رضوان نے اپنی سپیڈ تھوڑی سلو کر‬
‫دی۔۔۔ میں نے اپنا ایک مما رضوان کے منہ میں ڈال دیا اور اسکو کہا کے دھکے بھی‬
‫جاری رکھے اور میرے ممے کو بھی چوس چوس کر بڑا کر دے۔ رضوان نے بہت ہی‬
‫شدت سے مما چوسنا شروع کیا تو اس ڈبل مزے سے میری منزل بھی قریب آنے لگی۔‬
‫میں نے رضوان کو کہا کہ بس میں بھی اب چھوٹنے لگی ہوں تو اپنی سپیڈ بڑھا دو‪ ،‬یہ‬
‫سنتے ہی رضوان نے ایک بار پھر سے چودائی کی اس گاڑی کا پانچواں گئیر لگا دیا‬
‫اور سپیڈ پر پورا پاوں رکھ دیا۔ میری پھدی میں جیسے کوئی مشین چل رہی تھی تو‬
‫مسلسل میری پھدی کی دیواروں سے ٹکرا ٹکرا کر مجھے مزہ دے رہی تھی۔ اچانک ہی‬
‫رضوان کے لن نے سپیڈ ختم کر دی مگر رک رک کر زور زور سے دھکے مارنے لگا۔‬
‫رضوان کی منی نکل چکی تھی اور انہی سلو مگر زور دار جاندار دھکوں نے مجھے‬
‫بھی فارغ کر دیا تھا۔ ہم دونوں اکٹھے ہی فارغ ہوگئے تھے۔ کچھ دیر دونوں کے جسم‬
‫نے جھٹکے لیے اور پھر جیسے سکون آگیا۔ رضوان نے اب میرا بدن چومنا شروع کر‬
‫دیا۔ اور مجھے کہا کہ آج اسکو بہت مزہ آیا ہے۔ وہ ساری زندی اپنی یہ پہلی چودائی‬
‫نہیں بھولے گا۔ میں نے بھی اسکو کہا کہ آج تم نے اپنی فائزہ کو معصوم لڑکی سے‬
‫عورت بنا دیا ہے اور لن کے مزے سے آشنا کر دیا ہے۔‬
‫اب ہم نے اپنے اپنے کپڑے پہنے اور واپس سائرہ کے کمرے کی طرف جانے لگے تو‬
‫ہمں بڑے حال میں ہی مل گئی ہمیں دیکھتے ہی بولی ہاں جی گئی آپ لوگوں کی‬ ‫سمیرا ِ‬
‫سوئمنگ؟؟ تو میں نے شرماتے ہوئے کہا ہاں جی ہوگئی۔ اتنے میں سائرہ بھی سیڑھیاں‬
‫اترکر نیچے آگئی اور رضوان کو آنکھ مار کر بولی رضوان بھائی فائزہ کو زیادہ تکلیف‬
‫تو نہیں دی آپ نے؟؟؟ یہ بات سن کر رضوان پہلے تو تھوڑا جھجک گیا کہ کیا جواب‬
‫دے مگر پھر بوال کہ نہیں سوئمنگ میں کیسی تکلیف۔ البتہ آپکا شکریہ جو آپ نے‬
‫مجھے فائزہ کے ساتھ سوئمنگ کرنے کا موقع دیا ۔‬
‫پھر سائرہ کا مالزم ہم لوگوں کے لیے جوس لے آیا۔ جو پی کر ہم لوگوں نے اجازت‬
‫چاہی تو سمیرا نے کہا تم دوبارہ بھی چکر لگانا میں ایک مہینہ ادھر ہی ہوں۔ میں نے‬
‫اسے کہا ہاں جی اگر سائرہ نے آنے دیا تو میں ضرور آوں گی۔ پھر میں دونوں سے‬
‫گلے ملی اور رضوان کے ساتھ گاڑی میں واپس گھرآگئی۔ راستے میں رضوان بار بار‬
‫مجھے کہتا رہا کہ چوپے لگوا کر اور مٹھ مار کر کبھی وہ مزہ نہیں مال جو آج تمہاری‬
‫پھدی نے دیا ہے۔ میں نے اسے کہا تمہا لن بھی بہت جاندار ہے‪ ،‬شروع میں مجھے بہت‬
‫تکلیف دی مگر پھر مزہ بھی بہت آیا۔ ایسے ہی ہم گھر پہنچ گئے۔ گھر پہنچ کر رضوان‬
‫کچھ دیر رکا اور پھر واپس چال گیا۔ ابو پہلے سے ہی گھر پر تھے۔ میں نے کھانا تیار‬
‫کیاابو امی کے ساتھ کھانا کھایا اور اپنے کمرے میں چلی گئی۔‬
‫کمرے میں جا کر میں نے اپنا موبائل آن کیا اور فیس بک پر رضوان کو میسج کرنے‬
‫لگی۔ جب موبائل پر فیس بک میسج کھولے تو کسی انجان آئی ڈی سے مجھے میسج آیا‬
‫ہوا تھا۔ میں نے جب وہ میسج کھوال تو میرے پیروں تلے سے زمین ہی نکل گئی۔ اس‬
‫میسج میں میری اور رضوان کی چدائی کی تصویریں اور ایک چھوٹی سی چدائی کی‬
‫ویڈی تھی۔ اور نیچے لکھا تھا کہ اگر تم نے اپنی چوت مجھے نہ دی تو میں یہ‬
‫تصویریں اور ویڈیو انٹرنیٹ پر پھیال دوں گا۔ ابھی میں یہ میسیج ہی پڑھ رہی تھی کہ‬
‫مجھے موبائل نمبر پر بھی ایک انجان نمر سے ایس ایم ایس آگیا۔ اس میں لکھا تھا کہ‬
‫سر عام پھیال دوں گا تم‬
‫اگر تم نے چوت دینے سے انکار کیا تو تمہاری عزت انٹرنیٹ پر ِ‬
‫اور تمہارا یار دونوں بدنام ہوجائیں۔ گے۔ چوت کس دن دینی ہے اسکا میں تمہین بعد میں‬
‫بتاوں گا۔‬
‫یہ میسج پڑھ کر میرا دماغ بالکل ماوف ہوگیا اور مجھے ایسے لگا جیسے میرے ہر‬
‫طرف اندھیرا ہی اندھیرا ہے۔۔۔۔۔‬
‫کافی دیر تک تو مجھے سمجھ نہیں آئی کہ آخر یہ میرے ساتھ ہوا کیا ہے؟ پھر جب کچھ‬
‫حواس بحال ہوئے تو میں نے ایک بار پھر سے فیس بک میں میسج اوپن کیا اور وہ‬
‫تصویریں دوبارہ دیکھنے لگی اور ساتھ ہی ویڈیو بھی دوبارہ دیکھی۔ غور کرنے پر‬
‫معلوم ہوا کہ یہ بالکل اسی اینگل سے بنائی گئی ہیں جو اینگل سائرہ کے کمرے سے بن‬
‫رہا تھا جس سے مجھے اتنا اندازہ ہوا کہ ویڈیو بنانے واال سائرہ کے کمرے میں موجود‬
‫تھا۔ یہ خیال پختہ ہوا تو میں نے سائرہ کے بارے میں سوچنا شروع کیا کہ کہیں اسنے‬
‫تو یہ ویڈیو نہیں بنائی؟؟؟ مگر پھر سوچا کہ آخر اسکو کیا فائدہ ہوگا میری ایسی ویڈیو‬
‫بنانے کا اور پھر مجھے بلیک میل کرنے کا؟؟؟ پھر میں نے سائرہ کے بھائی حیدر کے‬
‫بار میں سوچا کہ ہوسکتا ہے اسنے یہ ویڈیو بنا لی ہو؟ مگر پھر سوچا کہ اس دن تو وہ‬
‫گھر پر تھا ہی نہیں۔ جب ہم سائرہ کے گھر گئے اس وقت سے لیکر جب اسکے گھر‬
‫سے واپس نکلے تو حیدر گھر پر نہیں تھا۔‬
‫پھر میں سوچنے لگی کہ اگر سائرہ بھی نہیں اور حیدر بھی نہیں تو پھر آخر کون بنا‬
‫سکتا ہے یہ ویڈیو؟ کافی دیر سوچنے کے بعد اچانک مجھے سائرہ کے اس مالزم کا‬
‫خیال آیا جو ہمارے لیے پانی لیکر آیا تھا۔ اس وقت میں نے نوٹ کیا تھا کہ سائرہ کے‬
‫سامنے تو وہ بہت مودب اور آنکھیں جھکا کر کھڑا تھا مگر اسکی نظریں میرے مموں‬
‫کا دیدار ضرور کر رہی تھیں اسکی آنکھوں میں میرے مموں کی طلب موجود تھی‬
‫جیسے وہ انہیں فورا اپنے ہاتھوں میں لیکر دبا دینا چاہتا ہو۔ اسکا خیال آتے ہی میرے‬
‫ذہن نے اس بات کو تسلیم کر لیا کہ یہ حرکت اسی کمینے مالزم کی ہوگی۔‬
‫اب میں سوچنے لگی کہ صبح ہوتے ہی اسکی شکایت سائرہ سے کروں گی اور ساری‬
‫بات اسکو بتاوں گی۔ مگر پھر سوچا کہ سائرہ کیا کر لے گی؟ زیادہ سے زیادہ اس سے‬
‫موبائل لے کر وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دے گی اور اسکو نوکری سے نکال دے گی؟؟ مگر اب‬
‫تک تو وہ مالزم میری ویڈیو کو نجانے کہاں کہاں سیو کر چکا ہوگا بیک اپ کے طور‬
‫پر۔ اور اگر سائرہ کو شکایت لگانے پر اسکو غصہ آگیا تو وہ میری ویڈیو الزمی انٹرنیٹ‬
‫پر ڈال دے گا۔ یہ خیال آتے ہی میں نے اپنا ارادہ کینسل کر دیا۔ پھر سوچا کہ کیوں نہ‬
‫رضوان کو بتاوں وہ خود ہی اس سے نمٹ لے گا۔ مگر پھر سوچا کہ اگر رضوان نے‬
‫غصے میں آکر اسکو قتل کر دیا تو رضوان کا مستقبل کیا ہوگا؟ وہ تو تباہ ہوجائے گا۔‬
‫اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ الٹا وہ مالزم رضوان کو کوئی نقصان پہنچا دے اور اس میں‬
‫بھی پھر وہی رسک تھا کہ اگر اس نے ویڈیو انٹرنیٹ پر ڈال دی پھر رضوان بھی میری‬
‫عزت نہیں بچا سکے گا۔ آخر کافی سوچنے کے بعد میں اسی نتیجے پر پہنچی کہ اسکو‬
‫چوت دینے کے عالوہ اور کوئی حل نہیں اس مسئلے کا۔ یہ سوچ سوچ کر میں روتی‬
‫رہی اور نجانے کب میری آنکھ لگی۔ صبح اٹھی تو سر درد سے پھٹا جا رہا تھا اور‬
‫آنکھیں سوج چکی تھیں۔ امی نے میری یہ حالت دیکھ کر مجھ سے وجہ پوچھی تو میں‬
‫نے کہا کہ ساری رات سر میں درد ہوتی رہی اس لیے طبیعت خراب ہے۔ امی نے مجھے‬
‫ناشتہ کروایا اور گولی دی۔ میں بھی سارا دن اسی کے بارے میں سوچتی رہی۔ یہ دن‬
‫بھی پریشانی میں گزر گیا اور پھر اگال دن بھی پریشانی میں ہی گزرا۔ ‪ 4‬دن گزرنے کے‬
‫بعد جب میں کسی حد تک اس واقعہ کو بھول چکی تھی تو مجھے پھر سے فیس بک پر‬
‫اسی کا میسج آیا اور اس میں لکھا تھا کہ آج جمعرات ہے‪ ،‬اتوار والے دن تم نے اپنی‬
‫چوت مجھے دینی ہے ورنہ تمہاری چودائی کی ویڈیو پورا پاکستان اور پوری دنیا‬
‫دیکھے گی۔‬
‫یہ میسج پڑھ کر میں پھر سے پریشان ہوگئی اور سوچنے لگی کہ آخر اس مصیبت سے‬
‫کیسے جان چھڑائی جائے۔ مگر کچھ سمجھ ننہیں آئی۔ پھر میں نے اس مالزم کے بارے‬
‫میں سوچنا شروع کر دیا‪ ،‬وہ کافی لمبا چوڑا اور مضبوط جسم کا انسان تھا۔ اسکے‬
‫بارے میں سوچتے ہوئے مجھے اسکے لن کا خیال آیا تو میں نے سوچا کہ اسکا لن‬
‫بھی کافی بڑا اور مظبوط ہوگا۔ آہستہ آہستہ میں نے سوچنا شروع کر دیا کہ وہ میری‬
‫چودائی کیسے کرے گا؟ کیا وہ وحشیوں کی طرح میرا جسم نوچ لے گا یا پھر کسی‬
‫محبوب کی طرح میرے جسم کو پیار کرے گا اور میری چودائی کرے گا؟ یہ سوچ سوچ‬
‫کر مجھے اچانک محسوس ہوا کہ میری شلوار گیلی ہو رہی تھی۔ تب مجھے شرمندگی‬
‫ہوئی تھوڑی کہ وہ زبردستی میری چدائی کرنے کو تیار ہے اور میں اسکے بارے میں‬
‫سوچ رہی ہوں کہ وہ میری چودائی کیسے کرے گا۔ پھر اچانک ہی میرے ذہن میں آیا کہ‬
‫اسکے چوت دیے بغیر کوئی اور راستہ نہیں مگر کیوں نہ میں بھی اس چودائی کی‬
‫ویڈیو بنا لوں‪ ،‬ہوسکتا ہے بعد میں میرے کسی کام آسکے۔ کیونکہ ظاہری بات ہے وہ‬
‫مجھ سے ملتے ہی میری چوت میں اپنا لن تو نہیں گھسائے گا بلکہ کچھ باتیں کرے گا‬
‫اور اس دوران میں کوشش کروں گی کہ کچھ ایسی بات ہوجائے جس سے اسکو بعد میں‬
‫بلیک میل کیا جا سکے اور اس مصیبت سے جان چھڑوائی جا سکے۔‬
‫یہ خیال آتے ہی میں نے فورا شہر کا رخ کیا اور خان پالزہ جا کر ایک خفیہ کیمرہ خرید‬
‫لیا جو ایک پین کی کیپ میں لگا ہوا تھا۔ یہ کیمرہ مجھے محض ‪ 3500‬روپے میں مل‬
‫گیا۔ گھر آکر میں نے اس خفیہ کیمرے کو اپنے بیگ میں فٹ کر دیا اور چیک کرنے کے‬
‫لیے اس سے ویڈیو بنا کر دیکھی۔ میں نے بیگ ایک سائیڈ پر رکھا اور کمرے میں ادھر‬
‫ادھر پھرنے لگی۔ روشنی بھی کم زیادہ کر کے دیکھی اور بعد میں ویڈیو چیک کی تو‬
‫بالکل صحیح اور واضح ویڈیو تھی آواز کی ریکارڈنگ بھی زبردست تھی۔ یہ کیمرہ ‪2‬‬
‫گھنٹے تک کی ویڈیو بنا سکتا تھا جو اچھا خاصا ٹائم ہے۔ اب میں پر سکون ہوکر اتوار‬
‫کا انتظار کرنے لگی۔‬
‫ہفتے کی رات کو مجھے پھر انجان نمبر سے کال آئی‪ ،‬میں نے ہیلو کہا تو آگے سے‬
‫جان من کل کے لیے پھر تیار رہنا اور اپنی چوت کو بھی میرے لیے تیار رکھنا۔‬ ‫آواز آئی ِ‬
‫یہ بہت بھاری آواز تھی جیسے کوئی ‪ 40 ،35‬سال کا مرد بول رہا ہو۔ میں نے اسکو‬
‫گالی دی اور کہابہن چود آخر تو میرے پیچھے کیوں پڑ گیا ہے؟ تجھے جتنے پیسے‬
‫چاہیے بتا میں تجھے دیتی ہوں جا کر کسی چکلے پر کسی رنڈی کی چدائی کر لے میرا‬
‫جان من تمہاری چوت‬ ‫پیچھا چھوڑ دے۔ میری باتیں سن کر اس نے قہقہ لگایا اور بوال ِ‬
‫کی بھی بھال کوئی قیمت ہو سکتی ہے؟ مجھے کچھ نہیں چاہیے سوائے تمہاری چوت‬
‫کے۔ اسکے بعد اس نے غصے میں غراتے ہوئے کہا کہ اپنی چوت کی صفائی کر کے‬
‫آنا مجھے بالوں والی چوت پسند نہیں۔ اور اچھی طرح تیار ہوکر آنا ورنہ تمہاری‬
‫تصویریں فیس بک پر تمہاری پروفائل پر اپلوڈ ہوجائیں گی۔ یہ کہ کر اسنے فون رکھ دیا‬
‫اور میں پھر سے رونے لگ گئی۔ پریشانی میں مزید اضافہ ہوگیا تھا۔ کافی دیر رونے‬
‫کے بعد میں نے سوچا کہ جب چوت دینی ہی ہے تو کیوں نے آرام اور سکون سے دی‬
‫جائے۔ پریشان ہونے کا کیا فائدہ؟ جب اس چوت میں ایک لن جانا ہی ہے تو کیوں نہ اس‬
‫لن کا مزہ بھی لیا جائے اور پریشان ہوکر بالوجہ اس مزہ کو کرکرا نہیں کرنا چاہیے۔ یہ‬
‫سوچ کر میں اٹھی اور میں نے واش روم جا کر اپنی چوت اور انڈر آرم بال صاف کیے‬
‫اور آرام سے آکر سوگئی۔ صبح ‪ 10‬بجے اٹھ کر ناشتہ کیا اور ‪ 11‬بجے کے قریب‬
‫مجھے کال آئی کہ ‪ 12:30‬منٹ تک گلگشت میں موجود پیزا ہٹ کے ساتھ گول باغ‬
‫کے سامنے آکر کھڑی ہوجاو اور مجھے کال بیک کرو۔ میں پھر بتاوں گا کہ تمہیں کہاں‬
‫آنا ہے۔‬
‫میں کال سن کر اٹھی اور تیاری کرنے لگی۔ میں نے ایک جی سٹرنگ نیٹ کی پینٹی پہنی‬
‫اور اسکے ساتھ ایک ٹراوزر پہنا۔ اوپر سے میں نے انڈر وائرڈ برا پہنا نیلے رنگ کا‬
‫جس نے میرے مموں کو اوپر اٹھا کر اور بھی سیکسی بنا دیا۔ اب دونوں ممے آپس میں‬
‫جڑے ہوئے تھے اور سینے کی الئن یعنی کے کلیوج کافی واضح ہوگئی تھی۔ اسکے‬
‫اوپر میں نے ایک لوز اپر پہنا۔ تھوڑا سا میک اپ کیا اپنے آپ کو شیشہ میں دیکھا۔ لوز‬
‫اپر میں سے کلیوج کافی واضح نظر آرہی تھی جس سے میں بہت سیکسی لگ رہی تھی۔‬
‫اوپر سے میں نے ایک چادر لی اور امی کو بتایا کہ میں دوست کے گھر جا رہی ہوں۔‬
‫امی نے دوست کا نام پوچھا تو میں نے سائرہ کا ہی نام بتا دیا اور باہر نکل کر سائرہ کو‬
‫کال کی کہ میں رضوان سے ملنے جا رہی ہوں اگر امی کا فون آئے تو بتا دینا کہ میں‬
‫تمہارے گھر پر ہی ہوں۔ سائرہ نے بھی کہا کے بے فکر ہوکر جاو آنٹی کا فون آیا تو‬
‫میں سنبھال لوں گی۔‬
‫فون کر کے میں رکسشے میں بیٹھی اور گول باغ جا کر اسکو کال کی۔ اس نے کہا کہ‬
‫اب ایسا کرو گردیزی مارکیٹ آجاو۔ یہ مارکیٹ یہاں سے تھوڑا ہی دور تھی میں نے پھر‬
‫رکشہ لیا اور گردیزی مارکیٹ چلی گئی۔ وہاں سے میں نے پھر کال کی تو اسنے مجھے‬
‫ایک ہوٹل کا نام بتایا اور ایڈریس بتایا کہ اس ہوٹل میں آجاو اور باہر کھڑی ہوکر مجھے‬
‫کال کرو۔ یہ کہ کر اسنے کال بند کردی اور میں کھڑی اسکو گالیاں دینے لگی کہ ایک تو‬
‫میری چوت مارنا چاہتا ہے زبردستی اوپر سے مجھے جگہ جگہ ذلیل کر رہا ہے۔ پھر‬
‫میں نے رکشہ پکڑا اور اسکے بتائے ہوئے ہوٹل کے سامنے پہنچ کر اسکو دوبارہ کال‬
‫کی تو اسنے کہا اسی ہوٹل کے کمرہ نمبر ‪ 203‬میں آجاو۔‬
‫میں ہوٹل کی ریشیپشن پر گئی اور کمرہ نمبر ‪ 203‬کا پوچھا۔ انہوں نے مجھے سیکنڈ‬
‫فلور پر جا کر رائٹ سائد پر تیسرے کمرے کا بتایا۔ میں لفٹ سے اوپر پہنچی اور ‪203‬‬
‫نمبر کمرے کے سامنے جا کر کھڑی ہوئی۔ یہاں پہنچ کر اب میری ٹانگیں کانپ رہی تھی‬
‫اور میں سوچ رہی تھی کہ معلوم نہیں آگے کیا ہوگا اور یہ شخص میرے ساتھ کیا کرے‬
‫گا۔ کمرے کے سامنے پہنچ کر میں نے چادر اتار کر اپنے ہینڈ بیگ میں ڈالی اور بیگ‬
‫میں فِٹ کیا ہوا کیمرہ آن کر دیا۔ پھر حوصلہ جمع کیا اور دروازہ ناک کیا۔ اندر سے آواز‬
‫آئی کون؟ میں نے اپنا نام بتایا تو دوبارہ آواز آئی اندر آجاو۔ یہ آواز مجھے جانی پہچانی‬
‫سی لگی۔ میں نے دروازہ کھوال اور اندر داخل ہوگئی۔ میرے سامنے ایک ڈبل بیڈ تھا‬
‫جسکے ساتھ ایک صوفہ پڑا تھا اسکے سامنے ایک ٹیبل پڑی تھی جس پر کچھ مشروب‬
‫رکھے ہوئے تھے۔ سامنے ایک شیشے کی ونڈو تھی جسکے سامنے ایک چھوٹے قد کا‬
‫شخص کھڑا تھا۔ میں نے پہلے تو پیچھے مڑ کر دروازہ بند کیا کنڈی لگائی اور مناسب‬
‫جگہ ڈھونڈنے لگی بیگ رکھنے کے لیے جہاں سے ویڈیو بن سکے۔ میں نے سامنے‬
‫ٹیپبل پر ہی بیگ رکھ دیا کیونکہ یہاں سے بیڈ کی ویڈیو با آسانی بن سکتی تھی کیونکہ‬
‫آخر کر چدائی تو بیڈ پر ہی ہونی تھی۔‬
‫اب میں نے اس شخص کی طرف دیکھا‪ ،‬اسکی پیٹھ میری طرف تھی۔ میں نے اندازہ لگا‬
‫لیا کہ یہ وہ مالزم تو ہرگز نہیں کیونکہ اسکا قد بڑا تھا۔ پھر سوچنے لگی کون ہو سکتا‬
‫ہے یہ مگر کچھ سمجھ میں نہ آئی۔ پھر میں نے حوصلہ کیا اور اپنا اعتماد بحال کرتے‬
‫ہوئی بولی کہ اب میں اپنی چوت دینے آ گئی ہوں تو اپنی شکل بھی دکھا دو۔ وہ میری‬
‫بات سن کر آہستہ آہستہ مڑا اور جیسے ہی میری نظر اس پر پڑی تو میں حیران رہ گئی۔‬
‫یہ کوئی اور نہیں بلکہ سائرہ کا بھائی حیدر ہی تھا۔ میرے منہ سے ایک دم نکال حیدر‬
‫تم؟؟؟؟؟ وہ میرے سامنے نظریں جھکائے کھڑا تھا اور مجھ سے نظریں نہیں مال رہا‬
‫تھا۔ میں دوبارہ اس سے مخاطب ہوئی کہ حیدر آخر تم نے یہ سب کیوں کیا؟ مگر وہ چپ‬
‫چاپ کھڑا رہا۔ وہ کچھ کہنا چاہ رہا تھا مگر کہ نہیں پا رہا تھا۔ میں آگے گئی اور اسکا‬
‫ہاتھ پکڑ کر اسکو بیڈ پر بٹھایا۔ اسکا ہاتھ بہت گرم تھا جیسے اسے ‪ 104‬ڈگری بخار‬
‫ہو۔ مگر یہ گرمی بخار کی نہیں بلکہ میری چوت کو چودنے کے لیے تھی۔ اسکو بٹھا کر‬
‫میں خود اسکے ساتھ بیٹھ گئی اور اپنے بیگ کی طرف دیکھا۔ اینگل سے مجھے اندازہ‬
‫ہوگیا کہ یہاں کی ویڈیو با آسانی بن رہی ہوگی۔ پھر میں نے حیدر سے پوچھا کہ حیدر یہ‬
‫سب آخر کیوں؟ تو اسکے منہ سے صرف اتنا ہی نکال کہ "سوری فائزہ آپی"۔ حیدر‬
‫سائرہ سے چھوٹا تھا اور وہ مجھے آپی کہتا تھا۔ میری حیدر سے پہلے بھی کافی بار‬
‫مالقات ہوئی تھی ۔ اکثر جب ڈرائیور کی غیر موجودگی میں سائرہ کو کالج سے گھر جانا‬
‫ہوتا تو حیدر لینے آتا تھا اور میری بھی مالقات ہوجاتی تھی۔‬
‫میں نے حیدر سے پوچھا کہ آخر یہ سب تم نے کیوں کیا؟؟؟ وہ پھر بھی خاموش بیٹھا‬
‫رہا۔ اور صرف اتنا ہی بوال کہ میں بس آپکو چودنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا وہ تو مجھے‬
‫بھی پتا ہے میں اسی لیے آئی ہوں‪ ،‬مگر میرے تو وہم و گمان میں بھی نہیں تھا کہ‬
‫مجھے بلیک میل تم کر رہے ہو؟ اب میرے ذہن میں کچھ سواالت ہیں جو مجھے پریشان‬
‫کر رہے ہیں۔ جب تک تم انکے جواب نہیں دیتے تب تک مجھے سکون نہیں ملے گا۔ اور‬
‫اس حالت میں سیکس کرنے کا بالکل مزہ نہیں آتا۔ تم میرے سوالوں کے جواب دو‬
‫اسکے بعد جو چاہو میرے ساتھ کر لینا۔ تاکہ میں سکون سے کروا سکوں اور چودائی‬
‫کا مزہ بھی لے سکوں۔ میری یہ بات سن کر حیدر کچھ مطمئن ہوا اور بوال کہ پوچھیں‬
‫آپ کیا پوچھنا چاہتی ہیں؟‬
‫میں نے پوچھا کہ تم اتنے امیر ہو تمہارے پاس پیسہ بھی ہے گاڑی بھی ہے اور بہت‬
‫سی لڑکیاں تم پر مرتی ہیں۔ وہ خوشی خوشی تم سے دوستی کرنے ک لیے تمہیں اپنی‬
‫چوت دینے کو بھی تیار ہیں پھر آخر تم نے میرے ساتھ ہی ایسا کرنے کو کیوں سوچا؟‬
‫حیدر نے جواب دیا کہ مجھے کبھی کوئی لڑکی پسند نہیں آئی اور اگر آئی بھی تو میں‬
‫اپنی شرم کی وجہ سے اسکو اپنی طرف مائل نہیں کر سکا۔ محض باتھ روم جا کر‬
‫اسکے بارے میں سوچ سوچ کر مٹھ مار کر گزارا کرتا رہا۔‬
‫حیدر واقعی میں ایک شرمیال لڑکا تھا۔ میں نے اگال سوال کیا کہ اگر تمہیں اتنی شرم آتی‬
‫ہے تو تم نے مجھے چودنے کے بارے میں کیسے سوچ لیا؟ اور اتنی ہمت کیسے کر‬
‫لی؟‬
‫تو اسنے بتایا کہ میں آپکو شروع سے ہی پسند کرتا ہوں۔ جب آپ سائرہ آپکی کے ساتھ‬
‫مجھ سے ملتی تھیں تب سے ہی مجھے آپکے ہونٹ بہت پسند تھے میں آپکے ہونٹوں‬
‫کو چوسنا چاہتا تھا اور آپکے بڑے بڑے ممے جب میری آنکھوں کے سامنے آتے تو‬
‫میرا دل کرتا تھا کہ میں انہیں اپنے ہاتھوں میں پکڑ کر پیار کروں انکو دباوں اور انہیں‬
‫اپنے منہ میں لے کر چوس لوں۔ اب جب آپکی ویڈیو اور تصویریں دیکھیں اور آپکو‬
‫اپنے منگیتر کے ساتھ سیکس کرتے ہوئے دیکھا تو میرا صبر جواب دے گیا اور میں‬
‫نے ارادہ کر لیا کہ اب آپکو ہر صورت میں حاصل کرکے آپکے ممے دبانے ہیں اور‬
‫آپکی چوت مارنی ہے۔‬
‫پھر میں نے پوچھا کہ یہ ویڈیو تم نے کیسے بنا لی ‪ ،‬تم تو اس دن گھر پر تھے ہی‬
‫نہیں۔‬
‫اس پر پہلے وہ خاموش رہا پھر بوال کہ اس بات کو رہنے دیں آپ۔ میں نے کہا نہیں‬
‫مجھے یہ جاننا ہے۔ پھر وہ کچھ دیر خاموش رہا اور کہا پھر آپ مجھ سے وعدہ کریں‬
‫کہ آپ اس بارے میں سائرہ آپی کو کچھ نہیں بتائیں گی اور ان سے دوستی بھی ختم‬
‫نہیں کریں گی۔ اور انہیں کبھی نہ پتا چلے کہ میں نے یہ بات آپکو بتائی ہے۔ میں نے‬
‫وعدہ کیا تو حیدر بوال کہ اصل میں یہ ویڈیو میں نے نہیں بنائی‪ ،‬میں واقعی اس دن گھر‬
‫پر نہیں تھا۔‬
‫تو میں نے حیرانگی سے پوچھا اگر تم نے نہیں بنائی تو پھر کس نے بنائی؟ اور‬
‫تمہارے پاس کیسے آئی۔ تو حیدر نے بتایا کہ یہ ویڈیو سائرہ آپی نے بنائی ہے اور‬
‫انہوں نے ہی مجھے دی ہے۔‬
‫یہ سن کر مجھ پر جیسے سکتہ طاری ہوگیا اور مجھے اپنے کانوں پر یقین نہیں آرہا تھا‬
‫کہ واقعی حیدر نے سائرہ کا نام لیا ہے یا پھر بات کچھ اور ہے؟ میں نے پھر حیدر سے‬
‫پوچھا کہ سائرہ نے کیوں بنائی یہ ویڈیو؟ اور آخر اس نے تمہیں کیوں دی؟؟‬
‫اس پر حیدر نے کہا کہ یہ لمبی کہانی ہے۔ میں ایک دن سائرہ آپی کو لیکر انکی ایک‬
‫دوست کے گھر گیااور انہیں دوست کے گھر چھوڑ کر میں اپنے دوستوں کے ساتھ‬
‫مارکیٹ چال گیا۔ ‪ 4 ،3‬گھنٹے بعد میں دوبارہ سائرہ آپکے کی دوست کے گھر گیاانہیں‬
‫لینے کے لیے اور گھر کے اندر داخل ہوا تو میں نے دیکھا کہ سامنے ہی گاڑی میں‬
‫سائرہ آپی بیٹھی تھیں اور انکے ساتھ انکی فرینڈ کا بھائی تھا۔ دونوں گاڑی کی پچھلی‬
‫سیٹ پر بیٹھے تھے اور کسنگ کر رہے تھے۔ وہ لڑکا سائرہ آپی کے ہونٹ چوس رہا‬
‫تھا اور سائرہ آپی بھی کسنگ میں اسکا بھرپور ساتھ دے رہی تھیں۔ سائرہ آپی اس‬
‫لڑکے کی گود میں بیٹھیں تھیں اور ہلکا ہلکا اچھل رہی تھیں جیسے اسکے لن کے اوپر‬
‫اپنی چوت کو دبا رہی ہوں۔ اور لڑکے کے ہاتھ سائرہ آپی کے مموں پر تھے۔ اور وہ‬
‫مسلسل کسنگ کرنے کے ساتھ ساتھ سائرہ آپی کے ممے دبا رہا تھا۔ اچانک ہی سائرہ‬
‫آپی کی نظر مجھ پر پڑ گئی تو وہ ہڑ بڑا کر اسکی گود سے اتر گئیں اور اس لڑکے نے‬
‫بھی مجھے دیکھا تو چپ چاپ گاڑی سے نکل کر واپس اپنے گھر میں داخل ہوگیا۔‬
‫سائرہ آپی فورا گاڑی سے باہر آئیں اور مجھے کھینچتے ہوئے گاڑی کے اندر بٹھا کر‬
‫دروازہ بند کیا اور میری منتیں کرنے لگ گئیں کہ پلیز یہ بات کسی کو مت بتانا۔ میں تو‬
‫ایسے ہی اسکے ساتھ مستی کر رہی تھی جیسا تم سوچ رہے ہو ویسا کوچھ نہیں۔ مستی‬
‫کے عالوہ اور کچھ نہیں کیا میں نے اسکے ساتھ صرف کسنگ ہی کی ہے۔ میں نے‬
‫غصے سے کہا آپ اسکی گود میں بیٹھیں کیا کر رہی تھیں؟ صرف کسنگ؟ تو سائرہ آپی‬
‫شرمندہ ہوکر بولیں وہ میں ویسے ہی اسکو چھیڑ رہی تھی تنگ کرنے کے لیے لیکن‬
‫پلیز میرے بھائی یہ بات کسی کو نا بتانا پلیز پلیز۔‬
‫مزید حیدر نے کہا کہ جب میں نے اس لڑکے کو سائرہ آپی کے ممے دباتے ہوئے دیکھا‬
‫تو مجھے فورا آپکی یاد آگئی اور میرا بہت دل کیا کہ اس وقت اس لڑکے کی جگہ میں‬
‫ہوتا اور سائرہ آپی کی جگہ فائزہ میری گود میں بیٹھی ہوتی اور میں فائزہ کے ممے‬
‫دباتا ایسے ہی۔ جب سائرہ آپی نے میری منتیں کیں تو میں نے سوچ لیا کہ اب سائرہ آپی‬
‫ہی مجھے یہ موقع دیں گی کہ میں آپکے ممے حاصل کر سکوں۔ تبھی میں نے سائرہ‬
‫آپی کو آپکے بارے میں بتایا کہ میں آپکو بہت پسند کرتا ہوں۔ اگر سائرہ آپی آپکو میرے‬
‫بیڈ روم تک پہنچا دیں تو میں یہ بات کسی کو نہیں بتاوں گا اور سائرہ آپی فورا ہی مان‬
‫گئیں میری بات۔ اور ساتھ ہی کہا مجھے پہلے ہی شک تھا تم جس طرح بھوکی نظروں‬
‫سے فائزہ کے مموں کی طرف دیکھتے تھے مجھے پتا تھا تم اسکے مموں کو حاصل‬
‫کرنا چاہتے ہو۔ اسکے بعد ہم گھر واپس آگئے اور سائرہ آپی نے وعدہ کیا کہ وہ اس‬
‫معاملے میں میری پوری مدد کریں گی۔‬
‫پھر اس دن جب سائرہ آپی آپکے گھر آئیں تو انکا مقصد یہی تھا کہ آپکا ہمارے گھر آنا‬
‫جانا شروع ہو اور آہستہ آہستہ آپکی میرے ساتھ بھی فریکنیس بڑھ جائے تو آسانی‬
‫ہوجائے گی آپکے ممے حاصل کرنے میں ۔ ساتھ میں آپکے منگیتر بھی آگئے ہمارے‬
‫گھر۔ اور جب آپ لوگ سوئمنگ کر رہے تھے تبھی سائرہ آپی نے سوچا کہ آپکو اور‬
‫آپکے منگیتر کو موقع دیں کہ آپ ایکدوسرے کو پیار کرو۔ سائرہ آپی کو پتہ تھا کہ جب‬
‫آپکے منگیتر آپکو برا اور پینٹی میں گیلے جسم کے ساتھ دیکھیں گے تو وہ آپکو پیار‬
‫ضرور کریں گے اور سائرہ آپی آپکی تصویریں بنا لیں گی۔ مگر آپ دونوں نے تو حد ہی‬
‫کر دی سائرہ آپی نے صرف پیار کرنے کا موقع دیا تھا اور آپ لوگوں نے وہیں پر چدائی‬
‫بھی شروع کر دی۔ اور اس طرح میرا کام بن گیا۔‬
‫یہ آخری الفاظ کہتے ہوئے حیدر کا لہجہ بڑا معنی خیز تھا جیسے اسنے کوئی فتح‬
‫حاصل کر لی ہو اور جو وہ چاہتا تھا وہ ہوگیا۔ پھر میں نے پوچھا کہ تمہاری منگیتر‬
‫سمیرا کو بھی اس بارے میں علم ہے؟‬

‫تو اسنے بتایا کہ نہیں سمیرا کو اس پورے معاملے کا کوئی علم نہیں۔ جب سائرہ آپی‬
‫اوپر سے آپ دونوں کو سوئمنگ پول میں پیار کرتے ہوئے دیکھ رہی تھیں تو سمیرا‬
‫بھی ساتھ تھی‪ ،‬مگر جیسے ہی آپکے منگیتر نے اپنا لن باہر نکاال تو سمیرا کمرے سے‬
‫باہر چلی گئی اور سائرہ آپی نے کمرے کی کنڈی لگا کر آپکا پورا چدائی کا شو ریکارڈ‬
‫کیا اور بعد میں ویڈیو اور تصویریں مجھے دے دیں کہ اب آگے جو کرنا ہے تم خود‬
‫کرو۔‬
‫یہ سب سن کر ہم دونوں کافی دیر خاموشی سے بیٹھے رہے۔ میں سوچ رہی تھی کہ آخر‬
‫سائرہ نے ایسا کیوں کیا؟ اسنے اپنی عزت بچانے کے لیے میری عزت داو پر لگا دی۔‬
‫مجھے غصہ بھی آرہا تھا۔ اب مجھے اس ہوٹل کے کمرے میں آئے ہوئے قریبا آدھے‬
‫گھنٹے سے زیادہ کا ٹائم گزر چکا تھا۔ پھر میں اپنی سوچوں سے نکل کر واپس کمرے‬
‫میں آئی اور مجھے احساس ہوا کہ میرے ساتھ اس وقت ایک لڑکا بیٹھا ہے جو مجھے‬
‫چودنے کی شدید خواہش رکھتا ہے اور میں بھی اس سے اپنی چوت مروانے کے لیے‬
‫اپنے بال صاف کرکے آئی ہوں۔ یہ سوچ کر میرا جسم گرم ہونے لگا۔‬
‫اور میں نے سوچا کہ اب جس کام کے لیے آئی ہوں وہ کر لینا چاہیے۔ میں نے حیدر کا‬
‫ہاتھ پکڑا تو وہ اب ٹھنڈا تھا۔ میں نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنی ٹانگ پر رکھ دیا۔ اور اپنا‬
‫ہاتھ اسکی ٹانگ پر رکھا۔ پھر آہستہ آہستہ میں اسکی تھائی کو دبانے لگی اور اس سے‬
‫پوچھا اب تم اپنی فائزہ آپی کے ممے دبانا چاہتے ہو یا نہیں؟؟ تو حیدر خوشی سے بوال‬
‫اسی کے لیے تو اتنی محنت کی ہے۔ اسکی اس بات کے مکمل ہوتے ہی میں اٹھی اور‬
‫اسکی گود میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی اور اپنے ہونٹ حیدر کے ہونٹوں پر رکھ کر‬
‫انکو چوسنا شروع کر دیا۔ حیدر نے بھی اپنے دونوں ہاتھ میری گردن پر رکھے اور‬
‫میرے ہونٹوں پر ااپنے ہونٹ رکھ کر انہیں چوسنے لگا۔ وہ بڑی بیتابی اور شدت سے‬
‫میرے ہونٹ چوس رہا تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ہم دونوں کی زبانیں آپس میں لڑائی کر رہی‬
‫تھی اور ایکدوسرے کو خوب ٹکریں مار رہی تھیں۔ میں نے اپنا منہ کھوال اور حیدر کی‬
‫زبان کو اپنے منہ میں داخل ہونے دیا۔ اسنے جیسے ہی زبان میرے منہ میں ڈالی میں‬
‫نے اسکو بڑی گرمجوشی کے ساتھ چوسنا شروع کر دیا۔ ہم دونوں کی کسنگ جاری‬
‫تھی‪ ،‬میں نے حیدر کے ہاتھ پکڑے اور گردن سے ہٹا کر اپنی گانڈ پر رکھ دیے اور کہا‬
‫اپنی فائزہ آپی کے چوتڑ بھی دباو۔ اس نے جیسے ہی میرے چوتڑ محسوس کیے جو‬
‫گوشت سے بھرے ہوئے تھے تو فورا ہی انکو دبانا شروع کر دیا۔ اب اسکی کسنگ میں‬
‫اور بھی تیزی آگئی تھی اور اسکی گرم سانسیں مجھے محسوس ہو رہی تھیں۔‬
‫کچھ دیر ایسے ہی کسنگ کرنے کے بعد میں اسکی گود سے اٹھی اور منہ دوسری‬
‫طرف کر کے دوبارہ اسکی گود میں بیٹھ گئی۔ اب میری کمر حیدر کی طرف تھی اور میں‬
‫اپنی ٹانگیں موڑ کر حیدر کی گود میں بیٹھی تھی میری گانڈ حیدر کے لن کے بالکل اوپر‬
‫تھی ۔ اسطرح بیٹھنے کے بعد میں نے حیدر کی طرف گردن موڑی اور دوبارہ سے اپنے‬
‫ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیے اور اسکے دونوں ہاتھ پکڑ کر اپنے مموں پر رکھ‬
‫دیے۔ حیدر کے ہاتھوں نے جیسے ہی میرے مموں کی نرمی کو محسوس کیا تو اسکو‬
‫تو جیسے ایک کرنٹ لگ گیا اور اس نے انکو زور زور سے دبانا شروع کر دیا اور بہت‬
‫ہی بیتابی کے ساتھ میرے ہونٹ بھی چوسنا شروع کر دیے۔ اب اسکے ہونٹ جیسے‬
‫میرے ہونٹوں کو چھیل رہے تھے اور وہ مسلسل میرے مموں کو مسل رہا تھا اپنے‬
‫ہاتھوں سے۔ مجھے نیچے اپنی گانڈ پر اسکے لن کا دباو محسوس ہو رہا تھا۔ جب حیدر‬
‫میرے ممے زیادہ ہی دور سے دباتا تو درد کی شدت سے میں اپنی گانڈ اوپر ہوا میں‬
‫اٹھا لیتی اور میرا جسم اکڑ جاتا۔ وہ میرے مموں کو اور زور سے دبا کر مجھے دوبارہ‬
‫سے اپنی گود میں بیٹھنے پر مجبور کر دیتا۔ ‪ 2‬منٹ یہ کھیل جاری رہا۔ اب میں پھر‬
‫اسکی گود سے اتری اور اسکی طرف منہ کر کے پھر سے اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں‬
‫سے مالدیے اور ساتھ ہی اسکی شرٹ کے بٹن کھولنے لگی۔ سارے بٹن کھول کے میں‬
‫نے اسکی شرٹ اتار دی اور اسکو دھکا دیکر بیڈ پر لٹا دیا۔ اب میں اسکے اوپر جھک‬
‫کر اسکے سینے پر پیار کرنے لگی۔ اسکا سینہ بالوں سے صاف تھا اور میں اپنی زبان‬
‫سے اسکا سینہ چاٹ رہی تھی۔ کبھی اسکے نپلز پر اپنی زبان پھیرتی تو کبھی اسکا‬
‫سینہ چاٹنے لگتی۔ اس نے بھی میرا اپر کمر سے اوپر کر دیا اور اپنے ہاتھ میری کمر‬
‫پر مسلنے لگا۔ کچھ ہی دیر بعد اس نے میرا اپر بھی اتار دیا۔ اب میرے بڑے بڑے ممے‬
‫اسکے سامنے برا میں قید تھے۔ اسنے مجھے اپنے اوپر سے ہٹایا اور مجھے بیڈ پر لٹا‬
‫کر خود میرے اوپر آگیا۔‬
‫میرے اوپر آتے ہی اس نے پہلے تو اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر چوسنا شروع‬
‫کیے اور ساتھ میں اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے مموں کو برا کے اوپر سے ہی‬
‫دبانے لگا۔ پھر وہ میرے ہونٹوں کو چھوڑ کر میرے سینے پر زبان پھیرنے لگا اور‬
‫وہاں سے ہوتا ہوا اب اسکی زبان میری کلیوج کی گہرائی میں داخل ہوکر گویا میری‬
‫کلیوج کی چدائی کر رہی تھی۔ حیدر بڑی شدت سے میری کلیوج کو چاٹ رہا تھا اور‬
‫دونوں ہاتھ سے میرے مموں کو دبا بھی رہا تھا۔ اسنے میرا برا اتارنے کی کوشش کی‬
‫تو میں نے منع کر دیا کہ نہیں ابھی نہیں۔ پھر وہ مزید میرے ممے برا کے اوپر سے ہی‬
‫چوسنے لگا اور مموں سے ہوتا ہوا وہ نیچے آنے لگا۔ ناف پر زبان پھیرنے کے بعد وہ‬
‫مزید نیچے آیا اور ٹانگوں اور پیٹ کے مالپ والی جگہ پر اپنی زبان پھیرنے لگا۔‬
‫مجھے حیدر کا اسطرح میرے جسم کو چاٹنا بہت اچھا لگ ر ہا تھا۔ اب اس نے میرے‬
‫ٹراوذر کو پکڑا اور ایک ہی جھٹکے میں میرا ٹراوزر بھی اتار دیا۔ میں اب حیدر کے‬
‫سامنے ننگی لیٹی تھی‪ ،‬میرے جسم پر محض ایک برا اور ایک جی سٹرنگ پینٹی تھی۔‬
‫اب وہ اپنے ہاتھ میری تھائیز پر پھیر رہا تھا اور انہیں دبا دبا کر خوش ہورہا تھا۔ بالوں‬
‫سے پاک نرم اور مالئم تھائیز پر ہاتھ پھیرنے کے بعد اب اسنے میری تھائیز کو زبان‬
‫سے چاٹنا شروع کر دا جس سے مجھے عجیب گدگدی سی ہونے لگی۔ وہ میری چوت‬
‫کے بالکل قریب اپنا ہاتھ پھیر رہا تھا اور زبان میری تھائز پر مسلسل نیچے سے اوپر‬
‫کی طرف پھیر رہا تھا۔ میری چوت گیلی ہو رہی تھی اور یہ گیال پن پینٹی کو بھی گیال کر‬
‫چکا تھا۔‬
‫اب حیدر نے میری ٹانگیں اٹھائیں اور فولڈ کر کے میرے سینے کے ساتھ لگا دیں۔‬
‫میری گانڈ اوپر اٹھ چکی تھی۔ میرے چوتڑوں پر بھرا بھرا گوشت دیکھ کر حیدر کے منہ‬
‫میں پانی آنے لگا اور وہ فورا میرے چوتڑوں کے اوپر جھک کر ان پر اپنی زبان‬
‫پھیرنے لگا۔ میرے مکمل چوتڑ ننگے تھے اور دودھ کی طرح سفید تھے۔ جی سٹرنگ‬
‫پینٹی کی بیک سائڈ محض اتنی ہوتی ہے کہ وہ چوتڑوں کی الئن میں جا کر گانڈ کے‬
‫سوراخ کو ڈھانپ سکے۔ اسکے عالوہ تمام چوتڑ ننگے ہوتے ہیں اور حیدر اسکا‬
‫بھرپور فائدہ اٹھاتے ہوئے میرے چوتڑ چاٹ رہا تھا‪ ،‬آہستہ آہستہ اسکی زبان چوتڑوں‬
‫کے گوشت سے ہوتی ہوئی گانڈ والی الئن میں جانے لگی۔ تھوڑی دیر اس نے گانڈ والی‬
‫الئن میں اپنی زبان پھیری جس نے میری چوت کو اور بھی گیال کر دیا ۔‬
‫اب حیدر نے میری پینٹی اتارنی چاہی تو میں نے اسے منع کر دیا اور کہا وہ نیچے‬
‫لیٹے۔ وہ نیچے لیٹ گیا تو میں نے اوپر آکر اسکا ٹراوزر اتار دیا۔ اب وہ بھی میرے‬
‫سامنے ننگا تھا محض انڈر وئیر پہنا ہوا تھا۔ انڈر وئیر میں اسکے لن کا ابھار کافی‬
‫واضح تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ اسکے لن کے اوپر رکھا اور اسکا سائز ماپنے کی کوشش‬
‫کی۔ اسکا لن چھوٹا تھا شاید ‪ 5‬انچ سے کچھ زیادہ ہوگا۔ یا پھر ‪ 6‬انچ کا ہوگا مگر اس‬
‫سے زیادہ نہیں تھا۔ اب میں اسکے لن کے اوپر بیٹھ گئی اور اپنی گانڈ پر اسکے لن کو‬
‫محسوس کرنے لگی۔ اسکا لن میری چوت سے ٹکرا رہا تھا جس نے میرے شہوت میں‬
‫اور بھی اضافہ کر دیا۔ اب میں نے اسکے اوپر بیٹھے بیٹھے ہی اپنے ہاتھ کمر پر لیجا‬
‫کر اپنے برا کی ہک کھول دی اور اپنے مموں کو برا کی قید سے آزاد کر دیا۔ میرے‬
‫ممے برا کی قید سے نکلتے ہی حیدر کی آنکھوں کے سامنے اچھلنے لگے۔ میں آہستہ‬
‫آہستہ اسکے لن پر اچھل رہی تھی جسکی وجہ سے میرے ‪ 34‬سائز کے ممے میرے‬
‫سینے پر لہرانے لگے۔ انکو دیکھ کر حیدر کی تو رال ٹپکنے لگی اور اس اب حیدر سے‬
‫مزید نہ رہا گیا اور اسنے فورا ہی مجھے کمر سے پکڑ کر اپنے اوپر گرا لیا۔ اور میرے‬
‫ممے اپنے منہ میں لے کر چوسنے لگا۔ اسنے میرے دونوں ممے اپنے دونوں ہاتھوں‬
‫سے پکڑے ہوئے تھے اور ایک مما منہ میں لیکر چوس رہا تھا۔ وہ تھوڑی تھوڑی دیر‬
‫بعد مما چینج کر کے اپنے منہ میں لیتا اور اسکو چوسنے لگتا۔ حیدر کا بس نہیں چل رہا‬
‫تھا کہ وہ پورے کا پورا مما اپنے منہ میں لیکر کھا جائے۔ وہ زیادہ سے زیادہ حصہ منہ‬
‫میں لینے کی کوشش کر ررہا تھا۔ تھوڑی دیر میں نے اسکو ایسیے ہی ممے چوسنے‬
‫دیے۔ پھر میں نے اسے کہا کہ میرے نپل بھی منہ میں لیکر انکو کاٹے اور انکو‬
‫چوسے۔ اسنے فورا ہی میرے نپل کو منہ میں لے لیا اور اسکو ایسے چوسنے لگا‬
‫جیسے بچہ اپنی ماں کے سینے سے دودھ پیتا ہے۔ میرے نپل مکمل تنے ہوئے تھے۔‬
‫اور حیدر مسلسل اسکو اپنے منہ میں لیکر چوس رہا تھا۔ وہ کبھی نپل کو چوستا تو‬
‫کبھی انکو اپنے دانتوں سے ہلکے ہلکے کاٹتا تو کبھی اپنی زبان پھیرتا میرے نپلز پر۔‬
‫میرے منہ سے مسلسل اف اف اف۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ آہ آہ آہ آہ۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔ کی سسکیاں نکل رہی‬
‫تھیں مگر میری آواز دھیمی تھی کیونکہ یہ ہوٹل کا کمرہ تھا اور آواز باہر جانے کا‬
‫خطرہ تھا۔‬
‫جب حیدر نے دل بھر کر میرے ممے چوس لیے تو میں دوبارہ سے اسکے اوپر بیٹھ‬
‫گئی۔ اسکا لن میری گانڈ کی الئن میں مجھے محسوس ہورہا تھا۔ اب میں نے اسکے لن‬
‫کے اوپر مچلنا شروع کر دیا۔ میں اسکے لن پر مسلسل اپنی گانڈ کو گھما گھما کر مزے‬
‫لے رہی تھی اور حیدر میرے اچھلتے ہوئے ممے دیکھ دیکھ کر خوش ہورہا تھا۔ ساتھ‬
‫ساتھ اسکی ہلکی ہلکی سسکیاں بھی نکل رہی تھیں۔ میں مسلسل اسکے لن پر اچھل‬
‫رہی تھی اور اپنی گانڈ کو اسکے لن پر گول گول گھما رہی تھی‪ ،‬اچانک حیدر کا جسم‬
‫اکڑنے لگا اور اسکے جسم کو جھٹکے لگنے لگے۔ اور مجھے نیچے سے اپنی گانڈ‬
‫گیلی محسوس ہوئی۔ میں نے اٹھ کر دیکھا تو حیدر کا انڈر وئیر گیال تھا اور اسکی منی‬
‫نکل چکی تھی۔ یہ دیکھ کر میری ہنسی نکل گئی اور میں نے بے تحاشہ ہنسنا شروع کر‬
‫دیا۔ میں مسلسل ہنس رہی تھی اور حیدر تھوڑا شرمندہ تھا۔ میں نے اسے کہا کیسے مرد‬
‫ہو یار تم ابھی تو تمہارا لن باہر بھی نہیں نکاال اور اس نے پانی بھی چھوڑ دیا۔۔۔ اس‬
‫سے کوئی بات نہیں ہورہی تھی بس چہرے سے شرمندگی ٹپک رہی تھی۔ پھر میں نے‬
‫اسے حوصلہ دیا کہ کوئی بات نہیں تم نے کبھی کسی لڑکی کی چودائی نہیں کی تو‬
‫ہوجاتا ہے ایسے۔ ابھی دوبارہ کھڑا ہوجائے گا۔ یہ کہ کر میں خود لیٹ گئی اور اسکو کہا‬
‫تم نے فرمائش کی تھی چوت کے بال صاف کرنے کی اب چوت نہیں دیکھو گے میری؟‬

‫میری یہ بات سن کر وہ فورا اٹھا‪ ،‬سب سے پہلے اس نے اپنا انڈر وئیر اتار کر سائیڈ پر‬
‫پھینکا نیچے اسکا چھوٹا سا لن تھا جو پانی چھوڑنے کے بعد سُکڑ گیا تھا اور اب ‪2‬‬
‫انچ کا رہ گیا تھا۔ اسکو حیدر نے پاس پڑے ٹشو پیپر کے ڈبے سے ٹشو نکال کر صاف‬
‫کیا اور پھر میری ٹانگوں کے درمیان میں آکر میری چوت پر پینٹی کے اوپر سے ہی‬
‫ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا۔ میری چوت ایک بار پھر سے گیلی ہونے لگی‪ ،‬حیدر نے پینٹی‬
‫اتارے بغیر ہی اپنا منہ میری چوت پر رکھ دیا اور پینٹی کے اوپر سے ہی میری چوت‬
‫چاٹنے لگا۔ اب میری سسکیاں تیز ہوگئیں تھیں اور میں چاہنے کے باوجود بھی اپنی‬
‫آواز نیچی رکھنے میں ناکام تھی۔ کچھ دیر ایسے ہی میری چوت چاٹنے کے بعد حیدر‬
‫نے میری پینٹی اتار دی۔ نیچے اس میری بالوں سے پاک صاف ستھری پھدی نظر آئی۔‬
‫وہ شکاری نظروں سے میری پھدی پر نظریں جمائے بیٹھا تھا اور پھر آہستہ آہستہ‬
‫جھکتا گیا اور اپنی زبان میری پھدی سے کچھ اوپر پھیرنےلگا جس سے میرے جسم‬
‫میں جھر جھری سی آئیاور میری سسکیاں اور تیز ہوگئیں۔ میں نے اسکو سر سے پکڑ‬
‫کر اپنی پھدی کے اوپر دبانا شروع کر دیا۔ پھر حیدر نے اپنی زبان نیچے کی اور میری‬
‫پھدی کے لبوں پر زبان پھیرنے لگا اب میری پھدی مکمل طور پر گیلی تھی اور مسلسل‬
‫سسکیوں سے کمرہ گونج رہا تھا۔ کچھ دیر پھدی کے لبوں کو چوسنے کے بعد حیدر نے‬
‫اپنی زبان میری چوت کے اندر داخل کر دی اور اپنی زبان سے میری چوت چاٹنے لگا۔‬
‫میں پاگل ہورہی تھی اور بری طرح مچل رہی تھی۔ میں نے اپنی دونوں ٹانگیں فولڈ کی‬
‫ہوئی تھیں اور میری ٹانگوں کے درمیان حیدر کا سر تھا اور زبان مسلسل میری پھدی‬
‫کی چدائی میں مصروف تھی۔ کچھ دیر مزید پھدی کی چدائی کے بعد اس نے میری‬
‫ٹانگیں اوپر اٹھا کر فولڈ کیں اور سینے سے لگا دیں۔ اور میرے چوتڑون والی الئن میں‬
‫اپنی زبان پھیرنے لگا۔ یہ پہلی بار ہوا تھا کہ کوئی لڑکا میری گانڈ چاٹ رہا تھا اپنی زبان‬
‫سے۔ اس نے اپنی زبان کی نوک میری گانڈ کے سوراخ پر رکھی اور اس پر زور زور‬
‫سے ٹکرانے لگا۔ یہ بالکل نیا احساس تھا میرے لیے۔ میری چوت سے شہوت کا پانی‬
‫بہہ رہا تھا اور میری سسکیاں تھیں کے رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ ایسے تو‬
‫رضوان نے بھی چوت نہیں چاٹی تھی جیسے حیدر چاٹ رہا تھا اور ساتھ میں وہ گانڈ کو‬
‫بھی چاٹ رہا تھا۔ کچھ دیر گانڈ چاٹنے کے بعد حیدر دوبارہ سے میری چوت میں زبان‬
‫پھیرنے لگا۔ اب اسکی زبان بہت تیزی کے ساتھ میری چوت کی چدائی کر رہی تھی‬
‫اورمیری برداشت جواب دے رہی تھی۔ کچھ دیر مزید زبان کی چدائی کے بعد میری ہمت‬
‫جواب دے گئی اور چند جھٹکوں کے ساتھ ہی میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔‬
‫اب میں حیدر کے نیچے سے نکلی تو اسکا لن دوبارہ سے تھوڑا سخت ہو چکا تھا۔ میں‬
‫نے اسکو نیچے لٹایا اور اسکا لن منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ میرے منہ کی گرمی کو‬
‫پاکر حیدر کے لن میں اور سختی آنے لگی اور اسکی لمبائی میں بھی اضافہ ہونے لگا۔‬
‫کچھ ہی دیر چوسنے کے بعد اسکا لن ‪ 5‬سے ‪ 6‬انچ تک لمبا ہو چکا تھا اور اسکی‬
‫سختی دوبارہ سے واپس آ چکی تھی۔ میں اپنے ہاتھ سے اسکے لن کو مسل بھی رہی‬
‫تھی اور اسکی ٹوپی کو منہ میں لیکر چوس بھی رہی تھی۔ میں نے اسکے لن کی ٹوپی‬
‫پر تھوڑا سا تھوک بھی پھینکا اور اسکو اپنے ہاتھوں سے اسکے پورے لن پر مسل دیا‬
‫اور پھر سے اسکا لن منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ اب اسکا پورا لن میرے منہ میں تھا‬
‫اور میں اسکو مسلسل اندر باہر کر رہی تھی۔ لن منہ میں اندر باہر کرنے کے ساتھ ساتھ‬
‫میری زبان بھی لن کا مساج کرنے میں مصروف تھی۔ ابھی لن چوستے ہوئے مجھے ‪3‬‬
‫منٹ ہی ہوئے ہونگے کہ حیدر کے لن نے ایک بار پھر سے منی چھوڑ دی۔ اسکی‬
‫ساری منی میرے منہ میں ہی نکل گئی۔ اس بات پر مجھے بے تحاشہ غصہ آیا۔ وجہ یہ‬
‫نہیں تھی کہ میرے منہ میں منی کیوں نکالی بلکہ غصے کی وجہ یہ تھی کہ دوسری بار‬
‫اس نے بہت جلدی منی چھوڑ دی تھی۔ میں ابھی اسکے لن کو اپنی چوت میں ڈالنے کا‬
‫سوچ ہی رہی تھی کہ اسکے لن نے منی چھوڑ دی۔‬
‫میں نے حیدر کی طرف غصے سے دیکھا اور پوچھا یہ کیا ہے؟ دوسری بار بھی تم‬
‫اتنی جلدی فارغ ہوگئے۔ تو حیدر نے کہا معلوم نہیں کیا ہورہا ہے مٹھ مارتے ہوئے تو‬
‫‪ 7 ،6‬منٹ مسلسل مٹھ مار لیتا ہوں اسکے بعد ہی منی نکلتی ہے۔ آج بہت جلدی نکل‬
‫رہی ہے۔۔ میں نے اسے غصے سے کہا اب اسکوجلدی کھڑا کرو اور میری چوت میں‬
‫داخل کرو۔ حیدر شرمندہ ہوکر واش روم گیا۔ وہاں جا کر اسنے اپنے لن کو دھویا اور پھر‬
‫میں نے جا کر کلی کی اور اپنا منہ صاف کیا۔ حیدر کا لن اب پھر سے سُکڑ کر ‪ 2‬انچ کا‬
‫ہوچکا تھا جسکو حیدر مسلسل ہاتھ میں پکڑ کر کھڑا کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اور‬
‫میں مسلسل غصے میں اسکی طرف دیکھ رہی تھی۔ ‪ 3 ،2‬منٹ تک انتظار کرنے کے‬
‫باوجود جب اسکا لن کھڑا نہیں ہوا تو میں لیٹ گئی اور اسکو کہا دوبارہ سے میری‬
‫چوت کو اپنی زبان سے چاٹے شاید تھوڑا ٹائم گزرنے کے بعد لن کھڑا ہوجائے۔‬
‫میری چوت اب بالکل خشک ہو چکی تھی‪ ،‬حیدر نے میری ٹانگیں کھول کر دوبارہ سے‬
‫میری چوت پر اپنی زبان پھیرنی شروع کی تو آہستہ آہستہ میری چوت کا گیال پن واپس‬
‫آنے لگا اور میرا جسم ایک بار پھر سے گرم ہونا شروع ہوگیا۔ اس بار حیدر اور بھی‬
‫زیادہ شدت کے ساتھ میری چوت کو چاٹ رہا تھا۔ اب میں مکلمل طور پر گرم ہوچکی‬
‫تھی اور اب میری چوت تیار تھی لن لینے کے لی۔ حیدر نے اب پیچھے ہٹ کر دوبارہ‬
‫سے اپنا لن ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسکو جھٹکےمارنے لگا۔ اب اسکا لن آہستہ آہستہ کھڑا‬
‫ہو رہا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے اسکا لن مکمل طور پر کھڑا ہوگیا تو میری جان میں‬
‫جان آئی۔ میں نے اسکو کہا اب میری ٹانگیں اٹھائے اور اپنا لن داخل کر دے میری چوت‬
‫میں۔‬
‫حیدر نے میری ٹانگیں اٹھائیں اور آگے بڑھ کر اپنے لن کی ٹوپی میری چوت پر سیٹ‬
‫کی اور ایک دھکا لگایا۔ میری چیخ نکل گئی کیونکہ میری پھدی ابھی اتنی کھلی نہیں‬
‫ہوئی تھی کہ اتنی آسانی سے لن اندر جا سکے۔ میں نے اسکو کہا کہ آرام آرام سے‬
‫داخل کرو۔ اب حیدر نے آہستہ آہستہ اپنے لن کا پریشر میری پھدی پر بڑھایا تو لن اندر‬
‫جانے لگا۔ اور مجھے درد بھی شروع ہوگئی تھی۔ کچھ دیر زور لگانے کے بعد حیدر کا‬
‫پورا لن میری چوت میں داخل ہو چکا تھا۔ اور اسکے چہرے پر خوشی تھی کہ آخر کار‬
‫اسنے میری چوت حاصل کر لی تھی۔ کچھ دیر لن اندر رہنے کے بعد میں نے اسے کہا‬
‫کہ اب آہستہ آہستہ دھکے مارنے شروع کرے تو حیدر نے میری چودائی شروع کر دی۔‬
‫اسکے دھکوں سے میرے ممے ہلنے لگے تو اسنے میرے اوپر جھک کر ممے‬
‫چوسنے شروع کر دیے اور نیچے سے اپنے دھکے جاری رکھے۔ اب میری چوت مکمل‬
‫طور پر گیلی ہو چکی تھی اور حیدر کا لن بڑے آرام کے ساتھ میری چودائی کر رہا تھا۔‬
‫میں نے حیدر کو کہا کہ اب اپنے لن کی سپیڈ تھوڑی بڑھاو۔ حیدر جیسے اسی بات کے‬
‫انتظار میں تھا۔ میری بات سنتے ہی اسنے ایک دم سے زور دار دھکے لگانے شروع‬
‫کر دیے۔‬
‫مگر اسکے یہ زور دار دھکے ابھی محض ‪ 6 ،5‬ہی لگے تھے کہ اسکے جسم کو‬
‫جھٹکے لگے اور اسکے لن نے ایک بار پھر سے منی چھوڑ دی۔ اب تو جیسے میرا‬
‫سارا صبر جواب دے گیا۔ میں نے اسکو پیچھے دھکا دیا اور ایک بڑی ساری گالی دی۔‬
‫اور کہا کہ شوق تمہیں چوت لینے کے ہیں اور لن تمہارا ‪ 2‬منٹ سے زیادہ چدائی نہیں‬
‫کر سکتا۔ اب میرا موڈ بری طرح خراب ہوچکا تھا۔ حیدر کا لن ‪ 3‬بار پانی چھوڑ چکا تھا‬
‫جبکہ میری چوت ابھی محض ایک بار ہی پانی چھوڑ سکی تھی۔‬
‫میں بستر سے اٹھی ٹشو اٹھا کر اپنی چوت کو صاف کیا اور کپڑے پہننے لگی۔ حیدر‬
‫چپ چاپ بیڈ پر بیٹھا تھا اور مجھ سے نظریں نہیں مال رہا تھا جبکہ میں غصے سے‬
‫اسے گھور رہی تھی۔ کپڑے پہننے کے بعد میں نے پانی پیا‪ ،‬اپنا بیگ اٹھایا اور اسکو‬
‫پھر سے ایک گالی دی اور نا مردی کا طعنہ دیتے ہوئے کمرے سے باہر نکل آئی اور‬
‫تیز تیز قدموں کے ساتھ ہوٹل کے گیٹ پر آگئی۔ اب میں روڈ پر کھڑی تھی اور غصہ‬
‫میرا اچھا خاصا تھا‪ ،‬مگر میری چوت کو ابھی بھی لن چاہیے تھا۔‬
‫اور مجھے اس وقت بہت شدت کے ساتھ کسی اصل مرد کے طاقتور لن کی ضرورت تھی‬
‫۔ باالآخر میں نے فون نکاال اور رضوان کو کال کر کے پوچھا کہ وہ کہاں پر ہے؟ اس‬
‫نے پوچھا خیریت ہے بہت غصے میں لگ رہی ہو۔ اسکی یہ بات سن کر میں نے ایک‬
‫گہرا سانس لیا اور اپنے آپ کو نارمل کرتے ہوئے کہا کہ کچھ نہیں غصے میں نہیں ہوں‬
‫مگر اس وقت تم سے ملنا چاہتی ہوں۔ رضوان نے پھر پوچھا کہ تم ہو کہاں؟ تو میں نے‬
‫بتایا کہ میں سائرہ کے گھر گئی تھی اور سوئمنگ کی تو مجھے وہی وقت یاد آگیا جب‬
‫تم میری چدائی کر رہے تھے۔ اور اب میری چوت گیلی ہو رہی ہے میں شہر میں آچکی‬
‫ہوں اور تم جیسے بھی ہو ایک بار مل لو میرے سے۔ یہ بات سن کر وہ ہنسا اور کہا واہ‬
‫کیا بات ہے۔ اس نے مجھے بتایا کو وہ علی کے گھر ہے۔ وہی علی جسکے گھر وہ‬
‫مجھے ایک بار پہلے پارٹی پر لے گیا تھا۔ رضوان نے مجھے کہا کہ یہاں اور لوگ بھی‬
‫آئے ہوئے ہیں تم بھی یہیں پر آجاو۔ میں نے فون بند کیا اور ایک رکشہ روک کر اسکو‬
‫ایڈریس بتا کر رکشے میں بیٹھ گئی۔ رکشے میں بیٹھ کر میں نے موبائل واپس بیگ میں‬
‫ڈاال تو میری نظر خفیہ کیمرے پر پڑی میں نے کیمرے کی ریکارڈنگ بند کی اور پین کو‬
‫محفوظ جگہ پر بیگ کے اندر والی جیب میں رکھ دیا۔ اب میرا رخ علی کے گھر کی‬
‫طرف تھا اور میں اس وقت رضوان کے لن کے لیے بیتاب ہوئی جا رہی تھی۔‬
‫کچھ ہی دیر میں رکشہ علی کے گھر کے سامنے رکا۔ میں نے رکشے والے کو پیسے‬
‫دیے اور گیٹ سے علی کے گھر میں داخل ہوگئی۔ مین گیٹ کھال تھا لہذا میں بے دھڑک‬
‫اندر چلی گئی۔ اندر جا کر اب میرا رخ اسی دروازے کی طرف تھا جس دروازے پر پہلے‬
‫رضوان نے میرے ممے دبائے تھے۔ میں جب اس دروازے پر پہنچی تو وہاں علی اپنی‬
‫گرل فرینڈ کے ساتھ موجود تھا۔ دونوں آس پاس سے بے خبر ایک دوسرے کے ہونٹ‬
‫چوسنے میں مصروف تھے۔ میں انکے پاس پہنچی مگر انہیں پتہ نہیں چال۔ میں نے‬
‫ہلکا سا اونہہ اونہہ کیا‪ ،‬یعنی کے ہلکا سا کھانسی تو علی کو ہوش آیا۔ اس نے اپنی گرل‬
‫فرینڈ کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ ہٹائے اور میری طرف دیکھا۔ میں نے ہائے بوال تو‬
‫علی فورا آگے بڑھااور مجھ سے ہاتھ مالیا اور میرا حال وغیرہ پوچھا۔ میں نے کہا میں‬
‫ٹھیک ہوں آپ سنائے کیا چل رہا ہے۔ تو علی مسکرایا اور کہا جو چل رہا تھا تم نے‬
‫دیکھ ہی لیا ہے۔ یہ کہ کر اس نے قہقہ لگایا اور میرے مموں پر نظر گاڑتے ہوئے بوال‬
‫جاو نیچے رضوان نیچے ہی ہے۔ میں فورا نیچے چلی گئی‪ ،‬نیچے پہنچ کر جیسے ہی‬
‫مین ہال میں داخل ہوئی تو وہاں جو میں نے دیکھا وہ دیکھ کر میرے ہوش اڑ گئے۔‬
‫میرے سامنے ندیم بالکل ننگا کھڑا تھا۔ یہ وہی لڑکا تھا جسکے ساتھ میں نے ڈانس کیا‬
‫تھا اور ڈانس کرتے ہوئے وہ بار بار اپنا لن میری گانڈ سے ٹچ کر رہا تھا اور ایک بار‬
‫میں نے اسکی گود میں بیٹھ کر اسکو کسنگ بھی کی تھی اور موقع ملنے پر اسکے لن‬
‫پر اپنا ہاتھ بھی رکھا تھا۔‬
‫جو لن میں نے کپڑوں میں چھپا ہوا محسوس کیا تھا آج اس لن کو دیکھ بھی لیا۔ ندیم کا‬
‫لن مکمل کھڑا تھا اور اسکے سامنے ایک لڑکی بیٹھی تھی وہ بھی ننگی تھی ایک ہاتھ‬
‫سے وہ اپنا ایک مما دبا رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے اس نے ندیم کا لن پکڑا ہوا تھا‬
‫اور منہ میں ڈال کر ندیم کا ‪ 8‬انچ لمبا اور موٹا لن چوس رہی تھی۔ میرے قدموں کی‬
‫آواز سن کر ندیم میری طرف متوجہ ہوا تو لڑکی نے اسکا لن اپنے منہ سے نکال دیا۔‬
‫جیسے ہی اس لڑکی نے ندیم کا لن چھوڑا وہ ایک دم سے تن کر کھڑا ہوگیا اور اسکا‬
‫رخ چھت کی طرف تھا۔ میں اتنا بڑا لن دیکھ کرپھٹی پھٹی آنکھوں سے اسکو دیکھنے‬
‫لگی تو اچانک مجھے ندیم کی آواز آئی "ہیلو فائزہ کیسی ہو تم؟" اسکی آواز سن کر‬
‫میں نے اسکی طرف دیکھا اور رضوان کے بارے میں پوچھا اور دوبارہ اسکا لن‬
‫دیکھنے لگی تو ندیم نے کہا رضوان اندر کمرے میں ہے تم چلی جاو کمرے میں۔ جس‬
‫کمرے کا ذکر کیا ندیم نے وہ اسکے ساتھ ہی تھا جہاں ہو کھڑا تھا۔ میں ندیم کی طرف‬
‫بڑھنے لگی اور میری نظریں مسلسل ندیم کے لن پر تھیں جس کو اب اس لڑکی نے‬
‫دوبارہ سے منہ میں لے لیا تھا اور اسکو چوس رہی تھی۔ ندیم کے پاس پہنچ کر میں‬
‫بائیں جانب بڑھی اور کمرے کا دروازہ کھول کر اندر داخل ہوگئی۔ میری پھدی مکلمل‬
‫گیلی ہو چکی تھی اور اب میں جلد سے جلد رضوان کے لن سے اپنی پھدی کی پیاس‬
‫بجھانا چاہتی تھی۔ جیسے ہی میں نے کمرے میں داخل ہو کر دروازہ بند کیا اندر کا‬
‫نظارہ دیکھ کر تو میری ساری شہوت ختم ہوگئی اور اسکی جگہ غصے نے لے لی۔‬
‫میرے سامنے رضوان ایک لڑکی کے ممے چوسنے میں مصروف تھا۔ لڑکی کی گانڈ‬
‫میری طرف تھی اور وہ مکمل ننگی تھی۔ موٹی گانڈ پر رضوان کے ہاتھ تھے اور وہ‬
‫اسکی گانڈ کو اپنے ہاتھ سے دبا رہا تھا۔ جبکہ اسکے ممے رضوان کے منہ میں تھے۔‬

‫یہ دیکھ کر میں نے زور سے چیختے ہوئے رضوان کا نام لیا‪ ،‬رضوان کو جیسے ایک‬
‫جھٹکا سا لگا اور اسنے ایک دم اسکے مموں کو چھوڑ کر میری طرف دیکھا۔ میں‬
‫چالئی کہ یہ کیا کر رہے ہو تم؟ تو رضوان اسکو چھوڑ کر میری طرف بڑھا اور کہا کچھ‬
‫نہیں یار تمہارا انتظار کرتے کرتے کافی دیر ہوگئی تو ۔۔۔۔ ابھی وہ اتنا ہی بوال تھا کہ میں‬
‫دوبارہ چالئی "تو تم نے دوسری لڑکی کو پکڑ لیا؟" وہ بوال "نہیں یار‪ ،‬یہ میرے کمرے‬
‫میں آئی تو میں تو بس کسنگ کر رہا تھا جیسے اس دن پارٹی میں بھی کی تھی مگر‬
‫پھر ۔۔۔۔۔۔۔" یہ کہ کر اس نے سر جھکا لیا۔ وہ شرمندہ تھا اور مجھ سے نظریں نہیں مال‬
‫پا رہا تھا۔ میں زور سے چالئی کہ اب اسے سے کام چالو اور آئندہ میرے بارے میں‬
‫سوچنا بھی مت۔‬

‫یہ کہ کر میں کمرے سے نکلی اور واپس جانے لگی تو رضوان میرے پیچھے بھاگا اور‬
‫سوری فائزہ‪ ،‬سوری یار کہتا ہوا مجھ تک پہنچ گیا اور مجھے منانے لگا۔ مگر میں نے‬
‫اسکو سختی سے منع کر دیا کہ خبردار جو مجھے چھوا بھی ۔ رضوان میرا راستہ روک‬
‫کر کھڑا تھا اور مسلسل مجھ سے معافی مانگ رہا تھا مگر میں تھی کہ اسکی ایک بات‬
‫سننے کو تیار نہیں تھی۔ میرے ساتھ ہی ندیم اسی لڑکی کی چدائی میں مصروف تھا جو‬
‫کچھ دیر پہلے اسکا لن چوس رہی تھی۔ ہمیں دیکھ کر اس نے لن اس لڑکی کی چوت‬
‫سے نکاال اور ہماری طرف آکر بوالکہ کیا ہوا کس بات پر لڑائی ہو رہی ہے۔ تو رضوان‬
‫نے اسکی طرف دیکھا اور کہا کہ یار وہ اندر رافعہ تھی نا میں اسکے ممے چوس رہا‬
‫تھا تو یہ دیکھ کر فائزہ کو غصہ آگیا۔ میں ایک بار پھر چالئی کے میرے راستے سے‬
‫ہٹ جاو اور جا کر اپنی رافعہ کے ساتھ ہی مستی کرو۔ یہ سن کر ندیم نے رضوان کو کہا‬
‫تم اندر جاو میں فائزہ سے بات کرتا ہوں۔ میں نے کہا مجھے کسی سے کوئی بات نہیں‬
‫کرنی۔ میں غصے سے کانپ رہی تھی اور اس وقت مجھے ندیم کے کھڑے ہوئے لن میں‬
‫بھی کوئی دلچسپی نہیں تھی۔ ندیم نے ایک بار پھر رضوان سے کہا یار تو اندر کمرے‬
‫میں جا فائزہ ابھی تیرے پاس آجائے گی۔ رضوان نے اسکی طرف دیکھا اور کہا کہ یار‬
‫میں تو فائزہ سے سوری کر رہا ہوں مگر یہ مان ہی نہیں رہی۔ میں پھر سے چالئی کے‬
‫رضوان میرے راستے سے ہٹ جاو مجھے واپس جانا ہے۔‬
‫یہ سن کر ند یم غصے سے بوال "ابے میں تجھے کہ رہا ہوں نہ تو اندر جا میں فائزہ‬
‫سے بات کرتا ہوں ابھی یہ تیرے پاس آجائے گی تو جا اندر یہ کہتے ہوئے ندیم نے‬
‫رضوان کو دھکہ دیا اور رضوان مرے ہوئے قدموں کے ساتھ کمرے میں جانے لگا‪،‬‬
‫میں باہر نکلنے لگی مگر اب کی بار ندیم اپنے لن کے ساتھ میرے سامنے کھڑا تھا۔‬
‫اسکا لن ابھی تک کھڑا تھا۔ میں اب چپ چاپ کھڑی تھی مگر پھر مجھے غصہ آیا اور‬
‫میں نے اب کی بار ندیم کو کہا کہ میرے راستے سے ہٹ جاو مجھے واپس جانا ہے۔‬
‫رضوان کمرے میں جا چکا تھا۔ ندیم بوال کیوں واپس جانا ہے تمہیں؟ تم تو یہاں رضوان‬
‫سے چدوانے آئی تھی اب ایسا کیا ہوگیا کہ واپس جانا ہے؟ اسکے منہ سے یہ بات سن‬
‫کر میں ایک دم چونکی کہ اسکو کیسے پتا کہ میں نے رضوان کو فون پر یہ کہا تھا؟‬
‫مگر میں نے اسکی بات کا جواب دینے کی بجائے کہا کہ یہ میرا مسئلہ ہے تم بیچ میں‬
‫نہ آو۔‬
‫میری یہ بات سن کر ندیم غصے میں مگر آہستہ آواز میں بوال‪ ،‬ابے او رنڈی بند کر یہ‬
‫ڈرامہ بازی اور چپ چاپ کمرے میں چلی جا اور اپنی چوت مروا۔ خود بھی مزے کر اور‬
‫ہمیں بھی مزے کرنے دے۔ ورنہ میں رضوان کو بتا دوں گا کہ تو رضوان سے چدوانے‬
‫سے پہلے بھی اپنی چوت کسی اور سے مروا چکی ہے۔ اسکی یہ بات سن کر مجھ پر‬
‫جیسے سکتہ طاری ہوگیا۔ اور غصے میں مجھ سے کچھ بوال نہیں جا رہا تھا۔ میرے‬
‫چہرے کا رنگ بھی غصے سے سرخ ہو چکا تھا۔ مگر پھر میں ہمت کر کے بولی یہ کیا‬
‫بکواس کر رہے ہو تم؟ ندیم بوال کہ رضوان سیدھا سادھا لڑکا ہے وہ تیرے بارے میں‬
‫نہیں جانتا مگر سب رضوان جیسے نہیں ہوتے۔ مجھے تو اس دن پارٹی میں ہی پتا چل‬
‫گیا تھا کہ تو کنواری نہیں ہے جب کہ رضوان ہم سب کے سامنے قسمیں کھاتا تھا کہ‬
‫اسکی منگیتر بہت شریف ہے۔ اسی کی خاطر کسی نے تیری طرف بری نظر سے نہیں‬
‫دیکھا ورنہ ہم تو تجھ جیسا مال چھوڑتے ہی نہیں۔‬
‫میں اپنے دانت پیستے ہوئے بولی یہ کیا بکواس کیے جا رہے ہو تم۔ میں نے ایسا کچھ‬
‫نہیں کیا۔ میری بات سن کر وہ ہنسا اور بوال یہ معصومیت کا ناٹک رضوان کے سامنے‬
‫ہی کرنا میں تو لڑکی کی شکل دیکھ کر بتا دیتا ہوں کہ یہ لن لے چکی ہے یا نہیں۔ اور‬
‫پھر وہ بوال اس دن میری گود میں بیٹھ کر جس طرح تو نے اپنی گانڈ میرے لن پر‬
‫گھمائی تھی میں تو اسی وقت سمجھ گیا تھا کہ تو پہلے لن کا مزہ لے چکی ہے۔ اور‬
‫پھر تو نے ڈانس کرتے ہوئے جس طرح بار بار اپنی گانڈ میرے لن پر دبائی تھی اس‬
‫سے بھی اندازہ ہو رہا تھا مجھے کہ تیری چوت کو اس وقت لن کی طلب ہو رہی ہے۔‬
‫اور پھر جس طرح تو نے اپنا ہاتھ میرے لن پر پھیرا تھا اس سے تو مجھے یقین ہی‬
‫ہوگیا کہ تو کنواری نہیں۔ یہ تو ہمارا دوست ہی معصوم ہے جس نے کبھی کسی لڑکی کو‬
‫نہیں چھوا اور ہماری پارٹیز میں شامل ہوتا بھی تھا تو کبھی ڈانس اور کسنگ سے بات‬
‫آگے نہیں بڑھائی تھی۔ میں نے پھر دانت پیسے ہوئے کہا تم بکواس کر رہے ہے۔ میں‬
‫نے کچھ غلط نہیں کیا میں نے کسی سے چوت نہیں مروائی۔ مگر یہ بات کرتے ہوئے‬
‫میری اپنی آواز کانپ رہی تھی اور میری بات میں بالکل بھی اعتماد نہیں تھا۔ کیونکہ‬
‫ندیم صحیح کہ رہا تھا۔ میں پہلے ہی اپنی چوت اپنے بہنوئی سے مروا چکی تھی۔ میری‬
‫بات سن کر ندیم ایک بار پھر ہنسا اور بوال بند کردو اب یہ ڈرامہ۔ چپ چاپ اندر جاو اور‬
‫رضوان کے لن کو سکون دو۔ اپنی چوت کو بھی سکون دو۔ میں اسکو کبھی نہیں بتاوں‬
‫گا کہ تم پہلے کسی اور سے چدوا چکی ہو۔ لیکن اگر تم نے یہ ڈرامہ بند نہیں کیا تو میں‬
‫ابھی جا کر بتا دوں گا اسے اور میرے لیے یہ بات ثابت کرنا بھی مشکل نہیں ۔‬
‫مجھے نہیں معلوم تھا کہ ندیم کو واقعی یقین تھا کہ میں پہلے چوت مروا چکی ہوں یا‬
‫پھر وہ ہوا میں تیر چھوڑ رہا تھا۔ اگر اس نے ہوا میں تیر بھی چھوڑا تھا تب بھی وہ‬
‫بالکل ٹھیک نشانے پر لگا تھا اور اب میرے دل میں خوف تھا کہ اگر اس نے رضوان‬
‫کو یہ بات کر دی تو رضوان یقین نہ بھی کرے مگر اسکے دل میں شک تو پیدا ہوجائے‬
‫گا۔ اور اب میں اپنی جگہ پر ساکت کھڑی تھی مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں‬
‫کیا کروں۔ اتنے میں مجھے ندیم کا قہقہ سنائی دیا اور وہ بوال اب کیا ارادہ ہے؟ اگر میرا‬
‫لن چاہیے تو یہیں کھڑی رہو اور اگر رضوان کا لن چاہیے تو اندر چلی جاو۔ اسکا اتنا‬
‫کہنا تھا میں فورا واپس مڑی اور کمرے میں چلی گئی۔‬
‫اندر گئی تو بیڈر پر رضوان اپنا سر پکڑ کر بیٹھا تھا اور دوسری لڑکی اسکے ساتھ‬
‫بیٹھی اسے کہ رہی تھی کم سے کم میرے ساتھ تو سیکس کرو پورا فائزہ کو بعد میں‬
‫مناتے رہنا‪ ،‬مگر رضوان نے کہا پلیز اس وقت مجھے اکیال چھوڑ دو۔ پھر میں بولی‬
‫رافعہ تم پلیز باہر چلی جاو۔ میری آواز سن کر رضوان نے چونک کر میری طرف دیکھا‬
‫تو اسکے چہرے پر حیرت کے ساتھ ساتھ خوشی کے آثار تھے ‪،‬وہ ایک دم اپنی جگہ‬
‫سے اٹھا اور مجھے اپنے گلے سے لگا لیا اور دوبارہ سوری کرنے لگا۔ میں نے کہا‬
‫کوئی بات نہیں بھول جاو اس بات کو اب۔ اتنے میں رافع نے اپنا برا اور اپنے کپڑے‬
‫اٹھائے اور مجھے گھورتی ہوئی کمرے سے باہر نکل گئی۔‬
‫اسکے جاتے ہی میں نے رضوان کو پیچھے کیا‪ ،‬کمرے کا دروازہ بند کیا اور واپس آکر‬
‫رضوان کے سامنے آکر بیٹھ گئی اور اسکی پینٹ اتارنے لگی۔ پینٹ اتار کر میں نے‬
‫رضوان کا انڈر وئیر بھی اتار دیا اور اسکا ‪ 7‬انچ لمبا لن فورا ہی اپنے منہ میں لے لیا‬
‫اور اسکے منہ میں اندر باہر کرنے لگی۔ رضوان نے اوپر سے میرا سر پکڑ لیا اور‬
‫میرے منہ کو زور زور سے لن کے اوپر دھکیلنے لگا تاکہ پورا لن میرے منہ میں جا‬
‫سکے۔ اب میری چوت بھی گیلی ہونے لگی تھی اور میں بہت مزے کے ساتھ رضوان کا‬
‫لن چوسنے میں مصروف تھی‪ ،‬میرے ذہن میں اس وقت حیدر کا لن آرہا تھا جس نے ‪3‬‬
‫بار منی چھوڑی تھی مگر میری چودائی کرنے میں ناکام رہا تھا۔ اور ایک طرف اب یہ‬
‫رضوان کا لن تھا جس نے میری چدائی تب تک کرنی تھی جب تک کہ میں تھک نا جاوں۔‬
‫میں نے رضوان کے لن پر تھوک بھی پھینکا اور اسکو اپنے ہاتھوں سے پورے لن پر‬
‫مسل دیا اور دوبارہ سے لن منہ میں لیکر چوستی رہی۔ کچھ دیر بعد رضوان نے مجھے‬
‫کھڑا کیا اور فورا ہی میرا اپر اتار دیا۔ میرا اپر اتارتے ہی رضوان نے بغیر دیر لگائے‬
‫میرا برا بھی اتارا اور پھر میرا ٹراوزر اور پینٹی اتارنے میں بھی دیر نہیں لگائی۔‬
‫میری پینٹی اتار کر رضوان نے فورا ہی کھڑے ہوکر میرے ممے اپنے منہ میں لے لیے‬
‫اور بڑی ہی شدت کے ساتھ میرے مموں کو چوسنے لگا۔ میرے تنے ہوئے نپلز پر وہ‬
‫اپنی زبان پھیرتا اور انکو دانتوں سے کاٹتا تو میری سسکیاں نکلنے لگ جاتی۔ نیچے‬
‫سے ایک ہاتھ سے رضوان میری چوت کو مسل رہا تھا جو مکمل طور پر گیلی ہو چکی‬
‫تھی۔ کچھ دیر ممے چاٹنے کے بعد رضوان نے مجھے تھوڑا سا پیچھے دھکیال اور‬
‫مجھے دیوار کے ساتھ لگا دیا۔ اور نیچے بیٹھ کر میری ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے کندھے‬
‫پر رکھی اور اپنی زبان میری چوت پر پھیرنی شروع کر دی۔ رضوان کی اس حرکت نے‬
‫میرے پورے جسم میں آگ لگا دی اور میرا پورا جسم جلنے لگا۔ وہ میری ٹانگ اپنے‬
‫کندھے پر رکھے مسلسل اپنی زبان کو میری چوت میں پھیر رہا تھا۔ میرے منہ سے بے‬
‫ہنگم آوازیں نکل رہی تھیں آہ آہ آہ۔۔۔۔ اف اف اف۔ ۔ ۔ ۔ ۔ آہ میری جان۔۔۔۔ اور زور سے‬
‫چاٹو میری چوت کو‪ ،‬میری چوت کو زبان سے چودو‪ ،‬اف اف اف۔۔۔ مسلسل سسکیوں‬
‫سے رضوان کا جوش بھی بڑھتا جا رہا تھا‪ ،‬کچھ دیر چوت چٹوانے کے بعد مجھے‬
‫دوبارہ سے حیدر یاد آیا جس نے پہلی بار میری گانڈ چاٹی تھی۔ جیسے ہی مجھے گانڈ‬
‫کی چٹائی یاد آئی میں نے اپنی ٹانگ رضوان کے کندھے سے نیچے اتاری اور دیوار کی‬
‫طرف منہ کرکے کھڑی ہوگئی۔ میں نے اپنی گانڈ کو باہر کی طرف نکاال جس سے میری‬
‫کمر اندر کی طرف دہری ہوگئی اور میں نے رضوان کو کہا میری گانڈ بھی چاٹے۔ میری‬
‫اس فرمائش پر رضوان نے حیرت سے میری طرف دیکھا مگر پھر بغیر کچھ کہے اپنے‬
‫ہاتھوں سے میرے چوتڑوں کو کھوال اور اپنی زبان میری گانڈ پر رکھ کر اسکو بھی‬
‫چاٹنا شروع کر دیا۔ اُف ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ کیا مزہ آیا تھا مجھے جب رضوان نے میری گانڈ‬
‫چاٹنی شروع کی۔ میری مسلسل سسکیاں نکل رہی تھی۔‬
‫کچھ دیر گانڈ چاٹنے کے بعد رضوان کھڑا ہوا‪ ،‬میں نے سیدھے ہونے کی کوشش کی تو‬
‫رضوان نے مجھے روک دیا اور کہا ایسے ہی کھڑی رہو‪ ،‬یہ کہ کر اس نے اپنا ایک‬
‫ہاتھ میری چوت پر رکھا اور اپنی انگلی میری چوت میں داخل کر دی۔ میں کانپ کر رہ‬
‫گئی۔ اسکی انگلی پوری کی پوری میری چوت میں داخل ہوگئی تھی اور وہ انگلی سے‬
‫میری چوت کی چودائی کرنے لگا ساتھ ہی دوسرے ہاتھ سے اس نے اپنا لن پکڑا اور‬
‫اس پر اپنا تھوک پھینک کر اسکی مٹھ مار کر اسکو تیار کرنے لگا کچھ ہی دیر بعد‬
‫رضوان نے میری چوت سے اپنی انگلی نکالی اور پیچھے سے اپنا لن میری چوت پر‬
‫رکھا کر ہلکا سا زور لگایا تو چوت کے گیلے پن کی وجہ سے رضوان کی ٹوپی میری‬
‫چوت میں چلی گئی اور میری ہلکی سی چیخ نکلی‪ ،‬پھر رضوان نے ایک زور کا دھکا‬
‫لگایا تو پورا لن میری چوت میں تھا اور پورا کمرہ میری چیخ سے گونج گیا۔ میری چیخ‬
‫الزمی طور پر بھی باہر سنائی دی ہوگی مگر مجھے اس وقت اسکی فکر نہیں تھی‪،‬‬
‫رضوان کا لن مسلسل میری پھدی میں دھکے لگا رہا تھا اور میں دیوار کے ساتھ ہاتھ‬
‫لگائے انکو مسلسل برداشت کر رہی تھی۔ رضوان کے لن کی ضربیں بہت شدید تھیں‪،‬‬
‫جب پورا لن میری چوت میں جاتا تو اسکے ٹٹے بھی میری چوت کے قریب ٹکراتے جن‬
‫سے بڑا مزہ آرہا تھا اسکے ساتھ ساتھ رضوان کا جسم جب میرے گول‪ ،‬نرم اور گوشت‬
‫سے بھرے ہوئے چوتڑوں سے ٹکراتا تو کمرے میں دھپ دھپ کی آواز گونجتی۔ غرض‬
‫اس وقت کمرے میں سیکس کا ماحول گرم تھا اور میری سکسکیاں اور دھپ دھپ کی‬
‫آوازیں ماحول کو اور سیکسی بنا رہی تھیں۔ کچھ ہی دیر کی چودائی کے بعد میری چوت‬
‫نے رضوان کے لن کی زور دار ضربوں کے آگے ہار مان لی اور پانی چھوڑ دیا۔ پانی‬
‫چھوڑتے ہوئے میری ٹانگیں کانپ رہی تھی اور جسم اکڑ گیا تھا۔ جیسے ہی مکمل پانی‬
‫چھوڑ دیا چوت نے تو میں سیدھے ہوگئی اور لن میری چوت سے نکل گیا۔‬
‫اب رضوان نے میرا منہ اپنی طرف کیا اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر چوسنے‬
‫لگا اور ساتھ ہی مجھے اپنی گود میں اٹھا لیا۔ گود میں اٹھا کر اسنے دوبارہ سے میری‬
‫کمر دیوار کے ساتھ لگائی اور نیچے سے اپنا لن میری چوت میں داخل کر دیا۔ میں نے‬
‫اپنی ٹانگیں رضوان کی کمر کے گرد لپیٹ لیں اور اسے زور لگا کر اپنے قریب کر لیا‬
‫تاکہ لن اپنی جڑ تک میری چوت میں جا سکے۔ اب میں رضوان کی گود میں تھی اور‬
‫رضوان کا لن میری چوت میں تھا۔ رضوان نے ایک بار پھر سے میری چوت میں زور‬
‫دار ضربیں لگانی شروع کر دیں۔ اس بار میری سسکیاں دب رہیں تھیں کیونکہ رضوان‬
‫نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈالی ہوئی تھی اور میں مسلسل اسکی زبان چوس رہی‬
‫تھی۔ اب کی بار لن کی ضربیں پہلے سے زیادہ شدید تھیں کیونکہ اب لن سامنے سے‬
‫اندر ڈاال ہوا تھا۔ میں اب زیادہ سے زیادہ مزہ لینے کے لیے اپنی چوت کو تنگ کر رہی‬
‫تھی۔ میں نے اپنی چوت کو ٹائٹ کر لیا۔ جب رضوان نے لن باہر نکالنا ہوتا تو میں چوت‬
‫کو ڈھیال چھوڑ دیتی‪ ،‬مگر جیسے ہی لن ٹوپی تک باہر نکلتا اور رضوان دوبارہ سے‬
‫اندر دھکا لگانے لگتا تو میں اپنی چوت کو دوبارہ ٹائٹ کر لیتی۔ اس سے لن میری چوت‬
‫کی دیواروں کے ساتھ رگڑ کھاتا ہوا اندر تک جاتا اور میری شہوت کو اور زیادہ بڑھانے‬
‫لگا۔‬
‫اب میری لن کی ہوس اتنی بڑھ چکی تھی کہ رضوان کا لن کافی نہیں تھا۔ اب میرے ذہن‬
‫میں ندیم کا ‪ 8‬انچ لمبا لن گھوم رہا تھا جسکو میں کچھ ہی دیر پہلے باہر دیکھ کر آئی‬
‫تھی۔ میری چوت ابھی بھی رضوان کے لن کی ضربیں سہ رہی تھی اور میں نے اپنا سر‬
‫اسکے کندھے پر رکھا ہوا تھا اور میری سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ مگر‬
‫میرے دماغ میں ندیم کا لن گھوم رہا تھا اور سوچ رہی تھی آخر اسکا لن کیسے لوں؟‬
‫اچانک ہی میرے ذہن میں ایک آئیڈیا آگیا۔ میری چودائی جاری تھی میں نے ایسے ہی‬
‫سر اٹھایا اور رضوان کی آنکھوں میں پیار سے دیکھنے لگی‪ ،‬اس نے بھی خوش ہوکر‬
‫مجھے دیکھا تو میں نے اس سے پوچھا میرے آنے سے پہلے تم نے صرف رافعہ کے‬
‫ممے ہی چوسے تھے یا کچھ اور بھی کیا تھا؟ تو رضوان کے چہرے پر شرمندگی آئی‬
‫اور اس نے اپنے لن کی ضربیں روک دیں اور بوال یار اب بھول جاو اس بات کو۔ میں‬
‫نے رضوان کو کہا تم چودائی جاری رکھو اسکو نہ روکو تو اس نے دوبارہ سے ضربیں‬
‫لگانا شروع کر دیں‪ ،‬پھر میں نے پوچھا کہ بتاو نا صرف ممے چوسے تھے یا کچھ اور‬
‫بھی کیا تھا؟ تو اسنے کہا کہ میں نے رافعہ کی چوت بھی چاٹی تھی اور جب ممے چاٹ‬
‫رہا تھا تو تم آگئی۔ تو میں نے پوچھا کیسی تھی اسکی چوت؟ تو رضوان نے بتایا کہ‬
‫تمہاری چوت اس سے اچھی ہے۔ میں نے کہا مکھن نہیں لگاو صحیح صحیح بتاو۔ اس‬
‫پر رضوان نے پھر کہا کہ ہاں تمہاری چوت کافی ٹائٹ ہے کیونکہ تم تو صرف دوسری‬
‫بار ہی چدائی کروا رہی ہو اور میں نے خود تمہاری ٹائٹ چوت کا پردہ پھاڑہ تھا پچھلے‬
‫ہفتے۔ مگر رافعہ کی چوت بہت کھلی ہے۔ وہ بہت عرصے سے لن کی سواری کر رہی‬
‫ہے۔ ندیم اور علی کے عالوہ بھی وہ بہت لڑکوں کے لن لے چکی ہے اپنی چوت میں۔‬
‫میں نے شرارتی انداز میں پھر پوچھا کہ تمہیں کیسے پتا کہ اسکی چوت کھلی ہے ؟ کیا‬
‫تم نے لن ڈال کے دیکھا ہے تو بوال نہیں یار انگلی ڈالی تھی۔ اور زبان سے چاٹتے‬
‫ہوئے بھی صاف پتہ لگ رہا تھا اسکی چوت کے لب کھلے ہوئے تھے مگر تمہارے‬
‫ٹائٹ ہیں اور آپس میں جڑے ہوئے ہیں۔‬
‫میں نے محسوس کیا کہ اب رضوان کا لن اور زیادہ سخت ہوگیا تھا اور اسکی ضربوں‬
‫کی شدت میں بھی اضافہ ہوگیا تھا جو مجھے اپنی چوت کی گہرائی تک محسوس ہو رہی‬
‫تھی۔ پھر میں نے پوچھا‪ ،‬اچھا یہ بتاو اسکے ممے کیسے ہیں۔ اس پر وہ بوال کہ اسکے‬
‫ممے تمہارے مموں سے بڑے ہیں۔ اسکا سائز‪ 36‬ہے اور انکو دبانے میں زیادہ مزہ‬
‫آرہا تھا۔ میں نے پوچھا اب دبانا چاہتے ہو اسکے ممے؟؟؟ تو رضوان نے بے یقینی‬
‫سے میری طرف دیکھا لیکن پھر بوال‪ ،‬نہیں میں بس اپنی فائزہ کے ممے ہی دباوں گا‬
‫اور اسی کی چوت کو چودوں گا۔ میں نے پھر ہنستے ہوئے پوچھا نہیں مجھے بتاو اگر‬
‫تم اسکے ممے دوبارہ دبانا چاہتے ہو اور انکو چوسنا چاہتے ہو تو مجھے کوئی‬
‫اعتراض نہیں ہوگا۔ میرا یہ کہنا تھا کہ رضوان کے لن کی ضربوں میں اور بھی شدت‬
‫آگئی۔ میں ابھی تک رضوان کی گود میں تھی اور میری چوت ایک بار پھر سے پانی‬
‫چھوڑنے کے قریب تھی۔ رضوان نے میری طرف دیکھا اسکی آنکھوں سے لگ رہا تھا‬
‫کہ وہ رافعہ کے ممے چوسنا چاہتا تھا مگر بول نہیں رہا تھا۔ بس اسکے جسم کا بڑھتا‬
‫ہوا جوش مجھے بتا رہا تھا کہ اسکے دماغ میں ابھی رافعہ کے ممے ہی گھوم رہے ہیں‬
‫جسکی وجہ سے میری چودائی میں بھی شدت آتی جا رہی تھی۔ میں نے اپنے ہونٹ‬
‫رضوان کے ہونٹوں پر رکھ کر ایک بھرپور کس کی‪ ،‬اور اپنی گانڈ زور زور سے ہال کر‬
‫رضوان کا ساتھ دینے لگی۔ جس سے میری سسکیاں اور بھی بڑھ گئیں۔ اور ہم دونوں‬
‫کو مزہ آنے لگا۔ میں نے ایک بار پھر رضوان کو کہا بتاو نا جان‪ ،‬کیا تم رافعہ کے ممے‬
‫چوسنے چاہتے ہو؟ کیا تم اسکے مموں کو اپنے ہاتھوں سے دبانا چاہتے ہو؟ کیا تم‬
‫اسکے نپلز کو اپنی انگلیوں سے رگڑنا چاہتے ہو؟؟؟ میرے لہجے میں ہوس ہی ہوس‬
‫بھری ہوئی تھی اور رضوان کی برداشت بھی اب جواب دے چکی تھی اس نے بھی‬
‫کانپتی ہوئی آواز میں کہ دیا کہ ہاں رافعہ کے ممے چوسنے کا بہت مزہ آیا تھا مجھے‬
‫اسکے ممے چاہیے‪ ،‬کہ کہتے ہی اس نے کچھ زور دار ضربیں لگائیں میری پھدی میں‬
‫اور اسکے لن نے میری پھدی کے اندر ہی منی چھوڑ دی۔ ان آخری دھکوں نے میری‬
‫چوت کی برداشت کو بھی ختم کر دیا اور میں نے ب ِھی پانی چھوڑ دیا۔‬
‫اب رضوان نے مجھے اپنی گود سے اتارا تو میں کچھ تھک چکی تھی‪ ،‬میں نے رضوان‬
‫کو بیڈ کی طرف دھکیال اور اسکو بیڈ پر لٹا کر خود اسکے اوپر چڑھ گئی اور اسکے‬
‫ہونٹ چوسنے لگی۔ رضوان کا لن اب سکڑ کر چھوٹا ہو چکا تھا۔ میں نے کچھ دیر‬
‫رضوان کو کسنگ کی اور دوبارہ سے اسکو پوچھا کہ رافعہ کو بالوں اندر ؟؟ تم اسکے‬
‫ممے چوس لینا جی بھر کے؟؟ اسنے للچائی ہوئی نظروں سے میری طرف دیکھا مگر‬
‫منہ سے کچھ نہیں بوال۔ میں اسکا اشارہ سمجھ گئی اور ایسے ہی میں باہر چلی گئی۔‬
‫میں بالکل ننگی تھی اور میری ٹانگوں پر ابھی رضوان کی منی اور اپنی چوت کا پانی‬
‫چمک رہا تھا۔ میں باہر نکلی تو رافعہ ایک ٹیبل پر الٹی لیٹی ہوئی تھی اور ندیم نے‬
‫اسکی گانڈ میں اپنا لن ڈاال ہوا تھا۔ اور دوسری لڑکی جو پہلے ندیم سے چدائی کروا رہی‬
‫تھی وہ اپنی چوت رافعہ کے منہ کے ساتھ لگا کر بیٹھی تھی اور رافعہ اپنی زبان سے‬
‫اسے چاٹ رہی تھی۔ میں باہر نکلی تو رافعہ اور ندیم نے میری طرف دیکھا۔ رافعہ کی‬
‫نظروں میں حیرت تھی کیونکہ کچھ دیر پہلے جس طرح میں نے اسکو کمرے سے نکاال‬
‫تھا اور اب میں ننگی کمرے سے باہر نکل آئی تھی یہ اسکے لیے حیران کن تھا۔ مگر‬
‫ندیم کی آنکھوں میں شیطانیت تھی اور وہ میرا اشارہ سمجھ گیا تھا۔ ایک ایسا اشارہ جو‬
‫میں نے کیا بھی نہیں تھا مجض میرے دماغ میں ہی تھا‪ ،‬مگر ندیم اسکو بھی سمجھ گیا۔‬
‫میں نے اسکی طرف مسکراتے ہوئے دیکھا اور رافعہ کو کہا کہ پلیز تم اندر آسکتی ہو‬
‫کمرے میں؟ تو ندیم نے اسکی گانڈ سے اپنا لن نکال دیا اور دوسری لڑکی کی طرف اپنا‬
‫لن کیا جو فورا ہی اس کے اوپر جھک کر اسکو چاٹنے لگی۔ رافعہ اپنی جگہ سے کھڑی‬
‫ہوگئی اور اسنے کہا کیوں کیا ہوا؟ تو میں نے اسے کہا ک رضوان تمارے ممے چاٹنا‬
‫چاہتا ہے آجاو پلیز۔ یہ کہتے ہوئے میری نظریں ندیم کے لن پر ہی تھیں اور میرے‬
‫چہرے پر بھی ایک مسکراہٹ تھی جو ندیم کے لیے واضح اشارہ تھا۔ رافعہ نے میری‬
‫بات سن کر میری طرف طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھا اور کہا تو پہلے تمہیں کیا تکلیف‬
‫ہوئی تھی۔ یہ کہ کر وہ میری طرف بڑھی اور ہم دونوں اکٹھی ہی واپس کمرے میں‬
‫آگئیں۔ ‪ 2‬ننگی لڑکیوں کو اپنی طرف آتا دیکھ کر رضوان کا چہرہ خوشی سے چمک‬
‫اٹھا۔ رافعہ نے بھی جیسے ہی ندیم کو ننگا دیکھا تو فوار ہی اسکے اوپر چھالنگ لگا‬
‫دی اور اپنے ممے رضوان کے حوالے کر دیے۔‬
‫رافعہ رضوان کے اوپر لیٹی ہوئی تھی‪ ،‬وہ ڈوگی سٹائل میں تھی‪ ،‬اپنی کہنیوں کے بل وہ‬
‫رضوان کے اوپر اس طرح چھکی کہ اسکے ممے رضوان کے منہ کے اوپر لٹکنے‬
‫لگے جنکو فورا ہی رضوان نے ہاتھوں سے پکڑ کر زور سے دبایا اور ایک مما اپنے‬
‫منہ میں ڈال کر اسکو کسی بچے کی طرح چوسنے لگا۔ پیچھے سے رافعہ اپنے گھٹنوں‬
‫کے بل بیٹھی تھی جس سے اسکی گانڈ کافی انچی اور اوپر اٹھی ہوئی تھی۔ میں نے‬
‫اسکی گانڈ پر نظر ڈالی تو وہ کسی حد تک کھلی ہوئی تھی‪ ،‬میں رافعہ کے پیچھے گئی‬
‫اور اپنی زبان رافعہ کی گانڈ پر رکھ کر چاٹنے لگی۔‬
‫رافعہ کی گانڈ پر زبان رکھی تو مجھے اسکا ٹیسٹ کچھ نمکین سا لگا۔ وہ کچھ دیر پہلے‬
‫ہی ندیم سے گانڈ مروا رہی تھی تو اسکے لن کا ذائقہ بھی اسکی گانڈ سے آرہا تھا۔‬
‫رضوان رافعہ کے ممے چوسنے میں مصروف تھا اور میں پیچھے سے رافعہ کی گانڈ‬
‫چاٹنے میں مصروف تھی۔ رافعہ شاید بہت عرصے سے چدوا رہی تھی اس لیے وہ‬
‫چدائی کو بھرپور طریقے سے انجوائے کرنا جانتی تھی۔ جیسے ہی میں نے اسکی گانڈ‬
‫پر اپنی زبان پھیرنا شروع کی تو اس نے منہ سے سسکیاں نکالنا شروع کر دیں۔ اسکی‬
‫سسکیاں بہت سیکسی تھیں اور اسکی آواز میں موجود چاشنی کسی بھی سوئے ہوئے‬
‫لن کو جگانے کے لیے کافی تھی۔ اسی وجہ سے رضوان کا لن جو میری چدائی کے بعد‬
‫اب سو چکا تھا رافعہ کی سیکس سے بھرپور آوازیں سن کر اس نے ایک بار پھر اپنا‬
‫سر اٹھانا شروع کر دیا۔ میں پیچھے سے گانڈ چاٹتے ہوئے تھوڑا نیچے ہوئی رافعہ کی‬
‫چوت پر اپنی زبان رکھی تو وہ بہت گیلی ہو رہی تھی۔ اس پوزیشن میں چوت چاٹنا کافی‬
‫مشکل تھا کیونکہ مجھے کافی جھکنا پڑ رہا تھا۔ اس مشکل سے بچنے کے لیے میں‬
‫لیٹ گئی‪ ،‬میرا سر رضوان کے لن کے تھوڑا ہی اوپر تھا اور میرا منہ اوپر رافعہ کی‬
‫چوت کی طرف تھا۔ لیٹنے کے بعد میں نے رافعہ کو چوتڑوں سے پکڑ کر اسکو چوت‬
‫کو نیچے کیا تو اس نے فورا ہی اپنی چوت میرے منہ کے اوپر رکھ دی۔ اسکی چوت‬
‫کافی کھلی تھی اور میری زبان بہت ہی آرام سے اسکی چوت کی سیر کر رہی تھی۔‬
‫مجھے اپنی گردن پر رضوان کے لن کا دباو بھی محسوس ہو رہا تھا جو اب کسی ناگ‬
‫کی طرح کھڑا ہوجانا چاہتا تھا۔‬
‫رافعہ کی چوت کے گیلے پن میں مسلسل اضافہ ہورہا تھا جسکا مطلب تھا کہ وہ چدائی‬
‫کے لیے مکمل تیار تھی۔ یہ ایک حقیقت ہے کہ لڑکی چاہے جتنی بھی ماہر ہو چدائی کی‬
‫اور جتنے بھی لن لے چکی ہے‪ ،‬نئے لن کے لیے اسکی چوت ہمیشہ ہی مچلتی ہے۔ اور‬
‫یہی کچھ رافعہ کے ساتھ بھی ہورہا تھا۔ رضوان کا لن اسکی چوت کے لیے بالکل نیا تھا‬
‫اور اسکو لینے کے لیے وہ مکمل تیار تھی۔ سو میں نے اسکی چوت کو چاٹنا چھوڑ کر‬
‫اپنی جگہ سے اٹھی اور رضوان کا لن اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی‪ ،‬تھوڑا سا لن‬
‫چوسنے کے بعد جب لن گیال ہوگیا تو میں نے رضوان کے لن کو پکڑ کر رافعہ کی چوت‬
‫پر رکھ دیا‪ ،‬رافعہ اپنی چوت پر لن کو محسوس کر کے فورا ہی پیچھے ہوئی اور لن کی‬
‫ٹوپی بڑے آرام سے اسکی چوت میں داخل ہوگئی‪ ،‬ساتھ ہی رضوان نے ہلکا سا دھکا‬
‫مارا اور رضوان کا پورا لن جڑ تک رافعہ کی چوت پر تھا۔ اور رافعہ بہت ہی حیرت‬
‫انگیز طور پر فورا ہی رضوان کے لن پر اچھلنے لگی۔ رضوان ساکت لیٹا تھا اور رافعہ‬
‫اپنی گانڈ ہال ہال کر اپنی چوت کو چدوا رہی تھی۔ تھوڑی دیر یہ چدائی دیکھنے کے بعد‬
‫میں اٹھی اور رافعہ کے سامنے جا کر کھڑی ہوگئی۔ رضوا نیچے لیٹا تھا میں اسکے‬
‫اوپر بیڈ پر کھڑی تھی اور رافعہ اپنی چوت رضوان کے لن سے چدوا رہی تھی۔ میں نے‬
‫اپنی چوت رافعہ کے سامنے کی تو اسنے فورا ہی اپنی زبان میری چوت پر رکھ دی۔‬
‫میری چوت مکمل خشک ہو چکی تھی ‪ ،‬رافعہ کی زبان کو محسوس کرتے ہی مجھے‬
‫چوت کے اندر گیال پن محسوس ہوا۔ یہ پہال موقع تھا جب کسی لڑکی نے میری چوت پر‬
‫اپنا منہ رکھا ہو۔ اس سے پہلے میری چوت کو صرف عمران‪ ،‬حیدر اور رضوان نے ہی‬
‫چاٹا تھا۔ مگر آج رافعہ میری چوت کو چاٹ رہی تھی۔ میں نے اسکا سر پکڑ کر اپنی‬
‫چوت کی طرف دھکیال ہوا تھا اور رافعہ بہت مہارت کے ساتھ میری چوت چاٹ رہی تھی‬
‫اب رافعہ نے اپنی گانڈ ہالنا بند کر دی تھی کیونکہ وہ میری چوت چاٹنے میں مصروف‬
‫تھی مگر رضوان کے لن کی ضربیں رافعہ کی چوت میں مسلسل لگ رہی تھی اور‬
‫رضوان بھی ہلکی ہلکی آوازیں نکال رہا تھا۔ اسکے لن کو بھی ایک نئی چوت مل گئی‬
‫تھی جس پر وہ خوش تھا۔ رافعہ نے میری چوت بہت مہارت سے چاٹی‪ ،‬اسکے بعد اس‬
‫نے اپنا منہ میری چوت سے ہٹایا اور اپنی ‪ 2‬انلگیاں ایک دم سے ہی میری چوت میں‬
‫داخل کر دیں۔ رافعہ کا یہ حملہ میرے لیے بالکل غیر متوقع تھا جسکی وجہ سے میری‬
‫چیخ نکل گئی۔ رافعہ نے بھی بغیر انتظار کیے اپنی دونوں انگلیوں کو میری چوت میں‬
‫اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ پھر رافعہ نے اپنی دونوں انگلیاں باہر نکالیں اور انکو اپنے‬
‫منہ میں ڈال کر چوسنے لگی۔ وہ اصل میں میری چوت کا پانی چاٹ رہی تھی۔ انگلیاں‬
‫چاٹتے ہوئے اسکی آنکھیں بند تھی اور چہرے پر اطمینان تھا۔ وہ اپنی چودائی کو‬
‫انجوائے کر رہی تھی ۔ جبکہ میں ندیم کا انتظار کر رہی تھی کہ کب وہ کمرے میں آئے‬
‫اور میری چدائی شروع کرے۔ مگر اسکے آنے کے کوئی آثار نظر نہیں آرہے تھے۔‬
‫رافعہ نے ایک بار پھر سے اپنی انگلیاں میری چوت میں داخل کر دیں اور اپنی انگلیوں‬
‫سے ہی میری چدائی کرنے لگی۔ وہ اپنی انگلیوں کو میری چوت کے اندر مسلسل گھما‬
‫رہی تھی اور میری چوت کی دیواروں کے ساتھ رگڑ رہی تھی جیسے کچھ تالش کرنا‬
‫چاہتی ہو۔ اچانک ہی اسکی انگلی میری چوت کے ایک اندر ایک مخصوص جگہ کو ٹچ‬
‫ہوئی تو میری سسکی نکل کر رہ گئی۔ رافعہ فورا میری طرف متوجہ ہوئی اور دوبارہ‬
‫اسی جگہ کو چھوا تو میری پھر سے سسکی نکلی۔ رافعہ سمجھ گئی کہ یہی میرا جی‬
‫سپاٹ ہے۔ اس نے اب مسلسل میرے جی سپاٹ کو مسلنا شروع کر دیا تھا اور میری‬
‫سسکیاں اب ایسے نکل رہی تھیں جیسے کوئی بڑا سا لن میری چدائی کر رہا ہو۔ میری‬
‫سسکیاں بہت شدید تھیں اور میری آوازیں الزمی طور پر کمرے سے باہر جا رہی تھیں۔‬
‫میری سسکیاں سن کر رضوان کے جوش میں بھی اضافہ ہوگیا اور اسنے رافعہ کی‬
‫چوت اور بھی زور سے مارنی شروع کر دی تھی۔ اوپر سے میری برداشت بھی جواب‬
‫دے رہی تھی کیونکہ رافعہ کی انگلیاں مسلسل میرے جی سپاٹ کو سہال رہی تھیں۔ رافعہ‬
‫یقینا بہت ماہر تھی سیکس میں تبھی اس نے فورا ہی میری چوت میں جی سپاٹ کو‬
‫ڈھونڈ لیا تھا اور اب مجھے ایسے ہی مزہ آرہا تھا جیسے مجھے کوئی لن چود رہا ہو۔‬
‫میں نے اپنے دونوں ممے اپنے ہاتھوں سے دبانے شروع کر دیے اور اپنے نپلز کو‬
‫مسلنا شروع کر دیا۔ کچھ ہی دیر میں میری سسکیاں اب چیخوں میں تبدیل ہوگئیں اور‬
‫میری ٹانگیں سختی سے اکڑنے لگیں اور میں نے اپنی چوت کو بھی دبانا شروع کر دیا۔‬
‫میری یہ حالت دیکھ کر رافعہ سمجھ گئی کہ میں اب فارغ ہونے والی ہوں‪ ،‬اسنے اپنی‬
‫انگلیوں کو مزید تیزی کے ساتھ حرکت دینا شروع کر دی اور جیسے ہی میری چوت نے‬
‫پانی چھوڑا اس نے اپنی انگلیاں نکال کر اپنا منہ میری چوت پر رکھ دیا اور زبان نکال‬
‫کر میری چوت کو مسلنے لگی۔ میری چوت کا پانی رافعہ کے منہ میں گیا اور رضوان‬
‫کے اوپر بھی گرا۔‬
‫جب میری چوت سے سارا پانی نکل گیا تو میں نے رافعہ کی طرف دیکھا اس نے پوچھا‬
‫سناو مزہ آیا؟؟؟ میں نے جواب دینے کی بجائے نیچے بیٹھ کر اپنے ہونٹ رافعہ کے‬
‫ہونٹوں پر رکھ دیے۔ اس نے بھی فور ہی اپنی زبان نکالی اور میرے منہ میں داخل کر‬
‫دی۔ اسکی زبان پر میری چوت کے پانی کا ذائقہ تھا جو مجھے بڑا ہی اچھا لگا اور میں‬
‫نے اسکی زبان کو چاٹنا شروع کر دیا۔ کچھ دیر رافعہ سے کسنگ کرنے کے بعد میں‬
‫تھوڑا نیچے جھکی اور رافعہ کے ممے چاٹنے لگی۔ اسکے ‪ 36‬سائز کے ممے مجھے‬
‫بڑے ہی پیارے لگے۔ کبھی کسی لڑکی کے ممے میں نے نہیں چاٹے تھے یہ میرا پہال‬
‫تجربہ تھا اور مجھے بہت اچھا لگ رہا تھا۔ آگے سے میں رافعہ کے ممے چاٹنے لگی‬
‫اور اپنا ایک ہاتھ رافعہ کی گانڈ پر لیجا کر اسکے چوتڑ دبائے اور پھر اپنی بڑی انگلی‬
‫رافعہ کی گانڈ کے سوراخ پر رکھ دی اور ہلکا سا دباو ڈاال تو میری انگلی بہت ہی آرام‬
‫سے رافعہ کی گانڈ میں چلی گئی۔ نیچے اسکی چوت میں رضوان کا لن تھا اور پیچھے‬
‫گانڈ میں میری انگلی گئی اور رافعہ کے ممے میرے منہ میں تھے۔ اتنا مزہ رافعہ کی‬
‫برداشت سے باہر ہونے لگا تو کمرہ اسکی سسکیوں سے گونجنے لگا اور کچھ ہی دیر‬
‫بعد اس نے جھٹکے مارنے شروع کیے۔ اسکی چوت اب پانی چھوڑ چکی تھی۔‬
‫رافعہ اب رضوان کے لن سے اتری اور فورا ہی اسکا لن اپنے منہ میں لیکر چاٹنے‬
‫لگی۔ رافعہ کی چوت کا پانی رضوان کے لن کو بھگو چکا تھا اور رافعہ اب رضوان کے‬
‫لن سے اپنی چوت کا پانی چاٹنے میں مصروف تھی۔ رضوان نے پیچھے سے میرے‬
‫چوتڑوں کو پکڑا اور کھینچ کر اپنے منہ کی طرف کر لیا اور میری گانڈ چاٹنے لگا۔ گانڈ‬
‫چٹوانے میں ایک بار پھر بہت مزہ آرہا تھا مجھے۔ کچھ دیر رافعہ نے رضوان کا لن چاٹا‬
‫اور پھر مجھے دعوت دی کہ میں رضوان کے لن کی سواری کروں۔ اصل میں تو مجھے‬
‫ندیم کا انتظار تھا کہ کب وہ کمرے میں آئے اور کب میں اسکا لن اپنی چوت میں لوں‬
‫مگر اب وہ تو آیا نہیں سو مجھے رضوان کے لن سے ہی اپنی پیاس بجھانی تھی۔ میں‬
‫فورا اٹھی اور اپنی چوت رضوان کے لن پر رکھ دی۔ رضوان نے ہلکا ہلکا دباو بڑھانا‬
‫سروع کیا تو میں نے کہا ایک ہی جھٹکے میں اپنا لن میری چوت میں داخل کر دو۔ یہ‬
‫سن کر رضوان نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور اسکا پورا لن میری چوت میں تھا۔‬
‫میری ایک دلخراش چیخ نکلی اور مجھے ایسا لگا جیسے کوئی لوہے کا راڈ میری چوت‬
‫کی دیواروں کو رگڑتا ہوا میری چوت کی گہرائیوں تک جا چکا ہو۔‬
‫رضوان نے مجھے اپنے اوپر لٹا لیا تھا اور میرے ہونٹوں کو چوس رہا تھا اور نیچے‬
‫سے اسکا لن میری چوت چودنے میں مصروف تھا۔ میں جھکی تو رافعہ نے اپنی زبان‬
‫میری گانڈ پر رکھ دی اور اسکو چوسنے لگی۔ رافعہ نے جیسے ہی اپنی زبان میری‬
‫چوت پر رکھ کر اسکو چوسا تو بولی کہ ارے فائزہ تمہاری گانڈ تو ابھی تک کنواری‬
‫ہے۔ کبھی گانڈ نہیں مروائی کیا؟ اس سے پہلے کہ میں جواب دیتی نیچے سے رضوان‬
‫بول پڑا کہ اسکی چوت بھی کنواری ہی تھی جو میں نے ایک ہفتہ پہلے ہی پھاڑی ہے۔‬
‫یہ بات کہتے ہوئے رضوان کے لہجے میں فخر تھا کہ اس نے ایک کنواری چوت کو‬
‫پھاڑا تھا۔ اس پر رافعہ نے کہا ارے تم تو بہت خوش نصیب ہو۔ پھر تو تمہیں میری چوت‬
‫سے وہ مزہ نہیں مال ہوگا جو فائزہ کی چوت مزہ دے رہی ہوگی۔ رضوان نے کہا کہ تم‬
‫ایکسپرٹ ہو‪ ،‬تم جانتی ہو کہ اپنی چوت سے مرد کو مزہ کیسے دینا ہے۔ تمہیں چودنے‬
‫میں بھی بہت مزہ آیا ‪ ،‬مگر فائزہ کی چوت واقعی میں بہت ٹائٹ ہے اس میں میرا لن‬
‫جکڑا ہوا ہے اور اسکی چوت کا علیحدہ ہی مزہ ہے جو کسی اور چوت میں نہیں مل‬
‫سکتا۔‬
‫اب میں رضوان کے اوپر ڈوگی سٹائل میں تھی مگر میری گانڈ تھوڑا نیچے تھی اور میں‬
‫ہاتھوں کے بل رضوان کے اوپر جھکی ہوئی تھی۔ میری چوت میں مسلسل رضوان کا لن‬
‫ضربیں مار رہا تھا جس سے میرے ممے رضوان کے اوپر جھول رہے تھے اور دائیں‬
‫بائیں ہل رہے تھے جنکو دیکھ کر رضوان بہت خوش ہو رہا تھا۔ اتنے میں مجھے‬
‫دروازہ کھلنے کی آواز آئی۔ میں نے گردن موڑ کر پیچھے مڑ کر دیکھا تو ندیم کمرے‬
‫میں آ چکا تھا۔ میں نے دل ہی دل میں شکر کیا کہ جس مقصد کے لیے رضوان کو‬
‫اجازت دی تھی غیر لڑکی کو چودنے کی باالآخر وہ مقصد پورا ہونے لگا تھا۔ اور وہ‬
‫مقصد یہی تھی کہ میں بھی ندیم کا لن اپنی چوت مین داخل کر سکوں۔ ندیم میرے قریب‬
‫آیا اور رضوان سے پوچھا ہاں بئی چیتے سنا کیسا لگ رہا ہے ‪ 2 ،2‬لڑکیوں کی چدائی‬
‫کر کے۔ رضوان کی خوشی کی کوئی انتہا نہیں تھی وہ بوال بس یار آج تو ایسا لگ رہا‬
‫ہے جیسے میری عید ہوگئی ہو۔ ندیم نے ایک شارٹ پہن رکھا تھا جس میں اسکا لن‬
‫کھڑا نظر آرہا تھا۔ شارٹ تھوڑا ٹائٹ تھا اسلیے اس میں سے ندیم کے لن کا ابھار بہت‬
‫واضح نظر آرہا تھا۔‬

