You are on page 1of 131

‫‪1‬‬

‫ے؟‬ ‫ہ‬ ‫ج ہاد ک ی ا‬


‫خت‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫ق‬ ‫ٹ‬
‫ڈاک ر یوسف ال رض اوی کی کت اب ہ ا جلہاد کے ا م‬
‫ے‬
‫ع‬ ‫ت کان‬
‫کےقجقدی د ت ظ ری ات کے م طابق لمی‬ ‫مہ‬ ‫علوم ت رج‬
‫ح‬
‫ی ی رج مہ‬
‫تق‬ ‫ت‬
‫رج مہ و ح یشق‬
‫عاطف ہ ا می‬
‫ف‬
‫ادارہ کر ج دی تد ج۔ الہ ور‬
‫عرض م ر م‬
‫ف ع ت‬
‫‪ )Translation‬کے طالب علم کے حی ث ی ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫‪Studies‬‬
‫ت‬ ‫(‬ ‫مہ‬ ‫ج‬
‫ایتم ق قل قلوم لک ن‬
‫ر‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫س‬
‫ے شکا مرحلہ آی ا و ا المی ظ ری ا ی ضکو ل کے سابق چ ی رمی ن جش اب‬ ‫سےخج ب ح ی ی م الہن ھ‬ ‫ٹ‬
‫حاالتضکے پ ی ش ظ ر ت ی خ‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫عرو‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ک‬‫ا‬ ‫پ‬ ‫کہ‬
‫ق‬ ‫ف‬ ‫ا‬ ‫ی‬‫د‬ ‫ورہ‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ڈاک ر الد مقسضعود صاحب‬
‫ے اکہ‬ ‫ہاد کے اردو رج مہ کی ا د رورت ہ‬ ‫وسف ائل قر اوی ن تکیپبل ن د پ ای ہ کت اب ہ ا نجل ن‬ ‫ی‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫س‬
‫ب ڑھت ی ہ و ی مذہ بنی ا ہا س دی کے آگے ب د ب ا دھا ج ا ک‬
‫ے کا رج مہ کر ا ہ ی‬ ‫ے می شں کت اب کے صرف ای ک حص‬ ‫ے عرض کی ا کہ اس مرحل‬ ‫ترا م ف ق‬
‫ےگا؟ جس نکے‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫موزوں‬ ‫ہاد"‬ ‫ج‬ ‫اور‬ ‫ی‬ ‫گرد‬ ‫ت‬ ‫دسواں اب "دہ‬
‫ئ‬ ‫ب‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫کا‬ ‫ہاد‬‫ے و کیٹا جل‬
‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ممکن‬
‫ے کا رج ن مہ شکر ا ہ ی‬‫ں ڈاک تر صاحب ے رمای ا کہ اب ت دا ی طور پخر اگر صرف ای ک ح‬
‫ئص‬ ‫جممواب می ت‬
‫اب کے ا ت ت امی ہ سے کخی ج اے‪ ،‬کی و کہ ی خ‬ ‫اس کی اب ت دا کت ت‬ ‫ے کہ خ‬ ‫ن ہ رہ‬ ‫ب‬ ‫ےو‬ ‫ق کن ہ‬
‫ے اس‬ ‫الصہ پ ی ش کرقدی ان‬
‫ہ‬ ‫احث کا ج امع ئ‬ ‫ے می ں ضمام م ب ت‬ ‫رض قاوی ے کت ابنکے آ ری حص‬
‫ے پوری کت اب کے م امی ن کی لخ ی ص آ ج اے گی۔ را م ے اس‬ ‫طرح اری کے سام‬
‫‪2‬‬
‫ض‬ ‫ش‬ ‫غ‬ ‫ت‬ ‫خ‬ ‫ش‬ ‫ق‬
‫ی‬‫ے کا آ از کر دی ا اور کو ش کی کہ رور ٹ ف‬ ‫کے عی ن م تطابق "ا ت ت امی ہ" کے رج تم‬‫ورے ف‬ ‫حواش نی ت ض‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ت‬
‫م‬ ‫ی‬
‫کالر ج ون سی کی رڈ‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫کام متی ں علوم رج نمہ کے معروف‬ ‫ے کے سا ھ اس ئ‬ ‫کے ا ا ت‬
‫والوں کے لی ے رج مہ می ں کسی‬ ‫ے خ‬ ‫قکے ظ ری ہ حول قکی نطب ی ق ب ھی کہ ج اے تاکہ جاردو پڑھ‬
‫ے۔‬ ‫م‬
‫طرح ی ہ رت مہ درج ذی ل صوصی ات کا حا ل ت‬ ‫ے۔ اس ن‬
‫ہق ق‬ ‫سم کی پ ی چ ی دگی ب ا ی ہ رہ ت‬
‫‪ -1‬تعلوم رج مہ کے ظ ری ہ حول کے م طابق اردو زب ان می ں پ ہال ح ی ی‬
‫رج مہ۔‬
‫‪ -2‬اصل کت اب دو حص وں پ ر مش تمل ہے لیکن اختت امیہ میں‬
‫کہیں بھی ایسی وضاحت نہیں ہے‪ ،‬ہم نے اصل ک و م دنظر‬
‫رکھتے ہوئے اس ترجمے کو بھی دو حص وں میں تقس یم‬
‫کر دیا ہے ۔‬
‫‪ -3‬اختتامیے میں مصنف نے اس طرح ابواب بندی اور فصول‬
‫ک ا اہتم ام نہیں کی ا جیس ا کہ اص ل کت اب میں ہے‪،‬ہم نے‬
‫قارئین کی آسانی کے لیے ت رجمہ میں ہ ر ب اب س ے پہلے‬
‫ہے۔ ق‬ ‫دے دیا ت‬ ‫ض ف‬
‫عنوان‬ ‫سے باب کا ف‬ ‫الگ ت‬
‫‪ -4‬اگر کہیت ں م تن پر سی ظ کا ا ا فہ ک ی ا گ ی ا فو اسے وسی ن می ں ذکر ک ی ا گ ی ا‬
‫ل‬ ‫ک‬
‫ت‬ ‫ے۔ ت‬ ‫ے اکہ م ن اور مت رج م کے اض تا ہ می ں رق ک ی ا ج اف سک‬ ‫خہ‬
‫‪ -5‬ا ت ت امی ہ اور اصل کت اب کے م ن می ں اگر ک نہی ں ش رق پ ای ا گ ی ا و رج مہ‬
‫ے می ں اس طرف‬ ‫ے‪ ،‬ی ز حا ی‬ ‫ص‬
‫میشں باس کو ا ل کے م طابق کر دی ا گ ی ا ہ‬
‫ے۔‬ ‫ا ارہ ھی کر دی ا گ ی ا ہ‬
‫کے ل یے س ید س لمان ن دوی کی‬ ‫ت ن‬ ‫رجمہ‬ ‫ت‬ ‫‪ -6‬ق رٓانی ٓای ات کے‬
‫ق‬ ‫خ‬
‫کی‬ ‫کتاب " آ ری وحی‪ ،‬اردو رج ما ی کے ج دی د الب می ں"‬
‫طرف رجوع کیا گیا ہے ۔‬
‫‪ -7‬جن اصطالحات کا ترجمہ کرنا ممکن نہیں تھا حواشی میں‬
‫ان کی وضاحت کی گئی ہے۔‬
‫‪ -8‬ذیلی عنوانات کو بھی نمبر لگا دیے گئے ہیں۔‬
‫‪ -9‬حصہ اول کی قرٓانی ٓای ات و اح ادیث نب ویہ کی تخ ریج کی‬
‫گئی ہے۔‬
‫‪ -10‬متن میں مذکور اصحاب علم کا مختصر تعارف حاش یہ‬
‫میں دے دیا گیا ہے۔‬
‫‪ -11‬کتاب کے مص نف ش یخ یوس ف قرض اوی کے ح االت‬
‫زندگی اور زیر نظر کتاب فقہ الجہاد کے تعارف پ ر راقم‬
‫‪3‬‬
‫ک ا ای ک مض مون س ہ م اہی تجزی ات کے دس مبر ‪2018‬‬
‫ے بہ شکریہ تجزیات کتاب‬ ‫کےشمارے میں شائع ہوا تھا جس‬
‫خ کے شروع میں شامل کر دیا گیا ہے۔‬
‫ت ق ق ت‬ ‫ت‬
‫م ن درج ہ ب اال صوصی ات کے سا ھ اردو زبتان می ں ی ہ پ ہال ح شی ی ر مہ آپ کے‬
‫ج‬ ‫ت‬
‫ے‪،‬‬ ‫کا‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫روع‬ ‫ن‬‫ی‬ ‫ھ‬ ‫ب‬ ‫کام‬ ‫کا‬ ‫مہ‬ ‫ج‬‫ر‬ ‫کے‬ ‫اب‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫ل‬ ‫مکم‬ ‫ر‬ ‫طرز‬
‫ت‬ ‫ی‬ ‫اس‬ ‫ے۔‬
‫ی ہف‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ھوں‬ ‫ہا‬
‫یجچ ہ‬ ‫پ‬
‫ے گی اور ج لد‬‫آپ ک شی حوصلہ ا زائ ی ناور ج اوی ز سے ہ می ں اسقکام کو مزی د ب ہت ر نکرے می ں مدد مل‬
‫ے گی۔ ن‬ ‫ے کو مل‬ ‫ھ‬ ‫اب اردو کے الب می ں پٹڑ‬ ‫ف‬ ‫مکمل کت‬ ‫ہ ی ان خاءہللا آپ کو ی ہ ٹ‬
‫ن‬
‫نا س ٹ ی وٹ ار یس اس ٹ ڈیز کے ڈائری ک ر ج ت اب دمحم عامرقرا ا صاحب کا‬
‫پ‬ ‫ی‬ ‫ٓا ر می نں پ اک‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ش‬
‫م‬
‫ے زیر ادارت ی گزی ن سہ ماہ ی ج زی ات می ں سط وار ائع‬ ‫کر گزار ہ وں ہوں ے اسے اپ‬
‫کیا ۔ اس کے ساتھ ادارہ فکر جدید کے ڈائریکٹر جناب صاحبزادہ امانت رسول‬
‫صاحب بھی خصوصی شکریے کے مستحق ہیں جنہوں نے اس ترجمہ کو‬
‫کتابی شکل میں ٓاپ تک پہنچانے میں خصوصی دلچسپی لی ۔‬
‫امید ہے کہ اس کتاب کو اردو داں طبقہ بھی اسی طرح ہاتھوں ہاتھ لے گا‬
‫جیسا کہ مشرق وسطی سمیت دنیا بھر میں اسے پذیرائی ملی۔‬

‫عاطف ہاشمی‬
‫‪ ۱۵‬مئی ‪۲۰۲۲‬ء‬
‫دوحہ۔ قطر‬

‫ض‬ ‫ق‬ ‫ٹ‬


‫وسف ال ر اوی‬
‫ڈاک یپ ن ش ف‬
‫ر‬
‫ا ی ہرہ آ اق کت اب‬
‫‪4‬‬
‫ئن‬ ‫فق‬
‫ش‬ ‫ے می ں‬‫ہ ا جلہاد کے آ ی‬
‫عاطف ہ ا می‬

‫تمہید‪:‬‬
‫قطر میں مقیم مصری نژاد نامور عالم دین ڈاک ٹر یوس ف عب دہللا‬
‫القرض اوی ک ا ن ام محت اج تع ارف نہیں۔آپ علم اء اس الم کی ع المی‬
‫ی ونین (االتح اد الع المی لعلم اء المس لمین) کے ص در ہیں اور اپ نی‬
‫گ راں ق در علمی تص انیف اور دع وتی و فقہی خ دمات کی ب دولت‬
‫دنی ا بھ ر میں نمای اں مق ام رکھ تے ہیں۔ پچ اس س ے زی ادہ کتب کے‬
‫مص نف ہیں جن میں س ے اک ثر کت ابوں کے ت راجم دنی ا کی مختل ف‬
‫زبانوں میں ہوچکے ہیں ‪ ،‬آپ کے معتقدین اور مح بین ک ا ای ک بڑا‬
‫حلقہ ہے جو عرب دنیا سے لے کر یورپ اور امریکہ تک پھیال ہوا‬
‫ہے اور آپ ک و مجتہ د عص ر‪،‬مج دد ملت اور مفک ر اس الم جیس ے‬
‫خطابات سے یاد کرت ا ہے۔ش یخ قرض اوی کے دروس وخطاب ات پ ر‬
‫مشتمل ویڈیو اور ٓاڈیو سی ڈیز کی تع داد ‪ ۵۰۰‬س ے متج اوز ہے‪ ،‬آپ‬
‫کے چاہنے والے جدت پسندی اور روشن خیالی آپ کا خ اص وص ف‬
‫شمار کرتے ہیں۔ش یخ قرض اوی کے بعض فت اوی جمہ ور علم ائے‬
‫اسالم کی رائے سے مط ابقت نہیں رکھ تے جس کی وجہ س ے بس ا‬
‫اوقات آپ کو تنقید کا نش انہ بھی بنای ا جات ا ہے۔ ن ائن الی ون کے بع د‬
‫جس طرح دنیا بھر میں اسالمو فوبیا کا مشاہدہ کیا گی ا اس ی ک ا اث ر‬
‫ہے کہ شیخ قرضاوی جیسی معتدل سمجھی ج انے والی شخص یت‬
‫ک و بھی متن ازعہ بن ا ددی ا گی ا چن انچہ بعض ع رب ریاس توں نے‬
‫مودودی‬
‫ؒ‬ ‫دہشت گرد عناصر کی ایک فہرست تیار کی جس میں موالنا‬
‫قطب س میت آپ ک و بھی ش امل کی ا گی ا۔اس کے بع د س ے‬ ‫ؒ‬ ‫اور س ید‬
‫مسلم حلقوں میں یہ تشویش پیدا ہوگ ئی کہ آی ا واقعی عالمہ قرض اوی‬
‫دہشت گرد ہیں یا انہیں کسی انتقام کا نشانہ بنایا جا رہ ا ہے؟بن ا ب ریں‬
‫‪5‬‬

‫زی ر نظ ر مض مون میں آپ کی شخص یت ک ا تع ارف اور جہ اد و‬


‫دہش تگردی س ے متعل ق آپ کے موق ف ک و آپ ہی کی ش ہرہ آف اق‬
‫تصنیف فقہ الجہاد کے ذریعہ جانچنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ‬
‫آپ کی شخصیت سے متعلق پی دا ہ ونے واال ابہ ام دور ہ و اور دیکھ ا‬
‫جائے کہ دہشتگردی کی آپ کی ط رف نس بت کس ح د ت ک درس ت‬
‫ہے؟‬
‫شخصیت و تعارفئ‬ ‫ت‬ ‫قرضاوی‪ :‬ت‬ ‫ض‬ ‫شیخ ق‬ ‫ٹ‬
‫ے‪،‬دس سال کی‬ ‫و‬ ‫؁‪۱۹۲۶‬ء کو مصر می ں پ ی دا ہ‬ ‫ئ‬ ‫ر‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫‪۹‬‬ ‫اوی‬ ‫ف‬ ‫ر‬ ‫وسف‬ ‫ی‬ ‫ر‬‫ق‬ ‫ڈاک‬
‫االزھرع سے الحاق ش دہ سکولوں‬ ‫نم ح ظ ک ا اورق اب ت دا ی علی م ا عۃ ت‬ ‫کری‬ ‫رآن‬ ‫عمر می ں‬
‫ع‬ ‫ن جم‬ ‫ی‬ ‫ص‬
‫ے‬ ‫می ں حا ت قلق کرے کے ب عد رآن و س ت کیخ ا لی لی م کے حصول کےفلیق‬
‫کے ہ ی کلی ہ اصول الدی ن می ں دا لہ لے ل ی ا اور ؁‪۱۹۷۳‬ء می ں ہ‬ ‫االزھر ق‬‫ج امعۃ ح‬
‫ص‬
‫ڈگری حا ل کی۔‬ ‫ل‬ ‫ی‬
‫الہ کھ کر پی یا چ ڈی کی خ‬ ‫غ‬ ‫الزکوۃ پر ن ی م‬
‫عملی ز دگی کا آ از مسج د می ں امامت و طاب ت سے ک ی ا عالمہ قرضاوی‬
‫میں فم ذہبی مبل غ اور نک اح خ خوان‬ ‫مصرمیں اپنے آبائی عالقے ص فط ث‬
‫ق‬
‫بھی رہے ‪،‬ج لد ہ ی ج امعۃ االزھر کے ادارہ ا ت اسالمی می ں مالزمت ا ت ی ار‬
‫کر لی ‪ ،‬مصر میں اپنے افکار کے فروغ میں مشکالت پیش آئیں تو آپ‬
‫نے قطر کو اپ نے ل یے ای ک بہ ترین ف ورم س مجھا اور ‪۱۹۶۱‬؁ء‬
‫میں قطر منتقل ہو گئے اور وہاں پر ای ک دی نی ادارے کے پرنس قپل‬
‫شروع کرش دیا۔‪ ۱۹۷۳‬می ں طر‬ ‫کی حیثیت ئسے درس و تدریس کا سلسلہف‬
‫ٹ‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ن ٹ‬
‫المی ہ‬ ‫سے ‪ ۱۹۹۰‬تک ی ل ی آف ری عہ و علوم اس ض‬ ‫یو ی ورس ی ج وا ن کر لی خاور ‪ ۱۹۷۷‬ن‬
‫ے عار ی‬ ‫ے۔ای ک نسال کے لی‬ ‫ے رہق‬ ‫طور پر دمات سرا ج ام دی‬ ‫کے ٹ‬ ‫کے ڈی ن ئ ن‬
‫کے س ت و سی رت ریسرچ‬ ‫ے اور ‪۱۹۹۱‬ق می ں طر ئ‬ ‫طورٹ پر الج زا ر ئ یو یٹوس ی می ں رہ‬
‫ن‬
‫سی ر کے ڈا ری ک ر کی ح ی ث ی ت سے دوب ارہ طر لوٹ آے۔اور الجزیرہ ٹی وی‬
‫کے قیام کے بعد ٹی وی چینل پر آپ نے خصوصی پروگ رام ش روع‬
‫کیا جس نے قطر سمیت پوری عرب دنیا میں شیخ قرضاوی م ذہبی‬
‫دھاک بٹھا دی۔ تاحال آپ قط ر میں قی ام پ ذیر ہیں اور علمی تص انیف‬
‫اور دروس و خطبات کے ذریعے اپ نی خ دمات ج اری رکھے ہ وئے‬
‫ہیں۔‬
‫‪6‬‬
‫خ‬ ‫ین‬ ‫ع‬
‫ت‬ ‫خ‬ ‫ع ف‬ ‫می وسد ی دمات‪:‬‬‫ل‬
‫سر ی ل سجم ھا ج ا ا‬ ‫ن‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫اد‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫دعوت‬ ‫اور‬ ‫کر‬ ‫آپ کو لمن و‬ ‫ت‬ ‫پوری م لمع دن ی اخمی ں‬
‫ں۔موال ا فاب والحسن علی‬ ‫ت‬ ‫بک دتی ن ی ہ پر حمی ط ہ ی‬ ‫ے‪،‬آپ کی لمی ئدمات مام ج وا‬ ‫نہ ؒ پ ن‬
‫ل‬
‫ے ہ ی ں ئکہ آپ کی الی ات پوری‬ ‫رسا تل االعالم می ں ھ‬ ‫نث ک‬ ‫اب‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫دوی ا‬
‫ئصن ف ہ ی ں‬ ‫وں جکے م‬ ‫ں۔آپ پ چ ناس سے زا د کت اب ت‬ ‫المی د ی ا می ں ا ر ر ھ ہی ہ ی ت‬ ‫جا نس ق‬
‫ن‬
‫وں می ں ان کے را م وے‪،‬آپ کی‬‫ہ‬ ‫عام صی ب وا اور م عدد زب ا ق‬ ‫خ‬ ‫ت ہی فں ب ول‬
‫ح‬
‫رآن و حدی ث کی ی ث ی ت کو مد ظ ر رکھا‬ ‫ہاںھ ن‬ ‫ج‬ ‫ے کہ ج‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ضہ‬ ‫ت صن ی ات تکی اص ب ت ق‬
‫ات ی ہ‬
‫آپ کی‬ ‫ے۔اسی طرح‬ ‫ے ھیف او ل ہی ں رہ‬ ‫ے وہ ی ں عصری ا ف‬ ‫گ ی ا فہ‬
‫ف صن تی ات عصب ‪،‬ج مود اور ا نراط و ری ط سے ب ھیم پ ناک ہ ی قں اور اعت دال پ س ن دیت و‬
‫گارش قایسا سہ قل مت ن ع کہ اری اس می ں کھو ج ا ا‬ ‫ف‬ ‫کر ازہ کی مظ ہر ہت ی ں۔اسلوب‬
‫ک ی نہ کی د ت ظ ر‪،‬مج دد کی ج ھلک‪،‬صاحب‬ ‫روں می ں ای ت‬ ‫ے۔ آپ کین حری‬ ‫ہ‬
‫عروفک نمصری ج ری دے‬ ‫ے۔‬
‫ی نہ م‬ ‫اں‬ ‫ما‬ ‫ڑپ‬ ‫کی‬ ‫داعی‬ ‫ت‬
‫اور‬ ‫ل‬‫ن‬
‫ب پ جم‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫اد‬ ‫طرز‬
‫االزھر‪،‬کوی ت کےا مع اور ظالوعی االس نالمی‪ ،‬دوۃ ال قعلماء ل ھ و کے الب عث‬
‫اور لب ن ان‬ ‫ب‬ ‫المی‪،‬ری اض کے الدعوۃ‪،‬تاب و ب عی کےف م ار االسالم‪ ،‬طر کے الدوحہ‬ ‫س‬ ‫ل‬ ‫االس‬
‫س‬ ‫ی‬
‫ئت مش عدد می و کریئ مج الت می ں آپ کے ی وں‬ ‫ل‬ ‫س‬
‫کے ا لم الشم ئعاصر می‬ ‫م‬
‫ے۔‬ ‫گ‬ ‫ھے‬ ‫ڑ‬ ‫پ‬ ‫سے‬ ‫وق‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫م ق الہ ج ات ن ا ع ہ و ت‬
‫ف‬
‫ن‬ ‫ں‪:‬‬
‫ن‬ ‫آپ کی مای اں صن ی ات درج تذی ل ہ ی ش‬
‫ندی ن ال ب ا یت‪ :‬ی ہ کت ابتبڑے‬ ‫الم می ں حالل و ئحرام‪ ،‬خق ری ج ‪ :‬ی خ عاصر ال‬ ‫ناس ق‬
‫ن حسی ن‬ ‫ن ی ع اہ ل ت لم ے اس کی وسصیف و‬ ‫ی ‪،‬اور و‬ ‫ق‬ ‫پ یماے پر م ب ول و مت ف‬
‫داول ہ و‬ ‫ش‬
‫ے می ں‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫گ‬
‫ہاں ک کہا کہ ہ ر م لم ھرا‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫کی‪ ،‬ممت از سکالر ی ن خ ضمصط ی الزر اءشے‬
‫ے حق ق‬
‫المذہ کو‬ ‫پ‬‫ے۔ ی خ علی اخل ط طاوی مکہ مکرمہ می ں ا‬ ‫روری ہ‬‫اس کت اب کا ہ و ا ت ت‬
‫ی‬ ‫لف ج ام ئ‬ ‫ت‬
‫ں اس پر ی‬ ‫عات میئ‬ ‫ے۔پ اکست ان کی م ت‬ ‫ے ھن‬ ‫درسا ی ہ کتلکابئ پڑھا ت‬ ‫ق‬
‫اور م عدد زب ا وں می ں اسئکے راج م نش ا ئع ہ وے۔‬ ‫ت‬ ‫ے‬ ‫گ‬ ‫ے‬ ‫ھ‬ ‫لے‬‫ق‬ ‫م ف‬ ‫ا‬
‫ے ‪،‬ی ہ آپ‬ ‫ک‬
‫لدوں پر حمی ط مسا ل زکوۃ کا ا عسا یف ق لوپ ی ڈی ا‬ ‫ق‬
‫ہ الزکوۃ‪ :‬ی ہ ح ق‬
‫ہ ر ننکا کہ ان‬ ‫دو ج ق‬
‫ئ‬
‫س کے ب ارے لم تہ کے ماہ ی‬ ‫ےج ض‬ ‫کے پی یا چ ڈی کا تی ی م الہ ہ‬
‫ے کہئپوری ا نسالمی اری خ می ں ؒاسنمو وع پر اس سے ب ہ ر کو ی کتت اب ہی ں‬
‫ئ می تں کہا ھا کہ اسے‬ ‫ےاس کے ب ارے‬ ‫مودودی‬ ‫لی‬ ‫ہھی گ ی‪ ،‬موال ا اب والع‬ ‫لک‬
‫ےج ا ن ہ ہ و گا۔‬ ‫ےوب‬ ‫(سب سے اچ نھی )کت تاب کہا ج ا ش ئ‬ ‫ں)صدیٹکی ن‬ ‫ن‬ ‫ش(چ ودہ وی‬
‫ے۔ ب ث‬ ‫ب‬ ‫ج‬
‫اہ ع ب دالعزیز یو ی ورس ی ج دہ ے تاس کا ائ گریزی ر مہ ھی ا شع تک ی ا ہ‬
‫ح‬
‫ندہ ا ی می ں ج ب اسالمی ا راکی ت کی ی ں‬ ‫کولرزم‪ :‬س ر کی‬
‫ض‬ ‫اور س ی ق‬ ‫اس تالم ت‬
‫کولرزم کے دی گر‬ ‫س‬
‫سوط رد لکھا اور ی ف‬ ‫نچ ل رہ ی ھی ں و ع تالمہ ر اوی ے اس پر ب‬
‫م‬
‫ت‬
‫ج‬
‫ھی عرض ک ی ا‪،‬اس کت اب کا اردو ر مہ ادارہ عالمی کر اسالمی‬ ‫سے بش ئ‬ ‫ظ ری ات ن‬
‫ے۔‬ ‫یہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ع‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫اسالم آب اد‬
‫‪7‬‬
‫ش‬ ‫فق‬ ‫ب‬
‫ف‬
‫خ‬
‫ری‬
‫کی اہ ت اور عت‬ ‫عاصرہ‪:‬ل تاس کت ابت می ں ج ا فج ا آپ ع‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫اوی م ج ھ‬ ‫ن‬ ‫ت ق‬
‫لف کا ر ٹسوں ‪ ،‬لمی مج الس‪،‬اور یلج ی و‬ ‫ے‪،‬م ق‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫ظ‬ ‫ت‬ ‫افس قالمی پر د‬
‫روگرامت ھدی االس نالم‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫س‬ ‫ا ری ی‬
‫ف‬ ‫عرب د ی ا می ں ب ول ی وی پ ج‬ ‫ع‬ ‫ممالک می ت‬ ‫ئ‬ ‫چ‬
‫ے‪ ،‬ی ز‬ ‫ےسواالت ئکےست ف لمی و ہی ج وابف ات کو اس می ںل مع کر دصی ی ا گ ی ا ہ‬ ‫تمی ں پو شھ‬
‫ےکگ‬
‫لی واب ات‬ ‫ج‬ ‫ل‬
‫کے مد غ‬ ‫ت‬
‫س‬
‫ے ا سارات و ا فت اءات‬ ‫ے شگ‬ ‫حریری ل می ں کی‬
‫کے معروف‬ ‫ب‬
‫ارے ج ت ی ان کو ھی برص ی ر ف‬ ‫م‬ ‫ں‪،‬ہق م‬ ‫م‬ ‫ب‬
‫ض‬ ‫ل ہی ٹ‬ ‫ف ھی اس کت اب می ں ت ا ت‬
‫ے عرب سکالرز کے ت اوی کی‬ ‫اوی ی س‬ ‫ن‬ ‫ت اوی ج ات کے سا ھ سا ھ ڈاک ر فر‬
‫ن ق ض فق‬ ‫س‬ ‫غ‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫ست ادہ کرش ا چ ا ی‬ ‫س‬ ‫طرف رج وع کر کے ان سے ب ھی ا‬
‫مذکو رہ ف قکت اب وں کے عالوہ ‪ ،‬م لم تمعا ف رےستجممی ں یترم لموں کا م ام ‪ ،‬ہ‬
‫آپ کی اہ م صن قی ات فھی ج ا ی ہ ئی ں‪،‬زیر ظ ر م تمون‬ ‫ب‬
‫ی‬ ‫ص‬ ‫ق‬
‫ق‬ ‫الص ی ہام اور خ ہ ا جلہ تاد ھی ف‬
‫لی ج ا زہ لی ں گے ئ اکہ‬
‫ہ‬ ‫ج‬ ‫غ‬ ‫رالذکر الی ف ہ تا جلہاد کا تدرے‬
‫س‬ ‫می ں ہ شمت مو خ‬
‫ے ا م مسا ل‬ ‫اوت ی س‬ ‫ض‬ ‫سا ھ لوک اور ب‬ ‫ے‪،‬ا ی وںق کے ن‬ ‫ل‬ ‫حم‬
‫ودکشض ل‬ ‫ش‬
‫ج ہاد‪،‬د گردی‪ ،‬ق‬
‫ج‬ ‫ی‬ ‫س‬
‫کے ب ارے می ں ی خ ر ن اوی کا مو ف ج ا چ کی ں‪ ،‬ہی وہ مو وعات ہ ی ں ن‬
‫نی ا ش دت پنس ن د ی ع ی اں ہ و گی اور ان کے ب ارے‬ ‫دال ئپ س د ی‬ ‫سے تان کی اعتئ ق‬
‫ہ‬
‫می ں م وازن راے ا م کرے می ں آسا ی و گی۔‬
‫فقہ الجہاد پر ایک نظر‬
‫کسی بھی سلیم الفکر اور اعتدال پسند شخص کی ایک نشانی یہ‬
‫ہوتی ہے کہ اسے مذہب پسند متجدد اور سیکولر ہونے ک ا طعنہ دیں‬
‫جبکہ س یکولر اور ل برلز اس ے انتہاپس ند اور ش دت پس ند کہہ ک ر‬
‫مطعون کریں۔یہی حال شیخ قرضاوی کی شخصیت کا بھی ہے‪ ،‬ای ک‬
‫طرف انہیں جدت پسند اور روشن خی ال ق رار دے ک ر ان کے م ذہبی‬
‫اس تناد ک و مج روح ک رنے کی کوش ش کی ج ارہی ہے ت و دوس ری‬
‫جانب انہیں دہشتگردی اور شدت پس ندی کے ف روغ ک ا ال زام بھی‬
‫دیا ج ا رہ ا ہے‪،‬آج جبکہ بعض ع رب ریاس تیں انہیں دہش تگرد ق رار‬
‫دے رہی ہیں ض روری ہے کہ ان کی فک ر ک و ان کی ہی ش ہرہ آف اق‬
‫کتاب فقہ الجہاد کے ذریعے سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ ش دت‬
‫پسندی کے ب ارے میں ان کے کی ا نظری ات ہیں اور کس ح د ت ک ان‬
‫کی کتب و فتاوی تشدد اور انتہاپسندی یا امن اور اعتدال پسندی کو‬
‫فروغ دے رہی ہیں ؟ ن یز دیکھ ا ج ائے کہ ن امور مس لم علم اء اس‬
‫کتاب اور اس کے مصنف کے بارے میں کیا رائے رکھتے ہیں؟‬
‫‪8‬‬

‫شیخ قرضاوی کی کتاب (فق‪##‬ه الجه‪##‬اد‪ :‬دراس‪##‬ة مقارن‪##‬ة ألحكام‪##‬ه‬


‫وفلسفته في ضوء القرآن والسنة‪ )#‬اپنے موضوع پر منفرد ت الیف ہے‬
‫جس میں جہ اد س ے متعلقہ تم ام پہل ووں ک و امت مس لمہ کے جدی د‬
‫مسائل کے تناظر میں بیان کیا گیا ہے‪ ،‬اور ایسی مسلح جد وجہد پ ر‬
‫کڑی تنقید کی گئی ہے جس میں بے گناہوں ک و نش انہ بن ا ک ر اپ نے‬
‫مطالبات من وانے کی کوش ش کی ج ائے‪ ،‬اور ایس ے ن ام نہ اد اس الم‬
‫پسندوں کی فکری کجی واضح کی گئی ہے ج و ظالم انہ و بہیم انہ‬
‫ک ارروائیوں ک و ق رآن و س نت کے س اتھ ج وڑتے ہیں اور اس الم‬
‫جیس ے پ رامن م ذہب اور اس کے حقیقی پیروک اروں کے ل یے‬
‫بدنامی کا س بب بن تے ہیں۔ کت اب میں ش یخ قرض اوی نے بہت س ے‬
‫جدید پیچیدہ مسائل ک و موض وع بحث بنای ا ہے اور ان کے مب نی ب ر‬
‫اعتدال شرعی و علمی حل تجویز کیے ہیں جس سے واضح ہوتا ہے‬
‫کہ اسالم امن پسند مذہب ہے اور یہ نفرت اور ٹکراو ک و نہیں بلکہ‬
‫محبت اور مکالمے کو فروغ دیتا ہے۔‬
‫ضخیم دو جلدوں پر مشتمل یہ کتاب ‪۲۰۰۹‬ء؁ میں قاہرہ سے‬
‫چھ پی‪ ،‬کت اب کے دس اب واب ہیں اس کے عالوہ ن و بیش قیمت‬
‫ضمیمہ جات بھی کتاب کا حص ہ ہیں۔ذی ل میں اب واب کی تفص یل دی‬
‫جارہی ہے تاکہ کتاب کے تفصیلی موضوعات س ے واقفیت حاص ل‬
‫ہو‪:‬‬
‫پہال باب‪ :‬جہاد کی حقیقت‪،‬مفہوم اور حکم‬
‫دوسرا باب‪ :‬جہاد کی اقسام اور درجات‬
‫تیسرا باب‪ :‬اقدامی جہاد اور دفاعی جہاد کی بحث‬
‫چوتھا باب‪ :‬اسالم میں قتالی جہاد کے مقاصد‬
‫پانچواں باب‪:‬جہاد کا مق ام و م رتبہ اور اس ے ت رک ک رنے کے‬
‫نقصانات‬
‫چھٹا باب‪ :‬لشکر اسالم کی ذمہ داریاں‪،‬آداب اور ضوابط‬
‫ساتواں باب‪ :‬لڑائی کا اختتام کیسے ہوتا ہے؟‬
‫‪9‬‬

