Professional Documents
Culture Documents
فقہ الجہاد
فقہ الجہاد
عاطف ہاشمی
۱۵مئی ۲۰۲۲ء
دوحہ۔ قطر
تمہید:
قطر میں مقیم مصری نژاد نامور عالم دین ڈاک ٹر یوس ف عب دہللا
القرض اوی ک ا ن ام محت اج تع ارف نہیں۔آپ علم اء اس الم کی ع المی
ی ونین (االتح اد الع المی لعلم اء المس لمین) کے ص در ہیں اور اپ نی
گ راں ق در علمی تص انیف اور دع وتی و فقہی خ دمات کی ب دولت
دنی ا بھ ر میں نمای اں مق ام رکھ تے ہیں۔ پچ اس س ے زی ادہ کتب کے
مص نف ہیں جن میں س ے اک ثر کت ابوں کے ت راجم دنی ا کی مختل ف
زبانوں میں ہوچکے ہیں ،آپ کے معتقدین اور مح بین ک ا ای ک بڑا
حلقہ ہے جو عرب دنیا سے لے کر یورپ اور امریکہ تک پھیال ہوا
ہے اور آپ ک و مجتہ د عص ر،مج دد ملت اور مفک ر اس الم جیس ے
خطابات سے یاد کرت ا ہے۔ش یخ قرض اوی کے دروس وخطاب ات پ ر
مشتمل ویڈیو اور ٓاڈیو سی ڈیز کی تع داد ۵۰۰س ے متج اوز ہے ،آپ
کے چاہنے والے جدت پسندی اور روشن خیالی آپ کا خ اص وص ف
شمار کرتے ہیں۔ش یخ قرض اوی کے بعض فت اوی جمہ ور علم ائے
اسالم کی رائے سے مط ابقت نہیں رکھ تے جس کی وجہ س ے بس ا
اوقات آپ کو تنقید کا نش انہ بھی بنای ا جات ا ہے۔ ن ائن الی ون کے بع د
جس طرح دنیا بھر میں اسالمو فوبیا کا مشاہدہ کیا گی ا اس ی ک ا اث ر
ہے کہ شیخ قرضاوی جیسی معتدل سمجھی ج انے والی شخص یت
ک و بھی متن ازعہ بن ا ددی ا گی ا چن انچہ بعض ع رب ریاس توں نے
مودودی
ؒ دہشت گرد عناصر کی ایک فہرست تیار کی جس میں موالنا
قطب س میت آپ ک و بھی ش امل کی ا گی ا۔اس کے بع د س ے ؒ اور س ید
مسلم حلقوں میں یہ تشویش پیدا ہوگ ئی کہ آی ا واقعی عالمہ قرض اوی
دہشت گرد ہیں یا انہیں کسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہ ا ہے؟بن ا ب ریں
5
خ
ا ت ت امی ہ
فق خ فق خ
اب ت ہ ق اق جلہاد می ںت ا ت یت ار غکردہ خ ہیع تک ری یم ہ) ت ج (ی ہ ا ج ت ش ی
ام ت ت
ح
ہادی است ن ب اطات ،لمی ی ات اور ج زی ا ی ور و وض حات ،ا ت ری ن ئ
ے۔ م م
کے ت ا ج پر ل ہ
()1
-شیخ قرضاوی اس کے حاشیے میں لکھتے ہیں" :ہم نے اس اہم اختتامیے 1
کا اضافہ س عودی ع رب کے ش ریف زادے اور پی ارے بھ ائی ڈاک ٹر علی
حم زہ العم ری کی تج ویز پ ر کی ا ،ان کی رائے تھی کہ اس میں فقہی
اختی ارات و ترجیح ات پ ر اکتف ا کی ا ج ائے ،اور اس عم ل میں انہ وں نے
مقدور بھر کوشش کر کے اپنا حصہ ڈاال جس پ ر ہم نے نظرث انی کی اور
کچھ اض افات ک یے ،ہللا ان کی مس اعی ک و قب ول فرم ائے ،لیکن ہم نے
مناسب سمجھا کہ اس کے دائرے کو وسعت دی ج ائے ت اکہ جس ق در ہ و
س کے اجتہ ادی اس تنباطات ،علمی تحقیق ات اور تجزی اتی غ ور و خ وض
جیسے امورشامل کر دیے جائیں ،چنانچہ اب یہ اختتامیہ کتاب میں مذکور
بنیادی مفاہیم کا خالصہ بن گیا ہے ،اور اس عم ل میں پی ارے بھ ائی ش یخ
مج د مکی نے گرانقدرحص ہ ڈاال ہے ،ہللا انہیں ج زائے خ یر دے۔"
القرضاوي ،محمد يوسف2001 .م .فقه الجهاد .دوحة :دار الشروق.
15
()2
حصہ اول
ح ف
م حق ق
ب اب اول :ج ہاد کی ی ت ،ہوم اور کم
ح ف
م حق ق
( )3
ب اول :ج فہاد کی ی ت ،ہوم اور کم (
) بف ا ق ف
ف ق ے: ادہ وسیمعفہ یز سے ظ ن ہاد کا م ہوم ت ال کے ل ج ظ -1ل
ل من تج
ے کہ ع ی و ہوم ئکے لحاظ سے ظ ت ال کی ب ہ می فں ے اس ب ات کو ر ی ح ندی ہ ن
ے) کا تدا رہ کہی ں زی ادہ وسعت ثکا حامل وا ہ وارد ں م ت س وشاب ت کہ
ف ک یسا ج( ہاد ظ
ب ق ج ل ت س
ے ،اور اک رخ لوگوں ل ال کے م ہوم م ں د من کےی مق ا لہ م ں اہس حہ کا اس عمال ش ام ے۔ ت
نہ غ شل ق ن فبق ی ی ن
ہ
ت م م
اور ل وی ع ی ج ہاد سے لف ل ج
م س ط ی
ے حاال قکہ ظ ت ال کانا ت اق ش ہ
ف ھا لب م ہی کا ف ہاد ج تے
ے اور اس طرح ی ہ الح می ں ل ظ ج ہاد ب ت ال نکے مع ی میت ں م ہور ہ و گ ی اہ ت ے اہ م ق ہ کی اص ط ہ
ئ
()4
ے۔ اہ م اص طالح پر حث ہی ں کی ج ا ی۔ ہ ی گ ن ب الح ط اص
2
-اصل کتاب دو حصوں پ ر مش تمل ہے ،ہم نے اص ل ک و م دنظر رکھ تے ہ وئے اس
ترجمے کو بھی دو حصوں میں تقسیم ک ر دی ا ہے اور توض یحی حواش ی و تعلیق ات
کے لیے صرف حصہ اول کو مختص کیا ہے۔ مترجم۔
3
-اختتامیے میں مصنف نے اس طرح ابواب بندی اور فصول کا اہتم ام نہیں کی ا جیس ا
کہ اصل کتاب میں ہے،ہم نے قارئین کی آسانی کے لیے ترجمہ میں ہر باب سے پہلے
الگ سے باب کا عنوان دیا ہے جسے آخر تک ملحوظ رکھا گیا ہے۔ مترجم۔
4
-یہ مشہور عربی قاعدے (المشاحة في االصطالح) کا ت رجمہ ہے،اس کے مفہ وم کی
تعیین میں کافی اختالف پایا جا تا ہے یہاں تک کہ ای ک ع رب س کالر ڈاک ٹر محم د بن
16
ف
:()5
ہوم -2ل ف ظ اسالمی ہاد کا م
تج ف ن ف ج
سی مسلمان کا سے قمراد ک ن
اس ت دی جسنمی ں ش کے اس خم تہوم کو ر ی ح ن می ں ے قل ظ ج ہاد ئ
ے(اور ط اپ ی بساط کے ب در ک تسی برا ی کے ا م
ے کو ش کر ا اور ب ا ل کا عا ب کر ا ہ ے کے یل
ن ن ے ہ ی غں)ن ل ی ن درج اس کے درج ذی ش
.1پ ہئال درج ہ خ ی طان کے نور الے کی وج ہ سےاپ ی ذات می ں (پ ی دا ہ وے والی)
ئ ئ ن ے۔ ش برا ی کےن الف جن ہاد کر پ اہ
ن
ے گردو یش می ں معا رے کے ا در(پ ا ی ج اے والی) برا ی کا دوسرے مب ر پر اپ
ن .2ق
ن ش ت ق ق ق ن ت ا۔ کر لہ
خ با م
.3اور آ ر ی (بل ن د ری ن درج ہ) اپ ی طا ت کے ب در کسی ب ھی ج گہ ر کا عا ب کر ا
ے۔ ہ
ت
ض ع
م ش ئ تعق
ے:نب السیف کا لق معامالت سے ہ -3ج ہاد
ت
است سے م ل ہ مسا ل کے من می ں ا فل
ق ں ےق ج ہاد ب قالسیف کو امت و رعی ش ن می ق
ے ج و کہ ہ ہ سے کامحا کے است سی رعی ق ل کا اس کہ ا ید رار اس کرقے(کو )6ی ی
ن ر
م اصد و مصالح ،
()7
حسین الجیزانی کو اس قاعدے کا معنی متعین کرنے کے لیے ایک تحقیقی مق الہ لکھن ا
پڑا ج و کہ "المش احة في االص طالح :دراس ة أص ولیة تطبیقی ة" کے عن وان س ے مجلۃ
األصول والنوازل کی جلد -۱شمارہ ۲۔ رجب ۱۴۳۰ھ– جوالئی ۲۰۰۹ء میں شائع ہ وا۔
ہم نے اس مقالے سے استفادہ کرتے ہوئے یہ ترجمہ کیا ہے۔ مترجم۔
5
-ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی کتاب " الجہاد االکبر" میں لفظ جہاد کے لغوی و
اصطالحی مفہوم پر ب ڑی نفیس بحث کی ہے اور ش یخ قرض اوی کے موق ف کی تائی د
کی ہے۔ دیکھی ئے :الق ادری ،ط اہر۔ 2015ء۔ الجہ اد االک بر۔ الہ ور ،منہ اج الق رآن
پرنٹرز۔ 13۔
6
-فقہ المقاصد اور فقہ المصالح ای ک ہی علم کے دو ن ام ہیں ،مص نف نے اص ل کت اب
میں بھی ان دونوں کو ایک س اتھ ذک ر کی ا ہے،ہم نے اص ل کی رع ایت ک رتے ہ وئے
ترجمہ میں بھی دونوں کو جمع کر دیا ہے۔اگلے حاشیے میں اس علم کی تعری ف بی ان
کی جاتی ہے۔مترجم۔
7
-متقدمین اہ ِل علم کے ہ اں فقہ المقاص د والمص الح کے ن ام سے مس تقل کس ی علم کا
وج ود نہیں تھابلکہ اص ول فقہ کے ض من میں ہی اس علم وفن س ے بحث کی ج اتی
تھی،چن انچہ فقہ و اص ول فقہ کی کت ابوں میں مقص د ،مص لحت ،حکمت ،منفعت اور اس رار
وغیرہ کی ج و تعب یرات مل تی ہیں انہی مب احث ک و مت اخرین نے ال گ س ے عن وان دے ک ر
مس تقل علم کی ش کل دے دی ہے۔اس موض وع پ ر ش یخ نورال دین الخ اومی نے "االجتهاد
المقاصدی حجیت ه ،ض وابطه ،مجاالت ه" کے ن ام س ےمفید کت اب لکھی جس میں المقاص د کی
تعریف یوں کی ہے:
المقاصد ھي المعاني الملحوظة في ا ألحکام الشرعیة والمترتب ة علیھ ا س واء أک انت تل ك
17
قئ ن ( )9ف ق ن ( )8ف ق فق
ے۔
اولوی اتن( ) 10کی ب ی اد پر ا ہ ن
م ہ مواز ات ،ہ مآالت اور قہ ش
ن نسے الگ ہی ں نکر دی ت ا کی ای ک سم مار کر ا اسے دی ق ن ت اور می را ج ہاد کو معامالت ہ ی
ن
اس می ں ی ت ے ،خاور قج ب ج ہاد خ ا و ی ہ و اور ت بیک و کہ معامالت کا ع ب ادات شکے سا ھ گہرا رب ط ہ
ھی درست ہ و ی ااسقمی ں رعی حدود اور اسالمی ا ال ی تات کا ی ال رکھا گ ی ا ہ و و ی ہ ہللا کی
س
ق ے۔ ت ع ب ادت اور اس کے رب کا سب سے ب ڑا وس ی لہ جم ھا ج ا ا ہ
ن
ے ،اور ت ال ے ہ کہ اسح ب اب کے یل ےہ القتال) وج وب کے یل عليكم ق
ف -4آی ت (كتب
ے: رض ت ال ہ سے مراد تامت پر ف ن
می ں ے ہللا عالی کے رمان:
ب َعلَ ْي ُك ُم ْالقِتَالُ﴾""﴿ ُكتِ َ
المعاني حکما جزئیة أم مصالح کلیة أم ِسمات إجمالیة وھي تتجمع ضمن ھدف واحد ،ھو تقریر
عبودیة ہللا ومصلحة اإلنسان فی ال دارین .الخ اومي ،ن ور ال دين1999 .م .االجتهاد المقاص دی
حجیته ،ضوابطه ،مجاالته .بيروت :دارالعلم للماليين.1:52 .
”مقاصد سے مراد وہ اہ داف بھی ہیں ج و ش رعی اَحک ام میں ملح وظ رکھے گ ئے ہیں
اور وہ بھی ہیں جو اُن شرعی احکام پ ر م رتب ہ وتے ہیں ،خ واہ وہ اہ داف ج زوی حکم تیں
ہوں ،کلی مصلحتیں ہوں یا اجمالی نشانیاں،اور یہ سب مقاصد اپنے ضمن میں ای ک ہی ہ دف
الی کی بن دگی ک ا اظہ ار کرنااور انس ان کے ل یے دنی ارکھ تے ہیں اور وہ یہ کہ :ہللا تع ٰ
اورآخرت میں فائدہ بہم پہنچانا “۔
8
-فقہ الموازنات سے مراد مصالح اور مفاسد کا تین طرح سے موازنہ کرنا ہے:
-1جائز َمصالحَ ،منافع اور بھالئیوں کا ٓاپس میں موازنہ۔
۲۔ ممنوع َمفاسدَ ،مضرتوں اور برائیوں کا ٓاپس میں موازنہ۔
۳۔ اسی طرح مصالح و مفاس د اور منفعت و مض رت کے ب اہم متص ادم ہ ونے کی
صورت میں موازنہ۔ السوسوة ،عبدالمجید۔2004م .فقه الموازنات في الشریعة الإسالمية .دبي:
دارالقلم.13 .
9
-مکلف کے اعمال پر مرتب ہونے والے ان اثرات و نت ائج کی رع ایت کرن ا ج و کہ
شرعی حکم کی تکییف پر اثرانداز ہوتے ہیں فقہ المآالت کہالتا ہے،جیس ا کہ حض رت
خضر کا بادشاہ کے ڈر سے کشتی میں سراخ کرنا۔ العثم اني ،س عد ال دین2017.م .فق ه
المآالت مفهومه وقواعدہ .القاهرة .دارالکلمة.17 .
- 10فقہ االولویات سے مراد اس امر کا فہم ہے کہ جو عمل اہم ہو اسے غیر اہم پر ،اور
جو راجح ہو اسے مرجوح پر مقدم رکھ ا ج ائے،اور ہ ر حکم ک و ش ریعت کے مط ابق
مق ام دی ا ج ائے ،اس موض وع پ ر عالمہ قرض اوی نے (في فق ه األولويات )کے ن ام
سےمستقل کتاب لکھی ہے جوکہ مؤسسۃ الرسالہ بیروت سے چھپی ہے۔
18
ت ف
()11
ے۔" ی
ئ
گ دی کر رض ر م الف)
خ
کے روروں ہ "ج ن گ (ظ الموں اور ف ت ن
ہ پ ئ پ
ن ج ق کو استح اب کے ب
ے اور ج و (امام) نج ق صاص یہ ا د رار ح را ا و ہ ے ی کے
تف ل وب ج و ے ا ج ب ن
ش ْ ُ َ ُ
ان کے موی دی ن سے ل ک ی ا ن اور رمہ ت ب ن با ں یم ر یس کی " ﴾ لُ َا ت ِ ق ال م
ُ ك ْ
ي ل عَ ب
َ ِ تك ﴿ت " ت یآ ے
ے کہ ے ،و می ں ےناس کا ابخ طال ک ی ا ہ وب کے یل ے ن ہ کہ وج ن ےہ اب کے یل ے کہ ی ہ فاس ح ب ف ہظ
ے ج یسا فہ الف کے ی ع م
ت کے اس لے ا و ے آ ں یم ن ہذ ر پ طور وری اور ظ ل ری یہ ہ
ا
ے صيَا ُم﴾"میں ہے ،یعنی م پر (روزے ) رض یک ب َعلَ ْي ُك ُم ال َّ کہ (دوسری ) آی ت "﴿ ُكتِ َ
ئ
ت ے ہ ی ں۔ ن ن گ
ے کے ب ارے می ں ب ی فان ک ی ا قکہ وہ اس ح ب اب کے لی ق ()12
ت یصن و ت ق ی آ ے ہوں ا و ج اور ت
ن ق
رض رار دی ا گ ی ا اس کا ب ی ان امت پر ن ے و ی ہ ب ات ب ھی اب ل ب ول ہی ں ،یک و کہ ج و ت ال ت ق
ے ج و اس امت کے ا کر ال ت ھ سا کے ان مراد سے اس اور ے ا آ ں م ات ہتش
ہ ی ہ یہ گ ئ گز ت ی
آ ہ
ے۔سورت می ں ب ی ان ک ی ا گ ی ا ہ ف ے ہ وں ،ج یسا فکہ سا ھ لڑا ی می ں پش ل کرحرہ ف
ت ن رض جعی ن ی ا رض ک ای فہ؟ ت نکا رعی ق کم: -5ج ہاد
ہاد م ی ن پر ب ہ ہ ر صورت واج ب ہی ں ہ و ا، ل ک
ول کو ) ر ی ح دی کہ جت می ں ے (اس ن
ج
اب وے ہ ی ں یسا کہ: ہ نوے کے اس ب ب لکہ اس کے واج ب ہ
ش
حد سے گزرے والوں کی سرک ی کو روک ن ا۔
ن ف
اہ ل ای مان کے دی ن می ں ت ن ہ پ ی دا کرے کو روک ن ا۔
ن ن
مصی ب ت زدوں کو ج ات دالش ا ۔
ن خ ن ٹ
ئکات وف ہ و ا۔ ے ے د م وں کے حمل اور کمی ن گاہ وں می ں ب ی ھ
ت ن ئن ب
ے ب ج ہاد کفسی خھی وج ہ سے واج ب ہ و ج فاے و تچک ھ لوگ دوسروں کی ما دگی کر سک اور ج ت
ے۔ ا و ہ رض ی ہ ں م حاالت اص ر راد ا ن ہ ی ں ،اور ی ہ م ی
ع
ن ئہ ن ی ق ن پ
ت" ﴿انفِ ُروا ِخفَافًا َوثِقَااًلت ﴾" اس و ت ازل ہ و ی ج ب ب ی (علی ہ السالم) ے -6آغی ت
ن
ت ھی۔ ن ےم ادی کی ن وک کے یل زوہ بن
ے ج ہوں ے ارش اد ب اری عالی: یہ ا د واب ج کا ان ے می ں
"﴿انفِرُوا ِخفَافًا َوثِقَااًل ﴾"
ق 11
-الب رۃ.216:
12
-آیت وصیت س ے م راد س ورہ بق رہ کی آیت نم بر 180ہے جس ے یہ اں بمعہ ت رجمہ
ك َخ ْي رًا ْال َو ِ
ص يَّةُ ض َر َأ َح َد ُك ُم ْال َم وْ ُ
ت ِإن تَ َر َ ب َعلَ ْي ُك ْم ِإ َذا َح َ
پیش کی ا ج ا رہ ا ہے۔ُ ﴿ :كتِ َ
ُوف ۖ َحقًا َعلى ال ُمتقِينَ ﴾ (البق رہ )180 :تم میں جب کس ی کی َّ ْ َ ّ لِ ْل َوالِ َد ْي ِن َواَأْل ْق َربِينَ بِ ْال َم ْعر ِ
موت کا وقت قریب ہو اور وہ مال چھوڑ رہا ہ و ت و اس پ ر ف رض ہے کہ وال دین اور
قریب ترین رشتہ داروں کے لیے بہتر طریقہ پر وصیت کر دے ،اہل تقوی پر یہ ای ک
حق ہے۔
19
غن فق ب ل ک
ن
ن ()13
" ی)۔ ا ی و ہ ر و، ہ ھی ں
ی ف م ال ح س ج( ھاری ب ا ی و ہ ےک ے) ہ
لو، " (ج ہاد کے یل
ے و رض قعی ن ہ ی ں۔ اور می نں نے ج دالل کقی ا کہ ج ہاد ان احکام می ں سے تہ سے است ج ف
ے کا ک
ے ل اس و ت ج ہاد کے یل ےنن کو ض
ج (اس تم ہوم کو) را ح رار دی ا کہ آپ کی مراد وہ لوگ ھ
ت ح
آپﷺ ے ( تح رت) کعب ب ن مالک اور
ت ع ت ے ے اورت اسی یل کہ ان پر واج ب ہ پ کم دی ا ھان
ے وقالے ان کے سا یھ وں سے رک لق کر ل ی ا ھا ی ہاں ک کہ ب عد می ں ہللا ے رہ ج ا تیچنھ
ے ان کی وب ہ ن ب ول کر لی۔ ف
()14
()15
فانفروات" ن
استنفرتم ئ اسی طرح ب ی ﷺ تکے رمان " :إذا
ک ن کن
ن کن ے کا کہا ج اے و قل ج ای ا کرو" ے ل "جش خب مہیبں ج ہاد کے یل
ے ے ل ت) ج ہاد کے یل امام (و ت ےن ک ن ے جس ھی (ج ہاد) واج ب ہ کی رو سے اس ق ص پر ف
ے و ان پر ب االج ماع ج ہاد ک
ے کا ہ ے ل ے۔اور ج بت امام و ت کسی رد ی ا گروہ کو ج ہاد کے یل فکا کہ
ن ئ ے۔) ف ض رض عی قن ہ و ج ا ا ہ
ش دامی ج ہاد کی ر ی ت پر کو ی اج ماع قہی ں۔ (16
-7ا ن
ے کہ ا دامی ج ہاد اور دن قمن پر سال می ں ای ک ےہ ج
ے ب ی ان ک ی ا کہ ی ہ فو کہا گ ی ا ہ ں ن ف می ئ
ے درست کا
چ ہ و ہ د ع اع
پ ج م م ا ر اس کہ ہ ی اور ے ہ رض ر پ امت اس ا ق کر ی ند عہ چ ڑھا
ے :ئ ت ش
ن ف
ان قپرت اس ش صرف مدو امور پر اج ماع ہگ ہ ں۔ اس مو ع ر
ی ہال :ہ کہ ک پسی مس
سے ج ہاد شکر ا رض ہ و ت و ے ت آ ھس من د ں
ی ن م لک لم ت پ ی
ے او ی کہ (د من) کست کھا ج ہ ا ا و ہ ب ج وا ا کر امداد کی ران پ سب اور ے، جا ا ہ
13
-التوبۃ.41 :
14
امیہ اور
ک ،حض رت ہالل بن ؓ رام حض رت کعب بن مال ؓ -یہ واقعہ تین ص حابہ ک ؓ
حضرت مرارہ بن ربیعؓ کا ہے جو غزؤہ تب وک س ے پیچھے رہ گ ئے تھے اور جن اب
نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے انہیں مسلسل پچاس دن تک سوش ل بائیک اٹ کی س زا
دی تھی۔ قرآن کریم میں سورہ الت وبہ کی آیت ۱۱۸میں اس ک ا ذک ر کی ا گی ا ہے جس
مالک کی زبانی صحیح بخ اری کی کت اب ؓ کی تفصیلی روایت خود حضرت کعب بن
المغازی میں مالحظہ کی جا سکتی ہے۔ مترجم۔
15
-صحیح بخاری،کتاب الجہاد،حدیث نمبر .2783صحیح مسلم،کتاب االمارۃ،حدیث نمبر
.1353
16
-اسالمی فقہ میں جہادکی دواقسام پر زور دار بحثیں ہوئی ہیں ،پہلی قسم اقدامی جہ اد
کہالتی ہے جبکہ دوسری قسم کو دفاعی جہاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اقدامی جہادسے
مراد وہ جنگ ہے جب ایک اسالمی حکومت خود آگے بڑھ کر کسی دوسرے ملک پر
حملہ آور ہو ،جب کہ دفاعی جہادسے مراد وہ جنگ ہے جب کوئی دوسرا مل ک کس ی
پر ئاتفاق ہے جبکہ اقدامی ج ہاد فرضیت ق اسالمیع ملک پرع حملہ آور ہو۔ دفاعی جہاد کی ف ض ت
ے ج ب کہ دوسرا گروہ ا تسے ل ا ا ک ت ر کی اس ک ا ں، گروہ دو ش ہ ل فسے م
ے اور اس پر م عدد
تج ہ
دی ح ی ر کو ے
ئ
را
ی
کی ت
ف ض
ض ر عدم
ی ب ی
ھی ے
نہ
اوی رض ن ہ ں سجم ت ا ،ی خ ق رض
کے لم ل ا ق
ئ
ہ ی ت ھ ی
ے۔مت رج م۔ ے ہ ی ں ج ی سا کہ م ن کی ع ب ارت سے وا ح ہ دال ل پ یش یک
20
ئ
ق ئ ش ن ش ے۔ جا
س ض ت
ے ج ا ی ں اور روری ع کری طا ت اور ئار یکے ل کر ی کے یل ے
دوسرا :ی ہ کہ د فمن فکو ڈرا ق ت ق ف
ت ت
رادی وت ی ار کی ج اے۔ ت رب ی فت ی ا ہ ا ٹ ب در ک ای ف
فق ن نں رکاو ی ں :ٹ -8رض ک ای ہ می
ج
ے ہ ی ں ب او ودی کہ می ں ان ناعذار ہاء ےض ب یفان یک ے می ں و رکاو ی ں اور ج ر سال ہاد کر
ےکہ: ا ہ ا ا ہ ں م ان ے ں م وں ہ ا ت ج
م کے ہاس موق جف کو غ ر راج ح س
یہ ئ ک ئ ھ
ل اور ح ی ی دن ا کے ت مام یممالک امن ،ئ ج ن یگ ب ن
ل کے ن م ف قسا سے ع ذرا
ت ُرامن پ دی،
س تی
ہ
ے دعوت و غ کے موا ع را م کرے پر یل ب ری ،عی اور ب صری وسا ل کے ذری ع م ئ قئ پت فُرامن حری
ش ں۔ ئ یر ک م ا ے ا اق شرا ف
سے رب ط :ن ش -9ک ار سے لڑا ی کا ن رعی س ی اسی احکام ن
کے واج بفہ وے کو قمی ں ے رعی س ی است کے احکام ئج گ ن ق سے ہ ر سال ت دب قمن ن
ج ی ق
ے و کہ وسعت ،لچ ک، ن ہ کی ی تہ سم ا سی ہ ے نکو وز قی رار دی ا، ےن کی رائ کے ا ع خرار دی ت
ے ے۔اس یل
م
وصف کی حا فلق ہ ن ازی ی م ا ےس ی جے کر ول ب کو ر ظ ے ا ہ ہ ت ق
ک لف ار ق اء اور م ت
فق فق فق ق فق
مواز اتت اور ن ہئ اولوی ات کی جت ہ ن مآالت، ہ صالح،
ق من و اصد م ہ ) سمف ( ہ ی کی)
ئ کہ ( ق
ہ
ش ج ب ق
)اور
ت
()17
ازسر و ا ہاد (ا ہاد ا انی ے۔ ہ ئکی ان یش نرئ گی ا سام می ں ئ اساس پ ر ا تم ہ
ے سے اج ہاد ش دہ مسا ل سےے پ یش آمدہ مسا ل کا حل اخ ذ کرے ( اج ہاد پ ہل
17
-عصر حاضرمیں مختلف شعبہ ہ ائے زن دگی میں تغ یر ،دور جدی د کے افک ار اور
نت نئی ایجادات کی حیرت انگیزترقی نے ایسے مس ائل ک و جنم دی ا ہے جن کے ح ل
کے لیےجدی د فقہ کی ض رورت پیش آ گ ئی ہے۔ جیس ا کہ ٹیس ٹ ٹی وب کے ذریعے
انتقال جنین کا مسئلہ ،اعضا کی پیون دی ک اری ،انتق ال خ ون اور کرنس ی ک و س ونے
کے قائم مقام قرار دینا وغیرہ۔ ان نئے پیش آمدہ مسائل پر اجتہاد ک رنے کے عم ل ک و
اجتہ اد انش ائی کہ تے ہیں۔ القرض اوي ،محم د یوسف1996 .م .االجتھ اد في الش ریعة
ر والتوزیع.101 . اهرة :دارالقلم للنش المية۔ الق الإس
-2اجتہ اد انتق ائی س ے م راد یہ ہے کہ عص ر حاض ر کی ض رورتوںئک و م دنظر
رکھتے ہوئےاسالمی فقہ کے پورے سرمائے سے ایسا قول اختیار کی ا ج اے جس میں
ایک طرف مقاصد شریعت کو ملحوظ رکھا گیا ہو تو دوسری طرف فی زمانہ لوگوں
کی ضروریات کی بھی رعایت کی گئی ہو۔ مثال کے طور پ ر ای ک مجلس میں تین
طالقیں دینے کو امام ابن تیمیہ وامام ابن قیم کے مذہب کے مطابق ایک شمار کرن ا ،ی ا
حج کے دوران زوال سے پہلے بھی رمی جمرات کو جائز قرار دیناتاکہ حج اج ک رام
کو بھیڑ کی وجہ سے پیش آنے والی مشکالت سے بچایا ج ا س کے جیس ا کہ قط رکی
شرعی عدالت کے چیف جسٹس عالمہ عب دہللا بن زی د آل محم ود نے ام ام عط ا ء اور
امام طاؤوس جیسے تابعین کی پیروی میں اختیار کیا ہے۔ (باحوالہ باال)۔
21
غ خ ن ت چن خ ن ت ق ئ ( )18ت ن
ت
ے ب ی ر م لف دوسرے گروہ پر ک ہ ی ی یک ک ا ا یئ ن) ،وعی ا ت
الف اور ن ئسی ای ک گروہ کی ت ق ت س ن ت
ے او ی کہ ای ک گروہ ت دوسرے گروہ کے ج
ے و ش ع گ ج ا ش موق ود ہ ی کے یل ک ہ ہ اے ظ ت ر ت
اصول و اب ل تلحاظ امور کی پ اسداری کر ا ہ و۔ ف رعی
ف مسلمات کا اح رم کر ا ہ و اور
ن
ق مت ق نے؟ -10نکن وج جوہ قکی ب ا پر ج ہاد رض فک ای ہ ہ و فج ا اہ
ق ہ و گا ج ب کہ :ق ےضرا ح رار دی ا کہ ج ہاد می ں رضضک ای ہ تکانمع ی اس و ت ف ح ئ می ں پ ن