‫اب ندیم نے اپنا ہاتھ میری کمر پر پھیرنا شروع کر دیا اور بوال تم سناو فائزہ کیسا لگ ر‬
‫رہا ہے رافعہ کے ساتھ ملک کر رضوان سے چدائی کروانا۔ میں بھی بولی کہ اچھا لگ‬
‫رہا ہے۔ وہ مسلسل اپنا ہاتھ میری کمر پر پھیر رہا تھا اور مجھے اچھا لگ رہا تھا۔ مگر‬
‫حیرت کی بات یہ تھی کہ رضوان نے بھی برا نہ منایا۔ جس سے مجھے حوصلہ ہوا۔ کمر‬
‫پر ہاتھ پھیرتے پھیرتے ندیم اپنی انگلی میری گانڈ پر لے گیا اور انگلی میری گانڈ میں‬
‫داخل کرنے کی کوشش کی تو میں نے گانڈ زور سے دبا لی۔ اور اسکی انگلی میری گانڈ‬
‫میں نہ جا سکی۔ تو وہ بھی حیران ہوا اور کہا واہ تمہاری گانڈ تو بالکل ان ٹچ ہے۔ کسی‬
‫نے تمہاری گانڈ نہیں ماری کیا؟ اس پر رضوان پھر بوال یار تجھے بتایا تو تھا کہ ابھی‬
‫زیر لب مسکرایا‬‫پچھلے ہفتے ہی میں نے فائزہ کا کنوارہ پن ختم کیا ہے۔ اس پر رضوان ِ‬
‫جیسے کہنا چاہ رہا ہو کہ یہ چوت کنواری نہیں تھی‪ ،‬مگر بوال کچھ نہیں وہ۔‬
‫پھر وہ بوال کہ آج تو فائزہ کی گانڈ کی بھی چدائی ہونی چاہیے۔ جس پر میں فورا بول‬
‫اٹھی کہ نہیں مجھے نہیں اپنی گانڈ مروانی۔ اس پر ندیم ہنس پڑا اور بوال اچھا ڈرو نہیں‬
‫آرام سے فی الحال اپنی چدائی کرواو اور عیش کرو۔ اس نے پھر سے میری کمر پر ہاتھ‬
‫پھیرنا شروع کیا اور اب میرے چوتڑوں پر ہاتھ بھی مارنے لگا۔ وہ میرے چوتڑوں پر‬
‫زور سے ہاتھ مارتا تو کمرے میں آواز گونجتی اور میری ہلکی سی سسکی بھی نکلتی۔‬
‫جب میں نے دیکھا کہ رضوان نے اس بات کا بھی برا نہیں منایا کہ ندیم میری گانڈ کو‬
‫چھو رہا تھا اور میرے چوتڑوں کو دبا رہا تھا تو میں نے ہمت کی اور رضوان کے لن‬
‫پر سیدھی ہوکر بیٹھ ہوگئی اور اپنا ہاتھ ندیم کے شارٹ پر سے اسکے لن پر رکھ دیا۔‬
‫نیچے سے چوت میں رضوان کا لن دھکے مارنے میں مصروف تھا اور اوپر سے میں‬
‫اپنا ہاتھ ندیم کے لن پر پھیر رہی تھی۔‬
‫پھر میں نے اپنا ہاتھ ندیم کی شارٹ میں داخل کر دیا۔ اور پہلی بار اسکے لن کو چھوا‬
‫اور سائز کا اندازہ کرنے لگی۔ پھر میں نے اسکا لن باہر نکال لیا تو ندیم نے بھی اپنی‬
‫شارٹ اتار دی اور اپنا ‪ 8‬انچ کا موٹا تازہ لن میرے سامنے کر دیا۔ میں نے کچھ دیر تو‬
‫للچائی ہوئی نظروں سے اسکے لن کو دیکھا اور کہا کہ بہت مظبوط لن ہے تمہارا۔ جس‬
‫پر ندیم بوال کہ یہ چودتا بھی بہت خوب ہے۔ میں پھر سے ندیم کے لن پر ہاتھ پھیرنے‬
‫لگی تو ندیم بوال اسکو منہ میں نہیں لوگی؟ تو میں نے اسکو قریب کیا اور اسکے لن‬
‫کی ٹوپی پر ایک کس کی۔ پھر اس پر اپنے ہونٹ پھیرنے لگی۔ پھر اپنی زبان نکالی اور‬
‫ندیم کے لن کی ٹوپی پر پھیرنے لگی۔ اسکا لن آگ کی طرح گرمی چھوڑ رہا تھا جس‬
‫نے میری چوت کی گرمی کو بھی بڑھا دیا تھا۔ اور اب میں ندیم کا لن اپنے منہ میں لیکر‬
‫اسکو چوس رہی تھی۔ رضوان نے جب مجھے غیر مرد کا لن چوستے ہوئے دیکھا تو‬
‫بجائے غصہ کرنے کے اس نے اور بھی شدت کے ساتھ میری چدائی شروع کر دی۔ اب‬
‫میں ایک بار پھر فارغ ہونے کے قریب تھی میں نے اپنے منہ سے ندیم کا لن نکاال اور‬
‫رضوان کو کہا اور زور سے چدائی کرو میری اور زور دار جھٹکے مارو‪ ،‬میری بات‬
‫سن کر رضوان کے دھکوں میں اور اضافہ ہوا ‪ ،‬میرے ہاتھ میں ابھی بھی ندیم کا لن تھا‬
‫مگر اسکو اب میں نے منہ میں نہیں لیا کیونکہ اب سسکیاں برداشت نہیں ہو رہی تھیں‬
‫اور کمرہ میری آوازوں سے گونج رہا تھا۔ رضوان کے دھکے حیرت انگیز طور پر پہلے‬
‫سے بہت زیادہ ہو چکے تھے اور اسکا جسم بھی اب لذت کی انتہا پر تھا۔ پھر اچانک ہی‬
‫ہم دونوں کے جسم کو جھٹکے لگے اور ہم دونوں نے ایک ساتھ پانی چھوڑ دیا۔‬
‫جب ہمارے جھٹکے ختم ہوئے اور سارا پانی چھوڑ چکے تو میں رضوان کے لن سے‬
‫اتر گئی‪ ،‬ندیم نے فورا ہی مجھے بیڈ پر لٹا دیا اور بوال اپنی چوت کا پانی تو ٹیسٹ‬
‫کرواو کیسا ہے۔ اور یہ کہ کر وہ میری چوت کو چاٹنے لگا میری ٹانگوں پر میری چوت‬
‫کا پانی تھا اسنے میری ٹانگوں سے چوت کا پانی چاٹا اور مزے لیکر زبان اپنے ہونٹوں‬
‫پر پھیرنے لگا۔ دوسری طرف رضوان کا لن رافعہ کے منہ میں تھا اور وہ بھی رضوان‬
‫کی منی اور میری چوت کے پانی کا مکسچر رضوان کے لن سے چوس رہی تھی۔ ندیم‬
‫نے جب میری چوت سے سارا پانی چوس لیا تو دوبارہ اپنا لن میرے آگے کر دیا اور‬
‫میں بیٹھ کر اسکا لن چوسنے لگی۔ میں بیڈ پر ڈوگی سٹائل میں بیٹھی تھی جبکہ ندیم بیڈ‬
‫سے نیچے کھڑا تھا اور میں ندیم کا لن چاٹنے میں مصروف تھی۔ دوسری طرف رافعہ‬
‫بیڈ پر لیٹی تھی اور رضوان اسکی ٹانگیں اٹھا کر اپنا سر اسکی چوت پر رکھے اسے‬
‫چاٹ رہا تھا۔ رافعہ نے اپنے ہاتھ رضوان کے سر پر رکھے ہوئے تھے اور رضوان‬
‫مسلسل رافعہ کی چوت کو چاٹ رہا تھا۔ اتنے میں رافعہ بولی کہ تم نے آج تک کسی گانڈ‬
‫کا مزہ نہیں لیا لہذا اب تم میری گانڈ میں لن ڈال کر گانڈ کا مزہ لو۔ تو رضوان بوال آج تو‬
‫تمہاری گانڈ بھی ماروں گا اور فائزہ کی بھی۔ اس پر ندیم بوال کہ تم پہلے رافعہ کی گانڈ‬
‫مار لو‪ ،‬فائزہ کی گانڈ میں لن پہلے میں ڈالوں گا‪ ،‬تمہیں تجربہ نہیں تم ڈالو گے تو فائزہ‬
‫کو درد زیادہ ہوگا۔ میں طریقے سے اسکی گانڈ پھاڑوں گا جس سے اسکو کم سے کم‬
‫تکلیف ہو۔ پھر بعد ِمں تم جب چاہو فائزہ کی گانڈ مار لینا۔‬
‫اس پر رضوان نے تو ہاں میں سر ہال دیا مگر میں چالئی کہ آخر تم لوگ میری گانڈ کے‬
‫پیچھے کیوں پڑ گئے ہو؟ مجھے نہیں گانڈ مروانی تم بس میری چوت میں لن ڈالو اور‬
‫جان من ایک بار گانڈ مروا کر تو دیکھو بہت مزہ آئے گا‬ ‫بس۔ اس پرندیم ہنسا اور بوال ِ‬
‫تمہیں۔ اور ویسے بھی جب تمہاری چوت کھلی ہوجائے گی تو رضوان کو اسکا مزہ نہیں‬
‫آئے گا‪ ،‬پھر وہ بھی تمہاری گانڈ سے ہی مزہ لیا کرے گا۔ تو جب کل بھی گانڈ مروانی ہی‬
‫ہے تو کیوں نہ آج ہی مروا لی جائے۔ میں نے ایک بار پھر انکار کیا اور کہا نہیں بس‬
‫میری چوت میں لن ڈالو۔ اس پر ندیم نے اپنا لن میرے منہ سے نکاال اور مجھے منہ‬
‫دوسری طرف کرنے کو کہا۔ میں نے ایسے ہی بیڈ پر منہ دوسری طرف کیا میں ابھی‬
‫بھی ڈوگی سٹائل میں بیٹھی تھی اور ندیم بیڈ سے نیچے تھا۔ رضوان نے اب اپنی‬
‫انگلیاں میری چوت میں داخل کیں اور گیلے پن کو چیک کرنے لگا۔ میری چوت پہلے‬
‫سے ہی گیلی تھی اورندیم کے لن کا انتظار کر رہی تھی۔ میرے گیلے پن کو محسوس‬
‫کرکے ندیم سمجھ گیا کہ میری چوت چدائی کے لیے مکمل تیار ہے۔‬
‫اس نے اپنا لن میری چوت کے سوراخ پر سیٹ کیا اور ایک ہی دھکے میں اپنا ‪ 8‬انچ کا‬
‫لن میری ٹائٹ چوت میں داخل کر دیا۔ میری دلخراش چیخ نکلی جس سے پورا کمرہ‬
‫گونج اٹھا اور میں نے ندیم کو کہا کہ آرام سے کرو۔ تو وہ بوال آرام سے کرنے کا مزہ‬
‫نہیں آتا۔ اور ساتھ ہی اسنے میری چوت کی تعریف کی کہ یہ واقعی بہت ٹائٹ ہے عرصہ‬
‫ہوگیا ایسی ٹائٹ چوت کی چدائی کیے ہوئے۔ آج تو بہت مزہ آئے گا‪ ،‬یہ کہ کر اس نے‬
‫میری چوت میں اپنا لن تیزی سے اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ پہلے پہل تو مجھے شدید‬
‫درد ہوئی کیونکہ ندیم کا لن نہ صرف رضوان کے لن سے لمبا تھا بلکہ وہ موٹائی میں‬
‫بھی موٹا تھا اور اسکے دھکوں کی سپیڈ بھی شروع سے ہی تیز تھی جبکہ رضوان‬
‫شروع میں آرام سے چودتا تھا بعد میں سپیڈ پکڑتا تھا۔ ندیم نے سٹارٹ میں ہی تیزی‬
‫سےچودنا شروع کیا‪ ،‬مگر تھوڑی ہی دیر بعد اب میرا درد مزے میں بدل چکا تھا ۔ میں‬
‫ڈوگی سٹائل میں بہت مزے سے اپنی چوت چدوا رہی تھی تو دوسری طرف رافعہ بھی‬
‫ڈوگی سٹائل میں بیٹھ چکی تھی مگر رضوان نے اپنا لن اسکی چوت پر رکھنے کی‬
‫بجائے اسکی گانڈ پر رکھا اور زور دار دھکا مارا مگر لن گاند میں نہیں گیا۔ پھر اس نے‬
‫دوبارہ سے گانڈ کے سوراخ پر رکھا اور آہستہ آہستہ دباو ڈالنا شروع کیا تو رضوان‬
‫کے لن کی ٹوپی رافعہ کی گانڈ میں جا چکی تھی مگر رافعہ کے چہرے پر تکلیف کے‬
‫آثار تک نہ تھے۔ تھوڑی ہی دیر میں رضوان کا پورا لن رافعہ کی گانڈ میں تھا۔ اور‬
‫رضوان آہستہ آہستہ گانڈ میں لن داخل کرتا اور نکالتا۔‬

‫رضوان کے چہرے کے تاثرات اور اسکی آوازوں سے واضح پتہ لگ رہا تھا کہ رضوان‬
‫کو گانڈ چودنے میں بے حد مزہ آرہا ہے۔ رافعہ کی گانڈ چاہے کتنی ہی کھلی کیوں نہ ہو‬
‫مگر بحر حال وہ میری چوت سے تو تنگ ہی تھی۔ جسکو رضوان بہت مزے سے چود‬
‫رہا تھا۔ اور جب رضوان نے اپنے دھکوں کی سپیڈ بڑھائی تو اب رافعہ کی بھی سسکیاں‬
‫نکل رہی تھیں اور وہ اپنی گانڈ کی چدائی کو انجوائے کرنے لگی۔ ادھر میری چوت بھی‬
‫ندیم کے دھکوں سے بے حال ہوئے جا رہی تھی۔ اب ندیم نے آگے بڑھر کر میرے‬
‫مموں کو بھی دبانا شروع کر دیا۔ڈوگی سٹائل میں چدائی کرواتے ہوئے میرے ممے ہوا‬
‫میں لٹک رہے تھے جنکو اب ندیم اپنے ہاتھوں سے دبا رہا تھا۔ پھر اچانک ندیم نے‬
‫مجھے سینے سے پکڑ کر پیچھے کی طرف کھڑا کر لیا‪ ،‬میں اب بیڈ پر گھٹوں کے بل‬
‫ڈوگی سٹائل میں بیٹھی تھی مگر میری کمر ندیم نے کھینچ کر اپنے قریب کر لی‪،‬‬
‫اورمیرے مموں کو مسلنے لگا۔ میں نے بھی ایک ہاتھ ندیم کی گردن میں ڈال لیا اور منہ‬
‫انچا کر کے اپنے ہونٹ ندیم کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ رضوان کا لن میری چودائی کر رہا‬
‫تھا اسکے ہونٹ میرے ہونٹوں کو چوس رہے تھے ایک ہاتھ سے وہ میرے ممے دبا‬
‫رہاتھا اور دوسرا ہاتھ وہ آگے سے میری پھدی مسل رہا تھا اور الئن پر مسلسل ہاتھ‬
‫پھیر رہا تھا جس سے میری برداشت ختم ہوتی جا رہی تھی۔‬

‫ندیم نے اب دھکے بہت ہی زیادہ سپیڈ سے مارنے شروع کیے اور چند ہی دھکو ں کے‬
‫بعد میری چوت جواب دے گئی اور اس نے پانی چھوڑ دیا۔ اتنے دھکے سہنے کے بعد‬
‫میں اب بری طرح سے تھک چکی تھی۔ اور گہرے گہرے سانس لینے لگی۔ دوسری‬
‫طرف رافعہ نے اب اپنی پوزیشن چینج کر لی تھی۔ وہ اب بیڈ پر لیٹی تھی اور اسنے اپنی‬
‫دونوں ٹانگیں ہوا میں اوپر اٹھا رکھی تھیں۔ رضوان اسکے اوپر آیا اور اسکی ٹانگوں‬
‫کو فولڈ کر کے اسکے سینے سے لگا دیا۔ اب رضوان کے لن کی ذد میں رافعہ کی پھدی‬
‫اور گانڈ دونوں ہی تھے‪ ،‬رضوان نے رافعہ کی گانڈ کا انتخاب کیا اور ایک بار پھر اپنا‬
‫لن رافعہ کی گانڈ میں داخل کر دیا‪ ،‬اس پوزشن میں شاید رافعہ کو کچھ تکلیف ہوئی اور‬
‫اس نے ہلکی ہلکی چیخیں مارنی شروع کر دیں تھی۔ رضوان بہت ہی مزے سے گانڈ‬
‫مارنے میں مصروف تھا۔‬

‫اب ندیم نے مجھے ایک بار پھر سے بیڈ پر الٹا لٹا دیا اور میرے چوتڑ کھول کر اپنی‬
‫زبان میری گانڈ پر چالنے لگا۔ میں سمجھ گئی تھی کہ اب وہ میری گانڈ مارنا چاہتا ہے۔‬
‫مگر میجھ میں ہمت نہیں ہورہی تھی اتنا بڑا لن اپنی گانڈ میں لینے کی۔ مگر میں فی‬
‫الحال مزاحمت بھی نہیں کر رہی تھی کیونکہ گانڈ چسوانے میں آج مجھے بہت مزہ آرہا‬
‫تھا‪ ،‬پہلے حیدر نے میری گانڈ چوسی‪ ،‬پھر رضوان نے پھر رافعہ نے اور اب ندیم میری‬
‫گانڈ چوس رہا تھا‪ ،‬پھر اس نے میرے چوتڑوں کو اوپر اٹھایا اور اپنی زبان میری چوت‬
‫پر پھرینے لگا اور اپنی ایک انگلی میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ دی۔ میری گانڈ ندیم‬
‫کے تھوک سے اب کافی چکنی ہو چکی تھی‪ ،‬اسکی آدھی سے کم انگلی اب میری گانڈ‬
‫میں تھی اور مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے میری گانڈ میں مرچیں لگ گئیں ہوں۔ میں‬
‫نے ندیم کو سختی سے کہا کہ میری گانڈ سے انگلی نکال لے۔ مگر اس نے نہ نکالی‬
‫اور آہستہ آہستہ انگلی میری گانڈ میں گھمانے لگا اور نیچے سے میری چوت بھی چاٹتا‬
‫رہا۔ مجھے اب سمجھ نہیں آرہی تھی کہ گانڈ میں ندیم کی انگلی کی درد زیادہ ہے یا پھر‬
‫چوت چاٹنے سے جو مزہ مل رہا ہے وہ زیادہ ہے۔‬

‫ندیم کی اب آدھی سے زیادہ انگلی میری گانڈ کو چیرتی ہوئی گانڈ میں جا چکی تھی اور‬
‫میری برداشت ختم ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے ندیم کو پھر کہا کہ میری گانڈ کا پیچھا‬
‫چھوڑ دے اور جتنی بار چوت چودنا چاہے چود لے۔ پھر اچانک ندیم نے اپنی انگلی‬
‫میری گانڈ سے نکال دی اور رافعہ کو کہا فائزہ کی گانڈ مارنے میں مدد کرے۔ یہ بات‬
‫سن کر رافعہ نے رضوان کو پیچھے کیا اور اپنی گانڈ سے رضوان کا لن نکال لیا۔ ایک‬
‫الماری کھول کر وہ ایک کریم لے آئی اور ندیم کو پکڑا دی۔ اور خود بیٹھ کر ندیم کا لن‬
‫اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ دوسری طرف رضوان میرے قریب آیا اور اپنا لن‬
‫میرے منہ میں داخل کرنے لگا‪ ،‬میں نے رضوان کا لن اپنے منہ میں لے لیا اور اسکو‬
‫چوسنے لگی۔ ندیم نے اپنی انگلی پر کریم لگائی اور میری گانڈ کے سوراخ پر مسلنے‬
‫لگا جس سے میری گانڈ کی چکناہٹ میں اضافہ ہونے لگا۔‬

‫اب رافعہ ندیم کا لن چوس رہی تھی‪ ،‬رضوان کا لن میرے منہ میں تھا اور ندیم کی انگلی‬
‫میری گانڈ کے اندر کریم لگا کر گانڈ کو اندر سے بھی چکنا کرنے میں مصروف تھیں۔‬
‫جب رضوان نے اچھی طرح میری گانڈ پر کریم لگا دی تو رافعہ اٹھی اور ایک اور کریم‬
‫لے کر آئی وہ کریم رافعہ نے خود کھولی اور ندیم کے لن پر مسلنے لگی‪ ،‬ندیم نے اپنی‬
‫پوری انگلی میری گانڈ میں داخل کی ہوئی تھی مجھے اس سے تکلیف تو ہو رہی تھی‬
‫مگر اتنی نہیں جتنی پہلے تھی۔ شاید اسکی وجہ یہ کریم تھی جس نے میری گانڈ کو‬
‫چکنا کر دیا تھا۔‬

‫جب رافعہ نے ندیم کے لن پر وہ کریم اچھی طرح مسل دی تو ندیم نے میری گانڈ سے‬
‫انگلی نکال کر میری دونوں ٹانگوں کو ہوا میں اٹھا لیا‪ ،‬میں اندر ہی اندر ڈر رہی تھی‬
‫کیونکہ آنے واال وقت بہت ہی تکلیف دہ تھا۔ میں نے ایک بار پھر کہا کہ پلیز میری گانڈ‬
‫کو بخش دو چوت جتنی مرضی مار لو۔ مگر ندیم نے میری بات کو سنی ان سنی کر دیا۔‬
‫اب ندیم میری ٹانگیں اٹھائے میری گانڈ پھاڑنے کے لیے تیار کھڑا تھا تو رافعہ نے‬
‫رضوان کو کہا کہ اگر تمہیں اپنا لن پیارا ہے تو فائزہ کے منہ سے نکال لو ورنہ یہ کاٹ‬
‫ڈالے گی تمہارے لن کو۔ رضوان نے اپنا لن میرے منہ سے نکال دیا تو رافعہ نے‬
‫مجھے کہا اپنی منہ میں کوئی کپڑا ٹھونس لو درد کی شدت کم ہوجائے گی‪ ،‬تو میں نے‬
‫پاس پڑا ندیم کا شارٹ اٹھایا اور اسکو اپنے منہ میں ڈال لیا۔‬

‫اب میں ذہنی تور پر گانڈ مروانے کے لیے تیار تھی مگر میرا دل دھک دھک کر رہا تھا۔‬
‫رافعہ میرے ساتھ لیٹ گئی اور میرے نپلز اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی‪ ،‬رافعہ الٹی‬
‫لیٹی تھی اور میری ممے چوس رہی تھی‪ ،‬اس نے رضوان کو اپنے پیچھے آنے کو کہا‬
‫اور کہا چوتڑ کھول کر گانڈ میں ڈال دو لن۔ رضوان فورا رافعہ کے اوپر آیا اور اسکے‬
‫چوتڑ کھول کر اپنا لن اسکی گانڈ میں داخل کر دیا اور چودنے لگا۔ اب ندیم نے اپنے لن‬
‫کی ٹوپی میری گانڈ کے سوراخ پر رکھی اور مجھے کہا کہ تیار ہوجاو‪ ،‬اور ساتھ ہی‬
‫ایک زور دار جھٹکا مارا۔ کپڑا منہ میں ہونے کے باوجود میری ایک زور دار چیخ نکلی‬
‫اور میں نے اپنے آپ کو ندیم سے چحڑوانا چاہا مگر ناکام رہی۔ ندیم کے لن کی ٹوپی‬
‫میری گانڈ میں تھی اور میرا درد کے مارے برا حال تھا۔ میری آنکھوں سے ایک ہی‬
‫دھکے میں آنسو نکل آئے تھے۔ درد اتنی شدید تھی کے میری ٹانگیں اور پورا جسم‬
‫بری طرح کانپ رہا تھا جب کہ رافعہ میرے اوپر میرے نپل چوسنے میں مصروف تھی۔‬
‫گانڈ کی درد اتنی شدید تھی کہ نپل چوسنے کا مزہ بھی اب محسوس نہیں ہورہا تھا۔ ندیم‬
‫نے میری دونوں ٹانگیں مضبوطی سے پکڑ رکھی تھیں تاکہ میں چھڑوا نہ سکوں۔‬

‫کچھ دیر بعد ندیم نے ایک اور زور دار دھکا مارا اور اب کی بار میری چیخ پہلے سبھی‬
‫زیادہ تھی۔ اور میں نے مسلسل چیخنا شروع کر دیا تھا اور اپنے جسم کا پورا زور لگانا‬
‫شروع کریا کہ مجھے چھوڑ دو مجھے نہیں گانڈ مروانی۔ مگر ندیم نے مجھ پر ذرا بھی‬
‫رحم نہ کھایا اور میرے جسم کو مضبوطی سے پکڑے رکھا۔ میں نے رضوان کی بھی‬
‫منتیں کیں کہ پلیز مجھے اس مصیبت سے نجات دلواو مگر وہ تو اس وقت رافعہ کی‬
‫گانڈ مارنے میں مصروف تھا اور وہ چاہتا تھا کہ ایک بار میری بھی گانڈ کی چودائی‬
‫کرے ندیم تاکہ بعد میں رضوان بھی میری گانڈ مار سکے۔ لہذا وہ بھی میری مدد کو نہ‬
‫آیا اور مجھے تسلی دینے لگا کہ حوصلہ رکھو ابھی تمہیں مزہ آنے لگے گا جیسے‬
‫رافعہ مزے سے گانڈ چدوا رہی ہے۔ آخر کار ندیم نے ایک اور آخری دھکا مارا اور اسکا‬
‫لن کافی حد تک میری گانڈ میں غائب ہوچکا تھا اور مجھے ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے‬
‫میں ابھی بے ہوش ہوجاوں گی۔ ایک تو ندیم کا لن بہت موٹا تھا اوپر سے وہ میری گانڈ‬
‫میں تھا۔ میری چیخیں تھیں کہ رکنے کا نام نہیں لے رہی تھیں۔ اور میری ٹانگیں اب‬
‫کانپ رہی تھیں۔ اور ٹانگوں میں جسیسے جان بالکل ختم ہوچکی تھی۔ آنکھوں سے‬
‫مسلسل آنسو جاری تھے۔ ندیم کچھ دیر ایسی ہی میری گانڈ میں لن ڈالے کھڑا رہا۔ جب‬
‫میری درد کی شدت کچھ کم ہوئی تو ندیم نے لن باہر نکالنا شروع کیا تو میری درد ایک‬
‫بار پھر تیز ہوگئی اور میں نے پھر سے اسکی منتیں کیں کہ پلیز میری گانڈ مت مارو۔‬
‫مگر ندیم نے اپنا پورا لن میری گانڈ سے نکاال صرف ٹوپی اندر رہنے دی اور ایک بار‬
‫پھر ایک زور دار دھکا مارا تو اسکا لن میری گانڈ کو چیرتا ہوا اندر تک چال گیا۔ اور‬
‫ایک بار پھر میری چیخوں سے کمرہ گونجنے لگا۔‬
‫ندیم نے پھر کچھ دیر انتظار کیا اور پھر سے لن باہر نکال کر دھکا مارا ۔ اب کی بار وہ‬
‫انتظار نہیں کر رہا تھا وہ بہت آہستہ آہستہ اپنا لن باہر نکالتا اور اک دم سے دھکا مار‬
‫کر میری گانڈ پھاڑ کر رکھ دیتا۔ ہر دھکے پر مجھے ایسا لگتا کہ جیسے میری گانڈ کو‬
‫کسی لوہے کے راڈ نے چھیل کر رکھ دیا ہو۔ ‪ 10‬منٹ تک یہ سلسلہ جاری رہا۔ ندیم‬
‫آہستہ آہستہ لن باہر نکالتا اور پھر ایک زور دار دھکا مار کر لن اندر ڈال دیتا۔ اور میں‬
‫مسلسل ‪ 10‬منٹ سے تکلیف میں تھی ۔ اب تو میری چیخیں بھی نکلنا بند ہوگئی تھیں‬
‫کیونکہ گال خشک ہو کا تھا۔ رضوان ان ‪ 10‬منٹ کے دوران اپنی منی رافعہ کی گانڈ میں‬
‫نکال چکا تھا۔ اور اب رافعہ میرے نپل چھوڑ کر اسکا لن چوسنے میں مصروف تھی۔‬
‫میرا درد اور پیاس سے برا حال تھا۔ میں نے پانی مانگا تو رافعہ نے مجھے پانی پالیا‬
‫تو مجھے کچھ حوصلہ ہوا۔ اب ندیم نے ایک بار اپنا لن میری گانڈ سے نکاال تو مجھے‬
‫لگا کہ اس تکلیف سے نجات مل گئی۔ مگر ندیم نے میری گانڈ میں ایک بار پھر کریم‬
‫لگائی اور بوال کہ تمہاری گانڈ کچھ زیادہ ہی ٹائٹ ہے‪ ،‬رافعہ کی گانڈ بھی پہلی بار میں‬
‫نے ہی پھاڑی تھی مگر وہ اتنی ٹائٹ نہیں تھی اور ‪ 5‬منٹ بعد ہی رافعہ مزے میں تھی۔‬
‫مزید کریم لگا کر ندیم نے ایک بار پھر لن میری گانڈ پر سوراخ پر رکھا اور ایک ہی‬
‫دھکے میں پورا لن میری گانڈ میں داخل کر دیا۔ اور مجھے ایک بار پھر لگا کہ میری‬
‫گانڈ میں پہلی بار لن گیا ہے۔ لیکن اب کی بار ندیم نے رکنے کی بجائے مسلسل میری‬
‫گانڈ کی چدائی جاری رکھی۔ میری آنکھوں میں ابھی بھی آنسو تھے۔ مگر اب تکلیف کا‬
‫احساس آہستہ آہستہ کم ہونے لگا تھا۔ مگرمزے کا دور دور تک کوئی نام و نشان نہیں‬
‫تھا۔ مزید ‪ 5‬منٹ کی چدائی کے بعد اب ندیم کا لن روانی کے ساتھ میری گانڈ میں داخل‬
‫ہو رہا تھا اور اب اسکو میری گانڈ کی چدائی کا مزہ آرہا تھا۔‬

‫اب رافعہ اٹھی اور اپنی چوت میرے منہ پر رکھ کر بیٹھ گئی تو میں نے اسکی چوت‬
‫چاٹنا شروع کی۔ میرا دھیان رافعہ کی چوت کی طرف ہوا تو مجھے اپنی گانڈ کی درد اور‬
‫تکلیف ختم ہوتی محسوس ہوئی۔ تھوڑی دیر بعد ہی میرے منہ میں رافعہ کی چوت کا‬
‫پانی تھا اور ندیم ابھی تک میری گانڈ کی چدائی میں لگا ہوا تھا۔ وہ ساتھ ساتھ میری‬
‫چوت پر اپنا ہاتھ بھی پھیر رہا تھا جس سے مجھے مزہ آنے لگا تھا۔ اور کچھ دیر بعد‬
‫میرے منہ سے سسکیاں نکلنا شروع ہوگئی تھیں۔ ابھی بھی یہ مزہ ویسا تو نہیں تھا‬
‫جیسا کہ چوت کی چودائی میں آتا ہے مگر پھر بھی کچھ نہ کچھ مزہ آنے لگا تھا۔ رافعہ‬
‫نے ایک بار پھر رضوان کا لن چوس چوس کر کھڑا کر دیا تھا۔ ندیم کو میری گانڈ کی‬
‫چودائی کرتے ہوئے ‪ 25‬منٹ ہو چکے تھے۔ اور باال آخر میری گانڈ میں اپنی منی‬
‫چھوڑ دی۔ منی چھوڑنے کے بعد وہ میرے اوپر گرگیا اورمجھے چومنے لگا اور کہا آج‬
‫بہت عرصے بعد اتنی ٹائٹ گانڈ ملی ہے مزہ آگیا تمہاری گانڈ مار کر۔اب رضوان میری‬
‫طرف متوجہ ہوا اور بوال اب میری باری ہے فائزہ کی گانڈ مارنے کی۔‬

‫میں نے رضوان کو کہا پلیز اب نہیں۔ پھر کبھی سہی۔ رضوان نے کہا نہیں پلیز مجھے‬
‫اپنی گانڈ مارنے دو۔ میں نے پھر اسے کہا کہ آج مزید ہمت نہیں مجھ میں ۔ میری گانڈ‬
‫بھی تمہاری ہے میری چوت بھی تمہاری ہے۔ پھر کسی دن مار لینا لیکن آج نہیں پلیز۔‬
‫جس پر رضوان نے مجھ پر ترس کھایا اور ایک بار پھر اپنا لن رافعہ کی چوت میں داخل‬
‫کر دیا۔ رافعہ رضوان کے اوپر لیٹی اپنی چوت کی چدائی کروا رہی تھی۔ اور اپنی گانڈ ہال‬
‫ہال کر لن کے مزے لے رہی تھی۔ اتنے میں ندیم کا لن دوبارہ کھڑا ہوا تو اس نے اپنے‬
‫لن کا رخ رافعہ کی گانڈ کی طرف کیا۔ وہ رضوان کے پیچھے جا کر کھڑا ہوا اور رافعہ‬
‫کو گانڈ تھوڑی اونچی کرنے کو کہا۔ رافعہ کی چوت میں رضوان کا لن تھا۔ اس نے گانڈ‬
‫تھوڑی اونچی کی تو پیچھے سے ندیم نے اپنا ‪ 8‬انچ کا لن رافعہ کی گانڈ میں داخل کر‬
‫دیا۔ رافعہ کے چہرے پر اب تکلیف کے آثار تھے اور وہ ہلکی ہلکی چیخیں مار رہی‬
‫تھی۔ اب رضوان اور ندیم دونوں ملکر رافعہ کی چودائی کر رہے تھے۔ میں نے ایک ہی‬
‫ٹائم میں چوت اور گانڈ میں لن لیتے ہوئے فلموں میں دیکھا تھا۔ اور آج اصل زندگی میں‬
‫رافعہ اپنی گانڈ اور چوت ایک ہی وقت میں چدوا رہی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد اسکی تکلیف‬
‫مزے میں چینج ہوگئی۔ وہ حیرت انگیز طور پر رضوان اور ندیم کے طوفانی دھکے اپنی‬
‫گانڈ اور چوت میں برداشت کر رہی تھی اور اسکی سسکیاں ماحول کو اور سیکسی بنا‬
‫رہی تھیں۔‬

‫کچھ دیر بعد ان دونوں نے پوزیشن چیج کی۔ اب ندیم کا لن رافعہ کی چوت میں تھا اور‬
‫رضوان کا لن رافعہ کی گانڈ میں ۔ ‪ 10‬منٹ کی چودائی کے بعد دونوں نے اپنی منی‬
‫رافعہ کی گانڈ اور چوت میں چھوڑ دی۔ اس دوران رافعہ بھی ‪ 3‬بار اپنی چوت کا پانی‬
‫چھوڑ چکی تھی۔ اس زبردست چدائی کے بعد بھی رافعہ بہت مزے میں تھی جب کہ میرا‬
‫انگ انگ دکھ رہا تھا کیونکہ آج پہلی بار میری گانڈ ماری تھی کسی نے اور وہ بھی ‪8‬‬
‫انچ کے لمبے اور موٹے لن کے ساتھ۔‬

‫کچھ دیر آرام کرنے کے بعد ہم نے وہیں پر کھانا کھایا اور پھر رضوان نے مجھے گھر‬
‫پر چھوڑ دیا۔ گھر جا کر میں مطمئن تھی۔ گانڈ کی درد تو ابھی بھی محسوس ہو رہی تھی‬
‫مگر اب یہ اطمینان تھا کہ رضوان نے اپنی آنکھوں کے سامنے مجھے کسی اور لڑکے‬
‫سے چدواتے ہوئے دیکھا تھا تو آئندہ بھی مجھے اسکے کسی دوست کا لن لینے میں‬
‫مشکل نہیں ہوگی۔‬

‫مگر اسکے ساتھ ساتھ میرے ذہن میں سائرہ اور حیدر گھوم رہے تھے۔ ان دونوں نے‬
‫میرے ساتھ اچھا نہیں کیا تھا۔ سائرہ نے میری ویڈیو بنا کر حیدر کو دی تاکہ اسکی اپنی‬
‫عزت بچ سکے اور حیدر نے مجھے بلیک میل کرنے کی کوشش کی۔ یہ اور بات کے‬
‫اسکا لن اس قابل نہیں تھا کہ میری چوت کو سکون بخش سکے ‪ 2‬جھٹکوں سے زیادہ‬
‫وہ برداشت نہیں کر سکتا تھا اور منی چھوڑ دیتا تھا۔ اب میں اپنے ذہن میں دونوں سے‬
‫بدلہ لینے کا سوچ رہی تھی۔ وہ امیر فیملی اور اثرو رسوخ والی فیملی تھی ان سے بدلی‬
‫لینا آسان نہیں تھا۔ میں مسلسل ‪ 3‬گھنٹوں سے اسی بارے میں سوچ رہی تھی کہ آخر ان‬
‫دونوں بہن بھائیوں سے کیسے بدلہ لیا جائے۔ آخر کار حیدر سے بدلہ لینے کی ترکیب‬
‫میرے ذہن میں آگئی جو بہت آسان تھی مگر سائرہ سے بدلہ لینے کی ابھی تک کچھ‬
‫نہیں سوجھی تھی۔‬

‫آخر کار میں نے سوچا کہ پہلے حیدر سے تو بدلہ لیا جائے بعد میں سائرہ کے بارے‬
‫میں بھی سوچ لیں گی۔ اب میں سکون سے لیٹ گئی اور دوبارہ سے ندیم کے تگڑے لن‬
‫سے چدائی کے مزے کو یاد کرنے لگی اور یہی یاد کرتے کرتے میری آنکھ لگ گئی۔‬
‫صبح بیدار ہوئی تو جسم کو کافی حد تک سکون مل چکا تھا مگر ابھی بھی گانڈ ایسے‬
‫جل رہی تھی جیسے کسی نے اندر مرچیں ڈال دیں ہوں۔ گانڈ کی پہلی چودائی میں مزہ نہ‬
‫ہونے کے برابر تھا۔ میں بستر سے اٹھی تو چلنے میں بھی دشواری محسوس ہوئی۔‬
‫واش روم جا کر میں نے نہانا شروع کر دیا تو مجھے کل کی چودائی دوبارہ یاد آنے‬
‫لگی۔ ندیم کا ‪ 8‬انچ کا لن جب میری چوت کو بے دردی سے چود رہا تھا وہ سین اب‬
‫میری آنکھوں کے سامنے گھومنے لگا۔ میری ڈوگی سٹائل میں اپنی چوت مروا رہی تھی‬
‫اور میرے ممے لٹکنے کے ساتھ ساتھ آگے پیچھے ہل رہے تھے۔ یہ یاد آیا تو میں نے‬
‫شاور لیتے ہوئے اپنے ہاتھوں سے اپنے مموں کو دبانا شروع کر دیا۔ میرے مموں پر‬
‫شاور کا پانی گر رہا تھا اور نیچے بہ رہا تھا‪ ،‬واش روم میں لگے ہوئے بڑے شیشے‬
‫میں جب میں نے اپنے آپ کو دیکھا تو مجھے اپنے اوپر پیار آنے لگا۔ میں اپنے مموں‬
‫کو دیکھنے لگی جو پانی سے بھیگے ہونے کے باعث بہت سیکسی لگ رہے تھے۔ میں‬
‫شیشے میں دیکھتے ہوئے اپنے مموں کو دبا رہی تھی اور میرے منہ سے سسکیاں‬
‫نکل رہی تھیں۔ پھر میں نے اپنے نپلز کو بھی مسلنا شروع کر دیا۔ مجھے اور مزہ آنے‬
‫لگا اور اب میری چوت میں بھی خارش ہونے لگی تو میں نے اپنی انگلی چوت میں ڈال‬
‫دی اور اسکو رگڑنے لگی۔ لن واال مزہ تو نہیں تھا مگر پھر بھی انگلی چوت میں ڈال‬
‫کر سکون مال تھا۔ آہستہ آہستہ میں نے خود ہی انگلی سے اپنی چودائی شروع کر دی‬
‫اور ایک ہاتھ سے اپنے مموں کو بھی دباتی رہی۔ آہستہ آہستہ میری سسکیوں میں‬
‫اضافہ ہوتا جا رہا تھا اور میرے جسم میں جیسے سوئیاں سی چبھنے لگیں تھیں۔ کچھ‬
‫دیر مزید آنکھیں بند کر کے میں اپنی انگلی سے اپنی چوت کی چودائی کرتی رہی آخر‬
‫کار میری چوت نے ایک دم سے پانی چھوڑ دیا جس سے میرے پورے جسم میں سکون‬
‫کی لہر دوڑ گئی۔‬

‫اسکے بعد اچھی طرح نہانے کے بعد میں نے کپڑے پہنے اور باہر آگئی۔ باہر آکر میں‬
‫نے ناشتہ کیا اور واپس اپنے کمرے میں آکر اپنا خفیہ کیمرے واال پین نکاال اور اسمیں‬
‫موجود ویڈیو کو اپنے کمپیوٹر میں سیو کر نے کے بعد اس پر پاسورڈ بھی لگا دیا تاکہ‬
‫کوئی اور اسکو نہ دیکھ سکے۔ میں نے ایک بار ویڈیو خود سے بھی دیکھی جس میں‬
‫حیدر میری چوت اور گانڈ کو بہت مزے سے چاٹ رہا تھا مگر آخر میں اسکا کمزور لن‬
‫میری چدائی کرنے میں ناکام رہا تھا۔ ابھی میں یہ ویڈیو دیکھ ہی رہی تھی کہ حیدر کی‬
‫کال آگئی میرے موبائل پر۔ کال اٹینڈ کی تو پہلے تو وہ کافی دیر خاموش رہا پھر کچھ‬
‫حوصلہ کر کے مجھ سے معافی مانگنے لگا اور کہنے لگا کہ فائزہ آپی میں آپ سے‬
‫بہت شرمندہ ہوں‪ ،‬میں ایسا نہیں کرنا چاہتا تھا مگر میری ہوس نے مجھے ایسا کرنے‬
‫پر مجبور کر دیا۔ آپ پلیز کسی کو مت بتائیے گا اس بارے میں۔‬

‫اسکی بات سن کر میں نے اسکو کہا کہ تم فکر نہیں کرو۔ بس میں تم سے ملنا چاہتی‬
‫ہوں ایک بار۔ جب سائرہ اور سمیرا گھر پر نہ ہوں تو مجھے بتانا۔ میں تم سے ملنے‬
‫آوں گی۔ یہ سن کر وہ حیران ہوا اور بوال کہ خیریت تو ہے؟ مگر میں نے اسکو کچھ‬
‫بھی بتانا مناسب نہین سمجھا اور کہا بس جب وہ گھر پر نہ ہوں تو مجھے بتانا میں ملنا‬
‫چاہتی ہوں تم سے۔ جس پر اس نے مجھے بتایا کہ کل سائرہ اور سمیرا گھر والوں کے‬
‫ساتھ بہاولپور جا رہی ہیں اپنے رشتے داروں کے گھر تو وہ گھر پر اکیال ہوگا لہذا کل‬
‫مالقات ہو سکتی ہے۔ میں فورا تیار ہوگئی اور اسکو کہا کہ کل میں خود ملنے آوں گی‬
‫لہذا وہ گھر پر ہی رہے۔‬
‫کل رات میں جو پالن بنایا تھا میں نے بدلہ لینے کا اسکا وقت آگیا تھا۔ اگلے دن میں نے‬
‫خود حیدر کو ‪ 12‬بجے کال کی تو اسنے بتایا کہ کچھ ہی دیر میں وہ لوگ نکل جائیں‬
‫گے تو میں ‪ 1‬بجے تک اسکے گھر آسکتی ہوں۔ یہ سن کر میں نے کال بند کردی اور‬
‫خود تھوڑا تیار ہونے لگی۔ تیار ہو کر میں نے اپنے خفیہ کمیرے سے میموری کارڈ‬
‫نکاال اور اپنے بیگ میں ڈال لیا۔ پھر انٹرنیٹ کنیکٹ کر کے اس ویڈیو کو یو ٹیوب پر‬
‫اکاونٹ بنا کر اس پر اپلوڈ کر دیا۔ مگر اس ویڈیو کو میں نے یو ٹیوب میں پرائیویٹ‬
‫سیٹنگ کے ساتھ اپلوڈ کیا اور اس کو پاسورڈ پروٹیکٹیڈ بھی کر دیا۔ اور پھر میں نے‬
‫گھر سے نکلنے کا ارادہ کیا تو پہلے ایک سکارف بھی اٹھا لیا جس سے میں نقاب کر‬
‫سکوں۔ وہ سکارف بھی میں نے اپنے بیگ میں رکھا چادر لی اور امی کو دوست کے‬
‫گھر جانے کا کہ کر پھر گھر سے نکل گئی۔ اور باہر جا کر رکشے میں بیٹھ کر سکارف‬
‫لیا اور نقاب کر لیا۔ اور پھر اوپر سے چادر بھی لپیٹ لی۔ رکشہ واال بھی حیرانی سے‬
‫دیکھنے لگا کیونکہ لڑکیاں عموما گھر سے نقاب کر کے نکلتی ہیں مگر باہر نکل کر‬
‫نقاب اتار دیتی ہیں۔ جبکہ میں گھر سے بغیر نقاب کے نکلی اور رکشے میں بیٹھ کر‬
‫نقاب کیا۔‬

‫اسکی وجہ یہ تھی کہ میں عام روٹین میں نقاب نہیں کرتی تھی باہر جاتے ہوئے‪ ،‬اس‬
‫لیے میں نے امی کے سامنے نقاب نہیں لیا کو وہ زیادہ سوال نہ پوچھیں کہ آج کیسے‬
‫نقاب کر کے جا رہی ہو؟ انکے سوالوں سے بچنے کے لیے اور انکو کسی قسم کا شک‬
‫نہ ہومیں بغیر نقاب کے نکلی تھی۔ مگر نقاب کرنا ضروری تھا کیونکہ آگے جو میں‬
‫کرنے جا رہی تھی اس میں ضروری تھا کہ کوئی مجھے پہچان نہ سکے۔ شہر کے ایک‬
‫گنجان آباد عالقے میں رکشہ داخل ہوا تو میں نے اسکو ایک بڑے میڈیکل سٹور کے‬
‫سامنے رکوا لیا۔ وہاں اتر کر میں سٹور میں داخل ہوئی اور اسکو ایک پرچی تھما دی‬
‫جو میں نے گھر پر ہی لکھ لی تھی۔‬

‫اس پرچی پر مردانہ ٹائمنگ بڑھانے کے لیے ایک گولی لکھی تھی اور ساتھ میں کنڈوم‬
‫کا پیکٹ تھا۔ اس گولی کے بارے میں مجھے ایک بار کالج میں ایک لڑکی نے بتایا تھا‬
‫جو اکثر اپنے بوائے فرینڈ کے ساتھ سیکس کرتی تھی اور اسکا بوائے فرینڈ ٹائمنگ‬
‫بڑھانے کے لیے گولی کا استعمال کرتا تھا۔ اور کنڈوم کا بھی اسی نے بتایا تھا جو ڈاٹڈ‬
‫ہوتے ہیں۔ ان پر چھوٹے چھوٹے ڈاٹ لگے ہوتے ہیں جو چودائی کے دوران عورت کو‬
‫زیادہ مزہ اور زیادہ رگڑ دیتے ہیں۔ دکاندار نے وہ پرچی دیکھی اور مجھے گھور گھور‬
‫کر دیکھنے لگا‪ ،‬میں نے بھی کڑک آواز میں کہا جو لکھا ہے جلدی دے دو میں نے‬
‫آگے جانا ہے۔ جس سے اس نے میری مطلوبہ چیزیں مجھے دیں اور مجھے معنی خیز‬
‫نظروں سے دیکھنے لگا جیسے کہنا چاہتا ہو کہ انکے پیسے دینے کی بجائے بس اپنی‬
‫چوت مجھے دے دو۔ مگر میں نے اسکو پیسے تھمائے اور فورا رکشے میں جا کر بیٹھ‬
‫گئی اور حیدر کے گھر پہنچ کر حیدر کو کال کی۔ وہ باہر آیا اور مجھے لیکر اندر چال گیا۔‬

‫ہمارا رخ حیدر کے کمرے کی طرف تھا۔ اسکے کمرے میں جا کر سب سے پہلے میں‬
‫نے اسے کمپیوٹر آن کرنے کو کہا۔ اسنے مجھے سے کھانے پینے کا پوچھا تو میں نے‬
‫کہا وہ بھی بتادوں گی مگر پہلے اپنا کمپیوٹر آن کرو۔ اس نے کمپیوٹر آن کیا تو میں نے‬
‫اسے میموری کارڈ دیا اور کمپیوٹر میں لگانے کو کہا۔ اسنے پوچھا اس میں کیا ہے؟‬
‫میں نے کہا تم لگاو تو تمہیں بتاتی ہوں۔ اسنے کارڈ لگایا تو میں نے اسکو وہ ویڈیو‬
‫دکھا دی جو میں نے خفیہ کیمرے سے ہوٹل روم میں بنائی تھی۔‬

‫جیسے ہی وہ ویڈیو سٹارٹ ہوئی حیدر کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ‪ ،‬وہ کبھی‬
‫مجھے دیکھتا اور کبھی ویڈیو کو۔ پھر وہ کپکپاتی آواز میں بوال ۔ ۔ ۔ ف ف ف ف فائزہ آ‬
‫آ آ پی یہ ک ک ک کیا؟؟؟؟ میں نے اسکو زہریلی نظروں سے دیکھا اور کہا کہ تم کیا‬
‫سمجھتے ہو تم ویڈیو بنا کر کسی لڑکی کو بلیک میل کرو گے اور وہ اپنی حفاظت کے‬
‫لیے کچھ نہیں کرے گی؟؟؟ یہ سن کر اسنے فورا وہ ویڈیو بند کی اور کارڈ سے ڈیلیٹ‬
‫کرکے مجھے فاتحانہ نظروں سے دیکھنے لگا۔ تو میں نے ایک قہقہ لگایا اور کہا تم کیا‬
‫سمجھتے ہو میں اتنی پاگل ہوں کہ ویڈیو کا بیک اپ لیے بغیر کارڈ تمہیں ال دوں گی؟؟‬
‫میں نے اسے بتایا کہ یہ ویڈیو میرے پاس اب سی ڈیز میں بھی محفوظ ہے‪ ،‬میرے‬
‫کمپیوٹر میں بھی محفوظ ہے یو ٹیوب پر بھی اپلوڈ ہو چکی ہے مگر اسکو دیکھ کوئی‬
‫نہیں سکتا ابھی کیونکہ وہ میں نے پاسورڈ پروٹیکٹیڈ رکھی ہے۔ مزید میں نے اسکو‬
‫فیس بک پیج دکھایا ایک جو میرا تھا اور میں اس پر کچھ سیکسی چیزیں پوسٹ کیا کر‬
‫تی تھی۔ اس پیج پر ‪ 50،000‬کے قریب فین بھی تھے۔ میں نے اسے بتایا کہ میں نے‬
‫ویڈیو کو ایڈیٹ بھی کیا ہے جہاں جہاں میری شکل ہے وہاں سے میں نے ویڈیو کاٹ دی‬
‫ہے جہاں میری پیٹھ ہے یا صرف چوت یا گانڈ کیمرے کے سامنے ہے وہ حصہ رہنے‬
‫دیا ہے مگر تمہاری شکل بھی ویڈیو میں ہے اور تمہاری وہ ساری باتیں بھی جو تم نے‬
‫میرے سے کیں اور اپنی بہن سائرہ کے بارے میں بتائیں کہ کیسے اسنے ویڈیو بنائی‬
‫اور مجھے بلیک میل کرنے کا راستہ فراہم کیا۔ اور ویڈیو کے آخر میں تمہارے ابو کا نام‬
‫انکا فون نمبر‪ ،‬تمہارا فون نمبر‪ ،‬تمہاری بہن کا نمبر‪ ،‬نام اور اسکا کالج میں موجود‬
‫رولنمبر سب کچھ ویڈیو میں دے دیا ہے۔ تاکہ جو بھی وہ ویڈیو دیکھے وہ تمہاری‬
‫پوری فیملی تک رسائی حاصل کر سکے۔ اور اس ویڈیو کو ایڈیٹ کرنے کے بعد اور یہ‬
‫نمبرز اور تمہاری فیملی کے تفصیالت دینے کے بعد میں نے وہ ویڈیو اپنے اس فیس‬
‫بک پیج پر شیڈیول پوسٹنگ میں لگا دی ہے۔ اگر تم نے یہاں مجھے مارنے کی کوشش‬
‫کی یا مجھے قید کرنے کی کوشش کی یا مجھے کسی بھی قسم کا نقصان پہنچایا تو‬
‫ٹھیک ‪ 2‬دن کے بعد وہ ویڈیو خود بخود فیس بک پر پبلش ہوجائے گی اور تمہاری‬
‫پوری فیملی بدنام ہوگی۔‬

‫لیکن اگر تم میرے ساتھ معامالت طے کر لو تو میں اس ویڈیو کو پوسٹ ہونے سے‬
‫پہلے اسکی ڈیٹ اور آگے بڑھا دوں گی۔ لیکن رہے گی وہ شیڈیولنگ پر ہی اور میں‬
‫گاہے بگاہے اسکی ڈیٹ آگے بڑھاتی رہوں گی جب تک تم میرے ساتھ تعاون کرتے رہو‬
‫گے۔ جس دن تم نے میرے ساتھ تعاون کرنا بند کر دیا یا پھر مجھے کوئی نقصان پہنچایا‬
‫تو میں اس ویڈیو کی ڈیٹ مزید آگے نہیں بڑھا سکوں گی اور وہ خود ہی پوسٹ ہوجائے‬
‫گی۔ اور تم اپنی بہن اور پوری فیملی سمیت کسی کو منہ دکھانے کے قابل نہیں رہو گے۔‬

‫میری توقعات کے عین مطابق میرا پھینکا ہوا یہ تیر بالکل نشانے پر جا کر لگا۔ حیدر کا‬
‫رنگ سفید پڑ چکا تھا اور کمرے میں اے سی چلنے کے باوجود اسکو پسینے آرہے‬
‫تھے۔ کافی دیر کمرے میں خاموشی رہی اور میں فاتحانہ نظروں سے اسکو گھورتی‬
‫رہی۔ پھر جب اسکے کچھ حواس بحال ہوئے تو اسنے مجھ سے پوچھا بتاو تمہیں کیسا‬
‫تعاون چاہیے۔ اور کتنے پیسے چاہیے؟ مگر پلیز میری فیملی کو بدنام نا کرنا تمہیں‬
‫نقصان میں نے پہنچایا ہے میری بہن یا میری فیملی کو بیچ میں نہ الو۔ اس پر میں چال‬
‫کر بولی کہ تمہاری بہن بھی اس سارے پالن میں شامل ہے۔ لہذا اسکو بھی سزا ملنی‬
‫چاہیے۔ اور پیسے مجھے نہیں چاہیے۔ بس تمہارا تعاون چاہیے۔‬

‫وہ بوال کہ بتاو تم کیا چاہیتی ہو؟ سب سے پہلے تو میں نے اس سے اسکا موبائل مانگا۔‬
‫اور اسکو کہا اس میں ویڈیو دکھائے میری اور رضوان کی ویڈیو کہاں پڑی ہے۔ اس نے‬
‫ایک فولڈر اوپن کیا جس پر پاسورڈ لگا ہوا تھا اسکے اندر میری اور رضوان کی ویڈیو‬
‫پڑی تھی۔ میں نے وہ ڈیلیٹ کروائی۔ پھر اسکا پورا میموری کارڈ چیک کیا اور جو جو‬
‫فولڈر الک تھے ان سب کو اوپن کروا کر چیک کیا کہ کہیں اور تو میری ویڈیو نہیں پڑی۔‬
‫مگر اور مجھے پورے موبائل میں کہیں ویڈیو نہیں ملی تو میں نے اسکے موبائل کا‬
‫میموری کارڈ کمپیٹر میں لگایا اور اسکو کہا اس کارڈ کو فامیٹ کر دو۔ تاکہ اگر کوئی‬
‫فولڈر میری نظروں سے رہ بھی گیا ہو تہو بھی وہ ڈیلیٹ ہوجائے۔ کارڈ فامیٹ کرنے کے‬
‫بعد میں نے اسکا کارڈ لیا اور اپنے پاس محفوظ کر لیا۔ پھر میں نے اسکو کہا کہ اپنے‬
‫موبائل کو بھی فیکٹری ریسیٹ کرے۔ جس پر وہ بوال کہ وہ موبائل کو ریسیٹ نہیں کرے‬
‫گا کیونکہ موبائل کی میموری میں اسکا ضروری ڈیٹا‪ ،‬سمیرا کے کچھ پیار بھرے‬
‫میسیجز اور دوستوں کے ضروری نمبرز وغیرہ بھی ہیں۔ میں نے اسے کہا انتخاب تم‬
‫نے کرنا ہے۔ سمیرا کے میسیج اور دوستوں کے نمبر بچالو یا پھر اپنی بہن کی اور اپنی‬
‫فیملی کی عزت بچا لو۔ میری یہ بات سن کر وہ بے بسی سے مجھے دیکھنے لگا اور‬
‫آخر کار اس نے اپنا موبائل بھی ریسیٹ کر دیا۔ موبائل ریسیٹ کرنے کے بعد وہ اسکو‬
‫واپس اپنے پاس رکھنے لگا تو میں نے کہا یہ موبائل بھی مجھے دے دو۔ اس نے‬
‫پوچھا وہ کیوں تو میں نے کہا فکر نہ کرو اسکی جو قیمت ہے وہ میں تمہیں دے دوں‬
‫گی مگر یہ موبائل تم نہیں رکھ سکتے ویسے ب ِھی تمہارے کسی کام کا نہیں سارا ڈیٹا تو‬
‫اڑ گیا ہے اسمیں سے۔ اس نے مجھے کھا جانے والی نظروں سے دیکھا اور پھر‬
‫موبائل بھی مجھے دے دیا۔‬

‫پھر میں نے اسکو کہا کہ اسکے پاس کوئی اور موبائل بھی ہے تو بتائے اسنے کہا‬
‫اسکے پاس کوئی اور موبائل نہیں۔ میں نے اسکے کمرے میں موجود تمام دراز اور‬
‫الماریاں چیک کیں مجھے ایک نوکیا کے پرانے موبائل کے عالوہ اور کچھ نہیں مال۔ نہ‬
‫کوئی سی ڈی نہ کوئی میموری کارڈ وغیرہ۔ وہ موبائل جو مال وہ اس قابل نہیں تھا کہ‬
‫اس میں کوئی ویڈیو سیو کی جا سکے لہذا وہ میں نے اسکو ویسے ہی واپس کر دیا۔‬
‫پھر میں نے اسکو کہا اپنا فیس بک کا اکاونٹ اوپن کرے۔ اسنے اکاونٹ اوپن کیا تو‬
‫اسکے اکاونٹ میں ویڈیو اور تصویریں پڑی تھیں۔ میں نے اسکے فیس بک اکاونٹ سے‬
‫ساری تصویریں ڈیلیٹ کروائیں جو میری اور رضوان کی تھیں اور اسنے مجھے میسج‬
‫کی تھی۔اسکے میسجز میں وہ تصویریں محفوظ تھیں۔ وہاں سے ڈیلیٹ کر کے میں نے‬
‫اسکے فوٹو البم چیک کیے تاکہ وہاں بھی اگر اسنے پرائیویسی لگا کر اپلوڈ کی ہوں تو‬
‫میں ڈیلیٹ کر سکوں۔ اسنے مجھے یقین دالیا کہ ان میسیجز اور موبائل کے عالوہ‬
‫تمہاری تصویریں اور کہیں نہیں ۔ اب تم بالکل محفوظ ہو۔ مگر میں اتنی آسانی سے‬
‫کیسے یقین کر لیتی۔ میں نے اسکے براوزر کی ہسٹری اور پاسورڈ سیو سیٹنگ میں جا‬
‫کر چیک کیا کہ وہ کون کونسے ای میل کے ساتھ فیس بک استعمال کرتا ہے۔ مجھے ‪2‬‬
‫ای میل اور ملے جن کے ذریعے اس نے فیس بک پر اکاونٹ بنائے ہوئے تھے۔ میں نے‬
‫اسکو کہا کہ ان دونوں اکاونٹ کو الگن کرو۔ اس نے فورا الگن کر دیے تو میں نے انکو‬
‫بھی اچھی طرح چیک کیا۔ مگر ان میں کچھ نہیں تھا۔‬

‫پھر میں نے اسکی براوزنگ ہسٹری میں سے جی میل‪ ،‬یاہو‪ ،‬اور ہاٹ میل کے تمام‬
‫اکاونٹس چیک کیے جن جن پر وہ الگن کرتا تھا۔ وہ الگن کروا کر میں نے تمام اکاونٹس‬
‫کی ای میلز کو اچھی طرح چیک کیا کہ کہیں اس نے میری کوئی ویڈیو تو نہیں رکھی۔‬
‫مجھے ادھر بھی کچھ نہیں مال۔ پھر میں نے اسکو کہا کہ اپنی ہارڈ دسک کو بھی‬
‫فارمیٹ کر دے۔ جس پر وہ بلبال اٹھا کہ آخر تم چاہتی کیا ہو۔ میرا بہت ضروری ڈیٹا پڑا‬
‫ہے اس میں۔ میں نے کہا میری عزت سے زیادہ ضروری نہیں ہو سکتا وہ۔ لہذا میں‬
‫کسی بھی قسم کا رسک نہیں لے سکتی لہذا تم بھی وہی کرو جو میں کہ رہی ہوں‬
‫کیونکہ تماری بہن کی عزت بھی قیمتی ہے۔ جس پر اس نے مجھ سے اجازت مانگی کہ‬
‫کچھ ضروری ڈیٹا وہ میرے سامنے کسی اور جگہ پر سیو کر سکتا ہے ؟؟؟ تو ِمیں نے‬
‫اجازت دے دی مگر ساتھ یہ بھی کہا کہ ایک ایک چیز مجھے دکھا کر سیو کرے گا مگر‬
‫اسمیں کوئی تصویر یا کوئی ویڈیو نہیں ہوگی۔ اگر کوئی ڈاکومنٹس ہیں تو انکو سیو کر‬
‫لے۔ جس پر اس نے اپنے کچھ ضروری ڈاکومنٹس کو اپنے ای میل ایڈریس پر سینڈ کر‬
‫دیا۔ اب اسکا ضروری ڈیٹا محفوظ تھا جس میں کوئی بھی تصویر یا ویڈیو نہیں تھی‪،‬‬
‫میں نے اسکی ہارڈ دسک فارمیٹ کروائی اور اور اسکو کہا اب کمپیوٹر بند کرے اور یہ‬
‫ہارڈ دسک بھی اتار کر مجھے دے دے۔ جس پر اس نے دوبارہ مجھے کھا جانے والی‬
‫نظروں سے دیکھا اور غصے میں بوال اب کیا کرو گی اسکا سب کچھ تو تم نے ڈیلیٹ‬
‫کروا دیا ہے۔ میں نے اسے کہا میں اتنی بھولی نہیں کہ یہ ہارڈ تمہارے پاس چھوڑ‬
‫جاوں اور تم دوبارہ سے ڈیٹا ریکور کر کے مجھے پھر سے بلیک میل کرو۔ میری یہ‬
‫بات سن کر وہ بوال بہت تیز ہو تم۔ یہ بات تو میرے وہم و گمان میں بھی نہیں کہ میں‬
‫ایسا کروں گا نہ ہی میرا کوئی لمبا چوڑا پروگرام تھا تمہیں بلیک میل کرنے کا میں تو‬
‫بس ایک بار تمہارے ممے چوسنا چاہتا تھا۔ اس پر میں نے کہا میں نہیں جانتی تمہارا‬
‫کیا پروگرام تھا مگر اب میں تم پر کسی بھی طرح اعتبار نہیں کر سکتی۔ لہذا مجھے اپنی‬
‫حفاظت کے لیے جو چیز بہتر لگے گی اور سمجھ میں آئے گی وہ میں کروں گی۔ آخر‬
‫کار اس نے اپنی ہارڈ ڈسک اتاری اور وہ بھی مجھے دے دی۔ وہ میں نے اپنے بیگ‬
‫میں رکھ لی۔‬
‫یہ سب کرنے کے بعد اب میں نے اسکو ذرا پیار سے دیکھا۔ مگر وہ مجھے کھا جانے‬
‫والی نظروں سے دیکھ رہا تھا۔ میں جا کر اسکی گود میں بیٹھ گئی جس پر وہ بہت‬
‫حیران ہوا۔ میں نے اسکو ایک کس کی اور کہا کہ جسطرح تم نے کل میری چوت چاٹی‬
‫اور گانڈ چاٹی تم نے تو مجھے پاگل ہی کر دیا تھا۔ تب سے میری چوت میں خارش ہو‬
‫رہی ہے اور میرے نپلز کھڑے ہیں تمہاری زبان کے لمس کو محسوس کرنے کے لیے۔‬
‫وہ حیران اور پریشان میری طرف دیکھ رہا تھا۔ میں نے کہا غصہ نہ کرو تم سمجھ‬
‫سکتے ہو کہ یہ سب کچھ میں نے اسی لیے کیا کہ کبھی غلطی سے بھی تمہارے پاس‬
‫سے یہ ویڈیو اور تصویریں لیک نا ہوجائیں اور کسی اور کے ہاتھ نہ لگ جائیں۔ جس‬
‫طرح تمہیں اپنی بہن اور فیملی کی عزت عزیز ہے ٹھیک اسی طرح مجھے بھی اپنی‬
‫عزت عزیز ہے۔ اور یہ سب کرنا میری مجبوری ہے۔ تم نے ایک غلطی کی ہے اسکی‬
‫سزا تو ملے گی۔ مگر میں تم سے ناراض نہیں ہوں۔ صرف اپنی حفاظت کے لیے‬
‫ضروری اقدامات کیے ہیں۔ اور تم اپنی فیملی کی فکر نہ کرو میں گھر جا کر فیس بک پر‬
‫تمہاری ویڈیو کو ایک مہینہ آگے کر دوں گی شیڈیول۔ اور ہر مہینے کی ‪ 15‬تاریخ کو تم‬
‫مجھے میسیج کر کے یاد کروا دیا کارہ میں ویڈیو ایک مہینہ آگے شیڈیول کر دیا کروں‬
‫گی تاکہ وہ کبھی بھی پوسٹ نہ ہونے پائے۔‬

‫تم نے ایک غلط چیز کا آغاز کیا۔ لہذا اب میں تم پر مکمل اعتماد تو نہیں کر سکتی فوری‬
‫طور پر۔ مگر کچھ عرصے بعد جب مجھے یقین ہوجائے گا کہ تم مجھے کسی قسم کا‬
‫نقصان نہیں پہنچاو گے تو میں وہ ویڈیو پرمانینٹ ڈیلیٹ کر دوں گی۔ جس پر حیدر کچھ‬
‫مطمئن ہوا اور کہا تم ٹھیک کہ رہی ہو غلطی میری ہی ہے اور یہ سب جو تم نے کیا‬
‫میرا ڈیٹا ڈیلیٹ کروایا اتنی سزا تو ملنی ہی چاہیے مجھے مگر پلیز وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر‬
‫دو قسم سے تمہاری ویڈیو اب میرے پاس کہیں بھی محفوظ نہیں۔ میں نے کہا فکر نہیں‬
‫کرو کر دوں گی۔ مگر کچھ عرصے کے بعد جب مجھے تم پر یقین ہوجائے گا۔‬

‫اس نے کہا ٹھیک ہے تم میرے پر مکمل اعتبار کر سکتی ہو۔ جب تک چیک کرنا چاہو‬
‫کر لو پھر اسکو ڈیلیٹ کر دینا۔‬

‫میں نے کہا بھول جاو اب اسکو‪ ،‬اور میری طرف دھیان دو۔ جن مموں کو تم چوسنا‬
‫چاہتے تھے وہ تمہارے سامنے ہیں اپنا کام شروع کرو۔ تم نے اس دن مجھے پاگل کر‬
‫دیا تھا۔ مجھے آج پھر وہی مزہ دو جو اس دن دیا تھا۔ یہ کہ کر میں نے خود ہی اپنی‬
‫قمیص اتار دی۔ اور اپنی برا کی ہک ب ِھی فورا ہی کھول دی۔ میرے ممے اب تنے ہوئے‬
‫حیدر کے سامنے تھے جنہیں دیکھتے ہی وہ پاگل ہوگیا اور سب کچھ بھول کر انکو‬
‫چوسنے لگا۔ اسنے مجھے فورا ہی بیڈ پر لٹا لیا اور میرے اوپر لیٹ کر میرے مموں کو‬
‫زور زور سے دبانے لگا۔ میرے نپلز پکڑ کر وہ انکو دباتا اور کبھی منہ میں لیکر‬
‫چوستا۔ میں نے اپنی ٹانگیں اٹھا کر اسکی کمر کے گرد لپیٹ لی تھیں اور اسکے بالوں‬
‫میں مسلسل ہاتھ پھیر کر اسکو پیار کر رہی تھی۔ کچھ دیر وہ میرے ممے چوسنے کے‬
‫بعد نیچے چوت کی طرف جانے لگا تو میں نے اسکو روکا اور کہا ابھی مزید ممے‬
‫چوسے ابھی میرے مموں کو سکون نہیں مال۔ تو اسنے دوبار سے میرے نپلز منہ میں‬
‫لیکر زور زور سے چوسنا شروع کر دیے۔ کبھی وہ دانتوں سے کاٹتا میرے نپلز پر تو‬
‫کبھی اپنی زبان پھر کر انکے تناو میں اور اضافہ کرتا۔ کوئی ‪ 5‬سے ‪ 10‬منٹ تک وہ‬
‫بے دردی سے میرے مموں کو چوستا رہا اور میرے نپلز کو مسلتا رہا۔ اسکے بعد اس‬
‫نے پھدی کی طرف رخ کرنا چاہا تو میں نے اسکو روکا اور بیگ سے ٹائمنگ بڑھانے‬
‫والی گولی نکال کر اسے دی اور کہا اسے پانی کے ساتھ نگل لے۔ اسنے پوچھا یہ کیا‬
‫ہے تو میں نے بتایا کہ اس سے تمہارا لن منی جلدی نہیں چھوڑے گا اور تم مجھے‬
‫چود بھی سکو گے اچھی طرح۔ جس پر وہ خوش ہوگیا اور فورا ہی گولی پانی سے لے‬
‫لی۔ جتنی دیر میں اسنے گولی نگلی اتنی دیر میں میں اپنی شلوار اور پینٹی اتار کر سائیڈ‬
‫پر پھینک چکی تھی اور بیڈ پر ٹانگیں پھیال کر لیٹ گئی۔‬

‫گولی کھانے کے بعد حیدر دوبارہ سے میری طرف آیا اور اب اسکی زبان میری چوت کو‬
‫چاٹنے میں مصروف تھی۔ وہ بڑی مہارت کے ساتھ میری چوت کو چاٹ رہا تھا۔ کبھی‬
‫میری چوت کے دانے کو زبان سے مسلتا تو کبھی اپنی زبان میری چوت میں داخل کر‬
‫میری چدائی کرتا۔ میری چوت اس عمل سے گیلی ہو رہی تھی اور مسلسل گرم سے گرم‬
‫تر ہو رہی تھی۔ پھر میں نے حیدر کہ کہا کہ اپنی انگلی ڈال کر میری چدائی کرے تو‬
‫اسنے میری چوت میں اپنی انگلی داخل کر دی اور تیزی سے انگلی کو اندر باہر کرنے‬
‫لگا۔ اس عمل سے محض ‪ 2‬منٹ میں ہی میری چوت نے پانی چھوڑ دیا جو حیدر کے‬
‫سینے پر جا کر گرا۔ چوت کا پانی نکالنے کے بعد اس نے میری ٹانگیں اٹھا لیں اور‬
‫گھٹنوں سے لگا کر میری گانڈ اوپر کر دی۔ اور میری گانڈ کو چاٹنے لگا۔ اسکو شاید اس‬
‫بات کا احساس نہیں ہوا کہ جس گانڈ کو اس نے ‪ 2‬دن پہلے چوسا تھا وہ گانڈ اب‬
‫کنواری نہیں رہی بلکہ اس میں ندیم کا ‪ 8‬انچ کا لن چا چکا ہے۔ وہ تو بس گانڈ کو‬
‫چوسنے میں مصروف تھا جس سے میری سیکس کی خواہش میں مزید اضافہ ہوتا جا‬
‫رہا تھا۔‬

‫تھوڑی دیر گانڈ چٹوانے کے بعد میری برداشت جواب دے گئی تو میں نے حیدر کو‬
‫سائیڈ پر کیا اور فورا ہی اسکی پینٹ اتار کر اسکا لن انڈر وئیر سے باہر نکال لیا۔ ‪ 5‬انچ‬
‫کا لن دیکھ کر مجھے دل ہی دل میں ہنسی آئی مگر فی الحال اسی ‪ 5‬انچح کے لن سے‬
‫مجھے اپنی چودائی کروانی تھی۔ حیدر کا لن مکمل کھڑا تھا اور اسمیں سختی بھی تھی۔‬
‫میں نے اسکے لن کو منہ میں لیا اور اسکے ‪ 3 ،2‬چوپے لگائے۔ جس سے حیدر کے‬
‫منہ سے سسکیاں نکلنے لگیں تھیں۔ میں نے اسکا لن زیادہ نہیں چوسا کیونکہ میں‬
‫نہیں چاہتی تھی کہ اسکا لن پانی چھوڑ جائے۔ جس لڑکی نے مجھے ٹائمنگ والی گولی‬
‫کا بتایا تھا اور نے یہ بھی بتایا تھا کہ جب لن پھدی میں ڈلوانا ہو اس سے ‪ 15‬سے‬
‫‪ 20‬منٹ پہلے یہ گولی کھانی ہے۔ اور اسکا اثر لن پر صرف تب تک رہے گا جب تک‬
‫وہ پانی نہ چھوڑ جائے۔ ایک بار پانی چھوڑ دیا تو دوسری بار یہ گولی اثر نہیں کرے‬
‫گی۔‬

‫لن کے ‪ 3 ،2‬چوپے لگا کر میں نے لن کو گیال کر دیا اور پھر اسکا انڈر وئیر اتار کر‬
‫بیگ سے کنڈوم کا پیکٹ نکاال اور ایک کنڈوم نکال کر اسکے لن پر چڑھانے لگی۔ جس‬
‫پر حیدر ہنسنے لگا کہ آج تو تم پوری تیاری کے ساتھ آئی ہو۔ جس پر یں نے اسکو کہا‬
‫جان من تم پھدی ہی اتنی چاہت سے چوستے ہو کہ میں تمہاری دیوانی ہوگئی ہوں۔ لن‬ ‫ِ‬
‫کے بغیر گزارہ بھی نہیں اسلیے لن سے چدائی کروانے کے لیے یہ بندوبست کرنا پڑا۔‬
‫کنڈوم لن پر چڑھانے کے بعد ایک بار پھر میں بیڈ پر لیٹ گئی اور اپنی ٹانگیں کھول کر‬
‫اسکو اپنی پھدی کا راستہ دکھایا‪ ،‬اس نے ایک بار پھر سے اپنی زبان میری پھدی پر‬
‫پھیر کر اسکو گیال کیا اور اپنا لن میری پھدی پر سیٹ کر دیا۔ اور آہستہ آہستہ زور‬
‫لگانے لگا تو اسکا لن آسانی کے ساتھ پھسلتا ہوا میری پھدی میں مکمل چال گیا۔ ‪ 5‬انچ‬
‫کا لن بھی مجھے مزہ دے رہا تھا۔ شاید اسکی وجہ وہ کنڈوم بھی تھا جس پر ڈاٹ لگے‬
‫ہوئے تھے جو میری چوت کی دیواروں کے ساتھ رگڑ کھا رہے تھے جس سے مجھے‬
‫مزہ مل رہا تھا۔ حیدر نے آہستہ آہستہ دھکے لگانے شروع کیے تو میں نے اسے کہا فل‬
‫زور کے ساتھ دھکے لگائے۔ میری بات سن کر اسنے اپنی سپیڈ تیز کر دیا اور میری‬
‫ٹانگوں کے درمیان بیٹھ کر زور زور سے دھکے لگانے لگا۔‬
‫اس چودائی میں رضوان اور ندیم سے کروائی گئی چدائی کا تو مزہ نہیں تھا مگر پھر‬
‫بھی حیدر کی اس دن کی مالقات سے بہت بہتر چدائی تھی یہ۔ کچھ دیر ایسے ہی دھکے‬
‫لگانے کے بعد حیدر بوال پلیز گھوڑی بن جاو میں تمہیں گھوڑی بنا کر چودنا چاہتا ہوں۔‬
‫میں نے اسکے ہونٹوں پر ایک کس کی اور اسکو کہا جان جیسے تم چاہو میری چدائی‬
‫کر سکتے ہو۔ میں تمہاری ہوں۔ یہ کہ کر میں اسکے سامنے گھوڑی بن گئی اور اسنے‬
‫پیچھے سے اپنا لن میری چوت میں رکھا اور ایک ہی دھکے میں لن اندر ڈال کر پھر‬
‫سے دھکے لگانے شروع کر دی۔ میرے ممے ہلنے لگے اسکی چدائی سے۔ اور میں‬
‫نے اسکو خوش کرنے کے لیے زور زور سے سسکیاں لینا شروع کر دیں ۔ بیچ بیچ‬
‫میں ہلکی سی چیخ بھی مار دیتی۔ اگرچہ مجھے مزہ تو آرہا تھا مگر اتنا نہیں تھا کہ‬
‫میری چیخیں نکلتیں۔ حیدر نے میرے ممے ہلتے ہوئے دیکھے تو اسکے منہ میں پانی‬
‫آگیا اور اسنے فورا ہاتھ آگے بڑھا کر میرے مموں کو پکڑ لیا اور پیچھے سے چدائی‬
‫جاری رکھی۔ گولی اپنا کام دکھا رہی تھی اور حیدر کے لن نے ابھی تک پانی نہیں چھوڑا‬
‫تھا۔ اور کنڈوم بھی مجھے مزہ دے رہا تھا۔‬

‫کچھ دیر ایسے ہی گھوڑی بنا کر وہ مجھے چودتا رہا۔ اور اسکے دھکوں میں مسلسل‬
‫اضافہ ہو رہا تھا۔ پھر میں نے اسے کہا کہ مجھے کھڑا ہوکر چودے۔ یہ سن کر وہ بیڈ‬
‫سے اتر گیا اور میں بھی نیچے اتر کر کھڑی ہوگئی۔ میں اسکے کمپیوٹر ٹیبل کے قریب‬
‫گئی اور اسکو کہا میری ٹانگ اٹھا کر ٹیبل پر رکھے جس پر اس نے میری ایک ٹانگ‬
‫اٹھائی اور میں نے اپنی وہ ٹانگ کمپیوٹر ٹیبل پر رکھ دی‪ ،‬اور اسنے نیچے سے اپنا لن‬
‫میری چوت میں گھسا کر میری چودائی شروع کر دی۔ اب اسکا منہ میری طرف ہی تھا‬
‫تو اسنے چوت کی چودائی کے ساتھ ساتھ میرے ممے بھی چوسنا شروع کر دیے۔ یہ‬
‫پوزیشن میں لیے مشکل تو تھی مگر ایسے میں پہلی بار چودائی کر وا رہی تھی اور‬
‫فلموں میں بھی لڑکیوں کو ایسے چدائی کرواتے ہوئے دیکھا تھا اس لیے میں برداشت‬
‫کرتی رہی۔ پھر کچھ دیر بعد میں نے ٹانگ اٹھا کر نیچے لے آئی دوبارہ اور اسکا لن‬
‫اپنی چوت سے نکال دیا۔ میں نے ٹیبل کی طرف منہ کیا اور ٹیبل کے اوپر چھک گئی اور‬
‫اپنے چوتڑ باہر کی طرف نکال دیے اور حیدر کو کہا اب لن ڈالے۔ اس نے اپنا لن میری‬
‫چوت میں داخل کیا اور پیچھے سے میری چودائی کرنے لگا۔ کمرے میں دھپ دھپ کی‬
‫آوازیں آرہی تھیں اور حیدر بڑی خوشی سے میری چودائی کر رہا تھا۔ پھر ایک دم سے‬
‫اسکی سپیڈ میں اضافہ ہوگیا اور دھکے میں بھی زور آگیا۔ جس سے میں سمجھ گئی کہ‬
‫اسکے لن کی بس ہو چکی ہے اور اب وہ پانی چھوڑنے واال ہے۔ میں نے بھی اپنی گانڈ‬
‫کو زور زور سے ہالنا شروع کر دیا اور اپنی چوت کو تھوڑا دبا کر ٹائٹ کر لیا۔ جس‬
‫سے کنڈوم کے ڈاٹس کی رگڑ اور بھی زیادہ ہوگئی۔ اور کچھ ہی جھٹکوں کے بعد میری‬
‫چوت اور اسکے لن نے اکٹھے ہی پانی چھوڑ دیا۔‬

‫پانی نکلنے کے بعد حیدر کچھ دیر کھڑا لمبے لمبے سانس لیتا رہا۔ اسنے تقریبا ‪10‬‬
‫منٹ میری چودائی کی تھی۔ میں دل ہی دل میں سوچ رہی تھی کہ اگر یہی گولی رضوان‬
‫کو کھالوں تو وہ ایک گھنٹے سے بھی زیادہ میری چودائی کر کے میری چوت سُجا دے‬
‫گا مگر یہ صرف ‪ 10‬منٹ ہی چود سکا گولی کھا کر بھی۔ مگر یہ چیز میرے لیے بہتر‬
‫بھی تھی کیونکہ حیدر سے چدائی کروا کر میرا مقصد مزہ لینا نہیں تھا بلکہ اپنا بدلہ لینا‬
‫تھا اور اسی پالن پر عمل کرنے کے لیے میں حیدر کے لن سے چدائی کروا رہی تھی۔‬
‫میں نے حیدر کو پیار کیا اور اسکی تعریف کی کہ تم نے تو آج جم کے چودائی کی ہے‬
‫میری مزہ آگیا۔ پھر میں بیڈ پر بیٹھ گئی اور اسکو کہا اب کچھ کھالو مجھے بہت بھوک‬
‫لگی ہے۔ جس پر وہ فریج میں سے پھل نکال الیا۔ میں نے پھل کاٹے اور ہم دونوں نے‬
‫ملک کر پھل کھائے۔ پھل کھانے کے بعد وہ فریج سے جوس نکال کر الیا جو میں نے‬
‫خوب مزے سے پیا۔ جوس بہت ٹھنڈا تھا اور تازہ پھلوں کا بنا ہوا تھا۔ ہم دونوں ابھی‬
‫تک ننگے تھے جوس پینے کے بعد میں نے ایک بار پھر حیدر کا لن اپنے منہ میں لے‬
‫لیا اور اسکو چوسنے لگی۔ وہ کنڈوم اتار چکا تھا۔ میں نے لن اپنے منہ میں لیکر خوب‬
‫چوسا اور کچھ ہی دیر بعد وہ دوبارہ کھڑا ہوگیا۔ لن کھڑا ہوا تو میں نے حیدر کو کہا چلو‬
‫اب ‪ 69‬پوزیشن بنائیں تم میری چوت چاٹو اور میں تمہارا لن چوسوں گی دیکھتے ہیں‬
‫کسکا پانی پہلے نکلتا ہے۔ یہ کہ کر وہ فورا ہی میرے اوپر آگیا مجھے لٹا کر اپنا لن‬
‫میرے منہ میں دیا اور خود میری پھدی کی طرف منہ کر کے پھدی کے اوپر جھک کر‬
‫پھدی چاٹنے لگا۔ اسکی سپیڈ بہت تیز تھی کیونکہ وہ جلد سے جلد میرا پانی نکلوان‬
‫چاہتا تھا۔ وہ پھدی چاٹنے کے ساتھ ساتھ اپنی انگلی بھی میری چوت پر پھیر رہا تھا‬
‫جس سے مجھے بہت مزہ آرہا تھا اور مجھے لگ رہا تھا کہ اس بار میری چوت بہت‬
‫جلدی پانی چھوڑ جائے گی۔ ساتھ ساتھ میں حیدر کا لن چوس رہی تھی۔‬

‫اور پھر وہی ہو جسکی مجھے امید تھی۔ حیدر کی زبردست مہارت تھی چوت چا ٹنے کی‬
‫جس کی وجہ سے میری چوت نے تو پانی چھوڑ ہی دیا فورا مگر جو چیز میں چیک‬
‫کرنا چاہتی تھی وہ بھی ہوگیا۔ یعنی حیدر کے لن نے بھی محض‪ 2‬منٹ میں پانی چھوڑ‬
‫دیا۔‬
‫یہ دیکھ کر مجھے خوشی ہوئی مگر میں نے اسے حیدر پر ظاہر نہیں ہونے دیا۔ پھر‬
‫میں نے اپنے کپڑے پہنے‪ ،‬اور حیدر کے گھر سے نکلنے لگی۔ نکلنے سے پہلے اسنے‬
‫ایک بار پھر میری منت کی کہ پلیز وہ ویڈیو پوسٹ نہ کرنا تو میں نے کہا تم مجھے‬
‫ایسے ہی خوش کرتے رہو میں وہ ویدڈیو پوسٹ نہیں کروں گی۔ جس پر وہ ہنسا اور کہا‬
‫اس میں ایسی کونسی بات ہے‪ ،‬یہ تو میری اپنی بھی خواہش ہے کہ میں اپنی فائزہ‬
‫آپکے کے ممے چوسوں اور انکی چوت کی خوب چدائی کروں۔ میں نے کہا بس پھر‬
‫پریشان ہونے کی کوئی ضرورت نہیں جلد ہی میں وہ ویڈیو ڈیلیٹ کر دوں گی۔ یہ کہ کر‬
‫میں اسکے گھر سے نکل آئی اور رکشہ لے کر اسے گھر کا ایڈریش بتایا۔‬

‫اب مجھے یقین تھا کہ جو میں نے پالن بنایا تھا اس پر عمل کرنا زیادہ مشکل نہیں ہوگا۔‬
‫اور جلد ہی میں حیدر سے اپنا بدلہ لے سکوں گی۔ رکشے میں بیٹھی میں اپنے پالن پر‬
‫غور کر رہی تھی۔ گھر کے راستے میں ایک جگہ پر گندہ ناال آتا تھا میں نے اپنے بیگ‬
‫سے حیدر کا میموری کارڈ ‪ ،‬موبائل اور ہارڈ دسک نکالی اور اس نالے میں پھینک دی‬
‫تاکہ وہ ہمیشہ کے لیے ضائع ہوجائے اور نہ کسی کے ہاتھ لگے اور نہ ہی قابل استعمال‬
‫ہو۔ اب میں مکمل مطمئن تھی اور آنے والے حاالت کے بارے میں سوچ رہی تھی۔‬
‫اپنے پالن کے مطابق میں نے حیدر سے مزید کچھ مالقاتیں کیں اور اسی گولی کے‬
‫استعمال ک ذریعے اسکا لن اپنی چوت میں لیتی رہی جو مشکل سے ‪ 7‬سے ‪ 10‬منٹ‬
‫نکال جاتا تھا گولی کی وجہ سے مگر اسکے بعد اگلے راونڈ کے لیے حیدر کا لن ‪2‬‬
‫منٹ میں ہی پانی چھوڑ جاتا تھا۔ اسی دوران میں سائرہ سے بھی بالکل نارمل ملتی رہی‬
‫اور اسکو ذرا سا بھی اندازہ نہیں ہونے دیا کہ مجھے حیدر نے اسکی اس گھٹیا حرکت‬
‫کے بارے میں سب کچھ بتا دیا ہے۔ اسکے ساتھ ساتھ میں نے سمیرا سے بھی دوستی‬
‫بڑھائی۔ ایک دو بار اسکے ساتھ شاپنگ پر بھی گئی۔ اپنے پالن کے پہلے حصے یعنی‬
‫حیدر سے بدلہ لینے کے لیے سمیرا سے دوستی بہت ضرور تھی۔‬

‫پھر میں نے ایک ویک اینڈ پر سائرہ اور سمیرا دونوں کے ساتھ سوئمنگ کا پروگرام‬
‫بھی بنایا۔ لیکن اس بار رضوان ہمارے ساتھ نہیں تھا۔ اور پہلے ہی کی طرح حیدر بھی‬
‫اپنے گھر موجود نہیں تھا۔ سائرہ‪ ،‬سمیرا اور میں ہم تینوں صرف برا اور پینٹی پہن کر‬
‫کافی دیر سوئمنگ کرتی رہیں۔ سائرہ سے تو میری پہلے ہی اچھی فرینکیس تھی لہذا‬
‫میں بیچ بیچ میں اسکے جسم سے چھیڑ خانی بھی کرتی رہتی۔ اور وہ بھی کسی حد تک‬
‫میرے ساتھ چھیڑ خانی کرتی۔ پھر میں نے سائرہ کے کان میں کہا کہ ذرا سمیرا کے‬
‫جسم سے بھی کھیلو اسکے ممے ہم دونوں سے بڑے ہیں۔ سائرہ میری بات سن کر ہلکا‬
‫سا مسکرائی اور اپنی بھابھی کو جا کر پکڑ لیا اور اسکے جسم پر ہاتھ پھیر کر اسکی‬
‫تعریف کرنے لگی کہ میرا بھائی تو بڑا خوش قسمت ہے جسکو تم جیسی سیکسی لڑکی‬
‫ملے گی۔ اور ساتھ ہی سائرہ سمیرا کے جسم پر بھی ہاتھ پھیرنے لگی۔ لیکن یہ سب‬
‫کچھ مذاق مذاق میں ہی ہورہا تھا۔ تھوڑی ہی دیر بعد دونوں ایک دوسرے کو کسنگ‬
‫کرنے میں مصروف ہوگئی۔ میں نے مزید آگ بڑھانے کے لیے سائرہ کے پیچھے جا کر‬
‫اسکے چوتڑ دبانے شروع کر دیے جس کی وجہ سے اسکا جسم گرم ہونے لگا اور‬
‫پہلے جو وہ شرارتا سمیرا کی کسنگ کر رہی تھی اب وہ ذرا جوش کے ساتھ سمیرا کے‬
‫ہونٹ چوسنے لگی۔ سائرہ کو گرم کرنے کے بعد میں سمیرا کی طرف گئی اور پیچھے‬
‫سے اسکی کمر پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ کمرے پر ہاتھ پھیرنے ہوئے میں اپنے ہاتھ نیچے‬
‫الئی اور اسکے چوتڑوں پر ال کر ہاتھ روک لیے۔ اور اپنے دونوں ہاتھوں سے اسکے‬
‫نرم نرم چوتڑوں کو دبانے لگی۔ گوشت سے بھرے ہوئے نرم و مالئم چوتڑ چھو کر‬
‫مجھے خود کو بھی کچھ ہونے لگا تھا اب۔ جب میں نے چوتڑ دبانا جاری رکھے تو‬
‫سمیرا کسنگ چھوڑ کر ہنسنے لگی اور بولی آج تم دونوں کے ارادے اچھے نہیں لگ‬
‫رہے۔ باز آجاو تم دونوں۔ یہ غلط حرکتیں مت کرو۔ اس نے اتنا کہا تو میں نے جا کر‬
‫اسکے ممے پکڑ لیے اور کہا اپنی نند سے تو ممے دبوا لیے اب مجھے بھی دکھاو ذرا‬
‫تمہارے ممے کیسے ہیں اور میں اسکے ممے دبانے لگی۔ سمیرا بولی کیوں تمہارے‬
‫اپنے ممے کوئی نہیں جو میرے مموں کے پیچھے پڑ گئی ہو۔ ابھی اس نے اتنا ہی کہا‬
‫تھا کہ میں نے اپنے ہونٹ سمیرا کے ہونٹوں پر رکھ دیے اور سائرہ جو پہلے گرم ہو‬
‫چکی تھی وہ میرے پیچھے آکر میری کمر پر اپنے ہونٹ رگڑنے لگی اور زبان پھیرنے‬
‫لگی۔ جس سے مجھے کافی سکون مل رہا تھا۔ میں نے بھی اپنی زبان سے سمیرا کے‬
‫ہونٹوں پر دباو بڑھایا تو تھوڑی سی مزاحمت کے بعد اسنے اپنے ہونٹ کھول دیے اور‬
‫میں نے اپنی زبان اسکے منہ میں داخل کر دی۔‬

‫اب میری زبان سمیرا کی زبان سے ٹکرا رہی تھی اور ہم دونوں کے ممے جو اس وقت‬
‫برا میں قید تھے وہ ایکدوسرے سے کھیل رہے تھے۔ اب سمیرا بھی گرم ہو چکی تھی۔‬
‫میرا ارادہ تھا کہ ایک بار سمیرا کو فل ننگا کر دوں اور اسکی چوت کا پانی نکلوا دوں‬
‫تاکہ اسکو بھی لن کی طلب محسوس ہونا شروع ہو۔ مگر کچھ ہی دیر بعد سمیرا کے‬
‫ہوش بحال ہوئے اور وہ پیچھے ہٹ گئی اور پھر ہنسنے لگی ک بس بہت ہوگیا۔ مزید‬
‫نہیں۔ یہ کہ کر وہ سوئمنگ پول سے باہر نکل آئی۔ اسکے بعد میں نے اور سائرہ نے‬
‫ایکدوسرے کی طرف دیکھا اور ہم بھی ہنسنے لگیں کہ سمیرا تو بہت ڈرپوک لڑکی ہے۔‬
‫پھر ہم دونوں بھی باہر نکل آئیں۔ اور اپنے اپنے جسم وہاں پڑے ٹاول سے خشک کیے‬
‫اور پھر گاون پہن کر سائرہ کے کمرے میں آگئیں۔ سائرہ نے فریج سے جوس نکاال اور‬
‫ہم تینوں نے جوس پیا۔ جوس پینے کے بعد میں نے سائرہ کا لیپ ٹاپ آن کیا اور‬
‫انٹرنیٹ یوز کرنے لگی۔ انٹرنیٹ یوز کرتے ہوئے میں نے سمیرا سے پوچھا کہ اس نے‬
‫کبھی لڑکیوں کو آپس میں سیکس کرتے ہوئے دیکھا ہے تو وہ ہنسی اور کہا ہاں دیکھا‬
‫ہے۔ میں نے پوچھا کونسی سائٹ پر؟ تو وہ بولی سائٹ پر نہیں الئیو دیکھا ہے ابھی‬
‫کچھ دیر پہلے نیچے سوئمنگ پول میں۔ یہ سن کر سائرہ اور میں ہنسنے لگیں اور میں‬
‫نے کہا چلو آج تمہیں مکمل سیکس دیکھاتے ہیں لڑکیوں کا۔ یہ کہ کر میں نے ایک‬
‫سیکسی سائٹ کھول لی اور اس میں سے ایک لیسبو مووی جو قریبا ‪ 20‬منٹ کی تھی‬
‫وہ لگا لی۔‬

‫فلم کے سٹارٹ میں ہی دیکھایا کہ دو لڑکیاں پینٹی اور انڈر وئیر پہنے سوئمنگ پول کے‬
‫باہر کھڑی ہیں اور ایکدوسرے کو کسنگ کر رہی ہیں۔ کسنگ کرتے ہوئے ایک لڑکی‬
‫دوسری لڑکی کے ممے چوسنے لگی تو سائرہ جو پہلے ہی گرم ہوگئی تھی یہ سین‬
‫دیکھ کر وہ اور گرم ہوگئی اور اسنے میرا گاون اتار دیا اور اپنا گاون بھی اتار دیا۔ اب‬
‫سائرہ اور میں برا اور پینٹی میں تھے جب کہ سمیرا نے ابھی تک گاون پہنا ہوا تھا۔‬
‫میرا گاون اتار کر سائرہ بالکل اسی طرف میرے ممے برا کے اوپر سے ہی چوسنے‬
‫لگی جیسے وہ لڑکی مووی میں چوس رہی تھی۔ میں نے بھی ہلکی ہلکی سسکیاں لینا‬
‫شروع کر دیں۔ اتنی دیر میں مووی میں لڑکی نے دوسری لڑکی کا برا اتار دیا تو میں نے‬
‫بھی سائرہ کی برا کی ہک کھول دی۔ جب سائرہ نے محسوس کیا کے اسکے برا کی ہک‬
‫کھل گئی ہے تو اسنے بھی اپنا ایک ہاتھ میری کمر پر لیجا کر میرے برا کی ہک کھول‬
‫دی۔ اب ہم دونوں کے ممے برا کی قید سے آزاد ہو چکے تھے اور میں لیٹ گئی تھی۔‬
‫سائرہ میرے اوپر جھک کر میرے ممے چوسنے میں مصروف تھی۔ میں نے سمیرا کی‬
‫طرف دیکھا تو وہ تھوڑی پریشان بیٹھی تھی۔ اسنے شاید پہلے کبھی ایسے دو لڑکیوں‬
‫کو اپنے سامنے ننگا ایکدوسرے کو پیار کرتے ہوئے نہیں دیکھا تھا۔‬

‫میں نے ماحول کو مزید گرم بنانے کے لیے سائرہ کو اپنے اوپر کھینچ لیا اور ہم دونوں‬
‫ایکدوسرے کے ہونٹوں کی کسنگ کرنے لگیں اور میں نے اپنی ٹانگیں اٹھا کر سائرہ‬
‫کی کمر کے گرد باندھ لیں۔ اب اسکے چوتڑ میریے ہاتھوں کی پہنچ میں تھے۔ لہذا میں‬
‫اسکے چوتڑ دبانے لگی۔ ویسے تو سائرہ نے بھی پہلے مجھے کبھی ننگا نہیں دیکھا‬
‫تھا مگر وہ پھر بھی کافی بولڈ لڑکی تھی اور ہم نے پہلے پورن مووی اکٹھے دیکھ‬
‫رکھی تھی مگر سیکس اکٹھے نہیں کیا تھا۔ کیونکہ ہم نے مووی کالج میں موبائل پر‬
‫دیکھی تھی۔ میرے ساتھ دونوں لڑکیاں سائرہ اور سمیرا کنواری تھیں صرف میں نے ہی‬
‫لن کا مزہ لیا ہوا تھا۔ سائرہ کے چوتڑ دبانے شروع کیے تو اسکی بھی سسکیاں نکلنا‬
‫شروع ہوگئیں اور ہم دونوں اب ایکدوسرے کو بہت گرمجوشی کے ساتھ کسنگ کر رہی‬
‫تھیں۔ ہماری اس گرمی نے سمیرا کو بھی گرم کیا اور وہ بھی اپنا گاون اتار کر بیٹھ گئی۔‬
‫مگر وہ تھوڑا ہچکچا رہی تھی۔ جب میں نے دیکھا کہ وہ اپنا گاون اتار چکی ہے تو میں‬
‫سمجھ گئی کہ اب وہ بھی جوائن کرنے کے لیے تیار ہے۔ میں نے فورا سائرہ کو سائڈ‬
‫پر کیا اور جا کر سمیرا کو پکڑ لیا اور اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ کر انکو‬
‫چوسنے لگی۔ سمیرا کے ہونٹ بہت ہی نرم و نازک تھے۔ میں اسکے ہونٹوں کا رس‬
‫چوسنے لگی تو سائرہ نے پیچھے سے آکر میری پینٹی اتار دی اور میرے چوتڑ پکڑ کر‬
‫دبانے لگی۔ میں نے سمیرا کہ نیچے لٹا لیا اور اسکا برا اتار دیا۔ اسکے ‪ 36‬سائز کے‬
‫ممے دیکھ کر میرے منہ میں پانی آگیا۔ گول اور سڈول ممے اور گالبی نپل‪ ،‬واہ کیا‬
‫خوبصورت ممے تھے سمیرا کے۔ میں نے فورا ہی سمیرا کے مموں کو منہ میں لے لیا‬
‫اور اسکے ایک نپل کو چوسنے لگی۔ سمیرا نے پہلے کبھی مذاق میں بھی اس طرح کی‬
‫حرکت نہیں کی تھی لہذا اسکے منہ سے فورا ہی سسکیاں نکلنا شروع ہوگئیں۔ میں‬
‫سمیرا کے اوپر لیٹ گئی تھی اور سائرہ میری پینٹی اتار چکی تھی تھی وہ بھی میرے‬
‫اوپر جھکی ہوئی تھی مگر اسکا منہ میری گانڈ اور چوتڑوں پر تھا۔‬

‫لیب ٹاپ پر مووی ابھی بھی چل رلی تھی اور اسمیں ایک لڑکی دوسری لڑکی کی چوت‬
‫چاٹ رہی تھی۔ یہ دیکھ کر سائرہ نے بھی اپنی زبان میرے چوتڑوں کو کھول کر میری‬
‫گانڈ پر رکھ دی۔ اور وہ اپنی زبان زور زور سے میری گانڈ کے سوراخ پر مارنے لگی‬
‫جس سے میری چوت گیلی ہونا شروع ہوگئی۔ تھوڑی دیر مزید سمیرا کے گول گول دودھ‬
‫سے بھرے ہوئے ممے چوسنے کے بعد میں تھوڑا نیچے ہوئی اور اسکے پیٹ پر اپنی‬
‫زبان پھیرنے لگی۔ پیٹ سے ہوتے ہوئے میں اسکی ناف تک آگئی اور اسکی ناف میں‬
‫زبان ڈال کر اسکو چاٹنے لگی جس سے سمیرا کو اور بھی زیادہ مزہ آنے لگا۔ اب کمرہ‬
‫ہم تینوں لڑکیوں کی گونج سے سسک رہا تھا۔ میں کسی بھی قیمت پر اس موقع کو‬
‫ضائع نہیں کرنا چاہتی تھی لہذا میں نے بغیر وقت ضائع کیے سمیرا کی پینٹی بھی اتار‬
‫دی۔ سائرہ کی پینٹی اتاری تو میں نے دیکھا اسکی چوت بالوں سے بالکل صاف تھی‬
‫جس پر میں نے شکر کیا چاٹنے میں آسانی رہے گی۔ اس نے شاید ایک دن پہلے ہی‬
‫اپنے بال صاف کیے تھے۔ میں نے اسکی چوت دیکھی اور کہا کہ بڑی صاف چوت ہے‬
‫تمہاری حیدر کے لیے صاف کی تھی کیا؟؟؟ تو وہ شرما گئی اور بولی بکواس نہ کرو‬
‫حیدر نے آج تک مجھے فرنچ کس بھی نہیں کی چوت پر کس کرنا تو دور کی بات۔ میں‬
‫ہنسی اور کہا چلو حیدر کو کہتے ہیں کہ ہماری سمیرا کو ایک بار فرنچ کس ضرور کرے‬
‫وہ تڑپ رہی ہے۔ اس پر سمیرا کے گال اور بھی سرخ ہوگئے اور بولی پاگل نہیں بنو‬
‫کہیں واقعی نا کہ دینا حیدر کو۔ وہ سوچے گا کیسی لڑکی ہے اسکی منگیتر۔ میں نے کہا‬
‫اچھا پریشان نہ ہو‪ ،‬اور یہ کہ کر میں نے اپنی زبان اسکی چوت پر رکھ دی جس سے‬
‫اسکی فورا ہی ایک سسکی نکلی۔ میں نے سمیرا کی ٹانگیں تھوڑی سی اوپر اٹھائیں‬
‫اور کھول دیں تاکہ چاٹنے میں آسانی رہے۔‬

‫اب میں اسکے اوپر جھکی ہوئی اسکی پھدی کو اپینی زبان سے چاٹ رہی تھی اور‬
‫میری اپنی گانڈ جو اوپر اٹھی ہوئی تھی اسے پیچھے سے سائرہ چاٹنے میں مصروف‬
‫تھی۔ پھر کچھ ہی دیر بعد اس نے بھی میری ٹانگیں کھولیں اور اوپر کی طرف منہ کر‬
‫کے لیٹ گئی۔ اسکا منہ اب میری چوت کے بالکل نیچے تھا‪ ،‬نیچے لیٹ کر اسنے اپنے‬
‫ہاتھ میرے چوتڑوں پر رکھے اور کھینچ کر میرے چوتڑ نیچے کیے تاکہ میری چوت‬
‫اسکے منہ تک آسکے۔ اور وہ میری چوت چاٹنے لگی جو پہلے ہی گیلی ہو رہی تھی۔‬
‫ادھر میں نے بھی سمیرا کی چوت پر اپنی زبان پھرنی شروع کر دی۔ تھوڑی دیر تک‬
‫اسکی چوت کو اوپر سے چاٹنے کے بعد میں نے اپنی ایک انگلی بھی اسکی چوت پر‬
‫پھیرنا شروع کر دی۔ سمیرا کی چوت سے ہلکا ہلکا نمکین پانی نکل رہا تھا اور میری‬
‫زبان پر بھی لگ رہا تھا مگر میں نے اسکی چوت کو چاٹنا نہیں چھوڑا۔ اپنی انگلی سے‬
‫جیسے ہی میں نے سمیرا کی چوت کے دانے کو چھیڑا تو اسکا پورا جسم کانپ کر رہ‬
‫گیا اور کمرہ اسکی آوازوں سے گونجنے لگا۔ میں نے اسکی چوت پر اپنی زبان اور‬
‫تیزی سے پھیرنی شروع کر دی اورساتھ ساتھ اسکے دانے کو بھی سہالنے لگی۔ نیچے‬
‫میری چوت کی چٹائی بھی جاری تھی۔ کچھ دیر بعد سائرہ بولی کہ تم دونوں مزے لے‬
‫رہی ہو مجھے بھی دو کچھ مزہ تو میں نے اسے کہا کہ اٹھ کے آگے آجاو اور اپنی‬
‫چوت سمیرا کے منہ پر رکھ دو۔ یہ کہ کر میں دوبارہ اسکی چوت چاٹنے لگی۔ یہ چوت‬
‫میرے لیے بہت اہم تھی اس لیے میں اسکو چھوڑ کر ابھی سائرہ کی طرف نہیں جانا‬
‫چاہتی تھی۔‬