‫آٹھواں باب‪ :‬جنگ کے بعد کے امور‬


‫نواں باب‪ :‬اسالمی حدود کے اندر قتال‬
‫دسواں باب‪ :‬جہاد اور امت کے دورحاضر کے مسائل‬
‫اختتامیے میں پوری کتاب میں بی ان ک یے گ ئے بنی ادی مف اہیم‪،‬‬
‫فقہی اختیارات و ترجیحات ‪،‬اجتہ ادی اس تنباطات اور علمی تحقیق ات‬
‫کا خالصہ بیان کر دیا گیا ہے جو کہ تقریبا س و ص فحات پ ر مش تمل‬
‫ہے‪،‬اس آخری حصے کو شیخ قرضاوی اپنی کت اب کی تلخیص ق رار‬
‫دیتے ہیں۔‬
‫کتاب کی تالیف کے دوران مصنف نے متقدمین و مت اخرین کی‬
‫قدیم و جدید کتب کو کھنگاال اور ع رق ری زی س ے چھ س ال کے‬
‫عرصہ میں اسے مکمل کی ا‪ ،‬آپ خ ود کت اب کے مق دمہ میں لکھ تے‬
‫ہیں‪:‬‬
‫" میں یہ نہیں کہت ا کہ میں نے موض وع ک ا ح ق ادا ک ر دی ا ہے لیکن اس‬
‫کی تالیف میں میں نے اپنی تمام تر صالحیت لگ ا دی ہے‪،‬میں نے متق دمین ک و‬
‫بھی پڑھا اور متاخرین ک و بھی‪،‬جہ اد کے ح امیوں ک ا ل ٹریچر بھی پڑھ ا اور‬
‫مخالفین کا بھی‪،‬تالیف کے دوران میں نے کس ی قس م کی جل دبازی ک ا مظ اہرہ‬
‫نہیں کیا بلکہ پورے اطمین ان اور تس لی کے س اتھ ح امیوں اور مخ الفوں کے‬
‫دالئل کا جائزہ لینے کے بع د ک وئی رائے اختی ار کی‪،‬اس کت اب کی ت الیف میں‬
‫مجھے چھ سال لگے۔"‬
‫اس وقیع علمی ذخیرے کے ا ستناد پر مشرق و مغرب کے اہ ل‬
‫علم متف ق ہیں‪ ،‬جہ اں بہت س ے ن امور مس لم علم اء نے اپ نی‬
‫تحریروں اور تقریروں میں کتاب کے مندرجات کی تعری ف کی وہیں‬
‫بعض مغربی انصاف پسند مصنفین کو بھی یہ اعتراف کرن ا پ ڑا کہ‬
‫اس کتاب نے ایسے مسائل بھی ح ل ک ر دیے ہیں ج و ص دیوں ت ک‬
‫الینحل رہے۔تیونس کے معروف اس المی مفک ر اور النھض ہ پ ارٹی‬
‫کے س ربراہ ش یخ راش د الغنوش ی نے اڈن برا یونیورس ٹی میں‬
‫؁‪۲۰۰۹‬ء میں جہ اد کے موض وع پ ر ہ ونے والے ای ک س یمینار‬
‫میں اسی کتاب کا حوالہ دیتے ہوئے کہا‪:‬‬
‫‪10‬‬
‫" جہاد انتہاپسندوں کے ہاتھوں میں ایک آلہ تھا جس کے ذریعے وہ اپ نی‬
‫شدت پسندانہ کارروائیوں کو جواز دی تے تھے لیکن عالمہ قرض اوی نے ان‬
‫کے ہاتھ سے یہ آلہ لے لیا ہے۔۔۔ شیخ قرضاوی نے اسالم میں جہاد کے احکام‬
‫پر مشتمل کتاب لکھ کر نہایت احس ن کارن امہ س رانجام دی ا ہے‪،‬اس کت اب میں‬
‫انہوں نے جہادی احکام اور بین االقوامی ق انون س ے متعل ق اپ نے علم‪،‬فق اہت‬
‫اور تجربات کا نچوڑ پیش کر دیا ہے۔"‬
‫معروف سعودی عالم دین ڈاکٹر سلمان الع ودہ نے کہ ا کہ اگ ر‬
‫عالمہ قرضاوی اس کے عالوہ کوئی اور کتاب نہ لکھتے ت و بھی‬
‫یہ کتاب ان کا مقام جانچنے کے لیے کافی تھی۔‬
‫شیخ قرضاوی فقہ الجہاد میں دنی ا بھ ر میں ای ک دوس رے کے‬
‫خالف برسرپیکار ممالک ک و جن گ بن دی ک ر کے پ ر امن ط ریقے‬
‫ئ‬ ‫کی تلقین کرتے ہیں‪،‬آپ لکھتے ہیں‪:‬ئ‬
‫ت‬
‫سے رہنے‬
‫ل اور‬ ‫ح‬
‫ل کے ن‬ ‫امن‪،‬ج ن گ ب ن دی‪ ،‬پرامن تذرا ع سے م ق‬
‫سا ف‬ ‫ئ‬ ‫"تدن ی ا کے مام ممالک‬
‫ری ئ‪،‬سم عی اور ب صری وسا ل کے ذری ع‬
‫ے دعوت و ب لی غ کے موا ع راہ م کرے پر‬ ‫ئ ق‬ ‫پت فرامن حری‬
‫ف‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫"‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬‫ر‬‫ک‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ے‬‫ن‬ ‫ا اق را‬
‫م تسلما وں پر ج ہاد کب رض ہ و ا ہ‬
‫ے؟ اس سوال کا ج واب آپ ان ال اظ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ےہ ی ں‪:‬ک ف‬ ‫می ں دی‬
‫ہ‬ ‫ہ‬
‫نب ہی ں و ا‪،‬ب شلکہ اس کے واج ب وے‬ ‫ل‬
‫" ج ہاد مت ی ن پر ہ ر حال می ں ج ہاد واج‬
‫ن‬
‫کے‬‫سرک ی کو روک ا‪،‬اہ ل ای مان ب ٹ‬ ‫نں ج یسا نکہ حد سے گزرے ن‬
‫والوں کی ن‬ ‫ابن ہ وے ہ ی‬ ‫کے اس ب ف‬
‫ے‬ ‫ی‬
‫ن می ں ت ہ پ ی دا کرخے کو نروک ا‪،‬مصی ب ت زدوں کو ج ات دال ا اور کمی ن گاہئوںت می ں ھ‬ ‫ش‬
‫ب‬ ‫حم‬ ‫دی ن‬
‫لوگ‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ہ‬
‫ے کا وف ت و ا‪ ،‬اور ج ب ج تہاد سی ف ھی وج ہ سے واج ب و ج اے فو چک ھ ت‬ ‫د م وں کے ن ئل‬
‫ے ہ ی ں‪،‬اور ی ہ م عی ن ا راد پر خ اص حاالت می ں ہ ی رض ہ و ا‬ ‫ک‬‫س‬ ‫کر‬ ‫دگی‬ ‫دوسروں کی ما ن‬
‫ے۔"‬ ‫ہ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬‫ض‬ ‫ق‬ ‫ف‬
‫ا دامی ج ہاد کی ر ی ت سے م علق آپ اپ ن ا ن کت ہ ظ ر یوں ب ی ان کرے‬
‫ئ‬ ‫ش‬ ‫ہ ی ں‪:‬‬
‫ن‬ ‫ف‬ ‫ق‬
‫"ی ہ کہ ن ا کہ ا دامی ج ہاد ناور ق د من پر سال می ں اینک د عہ چ ڑھا قی کر ا اس امت پر‬ ‫ف‬
‫ے درست ہی ں۔اس مو ع پر صرف دو امور پر‬ ‫ے اور اس پر اج ماع م ع د ہ و چ شکا ہ‬ ‫رض ہ‬
‫ن ف‬ ‫ئ ت‬ ‫گ‬ ‫ے‪:‬‬ ‫اج ماع ہ‬
‫اس سے ج ہادش کر ا ش رض ہ و‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ان‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫آ‬ ‫ھس‬ ‫من‬ ‫د‬ ‫ں‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫م‬ ‫لک‬‫ت پ ہال‪ :‬ی ہ کہ کسی مسلم م‬
‫ے کہ ان کی امداد کری ں ی ہاں ت ک کہ د من کست‬ ‫ے‪،‬اور سب پرش واج ب ہ و ج ا اہ‬ ‫ج ا ا ہئ‬
‫ق‬ ‫ض‬ ‫ئ‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫کھا ج ا‬
‫ے ج ا ی ں اور روری عسکری طا ت‬ ‫ے ل کر ت ی ار کی‬‫دوسرا‪ :‬ی ہ کہ د من کو ڈراے کے لی‬
‫‪11‬‬
‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ف‬
‫ئ‬ ‫رادی وت ت یخار کی ج اے۔"‬ ‫ا‬‫غ‬‫ہ‬ ‫نف ت‬
‫ا‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ر‬
‫ت‬
‫ت‬ ‫ق‬
‫ی‬‫ا‬
‫ق شف‬
‫اور ب در ک‬
‫ت‬ ‫مس‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ض‬
‫لوک‪،‬برا ی کو‬ ‫س‬ ‫ل‬ ‫ل‬
‫ٹ‬ ‫الف ھ غ‬
‫کے سا‬
‫خ‬
‫موں ب ا صوص نذ یم وں خ‬
‫ح‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫ے ی رش‬ ‫اوی ن ن‬ ‫ق یخ ر ت‬
‫اوت‪ ،‬کراوتاور‬ ‫ست ب ت‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫مرا‬ ‫ک‬ ‫ت‪،‬‬ ‫رعی‬
‫پ ن ن ثی‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫طا ت کے سا قک‬
‫رو‬ ‫ھ‬
‫عم‬ ‫ن‬
‫ے‬ ‫الک کو ش صانق ہ چ اے جکے طرز لن کی ن یب سے ن تردی د نکر پ ن‬ ‫سرکاری ام خ‬ ‫ئ‬
‫پ‬
‫صوص کو ب ی اد ب ا کر عض ا ہا س د ا ی‬ ‫ض‬ ‫الف رعترار دی ا اور ن‬
‫ہ‬
‫ے اسے ف‬ ‫ہو ئ‬
‫ے اور اب ہام دور ک ی ا‬ ‫کارروا ی وں کو ت جن واز را م کرے ہ ی ں ان کی و احت کی ہ‬
‫ح ت‬ ‫خ‬ ‫ی ن ح ت‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ہ‬
‫ج‬ ‫ج‬ ‫ق‬
‫ے اور و کومنی‬ ‫ہادی ظ موں ے و کوم وں کے ؒالف ج ہاد کا اعالن کر رکھا ہ‬ ‫"ج‬
‫کاروں کو ت‬
‫ے ہ ی ں اس تسے دی ی‬ ‫ر‬ ‫کر‬
‫ل ف پ ت ہن‬‫ے‬
‫ل‬ ‫حم‬ ‫ر‬ ‫کات‬‫ن‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫سرکاری‬ ‫اور‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬‫ن‬
‫ف ئ ہ یم ن‬ ‫ر‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫ئ‬ ‫اہ ل ت‬
‫ے واال‪،‬ی ہ ن کاروائ ی اں ا رادی‪،‬اج ماعی‪،‬دی ی و ملی ہ ر اع ب ار سے‬ ‫نج قماع وں کو کو ی ا ن تدہ نہی ں لت‬
‫ں۔ا ہاپ س د ج ماع ی خں ج ن صوص سےناست دالل کر کےنایسا کر رہ ن ی ہ ی ں ان کا‬ ‫صان دہ ہ ی ظ‬ ‫ف نق‬
‫ط‬
‫صوص م لق‬ ‫ے والی‬ ‫ے‪ ،‬لم و ج بر کے قالف‬
‫ت‬ ‫مزاحمت کرے پرضداللت کر ق‬ ‫نہم ا ص ہ‬
‫ے‬‫ے‪ ،‬خ دی م و ج دیسد اری غ خ ایس‬ ‫ہ‬ ‫قہی ں ہ ی ں ب لکہ ان کی چکئھ حدود و ی ود ب ھی ہ ی ں ن کا لحاظ روری‬
‫ج‬
‫کے الف م لح ب ئ‬
‫اوت‬ ‫ے کہ حکامش ن‬ ‫ے ہ ج ن سے پ ت امچ لت ا ہ‬ ‫سے ب ھری ہ وشیت نہ‬ ‫وانعات ت‬
‫ہ‬
‫ے اور ی ہ می ہ اقکامین سے دوچ ار و ی‬ ‫ہ‬ ‫لی‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬
‫ے اور اس‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫در‬ ‫کا‬ ‫امت‬ ‫اس‬
‫ہ‬
‫ارکی‬
‫ن‬
‫ا‬ ‫اور‬ ‫والی غ اوت کےے م ں دا ن ییب‬
‫ا‬ ‫م‬ ‫کا‬ ‫ی‬ ‫ادر‬ ‫اذ‬ ‫کو‬ ‫کوں‬ ‫حر‬
‫لح‬ ‫ےس‬
‫م‬ ‫ف‬
‫ں‪،‬‬
‫کر‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ج ی ب‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ہ ی شن‬
‫ت ئ‬ ‫ت تف‬ ‫ے ہ قی پضھ ی ل‬
‫ے ہ ی ں۔"‬ ‫سے ت‬
‫حکام سے ن نم لق ص ی الت ب ی تان کرے ہ وتے‬ ‫ع‬
‫ی خت ق رض اوی ب ج ہادمکے کا ت‬
‫ے ہ ی کں‪،‬ت چ ا چ ہ معذوروں اور عور وں سے م علق‬ ‫عصریح ا وں کوتھی لئ‬
‫حوظ ر ھ‬
‫ل‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ے ہ ی نں ن‪:‬‬‫ج ہاد کا کمنب ی ان کرے ہ وفے قآپ ھ‬
‫ےن یک و کہ وہئ کمزور اور‬ ‫ے نکل ا واج ب ہی ں ہ‬ ‫کے یل‬ ‫ن معذور ا راد پر ت ال‬ ‫"جسما ی طور پر‬
‫مواخ نذہ‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫کو‬ ‫ر‬ ‫ی پ‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫(‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫خ ی ہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫سے‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ر‬
‫ن ب‬ ‫اد‬ ‫اس ارش‬ ‫دالل‬ ‫ت‬ ‫س‬‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ے‬ ‫نمعذور ہ ی ں‪،‬می ں‬
‫ے ب ھی ان کا کل ا‬ ‫ے) ویس‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ذہ‬ ‫موا‬ ‫ر‬ ‫مار‬
‫ی فپ‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ےاور‬ ‫ہ‬ ‫عذور‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫ن‬ ‫روں‬ ‫ی‬ ‫شہی ں‪،‬ن ہ اس پن پ‬
‫و‬ ‫ج‬ ‫ر‬
‫ے ہ ی ب وج ھ ب ن‬ ‫والوں کے یل‬ ‫ندے گاب لکہ یسہ و د اع کرے ق‬ ‫د ئ من کو پ س پ ا کرے می ں مدد ہی ں‬
‫ے قسے‬ ‫ے کاضوہ ب ڑا ح نصہ و بر ی ات کے ذری ع‬‫ج‬ ‫ج ا ی ں ت گے۔الب ت ہ آج کےئزماے می ں ج دی دقا لح‬
‫ن‬
‫ے ع تلی‬ ‫اس کے یل‬ ‫ادہ جسما ی ل ی ا ت کی رورت خہی ں ب لکہ ن‬ ‫ے کو ی زی ن‬ ‫ے اس کےتیل‬ ‫چ الی اعمج ا ا قہ‬
‫ے‬ ‫س‬ ‫دے‬ ‫ام‬ ‫سرا‬ ‫دمت‬ ‫ہ‬ ‫ھی‬ ‫ب‬ ‫لوگ‬ ‫عذور‬ ‫ر‬ ‫طور‬ ‫ی‬ ‫سما‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫درکار‬ ‫وت‬ ‫اور لی‬
‫ک‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫پم‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫صن خ‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ہ ی ں۔‬
‫واری‪،‬حملک تکی‬‫ن‬ ‫والی ماہ‬
‫ن ش‬ ‫ے‬ ‫آ‬ ‫ش‬ ‫ی‬
‫ب‬
‫نالف کی و ہ سے پ‬
‫ج‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫کو‬ ‫عورت‬ ‫ے‬ ‫ی نف‬‫ں‬ ‫م‬ ‫۔۔۔‬
‫ے‬ ‫کی ذمہ داری اورت چ وں کی گہدا نت کو مد ن ظ ر ر ھ‬ ‫ت کالیئف‪،‬درد زہق ‪ ،‬است جکا ب وج ھ‪،‬دودھ پ الےن ق‬
‫ب‬
‫اس‬ ‫دی کہ ج ہاد مع ٹی تن التکے عور وں فپر واج نب ہی ں ن یک و کہ ٹ‬ ‫ہ وےن اس مو ف کوی ر ی ح ش ق‬
‫عورت ہی ں ا ھا‬ ‫ے و کہ ی ہزما ہ س ت‬ ‫ج‬ ‫ت الزمی ا قھا ان پڑ ی ہ‬ ‫ں حم ت‪،‬ب وج ھ اور ا سی م‬ ‫می ت‬
‫ے ہ کہ‬‫ن‬ ‫ج‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫سک لی‪ ،‬اور ی ہ ت‬
‫عورت ن ی کر کت ی ہ‬ ‫ن‬ ‫ے شو‬ ‫سب کا یسب ج ہاد ی جکا ای ک ر گ ہ‬
‫کے‬ ‫سمت می ں ادی کر ا ہی ں ہ شو ا‪،‬اور چک ھ ق‬ ‫ت‬ ‫نمرد‪ ،‬ی کن چک ھ عور ی ں ا سی نہ ن و نی ہ ی ں ت تن کی‬
‫ے طور پ تر ج ہاد می ں رکت قکا مو ع‬ ‫وں نکو ایس‬ ‫عور ج‬ ‫صی نب می ں حمل اور ب چ ہ ج ا ن ہی ں ہ و ا و ای سی‬
‫ے ب سا اوف ت‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ے م ضاسب ہ و‪،‬اور تویس‬ ‫ےجو ن‬ ‫دی ا ج ا اخچ اہ ی‬
‫ات‬ ‫ے ھی جگوی ا ہ مہار وں کے یل‬ ‫کے یل‬ ‫ان ق‬ ‫نای‬
‫موماعورت می ں اس کی طر ی‬ ‫ن‬ ‫ع‬ ‫کہ‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫پ سہ‬ ‫ی‬ ‫ڑ‬ ‫ت‬
‫رورت‬ ‫ئ‬ ‫کی‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫سما‬ ‫ج‬ ‫اص‬ ‫سی‬‫ن‬
‫ے اور ب ہادری‬ ‫ے ای مان‪،‬ج ذب‬ ‫سوا ی ت کے بموج ب ہی ں پ ا ی ج ا ی ۔ م لمان عورت اپ‬
‫‪12‬‬
‫خ‬ ‫جن ف‬
‫ب‬ ‫شکے ب اوصفتمسلمان جگو وج کی مدد می ں ز یم وں شکی نامداد و ندی کھ ب ت‬
‫ھال سے ب ڑھ کر ھی‬ ‫تر ک ہ و سک ی ے ی ون کہ آج قکی ن‬
‫کے‬
‫ت‬ ‫ےجن ف‬ ‫م‬
‫گ آالت پو ی توں پر ا حصار کر ی ہت‬ ‫ض‬ ‫ع ج‬ ‫ہ ک‬ ‫سی‬
‫ے ای ک رب ی ت ی ا ہ‬ ‫ے اس یل‬ ‫سے زی ادہ ل کی رورت یش آ ی ہ‬ ‫خا ات ونشکا مرد کی گہ ن ا مم‬
‫دن‬ ‫ب‬ ‫ے‬‫ی‬
‫ل‬ ‫کے‬ ‫عمال‬
‫ث‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫"‬ ‫ے۔‬‫ہ‬ ‫کن‬ ‫ق ض ج لی‬
‫ے کے عمومی ا ر‬
‫تکی‬ ‫ی‬ ‫ی شخ ر اوی ج ہادت کون فصرفتت ال ئ‬
‫کے مع ی می ں ہ یق ل‬
‫اس ئکی دی گر ا سام ب ھی ب یسجانتکرے‬
‫ض‬ ‫کے سا ھ نی کرے ہ وے ف‬ ‫بڑے د ومد‬
‫م‬ ‫ب‬ ‫عم‬
‫ے ہ ی ں‪،‬‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫صداق‬
‫ئ لک ت ھ‬ ‫کا‬
‫قت ہ م‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫ہاد‬ ‫تج‬ ‫ھی‬ ‫کو‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫را‬‫پی‬ ‫ل‬ ‫ر‬ ‫ہ ی ں ضاور ان پ‬
‫ں‪:‬‬ ‫اسی من می ںق آپ ج ہاد کی دی گر صور ی ں ب ی ان کرے وے ے ہ‬
‫ھ ی ب‬
‫ے‬ ‫ھی ہ‬ ‫سان و الب ی ان‬‫نک سم ج ہاد ب الل ت‬ ‫" ج ہاد کی ا سام اور اس کے در پج غات پمیق نں ای‬
‫سان‬ ‫ل‬
‫ے۔ ج ہا ب ا ل ن‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ادا‬ ‫ے‬‫ع‬ ‫ذر‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫طرف دعوت اور اس کا ی ام ہ چ ا خ‬ ‫ج و کہ اسالم کیئ ق‬
‫ی‬
‫ے زب ا ی‬ ‫و الب ی ان کی ک ی نا سام قہ ی ں می ں سے ای ک قسم ط ب ات‪،‬اس ب اق اور لی کچ رز کے ذری ع‬
‫ے‪،‬اور اسی‬ ‫ے اب الغ کی ہ‬ ‫ے کے ذری ع‬ ‫ے۔ا ہی ں اق سام میق ں سے ای ک ئسم مکالم‬
‫ب‬ ‫اضب الغ کی ہ‬
‫ے و ڈرا تمے کے کرداراوں‬ ‫ج‬ ‫ن‬
‫کے ری ب ری بسوہ م ی ڈی ا ین اب الغ ھی ہ‬ ‫ٹ‬ ‫اس ٹ ش‬ ‫من می ں ی ا ت‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ے‬
‫ع‬ ‫ذر‬ ‫ق‬
‫کے‬ ‫ی‬ ‫کہا‬ ‫والی‬ ‫ے‬ ‫ق‬ ‫چل‬ ‫وار‬ ‫سلہ‬ ‫ل‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫وی‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ق‬ ‫ر‪،‬‬ ‫ی‬‫ھ‬ ‫کی صورت مینں‬
‫ف‬ ‫ی‬
‫ہاد کی ا سام پر ای ک سم سول ج ہاد کا اض ا ہ ک ی ا‬ ‫می ں ے اب ن یشمخ کی ب ی ان کردہ جن‬
‫ن‬
‫‪،‬اسنسے می ئری مرادش ٹ‬
‫ایسا‬ ‫ےاور می ں ہ شی پ ہال وہ خص ہ وںض جس ے ی ہ اص طالح پ یش کی‬ ‫ہ‬
‫ے‬ ‫سے ت مم‬ ‫رے تکی م ت لف روری ات کو پورا کرے اور اس کے مت ئوع ئ تمسا ل‬ ‫ئن ض‬ ‫ا‬‫ع‬ ‫م‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ہاد‬ ‫ج‬
‫کرے۔اور ی ہ ئب العموم قایتک سے ئزا د دا رہع کار پر تم تل‬ ‫ش ت‬ ‫مادی ث قرور ف توں کوئ پورا‬ ‫اور اس کی‬ ‫ت‬
‫صادی ئدا رہ کار‪ ،‬لیتمی ی ا رب ی ئ ی‬ ‫ے‪ :‬فسا سی ی ا ا ی دا رہ تکار‪ ،‬معا ر ی ئدا رہ کار‪،‬ا ت‬ ‫ہ وئ اہ‬
‫ی‬
‫ئ رہ کار اور ہذ ب ی دا رہ‬ ‫تل ی ا ی دا‬ ‫ن ق ی ا بط ی دا رہت کار‪،‬ماحو‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫دا رہ کار‪ ،‬ظ ان صحت سے‬ ‫ح‬
‫ے‬ ‫ے ج ہاد پر بتی عت کے یل ت‬ ‫ﷺ ے تاسی کی طرف نم وج ہ کرے ہ ون‬ ‫کار۔۔۔ رسول کری فم ت‬ ‫ن‬
‫ں؟اس ےج تواب ا کہا ھا‪ :‬ج ی ہ اں‪ ،‬و‬ ‫ن دہ ہ ی ش‬‫سے رمای ا ھا کہ‪:‬ک ی ا نی رےخ والدی ن ز‬ ‫ت‬ ‫لے‬ ‫ف‬ ‫ا‬
‫ن‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫آ‬
‫ے۔"ف‬ ‫ف‬
‫ہاد‬ ‫مہارا‬ ‫ہی‬‫ض‬ ‫ی‬ ‫‪،‬‬ ‫کرو‬ ‫ش‬ ‫کو‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫ش‬ ‫کر‬ ‫وش‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫او‬ ‫س‬ ‫پ‬ ‫وا‬ ‫ھا‪:‬‬ ‫ا‬ ‫رما‬ ‫ے‬ ‫آپ‬
‫ہ گت‬ ‫ج مت ص‬
‫گردی نکے مو وع پر ف ل گو‬ ‫ن‬ ‫ئکت اب می ں لح امن ‪،‬ارھاب اور د‬‫ہ ت‬ ‫ی مس ج‬
‫ک مکمل ب اب می ںض اسالمی ق طہ ظئر ف‬
‫سے اسب کی صخی الت‬ ‫ے اور ای خ‬‫کی گ ی ہئ‬
‫ص‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ل‬
‫ل حث کا الصہ‬ ‫ے میضں اس کمو ت وع پر ھی گ ی‬ ‫ں‪ ،‬ا ت ت ا یم ق‬
‫تی ہ یئ‬ ‫ب ی ان کی گ‬
‫ں‪:‬‬‫ش‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ل‬ ‫اوی‬ ‫ر‬ ‫ن‬ ‫المہ‬ ‫ع‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ب ی فان کر‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن خ‬ ‫ھ ی‬
‫ج‬
‫ف‬
‫ل‬
‫ق‬ ‫ص‬ ‫ل‬
‫من کو ڈراےن کی اطرت نطا ت نکینی اری‬ ‫ے و کہ د ت‬ ‫ل می ں رآ ی ظ ہ‬ ‫" ظ ارھاب ا ئ‬
‫ے اکہ وہ مسل ئما وں کو ر والہ ب ا ئے کی‬ ‫ہ‬ ‫اق می ںنوارد ہ خوا‬ ‫ے حکم کے س ی ئ‬ ‫ےگ‬‫ےن دی‬ ‫کے یل‬ ‫خ‬
‫ے‬ ‫ز‬ ‫ا‬ ‫اب‬ ‫ش‬ ‫ه‬‫ار‬ ‫ہ‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬ ‫ال‬ ‫ہ‬ ‫ان ر چ ڑھا ی کرے کا ت ال دل م ں ن‬ ‫ن‬ ‫اور‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ر‬‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ش‬ ‫ہ‬‫وا‬
‫ج ہ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫پ‬
‫ارھاب ن(دہ ت گردی) کی‬ ‫ے ۔خج ب کہ آج ن‬ ‫اور اسے ہ مارے زماے می ں من لح امن کہا ج اش ا ہ‬
‫الح سے تمراد لوگوں کو ڈراغ ا‪ ،‬ت نان می ں ت دہ ت اور وف پ ھ ی ال ا اور ا ہی ں امن سے‬ ‫اص ط ن‬
‫ش‬ ‫ے۔‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ازع‬ ‫ر‬ ‫الح‬ ‫ق‬‫ط‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ے‪،‬‬
‫تف‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ص س ی‬ ‫محروم کر ہ‬
‫ا‬
‫سے چک ھ ب اال اق قدہ ت گردی کے زمرے می ں‬ ‫ت‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ں‬
‫ی ہی خ‬‫ں‬ ‫م‬ ‫چ‬ ‫ا‬ ‫پ‬ ‫کی‬ ‫ارھاب‬ ‫ت‬
‫س‬
‫ے۔اور وہ م ں ہ ں‪:‬‬ ‫ت‬ ‫ج‬
‫ی یش ہ یت ن‬ ‫ں شا ت الف پ ای ا ج ا ا ہ ش‬ ‫ارے می‬
‫ہری دہ‬ ‫آ ی ہ ی شں ب کہ چہک شھ تکے ب ش‬
‫ے‬‫ہری اور م نعا ر ی ز دگی کے لی‬ ‫کی‬ ‫لوگوں‬ ‫وکہ‬ ‫گردی ج‬ ‫ق‬ ‫گردی‪:‬‬ ‫ہری د ت‬ ‫‪ -۱‬خ ث‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫ہ‬
‫الف ہی ں۔‬ ‫ک‬
‫ے قمی ں سی کا ا تن‬ ‫ے‪ ،‬اس کوقج رم رار د‬
‫نی‬ ‫طرہ اب ت ش و ی ہ‬
‫ن‬
‫ے‬ ‫‪ -۲‬سامراج ی دہ ت گردی‪ :‬زمی ن پر ب ض ہ ج ماے‪ ،‬وموں کو زیر کرے اور ان کی ب اگ ڈور پا‬
‫‪13‬‬
‫ن‬ ‫ش‬
‫ق ق‬ ‫ش‬ ‫۔‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫گردی‬ ‫ت‬ ‫ہ ات ھ م ں رکھ کر سامراج شی دہ‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫تی‬
‫ے د م وں کا لع مع کر خے اور ان کا‬ ‫)‪ :‬ری است کا پا‬ ‫گردی‬ ‫ارھاب (دہ ت‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫‪ -۳‬ری افس‬
‫ن ش‬
‫ان می ں سے کسی گروہ کے الف مادی‬ ‫ا‬ ‫وں‬
‫ی پ ت خی ی ن‬ ‫ہر‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫عی‬ ‫س‬ ‫کی‬‫ت‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫صق‬
‫عمال کر کے ری اس یق وف پ شھ ی ال ا۔‬ ‫ش‬ ‫طا یت ق کا اس‬
‫ن س‬ ‫ہ‬ ‫‪ -۴‬ب ی ن اال وامی دہ ت‬
‫ے‬ ‫گردی‪ :‬ب ی ن اال وامی د ت گردی ج وکہ پوری د ی ا کی طح پر ہ و رہ ی ہ‬ ‫ت‬
‫ش‬ ‫ق‬ ‫ئ‬ ‫ے۔‬ ‫کب ہ و رہ ا خہ‬ ‫اور آج امریش کہ جس کا مر ت‬
‫‪ -۵‬س ین اسی دہ ت گردی ‪ :‬حکوم وں کے الف محاذ آرا ی کے مو ع پر س ی اسی د گردی‬
‫ت‬ ‫ہ‬
‫ش‬ ‫قق‬ ‫ق ض‬ ‫کر ا۔"‬
‫کے رعی اتحکام‬ ‫اوی کی ج ہاد کی ح یخ ت اور اس ف‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫وسف ر‬ ‫المہ ی ف‬ ‫ت عع ش‬
‫ع‬ ‫م‬
‫ہادی کر سے لق‬ ‫اق کت اب ہ ا جلہاد سے ما وذ ان کی ج ن ت‬
‫ھ‬ ‫ک‬ ‫سے م ئ لق ہرہ آ نق ت‬
‫ے کہ فان کی‬ ‫ے آ نی ہ‬ ‫ت‬ ‫سے ی ہ ب اتش ل کر سامن‬ ‫اسات ن‬ ‫ن‬ ‫ےش تچ ی دہ چ ی دہ ا ب‬ ‫ہ‬ ‫ےگ‬ ‫دی‬
‫روغ‬ ‫رے می ں ا ہا پ س دی کے ف‬ ‫ق‬
‫ی م ح ق‬ ‫عا‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ف‬
‫اورا‬ ‫ا‬ ‫کر‬
‫ن ب ن ن‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫کی‬ ‫گردی‬ ‫ٹ‬ ‫د‬ ‫طرف‬
‫ے ان کی کر‬ ‫ی ہ‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫کہ‬ ‫ل‬ ‫ب‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ن‬ ‫صا‬ ‫لوث ت ھ نہرا ا سراسر اا‬ ‫نمی ںن م‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫سب سے ب ڑی‬ ‫ے جس کی ن ق ن‬ ‫ن‬ ‫سے روک نیت ہ‬ ‫چ‬ ‫چ‬ ‫وج وا وں کو ا ہاپ س دی کی طرف ج اے‬
‫ےن ۔ پوری کت اب ی خ ی خ کر ا ہاپ س دی کے صا ات ب ی ان‬ ‫ہ‬ ‫س‬‫دل ی ل ی ہی کت اب‬
‫ے۔‬‫امن اور رواداری غ کا تدرس دےترہ ی ہن ن‬ ‫ن وں کو ش‬ ‫ےضاور م لم ج وا‬ ‫کررہ شی ہق‬
‫ع‬ ‫ف‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫ے ظ ری ات‬ ‫ے نج ہاد‪،‬د گردی اور ب اوتصسے م لق اپ‬ ‫ق ی خ نر اوی ش ن‬
‫ے‬ ‫کی رو ی مسی ں اس کت اب می تں س ی لس سے تب ی ان کر دی‬ ‫رآن نو س ت ن‬
‫ے اور س ی کھ‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ک‬‫ئ‬‫س‬ ‫ق‬‫کھ‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫کا‬ ‫امن‬ ‫ن‬ ‫اور‬ ‫دال‬ ‫ت‬ ‫ع‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫ق‬ ‫وان‬ ‫ج‬‫و‬ ‫ہ ی ں‪،‬ج ہی ں پڑھ کر‬
‫ف کے ار یتن اور مخ اطب ی ن‬ ‫آپ اپ ی فصن ی ف‬ ‫کے مت قدمہ تمی ں ق‬ ‫ے۔کتتاب ئ‬ ‫رہ یعہ‬
‫ت‬
‫مام طب ات کا ردا ردا تذکر کرے تہ ی ں کہ ینہ‬ ‫ن‬ ‫ے ہ وے ری ب ا‬ ‫کی ی ی ن تکرن‬
‫ے‬ ‫ے لما اور اسالم پ س دوں نکے لی ن‬ ‫ع‬ ‫نکت اب می ں‬
‫اکہ وہ فاپ‬
‫ک‬ ‫ل‬
‫ے ت الی ف کی‬ ‫ے اس لی‬
‫ص‬
‫ئ راد‬ ‫ےا‬‫ھے ھ‬ ‫ئ‬
‫ے کی ی ح کر لی تں‪،‬و ال‪،‬س ی است دا وں‪ ،‬ج ر ی لوں قاور مام پئڑ ن‬ ‫ک‬ ‫ح‬ ‫ظ ری‬
‫ے لکھی اکہ وہ اسالم کے ب ارے می ں ا م کی گ ی اپ ی راے پر‬ ‫ے اس لی‬ ‫کےنلی‬‫ن ث‬
‫خ‬ ‫ظ ر ا ی کری ں۔‬
‫ن اسالمی‬ ‫ان می ں ب ا تل صوص‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ف‬ ‫موم‬ ‫ع‬‫ل‬‫ا‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ن‬‫د‬ ‫المی‬ ‫س‬ ‫ش‬‫ےا‬ ‫ف اس لی‬
‫ع‬ ‫پ کس‬ ‫ی ی ضب‬ ‫ہ‬
‫ے والے‬ ‫گردی ضکے مو ف قوع پر کری و لمی مواد خ ی ارکر ن‬ ‫ٹق‬ ‫ت‬ ‫کر‪،‬ج ہاد‪،‬اور د‬
‫لف زب نا وں می ں‬ ‫ت ئ‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫س‬
‫ہاد کا اردو می قش‬ ‫کی ج ہ ا جل ت‬ ‫اوی ن‬ ‫س‬ ‫ے داک ر تر‬ ‫ئ‬ ‫تاداروں کو چ اہشی‬
‫کروا کر ا ع کریف ں اکہ لم و شوان اور مام مذاہت ب وح قعب ہ ہ اے ز فدگی سے‬ ‫م‬ ‫ت رج مہ‬
‫ع‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ک‬
‫المی کر سے‬ ‫خ‬ ‫ق ی ی اس‬ ‫ے والے ا راد ج ہاد اور د ت سگردین سے م ل خ‬ ‫ھ‬ ‫علش نق ر‬
‫سے دا لی طور پر ارج ی ت اور‬ ‫رو ناسن ہ وں‪ ،‬اس سے ج تہاں م لم د ی ا خ ت‬
‫ے) ا مہ ہ و گا وہ ی ں نامن قکے سب‬ ‫ان تہاپ س دا ہ سوچ کا (جس حد ک وج ود ہ ئ‬
‫سے ب ڑے داعی مذہ ب کو ب اہ ر سے ب ھی کو ی ری ڈیکل اسالم ہی ں رار دے‬
‫ے گا۔‬ ‫سک‬
‫‪14‬‬

‫خ‬
‫ا ت ت امی ہ‬
‫فق‬ ‫خ‬ ‫فق‬ ‫خ‬
‫اب ت ہ ق اق جلہاد می ںت ا ت یت ار غکردہ خ ہی‬‫ع‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫ری‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ہ)‬ ‫ت ج (ی ہ ا ج ت ش ی‬
‫ام‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ح‬
‫ہادی است ن ب اطات‪ ،‬لمی ی ات اور ج زی ا ی ور و وض‬ ‫حات‪ ،‬ا ت‬ ‫ری ن ئ‬
‫ے۔‬ ‫م‬ ‫م‬
‫کے ت ا ج پر ل ہ‬
‫(‪)1‬‬

‫‪-‬شیخ قرضاوی اس کے حاشیے میں لکھتے ہیں‪" :‬ہم نے اس اہم اختتامیے‬ ‫‪1‬‬

‫کا اضافہ س عودی ع رب کے ش ریف زادے اور پی ارے بھ ائی ڈاک ٹر علی‬
‫حم زہ العم ری کی تج ویز پ ر کی ا‪ ،‬ان کی رائے تھی کہ اس میں فقہی‬
‫اختی ارات و ترجیح ات پ ر اکتف ا کی ا ج ائے‪ ،‬اور اس عم ل میں انہ وں نے‬
‫مقدور بھر کوشش کر کے اپنا حصہ ڈاال جس پ ر ہم نے نظرث انی کی اور‬
‫کچھ اض افات ک یے‪ ،‬ہللا ان کی مس اعی ک و قب ول فرم ائے‪ ،‬لیکن ہم نے‬
‫مناسب سمجھا کہ اس کے دائرے کو وسعت دی ج ائے ت اکہ جس ق در ہ و‬
‫س کے اجتہ ادی اس تنباطات‪ ،‬علمی تحقیق ات اور تجزی اتی غ ور و خ وض‬
‫جیسے امورشامل کر دیے جائیں‪ ،‬چنانچہ اب یہ اختتامیہ کتاب میں مذکور‬
‫بنیادی مفاہیم کا خالصہ بن گیا ہے‪ ،‬اور اس عم ل میں پی ارے بھ ائی ش یخ‬
‫مج د مکی نے گرانقدرحص ہ ڈاال ہے‪ ،‬ہللا انہیں ج زائے خ یر دے۔"‬
‫القرضاوي‪ ،‬محمد يوسف‪2001 .‬م‪ .‬فقه الجهاد‪ .‬دوحة‪ :‬دار الشروق‪.‬‬
‫‪15‬‬

‫(‪)2‬‬
‫حصہ اول‬

‫ح‬ ‫ف‬
‫م‬ ‫حق ق‬
‫ب اب اول‪ :‬ج ہاد کی ی ت‪ ،‬ہوم اور کم‬

‫ح‬ ‫ف‬
‫م‬ ‫حق ق‬
‫( ‪)3‬‬
‫ب اول‪ :‬ج فہاد کی ی ت‪ ،‬ہوم اور کم (‬
‫) بف ا ق‬ ‫ف‬
‫ف ق‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ادہ وسیمعفہ‬ ‫ی‬‫ز‬ ‫سے‬ ‫ظ‬ ‫ن ہاد کا م ہوم ت ال کے ل‬ ‫ج‬ ‫ظ‬ ‫‪ -1‬ل‬
‫ل‬ ‫من‬ ‫تج‬
‫ے کہ ع ی و ہوم ئکے لحاظ سے ظ ت ال کی ب ہ‬ ‫می فں ے اس ب ات کو ر ی ح ندی ہ‬ ‫ن‬
‫ے) کا تدا رہ کہی ں زی ادہ وسعت ثکا حامل‬ ‫وا‬ ‫ہ‬ ‫وارد‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫و‬‫ش‬‫اب‬ ‫ت‬ ‫کہ‬
‫ف ک‬ ‫یسا‬ ‫ج‬‫(‬ ‫ہاد‬ ‫ظ‬
‫ب ق ج‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫س‬
‫ے‪ ،‬اور اک رخ لوگوں‬ ‫ل‬ ‫ال کے م ہوم م ں د من کےی مق ا لہ م ں اہس حہ کا اس عمال ش ام‬ ‫ے۔ ت‬
‫نہ‬ ‫غ‬ ‫شل ق‬ ‫ن فبق ی‬ ‫ی‬ ‫ن‬
‫ہ‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫م‬
‫اور ل وی ع ی ج ہاد سے لف‬ ‫ل‬ ‫ج‬
‫م‬ ‫س‬ ‫ط‬ ‫ی‬
‫ے حاال قکہ ظ ت ال کانا ت اق ش‬ ‫ہ‬
‫ف‬ ‫ھا‬ ‫لب‬ ‫م‬ ‫ہی‬ ‫کا‬ ‫ف‬ ‫ہاد‬ ‫ج‬ ‫ت‬‫ے‬
‫ے اور اس طرح ی ہ‬ ‫الح می ں ل ظ ج ہاد ب ت ال نکے مع ی میت ں م ہور ہ و گ ی اہ‬ ‫ت‬ ‫ے اہ م ق ہ کی اص ط‬ ‫ہ‬
‫ئ‬
‫(‪)4‬‬
‫ے۔ اہ م اص طالح پر حث ہی ں کی ج ا ی۔‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫گ‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫الح‬ ‫ط‬ ‫اص‬
‫‪2‬‬
‫‪ -‬اصل کتاب دو حصوں پ ر مش تمل ہے‪ ،‬ہم نے اص ل ک و م دنظر رکھ تے ہ وئے اس‬
‫ترجمے کو بھی دو حصوں میں تقسیم ک ر دی ا ہے اور توض یحی حواش ی و تعلیق ات‬
‫کے لیے صرف حصہ اول کو مختص کیا ہے۔ مترجم۔‬
‫‪3‬‬
‫‪ -‬اختتامیے میں مصنف نے اس طرح ابواب بندی اور فصول کا اہتم ام نہیں کی ا جیس ا‬
‫کہ اصل کتاب میں ہے‪،‬ہم نے قارئین کی آسانی کے لیے ترجمہ میں ہر باب سے پہلے‬
‫الگ سے باب کا عنوان دیا ہے جسے آخر تک ملحوظ رکھا گیا ہے۔ مترجم۔‬
‫‪4‬‬
‫‪ -‬یہ مشہور عربی قاعدے (المشاحة في االصطالح) کا ت رجمہ ہے‪،‬اس کے مفہ وم کی‬
‫تعیین میں کافی اختالف پایا جا تا ہے یہاں تک کہ ای ک ع رب س کالر ڈاک ٹر محم د بن‬
‫‪16‬‬
‫ف‬
‫‪:‬‬‫(‪)5‬‬
‫ہوم‬ ‫‪ -2‬ل ف ظ اسالمی ہاد کا م‬
‫تج‬ ‫ف‬ ‫ن ف ج‬
‫سی مسلمان کا‬ ‫سے قمراد ک ن‬
‫اس ت‬ ‫دی جسنمی ں‬ ‫ش‬ ‫کے اس خم تہوم کو ر ی ح‬ ‫ن می ں ے قل ظ ج ہاد ئ‬
‫ے(اور‬ ‫ط‬ ‫اپ ی بساط کے ب در ک تسی برا ی کے ا م‬
‫ے کو ش کر ا اور ب ا ل کا عا ب کر ا ہ‬ ‫ے کے یل‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ے ہ ی غں)ن‬ ‫ل ی ن درج‬ ‫اس کے درج ذی ش‬
‫‪ .1‬پ ہئال درج ہ خ ی طان کے نور الے کی وج ہ سےاپ ی ذات می ں (پ ی دا ہ وے والی)‬
‫ئ‬ ‫ئ ن‬ ‫ے۔ ش‬ ‫برا ی کےن الف جن ہاد کر پ اہ‬
‫ن‬
‫ے گردو یش می ں معا رے کے ا در(پ ا ی ج اے والی) برا ی کا‬ ‫دوسرے مب ر پر اپ‬
‫ن‬ ‫‪ .2‬ق‬
‫ن‬ ‫ش ت ق‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ا۔‬ ‫کر‬ ‫لہ‬
‫خ‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫م‬
‫‪ .3‬اور آ ر ی (بل ن د ری ن درج ہ) اپ ی طا ت کے ب در کسی ب ھی ج گہ ر کا عا ب کر ا‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫ت‬
‫ض‬ ‫ع‬
‫م‬ ‫ش‬ ‫ئ‬ ‫تعق‬
‫ے‪:‬‬‫نب السیف کا لق معامالت سے ہ‬ ‫‪ -3‬ج ہاد‬
‫ت‬
‫است سے م ل ہ مسا ل کے من می ں ا فل‬
‫ق‬ ‫ں ےق ج ہاد ب قالسیف کو امت و رعی ش‬ ‫ن می ق‬
‫ے ج و کہ ہ‬ ‫ہ‬ ‫سے‬ ‫کام‬‫ح‬‫ا‬ ‫کے‬ ‫است‬ ‫سی‬ ‫رعی‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫کہ‬ ‫ا‬ ‫ی‬‫د‬ ‫رار‬ ‫اس‬ ‫کرقے(کو‪ )6‬ی ی‬
‫ن‬ ‫ر‬
‫م اصد و مصالح ‪،‬‬
‫(‪)7‬‬

‫حسین الجیزانی کو اس قاعدے کا معنی متعین کرنے کے لیے ایک تحقیقی مق الہ لکھن ا‬
‫پڑا ج و کہ "المش احة في االص طالح‪ :‬دراس ة أص ولیة تطبیقی ة" کے عن وان س ے مجلۃ‬
‫األصول والنوازل کی جلد ‪ -۱‬شمارہ ‪۲‬۔ رجب ‪۱۴۳۰‬ھ– جوالئی ‪۲۰۰۹‬ء میں شائع ہ وا۔‬
‫ہم نے اس مقالے سے استفادہ کرتے ہوئے یہ ترجمہ کیا ہے۔ مترجم۔‬
‫‪5‬‬
‫‪ -‬ڈاکٹر طاہر القادری نے اپنی کتاب " الجہاد االکبر" میں لفظ جہاد کے لغوی و‬
‫اصطالحی مفہوم پر ب ڑی نفیس بحث کی ہے اور ش یخ قرض اوی کے موق ف کی تائی د‬
‫کی ہے۔ دیکھی ئے‪ :‬الق ادری‪ ،‬ط اہر۔ ‪2015‬ء۔ الجہ اد االک بر۔ الہ ور‪ ،‬منہ اج الق رآن‬
‫پرنٹرز۔ ‪13‬۔‬
‫‪6‬‬
‫‪ -‬فقہ المقاصد اور فقہ المصالح ای ک ہی علم کے دو ن ام ہیں‪ ،‬مص نف نے اص ل کت اب‬
‫میں بھی ان دونوں کو ایک س اتھ ذک ر کی ا ہے‪،‬ہم نے اص ل کی رع ایت ک رتے ہ وئے‬
‫ترجمہ میں بھی دونوں کو جمع کر دیا ہے۔اگلے حاشیے میں اس علم کی تعری ف بی ان‬
‫کی جاتی ہے۔مترجم۔‬
‫‪7‬‬
‫‪ -‬متقدمین اہ ِل علم کے ہ اں فقہ المقاص د والمص الح کے ن ام سے مس تقل کس ی علم کا‬
‫وج ود نہیں تھابلکہ اص ول فقہ کے ض من میں ہی اس علم وفن س ے بحث کی ج اتی‬
‫تھی‪،‬چن انچہ فقہ و اص ول فقہ کی کت ابوں میں مقص د‪ ،‬مص لحت‪ ،‬حکمت‪ ،‬منفعت اور اس رار‬
‫وغیرہ کی ج و تعب یرات مل تی ہیں انہی مب احث ک و مت اخرین نے ال گ س ے عن وان دے ک ر‬
‫مس تقل علم کی ش کل دے دی ہے۔اس موض وع پ ر ش یخ نورال دین الخ اومی نے "االجتهاد‬
‫المقاصدی حجیت ه‪ ،‬ض وابطه‪ ،‬مجاالت ه" کے ن ام س ےمفید کت اب لکھی جس میں المقاص د کی‬
‫تعریف یوں کی ہے‪:‬‬
‫المقاصد ھي المعاني الملحوظة في ا ألحکام الشرعیة والمترتب ة علیھ ا س واء أک انت تل ك‬
‫‪17‬‬
‫قئ‬ ‫ن‬ ‫(‪ )9‬ف ق‬ ‫ن (‪ )8‬ف ق‬ ‫فق‬
‫ے۔‬
‫اولوی اتن(‪ ) 10‬کی ب ی اد پر ا ہ ن‬
‫م‬ ‫ہ مواز ات ‪ ،‬ہ مآالت اور قہ ش‬
‫ن نسے الگ ہی ں نکر دی ت ا‬ ‫کی ای ک سم مار کر ا اسے دی ق ن‬ ‫ت‬ ‫اور می را ج ہاد کو معامالت ہ ی‬
‫ن‬
‫اس می ں ی ت‬ ‫ے‪ ،‬خاور قج ب ج ہاد خ ا و ی ہ و اور ت‬ ‫بیک و کہ معامالت کا ع ب ادات شکے سا ھ گہرا رب ط ہ‬
‫ھی درست ہ و ی ااسقمی ں رعی حدود اور اسالمی ا ال ی تات کا ی ال رکھا گ ی ا ہ و و ی ہ ہللا کی‬
‫س‬
‫ق‬ ‫ے۔ ت‬ ‫ع ب ادت اور اس کے رب کا سب سے ب ڑا وس ی لہ جم ھا ج ا ا ہ‬
‫ن‬
‫ے‪ ،‬اور ت ال‬ ‫ے ہ کہ اسح ب اب کے یل‬ ‫ےہ‬ ‫القتال) وج وب کے یل‬ ‫عليكم ق‬
‫ف‬ ‫‪ -4‬آی ت (كتب‬
‫ے‪:‬‬ ‫رض ت ال ہ‬ ‫سے مراد تامت پر ف‬ ‫ن‬
‫می ں ے ہللا عالی کے رمان‪:‬‬
‫ب َعلَ ْي ُك ُم ْالقِتَالُ﴾"‬‫"﴿ ُكتِ َ‬

‫المعاني حکما جزئیة أم مصالح کلیة أم ِسمات إجمالیة وھي تتجمع ضمن ھدف واحد‪ ،‬ھو تقریر‬
‫عبودیة ہللا ومصلحة اإلنسان فی ال دارین‪ .‬الخ اومي‪ ،‬ن ور ال دين‪1999 .‬م‪ .‬االجتهاد المقاص دی‬
‫حجیته‪ ،‬ضوابطه‪ ،‬مجاالته‪ .‬بيروت‪ :‬دارالعلم للماليين‪.1:52 .‬‬
‫”مقاصد سے مراد وہ اہ داف بھی ہیں ج و ش رعی اَحک ام میں ملح وظ رکھے گ ئے ہیں‬
‫اور وہ بھی ہیں جو اُن شرعی احکام پ ر م رتب ہ وتے ہیں‪ ،‬خ واہ وہ اہ داف ج زوی حکم تیں‬
‫ہوں‪ ،‬کلی مصلحتیں ہوں یا اجمالی نشانیاں‪،‬اور یہ سب مقاصد اپنے ضمن میں ای ک ہی ہ دف‬
‫الی کی بن دگی ک ا اظہ ار کرنااور انس ان کے ل یے دنی ا‬‫رکھ تے ہیں اور وہ یہ کہ‪ :‬ہللا تع ٰ‬
‫اورآخرت میں فائدہ بہم پہنچانا “۔‬
‫‪8‬‬
‫‪ -‬فقہ الموازنات سے مراد مصالح اور مفاسد کا تین طرح سے موازنہ کرنا ہے‪:‬‬
‫‪ -1‬جائز َمصالح‪َ ،‬منافع اور بھالئیوں کا ٓاپس میں موازنہ۔‬
‫‪۲‬۔ ممنوع َمفاسد‪َ ،‬مضرتوں اور برائیوں کا ٓاپس میں موازنہ۔‬
‫‪۳‬۔ اسی طرح مصالح و مفاس د اور منفعت و مض رت کے ب اہم متص ادم ہ ونے کی‬
‫صورت میں موازنہ۔ السوسوة‪ ،‬عبدالمجید۔‪2004‬م‪ .‬فقه الموازنات في الشریعة الإسالمية‪ .‬دبي‪:‬‬
‫دارالقلم‪.13 .‬‬
‫‪9‬‬
‫‪ -‬مکلف کے اعمال پر مرتب ہونے والے ان اثرات و نت ائج کی رع ایت کرن ا ج و کہ‬
‫شرعی حکم کی تکییف پر اثرانداز ہوتے ہیں فقہ المآالت کہالتا ہے‪،‬جیس ا کہ حض رت‬
‫خضر کا بادشاہ کے ڈر سے کشتی میں سراخ کرنا۔ العثم اني‪ ،‬س عد ال دین‪2017.‬م‪ .‬فق ه‬
‫المآالت مفهومه وقواعدہ‪ .‬القاهرة‪ .‬دارالکلمة‪.17 .‬‬
‫‪ - 10‬فقہ االولویات سے مراد اس امر کا فہم ہے کہ جو عمل اہم ہو اسے غیر اہم پر‪ ،‬اور‬
‫جو راجح ہو اسے مرجوح پر مقدم رکھ ا ج ائے‪،‬اور ہ ر حکم ک و ش ریعت کے مط ابق‬
‫مق ام دی ا ج ائے‪ ،‬اس موض وع پ ر عالمہ قرض اوی نے (في فق ه األولويات )کے ن ام‬
‫سےمستقل کتاب لکھی ہے جوکہ مؤسسۃ الرسالہ بیروت سے چھپی ہے۔‬
‫‪18‬‬
‫ت ف‬
‫(‪)11‬‬
‫ے۔"‬ ‫ی‬
‫ئ‬
‫گ‬ ‫دی‬ ‫کر‬ ‫رض‬ ‫ر‬ ‫م‬ ‫الف)‬
‫خ‬
‫کے‬ ‫روروں‬ ‫ہ‬ ‫"ج ن گ (ظ الموں اور ف ت ن‬
‫ہ‬ ‫پ‬ ‫ئ پ‬
‫ن ج ق‬ ‫کو استح اب کے ب‬
‫ے اور ج و (امام) نج ق صاص‬ ‫یہ‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫رار‬ ‫ح‬ ‫را‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬
‫تف ل‬ ‫وب‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ب‬ ‫ن‬
‫ش‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬
‫ان کے موی دی ن سے ل ک ی ا‬ ‫ن‬ ‫اور‬ ‫رمہ‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ر‬ ‫ی‬‫س‬ ‫کی‬ ‫"‬ ‫﴾‬ ‫ل‬‫ُ‬ ‫َا‬ ‫ت‬ ‫ِ‬ ‫ق‬ ‫ال‬ ‫م‬
‫ُ‬ ‫ك‬ ‫ْ‬
‫ي‬ ‫ل‬ ‫ع‬‫َ‬ ‫ب‬
‫َ‬ ‫ِ‬ ‫ت‬‫ك‬ ‫﴿‬‫ت‬ ‫"‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫آ‬ ‫ے‬
‫ے کہ‬ ‫ے‪ ،‬و می ں ےناس کا ابخ طال ک ی ا ہ‬ ‫وب کے یل‬ ‫ے ن ہ کہ وج ن‬ ‫ےہ‬ ‫اب کے یل‬ ‫ے کہ ی ہ فاس ح ب ف‬ ‫ہظ‬
‫ے ج یسا‬ ‫فہ‬ ‫الف‬ ‫کے‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫م‬
‫ت‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫آ‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ن‬ ‫ہ‬‫ذ‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫طور‬ ‫وری‬ ‫اور‬ ‫ظ‬ ‫ل‬ ‫ری‬ ‫یہ ہ‬
‫ا‬
‫ے‬ ‫صيَا ُم﴾"میں ہے‪ ،‬یعنی م پر (روزے ) رض یک‬ ‫ب َعلَ ْي ُك ُم ال َّ‬ ‫کہ (دوسری ) آی ت "﴿ ُكتِ َ‬
‫ئ‬
‫ت‬ ‫ے ہ ی ں۔ ن ن‬ ‫گ‬
‫ے‬ ‫کے ب ارے می ں ب ی فان ک ی ا قکہ وہ اس ح ب اب کے لی‬ ‫ق‬ ‫(‪)12‬‬
‫ت‬ ‫ی‬‫ص‬‫ن‬ ‫و‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫آ‬ ‫ے‬ ‫ہوں‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫اور‬ ‫ت‬
‫ن‬ ‫ق‬
‫رض رار دی ا گ ی ا اس کا ب ی ان‬ ‫امت پر ن‬ ‫ے و ی ہ ب ات ب ھی اب ل ب ول ہی ں‪ ،‬یک و کہ ج و ت ال ت ق‬
‫ے ج و اس امت کے‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ال‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫مراد‬ ‫سے‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫آ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ات‬ ‫ہت‬‫ش‬
‫ہ‬ ‫ی ہ یہ‬ ‫گ‬ ‫ئ‬ ‫گز ت ی‬
‫آ‬ ‫ہ‬
‫ے۔‬‫سورت می ں ب ی ان ک ی ا گ ی ا ہ‬ ‫ف‬ ‫ے ہ وں‪ ،‬ج یسا فکہ‬ ‫سا ھ لڑا ی می ں پش ل کرحرہ ف‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫رض جعی ن ی ا رض ک ای فہ؟‬ ‫ت‬ ‫نکا رعی ق کم‪:‬‬ ‫‪ -5‬ج ہاد‬
‫ہاد م ی ن پر ب ہ ہ ر صورت واج ب ہی ں ہ و ا‪،‬‬ ‫ل‬ ‫ک‬
‫ول کو ) ر ی ح دی کہ جت‬ ‫می ں ے (اس ن‬
‫ج‬
‫اب وے ہ ی ں یسا کہ‪:‬‬ ‫ہ‬ ‫نوے کے اس ب‬ ‫ب لکہ اس کے واج ب ہ‬
‫ش‬
‫‪ ‬حد سے گزرے والوں کی سرک ی کو روک ن ا۔‬
‫ن‬ ‫ف‬
‫‪ ‬اہ ل ای مان کے دی ن می ں ت ن ہ پ ی دا کرے کو روک ن ا۔‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫‪ ‬مصی ب ت زدوں کو ج ات دالش ا ۔‬
‫ن‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ٹ‬
‫ئکات وف ہ و ا۔‬ ‫ے‬ ‫ے د م وں کے حمل‬ ‫‪ ‬اور کمی ن گاہ وں می ں ب ی ھ‬
‫ت‬ ‫ن ئن‬ ‫ب‬
‫ے‬ ‫ب ج ہاد کفسی خھی وج ہ سے واج ب ہ و ج فاے و تچک ھ لوگ دوسروں کی ما دگی کر سک‬ ‫اور ج ت‬
‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫رض‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫حاالت‬ ‫اص‬ ‫ر‬ ‫راد‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ہ ی ں‪ ،‬اور ی ہ م ی‬
‫ع‬
‫ن‬ ‫ئہ ن‬ ‫ی ق ن‬ ‫پ‬
‫ت" ﴿انفِ ُروا ِخفَافًا َوثِقَااًلت ﴾" اس و ت ازل ہ و ی ج ب ب ی (علی ہ السالم) ے‬ ‫‪ -6‬آغی ت‬
‫ن‬
‫ت‬ ‫ھی۔ ن‬ ‫ےم ادی کی ن‬ ‫وک کے یل‬ ‫زوہ بن‬
‫ے ج ہوں ے ارش اد ب اری عالی‪:‬‬ ‫یہ‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫واب‬ ‫ج‬ ‫کا‬ ‫ان‬ ‫ے‬ ‫می ں‬
‫"﴿انفِرُوا ِخفَافًا َوثِقَااًل ﴾"‬
‫ق‬ ‫‪11‬‬
‫‪ -‬الب رۃ‪.216:‬‬
‫‪12‬‬
‫‪ -‬آیت وصیت س ے م راد س ورہ بق رہ کی آیت نم بر ‪ 180‬ہے جس ے یہ اں بمعہ ت رجمہ‬
‫ك َخ ْي رًا ْال َو ِ‬
‫ص يَّةُ‬ ‫ض َر َأ َح َد ُك ُم ْال َم وْ ُ‬
‫ت ِإن تَ َر َ‬ ‫ب َعلَ ْي ُك ْم ِإ َذا َح َ‬
‫پیش کی ا ج ا رہ ا ہے۔‪ُ ﴿ :‬كتِ َ‬
‫ُوف ۖ َحقًا َعلى ال ُمتقِينَ ﴾ (البق رہ‪ )180 :‬تم میں جب کس ی کی‬ ‫َّ‬ ‫ْ‬ ‫َ‬ ‫ّ‬ ‫لِ ْل َوالِ َد ْي ِن َواَأْل ْق َربِينَ بِ ْال َم ْعر ِ‬
‫موت کا وقت قریب ہو اور وہ مال چھوڑ رہا ہ و ت و اس پ ر ف رض ہے کہ وال دین اور‬
‫قریب ترین رشتہ داروں کے لیے بہتر طریقہ پر وصیت کر دے‪ ،‬اہل تقوی پر یہ ای ک‬
‫حق ہے۔‬
‫‪19‬‬
‫غن‬ ‫فق‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫ک‬
‫ن‬
‫ن‬ ‫(‪)13‬‬
‫"‬ ‫ی)۔‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫و‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ھی‬ ‫ں‬
‫ی ف‬ ‫م‬ ‫ال‬ ‫ح‬ ‫س‬ ‫ج‬‫(‬ ‫ھاری‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ے‬‫ک‬ ‫ے) ہ‬
‫لو‪،‬‬ ‫" (ج ہاد کے یل‬
‫ے و رض قعی ن ہ ی ں۔ اور می نں نے‬ ‫ج‬ ‫دالل کقی ا کہ ج ہاد ان احکام می ں سے تہ‬ ‫سے است ج‬ ‫ف‬
‫ے کا‬ ‫ک‬
‫ے ل‬ ‫اس و ت ج ہاد کے یل‬ ‫ےنن کو ض‬
‫ج‬ ‫(اس تم ہوم کو) را ح رار دی ا کہ آپ کی مراد وہ لوگ ھ‬
‫ت‬ ‫ح‬
‫آپﷺ ے ( تح رت) کعب ب ن مالک اور‬
‫ت‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ے‬ ‫ے اورت اسی یل‬ ‫کہ ان پر واج ب ہ‬ ‫پ کم دی ا ھان‬
‫ے وقالے ان کے سا یھ وں سے رک لق کر ل ی ا ھا ی ہاں ک کہ ب عد می ں ہللا‬ ‫ے رہ ج ا ت‬‫یچنھ‬
‫ے ان کی وب ہ ن ب ول کر لی۔ ف‬
‫(‪)14‬‬