اور ض ا ی ع تکری وت س حری رورت کے طا ق صر حا ر کی ا ی ری ب ش ی .1امت ا
ب ن ت ب بٹ م ب ع ن کی م
ہ
سے اگر بر رف ہ ھی وٹ و ئان کے ے ووں ہ ی
وں اور می ن گانوں می ں ھ ہ ک س حا ل و قکہ د م ت ہ
ت
ے رب تی ت ی ا ت ہ لوگ ا ھا ی ں ج ن ے چ الے کی ذمہ داری ای نس کیق وف ہت و ،جس ے ث کے مت اب ل ےن ن ف ا لح
ت ط
ے ای ما ی اع ب ار سے م لوب ہ ی اری ت نکروا ہ
ج
ان خسبن سے پ ل کوجسما ئی ،س ی ا ی اور ا ی ب شلکہئ
ی
سی ا ی صارف اور د قگر ذمہف داریوں ئ ی
ن دی گ ی ہ و۔ اور ی ہ سب ا ی اے کوردو وش ،م قت
ے۔ ا کر ت ی ا ک ت و کے گ قتج کو امت و ج ےھ ر ے ن نید ھاال ب س کو ت ح نیال ص صادی ا
ج ض ض ف
ن
ے والے روز ا زوں ر ی پ ذیر روری سامان حرب و رب گ کوکسہارا دی .2ئ ج دی د ٹج
ے ج و علم و ہ ی ہو ا ت ت ی ج ں یم اس اور ) و ہ ل م اح (کی ت حی الص ل ی ج الو ن تکی سا سی و تیک
ن ش ش ے می ں بر ر ہ و۔ ج رب
من کو ڈراے کے ن اور ہللا کے د من اور امت کے د ق ضاس امر کے ذمہ دار .3
اب حل و ع د ہ ی ں ،ج ب نوہ ار صرف دار ذمہ کے ے کر اری ے روری ت ی کے
ش ن ئ ب ت پن ےت ی ط ل ق
وری امت گ ن اہ و پری ا ی گ غ پ و گے ں ی ھا
ن ب داری ذمہ ن ئ ی ا کی اری ل ی ی کے صد
ئ م لو ہ م
بب
ے ی ار و س
ے اور ھر ب ی ر ا لح سے چ ج اے گی ،اور ئاگرت وہ ایسا ہ کر پ ا ی ں ج یسا ہ و ان چ اہ ی
ے کے ب
ے و ک ی ا حکام و محکومی ن اور ک ی ا گران و رعای ا ،پوری کی پوری امت ے پڑے رہ گ مددگار کھل
ن
ن کن ن ت گ اہ گار ہ و گی۔ ن
ے والے معذوروں کا ے ل -11ہحمارے زماے می ں لوگوں کی عداد ب ڑھاے کے یل
ن ن ق ف ن نکم:
ے ں ہ ب وا ا ن ک ے ی کے ال ت ر راد ا عذور ر طور ی سما ج کہ ا
ی ہ ل ل ج ن
ش پ ن پم ن می ں ے ب ی ک ی
ان
ے: یک و کہ وہ کمزور اور معذور ہ ی ں ،می ں ے ی ہ است دالل اس ار اد رب ا ی سے ک ی ا ہ
ْ
ج َح َر ٌج َواَل َعلَى ال َم ِري ِ
ْض ْس َعلَى األ ْع َمى َح َر ٌج َواَل َعلَى األ ْع َر ِ "﴿لَي َ
حرجٌ﴾"
خ ن ن
ئ خ ن َ َ ن
ےاور ہ ب ی مار پر موا ذہ " اب ی ن ا پر کو ی موا ذہ ہی ں ،ہ اس پر ج و پ یروں سے معذور ہ
ن ش ()19
ے۔"
ن ت ف ن ک
ن ب ہ
ے ے ئھی ان کا ل ا د من کو پ س پ ا ہی ں کرے گا ب لکہ ی ہ و د اع کرے والوں کے لی ویس
ہ ی ب وج ھ ب ن ج ا ی ں گے۔
18
لف ت 19
-ا ح.17:
22
ن ت شخ
ت
ے کی ن درت و رتکھت ا
ق ن ک و ج ے ق ل ع کا ص ے س ا ک ب عض فشق ہاء کا ک ن ا ے کہ :ہاں ت
ہ ن ک بل تہ
ک
ن ق ی ش ہ پ ی ہ ھک ج ن ہ و لی
ے اکہ ے کی( درت ) ہی ں ر ھت ا و اسے ھی ل ا چ ا ی ے د یل کن (د من کو) چ ھ ت
ت خف ن ے۔ نکو ڈرای ا ج ا سک ب ھاری عداد سے د من
ے و ے کے ہ ح س ا اک ن و د د ں م ے زما مارے ہ کہ ا ک ان ب ے (اس پر )میئں
ن ل ت ی ج ین ی ین ئ ث
ے ہ وےک فرت کی کو ی تزی ادہ ا مینت ہی ں ر فی ،اور ہ مارے زماےن می ں وتج دی د ممالک پا ہ ہ
سماعت و
ٹ ے کم از کم جسما ی سالم ی اور کے یل ے ج اشےقوالےتہ ر رد ت ق ملک کی جوج می ں ب ھر یت یک
خ
ے ہ ی جںن اکہ ت ال اور اس کے لوازمات کا ب وج ھ ا ھا ب ت ی ح س
صارت بسی سی جال قم ی کو ن نرط رار دی ت س نک ہ
امداد ،ز یم وں کی دی کھ ب ھال، ے ت وؤں کے یل ے وہ جگ ن لوگ و ئ ت جال ہی فں کر ن سخک عضئ ت ے ،ا ن م ف
ت ے ہ ی ں۔ ن ا ی س ھرا ی سیس ع م د دمات سرا ج قام دے سک ی کھا ا پکا ا اور ص
ے ے قسے چ الی ا ج ا اق ہ صہ و بر ی ات کے ذری ع ج ے کا ضوہ ب ڑا ح ن ے آگاہ ک ی ا کہنج دی د قا لح می ں ئ
ے ع لی اور عملی وت ے کو ی زی ادہ جسما ی ل ی ا ت کی رورت ہی ں ب لکہ اس کے لی کے یل
اس ت
ن ش ے۔ درکار ہ و ی ہ
ن ف
ش ے پر ی ر عام(ئ )20ت(کا حکم): نسی ملک پر د من کے حملہ کر د نی -12ک
حملہ نزدہ لک کے ہریوں م ہ
لک پر اچ ا ک حملہ و قج اے و اس م ک
ے پوری وت کے سات ھ کل ک ش می ںے ب ی ان کی ا کہ ج ب سی ق
ھڑے ہشوں ،ہ ر ق ل پن ق ی کے ے ل کے م ب
ا ے کہ وہ حملہ آوروں ت ت پر خواج ب ہ
ص ج ہخاد کے ذمہ دار حکام کی ر ی ب کے مطابق ا ی طا ت اور مہارت کے ب در رکت
اگر خری است کا وج ود ہ و ۔ ی ا ری است کی عدم موج ودگی می ں تاس کے ہ وں ق۔ م ت ت نکرے۔ واہ وہ حکام ری است
ح ظ یم کے حکام ہ وں جس
ے ان کے مطابق اور عور وں مردوں کے یل ے ارب اب ل و ع تد ن ب کری ں۔ ب
ے ان کے قمطابق ،پڑھے کے فمطابق اور چ وں کے یل ے عان ف ے ان کے مطابق ،وڑھوں کےغ یل ب کے یلف
ے کہ ہ صد م ۔ ق اط کے ان ے ی کے راد ا ہ ت ا یم ل ر اور ق اط کے ان ے ی کے راد لکشھ
ےخ ا
یہ م ب ل ن ی ی ئب م ل
ے م اسب ہ و۔ ہ ر ص کو ایسی ج گہ پر لگای ا ج اے ج و اس کے یل
ن ے؟ ہ عورت وں کے ذمہ فکون خسا ج ہاد -13ن
حم ہ
ن سے یش آ نے شوالی ما واری ،ل کی پ می ں ے ن فعور وں کو بی ا الف کی وج ہ ت ن
ص ت
داری کو ت ذمہ کی ت ن ق گہدا
ب
کی ان زہ ،اس کا ب قوج ھ ،چ وں تکوج دودھ پ ال ح ق
اور ق ے ف،تدردئ ک ت نکالی
کے عور وں پر م
ے وے (اس مو ف کو) ر ی ح دی کہ در ی ش قت ج ہاد ع ی ٹ ت نال ت ہ مد ظ ر ر
ی وا ب ھن ہ ں ،ی ون کہ اس م ں ن
ے ج و کہ پ ہ ی ڑ ا ا ھ ا الزمی ت م سی ا اور ھ ج و ب ت، م
ٹ ی حت ک ن تی ج
حسب دس ور عورت ہی ں ا ھا سک ی۔
20
نی ہے"بگ ل"۔ گوی ا اس اص طالح کے لفظی مع نی یہ ہیں کہ س ب -نف یر ک الفظی مع ٰ
یر ع ام ک ا اص طالحی مطلب ِ نف جبکہ ہے۔ ا گی بج ل بگ ا ک گ لوگ وں کے ل یے جن
ہے’’حکمران کی ط رف س ے اپ نے مل ک کے ہ ر مس لمان ک و جن گ کے ل ئے طلب
کرنا"۔نفیر عام کی یہ اصطالح دفاعی جنگ کے ض من میں اس تعمال کی ج اتی ہے ۔:
فاروق ،ڈاکٹر محمد۔ 2010۔ جہاد و قتال چند اہم مباحث۔ م ردان ،دی پ رنٹ مین پرن ٹر۔
19۔
23
ت ن
ے ن ہ کہ مرد، یہ ی کر سک ت ے ج شو عورت ہن ن ل اور ی ہ تسب کا سبتج ہاد ہ ی کا ای کق ر گ ہ
کےن ی کن چک ھ عور ی ں ای سی ہ و ن ی نہ ی ں ج تن تکی سمتت می ں ادی کر ا ہی ں ہ وشا ،اور چک ھ ق
ے طور پرت ج ہاد می ں رکت قکا مو ع صی نب می ں حمل اور ب چ ہ ج ن ا ہی ں ہ و ا و ای سی عور وں ج نکو ایس
ن ے م ن اسب ہ و ،اورت و س ب دی ا ج ا ا چ اہ ی
اتے بسا اوف ت ے ھی جگوی ا ہ مہار وں کے یل ی ض کے یل ے ج و نان ق ای خ
ے و کہ موماعورت می ں اس کی طر ی ع ج رورت پڑ ی ہ سی اص سما ی ل ی ا نت کیئ ت ج
ن ن
سوا ی ت کے بموج ب ہی ں پ ا ی ج ا ی ۔
کردار: کا عورت ں م گ -14د د ن
ن ی نی ج ج
اوصف کے ہادری ب اور ے ذ ج مان، یا ے ا عورت مان ل س
خ م کہ ا ک ان ب ے ف ں
می ج ن
ت ب ش ب پ ی ی
امداد و دی کھ بت ھال سے ب ڑھ کر ب تھی ری ک ہ و سک ی وںن کی ن ی
م ش ز ں ی م مدد کی وج وگج مسلمان
ے یک و کہ قآج کی ج گ آالت و م یت وں پر ا صار کر ی ہ ج ن ن
ے ب دن س تعمال کے یل خ
کے ا
ت ے ن ف ت ح ض ع ہ
ے ای ک رب ی ت ی ا ہ ا ون کا مرد کی ج گہ ے اس لی ہ ی آ ش ی پ رورت کی ل ادہ ز سے
مم ی
ے۔ ہ کن لی ن ا
24
ق
ب اب دوم :ج ہاد کی ا سام اور درج ات
ق
ن ف (ب اب دوم :ج ہاد کی ا سام قاور درج ات ن)
ے؟ ہ ن
سےف کال دی ا چ ا ی -15جنہادب ال ن
سام می ں ت
ے)؟ اور نک ی ا اسے جن ہاد کی ا ئ
ن سف(ک ی اہ
ے
ے ،اس یل ے (کی راے )سے ا اق ک ی ا ہ می ں ے ج ہاد ب ال س کو ج ہاد اکب ر کا ام ہ دی
25
ن ٹ ( )21ک ئ ن
ے اور ب ی اس ق قالم پر ے ج نوکہ ج ھو ن ہ
ی کہ اس کی ب ی اد ای ک ای سی حدی ث پر ر ھی گ یضہ
ئج یسا کہ ب عض مح ی ن ک ت
ے- سے لی طور پر اس مو نوع کو کال دی اب اض جلہاد ن ے ،الب ہ کت ئ ب ہت انئہ
پ
ے اور ب ال کم و کاست
خ ے -جکی کو ی ئرورت ہی ں ج ب کہ اس کو ا ی ج گہ پرظ رکھا ج ا پ ش کی راے ہ
اس کام ن اسب ح م دی اض ج اے ج یسا کہ ج ہاد بتا لسان،ج ہاد ب المال ،لم اور کر ن کے الف ج ہاد
ق ل
ب
سب کی سب ج ہاد ہ نی کی سمی ں ے ،اور ی ہ ت ق اور سول ج ہاد کے مون وع نپر حث کی جن ا ی ہ
ےیا ے والے ہ م ہی ں ہ ی ں ب لکہ ی ا و ی ہ رآن عزیز کا دی ا ہ وا ام ہ ہ ی ں ،ناور ان کو ج ہاد کا ام دی
قئ ت ئ ن پ ھر س ت م طہرہ کا۔
ط
ے ہ وے اس ڈر سے چک ھ ح ا ق چ ھ پ ا ایسا کسین صورتط روات ہی ں کہئہ م ب ا ل پ نر رد کر ئ
ل ک رسا ی کا ذری عہ ب ا ل ی ا ج اے گا۔ لی ں کہ م ب اداشا ہی ں ب ا خ
ش ن طان کے الف ج ہاد کا درج ہ :ن -16ن ی ض
خ ت
ے د نمن کےش نالف گوں کے اس کھتل ن ر گر ید ملہ م کے
ی جن خ ج ادہ ں م الم س ا کہ ا خ ف می ں نے واب ک ی
ح
نکا ھ ک
کے سا ھ ا ی لی د م ی پ ے جسش ے یل ق آدم م ش
ن سے ا سان ت س یہ ج ہاد کا ر گ ھی ان ل ہ
ے قکے سا ھ اننسے ج گ کرے ے ،اور اپ ی ذات اور کر کو ہ ر طرح کے ا لح ل اعالن ک یت ا ہ وا ہ
ت ان ظکو چتاہ ی س
ے آپ کو ی ار تکرے ے اپ کے یل ت
ے
ے کہ وہ اس کے م اب ل م
ے ،لہذا ہ ر ی لم ف ے ی ار ک ی ا ہ بوا ہ کے یل
ج س
ے ا سی ح ا ی ڈھالی ں اور موزوں ا لحہ یشار کرےخ و اس غکی دبیر کو اور اس (سے چ او) کے یل
ئدے اور اس کے مکر کو الٹ ا دے اور اسے اس ج ن گ سے کست وردہ و م لوب کر ے ٹکار کر ب
ق ف ن ت ے۔ ا لو کے
ں ے م وتج ہ ک ی ا کہ اخسالم می قں ج ہاد کے م ہوم کوق صرف ت ال می تں محقصور کر دی ن ا ن می ن
ے ،اگرچ ہ مام ا سام می ں ہ سم ک یا سے ں یم سام ا لف ت م کی ہاد م اسبہ ی ی ج
و ہ ں، ہ
ے۔ اس کی ا ظمی ت سب سے ب ڑھ کر نہ
ظ
ناور الموں کا م ق اب لہ کر ا:ن ظ -17لم
ن ت ق ش
ے اور ان کی طرف ک رو ھ ا ہ کا ان سے) لم ن ( ے، کر لہ ا
م ب کا وں ک سر ے می ں
ہ س ن ک ن
ے زب ا ی ج ہاد کی ا می ت ب ی ان کی ،اور ب ت ای ا کہ امت
ن ے ہ ر م لمان کے تیل کے یل خ ت
ے ج ھکاو ہ ر قھ
گ دہ ل ے لوگ برہ ی ں گے ج و ب ب ا ق تج ب ک اس می ں اینس ے گا میک ں اس و ت تک ی ر نرہ
ے اس کا ج ام چک ھ ھی ہ و۔اور اس وئت ی ہ چہ ا وں ہ ے کر ہی
کے سا ھ امر و ب ٹ قن ق
لمہ ح
ن ی ک ح پ
ے گی ج ب اس می ں سپ را دازی کی روح سرای ت کر ج اے گی، امت ا ی ب اء کا ق ھو ھ
21
-حضرت جابر رضی ہللا عنہ کی اس روایت کی طرف اشارہ ہے جسے بیہقی نے
"الزھ د الکب یر" میں نق ل کی ا ہے کہ :رس ول اﷲ ص لی ہللا علیہ وآلہ وس لم کے پ اس
غازیوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی۔ آپ ص لی ہللا علیہ وآلہ وس لم نے فرمای ا :تمہیں
جہا ِد اَصغر (جہاد بالسیف) سے جہا ِد اَکبر (جہاد بالنفس) کی طرف لوٹ کر آنا مب ارک
ہو۔ عرض کیا گیا :جہا ِد اَکبر کیا ہے؟ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :انسان ک ا
اپنی نفسانی خواہشات کے خالف جہاد کرنا جہا ِد اَکبر ہے۔ الزھد الکب یر ،ح دیث نم بر
165۔
26
ی ن پن نف نف ئ
ہ ت ت کن
ے واال ئ( ع ی ا ی ی ا ی
پ م م ہ ا ے
ل سے سی سی اور گی ے عام ہ و نج ا
کمزوری و بزدلی ت ج
ے: ہ ن
ے گا۔اور اسی ب ارے می ں ی ہ حدی ث وارد و ی ہ ے واال) ہ رہ ذات پر امت کو ر ی ح دی
تودع ظمنهم" ت
" إذا ترأيت أمتي تهاب الظالم ظأن تقول لهت أنتئظالم تفقد ت
ی
ے ہ وے ڈر ی ہ و کہ م الم ہ و و (ہللا کیری)22امت الم کو ی ہ کہ ج ب م ٹد کھوت کہ می
ے( ۔ مدد )ان سے ا ھ ج ا ی ہ
ف تغ ق
ض ن -18جنہاد ظی ا ی یر ب ال ئلب()23خکا م ہوم:
کےت من می ں س الف دل نمی ں ج ہاد کا مرت ب ہ ب ی ان کرے کے ن ف می ں ے ت غلم اور بقرا ی ئ
مج ب ت
ے ہ ی ں،ب لکہ لوگ ھ ے یساسکہ عضن
ن
ج ب ی ان ک ی ا کہ ج ہاد ی ا ی یر ب الئ لبغ کو ی ظ ی روی نہف ہی ں ہ
م
سے غرت اور ب گاڑ کو لیت قم ہ کرے کی وج ہ سے پ ارہ
ت عم ب ب
ے ،نلم ق ے :برا ی تپر ص کا م طلب ہ اس ن
ےا مہ م ہ
چ ڑھ ج ا ا ،اور ی ہ ی ج ان و ج ذب ا ی ت پر ب ی بل ی ض ک ن
ھی م و ع لی ب دی نلیضکے یل سیف ت ق
ے ہ
ے م دمات اور س ی ا ی محرکات کا و ا روری ہ ے ایس ے کہ ت ب دی لی کے ی
ل ے،ئ اس یل سرمای ہ ہ
ھ
اور اس کی طرف دخ ک ی لی ں۔ ف ں ن ج و اس پر اک ی
سا
ت ئ ہ
نا ی ی ا کری گ شمرا ی کا طرہ :ئ -19زب
ہ خ
ے ن و ے کر ان ہ در
ج خ نج ب یکا ادہ الف کے ی را ں
عم ی ب م رے عا المی
ف م س ا ے می ں ت
ہ س ہ ق
ناور می ں ے ے اک ہ سے زی ادہ طر ن کری گمرا ی لی وق لوکی گمرا ی ت ب ت ایض ا کہ :اع ادی و ن
ں رو ما ئوےخوالے ان ہ ت س وا حشک ی ا فکہ نگمراہ ی اور ئا حراف کی ہین سم ہ ماری ا
ی
المی اری خ می ج ن
ن
ے می ں فگی قں ہ و ی ں ،ون ب ہا اور
ن ے ج خن کے یج ے مار ت وں اور لڑا ینوں کا سب ب ب ی ہ ب
ت می ں ب ا ٹن دی ا ج و ے م ت لف مسالک تاورف ر وں اس ےق ای کتامت کو ایس اور ی۔ م چ ی ت ب اہ
ف
ے ہ ی ں ب لکہ ای ک دوسرے کی ک ی ر کرے ہ ی ں اور وب ت دوسرےن کو اسق ف رار دی
ق پ ت
ای ک
ہ
ی ہاں ک ج ا چ ی کہ (ی ہ رے) ب ا م دست و گری ب اں ہ ی ں۔ ہ
22
-مسند احمد ،حديث نمبر.6786
23
-تغییرب القلب ک ا مطلب ہےکس ی ب رائی ک و دل س ے ب را س مجھنا اور دل میں اس ے
مٹانے کا جذبہ پیدا ہونا ،جیسا کہ آگے تفصیل آ رہی ہے۔ مترجم۔
27
ف ض ن
می ں ے س یخکولرازم( ،)24لب رل ازم( )25اور مارکسزم ()26ج یسی دور حا ر کی کری
سے ب ھی ب ردارک ی ا۔ ہ
گمرا ی وں ت
ظ غ
خ ئ اوت:
ش ن داد اور ب -20ار
ن
ت می ںئے اسالمی معا رے کے ا در لم اور تبرا ی کے خ الف ج ہاد نکا درج ہ ب ی ان
ع
ے تاورکرےق ہ وے کہا کہ اس ج تہاد کا سب سے ا غ لی درج ہ ار داد ش(کے الف ج ہاد کر ا) ہ
ے کہ ج ب مرت د ے،اس یل اوتت کے م اب ہ ش
ہ کے اع ب تار سے ی ہ ج رم ب ئ ی ہ شکہ ومی مع ی ار ن ف
کی کای ا پ تلٹ ج ا ی
داعی ب ن تج اےہ و اس سے قمعا رے ت معا رے کے ا قدر ک ر و فار داد کا ن
ے، ے اور اور ای ک وم کی و اداری و سب ت ب دی ل و کر دوسری وم کے سا ھ ج ڑ ج ا ی ہ ہ
24
-سیکولرازم سے مراد دنیاوی امور سے مذہب اور مذہبی تصورات کا اخراج یا بے
دخلی ہے،یعنی یہ نظریہ کہ م ذہب اور م ذہبی خی االت و تص ورات ک و ارادت ا ً دنی اوی
امور سے علیحدہ کر دیا جائے۔ سیکولرازم جدید دور میں ریاست کو مذہبی اقدار س ے
الگ کرنے کی ایک تحریک ہے۔ اُردو میں عموما ً اسے الدینیت سے تعبیر کی ا جات ا
ہے ج و علمی و لغ وی اعتب ار س ے درس ت نہیں ،س یکولرازم ک ا م وزوں اُردو
ت رجمہ" خی ار فکر" ہے جس ک ا مطلب یہ ہے کہ کس ی بھی س یکولر ریاس ت کے
ش ہریوں ک و یہ فک ری اختی ار حاص ل ہے کہ وہ جس نظ ریہ ،فک ر ی ا عقی دہ کی بھی
انفرادی طور مشق کرنا چ اہیں پ وری آزادی کے س اتھ ک ر س کتے ہیں پس ان کی اس
امور مملکت سے کوئی تعلق ِ مشق کا براہ راست یا ماورائے راست سٹیٹ افیئرز یعنی
نہیں ہو گ ا۔ س ب س ے پہلے اص طالح س یکولرازم ک و ای ک برط انوی مص نف ج ارج
جیکب ہولیاک نے 1851ء میں استعمال کیا تھا ،یہ اصطالح دراصل چرچ اور ریاس ت
کو الگ کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی ،گوی ا س یکولرازم دراص ل سیاس ت اور
مذہب کے مابین تفریق کا نام ہے۔ سیکولرازمhttps://ur.wikipedia.org/wiki /۔
25
-ل برل ازم ()Liberalismالطی نی زب ان کے لفظ’الئی بر ()Liberاور پھ ر الئ برالس (
)Liberalisسےماخوذہے ،جسکامطلب ہے "آزاد،جوغالم نہ ہو" اس لفظ کا استعمال
سب سے پہلے ۱۸۱۸ء میں فرانسیسی فلسفی مین دی بیران ( )Maine de Biranنے
کیا تھا۔ اس نے اس لفظ کا تع ارف ''ای ک ایس ے عقی دے کے ط و ر پ ر کرای ا تھ ا ج و
حریت وآزادی کا علم ب ردار'' ہے ۔ یہ دو لفظ وں پ ر بنیادرکھت اہے ( )Libertyآزادی
اور( )Equalityمساوات۔یعنی ریاست میں ہر شہری بغیر کس ی م ذہبی وخان دانی پس
منظرکی تفریق کےبرابری کی بنیاد پرقانونی اور سیاس ی ح ق رکھت اہواور()Liberty
کی تعریف سےمراد یہ ہےکہ ہرفرد ق انون کےدائ رہ ک ارمیں رہ کراپ نےفکری افع ال
میں آزادہو۔آٹھویں صدی عیسوی تک اس لف ظ کےمع نی ای ک آزادآدم تھ ا۔ بع دمیں اس
س ے مرادایساش خص لیاجانےلگ اجوفکری ط ور پ رآزاد،تعلیم ی افتہ اور کش ادہ ذہن
کامال ک ہ و ۔ برط انوی فلس فی ج ان الک(1620 ء – 1704ء) پہال ش خص ہےجس
رز فک ر کی ش کل دی ۔ پنج اب یونیورس ٹی۔ نےلبرل اِزم کوباقاع دہ ای ک فلس فہ اورط ِ
2004ء۔ اردو دائرۃ المعارف۔الہور ،ادبستان۔8:312۔
26
-مارکسزم کارل مارکس کے نام سے منسوب ایک سماجی ،سیاسی اور معاشی فلسفہ
28
ف ش خ ن ن ق ق
ے ب لکہ ی ہ ض ن ا تناور و ناداری می ں ی ہق ں ہ ام کا لی د
ی بی
فم ںت ت مو لی لہذا ارت داد محض قع
ع ت
ےجو ب دی لی اور ای ک ومشسے ال لق ہ و کر کسی دوسری ای سی وم می ں م ہ وے کا ام ہ
ف ن مس ش ق الف اور د تمن ہ و۔ اس کی مخ ت
ے:
ئ رض ظ ر رے اع لم ا کر لہ ا م کا وں د مر و داد -21نار
خ ہ پن شم ب
ق
کے ا در لم اور برا ی کے الفشج ہاد کی رے ن المی معا ق دے کر کہا تکہ اس ت زور نمی ں ے خ
ےخخ اص طور پرتج بفکہ اس کی پ ت پر ہ نش ا کر لہ ا
ی ن ب م اک ن د مر اور داد ار سم اک طر سب سےخاہ م اورف ن ت
ے ی ہ ج ہاد ح ہ ن ج
ے اور اس کی ا ت کے ظ کے یل امتکپاور ش ضظ ری ا ی اور ار خی کری ج گ ت و ،ت
غ ہ ج روری ہ ل
ل اعی ل می ں و۔ خ ے ب ا ک تصوص ج ب کہقی ہ ار داد ا م ت
ے طی پر ہ ی ں کہ صرف آ رت می ں ہ ے ہ ی سں نکہ رآن می ں ن نار دادشکی سزا ت اور ج چو ی ہ ہ ن
ے: ے،چ ا چ ہ ار اد ب اری عالی ہ س
صوص کو ا ھی طرح جم ھ ہی ں ک
"﴿يَ ا َأيُّهَ ا الَّ ِذ ْيـنَ آ َمنُ وْ ا َم ْن يَّرت َّد ِمنك ْم ع َْن ِد ْينَ ِه ف َس وْ فَ يَ أتِ ْي هللاُ بِق وْ ٍم ي ُِّحبُّهُ ْم
َ َ ُ ْ ّ
َوي ٍُحبُّوْ نَهُ َأ ِذلَّ ٍة َعلَى ْال ُمْؤ ِمنِ ْينَ َأ ِع َّز ٍة َعلَى ْال َكافِ ِر ْينَ ي َُجا ِه ُدوْ نَ فِ ْي َسبِي ِْل هللاِ َواَل يَخَافُوْ نَ
ئ ت ت لَوْ َمةَ اَل ٍئم﴾"
ت ن ب
ئ مر د ہ و گا( و ہللا کو اس فکی تکو ی ے دی ن سے اے ای مان والو! م می ں سے ج و ھی اپ ض " ن
ہ
ے لوگوں کو لے آے گا ن سے ہللان حمب ت ترما اض و ج نج گہ پر)ایس رورت ہی ں)ہللا(ان کی
ے رم اور م وا ع ے والے ہ خوں گے۔وہ ای مانغ والوں کے لی ق سے حمب ت کر گا اور وہ ہللا ف
الب ہ وں گے۔وہ ہللا کے وددار ب اعزت اور ن ہ وں گے اور کا روں کے م اب لہ می ں ن
گے گےس اور ک تسیغ مالمت کرے وا ن راست ہ می قں ج ہاد کری ں ن
لے کی پرواہ ہی ں کری ں ق
۔"( )27
ہے ،جو مزدوری ،پی داواری ص الحیت ،اور معاش ی ت رقی پ ر س رمایہ دارانہ نظ ام
کے اثر کا جائزہ لیت ا ہے اور ای ک م زدور انقالب ک و کمی ونزم کے ح ق میں س رمایہ
داری ک و ختم ک رنے کے ل ئے دلی ل دیت ا ہے۔ ام ام ،ظف ر۔ 1971ء۔ مارکس زم ای ک
مطالعہ۔ دہلی۔ اعلی پریس۔ 17۔
ئ 27
-الما دۃ. 54 :
29
ن ت ش ت ف
ن
نمی ں ی خ دویئے کہا ن ھا: کےتب ارے ے جس خ لہ داد ار اور ی ہی ت ت
کری
ے۔" ے کونی اب وب ہکر ہی ں ہ ے) کے یل ی
(کو م کر خ ے کن اس ئ "ار داد و شہ ت
()28
28
ندوی نے اسی عن وان (ردة وال أب ا بك ر لها)س ے ای ک کت ابچہ
ؒ -موالنا ابوالحسن علی
لکھا تھا،اسی کی طرف اشارہ ہے۔
29
-سنن نسائی،کتاب البیعۃ،باب فضل من تکلم بالحق عند امام جائر ،حديث نمبر .4209
30
-اسراء اور بنی اسرائیل ای ک ہی س ورت کے دو ن ام ہیں،عموم ا ع رب اس ے س ورہ
اسراء کہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں مصاحف میں اسے ابنی اسرائیل لکھ ا جات ا ہے ،یہ
ناموں کا اختالف یا تعدد کچھ اور سورتوں میں بھی ہے جس کی وجہ سے بسبا اوق ات
عرب و عجم کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں غلطی ہو جاتی ہے،جیسے سورہ دھر
و انسان،مسد و لہب،حم سجدہ و فصلت،وغ یرہ ،ہم نے اس ی کے پیش نظ ر اس راء ک ا
ترجمہ بنی اسرائیل سے کیا ہے۔مترجم۔
31
-سورہ اسراء (جسے سورہ بنی اسرائیل بھی کہا جات ا ہے) کی آیت نم بر ۴اور ۵