‫میری بات سنتے ہی سائرہ میری چوت کو چھوڑ کر اٹھی اور اپنی پینٹی خود ہی اتار دی‬
‫اور اپنی بھابھی کے منہ کے عین اوپر گٹھنوں کے بل بیٹھ گئی اور اپنی چوت سمیرا‬
‫کے منہ پر رکھ دی۔ پہلے تو سمیرا نے اپنی زبان باہر نہ نکالی‪ ،‬مگر سائرہ کے اثرار‬
‫کرنے پر اور لیپ ٹاپ پر مووی دیکھ کر سمیرا نے اپنی زبان باہر نکالی اور سائرہ کی‬
‫چوت پر رکھ دی جس سے سائرہ بھی سسکیاں لینے لگی۔ اسکی چوت نے بھی پہلی بار‬
‫کسی زبان کا مزہ لیا تھا۔ میں نے اپنا منہ سمیرا کی چوت سے ہٹایا اور اسکو کہا کہ‬
‫اپنی انگلی سائرہ کی چوت کے دانے پر پھیرے اور زبان اسکی چوت کے اندر داخل‬
‫کرنے کی کوشش کرے۔ اس نے ایسے ہی کیا اور سائرہ کی چوت کے دانے پر سمیرا‬
‫کی انگلی جیسے ہی لگی وہ بھی مزے سے چیخنے لگی اور میں نے بھی اپنا کام‬
‫دوبارہ شروع کر دیا۔ کچھ ہی دیر کے بعد میں نے محسوس کیا کہ سمیرا کی ٹانگیں‬
‫اکڑنا شروع ہوگئی ہیں اور اب اس نے اپنی گانڈ کو بھی ہالنا شروع کر دیا تھا۔ اسکا‬
‫مطلب تھا کہ سمیرا کی چوت اب پانی چھوڑنے کے قریب ہے۔ میں نے اپنی زبان کی‬
‫سپیڈ اور تیز کرتے ہوئے اسکی چوت میں داخل کی اور اس کی چوت میں پھیرنے لگی۔‬
‫اب سمیرا کی سسکیاں بھی تیز ہوگئں تھیں اور اسنے اپنا منہ سائرہ کی چوت سے ہٹا‬
‫لیا تھا اور اپنا سر اوپر اٹھا کر اپنی چوت کی طرف دیکھ رہی تھی کچھ ہی دیر میں‬
‫اسکے جسم کو زور دار جھٹکے لگے اور اسکی چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ سمیرا کی‬
‫چوت کا پانی میرے منہ میں بھی گیا اور منہ کے اوپر بھی گرا اسکے عالوہ میرے‬
‫سینے پر اور مموں پر بھی گرا۔‬

‫سمیرا اب فارغ ہو چکی تھی مگر اسکی سانسیں ابھی تک بہت تیز چل رہی تھیں۔ میں‬
‫نے اب سمیرا کی چوت کو چھوڑا اور سائرہ کو کہا کہ وہ میرے سینے سے سمیرا کی‬
‫چوت کا پانی چاٹ کر میرا سینہ صاف کرے۔ اس نے بغیر ایک منٹ ضائے کیے اپنی‬
‫زبان میرے سینے پر رکھ کر پہلے سینے سے سمیرا کا پانی صاف کیا پھر میرے ممے‬
‫اپنے منہ میں لیکر ممے بھی چوسے اور سمیرا کا پانی بھی چاٹ لیا۔ میں گھٹنوں کے‬
‫بل بیٹھی تھی اور سائرہ میرے ممے چوس رہی تھی سمیرا اٹھی اور اسنے اپنا منہ‬
‫میری چوت پر رکھ کرمیری چوت کو چاٹنا شروع کر دیا۔ وہ بہت تیزی کے ساتھ اپنی‬
‫زبان میری چوت میں داخل کر رہی تھی۔ میری چوت پر زبان پھیرتے ہوئے سمیرا بولی‬
‫کہ تمہاری پھدی کچھ کھولی ہوئی ہے جبکہ سائرہ کی پھدی بہت ٹائٹ تھی۔ جس پر میں‬
‫نے کہا کہ ہاں یہ رضوان کے لن نے کھولی ہے۔ میری بات سن کر سائرہ نے معنی خیز‬
‫نظروں سے میری طرف دیکھا اور بولی "صرف رضوان کے لن نے؟؟" میں اسکا اشارہ‬
‫سمجھ گئی تھی کیونکہ اسے یقین تھا کہ اب تک حیدر مجھے بلیک میل کر کے اپنا لن‬
‫میری چوت میں داخل کر چکا ہوگا۔ میں نے سائرہ کی طرف دیکھا اور ایسے ہی جواب‬
‫دیا کہ ہاں صرف رضوان کے لن نے۔ اور اسکو یہ محسوس کروایا کہ جیسے میں اس‬
‫زیر لب‬
‫سے کچھ چھپا رہی ہوں اور حیدر کے بارے میں اسکو نہیں بتانا چاہتی۔ وہ ِ‬
‫مسکرائی اور پھر سے میرے ممے چوسنے لگی۔ نیچے سمیرا کی انگلی میری چوت‬
‫کے دانے پر تھی اور زبان میری چوت کے اندر ‪ 2‬منٹ میں ہی میری چوت نے بھی‬
‫جواب دے دیا اور پانی چھوڑ دیا جس نے سمیرا کا پورا منہ بھر دیا۔ چوت کا پانی‬
‫نکلنے کے بعد مجھے سکون ہوا تو میں نے سمیرا کے چہرے پر کسنگ شروع کر دی‬
‫اور اپنی ہی چوت کے پانی کا مزہ لینے لگی۔ پھر ہم دونوں نے ملکر سائرہ کو پکڑ لیا‬
‫اور میں سائرہ کی چوت کو چاٹ رہی تھی جبکہ سمیرا نے اپنی زبان سائرہ کی گانڈ پر‬
‫رکھی ہوئی تھی۔ کچھ ہی دیر کی کوشش کے بعد سائرہ کی پھدی بھی پانی پانی ہوگئی۔‬
‫اب ہم تینوں لڑکیاں فارغ ہو چکی تھیں۔ اور جس بیڈ پر ہم سیکس کر رہی تھیں اسکی‬
‫چادر بھی کافی گیلی ہوگئی تھی ہماری چوت کے پانی سے۔‬

‫اب میں جانتی تھی کہ سمیرا کی چوت اور سائرہ کی چوت دونوں ہی لن کی خواہش بھی‬
‫کریں گی۔ سائرہ کو اگر لن کی زیادہ طلب ہوتی تو وہ اپنا بندوبست خود کر سکتی تھی‬
‫کیونکہ وہ بہت بولڈ لڑکی تھی اور اسکی کافی لڑکوں کے ساتھ دوستی بھی تھی وہ‬
‫کسی بھی لڑکے کے لن سے اپنی پیاس بجھا سکتی تھی۔ مگر سمیرا ان چیزوں سے‬
‫دور رہنے والی لڑکی تھی۔ اور اسکے لیے لن کا حصول یقینا مشکل کام تھا۔ مجبورا‬
‫اسکو برداشت ہی کرنا تھا۔ اور اسکے لیے لن کا بندوبست مجھے ہی کرنا تھا۔‬

‫یہ سارا کام کر کے کچھ دیر مزید میں انکے گھر رکی اسکے بعد سائرہ نے اپنے‬
‫ڈرائیور کے ساتھ مجھے میرے گھر تک ڈراپ کروایا اور میں بہت ہی مطمئن اپنے گھر‬
‫چلی گئی۔ مجھے میری منزل قریب ہی نظر آرہی تھی۔‬

‫میرا پالن کوئی بہت خطرناک نہیں تھا‪ ،‬مجھے تو محض اپنی تذلیل کا بدلہ لینا تھا جو‬
‫حیدر نے بلیک میلنگ کے ذریعے کی تھی۔ اور اسکا بدلہ یقینی طور پر حیدر کی زندگی‬
‫لینا اسکو جان سے مارنا ہرگرز نہیں ہو سکتا۔ اور آج سمیرا کے ساتھ لیسبو سیکس‬
‫کرنے کے بعد میرا پالن کامیابی کے بالکل قریب تھا۔ بس تھوڑی سی محنت اور کرنا‬
‫باقی تھی۔‬

‫اس واقعہ کے کوئی ایک ہفتے کے بعد مجھے حیدر کی کال آئی اور اسنے بتایا کہ وہ‬
‫گھر میں اکیال ہے اگر میں آنا چاہوں تو آسکتی ہوں۔ میں تو پہلے ہی اس موقع کے‬
‫انتظار میں تھی فورا سے پہلے ہی گھر سے نکلنے کا بہانہ گھڑ لیا اور حیدر کے پاس‬
‫پہنچ گئی۔ ٹائمنگ بڑھانے والی گولیاں ابھی بھی میرے پاس تھیں کیونکہ میں جب بھی‬
‫حیدر سے ملتی تو اسکا لن لینے سے پہلے اسکو ایک گولی کھالتی تھی جس سے وہ‬
‫‪ 10‬منٹ تک میری چودائی کر لیتا تھا ۔مجھے بھی کسی حد تک سکون مل جاتا اور وہ‬
‫بھی مطمئن ہوجاتا کہ اسکا سارا مسئلہ حل ہوچکا ہے۔ آج بھی جاتے ہی میں نےحیدر‬
‫کو وہ گولی کھال دیاور اسے بعد تھوڑی دیر وہ میرے ممے چوستا رہا اور نپلز سے‬
‫کھیلتا رہا‪ ،‬پھر میں نے اسکو اپنی پھدی اور گانڈ چاٹنے کو کہا۔ میں جب بھی حیدر سے‬
‫ملتی تھی تو اس سے اپنی گانڈ اور چوت ضرور چاٹنے کو کہتی کیونکہ اس کام میں وہ‬
‫ماہر تھا۔ اس کام کے بعد اس نے مختلف پوزیشنز میں میری چودائی کی اور میں کسی‬
‫حد تک مطمئن ہوکر پانی چھوڑی رہی۔‬

‫چودائی مکمل ہونے کے بعد حیدر بیڈ پر لیٹ گیا تو میں بھی اسکے سینے پر سر رکھ‬
‫کر لیٹ گئی اور اسکے سینے سے پیٹ کی طرف ہاتھ پھیرنے لگی۔ اور کچھ دیر بعد اپنا‬
‫ہاتھ اسکے لن پر لیجا کر لن سے کھیلنے لگی۔ یہ حرکتیں کرتے ہوئے میں نے باتوں‬
‫باتوں میں سمیرا کا ذکر چھیڑ دیا۔ اور حیدر کو بتایا کہ سمیرا کے ممے بہت اچھے ہیں‬
‫کبھی ہاتھ لگایا انکو؟ تو وہ بوال نہیں ہمت نہیں پڑتی۔ دل تو کرتا ہے اوپر سے وہ شرٹ‬
‫بھی کافی ٹائٹ پہنتی ہے مگر میری ہمت نہیں ہوئی کبھی۔ میں ہنسی اور کہا کہ تم کہو‬
‫تو میں تمہاری مدد کر سکتی ہوں۔ سمیرا بھی تمہارے لیے مری جا رہی ہے۔ وہ ‪2‬‬
‫مہینے سے ادھر ہے اور مزید کچھ ہی دن ادھر رہے گی پھر واپس اسالم آباد چلی جائے‬
‫گی۔ وہ تمہارے ساتھ کسنگ کے لیے ترس رہی ہے مگر تم اسکو لفٹ ہی نہیں‬
‫کرواتے۔‬

‫حیدر نے مجھے حیرانگی سے دیکھا اور کہا تمہیں یہ سب کچھ سمیرا نے کہا؟ میں‬
‫بولی تو اور کس نے کہنا ہے۔ وہ رضوان اور میرے جسمانی تعلقات کے بارے میں‬
‫جانتی ہے تو آخر وہ بھی لڑکی ہے اسکا بھی دل کرتا ہوگا کہ اپنے منگیتر کے ساتھ وہ‬
‫بھی انجوائے کرے ‪ ،‬اسکے جسم کی گرمی لے اور اپنے جسم کی پیاس بجھائے۔ یہ سن‬
‫کر حیدر مزید حیران ہوا اور بوال لیکن اس نے یہ سب کچھ مجھے کیوں نہیں بتایا۔ میں‬
‫نے کہا پاگل تم خود لڑکے ہوکر شرماتے ہو وہ تو پھر لڑکی ہے۔ وہ بھی تم سے شرم‬
‫کی وجہ سے یہ باتیں نہیں کر سکتی مگر میری وہ اچھی دوست بن گئی ہے تو اس نے‬
‫میرے ساتھ اپنے دل کی بات کر لی۔‬

‫میری بات ختم ہوئی تو حیدر نے پوچھا مگر یہ سب ہوگا کیسے؟ میں کیسے اسکے‬
‫ممے پکڑ سکتا ہوں؟ پہل تو مجھے ہی کرنا ہوگی نا؟؟ میں نے اسکو کہا یہ سب تم مجھ‬
‫پر چھوڑ دو وہ تمہیں اپنے ممے بھی دے گی‪ ،‬تمہارے اس خطرناک لن کے ساتھ بھی‬
‫کھیلے گی اور اپنی چوت بھی تمہیں دے گی۔ مگر یہ سب کچھ بہت جلدی کرنا ہوگا‬
‫کیونکہ اب وہ صرف ‪ 2‬ہفتے مزید ادھر ہے پھر وہ واپس چلی جائے گی۔‬

‫اندھا کیا مانگے‪ 2 ،‬آنکھیں۔ حیدر کا بھی یہی حال تھا۔ لن تو اسکا بچوں واال تھا مگر‬
‫میں ہر چدائی میں اسکی تعریف کرتی تھی جس سے وہ اپنے آپ کو بڑا مرد سمجھنے‬
‫لگ گیا تھا اور پھر میری چوت کا مزہ تو وہ لے ہی چکا تھا اب کنواری پھدی کے لیے‬
‫اسکا دل للچا رہا تھا۔ اسنے فورا حامی بھر لی اور کہا کہ بس مجھے پھر جلدی سے‬
‫سمیرا کے ممے اور چوت دلوا دو۔ میں نے اسکا لن جو اب کھڑا ہو چکا تھا دوبارا سے‬
‫وہ اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور آہستہ آہستہ اسکی مٹھ مارنے لگی۔ اور حیدر کو کہا کام‬
‫تو میں کر دوں گی مگر میری ایک شرط ہے۔ حیدر نے کہا مجھے تمہاری ہر شرط‬
‫منظور ہے۔ میں بولی پہلے سن تو لو کہ شرط کیا ہے۔ تم یہ شرط پوری نہیں کر سکتے۔‬
‫وہ بوال بتاو۔ تو میں نے اسکو کہا کہ شرط یہ ہے کہ تم سمیرا کو میرے سامنے ہی‬
‫چودو گے اور ساتھ ہی میری چدائی بھی کرو گے۔ یعنی سمیرا اور مجھے ایک ساتھ‬
‫چودنا پڑے گا۔‬

‫یہ سن کر حیدر نے نہ میں سر ہال دیا کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے۔ سمیرا تو یہ کبھی بھی‬
‫نہیں مانے تی۔ وہ تمہارے سامنے مجھے اپنے ممے کیوں دے گی۔ میں نے اسکو پھر‬
‫کہا کہ یہ سب تم مجھ پر چھوڑ دو تم اپنی رضامندی بتاو تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں؟؟‬
‫وہ بوال کہ اچھا اگر وہ مجھے اپنے ممے دے بھی دے تمہارے سامنے اور چوت بھی‬
‫میں اسکی مار لوں‪ ،‬مگر وہ کبھی بھی یہ برداشت نہیں کرے گی کہ میں تمہاری بھی‬
‫چوت ماروں۔ بلکہ مجھے تو ڈر ہے اگر اسکو ابھی پتہ لگ گیا کہ میں تمہاری چوت لیتا‬
‫رہتا ہوں تو وہ ابھی مجھے چھوڑ دے گی۔ میں نے پھر اسکو کہا کہ ان سب باتوں کی‬
‫فکر تم نہ کرو‪ ،‬بس مجھے یہ بتا دو کہ تمہیں تو کوئی اعتراض نہیں؟؟ وہ مجھے آنکھ‬
‫مارتے ہوئے بوال اگر اکٹھی ہی ‪ 2‬چوتیں ایک ساتھ مل جائیں تو کون پاگل اعتراض‬
‫کرے گا؟؟؟ میں نے کہا بس پھر ٹھیک ہے۔‬

‫میں سارا کام کر دوں گی تمہارا‪ ،‬مگر اب یہ تمہارا کام ہے کہ کچھ ایسا سین بناو کہ‬
‫سمیرا گھر میں اکیلی ہو اور سائرہ اور باقی گھر والے گھر پر نہ ہوں۔ میں اس وقت‬
‫گھر آوں گی اور سمیرا سے ملوں گی۔ تو وہ بوال کہ ایسا مشکل ہے کیونکہ اگارجب‬
‫ممی ڈیڈی گھر پر نہیں ہوتے تو سائرہ آپی اور سمیرا دونوں ساتھ ساتھ رہتی ہیں۔ میں‬
‫نے کہا یہ اب تمہارا مسئلہ ہے اگر سمیرا کی چوت چاہیے تو تمہیں ایسا بندوبست کرنا‬
‫پڑے گا۔ اب اتنا سا کام تو تم بھی کر لو‪ ،‬باقی تمہراے لن کو سمیرا کی چوت میں ڈلوانا‬
‫میرا کام ہے۔ حیدر نے کہا چلو ٹھیک ہے میں کچھ سوچتا ہوں۔‬

‫میں نے کہا کہ سوچو اور جلدی سوچو‪ ،‬زیادہ ٹائم نہیں‪ ،‬یہ کہ کر میں نے اسکا لن منہ‬
‫میں لیا اور اسکی منی نکلوا کر واپس اپنے گھر چلی آئی۔‬

‫تین دن بعد حیدر کا مجھے فون آیا کہ کل دوپہر ‪ 12‬بجے ہمارے گھر آجانا کام ہوجائے‬
‫گا جیسے تم نے کہا ہے۔ مگر یہ دیکھ لو مجھے چوت ملنی چاہیے۔ میں نے کہا تم بے‬
‫فکر رہو۔ اگلے دن ٹھیک ‪ 12‬بجے میں اسکے گھر پہنچی تو گھر پر سمیرا اور حیدر‬
‫تو موجود تھے ہی مگر ساتھ میں سائرہ بھی تھی۔ میں اسے دیکھ کے کچھ حیران ہوئی‬
‫اور وہ مجھے دیکھ کر حیران ہوئی کہ تمہارا کیسے آنا ہوا بغیر بتائے؟؟؟ مجھے فوری‬
‫طور پر سمجھ نہیں آئی کہ میں کیا جواب دوں‪ ،‬ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ حیدر بوال‬
‫چھوڑیں آپی اس بات کو‪ ،‬اچھا ہوا فائزہ آپی آگئیں اب ہم دونوں جا سکتے ہیں باہر۔ یہ‬
‫سن کر سائرہ نے بھی کہا کہ ہاں یہ تو اچھا ہوا‪ ،‬اور مجھے کہنے لگی کہ تم سمیرا کے‬
‫ساتھ ٹائم گزارو حیدر اور میں باہر جا رہے ہیں شام تک آجائیں گے۔ یہ کہ کر وہ اپنا‬
‫بیگ لینے کمرے میں گئی میں نے حیدر کی طرف دیکھا تو اس نے میرے قریب آکر‬
‫ہلکی آواز میں بوال کہ سائرہ آپی کو میں دور کے رشتے داروں کی طرف لے کر جا رہا‬
‫ہوں‪ ،‬وہاں چھوڑ کر دوستوں کے ساتھ جانے کا بہانہ بنا کر میں واپس گھر آجاوں گا۔‬
‫پھر دیکھتے ہیں تم کیسے مجھے سمیرا کے ممے اور چوت دلواتی ہو۔ میں نے اسکو‬
‫کہا تم بے فکر رہو‪ ،‬مگر زیادہ دیر نا کرنا آنے میں اور سیدھے اپنے کمرے میں آنا‬
‫واپس۔‬

‫سائرہ اور حیدر گھر سے نکلے تو سمیرا اور میں اوپر چلے گئے اور سائرہ کے کمرے‬
‫میں جا کر کمرہ الک کر دیا میں نے۔ کچھ دیر ہم نے باتیں کیں اور پھر میں سمیرا سے‬
‫پوچھنے لگی کہ اپنی چوت کا سناو اس دن مزہ آیا تھا؟ تو اسکا چہرہ شرم سے سرخ‬
‫ہوگیا اور بولی ہاں مزہ تو بہت آیا تھا۔ میں نے پوچھا کہ جب چوت سے پانی نکال تو‬
‫کیسا لگا؟ اس پر وہ بولی کہ بہت سکون مال۔ میں نے پوچھا کہ دوبارہ دل نہیں کیا کہ‬
‫کوئی تمہاری چوت چاٹے؟ تو سمیرا بولی دل بھی کیا اور عمل بھی کیا اس پر۔۔ میں نے‬
‫حیران ہوکر پوچھا کہ کس نے چاٹی تمہاری چوت تو اس نے کہا تمہارے جانے کے بعد‬
‫سائرہ اور میں ‪ 2‬بار سیکس کر چکی ہیں اور ایکدوسرے کا پانی نکلوا چکی ہیں۔ میں‬
‫سائرہ کو تو بھول ہی گئی تھی کو وہ بھی ہمارے ساتھ تھی اس کام میں۔ تو میں نے‬
‫سمیرا سے پوچھا کہ تم دونوں نے تو اپنی پیاس بجھا لی اب میرے لیے بھی کچھ کرو؟؟‬

‫یہ سن کر اس نے سائرہ کا لیپ ٹاپ اٹھایا اور ایک مووی لگا لی جس میں ‪ 2‬لڑکیاں‬
‫آیک دوسرے کے مموں سے کھیل رہی تھی۔ مووی لگانے کا مقصد اپنے آپ کو گرم‬
‫کرنا تھا۔ کچھ دیر مووی دیکھنے کے بعد میں نے نوٹ کیا کہ سمیرا اپنے ہاتھوں سے‬
‫اپنے ممے دبا رہی تھی۔ میں نے یہ دیکھا تو میں سمیرا کے ساتھ جا کر بیٹھ گئی اور‬
‫اپنے ہاتھ اسکے مموں پر رکھ دیے۔ میں نے جیسے ہی سمیرا کے مموں پر ہاتھ رکھا‬
‫تو وہ تڑپ اٹھی اسنے میرے ہاتھوں پر اپنے ہاتھ رکھ لیے اور میرے ہاتھوں سے اپنے‬
‫ممے دبانے لگی۔ میں نے اسکے ممے دبانے کے ساتھ ساتھ اپنے ہونٹ سمیرا کے‬
‫ہونٹوں پر رکھ دیا اور سمیرا نے فورا ہی رسپانس دینا شروع کر دیا وہ بڑی بے صبری‬
‫کے ساتھ میرے ہونٹ چوس رہی تھی۔ مجھے یہیں سے اندازہ ہوگیا تھا کہ سمیرا میں‬
‫گرمی بہت زیادہ ہے اور اسکی یہ گرمی میرے پالن کو اور آسان بنا دے گی۔‬

‫سمیرا نے اپنی زبان میرے منہ میں ڈال لی تھی اور وہ مسلسل میری زبان کے ساتھ‬
‫کھیل رہی تھی‪ ،‬کچھ دیر بعد میں نے سمیرا کے شرٹ اتار دی تھی اور اسکی برا بھی‬
‫اتار دی اور اسکے ننگے مموں کو منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ میں سمیرا کے گالبی‬
‫اور سخت نپلز کو اپنے دانتوں سے کاٹ رہی تھی‪ ،‬اور وہ مسسلس سسکیاں لے رہی‬
‫تھی اور اسکا جسم کانپ رہا تھا۔ یہ اس بات کی نشانی تھی کہ اب اسکو سیکس میں‬
‫مزہ آن لگا ہے اور بھی سیکس کی دیوانی ہو چکی ہے۔ میں نے اسکو بیڈ پر لٹا دیا اور‬
‫خود اسکے اوپر لیٹ گئی۔ میں سمیرا کے پورے جسم پر بھرپور طریقے سے پیار کر‬
‫رہی تھی کیونکہ میرا مقصد اسکو زیادہ سے زیادہ گرم کرنا تھا تاکہ اسکی چوت محض‬
‫پانی نکلنے سے سکون حاصل نہ کر سکے بلکہ بعد میں اسکو لن کی بھی طلب ہو۔‬

‫اب سمیرا اور میں دونوں ہی ننگی ہو چکی تھیں‪ ،‬میں نے اپنے کپڑے تو خود ہی اتار‬
‫دیے تھے اسی دوران سمیرا نے بھی اپنی پینٹ اتار دی تھی اور ہم ایکدوسرے سے‬
‫چمٹ کر ایکدوسرے کے جسم کی گرمی حاصل کر رہی تھیں۔ نان سٹاپ کسنگ اور ساتھ‬
‫میں ایکدوسرے کے چوتڑوں کو دبانے کا اپنا ہی مزہ تھا۔ کچھ ہی دیر بعد سمیرا میرے‬
‫ممے چوسنے میں مصروف تھی اور میرا ہاتھ سمیرا کی پھدی کر رگڑ رہا تھا جو کافی‬
‫گیلی ہو رہی تھی۔ میں نے اپنی انگلی سمیرا کی چوت میں داخل کرنا چاہی تو وہ بہت‬
‫ٹائٹ تھی مگر اتنا اندازہ ہوگیا کہ وہ فل گرم ہے اندر سے۔۔۔ میں نے اپنی انگلی کا دباو‬
‫بڑھایا تو سمیرا کی چیخ نکلی۔ کنواری پھدی میں انگلی جانے کی بھی تکلیف ایسے‬
‫ہوتی ہے جیسے کوئی ‪ 9‬انچح لمبا اور ‪ 2‬انچ موٹا پھدی میں گھس گیا ہو۔ اس نے‬
‫تکلیف کی شدت سے میرے مموں پر اپنے دانت زور سے گاڑ دیے جس سے میری بھی‬
‫چیخ نکل گئی مگر میں نے انگلی واپس نہیں نکالی۔ کیونکہ میں سمیرا کو پورا مزہ دالنا‬
‫چاہتی تھی کہ پھدی میں جب کچھ جائے تو کیسا مزہ آتا ہے۔‬

‫اب سمیرا نے میرے ممے چھوڑ دیے اور وہ مزے کی شدت سے اپنے جسم کو کبھی‬
‫دائیں پٹخ رہی تھی اور کبھی دائیں۔ ساتھ میں اسکی چیخوں کا سلسلہ جاری تھا۔ کچھ‬
‫دیر اسکی پھدی میں انگلی کرنے کے بعد میں نے انگلی نکال لی اور اسکے اوپر ‪69‬‬
‫پوزیشن میں لیٹ گئی۔ اب میں نے دوبارہ اسکی پھدی میں انگلی بھی ڈال دی اور زبان‬
‫سے اسکی پھدی کی الئن کو چاٹنا بھی شروع کر دیا۔ دوسری طرف میری اپنی پھدی‬
‫ت جزبات سے اس نے بھی اپنی انگلی‬ ‫اس وقت سمیرا کے منہ کے اوپر تھی اور شد ِ‬
‫میری پھدی میں ڈال دی تھی اور پھدی کو بھی چاٹ رہی تھی جس سے مجھے بہت مزہ‬
‫آرہا تھا۔ سمیرا کو پھدی چاٹنے میں تھوڑی مشکل ہو رہی تھی کیونکہ اس سے اپنی‬
‫چیخیں کنٹرول نہیں ہو رہی تھیں‪ ،‬جب اسکے لیے چیخ کنٹرول کرنا زیادہ مشکل ہوتا تو‬
‫وہ زور سے چیخ بھی مارتی اور اپنی انگلی کی سپیڈ میری پھدی میں بڑھا دیتی۔‬

‫ہم دونوں ابھی تک ‪ 69‬پوزیشن میں ہی ایکدوسرے کی پھدی کو انگلیوں سے چودنے‬


‫میں مصروف تھی کہ میرے موبائل پر میسیج آیا جو میرے ساتھ ہی پڑا تھا‪ ،‬میں نے‬
‫ایک ہاتھ بڑھا کر موبائل سے میسج پڑھا تو وہ حیدر کا تھا اور پوچھ رہا تھا کہ میں‬
‫گھر واپس آگیا ہوں سائرہ آپی کے کمرے سے سمیرا کے چیخنے کی آواز آرہی ہے‬
‫خیریت تو ہے؟ میں نے سمیرا کی پھدی میں انگلی کرنا جاری رکھا اور دوسرے ہاتھ‬
‫سے میسیج لکھا کہ میں اسکو تمہارے لن کے لیے تیار کر رہی ہوں تم فی الحال اپنے‬
‫کمرے میں جاو‪ ،‬میں بالوں گی تو تب آنا۔ اسکے بعد میں نے پھر سے اپنی توجہ سمیرا‬
‫کی پھدی کی طرف کی اور چاٹنا شروع کر دی۔ ‪ 3‬منٹ کے بعد سمیرا کی پھدی نے پانی‬
‫چھوڑ دیا اور اسکے جسم کو بہت جھٹکے لگے۔ آج اسکی چوت نے بہت زیادہ پانی‬
‫چھوڑا تھا اور میرا پورا منہ گیال کر دیا تھا۔ میں نے سمیرا کی شرٹ سے ہی اپنا منہ‬
‫صاف کیا مگر سمیرا نے میری پھدی کا پیچھا نہیں چھوڑا تھا۔ وہ مسلسل میری پھدی‬
‫چاٹ رہی تھی اور انگلی بھی اندر ڈالی ہوئی تھی۔ کچھ ہی دیر بعد میری پھدی نے بھی‬
‫پانی چھوڑ دیا۔‬

‫میں نے سمیرا کی ہی شرٹ سے اسکا بھی منہ صاف کیا۔ اور اسکے ساتھ لیٹ گئی۔‬
‫اسکا جسم ابھی تک گرم تھا۔ ہم نے ایکدوسرے کو مسکرا کر دیکھا اور میں نے پوچھا‬
‫مزہ آیا؟ تو اسنے خوش ہوکر کہا بہت زیادہ۔ پہلے تو صرف پھدی چاٹی تھی آج تو تم‬
‫نے انگلی ڈال کر مجھے پاگل کر دیا تھا۔ میں نے کہا سوچو جب لن تمہاری پھدی میں‬
‫جائے گا تو کتنا مزہ آئے گا۔ اس نے ایک لمبی آہ بھری اور کہا میری قسمت تم جیسی‬
‫نہیں تم تو اپنے منگیتر سے چدوا لیتی ہو میرا منگیتر تو بہت شرمیال ہے اسنے کبھی‬
‫مجھے کس تک نہیں کی۔ میں نے بھی ایک آہ بھری اور کہا ابھی تک میری پیاس نہیں‬
‫بجھی لن کی شدید طلب ہورہی ہے۔ تو سمیرا ہنس پڑی اور کہا آج تو مجھے بھی کچھ‬
‫عجیب سا فیل ہورہا ہے دل کر رہا ہے دوبارہ تمہاری انگلی اندر چلی جائے۔ میں سمیرا‬
‫کے اوپر جھکی اور اسکے ہونٹ چوستے ہوئے اپنی انگلی دوبارہ اسکی پھدی پر‬
‫مسلنے لگی اور اسکو کہا تمہیں انگلی کی نہیں لن کی طلب ہو رہی ہے۔ وہ بولی ہاں‬
‫شاید ایسا ہی ہو۔‬

‫میں نے لیپ ٹاپ اٹھا کر مووی چینج کی اور اب کی بار لیسبو سیکس کی بجائے ایک‬
‫ٹرپل ایکس مووی لگا دی جس میں ایک مضبوط مرد اپنے ‪ 8‬انچ کے لن سے ایک‬
‫خوبصورت پھدی کو چود رہا تھا۔ اور لڑکی بار بار چیخیں مار رہی تھی سسکیاں لے‬
‫رہی تھی اور اپنی گانڈ ہال ہال کر چدائی کا بھرپور مزہ لے رہی تھی۔ یہ بہت زبردست‬
‫مووی تھی سمیرا بھی مووی دیکھنے میں محو تھی۔ ہم دونوں ابھی تک ننگی ہی بیٹھی‬
‫تھیں۔ میں نے اپنی انگلی دوبارہ سے سمیرا کی پھدی میں داخل کر دی تھی ۔ سمیرا کی‬
‫پھدی اندر سے بہت زیادہ گیلی تھی اور ٹائٹ بھی تھی۔ انگلی ڈلتے ہی سمیرا کا برا حال‬
‫ہوگیا اور وہ تڑپنے لگی‪ ،‬میں اسکے ساتھ لیٹ گئی میری انگلی اسکی پھدی میں تھی‬
‫اور اسکے ممے میرے منہ میں تھے۔ وہ پاگل ہو رہی تھی۔ اس وقت وہ بہت گرم تھی‬
‫اور یہی وقت تھا اسکو لن کے لیے راضی کرنے کا۔۔۔‬

‫میں نے اسکو کہا سمیرا تمہیں لن چاہیے؟؟ اس نے بغیر سوچے سمجھے کہا ہاں‬
‫مجھے لن چاہیے۔۔۔ میں نے کہا رضوان تو الہور گیا ہوا ہے اگر وہ یہاں ہوتا تو میں‬
‫اسکو بال لیتی وہ تمہاری اور میری دونوں کی چوت کی پیاس بجھا دیتا۔ رضوان کا نام‬
‫سن کر سمیرا بولی کیا رضوان مجھے چودتا؟؟ میں نے اسکی پھدی میں انگلی کی سپیڈ‬
‫اور بڑھا دی اور کہا کہ ہاں لڑکوں کو تو پھدی چاہیے ہوتی ہے مل جائے تو کیوں نہیں‬
‫چودے گا۔ سمیرا نے ایک بار پھر سے سسکیاں لینا شروع کر دیں۔ تو میں نے پھر کہا‬
‫کہ کاش رضوان ہوتا تو میں اسے بال کر تمہاری پھدی کی پیاس بجھا دیتی۔ اسنے‬
‫سسکیاں لیتے ہوئے ہی کہا کہ میری پھدی جل رہی ہے پلیز میری پیاس بجھاو۔ میں نے‬
‫آہستہ سے کہا کہہ حیدر گھر پر ہی ہے‪ ،‬اسکا لن لینا ہے؟؟ سمیرا بولی کسی کا بھی مل‬
‫جائے یار میری پھدی میں آگ لگی ہوئی ہے۔ اور سمیرا واقعی جس طرح اپنا جسم دائیں‬
‫بائیں پٹخ رہی تھی۔ میں نے اب انگلی اسکی پھدی سے نکالی کیونکہ میں نہیں چاہتی‬
‫تھی کہ ابھی اسکا پانی نکلے۔ ابھی اسکو مزید گرم رکھنا تھا‪ ،‬میں سمیرا کے اوپر لیٹ‬
‫گئی اور اسکے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا جو اس وقت جل رہے تھے۔‬

‫میں نے نوٹ کیا کہ میری پھدی کے نیچے سمیرا کا ہاتھ ہے میں نے نیچے دیکھا تو‬
‫سمیرا اپنی پھدی مسل رہی تھی اپنے ہی ہاتھ سے۔ اسکا مطلب تھا کہ اس وقت سمیرا کا‬
‫بہت ہی برا حال تھا۔ میں سائیڈ پر ہوکر لیٹ گئی اور سمیرا کا ہاتھ اسکی پھدی سے ہٹا‬
‫کر اپنی پھدی پر رکھ دیا اور اسکو کہا اب وہ میری پھدی مسلے اپنے ہاتھ سے۔ سمیرا‬
‫فورا میرے اوپر آگئی مگر اسکو سکون ابھی بھی نہیں تھا اسکا چہرہ سرخ ہورہا تھا‬
‫اور جسم انتہائی گرم تھا جیسے بخار ہو رہا ہو۔ مگر اس نے نا چاہتے ہوئے بھی میری‬
‫پھدی پر انگلی مسلنا شروع کر دی اور اب سسکیوں کی باری میری تھی۔ مگر سمیرا‬
‫سے صبر نہیں ہورہا تھا اسنے ایک بار پھر تڑپتے ہوئے مجھے کہا کہ فائزہ میری‬
‫پھدی جل رہی ہے پلیز کچھ کرو میرے لیے۔ میں نے اسکو کہا اس وقت تو تم ہی کچھ‬
‫کر سکتی ہو۔ حیدر تمہارا منگیتر ہے اسکو بال لو اپنی بھی پیاس بجھاو اور میری بھی۔‬
‫میری یہ بات سن کر سمیرا جیسے سکتے میں آگئی۔ میں نے دل میں سوچا معلوم نہیں‬
‫یہ میری اس بات کو کس انداز میں لے گی۔ شاید اسکو برا لگا ہو کہ میں نے حیدر کا لن‬
‫مانگا ہے۔ مگر میرا پہلے واال اندازہ صحیح نکال کہ جب عورت کی پھدی کو لن کی شدید‬
‫طلب ہو تو پھر وہ ایسی باتوں پر غور کر ہی نہیں سکتی۔ سمیرا بھی یہ نہیں سوچ رہی‬
‫تھی بلکہ اس نے مجھے کہا کہ میں حیدر کو کیسے کہوں اس نے تو کبھی مجھے کس‬
‫تک نہیں کی۔ میں اس سے ایسی بات نہیں کر سکتی ‪ ،‬پلیز فائزہ تم کچھ کرو حیدر کو‬
‫کہو یا رضوان کو بال لو اور کچھ نہیں ہوتا تو کچن سے کوئی گاجر مولی ہی لے آو اور‬
‫میری پیاس بجھا دو۔‬

‫میں نے اسکو کہا نہیں تمہاری پھدی ابھی کنواری ہے اس میں گاجر مولی لینے کی نہ‬
‫سوچو‪ ،‬اسکو پہلی بار ایک لن سے ہی چدوانا ہے۔ ورنہ تمہیں بہت تکلیف ہوگی۔ میں‬
‫نے اسے کہا کہ اگر تم کہو تو میں ٹرائی کر سکتی ہوں حیدرکے لن کے لیے۔ شاید وہ‬
‫ہم دونوں کی پیاس بجھا دے۔ سمیرا نے کہا مگر تم اسکو کہو گی کیسے؟ وہ تمہیں آپی‬
‫کہتا ہے۔ میں نے اسکو کہا جب مرد ننگی لڑکی دیکھ لے پھر نہ اسکو آپی یاد رہتی ہے‬
‫نا باجی پھر اسکی نظر صرف لڑکی کی پھدی پر ہوتی ہے۔ سمیرا بولی بس پھر کرو‬
‫کچھ۔ میں نے سمیرا کو کہا کہ تم برا اور پینٹی پہن لو میں نے بھی برا اور پینٹی پہن‬
‫لی۔‬

‫اسکے بعد میں نے سمیرا کو کہا کہ اپنی شرٹ ب ِھ پہن لو مگر پینٹ نہ پہنو اور لیپ ٹاپ‬
‫کے سامنے بیٹھ جاو۔ اسی طرح میں نے بھی شرٹ پہن لی مگر پینٹ نہیں پہنی۔ اب ہم‬
‫دونوں کی ٹانگیں ننگی تھیں صرف پینٹی پہنی ہوئی تھی۔ میں نے لیپ ٹاپ کی وہ ونڈو‬
‫بند کر دی جس میں وہ مووی چل رہی تھی مگر ونڈو بند کرنے سے پہلے وہی مووی‬
‫دوبارہ سے لگا دی تھی اور اسکی آواز بند کر دی تھی۔ میں نے سمیرا کو کہا کہ وہ لیپ‬
‫ٹاپ پر فوٹو شاپ کھول کر بیٹھ جائے اور اسمیں ایک تصویر بھی کھول لی جس میں‬
‫ایڈیٹنگ کرنی تھی۔ حیدر فوٹو شاپ میں ماہر تھا اور یہ بات سمیرا بھی جانتی تھی۔ میں‬
‫نے اسکو کہا کہ ایسے ہی اس میں پنگے لیتی رہو میں بہانے سے حیدر کو بالتی ہوں‬
‫کہ فوٹو شاپ سکھا دے ہمیں۔ یہ کہ کرمیں باہر نکلنے لگی تو میں نے دیکھا کہ سمیرا‬
‫کا ہاتھ ابھی تک اپنی پھدی پر تھا‪ ،‬یہ دیکھ کر مجھے ہنسی آئی اور میں نے اسکو کہا‬
‫اپنا ہاتھ تو اب وہاں سے ہٹا لو۔ جس پر وہ شرمندہ ہوگئی اور ہاتھ ہٹا لیا۔ میں کمرے‬
‫سے باہر نکلی اور حیدر کے کمرے کی طرفج جانے لگی۔‬

‫گھر میں ہم تینوں کے عالوہ کوئی نہیں تھا‪ ،‬جو مالزم تھے وہ نیچے ہوتے تھے اور‬
‫بغیر بالئے گھر کے اندر نہیں آسکتے تھے اس لیے میں بال جھجھک ننگی ٹانگیں لیے‬
‫محض شرٹ پہنے حیدر کے کمر میں گئی ‪ ،‬میں اندر داخل ہوئی تو وہ بے چینی سے‬
‫ٹہل رہا تحا مجھے دیکھتے ہی اسکے چہرے پر خوشی آگئی اور جب اس نے میری‬
‫ننگی ٹانگیں دیکھی تو فورا ہی میری ٹانگوں پر ہاتھ پھیرنے لگا اور بوال کہ اب مجھے‬
‫سمیرا کے ممے کب ملیں گے۔ میں نے کہا بس ‪ 5‬منٹ بعد۔ تم وہ گولی کھاو‪ ،‬اور ‪5‬‬
‫منٹ کے بعد سائرہ کے کمرے میں آجاو۔ اسنے پوچھا ننگا ہو کر آوں؟؟؟ اسکی یہ بات‬
‫سن کر میں ہنس پڑی اور کہا نہیں پاگل‪ ،‬تم نے ایسے ہی آنا ہے‪ ،‬سمیرا فوٹو شاپ میں‬
‫ایک تصویر کھول کر بیٹھی ہے اس کو ایڈیٹ کرنے کے لیے ہیلپ چاہیے۔ تم ہیلپ کرنے‬
‫آو گے باقی آگے کا کام میں پھر کروں گی۔ ساتھ ہی اسکو میں نے یہ بھی بتا دیا کہ‬
‫سمیرا بھی میری طرح بغیر پینٹ کے صرف پینٹی پہن کر بیٹھی ہے اسکی ٹانگیں ننگی‬
‫ہونگی لہذا تم نےتھوڑا حیرانگی کا مظاہرہ بھی کرنا ہے اور زیادہ جلدی بھی نہیں کرنی‬
‫اسکے مموں کو پکڑنے کے لیے‪ ،‬میں خود ہی آہستہ آہستہ ماحول بنا لونگی۔‬

‫یہ کہ کر میں کمرے سے باہر آگئی اور واپس سمیرا کے پاس آئی تو اسنے میرے آتے‬
‫ہی مجھ سے پوچھا کہاں ہے حیدر؟؟ میں نے کہا صبر کرو آرہا ہے ابھی۔ سمیرا نے کہا‬
‫اس نے تمہیں اس طرح دیکھ کر کیا کہا۔ می نے کہا وہ تو کافی شرما رہا تھا شرم کے‬
‫مارے اسنے نظریں ہی اوپر نہیں اٹھائیں۔ یہ سن کر سمیرا مطمئن ہوگئی۔ کچھ ہی دیر‬
‫بعد دروازہ کھال اور حیدر اندر داخل ہوا‪ ،‬اسکی نظریں سمیرا پر ہی تھیں اور پھر ساتھ‬
‫ہی اسنے سمیرا کی ننگی ٹانگوں کا نظارہ کیا تو اسکے چہرے پر خوشی واضح تھی‬
‫اور وہ اپنے چہرے پر حیرانگی کے مصنوعی تاثرات بھی نہیں ال سکا۔ سمیرا نے اسکو‬
‫اپنی ٹانگوں کی طرف دیکھتے پایا تو اس نے ٹانگیں لپیٹ لیں اور اپنے ہاتھوں سے‬
‫چھپانے کی کوشش کرنے لگی‪ ،‬سمیرا بھی شرما رہی تھی‪ ،‬یہ الگ بات کہ اسکی پھدی‬
‫اس وقت جل رہی تھی مگر بحرحال وہ خود سے پہل نہیں کر سکتی تھی اور شرمانا‬
‫فطری تھا۔‬

‫سمیرا کی ٹانگوں سے نظریں ہٹا کر حیدر نے مجھے کہا جی فائزہ آپی کیا کام تھا؟ تو‬
‫میں نے اسکو کہا کہ یہ اس تصویر میں بیک گراونڈ ختم کرنا ہے یہ تو سکھا دو۔ حیدر‬
‫نے کہا یہ تو مسئلہ ہی کوئی نہیں یہ کہ کر وہ آگے آیا تو میں اپنی جگہ سے ہٹ گئی‬
‫اور اسکو سمیرا کے ساتھ جگہ دی۔ وہ سمیرا کے ساتھ ہوکر بیٹھ گیا۔ اور بتانے لگا کہ‬
‫کیسے کرتے ہیں۔ میں بھی اسکے ساتھ ہی بیٹھی تھی اور میں کچھ زیادہ ہی جڑ کر‬
‫بیٹھی تھی جبکہ سمیرا کچھ شرما رہی تھی۔ کچھ ہی دیر میں حیدر نے تصویر کا بیک‬
‫گراونڈ ختم کر دیا تو میں نے کہا اب اس تصویر کا بیک گراونڈ اسالم آباد یا مری کے‬
‫کسی پہاڑی عالقے کا لگا دو جس سے یہ لگے کہ یہ تصویر مری کی ہے۔ اس نے‬
‫پوچھا کہ تصویر پڑی ہے آپکے پاس جو اسکے بیک گراونڈ میں لگانی ہے؟ میں نے‬
‫کہا نہیں تم انٹرنیٹ سے لے لو۔‬

‫میری بات پوری ہوئی تو حیدر نے نیٹ سے تصویر لینے کے لیے انٹرنیٹ براوزر جس‬
‫میں مووی چل رہی تھی مگر میں نے اسکو بند کیا ہوا تھا اس پر کلک کر دیا۔ جیسے‬
‫ہی براوزر کی ونڈو کھلی تو سامنے ٹرپل ایکس مووی چل رہی تھی۔ لڑکا نیچے لیٹا ہوا‬
‫تھا اور لڑکی اسکے اوپر بیٹھی تھی اور اپنی گانڈ اچھال اچھال کر اپنی چدائی کروا رہی‬
‫تھی۔ جیسے ہی رضوان نے یہ دیکھا تو ایک بار تو اسکو بھی کرنٹ لگ گیا ‪ ،‬وہ اتنا تو‬
‫جانتا تھا کو وہ یہاں ہم دونوں کی چدائی کرنے آیا ہے مگر یہ اسکے وہم و گمان میں‬
‫بھی نہیں ہوگا کہ یوں اچانک ہی سیکس سین اسکے سامنے آگیا۔ ایک بار حیران ہوکر‬
‫وہ فورا ہی سنبھل گیا اور سمجھ گیا کہ یہ میری ہی حرکت ہے اور پالن کا حصہ ہے۔‬
‫اس نے حیران ہوکر مگر تھوڑا مسکراتے ہوئے سمیرا کو دیکھا اور کہا سمیرا صاحبہ‬
‫یہ کیا حرکتیں ہورہی ہیں؟؟ یہ چیزیں دیکھتی ہو لیپ ٹاپ پر؟؟ سمیرا بھی گھبرا گئی تھی‬
‫اور وہ واقعی نہیں سمجھ سکی تھی کہ یہ پالن کا حصہ ہے‪ ،‬اسکے ماتھے پر پسینہ‬
‫آگیا تھا اور اسنے کہا نہیں حیدر یہ تو فائزہ آپی نے لگائی ہوئی تھی میں تو نہیں‬
‫دیکھتی۔ میں فورا بولی سمیرا جھوٹ تو نہ بولو میں نے تمہارے کہنے پر ہی لگائی ہے‬
‫تم نے ہی کہا تھا کہ تمہیں فلم دیکھنی ہے سیکس والی۔ اس پر سمیرا کو غصہ آگیا‬
‫کیونکہ اسکے ذہن میں یہ تھا کہ حیدر کو یہ بات بری لگے گی اور وہ اسکے بارے‬
‫میں غلط رائے قائم کر لے گا اس لیے وہ غصے میں بولی کہ میں جھوٹ نہیں بول رہی‬
‫یہ فائزہ نے ہی لگائی ہے۔‬

‫اسکی یہ بات سن کر حیدر ہنسنے لگا اور کہا کہ میں بھی سوچ رہا تھا کہ فائزہ آپی‬
‫میرے کمرے میں آئی ہیں تواپنی پینٹ پہننا بھول گئیں اور ایسے ہی آگئیں اور ادھر تم‬
‫بھی بغیر پینٹ کے بیٹھی ہو۔ یہ بات سن کر سمیرا تو جیسے گونگی ہوگئی‪ ،‬مووی ابھی‬
‫تک چل رہی تھی اور لڑکی اچھل اچھل کر لن اپنے اندر لے رہی تھی۔ کمرے میں‬
‫خاموشی ہوئی تو میں نے کہا اچھا چلو اگر تمہیں پتہ لگ ہی گیا ہے تو چھوڑو اب اس‬
‫بات کو ہم دونوں مل کر ہی فلم دیکھ رہی تھیں۔ یہ کہتے ہوئے میں حیدر کے اور قریب‬
‫ہوگئی اور اپنا ہاتھ اسکے کندھے پر رکھ دیا۔ اور پھر کہا تم بھی تو دیکھتے ہی ہو نہ‬
‫آخر ایسی فلمیں اگر سمیرا اور میں نے دیکھ لی تو کونسا غلط کیا۔ اس پر حیدر نے کہا‬
‫نہیں میں نے کب کہا کہ غلط کیا۔ تو میں نے کہا چلو پھر ہم تینوں مل کر دیکھتے ہیں؟‬
‫حیدر نے کہا چلیں ٹھیک ہے لیکن اگر سمیرا کو کوئی اعتراض نہ ہو تو۔ یہ کہ کر اسنے‬
‫سمیرا کی طرف دیکھا تو میں نے پیچھے سے سمیرا کو اشارہ کیا کہ اوکے کرو۔ اس‬
‫نے ڈری ڈری آواز میں کہا نہیں مجھےکوئی اعتراض نہیں۔ میں نے کہا چلو حیدر پھر‬
‫آواز بھی کھول دو تاکہ پورا مزہ تو آئے۔ حیدر نے مووی کی آواز کھول دی تو لڑکی کی‬
‫چیخیں کمرے میں گونجنے لگیں۔ حیدر کی نظریں لڑکی کی اچھلتے ہوئے مموں پر‬
‫تھی۔‬

‫میں نے حیدر کو کہا لگتا ہے تمیں اسکے ممے زیادہ ہی پسند آگئے ہیں جو دیکھی جا‬
‫رہے ہو؟ تو حیدر ہنسا اور بوال کہ وہ ممے اچھال ہی ایسے رہی ہے کہ مزہ آرہا ہے‬
‫دیکھ کر۔ میں نے کہا اسکے ممے زیادہ اچھے ہیں یا سمیرا کے؟؟ تو حیدر نے سمیرا‬
‫کے مموں کی طرف دیکھتے ہوئے کہا میں کیا کہ سکتا ہوں؟ سمیرا نے کبھی اپنے‬
‫ممے دکھائے ہی نہیں مجھے۔ مجھے کیسے تا کہ سمیرا کہ ممے کیسے ہیں؟ یہ سن‬
‫کرسمیرا بولی تم نے کونسا کبھی مجھے کہا ہے کہ اپنے ممے دکھاو؟حیدر نے کہا چلو‬
‫اب کہ دیتا ہوں دکھا دو ۔ یہ سن کر سمیرا شرما گئی مگر اسمیں ہمت نہیں ہوئی کہ اپنی‬
‫شرٹ اتار سکے۔ میں نے کہا کیسے منگیتر ہو تم ابھی تک تم نے سمیرا کے ممے ہی‬
‫نہیں دیکھے۔ یہ کہ کر میں نے سمیر کو کہا کہ یار اتنے پیار سے وہ فرمائش کر رہا‬
‫ہے دکھا دو نا اپنے گول گول ممے حیدر کو۔‬

‫میری بات سن کر سمیرا کو کچھ حوصلہ ہوا اور اسنے اپنی شرٹ کے بٹن کھولنا شروع‬
‫کیے‪ ،‬میں نے کہا حیدر یہ تو رات تک ہی سارے بٹن کھولے گی تم خود کھول لو اسکی‬
‫شرٹ کے بٹن۔ یہ سنتے ہی حیدر فورا اٹھا اور اسنے سمیرا کی شرٹ کے سارے بٹن‬
‫کھول کر اسکی شرٹ اتار دی۔ سمیرا کے ممے برا میں چھپے ہوئے تھے مگر پھر بھی‬
‫حیدر نے ‪ 36‬سائز کے ممے دیکھے تو اسکی رال ٹپکنے لگی اور وہ ڈرتے ڈرتے‬
‫ہاتھ مموں کی طرف بڑھانے لگا تو سمیرا نے اسکا ہاتھ پکڑ کر فورا اپنے ممے پر رکھ‬
‫دیا۔ سمیرا کی پھدی اب دوبارہ جلنے لگی تھی جو کچھ وقفہ آنے کی وجہ سے ٹھنڈی ہو‬
‫چکی تھی۔ حیدر کسی بچے کی طرح خوش ہورہا تھا جس کو اپنی پسندیدہ چیز مل گئی‬
‫ہو۔ وہ برا کے اوپر سے ہی سمیرا کے ممے دبا رہا تھا۔ میں نے کہا ارے بھئی فلم میں‬
‫لڑکی کے ممے ننگے ہیں سمیرا تم بھی اپنے ننگے ممے دکھاو نہ‪ ،‬یہ سنتے ہی سمیرا‬
‫نے اپنا برا اتار دیا اور حیدر سمیرا کے ممے دیکھ کر ساکت ہوگیا۔‬

‫میرے ممے ‪ 34‬سائز کے تھے جو پہلے حیدر دیکھ چکا تھا سمیرا کے ‪ 36‬سائز کے‬
‫ممے دیکھ کر حیدر کی رال ٹپکنے لگی تھی اور وہ فورا ہی اسکے مموں پر جھک کر‬
‫مموں کی الئن میں زبان پھیرنے لگا اور اسکے ممے دبانے لگا۔ سمیرا تو جیسے پاگل‬
‫ہوگئی تھی۔ پہلی بار کسی مرد نے اسکو مموں کو چھوا تھا۔ سمیرا کی آنکھیں بند تھیں‬
‫اور وہ حیدر کے سر پر ہاتھ پھیر رہی تھی۔ وہ دونوں شاید مجھے بھول ہی گئے تھے۔‬
‫میں نے حیدر کو آواز دی تو اسکو یاد آیا کہ میں بھی کمرے میں ہی موجود ہوں۔ اسنے‬
‫میری طرف دیکھا اور بوال جی فائزہ آپی؟؟ میں نے کہا کیسے لگے پھر سمیرا کے‬
‫ممے تم نے بتایا نہیں تم تو فورا ہی کھانا شروع ہوگئے۔ اس نے دوبارہ فلم میں لڑکی‬
‫کے مموں کو دیکھا اور پھر سمیرا کے مموں کو دیکھا اور کہا کے ممے تو فلم والی‬
‫لڑکی کے بڑے ہیں مگر جو گوالئی اور سختی سمیرا کے مموں میں ہے وہ اس لڑکی‬
‫کے مموں میں نہیں۔ یہ سن کر سمیرا بہت خوش ہوئی۔ وہ دوبارہ حیدر کو اپنی طرف‬
‫متوجہ کرنے ہی لگی تھی کہ میں نے حیدر کو کہا سمیرا کے ممے تو دیکھ لیے اپنی‬
‫فائزہ آپی کے ممے نہیں دیکھو گے؟‬

‫تو حیدر نے کہا نیکی اور پوچھ پوچھ؟؟ دکھا دیں آپ بھی۔ میں نے ادا کے ساتھ ہاتھ‬
‫اوپر اٹھائے اور کہا تم خود ہی آکر میری شرٹ اتار دو اور دیکھ لو‪ ،‬حیدر نے بغیر وقت‬
‫ضائع کیے میری شرٹ بھی اتار دی اور برا بھی اتار دیا۔ اور میرے ممے دبانے شروع‬
‫کر دیے۔ مگر اسکا دھیان سمیرا کے مموں میں ہی تھا کیونکہ میرے ممے تو وہ پہلے‬
‫بھی چوس چکا تھا مگر سمیرا کے ممے اسکے لیے نئے تھے۔‬

‫اب اگال وار میں نے یہ کیا کہ تم نے تو اپنے مطلب کی چیز دیکھ لی ہے اب ہم کیا‬
‫کریں؟ اس پر حیدر حیران ہوکر بوال کیا مطلب آپکا؟ میں نے کہا بھئی ایک لڑکا لڑکی‬
‫کے ممے ہی دیکھنا چاہتا ہے۔ فلم میں تم نے لڑکی کے ممے دیکھے تو تم نے ہم‬
‫دونوں کے بھی دیکھ لیے۔ اب لڑکیاں لڑکوں میں کچھ اور دیکھنا چاہتی ہیں۔ اور مجھے‬
‫فلم میں اس لڑکے کا لن نظر آرہا ہے۔ تو تم بھی ہم دونوں کو اپنا لن دکھاو نا۔۔۔۔ یہ سن‬
‫کر حیدر نے کہا آپ بھی خود ہی میری پینٹ اتار کر دیکھ لیں۔ میں نے آگے بڑھ کر حیدر‬
‫کی شرٹ تو اتار دی۔ مگر پھر میں نے سمیرا کو کہا کہ حیدر کی پینٹ تم خود اتارو۔ وہ‬
‫ہچکچانے لگی تو حیدر نے اسکو کہا آو نہ سمیرا پینٹ اتارو اور دیکھ لو لن۔ سمیرا‬
‫ڈرتے ڈرتے اسکی پینٹ اتارنے لگی۔ پہلے پینٹ کا بٹن کھوال پھر زب کھولی اور پینٹ‬
‫گھٹنوں تک نیچے کر لی۔ نیچے سے حیدر کا لن اچھل کر اوپر آیا۔ سمیرا نے لن پر نظر‬
‫ڈالی تو اسکی آنکھوں میں ایک چمک سی آئی۔ حیدر کا لن کھڑا تھا اور سخت تھا۔ مگر‬
‫وہ صرف دیکھ ہی رہی تھی ہاتھ لگانے کی ہمت نہیں کر رہی تھی۔ میں نے بھی کہا واہ‬
‫حیدر کیا لن ہے تمہارا۔ یہ کہ کر میں نے حیدر کا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور اسکو‬
‫آہستہ آہستہ سہالنے لگی۔ پھر میں نے سمیرا کو کہا کہ وہ بھی اپنے ہاتھ می پکڑ کر‬
‫دیکھے۔ تو سمیرا نے بھی حیدر کے لن پر ہاتھ رکھ دیا۔ اور وہ بھی آہستہ آہستہ لن‬
‫سہالنے لگی۔ حیدر نے ہم دونوں کا ایک ایک مما ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور دبا رہا تھا۔‬
‫پھر حیدر بوال سمیرا اپنی پھدی بھی دکھاو مجھے ۔ سمیرا جو اب کافی گرم ہو چکی تھی‬
‫فورا ہی لیٹ گئی اور حیدر کو کہا میری پینٹی اتار لو‪ ،‬حیدر سمیرا کی ٹانگوں کے‬
‫درمیان میں لیٹ گیا اور اسکی پینٹی اتارنے کی بجائے اسکی ران پر ہاتھ پھیرنے لگا۔‬
‫جس سے سمیرا کو گد گدی وہ رہی تھی۔ میں نے پیچھے سے حیدر کی پینٹ پوری اتار‬
‫دی جو ابھی صرف گھٹنوں تک اتری ہوئی تھی اور اپنی پینٹی بھی اتاری لی۔‬

‫حیدر نے کچھ دیر سمیرا کی رانوں پر ہاتھ پھیرا اور پھر اسکی پینٹی کے اوپر سے ہی‬
‫اسکے پھدی پر ہاتھ پھیرنے لگا۔ سمیرا کی پھدی مکمل گیلی ہو چکی تھی۔ ہاتھ پھیرنے‬
‫کے بعد حیدر نے سمیرا کی پینٹی اتار دی اور اسکی بالوں سے صاف شفاف پھدی‬
‫دیکھنے لگا۔ میں نے کہا دیکھ کیا رہے ہو چوم لو اسکو۔ حیدر نے میری بات سن کر‬
‫اپنے ہونٹ سمیرا کی پھدی پر رکھے تو وہ بہت خوش ہوا اسکے سامنے ایک کنواری‬
‫پھدی تھی جو پھول کی طرح نرم تھی باہر سے مگر اندر سے انہتائی ٹائٹ اور دہکتے‬
‫تندور کی طرح گرم تھی۔ حیدر نے اب اپنی زبان نکالی اور سمیرا کی پھدی پر پھیرنا‬
‫شروع کر دی۔ میں سمیرا کے منہ کے اوپر بیٹھ گئی اور اسنے میری پھدی چاٹنی‬
‫شروع کر دی۔ کچھ دیر بعد میں اٹھی اور حیدر کو کہا اپنا لن مجھے پکڑائے‪ ،‬وہ اٹھ کر‬
‫بیٹھ گیا تو میں اسکے لن پر جھک کر اسکے لن کی ٹوپی پر پیار کرنے لگی سمیرا بھی‬
‫اپنی جگہ سے کھڑی ہوکر مجھے اسکے لن پر پیار کرتے ہوئے دیکھنے لگی‪ ،‬میں نے‬
‫سمیرا کو کہا تم بھی کرو اس پر پیار تو اسنے انکار کر دیا۔ پھر میں نے اسکا لن اپنے‬
‫منہ میں لے لیا اور اسکا چوپا لگانا شروع کر دیا۔‬

‫سمیرا اپنی جگہ پر کھڑی ہوگئی اور اپنی پھدی حیدر کے منہ کے سامنے کر دی۔ حیدر‬
‫نے ایک بار پھر اسکی پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا۔ میں نے بھی حیدر کے لن پر زیادہ‬
‫چوپے نہیں لگائے کیونکہ مجھے پتا تھا کہ اس نے بہت جلد پانی چھوڑ جانا ہے۔ گو کہ‬
‫وہ گولی کھا کر آیا تھا مگر آج اسنے ایک کنواری پھدی کو پھاڑنا بھی تھا اور اس کی‬
‫چودائی بھی کرنی تھی۔ لہذا اسکی ٹائمنگ کم ہونے کا خدشہ تھا۔ میں نے اسکے لن کے‬
‫چوپے لگانا بند کیے اور حیدر سے پوچھا کہ پہلے میری پھدی میں لن ڈالو گے یا‬
‫سمیرا کی پھدی میں؟ ظاہری بات ہے حیدر سمیرا کی پھدی میں لن ڈالنا چاہتا تھا مگر‬
‫سمیرا فورا بول پڑی کہ پہلے فائزہ کی پھدی میں ڈالو مجھے ڈر لگتا ہے۔‬

‫میں نے کہا اس میں ڈرنے والی کونسی بات ہے ہر لڑکی لن لیتی ہے۔ تو سمیرا بولی‬
‫مگر میں نے سنا ہے کہ پہلی بار پھدی میں لن جاتا ہے تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ لہذا‬
‫پہلے آپ لن لو اسکے بعد میں لوں گی۔ یہ سن کر میں نے کہا وقتی تکلیف ہوتی ہے وہ‬
‫اسکے بعد بہت مزہ آتا ہے مگر تم کہتی ہو تہ پہلے میں لے لیتی ہوں۔ یہ کہ کر میں‬
‫حیدر کی گود میں بیٹھ گئی اور لن اپنی پھدی کے سوراخ پر سیٹ کر کے ایک ہی‬
‫جھٹکے میں حیدر کا پانچ انچ کا لن اندر لے لیا اور اس پر اچھلنے لگی۔ اور جان بوجھ‬
‫کر سسکیاں بھی لینے لگی جیسے مجھے بہت زیادہ مزہ آرہا ہو۔ میرا مقصد سمیرا کو‬
‫مزید گرم کرنا تھا۔‬

‫مجھے اس طرح چدائی کرواتے دیکھ کر سمیرا نے کہا مجھے صحیح نظر نہیں آرہا‬
‫کسی اور پوزیشن میں لن اندر ڈلواو تو میں لیٹ گئی اور ٹانگیں سائیڈ پر پھیال کر حیدر‬
‫کو بالیا‪ ،‬حیدر میری ٹانگیں اور زیادہ کھول کر درمیان میں بیٹھ گیا اور اپنا لن میری‬
‫چوت کے سوراخ پر رکھ کر سارا اندر ڈال دیا۔ اور پھر مسلسل اندر باہر کرنے لگا۔‬
‫سمیرا کی نظروں میں خوف بھی تھا مگر لن کی طلب بھی تھی۔ میں نے حیدر سے زیادہ‬
‫نہیں چدوایا کیونکہ میں چاہتی تھی کہ آج سمیرا کی بھی پھدی پھٹ جائے اور وہ لن کا‬
‫مزہ لے سکے۔ لہذا میں نے ‪ 2‬منٹ بعد ہی اپنا پانی چھوڑ دیا۔ اور پھر حیدر کو کہا کہ‬
‫اب سمیرا کی چدائی کرے۔‬

‫حیدر نے سمیرا کو نیچے لیٹنے کو کہا تو سمیرا فورا ہی نیچے لیٹ گئی‪ ،‬حیدر نے‬
‫سمیرا کی ٹانگیں کھولیں اور اس پر لن سیٹ کرنے لگا تو میں نے اسے کہا ابھی نہیں‬
‫پہلے اسکی پھدی کو چاٹ چاٹ کر خوب گرم کرو پھر ڈالنا ایسے تکلیف زیادہ ہوگی۔ یہ‬
‫سن کر حیدر نیچے جھک کر اسکی پھدی کو چاٹنے لگا‪ ،‬پھر میں نے کہا اپنی ایک‬
‫انگلی اسکی پھدی میں ڈالو آہستہ آہستہ تاکہ اندر بھی گیال پن پیدا ہو سکے۔ حیدر نے‬
‫اپنی بڑی انگلی سمیرا کی پھدی میں ڈالی تو سمیرا بری طرح تڑپنے لگی۔ حیدر کی‬
‫انگلی آدھی ہی گئی تھی سمیرا کی پھدی میں اور وہ آہستہ آہستہ انگلی اندر باہر کر رہا‬
‫تھا‪ ،‬پھر میں نے حیدر کو کہا اب پوری انگلی اندر کر دو۔ تو حیدر نے پوری انگلی اندر‬
‫کر دی۔ اور سمیرا نے اپنا جسم دائیں بائیں پٹخنا شروع کر دیا۔ جب سمیرا فل گرم‬
‫ہوچکی اور اسکی پھدی پانی پانی ہوگ ِئ تو میں نے حیدر کو کہا اب ڈالو اس میں اپنا‬
‫لن۔‬

‫حیدر نے سمیرا کی ٹانگیں کھول لیں میں نے کہا ٹانگیں اٹحا کر کندھے پر رکھ لو اس‬
‫طرح آسانی ہوگی‪ ،‬حیدر نے ایسے ہی کیا اور اپنا لن پھدی کے سوراخ پر رکھ دیا۔ میں‬
‫سمیرا کی طرف گئی اور اسکے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے تاکہ وہ زیادہ چیخیں نا‬
‫مار سکے۔ حیدر نے آہستہ آہستہ سمیرا کی پھدی پر دباو بڑھایا تو اسکی ٹوپی پھدی‬
‫میں داخل ہوگئی جس پر سمیرا کا پورا جسم کانپ گیا اور اسنے چیخنا شروع کیا مگر‬
‫اسکی چیخیں میرے منہ میں ہی دم توڑ گئیں۔ سمیرا اپنی ٹانگیں بھی چھڑوانے کی‬
‫کوشش کر رہی تھی مگر ناکام رہی۔۔ میں نے حیدر کو کہا ایک زور کا دھکا مارے تاکہ‬
‫اسکی پھدی کا پردہ پھٹ سکے۔ حیدر نے وہیں سے ایک زور دار دھکا لگایامگر اسکا‬
‫پردہ نہیں پھاڑ سکا البتہ آدھا لن اندر جا چکا تھا اور سمیرا کا جسم پہلے سے بھی‬
‫زیادہ کانپ رہا تھا۔‬

‫اگرچہ حیدر کا لن لمبا نہیں تھا مگر کنواری پھدی کے لیے یہ لن بھی بہت تکلیف دہ تھا۔‬
‫حیدر کچھ دیر رکا رہا تاکہ سمیرا کہ تھوڑا سکون ملے۔ میں نے حیدر کو کہا آہستہ‬
‫آہستہ لن اندر باہر کرتے رہو تاکہ پھدی اندر سے خشک نہ ہو تو وہ اپنا لن ہلکا ہلکا‬
‫ہالنے لگا۔۔۔ پھر میرے اشارے پر اس نے ایک دھکا اور مارا تو پورا لن سمیرا کی‬
‫پھدی کو چیرتا ہوا اندر جا چکا تھا۔ اور سمیرا کسی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی‬
‫جسکو پانی سے باہر نکال کر پھینک دیا گیا ہو۔ میں نے حیدر کو کہا کہ اب یہیں پر‬
‫رکے ابھی دھکے لگائے۔ سمیرا کی آنکھوں سے آنسو نکل رہے تھے اور وہ رو رہی‬
‫تھی۔ میں نے اسکو کہا کہ صبر کرو ابھی مزہ آنا شروع ہوجائے گا۔‬
‫کچھ دیر بعد جب سمیرا کا درد کم ہوا تو میں نے حیدر کو کہا آرام آرام سے لن اندر باہر‬
‫کرے۔ اس نے لن ہالنا شروع کر دیا۔ اور میں نے سمیرا کے نپلز کو اپنے منہ میں لیکر‬
‫کاٹنا شروع کر دیا۔ اب اسکو نپل کاٹننے کا تو مزہ آرہا تھا مگر لن سے اسکو ابھی بھی‬
‫درد ہو رہی تھی۔ حیدر نے آہستہ آہستہ لن اندر باہر کرنا جاری رکھا اور رکا نہیں۔ ‪3‬‬
‫منٹ اسی طرح کی چدائی کے بعد سمیرا کی پھدی کافی گیلی ہوگئی تھی اور اب لن آسانی‬
‫سے اندر باہر جا رہا تھا تو میں نے حیدر کو کہا اب سپیڈ کے ساتھ چدائی کرو۔ حیدر‬
‫نے اب سپیڈ کے ساتھ دھکے لگانے شروع کیے تو اب سمیرا کو بھی کچھ مزہ آرہا تھا۔‬
‫حیدر کو بہت زیادہ مزہ آرہا تھا کیونکہ وہ ایک کنواری پھدی کو پھاڑنے کے بعد برانڈ‬
‫نیو پھدی کی چدائی کر رہا تھا جسکی گرفت حیدر کے لن پر بہت مضبوط تھی۔‬

‫مجھے پتہ تھا کہ حیدر نے ابھی کچھ ہی دیر میں فارغ ہوجانا ہے اور سمیرا جتنی گرم‬
‫تھی وہ بھی جلد ہی فارغ ہو سکتی تھی اسلیے میں نے حیدر کو کان میں کہا کہ سمیرا‬
‫کی پھدی میں پانی نا نکالنا جب فارغ ہونے لگو تو لن باہر نکال لینا ورنہ سمیرا کو حمل‬
‫بھی ہو سکتا ہے۔ یہ کہ کر میں نے سمیرا کی پھدی کہ ہاتھ سے رگڑنا شروع کر دیا ۔‬
‫اس سے سمیرا کو اور بھی مزہ آنے لگا پھدی کے اندر اپنے مجبوب کا لن اور ایک‬
‫لڑکی کے ہاتھ سے پھدی کی رگڑائی سے ‪ 2‬منٹ میں ہی سمیرا نے پانی چھوڑ دیا اور‬
‫اسکے جسم کو شدید جھٹکے لگے۔ حیدر نے اپنے دھکوں کی سپیڈ اور تیز کر دی۔ اور‬
‫پھر اچانک ہی اس نے اپنا لن باہر نکال لیا‪ ،‬جیسے ہی حیدر نے لن باہر نکاال میں نے‬
‫اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور لن منہ میں لیکر اسکا چوپا لگانے لگی۔ حیدر نے اپنا ہاتھ‬
‫اپنے لن سے ہٹا لیا اور میرے رحم و کرم پر چھوڑ دیا۔ ابھی میں نے کچھ دیر ہی چوپا‬
‫لگایا تھا کہ حیدر کا لن پھولنے لگا۔ میں سمجھ گئی کہ یہ اب چھوٹنے واال ہے تو میں‬
‫نے لن منہ سے نکال لیا اور اسکی ہاتھ سے مٹھ ماری چند سیکنڈ بعد ہی حیدر کے لن‬
‫سے منی کا فوارہ نکال اور میرے مموں پر منی کا سپرے ہونے لگا۔‬

‫جب حیدر کی ساری منی نکل گئی تو وہ نڈھال ہوکر سمیرا کے ساتھ لیٹ گیا اور اسکو‬
‫پیار کرنے لگا۔ سمیرا نے بھی اسکو جپھی ڈال لی۔ اسکو بھی پیار آرہا تھا اپنے محبوب‬
‫پر جس نے کچھ ہی دیر پہلے ایک کلی کو پھول بنا دیا تھا‪ ،‬پہلی بار سمیرا لن کے مزے‬
‫سے آشنا ہوئی تھی اور وہ اس پر بہت خوش تھی۔ میں نے چادر سے اپنا سینہ صاف‬
‫کیا اور میں بھی ان دونوں کے ساتھ لیٹ گئی۔‬
‫حیدر سمیرا کے مموں سے کھیل رہا تھا اور سمیرا پیار بھری نظروں سے حیدر کو‬
‫دیکھ رہ تھی۔ میں نے حیدر کی کمر پر تھوڑی دیر ہاتھ پھیرا تو حیدر کا لن کھڑا ہونے‬
‫لگا۔ سمیرا کی نظر دوبارہ لن پر پڑی تو بولی یہ تو پھر کھڑا ہو رہا ہے۔ کہا پھر سے‬
‫چودو گے مجھے۔ میں نے کہا تمہارا دل نہیں بھرا ابھی؟؟ جس پر وہ تھوڑی شرمندہ‬
‫ہوئی میں نے حیدر کو سیدھے لیٹنے کو کہا اور خود لن سیدھا کر کے اسکے اوپر بیٹھ‬
‫گئی اور ایک ہی جھٹکے میں لن اندر لے لیا اور لن کے اوپر اچھلنے لگی۔ مجھے دیکھ‬
‫کر سمیرا نے بھی اپنا ہاتھ اپنی پھدی پر رکھا اور اسکو مسلنا شروع کر دیا۔ اسکی‬
‫پھدی نے دوبارہ لن کی طلب شروع کر دی تھی‪ ،‬مگر اسکو نہیں پتا تھا کہ اسکے‬
‫منگیتر پر دوائی کا اثر پہلی بار ہی تھا دوسری بار میں وہ بہت جلد فارغ ہونے واال تھا۔‬

‫میں بہت تیزی کے ساتھ لن پر سواری کر رہی تھی اور میں نے اپنی چوت دبائی ہوئی‬
‫تھی تاکہ میری پھدی ٹائٹ رہے اور حیدر کا لن جلدی پانی چھوڑ دے۔ سمیرا بھی اب اٹھ‬
‫کر بیٹھ گئی تھی اور اپنی باری کا انتظار کرنے لگی تھی کہ جیسے ہی فائزہ کی پھدی‬
‫پانی چھوڑے تو وہ پہلے کی طرح حیدر کا لن اندر لے سکے۔ لیکن اس سے پہلے کہ‬
‫میری پھدی پانی چھوڑتی‪ ،‬دیکھتے ہی دیکھتے حیدر ٹھنڈا پڑنے لگا اور میرا اچھلنا‬
‫بھی بند ہوگیا۔ حیدر کا لن پانی چھوڑ چکا تھا۔‬

‫سمیرا نے جب دیکھا کہ میں لن سے اتر گئی ہوں تو وہ فورا اٹھی تاکہ خود بیٹھ سکے‪،‬‬
‫مگر جب اسکی نظر لن پر پڑی تو وہ سکڑ کر چھوٹا ہو چکا تھا۔ سمیرا نے پوچھا یہ‬
‫اسکو کیا ہوا تو اس سے پہلے کہ حیدر کچھ بولتا میں نے ہنستے ہوئے کہا ‪ 2‬بار تو‬
‫اسکا لن پانی چھوڑ چکا ہے اور تم کیا چاہتی ہے اس بیچارے سے۔ اب صبر کرو اور‬
‫پھر کسی دن چدائی کروا لینا حیدر سے۔‬

‫یہ سن کر وہ خاموش ہو کر سائیڈ پر بیٹھ گئی۔ حیدر اپنے کپڑے پہننے لگا اور میں نے‬
‫بھی اپنے کپڑے پہن لیے۔ سمیرا ابھی تک ننگی بیٹھی تھی۔ میں نے کہا تم بھی پہن لو‬
‫تو وہ بولی میری پھدی ابھی گرم ہے۔ میں نے حیدر کو کہا تم جاو تم نے سائرہ کو بھی‬
‫لینا ہے تب تک میں سمیرا کی پھدی کا کچھ کرتی ہوں۔ حیدر اپنے کپڑے صحیح کرکے‬
‫باہر نکل گیا اور میں سمیرا کی پھدی پر جھک کر اس پر اسکی پھدی چاٹنے لگی ساتھ‬
‫ہی اپنی ‪ 2‬انگلیاں سمیرا کی پھدی میں داخل کر کے تیزی سے اندر باہر کرنے لگی۔‬
‫سمیرا کی پھدی واقعی گرم تھی کچھ ہی دیر بعد اسکی پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔‬

‫اب اسکو بھی سکون مل چکا تھا۔ وہ اپنے کپڑے پہننے لگی اور مجھ سے پوچھا کہ‬
‫رضوان کا لن بھی ایک بار چدائی کے بار دوبارہ کھڑا ہوتا ہے؟ تو میں نے کہا ہاں ہوتا‬
‫ہے۔ سب لڑکوں کا ہی ہوتا ہوگا۔ اسنے پوچھا پھر ایک بار چدائی کروانے کے بعد تم نے‬
‫کبھی دوبارہ بھی چدائی کروائی ہے؟ میں نے کہا ہاں ہم جب بھی کرتے ہیں کم سے کم‬
‫دو بار ہی کرتے ہیں۔ کبھی کبھی ‪ 3‬بار بھی کر لیتے ہیں۔ سمیرا نے کہا میں نے تو سنا‬
‫ہے پہلی بارمیں مرد کا لن جلدی منی چھوڑ دیتا ہے مگر دوسری بار میں وہ زیادہ ٹائم‬
‫تک چودتا ہے۔ میں نے کہا ہاں ایسے ہی ہوتا ہے۔ تو سمیرا نے کہا مگر حیدر کا لن تو‬
‫دوسری بار بہت جلدی فارغ ہوگیا تھا۔ میں گرم ہوگئی تھی دوبارہ مجھے چاہیے تھا مگر‬
‫وہ فارغ ہوگیا ۔‬

‫میں سمیرا کو اپنے منہ سے یہ بات نہیں بتانا چاہتی تھی میرا مقصد یہی تھی کہ وہ خود‬
‫اس بات کو محسوس کرے۔ اور یہی ہوا۔ اسنے محسوس کر لیا کہ یہ ٹھیک نہیں۔ مگر‬
‫میں نے ال پرواہی سے کہا اس میں ایسی کونسی بات ہے۔ نکلنا تو نہیں چاہیے اتنی‬
‫جلدی لیکن اگر نکل بھی گیا تو کیا ہوا۔ ویسے بھی وہ ‪ 2‬لڑکیوں کی چدائی کر رہا تھا‬
‫اور شاید اس نے بھی آج زندگی میں پہلی بار چدائی کی ہو۔ اس پر سمیرا کچھ مطمئن‬
‫ہوگئی۔ اور ہم نے بیڈ کی چادر بھی چینج کر دی اور لیپ ٹاپ پر لگی ہوئی مووی بھی‬
‫بند کر دی کیونکہ ابھی کچھ ہی دیر میں سائرہ آنے والی تھی۔‬

‫میں اپنے مقصدمیں ‪ 90‬فیصد کامیاب ہوچکی تھی۔ سمیرا کو لن کا مزہ بھی دال دیا تھا۔‬
‫اگرچہ وہ پہلی بار کی چدائی کے بعد کافی مطمئن تھی مگر جب حیدر کا لن دوبارہ کھڑا‬
‫ہوا اور اسکی پھدی نے دوبارہ خواہش کی لن کی تو اسکو لن نہیں مل سکا۔ اس بات‬
‫نے اسکو پریشان کر دیا تھا۔ اور کسی بھی لڑکی کو جب لن چاہیے ہو اور نہ ملے تو وہ‬
‫ذہنی طور پر ڈسٹرب ہوجاتی ہے۔ یہی سمیرا کے ساتھ ہوا۔ اگر حیدر ایک چودائی کے‬
‫بعد وہاں سے چالجاتا تو سمیرا مطمئن رہتی۔ مگر دوسری بار لن کا کھڑا ہونا اور سمیرا‬
‫کا انتظار کرنا مگر لن ملنے سے پہلے ہی حیدر کا فارغ ہوجانا‪ ،‬اس سے سمیرا کی‬
‫خواہش ادھوری رہ گئی اور وہ خوش نہیں تھی۔‬

‫اب میری منزل بہت قریب تھی اور حیدر سے بدلہ پورا ہونے واال تھا۔‬
‫کچھ ہی دیر بعد سائرہ بھی آگئی تو میں کچھ دیر اسکے ساتھ بیٹھی رہی اور شام کے‬
‫ٹائم واپس اپنے گھر آگئی۔ سمیرا کی جھجھک تو میں ختم کر چکی تھی‪ ،‬وہ سیکس کے‬
‫لیے اتنی بےتاب ہوگئی تھی کہ اسنے اپنا کنوارہ پن ختم کروا لیا تھا۔ مگر حیدر کا لن‬
‫اس قابل نہیں تھا کہ وہ کسی کنواری اور اتنی گرم پھدی کو سکون پہنچا سکتا۔ اور یہی‬
‫میں چاہتی تھی کہ سمیرا جب حیدر سے چدائی کروائے گی تو اس میں سیکس کی‬
‫خواہش اور بھی زیادہ جاگے گی۔ میں نے گھر پہنچ کر رات سونے سے پہلے رضوان‬
‫کو فون کیا اور کچھ دیر اس سے باتیں کرنے کے بعد میں نے رضوان کو کہا کہ میں کل‬
‫اس سے ملنا چاہتی ہوں۔ رضوان نے کہا ٹھیک ہے میں آجاوں گا کل تمہاری طرف۔ میں‬
‫نے کہا نہیں ہماری طرف نہیں۔ یہ سن کر رضوان کو تجسس ہوا اور اس نے خوش‬
‫ہوتے ہوئے پوچھا پھر کیا علی کے گھر پر ملنے کا ارادہ ہے؟؟ میں نے کہا نہیں علی‬
‫کے گھر بھی نہیں‪ ،‬بس کہیں اکیلے میں۔ رضوان نے پوچھا بتاو تو سہی کوئی خاص کام‬
‫ہے کیا؟ میں نے کہا بس چوت میں بہت خارش ہورہی ہے اسی لیے ملنا ہے۔ تو رضوان‬
‫بوال کہ اسی لیے تو میں کہ رہا ہوں علی کے گھر آجانا۔‬

‫میں نے رضوان کو پھر کہا کہ نہیں اسکے گھر نہیں کسی اور جگہ کا ارینج کرو۔ اب کی‬
‫بار رضوان نے پوچھا ندیم سے ڈر گئی ہو کیا؟ اس نے تمہاری گانڈ ماری تھی اسی بات‬
‫کا ڈر ہے؟ میں نے پھر کہا نہیں ایسی بات بھی نہیں بس کل کسی جگہ کا بندوبست کرو‪،‬‬
‫چاہے کسی دوست کا گھر ہو یا کوئی ہوٹل کا کمرہ۔ مگر وہاں تمہارے عالوہ اور کوئی‬
‫نہیں ہونا چاہیے۔ رضوان کو ابھی بھی تجسس تھا کہ آخر میں اس سے اس طرح‬
‫علیحدگی میں کیوں ملنا چاہتی ہوں حاالنکہ اس سے پہلے علی کے گھر میں رضوان اور‬
‫ندیم کا لن لے چکی تھی۔ بحرحال رضوان نے مجھے کہا کہ وہ کل صبح تک کچھ ارینج‬
‫کر کے بتائے گا۔ یہ کہ کر اس نے فون بند کر دیا۔‬

‫اگلے دن صبح ‪ 9‬بجے مجھے رضوان کا فون آگیا اور اس نے بتایا کہ گھر کا ارینج‬
‫ہوگیا ہے اور اس نے مجھے ایڈریس بھی بتادیا۔ اسنے اپنے کسی دوست سے اسکے‬
‫فلیٹ کی چابیاں لے لیں تھیں۔ میں نے رضوان کو کہا کہ میں ‪ 12‬سے ‪ 1‬بجے تک‬
‫پہنچ جاوں گی تم بھی پہنچ جانا۔ ساتھ میں رضوان کو میں نے یہ بھی کہ دیا کہ کنڈوم‬
‫بھی الزمی لے کر آئے۔‬

‫فون بند کر کے میں نے سمیرا کو فون کیا۔ مجھے پتا تھا کہ سائرہ اس ٹائم گھر پر نہیں‬
‫ہوگی کیونکہ کل اس نے مجھے بتایا تھا کہ وہ کچھ فرینڈز کے ساتھ آوٹنگ پر جا رہی‬
‫تھی۔ اور ان فرینڈز میں ظاہری بات ہے لڑکے ہی زیادہ تھے کیونکہ لڑکیوں سے کوئی‬
‫خاص دوستی نہیں تھی سائرہ کی۔ سمیرا نے کال اٹینڈ کی تو میں نے اسکو بازار بال لیا‬
‫اور کہا کچھ شاپنگ کرنی ہے تو تم آجاو۔ اس نے مجھے کہا کہ وہ ‪ 11‬بجے تک کینٹ‬
‫پہنچ جائے گی۔‬

‫میں بھی تیار ہوئی اور ‪ 11‬بجے کینٹ پہنچ کر سمیرا کو پھر سے کال کی تو اس نے‬
‫مجھے پرنس سٹور پر آنے کو کہا‪ ،‬وہ وہیں پر تھی۔ میں سٹور میں داخل ہوئی تو سمیرا‬
‫سامنے میک اپ کا سامان دیکھ رہی تھی۔ میں بھی کچھ دیر اسکے ساتھ مختلف چیزیں‬
‫دیکھتی رہی۔ میں نے ایک سوٹ خریدا اور کچھ پرفیوم لیے۔ سمیرا نے بھی تھوڑی سی‬
‫شاپنگ کی۔ میں نے باتوں باتوں میں پوچھا کہ کل کا دن کیسا رہا؟ مزہ آیا؟ تو سمیرا نے‬
‫کہا ہاں پہلے تو بہت مزہ آیا تھا۔ مگر بعد میں جب حیدر کا لن دوبارہ کھڑا ہوا تو میری‬
‫چوت پھر گیلی ہوگئی تھی مگر اس نے فورا ہی پانی چھوڑ دیا اور مجھے لن نہیں مال‬
‫تو ساری رات بے چینی میں گزری۔ میں نے بھی سمیرا کو کہا کہ مجھے تو پہلی بار‬
‫میں بھی مزہ نہیں آیا اور دوسری بار بھی ابھی میرا پانی نکال ہی نہیں تھا حیدر کا پہلے‬
‫نکل گیا۔‬

‫سمیرا نے مجھ سے تجسس سے پوچھا کہ رضوان کے ساتھ کرتی ہو تو مل جاتا ہے‬


‫سکون؟ میں نے اسکی طرف فخر سے دیکھا اور اسکو کہا کہ رضوان کے ساتھ تو بہت‬
‫مزہ آتا ہے‪ ،‬میں تھک جاتی ہوں چوت مروا مروا کے مگر وہ نہیں تھکتا۔ میں نے جان‬
‫بوجھ کر اپنا لہجہ ایسا رکھا جس میں اسکو طنز محسوس ہو کہ حیدر بہت جلدی فارغ‬
‫ہوگیا۔ سمیرا نے اس بات کو محسوس بھی کر لیا اور بولی کہ نہیں ایسی بھی بات نہیں‬
‫پہلی بار میں تو حیدر نے تمہارا بھی پانی نکاال اور میرا بھی۔ میں نے اسکو پھر کہا کہ‬
‫رضوان پہلی بار میں کم سے کم ‪ 3‬بار میرا پانی نکلواتا ہے۔ اور اگر دوسری بار بھی‬
‫کریں تو بھی آدھے گھنٹے سے زیادہ کی چودائی ہوجاتی ہے۔ یہ سن کر سمیرا کو منہ‬
‫اتر گیا۔ اسکو یقینا اس بات کا احساس ہو رہا تھا کہ جس کے ساتھ اس نے ساری زندگی‬
‫گزارنی ہے اسکا لن کمزور ہے۔ وہ اسکو جنسی تسکین نہیں دے سکتا۔‬

‫پھر سمیرا نے خود ہی میرے سے پوچھ لیا کہ پھر اگر تمہیں مزہ نہیں آیا تو اب رضوان‬
‫کا کب لوگی؟ تو میں نے اسکو بتایا ابھی ادھر سے شاپنگ کر کے میں نے رضوان سے‬
‫ہی ملنے جانا ہے۔ ‪ 2‬سے ‪ 3‬گھنٹے اسکے ساتھ گزاروں گی اور پھر شام کو گھر جاوں‬
‫احساس‬
‫ِ‬ ‫گی۔ میری یہ بات سن کر سمیرا کا منہ اور بھی مرجھایا تھوڑا سا۔ جیسے اسے‬
‫کمتری پیدا ہوگیا ہو۔ میں نے لوہا گرم دیکھا تو اگال وار کیا۔ اور سمیرا کو کہا تم بھی‬
‫چلو میرے ساتھ‪ ،‬آج ہم دونوں رضوان سے چدواتی ہیں۔ مجھے یقین ہے وہ ہم دونوں‬
‫کی پیاس بجھا دے گا۔ میری بات سن کر سمیرا نے مجھے غصے سے دیکھا اور فورا‬
‫منع کر دیا کہ نہیں یہ ممکن نہیں۔‬

‫میں نے سمیرا کو کہا کہ کل میں نے بھی تو حیدر کا لن لیا ہے۔ تم بھی رضوان کا لے‬
‫لو تو کیا حرج ہے؟ سمیرا بولی نہیں اس وقت بات اور تھی تمہاری چوت بھی گرم تھی‬
‫میری بھی‪ ،‬اب اگر تمہیں حیدر کا لن لینے کو کہا جائے تو تم بھی نہیں لوگی۔ میں نے‬
‫فورا سمیرا پر ایک اور وار کیا کہ اگر کل حیدر کی چدائی سے مزہ آیا ہوتا تو میں خود‬
‫حیدر کو اپنی چوت مارنے کی دعوت دیتی۔ مگر وہ اس قابل نہیں کہ اسکو اپنی چوت دی‬
‫جائے۔ وہ خود تو مزے سے فارغ ہوجائے گا مگر میری چوت کو بے چین ہی چھوڑ دے‬
‫گا۔ یہ سن کر بھی سمیرا کو برا لگا ‪ ،‬اور وہ جیسے اکتاتے ہوئے بولی کہ اب تم زیادہ‬
‫بھی نا حیدر کی برائی کرو۔ رضوان اور حیدر میں تھوڑا بہت ہی فرق ہوگا۔ حیدر ‪10‬‬
‫منٹ میں فارغ ہوا تو رضوان ‪ 15‬منٹ میں ہوجاتا ہوگا۔‬

‫اسکے لہجے سے صاف پتا لگ رہا تھا کہ وہ خود بھی خوش نہیں ہوئی حیدر سے مگر‬
‫چونکہ وہ اسکا منگیتر تھا اس لیے اسکی برائی اور وہ بھی مردانہ کمزوری کی برائی‬
‫سننا اچھا نہیں لگ رہاتھا سمیرا کو۔ مگر میں نے پھر کہا کہ تم چلو میرے ساتھ اگر‬
‫رضوان ‪ 30‬منٹ سے پہلے فارغ ہوجائے تو بات کرنا۔ میری بات سن کر سمیرا تھوڑی‬
‫دیر خاموش ہوئی مگر پھر بولی کہ نہیں ایسا ممکن نہیں کسی بھی صورت۔ اور ویسے‬
‫بھی رضوان کیا سوچے گا میرے بارے میں۔‬

‫میں نے کہا اس نے کیا سوچنا ہے وہ تو خوش ہوجائے گا کہ اسکو تمہاری چوت بھی‬
‫مل گئی۔ ویسے بھی جس دن سوئمنگ پول میں رضوان نے میری چدائی کی تھی اس دن‬
‫وہ تمہارے مموں کی بہت تعریف کر رہا تھا تمہارے برا میں اس نے اندازہ لگا لیا تھا کہ‬
‫تمہارے ممے میرے سے بڑے ہیں۔ مگر سمیرا نے ایک بار پھر انکار کر دیا کہ نہیں وہ‬
‫نہیں جائے گی۔ پھر ہم کچھ دیر اور باتیں کرتے رہے۔ میں نے محسوس کیا کہ سمیرا کا‬
‫باتوں میں دھیان نہیں۔ وہ بے چین تھی ‪ ،‬اور یے بے چینی یقینا اسکی چوت کی بے‬
‫چینی تھی۔ میں نے پھر اچانک ہی سمیرا کو کہا تمہیں ایک اور بات بھی بتاوں؟ سمیرا‬
‫نے کہا ہاں بولو کیا بات ہے؟ میں نے کہا حیدر کا لن ہے بھی بہت چھوٹا۔ صرف ‪ 5‬انچ‬
‫لمبا تھا اور موٹائی میں بھی کم تھا۔ جبکہ رضوان کا لن ‪ 7‬یا ‪ 8‬انچ کا ہے اور موٹائی‬
‫میں بھی حیدر کے لن سے زیادہ ہے۔ یہ سن کر سمیرا نے سر جھکا لیا مگر وہ بولی‬
‫کچھ نہیں۔ کچھ دیر بعد اس نے سر اٹھایا تو اسکی آنکھوں سے مجھے لگا کہ جیسے‬
‫وہ ابھی رو دے گی۔‬

‫میں سمجھ گئی کہ اسکے ذہن میں یہی باتیں گردش کر رہی ہیں کہ حیدر کے ساتھ‬
‫ساری زندگی گزارنی ہے اسکا سٹیمنا بھی نہیں اور لن بھی چھوٹا ہے تو وہ کیسے‬
‫سمیرا کو جنسی تسکین پہنچا سکے گا؟؟ میں نے پھر سمیرا کو کہا میری بات مانو‪،‬‬
‫میرے ساتھ رضوان کے گھر چلو۔ وہاں جا کر اگر تمہارا دل مانا تو رک جانا اور دیکھ‬
‫لینا رضوان تمہیں تسکین دے پاتا ہے یا نہیں۔ اور اگر تمہارا دل نہ مانا تو بس چائے‬
‫پانی پی کر تم اپنے گھر نکل جانا میں اسکے پاس ہی رکوں گی۔ سمیرا کچھ دیر سوچتی‬
‫رہی پھر وہ بولی کہ رضوان سوچے گا تو صحیح کہ آخر یہ سمیرا کیوں ساتھ ہے؟؟؟‬
‫میں نے کہا اس نے کیوں سوچنا‪ ،‬وہ بھی تو اپنے دوستوں کے ساتھ پھرتا ہے‪ ،‬اور‬
‫ویسے بھی اسکو پتا ہے کہ میں اپنی کسی دوست کے ساتھ شاپنگ کرنے آئی ہوئی‬
‫ہوں۔ سمیرا کافی دیر خاموش رہی۔ میں سمجھ گئی کہ اب وہ جانا چاہتی ہے مگر اس‬
‫سے ہاں نہیں کہا جا رہا۔‬

‫یہ سب باتیں ہم نے ایک آئسکریم پارلر میں بیٹھ کر کی تھیں۔ میں نے سمیرا کو اس‬
‫الجھن میں دیکھا تو ویٹر کو بالیا‪ ،‬اسکو بل دیا اور سمیرا کو کہا کہ اچھا چلو مجھے‬
‫رضوان کی طرف تو چھوڑ دو اپنی گاڑی میں پھر تم اپنے گھر چلی جانا وہاں سے۔‬
‫میری بات سے جیسے سمیرا کو دھچکا لگا۔ کیونکہ وہ شاید اندر سے جانے پر راضی‬
‫ہوگئی تھی مگر اس سے پہلے کہ وہ ہاں کہتی میں نے اسکو کہ دیا کہ مجھے چھوڑ کر‬
‫وہ واپس چلی جائے۔ سمیرا مزید کچھ نہیں بولی اور کہا کہ اچھا چلو میں تمہیں چھوڑ‬
‫آتی ہوں۔ ہم دونوں نے اپنا اپنا سامان اٹھایا اور سمیرا کی گاڑی کی طرف چلے گئے۔‬
‫سمیرا بغیر ڈرائیور کے ہی خود ڈرائیو کر کے آئی تھی ۔ میں نے اسکو فلیٹ کا راستہ‬
‫بتایا جہاں رضوان موجود تھا۔ فلیٹ کے سامنے جا کر گاڑی رکی تو میں گاڑی سے اتر‬
‫آئی اور اپنا سامان گاڑی میں ہی پڑا رہنے دیا‪ ،‬سمیرا نے مجھے سی آف کرنے کا ارادہ‬
‫کیا تو میں نے اسکو پھر سے کہ دیا کہ اب ادھر تک آگئی ہو تو کم سے کم پانی تو پیتی‬
‫جاو۔ اچھا نہیں لگتا کہ تم مجھے چھوڑنے آو اور چائے پانی کے بغیر واپس چلی جاو۔‬

‫سمیرا نے کہا نہیں ایسی کوئی بات نہیں تم جاو رضوان انتظار میں ہوگا۔ میں نے پھر‬
‫کہا سمیرا کو کے ارے بابا تمہیں کوئی مجبور نہیں کرے گا کہ رضوان کو اپنی چوت دو‪،‬‬
‫بس اندر آ کر پانی پی لو پھر چلی جانا۔ کوئی تمہاری عزت نہیں لوٹنے لگا ادھر۔ میں‬
‫نے یہ بات ہنستے ہوئے کہی تو سمیرا بھی ہنس پڑی اور بولی کہ اچھا چلو تم کہتی تو‬
‫آجاتی ہوں اندر مگر میں فورا واپس جاوں گی۔ میں نے کہا کہ ہاں چلی جانا۔‬

‫میں نے فلیٹ کے دروازے کے باہر لگی بیل بجائی تو رضوان پہلی ہی بیل پر باہر آگیا۔‬
‫اسنے میرے ساتھ سمیرا کو دیکھا تو ایک دم چونک گیا۔ اور اسکا منہ اتر گیا‪ ،‬کیونکہ‬
‫وہ شاید پوری تیاری میں تھا کہ میرے آتے ہی وہ مجھے پکڑ لے گا اور میرے اوپر‬
‫چڑھ جائے گا‪ ،‬مگر سمیرا کی موجودگی میں وہ ایسا نہیں کر سکتا تھا‪ ،‬اسے کیا معلوم‬
‫تھا کہ میں سمیرا کو اسی لیے الئی ہوں کہ وہ ہم دونوں کہ اوپر چڑھے۔ اس نے سمیرا‬
‫سے ہاتھ مالیا اور حال چال پوچھنے لگا۔ میں نے کہا اندر تو آنے دو ادھر ہی حال چال‬
‫پوچھنا ہے۔ یہ سن کر رضوان شرمندہ ہوا اور فورا ہمیں اندر آنے کا راستہ دیا۔‬

‫اندر جا کر رضوان نے ہمیں ایک کمرے میں بیٹھنے کو کہا۔ یہ اصل میں بیڈروم تھا‬
‫جسمیں صوفہ ٹی وی اور بیڈ سب کچھ پڑا تھا۔ مجھے بٹھا کر اس نے کھانے پینے کا‬
‫پوچھا تو میں نے کہا بس جوس پال دو۔ تو رضوان نے کہا تم ‪ 2‬منٹ بیٹھو میں ابھی‬
‫سامنے سے لے کر آیا۔ وہ باہر گیا تو سمیرا گھر کا جائزہ لینے لگی۔ ایک سائیڈ پر‬
‫اسکو ایک چھوٹی ڈبی نظر آئی تو اس نے اٹھا لی‪ ،‬اسکو گھما کر دیکھتی رہی اور پھر‬
‫اچانک حیران ہو کر اس نے مجھ سے پوچھا فائزہ یہ کنڈوم کی ڈبی ہے؟؟ میں نے ڈبی‬
‫دیکھ کر کہا کہ ہاں یہ کنڈوم ہیں۔ اس نے فورا ڈبی واپس رکھ دی جہاں سے اٹھائی تھی۔‬
‫مگر اب اسکے ذہن میں یہی بات چل رہی تھی کے اسکے جانے کے بعد میں رضوان‬
‫کے لن کا مزہ لوں گی اور وہ مجھے مکمل مطمئن کرے گا جب کہ حیدر مطمئن نہیں‬
‫کرسکا تھا۔‬

‫کچھ ہی دیر میں رضوان واپس آگیا تو اس نے ہم دونوں کو جوس پینے کو دیا اور ساتھ‬
‫کچھ بسکٹ بھی رکھ دیے۔ خود وہ ہمارے سامنے بیٹھ گیا۔ وہ تھوڑا جھجھک رہا تھا‬
‫سمیرا کے سامنے اور مجھ سے کھل کر بات نہیں کر رہا تھا۔ میں نے نوٹ کیا کہ سمیرا‬
‫کی نظریں رضوان کی پینٹ پر تھیں اور وہ وہاں لن ڈھونڈنے کی کوشش کر رہی تھی‬
‫مگر اسکو کچھ مل نہیں رہا تھا۔ کیونکہ رضوان تو اس وقت پریشان تھا کہ سمیرا کیوں‬
‫ساتھ آگئی تو ایسے میں اسکا لن کیسے کھڑا ہوتا۔ کچھ دیر ہم نے مزید باتیں کیں پھر‬
‫میں نے رضوان کو کہا کے وہ باہر سے کچھ کھانے کو بھی لے آئے۔ سمیرا نے منع کیا‬
‫تو میں نے کہا نہیں کھا پی کر ہی جانا ایسے بھوکی نہیں جا سکتی تم۔ رضوان مرجھایا‬
‫ہوا منہ لے کر کھانا لینے چال گیا کیونکہ وہ تو مجھے چودنے کا انتظار کر رہا تھا اور‬
‫ادھر میں اس سے اپنی خدمت کروانے میں مصروف تھی۔‬

‫مگر میں نے بھی رضوان کو جان بوجھ کر کھانے کے لیے بھیجا تھا۔ کیونکہ میں‬
‫جانتی تھی کہ سمیرا کو تھوڑا سا کہوں گی تو وہ راضی ہوجائے گی اور وہ رضوان کی‬
‫غیر موجودگی میں ہی کہا جا سکتا تھا رضوان باہر گیا تو میں نے سمیرا کا ہاتھ پکڑا‬
‫اور اسکا ہاتھ سہالتے ہوئے اسکی طرف پیار سے دیکھا اور کہا کہ تم بالکل بھی نہ‬
‫گھبراو۔ نہ تو رضوان تمہارے ساتھ زبردستی کرے گا‪ ،‬اور نہ میں اسے زبردستی کرنے‬
‫دوں گی۔ اور یہ بات کبھی بھی حیدر تک یا ہم تینوں کے عالوہ کسی اور تک نہیں‬
‫پہنچے گی۔ لہذا اگر تمہارا دل کر رہا ہے تو میرے ساتھ رکو‪ ،‬ہم دونوں مل کر آج‬
‫انجوائے کریں گی۔ جو مزہ کل نہیں مل سکا وہ مزہ آج ملے گا۔ اب سمیرا کے ہاتھ کانپ‬
‫رہے تھے‪ ،‬اسکے اندر سیکس کی خواہش تو جاگ گئی تھی مگر وہ بہت زیادہ کنفیوژ‬
‫تھی کہ کرے تو کیا کرے۔۔‬

‫باالآخر وہ بولی کہ اگر حیدر کو پتہ لگ گیا تو وہ مجھے زندہ نہیں چھوڑے گا‪ ،‬میں نے‬
‫کہا یا تو تم بتاو گی حیدر کو یا پھر میں۔ تم خود تو بتاو گی نہیں۔ اور اگر میں اسکو‬
‫بتاتی ہوں تو تم بھی تو رضوان کو میرے بارے میں بتا سکتی ہو کہ میں نے حیدر کو‬
‫اپنی چوت دی ہے۔ اس لیے ایسا خوف دل میں نہ الو۔ تم میری رازدار وہ میں تمہارا راز‬
‫رکھون گی۔ پھر وہ بولی اگر رضوان نے بتا دیا تو؟؟؟ تو میں نے کہا اول تو رضوان‬
‫حیدر کو جانتا نہیں۔ نہ کبھی مال ہے اس سے۔ اور اگر مل بھی لے تو وہ بھال کیوں‬
‫بتائے گا کہ میں نے تمہاری منگیتر کی لی ہے؟ یہ تو خود موت کی دعوت دینا ہے۔ اور‬
‫ویسے بھی جب اسکو ایک چوت ملے گی تو وہ تو خوشی سے مارے گا‪ ،‬اور اس راز‬
‫کو راز رکھے گا تاکہ دوبارہ بھی مل سکے۔‬

‫میری بات سن کر سمیرا خاموش ہوگئی تو میں نے فیصلہ کر لیا کہ اب تھوڑی سی‬
‫زبردستی کرنی پڑے گی‪ ،‬کیونکہ دل سے تو سمیرا مکمل طور پر راضی ہوچکی تھی‬
‫مگر اسکو ہاں کرنے میں مشکل ہو رہی تھی۔ آخر کار میں اپنی جگہ سے اٹھی اور‬
‫اسکی گود میں بیٹھ کر اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ سمیرا نے اپنی آنکھیں‬
‫بند کر لیں۔ اسکے ہونٹ مکمل گرم تھے۔ میں نے اسکو کسنگ کرنا شروع کی جس‬
‫سے وہ گرم ہوگئی تھی۔ کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد میں نے اپنی قمیص اتار دی تھی‬
‫اور میرے جسم پر برا اور شلوار ہی تھی اور میں سمیرا کی گود میں بیٹھی اسکے ہونٹ‬
‫چوسنے میں مصروف تھی۔ میں زیادہ سے زیادہ ٹائم ایسے ہی گزارنا چاہتی تھی تاکہ‬
‫رضوان آئے تو ہم دونوں کو کسنگ کرتا ہوا پائے۔ اور پھر سارا کام آگے خود سے خود‬
‫ہوتا چال جائے گا۔ ایسے ہی ہوا‪ ،‬رضوان کو گئے ‪ 15‬منٹ ہو چکے تھے اور میں‬
‫پچھلے ‪ 5‬منٹ سے سمیرا کی کسنگ کر رہی تھی۔‬

‫اتنے میں باہر سے قدموں کی آواز آئی تو میں نے کسنگ اور تیز کر دی‪ ،‬سمیرا نے‬
‫مجھے پیچھے کرنے کی کوشش کی مگر میں نہیں ہٹی میں نے اسکی زبان اپنے منہ‬
‫میں لیکر دبائی ہوئی تھی اور اسکو چوس رہی تھی۔ اتنے میں دروازہ کھال اور مجھے‬
‫رضوان کی آواز آئی۔۔۔۔۔۔۔ فائزہ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کیا؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟؟‬

‫میں نے مڑ کر رضوان کی طرف دیکھا تو اسکی آنکھوں میں حیرت ہی حیرت تھی۔ ایک‬
‫تو میں صرف برا میں تھی اور نیچے شلوار پہنی ہوئی تھی اور اوپر سے میں سمیرا کی‬
‫گود میں بیٹھی اسکو کسنگ کرنےمیں مصروف تھی۔ رضوان کو دیکھ کر میں نے‬
‫کسنگ تو روک دی مگر ویسے ہی بیٹھی رہی جب کہ سمیرا کا پورا جسم کاپننے لگ گیا‬
‫تھا‪ ،‬شاید شرمندگی اور سیکس کی خواہش کا مال جال تاثر تھا یہ۔۔۔ رضوان ایک بار پھر‬
‫بوال فائزہ یہ کیا حرکت ہے؟؟؟ تو میں نے رضوان کو اپنے پاس آنے کا اشارہ کیا۔۔ وہ‬
‫کبھی سمیرا کو دیکھ رہا تھا تو کبھی مجھے مگر سمیرا کی نظریں اوپر اٹھنے کا نام‬
‫نہیں لے رہی تھیں۔ رضوان میرے قریب آیا تو میں نے اسکو کہا بیٹھنے کو کہا‪ ،‬اب‬
‫اسکی حیرانگی کچھ کم ہوچکی تھی اور وہ کچھ کچھ سمجھ چکا تھا کہ آج اسکو ایک‬
‫نئی چوت ملنے والی ہے۔ مگر وہ کھل کر ابھی اسکا اظہار نہیں کر رہا تھا کیونکہ اسکو‬
‫یقین نہیں تھا اس بات کا۔ رضوان صوفے پر میرے بالکل ساتھ بیٹھ گیا جہاں سمیرا بھی‬
‫سرکنے کی کوشش کی مگر میں نے اسکو وہیں بیٹھے‬ ‫بیٹھی ہوئی تھی‪ ،‬سمیرا نے ِ‬
‫رہنے پر مجبور کیا اور ہلنے نہیں دیا۔ میں سمیرا کی گود میں بیٹھی بیٹھی رضوان کی‬
‫طرف جھکی اور اپنے ہونٹ اسکے ہونٹوں پر رکھ کر چوسنا شروع کر دیے اسنے بھی‬
‫فورا اپنا ہاتھ بڑھا کر میری کمر پر رکھا اور ہاتھ پھیرنا شروع کر دیا اور وہ بھی میرے‬
‫ہونٹ چوس رہا تھا۔‬

‫پھر میں نے رضوان کے ہونٹوں سے اپنے ہونٹ علیحدہ کیے اور دوبارہ سے سمیرا کا‬
‫چہرہ اوپر اٹھایا۔ سمیرا نے چہرا اوپر کیا تو اسکی آنکھوں میں آنسو تھے۔ میں نے‬
‫پہلے اسکے ہونٹوں پر ہونٹ رکھ کر اسکو کس کی۔ اور پھر اسکو کہا کہ سمیرا پریشان‬
‫ہونے کی بالکل بھی ضرورت نہیں۔ نہ میں کسی کو بتاوں گی اور نہ رضوان کسی کو‬
‫بتائے گا۔ میری یہ بات رضوان نے سنی تو اسکو سو فیصد یقین ہوگیا کہ سمیرا کا یہاں‬
‫آنے کا مقصد کیا ہے۔ میری بات سن کر اس نے بھی ہلکی اور پیار بھری آواز میں کہا‬
‫کہ سمیرا آپ بالکل فکر نہ کریں آپکو کوئی نقصان نہیں ہوگا اور یہ راز کبھی کسی اور‬
‫کو پتا نہیں چلے گا۔ یہ کہ کر رضوان نے سمیرا کے کندھے پر اپنا ہاتھ رکھا تو سمیرا‬
‫کا جسم ایک بار پھر کانپنے لگا۔ اب کی بار میں سمیرا کی گود سے نیچے ہوگئی تو میں‬
‫نے حیدر کو اشارہ کیا کہ وہ سمیرا کے قریب ہو اور اسکو تیار کرے۔ میں پیچھے ہٹی‬
‫تو سمیرا اپنی جگہ پر ساکت بیٹھی تھی۔ رضوان اسکے قریب ہوا اور اسکی ران پر ہاتھ‬
‫رکھ کر ہلکا سا دبایا اور بوال کہ اگر آپ کا دل مطمئن نہیں تو آپ بال جھجک واپس جا‬
‫سکتی ہیں میں ہرگز کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی کرنے کا قائل نہیں۔ اور نہ ہی مجھے‬
‫آپکے یہاں آنے کا علم تھا۔ لیکن اگر آپ مجھے اجازت دیں تو میں آپکے جسم کی‬
‫ضرورت پوری کرکے خوشی محسوس کروں گا اور آپکا یہ راز ہمیشہ راز ہی رہے گا۔‬
‫یہ بات سن کر بھی سمیرا بت بنی بیٹھی رہی اور اسکا جسم کانپ رہا تھا۔‬

‫یہ دیکھ کر میں اٹھی اور بولی کہ میں کھانا کچن میں رکھ کر آئی۔ یہ کہ کر میں نے‬
‫کھانے والے شاپر اٹھائے اور کچن میں چلی گئی۔ کچن کی کھڑکی سے مجھے رضوان‬
‫اور سمیرا صوفے پر بیٹھے واضح نظر آرہے تھے‪ ،‬رضوان ابھی بھی سمیرا کی ران پر‬
‫ہاتھ رک کر بیٹھا تھا اور سمیرا بت بنی بیٹھی تھی۔ کچھ دیر کی خاموشی کے بعد‬
‫رضوان نے آگے بڑھ کر اپنے ہونٹ سمیرا کے ہونٹوں پر رکھ کر ایک کس کی اور‬
‫پیچھے ہوگیا۔ تب بھی سمیرا نے کوئی رسپان نہیں دیا۔ رضوان نے اس سے پھر پوچھا‬
‫کہ اگر آپ سیکس کرنا چاہتی ہیں تو مجھے بتائیں؟؟ مگر سمیرا کچھ نہ بولی‪،‬البتہ اسکا‬
‫سانس تیز تیز چل رہا تھا اور اسکے سینے کے ابھار تیز سانس کی وجہ سے اوپر‬
‫نیچے ہوتے نظر آرہے تھے۔ کچھ دیر جواب کا انتظار کرنے کے بعد رضوان صوفے‬
‫سے اٹھنے لگا کہ آپ دل سے راضی نہیں لہذا میں آپکو مجبور نہیں کروں گا یہ کہ کر‬
‫وہ صوفے سے اٹھا تو اور بیڈ کی طرف جانے لگا تو سمیرا نے اسکا ہاتھ پکڑ لیا۔‬
‫حیدر نے پھر مڑ کر دیکھا سمیرا کی طرف تو سمیرا نے آنکھیں بند کر لیں اور اپنے‬
‫دونوں ہاتھ آگے پھیال لیے۔‬

‫یہ دیکھ کر رضوان نے آگے بڑھ کر اپنے آپ کو سمیرا کے سینے سے لگایا اور ہولے‬
‫سے اسکو کس کی‪ ،‬مگر اب کی بار سمیرا کی ساری برداشت جواب دے چکی تھی‪ ،‬اس‬
‫نے بہت شدت کے ساتھ رضوان کو اپنے سینے سے لگا لیا اور دیوانہ وار اسکی ایک‬
‫کس کے بعد رضوان کے ہونٹوں پر حملہ کر دیا۔ رضوان نے سمیرا کی کمر میں دونوں‬
‫ہاتھ ڈالے اور اسکو صوفے سے اوپر اٹھا کر اپنی گود میں اٹھا لیا۔ سمیرا نے فورا اپنی‬
‫دونوں ٹانگیں رضوان کی کمر کے گرد لپیٹ دیں اور اسکے ہونٹوں پر جھک کر مسلسل‬
‫اسکے ہونٹ چوسنا جاری رکھے۔ یہ دیکھ کر میں کچن سے واپس آگئی‪ ،‬میں خوش‬
‫تھی کہ سمیرا نے اپنی جھجک پر قابو پا لیا تھا اب وہ بھی اپنی پیاس بجھا سکے گی‬
‫اور ساتھ میں میرا بدلہ بھی پورا ہوسکے گا۔‬