‫(‪)15‬‬
‫فانفروات" ن‬
‫استنفرتم ئ‬ ‫اسی طرح ب ی ﷺ تکے رمان‪ " :‬إذا‬
‫ک‬ ‫ن کن‬
‫ن کن‬ ‫ے کا کہا ج اے و قل ج ای ا کرو"‬ ‫ے ل‬ ‫"جش خب مہیبں ج ہاد کے یل‬
‫ے‬ ‫ے ل‬ ‫ت) ج ہاد کے یل‬ ‫امام (و ت‬ ‫ےن ک ن‬ ‫ے جس‬ ‫ھی (ج ہاد) واج ب ہ‬ ‫کی رو سے اس ق ص پر ف‬
‫ے و ان پر ب االج ماع ج ہاد‬ ‫ک‬
‫ے کا ہ‬ ‫ے ل‬ ‫ے۔اور ج بت امام و ت کسی رد ی ا گروہ کو ج ہاد کے یل‬ ‫فکا کہ‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ے۔) ف ض‬ ‫رض عی قن ہ و ج ا ا ہ‬
‫ش‬ ‫دامی ج ہاد کی ر ی ت پر کو ی اج ماع قہی ں۔‬ ‫(‪16‬‬
‫‪ -7‬ا ن‬
‫ے کہ ا دامی ج ہاد اور دن قمن پر سال می ں ای ک‬ ‫ےہ‬ ‫ج‬
‫ے ب ی ان ک ی ا کہ ی ہ فو کہا گ ی ا ہ‬ ‫ں ن‬ ‫ف می ئ‬
‫ے درست‬ ‫کا‬
‫چ ہ‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫د‬ ‫ع‬ ‫اع‬
‫پ ج م‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫اس‬ ‫کہ‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫رض‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫امت‬ ‫اس‬ ‫ا‬ ‫ق‬ ‫کر‬ ‫ی‬ ‫ند عہ چ ڑھا‬
‫ے‪ :‬ئ ت‬ ‫ش‬
‫ن ف‬
‫ان قپرت اس ش‬ ‫صرف مدو امور پر اج ماع ہگ‬ ‫ہ ں۔ اس مو ع ر‬
‫ی ہال‪ :‬ہ کہ ک پسی مس‬
‫سے ج ہاد شکر ا رض ہ و‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ت‬ ‫آ‬ ‫ھس‬ ‫من‬ ‫د‬ ‫ں‬
‫ی ن‬ ‫م‬ ‫لک‬ ‫لم‬ ‫ت پ ی‬
‫ے او ی کہ (د من) کست کھا‬ ‫ج ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫وا‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫امداد‬ ‫کی‬ ‫ران‬ ‫پ‬ ‫سب‬ ‫اور‬ ‫ے‪،‬‬ ‫جا ا ہ‬
‫‪13‬‬
‫‪ -‬التوبۃ‪.41 :‬‬
‫‪14‬‬
‫امیہ اور‬
‫ک‪ ،‬حض رت ہالل بن ؓ‬ ‫رام حض رت کعب بن مال ؓ‬ ‫‪ -‬یہ واقعہ تین ص حابہ ک ؓ‬
‫حضرت مرارہ بن ربیعؓ کا ہے جو غزؤہ تب وک س ے پیچھے رہ گ ئے تھے اور جن اب‬
‫نبی اکرم صلی ہللا علیہ وسلم نے انہیں مسلسل پچاس دن تک سوش ل بائیک اٹ کی س زا‬
‫دی تھی۔ قرآن کریم میں سورہ الت وبہ کی آیت ‪ ۱۱۸‬میں اس ک ا ذک ر کی ا گی ا ہے جس‬
‫مالک کی زبانی صحیح بخ اری کی کت اب‬ ‫ؓ‬ ‫کی تفصیلی روایت خود حضرت کعب بن‬
‫المغازی میں مالحظہ کی جا سکتی ہے۔ مترجم۔‬
‫‪15‬‬
‫‪ -‬صحیح بخاری‪،‬کتاب الجہاد‪،‬حدیث نمبر ‪.2783‬صحیح مسلم‪،‬کتاب االمارۃ‪،‬حدیث نمبر‬
‫‪.1353‬‬
‫‪16‬‬
‫‪ -‬اسالمی فقہ میں جہادکی دواقسام پر زور دار بحثیں ہوئی ہیں‪ ،‬پہلی قسم اقدامی جہ اد‬
‫کہالتی ہے جبکہ دوسری قسم کو دفاعی جہاد سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اقدامی جہادسے‬
‫مراد وہ جنگ ہے جب ایک اسالمی حکومت خود آگے بڑھ کر کسی دوسرے ملک پر‬
‫حملہ آور ہو ‪،‬جب کہ دفاعی جہادسے مراد وہ جنگ ہے جب کوئی دوسرا مل ک کس ی‬
‫پر ئاتفاق ہے جبکہ اقدامی ج ہاد‬ ‫فرضیت ق‬ ‫اسالمیع ملک پرع حملہ آور ہو۔ دفاعی جہاد کی ف ض‬ ‫ت‬
‫ے ج ب کہ دوسرا گروہ ا تسے‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ر‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ں‪،‬‬ ‫گروہ‬ ‫دو‬ ‫ش‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫فسے م‬
‫ے اور اس پر م عدد‬
‫تج ہ‬
‫دی‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫کو‬ ‫ے‬
‫ئ‬
‫را‬
‫ی‬
‫کی‬ ‫ت‬
‫ف ض‬
‫ض‬ ‫ر‬ ‫عدم‬
‫ی ب ی‬
‫ھی‬ ‫ے‬
‫ن‬‫ہ‬
‫اوی‬ ‫رض ن ہ ں سجم ت ا‪ ،‬ی خ ق رض‬
‫کے‬ ‫لم‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ق‬
‫ئ‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ی‬
‫ے۔مت رج م۔‬ ‫ے ہ ی ں ج ی سا کہ م ن کی ع ب ارت سے وا ح ہ‬ ‫دال ل پ یش یک‬
‫‪20‬‬
‫ئ‬
‫ق‬ ‫ئ‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ے۔‬ ‫جا‬
‫س‬ ‫ض‬ ‫ت‬
‫ے ج ا ی ں اور روری ع کری طا ت اور‬ ‫ئار یک‬‫ے ل کر ی‬ ‫کے یل‬ ‫ے‬
‫دوسرا‪ :‬ی ہ کہ د فمن فکو ڈرا ق‬ ‫ت‬ ‫ق ف‬
‫ت‬ ‫ت‬
‫رادی وت ی ار کی ج اے۔‬ ‫ت رب ی فت ی ا ہ ا ٹ‬ ‫ب در ک ای ف‬
‫فق ن‬ ‫نں رکاو ی ں‪ :‬ٹ‬ ‫‪ -8‬رض ک ای ہ می‬
‫ج‬
‫ے ہ ی ں ب او ودی کہ می ں ان‬ ‫ناعذار ہاء ےض ب یفان یک‬ ‫ے می ں و رکاو ی ں اور‬ ‫ج‬ ‫ر سال ہاد کر‬
‫ےکہ‪:‬‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ان‬ ‫ے‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫وں‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ج‬
‫م‬ ‫کے ہاس موق جف کو غ ر راج ح س‬
‫یہ ئ‬ ‫ک‬ ‫ئ‬ ‫ھ‬
‫ل اور‬ ‫ح‬ ‫ی ی‬ ‫دن ا کے ت مام یممالک امن‪ ،‬ئ ج ن یگ ب ن‬
‫ل کے ن‬ ‫م ف‬ ‫ق‬‫سا‬ ‫سے‬ ‫ع‬ ‫ذرا‬
‫ت‬ ‫ُرامن‬ ‫پ‬ ‫دی‪،‬‬
‫س‬ ‫تی‬
‫ہ‬
‫ے دعوت و غ کے موا ع را م کرے پر‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫ب‬ ‫ری‪ ،‬عی اور ب صری وسا ل کے ذری ع‬ ‫م‬ ‫ئ قئ‬ ‫پت فُرامن حری‬
‫ش‬ ‫ں۔‬ ‫ئ‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ا اق شرا ف‬
‫سے رب ط‪ :‬ن ش‬ ‫‪ -9‬ک ار سے لڑا ی کا ن رعی س ی اسی احکام ن‬
‫کے واج بفہ وے کو قمی ں ے رعی س ی است کے احکام‬ ‫ئج گ ن ق‬ ‫سے ہ ر سال‬ ‫ت دب قمن ن‬
‫ج‬ ‫ی‬ ‫ق‬
‫ے و کہ وسعت‪ ،‬لچ ک‪،‬‬ ‫ن ہ کی ی تہ سم ا سی ہ‬ ‫ے نکو وز قی رار دی ا‪،‬‬ ‫ےن کی رائ‬ ‫کے ا ع خرار دی‬ ‫ت‬
‫ے‬ ‫ے۔اس یل‬
‫م‬
‫وصف کی حا فلق ہ‬ ‫ن‬ ‫ازی‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ے‬‫س‬ ‫ی‬ ‫ج‬‫ے‬ ‫کر‬ ‫ول‬ ‫ب‬ ‫کو‬ ‫ر‬ ‫ظ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ق‬
‫ک‬ ‫لف‬ ‫ار ق اء اور م ت‬
‫فق‬ ‫فق‬ ‫فق ق‬ ‫فق‬
‫مواز اتت اور ن ہئ اولوی ات کی‬ ‫جت‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫مآالت‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫صالح‪،‬‬
‫ق‬ ‫م‬‫ن‬ ‫و‬ ‫اصد‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫)‬ ‫سم‬‫ف‬ ‫(‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫کی)‬
‫ئ‬ ‫کہ ( ق‬
‫ہ‬
‫ش‬ ‫ج‬ ‫ب‬ ‫ق‬
‫)اور‬
‫ت‬
‫(‪)17‬‬
‫ازسر و ا ہاد (ا ہاد ا انی‬ ‫ے۔ ہ ئکی ان یش نرئ گی ا سام می ں ئ‬ ‫اساس پ ر ا تم ہ‬
‫ے سے اج ہاد ش دہ مسا ل سےے پ یش آمدہ مسا ل کا حل اخ ذ کرے ( اج ہاد‬ ‫پ ہل‬

‫‪17‬‬
‫‪ -‬عصر حاضرمیں مختلف شعبہ ہ ائے زن دگی میں تغ یر ‪ ،‬دور جدی د کے افک ار اور‬
‫نت نئی ایجادات کی حیرت انگیزترقی نے ایسے مس ائل ک و جنم دی ا ہے جن کے ح ل‬
‫کے لیےجدی د فقہ کی ض رورت پیش آ گ ئی ہے۔ جیس ا کہ ٹیس ٹ ٹی وب کے ذریعے‬
‫انتقال جنین کا مسئلہ ‪ ،‬اعضا کی پیون دی ک اری‪ ،‬انتق ال خ ون اور کرنس ی ک و س ونے‬
‫کے قائم مقام قرار دینا وغیرہ۔ ان نئے پیش آمدہ مسائل پر اجتہاد ک رنے کے عم ل ک و‬
‫اجتہ اد انش ائی کہ تے ہیں۔ القرض اوي‪ ،‬محم د یوسف‪1996 .‬م‪ .‬االجتھ اد في الش ریعة‬
‫ر والتوزیع‪.101 .‬‬ ‫اهرة‪ :‬دارالقلم للنش‬ ‫المية۔ الق‬ ‫الإس‬
‫‪ -2‬اجتہ اد انتق ائی س ے م راد یہ ہے کہ عص ر حاض ر کی ض رورتوںئک و م دنظر‬
‫رکھتے ہوئےاسالمی فقہ کے پورے سرمائے سے ایسا قول اختیار کی ا ج اے جس میں‬
‫ایک طرف مقاصد شریعت کو ملحوظ رکھا گیا ہو تو دوسری طرف فی زمانہ لوگوں‬
‫کی ضروریات کی بھی رعایت کی گئی ہو۔ مثال کے طور پ ر ای ک مجلس میں تین‬
‫طالقیں دینے کو امام ابن تیمیہ وامام ابن قیم کے مذہب کے مطابق ایک شمار کرن ا ‪،‬ی ا‬
‫حج کے دوران زوال سے پہلے بھی رمی جمرات کو جائز قرار دیناتاکہ حج اج ک رام‬
‫کو بھیڑ کی وجہ سے پیش آنے والی مشکالت سے بچایا ج ا س کے جیس ا کہ قط رکی‬
‫شرعی عدالت کے چیف جسٹس عالمہ عب دہللا بن زی د آل محم ود نے ام ام عط ا ء اور‬
‫امام طاؤوس جیسے تابعین‪  ‬کی پیروی میں اختیار کیا ہے۔ (باحوالہ باال)۔‬
‫‪21‬‬
‫غ خ‬ ‫ن ت چن‬ ‫خ‬ ‫ن ت ق ئ (‪ )18‬ت ن‬
‫ت‬
‫ے ب ی ر م لف‬ ‫دوسرے گروہ پر ک ہ ی ی یک‬ ‫ک‬ ‫ا ا یئ ن)‪ ،‬وعی ا ت‬
‫الف اور ن ئسی ای ک گروہ کی ت ق ت‬ ‫س‬ ‫ن ت‬
‫ے او ی کہ ای ک گروہ ت دوسرے گروہ کے‬ ‫ج‬
‫ے و ش ع گ ج ا ش موق ود ہ‬ ‫ی‬ ‫کے یل‬ ‫ک ہ ہ اے ظ ت ر ت‬
‫اصول و اب ل تلحاظ امور کی پ اسداری کر ا ہ و۔‬ ‫ف‬ ‫رعی‬
‫ف‬ ‫مسلمات کا اح رم کر ا ہ و اور‬
‫ن‬
‫ق مت ق‬ ‫ن‬‫ے؟‬ ‫‪ -10‬نکن وج جوہ قکی ب ا پر ج ہاد رض فک ای ہ ہ و فج ا اہ‬
‫ق ہ و گا ج ب کہ‪ :‬ق‬ ‫ےضرا ح رار دی ا کہ ج ہاد می ں رضضک ای ہ تکانمع ی اس و ت ف ح ئ‬ ‫می ں پ ن‬
‫اور ض ا ی ع تکری وت‬ ‫س‬ ‫حری‬ ‫رورت کے طا ق صر حا ر کی ا ی ری ب‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫‪ .1‬امت ا‬
‫ب‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫بٹ‬ ‫م ب ع‬ ‫ن‬ ‫کی م‬
‫ہ‬
‫سے اگر بر رف ہ ھی وٹ و ئان کے‬ ‫ے ووں‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫وں اور می ن گانوں می ں ھ‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫س حا ل و قکہ د م ت‬ ‫ہ‬
‫ت‬
‫ے رب تی ت ی ا ت ہ لوگ ا ھا ی ں ج ن‬ ‫ے چ الے کی ذمہ داری ای نس‬ ‫کیق وف ہت و‪ ،‬جس‬ ‫ے ث‬ ‫کے مت اب ل‬ ‫ےن ن ف‬ ‫ا لح‬
‫ت‬ ‫ط‬
‫ے ای ما ی اع ب ار سے م لوب ہ ی اری ت نکروا‬ ‫ہ‬
‫ج‬
‫ان خسبن سے پ ل‬ ‫کوجسما ئی‪ ،‬س ی ا ی اور ا ی ب شلکہئ‬
‫ی‬
‫سی ا ی‬ ‫صارف اور د قگر ذمہف داریوں ئ‬ ‫ی‬
‫ن‬ ‫دی گ ی ہ و۔ اور ی ہ سب ا ی اے کوردو وش‪ ،‬م‬ ‫قت‬
‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫کے‬ ‫گ‬ ‫ق‬‫تج‬ ‫کو‬ ‫امت‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ے‬‫ھ‬ ‫ر‬ ‫ے‬ ‫ن نی‬‫د‬ ‫ھاال‬ ‫ب‬ ‫س‬ ‫کو‬ ‫ت‬ ‫ح نی‬‫ال‬ ‫ص‬ ‫صادی‬ ‫ا‬
‫ج ض‬ ‫ض‬ ‫ف‬
‫ن‬
‫ے والے روز ا زوں ر ی پ ذیر روری سامان حرب و رب‬ ‫گ کوکسہارا دی‬ ‫‪ .2‬ئ ج دی د ٹج‬
‫ے ج و علم و‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬‫و‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫)‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ا‬‫ح‬ ‫(کی‬ ‫ت‬ ‫حی‬ ‫ال‬‫ص‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫الو‬ ‫ن‬ ‫تکی سا سی و تیک‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫ے می ں بر ر ہ و۔‬ ‫ج رب‬
‫من کو ڈراے کے‬ ‫ن اور ہللا کے د من اور امت کے د ق‬ ‫ضاس امر کے ذمہ دار‬ ‫‪.3‬‬
‫اب حل و ع د ہ ی ں‪ ،‬ج ب نوہ‬ ‫ار‬ ‫صرف‬ ‫دار‬ ‫ذمہ‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫اری‬ ‫ے روری ت‬ ‫ی‬ ‫کے‬
‫ش‬ ‫ن ئ ب ت‬ ‫پن‬ ‫ےت‬ ‫ی‬ ‫ط ل ق‬
‫وری امت گ ن اہ و پری ا ی‬ ‫گ غ‬ ‫پ‬ ‫و‬ ‫گے‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ھا‬
‫ن‬ ‫ب‬ ‫داری‬ ‫ذمہ‬ ‫ن ئ‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫اری‬ ‫ل ی‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫صد‬
‫ئ‬ ‫م لو ہ م‬
‫بب‬
‫ے ی ار و‬ ‫س‬
‫ے اور ھر ب ی ر ا لح‬ ‫سے چ ج اے گی‪ ،‬اور ئاگرت وہ ایسا ہ کر پ ا ی ں ج یسا ہ و ان چ اہ ی‬
‫ے کے ب‬
‫ے و ک ی ا حکام و محکومی ن اور ک ی ا گران و رعای ا‪ ،‬پوری کی پوری امت‬ ‫ے پڑے رہ گ‬ ‫مددگار کھل‬
‫ن‬
‫ن کن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫گ اہ گار ہ و گی۔ ن‬
‫ے والے معذوروں کا‬ ‫ے ل‬ ‫‪ -11‬ہحمارے زماے می ں لوگوں کی عداد ب ڑھاے کے یل‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫نکم‪:‬‬
‫ے‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫وا‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫ال‬ ‫ت‬ ‫ر‬ ‫راد‬ ‫ا‬ ‫عذور‬ ‫ر‬ ‫طور‬ ‫ی‬ ‫سما‬ ‫ج‬ ‫کہ‬ ‫ا‬
‫ی ہ‬ ‫ل ل ج‬ ‫ن‬
‫ش‬ ‫پ‬ ‫ن پم‬ ‫ن می ں ے ب ی ک ی‬
‫ان‬
‫ے‪:‬‬ ‫یک و کہ وہ کمزور اور معذور ہ ی ں‪ ،‬می ں ے ی ہ است دالل اس ار اد رب ا ی سے ک ی ا ہ‬
‫ْ‬
‫ج َح َر ٌج َواَل َعلَى ال َم ِري ِ‬
‫ْض‬ ‫ْس َعلَى األ ْع َمى َح َر ٌج َواَل َعلَى األ ْع َر ِ‬ ‫"﴿لَي َ‬
‫حرجٌ﴾"‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ئ خ ن‬ ‫َ َ ن‬
‫ےاور ہ ب ی مار پر موا ذہ‬ ‫" اب ی ن ا پر کو ی موا ذہ ہی ں‪ ،‬ہ اس پر ج و پ یروں سے معذور ہ‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫(‪)19‬‬
‫ے۔"‬
‫ن‬ ‫ت ف‬ ‫ن‬ ‫ک‬
‫ن‬ ‫ب‬ ‫ہ‬
‫ے‬ ‫ے ئھی ان کا ل ا د من کو پ س پ ا ہی ں کرے گا ب لکہ ی ہ و د اع کرے والوں کے لی‬ ‫ویس‬
‫ہ ی ب وج ھ ب ن ج ا ی ں گے۔‬
‫‪18‬‬

‫لف ت‬ ‫‪19‬‬
‫‪ -‬ا ح‪.17:‬‬
‫‪22‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫شخ‬
‫ت‬
‫ے کی ن درت و رتکھت ا‬
‫ق‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫کا‬ ‫ص‬ ‫ے‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ب عض فشق ہاء کا ک ن ا ے کہ‪ :‬ہاں ت‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ب‬‫ل‬ ‫تہ‬
‫ک‬
‫ن‬ ‫ق ی‬ ‫ش ہ پ ی ہ ھک ج ن‬ ‫ہ و لی‬
‫ے اکہ‬ ‫ے کی( درت ) ہی ں ر ھت ا و اسے ھی ل ا چ ا ی‬ ‫ے د یل‬ ‫کن (د من کو) چ ھ‬ ‫ت‬
‫ت‬ ‫خف‬ ‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫نکو ڈرای ا ج ا سک‬ ‫ب ھاری عداد سے د من‬
‫ے‬ ‫و‬ ‫ے کے ہ‬ ‫ح‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫اک‬ ‫ن‬ ‫و‬ ‫د‬ ‫د‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫زما‬ ‫مارے‬ ‫ہ‬ ‫کہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫(اس پر )میئں‬
‫ن‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ی ج ین‬ ‫ی ین‬ ‫ئ ث‬
‫ے‬ ‫ہ وےک فرت کی کو ی تزی ادہ ا مینت ہی ں ر فی‪ ،‬اور ہ مارے زماےن می ں وتج دی د ممالک پا‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫سماعت و‬
‫ٹ‬ ‫ے کم از کم جسما ی سالم ی اور‬ ‫کے یل‬ ‫ے ج اشےقوالےتہ ر رد ت ق‬ ‫ملک کی جوج می ں ب ھر یت یک‬
‫خ‬
‫ے ہ ی جںن اکہ ت ال اور اس کے لوازمات کا ب وج ھ ا ھا‬ ‫ب ت ی ح س‬
‫صارت بسی سی جال قم ی کو ن نرط رار دی ت‬ ‫س نک ہ‬
‫امداد‪ ،‬ز یم وں کی دی کھ ب ھال‪،‬‬ ‫ے ت‬ ‫وؤں کے یل‬ ‫ے وہ جگ ن‬ ‫لوگ و ئ ت جال ہی فں کر ن سخک‬ ‫عضئ ت‬ ‫ے‪ ،‬ا ن م ف‬
‫ت‬ ‫ے ہ ی ں۔‬ ‫ن ا ی س ھرا ی سیس ع م د دمات سرا ج قام دے سک‬ ‫ی‬ ‫کھا ا پکا ا اور ص‬
‫ے‬ ‫ے قسے چ الی ا ج ا اق ہ‬ ‫صہ و بر ی ات کے ذری ع‬ ‫ج‬ ‫ے کا ضوہ ب ڑا ح ن‬ ‫ے آگاہ ک ی ا کہنج دی د قا لح‬ ‫می ں ئ‬
‫ے ع لی اور عملی وت‬ ‫ے کو ی زی ادہ جسما ی ل ی ا ت کی رورت ہی ں ب لکہ اس کے لی‬ ‫کے یل‬
‫اس ت‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫ے۔‬ ‫درکار ہ و ی ہ‬
‫ن ف‬
‫ش‬ ‫ے پر ی ر عام(ئ‪ )20‬ت(کا حکم)‪:‬‬ ‫نسی ملک پر د من کے حملہ کر د نی‬ ‫‪ -12‬ک‬
‫حملہ نزدہ لک کے ہریوں‬ ‫م‬ ‫ہ‬
‫لک پر اچ ا ک حملہ و قج اے و اس‬ ‫م‬ ‫ک‬
‫ے پوری وت کے سات ھ کل ک‬ ‫ش می ںے ب ی ان کی ا کہ ج ب سی ق‬
‫ھڑے ہشوں‪ ،‬ہ ر‬ ‫ق‬ ‫ل پن ق‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫ل‬ ‫کے م ب‬
‫ا‬ ‫ے کہ وہ حملہ آوروں ت ت‬ ‫پر خواج ب ہ‬
‫ص ج ہخاد کے ذمہ دار حکام کی ر ی ب کے مطابق ا ی طا ت اور مہارت کے ب در رکت‬
‫اگر خری است کا وج ود ہ و ۔ ی ا ری است کی عدم موج ودگی می ں تاس‬ ‫کے ہ وں ق۔ م ت‬ ‫ت نکرے۔ واہ وہ حکام ری است‬
‫ح‬ ‫ظ یم کے حکام ہ وں جس‬
‫ے ان کے مطابق اور عور وں‬ ‫مردوں کے یل‬ ‫ے ارب اب ل و ع تد ن ب کری ں۔ ب‬
‫ے ان کے قمطابق‪ ،‬پڑھے‬ ‫کے فمطابق اور چ وں کے یل‬ ‫ے عان ف‬ ‫ے ان کے مطابق‪ ،‬وڑھوں کےغ یل‬ ‫ب‬ ‫کے یلف‬
‫ے کہ‬ ‫ہ‬ ‫صد‬ ‫م‬ ‫۔‬ ‫ق‬ ‫ا‬‫ط‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫راد‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫یم‬ ‫ل‬ ‫ر‬ ‫اور‬ ‫ق‬ ‫ا‬‫ط‬ ‫کے‬ ‫ان‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫راد‬ ‫لکشھ‬
‫ےخ ا‬
‫یہ‬ ‫م ب‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ئب‬ ‫م‬ ‫ل‬
‫ے م اسب ہ و۔‬ ‫ہ ر ص کو ایسی ج گہ پر لگای ا ج اے ج و اس کے یل‬
‫ن‬ ‫ے؟‬ ‫ہ‬ ‫عورت وں کے ذمہ فکون خسا ج ہاد‬ ‫‪ -13‬ن‬
‫حم‬ ‫ہ‬
‫ن سے یش آ نے شوالی ما واری‪ ،‬ل کی‬ ‫پ‬ ‫می ں ے ن فعور وں کو بی ا الف کی وج ہ‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ص‬ ‫ت‬
‫داری کو‬ ‫ت‬ ‫ذمہ‬ ‫کی‬ ‫ت‬ ‫ن ق‬ ‫گہدا‬
‫ب‬
‫کی‬ ‫ان‬ ‫زہ‪ ،‬اس کا ب قوج ھ‪ ،‬چ وں تکوج دودھ پ ال ح ق‬
‫اور‬ ‫ق‬ ‫ے‬ ‫ف‪،‬تدردئ‬ ‫ک‬ ‫ت نکالی‬
‫کے عور وں پر‬ ‫م‬
‫ے وے (اس مو ف کو) ر ی ح دی کہ در ی ش قت ج ہاد ع ی ٹ ت نال ت‬ ‫ہ‬ ‫مد ظ ر ر‬
‫ی‬ ‫وا ب ھن ہ ں‪ ،‬ی ون کہ اس م ں ن‬
‫ے ج و کہ‬ ‫پ ہ‬ ‫ی‬ ‫ڑ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ھ‬ ‫ا‬ ‫الزمی‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫سی‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ھ‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫ب‬ ‫ت‪،‬‬ ‫م‬
‫ٹ ی حت‬ ‫ک ن‬ ‫تی‬ ‫ج‬
‫حسب دس ور عورت ہی ں ا ھا سک ی۔‬

‫‪20‬‬
‫نی ہے"بگ ل"۔ گوی ا اس اص طالح کے لفظی مع نی یہ ہیں کہ س ب‬ ‫‪ -‬نف یر ک الفظی مع ٰ‬
‫یر ع ام ک ا اص طالحی مطلب‬ ‫ِ‬ ‫نف‬ ‫جبکہ‬ ‫ہے۔‬ ‫ا‬ ‫گی‬ ‫بج‬ ‫ل‬ ‫بگ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫گ‬ ‫لوگ وں کے ل یے جن‬
‫ہے’’حکمران کی ط رف س ے اپ نے مل ک کے ہ ر مس لمان ک و جن گ کے ل ئے طلب‬
‫کرنا"۔نفیر عام کی یہ اصطالح دفاعی جنگ کے ض من میں اس تعمال کی ج اتی ہے ۔‪:‬‬
‫فاروق‪ ،‬ڈاکٹر محمد۔ ‪2010‬۔ جہاد و قتال چند اہم مباحث۔ م ردان‪ ،‬دی پ رنٹ مین پرن ٹر۔‬
‫‪19‬۔‬
‫‪23‬‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫ے ن ہ کہ مرد‪،‬‬ ‫یہ‬ ‫ی کر سک ت‬ ‫ے ج شو عورت ہن ن‬ ‫ل اور ی ہ تسب کا سبتج ہاد ہ ی کا ای کق ر گ ہ‬
‫کے‬‫ن ی کن چک ھ عور ی ں ای سی ہ و ن ی نہ ی ں ج تن تکی سمتت می ں ادی کر ا ہی ں ہ وشا‪ ،‬اور چک ھ ق‬
‫ے طور پرت ج ہاد می ں رکت قکا مو ع‬ ‫صی نب می ں حمل اور ب چ ہ ج ن ا ہی ں ہ و ا و ای سی عور وں ج نکو ایس‬
‫ن‬ ‫ے م ن اسب ہ و‪ ،‬اورت و س ب‬ ‫دی ا ج ا ا چ اہ ی‬
‫ات‬‫ے بسا اوف ت‬ ‫ے ھی جگوی ا ہ مہار وں کے یل‬ ‫ی‬ ‫ض‬ ‫کے یل‬ ‫ے ج و نان ق‬ ‫ای خ‬
‫ے و کہ موماعورت می ں اس کی طر ی‬ ‫ع‬ ‫ج‬ ‫رورت پڑ ی ہ‬ ‫سی اص سما ی ل ی ا نت کیئ ت‬ ‫ج‬
‫ن ن‬
‫سوا ی ت کے بموج ب ہی ں پ ا ی ج ا ی ۔‬
‫کردار‪:‬‬ ‫کا‬ ‫عورت‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫گ‬ ‫‪ -14‬د د ن‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫نی ج‬ ‫ج‬
‫اوصف‬ ‫کے‬ ‫ہادری‬ ‫ب‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ذ‬ ‫ج‬ ‫مان‪،‬‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫عورت‬ ‫مان‬ ‫ل‬ ‫س‬
‫خ‬ ‫م‬ ‫کہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫ف‬ ‫ں‬
‫می ج ن‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ش‬ ‫ب‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫امداد و دی کھ بت ھال سے ب ڑھ کر ب تھی ری ک ہ و سک ی‬ ‫وںن کی ن‬ ‫ی‬
‫م ش‬ ‫ز‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫مدد‬ ‫کی‬ ‫وج‬ ‫و‬‫گ‬‫ج‬ ‫مسلمان‬
‫ے یک و کہ قآج کی ج گ آالت و م یت وں پر ا صار کر ی ہ ج‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے ب دن‬ ‫س تعمال کے یل‬ ‫خ‬
‫کے ا‬
‫ت‬ ‫ے ن ف‬ ‫ت‬ ‫ح‬ ‫ض‬ ‫ع‬ ‫ہ‬
‫ے ای ک رب ی ت ی ا ہ ا ون کا مرد کی ج گہ‬ ‫ے اس لی‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫آ‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫رورت‬ ‫کی‬ ‫ل‬ ‫ادہ‬ ‫ز‬ ‫سے‬
‫مم ی‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫کن‬ ‫لی ن ا‬
‫‪24‬‬

‫ق‬
‫ب اب دوم‪ :‬ج ہاد کی ا سام اور درج ات‬

‫ق‬
‫ن ف (ب اب دوم‪ :‬ج ہاد کی ا سام قاور درج ات ن)‬
‫ے؟‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫سےف کال دی ا چ ا ی‬ ‫‪ -15‬جنہادب ال ن‬
‫سام می ں ت‬
‫ے)؟ اور نک ی ا اسے جن ہاد کی ا ئ‬
‫ن‬ ‫سف(ک ی اہ‬
‫ے‬
‫ے‪ ،‬اس یل‬ ‫ے (کی راے )سے ا اق ک ی ا ہ‬ ‫می ں ے ج ہاد ب ال س کو ج ہاد اکب ر کا ام ہ دی‬
‫‪25‬‬
‫ن‬ ‫ٹ‬ ‫(‪ )21‬ک ئ‬ ‫ن‬
‫ے اور ب ی اس ق قالم پر‬ ‫ے ج نوکہ ج ھو ن ہ‬
‫ی‬ ‫کہ اس کی ب ی اد ای ک ای سی حدی ث پر ر ھی گ یضہ‬
‫ئج یسا کہ ب عض مح ی ن‬ ‫ک‬ ‫ت‬
‫ے‪-‬‬ ‫سے لی طور پر اس مو نوع کو کال دی‬ ‫اب اض جلہاد ن‬ ‫ے‪ ،‬الب ہ کت ئ‬ ‫ب ہت انئہ‬
‫پ‬
‫ے اور ب ال کم و کاست‬
‫خ‬ ‫ے‪ -‬جکی کو ی ئرورت ہی ں ج ب کہ اس کو ا ی ج گہ پرظ رکھا ج ا پ ش‬ ‫کی راے ہ‬
‫اس کام ن اسب ح م دی اض ج اے ج یسا کہ ج ہاد بتا لسان‪،‬ج ہاد ب المال‪ ،‬لم اور کر ن کے الف ج ہاد‬
‫ق‬ ‫ل‬
‫ب‬
‫سب کی سب ج ہاد ہ نی کی سمی ں‬ ‫ے‪ ،‬اور ی ہ ت ق‬ ‫اور سول ج ہاد کے مون وع نپر حث کی جن ا ی ہ‬
‫ےیا‬ ‫ے والے ہ م ہی ں ہ ی ں ب لکہ ی ا و ی ہ رآن عزیز کا دی ا ہ وا ام ہ‬ ‫ہ ی ں‪ ،‬ناور ان کو ج ہاد کا ام دی‬
‫قئ‬ ‫ت ئ‬ ‫ن‬ ‫پ ھر س ت م طہرہ کا۔‬
‫ط‬
‫ے ہ وے اس ڈر سے چک ھ ح ا ق چ ھ پ ا‬ ‫ایسا کسین صورتط روات ہی ں کہئہ م ب ا ل پ نر رد کر ئ‬
‫ل ک رسا ی کا ذری عہ ب ا ل ی ا ج اے گا۔‬ ‫لی ں کہ م ب اداشا ہی ں ب ا خ‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫طان کے الف ج ہاد کا درج ہ‪ :‬ن‬ ‫‪ -16‬ن ی ض‬
‫خ‬ ‫ت‬
‫ے د نمن کےش نالف‬ ‫گوں کے اس کھتل‬ ‫ن‬ ‫ر‬ ‫گر‬ ‫ی‬‫د‬ ‫ملہ‬ ‫م‬ ‫کے‬
‫ی جن خ ج‬ ‫اد‬‫ہ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫کہ‬ ‫ا‬ ‫خ ف می ں نے واب ک ی‬
‫ح‬
‫نکا‬ ‫ھ‬ ‫ک‬
‫کے سا ھ ا ی لی د م ی‬ ‫پ‬ ‫ے جسش ے یل ق آدم‬ ‫م‬ ‫ش‬
‫ن‬ ‫سے ا سان ت‬ ‫س‬ ‫یہ ج ہاد کا ر گ ھی ان ل ہ‬
‫ے قکے سا ھ اننسے ج گ کرے‬ ‫ے‪ ،‬اور اپ ی ذات اور کر کو ہ ر طرح کے ا لح‬ ‫ل‬ ‫اعالن ک یت ا ہ وا ہ‬
‫ت‬ ‫ان ظکو چتاہ ی‬ ‫س‬
‫ے آپ کو ی ار تکرے‬ ‫ے اپ‬ ‫کے یل‬ ‫ت‬
‫ے‬
‫ے کہ وہ اس کے م اب ل‬ ‫م‬
‫ے‪ ،‬لہذا ہ ر ی لم ف‬ ‫ے ی ار ک ی ا ہ بوا ہ‬ ‫کے یل‬
‫ج‬ ‫س‬
‫ے ا سی ح ا ی ڈھالی ں اور موزوں ا لحہ یشار کرےخ و اس غکی دبیر کو‬ ‫اور اس (سے چ او) کے یل‬
‫ئدے اور اس کے مکر کو الٹ ا دے اور اسے اس ج ن گ سے کست وردہ و م لوب کر‬ ‫ے ٹکار کر‬ ‫ب‬
‫ق‬ ‫ف‬ ‫ن ت‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫لو‬ ‫کے‬
‫ں ے م وتج ہ ک ی ا کہ اخسالم می قں ج ہاد کے م ہوم کوق صرف ت ال می تں محقصور کر دی ن ا‬ ‫ن می ن‬
‫ے‪ ،‬اگرچ ہ مام ا سام می ں‬ ‫ہ‬ ‫سم‬ ‫ک‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫سے‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫سام‬ ‫ا‬ ‫لف‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫کی‬ ‫ہاد‬ ‫م اسبہ ی ی ج‬
‫و‬ ‫ہ‬ ‫ں‪،‬‬ ‫ہ‬
‫ے۔‬ ‫اس کی ا ظمی ت سب سے ب ڑھ کر نہ‬
‫ظ‬
‫ناور الموں کا م ق اب لہ کر ا‪:‬ن ظ‬ ‫‪ -17‬لم‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ش‬
‫ے اور ان کی طرف‬ ‫ک‬ ‫رو‬ ‫ھ‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫کا‬ ‫ان‬ ‫سے)‬ ‫لم‬ ‫ن‬ ‫(‬ ‫ے‪،‬‬ ‫کر‬ ‫لہ‬ ‫ا‬
‫م ب‬ ‫کا‬ ‫وں‬ ‫ک‬ ‫سر‬ ‫ے‬ ‫می ں‬
‫ہ‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ن‬
‫ے زب ا ی ج ہاد کی ا می ت ب ی ان کی‪ ،‬اور ب ت ای ا کہ امت‬
‫ن‬ ‫ے ہ ر م لمان کے تیل‬ ‫کے یل خ‬ ‫ت‬
‫ے‬ ‫ج ھکاو ہ ر قھ‬
‫گ دہ ل‬ ‫ے لوگ برہ ی ں گے ج و ب ب ا ق‬ ‫تج ب ک اس می ں اینس‬ ‫ے گا‬ ‫میک ں اس و ت تک ی ر نرہ‬
‫ے اس کا ج ام چک ھ ھی ہ و۔اور اس وئت ی ہ‬ ‫چہ‬ ‫ا‬ ‫وں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ہی‬
‫کے سا ھ امر و ب ٹ‬ ‫قن ق‬
‫لمہ ح‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ح‬ ‫پ‬
‫ے گی ج ب اس می ں سپ را دازی کی روح سرای ت کر ج اے گی‪،‬‬ ‫امت ا ی ب اء کا ق ھو ھ‬
‫‪21‬‬
‫‪ -‬حضرت جابر رضی ہللا عنہ کی اس روایت کی طرف اشارہ ہے جسے بیہقی نے‬
‫"الزھ د الکب یر" میں نق ل کی ا ہے کہ‪ :‬رس ول اﷲ ص لی ہللا علیہ وآلہ وس لم کے پ اس‬
‫غازیوں کی ایک جماعت حاضر ہوئی۔ آپ ص لی ہللا علیہ وآلہ وس لم نے فرمای ا‪ :‬تمہیں‬
‫جہا ِد اَصغر (جہاد بالسیف) سے جہا ِد اَکبر (جہاد بالنفس) کی طرف لوٹ کر آنا مب ارک‬
‫ہو۔ عرض کیا گیا‪ :‬جہا ِد اَکبر کیا ہے؟ آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‪ :‬انسان ک ا‬
‫اپنی نفسانی خواہشات کے خالف جہاد کرنا جہا ِد اَکبر ہے۔ الزھد الکب یر ‪ ،‬ح دیث نم بر‬
‫‪165‬۔‬
‫‪26‬‬
‫ی ن پن‬ ‫نف نف‬ ‫ئ‬
‫ہ ت ت کن‬
‫ے واال ئ( ع ی ا ی‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ی‬
‫پ م م ہ‬ ‫ا‬ ‫ے‬
‫ل‬ ‫سے‬ ‫سی‬ ‫سی‬ ‫اور‬ ‫گی‬ ‫ے‬ ‫عام ہ و نج ا‬
‫کمزوری و بزدلی ت ج‬
‫ے‪:‬‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫ے گا۔اور اسی ب ارے می ں ی ہ حدی ث وارد و ی ہ‬ ‫ے واال) ہ رہ‬ ‫ذات پر امت کو ر ی ح دی‬
‫تودع ظمنهم" ت‬
‫" إذا ترأيت أمتي تهاب الظالم ظأن تقول لهت أنتئظالم تفقد ت‬
‫ی‬
‫ے ہ وے ڈر ی ہ و کہ م الم ہ و و (ہللا کی‬‫ری‪)22‬امت الم کو ی ہ کہ‬ ‫ج ب م ٹد کھوت کہ می‬
‫ے( ۔‬ ‫مدد )ان سے ا ھ ج ا ی ہ‬

‫ف‬ ‫تغ ق‬
‫ض‬ ‫ن‬ ‫‪ -18‬جنہاد ظی ا ی یر ب ال ئلب(‪)23‬خکا م ہوم‪:‬‬
‫کےت من می ں‬ ‫س‬ ‫الف دل نمی ں ج ہاد کا مرت ب ہ ب ی ان کرے‬ ‫کے ن ف‬ ‫می ں ے ت غلم اور بقرا ی ئ‬
‫م‬‫ج‬ ‫ب‬ ‫ت‬
‫ے ہ ی ں‪،‬ب لکہ‬ ‫لوگ ھ‬ ‫ے یساسکہ عضن‬
‫ن‬
‫ج‬ ‫ب ی ان ک ی ا کہ ج ہاد ی ا ی یر ب الئ لبغ کو ی ظ ی روی نہف ہی ں ہ‬
‫م‬
‫سے غرت اور ب گاڑ کو لیت قم ہ کرے کی وج ہ سے پ ارہ‬
‫ت‬ ‫عم‬ ‫ب‬ ‫ب‬
‫ے‪ ،‬نلم ق‬ ‫ے‪ :‬برا ی تپر ص‬ ‫کا م طلب ہ‬ ‫اس ن‬
‫ےا م‬‫ہ‬ ‫م‬ ‫ہ‬
‫چ ڑھ ج ا ا‪ ،‬اور ی ہ ی ج ان و ج ذب ا ی ت پر ب ی بل ی ض ک ن‬
‫ھی م و ع لی ب دی نلیضکے یل‬ ‫سیف ت‬ ‫ق‬
‫ے‬ ‫ہ‬
‫ے م دمات اور س ی ا ی محرکات کا و ا روری ہ‬ ‫ے ایس‬ ‫ے کہ ت ب دی لی کے ی‬
‫ل‬ ‫ے‪،‬ئ اس یل‬ ‫سرمای ہ ہ‬
‫ھ‬
‫اور اس کی طرف دخ ک ی لی ں۔‬ ‫ف‬ ‫ں‬ ‫ن‬ ‫ج و اس پر اک ی‬
‫سا‬
‫ت ئ‬ ‫ہ‬
‫نا ی ی ا کری گ شمرا ی کا طرہ‪ :‬ئ‬ ‫‪ -19‬زب‬
‫ہ‬ ‫خ‬
‫ے‬ ‫ن‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ان‬ ‫ہ‬ ‫در‬
‫ج خ نج ب ی‬‫کا‬ ‫اد‬‫ہ‬ ‫الف‬ ‫کے‬ ‫ی‬ ‫را‬ ‫ں‬
‫عم ی ب‬ ‫م‬ ‫رے‬ ‫عا‬ ‫المی‬
‫ف م‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫می ں ت‬
‫ہ‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ق‬
‫ناور می ں ے‬ ‫ے‬ ‫اک ہ‬ ‫سے زی ادہ طر ن‬ ‫کری گمرا ی لی وق لوکی گمرا ی ت‬ ‫ب ت ایض ا کہ‪ :‬اع ادی و ن‬
‫ں رو ما ئوےخوالے ان‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫وا حشک ی ا فکہ نگمراہ ی اور ئا حراف کی ہین سم ہ ماری ا‬
‫ی‬
‫المی اری خ می ج ن‬
‫ن‬
‫ے می ں فگی قں ہ و ی ں‪ ،‬ون ب ہا اور‬
‫ن‬ ‫ے ج خن کے یج‬ ‫ے مار ت وں اور لڑا ینوں کا سب ب ب ی ہ‬ ‫ب‬
‫ت می ں ب ا ٹن دی ا ج و‬ ‫ے م ت لف مسالک تاورف ر وں‬ ‫اس ےق ای کتامت کو ایس‬ ‫اور‬ ‫ی۔‬ ‫م‬ ‫چ‬ ‫ی‬ ‫ت ب اہ‬
‫ف‬
‫ے ہ ی ں ب لکہ ای ک دوسرے کی ک ی ر کرے ہ ی ں اور وب ت‬ ‫دوسرےن کو اسق ف رار دی‬
‫ق‬ ‫پ‬ ‫ت‬
‫ای ک‬
‫ہ‬
‫ی ہاں ک ج ا چ ی کہ (ی ہ رے) ب ا م دست و گری ب اں ہ ی ں۔‬ ‫ہ‬