کی طرف اشارہ ہے،ذیل میں دونوں آیات بمعہ ترجمہ پیش کی جاتی ہیں:
ض َم َّرتَ ْي ِن َولَتَ ْعلُ َّن ُعلُـ ًّوا َكبِيْـرًا)4( ب لَتُ ْف ِسد َُّن فِى ااْل َرْ ِ ض ْينَـآ اِ ٰلى بَنِ ٓى اِ ْس َرآِئي َْل فِى ْال ِكتَا ِ َوقَ َ
ار ۚ َو َك انَ َو ْع دًا
اس وْ ا ِخاَل َل ال ِّديَ ِ س َش ِد ْي ٍد فَ َج ُ فَا ِ َذا َجآ َء َو ْع ُد اُوْ اَل هُ َما بَ َع ْثنَا َعلَ ْي ُك ْم ِعبَادًا لَّنَـآ اُولِ ْى بَ اْ ٍ
ف ن ت ت ئ ف ئ نَّم ْفعُوْ اًل )5(
ت بن
نگے ہ م قے کت اب می ں ی اسرا ی ل کو ی ہ ی صلہ س ا دی ا ھا کہ م روے زمی ن پر دو مر ب ہ ب ڑا ساد مچ او
ے کا ہ
وعدےع قکے پورا گو ت ب ان می ں نسے پ ہلی مرت ب ہ کے ت حا ت ل کرو گے( ۴ن)پ ھر ج ن
ص
قاور ب ڑیئطا ت
ےےچل ھ ں م وں ال و ج گے ں ر ک لط س دے ن ب ے ا لے او ے کر گ ج ردست ز ر م م ہ و و ت آے گا
س ی ی مت ف پ ائ ں گےاور ہ وعدہ پورا ہبو کر رے گا (اش
ے صحاب ہ کرام کی وحات کی طرف)()۵ ہ ارہ ہ پ ی ج ی
30
ت ش
ے۔ ا کر ارہ ش ا ب ن ا ااس
ن
ا ے ی لط س کا وں
ن
د ر ان غہ ف ساد ان ا اور پ ھرتدو مرت
ہ ج پ م ت م ک ج ب مچ
ق -23ندعو ی و اب ال ق ی ج ہاد کی صور ی ں:
می ں ے ج ہاد کی ا سام اور اس کے درج ات می ں ای نکنسم ج ہاد ب اللسان و البت ی ان ب ھی
غ
ے۔ ے ادا ہ و ی ہ ے کے ذری ع طرف دعوت اور اس کے پ ی ام کو پ ہئ چ ا ق الم کی ن نا ن
ذکر کی ج و کہ س
ں ج ہا ب ا لسان و الب ی ان کی ک ی ا سام نکی طرف دعوت دی ل ق
ے زماے می خ
ی اور می ں ے اپ
ے۔اور ہ کی الغ ا ی
ی تب ب ا ز ے
ع ذر کے رز چ
نک ل اور اق ب س خ ات،ا ق ب ط سم ک ی ا سے ےج ن میق ں نہ
س ج ے الغ ب ا ری حر ا گ ھا خ ک ل ں یم وں ا ز لف ت ت م سم ک ا سے
ی س ی ں م ) خسام (ا ں یہ ا
ہ ت
ط م ت ی یس ج
ب
ہ ت م
کے مخ اطب لف طح کے لوگ وے ہ ی ں و لوگوں کو لف حوں پر خم اطب کر ا
ض ق ے۔ ہ
ے،اور اسی من می ں ی ا اس ے اب الغ کی ہ ے کے ذری ع قاور ان قمی ں سے ای کئ سم مکالم
مے کے کرداراوں کی صورت می ں ے ج و ڈرا ت ھی ہ ب ری ب وہ م ی ڈی ا ی ناب الغ ب ن تکے ش ری ٹ
ن ے۔ ق
ے و اہ ہ والی کہا ی کے ذری ع ے ت ن لسلہ وار نچ ل س ھی ٹ ر ،و ی ا ی وی پر
ک اہ م سم ب ڑے پ یمتاے پر پ ھ ی ال ہ وا وہ ئ ں زب ا ی تدعو ی ج ہاد کی ای ن ع تہ مارے زماے مین
س ک ٹ
ے۔ ے ہ ی ں اور جس کا دا رہ روز بروز و ی ع ہ و ا ج ا رہ ا ہ ے ا ر یٹ ہ ے جس ال ہ م لوما ی ج ش
تث ق -24نہری ج ہاد ( ق:)civil jihad
ت
موں) کی و ی ق کی خ
امام اب ن ی م کے ب ی ان کردہ ن ج ہاد کے ی رہ درج ات (ی ا س
خ ش می ںن فے
ں:ق س و یخ طان کے الف ج ہاد،م کرات،مظ الم اور گمراہ ی وں کے الف ج ہاد اور ج فن می ف
ے۔ م ش
کے الف ج ہادن ا ل ہق ک ار و م ن ا ی ن
ف ض ن ق
نر می ں ے ای ک سم ی ع ی (سول ج ہاد) کا ا ا ہ ک ی ا،اور می ں ہ ی پ ہال ش خ مذکورہ ب اال ا سام پ
ے(پ ضلی مر ب ہ) ی ہ اص طالح پ یش کی،اس نسے می ئری مراد نایساٹ ج ہاد ت ہ وہ ص ہ شوں جس خ
ے اور لمسے ت م کے مت ئوع مسا ش ت ئ
رے تکی م ت لف روری ات کو پورا کرے اور اس ض ے ج و معا ہ
ے: ا و ہ ل م ر کار رہ دات د زا سے ک ا موم ع ل ا ہ کرے۔اور ت ورا کو وں رور مادی
ف کی ن
اس ئ
پت ب ت ئ ہ
ی ل
ع ئ ئ ی ب قت ی ثق ت ئ پ ش
صادی دا رہ تکار ،میئ ی ا ر ی ی دا رہ کار، ح فسا سی ی ا ا ی دا مرہت علکار ،معا ر ئی دا رہ کار،ا ت ئ
کار،ماحول ی ا ی دا رہ کار اور ہذی ب ی دا رہ کار۔ اور اسی کی ئ رہ ت تا بط ی دا نسےت ق ی ان صحت ظ ق
ہ
طرف رآن ے م وج ہ کرے وے کہا ھا:
"﴿ َو َما َكانَ ْال ُمْؤ ِمنُوْ نَ لِيَنفِرُوا َكافَّةً فَلوْ اَل نَفَ َر ِم ْن كلِّ فِرْ قَ ٍة ِّمنهُ ْم طاِئفَ ة ليَتَفَقهُ وْ ا
َّ ِّ ٌ َ ْ ُ َ
ت فِي ال ِّدتي ِْن َولِيُ ْن ِذرُوا قَوْ َمهُن ْم ِإ َذنا َر َقجعُوْ ا ِإلَ ْي ِه ْم نلَ َعلَّهُ ْم يَحْ َذرُوْ نَ ﴾ " ت ن ن
ئایسا ے ،و ھڑے ہ وں ی تہ و ہ و ا ہی ں ہ ے ع تال وں ن سے) ک نل کن ق ے اپ ن" مام اہ ل ای مان (اپ
ں ج اے) ے عال وں سے فمرکز اسالم می ے اپ ے( و اپ ج ک
ت یک وں ہ ہ و کہ ہ ر تآ فب قادی سے ای ک عداد ل
چ
سجاکہ دی قنئ می شں ہ حاص تل کرے ب(اخی مان،ا قسالم اور احسان نکی ص ی الت کو ا ھی خطرح
ے لوگوں کو واپس آ کر ب ردار ن ف ہ و) ف
اور اپ س عت اور زک نی ہ سے خ وبی وا ے،ع ا ند ،ری ت مھ
()32
نوں( طرات کو تھی ں اورتکرم د ہئوں)۔ " م ج کرے،مت ب ہ کرے اکہ وہ چ وک ا ہ
ے اور رسول کری م ﷺ ے اسی کی طرف م وج ہ کرے ہ وے ج ہاد پر ب ی عت کے لی
ت 32
-ال وب ہ.122:
31
ف ف ت ن
آے والے سے دری ا ت رمای ا ھا کہ:
ن ف ت
()33
فجاهد ".ت ارجع ففيهما ت قال :نعم ،قال :ن ألك والدان؟ ن " ت
رے والدی ن ز دہ ہ ی شں؟اس ےج تواب دی ا ھا :ہ اں ،و آپ ے رمای ا ھا:واپس "کنی ا ی خ
ے۔) " مہارا ج ہاد ہ ی
ج اؤ اور ا ہی ں وش کرے کی کو ق ش کرو ( نہی ت ق
ن ت -25جنہاد کا دعوت سے ت ال نکی ج ا ب ار ن ف اء:
ے ڈراے اورئ ب لی غ رادی دعوت کے ذری ع ق ت ن می ں ے ب ی ان ک ی ا تکہ ج ہاد کا عہد ب وت می ں ا
ن ک ت
اور لڑا ی ہ ے سے اج ت ماعی دعوت کے ج ہاد ک ار اء وا،حپ تھر ت لی ف پر صب ر قت
ہ ے کے مرحل کرن
ناور پ ھر ج ہاد کے کم ک مرحلہ وار ار اء ہ وا۔ ے سے ہ و ا ہ وا ج ہاد نکی اج ازت کرے کے قمرحل
ئ ن ں ازل ہ و قے والی پ ہلی آی ت: ن می ت ج -26ت ال کے ب ارے ت
ہ پ
م عدد وج وہ سے می ں ے ر ی ح دی کہ ت ال کے ب ارے می ں لی آی ت و ازل و ی
ہ ج
ے: وہ ی ہ ہ
ُأ
" ﴿ ِذنَ لِلَّ ِذ ْينَ يُقَاتَلُوْ نَ بِأنَّهُ ْم ظُلِ ُموْ ا َوِإ َّن هللاَ عَلى نَصْ ِر ِه ْم لَقَ ِد ْير﴾ "
ظ
ن ن ن
ے یک و کہ ان پر لم ک ی ا ے ان کو (ج گ) کی اج ازت ہ "ج ن سے نج گ کی قج ا رہ ی ہ
ے۔"ن ن ف گ ی ا،اور ہللا ان کی صرت پر ضادر ہ
()34
م
ج یسا کہ ابئ ن ع ب اس ر ی ہللا ع ہما ے رمای ا ،اور اس (آی ت می ں ج ہاد کی) حض
ے۔ اج ازت دی گ ی ہ
33
-صحیح مسلم باب برالوالدین ۔ حدیث نمبر 1333۔
-الحج.39: 34
32
36
-مص نف ک ا اش ارہ اس تحقیقی مق الے کی ط رف ہے ج و ۱۹۸۲ء میں ڈاک ٹر علی بن
ٰ
القری نفیع العلیانی نے (اہمیت جہاد) کے عنوان سے لکھا تھا جس کی بنیاد پر انہیں ام
یونیورسٹی مکہ مکرمہ کی طرف سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ج اری کی گ ئی تھی،بع د
میں دار طیبہ للنشر والتوزیع نے اس مقالے کو ریاض س ے کت ابی ص ورت میں ش ائع
کیا۔ مترجم۔
ق 37
-الب رۃ.۱۹۳:
35
نق ق خ ف
کا کالم ل ک ی ا می ں سے ج صاص اور ر الرازی اور معاصری ن می ں سے اسمی
()39 ) 38 (
ن
خ ش ق
ن ع ت
ے:
ن ن ۃ السیف ہضو ا را ح غ راردی ا تہ نکا ہ ی آی
ےاور نم ت لفق ج وا بق سے ق ض می ں ے اس مو نوع پر ی ر ج ذب ا بینا داز می ںحق لمی م اے یک
ن م
ق کی کہ کتی ا اسے سوخنرار دی ا ت اب ل ق ی ہ سخ کے م ب احث کی ب ڑی بشاری ک ی ی سے ی ن
ے؟اورک ی ا سخ کی روط تآی قۃ السیف پر م طب ق و ی ہ ی ں؟می ں ے ان ی ن
ہ سکت ا نہ ول ہ و غب ئ
ح
مسا ل پر ی رج ا ب داری سے ب اری ب اری ی ق کی۔
38
-ام ام فخ ر ال دین رازی رے ای ران میں س نہ 543ھ میں پی دا ہ وئے۔آپ ش افعی
المسلک تھے اور اشعری عقیدہ رکھتے تھے۔ آپ نے عل وم دین فلس فیانہ پ یرائے میں
پیش ک یے۔ ابن س ینا اور ف ارابی کے مع ترف اور ام ام غ زالی کے خالف تھے۔ علم
الکالم میں آپ کی مشہور تصنیف اساس التقدیس ہے۔ دوس ری مت داول تص نیف ک ا ن ام
مفاتیح الغیب ہے ج و تفس یر کب یر کے ن ام س ے مش ہور ہے۔ آپ نے س نہ 606ھ میں
ہرات میں وفات پائی۔ ندوی ،عبدالسالم۔ 2013۔ امام رازی۔ الہور :مکتبہ جدی د پ ریس۔
04۔
39
-آپ کا پورا نام جمال الدين بن محم د س عيد القاسمی ہے۔ آپ ک ا ش مار انیس ویں ص دی
کے چند نمایاں اہل علم میں ہوتا ہے۔ ایک س و س ے زائ د کت ابوں کے مص نف ہیں جن
میں بارہ جل دوں پرمحی ط آپ کی تفس یر "محاس ن التاوی ل بھی ش امل ہے۔ 1866ء ک و
دمش ق میں پی دا ہ وئے اور 1914ء میں وف ات پ ائی۔ جم ال-ال دین-القاس می/
/https://ar.wikipedia.org/wiki۔
ت 40
-ال وب ۃ.05 :
36
ت ش ئ ن ن ق
رآن کری م می ں چک ھ ب ھی م سوخ ہی ں ہ وا سواے اس کے ج و ری عت می ں دری ج غ -33
ن ہ
نکی ق رض سے وا:
نق ن ن ت ج قئ
ے ،صورت ت ب دی ہ کے ا لی ن کے طہ ظ رکو ترشی ح ش
()41
می نں ے رآن می ں عدم ق سخ
کی یر ح ری عت می ں طور ے ج ب کہناس سخ ق ئج ا سکت ا تہ دی گر وج ود سخ تکو اسی تصورت می ں ب ول ک ی ا
امتنکیق دری ج ی رب ی ت سے کی ج اے۔ اشلب ہ می ں ے سورۃ الب رہئکی ای ک آی ت کو اس ث اور
ے۔ وہ آی ت ی ہ ی کی ان ت ی ح رعی کی روزوں ں م س ے ا د رار ی ت سے مس
گ ہ ی ب ثی یہ ج ی
ے: ہ
ُ َّ
خَر َو َعلَى ال ِذ ْينَ ي ُِط ْيقوْ نَهُ ُأ َأ َأ
"﴿فَ َم ْن َكانَ ِم ْن ُك ْم َّم ِر ْيضًا وْ َعلَى َسفَ ٍر فَ ِع َّدةٌ ِّم ْن ي ٍَّام َ
َص وْ ُموْ ا َخ ْي ٌرلَّ ُك ْم ِإ ْن ُك ْنتُ ْم فِ ْديَ ةٌ طَ َع ا ُم ِم ْس ِك ْي ٍن فَ َم ْن تَطَ َّو َع خ یرا فھ وخَ ْي ٌر لَّهُ َوَأ ْن ت ُ
ش ت ئ تَ ْعلَ ُموْ تنَ ﴾"
ک ن ف
دوسرے دن مار کر ے) و ن ش " م می ںق سے کو ی ب ی مار یو ی ا س ر پر ہ و(اور وہ روزہ ہ ر شھ
ک ض
ت کر ا ل ہ ووہ ای ک م
ے روزہ خکا بردا ض ف کے( ان نکی ف ا کر لے)اور ج نب لوگوںن کے یل
سے ی ر می ں ا ہ تکرےوہ اس کے حق
ے ز ادہ ب ہ رت ں،اورق ج و ھی اپ ی قطرف ت مسکی ن کا ک تھا ا دی ہ می ں دی ت ق
ح
ہ
)42ہ ر ہ و گا،اور اگر م ی ت سے وا ف ہ و وروزہ رکھ لی ن ا ی مہارے یل ی می ں زی ادہ ب
کن ق کن ش (
ے۔" ہ
ے والوں کو اس ب ات کا ر ت طا کی ے ر روزہ ل ک م ہ ں م س ارکہ
ی م ج ت آ ہ
ن نھ اخ ت ار ید ا گ ا ے بکہ ف د ہ دی یں ا بروزہ رکھ ں اسے اھگ
ے ،وہ آی ت یہ ا کرد سوخ م ے ت یآ لی ی ی ی ی ی یہ
ے: ہ
ُ ْ ْ ُأ
ضانَ ال ِذيْ ن ِز َل فِ ْي ِه القرْ آنُ ﴾" َّ "﴿ َش ْه ُر َر َم َ
"رمضان کا مہینہ ہی ہے جس میں قرآن پاک اتارا گیا۔"
کیونکہ اس میں آتا ہے:
ص ْمهُ﴾" ئ َْر فَ ْليَ ُ "﴿فَ َم ْن َش ِه َد ِم ْن ُك ُم ال َّشه ت ت
کن " و م م ں سے ج و ب ھی اس مہی ن
ے ھ ر روزے کے اس کو اس ے ا پ کو ہ ی
ت ن خ ت ن خ
()43
چ اہ ی ی ں۔"
ے ،اور اس (کی م سو ی ت) م عدد صحاب ہ کرام سے جس سے ی ہ ا ت ی ار م سوخ ہ وج ا ا ہ
41
-نسخ کا لغوی معنی ہے کس ی ش ے ک و مٹان ا ،تب دیل کرن ا ی ا نق ل کرن ا۔ علم اء کی
اصطالح میں نسخ سے م راد یہ ہے کہ کس ی حکم ش رعی میں کس ی دوس رے حکم
شرعی دلیلئکی بنی اد پ ر پہلے س ے کس ی ناف ذ کے ذریعہ تبدیلی کی جائے۔ یا کسی
ئح نف
ے کم کو ا ذ ک ی ا ج اے۔ کالعدم قرار دیے گئے حکم کو شدہ حکم کو کالعدم قرار دے کر ن
"منسوخ" جبکہ دوسرے حکم کو "ناسخ "کہتے ہیں۔ السيوطي ،جالل ال دين2008 .م.
اإلتقان في علوم القرآن .بيروت :مؤسسة الرسالة.463 .
ق 42
-الب رۃ.184:
37
ض ن ع ج نق
ےوان ہللا لی ہم ا معی ن ج ی تس ے ج ن می ں اب ن عمر،سلمہ ب نن اکوع اوراب ن ع ب اس ر ہ ول م
ص
ے()44۔ اس سخ ش دہ آی ت کے سا ھ ی ہ ں م عہ ب ار ن س اور
ب ض ف ن یح ح
ی کہ یسا ج ں ی ہ ل حا ہ ش ام
صب ن
ے: سورۃ ال ساء کی اس آی ت کا ھی ا ا ہ ک ی ا گ ی اہ
"﴿والَّالتِ ْي يَْأتِ ْينَ ْالفَا ِح َشةَ ِم ْن نِّ َساِئ ُك ْم فَا ْستَ ْش ِه ُدوْ ا َعلَ ْي ِه َّن َأرْ بَ َعةً ِّم ْن ُك ْم فَِإ ْن َش ِه ُدوْ ا
ت َأوْ يَجْ َع َل هللاُ لَه َُّن َسبِ ْياًل ﴾۔ " ت َحتَّى يَت ََوفَّاه َُّن ْال َموْ ُ فََأ ْم ِس ُكوْ ه ت َُّن فِ ْي ْالبُيُوْ ت ِ
دکاری کا ارت کاب کری ں ان کے ج رم ن پر نچ ار گواہ
ت سے ج و ب ت اور ئمہاری عور وں می ں ت ط "ئ
ے ہ دی ا ن ک گ ہ
ھروں سے ل ک قن موت ئ وں کو ان کی ی ن ت
ں و ان عور ے ج ا یت ں ،اگر وہ گوا ی دی ئ لب کئ
ے ے کو ی دوسرا راس ہ پ ی دا کرے( ع ی کو ی اور ا ون ان کے یل ان کے یل ہللا عالی ے،ی ا ئ ف نج ا
ت ن ن ()45
خ ") ے رما ازل
ن
ے۔ سوخ ہ وےنپر داللت کر ا ہ یک و کہ آقی ت کا آ ری حصہ اس کے من
ق ے: -34نرآن پ اک می ں آتی جۃ السیف ہ وے پر اج ئماع ہی ںنہ
ایسا کو ی اج ماع ہی ں جس کے م طابق رآن کی ے کہ خ ات کو ر ی ح دی ہ می ں ے اس ب ن
ات می ں قسے ہ ر ای ک کے ب ارے ت ج ہ
کسی آیع ت کوع السیف کا ام دی ا گ ی ا و،اور ن چ ار م لف جآی
ق ش ن ع
ے م تھ ل
ں سے ے می م ا ہ کے ب عد ان می ق می ئں ب یل حدہ یل حدہ ی ہ قدعوی نک ی ا گنی ا کہ ی ہ ئآی ۃ السیف ہ
ے آی ۃ اقلسف ( لوار والی آی ت) ی ا آی ۃ طع الر اب ن ں آ ی جس کو ت ی ھیف آی ت اس ابنل ظ ر ہی
ے۔ان چ اروں آی ات می ں سے س
ے اڑاے والی آی ت) رار دی ا ج ا ک ن روں کی گرد ت ( مام کا ش
ے ،اس کی اگلی پ چ ھلی آی ات اس ب ہ ارکہ م ت یآ ں یو چ ا کی
لب پ ہ و ا ہورسورۃ ت سب سے م
ت
ئ ن ت ق س دعوی کی ردی د کر ی ہ یغں۔
-35امن پ س ن د ی رم لموں کے سا ھ ت ال ج ا ز ہی ں:
میں نے یہ ترجیح دی ہے کہ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ ان غ یر
ق 43
-الب رۃ.185:
44
-درج ذیل روایت کی جانب اشارہ ہے :حضرت ابن عمر اور سلمہ بن اکوع کہ تے
ض انَ الَّ ِذيْ ہیں کہ اس آیت کو اس کے بعد والی آیت نے منسوخ کر دیا جو یہ ہےَ :
﴿ش ْه ُر َر َم َ
ُأ ْن ِز َل فِ ْي ِه ْالقُرْ آنُ ﴾صحیح مسلم میں ابن ابی لیلی کی روایت ہے کہ ان سے ن بی ک ریم ص لی ہللا
علیہ وسلم کے صحابہ رضی ہللا عنہم نے بیان کیا کہ رمضان میں جب روزے کا حکم نازل
ہوا تو بہت سے لوگوں پر بڑا دشوار گزرا ،چنانچہ بہت سے لوگ ج و روزانہ ای ک مس کین
کو کھانا کھال سکتے تھے انہوں نے روزے چھوڑ دیئے حاالنکہ ان میں روزے رکھنے کی
طاقت تھی ،بات یہ تھی کہ انہیں اس کی اجازت بھی دے دی گ ئی تھی کہ اگ ر وہ چ اہیں ت و
ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھال دیا ک ریں۔ پھ ر اس اج ازت ک و دوس ری آیت:
﴿وأن تصوموا خير لكم﴾الخ یعنی”تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم روزے رکھو“ نے منس وخ
ک ر دی ا اور اس ط رح لوگ وں ک و روزے رکھ نے ک ا حکم ہ و گی ا۔ ص حیح مس لم،کت اب
الصیام،حدیث نمبر 1145۔
ن
- 45ال ساء.15:
38
مسلموں کے ساتھ قتال کریں جنہوں نے دین کے معاملے میں ان سے جن گ نہ
کی ہو ،نہ انہیں ان کے گھروں سے نکاال ہو اور نہ ہی انہیں نکالنے میں ای ک
دوس رے کی م دد کی ہ و جیس ا کہ س ورۃ الممتحنۃ کی دو آی ات مب ارکہ اس پ ر
داللت کرتی ہیں ،اور یہ آیت:
"﴿فَ ِإ ِن ا ْعتَزَ ُلـوْ ُك ْم فَلَ ْم يُقَ اتِلُوْ ُك ْم َوَأ ْلقَ وْ ا ِإلَ ْي ُك ُم َّ
الس لَ َم فَ َم ا َج َع َل هللاُ لَ ُك ْم َعلَ ْي ِه ْم
َسبِ ْياًل ﴾ "
"لہذا اگر وہ تم سے علیحدہ رہیں،اور تم سے جن گ نہ ک ریں،اور تمہ اری
طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں تو تمہارے ل یے اس کی گنج ائش نہیں ہے کہ تم ان
کے خالف کاروائی کرو۔"()46
اور اسی طرح دیگر دلیلیں بھی میں نے تفصیل سے بیان کیں۔
﴿" -36اَل ِإ ْك َراهَ فِ ْي ال ِّد ْي ِن﴾" منسوخ نہیں بلکہ محکم ہے:
میں نے ان لوگوں کے اس قول کے عدم صحت کو ت رجیح دی ج و کہ تے
ہیں کہ آیت السیف ،ہللا کے ارشاد:
َي﴾" "﴿اَل ِإ ْك َراهَ فِ ْي ال ِّدي ِْن قَ ْد تَّبَيَّنَ الرُّ ْش ُد ِمنَ ْالغ ِّ
" دین کے معاملہ میں جبر اور زبردستی نہیں ہے،حق گم راہی س ے ج دا
()47
ہو کر بالکل واضح ہو چکا ہے۔"
کے لیے ناسخ ہے۔ اس طرح کی آیات منسوخ نہیں ہوتیں ،کیونکہ یہ ایسی
علت سے معلول ہوتی ہیں جو نسخ قبول نہیں کرتیں ،یہ آیت بیان ک رتی ہے کہ
دین حق (جو کہ دین اسالم ہی ہے) زورزبردستی کوقبول نہیں کرتا ،اور اس الم
میں زور وزبردس تی اس واض ح علت کی وجہ س ے ج ائز نہیں کہ دین اس الم
اپنےروشن دالئل اور واضح نشانیوں کی وجہ سے قطعا کس ی ج بر واک راہ ک ا
ن محتاج ہی نہیں ہے۔
ب من ت ش
لفاور اس می ں سخ کےن ع ی نکی حث: نں (امام) زرک ی کی ناویئ ت -37آیشۃ السیف می
ح م ی
ے جس سے ص سوخ کا کم امام زرک ی ؒ ے آی ۃ السیف کی ا سی ی سی ر کی ہ
()48
46
-النساء.90:
47
-البقرۃ.256:
48
-امام زركشى 745ھ کو قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شمار آٹهويں صدى ہج رى
كے اہل نظر ومجتہد علما ميں ہوتا ہے۔ ق رآ ِن ك ريم ،اَح اديث ِمب اركہ اور اُص و ِل دين
39
ت خت ئ ت خت ن ت ت خت ن
ے اگرت سب ب م ہ نوج اے و وہ ب ھی م ہ وج ا ا ا و
ب ئب ت پح ب ہہ ی ب م ر ب س وہ لکہ ا و ہ ں ب الکلی ہ م ی
ہ
ج ن
ے۔ چ ا چ ہ ن آی ات م بنارکہ می ں لوٹ آ ا ہ سب ب لوٹ آے و وہ کم نھی ن ح
ے اورگر ت خف
ہ
ے وہ آی ۃ السیف سے م سوخ ہی ں ہ ی ں ،ب لکہ وہ ب ھالدی ج اے والی ف49کا) کم ہ ی
ن ن ن ۔ ں ی ہ سے ں یم (
ات آی
ب م
ن پر ان کے ت عی ن کے ے ب ی لی ہ السالم ع ح
ذات ب ڑی کی م ہ ت
ے اپ ے،اس ئ ت نہللا کی ش ف ق
زماے میف ں ان حاالت کے غ کے مزوری ن ک ے ت و ہ ے کر عاملہ م واالئ ت
ف سا ھ رمی و ن
ے اسالم کو الب رمای ا اور اس کی مدد و ات ازل رما ی ں ،پ ھر ج ب ہللا نعالی ف نم طابق آی ت
: کہ یسا ج ا، رما ن زول کا ات آ
م ب یق طا ت کے حاالت ان و صرت فکی
کم،اور اگر وہ ےکا حن
ن
د ہ ز ج ا الم الےی کا طال ق
ہ ن س ا سے ق ان و وں
ت ہ اب تک ل ہ ا اگر کا ر
ے کا ح م ب تی ی ی ن
۔
ت کم ن ا ے
ق ک ج ی ل ھر پ ا ئ
ہ طال
صم فب ی کا ے کر ول ن ب المس ا و وں ہ ہ سے
ی ح ین ں من اب اہ ل کت
کے د وںنمی ں لوار کے ند وں می ہںئ لح ص انی اور طا ت ق ی تہ دو وں ح کم عن ی کمزوری ٹ
ے کہ م ابضلہ کرے کا حکم ں
ن ن یق ہ ہ ے،ایسا و ن سے ے ب کے لو ے سب ن پ کے اسنعمال کا کم ا
ے۔ عم ے اسخ ب شن گ ی ا ب لکہ ت فدو وں پر ا صلح کرے کے حکم ن
روری ہ ئ ل ے و ت می ں ے اپق پ ت
کے ی
ل
ے اگر اسےواج بئی ج ہاد ق ے ب نول کی ج ا سخ می ں زرک ی ؒ کی یش ہ سی رب ہ ر ہ ت نآیظۃ السیف کے ئ
ہ
ے دنمن سے ج ہاد کر ا وتزمی ن پر اب ض و ج اے اور ج
ک
ے ج یسا قکہ ایس ں دی کھا ج ان ض کے ا ر میق
ک ن
ہ
ے وں ،ی نہاں م یوں ہقی تں ہ مسلمان ی ہ ب ہ ھڑوا قے اورنم اب لہ کرے کی حکت ن ہ ر نھ
س چ ش
ے) و خی ے جس نسوخ ہی قں ب لکہ م سا ہ ے ج ہاد کا کم (م گے کہ اس ند من کا م اب لہ حکرےشکے یل
ت ق
ے اور اس کم کو د من سے م اب لہ کرے کی طا ت کے حصول ک مؤ ر ئھالد ی ا چ اہ ی طور پر ب
ت کھ ن ن ض ف ن ت ے۔
ن کی ا ج ا
ت چ لی ں گے اور ہ
ساء) کی ی ہ سی ر کر ا کہ زماق ہ عف می ں م لوگوں سے ہ ا ھ ی ق گر(ا ن م
ن ہ ن
وری د ی ا سے ت ال کری ں گے ۔ انسے م مست رد کرے ہ ی ں یک و کہ ی ہ طا ت کے د وں می ں پ ف
ئکہی ں تکہ ہ م ے۔ی ہ کسی طرح م ن اسب ہی ں کہ ہ قم لوگوں سے ن
دینگر آی ات م ب ارکہ کے م ا ق ہن
ی
ے اور جس تدن ہ می ں طا ت میسر آے گی و ہ م تاپ ی کمزوری کےت سب ب ت ال ہی ں کر رہ
ت
مہارے گھر می ں م پر حملہ آور ہ وں گے ی ہاں ک کہ م اسالم لے آؤ ی ا ذلت سے ج زی ہ
دو۔
-38حدی ث "بُعثت بالسيف" کا ضعف:
میں نے یہ بیان کیا کہ یہ حدیث:
ُعثت بين يدي الساعة بالسيف)" "(ب ُ
وفقہ ميں امتيازى حيثيت كے حامل تهے۔"زركش" فارسى کا لفظ ہے۔"زر" ك ا مع نى
’سونا‘ جبكہ "كش‘"كا معنى ’واال‘ كے ہيں ،يعنى سونے ك ا ك ام ك رنے واال۔ آپ ك و
"زركشى" اس لئے كہا جاتا ہے كہ طلب ِعلم سے پہلےس ن ار كا كام كرتے تهے۔ آپ کا
انتقال 794ھ میں ہوا۔ ابن قاضي شهبة ،تقي الدين1978 .م .طبقات الشافعية ،حيدرآباد:
دائرة المعارف العثمانية.1:183 .