‫میں ان دونوں کے پاس گئی اور دونوں کو جپھی ڈال لی‪ ،‬سمیرا نے مجھے دیکھا تو‬
‫رضوان کے ہونٹ چھوڑ کر ایک بار اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ کر مجھے کس‬
‫کیا‪ ،‬اسکے چہرے پر خوشی تھی اور پھر رضوان نے بھی مجھے کس کی‪ ،‬پھر دوبارہ‬
‫سے وہ دونوں آپس میں شروع ہوگئے۔ کچھ دیر اسی حالت میں کسنگ کرنے کے بعد‬
‫رضوان نے سمیرا کو نیچے اتارا تو میں نے سمیرا کو پکڑ لیا اور اسکی قمیص اتار‬
‫دی۔ اور اس سے لپٹ کر اس کو پھر سے کسنگ کرنے لگی۔ رضوان کی نظر سمیرا کے‬
‫مموں پر تھی وہ سمیرا کے پیچھے سے آکر اسکو کمر پر پیار کرنے لگا تو سمیرا نے‬
‫ایک ہاتھ پیچھے لے جا کر رضوان کے بالوں پر پھیرنا شروع کر دیا۔ رضوان اپنے ہاتھ‬
‫سمیرا کی کمر پر پھیرتا ہوا ہاتھوں کو آگے الیا اور سمیرا کے مموں پر رکھ دیے۔ میں‬
‫نے سمیرا کے ہونٹوں کو چھوڑا اور پیچھے ہوگئی تو سمیرا فورا اپنا منہ رضوان کی‬
‫طرف کر کے اسے کسنگ کرنے لگی۔‬

‫میں ان دونوں کو پورا ٹائم دینا چاہتی تھی تاکہ سمیرا کو زیادہ سے زیادہ مزہ مل سکے۔‬
‫وہ دونوں اب پھر کسنگ میں مصروف تھے اور میں اب سمیرا کی کمر پر پیار کرتے‬
‫ہوئے اسکی برا کی ہکس کھول رہی تھی۔ برا کی ہک کھول کر میں نے سمیرا کے مموں‬
‫کو برا کی قید سے آزاد کر دیا۔ جیسے ہی سمیرا کے ممے آزاد ہوئے تو رضوان سمیرا‬
‫کے ہونٹوں کو چھوڑ کر سمیرا کے مموں پر کسی شکاری کی طرح جھپٹ پڑا‪ ،‬رضوان‬
‫ویسے ہی مموں کا دیوانہ تھا‪ ،‬اور سمیرا کے ممے بھی میرے سے بڑے تھے۔ میں نے‬
‫رضوان کو کہا کہ بیڈ پر چل کر لیٹتے ہیں تو رضوان نے سمیرا کے مموں کو چھوڑے‬
‫بغیر ایسے ہی دھکیلتا ہوا بیڈ تک لے گیا اور بیڈ پر لٹا کر مموں سے ایسے چمٹا رہا‬
‫جیسے اسے ایلفی لگ گئی ہو۔ اب سمیرا بیڈ پر نیچے لیٹی تھی تو رضوان اسکے مموں‬
‫کو دبانے اور چوسنے میں مصروف تھا۔ میں نے اپنا برا خود ہی اتارا اور اپنی شلوار‬
‫بھی اتار دی۔ پھر میں نے سمیرا کی بھی شلوار اتاردی۔ اب رضوان سمیرا کے مموں کو‬
‫چوس رہا تھا اور میں سمیرا کی چوت پر زبان پھیرنے میں مصروف تھی۔ سمیرا کی‬
‫چوت اس وقت مکمل گیلی ہوچکی تھی۔ کچھ دیر اسکی چوت چاٹنے کے بعد سمیرا کی‬
‫چوت نے پانی چھوڑ دیا۔‬

‫سمیرا تو جیسے مزے کی وادیوں میں کھو چکی تھی۔ رضوان کے جسم کی گرمی اسکو‬
‫پاگل کیے دے رہی تھی۔ اب کی بار میں نے رضوان کے کپڑے اتارنا شروع کیے تو‬
‫رضوان نے سمیرا کے مموں کی جان چھوڑی جنہیں چوس چوس کر وہ الل کر چکا تھا۔‬
‫میں نے رضوان کی پینٹ اتاری تو سمیرا بھی فورا اٹھ کر بیٹھ گئی کیونکہ وہ بھی‬
‫دیکھنا چاہتی تھی کہ آخر میں نے جو دعوی کیا تھا کہ رضوان کا لن بڑا ہے وہ واقعی‬
‫بڑا ہے بھی صحیح یا نہیں؟؟؟ پینٹ اتارتے ہی رضوان کا ‪ 7‬انچ کا لمبا اور موٹا لن‬
‫ایسے باہر نکال جیسے برسوں سے کسی قید میں رہ رہا ہو اور آج آزادی ملی ہو۔‬
‫رضوان کا لن اکڑ کر کھڑا ہوگیا تھا اور اسکی ٹوپی اوپر چھت کی طرف اشارہ کر رہی‬
‫تھی۔‬

‫سمیرا کی آنکھیں بھی کھلی کی کھلی رہ گئی تھیں رضوان کا لن دیکھ کر۔ میں نے‬
‫سمیرا کو دعوت دی کہ رضوان کا لن منہ میں لیکر چوسے تو اس نے انکار کر دیا‪ ،‬بس‬
‫اسنے ڈر اور خوشی کے ملے جلے تاثرات کے ساتھ رضوان کے لن کو اپنے ہاتھ میں‬
‫پکڑا اور اسکو لمبائی اور موٹائی کا اندازہ کرنے لگی۔ اسکی آنکھوں میں اس وقت‬
‫خوشی تھی۔ وہ پیار سے اپنا ہاتھ رضوان کے لن پر پھیر رہی تھی۔ رضوان نے اسے‬
‫سے پوچھا کہ پہلے کوئی لن چوسا ہے؟؟؟ تو سمیرا نے انکار میں سر ہال دیا‪ ،‬رضوان‬
‫نے اسکا مطلب یہ لیا کہ شاید سمیرا کنواری ہے۔ ویسے ایک طرح سے کنواری ہی تھی‬
‫کیونکہ ایک دن پہلے ہی تو اسکی چوت کا پردہ پھٹا تھا۔‬
‫سمیرا کے انکار پر میں نے رضوان کو لیٹنے کو کہا اور خود اسکے لن کو منہ میں‬
‫لیکر چوسنے لگی اور سمیرا کو کہا کہ وہ میری چوت کو چاٹے‪ ،‬سمیرا نے فورا ہی‬
‫میری چوت کو چاٹنا شروع کر دیا اور کچھ ہی دیر میں مجھے بھی فارغ کروادیا۔ اتنی‬
‫دیر میں رضوان کے لن کے میں نے خوب چوپے لگائے تھے اور اسکو مکمل گیال کر‬
‫دیا تھا۔‬

‫اب میں نےایک بار پھر سمیرا کو رضوان کے آگے کیا تو دونوں نے پھر کسنگ شروع‬
‫کر دی‪ ،‬مگر اس بار سمیرا کا ایک ہاتھ رضوان کے لن کو سہال رہا تھا‪ ،‬کچھ دیر بعد‬
‫رضوان نے کسنگ چھوڑ کے سمیرا کو نیچے لٹایا اور اسکی ٹانگیں کھول کر اپنی زبان‬
‫سمیرا کی بالوں سے پاک چوت پر رکھ دی اور اسکو چاٹنے لگا۔ سمیرا بری طرح تڑپنا‬
‫شروع ہوگئی تھی۔ کچھ دیر چوت چاٹنے کے بعد میں نے رضوان کو کنڈوم چڑھانے کو‬
‫کہا اور اشارہ کیا کہ ڈال دو اب اسکی چوت فل گرم ہے۔ رضوان نے کنڈوم چڑھایا اور‬
‫میرے سے ہلکی آواز میں پوچھا کہ کنواری ہے ؟؟؟ میں نے اسکے کان میں بتایا کہ‬
‫کنواری تو نہیں مگر صرف ایک بار سیکس کیا ہے تو آرام سے ہی کرنا شروع میں۔‬
‫رضوان نے سمیرا کی چوت پر لن رکھ کر ہلکا سا دھکا مارا تو رضوان کے لن کی ٹوپی‬
‫اور لن کا کچھ حصہ سمیرا کی پھدی میں داخل ہوگیا۔ سمیرا کی ایک زوردار چیخ نکلی‬
‫کیونکہ رضوان کا لن حیدر کے لن سے موٹا تھا اور یہ فرق سمیرا کی چوت نے محض‬
‫ٹوپی کی موٹائی سے ہی محسوس کر لیا تھا۔ میں نے آگے بڑھ کر سمیرا کے ہونٹوں پر‬
‫اپنے ہونٹ رکھ دیے اور رضوان کو ایک دھکا مارنے کو کہا رضوان نے دھکا مارا اور‬
‫آدھے سے زیادہ لن سمیرا کی چوت میں تھا۔ سمیرا کی اب چیخیں نکل رہی تھی اور وہ‬
‫اپنی ٹانگوں کو چھڑوانے کی پوری کوشش کر رہی تھی۔ مگر وہ مرد ہی کیا جو ایک‬
‫گیلی چوت کو اپنے لن سے علیحدہ ہونے دے۔‬

‫رضوان نے سمیرا کو مضبوطے سے پکڑا ہوا تھا‪ ،‬کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد‬
‫رضوان نے ایک اور زور دار دھکا مارا تو رضوان کا ‪ 7‬انچ کا لن سمیرا کی چوت کی‬
‫دیواروں کو سائیڈ پر دھکیل کر اپنی جگہ بناتا ہوا سمیرا کی پھدی کی گہرائیوں تک اتر‬
‫گیا۔ اب رضوان سمیرا کے اوپر ساکت ہو کر لیٹ گیا تھا۔ وہ اپنے لن کو حرکت نہیں دے‬
‫رہا تھا اور اپنے ہونٹوں سے سمیرا کے ہونٹ چوس کر اسکی پھدی کو گیلی کرنے کی‬
‫کوشش کر رہا تھا‪ ،‬پھر ہونٹوں سے ہوکر وہ سمیرا کے مموں پر آگیا اور انکو چوسنے‬
‫لگا مگر لن پھدی میں ساکت تھا۔ کچھ دیر بعد جب سمیرا کی درد کم ہوئی تو رضوان نے‬
‫آہستہ آہستہ لن کو پھدی میں رواں کرنا شروع کیا۔ جیسے جیسے رضوان اپنے لن کو‬
‫سمیرا کی چوت میں حرکت دے رہا تھا‪ ،‬سمیرا کی چوت پانی گیلی ہونا شروع ہو رہی‬
‫تھی۔ چوت کی چکناہٹ لن پر لگنے سے لن روانی کے ساتھ جانا شروع ہوا تو سمیرا‬
‫کی سسکیاں شروع ہوگئیں۔ چیخوں کی جگہ سسکیاں لینے کا مطلب تھا کہ اب سمیرا کو‬
‫مزہ آرہا ہے رضوان کے لن کا تو رضوان نے بھی اپنی سپیڈ بڑھا دی۔‬

‫سمیرا کی دونوں ٹانگیں سائیڈ پر پھیلی ہوئی تھیں اور اسکی چوت میں لن کا آنا جانا‬
‫پچھلے ‪ 5‬منٹ سے جاری تھا۔ اب کی بار رضوان نے سمیرا کی ٹانگیں اٹھائیں اور‬
‫انکو فولدڈ کر کے سمیرا کے سینے پر لگا دیا جس سے سمیرا کی گانڈ اوپر ہوگئی اور‬
‫چوت کا سوراخ بھی اونچا ہوگیا‪ ،‬اس پوزیشن میں لن چوت کی گہرائی تک چوٹ لگا رہا‬
‫تھا اور رضوان کے ٹٹے سمیرا کی گانڈ سے ٹکرا رہے تھے۔ کچھ ہی دھکے لگے‬
‫ہونگے کہ سمیرا کی پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔ سمیرا کے جسم نے جھٹکے لیے اور‬
‫کچھ دیر میں ریلیکس ہوگئی‪ ،‬اس دوران رضوان نے لن کو روکا نہیں بلکہ مسلسل‬
‫سمیرا کی چودائی کرتا رہا۔ جب سمیرا کا جسم مکمل پانی چھوڑ چکا تو حیدر نے سمیرا‬
‫کو چھوڑا اور مجھے لیٹنے کو کہا مگر میں نے رضوان کو کہا ایک بار اور سمیرا کا‬
‫پانی نکلوا دو پھر میں آوں گی۔‬

‫میری بات سن کر رضوان نے سمیرا کی ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ لیں اور‬
‫سمیرا کی چوت کی گہرائیوں میں اپنا لن ایک بار پھر اتار دیا۔ سمیرا کی چوت فورا ہی‬
‫گرم ہوگئی تھی اور اب کی بار سمیرا پورے مزے کے ساتھ چودائی میں رضوان کا ساتھ‬
‫دے رہی تھی۔ رضوان نے اپنے ہاتھوں سے سمیرا کے ممے پکڑے ہوئے تھے اور‬
‫انکو دبا رہا تھا۔ کچھ دیر ایسے ہی چودائی کرنے کے بعد سمیرا کو کروٹ لینے کو کہا‬
‫اور اسکی ٹانگیں نیچے کر دیں۔ سمیرا کروٹ لیکر لیٹ گئی تو رضوان اسکے پیچھے‬
‫کمر کی طرف کروٹ لیکر لیٹا اور تھوڑا سا نیچے ہوکر لن اسکی چوت میں داخل کر دیا۔‬
‫اب کی بار رضوان اپنی گانڈ ہال ہال کر دھکے مار رہا تھا کیونکہ ایسی حالت میں صرف‬
‫مرد اپنی گانڈ ہال کر ہی چدائی کر سکتا ہے اور یہ دھکے زیادہ جاندار نہیں ہوتے۔ مگر‬
‫سمیرا کو پہلے سے زیادہ مزہ آنے لگا تھا کیونکہ ایک تو نئی پوزیشن تھی اور پھر‬
‫دونوں ٹانگیں آپس میں جڑی ہونے کی وجہ سے پھدی ٹائٹ ہوگئی تھی اور لن کی رگڑ‬
‫زیادہ مزہ دے رہی تھی۔ اس پوزیشن ِمں ‪ 3‬منٹ چودائی کرنے کے بعد رضوان نے‬
‫نیچے لیٹ کر سمیرا کو اوپر آنے کو کہا۔‬
‫سمیرا رضوان کے سینے پر ہاتھ رکھ کر لن کے اوپر بیٹھ گئی اور آہستہ آہستہ لن اندر‬
‫کرنے لگی۔ پورا لن اندر گیا تو سمیرا کے چہرے پر تکلیف کے آثار تھے‪ ،‬کیونکہ اس‬
‫پوزیشن میں عورت کا اپنا وزن لن کے اوپر ہوتا ہے اور لن آخرے حصے تک پھدی‬
‫میں داخل ہوجاتا ہے۔ جب پورا لن سمیرا کی چوت میں گیا تو سمیرا نے آہستہ آہستہ‬
‫اچھلنا شروع کیا‪ ،‬تھوڑی ہی دیر میں سمیرا کا اچھلنا تیز ہوا تو اسکو مزہ آنے لگا‪،‬‬
‫مگر ایسی پوزیشن میں عورت زیادہ دیر نہیں اچھل سکتی سمیرا بھی فورا ہی تھک گئی‬
‫تو رضوان نے سمیرا کو اپنے اوپر لٹا لیا اور اپنے دونوں ہاتھ سے سمیرا کو گانڈ سے‬
‫پکڑ کر اوپر اٹھایا اور نیچے سے اپنے لن کی مشین چال دی۔ اس پوزیشن میں مرد بہت‬
‫سپیڈ کے ساتھ مشین چال سکتا ہے اور رضوان کی مشین بھی اس وقت پوری سپیڈ کے‬
‫ساتھ چل رہی تھی جسکو سمیرا کی چوت مزے کے ساتھ سسکیاں لے لے کر برداشت‬
‫کر رہی تھی۔‬

‫اب سمیرا اپنی چودائی کو مکمل انجوائے کر رہی تھی‪ ،‬شروع میں اسے درد تھی مگر‬
‫اب وہ روانی کے ساتھ بغیر تکلیف کے لن لے رہی تھی۔ اُف۔ ۔ ۔ آہ۔۔ ۔ آہ۔ ۔ آہ۔ ۔ ام‪ ،‬ام ‪،‬‬
‫ام ‪ ،‬ام ۔۔۔ آہ آہ آہ ۔۔۔ فک می بے بی‪ ،‬فک می ہارڈ‪ ،‬فک می ہارڈ۔۔۔ ہارڈر‪ ،‬ہارڈر۔۔۔ سمیرا‬
‫مسلسل سسکیاں لے رہی تھی اور بار بار رضوان کو فک می فک می کہ کر اسکے‬
‫جوش میں بھی اضافہ کر رہی تھی۔ رضوان نے سمیرا کو اپنے اوپر مکمل لٹا لیا اور‬
‫کمر کے گرد اپنے بازوں کی گرفت مضبوط کر کے سمیرا کی چود کی کھدائی تیز کر دی‪،‬‬
‫سمیرا اب دوبارہ پانی چھوڑنے والی تھی تو اسنے ایک بار پھر بھرپور سسکیاں لینے‬
‫شروع کردیں۔۔۔ آہ آہ آہ‪ ،،،،‬فک می بے بی‪ ،‬فک می ہارڈ‪ ،‬آہ آہ آہ۔۔۔۔ ڈانٹ سٹاپ‪ ،‬ڈانٹ‬
‫سٹاپ بے بی‪ ،‬ہارڈر‪ ،‬مور ہارڈر۔۔۔۔۔ آئی ایم کمنگ‪ ،‬کمنگ۔۔۔۔۔۔ آہ آہ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور‬
‫یوں سمیرا کی چوت نے دوسری بار پانی چھوڑ دیا۔‬

‫سمیرا کی گانڈ نے کچھ جھٹکے کھائے اور اسکے بعد سمیرا رضوان کے اوپر ساکت‬
‫لیٹ گئی۔ سمیرا تھک چکی تھی وہ مسلسل ‪ 20‬منٹ سے رضوان کے لن کو اپنی چوت‬
‫کی وادیوں کی سیر کروا رہی تھی۔ جب سمیرا کو کچھ سکون ہوا تو وہ اوپر اٹھی اور‬
‫پیار سے رضوان کو چومنے لگ گئی اور بولی تمہارے لن میں جادو ہے۔ آئی لو یو‪،‬‬
‫بہت مزہ آیا تم سے چدوا کر۔ یہ کہ کر وہ رضوان کے لن سے اٹھ گئی اور مجھے جگہ‬
‫دی۔ میں نے پہلے رضوان کو کہا کہ میری چوت کہ چاٹ کر گرم کرے تو رضوان نے نہ‬
‫صرف میری چوت چاٹی بلکہ انگلی ڈال کر میری چوت کو گیال کرنے میں بھی مدد کی۔‬
‫پھر رضوان میری چوت میں لن ڈالنے لگا تو میں نے اسے منع کر دیا اور کہا مجھے‬
‫اپنی گود میں بٹھا کر چودے۔ رضوان بیڈ پر ہی گھٹنے موڑ کر بیٹھ گیا تو میں اسکی‬
‫گود میں بیٹھی اور اپنی ٹانگیں پھیال کر رضوان کے پیچھے لے گئی‪ ،‬میری چوت‬
‫رضوان کے لن کے بالکل سامنے تھی‪ ،‬رجوان نے چوت پر لن رکھا اور ایک ہی دھکے‬
‫میں سارا لن اندر ڈال کر بغیر رکے میری چدائی شروع کر دی۔ رضوان فل سپیڈ کے‬
‫ساتھ دھکے لگا رہاتھا۔ میں بھی اپنی گانڈ ہال ہال کر مکمل ساتھ دے رہی تھی رضوان‬
‫کا۔‬

‫منٹ ایسی ہی چودائی کے بعد رضوان نے بوال کہ وہ مجھے گھوڑی بنا کر چودنا ‪5‬‬
‫چاہتا ہے تو میں فوران ڈوگی سٹائل میں گھٹنوں اور ہاتھوں کے سہارے بیٹھ گئی اور‬
‫اپنی گانڈ رضوان کے لن کے سامنے کر دی‪ ،‬رضوان نے لن کو میری چوت پر سیٹ کیا‬
‫اور اپنے ہاتھ میری چوتڑوں پر رکھ دیے اور اس بار بھی ایک ہی دھکے میں اسکے‬
‫لن نے میری چوت کی دیواروں کو ہٹا کر اپنا راستہ بنا لیا اور بغیر رکے گھسے مارنا‬
‫شروع کر دیے‪ ،‬میری چوت اندر سے بہت گیلی تھی جسکی وجہ سے لن بہت تیزی کے‬
‫ساتھ میری چوت میں جاتا اور ایسے ہی تیزی سے باہر آتا۔ کچھ دیر بعد رضوان نے‬
‫مجھے مموں کی مدد سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا تو میری کمر دہری ہوگئی اور اب‬
‫میرے صرف گھٹنے بیڈ پر تھے ہاتھ میں اوپر اٹھا چکی تھی کیونکہ رضوان نے مجھے‬
‫اپنی طرف کھیچ لیا تھا۔ اب میں منہ پیچھے کر کے رضوان کو کس کر رہی تھی اور‬
‫میری سسکیاں رضوان کے منہ میں ہی دفن ہو رہی تھی۔‬

‫کچھ دیر بعد مجھے اپنے جسمی میں سوئیاں چبھتی محسوس ہوئیں تو میں نے رضوان‬
‫کو کہا کہ میں چھوٹنے والی ہوں تو رضوان بوال وہ بھی قریب ہے‪ ،‬رضوان کے دھکے‬
‫اب پوری طاقت سے لگ رہے تھے کہ میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا اور ساتھ ہی‬
‫رضوان نے بھی رک رک کر جاندار دھکے لگائے۔ اسکا لن بھی پانی چھوڑ چکا تھا۔‬

‫کچھ دیر تک ہم تینوں ننگے ایکدوسرے کے ساتھ لیٹے رہے۔ پھر میں نے رضوان کو‬
‫کہا کہ اب وہ ہمارے لیے کھانا بھی گرم کر کے الئے۔ چدائی کے بعد بہت زور سے‬
‫بھوک لگی تھی۔ سمیرا نے بھی کہا کہ اسکو بھوک لگی ہے۔ رضوان کچن میں جا کر‬
‫مائیکرو ویو میں کھانا گرم کر الیا۔ ہم نے ہاتھ دھونے کے بعد کپڑے پہنے اور کھانا‬
‫کھانے لگے۔ جب رضوان کھانا گرم رہا تھا تو میں نے سمیرا سے پوچھا مزہ آیا؟؟؟ تو‬
‫سمیرا بولی کہ اس نے تو پہلی ہی باری ِمں میری چوت کا برا حال کر دیا تھا۔ دوسری‬
‫بار کی چدائی میں تو میری چوت اسکے لن کا پورا ساتھ دے رہی تھی اور دل کر رہا تھا‬
‫اور زور سے چدائی ہو۔ سمیرا خوش تھی کہ اسکی چوت کو مکل سکون مل گیا ہے۔ ہم‬
‫نے مل کر کھانا کھایا۔ ‪ 5‬بج چکے تھے تو سمیرا نے کہا اب چلیں؟؟؟‬

‫رضوان نے آگے بڑھ کر سمیرا کو کس کی اور اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے لن پر رکھ دیا‬
‫اور کہا یہ دیکھو یہ ابھی بھی تمہاری چوت میں جانا چاہتا ہے۔۔ یہ کہ کر رضوان نے‬
‫اپنا انڈر وئیر اتار دیا اور سمیرا کو کہا کہ لن منہ میں لیکر چوسے۔ اس بار سمیرا نے‬
‫انکار نہیں کیا اور بہت پیار سے رضوان کے لن کا چوپا لگانے لگی۔ کچھ دیر بعد سمیرا‬
‫کے کپڑے اتر چکے تھے اور رضوان دوبارہ سے کنڈوم چڑھا چکا تھا۔ سمیرا کی‬
‫ٹانگیں ہوا میں لہرا رہی تھیں اور سمیرا کی چوت سے پچک پچک کی آوازیں آرہی‬
‫تھیں۔ سمیرا کی چوت رضوان کے طوفانی دھکوں کے سامنے ایک بار پھر پانی چھوڑ‬
‫چکی تھی اسی پانی کی وجہ سے رضوان کا لن چوت میں جاتا تہ پچک پچک کی آواز‬
‫آتی۔‬

‫پھر رضوان نے سمیرا کو الٹا لیٹنے کو کہا۔ سمیرا الٹا لیٹ گئی سینے کے بل تو رضوان‬
‫نے ہاتھوں سے سمیرا کے چوتڑ سائیڈ پر کیے اور لن کی ٹوپی سمیرا کی چوت پر رکھ‬
‫دی اور ایک ہی دھکے میں پورا لن اندر گھسا دیا۔ اور دھکے لگانا شروع کیے۔ اس‬
‫پوزیشن میں سمیرا کی چیخیں نکل رہی تھی کیونکہ چوت بہت ٹائٹ تھی اور رضوان کا‬
‫موٹا لن سمیرا کی چوت کی دیواروں کو چھیل رہا تھا۔ کچھ دیر بعد سمیرا کی حالت بری‬
‫ہوگئی تو اس نے ایسے چدائی کروانے سے انکار کر دیا‪ ،‬اب رجوان نے سمیرا کو‬
‫ڈوگی سٹائل بنانے کو کہا تو سمیرا کی پیچھے سے چدائی شروع ہوگئی۔ سمیرا کی چوت‬
‫ایک بار پھر رضوان کے لن کا بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔‬

‫سمیرا گھوڑی بنی رضوان کے لن کو اپنی چوت کی سیر کروا رہی تھی تو سمیرا کے‬
‫‪ 36‬سائز کے ممے ہوا میں لہرانے لگے ہوئے تھے جنہیں رضوان کبھی پکڑ کر دبا‬
‫دیتا تو کبھی ایسی ہی ہوا میں لٹکتا چھوڑ دیتا‪ ،‬سمیرا کی چخیں اور فک می ہارڈ کی‬
‫آوازیں دوبارہ آنا شروع ہوئیں تو رضوان سمجھ گیا کہ سمیرا فارغ ہونے والی ہے۔‬
‫رضوان نے دھکے بڑھا دیے اور کچھ ہی دھکوں بعد سمیرا کی چوت کا پانی بیڈ شیٹ‬
‫کو گیال کر رہا تھا۔ پانی چھوڑتے ہی سمیرا بے جان ہوکر بیڈ پر ڈھے گئی تھی۔‬

‫سمیرا کے گرتے ہی رضوان نے مجھے پکڑ لیا اور بغیر میری پھدی کو گیال کیے اپنا‬
‫لن فورا ہی میری خشک پھدی میں ڈال دیا جس سے مجھے بہت تکلیف ہوئی۔ مگر‬
‫تھوڑی دیر بعد پھدی گیلی ہوئی تو مزہ بھی آنے لگا۔ اب میں نے رضوان کو کہا کہ اپنا‬
‫کنڈوم اتار دے اور میری بغیر کنڈوم کے چدائی کرے۔ رضوان نے فورا کنڈوم اتار دیا‬
‫جیسے وہ بھی تنگ ہو کنڈوم سے۔ اب اسکا گیال لن میری چوت میں گیا تو اسکا مزہ ہی‬
‫کچھ اور تھا‪ ،‬رضوان نے مجھے بھی الٹا سینے کے بل لیٹنے کو کہا اور چوتڑ کھول کر‬
‫چوت میں لن گھسا دیا۔ اس پوزیشن میں چوت واقعی بہت ٹائٹ ہوجاتی ہے۔‬

‫اس پوزیشن میں ‪ 5‬منٹ کی چودائی نے ہی میری چوت کو مات دے دی اور چوت پانی‬
‫پانی ہوگئی۔ مگر رضوان کا لن آج کچھ زیادہ ہی موڈ میں تھا وہ ابھی تک فارغ نہیں ہوا‬
‫تھا۔ اب رضوان نے میرے سے گانڈ کی فرمائش کر دی۔ پہلے تو میں نے انکار کیا مگر‬
‫پھر اسکے آگے ہار ماننا پڑی۔ سمیرا بھی گانڈ کا سن کر حیران ہوئی اور بولی تم کیسے‬
‫برداشت کروگی؟؟؟ رضوان یا میں نے اسے یہ نہیں بتایا کہ میں پہلے گانڈ مروا چکی‬
‫ہوں ‪ 8‬انچ لمبے لن سے۔ آج تو ‪ 7‬انچ کا لن ہے۔ رضوان نے میری گانڈ کو پہلے تھوک‬
‫سے چکنا کیا پھر تیل لگا کر اپنے لن کو بھی تیل میں بھگو دیا۔ اسکے بعد میں ڈوگی‬
‫سٹائل میں اپنی گانڈ رضوان کے لن کو سونپنے کے لیے تیار تھی۔ رضوان نے گانڈ پر‬
‫لن رکھ کر زور لگانا شروع کیا تو لن آہستہ آۃستہ اندر جانے لگا‪ ،‬مگر میری چیخیں‬
‫بہت ہی سپیڈ کے ساتھ بڑھنے لگیں۔ ‪ 2‬منٹ کی محنت کے بعد لن جڑ تک میری گانڈ‬
‫میں تھا۔ رضوان بار بار میری کمر پر پیار کر رہا تھا کیونکہ وہ خوش تھا کہ میں نے‬
‫اسکو اپنی گانڈ دے دی۔ ‪ 10‬منٹ گانڈ کو پھاڑنے کے بعد رضوان کے لن نے میری گانڈ‬
‫میں ہی اپنا پانی چھوڑ دیا۔‬

‫میں تو ایک بار پھر تکلیف میں تھی کیونکہ گانڈ میں اتنا موٹا لن لینا آسان کام نہیں ہوتا‬
‫مگر سمیرا مکمل سکون میں تھی۔ رضوان کے لن نے سمیرا کی چوت کو کھودائی کر‬
‫کر کے ‪ 4‬مرتبہ وہاں سے پانی نکلوایا تھا۔ وہ تھکی تو تھی مگر اسکی چوت بہت‬
‫خوش تھی اور مزے میں تھی۔ ‪ 6‬بجے ہم فلیٹ سے نکلے تو سمیرا نے مجھے کہا کہ‬
‫وہ مجھے میرے گھر تک چھوڑ دے گی۔ سمیرا میرے گھر تک آئی اور پھر گھر بھی‬
‫رکی‪ ،‬رات ‪ 9‬بجے تک سمیرا میرے ساتھ رہی اور اس سارے ٹائم میں وہ رضوان کے‬
‫لن کی تعریفیں کرتی رہی‪ ،‬بیچ میں اس نے خود ہی ‪ 2 ،1‬بار حیدر کی نا مردی کا بھی‬
‫ذکر کیا۔ رات ‪ 9‬بجے سمیرا میرے گھر سے چلی گئی۔‬

‫مجھے یقین تھا کہ جو میں نے پالن بنایا تھا اور جو اسکا رزلٹ چاہتی تھی وہ رزلٹ‬
‫آئے گا۔ میں اپنے پالن پر مکمل عمل کر چکی تھی اب میں نے کچھ نہیں کرنا تھا۔ اب‬
‫جو کرنا تھا وہ سمیرا نے کرنا تھا۔ آخر کار مجھے زیادہ ویٹ نہیں کرنا پڑا اور سمیرا‬
‫نے اسالم آباد واپس جاتے ہی وہ کام کر دیا جو میرے پالن کا رزلٹ تھا۔‬

‫اس واقعہ کے محض ‪ 2‬دن کے بعد ہی میرے چھوٹے بھائی نے مجھے آکر بتایا کہ‬
‫اسکے امتحان ہوئے ہیں اور اسکا رزلٹ اچھا نہیں آیا جسکی وجہ سے اسکے فزکس‬
‫کے ٹیچر اسکا داخلہ بھیجنے میں رکاوٹ بن رہے ہیں۔ اور وہ ابو سے ملنا چاہتے ہیں۔‬
‫لیکن اگر ابو کو پتا چل گیا کہ فیاض کا رزلٹ اچھا نہں آیا تو اس پر بہت پابندیاں لگ‬
‫جائیں گی اور مار بھی پڑے گی۔ تو فیاض نے مجھے کہا کہ میں اسکے فزکس کے ٹیچر‬
‫اسلم سے ملوں اور ان سے گزارش کروں کہ وہ میرا داخلہ بھیج دیں۔ میں نے ہامی بھر‬
‫لی اور کہا کہ کل صبح میں کالج جا کر بات کروں گی تم فکر نہ کرو مسئلہ حل ہوجائے‬
‫گا۔‬

‫اگلی صبح میں نے کرتا پاجامہ پہنا‪ ،‬چوڑی دار پاجامہ بہت ہی ٹائٹ ہوتا ہے جس میں‬
‫لڑکی کی ٹانگیں بہت سیکسی نظر آتی ہیں اور گانڈ تک بہت واضح نظر آرہی ہوتی ہے۔‬
‫اوپر سے میرا تنگ کرتا میرے مموں کہ بہت ہی واضح کر رہا تھا۔ ساتھ میں نے ایک‬
‫دوپٹہ جو بہت باریک تھا گلے میں لیا اور اوپر سے بڑی چادر لیکر فیاض کے ساتھ‬
‫اسکے کالج چلی گئی۔ فیاض مجھے اپنے ٹیچر اسلم کے پاس لے گیا ۔ اسلم صاحب بڑی‬
‫عمر کے آدمی تھے۔ انکی عمر کوئی لگ بھگ ‪ 50‬سال کے قریب رہی ہوگی‪ ،‬باریش‬
‫انسان تھے ۔ توند بھی کافی نکلی ہوئی تھی مگر اچھے پرسنیلٹی کے مالک تھے۔ میں‬
‫نے بات کا آغاز کیا کہ فیاض نے مجھے بتایا اسکا رزلٹ اچھا نہیں آیا اور آپ کسی‬
‫بڑے سے ملنا چاہتے ہیں۔ تو اسلم صاحب فورا بولے کہ جی ہاں میں نے فیاض کو کہا‬
‫تھا کہ اپنے والد صاحب کو بالئے میں ان سے بات کرنا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا کہ ابو تو‬
‫کام کے سلسلے میں شہر سے باہر ہیں‪ ،‬میں اسکی بڑی بہن ہوں‪ ،‬جو بھی مسئلہ ہے‬
‫آپ مجھ سے ڈسکس کریں میں خود بھی فیاض کی پڑھائی پر توجہ دوں گی اور ابو کے‬
‫واپس آنے پر انکو بھی خبر کروں گی۔ یہ سن کر اسلم صاحب نے فیاض کو اپنی کالس‬
‫میں جانے کو کہا اسکا کمیسٹری کا پیرئیڈ تھا سو وہ سر کے کہنے پر اپنی کیمسٹری‬
‫کی کالس میں چال گیا۔ اب روم میں صرف سر اسلم اور میں موجود تھی۔‬

‫میں نے اپنی چادر اتار کر ساتھ والی چئیر پر رکھ دی اور اب میرے گلے میں باریک‬
‫دوپٹہ تھا جو میرے مموں کے ابھار کو چھپانے میں بری طرح ناکام ہو رہا تھا۔ میں نے‬
‫جان بوجھ کر ایسے سیکسی کپڑے پہنے تھے کیونکہ میرا خیال تھا کہ مرد ٹیچر ہے وہ‬
‫اتنے میں اپنی رال ٹپکاتے ہوئے فیاض کا داخلہ خوشی خوشی بھیج دے گا۔ مگر سر‬
‫اسلم نے میرے مموں پر نظر تک نا ڈالی۔ البتہ وہ بات کرتے ہوئے میری آنکھوں میں‬
‫آنکھیں ڈال کر اعتماد کے ساتھ بات کر رہے تھے جیسے انکو میرے جسم کے ابھاروں‬
‫سے کوئی سروکار نہ ہو۔ انہوں نے مجھے فیاض کا رزلٹ دکھانا شروع کیا تو میں کچھ‬
‫آگے کو جھک کر کھڑی ہوگئی اور میری قمیص سے میرے ممے واضح نظر آنے لگے‬
‫تھے اب۔ سر اسلم نے ایک بار سر اوپر اٹھایا تو انکی نظر سیدھی میری قمیص کے‬
‫اندر موجود مموں پر پڑی مگر ایک لمحے سے پہلے انہوں نے اپنی نظر ہٹا لی اور پھر‬
‫سے مجھے تفصیالت بتانے لگے۔ فیاض کی کارکردگی واقعی پچھلے ‪ 3‬ماہ سے بہت‬
‫بری تھی۔ ایسا نہیں تھا کہ وہ فیل ہوگیا‪ ،‬مگر ‪ 40‬فیصد نمبر لیکر پاس ہونا بھی کوئی‬
‫اچھی بات نہی ہوتی۔‬

‫غرض یہ کہ سر اسلم کا کہنا تھا کہ اسکی کارکردگی مسلسل نیچے کی طرف آرہی ہے‬
‫اور انکو ڈر ہے کہ یہ بورڈ کے امتحانات میں فزکس میں فیل ہوجائے گا جس سے نا‬
‫صرف انکے کالج کا رزلٹ خراب ہوگا بلکہ انکی اپنی ذات پر بھی بات آئے گی کہ انکا‬
‫سٹوڈنٹ فیل ہوگیا جب کہ آج تک اس کالج میں انکا ‪ 100‬فیصد رزلٹ ہوتا ہے۔ اور وہ‬
‫یہ رسک نہیں لے سکتے کہ انکا نام خراب ہو۔ میں نے سر کو تھوڑی امید دالئی کہ اگر‬
‫وہ داخلہ بھیج دیں گے تو میں فیاض پر پوری توجہ دوں گی اور دل لگا کر پڑھے گا اور‬
‫اچھے نمبروں کے ساتھ پاس ہوگا۔ مگر سر نے کہا کہ انکو اسکی بالکل بھی امید نہیں۔‬
‫بھیجیں گے۔ اور انکا ابو کو بالنے کا مقصد بھی یہی تھا کہ انکو‬
‫ِ‬ ‫اور وہ یہ داخلہ نہیں‬
‫پہلے ہی بتا دیں کہ آپکے بیٹے کا داخلہ اس سال نہیں جائے گا اور اسکا یہ سال ضائع‬
‫ت حال میرے لیے بڑی پریشان کن تھی۔ کیونکہ ایسا ہوجاتا تو فیاض‬ ‫ہوجائے گا۔ یہ صور ِ‬
‫کے ساتھ ابو نے تو جو کرنا تھا سو کرنا تحا پورے خاندان ِمں اسکی بے عزتی ہونی‬
‫تھی۔ اور سب رشتے داروں نے باتیں بنانی تھیں۔‬
‫میں نے سر اسلم کی بہت منتیں کی مگر وہ ماننے کو تیار ہی نہیں تھے۔ آخر کار میں‬
‫نے فیصلہ کیا کہ سر اسلم کے بوڑھے جسم کو اگر میرے جوان اور گرم جسم کا لمس‬
‫مل جائے اور وہ اسکا نظارہ کر لیں توہ یقینا مان جائیں گے۔ کونسا مرد ہوگا جو جوان‬
‫لڑکی کے گرم جسم کے نظارے سے پگھل نا جائے۔ لہذا میں اپنی چئیر سے اٹھی اور‬
‫انکی طرف اور جھک گئی تاکہ میرے ممے نیچے لٹک جائیں اور کرتی سے مزید واضح‬
‫نظر آئیں ۔ میں نیچے جھکی تو واقعی میرے مموں کا زیادہ حصہ اب میری قمیص سے‬
‫باہر تھا محض نپل ہی تھے جو قمیص کے اندر تھے۔ سر کی نظر ایک بار پھر میرے‬
‫مموں پر پڑی مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے اور انکا کہنا تھا کہ وہ داخلہ نہیں بھیجیں‬
‫گے۔‬

‫میں نے اپنی جگہ چھوڑی اور ٹیبل کے دوسری طرف سر کی چئیر کے برابر جا کر‬
‫انکی منتیں کرنے لگی کہ آپ میرے بھائی کا داخلہ بھیج دیں میری گارنٹی ہے کہ وہ فیل‬
‫نہیں ہوگا بلکہ اچھے نمبر لیکر پاس ہوگا۔ مگر وہ نہ مانے۔ میں نے انکے کندھے پر‬
‫ہاتھ رکھا اور ہلکا سا دبایا مگر وہ غصے سے میری طرف دیکھتے ہوئے بولے‬
‫محترمہ آپ واپس اپنی جگہ پر جاکر بیٹھ جائیں ورنہ میں اب ِھی پئین کو بلوا کر آپکو‬
‫یہاں سے نکلوا دوں گا۔ آپکو جو بات کرنی ہے اپنی جگہ پر بیٹھ کر کریں۔ مجھے اپنی‬
‫تذلیل تو محسوس ہوئی مگر مرتی کیا نہ کرتی دوبارہ اپنی جگہ پر چلی گئی۔ چئیر کے‬
‫پیچھے واٹر کولر پڑا تھا اور ساتھ گالس بھی رکھا تھا۔ میں پانی پینے کے بہانے‬
‫پیچھے گئی اور گالس اٹھا کر نیچے جھکی اور واٹر کولر سے پانی ڈالنے لگی۔ میں‬
‫نیچے جھکی ہوئی تھی اور میری پیٹھ سر کی طرف تھی۔ میں نے جان بوجھ کر اپنی‬
‫کرتی سائیڈ پر ہٹا دی تاکہ میری گانڈ اور بڑے بڑے چوتڑ چوڑی دار پاجامہ سے نظر‬
‫آسکیں۔ اور آہستہ آہستہ پانی بھرنے لگی۔ مجھے معلوم تھا کہ سر اسلم کی نظریں‬
‫میرے چوتڑوں پر ہیں۔ اور مجھے امید تھی کہ ممے دیکھ کر وہ نہیں مانے مگر چوتڑ‬
‫دیکھ کر تو انکا لن انکو مجبور کر دے گا کہ وہ میری بات مان جائیں۔‬

‫مگر تب میری امید پر پانی پھر گیا جب مجھے پیچھے سے سر اسلم کی آواز سنائی دی‪،‬‬
‫محترمہ یہ جو کچھ آپ مجھے دکھا رہی ہیں مجھے اسکی کوئی ضرورت نہیں ۔ لہذا آرام‬
‫سے پانی پی کر گھر جائیں ۔ میرا مقصد محض فیاض کے گھر انفارم کرنا تھا کہ اسکا‬
‫داخلہ نہیں جا رہا۔ اور آپکی ان حرکتوں سے میں اپنا ارادہ قطعی تور پر نہیں بدلنے واال‬
‫۔‬
‫انکی اس بات نے مجھے مزید شرمندہ کر دیا۔ اب میرا حلق واقعی خشک ہوگیاتھا اور‬
‫مجھے پانی کی ضرورت تھی میں نے پانی پیا اور دوبارہ سے چئیر پر بیٹھ گئی۔ میں‬
‫نے سر جھکا لیا تھا اور سوچ رہی تھی کہ ناجانے کس مٹی سے بنا ہے یہ شخص۔ میں‬
‫نے پھر سے ایک وار کیا اور کہا سر آپ جو کہیں گے میں کروں گی مگر پلیز آپ میرے‬
‫بھائی کا داخلہ بھیج دیں۔ اس پر سر نے فورا جواب دیا کہ آپ اگر میرے بستر پر بھی‬
‫میرے ساتھ رات گزار دیں تب بھی آپکے بھائی کا داخلہ نہیں جانے واال۔ میں نے پھر‬
‫انکو چڑانے کے لیے کہا کہ آپ نا مرد ہیں کیا جو آپکو ایک جوان لڑکی کے جسم میں‬
‫کوئی چاہت نہیں؟؟؟ اس پر وہ ہلکا سا مسکرائے اور بولے چلو تم اپنی تسلی کے لیے‬
‫ایسا ہی سمجھ لو مگر داخلہ میں پھر بھی نہیں بھیجوں گا۔ یہ کہ کر وہ بولے کہ میں‬
‫‪ 30‬سال کا تھا جب میری بیوی کی وفات ہوگئی اور اس سے میرا ایک بیٹا ہے جو اس‬
‫وقت ‪ 7‬سال کا تھا۔ اسکے بعد سے آج تک میں نے کسی اور لڑکی کی طرف آنکھ اٹھا‬
‫کر بھی نہیں دیکھا کیونکہ میں اپنی بیوی سے بہت محبت کرتا تھا اور آج بھی کرتا ہوں۔‬
‫تم تو ابھی بچی ہو تمہارے جیسے حربے بہت سی پیشہ ور رنڈیاں آزما چکی ہیں مجھ‬
‫پر‪ ،‬بہت امیر کبیر گھرانوں کے لڑکوں نے مجھے لڑکیوں کی آفر کروائی یہاں تک کہ‬
‫ایک شو بز کے گھرانے سے ایک نامور فنکارہ اور اداکارہ کے جسم کی بھی آفر ہوئی‬
‫مگر میں نے وہ بھی ٹھکرا دی تو تم کس کھیت کی مولی ہو؟؟؟؟‬

‫اب دفع ہوجاو یہاں سے اپنی شکل گم کرو۔ ورنہ پورے کالج میں یہ بات پتا چل جائے گی‬
‫کہ فیاض کی بہن نے رنڈیوں کی طرح سر اسلم کو پھنسانے کی کوشش کی ہے۔ اپنی‬
‫عزت بچاو اور نکلو یہاں سے۔‬

‫یہ کہ کر سر اسلم نے فیاض کی فائلز واپس الماری میں رکھنا شروع کر دیں اور میں‬
‫حیران پریشان کھڑی رہی۔ اور سوچنے لگی کہ اب کیا ہوگا؟؟؟ اتنے میں پھر سے سر‬
‫کی آواز آئی‪ ،‬جاتی ہو یا بالوں پئین کو؟؟؟؟ میں نے فورا اپنی چادر اٹھائی اور انکے‬
‫آفس سے نکل کر گھر کی راہ لی۔ فیاض کالج میں ہی تھا اسکو امید تھی کہ اسکا داخلہ‬
‫چال جائے گا۔ مگر ایسا کچھ نہ ہوا۔ اور سر اسلم نے پوری کالس کے ایڈمیشن فارم فِل‬
‫کر کے بھیج دیے مگر فیاض کہ نا بھیجا۔ فیاض نے گھر آکر فورا ہی سب سے پہلے‬
‫مجھے علیحدہ کمرے میں لے گیا اور پوچھا کہ کیا ہوا سر مان گئے کیا؟ میں نے بتایا‬
‫کہ نہیں وہ نہیں مانے۔ اب تمہارا داخلہ کسی صورت نہیں جا سکتا۔ اس بات کو سن کر‬
‫وہ اور بھی افسردہ ہوگیا اور میری منتیں کرنے لگا کہ پلیز کچھ کرو۔ میری بہت بدنامی‬
‫ہوگی خاندان اور دوستوں میں۔ مگر میں کیا کر سکتی تھی بھال۔ اب ایک ہی حل تھا کہ‬
‫ابو جا کر بات کریں۔ مگر میں یہ نہیں چاہتی تھی کیونکہ اگر ابو جاتے اور وہ سر پھرا‬
‫ٹیچر آگے سے ابو کو میری حرکت کے بارے میں بھی بتا دیتا تو فیاض اور میری‬
‫دونوں کی ہی خیر نہیں تھی۔ فیاض تو پھر بھی بچ جاتا مگر میرے ساتھ جو ہونی تھی‬
‫اسکا میں تصور بھی نہیں کر سکتی تھی۔ اس لیے میں نے فیاض کو بھی کہا کہ وہ ابو‬
‫کو نا بتائے اور اپنا داخلہ پرائیویٹ بھیج دے کچھ دنوں میں۔ مگر وہ اس پر راضی نہیں‬
‫تھا۔ وہ افسردہ سے اٹھا اور اپنے کمرے میں چال گیا۔‬

‫اب رات ہو چکی تھی اور ابو گھر آچکے تھے ۔ مجھے ڈر تھا کہ کہیں فیاض ابو کہ نا‬
‫کہ دے کالج چلنے کا۔ کھانے کی میز پر جب ہم سب موجود تھے تو اس سے پہلے کہ‬
‫فیاض کچھ بولتا امی نے ابو سے کہا کہ کل ہم سب نے الہور چلنا ہے۔ ابو نے پوچھا وہ‬
‫کیوں تو امی نے خوشی سے جواب دیا کہ آپ نانا بننے والے ہو۔ یہ بات سنتے ہی ابو‬
‫بھی بہت خوش ہوئے اور امی کو مبارک دینے لگے اور میری بھی خوشی سے چیخ‬
‫نکل گئی اور میں نے پوچھا کہ یہ آپکو کس نے بتایا؟؟؟ تو امی بولی پگلی صائمہ نے‬
‫ہی بتایا ہے۔ آج ہی اسکا فون آیا ہے اسکا ‪ 9‬مہینے پورے ہوچکے اور اب کسی بھی‬
‫وقت اسکو ہسپتال جانا پڑ سکتا ہے۔ وہاں اسکی دیکھ بھال کے لیے صرف اسکا شوہر‬
‫اور ساس ہے اور کوئی عورت نہیں۔ لہذا ہمارا وہاں ہونا بہت ضروری ہے۔ یہ سنتے ہی‬
‫مجھے تو جیسے خوشی کے مارے کوئی اور ہوش ہی نہ رہا اور میں اپنے آنے والے‬
‫بھانجے کے بارے میں سوچنے لگی۔ امی نے مجھے کہا کہ میں اپنی تیاری کر لو کل‬
‫شام کو ہم لوگ الہور کے لیے نکلیں گے۔ فیاض بھی یہ سن کر اپنے کالج ایڈمیشن کو‬
‫بھول گیا تھا۔‬

‫میں خوشی خوشی اپنے کمرے میں آئی اور تیاری کرنے لگی کہ اچانک ہی مجھے ایک‬
‫انجان نمبر سے موبائل پر کال آئی۔ میں نے موبائل دیکھا تو سوچا اٹینڈ کروں یا نہ‬
‫کروں۔ یہ بھی ذہن میں آیا کہ ہو سکتا ہے سر اسلم کے لن نے انکو مجبور کر دیا ہو‬
‫اور اب وہ میری چوت کا مطالبہ کر دیں فیاض کے ایڈمیشن کے لیے۔ میں نے اسی شش‬
‫و پنج میں فون اٹینڈ کیا تو میرا یہ اندازہ محض خوش فہمی ثابت ہوئی۔ آگے سمیرا کی‬
‫آواز تھی۔ وہ اسالم آباد واپس جا چکی تھی اور وہاں جا کر اسنے اپنے بھائی کے نمبر‬
‫سے مجھے کال کی تھی۔ میں نے حال چال پوچھنے کے فورا بعد ہی اسکو بتایا کہ میں‬
‫خالہ بننے والی ہوں جس کو سن کر وہ بھی خوش ہوئی اور مجھے مبارک باد دی۔ اور‬
‫پھر بولی کہ وہ بھی مجھے ایک بات بتانا چاہتی ہے بہت ضروری۔‬

‫میں نے کہا ہاں بتاو کیا بات ہے‪ ،‬تو وہ کچھ دیر کے لیے خاموش ہوئی اور پھر اسکی‬
‫مرجھائی ہوئی آواز سنائی دی‪ ،‬وہ کہ رہی تھی کہ "میں نے حیدر سے اپنی منگنی ختم‬
‫کر دی ہے۔" یہ سنتے ہی میرے دل کو سکون مل گیا اور میں خوشی کے مارے چیخی‬
‫کیا واقعی؟؟؟؟ وہ حیران ہوکر بولی کہ تم اتنا خوش کیوں ہورہی ہو؟ کیا تم یہی چاہتی‬
‫تھی ؟؟؟ میں ایک دم سے سٹپٹا گئی کیونکہ اسکو یہ ہرگز نہیں پتا چلنا چاہیے تھا کہ‬
‫میرا اصل پالن یہی تھا کہ حیدر کے لن کے بعد جب سمیرا رضوان کا ‪ 7‬انچ کا لن لے‬
‫گی تو وہ کسی بھی صورت اپنی ساری زندگی حیدر جیسے نا مرد کے ساتھ گزارنے کا‬
‫سمجھوتہ نہیں کر سکے گی۔ اور آخر کا رشتہ توڑ دے گی۔ اور یہی میرا پالن تھا۔ جو‬
‫باآلخر کامیاب ہوگیا تھا اور میرا بدلہ پورا ہوگیا تھا۔ مگر میں نے اپنی خوشی پر تھوڑا‬
‫قابو پایا‪ ،‬اور کہا کہ نہیں میں یہ پہلے تو نہیں چاہتی تھی‪ ،‬مگر جب رضوان سے چدائی‬
‫کے بعد میں نے تمہارے چہرے پر خوشی اور اطمینان دیکھا تو میرا دل کیا تھا کہ کاش‬
‫تمہیں بھی حیدر کی بجائے رضوان جیسا کوئی جیون ساتھی ملے جو تمہاری چوت کی‬
‫پیاس بجھا سکے‪ ،‬حیدر تو تمہں پیاسا ہی رکھے گا ساری عمر۔ اس لیے مجھے تمہارے‬
‫لیے خوشی ہوئی ہے کہ تم نے اچھا فیصلہ کیا۔ کیونکہ ساری عمر ‪ 5‬انچ کے لن کے‬
‫ساتھ گزارنا بہت مشکل ہے خاص کر جب وہ ‪ 2‬منٹ میں ہی منی چھوڑ دیتا ہو۔‬

‫میں نے سمیرا کو مزید تھوڑا حوصلہ دیا اور اسے سمجھایا کہ وہ اداس نہ ہو اسنے‬
‫مشکل فصلہ ضرور کیا ہے مگر بہت اچھا کیا۔ اور اسکے لیے دعا بھی کی کہ اسے‬
‫کوئی اچھا جیون ساتھی ملے جو اسکو خوش رکھ سکے اور اسکی جنسی خواہشات کو‬
‫بھی پورا کر سکے۔ مزید کچھ باتیں کر کے سمیرا نے فون بند کر دیا۔ وہ اب مطمئن‬
‫تھی۔ اور مجھے بھی خوشی ہورہی تھی۔ اسلیے نہیں کہ سمیرا کی اس سے جان چھوٹ‬
‫گئی‪ ،‬بلکہ اس لیے کو جس طرح حیدر نے مجھے بلیک میل کیا تھا اسکا اس سے اچھا‬
‫بدلہ نہیں ہوسکتا تھا کہ اسکے پورے خاندان میں یہ بات مشہور ہوجائے کہ حیدر کی‬
‫منگیتر نے اس سے شادی کرنے سے انکار کر دیا اور منگنی توڑ دی۔ اور حیدر کسی‬
‫کو وجہ بھی نہیں بتا سکتا تھا کہ سمیرا نے یہ رشتہ اسکے چھوٹے لن کی وجہ سے‬
‫توڑا ہے۔‬
‫اب میں بہت خوش بیٹھی تھی۔ میرے دل کو سکون مل گیا تھا کہ جو حیدر نے کیا اسکا‬
‫صلہ اسکو مل گیا اور میرا پہال پالن کامیاب ہوگیا۔ اب اسکی بہن یعنی کہ سائرہ سے بدلہ‬
‫لینے کا پالن بنانا تھا مگر ابھی تک مجھے اسکی کوئی سمجھ نہیں آرہی تھی کہ اس‬
‫سے کیسے بدلہ لیا جائے جو اس نے میری ویڈیو بنا کر اپنے بھائی کو دی کہ وہ‬
‫مجھے بلیک میل کر سکے۔ آج مجھے ‪ 2‬خوشیاں ملی تھیں ایک تو اپنی بہن صائمہ‬
‫کے ہاں بچے کی پیدائیش ہونے والی تھی اور دوسرا میرا بدلہ پورا ہوا تھا۔ اب میرے‬
‫دل میں سر اسلم کا خیال بھی آیا جس طرح انہوں نے مجھے دھتکارہ تھا۔ اگر وہ میری‬
‫چوت بھی مانگتے تو میں دے دیتی۔ لیکن انہوں نے تو میری اچھی خاصی بے عزتی کر‬
‫کے رکھ دی تھی۔ دوسرے الفاظ میں میری پھاڑ کر میرے ہاتھ میں دے دی تھی۔‬

‫بحر حال ان سوچوں سے نکل کر میں نے دوبارہ سے الہور جانے کی تیاری شروع کی۔‬
‫اپنے بیگ میں اپنے کپڑے رکھنے لگی ‪ ،‬جب برا رکھنے کی باری آئی تو مجھے وہی‬
‫برا نظر آیا فوم واال جو میں نے اس دن پہنا تھا جس دن پہلی بار میری چوت میں کوئی‬
‫لن گیا تھا۔ اور وہ لن کسی اور کا نہیں بلکہ میرے اپنے بہنوئی عمران کا لن تھا۔ ‪ 8‬انچ‬
‫کے لن سے جب میری چدائی ہوئی تھی تو ایک انجانا سا پیار ہوگیا تھا اپنے بہنوئی‬
‫سے اور اسکے لن سے۔ برا دیکھتے ہی مجھے اپنی پہلی چدائی یاد آگئی کس طرح‬
‫عمران نے میری چوت پھاڑی تھی‪ ،‬پھر باتھ روم میں میری چودائی کی اور اگلے دن‬
‫میرے سامنے میرے بہن صائمہ کی چدائی کی اور پھر اسکے سوتے ہوئے اسی کمرے‬
‫میں دوبارہ سے اپنی سالی کو اپن لن کی سواری کروائی تھی۔‬

‫جیسے جیسے یہ سب یاد آرہا تھا میری چوت گیلی ہونے لگی تھی‪ ،‬اور میں نہ چاہتے‬
‫ہوئے بھی اٹھ کر باتھ روم میں گئی اور ہئیر ریمونگ کریم سے اپنی پھدی کے بال‬
‫صاف کرنے لگی ۔ حاالنکہ پہلے جب بہنوئی سے چدائی کروائی تھی تو انکے جانے کے‬
‫بعد میں اس بات پر شرمندہ تھی کیونکہ میرے بہنوئی کے لن پر صرف صائمہ کا حق‬
‫تھا جو میں نے چھین لیا تھا۔ اور بعد میں جب کبھی عمران سے فون پر بات ہوتی تو وہ‬
‫بھی تھوڑے شرمندہ تھے اور ایک بار انہوں نے معذرت بھی کی کیونکہ دوسری بار‬
‫بے شک انہوں نے مجھے میری خواہش کے مطابق چودا تھا مگر اسکی وجہ انکی وہ‬
‫زبردستی تھی جو پہلی بار انہوں نے میرے ساتھ کی اور میری کنواری پھدی کو اپنے‬
‫‪ 8‬انچ کے لن سے پھاڑ ڈاال تھا۔ معذرت کے ساتھ انہوں نے مجھے یقین دالیا تھا کہ‬
‫آئندہ سے وہ مجھے اپنی بہن کی طرح ہی سمجھیں گے جیسے کہ پہلے سمجھتے تھے‬
‫اور یہ جو کچھ ہوا اسکو میں بھول جاوں۔ اور میں نے بھی یہی سوچا تھا کہ آئندہ ایسا‬
‫کبھی نہیں ہوگا۔ مگر آج نجانے کیوں میں الہور جانے ک لیے اپنی پھدی کی صفائی کر‬
‫رہی تھی‪ ،‬جیسا کہ مجھے یقین ہو کہ وہاں مجھے دوبارہ سے اپنے بہنوئی کے لن پر‬
‫بیٹھنے کا موقع ملے گا۔ جیسے کوئی دلہن اپنے شوہر کے لیے صفائی کرتی ہے ایسے‬
‫ہی میں اپنی صفائی اپنی بہن کے شوہر کے لیے کر رہی تھی۔‬

‫اپنی پھدی کی اچھی طرح صفائی کرنے کے بعد میں واش روم سے نہا کر نکل آئی اور‬
‫بیگ تیار کر لیا۔ اس میں وہی پہلے واال برا بھی رکھا۔ میں خود حیران تھی کہ میں یہ‬
‫کیا کر رہی ہوں‪ ،‬میں نے تہیہ کیا تھا کہ آئندہ اپنے بہنوئی کے لن کے بارے میں سوچنا‬
‫بھی نہیں۔ کیونکہ میرے پاس اپنے منگیتر کا بھی لن تھا جو عمران جیسا تو نہیں مگر‬
‫پھر بھی میری چوت کے لیے کافی تھا اور دوسرا رضوان کے دوست ندیم کا لن بھی تھا‬
‫جو کسی بھی صورت عمران کے لن سے کم نہیں تھا۔ یہ دونوں لن میں جب چاہتی میری‬
‫چوت کی پیاس بجھا سکتے تھے مگر پھر بھی نجانے کیوں مجھے ایک دم سے عمران‬
‫کے لن کی طلب محسوس ہو رہی تھی۔ وہی لن جس نے پہلی بار میری پھدی کے‬
‫دروازے پر دستک دی۔ اور میری پھدی نے پہلی بار جس لن کو اپنے اندر سمویا وہ‬
‫اسکو دوبارہ لینے کے لیے بے تاب ہو رہی تحی۔ اور اسکی بے تابی کا اندازہ میری‬
‫پھدی کے گیلے پن سے ہو رہا تھا جو نا چاہتے ہوئے بھی گیلی ہو رہی تھی۔‬

‫نہ جانے کب میری آنکھ لگ گئی۔ صبح اٹھی تو ناشتہ کرنے کے بعد امی کے ساتھ انکی‬
‫تیاری میں انکا ہاتھ بٹانے لگی۔ کچھ ہی دیر گزری تھی کہ امی کے موبائل پر عمران کی‬
‫کال آئی۔ امی نے کال اٹینڈ کی تو عمران کے کچھ کہنے پر عمران کو مبارک دینے لگیں‬
‫اور مجھے بھی اپنے گلے لگا لیا اور پوچھا صائمہ کی طبیعت تو ٹھیک ہے نا اور بچہ‬
‫کیسا ہے؟؟؟ کچھ دیر بات کرنے کے بعد امی نے بتایا کہ آج صبح اچانک ہی صائمہ کے‬
‫درد ہونے لگی تو اسکو ہسپتال لے گئے اور ابھی ‪ 15‬منٹ پہلے اسکی ڈیلیوری ہوگئی‬
‫ہے۔ بیٹا ہوا ہے اور دونوں کی صحت بالکل ٹھیک ہے۔ میری خوشی کا کوئی ٹھکانہ‬
‫نہیں تھا۔ میں نے بھی فورا اپنے موبائل سے عمران کو کال کی انہوں نے کال اٹینڈ کی‬
‫تو میں نے انہیں مبارک دی اور انہوں نے بھی مجھے مبارک دی اور پوچھا کہ کب‬
‫آرہی ہو اپنے بھانجے کو دیکھنے؟؟؟ تو میں نے بتایا کہ میرا تو دل کر رہا ہے ابھی اڑ‬
‫کر پہنچ جاوں مگر شام کو ابو آئیں گے تو تبھی نکلیں گے الہور کے لیے۔ میں نے‬
‫صائمہ سے بات کرنی چاہی تو عمران نے بتایا کہ وہ ابھی لیبر روم سے باہر نہیں آئی‪،‬‬
‫جیسے ہی آتی ہے اور کچھ بات کرنے کے قابل ہوتی ہے تو وہ میری بات کروا دیں گے‬
‫صائمہ سے۔‬

‫اب مجھے بے چینی سے ابو کا انتظار تھا۔ آخر کار شام ‪ 4‬بجے ابو گھر آئے تو ہم‬
‫تینوں اپنا سامان تیار کر کے ہی بیٹھے تھے۔ ابو نے گھر آکر کھانا کھایا اور ‪ 10‬منٹ‬
‫میں ہی ہم گاڑی میں بیٹھ کر الہور کی طرف سفر کر رہے تھے۔‬

‫حاالنکہ میں اپنے ننھے منے بھانجے کو دیکھنے جا رہی تھی اور مجھے بہت خوشی‬
‫تھی اپنے بھانجے سے ملنے کی مگر نجانے کیوں گاڑی میں بیٹھے ہوئے بھی میری‬
‫پھدی مسلسل پانی چھوڑ کر میری شلوار کو گیال کیے دے رہی تھی۔‬
‫کافی دیر تک میری چوت گیلی ہی رہی جسکی وجہ سے میری شلوار بھی گیلی ہورہی‬
‫تھی اور مجھے اپنی تھائیز پر پانی کا گیال پن محسوس ہو رہا تھا۔ ملتان سے خانیوال‬
‫تک کا سفر انہی سوچوں میں گزرا کہ عمران نے کیسے جاندار چدائی کی تھی میری اور‬
‫عمران کا لن کسی بھی پیاسی چوت کی پیاس بجھانے کی صالحیت رکھتا ہے۔ اس قسم‬
‫کی سوچوں نے میرا برا حال کر دیا تھا۔ خانیوال سے آگے کے سفر میں مجھے نیند کا‬
‫غلبہ ہونے لگا تو نجانے کب میری آنکھ لگ گئی۔‬
‫جب میں نیند سے جاگی تو ہم الہور شہر میں داخل ہی ہونے کو تھے اور رات کے ‪10‬‬
‫بج رہے تھے۔ امی فون پر عمران سے بات کر رہی تھیں اور ہسپتال کا پتہ پوچھ رہی‬
‫تھیں۔ یہ ایک پرائیویٹ ہسپتال تھا جو نہ تو بہت زیادہ مہنگا تھا اور نہ ہی سستا‪ ،‬مگر‬
‫اس میں اچھی سہولیات تھیں۔ قریبا ً رات ‪ 10:45‬پر ہم ہسپتال پہنچ گئے جہاں عمران‬
‫بھائی نے ہمیں گیٹ پر ہی رسیو کیا۔ وہ بہت خوش تھے وہ ابو سے گلے ملے امی نے‬
‫بھی انہیں گلے لگا کر مبارک دی۔ اور مجھے دیکھ کر بھی وہ بہت خوش ہوئے اور‬
‫مجھے بھی اپنے سینے سے لگا کر سر پر پیار کیا اور بھانجے کی مبارک دی۔ جب‬
‫انہوں نے مجھے اپنے سینے سے لگایا تو انکے لہجے میں میرے لیے چھوٹی بہنوں‬
‫واال پیار ہی تھا‪ ،‬مگر مجھے اپنے اندر کچھ الگ سا محسوس ہورہا تھا جیسے یہاں میں‬
‫اپنے بھانجے سے ملنے نہیں بلکہ عمران کے لن کو اپنی چوت کی سیر کروانے کے‬
‫لیے آئی ہوں۔‬

‫فیاض سے ملنے کے بعد عمران بھائی ہم سب کو اندر لے گئے جہاں صائمہ اور اسکا‬
‫چھوٹا سا ننھا سا عامر موجود تھے۔۔ عمران اور صائمہ نے اپنی خوشی سے نئے آنے‬
‫والے مہمان کا نام عامر رکھا تھا‪ ،‬وہ بہت ہی خوبصورت اور پیارا تھا اسکو دیکھتے ہی‬
‫میں تو جیسے سب کچھ بھول گئی اور اسکو اپنی گود میں اٹھا کر پیار کرنے لگی جبکہ‬
‫امی صائمہ کو مل رہی تھیں۔ امی کے بعد ابو اور پھر میں بھی صائمہ سے ملی اور‬
‫اسے مبارک باد دی۔ ہسپتال میں صائمہ کی ساس یعنی کہ عمران کی امی بھی موجود‬
‫تھیں ان سے بھی ملکر انکو مبارک باد دی۔‬

‫کچھ ہی دیر میں عمران باہر سے ہمارے لیے برگرز اور بوتلیں لے آئے۔ ہم سب کو بہت‬
‫زور کی بھوک لگی تھی سو ہم نے برگرز سے اپنی پیٹ پوجا کی اور مٹھائی بھی کھائی‬
‫جو راستے سے ابو نے خرید لی تھی۔ اب رات کے ‪ 12‬بجنے کو تھے امی اور ابو بہت‬
‫تھک چکے تھے تو ابو نے عمران کو کہا کہ اب وہ گھر جا کر آرام کرنا چاہتے ہیں۔‬
‫عمران کی امی بھی صبح سے ہسپتال میں تھیں انہوں نے بھی گھر جانا تھا۔ عمران نے‬
‫امی کو اور مجھے بھی کہا کہ آپ سب گھر چلیں میں رات صائمہ کے پاس ہی رکوں گا۔‬
‫مگر میں نے گھر جانے سے انکار کر دیا اور کہا کہ میں بھی صائمہ آپی کے پاس‬
‫رکوں گی۔ رات میں میری ضرورت پڑ سکتی ہے۔ پہلے تو عمران بھائی نے انکار کیا کہ‬
‫نہیں یہاں کوئی ضرورت نہیں نرسز اچھی دیکھ بھال کرتی ہیں تم بھی گھر جاو اور آرام‬
‫کرو‪ ،‬مگر میری ضد اور پھر امی کے کہنے پر عمران راضی ہوگئے اور مجھے بھی‬
‫وہیں رہنے کی اجازت مل گئی۔‬

‫میرا ہسپتال رکنا کسی گیم پالن کا حصہ نہ تھا بلکہ میں واقعی میں اپنی بہن کی خدمت‬
‫کے لیے رکنا چاہتی تھی تاکہ اگر رات میں صائمہ کو کسی چیز کی ضرورت ہو تہ میں‬
‫مدد کر سکوں یا عامر روئے تو بھی میں اسے سنبھال سکوں۔ اب ہسپتال میں صائمہ‬
‫کے ساتھ میں اور عمران موجود تھے۔ میں اور صائمہ کافی دیر بیٹھے باتیں کرتے‬
‫رہے اور عمران بھی اپنے بیٹے کو گود میں اٹھائے ہمارے ساتھ خوش گپیوں میں‬
‫مصروف رہے۔ کچھ دیر کے بعد نرس آئی اور اسنے ایک بار عامر کا اور صائمہ کا‬
‫معائنہ کیا۔ اس دوران عمران کمرے سے باہر چلے گئے تھے مگر میں کمرے میں ہی‬
‫موجود تھی۔ صائمہ کی نارمل ڈیلیوری ہوئی تھی مگر پھر بھی اسکو کافی تکلیف تھی۔‬
‫نرس نے صائمہ کی شلوار اتاری اور مخصوص جگہ پر کوئی پیلی سی دوائی لگائی‪،‬‬
‫وہاں واضح زخم کا اور کاٹنے کا نشان موجود تھا۔ اور ٹانکے بھی لگے ہوئے تھے۔‬
‫مجھ سے یہ دیکھا نا گیا تو میں دوسری طرف منہ کر کے کھڑے ہوگئی اور سوچنے‬
‫لگی کہ کیسے اتنی چھوٹی سی جگہ سے اتنا بڑا بچہ نکل آتا ہے۔۔۔۔ یہ ایک ماں کی ہی‬
‫ہمت ہے جو اتنی تکلیف برداشت کر کے بچے کو جنم دیتی ہے۔ تبھی تو ماں کے قدموں‬
‫تلے جنت رکھی گئی ہے۔‬

‫صائمہ کی تکلیف کی وجہ سے نرس نے صائمہ کو ایک نیند کی گولی دے دی تاکہ وہ‬
‫ساری رات آرام سے سو سکے اسکے بعد عامر کا معائنہ کر کے وہ کمرے سے چلی‬
‫گئی اور مجھے کہا کہ اب ہم صبح کو ہی معائنے کے لیے آئیں گے لیکن اگر کوئی بھی‬
‫مسئلہ ہو ‪ ،‬ماں یا بچے کو تکلیف محسوس ہو تو آپ کسی بھی وقت انٹر کام سے سے‬
‫ہمیں بال سکتے ہیں ڈیوٹی پر موجود نرس فورا آجائے گی۔ یہ کہ کر نرس چلی گئی اور‬
‫عمران واپس کمرے میں آگئے اور مجھ سے پوچھا کہ کیا کہا ہے نرس نے تو میں نے‬
‫ساری تفصیل عمران کو بتا دی۔ عمران نے پھر سے مجھے کہا کہ اب تو صائمہ ساری‬
‫رات سوتی رہے گی تم کہو تہ میں تمہیں بھی گھر چھوڑ آتا ہوں تاکہ تم بھی آرام کر‬
‫سکو۔ مگر میں نے کہا کہ نہیں میں ٹھیک ہوں بلکہ آپ سوجائیں صبح سے ادھر ہی‬
‫ہیں میں جاگ رہی ہوں۔ مگر عمران نے بھی کہا کہ انہیں نیند نہیں آئے گی وہ بھی جاگ‬
‫رہے ہیں۔ لہذا طے پایا کہ ہم میں سے کوئی بھی نا تو سوئے گا نا ہی گھر جائے گا بلکہ‬
‫ادھر ہی رہیں گے۔‬

‫کچھ دیر میں عامر کو بھی میں نے صائمہ کے ساتھ کارٹ میں لٹا دیا۔ جب سے میں آئی‬
‫تھی وہ سویا ہوا تھا اس نے محض ایک بار آنکھیں کھولی تھیں کچھ سیکنڈز کے لیے‬
‫اور اسکے بعد پھر سے اسکی آنکھیں بند تھیں۔ ایک دو بار اسکے رونے کی بھی آواز‬
‫آئی تھی جس پر صائمہ نے اسے اپنا دودھ پالیا تھا۔ مگر صائمہ کے سونے کے بعد‬
‫سے عامر بھی سو رہا تھا۔ اب کمرے میں صرف میں اور عمران ہی جاگ رہے تھے۔‬
‫اگر تیسرا کوئی ہمارے ساتھ تھا تو شاید وہ شیطان تھا جس نے ایک بار پھر میرے دل‬
‫میں عمران کے بارے میں خیال پیدا کرنے شروع کر دیے۔‬

‫کمرے میں کوئی اور بیڈ تو موجود نہیں تھا محض ‪ 2‬کرسیاں اور ایک صوفہ ہی موجود‬
‫تھا۔ عمران اور میں صوفے پر بیٹھے باتیں کررہے تھے۔ وہ مجھ سے میری مصروفیات‬
‫‪ ،‬پڑھائی اور فیاض کے بارے میں پوچھ رہے تھے جبکہ میں نے ان سے انکے بزنس‬
‫کے بارے میں پوچھا۔ اس دوران میری پھدی دوبارہ گیلی ہونا شروع ہوگئی تھی اور‬
‫مجھے سمجھ نہیں آرہی تھی کہ میں اسکا کیا کروں۔ ایک طرف عمران نے مجھ سے‬
‫وعدہ کیا تھا کہ آئندہ وہ مجھے اپنی چھوٹی بہن کی طرح ہی سمجھیں گے اور کبھی‬
‫مجھ پر بری نظر نہیں ڈالیں گے تو دوسری طرف میری پھدی عمران کا لن مانگ رہی‬
‫تھی۔‬

‫کچھ ہی دیر بعد مجھے محسوس ہوا کہ شیطان صرف میرے دل میں ہی نہیں بلکہ‬
‫عمران کے دل میں بھی وسوسے ڈال رہا ہے۔ صوفے پر عمران اچانک ہی میرے قریب‬
‫ہوکر بیٹھ گئے تھے‪ ،‬اور میں نے محسوس کیا کہ انکی نظریں میرے سینے کے‬
‫ابھاروں پر ہے۔ اگرچہ میں نے قمیص پہن رکھی تھی اور اوپر دوپٹہ بھی تھا اور میرے‬
‫ممے مکمل طور پر قمیص میں چھپے ہوئے تھے مگر انکے ابھار کو چھپانا تو ممکن‬
‫نہیں۔ اور عمران کی نظریں بار بار ادھر ہی جا رہی تھیں۔ اور یہ ایک حقیقت ہے کہ جب‬
‫کوئی مرد چوری چھپے عورت کے سینے پرہوس بھری نظر ڈالتا ہے تو عورت کو بہت‬
‫جلدی اس بات کا احساس ہوجاتا ہے کہ کہیں سے ہوس بھری نظریں اسکے مموں کا‬
‫نظارہ کرنے میں مصروف ہیں۔ اور مجھے بھی یہ احساس ہوگیا تھا۔ عمران کی نظریں‬
‫میرے مموں پر تھیں اس بات کا احساس ہوتے ہی میری چوت نے اور مچلنا شروع کر‬
‫دیا اور گیلے پن میں اضافہ ہونے لگا۔ جبکہ عمران بھی بہانے سے میرے اور قریب‬
‫ہوکر بیٹھ گئے اب انکا جسم میرے جسم کو چھو رہا تھا۔ اور انہوں نے اپنا بازو میری‬
‫گردن کے گرد لپیٹتے ہوئے مجھے اپنے قریب کر لیا اور بولے تمہیں نیند آرہی ہوگی تم‬
‫سوجاو اور میرا سر اپنے کندھے پر رکھ دیا۔‬

‫میں نے بھی چپ چاپ انہیں ایسا کرنے دیا اور اپنی آنکھیں بند کر لیں۔ ایک تو مجھے‬
‫ویسے ہی نیند نہیں آرہی تھی اوپر سے جب چوت ایک لن کی طلب گار ہو اور وہ لن‬
‫بھی اسکے ساتھ ہی موجود ہو تو پھر بھال نیند کیسے آسکتی ہے۔ مگر میں اپنی‬
‫آنکھیں بند کر کے عمران کے کندھے پر سر رکھ کر بیٹھی رہی۔ کچھ دیر عمران بھی‬
‫ایسی ہی ساکت صوفے سے ٹیک لگائے بیٹھ رہے۔ پھر آہستہ آہستہ انکا ہاتھ حرکت‬
‫کرنے لگا اور وہ اپنے ہاتھ سے میرا دایاں کندھا ہلکا ہلکا دبانے لگے۔ کندھے سے‬
‫ہاتھ میری گردن کے پچھلے حصے تک بھی آگیا اور میری گردن پر ہاتھ پھیر کر وہ‬
‫میرے جسم کی گرمی کو محسوس کرنے لگے۔ گردن پر ہاتھ پھیرتے ہوئے انہوں نے‬
‫مجھے ہلکی آواز دی مگر میں خاموش رہی اور کچھ نہ بولی۔ پھر انہوں نے میرا سر‬
‫اپنے کندھے سے اٹھایا اور مجھے پیچھے کر کے صوفے کے ساتھ ٹیک لگوا دی۔ اب‬
‫میرا سر صوفے کی بیک کے سہارے تھا اور میں یہ شو کروا رہی تھی کہ جیسے‬
‫مجھے نیند آگئی ہے۔ کچھ دیر میں ایسے ہی بیٹھی رہی اور کچھ نہ ہوا مگر پھر اچانک‬
‫عمران کا ہاتھ مجھے اپنے سینے کے اوپر رینگتا ہوا محسوس ہونے لگا۔ وہ میرے‬
‫گلے کے قریب میرے کندھوں پر اور سینے پر اپنا ہاتھ نہایت نرمی کے ساتھ پھیر رہے‬
‫تھے۔ کندھوں اور سینے پر ہاتھ پھیرنے کے بعد اب عمران کا ہاتھ میرے سینے کے‬
‫ابھاروں تک پہنچ چکا تھا اور وہ ہلکے ہلکے پیار سے میرے مموں پر اپنا ہاتھ پھیر‬
‫رہے تھے۔ قمیص کے اوپر سے ہی عمران کا ہاتھ میرے مموں کو گرم کر رہا تھا اور‬
‫مجھے اپنی پھدی میں بہت زیادہ گیال پن محسوس ہورہا تھا جس نے میری ٹانگوں کو‬
‫گھٹنوں تک گیال کر دیا تھا۔‬

‫کچھ دیر ایسے ہی نرمی سے ہاتھ پھیرنے کے بعد اب عمران نے ہلکا ہلکا دباو ڈالنا‬
‫شروع کر دیا تھا مموں پر۔ وہ میرے مموں کو اپنے ہاتھ سے آہستہ آہستہ دبا رہے‬
‫تھے۔ اور میں بہت ہی مشکل سے اپنی آنکھیں بند کیے بیٹھی تھی۔ اچانک ہی مجھے‬
‫اپنے ہونٹوں کے قریب گرمی محسوس ہونے لگی۔ یہ عمران کی سانسوں کی گرمی‬
‫تھی‪ ،‬عمران کا چہرہ میرے چہرے کے بالکل قریب تھا۔ ابھی میں اس گرمی کو محسوس‬
‫کر ہی رہی تھی کہ عمران نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے مال دیا اور انکو بھی بہت‬
‫ہی نرمی کے ساتھ چوسنے لگے۔ نیچے سے عمران کا ہاتھ میرے مموں کا مساج کر‬
‫رہا تھا اور اوپر سے عمران میرے ہونٹوں پر پیار کرنے میں مصروف تھے۔ یہ سب‬
‫کچھ میری برداشت سے باہر ہو رہا تھا اور میرا دل کر رہا تھا کہ ابھی آنکھیں کھول‬
‫دوں اور دیوانہ وار عمران کو پیار کرنے لگوں مگر میں پھر بھی اپنے اوپر کنٹرول کر‬
‫کے بیٹھی رہی۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ عمران کس حد تک جاتے ہیں مجھے سوتا‬
‫سمجھ کر۔‬

‫کچھ دیر میرے ہونٹوں کا رس پینے کے بعد اب عمران اپنے ہونٹوں سے میری گردن کا‬
‫مساج کر رہے تھے۔ سفر کی تھکن عمران کے گرم ہونٹوں کے مساج سے ختم ہو رہی‬
‫تھی اور اسکی جگہ مزہ آنے لگا تھا اب۔ عمران کبھی میری گردن پر ہونٹ پھیرتے تو‬
‫کبھی میرے کندھوں پر اپنے ہونٹوں سے پیار کرتے ۔ تھوڑی دیر کے بعد عمران کے‬
‫ہونٹ میرے مموں کے بیچ والی الئن میں تھے اور اب ہونٹوں کے ساتھ ساتھ عمران کی‬
‫زبان بھی میرے مموں پر تھی۔ مموں کی الئن کے درمیان میں عمران نے جب اپنی زبان‬
‫پھیرنی شروع کی تو میرا دل کیا کہ ابھی سسکیاں لینا شروع کر دوں مگر اس پر بھی‬
‫میں نے کنٹرول رکھا۔ اب عمران کافی حد تک بے دھڑک ہوکر مجھے پیار کر رہے تھے۔‬
‫ایک تو وہ جانتے تھے کہ صائمہ اب صبح تک نہیں اٹھے گی اور پھر انکو میرے بارے‬
‫میں بھی گمان تھا کہ سفر کی تھکاوٹ کی وجہ سے میں گہری نیند سو رہی ہوں۔‬

‫یہی سوچ کر عمران نے میرے مموں پر اپنے ہاتھوں کا دباو بڑھا دیا تھا اور اب وہ‬
‫میرا پورا مما اپنے ہاتھ میں لیکر اسکو دبا رہے تھے اور ساتھ ہی قمیص کے اوپر سے‬
‫میرے مموں کے ابھار پر اپنی زبان بھی پھیر رہے تھے۔ کچھ دیر قمیص کے اوپر سے‬
‫ہی مزے لینے کے بعد عمران اپنا ہاتھ میری کمر پر لے گئے۔ اور کمر پر قمیص کی زپ‬
‫اپنے ہاتھ سے فورا ہی نیچے کر دی۔ یہ زپ تھوڑی بڑی تھی جسکی وجہ سے کمر کا‬
‫کافی حصہ نا صرف ننگا ہوگیا تھا بلکہ قمیص بھی کافی کھلی ہوگئی تھی جسکی وجہ‬
‫سے اب وہ با آسانی قمیص کو میرے کندھوں سے ہٹا سکتے تھے۔ عمران نے ایسا ہی‬
‫کیا اور قمیص کو میرے کندھوں سے ہٹا دیا۔ اب میرے کندھے بالکل ننگے تھے اور ان‬
‫پر بلیک برا کی سٹرپس نظر آرہی تھیں جن پر عمران کے ہونٹ اپنا جادو جگانے میں‬
‫مصروف تھے۔‬

‫اب عمران نے میری ایک سائیڈ کی برا کی سٹرپ بھی میرے کندھے سے ہٹا دی اور‬
‫اس پر پیار کرنے لگے۔ اور پھر دوسری سائیڈ کی سٹرپ کے ساتھ بھی یہی کام کیا۔ اب‬
‫میرے برا کے کپ تو میرے مموں پر تھے مگر اس سے اوپر کا سارا جسم ننگا تھا اور‬
‫عمران اپنے ہونٹوں سے مساج کر رہے تھے‪ ،‬کبھی زبان سے میرا جسم چاٹتے تو‬
‫میرے پورے جسم میں چیونٹیاں ریگنے لگتیں۔ یہ سب کچھ اب ناقاب ِل برداشت ہورہا تھا‬
‫میرے لیے کہ اتنے میں عمران نے ایک اور وار کیا‪ ،‬میرا برا اتار کر میرے مموں کو نا‬
‫صرف اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا بلکہ اپنے ہونٹوں سے میرے نپلز بھی چوسنے لگے جو‬
‫پہلے سے ہی سخت ہو کر کھڑے ہو چکے تھے۔ عمران کا یہ کرنا تھا کہ میرا صبر کا‬
‫پیمانہ لبریز ہوگیا اور میں نے اپنی آنکھیں کھول دیں اور اپنا ہاتھ عمران کے سر پر‬
‫رکھ کر مموں کی طرف دبانے لگی اور عمران کو کہا ذور سے پیار کریں میرے مموں‬
‫پر۔ میری آواز سن کر عمران نے کوئی خاص ری ایکشن نہیں دکھایا بلکہ خاموشی سے‬
‫میرے مموں سے دودھ پیتے رہے۔ شاید وہ جانتے تھے کہ میں جاگ رہی ہوں اور جان‬
‫بوجھ کر سونے کی ایکٹنگ کر رہی ہوں۔ کچھ دیر میرے مموں کو چاٹنے کے بعد‬
‫عمران کھڑے ہوئے اور میری طرف مسکرا کر دیکھا اور بولے آج ‪ 1‬مہینے کے بعد‬
‫پھدی مل رہی ہے مجھے صائمہ کو حاملہ ہونے کی وجہ سے چود نہیں سکا ‪ 1‬مہینے‬
‫سے۔ یہ کہتے ہوئے عمران نے اپنے کپڑے اتار دیے اور اپنا ‪ 8‬انچ کا لوڑا میرے‬
‫سامنے کر دیا جو میں نے بغیر سوچے منہ میں ڈال لیا۔ پہلے لوڑے کی ٹوپی پر پیار کیا‬
‫اور اسکے بعد اپنی زبان ٹوپی سے نیچے جڑ تک پھیرنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں پورا‬
‫لوڑا میری زبان سے گیال ہو چکا تھا۔‬

‫اب میں نے ٹوپی اپنے منہ میں ڈالی اور اس پر اپنے ہونٹ گھمانے لگی‪ ،‬پھر آہستہ‬
‫آہستہ پورا لوڑا میرے منہ میں تھا۔ اور میں بہت ہی مہارت اور پیار کے ساتھ چوپا لگا‬
‫رہی تھی۔ میں نے ایک ہاتھ سے لن کو جڑ سے پکڑ رکھا تھا اور دوسرا ہاتھ عمران‬
‫کے پیچھے لیجا کر کبھی انکے چوتڑوں پر پھیرتی تو کبھی ہاتھ تھوڑا نیچے کر کے‬
‫پیچھے سے ہی انکے ٹٹوں کو پکڑ کر سہالنے لگتی۔ اس دوران عمران نے میرے‬
‫قمیص اور برا مکمل طور پر اتار دیا تھا اور وہ اپنے ایک ہاتھ سے میرے مموں کو دبا‬
‫رہے تھے۔ ‪ 5‬منٹ تک میں خوب جم کر چوپا لگاتی رہی۔ اور تھوک پھینک پھینک کر لن‬
‫کو بہت زیادہ چکنا کر دیا تھا۔‬

‫اب عمران نے اپنا لن میرے منہ سے نکاال اور میری شلوار اتار دی۔ شلوار اتارتے ہی‬
‫انہوں نے میری پھدی پر نظر ڈالی‪ ،‬انکی نظروں میں اس وقت ایسی بھوک تھی جیسے‬
‫کسی بھوکے کو کتنے دن سے کھانا نہ مال ہو۔ اور کھانا ملے تو وہ جیسے ایک دم سے‬
‫کھانے پر ٹوٹ پرتا ہے۔ یہی کام عمران نے کیا اور اور اپنی انگلی فوران میری صاف‬
‫شفاف پھدی میں داخل کر دی۔ مگر میں نے عمران کو بتایا کہ کل سے ہی یہ پھدی‬
‫آپکے لن کے بارے میں سوچ سوچ کر گیلی ہوئے جا رہی ہے اب پلیز مزید انتظار مت‬
‫کرواو اور اپنا لن اپنی سالی کی پھدی میں ڈال دو۔‬

‫یہ سنتے ہی عمران نے میری ٹانگیں اوپر اٹھائیں تو میری خود ہی صوفے سے ٹیک‬
‫لگ گئی‪ ،‬عمران خود بھی گھٹوں کے بل صوفے پر بیٹھ گئے اور میری گانڈ سے پکڑ‬
‫کر مجھے اوپر اٹھایا اور اپنی گود میں بٹھا لیا۔ پھر فورا ہی اپنا لن میری پھدی پر سیٹ‬
‫کیا اور بولے مجھے بھی جب پتا چال کہ میری سالی آرہی ہے تو میں نے بھی شکر کیا‬
‫کہ اب میری سالی ہی میرے لن کی بھوک ختم کرے گی اور اپنی گرما گرم پھدی میں‬
‫اسکا پانی نکلوائے گی۔ ساتھ ہی ایک جھٹکا لگا اور ‪ 3‬انچ لوڑا میری پھدی میں تھا۔‬
‫میری ہلکی سی چیخ نکلی مگر عمران نے فورا ہی اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ‬
‫دیے۔ اور میری چیخ دب گئی۔ ساتھ ہی ایک اور جھٹکا لگا اور ‪ 8‬انچ کا لوہے کا لوڑا‬
‫میری پھدی کی گہرائیوں میں اتر چکا تھا۔ عمران کو اس بار میری پھدی میں لوڑا‬
‫اتارنے میں بالکل بھی مشکل پیش نہیں آئی کیونکہ میری پھدی تو ‪ 2‬دن سے ہی گیلی‬
‫تھی جب کہ عمران کا لوڑا بھی میں نے چاٹ چاٹ کے خوب چکنا کر دیا تھا۔ اور کچھ‬
‫ویسے بھی میری پھدی اپ کنواری جیسی نہیں رہی تھی بلکہ کچھ کھلی ہو چکی تھی۔‬

‫لوڑا اندر جاتے ہی عمران نے دھکے لگانے شروع کیے اور ساتھ ساتھ میری کسنگ‬
‫جاری رکھی۔ لوڑا اندر جاتا تو میں اپنی پھدی کو ٹائٹ کر لیتی اور جب واپس آنا ہوتا تو‬
‫میں اپنی پھدی کو ڈھیال چھوڑ دیتی جسکی وجہ سے مجھے بہت رگڑ مل رہی تھی اور‬
‫مجض چند جھٹکوں میں ہی میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا۔ اتنی جلدی پانی چھوڑ دینا‬
‫میرے لیے حیرت انگیز تھا مگر اسکی وجہ ‪ 2‬دن کا انتظار تھا جو عمران کا لن لینے‬
‫کے لیے پھدی مچل رہی تھی۔ میرے پانی سے عمران کی ٹانگیں گیلی ہوگئیں تھی۔ اب‬
‫انہوں نے مجھے اپنی گود سے اتارا اور خود صوفے پر بیٹھ گئے۔ اب میں گھٹنوں کے‬
‫بل عمران کی گود میں بیٹھی اور اپنی چوت کو عمران کے لن کے اوپر رکھ کر ایک ہی‬
‫باری میں پورا لن اپنے اندر سمو لیا۔ اس بار میں عمران کے اوپر تھی اور پوری طرح‬
‫لن کے اوپر بیٹھ چکی تھی اور لن میری پھدی کے اندر تک داخل ہوچکا تھا۔ اب میں‬
‫نے خود ہی اچھلنا شروع کیا ‪ ،‬میری سپیڈ کچھ سلو تھی مگر لن جب پورا اندر داخل‬
‫ہوتا تو مزہ بھی آتا۔‬

‫کچھ ہی دیر اچھلنے کے بعد میں تھک گئی تو عمران نے نیچے سے خود دھکے لگانے‬
‫شروع کی‪ ،‬میں تھوڑا سا جھک گئی عمران کے اوپر جسکا فائدہ اٹھاتے ہوئے عمران‬
‫نے میرے ممے اپنے منہ میں لے لیے اور چوسنا شروع کر دیے اور دھکے لگانا‬
‫جاری رکھے۔ میں نے عمران کے بالوں پر ہاتھ پھیرنا شروع کیا اور کہا کہ اپنی سالی‬
‫کو جی بھر کو چودو آج۔ اپنی سالی کواسکی بہن کے سامنے چودو‪ ،‬اور زور سے‬
‫دھکے لگاو‪ ،‬پھاڑ دو میری چوت کو‪ ،‬زور سے چودو‪ ،‬اور زور سے چودو۔۔۔۔۔۔۔ یہ سن‬
‫کر عمران کے دھکے واقعی میں تیز ہوگئے۔ ان دھکوں کی وجہ سے میری پھدی کی‬
‫بری حالت ہوئے جا رہی تھی۔ ‪ 8‬انچ کا لن اس وقت کسی لوہے کے راڈ کی طرح میری‬
‫پھدی کی کھدائی کر رہا تھا اور میرے نپل عمران نے اپنے دانتوں میں دبا رکھے تھے‪،‬‬
‫جب عمران دھکا مارتے تو میں اوپر کو اچھلتی اور میرے نپل جو عمران کے دانتوں‬
‫میں تھے وہ باہر نکلنے کی کوشش کرتے مگر عمران اپنے دانتوں سے انکو اندر ہی‬
‫روک لیتے جسکی وجہ سے نپلز میں بہت ہی عجیب مزہ آرہا تھا۔‬
‫عمران اس پوزیشن میں مسلسل ‪ 8‬منٹ میری چودائی کرتے رہے اور میں مزے سے‬
‫بہنوئی کے لن پر سواری کرتی رہی۔ اس زبردست چدائی کے بعد مجھے اپنے جسم کی‬
‫جان نکلتی ہوئی محسوس ہونے لگی ساتھ ہی عمران کے دھکے بھی طوفانی رفتار کو‬
‫چھونے لگے۔ ایک دم عمران کی آواز آئی فائزہ میری منی نکلنے لگی ہے۔۔۔ میں نے‬
‫کہا میں بھی فارغ ہورہی ہوں تو عمران بولے میں اپنی سالی کی پھدی میں ہی منی‬
‫چھوڑوں گا اس بار۔ پہلی بار جب عمران نے میری چودائی کی تھی تو انہوں نے منی‬
‫میری چوت میں نکالنے کی بجائے میرے منہ میں اور میرے مموں پر نکالی تھی۔ میں‬
‫نے کہا ٹھیک ہے عمران بھائی اپنی سالی کی پھدی میں منی نکال دو۔ ساتھ ہی میری‬
‫چوت نے پانی چھوڑ دیا اور نیچے سے عمران کے جسم نے بھی جھٹکے کھاءے اور‬
‫اپنا سفید گاڑھا پانی میری چوت کی گہرائیوں میں نکال دیا۔ کچھ دیر جھٹکے لگانے کے‬
‫بعد عمران پرسکون ہوکر صوفے پر لیٹ گئے جب کہ میں بھی انکے سینے سے لگ کر‬
‫انکو پیار کرنے لگی ۔‬

‫پھر عمران نے میری طرف دیکھا اور میرے ہونٹوں پر ایک کس کرتے ہوئے بولے‬
‫شکریہ فائزہ آج تم نے اپنی چوت دے کر مجھے بہت مزہ دیا ہے۔ ‪ 1‬مہینے سے میرے‬
‫لن نے چوت کا مزہ نہیں لیا تھا۔ آخر سالی ہی کام آئی میرے۔ میں نے عمران کو کہا‬
‫آپکی سالی کی چوت آپکے لیے ہی ہے جب مرضی چاہیں چود دیا کریں۔‬

‫عمران کا لن ابھی تک میری پھدی میں تھا اور میں انکی گود میں ہی بیٹھی تھی۔ مگر‬
‫لوہے کا لن اب کسی روئی کے گالوں کی طرح نرم ہو چکا تھا ۔ کچھ دیر انتظار کرنے‬
‫کے بعد میں نے اپنی پھدی کو دبانا شروع کر دیا۔ میں اپنی پھدی کو دباتی تو مجھے‬
‫محسوس ہوتا کہ پھدی میں کوئی چھوٹا سا اور نرم سا لن موجود ہے۔ اور پھر پھدی کو‬
‫ڈھیال چھوڑ دیتی‪ ،‬ساتھ ہی عمران کو کسنگ بھی شروع کر دی۔ کچھ دیر فرینچ کس‬
‫کرنے کے بعد میں نے عمران کے کان پر پیار کرنا شروع کیا اور اپنی زبان عمران کے‬
‫کان میں پھیرنے لگی۔ میں نے یہ کام پہلی بار کیا تھا‪ ،‬اس سے عمران کو بہت مزہ آنے‬
‫لگا اور انکو جیسے جھٹکے سے لگنے لگے۔ انکے چہرے سے پتا لگ رہا تھا کہ‬
‫انکو بہت مزہ آرہا ہے اس چیز سے۔ میں نے بھی زبان کو تیزی سے کان میں پھیرنا‬
‫جاری رکھا اور مجھے پھر عمران کے لن میں تھوڑی سی سختی محسوس ہوئی مگر‬
‫ابھی تک یہ لن لوڑا نہیں بنا تھا۔‬
‫کچھ دیر کان چاٹنے کے بعد میں نے نیچے جھک کر عمران کے نپل پر زبان پھیرنی‬
‫شروع کی اس کا بھی عمران کو بہت مزہ آنے لگا اور انکی سسکیاں نکلنے لگی‪ ،‬میں‬
‫نے پہلے ایک نپل کو چاٹا پھر پھر دوسرے نپل کو بھی چاٹا۔ عمران کی سسکیاں بڑھ‬
‫رہی تھیں جسکا مطلب تھا کہ عمران کو نپلز پر زبان پھیرنے سے مزہ آرہا ہے‪ 5 ،‬منٹ‬
‫کی محنت کے بعد میری پھدی میں موجود روئی جیسا لن اب لوہے کا لوڑا بن چکا تھا‬
‫اور اسکی لمبائی دوبارہ سے ‪ 8‬انچ ہو چکی تھی‪ ،‬عمران نے بھی بغیر وقت ضائع کیے‬
‫جیسے ہی اپنے لن میں تناو محسوس کیا اسکومیری چوت کے اندر آہستہ آہستہ حرکت‬
‫دینا شروع کر دی‪ ،‬اور جب یہ تناو مکمل ہوگیا اور لن تن گیا تو عمران نے اپنی سپید‬
‫بڑھائی۔‬

‫میں ابھی بھی عمران کی گود میں تھی اور عمران صوفے پر ہی بیٹھے تھے۔ کچھ دیر‬
‫دھکے مارنے کے بعد میں نے عمران کو روکا اور انکو کہا مجھے صائمہ کے قریب‬
‫لیجا کر چودو۔ یہ سن کر عمران نے کہا وہ جاگ نا جائے۔ تو میں نے کہا میں آواز نہیں‬
‫نکالوں گی آپ جتنے بھی تیز دھکے مار لو میں برداشت کروں گی اور ویسے بھی‬
‫صائمہ کو نیند کی دوائی دی گئی ہے وہ نہیں اٹھے گی۔ یہ سن کر عمران نے مجھے‬
‫اٹھنے کو کہا تو میں عمران کی گود سے اٹھ گئی اور صائمہ کے بیڈ کے قریب چلی گئی۔‬
‫صائمہ کے بیٹ کے قریب ایک سائیڈ ٹیبل پڑا تھا عمران نے مجھے کہا کہ اس ٹیبل پر‬
‫ہاتھ رکھ کر جھک جاو میں پیچھے سے تمہاری چدائی کروں گا۔ میں نے ایسا ہی کیا‪،‬‬
‫اب صائمہ کا چہرے میرے کافی قریب تھا محض ‪ 3‬فٹ کا فاصلہ تھا صائمہ اور میرے‬
‫چہرے کے درمیان۔ مجھے یہ چیز بہت سیکسی لگ رہی تھی کہ اپنی بہن کے اتنے‬
‫قریب ہوکر میں اپنی بہن کے شور سے ہی چدائی کروا رہی ہوں۔‬

‫میں ٹیبل پر ہاتھ رکھ کر جھکی تو میری گانڈ باہر نکلی اور عمران نے میرے چوتڑوں‬
‫پر ہاتھ پھیرنے کے بعد انگلی سے میری چوت کے سوراخ کا اندازہ لگا کر اپنا لن میری‬
‫چوت پر رکھ دیا اور ایک ہی جھٹکے میں لن اندر ڈال کر مجھے چودنا شروع کر دیا۔‬
‫عمران کا ایک ہاتھ میری بھاری گانڈ پر تھا اور دوسرا میرے کندھے کے قریب۔ اور وہ‬
‫کندھے سے پکڑ کر مجھے اپنی طرف کھینچے ہوئے تھے اور اپنی پوری طاقت کے‬
‫ساتھ اپنے لن کو میری پھدی میں اندر باہر کر رہے تھے۔ میرے ممے ان دھکوں کی‬
‫وجہ سے آگے پیچھے ہل رہے تھے اور میری نظریں بار بار صائمہ کی طرف جا رہی‬
‫تھی جو پرسکون انداز میں سو رہی تھی۔ میرے لیے یہ سب کچھ بہت ہی سیکسی تھا۔‬
‫اس پوزیشن میں چودائی کرواتے ہوئے بہت مزہ آرہا تھا کہ عمرا ن نے اپنے ہاتھوں‬
‫سے میرے دونوں مموں کو پکڑ لیا اور دبانے لگے۔ میرے بازو ابھی بھی ٹیبل پر تھے‬
‫اور میں جھکی ہوئی تھی مگر عمران نے مموں سے پکڑ کر مجھے تھوڑا سا اپنی‬
‫طرف کھینچا تو چوت اور لن کے درمیاں کا فاصلہ اور بھی کم ہوگیا۔ جس سے لن اور‬
‫بھی زیادہ میری چوت میں جانے لگا۔ ‪ 5‬منٹ کی چودائی کے بعد جب عمران نے میرے‬
‫نپلز کو اپنے ہاتھوں سے رگڑنا شروع کیا تو مزے کی شدت سے میری چوت نے ہار‬
‫مان لی اور میں نے وہیں کھڑے کھڑے اپنی چوت کا پانی نکال دیا۔‬

‫میری چوت کا پانی نکلنے کے بعد عمران نے اپنا لن میری چوت سے باہر نکاال اور‬
‫اسکو ایک کپڑے سے صاف کیا۔ اسکے بعد میری چوت جو اندر سے مکمل گیلی‬
‫ہوچکی تھی اسکے بھی تھوڑا صاف کیا اسکے بعد مجھے دیوار کے ساتھ لگا دیا۔‬
‫میری کمر دیوار کے ساتھ تھی اور عمران نے میری ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے بازو پر‬
‫رکھ لی اور لن میری چوت میں داخل کر کے میری چودائی شروع کردی۔ اس بار لن بھی‬
‫خشک تھا اور میری چوت بھی کافی حد تک خشک تھی جسکی وجہ سے زیادہ رگڑ مل‬
‫رہی تھی چوت کو اور مزہ بھی اسی حساب سے زیادہ آرہا تھا مگر کچھ ہی دیر میں‬
‫چوت کی چکناہٹ واپس آگئی تھی۔ کچھ ہی دیر کے بعد میری ٹانگوں کی بس ہوگئی‬
‫کیونکہ ایک ٹانگ اٹھا کر چدائی کروانا کوئی آسان کام نہیں‪ ،‬تبھی عمران نے میری‬
‫دوسری ٹانگی بھی اٹھائی اور دونوں ٹانگیں اب عمران کے بازووں پر تھیں اور میری‬
‫کمر دیوار کے ساتھ لگی ہوئی تھی۔ اس پوزیسن میں عمران نے خو جم کر دھکے لگانا‬
‫شروع کر دیے۔ اس بار عمران کے لن میں جیسے ایک نئی روح آگئی تھی اور عمران‬
‫کے جاندار دھکے میر چوت کی دیواروں کو بری طرح روند رہے تھے۔ میرے لیے اپنی‬
‫آواز پر قابو پانا مشکل ہوگیا تو میں نے اپنے دونوں ہاتھ اپنے منہ پر رکھ لیے اور اپنی‬
‫آواز کو برداشت کرنے لگی۔‬

‫کچھ دیر کے بعد عمران کے دھکوں میں جب تھوڑی کمی آئی تو میں نے اپنے ہاتھ منہ‬
‫سے ہٹائے اور عمران کی گردن کے گرد لپیٹ کر عمران کے گلے لگ گئی مگر کمر‬
‫ابھی بھی دیوار کے ساتھ تھی۔ اس حالت میں عمران نے مسلسل ‪ 10‬منٹ میری چودائی‬
‫کی۔ پھر ہم نے پوزیشن بدلی اور اس بار عمران نے مجھے نیچے فرش پر لیٹنے کو‬
‫کہا۔ میں فرش پر لیٹی تو عمران نے میری دونوں ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھ‬
‫لیں۔ ِمں صائمہ کے بیڈ کے بالکل ساتھ لیٹی ہوئی تھی‪ ،‬فرش تھوڑا سخت تھا اور اس‬
‫سے تکلیف بھی ہو رہی تھی مگر جب عمران کا لن چوت میں گیا اور میری چودائی‬
‫شروع ہوئی تو فرش سے رگڑ کی تکلیف سے زیادہ لن سے ملنے والی رگڑ کا مزہ تھا۔‬
‫عمران میری ٹانگوں کو اپنے کندھوں پر رکھے اپنی گانڈ ہال ہال کر میری چودائی کر‬
‫رہے تھے۔ پھر عمران نے میری ٹانگوں کو کندھے سے اتارا اور سائیڈ پر پھیال کر‬
‫تھوڑا میرے اوپر جھک گئے۔ اس سے چوت تھوڑی کھلی ہوگئ اور لن کے لیے راستہ‬
‫بھی زیادہ بن گیا۔ اب میری ٹانگیں کھلی تھیں اور بیچ میں میرا بہنوئی اپنے لن سے‬
‫میری چودائی میں مصروف تھا۔ ‪ 5‬منٹ ایسے ہی چودائی کے بعد میں نے دوبارہ سے‬
‫پوزیشن بدلی اور اپنی ٹانگیں فرش پر رکھ کر سیدھی کر لی اور عمران کو کہا وہ بھی‬
‫اپنی ٹانگوں کو سیدھا کر کے میرے اوپر لیٹ جائیں اور لن چوت میں ہی رہنے دیں۔‬
‫عمران نے ایسے ہی کیا۔ میں بالکل سیدھی لیٹے ہونے کی وجہ سے تھوڑا مشکل‬
‫محسوس کر رہی تھی مگر اس پوزیشن میں میری چوت کی دیواریں آپس میں مل گئی‬
‫ٹھیں اور چوت بہت ٹائٹ ہوگئ تھی جس میں عمران کا موٹا لن میری چوت کی دیواروں‬
‫سے بری طرح ٹکرا رہا تھا اور رگڑتا ہوا چوت کی گہرائیوں میں اتراتا۔ اس پوزیسن‬
‫میں نا صرف عمران کو مزہ آرہا تھا بلکہ میری چوت بھی مکمل انجوائے کر رہی تھی۔‬

‫منٹ میں ہی میری چوت نے ہار مان لی اور پانی چھوڑ دیا۔ جیسے ہی میری پھدی نے ‪5‬‬
‫پانی چھوڑا عمران نے مجھے الٹا لیٹنے کو کہا‪ ،‬میں الٹی ہو کر لیٹی اور ٹانگیں سیدھی‬
‫ہی رہنے دیں۔ عمران نے مجھے اپنی گانڈ کو تھوڑا سا اوپر اٹھانے کو کہا میں نے‬
‫ایسے ہی کیا عمران کے لن کو تھوڑا سا راستہ مل گیا چوت تک پہنچنے کا تو عمران‬
‫نے فورا ہی ٹائم ضائے کیے بغیر اپنا لن میری چوت میں اتار دیا۔ یہ پوزیشن پہلے سے‬
‫ب ِھی زیادہ ظالم تھی۔ میری چوت کی دیواریں آپس میں بالکل مل گئی تھی اور پیچھے‬
‫سے عمران کے سخت لن کسی چھری کی طرح میری پھدی کو چیرتا ہوا اندر جاتا اور‬
‫باہر جاتا۔‬

‫چوت زیادہ ٹائٹ ہونے کی وجہ سے عمران کا لن مکمل آزادی سے اندر باہر نہیں جا رہا‬
‫تھا جسکی وجہ سے وہ مکمل لن باہر نہیں نکال رہے تھے‪ ،‬محض چند انچ لن باہر‬
‫نکالتے اور پھر پوری طاقت کے ساتھ دھکا لگاتے۔ ہر دھکے کے ساتھ میری ہلکی سی‬
‫چیخ نکلتی مگر میں ہر دھکے کو برداشت کرتی رہی اور زیادہ آواز نہیں نکلنے دی۔‬
‫کچھ دیر پیچھے سے چودائی کرنے کے بعد عمران نے اپنا لن چوت سے باہر نکال لیا‬
‫کیونکہ وہ مکمل آزادی کے ساتھ اپنی سالی کو چود نہیں پا رہے تھے۔ لن باہر نکال کر‬
‫عمران نے مجھے گھوڑی بننے کو کہا۔‬

‫میں فورا ہی اپنے بہنوئی کے سامنے گھوڑی بن گئی۔ بہنوئی نے پیچھے سے اپنی‬
‫سالی کی گانڈ کو سہالیا اور پھر چوت کو سہالنے لگے‪ ،‬ساتھ ساتھ اپنے لن کو ہاتھ میں‬
‫پکڑے مٹھ بھی مارتے رہے۔ پھر اپنا لن اپنی سالی کی چوت پر رکھا اور ایک ہی‬
‫جھٹکے میں اپنا ‪ 8‬انچ کا لوہے جیسا لوڑا اپنی سالی کی نازک پھدی میں اتار دیا۔ اور‬
‫پھر تو جیسے دھکوں کی ایک مشین سی چل پڑی۔ ہر دھکا پہلے سے زیادہ جاندار ہوتا‬
‫اور سالی کی چوت کی گہرائیوں میں لن اترنے سے سالی کے مزے میں مسلسل اضافہ‬
‫ہورہا تھا۔ بہنوئی کے ٹٹے سالی کی گانڈ سے ٹکرا رہے تھے اور بہنوئی کے مثانے کی‬
‫جگہ جب سالی کے نرم نرم چوتڑوں سے ٹکراتی تو کمرے میں دھپ دھپ کی آواز پیدا‬
‫ہوتی۔‬

‫عمران کی رفتار مسلسل تیز سے تیز تر ہو رہی تھی اور دھکوں کی طاقت میں بھی‬
‫طوفانی اضافہ ہوتا جارہا تھا۔ میں سمجھ گئی تھی کہ اب عمران کا وقت قریب ہے لیکن‬
‫اس سے پہلے کہ عمران کا لن ہار مانتا میری چوت نے طوفانی چودائی کے آگے ہار‬
‫مان لی اور پانی چھوڑ دیا۔ پانی نکلنے کے بعد بھی عمران کے دھکے نہ رکے تو میں‬
‫نے عمران کو کہا کہ اس بار اپنی منی اپنی سالی کے سینے پر نکالنا۔ یہ سنتے ہی‬
‫عمران نے اپنا لن میری چوت سے نکال لیا اور مجھے اپنی طرف منہ کرنے کو کہا‪،‬‬
‫میں فورا سیدھی ہوئی اور عمران کی طرف منہ کر لیا‪ ،‬عمران نے اپنا لن میرے ہاتھ‬
‫میں پکڑایا اور کہا مٹھ مار کے فورا منی نکال دو‪ ،‬میں نے فورا ہی عمران کی مٹھ‬
‫مارنی شروع کر دی کچھ ہی جھٹکوں کے بعد عمران کے لن میں تناو اچانک بڑھ گیا‬
‫اور میں نے عمران کے لن کی ٹوپی کا رخ اپنے مموں کی طرف کرکے مٹھ مارنا جاری‬
‫رکھا اچانک ہی ایک تیز اور گرم دھار میرے مموں سے ٹکرائی اور ساتھ ہی عمران کی‬
‫ہلکی سی سسکی بھی نکلی۔ پھر ‪ 4 ،3‬اور گاڑھی اور گرم گرم دھاریں نکلیں اور میرے‬
‫مموں کو سفید پانی میں نہال دیا۔‬

‫بہنوئی کی گاڑھی منی سالی کے بڑے بڑے مموں پر جم گئی تھی۔ جب ساری منی نکل‬
‫گئی تو میں نے عمران کا لن اپنے منہ میں لیکر اچھی طرح چاٹ لیا۔ اور اس زبردست‬
‫چدائی پر عمران کا شکریہ ادا کیا۔ عمران بھی بہت خوش اور مطمئن تھے انہوں نے‬
‫بھی میرا شکری ادا کیا کہ میں نے اپنی چوت سے انکے لن کو بہت مزہ دیا۔ پھر میں‬
‫کمرے میں موجود واش روم میں گئی اور اپنا جسم دھویا۔ اسکے بعد ایک کپڑا لیکر‬
‫صوفے اور فرش پر سے اپنی اور عمران کی منی صاف کی ۔ اس دوران عمران نے بھی‬
‫واش روم جا کر اپنی ٹانگیں دھو لی تھیں۔ پھر کپڑے پہن کر ہم صوفے پر بیٹھ گئے۔ ‪٫‬‬

‫کچھ دیر باتیں کرنے کے بعد میں صوفے پر ہی لیٹ گئی اور عمران کی گود میں سر‬
‫رکھ لیا۔ کب میری آنکھ لگی مجھے کچھ علم نہیں۔ کچھ سفر کی تھکاوٹ اور کچھ‬
‫عمران کی جاندار چودائی نے میرے جسم کو چکنا چور کر دیا تھا۔ خوب گہری نیند آئی‬
‫مجھے ‪ ،‬صبج جب آنکھ کھلی تو کمرے میں امی ابو‪ ،‬آنٹی موجود تھے اور آپس میں‬
‫باتیں کر رہے تھے جبکہ میرا سر ابھی تک عمران کی گود میں ہی تھا۔‬
‫آنکھ کھلنے پر میں اٹھی اور سیدھی واش روم جا کر فریش ہونے لگی۔ باہر نکلی تو‬
‫صائمہ کی ساس نے مجھے پیار کیا کہ تم نے ساری رات بہن کا اور عامر کا خیال رکھا‬
‫تم بہت اچ ِھی ہو۔ میں نے دل میں کہا کہ آپکے بیٹے کے لن کا خیال رکھا تھا صائمہ تو‬
‫سو رہی تھی۔‬

‫خیر‪ ،‬کچھ دیر ہم ہسپتال میں ہی باتیں کرتے رہے‪ ،‬صائمہ بھی جاگ گئی تھی اور اب‬
‫اسکی طبیعت کافی بہتر تھی۔ بیچ میں ‪ 2‬سے ‪ 3‬بار ڈاکٹر نے وزٹ بھی کیا اور شام کے‬
‫وقت صائمہ کو ہسپتال سے ڈسچارج کر دیا۔ ہسپتال سے صائمہ کو لیکر ہم ‪ 8‬بجے گھر‬
‫پہنچے تو جاتے ہی عمران باہر سے کھانا لے آئے‪ ،‬ہم سب نے کھانا کھایا۔ عمران اوپر‬
‫کمرے میں جا کر سوگئے کیونکہ انکا نیند سے برا حال تھا اور وہ اپنی نیند پوری کرنا‬
‫چاہتے تھے۔ جبکہ نیچے انکے کمرے میں صائمہ ‪ ،‬میں اور امی موجود تھے۔ میں بھی‬
‫تھکی ہوئی تھی اور جلد ہی سو گئی۔‬