‫‪22‬‬
‫‪-‬مسند احمد‪ ،‬حديث نمبر‪.6786‬‬
‫‪23‬‬
‫‪ -‬تغییرب القلب ک ا مطلب ہےکس ی ب رائی ک و دل س ے ب را س مجھنا اور دل میں اس ے‬
‫مٹانے کا جذبہ پیدا ہونا‪ ،‬جیسا کہ آگے تفصیل آ رہی ہے۔ مترجم۔‬
‫‪27‬‬
‫ف‬ ‫ض‬ ‫ن‬
‫می ں ے س یخکولرازم(‪ ،)24‬لب رل ازم(‪ )25‬اور مارکسزم (‪)26‬ج یسی دور حا ر کی کری‬
‫سے ب ھی ب ردارک ی ا۔‬ ‫ہ‬
‫گمرا ی وں ت‬
‫ظ‬ ‫غ‬
‫خ‬ ‫ئ‬ ‫اوت‪:‬‬
‫ش‬ ‫ن داد اور ب‬‫‪ -20‬ار‬
‫ن‬
‫ت می ںئے اسالمی معا رے کے ا در لم اور تبرا ی کے خ الف ج ہاد نکا درج ہ ب ی ان‬
‫ع‬
‫ے تاور‬‫کرےق ہ وے کہا کہ اس ج تہاد کا سب سے ا غ لی درج ہ ار داد ش(کے الف ج ہاد کر ا) ہ‬
‫ے کہ ج ب مرت د‬ ‫ے‪،‬اس یل‬ ‫اوتت کے م اب ہ ش‬
‫ہ‬ ‫کے اع ب تار سے ی ہ ج رم ب ئ‬ ‫ی ہ شکہ ومی مع ی ار ن ف‬
‫کی کای ا پ تلٹ ج ا ی‬
‫داعی ب ن تج اےہ و اس سے قمعا رے ت‬ ‫معا رے کے ا قدر ک ر و فار داد کا ن‬
‫ے‪،‬‬ ‫ے اور اور ای ک وم کی و اداری و سب ت ب دی ل و کر دوسری وم کے سا ھ ج ڑ ج ا ی ہ‬ ‫ہ‬
‫‪24‬‬
‫‪ -‬سیکولرازم‪  ‬سے مراد دنیاوی امور سے مذہب اور مذہبی تصورات کا اخراج یا بے‬
‫دخلی ہے‪،‬یعنی یہ نظریہ کہ م ذہب اور م ذہبی خی االت و تص ورات ک و ارادت ا ً دنی اوی‬
‫امور سے علیحدہ کر دیا جائے۔ سیکولرازم جدید دور میں ریاست کو مذہبی اقدار س ے‬
‫الگ کرنے کی ایک تحریک ہے۔‪  ‬اُردو میں عموما ً اسے ‪ ‬الدینیت‪ ‬سے تعبیر کی ا جات ا‬
‫ہے ج و علمی و لغ وی اعتب ار س ے درس ت نہیں‪ ،‬س یکولرازم ک ا م وزوں اُردو‬
‫ت رجمہ‪" ‬خی ار فکر"‪ ‬ہے جس ک ا مطلب یہ ہے کہ کس ی بھی س یکولر ریاس ت کے‬
‫ش ہریوں ک و یہ فک ری اختی ار حاص ل ہے کہ وہ جس نظ ریہ‪ ،‬فک ر ی ا عقی دہ کی بھی‬
‫انفرادی طور مشق کرنا چ اہیں پ وری آزادی کے س اتھ ک ر س کتے ہیں پس ان کی اس‬
‫امور مملکت سے کوئی تعلق‬ ‫ِ‬ ‫مشق کا براہ راست یا ماورائے راست سٹیٹ افیئرز یعنی‬
‫نہیں ہو گ ا۔ س ب س ے پہلے اص طالح س یکولرازم ک و ای ک برط انوی مص نف ج ارج‬
‫جیکب ہولیاک نے ‪1851‬ء میں استعمال کیا تھا‪ ،‬یہ اصطالح دراصل چرچ اور ریاس ت‬
‫کو الگ کرنے کے لیے استعمال کی گئی تھی‪ ،‬گوی ا س یکولرازم دراص ل سیاس ت اور‬
‫مذہب کے مابین تفریق کا نام ہے۔ سیکولرازم‪https://ur.wikipedia.org/wiki /‬۔‬
‫‪25‬‬
‫‪-‬ل برل ازم (‪)Liberalism‬الطی نی زب ان کے لفظ’الئی بر (‪)Liber‬اور پھ ر الئ برالس (‬
‫‪)Liberalis‬سےماخوذہے‪ ،‬جسکامطلب ہے "آزاد‪،‬جوغالم نہ ہو" ‪ ‬اس لفظ کا استعمال‬
‫سب سے پہلے ‪۱۸۱۸‬ء میں فرانسیسی فلسفی مین دی بیران (‪ )Maine de Biran‬نے‬
‫کیا تھا۔ اس نے اس لفظ کا تع ارف ''ای ک ایس ے عقی دے کے ط و ر پ ر کرای ا تھ ا ج و‬
‫حریت وآزادی کا علم ب ردار'' ہے ۔ یہ دو لفظ وں پ ر بنیادرکھت اہے (‪ )Liberty‬آزادی‬
‫اور(‪ )Equality‬مساوات۔یعنی ریاست میں ہر شہری بغیر کس ی م ذہبی وخان دانی پس‬
‫منظرکی تفریق کےبرابری کی بنیاد پرقانونی اور سیاس ی ح ق رکھت اہواور(‪)Liberty‬‬
‫کی تعریف سےمراد یہ ہےکہ ہرفرد ق انون کےدائ رہ ک ارمیں رہ کراپ نےفکری افع ال‬
‫میں آزادہو۔آٹھویں صدی عیسوی تک اس لف ظ کےمع نی ای ک آزادآدم تھ ا۔ بع دمیں اس‬
‫س ے مرادایساش خص لیاجانےلگ اجوفکری ط ور پ رآزاد‪،‬تعلیم ی افتہ اور کش ادہ ذہن‬
‫کامال ک ہ و ۔ برط انوی فلس فی ج ان الک(‪1620 ‬ء – ‪1704‬ء) پہال ش خص ہےجس‬
‫رز فک ر کی ش کل دی ۔ پنج اب یونیورس ٹی۔‬ ‫نےلبرل اِزم کوباقاع دہ ای ک فلس فہ اورط ِ‬
‫‪2004‬ء۔ اردو دائرۃ المعارف۔الہور‪ ،‬ادبستان۔‪8:312‬۔‬
‫‪26‬‬
‫‪ -‬مارکسزم کارل مارکس کے نام سے منسوب ایک سماجی ‪ ،‬سیاسی اور معاشی فلسفہ‬
‫‪28‬‬
‫ف‬ ‫ش خ‬ ‫ن ن‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫ے ب لکہ ی ہ ض ن ا تناور و ناداری می ں‬ ‫ی ہق‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ام‬ ‫کا‬ ‫لی‬ ‫د‬
‫ی بی‬
‫فم ںت‬ ‫ت‬ ‫مو‬ ‫لی‬ ‫لہذا ارت داد محض قع‬
‫ع‬ ‫ت‬
‫ےجو‬ ‫ب دی لی اور ای ک ومشسے ال لق ہ و کر کسی دوسری ای سی وم می ں م ہ وے کا ام ہ‬
‫ف‬ ‫ن مس ش‬ ‫ق‬ ‫الف اور د تمن ہ و۔‬ ‫اس کی مخ ت‬
‫ے‪:‬‬
‫ئ‬ ‫رض‬ ‫ظ‬ ‫ر‬ ‫رے‬ ‫ا‬‫ع‬ ‫لم‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫لہ‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫کا‬ ‫وں‬ ‫د‬ ‫مر‬ ‫و‬ ‫داد‬ ‫‪ -21‬نار‬
‫خ‬ ‫ہ‬ ‫پن‬ ‫شم‬ ‫ب‬
‫ق‬
‫کے ا در لم اور برا ی کے الفشج ہاد کی‬ ‫رے ن‬ ‫المی معا ق‬ ‫دے کر کہا تکہ اس ت‬ ‫زور ن‬‫می ں ے خ‬
‫ےخخ اص طور پرتج بفکہ اس کی پ ت پر‬ ‫ہ نش‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫لہ‬ ‫ا‬
‫ی ن ب‬ ‫م‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ن‬ ‫د‬ ‫مر‬ ‫اور‬ ‫داد‬ ‫ار‬ ‫سم‬ ‫اک‬ ‫طر‬ ‫سب سےخاہ م اورف‬ ‫ن ت‬
‫ے ی ہ ج ہاد‬ ‫ح‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ج‬
‫ے اور اس کی ا ت کے ظ کے یل‬ ‫امتکپ‬‫اور ش‬ ‫ضظ ری ا ی اور ار خی کری ج گ ت و‪ ،‬ت‬
‫غ‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫روری ہ ل‬
‫ل‬ ‫اعی ل می ں و۔ خ‬ ‫ے ب ا ک تصوص ج ب کہقی ہ ار داد ا م ت‬
‫ے طی پر ہ ی ں کہ‬ ‫صرف آ رت می ں ہ‬ ‫ے ہ ی سں نکہ رآن می ں ن نار دادشکی سزا ت‬ ‫اور ج چو ی ہ ہ‬ ‫ن‬
‫ے‪:‬‬ ‫ے‪،‬چ ا چ ہ ار اد ب اری عالی ہ‬ ‫س‬
‫صوص کو ا ھی طرح جم ھ ہی ں ک‬
‫"﴿يَ ا َأيُّهَ ا الَّ ِذ ْيـنَ آ َمنُ وْ ا َم ْن يَّرت َّد ِمنك ْم ع َْن ِد ْينَ ِه ف َس وْ فَ يَ أتِ ْي هللاُ بِق وْ ٍم ي ُِّحبُّهُ ْم‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫ّ‬
‫َوي ٍُحبُّوْ نَهُ َأ ِذلَّ ٍة َعلَى ْال ُمْؤ ِمنِ ْينَ َأ ِع َّز ٍة َعلَى ْال َكافِ ِر ْينَ ي َُجا ِه ُدوْ نَ فِ ْي َسبِي ِْل هللاِ َواَل يَخَافُوْ نَ‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫لَوْ َمةَ اَل ٍئم﴾"‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ب‬
‫ئ مر د ہ و گا( و ہللا کو اس فکی تکو ی‬ ‫ے دی ن سے‬ ‫اے ای مان والو! م می ں سے ج و ھی اپ‬ ‫ض " ن‬
‫ہ‬
‫ے لوگوں کو لے آے گا ن سے ہللان حمب ت ترما اض و‬ ‫ج‬ ‫نج گہ پر)ایس‬ ‫رورت ہی ں)ہللا(ان کی‬
‫ے رم اور م وا ع‬ ‫ے والے ہ خوں گے۔وہ ای مانغ والوں کے لی‬ ‫ق‬ ‫سے حمب ت کر‬ ‫گا اور وہ ہللا ف‬
‫الب ہ وں گے۔وہ ہللا کے‬ ‫وددار ب اعزت اور ن‬ ‫ہ وں گے اور کا روں کے م اب لہ می ں ن‬
‫گے‬ ‫گےس اور ک تسیغ مالمت کرے وا ن‬ ‫راست ہ می قں ج ہاد کری ں ن‬
‫لے کی پرواہ ہی ں کری ں ق‬
‫۔"( ‪)27‬‬

‫دے کے‬ ‫ع‬


‫ہ‬ ‫ہللا ے امت تاور ہاسنکے ی ت‬ ‫ے‬
‫ے جس‬
‫ب‬ ‫ف ی ہ قرآن کی اس ل کو قر ی ب ہ‬
‫ے ج ب کہ مر د وے والے مر د وں‬ ‫ک‬
‫ے چ ا ر ھا ہ‬ ‫ے اس و ت کے یل‬ ‫کے یل‬ ‫ے ن‬ ‫د اع اور م اب ل‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫گے۔‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫ھوڑ‬ ‫چ‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫لے‬ ‫ق‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫گے اور دی ن چ ن‬
‫ھوڑ‬
‫ش‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ض‬
‫اس مو ع پر و احت کی کہ ارش داد کا م اب لہ نکر ا لم معا رے پر رض‬ ‫اور می ں ے ن‬
‫ے‪:‬‬ ‫ن‬ ‫ے‪ ،‬اور ہ مارے زما‬
‫نں امتعمکو دو ب ڑی یور وں کا سام ا کر ا پ شڑاتہ‬ ‫ے می‬ ‫ہ ( ا ک )م یسحی ب ن‬
‫ورش۔‬ ‫ن ی‬ ‫راکی‬ ‫ا‬ ‫(دوسری)‬ ‫اور‬ ‫ورش‪،‬‬ ‫کی‬ ‫ل‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ن‬
‫ت‬
‫ت‬ ‫ے مس مان ف رمان روا ا یر است کی ان‬ ‫ہ‬
‫ی‬
‫لے ار داد کے‬ ‫ف ن‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫آ‬ ‫سے‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫ی ی‬ ‫ل‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ی‬ ‫ے‬‫خ ایس‬
‫ے‬ ‫ے۔ف ایس‬ ‫ئ ہلی تذمہ داریخ ہ ی امت کے عخ ی دے کا ح ظ ہ و ا چ اہ ی‬ ‫سے آگاہ ک ی ا جس کی پ‬
‫ٹ‬ ‫طرے ن‬
‫ب‬
‫ے ہ وے ار تداد کے طرے تسے ھی ب شردارک ی ا جس می ں صراحتت ا ک ر کا‬
‫م‬ ‫ش‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ش‬ ‫ہ ظ ی مینں ے تاسل پ‬
‫ل‬
‫ے‪،‬‬ ‫ے ہد می ں زہ ر ا ل ہ و ا ہ‬ ‫ے یس‬ ‫ے ا لہ و اہ‬ ‫ا ہار ہی ں ک ی ا ج ا ا ی کن اس می ں ار داد ایس‬

‫ہے ‪ ،‬جو مزدوری ‪ ،‬پی داواری ص الحیت ‪ ،‬اور معاش ی ت رقی پ ر س رمایہ دارانہ نظ ام‬
‫کے اثر کا جائزہ لیت ا ہے اور ای ک م زدور انقالب ک و کمی ونزم کے ح ق میں س رمایہ‬
‫داری ک و ختم ک رنے کے ل ئے دلی ل دیت ا ہے۔ ام ام‪ ،‬ظف ر۔ ‪1971‬ء۔ مارکس زم ای ک‬
‫مطالعہ۔ دہلی۔ اعلی پریس۔ ‪17‬۔‬
‫ئ‬ ‫‪27‬‬
‫‪ -‬الما دۃ‪. 54 :‬‬
‫‪29‬‬
‫ن ت‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ف‬
‫ن‬
‫نمی ں ی خ دویئے کہا ن ھا‪:‬‬ ‫کےتب ارے‬ ‫ے جس خ‬ ‫لہ‬ ‫داد‬ ‫ار‬ ‫اور ی ہی ت ت‬
‫کری‬
‫ے۔"‬ ‫ے کونی اب وب ہکر ہی ں ہ‬ ‫ے) کے یل‬ ‫ی‬
‫(کو م کر خ‬ ‫ے کن اس ئ‬ ‫"ار داد و شہ ت‬
‫(‪)28‬‬

‫ن‬ ‫‪ -22‬معا لقر ؒی مظنالم اور برا ی وں کے ن الف ج ہاد کرے کی ا می ن‬


‫ت‪:‬‬
‫ےاس می ں‬ ‫ے اپ ای ا ہ‬ ‫ے اور س ہ‬ ‫امامشاب تن ا ی م ے ج یہادنکی ج و درج ہ ب ن دی کی ہ‬
‫ے م خ‬ ‫ج‬
‫ہ‬
‫اور گمرا ی وں شکے ف الف ج ہخاد‪ ،‬دوسرے‬ ‫ے‪ ،‬ع ی مظ ن الم‪ ،‬مئکراتن‬ ‫ال فی ک معا ر یس ج ہاد شہ‬
‫ےخوالے) ن ر و ساد کے الف جض ہاد۔‬ ‫ج نش‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫شپ‬‫(‬ ‫در‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫رے‬ ‫ظ وں می ں‪:‬م لم معا‬
‫ے کہ ی ہ معا رے کی ا ت اور مع وی وج نود کو ہ الکتت وج ی اع‬ ‫ہ‬
‫ب‬ ‫اور اسفج ہاد کی ا می ت ی ہ ہ‬
‫ے‪،‬اور اسی وج ہ سے عض احادی ث می ں اس کی بیرو ی ج ہاد پر ر ی ح وارد‬ ‫سے مح وظ رکھت ا ہ‬ ‫ئ‬
‫ے‪:‬‬ ‫ہو ہ‬
‫ی‬
‫سلطان جائر‪".‬‬‫فض‬ ‫"أفضل الجهاد كلمة حق عند‬
‫ن‬
‫(‪)29‬‬
‫ے‪".‬‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ہاد‬
‫خ‬ ‫ج‬ ‫سب سے ا نل‬ ‫ف‬ ‫ات کہ ن ا‬
‫ف‬ ‫غ‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ح‬ ‫ے‬ ‫م‬ ‫"ج ابر ب ادش اہ کے سا‬
‫ت‬ ‫پ‬
‫ے اور طر اک حدئ ک اس‬ ‫لت ساد کے خ ھ یقل‬ ‫ےتکہ اس ج ہاد سے ف ف‬ ‫ےم تہ‬ ‫اس یل‬ ‫اور ی ہن‬
‫اور‪ ،‬اور‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫ے وہ سادن کری و ی ا اغ ال ی‪ ،‬س ی اسی و ی ا کو یق ض‬ ‫ے‪ ،‬چ اہ‬ ‫ہیل ن‬
‫ے پر ج و ی‬ ‫کےفب ڑھ ج ا ش‬
‫رچ بس ج ا ا ج ن گ ئاور ی روں کی ج ان بن سے ئبے کی‬ ‫ئ‬ ‫اور‬ ‫ا‬ ‫بن‬‫ھ‬ ‫پ‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫رے‬ ‫اس ساد تکا معا‬
‫ب‬
‫کی اب ت دا ی آی ات می ں ی اسرا ی ل کا‬ ‫ے یسا کہ سورہ ی اسرا ی ل‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫راہ موار کر ا ہ‬
‫(‪) 31‬‬ ‫(‪)30‬‬

‫‪28‬‬
‫ندوی نے اسی عن وان (ردة وال أب ا بك ر لها)س ے ای ک کت ابچہ‬
‫ؒ‬ ‫‪-‬موالنا ابوالحسن علی‬
‫لکھا تھا‪،‬اسی کی طرف اشارہ ہے۔‬
‫‪29‬‬
‫‪ -‬سنن نسائی‪،‬کتاب البیعۃ‪،‬باب فضل من تکلم بالحق عند امام جائر‪ ،‬حديث نمبر ‪.4209‬‬
‫‪30‬‬
‫‪ -‬اسراء اور بنی اسرائیل ای ک ہی س ورت کے دو ن ام ہیں‪،‬عموم ا ع رب اس ے س ورہ‬
‫اسراء کہتے ہیں جبکہ ہمارے ہاں مصاحف میں اسے ابنی اسرائیل لکھ ا جات ا ہے‪ ،‬یہ‬
‫ناموں کا اختالف یا تعدد کچھ اور سورتوں میں بھی ہے جس کی وجہ سے بسبا اوق ات‬
‫عرب و عجم کو ایک دوسرے کو سمجھنے میں غلطی ہو جاتی ہے‪،‬جیسے سورہ دھر‬
‫و انسان‪،‬مسد و لہب‪،‬حم سجدہ و فصلت‪،‬وغ یرہ‪ ،‬ہم نے اس ی کے پیش نظ ر اس راء ک ا‬
‫ترجمہ بنی اسرائیل سے کیا ہے۔مترجم۔‬
‫‪31‬‬
‫‪ -‬سورہ اسراء (جسے سورہ بنی اسرائیل بھی کہا جات ا ہے) کی آیت نم بر ‪ ۴‬اور ‪۵‬‬
‫کی طرف اشارہ ہے‪،‬ذیل میں دونوں آیات بمعہ ترجمہ پیش کی جاتی ہیں‪:‬‬
‫ض َم َّرتَ ْي ِن َولَتَ ْعلُ َّن ُعلُـ ًّوا َكبِيْـرًا‪)4( ‬‬ ‫ب لَتُ ْف ِسد َُّن فِى ااْل َرْ ِ‬ ‫ض ْينَـآ اِ ٰلى بَنِ ٓى اِ ْس َرآِئي َْل فِى ْال ِكتَا ِ‬ ‫َوقَ َ‬
‫ار ۚ َو َك انَ َو ْع دًا‬
‫اس وْ ا ِخاَل َل ال ِّديَ ِ‬ ‫س َش ِد ْي ٍد فَ َج ُ‬ ‫فَا ِ َذا َجآ َء َو ْع ُد اُوْ اَل هُ َما بَ َع ْثنَا َعلَ ْي ُك ْم ِعبَادًا لَّنَـآ اُولِ ْى بَ اْ ٍ‬
‫ف‬ ‫ن ت ت ئ‬ ‫ف‬ ‫ئ‬ ‫ن‬‫َّم ْفعُوْ اًل ‪)5( ‬‬
‫ت‬ ‫بن‬
‫نگے‬ ‫ہ م قے کت اب می ں ی اسرا ی ل کو ی ہ ی صلہ س ا دی ا ھا کہ م روے زمی ن پر دو مر ب ہ ب ڑا ساد مچ او‬
‫ے کا‬ ‫ہ‬
‫وعدےع قکے پورا گو ت‬ ‫ب ان می ں نسے پ ہلی مرت ب ہ کے‬ ‫ت حا ت ل کرو گے( ‪ ۴‬ن)پ ھر ج ن‬
‫ص‬
‫قاور ب ڑیئطا ت‬
‫ے‬‫ےچل‬ ‫ھ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫وں‬ ‫ال‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫گے‬ ‫ں‬ ‫ر‬ ‫ک‬ ‫لط‬ ‫س‬ ‫دے‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫لے‬ ‫ا‬‫و‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫گ‬ ‫ج‬ ‫ردست‬ ‫ز‬ ‫ر‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫و ت آے گا‬
‫س‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫م‬‫ت‬ ‫ف‬ ‫پ‬ ‫ائ ں گےاور ہ وعدہ پورا ہبو کر رے گا (اش‬
‫ے صحاب ہ کرام کی وحات کی طرف)(‪)۵‬‬ ‫ہ‬ ‫ارہ‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ج ی‬
‫‪30‬‬
‫ت‬ ‫ش‬
‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ارہ‬ ‫ش‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ااس‬
‫ن‬
‫ا‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫لط‬ ‫س‬ ‫کا‬ ‫وں‬
‫ن‬
‫د‬ ‫ر‬ ‫ان‬ ‫غ‬‫ہ‬ ‫ف ساد ان ا اور پ ھرتدو مرت‬
‫ہ‬ ‫ج‬ ‫پ م ت م ک ج‬ ‫ب‬ ‫مچ‬
‫ق‬ ‫‪ -23‬ندعو ی و اب ال ق ی ج ہاد کی صور ی ں‪:‬‬
‫می ں ے ج ہاد کی ا سام اور اس کے درج ات می ں ای نکنسم ج ہاد ب اللسان و البت ی ان ب ھی‬
‫غ‬
‫ے۔‬ ‫ے ادا ہ و ی ہ‬ ‫ے کے ذری ع‬ ‫طرف دعوت اور اس کے پ ی ام کو پ ہئ چ ا ق‬ ‫الم کی ن‬ ‫نا ن‬
‫ذکر کی ج و کہ س‬
‫ں ج ہا ب ا لسان و الب ی ان کی ک ی ا سام نکی طرف دعوت دی‬ ‫ل‬ ‫ق‬
‫ے زماے می خ‬
‫ی‬ ‫اور می ں ے اپ‬
‫ے۔اور‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫الغ‬ ‫ا‬ ‫ی‬
‫ی تب ب‬ ‫ا‬ ‫ز‬ ‫ے‬
‫ع‬ ‫ذر‬ ‫کے‬ ‫رز‬ ‫چ‬
‫نک‬ ‫ل‬ ‫اور‬ ‫اق‬ ‫ب‬ ‫س‬ ‫خ‬ ‫ات‪،‬ا‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫ط‬ ‫سم‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫ےج ن میق ں‬ ‫نہ‬
‫س‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫الغ‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫ری‬ ‫حر‬ ‫ا‬ ‫گ‬ ‫ھا‬ ‫خ‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫وں‬ ‫ا‬ ‫ز‬ ‫لف‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫سم‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫سے‬
‫ی س ی‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫)‬ ‫خ‬‫سام‬ ‫(ا‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ا‬
‫ہ ت‬
‫ط‬ ‫م ت ی یس‬ ‫ج‬
‫ب‬
‫ہ‬ ‫ت‬ ‫م‬
‫کے مخ اطب لف طح کے لوگ وے ہ ی ں و لوگوں کو لف حوں پر خم اطب کر ا‬
‫ض‬ ‫ق‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫ے‪،‬اور اسی من می ں ی ا اس‬ ‫ے اب الغ کی ہ‬ ‫ے کے ذری ع‬ ‫قاور ان قمی ں سے ای کئ سم مکالم‬
‫مے کے کرداراوں کی صورت می ں‬ ‫ے ج و ڈرا ت‬ ‫ھی ہ‬ ‫ب ری ب وہ م ی ڈی ا ی ناب الغ ب ن‬ ‫تکے ش ری ٹ‬
‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫ق‬
‫ے و اہ‬ ‫ہ‬ ‫والی کہا ی کے ذری ع‬ ‫ے ت‬ ‫ن لسلہ وار نچ ل‬ ‫س‬ ‫ھی ٹ ر‪ ،‬و ی ا ی وی پر‬
‫ک اہ م سم ب ڑے پ یمتاے پر پ ھ ی ال ہ وا وہ‬ ‫ئ‬ ‫ں زب ا ی تدعو ی ج ہاد کی ای‬ ‫ن‬ ‫ع تہ مارے زماے مین‬
‫س‬ ‫ک‬ ‫ٹ‬
‫ے۔‬ ‫ے ہ ی ں اور جس کا دا رہ روز بروز و ی ع ہ و ا ج ا رہ ا ہ‬ ‫ے ا ر یٹ ہ‬ ‫ے جس‬ ‫ال ہ‬ ‫م لوما ی ج ش‬
‫تث‬ ‫ق‬ ‫‪ -24‬نہری ج ہاد ( ق‪:)civil jihad‬‬
‫ت‬
‫موں) کی و ی ق کی‬ ‫خ‬
‫امام اب ن ی م کے ب ی ان کردہ ن ج ہاد کے ی رہ درج ات (ی ا س‬
‫خ‬ ‫ش‬ ‫می ںن فے‬
‫ں‪:‬ق س و یخ طان کے الف ج ہاد‪،‬م کرات‪،‬مظ الم اور گمراہ ی وں کے الف ج ہاد اور‬ ‫ج فن می ف‬
‫ے۔‬ ‫م‬ ‫ش‬
‫کے الف ج ہادن ا ل ہق‬ ‫ک ار و م ن ا ی ن‬
‫ف‬ ‫ض‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫نر می ں ے ای ک سم ی ع ی (سول ج ہاد) کا ا ا ہ ک ی ا‪،‬اور می ں ہ ی پ ہال‬ ‫ش خ مذکورہ ب اال ا سام پ‬
‫ے(پ ضلی مر ب ہ) ی ہ اص طالح پ یش کی‪،‬اس نسے می ئری مراد نایساٹ ج ہاد‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫وہ ص ہ شوں جس خ‬
‫ے اور‬ ‫لمسے ت م‬ ‫کے مت ئوع مسا ش ت‬ ‫ئ‬
‫رے تکی م ت لف روری ات کو پورا کرے اور اس‬ ‫ض‬ ‫ے ج و معا‬ ‫ہ‬
‫ے‪:‬‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫کار‬ ‫رہ‬ ‫دا‬‫ت‬ ‫د‬ ‫زا‬ ‫سے‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫موم‬ ‫ع‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫کرے۔اور‬ ‫ت‬ ‫ورا‬ ‫کو‬ ‫وں‬ ‫رور‬ ‫مادی‬
‫ف‬ ‫کی‬ ‫ن‬
‫اس‬ ‫ئ‬
‫پت ب ت ئ ہ‬
‫ی‬ ‫ل‬
‫ع‬ ‫ئ‬ ‫ئ ی ب قت ی‬ ‫ثق ت ئ پ ش‬
‫صادی دا رہ تکار‪ ،‬میئ ی ا ر ی ی دا رہ کار‪،‬‬ ‫ح فسا سی ی ا ا ی دا مرہت علکار‪ ،‬معا ر ئی دا رہ کار‪،‬ا ت ئ‬
‫کار‪،‬ماحول ی ا ی دا رہ کار اور ہذی ب ی دا رہ کار۔ اور اسی کی‬ ‫ئ رہ ت‬ ‫تا بط ی دا‬ ‫نسےت ق ی‬ ‫ان صحت‬ ‫ظ ق‬
‫ہ‬
‫طرف رآن ے م وج ہ کرے وے کہا ھا‪:‬‬
‫"﴿ َو َما َكانَ ْال ُمْؤ ِمنُوْ نَ لِيَنفِرُوا َكافَّةً فَلوْ اَل نَفَ َر ِم ْن كلِّ فِرْ قَ ٍة ِّمنهُ ْم طاِئفَ ة ليَتَفَقهُ وْ ا‬
‫َّ‬ ‫ِّ‬ ‫ٌ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫ت‬ ‫فِي ال ِّدتي ِْن َولِيُ ْن ِذرُوا قَوْ َمهُن ْم ِإ َذنا َر َقجعُوْ ا ِإلَ ْي ِه ْم نلَ َعلَّهُ ْم يَحْ َذرُوْ نَ ﴾ " ت ن ن‬
‫ئایسا‬ ‫ے‪ ،‬و‬ ‫ھڑے ہ وں ی تہ و ہ و ا ہی ں ہ‬ ‫ے ع تال وں ن سے) ک نل کن ق‬ ‫ے اپ‬ ‫ن" مام اہ ل ای مان (اپ‬
‫ں ج اے)‬ ‫ے عال وں سے فمرکز اسالم می‬ ‫ے اپ‬ ‫ے( و اپ‬ ‫ج‬ ‫ک‬
‫ت یک وں ہ ہ و کہ ہ ر تآ فب قادی سے ای ک عداد ل‬
‫چ‬
‫سجاکہ دی قنئ می شں ہ حاص تل کرے ب(اخی مان‪،‬ا قسالم اور احسان نکی ص ی الت کو ا ھی خطرح‬
‫ے لوگوں کو واپس آ کر ب ردار‬ ‫ن‬ ‫ف ہ و) ف‬
‫اور اپ‬ ‫س‬ ‫عت اور زک نی ہ سے خ وبی وا‬ ‫ے‪،‬ع ا ند‪ ،‬ری ت‬ ‫مھ‬
‫(‪)32‬‬
‫نوں( طرات کو تھی ں اورتکرم د ہئوں)۔ "‬ ‫م‬ ‫ج‬ ‫کرے‪،‬مت ب ہ کرے اکہ وہ چ وک ا ہ‬
‫ے‬ ‫اور رسول کری م ﷺ ے اسی کی طرف م وج ہ کرے ہ وے ج ہاد پر ب ی عت کے لی‬
‫ت‬ ‫‪32‬‬
‫‪ -‬ال وب ہ‪.122:‬‬
‫‪31‬‬
‫ف ف ت‬ ‫ن‬
‫آے والے سے دری ا ت رمای ا ھا کہ‪:‬‬
‫ن ف ت‬
‫(‪)33‬‬
‫فجاهد‪ ".‬ت‬ ‫ارجع ففيهما ت‬ ‫قال‪ :‬نعم‪ ،‬قال‪ :‬ن‬ ‫ألك والدان؟ ن‬ ‫" ت‬
‫رے والدی ن ز دہ ہ ی شں؟اس ےج تواب دی ا ھا‪ :‬ہ اں‪ ،‬و آپ ے رمای ا ھا‪:‬واپس‬ ‫"کنی ا ی خ‬
‫ے۔) "‬ ‫مہارا ج ہاد ہ‬ ‫ی‬
‫ج اؤ اور ا ہی ں وش کرے کی کو ق ش کرو ( نہی ت ق‬
‫ن ت‬ ‫‪ -25‬جنہاد کا دعوت سے ت ال نکی ج ا ب ار ن ف اء‪:‬‬
‫ے ڈراے اورئ ب لی غ‬ ‫رادی دعوت کے ذری ع‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ن می ں ے ب ی ان ک ی ا تکہ ج ہاد کا عہد ب وت می ں ا‬
‫ن‬ ‫ک‬ ‫ت‬
‫اور لڑا ی ہ‬ ‫ے سے اج ت ماعی دعوت کے ج ہاد ک ار اء وا‪،‬حپ تھر ت لی ف پر صب ر قت‬
‫ہ‬ ‫ے کے مرحل‬ ‫کرن‬
‫ناور پ ھر ج ہاد کے کم ک مرحلہ وار ار اء ہ وا۔‬ ‫ے سے ہ و ا ہ وا ج ہاد نکی اج ازت‬ ‫کرے کے قمرحل‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ں ازل ہ و قے والی پ ہلی آی ت‪:‬‬ ‫ن می ت ج‬ ‫‪ -26‬ت ال کے ب ارے‬ ‫ت‬
‫ہ‬ ‫پ‬
‫م عدد وج وہ سے می ں ے ر ی ح دی کہ ت ال کے ب ارے می ں لی آی ت و ازل و ی‬
‫ہ‬ ‫ج‬
‫ے‪:‬‬ ‫وہ ی ہ ہ‬
‫ُأ‬
‫" ﴿ ِذنَ لِلَّ ِذ ْينَ يُقَاتَلُوْ نَ بِأنَّهُ ْم ظُلِ ُموْ ا َوِإ َّن هللاَ عَلى نَصْ ِر ِه ْم لَقَ ِد ْير﴾ "‬
‫ظ‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے یک و کہ ان پر لم ک ی ا‬ ‫ے ان کو (ج گ) کی اج ازت ہ‬ ‫"ج ن سے نج گ کی قج ا رہ ی ہ‬
‫ے۔"ن ن ف‬ ‫گ ی ا‪،‬اور ہللا ان کی صرت پر ضادر ہ‬
‫(‪)34‬‬
‫م‬
‫ج یسا کہ ابئ ن ع ب اس ر ی ہللا ع ہما ے رمای ا‪ ،‬اور اس (آی ت می ں ج ہاد کی) حض‬
‫ے۔‬ ‫اج ازت دی گ ی ہ‬

‫‪33‬‬
‫‪-‬صحیح مسلم باب برالوالدین ۔ حدیث نمبر ‪1333‬۔‬
‫‪ -‬الحج‪.39:‬‬ ‫‪34‬‬
‫‪32‬‬

‫ف‬ ‫ق‬ ‫ت‬


‫یسرا ب اب‪ :‬ا دامی اور د اعی ج ہاد‬

‫ف‬ ‫ق‬ ‫ت‬


‫ف ( یسرا ب باب‪ :‬ا دامی اور د اعی ج ہاد)‬ ‫ق‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫ض‬ ‫حث‪:‬‬
‫ف‬ ‫کی‬ ‫ہاد‬ ‫ج‬ ‫اعی‬ ‫د‬ ‫اور‬ ‫ق‬ ‫دامی‬ ‫‪ -27‬ا‬
‫خ‬ ‫ی‬
‫ے اور ی ہ وہ ی‬ ‫ا‬ ‫ا‬
‫تپ تی ج ہ‬‫ا‬ ‫ا‬ ‫الف‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫کا‬‫ف‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ت‬ ‫ب یش‬ ‫ر‬ ‫کی‬ ‫س‬ ‫ے‬
‫ہ تج‬ ‫ن‬ ‫سی‬ ‫ا‬ ‫سم‬ ‫ک‬ ‫ق ج ہاد ی‬
‫ا‬ ‫کی‬
‫ش‬
‫ے‪،‬اور ی ہ‬ ‫ص‬
‫ے یسرا ب اب مول ب ارہ لوں کے ب ر ی ب دی ا ہ‬ ‫ے می ں ت‬ ‫ے جس قکے یل‬ ‫سم ہ‬
‫من کی‬ ‫ن‬ ‫سےد‬ ‫ہ‬
‫جت ق‬ ‫و‬ ‫ھی‬ ‫سی‬ ‫ک‬ ‫کہ‬ ‫ے)‬
‫ہن‬ ‫مراد‬ ‫سے‬ ‫ے‪،‬اس(‬
‫پن‬ ‫جنہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫کہا‬ ‫ہاد‬ ‫ج‬
‫گ‬
‫دامی‬ ‫ا‬ ‫ے‬‫س‬ ‫توہ ی ہ ج‬
‫ے‬
‫ے اس کا عا ب کر ا ۔‬ ‫الش می ں اس کے ھر می ں ج ا ا اور اسے ا ی زمی ن پر مارے کے یل‬
‫‪33‬‬
‫ق‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ئ خ‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫ے جس می نں کو ی ا ت الف ہی قں‪،‬اور جانسے د اعی ج ہاد‬ ‫ک سم ا سی ہ‬ ‫ت ی کن ج ہاد کی ای ت‬
‫ن وں کی زمی ن کو ان اب ض جگووں سے آزاد‬ ‫ے)‪ :‬مسلما‬ ‫ہ جن‬ ‫ن ں‪ ،‬اور اس (کی عریف ی ہ ن‬ ‫ےہی‬ ‫کہ‬
‫مزاحمت کر ا ہوں ے اس پر حملہ کر کے اس کے کسی حصہ پر‬ ‫ے ج ہاد اور‬ ‫قکراضے کے یل‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ے اس کا رق ہ کت ن‬
‫ن‬ ‫خ‬ ‫ئ‬ ‫و۔‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫بئ ق‬ ‫ب ہ کر ل ی ا ہ و قچ ہ‬
‫ا‬
‫ج‬
‫دامی ج ہاد کی وہ ج ا ز ا سام ن می ں کو ی ا ت الف ہی ں‪:‬‬
‫ف‬ ‫‪ -28‬ان ق‬
‫کے‬ ‫ق ئ می ں قےا دامی ج ہاد ق ئ(ج وکہ اعت دال پ س ن دوں ناور ش ندت پ تس ن دوں ی ا د اعی ج ہادخ ف‬
‫کے ماب ی ن ا ت ال ی‬ ‫ے ہ ی بں۔ ق‬ ‫کے ا لی ن۔ج یسا کہ چک ھ لوگ نا ہیق ں ام دی‬ ‫ا لی ن اور ا دامی ج ضہاد‬
‫ن‬
‫تک ی ا کہ اعت دال س د ا دامی ج ہاد کی عض ا سام کو م درج ہ‬ ‫پ‬ ‫ے) کے من میسں ب ی ان‬ ‫ت‬ ‫ئ‬
‫مس لہ غہ‬
‫ن‬ ‫ذی ل ا راض کیتوج ہ سے لی م کرے ہ ی ں‪:‬‬
‫ف ن ن‬ ‫ض‬
‫دعو ی آزادی کی مان ت اور دی ن می ں ت ہ ا گی زی کی مما عت۔‬ ‫‪-1‬‬
‫ت ض‬ ‫ت‬
‫اسالمی ری است کی سالم ی اور اس کی حدود کی سالم ی کی مان ت۔‬ ‫‪-2‬‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫غ‬ ‫ق‬
‫ب دحال مسلمان ی دیوں‪ ،‬ی ا مسلم و ی رمسلم س م رس ی دہ مظ لوموں کو ج ات دال ا۔‬ ‫‪-3‬‬
‫ش‬
‫ج زیرہ عرب (ارض حج از)کو زمی ن پر م طلق الع ن ان عصب ی ت زدہ رک سے خ الی‬ ‫‪-4‬‬
‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫کر ا اکہ وہ اسالم کا خ الص لعہ ب ن ج اے۔‬
‫خ‬ ‫قئ‬ ‫ق‬ ‫قئ‬ ‫ف‬
‫‪ -29‬د اعی ج نہاد کے ا لی ن اور ا دامی ج ہاد کے ا لی ن کے ماب ی ن محل ا ت الف کی‬
‫دی قکر ا‪:‬‬ ‫حد ب ن‬
‫ن‬ ‫ض‬ ‫مح خ‬ ‫ن ف‬
‫ن ق می ں ے تری ی ن کے درم ی ان ل ا ت الف کوغب ا اب طہ نلکھا کہناس کی نحد ب دی ای ک‬
‫ے پرامن ی رمنسلم ج ہوں ے مسلنما وں سے دی ن‬ ‫ے کہ نایس‬ ‫ے اور وہ ی ہ ہ‬ ‫کی ج انسک ی ہ‬ ‫ے می ں‬ ‫قط‬
‫والوں قکی مدد‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫سے کاال اور نہ ی ا ہی ں م‬ ‫گ‬ ‫ن‬
‫ئ لک ب در کرے ت‬ ‫ب‬ ‫ھروں ت‬ ‫ن‬ ‫نی ں اننکے‬
‫س‬
‫پر ت ال نک ی ا ہ ا ہ‬
‫ک‬
‫ے ا ھوں اور زب ا وں کو چ اے ر ھا‪،‬آی ا ان کے سا ھ ت ال‬ ‫ہ‬ ‫ئ ہوں نے لما وں سے اپ‬ ‫م‬ ‫کی‪،‬اور ا‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫قئ‬ ‫ں؟‬ ‫ن‬ ‫ہ‬
‫ی ی‬ ‫ا‬ ‫گا‬ ‫ے‬ ‫کی ا ج ا‬
‫ف‬ ‫ن‬
‫ن ج قیسا کہ ا ہی ں کہا ج ا ا‬ ‫ئ کے ا لی ن –‬ ‫اور می ں ے ب ی ان ک ی ا کہ ا قعت دالن پ س د ی ا د اع‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫کت‬
‫ے ہ ی ں کہ ان کے سا ھ ت ال ہی ں ک ی ا ج اےتگا‪،‬اور می ں ے رآن و س ت سے‬ ‫ے– ہ‬ ‫ہ‬
‫ں۔‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫دالل‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫وہ‬ ‫سے‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ک‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫د‬ ‫وہ‬ ‫سی‬ ‫ہت‬ ‫ب‬
‫ف‬ ‫ت ئ‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ش‬
‫دعوی کرے فوے راہ ترار‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫پ‬
‫سی) نکم آی امن ت سے ی ہ ک ت‬ ‫دت س د ا سی ہت‬ ‫ن‬ ‫ت ای ا کہ‬ ‫خ اور ب ت‬
‫ے ہ ی ں کہ‪:‬ک ار کے سا ھ‬ ‫ہ‬ ‫ا‪،‬اور‬ ‫ی‬‫د‬ ‫کر‬ ‫سوخ‬ ‫ے‬ ‫(‪35‬‬
‫ف‬
‫ی ی ی ف‬ ‫س‬ ‫ال‬ ‫ۃ‬ ‫آ‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کہ‬ ‫ین‬‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫قا ت ی ار کر‬
‫ے۔‬ ‫ک‬
‫ت ال واج ب کرے والی چ یز (ان کا) ر ہ‬
‫‪35‬‬
‫‪ -‬آیت السیف س ے م راد س ورہ ت وبہ کی پ انچویں آیت ہے جس کی تفص یل متن میں آ‬
‫رہی ہے۔ مترجم۔‬
‫‪34‬‬
‫ن ث‬ ‫ف‬ ‫ق‬
‫خ ن عم ن‬ ‫رات‪:‬‬ ‫ی پق ئ ف‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫کے‬ ‫کر‬ ‫دامی‬ ‫‪ -30‬ا ق‬
‫ن‬
‫می ں ے ا دامی ج ہاد کے ا ل کری ن کے طر اک لی ا ج ام سے مت ن ب ہ ک ی ا اور ان‬ ‫م‬
‫ق‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ے‪ :‬ن ش‬ ‫سے ی ہ ب ت ی ان یک‬ ‫می ں ق‬
‫کے م ورکو مست رد کر ا اور ا وام م حدہ کی قب اڈی می ں ش ام تل ہ وےنکو ج رم رار‬ ‫ن‬ ‫حدہ‬ ‫م‬ ‫وام‬ ‫ن اغ‬
‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫م‬
‫دی ا۔ المی پر ف وے نوالے معاہ دے اور ن ی وا می ں ی دیوں سے ق وے والے‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ت کر ا۔‬ ‫معاہ دے کی مخ ال ف‬
‫پ‬ ‫م‬ ‫ش‬
‫ے اور‬‫ےتپ ھ ی ال ہ ن‬ ‫کے ذری ع‬‫ش کر ا کہ اسالم لوار ن‬ ‫قمزی د ب رآں فاس کر نوالوں کا ای ک خ ولہ ی ت‬
‫ے ہ ر ص پر اس عمار کے یا ج ن ٹ ہ وے کی ہمت گا ا وج‬ ‫اس م ولے کا د ت اع کر ا۔اور ایس‬
‫ل‬
‫و۔‬ ‫اس می ں ش ک کر ا ہئو ی ا اس کا نج واب دی ت ا ہ‬
‫ق‬ ‫ٹ‬ ‫ع ن‬
‫نس طح کے م الے می ں (ج ہاد کی اہ می ت) (‪ )36‬کے‬ ‫ئ ای ک یو ی ورس ی‬ ‫ن اور ی ہ ظ لمی ت ا ج‬
‫ے‬ ‫کے جن واب ات دی‬ ‫انن ت‬ ‫ے اور‬ ‫نب ت ن‬
‫حث قکی ہ ن‬ ‫ان سے‬ ‫ش‬
‫ع وان سے اہ ر وے ہ ی ں‪ ،‬می ں ے ن‬
‫ہ‬
‫پ‬ ‫ن‬
‫کہ اسالم کو اس کے د م وں ے ا ا صان ہی ں ہ چ ای ا ج ا کہ ی ہ اور اس‬ ‫ےپ ن‬ ‫اور ب ت ای ا ہ‬
‫جہ ی ں ق‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫ے م الہ ج ات ہ چ ا رہ‬ ‫یس‬
‫ب‬ ‫ً‬ ‫َ‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬
‫‪ -31‬آینت ن"﴿وقاتِلو ُه ْم َحتَّىن ال تَك ْونَ فِتنة﴾" شکی حث‪ :‬ت‬
‫ے والوں کے اس ار اد ب اری عالی‪:‬‬ ‫می ں ے ج گ کی دعوت دی‬
‫ً‬ ‫ْ‬ ‫ُ‬ ‫َّ‬
‫"﴿وقَاتِلوهُ ْم َحتى ال تَكوْ نَ فِتنَفة﴾"‬ ‫ُ‬
‫خ‬ ‫ق‬
‫خ ت "ان سے اس و ت ت ک ج ن گ ج اری رکھو ج ب ت ک ت ن ہ (دی ن کے الف ہم)‬
‫م‬
‫ن ہ ۔( ‪)37‬‬
‫ن‬ ‫ف‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫م ہ و"‬
‫ن‬ ‫ب‬
‫سے مراد مومق وں کو فاذی ت‬ ‫نکہ ت ہ ت‬ ‫ے‬‫ےن اور ر ی ح دی ہ‬ ‫دالل سے نحث کی ہ‬ ‫سے است ف خ‬ ‫ن‬
‫م‬ ‫ئ‬ ‫ج‬ ‫ن‬
‫ے‪،‬اور می ں ے اس کی ا ی د می ں دی م سری ن‬ ‫دی ا اور ا ہی ں ک ر ا ت ی ار کرے پر بور کر ا ہ‬
‫م‬

‫‪36‬‬
‫‪ -‬مص نف ک ا اش ارہ اس تحقیقی مق الے کی ط رف ہے ج و ‪۱۹۸۲‬ء میں ڈاک ٹر علی بن‬
‫ٰ‬
‫القری‬ ‫نفیع العلیانی نے (اہمیت جہاد) کے عنوان سے لکھا تھا جس کی بنیاد پر انہیں ام‬
‫یونیورسٹی مکہ مکرمہ کی طرف سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ج اری کی گ ئی تھی‪،‬بع د‬
‫میں دار طیبہ للنشر والتوزیع نے اس مقالے کو ریاض س ے کت ابی ص ورت میں ش ائع‬
‫کیا۔ مترجم۔‬
‫ق‬ ‫‪37‬‬
‫‪ -‬الب رۃ‪.۱۹۳:‬‬
‫‪35‬‬
‫نق‬ ‫ق‬ ‫خ‬ ‫ف‬
‫کا کالم ل ک ی ا‬ ‫می ں سے ج صاص اور ر الرازی اور معاصری ن می ں سے اسمی‬
‫(‪)39‬‬ ‫)‬ ‫‪38‬‬ ‫(‬

‫کت‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬


‫ے ہ ی ں) اور اس‬ ‫ے)آی ۃ سیف ( ہ‬ ‫ال‬ ‫نت جس‬ ‫م‬
‫‪ ( -32‬ت ال پر اب ھارے والی ن صوص آی‬
‫اسخ ہ وے کا ف‬
‫دعوی‪:‬‬ ‫ے ق‬ ‫کےع یل‬
‫ت کے ‪ ۱۴۰‬آی ات ت‬ ‫آین‬
‫ک‬ ‫ل‬ ‫ص‬ ‫ہ‬ ‫ت‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫م‬
‫ےن جس کے ب ارے‬ ‫ب می ں ےآی ۃنالسیف کے ق ل ای ک ا م ل م ھی ہ‬
‫ے‬ ‫ات کے لی‬ ‫ی یت‬‫آ‬ ‫ی‬ ‫اورمد‬ ‫‪ ۱۴۰‬کی‬ ‫ے تکہ ی ہ آی ت کری مہ انن‬ ‫نمی ں عض لوگوں ے ی ہ دعوی ک ی ا ہ‬
‫دعوت د ی ہ ی ں اور‬ ‫طرف ب الے کی ن‬ ‫کمت کے سا ھک نہللا کیح ی ت‬ ‫ے ج و مکاتلمہ اور ح ف‬ ‫شاسخن ہ‬
‫لوگوں کے‬ ‫ن ان ت ف‬ ‫ے کا کم د تی ہ ی ں۔ می ں ے‬ ‫کے سا ھض صب ر اور معا ی کا روی ہ ر ھ‬ ‫د م وں‬
‫ے ج و ب اوج و خدی کہ اس کے سورہ وب ہ کی آی ت ہ وے پر م ق ہ ی ں‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ح‬ ‫ت‬ ‫وا‬ ‫ھی‬ ‫اخ ت الف کو ب‬
‫ع یہ‬ ‫ل‬
‫ے۔‬ ‫ن ن می ں تان کاا ت نالف ہ‬ ‫ی کن اس آی ثت کی ی ی‬
‫اگرچ ہ اک ری ت ے سورۃ ال وب ہ کی پ ا چ وی ں آی ت‪:‬‬
‫ْث َو َجدتُّ ُموْ هُ ْم﴾ "‬ ‫"﴿فَاِ َذا ا ْن َسلَ َخ اَأل ْشهُ ُر ْال ُح ُر ُم فَا ْقتُلُوْ ا ْالت ُم ْش ِر ِك ْينَ َحي ُ‬
‫خت‬ ‫ش‬ ‫ئ‬ ‫ت مہ ن‬
‫ے پورے ہ و ج ا ی ں و ان م رکوں کو(ج ن کی مدت معاہ دہ م ہ و‬ ‫ب تمح رم ی‬ ‫"پ ھر ج‬
‫ت‬
‫دو۔" ج ق‬ ‫چ کی) ج ہاں پ او ہ ی غ کر ن‬
‫(‪)40‬‬

‫ن‬
‫خ‬ ‫ش‬ ‫ق‬
‫ن‬ ‫ع‬ ‫ت‬
‫ے‪:‬‬
‫ن‬ ‫ن ۃ السیف ہضو ا را ح غ راردی ا تہ‬ ‫نکا ہ ی آی‬
‫ےاور نم ت لفق ج وا بق سے‬ ‫ق ض می ں ے اس مو نوع پر ی ر ج ذب ا بینا داز می ںحق لمی م اے یک‬
‫ن‬ ‫م‬
‫ق کی کہ کتی ا اسے سوخنرار دی ا ت اب ل‬ ‫ق ی ہ سخ کے م ب احث کی ب ڑی بشاری ک ی ی سے ی ن‬
‫ے؟اورک ی ا سخ کی روط تآی قۃ السیف پر م طب ق و ی ہ ی ں؟می ں ے ان ی ن‬
‫ہ‬ ‫سکت ا نہ‬ ‫ول ہ و غ‬‫ب ئ‬
‫ح‬
‫مسا ل پر ی رج ا ب داری سے ب اری ب اری ی ق کی۔‬