49
-وہ آیات جو حافظے سے ہی محو کر دی گئی ہوں۔
40
"مجھے قیامت سے پہلے تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔"
()50
وإن نکثوا أیمانھم من بعد عھدھم وطعن وا في دینکم فق اتلوا أئم ة الکفر ،إنھم ال أیم ان لھم لعلھم
ینتھون( )۱۲أال تقاتلون قوما نکثوا أیمانھم وھموا بإخراج الرسول وھم بدؤوکم أول م رۃ،
أتخشونھم ،فاہلل أحق أن تخشوہ إن کنتم مومنین()۱۳
اور اگر یہ قسمیہ معاہدہ کے بعد اپنی قسمیں ت وڑ دیں اور تمہ ارے دین پ ر حملے ک ریں،ت و
کفر کے ان لیڈروں اور پیشواوں سے جنگ کرو،ان کی قسموں کا ک وئی اعتب ار نہیں،
تاکہ یہ اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں ( )۱۲کیا تم ایسے ظالموں سے جن گ نہیں ک رو
گے جنہ وں نے اپ نی قس میں اور معاہ دے ت وڑ دیے ،اور رس ول کی جالوط نی کے
ارادے کیے،اور انہوں نے ہی پہلی مرتبہ بدعہ دی کی ابت دا کی،کی ا تم ان س ے ڈرتے
ہو؟ ہللا اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرو ،اگر تم صاحب ایمان ہو()۱۳
قاتلوا الذين ال يؤمنون باهلل وال باليوم اآلخر وال يحرم ون م ا ح رم هللا ورس وله وال يدينون دين
الحق من الذين أوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون()۲۹
جن گ ک رو ان اہ ل کت اب(یہودی وں اور عیس ائیوں) س ے ج و ہللا اور آخ رت پ ر ایم ان نہیں
رکھتے،اور جسے ہللا اور اس کے رسول نے حرام قرار دے دیا ہے اس ے ح رام نہیں
سمجھتے ،اور دین حق کی اطاعت نہیں کرتے ،یہاں تک کہ وہ جھک کر جزیہ دی نے
پر مجبور ہوں( ،یہ منکر و کافر اسی کے مس تحق ہیں کہ ان ک و زی رنگیں کی ا ج ائے
اور اسالمی حکومت کی شہریت کے ع وض ای ک آس ان س ا ٹیکس ان س ے لی ا ج ائے
تاکہ ان کی باالدستی ختم ہو لیکن ان پر ظلم بھی نہ ہو()۲۹
- 55التوبۃ.10:
42
سب سے واضح کلم ات جن پ ر میں نے اعتم اد کی ا ،وہ ابن القیم ؒنے اپ نی
کتاب "ہدایۃ الحیاری" میں ذکر کیے ہیں ،وہ فرماتے ہیں:
"جو نبی کریم ﷺ کی سیرت مطہ رہ میں غ وروفکر ک رے اس پہ یہ ب ات
واضح ہوجاتی ہے کہ نبی علیہ السالم نے کسی پر اپنے دین کےلیے زبردس تی
نہیں کی ،آپ ﷺ نے صرف اسی کے ساتھ قتال کیا جس نے آپ کے ساتھ کیا،
جو کوئی آپ علیہ السالم کے ساتھ صلح ص فائی اورامن کے س اتھ بغ یر ل ڑائی
کیے رہا وہ جب تک ا س پر ق ائم رہ ا اور اپن ا عہ د نہیں ت وڑا اس س ے آپﷺ
نے قتال نہیں کیا ؛بلکہ ہللا تعالی نے حکم فرمایا کہ ان کے ساتھ ایفائے عہد کیا
جائے جب تک وہ عہد پر قائم رہیں،جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
"﴿فَ َما ا ْستَقَا ُموا لَ ُك ْم فَا ْستَقِ ْي ُموْ ا لَهُ ْم﴾"
()56
"وہ جب تک معاہدہ پر قائم رہیں،تم اس پر قائم رہو۔"
نبی کریم ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف الئے ت و آپﷺ نے یہودی وں س ے
ص لح فرم ائی اور انہیں ان کے دین پ ر چھ وڑے رکھ ا ،پھ رجب انہ وں نے
عہدشکنی کی اورلڑائی میں پہل کی تو آپ علیہ الس الم نے جواب ا ان کے س اتھ
قتال کیا اور بعضوں کے ساتھ احسان واال معاملہ کیا،کچھ ک و جالوطن ک ر دی ا
اور کچھ کو قتل (کرنے کا حکم دے )دیا ،اسی طرح جب ق ریش کے س اتھ دس
سال کی جنگ بندی کا معاہدہ ہواتو آپ ﷺ نے اس وقت تک پہ ل نہیں کی جب
تک انہوں نے معاہدہ توڑنہیں دیا،اس کےبعد آپ نے ان کے عالقے میں جا کر
ان سے جنگ لڑی ،اس سے قبل وہ جنگ میں پہل کیاکرتے تھے جیسا کہ ی وم
احد اوریوم خندق میں انہ وں نے کی ا ،ب در کے دن بھی وہ ل ڑائی کےل یے آئے
تھے اگ ر وہ واپس چلے ج اتےتو آپ ﷺان س ے قت ال نہ فرم اتے،اس س اری
بحث کا مقصد یہ ہے کہ آپ علیہ السالم نے کسی کو دین اسالم قبول کرنے پ ر
قطعا مجبور نہیں کیا ،بلکہ لوگوں نےاپنے اختیار سے برضاورغبت دین اسالم
()57
قبول کیا ۔"
56
-التوبۃ.07:
57
-ابن القیم 1396 .ھ .ہدایۃ الحیاری من الیھود والنصاری ،مكہ مک رمہ :موسس ۃ مکۃ
للطباعۃ ۔ 01: 12۔
43
-41ص##حابہ ک##رام اور ان کے بع##د کے مس##لمانوں کی فتوح##ات لوگ##وں ک##و
نہیں تھیں :ن ش
کےلیے
میں داخل کرنے خ ف ئ تج
زبردستی اسالم ن
اوراس
ن ے قرا دی ن کے نزماے می ں ن ا ل ےکہ ہ ق دی ح ی ر کو
ئ ات ب اس
ت ف ے می ں
ااوردوسروں ج ھکا ا کر ع ی س و کو وں الع ے ت ا حض م صد م کا ان ں و ہ وحات المی
ق س ا کےب عد ج و
ت س پ ن یج ن ن ت ن
سے ہ ٹ کر اری خ کا لکہ اگر عصب و حطی تت ب ھا، ہ ا کر
ت ورئ بم ر پ ے کر ول ب الم س ا ں یہ تی ا ا
ت ص ت
کے م عدد اہ داف سجم ھ می ں آےہ ی ں ،ج و ی ہ ہ ی ں: ن اس و
ٹ ے ا ا عہ
م ل ک ی ئج طا ح ح
ی ھ سا کے ر دب
ن ل رکاو وں کو ہ ٹ ا فا۔ ج ن -1اسالم کی راہ می ں حا ف ظ
ے د اعین گی ں کر ا۔ -2اسالمی ری است کی ح ا ت کے یل
ش ے لڑ ا۔ آزادی کے یل اورکمزورعوام کی ےبس ق
ئ ن ن ن
س م ع -3ب ف
ف ے: سے ان کی د قم ی اورلڑا ی کر ا ہ ن ارسے ت ال کیت ج لت لما وں ف -42ک
سے ت ال کی علت ان کا محض کا ر خ روں کا
ن کہ ے ہ دی ح ی ر کو ات
ب ش اس ے ن ن می ں
م
ق ن س
ں ۔اگر حض
ت الف ج گ ت ب پ ا کر دی غ ن ے ج ب تکہ وہ م لما وں کے کی سرفک ی ہ ہ وف ا ہین ں ب لکہ انت ت
وں اور اج روں و ی رہ کو ل ق ہ
لت ہ و ی وکا روںن کی عور وں ،وڑھوں،را ب فوں ،کسا ن
ب کان رب ہ و ا عئ ت
ت ل
ے م لما وں کے ان پرامن مخ ا ئ ی نن کو ل ہی ں ک ی ا ج اسئکت ا: س کر ا ھی ج ا ز ہ و ا۔اسی یل
ن
ج ن سے اسالم اور امت اسالمی ہ کی ب اب ت کو ی اروا ب ات سرزد ہ ہ و ی ہ و،
نہ دین کے معاملے میں ان سے جنگ کی ہو،
نہ اپنےگھروں سے نکاال ہو ،نہ ہی ان کے نکالنے میں ای ک دوس رے
کی مدد کی ہو،
بلکہ ان کو سالمتی کےساتھ زندگی گزارنے کا ماحول دیا ہو اوراپنے
ہاتھوں اورزبانوں کو مسلمانوں (کے خالف استعمال کرنے )سے روکا ہو،
تو ایسوں کےلیے ہماری طرف سے خیرخواہی اور انص اف کے س وا کچھ
نہیں۔
البتہ ج و مس لمانوں ک و تکلی ف پہنچ ائے اور ان پرسرکش ی ک رے
تومس لمانوں ک و یہ ح ق حاص ل ہے بلکہ ان پ ر ض روری ہے کہ اپ نے دین و
عزت کی حفاظت کے لیےاس سے قتال کریں ،یہاں تک وہ اس الم قب ول ک رلے
یا ذلیل ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دے ،یعنی وہ اسالمی ریاست اورش ریعت
اس المی کے س امنے نہ کہ اس المی عقی دے کے سامنےس رنگوں ہ و
جائے،کیونکہ اس (عقیدے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔
44
-43اقدامی جہاد کےفرض کفایہ ہونے پر کوئی اجماع نہیں ہے جیس##ا کہ
مشہورہے:
میں نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ فقہائے کرام کا نہ اق دامی جہ ادکے
فرض کفایہ ہ ونے پ ر ک وئی اجم اع ہےنہ ہی ہرس ال ک افروں کے ملک وں میں
جہاد کے وجوب پر۔صحابہ ک رام میں (حض رت) ابن عم رر(ض ی ہللا عنہم ا)،
برمہ ( )60اور (ام ام ) ؒ دینار(،)59ائمہ ک رام میں ابن ش ؒ عطاء( )58اورابن
ؒ تابعین میں
ئ کہ ج ہاد(اقدامی جہاد) فرض نہیں بلکہ نفلی ہے۔ ثوری( )61کا خیال یہ ہے ؒ
ق مف ب شت ج ض ب
ے ن می ں اب ننم ب ارک ؒ ھی ا ل ہ ی ں کہ ا دامیت ج ہاد ے یہ ہ عض ح راتفکی را ت
رض ھا ان کےنعالوہ کسی پر ہی ں۔ اسخ ( ص ی ل ) کے سا ھنکہ صرف فصحاب ہ فکرام پر ئ
پ گ ج
طرےف والی ہوں کو ا ی ب پ ی
ت حدود اور ف حری وب ریع ت ےا ی
س امت رض ک ای ہ کی ادا گی کے یل
ےج وواج سے پْر رکھ ن ا ہ ا ت
ی ی ب ر لی اورا س ی ل سے ش ے ح و قسعتضکے م فطابق عمدہ سے عمدہ ا ل
ن کو س
نالمی ری است اور من لما وں کی عزت ےاور د من اگر اس ئ ت رورت وری حرکت کرسک بو ت
س ن بک ب ن خ
ے ک
ے واال ب ق س ھا ن ب ش
ے و اسے ق لکارے اور ش ھی ہ تھول ن ل چ ھوے کا تی ال تھی دل می ں ال
ے ۔اس ی خاری کا م نصد دت
اس پر ن ق
رعب ج ما ا من کی وکت کو وڑ ا ،ن
ب ن ب ے ہ مہ ن مس عدرہ کے یل
س
ھیق م لئما وں فکو غصان ک
ے کہ وہ ف ال ھی ف کال دی ا اور اس کے دل سے اس ب اتنکا ی ف
ہت ن
ےاور ہاے ش ا عی ہ و ی رہ ی
ک ہ س کر ادا ہ ا
ک ی رض ے ذمہ ے۔اس طرح امت اپ پ ہ چ ا سکت ا ہ
اسالمی کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اس المی مفک رین میں س ے ای ک
تھے۔ ان کی فکر ،سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنی ا کی اس المی تحاری ک کے
ارتقا میں گہرا اثر ڈاال ۔موالنا کی فک ر اور شخص یت کےب ارے میں ج اننے کے ل یے
عالمہ یوسف القرضاوی کی کتاب ”نظرات فی فکر االمام المودودی“ الئق مطالعہ ہے
جس کااُردو ترجمہ ابواالعلی سید سبحانی نے”امام مودودی۔ایک مص لح ،ای ک مفک ر،
ایک مجدد“کے نام سے کیا ہے ۔ ہدایت پبلشرز نے یہ ترجمہ نئی دہلی س ے ش ائع کی ا
ہے۔
63
-سید قطب شہید( 1387 – 1324ہ = 1967 - 1906ء) کا شمار اخوان المسلمین
کے رہنماوں میں ہوتا ہے،آپ معروف مصری مفک ر اور ادیب ہیں۔ آپ کے ش علہ ب ار
قلم سے متعدد تصانیف نکلیں جن میں سے اہم ترین تصنیف قرٓان ک ریم کی تفس یر ہے
جو ’فی ظالل القرٓان‘کے نام سے عربی میں لکھی گئی ہے اور اس کا ت رجمہ بش مول
اردو ک ئی زب انوں میں ہوچک ا ہے۔ ال زركلي ،خ ير ال دين1986 .م .األعالم .ب يروت:
دارالعلم للماليين.325 .
46
نف ت ش ق
ع ن ف خ
ست کت ی ا س
شی اور لی رسادگی،کم ے مخ ال ی نپ
ن ے تکہ ی ہ اپ ف
ت دوسری وج ہ ی ہ قہ :۲رابی کی
ئ
ے دت کر ث ے ہ ی ں۔اور س ی دن طب قو مخ ال ی ن پر ت شموال ا مودودیت نسے زی ادہ ض تکا الزام عا د کر
ن
ے۔ حاال تکہ ج ن ح رات کو روحا ی اور ع لی طور پر اس راق( )64اور صی ر ی ت( )65سے مت ا ر ھن
( ،)66
ج ع
ےوہ امت کے لما اور داعی ہ ی ں ،یسا کہ محمد عبده ہ وے پر ہم ک ی ا ج ا رہ ا ہ
م
رشيد رضا (،)67الم راغی( ،)68ش لتوت )69(،دراز( ،)70خالف( ،)71اب وزہرة( ،)72حس ن
64
-استشراق اور مستش رق کی تعریف ای ڈورڈ س ید( ) Edward Saidاپ نی کت اب (
)Orientalismمیں ان الفاظ سے کرتے ہیں:
“Anyone who teaches, writes about, or researches the orient and this
applies whether the person is an authropologist, socialogist, historian, or
philologist either in its specific or its general aspects, is an orientalist,
and what he or she does is Orientalism.” (Said, Edward w. 1978.
)Orientalism. New York: Pantheon Books.p:21.
”جو کوئی بھی مش رق کے ب ارے میں پڑھت ا،لکھت ا ی ا اس پ ر تحقی ق کرت ا ہے ت و یہ
تحقیقی معی ار تم ام ت ر پڑھ نے لکھ نے اور تحقی ق ک رنے والے م اہر بش ریات ،م اہر
عمرانی ات،م ورخین اور م اہر لس انیات پ ر منطب ق ہوت ا ہے۔خ واہ یہ ل وگ اپ نے اپ نے دائر ہ
شخصی میں خاص موضوع ی ا اپ نے کس ی عم ومی مض مون پ ر ک ام ک ررہے ہ وں،مش رق
شناس(مستش رق) کہالتے ہیں اور ان ک ا کی ا ج انے واال ک ام مش رق شناس ی ہوگا۔“ ،موالن ا
ابوالحسن علی ندوی کے مطابق موجودہ دور میں استشراق ک و ایری ا اس ٹڈی اور مستش رقین
کو ایریا ایکسپرٹ یا ایڈوائزر کہ ا جات ا ہے۔آپ "االس المیات بین کتاب ات المستش رقین " میں
لکھتے ہیں کہ”اب مستشرقین ،مستشرق کہلوانا پس ند نہیں ک رتے،دوس ری جن گ عظیم کے
بعد وہ ” ایڈوائزر“ی ا ایری ا س ٹڈی سپیشلسٹ؍ایکس پرٹ کہلواناپس ند ک رتے ہیں“ -ن دوی ،أب و
مؤسسة تالرسالة۔ 13۔
بیروت :ن ن
ئ المستشرقین۔
ن کتابات
ت الحسن تعلي۔ 1986ء۔ االسالمیات بین
ب ت ئ ن
ے،ای ک ع س م ی
ت کی روی ج و ل تغ اور لما وں کو ت ی سا ی ب اے کی حرتیشک ہ -صی ترین ت سے مراد عی سا ی ق
65
عم م تس
ے و دوسری طرف اس راق کے ذی ل طرفب صی ری تت کا ی ہ یلک ل ح ی ث ی ت اور اری خ رکھت ا ہ
ے :السباعي ،مصطفی .سنة النشر غيرمذكورة .االستشراق ے۔ د ھی می ں ھی آ ا ہ
والمستشرقون۔عمان :دار الوراق للنشر والتوزیع.22.
66
-ان کا مکمل نام محمد بن عبدہ بن حس ن بن خ یر ہللا ہے۔ ١٢٦٥ھ بمط ابق ١٨٤٩ء
ئ تش ص ق
ے اور 'العُروةمیں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اہ رہ می ں حا ل کی1884 ،می ں پ یرس ریف لے گ
الوثقی' نام سے ایک عربی رس الہ ج اری کی ا۔١٨٨٥ء میں ب یروت گ ئے اور۱۸۸۹ ء میں ٰ
واپس مصر پہنچ گئے،اور پہلے عدلیہ میں جج تعینات ہوئے بع د ازاں انہیں مجلس ق انون
س از کا رکن بھی مق رر کی ا گی ا۔١٨٩٩ ء میں ان ک و مص ر کی حک ومت کی ط رف س ے
47
البنا( ،)73السباعي ( ،)74الغزالي( )75اور عبدهللا بن زيد المحمود ( )76و غيرہ۔
میں نے س یدقطب ش ہیدکے کالم پ رچھ مالحظ ات( )77لکھے ہیں ،یہ اں ان
کے ذک ر ک رنے کی گنج ائش نہیں ہے،انہیں اپ نی جگہ پ ر پ ڑھ لی ا ج ائے۔(
)424-1/414۔
-45یہ آیت "﴿ َو َكفَى هللاُ ا ْل ُمْؤ ِمنِيْنَ ا ْلقِتَ##ا َل﴾" اس##الم میں امن وس##المتی کے
رجحان کی بڑی دلیل ہے:
سرکاری طور پر مفتی عام کا درجہ دے دیا گیا اور وہ مص ر کے پہلے مف تی ع ام تھے اور
عالم اسالم کی وحدت و یک جہتی کے لئے کوشاں مصلح رہنما کی حیثیت سے جانے جاتے
ہیں ۔ ١٩٠٥ء بمطابق ١٣٢٣ھ میں اسکندریہ کے عالقہ میں کینسر کے مرض کی وجہ سے
وف ات پ ائی۔ ان کے ش اگردوں میں رش ید رض ا' حاف ظ اب راہیم' ش یخ ع ز ال دین قس ام' ش یخ
ازہرمحمد مص طفی م راغی' ش یخ ازہ ر مص طفی عب د ال رزاق' ش یخ محم د محی ال دین عب د
الحمید' سعد زغلول' قاسم امین' محمد لطفی جمعہ اور ٰطہ حسین وغیرہ شامل ہیں۔ ال زركلي،
خير الدين1986 .م .األعالم .بيروت :دارالعلم للماليين.355 .
االولی ١٢٨٢ھ بمط ابقٰ - 67ان کا پورا ن ام محم د رش ید بن علی رض ا ہے۔ ٢٧جم ادی
١٨٦٥ء شام کے عالقہ طرابلس میں پیدا ہوئے۔ ابت دائی تعلیم ت رکی زب ان میں حاص ل
کی بعد ازاں عربی اور فرانسیسی س یکھی ،جم ال ال دین افغ انی اور محم د عب دہ کے
ثقی' سے نہ ایت مت اثر ہ وئے ۔ افغ انی کے بع د محمدعب دہ س ے رسالے' العُروة ال ُو ٰ
استفادہ کے لیے مصر منتقل ہو گئے جہ اں ان کے س امنے یہ خ واہش کی کہ وہ ق رآن
کی تفسیر لکھیں،ابھی سورة النساء کی آیت ١٢٥تک تفسیر تک پہنچے تھے کہ داعی
اجل کو لبیک کہا۔استاذ کی وفات کے بع د رش ید رض ا نے یہ تفس یر س ورہ یوس ف کی
آیت١٠١تک اپنے استاد کے منہج سے ہٹ کر مکمل کی۔جس کے بع د س ے آخ ر ت ک
استاذ بہجت بیطار نے اس کی تکمیل کی۔ان کی ش ہرت ک ا ای ک ح والہ 'المن ار' رس الہ
بھی ہے جو عالم ع ربی کے عالوہ ع الم اس الم اور ی ورپ کے علمی حلق وں میں بھی
أالولی ١٣٥٤ھ بمط ابق ١٩٣٥ء ان کی وف ات ہ وئی اور ٰ بہت معروف ہوا۔۔ ١٣جمادی
اپنے استاذ مفتی محمد عبدہ کے س اتھ دفن ک یے گ ئے۔ ال زركلي ،خ ير ال دين1986 .م.
األعالم .بيروت :دارالعلم للماليين.255 .
- 68شیخ محمد مصطفی المراغی ( 1881ء1945-ء)کا شمار ب ی سوی ں صدی کی عظیم دینی
اور علمی شخصیتوں میں ہوتا ہے ،قضاء اور شیخ االزھر کے منصب پر فائز رہے۔
محمد-مصطفی-المراغي/https://ar.wikipedia.org/wiki /۔
- 69محمود ش لتوت (۱۳۱۰۔۱۳۸۳ھ بمط ابق ۱۸۹۳۔۱۹۶۳ء) مع روف مص ری ع الم دین
ہیں۱۹۱۸،ء میں شھادۃ العالمیۃ کی ڈگری حاص ل ک ر کے ت دریس ش روع ک ر دی اور
ترقی کرتے کرتے ۱۹۵۸ء میں شیخ االزھ ر تعین ات ہ و گ ئے۔آپ مجم ع اللغۃ الع ربیۃ
کے رکن بھی تھے۔آپ پہلی شخصیت ہیں جنہیں امام اک بر ک ا لقب مال۔ ال زركلي ،خ ير
48
میں نے اسالم میں امن وسالمتی کےرجحان اوراس الم کی امن کی ط رف
رغبت اور جن گ س ے نف رت کے متعل ق جن دالئ ل س ے اس تدالل کی ا ہے یہ
م یرے تف ردات میں س ے ہے،م یری معلوم ات کے مط ابق م یرے عالوہ یہ
استدالل کسی نے نہیں کیا :ان دالئل میں سے ایک غزوہ اح زاب کے بی ان کے
بعد ہللا تعالی کا یہ فرمان ہے:
"﴿ َو َر َّد هللاُ الَّ ِذ ْينَ َكفَرُوا بِ َغ ْي ِظ ِه ْم لَ ْم يَنَالُوا َخ ْيرًا َو َكفَى هللاُ ْال ُمْؤ ِمنِ ْينَ ْالقِت َ
َال﴾"
نہ کرنا:
انہیں (دالئل) میں سےنبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے:
"دعوا الحبشة ما َو َدعُوكم ،واتركوا الترك ما تركوكم"
"جب تک حبشی تمہیں نہ چھیڑیں تم بھی انہیں مت چھیڑنا اور ترکوں ک و
۔"( )81
بھی اس وقت تک تم کچھ نہ کہو جب تک وہ تمہیں کچھ نہیں کہتے
چنانچہ آپ علیہ السالم کبھی پہل نہیں کرتے تھےجب تک مخالفین پہ ل نہ
کرتے ،حبشہ والے نصرانی تھے اور ترک مشرک تھے۔
.1حتی التک ون فتنۃ ک ا یہ مطلب نہیں کہ اس الم کے عالوہ ک وئی بھی عقی دہ رکھ نے
والے سے جہاد کیا جائے،بلکہ اس سے مراد مذہبی اور دعوتی آزادی ہے ۔
.2سید قطب نے اس واضح فکر کو مسترد کیا ہے کہ اسالم کی دعوت عالمی ہے۔
.3سید قطب کا کہنا ہے کہ جہاد باللسان وہاں ہو گا جہاں دعوت کی ٓزادی ہ و گی،اگ ر
کہیں ایسا نہیں تو طاقت کے ذریعے دعوت کی راہ ہموار کی جائے گی۔
.4سید قطب وہ متعدد آیات اور احادیث بھول گئے جن میں جہ اد ک و مقی د کی ا گی ا ہے
کہ یہ ان لوگوں کے خالف ہو گا جو مقابلے میں آئیں گے۔
.5سید قطب اپنی اس فکر کی بنیاد پر پوری دنیا کو اپنا مخالف بنا رہے ہیں ۔
.6سید قطب اپ نے مخ الفین پ ر بہت س ختی ک رتے تھے اور انہیں روح انی اور عقلی
شکست خوردہ قرار دیتے تھے۔ جن میں شیخ غزالی،شلتوت،ابوزہرہ،سباعی،م راغی
اور حسن البنا جیسی شخصیات شامل ہیں۔ فقہ الجہاد ،ص ۴۱۴تا ۲۴۔
- 78االحزاب.25:
- 79مسند احمد،حدیث نمبر .۱۹۰۳۲
- 80براعظم افریقہ میں واقع ملک ایتھوپیا کو ہی پہلے حبشہ کہا جاتا تھا۔ دیکھیے:
ایتھوپیا/https://ur.wikipedia.org/wiki /۔
- 81سنن ابو داود ،حدیث نمبر ،4302سنن نسائی ،حدیث نمبر.3176
51
-48مسلمان جن##گ میں ش##وق س##ے نہیں بلکہ ناپس##ندیدگی س##ے ش##ریک
قئ ن ئ ہوتے تھے: ن
ے ں ہ ل ا اک گ ے ن را گ ے اس ات کو ت رجی ح دی ے کہ اسالم ن می ں
تی ہ ج ق بت ن ج ہ س ن نب
گ مج ن
اس و ت ک ہی ں ھست ا ج ب ک اس ےاور تاس می فں ت ب لکہ وہ ج گ کو اپ س دی دہ ئھت ا ہ
ے ہللا عالی رماے ہ ی ں: پر ج ن گ مسلط ن ہ کر دی ج اے ،ج ی س
ب َعلَ ْي ُك ُم ْالقِتَا ُل َوهُ َو ُكرْ هٌ لَّ ُك ْم﴾""﴿ ُكتِ َ
"جن گ(ظ الموں اور فتنہ پ روروں کے خالف) تم پ ر ف رض ک ر دی گ ئی
()82
ہے،جبکہ وہ طبعا تمہیں ناگوار ہے۔"
-49سب سے زیادہ جنگیں کرنے والے دین نصرانیت کے پیروکار ہیں:
میں نےیہ بیان کیا ہے کہ جوبعض نصرانی دین اسالم پ ر یہ ال زام لگ اتے
ہیں کہ یہ تلوار کا دین ہے وہ خود کسی بھی مذہب کے پیروک اروں س ے زی ادہ
آپس میں ی ا دوس روں کے س اتھ جنگیں ک ر چکے ہیں،اک ثر وبیش تر انہ وں نے
مذہبی بنیادوں پر جنگ کی آگ بھڑکائی اور کبھی ق ومیت،عالق ائیت ی ا مف ادات
کی بنی اد پ ر ۔ (دلی ل کے ط ور پ ر) دو ع المی جنگیں ہی ک افی ہیں جس میں
یورپیوں نے جو کہ مسیحی تھے آپس میں الکھوں افراد کا قت ل کی ا۔ یہ اں ت ک
کہ ایک مسیحی ()83کو کہنا پڑا:حضرت مسیح ؑ کی ک وئی پیش گ وئی اس ط رح
سچی ثابت نہیں ہوئی جس طرح کہ آپ کا یہ فرمان سچ ثابت ہوا:
"ما جئت أللقي على األرض سال ًما بل سيفًا".
کہ میں اس لیے نہیں آیا کہ زمین پر امن کو عام کروں بلکہ اس ل یے آی ا
()84
ہوں کہ تلوار کو عام کروں!
ہم نے انجیل (مقدس )کی پیروی کرنےوالوں میں بالخص وص اہ ل مغ رب
میں سے کوئی بھی ایسا نہیں دیکھا کہ وہ انجی ل کی تعلیم ات اپ نے اوپ ر الگ و
82
--البقرۃ.216 :
83
-یہ بات معروف مسیحی س کالر م ارون ہ اریس ( )Marvin Harrisنے اپ نی کت اب
"”Cows, Pigs, Wars and Witches: The Riddles of” Cultureمیں لکھی
ہے،اس وقت ہم ارے پیش نظ ر اس کت اب ک ا ع ربی ت رجمہ"مقدس ات ومحرم ات
وحروب :ألغاز الثقافة" ہے جو کہ المرکز العربی لالبح اث ودراس ۃ السیاس ات ،قط ر
نے شائع کیا ہے۔
84
-إنجيل متى.34 :10 .