‫صبح آنکھ کھلی تو امی ابو واپس جانے کی تیاری کر رہے تھے۔ میں نے امی سے بوال‬
‫کہ میں ابھی آپی کے پاس رہنا چاہتی ہوں میں بعد میں آجاوں گی۔ اس پر صائمہ نے بھی‬
‫کہا کہ جی امی فائزہ کو چھوڑ جائیں مجھے اسکی ضرورت ہے یہاں پر‪ ،‬اور صائمہ کی‬
‫ساس نے بھی بوال کہ ہاں بہن میں بوڑھی عورت کیسے صائمہ کا اس حالت میں خیال‬
‫رکھوں گی ساتھ بہن کو ہونا ہی چاہیے۔ یہ سن کر امی نے ابو سے بات کی تو ابو بھی‬
‫مان گئے اور مجھے ایک ہفتہ رکنے کی اجازت دے دی۔ عمران پہلے ہی آفس جا چکے‬
‫تھے‪ ،‬کافی دن سے وہ اپنے آفس میں صحیح ٹائم نہیں دے سکے تھے جسکی وجہ‬
‫سے صبح اٹھتے ہی وہ آفس چلے گئے۔‬

‫امی ابو اور فیاض کے واپس جانے کے بعد اب گھر میں صائمہ کی ساس‪ ،‬صائمہ عامر‬
‫اور میں خود موجود تھی۔ میں سارا دن عامر کو گود میں اٹھئے رہی‪ ،‬کبھی جب کوئی‬
‫کام ہوتا تو اسکو صائمہ کے ساتھ لٹا کر کام کرتی اور واپس آکر پھر سے اسے اٹھا کر‬
‫پیار کرنے لگتی۔ وہ میری گود میں سویا رہا۔ رات ‪ 8‬بجے عمران آئے تو انہوں نے‬
‫کھانا مانگا اور صائمہ کے پاس بیٹھ کر اپنے ننے منھے بچے کو پیار کرنے لگے۔ میں‬
‫نے کچن میں جا کر انکے لیے کھانا گرم کیا اور صائمہ کے کمرے میں ہی انکو پیش کر‬
‫دیا۔ اتنے میں عمران کی امی بھی آگئیں اور ہمارے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرنے لگیں۔ ابھی‬
‫عمران کھانا کھا ہی رہے تھے کہ انکی امی بولی بیٹا فائزہ صبح سے کام کر رہی ہے‬
‫اسکو الہور ہی گھما ال۔ یہ سن کر عمران بولے یہ ٹھیک ہے ویسے بھی کھانا مزے کا‬
‫نہیں تو باہر کچھ کھا بھی لیں گے۔ میں نے کہا کہ نہیں گھر پر آپی اکیلی ہیں کوئی کام‬
‫بھی پڑ سکتا ہے جس پر عمران کی امی بولیں کہ بیٹا تم فکر نہ کرو جب تک تم لوگ‬
‫آنہیں جاتے ِمں صائمہ کے پاس ہی ہوں۔ صائمہ نے بھی مجھے کہا کہ تم فکر نہ کرو‬
‫آرام سے پھرو سیر کرو۔ یہ سن کر میں بھی تیار ہوگئی اور عمران نے اپنی کار نکالی‬
‫اور میں انکے ساتھ بیٹھ کر الہور گھومنے نکل گئی۔‬

‫عمران نے مجھ سے پوچھا کہ کہاں چلنا ہے تو میں لبرٹی مارکیٹ چلنے کو کہا۔ عمران‬
‫نے کہا وہاں جا کر کیا کروگی؟ ِمں نے کہا لڑکیوں کو ونڈو شاپنگ کا شوق ہوتا ہے وہی‬
‫کروں گی۔ سو عمران مجھے وہیں لے گئے۔ کچھ دیر میں مختلف دکانوں پر کپڑے اور‬
‫جیولری دیکھتی رہی۔ ایک دکان سے ایک شال خریدی اور ایک جیولری والی دکان سے‬
‫آرٹی فیشل رنگ خریدی جسکی پیمینٹ عمران نے کی۔ پھر لبرٹی مارکیٹ کے سامنے‬
‫سے عمران نے مجھے پراٹھا رول کھالئے جو یہاں کے مشہور ہیں کراچی پراٹھا‬
‫سپیشل۔‬

‫پراٹھا رول کھانے کے بعد عمران مجھے پیس لے گئے۔ پیس الہور کا مشہور شاپنگ‬
‫پالزہ ہے۔ اسکی فرسٹ فلور پر مشہور برانڈز موجود تھے۔ رات کے ‪ 10‬بج چکے تھے‬
‫اور پیس میں اینٹری بند ہو چکی تھی لوگ اب واپس جانا شروع تھے۔ ہم پورے ٹائم پر‬
‫پہنچے تھے ہمارے بعد محض چند لوگ ہی اندر داخل ہوئے ہونگے۔ یہاں بھی کچھ دیر‬
‫میں نے ونڈو شاپنگ کی اور اسکے بعد ایک جیولری کی شاپ میں داخل ہونے لگی تو‬
‫عمران نے مجھے بازو سے پکڑ کر کھینچا اور ایک جانب اشارہ کرتے ہوئے بولے وہ‬
‫دیکھو تمہارے کام کی چیزیں۔ جہاں عمران نے اشارہ کیا میں نے ادھر دیکھا تو وہ‬
‫عورتوں کی انڈر گارمنٹس کی شاپ تھی۔ عمران مجھے بازو سے پکڑ کر اس طرف‬
‫جانے لگے تو میں بولی عمران بھائی مجھے نہیں جانا اس شاپ میں۔ تو وہ بولے ارے‬
‫اس میں ایسی کونسی بات ہے۔ سب لڑکیاں ہی خریدتی ہیں یہ چیزیں تم بھی دیکھ لہو۔‬
‫میں نے کہا میرے پاس ہیں۔ تو وہ بولے ہونگے مگر کچھ اور دیکھ لو شاید کوئی‬
‫سیکسی نائٹی ہی مل جائے۔ میں نے کہا مجھے کیا کرنی ہے نائٹی شادی کے بعد لے‬
‫لوں گی۔ تو عمران نے کہا کہ سمجھ تمہاری میرے ساتھ شادی ہوچکی ہے۔ ایک بار‬
‫نائٹی پہن کر میرے سے چدائی ضرور کروانا۔ میں نے پھر مزاحمت کی اور بولی کہ‬
‫کوئی دیکھ لے گا ہمیں یہاں پر۔ تو وہ بولے نہ تمہیں کوئی یہاں جانتا ہے اور نہ مجھے۔‬
‫اور لوگ ب ِھی لیتے ہیں تمہیں بھی شرمانے کی ضرورت نہیں چپ چاپ آجاو۔ کسی کو‬
‫کیا پتا تم میری بیوی نہیں سالی ہو۔‬

‫باآلخر ہم نائٹی شاپ میں داخل ہوگئے۔ اندر ایک سائیڈ پر چند عورتیں برا پسند کر رہی‬
‫تھیں۔ شاپ کے اندر ایک خاتون اور ایک مرد سیلز میں موجود تھے‪ ،‬عمران مجھے‬
‫لیکر مرد سیلز مین کی طرف جانے لگے تو مجھے شرم آنے لگی اور میں نے کہا میں‬
‫آگے جا کر خاتون سے لے لوں گی مگر عمران بولے ک تم میری پسند کی نائٹی لوگی‪،‬‬
‫میں آگے نہیں جا سکتا تم بھی ایک سائیڈ پر کھڑی ہوجاو۔ مرد سیلز مین نے بڑی خوش‬
‫اخالقی سے عمران سے پوچھا سر کیا دکھاوں آپکو تو عمران بولے کہ کوئی اچھی سی‬
‫نائٹی دکھاو۔ مرد نے بغیر کسی ہچکچاہٹ کے مجھ سے پوچھا "میم آپکا سائز کیا ہے؟"۔‬
‫یہ سن کر میں ہکا بکا رہ گئی کہ اسے کیا جواب دوں۔ میں نے کہا میں نے کبھی نائٹی‬
‫نہیں خریدی۔ اس پر وہ بوال "میم آپک کونسے نمبر کا برا پہنتی ہیں"۔ میں نے بتایا کہ‬
‫‪ 34‬نمبر۔ اس پر وہ دوبارہ بوال کہ آپ اپنا کپ سائز بھی بتا دیں اور یہ پوچھے ہوئے‬
‫اسکی نظریں میرے مموں پر ہی تھیں جیسے خود سے اندازہ لگانا چاہ رہا ہو۔ اس پر‬
‫میں بولی کہ ‪ 34‬برا کا نمبر ہے اور کپ سائز بی ہے۔ پھر اسنے پوچھا کہ آپکا ہپ سائز‬
‫کیا ہے؟ میں یہ سوال سن کر حیران تھی مگر شاید یہاں ہائی کالس خواتین ہی آتی ہیں‬
‫اور انکے لیے یہ باتیں اہمیت نہیں رکھتیں اور یہ سیلز مین بھی انہی خواتین کا عادی‬
‫تھا۔ اسکے پوچھنے پر میں نے ہپ سائز بھی بتا دیا تو اس نے ایک ریڈ کلر کی نائٹی‬
‫دکھائی ۔ عمران نے نائٹی کھولی اور بولے یہ نہیں یار کوئی شارٹ نائٹی دکھاو۔‬
‫اس پر اس نے ‪ 4 ،3‬اور نائٹیز نکال کے دکھائیں۔ یہ بھی کافی سیکسی تھیں اور یہ‬
‫دیکھ کر مجھے اندازہ ہورہا تھا کہ ان نائٹیز میں میرا زیادہ تر جسم ننگا ہی رہے گا۔‬
‫مگر عمران کو پسند نہیں آئیں اور انہوں نے سیلز میں کو کہا کوئی ہنی مون ٹائپ چیز‬
‫دکھاو۔ اس پر اس نے اور بھی زیادہ سیکسی نائٹی نکالی۔ یہ بلیک کلر کی تھی اور‬
‫مکمل نیٹ کی تھی۔ اوپر واال حصہ کراس شکل کا تھا ‪ ،‬۔ جو مموں کو ڈھانپنے کے لیے‬
‫تھےا اسکے نیچے ایک چھوٹی سی نیٹ کی الئن تھی جو پیٹ سے ہوتے ہوئے نچلے‬
‫حصے سے مل رہی تھی۔ اس الئن کے ساتھ اور کوئی کپڑا یا نیٹ نہیں تھا۔ نیچے کا‬
‫حصہ بھی نیٹ کا تھا اور ہپس کو بمشکل کور کرتا تھا۔ عمران کو یہ پسند آئی مگر سائز‬
‫چھوٹا لگا تو سیلز مین نے بتایا کہ یہ جب آپ پہنیں گی تو نیٹ سٹریچ ہوجائے گی اور‬
‫آپکے جسم پر بالکل فٹ آئے گی۔ اگر چھوٹی لگے تو آپ چینج کروا سکتی ہیں۔ اس کے‬
‫بعد اس نے مجھ سے پوچھا کہ آپ اسکے ساتھ کوئی برا بھی لینا چاہیں گی کیونکہ یہ‬
‫مکمل نیٹ کی ہے اس میں آپکا سینہ بہت واضح نظر آئے گا۔ اب تک میری ہچکچاہٹ‬
‫ختم ہو چکی تھی ‪ ،‬میں نے فورا کہا ہاں برا بھی دکھا دو۔ ۔ تب اس نے ‪ 34‬سائز کے‬
‫سیکسی برا نکالنے شروع کیے۔ ان میں سے ایک فوم واال برا مجھے پسند آیا۔ یہ ہاف‬
‫کپ برا تھا۔ یعنی اسکے کپ بہت چھوٹے تھے مموں کا اوپر واال حصہ نہیں ڈھانپا جا‬
‫سکتا تھا اس برا سے۔ یہ محض مموں کو نیچے کی طرف سے سپورٹ دیتے ہیں اور‬
‫سائیڈ سے کافی تنگ ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ممے آپس میں مل جاتے ہیں اور‬
‫کلیویج الئن اچھی بنتی ہے۔ چھوٹے سائز کے ممے بھی ہاف کپ برا سے بڑے دکھنے‬
‫لگتے ہیں۔‬

‫برا پسند کرنے کے بعد میں نے خود ہی کہا کہ کوئی پینٹی بھی دکھاو۔ تو اسنے بلیک لر‬
‫میں ہی کچھ پینٹیز دکھانی شروع کیں۔ زیادہ تر پینٹیاں جی سٹرنگ تھیں یعنی یہ پینٹی‬
‫آگے سے محض پھدی والی جگہ کو ہی ڈھانپتی ہے اور پیچھے سے کپڑے کی ایک‬
‫باریک سے الئن چوتڑوں کی الئن میں جا کر گانڈ کو چھپاتی ہے۔ باقی چوتڑوں کا مکمل‬
‫گوشت ننگا ہوتا ہے۔ ابھی میں پسند ہی کر رہی تھی کہ سیلز مین بوال میڈیم میں آپکو‬
‫ایک سپیشل چیز دکھاتا ہوں آپکو پسند آئے گی۔ یہ کہ کر وہ نیچے جھکا اور ایک اور‬
‫پینٹی نکالی۔ پینٹی نکال کر وہ کھول کر دکھانے لگا اور بتانے لگا کہ اس سے آپکے‬
‫ہپس تو کور ہونگے مگر اسکی فرنٹ میں اوپننگ ہے آپ پینٹی اتارے بغیر بھی کر‬
‫سکیں گی۔ یہ کہتے ہوئے اسکے چہرے پر شیطانی مسکراہٹ تھی۔ عمران بولے ہاں‬
‫یہی صحیح ہے۔ اسکے بعد عمران نے اس سے لیگ سٹاکنگ کا بھی کہا ۔ لیگ سٹاکنگ‬
‫بھی نیٹ کی ہی ہوتی ہے جو عموما انگریز عورتیں ہر ٹائم ہی پہنتی ہیں۔ یہ پاوں سے‬
‫لیکر گھٹنوں تک کے حصے کو کور کرتی ہیں۔ بلیک کلر میں ہی سٹاکنگ لیکر عمران‬
‫نے بل ادا کیا اور ہم شاپ سے باہر آگئے۔‬

‫شاپ سے باہر آکر میں نے لمبا اور ٹھنڈا سانس لیا جیسے سکون مل گیا ہو باہر آکر۔‬
‫میں نے عمران کو کہا یہ لے تو لی ہیں مگر یہ گھر لیجا کر رکھنی کہاں ہیں۔ عمران‬
‫بولے کہ فکر نہ کرو گاڑی میں ہی پڑی رہیں گی جب امی سوجائیں گی تو میں تمہیں ال‬
‫دوں گا تم اپنے بیگ میں رکھ لینا۔ میں نے کہا کمرے میں صائمہ بھی ہے تو وہ بولے‬
‫وہ بستر سے ابھی اٹھ نہیں سکتی وہ کونسا تمہارا بیگ چیک کرے گی۔ مجھے کچھ‬
‫اطمینان ہوا۔ اسکے بعد عمران نے ایک جگہ سے مجھے ڈرنکس پالئیں اور ہم گھر‬
‫چلے گئے۔‬

‫گھر پہنچے تو عمران کی امی کو بہت گہری نیند آرہی تھی اور وہ بہت مشکل سے‬
‫بیٹھی تھیں صائمہ کے پاس جبکہ صائمہ کو بھی ہلکی نیند آرہی تھی۔ میرے پہنچتے ہی‬
‫عمران کی امی فورا اپنے کمرے میں چلی گئیں اور صائمہ کو بھی نیند آنے لگی تو‬
‫عمران نے مجھے نائٹی واال شاپنگ بیگ چپکے سے پکڑا دیا جو میں نے بیڈ کے‬
‫نیچے کھسکا دیا۔ شال اور جیولری میں اپنے ساتھ ہی اندر الئی تھی وہ صائمہ کو دکھا‬
‫چکی تھی۔ کچھ دیر عمران ہمارے ساتھ بیٹھے رہے‪ ،‬مگر پھر وہ سونے کے لیے اوپر‬
‫چلے گئے‪ ،‬رات کا ‪ 1‬بج رہا تھا اور صبح انہیں آفس بھی جانا تھا۔ انکے جانے کے بعد‬
‫صائمہ بھی سوگئی تو میں نے نائٹی کا بیگ فورا سے اپنے بیگ میں کپڑوں کے نیچے‬
‫کر کے رکھ دیا اور سونے کے لیے لیٹ گئی۔‬

‫میں ایک گھنٹے تک آنکھیں بند کیے لیٹے رہی مگر نیند میری آنکھوں سے کوسوں‬
‫دور تھی۔ آنکھیں بند کرتی تو اپنے آپکو میں نائٹی میں دیکھتی اور عمران میرے جسم‬
‫پر پیار کر رہے ہوتے تھے ۔ کبھی وہ میری ٹانگوں پر پیار کرتے اور کبھی میرے ممے‬
‫دبا دبا کر مجھے مزہ دیتے۔ انہی خیالوں میں کبھی میں عمران کے سامنے گھوڑی بن‬
‫کر چدائی کرواتی رہی تو کبھی عمران سے اپنی چوت زبان سے چٹواتی رہی۔ میری بہت‬
‫خواہش تھی کہ عمران میری چوت کو چاٹیں مگر انہوں نے ایک بار بھی ایسا نہیں کیا‬
‫تھا۔ انہی خیالوں نے میری چوت کو گیال کر دیا تحا اور نہی معلوم کب میری آنکھ لگ‬
‫گئی۔‬
‫صبح آنکھ کھلی تو ذہن میں رات آنے والے خواب تھے۔ خواب میں ساری رات میں‬
‫اپننے بہنوئی سے چدائی کرواتی رہی کبھی ڈاگی سٹائل میں کبھی انکی گود میں چڑھ کر‬
‫اور کبھی انکے اوپر لیٹ کر۔ ان خوابوں نے کافی دیر میری چوت کو گیال کیے رکھا۔‬
‫فریش ہوئی تو کچن میں ناشتہ بنانے چلی گئی۔ عمران کی امی بھی اٹھ چکی تھیں اور‬
‫ایک بار کچن میں آکر میرے پاس کھڑی ہوگئیں اور کل کے بارے میں پوچھنے لگیں کہ‬
‫کوئی شاپنگ بھی کروائی ہے عمران نے یا نہیں؟؟؟ میں نے شاپنگ کے بارے میں بتایا‬
‫بیچ میں ہنی مون نائٹی کا ذکر نکال دیا۔ میں پراٹھے بنانے میں مصروف تھی عمران کی‬
‫امی نے چائے چولہے پر چڑھا دی۔ کچھ ہی دیر میں پراٹھے بن گئے تو میں نے فریج‬
‫میں سے انڈے نکالے اور انڈے بنانے کے لیے پیازنمک مرچ ڈالنے لگی تو عمران کی‬
‫امی نے کہا یہ میں کرتی ہوں تم اوپر جا کر عمران کو اٹھا دو اس نے آفس بھی جانا‬
‫ہے۔ اور ساتھ یہ بھی کہا کہ اچھی طرح اٹھا کر آنا جب تک وہ بستر سے اتر نا جائے‬
‫وگرنہ تم اٹھا کر نیچے آو گی تو وہ پھر سو جائے گا۔ میں نے عمران کی امی کو کہا آپ‬
‫فکر نہ کریں میں اپنے ساتھ ہی نیچے الوں گی عمران بھائی کو۔‬

‫یہ کہ کر میں اوپر چلی گئی اور بغیر دستک دیے دروازہ کھول کر بے دھڑک اندر چلی‬
‫گئی۔ عمران بیڈ پر لیٹے بے سدھ سو رہے تھے۔ انہوں نے قمیص اتار رکھی تھی مگر‬
‫بنیان پہن رکھی تھی اور نیچے شلوار تھی۔ شلوار میں انکا لن بڑا واضح نظر آرہا تھا‬
‫جو کھڑا تھا۔ میں نے سن رکھا تھا کہ عموما مردوں کے لن صبح کے ٹائم کھڑے ہوتے‬
‫ہیں سوتے میں بھی آج دیکھ بھی لیا تھا۔ پہلے تو میں نے سوچا عمران کو جگاوں۔‬
‫مگر پھر سوچا عمران کو جگانے کی بجائے اگر عمران کے لن کو جگایا جائے تو بہتر‬
‫رہے گا۔ یہ خیال ذہن میں آتے ہی میں نے عمران کی شلوار کا ناال ہاتھ سے کھینچا اور‬
‫ایک ہی جھٹکے میں کھول کر شلوار نیچے کر دی۔ عمران کا لن مکمل طور پر تو نہیں‬
‫کھڑا تھا مگر پھر بھی اس میں بہت زیادہ سختی تھی اور اسکی لمبائی کوئی ‪ 5‬انچ کے‬
‫قریب تھی اس وقت۔ لن کو دیکھتے ہی میرے منہ میں پانی آگیا۔ میں نے منہ میں تھوک‬
‫جمع کیا اور لن پر پھینک دیا۔ پھر لن کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر سارا تھوک لن پر‬
‫مسل دیا۔ جب میں تھوک لن پر مسل رہی تھی تو عمران کے جسم میں تھوڑی حرکت‬
‫ہوئی مگر انکی آنکھ نہیں کھلی البتہ لن نے میرے ہاتھوں کے لمس کو فورا ہی‬
‫محسوس کر لیا اور میرے احترام میں کھڑا ہونے لگا۔ کچھ ہی سیکنڈز میں لن مکمل‬
‫طور پر کھڑا تھا۔ میں نے لن کی ٹوپی پر اپنی زبان پھیرنا شروع کی۔ تو لن کی سختی‬
‫میں اور اضافہ ہوگیا۔ عمران کے ٹٹے ب ِھی سخت ہو رہے تھے اور میں اپنے ہاتھوں‬
‫سے ٹٹوں کے ساتھ بھی کھیل رہی تھی ساتھ میں عمران کے لن پر اپنی زبان لن کی جڑ‬
‫سے لیکر ٹوپی تک نیچے سے اوپر تک پھیر رہی تھی۔ کچھ دیر اسی طرح لن کو‬
‫چاٹنے کے بعد میں نے اپنے ہونٹ ٹوپی پر رکھ دیے اور گول گول گھمانے لگی۔ میرے‬
‫ہونٹوں کا لمس پا کر ٹوپی کبھی تھوڑی سی پھولتی اور پھر واپس سکڑ جاتی‪ ،‬پھر‬
‫پھولتی اور پھر سکڑ جاتی۔ ٹوپی کا یہ کھیل جاری رہا اور میں نے پوری ٹوپی اپنے منہ‬
‫میں لے لی اور اس پر پیار کرنے لگی۔ ٹوپی پر پیار کرتے کرتے میں نے لن اپنے منہ‬
‫میں لینا شروع کر دیا اور اب آدھے سے زیادہ لن میرے منہ میں جا چکا تھا۔‬

‫میں نے لن کے چوپے لگانے شروع کیے ہی تھے کہ مجھے اچانک سے خیال آیا کہ‬
‫میں دروازہ بند کرنا بھول گئی ہوں‪ ،‬ایک دم سے میں ڈر گئی کہ اگر کوئی آجائے‬
‫تو‪،‬؟؟؟؟ مگر پھر سوچا کون آئے گا‪ ،‬صائمہ کی ایسی حالت نہیں اور عمران کی امی‬
‫سیڑھیاں نہیں چڑھ سکتیں اور عمران کا بھائی الہور میں موجود ہی نہیں لہذا میں نے‬
‫دروازہ کھال ہی رہنے دیا اور لن کے چوپے لگانے لگی۔‬

‫ایک دو چوپوں سے ہی عمران کی آنکھ کھل گئی اور آنکھ کھلیتے ہی انہوں نے سر‬
‫اٹھا کر میری طرف دیکھا اور پھر ٹائم دیکھا۔ عمران نے اپنا ہاتھ میرے سر پر رکھا اور‬
‫لن کی طرف دبانے لگے اور بولے فائزہ جان تم نے تو مزہ کروا دیا صبح صبح۔ ساتھ‬
‫ہی انکی نظر دروازے پر پڑی تو وہ بولے پاگل دروازہ تو بند کر لیتی۔ میں نے کہا‬
‫چھوڑیں عمران بھائی کس نے آنا ہے اوپر جو دروازہ بند کروں۔ یہ کہ کر میں نے‬
‫دوبارہ سے عمران کے لن پر توجہ دینا شروع کر دی۔ اب عمران اٹھ کر بیٹھ چکے تھے‬
‫اور میں لن کے اوپر جھک کر تیز تیز چوپے لگا رہی تھی۔ عمران بھی کہ رہے تھے‬
‫اور چوسو میرا لن‪ ،‬لولی پاپ سمجھ کر چوسو اسکو۔ میں بھی واقعی میں کسی لولی‬
‫پاپ کی طرح چوسنے میں مصروف تھی۔ لن سے نکلنے والی مذی میرے منہ میں‬
‫نمکین ذائقہ دے رہی تھی جو مجھے اچھی لگ رہی تھی۔‬

‫اب عمران گھٹنوں کے بل بیڈ پر بیٹھ گئے اور میں گھوڑی بن کر ڈاگی سٹائل میں انکا‬
‫لن چوسنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں عمران نے میرا سر اپنے دونوں ہاتھوں سے پکڑ لیا‬
‫اور مجھے منہ مکمل کھال رکھنے کو کہا۔ میں نے ایسے ہی کیا تو عمران نے اپنے لن‬
‫سے میرے منہ کی چدائی شروع کر دی اور تیز تیز دھکے مارنے لگے۔ عمران کی‬
‫چدائی کی رفتار مسلسل تیز ہو رہی تھی منہ کی چدائی کرتے کرتے عمران نے مجھ سے‬
‫پوچھا ناشتے میں اپنے بہنوئی کے لن کا جوس پینا پسند کرو گی؟؟؟ تو میں نے ہاں‬
‫میں سر ہال دیا‪ ،‬یہ دیکھ کر عمران نے دھکوں کی سپیڈ میں اضافہ کیا اور چند ہی‬
‫دھکوں کے بعد میرے منہ میں گرما گرم جوس انڈیل دیا۔ کچھ جوس تو میرے منہ میں‬
‫نکل گیا جب کہ کچھ جوس میرے چہرے پر نکاال گیا کیونکہ اتنا زیادہ جوس ایک ہی بار‬
‫میں منہ میں رکھنا ممکن نہیں۔ عمران کا لن فارغ ہو چکا تھا اور میری چوت مکمل‬
‫گیلی تھی اور لن لینے کے لیے بے چین تھی۔ مگر یہ ٹائم نہیں تھا چوت کی پیاس‬
‫بجھانے کا کیونکہ نیچے عمران کی امی ہمارا انتظار کر رہی تھیں۔ میں نے جتنا ممکن‬
‫ہوسکا جوس پی لیا باقی باہر انڈیل دیا اور اسکے بعد کمرے میں موجود واش روم میں‬
‫جا کر اپنا چہرہ صاف کیا اور اچھی طرح سے کلی کرنے کے بعد تولیے سے اپنا منہ‬
‫صاف کیا۔ باہر آئی تو عمران بھی اپنے کپڑے پہن چکے تھے۔ اور نیچے جانے کے لیے‬
‫تیار تھے۔ اس سارے کام میں محض ‪ 5‬منٹ ہی لگے تھے۔ جب ہم دونوں نیچے گئے تو‬
‫عمران کی امی توے پر سے انڈا اتار رہی تھیں۔ مجھے عمران کے ساتھ آتا دیکھ کر‬
‫بولیں ارے فائزہ تم نے تو جادو ہی کر دیا اتنی جلدی عمران کو اٹھا بھی دیا اور ساتھ‬
‫نیچے بھی لے آئیں۔۔۔ یہ سن کر عمران بولے فائزہ تو واقعی میں جادوگرنی ہے امی‬
‫جان‪ ،‬اور ساتھ ہی ایک قہقہ لگایا اور مجھے آنکھ بھی ماری۔‬

‫پھر ہم نے ملکر ناشتہ کیا اور عمران آفس چلے گئے۔ انکے آفس جانے کے بعد صائمہ‬
‫نے مجھے عمران کے کپڑے دیے اور کہا کہ یہ استری کرنے ہیں۔ میں عمران بھائی‬
‫کے کپڑے لے کر اوپر چلی گئی کیونکہ استری اوپر ہی موجود تھی۔ ‪ 10‬کے قریب سوٹ‬
‫تھے جو میں نے ‪ 1‬گھنٹہ لگا کر استری کر دیے اور ہینگر پر لگا کر الماری میں لٹکا‬
‫دیے۔ اسکے بعد گھر کے مزید چھوٹے موٹے کام کیے تو دوپہر ہو چکی تھی۔ دوپہر‬
‫میں عامر کے کچھ لنگوٹ دھوئے اور صائمہ کو دیکھنے لگی کہ وہ کیسے عامر کو‬
‫اپنے مموں سے دودھ پالتی ہے۔ کچھ دیر بعد مجھے نیند آنے لگی تو میں سو گئی۔ اور‬
‫شام کو ہی اٹھی۔‬

‫شام کو آنکھ کھلی تو کمرے میں عمران کی آواز آرہی تھی۔ وہ گھر اچکے تھے۔ میں‬
‫نے انہیں سالم کیا اور فریش ہونے واش روم میں چلی گئی۔ واپس آکر چائے کا پوچھا‬
‫تو عمران نے کہا کہ ہاں اچھی سی چائے پالدو۔ میں نے عمران کے لیے اور اپنے لیے‬
‫چائے بنائی کیونکہ صائمہ کو زیادہ سے زیادہ دودھ پینے کو کہا گیا تھا اس لیے اسے‬
‫چائے کی بجائے دودھ کا مگ ال دیا۔ عمران نے اور میں نے ملکر چائے پی۔ چائے پینے‬
‫کے بعد کافی دیر ہم لوگ باتیں کرتے رہے۔ صائمہ بھی ہمارے ساتھ ہی تھی اور ہم ادھر‬
‫ادھر کی باتیں کر رہے تھے ۔ باتیں کرتے کرتے رات کے کھانے کا ٹائم ہوگیا ‪ ،‬میں‬
‫کھانا لگانے لگی تو عمران نے کہا انکے لیے کھانا نہ لگاوں انہیں بھوک نہیں ابھی۔‬
‫سو میں نے عمران کی امی‪ ،‬صائمہ اور اپنے لیے ہی کھانا لگایا‪ ،‬کھانا کھانے کے بعد‬
‫عمران کی امی سونے چلی گئیں اور عمران پھر سے ہمارے ساتھ بیٹھ کر باتیں کرتے‬
‫رہے۔ انہوں نے عامر کو گود میں اٹھا رکھا تھا اور اسے پیار کر رہے تھے صائمہ اور‬
‫میں اپنی باتوں میں مصروف تھے۔ رات کے ‪ 11‬بجے تو عمران نے عامر کو صائمہ‬
‫کے حوالے کیا اور اوپر جانے لگے۔ اور مجھے کہا کہ مجھے اب بھوک لگ رہی ہے تم‬
‫کھانا مجھے اوپر ہی دے دو۔ صائمہ نے پوچھا خیریت تو ہے تو انہوں نے کہا ہاں کچھ‬
‫آافس کا کام ہے وہ بھی ابھی دیکھنا ہے ساتھ میں کھانا بھی کھا لوں گا۔ میں نے کہا‬
‫ٹھیک ہے آپ اوپر جائیں میں کھانا گرم کر کے التی ہوں۔ عمران چلے گئے اور میں ‪5‬‬
‫منٹ مزید صائمہ کے پاس بیٹھی رہی۔ عامر سو چکا تھا صائمہ کی آنکھوں میں بھی‬
‫نیند تھی مگر وہ میری وجہ سے جاگ رہی تھی۔ صائمہ نے پوچھا کہ تمہیں نیند نہیں‬
‫آرہی؟؟؟ تو میں نے کہا میں دوپہر میں سوگئی تھی تو اب نیند نہیں آرہی تم سوجاو‪ ،‬میں‬
‫عمران بھائی کو کھانا بھی دے آوں اور پھر جب وہ کھانا کھا لیں گے تو برتن بھی‬
‫نیچے النے ہیں۔ برتن دھو کر پھر میں سوجاوں گی۔‬

‫صائمہ نے کہا ٹھیک ہے جلدی آکر سوجانا۔ تو میں نے کہا جلدی مشکل ہی ہے کیونکہ‬
‫مجھے نیند نہیں آرہی اور اگر عمران بھائی آفس کے کام سے فارغ ہوگئے تو ہمارا آج‬
‫شطرنج کھیلنے کا بھی پروگرام ہے۔ تو صائمہ نے کہا چلو ٹھیک ہے مگر یہ دھیان‬
‫رکھنا انہوں نے صبح آفس بھی جانا ہوتا ہے تو ساری رات شطرنج پر ہی نا لگی رہنا۔‬
‫میں نے کہا فکر نہیں کرو ٹائم سے ہی آجاوں گی۔ میری بات سن کر صائمہ سونے کے‬
‫لیے لیٹ گئی اور میں کچن میں چلی گئی۔ کچن میں تھوڑی دیر رک کر میں نے بالوجہ‬
‫‪ 2‬سے ‪ 3‬منٹ ضائع کیے‪ ،‬کچھ برتن کھڑکائے جیسے میں کام کر رہی ہوں۔ مگر اصل‬
‫میں صرف میں ٹائم ضائع کر رہی تھی۔ جب مجھے تسلی ہوئی کہ اب صائمہ لیٹ چکی‬
‫ہے نہیں اٹھے گی تو میں اوپر چلی گئی۔ عمران کے کمرے کا دروازہ آدھا کھال تھا اور‬
‫وہ اپنا لیپ ٹاپ آن کر کے کچھ کام کرنے میں مصروف تھے۔ میں نے عمران کے کمرے‬
‫کے سامنے والے کمرے کا دروازہ کھوال اور بغیر آواز پیدا کیے اندر چلی گئی۔ اندر‬
‫میری نائٹی پڑی تھی جو میں دوپہر میں ہی اس کمرے میں ال کر رکھ دی تھی۔‬
‫میں نے اپنے کپڑے اتارنا شروع کیے اور پوری ننگی ہوگئی۔ کچھ دیر اپنے جسم کو‬
‫دیکھا جو بالکل صاف اور دودھ کی طرح سفید تھا اوپر ‪ 34‬سائز کے گول اور سڈول‬
‫ممے اور نیچے بالوں سے پاک گالبی رنگ کی پھدی۔ میں دل ہی دل میں اپنے جسم کی‬
‫تعریف کرنے لگی۔ پھر میں نے برا اور پینٹی پہنی اور اوپر سے نیٹ کی نائٹی پہن لی‬
‫جو کل ہی عمران نے لی تھی میرے لیے۔ اپنے بالوں کو میں نے جوڑے کی شکل میں‬
‫سر کے پیچھے باندھ لیا تکہ میری ساری کمر ننگی ہی رہے بالوں کی وجہ سے چھپ نا‬
‫جائے اور ایک بلیک کلر کا ہی ہیل واال سینڈل پہن لیا۔‬
‫نائٹی کو میں نے تھوڑا نیچے کھینچا تاکہ اوپر سے میرے مموں کا ابھار واضح نظر‬
‫آسکے۔ اب میں نے شیشے میں اپنے آپ کو دیکھا تو میں خود اپنے آپ کو دیکھ کر‬
‫شرما گئی۔ میں اس وقت بہت ہی سیکسی لگ رہی تھی اس نائٹی میں اور ساتھ اونچی‬
‫ہیل واال جوتا ‪ ،‬بالکل کسی پورن فلم کی ایکٹریس لگ رہی تھی میں جو چدنے کے لیے‬
‫مکمل تیار تھی۔ گھٹنوں تک لیگ سٹانگز نے میرے حسن میں مزید اضافہ کر دیا تھا۔‬
‫لیگ سٹانگز کی وجہ سے پاوں سے گھٹنوں تک کا حصہ تھوڑا کاال لگ رہا تھا‪ ،‬یعنی‬
‫دور سے دیکھنے پر محسوس نہیں ہوتا تھا کہ میں نے کچھ پہن رکھا ہے بلکہ ایسا‬
‫لگتا تھا کہ میری ٹانگیں کالی ہیں‪ ،‬مگر ایک دم سے گھٹنوں کے اوپر میری گوری چٹی‬
‫تھائز میرے حسن کو چار چاند لگا رہی تھیں۔ غرض اس وقت میں ایک سیکس بومب‬
‫لگ رہی تھی کوئی بھی مجھے دیکھتا تو اسکا لن فورا سالمی دینے کے لیے کھڑا‬
‫ہوجاتا۔‬
‫مکمل تیار ہونے کے بعد میں نے اپنے ہونٹوں پر لپ اسٹک لگائی اور آخری بار شیشے‬
‫میں اپنے آپ کو دیکھا اور اس کمرے سے نکل کر دوبارہ سے عمران کے کمرے کے‬
‫باہر آگئی۔ عمران ابھی تک لیپ ٹاپ پر مصروف تھے۔ میں دبے قدموں کمرے میں داخل‬
‫ہوئی اور بغیر آواز پیدا کیے دروازہ بند کر دیا اور کنڈی لگای۔ کمرے میں ہلکی آواز‬
‫میں عمران نے گانے بھی لگا رکھے تھے لیپ ٹاپ پر اور ساتھ ساتھ اپنے کام بھی کر‬
‫رہے تھے۔ دروازہ بند کر کے میں عمران کے پیچھے جا کر کھڑی ہوگئی اور اپنی آواز‬
‫میں مٹھاس بھر کر بھرپور سیکسی آواز میں عمران کو آواز دی۔ عمران نے پیچھے مڑ‬
‫کر دیکھا تو جیسے وہ نظریں ہٹانا ہی بھول گئے۔ میرے مموں سے لیکر میری ٹانگوں‬
‫تک عمران میرے جس کا نظارہ کر رہے تھے۔ جسم کا زیادہ تر حصہ واضح نظر آرہا‬
‫تھا۔ مموں کا ابھار تو ویسے ہی سامنے تھے‪ ،‬البتہ مموں کا نچال حصہ نپلز سمیت برا‬
‫کی وجہ سے چھپا ہوا تھا‪ ،‬نیچے نائٹی نہ ہونے کے برابر تھی اور جہاں جہاں تھی وہ‬
‫نیٹ کی تھی جسکی وجہ سے جسم نظر آرہا تھا اور اسکے نیچے پینٹی تھی جس نے‬
‫پیچھے سے میرے چوتڑوں کو ڈھانپ رکھا تھا اور اسکے اوپر نائٹی تھی۔ نیچے پھر‬
‫گوشت سے بھری ہوئی سیکسی تھائز عمران کو پاگل کیے جا رہی تھی۔‬
‫عمران مسلسل مجھے ٹکٹکی باندھے دیکھ رہے تھے نہ منہ سے کچھ کہا نہ اپنی جگہ‬
‫سے اٹھے۔ وہ تو بس نظروں ہی نظروں میں گویا مجھے چود رہے تھے۔ کچھ دیر‬
‫انتظار کرنے کے بعد میں نے کہا ایسے ہی دیکھ کر ساری رات گزار دو گے یا کچھ‬
‫کرنے کا بھی ارادہ ہے؟؟؟ میری آواز سن کر عمران کو ہوش آیا تو وہ فورا بولے فائزہ‬
‫ڈارلنگ تم قیا مت لگ رہی ہو اس نائٹی میں۔ بہت سیکسی ہو تم۔ میں نے کہا اس‬
‫سیکسی کے ساتھ آکر سیکس بھی کروگے یا وہیں بیٹھے رہو گے۔ میری بات سن کر‬
‫عمران فورا کھڑے ہوئے اور میری طرف بڑھےاور آتے ہی اپنے ہاتھ میرے پیٹ پر‬
‫پھیرنے لگے اور مجھے کولہو ں سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور اوپر سے نیچے تک‬
‫پھر سے دیکھنےلگے۔‬

‫کچھ دیر اسی طرح دیکھنے کے بعد عمران نے اپنی نظریں میرے ہونٹوں پر جما دیں‬
‫اور آہستہ آہستہ میرے قریب ہونے لگے۔ اور پھر ایک دم سے عمران کے ہونٹ میرے‬
‫ہونٹوں کو چوسنے لگے۔ تھوڑی سی ہی دیر میں عمران نے میرے ہونٹوں کو چوس‬
‫چوس کر ساری لپ اسٹک اتار دی تھی ۔ اور عمران کی زبان میرے منہ میں گول گول‬
‫گھومنے لگی۔ میں نے بھی عمران کی زبان کو اپنے منہ میں ویلکم کہتے ہوئے اسکو‬
‫چوسنا شروع کر دیا۔‬
‫کچھ دیر ہم یوں ہی ایکدوسرے کے منہ میں اپنی زبان گھماتے رہے پھر عمران نے‬
‫میرے ہونٹوں کو چھوڑ کر گردن کا رخ کیا اور میری گردن کو اپنے ہونٹوں سے‬
‫چوسنے لگے اور زبان سے چاٹنے لگے۔ کسی بھی لڑکی کو جب مرد گردن پر پیار کرتا‬
‫ہے تو وہ پاگل ہوجاتی ہے۔ میرے ساتھ بھی یہی ہوا اور میں عمران کو پاگلوں کی طرح‬
‫پیار کرنے لگی۔ عمران میری گردن پر پیار کررہے تھے جبکہ میں اپنے ہاتھوں سے‬
‫عمران کے سر کو پکڑ کر بالوں میں انگلیاں پھیر رہی تھی اور کبھی کبھی انکے‬
‫ماتھے پر اپنی زبان پھیر دیتی۔ گردن سے فارغ ہونے کے بعد اب عمران کی زبان میرے‬
‫مموں کے درمیاں موجود الئن پر تھی اور وہ مسلسل میرے مموں کے ابھاروں کو‬
‫چوس رہے تھے۔ عمران کے ہاتھ میرے چوتڑوں پر تھے جن کو وہ بہت زور سے اور‬
‫جوش سے دبا دبا کر خوش ہورہے تھے ۔ اچانک ہی عمران نے میرے چوتڑوں سے‬
‫میری نائٹی کو پکڑا اور مموں تک اٹھا دی‪ ،‬وہاں سے میں نے خود مزید اوپر کی اور‬
‫اپنے آپکو نائٹی سے آزاد کیا اس سے پہلے کہ میں کچھ اور کرتی عمران نے ایک ہی‬
‫جھٹکے میں میرے مموں کو برا سے بھی آزادی دال دی اور بغیر وقت ضائع کیے میرے‬
‫نپلز منہ مین لیکر میرے مموں کا دودھ پینے لگے۔‬
‫عمران کے اس اچانک حملے نے مجھے تو جیسے پاگل ہی کر دیا تھا۔ عمران بڑے زور‬
‫سے نپلز چوسنے میں مصروف تھے جب بھی عمران کے دانت میرے نپلز سے ٹکراتے‬
‫تو میری سسکی نکل جاتی۔ میں نے عمران کو کہا کہ انکو چوسنے کے ساتھ ساتھ ان‬
‫پر دانتوں سے بائٹ بھی کرو‪ ،‬عمران نے ایسا ہی کرنا شروع کیا کبھی نپلز کو ہونٹوں‬
‫سے چوتے تو کبھی ان پر کاٹتے اپنے دانتوں سے۔ اور میں مزے سے پاگل ہوکر‬
‫چالنے لگی کھا جاو انکو‪ ،‬اپنی بہن کے مموں کو کھا جاو۔ چبا جاو اپنی بہن کے نپلوں‬
‫کو۔ میری یہ باتیں سن کر اور خاص کر بہن کا لفظ سن کر عمران کا جوش مزید بڑھ گیا‬
‫اور اب وہ واقعی میں جیسے میرے مموں کو کھانے لگے۔ ایسے لگ رہا تھا تھوڑا سا‬
‫زور اور لگایا تو میرے ممے میرے جسم سے علیحدہ ہوجائیں گے۔‬
‫نیچے میری چوت کا بھی برا حال تھا جو مکمل گیلی تھی اس وقت اور لن لینے کے لیے‬
‫بیتاب تھی۔ میں نے عمران کو اپنے کپڑے اتارنے کا کہا تو وہ فورا ہی اپنے کپڑے‬
‫اتارنے لگے کچھ ہی دیر میں انکا ‪ 8‬انچ کا لمبا اور موٹا تازہ لن میرے سامنے تھا‪ ،‬میں‬
‫اس وقت میں ایک پینٹی اور لیگ سٹاکنگز میں تھی اوپر کا جسم بالکل ننگا تھا میرا‬
‫البتہ ہیل والے سینڈل ابھی تک پہن رکھے تحھے۔ عمران نے لن ہاتھ میں پکڑا اور‬
‫مجھے نیچے بیٹھنے کو کہا تکہ میں لن منہ میں لیکر چوس سکوں۔ مگر اس وقت‬
‫میری چوت کے اندر تندور جل رہا تھا اور آگ تھی کہ بجھنے کا نام ہی نہیں لے رہی‬
‫تھی۔ میں نے کہا چوسنے کا ٹائم نہیں ابھی میری چوت کی گرمی مٹا دو۔‬
‫عمران نے کہا چلو اپنی پینٹی اتارو تو میں نے منع کیا کہ نہیں پینٹی آگے سے اوپن ہے‬
‫ایسے ہی چدائی کرو آج اپنی بہن کی۔ پینٹی میں سے ہی لن گھسا دو اپنی بہن کی چوت‬
‫میں۔ یہ سننا تھا کہ عمران نے ایسے ہی کھڑے کھڑے میری ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے‬
‫بازو پر رکھی اور لن کو میری چوت کے اوپر سیٹ کر کے ایک جاندار جھٹکا مارا اور‬
‫سارا لن میری پھدی میں اتار دیا۔ میری ایک زور دار چیخ نکلی اور مجھے پھدی کی‬
‫گہرائیوں میں گرم لوہے کا راڈ ہلتا محسوس ہونے لگا۔ مجھے ڈر ہوا کہ میری یہ چیخ‬
‫نیچے تک گئی ہوگی مگر اب تو چیخ نکل چکی تھی۔ عمران نے بھی اسکے بعد میرے‬
‫منہ پر ہاتھ رکھا اور بولے اب احتیاط کرنا نہیں تو پکڑے جائیں گے ہم۔ یہ کہ کر عمران‬
‫نے میری پھدی میں اپنے لن کی مشین چالنی شروع کر دی۔ اور میں نے بھی اپنی گانڈ‬
‫ہال ہال کر عمران کے لن کے مزے لینا شروع کر دیے۔ میں نے اپنا چہرہ عمران کے‬
‫کندھے پر رکھ لیا تھا اور عمران ہلکا سا جھک کر میری چدائی کرنے میں مصروف‬
‫تھے۔ کچھ ہی دیر میں جب اس پوزیشن میں تھکاوٹ محسوس ہونے لگی تو میں نے‬
‫عمران کو کہا پوزیشن چینج کریں۔‬
‫عمران بولے ٹھیک ہے آج میں اپنی بہن کو کتیا بنا کر چودنا چاہتا ہو لہذا تم فورا کتیا‬
‫بن جاو۔ میں نے عمران کے ہونٹوں پر ایک پیار بھری کس کی اور کہا اج اپنی بہن کی‬
‫پھدی کے پرخچے اڑا دو کچھ باقی نا بچے۔ چود دو اپنی بہن کو کسی رنڈی کی طرح۔ یہ‬
‫کہ کر میں بیٹ پر گئی اور فورا ہی ڈاگی سٹائل میں اپنی گانڈ باہر نکال لی۔ عمران‬
‫پیچھے سے آئے اور میرے چوت میں لن داخل کرنا چاہا مگر پینٹی کی وجہ سے صحیح‬
‫جگہ پر نا رکھ سکے لن۔ میں نے پینٹی کے کپڑے کو سائیڈ پر ہٹاتے ہوں سامنے والے‬
‫اوپن حصے میں جگہ بنائی اور اپنے ہاتھ سے عمران کا لن پکڑ کر پھدی کے سوراخ‬
‫پر رکھا‪ ،‬اس سے پہلے کہ عمران پیچھے سے دھکا مارتے میں نے خود ہی لن سوراخ‬
‫پر رکھتے ہی اپنے گانڈ کو پیچھے جھٹکا مارا اور عمران کا لوڑا اپنی پھدی میں داخل‬
‫کر لیا۔ ساتھ ہی عمران نے دھکے مارنے شروع کر دیے۔ کچھ دیر تو دھکے برداشت‬
‫کیے میں نے مگر پھر ‪ 8‬انچ کے لن نے میری پھدی کو بے دردی سے چیرنا شروع کیا‬
‫اور ہتھوڑے میری پھدی کی گہرائیوں پر لگنے لگے تو کمرہ میری آوازوں سے‬
‫گونجنے لگا۔ اف میں مر گئی‪ ،‬آہ آہ آہ آہ‪ ،‬زور سے چودو‪ ،‬اور زور سے چودو‪ ،‬پھار دو‬
‫میری پھدی‪ ،‬آہ آہ ‪ ،‬اف اف اف ‪ ،‬آہ آہ آہ آہ آہ زور سے چودو بھیا‪ ،‬اور زور لگاو ‪ ،‬لن‬
‫کو اتار دو اپنی بہن کی پھدی میں۔۔۔ میری ان آوازوں نے عمران کو وحشی بنا دیا تھا۔‬
‫عمران کے طوفانی دھکوں نے کچھ ہی دیر میں میری چوت کا پانی نکلوا دیا‪ ،‬میرے‬
‫جسم کو کچھ جھٹکے لگے اور ساری بیڈ شیت خراب ہوگئی میری چوت کے پانی سے۔‬
‫مگر عمران نے اپنے دھکے نہ روکے اور لگاتار اپنی بہن یعنی کے سالی کی چدائی‬
‫کرتے رہے۔ کچھ دیر بعد جب عمران تھک گئے اور سانس لینے کو رکے تو میں نے‬
‫آگے ہوتے ہوئے لن پھدی سے جدا کر دیا۔ اور بیڈ پر لیٹ کر عمران کو اپنے اوپر آنے‬
‫کو کہا۔ عمران نے میری ٹانگیں کھول دیں ‪ ،‬ٹانگوں پر اب بھی لیگ سٹاکنگ موجود‬
‫تھی اور پینٹی بھی تھی۔ عمران نے پینٹی کے ہول سے جگہ بناتے ہوئے دوبارہ لن‬
‫میری چوت میں داخل کیا اور اپنی مشین ایک بار پھر سے آن کر دی۔ عمران گھٹنوں اور‬
‫پیر کے پنجوں کے بل بیٹھے تھے اور اپنی گانڈ ہال ہال کر میری چودائی کر رہے تھے‪،‬‬
‫میں نے بھی نیچے سے اپنی گانڈ ہالنا شروع کی اور عمران کے دھکوں کے ساتھ اپنی‬
‫سپیڈ کو مالیا تاکہ چدائی کا زیادہ سے زیادہ مزہ لیا جا سکے۔ عمران تھوڑا سا آگے‬
‫جھکے اور میرے مموں کو بھی دبانے لگے۔ پھر میرے اوپر لیٹ گئے اور میرے ممے‬
‫اپنے منہ سے چوسنے لگے اور نیچے سے لن کے دھکے مسلسل جاری تھے۔ جیسے‬
‫ہی میرے ممے عمران کے منہ میں گئے تو میں مزے کی بلندیوں پر پہنچ گئی۔‬
‫پھدی کا چدوانا اور ساتھ میں نپلز کا چسوانا کسی بھی لڑکی کو پاگل کرنے کے لیے‬
‫کافی ہے۔ اور یہی میرے ساتھ ہو رہا تھا۔ عمران آج بہت جوش میں تھے اور اسکی‬
‫ایک وجہ میری سیکسی پینٹی تھی اور دوسری وجہ میں بار بار اپنے لیے بہن کا لفظ‬
‫استعمال کر رہی تھی جس کی وجہ سے عمران کا لن میری چوت کا برا حال کیے دے رہا‬
‫تھا۔ ‪ 5‬منٹ کی چدائی نے مجھے دوسری بار جھڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔ جب عمران‬
‫کو محسوس ہوا کے میری چوت پانی چھوڑ چکی ہے تو عمران نے اپنا لن میری پھدی‬
‫سے نکاال اور مجھے اپنے اوپر آنے کو بوال۔ میں فورا ہی اٹھی عمران نیچے لیٹے اور‬
‫میں عمران کے اوپر آنے لگی‪ ،‬مگر اس پوزیشن میں مجھے اپنے سینڈل اتارنے پڑے‬
‫جو میں نے بغیر ٹائم ضائع کیے اتار دیے اور فورا ہی اپنے بہنوئی کے اوپر چڑھ کر لن‬
‫اپنی پھدی پر سیٹ کر کے ایک ہی جھٹکے میں لن پر بیٹھ گئی اور لن کو جڑ تک اپنی‬
‫پھدی میں اتار لیا۔ پھر فورا ہی میں نے اپنے ہاتھ عمران کے سینے پر رکھے اور‬
‫پنجوں کے بل بیٹھ کر اپنی گانڈ کو اوپر اٹھا کر خود ہی گانڈ ہال ہال کر اپنی چودائی‬
‫کرنے لگی۔ عمران نیچے بالکل ساکت لیٹے تھے اور اوپر میں اپنی گانڈ کو اچھال اچھال‬
‫کر اپنی پھدی کی پیاس بجھانے میں مصروف تھی۔‬
‫کچھ دیر کی اچھل کود کے بعد میں تھک گئی تو عمران کے اوپر ڈھے گئی اور مکمل‬
‫دہری ہوگئی۔ عمران نے بغیر ٹائم ضائع کیے میرے گانڈ کو اپنے ہاتھوں سے تھوڑا اوپر‬
‫اٹھا کر لن اور پھدی کے درمیان فاصلہ پیدا کیا تاکہ وہ نیچے سے دھکے لگا سکیں۔‬
‫اور فورا ہی اپنے مضبوط لن کو میری پھدی میں اندر باہر کرنا شروع کر دیا۔ عمران‬
‫کے جاندار دھکوں نے ایک بار پھر میرے جسم میں جان پیدا کی اور میان عمران کے‬
‫سینے کا سہارا لکر اٹھ گئیر اوراپنی چداءی کروانے لگی۔ اب کی بار عمران کی سپیڈ‬
‫پہلے کے مقابلے میں بہت زیادہ تھی جسکی وجہ سے کمرہ میری چیخوں سے گونج‬
‫رہا تھا مگر چوت کہ رہی تھی کہ کوئی بات نہیں اس سے بھی زیادہ سپیڈ ہو تو بھی‬
‫برداشت کرنا ہے کیونکہ مزہ تو اسی چدائی میں ہے جو مضبوط لن سے ہو اور فل سپیڈ‬
‫کے ساتھ ہو۔ ‪ 5‬منٹ اسی پوزیشن میں عمران میری چوت میں اپنے لن سے کھدائی‬
‫کرتے رہے اور جتنا اندر داخل کر سکتے تھے لن کو کرتے رہے۔ باآلخر میری چوت‬
‫نے ایک بار پھر ہار مان لی اور اپنا پانی چھوڑ دیا‪ ،‬میرے پانی چھوڑتے ساتھ ہی‬
‫عمران کے لن نے بھی اپنی کریم نکال دی جو میری چوت کی گہرائیوں میں چلی گئی۔‬
‫مجھے اپنی چوت میں گرم پانی کا سیالب آتا محسوس ہوا۔ عمران اب فارغ ہو چکے‬
‫تھے اور بے سدھ لیٹے تھے۔‬
‫کچھ دیر میں بھی انکے اوپر لیٹی ہانپتی رہی اور جب سانس کچھ بحال ہوئی تو میں نے‬
‫پوچھا کیسا لگا پھر آج مزہ آیا اپنی بہن کو چود کر؟؟؟ عمران ہنسے اور بولے آج تو‬
‫میں بہن چود بن گیا۔ ایسا مزہ آیا کہ پہلے کبھی نہیں آیا۔ اس پوری چدائی کے دوران‬
‫ایک بار بھی عمران نے آرام سے نہیں چودا مجھے بلکہ لن اندر داخل کرتے ہی عمران‬
‫کے طوفانی دھکے شروع ہوجاتے تھے۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعد میں نے اپنی پھدی‬
‫کو چادر سے صاف کیا اور دوسرے کمرے ِمں جاکر سٹاکنگ اور پینٹی کے اوپر سے‬
‫ہی شلوار پہن لی اور پھر قمیص پہن کر نیچے گئی کچن میں جا کر کھانا گرم کیا اور‬
‫عمران کے لیے کھانا لے آئی۔‬
‫چودائی کے بعد بھوک ضرور لگتی ہے‪ ،‬مجھے بھی بھوک لگ رہی تھی میں نے بھی‬
‫عمران کے ساتھ کھانا کھایا اور کھانا کھانے کے بعد دونوں نے گرم گرم دودھ کا ایک‬
‫ایک گالس پیا۔ دودھ پینے کے بعد میں نے دوبارہ سے اپنے کپڑے اتار دیے اور محض‬
‫پینٹی میں ہی عمران کے سامنے بیٹھ گئی۔ عمران نے ابھی تک صرف شلوار ہی پہنی‬
‫تھی قمیص یا بنیان نہیں تھی۔ میں نے برتن وغیر سائیڈ پر رکھنے کے بعد عمران سے‬
‫پوچھا ایک اور راونڈ ہوجائے؟؟؟ تو عمران بولے کیوں نہیں جب بہن خود اپنی چوت‬
‫دے رہی ہے تو کون بہن چود انکار کر سکتا ہے؟‬

‫یہ سن کر میں عمران کی گود میں جاکر بیٹھ گئی اور ایک بار پھر سے ہم کسنگ کرنے‬
‫لگے کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد عمران نے میرے مموں کو منہ میں بھر لیا اور ان‬
‫پر پیار کرنے لگے۔ پھر میں نے عمران کا لن اپنے منہ میں لیا اور اسکو کچھ ہی‬
‫چوپوں سے مکمل کھڑا کر دیا اسطرح کہ اب وہ پھر سے اپنی بہن کو چودنے کے لیے‬
‫تیار تھا۔ مگر اس سے پہہلے کہ عمران میری چودائی کرتے میں نے عمران سے پوچھا‬
‫کہ آپ نہ جب مجھے پہلی بار چودا تھا تو مجھے کہا تھا اپنی گانڈ بھی چودنے دو جس‬
‫پر میں نے انکار کر دیا تھا اور آپنے کہا تھا کہ آپکا بہت دل کرتا ہے گانڈ پھاڑنے کو‬
‫مگر صائمہ نے کبھی اپنی گانڈ کی چدائی نہیں کرنے دی۔ تو عمران نے کہا کہ ہاں دل تو‬
‫کرتا ہے۔‬

‫میں نے پھر پوچھا ابھی بھی خواہش ہے گانڈ چودنے کی تو عمران کا چہرہ خوشی سے‬
‫تمتمانے لگا اور بولے ہاں ہاں کیوں نہیں میں اپنی بہن کی گانڈ ضرور پھاڑوں گا۔ میں‬
‫ذور سے ہنسی اور کہا اتنا خوش ہونے کی ضرورت نہیں میں بھی اپنی گانڈ نہیں‬
‫چودنے دوں گی آپکو۔ اس بات پر عمران نے برا سا منہ بنایا اور بولے پھر پوچھ کیوں‬
‫رہی ہو؟؟؟ میں نے کہا اگر آپ چاہو تو میں آپکو ایک گانڈ دال سکتی ہوں جسکو آپ جی‬
‫بھر کر چود سکتے ہو۔ عمران بولے کس کی گانڈ؟؟؟ میں نے کہا وہ ابھی نہ پوچھو بس‬
‫اتنا جان لو کہ ایک جوان لڑکی کی گانڈ ہوگی جو میں آپکو دلوا سکتی ہوں۔ عمران بولے‬
‫تڑپاو نہیں بتاو بھی کون ہے؟ اور تم کیسے دلوا سکتی ہو مجھے؟؟؟‬

‫میں نے کہا بس ہے ایک لڑکی جو خوشی خوشی آپ سے اپنی گانڈ مروائے گی۔ تو‬
‫عمران بولے ٹھیک ہے میں ضرور اسکی گانڈ مار کر اسکی خواہش پوری کروں گا۔‬
‫میں نے کہا مگر میں یہ کام ایسے ہی نہیں کر دوں گی آپکو بھی اسکے بدلے میرا ایک‬
‫کام کرنا پڑے گا۔ وہ بولے کیا کام؟؟؟‬

‫تو میں نے کہا کہ آپ نے آج تک میری پھدی نہیں چاٹی۔ اپ میری پھدی چاٹوا ور بدلے‬
‫میں آپکو میں ایک ٹائٹ گانڈ دلواوں گی ۔ یہ سن کر عمران نے برا سا منہ بنایا اور کہا‬
‫اچھا طریقہ ہے پھدی چٹوانے کا مگر میں تمہاری اس چال میں نہیں آنے لگا میں‬
‫کوئ چال نہیں واقعی میں آپکو‬‫ِ‬ ‫تمہاری پھدی مار کر ہی مزہ لے لوں گا۔ میں نے کہا یہ‬
‫ایک گانڈ مل سکتی ہے اگر آپ میری پھدی کو چاٹ لیں تو۔ عمران بولے میں کیسے‬
‫یقین کر لوں؟ میں نے کہا میں بھال آپ سے جھوٹ کیوں بولوں گی۔ آپ سے جھوٹ بول‬
‫کر اگر ایک دفعہ اپنی پھدی چٹوا بھی لی تو جب آپکو پتا لگے گا کہ میں نے جھوٹ بوال‬
‫تھا تو آپ غصے میں میری ہی گانڈ مار سکتے ہو اور یا پھر یہ بھی کر سکتے ہو کہ‬
‫آئندہ مجھے کبھی نہ چودو۔ اور میں کبھی نہیں چاہوں گی کہ آپکے اس مضبوط لن سے‬
‫ہاتھ دھونا پڑیں مجھے۔‬

‫میری یہ بات سن کر عمران سوچ میں پڑ گئے اور پھر بولے نہیں یار پھدی بہت گندی‬
‫ہوتی ہے میں نہیں چاٹ سکتا۔ میں نے کہا لن کونسا صاف ہوتا ہے میں بھی تو چوستی‬
‫ہوں صائمہ بھی چوستی ہے‪ ،‬اور تو اور آپکی منی بھی اپنے منہ میں نکلواتی ہوں میں‬
‫تو آپ میرے لیے میری پھدی نہیں چاٹ سکتے؟؟؟ اور بدلے میں آپکو گانڈ بھی ملے‬
‫گی۔ اس پر عمران بولے تو یار کسی اور کی کیوں تم اپنی گانڈ ہی مارنے دو میں تمہاری‬
‫پھدی ایک بار نہیں ہزار بار چاٹنے کو تیار ہوں۔ میں نے کہا نہیں مجھ میں اتنی ہمت‬
‫نہیں۔ آپ پھدی چاٹو میں آپکو ضرور ضرور گانڈ دلواوں گی۔ اس پر عمران بولے اچھا‬
‫بتاو کب؟؟؟ میں کچھ دیر سوچتی رہی کچھ سمجھ نہ آیا پھر میں نے ایسے ہی کہ دیا‬
‫جب چ ِھال نہانے کے بعد آپ صائمہ کو ملتان لیکر آو گے تب میں آپکو ایک لڑکی سے‬
‫ملواوں گی جسکی آپ دل کھول کر گانڈ مار سکتے ہو۔‬
‫عمران بولے پکی بات ہے؟ دھوکہ تو نہیں کرو گی؟؟؟ میں نے کہا اگر آپکو ایسی لڑکی‬
‫نا دلوائی تو آپ میری گانڈ مار لینا۔ اس پر عمران نے کہا ٹھیک ہے پھر مگر یہ نہ ہو‬
‫کہ تم کسی ‪ 40‬سالہ عورت کو میرے سامنے لے آو کہ اسکی گانڈ مارو۔۔۔ میں نے کہا‬
‫آپ فکر نہ کرو جوان لڑکی ہوگی اور جوان ہی گانڈ ہوگی اسکی۔ اس پر عمران نے کہا‬
‫ٹھیک ہے منظور ہے اور مجھے فورا بیڈ پر لٹا کر میری ٹانگیں کھول کر اپنا چہرہ‬
‫میری پھدی کے قریب کیا مگر پھر رک گئے۔ اور بولے یار یہ گندی ہے۔ میں نے کہا‬
‫گانڈ چاہیے تو یہ کرنا پڑے گا‪ ،‬پھر عمران نے ڈرتے ڈرتے اپنا چہرہ میری پھدی کے‬
‫اور قریب کیا اور اپنی زبان باہر نکالی مگر پھدی کے ساتھ لگائی نہیں‪ ،‬میں نے ایک دم‬
‫سے اپنی پھدی کو اوپر اٹھا لیا اور میری پھدی عمران کی زبان پر لگی۔ پھدی جیسے‬
‫ہی عمران کی زبان پر لگی تو عمران کو اسکا گیال پن محسوس ہوا اور وہ فورا پیچھے‬
‫ہو گئے۔ اور کہا فائزہ تم کچھ اور لے لو گانڈ کے بدلے میں مگر یہ پھدی چٹوانے واال‬
‫کام نا کرواو میرے سے۔۔۔۔‬

‫میں نے اب کی بار غصے میں کہا میں آخری بار کہ رہی ہوں میری پھدی چاٹو۔ اگر چاٹو‬
‫گے تو آپکو ایک جوان لڑکی کی گانڈ دلواوں گی اور اگر نہیں چاٹنی پھدی تو بھول جاو‬
‫گانڈ کو اور چپ کر کے اپنا لن میری پھدی میں ڈال دو۔ یہ سن کر عمران نہ چاہتے‬
‫ہوئے بھی ایک پار پھر سے میری پھدی پر جھکے اور اپنے چہرہ میری پھدی پر رکھ‬
‫دیا۔ مگر زبان باہر نا نکالی ہونٹ ہی میری پھدی پر رکھے ۔ عمران کے ہونٹوں کو اپنی‬
‫پھدی پر محسوس کر کے تو جیسے مجھے ایک کرنٹ سا لگ گیا میں نے ہاتھ آگے‬
‫بڑھا کر عمران کے سر پر رکھا اور دبا دیا اور نیچے سے پھدی کو بھی اوپر کو اٹھا کر‬
‫عمران کے چہرے پر مضبوطی سے اپنی پھدی کے لب لگا دیے۔ عمران کے ہونٹ میری‬
‫پھدی سے ضرور لگ رہے تھے مگر ساکت تھے۔ میں نے عمران کو کہا ایسے ہونٹ‬
‫رکھنے کا فائدہ نہیں میری پھدی کو چوسو اپنے ہونٹوں سے تو عمران نے آہستہ آہستہ‬
‫اپنے ہونٹوں کو میری پھدی کے ہونٹوں پر پھیرنا شروع کیا۔ میری پھدی بہت زیادہ گیلی‬
‫تھی کیونکہ میری بہت خواہش تھی عمران سے اپنی پھدی چٹوانے کی جو آج پوری ہو‬
‫رہی تھی۔ اور مزے کی بات یہ کہ مجھے نہیں معلوم تھا کہ میں کیسے عمران کو کسی‬
‫لڑکی کی گانڈ دلواوں گی۔‬

‫لیکن میں نے سوچا وہ بعد میں دیکھی جائے گی‪ ،‬اگر نہ بھی ملی کوئی لڑکی تو میں‬
‫اپنی گانڈ ہی دے دوں گی کیونکہ میری گانڈ پہلے رضوان اور اسکا دوست ندیم پھاڑ ہی‬
‫چکے ہیں۔ گانڈ مروانے کا ابھی تک مجھے کوئی مزہ تو نہیں آیا تھا اور نہ ہی شوق‬
‫تھا مگر پھدی چٹوانے کے لیے میں گانڈ مروانے کو بھی تیار تھی‬

‫بحر حال عمران ابھی تک نہ چاہتے ہوئے میری پھدی چاٹ رہے تھے۔ میں نے کہا اب‬
‫بہت ہوگیا جیسے میں آپکا لن پیار سے اور جوش سے چوستی ہوں ایسے ہی آپ بھی‬
‫چوسو میری پھدی کو۔ نہیں تو گانڈ کو بھول جاو۔ اب کی بار عمران نے اپنی آنکھیں بند‬
‫کی اور اپنہ منہ کھول کر زبان باہر نکالی اور میری پھدی پر پھیرنی شروع کر دی۔‬
‫عمران کی زبان نے میری پھدی میں آگ لگا دی۔ کچھ دیر میری پھدی میں زبان پھیرنے‬
‫کے بعد اپنی آنکھیں کھولیں اور میری پینٹی اتار دی۔ اور دوبارہ سے میری ٹانگیں‬
‫کھول کر اپنی زبان میری پھدی پر رکھ کر سوراخ میں داخل کر دی۔ اور زبان سے ہی‬
‫میری چودائی کرنے لگے۔ اب کی بار عمران کی جھجھک بالکل ختم ہوگئی تھی اور وہ‬
‫جوش کے ساتھ میری پھدی چاٹ رہے تھے ‪ ،‬میں نے بھی جوش میں اپنی پھدی کو‬
‫اوپر اٹھا اٹھا کر ہال ہال کر مزے لینے شروع کر دیے۔ پھر میں نے اپنی ٹانگیں اٹھا کر‬
‫عمران کی گردن کے گرد لپیٹ لیں اور نیچے سے اپنی پھدی کو ہالنا شروع کر دیا۔ میں‬
‫اپنی گانڈ اوپر نیچے ہال رہی تھی اور عمران کی زبان مجھے پاگل کیے جا رہی تھی۔‬
‫مجھے محسوس ہوا کہ میرا پانی نکلنے واال ہے میں نے اور سپیڈ سے اپنی گانڈ ہالنا‬
‫شروع کی اور عمران کے گرد اپنی ٹانگیں اور مضبوطی سے جما لیں‬

‫عمران کو اس بات کا احساس نہیں ہوا کہ میں جھڑنے والی ہوں۔ عمران میری پھدی کو‬
‫چاٹنے میں مصروف تھے اور میری سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں کہ اچانک ہی‬
‫میرے جسم کو جھٹکے لگے اور میری چوت کا پانی عمران کے چہرے پر ڈلتا چال گیا۔‬
‫عمران نے فورا پیچھے ہٹنے کی کوشش کی مگر ٹانگیں گردن کے گرد ہونے کی وجہ‬
‫سے وہ پیچھے نہیں ہٹ سکے۔ کچھ پانی انکے منہ میں گیا مگر انہوں نے فورا ہی منہ‬
‫بند کر لیا باقی کا پانی انکے چہرے پر گرا۔ جب سارا پانی نکل گیا تو میں نے ٹانگیں‬
‫کھول دیں اور عمران فورا پیچھے ہوگئے اور واش روم میں بھاگ گئے۔ وہاں جا کر‬
‫انہوں نے منہ میں موجود سارا پانی نکال دیا اور کافی دیر تک کلی کرتے رہے۔ اپنا‬
‫چہرا دھویا اور پھر باہر آگئے۔‬

‫وہ بالکل بھی خوش نہیں تھے مگر میں بہت خوش تھی کہ جس نے آج تک اپنی بیگم‬
‫کی پھدی نہیں چاٹی اس نے آج نہ صرف میری پھدی چاٹی بلکہ اپنی زبان سے میرا‬
‫پانی بھی نکلوا دیا۔ میں فورا عمران کے پاس گئی اور انکا شکریہ ادا کیا اور کہا اب‬
‫آپکو ایسی گانڈ دلواوں گی کہ آپ کو مزہ آجائے گا۔ عمران بولے اگر نہ دلوائی تو‬
‫تمہاری گانڈ کی خیر نہیں میں پھاڑ کر ہی رہوں گا۔ میں نے کہا فکر نہ کرو ضرور ملے‬
‫گی آپکو گانڈ۔ یہ کہ کر میں نے عمران کا لن جو بالکل بیٹھ چکا تھا اپنے منہ میں لے‬
‫لیا اور اسکو چدائی کے لیے تیار کرنے لگی۔ کچھ ہی دیر کے چوپوں کے بعد عمران کا‬
‫لن کھڑا ہو چکا تھا اور میں اب عمران کے لن کی سواری کر رہی تھی۔ عمران بھی اس‬
‫وقت مجھے پہلے سے زیادہ جوش سے چود رہے تھے کیونکہ انکو میرے پر غصہ‬
‫تھا۔ اور وہ اپنے اس غص کا اظہار اپنے لن کے ذریعے کر رہے تھے۔ عمران نے بہت‬
‫بے دردی کے ساتھ مجھے چودا اور ہر اس پوزیشن میں چودا جس میں وہ چود سکتے‬
‫تھے ۔ رات کے ‪ 3‬بجے عمران میری چودائی سے فارغ ہوئے تو میں نے جلدی جلدی‬
‫کپڑے پہنے پینٹی کو واپس ایک شاپنگ بیگ میں ڈال دیا اور عمران کا اس شاندار‬
‫چدائی پر شکری ادا کرنے کے بعد نیچے آگئی اور صائمہ کے ساتھ لیٹ کر سوگئی۔‬

‫اس دن عمران نے بہت ظالم چدائی کی تھی صبح اٹھی تو مجھ سے ٹھیک سے چال بھی‬
‫نہیں جا رہا تھا مگر میں نے کسی کو محسوس نہیں ہونے دی یہ چیز۔ اس دن کے بعد‬
‫میں مزید ‪ 4‬دن الہور رہی اور اس دوران عمران نے ‪ 2‬بار مزید میری چودائی کی۔ ہر‬
‫چودائی سے پہلے میں نے عمران کو مجبور کیا کہ وہ اپنی بہن کی پھدی بھی چاٹیں اور‬
‫عمران نے ہر بار پھدی چاٹنے کے بعد اپنا غصہ اپنے لن کے ذریعے نکاال۔ باآلخر ‪ 4‬دن‬
‫کے بعد عمران مجھے ڈائیو پر بٹھانے لے گئے۔ بس کا انتظار کرتے ہوئے عمران نے‬
‫ایک بار پھر کہا کہ اپنا وعدہ نہ بھولنا۔ اگر تم نے جوان لڑکی کی گانڈ نہ دلوائی تو‬
‫سمجھو تمہاری گانڈ تو گئی کام سے۔ میں نے بھی عمران کو کہا کہ آپ بے فکر‬
‫ہوجائیں۔ ایسی گانڈ دلواوں گی کہ آپ دعائیں دیں گ مجھے۔ پھر کچھ ہی دیر بعد میں‬
‫بس میں بیٹھی تھی۔ واپسی پر میرے پاس بہت سی یادیں تھیں۔ ایک ہفتہ بہن کے پاس‬
‫رہی‪ ،‬اپنے ننھے منھے سے بھانجے کی خوبصورت یادیں اور اپنے بہنوئی سے چدائی‬
‫کی سیکسی یادیں۔ یہ سب یادیں لیکر میں واپس ملتان آگئی تھی اپنے گھر جہاں میرے‬
‫منگیتر کے لن سمیت بہت سے لن مجھے چودنے کے لیے تیار تھے۔‬
‫الہور سے ملتان تک کا سفر ڈائیو میں بہت آرام سے گزارا میں۔ گو کہ میں اکیلی تھی‬
‫مگر ڈائیو کا سفر ہمیشہ سیف ہوتا ہے۔ ‪ 4‬سے ‪ 5‬گھنٹے کے سفر کے بعد میں شام کے‬
‫‪ 7‬بجے اپنے گھر پہنچی تو گھر میں تما م لوگ موجود تھے سب بہت خوشدلی سے‬
‫ملے اور صائمہ اور عامر کا حال پوچھا اور میرا موبائل لیکر انکی تصویریں دیکھنے‬
‫لگے۔ رضوان بھی الہور سے واپس آچکا تھا ملتان اور وہ بھی گھر پر ہی تھا۔ ہم سب‬
‫لوگ اکٹھے تھے کافی دیر تک باتیں ہوتی رہیں پھر رات کو ‪ 9‬بجے کھانا کھایا اور پھر‬
‫رضوان واپس ہاسٹل جانے کی تیاری کرنے لگا۔ واپسی کے لیے نکلنے سے پہلے‬
‫رضوان نے موقع دیکھ کر مجھے بتایا کے اسکا لن میری پھدی کے لیے بے چین ہورہا‬
‫ہے لہذا میں کل ہی اس سے ملنے کا پروگرام بناوں۔ میں تو پہلے ہی تیار تھی۔ میں نے‬
‫کوئ پروگرام بن جائے گا۔‬
‫ِ‬ ‫بھی کہا کہ فکر نہ کرو کل نہیں تو پرسوں تک کوئی نہ‬
‫اسکے بعد رضوان نے میرے لبوں پر اپنے لب رکھ کر ایک لمبی سی کس کی اور پھر‬
‫چال گیا۔‬

‫رات کو ‪ 11‬بجے کے قریب ہم سب گھر والے اپنے اپنے کمروں میں سونے کے لیے‬
‫چلے گئے۔ مجھے تو فورا ہی نیند آگئی‪ ،‬الہور میں سوائے چند دنوں کے میں صحیح‬
‫طور پر سو بھی نہ سکی تھی۔ صبح ‪ 10‬بجے اٹھ کر ناشتہ کیا اور اسکے بعد کچھ دیر‬
‫پھر امی کے پاس بیٹھ گئی۔ امی پھر سے عامر کے بارے میں پوچھنے لگیں۔ کچھ دیر‬
‫بعد جب امی گھر کے کاموں میں مصروف ہوئیں تو میں نے اپنا سامان نکاال بیگ سے‬
‫اور واپس اپنی جگہ پر رکھنے لگی۔ اسی سامان میں عمران کی دی ہوئی نائٹی بھی‬
‫ملی‪ ،‬وہ بھی میں نے اپنی الماری میں کپڑوں کے نیچے چھپا کر رکھ دی۔ مگر پھر‬
‫مجھے عمران کا لن یاد آنے لگا جس سے میں نے خوب چدائی کروائی تھی الہور میں۔‬
‫اور اسکے یاد آتے ہی میری پھدی میں کھجلی ہونے لگی۔ ‪ 15‬منٹ تو میں نے کھجلی‬
‫برداشت کی مگر اسکے بعد میری برداشت جواب دینے لگی تو میں نے فورا ہی رضوان‬
‫کو فون کیا اور اسکو ملنے کی جگہ پوچھی تو اسنے علی کے گھر ہی آنے کو کہا۔ میں‬
‫فورا ہی تیار ہوئی اور امی کو سائرہ کے گھر جانے کا کہ کر گھر سے نکل گئی اور‬
‫سیدھا علی کے گھر پہنچی۔ دروازہ کھال ہی تھا میں اندر داخل ہوگئی نیچے کمرے میں‬
‫پہچی تو رضوان اور علی دونوں موجود تھے۔‬

‫مگر آج اس گھر میں سناٹا تھا۔ پہلے ایک بار پارٹی پر آئی تھی تو کافی ہنگامہ تھا یہاں‬
‫پر جب میں پہلی بار ندیم کی گود میں بیٹھی تھی اور پینٹ کے اندر سے اسکے لن کا‬
‫ابھار اپنی گانڈ پر محسوس کیا تھا۔ اسکے بعد جب آئی تو بھی یہاں پر لڑکے اور لڑکیاں‬
‫موجود تھے اور ندیم ایک لڑکی کی چدائی بھی کر رہا تھا جس کو بعد میں ندیم اور‬
‫رضوان نے ملکر چودا تھا اور پھر ندیم نے پہلی بار میری گانڈ پھاڑی تھی۔ مگر آج‬
‫یہاں علی اور رضوان کے عالوہ اور کوئی نہیں تھا۔ میرے اندر داخل ہوتے ہی رضوان‬
‫آگے بڑھا اور مجھے زور سے جپھی ڈال لی اور میرے ہونٹوں کو چومنے لگا۔ پھر بوال‬
‫کہ آج بہت دن کے بعد ملی ہو تم بہت یاد آئی تم مجھے۔ اور میرا لن بھی تمہارے بغیر‬
‫بہت اداس رہا۔ میں نے فورا جواب دیا کہ ایسا تو نہیں ہوسکتا تم نے یقینا رافعہ کی‬
‫چوت سے اپنے لن کی پیاس بجھائی ہوگی یا پھر علی کی گرل فرینڈ کی گانڈ پھاڑی‬
‫ہوگی۔ یہ سن کر رضوان بھی ہنس دیا اور علی کی بھی ہنسنے کی آواز آئی اور وہ بوال‬
‫کہ فائزہ جی رضوان نے تو میری گرل فیرنڈ کی چوت میں اپنا لن ڈال دیا مگر رضوان‬
‫کی گرل فرینڈ کب ہمارے لنڈ کی سواری کرے گی؟‬

‫یہ سن کر رضوان بھی ہنسا اور مجھے علی کے پاس لے گیا اور اسکی گود میں بٹھا‬
‫تے ہوئے بوال آج دونوں بھائی مل کر فائزہ کی مارتے ہیں۔ میرے لیے اب یہ کوئی نئی‬
‫بات نہیں تھی۔ علی نے بھی فورا ہی اپنی بانہیں پھیال کر مجھے کمر سے کس کر پکڑ‬
‫لیا اور مجھے کسنگ کرنے لگا۔ میں نے بھی فورا ہی اسکو رسپانس دیا اور پیچھے‬
‫سے رضوان نے میری گردن پر کسنگ شروع کر دی۔‬

‫کچھ ہی دیر میں رضوان میری قمیص اتار چکا تھا اور میرے مموں کو برا کی قید سے‬
‫آزاد کر چکا تھا۔ اب علی میرے مموں کو اپنے منہ میں لیکر کسی بچے کی طرح انکا‬
‫دودھ پی رہا تھا جبکہ رضوان میری کمر پر اپنی زبان سے مساج کرنے میں مصروف‬
‫تھا۔ میں زیادہ مزہ لینے کے لیے علی کی گود میں گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی جس سے‬
‫میرے ممے اور اوپر ہوگئے اور علی بڑے آرام سے انہیں اپنے منہ میں لیکر چوسنے‬
‫لگا تو رضوان نے میری شلوار گھٹنوں تک نیچے کی اور پیچھے سے میری گانڈ میں‬
‫اپنی زبان گھمانے لگا۔ گھر سے چلنے سے پہلے میں نے خاص طور پر ٹب کے پانی‬
‫میں گالب کے عرق کے چند قطرے مالئے تھے اور اس پانی سے غسل کیا تھا اور‬
‫اسے خاص طور پر اپنی چوت اور گانڈ پر بھی اچھی طرح ڈاال تھا جسکی وجہ سے‬
‫میری گانڈ سے گالب کی خوشبو آرہی تھی اور رضوان مسحور ہوکر میری گانڈ چوسنے‬
‫میں مصروف تھا ساتھ ہی اسنے ایک ہاتھ آگے بڑھا کر اپنی بڑی انگلی میری چوت میں‬
‫داخل کر دی۔ چوت میں انگلی داخل ہوتے ہی چوت کی دیواریں گیلی ہونے لگیں اور میرا‬
‫جسم لن کی طلب کرنے لگا۔ میں نے کچھ دیر انگلی سے چدائی کرنے کے بعد رضوان‬
‫کو پیچھے کیا اور علی کی گود سے اتر کر نیچے بیٹھ گئی اسکی پینٹ کی زپ کھول کر‬
‫اسکا لن نکال کر ہاتھ میں پکڑ لیا۔‬
‫علی کا لن ‪ 7‬انچ کا تھا۔ لمبائی رضوان کے لن کے برابر ہی تھی مگر موٹائی میں تھوڑا‬
‫زیادہ تھا خاص کر اسکی ٹوپی کا سائز بڑا تحا۔ ٹوپی کی سائز سے مجھے اندازہ ہوگیا‬
‫تھا کہ آج کی چدائی میں بھی بہت مزہ آئے گا۔ میں مکمل ننگی تھی اب اور علی کا لن‬
‫اپنے منہ میں لیکر اسکے چوپے لگانے میں مصروف تھی۔ جب کہ رضوان بھی اپنی‬
‫پینٹ اتار کر اپنا لن میرے منہ کے قریب ال چکا تھا۔ میں کبھی علی کے لن کو منہ میں‬
‫ڈال کر چوپا لگاتی تو کبھی رجوان کے لن سے اسکا جوس پینے کے لیے اسے منہ‬
‫میں ڈال لیتی۔ ‪ 5‬منٹ کے چوپوں کے بعد میں اپنی جگہ سے اٹھی اور علی کی گود میں‬
‫بیٹھ گئی۔ علی کی گود میں بیٹھ کر میں نے اسکے لن کو اپنی چوت کے سوراخ پررکھا‬
‫اور ایک ہی جھٹکے میں پورا لن اپنی چوت میں داخل کر لیا۔ ہلکی سی چیخ کے ساتھ‬
‫ہی میں نے علی کے لن پر اچھلنا شروع کر دیا اور نیچے سے علی نے بھی دھکے‬
‫لگانے شروع کیے جبکہ رضوان کا لن میرے ہاتھ میں تھا اور میں اسکی مٹھ بھی مار‬
‫رہی تھی۔‬

‫علی کے لن کا ردھم بہت زبردست تھا اسکی حرکت میری اچھل کود کے ساتھ مکمل‬
‫طور پر ہم آہنگ تھی‪ ،‬جیسے ہی میں اوپر اٹھتی علی اپنے لن کو نیچے کی طرف لیکر‬
‫جاتا اور اسکے لن کی ٹوپی قریب قریب میری چوت سے باہر نکلنے کو ہوتی مگر باہر‬
‫نکلنے سے پہلے ہی میں واپس نیچے بیٹھتی تو علی بھی اپنے لن سے واپس اوپر کی‬
‫طرف دھکا لگاتا۔ اچھل کود کی اس ہم آہنگی کی وجہ سے علی کا لن جڑ تک میری‬
‫چوت میں جا کر اپنا کام کر رہا تھا۔ ‪ 5‬منٹ میں ہی میری چوت نے پانی چھوڑ دیا تو‬
‫علی نے مجھے اپنی گود سے اتارا اور بیڈ پر لٹا دیا۔ پھر علی میرے اوپر جھکا اور‬
‫اپنی زبان سے میری چوت کا پانی چاٹنے لگا۔ میری چوت کا پانی اپنی زبان سے صاف‬
‫کرنے کے بعد اب وہ بہت سپیڈ کے ساتھ اپنی زبان سے میری پھدی چاٹ رہا تھا جبکہ‬
‫رضوان کا لن میرے منہ میں تھا اور میں اسکے چوپے لگانے میں مصروف تھی۔‬

‫کچھ دیر بعد علی نے میری دونوں ٹانگوں کو اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ لیا اور اپنا لن‬
‫میری چوت میں داخل کر کے اپنی مشین کو فل سپیڈ میں چال دیا۔ میرے ممے علی کے‬
‫لن کے دھکوں کے ساتھ ساتھ اوپر نیچے فل سپیڈ میں ہل رہے تھے اور مجھے اپنی‬
‫رحم گاہ تک علی کا لن لگتا محسوس ہو رہا تھا۔ اس بار علی میری ٹانگیں اٹھا کر‬
‫مجھے چود رہا تھا اس لیے اسکی سپیڈ پہلے سے زیادہ تھی اور میرے لیے اسکے‬
‫دھکوں کو برداشت کرنا مشکل ہورہا تھا۔ میری ہلکی سسکیاں نکلنا شروع ہوئیں تو‬
‫رضوان اپنی ٹانگیں پھیال کر میرے سینے ے اوپر آگیا اور اپنا لن میرے منہ میں داخل‬
‫کر دیا۔ اب میری چوت میں علی کا لن چودائی کر رہا تھا اور منہ میں رضوان کا ن‬
‫چودائی کرنے میں مصروف تھا۔ اب میرے لیے سانس لینا بھی مشکل ہورہا تھا کیونکہ‬
‫نیچے علی کے زور دار دھکے تھے اور سینے پر رضوان بیٹھ کر اپنا لن میرے منہ‬
‫میں ڈالے ہوئے تھا۔ گوکہ رضوان نے اپنا وزن میرے سینے پر نہیں ڈاال تھا مگر اسکا‬
‫لن میرے منہ میں ہونے کی وجہ سے سانس لینے میں دشواری تحی۔ رضوان چند‬
‫سیکنڈ کے لیے اپنا لن باہر نکالتا اور جیسے ہی میری سانس بحال ہوتی وہ دوبارہ اپنا‬
‫لن میرے منہ میں ڈال دیتا۔‬

‫کچھ دیر میں میرے جسم میں سوئیاں رینگنے لگی اور اور میرے جسم نے چند جھٹکے‬
‫کھانے کے بعد اپنا پانی چوت کے راستے چھوڑ دیا۔ چوت کا پانی نکلتے ہی علی سائیڈ‬
‫پر ہوگیا اور رضوان بغیر ٹائم ضائع کیے نیچے لیٹ گیا اور مجھے اپنے اوپر آنے کو‬
‫کہا۔ میں بھی فورا رضوان کے اوپر بیٹھ گئی اور اسکا لن اپنی چوت میں ڈال کر اس پر‬
‫اچھلنے لگی۔ پھر رضوان نے مجھے اپنے اوپر جھکا لیا اور مجھے خوب جوش کے‬
‫ساتھ چودنے لگا۔ کچھ دیر اس پوزیشن میں چودائی کے بعد علی بھی میرے پیچھے آگیا‬
‫اور میری گانڈ میں انگلی داخل کر کے چکنائی کا اندازہ کرنے لگا۔ پھر اسنے میری گانڈ‬
‫پر تھوک کا گوال پھینکا اور انگلی ڈال کر اسکو چکنا کرنے لگا جبکہ رضوان نیچے‬
‫سے دھکے لگانے میں مصروف تھا۔‬

‫علی نے رضوان کو دھکے روکنے کا کہا اور اپنا لن میری گانڈ پر رکھا تو میں رضوان‬
‫کے لن سے اترنے لگی کیونکہ علی میری گانڈ مارنے کے لیے تیار تھا۔ مگر علی نے‬
‫مجھے رضوان کے لن سے اترنے نہیں دیا اور کہا ہم اکٹھے تمہیں چودیں گے رضوان‬
‫تمہاری چوت مارے گا اور میں گانڈ ماروں گا۔ میں نے منع کیا مگر انہوں نے میری‬
‫ایک نہیں سنی اور علی نے اپنے لن کا پریشر میری گانڈ پر بڑھایا تو اسکی ٹوپی میری‬
‫گانڈ میں داخل ہوگئی۔ میری ایک زور دار چیخ نکلی۔ ایک ہی وقت میں گانڈ اور چوت‬
‫میں لن لینے کا یہ پہال تجربہ تھا جو کہ کافی تکلیف دہ تھا۔ مگر کچھ ہی دیر میں جب‬
‫علی کا پورا لن میری گانڈ میں جاچکا تو دونوں نے اچھے اور ہلکے ردھم کے ساتھ‬
‫دھکے لگانا شروع کر دیے تھے۔‬
‫نیچے چوت میں رضوان کا لن سیر کر رہا تھا تو اوپر گانڈ میں علی کا لن میری چیخیں‬
‫نکلوا رہا تھا۔ یہ چیخیں شروع میں تو درد کی وجہ سے تھیں مگر پھر مزے کی شدت‬
‫بڑھنے لگی تو یہی چیخیں سسکیوں میں تبدیل ہوگئیں اور دونوں لن اپنی سپیڈ بڑھانے‬
‫لگے۔ رضوان کی سپیڈ ابھی تک فل نہیں ہوئی تھی مگر علی کا لن اب فل سپیڈ میں‬
‫میری گانڈ بجا رہا تھا اور کچھ ہی دیر میں مجھے اپنی گانڈ میں گیال پن محسوس ہوا۔‬
‫علی کا لن پانی چھوڑ چکا تھا۔ کچھ دیر جھٹکے مارنے کے بعد وہ سائیڈ پر ہوگیا تو‬
‫رضوان نے بھی اپنا لن میری چوت سے نکال لیا اور مجھے گھوڑی بننے کو کہا۔ میں‬
‫گھوڑی بنی تو رضوان نے پیچھے سے اپنا لن میری چوت میں داخل کیا اور میرے‬
‫لٹکتے ہوئے مموں کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر میری چودائی کرنے لگا۔ اس پوزیشن میں‬
‫رضوان اپنی پوری طاقت کے ساتھ دھکے لگا رہا تھا اور چدائی کا مزہ دوباال کر رہا تھا۔‬
‫کچھ ہی دیر میں اس نے میری چوت کو پانی چھوڑنے پر مجبور کر دیا تھا۔‬

‫چوت گیلی ہونے اور پانی سے بھرنے کے بعد رضوان نے اپنا لن چوت سے نکاال اور‬
‫بغیر ٹائم ضائع کیے اسی پوزیشن میں اپنا لن میری گانڈ میں داخل کر دیا جسکو علی‬
‫پہلے ہی کافی کھال کر چکا تھا۔ ‪ 3‬منٹ میری گانڈ مارنے کے بعد رضوان کا لن بھی‬
‫چھوٹ گیا۔ میں نڈھال ہوکر گر گئی اور رضوان بھی میرے اوپر ہی لیٹ گیا۔ پھر علی‬
‫بھی ساتھ آیا اور مجھ سے پوچھا کہ مجھے اسکا لن کیسا لگا؟؟؟ میں نے مسکرا کر‬
‫اسکی طرف دیکھا اور کہا مزہ دیا ہے تمہارے لن نے بھی۔ یہ کہ کر میں تھوڑا سا‬
‫اسکی طرف ہوئی اور اسکو کسنگ کرنے لگی اور اسکا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسکو‬
‫مسلنے لگی۔ وہ اس وقت بیٹھا ہوا تھا۔ علی نے بھی میرے جسم پر ہاتھ پھیرنا شروع‬
‫کیا جس سے میری گرمی پھر بڑھنے لگی اور علی کا لن بھی کھڑا ہونے لگا۔‬

‫منٹ کے بعد ایک بار پھر کمرہ میری سسکیوں سے گونجنے لگا اور میری گانڈ اور ‪5‬‬
‫چوت دونوں میں ایک ساتھ لن اندر باہر جا رہا تھا۔ رضوان اور علی نے دوسرا راونڈ‬
‫مکمل کیا اور خوب جم کر میری چوت اور گانڈ کی چدائی کی۔ آج پہلی بار مجھے اپنی‬
‫گانڈ مروانے کا مزہ آیا تھا۔ اسکی وجہ شاید یہی تھی کہ بار بار چدائی سے اب گانڈ لن‬
‫کی عادی ہوچکی تھی۔ دوسرا راونڈ مکمل ہونے کے بعد ہم تینوں نے اپنے اپنے کپڑے‬
‫پہنے اور علی فریج میں سے کچھ پھل اور جوس لے آیا جو ہم تینوں نے ملکر کھائے‬
‫اور شام ہونے سے پہلے میں گھر واپس آگئی۔‬
‫گھر واپس آئی تو میں بہت خوش اور مطمئن تھی۔ گانڈ میں درد ضرور تھا مگر آج گانڈ‬
‫مروانے میں مزہ بھی خوب مال تھا۔ رات کے کھانے پر سب اکٹھے تھے میں بہانے سے‬
‫فیاض کو اسکے کمرے میں لے گئی اور اس سے اسکے ایڈمیشن کے بارے میں پوچھا‬
‫تو وہ بوال کہ تمام لڑکوں کے ایڈمیشن بھیجے جا چکے ہیں مگر اسکا ایڈمیشن نہیں‬
‫بھیجا سر نے اب وہ پرائیویٹ بھیجے گا ایڈیمیشن یا پھر ایک سال ضائع کرے گا۔ یہ سن‬
‫کر مجھے بہت مایوسی ہوئی اور سوچا کہ ایک بار پھر سے سر اسلم سے ملوں اور‬
‫انسے گزارش کروں۔ مگر پھر مجھے انکا وہ ہتک آمیز رویہ یاد آگیا اور میں نے اپنا‬
‫ارادہ ترک کر دیا۔ اور یہی بہتر سمجھا کہ فیاض اپنا ایڈیمیشن پرائیویٹ ہی بھیج دے۔‬
‫ایک سال ضائع ہونے سے تو بچ جائے گا۔‬

‫یہ طے کر کے میں واپس اپنے کمرے میں آگئی۔ اگلے دن سب کچھ روٹین کے مطابق‬
‫چل رہا تھا۔ فیاض سکول تھا جبکہ میں اپنے کالج گئی تھی کافی دن کے بعد۔ کالج میں‬
‫سائرہ سے بھی سامنا ہوا اور اسنے مجھ سے پوچھا کہ میں اتنے دن کہاں رہی‬
‫کونٹیکٹ کیوں نہیں کیا۔ پہلے تو میرا بالکل دل نہیں کیا اس سے بولنے کو مگر پھر‬
‫اسی میں بہتری سمجھی کہ فی الحال اس سے بنا کر رکھی جائے تاکہ اسے معلوم نہ ہو‬
‫کے اسکے بھائی حیدر کا سمیرا سے رشتہ تڑوانے میں میرا بڑا ہاتھ تھا۔ میں نے اسے‬
‫اپنے بھانجے کی پیدائش کا بتایا جس پر وہ بہت خوش ہوئی۔ کالج سے چھٹی کے بعد‬
‫حیدر اپنی گاڑی میں سائرہ کو لینے آیا مجھ سے نظریں ملنے پر اسنے نظریں جھکا‬
‫لیں۔ الزمی طور پر وہ مجھ سے شرمندہ تھا اپنی نامردی پر۔ سائرہ اسکے ساتھ گھر‬
‫واپس چلی گئی جبکہ میں واپس اپنے گھر آنے کے لیے رکشہ میں بیٹھ گئی۔‬

‫گھر پہنچی تو سامنے فیاض میرا ہی انتظار کر رہا تھا۔ میرے گھر داخل ہوتے ہی وہ بوال‬
‫کہ آج سر اسلم ملے تھے اور انہوں نے کہا تھا کہ اپنی باجی سے ملواو تمہارے‬
‫ایڈیمیشن کے لیے کچھ کرتے ہیں۔ اور مجھے سر اسلم کا نمبر دیتے ہوئے بوال انکو‬
‫فون کر لیں وہ کہ رہے تھے آج ہی اپنی باجی سے ملواو نہیں تو ایڈمیشن بھیجنے میں‬
‫مسئلہ ہو سکتا ہے۔ دوپہر کے ‪ 3‬بج رہے تھے۔ کال ٹائم تو ختم ہو چکا تھا مگر پھر‬
‫بھی میں نے سر اسلم کو کال کرنے کا فیصلہ کیا۔ میں خوش تھی کہ چلو اب فیاض کا‬
‫داخلہ جا سکتا ہے۔ ساتھ ہی میرے ذہن میں یہ سوال بھی گردش کرنے لگا کہ کیا سر‬
‫فیاض اب مجھے چودنا چاہتے ہیں؟؟؟ ہو سکتا ہے کہ وہ میرے بارے میں سوچ رہے‬
‫ہوں اور آخر کر اپنے لن کے سامنے ہار مان لی ہو اور یہ فیصلہ کیا ہو کہ میری چدائی‬
‫کرنے کی صورت میں وہ فیاض کا داخلہ بھیج دیں گے۔‬

‫یہ سوچ کر میں نے سر فیاض کو کال کی۔ میری آواز سنتے ہی انہوں نے کہا "فائزہ‬
‫بیٹا" کیسی ہو تم؟؟ یہ سن کر میں ایک بار پھر حیران ہوئی کہ اگر سر نے مجھے‬
‫چودنے کا پروگرام بنایا ہے تو مجھے "بیٹا" کہ کر کیوں بال رہے ہیں؟؟؟ میں نے حیرت‬
‫بھرے لہجے میں کہا میں ٹھیک ہوں سر آپ کیسے ہیں۔ تو انہوں نے میری بات کا‬
‫جواب دینے کی بجائے کہا کہ تم ابھی مجھ سے ملو میں ایڈمیشن بھیج دوں گا۔ مگر‬
‫اسکے لیے ضرور ہے کہ ابھی مجھ سے آکر ملو۔ اب مجھے دوبارہ سے یقین ہونے‬
‫لگا کہ ہ میری چوت کے لیے تڑپ رہے ہیں میرے جسم نے ان پر اپنا جادو چال دیا ہے۔‬
‫میں نے پوچھا کہ سر کالج ٹائم تو ختم ہے تو وہ بولے تم میرے گھر آجاو اور ساتھ ہی‬
‫مجھے گھر کا ایڈریس بھی سمجھا دیا۔ اور بولے میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں جلدی آو۔‬

‫میں کالج سے تھکی ہوئی آئی تھی اور کھانا بھی نہیں کھایا تھا۔ اب سر سے بات کرنے‬
‫کے بعد امی کو بتایا کہ فیاض کے ایڈمیشن فارم میں کوئی مسئلہ ہے تو اسکے سر نے‬
‫مجھے بالیا ہے۔ امی نے کہا فیاض کو ساتھ لے جاو۔یہ سن کر مجھے اپنے اوپر غصہ‬
‫آنے لگا کہ آخر میں نے ایسا کیوں کہا۔ اب اگر سر کا پروگرام میری چودائی کا ہے تو‬
‫فیاض وہاں جا کر کیا کرے گا؟ یہ تو کباب میں ہڈی والی بات ہے۔ اب میں بہانے‬
‫سوچنے لگی مگر کوئی بہانہ نہ بن پایا اور مجبورا فیاض کو لیکر میں سر اسلم کے‬
‫گھر کی طرف چل پڑی۔‬
‫فیاض کے ساتھ میں گھر سے چل تو پڑی مگر راستے میں بھی سوچتی رہی کہ آخر اس‬
‫سے کیسے پیچھا چھڑایا جائے۔ میں نے اس سے اسکو دوستوں کے بارے میں پوچھا‬
‫کہ آج کل کیا کر رہے ہو تم لوگ‪ ،‬باتوں باتوں میں اسکو تھوڑا سا کہنے کی کوشش‬
‫کری کہ اگر اسکو کسی دوست کی طرف جانا ہے تو وہ چال جائے سر اسلم سے میں کر‬
‫لوں گی ساری بات۔ مگر فیاض نے ذرہ برابر بھی ارادہ ظاہر نہیں کیا کہ وہ کسی دوست‬
‫کی طرف جانا چاہتا ہے۔ آخر کار ہمارا رکشہ سر اسلم کے گھر کے سامنے جا کر رکا۔‬

‫یہ ایک بڑا اچھا گھر تھا‪ ،‬بلکہ کوٹھی کہا جائے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ گیٹ پر چوکیدار کھڑا‬
‫تھا میں نے اسکو بتایا کہ سر کو جا کر بتائے کے فائزہ آئی ہے اپنے بھائی کے ساتھ۔‬
‫چوکیدار نے ہم دونوں کو اندر الن میں بیٹھنے کو کہا اور خود گھر کے اندر داخل ہوگیا۔‬
‫کچھ ہی دیر بعد وہ دوبارہ باہر آیا اور بوال کہ آپ دونوں کو سر بال رہے ہیں اندر۔ فیاض‬
‫اور میں اپنی جگہ سے اٹھے اور چوکیدار کے پیچھے پیچھے چل پڑے۔ ایک کمرے کے‬
‫سامنے لیجا کر اس نے ہمیں اندر داخل ہونے کو کہا اور خود واپس چال گیا۔‬

‫فیاض اور میں کمرے میں داخل ہوئے تو سر فیاض کمرے میں ٹہل رہے تھے انکے‬
‫چہرے سے لگ رہا تھا کہ وہ کافی پریشان ہیں۔ انہوں نے مجھے اندر کرسی پر بیٹھنے‬
‫کو کہا اور فیاض نے آگے بڑھ کر انسے ہاتھ مالیا۔ انہوں نے فیاض کو کھا جانے والی‬
‫نظروں سے دیکھا اور بہت بے رخی سے اسکے ساتھ مصافحہ کیا اور اسے بھی‬
‫بیٹھنے کو کہا۔ ہم دونوں بیٹھ گئے تو سر اسلم بھی ہمارے سامنے ہی ایک کرسی رکھ‬
‫کر بیٹھ گئے۔ کچھ دیر وہ خاموش بیٹھے رہے پھر مجھ سے بولے "فائزہ بی بی کیا تم‬
‫اس بات کی گارنٹی دیتی ہو کہ تمہارا بھائی پاس ہوجائے گا؟ " ۔۔ میں نے کچھ توقف کیا‬
‫اور کہا جی سر میں خود اس پر توجہ دوں گی اور والد صاحب کے نوٹس میں بھی الوں‬
‫گی کہ فیاض پڑھائی میں توجہ نہیں دے رہا تو والد صاحب بھی اس پر خود توجہ دیں‬
‫گے اور یہ اچھے نمبروں سے پاس ہوجائے گا۔‬

‫یہ بات کرتے ہوئے میں نے محسوس کیا کہ سر میری بات سن ہی نہیں رہے بلکہ وہ‬
‫کسی سوچ میں گم ہیں۔ پھر اچانک وہ بولے کہ فیاض مجھے مارکیٹ سے ایک بال‬
‫پوائینٹ اور ایک سٹیمپ الدو کچھ ضروری ڈاکومنٹس بنانے ہیں تمہارے۔ یہ کہتے ہوئے‬
‫انہوں نے جیب سے پیسے نکالے تو فیاض نے کہا نہیں سر آپ رہنے دیں میں لے آوں‬
‫گا۔ اس پر سر غصے سے بولے مجھے ایسی رشوت نہیں چاہیے‪ ،‬تم یہ پیسے پکڑو‬
‫اور تھوڑا ہی دور مارکیٹ ہے وہاں سے یہ چیزیں لے آو۔ فیاض نے سر سے پیسے‬
‫پکڑے اور کمرے سے نکل گیا۔ سر نے کچھ دیر دروازیں پر ہی نظریں گاڑے رکھیں اور‬
‫کچھ نہ بولے۔‬

‫پھر اچانک وہ میری طرف متوجہ ہوئے اور بولے دیکھو فائزہ بیٹا اس دن تم میرے‬
‫پاس آئیں تھیں اور تم نے مجھے بہت ہی غلط قسم کے اشارے کیے تھے اور اپنی طرف‬
‫مائل کرنے کی کوشش کی تھی تاکہ میں تمہارے بھائے کا ایڈیمیشن بھیج دوں۔ ۔میں نے‬
‫سر کی بات کاٹی اور بولی جی سردراصل میں نہیں چاہتی کہ میرا بھائی پڑھائی میں‬
‫پیچھے رہ جائے اس لیے میں نے فیصلہ کیا تھا کہ میں اسکے لیے کسی بھی حد تک‬
‫جا سکتی ہوں۔‬
‫میری بات ختم ہوتے ہی سر دوبارہ سے بولے کہ کیا واقعی تم کسی بھی حد تک جا‬
‫سکتی ہو؟؟‬

‫میں نے کہا جی ہاں سر۔ آپ جو کہیں گے میں ویسے ہی کروں گی۔‬

‫سر پھر بولے اگر اس دن میں تمہاری طرف مائل ہوجاتا تو تم کس حد تک جا سکتی‬
‫تھیں؟‬

‫میں نے کہا سر آپ جو چاہتے اس وقت مجھ سے میں کرتی۔‬

‫سر نے پھر ایک دم سے پوچھا اور میں تمہاری عزت پر ہاتھ ڈالتا تو؟؟‬

‫میں نے مسکراتے ہوئے کہا سر میں تو کچھ بھی کرنے کو تیار تھی آپکو ہر طرح سے‬
‫خوش کرتی مگر آپ نے الٹا میری بے عزتی کردی۔‬

‫اب سر ایک دم بولے بیٹا مجھے تمہاری مدد کی بہت سخت ضرورت ہے۔ میں بہت بڑی‬
‫مشکل میں ہوں اور اس وقت مجھے کچھ سمجھ نہیں آرہا کہ میں کیا کروں ۔ صرف تم‬
‫ہی ہو جو میری مدد کر سکتی ہو۔ اگر تم نے میری مدد کر دی تو میں تمہارے بھائی کا‬
‫داخلہ بھجوا دوں گا۔‬

‫میں نے کہا سر مسئلہ کیا ہے کچھ بتائیں تو سہی؟؟‬

‫پھر سر نے بتایا کہ انکے بیٹے کو آج صبح پولیس اٹھا کر لے گئی ہے اور اس پر‬
‫جھوٹا کیس بنا دیا ہے چوری کا۔ جبکہ اسکا اس معاملے سے کوئی تعلق نہیں۔ میں نے‬
‫تھانے جا کر اسکی رہائی کی کوشش کی مگر ایس ایچ او بہت کمینہ انسان ہے اور مجھ‬
‫سے فوری ‪ 20‬الکھ روپے کا مطالبہ کر رہا ہے جبکہ میرے پاس صرف ‪ 10‬الکھ روپے‬
‫ہیں جو میں اپنے بیٹے کو تھانے سے نکلوانے کے لیے دے سکتا ہوں۔‬

‫اس سے پہلے کہ سر مزید بات کرتے میں نے شرمندہ ہو کر کہا کہ سر ہماری مالی‬
‫حیثیت تو اس قابل نہیں کہ اس معاملے میں آپکی مدد کر سکیں۔‬
‫سر نے کہا پہلے میری پوری بات سن لو۔ پھر بولے کہ اس وقت میں کسی وکیل کی مدد‬
‫بھی نہیں لے سکتا اسکے لیے مجھے پرسوں تک کا انتظار کرنا پڑے گا کیونکہ کل‬
‫چھٹی ہے تو میرا بیٹا ‪ 2‬دن تھانے میں رہے گا۔ جبکہ اسکا کوئی قصور نہیں۔ تھانیدار‬
‫خود اسکو پھنسا رہا ہے پیسے بٹورنے کے لیے۔ اب تم ہی ہو جو میری مدد کر سکتی‬
‫ہو۔‬

‫میں نے پھر پوچھا سر بتائیں میں کیا کر سکتی ہوں؟؟‬

‫سر بولے کہ اس دن تم اپنے بھائی کے لیے میرے پاس آئی تھیں۔ اور تب اگر میں بہک‬
‫جاتا تو تم اپنا جسم مجھے سونپنے کے لیے تیار تھیں۔ آج مجھے تمہاری ضرورت ہے۔‬
‫میں تمہیں ‪ 10‬الکھ دیتا ہوں وہ لیکر تم تھانیدار کے پاس جاو اور اسے تھوڑا بہالو اور‬
‫پیار سے بات کرو اور کہو یہی پیسے لیکر اسے چھوڑ دے۔ تم لڑکی ہو ہو سکتا ہے وہ‬
‫تمہاری بات مان جائے۔ اور اگر پھر بھی نہ مانا تو جسطرح تم اپنا جسم میرے حوالے‬
‫کرنے کے لیے تیار تھیں اسی طرح تھانیدار کو یہ ‪ 10‬الکھ روپیہ اور اپنا جسم دے دینا‬
‫پھر وہ میرے بیٹے کو چھوڑ دے گا اور تمہارے بھائی کا ایڈمیشن بھی ہوجائے گا۔‬

‫سر کی یہ بات سن کر میرا منہ کھلے کا کھال رہ گیا۔ میں نے تو کبھی زندگی میں تھانے‬
‫کی شکل دیکھنا دور کی بات کبھی تھانے کے بارے میں سوچا بھی نہیں تھا۔ میں نے‬
‫کانپتی ہوئی آواز میں کہا سر یہ تو بہت خطرناک کام ہے اگر اس نے مجھے بھی تھانے‬
‫میں بند کر دیا کہ میں بھی اسکی ساتھی ہوں تو میرا کیا بنے گا؟؟‬

‫اس پر سر بولے نہیں ایسا نہیں ہوگا۔ وہ تھانیدار بہت کمینہ انسان ہے اور کسی نے‬
‫مجھے بتایا ہے کہ اسکو نوجوان لڑکیوں کے جسم کا بہت شوق ہے اور اسکے لیے وہ‬
‫کچھ بھی کر سکتا ہے۔ اگر وہ ‪ 10‬الکھ پر نہ بھی مانا تو جب تم اسکو جسمانی تسکین‬
‫دو گی تو وہ ضرور مان جائے گا تمہاری بات۔ اب دیکھ لو فیصلہ تمہارے ہاتھ میں ہے‬
‫کہ فیاض کا ایڈمیشن بھجوانا ہے یا نہیں۔ یہ میری گارنٹی ہے کہ تمہیں کوئی نقصان‬
‫نہیں ہوگا۔‬

‫سر کی بات ختم ہوئی تو باہر دروازہ کھلنے کی آواز آئی اور پھر فیاض بھی کمرے میں‬
‫آگیا۔ اسکے پاس مطلوبہ سامان موجود تھا۔ میں سوچ میں گم تھی کہ اب کروں یا نہ‬
‫کروں؟؟؟ فیاض نے چیزیں سر کو پکڑاتے ہی پوچھا سر اب میرا ایڈمیشن کب جائے‬
‫گا؟؟؟ سر نے کوئی جواب نا دیا تو فیاض نے میری طرف دیکھا میں بھی خاموش تھی۔‬
‫فیاض نے مجھے ہلکا سا بازو مارا تو میں اپنی سوچ سے باہر نکلی اور فیاض نے‬
‫ہلکے سے اشارے سے پوچھا کہ کیا بنا۔۔۔ اب میں سوچ رہی تھی کہ فیاض کو کیا بتاوں۔‬
‫کہ کیا مسئلہ ہے۔ پھر اچانک ہی میرے ذہن میں ایک خیال آیا اور میں نے سر کو کہا کہ‬
‫سر اس معاملے میں فیاض سے مشورہ کرنا چاہتی ہوں میں۔۔۔ یہ سن کر سر نے حیران‬
‫ہوکر میری طرف دیکھا۔ وہ یہی سوچ رہے ہونگے کہ بھال ایسی بات میں اپنے بھائی‬
‫سے کیسے کر سکتی ہوں؟‬

‫میں نے سر کے جواب کا انتظار کیے بغیر فیاض کو اٹھنے کا اشارہ کیا اور باہر‬
‫راہداری میں آگئی اور کہا کہ سر کہ رہے ہیں کہ تمہارا ایڈمیشن چال تو جائے گا مگر‬
‫اسکے لیے انہوں نے اپنا ایک کام کروانا ہے جو میری دوست سائرہ کے ابو ہی کر‬
‫سکتے ہیں۔ سر کی زمینوں کا مسئلہ ہے کسی نے قبضہ کیا ہوا ہے‪ ،‬سر کہ رہے ہیں کہ‬
‫اپنی دوست کے ابو سے کہو کہ مجھے وہ زمین واپس دلوادیں تو وہ تمہارا ایڈیمیشن‬
‫بھیج دیں گے۔ فیاض بھی سائرہ کو جانتا تھا اور اسکو معلوم تھا کہ اسکے ابو ملتان‬
‫کے با اثر انسان ہیں اور زمیندار بھی ہیں۔ یہ سن کر فیاض فورا بوال تو کیا وہ کر دیں‬
‫گے یہ کام۔ میں نے کہا ہاں انکے لیے تو یہ کوئی مسئلہ ہی نہیں ہے۔ بس مجھے انکے‬
‫گھر جانا پڑے گا کیونکہ فون پر ایسی بات کرنا اچھا نہیں لگتا۔ میری بات سن کر فیاض‬
‫بوال پھر دیر کس بات کی ہے چلو ادھر ہی چلتے ہیں۔‬

‫فیاض سے یہ بات کر کے میں واپس آگئی اور سر کو کہا ٹھیک ہے سر آپکا کام ہوجائے‬
‫گا۔ میں اپنے انکل کو کہلوا کر آپکی زمین کا قبضہ واپس دلوا دوں گی۔ لیکن ان سے‬
‫ابھی ملنا ہوگا آپ مجھے انکے گھر لے چلیں۔‬

‫سر اسلم پہلے تو میری بات سن کر تھوڑا سوالیہ انداز میں میری طرف دیکھنے لگے‬
‫کہ یہ زمین کا مسئلہ کہاں سے آگیا بیچ میں؟؟ مگر پھر فورا ہی سمجھ گئے کہ میں نے‬
‫اپنے بھائی سے کوئی بہانہ بنایا ہے۔ تو وہ بھی بولے کے چلو ٹھیک ہے۔ فیاض بھی‬
‫ہمارے ساتھ ہی کھڑا ہوگیا۔ تو میں نے فیاض کو کہا تم ہمارے ساتھ نہیں آو گے۔ تم گھر‬
‫جاو اور اپنے ڈاکومنٹس لے کر آو۔ واپس ادھر ہی آنا ہم بھی ادھر ہی آئیں گے تو پھر‬
‫تمارے فارم فِل کر کے بھیج دیں گے۔ اسکے ساتھ ہی سر نے کہا کہ ہاں تم گھر سے‬
‫ڈاکومنٹس بھی الو اور اسکے بعد کالج بھی جانا وہاں چوکیدار کو کہنا کہ سر اسلم نے‬
‫بھیجا ہے انکے کمرے سے تمہاری فائل النی ہے۔ آفس میں سیکرٹری بیٹھا ہوگا اسکو‬
‫کہنا کہ سر اسلم کے روم سے فائل نکال دے۔‬