‫‪38‬‬
‫‪ -‬ام ام فخ ر ال دین رازی‪ ‬رے‪ ‬ای ران‪ ‬میں س نہ ‪543‬ھ میں پی دا ہ وئے۔آپ ش افعی‬
‫المسلک تھے‪ ‬اور‪ ‬اشعری‪ ‬عقیدہ رکھتے تھے۔‪  ‬آپ نے عل وم دین فلس فیانہ پ یرائے میں‬
‫پیش ک یے۔ ابن س ینا اور ف ارابی کے مع ترف اور ام ام غ زالی کے خالف تھے۔ علم‬
‫الکالم میں آپ کی مشہور تصنیف اساس التقدیس ہے۔ دوس ری مت داول تص نیف ک ا ن ام‬
‫مفاتیح الغیب ہے ج و‪ ‬تفس یر کب یر‪ ‬کے ن ام س ے مش ہور ہے۔ آپ نے س نہ ‪606‬ھ میں‬
‫ہرات میں وفات پائی۔ ندوی‪ ،‬عبدالسالم۔ ‪2013‬۔ امام رازی۔ الہور‪ :‬مکتبہ جدی د پ ریس۔‬
‫‪04‬۔‬
‫‪39‬‬
‫‪-‬آپ کا پورا نام جمال الدين بن محم د س عيد القاسمی‪ ‬ہے۔ آپ ک ا ش مار انیس ویں ص دی‬
‫کے چند نمایاں اہل علم میں ہوتا ہے۔ ایک س و س ے زائ د کت ابوں کے مص نف ہیں جن‬
‫میں بارہ جل دوں پرمحی ط آپ کی تفس یر "محاس ن التاوی ل بھی ش امل ہے۔ ‪1866‬ء ک و‬
‫دمش ق میں پی دا ہ وئے اور ‪1914‬ء میں وف ات پ ائی۔ جم ال‪-‬ال دین‪-‬القاس می‪/‬‬
‫‪/https://ar.wikipedia.org/wiki‬۔‬
‫ت‬ ‫‪40‬‬
‫‪ -‬ال وب ۃ‪.05 :‬‬
‫‪36‬‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫رآن کری م می ں چک ھ ب ھی م سوخ ہی ں ہ وا سواے اس کے ج و ری عت می ں دری ج‬ ‫غ‬ ‫‪-33‬‬
‫ن‬ ‫ہ‬
‫نکی ق رض سے وا‪:‬‬
‫نق ن ن ت ج‬ ‫قئ‬
‫ے‪ ،‬صورت‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫دی ہ‬ ‫کے ا لی ن کے طہ ظ رکو ترشی ح ش‬
‫(‪)41‬‬
‫می نں ے رآن می ں عدم ق سخ‬
‫کی یر ح ری عت می ں طور‬ ‫ے ج ب کہناس سخ ق‬ ‫ئج ا سکت ا تہ‬ ‫دی گر وج ود سخ تکو اسی تصورت می ں ب ول ک ی ا‬
‫امتنکیق دری ج ی رب ی ت سے کی ج اے۔ اشلب ہ می ں ے سورۃ الب رہئکی ای ک آی ت کو اس‬ ‫ث‬ ‫اور‬
‫ے۔ وہ آی ت ی ہ‬ ‫ی‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫رعی‬ ‫کی‬ ‫روزوں‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫د‬ ‫رار‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫سے مس‬
‫گ ہ‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ثی‬ ‫یہ ج ی‬
‫ے‪:‬‬ ‫ہ‬
‫ُ‬ ‫َّ‬
‫خَر َو َعلَى ال ِذ ْينَ ي ُِط ْيقوْ نَهُ‬ ‫ُأ‬ ‫َأ‬ ‫َأ‬
‫"﴿فَ َم ْن َكانَ ِم ْن ُك ْم َّم ِر ْيضًا وْ َعلَى َسفَ ٍر فَ ِع َّدةٌ ِّم ْن ي ٍَّام َ‬
‫َص وْ ُموْ ا َخ ْي ٌرلَّ ُك ْم ِإ ْن ُك ْنتُ ْم‬ ‫فِ ْديَ ةٌ طَ َع ا ُم ِم ْس ِك ْي ٍن فَ َم ْن تَطَ َّو َع خ یرا فھ وخَ ْي ٌر لَّهُ َوَأ ْن ت ُ‬
‫ش‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫تَ ْعلَ ُموْ تنَ ﴾"‬
‫ک‬ ‫ن‬ ‫ف‬
‫دوسرے دن مار کر‬ ‫ے) و ن ش‬ ‫" م می ںق سے کو ی ب ی مار یو ی ا س ر پر ہ و(اور وہ روزہ ہ ر شھ‬
‫ک‬ ‫ض‬
‫ت کر ا ل ہ ووہ ای ک‬ ‫م‬
‫ے روزہ خکا بردا ض ف‬ ‫کے( ان نکی ف ا کر لے)اور ج نب لوگوںن کے یل‬
‫سے ی ر می ں ا ہ تکرےوہ اس کے حق‬
‫ے ز ادہ ب ہ رت‬ ‫ں‪،‬اورق ج و ھی اپ ی قطرف ت‬ ‫مسکی ن کا ک تھا ا دی ہ می ں دی ت ق‬
‫ح‬
‫ہ‬
‫‪)42‬ہ ر ہ و گا‪،‬اور اگر م ی ت سے وا ف ہ و وروزہ رکھ لی ن ا ی مہارے یل ی‬ ‫می ں زی ادہ ب‬
‫کن‬ ‫ق‬ ‫کن‬ ‫ش‬ ‫(‬
‫ے۔"‬ ‫ہ‬
‫ے والوں کو اس ب ات کا‬ ‫ر‬ ‫ت‬ ‫طا‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫ر‬ ‫روزہ‬ ‫ل‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫ارکہ‬
‫ی م ج‬ ‫ت‬ ‫آ‬ ‫ہ‬
‫ن نھ‬ ‫اخ ت ار ید ا گ ا ے بکہ ف د ہ دی یں ا بروزہ رکھ ں اسے اھگ‬
‫ے‪ ،‬وہ آی ت‬ ‫یہ‬ ‫ا‬ ‫کرد‬ ‫سوخ‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫آ‬ ‫لی‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ی ی یہ‬
‫ے‪:‬‬ ‫ہ‬
‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬ ‫ُأ‬
‫ضانَ ال ِذيْ ن ِز َل فِ ْي ِه القرْ آنُ ﴾"‬ ‫َّ‬ ‫"﴿ َش ْه ُر َر َم َ‬
‫"رمضان کا مہینہ ہی ہے جس میں قرآن پاک اتارا گیا۔"‬
‫کیونکہ اس میں آتا ہے‪:‬‬
‫ص ْمهُ﴾"‬ ‫ئ َْر فَ ْليَ ُ‬ ‫"﴿فَ َم ْن َش ِه َد ِم ْن ُك ُم ال َّشه‬ ‫ت ت‬
‫کن‬ ‫" و م م ں سے ج و ب ھی اس مہی ن‬
‫ے‬ ‫ھ‬ ‫ر‬ ‫روزے‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫کو‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫پ‬ ‫کو‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ت‬ ‫ن خ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫خ‬
‫(‪)43‬‬
‫چ اہ ی ی ں۔"‬
‫ے‪ ،‬اور اس (کی م سو ی ت) م عدد صحاب ہ کرام سے‬ ‫جس سے ی ہ ا ت ی ار م سوخ ہ وج ا ا ہ‬
‫‪41‬‬
‫‪ -‬نسخ کا لغوی معنی ہے کس ی ش ے ک و مٹان ا ‪،‬تب دیل کرن ا ی ا نق ل کرن ا۔ علم اء کی‬
‫اصطالح میں نسخ سے م راد یہ ہے کہ کس ی حکم ش رعی میں کس ی دوس رے حکم‬
‫شرعی دلیلئکی بنی اد پ ر پہلے س ے کس ی ناف ذ‬ ‫کے ذریعہ تبدیلی کی جائے۔ یا کسی‬
‫ئح نف‬
‫ے کم کو ا ذ ک ی ا ج اے۔ کالعدم قرار دیے گئے حکم کو‬ ‫شدہ حکم کو کالعدم قرار دے کر ن‬
‫"منسوخ" جبکہ دوسرے حکم کو "ناسخ "کہتے ہیں۔ السيوطي‪ ،‬جالل ال دين‪2008 .‬م‪.‬‬
‫اإلتقان في علوم القرآن‪ .‬بيروت‪ :‬مؤسسة الرسالة‪.463 .‬‬
‫ق‬ ‫‪42‬‬
‫‪ -‬الب رۃ‪.184:‬‬
‫‪37‬‬
‫ض ن ع ج‬ ‫نق‬
‫ے‬‫وان ہللا لی ہم ا معی ن ج ی تس‬ ‫ے ج ن می ں اب ن عمر‪،‬سلمہ ب نن اکوع اوراب ن ع ب اس ر‬ ‫ہ‬ ‫ول‬ ‫م‬
‫ص‬
‫ے(‪)44‬۔ اس سخ ش دہ آی ت کے سا ھ‬ ‫ی ہ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫عہ‬ ‫ب‬ ‫ار‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫اور‬
‫ب ض ف‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫ح‬ ‫ح‬
‫ی‬ ‫کہ‬ ‫یسا‬ ‫ج‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫حا ہ ش ام‬
‫صب ن‬
‫ے‪:‬‬ ‫سورۃ ال ساء کی اس آی ت کا ھی ا ا ہ ک ی ا گ ی اہ‬
‫"﴿والَّالتِ ْي يَْأتِ ْينَ ْالفَا ِح َشةَ ِم ْن نِّ َساِئ ُك ْم فَا ْستَ ْش ِه ُدوْ ا َعلَ ْي ِه َّن َأرْ بَ َعةً ِّم ْن ُك ْم فَِإ ْن َش ِه ُدوْ ا‬
‫ت َأوْ يَجْ َع َل هللاُ لَه َُّن َسبِ ْياًل ﴾۔ "‬ ‫ت َحتَّى يَت ََوفَّاه َُّن ْال َموْ ُ‬ ‫فََأ ْم ِس ُكوْ ه ت َُّن فِ ْي ْالبُيُوْ ت ِ‬
‫دکاری کا ارت کاب کری ں ان کے ج رم ن پر نچ ار گواہ‬
‫ت‬ ‫سے ج و ب ت‬ ‫اور ئمہاری عور وں می ں ت‬ ‫ط "ئ‬
‫ے ہ دی ا‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫گ‬ ‫ہ‬
‫ھروں سے ل‬ ‫ک قن‬ ‫موت ئ‬ ‫وں کو ان کی ی ن‬ ‫ت‬
‫ں و ان عور‬ ‫ے ج ا یت ں‪ ،‬اگر وہ گوا ی دی ئ‬ ‫لب ک‬‫ئ‬
‫ے‬ ‫ے کو ی دوسرا راس ہ پ ی دا کرے( ع ی کو ی اور ا ون ان کے یل‬ ‫ان کے یل‬ ‫ہللا عالی‬ ‫ے‪،‬ی ا ئ‬ ‫ف‬ ‫نج ا‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫(‪)45‬‬
‫خ‬ ‫"‬‫)‬ ‫ے‬ ‫رما‬ ‫ازل‬
‫ن‬
‫ے۔‬ ‫سوخ ہ وےنپر داللت کر ا ہ‬ ‫یک و کہ آقی ت کا آ ری حصہ اس کے من‬
‫ق‬ ‫ے‪:‬‬ ‫‪ -34‬نرآن پ اک می ں آتی جۃ السیف ہ وے پر اج ئماع ہی ںنہ‬
‫ایسا کو ی اج ماع ہی ں جس کے م طابق رآن کی‬ ‫ے کہ خ‬ ‫ات کو ر ی ح دی ہ‬ ‫می ں ے اس ب ن‬
‫ات می ں قسے ہ ر ای ک کے ب ارے‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫کسی آیع ت کوع السیف کا ام دی ا گ ی ا و‪،‬اور ن چ ار م لف جآی‬
‫ق‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ع‬
‫ے م تھ ل‬
‫ں سے‬ ‫ے می م ا ہ کے ب عد ان می ق‬ ‫می ئں ب یل حدہ یل حدہ ی ہ قدعوی نک ی ا گنی ا کہ ی ہ ئآی ۃ السیف ہ‬
‫ے آی ۃ اقلسف ( لوار والی آی ت) ی ا آی ۃ طع الر اب‬ ‫ن ں آ ی جس‬ ‫کو ت ی ھیف آی ت اس ابنل ظ ر ہی‬
‫ے۔ان چ اروں آی ات می ں سے‬ ‫س‬
‫ے اڑاے والی آی ت) رار دی ا ج ا ک‬ ‫ن‬ ‫روں کی گرد ت‬ ‫( مام کا ش‬
‫ے‪ ،‬اس کی اگلی پ چ ھلی آی ات اس‬ ‫ب ہ‬ ‫ارکہ‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ی‬‫آ‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫و‬ ‫چ‬ ‫ا‬ ‫کی‬
‫لب پ‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫ہورسورۃ‬ ‫ت‬ ‫سب سے م‬
‫ت‬
‫ئ ن‬ ‫ت ق‬ ‫س‬ ‫دعوی کی ردی د کر ی ہ یغں۔‬
‫‪ -35‬امن پ س ن د ی رم لموں کے سا ھ ت ال ج ا ز ہی ں‪:‬‬
‫میں نے یہ ترجیح دی ہے کہ مسلمانوں کے لیے جائز نہیں کہ وہ ان غ یر‬
‫ق‬ ‫‪43‬‬
‫‪ -‬الب رۃ‪.185:‬‬
‫‪44‬‬
‫‪ -‬درج ذیل روایت کی جانب اشارہ ہے‪ :‬حضرت ابن عمر اور سلمہ بن اکوع کہ تے‬
‫ض انَ الَّ ِذيْ‬ ‫ہیں کہ‪ ‬اس آیت کو اس کے بعد والی آیت نے منسوخ کر دیا جو یہ ہے‪َ :‬‬
‫﴿ش ْه ُر َر َم َ‬
‫ُأ ْن ِز َل فِ ْي ِه ْالقُرْ آنُ ﴾صحیح مسلم میں ابن ابی لیلی کی روایت ہے کہ ان سے ن بی ک ریم‪ ‬ص لی ہللا‬
‫علیہ وسلم‪ ‬کے صحابہ رضی ہللا عنہم نے بیان کیا کہ رمضان میں جب روزے کا حکم‪ ‬نازل‬
‫ہوا تو بہت سے لوگوں پر بڑا دشوار گزرا‪ ،‬چنانچہ بہت سے لوگ ج و روزانہ ای ک مس کین‬
‫کو کھانا کھال سکتے تھے انہوں نے روزے چھوڑ دیئے حاالنکہ ان میں روزے رکھنے کی‬
‫طاقت تھی‪ ،‬بات یہ تھی کہ انہیں اس کی اجازت بھی دے دی گ ئی تھی کہ اگ ر وہ چ اہیں ت و‬
‫ہر روزہ کے بدلے ایک مسکین کو کھانا کھال دیا ک ریں۔ پھ ر اس اج ازت ک و دوس ری آیت‪:‬‬
‫﴿وأن تصوموا خير لكم﴾الخ یعنی”تمہارے لیے یہی بہتر ہے کہ تم روزے رکھو“‪ ‬نے منس وخ‬
‫ک ر دی ا اور اس ط رح لوگ وں ک و روزے رکھ نے ک ا حکم ہ و گی ا۔ ص حیح مس لم‪،‬کت اب‬
‫الصیام‪،‬حدیث نمبر ‪1145‬۔‬
‫ن‬
‫‪ - 45‬ال ساء‪.15:‬‬
‫‪38‬‬
‫مسلموں کے ساتھ قتال کریں جنہوں نے دین کے معاملے میں ان سے جن گ نہ‬
‫کی ہو‪ ،‬نہ انہیں ان کے گھروں سے نکاال ہو اور نہ ہی انہیں نکالنے میں ای ک‬
‫دوس رے کی م دد کی ہ و جیس ا کہ س ورۃ الممتحنۃ کی دو آی ات مب ارکہ اس پ ر‬
‫داللت کرتی ہیں‪ ،‬اور یہ آیت‪:‬‬
‫"﴿فَ ِإ ِن ا ْعتَزَ ُلـوْ ُك ْم فَلَ ْم يُقَ اتِلُوْ ُك ْم َوَأ ْلقَ وْ ا ِإلَ ْي ُك ُم َّ‬
‫الس لَ َم فَ َم ا َج َع َل هللاُ لَ ُك ْم َعلَ ْي ِه ْم‬
‫َسبِ ْياًل ﴾ "‬
‫"لہذا اگر وہ تم سے علیحدہ رہیں‪،‬اور تم سے جن گ نہ ک ریں‪،‬اور تمہ اری‬
‫طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں تو تمہارے ل یے اس کی گنج ائش نہیں ہے کہ تم ان‬
‫کے خالف کاروائی کرو۔"(‪)46‬‬
‫اور اسی طرح دیگر دلیلیں بھی میں نے تفصیل سے بیان کیں۔‬
‫‪﴿" -36‬اَل ِإ ْك َراهَ فِ ْي ال ِّد ْي ِن﴾" منسوخ نہیں بلکہ محکم ہے‪:‬‬
‫میں نے ان لوگوں کے اس قول کے عدم صحت کو ت رجیح دی ج و کہ تے‬
‫ہیں کہ آیت السیف‪ ،‬ہللا کے ارشاد‪:‬‬
‫َي﴾"‬ ‫"﴿اَل ِإ ْك َراهَ فِ ْي ال ِّدي ِْن قَ ْد تَّبَيَّنَ الرُّ ْش ُد ِمنَ ْالغ ِّ‬
‫" دین کے معاملہ میں جبر اور زبردستی نہیں ہے‪،‬حق گم راہی س ے ج دا‬
‫(‪)47‬‬
‫ہو کر بالکل واضح ہو چکا ہے۔"‬
‫کے لیے ناسخ ہے۔ اس طرح کی آیات منسوخ نہیں ہوتیں‪ ،‬کیونکہ یہ ایسی‬
‫علت سے معلول ہوتی ہیں جو نسخ قبول نہیں کرتیں‪ ،‬یہ آیت بیان ک رتی ہے کہ‬
‫دین حق (جو کہ دین اسالم ہی ہے) زورزبردستی کوقبول نہیں کرتا‪ ،‬اور اس الم‬
‫میں زور وزبردس تی اس واض ح علت کی وجہ س ے ج ائز نہیں کہ دین اس الم‬
‫اپنےروشن دالئل اور واضح نشانیوں کی وجہ سے قطعا کس ی ج بر واک راہ ک ا‬
‫ن‬ ‫محتاج ہی نہیں ہے۔‬
‫ب‬ ‫من‬ ‫ت‬ ‫ش‬
‫لفاور اس می ں سخ کےن ع ی نکی حث‪:‬‬ ‫نں (امام) زرک ی کی ناویئ ت‬ ‫‪ -37‬آیشۃ السیف می‬
‫ح‬ ‫م‬ ‫ی‬
‫ے جس سے ص سوخ کا کم‬ ‫امام زرک ی ؒ ے آی ۃ السیف کی ا سی ی سی ر کی ہ‬
‫(‪)48‬‬

‫‪46‬‬
‫‪ -‬النساء‪.90:‬‬
‫‪47‬‬
‫‪ -‬البقرۃ‪.256:‬‬
‫‪48‬‬
‫‪ -‬امام زركشى‪  745‬ھ کو قاہرہ میں پیدا ہوئے۔ آپ کا شمار آٹهويں صدى ہج رى‬
‫كے اہل نظر ومجتہد علما ميں ہوتا ہے۔ ق رآ ِن ك ريم‪ ،‬اَح اديث ِمب اركہ اور اُص و ِل دين‬
‫‪39‬‬
‫ت‬ ‫خت‬ ‫ئ ت‬ ‫خت‬ ‫ن ت‬ ‫ت‬ ‫خت ن‬
‫ے اگرت سب ب م ہ نوج اے و وہ ب ھی م ہ وج ا ا‬ ‫ا‬ ‫و‬
‫ب ئب ت پح ب ہ‬‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ر‬ ‫ب‬ ‫س‬ ‫وہ‬ ‫لکہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ں‬ ‫ب الکلی ہ م ی‬
‫ہ‬
‫ج‬ ‫ن‬
‫ے۔ چ ا چ ہ ن آی ات م بنارکہ می ں‬ ‫لوٹ آ ا ہ‬ ‫سب ب لوٹ آے و وہ کم نھی ن‬ ‫ح‬
‫ے اورگر‬ ‫ت خف‬
‫ہ‬
‫ے وہ آی ۃ السیف سے م سوخ ہی ں ہ ی ں‪ ،‬ب لکہ وہ ب ھالدی ج اے والی‬ ‫ف‪49‬کا) کم ہ‬ ‫ی‬
‫ن ن ن‬ ‫۔‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫سے‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫(‬
‫ات‬ ‫آی‬
‫ب‬ ‫م‬
‫ن پر ان کے ت عی ن کے‬ ‫ے ب ی لی ہ السالم‬ ‫ع‬ ‫ح‬
‫ذات ب ڑی کی م ہ ت‬
‫ے اپ‬ ‫ے‪،‬اس ئ‬ ‫ت نہللا کی ش ف ق‬
‫زماے میف ں ان حاالت کے‬ ‫غ‬ ‫کے‬ ‫مزوری‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ے‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫عاملہ‬ ‫م‬ ‫واال‬‫ئ‬ ‫ت‬
‫ف‬ ‫سا ھ رمی و ن‬
‫ے اسالم کو الب رمای ا اور اس کی مدد و‬ ‫ات ازل رما ی ں‪ ،‬پ ھر ج ب ہللا نعالی ف‬ ‫نم طابق آی ت‬
‫‪:‬‬ ‫کہ‬ ‫یسا‬ ‫ج‬ ‫ا‪،‬‬ ‫رما‬ ‫ن‬ ‫زول‬ ‫کا‬ ‫ات‬ ‫آ‬
‫م ب ی‬‫ق‬ ‫طا‬ ‫ت‬ ‫کے‬ ‫حاالت‬ ‫ان‬ ‫و‬ ‫صرت فکی‬
‫کم‪،‬اور اگر وہ‬ ‫ےکا ح‬‫ن‬
‫ن‬
‫د‬ ‫ہ‬ ‫ز‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫الم الےی کا طال ق‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫ق‬ ‫ان‬ ‫و‬ ‫وں‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫اب‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫ل‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫اگر‬ ‫کا ر‬
‫ے کا ح‬ ‫م ب تی ی ی‬ ‫ن‬
‫۔‬
‫ت‬ ‫کم‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ے‬
‫ق ک ج‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ھر‬ ‫پ‬ ‫ا‬ ‫ئ‬
‫ہ‬ ‫طال‬
‫صم فب ی‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ول‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫الم‬‫س‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫وں‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫سے‬
‫ی ح ین‬ ‫ں‬ ‫م‬‫ن‬ ‫اب‬ ‫اہ ل کت‬
‫کے د وںنمی ں لوار‬ ‫کے ند وں می ہںئ لح ص انی اور طا ت ق‬ ‫ی تہ دو وں ح کم عن ی کمزوری ٹ‬
‫ے کہ م ابضلہ کرے کا حکم‬ ‫ں‬
‫ن ن یق ہ‬ ‫ہ‬ ‫ے‪،‬ایسا‬ ‫و‬ ‫ن‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫ب کے لو‬ ‫ے سب ن‬ ‫پ‬ ‫کے اسنعمال کا کم ا‬
‫ے۔‬ ‫عم‬ ‫ے اسخ ب شن گ ی ا ب لکہ ت فدو وں پر ا‬ ‫صلح کرے کے حکم ن‬
‫روری ہ‬ ‫ئ ل‬ ‫ے و ت می ں‬ ‫ے اپق‬ ‫پ‬ ‫ت‬
‫کے ی‬
‫ل‬
‫ے اگر اسےواج بئی ج ہاد‬ ‫ق‬ ‫ے ب نول کی ج ا‬ ‫سخ می ں زرک ی ؒ کی یش ہ سی رب ہ ر ہ‬ ‫ت نآیظۃ السیف کے ئ‬
‫ہ‬
‫ے دنمن سے ج ہاد کر ا وتزمی ن پر اب ض و ج اے اور‬ ‫ج‬
‫ک‬
‫ے ج یسا قکہ ایس‬ ‫ں دی کھا ج ان‬ ‫ض‬ ‫کے ا ر میق‬
‫ک‬ ‫ن‬
‫ہ‬
‫ے وں‪ ،‬ی نہاں م یوں ہقی تں‬ ‫ہ‬ ‫مسلمان ی ہ ب ہ ھڑوا قے اورنم اب لہ کرے کی حکت ن ہ ر نھ‬
‫س‬ ‫چ‬ ‫ش‬
‫ے) و خی‬ ‫ے جس‬ ‫نسوخ ہی قں ب لکہ م سا ہ‬ ‫ے ج ہاد کا کم (م‬ ‫گے کہ اس ند من کا م اب لہ حکرےشکے یل‬
‫ت‬ ‫ق‬
‫ے اور اس کم کو د من سے م اب لہ کرے کی طا ت کے حصول ک مؤ ر‬ ‫ئھالد ی ا چ اہ ی‬ ‫طور پر ب‬
‫ت کھ ن‬ ‫ن ض‬ ‫ف ن‬ ‫ت‬ ‫ے۔‬
‫ن‬ ‫کی ا ج ا‬
‫ت چ لی ں گے اور‬ ‫ہ‬
‫ساء) کی ی ہ سی ر کر ا کہ زماق ہ عف می ں م لوگوں سے ہ ا ھ ی‬ ‫ق گر(ا ن‬ ‫م‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫وری د ی ا سے ت ال کری ں گے ۔ انسے م مست رد کرے ہ ی ں یک و کہ ی ہ‬ ‫طا ت کے د وں می ں پ ف‬
‫ئکہی ں تکہ ہ م‬ ‫ے۔ی ہ کسی طرح م ن اسب ہی ں کہ ہ قم لوگوں سے‬ ‫ن‬
‫دینگر آی ات م ب ارکہ کے م ا ق ہن‬
‫ی‬
‫ے اور جس تدن ہ می ں طا ت میسر آے گی و ہ م‬ ‫تاپ ی کمزوری کےت سب ب ت ال ہی ں کر رہ‬
‫ت‬
‫مہارے گھر می ں م پر حملہ آور ہ وں گے ی ہاں ک کہ م اسالم لے آؤ ی ا ذلت سے ج زی ہ‬
‫دو۔‬
‫‪ -38‬حدی ث "بُعثت بالسيف" کا ضعف‪:‬‬
‫میں نے یہ بیان کیا کہ یہ حدیث‪:‬‬
‫ُعثت بين يدي الساعة بالسيف)"‬ ‫"(ب ُ‬

‫وفقہ ميں امتيازى حيثيت كے حامل تهے۔"زركش" فارسى کا لفظ ہے۔"زر" ك ا مع نى‬
‫’سونا‘ جبكہ "كش‘"كا معنى ’واال‘ كے ہيں‪ ،‬يعنى سونے ك ا ك ام ك رنے واال۔ آپ ك و‬
‫"زركشى" اس لئے كہا جاتا ہے كہ طلب ِعلم سے پہلےس ن ار كا كام كرتے تهے۔ آپ کا‬
‫انتقال ‪ 794‬ھ میں ہوا۔ ابن قاضي شهبة‪ ،‬تقي الدين‪1978 .‬م‪ .‬طبقات الشافعية‪ ،‬حيدرآباد‪:‬‬
‫دائرة المعارف العثمانية‪.1:183 .‬‬
‫‪49‬‬
‫‪ -‬وہ آیات جو حافظے سے ہی محو کر دی گئی ہوں۔‬
‫‪40‬‬
‫"مجھے قیامت سے پہلے تلوار کے ساتھ بھیجا گیا ہے۔"‬
‫(‪)50‬‬

‫ج و کہ مس ند ام ام احم د وغ یرہ میں وارد ہ وئی ہے اس کی س ند میں کالم‬


‫ہےجبکہ اس کے متن میں قرآن پاک کی صریح مخ الفت کی وجہ س ے اجن بیت‬
‫ہے‪،‬جیسا کہ ہللا تعالی قرآن پاک میں تین موقعوں پر فرماتے ہیں‪:‬‬
‫"﴿ه َُوالَّ ِذي َأرْ َس َل َرسُوْ لَهُ بٍ ْالهُدَى َو ِدي ِْن ْال َحقِّ﴾"‬
‫"وہی (ہللا ) ہے جس نے اپنے رسول ک و ہ دایت دے ک ر اور دین برح ق‬
‫(‪)51‬‬
‫کے ساتھ بھیجا۔"‬
‫اسی طرح دوسری جگہ ارشاد ہے‪:‬‬
‫ق بَ ِش ْير نًا ن َّو نَ ِذ ْيرًا﴾" خ ش‬‫ك بِ ْال َح ِّ‬
‫"﴿ِإنَّا َأرْ َس ْلنَا َ‬ ‫ن‬
‫خ‬ ‫ے آپ کو رحق پ غ‬
‫ے والوں کو) و ب ری دی ں اور (ن ہ‬ ‫ے کہ آپ (ما‬ ‫یہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫طا‬ ‫ع‬ ‫ام‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ن ن "ہ م‬
‫ت‬ ‫ض‬ ‫صغ‬ ‫ن خ‬ ‫(‪)52‬‬
‫ں۔" ت‬ ‫والوں کو) ڈرا دی ن‬ ‫ے‬ ‫ما‬
‫نی‬ ‫اس ب ات پرنوا ح داللت کر‬ ‫ھ‬
‫ت‬
‫سا‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫ی‬ ‫لف‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫آ‬ ‫ی‬ ‫مد‬ ‫اور‬ ‫کی‬ ‫ہ ت مام م‬
‫ن‬ ‫خ شخ‬ ‫ن‬ ‫ی پ‬ ‫ین‬
‫واالاورڈراے‬ ‫ے واال‪،‬ن و ب ری س ناے ن‬ ‫ھا‬ ‫راہ دک‬ ‫کی‬ ‫ق‬ ‫ت اور ح‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫دا‬ ‫کو‬ ‫ﷺ‬ ‫م‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ہ ں کہ‬
‫ے‬ ‫ے واالاور دو وں ج ہا وں کےلی‬
‫شف‬
‫س وں کو اء ید‬
‫ن‬
‫مار‬ ‫ب‬ ‫واال‪،‬‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ات‬
‫ہ‬
‫سے‬ ‫احت‬ ‫یواال‪ ،‬وض‬
‫ت ی ین‬ ‫ب‬ ‫ب‬
‫عام ب ن ا کر ب یھ ج ا گ ی ا‪ ،‬قن ہ کہ آپ کو لوار اور ی زہ دی کر مب عوث ک ی ا گ ی ا ج یسا کہضاس ئحدی ث کے‬ ‫ظرحمت ف‬
‫ک‬
‫سے زی ادہ سچ ا ئاور وا ح کو ی اور الم‬ ‫ق‬
‫ے۔ رآن پ اک حکی قآی ات م ب ارکہ‬ ‫ن اہ ری ال اظ می ں ہ‬
‫اساسی ف اہ ی م اخ‬ ‫ی‬ ‫س‬
‫ے ج ا ی ں۔‬ ‫نی‬
‫ک‬ ‫ذ‬ ‫ئ‬ ‫م‬ ‫اور‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫الم‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ے جس سے ی‬
‫د‬ ‫ہی ں ہ‬
‫‪ -39‬نحديث"أمرت أن أقاتل الناس"سے مراد لڑا ی کرے والے ہ ی ں‪:‬‬
‫تج‬
‫ے کہ حدی ث م ب ارکہ‪:‬‬ ‫می ں ے اس ب ات کو ر ی ح دی ہ‬
‫"(أمرتنأن أقاتل الناس حتى يقولوا‪ :‬ال إله إال هللا)"‬
‫(‪)53‬‬
‫ے ی ہاںش ت ک کہ وہ کلمہ پڑھ لی ں۔"‬ ‫نگ ی ا ہ‬ ‫ے لوگوں سے لڑے ئکا حکم دی ا‬ ‫" جم ھ‬
‫می ں "ال ن اس" سے مراد لڑا ی کرے والے(م رکی ن عرب) ہ ی ں‪،‬ن ج ن کاق ن‬
‫سورۃ‬ ‫ت‬
‫وب ہ(‪ )54‬کی اب ت دا می ں ذکر ہ وا اوران سے اعالن ب راءت ک ی ا گ ی ا‪ ،‬ی ہ وہ لوگ ہ ی ں ج ہی ں ( رآ ی‬
‫‪50‬‬
‫‪ -‬مسند احمد‪ ،‬حديث نمبر ‪.5114‬‬
‫‪51‬‬
‫‪ -‬التوبۃ‪ ،33:‬الفتح‪ ،28:‬الصف‪.09:‬‬
‫ف‬ ‫‪ 52‬ق‬
‫‪ -‬الب رۃ‪ ،119:‬اطر‪.24:‬‬
‫‪53‬‬
‫‪ -‬صحیح مسلم‪،‬کتاب االیمان‪،‬حديث نمبر ‪.20‬‬
‫‪54‬‬
‫‪-‬سورہ توبہ کی آیات (‪ ،13 ،12‬اور ‪ )29‬کی طرف اشارہ ہے جو ذیل میں ترجمہ کے‬
‫ساتھ پیش کی جا رہی ہیں‪:‬‬
‫‪41‬‬
‫ت‬
‫عب یر کے م طابق)‪:‬‬
‫"﴿ال يَرْ قُبُوْ نَ فِ ْي ُمْؤ ِم ٍن ِإاَّل وال ِذ َّمة َوُأولِئ َ‬
‫ك هُ ُم ْال ُم ْعتَ ُدوْ نَ ﴾"‬
‫"کسی مومن کے بارے میں کسی رشتے ناطے‪،‬اور کسی عہد و پیمان کا‬
‫کوئی خی ال نہیں‪،‬اور یہ ح د س ے آگے بڑھ نے والے اور زی ادتی ک رنے والے‬
‫(‪)55‬‬
‫ہیں۔"‬
‫‪ -40‬نبی کریم ﷺ کے غزوات اقدامی نہیں دفاعی تھے‪:‬‬
‫میں نے اس (رائے ) ک و اختی ار کی ا جس کی وض احت ش یخ االس الم ابن‬
‫تیمیہ ؒ نے اپنی کتاب "قاعدۃ في قتال الکفار"میں کی اورپھ ر ان کے ش اگرد ابن‬
‫القیم نے اپ نی متع دد کت ابوں میں جس کی تائی د کی‪ ،‬ان کت ابوں میں‪( :‬هداية‬
‫الحياری في أجوبة اليهود والنصارى)‪ ،‬اور (أحكام أهل الذمة)وغیرہ ش امل ہیں‬
‫جن میں مذکورہے کہ نبی کریم ﷺ صرف انہیں سے قتال ک رتے تھے ج و آپ‬
‫سے جنگ کرتے تھے‪،‬لیکن جن لوگوں نے آپ کے ساتھ مص الحت اور جن گ‬
‫بندی کی آپ ﷺ نے بھی ان کے ساتھ قتال نہیں کیا۔‬

‫وإن نکثوا أیمانھم من بعد عھدھم وطعن وا في دینکم فق اتلوا أئم ة الکفر‪ ،‬إنھم ال أیم ان لھم لعلھم‬
‫ینتھون(‪ )۱۲‬أال تقاتلون قوما نکثوا أیمانھم وھموا بإخراج الرسول وھم بدؤوکم أول م رۃ‪،‬‬
‫أتخشونھم‪ ،‬فاہلل أحق أن تخشوہ إن کنتم مومنین(‪)۱۳‬‬
‫اور اگر یہ قسمیہ معاہدہ کے بعد اپنی قسمیں ت وڑ دیں اور تمہ ارے دین پ ر حملے ک ریں‪،‬ت و‬
‫کفر کے ان لیڈروں اور پیشواوں سے جنگ کرو‪،‬ان کی قسموں کا ک وئی اعتب ار نہیں‪،‬‬
‫تاکہ یہ اپنی حرکتوں سے باز آ جائیں (‪ )۱۲‬کیا تم ایسے ظالموں سے جن گ نہیں ک رو‬
‫گے جنہ وں نے اپ نی قس میں اور معاہ دے ت وڑ دیے‪ ،‬اور رس ول کی جالوط نی کے‬
‫ارادے کیے‪،‬اور انہوں نے ہی پہلی مرتبہ بدعہ دی کی ابت دا کی‪،‬کی ا تم ان س ے ڈرتے‬
‫ہو؟ ہللا اس کا زیادہ حقدار ہے کہ اس سے ڈرو‪ ،‬اگر تم صاحب ایمان ہو(‪)۱۳‬‬
‫قاتلوا الذين ال يؤمنون باهلل وال باليوم اآلخر وال يحرم ون م ا ح رم هللا ورس وله وال يدينون دين‬
‫الحق من الذين أوتوا الكتاب حتى يعطوا الجزية عن يد وهم صاغرون(‪)۲۹‬‬
‫جن گ ک رو ان اہ ل کت اب(یہودی وں اور عیس ائیوں) س ے ج و ہللا اور آخ رت پ ر ایم ان نہیں‬
‫رکھتے‪،‬اور جسے ہللا اور اس کے رسول نے حرام قرار دے دیا ہے اس ے ح رام نہیں‬
‫سمجھتے‪ ،‬اور دین حق کی اطاعت نہیں کرتے‪ ،‬یہاں تک کہ وہ جھک کر جزیہ دی نے‬
‫پر مجبور ہوں‪( ،‬یہ منکر و کافر اسی کے مس تحق ہیں کہ ان ک و زی رنگیں کی ا ج ائے‬
‫اور اسالمی حکومت کی شہریت کے ع وض ای ک آس ان س ا ٹیکس ان س ے لی ا ج ائے‬
‫تاکہ ان کی باالدستی ختم ہو لیکن ان پر ظلم بھی نہ ہو(‪)۲۹‬‬
‫‪ - 55‬التوبۃ‪.10:‬‬
‫‪42‬‬
‫سب سے واضح کلم ات جن پ ر میں نے اعتم اد کی ا‪ ،‬وہ ابن القیم ؒنے اپ نی‬
‫کتاب "ہدایۃ الحیاری" میں ذکر کیے ہیں‪ ،‬وہ فرماتے ہیں‪:‬‬
‫"جو نبی کریم ﷺ کی سیرت مطہ رہ میں غ وروفکر ک رے اس پہ یہ ب ات‬
‫واضح ہوجاتی ہے کہ نبی علیہ السالم نے کسی پر اپنے دین کےلیے زبردس تی‬
‫نہیں کی‪ ،‬آپ ﷺ نے صرف اسی کے ساتھ قتال کیا جس نے آپ کے ساتھ کیا‪،‬‬
‫جو کوئی آپ علیہ السالم کے ساتھ صلح ص فائی اورامن کے س اتھ بغ یر ل ڑائی‬
‫کیے رہا وہ جب تک ا س پر ق ائم رہ ا اور اپن ا عہ د نہیں ت وڑا اس س ے آپﷺ‬
‫نے قتال نہیں کیا ؛بلکہ ہللا تعالی نے حکم فرمایا کہ ان کے ساتھ ایفائے عہد کیا‬
‫جائے جب تک وہ عہد پر قائم رہیں‪،‬جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫"﴿فَ َما ا ْستَقَا ُموا لَ ُك ْم فَا ْستَقِ ْي ُموْ ا لَهُ ْم﴾"‬
‫(‪)56‬‬
‫"وہ جب تک معاہدہ پر قائم رہیں‪،‬تم اس پر قائم رہو۔"‬
‫نبی کریم ﷺ جب مدینہ منورہ تشریف الئے ت و آپﷺ نے یہودی وں س ے‬
‫ص لح فرم ائی اور انہیں ان کے دین پ ر چھ وڑے رکھ ا‪ ،‬پھ رجب انہ وں نے‬
‫عہدشکنی کی اورلڑائی میں پہل کی تو آپ علیہ الس الم نے جواب ا ان کے س اتھ‬
‫قتال کیا اور بعضوں کے ساتھ احسان واال معاملہ کیا‪،‬کچھ ک و جالوطن ک ر دی ا‬
‫اور کچھ کو قتل (کرنے کا حکم دے )دیا‪ ،‬اسی طرح جب ق ریش کے س اتھ دس‬
‫سال کی جنگ بندی کا معاہدہ ہواتو آپ ﷺ نے اس وقت تک پہ ل نہیں کی جب‬
‫تک انہوں نے معاہدہ توڑنہیں دیا‪،‬اس کےبعد آپ نے ان کے عالقے میں جا کر‬
‫ان سے جنگ لڑی‪ ،‬اس سے قبل وہ جنگ میں پہل کیاکرتے تھے جیسا کہ ی وم‬
‫احد اوریوم خندق میں انہ وں نے کی ا‪ ،‬ب در کے دن بھی وہ ل ڑائی کےل یے آئے‬
‫تھے اگ ر وہ واپس چلے ج اتےتو آپ ﷺان س ے قت ال نہ فرم اتے‪،‬اس س اری‬
‫بحث کا مقصد یہ ہے کہ آپ علیہ السالم نے کسی کو دین اسالم قبول کرنے پ ر‬
‫قطعا مجبور نہیں کیا‪ ،‬بلکہ لوگوں نےاپنے اختیار سے برضاورغبت دین اسالم‬
‫(‪)57‬‬
‫قبول کیا ۔"‬
‫‪56‬‬
‫‪ -‬التوبۃ‪.07:‬‬
‫‪57‬‬
‫‪ -‬ابن القیم‪ 1396 .‬ھ ‪ .‬ہدایۃ الحیاری من الیھود والنصاری‪ ،‬مكہ مک رمہ ‪ :‬موسس ۃ مکۃ‬
‫للطباعۃ ۔ ‪01: 12‬۔‬
‫‪43‬‬
‫‪-41‬ص‪##‬حابہ ک‪##‬رام اور ان کے بع‪##‬د کے مس‪##‬لمانوں کی فتوح‪##‬ات لوگ‪##‬وں ک‪##‬و‬
‫نہیں تھیں‪ :‬ن‬ ‫ش‬
‫کےلیے‬
‫میں داخل کرنے خ ف ئ‬ ‫تج‬
‫زبردستی اسالم‬ ‫ن‬
‫اوراس‬
‫ن‬ ‫ے قرا دی ن کے نزماے می ں‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫ےکہ‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫دی‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫کو‬
‫ئ‬ ‫ات‬ ‫ب‬ ‫اس‬
‫ت‬ ‫ف‬ ‫ے‬ ‫می ں‬
‫ااوردوسروں ج ھکا ا‬ ‫کر‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫و‬ ‫کو‬ ‫وں‬ ‫ال‬‫ع‬ ‫ے‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫حض‬ ‫م‬ ‫صد‬ ‫م‬ ‫کا‬ ‫ان‬ ‫ں‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫وحات‬ ‫المی‬
‫ق‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫کےب عد ج و‬
‫ت‬ ‫س‬ ‫پ‬ ‫ن یج ن ن ت‬ ‫ن‬
‫سے ہ ٹ کر اری خ کا‬ ‫لکہ اگر عصب و حطی تت‬ ‫ب‬ ‫ھا‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬
‫ت‬ ‫ور‬‫ئ‬ ‫ب‬‫م‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ول‬ ‫ب‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫تی ا ا‬
‫ت‬ ‫ص‬ ‫ت‬
‫کے م عدد اہ داف سجم ھ می ں آےہ ی ں‪ ،‬ج و ی ہ ہ ی ں‪:‬‬ ‫ن‬ ‫اس‬ ‫و‬
‫ٹ‬ ‫ے‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫عہ‬
‫م ل ک ی ئج‬ ‫طا‬ ‫ح‬ ‫ح‬
‫ی‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫ر‬ ‫دب‬
‫ن‬ ‫ل رکاو وں کو ہ ٹ ا فا۔ ج ن‬ ‫‪-1‬اسالم کی راہ می ں حا ف ظ‬
‫ے د اعین گی ں کر ا۔‬ ‫‪-2‬اسالمی ری است کی ح ا ت کے یل‬
‫ش‬ ‫ے لڑ ا۔‬ ‫آزادی کے یل‬ ‫اورکمزورعوام کی‬ ‫ےبس ق‬
‫ئ ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ع‬ ‫‪-3‬ب ف‬
‫ف‬ ‫ے‪:‬‬ ‫سے ان کی د قم ی اورلڑا ی کر ا ہ‬ ‫ن ارسے ت ال کیت ج لت لما وں ف‬ ‫‪ -42‬ک‬
‫سے ت ال کی علت ان کا محض کا ر‬ ‫خ‬ ‫روں‬ ‫کا‬
‫ن‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫دی‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫کو‬ ‫ات‬
‫ب ش‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫ن ن می ں‬
‫م‬
‫ق‬ ‫ن‬ ‫س‬
‫ں ۔اگر حض‬
‫ت‬ ‫الف ج گ ت ب پ ا کر دی غ‬ ‫ن‬ ‫ے ج ب تکہ وہ م لما وں کے‬ ‫کی سرفک ی ہ‬ ‫ہ وف ا ہین ں ب لکہ انت ت‬
‫وں اور اج روں و ی رہ کو ل‬ ‫ق‬ ‫ہ‬
‫لت ہ و ی وکا روںن کی عور وں‪ ،‬وڑھوں‪،‬را ب فوں‪ ،‬کسا ن‬
‫ب‬ ‫کان رب ہ و ا عئ ت‬
‫ت‬ ‫ل‬
‫ے م لما وں کے ان پرامن مخ ا ئ ی نن کو ل ہی ں ک ی ا ج اسئکت ا‪:‬‬ ‫س‬ ‫کر ا ھی ج ا ز ہ و ا۔اسی یل‬
‫ن‬
‫‪ ‬ج ن سے اسالم اور امت اسالمی ہ کی ب اب ت کو ی اروا ب ات سرزد ہ ہ و ی ہ و‪،‬‬
‫‪ ‬نہ دین کے معاملے میں ان سے جنگ کی ہو‪،‬‬
‫‪ ‬نہ اپنےگھروں سے نکاال ہو‪ ،‬نہ ہی ان کے نکالنے میں ای ک دوس رے‬
‫کی مدد کی ہو‪،‬‬
‫بلکہ ان کو سالمتی کےساتھ زندگی گزارنے کا ماحول دیا ہو اوراپنے‬
‫ہاتھوں اورزبانوں کو مسلمانوں (کے خالف استعمال کرنے )سے روکا ہو‪،‬‬
‫تو ایسوں کےلیے ہماری طرف سے خیرخواہی اور انص اف کے س وا کچھ‬
‫نہیں۔‬
‫البتہ ج و مس لمانوں ک و تکلی ف پہنچ ائے اور ان پرسرکش ی ک رے‬
‫تومس لمانوں ک و یہ ح ق حاص ل ہے بلکہ ان پ ر ض روری ہے کہ اپ نے دین و‬
‫عزت کی حفاظت کے لیےاس سے قتال کریں‪ ،‬یہاں تک وہ اس الم قب ول ک رلے‬
‫یا ذلیل ہو کر اپنے ہاتھوں سے جزیہ دے‪ ،‬یعنی وہ اسالمی ریاست اورش ریعت‬
‫اس المی کے س امنے نہ کہ اس المی عقی دے کے سامنےس رنگوں ہ و‬
‫جائے‪،‬کیونکہ اس (عقیدے) میں کوئی زبردستی نہیں ہے۔‬
‫‪44‬‬
‫‪ -43‬اقدامی جہاد کےفرض کفایہ ہونے پر کوئی اجماع نہیں ہے جیس‪##‬ا کہ‬
‫مشہورہے‪:‬‬
‫میں نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ فقہائے کرام کا نہ اق دامی جہ ادکے‬
‫فرض کفایہ ہ ونے پ ر ک وئی اجم اع ہےنہ ہی ہرس ال ک افروں کے ملک وں میں‬
‫جہاد کے وجوب پر۔صحابہ ک رام میں (حض رت) ابن عم رر(ض ی ہللا عنہم ا)‪،‬‬
‫برمہ (‪ )60‬اور (ام ام )‬ ‫ؒ‬ ‫دینار(‪،)59‬ائمہ ک رام میں ابن ش‬ ‫ؒ‬ ‫عطاء(‪ )58‬اورابن‬
‫ؒ‬ ‫تابعین میں‬
‫ئ کہ ج ہاد(اقدامی جہاد) فرض نہیں بلکہ نفلی ہے۔‬ ‫ثوری(‪ )61‬کا خیال یہ ہے‬ ‫ؒ‬
‫ق‬ ‫م‬‫ف‬ ‫ب شت‬ ‫ج‬ ‫ض‬ ‫ب‬
‫ے ن می ں اب ننم ب ارک ؒ ھی ا ل ہ ی ں کہ ا دامیت ج ہاد‬ ‫ے یہ ہ‬ ‫عض ح راتفکی را ت‬
‫رض ھا ان کےنعالوہ کسی پر ہی ں۔ اسخ ( ص ی ل ) کے سا ھنکہ‬ ‫صرف فصحاب ہ فکرام پر ئ‬
‫پ‬ ‫گ‬ ‫ج‬
‫طرےف والی ہوں کو ا ی‬ ‫ب‬ ‫پ‬ ‫ی‬
‫ت‬ ‫حدود اور ف‬ ‫حری وب ریع ت‬ ‫ےا ی‬
‫س‬ ‫امت رض ک ای ہ کی ادا گی کے یل‬
‫ےج و‬‫واج سے پْر رکھ‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬
‫ی ی‬ ‫ب‬ ‫ر‬ ‫لی‬ ‫اورا‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫سے‬ ‫ش‬ ‫ے‬ ‫ح‬ ‫و قسعتضکے م فطابق عمدہ سے عمدہ ا ل‬
‫ن کو‬ ‫س‬
‫نالمی ری است اور من لما وں کی عزت‬ ‫ےاور د من اگر اس‬ ‫ئ ت‬ ‫رورت وری حرکت کرسک‬ ‫بو ت‬
‫س‬ ‫ن‬ ‫ب‬‫ک‬ ‫ب‬ ‫ن خ‬
‫ے‬ ‫ک‬
‫ے واال ب ق س ھا ن‬ ‫ب‬ ‫ش‬
‫ے و اسے ق لکارے اور ش ھی ہ تھول ن‬ ‫ل‬ ‫چ ھوے کا تی ال تھی دل می ں ال‬
‫ے ۔اس ی خاری کا م نصد د‬‫ت‬
‫اس پر ن ق‬
‫رعب ج ما ا‬ ‫من کی وکت کو وڑ ا‪ ،‬ن‬
‫ب‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ے ہ مہ ن مس عدرہ‬ ‫کے یل‬
‫س‬
‫ھیق م لئما وں فکو غصان‬ ‫ک‬
‫ے کہ وہ ف‬ ‫ال ھی ف کال دی ا‬ ‫اور اس کے دل سے اس ب اتنکا ی ف‬
‫ہت‬ ‫ن‬
‫ےاور ہاے ش ا عی ہ و ی رہ‬ ‫ی‬
‫ک ہ‬ ‫س‬ ‫کر‬ ‫ادا‬ ‫ہ‬ ‫ا‬
‫ک ی‬ ‫رض‬ ‫ے ذمہ‬ ‫ے۔اس طرح امت اپ‬ ‫پ ہ چ ا سکت ا ہ‬