52
کرتا ہو اور دائیں گال پر مارنے والے کے سامنے اپنا بای اں گ ال رکھ دیت ا ہ و۔
بلکہ ہم نے تو یہ دیکھا کہ وہ لوگوں پر ظلم و زیادتی کرتے وقت م ار پیٹ کی
ابتدا ہی چہرے اور دائیں بائیں گال سے کرتے ہیں۔
-50اسالم میں قتال کا حکم دین میں فتنےکو روکنے کے لیےہے:
میں نے یہ بیان کیا ہے کہ جس فت نے کوروک نے کےل یے اس الم قت ال ک ا
حکم دیتا ہے ،جیسا کہ اس آیت میں:
﴿وقَاتِلُوْ هُ ْم َحتَّى اَل تَ ُكوْ نَ فِ ْتنَةٌ َويَ ُكوْ نَ ال ِّديْنُ هلِل ِ﴾"
" َ
"ان سے اس وقت تک جن گ ج اری رکھ و جب ت ک فتنہ (دین کے خالف
()85
ان کی مہم) ختم نہ ہو،اور اطاعت و فرمانبرداری صرف ہللا کی نہ ہو۔"
اور دوسری آیت میں:
"﴿ َوقَاتِلُوْ هُ ْم َحتَّى اَل تَ ُكوْ نَ فِ ْتنَةٌ َويَ ُكوْ نَ ال ِّديْنُ کله هلِل ِ﴾ "
"(اے مسلمانو!) اور ان سے جن گ ج اری رکھ و جب ت ک کہ فتنہ ختم نہ
()86
ہو جائے ،اور نظام اطاعت الہی پورے طور پر نافذ نہ ہو جائے۔"
ایک اور جگہ ارشاد ہےَ ﴿":و ْالفِ ْتنَةُ َأ ْكبَ ُر ِمنَ ْالقَ ْت ِل﴾"
ا"ور فتنہ( راہ ح ق س ے لوگ وں ک و روکن ا) قت ل س ے زی ادہ ب ڑا ج رم
()87
ہے۔"
ْ َ ْ َأ ُ ْ ْ
اور اسی طرحَ ﴿" :والفِتنَة َش ُّد ِمنَ القت ِل﴾"
"فتنہ(ظلم و زی ادتی،اور دین س ے روک نے کی کوشش یں) قت ل س ے بھی
()88
زیادہ سنگین ہیں۔"
میں بیان کیا گیا ہے ان آیات میں فتنہ ک ا مع نی دین پ ر چل نے پ ر پریش ان
کرنا اور اہل ایمان پر مصائب ڈھانا ہے ،بعض مفسرین نے فتنہ کا معنی شرک
اور کفر سےکیا ہے ج و ص حیح نہیں ہے۔بلکہ فتنہ کی لغ وی تحقی ق اور ق رآن
پاک میں اس لفظ کے وارد ہونے کےمقامات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوت ا ہے
فتنہ کا معنی تکلیف دینا اور پریشان کرنا ہے۔
85
-البقرۃ.193:
86
-االنفال.39:
87
-البقرۃ. 217:
88
-البقرۃ. ۱۹۱:
53
میں بعض حضرات کی جانب سے لفظ فتنہ کی تفسیر کفراور شرک سے
کرنے کو مسترد کیا ہے ،میں یہ سمجھتا ہوں کہ جہاد کا یہ ہدف قرآن پاک میں
قطعا وارد نہیں ہوا کی ونکہ یہ ق رآن ک ریم کے اس فیص لے کے ص ریح خالف
ہے جس بیان کیا گیا ہے کہ لوگوں کے مذاہب و عقائد کا مختل ف ہون ا اور پھ ر
ان کا مومن و کافر اور موحد و مشرک میں تقسیم ہونا س ب ک ا س ب ہللا کی اس
مشیت کے ساتھ ہے جو حکمت پر مبنی ہے۔ ہللا تعالی نے ہی انہیں مختلف پی دا
فرمایا ہے یا یوں کہیں کہ انہیں ایمان میں اختالف قبول کرنے کا ملکہ دے ک ر
پیدا فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
ض ُكلُّهُ ْم َج ِميْعًا َأفَ َأ ْنتَ تُ ْك ِرهُ النَّ َ
اس َحتَّى ك آل َمنَ َم ْن فِ ْي اَأْلرْ ِ "﴿ َولَوْ َش ا َء َربُّ َ
يَ ُكوْ نُوْ ا ُمْؤ ِمنِ ْينَ ﴾ "
"اگر تمہارا رب چاہت ا ت و زمین کے س ارے انس ان ایم ان لے آتے( ،لیکن
مشیت الہی یہی ہے کہ آزمائش ہو) تو کیا تم لوگوں ک و ایم ان النے پ ر مجب ور
()90
کرنا چاہتے ہو؟(یہ نظام الہی نہیں ہے۔)"
اح َدةً َواَل يَ َزالُوْ نَ ُم ْختَلِفِ ْينَ ﴾"اس ُأ َّمةً َو ِ ك لَ َج َع َل النَّ َ
"﴿ َولَو َشا َء َربُّ َ
"تمہارا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک لڑی میں پ رو دیت ا( ،ایک رش تہ
وحدت میں سب کو منسلک ک ر دیت الیکن نظ ام آزم ائش کچھ اور چاہت ا ہے)اور
()91
لوگ اختالفات میں مبتال رہیں گے۔"
"﴿هُ َو الَّ ِذيْ َخلَقَ ُك ْم فَ ِم ْن ُك ْم َكافِ ٌر َّو ِم ْن ُك ْم ُمؤ ِم ٌن﴾"
()92
"اسی نے تمہیں پیدا کیا،تم میں سے کافر بھی ہیں اور مومن بھی۔"
اس لیے جو کوئی ادیان میں اختالف ختم کرنے کی کوشش کرے گ ا ،اور
لوگوں کو ایک دین پر چالنے کی کوشش کرے گا وہ کائنات میں ہللا تع الی کی
89
-البقرۃ.193:
90
-یونس.99 :
91
-ہود.118 :
92
-التغابن.02:
55
مشیت کے خالف کام کرے گ ااور ایس ا کبھی نہیں ہوگ ا ،اس ل یے کہ ہوت ا وہی
ہے جو ہللا چاہتا ہے اور جو وہ نہ وہ چاہےوہ ہوتا ہی نہیں۔
-52لوگوں ک#و زبردس#تی اس#الم میں داخ#ل ک#رنے کی تردی#د اور آیت ﴿ال
ناه فِي الدين﴾ کے نسخ کا دعوی قکرنے والوں کو جواب: ِإ ْك َر
ق ن ت ت
ں ت ال کے اہ داف می ں مام لوگوں کو ی ا چک ھ کی کہ اسالمن می ق ات کی ردی د ن ے اس ب ن می ں ق
ے؛ یک ونکہ نرآن پضاک کی ط عیخ صوص اس ای مان کو ہ ا کر ور بمج ر پ ے تکر ولق ب سالم لوگوں کوا ن
ے صاحب ای مان ے اپ ی مر ی سے ن ہ ا ت ی ار ک ی ا ہ و۔ ای مان ہ ی ہینں رار دی ی ں جس
ے ج و اس آی ت کری مہ: ب
می ں ے ان کے دعوی کا ھی ج واب دی ا ہ
َي﴾" "﴿اَل إ ْك َراهَ فِ ْي ال ِّد ْي ِن قَ ْد تَّبَيَّنَ الرُّ ْش ُد ِمنَ ْالغ ِّ ن
"ی ع ی دین کے معاملہ میں جبر اور زبردستی نہیں ہے،حق گمراہی سے
()93
جدا ہو کر بالکل واضح ہو چکا ہے۔"
کو منسوخ کہتے ہیں ،ان کا یہ دعوی ناقابل قب ول ہے ،اس پ ر ک وئی دلی ل
نہیں ہے۔
َأ ُ َ َأ
-53ہللا تعالی کے فرمان ﴿" :ال تُقَاتِلُ ْونَ ق ْو ًما نَّ َكث ْوا ْي َمانَ ُه ْم﴾ " کا مطلب:
میں نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ ہللا تعالی کے فرمان:
"﴿َأاَل تُقَاتِلُوْ نَ قَوْ ًما نَّ َكثُوْ ا َأ ْي َمانَهُ ْم﴾"
" کیا تم ایسے ظالموں سے جنگ نہیں کرو گے جنہ وں نے اپ نی قس میں
()94
اور معاہدے توڑ دیے؟"
اور دوسری جگہ ارشاد:
ْ ْ َّ
"﴿بَ َرا َءةٌ ِّمنَ هللاِ و َرسُوْ لِ ِه ِإلى ال ِذ ْينَ عَاهَدت ْم ِّمنَ ال ُمش ِر ِك ْينَ ﴾ "
ُّ َ
"ہللا و رسول کی طرف سے اعالن بیزاری ہے ان مشرکوں سے جن سے
()95
تمہارا معاہدہ ہے۔"
میں ایس ے بت وں کے پج اری مش رکین م راد ہیں جنہ وں نے عہ د
توڑااورکسی معاہدے کا احترام نہیں کیانہ ہی کسی نظ ام کے ت ابع ہ وئے کہ ان
کے ساتھ کوئی افہام و تفہیم ہو سکتی۔
93
-البقرۃ.256:
94
-التوبۃ.13:
95
-التوبۃ.01 :
56
-54امام جصاص کے ق##ول( :ج##و کف##ار ہم پ##ر حملہ آور نہ ہ##وں ،ہم##ارے
ساتھ تعرض اور قتال نہ کریں ان کے ساتھ بھی قتال جائز ہے ) ( )96کا
محاکمہ:
میں نے (امام) جصاص کے اس قول کا محاکمہ کیا ہے جس میں وہ ( )97
کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی ایسے فقیہ کو نہیں جانتے جو یہ رائے رکھت ا ہ و کہ
ان مشرکین کے ساتھ قتال کرنا ممنوع ہےجو قت ال س ے ال گ ہ و ج ائیں اور یہ
کہ اختالف ت و ان س ے قت ال نہ ک رنے کے ج وازمیں ہے اس س ےرکنے میں
نہیں۔
تعجب کی ب ات یہ ہے کہ ام ام جص اص ق رآن پ اک کی ص ریح نص ک و
چھوڑرہے ہیں ،قرآن کریم تو ان کافروں کے ساتھ قتال کرنے س ے روکت ا ہے
جو مسلمانوں پر ہاتھ نہ اٹھ ائیں،ل ڑائی س ے ال گ ہ و ج ائیں اور قت ال نہ ک ریں
جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
"﴿فَ ِإ ِن ا ْعتَ َزلُ وْ ُك ْم فَلَ ْم يُقَ اتِلُوْ ُك ْم َوَأ ْلقَ وْ ا ِإلَ ْي ُك ُم َّ
الس لَ َم فَ َم ا َج َع َل هللاُ لَ ُك ْم َعلَ ْي ِه ْم
َسبِ ْياًل ﴾"
" لہذا اگر وہ تم سے علیحدہ رہیں اور تم سے جنگ نہ کریں اور تمہ اری
طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں تو تمہارے ل یے اس کی گنج ائش نہیں ہے کہ تم ان
()98
کے خالف کاروائی کرو۔"
پھ ر بھی وہ یہ دع وی ک ر رہے ہیں کہ وہ نہیں ج انتے کہ کس نے اس ے
ممنوع قرار دیا؟
96
-الجصاص ،أبوبکر الرازي2003 .م .أحکام القرآن۔ بیروت :دارالکتب العلمی ة۔ :259
.01
97
ب ت راجم
-آپ کا پ ورا ن ام "اب وبکر احم د بن علی بن ال رازی الجص اص ‘‘ہے ۔ کت ِ
ی ‘‘(جس ک ا رس م الخ ط تاریخ پی دائش 305ھ درج ہےاور وہ’’ر ّ
ِ وتواریخ میں ان کی
’’رے‘‘بھی معروف ہے)میں پیدا ہ وئے جس کی نس بت س ے وہ ’’ال رازی‘‘ کہالئے۔
آپ کا شمار جلیل القدر مفس رین اور فقہ حنفی کے چ وٹی کے ائمہ ہوت ا ہے ،مش ہور
محدث امام طبرانی وغیرہ سے آپ نے علم حدیث بھی حاصل کیا۔ تعلیم وتعلم اور افتاء
وتالیف میں اپنی زندگی بسر کی اور 370ھ کو 65سال کی عمر میں بغداد میں وف ات
پا ئی۔ الخطیب ،أبوبکر۔ 2006م .تاريخ بغداد وذيوله العلمية۔ دمشق :دارالعلم۔ .5:72
98
-النساء.90:
57
ےح ئ ق ت
ہ: نمواز کا ہاد کم ے ی ان ں م رآن اور ورات
ت ن جت ی ش یت ک گ ب ت -55ن
ف
ش می ں ے مونودہ حریف دہ ورات جس پر مام ی ہودقو ئ صاری ای مان الے ہ ی ں کے ج
ص ے کے ی ع
ے،جس می ں محاصرے ے یل حدہ سے ای ک اہ م ل ا م کی ہ موالت ب ی شان کر ف ت نل ف م
ت ق ے ہ ی ں کہ :ت کے احکامپ ب شی ان یک ق ص
ن ح کرے اور دورا ت ادہ ہروں کو
اگر کسی ے امن ئاور لح کی کش ب ول کر لی و اس عالےکے مام لوگ ی
س ن غ
ئ ت ۔ گے ں ی ا ج ن ب الم ب الا ن ت ث اءن
ن ت خ ن
اگرا ہوں ے سپ را دازی ا ت ی ار نفہ کی و ان کے سا ھ ج گ کی ج اے گی۔
ت ئ ت مت ت
ے کہ ان کے مام کے ہ ا ھوں وح ہ و ج ا ی ں وان پر الزم ہ اور ج ب وہ ان ق
ت
ئ ت
ت مردوں کو لوار سےن لنکر دی ں۔( )99ق
ق ن ت ن ت ش
ت
ے ج اے کان کو ی م ب ادل ب ول ہغی ں ک ی ا ل یک ورات کی ری عت ے ا ہی ں لوار خسے ئ
کہ مث ال کے ف
ں ی ا ی ہ کہ ا ہی ں ج زی ہ ادا کری ں و ی رہ۔
مکم ن طور پر وہ دی ن ی ہودی ت می ں دا ل ہ و ج ا ی ش
ئامی ٹ کر دی ا ئن) نکے ب ا دوں کو ق ل طور پر مل ی ارض لس طی ن (وعدے کی سرزمی ئ مگر ن
ہ ن
ے گی ہ ان سے ج زقی ہ ب ول کن ی ا ج اے اور ہ ی ج اے ،ن ہ ا ہی ں اب ت
داءا دعوت دی ج ا ئ
ان سے صلح ی ا ج ن گ ب ئدی کا معاہ دہ ک ی ا ج اے گا۔ اس ی چ اری وم کے صی ب می ں موت
ب ن
ن
ےہ ی ے ان سے پہل ے یک و کہ وہ ای سی سرزمی ن کے ب اسی ہ ی ں جس 100ل)کھ ندی گ ی ہ اور مکمل ت ب اہ ی
ے۔ کا ام دے دی ا گ ی ا ہ
(
ارض می عاد
-56اقوام کی بیخ کنی اور نسلوں کی تباہی توراتی فکر ہے:
میں نے جو امور کھل کر بیان کیے اور وضاحت سے ان پر روشنی ڈالی
ان میں یہ بھی ہے کہ قوموں اور نسلوں کی بیخ کنی کی فک ر جس ک ا ارتک اب
یورپ اور مغرب نے امریکا میں ریڈ انڈینز کے خالف اور آسٹریلیا میں مقامی
خت ن درحقیقت ن قیہ صحیح قتوراتی قفکر ہے۔ کے تخالف کیا ن باشندوں ن
وموں اور ی لوں کو ج ڑ خسے مق کرے پر ب ج
صوص ف ل کی ں و ف ورات کی وہ ن ت می ں ے ت
ےشکی ا وام سے ابتھار ی ہ ی ں ج یساکہ ورات کے پ ا چ قاس ار میت ں سےنس ر الت ث ن فی ہ می ں اس ط
ے ہ ی ں ی ع ی ارض لس طی ن کے ب ا ن دے ۔اس م علق کہا ا س ش
ےت ارحی ن ارض میتعاد رار دی گتی عج خ
ے کہ: ہ ی کر ان ہ
ی بی ورات ق ل م سے ے
ط
99
-کتاب مقدس(توراة) سفر التثنیة ،االصحا ح العشرین۱۰.۔.۱۸
100
-ارض میعاد سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے،تفصیل کے لیے ڈاکٹر محمد ابو
زید کا تحقیقی مقالہ بعنوان :أرضُ الم ْي َعــاد :نظرة قرآنية في العهود التوراتية ،مالحظہ کیا
جائے جو مجلہ التراث العربی دمشق میں شائع ہوا۔یہ مقالہ اس لنک پر آن الئن بھی مالحظہ
کیا جا سکتا ہے:
http://www.alarabnews.com/alshaab/GIF/21-11-2003/d7.htm۔
58
ت ق ن خ ت
م خ
ے کا مو ع دے جقس کے م وارث ب ن کر
حث "ج ب خ دا ہی ں اس زتمی ن می ں دائ ل ہ ون
اس می ں دا ل ہ و گے و وہ اں پ ا ی ج اے والی ب ڑی ا وام ی ی ،جرحيثانی،
امورانی،كنعانی ،فرزانی ،ح وانی اور يبوس انی ،یہ س ات اق وام جوتع داد میں تم
س ے زی ادہ اور ط اقت میں تم س ے مض بوط ہیں تمہ ارے معب ود رب نے انہیں
تمہارے سپرد کر دیا ہے انہیں ماردو یہاں تک کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ
رہے ،ان سے نہ کوئی معاہدہ کرنا نہ ہی ان پر رحم کھانا بلکہ ان کے س اتھ یہ
کام کرو:ان کے مذبح خانے برباد کردو،ان کے بتوں کو ت وڑدو ،ان کے م ذہبی
()101
مقدسات پاش پاش کر دو ،ان کے بت گھروں کو جالدو۔"
جبکہ اس کے مقابلے میں اسالم حیات رکھنے والی امتوں کی بیخ کنی کو
حرام قرار دیتا ہے،جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ :اگر کتے بھی حیات رکھ نے
والی امتوں میں سے نہ ہوتے تو میں ان کو قتل کر نے کا حکم دے دیتا۔
-57اسالم کے بزور شمشیر پھیلنے کی من گھڑت کہانی:
میں نے ثابت کیا کہ دنیا میں اسالم کے بزور شمش یر پھیل نے کے دع وے
میں ص داقت نہیں ،علمی تحقی ق س ے یہ ث ابت ہوچک ا ہے کہ یہ ای ک ایس ی
افتراپردازی ہے جس میں شک و ش بہ کی ک وئی گنج ائش نہیں ہے،مزی د ب رآں
تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ ہم آج ایسے کئی اسالمی ممالک کے ب ارے میں
جانتے ہیں جہاں مسلمانوں کا کوئی لش کر داخ ل نہیں ہ وا ،بلکہ یہ ممال ک جن
لوگوں کے زیر اثر حلقہ بگوش اسالم ہوئے وہ ت اجر ی ا ایس ے ع ام ل وگ تھے
ج و (مع روف معن وں میں) نہ علم اء تھے نہ مبلغین،ل وگ ان کے ان در س چے
ایمان،حسن اخالق،انسانیت کےلیے بھالئی اور خیر خواہی جیس ی ص فات دیکھ
کر ان کے گرویدہ ہو گئے ،چنانچہ وہ بہترین نمونہ بن گئے اور لوگ وں نے ان
س ے محبت کی وجہ س ے ان کے دین ک و بھی محب وب بنالی ا ،اور انف رادی
واجتماعی طور پر دین اسالم قبول کرنے لگے ،جیساکہ انڈونیشیا،مالئیش یا اور
کئی افریقی ممالک میں ہوا۔میں نے کھل کر بیان کیا کہ تلوار سے زمین تو فتح
کی جاسکتی ہے لیکن یہ دلوں کی فاتح کبھی نہیں بن سکتی۔
101
-کتاب مقدس .سفر التثنية.
59
-58موج#ودہ زم#انےمیں فض#ائی جہ#اد ب#ری اور بح#ری جہادس#ے افض#ل
ف ئ ن ہے:
ب ض
اور حری ج ہاد میں نے یہ بیان کیا ہےب کہ موجود فہ ضزماے می ں ا ی ج ہادب ری ث فض
ے سے اب ت ہ ے کہ ج ب حرین ج ہاد کیف ض ی لت ب ئری ج ہنادپر حدی ث خ ن ے،اس یلئ
ض سے ا ل ہ ف ت ق
ےاور ش
لت و ی ،یک و کہ ی ہ زی ادہ طرناک ہ ہ ے ا ی ج ہاد کو ان دو وں پر ی و ی اس کےت ذری ع
ے اس م ں الک وں کا نا کان ب ھی ز ادہ ےخ اور اس ی ب
ے ھی کہ ی ہ د من کو زیر کرےت کے یل ل ک ی ہ ن م ہ یت ہ
ے کہ ای ک ج رب ہ کار ج ہت ہ و ہی ی اور ے ہ اک طر ادہ ف ز
ت ی ں یہ ) ت س
خ ب ( کی اروں د ئی گر ھ ی
ے۔ ا و ہ ساوی کے الکت )کی وں جو عدد( گر ید سارہ کا الکت
ہ م ق ہ م تف ض ی ف پ ا لٹ ہ
کی
-59جنہاد اگر رض عی ن تہ و و ر ی حج پر م دم ہ و گا:
ئ
الدمياطین نے تکہی کہ ے ج و ابن النحاس ف
()102
ض ات کی ا ی د قکی ہ مفی ں ےاس تب ف ض
ے روری ہ و ا ہ ے تکہع اس کا وری کر ا ف رض عی ن ہ و بو ر ی حج پر م دم ہ وگا،اس یل ج ہاداگر خ
ل س
اع،اور اس امت تکے د غ ے،اورج ہاد ن کا ق ناس ئ ھی ظادا ک ی ا ج ا کت ا ہ ج ب کہ حجج کو مو پرکر غکے ف
نامت ہ یف ی ست و اب ود ہ و گ ی و ن ہ حج و ی رہ ج یسی ے،اگر ہ ت ا کے و ود اور ی ام کی ح
ن
ع ب ادات ہ ی ہ وں گی اور ہ ان کو ادا کرے والے ا راد۔
-60جنس جہاد س##ے( متعلقہ )اعم##ال ان اعم##ال س##ے افض##ل ہیں (جن ک##ا
تعلق )جنس حج سے ہے۔
میں نے اس ب ات کی تائی د کی کہ جنس جہ اد کے اعم ال جنس حج کے
اعمال سےافضل ہیں،کیونکہ جہاد ایک ایسی عبادت ہے جس ک ا نف ع دوس روں
کو بھی پہنچتا ہے جبکہ حج ک ا نف ع اس کے ادا ک رنے والے ت ک مح دود رہت ا
ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے:
اآلخ ِر"﴿َأ َج َع ْلتُ ْم ِسقَايَةَ ْال َحاجِّ َو ِع َما َرةَ ْال َم ْس ِج ِد ْال َح َر ِام َك َم ْن آ َمنَ بِاهللِ َو ْاليَ وْ ِم ِ
َو َجاهَ َد فِ ْي َسبِ ْي ِل هللاِ اَل يَ ْستَوُوْ نَ ِع ْن َد هللاِ َوهللاُ اَل يَ ْه ِديْ ْالقَوْ َم الظَّالِـ ِم ْينَ ﴾۔"
" کیا تم نے حاجیوں کوپانی پالنے اور مسجد حرام کی تعمیر ک رنے اور
اس کو ظاہری طور پر آباد کرنے کو ہللا پر اور آخرت پر ایمان رکھنے وال وں
102
-ابن النحاس ال دمیاطی دمش ق میں پی دا ہ وئے۔ ش افعی فقہ اء میں ش مار ہ وتے ہیں۔
تیمور لنک کے زمانہ میں مصر منتقل ہو گئے اور دمیاط کی س رحد پ ر جہ اد میں ش ریک
ہوئے یہاں تک کہ 814ھ میں ش ہید ہ و گ ئے۔ آپ کی اہم کت ابوں میں مش ارع االش واق الی
اس/ امل ہیں۔ ابن -النح افلین ش بیہ الغ اق اور تن ارع العش مص
/https://ar.wikipedia.org/wiki۔
60
اور ہللا کے راستہ میں جہاد کرنے والوں کے عمل کے برابر سمجھ لیا ہے؟ یہ
لوگ ہللا کے نزدیک برابر نہیں ہیں( ،مشرک کے عم ل ک ا اعتب ار ہی نہیں اور
م ومن ک ا عم ل قاب ل قب ول ہے) اور ہللا ایس ے غل ط ک اروں ک و ہ دایت نہیں
()103
دیتا ۔"
اور دیگ ر آف ات کے دن وں میں اس ب ات کی ()105
میں جنگ ()104
میں بوسنیا
دعوت دیتا رہا ہوں کہ جس کسی کا نفلی حج کرنے کا قصد ہے تو اس ک ا (حج
ک رنے کے بج ائے)حج کے پیس ے مص یبت زدہ لوگ وں ک و دے دین ا اس کے
لیےزیادہ بہتر ہےبلکہ شاید اس پر یہی واجب ہے۔
-61پہ##رے کی اہمیت خ##اص ط##ورپربیت المق##دس اور اس کے گردون##واح
خ ش ن ت میں:
ن
ب می ں ےدی ن کے اس کام اورمس
ے من کے طرے سے چ فاو کے یل ق کود وں مال ہ ح ن
ن کی نس طی نسرزمی ن لے کی ا نمی ت ب ی ان کی اور ب ی ت خالم دس اورپوری ت سرحدوں پر پ ہرہ دی فظ
ے جس پرہللا عالی ے دو وں دی یک وف کہ ئی ہ اس زمی ن میب ں دا ل ہ ن دعوت کی ت ح ان
سے ان کو وں
بن خ ت جس
ی ا کے ن مسرز اس کہ ھی ے ی اس اور ی، رما ازل رکت ے
ل ب ی کے وں ج ہا
ن ن ک یھ ت ل
گ ن ھ ج ن
ن ا، وں کو اکھاڑ
ن تن
وس کر نا ،ی توں کوج ال ا،در کے ھروں کو زمی ن ب خ ا،ان ن ما قرڈال ا ،ق ی لوں می ں د ک یل ت
ے د ل کر ا،عز وں کو پ امال کر ا ،ہا کرے م
ے حرم ی کر ا،ا الک سے ب م دس م امات کی ب
103
-التوبۃ.19:
104
بوسنیا کا پورا نام "بوسنیا و ہ رز یگوین ا" ہے ج و کہ جن وب مش رقی ی ورپ -
میں کروشیا ،سربیا ،مونٹینیگرواورAdriatic Sea کی حدود سے ملحقہ ا ٓزاد ریاس ت ہے ،
اس کے دارلحک ومت ک ا ن ام س رائیوو ہے ۔ 1918ء میں جب خالفت عثم انیہ کی گ رفت
کمزور پڑ چکی تھی بوسنیا کو خالفت س ے ک اٹ ک ر کروش یائی س رب و س لون ریاس ت ک ا
حصہ بنا دیا گی ا اور پھ ر بع د میں اس ک ا ن ام یوگوس الویہ رکھ دی ا گی ا۔ یوگ و س الویہ کے
کمزور ہونے کے بعد یکم مارچ 1992ء میں کیا جانے واال ریفرنڈم برائے آزادی مکمل ہوا
اور 3مارچ 1992ء کو بوسنیا نے اپنی آزادی کا اعالن کیا جسے عالمی سطح پر تس لیم ک ر
لی ا گی ا اور اس ط رح بوس نیا آزاد مملکت کے ط ور پ ر وج ود میں آی ا ۔
https://www.mirrat.com/article/11/144۔
- 105یوگو سالویہ میں بسنے والی چھ مختلف قوموں کے مابین 1990میں قومی و نسلی
اختالف کی لہر نے سر اٹھایا جس کے نتیجے میں یوگوسالویہ ٹوٹ گیا۔ پڑوسی
ملک سربیا نے بوسنیا پر حکومت کرنے کے لیے نسلی اختالفات کو خوب ہوا دی،
جس نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی۔
https://www.mirrat.com/article/11/144۔
61
ن تن نخ
ے کسی اور کو ہی ں ہ ی ں۔اس طرات درپ یش ہ ی ںث ا ے ےج
س کی غ رض سے دیوارن کھڑی کرن ا ج
ن ت ی ش
ے والے کا اج رو واب ب ھی دی گر (پ ہرےداروں ےکہ ی ہاں پہرہ دی ے اس می ں ک ہی ں ہ یل
ہ
)سے زی ادہ وگا۔
116
-محمد بدر الدین شوکانی یمن کے ایک معروف عالم ،فقیہ ،مفسر ،مجتہد ،مح دث
اور بے شمار کتابوں کے مصنف تھے۔ سنہ 1173ھ میں یمن کے ایک قصبہ ہج رہ ش وکان
میں زیدی شیعہ خاندان میں پیدا ہوئے ،بعد میں اہل سنت والجم اعت ک ا منہج اختی ار کرلی ا،
قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا۔ نتیجتا ً آپ نے زیدی عقی دے کے س اتھ س اتھ ص وفیت کی بھی
مخالفت کی۔ آپ کومجتہد تصور کیا جاتا ہے۔ سنہ 1229ھ میں ص نعاء کے قاض ی ب نے اور
قاض ی رہ تے ہ وئے س نہ 1250ھ میں وف ات پ ائی۔ محم د-ش وکانی/
/https://ur.wikipedia.org/wiki۔
117
"-زیدیہ" اہل تشیع کا ایک فرقہ ہے جس میں حضرت امام سجاد( پی دائش702 ء)
کی امامت تک اثنا عشریہ اہل تشیع سے اتفاق پایا جاتا ہے ،یہ ف رقہ ام ام زین العاب دین کے
بعد امام محمد باقر کی بجائے ان کے بھائی امام زید بن زین العاب دین کی ام امت کاقائ ل ہے۔
اہل تشیع کے تم ام فرق وں میں زی دیہ اہ ل س نت کے زی ادہ ق ریب ہے ،یہ ف رقہ اپ نی نس بت
حض رت زی د بن علی بن حس ین بن علی کی ط رف کرت ا ہے ،ان کے عقی دے کے مط ابق
حضرت علی بن ابی طالب پیغمبر اسالم کے بعد سب س ے افض ل ہیں ،یہ ف رقہ ص حابہ میں
سے کسی کی تکفیر نہیں کرتا اور نہ تبرا کرتا ہے ،ان ک ا عقی دہ ہے کہ حض رت علی خ ود
اپنے حق سے خلف ائے ثالثہ کے ح ق میں دس تبردار ہ و گ ئے تھے اور ان کی بیعت درس ت
تھی ،اس ل یے کہ حض رت علی رض ی ہللا عنہ اس پ ر راض ی تھے اور معص وم خط ا اور
باطل پر راضی نہیں ہو س کتا۔ یمن میں ان کی اک ثریت ہے۔ اس کے عالوہ دوس رے ممال ک
میں بھی ہیں۔ زیدیہ/https://ur.wikipedia.org/wiki /۔
118
" -الأزھار في فقه الأئمة الأطهار" فقہ زیدیہ کی معروف کتاب ہے ،اس کے مصنف کا
نام امام احمد بن یحیی المرتضی ہے۔مترجم۔
73
:۲اس قوم میں کوئی بھی ایسا شخص نہ ہو جس کا قتل کرنا جائز نہیں۔
:۳اور وہاں قتل کے اس طرح کے ط ریقے اختی ار ک رنے کی ض رورت
ہو۔
-77کیمیائی،جراثیمی اور ایٹمی اس##لحے ک##ا ض##رورت کے وقت اس##تعمال
چند قابل لحاظ شرائط کے ساتھ جائز ہے:
جنگ میں دشمن کے ساتھ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے جواز پر مب نی
حزب التحریر کے ل ٹریچر پ ر میں نے ک افی بحث کی،اس ل یے کہ وہ اس المی
اصول و اقدار اور اس کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے۔
میں نے دش من کے س اتھ اس (کیمی ائی،ج راثیمی اور ایٹمی)اس لحے کے
استعمال کی حرمت سے ہنگ امی ح الت ک ا اس تثنا کی ا ہے،اس ل یے کہ ہنگ امی
حالت کے (خاص) احکام ہوتے ہیں۔
وہ اہم شرائط جن کی پابندی الزمی ہے (درج ذیل ہیں):
.1کہ ضرورت واقعتا پائی جائے۔
.2مسلمانو ں کو اس قدر خطرہ درپیش ہ و ج و ان کے وج ود اور ہس تی
کے لیے چیلنج بن رہا ہو۔
اور اس موقع پر (ان دو امور ک ا لح اظ کرن ا) الزمی ہے( :ای ک یہ ) کہ
ایسی ضرورت دفاعی جہاد میں پیش آئے نہ کہ اقدامی جہاد میں۔
دوسرا یہ کہ ہم ہنگامی حالت کی رخصت پر حد س ے تج اوز ک ر کے اس
میں (مزی د) وس عت پی دا نہ ک ریں ،کی ونکہ جس چ یز کی ہنگ امی ح الت میں
اجازت ہوتی ہے اس کو اسی( ہنگامی حالت) تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔
اگر ضرورت ایک ملک میں اس تعمال کی ح د ت ک ہ و ت و کس ی دوس رے
ملک میں اس کا استعمال نہیں ہونا چاہیے،اور جب وہ ضرورت ای ک وقت میں
پوری ہو رہی ہو تو کسی دوسرے وقت میں اس کی اجازت نہیں،اور یہ بات تو
طے شدہ ہے کہ:
ض رورت کے وقت بھی مس لمانوں ک و ص رف اس ی ص ورت میں یہ
استعمال کرنا چ اہیے جبکہ وہ خ ود اس کے مال ک ہ وں۔اور میں نے اس ی کے
ج واز کی رائے دی ہے کہ یہ (اس لحہ) ہم اری ملکیت میں ہ و اگ رچہ ہم اس ے
74
استعمال نہ کریں۔
-78صحیح حدیث" :أال إنَّ القوة الرمي" کہ طاقت تیراندازی میں ہے
()119
کا مفہوم:
میں نے بی ان کی ا کہ نص وص میں ط اقت کے مع نی میں ج و رمی
(تیراندازی)کا لفظ وارد ہوا ہے ہمارے زمانے کے مطابق اس میں:
بندوقوں اور ٹینکوں سے فائر کرن ا بھی ش امل ہے اور مختل ف ص الحیت
رکھنے والے بم حتی کہ ایٹم بم پھینکنا بھی ،اور خاص نشانے پر میزائل داغن ا
بھی اسی قبیل سے ہے،یہ سب کی س ب ص ورتیں اس رمی میں ش امل ہیں جس
کی تفسیر رسول ہللا ﷺ نے ط اقت س ے کی،اس س ے آپﷺ کی م راد یہ تھی
کہ وہ(تیراندازی) ن طاقت خکے اہم ن عوامل میں سے ہے۔
ف
-79آج کی ج گوں می ں ی ہ یا ج سی وں کے ادارے کی ا می ت:
ہ
میں نے دش من کے راز،اور اس کے پ اس ط اقت و س امان ح رب،اور ان
کے تجربات و صالحیتوں کے بارے میں معلومات رکھ نے کی اہمیت پ ر زور
دیا کہ یہ جنگ اور قتال کے اہم لوازمات میں سے ہے ،یہ ممکن نہیں کہ کوئی
فریق اپنے مخالف فریق کی صفوں میں گھسنےاور نکلنے کے رستوں،اس کی
طاقت کے اسباب اور کمزوریوں()Weak pointsک و ج انے بغ یر اس پ ر فتح
حاصل کر لے۔
میں نے مشہور فقہی قاعدے( کس ی واجب کی ادائیگی کے ل یے ج و چ یز
ضروری ہو وہ بھی واجب ہے) کی بنا پر دشمن (کی سازش وں ) ک و بے نق اب
کرنے کے ل یےخفیہ ایجنس یوں ک اادارہ تی ار ک رنے،اور ہ ر ایس ا عم ل اختی ار
کرنے کو مسلمانوں کے لیے الزمی ق رار دی ا ج و انہیں دوس روں س ے ممت از
کرے۔ مسلمان اپ نے ج ائز اہ داف کے حص ول کے لیےغ یر اخالقی ذرائ ع ک و
اختیار نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی تمام حرکات و سکنات میں اپنے دین کے احکام
اور اپ نے رب کی ش ریعت کے پابن د ہ وتے ہیں۔جس ب ات ک ا وہ حکم دیت ا ہے
سے وہ منع کرتا ہے اس سے رک جاتے ہیں۔ ہیں اور جس ت اسے بجا التے ش
س
-80اعداد و مار کی زب ان کا ا عمال:
119
-صحیح مسلم ،حدیث نمبر.1917
75
ن ت ئ ش
ے کی تذمہ داری توں پر ب ات کرے ہ وے می ں ے اعداد و المی ل کر کی ج ن گ سے پہل ش اس ت
س م ہ س
اسمان ج ان سکی ں کہ ان کے پن ت قمار کے ا ق عمال کی ا م تی ت کی طرف من وج ہ ک ی ا ناکہ لت
ں،اور می ں ے
خ ے امورنر ی ب لدے سکی ی ث طا تن کی م دار ک ی ا ے اکہ وہ اس کی ب اد ر ا
ہو ش مار کی ز ان سے یمدد پحا پص ن
وں سے ا ذ ض حد دو ان ل ی د کی ے کر ل ب ن اعداد ں ی م وی ب ت ن س
ے ،ان می ں سے ای ک ح رت اب ن ب ج
کی ؓہی ں امام خ اری ے کت اب ا جلہاد می ں ب ی ان ک ی ا ہ
ے کہ: ع ب اس کی روای ت ہ
"جاء رجل إلى النبي ﷺ ،فقال :يا رسول هللا ،إني ُكتبت في غزوة ك ذا وك ذا
وامرأتي ش
حاجةخ ".ن
ض خ
اکرمﷺ کی دمت می ں حا ر ہ وا اور عرض ک ی ا،اے ہللا کے " افی ک غ ص ب ی ن
ہ
ے جا ر ی ب
ے ج ب کہ می ری یوی حج کے یل رسول! الں زوہ تمی ں می را ضام درج کر ل ی ا گ ی ا ہ
ت ت خ ش ()120
ے۔" ے(اس کے سا ھ محرم کی لرورت ہ ہ
ن س
ےجو ے کہ م لمان ہ ر اس ص کا ا دراج ک ی ا کرے ھ ہ ل ی د کی ات ی ش ب ن اس ں م اس غ
ن ت کسی زوہ می ں ری ک ہ و ض ا چ اہ ت ا۔
ف
ے،آپ ب ی ان کرے ہ ی ں کہ ب ی اکرم دوسری حدی ث ح رت حذی ہ ؓ کی روای ت ہ ن ف
ﷺ ے رمای ا:
"اكتبوا لي عدد قمن تلفَّظ باإلسالم من الناس".