‫فیاض نے فورا ہی حامی بھری اور چال گیا۔ سر اسلم تھوڑی دیر کو اپنی الماری چیک‬
‫کرنے لگے جیسے ٹائم ضائع کرنا چاہتے ہوں تاکہ فیاض نکل جائے تو اسکے بعد‬
‫مجھے وہ تھانے لیکر جائیں گے۔ اتنی دیر میں فیاض چال گیا تو سر نے گاڑی کی چابی‬
‫اٹھائی اور الماری سے پیسے نکال کر میرے حوالے کیے اور کہا کہ چلو میں تمہیں لے‬
‫چلوں۔‬

‫مگر میں نے سر کو کہا نہیں سر ہم ابھی نہیں کچھ دیر بعد جائیں گے۔ یہ سن کر سر‬
‫بولے کہ کیوں اب کس بات کی دیر ہے؟؟ میں نے کہا سر آپکے اس کام کے لیے فیاض‬
‫کے ایڈمیشن کے عالوہ میری ایک اور شرط بھی ہے۔ اگر آپ وہ پوری نہیں کریں گے‬
‫تو میں آپکا کام نہیں کروں گی۔‬

‫سر بولے ہاں بولے کیا شرط ہے تمہاری؟‬

‫میں نے کہا سر اس دن اپنے آفس میں آپ نے میری بہت بے عزتی کی تھی۔ آج آپ سے‬
‫اس بے عزتی کا بدلہ لینا ہے۔‬

‫یہ کہ کر میں سر کی طرف دیکھنے لگی تو وہ بولے ہاں بولو کیا بدلہ لینا ہے میں‬
‫تمہارے پاوں پکڑ کر بھی تم سے معافی مانگنے کو تیار ہوں مگر پلیز میرا کام کر دو۔‬

‫میں نے کہا نہیں سر آپکو معافی مانگنے کی ضروت نہیں بس آپکو کچھ دیر کے لیے‬
‫میری چوت چاٹنی پڑے گی۔۔‬

‫یہ سن کر سر پہلے تو غصے میں میری طرف دیکھنے لگے پھر دانت پیستے ہوئے‬
‫بولے یہ کیا بکواس ہے؟؟ میں ایسا نہیں کروں گا۔‬
‫میں نے کہا ٹھیک ہے پھر میں بھی آپکا کام نہیں کروں گی۔ سر پھر بولے دیکھو بیٹا تم‬
‫غلط بات کر رہی ہو یہ غلط ہے تم میری بیٹیوں کی طرح ہو۔‬

‫میں نے کہا آپ خود ہی تو مجھے بھیج رہے ہیں کہ میں تھانیدار کو اپنے جسم سے‬
‫خوش کروں اور آپکے بیٹے کو چھڑواوں کیا کوئی باپ اپنی بیٹی کو ایسے کسی کے‬
‫ہاتھوں میں کھلونا بنا سکتا ہے؟؟ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپکا بیٹا آج ہی تھانے سے باہر‬
‫آئے تو آپکو میری چوت چاٹنی ہی پڑے گی۔‬

‫سر پھر غصے میں بولے کہ اگر ایسا ہے تو ٹھیک ہے میں ‪ 2‬دن بعد خود ہی عدالت جا‬
‫کر ضمانت کروا لوں گا میرا ‪ 10‬الکھ بھی بچ جائے گا اور تمہاری یہ بے ہودہ شرط بھی‬
‫نہیں ماننی پڑے گی۔‬

‫میں نے کہا سر پیسے تو بچ جائیں گے عزت نہیں بچے گی ۔ سارے کالج میں پتا چل‬
‫جائے گا کہ آپکا بیٹا ‪ 2‬راتیں تھانے میں قید رہا ہے چوری کے الزام میں۔ آپ خود ہی‬
‫سوچ لیں آپ نے کیا کرنا ہے۔۔‬

‫یہ سن کر سر میری منتیں کرنے لگے کہ فائزہ ہوش کے ناخن لو میں پہلے ہی پریشان‬
‫ہوں اور جلد سے جلد بیٹے کو چھڑوانا چاہتا ہوں۔ میں نے کہا تو دیر تو آپ خود ہی کر‬
‫رہے ہیں۔ میری چوت کو چاٹیں اور پھر ہم تھانے جا کر آپکے بیٹے کو چھڑوا لیں گے۔‬

‫اب سر چپ چاپ کھڑے تھے۔ ان کے لیے فیصلہ کرنا مشکل تھا کہ وہ کیا کریں اور کیا‬
‫نہ کریں۔ میں نے انکی اس مشکل کو آسان بنا دیا اور خود ہی اپنی شلوار اتار دی۔‬
‫شلوار اتار کر میں نے اپنی قمیص بھی اوپر کی اور صوفے پر ٹانگیں کھول کر بیٹھ گئی‬
‫اور سر کو اپنی طرف آنے کا اشارہ کیا۔ سر اپنی جگہ پر بت بنے کھڑے تھے۔ میں نے‬
‫کہا اب دیر نا کریں ورنہ تھانے میں لوگوں کے ساتھ جو سلوک ہوتا ہے آپکو پتا ہی‬
‫ہے۔ بہتر ہے جلدی سے میرا کام کریں تاکہ پھر میں آپکا کام کر سکوں۔‬

‫میری یہ بات سن کر سر نے آخری فیصلہ کیا اور چپ چاپ میری طرف آکر صوفے کے‬
‫ساتھ زمین پر ہی بیٹھ گئے اور اپنے دونوں ہاتھ میری تھائیز پر رکھ دیے۔ میری تھائیز‬
‫گوشت سے بھری ہوئیں تھیں ۔ سر نے جیسے ہی تھائیز پر ہاتھ رکھا تو انہیں دبا کر‬
‫انکی نرمی کو چیک کیا۔‬

‫پھر سر نے میری طرف دیکھا اور اسکے بعد میری پھدی کی طرف دیکھنے لگے۔ میں‬
‫نے ‪ 10‬دن پہلے الہور جاتے ہوئے انڈر شیو کی تھی اس لیے بال بھی بڑھے ہوئے‬
‫تھے۔ جن کو دیکھ کر شاید سر کو نفرت آرہی تھی۔ مگر پھر سر نے آنکھیں بند کیں اور‬
‫اپنی زبان میری چوت پر رکھ دی۔ اور اسکو زور زور سے رگڑنے لگے۔ سر کی زبان‬
‫چوت کے ساتھ لگتے ہی میرے جسم میں آگ لگ گئی۔ میں نے پہلے بھی بہت بار چوت‬
‫چٹوائی تھی مگر کبھی ایسا مزہ نہیں آیا تھا جو سر کی زبان لگنے سے آیا۔ اسکی ایک‬
‫وجہ شاید یہ تھی کہ میں سر کے ساتھ زبردستی کر رہی تھی۔ جسکی وجہ سے مجھے‬
‫سکون مل رہا تھا کہ جس نے مجھے گالیاں دیکر آفس سے نکاال تھا آج وہ میری چوت‬
‫پر جھک کر اپنی زبان میری چوت پر پھیر رہا ہے۔‬

‫میں نے اپنی دونوں ٹانگیں اوپر اٹھائیں اور سر کے کندھوں پر رکھ کر ٹانگوں کو سر‬
‫کی گردن کے گرد لپیٹ لیا اورانکے سر پر ہاتھ رکھ کر اپنی چوت کی طرف دبانے لگی۔‬
‫سر نے پچھلے ‪ 20‬سال سے سیکس نہیں کیا تھا مگر جب انکی بیوی زندہ ہونگی وہ‬
‫یقنیا انکی چوت بہت شوق سے چاٹتے ہونگے کیونکہ جسطرح وہ میری چوت کو چاٹ‬
‫رہے تھے مجھے اندازہ ہوگیا تھا کہ انکو چوت چاٹنے کا کافی تجربہ ہے۔ میری چوت‬
‫کو انہوں نے کچھ ہی دیر میں گیال کر دیا تھا۔‬

‫میں مزے کی بلندیوں پر تھی اور میری سسکیاں نکل رہی تھیں۔ میں سر کو بار بار کہ‬
‫رہی تھی کھا جاو میری چوت کو‪ ،‬زور سے چاٹو‪ ،‬زبان اندر ڈال دو۔ اور زور سے چاٹو‬
‫زبان پھیرو تیزی سے۔ کھا جاو میری پھدی کو۔ اور میری ان آوازوں کے ساتھ ساتھ سر‬
‫کی زبان کی سپیڈ بڑھتی جا رہی تھی۔‬

‫کافی دیر تک سر اسی طرح میری چوت کو چاٹتے رہے پھر میں نے سر کو پیچھے کیا‬
‫اور انکو کہا کہ وہ صوفے پر لیٹ جائیں سر صوفے پر لیٹے تو میں بیڈ پر چڑھ کر‬
‫انکے منہ کے اوپر جا کر بیٹھ گئی۔ میں نے اپنی چوت سر کے منہ کے اوپر کی اور سر‬
‫نے اپنے دونوں ہاتھوں سے میرے چوتڑ پکر کر اپنی طرف کھینچ لیے اور ایک بار‬
‫پھر میری چوت کو چاٹنے لگے۔ اتنے میں میری نظر سر کی پینٹ پر پڑی جہاں لن کا‬
‫ابھار واضح نظر آرہا تھا۔ لن کا ابھار دیکھتے ہی میری پھدی میں کھجلی تیز ہوگئی۔‬
‫میں سر کی پینٹ کی طرف جھکی اور انکے لن پر ہاتھ پھیرنے لگی۔ آگے جھکنے کی‬
‫وجہ سے میری گانڈ تھوڑی اوپر اٹھ گئی تھی جسکی وجہ سے سر کو اپنا چہرہ اوپر‬
‫اٹھانا پڑا۔‬

‫سر نے اپنا چہرہ اوپر اٹھا کر پھر سے میری چوت چاٹنا شروع کی۔ میں نے سر کی‬
‫پینٹ کی زپ کھول دی اور انکا ہاتھ میں پکڑ کر باہر نکال لیا۔ سر کا لن دیکھ کر میں‬
‫حیران رہ گئی۔ اس عمر میں بھی انکا لن کسی جوان مرد کی طرح سخت تھا اور لمبائی‬
‫‪ 8‬انچ تھی۔ میں نے اپنے ہاتھ سے سر کا لن مسلنا شروع کیا تو انکی زبان اور زیادہ‬
‫تیزی سے چلنے لگی۔ پھر میں اور آگے جھکی اور سر کے لن کی ٹوپی پر اپنی زبان‬
‫پھری۔ میرے مزید آگے جھکنے سے اب میری چوت سر کی زبان سے دور ہوئی تو وہ‬
‫مزید اوپر اٹھے اور اب کی بار انہوں نے اپنی زبان میری گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر‬
‫گانڈ چاٹنا شروع کر دی ۔ ادھر سر کا آدھا لن میں اپنے منہ میں لے چکی تھی اور اسکو‬
‫چاٹ رہی تھی۔ لن کی ٹوپی سے تھوڑا تھوڑا پانی بھی نکل رہا تھا جو بہت نمکین تھا‬
‫مگر مجھے اسے چاٹنے میں مزہ آرہا تھا۔‬

‫سر نے بھی کچھ دیر گانڈ چاٹنے کے بعد مجھے چوتڑوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچا‬
‫اور دوبارہ سے میری چوت کو چاٹنے لگے۔ اب کی بار سر اپنی زبان کو میری چوت‬
‫میں گھسانے کی کوشش کر رہے تھے ۔ اور کافی حد تک کامیاب بھی ہو رہے تھے۔ اب‬
‫انکی زبان میری چوت میں جانے لگی تو مزے کی شدت سے ایک بار پھر میری‬
‫سسکیاں نکلنے لگی۔ اب سر کا لن میرے ہاتھ میں تھا مگر میں اسکے چوپے نہیں لگا‬
‫رہیت ھی۔ کچھ دیر بعد مجھے اپنی چوت میں میں سوئیاں سمجھتی محسوس ہوئیں اور‬
‫میں سیدھی ہوکر سر کے منہ کے اوپر بیٹھ گئی اور میری سسکیوں میں اضافہ ہوگیا۔‬
‫پھر اچانک ہی مجھے محسوس ہو جیسے کوئی ٹیکے کی سوئی میری چوت میں چبھی‬
‫ہو اور اسکے ساتھ ہی میری چوت نے پانی چھوڑ دیا۔ جب تک میرا سارا پانی نکل نہیں‬
‫گیا سر نے اپنی زبان چوت سے نہیں ہٹائی۔‬

‫کچھ پانی سر کے منہ میں گیا جب کہ باقی انکے چہرے پر اور گردن پر گرا۔ پانی نکلنے‬
‫کے بعد کچھ دیر میں اپنی چوت کو سر کے منہ پر ہی رکھ کر بیٹھی رہی اور گہرے‬
‫گہرے سانس لینے لگی۔ آج چوت کی چٹائی میں بہت مزہ آیا تھا۔ پھر میں سر کے منہ‬
‫سے اٹھی اور اپنی شلوار پہننے لگی۔ سر ایک دم سے اپنی جگہ سے اٹھے اور بولے‬
‫اب جو آگ لگائی ہے وہ تو بجھاو میرا لن بھی چوسو اور اسکا پانی بھی نکلواو۔ میں‬
‫نے شلوار پہن لی اور سر کے قریب جا کر انکے ہونٹوں پر ایک کس کی اور انکا لن‬
‫اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اسکو ‪ 3 ،2‬بار آگے پیچھے کیا اور پھر بولی اب اس لن کا پانی‬
‫میری چوت میں ہی نکلے گا۔ لیکن پہلے تھانے چلکر آپکے بیٹے کی خبر لے آئیں۔۔۔ سر‬
‫ابھی بھی چاہتے تھے کہ میں انکا لن چوسوں مگر میں نے سر کو مزید تڑپانا مناسب‬
‫سمجھا اور انکا لن زپ سے ہی اندر ڈال کر زپ بند کردی۔‬

‫سر نے میرے سے پوچھا کہ فیاض کو واپس آنے میں کتنا ٹائم لگے گا؟؟؟ میں نے کہا‬
‫کہ ہمارے گھر سے آپکے گھر آنے میں آدھا گھنٹا لگتا ہے اس نے جانا ہے اور پھر آنا‬
‫ہے تو ‪ 1‬گھنٹہ تو لگ ہی جائے گا۔ پھر سر نے فون نکاال اور ایک نمبر مالنے لگے۔‬
‫پھر سر نے کسی کو فون پر کہا کہ ایک لڑکا فیاض آئے گا تمہارے پاس میرے ڈاکومنٹ‬
‫لینے تو اسکو تھوڑا تنگ کرنا اور بٹھائے رکھنا۔ پھر کچھ دیر بعد میرے روم میں جا کر‬
‫فائل چیک کرنا اور پھر واپس آکر کچھ دیر بعد اسکو کہنا کہ یہاں وہ فائل موجود نہیں‬
‫ہے۔ یہ کہ کر سر نے فون بند کر دیا۔‬

‫میں نے سر کو کہا یہ کیا بات ہوئی؟؟ آپ فائل کیوں نہیں دینا چاہ رہے؟؟ ایسے تو میں‬
‫آپکا کام نہیں کروں گی۔ سر مسکرائے اور بولے یہ کالج بھیجنے واال تو بہانہ تھا تاکہ‬
‫اسکو ٹائم لگے واپس آنے میں۔ اسکے نہ تو کسی ڈاکومنٹس کی ضرورت ہے اور نہ ہی‬
‫کسی فائل کی۔ فارم تو اسنے کال میں ہی ِفل کر دیا تھا مگر میں نے اسکا ایڈمیشن نہیں‬
‫بھیجا تھا اور فارم اپنے پاس رکھ لیا تھا۔ یہ کہ کر سر نے ایک فائل نکالی اور مجھے‬
‫دکھائی کہ یہ اسکی فائل ہے۔ اسکے بعد سر نے اس پر اپنے سائن کیے اور کالج کی‬
‫اسٹیمپ لگائی اور ایک کالج کی ہی بنی ہوئی فائل میں اسکو رکھ دیا جہاں ‪ 2‬فارم اور‬
‫بھی تھے۔ اور سر نے بتایا کہ یہ ‪ 2‬فارم بھیجنے تھے تو انکے ساتھ ہی فیاض کا بھی‬
‫بھیج دوں گا۔‬

‫میں نے کہا ٹھیک ہے اب چلیں آپکا کام بھی ہوجائے۔ سر نے پیسے مجھے پکڑائے جو‬
‫میں نے اپنے پرس میں رکھ لیے اور گاڑی میں بیٹھ کر تھانے کی طرف جانے لگے۔‬
‫فیاض کو ادھر سے گئے ابھی ‪ 20‬منٹ ہوئے تھے یعنی ہمارے پاس ابھی ایک گھنٹے‬
‫سے زیادہ کا وقت تھا۔ ‪ 10‬منٹ میں ہم تھانے پہنچ چکے تھے اور میں ایس ایچ او کے‬
‫کمرے میں بیٹھی تھی۔ جب کہ سر باہر گاڑی میں ہی بیٹھے میرا انتظار کر رہے تھے۔‬
‫کمرے میں میرے سامنے جو شخص بیٹھا تھا وہ کافی ہینڈسم اور خوبصورت تھا۔ چوڑا‬
‫سینہ اور کشادہ جسم وہ ایک صحت مند اور ورزشی جسم کا مالک انسان تھا۔ میں دل ہی‬
‫دل میں سوچنے لگی کہ یہ خود نہ بھی کہے تب بھی مجھے خود اسکو چدائی کی دعوت‬
‫دینی چاہیے یہ یقنینا مزہ دے گا۔‬

‫بہرحال میں نے اس سے بات شروع کی۔ سر کے بیٹے کے بارے میں بتایا اور کہا کہ‬
‫دیکھیں سر وہ بہت معزز لوگ ہیں وہ چوری نہیں کر سکتے آپ پلیز انکو چھوڑ دیں‬
‫اور جو لینا دینا کرنا ہے وہ کر لیں۔ اس شخص نے ایک گہری نظر مجھ پر ڈالی اور‬
‫کہنے لگا کہ اچھے شریف انسان ہیں بجائے پیسوں کا بندوبست کرتے لڑکی کو بھیج دیا‬
‫ہے تھانے میں۔ یہ کہتے ہوئے اسکی نظریں میرے چہرے کی بجائے میرے مموں پر‬
‫تھی۔ میں اسکی یہ بات سن کر مسکرائی اور کہا اصل میں وہ میرے ٹیچر ہیں تو انہوں‬
‫نے مجھے بتایا کہ انکے پاس پیسوں کی کمی ہے تو انہوں نے میرے سے ریکویسٹ‬
‫کی کہ میں آپ سے بات کروں اور اپنے انکل سے بھی آپکی بات کروا دوں پھر شاید آپ‬
‫مان جائیں گے۔‬

‫اس شخص نے ایک لمبی سی ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کی اور بوال کونسے انکل ہیں جی آپکے جن‬
‫سے آپ نے بات کروانی ہے۔۔ پہلے میں نے سوچا کہ سائرہ کے ابو سے بات کروا دوں‬
‫یا انکا نام بتاوں مگر پھر سوچا کہ اگر بات ادھر پہنچی تو ہو سکتا ہے وہ میرے گھر‬
‫بھی ذکر کر دیں کہ آپکی بیٹی کو تھانے میں کیا کام پڑ گیا۔ لہذا میں نے دوبارہ اسکو‬
‫مسکراتے ہوئے دیا کہ اتنے چھوٹے سے کام کے لیے میں کسی کا احسان نہیں لینا‬
‫چاہتی۔ یہ ‪ 10‬الکھ میں الئی ہوں آپ پلیز یہ رکھ لیں اور اس لڑکے کو چھوڑ دیں۔ یہ‬
‫کہتے ہوئے میں نے اپنا ہاتھ اسکے ہاتھ پر رکھا اور ہلکا سا دبایا۔ میرے ہاتھ کا لمس‬
‫محسوس کرکے اسکے چہرے پر ایک شیطانی مسکراہٹ نمودار ہوئی جیسے وہ مجھے‬
‫چودنے کے لیے مکمل تیار ہو۔‬

‫اس سے پہلے کہ وہ شخص کچھ بولتا باہر سے ایک اور پولیس واال اندر آیا اور میرے‬
‫سامنے جو کرسی پر بیٹھا تھا وہ ایک دم سے کھڑا ہوگیا اور اندر آنے والے کو سلیوٹ‬
‫کیا اور فورا ہی اس کرسی سے سائیڈ پر ہٹ گیا۔ اندر آنے واال شخص کرسی کے پاس‬
‫آیا اور پہلے والے شخص کو ایک موٹی سی گالی دی اور بوال میری کرسی پر تو ایسے‬
‫بیٹھا ہے جیسے ماں کے پیٹ سے ساتھ الیا تھا یہ کرسی۔ یہ کہ کر وہ کرسی پر بیٹھ‬
‫گیا۔ یہ ایک موٹی توند واال مکروہ قسم شخص تھا جسکے چہرے سے ہی خباثت ٹپیک‬
‫رہی تھی ۔ اور جب اسکی نظر میرے اوپر پڑی تو وہ پہلے شخص کی طرف دیکھتے‬
‫ہوئے بوال یہ کون سی خاتون ہیں ؟؟ دوسرے شخص نے جواب دیا سر جی یہ وہ کالج‬
‫والے استاد کے بیٹے کو چھڑوانے آئی ہے اور کہتی ہے کچھ لے دے کر معاملہ ختم‬
‫کریں۔ مگر اس استاد نے ‪ 10‬الکھ ہی بھیجا ہے ‪ 20‬الکھ نہیں۔‬

‫یہ سن کر نئے آنے والے شخص نے میرا اوپر سے نیچے تک بغور جائزہ لیا اور میرے‬
‫مموں کو بغور دیکھ کر انکے سائز کا اندازہ کرنے لگا۔ پھر بوال لے جاو بی بی یہ ‪10‬‬
‫الکھ ہمیں نہیں چاہیے۔ ہم چوروں کو ایسے نہیں چھوڑتے اپنے اس استاد سے کہو‬
‫پرسوں کو آکر ضمانت کروا لے اپنے بیٹے کی۔‬

‫مجھے اتنی تو سمجھ آگئی تھی کہ پہلے واال شخص ایس ایچ او نہیں تھا بلکہ ایس ایچ‬
‫او یہ شخص ہے جو اتنی بڑی توند ساتھ لیے پھر رہا ہے۔ اور اسکودیکھتے ہی میری‬
‫سیکس کی ساری خواہش ختم ہوگئی تھی۔ مگر مجھے اس سے بھی پیار سے ہی بات‬
‫کرنی تھی لہذا میں اپنی جگہ سے اٹھی اور ٹیبل پر تھوڑا سا جھک کر اسکے ہاتھ پر‬
‫ہاتھ رکھ کر دبایا اور کہا دیکھیں سر آپ بڑے لوگ ہیں ہمارے پاس اتنے پیسے نہیں‬
‫ہیں آپ مہربانی کریں اور انہی پیسوں کے عوض لڑکے کو چھوڑ دیں اسکا کوئی قصور‬
‫نہیں ہے ۔ جب میں یہ بات کر رہی تھی تو میری قمیص جھکنے کی وجہ سے نیچے‬
‫ڈھلک گئی اور اس موٹی توند والے انسان کی نظریں میری قمیص کے اندر جھانک کر‬
‫میرے مموں کا نظارہ کر رہی تھی‪ ٫‬مگر ساتھ ہی اسنے ایک بار پھر کہا کہ جاو بی بی‬
‫ایک دفعہ کہا نا کہ ‪ 10‬الکھ کافی نہیں ہیں لے جاو انہیں۔‬

‫میں نے کہا سر پیسے تو ‪ 10‬الکھ ہی ہیں آپ بتائیں آپکو اور کیا چاہیے؟؟ میں اب پہلے‬
‫سے زیادہ جھک گئی تھی تاکہ میرے مموں کا نظارہ اس شخص کو میری بات ماننے پر‬
‫مجبور کر سکے۔ اس نے میرے مموں پر اپنی نظریں گاڑتے ہوئے کہا بی بی جو کچھ‬
‫تمہارے پاس ہے اسکے بدلے تو ہم چھوڑ سکتے ہیں اس لڑکے کو۔ یہ کہ کر اس نے‬
‫ایک قہقہ لگایا اور دوسرے پولیس والے کی طرف دیکھا اور وہ بھی ہلکی آواز میں‬
‫ہنسنے لگا۔ مجھے اسکی بات کی سمجھ آگئی تھی مگر میں نے انجان بنتے ہوئے کہا‬
‫کہ سر میرے پاس یہی ‪ 10‬الکھ ہی ہیں۔‬
‫وہ بوال کہ بی بی ‪ 10‬الکھ کہ عالوہ بھی تمہارے پاس بہت کچھ ہے۔ میں نے پھر انجان‬
‫بنتے ہوئے کہا وہ کیا سر؟؟‬

‫اس نے میرے سینے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا یہ جو کچھ تم اپنی قمیص میں‬
‫چھپائے پھر رہی ہو یہ بھی تو ہے نہ۔۔ اسکی یہ بات سن کر میں نے تھوڑا شرمانے کی‬
‫ایکٹینگ کی کہ چلیں اب جو چھپا ہوا تھا آپنے دیکھ ہی لیا ہے اب چھوڑ دیں اسے۔‬

‫اس خبیث نے مجھے بھی ایک گالی دی اور پھر بوال کہ صرف دیکھنے سے کام نہیں‬
‫چلے گا رنڈی بنا کر چودوں گا پہلے تجھے پھر تیرا کام ہوگا۔ یہ بات اس نے دوسرے‬
‫پولیس والے کے سامنے ہی کہی تھی۔ میں نے ایس ایچ او کو کہا کہ آپ اس لڑکے کو‬
‫چھوڑ دیں پھر کسی ہوٹل میں چل کر آپ مجھے اپنی رنڈی بھی بنا لینا۔‬

‫یہ سن کر اسنے ایک اور گالی دی اور کہا میں تجھے پاگل لگتا ہوں کہ تجھے کسی‬
‫ہوٹل میں لیجاوں۔ یہیں کمرے کے پیچھے گاڑی کھڑی ہے چل تجھے اسی گاڑی میں جا‬
‫کر چودتا ہوں۔ میں پہلے سے ہی اس چیز کے لیے تیار تھی مگر مسئلہ صرف اسکا‬
‫حلیہ اور جسامت تھی جس سے مجھے نفرت آرہی تھی۔ مگر مرتی کیا نہ کرتی میں چپ‬
‫چاپ کھڑی ہوگئی۔ اس پر وہ شخص تھوڑا حیران ہوا اور بوال لگتا ہے تو پہلے ہی‬
‫چدوانے کے لیے آئی تھی۔ چل تیری کھجلی مٹاتا ہوں آج۔ یہ کہ کر اس نے اپنے ماتحت‬
‫کو کہا تو پیسے سنبھال میں ذرا اس وحشیہ کی گرمی نکال کے آتا ہوں۔ یہ کہ کر اس‬
‫نے مجھے اپنے پیچھے آنے کا اشارہ کیا ور میں چل دی اسکے پیچھے۔‬

‫وہ کمرے سے نکال اور ایک چھوٹی سی راہداری سے ہوتا ہوا تھانے کی عمارت کے‬
‫پچھلے حصے میں لے آیا جہاں مکمل سناٹا تھا محض ایک پولیس کی بس کھڑی تھی‬
‫جس میں مجرموں کو الیا اور لے جایا جاتا ہوگا۔ اس نے مجھے بس کے اندر جانے کو‬
‫کہا تو میں چپ چاپ اندر چلی گئی پیچھے سے وہ بھی آیا اور بس کا دروازہ بند کر لیا۔‬
‫اندر آتے ہی اس نے اپنے کپڑے اتارنا شروع کر دیے۔ پولیس کا یونیفارم اتار کر اس‬
‫نے اپنی گندی سی بنیان اتاری تو نیچے بالوں سے بھرا ہوا بھدا سا سینہ اور موٹی‬
‫لٹکی ہوئی توند برآمد ہوئی۔ اسکے بعد اس نے اپنی پینٹ اتاری اور پھر اپنا کچھا نما‬
‫انڈر وئیر بھی اتار دیا۔ نیچے اسکا ‪ 7‬انچ کا کاال بھدا لن پھنکارتا ہوا ایک دم کھڑا ہوگیا۔‬
‫اپنے کپڑے اتار کر وہ میری طرف متوجہ ہوا اور جب دیکھا کہ میں ویسے ہی کھڑی‬
‫ہوں تو وہ بوال اب خود کپڑے اتارے گی یا میں پھاڑ دوں تیرے کپڑے؟؟؟‬

‫یہ سنتے ہی میں ڈر گئی کہ کہیں یہ واقعی کپڑے نا پھاڑ دے۔ میں نے فورا اپنی شلوار‬
‫اتاری اور پھر اپنی قمیص بھی اتار دی۔ اس سے پہلے کہ میں اپنا برا اتارتی وہ سانڈ‬
‫نما شخص آگے بڑھا اور مجھے اپنے بازوں میں جکڑ کر اپنی توند سے چپکا دیا۔‬
‫اسکے جسم سے بہت گندی بدبو آرہی تھی شاید پسینے کی تھی۔ اس بھوکے انسان نے‬
‫شاید کبھی کوئی خوبصورت لڑکی نہیں دیکھی تھی‪ ،‬میرا گورا جسم دیکھ کر وہ پاگل‬
‫ہوگیا تھا پہلے اس نے میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کیا ور پھر اپنے ہاتھ میرے‬
‫چوتڑوں پر رکھ کر انکو دبانے لگا اور کہا واہ تیری گانڈ تو بڑی تگڑی ہے‪ ،‬اسکو‬
‫مارنے کا تو بہت مزہ آئے گا۔ پھر اس نے مجھے اوپر اٹھا لیا اور اپنی توند پر بٹھا لیا‬
‫اور میرے مموں پر اپنے ہونٹوں سے پیار کرنے لگا۔ میں اپنے ہاتھ پیچھے لے گئی اور‬
‫برا کی ہک کھول دی اور برا اتار کر سائیڈ پر پھینک دیا۔‬

‫میرے ممے جیسے ہی برا کی قید سے آزاد ہوئے وہ کسی بھوکے بھیڑیے کی طرح ان‬
‫پر ٹوٹ پڑا اور میرے نپلوں پر کاٹنے لگا۔ اسکے اس طرح پیار کرنے سے مجھے‬
‫بالکل بھی مزہ نہیں آرہا تھا بلکہ اس سے نفرت آنے لگی تھی اور تکلیف بھی ہو رہی‬
‫تھی۔ وہ بہت ہی سختی سے میرے نپلز چاٹ رہا تھا۔ جسکی وجہ سے میری سسکیاں‬
‫نکل رہی تھیں مگر یہ سسکیاں مزے کی وجہ سے نہیں بلکہ تکلیف کی شدت سے نکل‬
‫رہیں تھیں۔ مجھے آج تک کسی نے اس بے دردی سے پیار نہیں کیا تھا جو بھی چودتا‬
‫تھا بہت ہی پیار کے ساتھ چودتا تھا۔ مگر یہ وحشی تو واقعی میں میرے مموں کو کھا‬
‫جانا چاہتا تھا۔‬

‫کچھ دیر میرے ممے چاٹنے اور کھانے کے بعد اس نے مجھے اپنی توند سے نیچے‬
‫اتارا اور اپنے لن کو ہاتھ میں پکڑ کر مجھے دکھانے لگا اور بوال کبھی دیکھا ہے اتنا‬
‫بڑا لن تو نے؟؟؟‬

‫میں نے دل میں سوچا اس سے بڑے لن سے گانڈ بھی مروا چکی ہوں‪ ،‬مگر میں نے‬
‫انکار میں سر ہالتے ہوئے کہا کہ نہیں تمہارا لن بڑا ہے۔ پلیز مجھے آرام سے چودنا۔ یہ‬
‫سن کر اس نے فخریہ انداز میں ایک قہقہ لگایا اور بوال آرام سے تو نا مرد چودتے ہیں۔‬
‫مرد تو ہمیشہ جان لگا کر چودائی کرتے ہیں۔‬

‫یہ کہ کر اس نے مجھے کہا چل اپنی ٹانگیں کھول تجھے اصل مرد کے لن کا مزہ‬
‫چکھاوں۔ یہ سن کر میں نے شکر کیا کہ اس نے لن کے چوپے لگانے کو نہیں کہا۔ میں‬
‫نے کہا ادھر سیٹ پر لیٹ جاوں؟ تو اسنے کہا ہان لیٹ جا۔ میں ابھی پوری طرح لیٹی‬
‫بھی نہیں تھی کہ وہ بھی ایک ٹانگ رکھ کر سیٹ پر آیا اور میری دونوں ٹانگیں پکڑ کو‬
‫ہوا میں اٹھا لیں اور اپنا لن میری چوت پر رکھ کر ایک جھٹکا مارا اور پورا لن میری‬
‫چوت میں اتار دیا۔ میں اسکےلیے ابھی تیار نہیں تھی میری ایک زور دار چیخ نکلی۔‬
‫اور میں نے اسکو کہا آرام سے چودو۔ وہ زور زور سے ہنستا ہوا بوال وہ مرد ہی کیا‬
‫جو آرام سے چودے۔ آج تو میں تجھے رنڈیوں کی طرح چودوں گا تیرے گورے دودھیا‬
‫جسم نے تو مجھے پاگل کر دیا ہے اور میرے اندر کے مرد کو جگا دیا ہے۔ اب تیری‬
‫پھدی کو پھدا بنا کر چھوڑوں گا۔‬

‫یہ کہ کر اس نے اپنے لن سے میری پھدی کی چدائی شروع کر دی۔ اسکے دھکوں میں‬
‫واقعی میں جان تھی اور وہ پوری قوت کے ساتھ دھکے لگا رہا تھا اور آہستہ آہستہ‬
‫اپنی سپیڈ بڑھا رہا تھا۔ اسکے اس بے دردی سے چودنے کی وجہ سے میری پھدی میں‬
‫درد ہو رہا تھا اور میری چیخیں نکل رہی تھیں۔ میں نے چیخیں روکنے کی کوشش کی‬
‫تو وہ بوال فکر نا کر یہاں تیری آواز کوئی نہیں سن سکتا جتنا چیخنا ہے چیخ لے۔ یہ‬
‫سن کر میں نے اپنا ہاتھ منہ سے ہٹا لیا اور جیسے جیسے اسکے دھکے لگتے ویسے‬
‫ویسے میری چیخیں نکلتیں۔ گو کہ اسکا لن زیادہ لمبا نہیں تھا مگر وہ وحشیوں کی‬
‫طرح چود رہا تحا جسکی وجہ سے کچھ ہی دیر میں میری پھدی نے ہار مان لی اور پانی‬
‫چھوڑ دیا۔‬

‫پھدی کا گیال پن محسوس کر کے اس نے اپنا لن باہر نکاالاور بوال بہت جلدی چھوٹ گئی‬
‫ہے تو۔ ابھی تو میں بہت دیر تک تجھے چودوں گا۔ یہ کہتے ہوئے اس نے پاس پڑی‬
‫اپنی بنیان سے اپنا لن صاف کیا اور میری پھدی پر بھی بنیان پھیر ی۔ اور دوبارہ سے‬
‫لن اندر ڈالنے لگا تو میں نے کہا میں تھک گئی ہوں اب تم نیچے آجاو میں اوپر آجاتی‬
‫ہوں۔ یہ سن کر وہ سیٹ پر لیٹ گیا اور مجھے اپنے اوپر آنے کو کہا۔‬

‫میں اسکے اوپر بیٹھ تو گئی مگر اسکے اوپر لیٹنا مشکل تھا ایک تو راستے میں اسکی‬
‫توند اوپر سے اسکے جسم کی بدبو۔ میں اسکے لن کو پھدی میں ڈال کر اوپر ہی بیٹھی‬
‫رہی اور لیٹنے سے گریز کیا۔ اس نے پہلے تو مجھے اچھلنے کو کہا تو مں خود ہی‬
‫اسکے لن پر اچھلنے لگی مگ پھر اس نے مجھے پکڑا اور اپنے اوپر لٹا لیا۔ اب میرا‬
‫گورا بدن اسکے کالے اور بدبودار جسم سے ٹکرا رہا تھا‪ ،‬ساتھ ہی اس نے پیچھے سے‬
‫لن کے گھسے مارنے شروع کر دیے۔ اسکی سپیڈ اب پہلے سے بھی تیز تھی اور وہ‬
‫بغیر رکے میری چوت کا ستیاناس کر رہا تھا۔‬

‫اب میری چوت اسکی اس جاندار چودائی کو برداشت کرنے لگی تھی اور مجھے مزہ‬
‫آرہا تھا۔ اس بے دردی سے پہلے کسی نے نہیں چودا تھا اس لیے شروع میں تکلیف‬
‫ہوئی مگر اب اس سانڈ کی تکلیف دہ چودائی مجھے مزہ دے رہی تھی۔ اور میں مزے‬
‫میں سسکیاں نکالنے کے ساتھ ساتھ اسکو اپنی سپیڈ بڑھانے کا کہ رہی تھی۔ کچھ دیر‬
‫ایسے ہی چودنے کے بعد اس نے مجھے اپنے سے علیدہ کیا اور کھڑا ہونے کو کہا۔‬

‫میں اسکے لن سے اٹھی اور بس میں کھڑی ہوگئی۔ اسنے مجھے کہا کہ سیٹ کی طرح‬
‫منہ کر کے نیچے جھک جاوں۔ اور اپنی ٹانگیں کھول لوں۔ میں نے ایسے ہی کیا اور‬
‫سیٹ کی ٹیک پر ہاتھ جما کر تھوڑا سا جھکی اور اپنی گانڈ باہر نکال لی۔ وہ پیچھے‬
‫سے آیا اور اپنا لن میری چوت میں داخل کر کے پھر سے اپنی مشین چالنی شروع کر‬
‫دی۔ اب کی بار وہ میرے مموں کو پکڑ کر دبا رہا تھا اور ساتھ ساتھ میری پھدی کا‬
‫بھرتا بنا رہا تھا۔ جب وہ لن اندر داخل کرتا تو میں اپنی پھدی کو ٹائٹ کر لیتی جس سے‬
‫پھدی کو زیادہ رگڑ ملتی اور جب وہ لن باہر کھینچتا تو میں پھدی ڈھیلی چھوڑ دیتی۔ اب‬
‫کھڑے ہوکر چودائی کرنے میں وہ اور بھی زیادہ جاندار دھکے لگا رہاتھا جسکی وجہ‬
‫سے بس تھوڑی تھوڑی ہل رہی تھی اورمیری چیخوں سے گونج رہی تھی۔ مگر ساتھ‬
‫ساتھ میں اسکو زور دار دھکے لگانے کا بھی کہتی رہی۔ جب اسکا لن اندر جاتا تو‬
‫اسکی توند کانچال حصہ میرے چوتڑوں سے ٹکراتا اور دھپ دھپ کی آوازیں نکلتی ۔ یہ‬
‫دھپ دھپ کی آوازیں جاری تھیں کہ میری چوت نے ایک بار پھر پانی چھوڑ دیا۔‬

‫یہ بھدا انسان چھوٹے لن کے باوجود بڑی اچھی چودائی کر رہا تھا اور اسکا سٹیمنا بھی‬
‫اچھا تھا۔ اب کی بار جب میری پھدی گیلی ہوئی تو اس نے لن میری پھدی سے نکال دیا‬
‫اور کہا کہ اور زیادہ جھک جو سیٹ پر ہاتھ رکھ لو۔ میں نے اپنے ہاتھ ٹیک سے اٹھا کر‬
‫سیٹ پر رکھ لیے اور ایسے جھک گئی کہ میری کمر سیدھی تھی۔ اب کی بار اس نے‬
‫میرے چوتڑوں کو دبانا شروع کیا اور ان پر تھپڑ مارنے لگا۔ پھر اس نے اپنی ایک‬
‫انگلی میری گانڈ میں داخل کرنے کی کوشش کی۔ جو تھوڑی سی کوشش کے بعد پوری‬
‫اندر چلی گئی۔‬

‫پھر وہ بوال تو پکی رنڈی ہے گانڈ بھی مرواتی رہی ہے پہلے۔ چل اب تیار ہوجا تیری‬
‫گانڈ میں جارہا ہے میرا لن۔ یہ کہ کر اس نے اپنی ٹوپی میری گانڈ کے سوراخ پر رکھی‬
‫اور آہستہ آہستہ زور لگا کر پورا لن اندر داخل کر دیا۔ کچھ دیر وہ آہستہ آہستہ اپنے لن‬
‫کو اندر باہر کرنے لگا۔ پھر جب لن تھوڑی روانی سے گانڈ کی چودائی کرنے لگا تو اس‬
‫نے دھکے بڑھا دیے اور بہت ہی ظالم طریقے سے میری گانڈ مارنے لگا۔ ‪ 3‬منٹ تک‬
‫میری گانڈ کی چٹنی بنا کے رکھ دی تھی اس نے۔ پھر اس کے دھکے حد سے زیادہ تیز‬
‫ہوگئے اور اسکی اپنی سسکیاں نکلنا شروع ہوئیں۔ دیکھتے ہی دیکھتے مجھے اپنی‬
‫گانڈ میں گیال پن محسوس ہونے لگا اور وہ بھی رک رک کر ‪ 4 ،3‬دھکنے مار کر سیٹ‬
‫پر نڈھال ہوکر لیٹ گیا۔‬

‫میری بھی بری حالت ہو چکی تھی۔ اس نے تقریبا ‪ 20‬منٹ میری چودائی کی تھی۔ اور‬
‫اس دوران اس نے اپنی سپیڈ کہیں پر بھی کم نہیں کی تھی اور پورا ٹائم جاندار نان‬
‫سٹاپ دھکے مارے تھے۔ کچھ دیر گہرے سانس لیکر میں نے اپنے آپ کو سنبھاال تو وہ‬
‫بوال بتا کیسا لگا میرے سے چدائی کروا کر۔ میں نے کہا تم واقعی میں اچھا چود لیتے‬
‫ہو۔ اگر میرے پاس ٹائم ہوتا تو میں مزید چدواتی تم سے ایک بار۔ یہ سن کر وہ فخریہ‬
‫انداز میں بوال اب تیری چوت اس لن کے لیے مچلے گی اور تو خود دوبارہ آئے گی اپنی‬
‫چوت اور گانڈ مروانے کے لیے۔ یہ کہ کر اس نے اپنے کپڑے پہننے شروع کیے اور‬
‫وہی گندی بنیان پہن لی جس سے اس نے اپنے لن پر موجود میری پھدی کا پانی صاف‬
‫کیا تھا۔ میں نے بھی اپنا برا پہن کار قمیص اور شلوار پہنی۔ اور اسکے پیچھے پیچھے‬
‫واپس تھانے میں چلی گئی۔‬

‫اسکا ماتحت پھر سے اسکی سیٹ پر بیٹھا تھا جس پر اسے ایک بار پھری موٹی سی‬
‫گالی سننے کو ملی اور ساتھ ہی کہا کہ جا اس ماسٹر کے بیٹے کو لے کر آ۔ جب اسکا‬
‫ماتحت اسکو لینے گیا تو اسکی نظریں مجھ پر تھیں جیسے کہنا چاہتا ہو کہ وہ بھی‬
‫اپنے لن سے میری خدمت کرنا چاہتا ہے۔ مگر اپنے افسر کے سامنے مجبور ہے۔ جب‬
‫وہ چال گیا تو میں نے ایس ایچ او کو خوش کرنے کے لیے کہا کہ آپکی بیوی تو آپ‬
‫سے بہت خوش ہوگی۔ آج کل کے نوجوان تو ‪ 5‬منٹ میں ہی جھڑ جاتے ہیں مگر آپ کی‬
‫چدائی نے تو میری پھدی کا ‪ 2‬بار پانی نکلوا دیا۔ اس پر وہ خوش ہوا اور زور زور سے‬
‫ہنسنے لگا پھر بوال میں نے کہا ہے نہ تیری چوت تجھے دوبارہ ادھر آنے پر مجبور کر‬
‫دے گی۔‬

‫پھر میں نے اسکو کہا ایک مہربانی اور کر دیں۔ وہ بوال ہاں بتا کیا کام ہے؟ میں نے کہا‬
‫آپ اس لڑکے کے سامنے کہ دینا کہ یہ اپنے ابو کو بتا دے کہ اب تمہاری شکایت آئی تو‬
‫تمہیں کسی قیمت پر نہیں چھوڑے گا۔ اور آپ اس بارے میں مجھ سے پوچھتے رہیں‬
‫گے۔ اس نے ہاں میں سر ہالیا اور ساتھ ہی پیچھے سے پولیس والے کے ساتھ ایک‬
‫لڑکا اندر داخل ہوا۔ اسکی عمرا کوئی ‪ 22‬سے ‪ 24‬کے درمیان لگ رہی تھی۔ وہ بہت ڈرا‬
‫ہوا لگ رہا تھا۔ وہ آیا تو تھانیدار نے اسکو کہا کہ شرم کر تیرا باپ نہیں آیا تجھے‬
‫چھڑوانے کے لیے نہ ہی اسنے پیسوں کا بندوبست کیا۔‬

‫شکر کر یہ بی بی آگئیں تیری مدد کے لیے۔ اور خبردار جو آئندہ کسی چور کے آس پاس‬
‫بھی نظر آیا مجھے تو۔ یہ سن کو وہ لڑکا بوال سر میں نے تو پہلے بھی چوری نہیں کی‬
‫تھی آپکے لوگوں کو غلط فہمہی ہوئی تھی وہ مجھے پکڑ الئے۔ اس کی آواز میں خوف‬
‫تھا اور لگ رہا تھا ابھی رو پڑے گا۔ اسکی بات ختم ہونے سے پہلے ہی تھانیدار نے‬
‫اسکو ڈانٹ کر چپ کروایا اور کہا بکواس نہ کر سب چور ایسے ہی کہتے ہیں۔‬

‫اس بی بی کا شکریہ ادا کر انکو تیرے ابو نے سفارش کے لیے بھیجا تھا تیری قسمت‬
‫اچھی ہے کہ یہ ہماری جاننے والی ہیں۔ انکے کہنے پر تجھے چھوڑ رہے ہیں۔ لیکن اگر‬
‫آئندہ تیری کوئی شکایت آئی یا اس بی بی نے تیری کوئی شکایت کی تو تیرا باپ اپنی‬
‫گانڈ بھی مروا لے مجھ سے تب بھی تجھے نہیں چھوڑوں گا میں۔ یہ کہ کر اس نے‬
‫میری طرف دیکھا اور شیطانی نظروں سے بوال جائیں جی آپ۔ آپکا کام ہوگیا اس ماسٹر‬
‫کو کہیے گا آئندہ خیال رکھے اپنے بیٹے کا۔ اور آپکو جب بھی کوئی کام ہو بال جھجک‬
‫خدمت کا موقع دیجیے گا۔ یہ کہتے ہوئے اسکے لہجے میں کچھ زیادہ ہی خباثت تھی۔‬

‫میں نے مسکراتے ہوئے اسکا شکریہ ادا کیا اور سر کے بیٹے کا ہاتھ پکڑ کر اسکو‬
‫اپنے ساتھ تھانے سے باہر لے آئی جہاں سر اسلم بے چینی سے میراانتظار کر رہے‬
‫تھے ۔ ہمیں آتا دیکھ کر وہ بے حد خوش ہوئے اور آگے بڑھ کر اپنے بیٹے کو گلے‬
‫لگالیا۔ انکا بیٹا بھی بہت ڈرا ہوا تھا وہ رونے لگ گیا۔ سر نے پہلے اسکو تسلی دی۔ پھر‬
‫انہوں نے میرا شکریہ ادا کیا اور کہا بیٹا یہ تم نے میرے اوپر بہت بڑا احسان کیا ہے۔‬
‫میں کبھی نہیں بھولوں گا تمہارا یہ احسان۔ وہ سمجھ گئے تھے کہ اتنی دیر سے واپسی‬
‫کا مطلب ہے کہ تھانیدار مجھے چودنے پر ہی راضی ہوا ہے۔‬

‫پھر ہم گاڑی میں بیٹھے اور واپس سر کے گھر کی طرف چل دیے۔ راستے میں لڑکے‬
‫نے سر سے پوچھا بابا یہ کون ہیں؟؟؟ تو سر نے کہا یہ ہمارے ایک سٹوڈنٹ کی بہن‬
‫ہیں انہوں نے کہا تھا انکے کوئی انکل ہیں جو تمہیں وہاں سے نکلوا سکتے ہیں تو اس‬
‫لیے میں انہیں یہاں ال یا تھا۔ میں نے اسکو کہا ڈرنے والی کوئی بات نہیں اب یہ تمہیں‬
‫تنگ نہیں کرے گا۔ بس تم خیال کرنا باہر نکلتے ہوئے۔ سر نے میرے سے پوچھا بیٹا‬
‫کوئی مسئلہ تو نہیں ہوا؟؟؟ یہ پوچھتے ہوئے وہ تھوڑا جھجک رہے تھے کیونکہ وہ‬
‫جانتے تھے کہ اندر کیا ہوا ہے۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی انکے بیٹے نے میرا‬
‫شکریہ ادا کیا اور کہا آپ تھانیدار صاحب کو یقین دال دیجیے گا کہ انکو کوئی شکایت‬
‫نہیں ملے گی بلکہ میں تو اب گھر سے بھی نہیں نکلوں گا پورا مہینہ۔ یہ کہ کر اس نے‬
‫سر کو بتایا کہ تھانیدار نے کہا ہے آئندہ احتیاط کرنا یہ ہماری بھی عزیز ہیں تو وہ‬
‫انسے میرے بارے میں پوچھتے رہیں گے۔ کسی شکایت کی صورت میں وہ پھر مجھے‬
‫تھانے لے جائے گا۔ سر نے بھی فورا کہا نہیں بیٹا اب تمہیں میں اسالم آباد بھیج دوں گا‬
‫تم ‪ 4 ،3‬ماہ اپنے ماموں کی طرف رہ کے آو تب تک یہ معاملہ ختم ہوجائے گا۔‬

‫پھر سر نے دوبارہ سے میرا شکریہ ادا کیا۔ میں سر تک یہی بات پہنچانا چاہتی تھی کہ‬
‫میری شکایت پر آپکا بیٹا دوبارہ اندر جا سکتا ہے ۔ یہ بات پہنچانے کا مقصد تھا کہ اپنا‬
‫کام ہونے پر سر کہیں فیاض کا ایڈمیشن دوبارہ نہ روک لیں۔‬

‫کچھ دیر بعد ہم گھر واپس پہنچے تو فیاض دروازے پر کھڑا ہمارا انتظار کر رہا تھا۔ اب‬
‫سر کا بیٹا بھی ساتھ تھا اس لیے سر نے مجھے اپنے الن میں ہی رکنے کو کہا اور‬
‫بیٹے کو لیکر اندر چلے گئے۔ انکے اندر جانے پر فیاض نے میری طرف غصے سے‬
‫دیکھا اور بوال کالج سے کوئی فائل نہیں دی اس نے۔ مجھے ایسے ہی آدھا گھنٹہ‬
‫بٹھائے رکھا۔ پھر کہتا ہے فائل نہیں ہے تم واپس سر کے گھر جاو وہیں ہوگی۔ میں نے‬
‫کہا فکر نہیں کرو تمہارا ایڈمیشن چال جائے گا۔ پھر فیاض نے پوچھا کہ سر کے کام کا‬
‫کیابنا؟ میں نے کہا وہ بھی ہوجائے گا مگر اسکا ذکر گھر میں نہیں کرنا اور نہ ہی سائرہ‬
‫کے گھر یا سائرہ کے ساتھ کبھی اس بات کا ذکر کرنا۔ یہ بات بس ہم تینوں اور سائرہ‬
‫کے ابو کے درمیان ہے۔ فیاض نے کہا آپ فکر نہ کریں میں کسی سے اس کا ذکر نہیں‬
‫کروں گا۔‬

‫اتنے میں سر اسلم بھی باہر آگئے تو فیاض فورا انکی طرف گیا اور کہا سر وہاں تو‬
‫کوئی فائل نہیں تھی جس پر سر نے کہا ہاں میں بھول گیا تھا وہ فائل میں گھر لے آیا‬
‫تھا وہ میرے کمرے میں ہی پڑی ہے صبح کالج آجانا اور ایک فارم پر تمہارے سائن‬
‫ہونگے اور تمہارے ڈاکومنٹس میں بھجوادوں گا۔ اس پر فیاض نے اپنے ڈاکومنٹس سر‬
‫کو دینا چاہے جو وہ گھر سے الیا تھا مگر سر بولے نہیں انکی بھی ضرورت نہیں‬
‫تمہارے پہلے والے ڈاکومنٹس مل گئے ہیں وہی بھیج دوں گا۔ اس پر فیاض نے سر کا‬
‫بہت بہت شکریہ ادا کیا اوراسکو کہا آپ گاڑی میں بیٹھو مجھے فائزہ سے ایک پرسنل‬
‫بات کرنی ہے۔‬

‫فیاض چپ کر کے گاڑی میں بیٹھ گیا تو سر نے مجھ سے پوچھا کہ تھانے میں کیا ہوا؟؟‬
‫تو میں نے سر کی آنکھوں میں دیکھتے ہوئے کہا جس کام کے لیے آپ نے بھیجا تھا‬
‫وہ تو ہوگیا۔ آپکا بیٹا واپس آگیا۔ اب تھانے میں کیا ہوا اس کو چھوڑیں۔ مگر سر نے پھر‬
‫پوچھا کہ وہ ‪ 10‬الکھ پر مان گئے تھے یا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ انہوں نے بات مکمل نہیں کی۔‬
‫میں نے کہا نہیں سر آپ نے ٹھیک کہا تھا وہ بہت کمینہ ہے۔ اس نے بہت بے دردی‬
‫سے مجھے چودا ہے۔‬

‫میری یہ بات سن کر سر تھوڑا شرمندہ ہوئے۔ مگر پھر کچھ کہنے کے لیے منہ کھوال‬
‫اور پھر سے چپ ہوگئے۔ میں نے کہا کیا بات ہے سر؟؟؟ تو سر نے پھر کہا وہ میں یہ‬
‫کہنا چاہتا تھا کہ۔۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔۔ وہ۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہ کر وہ پھر خاموش ہوگئے۔ میں نے پھر کہا بتائیں‬
‫سر کیا بات ہے؟؟ پھر وہ بولے وہ جو کام گھر میں ادھورا رہ گیا تھا اسکو کب مکمل‬
‫کروگی؟؟؟؟‬

‫میں سمجھ گئی کہ آج عرصے بعد چوت چاٹنے کے بعد اور اپنے لن کا چوپا لگوانے‬
‫کے بعد اب سر کی برداشت جواب دے گئی ہے اور اب انکا لن میری چوت کا طلب گار‬
‫ہے۔ میں ہلکا سا مسکرائی اور کہا سر جب آپ کہیں گے میں اس کام کو بھی مکمل کر‬
‫دوں گی۔ مگر یہ کام اب آپکے گھر کی بجائے کالج میں آپکے آفس میں ہوگا۔ وہیں پر‬
‫میں آپکے لن کی سواری کروں گی۔ یہ سن کر وہ حیران ہوئے کہ کالج میں کیسے۔۔۔۔‬
‫گھر میں آسان ہے۔ میں نے کہا یہ آپکا مسئلہ ہےمگر میں تو آپکے آفس میں ہی اپنی‬
‫چوت آپکو دوں گی۔‬

‫یہ سن کر سر نے کہا اچھا چلو ٹھیک ہے میں کوشش کرتا ہوں جلد سے جلد کوئی موقع‬
‫پیدا کروں اب میرے لن کو سکون نہیں ملے گا جب تک تم اسکا پانی نہیں نکلواو گی۔‬
‫میں نے کہا آپ فکر نہیں کریں آپکو بہت مزہ دوں گی میں۔‬

‫یہ سن کر سر مسکرائے اور کہا چلو میں تم دونوں کو گھر چھوڑ دوں ۔ رات کے ‪ 8‬بج‬
‫رہے ہیں تمہارا اکیلے جانا ٹھیک نہیں۔ یہ کہ کر سر گاڑی میں بیٹھے ‪ ،‬فیاض اگلی سیٹ‬
‫پر بیٹھا تھا میں پیچھے بیٹھے گئی اور سر ہمارے گھر کی طرف چل دیے۔ راستے میں‬
‫سر بار بار بیک ویو مرر میں مجھے دیکھتے رہے اور انکی نظریں بار بار میرے مموں‬
‫کا نظارہ کر رہی تھیں۔‬
‫سر کی نظریں مجھے اپنے مموں کے اندر تک گھستی محسوس ہورہی تھیں اور میری‬
‫شلوار یہ سوچ سوچ کر ہی گیلی ہو رہی تھی کہ جس شخص نے اتنے عرصے سے‬
‫پھدی کی شکل تک نہیں دیکھی اور وہ آج میری پھدی حاصل کرنے کے لیے مچل رہا‬
‫ہے۔ اور تھانے جانے سے پہلے جو سر نے میری چوت چاٹی تھی اس سے مجھے بڑا‬
‫اچھے سے اندازہ ہوگیا تھا کہ بوڑھے ہونے کے باوجود ان میں کافی گرمی موجود ہے‬
‫اور انکا لن منہ میں لیکر ایسا بالکل نہیں لگا کہ میں ایک ‪ 50‬سال کے لگ بھگ‬
‫بوڑھے مرد کا لن چوس رہی ہوں۔‬

‫بحر حال کچھ دیر میں سر نے مجھے اور فیاض کو گھر اتار دیا۔ میں نے سر کا شکریہ‬
‫ادا کیا تو سر نے کہا جلد ہی مجھے بھی شکریہ کا موقع دو۔ یہ کہ کر سر واپس چلے‬
‫گئے اور فیاض اور میں خوشی خوشی گھر گئے‪ ،‬ہم نے کافی دیر باتیں کیں‪ ،‬فیاض نے‬
‫باتوں باتوں میں مجھ سے پوچھنا چاہا کہ اسکی غیر موجودگی میں کیا ہوا‪ ،‬سائرہ کی‬
‫طرف کتنی دیر رکے اسکے ابو نے کیا بات کی۔۔۔۔ مگر میں نے کسی نا کسی طرح اسکو‬
‫ٹال دیا اور اس موضوع پر زیادہ بات کرنے کی بجائے اسکو پڑھائی پر توجہ دینے کی‬
‫نصیحت کی۔ رات ہونے پر ہم لوگ اپنے اپنے کمروں میں سوگئے۔‬

‫اگلے دن فیاض اپنے کالج گیا تو دوپہر کے ٹائم میرے موبائل پر اسکی کال آئی۔ میں تب‬
‫اپنے کالج میں سائرہ کے ساتھ کینٹین پر بیٹھی تھی۔ میں نے کال اٹینڈ کی تو فیاض نے‬
‫بتایا کہ آج سر اسلم نے میرا ایڈمیشن فارم بھیج دیا ہے اور اب میں اپنے کالج کی طرف‬
‫سے ہی پیپر دے سکوں گا۔ ساتھ ہی فیاض نے بتایا کہ سر اسلم نے اسے اپنے آفس‬
‫میں بالیا اور پڑھائی کی تلقین کے ساتھ ساتھ میرے بارے میں بھی پوچھا اور کہا کہ‬
‫اپنی سسٹر کو کہنا پیپرز سٹارٹ ہونے سے پہلے کم سے کم ہفتے میں ایک بار ان سے‬
‫ضرور ملوں تاکہ وہ مجھے فیاض کے بارے میں باقاعدگی سے آگاہ کرتے رہیں۔ سر‬
‫اسلم کا یہ پوشیدہ پیغام میں سمجھ گئی تھی مگر فیاض کے لیے یہ سمجھنا ممکن نہیں‬
‫تھا۔ اسکے تو وہم و گمان میں بھی نہیں ہوگا کہ اسکے ایڈمیشن کے لیے اسکی بہن‬
‫نے ایک ایس ایچ او سے اپنی چوت مروائی ہے۔‬

‫فون بند ہونے کے بعد سائرہ نے پوچھا کا مسئلہ ہے تو میں نے اسکو سرسری طور پر‬
‫مسئلے سے آگاہ کیا مگر یہ نہیں بتایا کہ ایڈمیشن بھیجنے کے لیے مجھے کیا کرنا پڑا‬
‫ہے۔ جب سے سمیرا اور حیدر کی منگنی ختم ہوئی تھی میں کبھی سائرہ کے گھر نہیں‬
‫گئی تھی۔ آج معلوم نہیں سائرہ کو کیا ہوا کہ اسنے مجھے اپنے گھر آنے کی دعوت دے‬
‫ڈالی اور میں نے بھی انکار نہیں کیا۔ کچھ ہی دیر بعد سائرہ نے فون کر کے اپنی گاڑی‬
‫منگوائی اور ہم دونوں گاڑی میں بیٹھ کر اسکے گھر چلے گئے۔‬

‫سائر کے گھر پر کچھ مہمان آئے ہوئے تھے اور اسکے سب گھر والے گھر پر ہی تھی۔‬
‫میں اسکے ابو اور امی سے ملی اور اسکے بعد سائرہ مجھے کھینچتی ہوئی اوپر اپنے‬
‫کمرے میں لے گئی۔ کمرے میں لیجانے کے بعد سائرہ نے مالزم کو بلوایا اور آم کا تازہ‬
‫جوس النے کو کہا۔ کچھ ہی دیر میں آم کا جوس آگیا جو ہم دونوں نے چسکیاں لے لیکر‬
‫پیا۔ جوس بہت ہی فریش تھا جس سے جسم میں تازگی آگئی۔‬

‫جوس پینے کے بعد سائرہ نے کمرے کا دروازہ الک کر دیا اور اپنی شرٹ اتار دی۔ شرٹ‬
‫اتارنے کے بعد اس نے اپنی پینٹ بھی اتار دی۔ سائرہ نے نیچے بلیک رنگ کا برا اور‬
‫پینٹی پہن رکھی تھی۔ گورے جسم پر بلیک برا اور پینٹی قیامت ڈھا رہی تھی۔ میں ابھی‬
‫کچھ حیرت سے سائرہ کو دیکھ ہی رہی تھی کہ وہ خود سے بولی یار جب سے سمیرا‬
‫گئی ہے ہم نے ملکر کبھی سیکس ہی نہیں کیا۔ آج ذرا موڈ ہورہا ہے۔ یہ کہ کر وہ میرے‬
‫قریب آگئی اور اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ مجھے اسکی یہ بےتابی اچھی‬
‫لگی اور میں نے بھی اپنی زبان سائرہ کے منہ میں ڈال دی جسکو وہ بہت پیار سے‬
‫چوسنے لگی۔ کچھ ہی دیر میں میرے جسم سے بھی کپڑے علیحدہ ہو چکے تھے اور‬
‫سائرہ کپڑوں کے بغیر اپنی ٹانگیں کھول کر بیٹھی تھی اور میں اسکی کنواری چوت کو‬
‫چاٹنے میں مصروف تھی۔ سائرہ کی گالبی کنواری چوت ایسی تھی کہ جس نے کبھی‬
‫چوت نہ بھی چاٹی ہو وہ بھی سائرہ کی چوت کو دیکھ کر فورا چاٹنے کی خواہش کرے۔‬
‫سائرہ ابھی تک کنواری تھی اور اسکی چوت یا گانڈ نے کبھی لن کا مزہ نہیں لیا تھا۔‬
‫اسکی چوت چاٹتے ہوئے مجھے بہت مزہ آرہا تھا اور سائرہ کی سسکیاں بھی نکل رہی‬
‫تھیں۔ کچھ ہی دیر میں سائرہ کی پیاسی چوت نے پانی چھوڑ دیا جو کچھ بیڈ شیٹ میں‬
‫جزب ہوگیا تو کچھ میرے منہ میں چال گیا۔ اسکے بعد میری باری آئی اور میں ٹانگیں‬
‫کھول کر سائرہ کے سامنے آگئی۔ سائرہ نے میری چوت چاٹنی شروع کی تو اسکو فورا‬
‫ہی پہلے میں اور اب میں فرق محسوس ہوگیا۔‬

‫سائرہ نے مجھے کہا ارے یار فائزہ تمہاری چوت تہ پہلے سے بہت کھلی ہو چکی ہے۔‬
‫تو میں نے کہا بس کیا کروں جب سے تم نے رضوان کو چوت کا چسکا دلوایا ہے اپنے‬
‫سوئمنگ پول میں وہ میری چوت کو چھوڑتا ہی نہیں‪ ،‬جب موقع ملتا ہے مار دیتا ہے۔ تو‬
‫یہی حال ہونا تھا میری بیچاری نازک چوت کا۔ یہ سن کر سمیرا ہنس پڑی اور کہا چلو تم‬
‫لوگ مزے تو خوب کرتے ہو‪ ،‬مجھے دیکھو ابھی تک لن کا مزہ نہیں لیا۔‬

‫میں نے سائرہ کو کہا اتنی ہی پیاسی ہو تو اپنے کسی بوائے فرینڈ سے چدوا کیوں نہیں‬
‫لیتی۔ کتنے ہی لڑکے تمہارے آگے پیچھے پھرتے ہیں اپنے لن کو تیار رکھے ۔ مگر‬
‫سائرہ نے کہا نہیں یار پہال لن اپنے شوہر کا ہی لوں گی سہاگ رات پر۔ اس سے پہلے‬
‫کسی سے بھی نہیں چدائی کروانی۔ اسکی یہ بات سن کر میں دوبارہ سے اپنی چوت‬
‫چٹوانے میں مصروف ہوگئی مگر میرے ذہن میں سائرہ کے لیے نفرت اور بڑھ گئی۔ کہ‬
‫اسی نے جان بوجھ کر رضوان اور مجھے اتنا قریب کر دیا کہ ہم اس طرح چدائی‬
‫کروانے لگے اور پھر اپنے بھائی حیدر کی خوشی کے لیے میری ویڈیو بھی بنوائی تاکہ‬
‫وہ بھی اپنے لن سے میری چوت پھاڑ سکے۔ وہ تو اسکا بھائی نامرد نکال ورنہ وہ بھی‬
‫میری خوب بجاتا۔‬

‫سائرہ میری چوت چاٹنے میں مصروف تھی مگر میرا زہن اس سے بدلہ لینے کا سوچ‬
‫رہا تھا۔ کچھ ہی دیر میں میری چوت نے پانی چھوڑ دیا‪ ،‬مگر آج وہ مزہ نہیں آیا جو‬
‫پہلے پانی نکلنے پر آتا تھا۔ اس کام سے فارغ ہوکر میں نے اپنے کپڑے پہنے ‪ ،‬سائرہ‬
‫ابھی مزید چاہتی تھی کہ میں ایک بار پھر اسکی چوت چاٹوں مگر میں نے کہا کہ گھر‬
‫میں امی ویٹ کر رہی ہیں آج میں نہیں رک سکتی پھر کبھی سہی۔‬

‫اس پر سائرہ نے مجھے اپنے ڈرائیور کے ساتھ واپس گھر چھوڑ دیا۔ رات کو گھر میں‬
‫بستر میں لیٹی میں یہی سوچتی رہی کہ آخر سائرہ سے بدلہ کیسے لیا جائے۔ میرے ذہن‬
‫میں اسکی یہ بات آئی کہ پہلی بار وہ سہاگ رات پر اپنے شوہر کا لن لینا چاہتی ہے۔ تو‬
‫اگر کسی طرح شادی سے پہلے ہی اسکا کنوارہ پن ختم کر دیا جائے تو میرے لیے یہی‬
‫بدلہ ہوگا۔ یہ خیال آتے ہی میں پالن بنانے لگی کہ آخر کیسے سائرہ کی چوت کا پردہ‬
‫پھاڑہ جائے ۔‬

‫پہلے میں نے سوچا کہ کیوں نہ سائرہ کی مالقات رضوان اور اسکے دوستوں سے‬
‫کرواوں جب وہ اس ماحول میں جا کر لڑکیوں کو چدائی کرواتا دیکھے گی تو خود ہی‬
‫راضی ہوجائے گی چدائی کے لیے۔ مگر پھر سوچا کہ ایسے رضامندی کے ساتھ اپنی‬
‫چوت کا پردہ پھاڑنے کی اجازت دینے سے تو بدلہ پورا نہیں ہوگا۔ مزہ تو تب آئے گا‬
‫جب وہ بھی میری طرح بلیک میل ہو۔ یا اسکے ساتھ کوئی زبردستی سیکس کرے۔‬

‫پھر مجھے عمران سے کیا ہوا وعدہ یاد آیا کہ میں نے انہیں ایک کنواری گانڈ دلوانی‬
‫ہے۔ اور کچھ ہی دنوں میں عمران اور صائمہ ملتان بھی آنے والے تھے۔ مگر پھر‬
‫سوچا کہ عمران کبھی بھی کسی لڑکی کے ساتھ زبردستی نہیں کریں گے۔ اور اگر‬
‫تھوڑی زور زبردستی کرتے بھی ہیں تو کم سے کم وہ سائرہ کے ساتھ نہیں کروانا‬
‫چاہیے کیونکہ اگر اس نے زبردستی کی چدائی کے بعد بدلہ لینے کی ٹھان لی تو اسکے‬
‫ابو اور اسکا خاندان بہت پاور فل لوگ ہیں وہ تو راتوں رات عمران کو غائب کروا دے‬
‫گی کہیں۔ لہذا میں نے یہ ارادہ بھی ترک کر دیا۔ میری کچھ سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ‬
‫آخر سائرہ سے بدلہ کیسے لیا جائے۔ ابھی میں انہی سوچوں میں گم تھی کہ مجھے‬
‫سمیرا کی کال آئی۔ اس نے بتایا کہ وہ اگلے ہفتے ملتان آرہی ہے کچھ دنوں کے لیے تو‬
‫وہ سائرہ کے گھر رہنے کی بجائے میری طرف رہنے کو ترجیح دے گی اگر مجھے‬
‫کوئی اعتراض نہ ہو تو۔ میں نے کہا بھال مجھے کیا اعتراض ہوسکتا ہے تم جب چاہے‬
‫آو تمہارا اپنا گھر ہے۔ مگر تم سائرہ کی طرف کیوں نہیں رہا چاہتی وہ تو رشتے دار‬
‫ہیں۔ جس پر سمیرا نے بتایا کہ وہاں ابھی کچھ عرصہ پہلے ہی تو منگنی توڑی ہے تو‬
‫اچھا نہیں لگتا کہ میں وہاں جا کر رہوں۔ بس امی ابو کے ساتھ جانا پڑ تو رہا ہے مگر‬
‫میرا وہاں رہنے کو بالکل دل نہیں کرے گا۔ اس پر میں نے اسکو تسلی دی اور کہا وہ‬
‫فکر نہ کرے جتنے دن چاہے وہ میرے ساتھ رہ سکتی ہے۔‬
‫اس واقعہ کو کچھ ہی دن گزرے تھے کہ الہور سے صائمہ اور عمران بھائی ہمارے ہاں‬
‫ملتان آگئے۔ انہوں نے اپنے آپنے کی خبر بالکل نہیں دی اور اچانک ہی گھر پر دھاوا‬
‫بول دیا۔ شام کے ‪ 6‬بجے کا ٹائم تھا گھر پر صرف امی اور میں موجود تھے۔ دروازے پر‬
‫بیل ہوئی میں نے جا کر دروازہ کھوال تو میری حیرت کی انہتا نہ رہی۔ سامنے صائمہ‬
‫اپنے ننھے منے عامر کو گود میں اٹھائے کھڑی تھی اور اسکے پیچھے عمران بھائی‬
‫ایک بڑا سا بیگ اٹھائے کھڑے تھے۔ صائمہ کو دیکھتے ہی میں نے ایک زور دار چیخ‬
‫ماری اور آگے بڑھ کر اسکو گلے سے لگا لیا۔ اور پھر عامر کو اپنی گود میں لیکر‬
‫اسکو پیار کرنے لگی۔ پیچھے سے عمران بھائی کی آواز آئی کہ ہماری سالی ہمیں تو‬
‫بھول ہی گئی عامر کو دیکھ کر۔ یہ سن کر میں نے عمران بھائی کی طرف دیکھا اور‬
‫انکو سالم کیا۔ انہوں نے آگے بڑھ کر میرے سے ہاتھ مالیا اور ہلکے سے میرا ہاتھ‬
‫دبایا۔ پھر ہم لوگ اندر چلے گئے اور صائمہ امی سے ملی۔ امی نے بھی صائمہ سے‬
‫ملنے کے فوری بعد میری گود سے عامر کو پکڑ لیا اور اسکو پیار کرنے لگیں۔ میں‬
‫دونوں کے لیے پانی بنانے کچن میں چلی گئی۔‬

‫کچھ ہی دیر بعد پانی بن گیا تو میں نے صائمہ اور عمران کو پانی پالیا اور کھانے کا‬
‫پوچھا تو عمران بولے کہ ہاں بہت زور کی بھوک لگی ہے بنا لو کچھ اچھا سا آج۔‬
‫صائمہ نے بھی کہا کہ اسے بھی بھوک لگ رہی ہے۔ میں کچن میں چلی گئی اور چائے‬
‫بنانے لگی چائے بنا کر ساتھ میں نے فریزر سے مینیو کے سموسے نکالے اور جلدی‬
‫سے تیل میں تل لیے اور دونوں کے سامنے پیش کر دیے تاکہ جب تک کھانا تیار ہو تب‬
‫تک دونوں کی بھوک کسی حد تک برداشت ہو سکے۔ چائے پینے کے دوران میں اور‬
‫امی صائمہ سے چپکے رہے اور عامر کو باری باری پیار کرنے لگے۔ اس دوران لگ‬
‫رہا تھا کہ عمران کوئی انجان شخص ہے جو ہم تینوں خواتین میں موجود ہے۔‬

‫چائے سے فارض ہوکر میں نے برتن اٹھائے اور کچن میں چلی گئی اور کھانا بنانے‬
‫میں مصروف ہوگئی۔ کچن میں تھوڑی گرمی تھی جسکی وجہ سے مجھے پسینہ آرہا تھا‬
‫اور میری قمیص کسی حد تک جسم کے ساتھ چپکی ہوئی تھی۔ میں کھانا بنانے میں‬
‫مصروف تھی کہ اچانک ہی میرے چوتڑوں پر ایک مردانہ ہاتھ لگا جس نے میرے ایک‬
‫چوتڑ کو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر مسل ڈاال۔ میں نے ایک دم سے پیچھے مڑ کر دیکھا تو‬
‫وہ عمران بھائی تھے۔ میں نے فورا ہی کچن سے باہر نظر ماری کہ کوئی اور نہ ہو‬
‫مگر عمران نے کہا فکر نہ کرو تمہاری امی اپنی بیٹی سے باتیں کرنے میں مصروف‬
‫ہیں وہ اب ادھر کا رخ نہیں کریں گی۔ یہ کہتے ہوئے عمران کی نظریں میرے مموں پر‬
‫تھیں۔ سفید قمیص کے نیچے سے سرخ رنگ کا برا نظر آرہا تھا اور قمیص کا گال تھوڑا‬
‫گہرا ہونے کی وجہ سے کلیوج الئن یعنی مموں کے بیچ والی الئن بھی واضح نظر آرہی‬
‫تھی۔ گرمی کی وجہ سے میں نے اپنا دوپٹہ اتار کر دروازے پر لٹکایا ہوا تھا۔ عمران‬
‫آگے بڑھے اور میرے ہونٹون پر ایک ِکس کر ڈالی۔ اور ایک ہاتھ سے میرا چوتڑ پکڑ‬
‫کر دوبارہ سے مسل ڈاال۔ عمران کے ہونٹون کی گرمی نے میرے اندر آگ لگا دی تھی‬
‫مگر یہ وقت سیکس کرنے کا ہرگز نہیں تھا۔ میں نے عمران کو پیچھے کیا اور کہا کوئی‬
‫آجائے گا آپ پلیز ابھی جائیں یہاں سے۔ یہ سن کر عمرا ن بولے ارے میری سیکسی‬
‫سی سالی کوئی نہیں آتا ادھر بے فکر رہو تم۔ یہ کہ کر عمران کا ہاتھ میرے ممے دبانے‬
‫میں مصروف ہوگیا۔ عمران نے میرے دونوں ممے اپنے ہاتھ میں پکڑے اور زور سے‬
‫دبا ڈاال۔ میری تو جیسے جان ہی نکل گئی۔ پورے جسم میں ایک بجلی سی دوڑ گئی اور‬
‫میرا ہاتھ بال اختیار عمران کی شلوار پر چال گیا ۔ جیسے ہی شلوار پر ہاتھ لگایا تو ‪ 8‬انچ‬
‫کا لمبا لوڑا میرے ہاتھ میں آگیا۔ لوڑے پر ہاتھ لگتے ہی مجھے اپنی پھدی میں گیال پن‬
‫محسوس ہونے لگا تھا۔‬

‫میں نے عمران کا لوڑا ہاتھ میں پکڑ کر ایک دو بار ہالیا اور عمران نے میرے ممے‬
‫دبانا جاری رکھے۔ مگر پھر اچانک مجھے احساس ہوا کہ کوئی آسکتا ہے تو میں‬
‫دوبارہ سے عمران کو دور ہٹاتے ہوئے کہا کہ نہ کریں ایسا کوئی آجائے گا۔ مگر عمران‬
‫تھے کہ مجھے چھوڑنے پر تیار ہی نہیں تھے۔ وہ بولے کہ یہ لوڑا تمہارے ہونٹوں کی‬
‫نرمی اور منہ کی گرمی حاصل کرنے کے لیے مرا جا رہا ہے ۔ اسکو تو سکون پہنچاو۔‬
‫میں نے پھر سے کہا کہ عمران بھائی ایسا نہ کریں مناسب موقع دیکھ کر میں اپنے‬
‫پیارے سے لوڑے کی آگ بجھا دوں گی۔ مگر عمران تھے کہ ماننے کو تیار ہی نہیں‬
‫تھے۔ وہ بولے کہ ایک بار بس میرا لوڑا منہ میں لے لو پھر میں چال جاوں گا۔ میں نے‬
‫کہا کہ نہیں صائمہ کسی بھی وقت آسکتی ہے کچن میں آپ پلیز ایسا نہ کریں اگر اس نے‬
‫دیکھ لیا تو قیامت آجائے گی۔ یہ سن کر عمران بولے اچھا تم کھانا دیکھو میں ذرا‬
‫کمرے کا ماحول دیکھ کے آتا ہوں دوبارہ۔‬
‫یہ کہ کر عمران کچن سے نکل گئے اور میں نے بھی شکر ادا کیا اور دوبارہ سے کھانا‬
‫دیکھنے لگی۔ مگر مجھے اپنی پھدی میں گیال پن ابھی تک محسوس ہورہا تھا۔ ابھی‬
‫میں نے ‪ 2‬چمچ ہی ہالئے تھے کہ پیچھے سے پھر عمران آگئے اور فورا مجھے اپنی‬
‫طرف کھینچتے ہوئے بولے کہ ماں بیٹی گم ہیں اپنی دنیا میں انکو آس پاس کا کوئی‬
‫ہوش نہیں تم جلدی سے میرے لوڑے کی پیاس بجھا دو۔ یہ کہ کر انہوں نے اپنی شلوار‬
‫کا ناڑا کھولنا شروع کیا۔ میں نے فورا عمران کو روکا اور کہا کہ پورا ناڑا نہ کھولیں‬
‫ہلکا سا ڈھیال کر لیں تاکہ لن باہر نکل سکے۔ اور اگر کوئی آیا تو اسکو فورا اندر بھی‬
‫کیا جا سکے۔‬

‫میری یہ بات سن کر عمران نے ناڑا دوبارہ سے باندھ دیا مگر ٹائٹ کر کے نہیں باندھا‬
‫تھوڑا ڈھیال رہنے دیا۔ میں نے شلوار میں ہاتھ ڈاال اور لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر دبانے‬
‫لگی۔ لن کی موٹائی مجھے پاگل کر رہی تھی ‪ ،‬کسی کے آنے کا خوف بھی تھا مگر لن‬
‫کی لمبائی اور موٹائی میری پھدی کو گرم کیے جا رہی تھی۔ میں نے ایک نظر کچن سے‬
‫باہر ڈالی کوئی موجود نہیں تھا تو میں نے فورا ہی عمران کا لوڑا باہر نکال لیا اور‬
‫نیچے بیٹھ کر بغیر اس پر پیار کیے اپنے منہ میں گھسا دیا۔ لوڑا منہ میں جاتے ہی‬
‫عمران کی ایک ہلکی سی سسکی نکلی۔ مگر میں نے اس پر توجہ نہیں دی اور لن کو‬
‫چوسنا شروع کر دیا۔ عمران کا آدھا لن میں اپنے منہ میں لیکر چوس رہی تھی ۔ نچال‬
‫حصہ میں نے ہاتھ میں پکڑ رکھا تھا اور اوپر واال حصہ ٹوپی سمیت میرے منہ میں تھا۔‬
‫میں کبھی ٹوپی پر زبان پھیرتی تو کبھی لن کی سائیڈوں کو اپنی زبان سے چاٹنے لگتی‬
‫۔ اور پھر سے لوڑا منہ میں ڈال کر اسکو اندر باہر کر کے چوسنے لگتی۔ عمران وقفے‬
‫وقفے سے ہلکی ہلکی سسکیاں لے رہے تھے۔‬

‫میں کچن میں بیٹھی ہوئی تھی اور اپنے بہنوئی کا لوڑا پوری دلجمعی سے چوس رہی‬
‫تھی میری پھدی سے مسلسل پانی نکل رہا تھا جس نے میری شلوار کو مکمل گیال کر‬
‫دیا تھا۔ یہ گیال پن مجھے اپنی تھائیز پر اور چوتروں پر محسوس ہورہا تھا۔ پھر میں نے‬
‫اپنے منہ میں ایک تھوک کا گوال بنایا اور اسے عمران کے لن کی ٹوپی پر پھینک کر‬
‫اپنے ہاتھوں سے پورے لن پر مسل دیا۔ اس سے عمران کا لن جو آدھا گیال تھا اب پورا‬
‫گیال ہوگیا تھا اور چمکنے لگا تھا۔ لن پر اچھی طرح تھوک مسلنے کے بعد ایک بار پھر‬
‫سے میں نے لن کو اپنے منہ میں لیا اور اور اسکا چوپا لگانا شروع کر دیا۔‬

‫لن کا چوپا لگانے کے ساتھ ساتھ میں ایک ہاتھ سے عمران کے ٹٹے بھی مسل رہی تھی‬
‫جس سے عمران کو بہت مزہ آرہا تھا۔ عمران بولے کہ تم تو ماہر ہوگئی ہو چوپا لگانے‬
‫میں۔ پہلے صائمہ سے چوپا لگوانے کا مزہ آتا تھا مگر جب سے تم نے چوپا لگانا‬
‫شروع کیا ہے اب صائمہ کے چوپے میں وہ مزہ نہیں رہا۔ یہ سن کر میں نے اور بھی‬
‫تیزی کے ساتھ عمران کا چوپا لگانا شروع کیا جس سے عمران کی سسکیاں نکلنے‬
‫لگیں۔ عمران نے مجھے بالوں سے پکڑا ہوا تھا اور میرا سر اپنے لن کی طرف دھکیل‬
‫رہے تھے جبکہ میں عمران کے لن کو مکمل منہ میں لیکر اپنے منہ کی چودائی کروا‬
‫رہی تھی ۔ عمران نے آہستہ آہستہ خود ہی اپنے لن کو میرے منہ میں اندر باہر کرنا‬
‫شروع کر دیا تھا جس سے مجھے اندازہ ہوا کہ وہ اب چھوٹنے ہی والے ہیں۔‬

‫لہذا میں نے بھی اپنے منہ کی گرفت لن پر اور مضبوط کی تاکہ جلد سے جلد انکا پانی‬
‫نکل سکے۔ میں عمران کے لن کا چوپا لگانے میں مصروف تھی کہ اچانک ہی مجھے‬
‫صائمہ کی آواز سنائی دی جو امی کو کہ رہی تھی کہ آج تو کچن سے بڑی اچھی خوشبو‬
‫آرہی ہے۔ یہ آواز کانوں میں پڑتے ہی میں بجلی کی سی تیزی سے کھڑی ہوگئی اور‬
‫عمران کو بھی احساس ہوا کہ صائمہ کچن کے قریب ہی ہے۔ میں نے فورا اپنا منہ‬
‫چولہے کی طرف کیا آخری نظر عمران کے لن پر پڑی تو وہ عمران کے ہاتھ میں تھا‬
‫اور وہ اسکو اپنی شلوار کے اندر کرنے کی کوشش کر رہے تھے۔ اتنے میں صائہ کی‬
‫آواز ایک بار پھر سے آئی اور وہ بولی کہ ارے آپ بھی کچن میں ہی ہیں۔ میں تو‬
‫سمجھی کہ آپ کہیں باہر نکل گئے ہیں۔ یہ سن کر میں نے مڑ کر دیکھا تو عمران اپنا لن‬
‫واپس شلوار میں ڈالنے میں کامیاب ہو چکے تھے مگر انکا منہ ابھی تک میری طرف‬
‫تھا اور وہ بھی کافی گھبرائے ہوئے تھے۔ انہوں نے پھر صائمہ کی طرف دیکھا اور‬
‫بولے کہ ہاں تم آنٹی کے ساتھ مصروف تھی تو میں بور ہورہا تھا میں نے سوچا فائزہ‬
‫سے تھوڑی گپ شپ ہی لگا لی جائے۔ یہ کہتے ہوئے عمران کی آواز تھوڑی کانپ رہی‬
‫تھی۔ صائمہ نے پھر میری طرف دیکھا اور بولی ارے تمہارے چہرے پر کیوں ہوائیاں‬
‫اڑی ہوئیں ہیں۔ کیا ہوا تمہیں؟؟؟ مجھے فوری طور پر تو سمجھ نہ آئی کہ کیا کہوں پھر‬
‫ایک دم سے بہانہ بنا ڈاال کہ ایک تو کچن میں گرمی اوپر سے کھانا خران نہ ہوجائے‬
‫اس چیز کی ٹینشن۔ صائمہ نے کہا میں کونسا یہاں مہمان ہوں کہ تم کھانا خراب بناو گی‬
‫تو میں برا منا جاوں گی۔ آرام سے اطمینان سے بناو کچھ نہیں ہوگا کھانے کو اگر ٹینشن‬
‫سے بناو گی تو خراب ہوجائے گا۔ یہ کہ کر صائمہ میرے قریب آئی۔ مجھے لگا جیسے‬
‫اسکو شک ہوگیا ہے۔ میرے دل میں چور تھا مگر صائمہ میرے قریب سے گزرتی ہوئی‬
‫چولہے کی طرف گئی اور بولی واہ بریانی بن رہی ہے۔ عمران کو اور مجھے بریانی بہت‬
‫پسند ہے۔ یہ کہ کر اسنے عمران کو مسکرا کر دیکھا اور عمران بھی بولے کہ ہاں آج‬
‫دیکھتے ہیں سالی کے ہاتھ کی بریانی اچھی ہے یا پھر بیوی کے ہاتھ کی۔ امی کچن کے‬
‫دروازے میں کھڑی تھیں اور عامر کو گود میں اٹھا رکھا تھا۔ امی مجھ سے بولیں بیٹا‬
‫اگر میری مدد کی ضرورت ہے تو بتاو میں ساتھ بنوا دوں؟؟ مگر میں نے کہا نہیں امی‬
‫جان آپ آرام کریں میں بنا لوں گی۔ یہ سن کر امی واپس کمرے میں چلی گئیں صائمہ‬
‫وہیں کچن میں کھڑی رہی اور عمران کے پاس جا کر کھڑی ہوگئی جبکہ میں دوبارہ‬
‫سے چولہے کی طرف منہ کر کے پتیلے میں چمچ ہالنے لگی اور دل ہی دل میں شکر‬
‫کرنے لگی کہ آج تو بال بال بچ گئی۔‬

‫صائمہ کچھ دیر عمران کے پاس کھڑی عمران سے باتیں کرتی رہی پھر وہ بھی یہ کہ‬
‫کر کمرے میں چلی گئی کہ کافی تھک گئی ہوں سفر سے تھوڑا آرام کر لوں میں۔ اسنے‬
‫عمران کو بھی بالیا مگر عمران بولے کہ نہ بھائی تمہارے ساتھ تو میں بور ہو رہا تھا‬
‫تم ماں بیٹی کی باتیں ہی ختم نہیں ہوتیں ادھر فائزہ کے ساتھ مزہ تو آرہا ہے۔ یہ سن کر‬
‫صائمہ ہنسی اور بولی چلو آپ فائزہ کے ساتھ مزے لو میں تو چلی آرام کرنے۔ یہ کہ کر‬
‫صائمہ چلی گئی اور میں عمران کو دیکھنے لگی اور صائمہ کے جاتے ہی پوچھا یہ‬
‫کونسے مزے کی بات ہورہی ہے؟؟؟ عمران بولے میں نے تو اسی مزے کی بات کی ہے‬
‫جو تم نے چوپے لگا کر دیا ہے مگر صائمہ کو کیا پتہ میں کونسے مزے کی بات کر رہا‬
‫ہوں۔ یہ کر عمران کا ہاتھ ایک بار پھر اپنے لن کی طرف گیا اور وہ اسکو شلوار سے‬
‫نکالنے لگے تو میں نے فورا ہی انکا ہاتھ پکڑ لیا اور کہا عمران بھائی بس کریں اب‬
‫پہلے ہی بال بال بچے ہیں اب دوبارہ ایسا رسک نہیں لینا۔ مگر عمران بولے کہ یار میرا‬
‫پانی نکلنے ہی واال تھا بس ‪ 2‬منٹ چوپا لگا دو اور میں فارغ ہوجاوں گا۔‬

‫میں نے کہا نہیں ہرگز نہیں اور اب ‪ 2‬منٹ کے چوپے سے کچھ نہیں ہونا درمیان میں‬
‫وقفہ آگیا ہے اب دوبارہ سے محنت کرنی پڑے گی لہذا اب آپ برداشت کریں پھر مناسب‬
‫وقت میں کچھ کریں گے۔ پھر عمران آگے بڑھے اور مجھے زور سے اپنی بانہوں میں‬
‫لیکر جپھی ڈالی لی اور بولے یار فائزہ تم بہت سیکسی ہو۔ میرا لن تو ہر وقت تمہاری‬
‫پھدی کے لیے ترستا ہے۔ صائمہ کو چودتے ہوئے بھی تمہارا خیال دل میں آرہا ہوتا ہے۔‬
‫یہ سن کر میں نے عمران کے ہونٹ چوسے اور پھر بولی کہ آپکا لن بھی بہت تگڑا ہے۔‬
‫بہت مزہ دیتا ہے میری پھدی کو۔ جب سے الہور سے آئی ہوں آپ کے لن کی طلب رات‬
‫کو بہت ترساتی ہے ۔ پھر عمران نے کچھ دیر میرے ہونٹ چوسے اور پھر کچن سے‬
‫چلے گئے۔‬
‫کھانا تقرتبا تیار ہوچکا تھا اور ابو کے آنے کا بھی ٹائم ہوگیا تھا۔ باہر بیل ہوئی تو میں‬
‫دروازہ کھولنے گئی سامنے فیاض تھا۔ کچھ ہی دیر بعد ابو بھی آگئے تو میں نے سب‬
‫کو کھانے کی میز پر بیٹھنے کو کہا۔ اور خود برتنوں میں کھانا ڈالنے لگی۔ کھانا ڈال کر‬
‫جب میں ٹیبل پر گئی تو سب لوگ اپنی اپنی چئیر پر بیٹھ چکے تھے عمران کے ساتھ‬
‫والی چئیر خالی تھی۔ امی اور ابو سائیڈ والی چئیر پر بیٹھے تھے جو آمنے سامنے تھیں‬
‫جبکہ بیچ والی ‪ 2‬چئیرز پر ایک سائیڈ پر صائمہ اور فیاض تھے تو دوسری سائیڈ پر‬
‫عمران بیٹھے تھے لہذا انکے ساتھ والی چئیر پر جا کر میں بیٹھ گئی اور ہم سب کھانا‬
‫کھانے لگے۔ کھانا کھاتے ہوئے بھی عمران کو چین نہ آیا تو انہوں نے اپنا ہاتھ میری‬
‫ٹانگ پر رکھ دیا اور آہستہ آہستہ میری تھائیز کو سہالنے لگے۔ اس سے میری چوت‬
‫گرم ہورہی تھی۔ میں نے ہلکی سی ٹانگ ہالئی اور عمران کو اشارہ کیا کہ اپنا ہاتھ ہٹا‬
‫لیں مگر انہیں کوئی اثر نہ ہوا۔ اور انہوں نے اپنا کام جاری رکھا۔ پھر اچانک ہی انہوں‬
‫نے اپنا ہاتھ میری شلوار کے اندر ڈال دیا اور میری گوشت سے بھری ہوئی تھائیز کو‬
‫ہاتھ میں پکڑ کر دبانے لگے۔ انکی یہ حرکت میرے لیے بالکل بھی متوقع نہیں تھی۔ اس‬
‫غیر متوقع حرکت سے میرے لیے کھانا کھانا مشکل ہونے لگا تھا۔ اور میرا چہرہ ڈر‬
‫کے مارے سرخ ہوگیا تھا کہ اگر کسی نے دیکھ لیا تو کیا ہوگا۔ مگرعمران کو کسی چیز‬
‫کی فکر نہیں تھی۔ انکے سر پر تو اس وقت سیکس سوار تھا۔‬
‫وہ ساتھ ساتھ ابو سے باتیں بھی کر رہے تھے اور باتیں کرنے کے ساتھ ساتھ ابو کی‬
‫ت حال میں میں‬ ‫بیٹی کی شلوار میں ہاتھ ڈالے پھدی کو بھی مسل رہے تھے۔ اس صور ِ‬
‫مکمل بے بس تھی۔ میں نہ تو عمران کو منع کر سکتی تھی اور نہ ہی سسکیاں نکال‬
‫سکتی تھیں۔ اپنی آواز کہ بہت مشکل سے کنٹرول کر رہی تھی۔ میری پھدی گیلی ہو رہی‬
‫تھی اور اس میں عمران ایک انگلی ڈال کر ہالنے میں مصروف تھے۔ عمران کی انگلی‬
‫نے میری پھدی میں آگ لگائی ہوئی تھی اور مجھ سے صحیح طرح سے کھانا بھی نہیں‬
‫کھایا جا رہا تھا۔ میں بس اپنے دونوں ہاتھ میز پر رکھ کر بیٹھی تھی اور کوشش کر رہی‬
‫تھی کہ نا تو سسکی نکلے اور نہ ہی جسم کانپنا شروع ہو۔ کیونکہ جب کوئی لڑکی کی‬
‫پھدی میں انگلی کرے تو اسکا جسم تو مزے کی شدت سے الزمی کانپنا شروع کرتا‬
‫ہے۔‬

‫مجھے عمران پر غصہ بھی آرہا تھا مگر انکی انگلی مزہ بھی بہت دے رہی تھی۔ اپنے‬
‫ابو اور امی کے ہوتے ہوئے پھدی میں انگلی ڈلوانے کا یہ پہال تجربہ تھا۔ ڈر اور مزے‬
‫کی ملی جلی کیفیت اس سے پہلے کبھی اس طرح محسوس نہیں کی تھی میں نے۔ اب‬
‫میں مزے لینے میں مصروف تھی کہ صائمہ نے عمران کو کہا کہ وہ سالن واال برتن‬
‫اسکو پکڑا دیں جس پر مجبورا عمران نے میری پھدی سے اپنی انگلی نکالی سالن واال‬
‫برتن اٹھا کر صائمہ کو پکڑایا۔ جیسے ہی عمران نے میری شلوار سے اپنا ہاتھ باہر‬
‫نکاال میں نے دونوں ہاتھ نیچے لیجا کر اپنی شلوار اور قمیص کو صحیح طرح سے‬
‫سیٹ کیا اور اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑی ہوئی اور ابو سے پوچھا کسی اور چیز کی‬
‫ضرورت ہے؟ تو ابو نے کہا بریانی کی یہ ٹرے لیجاو اور اس میں گرم بریانی ڈال الو یہ‬
‫ٹھنڈی ہوگئی ہے۔ میں نے سکھ کا سانس لیا اور ٹرے اٹھا کر کچن میں چلی گئی۔‬

‫واپس آکر میں نے ٹرے تو واپس رکھ دی مگر دوبارہ سے اپنی کرسی پر نہیں بیٹھی‬
‫بلکہ ادھر ادھر اپنی مصروفیت ظاہر کرنے لگی ۔ جب سب کھانا کھا چکے تو میں نے‬
‫برتن سمیٹے اور پھر سے صائمہ‪ ،‬میں اور امی کمرے میں بیٹھ کر باتوں میں مصروف‬
‫ہوگئے۔ جب کہ دوسری طرف عمران اب ابو جی کے ساتھ بیٹھے تھے اور میں انکو‬
‫دیکھ دیکھ کر ہنس رہی تھی کیونکہ وہ ایک بار پھر ابو کی باتوں سے بور ہورہے‬
‫تھے۔‬

‫اب رات کے ‪ 12‬بچ چکے تھے فیاض اور ابو سو چکے تھے۔ امی کو بھی اب نیند آرہی‬
‫تھی اور صائمہ بھی تھکاوٹ کی وجہ سے سونا چاہ رہی تھی۔ لہذا میں نے صائمہ اور‬
‫عمران کا بستر اپنے کمرے میں کیا اور خود اپنے لیے چارپائی بچھا کر اس پر بستر‬
‫لگا دیا۔ صائمہ لیٹے ہی سوگئی اور عمران بھی اسکے ساتھ لیٹ کر سونے کی کوشش‬
‫کرنے لگے۔ میں ب ِھ اپنے بستر پر لیٹ گئی اور کچھ ہی دیر بعد میری آنکھ لگ گئی۔‬

‫رات کے پچھلے پہر مجھے محسوس ہوا جیسے کوئی میری پھدی چاٹ رہا ہے۔ مجھے‬
‫ایسے لگ رہا تھا کہ جیسے میں اپنے بستر پر لیٹی ہوں اور عمران اپنی زبان سے‬
‫میری پھدی کو چاٹنے میں مصروف ہیں۔ مجھے ایسے لگا کہ جیسے میں کوئی خواب‬
‫دیکھ رہی ہوں۔ مگر اچانک ہی میری آنکھ کھلی اور میں نے دیکھا کہ عمران میری‬
‫اوپر جھکے ہوئے ہیں اور انہوں نے میری شلوار اتاری ہوئی ہے اور وہ اپنی زبان‬
‫سے میری پھدی چاٹنے میں مصروف ہیں۔ یہ دیکھتے ہی مجھے ایک جھٹکا لگا اور‬
‫میں نے فورا صائمہ کی طرف دیکھا جو گہری نیند سو رہی تھی۔‬
‫عمران کو بھی محسوس ہوگیا کہ میں جاگ گئی ہوں تو انہوں نے میری ایک ٹانگ اٹھا‬
‫کر اپنے کندھے پر رکھ لی دوسری ٹانگ سائیڈ پر کر دی اور خود اپنا چہرہ میری پھدی‬
‫پر رکھ کر مسلنے لگے۔ میں نے ہلکی سی آواز میں عمران کو کہا کہ کیا ہوگیا ہے آپکو‬
‫صائمہ اٹھ جائے گی تو وہ بولے وہ بہت گہری نیند سو رہی ہے اگر تم اپنا منہ بند رکھو‬
‫تو وہ نہیں اٹھے گی۔ یہ کہ کو وہ دوبارہ سے میری پھدی چاٹنے لگے۔ اور میں مزے‬
‫کی شدت سے تڑپنے لگی۔ عمران کی زبان میری پھدی کی الئن میں تیزی کے ساتھ اپنا‬
‫جادو دکھا رہی تھی اور میں اپنا سر دائیں بائیں مار کر اپنی سسکیوں کو منہ سے‬
‫نکلنے سے روکنے کی کوشش کر رہی تھی۔ اچانک عمران کی زبان رک گئی میں نے‬
‫اپنا منہ اوپر اٹھا کر عمران کی طرف دیکھا اور اشارے سے پوچھا کہ کیا ہوا رک کیوں‬
‫گئے؟؟؟ عمران نے آہستہ سے کہا تمہیں اپنا وعدہ یاد ہے؟؟؟ ایک گانڈ دلوانی ہے تم نے‬
‫مجھے ۔۔ میں نے فورا کہا ہاں ہاں یاد ہے آپ گانڈ کی فکر نہ کریں مل جائے گی فی‬
‫الحال آپ میری چوت پر توجہ دیں۔ یہ کہ کر میں نے عمران کا سر پکڑ کر دوبارہ سے‬
‫اپنی پھدی پر رکھ دیا عمران نے دوبارہ سے پھدی چاٹنا شروع کی اور مجھے پھر سے‬
‫مزہ آنے لگا۔ پھر عمران نے ایک بار پھر سے اپنی زبان روک دی اور بولے اگر تم نے‬
‫مجھے کوئی اور گانڈ نہ دلوائی تو میرا لن تمہاری گانڈ پھاڑ دے گا۔۔۔ اس پر میں نے کہا‬
‫آپ بے فکر ہوجاو آپکو اور گانڈ بھی دلواوں گی اور اپنی گانڈ بھی آپ سے چدوا لوں‬
‫گی لیکن اب رکنا نہیں جب تک میری پھدی پانی نہ چھوڑ دے۔ میری بات سن کر عمران‬
‫بولے کیا واقعی؟؟؟ میں نے کہا ہاں واقعی اب اور کوئی بات کیے بغیر میری چوت چاٹنا‬
‫شروع کرو نہیں تو کوئی گانڈ بھی نہیں ملے گی۔ یہ سن کر عمران ایک بار پھر سے‬
‫میری چوت چاٹنے میں مصروف ہوگئی۔‬

‫اب کی بار عمران نے اپنی ایک انگلی میری پھدی میں داخل کر دی اور اس سے میری‬
‫چدائی کرنے لگے اور اپنی زبان میری پشاب والی جگہ پر تیز تیز چالنے لگے۔ عمران‬
‫کی زبان جب میرے دانے سے ٹکراتی تو میرا دل کرتا زور زور سے سسکیاں بھروں‬
‫مگر پھر صائمہ کے خیال سے میں اپنا ارادہ ترک کر دیتی۔ کچھ دیر عمران کی انگلی‬
‫میری پھدی میں اپنا جادو دکھاتی رہی پھر اچانک ہی میری پھدی نے پانی چھوڑ دیا جو‬
‫عمران کے منہ چال گیا۔ عمران نے فوری طور پر اپنا چہرہ ہٹا لیا تو باقی کا پانی میری‬
‫شلوار پر جا گرا اور مجھے سکون کا سانس مال۔ شام سے ہی عمران نے میری چوت‬
‫میں آگ لگا رکھی تھی اور اب جا کر مجھے سکون مال تھا۔‬
‫عمران فورا واش روم گئے اور جا کر کلی کرنے لگے۔ کلی کر کے واپس آئے تو میں‬
‫دوبارہ سے سونے کی تیاری کر ری تھی مگر عمران نے مجھے کہا کہ یہ کیا حرکت‬
‫ہے ؟ تمہارا پانی نکل گیا اب میرا پانی کون نکالے گا؟؟؟ یہ سن کر میں نے کہا آپکی‬
‫بیوی ساتھ ہے اسکو اٹھائیں اور اسکی چودائی کریں۔ میں سونے کی ایکٹنگ کروں گی‬
‫اور اپنی بہن کی چودائی دیکھتی رہوں گی۔ مگر عمران بولے نہیں محترمہ ابھی تم میرا‬
‫لن چوسو گی۔ جو مزہ تمہارے چوپوں میں ہے وہ صائمہ کے چوپوں میں نہیں۔ اسکو تو‬
‫میں بعد میں بھی چودتا رہوں گا مگر جب تک ادھر ہوں اپنی سالے سے ہی اپنے لن کی‬
‫پیاس بجھاوں گا۔ چلو اٹھو اور چوپا لگاو۔ یہ کہ کر عمران نے اپنا لوڑا شلوار سے نکال‬
‫لیا۔‬

‫اب کی بار عمران نے اپنی شلوار گھٹنوں تک نیچے کر دی تھی اور انکا لوڑا چھت کی‬
‫طرف دیکھ رہا تھا۔ ٹٹے بالوں سے پاک تھے میں نے بھی بال جھجھک عمران کا لوڑا‬
‫منہ میں ڈال لیا اور اسکو چوسنے لگی۔ میں چارپائی پر ہی لیٹی تھی اور عمران کی‬
‫طرف کروٹ لی ہوئی تھی جب کہ عمران چارپائی کے ساتھ کھڑے تھے ۔ انکا لوڑا منہ‬
‫میں ڈالنے کے لیے مین نے اپنا چہرہ تھوڑا سا اوپر بھی اٹھایا ہوا تھا۔ ‪ 5‬منٹ تک میں‬
‫عمران کے لوڑے کا چوپا لگاتی رہی۔ کبھی عمران کی ٹوپی پر اپنے ہونٹ پھرتی تو‬
‫کبھی اپنی زبان سے عمران کا لوڑا گیال کرتی۔ کبھی انکے ٹٹے اپنے منہ میں لیکر‬
‫چوستی تو کبھی پورا لن منہ میں ڈال کر اپنے منہ کی چدائی کرواتی۔ ‪ 5‬منٹ کے چوپوں‬
‫کے بعد عمران کے لن میں سختی بڑھنے لگی اور انکے جھٹکے بھی میرے منہ میں‬
‫تیز ہونے لگے۔ پھر ایک جھٹکے کے ساتھ عمران نے اپنا پانی چھوڑ دیا۔ پہلے جھٹلوں‬
‫کا پانی میرے منہ میں گیا جبکہ باقی کے جھٹکوں کا پانی میرے چہرے پر گرا۔‬

‫جب عمران کے لن نے جھٹکے مارنا بند کر دیے تو میں نے عمران کا لوڑا چوس کر‬
‫اسکو صاف کیا اور جو پانی ٹوپی پر لگا ہوا تھا اسکو بھی اپنی زبان سے چاٹ لیا۔‬
‫اسکے بعد میں اٹھ کر واش روم چلی گئی اور اپنا چہرہ صاف کرنے لگی جب کہ عمران‬
‫صائمہ کے ساتھ لیٹ کر گہری نیند سوگئے۔‬

‫اگلے دن بھی عمران اسی انتظار میں تھے کہ کب انہیں موقع ملے اور وہ میری چودائی‬
‫کریں مگر افسوس کے انکو ایسا کوئی موقع نہ مل سکا۔ دوپہر ‪ 1‬بجے مجھے سراسلم‬
‫کا فون آیا۔ میں نے فون پر سر کا نام پڑھا تو باہر صحن میں چلی گئی اور وہاں جاکر‬
‫جان من کہاں غائب ہوگئی ہو۔ میرا لن‬
‫فون اٹینڈ کیا۔ میرے فون اٹینڈ کرتے ہی سر بولے ِ‬
‫کب سے تمہاری چوت کے لیے ترس رہا ہے۔ آج آفس میں کام نہیں ہے زیادہ آج آجاو‬
‫اور میری برسوں کی پیاس اپنی گرم گرم جوانی سے مٹا جاو۔ میں نے سر کو بتایا کہ‬
‫گھر مہمان آئے ہوئے ہیں ابھی کچھ دن آنا مشکل ہے۔ مگر سر بولے کہ نہیں اب کوئی‬
‫بہانہ نہیں چلے گا۔ تم آج ہی آو میں آفس میں تمہارا انتظار کر رہا ہوں۔ میں آج ہی‬
‫تمہاری چودائی کروں گا۔ یہ کہ کر سر نے فون بند کر دیا اور میں سوچنے لگی کہ اب‬
‫کیسے جاوں سر کے پاس؟؟‬
‫دوپہر ‪ 1‬بجے کا ٹائم تھا اور فیاض کو بھی اپنے کالج سے چھٹی ہونے والی تھی۔‬
‫دوسری اوپر سے سر کا فون بھی اس ٹائم آیا اور وہ فورا ملنا چاہ رہے تھے۔ دوسری‬
‫طرف عمران بھائی بھی موقع کی تالش میں تھے کہ کسی طرح اپنی سالی کو چودنے کا‬
‫موقع مل جائے انہیں۔ لیکن میں نے فیصلہ کر لیا کہ آج سر سے تو ضرور ملوں گی۔‬
‫میں نے سن رکھا تھا بڑی عمر کے مرد چودائی کرنے میں بہت ماہر ہوتے ہیں کیونکہ‬
‫انکہ تجربہ بہت ہوتا ہے اور وہ جانتے ہیں عورت کو کیسے خوش کرنا ہے۔ لہذا میرے‬
‫دل میں تمنا تھی کہ جلد سے جلد سر اسلم سے بھی چودائی کرواوں مگر اسطرح اچانک‬
‫انکا فون آجائے گا اسکی مجھے امید نہیں تھی۔‬

‫لہذا میں نے امی کو بتایا کہ فیاض کے کالج سے فون ہے اور اسکے ٹیچر ملنا چاہتے‬
‫ہیں۔ امی نے پوچھا ایسا کیا مسئلہ ہوگیا؟ پہلے بھی گئی تھیں تم۔ تو میں نے امی کو‬
‫بتایا کہ اصل میں فیاض کے ایڈمیشن کا مسئلہ تھا وہ تو حل ہوگیا مگر سر نے مجھے‬
‫کہا تھا کہ جب تک اسکے پیپر نہیں ہوتے تو اسکی رپورٹ وغیرہ باقاعدگی سے چیک‬
‫کرتی رہنا تاکہ یہ امتحان میں فیل نہ ہوجائے۔ میری بات سن کر امی نے کہا تو تمہارا‬
‫جانا کونسا ضروری ہے تمہارے ابو کو فون پے بتاو وہ مل آئیں گے۔ میں نے فورا سے‬
‫کہا نہیں ابو کو نہ بتائیے گا فیاض پہلے ہی ڈرا ہوا ہے ابو سے۔ اگر ابو کو پتا لگے گا‬
‫تو وہ فیاض کو ڈانٹیں گے اور وہ صحیح سے پڑھ نہیں سکے گا اسکی پڑھائی کا حرج‬
‫ہوگا اسطرح۔ میں دیکھ آتی ہوں اور جو بھی صورتحال ہوئی آپکو بتا دوں گی آپ پھر‬
‫اسکو پیار سے سمجھائیے گا کہ دل لگا کر پڑھے۔‬

‫میری بات سن کر امی نے برا سا منہ بنایا اور بولیں پتا نہیں آجکل کے لڑکے اتنے‬
‫چھوئی موئی سے کیوں ہوتے ہیں ذرا سی ڈانٹ پڑ جائے تو انسے پڑھائی نہیں ہوتی۔ یہ‬
‫کہتے ہوئے امی نے عمران کو آواز دی اور کہا کہ بیٹا یہ فائزہ نے فیاض کے سکول‬
‫جانا ہے تم بھی ساتھ چلے جاو۔ یہ کہ کر امی نے میری طرف دیکھا اور کہا اپنے بھائی‬
‫کے ساتھ جاو اور ٹائم سے واپس آجانا۔ میں امی کے اس اچانک فیصلے سے سٹپٹا‬
‫گئی۔ اور سوچنے لگی کہ اب اس مصیبت سے کیسے نجات حاصل کروں۔ عمران بھائی‬
‫کے ساتھ سر سے ملنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا تھا۔‬

‫خیر میں نے سوچا کہ فی الحال تو جانے کی تیاری کروں راستے میں کچھ بہانہ بناوں‬
‫گی عمران بھائی کو ٹرخا دوں گی۔ یہ سوچ کر میں اپنے کمرے میں گئی اور الماری‬
‫سے اپنی بلیو جینز نکال کر پہن لی۔ جینز کے نیچے میں نے عمران کی دی ہوئی پینٹی‬
‫بھی پہنی جو درمیان سے سوراخ والی تھی اور بغیر اتارے چودائی ممکن تھی۔ ساتھ‬
‫میں نے سرخ رنگ کا پُش اپ برا پہنا جس سے ممے اوپر کو اٹھ کر کلیویج بناتے ہیں‬
‫اور اسکے اوپر میں نے بغیر شمیض پہنے ایک کرتی نکال کر پہن لی۔ ہلکا سا میک اپ‬
‫کرنے کے بعد میں نے اوپر سے ایک چادر لپیٹ لی اور نیچے ہائی ہیل والی سینڈل نکال‬
‫کر پہن لی۔‬

‫تیار ہوکر میں عمران بھائی کے پاس گئی جو صائمہ کے ساتھ بیٹھے باتیں کر رہے‬
‫تھے اور انکو کہا چلیں عمران بھائی دیر ہورہی ہے۔ صائمہ نے پوچھا کہاں کی تیاری‬
‫ہے تو میں نے بتایا کہ فیاض کے سکول جا رہی ہوں۔ عمران بھی فورا اٹھے اور گاڑی‬
‫نکالی ۔ میں انکے ساتھ فرنٹ سیٹ پر بیٹھی اور گاڑی چل پڑی۔ عمران نے میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے کہا تیاری تو تم نے ایسے کی ہے جیسے کسی بوائے فرینڈ سے ملنے‬
‫جا رہی ہو۔ یہ کہ کر عمران ہنسنے لگے اور پھر بولے یار فائزہ تم بہت سیکسی لگ‬
‫رہی ہو اس ڈریس میں۔ میرے شیطانی ذہن میں فورا ہی آئیڈیا آیا اور میں نے عمران کو‬
‫کہا اصل میں عمران بھائی بات یہ ہے کہ فیاض کے سکول نہیں جانا بلکہ میری ایک‬
‫دوست کی کال آئی تھی۔ ہم لڑکیوں نے مل کر ایک پارٹی ارینج کی ہے۔ اگر امی کو پارٹی‬
‫کا کہتی تو وہ کبھی اجازت نہ دیتیں اس لیے میں نے امی سے کالج کا بہانہ کرا ہے۔‬

‫میری یہ بات سن کر عمران مسکرائے اور بولے مجھے تو پہلے ہی شک تھا دال میں‬
‫کچھ کاال ہے۔ ورنہ کوئی بھی سر بھال اسطرح اچانک کیوں بالئیں گے اور بالنا بھی ہو‬
‫تو والدین کو بالتے ہیں بہن کو بھال کیوں بالنے لگے۔ میں بھی ہنس دی اور کہا بس‬
‫عمران بھائی کوئی بہانہ تو کرنا ہی تھا نہ امی سے۔ میری یہ بات سن کر عمران‬
‫کھلکھال کر ہنس پڑے اور بولے مگر تمہاری امی نے کہا ہے کہ میں تمہیں لیکر ہی‬
‫واپس آوں۔ میں نے عمران بھائی کی منت کی کہ آپ پلیز مجھے ادھر مارکیٹ میں اتار‬
‫دیں میری دوست یہیں ہوگی اسکے ساتھ میں اسی کی گاڑی میں چلی جاوں گی پھر جب‬
‫پارٹی سے فارغ ہوئے تو میں آپکو کال کر دوں گی آپ آکر مجھے لیجانا۔ اس بات پر‬
‫عمران بولے کے پارٹی تو دیر تک چلے گی امی سے کیا کہو گی اتنی دیر کہاں لگ گئی؟‬
‫میں نے کہا آپ کہ دیجیے گا کہ مجھے کچھ شاپنگ کرنی تھی تو کالج سے ہم دونوں‬
‫شاپنگ کرنے چلے گئے۔‬

‫میری اس بات پر عمران نے کہا شاپنگ تو انہیں واقعی میں کرنی ہے کچھ ۔ میں ایکدم‬
‫بولی تو بس ٹھیک ہے آپ تب تک شاپنگ کریں میں اس ٹائم میں دوست کی طرف ہو‬
‫پارٹی اٹینڈ کرتی ہوں۔ فارغ ہوکر میں آپکو کال کر دوں گی۔ عمران نے کہا اچھا چلو‬
‫ٹھیک ہے مگر جلدی فارغ ہوجانا کیونکہ میں نے اپنے لیے ہی شاپنگ کرنی ہے زیادہ‬
‫سے زیادہ ‪ 1‬گھنٹہ ہی لگے گا مجھے۔ میں نے عمران کو یقین دالیا کہ میں پوری‬
‫کوشش کروں گی جلدی فارغ ہونے کی۔ آپ بے فکر ہوجائیں۔‬

‫پھر عمران نے کینٹ میں گاڑی روکی اور میں وہاں سے رکشہ میں بیٹھ کر فیاض کے‬
‫کالج چلی گئی جو وہاں سے نزدیک ہی تھا اور عمران کینٹ مارکیٹ گھومنے لگے۔‬