‫ری کے‬ ‫دی ہج‬


‫ام ام عط اء بن ابی رب اح‪647( ‬ء – ‪732‬ء) پہلی‪ ‬ص‬ ‫‪- 58‬‬
‫تابعی‪،‬محدث‪ ،‬فقیہ‪ ‬اور اپنے عہد کے نامور مفتی‪ ‬مکہ‪ ‬تھے۔‬
‫عطاء‪/https://ur.wikipedia.org/wiki/ -‬۔‬
‫یحیی تھی۔ آپ ‪ ‬امام حسن بصری‪ ‬کے ہم عصر تھے۔ آپ‬ ‫ٰ‬ ‫‪- 59‬آپ کا نام مالک اور کنیت ابو‬
‫کے وال د ای ک غالم تھے اور آپ کی والدت بھی غالمی کی ح الت میں ہ وئی۔ آپ‬
‫اگرچہ غالم زادہ تھے لیکن تھے دونوں جہاں سے آزاد۔ آپ کی کرام ات اور ریاض ت‬
‫ن‪-‬البصري ‪/‬‬ ‫ائی۔حس‬ ‫ات پ‬ ‫ہور ہیں۔ ‪ 130‬ھ میں وف‬ ‫ر جگہ مش‬ ‫ہ‬
‫‪/https://ur.wikipedia.org/wiki‬۔‬
‫‪ - 60‬امام عبد ہللا بن شبرمہ کا شمار عراق کے فقہاء میں ہوت ا ہے‪ ،‬آپ ک وفہ کے قاض ی‬
‫رہے‪ ،‬پچاس احادیث بھی روایت کیں۔‬
‫ابن شبرمة ‪/https://ur.wikipedia.org/wiki/‬۔‬
‫‪ - 61‬ام ام س فیان ث وری پ ائے کے‪ ‬فقیہ‪  ‬اور‪ ‬مح دث تھے۔‪  ‬ض بط و روایت میں اس ق در‬
‫شہرت پائی کہ‪ ‬شعبہ بن حجاج‪ ،‬سفیان بن عیینہ‪ ‬اور‪ ‬یحیی بن معین‪ ‬جیس ے‪ ‬مح دثین‪ ‬نے‬
‫آپ ک و‪ ‬ام یر الموم نین فی الح دیث‪ ‬کے لقب س ے س رفراز کی ا۔ ان کے زہ د و ورع‬
‫اور‪ ‬ثقاہت‪ ‬پر سب کا اتفاق ہے۔‪161‬ھ میں وفات پائی۔‬
‫سفیان‪-‬الثوری‪/https://ur.wikipedia.org/wiki/‬۔‬
‫‪45‬‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ق‬
‫ب ھی اسی مو ف کی ائ ی د کرے ہ ی ں۔‬
‫‪ -44‬اقدامی جہاد کے بارے میں (موالنا ) مودودی اورس‪#‬ید قطب کی فک‪#‬ر‬
‫کا جائزہ‪:‬‬
‫(‪)63‬‬
‫میں نے دو بڑے اسالمی مفکرین ابواالعلی مودودی اور سیدقطب‬
‫( ‪)62‬‬

‫کے اق دامی جہ اد ک و اپن انے کی اس بنی اد ک ا ج ائزہ لی ا جوانہ وں نے س رکش‬


‫ط اقتوں اور ج اہلیت پ ر مب نی نظ اموں ک و وجوب ا اس الم کے ت ابع ک رنے کے‬
‫فلسفے کی بنیاد پر اختیار کی تھی۔اور جب انہیں امن اور مسلمانوں سے جن گ‬
‫نہ کرنے والوں کے ساتھ قتال نہ کرنے کی دعوت دی نے والی آی ات کی ط رف‬
‫متوجہ کیا گیا توان کا کہنا تھا کہ یہ مرحلہ وار نصوص ہیں یا منسوخ ہیں۔‬
‫خ‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ں‪:‬‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫اں‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫را‬ ‫اوران کے پیروکاروں میں دو‬ ‫مفکرین ف‬ ‫ان‬
‫ب‬ ‫ئ‬ ‫خ‬
‫ے ہ ی ں ج خیسا کہ ی ہ کو ی‬ ‫ے کے بحارے می ں اس طرح حث کرن‬ ‫‪ :۱‬ی ہ کسی ا قت ال ی مس ل‬
‫ئ‬
‫الف موج ود‬‫کے زماے سے ا ت ض‬ ‫اج ماعی مس لہ ہ و‪ ،‬ا دامی ج ہادئکے کم مین فں صحاب ہ فکرام ن‬
‫ے رض ہیئں‪ ،‬ج یسا کہ اب ن عمر ر ی ہللا‬ ‫ہ‬ ‫ں یہ ل‬ ‫لف) کی ت راے می‬ ‫ے‪،‬ب عض (س‬
‫۔‬ ‫ے‬ ‫ے‬ ‫را‬ ‫ہی‬ ‫ی‬ ‫ھی‬
‫ئ‬
‫عض اب عی ن اور ا مہ کرام کی ب‬ ‫ہہما‪،‬اور اسی طرح ب‬ ‫عن‬
‫فہ ت‬ ‫ق‬ ‫ئ‬ ‫ج کہ ب‬
‫ہاد)صحاب ہ کرام پر رض ھا۔‬ ‫ش‬ ‫دامی ج ت‬
‫ف‬ ‫کہ‪( :‬ا‬‫ے ف‬ ‫ے ی ہ ہن‬ ‫عض کی را‬ ‫خ‬ ‫ب‬
‫ے رض ک ای ہ کی ری ح یشوں کی کہ فاس سے خمراد‪:‬عسکری‬ ‫ب‬
‫ق پ ھر مت ا ری ن می قں تعض ن‬
‫ے ج و ای ک طرفند من کی ص وں می ں وف پ ی دا کر‬ ‫ے اس در ی اری کر ا ہف ظ‬ ‫طا ت کے یل‬
‫ے۔‬ ‫دے اور دوسری طرف سرحدوں کی ح ا ت کا سب ب ب‬
‫ابواالعلی مودودی‪1903( ‬ء‪1979 -‬ء) مشہور عالم دین‪ ،‬مفسر قرآن اور‪ ‬جماعت‬‫ٰ‬ ‫‪ -‬سید‬ ‫‪62‬‬

‫اسالمی‪ ‬کے بانی تھے۔ بیسوی صدی کے موثر ترین اس المی مفک رین میں س ے ای ک‬
‫تھے۔ ان کی فکر‪ ،‬سوچ اور ان کی تصانیف نے پوری دنی ا کی اس المی تحاری ک کے‬
‫ارتقا میں گہرا اثر ڈاال ۔موالنا کی فک ر اور شخص یت کےب ارے میں ج اننے کے ل یے‬
‫عالمہ یوسف القرضاوی کی کتاب ”نظرات فی فکر االمام المودودی“ الئق مطالعہ ہے‬
‫جس کااُردو ترجمہ ابواالعلی سید سبحانی نے”امام مودودی۔ایک مص لح‪ ،‬ای ک مفک ر‪،‬‬
‫ایک مجدد“کے نام سے کیا ہے ۔ ہدایت پبلشرز نے یہ ترجمہ نئی دہلی س ے ش ائع کی ا‬
‫ہے۔‬
‫‪63‬‬
‫‪ -‬سید قطب شہید( ‪ 1387 – 1324‬ہ = ‪ 1967 - 1906‬ء) کا شمار اخوان المسلمین‬
‫کے رہنماوں میں ہوتا ہے‪،‬آپ معروف مصری مفک ر اور ادیب ہیں۔ آپ کے ش علہ ب ار‬
‫قلم سے متعدد تصانیف نکلیں جن میں سے اہم ترین تصنیف قرٓان ک ریم کی تفس یر ہے‬
‫جو ’فی ظالل القرٓان‘کے نام سے عربی میں لکھی گئی ہے اور اس کا ت رجمہ بش مول‬
‫اردو ک ئی زب انوں میں ہوچک ا ہے۔ ال زركلي‪ ،‬خ ير ال دين‪1986 .‬م‪ .‬األعالم‪ .‬ب يروت‪:‬‬
‫دارالعلم للماليين‪.325 .‬‬
‫‪46‬‬
‫نف ت ش‬ ‫ق‬
‫ع‬ ‫ن ف‬ ‫خ‬
‫ست‬ ‫کت‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫س‬
‫شی‬ ‫اور‬ ‫لی‬ ‫رسادگی‪،‬کم‬ ‫ے مخ ال ی نپ‬
‫ن‬ ‫ے تکہ ی ہ اپ ف‬
‫ت دوسری وج ہ ی ہ قہ‬ ‫‪ :۲‬رابی کی‬
‫ئ‬
‫ے‬ ‫دت کر ث‬ ‫ے ہ ی ں۔اور س ی دن طب قو مخ ال ی ن پر ت شموال ا مودودیت نسے زی ادہ‬ ‫ض‬ ‫تکا الزام عا د کر‬
‫ن‬
‫ے۔ حاال تکہ ج ن ح رات کو روحا ی اور ع لی طور پر اس راق(‪ )64‬اور صی ر ی ت( ‪)65‬سے مت ا ر‬ ‫ھن‬
‫( ‪،)66‬‬
‫ج‬ ‫ع‬
‫ےوہ امت کے لما اور داعی ہ ی ں‪ ،‬یسا کہ محمد عبده‬ ‫ہ وے پر ہم ک ی ا ج ا رہ ا ہ‬
‫م‬
‫رشيد رضا (‪،)67‬الم راغی(‪ ،)68‬ش لتوت‪ )69(،‬دراز(‪ ،)70‬خالف(‪ ،)71‬اب وزہرة( ‪،)72‬حس ن‬

‫‪64‬‬
‫‪ -‬استشراق اور مستش رق کی تعریف ای ڈورڈ س ید(‪ ) Edward Said‬اپ نی کت اب (‬
‫‪)Orientalism‬میں ان الفاظ سے کرتے ہیں‪:‬‬
‫“‪Anyone who teaches, writes about, or researches the orient and this‬‬
‫‪applies whether the person is an authropologist, socialogist, historian, or‬‬
‫‪philologist either in its specific or its general aspects, is an orientalist,‬‬
‫‪and what he or she does is Orientalism.” (Said, Edward w. 1978.‬‬
‫)‪Orientalism. New York: Pantheon Books.p:21.‬‬
‫”جو کوئی بھی مش رق کے ب ارے میں پڑھت ا‪،‬لکھت ا ی ا اس پ ر تحقی ق کرت ا ہے ت و یہ‬
‫تحقیقی معی ار تم ام ت ر پڑھ نے لکھ نے اور تحقی ق ک رنے والے م اہر بش ریات‪ ،‬م اہر‬
‫عمرانی ات‪،‬م ورخین اور م اہر لس انیات پ ر منطب ق ہوت ا ہے۔خ واہ یہ ل وگ اپ نے اپ نے دائر ہ‬
‫شخصی میں خاص موضوع ی ا اپ نے کس ی عم ومی مض مون پ ر ک ام ک ررہے ہ وں‪،‬مش رق‬
‫شناس(مستش رق) کہالتے ہیں اور ان ک ا کی ا ج انے واال ک ام مش رق شناس ی ہوگا۔“‪ ،‬موالن ا‬
‫ابوالحسن علی ندوی کے مطابق موجودہ دور میں استشراق ک و ایری ا اس ٹڈی اور مستش رقین‬
‫کو ایریا ایکسپرٹ یا ایڈوائزر کہ ا جات ا ہے۔آپ "االس المیات بین کتاب ات المستش رقین " میں‬
‫لکھتے ہیں کہ”اب مستشرقین‪ ،‬مستشرق کہلوانا پس ند نہیں ک رتے‪،‬دوس ری جن گ عظیم کے‬
‫بعد وہ ” ایڈوائزر“ی ا ایری ا س ٹڈی سپیشلسٹ؍ایکس پرٹ کہلواناپس ند ک رتے ہیں“‪ -‬ن دوی‪ ،‬أب و‬
‫مؤسسة تالرسالة۔ ‪13‬۔‬
‫بیروت‪ :‬ن ن‬
‫ئ‬ ‫المستشرقین۔‬
‫ن‬ ‫کتابات‬
‫ت‬ ‫الحسن تعلي۔ ‪1986‬ء۔ االسالمیات بین‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ن‬
‫ے‪،‬ای ک‬ ‫ع‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ی‬
‫ت کی روی ج و ل تغ اور لما وں کو ت ی سا ی ب اے کی حرتیشک ہ‬ ‫‪ -‬صی ترین ت سے مراد عی سا ی ق‬
‫‪65‬‬
‫عم م تس‬
‫ے و دوسری طرف اس راق کے ذی ل‬ ‫طرفب صی ری تت کا ی ہ یلک ل ح ی ث ی ت اور اری خ رکھت ا ہ‬
‫ے‪ :‬السباعي‪ ،‬مصطفی‪ .‬سنة النشر غيرمذكورة‪ .‬االستشراق‬ ‫ے۔ د ھی‬ ‫می ں ھی آ ا ہ‬
‫والمستشرقون۔عمان‪ :‬دار الوراق للنشر والتوزیع‪.22.‬‬
‫‪66‬‬
‫‪ -‬ان کا مکمل نام محمد بن عبدہ بن حس ن بن خ یر ہللا ہے۔ ‪١٢٦٥‬ھ بمط ابق ‪١٨٤٩‬ء‬
‫ئ‬ ‫تش‬ ‫ص‬ ‫ق‬
‫ے اور 'العُروة‬‫میں پیدا ہوئے۔ ابتدائی تعلیم اہ رہ می ں حا ل کی‪1884 ،‬می ں پ یرس ریف لے گ‬
‫الوثقی'‪ ‬نام سے ایک عربی رس الہ ج اری کی ا۔‪١٨٨٥‬ء میں ب یروت گ ئے اور‪۱۸۸۹ ‬ء میں‬ ‫ٰ‬
‫واپس مصر پہنچ گئے‪،‬اور پہلے عدلیہ میں جج تعینات ہوئے بع د ازاں انہیں مجلس ق انون‬
‫س از کا رکن بھی مق رر کی ا گی ا۔‪١٨٩٩ ‬ء میں ان ک و مص ر کی حک ومت کی ط رف س ے‬
‫‪47‬‬
‫البنا(‪ ،)73‬السباعي (‪ ،)74‬الغزالي( ‪ )75‬اور عبدهللا بن زيد المحمود (‪ )76‬و غيرہ۔‬
‫میں نے س یدقطب ش ہیدکے کالم پ رچھ مالحظ ات( ‪ )77‬لکھے ہیں‪ ،‬یہ اں ان‬
‫کے ذک ر ک رنے کی گنج ائش نہیں ہے‪،‬انہیں اپ نی جگہ پ ر پ ڑھ لی ا ج ائے۔(‬
‫‪)424-1/414‬۔‬
‫‪ -45‬یہ آیت "﴿ َو َكفَى هللاُ ا ْل ُمْؤ ِمنِيْنَ ا ْلقِتَ‪##‬ا َل﴾" اس‪##‬الم میں امن وس‪##‬المتی کے‬
‫رجحان کی بڑی دلیل ہے‪:‬‬

‫سرکاری طور پر مفتی عام کا درجہ دے دیا گیا اور وہ مص ر کے پہلے مف تی ع ام تھے اور‬
‫عالم اسالم کی وحدت و یک جہتی کے لئے کوشاں مصلح رہنما کی حیثیت سے جانے جاتے‬
‫ہیں ۔ ‪١٩٠٥‬ء بمطابق ‪١٣٢٣‬ھ میں اسکندریہ کے عالقہ میں کینسر کے مرض کی وجہ سے‬
‫وف ات پ ائی۔ ان کے ش اگردوں میں رش ید رض ا' حاف ظ اب راہیم' ش یخ ع ز ال دین قس ام' ش یخ‬
‫ازہرمحمد مص طفی م راغی' ش یخ ازہ ر مص طفی عب د ال رزاق' ش یخ محم د محی ال دین عب د‬
‫الحمید' سعد زغلول' قاسم امین' محمد لطفی جمعہ اور ٰطہ حسین وغیرہ شامل ہیں۔‪  ‬ال زركلي‪،‬‬
‫خير الدين‪1986 .‬م‪ .‬األعالم‪ .‬بيروت‪ :‬دارالعلم للماليين‪.355 .‬‬
‫االولی ‪١٢٨٢‬ھ بمط ابق‬‫ٰ‬ ‫‪ - 67‬ان کا پورا ن ام محم د رش ید بن علی رض ا ہے۔ ‪٢٧‬جم ادی‬
‫‪١٨٦٥‬ء شام کے عالقہ طرابلس میں پیدا ہوئے۔ ابت دائی تعلیم ت رکی زب ان میں حاص ل‬
‫کی بعد ازاں عربی اور فرانسیسی س یکھی‪ ،‬جم ال ال دین افغ انی اور محم د عب دہ کے‬
‫ثقی'‪  ‬سے نہ ایت مت اثر ہ وئے ۔ افغ انی کے بع د محمدعب دہ س ے‬ ‫رسالے‪' ‬العُروة ال ُو ٰ‬
‫استفادہ کے لیے مصر منتقل ہو گئے جہ اں ان کے س امنے یہ خ واہش کی کہ وہ ق رآن‬
‫کی تفسیر لکھیں‪،‬ابھی سورة النساء کی آیت ‪ ١٢٥‬تک تفسیر تک پہنچے تھے کہ داعی‬
‫اجل کو لبیک کہا۔استاذ کی وفات کے بع د رش ید رض ا نے یہ تفس یر س ورہ یوس ف کی‬
‫آیت‪١٠١‬تک اپنے استاد کے منہج سے ہٹ کر مکمل کی۔جس کے بع د س ے آخ ر ت ک‬
‫استاذ بہجت بیطار نے اس کی تکمیل کی۔ان کی ش ہرت ک ا ای ک ح والہ 'المن ار' رس الہ‬
‫بھی ہے جو عالم ع ربی کے عالوہ ع الم اس الم اور ی ورپ کے علمی حلق وں میں بھی‬
‫أالولی ‪١٣٥٤‬ھ بمط ابق ‪١٩٣٥‬ء ان کی وف ات ہ وئی اور‬ ‫ٰ‬ ‫بہت معروف ہوا۔۔ ‪ ١٣‬جمادی‬
‫اپنے استاذ مفتی محمد عبدہ کے س اتھ دفن ک یے گ ئے۔ ال زركلي‪ ،‬خ ير ال دين‪1986 .‬م‪.‬‬
‫األعالم‪ .‬بيروت‪ :‬دارالعلم للماليين‪.255 .‬‬
‫‪ - 68‬شیخ محمد مصطفی المراغی ( ‪1881‬ء‪1945-‬ء)کا شمار ب ی سوی ں صدی کی عظیم دینی‬
‫اور علمی شخصیتوں میں ہوتا ہے‪ ،‬قضاء اور شیخ االزھر کے منصب پر فائز رہے۔‬
‫محمد‪-‬مصطفی‪-‬المراغي‪/https://ar.wikipedia.org/wiki /‬۔‬
‫‪- 69‬محمود ش لتوت (‪۱۳۱۰‬۔‪۱۳۸۳‬ھ بمط ابق ‪۱۸۹۳‬۔‪۱۹۶۳‬ء) مع روف مص ری ع الم دین‬
‫ہیں‪۱۹۱۸،‬ء میں شھادۃ العالمیۃ کی ڈگری حاص ل ک ر کے ت دریس ش روع ک ر دی اور‬
‫ترقی کرتے کرتے ‪۱۹۵۸‬ء میں شیخ االزھ ر تعین ات ہ و گ ئے۔آپ مجم ع اللغۃ الع ربیۃ‬
‫کے رکن بھی تھے۔آپ پہلی شخصیت ہیں جنہیں امام اک بر ک ا لقب مال۔ ال زركلي‪ ،‬خ ير‬
‫‪48‬‬
‫میں نے اسالم میں امن وسالمتی کےرجحان اوراس الم کی امن کی ط رف‬
‫رغبت اور جن گ س ے نف رت کے متعل ق جن دالئ ل س ے اس تدالل کی ا ہے یہ‬
‫م یرے تف ردات میں س ے ہے‪،‬م یری معلوم ات کے مط ابق م یرے عالوہ یہ‬
‫استدالل کسی نے نہیں کیا‪ :‬ان دالئل میں سے ایک غزوہ اح زاب کے بی ان کے‬
‫بعد ہللا تعالی کا یہ فرمان ہے‪:‬‬
‫"﴿ َو َر َّد هللاُ الَّ ِذ ْينَ َكفَرُوا بِ َغ ْي ِظ ِه ْم لَ ْم يَنَالُوا َخ ْيرًا َو َكفَى هللاُ ْال ُمْؤ ِمنِ ْينَ ْالقِت َ‬
‫َال﴾"‬

‫الدين‪1986 .‬م‪ .‬األعالم‪ .‬بيروت‪ :‬دارالعلم للماليين‪.299 .‬‬


‫‪70‬‬
‫‪ -‬شیخ محمد عبد ہللا دراز ‪۱۸۹۴‬ء میں مصر کے شہر دسوق میں پیدا ہوئے‪۱۹۱۶،‬‬
‫میں ش ھادۃ الع المیۃ حاص ل کی‪۱۹۴۶،‬ء میں س وربون ف رانس س ے ڈاک ٹریٹ کی ا اور وطن‬
‫واپس آ ک ر ق اہرہ یونیورس ٹی میں ت دریس ش روع ک ر دی۔مختل ف علمی ف ورمز کے رکن‬
‫رہے‪،‬یہاں تک کہ شیخ االزھر کے منصب کے لیے بھی آپ کو ن امزد کی ا گی ا۔آپ ک ا انتق ال‬
‫‪۱۹۵۸‬ء میں الہور میں ایک علمی کانفرنس میں شرکت کے دوران ہوا۔ دیکھ یے‪ :‬ال زركلي‪،‬‬
‫خير الدين‪1986 .‬م‪ .‬األعالم‪ .‬بيروت‪ :‬دارالعلم للماليين‪.211 .‬‬
‫‪71‬‬
‫‪-‬ش یخ عب دالوھاب خالف (‪۱۳۰۵‬۔‪ ۱۳۷۵‬بمط ابق ‪۱۸۸۸‬۔‪ )۱۹۵۶‬بی ک وقت‬
‫محدث‪،‬فقیہ‪،‬ماہر اصول فقہ اور تصنیف و تالیف کے میدان کے شہسوار تھے۔حفظ قرآن کے‬
‫بعد آپ نے جامعۃ االزھر سے قضاء شرعی ک ا علم حاص ل کی ا اور ‪۱۹۱۵‬ء میں س ند ف راغ‬
‫حاص ل ک ر کے وہی ت دریس ک ا آغ از کی ا۔‪۱۹۱۹‬ء کے انقالب میں ش ریک ہ وئے اور اپ نی‬
‫خطیبانہ صالحیتوں کا لوہا منوایا‪،‬اور تدریس چھ وڑ ک ر قض اء ش رعی کی ط رف منتق ل ہ و‬
‫گئے اور ‪ ۱۹۲۰‬میں شرعی عدالت کے جج مقرر کر دیے گئے۔متعدد کتابیں تصنیف ک رنے‬
‫کے بعد علم اور کتاب کی دنیا کا یہ شخص ‪۱۹۵۶‬ء میں اس جہان ف انی س ے ک وچ ک ر گی ا۔‬
‫الزركلي‪ ،‬خير الدين‪1986 .‬م‪ .‬األعالم‪ .‬بيروت‪ :‬دارالعلم للماليين‪.198 .‬‬
‫‪72‬‬
‫‪ -‬شیخ ابو زہرہ (‪۱۳۱۶‬ھ؍‪۱۸۹۸‬ء۔‪۱۹۷۴‬ء) عرب دنیا میں ایک جانے پہچانے مص نف‬
‫ہیں۔ ان کا خاص موضوع فقہ اسالمی ہے جس پر ان کا کافی کام ہے۔ احوال الشخصیۃ‬
‫مصنف کی فقہی مسائل پر بہت مشہور کتاب ہے۔ اس کے عالوہ انہ وں نے ائمہ اربعہ‬
‫اور امام ابن تیمیہ‪ ،‬امام زید بن علی اور امام ص ادق رحمھم ہللا کی شخص یت اور فقہی‬
‫آراء و خدمات پر لیکچرز دیے تھے جو کتابی صورت میں بھی شائع ہ وئے اور کس ی‬
‫زمانے میں معروف صحافی و مترجم رئیس احمد جعفری نے ان کے تراجم بھی ک یے‬
‫تھے۔ الزركلي‪ ،‬خير الدين‪1986 .‬م‪ .‬األعالم‪ .‬بيروت‪ :‬دارالعلم للماليين‪.177 .‬‬
‫‪73‬‬
‫‪-‬حس ن احم د عب د ال رحمن محم د البن ا الس اعاتي (‪ 14‬اكت وبر ‪ 12 - 1906‬ف روری‬
‫‪1949‬م ) (‪1324‬ھ ‪1368 -‬ھ)مصر‪ ‬کے ممت از م ذہبی رہنم ا اور عظیم اس المی‬
‫‪49‬‬
‫"اور ہللا نے کافروں کو ان کے دلوں کی گھٹن اور بھڑاس کے ساتھ پلٹ ا‬
‫دیا‪،‬انہیں کچھ فائدہ حاصل نہ ہو س کا‪،‬اور ہللا نے ایم ان وال وں ک و جن گ س ے‬
‫(‪)78‬‬
‫محفوظ رکھا۔"‬
‫یہ جملہ‪َ ﴿" :‬و َكفَى هللاُ ْال ُمْؤ ِمنِ ْينَ ْالقِتَا َل﴾" کوئی ایسا دین نہیں کہہ س کتا ج و‬
‫خون کا پیاسا ہو بلکہ یہ وہی دین کہہ س کتا ہے ج و امن ک و پس ند کرت ا ہ و اور‬
‫لوگوں پر یہ احسان جتات ا ہ و کہ ہللا تع الی ہی ان کی ط رف س ے قت ال اور اس‬
‫کے لوازمات کے لیے کافی ہے۔‬
‫تحریک‪ ‬اخوان المسلمون‪ ‬کے بانی تھے۔ ‪ 1927‬میں‪ ‬دار العلوم مصر سے ف ارغ ہ وئے‬
‫اور ش ہر‪ ‬اس ماعیلیہ میں م درس کی حی ثیت س ے تق رر ی ہ وئی ۔ ‪ 1928‬میں‪ ‬اخ وان‬
‫المسلمون‪ ‬کی بنیاد رکھی۔ ‪ 1949‬میں حسن البنا ایک بھرپور تحریکی زن دگی گ ذارنے‬
‫کے بعد ‪ 43‬سال کی عمر میں‪ ‬قاہرہ‪ ‬میں گولی مار کر ش ہید ک ر دیے گ ئے۔ ال زركلي‪،‬‬
‫خير الدين‪1986 .‬م‪ .‬األعالم‪ .‬بيروت‪ :‬دارالعلم للماليين‪.143 .‬‬
‫‪74‬‬
‫‪-‬ش یخ مص طفی الس باعی (‪۱۳۳۳‬۔‪۱۳۸۴‬ھ بمط ابق ‪۱۹۱۵‬۔‪۱۹۶۴‬ء) ش ام میں اخ وان‬
‫المس لمین کے ب انی ہیں۔آپ نے فرانسیس ی اس تعمار کی م زاحمت میں ک ردار ادا کی ا‪،‬‬
‫‪۱۹۴۸‬ء میں جنگ فلسطین میں ش امی دس تے کی قی ادت کی۔ متع دد کت ابیں ت الیف کیں‬
‫اور علمی رسالے جاری کیے۔آپ شامی پارلیمنٹ کے نمایاں رکن تھے۔ الزركلي‪ ،‬خير‬
‫الدين‪1986 .‬م‪ .‬األعالم‪ .‬بيروت‪ :‬دارالعلم للماليين‪.362 .‬‬
‫‪75‬‬
‫‪-‬شیخ محم د غ زالی س قا ( ‪1917 ‬ء – ‪1996‬ء) کب ار علم اء میں سے ہیں۔‪ 94‬کتب کے‬
‫مصنف ہیں ۔ آپ نے اسالم کی الہامی کتاب ق رآن ک ریم کی جدی د تفس یر ک رنے والے‬
‫ایوان کی توجہ اپنی جانب مبذول کی۔ پچھلے ایک عش رہ میں مص ر میں ان کی تجدی د‬
‫ایمان اسالم کوششوں کے ب اعث آپ بہت س راہے گ ئے ہیں۔آپ ک ا ش ماردنیائے اس الم‬
‫کے محترم ترین بزرگوں میں ہوتا ہے۔ الزركلي‪ ،‬خير الدين‪1986 .‬م‪ .‬األعالم‪ .‬ب يروت‪:‬‬
‫دارالعلم للماليين‪.308 .‬‬
‫‪76‬‬
‫‪ -‬عالمہ عبد ہللا بن زید المحم ود ع الم اس الم کے مش ہور وجی د ع الم‪ ،‬مجتہ د اورداعی‬
‫ہیں۔موصوف بیسوی صدی کی عظیم علمی شخصیت ہیں جو نص ف ص دی س ے زائ د‬
‫عرصہ مسلسل اپنی ع ربی زب ان اور قلم س ےمجددانہ ان داز میں ح ق کی تبلی غ ک رتے‬
‫رہے ۔ان کی زبان میں تاثیر اور قلم میں بال کا زور تھ ا ۔دوحہ‪ ،‬قط ر کی ج امع مس جد‬
‫میں ان کےخطب ات جمعہ کی گ ونج پ وری اس المی دنی ا میں س نی گ ئی ۔ ‪1359‬ء میں‬
‫حاکم قطر کی درخواست پر ملک عبدالعزیز � نے انہیں بطور قاضی قطر بھیجا۔ لہ ذا‬
‫آپ نے خطابت کے ساتھ ساتھ طویل عرصہ قطر میں بطور قاضی وجج بھی کا م کیا ۔‬
‫تمام اہم دینی موضوعات پر آپ کے رسائل موجود ہیں۔ الزركلي‪ ،‬خير ال دين‪1986 .‬م‪.‬‬
‫األعالم‪ .‬بيروت‪ :‬دارالعلم للماليين‪.238 .‬‬
‫‪77‬‬
‫‪ -‬ذیل میں ان چھ مالحظات کا خالصہ نمبروار بیان کیا جاتا ہے‪:‬‬
‫‪50‬‬
‫‪ -46‬سب سے قبیح نام حرب اور مرۃ ہیں‪:‬‬
‫(اسالم کے م ذہب امن ہ ونے کے دالئ ل) میں س ے ن بی ک ریم ﷺک ا یہ‬
‫ارشاد بھی ہے‪:‬‬
‫"أقبح األسماء‪ :‬حرب و ُمرَّة‪".‬‬
‫(‪)79‬‬
‫"سب سے برےنام حرب اور مرۃ ہیں۔"‬
‫جو اس بات پر داللت ہے کہ اسالمی لغت میں لفظ حرب (جن گ) ناپس ندید‬
‫ہ الفاظ میں سے ہے۔‬
‫‪ -47‬جب تک اہل حبشہ خود کوئی چھیڑ چھاڑ نہ کریں ان سے تع‪#‬رض‬
‫(‪)80‬‬

‫نہ کرنا‪:‬‬
‫انہیں (دالئل) میں سےنبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے‪:‬‬
‫"دعوا الحبشة ما َو َدعُوكم‪ ،‬واتركوا الترك ما تركوكم"‬
‫"جب تک حبشی تمہیں نہ چھیڑیں تم بھی انہیں مت چھیڑنا اور ترکوں ک و‬
‫۔"( ‪)81‬‬
‫بھی اس وقت تک تم کچھ نہ کہو جب تک وہ تمہیں کچھ نہیں کہتے‬
‫چنانچہ آپ علیہ السالم کبھی پہل نہیں کرتے تھےجب تک مخالفین پہ ل نہ‬
‫کرتے‪ ،‬حبشہ والے نصرانی تھے اور ترک مشرک تھے۔‬

‫‪ .1‬حتی التک ون فتنۃ ک ا یہ مطلب نہیں کہ اس الم کے عالوہ ک وئی بھی عقی دہ رکھ نے‬
‫والے سے جہاد کیا جائے‪،‬بلکہ اس سے مراد مذہبی اور دعوتی آزادی ہے ۔‬
‫‪ .2‬سید قطب نے اس واضح فکر کو مسترد کیا ہے کہ اسالم کی دعوت عالمی ہے۔‬
‫‪ .3‬سید قطب کا کہنا ہے کہ جہاد باللسان وہاں ہو گا جہاں دعوت کی ٓزادی ہ و گی‪،‬اگ ر‬
‫کہیں ایسا نہیں تو طاقت کے ذریعے دعوت کی راہ ہموار کی جائے گی۔‬
‫‪ .4‬سید قطب وہ متعدد آیات اور احادیث بھول گئے جن میں جہ اد ک و مقی د کی ا گی ا ہے‬
‫کہ یہ ان لوگوں کے خالف ہو گا جو مقابلے میں آئیں گے۔‬
‫‪ .5‬سید قطب اپنی اس فکر کی بنیاد پر پوری دنیا کو اپنا مخالف بنا رہے ہیں ۔‬
‫‪ .6‬سید قطب اپ نے مخ الفین پ ر بہت س ختی ک رتے تھے اور انہیں روح انی اور عقلی‬
‫شکست خوردہ قرار دیتے تھے۔ جن میں شیخ غزالی‪،‬شلتوت‪،‬ابوزہرہ‪،‬سباعی‪،‬م راغی‬
‫اور حسن البنا جیسی شخصیات شامل ہیں۔ فقہ الجہاد‪ ،‬ص ‪ ۴۱۴‬تا ‪۲۴‬۔‬
‫‪ - 78‬االحزاب‪.25:‬‬
‫‪ - 79‬مسند احمد‪،‬حدیث نمبر ‪.۱۹۰۳۲‬‬
‫‪ - 80‬براعظم افریقہ میں واقع ملک ایتھوپیا کو ہی پہلے حبشہ کہا جاتا تھا۔ دیکھیے‪:‬‬
‫ایتھوپیا‪/https://ur.wikipedia.org/wiki /‬۔‬
‫‪ - 81‬سنن ابو داود ‪ ،‬حدیث نمبر ‪ ،4302‬سنن نسائی ‪ ،‬حدیث نمبر‪.3176‬‬
‫‪51‬‬
‫‪ -48‬مسلمان جن‪##‬گ میں ش‪##‬وق س‪##‬ے نہیں بلکہ ناپس‪##‬ندیدگی س‪##‬ے ش‪##‬ریک‬
‫قئ ن‬ ‫ئ‬ ‫ہوتے تھے‪:‬‬ ‫ن‬
‫ے‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫گ‬ ‫ے ن‬ ‫را‬ ‫گ‬ ‫ے اس ات کو ت رجی ح دی ے کہ اسالم ن‬ ‫می ں‬
‫تی ہ‬ ‫ج ق بت ن ج‬ ‫ہ‬ ‫س‬ ‫ن نب‬
‫گ‬ ‫م‬‫ج‬ ‫ن‬
‫اس و ت ک ہی ں ھست ا ج ب ک اس‬ ‫ےاور تاس می فں ت‬ ‫ب لکہ وہ ج گ کو اپ س دی دہ ئھت ا ہ‬
‫ے ہللا عالی رماے ہ ی ں‪:‬‬ ‫پر ج ن گ مسلط ن ہ کر دی ج اے‪ ،‬ج ی س‬
‫ب َعلَ ْي ُك ُم ْالقِتَا ُل َوهُ َو ُكرْ هٌ لَّ ُك ْم﴾"‬‫"﴿ ُكتِ َ‬
‫"جن گ(ظ الموں اور فتنہ پ روروں کے خالف) تم پ ر ف رض ک ر دی گ ئی‬
‫(‪)82‬‬
‫ہے‪،‬جبکہ وہ طبعا تمہیں ناگوار ہے۔"‬
‫‪ -49‬سب سے زیادہ جنگیں کرنے والے دین نصرانیت کے پیروکار ہیں‪:‬‬
‫میں نےیہ بیان کیا ہے کہ جوبعض نصرانی دین اسالم پ ر یہ ال زام لگ اتے‬
‫ہیں کہ یہ تلوار کا دین ہے وہ خود کسی بھی مذہب کے پیروک اروں س ے زی ادہ‬
‫آپس میں ی ا دوس روں کے س اتھ جنگیں ک ر چکے ہیں‪،‬اک ثر وبیش تر انہ وں نے‬
‫مذہبی بنیادوں پر جنگ کی آگ بھڑکائی اور کبھی ق ومیت‪،‬عالق ائیت ی ا مف ادات‬
‫کی بنی اد پ ر ۔ (دلی ل کے ط ور پ ر) دو ع المی جنگیں ہی ک افی ہیں جس میں‬
‫یورپیوں نے جو کہ مسیحی تھے آپس میں الکھوں افراد کا قت ل کی ا۔ یہ اں ت ک‬
‫کہ ایک مسیحی (‪)83‬کو کہنا پڑا‪:‬حضرت مسیح ؑ کی ک وئی پیش گ وئی اس ط رح‬
‫سچی ثابت نہیں ہوئی جس طرح کہ آپ کا یہ فرمان سچ ثابت ہوا‪:‬‬
‫"ما جئت أللقي على األرض سال ًما بل سيفًا‪".‬‬
‫کہ میں اس لیے نہیں آیا کہ زمین پر امن کو عام کروں بلکہ اس ل یے آی ا‬
‫(‪)84‬‬
‫ہوں کہ تلوار کو عام کروں!‬
‫ہم نے انجیل (مقدس )کی پیروی کرنےوالوں میں بالخص وص اہ ل مغ رب‬
‫میں سے کوئی بھی ایسا نہیں دیکھا کہ وہ انجی ل کی تعلیم ات اپ نے اوپ ر الگ و‬
‫‪82‬‬
‫‪ --‬البقرۃ‪.216 :‬‬
‫‪83‬‬
‫‪ -‬یہ بات معروف مسیحی س کالر م ارون ہ اریس (‪ )Marvin Harris‬نے اپ نی کت اب‬
‫‪ "”Cows, Pigs, Wars and Witches: The Riddles of” Culture‬میں لکھی‬
‫ہے‪،‬اس وقت ہم ارے پیش نظ ر اس کت اب ک ا ع ربی ت رجمہ"مقدس ات ومحرم ات‬
‫وحروب‪ :‬ألغاز الثقافة" ہے جو کہ المرکز العربی لالبح اث ودراس ۃ السیاس ات ‪ ،‬قط ر‬
‫نے شائع کیا ہے۔‬
‫‪84‬‬
‫‪ -‬إنجيل متى‪.34 :10 .‬‬
‫‪52‬‬
‫کرتا ہو اور دائیں گال پر مارنے والے کے سامنے اپنا بای اں گ ال رکھ دیت ا ہ و۔‬
‫بلکہ ہم نے تو یہ دیکھا کہ وہ لوگوں پر ظلم و زیادتی کرتے وقت م ار پیٹ کی‬
‫ابتدا ہی چہرے اور دائیں بائیں گال سے کرتے ہیں۔‬
‫‪ -50‬اسالم میں قتال کا حکم دین میں فتنےکو روکنے کے لیےہے‪:‬‬
‫میں نے یہ بیان کیا ہے کہ جس فت نے کوروک نے کےل یے اس الم قت ال ک ا‬
‫حکم دیتا ہے‪ ،‬جیسا کہ اس آیت میں‪:‬‬
‫﴿وقَاتِلُوْ هُ ْم َحتَّى اَل تَ ُكوْ نَ فِ ْتنَةٌ َويَ ُكوْ نَ ال ِّديْنُ هلِل ِ﴾"‬
‫" َ‬
‫"ان سے اس وقت تک جن گ ج اری رکھ و جب ت ک فتنہ (دین کے خالف‬
‫(‪)85‬‬
‫ان کی مہم) ختم نہ ہو‪،‬اور اطاعت و فرمانبرداری صرف ہللا کی نہ ہو۔"‬
‫اور دوسری آیت میں‪:‬‬
‫"﴿ َوقَاتِلُوْ هُ ْم َحتَّى اَل تَ ُكوْ نَ فِ ْتنَةٌ َويَ ُكوْ نَ ال ِّديْنُ کله هلِل ِ﴾ "‬
‫"(اے مسلمانو!) اور ان سے جن گ ج اری رکھ و جب ت ک کہ فتنہ ختم نہ‬
‫(‪)86‬‬
‫ہو جائے‪ ،‬اور نظام اطاعت الہی پورے طور پر نافذ نہ ہو جائے۔"‬
‫ایک اور جگہ ارشاد ہے‪َ ﴿":‬و ْالفِ ْتنَةُ َأ ْكبَ ُر ِمنَ ْالقَ ْت ِل﴾"‬
‫ا"ور فتنہ( راہ ح ق س ے لوگ وں ک و روکن ا) قت ل س ے زی ادہ ب ڑا ج رم‬
‫(‪)87‬‬
‫ہے۔"‬
‫ْ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬ ‫َأ‬ ‫ُ‬ ‫ْ‬ ‫ْ‬
‫اور اسی طرح‪َ ﴿" :‬والفِتنَة َش ُّد ِمنَ القت ِل﴾"‬
‫"فتنہ(ظلم و زی ادتی‪،‬اور دین س ے روک نے کی کوشش یں) قت ل س ے بھی‬
‫(‪)88‬‬
‫زیادہ سنگین ہیں۔"‬
‫میں بیان کیا گیا ہے ان آیات میں فتنہ ک ا مع نی دین پ ر چل نے پ ر پریش ان‬
‫کرنا اور اہل ایمان پر مصائب ڈھانا ہے‪ ،‬بعض مفسرین نے فتنہ کا معنی شرک‬
‫اور کفر سےکیا ہے ج و ص حیح نہیں ہے۔بلکہ فتنہ کی لغ وی تحقی ق اور ق رآن‬
‫پاک میں اس لفظ کے وارد ہونے کےمقامات کو دیکھا جائے تو معلوم ہوت ا ہے‬
‫فتنہ کا معنی تکلیف دینا اور پریشان کرنا ہے۔‬

‫‪85‬‬
‫‪ -‬البقرۃ‪.193:‬‬
‫‪86‬‬
‫‪ -‬االنفال‪.39:‬‬
‫‪87‬‬
‫‪ -‬البقرۃ‪. 217:‬‬
‫‪88‬‬
‫‪ -‬البقرۃ‪. ۱۹۱:‬‬
‫‪53‬‬

‫چوتھا باب‪ :‬جہاد بالسیف کے‬


‫اغراض و مقاصد‬

‫(چوتھا باب‪ :‬جہاد بالسیف کے اغراض و مقاصد)‬


‫‪ -51‬دنیا سے کفر مٹانے کو قتال کا مقصد قرار دینا شرعی طور پ‪##‬ر غل‪##‬ط‬
‫ہے‪:‬‬
‫میں نے زمین سے کفر کے خاتمے کو بھی اسالم میں قتال کے اہداف میں‬
‫سے ایک قرار دینے کی نفی کی ہے۔ اور ہللا تعالی کے ارشاد‪:‬‬
‫﴿وقَاتِلُوْ هُ ْم َحتَّى اَل تَ ُكوْ نَ فِ ْتنَةٌ َويَ ُكوْ نَ ال ِّديْنُ هلِل ِ﴾"‬
‫" َ‬
‫"ان سے اس وقت تک جن گ ج اری رکھ و جب ت ک فتنہ (دین کے خالف‬
‫‪54‬‬
‫ان کی مہم) ختم نہ ہو‪ ،‬اور اطاعت و فرمانبرداری صرف ہللا کی نہ ہو۔"‬
‫(‪)89‬‬

‫میں بعض حضرات کی جانب سے لفظ فتنہ کی تفسیر کفراور شرک سے‬
‫کرنے کو مسترد کیا ہے‪ ،‬میں یہ سمجھتا ہوں کہ جہاد کا یہ ہدف قرآن پاک میں‬
‫قطعا وارد نہیں ہوا کی ونکہ یہ ق رآن ک ریم کے اس فیص لے کے ص ریح خالف‬
‫ہے جس بیان کیا گیا ہے کہ لوگوں کے مذاہب و عقائد کا مختل ف ہون ا اور پھ ر‬
‫ان کا مومن و کافر اور موحد و مشرک میں تقسیم ہونا س ب ک ا س ب ہللا کی اس‬
‫مشیت کے ساتھ ہے جو حکمت پر مبنی ہے۔ ہللا تعالی نے ہی انہیں مختلف پی دا‬
‫فرمایا ہے یا یوں کہیں کہ انہیں ایمان میں اختالف قبول کرنے کا ملکہ دے ک ر‬
‫پیدا فرمایا ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫ض ُكلُّهُ ْم َج ِميْعًا َأفَ َأ ْنتَ تُ ْك ِرهُ النَّ َ‬
‫اس َحتَّى‬ ‫ك آل َمنَ َم ْن فِ ْي اَأْلرْ ِ‬ ‫"﴿ َولَوْ َش ا َء َربُّ َ‬
‫يَ ُكوْ نُوْ ا ُمْؤ ِمنِ ْينَ ﴾ "‬
‫"اگر تمہارا رب چاہت ا ت و زمین کے س ارے انس ان ایم ان لے آتے‪( ،‬لیکن‬
‫مشیت الہی یہی ہے کہ آزمائش ہو) تو کیا تم لوگوں ک و ایم ان النے پ ر مجب ور‬
‫(‪)90‬‬
‫کرنا چاہتے ہو؟(یہ نظام الہی نہیں ہے۔)"‬
‫اح َدةً َواَل يَ َزالُوْ نَ ُم ْختَلِفِ ْينَ ﴾"‬‫اس ُأ َّمةً َو ِ‬ ‫ك لَ َج َع َل النَّ َ‬
‫"﴿ َولَو َشا َء َربُّ َ‬
‫"تمہارا رب چاہتا تو تمام لوگوں کو ایک لڑی میں پ رو دیت ا‪( ،‬ایک رش تہ‬
‫وحدت میں سب کو منسلک ک ر دیت الیکن نظ ام آزم ائش کچھ اور چاہت ا ہے)اور‬
‫(‪)91‬‬
‫لوگ اختالفات میں مبتال رہیں گے۔"‬
‫"﴿هُ َو الَّ ِذيْ َخلَقَ ُك ْم فَ ِم ْن ُك ْم َكافِ ٌر َّو ِم ْن ُك ْم ُمؤ ِم ٌن﴾"‬
‫(‪)92‬‬
‫"اسی نے تمہیں پیدا کیا‪،‬تم میں سے کافر بھی ہیں اور مومن بھی۔"‬
‫اس لیے جو کوئی ادیان میں اختالف ختم کرنے کی کوشش کرے گ ا‪ ،‬اور‬
‫لوگوں کو ایک دین پر چالنے کی کوشش کرے گا وہ کائنات میں ہللا تع الی کی‬