ت
()121
ے لکھ کر دو۔" ے ہ ی ں ان کی عداد جم ھ " ج و ج و لوگ اسالم ب ول کر چ ک
ش ن ف س
ان قکے اعداد و مار ے ت ت می ں (احصوا شلي)( )122کے ال ت اظ ہ ی ں یشع ی جم ھ ت م لم کی روای
ن می ں ح ی ق ش دہ اعداد و ے حریری ٹ کل اعدادد و مار ہ ی ںعکہ جم قھ بشت او۔ اس سے مراد حرعیری
ج ل ل سق ئ ن ت ل
ے و کہ دامات ا ھاے کیش د ی ل ہ قئ مار درکا ر قہ ی ں۔ ی ہ می ا را ی ا داز اور می ان
کی زب ان ے۔اور ماری ات ش درست نطری ہ اور اس ب اب و مسب ب ات کی رعای تئکی ب ی اد پر ا م ن
ہ ن
ن
ے کہ کو ی ب تھی درست م صوب ہ ب دی اعداد و مار کی م صوب ہ ب دی کےشلوازمات می ں سے غہن
ے ب ی ر ہی ں ہ و سک ی۔ درست مار ات ب ان ی زب ان می ں ن
کار کی ج ان ئب ر شحان کان اس تسے مواز ہ ک ی ا ج و کہ
ن ج ے اسالمی کے یاس کعلمی اب ت
ن بن ض می ں ت ت
ہ
ے کہ ح رت داود ؑ ے ی اسرا ی ل کا مار کر ا چ ا ا و ان پر ئآسمان سے ہ ورات نمی ں آ ا
ت
ے،ج و کہ عاس گ الک ہ وک ہ ی تدن می ں ہ ت ت ی ازل ہ توا جس سے ان کے س ر ہ زار ف ف
لوگ ا
ئ عذاب ت
ل ص ع
ے ہ ی ں :ورات کی لی مات یح ح می ک س ل
ے ج یسانکہ ای ک معاصر ی ہ ن اہ کی ا ی د کر ب ات ق ئ
ن عاون ہی ں ہ ی ں۔ ماحول ا م کرے پر م ن
-81کمزوروں اور ی کوکاروں سے مدد حاصل کر ا:
120
-صحیح بخاری ،کتاب الجھاد ،حدیث نمبر ،3006صحیح مسلم،کتاب الحج ،حدیث نم بر
.1341
121
-صحیح بخاری،کتاب الجھاد ،حدیث نمبر .3060
122
-صحیح مسلم،کتاب االیمان ،حدیث نمبر.149
76
ت ن ق جن ن
ئرواے کے اس ب اب می ں ے ب ی ان ک ی ا کہ مسلم جگووں کی طا ت کے ع ن اصر اور مدد ا
لوگوں سے مدد حاصل کی ج اے،کمزوروں سے مراد ے کہ کمزور اور ن ی ک ئ ہ ں سے ای ک ی ہ می ش
دولت۔ ے ہنمال ون ن ج ن
ت ن لوگ ہ یحق قں ن کا ہن کو ی ج تاہ ج الل ہ
کے وہ گم امش ت معا رےن
ے ہ ی ں اورن وہ ی ہ می ں ے اس معا ر فیت ی ت کی ج ا ب م وج ہ ک ی ا جس
ے لوگ ظ ن را داز کر ید
ں پ ی داوار و م شص وعات کا حصول ا ق ًہی ں امن می ت ے کہ حالت ج ن گ می ں ح اور حالت
ےتج و معا رے کے کمزور طب ات ا و ہ کن ہن وں،کاری گروں اور پ ش ًہ وروں کی دولت مم کسا
ے ہ ی ج ن گ م ں کام ا ی کا زی ہن ن ہ ہ جن ب یق ن
یب ی ہ ی ں۔ ی ہ گم ام کمزاور طب ات ہی ں لوگ ا می ت ہی ں دی
اور امن می ں پ ی داوار کی اساس ہ ی ں۔
-82اندرونی محاذ کے تحفظ کی ضرورت:
میں نے اس جانب بھی خصوصی توجہ دی جس ے آج ان درونی مح اذ کے
تحف ظ ک ا ن ام دی ا جات ا ہے ج و کہ مجاہ دین کی پش ت پن اہی کرت ا ہے ،انہیں
خوراک،ادویہ جات،اسلحہ اور دیگر ضروریات کی فراہمی میں مدد بہم پہنچاتا
ہے کیونکہ اس میں کسی بھی قسم کی گ ڑ ب ڑ جنگج و ف وج ک و خط رات س ے
دوچ ار ک ر س کتی ہے۔اس ی (ان درونی مح اذ کے تحف ظ) میں مجاہ دین کے
خان دانوں کی دیکھ بھ ال کرن ا بھی (ش امل) ہے جیس ا کہ بخ اری و مس لم کی
روایت میں ہے:
"من جهّز غازيًا فقد غزا ،ومن خلف غازيًا في أهله بخير فقد غزا".
جس نے کسی مجاہد ک و س امان مہی ا کی ا گوی ا اس نے خ ود جہ اد کیا اور
جس نے کس ی مجاہ د کے اہ ل خ انہ کی خبرگ یری کی اور انہیں خ یریت س ے
()123
رکھا وہ بھی ایسے ہی ہے جیسے خود جہاد میں شریک ہوا ہو۔
آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ:
"حرمة نساء المجاهدين على القاعدين كحرمة أمهاتهم".
ت
"جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں پر مجاہدین کی عورتوں کی کری م
()124
ایسے ہی فالزم ہے جیسے کہ وہ اپنی ماوں کی تکریم کرتے ہیں۔"
ن ن ین ش م ت ف
ے د ی و د ی اوی -83رض ک ای ہ امور می ضں وہ مامپ امور ت ا ل ہ ی ں ج ن کی امت کو اپ
ے: معامالت می ں عمومی رورت یش آ ی ہ
123
-صحیح بخاری ،كتاب الجهاد ،حدیث نمبر ،2843صحیح مس لم ،كت اب :اإلم ارة،
حدیث نمبر .1895
- 124صحيح مسلم ،حدیث نمبر .1897
77
میں نے بی ان کی ا کہ ف رض کف ایہ میں وہ تم ام عل وم ش امل ہیں جن کی
مس لمانوں ک و ض رورت پیش آتی ہے جیس ا کہ می ڈیکل ،انجینئرن گ،
فلکی ات،طبیعی ات (ف زکس) کیمیا (کمس ٹری) ارض یات (جی الوجی) حیاتی ات
(بیالوجی) اور ریاضی کا علم جو کہ ہمارے زمانے میں ریاست کے دف اع کے
لیے الزمی قوت کے حصول کے لیے اور اقتصادی،ط بی و تکن الوجی وغ یرہ
کے پہلو سے خودکفیل بننے کے لیے ضروری ہو گیا ہے۔
-84حالت قوت میں مومن دس آدمیوں کے بقدر کام کرتا ہے:
سورہ انفال کی ان دو آیات:
صابِرُوْ نَ يَ ْغلِبُوْ ا ماَئتَي ِْن﴾" "﴿ِإ ْن يَ ُك ْن ِّم ْن ُك ْم ِع ْشرُوْ نَ َ
"اگر تم میں سے ڈٹنے والے بیس ہوں گے تو وہ دو سو پر غ الب آ ج ائیں
()125
گے"
اور دوسری آیت:
ض ْعفًا فَِإ ْن يَّ ُك ْن ِّم ْن ُك ْم ِّماَئةٌ َ
صابِ َرةٌ يِّ ْغلِبُوْ ا " ﴿اآلنَ َخفَّفَ هللاُ َع ْن ُك ْم َو َعلِ َم َأ َّن فِ ْي ُك ْم َ
ِماَئتَي ِْن﴾
اب ہللا نے ۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تمہارے اندر کم زوری ہے۔ تمہ ارے
لیے تخفیف کر دی ہے(اصل تو معرکہ کف ر و ایم ان میں وہی اوپ ر واال معی ار
ہے ،لیکن کمزوری کے ب اوجود اس معی ار ک و پ ورا کرن ا ہے) کہ تم میں اگ ر
()126
سو( )۱۰۰جمنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آئیں۔"
س ے میں نے م ومن کی ح الت ق وت اور ح الت ض عف میں دش من کے
سامنے ثابت قدمی کے بارے میں یہ استدالل کیا ہے کہ ح الت ق وت میں ایم ان
مومن کو اتنی طاقت دیتا ہے کہ وہ غ یر مس لموں کے دس گن ا اف راد کے بق در
کام کر سکے،اور حالت ضعف میں ایک عام عادمی سے دو گنا زی ادہ ک ام ک ر
سکے۔
-85بھاگنے کے جواز اور عدم جواز میں تع##داد ک##ا نہیں بلکہ اس##لحہ کی
طاقت ،تنصیات و فوجی تربیت وغیرہ کا اعتبار ہو گا:
125
-االنفال.65:
126
-االنفال.66 :
78
میں نے راہ فرار اختیار کرنے کے ج واز اور ع دم ج واز کے ب ارے میں
ایسے بعض علماء کی رائے کو ترجیح دی ہے ج و یہ کہ تے ہیں کہ دش من کی
تعداد کا اعتبار نہیں کیا جائے گا کہ جب کفار مسلمانوں سے دو گن ا زی ادہ ہ وں
تو بھاگنا حرام ہو گا اور اگر دو گنا سے کم ہوں چاہے ایک شخص ہی کم ہو تو
پھ ر بھاگن ا ج ائزہو گ ا۔ بلکہ (م یری رائے میں تع داد کے بج ائے) اس لحہ کی
عمدگی،تیاری،مہارت اور دیگر صالحیتوں کا اعتبار ہو گا۔
ف رض کیج یے کہ دس ہ زار مس لمان جنگج و ہیں لیکن ان کے پ اس وہ
ٹین ک،جنگی طی ارے ،میزائ ل اور اس لحہ کے ذخ ائر نہیں ہیں ج و دش من کے
پاس ہیں (تو نتیجہ کی ا نکلے گ ا؟) اس ل یے الزمی ہے کہ ان چ یزوں ک و بھی
ملحوظ رکھا جائے۔
-86دشمن سے مڈبھیڑ ہونے کے بعد بھاگنا حرام ہے:
میں نے ت رجیح دی کہ نص وص ش رعیہ س ے ج و س مجھ میں آت ا ہے اس
کے مطابق وہ بھاگنا حرام ہے ج و جن گ میں ص ف بن دی اور پھ ر دش من کے
ساتھ مڈبھیڑ ہونے کے بعد ہو۔
-87کس وقت بھاگنا واجب ہو جاتا ہے؟:
میں نے بیان کیا کہ بس ا اوق ات راہ ف رار اختی ار کرن ا واجب ہ و جات ا ہے
جبکہ امت کو تباہی سے بچانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو:
خ واہ مس لمانوں کی قلت اور دش من کی ک ثرت کی وجہ س ے،ی ا ان کی
کمزوری اور دشمن کی قوت کی وجہ سے یا دشمن کے اس لحے کےمس لمانوں
کے اس لحے س ے برت ر ہ ونے کے س بب ،جس س ے ارب اب ح ل و عق د اور
اصحاب رائے یہ سمجھیں کہ مسلمانوں کی نجات ہتھیار ڈالنے میں ہی ہے۔
79
ش شش
ہاد کی ذمہ داری اں،آداب ج کر باب م :ل
ض
و واب ط
131
-یعنی اگرکسی ملک نے کسی بھی وجہ سے یہ طے کر لیا کہ اس نے دوسرے ملک
پ ر چڑھ ائی ک رنی ہے ت و اب اس مقص د کے حص ول کے ل یے وہ کس ی قس م کی
اخالقیات کا پابند نہیں ہے۔مترجم۔
84
بھی اور جنگ کے بعد بھی۔
-94رنگ و نسل کی برتری کا نظریہ:
میں نے اس نظریے کا بطالن واضح کیا جو تاریخ کے مختل ف ادوار میں
مغرب میں رائج رہا،اور یہ نظریہ علم یا دین کی منطقی بنیاد پر قائم نہیں ہے۔
میں نے بیان کی ا کہ نس لی برت ری کے نظ ریے کے پھیالو کی ای ک وجہ
تورات کی تعلیمات ہیں جس پر اہل مغرب ایمان رکھ تے ہیں،اور جس نے ب نی
اسرائیل کو ہللا کی برگزیدہ قوم قرار دے دیا،تو پھر اس میں ک وئی اچنبھے کی
بات نہیں کہ وہ سفید فام کی برتری کا نظریہ قبول کر لیں۔
-95بچوں،عورتوں،بوڑھوں اور راہبوں کے قتل کا جواز:
میں نے جمہ ور کے م ذہب ک و ت رجیح دی ہے کہ اس وقت بچ وں،
عورتوں ،بوڑھوں اور راہبوں کو قتل کرنا جائز ہے جبکہ وہ جنگجو ف وج کے
ساتھ مل کر عملی جنگ میں شریک ہوں،اس لیے کہ یہ عق ل کے زی ادہ ق ریب
ہے اور ہمارے زمانے کے زمینی حقائق سے مط ابقت رکھت ا ہے،اس ل یے کہ
ہم آج ان ص ہیونیوں ()132ک و دیکھ تے ہیں جنہ وں نے ہم اری زمین غص ب
کی،اور فلسطین میں ہمارے لوگ وں ک و بے گھ ر کی ا اس کی ف وج م ردوں اور
عورتوں دونوں جنسوں پر مشتمل ہے ،اور عورتوں کی اس قسم سے بھی وہی
برتاؤ کیا جائے گا جو کہ ہر جنگجو سپاہی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔
-96نہ دشمن کا مثلہ ()133جائز ہے اور نہ ہی اس کے جانوروں کا:
132
-صہیونیت در حقیقت لفظ صہیون سے اخذ ک ردہ ہے ص ہیون یروش لم کے ق ریب
واقع ایک پہاڑی کا نام ہے بعد ازاں پورے یروشلم کو صہیون کہا ج انے لگ ا ۔ص ہیونیت ک ا
بانی تھیروڈ ہرٹزل ایک صحافی تھا۔ صہیونیت کی ابتدا کا اصل س بب ی ورپ اور روس میں
سامی نسل کی مخالفت تھی۔ اسی مخالفت کو کم ک رنے کے ل یے کچھ س یکولر یہودی وں نے
اس سیاسی تحریک کا ٓاغاز کیا اور ایک یہودی ریاست کو اس مس ئلہ ک ا ح ل ق رار دی ا۔ اس
کے برعکس عام یہودی اس نظریہ کے قائل ہیں کہ خدا نے ان سے عہد لی ا ہے کہ وہ ای ک
مخصوص وقت تک حکومت نہیں بنائیں گے اور نہ ہی یروشلم کو بزور طاقت حاصل کریں
گے۔ یہی وہ بنی ادی اختالف ہے ج و یہودی وں اور ص ہیونیوں کے درمی ان پای ا جات ا ہے۔ان
یہودیوں کو ٓارتھوڈاکس کے نام سے جانا جاتا ہے ۔یہ یہودی اسرائیل کے وجود کے مخ الف
http://irak.pk/the-anti-semitic-view-of-the-zionist-stateئ/۔ ت
ق ت ن ن ہیں ۔
ن
ے۔ دی م عرب وں می ں ی ہ رسم را ج ھی کہ ج گ کے 133
-مث لہ کرے سے مراد الش کی ب
ے حرم ی کر ا ہ
85
میں نے جنگ میں عمومی طور پر مثلہ سے ممانعت کو ت رجیح دی،یہ اں
تک کہ اگر دش من ہم ارا مثلہ ک رے ت و بھی ہم اس ک ا مثلہ نہیں ک ریں گے،اس
لیے کہ ہمیں اس س ے من ع ک رنے والی چ یز(ش ریعت) موج ود ہے جبکہ انہیں
روکنے والی کوئی چیز نہیں،بلکہ ان کے جانوروں کا مثلہ ک رنے کی بھی نہی
وارد ہ وئی ہے کہ اگ ر جنگی ض رورت ک ا تقاض ا ہ و کہ ہم انہیں ان
(جانوروں)کے گوشت سے محروم کریں تو ہم ان ک و ذبح ک ریں گے ت اکہ مثلہ
نہ ہو،اس کے بعد انہیں محروم کریں گے۔
-97معاہدوں اور پیمانوں کی رعایت اور دھوکہ دہی و خیانت کی حرمت:
میں نے بیان کیا کہ معاہدوں کی پاس داری کرن ا اور غ داری کی ہ ر ش کل
کو حرام قرار دینا اسالم کی جنگی اخالقی ات میں س ے ہے۔اور میں نے واض ح
کیا کہ اس الم کی فض یلت اور خوبی وں میں س ے ای ک یہ ہے کہ وہ دش من کے
ساتھ اس کے عمل کی طرح کا مع املہ ک رنے کی اج ازت نہیں دیت ا،کہ ان کے
ساتھ انہیں کے پیمانے کے ساتھ مع املہ کی ا ج ائے،ان کی دھ وکہ دہی ک ا ب دلہ
دھوکہ دہی اور خیانت کا بدلہ اسی طرح کی خیانت سے دی ا ج ائے۔بلکہ اس الم
اقدار اور اصولوں پر پابندی کے ساتھ قائم رہنے کو مسلمانوں کے ل یے ف رض
گردانت ا ہے چ اہے ان ک ا دش من ان میں اف راط و تفری ط س ے ک ام لے۔ کی ونکہ
رسول ہللاﷺ کا ارشاد گرامی ہے:
"أ ِّد األمانة إلى من ائتمنك ،وال تخن من خانك"
" ج و تمہیں ام انت دے اس کی ام انت واپس ک رو اور ج و تمہ ارے س اتھ
()134
خیانت کرے تم اس کے ساتھ خیانت مت کرو۔"
-98جن##گ میں تب##اہی مچ##انے س##ے بچ##نے ک##ا اص##ول ،جن##گ میں غ##یر
ضروری درخت نہ کاٹا جائے اور نہ ہی کوئی عمارت منہدم کی جائے:
میں نے ان چیزوں کی تباہی کی حرمت کو راجح قرار دی ا جن کی لوگ وں
ش ن ق ق
ن
ے ج اے والے د م وں کے ناک ،کان اور دیگر اعضاءکاٹ دیے جاتے تھے۔ شمو ع پر ت ل کی
آتش
ِ کل و صورت کو بگاڑ دیا جاتا تھااور الش کی بے حرمتی اور پامالی کرکے اپنی
انتقام کو سردکیاجاتا تھا۔اسالم نے آکر نے دورا ِن جنگ بھی باقاعدہ اص ول و ض وابط
کا تعین کیا ،اور مثلہ کرنے سے روک دیا۔ الجہاد االکبر۔ 34۔
ن 134
-س ن ترمذی ،حدیث نمبر .1264
86
کو جنگ میں ضرورت نہیں ہ وتی ،جیس ا کہ درخت کاٹن ا ،کھیت وں ک و جالن ا،
گھروں کو ڈھانا،آبادی کو تباہ کرنا اور پی نے کے پ انی ک و آل ودہ کرن ا،اس کی
جنگ میں ضرورت نہیں ،اور میں نے ان پر رد کیا جنہوں نے بخ اری کی اس
روایت سے استدالل کی ا ج وکہ آپ نے گھ روں اور نخلس تانوں ک و جالنے کے
باب میں بیان کی ہے اور اس میں ذو الخلصہ( )135ک و ت وڑنے اور اس ے آگ
لگانے ،اور بنی
()136
نضیر کے نخلستان کو آگ لگانے کا واقعہ ذکر کیا ہے۔
میں نے واض ح کی ا کہ ذی الخلص ہ ک و توڑن ا کھی تی ک و آگ لگ انے ی ا
گھروں کو جالنے کے زمرے میں نہیں آتا ،بلکہ یہ بتوں ک و ت وڑنے کے ب اب
میں آتا ہے ج و کہ باط ل اور گمراہی وں ک ا گ ڑ ش مار ہوت ا ہے۔ اور یہ کہ ب نی
نضیر کا نخلستان جالیا جانا بذات خ ود مقص د نہیں تھ ا بلکہ جنگی ض رورتوں
کی قبیل سے اس کی ضرورت بھی مجبورا پیش آئی۔
-99حربی کو خفیہ طریقے سے قتل کرنے کا جواز:
میں نے حربی کو خفیہ طریقے سے قتل کرنے کے ج واز ک و ت رجیح دی
ہے جیس ا کہ اس ک و اعالنیہ قت ل کرن ا بھی ج ائز ہے،اور میں نے یہ اس تدالل
کعب بن اشرف کے قتل کے واقعہ سے کیا ہے،اسے اس ل یے قت ل کی ا گی ا تھ ا
کہ اس نے نبی اکرمﷺ کے س اتھ کی ا گی ا معاہ دہ ت وڑا تھ ا اور آپ کے خالف
جنگ میں مدد دی تھی اور آپ پر ہجو کیا تھا۔
-100ضرورت کی وجہ سے جنگ میں جھوٹ بولنا:
میں نے بیان کیا کہ جنگ میں اخالقیات کا اسالمی قانون سخت ہ ونے کے
135
-ذوالخلصہ یمن میں ایک بت خانہ تھا جس کو کعبہ یمانیہ کہ ا جات ا تھ ا اس بت خ انہ
میں ایک بہت بڑا بت تھا جس کا نام " خلصہ " تھ ا ،اس الم س ے پہلے کے زم انہ میں
یمن کے قبائل دوس خثعم اور بجیلہ اس بت کو پوجتے تھے اس الم ک ا زم انہ آنے کے
بعد بھی بعض قبائل میں ابھی توہم پرستی باقی تھی اور وہ ایسے بتوں اور معبدوں ک و
ہ اتھ لگ انے س ے ڈرتے تھے،آنحض رت ص لی ہللا علیہ و آلہ وس لم نے ذولخلص ہ ک و
مسمار کرنے کے لیے حضرت جریر ابن عبد ہللا بجلی ک و یمن روانہ کی ا،جنہ وں نے
جا کر ذولخلصہ اور اس کے معبد ک و منہ دم ک ر کے ٓاگ لگ ا دی۔الحم وي ،ياقوت بن
عبد هللا1993 .م .معجم البلدان .بيروت :دار صادر.2:383 .
136
-ابن سعد ،محمد۔2008ء۔ طبقات ابن سعد ۔ کراچی :نفیس اکیڈمی ۔ 02:91۔
87
ساتھ واقعی بھی ہے کہ ضرورت کے بقدر احک ام الگ و کرت ا ہے،ت و وہ جن گ
میں جھوٹ کی اجازت دیتا ہے کی ونکہ جن گ دھ وکہ دہی ک ا ن ام ہے۔بلکہ میں
نے ترجیح دی کہ بسا اوق ات جھ وٹ جن گ میں نہ ص رف ج ائز ہوت ا ہے بلکہ
واجب ہو جاتا ہے،مثال کے طور پ ر ک وئی مس لمان قی دی بن ج ائے ی ا اس ک ا
دش من اس ے گرفت ار ک ر لے اور اس س ےبعض ایس ی چ یزوں کے ب ارے میں
پوچھ گچھ کرے جن کا ش مار جنگی رازوں میں ہوت ا ہ و اور ان ک ا ف اش کرن ا
مسلمانوں کو نقصان پہنچائے اور انہیں تکلیف دے (تو اس صورت میں جھوٹ
بولنا واجب ہو جاتاہے)۔
اور اگر کسی بے گناہ فرد کو بچانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے ت و
وطن اور امت کو بچانے کے لیے جھوٹ بولنا کیسا ہو گا؟
حصہ دوم
88
ٹ
(آ ھواں ب اب :ج ن گ کے ب عد کے امور) ت ق فق
س ن ق ت ن
ن سی م: ہاء جکی ج ا ب سے د ی ا قکیق دار اال الم ،دار الحرب اور دارالعہد می ں -114ن
ان عض ںےب م ے،اور ق طا قلن ے ت ر ی ح دی کہ ہ سی م ح ی ت کے الک مفی قں
ت یت ف ن م ب نہ ب ت ن ی
سے ا اق ہی ں کرے ہ م
ہاءتپر رد ک یخا ت و د ی ا کے دو تی ا ی ن داروںق می ں ت سم وے ن ج
م معاصر ف ق
ے ب ی ان ک ی ا ئکہ عالم کو دو ی ن ں م ں۔ ی ہی ے د رار صہ ت ح کا خ ی ر ا حض اور راع ن ا کی ہاءق اور اسے
ق ت
ے پر ب ڑی نل ےقاس مس ب ب ہ
حصوں می ں سی م فکر ق ا پ ل
ے،اور می ں ف عروف ھا اور آجن قھی ہ ے ھیئم ن
ن رار دی ا اور ب ت ای ا کہنکہ نہاء ے ی ہ سی م سوچ ب چ ار کےنب عد ہاء کی راے کو ا صاف پر ی
ب م
ن
ھڑی،اور ن ہ ہ ی نان کے زماے کے حاالت ے ا ہی ں اس پر جمبور ق ے اس سے ہی ں گ
سئ پ اپ
ق ن ت ق ت
نمی ں ان کا مر ع رآن و س ت ے۔ ج ےک ی ا،اس م ل
ے وہ آ ات ذکر ک ں ج و اس سیہم کی ان
ب اش ارہ ثکر ی ہ ی ں،اور پ ھر ان ترآ ی نق نج ن ی ی می ں
سے چک ھ ع ب ار ی ں ت ل ج نش
ا ق ارات کے ضواز کی د ی نل کے طور پر می ں ے س ت ب وی اور آ ار صحاب ہ ی ن
ن ہ
المداروں کی و ع نی داراالس ت ے دو ں نداروں کی ی ہ سی م( چ اہ
ن ی ل کی ں،اور وا ت ح ک ی ا تکہ د ی ا می
اور دار نالقحرب ی ا یقن ق
عہد)کت اب و س ت کی س د کے سا ھ ئ اور ق الم،حرب
ض ت س ا ی ع کی داروں
ب ئ ط
ے۔ ہ ہ
ے جس کی ا ی د وا ح لی دال ل سے ھی و ر ی ہ ب ڑی م ی اور مع ول سی متہ
ئ تج ؒ ے ہ ی ں؟ ے کہ نس -115دار الحرب ک
ے کہ اگر کسی ے فکو ر ی ح ئدی تہ کی نرا ن ے امام رازی ؒاور امام ج فصاص ق اس ب اب ت می ت ں ئ
ملک کے لوگئمر د ہ وخج ا ی ں اور اس می ں ا ل ر کے وا ی ن ا ذ و ج ا ی ں و وہئ لک دار
م ہ ک ہ
انلحرب ب ن ج اے گا ،واہ اس ملک (کی سرحدی ں) دار الحرب سے ملی ہ و ی ہ وں ی ا
ت ق ن ئ ن ہی ں۔
عل ک ت ش ج
ے ر ق سے ئ دے ا اور عات وا کہ و ں
ت ہی ات ر ظ اور ل دال وہ اد ب کی اس
ھ
ے اور وہ اس ا و ہ ہ
ف مغ ہ
ل کا ار ک ر ن ج ے ی آ صادق
ب ی
ھی ر کوں ل ہ ں ،اور ہ ت عری یف ان م
قب ج ئ پ ہ خ ت پ ش ی ی
نں اور اس ان کی ج گہ پر اب ض ہ و ج ا ی اں سے دھ کار کر ود ئ کے اصل ب ا ن دوں کو وہ ن ملک
امن اسالمی حاصل ن ہ ہ و،ج یساش کہ اسرا ی ل نکی ری است جس ے سرزمی ن وں کو غ ف مس
می لسں لما ث
دوں کو دیس کاال دے دی ا۔ ن طی ن کا اک ر حصہ صب کر ل ی ا اور وہ اں کے ب ا
ف
ے؟ کن ہ ا ت س ن ب ر ک ال دار دار جاالسالم(کب ھی) دار الحرب ی ا ت نا
-116ک ی
ن ر ی ح دی قکہ داراالسالم ھی ھی دارالشحرب ہی ں ب ن س ئکت ا،اور اس کے ب ب ک می ں ے
ہ ت ن ح
ے اس کے ب ا دے ب دی ل و ج ا ی ں ی ا اس می ں ے گا چ اہ داراالسالم ہ وے کا کم ب ا ی رہ
94
ق
ے گا ج ب ت ک اس می ں ق ت ح ئ ل ہن
ے کے قاحکام ب دل ج ا ی ںن ی کن ی ہ کم اس و نت ک ب ا ہ
ر ی ر
ہ
م لمان ب ا ی رہ ی ں غگے،ور ہ اس کے م طابق ا دلس داراالسالم قی رہن ت ا اگرچ ہ اس می ں س
ئ
مان ب ھی ب ا تی ہی ں ب چ ا۔ ے اور ب ظ ت اہ ر اس می ں ای ک مسل ن صدیوں سے اسالم ا بشہ
ن داراال جسالم پر د من کے سلط سے وہ فدارالحرب تہی ں ب ن ج ا ا: -117ن ت
ش س م
حرب ہی ں تمی تں ق تے ر ی ح دی بکہ حض داراالسالم پر ئکا روں کے لط سے وہ دارال ت
ن ھ د قمن بف ن ج ا ائ او ی کہ اس می ں عض اس قالمی احکام رائج رہ ی ں ،ب ای ں طور کہ اس کے سا
دارالحرب ب ن ج اے کا ول کےن ق وج لڑاخ ینکرے اور اس کی زمنی ن پر اب ض ہ و ج اے ،اس ث
ن مس ف
ے حاال کہ امت اع سے ب ت ی ف رار دی ت ا ہ ے و کہ م لما وں کو اس کے د ش
س ب ہت طر اک ہ ج
ے کہ داراالسالم کے ای ک ای ک بشال ت کا ھی د اع کرے۔ پر ی ہ وا ج ب ہ
ہ مم ن ن س م ت
ے اس می ں رہ ا کن و اس ک داراالسالم کے لمان ب ا ن دوں کے یل ج وق ت ت
-118ب
ا: تک س ن
ی ب ت ں ہ حرب لدارا الم س اال دار ک
ف ف م ن تج
ں ک رکے احکام یس ی ش م اس ا لط س ر پ الم س االق
ت ت ت دار کے ار ک حض
ن کہ دی ح ی می ںنے ر
ے ن م
سے وہ دارالحرب ہی ں ب نن ج ا ا او ی فکہ اس کے لمان ب ا دوں کے یل ے اے
اس م جں ر ن ا مم دی
ں ب عض اسالمی ث ی ق م اس اور ں یر ک
ن اع د کان ن ید ے پ ا کر) رہ اں
ن تغ ہ (و و،وہ ہ کن ہ ئ ش ئ یق
سے رہ ن ا ے ر ی ب دی کہ مسلما وں کو اپ ی زمی ن پر اب ت دمی ن غ ں یم ں۔ عا ر کو ن ض
یر ک م ا
ے اور اپ ی مر ن ی سے(ب ی ر جمب وری کے) وہ اں سے کب ھی ب ھی ہ جئ رت ن ہ نکری ں،اور ا ہی ں چ اہ ی
ت ت پ
ج و ب ھی ت لی ف ہچ
ش ک
ے کو ی راس ہ کالے۔ن نان کے یل ے اس پر صب ر کری ں ی خہاں قک کہ ہللا
ض