‫کالج پہنچی تو وہاں چھٹی ہو چکی تھی۔ میں سیدھی سر اسلم کے آفس چلی گئی۔ آفس‬
‫کے باہر پہنچ کر دروازے پر ناک کیا تو اندر سے آواز آئی یس‪ ،‬کم اِن۔ میں دروازہ‬
‫کھول کر اندر گئی تو اندر سر اسلم سامنے ہی ایک کرسی پر بیٹھے تھے اور انکے‬
‫سامنے ایک سٹوڈنٹ بھی بیٹھا تھا جو عمر میں لگ بھگ ‪ 16‬یا ‪ 17‬سال کا ہوگا۔ سر‬
‫نے مجھے کرسی پر بیٹھنے کو کہا اور دوبارہ سے اپنے سٹوڈنٹ سے بات کرنے لگے۔‬
‫وہ شاید کسی کالج کے کام کے سلسلے میں بات کر رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں سر نے‬
‫اس لڑکے کو فارغ کر دیا اور وہ آفس سے نکل گیا۔ اسکے جاتے ہی سر اسلم نے‬
‫مجھے مسکراتے ہوئے دیکھا اور بولے سوری یار تمہیں انتظار کرنا پڑا۔۔‬

‫میں نے کہا کوئی بات نہیں سر آپ سنائیں کیا حال ہیں۔ سر فورا بولے بس برا حال ہے‬
‫تمہارے انتظار میں ۔ نہ دن کو سکون ہے نا رات کو چین ہے۔ جب سے تم نے اپنی ‪----‬‬
‫‪ -‬دکھائی ہے میں تو بے چین ہوگیا ہوں۔ میں نے بھی سر کو ہنستے ہوئے کہا فکر نہ‬
‫کریں آج آپکی ساری بے چینی ختم کر دوں گی۔ یہ کہتے ہوئے میں نے اپنی چادر اتار‬
‫دی اور سائیڈ والی کرسی پر رکھ دی۔ نیچے سے میری باریک کرتی دیکھ کر سر تو‬
‫جیسے پاگل ہوگئے۔ انکی آنکھوں میں چمک آگئی‪ ،‬میں اپنی کرسی سے کھڑی ہوئی اور‬
‫دروازے کی طرف گئی۔ دروازے کی کنڈی لگاتے ہوئے میں نے سر سے پوچھا کہ سر‬
‫آب آنا تو کسی نے نہیں ادھر؟؟ تو سر بولے نہیں اب کوئی نہیں آئے گا سب سٹوڈنٹ جا‬
‫چکے ہیں۔‬

‫میں نے کنڈی لگانے کے بعد سر کی طرف مڑکر دیکھا تو سر کی نظریں میری ٹانگوں‬
‫پر تھیں۔ ٹائٹ جینز میں میری لمبی ٹانگیں قیامت ڈھا رہی تھیں۔ میں اپنا لک لہراتی ہوئی‬
‫سر کی طرف گئی اور انکے سامنے پڑھے ہوئے ٹیبل پر ان سے تھوڑا سا ہٹ کر بیٹھ‬
‫گئی۔ میری ایک ٹانگ زمین پر تھی اور ایک ٹانگ اٹھا کر میں ٹیبل پر اس طرح بیٹھی‬
‫تھی کہ میرا ایک چوتڑ ٹیبل کے سہارے پر تھا اور دوسرا ہوا میں۔ اس طرح جب لڑکیاں‬
‫بیٹھتی ہیں تو لڑکوں کے لن فورا سالمی کے لیے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ کیونکہ اس طرح‬
‫لڑکیوں کی گانڈ کافی واضح نظر آتی ہے اور تھائیز بھی کافی واضح نظر آرہی ہوتی ہیں۔‬
‫سر اسلم کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ انکی پینٹ کا ابھار واضح ہو رہا تھا۔‬

‫میں نے اپنی آواز کو رومانٹک بناتے ہوئے کہا سر پھر کیا ارادے ہیں آج آپکے؟؟؟ سر‬
‫اپنے دونوں ہاتھ مسلتے ہوئے بولے بس آج سب کچھ کر گزرنا ہے۔ یہ کہتے ہوئے‬
‫انکی آواز میں خوشی بھی تھی اور تھوڑی کپکپی بھی۔ میں نے پھر سے پوچھا سر‬
‫آپکا ہتھیار کب سے فارغ پڑا ہے؟ آخری بار آپ نے اپنا یہ ہتھیار کس پر استعمال کیا؟؟؟‬

‫میری بات سن کر سر تھوڑا سا افسردہ ہوئے اور بولے آخری بار اپنی مرحوم بیوی کے‬
‫لیے ہی اس ہتھیار کا استعمال کیا تھا۔ بہت سال بیت گئے۔ اسکے بعد سے کبھی کبھار‬
‫مٹھ مار کر گزارا کرتا ہوں۔ لیکن آج مٹھ کی بجائے تمہاری چوت ماروں گا میں۔ یہ کہ‬
‫کر سر اپنی کرسی سے کھڑے ہوگئے اور میرے قریب آگئے۔ میں بھی اسی طرح بیٹھی‬
‫رہی۔ میں سر کو موقع دینا چاہتی تھی کو وہ خود شروع کریں۔ میں دیکھنا چاہتی تھی کہ‬
‫میچور مرد کسطرح سیکس کی شروعات کرتے ہیں۔ سر میرے قریب آئے اور میرے کان‬
‫کے قریب اپنا چہرہ ال کر آہستہ سے بولے تم تیار ہو؟‬

‫میں نے اپنے دونوں ہاتھ پیچھے پھیالئے اور ٹیبل پر رکھ دیے اور بولی میں تو کب‬
‫سے انتظار کر رہی ہوں اس لمحے کا۔ میری طرف سے گرین سگنل ملنے پر سر نے اپنا‬
‫ایک ہاتھ میری ران پر رکھ دیا۔ اور میں خود ہی ٹیبل پر سیدھی ہوکر بیٹھ گئی۔ اب میری‬
‫دونوں ٹانگیں ہوا میں تھیں اور میں پوری طرح ٹیبل کے اوپر بیٹھی تھی۔ سر نے آہستہ‬
‫آہستہ اپنا ہاتھ میری ران پر مسلنا شروع کیا اور میرے قریب ہونے لگے۔ جیسے ہی سر‬
‫کا جسم میرے جسم سے ٹچ ہوا تو سب سے پہلے سر کے لن کا اور میرے گھٹنے کا‬
‫مالپ ہوا آپس میں۔ سر نے اپنا لن سیدھا میرے گھٹنے کے ساتھ ٹچ کیا تھا۔ ابھی پینٹ‬
‫میں ہونے کی وجہ سے اسکے مکمل ابھار کا تو پتہ نہیں لگ رہا تھا مگر لن کی سختی‬
‫بتا رہی تھی کہ وہ مکمل کھڑا ہوچکا ہے۔ میں نے بھی اپن گٹھنے کا دباو لن پر بڑھایا‬
‫جس سے اسکی سختی اور بھی بڑھ گئی تھی۔‬

‫پھر نجانے سر کو کیا ہوا‪ ،‬انکے صبر کا پیمانہ لبریز ہوگیا اور وہ کسی بچے کی طرح‬
‫مجھ پر ٹوٹ پڑے۔ انہوں نے اپنے ایک ہاتھ میری گردن میں ڈاال اور میرا چہرہ اپنے‬
‫قریب کر کے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ اور دیوانہ وار میرے ہونٹوں کو‬
‫چوسنے لگے۔ انکا دوسرا ہاتھ میری کمر پر تھا اور وہ ایسے مجھے چوم رہے تھے‬
‫جیسے کسی اناڑی کو پہلی بار کوئی لڑکی ملی ہو۔ اسکی وجہ شاید ‪ 20‬برس کی پیاس‬
‫تھی۔ سر کو ‪ 20‬برس سے کوئی پھدی نہیں ملی تھی یہی وجہ رہی ہوگی کہ اچانک ہی‬
‫وہ بچوں کی طرح مجھے پیار کرنے لگے تھے۔ سر نے میری کمر کو اپنے ہاتھ کے‬
‫ساتھ دبا کر مجھے اپنے قریب کر لیا تھا۔ میرے کسے ہوئے ممے سر کے سینے میں‬
‫گھس رہے تھے اور سر کے ہونٹ میرے ہونٹوں کو چوسنے میں مصروف تھے۔‬

‫میری یہ حسرت تو پوری نہ ہوسکی کہ کوئی بڑی عمر کا آدمی کیسے سیکس کی‬
‫شروعات کرتا ہے مگر میں نے بھی اسکو غنیمت جانا‪ ،‬ایک تو ٹائم کم تھا‪ ،‬کسی بھی‬
‫ٹائم عمران کا فون آسکتا تھا دوسرے پھدی تو میری بھی لن کے لیے گیلی ہو رہی تھی۔‬
‫لہذا میں نے بھی سر کا بھرپور ساتھ دینے کا فیصلہ کیا اور اپنے ہونٹ کھول کر سر کی‬
‫زبان کو راستہ دیا۔ سر نے راستہ ملتے ہی اپنی زبان میرے منہ میں داخل کر دی اور‬
‫اسے گول گول میرے منہ کے اندر گھمانے لگے۔ میں نے اپنی زبان سر کی زبان سے‬
‫ٹکرائی اور پھر اپنا منہ بند کر کے سر کی زبان کو چوسنے لگی۔ اب سر کے دونوں‬
‫ہاتھ میری کمر پر تھے۔ مگر ایک ہاتھ میری کرتی کو اوپر اٹھا کر کرتی کے اندر جا‬
‫چکا تھا جبکہ دوسرا ہاتھ باہر سے ہی میری کمر کا مساج کر رہا تھا۔ میں نے اپنے‬
‫دونوں ہاتھ سر کی گردن میں حائل کر رکھے تھے اور ہماری زبان آپس میں ایکدوسرے‬
‫کے ساتھ کھیل رہی تھیں۔ کبھی میری زبان سر کے منہ میں ہوتی اور وہ اسے چوستے‬
‫تو کبھی سر کی زبان میرے منہ میں ہوتی اور میں اسے چوستی۔‬

‫کچھ دیر یہ سلسلہ جاری رہا‪ ،‬پھر سر نے اپنے ہونٹ میری گردن پر رگڑنا شروع کر‬
‫دیے۔ اب سر میری کرتی آدھی سے زیادہ اوپر اٹھا چکے تھے اور میری آدھی کمر‬
‫ننگی تھی اور سر کے ہاتھ میری ننگی کمر کا مساج کر رہے تھے۔ جبکہ وہ اپنے‬
‫ہونٹوں سے میری گردن کے ایک ایک حصے پر اپنے پیار کے نشان ثبت کر رہے تھے۔‬
‫آفس میں سیکس کرنے کا علیحدہ ہی نشہ تھا۔ سر کی کسنگ کے دوران میری ہلکی‬
‫ہلکی آواز بھی نکل رہی تھی جو کمرے کے ماحول کو اور سیکسی بنا رہی تھی۔ اب سر‬
‫نے اپنے ایک ہاتھ سے میری کرتی کندھے سے ہٹا دی اور اپنے ہونٹ میرے کندھے پر‬
‫رگڑنا شروع ہوگئے۔ کرتی ہٹانے سے میرے برا کی سرخ رنگ کی سٹرپ بھی نظر آرہی‬
‫تھی اور سر اسے بھی میرے جسم کا حصہ سمجھ کر چوسنے میں مصروف تھے۔ میں‬
‫ابھی بھی ٹیبل پر ہی بیٹھی تھی اور میرا گھٹنہ سر کے لن کی سختی کو مسلسل‬
‫محسوس کر رہا تھا۔ پھر سر نے میری کرتی کو دوسرے کندھے سے بھی ہٹا دیا۔‬

‫اب میرا آدھا پیٹ کمر اور کندھے ننگے ہوچکے تھے۔ اور یوں سمجھے کرتی بس‬
‫مموں کو ہی ڈھانپ رہی تھی۔ اور کندھوں سے ہٹ جانے کی وجہ سے میری کلیویج جو‬
‫پش اپ برا کی وجہ سے کافی ابھری ہوئی تھی وہ بھی واضح نظر آرہی تھی۔ سر نے‬
‫کچھ دیر میرے سینے پر اپنے ہونٹ اور زبان رگڑے کے بعد اپنی زبان میری کلیویج‬
‫میں گھسا دی۔ مموں کے درمیان بننے والی الئن میں سر کی زبان بہت مزہ دے رہی‬
‫تھی۔ سر کسی بچے کی طرح میری کلیویج کو پیار کر رہے تھے مگر ابھی تک انہوں‬
‫نے میرے مموں کو نہیں چھوا تھا۔‬

‫پھر اچانک ہی سر پیچھے ہٹے اور میری کرتی میرے جسم سے علیحدہ کر دی۔ کرتی‬
‫ڈھیلی ہونے کی وجہ سے بہت آرام سے اتر گئی ۔ کرتی اتری تو میرا گورا جسم سر کو‬
‫پاگل کرنے کے لیے کافی تھا۔ میں نے جینز بہت نیچے باندھی تھی ۔ لو ویسٹ جینز کی‬
‫وجہ سے میرا مکمل پیٹ ننگا تھا اور اوپر گورے جسم پر سرخ رنگ کا برا قیامت ڈھا‬
‫رہا تھا۔ تنے ہوئے بڑے ممے کسی بھی مرد کو اپنی طرف مائل کرنے کے لیے کافی‬
‫تھے۔ سر کچھ دیر ساکت کھڑے میری خوبصورتی کو دیکھتے رہے۔ پھر بولے میری‬
‫جان تمہارا جسم قیامت ہے۔ پھر سے کی نظریں میرے تنے ہوئے مموں پر ٹک گئیں ۔‬
‫اب پہلی بار سر نے میرے مموں پر اپنے ہاتھ رکھے۔ سر نے دونوں مموں پر اپنے‬
‫دونوں ہاتھ بہت ہی نرمی کے ساتھ رکھے اور آہستہ آہستہ ہاتھ پھیرنے لگے۔ سر کے‬
‫ہاتھ مموں کے اوپر والے حصے پر تھے جو حصہ ننگا ہوتا ہے۔ ان پر اپنے ہاتھ‬
‫پھیرنے اور انکا لمس محسوس کرنے کے بعد سر نے میرے مموں کو نچلے حصے‬
‫سے بھی پکڑا اور پھر انکو دبا کر انکی سختی کا اندازہ کرنے لگے۔‬

‫نوجوان لڑکیوں کے مموں میں تھوڑی سختی ہوتی ہے جس مموں کے ابھار کا سبب‬
‫بنتی ہے‪ ،‬ڈھلتی عمر کے ساتھ مموں کی سختی کم ہونے لگتی ہے اور چھاتی کا ابھار‬
‫بھی ختم ہوجاتا ہے جس کی وجہ سے بڑے ممے بھی لٹکنے لگتے ہیں۔ میری چھاتیاں‬
‫ابھی کافی ٹائٹ تھیں۔ جسکی وجہ سے مموں کا ابھار بھی اچھا بنتا تھا۔ کچھ دیر ممے‬
‫دبانے کے بعد سر نے اپنے ہونٹ میرے مموں کے ننگے حصے پر رکھ دیا اور ان پر‬
‫پیار کرنے لگے۔ پھر سر کا ایک ہاتھ میری کمر کے پیچھے گیا اور نیچے سے ہوتا ہوا‬
‫اور برا کی ہُک تک آگیا۔ سر نے ایک ہی ہاتھ سے بہت مہارت کے ساتھ میرے برا کی‬
‫ہک کھول دی اور میرے مموں کو برا کی قید سے آزاد کر دیا۔ سر نے برا اتار کر اپنے‬
‫گلے میں ڈال لیا اور میرے مموں پر پیار کرنے لگے۔‬

‫گول اور سڈول ممے کسی بھی مرد کی کمزوری ہوسکتے ہیں۔ اور میرے ممے کچھ‬
‫ایسے ہی تھے۔ اس پر قریبا ایک انچ کا براون دائرہ اور اس پر تنے ہوئے سخت گالبی‬
‫نپل سر کر پاگل کیے جا رہے تھے۔ کچھ ہی دیر میں میرے ممے سر کے منہ میں تھے۔‬
‫سر بہت ہی شوق کے ساتھ میرے مموں کو چوسنے میں مصروف تھے اور کبھی کبھی‬
‫میرے نپل اپنے دانتوں میں لیکر ان پر ہلکے سے کاٹ دیتے جس سے میری سسکی‬
‫نکل جاتی۔‬

‫میرے نپل چوسنے کے دوران سر نے میری دونوں ٹانگوں کو کھول کر اپنی کمر کے‬
‫گرد لپیٹ لیا اور پھر مجھے چوتڑوں سے پکڑ کر اوپر اٹھا لیا۔ اب میں سر کی گود میں‬
‫تھی اور وہ اپنا سر جھکائے مسلسل میرے مموں پر پیار کر رہے تھے۔ میرے منہ سے‬
‫بھی مسلسل سسکیاں نکل رہی تھی اور میں سر کو مزید اکسا رہی تھی کہ میرے نپل‬
‫اپنے منہ میں لیکر انکو زور زور سے چوسیں۔ سر بھی مجھے بہت مزہ دے رہے‬
‫تھے۔ پھر سر نے مجھے اپنی گود سے اتارا اور اپنی ٹیبل پر لٹا دیا۔ ٹیبل پر لٹانے کے‬
‫بعد سر میرے اوپر جھک گئے اور ایک بار پھر سے میرے مموں پر پیار کرنے لگے۔‬
‫میں ب ِھ اپنے ہاتھ سر کی گردن پر پھیر کر انکو پیار کر رہی تھی۔ کچھ دیر میرے مموں‬
‫کو چوسنے کے بعد سر آہستہ آہستہ اپنی زبان میرے مموں کے نچلے حصے پر‬
‫پھیرنے لگے اور پھر میرے پیٹ پر پیار کرنے لگے۔‬

‫اب سر کی زبان میری ناف میں گھوم رہی تھی اور سر کا ایک ہاتھ میری ران کو دبانے‬
‫میں مصروف تھا۔ میں نے اپنا ہاتھ آگے بڑھا کر سر کے لن پر رکھ دیا جو ابھی تک‬
‫انکی پینٹ میں قید تھا۔ میں نے کوشش کر کے سر کی زپ کھول دی اور اپنا ہاتھ اندر‬
‫داخل کر دیا۔ پینٹ کے اندر سر نے انڈر وئیر بھی پہن رکھا تھا۔ میں انڈر وئیر کے اوپر‬
‫سے ہی سر کے لن کو سہالنے لگی۔ سر کا انڈر وئیر کافی گیال ہورہا تھا۔ پھر سر نے‬
‫زیر ناف اپنی زبان کو گھمانے لگے۔ اب میرا جسم‬ ‫اپنی زبان میری ران سے ہٹائی اور ِ‬
‫کانپنا شروع ہوچکا تھا اور میری پھدی بھی کافی گیلی ہورہی تھی۔ میں نے سر کو کہا‬
‫کہ پلیز اپنا ہتھیار باہر نکا ل لیں۔ میری فرمائش پر سر فوری طور پر پیچھے ہٹے اور‬
‫اپنی بیلٹ کھول کر اپنی پینٹ اتار دی۔ پینٹ اتارنے کے بعد سر نے جیسے ہی اپنا انڈر‬
‫وئیر نیچے کیا انکا ‪ 8‬انچ کا لن تن کر کھڑا ہوگیا۔ پھر ر نے اپنی شرٹ اور بنیان بھی‬
‫اتار دی۔‬

‫اب آفس میں سر مکمل ننگے کھڑے تھے اور میں انکے ٹیبل پر لیٹی ہوئی تھی۔ میرے‬
‫ممے ننگے تھے اور میرے ہاتھ میں سر کا لن تھا جسکو میں آہستہ آہستہ سہال رہی‬
‫زیر ناف بالوں والی‬
‫تھی جبکہ سر نے میری جینز کی زپ کھول دی تھی اورانکا ہاتھ ِ‬
‫جگہ پر ہلکے ہلکے مساج کرنے میں مصروف تھا اور انکی زبان ابھی تک میری ناف‬
‫کے آس پاس گھوم رہی تھی۔‬

‫پھر سر میری ٹانگوں کی طرف گئے اور مجھے اپنے چوتڑ اوپر اٹھانے کو کہا۔ میں نے‬
‫پاوں کی مدد سے ٹیبل کا سہارا لیا او ر اپنے چوتڑ اوپر اٹھائے تو سر نے میری جینز‬
‫گھٹنوں تک نیچے کر دیے۔ نیچے بلیک کلر کی پینٹی دیکھ کر سر بہت خوش ہوئے۔‬
‫کیونکہ پینٹی میں موجود سوراخ سے میری پھدی واضح نظر آرہی تھی جکہ سائیڈ واال‬
‫حصہ چھپا ہوا تھا۔ سر نے ایک بار اپنا ہاتھ میری پھدی پر پھیرا اور پھر مجھے مکمل‬
‫ننگا کر دیا۔ میری جینز اتار کر سر نے ایک سائیڈ پر پھینک دی اور میں نے سر کے‬
‫گلے میں موجود برا کو پکڑ کر انہیں اپنی پھدی کی طرف کھینچا۔ سر ایسے ہی جھکتے‬
‫چلے گئے اور انکی زبان پینٹی میں موجود سوراخ سے ہوتی ہوئی سیدھی میری پھدی‬
‫کے اوپر جا کر رکی۔‬
‫سر نے بغیر کسی توقف کے میری پھدی کو چاٹنا شروع کر دیا۔ پھدی کے لب ہلکے‬
‫سے کھول کر سر نے اپنی زبان کو پھدی کا اندرونی حصہ دکھایا اور زبان سے اسکی‬
‫چدائی شروع کی۔ اب سر کا آفس میری سسکیوں سے گونج رہا تھا۔ اف‪ ،‬اف‪ ،‬آہ‪ ،‬آہ ۔۔۔۔‬
‫ام ام ام ۔۔۔ مزہ آرہا ہے سر‪ ،‬کھاجائیں میری پھدی کو‪ ،‬اور زور سے چوسیں اسکو۔۔۔ ان‬
‫آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا اور سر بغیر کسی خوف کے میری پھدی چاٹنے میں‬
‫مصروف تھے۔ سر نے ‪ 3‬منٹ میں ہی میری چوت سے پانی نکلوا دیا تھا۔ پانی نکلتے‬
‫ہوئے میرے جسم کو شدید جھٹکے لگے اور سر بھی اس دوران مسلسل میری پھدی‬
‫ب‬
‫چاٹتے رہے۔ کچھ پانی سر کے چہرے پر گرا تو کچھ انکے منہ میں گیا جسکو وہ آ ِ‬
‫حیات سمجھ کر پی گئے۔‬

‫میرا پانی نکالنے کے بعد سر نے اپنا لن میرے حوالے کر دیا۔ میں فورا ہی ٹیبل سے‬
‫نیچے اتری سر کی کرسی پر بیٹھ گئی اور سر کو کہا وہ ٹیبل پر بیٹھ جائیں۔ سر نے ایسا‬
‫ہی کیا اور ٹیبل پر بیٹھ گئے اور میں نے سر کی کرسی ٹیبل کے قریب کر دی اور اس پر‬
‫بیٹھ کر سر کا ‪ 8‬انچ کا لوڑا اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ لوڑا اس وقت کسی بھی‬
‫لوہے کے راڈ سے کم سخت نہیں تھا۔ میں نے لوڑے کی ٹوپی پر موجود مذی کے‬
‫قطروں کو اپنی زبان سے چاٹ کر صاف کیا اور پھر لعاب کا گوال بنا کر ٹوپی کی نوک پر‬
‫پھینک دیا۔ پھر اپنے ہاتھوں سے اس لعاب کو سر کے پورے لن پر مسل کر اسکو اچھی‬
‫طرح چمکا دیا۔ اور دوبارہ سے لن کو منہ میں لیکر اللی پاپ کی طرح چوسنے لگی۔‬
‫ابھی میں نے محض کچھ دیر ہی سر کا لن چوسا تھا کہ سر نے اپنا لن میرے منہ سے‬
‫نکال لیا اور بولے اب میری برداشت جواب دے چکی ہے۔ مجھے اب تمہاری پھدی‬
‫چاہیے۔ یہ کہ کر سر نے مجھے آفس میں موجود صوفے پر لیٹنے کو کہا۔ میں فوری‬
‫صوفے پر جا کر لیٹ گئی۔ میری ایک ٹانگ صوفے سے نیچے زمین پر تھی تو دوسری‬
‫صوفے کے اوپر‬

‫سر بھی فوری صوفے کے قریب آئے اور میری ٹانگوں کے قریب آگئے‪ ،‬سر نے میری‬
‫ایک ٹانگ کو اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھا اور دوسری ٹانگ کو سائید پر پھیال کر اپنے‬
‫لیے پھدی تک کا راستہ کلئیر کیا۔ اسکے بعد سر نے ایک ہاتھ سے اپنے لن کو پکڑ کر‬
‫میری پھدی کے سوراخ پر رکھا اور اس پر آہستہ آہستہ پھیرنے لگے۔ میں امید کر رہی‬
‫تھی کہ سر فورا ہی اپنا لن میری پھدی میں گھسا دیں گے مگر سر اپنے لن کی ٹوپی کو‬
‫میری پھدی کے سوراخ پر آہستہ آہستہ پھیر رہے تھے۔ پھر سر نے لن کو اپنے ہاتھ‬
‫سے پکڑ کر اپنی ٹوپی کو میری پھدی پر مارنا شروع کر دیا۔ سر اپنا لن کافی زور سے‬
‫میری پھدی پر مار رہے تھے اور مجھے ایسے لگ رہا تھا جیسے کوئی لوہے کا راڈ‬
‫میری پھدی سے ٹکرا رہا ہو۔‬

‫سر کے لن نے میری پھدی کو ایک بار پھر گیال کر دیا تھا۔ جب سر کو محسوس ہوا کہ‬
‫میری پھدی گیلی ہوچکی ہے اور اب لن لینے کے لیے مکمل تیار ہے تو سر نے لن کو‬
‫پھدی کے سوراخ پر سیٹ کر کے ہلکا سا دباو ڈاال جس سے ہلکی سی ٹوپی اندر چلی‬
‫گئی۔ سر نے لن دوبارہ نکال کر ایک بار پھر آہستہ سے دباو ڈاال اور اپنی ٹوپی پھدی‬
‫میں داخل کر دی۔ سر دوبارہ سے اپنا لن باہر نکالنے لگے اور لن کو ہاتھ سے پکڑ کر‬
‫باہر کرنے ہی لگے تھے کہ میں نے اپنے چوتڑوں کو ہوا میں ایک جھٹکے سے اٹھایا‬
‫جس سے میری پھدی سر کے لن کی طرف اٹھی اور سر کا آدھے سے زیادہ لن میری‬
‫پھدی میں داخل ہوگیا۔‬

‫یہ دیکھ کر سر بولے تمہاری پھدی تو مکمل تیار ہے لن کے لیے میں بالوجہ ہی ٹائم‬
‫ضائع کر رہا ہوں۔ یہ کہ کر سر نے ایک زور دار جھٹکا مارا اور ‪ 8‬انچ کا لوڑا میری‬
‫پھدی میں کہیں غائب ہوگیا۔ میرے منہ سے ایک زور دار چیخ نکلی "اوئی میں مر گئی۔‬
‫امی جی۔۔۔۔۔" میری آواز سن کر سر ہنسے اور بولے ابھی تو امی یاد آئی ہے ابھی تمہیں‬
‫نانی بھی یاد آئے گی۔ یہ کہ کر سر نے اپنی مشین چالنا شروع کر دی۔ میں نے بھی‬
‫چیخوں سے کمرہ سر پر اٹھا لیا۔ اوئی۔۔۔ آہ آہ‪ ،‬اور زور سے۔۔۔ اندر تک چودو‪ ،‬آہ ‪ ،‬آہ‪،‬‬
‫مزہ آگیا تمہارے لن کا۔۔۔۔ زور سے چودو مجھے۔ پھاڑ دو میری پھدی آج۔۔۔۔ کمرہ ان‬
‫آوازوں سے گونج رہا تھا۔ اور میری ہر آواز کے ساتھ سر کے دھکے تیز سے تیز اور‬
‫شدید سے شدید تر ہوتے جا رہے تھے۔‬

‫سر دھکے لگانے کے ساتھ ساتھ میری ران پر اپنی زبان بھی پھیر رہے تھے۔ جو ٹانگ‬
‫انہوں نے اپنے کندھے پر رکھی تھی اس پر اپنا سر جھکا کرتھائی پر اپنی زبان پھیر‬
‫رہے تھے جس سے میری ٹانگ میں گد گدی محسوس ہورہی تھی اور ساتھ ہی سر کا‬
‫لن میری پھدی کی گہرائیوں میں اتر کر ہر جھٹکے کے ساتھ مجھے چیخیں مارنے پر‬
‫مجبور کر رہا تھا۔ جب سر اپنا لن اندر داخل کرتے تو انکے ٹٹے پھدی کے نچلے حصے‬
‫سے ٹکراتے اور جب باہر نکالتے تو سر کے لن کی ٹوپی میری پھدی کے سوراخ تک‬
‫باہر آجاتی۔ قریب قریب پورا لن باہر نکال کر سر کا اگال دھکا دوبارہ سے لگتا تو میری‬
‫پھدی کو چیرتا ہوا بچہ دانی کو ٹچ کرتا۔ ہر دھکے کے ساتھ میرے ممے بھی اچھل رہے‬
‫تھے۔‬

‫سر نے ‪ 5‬منٹ تک مسلسل اپنی مشین نان سٹاپ چالئے رکھی اور پھر مجھے محسوس‬
‫ہوا کہ میری چوت پانی چھوڑنے والی ہے۔ میں نے سر کو کہا کہ مجھے اور سپیڈ کے‬
‫ساتھ چودیں اور سر نے اپنی سپیڈ اور بڑھا دی۔ اچانک ہی مجھے اپنے جسم میں‬
‫سوئیاں چبھتی محسوس ہوئیں اور میرے جسم کو جھٹکے لگنے لگے۔ میری پھدی نے‬
‫پانی چھوڑ دیا تھا۔ مگر اسکے ساتھ ہی سر نے بھی ‪ 2‬زبردست ضربیں لگانے کے بعد‬
‫اپنے جسم کو جھٹکے دیے اور اپنا سارا پانی میری پھدی میں چھوڑ دیا۔ کچھ دیر میری‬
‫پھدی میں لن نے جھٹکے کھائے اور اسکے بعد سر نے اپنا لن پھدی سے نکال کر‬
‫گہری سانسیں لینا شروع کر دیں اور صوفے پر نڈھال ہوکر بیٹھ گئے۔‬

‫سر نے پھدی سے لن نکاال تو کچھ پانی میری پھدی سے باہر نکال اور میری پینٹی کو‬
‫گیال کر دیا۔ میں نے بھی کچھ دیر لیٹے لیٹے ہی گہری سانسیں لیں اور پھر اپنی اٹھ کر‬
‫سر کی گود میں بیٹھ گئی اور انکو دوبارہ کسنگ کرنے لگی۔ میرا برا ابھی تک سر کے‬
‫گلے میں تھا۔ سر کو کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد میں انکی گود سے اٹھی اور انکو‬
‫برا سے پکڑ کر کھینچتے ہوئے واپس انکے ٹیبل تک لے آئی۔ سر کو ٹیبل تک النے‬
‫کے بعد میں خود ٹیبل پر چڑھ گئی اور ٹیبل پر ہی گھوڑی بن کر سر کو اپنی گانڈ چاٹنے‬
‫کا کہا۔ سر نے بال تردد میرے چوتڑوں پر پہلے تو زور زور سے تھپڑ مار کر انکو الل‬
‫کر دیا اور اسکے بعد میری پینٹی کو چوتڑوں کی الئن سے نکال کر سائیڈ پر کیا اور‬
‫اپنی زبان گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر اسے چاٹنے لگے۔ گانڈ چاٹنے کے ساتھ ساتھ سر‬
‫میرے چوتڑوں پر بھی وقفے وقفے سے تھپڑ مارتے اور پھر ایک ہاتھ آگے بڑھا کر‬
‫میرے نیچے لٹکے ہوئے مموں کو پکڑ کر زور سے دبا دیتے۔ میں ٹیبل پر ہی گھوڑی‬
‫بنی ہوئی تھی اور اپنا سر ٹیبل پر رکھا ہوا تھا اور گانڈ فل اوپر اٹھائی ہوئی تھی تاکہ سر‬
‫با آسانی کھڑے ہوکر میری گانڈ کو چوس سکیں۔‬

‫سر اپنی زبان کی نوک میری گانڈ کے سوراخ پر زور زور سے پھیر رہے تھے جس‬
‫سے مجھے بہت سرور مل رہا تھا اور اوپر سے چوتڑوں پر سر کے تھپڑ میری سیکس‬
‫کی طلب کو اور بڑھا رہے تھے۔ کچھ دیر گانڈ چٹوانے کے بعد میں ٹیبل پر الٹی ہوکر‬
‫لیٹ گئی اور اپنا چہرہ سر کے لن کی طرف کر دیا۔ سر کا لن اب آدھا کھڑا تھا‪ ،‬میں نے‬
‫اسکو منہ میں لیکر چند سیکنڈز میں ہی مکمل کھڑا کروا دیا۔ اور اس بار میں نے خوب‬
‫مزے سے سر کے لن کا چوپا لگایا۔‬

‫سر کو بھی اب کی بار چوپا لگوانے میں مزہ آرہا تھا۔ میں ایک ہاتھ سے سر کے ٹٹے‬
‫مسل رہی تھی اور دوسرے ہاتھ سے سر کا لن پکڑ کر منہ میں ڈاال ہوا تھا۔ سر بھی بار‬
‫بار کم آن بے بی‪ ،‬سک اِٹ‪ ،‬سک اِٹ بے بی‪ ،‬اور زور سے چوسو فائزہ ڈارلنگ خوب‬
‫زور کا چوپا لگاو ۔۔۔ اور ایسے ہی کچھ بے ہنگم سے الفاظ بول رہے تھے۔ ‪ 5‬منٹ تک‬
‫میں نے سر کے لن کا خوب جم کے چوپا لگایا۔ اب سر کا لن ایک بار پھر ناگ بنا ہوا‬
‫تھا اور میرے بِل میں جانے کے لیے بے تاب ہوئے جا رہا تھا۔‬

‫سر نے اپنا لن میرے منہ سے نکاال اور مجھے ٹیبل سے اترنے کو کہا تاکہ وہ میری‬
‫چودائی کر سکیں۔ مگر میں ٹیبل سے اترنے کی بجائے ٹانگیں نیچے لٹکا کر ٹیبل پر ہی‬
‫بیٹھی رہی اور اپنی پھدی بالکل ٹیبل کے کنارے پر کر دی اور اپنے ہاتھ پیچھے لیجا کر‬
‫ٹیبل کا سہارا لے لیا اور سر کو کہا مجھے اسی پوزیشن میں چودیں۔ ٹیبل پر بیٹھ کر‬
‫چودائی کرواتے ہوئے میں نے بہت سی لڑکیوں کو دیکھا تھا بلیو فلموں میں۔ آج میں‬
‫بھی انہی پورن سٹارز کی طرح ٹیبل پر بیٹھ کر چودائی کروانا چاہتی تھی۔ سر نے اپنے‬
‫لوڑے پر ہلکا سا تھوک مال اور اسکا ٹوپا میری پھدی پر رکھ کر ایک ہی جھٹکے میں‬
‫سارے کا سارا لوڑا میری چوت میں اتار دیا۔‬

‫ایک زور دار سسکاری کے ساتھ میں نے سر کے لوڑے کو اپنی پھدی ِمں خوش آمدید‬
‫کہا اور سر کی مشین ایک بار پھر سے چالو ہوگئی۔ اس پوزیشن میں سر کا لن مکمل‬
‫طور پر میرے اندر تو نہیں جارہا تھا مگر پھر بھی ایسی چدائی کا اپنا ہی ایک مزہ تھا۔‬
‫شاید سر کا ٹوپا میری پھدی میں موجود جی سپاٹ کو ٹچ کر رہا تھا اس لیے مجھے اس‬
‫پوزیشن میں چودائی کا بہت مزہ آرہا تھا اور میں مسلسل چیخیں مار مار کر سر کو مزید‬
‫زور کا چودا لگانے کا کہ رہی تھی ۔ سر نے گھسے مارنے کے ساتھ ساتھ مجھے گردن‬
‫سے پکڑ کر اپنے قریب کیا اور میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔ نیچے سے پھدی‬
‫کی چودائی اور اوپر سے ہونٹوں کا چوسنا‪ ،‬واہ۔۔۔۔۔ کیا خوب مزہ تھا اس چودائی کا‬

‫اس پوزیشن میں کچھ ہی دیر چودائی کے بعد میری چوت نے سر کے جاندار لوڑے کے‬
‫آگے ہتھیار ڈال دیے اور اپنا سارا پانی نکال کر سر کے لوڑے کو نہال دیا۔ پھدی سے‬
‫پانی نکلنے کے بعد سر نے اپنا لن باہر نکاال اور پاس پڑے ٹشو سے میری پھدی کو‬
‫صاف کیا۔ پھر مجھے ٹیبل سے نیچے اتار کر ٹیبل کی طرف منہ کرنے کو اور جھکنے‬
‫کو کہا۔ میں نے ٹیبل کی طرف منہ کیا اور اپنے ہاتھوں کا سہارا لیکر ٹیبل کے اوپر‬
‫جھک گئی۔ سر نے میرے چوتڑوں کو پکڑ کر زور سے دبایا اور پھر پیچھے کی طرف‬
‫چوتڑ نکالنے کو کہا۔ میں نے اپنی گانڈ تھوڑا اور باہر نکالی تو سر نے اپنا لن میری‬
‫پھدی پر فٹ کیا اور ایک ہی جھٹکے میں اندر ڈال کر بغیر رکے اپنی مشین چالو کر دی۔‬
‫اس بر سر کی مشین پانچویں گئیر میں چل رہی تھی۔ اور اس مشین کی بریکیں بھی فیل‬
‫ہو چکی تھیں۔ میں نے ہائی ہیل ابھی تک پہن رکھی تھی جسکی وجہ سے میری گانڈ‬
‫خاصی اونچی تھی اور سر کا لن با آسانی میری پھدی میں کھدائی کر رہا تھا۔ سر کے ہر‬
‫جھٹکے کے ساتھ میرے گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑ انکے پیٹ کے سات لگتے تو‬
‫کمرے میں دھپ دھپ کی آوازیں آتیں۔ اب میں نے اپنا چہرہ ٹیبل کے اوپر ہی رکھ دیا‬
‫تھا۔ اب میری پوزیشن یہ تھی کہ میرا سینہ اور چہرہ ٹیبل کے ساتھ ٹچ ہورہا تھا اور‬
‫میری گانڈ میرے چہرے سے ہائیٹ میں اونچی تھی۔ اور پیچھے سے سر کا لن مسلسل‬
‫مزے دے رہا تھا۔ سر میرے چوتڑوں سے پکڑ کر خوب جم کر میری چودائی کر رہے‬
‫تھے۔‬

‫ایک بار پھر میری چوت نے سر کے لن کو اپنے چکنے پانی سے نہال دیا۔ مگر سر کا‬
‫لن ہار ماننے کو تیار نہیں تھا۔ اب کی بار میں نے سر کو کہا کے وہ خود ٹیبل پر لیٹ‬
‫جائیں۔ سر فورا ہی ٹیبل پر چڑھے اور لیٹ گئے۔ میں بھی ٹیبل پر کھڑی ہوگئی اور اپنی‬
‫ہیل اتار دی۔ ٹیبل پر کھڑے ہوکر میں نے اپنی پینٹی بھی اتار دی اور ایک بار اپنی پھدی‬
‫سر کے چہرے کے اوپر رکھ دی۔ سر نے فورا ہی میری پھدی کو گیال ہونے کے باوجود‬
‫چاٹنا شروع کر دیا۔ پھر میں نے سر کے منہ سے اپنی پھدی کو اٹھایا اور اپنی‬
‫ڈائریکشن چینج کر کے دوبارہ اپنی پھدی سر کے منہ کے اوپر رکھی اور خود سر کے‬
‫لن کے اوپر جھک کر انکا ‪ 8‬انچ کا لوڑا چاٹنے لگی۔ ہم دونوں سر کے آفس میں انکے‬
‫ٹیبل پر ‪ 69‬پوزیشن میں تھے۔ سر بہت ہی تیزی کے ساتھ اپنی زبان میری پھدی پر چال‬
‫رہے تھے اور میں انکے لن کا چوپا لگانے میں مصروف تھی۔ کچھ دیر انکے لن کا‬
‫چوپا لگانے کے بعد میں اٹھی اور اپنی پھدی کو سر کے لن کی ٹوپی پر فٹ کر دیا۔ اور‬
‫ایک ہی جھٹکے میں انکے لن پر بیٹھ گئی۔ سر کا لن اپنی جڑ کے آخری حصے تک‬
‫میری پھدی کے اندر تھا۔ میں نے اپنے ہاتھ سر کے سینے پر رکھے اور گھٹنوں کے بل‬
‫بیٹھ کر اپنی گانڈ اوپر اٹھائی اور خود ہی سر کے لن پر اچھلنا شروع کر دیا۔‬

‫تھوڑی دیر اچھلنے کے بعد میں تھک گئی تو نیچے سے سر نے دھکے لگانا شروع کر‬
‫دیے۔ انکا لن میری پھدی کی دیواروں کو چیرتا ہوا اندر جاتا تو پورے جسم میں مزے‬
‫کی لہر دوڑ جاتی۔ میں سر کے اوپر جھک گئی تو سر نے اپنا سر اوپر اٹھا کر میرا ایک‬
‫مما اپنے منہ میں لیکر اسکا نپل اپنے دانتوں میں دبا لیا اور نیچے سے چدائی بھی‬
‫جاری رکھی۔ مجھے اب دہرا مزہ آرہا تھا۔ ایک تو میرے سخت نپل پر سر کے دانتوں کی‬
‫مضبوط گرفت تھی اور نیچے سے سر کا ہتھیار میری نازک چوت پر زور دار ضربیں‬
‫لگا رہا تھا۔ مزے کی شدت جب تمام حدیں پار کر گئیں تو میں نے سر کو بتایا کہ میں‬
‫چھٹنے والی ہوں‪ ،‬سر نے اپنی چودائی کی سپیڈ مزید بڑھا دی اور کچھ مزید گھسوں‬
‫کے بعد اور کا لن اور میری چوت اکٹھے ہی پانی چھوڑ گئے۔ میری چوت میں تو جیسے‬
‫سیالب آگیا تھا۔ سر نے پانی چھوڑنے کے بعد کافی جھٹکے لیے اور پھر پر سکون‬
‫ہوگئے میں بھی سر کے اوپر ہی لیٹ گئی۔‬

‫ہم دونوں کو فارغ ہوئے ‪ 3‬منٹ گزر چکے تھے مگر سر کا لن ابھی تک میری پھدی‬
‫میں تھا اور میں انکے سینے پر سر رکھ کر انکے اوپر ہی لیٹی تھی۔ پھر کچھ دیر میں‬
‫نے ایسے ہی لیٹے لیٹے سر کے ہونٹون پر کسنگ کی اور اسکے بعد ٹیبل سے نیچے‬
‫اتر آئی۔ نیچے اتر کر میں نے سر کے گلے سے اپنا برا نکاال اور اپنے مموں پر‬
‫چڑھانے لگی۔ تو سر نے کہا ٹھہرہ تمہاری برا کی ہک میں خود بند کروں گا۔ می نے‬
‫ایسے ہی سر کی طرف کر دی برا کی ہک۔ سر سامنے سے آئے مجھے اپنے سینے‬
‫سے لگا لیا اور ہاتھ پیچھے لیجا کر میری کمر پر برا کی ہک بند کر دی۔ اسکے بعد سر‬
‫نے مجھے کچھ دیر دوبارہ کسنگ کی اور کہا جان آج تم نے عرصے بعد میرے لن کی‬
‫پیاس بجھائی ہے۔ اگلی دفعہ مجھے جب دوبارہ خدمت کاموقع دو گی تو میں تمہیں اور‬
‫بھی زیادہ مزہ اور سکون دوں گا۔ میں نے بھی سر کو پیار کیا اور کہا آج آپکے آفس‬
‫میں چودائی کروا کے بہت مزہ آیا۔ اگلی بار چدائی آپکے گھر میں ہی ہوگی۔ ۔‬

‫یہ کہ کر میں نے اپنی پینٹی پہن لی اور پھر جینز اور کرتی بھی پہن لی۔ اور ساتھ‬
‫موجود واش روم میں جا کر اپنے بال سیٹ کیے۔ پھر میں باہر آئی تو سر بھی کپڑے پہن‬
‫چکے تھے۔ میں نے اپنی چادر لی اور سر سے اجازت چاہی۔ سر نے ایک بار پھر‬
‫مجھے ایک زور کی جپھی ڈالی اور اپنے ہاتھ سے میرے چوتڑوں کو دباتے ہوئے‬
‫بولے دوبارہ موقع ضرور دینا۔ ایسی چدائی کروں گا کہ ساری زندگی یاد رکھو گی۔ میں‬
‫نے سر سے دوبارہ ملنے کا وعدہ کیا اور کالج سے نکل گئی۔‬

‫باہر نکل کر رکشہ لیا اور ساتھ ہی موجود مارکیٹ میں جا کر عمران بھائی کو فون کیا۔‬
‫پہلی ہی کال پر عمران بھائی نے فون اٹینڈ کیا اور بولے کہاں رہ گئی فائزہ بے بی‪2 ،‬‬
‫گھنٹے ہوگئے تمہیں گئے ہوئے میں کب سے فارغ بیٹھا ہوں۔ میں نے انہیں بتایا کہ میں‬
‫کینٹ مارکیٹ ہوں آپ ادھر ہی آجاو میں آپکا انتظار کر رہی ہوں۔‬

‫عمران نے کہا وہ بس ‪ 10‬منٹ میں پہنچ رہے ہیں۔ اس دوران میں ایک دکان میں‬
‫جیولری دیکھنے چلی گئی۔ کچھ دیر بالوجہ جیولری دیکھتی رہی اور پھر دکان سے باہر‬
‫نکل کر دوسری دکان کی طرف جانے ہی والی تھی کے مجھے پیچھے سے کسی نے‬
‫آواز دی۔ فائزہ میڈیم کیسی ہیں آپ؟؟ یہ آواز سن کر میں نے پیچھے دیکھا تو میرے‬
‫پیچھے ایک پولیس کا آدمی کھڑا تھا۔ یہ وہی شخص تھا جس سے میں پہلے تھانے میں‬
‫ملی تھی جو بہت سمارٹ اور خوبصورت تھا مگر بعد میں اسکے سینئیر نے آکر میری‬
‫خوب چودائی کی تھی۔‬

‫اسکو اچانک یوں دوبارہ دیکھ کر میں گھبرا گئی کہ کہیں کسی مصیبت میں ہی نہ پھنس‬
‫جاوں۔ میری خاموشی کو دیکھ کر اسنے دوبارہ کہا لگتا ہے فائزہ جی آپ نے مجھے‬
‫پہچانا نہیں۔ آپ تھانے آئیں تھیں نا اس ماسٹر کے بیٹے کو چھڑوانے۔ ہمارے ایس ایچ‬
‫زیر لب مسکرایا اور خاموش ہوگیا۔ اسکی یہ بات‬
‫او صاحب نے آپکی۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ کہ کر وہ ِ‬
‫سن کر مجھے تھوڑی شرمندگی بھی ہوئی۔ مگر یہاں پبلک پلیس پر میں اسکے ساتھ‬
‫کوئی جھگڑا نہیں چاہتی تھی۔ میں نے بھی اپنے اوپر قابو پاتے ہوئے اسے کہا میں‬
‫ٹھیک ہوں آپ کیسے ہیں۔ اس پر وہ بوال میں بھی ٹھیک ہوں۔ بس انتظار میں ہوں کہ‬
‫آپ کبھی ہمیں بھی خدمت کا موقع دیں۔ مایوس نہیں کروں گا میں آپکو۔ یہ کہتے ہوئے‬
‫وہ بڑی ہی خباثت کے ساتھ میرے کسے ہوئے مموں کو دیکھ رہا تھا۔‬

‫مجھے کچھ سمجھ نہیں آئی کہ اسکی اس بات کا کیا جواب دوں۔ پھر وہ خود ہی بوال آپ‬
‫اپنا نمبر مجھے دے دیں کبھی کبھار آپ سے گپ شپ ہی لگا لیا کریں گے۔ اب نمبر دینا‬
‫بھی حماقت ہوتی‪ ،‬تو میں نے فوری طور پر کہا آپ اپنا نمبر مجھے دے دو کبھی‬
‫ضرورت پڑی تو میں آپکو ضرور بتاوں گی۔ یہ کہتے ہوئے میں نے بھی مجبورا اسکی‬
‫طرف ایک شیطانی مسکراہٹ پھینکی۔ جس سے وہ سمجھ گیا کہ میں کونسی ضرورت‬
‫کی بات کر رہی ہوں۔ پھر اس نے مجھے اپنا نمبر لکھوایا اور چال گیا۔ ابھی میں اسکو‬
‫جاتے ہوئے دیکھ ہی رہی تھی کہ عمران بھی آگئے اور میں انکے ساتھ گاڑی میں بیٹھ‬
‫گئی۔ اور شکر ادا کیا کہ عمران کے آنے سے پہلے یہ مصیبت چلی گئی۔‬

‫گاڑی وہاں سے نکالنے کے بعد عمران نے پوچھا کیسی رہی پارٹی تو میں نے عمران‬
‫کو بتایا کہ بہت زبردست تھی۔ بہت مزہ آیا۔ ہم فرینڈز نے خوب انجوائے کیا اور ہال گال‬
‫کیا۔ عمران بھائی نے پوچھا اب کیا پروگرام ہے؟ گھر چلنا ہے یا کچھ پھرنا ہے؟؟ میں‬
‫نے کہا گھر ہی چلتے ہیں۔ مجھے بھوک بھی بہت زور کی لگی تھی مگر میں نے‬
‫عمران بھائی کو نا بتایا۔ بتاتی تو وہ پوچھتے کہ پارٹی میں کھانے کو کچھ نہیں مال؟؟؟‬
‫مگر عمران بھائی نے خود ہی ایک دکان کے سامنے گاڑی روک دی اور بولے یہاں‬
‫سے آئسکریم کھا لیتے ہیں پھر چلتے ہیں۔‬

‫عمران اور میں آئسکریم پارلر میں داخل ہوئے تو وہاں موجود ایک کیبن میں جا کر بیٹھ‬
‫گئے۔ کیبن بہت ہی تنگ تھا جس میں اگر آمنے سامنے بیٹھا جائے تو بیٹھنے والوں کی‬
‫ٹانگیں ایک دوسرے کی ٹانگوں میں گھس جائیں اور اگر ساتھ ساتھ ایک ہی جگہ پر‬
‫بیٹھیں تو جڑ کر بیٹھنا پڑے۔ خیر ہم دونوں آہمنے سامنے بیٹھ گئے اور ہمارے درمیان‬
‫ایک چھوٹا سا ٹیبل پڑا تھا جسکے نیچے سے عمران کی ٹانگیں میری ٹانگوں کو با‬
‫آسانی چھو رہی تھیں۔ ہمارے بیٹھتے ہی ایک لڑکا آیا اور بوال سر آرڈر کر دیں۔ عمران‬
‫نے ‪ 2‬آئسکریم کا آرڈر کیا تو وہ لڑکا ‪ 2‬منٹ میں ہی آئسکریم لے آیا اور اسکے بعد‬
‫کیبن پر لگا پردہ گرا دیا۔‬

‫کیبن کا پردہ گرتے ہی عمران تھوڑا اور آگے ہوکر بیٹھ گئے اور اب انکی ایک ٹانگ‬
‫میری دونوں ٹانگوں کے درمیان آگئی اور انکا گھٹنا میری چوت کے بالکل قریب تھا۔‬
‫انہوں نے مجھے بھی آگے ہوکر بیٹھنے کو کہا۔ میں آگے ہوئی تو عمران کا گھٹنا سیدھا‬
‫میری چوت سے چھو گیا اور میرا گھٹنا عمران کے لن کو چھونے لگا جو پہلے سے ہی‬
‫کھڑا تھا۔ عمران نے اپنا چہرہ آگے کیا اور میرے ہونٹوں کو چوسنا شروع کر دیا۔ میں‬
‫نے عمران کو منع کرنے کی کوشش کی اور کہا عمران بھائی یہ کیا کر رہے ہیں آپ‬
‫کوئی آجائے گا۔ تو وہ بولو ارے پاگل کوئی نہیں آتا یہاں ‪ ،‬ایسی جگہوں پر ایسے کام‬
‫ہوتے رہتے ہیں۔ لڑکے اپنی گرل فرینڈز کو ایسی جگہوں پر ال کر ہی ان سے فلرٹ‬
‫کرتے ہیں۔ یہ کہ کر عمران نے دوبارہ سے میرے لبوں کو چوسنا شروع کر دیا اور‬
‫ایک ہاتھ سے میرے مموں کو پکڑ کر دبانے لگے۔ میں نے بھی تھوڑا سا ساتھ دیا مگر‬
‫پھر کہا کہ عمران بھائی یہ جگہ محفوظ نہیں کسی اور جگہ چلتے ہیں۔ چاہیں تو گاڑی‬
‫میں ہی کر لیں مگر اس جگہ سے چلیں۔‬

‫اس بات پر عمران نے کہا چلو ٹھیک ہے پھر اپنی آئسکریم ختم کرو۔ میں نے اور‬
‫عمران نے فوری اپنی آئسکریم ختم کی اور وہاں سے چل دیے۔ اب عمران کی گاڑی کا‬
‫رخ شہر سے باہر کی طرف تھا۔ ہمارا رخ بہاولپور روڈ کی طرف تھا۔ شہر سے باہر نکل‬
‫کر عمران نے گاڑی آہستہ کر لی اور بغور آس پاس کے ایریا کا جائزہ لینے لگے۔ پھر‬
‫عمران نے ایک مکمل سنسان جگہ دیکھ کر گاڑی سڑک سے نیچے اتاری اور کچے کی‬
‫طرف روڈ سے کافی دور لے گئے۔‬

‫یہاں ایک پرانا ٹیوبویل لگا ہوا تھا جسکی حالت دیکھ کر لگتا تھا کہ یہاں عرصے سے‬
‫کوئی نہیں آیا ہوگا۔ پاس ہی ایک خستہ حالت دیوار تھی عمران نے اسکے پیچھے جا کر‬
‫اپنی گاڑی روکی اور گاڑی روکتے ہی اپنا رخ میری طرف کر کے کسنگ کرنے لگے۔‬
‫میں نے عمران کو کہا پچھلی سیٹ پر چلتے ہیں تو عمران فورا ہی گاڑی سے اترے اور‬
‫پچھلی سیٹ پر چلے گئے میں بھی انکے ساتھ ہی پچھلی سیٹ پر پہنچ گئی اور سیٹ پر‬
‫پہنچتے ہی میں نے اپنی کرتی ایک دفع پھر اتار دی۔‬

‫عمران نے مجھے اس حالت میں دیکھا تو انہوں نے سیدھا میرے مموں پر حملہ کیا‬
‫انہوں نے آن کی آن میں میرا پش اپ برا اتار پھینکا اور میرے مموں کو منہ میں لیکر‬
‫چوسنے لگے۔ میں نے بھی ایک ہاتھ انکی شلوار پر رکھ دیا اور لن شلوار کے اوپر‬
‫سے ہی مسلنے لگی۔ کچھ دیر میرے ممے چوسنے کے بعد عمران نے اپنی شلوار اتار‬
‫دی اور اپنا ‪ 8‬انچ کا لوڑا میرے سامنے کر دیا جسکو میں نے کل رات ہی اپنے چوپوں‬
‫سے سکون دلوایا تھا۔ میں کار کی پچھلی سیٹ پر جھک گئی اور عمران کے لوڑے کا‬
‫چوپا لگانے لگی۔ تھوڑی دیر کے چوپوں کے بعد عمران نے میرے منہ میں لن آگے‬
‫پیچھے کرنا شروع کر دیا تو میں نے انکا لن منہ سے نکاال۔ اور اپنی جینز اتار دی۔‬
‫عمران نے میری پینٹی دیکھی تو بہت خوش ہوئے اور بولے یہ تو وہی پینٹی ہے جو‬
‫میں نے تمہیں الہور لے کر دی تھی۔ میں نے کہا ہاں جی یہ وہی ہے۔‬
‫جب امی نے مجھے کہا تھا کہ تم عمران بھائی کے ساتھ جاو میں نے تبھی سوچ لیا تھا‬
‫کہ آج آپ کا لن اپنی چوت میں داخل کروں گی جب سے الہور سے واپس آئی ہوں آپکے‬
‫لن کے لیے چوت مچل رہی ہے۔ اس لیے میں نے یہ پینٹی پہن لی کے دوست کے گھر‬
‫سے واپسی پر اگر موقع مال تو آپکے ساتھ تھوڑا مزہ کر لونگی۔ میری بات ختم ہوتے‬
‫ہی عمران نے مجھے کار کی سیٹ پر لٹایا اور میری ٹانگیں کھول کر میری چوت چاٹنے‬
‫لگ گئے۔ عمران کو جب سے میں نے گانڈ دلوانے کا وعدہ کیا تھا وہ بغیر کہے میری‬
‫چوت چاٹنے لگ جاتے تھے۔ مجھے بھی اور کیا چاہیے تھا میں بھی مزے سے اپنی‬
‫چوت میں عمران کی زبان کے مزے لینے لگی۔‬

‫میری چوت چاٹتے ہوئے عمران نے کہا تمہاری پینٹی سے تو پہلے ہی بہت سمیل آرہی‬
‫ہے تمہاری چوت کے پانی کی۔ اصل میں جب سراسلم نے میری چوت کا پانی نکاال تھا‬
‫تو اس سے میری پینٹی گیلی ہوگئی تھی جسکی وجہ سے وہ سمیل ابھی موجود تھی۔‬
‫میں نے فوری بہانہ بنا لیا کہ کل رات جو آپ نے میری چوت چاٹ کر مجھے مزہ دیا اس‬
‫کی وجہ سے آج سارا دن میری چوت گیلی ہی رہی ہے۔ خاص طور پر جب آئسکریم پارلر‬
‫گئے ہیں تو میری چوت نے بہت پانی چھوڑا ہے۔ اسی کی وجہ سے ہے یہ۔ اس پر‬
‫عمران مسکرائے اور بولو یعنی تم تڑپ رہی ہو میرے لن کے لیے۔ میں نے بھی ہاں‬
‫میں سر ہالیا۔ اب عمران کو کیا پتا تھا کہ میں تو ابھی آدھا گھنٹہ پہلے ہی سر اسلم کے‬
‫لن کی سواری کر آئی ہوں۔‬

‫خیر کچھ دیر میری چوت چاٹنے کے بعد عمران نے میری ٹانگ اٹھا کر اپنے کندھے پر‬
‫رکھی اور دوسری ٹانگ سائیڈ پر کر کے اپنے لیے جگہ بنائی اور اپنا لن میری چوت پر‬
‫فِٹ کر کے ایک زور دار دھکا مارا جس سے انکا آدھے سے زیادا لوڑا میری چوت کو‬
‫چیرتا ہوا اندر داخل ہوگیا۔ پھر ایک اور جھٹکا لگا اور عمران کا پورا لوڑا جڑ تک میری‬
‫پھدی کی گہرائیوں میں غائب ہوگیا۔ گاڑی میں یہ میری پہلی چدائی تھی اور وہ بھی اس‬
‫طرح کھلی فضا میں ‪ ،‬مجھے ڈر بھی لگ رہا تھا کہ کہیں کوئی آ نہ جائے مگر مزہ بھی‬
‫بہت آرہا تھا۔‬

‫گاڑی میں عمران کے لیے جگہ تھوڑی کم تھی وہ کھل کر دھکے نہیں لگا پا رہے تھے‬
‫مگر پھر بھی مجھے پہلی چدائیوں سے زیادہ مزہ آرہا تھا آج اور اسکی وجہ یہی تھی‬
‫کہ یہ چودائی ایک ایڈوینچر کی سی تھی۔ عمران اس پوزیشن میں ‪ 5‬منٹ تک مجھے‬
‫چودتے رہے مگر میری چوت نے ہار نہیں مانی۔ اسکی وجہ یہ تھی کہ کچھ دیر پہلے‬
‫سر اسلم اس چوت کا ‪ 3‬بار پانی نکلوا چکے تھے۔ پھر عمران نے پوزیشن چینج کرنے‬
‫کو کہا اور وہ گاڑی کی سیٹ پر بیٹھ گئے۔ میں انکی گود میں آکر بیٹھ گئی اور اپنی‬
‫پھدی انکے لن پر رکھ دی جس پر انہوں نے نیچے سے دھکا مارا اور پورا لوڑا میرے‬
‫اندر داخل کر دیا اور لن پھدی کا کھیل پھر سےشروع ہوگیا۔ ‪ 5‬منٹ کی مزید چودائی کے‬
‫بعد عمران اور میں ایک ساتھ فارغ ہوگئے۔ ہمارے نکلنے والے پانی سے گاڑی کی‬
‫سیٹ بھی خراب ہوئی مگر گاڑی میں پڑے ڈ سٹر سے ہم نے سیٹ صاف کی اور گھر کو‬
‫چل دیے‬

‫گھنٹے کے ٹائم میں پہلے میں نے سر اسلم سے انکے آفس جا کر چدائی کروائی اور ‪3‬‬
‫انہوں نے دو بار چودا مجھے اور اسکے بعد گاڑی میں اپنے بہنوئی عمران کی چودائی‬
‫نے مجھے بہت مزہ دیا۔ ایک ہی دن میں دو مختلف مردوں سے چدوانا بہت مزے کا‬
‫تجربہ تھا۔ شام کے ‪ 6‬بجے ہم گھر پہنچے تو امی نے پوچھا اتنی دیر کہاں لگادی؟ جس‬
‫پر عمران نے خود ہی جواب دیا کہ کالج کے بعد مجھے کچھ شاپنگ کرنی تھی تو ہم‬
‫ادھر چلے گئے اسکے بعد اپنی پیاری سی سالی کو آئسکریم کھالئی اور اب آپکے‬
‫سامنے ہیں۔‬

‫گھر پہنچنے کے بعد میں روٹین کے کاموں میں مصروف ہوگئی۔ کھانا بنایا اور رات کو‬
‫سب نے مل کر کھانا کھایا۔ اسکے بعد عمران اور صائمہ اکٹھے لیٹ گئے جبکہ میں بھی‬
‫اپنی چارپائی پر لیٹ گئی۔ آج رات میں کسی ایڈوینچر کا چانس نہیں تھا کیونکہ کچھ دیر‬
‫پہلے عمران نے اپنے لن سے مجھے اپنی گاڑی میں چودا تھا اور کل میں نے انکا چوپا‬
‫لگا کر انکی پیاس بجھائی تھی اس لیے آج انکی طرف سے کسی قسم کا رسک لینے کا‬
‫چانس نہیں تھا۔ میں کافی دیر اپنی چارپائی پر کروٹیں بدلتی رہی اور پھر موبائل نکال کر‬
‫کینڈی کرش گیم کھیلنے لگ گئی۔ گیم کھیلتے کھیلتے مجھے وہی پولیس واال یاد آیا جس‬
‫نے آج مجھے اپنا نمبر دیا تھا۔ اور جو میرے ساتھ سیکس کرنے کے لیے بےتاب ہوا‬
‫جا رہا تھا۔ میں نے اسکے بارے میں سوچنا شروع کیا اور پھر اچانک ہی میرے دماغ‬
‫میں ایک شیطانی آئیڈیا آیا سائرہ سے بدلہ لینے کا۔‬
‫کچھ ہی دیر بعد میں نیند کی وادیوں میں کھوگئی۔ اگلی صبح روٹین کے مطابق کام چل‬
‫رہا تھا کہ شام کو سمیرا کا فون آگیا۔ وہ کچھ ہی دیر میں ملتان پہنچنے والی تھی۔ اس‬
‫نے مجھے فون پر بتایا کہ وہ آج اپنے والدین کے ساتھ سائرہ کے گھر ہی رہے گی مگر‬
‫اگلے دن وہ میری طرف آجائے گی۔ میں نے اسکے ساتھ پروگرام طے کیا اور فون بند‬
‫کر دیا۔ اس دوران عمران کی میرے جسم کے ساتھ چھیڑ چھاڑ جاری رہی۔ کبھی کچن‬
‫میں تو کبھی کھانے کی ٹیبل پر۔ جہاں انہیں موقع ملتا وہ کبھی میرے مموں کو اور‬
‫کبھی میرے چوتڑوں کو ہاتھ میں پکڑ کر زور سے دبا دیتے۔‬

‫رات کو جب سب لوگ سوگئے تو عمران ایک بار پھر میرے سر پر سوار ہوگئے۔ انہوں‬
‫نے میری چارپائی پر لیٹ گئے اور میرے ہونٹوں کو چوسنے لگے۔ میں نے بھی اپنا‬
‫ساتھ سیدھا انکے لوڑے پر رکھ دیا جو پورے جوبن کے ساتھ کھڑا تھا ‪ ،‬میں نے‬
‫عمران کے لوڑے کی مٹھ مارنا شروع کی اور اپنے آپ کو چدائی کے لیے تیار کرنے‬
‫لگی۔ مگر کچھ ہی دیر بعد عمران نے اپنے ہونٹ میرے ہونٹوں سے ہٹا دیے اور بولے‬
‫کہ اب بہت ہوگئی فائزہ۔ اب یا تو مجھے کسی بچی کی گانڈ دلواو یا پھر اپنی گانڈ کی خیر‬
‫مناو میں نے ہر صورت الہور جانے سے پہلے ایک گانڈ کی چودائی کرنی ہے۔ یہ سن‬
‫کر میں نے عمران کو ایک بار پھر یقین دالیا کہ وہ فکر نہ کریں انکو جلد ہی گانڈ مل‬
‫جائے گی۔ میری یقین دہانی پر عمران نے ایک بار پھر میرے ہونٹوں کا رس چوسا اور‬
‫پھر واپس صائمہ کے پاس جا کر لیٹ گئے۔‬

‫عمران تو چلے گئے مگر میری چوت میں آگ لگا گئے تھے۔ کچھ دیر میں اپنی چوت‬
‫میں انگلی کرتی رہی اور اپنی انگلی سے ہی اپنا پانی نکاال۔ جب چوت کے پانی نے‬
‫گرمی بجھائی تو میں بھی سوگئی۔ اگلی دوپہر باہر گاڑی کا ہارن ہوا۔ میں کچن میں تھی‬
‫عمران دروازہ کھولنے گئے۔ میں نے کھڑکی سے باہردیکھا تو عمران ‪ 2‬لڑکیوں کو اندر‬
‫آنے کا کہ رہے تھے۔ اور وہ دونوں بھی عمران کے پیچھے پیچھے اندر آتی گئیں۔ یہ‬
‫دونوں سمیرا اور سائرہ تھیں۔ انکو دیکھ کر میں باہر نکلی اور دونوں سے گلے ملی‪،‬‬
‫پیچھے عمران کھڑے تھے اور مجھ سے اشاروں میں پوچھنے لگے کہ کون ہیں یہ‬
‫دونوں؟ مگر میں نے انہیں کوئی جواب نہ دیا اور دونوں کو لیکر اپنے کمرے میں چلے‬
‫گئی۔ انکو بٹھا کر میں کمرے سے نکلی اور انکے لیے کچھ چائے پانی کا بندوبست‬
‫کرنے کچن میں چلی گئی۔‬

‫میرے کچن میں آتے ہی عمران بھی پیچھے ہی آگئے اور بولے ان دونوں میں سے کس‬
‫کی گانڈ دلوا رہی ہو مجھے؟؟ میں نے یہ سن کر عمران کی طرف دیکھا تو وہ ہنس‬
‫رہے تھے میں نے بھی ہلکی سی مسکراہٹ دی جس پر وہ بولے اب بتا بھی دو کونسی‬
‫گانڈ ملنے والی ہے مجھے؟ یا پھر دونوں کی گانڈ ہی میرے لن کا شکار ہونے والی‬
‫ہے؟؟؟ یہ سن کر میں نے قہقہ لگایا اور بولی توبہ ہے عمران بھائی کیسے گانڈ چودنے‬
‫کے لیے بے تاب ہورہے ہیں۔ صبر کر جائیں وقت آنے پر پتا چل جائے گا آپکو۔ پھر‬
‫عمران بولے کہ مجھے بھی ملواو ان دونوں سے۔ میں نے کہا آپ نے اندر جانا ہے تو‬
‫اندر جا کر بیٹھ جائیں وہ دونوں پردہ نہیں کرتیں۔ اور کافی کھلے ذہن کی مالک ہیں۔ اس‬
‫پر عمران بولے کہ نہیں پہلے تم چلی جاو پھر میں آجاوں گا اندر۔‬

‫کچھ ہی دیر میں انکے لیےچائے تیار ہوگئی تو میں چائے لیکر اندر کمرے میں چلی‬
‫گئی۔ اور انکے سامنے چائے اور ساتھ ہلکا پھلکا کھانے کے لیے چیزیں رکھ دیں۔ ‪5‬‬
‫منٹ بعد عمران بھی اندر کمرے میں بہانے سے آگئے تو میں نے دونوں سے تعارف‬
‫کروایا عمران کا اور عمران کو بھی ان دونوں کے بارے میں بتایا۔ عمران کچھ دیر‬
‫کمرے میں رکے سائرہ اور سمیرا سے رسمی گفتگو کی اور پھر باہر چلے گئے۔ کچھ‬
‫دیر بعد امی اور صائمہ بھی میرے کمرے میں آگئیں اور سائرہ اور سمیرا سے ملیں۔‬
‫شام تک ہم سب نے خوب گپ شپ لگائی بیچ میں ‪ 3 ،2‬بار عمران بھی اپنی آنکھوں کو‬
‫ٹھنڈک پہنچانے کسی نہ کسی بہانے سے اندر آتے رہے۔ شام کے ٹائم سائرہ نے اپنے‬
‫ڈرائیور کو فون کیا تو کچھ ہی دیر میں ڈرائیور آگیا اور سائرہ اسکے ساتھ اپنے گھر‬
‫چلی گئی جبکہ سمیرا میری طرف ہی رک گئی۔‬

‫میں نے سمیرا کو کمرے میں ہی چھوڑا ساتھ صائمہ آپی کو بٹھایا اور خود فیاض کے‬
‫کمرے میں چلی گئی اور وہاں سمیرا کے رہنے کا بندوبست کرنے لگی‪ ،‬فیاض کا ضرور‬
‫سامان کمرے سے باہر نکال کر ابو کے کمرے میں رکھ دیا اور کمرے کی صفائی کرنے‬
‫لگی تاکہ سمیرا نے جتنے دن بھی رکنا ہے وہ اس کمرے میں آرام سے ٹھہر سکے۔‬

‫رات ہونے پر ابوبھی آگئے سمیرا ان سے بھی ملی‪ ،‬ابو نے اسکے سر پر پیار دیا اور‬
‫بولے کو وہ اس گھر کو اپنا ہی گھر سمجھے اور جتنے دن رکنا چاہے رک سکتی ہے۔‬
‫کھانا کھانے کے بعد میں سمیرا کو لیکر فیاض کے کمرے میں چلی گئی اورفیاض منہ‬
‫بسورتا ہوا ابو کے کمرے میں چال گیا۔ سمیرا اور میں نے خوب گپ شپ لگائی۔ جب سب‬
‫سوگئے تو میرے اندر کا شیطان جاگنے لگا۔ میری نظریں اب سمیرا کے مموں پر تھیں۔‬
‫اسکے ‪ 36‬سائز کے ممے چودائی کے دوران ہلتے ہوئے بڑے خوبصورت لگتے تھے۔‬
‫میں نے دروازے کی کنڈی لگائی اور اسکے مموں پر حملہ کر دیا‪ ،‬وہ بھی شاید یہی‬
‫چاہتی تھی اس نے بھی جوابی حملہ کیا اور اپنا ہاتھ سیدھا میری شلوار میں داخل کر‬
‫کے میری چوت کو سہالنے لگی اور ہم نے کوئی ‪ 30‬منٹ سے زیادہ لیسبو سیکس کیا۔‬
‫ہم دونوں نے ایکدوسرے کو ننگا کر کے باری باری ایکدوسرے کی چوت زبان سے‬
‫چاٹ کر پانی نکلوایا اور پھر اپنی اپنی پھدی کو آپس میں رگڑ رگڑ کر بھی فارغ کروایا۔‬

‫اس دوران سمیرا کو لن کی طلب بھی محسوس ہوئی اور اسنے مجھ سے کہا کہ کسی‬
‫طرح رضوان سے ملنے کا پالن بناو اس نے بہت اچھی چدائی کی تھی میری۔ میں نے‬
‫اسکو کہا کہ رضوان سے چدائی کروانی ہے تو اسکو اپنی گانڈ بھی دینی پڑے گی۔‬
‫آخری مرتبہ ہم دونوں نے جب رضوان سے چدائی کروائی تھی تو رضوان نے میری گانڈ‬
‫کا مزہ لیا تھا اور سمیرا سے بھی گانڈ مانگی تھی مگر اس نے انکار کر دیا تھا۔ سمیرا‬
‫کے جسم کی گرمی نے اسکو یہ کہنے پر مجبور کر دیا کہ کوئی بات نہیں اگر تم اپنی‬
‫گانڈ میں رضوان کا لن لے سکتی ہو تو میں بھی لے لوں گی۔ مگر اس چوت کی گرمی‬
‫تو رضوان کا لن ہی مٹا سکتا ہے۔ میں نے اسکو کہا کہ ایک دو دن میں کوئی پروگرام‬
‫بناتے ہیں رضوان سے ملنے کا‪ ،‬مگر حقیقت میں رضوان کی بجائے میں سمیرا کو‬
‫عمران سے چدوانا چاہتی تھی۔ کیونکہ عمران بھائی کو ایک گانڈ دلوانے کا وعدہ کیا ہوا‬
‫تھا اور سمیرا کی گانڈ سے اچھی اور ٹائٹ گانڈ اور بھال کس کی مل سکتی تھی۔‬

‫اور اب تو سمیرا گانڈ مروانے ک لیے تیار بھی تھی۔ مگر اسے نہیں معلوم تھا کہ میں‬
‫اسکو اپنے منگیتر کے لن کی بجائے اپنے بہنوئی کے لن کے نیچے لے جانا چاہ رہی‬
‫ہوں۔ مگر مسئلہ یہ تھا کہ سمیرا نہیں جانتی تھی کہ میں اپنے بہنوئی سے بھی چدائی‬
‫کرواتی ہوں۔ اسکو تو صرف یہ پتا تھا کہ میں اپنے منگیتر سے ہی سیکس کرتی ہوں۔‬
‫اور میں سمیرا کو یہ بات بتانا بھی نہیں چاہتی تھی کہ میرا کنوارہ پن میرے بہنوئی کے‬
‫لن نے ہی ختم کیا تھا۔ جانے یہ سن کو وہ میرے بارے میں کیا سوچتی۔ اس لیے میں‬
‫کچھ اچھا سا پالن بنانا چاہتی تھی کہ جس سے سمیرا کے لن کی طلب بھی پوری‬
‫ہوجائے‪ ،‬عمران کو ایک تازہ اور کنواری گانڈ بھی مل جائے اور سمیرا کو یہ پتا بھی نہ‬
‫چلے کہ میرے اپنے بہنوئی کے ساتھ پہلے سے ہی جسمانی تعلقات ہیں۔‬

‫یہ ایک مشکل صورتحال تھی۔ اگرچہ عمران بھائی کے لن سے سمیرا کی چدائی کروانا‬
‫کوئی مسئلہ نہیں تھا کیونکہ عمران بھائی تو پہلے سے ہی گانڈ کے لیے مرے جا رہے‬
‫تھے اور انکا خیال بھی یہی تھا کہ میں سمیرا کی گانڈ کا ہی بندوبست کر رہی ہوں انکے‬
‫لن کو سکون پہنچانے کے لیے اور دوسری طرف سمیرا کو بھی ایک لن چاہیے تھا‬
‫جس سے وہ اپنی چوت کی پیاس بجھا سکے۔ فرق صرف اتنا تھا کہ اسکے وہم و گمان‬
‫میں بھی نہیں تھا کہ وہ عمران بھائی کے لن پر بھی سواری کا مزہ لے سکتی ہے‪،‬‬
‫اسکے زہن میں بس رضوان کا لن تھا جس نے ‪ 3‬جاندار راونڈز میں سمیرا کی چدائی‬
‫کی تھی۔ مگر اصل مسئلہ اس بات کا چھپانا تھا کہ عمران بھائی اپنی سالی کو‪ ،‬یعنی کے‬
‫مجھے ‪ ،‬کافی بار چود چکے ہیں۔ یہی سوچتے سوچتے اگال سارا دن گزر گیا مگر میری‬
‫سمجھ میں کچھ نہیں آیا۔‬

‫شام کا وقت ہو چکا تھا اور عمران بھائی کافی مرتبہ مجھ سے پوچھ چکے تھے کہ کیا‬
‫سمیرا ہی وہ لڑکی ہے؟ وہ چاہتے تھے کہ میں انکو واضح بتا دوں اگر سمیرا ہی وہ‬
‫لڑکی ہے جسکی گانڈ انکو ملنے والی ہے تو وہ خود سے ہی سمیرا کو راضی کر لیں‬
‫گے چدائی کے لیے مگر میں انکو ہر بار ٹالتی رہی اور انکو کوئی بھی واضح جواب‬
‫نہیں دیا۔ دوسری طرف سمیرا بھی رضوان کے بارے میں پوچھ چکی تھی۔ لیکن میں‬
‫مسلسل اسی بارے میں سوچ رہی تھی کہ ہم دونوں ملکر عمران کے لن کی سواری‬
‫کیسے کر سکتی ہیں کہ سانپ بھی مرجائے اور الٹھی بھی نہ ٹوٹے۔‬

‫شام ہونے پر عمران نے ایک بار پھر مجھے کچن میں پکڑ لیا اور بولے کہ اب اتنا مت‬
‫ترساو یا تو سمیرا کی گانڈ دلواو مجھے یا پھر اپنی گانڈ مروانے کے لیے تیار ہوجاو‬
‫مجھ سے اب مزید انتظار نہیں ہوتا۔ یہ بات سن کر میں عمران بھائی کے ساتھ صحن‬
‫میں چلی گئی اور وہاں موجود کرسی پر بیٹھنے کو بوال اور خود بھی کرسی پر بیٹھ‬
‫گئی۔ یہاں پہنچ کر میں نے انکو ساری بات بتا دی کہ سمیرا ہی وہ لڑکی ہے جسکی گانڈ‬
‫آپکو ملنے والی ہے۔ وہ اپنی چوت میں لن لینے کی خاطر گانڈ مروانے کے لیے مکمل‬
‫آمادہ ہے۔ لیکن اصل مسئلہ یہی ہے کہ اسے نہیں معلوم کہ میں پہلے سے ہی آپکے لن‬
‫سے چدائی کروا چکی ہوں اور میں چاہتی ہوں کہ اسکو یہ بات پتہ بھی نہ لگے۔‬

‫اس پر عمران بولے بس اتنی سی بات ہے۔۔۔ سمجھو تمہارا مسئلہ حل ہوگیا۔ سمیرا کو‬
‫اس بارے میں بالکل پتا نہیں لگے گا کہ تم مجھ سے چدائی کروا چکی ہو اور ساتھ ہی‬
‫ساتھ میں اسکو چودنے کا موقع بھی خود ہی بنا لوں گا۔ یہ کہ کر عمران اندر چلے گئے‬
‫اور مجھے بھی اندر آنے کے لیے کہا۔ ہم دونوں فیاض کے کمرے میں جا کر بیٹھ گئے‬
‫جہاں سمیرا پہلے سے ہی موجود تھی۔ سمیرا کو اسطرح عمران کا اندر آنا شاید ناگوار‬
‫گزرا کیونکہ یہ کمرہ ایک طرح سے اب سمیرا کا کمرہ تھا اور اس میں بغیر اجازت‬
‫کسی مرد کا اندر جانا ٹھیک نہیں تھا مگر وہ خاموش رہی البتہ اسکے چہرے پر ہلکی‬
‫سی ناگواری کے آثار میں نے محسوس کر لیے تھے۔‬

‫اندر چل کر عمران بالوجہ ادھر ادھر کی باتیں کرنے لگے۔ عمران مجھ سے باتیں کر‬
‫رہے تھے مگر بیچ میں بار بار سمیرا کو بھی مخاطب کرتے۔ وہ اصل میں سمیرا کے‬
‫ساتھ تھوڑا فری ہونا چاہ رہےتھے اور باتوں ہی باتوں میں وہ کافی حد تک فری ہو بھی‬
‫گئے تھے۔ عمران قریب ایک گھنٹہ سمیرا کے کمرے میں بیٹھے رہے اور ہم تینوں‬
‫باتیں کرتے رہے۔ کچھ طنز و مزاح اور کچھ شعر و شاعری بھی ہماری باتوں کا حصہ‬
‫رہی۔ اس دوران میں نے محسوس کیا کہ عمران کی نظریں بار بار سمیرا کے ‪ 36‬سائز‬
‫کے گول مموں پر مرکوز رہیں۔ وہ بار بار سمیرا کے سینے کے ابھاروں سے اپنے آپ‬
‫کو لطف اندوز کر رہے تھے۔ شاید سمیرا نے بھی یہ بات محسوس کی ہوگی۔ جب عمران‬
‫کمرے سے نکل گئے تو سمیرا نے مجھے فوری طور پر کہا کہ تمہارا بہنوئی تو بہت‬
‫ہی ٹھرکی انسان ہے۔ میں نے سمیرا سے حیران ہوتے ہوئے پوچھا کیوں ایسا کیا ہوگیا؟‬
‫تو وہ بولی انکی نظریں بار بار میرے مموں کے ارد گرد ہی گھوم رہی تھیں۔ جیسے‬
‫ابھی انکو کھا جانا چاہتے ہوں۔ اس بات پر میں نے ہنستے ہوئے کہا تو اچھی بات ہے‬
‫نا تمہیں بھی تو ایک لن چاہیے پھنسا لو عمران بھائی کو۔‬

‫میری یہ بات سن کر سمیرا نے زور کا قہقہ لگایا اور بولی نہیں وہ تمہارے بہنوئی ہیں‬
‫البتہ تمہارے منگیتر سے چدائی تو ضرور کرواوں گی۔ میں بھی کچھ دیر سمیرا کے‬
‫ساتھ ہی بیٹھ رہی۔ پھر اٹھ کر گھر کے کام کاج کرنے لگی۔‬

‫یہ دن بھی اسی طرح گزر گیا اور رات دوبارہ سے سمیرا اور میں نے ایکدوسرے کے‬
‫جسم کی گرمی حاصل کی اور اپنی اپنی چوت کا پانی نکاال‬

‫اگلے دن عمران نے مجھے بتایا کہ آج شام تیاررہو آج موقع مل سکتا ہے چدائی کا۔ میں‬
‫نے پوچھا وہ کیسے تو انہوں نے ٹال دیا اور کہا بس میں دیکھتا ہوں امید ہے آج موقع‬
‫مل جائے گا۔ اور ہوا بھی ایسے‪ ،‬دوپہر کو امی نے بتایا کہ انہیں انکی ایک قریبی دوست‬
‫نے کھانے پر بالیا ہے اور وہ صائمہ اور عامر سے بھی ملنا چاہتی ہیں۔ امی نے مجھ‬
‫سے بھی پوچھا کہ تم بھی چلو ساتھ۔ مگر میں نے امی کو بتایا کہ سمیرا آئی ہوئی ہے‬
‫تو اسکو یوں اکیال چھوڑ کر جانا ٹھیک نہیں ہوگا آپ لوگ چلی جائیں میں اور سمیرا‬
‫گھر پر ہی رکیں گی۔‬

‫امی نے بھی کہاں ہاں ٹھیک ہے ویسے بھی سمیرا کو ادھر لیجانا مناسب نہ ہوگا‬
‫کیونکہ انہوں نے صائمہ کو بالیا ہے اور ہم ساتھ میں تمہاری دوست کو بھی بن بالئی‬
‫مہمان بنا دیں تو یہ مناسب نہیں۔ پھر امی نے عمران بھائی کو کہا ک تم بھی ساتھ چلو‬
‫تو عمران تو پہلے سے ہی بہانہ بنائے بیٹھے تھے اور انہوں نے فورا کہ دیا کہ میری‬
‫طبیعت بھی ٹھیک نہیں اور میں وہاں جا کر کیا کروں بور ہی ہونا ہے تو آپ لوگ چلے‬
‫جائیں میں گھر پر ہی رکوں گا طبیعت ٹھیک ہوئی تو کسی دوست کی طرف نکل جاوں گا۔‬
‫امی نے کہا چلو صائمہ اور مجھے انکے گھر تو چھوڑ آو گے؟؟ اس پر عمران نے کہا‬
‫میں فیاض کو گاڑی کی چابی دیتا ہوں وہ آپکو لے بھی جائے گا اور واپس بھی لیتا آئے‬
‫گا۔ فیاض یہ سن کر چہک اٹھا اس نے نئی نئی گاڑی چالنا سیکھی تھی اور اسکو شوق‬
‫بھی تھا وہ فورا تیار ہوگیا۔ ساتھ ہی اس نے چپکے سے عمران بھائی سے پوچھا کہ‬
‫امی کو انکی دوست کے گھر چھوڑنے کے بعد اگر میں کسی دوست کی طرف چال جاوں‬
‫تو آپکو اعتراض تو نہیں ہوگا۔ عمران کو بھال کیا اعتراض ہو سکتا تحا وہ بھی فورا بول‬
‫اٹھے جب تک تمہیں تمہاری امی کا فون نا آجائے کہ ہمیں واپس لے آو تم باہر گھومو‬
‫پھرو دوستوں کے ساتھ اور پھر امی کو لیکر ہی گھر آنا۔‬

‫ابو تو پہلے سے ہی آفس تھے اور شام کے بعد ہی آتے تھے سو گھر میں اب صرف‬
‫میں ‪ ،‬سمیرا اور عمران بھائی ہی موجود تھے۔ عمران کو اصل میں کل ہی پتا لگ گیا تھا‬
‫کہ امی کی دعوت ہوگی کیونکہ انہوں نے امی کو فون پر بات کرتے سنا تھا۔ اور عمران‬
‫اسی موقع کے انتظار میں تھے۔‬

‫جب سب لوگ چلے گئے تو سمیرا اور میں اپنے کمرے میں جا کر بیٹھ گئے یعنی کے‬
‫فیاض کے کمرے میں۔ اسی وقت باہر سے عمران بھائی نے مجھے آواز دی کہ میں‬
‫کسی کام سے باہر جانے لگا ہوں کچھ منگوانا ہے تو بتا دو۔ میں اٹھ کر باہر گئی تو‬
‫عمران نے میرا ہاتھ پکڑ کر مجھے دوسرے کمرے میں کھینچ لیا اور بولے کہ میں‬
‫ابھی واش روم جا رہا ہوں تم کسی بھی بہانے سے سمیرا کو اسی واش روم بھیج دو۔‬
‫میں انکی یہ بات سن کر حیران ہوئی اور بولی کہ کیا آپ اسکے ساتھ زبردستی کرنا‬
‫چاہتے ہیں ؟؟؟ تو عمران بولے میں کسی کے ساتھ زبردستی نہیں کرتا بس جتنا تمہیں‬
‫کہا ہے تم اتنا کرو اور پہلے اندر جا کر بتانا کہ عمران چال گیا ہے پھر کسی بہانے سے‬
‫سمیرا کو واش روم بھیجنا۔‬

‫عمران کی یہ بات سن کر میں اندر کمرے میں آگئی اور باتوں میں مصروف ہوگئی۔‬
‫سمیرا نے کہا کہ کچھ منگوا ہی لیتی اپنے بہنوئی سے کھانے کے لیے تو میں نے کہا‬
‫کہ ہاں میں نے انہیں کہا ہے آتے ہوئے آئسکریم لیتے آئیں۔ یہ سن کر سمیرا نے کہا یہ‬
‫ٹھیک ہے اسکا دل کسی ٹھنڈی چیز کو کر رہا ہے۔ پھر کچھ دیر ہم ادھر ادھر کی باتیں‬
‫کرنے لگے اور پھر اچانک میں نے سمیرا کو کہا کہ رضوان نے مجھے ایک بہت‬
‫خوبصورت نائٹی خرید کر دی ہے تم دیکھو گی؟؟ یہ سن کر سمیرا مسکرائی اور بولی‬
‫اچھا تو بات نائٹی تک بھی پہنچ چکی ہے۔ پھر بولی کہ چلو دکھاو تو۔‬

‫یہ بات کرنے سے پہلے میں نے موبائل پر ایک گیم لگا لی تھی تاکہ بہانے سے اسے‬
‫بھیج سکوں ۔ میں نے سمیرا کو کہا میں گیم کھیل رہی ہوں تم میرے کمرے میں واش‬
‫روم میں جاو وہاں دروازے کے پیچھے میرے کپڑے لٹک رہے ہیں انکے نیچے نائٹی‬
‫ہے وہ لے آو۔ میری بات سن کر سمیرا فورا اٹھی اور میرے کمرے میں چلی گئی۔‬

‫میں گیم چھوڑ کر انتظار کرنے لگی کہ اب کیا ہوگا ک اچانک ہی مجھے سمیرا کی چیخ‬
‫سنائی دی اور اسکے بعد مکمل خاموشی ہوگئی۔ پہلے تو میں اٹھ کر دیکھنے لگی کہ‬
‫آخر ہوا کیا مگر پھر اپنا ارادہ ترک کر دیا۔ پھر اچانک سمیرا کے قدموں کی آواز آئی وہ‬
‫بھاگی بھاگی واپس کمرے میں آئی اور سیدھی آکر میری گلے لگ گئی۔ وہ بری طرح‬
‫ہانپ رہی تھی ۔ میں اسے دیکھ کر پریشان ہوگئی کہ آخر اسکو کیا ہوا ہے؟؟؟ میں نے‬
‫اسکو کہا کہ بتاو تو وہاں کیا دیکھ لیا جو تمہاری چیخ نکل گئی؟؟ مگر سمیرا کچھ بھی‬
‫نہیں بول پا رہی تھی اور لمبے لمبے سانس لے رہی تھی اسکا چہرہ سرخ تھا اور‬
‫آنکھوں میں آنسو تھے۔ ‪ 3 ، 2‬منٹ وہ ایسے ہی میرے گلے سے لگی رہی۔ اسکا جسم‬
‫کانپ رہا تھا۔ پھر کچھ دیر بعد جب وہ سنبھلی تو اسنے مجھ سے پانی مانگا۔ میں نے‬
‫پاس پڑے فریج میں سے ٹھنڈا پانی نکال کر اسکو پالیا وہ بوتل کو ہی منہ لگا کر‬
‫غٹاغٹ آدھی بوتل خالی کر گئی۔ اور پھر تیز تیز سانس لینے لگی۔‬

‫میں نے دوبارہ اس سے پوچھا کہ آخر بتاو تو ہوا کیا؟ پھر وہ تھوڑی پرسکون ہوئی‬
‫اور آہستہ آواز میں بولی کہ عمران بھائی واش روم میں تھے جب میں اندر داخل ہوئی‬
‫تو۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اتنا کہ کر سمیرا خاموش ہوگئی۔ میں نے پریشان ہوکر پوچھا تو کیا ہوا؟‬
‫کیا انہوں نے تمہارے ساتھ کوئی بدتمیزی کی؟؟؟ میری بات سن کر سمیرا نے انکار میں‬
‫سر کو دائیں اور بائیں جانب گھمایا۔ تو میں نے پوچھا تو پھر تم نے چیخ کیوں ماری؟؟؟‬

‫سمیرا کچھ دیر خاموش رہی پھر باہر کی طرف دیکھتے ہوئے بولی تم نے تو کہا تھا کہ‬
‫وہ چلے گئے ہیں باہر۔ مگر وہ اندر کیوں تھے؟؟؟ میں نے کہا ہاں تو مجھے تو انہوں‬
‫نے یہی کہا تھا کہ میں جا رہا ہوں اب مجھے کیا معلوم کہ وہ کب اندر چلے گئے۔ میں‬
‫نے پھر سے پوچھا آخر بتاو تو سہی تم ڈری ہوئی کیوں ہو اور چیخ کیوں ماری؟؟‬

‫تو سمیرا کچھ دیر خاموش رہنے کے بعد آہستہ آہستہ بولی‪ ،‬وہ میں جب۔ ۔ ۔ ۔ اندر‬
‫کمرے۔۔ ۔ ۔ میں گئی تو ۔ ۔ ۔ واش روم کا دروازہ۔ ۔ ۔ ۔ آدھا کھال تھا ۔ ۔ ۔ میں نے بغیر‬
‫دیکھے ۔ ۔ ۔ ۔ دروازہ پورا کھوال تو اندر۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اندر۔ ۔ ۔ ۔ اندر عمران بھائی تھے۔۔۔۔۔۔‬

‫میں نے چال کر پوچھا تو عمران بھائی تھے تو اسمیں چیخنے والی کونسی بات تھی؟؟‬
‫تو سمیرا نے غصے سے میری طرف دیکھا اور اپنے دانت پیستے ہوئی بولی وہ ننگے‬
‫کھڑے تھے اور۔۔۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے ایکٹینگ کرتے ہوئے اپنے منہ پر ہاتھ‬
‫رکھتے ہوئے کہا اوہ ۔۔۔۔۔۔ واقعی ننگے کھڑے تھے ؟؟؟؟ سمیرا نے کہا اور کیا میں‬
‫جھوٹ بول رہی ہوں؟؟‪ /‬میں نے پوچھا اچھا اور تم آگے کیا کہ رہی تھیں؟؟؟ تو وہ بولی‬
‫اور انہوں نے اپنا وہ ہاتھ میں پکڑا ہوا تھا اور اسکو آگے پیچھے کر رہے تھے۔۔۔‬

‫میں نے مزید حیرانگی کا مظاہرہ کرتے ہوئے کہا کیا واقعی؟؟؟ وہ بولی ہاں۔۔۔ انکا منہ‬
‫بھی میری طرف تھا اور جیسے ہی میری نظر ان پر پڑی تو میں تو ساکت ہوگئی اور‬
‫مجھے سمجھ نہیں آئی کہ میں کیا کروں۔ اور جب انہوں نے مجھے دیکھا تو وہ بھی‬
‫مٹھ مارنا بھول گئے اور انہوں نے اپنا ہاتھ لن سے ہٹا لیا اور جب میں نے انکا لن‬
‫دیکھا تو میری چیخ نکل گئی اور میں بھاگ آئی وہاں سے۔ یہ کہ کر وہ گہرے گہرے‬
‫سانس لینے لگی اور ایک بار پھر بوتل کو منہ لگا کر پانی پینے لگی۔ اور میں مصنوعی‬
‫ایکٹنگ کا مظاہرہ کرنے لگی۔ پھر میں نے آہستہ سے پوچھا کتنا لمبا لن ہے عمران‬
‫بھائی کا۔۔۔۔ میری بات سن کر سمیرا ہلکا سا مسکرائی اور آنکھ مارتے ہوئے بولی لن تو‬
‫بہت زبردست ہے تمہارے بہنوئی کا۔ تمہاری بہن کے تو مزے ہیں۔‬
‫میں نے پھر پوچھا بتاو نہ کتنا بڑا ہے؟؟ تو وہ بولی اب ایسے کیسے بتاوں میں؟؟ بس‬
‫رضوان کے لن سے زیادہ لمبا ہی لگ رہا تھا مجھے تو۔ میں نے پوچھا اور موٹا بھی‬
‫ہے؟؟؟ تو وہ بولی ہاں موٹا بھی ہے۔ میں نے ٹھنڈی آہ بھر کر کہا کاش میں تجھے‬
‫بھیجنے کی بجائے خود ہی چلی جاتی تو میں بھی عمران بھائی کا لن دیکھ لیتی۔ میری‬
‫بات سن کر سمیرا بولی پاگل ہو کیا؟؟ بہنوئی ہیں وہ تمہارے۔۔ میں نے کہا تو میں کونسا‬
‫ان کے لن کو منہ میں ڈالنے لگی ہوں‪ ،‬میں تو بس دیکھنے کی بات ہی کر رہی ہوں۔‬

‫میری بات سن کر سمیرا نے ہلکا سا قہقہ لگایا اور بولی ویسے انکا لن منہ میں لینا اتنا‬
‫آسان بھی نہیں ہوگا۔ بہت بڑا اور موٹا لن ہے انکا۔ پھر ہم دونوں رضوان اور عمران کے‬
‫لن کے بارے میں ہی باتیں کرتے رہے جس نے ہم دونوں کو گرم کر دیا۔ مجھے معلوم‬
‫تھا کہ عمران کا یہی پالن تھا کہ ایک بار وہ سمیرا کو اپنا لن دکھا دیں تو انکے لیے‬
‫سمیرا کی چودائی کرنا آسان ہوجائے گا۔ مگر عمران کو یہ بات معلوم نہیں تھی کہ‬
‫سمیرا اور میں آپس میں بھی لیسبو سیکس کرتی ہیں۔ میرے ذہن میں فورا یہ بات آئی‬
‫کہ عمران نے اپنا لن تو دکھا ہی دیا ہے سمیرا کو اب وہ فوری طور پر کوئی اگال وار‬
‫بھی کرنا چاہیں گے اور معافی مانگنے کے بہانے یا کسی بھی بہانے سے کمرے میں‬
‫ضرور آئیں گے۔ لہذا مجھے یہ موقع ضائع نہیں کرنا چاہیے۔‬

‫عمران اور رضوان کے لن کی لمبائی کا موازنہ کرتے ہوئے سمیرا اور میں ویسے ہی‬
‫گرم ہو چکی تھی تو میں نے فورا سمیرا کو جپھی ڈال لی اور اسکے ہونٹ چوسنے‬
‫لگی۔ اور اپنے ہاتھ اسکے چوتڑوں پر رکھ کر انکو دبانے لگی۔ سمیرا نے ابھی ابھی‬
‫موٹا لن دیکھا تھا جسکی وجہ سے اسکی چوت ویسے ہی آگ ہو رہی تھی وہ بھی فورا‬
‫ہی مجھ سے لپٹ گئی اور میری قمیص اتار کر میرے مموں پر پیار کرنے لگی۔ میں نے‬
‫بھی بغیر ٹائم ضائع کیے سمیرا کی قمیص اتار دی اور اسکے مموں کو برا کی قید سے‬
‫آزاد کر دیا۔ اس نے بھی میرا برا اتار دیا اور اب ہم دونوں بیڈ پر ایک دوسرے کے ساتھ‬
‫لیٹی تھیں اور کسنگ کر رہی تھیں۔ اس دوران سمیرا نے کہا کمرے کی کنڈی تو لگا‬
‫لیں؟؟ تو میں نے کہا چھوڑو اب عمران بھائی اندر نہیں آئیں گے وہ شرمندہ ہونگے تم‬
‫بس میرے ممے چوسو۔ یہ سن کر سمیرا نے میرے ممے چوسنا شروع کر دیے اور‬
‫میں نے اپنے ہاتھ اسکی شلوار میں داخل کر کے اسکے چوتڑ دبانا شروع کر دیے۔‬

‫تھوڑی ہی دیر کے بعد میں نے سمیرا کو نیچے لٹایا اور خود اسکے اوپر آکر اسکی‬
‫شلوار اتار دی۔ اب سمیرا مکمل ننگی تھی میرے سامنے اور اسکی چوت پانی سے‬
‫بھری پڑی تھی‪ ،‬میں نے بغیر انتظار کیے اپنی ‪ 2‬انگلیاں سمیرا کی چوت میں داخل کر‬
‫دیں۔ سمیرا کی چوت اندر سے تندور بنی ہوئی تھی۔ اندر آگ دہک رہی تھی اور میری‬
‫انگلیوں کے جاتے ہی یہ آگ اور بڑھ گئی اور سمیرا کی سسکیاں نکلنے لگیں۔ مجھے‬
‫معلوم تھا کہ عمران کسی بھی ٹائم اندر آسکتے ہیں۔ لہذا میں سمیرا کو مکمل طور پر‬
‫گرم کرنا چاہتی تھی۔ اور میری دونوں انگلیاں یہ کام بہت اچھے طریقے سے کر رہی‬
‫تھی۔ ابھی میں سوچ ہی رہی تھی کہ سمیرا کی چوت کو اپنی زبان سے چاٹنا شروع‬
‫کروں کہ کمرے کا دروازہ ہلکا سا ہال۔‬

‫مگر دروازے کی آواز نہیں آئی میں نے دیکھا تو سامنے ہلکی سی جگہ سے عمران‬
‫اندر دیکھنے کی کوشش کر رہے تھے پھر تھوڑا سا اور دروازہ کھال تو عمران کا چہرہ‬
‫نظر آیا مجھے۔ انکی نظر مجھے پر پڑی تو انکے چہرے پر کئی رنگ آئے اور گئے۔ وہ‬
‫ہکا بکا مجھے دیکھ رہے تھے جبکہ سمیرا کی آنکھیں بند تھیں اور وہ چوت میں‬
‫گھومنے والی انگلیوں کے مزے سے سرشار ہو کر سسکیاں لینے میں مصروف تھی۔‬
‫جب عمران کی نظر سمیرا کے ننگے جسم پر پڑی تو وہ اور بھی حیران ہوئے ۔ وہ شاید‬
‫واقعی میں معافی مانگنے کے بہانے سے آنا چاہتے تھے مگر اندر ماحول فل گرم تھا‬
‫اور انکے لیے بہترین موقع تھا ‪ 2‬گرم جوانیوں کی چدائی کرنے کا۔ عمران نے میری‬
‫طرف دیکھا تو میں نے انہیں آنکھ سے اشارہ کیا اندر آنے کا۔ وہ اندر آگئے تو میں نے‬
‫ایک دم سے چیخ ماری اور بولی عمران بھائی آپ؟؟؟؟ اور فوری سمیرا کی چوت سے‬
‫اپنی انگلیاں نکال لیں۔ میری آواز سن کر سمیرا کو بھی ہوش آیا تو وہ بھی ایک دم اٹھ‬
‫کر بیٹھ گئی اور عمران پر نظر پڑتے ہی میرے پیچھے چھپ گئی۔‬

‫میں چاہتی تو ساتھ پڑی چادر سے پنا جسم ڈھانپ سکتی تھی مگر میں نے ایسا نہیں کیا‬
‫بلکہ جھوٹ موٹ کی ایکٹنگ کرتے ہوئے اپنے مموں کو اپنے ہاتھوں سے چھپا لیا۔ اور‬
‫ہکالنے لگی اور عمران کو بتانے کی کوشش کرنے لگی کو وہ بس ۔ ۔ ۔ ہم دونوں۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬
‫۔ ایسے ہی ۔ ۔ ۔ ۔ وہ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔‬

‫عمران بھی سمجھ گئے تھے کہ یہ سب یری ایکٹنگ ہے انہوں نے بھی جانے کا نام‬
‫نہیں لیا اور بناوٹی غصے سے بولے یہ تم دونوں کیا کر رہی ہو؟؟؟ اس دوران سمیرا‬
‫مکمل طور پر میرے پیچھے چھپی ہوئی تھی اسکے ہاتھ میرے کندھوں پر تھے اور‬
‫اسنے اپنا چہرہ میری کمر کے ساتھ لگا کر اپنے آپ کو چھپایا ہوا تھا۔ اسکے وہم و‬
‫گمان میں بھی نہیں تھا کہ یہ سارا کھیل اسی لیے کھیال گیا ہے کہ وہ عمران کے لن کی‬
‫سواری کر سکے۔ جب عمران نے غصے سے پوچھا کہ یہ کیا ہورہا ہے تو میں نے‬
‫انکو دوبارہ سے ہکالتے ہوئے جواب دینے کی کوشش کی عمران بھائی ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ وہ اصل‬
‫میں ۔ ۔ ۔ ہم دونوں بس ایسے ہی۔ ۔ ۔ ۔ عمران پھر بولے کیا بس ایسے ہی؟؟؟ میں نے کہا‬
‫وہ سمیرا نے آپکو واش روم میں ننگا دیکھ لیا تھا ۔ ۔ ۔ ۔ تو وہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اس بار عمران‬
‫نے اپنی آواز کو دھیمی رکھتے ہوئے کہا تو کیا؟؟؟؟ میں نے کہا تو سمیرا نے آپکا وہ‬
‫بھی دیکھ لیا اور وہ مجھے بتارہی تھی کہ وہ بہت لمبا ہے۔ بس اس بات سے وہ گرم‬
‫ہوگئی اور میرے جسم پر پیار کرنے لگی اور کہنے لگی کہ میرے اندر اپنی انگلی ڈال‬
‫کر میری گرمی نکالو۔‬

‫یہ پوری بات میں ایک ہی سانس میں کر گئی۔ میری بات سن کر سمیرا نے مجھے چٹکی‬
‫کاٹی اور زور سے بولی فائزہ یہ کیا بکواس کر رہی ہو تم۔۔۔۔ ۔ ۔۔۔۔۔۔ مگر میں تو اپنی بات‬
‫کر چکی تھی۔ میری بات سن کر عمران بولے کہ ہاں وہ بس میں بھی واش روم میں‬
‫اپنی گرمی نکال رہا تھا۔ جب سے تمہاری دوست کو دیکھا ہے ہر وقت اسکے گول گول‬
‫ممے آنکھوں کے سامنے رہتے ہیں اس لیے واش روم میں اسکے مموں کا تصور کر‬
‫کے مٹھ مار رہا تھا۔ آئ ایم سوری۔ یہ کہ کر عمران اندر آگئے اور سمیرا نے بھی اپنا‬
‫چہرہ اوپر کر لیا۔ لیکن وہ ابھی بھی میرے پیچھے چھپی ہوئی تھی۔‬

‫عمران کی بات سن کر وہ فورا بولی دیکھا میں نے تمہیں کہا تھا نہ کہ تمہارا بہنوئی‬
‫ٹھرکی ہے اسکی نظریں میرے مموں پر تھیں۔ یہ کہ کر سمیرا غصے سے عمران کو‬
‫گھورنے لگی۔ عمران ہلکا سا مسکرائے اور پھر بولے بس میں کیا کروں آپ ہو ہی اتنی‬
‫خوبصورت اور اب تو آپکو بغیر لباس کے بھی دیکھ لیا اب میں کیا کروں۔ میرے ہاتھ‬
‫ابھی تک میرے مموں پر تھے ۔ اور عمران کا ہاتھ اب انکے لن تک پہنچ چکا تھا۔ میرا‬
‫دل زور زور سے دھڑک رہا تھا کہ پتا نہیں آگے کیا ہوگا۔ مجھے امید تو پوری تھی کہ‬
‫کام بن جائے گا مگر ڈر بھی لگ رہا تھا کہ اگر سمیرا نے شور مچا دیا تو عمران بھائی‬
‫کی مفت میں ہی بدنامی ہوجائے گی۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی سمیرا کی آواز‬
‫آئی آپ کچھ تو شرم کریں سامنے آپ کی سالی ننگی ہے اور آپ بے شرموں کی طرح‬
‫یہیں کھڑے ہو چلو جاو باہر۔۔۔ یہ بات سن کر عمران بولے لیکن مجھے دیکھ کر جس‬
‫طرح آپکی چو ت میں آگ لگی ہے اسی طرح آپ دونوں کو ننگا دیکھ کر میرے لن کو‬
‫بھی چین نہیں آرہا۔‬

‫سمیرا جو ابھی تک میرے پیچھے چھپی ہوئی تھی فورا میرے پیچھے سے نکل آئی اور‬
‫پھر سے بولی کچھ تو شرم کر لو۔ اپنی سالی کے ساتھ سیکس کرو گے کیا؟؟ یہ سن‬
‫کرمیں فورا بیڈ سے نیچے اتر گئی اور سمیرا کو دیکھ کر کہا میں تو باہر جارہی ہوں‪،‬‬
‫میں نے اپنے کپڑے اٹھائے اور باہر بھاگنے لگی مگر عمران نے مجھے بازو سے پکڑ‬
‫لیا اور واپس بیڈ کی طرف دھکا دیا۔ اور بولے کہ تم باہر نا جاو ادھر ہی رہو۔ میں وہیں‬
‫بیڈ پر بیٹھی رہی اور دیکھنے لگی اب عمران کیا کریں گے۔‬

‫سمیرا اب عمران بھائی کے سامنے مکمل ننگی کھڑی تھی نا تو اسنے اپنے ممے‬
‫چھپائے تھے اور نہ ہی اپنی چوت ۔ شاید وہ بھی عمران کا لن لینے کے لیے بے چین‬
‫ہو رہی تھی۔ عمران سمیرا کے قریب گئے اور بولے کہ فائزہ کی انگلیوں سے آپکی‬
‫پیاس نہیں بجھے گی یہ صرف میں بجھا سکتا ہوں اگر آپکی اجازت ہو تو۔ سمیرا یہ بات‬
‫سن کر تذبذب کا شکار ہوگئی اور میری طرف دیکھنے لگی۔ میں نے اسکو آنکھ ماری‬
‫اور اشارہ کیا کہ یہی اچھا موقع ہے۔ لیکن وہ ابھی تک یہی سوچ رہی تھی کہ میں‬
‫عمران کی سالی ہوں تو میری موجودگی میں یہ سب کیسے ہوسکتا ہے۔ اس بدھو کو‬
‫ابھی تک یہ سمجھ نہیں آئی تھی کہ یہ ہماری پالننگ تھی۔‬

‫سمیرا ایک دم پھر گھبرائے ہوئے لہجے میں بولی مگر فائزہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ یہ کہ کر وہ چپ‬
‫ہوگئی اس سے پہلے کہ عمران کچھ بولتے میں فورا بول اٹھی میں کسی کو نہیں بتاوں‬
‫گی اس بارے میں۔ سمیرا پھر سے بولی نہیں مگر فائزہ کے سامنے کیسے۔۔ اسکی بات‬
‫سن کر عمران بولے کہ فائزہ کو باہر نہیں جانے دینا ایسا نہ ہو کہ یہ باہر جا کر کسی‬
‫کو بتا نا دے۔ سمیرا نے فورا میری طرف دیکھا اور بولی مگر یہ کسی کو کیوں بتائے‬
‫گی؟‬

‫اسکی بات سن کر عمران بولے کہ ہوسکتا ہے باہر جا کر اسکو احساس ہو کہ اسکی‬


‫بہن کا شوہر اندر اسکی دوست کی چدائی کر رہا ہے اور یہ اسکی بہن کے ساتھ نا‬
‫انصافی ہے ۔ تو ہو سکتا ہے یہ کسی کو بتا دے اور ہم دونوں مارے جائیں۔‬

‫اب ایک بات تو واضح تھی کہ سمیرا مکمل طور پر عمران بھائی کا لن لینے کے لیے‬
‫تیار تھی مگر وہ چاہتی تھی کہ یہ سب کچھ میرے سامنے نا ہو بلکہ وہ اکیلے میں ہی‬
‫عمران کے لن کی سواری کرے۔ سمیرا میری طرف دیکھتے ہوئے بولی تو پھر اب کیا‬
‫کریں۔ اس سے پہلے کہ میں کچھ بولتی عمران بول پڑے کہ ہم تینوں ملکر سیکس کریں‬
‫گے۔ اسطرح فائزہ کسی کو نہیں بتا سکے گی۔ کیونکہ اگر وہ بتائے گی تو یہ بھی بتانا‬
‫پڑے گا کہ اسنے خود بھی میرے ساتھ سیکس کیا ہے۔ یہ سن کر میں نے مزید ایکٹنگ‬
‫کرتے ہوئے کہا نہیں عمران بھائی میں کسی کو نہیں بتاوں گی آپ پلیز مجھے باہر‬
‫جانے دو۔ میری بات سن کر سمیرا بولی نہیں نہیں تم باہر نہیں جاو گی۔ میں نے کہا پھر‬
‫مجھے یہیں بیٹھی رہنے دو مگر مجھے اس کام میں شامل نہ کرو آخر آپ میرے بہنوئی‬
‫ہو آپ کیسے میری چوت پھاڑ سکتے ہو۔‬

‫میری یہ بات سن کر سمیرا اپنی جگہ سے اٹھی اور بولی اچھا فی الحال تم یہیں بیٹھو‬
‫سوچتے ہیں تمہارا بھی یہ کہ کر وہ سیدھی عمران کے پاس گئی اور اپنا ہاتھ انکے لن‬
‫پر رکھ کر اپنے ہونٹ سیدھے عمران کے ہونٹوں پر رکھ دیے۔ ننگی لڑکی سامنے دیکھ‬
‫کر عمران کے تو ہوش ہی اڑ گئے انہوں نے اپنے دونوں ہاتھ سمیرا کے چوتڑوں پر‬
‫رکھے اور ایک دم سے اسے اپنی گود میں اٹھا لیا۔ گود میں اٹھا کر دونوں نے‬
‫ایکدوسرے کے ہونٹ چوسنا شروع کر دیے اور میں ایک سائیڈ پر بیٹھی اپنی باری کا‬
‫انتظار کرنے لگی۔ میں دونوں کو پورا موقع دینا چاہتی تھی۔ سمیرا گرم تو ہو ہی گئی‬
‫تھی اور عمران کی گود تک پہنچ گئی تھی اسکی چدائی تو اب پکی تھی۔ اسکی طرف‬
‫سے بغاوت کا اب کوئی خطرہ نہیں تھا اور ظاہری بات ہے میری چودائی بھی الزمی تھی‬
‫اس لیے مجھے کوئی جلدی نہیں تھی۔ میں چاہتی تھی کہ دونوں ایکدوسرے کا اچھی‬
‫طرح مزہ لیں۔ کچھ دیر کسنگ کرنے کے بعد عمران نے سمیرا کو گود سے اتارا اور بیڈ‬
‫پر لٹا دیا۔‬

‫سمیرا کو بیڈ پر لٹانے کے بعد عمران نے اپنا رخ میری طرف کیا ‪ ،‬میں صوفے پر‬
‫بیٹھی تھی میرے ممے ابھی تک ننگے تھے مگر شلوار پہن رکھی تھی۔ عمران نے‬
‫مجھے بھی اپنی گود میں اٹھایا اور سمیرا کے ساتھ بیڈ پر ال کر لٹا دیا۔ اور بولے آج تو‬
‫بہت مزہ آئے گا تم دونوں کی چوت مارنے کا۔ میں نے پھر ایکٹنگ کا مظاہرہ کرتے‬
‫ہوئے کہا عمران بھائی پلیز مجھے جانے دیں۔ عمران بولے نہیں میری جان آج میں بھی‬
‫تو دیکھوں کہ سالی کو چودنا کیسا مزہ دیتا ہے۔ یہ بات سنر کر سمیرا بولی اسکو ایک‬
‫بار اپنا لن دکھاو پھر یہ نہیں رک پائے گی خود مانگے گی آپکا لن۔ یہ کہ کر سمیرا خود‬
‫اٹھی اور عمران کی شلوار اتار دی۔ پھر قمیص اٹھا کر عمران کا بڑا سا لن پھٹی ہوئی‬
‫آنکھوں سے دیکھنے لگی پھر لن ہاتھ میں پکڑ کر اسکا رخ میری طرف کیا اور بولی‬
‫یہ لو اب خود ہی دیکھ لو کہ کتنا بڑا لن ہے تمہارے بہنوئی کا۔ یہ کہ کر سمیرا ہنسی اور‬
‫عمران کو بتانے لگی کہ جب میں نے واش روم میں آپکا لن دیکھا اور آکر فائزہ کو بتایا‬
‫تو یہ بار بار پوچھ رہی تھی کہ عمران بھائی کا لن کتنا بڑا ہے۔ اسکو بھی دکھاو اب اپنا‬
‫لن تاکہ اسکو پتا چل سکے کتنا بڑا لن ہے۔ یہ سن کر عمران ہنسے اور بولے ارے‬
‫میری جان اگر میرا لن ہی دیکھنا تھا تو خود مجھے کہ دیتی میں بھال اپنی اتنی پیاری‬
‫سی سالی کو انکار کیوں کرتا۔ یہ کہ کر انہوں نے اپنا لن میری سامنے کر دیا۔ عمران کا‬
‫لن اپنی آنکھوں کے سامنے لہراتا دیکھ کر میں نے دل میں سوچا بھاڑ میں گئی ساری‬
‫ایکٹنگ چل ٹوٹ پڑ اس جاندار لن پر۔‬