‫‪89‬‬
‫‪ -‬البقرۃ‪.193:‬‬
‫‪90‬‬
‫‪ -‬یونس‪.99 :‬‬
‫‪91‬‬
‫‪ -‬ہود‪.118 :‬‬
‫‪92‬‬
‫‪ -‬التغابن‪.02:‬‬
‫‪55‬‬
‫مشیت کے خالف کام کرے گ ااور ایس ا کبھی نہیں ہوگ ا‪ ،‬اس ل یے کہ ہوت ا وہی‬
‫ہے جو ہللا چاہتا ہے اور جو وہ نہ وہ چاہےوہ ہوتا ہی نہیں۔‬
‫‪ -52‬لوگوں ک‪#‬و زبردس‪#‬تی اس‪#‬الم میں داخ‪#‬ل ک‪#‬رنے کی تردی‪#‬د اور آیت ﴿ال‬
‫ناه فِي الدين﴾ کے نسخ کا دعوی قکرنے والوں کو جواب‪:‬‬ ‫ِإ ْك َر‬
‫ق ن ت‬ ‫ت‬
‫ں ت ال کے اہ داف می ں مام لوگوں کو ی ا چک ھ‬ ‫کی کہ اسالمن می ق‬ ‫ات کی ردی د ن‬ ‫ے اس ب ن‬ ‫می ں ق‬
‫ے؛ یک ونکہ نرآن پضاک کی ط عیخ صوص اس ای مان کو‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ور‬ ‫ب‬‫م‬‫ج‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ے‬ ‫ت‬‫کر‬ ‫ول‬‫ق‬ ‫ب‬ ‫سالم‬ ‫لوگوں کوا ن‬
‫ے صاحب ای مان ے اپ ی مر ی سے ن ہ ا ت ی ار ک ی ا ہ و۔‬ ‫ای مان ہ ی ہینں رار دی ی ں جس‬
‫ے ج و اس آی ت کری مہ‪:‬‬ ‫ب‬
‫می ں ے ان کے دعوی کا ھی ج واب دی ا ہ‬
‫َي﴾"‬ ‫"﴿اَل إ ْك َراهَ فِ ْي ال ِّد ْي ِن قَ ْد تَّبَيَّنَ الرُّ ْش ُد ِمنَ ْالغ ِّ‬ ‫ن‬
‫"ی ع ی دین کے معاملہ میں جبر اور زبردستی نہیں ہے‪،‬حق گمراہی سے‬
‫(‪)93‬‬
‫جدا ہو کر بالکل واضح ہو چکا ہے۔"‬
‫کو منسوخ کہتے ہیں‪ ،‬ان کا یہ دعوی ناقابل قب ول ہے‪ ،‬اس پ ر ک وئی دلی ل‬
‫نہیں ہے۔‬
‫َأ‬ ‫ُ‬ ‫َ‬ ‫َأ‬
‫‪ -53‬ہللا تعالی کے فرمان‪ ﴿" :‬ال تُقَاتِلُ ْونَ ق ْو ًما نَّ َكث ْوا ْي َمانَ ُه ْم﴾ " کا مطلب‪:‬‬
‫میں نے اس بات کو ترجیح دی ہے کہ ہللا تعالی کے فرمان‪:‬‬
‫"﴿َأاَل تُقَاتِلُوْ نَ قَوْ ًما نَّ َكثُوْ ا َأ ْي َمانَهُ ْم﴾"‬
‫" کیا تم ایسے ظالموں سے جنگ نہیں کرو گے جنہ وں نے اپ نی قس میں‬
‫(‪)94‬‬
‫اور معاہدے توڑ دیے؟"‬
‫اور دوسری جگہ ارشاد‪:‬‬
‫ْ‬ ‫ْ‬ ‫َّ‬
‫"﴿بَ َرا َءةٌ ِّمنَ هللاِ و َرسُوْ لِ ِه ِإلى ال ِذ ْينَ عَاهَدت ْم ِّمنَ ال ُمش ِر ِك ْينَ ﴾ "‬
‫ُّ‬ ‫َ‬
‫"ہللا و رسول کی طرف سے اعالن بیزاری ہے ان مشرکوں سے جن سے‬
‫(‪)95‬‬
‫تمہارا معاہدہ ہے۔"‬
‫میں ایس ے بت وں کے پج اری مش رکین م راد ہیں جنہ وں نے عہ د‬
‫توڑااورکسی معاہدے کا احترام نہیں کیانہ ہی کسی نظ ام کے ت ابع ہ وئے کہ ان‬
‫کے ساتھ کوئی افہام و تفہیم ہو سکتی۔‬

‫‪93‬‬
‫‪ -‬البقرۃ‪.256:‬‬
‫‪94‬‬
‫‪ -‬التوبۃ‪.13:‬‬
‫‪95‬‬
‫‪ -‬التوبۃ‪.01 :‬‬
‫‪56‬‬
‫‪ -54‬امام جصاص کے ق‪##‬ول‪( :‬ج‪##‬و کف‪##‬ار ہم پ‪##‬ر حملہ آور نہ ہ‪##‬وں‪ ،‬ہم‪##‬ارے‬
‫ساتھ تعرض اور قتال نہ کریں ان کے ساتھ بھی قتال جائز ہے ) (‪ )96‬کا‬
‫محاکمہ‪:‬‬
‫میں نے (امام) جصاص کے اس قول کا محاکمہ کیا ہے جس میں وہ‬ ‫( ‪)97‬‬

‫کہتے ہیں کہ وہ کسی بھی ایسے فقیہ کو نہیں جانتے جو یہ رائے رکھت ا ہ و کہ‬
‫ان مشرکین کے ساتھ قتال کرنا ممنوع ہےجو قت ال س ے ال گ ہ و ج ائیں اور یہ‬
‫کہ اختالف ت و ان س ے قت ال نہ ک رنے کے ج وازمیں ہے اس س ےرکنے میں‬
‫نہیں۔‬
‫تعجب کی ب ات یہ ہے کہ ام ام جص اص ق رآن پ اک کی ص ریح نص ک و‬
‫چھوڑرہے ہیں‪ ،‬قرآن کریم تو ان کافروں کے ساتھ قتال کرنے س ے روکت ا ہے‬
‫جو مسلمانوں پر ہاتھ نہ اٹھ ائیں‪،‬ل ڑائی س ے ال گ ہ و ج ائیں اور قت ال نہ ک ریں‬
‫جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫"﴿فَ ِإ ِن ا ْعتَ َزلُ وْ ُك ْم فَلَ ْم يُقَ اتِلُوْ ُك ْم َوَأ ْلقَ وْ ا ِإلَ ْي ُك ُم َّ‬
‫الس لَ َم فَ َم ا َج َع َل هللاُ لَ ُك ْم َعلَ ْي ِه ْم‬
‫َسبِ ْياًل ﴾"‬
‫" لہذا اگر وہ تم سے علیحدہ رہیں اور تم سے جنگ نہ کریں اور تمہ اری‬
‫طرف صلح کا ہاتھ بڑھائیں تو تمہارے ل یے اس کی گنج ائش نہیں ہے کہ تم ان‬
‫(‪)98‬‬
‫کے خالف کاروائی کرو۔"‬
‫پھ ر بھی وہ یہ دع وی ک ر رہے ہیں کہ وہ نہیں ج انتے کہ کس نے اس ے‬
‫ممنوع قرار دیا؟‬
‫‪96‬‬
‫‪ -‬الجصاص‪ ،‬أبوبکر الرازي‪2003 .‬م‪ .‬أحکام القرآن۔ بیروت‪ :‬دارالکتب العلمی ة۔ ‪:259‬‬
‫‪.01‬‬
‫‪97‬‬
‫ب ت راجم‬
‫‪ -‬آپ کا پ ورا ن ام "اب وبکر احم د بن علی بن ال رازی الجص اص ‘‘ہے ۔ کت ِ‬
‫ی ‘‘(جس ک ا رس م الخ ط‬ ‫تاریخ پی دائش ‪ 305‬ھ درج ہےاور وہ’’ر ّ‬
‫ِ‬ ‫وتواریخ میں ان کی‬
‫’’رے‘‘بھی معروف ہے)میں پیدا ہ وئے جس کی نس بت س ے وہ ’’ال رازی‘‘ کہالئے۔‬
‫آپ کا شمار جلیل القدر مفس رین اور فقہ حنفی کے‪  ‬چ وٹی کے ائمہ ہوت ا ہے‪ ،‬مش ہور‬
‫محدث امام طبرانی وغیرہ سے آپ نے علم حدیث بھی حاصل کیا۔ تعلیم وتعلم اور افتاء‬
‫وتالیف میں اپنی زندگی بسر کی اور ‪370‬ھ کو ‪ 65‬سال کی عمر میں بغداد میں وف ات‬
‫پا ئی۔ الخطیب‪ ،‬أبوبکر۔ ‪2006‬م‪ .‬تاريخ بغداد وذيوله العلمية۔ دمشق‪ :‬دارالعلم۔ ‪.5:72‬‬
‫‪98‬‬
‫‪ -‬النساء‪.90:‬‬
‫‪57‬‬
‫ےح‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫ہ‪:‬‬ ‫ن‬‫مواز‬ ‫کا‬ ‫ہاد‬ ‫کم‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫ان‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫رآن‬ ‫اور‬ ‫ورات‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫جت‬ ‫ی ش یت ک گ‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫‪ -55‬ن‬
‫ف‬
‫ش می ں ے مونودہ حریف دہ ورات جس پر مام ی ہودقو ئ صاری ای مان الے ہ ی ں کے‬ ‫ج‬
‫ص‬ ‫ے کے ی ع‬
‫ے‪،‬جس می ں محاصرے‬ ‫ے یل حدہ سے ای ک اہ م ل ا م کی ہ‬ ‫موالت ب ی شان کر ف ت نل‬ ‫ف‬ ‫م‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ے ہ ی ں کہ‪ :‬ت‬ ‫کے احکامپ ب شی ان یک ق‬ ‫ص‬
‫ن ح کرے‬ ‫اور دورا ت ادہ ہروں کو‬
‫‪ ‬اگر کسی ے امن ئاور لح کی کش ب ول کر لی و اس عالےکے مام لوگ‬ ‫ی‬
‫س ن غ‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫۔‬ ‫گے‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫الم‬ ‫ب الا ن ت ث اءن‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫خ‬ ‫ن‬
‫‪ ‬اگرا ہوں ے سپ را دازی ا ت ی ار نفہ کی و ان کے سا ھ ج گ کی ج اے گی۔‬
‫ت‬ ‫ئ ت‬ ‫مت‬ ‫ت‬
‫ے کہ ان کے مام‬ ‫کے ہ ا ھوں وح ہ و ج ا ی ں وان پر الزم ہ‬ ‫‪ ‬اور ج ب وہ ان ق‬
‫ت‬
‫ئ‬ ‫ت‬
‫ت مردوں کو لوار سےن لنکر دی ں۔(‪ )99‬ق‬
‫ق ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ش‬
‫ت‬
‫ے ج اے کان کو ی م ب ادل ب ول ہغی ں ک ی ا‬ ‫ل یک‬ ‫ورات کی ری عت ے ا ہی ں لوار خسے ئ‬
‫کہ مث ال کے ف‬
‫ں ی ا ی ہ کہ ا ہی ں ج زی ہ ادا کری ں و ی رہ۔‬
‫مکم‬ ‫ن‬ ‫طور پر وہ دی ن ی ہودی ت می ں دا ل ہ و ج ا ی ش‬
‫ئامی ٹ کر دی ا‬ ‫ئن) نکے ب ا دوں کو ق ل طور پر مل ی‬ ‫ارض لس طی ن (وعدے کی سرزمی‬ ‫ئ مگر ن‬
‫ہ‬ ‫ن‬
‫ے گی ہ ان سے ج زقی ہ ب ول کن ی ا ج اے اور ہ ی‬ ‫ج اے‪ ،‬ن ہ ا ہی ں اب ت‬
‫داءا دعوت دی ج ا ئ‬
‫ان سے صلح ی ا ج ن گ ب ئدی کا معاہ دہ ک ی ا ج اے گا۔ اس ی چ اری وم کے صی ب می ں موت‬
‫ب‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫ےہ ی‬ ‫ے ان سے پہل‬ ‫ے یک و کہ وہ ای سی سرزمی ن کے ب اسی ہ ی ں جس‬ ‫‪100‬ل)کھ ندی گ ی ہ‬ ‫اور مکمل ت ب اہ ی‬
‫ے۔‬ ‫کا ام دے دی ا گ ی ا ہ‬
‫(‬
‫ارض می عاد‬
‫‪ -56‬اقوام کی بیخ کنی اور نسلوں کی تباہی توراتی فکر ہے‪:‬‬
‫میں نے جو امور کھل کر بیان کیے اور وضاحت سے ان پر روشنی ڈالی‬
‫ان میں یہ بھی ہے کہ قوموں اور نسلوں کی بیخ کنی کی فک ر جس ک ا ارتک اب‬
‫یورپ اور مغرب نے امریکا میں ریڈ انڈینز کے خالف اور آسٹریلیا میں مقامی‬
‫خت ن‬ ‫درحقیقت ن قیہ صحیح قتوراتی قفکر ہے۔‬ ‫کے تخالف کیا ن‬ ‫باشندوں ن‬
‫وموں اور ی لوں کو ج ڑ خسے مق کرے پر‬ ‫ب‬ ‫ج‬
‫صوص ف ل کی ں و ف‬ ‫ورات کی وہ ن‬ ‫ت می ں ے ت‬
‫ےشکی ا وام سے‬ ‫ابتھار ی ہ ی ں ج یساکہ ورات کے پ ا چ قاس ار میت ں سےنس ر الت ث ن فی ہ می ں اس ط‬
‫ے ہ ی ں ی ع ی ارض لس طی ن کے ب ا ن دے ۔اس‬ ‫م علق کہا ا س ش‬
‫ےت ارحی ن ارض میتعاد رار دی‬ ‫گتی عج‬ ‫خ‬
‫ے کہ‪:‬‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫کر‬ ‫ان‬ ‫ہ‬
‫ی بی‬ ‫ورات‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫ے‬
‫ط‬
‫‪99‬‬
‫‪-‬کتاب مقدس(توراة) سفر التثنیة‪ ،‬االصحا ح العشرین‪۱۰.‬۔‪.۱۸‬‬
‫‪100‬‬
‫‪ -‬ارض میعاد سے مراد فلسطین کی سرزمین ہے‪،‬تفصیل کے لیے ڈاکٹر محمد ابو‬
‫زید کا تحقیقی مقالہ بعنوان‪ :‬أرضُ الم ْي َعــاد ‪ :‬نظرة قرآنية في العهود التوراتية‪ ،‬مالحظہ کیا‬
‫جائے جو مجلہ التراث العربی دمشق میں شائع ہوا۔یہ مقالہ اس لنک پر آن الئن بھی مالحظہ‬
‫کیا جا سکتا ہے‪:‬‬
‫‪http://www.alarabnews.com/alshaab/GIF/21-11-2003/d7.htm‬۔‬
‫‪58‬‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫خ‬ ‫ت‬
‫م‬ ‫خ‬
‫ے کا مو ع دے جقس کے م وارث ب ن کر‬
‫حث‬ ‫"ج ب خ دا ہی ں اس زتمی ن می ں دائ ل ہ ون‬
‫اس می ں دا ل ہ و گے و وہ اں پ ا ی ج اے والی ب ڑی ا وام ی ی‪ ،‬جرحيثانی‪،‬‬
‫امورانی‪،‬كنعانی‪ ،‬فرزانی‪ ،‬ح وانی اور يبوس انی‪ ،‬یہ س ات اق وام جوتع داد میں تم‬
‫س ے زی ادہ اور ط اقت میں تم س ے مض بوط ہیں تمہ ارے معب ود رب نے انہیں‬
‫تمہارے سپرد کر دیا ہے انہیں ماردو یہاں تک کہ ان کا نام و نشان بھی باقی نہ‬
‫رہے‪ ،‬ان سے نہ کوئی معاہدہ کرنا نہ ہی ان پر رحم کھانا بلکہ ان کے س اتھ یہ‬
‫کام کرو‪:‬ان کے مذبح خانے برباد کردو‪،‬ان کے بتوں کو ت وڑدو‪ ،‬ان کے م ذہبی‬
‫(‪)101‬‬
‫مقدسات پاش پاش کر دو‪ ،‬ان کے بت گھروں کو جالدو۔"‬
‫جبکہ اس کے مقابلے میں اسالم حیات رکھنے والی امتوں کی بیخ کنی کو‬
‫حرام قرار دیتا ہے‪،‬جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ‪ :‬اگر کتے بھی حیات رکھ نے‬
‫والی امتوں میں سے نہ ہوتے تو میں ان کو قتل کر نے کا حکم دے دیتا۔‬
‫‪ -57‬اسالم کے بزور شمشیر پھیلنے کی من گھڑت کہانی‪:‬‬
‫میں نے ثابت کیا کہ دنیا میں اسالم کے بزور شمش یر پھیل نے کے دع وے‬
‫میں ص داقت نہیں‪ ،‬علمی تحقی ق س ے یہ ث ابت ہوچک ا ہے کہ یہ ای ک ایس ی‬
‫افتراپردازی ہے جس میں شک و ش بہ کی ک وئی گنج ائش نہیں ہے‪،‬مزی د ب رآں‬
‫تاریخ سے یہ بھی ثابت ہے کہ ہم آج ایسے کئی اسالمی ممالک کے ب ارے میں‬
‫جانتے ہیں جہاں مسلمانوں کا کوئی لش کر داخ ل نہیں ہ وا‪ ،‬بلکہ یہ ممال ک جن‬
‫لوگوں کے زیر اثر حلقہ بگوش اسالم ہوئے وہ ت اجر ی ا ایس ے ع ام ل وگ تھے‬
‫ج و (مع روف معن وں میں) نہ علم اء تھے نہ مبلغین‪،‬ل وگ ان کے ان در س چے‬
‫ایمان‪،‬حسن اخالق‪،‬انسانیت کےلیے بھالئی اور خیر خواہی جیس ی ص فات دیکھ‬
‫کر ان کے گرویدہ ہو گئے‪ ،‬چنانچہ وہ بہترین نمونہ بن گئے اور لوگ وں نے ان‬
‫س ے محبت کی وجہ س ے ان کے دین ک و بھی محب وب بنالی ا‪ ،‬اور انف رادی‬
‫واجتماعی طور پر دین اسالم قبول کرنے لگے‪ ،‬جیساکہ انڈونیشیا‪،‬مالئیش یا اور‬
‫کئی افریقی ممالک میں ہوا۔میں نے کھل کر بیان کیا کہ تلوار سے زمین تو فتح‬
‫کی جاسکتی ہے لیکن یہ دلوں کی فاتح کبھی نہیں بن سکتی۔‬

‫‪101‬‬
‫‪ -‬کتاب مقدس‪ .‬سفر التثنية‪.‬‬
‫‪59‬‬
‫‪ -58‬موج‪#‬ودہ زم‪#‬انےمیں فض‪#‬ائی جہ‪#‬اد ب‪#‬ری اور بح‪#‬ری جہادس‪#‬ے افض‪#‬ل‬
‫ف ئ‬ ‫ن‬ ‫ہے‪:‬‬
‫ب‬ ‫ض‬
‫اور حری ج ہاد‬ ‫میں نے یہ بیان کیا ہےب کہ موجود فہ ضزماے می ں ا ی ج ہادب ری ث‬ ‫فض‬
‫ے‬ ‫سے اب ت ہ‬ ‫ے کہ ج ب حرین ج ہاد کیف ض ی لت ب ئری ج ہنادپر حدی ث خ ن‬ ‫ے‪،‬اس یلئ‬
‫ض‬ ‫سے ا ل ہ ف‬ ‫ت ق‬
‫ےاور‬ ‫ش‬
‫لت و ی‪ ،‬یک و کہ ی ہ زی ادہ طرناک ہ‬ ‫ہ‬ ‫ے ا ی ج ہاد کو ان دو وں پر ی‬ ‫و ی اس کےت ذری ع‬
‫ے‬ ‫اس م ں الک وں کا نا کان ب ھی ز ادہ ےخ اور اس ی ب‬
‫ے ھی کہ ی ہ د من کو زیر کرےت کے یل‬ ‫ل‬ ‫ک ی ہ ن‬ ‫م‬ ‫ہ یت ہ‬
‫ے کہ ای ک ج رب ہ کار‬ ‫ج ہت‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫ہی‬ ‫ی‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫اک‬ ‫طر‬ ‫ادہ‬ ‫ف‬ ‫ز‬
‫ت ی‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫)‬ ‫ت‬ ‫س‬
‫خ ب‬ ‫(‬ ‫کی‬ ‫اروں‬ ‫د ئی گر ھ ی‬
‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ساوی‬ ‫کے‬ ‫الکت‬ ‫)کی‬ ‫وں‬ ‫ج‬‫و‬ ‫عدد(‬ ‫گر‬ ‫ی‬‫د‬ ‫سارہ‬ ‫کا‬ ‫الکت‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ق ہ‬ ‫م تف ض ی‬ ‫ف‬ ‫پ ا لٹ ہ‬
‫کی‬
‫‪ -59‬جنہاد اگر رض عی ن تہ و و ر ی حج پر م دم ہ و گا‪:‬‬
‫ئ‬
‫الدمياطین نے تکہی کہ‬ ‫ے ج و ابن النحاس ف‬
‫(‪)102‬‬
‫ض‬ ‫ات کی ا ی د قکی ہ‬ ‫مفی ں ےاس تب ف ض‬
‫ے‬ ‫روری ہ و ا ہ‬ ‫ے تکہع اس کا وری کر ا ف‬ ‫رض عی ن ہ و بو ر ی حج پر م دم ہ وگا‪،‬اس یل‬ ‫ج ہاداگر خ‬
‫ل‬ ‫س‬
‫اع‪،‬اور اس‬ ‫امت تکے د غ‬ ‫ے‪،‬اورج ہاد ن کا ق ناس ئ‬ ‫ھی ظادا ک ی ا ج ا کت ا ہ‬ ‫ج ب کہ حجج کو مو پرکر غکے ف‬
‫نامت ہ یف ی ست و اب ود ہ و گ ی و ن ہ حج و ی رہ ج یسی‬ ‫ے‪،‬اگر‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫کے و ود اور ی ام کی ح‬
‫ن‬
‫ع ب ادات ہ ی ہ وں گی اور ہ ان کو ادا کرے والے ا راد۔‬
‫‪ -60‬جنس جہاد س‪##‬ے( متعلقہ )اعم‪##‬ال ان اعم‪##‬ال س‪##‬ے افض‪##‬ل ہیں (جن ک‪##‬ا‬
‫تعلق )جنس حج سے ہے۔‬
‫میں نے اس ب ات کی تائی د کی کہ جنس جہ اد کے اعم ال جنس حج کے‬
‫اعمال سےافضل ہیں‪،‬کیونکہ جہاد ایک ایسی عبادت ہے جس ک ا نف ع دوس روں‬
‫کو بھی پہنچتا ہے جبکہ حج ک ا نف ع اس کے ادا ک رنے والے ت ک مح دود رہت ا‬
‫ہے جیسا کہ ارشاد باری تعالی ہے‪:‬‬
‫اآلخ ِر‬‫"﴿َأ َج َع ْلتُ ْم ِسقَايَةَ ْال َحاجِّ َو ِع َما َرةَ ْال َم ْس ِج ِد ْال َح َر ِام َك َم ْن آ َمنَ بِاهللِ َو ْاليَ وْ ِم ِ‬
‫َو َجاهَ َد فِ ْي َسبِ ْي ِل هللاِ اَل يَ ْستَوُوْ نَ ِع ْن َد هللاِ َوهللاُ اَل يَ ْه ِديْ ْالقَوْ َم الظَّالِـ ِم ْينَ ﴾۔"‬
‫" کیا تم نے حاجیوں کوپانی پالنے اور مسجد حرام کی تعمیر ک رنے اور‬
‫اس کو ظاہری طور پر آباد کرنے کو ہللا پر اور آخرت پر ایمان رکھنے وال وں‬

‫‪102‬‬
‫‪-‬ابن النحاس ال دمیاطی دمش ق میں پی دا ہ وئے۔ ش افعی فقہ اء میں ش مار ہ وتے ہیں۔‬
‫تیمور لنک کے زمانہ میں مصر منتقل ہو گئے اور دمیاط کی س رحد پ ر جہ اد میں ش ریک‬
‫ہوئے یہاں تک کہ ‪814‬ھ میں ش ہید ہ و گ ئے۔ آپ کی اہم کت ابوں میں مش ارع االش واق الی‬
‫اس‪/‬‬ ‫امل ہیں۔ ابن ‪-‬النح‬ ‫افلین ش‬ ‫بیہ الغ‬ ‫اق اور تن‬ ‫ارع العش‬ ‫مص‬
‫‪/https://ar.wikipedia.org/wiki‬۔‬
‫‪60‬‬
‫اور ہللا کے راستہ میں جہاد کرنے والوں کے عمل کے برابر سمجھ لیا ہے؟ یہ‬
‫لوگ ہللا کے نزدیک برابر نہیں ہیں‪( ،‬مشرک کے عم ل ک ا اعتب ار ہی نہیں اور‬
‫م ومن ک ا عم ل قاب ل قب ول ہے) اور ہللا ایس ے غل ط ک اروں ک و ہ دایت نہیں‬
‫(‪)103‬‬
‫دیتا ۔"‬
‫اور دیگ ر آف ات کے دن وں میں اس ب ات کی‬ ‫(‪)105‬‬
‫میں جنگ‬ ‫(‪)104‬‬
‫میں بوسنیا‬
‫دعوت دیتا رہا ہوں کہ جس کسی کا نفلی حج کرنے کا قصد ہے تو اس ک ا (حج‬
‫ک رنے کے بج ائے)حج کے پیس ے مص یبت زدہ لوگ وں ک و دے دین ا اس کے‬
‫لیےزیادہ بہتر ہےبلکہ شاید اس پر یہی واجب ہے۔‬
‫‪ -61‬پہ‪##‬رے کی اہمیت خ‪##‬اص ط‪##‬ورپربیت المق‪##‬دس اور اس کے گردون‪##‬واح‬
‫خ‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫میں‪:‬‬
‫ن‬
‫ب‬ ‫می ں ےدی ن کے اس کام اورمس‬
‫ے‬ ‫من کے طرے سے چ فاو کے یل‬ ‫ق‬ ‫کود‬ ‫وں‬ ‫ما‬‫ل‬ ‫ہ ح‬ ‫ن‬
‫ن کی‬ ‫نس طی ن‬‫سرزمی ن ل‬‫ے کی ا نمی ت ب ی ان کی اور ب ی ت خالم دس اورپوری ت‬ ‫سرحدوں پر پ ہرہ دی‬ ‫فظ‬
‫ے جس پرہللا عالی ے دو وں‬ ‫دی یک وف کہ ئی ہ اس زمی ن میب ں دا ل ہ‬ ‫ن‬ ‫دعوت‬ ‫کی‬ ‫ت‬ ‫ح ان‬
‫سے‬ ‫ان‬ ‫کو‬ ‫وں‬
‫بن خ ت ج‬‫س‬
‫ی‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫ن‬ ‫م‬‫سرز‬ ‫اس‬ ‫کہ‬ ‫ھی‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫ی‪،‬‬ ‫رما‬ ‫ازل‬ ‫رکت‬ ‫ے‬
‫ل ب‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫ج ہا‬
‫ن‬ ‫ن ک یھ ت‬ ‫ل‬
‫گ‬ ‫ن‬ ‫ھ‬ ‫ج‬ ‫ن‬
‫ن ا‪،‬‬ ‫وں کو اکھاڑ‬
‫ن تن‬
‫وس کر نا‪ ،‬ی توں کوج ال ا‪،‬در‬ ‫کے ھروں کو زمی ن ب خ‬ ‫ا‪،‬ان ن‬ ‫ما قرڈال ا‪ ،‬ق ی لوں می ں د ک یل ت‬
‫ے د ل کر ا‪،‬عز وں کو پ امال کر ا‪ ،‬ہا کرے‬ ‫م‬
‫ے حرم ی کر ا‪،‬ا الک سے ب‬ ‫م دس م امات کی ب‬
‫‪103‬‬
‫‪ -‬التوبۃ‪.19:‬‬
‫‪104‬‬
‫بوسنیا کا پورا نام "بوسنیا و ہ رز یگوین ا" ہے ج و کہ جن وب مش رقی ی ورپ‬ ‫‪-‬‬
‫میں کروشیا‪ ،‬سربیا‪ ،‬مونٹینیگرواور‪Adriatic Sea ‬کی حدود سے ملحقہ ا ٓزاد ریاس ت ہے ‪،‬‬
‫اس کے دارلحک ومت ک ا ن ام س رائیوو ہے ۔ ‪1918‬ء میں جب خالفت عثم انیہ کی گ رفت‬
‫کمزور پڑ چکی تھی بوسنیا کو خالفت س ے ک اٹ ک ر کروش یائی س رب و س لون ریاس ت ک ا‬
‫حصہ بنا دیا گی ا اور پھ ر بع د میں اس ک ا ن ام یوگوس الویہ رکھ دی ا گی ا۔ یوگ و س الویہ کے‬
‫کمزور ہونے کے بعد یکم مارچ ‪1992‬ء میں کیا جانے واال ریفرنڈم برائے آزادی مکمل ہوا‬
‫اور ‪ 3‬مارچ ‪1992‬ء کو بوسنیا نے اپنی آزادی کا اعالن کیا جسے عالمی سطح پر تس لیم ک ر‬
‫لی ا گی ا اور اس ط رح بوس نیا آزاد مملکت کے ط ور پ ر وج ود میں آی ا ۔‬
‫‪ https://www.mirrat.com/article/11/144‬۔‬
‫‪ - 105‬یوگو سالویہ میں بسنے والی چھ مختلف قوموں کے مابین ‪ 1990‬میں قومی و نسلی‬
‫اختالف کی لہر نے سر اٹھایا جس کے نتیجے میں یوگوسالویہ ٹوٹ گیا۔ پڑوسی‬
‫ملک سربیا نے بوسنیا پر حکومت کرنے کے لیے نسلی اختالفات کو خوب ہوا دی‪،‬‬
‫جس نے خانہ جنگی کی صورت اختیار کر لی۔‬
‫‪https://www.mirrat.com/article/11/144‬۔‬
‫‪61‬‬
‫ن‬ ‫تن‬ ‫نخ‬
‫ے کسی اور کو ہی ں ہ ی ں۔اس‬ ‫طرات درپ یش ہ ی ںث ا‬ ‫ے‬ ‫ےج‬
‫س‬ ‫کی غ رض سے دیوارن کھڑی کرن ا ج‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ش‬
‫ے والے کا اج رو واب ب ھی دی گر (پ ہرےداروں‬ ‫ےکہ ی ہاں پہرہ دی‬ ‫ے اس می ں ک ہی ں ہ‬ ‫یل‬
‫ہ‬
‫)سے زی ادہ وگا۔‬

‫‪ -62‬حدیث (ہم چھوٹےجہادسے بڑےجہادکی طرف لوٹ آئے)‪:‬‬


‫ہم نے ان ک ا رد پیش کی ا ہے ج و ای ک ح دیث ک و پھیال ک ر اور اس ی پ ر‬
‫انحصار کر کے جہاد کی اہمیت کو گھٹاتے ہیں اور وہ حدیث نبی ک ریم ﷺ ک ا‬
‫ایک غزوہ سے واپسی پر یہ فرمان ہے‪:‬‬
‫"رجعنا من الجهاد األصغر إلى الجهاد األكبر‪".‬‬
‫(‪)106‬‬
‫"ہم چھوٹے جہاد سے بڑے جہادکی طرف لوٹ آئے ہیں۔"‬
‫ہم نے چار وجوہات کی بنا پر ان کےاس اعتراض کو رد کیا ہے‪:‬‬
‫‪ :۱‬اس لیے کہ اس کے ضعیف اور عدم صحیح ہونےپر اس موضوع کے‬
‫ائمہ کا اجماع ہے۔‬
‫‪ :۲‬اس لیے کہ جہ اد بالس یف میں بھی جہ اد ب النفس پای ا جات ا ہے کہ نفس‬
‫سہل پسندی کا عادی ہوتا ہے اور موت سے کنی کتراتا ہے۔‬
‫‪ :۳‬اگر ہم فریق مخالف کی ب ات م انتے ہ وئے اس ح دیث ک و ص حیح بھی‬
‫تسلیم کر لیں تو بھی اسی حدیث کے منطوق کے مطابق ہمیں جہاد اص غر س ے‬
‫ابتدا کرکے تدریجا جہاد اکبر کی طرف جانا ہوگا۔‬
‫‪ :۴‬نبی کریم ﷺ سے جو صحیح روایت س ے ث ابت ہے اس میں یہی بی ان‬
‫(‪)107‬‬
‫کیا گیا ہےکہ " ہللا کی راہ میں قتال جہاد کا اعلی ترین درجہ ہے۔"‬
‫ہمیں ان کے قول سے بھی اتف اق نہیں ج و جہادب النفس ک و جہ اد کے ب اب‬
‫سے حذف کرنے ک ا کہ تےہیں بلکہ یہ اس ک ا ج ز ءہے جیس ا کہ ابن القیم ؒ نے‬
‫فرمایا ہے۔‬
‫‪ -63‬جہادکا تسلسل اورقادیانی مذہب‪:‬‬
‫میں نے سرچشموں کو خشک کرنے کی پالیسی ک و اپن اتے ہ وئے تعلیمی‬
‫نصاب اور ذرائع ابالغ سے جہاد کی آیات‪ ،‬احادیث‪،‬رسول ہللا ﷺ کے غ زوات‬
‫ن‬ ‫ب ق‬
‫‪-‬سنن ی ہ ی‪،‬کت اب الزہ د۔حدی ث مب ر ‪.665‬‬ ‫‪106‬‬
‫‪107‬‬
‫‪ -‬سنن ابن ماجہ‪،‬کتاب الجھاد۔ حدیث نمبر‪.2794‬‬
‫‪62‬‬
‫اوراسالمی فتوحات کو نکال کر (سوتوں کو خش ک ک رنے) کی پالیس ی اختی ار‬
‫کر کے امت سے جذبہ جہاد کو نکالنے اور اس کو شکست خ وردگی میں مبتال‬
‫کرنے سے خبردار کیا ہے۔اور جہ اد کے خالف اس زہ ریلی اور مش کوک مہم‬
‫اور (مقبوضہ) سرزمین کو آزاد کروانے اور قبضہ خ وروں ک ا مق ابلہ ک رنے‬
‫کے لیے جائز جہاد کو اختی ار ک رنے ک و دہش تگردی کی قس م ق رار دی نے پ ر‬
‫متنبہ کیا۔‬
‫(اس مقصد کے لیے)اسالم دشمن صلیبی قوتوں نے جو سب سے ب ڑا ک ام‬
‫کیا وہ مسلمانوں کے درمیان گمراہ گروہوں کو پیدا کرنا اور باطل نظری ات ک و‬
‫فروغ دینا ہے‪،‬خاص طور پر ایس ے گ روہ ج و فریض ہ جہ اد ک ا انک ار ک رتے‬
‫ہیں۔‬
‫ایسے گروہوں کی نمائندگی ک رنے واال س ب س ے نمای اں ش خص قادی انی‬
‫(‪)108‬‬
‫جماعت کا داعی اور نئی نبوت کا دعویدار وہ شخص ہے جس ے غالم احمد‬
‫کہا جاتا ہے‪،‬اس نے حکومت کی تابعداری کی دعوت دی چاہے وہ کافروں کی‬
‫ہی کیوں نہ ہو اور جہاد کو باطل قرار دیتے ہوئے اس کی فرضیت سے انک ار‬
‫کر دیا۔‬
‫پھر میں نے جہاد کے تاقیامت جاری رہ نے کے دالئ ل بی ان ک یے‪،‬اور ان‬
‫بیان کردہ دالئل میں سے چند یہ ہیں‪:‬‬
‫‪108‬‬
‫‪ -‬مرزا غالم احمد قادیانی سکھ حکومت کے آخری عہد س نہ‪1839‬ء ی ا س نہ ‪1840‬ء‬
‫میں ضلع گورداسپور کے قصبہ قادیان میں پیدا ہ وئے۔ابت دائی تعلیم گھ ر میں ہی اپ نے‬
‫والد صاحب سے حاصل کی اور جلد ہی سیالکوٹ میں مالزمت اختیار کر لی۔ پڑھنے‬
‫کا بہت شوق تھا اس لیے ساتھ ساتھ مطالعہ بھی جاری رکھ ا۔پھ ر مالزمت چھ وڑ ک ر‬
‫واپس قادیان چلے گئے اور گھر والوں سے بالکل علیحدگی اختیار ک ر کے چلہ کش ی‬
‫شروع کر دی۔ پہلے خود کو عیسائیت اور ہندو مخالف مناظر کی حیثیت سے متع ارف‬
‫کروایا اور مس لمانوں کی ج ذباتی اور نفس یاتی ہم دردیاں حاص ل کیں۔ بع د میں مج دد‪،‬‬
‫وی ک رتے ہ وئے س نہ‬‫محدث‪ ،‬امتی ن بی‪ ،‬ظلی ن بی‪ ،‬ب روزی ن بی‪ ،‬مثی ل مس یح ک ا دع ٰ‬
‫‪1891‬ء میں مسیح موعود ہونے اور انجام کار سنہ ‪1901‬ء میں باقاعدہ ای ک ص احب‬
‫وی کی ا‪،‬اپ نے چ الیس معتق دین س ے بیعت لی اور قادی انی‬ ‫ش ریعت ن بی ہ ونے ک ا دع ٰ‬
‫جماعت کی بنیاد رکھی۔ ‪26‬م ئی ‪1908‬ء ک و الہ ور میں وف ات پ ائی۔ تفص یل کے ل یے‬
‫دیکھ یے‪ :‬ن دوی‪ ،‬ابولحس ن علی۔ ‪1996‬ء۔ قادی انیت‪ :‬مط العہ و ج ائزہ۔ ک راچی‪ ،‬مجلس‬
‫نشریات اسالم۔ ‪19‬۔‬
‫‪63‬‬
‫‪ ‬لوگوں کا ایک دوسرے کو دھکیلنے کا قانون ۔‬
‫‪ ‬یہ کہ کفار مسلمانوں (کی ایذا رسانی )سے کبھی باز نہیں آئیں گے۔‬
‫‪ ‬نصرت یافتہ گروہ کا ہمیشہ باقی رہنا۔‬
‫‪ ‬بیت المقدس کا محافظ دستہ۔‬
‫اور یہ حدیث‪:‬‬
‫"الخيل معقود بنواصيها الخير إلى يوم القيامة‪".‬‬
‫"کہ گھ وڑوں کی پیش انیوں پ ر قی امت ت ک کے ل یے خ یر لکھ دی گ ئی‬
‫(‪)109‬‬
‫ہے۔"‬
‫میں نے اشارہ کیا کہ یہ حدیث جہاد کے قیامت تک جاری رہنے پر داللت‬
‫کرتی ہے۔‬
‫‪ -64‬امت کو جہاد کے لیے تیار کرنا‪:‬‬
‫میں نے آواز اٹھ ائی کہ امت ک و ہ ر پہل و س ے ق وت کے اس باب حاص ل‬
‫کرنے کی ضرورت ہے‪( ،‬چاہے وہ) عسکری ق وت ہ و ی ا اقتص ادی اور علمی‬
‫قوت‪ ،‬یا پھر مادی‪،‬فکری‪،‬ابالغی اور اخالقی افرادی ق وت ج و کہ اس ے دش من‬
‫کے سامنے ناقابل تسخیر بناتی ہے اور دشمن کے دل میں اس ک ا رعب بٹھ اتی‬
‫ہے۔‬
‫‪ -65‬ہمارے زمانے کے گھوڑے ہی ٹینک‪،‬آبدوزیں اور جنگی جہاز ہیں‪:‬‬
‫میں نے بیان کیا کہ ہللا کے اس ارشاد‪:‬‬
‫اس تَطَ ْعتُ ْم ِم ْن قُ َّو ٍة َّو ِم ْن ِّربَ ا ِط ْالخَ ْي ِل تُرْ ِهبُ وْ نَ بِ ِه َع ُد َّو هللاِ‬
‫"﴿ َوَأ ِع ُّدوا لَهُ ْم َّما ْ‬
‫َو َع ُد َّو ُك ْم﴾ "‬
‫"اور ان سے مق ابلہ کے ل یے ہ ر ممکن ط اقت تی ار رکھ و‪ ،‬گھ وڑوں ک و‬
‫مورچہ پر رکھو‪،‬اس کے ذریعہ تم ہللا کے دشمنوں اور اپنے دش منوں ک و اپ نی‬
‫(‪)110‬‬
‫طاقت سے مرعوب کر دو‪،‬اس کا خوف ان کے دلوں میں بٹھا دو۔"‬
‫میں خیل(گھوڑوں) کا ذکر (پرانے واقتوں میں طاقت کے ای ک ذریعہ کی‬
‫حیثیت سے ہے) اس سے ہمارے لیے یہ الزم نہیں ہو جاتا کہ ہم اسی ذریعہ پر‬
‫‪109‬‬
‫‪ -‬صحیح بخاری‪ ،‬حدیث نمبر‪ ،2852‬صحیح مسلم ‪ ،‬حدیث نمبر‪.1873‬‬
‫‪110‬‬
‫‪ -‬االنفال‪.60:‬‬
‫‪64‬‬
‫رک جائیں‪،‬کیونکہ ہر زمانے کے مطابق اس کے گھوڑے اور گھڑسوار ہوتے‬
‫ہیں‪،‬اس ل یے میں س مجھتا ہ وں کہ ہم ارے زم انے کے گھ وڑے یہی ٹین ک‪،‬‬
‫بکتربند گاڑی اں اور اس ط رح کے خش کی پ ر جن گ کے دیگ ر لوازم ات ہیں۔‬
‫بلکہ اس میں وہ بحری تنصیبات کشتیاں‪،‬بحری جنگی جہاز اور آبدوزیں وغیرہ‬
‫بھی شامل ہیں اور یہ ہمارے زمانے کے اہم جنگی ہتھیاروں میں س ے ہیں۔بلکہ‬
‫اس میں لڑاکا طیارے‪،‬س یٹالئٹ اور میزائ ل وغ یرہ جیس ے فض ائی ذرائ ع بھی‬
‫شامل ہیں۔ ہمارے زمانے میں سامان حرب و ضرب کے یہ ذرائع زیادہ اہم اور‬
‫خطرناک ہیں اور اتنی ترقی کر گئے ہیں کہ اب انہیں ستاروں کی جن گ(‪Star‬‬
‫‪ )war‬کہا جاتا ہے۔‬
‫‪ -66‬ایٹمی‪،‬کیمیائی اور ج‪##‬راثیمی ہتھی‪##‬ار رکھنے اور اس‪##‬تعمال ک‪##‬رنے ک‪##‬ا‬
‫حکم‪:‬‬
‫میں نے واضح کیا کہ ایسے ایٹمی ہتھیاروں کا استعمال جائز نہیں ہے ج و‬
‫آنا فانا الکھوں لوگوں سے زندگی چھین سکتا ہے اور کئی الکھ افراد کو ایس ے‬
‫زخم دے سکتا ہے جس کے ک ئی دہ ائیوں ت ک انج ام کے ب ارے میں کچھ نہیں‬
‫کہا جا سکتا۔ اسالم نے تو ان عورتوں‪،‬بچوں‪،‬بوڑھوں‪،‬راہب وں‪،‬کس انوں اور اس‬
‫طرح کے تمام لوگوں کو قتل کرن ا ح رام ق رار دی ا ہے ج و جن گ میں ش ریک‬
‫نہیں ہوتے‪ ،‬یعنی ان سب میں سے کسی ایک کو قتل کرنا بھی حرام ہے تو پھر‬
‫ہزاروں اور الکھوں لوگوں کو ایک ہی وار سے قتل کر دینے کو کیس ے ج ائز‬
‫قرار دے سکتا ہے؟‬
‫اس کے باوجود میں نے اس بات کو ت رجیح دی کہ امت مس لمہ یہ ناج ائز‬
‫اسلحہ اپنے پاس رکھے تاکہ اپنے دشمن پر رعب اور( اس میں ڈر اور) خ وف‬
‫پیدا کر سکے‪ ،‬اس لیے ایسے اسلحے کا رکھنا اس امت کے لیے ضروری ہے‬
‫جسے ایسی قوتوں کی طرف سے زیادتی کا سامنا ہے جو مسلمانوں کی دش من‬
‫ہیں۔‬
‫‪ -67‬آیت ﴿ َوَأ ِعدُّوا لَ ُه ْم﴾کی مخاطب پوری امت ہے‪:‬‬
‫میں نے بیان کیا کہ ہللا کے اس فرمان‪:‬‬
‫اط ْالخَ ْي ِل تُرْ ِهبُ وْ نَ بِ ِه َع ُد َّو هللاِ‬ ‫"﴿ َوَأ ِع ُّدوا لَهُ ْم َّما ْ‬
‫اس تَطَ ْعتُ ْم ِم ْن قُ َّو ٍة َّو ِم ْن رِّ بَ ِ‬
‫‪65‬‬
‫َو َع ُد َّو ُك ْم﴾‬
‫اور ان س ے مق ابلہ کے ل یے ہ ر ممکن ط اقت تی ار رکھ و‪ ،‬گھ وڑوں ک و‬
‫مورچہ پر رکھو‪،‬اس کے ذریعہ تم ہللا کے دشمنوں اور اپنے دش منوں ک و اپ نی‬
‫(‪)111‬‬
‫طاقت سے مرعوب کر دو‪،‬اس کا خوف ان کے دلوں میں بٹھا دو۔"‬
‫کی پوری امت مخاطب ہے اگرچہ اس حکم کو ارباب اقتدار ہی نافذ ک ریں‬
‫گے‪،‬اور یہ وہ چیز ہے جسے فقہاء فرض کفایہ سے تعبیر کرتے ہیں‪،‬کہ فرض‬
‫کفایہ کا مطلب ہے‪ :‬ذمہ داری تو پ وری امت کی ہے لیکن اس ک و الگ و ک رنے‬
‫کی ذمہ داری کچھ لوگ وں پ ر ہی عائ د ہ وتی ہے اور یہ کہ جب کچھ ل وگ یہ‬
‫فریضہ ادا کریں گے تو باقی امت سے بھی اس (کے نہ کرنے)کا گناہ ساقط ہو‬
‫جائے گا‪،‬بصورت دیگر پوری امت گناہگار ہ وگی کی ونکہ درحقیقت یہ خط اب‬
‫اجتماعی طور پر سب کے لیے ہے۔ اس لیے امت اسالمیہ پر قطعیت کے س اتھ‬
‫یہ واجب ہے کہ اپنی استطاعت کے مط ابق دش من کے مق ابلے کے ل یے ق وت‬
‫مہی ا ک رے‪،‬اور امت پ ر ف رض کف ایہ ہے کہ اس کے پ اس اگ ر دوس روں کے‬
‫اسلحے سے برتر نہ ہو تو (کم از کم ) ان کے برابر کا ایساجدید ایڈوانس اسلحہ‬
‫ہو جو اس نے خود بنایا ہو‪،‬دوسروں سے خریدنے پ ر انحص ار نہ ک رے‪ ،‬امت‬
‫پر واجب ہے کہ اس کے لیے سائنسئ و تک نیکی تم ام وس ائل تی ار ک رے ت اکہ‬
‫مطلوبہ عسکری قوت حاصل کر سکے۔‬
‫‪ -68‬جہاد کے لیے اقتصادی تیاری کرنا‪:‬‬
‫میں نے ہر فیلڈ کی مص نوعات پ ر ت وجہ دی نے کی ض رورت پ ر ابھ ارا‪،‬‬
‫خاص طور پر وہ مصنوعات جن کی جہاد میں ضرورت پیش آتی ہے۔ میں نے‬
‫ایسے عسکری ماہرین کی اقتصادی منصوبہ بندی میں ش رکت ک و واجب ق رار‬
‫دیا جو ماہرین معاشیات وخزانہ کو ان ضروریات کا مش ورہ دیں ج و عس کری‬
‫منص وبوں‪،‬ض رورتوں اور اہ داف کے ل یے الزمی ہیں ت اکہ پی داوار میں‬
‫ان(ضروریات) کا بھی خیال رکھا ج ائے اور امت ک و جن گ کے وقت اچان ک‬
‫سے ان ضرورتوں کے فقدان یا ناپیدگی کا سامنا نہ کرنا پڑے۔‬
‫میں نے خرچ و کھپت میں اصالح کاری‪،‬جہاد اور اس کے مقتض یات کے‬
‫‪111‬‬
‫‪ -‬االنفال‪.60:‬‬
‫‪66‬‬
‫لیےض روری س رمایہ کی ف راہمی‪ ،‬دولت کی ع ادالنہ تقس یم کی اہمیت اور‬
‫معاشرے کی اکائیوں کے درمیان یکساں معیشت بجا النےکی دعوت دی۔‬
‫اس لیے کہ جب عوام یہ س مجھیں گے کہ وہ ایس ے معاش رے میں رہ تے‬
‫ہیں جو ان کے حقوق کا محافظ ہے‪،‬ان کے عزتوں کی حفاظت کرتا ہے‪،‬ان کی‬
‫ضروریات کو پورا کرتا ہے اور ان کی اوالدوں کو امن ف راہم کرت ا ہے ت و وہ‬
‫اپنی جانیں قربان کرنے سے بھی دریغ نہیں کریں گے۔ بخالف اس کے کہ جب‬
‫وہ معاشرتی ظلم و ستم کو محسوس کریں۔‬
‫میں نے افسران باال اور حکام کی طرف سے ع وام کے پیس ے پ ر اج ارہ‬
‫داری ق ائم ک رنے پ ر متنبہ کی ا کہ ان ک ا‪ ،‬ان کے رش تہ داروں ک ا اور ان کے‬
‫حاشیہ برداروں کا تو اس (عوامی پیسے ) میں شیر کی ط ر ح ( واف ر ) حص ہ‬
‫ہو اور مس تحق اف راد اور ض رورت من دوں ک و نظران داز ک ردیں‪ ،‬ح االنکہ وہ‬
‫زیادہ حقدار اور زیادہ مستحق ہیں۔‬
‫‪ -69‬علمی‪،‬فکری اور تہذیبی تیاری‪:‬‬
‫میں نے بیان کیا کہ جہاد کے لیے مطلوبہ تیاری میں‪،‬بلکہ جہ اد کے ل یے‬
‫مختل ف قس م کی تی اریوں میں س ب س ے اولین تی اری فک ری اور علمی تی اری‬
‫ہے‪،‬اس معنی میں کہ امت کے جوانوں کے ذہنوں ک و جہ اد کے ل یے تی ار کی ا‬
‫جائے تاکہ جہاد کی فکر امت کے ہر عام و خاص میں زندہ اور ق ائم رہے‪،‬اور‬
‫وہ اس طرح کہ قرآن کی وہ آیات اور وہ صحیح احادیث جوہللا کے راستے میں‬
‫جہاد کا حکم دیتی ہیں‪،‬اس کی ترغیب دیتی ہیں اور اس کے فضائل بی ان ک رتی‬
‫ہیں انہیں مستحضر رکھا جائے ۔‬
‫اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ باب الجہاد کو اسالمی تعلیم کے بنیادی‬
‫ب اب کی حی ثیت س ے پڑھای ا ج ائے‪،‬اور ض روری ہے کہ جہ اد کی یہ علمی‬
‫تیاری ہر سکول‪،‬مسجد اور یونیورس ٹی ک روائے اور تعلیمی ادارے اور ذرائ ع‬
‫ابالغ اس عمل کے لیے تعاون کریں۔‬
‫میں نے جہ اد ی ا ب رائی ک و ب دلنے ی اظلم و زی ادتی کے خالف م زاحمت‬
‫کرنےپر ابھارنے والے مواد کو حذف کرنے کے ذریعہ سرچشموں ک و خش ک‬
‫کرنے کےاس امر پر بھی متنبہ کیا جس کا سامنا آج کے مسلم ممالک کو ہے۔‬
‫‪67‬‬
‫‪ -70‬نفسیاتی اور جسمانی طور پ‪##‬ر جہ‪##‬اد کے ل‪##‬یے تی‪##‬اری ک‪##‬ا وج‪##‬وب اور‬
‫کمزوری و بزدلی پر تنبیہ‪:‬‬
‫میں نے نفسیاتی اور جسمانی تیاری کی اس قسم کی دعوت دی‪ ،‬یہ تی اری‬
‫ن‬
‫اس طرح ہو سکتی ہے کہ ہللا تعالی کی سنت تدافع بین البشر ی ع ی ہللا کی لوگوں‬
‫کوای ک دوس رے س ے ہٹ اتے رہ نے(‪( )112‬کی س نت )اور جہ اد کی محبت ہ ر‬
‫مسلمان کے دل میں پیوست کر دی جائے‪،‬اور اس کے دل و دماغ میں جہاد ک و‬
‫زندہ کیا جائے‪ ،‬اور اس بات کا یقین پیدا کی ا ج ائے کہ جہ اد میں خ یر ہی خ یر‬
‫ہے۔اور یہ دو اچھائیوں میں سے ایک ک ا ض رور س بب بنت ا ہے‪،‬ی ا ت و کف ار و‬
‫سرکشوں پر فتح و غلبہ یا پھر ہللا کی راہ میں شہادت۔‬
‫عقیدہ تقدیر پر ایمان اور اس پر یقین پیدا کرن ا کہ م دد ہللا کی ط رف س ے‬
‫آتی ہے اور ایمان والے ہی کامیاب و ک امران ٹھہ رتے ہیں‪ ،‬اور مس لمانوں میں‬
‫ع زت ایم انی پی دا کرن ا اور انہیں ق وت و ط اقت کے الف اظ س ے روش ناس‬
‫کرانا‪،‬اور مایوسی و ناامی دی‪،‬س پراندازی اور شکس ت خ وردگی کے الف اظ ک و‬
‫اپنی زندگی سے نکال پھینکنا‪،‬اور مسلمان کو یہ ترغیب دین ا کہ ک وئی مس لمان‬
‫اگ ر کس ی چ یز ک ا خواہش مند ہ و س کتا ہے ت و وہ ہللا کی راہ میں ش ہادت ہے‬
‫جوسب سے قیمتی اور اعلی متاع ہے جس کا کوئی مسلمان خواہشمند ہ و س کتا‬
‫ہے۔‬
‫میں نے اس وہن سے خبردار کیا ج و دل وں میں پی دا ہ و جات ا ہے ت اکہ وہ‬
‫دنیا اور اس کے ساز و سامان میں اٹک کر رہ جائے اور م وت س ے نف رت ی ا‬
‫اس سے خوف کھانے لگے تو امت مزاحمت کی روح اور ناقابل تسخیریت اور‬
‫مضبوطی سے عاری ہو جاتی ہے ج و کہ اس کے ل یے اس ے ت ر ن والہ بن ائے‬
‫ج انے‪،‬اس پ ر چ ڑھ دوڑنے اور پھ ر آس ان لقمہ س مجھ کرنگ ل ج انے جیس ے‬
‫ض‬ ‫ف‬ ‫ت ف‬ ‫ن ت ف‬
‫ج‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ن بع ب‬ ‫‪112‬‬
‫اس ھم عض" کے ر مہ می خں دو‬ ‫ال‬ ‫ہللا‬ ‫ع‬ ‫د‬ ‫"‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ع‬ ‫دا‬ ‫ت‬ ‫آی‬ ‫ے؟‬ ‫ئہ‬ ‫مراد‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫سے‬ ‫ع‬‫ف‬ ‫‪-‬س ت دا‬
‫ق‬
‫مہ کو ہ م اس م الے می ں ا ت ی ار‬ ‫دوی (ج ن کے ت رج‬ ‫نی ں۔ س ی د سلمان ن ض‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫ہوم‬ ‫طرح کے م‬ ‫ت‬
‫ت‬
‫تت کے ن من می ںناس کا رجت مہ ( ہللا کا لوگوں کو ای ک‬ ‫ں)گ ے اس آی ن ف‬ ‫ی ک‬
‫ی‬ ‫ےن ہ‬ ‫ہ‬ ‫ٹ‬ ‫ےآر‬ ‫کرے چ ل‬
‫ےف اس کا رج جمہ ( ہللا کا لوگوںن کوفاتی ک‬ ‫ئ دھری‬ ‫ے‪ ،‬ج ب کہ موال ا ح دمحم ج ال‬ ‫ا) ک ی ا نہ‬‫دوسرے سے کرات‬
‫ے موال ا ح دمحم‬ ‫ے جس‬ ‫ح‬ ‫را‬ ‫ادہ‬ ‫ز‬ ‫ہوم‬ ‫ں وہ م‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫را‬ ‫اری‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ے۔ہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ا)‬ ‫رہ‬ ‫ے‬ ‫سے ہ ٹخ ا‬‫دوسرے ن‬
‫ہ‬
‫ت‬ ‫نی‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫یہ‬ ‫ال ن‬
‫ے سے عدول کر‬ ‫ئ پر اموال ا دوی کے رج م‬ ‫ے ی ہاں‬ ‫ے ہ فم ے ت‬ ‫ے۔ اس یل‬ ‫دھری ن ی ی ت‬
‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ار‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ج‬
‫ہ‬
‫دھری کے ر مہ ت جسے است ادہ کرے وے(ہللا کا لوگوں کو ای ک دوسرے سے‬ ‫ج‬ ‫تموال ا ن ج ال‬
‫کے‬
‫ت‬
‫ے۔م ر م‪-‬‬ ‫ہ ٹ اے رہ ا) کا رج مہ ک ی ا ہ‬
‫‪68‬‬
‫خطرات پیدا کرتا ہے۔اسی طرح میں نے بزدلی اور بخل سے بھی خ بردار کی ا‬
‫ہے اس لیے کہ یہ امت اس وقت تک اٹھ نہیں س کتی اور دع ائیں اس وقت ت ک‬
‫قب ول نہیں ہ وں گی جب ت ک کہ یہ دو بنی ادی اخالقی ص فات کی حام ل نہ ہ و‬
‫جائے‪:‬‬
‫‪ :۱‬سخاوت‪،‬جس کے ہوتے ہوئے مال خرچ کرنا آسان ہو جاتا ہے ۔‬
‫‪ :۲‬بہادری‪،‬جس کے ہوتے ہوئے جان قربان کرنا آسان ہوتا ہے۔‬
‫جب بخل غالب ہوتا ہے تو لوگ مال خرچ کرنے میں بخل س ے ک ام لی تے‬
‫ہیں اور جب بزدلی کا غلبہ ہو جائے تو لوگ اپ نی ج انیں پیش ک رنے میں بخ ل‬
‫سے کام لیتے ہیں‪،‬اس طرح نہ کوئی دعا قبول ہو گی نہ ہی امت اٹھ سکے گی۔‬
‫اسی طرح میں نے سیالیت اور نازک مزاجی و ہیجڑا پن سے بھی خبردار‬
‫کی ا ہے اور میں نے امت کے جوان وں کے ل یے م ردانگی اور ک رختگی کی‬
‫حفاظت کی ضرورت بی ان کی اور بتای ا کہ مس لمان ع ورت کے ل یے بھی اس‬
‫کی نسوانی خصوصیات کے مطابق جہاد کا حصہ ہے۔‬