ے پر ب ہ کرے سے ج رت کے واج ب ہ وے کی ہ کے کسی اسالمی ط -119د من ش ئ
ن ق : ں ہ ط ق ق چک ھ را
ئ ی ش ل فق
ےجس ہ ی
ب کی گ
ن
شطرف و اس ول کی سب ت ج ئ ب عض مح ی ن کی خطرف سے ما قکی ہ کی
ے پر د من اب فض ہ و ج اضے اس کو چ ھوڑ دی ن ا اور د م نوں ی چ ن ہ رہ ن ا ن ط ے کہ جس مضی ں کہا گ ی ا ہ
ہ ہ م ص
ے کہ ےن کہ و ا ی ہ چ ا ی اس یل ے۔ ت ے۔می ں ے اس کاغ یح ح ہوم قوا ض ح خک ی ا ک ی ا ہ ہ مسروری ن
وروں کے سا ھ ا ی است طاعت کے پ ں،اور اص ب وں اور ب ہ م
ے وطن کو ش دی د جمبوری کے ب غ ی ر ن ہ چ ے لک می ں رہ ی ن لمان اپ
پن ں۔ یڑ ھو پ ا ں،اور یر ک مزاحمت م طابق
س
طور پر وہ لخمان اگر ا ئی م ی ش م ج ش
ے کہ مث ال کے ن حالتئمراد ہ اور دی د ت بوری سے ا نسی ہ ت
ے ب ھی جمب ور کرے کہ مسلما وں کے ت الف لڑا ی ےہو ش
ے و د من ہاسے ہ چ ا غ زمی نشپر رہ
ہ
ے کو مس رد ہ کر کت ا و و پ ھر اس پرس ن ت ہ
می ں ری نک و۔اگر وہ ج رت کے ب ی ر د من کے م طا بل
ئ ہ ج رت کر ا ہ فی واج ب ہ و گا۔
پن ن کے فعرب وں کا اسرا ی ئل می ں رہ ن ا: نس طی ق -120ل
ض م
دعوت دی کہ وہ ا نی (اسرا ی ل)کے عرب وں کو ن ض ب می کںھ ے ب و ہ لس طی ن ٹ
ہ پ
ے ا ی مر ی سے ج رت کر ا ئست ی نوں ،ی ت ی وں اور مسج دوں می ں ڈے رہ ی ں،اور ان کے یل
ت ے۔ ج ا ز ہی ں ہ
ے،اگر وہ اسے ھوڑ دی ں گے و وہ چ ہ س
ئ کا دار دار اال نالم ی ہ ے ان ے کہ ان کے یل فاس یل
دار الحرب ب ن ج اے گا اور مسلما وں کی مسج دی ئں ی ہودیوں کی ع ب ادت گاہ وں دار الک ر ی ا ن
ہ ت
می ں،اور مسلما وں کی امالک ہودیوں کی امالک می ں ب دی ل و ج ا ی ں گی۔ ی
95
ف ش ن
ن فت ہ
ے جنرت واج ب فہتوے غکا قوی: ن خ ال بش ا ی کا اہ ل شلس نطی ن کے یل -121ی
نوہ ف می ں فے م تہور محدث ی خ اصر قالدی ن ال ب ا ی کے اس وی کو لط رار دی ا جس می ں
ف
رت کرے لس طی ن پر ک ار کے سلط اور اننکے ا ت دار کی خو ہ سے اہ ل لس طی ن کے ی ہ
ے ج فت ن ل ج ت ق
ے اس کے طرات سے آگاہ فک ی ا ،یک و کہ اس وی سے ت ں مں،
ی ی خی ہ ے د رار کو واجن بش
ے کہ طی ن کی سرزمی ن اس س ل ہ
ے گی و وہ دی کھ ر ا ہ ج م ع
ئاس واب کو ب یر ل ص یہ و ی د من کے
خ ن ٹ ے خ الی ہ و ج اے۔ کے یل
ن س
-122دار االسالم کے کسی کڑے کی یل حدگی م لما وں کے الف اعالن ج گ ع
ن غ ٹ ے: نہ
کڑے نکو صبئکرے کے ب عد اسے دار می ں ے ت رجی ح ندی کہ ندار االسالم کے کسی ش
ے ج یسا کہ الن ہ ت سےالگ کر ا مسلما ئوں کے خ الف ج ن گ،د م ی تاور لڑاخ ی کا اع االسالم ن
ے ج و کہ ای ک ( اری تی اور اصلیش)اع ب ار سے ہق ق حال کا ل ی اسرا است ی ر ی غآج کی ص یہ و
ے ،اور ای ک (ح ی ت حال کے)تاع ب ار سے د من کے زیر ش
ت صب دہ دار االسالم ہ
اری ہ وے ہ ی ں۔ کام ج ق ئ
کے اح ت ف اور اس تپر دار الحرب ج ے سلط دار الحرب ہ
ج ح ی م
ان ات جسالمی ہور وں کا کمج ن پ تر ک ار کا سلط ا غم ہ و گ ی ا :ت -123ن
ھ ج س ج
ئ می ں ے شر ی ح دی کہ وہ اسالمی ہور ی ں و کہ آج ا ی ار کے لط کے آگے تکی ی م
ن
االسالم مین ں ہ وتگا ،یک و کہ ان می ں ب عض اسالمی احکام پر عملدرآمد ہ و ا دار ئ
ں ان کا مار ش ہو یہی
ب
ے اور عض اسالمی عا ر وہ اں ظ ر آے ہ ی ں اور اس وج ہ سے ھی کہ وہ دار االسالم سے ب ت
ص ہ
ض ق ن نف م ل ہ ی ں۔
ےتا جسالمی ممالک کا کم ج ہاں پر و عی وا ی نن ا ذ ہ ی ں: ح نس
ف -124ای
ے ص
تکے ازل کردہ احکام کے م طابشق ی ل ج
ممالکف و ہللا المی ن ن تے ر یض ح دی خکہ وہ اخس ق ن می ں
ن وا ی ن ا ذکرے ہ ی ں وہ دار ناالسالم می ں ہ ی مار ہ وں ودسا ت ہ) غ ( عی و ہی ں کر ن
اور ے
ب
ے و م لما وں کے عض ممالک کو س ج ب
ںتے ان عض لو کرے والوں کا رد ک ی ا ہ گے کفاور می ن
ش ے ہ ی ں۔ دارال ر گردا
ت
ث ممالک داراالسالم مار ہ وں گے :ن -125نمامتا جسالمی ت
س م ج
ے ئدار می شں ے ر ی ح دی کہ مام اسالمی ممالک ن می ں لما وں کی اک ری ت آب اد ہش
ے کہ ئوہ اصل می ں اسالمی ممالک ہ ی ہ ی ں اور ان می ں عا ر االسالم بمار ہ وں نگے اس یل
ن ے عام ئرا ج ہ ی ں۔ اسالم آج ھی ا نعال ی ہ اورکھل
ص
ے ےندار العہد ہ -126ن یہ وت جی ری است (اسرا ی ل) کے نسوا پورا عالم مسلما قوں کے یل
ے دار العہد ہے بمناشی ساری د ی ا ن ے ر ی ح دی کی ہ مارے(ہ م مسل قما وں تکے) یل ئں ن می
ے ارد گرد کی ہ ص
کے ذریئعہ اپ ے کہ م ان شوام م حدہ کے ورت نماسواے یہتو ی ری است کے،اس یل
ے ں،اور ضمعاہ دات اور م ور کی پ اسداری کرے ہ وے ہ مارے لی ب
دض ی ا کے سا ھ ہمر وط ہ ی ت ق
ج ش ئ کے ا وں کو پورا کری ں۔ ن ےق کہ م تان ق روری ہ
ری
وام م حدہ کی راردادوں کی پ اسداری کر ا ماسواے ان کے و عت کے
ہ -127ا خ
ئ ن تج ق ق وں: ت الف ن ق
ے کو ر ی ح دی،سواے می ں ے ا وام م حدہ کی رار دادوں کی پ اسداری کو واج ب رار ید
96
عم ن ق ٹ ت ش
ے مارے لی ہ ا کر ل ر پ راردوں سی ی ان کہ وں ہ ی کرا
ت سے عت ری ضان کےنج و ہ مارے دی ن و
خ ش ئ ن خ
ے کسی معاہ دے پر دس ط کر ا ج ا ز ہی ں و احکام ری عت کے الف ج روری ہی ں،اور ایس
ت ن ئ ت ہ و۔
ن کی کو ی ی ث ی ت جہی قں ،کی وج ی ہ: ح حدی ث:اسالم می تں ا حادن -128ن
ح س م
ں ےت ہق ر اس سےت ا حاد کرے کے واز کو را ح رار دی ا جس سے لما وں کے ق ج می خ
ن : ث یحد
ئ اس و ج ے
پ یہ ت ا ک رد ر ان و،اور ہ ی س
ج ک ا کی ع و کی ر می ں کسی ی
ح
ت ی ث ی ت ہی ں۔ ن ال حلف فيناإلسالم .اسالم می ں ا حاد کی کو ی
ے ب ی ان عدم ج وازن کا اقست دالل کرے ہ ی ں۔اور می ں ن ف سے کسی کو حلی ف ب ن اے تکے ن
ے ج و زمان ہ ج اہ لی ت میشں سل در م نک ی ا کہ اس تحدی ث سے مراد ایس
ن ے ا حاد کی ن ی کر ا صود ہ س
امن اور حالت ج گ می ں اینک دوسرے کی مدد اور پ ت پ اہ ی ل چ لت ا ھا۔حالت ن ن ن
اس حدی ث سے ہ رگز مراد ہی ں۔ کرے کے یل ح
ح ص ے لی ف ب ا ا ت
ن ن نہودیوں کے سا ھ ت لح کا کم: -129ی
ص ق ج تج ص
ے کہ ا ہوں ے لح دی،اس یل م ں ے ن ہود وں کے سا ھ لح کے عدم واز کو ر ی ح ی
ل عام ک ی ا ،گھروں کو مسمار وسالمتیی کی راہ ہ یں اخ ت ار کی ب لکہ زم ن ر ق ب ض ہ ما ا ،ش ہر فوں کا ت
ے کی ت ائ ج ی ی ی پ ی ِن ی
ئ : د ی ن ل ص ن ی اس رے یم ھا۔ ت ک ر ھوکا ب ں یہ ف ا کے کر حاصرہ ک ی ا اورلوگوں کا م
ت ت
ے جس می ں ا ہوں ے اسرا ی ل کے سا ھ ہ ی و ہ سے وی اس کے صماء ہ ق
ر از - 1عل
ت ئ ق فت لح فکوتحرام شرار دی ا۔
وی اور المہ الزر اءکے اسرا ی ل کے سا ھ ع مصر ی خ حسن مامون کے ت -2م
اور یحق ق
ف ئ ت ے۔ ن یش ت کی ب اب ت بف یتان سے ہ بو ی ہ صلح کی
ن اور می ں ے ی خ ب ن ب از کے وی سے حث کی ج و حالی ہ صور حال کے موا ق راے
ے۔ ہی ں دے سک
ت
تج ت ب ی ج -130انص طالحات می ں ب دی لی :ف
ج
می ں ے دارالحرب اور ندارالک ر سی عض اص الحات مین ں ب دی لی کے واز کو ر ی ح
ط
ا،اور ی ہ کہ ہ می ں ت ی گ ا ی ک ں یہ الزمی سے طرف
ن کی ہللا ر پ م دی یک ون کہ ان اص طالحات کو اپ ن ا ا ہ ف
قض ن ن ت
ے کہ ے،اور اس کا ا ا بہ ہ ئحکم کے سا ھ ضاحسن ا داز می ں ب ات چ ی ظت کرے کا مخ ال ی نن ف
ے ھی کہ اس یل ص ق ے می ں ب ھی۔اور س مون فمی تں ھی ہ وناور اقہ ری پ یرا ت
ب احسن ا داز ن م
ض
ل ؓ
ے کہ ا ل اب ل لحاظ امر ےن کو ب ول کر ل ی ا ھا،اس یل مض رت عمر ے ج زی ہ کا نظ ب دنی ل کر ن ح
ے ہ کہ ام اور ع وا ات۔ ہ مون اور مدلول چ یغز
ے: درست ا -131مس مان الم کی ان ب سے امان دی ن
ق ہ ن ن غ ج نل
ے،ی ہی حکم ے کو درست رار ندی ا ہ ب قسے امان ید می ں ے مسلمان الم کی جت ا ف
مس مان عورت کے ی ب
ے۔ ے ،مام ہاء کے م طابق اس کا امان دی ا درست ہ ے ت فھی ہ ل نل ن
ے: ہ ث ی حد ہ یل ع ق م کی مﷺ کری ی ب یک و کہ
"ذ َّمة المسلمين واحدة ،يس عى بها أدن اهم ،فمن أخف ر مس ل ًما ،فعليه لعن ة هللا
صرْ ف وال عدل". والمالئكة والناس أجمعين ،ال يقبل منه َ
97
ت
ت
ہ
ے ،عام لمان ھی اس کا ذمہ دار و ا ب س م ی و ہ رکہ "مس مان وں کی ذمہ داری ش ت
ہ ن ت ئ م ل
سی م لمان (کی دی و تی پ اہ کو نوڑ کر ) اسے ب دعہد کرے گا قاس پر ہللا کی ہ س ے،لہذا ج و فک ش تہ
ن س
طرف سے ،ر توں قکی طرف سے اور ف مام م لما وں کی طرف لع ت ہ و گی۔ ی امت کے
ن دن ہللا ن ہ اس کینوب ہ ب ول کرے گا ن ہ دی ہ۔"
ے: اس ہ و جا چ اقہ ی ے کا حق اس ن
ئ المی ری است کے پ ن ے کا ح س ن -132پناہ د نی
ے کو را ح رار دی ا اور اس کے دا رے می ں المی ری است کو دی قتا ئ ض می ں ے پ خاہ دی ن ن
پ
سے ی ا نھر سے و نی ا عام حا تج ت کی ئوج ہ ئ ہ
رورت کی وج ہ ش چک ھ وسعت دی ،واہ وہ پ اہ ا ہا ی ئ
نمگر ی ہ قکہ کسی برا ی کا ڈر ہ و ی ا ر کا ا دی ش ہ ہ و و پ ھر برا ی کو زا ل کر ا کسی اچ ھی وج ہ سے ہ و،
ص ص
ن ے۔ خ م لحت کو حا لفکرے پر م دم ہ
غ -133کنسی تکاج ر کا دار االسالم می ں دا ل ہ و ا:
س
ے کہ وہ ی روں تکو داراالسالم می ں
ص خمی ں ے ر ی ح دی کہ خم لم ریناست پر واج ب ہ ت
ے دا ل ہ وے کی اج ازت دے اکہ وہ اسالم کا عارف حا ل کر ای ک اص نمدت کےم یل
ئل ج ل سکی ں ن اور ماہ ر علماء و داع ی ِان( دی ن) کو سن سکی ں،پ ھر سکی ں،مسلما نوں سے
(ری است ) ا ہی ں ج اے امن می ں پ ہ چ ا دے۔
تش ے والے کے ح فق م ں ش لن
فت ن ک کی ری ح: ق ت ی امان ج ی
-134ن ت
کرے ئاور پ ھر حت کروا دے لب ف ت ن ط امان ے ی
ل کے ے کروا ح عہ ل و ج کہ دی ح ی ر می ں ے
ے و ان می ں ےقکہ می ں ے ح دال ی ہ ک
ک قی ہ ہ م ق
ئسے ہ ر ای خ اور اس کے ب عد ان ن حصوری ن می ں
ت ے۔ ت ہ ول کا ی ر کہ یسا
خ ج گا ے سے کسی کو ب ھی ت ل ہی ں تک ی ا ج ا
ن
(دوسرا ے ہ ی ں اور ق ئلگا سک کے اح رام کا ا دازہ
س اسی تسے ہ م (ای ک و ) اسالم مقی ں ون ئ ن
کے ت ل کو ج ا ز ہی ں جمفھت ا سواے ناس کے جس کا ئل
ت
ئ ے) کہ اسالم کف قسی ییق ہ نمعلوم ہ و ا ہ
ئ ش
ے وضالےتکو دی ا ج اے ں( کہ کت کا ا دہ ا فمان لی ے می ف ق درست ہ و۔ مذکورہ ہی مس ل
س
ی یخ طور پر ن
ے۔ی ہ ہ ی
ں م ل نمان ہاء کی اح ی اط کی ک ی ت وا ح و ی ہ ےم م
گا) شون ب ہاے کے معا ل
ی فق ے ری عت اس
صاف۔
ت ق ن ا کا ہ کی المی اور اس ن ہ
ش ا: کر د ی م ھ سا کے است ن ر کو
ن نی ی ے د امان - 135
ن
سوں پر
ح ک ہت لوگوں کے حاالت کی رو ی می ں اورب غ کے ے
ے زما ت می ں ے اپن ف
س ھ
اس قق کو ی ل کود جم ھ نکہ ئ ے کی وج ہ سےاور تاس قڈر سے
م
ہالت اور س پرس ی نکے ن بل جئ غ
ے۔ نکو ج ا ز شرار دی ا ہئ ے کو ری است کےقسا ھ ن یض د کرے ل ی ا ج ا تے گا ی روں کو امان ی ا پ اہ ید
ے کو ب ھی م ی د قو م ب ط کرے می ں ت رعا کو ی حرج اس معامل مام م بخ اح امور کی طرح ت ن
ے ا ت ھ ک ر ق ل ع سے الت م عا وامی اال ن ب اور ساس و عاملہ ہ ر طور اص ے، ں ہ
ہ ی ح پی م ی
م ہن ہ
ت ن تف ے۔ جس کی اپ شی ا می ت ہ
وی اس ب اب کے تب دل ج اے سے ب دل ج ا ا شاور رعی س ی است کے م ی بدان می ں ف
ے۔ئ ت ہ
ے ،رعی س ی است می ں ایساکسی ھی دوسری ی لڈ سےتزی ادہخ و ا ہ ہ
-136ج ب مسلمان دار الحرب می ں امن کے سا ھ دا ل ہ و ج اے و اس کی ذمہ
داری:
98
ئ ت خ ش ن
می ں ے زور دے کر کہا خکہ ج و کسی د من کی سرزمی ننپر امن سے دا ل ہ و خج اتے و
لوگوں پر س ی کی ج و ے کہ ان کے مال م ں ان ت ن ہ کرے ،اور م ں ے ا س ب ا غسے چ اہ ی
ے عض خ ی ت ی غی سی
کے اموال ،ون اور عزت تان ئ ے ہ ی ں اور م ر ی ممالک ی ا دوسرےن ی رم لم ممالک می ں رہ
حب سجم ت
امن ی ا ویزہاور معاہ دہ ن وارا کرےئہ وے ق کے پ یمان کو پ خ تہللا ئ ے ہ ی ں۔می ں ے کہا کہ
ن کو الل ھ
دی گ ی چ یز کی تی مت ادا کر ا اور ہ ر ہ
کے بموج ب ان کی امان ت ادا کرے وے انفپ ئر ہ ر ٹری ت
ں۔ ی ہ و اس صورت می ں
ح ی ت ہ ے ے جس سے توہ ا دہ ا ھا
خ ن اس چ یز کی اج رت ادا کرت اواج ب ہ
ہ
ے ہ ی ں کہ ک ی ا کم و گا؟ ے ج ب کہ وہ حربی ہ وں و پ ھر ج ب وہ معاہ د وں و نآپحود ا دازہ کر سک
ہ ہ
ت شت ق ے کا کم: الوہ خکسی دار می ں رہ دار االسالم کے ع ش -137ن
رات کو واج ب رار دی ا جس پر دد کشی اخج ا ا ت ےہ ج ےئ جمبور تو الچ ار ص کے یل می ں ے ای نس
ن
ے ص ےنکہ ایس ہ
ات گ کرخدی ا گ ی ا و،اس یل ش ہ و،اسے اذیضت پ ہ چ ا ی ج ا ی و ی اخاس پر عرصہ ح ی ن
ہ
ے ملک سے ے ج و اپے ت ص کے یل خ ے خن ہ کہ ا ت ی ناری ،اور می ں ے ایس ہ
ن طراری
غ کی ہ ج رت ا
سے م علشق کم کو م ت لف حصوں می ں ح
ے ا ت ی ار سے ل رہ ا ہ و اس ن
ک
کے ب ی ر اپ تکقسی جمبوری خ
کی ہ ی ں:
ے ہ ی ں) اور می ں ے چ ئار مرقطی ں ہذکرن ض ے(م ت لف درج ات بق ی ان یک سی م ک ی ا ہ
ے۔ کے پ اس ج ا ز صد کا و ا روی ہ ن
ے اس کے یل سے ب اہ ر طوی ل ی ام خ داراالسالم ن ب -1ن
ے چ وں کے دی ن کو طرے می ں ہ ڈالے۔ ن ت ے دی ن ہاور اپ -2اپپ ن
و۔ ہ ا و ہ ہ کش دست سے داری ذمہ م ہا سی ک سے رت ج ئ
اس ی
ک نٹ ئ س ن متخ ن - 3اپ ن
ے م لمان ب ھا ی وں کی یم و ی می ں ے م اسب ج گہ ن ب کرے کہ اپ -4ا ی رہ ا ش کے یل
ن ق ئ ق ے۔ رہ
رد:
ق کا والوں ے
ی ق د رار حرام کو ام ی می دا ر ا
بہ سے الم س داراالن - 138
ن ت ان کا رد ک ی ا ج و دارت االس
ے ہ ی ں یک و کہ وہ سے ب اہ ر طوی ل ن ی ت ئام کو حرام رار ید ت الم ق ت ے می فں
ص ح احادی ث سے ے ی ں ب عض یح ے ہ ی ں اور پا کے سا ھ والء (دوس ی) رار ید اسے ک ار ت
ے: است دالل کرے ہ ی ں ج یسا کہ ی ہ حدی ث ہ
المشركين ".ت
ق "إني بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر
ش
ے۔" "می ں ہ ر اس مسلمان سے ب ری ہ وں ج و م رکوں می ں ی ام کر ا ہ
ت اور ی ہ حدی ثَ " :م ْن جامع المشرك أو سكن معه فهو مثله".
خ ت ت ٹ ش
"ج و کسی م رک کے سا ھ اک ھا ہ و ی ا اس کے سا ھ سکون ت ا ت ی ار کرے و وہ اس ج یسا
ن م ق ت ئ ش ے۔"ن ہ یہ
توالء الزم ہی ں ے ہ وے کہا کہ حض ی ام سے ے والء کے ب ہ کا ج بوابب دی ت می ں ن
آ ا،اور می ں فے ان احادی ث سے ھی حث کی ن سے وہ است دالل کرے ہ ی ں ،کہ آپ ج
ﷺ کے رمان:
"أنا بري ٌء من كل مسلم".
ن می ں ہ ر مسلخمان سے ب ری ہ وں۔
ن
ے کہ می ں اس کے ون سے ب ری ہ وں یک و کہ اس ے ان حرب یوں سے مراد ی ہ ہ
99
خ خ خ ق
ت ا۔ ی ک ار چ دو سے
ئ طرے کے درم ی ان ا امت ا ت ی ار کر کے ود کو اس
حاالت ت ب دی ل ہ و ج ا ی ں،اور جس علت کے حت حکم ت بت ے کہ :ج خ ئی ہ تہ اس خکات م طلب
ب ح
ے۔ دی ا گ ی ا ہ و وہ م ہ و ج اے و وہ کم ھی م ہ و ج ا ا ہ
رہ ی ب ات اس حدی ث کی:
ت "من جامع مشر ًكا أو سكن معه فهو مثله"
خ ت ت ش
ے ی ا اس کے سا ھ سکون ت ا ت ی ار کرے و وہ اس ج و کسی م رک کے سا ھ م ی ل ج ول رکھ
لش ف ض ے۔ج یسا ہ تی ہ ت
رک) سے ل
ے اور دوسرا (حدی ث می ں مذکور بظ:جن امع ا م ئ نہ و ای ک و ی ہ حدی ث عی ف
ے۔اور می ں ے ان احادی شث کی داللت کا ب اریتک ی ی سے ج ا زہ ل ی ا اور مراد اس کا والء ہ ض
ب ی
سے حث کرنی ہ ی ں،اور ان سے مراد ت پرست م رکیع ن خ وا ح ک ی اش کہ (ا سی احادی ث) ب ش
حدگی ا ت ی ار کرے سے مراد ان کے خ یل ن سے رکوں حرقب ئی نم رک ہ ی ں ،اور ی ہ خکہ م
ے۔ ہ سے دوری ا ت ی ار کر ا ان کے ا الق ن اور غ ع ا د ،ظ ری اتن
ش ن ہ ج س م
ب ا ارہ ک ی ا اور می ں ربن می ں ل ہما وں کی مون ودگی کی ا ت می ت شکی ج ا ق ن اور می ں ے م
سے است دالل ام ں م ہ ح ک عد ب کے ہ ی مد رت ج کے وں ما س م عض) ے اس ر (ب
ن ن ب پ ن ی یی ن ت ت ف ض ل تپ
ے ۔ ( ع ی ا ا عرصہ وہ رت ج ع ر ؓ ہ ج رت کے سا وی ں سال مدی ہ ہچ ت ہح ق کہ ک ک یشا،ی ہاں
ف من ن ت ف ے) م رکی ن ن غ ی پ ی ہ ق
ر ر ذ ام ی ھ سا کے
ام پ ذینر ا راد کو ب ی ہ تکہ وہ ک ر و کرات نکے مظ اہ ر ی ک ن می ں ے م ربی نممالک می ں ین
ن
ے اورت بقڑی ہ ع
ے ا ہی ں ا المی لی مات نپر کارب د رن س ں،اور می ں ٹ ےٹ کے عادی ن ہ ب ی ن د ھئ
کے زیر سای ہ ز دگی گزارےکی ل ی ن ماعت ی
ن قج ھو چ کی وں ما س م ان م در کے ی سوسا
ت ن پ ل ش ئ ئن قی
کے سا ھ ز دگی گزاری ں۔
ے کا ح ے عس ا د،اسالمی شعا ر اور ا خی ا دارن کی،ج ہاں وہ اغپ
کم: کر ار ا ت ہر کی ممالک لم م
ئ ق ن ش ی خ ت ی
س -139نی غ
ر
ے کہ اسنسے ے کو ج ا ز نرار دی ا اس یل م
می قں ے یتر ف لم
ممالک ت کی ہری ت ا ت ی ار کر ن ن ص
ے اور دعوت دی ے،اس کی ش ے دی ن پر چ ل ے جس سے وہ اپ مومن کو وت اور ئح ظ حا فل و ان ہن
ہ
ن
ت کے ے کہن ہری ن ت ے،اس یل ں مدد دےسکت ا ہ ے (مسلمان) ب ھا ی وں کو ع پ ہ چ اے می ض اپ
اور ا خ اب ات ے ئ ووٹ ڈال ہ
اس کی ج ڑی ں اس لک می ں م ب وط وں گی اور اسے ق م
س م پ م ح حصول سے ب ن
مان س ی اسی وت ب ن ج ا ی ں گے، ل تق سے ساب
ص ح ن اسی ھر گا،اور ےل ق کا ے ں ام ی دوار ن می ن ت
ے ریری ں کری ں گے اور ان کے
س صم ی دوارنان کی ہ مدردی حا ل کرے نکے یل ش (ا خ ابی)ا
م
ے کی کو ش کری ں گے۔اور اس می ں لم ے می ںفایئ ک دوسرے سے ب ڑھ قووٹ حا ل کر
ہ فئ
ن ق ے۔ ہ دہ ا ی دہ ا ے ا لی ت کےغ یل
ہ
-140ی ر نلم لک می ں اسالم ب ول کرے والے کا داراالسالم کی طرف ج رت م س م
تف ق ق
ح
نکرے کا کم:ن
ج
ق مینں ے ہ ج رت کرے والے لوگوں کی ان ا سام کو را ح رار دی ا ج ن کی ص ی ل اب ن
ن ے کہ: دامہ ہے ب ی ان کی ہ
وری ی ا کمزوروی کی وج ہ سے کس پر واج ب ہی ں؟اور ے؟ جمب ن کس پر تواج ہ
ب ج رت ت
ے مگر واج ب ہی ں؟ ہ و حب ے مس کس کے یل
10
0 ن ن
ن اہ م ے کے ب ہت سے مارے زماے می ں اس معامل تج و ہ ئ ے اور می ں ٹ پ ن ی ہ
ا ک رد ر نان ے
داز کرے ہ وےفاس پر دار االقسالم کی طرف ہ ج رت کرے کو امور اور قب ڑی نرکاو ی ںخت ظ ر ا ت
کرے۔ن نی ں س ی کرے ہن ی ںس و دارال ق ر می ں ا الم ب ق
ول س ک ج ےم واج ب رار دی
ں ئے ب ی ان ک ی ا نکہف ہ ر وم لم پر م طل ا ہ ج رت واج ب رار دی ا دعوت اسالمی کے لاور می ف
ے۔ن ہ ی ن ا م کے دے ا طوی ل ا می عاد
دعوی: کا ے و ہ سوخ
ن م ت ی آ کی دمحم سورہ -141ن
ن ن ف ق
ے والی ی ہ می ں ے اس امر کو زی ادہ وز ی رار دی ا کہ سورہ دمحم کی احسان کرے ی ا دی ہ دی
آی ت:
ب َحتَّى إ َذا َأ ْث َخ ْنتث ُم وْ هُ ْم فَ ُش ُّدوا ْال َوثَ ا َ
ق ب الرِّ قَ ا ِ ض رْ َ "﴿فإ َذا لَقِ ْيتُ ُم الَّ ِذ ْينَ َكفَرُوْ ا فَ َ
ن ت ف فَِإ َّما َمنًّا بَ ْع ُد َوِإ َّما تفِدَا ًء﴾ "
ان کی گرد وں پر وار کرو،ی ہاں ت ک کہ روں سے ف مڈب ھی ڑ ہ و و ض ب مہاری کا ت ن "اب ج ق
ن ن م ک
کرو،اور ب وطی سے ان کے ب دھن ب ا دھ کر ف ج ب ان کی طا ت چ ل دو و ا ہی ں گر ت ار
دو۔" ٹ ت ن کر ا ہ ر کر لے ہ ی ید ا دو ھوڑ ے) احسان کر کے چ ہ رکھو،پ ھر بق عد می ں (چ ا
ے سے مہی ں حکرا ی،اس تیل ےت ت دوسری آینت ی ا آیتت قکے کسی حص ن ق ی ہ رآن ئکی کسی ب ھی
ئ می ں کو ی دوسری ا سی ص ہی ں ل ی ج و ی دیوں کے سا ھ عا ل کا کم ب ی ان کر ی م ی کہ رآن
کے۔ ے اس آی ت ن ف ہ و سوا
رہ ی ب ات سورہ ا ال کی درج ذی ل آی ت کی:
ف ق ى ي ُْث ِخنَ فِي اَألترْ ِ
ض﴾
ت
"﴿ َما َكانَن لِنَبِ ٍّي أن يَّ ُكوْ نَ لَهُ َأ ْس َرى َحتَّ
ق ن ن
ے کہ اس کو ی دی ہ ا ھ لگی ں ج ب ک کہ ول عال ہ می ں ک ر کی ق ب ی ضکو ی ہ ہی ں کر ان ہ
ت
ب نف ت دے۔" ن ب
ت پر ق رب کاری ہ لگا طا ت
ے کہ: ح
نکےق کم سے حث ہی ں کر ی ب لکہ ئس اسی ری سے حث خکر ی ہ قو ی ہ ی دیوں
ہ
ے کہ ب کہ زمی ن پر ون ریزی و ج ے کا صد صرف اسی صورت می ں ج ا ز ہ ح ی دی ب ن ا
ے ج و سورہ دمحم کیقآی ت می ں ب ی ان کتی ا تگ ی ا ہ ن
ے۔
س چ کی ہ و،اور ی ہ وہ فی ق کم ہ
ئ ق ن کا) م لمان ( ی دیوں )کے سا ف ھ ق ب ادلہ کر ا: (کا ر د وں -142ن
دی کو )رہ انکرے کو ج ا ز رار می ں ے م یسل یمان( ق ی دی کے) ب دئلے منی ں( کا ف ر ی ق
ت ت
ے سی مسلمان کو رہ ا ی دلوا ا کسی کا ر کے ل کرے سے ب ہ ر ہ ص
ے کہ ک ہ
ج ی فئ
ا،اس کی و ہ ہ دی ت
ے کہ م لمان کی حرمت ب ہت س ے اور دوسرا اس لی ہ ا تک س و ہ ل اح دہ ا سے اس و ای ک
پ ن ت نق ن ف ے۔ زی ادہ ہ
ے گا و اور ی ہ ج و ب ی ان ک ی ا گ ی ا کہ اس قکا ر کو ان کے حوالے کرے سے ج و ہ مئی ں ئصان ہچ
ن س
کرے گا ج وان سے رہ ا ی پ اے گا،ش یک وخ کہ وہ اس کا م اہب لہ وہ م لمان ظ ے کہ ن ق اس کا ج واب ی ہ ہ
س کا ازالہ اہ ری طور پر اسیتطرح کا ای ک ص کر ای ک آدمی کی طرف سے ن صان و گا ج ئ