‫ساتھ ہی میں نے عمران کے لن پر ہاتھ پھیرا اور پھر اپنے ہونٹ عمران کے لن پر رکھ‬
‫دیے۔ عمران کے ٹوپے پر ہونٹ پھیرنے کے بعد میں نے اپنے ہاتھ سے عمران کے لن‬
‫کا مساج شروع کیا تو سمیرا اٹھ کر عمران کے پاس آئی اور انہیں کسنگ کرنے لگی‬
‫عمران نے اپنا ہاتھ سمیرا کی چوت پر پھیرنا شروع کر دیا اور میں عمران کے لن کے‬
‫چوپے لگانے لگی۔ کچھ دیر چوپے لگوانے کے بعد عمران بولے ارے مجھے تو معلوم‬
‫ہی نہیں تھا کہ میری چھوٹی سی سالی اتنے مزے کے چوپے لگاتی ہے۔ ایسے چوپے‬
‫تو کبھی تمہاری بڑی بہن نے بھی نہیں لگائے۔‬

‫عمران کی بات سن کر سمیرا بولی چلو اب میرے چوپے چیک کرو‪ ،‬یہ کہ کر اسنے‬
‫مجھے پیچھے کیا اور عمران کے لن پر جھک کر آدھا لن اپنے منہ میں داخل کر لیا اور‬
‫زور زور سے چوپے لگانے لگی۔ سمیرا کو چوپے لگاتا دیکھ کر میں نے عمران کو‬
‫آنکھ ماری اور اب کی بار عمران کے ہونٹ چوسنے کی باری میری تھی۔ عمران کا شاید‬
‫یہ پہال تجربہ تھا ایک ہی وقت میں ‪ 2‬جوان لڑکیوں کے جسم سے کھیلنے کا۔ جب کہ‬
‫میں اس سے پہلے بھی یہ حرکت کر چکی تھی۔‬

‫عمران بیڈ پر لیٹ چکے تو سمیرا عمران کی ٹانگوں کی طرف بیٹھ کر دوبارہ سے‬
‫عمران کے لوڑے کا چوپا لگانے میں مصروف ہوگئی جبکہ میں نے اپنے ممے عمران‬
‫کے حوالے کر دیے جنکو عمران بہت ہی پیار کے ساتھ چوسنے لگے ۔ عمران ممے‬
‫چوستے جاتے اور ساتھ ساتھ کہتے کہ واہ سالی کے مموں میں جو مزہ ہے وہ بیگم‬
‫کے مموں میں نہیں۔ عمران میرے نپل اپنے منہ میں لیکر زور زور سے چوس رہے‬
‫تھے جسکی وجہ سے میرے نپل بہت زیادہ سخت ہوچکے تھے اور ساتھ ہی ساتھ میری‬
‫پھدی بھی مسلسل پانی چھوڑ رہی تھی۔ میں نے عمران کے کان میں کہا کہ چوت چاٹنے‬
‫کا صلہ اچھا مل رہا ہے یا نہیں؟؟ تو عمران نے مجھ سے پھر آہستہ سی آواز میں‬
‫پوچھا کہ یہ گانڈ تو مروائے گی نا مجھ سے ؟؟؟ تو میں نے کہا یہ بھی گانڈ مروائے گی‬
‫اور آج میں آپکے لن کو اپنی گانڈ کی بھی سیر کرواوں گی جس پر عمران بہت خوش‬
‫ہوئے اور بولے لے آو پھر اپنی چوت اسکو کھاجاوں گا میں۔‬

‫میں اٹھی اور عمران کے چہرے کے اوپر گھٹنوں کے بل بیٹھ گئی۔ اور اپنی چوت بالکل‬
‫عمران کے منہ کے اوپر کر دی۔ جسکو عمران بہت ہی لگاو کے ساتھ چوسنے لگے۔‬
‫کچھ دیر عمران میری چوت چوستے رہے اور سمیرا عمران کے لن کے چوپے لگاتی‬
‫رہی پھر سمیرا بولی کہ اسکو بھی اپنی چوت چٹوانی ہے تو وہ عمران کے اوپر ‪69‬‬
‫پوزیشن میں لیٹ گئی۔ اب عمران کے منہ کے اوپر سمیرا کی چوت تھی جسکو عمران‬
‫نے فورا ہی چاٹنا شروع کر دیا جبکہ سمیرا خود عمران کے لن کے اوپر جھکی ہوئی‬
‫تھی اور اسکے چوپے لگانے میں مصروف تھی۔ سمیرا پوری کوشش کر رہی تھی کہ‬
‫عمران کا پورا ‪ 8‬انچ کا لن اپنے منہ میں غائب کر دے مگر وہ اس میں کامیاب نہیں ہو‬
‫پا رہی تھی۔‬

‫سمیرا ‪ 69‬پوزیشن میں لیٹی تو میں عمران کے سر کی طرف جا کر لیٹ گئی اور اپنا‬
‫چہرہ عمران کے سر کی طرف کیا‪ ،‬جس پر سمیرا کی چوت تھی میں نے کہنیوں کے بل‬
‫اپنا منہ اوپر اٹھایا اور اپنی زبان سمیرا کی گانڈ پر پھیرنے لگی۔ جس سے سمیرا کو‬
‫دہرا مزہ آنے لگا۔ آج سمیرا کی گانڈ پھٹنے والی تھی لہذا اسکو نرم کرنا بھی ضرور تھا‬
‫اس لیے میں نے خوب تھوک لگا لگا کر سمیرا کی گانڈ کو چوسا جس کی وجہ سے‬
‫پورا کمرہ سمیرا کی سسکیوں سے گونجنے لگا۔ اسکا نتیجہ یہ ہوا کہ کچھ ہی دیر میں‬
‫سمیرا کی چوت نے ہار مان لی اور سارا پانی عمران کے چہرے پر چھوڑ دیا۔ اب سمیرا‬
‫عمران کے لن کو چھوڑ کر عمران کے ساتھ لیٹ گئی اور اپنے ‪ 36‬سائز کے گول کسے‬
‫ہوئے ممے عمران کے حوالے کر دیے اور میں عمران کے لن کو منہ میں لیکر اسکو‬
‫اللی پاپ کی طرح چوسنے لگی۔‬

‫ہمارے پاس چدائی کے لیے بہت ٹائم تھا اس لیے ہم پوری تسلی سے مزے لے رہے‬
‫تھے۔ کچھ دیر عمران کے لن کو چوسنے کے بعد میں نے فیصلہ کیا کہ اب سمیرا کو‬
‫عمران کے لن پر سوار کیا جائے۔ میں نے عمران کو کہا کہ اب میں آپکا لن سمیرا کی‬
‫چوت میں جاتا دیکھنا چاہتی ہوں۔۔۔ عمران نے سمیرا سے پوچھا کہ تم تیار ہو تو وہ‬
‫اپنی چوت کو مسلتے ہوئے بولی جان میں تو تب سے تیار جب تم میرے مموں کو گھور‬
‫گھور کر دیکھ رہے تھے۔ یہ کہ کر وہ فوری طور پر سیدھی ہوکر لیٹ گئی اور اپنی‬
‫ٹانگیں کھول کر عمران کو بیچ میں آنے کو کہا۔ عمران بھی فوری اٹھے اور سمیرا کی‬
‫گوری گوری ٹانگیں اٹھا کر اپنے کندھوں پر رکھ دیں اور اپنا لن سمیرا کی گیلی چوت‬
‫کے اوپر رکھ کر آرام سے دباو بڑھایا تو لن کا اگال حصہ اندر چال گیا۔ جس پر سمیرا کی‬
‫ہلکی چیخ بھی نکلی۔ پھر عمران نے اپنا لن دوبارہ سے باہر نکاال اور اس بار ایک زور‬
‫دار دھکا لگایا جس سے عمران کا آدھے سے زیادہ لن سمیرا کی چوت میں اترتا چال گیا‬
‫اور سمیرا کی ایک زور دار چیخ نکلی جس سے پورا کمرہ گونج اٹھا۔ اور اس نے اپنے‬
‫ناخن عمران کی کمر میں گاڑھ دیے جس سے کمر پر نشان بھی پڑ گئے مگر عمران نے‬
‫ایک بار پھر لن کو باہر کی طرف نکاال اور صرف ٹوپی اندر رہنے دی اسکے بعد ایک‬
‫اور جاندار دھکا اور پورا ‪ 8‬انچ کا لن سمیرا کی پھدی کو چیرتا ہوا اسکی گہرائیوں میں‬
‫اترتا چال گیا۔‬

‫اسکے بعد عمران کے لن نے سمیرا کی پھدی کی کھدائی جاری رکھی ‪ ،‬لن کی پوری‬
‫کوشش تھی کہ وہ کسی طرح ٹٹوں سمیت سمیرا کی چوت میں داخل ہوجائے مگر وہ‬
‫بمشکل اپنی جڑ تک ہی چوت میں اتر رہا تھا۔ سمیرا نے عمران کو کمر سے کس کر‬
‫پکڑا ہوا تھا اور اسکی سسکیاں کمرے میں گونج رہی تھیں۔ ان سسکیوں میں درد بھی‬
‫تھا اور مزہ بھی ۔ کچھ دیر کی چدائی کے بعد ان سسکیوں سے درد کا عنصر ختم ہوگیا‬
‫اور صرف مزہ ہی مزہ رہ گیا۔ اب سمیرا بھی اپنے چوتڑ ہال کر چودائی میں عمران کا‬
‫بھرپور ساتھ دے رہی تھی۔ عمران سمیرا کے اوپر جھک گئے اور اسکے ممے اپنے‬
‫منہ میں لیکر چوسنے لگے جبکہ اپنے چوتڑ اور کمر ہال ہال کر اپنا لن سمیرا کی چوت‬
‫میں مسلسل کسی پمپ کی طرح چال رہے تھے۔‬

‫جب عمران نے سمیرا کے ممے چوسنے شروع کیے تو میں نے اپنی چوت سمیرا کے‬
‫منہ کے اوپر کر دی جسکو سمیرا نے فورا ہی چوسنا شروع کر دیا۔ اسکی زبان کا مزہ‬
‫ملتے ہی میری چوت گیلی ہونا شروع ہوگئی اور سمیرا کے مزے میں بھی اضافہ ہوتا‬
‫چال گیا۔ کچھ ہی دیر کی چدائی نے سمیرا کی چوت کی بری حالت کر دی تھی اور آخر کا‬
‫اس نے پانی چھوڑ دیا۔‬

‫جیسے ہی سمیرا کی چوت نے پانی چھوڑا میں نے عمران کو نیچے لیٹنے کو کہا اور‬
‫خود عمران کے اوپر آکر بیٹھ گئی اور اپنی چوت کو عمران کے تنے ہوئے لن کے عین‬
‫اوپر الکر ایک ہی جھٹکے میں اسکے اوپر بیٹھ گئی اور عمران کا پورا لن میری چوت‬
‫کی گہرائیوں میں گم ہوگیا۔ اسکے بعد میں نے بھی اوپر نیچے اچھلنا شروع کیا اور‬
‫عمران نے میرے چوتڑوں کے نیچے ہاتھ رکھ کر مجھے اوپر نیچے ہونے میں مدد بھی‬
‫دی۔ کچھ دیر ایسے ہی جمپنگ کرنے کے بعد عمران نے مجھے اپنے اوپر لٹا لیا اور‬
‫میری کمر کو کس کر پکڑ لیا ۔ اب میری گانڈ تھوڑی اوپر اٹھ چکی تھی تو عمران نے‬
‫نیچے سے اپنے لن کو ‪ 200‬کلومیٹر فی گھنٹا کی سپیڈ سے چالنا شروع کر دی جس‬
‫سے میرے جسم کے سارے پرزے ہل کر رہ گئے اور گرمی اپنی انتہا کو پہنچ گئی۔ مگر‬
‫پھدی کی چکناہٹ لن کو اندر باہر ہونے میں بہت مدد دے رہی تھی۔ میں نے زور زور‬
‫سے چالنا شروع کر دیا ‪ ،‬اور تیز عمران بھائی‪ ،‬چود دو اپنی بہن کو‪ ،‬اپنی دیوانی بنا دو‬
‫جان‬
‫اپنی بہن کو‪ ،‬پھاڑ دو عمران بھائی میری پھدی۔ اور تیز آ آ ‪ ،‬آ آ ‪ ،‬آ آ۔۔۔۔۔۔۔ اور تیز ِ‬
‫من اور تیز۔۔۔۔ ان آوازوں سے کمرہ گونج رہا تھا۔ اور عمران نے بھی میری چوت کو‬
‫چودنے میں کوئی کثر نہ چھوڑی اور باآلخر کچھ ہی منٹوں کی چدائی نے میری چوت‬
‫میں ایک فوارہ چھوڑ دیا۔ عمران اور میں اکٹھے ہی فارغ ہوگئے تھے۔ آخر میں عمران‬
‫نے کچھ زور دار جھٹکے لگائے اور پھر انکا جسم چند جھٹکوں کے ساتھ ہی ڈھیال پڑ‬
‫گیا۔‬

‫عمران اور میں کچھ دیر ایک دوسرے کے اوپر لیٹے رہے اور گہرے گہرے سانس لیتے‬
‫رہے۔ پھر سمیرا بیچ میں آئی اور بولی آج بہنوئی نے اپنی سالی کو چود دیا‪ ،‬بہت مزہ‬
‫آیا تم دونوں کی چدائی دیکھ کر۔ اس پر عمران نے کہا ابھی اور مزہ آئے گا جب میں‬
‫اپنی سالی کی گانڈ بھی ماروں گا جس پر سمیرا مسکرا دی اور میری طرف دیکھ کر‬
‫آنکھ مارتے ہوئے بولی ہاں ہاں کوئی بات نہیں آپ اپنی سالی کی گانڈ ضرور ماریں‬
‫اسکو کچھ نہیں ہوگا۔ اسکا اشارہ رضوان کی طرف تھا کیونکہ میں رضوان سے پہلے‬
‫بھی گانڈ مروا چکی تھی سمیرا کے سامنے۔ اور وہ جانتی تھی کہ میں یہ آرام سے‬
‫برداشت کر لوں گی اب۔‬

‫ویسے بھی ندیم اور رضوان سے گانڈ مروا مروا کر اب مجھے بھی گانڈ مروانے میں‬
‫مزہ آنے لگا تھا۔ سمیرا کی بات سن کر عمران نے سمیرا کو کہا وہ تو برداشت کر لے‬
‫گی آپ اپنا بتاو جان آپ کی گانڈ میرے لن کو برداشت کرے گی؟؟؟ یہ سن کر سمیرا کا‬
‫چہرہ سرخ ہوگیا‪ ،‬اور وہ ڈر کر بولی نا بابا نہ‪ ،‬اتنا موٹا لن میں کیسے لے سکتی ہوں‬
‫گانڈ میں۔ تو عمران نے کہا جب پھدی میں لیا جا سکتا ہے تو گانڈ میں بھی لے لو گی‬
‫فکر نہیں کرو میں تمہیں تکلیف نہیں ہونے دوں گا۔ یہ کہ کر عمران اٹھے اور سمیرا کو‬
‫الٹا لٹا کر خود اسکی گانڈ چوسنے بیٹھ گئے۔ عمران نے تھوڑا سا تھوک سمیرا کی گانڈ‬
‫پر پھینکا اور اسکے بعد اپنی انگلی سے اسکو گانڈ پر اچھی طرح مسل دیا اور پھر اپنی‬
‫زبان سے گانڈ کو چاٹنے لگے۔‬

‫میں بھاگ کر دوسرے کمرے میں گئی اور وہاں سے تیل کی بوتل اٹھا الئی۔ میرے ہاتھ‬
‫میں تیل دیکھ کر عمران بھائی بولے چلو سمیرا کی گانڈ پر اور میرے لن پر تیل لگاو‬
‫پھر میں سمیرا کی گانڈ ماروں گا مگر میں نے کہا نہیں ابھی اتنی جلدی نہیں پہلے‬
‫اسکی گانڈ کو تھوڑا سا کھال کر لو اور اپنی انگلی سے اسکی گانڈ کی چدائی کرو۔ سمیرا‬
‫نے ایک بار پھر کہا کہ گانڈ مارنے کو رہنے دو چوت میں ہی ڈال دو بہت مزہ آتا ہے‬
‫چوت میں۔ مگر عمران کو تو آج گانڈ الزمی چاہیے تھی اسی کے لیے تو عمران نے‬
‫میری پھدی چاٹنا شروع کی تھی۔ بحرحال عمران نے میرے ہاتھ سے تیل کی بوتل لی‬
‫اور تھوڑا سا تیل سمیرا کی گانڈ پر الٹا دیا اور اسکے بعد اپنی ایک انگلی سمیرا کی گانڈ‬
‫پر پھیری اور پھر آہستہ سے انگلی سمیرا کی گانڈ میں گھسا دی۔‬

‫ابھی عمران کی انگلی کا تیسرا حصہ ہی گانڈ میں گیا ہوگا مگر سمیرا کی چیخوں نے‬
‫پورا کمرہ سر پر اٹھا لیا۔ اور وہ چالنے لگی کہ انگلی نکالو میری گانڈ سے۔ مگر‬
‫عمران کہاں نکالنے والے تھے میں سمیرا کے ساتھ لیٹ گئی اور اسکو کسنگ کرنے‬
‫لگی اور اسکی چیخوں کو روکنے لگی۔ میں نے سمیرا کے کان میں کہا کچھ نہی ہوتا‬
‫یار شروع میں درد ہوگا مگر پھر ایسے ہی مزہ آئے گا جیسے پھدی میں لن لینے کا‬
‫مزہ آتا ہے۔ بس تھوڑا سا برداشت کرو۔ یہ بات سن کر سمیرا نے مزید کوشش کی کہ وہ‬
‫عمران کی انگلی اپنی گانڈ میں برداشت کر سکے مگر اسکی چیخیں ابھی تک رک نہیں‬
‫پائیں تھی۔ لیکن اب عمران کی پوری انگلی سمیرا کی گانڈ کے اندر گھوم رہی تھی۔‬

‫گانڈ میں ‪ 5‬منٹ تک انگلی کرنے کے بعد عمران نے سمیرا کو گھوڑی بننے کو کہا تو‬
‫وہ ڈرتے ڈرتے گھوڑی بن گئی۔ میں نے سمیرا کی گانڈ پر اچھی طرح سے تیل انڈیل دیا‬
‫جسکو عمران نے ایک بار پھر اپنی انگلی سے گانڈ کے اندر تک مسل دیا۔ اسکے بعد‬
‫میں نے تیل عمران کے لن پر انڈیل دیا اور اپنے ہاتھ سے اچھی طرح عمران کے لن پر‬
‫تیل کو مسل مسل کر اسکو چکنا کر دیا۔ پھر میں نے سمیرا کی گانڈ پر تھوک کا گوال بنا‬
‫کر پھینکا اور عمران کو کہا کہ اب اسکی گانڈ میں لن اتار دیں۔ عمران نے اپنا لن سمیرا‬
‫کی گانڈ کے اوپر رکھا تو عمران کی خوشی دیکھنے کے قابل تھی۔ آج میں نے عمران‬
‫بھائی کی پرانی خواہش پوری کی تھی‪ ،‬وہ بہت عرصے سے کسی کی گانڈ مارنا چاہتے‬
‫تھے مگر انکی بیوی اس بات کے لیے راضی نہیں ہوتی تھی اور سالی نے یعنی کہ میں‬
‫نے بھی انکے لن سے اپنی گانڈ کو بچا کر رکھا ہوا تھا۔ مگر آج انکے لن کی ٹوپی ایک‬
‫کنواری گانڈ کے اوپر پڑی تھی اور ایک ہی جھٹکی میں انکا لن ایک کنواری گانڈ کو‬
‫پھاڑنے واال تھا۔ تو خوشی تو چہرے سے واضح ہونا ہی تھی۔ عمران نے اپنے ہاتھوں‬
‫سے سمیراکے چوتڑوں کو پکڑ لیا اور لن کی ٹوپی گانڈ کے سوراخ پر رکھ کر آہستہ‬
‫آہستہ دباو بڑھانا شروع کیا جس پر سمیرا کی چیخیں نکلنے لگیں مگر لن ابھی مکمل‬
‫باہر ہی تھا میں نے عمران کے کان میں کہا ایسے لن گانڈ میں نہیں جائے گا ایک زور‬
‫دار جھٹکا لگاو۔ پھر عمران نے ایک زور دار جھٹکا لگایا تو ٹوپی گانڈ میں داخل ہوگئی‬
‫اور سمیرا نے پورا گال پھڑا کر چیخ ماری۔ عمران ایک اور دھکا مارنے لگے تھے کہ‬
‫میں نے عمران کو روک دیا اور کہا ابھی لن اتنا ہی اندر رکھو مزید اندر نہ کرنا لیکن‬
‫اسکو نکلنے بھی نہیں دینا۔ سمیرا کسی مچھلی کی طرح تڑپ رہی تھی اور اپنا جسم‬
‫عمران کے چنگل سے چھڑانے کی کوشش کر رہی تھی۔ ساتھ ہی ساتھ وہ گالیاں بھی‬
‫دینا شروع ہوگئی تھی۔ اور اپنی امی کو یاد کر کے انسے شکایت بھی کر رہی تھی اوئی‬
‫امی جی میری گانڈ پھاڑ دی اس بہن چود نے۔۔۔ چھوڑ دو مجھے‪ ،‬چھوڑ دو میری گانڈ‪،‬‬
‫پلیز میری گانڈ نہ مارو۔۔۔۔ وہ مسلسل چال رہی تھی۔۔۔ میں نے آگے جا کر سمیرا کو‬
‫حوصلہ دیا تو اسنے مجھے بھی گالی دی اور بولی کیوں تم نے مجھے مشورہ دیا تھا‬
‫گانڈ مروانے کا مگری میں نے سمیرا کو کہا کہ بس تھوڑا اور درد ہوگا اسکے بعد مزہ‬
‫آئے گا یہ کہ کر میں نے سمیرا کے ہونٹوں پر اپنے ہونٹ رکھ دیے اور عمران کو‬
‫اشارہ کیا اگال دھکا لگانے کا۔ عمران نے ایک اور دھکا لگایا تو اب آدھا لن گانڈ میں جا‬
‫چکا تھا اور سمیرا کی گانڈ پھٹ چکی تھی۔‬

‫یہا ں پر عمران نے پھر اپنے لن کو روک لیا اور سمیرا کی آنکھوں سے آنسو جاری‬
‫ہوگئے۔ اور وہ منتیں کرنے لگی کہ مجھے چھوڑ دو ‪ ،‬مجھے بے شک ساری رات‬
‫چودتے رہو مگر میری گانڈ نا مارو۔ لیکن گانڈ مارنے کو شوقین کو جب پہلی بار گانڈ‬
‫ملے وہ بھی کنواری اور ٹائٹ گانڈ تو وہ بھال کہاں چھوڑتا ہے۔‬

‫کچھ دیر سمیراکی چیخیں جاری رہیں پھر عمران نے آہستہ آہستہ لن کو اندر باہر داخل‬
‫کرنا شروع کیا جس سے سمیرا کی چیخوں میں اور اضافہ ہوا مگر وقت کے ساتھ ساتھ‬
‫چیخوں میں کمی آنے لگی۔ شروع میں لن بہت پھنس پھنس کر اندر جا رہا تھا مگر پھر‬
‫تھوڑا روانی سے جانے لگا تو سمیرا کی چیخوں کے ساتھ ساتھ سسکیاں بھی شروع‬
‫ہوگئیں۔ چند چیخوں کے بعد ‪ 3 ،2‬سسکیاں اور اسکے بعد پھر سے چیخیں اور پھر‬
‫مزے کی سسکیاں۔ یہ سلسلہ جاری تھا اور اب عمران روانی کے ساتھ سمیرا کی گانڈ‬
‫مار رہے تھے۔‬

‫میں نے عمران سے آہستہ سے پوچھا کیسا لگا گانڈ میں لن ڈال کر تو عمران خوشی‬
‫سے بولے مزہ آگیا آج تو۔ ایسا مزہ تو کنواری چوت پھاڑنے کا بھی نہیں آتا جتنا مزہ‬
‫اس گانڈ کو مار کر آرہا ہے۔ اب عمران کا ‪ 6‬انچ لن گانڈ کے اندر تھا جب کے ‪ 2‬انچ ابھی‬
‫بھی باہر ہی تھا۔ می نے عمران کو کہا اس سے زیادہ لن اندر داخل نہ کرنا ورنہ مسئلہ‬
‫خراب بھی ہوسکتا ہے۔عمران نے ہاں میں سر ہالیا اور سمیرا کی گانڈ کی چدائی جاری‬
‫رکھی۔‬

‫سمیرا گھوڑی تو بنی ہوئی تھی مگر اسکی ٹانگیں کانپ رہی تھیں اور اب سسکیوں اور‬
‫چیکوں کے ملے جلے آوازوں سے ماحول بہت سیکسی ہوگیا تھا۔ ‪ 5‬منٹ تک عمران‬
‫سمیرا کی گانڈ روانی کے ساتھ چودتے رہے اسکے بعد سمیرا نے کہا اب پلیز مجھے‬
‫چھوڑ دو میری گانڈ کا برا حال ہوگیا ہے۔ مگر عمران نے اسکی بات نہ سنی اور مسلسل‬
‫دھکے لگانا جاری رکھے۔ مگر ساتھ میں عمران نے سمیرا کی چوت میں بھی انگلی‬
‫کرنا شروع کر دی تھی جسکی وجہ سے سمیرا کو اب مزہ آنے لگا تھا۔ گانڈ میں لن اور‬
‫چوت میں انگلی سے اب درد کم اور مزے سے سسکیاں زیادہ نکل رہی تھیں۔‬

‫باآلخر ‪ 2‬منٹ کی مزید چدائی نے سمیرا کی چوت کو پانی پانی کر دیا تھا۔ سمیرا کی‬
‫چوت نے پانی چھوڑا تو عمران نے سمیرا کی گانڈ کی جان چھوڑی۔ جیسے ہی عمران‬
‫نے سمیرا کی گانڈ سے اپنا لن باہر نکاال سمیرا بستر پر ڈھے گئی اور گہرے گہرے‬
‫سانس لینے لگی وہ بری طرح تھک چکی تھی اور اسکی گانڈ کی چٹنی بن گئی تھی۔‬
‫اب عمران نے میری طرف دیکھا اور مجھے لیٹنے کو کہا تاکہ میری چوت میں اپنا لن‬
‫ڈال کر ایک بار پھر میری چدائی کر سکیں۔ مگر میں خود سے گھوڑی بن گئی اور‬
‫عمران کو اپنی گانڈ مارنے کی دعوت دی ۔ اس پر عمران حیران ہوئے اور بولے کیا‬
‫واقعی تم بھی اپنی گانڈ مروانا چاہتی ہو؟ تم نے وعدہ پورا کر تو دیا کنواری گانڈ دلوادی۔‬
‫مگر میں نے کہا کہ نہیں مجھے بھی اپنی گانڈ مروانی ہے آپ سے۔ آپکا لن بہت‬
‫خوبصورت ہے میں اسکو اپنی گانڈ کی سیر کروانا چاہتی ہوں۔ اس پر عمران نے کہا‬
‫ٹھیک ہے اگر تم خود اپنے پاوں پر کلہاڑا مارنا چاہتی ہو تو میں کیا کر سکتا ہوں۔ یہ کہ‬
‫کر عمران نے تیل کی بوتل اٹھائی اور میری گانڈ میں انڈیل دی‪ ،‬اسکو انگلی سے چکنا‬
‫کیا اور پھر اپنے لن پر بھی تیل لگا کر میری گانڈ کے سوراخ پر ٹوپی رکھی اور مجھے‬
‫چوتڑوں سے پکڑ کر اپنی طرف کھینچ کر ایک زور دار جھٹکا مارا۔ اس جھٹکے نے‬
‫میرے سارے پیچ پرزے ڈھیلے کر دیے ۔ میں چونکہ پہلے بھی گانڈ مروا چکی تھی اس‬
‫لیے آدھے سے زیادہ لن ایک ہی دھکے میں میری گانڈ میں اتر گیا مگر تکلیف کی‬
‫شدت اتنی تھی کہ میں سمیرا سے بھی زیادہ زور سے چالئی ۔ عمران کے ایک ہی‬
‫جھٹکے نے میری جان نکال دی تھی کیونکہ عمران کا لن رضوان کے لن کے مقابلے‬
‫میں موٹا بھی تھا او ر لمبا بھی۔ عمران کے لن سے ویسی ہی تکلیف ہوئی جیسی ندیم‬
‫کے لن سے ہوئی تھی جب اس نے میری گانڈ ماری تھی۔‬

‫کچھ دیر میری چیخیں سننے کے بعد عمران نے گانڈ میں دھکے لگانا شروع کیے اور‬
‫کچھ ہی دیر میں عمران کا لن روانی سے میری گانڈ کی چدائی کر رہا تھا۔ ‪ 8‬انچ کا لن‬
‫میری گانڈ کی گہرائی تک جاتا اور پھر ٹوپی تک واپس باہر نکلتا۔ ساتھ ہی عمران نے‬
‫میری چوت کو بھی سہالنا شروع کیا جس سے میں مزے کی بلندیوں تک پہنچ گئیں۔ اور‬
‫اب میں عمران کو مزید زور سے دھکے لگانے پر اکسا رہی تھی۔ میرے اکسانے پر‬
‫عمران نے اور بھی جاندار دھکے لگانا شروع کیے مگر ساتھ ہی ساتھ حیران بھی‬
‫ہوئے کہ میں کیسے اتنے آرام سے اپنی گانڈ مروا رہی ہوں اور پہلے سے زیادہ زور‬
‫کے ساتھ چودنے کا ہ رہی ہوں۔ عمران کو اس بات کا نہیں پتا تھا کہ اس گانڈ میں پہلے‬
‫بھی بہت مرتبہ لن جا چکے ہیں۔‬

‫منٹ کی چدائی کے بعد میری چوت نے ہار مان لی اور ڈھیر سارا پانی چھوڑ دیا ‪10‬‬
‫ساتھ ہی عمران کے لن نے بھی اپنی ساری منی میری گانڈ کے اندر ہی نکال دی۔ اسکے‬
‫بعد ہم تینوں کافی دیر تک بستر پر لیٹے رہے اور ایکدوسرے کو پیار کرتے رہے۔ پھر‬
‫میں کچن سے جوس لیکر آئی اور ہم تینوں نے ملکر جوس پیا۔ پھر عمران نے سمیرا کا‬
‫شکریہ ادا کیا کہ اسنے اپنی چوت اور گانڈ دونوں عمران کے حوالے کیں اور اسکی‬
‫وجہ سے آج عمران نے اپنی سالی کی چوت اور گانڈ بھی مار لی۔ سمیرا ابھی تک اس‬
‫بات سے بے خبر تھی کہ میں پہلے بھی عمران بھائی کے لن کی سواری کر چکی ہوں‬
‫اور انہیں بیوی سے زیادہ پیار اور مزہ دے چکی ہوں۔‬

‫اسکے بعد سمیرا ایک ہفتہ مزید ہمارے گھر رکی۔ اس دوران عمران بھائی بھی ادھر ہی‬
‫تھے۔ انہوں نے ایک بار پھر موقع ڈھونڈ کر ہم دونوں کی گانڈ ماری۔ اسکے عالوہ ایک‬
‫بار میں نے سمیرا کو رضوان سے بھی ملوایا اور ہم دونوں نے ملکر رضوان سے بھی‬
‫اپنی اپنی گانڈ مروائی۔‬

‫پھر عمران بھائی اور صائمہ بھی الہور چلے گئے اور سمیرا بھی واپس اسالم آباد چلی‬
‫گئی۔ سمیرا کے اسالم آباد جانے کے بعد اب میرے پاس وقت ہی وقت تھا۔ اور اب مجھے‬
‫دوبارہ سائرہ کا خیال آیا تو میں نے اسی پولیس والے کو کال کی اور اسکے ساتھ ملنے‬
‫کا ٹائم طے کیا۔ میں ایک آئسکریم کیفے میں اس پولیس والے سے ملی اور اسکو اپنے‬
‫پالن کے بارے میں بتایا۔ پہلے تو اسنے صاف انکار کر دیا مگر جب میں نے اسکے‬
‫معاوضے کے طور پر ملنے والے انعامات کا ذکر کیا تو اسکی رال ٹپکنے لگی۔ اور وہ‬
‫راضی ہوگیا میرے پالن پر عمل کرنے کے لیے۔ میں نے اس کے ساتھ مزید ضروری‬
‫معامالت ڈسکس کیے اور آئسکریم کھا کر چل نکلے ۔‬

‫ٹھیک ایک ہفتے بعد سائرہ اور میں کالج میں تھے۔ میں اسکے ساتھ ساتھ سارا دن رہی‬
‫اور اپنے پالن پر عمل درآمد کرنے کے لیے مناسب موقع کے انتظار میں تھی۔ آج کا دن‬
‫سائرہ سے اپنی تذلیل اور بلیک میلنگ کا بدلہ لینے کا دن تھا۔ کالج سے چھٹی ہوئی تو‬
‫سائرہ اور میں کینٹ مارکیٹ کی طرف اسکی گاڑی میں نکلے۔ ہمارا پروگرام آئسکریم‬
‫کھانے کا تھا۔ ابھی ہم کینٹ سے تھوڑا ہی دور تھے اور ایک ویران روڈ سے گزر رہے‬
‫تھے کہ اچانک ہی ہماری گاڑی کے سامنے ایک گاڑی آکر رکی۔ یہ گاڑی کہاں سے آئی‬
‫ہمیں کوئی پتہ نہیں لگا۔ ڈرائیور نے ایک دم سے بریک لگا کر بڑی ہی مشکل سے‬
‫گاڑی روکی اور دوسری گاڑی والوں سے لڑنے کے لیے نیچے اترا مگر اس گاڑی میں‬
‫سے ‪ 4‬ہٹے کٹے نقاب پوش برآمد ہوئے۔ ایک نے ڈرائیور کو پکڑا جب کہ ایک سائرہ‬
‫کی طرف آیا اور دوسرا میری طرف آیا۔‬
‫ان لوگوں نے ہم دونوں کو زبردستی گاڑی سے باہر نکال کر اپنی گاڑی میں ڈاال اور‬
‫ہمارے منہ پر رومال رکھ دیا۔ ہم دونوں زور زور سے چیخیں مارنے لگیں بچاو بچاو۔۔۔۔‬
‫مگر جیسے ہی ہماری ناک پر رومال رکھا اسکے بعد۔۔ ۔۔۔ ۔۔۔ ۔‬
‫ان لوگوں نے جیسے ہی ہماری ناک پر رومال رکھا ہم دونوں نے چیخیں مارنا شروع کر‬
‫دیں۔ ۔۔۔۔ سائرہ بے بسی سے میری طرف دیکھ رہی تھی اور میں سائرہ کی طرف دیکھ‬
‫رہی تھی۔ لیکن ہماری چیخیں ہمارے منہ تک ہی محدود رہیں کیونکہ انہوں نے رومال‬
‫اس قدر زور سے دبا کر منہ اور ناک پر رکھا تھا کہ ہماری چیخیں اندر ہی دم توڑ گئیں۔‬
‫ابھی ہمارے ناک اور منہ پر رومال رکھے محض چند سیکینڈ ہی گزرے ہونگے کہ‬
‫مجھے محسوس ہوا جیسے سائرہ کی آنکھیں آہستہ آہستہ بند ہو رہی ہیں اور اس پر‬
‫غنودگی چھا رہی ہے۔ گاڑی چل رہی تھی اور کالے شیشے ہونے کی وجہ سے باہر سے‬
‫گاڑی کے اندر کچھ نظر نہیں آرہا تھا۔ ایک ہٹے کٹے شخص نے سائرہ کو اپنی گود میں‬
‫بٹھایا ہوا تھا اور سائرہ اسکی گود میں مچل رہی تھی اور اپنے بچاو کی کوشش کر رہی‬
‫تھی۔ مگر رومال میں موجود بے ہوشی کی دوا نے جلد ہی سائرہ کی جدو جہد کو ختم کر‬
‫دیا۔‬

‫آخر کار سائرہ نے ہاتھ پیر مارنا بند کیے اور بے ہوش ہوگئی۔ جیسے ہی پیچھے بیٹھے‬
‫دونوں لوگوں کو یقین ہوگیا کہ سائرہ اب بے ہوش ہو چکی ہے انہوں نے میرے منہ‬
‫سے رومال ہٹا دیا۔ اور میں سیدھی ہوکر سائرہ کا جائزہ لینے لگی کہ آیا وہ واقعی بے‬
‫ہوش ہوئی بھی ہے یا نہیں؟؟ سائرہ مکمل بے ہوش تھی اور میں پرسکون ہوکر انہی‬
‫لوگوں کے درمیان بیٹھ گئی۔ اصل میں یہ لوگ سب انسپیکٹر ماجد خان کے لوگ تھے ۔‬
‫جی ہاں وہی ماجد خان جو مجھے تھانے میں مال تھا اور بعد میں میرے کہنے پر وہ‬
‫میرے پالن پر عملدرآمد کرنے کے لیے ہمیں اغواہ کر رہا تھا۔ میرے ناک اور منہ پر‬
‫جو رومال رکھا گیا اس میں کسی قسم کی دوائی موجود نہیں تھی‪ ،‬وہ محض سائرہ کو‬
‫دکھانے کے لیے رکھا گیا تھا جب کہ سائرہ بے ہوش ہو چکی تھی اور بے ہوش ہونے‬
‫سے پہلے وہ مجھے بے بسی کے عالم میں دیکھ رہی تھی۔ وہ شاید یہی سوچ رہی‬
‫ہوگی کے اسکے بابا کے دشمنوں نے ہمیں اغوا کیا ہے اور بے چاری فائزہ مفت میں‬
‫ہی پھنس گئی ہے۔۔۔‬

‫بحر حال کچھ دیر کے بعد ہماری گاڑی ایک ویران سی جگہ میں موجود ایک حویلی کے‬
‫سامنے جا کر رکی۔ ہارن دینے پر چوکیدار نے بڑا سا گیٹ کھوال تو گاڑی اندر چلی گئی ۔‬
‫اندر جا کر گاڑی رکی تو پہلے میرے ساتھ بیٹھا ہوا شخص نیچے اترا جو کہ سب‬
‫انسپکٹر ماجد خان تھا اور اسکے پیچھے میں بھی نیچے اتری۔ پھر باری باری سب‬
‫لوگ اترے۔ ان میں سے ایک شخص نے سائرہ کو گود میں اٹھایا اور اندر کمرے میں‬
‫لے گئے۔ میں بھی انکے ساتھ ساتھ اندر تک گئی۔‬

‫یہ ایک ویران سا گھر تھا۔ جہاں شاید کافی عرصے سو کوئی نہیں آیا ہوگا۔ کمرے میں‬
‫جا کر جس شخص نے سائرہ کو گود میں اٹھا رکھا تھا اس نے سائرہ کو کمرے میں‬
‫موجود بیڈ پر لٹایا اور ماجد خان کی طرف دیکھتے ہوئے بوال باس اب کیا کرنا ہے؟؟؟‬
‫تو ماجد خان نے کہا کہ تم سب لوگ اپنے اپنے چہرے سے ماسک نہیں اتارو گے اور‬
‫جتنا ہو سکے اپنا بچاو کرو گے تاکہ کیمرے میں بھی تم لوگ پہچانے نا جا سکو۔ اور‬
‫اس لڑکی کے ہوش میں آنے کا انتظار کرو گے۔ ساتھ ہی اسنے ڈرائیور کو کہا کہ وہ‬
‫گاڑی لیکر یہاں سے چال جائے اور اس گاڑی کو کہیں غائب کر دے اور اسکی جگہ‬
‫کوئی اور پرانی چوری شدہ گاڑی لے آئے۔‬

‫اسکے بعد ماجد نے مجھے ایک مردانہ لباس ال کر دیا جو میں نے اپنے کپڑوں کے‬
‫اوپر سے ہی زیب تن کر لیا اور اسکے نیچے مردانہ جوتے جو سائز میں تھوڑے بڑے‬
‫تھے مگر میں نے وہ بھی پہن لیے۔ اور جس طرح کے ماسک انہوں نے اپنے چہرے‬
‫پر چڑھا رکھے تھے اسی طرح کا ایک ماسک مجھے بھی دے دیا گیا جو میں نے اپنے‬
‫چہرے پر لگا لیا۔ میرے ہاتھ میں ایک کیمرہ موجود تھا جس سے میں نے سائرہ کی‬
‫چدائی یعنی کے اسکے ریپ کی ویڈیو بنانی تھی ۔ اور مردانہ لباس پہننے کا مقصد یہ‬
‫تھا کہ جب سائرہ کی نظر مجھ پر پڑے تو وہ مجھے پہچان نہ پائے۔‬

‫اب ان میں سے ایک شخص نے گالس میں پانی لیا اور سائرہ کے چہرے پر چھینٹے‬
‫مارے جس سے کچھ ہی دیر میں سائرہ کو ہوش آگیا اور وہ چالنے لگی دوبارہ سے۔‬
‫اس نے ادھر ادھر دیکھا اور اپنے آپکو ‪ 4‬غنڈوں میں گھرا ہوا پایا۔ اصل میں ‪ 3‬غنڈے‬
‫تھے چوتھا غنڈہ میں خود تھی جو مردانہ لباس میں ملبوس تھی۔ سائرہ نے کچھ دیر‬
‫بچاو بچاو کی آوازیں ماری پھر رونے لگی اور ان لوگوں سے پوچھنے لگی کہ وہ کون‬
‫ہیں اور کیوں اغوا کیا ہے اسے؟ اور فائزہ کہاں ہے؟ مگر باقی ‪ 3‬لوگ اس پر ہنسنے‬
‫لگے اور میں خاموشی سے سائرہ کا تماشہ دیکھنے لگی۔ میں اپنا کیمرہ آن کر چکی‬
‫تھی اور ماجد خان سائرہ کی طرف بڑھنے لگا تھا۔ سائرہ ڈر کے مارے بیڈ کی ٹیک کے‬
‫ساتھ جڑ کر بیٹھی تھی رونے کے ساتھ ساتھ چیخیں بھی مار رہی تھی۔ اس نے بھاگنے‬
‫کی بھی کوشش کی مگر ماجد خان نے ایک ہی ہاتھ سے اسکو دبوچ لیا اور اسکو اپنے‬
‫سینے سے لگا لیا۔‬

‫جیسے ہی ماجد خان نے سائرہ کو اپنے سینے سے لگایا سائرہ نے اور زور سے چالنا‬
‫جان من‬
‫شروع کر دیا۔ ماجد خان نے ایک قہقہ لگایا اور بوال جتنا چالنا ہے چال لو میری ِ‬
‫یہاں دور دور تک تمہاری آوازیں سننے واال کوئی نہیں ہے۔ یہ کہ کر ماجد خان نے‬
‫اپنے ہونٹ سائرہ کے ہونٹ پر رکھ دیے اور انکو چوسنے لگا جب کہ سائرہ بری طرح‬
‫سے اپنے آپکو چھڑوانے کی کوشش کرنے لگی۔ مگر ماجد خان کی مضبوط گرفت میں‬
‫وہ بے بس تھی۔ میرا کیمرہ سائرہ اور ماجد کے جڑے ہوئے ہونٹوں کی ویڈیو بنا رہا‬
‫تھا ماجد بہت ہی پیار اور شدت کے ساتھ سائرہ کے خوبصورت ہونٹ چوسنا چاہ رہا تھا‬
‫جنکو سائرہ نے مضبوطی کے ساتھ بند کر رکھا تھا۔ لیکن ماجد خان پھر بھی اسکے‬
‫ہونٹوں پر ہونٹ پھیرتا اور کبھی اپنی زبان نکال کر ان پر پھیرنے لگتا۔‬

‫سائرہ کسی بن پانی مچھلی کی طرح اسکی بانہوں میں تڑپ رہی تھی اور اپنے آپ کو‬
‫چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی۔ اتنے میں دوسرا غنڈہ بھی سائرہ کے قریب گیا اور‬
‫پیچھے سے سائرہ کی قمیص اٹھائی اور ایک ہی جھٹکے میں پھاڑ ڈالی۔ جب اس‬
‫شخص نے سائرہ کی قمیص جھٹکے سے کھینچی تو اسکی پوری کمر ننگی ہوگئی۔‬
‫سائرہ کی گوری کمر دیکھتے ہی وہ سائرہ کی کمر پر زبان پھیرنے لگا اور اس پر پیار‬
‫کرنے لگا جبکہ ماجد خان ابھی بھی سائرہ کے خوبصورت گالبی ہونٹوں کو چوسنے کی‬
‫کوشش کر رہا تھا۔ جب کچھ دیر ماجد نے ہونٹ چوس لیے تو وہ تھوڑا سا پیچھے ہٹا‬
‫اور آگے سے سائرہ کی قمیص پکڑ کر کھینچ ڈالی اسکا پچھال حصہ تو پہلے ہی پھٹ‬
‫چکا تھا اور اب قمیص کا اگال حصہ بھی اسکے جسم سے علیحدہ ہو چکا تھا۔ اب سائرہ‬
‫کا گورا جسم سرخ رنگ کے برا میں بہت ہی پیارا لگ رہا تھا اور میرا اپنا دل کرنے لگا‬
‫کہ میں بھی جا کر سائرہ کے جسم پر پیار کروں‪ ،‬مگر مجھے اسکی مووی بنانی تھی۔‬
‫میں نے کیمرے کا فوکس سائرہ کے برا پر کیا اور اسکی کمر سے لیکر سامنے سینے‬
‫تک کی ویڈیو بنا ڈالی۔ اسکے مموں کا ابھار اس برا میں بہت ہی پیارا لگ رہا تھا۔ ماجد‬
‫خان نے سائرہ کو چوتڑوں سے پکڑا اور نیچھے جھک کر اسکے مموں پر پیار کرنے‬
‫لگا۔ اور میں اس پیار کی ریکارڈنگ کرنے میں مصروف تھی۔‬
‫سائرہ ابھی تک چال رہی تھی اور اپنے آپ کو چھڑوانے کی کوشش کر رہی تھی مگر‬
‫اسکی ساری کوششیں ناکام تھیں۔ کچھ دیر اسکے مموں کے ابھاروں پر پیار کرنے کے‬
‫بعد ماجد خان نے سائرہ کو بیڈ پر دھکا دیا تو سائرہ بیڈ پر اوندھے منہ گر گئی اور‬
‫گرتے ہی اس نے پھر سے بھاگنے کی کوشش کی مگر اس بار دوسرے غنڈے نے‬
‫سائرہ کو اوپر سے ہی دبوچ لیا اور دوبارے سے اسکی کمر پر پیار کرنے لگا۔ ماجد‬
‫خان بھی کسی بھوکے بھیرڑیے کی طرح سائرہ کی گوری کمر کو نوچنے میں مصروف‬
‫ہوگیا‪ ،‬اب کی بار تیسرا غنڈہ جو میرے ساتھ ہی کھڑا تھا وہ بھی آگے بڑھا اور اسنے‬
‫سائرہ کی شلوار پکڑ کر ایک ہی جھٹکے میں اتار دی۔‬

‫سائرہ نے نیچے سے پینٹی نہیں پہنی ہوئی تھی‪ ،‬شلوار اترتے ہی اسکے گول گول اور‬
‫نرم نرم گوشت سے بھرے ہوئے چوتڑ اس شخص کے سامنے اگئے جسکو اسنے پہلے‬
‫اپنے ہاتھوں سے دبایا اور پھر اسکے اوپر اپنا منہ رکھ کر چوسنے لگا۔ پورا کمرہ‬
‫سائرہ کی چیخوں سے گونج رہا تھا مگر وہ تینوں کسی بھوکے بھیڑیے کی طرح سائرہ‬
‫کے پھولوں جیسے نرم اور مالئم جسم کو نوچنے میں مصروف تھے۔ ایک غنڈہ سائرہ‬
‫کے چوتڑوں کو کھول کر اسکی گانڈ پر اپنی زبان پھیر رہا تھا جبکہ ماجد خان اور‬
‫دوسرا غنڈہ سائرہ کی گردن اور کمر پر پیار کرنے میں مصروف تھے۔ ماجد نے سائرہ‬
‫کے برا کی ہُک پیچھے سے کھول دی تھی اور اب وہ سائرہ کی گردن سے لیکر اسکے‬
‫چوتڑوں کے ابھار تک اپنی زبان سائرہ کے جسم پر پھیر رہا تھا جب کے نیچے واال‬
‫شخص سائرہ کے چوتڑوں اسکی گانڈ اور اسکی ٹانگوں پر پیار کرنے میں مصروف‬
‫تھا۔ اور تیسرا شخص اپنے کپڑے اتار کر اپنے ‪ 8‬انچ کے لوڑے کو سہال رہا تھا۔‬

‫کچھ دیر بعد ماجد نے سائرہ کو سیدھا کیا اور اسکا برا اسکے مموں سے علیحدہ کر‬
‫دیا۔ جیسے ہی سائرہ کا برا مموں سے علیحدہ ہوا‪ ،‬اسکے ‪ 34‬سائز کے ممے دیکھ کر‬
‫ماجد اپنی زبان ہونٹون پر پھیرنے لگا اور فورا ہی اسکے اوپر جھک کر اسکے مموں‬
‫کو چاٹنا شروع کردیا۔ سائرہ نے اپنے ہاتھ اپنے مموں پر رکھ کر انکو چھپانا چاہا مگر‬
‫پہلے شخص نے اسکا ہاتھ پکڑ کر اپنے لوڑے پر رکھ دیا ۔ لوڑے کو ہاتھ لگتے ہی‬
‫سائرہ کو جھٹکا لگا اور اسنے اپنی مٹھی بند کر لی مگر اس شخص نے پھر بھی‬
‫زبردستی اسکی مٹھی کہ ہی اپنے لوڑے کے ساتھ لگائے رکھا۔ وہ چاہتا تھا کہ سائرہ‬
‫اسکا لوڑا اپنے ہاتھ میں پکڑے مگر سائرہ اسطرح نہیں کر رہی تھی اور اسکی آنکھوں‬
‫سے مسلسل آنسو جاری تھے۔ نیچے موجود دوسرے غنڈے نے سائرہ کے سیدھے‬
‫ہونے کے بعد اسکی پھدی پر نظر ڈالی تو اسکی آنکھوں میں بھی چمک آگئی۔ کنواری‬
‫پھدی کا اپنا ہی نشہ ہوتا ہے۔ سائرہ کی پھدی کے لب آپس میں جڑے ہوئے تھے اور‬
‫اسکے پھدی کے اوپر ہلکے ہلکے سے براون بال بہت دلکش لگ رہے تھے۔ شاید کچھ‬
‫دن پہلے ہی سائرہ نے اپنی پھدی کی شیو کی تھی۔ اس شخص نے سائرہ کی ٹانگیں‬
‫کھولیں اور اپنی انگلی اسکی پھدی کی الئن کے اوپر بہت ہی پیار سے پھیرنے لگا۔‬
‫سائرہ کی پھدی بالکل خشک تھی جسکا مطلب تھا کہ ابھی تک وہ اپنی چدائی کے لیے‬
‫راضی نہیں ہوئی تھی اور مسلسل بچاو کا ہی سوچ رہی تھی۔ میں کبھی ماجد خان کو‬
‫سائرہ کے ممے چوستے ہوئے کی ویڈیو بنا رہی تھی تو کبھی پہلے شخص کے لوڑے‬
‫پر سائرہ کے ہاتھ کی ویڈیو بنا رہی تھی اور کبھی نیچے موجود شخص کی ویڈیو بنا‬
‫رہی تھی جو سائرہ کی نرم و نازک پھدی پر بہت ہی پیار سے اپنی انگلی پھیر رہا تھا۔‬

‫اب کی بار ماجد خان نے سائرہ کے مموں کی جان چھوڑی اور کھڑا ہوکر اپنے کپڑے‬
‫اتارنے لگا۔ ماجد خان نے ایک ہی باری میں اپنے سارے کپڑے اتار دیے۔ جیسے ہی‬
‫ماجد خان نے اپنے کپڑے اتارے میرا اوپر کا سانس اوپر اور نیچے کا سانس نیچے رہ‬
‫گیا۔ اور میری زبان خود بخود باہر نکل آئی۔ ماجد خان کا لن کسی لوہے کے راڈ کی طرح‬
‫سخت تحا۔ اسکی ٹوپی کا سائز بھی بہت بڑا تھا اور اسکا رخ سیدھا چھت کی طرف تھا۔‬
‫اتنی سختی میں نے پہلے کسی کے لن میں نہیں دیکھی تھی اور اسکی لمبائی ‪ 9‬انچ‬
‫تھی جب کہ موٹائی میں بھی وہ کسی طرح کم نہیں تھا۔ میں نے کیمرہ کا فوکس ماجد‬
‫خان کے لن پر کیا اور اسکے لن کی ٹوپی سے لیکر اسکے ٹٹوں تک کی ویڈیو بنا‬
‫ڈالی۔‬

‫ماجد نے کپڑے اتارنے کے بعد کپڑے ایک سائیڈ پر پھینکے اور دوبارہ سائرہ کے قریب‬
‫ہوکر بیٹھ گیا اور اسکو اپنا لن پکڑنے کے لیے کہا۔ سائرہ کی نظر جب اسکے تگڑے لن‬
‫پر پڑی تو اسکی بھی آنکھیں خوف کے مارے کھلی کی کھلی رہ گئیں۔ وہ جان گئی تھی‬
‫کہ اب اسکا جان بچانا ممکن نہیں آج اسکی کنواری پھدی کی چدائی ہوکر ہی رہے گی۔‬
‫اور اتنا موٹا اور تگڑا لن دیکھ کر اسکی پھدی اور گانڈ ویسے ہی پھٹ گئی تھیں۔ جب‬
‫ماجد نے اسکو اپنا لن پکڑے کو کہا تو سائرہ نے انکار کر دیا اور اپنا ہاتھ پیچھے‬
‫کھینچ لیا مگر ماجد خان نے اسکو گالی دی اور بوال اگر ہاتھ میں نہیں پکڑے گی تویہیں‬
‫تیرے منہ میں ڈال دوں گا چپ کر کے اسکو اپنے ہاتھ میں پکڑ کر پیار کر۔ منہ میں‬
‫ڈالنے کی دھمکی کام کر گئی اور سائرہ نے فورا ہی ماجد کا ‪ 9‬انچ لمبا لن اپنے ہاتھ میں‬
‫پکڑ لیا۔ اور بغیر کچھ کہے اسکی مٹھ مارنی شروع کر دی۔ یہ دیکھ کر پہلے واال شخص‬
‫بھی تیار ہوگیا اور اسنے سائرہ کے دوسرے ہاتھ میں اپنا لن پکڑا دیا‪ ،‬اب کی بار سائرہ‬
‫نے اسکا لن بھی اپنے ہاتھ میں پکڑ لیا اور ان دونوں کی مٹھ مارنے لگی۔ مگر ابھی‬
‫بھی اسکی آنکھوں سے آنسو جاری تھی اور وہ کسی بھی طرح اس صورتحال سے‬
‫خوش نہیں تھی۔‬

‫دونوں کے لمبے لن دیکھ کر تیسرے شخص سے بھی رہا نہیں گیا اور اس نے بھی اپنا‬
‫لوڑا اپنے کپڑوں کی قید سے آزاد کروا لیا۔ اسکا لن بھی لمبا تھا مگر پہلے دونوں کا لن‬
‫اسکے لن سے بڑا تھا۔ اب اس تیسرے شخص نے اپنے لن کی اپنے ہی ہاتھ سے کچھ‬
‫دیر مٹھ ماری اور اسکے بعد سائرہ کی ٹانگیں کھول کر اسکے درمیان گھٹنوں کی مدد‬
‫سے بیٹھ گیا اور اپنا چہرہ سائرہ کی نرم و نازک پھدی کے اوپر رکھ دیا جو ابھی تک‬
‫خشک پڑی تھی۔ اس شخص نے سائرہ کی چوت کی الئن میں اپنی زبان پھیرنا شروع کر‬
‫دی۔ زبان کا مزہ ملتے ہی سائرہ نے اپنی ٹانگوں کو آپس میں مال کر اپنی پھدی کو‬
‫چھپانا چاہا مگر وہ ایسا نہ کر سکی کیونکہ درمیان میں وہ شخص خود بیٹھا تھا جو‬
‫اپنی زبان سے سائرہ کی چوت کو چاٹنے میں مصروف تھا۔ اسکی زبان نے سائرہ کی‬
‫چوت میں جادو جگانا شروع کر دیا تھا۔ اب سائرہ کی چیخیں ختم ہو چکی تھیں اور‬
‫اسکے آنسو بھی تھم گئے تھے مگر اسنے اپنی آنکھیں بند کی ہوئی تھی اور اسکے‬
‫چہرے پر کسی بھی قسم کے تاثرات نہیں تھے۔ وہ کسی بھی طور پر اپنے آپ کو ان تین‬
‫غنڈوں کے حوالے کرنے پر تیار نہیں تھی۔ مگر اسکے ہاتھ ابھی تک ماجد خان اور‬
‫پہلے شخص کے لن کی مٹھ مارنے میں مصروف تھے۔‬

‫اب کی بار ماجد خان نے اپنا لن اسکے ہاتھ سے چھڑوایا اور اسکے منہ کے قریب کیا‬
‫اور سائرہ کو حکم دیا کہ اب اسکا لن اپنے منہ میں لیکر چاٹے مگر سائرہ نے انکار کر‬
‫دیا۔ جس پر ماجد خان نے اپنا لن اسکے ہونٹوں کے ساتھ لگا دیا اور اسکے ہونٹوں پر‬
‫رگڑنے لگا۔ سائرہ نے اپنے دونوں ہونٹ زور سے بھینچ لیے اور اپنا منہ ادھر ادھر‬
‫مارنے لگی اور دوسرا لن بھی اپنے ہاتھ سے چھوڑ دیا۔‬

‫ماجد خان مسلسل اپنا ‪ 9‬انچ لمبا لن سائرہ کے ہونٹوں پر رگڑ رہا تھا۔ اسکے لن کی‬
‫ٹوپی پر مذی کے ‪ 2‬قطرے بھی تھے جو اسنے سائرہ کے گالبی ہونٹوں پر مسل دیے۔‬
‫پہال شخص سائرہ کے مموں پر جھکا اور اسکے چھوٹے مگر سخت گالبی نپل کو اپنے‬
‫منہ میں لیکر زور سے چوس ڈاال۔ اس نے کچھ ایسے زور سے سائرہ کے نپل کو چوسا‬
‫تھا کہ سائرہ کی ایک سسکی نکلی اور اسنے اپنا منہ کھول دیا۔ جیسے ہی سائرہ نے‬
‫اپنا منہ کھوال ماجد خان نے موقع کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا لن سائرہ کے منہ میں ڈال‬
‫دیا۔ سائرہ نے فورا ہی دوبارہ سے اپنا منہ زور سے بند کیا تو اسکے دانت ماجد کے لن‬
‫پر لگے جس سے ماجد کی بھی ایک چیخ نکلی اور اس نے سائرہ کو ایک بڑی سی‬
‫گالی دی اور اسکے منہ پر تھپڑ مارا۔ مگر اسنے اپنا لن سائرہ کے منہ سے نہیں نکاال‬
‫اور اپنے ہاتھ سے اسکا منہ سائڈوں سے پکڑ لیا جیسے کسی بچے کو دوائی پالتے‬
‫ہوئے ماں بچے کا منہ پکڑ کر کھولتی ہے۔ اس طرح منہ کھول کر ماجد نے اپنا لن مزید‬
‫اندر گھسا دیا اور سائرہ کا منہ اب ماجد کے لن کو چوس رہا تھا۔‬

‫ماجد خان اپنا لن مسلسل سائرہ کے منہ میں اندر باہر کر رہا تھا جسکی وجہ سے سائرہ‬
‫کا منہ تھوک سے بھر چکا تھا۔ یہ تھوک سائرہ نے باہر پھینکا اور ایک بار پھر سائرہ‬
‫کے منہ میں ماجد خان کا لن چدائی کرنے میں مصروف ہوگیا۔ نیچے سائرہ کی چوت پر‬
‫مسلسل تیسرے غنڈے کی زبان اپنا جادو دکھا رہی تھی۔ لیکن ابھی تک سائرہ کی چوت‬
‫کو گیال کرنے میں ناکام رہی تھی۔ اسکا مطلب تھا کہ سائرہ نے ابھی تک مزہ لینا شروع‬
‫نہیں کیا تھا بلکہ اسکو ابھی تک اپنے اس گینگ ریپ کی فکر تھی۔ دوسرا غنڈہ سائرہ‬
‫کے سخت نپلز کو چوسنے میں مصروف تھا اور دوسرا مما اپنے ہاتھ سے پکڑ کر دبا‬
‫رہا تھا۔‬

‫لیکن اب سائرہ کے لیے مزید ممکن نہیں تھا کہ وہ کوئی مزاحمت کر سکتی کیونکہ‬
‫اسکی چوت پر مسلسل ایک زبان رگڑائی کر رہی تھی اور اسکا ایک نپل بھی مسلسل‬
‫چوسا جا رہا تھا۔ آخر کا سائرہ نے ان کے سامنے ہار مان لی اور اب اسکی چوت پر‬
‫پانی واضح ہونے لگا۔ یہ چکنا پانی سائرہ کی چوت کو گیال کر رہا تھا جسکا مطلب تھا‬
‫کہ اب اسکی چوت لن مانگ رہی ہے۔ اب ماجد خان نے سائرہ کو اٹھ کر بیٹھنے کو کہا‬
‫تو وہ چپ چاپ اٹھ کر بیٹھ گئی ‪ ،‬ماجد خان نے اسکو گھٹنوں کے بل بیٹھنے کو کہا تو‬
‫وہ گھٹنے بیڈ پر لگا کر اونچی ہوکر بیٹھ گئی اور ماجد خان نے اسکے سامنے اپنا لن‬
‫کیا تو اس نے خود ہی اسکا لن اپنے ہاتھ میں پکڑ کر اپنے منہ میں ڈال لیا اور اسکو‬
‫چوسنا شروع کر دیا۔ دوسرے غنڈے نے بھی اپنا لن سائرہ کو پکڑایا تو سائرہ نے اسکا‬
‫لن پکڑ کر اسکی بھی مٹھ مارنی شروع کر دی جبکہ تیسرا غنڈہ نیچے لیٹ گیا اور اپنا‬
‫چہرہ سائرہ کے گھٹنوں کے درمیان رکھ دیا پھر اسنے سائرہ کو چوتڑوں سے پکڑا اور‬
‫تھوڑا نیچے کیا تو سائرہ نے اپنی چوت اسکے منہ کے اوپر رکھ دیا جس پر نیچے سے‬
‫زبان چلنا شروع ہوگئی۔‬

‫مجھے یہ سارا سین بہت سیکسی لگ رہا تھا اور میرا اپنا دل کر رہا تھا کہ میں بھی‬
‫انکو جوائن کر لوں مگر اس وقت یہ کسی بھی طور پر ممکن نہیں تھا۔ میں نے چہرے‬
‫پر ماسک چڑھا رکھا تھا اور باقی تین غنڈوں کے چہرے پر بھی ماسک تھا۔ انکی صرف‬
‫آنکھوں کی جگہ سے اور منہ سے ماسک میں گیپ تھا باقی پورا چہرہ ماسک نے چھپا‬
‫رکھا تھا۔ سائرہ اپنی چوت ایک غنڈے کے چہرے پر رکھ کر بیٹھی تھی اور اسکے ہاتھ‬
‫میں ‪ 2‬لمبے اور تگڑے لن تھے جنکو وہ باری باری چوسنے میں مصروف تھی۔ کچھ‬
‫دیر ااپنا لن چوسوانے کے بعد ماجد خان نے اپنا ہاتھ سائرہ کی چوت پر رکھ کر وہاں‬
‫موجود چکناہٹ کو اپنی انگلی پر لگا کر اپنے منہ میں لے لیا۔‬

‫سائرہ کی چوت کی چکناہٹ نے ماجد خان کو بتا دیا کہ اب یہ لن لینے کے لیے تیار ہے۔‬
‫ماجد خان نے سائرہ کو اب بیڈ پر لٹا دیا اور خود اسکی ٹانگوں کو اٹھا کر اپنے بازوں‬
‫پر رکھا اور ٹانگیں کھول کر بیچ میں چوت کے قریب ہوکر بیٹھ گیا۔ باقی دونوں سمیرا‬
‫کے پاس بیٹھے تھے سمیرا نے دونوں کے لوڑے اپنے ہاتھ میں پکڑے ہوئے تھے اور‬
‫انکی مٹھ مار رہی تھی۔ مگر جیسے ہی اسکی نظر اپنی ٹانگوں کے درمیان پڑی جہاں‬
‫ماجد خان اپنا ‪ 9‬انچ کا لوڑا تیار کیے بیٹھا تھا اور سائرہ کی نازک اور کنواری پھدی کو‬
‫پھاڑنے واال تھا تو سمیرا کی آنکھوں میں ایک دم خوف کے آثار نظر آنے لگے اور وہ‬
‫مٹھ مارنا بھول گئی۔ سائرہ نے اپنی جگہ سے اٹھنے کی کوشش بھی کی مگر ماجد خان‬
‫نے اپنے مضبوط بازوں سے اسکی ٹانگوں کو اپنی طرف کھینچ کر اسے اور بھی قریب‬
‫کر لیا‪ ،‬اب ماجد کے لن کا ٹوپا سائرہ کی چوت کے ساتھ تث ہونے لگا تھا۔‬

‫جیسے ہی لن کا ٹوپا سائرہ کی چوت کے ساتھ لگا تو اسنے ایک بار پھر چالنا شروع‬
‫کر دیا اور ماجد کی منتیں کرنےلگی کہ پلیز مجھے چھوڑ دو میں نے تمہارا کیا بگاڑا‬
‫ہے۔ اسکی یہ بات سن کر میں نے دل ہی دل میں اسے جواب دیا کہ تم نے اپنے بھائی‬
‫کی خوشی کے لیے ایک لڑکی کی ویڈیو بنا کر اسکو بلیک میل کرنے میں مدد کی ہے‬
‫لہذا اب اسکی سزا بھگتو۔ ابھی میں یہ سوچ ہی رہی تھی کہ سائرہ کی ایک زور دار‬
‫چیخ سنائی دی۔ میں اپنے خیالوں سے باہر نکلی تو سائرہ کا چہرہ آنسووں سے تر تھا‬
‫اور اس پر تکلیف کے آثار نمایاں تھے۔ پھرمیں نے سائرہ کی چوت کی طرف دیکھا تو‬
‫ماجد کے لن کا ٹوپا سائرہ کی چوت میں غائب ہو چکا تھا۔ ماجد نے ایک بار لن باہر‬
‫نکاال اور اپنا ٹوپا سائرہ کی چوت پر رکھ کر ایک دھکا اور مارا تو سائرہ نے پورا گال‬
‫پھاڑ کر چیخ ماری۔ اسکی چوت پھٹ چکی تھی۔ اور جب ماجد نے دوبارہ لن باہر نکاال‬
‫تو اس پر سرخی واضح تھی۔ سائرہ کی چوت کا خون ماجد کے لن پر لگا ہوا تھا اور‬
‫تھوڑا سا خون نکل کر بیڈ پر بھی لگا۔ مگر ماجد رکا نہیں اور اس نے ایک دھکا اور‬
‫مارا اور اپنے لن کا ‪ 7‬انچ تک حصہ سائرہ کی چوت میں اتار دیا۔ سائرہ بری طرح تڑپ‬
‫رہی تھی اور رحم کی بھیک مانگ رہی تھی مگر ماجد خان نے اس پر بالکل بھی ترس‬
‫نہیں کھایا۔‬

‫کچھ دیر انتظار کرنے کے بعد ماجد خان نے ایک بار پھر لن باہر نکاال اور ایک اور‬
‫جاندار دھکا لگایا جس سے اسکا ‪ 9‬انچ کا الوڑا سائرہ کی چوت میں گم ہوگیا۔ ماجد اپنا‬
‫لن جڑ تک سائرہ کی چوت میں اتار چکا تھا اور اب ماجد کے ٹٹے سائرہ کی چوت کے‬
‫نچلے حصے سے ٹکرا رہے تھے درد کی شدت سے سائرہ کی چیخیں بھی بند ہوگئیں‬
‫تھیں اور اسکی آنکھیں پھٹی ہوئی تھیں۔ درد کی شدت اتنی تھی کہ وہ چیخیں بھی نہیں‬
‫مار پا رہی تھی اور ماجد خان نے اپنے لوڑے سے سائرہ کی چوت میں کھدائی شروع‬
‫کر دی تھی‪ ،‬ماجد خان کے ہر دھکے پر سائرہ کا پورا جسم ہل جاتا مگر وہ کسی الش‬
‫کی طرح پڑی اپنی چدائی کروا رہی تھی۔ اس میں نہ تو چخیں مارنے کی ہمت تھی اور‬
‫نہ ہی اسکی سسکیاں نکل رہی تھی‪ ،‬آنکھوں سے آنسو مسلسل جاری تھی اور ماجد‬
‫خان کے دھکے نان سٹاپ مشین کی طرح چل رہے تھے۔‬

‫میرا کیمرا کبھی سمیرا کے چہرے کو اور کبھی اسکی چوت میں جاتے ماجد کے لن کی‬
‫ویڈیو بنا رہا تھا۔ ‪ 5‬منٹ کی چودائی کے بعد جب ماجد کا لن باہر نکال تو اس پر کافی‬
‫چکناہٹ موجود تھی۔ سائرہ کی چوت نے پانی چھوڑ دیا تھا مگر ماجد خان کے لوڑے‬
‫کی سختی کی وجہ سے اسکے چہرے پر مزے کے آثار بالکل بھی نہیں تھے بلکہ ابھی‬
‫تک وہ کسی زندہ الش کی طرح بستر پر پڑی تھی اور ماجد کے دھکوں سے اسکا جسم‬
‫اوپر نیچے ہل رہا تھا۔‬

‫ماجد نے جب اپنے لن پر سائرہ کی چوت کا پانی دیکھا تو بہت خوش ہوا اور اسکو گالی‬
‫دیتا ہوا بوال تیری چوت نے تو خوب مزہ لیا ہے میرے لوڑے کا اب تو بھی مزے لے ۔‬
‫یہ کہ کر اس نے اپنا لوڑا بستر سے صاف کیا اور دوسرے شخص کو چدائی کی دعوت‬
‫دی۔ وہ تہ پہلے ہی اس انتظار میں تھا کہ کب اسے کنواری چوت جہ محض ‪ 5‬منٹ پہلے‬
‫ہی پھٹی تھی چودنے کا موقع ملے۔ دوسرا شخص فورا سمیرا کی ٹانگوں کے درمیان‬
‫میں آکر بیٹھ گیا‪ ،‬اس نے ایک ٹانگ اٹھا کر اپنے کندھے پر رکھی اور دوسری ٹانگ‬
‫اٹھا کر اپنے بازو پر رکھی۔ اپنے لن کی ٹوپی سائرہ کی چوت کے سوراخ پر رکھ کر‬
‫آہستہ سے دباو ڈاال تو چوت کی چکنائی کی وجہ سے لن خود بخود پھسلتا ہوا سائرہ کی‬
‫چوت میں غائب ہوگیا۔ اس شخص کا لن ماجد خان کے لن جیسا نہیں تھا اس لیے سائرہ‬
‫کو زیادہ تکلیف نہیں ہوئی۔‬

‫اس نے بھی سائرہ کی چدائی شروع کی اور مسلسل ‪ 5‬منٹ سائرہ کی چوت مارتا رہا ‪،‬‬
‫اب سائرہ کی سسکیاں نکلنا شروع ہوگئیں تھی۔ اسکو شاید مزہ آنے لگا تھا چدائی کا۔ ‪5‬‬
‫منٹ کی چدائی کے بعد اس شخص نے اپنے دھکے تیز کر دیے اور سائرہ کی بھی آوچ‬
‫چ چ چ آوچ‪ ، ،‬اف‪ ، ،‬ام ‪ ،‬ام ‪ ،‬ام آہ‪ ،‬آہ ‪ ،‬اف آوچ کی آوازیں نکل رہی تھیں ساتھ ہی‬
‫سائرہ اپنی گانڈ ہال ہال کر اسکی چدائی کا ساتھ دے رہی تھی۔ ‪ 2‬منٹ کی مزید چدائی کے‬
‫بعد سائرہ کی چوت نے پانی کا فوارہ چھوڑ دیا اور ساتھ ہی دوسرا شخص بھی سائرہ‬
‫کی چوت کے اندر ہی پچکاریاں مارنے لگا۔‬

‫اب سائرہ کے چہرے پر تھوڑا سکون تھا اور اس نے اپنی چدائی کا بھرپور مزہ لیا تھا۔‬
‫دوسرے شخص کے فارغ ہونے کے بعد وہ بھی اپنا لن بستر سے صاف کر کے ایک‬
‫سائیڈ پر لیٹ گیا اور تیسرا شخص اپنا لوڑا ہاتھ میں پکڑے سائرہ کی ٹانگوں کے‬
‫درمیان آگیا۔ اسکا لوڑا ‪ 8‬انچ لمبا تھا جو یقیننا سائرہ کو تکلیف دے سکتا تھا۔ ماجد خان‬
‫نے اپنا لوڑا اب سائرہ کے منہ میں ڈال دیا تھا جسکو سائرہ بہت مزے سے چوپے لگا‬
‫رہی تھی۔ تیسرے شخص نے بھی سائرہ کی ٹانگوں کے درمیان میں آکر اسکی ٹانگیں‬
‫اٹھا لیں اور اپنا لوڑا سائرہ کی چوت کے سوراخ پر رکھا تو ایک زور دار دھکا لگایا‬
‫اور اپنا آدھے سے زیادہ لن سائرہ کی چوت میں اتار دیا۔ سائرہ نے ایک بار پھر چیخ‬
‫ماری مگر اس نے پرواہ نہیں کی اور ساتھ ہی دوسرا دھکا مار کر اپنا پورا لوڑا سائرہ‬
‫کی چوت میں اتار دیا۔ سائرہ کچھ دیر کو رکی اور اوپر اٹھ کر اپنی چوت کی طرف‬
‫دیکھنے لگی جس میں ‪ 8‬انچح کا لوڑا اپنی پوری سپیڈ کے ساتھ چودائی کرنے میں‬
‫مصروف تھا پھر سائرہ نے دوبارہ سے اپنا سر نیچے تکیے پر رکھ دیا اور ماجد کا‬
‫لوڑا چوسنے لگی۔‬
‫اس شخص نے بھی ‪ 5‬منٹ تک جم کر دھکے مارے سائرہ کی چوت میں اور اسکے بعد‬
‫سائرہ کواٹھ کر بیٹھنے کو کہا۔ سائرہ نے ماجد کا لن منہ سے نکاال اور اٹھ کر بیٹھ گئی۔‬
‫اس شخص نے سائرہ کو کہا کہ وہ بیڈ کی ٹیک کے ساتھ اپنے بازو رکھے اور اپنی گانڈ‬
‫باہر کی طرف نکالو۔ سائرہ نے اپنے بازو بیڈ کی بیک سائیڈ پر رکھ دیے اور گھٹنوں‬
‫کے بل بیٹھ گئی‪ ،‬اسکی گانڈ ہوا میں تھی اور باہر کی طرف نکالی ہوئی تھی۔ وہ شخص‬
‫پیچھے سے آیا اور اسکے چوتڑوں پر ‪ 2‬تھپڑ مارے اور اسکے بعد اپنا لوڑا سائرہ کی‬
‫چوت میں کے سوراخ پر رکھ کر ایک زور دار دھکا مارا اور پورا لن سائرہ کی چوت‬
‫میں اتار دیا۔ سائرہ کے منہ سے اب سسکیاں نکل رہی تھیں اور وہ اس چدائی کو‬
‫انجوائے کر رہی تھی۔ آہ‪ ،‬اف‪ ،‬اف ‪ ،‬آہ آہ آہ ‪ ،‬ہمممم‪ ،‬اس طرح کی آوازوں سے سائرہ‬
‫کی چدائی جاری تھی۔‬

‫اس پوزیشن میں چودائی کے دوران جب سائرہ کے چوتڑ اس شخص کے پیٹ کے ساتھ‬
‫ٹکراتے تو کمرے میں دھپ دھپ کی آوازیں آتیں۔ جن سے کمرے کا ماحول اور سیکسی‬
‫بن رہا تھا۔ سائرہ اب بالکل نارمل ہوکر اپنی چدائی کروا رہی تھی۔ کبھی کبھی وہ میری‬
‫طرف بھی دیکھتی تھی مگر وہ مجھے پہچان نہیں پائی کیونکہ میں مردانہ لباس میں‬
‫تھی اور اسکے ذہن میں یہی ہوگا کہ میں صرف ویڈیو بنانے کے لیے یہاں موجود ہوں۔‬

‫اچانک پیچھے سے چودنے والے شخص نے اپنے دھکوں میں بال کا اضافہ کر دیا اور‬
‫سائرہ کی چیخوں میں بھی اضافہ ہونے لگا۔ کچھ مزید دھکے لگانے کے بعد سائرہ کے‬
‫جسم نے جھٹکے کھائے اور ساتھ ہی اس شخص کے جسم کو بھی جھٹکے لگے اور‬
‫اس نے اپنی منی سائرہ کی چوت میں نکال دی۔‬

‫سائرہ کو چودنے کے بعد یہ شخص بھی سائیڈ پر ہوگیا اوگ گہرے گہرے سانس لینے‬
‫لگا۔ کچھ دیر بعد اسکی سانسیں بحال ہوئیں تو وہ ماجد سے بوال استاد اس لڑکی کی‬
‫چوت تو بہت ہی ٹائٹ ہے۔ مزہ آگیا اسکو چود کر تو۔ اس پر ماجد بوال دعائیں دے اپنے‬
‫استاد کو جس نے تجھے اتنی چکنی چوت دالئی۔ ابھی وہ یہ بات کر ہی رہا تھا کہ سائرہ‬
‫نے ماجد کو مخاطب کر کے پوچھا کہ فائزہ کہاں ہے؟؟؟ اپنا نام سن کر میں ایک دم‬
‫چونک گئی۔۔۔ اور ماجد خان بھی ایک دم چپ ہوگیا۔ مگر پھر اس نے پوچھا کون‬
‫فائزہ؟؟؟ تو سائرہ نے کہا وہ دوسری لڑکی جسکو تم نے میرے ساتھ ہی اغوا کیا تھا۔ تو‬
‫اسکی بات سن کر ماجد بوال کہ دوسری لڑکی کو اسکا دوست اپنی گاڑی میں لے گیا وہ‬
‫ادھر اپنے دوستوں کے ساتھ مل کر اسکی چدائی کر رہا ہوگا۔ یہ سن کر سائرہ کے‬
‫چہرے پر فکر کے آثار نظر آئے۔ وہ میرے لیے فکر مند تھی۔ مجھے پہلے پہل تو اس‬
‫پر ترس آیا مگر پھر سوچا کہ اس نے بھی میرے ساتھ کچھ اچھا سلوک تو نہیں کیا جو‬
‫میں اس پر ترس کھاوں۔‬

‫اب کی بار ماجد خان نے سائرہ کو گھوڑی بننے کے لیے کہا تو سائرہ چپ چاپ گھوڑی‬
‫بن گئی۔ ماجد خان پیچھے سے آیا اور اسکی چوت پر ہاتھ رکھ کر اسکی چکناہٹ کو‬
‫چیک کیا۔ وہ ابھی تک چکنی تھی۔ پھر ماجد نے اپنے لن کا ٹوپا سائرہ کی چوت پر رکھا‬
‫اور ایک ہی دھکے میں آدھا لن اندر گھسا دیا۔ گھوڑی بن کر چدائی کرواتے ہوئے چوت‬
‫تھوڑی ٹائٹ ہوجاتی ہے۔ یہی وجہ تھی کہ سائرہ نے ایک بار پھر دلخراش چیخ ماری‬
‫جس سے پورا کمرہ گونچ اٹھا مگر ظالم ماجد نے ساتھ ہی ایک اور دھکا مارا اور پورا‬
‫لن سائرہ کی چوت میں گھسا دیا۔ پھر ماجد نے سائرہ کو اسکے چوتڑوں سے پکڑ لیا‬
‫اور نان سٹاپ دھکے لگانا شروع کر دیے۔‬

‫جیسے جیسے ماجد خان دھکے لگاتا ویسے ویسے سائرہ کی اف‪ ،‬آوچ چ چ چ چ اف‪،‬‬
‫اف آہ‪ ،‬ہ ہ ہ ہ ہ ہ آہ ہ ہ ہ آوچ آوچ کی آوازیں آتیں اور ساتھ ہی ساتھ دھپ دھپ کی‬
‫آوازیں بھی ارہی تھیں جو سائرہ کے چوتڑ اور ماجد کے پیٹ کے مالپ پر نکلتی تھی۔ ‪5‬‬
‫منٹ کی چدائی کے بعد سائرہ کی چوت نے ایک بار پھر ہار مان لی اور پانی چھوڑ دیا۔‬
‫مگر ماجد کا لن ابھی بھی پوری سختی کے ساتھ کھڑا تھا۔‬

‫اب کی بار ماجد نے سائرہ کو اپنی گود میں بٹھا لیا اور لوڑا اسکی چوت میں ڈال کر‬
‫خود اپنی ایڑیوں کے بل بیٹھ گیا۔ سائرہ نے ٹانگیں ماجد کے جسم کے گرد لپیٹ لیں اور‬
‫ماجد نے تھوڑا سا اوپر اٹھ کر نان سٹاپ دھکے لگانے شروع کیے تو سائرہ کی چوت‬
‫کے پرخچے اڑ گئے۔ ماجد کا لن ٹوپے تک باہر آتا اور پھر سپیڈ کے ساتھ اپنی جڑ تک‬
‫سائرہ کی چوت میں گم ہوجاتا۔ سائرہ نے اپنے دونوں ہاتھ ماجد کی گردن کے گرد لپیٹے‬
‫ہوئے تھے اور اسکی چیخیں اور سسکیاں ساتھ ساتھ جاری تھیں جب کے دھپ دھپ کی‬
‫آوازیں کمرے کے ماحول کو اور بھی سیکسی بنا رہی تھی۔‬
‫اب کی بار ماجد خان کے دھکے طوفانی تھے مگر اس بار سائرہ بھی اسکا پورا پورا‬
‫مقابلہ کر رہی تھی۔ اب اسکی چوت ماجد کے لن کے موٹائی کے برابر کھلی ہو چکی‬
‫تھی اور اس نے اپنی چوت سے ماجد کے لن کو جکڑ رکھا تھا سائرہ کے چہرے پر‬
‫مزے کے آثار واضح تھے اور وہ ماجد کے لن کو پوری طرح انجوائے کر رہی تھی۔‬
‫باآلخر ‪ 5‬منٹ کے مزید دھکوں کے بعد سائرہ کی چوت اور ماجد کے لن نے اکٹھے ہی‬
‫الٹی کر دی اور اپنا اپنا پانی باہر نکال دیا۔ اسکے بعد سائرے بستر پر ڈھے گئی اور‬
‫لمبے لمبے سانس لینے لگی۔‬

‫ابھی سائرہ اپنے سانس بحال کر رہی تھی کہ ان میں سے ایک شخص نے دوبارہ سے‬
‫سائرہ کے منہ پر ایک رومال رکھا اور سائرہ تھوڑی دیر ٹانگیں مارنے کے بعد بے‬
‫ہوش ہوگئی۔ اسکے بے ہوش ہوتے ہی میں نے بھی اپنے چہرے سے ماسک اتارا اور‬
‫سکھ کا سانس لیا۔ ماجد خان کے دونوں غنڈے اپنے کپڑے پہن چکے تھے انکو ماجد‬
‫نے حکم دیا کہ لڑکی کو پرانی گاڑی میں ڈال کر گاڑی کینٹ کے کسی بھی چوک میں‬
‫کھڑی کر آو۔ اس سے پہلے کہ وہ سائرہ کو اٹھاتے میں نے اسکے جسم کو اچھی طرح‬
‫چادر سے ڈھانپ دیا اور انکو سائرہ کے گھر کا ایڈریس سمجھایا اور کہا اسکو گھر کے‬
‫آس پاس ہی چھوڑ آو اور کسی پبلک کال آفس سے اسکے گھر فون کر کے بتا دینا۔‬

‫یہ کرنے کا مقصد صرف اتنا تھا کہ اسکی زیادہ بدنامی نہ ہو اور یہ بات باہر کسی کو‬
‫پتہ نہ لگے۔ ماجد خان نے اپنے بندوں کو کہا کہ جیسے فائزہ نے کہا ویسا ہی کرو۔ یہ‬
‫سن کر ان میں سے ایک نے سائرہ کو اٹھایا اور دوسرا اسکے ساتھ ساتھ چل پڑا۔ ماجد‬
‫خان ابھی تک ننگا بیٹھا تھا اور اسکا لوڑا اب بالکل چھوٹا ہو چکا تھا۔ کسی بوٹی کی‬
‫طرح۔ مں نے کمرہ ایک سائیڈ پر رکھا اور اپنے مردانہ کپڑے اور بوٹ اتار دیے۔ اسکے‬
‫بعد میں فورا جمپ لگا کر ماجد خان کے لن کے قریب پہنچ گئی اور اسکا لوڑا اپنے منہ‬
‫میں لے لیا۔ ماجد خان اس اچانک حملے پر حیران بھی ہوا اور خوش بھی کیونکہ وہ‬
‫مجھے چودنا تو چاہتا ہی تھا مگر میں نے اسکو کہا تھا کہ مجھے بھول جائے البتہ‬
‫اسکی جگہ اسے ایک اچھی چوت دلواوں گی۔ جو میں نے سائرہ کی دلوا دی۔ اب اسکو‬
‫امید نہیں تھی کہ اسکو فورا ہی ایک چوت اور مل جائے گی۔ ماجد خان کا لوڑا دیکھ‬
‫دیکھ کر میں نے ویڈیو بناتے ہوئے بہت مششکل سے اپنے اوپر کنٹرول کرا تھا۔ ایک‬
‫بار تو میری چوت نے پانی بھی چھوڑ دیا تھا۔‬

‫ایسے زبردست لوڑے سے چدائی کروانے کا موقع میں ضائع نہیں جانے دینا چاہتی‬
‫تھی۔ سائرہ کے چلے جانے کے بعد میں نے محض ‪ 5‬منٹ کے چوپوں سے ماجد خان‬
‫کے لوڑے کو پہلے کی طرح لوہے کا راڈ بنا دیا اور اس پر سواری شروع کر دی۔ ماجد‬
‫کے لن نے میری بھی بس کروا دی تھی حاالنکہ میں پہلے بھی ندیم کا ‪ 9‬انچ کا لن اپنی‬
‫چوت میں لے چکی تھی مگر ماجد کے لن کی بات ہی کچھ اور تھی۔ ایک تو اسکے‬
‫ٹوپے کا سائز بڑا تھا دوسرا اسکی موٹائی بھی زیادہ تھی اور پولیس واال ہونے کی وجہ‬
‫سے اسکا جسم بھی ورزشی تھا۔ اسکے نان سٹاپ دھکوں نے میری چوت سے ‪ 3‬بار‬
‫پانی نکلوا دیا۔‬

‫اسکے بعد میں اپنے گھر چلی گئی اور جاتے ہی بستر پر لیٹ کر سونے کی ایکٹنگ‬
‫کرنے لگی۔ امی نے پوچھا تو میں نے کہا طبیعت خراب ہے مجھے سونے دیں۔ آج‬
‫سائرہ کی کنواری چوت کا گینگ ریپ کروا کر مجھے دلی سکون مال تھا۔ اور میرا بدلہ‬
‫پورا ہوگیا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ سونے پر سہاگہ ماجد خان کے لن سے چدائی کا موقع بھی‬
‫مل گیا۔ اسکے لن کو میں کبھی نہیں بھول سکتی۔ بستر پر لیٹی میں سائرہ کے بارے‬
‫میں ہی سوچ رہی تھی کہ میرے موبائل پر بیل بجی۔ میں نے موبائل اٹھا کر دیکھا تو یہ‬
‫سائرہ کی ہی کال تھی ۔ ٹائم دیکھا تو رات کے ‪ 2‬بج رہے تھے۔ میں سمجھ گئی کہ اب‬
‫سائرہ ہوش میں آئی ہوگی اور اس نے فورا ہی مجھے کال کی۔ میں نے اسکی کال اٹینڈ‬
‫نہیں کی۔ اسکی ایک بار پھر کال آئی میں نے پھر اٹینڈ نہیں کی۔ پھر تیسری بار دوبارہ‬
‫اسکی کال آئی تو میں نے اٹینڈ کی۔‬

‫میں نے اپنی آواز میں نقاہت پیدا کی اور روہانسی آواز نکال کر ہیلو کہا اور ساتھ ہی رو‬
‫پڑی۔ آگے سے سائرہ کی بھی رونے کی آواز آئی اور اس نے مجھے سے پوچھا کہ تم‬
‫گھر پہنچ گئی ہو؟؟؟ تو میں نے اسے بتایا کہ ہاں مجھے نہیں پتا کہ میں کب اور کیسے‬
‫گھر پہنچی بس پہنچ گئی ہوں۔ سائرہ نے بتایا کہ وہ ہسپتال میں ہے اور ساتھ اسکے‬
‫امی ابو بھی ہیں۔ جو شاید اس وقت سو چکے تھے۔ اس نے روتے ہوئے بتایا کہ ‪3‬‬
‫غنڈوں نے اسکا زبردستی ریپ کیا ہے اور ریپ کرنے کے بعد بے ہوشی کی حالت میں‬
‫ایک پرانی سی گاڑی میں ڈال کر چھوڑ گئے ہیں۔‬

‫میں نے بھی اسی طرح کی سٹوری گھڑ کر اسکو سنا دی اور یہ شو کروایا کہ میرے‬
‫سے بات نہیں ہو پار ہی۔ تھوڑی دیر کے بعد میں نے خود ہی فون بند کر دیا۔ اسکے بعد‬
‫دوبارہ بھی سمیرا کی کال آئی مگر میں نے اٹینڈ نہیں کی۔ وہ یہ سمجھ رہی تھی کہ شاید‬
‫فائزہ کا بھی ریپ ہوا ہے اس لیے وہ صدمے میں ہے اور اس سے بات نہیں ہو پارہی ۔‬
‫کچھ دن اسی طرح گزر گئے میں گھر سے باہر نہیں نکلی۔ جس کیمرے سے ویڈیو بنائی‬
‫تھی وہ میرے پاس ہی تھا میں نے اس کی ویڈیو دیکھی اور اسکو کسی حد تک ایڈیٹ‬
‫کر لیا جس سے ماجد خان اور اسکے لوگوں کے پہچانے جانے کا بالکل بھی احتمال نہ‬
‫ہو محض چند جگہوں پر سائرہ کا چہرہ دکھایا باقی کی ویڈیو اسکی چیخوں اور اسکی‬
‫چدائی کی ہی تھی جسمیں لن اسکی چوت کے آر پار ہوتا دکھائی دے رہا تھا۔‬

‫یہ ویڈیو ایڈیٹ کر کے میں نے ماجد خان کو بھجوا دی اور ‪ 4‬دن بعد میں نے سائرہ‬
‫سے بات کی۔ وہ ابھی تک صدمے کی حالت میں تھی مجھ سے صحیح بات نہ کر سکی‬
‫مگر اس نے میرے سے معافی مانگی کہ ہمیں اغوا کرنے والے لوگ ابو کے دشمن‬
‫تھے انہوں نے ابو سے بدلہ لینے کے لیے مجھے اغوا کر کے میرا ریپ کرنا تھا مگر‬
‫ساتھ میں تم بھی تھی اس لیے تمہیں بھی انکے انتقام کا نشانہ بننا پڑا۔ یعنی وہ سمجھ‬
‫رہی تھی کہ ہم دونوں کے ساتھ ریپ ہوا ہے‪ ،‬اسے نہیں معلوم تھا کہ اسکا ریپ میں نے‬
‫ہی کروایا ہے اور اسکے وہاں سے جانے کے بعد میں نے ماجد کے لن پر بیٹھ کر خوب‬
‫مزے کی چودائی کروائی تھی۔‬

‫ایک ہفتے بعد میں سائرہ سے ملنے اسکے گھر گئی تو وہ اپنے کمرے میں بند تھی۔‬
‫میری مالقات اسکی امی سے ہوئی تو انہوں نے بتایا کہ وہ جب سے ہسپتال سے واپس‬
‫آئی ہے اپنے کمرے سے باہر ہی نہیں نکلتی۔ میں نے بھی بہت مسکین سا چہرہ بنا‬
‫رکھا تھا کیونکہ آنٹی کے ذہن میں بھی یہی بات تھی کہ اس دن صرف انکی بیٹی کا ہی‬
‫نہیں بلکہ فائزہ یعنی میرا ریپ بھی ہوا ہے۔ انہوں نے میرے سے بھی ہمدردی کی اور‬
‫پھر مجھے کہا کہ میں سائرہ کو کسی طرح کمرے سے باہر نکالوں۔‬

‫میں سائرہ کے کمرے میں گئی تو وہ میرے گلے لگ کر خوب روئی ۔ گو کہ اس نے‬
‫آخر میں اپنی چدائی کا مزہ لیا تھا مگر بعد میں یہ احساس اسے جینے نہیں دے رہا تھا‬
‫کہ اسکا گینگ ریپ ہوا ہے۔ جب وہ خوب رو چکی تو وہ بولی کہ فائزہ مجھے معاف کر‬
‫دو۔ میں نے تمہاری ویڈیو بنا کر اپنے بھائی کو دی تھی جسکو استعمال کر کے اسنے‬
‫تمہیں بلیک میل کیا تھا اور تمہاری چودائی کی تھی ۔ اسی بات کی مجھے سزا ملی ہے‬
‫کہ میرا بھی ریپ ہوگیا اور میری بھی کسی نے ویڈیو بنا ڈالی۔ اب وہ میرے بابا کو بلیک‬
‫میل کر سکتے ہیں اس ویڈیو کے ذریعے۔ میں نے اسے تسلی دی کہ فکر نہ کرو ایسا‬
‫کچھ نہیں ہوگا مگر وہ بولی کہ نہیں میرے بابا کے بہت دشمن ہیں انکا مقصد یہی ہے۔‬

‫ابھی ہم یہ باتیں کر ہی رہے تھے کہ سائرہ کی امی کمرے میں آئیں اور انہوں نے بتایا‬
‫کہ باہر کوئی سب انسپیکٹر ماجد خان آیا ہے۔ وہ تمہارے ابو کے پاس بیٹھا ہے اور‬
‫اسکو کسی طرح پتا لگ گیا ہے اس گینگ ریپ کے بارے میں لہذا تم دونوں اندر ہی رہنا‬
‫اور باہر نہ نکلنا۔ ہم اسکو کسی طرح پیسے دیکر اس معاملے کو دبانے کی کوشش‬
‫کریں گے۔‬

‫یہ کہ کر آنٹی چلی گئیں اور سائرہ کے چہرے پر ہوائیاں اڑنے لگیں۔ وہ بولی دیکھا میں‬
‫نے کہا تھا نہ۔ یہ انسپیکٹر بھی ابو کو بلیک میل کرنے ہی آیا ہوگا۔ میں نے اسکو تسلی‬
‫دی اور کہا تم ادھر ہی رہو میں دیکھ کر آتی ہوں۔ سائرہ نے مجھے روکا کہ امی منع کر‬
‫کے گئی ہیں مگر میں نے سائرہ کو کہا فکر نہیں کرو وہ انسپیکٹر تمہیں جانتا ہوگا‬
‫مجھے نہیں۔ میں دیکھتی ہوں کیا معاملہ ہے۔‬

‫یہ کہ کر میں نیچے ڈرائنگ روم میں چلی گئی جہاں مہمانوں کو بٹھایا جاتا تھا۔ مجھے‬
‫دیکھ کر ماجد خان اپنی سیٹ سے اٹھ کھڑا ہوا اور بوال تو یہ ہیں آپکی بیٹی۔ اس پر آنٹی‬
‫بھاگ کر میرے پاس آئیں اور بولیں بیٹا میں نے تمہیں منع کیا تھا ادھر نہیں آنا تو میں‬
‫نے آنٹی کو کہا آنٹی آپ فکر نہ کریں آپ اوپر جائیں سائرہ کے پاس میں دیکھنا چاہیتی‬
‫ہوں کہ یہ یہاں کیوں آیا ہے۔ میری بات سن کر آنٹی اوپر چلی گئیں جبکہ سائرہ کے ابو‬
‫اور وہ سب انسپیکٹر وہیں بیٹھا رہا۔‬

‫مجھے سائرہ کے ابو نے بھی کہا کہ بیٹا آپ اوپر سائرہ کے پاس جاو میں ان سے بات‬
‫کر لوں گا۔ مگر میں نہ مانی اور وہیں بیٹھ گئی۔ میں نے ماجد خان سے پوچھا کہ آپ‬
‫یہاں کیوں آئے ہیں۔ تو اس نے کہا کہ پہلے آپ اپنا تعارف کروائیں۔ تو میں نے کہا میں‬
‫انکی بیٹی سائرہ کی دوست ہوں اور اس سے ملنے انکے گھر آئی ہوں۔ میری بات سن‬
‫کر ماجد خان نے کہا کیا آپکو معلوم ہے کہ پچھلے کچھ دنوں کے دوران آپکی دوست‬
‫سائرہ کے ساتھ کوئی حادثہ پیش آیا ہے؟؟؟‬

‫میں نے کہا نہیں ایسا کچھ نہیں ہوا وہ بالکل ٹھیک ہے۔ اور میرے ساتھ ہی ہوتی ہے‬
‫وہ۔ سائرہ کے ابو نے بھی کہا کہ ہاں اسکو کوئی حادثہ پیش نہیں آیا آپکو کوئی غلط‬
‫فہمی ہوئی ہے۔ اس پر ماجد خان نے کہا آپ پولیس سے کچھ چھپائیں گے تو یہ بھی‬
‫جرم ہوگا۔ بہتر ہے میرے ساتھ تعاون کریں اور اصل حقیقت مجھے بتائیں کہ آپکو کیا‬
‫معلوم ہے۔ سائرہ کے ابو نے بھی اسکو کرخت لہجے میں بوال کہ ایسا کوئی مسئلہ نہیں‬
‫ہے آپ نے بالوجہ زحمت کی ہے آنے کی ہم سب بالکل ٹھیک ہیں۔ آپ برائے مہربانی‬
‫یہاں سے جائیں۔‬

‫اس پر ماجد خان نے پرسکون لہجے میں کہا کہ ‪ 3‬دن پہلے اسکو بہالپور روڈ سے ایک‬
‫چوری شدہ گاڑی ملی ہے۔ اس گاڑی میں ایک لڑکی کے پھٹے ہوئے کپ َڑ موجود تھے‬
‫اور ایک بیگ موجود تھا۔ اس بیگ میں آپکا کارڈ تھا جسکا مطلب ہے کہ وہ لڑکی آپکو‬
‫جانتی ہے۔ اور ساتھ ہی ایک الش بھی ملی ہے ۔ جو کسی نامی گرامی غنڈے کی ہے۔‬
‫اس الش کے کپڑوں میں سے ایک موبائل مال ہے جس میں ایک لڑکی کے ریپ کی‬
‫ویڈیو موجود ہے۔ ریپ کرنے والے ‪ 3‬لوگ تھے اور لڑکی کا چہرہ بہت واضح طور پر‬
‫اس ویڈیو میں دیکھا جا سکتا ہے۔ لہذا آپ پولیس کے ساتھ تعاون کریں تاکہ ہم مجرموں‬
‫تک پہنچ سکیں۔‬

‫ویڈیو کا سن کر میں نے بھی حیران ہونے کی ایکٹنگ کی اور سائرہ کے ابو بھی حیران‬
‫ہوگئے۔ میں نے ہکالتی ہوئی آواز میں کہا کہ وہ لڑکی سائرہ نہیں کوئی اور ہوگی۔ آپ‬
‫جائیں پلیز یہاں سے‪ ،‬مگر ماجد خان نے موبائل میرے سامنے کیا اور ایک ویڈیو آن کر‬
‫دی جو کہ سائرہ کی چدائی کی تھی اور میں نے ہی بنائی تھی۔ اسکو دیکھتے ہی میں‬
‫نے اسکو بند کرنے کا کہا اور سائرہ کے ابو کے کندھے پر سر رکھ کر رونے لگی۔ وہ‬
‫بھی سمجھ گئے تھے کہ یہ ویڈیو سائرہ کی ہی ہے اور اب بدنامی سے بچنے کا کوئی‬
‫راستہ انہیں سجھائی نہیں دے رہا تھا۔ انہوں نے مجھے بھی دالسہ دیا اور کپکپاتی ہوئی‬
‫آواز میں سب انسپیکٹر ماجد خان کو بولے کہ دیکھو میاں ہم پہلے ہی بہت پریشان ہیں‬
‫ہم اس معاملے کی تحقیقات نہیں کروانا چاہتے۔ اگر ہم نے کوئی رپورٹ درج کروائی تو‬
‫میری بہت بدنامی ہوگی بات میڈیا تک جائے گی۔‬

‫مگر ماجد خان بضد رہا کہ اسکو اس کیس کی انویسٹیگیشن کرنی ہے۔ وہ مجرموں تک‬
‫پہنچنا چاہتا ہے۔ ماجد خان نے سائرہ کے ابو کو کہا آج آپکی بیٹی کے ساتھ ایسا ہوا ہے‬
‫کل کسی اور کی بیٹی کے ساتھ بھی ایسا ہو سکتا ہے۔ میں ایک ایماندار اور فرض‬
‫شناس پولیس واال ہوں میرا فرض ہے کہ میں معاملے کی تحقیقات تک پہنچوں۔ آپکی‬
‫بیٹی کا ریپ کس نے کیا اور کیوں کیا؟ اور وہ الش کس کی تھی۔ کیا اسی شخص کی‬
‫تھی جس نے آپکی بیٹی کا ریپ کیا اور آپ نے اسکو قتل کروا دیا یا کوئی اور تھا‬
‫وہ؟؟؟‬

‫اس بات پر سائرہ کے ابو بولے کو وہ کسی الش کے بارے میں نہیں جانتے مگر وہ ان‬
‫پر رحم کرے اور اس معاملے کو یہیں پر چھوڑ دے۔ مگر ماجد خان کسی بھی طرح‬
‫راضی نہیں تھا۔ سائرہ کے ابو نے اسکو ‪ 1‬کروڑ روپے کی آفر بھی دی مگر وہ نہیں‬
‫مانا ۔ بال آخر وہ اٹھ کر جانے لگا اور بوال کہ اگر آپ تعاون نہیں کریں گے تو میں یہ‬
‫ویڈیو اپنے اعلی افسران تک پہنچا وں گا اور پھر یہ میڈیا پر بھی خبر آئے گی۔ وہ ہر‬
‫صورت میں اس کیس کی تحقیقات کرے گا۔ اب سائرہ کے ابو کی شکل دیکھنے الئق‬
‫تھی۔ انکو کچھ سمجھ نہیں آرہا تھا کہ وہ کیسے اس بدنامی سے چھٹکارا پائیں۔‬

‫تبھی میں نے مداخلت کی اور کہا کہ دیکھو اس کیس کی تحقیقات کر کے آپکو کچھ نہیں‬
‫ملے گا۔ صرف انکل کی بدنامی ہوگی‪ ،‬جس نے یہ کام کیا وہ تو مارا گیا۔ اور اسکو انکل‬
‫نے نہیں بلکہ انکل کے کسی دشمن نے مروایا ہوگا تاکہ شک انکل پر جائے۔ آپکے اوپر‬
‫جو افسر بیٹھے ہیں وہ سب کے سب بے ایمان اور رشوت خور ہیں۔ مگر آپ رشوت‬
‫بھی نہیں لیتے۔ آپکے افسر اس کیس کا ناجائز فائدہ اٹھائیں گے اگر آپنے یہ ویڈیو ان‬
‫تک پہنچا دی۔ اور اس میں نقصان سرا سر انکل کا ہوگا۔ پہلے ہی انکی بیٹی کے ساتھ‬
‫زیادتی ہوگئی ہے اب اگر آپ اس ویڈیو کو اپنے افسران تک پہنچائیں گے تو اس سے‬
‫انکل کی مزید بدنامی ہوگی۔ اور مجرم پھر بھی بچ جائیں گے۔‬

‫آپ ہم پر رحم کریں اور اس ویڈیو کو یہیں پر ضائع کر دیں بدلے میں ہم آپکی پروموشن‬
‫کروا دیں گے اور تھانے کا ایس ایچ و بنوا دیں گے۔ تاکہ آپ اپنے تھانے سے بے‬
‫ایمانی اور رشوت خوری کا خاتمہ کر سکو۔ اس طرح آپ آنے والے ایسے کسی حادثے‬
‫کو پہلے ہی روک سکو گے۔ کیونکہ اگر پولیس کے افسر اچھے اور ایماندار ہونگے تو‬
‫بہت سے جرائم کو انکے ہونے سے ہہلے ہی روکا جا سکتا ہے۔‬

‫میری یہ بات سن کر انکل فورا بول اٹھے کہ ہاں میں کل ہی اعلی حکام سے بات کر کے‬
‫تمہاری پروموشن کروا دوں گا۔ بس تم یہ ویڈیو مجھے دے دو اور اس کیس کو یہیں پر‬
‫بند کر دو۔ اس پر ماجد خان سوچ میں پڑ گیا اور باآلخر مان گیا۔ مانتا کیسے نا وہ‪ ،‬آخر‬
‫کار یہ سب ہمارے پالن کا حصہ تھا۔ ماجد خان پہلے ہی اپنے ایس ایچ و سے گالیں سن‬
‫سن کر اسے ناخوش تھا اور جب میں نے آئسکریم پارلر میں بیٹھ کر اسکو سائرہ کے‬
‫ساتھ یہ کرنے کو کہا تو اس نے فورا ہی انکار کر دیا کہ اسکے ابو بہت طاقتور انسان‬
‫ہیں وہ اسکو چھوڑیں گے نہیں۔ مگر میں نے اسکو پورا پالن بتایا کہ کس طرح وہ ہم‬
‫دونوں کو اغوا کرے گا پھر اسکی ویڈیو بنے گی اور پھر کچھ دنوں کے بعد وہ انکے‬
‫گھر پولیس والے کی حیثیت سے آئے گا اور کسی نہ کسی طرح اسکی پروموشن کروا‬
‫دی جائے گی۔ کیونکہ میں جانتی تھی کہ سائرہ کے ابو کبھی بھی نہیں چاہیں گے کہ یہ‬
‫بات پولیس تک پہنچے اور انکی بدنامی ہو۔‬

‫سب کچھ پالن کے مطابق ہوگیا تھا۔ میں جانتی تھی کہ آج ماجد خان نے آنا ہے اسی‬
‫لیے میں سائرہ کے گھر گئی تھی کہ بات کو کسی طرح اسکی پروموشن کی طرف لے‬
‫جا سکوں۔ اور آخر کار ماجد خان پروموشن کا سن کر مان گیا اور وہ ویڈیو انکل کے‬
‫حوالے کر دی۔ مگر ساتھ ہی بوال کہ اسکی ایک کاپی اسکے پاس موجود ہے جو وہ‬
‫پروموشن ہونے کے بعد دے گا۔‬

‫نا تو کوئی اور کاپی اسکے پاس موجود تھی اور نہ ہی کوئی الش ملی تھی اور نہ ہی‬
‫کسی لڑکی کے پھٹے ہوئے کپرڑے ملے تھے گاڑی سے۔ یہ سب جھوٹ تھا جو پالن‬
‫کے مطابق بوال گیا۔ اسطرح میرا بدلہ بھی پورا ہوگیا اور ماجد خان کی پروموشن بھی‬
‫ایک ماہ کے اندر ہوگئی۔‬

‫سائرہ اس گینگ ریپ کے بعد کسی طور بھی نارمل نہیں ہورہی تھی دوسری طرف سائرہ‬
‫کا بھائی بھی اپنی حرکت پر شرمندہ تھا اور چپ چپ رہنے لگ گیا تھا۔ وہ بھی یہی سوچ‬
‫رہا تھا کہ اسکی بہن کے ساتھ جو ہوا وہ فائزہ کو بلیک میل کرنے کی سزا ملی ہے۔‬
‫دونوں بچوں کی حالت دیکھ کر انکل سے رہا نہیں گیا اور نہوں نے پاکستان چھوڑنے کا‬
‫ارادہ کر لیا۔ سائرہ کے گینگ ریپ کے ‪ 2‬ماہ کے بعد وہ سب لوگ پاکستان چھوڑ کر‬
‫امریکا شفٹ ہوگئے۔‬

‫اس واقعہ کے ایک سال بعد تک مسلسل ہر ہفتے باقاعدگی سے سائرہ مجھے کال کرتی‬
‫اور مجھ سے باتیں کرتی۔ وہ اکثر اوقات مجھ سے معافی بھی مانگتی لیکن آہستہ آہستہ‬
‫اسکی حالت بہتری کی طرف جا رہی تھی۔ ایک سال بعد مجھے پتہ لگا کہ وہاں کسی‬
‫بڑے بزنس میں کے بیٹے کے ساتھ سائرہ کی شادی ہوگئی ہے اور وہ اسکے ساتھ بہت‬
‫خوش ہے۔‬

‫ادھر رضوان کے ساتھ میرے جنسی تعلقات لمبے عرصے تک رہے۔ وہ بال تردد اپنے‬
‫دوستوں کے سامنے مجھے چودتا اور انکو بھی دعوت دیتا کہ وہ اسکی منگیتر کو جی‬
‫بھر کر چودیں۔ میں نے بھی رضوان کے ساتھ مل کر بہت سے لوڑوں کی سواری کی‬
‫کسی سے گانڈ چدوئی تو کسی سے چوت۔ بہت سے لن اپنے منہ میں لیے۔ مگر اب‬
‫رضوان کی نظر میں میری عزت نہیں رہی تھی۔ حاالنکہ اپنے دوستوں کے ساتھ چدائی‬
‫کروانے واال رضوان ہی تھا۔ میرے ساتھ دوسری لڑکی رافعہ کی چودائی کا شوق رضوان‬
‫کو تھا اور اسی کے لیے اس نے مجھے ندیم سے چدائی کروانے پر بھی منع نہیں کیا۔‬
‫اور بھی اسکے جتنے دوست تھے وہ مجھے چود چکے تھے۔‬

‫پھر ایک دن رضوان نے میرے ساتھ اپنی منگنی توڑ دی۔ مجھ پر یہ خبر پہاڑ بن کر‬
‫ٹوٹی۔ میں نے رضوان سے وجہ جاننی چاہی تو اس نے حقارت کے ساتھ کہا تم جیسی‬
‫لڑکی سے کون شادی کرے گا جو پتا نہیں کس کس کے لن کو اپنی چوت میں لے چکی‬
‫ہے۔ میں نے اسکو چال کر کہا کہ تم بھی تو دوسری لڑکیوں کو چودتے ہو اور تمہاری‬
‫اجازت سے ہی یہ سب کچھ ہوتا رہا ہے۔ جس پر وہ بوال میں تو مرد ہوں۔ جو مرضی‬
‫کروں مگر تم ایک لڑکی ہو تمہیں اپنی عزت کی حفاظت خود کرنی چاہیے۔ اسنے میرے‬
‫گھر والوں کے سامنے بھی کہ دیا کہ آپکی بیٹی کا کریکٹر ٹھیک نہیں اس لیے میں اس‬
‫سے شادی نہیں کر سکتا۔‬

‫میں اسکے آگے کچھ نہ بول پائی اور میرے والدیں کو بھی رضوان کے سامنے رسوا‬
‫ہونا پڑا۔ میرے بہنوئی عمران نے بھی میرے ساتھ جنسی تعلق قائم رکھا انکو جب کبھی‬
‫موقع ملتا وہ میری چوت الزمی لیتے۔ ایک دن جب میں انکے لن پر سواری کر رہی تھی‬
‫تو ہم دونوں کو صائمہ نے دیکھ لیا۔ اور عمران بھی فوری طور پر سارا الزام مجھ پر‬
‫لگانے لگے کہ رضوان نے اس سے منگنی اسی لیے توڑی کہ یہ ٹھیک لڑکی نہیں آج‬
‫اس نے اپنے بہنوئی کو بھی نہیں چھوڑا اور اپنے ننگے جسم سے مجھے ورغالنے‬
‫لگی اور بال آخر میرا لن اپنے منہ میں لیکر چوسنے لگی۔ اور بات یہاں تک پہنچ گئی‬
‫کہ اب یہ میرے لن پر سوار ہے۔ صائمہ نے بھی انے شوہر کی بات پر یقین کیا اور‬
‫مجھے دھتکار دیا ۔ اس نے یہ بات امی ابو کو تو نہیں بتائی مگر وہ دوبارہ کبھی مجھ‬
‫سے نہیں ملی۔ اور اسی طرح عمران بھی اپنا دامن بچا کر نکل گئے۔ آخر وہ بھی ایک‬
‫مرد تھے انکے لیے سب کچھ جائز تھا۔ جب انہوں نے پہلی بار مجھے گھر میں اکیال پا‬
‫کر میری چدائی کی تب میرا کریکٹر برا نہں تھا۔ لیکن جب انکی بیوی نے پکڑ لیا تو‬
‫میرا کریکٹر برا ہوگیا۔‬

‫مجھے اس غلط راستے پر لگانے والے عمران ہی تھی۔ سب سے پہلے انہوں نے ہی کم‬
‫عمر میں مجھے لن کا مزہ چھکایا۔ اسکے بعد رضوان نے مجھے سیکس کے لیے‬
‫ابھارا۔ مگر جب میں رضوان کے ساتھ کھل کر سیکس کرنے لگی تو اسکو لگنے لگا کہ‬
‫میں اسکے قابل نہیں۔ اور جب عمران کے ساتھ پکڑی گئی تو عمران نے بھی اپنا دامن‬
‫جھاڑ لیاا ور مجھے تنہا چھوڑ دیا۔‬

‫اب گھر میں میری خوب بدنامی ہوچکی تھی۔ کوئی بھی مجھے اچھی نظر سے نہیں‬
‫دیکھتا۔ میری اس کہانی میں ان تمام لڑکیوں کے لیے ایک سبق ہے جو غلط راستے پر‬
‫چل نکلی ہوں۔ یہ معاشرہ مردوں کا ہے صرف۔ اس میں لڑکی کی کوئی عزت نہیں۔‬

‫میں مانتی ہوں کہ میری بھی غلطی ہے اس سب میں۔ مگر کیا باقی لوگوں کی عمران‬
‫اور رضوان کی کوئی غلطی نہیں؟؟ کیا انہوں نے مجھے اس غلط راستے پر ڈالنے میں‬
‫اہم کردار ادا نہیں کیا؟؟ بالشبہ وہ اس میں برابر کے شریک تھے۔ مگر وہ تو بہت‬
‫صفائی کے ساتھ اپنا دامن بچا کر نکل گئے۔ اگر کسی کا نقصان ہوا تو صرف میرا۔‬
‫کیونکہ میں ایک لڑکی ہوں۔‬

‫میری ان تمام لڑکیوں کو نصیحت ہے جو شادی سے پہلے سیکس کا مزہ لینا چاہتی ہیں۔‬
‫اپنی عزت کی حفاظت آپ نے خود کرنی ہے۔ مشکل وقت میں کوئی آپکے ساتھ نہیں‬
‫ہوگا۔ سب آپ پر ہی انگلیاں اٹھائیں گے۔ لہذا اپنے جسم کی اور اپنی عزت کی حفاظت‬
‫الزمی کریں۔ چاہے آپکا منگیتر ہی کیوں نہ ہو اسکو بھی شادی سے پہلے اپنے قریب نہ‬
‫آنے دیں۔ ورنہ وہ آپکے جسم سے لطف اندوز ہوتا رہے گا اور جب اسکا دل بھر جائے‬
‫گا تب وہ آپکو ایک بد کردار لڑکی کہ کر ٹھوکر مار دے گا۔‬

‫سائرہ آج اپنے گھر میں خوش ہے‪ ،‬اسکی ایک وجہ شاید یہ ہے کہ اسنے جو غلط کام‬
‫کیا تھا اسکا میرے سامنے اقرار کیا اور مجھ سے معافی بھی مانگی۔ مگر میں نے‬
‫اسکے ساتھ جو کیا نہ تو اسکو آج تک پتا لگا اور نہ ہی مجھ میں اس سے معافی‬
‫مانگنے کی ہمت پیدا ہوئی۔ جسکی مجھے یہ سزا ملی۔‬

‫آپ سب بھی اپنے گناہوں کی معافی ضرور مانگیں۔ ورنہ آپکا کونسا گناہ آپکو لے ڈوبے‬
‫گا انسان کو اس چیز کا پتا بھی نہیں لگتا۔‬
‫ختم شد‬

You might also like