کے سا ھ ای ک تمسلمان کو رہ ا گے،اور ضاس ق دے گا اور اس طرح وہ دو وں برابقر ہ فو ج ا ی ںن ف ن
ے گی ،و اس کو زی ادہ تکرجے اور ا نسے ہللا کی ع ب ادت کا مو ع راہ م کرے کی ی لت ب ا ی رہ
ق ق ے۔ ت ر ی ح دی ج ا قی چ اہ ی
-143ی دیوں سے لق ب ی ن اال وامی معاہ دے اور ہ مارا مو ف: ع م
10
قت 1ن ن خت ن ن ن ق ن تج
ے اور ا ہی ں ل کرے کر ی ے ،ان پرس ہچ ق ا پ آزار کو وں د کہ دی ح ی نمی ں ے قر
ق ق ی یت
ے اسالم کی ے ئی دیوں سے م عل ہ ج دی د ب یک تن اال وامی معاہ دات ی دیوں کے یل کی مما عت ج ی س
ے ہ یئں۔ ات سے م طا تب جق ر ھ طرف سے قدی گ ی ہ دای ت
ے: را حی ی ر ری م ق ل سے م ع وں
ص
ح
ن ق
ج ہ ح مع ن
ل
ت ق ی ندی ت ج -144ی
ے و رآن ے ی ح می ں ے ر ی ح دی کہ ی دیوں سے ق ب ی ادی کم و ی ہ
ے ج یسا کہ سورہ دمحم کی آی ت: ع ب ارات کے ذری عہ ب ی ان ک ی ا ہ
ق فَِإ َّما ب َحتَّى ِإ َذا َأ ْث َخ ْنتُ ُموْ هُ ْم فَ ُش ُّد ْ
واال َوثَا َ ب ال ِّرقَا ِ ضرْ َ "﴿فَِإ َذا لَقِ ْيتُ ْم الَّ ِذ ْينَ َكفَرُوْ ا فَ َ
ن ت ف َمنًّا بَ ْع ُد َوِإ َّما فِدَات ًء﴾
ہاں ت ک کہ ج ب مہاری نکا روں فسے مڈب ھی ڑ و ضو ان کی گرد وں پر وار کرو،ی ن
ہ ت اب ج ب ق
کرو،اور م ب وطی سے ان کے ب ن دھن ب ا دھ کر رکھو،پ ھر ف ار ت گر ں یہ ا و دو ل ان کی طا ت کچ
ن لے کر رہ ا کر دو۔" ت کے چق ھوڑ دو ی ا دی ہ سان کر ن ے) ا تح ق ب عد می ں (چ اہ
ے می ں ان کے سا ھ معاہ دہ طے کرے م
کے معا ل ت
ے ی دیوں ق می ں ب ی ان وا ،و رآن خ ہ
ئ ن ا: ی ک رر کا
ئ لت کے ب عد دو می ں سے کسی ای ک ص
ت
ض
ے ا ہی ںضرہ ا کر دی ا ج اے ،اس ای ک ی ہ کہ ان پر احسان نکرے ہ وئےہللائکی رث ا کے یل
کی ر ا کی طلب،اور ان اور ہللا ن واب ت نے سواے ن کے عوض می ں ان سے چک ھ ہ ٹل ی ا ج ا
ے سا ھ مسلما وں کے حسن سلوک کا کے دلوں می ں اسالم کی حمب ت ب ھاے کے کہ وہ وہ پا ش
ن ئ ن ف م اہ دہ کری ں۔
کے عوض ا ہی ں چ ھوڑ دی ا ج اے ج یسا کہ ب ی دوسرا ی ہ کہ ان قسے دی ہ فلےقکر مال ت اور ن
ق ت نی ا ھا۔ نیوں فکا دی ہ ب ول کر ل ق اکرمﷺ ے ب در کے ی د
زمرے می ں ن ہ آف ا ئہ و ۔مث ال ی دصیوں کو سان کرشے اور دی ہ ب ول کرے کے ف اور تی ہ کہ ج و اح ت نن غ
ڑے ا دےو لحت ت
م ل ع ن
ے جس کا ی صلہ بض ت ہ سے است
ت ی س رعی ق
ح کا اس و
کے پ یش ظ ر ن
ا الم ب ا
ے ج تس سے لوگوں کی رور ی ں پوری ہ و ی ہ ی ں
ق مران) کر ا ہ احب کم ( نح قک ن ث صف
ے۔ ئ ق ات کا ازالہ ہ و ا ہ ن یقا رات و صا ن اور ان پر سے م
ےشکہ ی ہ عام لوگ ن اور می ں ے ی دیوں می ں سے ج گی مج رموں کا ت ل ج ا ز رار دیخا اس لی
وں کی ئس ی اہ الف د من ی ف کے ن ق ہ س ے لوگ ہ ی ں ج ن کی اس
الم اورہ ا ل ا الم ن ن س
ت ہی ں ہ ی ں ،تب تلکہ ی ہ قایس
ے ان ا اب ل معا ی ج را م پن ا کو ان ن اور گا و اء
ٹ تث ئ ا کا ان سے ں ے۔ و مام ی دی ی
م وں اری خ ہ
ے۔ سزا کا سزاوار ھہراتی ا ج ا تے گا ج قو ا ہوں ے یک نمی ں ق اور مظ الم کے ب دلے
ت -145قاس زماے می ں ی دیوں کے سا ھ بقر او کا طریغ ہ:
ے سے م علق آج کی دات ،امن و ج ن گ اور ی دشینوں و ی رہ کےنمعامت جل ن ب ی ن اال وامی تمعاہ پ ن
دی کہ ان ب ی ن ے ان کی رومسی نمی ں می ںسے ر ی ف ح ش د یق ا ج ن معاہ دات ک ت ہ چ چ کی ہ
ےے جس دوں کے ناح رام می ں ہ ی آج کے لما وں اور ا الم کا م اد پو ی دہ ہ م اال وامی قمعاہ
ت ے۔ ہ ک
ارب اب ا ت دار کو لحوظ ر ھ ا چ ا ی
ن ت ع ج خ
عدل و احسان اور ک نمزوروں کے سا ھ رحم و رمی دات ن کا ض ق ن ل تاص تطورجپیر وہ نمعاہن ق
ے ،یک و کہ اسالم ان سے زی ادہ ان سی ا سا ی ا دار کو م ب وط کرے سے ہ قکے سا ھ بر او ت
ف ن ہت ف ے۔ اسداری نکر ہ
ا ن ا دار کی پ
کے م اد می ں ی ن ہت الم س ا امتن ی
س ہ ے ی ہ ں م اد م کے ق دعوت المی س ا ہ ا کر ایسا اور
کہ ہ م مسلمان ی ہ اعالن کر دی ں کہ ہ م ی دیوں کے معاہ دات لی م ہی ں کرے یک و کہ ی ہ ہ می ں
10
ن ن ق
2 ہ خ ت ت ق د وں ق
ئ گوی اون قب ہاے کے پ ی اسے ہ ی ں اور ے،گوی ا کہ م ف کے نلہ کی ا فج ازت ہی ں دنی قی ی
ے حاال کہ ہ ماری اسالمی ہ می ں دو می ں سے ای ک راے کو ت
خی دیوں نکو تل کر ا م پر رض ہ
ج یت خ ت ح ے: ئا ت ی ار قکر ا ہ و ا ہ
ے ن می ں سے ا تی ک نرا بے صاحب کم کو چ ار ب ا وں می ں سے ای ک کا ا ت ی ار د ی ہ
ف ق ن ت ن ے۔ئ ق ای ک ل کر ا ھی ہ
ص ظ ت
کے ے ن ری ی ل اور رآن کے اہ ض ے ض سے م ع کر ی ہ ئے ل کرے ض اور دوسری را
ع ش
ے،ی ہ راے صحاب ہ می ں سے ح رت اب ن عمر و ح رت اب ن عغ ب اس ر ی ہللا ہم م طابق ہ ت
ے،ی ہی وہ ہ کی رہ ی و ی ب
ع اور ن ر س ن
ج قع بت ی ی ا طاء، صری، ب سن ح سے
ے ،اور ی ی ت
ں م ن
ق ع ب ا کیئہ
ے ہ ی ں۔ ہ
ے م ب ول کرے ہ ی ںق اور را حنرار دی س
ے جس راے ہ
واز: ج کا ے کر ول ری اس ے ی کے مان م
خ ت ن ن ق ن ب
ل یس ج ج 146ن ل ت -
ے کا ا ت ی ار ب اسی ری ب ولق کرے ی ا مس رد کر ت دی کہ م تلمان جگو کو ج ئ ئں تے ر ی ح ن می
مت س ب
ے)ی ہا تو عزی ن دی اخج اے ( و وہ ان ئدو وں صور وں می ںف سے کو ی ھی اینک بئول کر کت ا ہ
ے ذمہ ہمیتں ہ ج اے،یخ ا پ ھر اگر ا عم ی ل
ڈا ار ھ سے ئ ت ے اور کان ر کے کو ا ت ی ارنکرے اور لڑا ی ج اری رکھ
صت پر ل پ یرا ہ و اور ے و ھ ی ار ڈال ئکر ر ق ت کے یل ب
ے ہ ری ظ ر آ ت ےق اور امت ئ ے یل می فں اپ
ے ،اس ام ی د ئکے سا ھ کہ ہللا اسے کو ی اور مو ع دے گا ۔ ا
یس ی چ ج ق ال ں م د کی روں کا
ن
مان اور ذمی ی دیوں کو قرہ ا ی دی ا: م
ت
م
ف ن
س -147ن ل ت ج
ے اور ے حب ہ س ہ
میممں ے ر ی ح دی کہ لمانف ی دیوںف کو ر ا کروا ا عام ا راد کے یل م
ے ج و امت پر جمموعی طور پر امور می ں سے ہت ے،ینہ ان خرض ک ای ہ ف تر واج ب ہ فسرب راہ ف لکت پ
غ ہ
ے ہ ی ں اور حکمرا قوں پر اص طور پرترض عی ن وے ہ ی قں۔ رض ک ای ہ ہ و ق
س م
ے ہ ی ں و ینذمی ی دشیوں ن(ی ا ی ر لم ہ ہ س ش اور ج و (ح وق) م
ب ت لمان ی دیوں پر الگو و ق
ے کی کوتش کر ا ھی اسی چ
ے ان کے ی دیئوں کو ھڑا ش ۔اس یل ق وں )پر ب ھی الگو ہ وے ہ ی ں ہری ض
ے ے کو ش کرے ہ ی ں،اس لی ے جس طرح ہ م م لمان ی دیوں کی فرہ ا ی کے لی
ئ س روری طرح
ں۔ ذمہ ہ ی ف ہحق وق ہ ینں ج و ہ مارےغہ ی ں ،اور وہ ی را ض ہ ی ں ج و ہ مارے خ ی کہ ان کے وہ
-148ہ مارے زماے می ت قں مال ن یئ مت کا حکم ،اور ی ہ کہ ک ی ا اس کے چ ار مس وج کے
شخ تق غ ے ج ا ینں گے؟: ن تس پ جاہ ی وں می ں سی م یک
مال ن ی مت کی سی م ہ ر ئص ن
ف ئ
ے می ں ج گ کے می ں ے ر ی حئدین کہ ہ خمارے زما ئ
نمال اور حاصل ش دہ نوا د کے م طابق فکی ج اے ے ےگ کی طرف نسے کی گ ی حم ت ،رچ یک
ج ن
ے ،یک و کہ و فوں اور کے حاالت اب نہی ں رہ شگی،اور عہد ب وی اور اس خکے ب عد کےضزماے ت
وزارتتد اع و ست ب دو اک ن ج ے رورت ہ و ہ
ی ات کی ل کروں کو ب ت ب
پن ت ب خ ھاری ھرکم ا راج ق
ے ے۔ بسا او ات ان تا راج ات کی چما یلین ت ارب وں ک ہ چ ج ا ی ہ عسخکری امور کر ی ہ
کے امن اور ب االدس ی کو ب اہ ر سے ل ج درپ یش ہ و۔ است ن ب ال صوص ج ب کہ ری ن ق
اگر ہ م اس ص رآ ی:
َّس وْ ِل َولِ ِذي ْالقُ رْ بى "﴿ َوا ْعلَ ُم وا َأنَّ َم ا َغنِ ْمتُ ْم ِم ْن َش ْي ٍء فَ َأ َّن هلِل ِ ُخ ُم َس هُ َولِلر ُ
ن ص ت َو ْاليَتَا َمى َو ْال َم َسا ِكي ِْن َواب ِْن ال َّسبِيغ ِْل﴾ ت
اور ج ان رکھو کہ ج و ب ھی مال ن ی مت م کو حا ل ہ و و اس کا پ ا چ واں حصہ ہللا اور رسول
10
3 ف ف ن ش
ے(م ادات عامہ اور ہ کا روں ضاور ان کے ر ت ہ داروں،اور ی ت ی وں اور مسکی وں اور مسا
غ ے)۔ ن
ن
ص ب ف ئ ے نہ رورتغم د رعای ا تکے یل
گا کہ اب خ ا راد چک ھ ھی مال نت ی مت حا ل ہی ں ے ف ہ
ت پرصور کرینں و می ں ظ رش آ ن
ے کے سا ھ جمموعی طور پر مال وں می ں پورا ل کر اپ ی وج اور م ت لف اسلح غکرے ،یح حصمع ت
غ خ ئ ے۔ ن ی مت فحا تل کر ا ہ
مال ن ی متنکا امر می ں تخ ری ے،آ یس ی ہعہ ت ذر ک ا سے ں
ی ف م ع ذرا کے ت است اور وج و ری
ے،ا ی پ م ج ہ ہ
ے،اس پر شرچ کر ی ہ
ئ ےت و کہ وج شکو لح کر ی ہ ت ح تصول ری است کو ق ی و ا ہ
ے ،و ہ ی د و قج اے اس ہ ج ہ
اس کی ت پر مو ود و ی ہخج پ دس ی باب پوری ن طا ت کے سا ھ ت
کے وں اور خ
ے اور ان می ں سے جتو ز م کھا کر اس درمعذور ہ و ہ ی کی دی کھئ ب ھال کر ت دان ا ن ئچ
ی ض س ن
ے۔ ت ت ن ہئ ے اسے معاو ہ د ن ی ق کے سا ھ کو شی روزگار ہ چ ال ک ج اے کہ آسا ی ن
ے ج ہی ں ت اورخ رض اکاروںتکی ب ی اد پر ا م ہ وے ھ ے عہد ب وی می ں لت تکر نرض اکاری اور پہل
ھ ج ک
ے ے و خے ی انب و ل ،ب لکہ وہ ج ہاد خکے ت یل شہ ل
ےخب الی ا نج ا ا و ل پڑے ،تواہ ہ ک ج بقب ھی تج ہاد ت ت
کے یل
ے واہ ا ہی ں ہ ھی ب الی ا ج ا ا،اور ہ ر ص اپ ی ب ساط کے م طابق ود کو ی ار ب ن ے ھ ہ مہ وت ت ی ار رہ
ئ ت
ت ت جن ت رکھت ا ھا۔
ے کو ج نی جع ب کی ب ات ن اس طرح ن مام مالی و شعسکری ب وج ھغ جگووں پر ہصی ہ و ا ھا اسن یل
ے کہ ج گ می ں ل کر ج و مال ن ین مت حا ل خکرے وہ ا ہی ں جگووں کا حصہ ہ و ئ ت
ہ ہی ں
ے،جس کے مصارف کی ے کے ،و کہ نپف ا چ واں تحصہ ( مس)ہ ج ھوڑے غسے حص ے ن سوا ق ت
سورہ ا ال می قں کی۔ ت کے ب عد غ ی ی ن رآن ع
ش نف ع ے زوہ ب در ن ض
ت
ئا ال کی گز ہ آی ت مت کیت سی م سے م ل تق سورہ ی ت
ع ہ ل ج ت خ غاور ج خب ح رت عمر ؓے فمال ن ن
کے موم کی ے و تے اسن ہاد سے کام ی ےا ں ور و وض ک ی ا اور اس کی ئسی ر می ں اپ می
ں ج ب کہ م ے زما اس و ا، د کر حدود ک کے عالوہ ت داد ا اور ن م ز سے ا اور کی ص ی ص
ی ق ی م ئ ج ی ی
ے کہ ہ م رآن ے ہ ی ں ہ می نں ی ہ حق حاصل ہت دل
خ ب گ ہت ب سے
غ ےل ہ
ت عسکری نو مالی حاالت پ
ف کری ں ی ا ن کہ اس می ں حری ق ئ ے ہی ں پ کری
پ م تکی ص پر اپی ک مر ب ہ ھر ور و وض ہکری ں،اس یل ن
ے زماے می ں یش آمدہ ح ا ق کے ے جکہ م اس کو اپ مروڑ کر یشش کری ں ب لکہ اس یل ن وڑ
اسے س
ق ت ے ہ یغ ں۔ ہ ن مج
ت ق ش کری ں جسس می ں تم ی رہ ے کی کو م طا ق ھ
نم ھی ں و ہ می ں قمال نئی مت نکی ن سی م سے م علق دی م حکمت کو ب اگر ہنم ص کو اچ ھی طرح ج
ت
ے اج ہاد کرے شسے ہ می ں نطعا کونی امر ما ع تہی ں ہ و گا ج یسا کہ ہ م روایت ی کے تی
ل س تف ب دی ل کرے
ے زماے کے اع ب ار سے ب الکل درست ھا ح جم
ش ے ہ ی ں ۔ اور ب ال ن ب ہ ی ہ کم اپ لہم کی وج ہ سے نھ
ے ی ہ ار اد ب اری مارے زماے می ں درست ہی ں رہ ا۔ اور اس ب ارے می ں ہ مارے یل ت ی کن ہ ف
ے: عالی ہ ی کا ی ہ
ال قُ ِل األ ْنفَا ُل هللِ َوال َّرسُوْ ِل﴾ " "﴿يَ ْسَألُونَكَ َع ِن اَأل ْنفَغ ِ
ت چ
ں(رمض ان ۲ھ می ں ج ن گ ےہی غ مت کے ب ارے می ں پو ھ مال ن ی ت "لوگ آپ سے
ٹ
ے کہ اموال ن ی مت ہللا اور رسول کے ے)آپ کہہ دی ج ی ے ھ سواالت ا ھ رہت ب در کے ب عدف ی ہ ن
ے)۔" ہ ی ں (اصال ی صلہ ا ہی ں کے ہ ا ھ می ں ہ
10
4 ئ لق ن
نسے ھی مالحظ ہ ک ی ا ج اے۔()991-2/989 ب اس ب اب ت ج و امام اب ن ا ی مت ے کہا ا
ح دار االسالم می ں کلیسا عمی ر کر ت
ئ ے کا کم :ئ ق ک -149ن
ے ماسواے ج زیرۃ العرب نکی عمی ر کو تجشا ز رار دی ا ہ ف
ل
ےدی ار ا الم می ں یساوں س مں
ے کہ کلیسا کی ے)کے،اس لی کی ح ی ر کی اس ے عی ا (ی نی ی از ق دس،ج یسا کہ امام ش
ئ ہ ن ت ع حج ن ن م
عمی ر سے م ع کرے والی احادی ث یح ح ہی ں سواے اس حدی ث کے(" :ال يترك ص
ض
دسواں ب اب :ج ہاد اور ئامت کے عصر حا ر
کے مسا ل
ئ ض
(دسواں ب شاب :ج ہاد اور امت کے عصر حا ر کے مسا ل)
ن ناص طالح: -185ن ارھاب (دہ ت گردی) ( )137كى
غ
س فق
ے والی اس آ در
ن ں یم ت ل المی ا ماری ہ ے ں یم) ں یم ہاد ضل
ج ا ہ (ز ر ظ ر کت قاب
ے ج و کہ ظ
ف
ل ی رآ
ق
ں م ل ن ئشی اص طیالح کی ح یق ت وا ح کی اور ب ان ک ا کہ ل ف ظ ارھاب اص
ہ ئ ح ی ت ی ی ق ے کی خ ن
وارد ہ وا ں
ی ی ن مئ اق س کے کم ے) ے
لخ ین گ د ( ےی کے اری
ن ین کی ت ت ن طا اطر ن من کو ڈرا د ت
ن ڑھا ی کرے کا چ ہ
ے اکہ وہ لما وں ئ(کو ر والہ ب اے )ئ کی وا ش ہ کری ں اور ان پر س م خہ
ے اور اسے ہ مارے زماے می ں مسلح امن ج ہ ز ا اب ه ار ہ ی ں۔ ی ال ہ ن ں) یم دل ال( ی ت
ن ش ۔ ے ہ ا کہا ج ا
مراد( لوگوں کو) غڈرا تا ،ان می تں سے الح ط ص ا کی گردی) ت ہ(د ارھاب آج کہ ج
ت ن ن ن ش ب خ
ے ،اہ م اص طالح ی رم ن ازع ہ و ی ہ ا کر حروم م سے امن ں یہ ا اور ا ال ی ھ پ وف دہ ت اور
()138
ے۔ ہ
ئ
-ق دہشتگردی کے لیے عربی زبان میں ارھاب کا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن ج ا ز 137
ے اور جائز وسائل اختیار کرتے ہوئے دشمن کو ڈرانے کے لیے م صد کے حصول کے لی
بھی اہل زبان یہی لفظ بولتے ہیں اسی لیے مصنف کو جائز ارھاب اور ناج ائز ارھ اب
کی تقس یم کرن ا پ ڑی۔ اس کے مق ابلے میں اردو میں اس تعمال ہ ونے واال لف ظ
دہشتگردی صرف ناجائز کارروائیوں کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے اور ک وئی بھی
دہشتگردی جائز نہیں ہوتی ،اسی وجہ سے ہم ترجمہ میں جائز اور ناجائز ارھاب کی
اصطالح ہی استعمال کریں گے تاہم مزی د وض احت کے ل یے غیرش رعی ارھ اب کے
ساتھ بریکٹ میں دہشتگردی کا لفظ بھی لکھ دیں گے تاکہ ق ارئین ک و س مجھنے میں
آسانی ہو۔
138
-یہ مشہور عربی قاعدے (المشاحة في االصطالح) کا ترجمہ ہے،اس کے مفہوم
12
ق
0 ت س
تف ن اور مرا ب: ارھاب کی می ں ق -186ن
ج
ش می ں ے ارھاب کی ات سام می ں سے پ ا چ کا ذکر ک ی ا ن می خں سے چک ھ ت ب اال اق
ے۔ گردی کے زمرے می ں آ ی ) ہ ی ں اور چک ھ (کے ب ارے) می ں ا ت الف پ ای ا ج ا ا ہ (دہ ت ق
اور وہ ( سمشی ں ی ہ ہ ی شں):
ش ت ن ش ش ش
:۱ہری تدہ ت گردی :ہری دہ ت
ہری اور معا ر ی ز دگی کے گردی ج وکہ لوگوں خکی ن ن ق خ ث
ں۔ ہ
ن ی الف ت ا کا سی ک ں م ے
ق ض نی قی د رار رم ج کو اس ے، ہ ی و ہ شت اب ے طرہ یل
ن ت ت ہ ج
ے ہا ھ گردی :زمی ن پرن ب ہ ج ماے ،وموں کو زیر کرے اور ان کی ب اگ ڈور اپ ش :۲سامرا ی د
ق ق ش ۔ ا کر گردی ت م ں رکھ کر سامراج ی دہ
ف ن ن ن ش ت ی
ے د م وں کا لع مع کرے قاور ان کا تص ای ا :۳نری اس ی ارھاب (دہ ش ت گردی) :ری است کا پا
خ ن
ے نہریوں ی ا ان می ں سے کسی گروہ کے الف مادی طا ت کا اس عمال کرے کی ستعیخ می ں اپ
ش ق وف پ ھ ی ال ا۔ کر کے ری ا قس ی ش
ہ ہ س ن ج ت ہ ت ہ
ے اور :۴ب ی ن اال وامی د ت گردی :ی ن اال وامی د گردی وکہ پوری د ی ا کی طح پر و ر ی ہ ب
ش ق ئ ے۔ خ س کا مر کب ہ و ترہ ا ہ آج امری کہ ج ش
۵ن :س ی اسی دہ گردی :کوم وں کے الف محاذ آرا ی (کے مو ع )پر س ی اسی د گردی
ت ہ ح ت
ق خ کر ا۔
شن ت ت ق ن
ے۔ سامش اور م ت لف مراح ب کی ہ ر سم پر رو ی ڈالی ہ ہ
می ں ے تان م عدد ا
ق ت
-187ری اس ی ارھاب(د گردی) کا کم ن
ن ق ے ب ان ک ا کہ ارھاب کی اس سم کا ح
سے بلئ ت ے د کے کار ہ یطر اور دف کے
ن ہ اس کم ت می ں ت ی ی ن ن
ق بک
ہ ج
ن ہ دف اور طری ہ کار،دو قوں کے واز کی وج ہ ت شسے ج ا ز خو ا ے۔ش چ ا چ ہ ھی و ی ہ ب دل ج ا اہ
اور ا تس ہادی ( ود مزاحمت
ن ومی کا ی ہا ق ل سپ ے ی کے ے کر ا پ
ب سپ کو من د ے،ج یسا ن
کہ ہ
ہ ئ ج ک حم
ے،ج یسا کہ ہ ا و ز ا ج ا سے ہ ج و کی واز عدم کے کار ہ ی طر اور دف ہ ھی ا۔اور کر شےل ) ن کش
ص یہ و ی دہ ت گردی۔
لیکن اگر ہدف جائز ہو اور طریقہ کار ناجائز تو یہ بھی ناجائز ارھ اب کی
قسم سے ہو گا۔اس لیے کہ اسالم اس ضابطے کا قائل نہیں ہے کہہ :ج ائز ہ دف
ط ریقہ ک ار ک و بھی ج ائز ک ر دیت ا ہے۔ اور نہ ہی وہ کس ی اچھے مقص د ت ک
ناجائز ط ریقے س ے رس ائی ک و قب ول کرت ا ہے ،جیس ا کہ جہ ازوں ک و س وار
شہریوں سمیت اغوا کر کے ان کے ذریعہ اپنے فریق مخ الف ک و دھمکی دین ا۔
کی تعیین میں کافی اختالف پایا جا تا ہے یہاں تک کہ ایک عرب سکالر ڈاکٹر محمد
بن حسین الجیزانی کو اس قاعدے کا معنی متعین کرنے کے لیے ایک تحقیقی مقالہ
لکھنا پڑا جو کہ "المشاحة في االصطالح :دراسة أصولیة تطبیقیة" کے عنوان سے
مجلة األصول والنوازل کی جلد -۱شمارہ ۲۔ رجب ۱۴۳۰ھ– جوالئی ۲۰۰۹ء میں
شائع ہوا۔ہم نے اس مقالے سے استفادہ کرتے ہوئے المشاحة کا ترجمہ غیر متنازع
سے کیا ہے۔ دیکھیے/http://www.alukah.net/sharia/0/25041 :
12
1
اور اس ی ط رح یرغم الیوں ک و اغ وا ک ر کے قی د ک ر لین ا اور ان کے قت ل کی
دھمکی دینا۔اسی طرح سیاحوں کو قتل کرنا بھی ہے ،یہ تمام امور غ یر ش رعی
ارھاب (یعنی دہشتگردی کے زمرے میں آتے) ہیں۔
شرعی حیثیت: -188نخود کش حملوں کی
ن ص ن ق ض ق ئ من ش
می فں ے ب ہتخ سی رعی اور ح ا ق پر ت جی و وہ ات کی ب ا پر یہ و ی بے کی مزاحمت
ج ب
ودکش حملوں کے ج واز شکو ر ی ح دی،قج ن می ں سے چ ن دج ین ہ ہ ی ں: ن ے لس طئی ن میغں کے یل
ق س ی
ں،اور ج بس ن :۱اسرا لی اصب لف ظپرست معا رے کا ی نام،کہسوہ ن حربی ت جگو ہ ی ن ئ
ے ے گ اہ م لما غوں کو ل کر ا ج ات ز ہ ےب ےانیس کے یل ماعت کی ح ا ت ت جمن لما وں کیتب ڑی ج ت
س
وں کی سرزمی ن کو اصب وں کے ہ ا ھ سے ے) و لما ئ
م نزبردس ی(اسلحہ ن ھما دی ا تگ ی ا ہ ن
ق ہی ں
ہ س چ ھڑاے کے ف یلق
ت ے۔ اولی ج ائ ز ہ ے م لما وں کا ل و ا ب درجقہ ن
ئں) سے :۲اس ہی اصول ث( جمبوری تکے و تت اج اش زنامور م ب ناح ہ نو جئاے ہ ی
ے۔ ا کہ د م وں کو گز د پ ہ چ ا ی ج اے ب ھی ان حملوں کا ج واز اب ت ہٹو ا ہئ
ش ے۔ دلوں پر رعب ب ھای ا ج ا ف ن خ اور ان کے
ےش ن می ں تاس ج ہات کو رد ک ی ا ہ ودکش لوں کے مخ ا ی ن کے ان ل حم
ب ف عم :۳مخی ںشے ن
ہری،عور ی ں
ن
ش
ع
دعوی ک ی ا گ ی اتاور ی ہ کہا گ ی ا کہ اس سے موما وہ عام
ل کے ودکت ی ہ وے نکا ن ل
ن ب نش
ے پری ا ی اور ن ی وں کے لی ی سط ے ،اور ی ہ کہ ی ہ حمل
ے کر ں ہ گ و ج
ن یت ج ں ہ ے ب ہ نا ے قاور چ
ش ی
ن
ف ج ب
ں۔ط ن ئ س ل
ےہی ات دی ے ہ ی ں،می ں ے ان ب ہات کے واب ن
حم نن خ صان کا سب ب
ان لوں کی اج ازت می ں ے صرف ی ی ب ھا ی وں کو ئان خ :۴می ں ے ب ردار ک ی ا کہ ن
ن
سوا کو ی
ے ن کی ب ا پر ان کے پ اس ان کے ن
ب
ج کے پ فیش ظ ر دی ہ نکے م نصوص حاالت ن
پ اہ گاہ ہی ں۔ می ں ے لس طی ن کے ع ئالوہ کضہی ں نھی ان ئحملوںت کی اج ازت ہی ں
ن
کے وج وب ی ا ج واز کی کو ی رورت ق ہقی ں پ ا ی ج ا ی۔ ن دی ،یک و کہ کہی ں اور ان
حق ق -189ہنمارے اور ص یہ و ی وں کے درم ی ان معرکے کی ح ی ت:
ن می ں ے ہ مارے اور ی ہودی ن ق
ت اس کی ی ئ وں کے درضم ی ان ج گ کے اس ب اب اور ش
احت نکی جس میتں دیچیپگی اور کوک پ اے ن
ش ے کی و ے اہ م ط ت حوالے سے ای ک ای ئس کے
ین
سامی ہ ی ں ی ا ہودی ک ہ
ے کہ وہ ئ ے د قم ی شہی ں ر ھ ج اے ہ ی ں اور ی ہ کہ م اسرا ی ل سے اس یل
ے کہ ی ہودی اقہ ل کت اب ہ ی ں اور وہ ع ی دہ و ری عت می ں عیسا ی وں کی ب ہ سب ت ں۔اس یل ہی
ق ی ہ
ن ح ق ن ت می کے زی ادہ ری ب ہ ی ں۔ ملت ابرا ن
ے کہ ا ہوں ی
ن می ں ے ب ی انق ک ی ا کہ ہ ماری ی ہود کے سا ھ ج گ کا ی سب ن
ب یہ ہ خ
ے،دھو س اور ون ریزی مارے اہ ل خ ان ہ کو دھت کارا،اور اسلح ض
ے ہ ماریتزمی نخ پر بہ ہ ک ی ا،ہ ت
ن ق کےب ل ب وے پر نود کو ئم پر زبردس ی مسلط ک ی تا ۔ ف
-190نسورہت ب ج ی اسرا ی ل می ں مذکور دو مر ب ہ ساد کا و وع پ ذیر ہ و ا:
می ں ے ر ی ح دی کہ ان آی ات کری مہ:
12
2
ض َم َّرتَي ِْن َولَتَ ْعلُ َّن ُعلُ ًّوا ب لَتُ ْف ِس د َُّن فِ ْي اَأْلرْ ِ ض ْينَا إلَى بَنِ ْي ِإ ْس َراِئ ْي َل فِ ْي ْال ِكتَ ا ِ "﴿وقَ َ
اس وا ِخاَل َل س َش ِد ْي ٍد فَ َج ُ َكبِ ْيرًا Oفَِإ َذا َجا َء َو ْع ُد ُأوالهُ َما بَ َع ْثنَا َعلَ ْي ُك ْم ِعبَادًا لَّنَا ُأولِ ْي بَْأ ٍ
ال َّوبَنِ ْينَار َو َك انَ َو ْع دًا َّم ْف ُع وْ اًل Oثُ َّم َر َد ْدنَ ا لَ ُك ُم ْال َك َّرةَ َعلَ ْي ِه ْم َوَأ ْم َد ْدنَا ُك ْم بِ َأ ْم َو ٍ
ال ِّديَ ِ
َو َج َع ْلنَا ُك ْم َأ ْكثَ َر نَفِ ْيرًا ِ Oإ ْن َأحْ َس ْنتُ ْم َأحْ َس ْنتُ ْم َأِل ْنفُ ِس ُك ْم َوِإ ْن َأ َس ْأتُ ْم فَلَهَ ا فَ ِإ َذا َج ا َء َو ْع ُد
ْاآل ِخ َر ِة لِيَسُوْ ُؤوا ُوجُوهَ ُك ْم َولِيَ ْد ُخلُوا ْال َم ْس ِج َد َك َم ا َدخَ لُ وْ هُ َأ َّو َل َم َّر ٍة َّولِيُتَبِّرُوْ ا َم ا َعلَ وْ