‫‪ -71‬مالی وقف اور معینہ مدت تک کے لیے وقف کا جواز‪:‬‬


‫جہاد کے لیے ضروری مالی وسائل کی فراہمی پر بات ک رتے ہ وئے میں‬
‫نے لوگوں کے دلوں میں رف اہی اداروں کے لیےحوص لہ اف زائی ک ا ج ذبہ پی دا‬
‫کرنے کے لیے مالی وقف کو جائز قرار دی ا ہے‪،‬بلکہ کس ی بھی ایس ے رف اہی‬
‫ادارے جن میں جہاد‪ ،‬دعوت اور تعلیم وغیرہ جیسے ادارے شامل ہیں کے لیے‬
‫معینہ (بیس س ال‪ ،‬اس س ے کم ی ا زی ادہ )م دت ت ک کے ل یے بھی پیس ہ وق ف‬
‫کرنے کو میں جائز سمجھتا ہوں‪ ،‬اس شرط پ ر کہ اس رقم ک و ایس ے مع امالت‬
‫میں خرچ کیا جائے جہ اں اس کے ض ائع ہ ونے ک ا خط رہ نہ ہ و اور وہ ام ور‬
‫اسالمی احکام سے مطابقت رکھتے ہوں۔‬
‫‪69‬‬
‫‪ -72‬جب بیت المال (‪ )113‬میں خزانہ ناکافی ہو جائے تو امت کے ہر فرد پ‪##‬ر‬
‫اس کی استطاعت کے بقدر جہاد ٹیکس عائد کیا جائے گا‪:‬‬
‫میں نے راجح قرار دیا کہ جب بیت المال جہاد اور مجاہدین کے اخراجات‬
‫پورے کرنے سے کلی یا جزوی طور پر عاجز آ جائے تو مالداروں پ ر ان کے‬
‫مال و دولت کے مطابق ٹیکس عائد کی ا ج ائے گ ا اور امت کے ح ق میں اس ے‬
‫خرچ کیا جائے گا۔اور جو مال ایسے وقت میں لیا جاتا ہے وہ مال پر زک اۃ کے‬
‫بعد عائد ہونے واال فرض ہے اس لیے اسے بیت الم ال پ ر قرض ہ نہیں تص ور‬
‫کیا جائے گا اس لیے اس کا لوٹانا بھی ضروری نہیں ہو گا۔‬
‫‪ -73‬بنکوں اور ان جیسی جگہ‪##‬وں س‪##‬ے آنے واال من‪##‬افع جہ‪##‬اد اور رف‪#‬اہی‬
‫کاموں میں خرچ کیا جائے گا‪:‬‬
‫میں نے ترجیح دی کی کہ مسلمان جو ناپ اک اور مش کوک م ال کمات ا ہے‬
‫جیسا کہ بنکوں کا یا ان جیسے ناجائز منافع تو اس ے الزمی ط ور پ ر اس س ے‬
‫بچنا چاہیے‪،‬نہ اسے اپ نی ملکیت میں ش امل ک رے اور نہ ہی س ودی بن ک میں‬
‫رکھے‪،‬بلکہ اس کو لے لے‪،‬اس لیے نہیں کہ خود اس سے فائدہ اٹھائے کیونکہ‬
‫وہ اس پر حرام ہے بلکہ اس لیے کہ اسے رفاہی کاموں میں لگائے جن میں ہللا‬
‫کی راہ میں جہ اد بھی ش امل ہے۔ اور ان من افعوں کے ل یے ایس ا کرن ا زی ادہ‬
‫ضروری ہے جو کہ مغربی بنکوں میں پ ڑے ہیں‪،‬انہیں ان بنک وں میں چھوڑن ا‬
‫ج ائز نہیں کی ونکہ وہ عموم ا ان من افع ج ات ک و یہ ودی ی ا عیس ائی مش نری‬
‫تنظیموں پر خرچ کرتے ہیں۔‬
‫‪113‬‬
‫‪ -‬بیت الم ال ک ا بنی ادی تص ور یہ ہے کہ معاش رہ کے ن ادار‪ ،‬مع ذور‪ ،‬مس تحق اور‬
‫ضرورت مند افراد کی کفالت کا ریاستی سطح پر اہتمام کیا جائے۔ نبی اک رم ص لی ہللا‬
‫زک وۃ‪ ،‬عش ر‪ ،‬خ راج اور ج زیہ وغ یرہ‬ ‫علیہ وسلم کے دور میں اس کا دائرہ یہ تھ ا کہ ٰ‬
‫آپ ان س ے ض رورت من دوں‪،‬‬ ‫رت کے پ اس جم ع ہ وتی تھیں اور ؐ‬ ‫کی رق وم آنحض ؐ‬
‫ناداروں اور بے سہارا لوگوں کی ضروریات پوری کرنے کے ساتھ ساتھ مجاہدین اور‬
‫بیت المال کے لیے کام کرنے وال وں ک و بھی وظیفے دی تے تھے۔ بیت الم ال ک ا لفظی‬
‫معنی ہے" دولت کا گھر" عام مفہوم میں اس عم ارت ک و بھی بیت الم ال کہ ا جات ا ہے‬
‫جس میں سرکاری خزانہ محفوظ کیا جاتا ہے۔ بیت المال کا باقاعدہ قی ام حض رت عم ر‬
‫رض ی ہللا عنہ کے زم انہ میں س نہ ‪ 15‬ہج ری میں ہ وا۔ دیکھ یے‪ :‬س یوہاروی‪ ،‬حف ظ‬
‫الرحمن۔ ‪2007‬ء۔ اسالم کا اقتصادی نظام۔ کراچی‪ :‬شیخ الہند اکیڈمی۔ ‪232‬۔‬
‫‪70‬‬
‫‪ -74‬پ‪##‬رانے وقت‪##‬وں میں گھوڑوں کے فض‪##‬ائل میں ج‪##‬و وارد ہ‪##‬وا اس ک‪##‬ا‬
‫اطالق ہمارے زمانے کی بری بحری اور فضائی س‪##‬واریوں پ‪##‬ر ہوت‪##‬ا‬
‫ہے‪:‬‬
‫میں نے مسلمان فوج کی فتح کے لیے ضروری لوازم ات پ ر ب ات ک رتے‬
‫ہوئے بیان کی ا کہ گھ وڑوں ک و ہللا کی راہ میں بان دھنے اور اور انہیں جنگ وں‬
‫کے لیے تی ار ک رنے س ے متعل ق ج و فض ائل بی ان ک یے گ ئے ہیں وہ ہم ارے‬
‫زم انے کے گھ وڑوں اور س واریوں پ ر بھی بی ان ک یے ج ائیں گے جیس ے‬
‫ٹینک‪،‬بکتر بند اور وہ تمام سواریاں جو آج کی جنگ وں میں اس تعمال کی ج اتی‬
‫ہیں اور ج و ان ک ا بہ تر اس تعمال کرن ا ج انتے ہیں وہی ہم ارے زم انے کے‬
‫شہسوار کہالئیں گے۔‬
‫‪ -75‬شافعیہ کی جانب سے ڈبونے اور جالنے اور اس سے زی‪##‬ادہ س‪##‬خت‬
‫تباہی پھیالنے والے اسلحے کے جواز کا رد‪:‬‬
‫میں نے ج امع تب اہی پھیالنے والے (کیمی ائی‪،‬ج راثیمی ی ا ایٹمی) اس لحے‬
‫کے استعمال کی اج ازت دی نے میں آخ ری ح د ت ک س ختی کی ہے اور ایس ے‬
‫اسلحے کے استعمال کو جائز نہیں قرار دیا جس کی جنگ میں ضرورت نہ ہو۔‬
‫میں نے اس ب ابت ام ام ش افعی ؒ کی مخ الفت کی ہے جنہ وں نے اس میں توس ع‬
‫اختیار کیا ہے۔ میں نے ان کا رد کیا ہے جنہ وں نے ام ام ش افعی کی کت اب االم‬
‫میں ان کے کالم سے اس تدالل کی ا ہے‪،‬اس ل یے کہ وہ کالم نہ جن گ کے تم ام‬
‫ح االت ک و ش امل ہے اور نہ ہی حربی وں(‪ )114‬کے تم ام ممال ک‪،‬ش ہروں اور‬
‫ن‬ ‫فق‬ ‫ت‬ ‫ق‬
‫غ مس‬ ‫ت‬ ‫فق‬
‫ے احکام‬ ‫ت‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫اء‬‫ہ‬
‫ق‬ ‫ے۔‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ال‬‫کہ‬ ‫ی‬ ‫حر‬ ‫سم‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫موں‬ ‫ل‬ ‫ی ق‬ ‫ر‬ ‫سے‬ ‫ار‬ ‫غ م ب‬‫ع‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫ام‬ ‫ک‬‫تح‬‫ا‬ ‫ہی‬ ‫‪- 114‬‬
‫بن‬ ‫س‬
‫کے اع ب ار سے ی ر لموں کی چ ار ا سام ب یتان کی ہ ی ں ‪ ،‬چ و کہ ی ہ ان چ اروں ا سام کا ذکر م ن می ں‬ ‫ئ‬
‫ق ن‬ ‫ے ہ ی ں‪:‬‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫کر‬ ‫درج‬‫ف‬ ‫ف‬ ‫ی‬ ‫عر‬ ‫غ‬‫کی‬ ‫سب‬ ‫ان‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ذ‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ے‬
‫ی‬
‫ل‬ ‫اس‬ ‫ا‬‫گ‬ ‫ے‬ ‫آ‬
‫مراد وہ ی رمسلم ا راد ہ ی ں ج و کسی اسالمی ملک کے وا ی ن کی‬ ‫سے خ‬ ‫سن‬ ‫ذمی‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ذمہ‬ ‫ل‬ ‫ہ‬‫ا‬ ‫ذمی‪:‬‬ ‫‪:‬‬ ‫‪1‬‬
‫غ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫پ اسداری کا عہد کر کے وہ اں کو ت ا ت یغار کریمسں۔ ش‬
‫اس سے مراد وہ ی ر لم ب ا دے ہ یئں ج و ج ارت ی ا کسی اور رض سے کسی‬ ‫‪:2‬مست امن‪ :‬ض‬
‫ش ئ‬ ‫ن‬ ‫ئ‬‫زہ) لے کر آےتہ وں۔‬ ‫ج ن‬‫ی‬ ‫(و‬ ‫ازت‬ ‫ج‬‫ا‬ ‫ر‬
‫ف‬ ‫پ‬ ‫طور‬ ‫ی‬ ‫غ‬ ‫اسالمی مملکت می ں عار‬
‫ے ہ وے مسلما وں سے را ط کے‬ ‫ے ملک می ں رہ‬ ‫وہ ی رمسلم ا راد ہ ی ں و پا‬ ‫اس سے مرادن‬ ‫‪ :3‬معاہ د‪:‬ت‬
‫سا ھ ج گ ہ کرے کا معاہ دہ کر لی ں۔ اسی طرح وہ غیر مسلم افرد بھی معاہد کہالتے‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ہیں جو کسی معاہدے یاشرط کے ساتھ مسلمانوں کے مل ک میں عارض ی ط ور پ ر‬
‫سکونت اختیار ک ریں۔اس ی ط رح ای ک مملکت‪  ‬ک ا دوس ری مملکت س ے جن گ نہ‬
‫کرنے کا معاہدہ ہو یہ بھی اس میں شامل ہے‬
‫‪71‬‬
‫دیہاتوں کو ش امل ہے۔بلکہ وہ ت و اس ص ورت کے س اتھ مقی د ہے جبکہ دش من‬
‫کسی پہاڑ یا خندق وغیرہ میں محصور ہو جائے تو وہ ان کو ہر ایسے ط ریقے‬
‫س ے م ارنے کی اج ازت دی تے ہیں ج و انہیں س پراندازی( ہتھی ار ڈال نے) پ ر‬
‫مجبور کر دے اور جنگ طول نہ پکڑے کیونکہ اس کا (ط ول پکڑن ا ) دون وں‬
‫فریقوں کے لیے پریشانی کا باعث ہے۔‬
‫امام شافعی کی عبارت سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ مذکورہ چیزوں ک ا مطلق ا‬
‫کسی بھی جنگ اور کس ی بھی ایس ے ش ہر ی ا مل ک کے س اتھ جن گ جس میں‬
‫دش من ہ وں میں م ذکورہ چ یزوں ک ا اس تعمال ج ائز ہے ۔ میں نے ح زب‬
‫التحریر(‪ )115‬اور ان کے بعض معاص ر پیروک اروں ک ا رد کی ا ہے ج و‬
‫کیمیائی‪،‬جراثیمی اور ایٹمی اسلحے کے استعمال کو جائز قرار دیتے ہیں۔‬

‫شف‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫غ‬


‫سے مراد وہ ی رمسلم ہ ی ں ج ن سے کسی سم کا کو ی معاہ دہ ن ہ ہ و۔ ی ع‪،‬‬‫‪:4‬حربی‪ :‬حر ی ف ق‬ ‫فت‬
‫‪2010‬ء۔ ج بواہ ر ال ہ۔ کراچ ی‪ :‬مکت ب ہ دارالعلوم۔‪211‬۔‬ ‫م ی دمحم۔‬
‫‪115‬‬
‫‪-‬ح زب التحری ر‪ ‬لبن ان‪ ‬س ے ش روع ہ ونے والی ای ک اس المی جم اعت‬
‫ج و‪ ‬پاکس تان‪ ‬میں‪1999 ‬ء‪ ‬س ے متح رک ہ وئی۔ ح زب التحری ر ک و‪1953 ‬ء‪ ‬میں‪ ‬بیت‬
‫المق دس‪ ‬میں‪ ‬ج امعہ االزہر‪ ‬کے تعلیم ی افتہ‪ ‬تقی ال دین نبہ انی‪ ‬نے ق ائم کی ا ۔ امریک ا کی‬
‫شکاگو یونیورسٹی سے تعلیم یافتہ نوید بٹ اس کے ترجمان تھے اور اس کے دوسرے‬
‫ارکان میں روانی سے‪ ‬انگریزی‪ ‬بولنے والے یورپ اور امریکا ‪ ‬کی یونیورسٹیوں سے‬
‫گریجویٹ اور بظاہر خوشحال نوجوان اف راد ش امل رہے۔ ح زب التحری ر‪ ‬پاکس تان‪ ‬میں‬
‫بظاہر کسی پُر تشدد سرگرمی میں ملوث نہیں اور نہ اس کے کسی رکن پر ایسا ک وئی‬
‫مقدمہ قائم ہوا لیکن ان کے ان کے نظریات میں مسلمانوں کو ایک وحدت یع نی خالفت‬
‫پر جمع کرنے کا مشن موجود ہے۔ امریکی دباؤ کے زیر اثر‪2003 ‬ء‪ ‬میں‪ ‬پاکستان‪ ‬میں‬
‫اس تنظیم پر پابندی لگا دی گئی۔ حزب‪-‬التحریر‪/https://ur.wikipedia.org/wiki /‬‬
‫‪72‬‬
‫کی (کت‪##‬اب)‬ ‫‪( -76‬عالمہ) ش‪##‬وکانی(‪ )116‬کی مخ‪##‬الفت اور (فقہ) زی‪##‬دیہ‬
‫(‪)117‬‬

‫االزھار کے مصنف(‪ )118‬کی رائے کی تائید‪:‬‬


‫میں نے (عالمہ) شوکانی (جنہوں نے مشرکین ک و کس ی بھی ط رح خ واہ‬
‫ڈبو کر‪،‬عمارت ڈھا کر یا بلندی سے گرا کر قتل کرنے کو ج ائز ق رار دی ا ہے)‬
‫کے ب رعکس فقہ زی دیہ کی کت اب "االزھ ار "کے مص نف کی رائے ک و راجح‬
‫قرار دیا ہے۔ (میں نے وضاحت کی کہ )میں فقہ زی دیہ میں بی ان کی گ ئی درج‬
‫ذیل تین شرطوں کے ساتھ ہی غرق کرنے‪،‬جالنے اور پھندا لگا کر م ارنے ک و‬
‫جائز سمجھتا ہوں‪:‬‬
‫‪ :۱‬کہ تلوار(گولی کا بھی یہی حکم ہے) سے قتل کرنا ناممکن ہو۔‬

‫‪116‬‬
‫‪ -‬محمد بدر الدین شوکانی‪ ‬یمن کے ایک معروف عالم‪ ،‬فقیہ‪ ،‬مفسر‪ ،‬مجتہد ‪،‬مح دث‬
‫اور بے شمار کتابوں کے مصنف تھے۔ سنہ ‪1173‬ھ میں یمن کے ایک قصبہ ہج رہ ش وکان‬
‫میں زیدی شیعہ ‪ ‬خاندان میں پیدا ہوئے‪ ،‬بعد میں‪ ‬اہل سنت والجم اعت‪ ‬ک ا منہج اختی ار کرلی ا‪،‬‬
‫قرآن و حدیث کا مطالعہ کیا۔ نتیجتا ً آپ نے زیدی عقی دے کے س اتھ س اتھ ص وفیت کی بھی‬
‫مخالفت کی۔ آپ کومجتہد‪ ‬تصور کیا جاتا ہے۔ سنہ ‪1229‬ھ میں ص نعاء کے قاض ی ب نے اور‬
‫قاض ی رہ تے ہ وئے س نہ ‪1250‬ھ میں وف ات پ ائی۔ محم د‪-‬ش وکانی‪/‬‬
‫‪/https://ur.wikipedia.org/wiki‬۔‬
‫‪117‬‬
‫‪ "-‬زیدیہ" اہل تشیع‪ ‬کا ایک فرقہ ہے جس میں حضرت‪ ‬امام سجاد‪( ‬پی دائش‪702 ‬ء)‬
‫کی‪ ‬امامت‪ ‬تک‪ ‬اثنا عشریہ‪ ‬اہل تشیع سے اتفاق پایا جاتا ہے ‪ ،‬یہ ف رقہ ام ام زین العاب دین کے‬
‫بعد امام محمد باقر کی بجائے ان کے بھائی امام زید بن زین العاب دین کی ام امت کاقائ ل ہے۔‬
‫اہل تشیع کے تم ام فرق وں میں زی دیہ اہ ل س نت کے زی ادہ ق ریب ہے‪ ،‬یہ ف رقہ اپ نی نس بت‬
‫حض رت زی د بن علی بن حس ین بن علی کی ط رف کرت ا ہے‪ ،‬ان کے عقی دے کے مط ابق‬
‫حضرت علی بن ابی طالب‪ ‬پیغمبر اسالم‪ ‬کے بعد سب س ے افض ل ہیں‪ ،‬یہ ف رقہ ص حابہ میں‬
‫سے کسی کی تکفیر نہیں کرتا اور نہ تبرا کرتا ہے‪ ،‬ان ک ا عقی دہ ہے کہ حض رت علی خ ود‬
‫اپنے حق سے‪ ‬خلف ائے ثالثہ‪ ‬کے ح ق میں دس تبردار ہ و گ ئے تھے اور ان کی بیعت درس ت‬
‫تھی‪ ،‬اس ل یے کہ حض رت علی رض ی ہللا عنہ اس پ ر راض ی تھے اور معص وم خط ا اور‬
‫باطل پر راضی نہیں ہو س کتا۔‪ ‬یمن‪ ‬میں ان کی اک ثریت ہے۔ اس کے عالوہ دوس رے ممال ک‬
‫میں بھی ہیں۔ زیدیہ‪/https://ur.wikipedia.org/wiki /‬۔‬
‫‪118‬‬
‫‪" -‬الأزھار في فقه الأئمة الأطهار" فقہ زیدیہ کی معروف کتاب ہے‪ ،‬اس کے مصنف کا‬
‫نام امام احمد بن یحیی المرتضی ہے۔مترجم۔‬
‫‪73‬‬
‫‪ :۲‬اس قوم میں کوئی بھی ایسا شخص نہ ہو جس کا قتل کرنا جائز نہیں۔‬
‫‪ :۳‬اور وہاں قتل کے اس طرح کے ط ریقے اختی ار ک رنے کی ض رورت‬
‫ہو۔‬
‫‪ -77‬کیمیائی‪،‬جراثیمی اور ایٹمی اس‪##‬لحے ک‪##‬ا ض‪##‬رورت کے وقت اس‪##‬تعمال‬
‫چند قابل لحاظ شرائط کے ساتھ جائز ہے‪:‬‬
‫جنگ میں دشمن کے ساتھ ایٹمی ہتھیار استعمال کرنے کے جواز پر مب نی‬
‫حزب التحریر کے ل ٹریچر پ ر میں نے ک افی بحث کی‪،‬اس ل یے کہ وہ اس المی‬
‫اصول و اقدار اور اس کی بنیادی تعلیمات کے منافی ہے۔‬
‫میں نے دش من کے س اتھ اس (کیمی ائی‪،‬ج راثیمی اور ایٹمی)اس لحے کے‬
‫استعمال کی حرمت سے ہنگ امی ح الت ک ا اس تثنا کی ا ہے‪،‬اس ل یے کہ ہنگ امی‬
‫حالت کے (خاص) احکام ہوتے ہیں۔‬
‫وہ اہم شرائط جن کی پابندی الزمی ہے (درج ذیل ہیں)‪:‬‬
‫‪ .1‬کہ ضرورت واقعتا پائی جائے۔‬
‫‪ .2‬مسلمانو ں کو اس قدر خطرہ درپیش ہ و ج و ان کے وج ود اور ہس تی‬
‫کے لیے چیلنج بن رہا ہو۔‬
‫اور اس موقع پر (ان دو امور ک ا لح اظ کرن ا) الزمی ہے‪( :‬ای ک یہ ) کہ‬
‫ایسی ضرورت دفاعی جہاد میں پیش آئے نہ کہ اقدامی جہاد میں۔‬
‫دوسرا یہ کہ ہم ہنگامی حالت کی رخصت پر حد س ے تج اوز ک ر کے اس‬
‫میں (مزی د) وس عت پی دا نہ ک ریں‪ ،‬کی ونکہ جس چ یز کی ہنگ امی ح الت میں‬
‫اجازت ہوتی ہے اس کو اسی( ہنگامی حالت) تک ہی محدود رکھا جاتا ہے۔‬
‫اگر ضرورت ایک ملک میں اس تعمال کی ح د ت ک ہ و ت و کس ی دوس رے‬
‫ملک میں اس کا استعمال نہیں ہونا چاہیے‪،‬اور جب وہ ضرورت ای ک وقت میں‬
‫پوری ہو رہی ہو تو کسی دوسرے وقت میں اس کی اجازت نہیں‪،‬اور یہ بات تو‬
‫طے شدہ ہے کہ‪:‬‬
‫ض رورت کے وقت بھی مس لمانوں ک و ص رف اس ی ص ورت میں یہ‬
‫استعمال کرنا چ اہیے جبکہ وہ خ ود اس کے مال ک ہ وں۔اور میں نے اس ی کے‬
‫ج واز کی رائے دی ہے کہ یہ (اس لحہ) ہم اری ملکیت میں ہ و اگ رچہ ہم اس ے‬
‫‪74‬‬
‫استعمال نہ کریں۔‬
‫‪ -78‬صحیح حدیث‪" :‬أال إنَّ القوة الرمي" کہ طاقت تیراندازی میں ہے‬
‫(‪)119‬‬

‫کا مفہوم‪:‬‬
‫میں نے بی ان کی ا کہ نص وص میں ط اقت کے مع نی میں ج و رمی‬
‫(تیراندازی)کا لفظ وارد ہوا ہے ہمارے زمانے کے مطابق اس میں‪:‬‬
‫بندوقوں اور ٹینکوں سے فائر کرن ا بھی ش امل ہے اور مختل ف ص الحیت‬
‫رکھنے والے بم حتی کہ ایٹم بم پھینکنا بھی‪ ،‬اور خاص نشانے پر میزائل داغن ا‬
‫بھی اسی قبیل سے ہے‪،‬یہ سب کی س ب ص ورتیں اس رمی میں ش امل ہیں جس‬
‫کی تفسیر رسول ہللا ﷺ نے ط اقت س ے کی‪،‬اس س ے آپﷺ کی م راد یہ تھی‬
‫کہ وہ(تیراندازی) ن طاقت خکے اہم ن عوامل میں سے ہے۔‬
‫ف‬
‫‪ -79‬آج کی ج گوں می ں ی ہ یا ج سی وں کے ادارے کی ا می ت‪:‬‬
‫ہ‬
‫میں نے دش من کے راز‪،‬اور اس کے پ اس ط اقت و س امان ح رب‪،‬اور ان‬
‫کے تجربات و صالحیتوں کے بارے میں معلومات رکھ نے کی اہمیت پ ر زور‬
‫دیا کہ یہ جنگ اور قتال کے اہم لوازمات میں سے ہے‪ ،‬یہ ممکن نہیں کہ کوئی‬
‫فریق اپنے مخالف فریق کی صفوں میں گھسنےاور نکلنے کے رستوں‪،‬اس کی‬
‫طاقت کے اسباب اور کمزوریوں(‪)Weak points‬ک و ج انے بغ یر اس پ ر فتح‬
‫حاصل کر لے۔‬
‫میں نے مشہور فقہی قاعدے( کس ی واجب کی ادائیگی کے ل یے ج و چ یز‬
‫ضروری ہو وہ بھی واجب ہے) کی بنا پر دشمن (کی سازش وں ) ک و بے نق اب‬
‫کرنے کے ل یےخفیہ ایجنس یوں ک اادارہ تی ار ک رنے‪،‬اور ہ ر ایس ا عم ل اختی ار‬
‫کرنے کو مسلمانوں کے لیے الزمی ق رار دی ا ج و انہیں دوس روں س ے ممت از‬
‫کرے۔ مسلمان اپ نے ج ائز اہ داف کے حص ول کے لیےغ یر اخالقی ذرائ ع ک و‬
‫اختیار نہیں کرتے بلکہ وہ اپنی تمام حرکات و سکنات میں اپنے دین کے احکام‬
‫اور اپ نے رب کی ش ریعت کے پابن د ہ وتے ہیں۔جس ب ات ک ا وہ حکم دیت ا ہے‬
‫سے وہ منع کرتا ہے اس سے رک جاتے ہیں۔‬ ‫ہیں اور جس ت‬ ‫اسے بجا التے ش‬
‫س‬
‫‪ -80‬اعداد و مار کی زب ان کا ا عمال‪:‬‬
‫‪119‬‬
‫‪-‬صحیح مسلم ‪ ،‬حدیث نمبر‪.1917‬‬
‫‪75‬‬
‫ن‬ ‫ت ئ‬ ‫ش‬
‫ے کی تذمہ داری توں پر ب ات کرے ہ وے می ں ے اعداد و‬ ‫المی ل کر کی ج ن گ سے پہل‬ ‫ش اس ت‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫س‬
‫اس‬‫مان ج ان سکی ں کہ ان کے پن‬ ‫ت‬ ‫قمار کے ا ق عمال کی ا م تی ت کی طرف من وج ہ ک ی ا ناکہ لت‬
‫ں‪،‬اور می ں ے‬
‫خ‬ ‫ے امورنر ی ب لدے سکی ی ث‬ ‫طا تن کی م دار ک ی ا ے اکہ وہ اس کی ب اد ر ا‬
‫ہو ش مار کی ز ان سے یمدد پحا پص‬ ‫ن‬
‫وں سے ا ذ‬ ‫ض‬ ‫حد‬ ‫دو‬ ‫ان‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫اعداد‬ ‫ں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫وی‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫س‬
‫ے‪ ،‬ان می ں سے ای ک ح رت اب ن‬ ‫ب‬ ‫ج‬
‫کی ؓہی ں امام خ اری ے کت اب ا جلہاد می ں ب ی ان ک ی ا ہ‬
‫ے کہ‪:‬‬ ‫ع ب اس کی روای ت ہ‬
‫"جاء رجل إلى النبي ﷺ‪ ،‬فقال‪ :‬يا رسول هللا‪ ،‬إني ُكتبت في غزوة ك ذا وك ذا‬
‫وامرأتي ش‬
‫حاجةخ‪ ".‬ن‬
‫ض‬ ‫خ‬
‫اکرمﷺ کی دمت می ں حا ر ہ وا اور عرض ک ی ا‪،‬اے ہللا کے‬ ‫" افی ک غ ص ب ی ن‬
‫ہ‬
‫ے جا ر ی‬ ‫ب‬
‫ے ج ب کہ می ری یوی حج کے یل‬ ‫رسول! الں زوہ تمی ں می را ضام درج کر ل ی ا گ ی ا ہ‬
‫ت ت‬ ‫خ‬ ‫ش‬ ‫(‪)120‬‬
‫ے۔"‬ ‫ے(اس کے سا ھ محرم کی لرورت ہ‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫س‬
‫ےجو‬ ‫ے کہ م لمان ہ ر اس ص کا ا دراج ک ی ا کرے ھ‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫کی‬ ‫ات‬ ‫ی ش ب ن‬ ‫اس‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫اس‬ ‫غ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫کسی زوہ می ں ری ک ہ و ض ا چ اہ ت ا۔‬
‫ف‬
‫ے‪،‬آپ ب ی ان کرے ہ ی ں کہ ب ی اکرم‬ ‫دوسری حدی ث ح رت حذی ہ ؓ کی روای ت ہ‬ ‫ن ف‬
‫ﷺ ے رمای ا‪:‬‬
‫"اكتبوا لي عدد قمن تلفَّظ باإلسالم من الناس‪".‬‬
‫ت‬
‫(‪)121‬‬
‫ے لکھ کر دو۔"‬ ‫ے ہ ی ں ان کی عداد جم ھ‬ ‫" ج و ج و لوگ اسالم ب ول کر چ ک‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫س‬
‫ان قکے اعداد و مار‬ ‫ے ت‬ ‫ت می ں (احصوا شلي)(‪ )122‬کے ال ت اظ ہ ی ں یشع ی جم ھ‬ ‫ت‬ ‫م لم کی روای‬
‫ن می ں ح ی ق ش دہ اعداد و‬ ‫ے حریری ٹ کل‬ ‫اعدادد و مار ہ ی ںعکہ جم قھ‬ ‫بشت او۔ اس سے مراد حرعیری‬
‫ج‬ ‫ل‬ ‫ل‬ ‫سق ئ ن‬ ‫ت‬ ‫ل‬
‫ے و کہ‬ ‫دامات ا ھاے کیش د ی ل ہ‬ ‫قئ‬ ‫مار درکا ر قہ ی ں۔ ی ہ می ا را ی ا داز اور می ان‬
‫کی زب ان‬ ‫ے۔اور ماری ات ش‬ ‫درست نطری ہ اور اس ب اب و مسب ب ات کی رعای تئکی ب ی اد پر ا م ن‬
‫ہ‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫ے کہ کو ی ب تھی درست م صوب ہ ب دی اعداد و مار کی‬ ‫م صوب ہ ب دی کےشلوازمات می ں سے غہن‬
‫ے ب ی ر ہی ں ہ و سک ی۔‬ ‫درست مار ات ب ان ی‬ ‫زب ان می ں ن‬
‫کار کی ج ان ئب ر شحان کان اس تسے مواز ہ ک ی ا ج و کہ‬
‫ن‬ ‫ج‬ ‫ے اسالمی کے یاس کعلمی اب ت‬
‫ن بن‬ ‫ض‬ ‫می ں ت‬ ‫ت‬
‫ہ‬
‫ے کہ ح رت داود ؑ ے ی اسرا ی ل کا مار کر ا چ ا ا و ان پر ئآسمان سے‬ ‫ہ‬ ‫ورات نمی ں آ ا‬
‫ت‬
‫ے‪،‬ج و کہ عاس‬ ‫گ‬ ‫الک ہ و‬‫ک ہ ی تدن می ں ہ ت‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ازل ہ توا جس سے ان کے س ر ہ زار ف ف‬
‫لوگ ا‬
‫ئ‬ ‫عذاب ت‬
‫ل‬ ‫ص‬ ‫ع‬
‫ے ہ ی ں‪ :‬ورات کی لی مات یح ح می‬ ‫ک‬ ‫س‬ ‫ل‬
‫ے ج یسانکہ ای ک معاصر ی ہ‬ ‫ن اہ‬ ‫کی ا ی د کر‬ ‫ب ات ق ئ‬
‫ن‬ ‫عاون ہی ں ہ ی ں۔‬ ‫ماحول ا م کرے پر م ن‬
‫‪ -81‬کمزوروں اور ی کوکاروں سے مدد حاصل کر ا‪:‬‬
‫‪120‬‬
‫‪-‬صحیح بخاری ‪،‬کتاب الجھاد‪ ،‬حدیث نمبر‪ ،3006‬صحیح مسلم‪،‬کتاب الحج‪ ،‬حدیث نم بر‬
‫‪.1341‬‬
‫‪121‬‬
‫‪-‬صحیح بخاری‪،‬کتاب الجھاد‪ ،‬حدیث نمبر ‪.3060‬‬
‫‪122‬‬
‫‪-‬صحیح مسلم‪،‬کتاب االیمان‪ ،‬حدیث نمبر‪.149‬‬
‫‪76‬‬
‫ت ن‬ ‫ق‬ ‫جن‬ ‫ن‬
‫ئرواے کے اس ب اب‬ ‫می ں ے ب ی ان ک ی ا کہ مسلم جگووں کی طا ت کے ع ن اصر اور مدد ا‬
‫لوگوں سے مدد حاصل کی ج اے‪،‬کمزوروں سے مراد‬ ‫ے کہ کمزور اور ن ی ک ئ‬ ‫ہ‬ ‫ں سے ای ک ی ہ‬ ‫می ش‬
‫دولت۔‬ ‫ے ہنمال و‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫لوگ ہ یحق قں ن کا ہن کو ی ج تاہ ج الل ہ‬
‫کے وہ گم امش ت‬ ‫معا رےن‬
‫ے ہ ی ں اورن وہ ی ہ‬ ‫می ں ے اس معا ر فیت ی ت کی ج ا ب م وج ہ ک ی ا جس‬
‫ے لوگ ظ ن را داز کر ید‬
‫ں پ ی داوار و م شص وعات کا حصول ا ق ًہی ں‬ ‫امن می ت‬ ‫ے کہ حالت ج ن گ می ں ح اور حالت‬
‫ےتج و معا رے کے کمزور طب ات‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫کن‬ ‫ہن وں‪،‬کاری گروں اور پ ش ًہ وروں کی دولت مم‬ ‫کسا‬
‫ے ہ ی ج ن گ م ں کام ا ی کا زی ہن‬ ‫ن ہ‬ ‫ہ‬ ‫جن ب‬ ‫یق‬ ‫ن‬
‫یب‬ ‫ی‬ ‫ہ ی ں۔ ی ہ گم ام کمزاور طب ات ہی ں لوگ ا می ت ہی ں دی‬
‫اور امن می ں پ ی داوار کی اساس ہ ی ں۔‬
‫‪ -82‬اندرونی محاذ کے تحفظ کی ضرورت‪:‬‬
‫میں نے اس جانب بھی خصوصی توجہ دی جس ے آج ان درونی مح اذ کے‬
‫تحف ظ ک ا ن ام دی ا جات ا ہے ج و کہ مجاہ دین کی پش ت پن اہی کرت ا ہے‪ ،‬انہیں‬
‫خوراک‪،‬ادویہ جات‪،‬اسلحہ اور دیگر ضروریات کی فراہمی میں مدد بہم پہنچاتا‬
‫ہے کیونکہ اس میں کسی بھی قسم کی گ ڑ ب ڑ جنگج و ف وج ک و خط رات س ے‬
‫دوچ ار ک ر س کتی ہے۔اس ی (ان درونی مح اذ کے تحف ظ) میں مجاہ دین کے‬
‫خان دانوں کی دیکھ بھ ال کرن ا بھی (ش امل) ہے جیس ا کہ بخ اری و مس لم کی‬
‫روایت میں ہے‪:‬‬
‫"من جهّز غازيًا فقد غزا‪ ،‬ومن خلف غازيًا في أهله بخير فقد غزا‪".‬‬
‫جس نے کسی مجاہد ک و س امان مہی ا کی ا گوی ا اس نے خ ود جہ اد کیا اور‬
‫جس نے کس ی مجاہ د کے اہ ل خ انہ کی خبرگ یری کی اور انہیں خ یریت س ے‬
‫(‪)123‬‬
‫رکھا وہ بھی ایسے ہی ہے جیسے خود جہاد میں شریک ہوا ہو۔‬
‫آپ ﷺ کا یہ بھی فرمان ہے کہ‪:‬‬
‫"حرمة نساء المجاهدين على القاعدين كحرمة أمهاتهم‪".‬‬
‫ت‬
‫"جہاد سے پیچھے رہ جانے والوں پر مجاہدین کی عورتوں کی کری م‬
‫(‪)124‬‬
‫ایسے ہی فالزم ہے جیسے کہ وہ اپنی ماوں کی تکریم کرتے ہیں۔"‬
‫ن‬ ‫ن ین‬ ‫ش م‬ ‫ت‬ ‫ف‬
‫ے د ی و د ی اوی‬ ‫‪ -83‬رض ک ای ہ امور می ضں وہ مامپ امور ت ا ل ہ ی ں ج ن کی امت کو اپ‬
‫ے‪:‬‬ ‫معامالت می ں عمومی رورت یش آ ی ہ‬
‫‪123‬‬
‫‪ -‬صحیح بخاری‪ ،‬كتاب الجهاد ‪ ،‬حدیث نمبر ‪ ،2843‬صحیح مس لم‪ ،‬كت اب‪ :‬اإلم ارة‪،‬‬
‫حدیث نمبر ‪.1895‬‬
‫‪ - 124‬صحيح مسلم ‪،‬حدیث نمبر ‪.1897‬‬
‫‪77‬‬
‫میں نے بی ان کی ا کہ ف رض کف ایہ میں وہ تم ام عل وم ش امل ہیں جن کی‬
‫مس لمانوں ک و ض رورت پیش آتی ہے جیس ا کہ می ڈیکل‪ ،‬انجینئرن گ‪،‬‬
‫فلکی ات‪،‬طبیعی ات (ف زکس) کیمیا (کمس ٹری) ارض یات (جی الوجی) حیاتی ات‬
‫(بیالوجی) اور ریاضی کا علم جو کہ ہمارے زمانے میں ریاست کے دف اع کے‬
‫لیے الزمی قوت کے حصول کے لیے اور اقتصادی‪،‬ط بی و تکن الوجی وغ یرہ‬
‫کے پہلو سے خودکفیل بننے کے لیے ضروری ہو گیا ہے۔‬
‫‪ -84‬حالت قوت میں مومن دس آدمیوں کے بقدر کام کرتا ہے‪:‬‬
‫سورہ انفال کی ان دو آیات‪:‬‬
‫صابِرُوْ نَ يَ ْغلِبُوْ ا ماَئتَي ِْن﴾"‬ ‫"﴿ِإ ْن يَ ُك ْن ِّم ْن ُك ْم ِع ْشرُوْ نَ َ‬
‫"اگر تم میں سے ڈٹنے والے بیس ہوں گے تو وہ دو سو پر غ الب آ ج ائیں‬
‫(‪)125‬‬
‫گے"‬
‫اور دوسری آیت‪:‬‬
‫ض ْعفًا فَِإ ْن يَّ ُك ْن ِّم ْن ُك ْم ِّماَئةٌ َ‬
‫صابِ َرةٌ يِّ ْغلِبُوْ ا‬ ‫" ﴿اآلنَ َخفَّفَ هللاُ َع ْن ُك ْم َو َعلِ َم َأ َّن فِ ْي ُك ْم َ‬
‫ِماَئتَي ِْن﴾‬
‫اب ہللا نے ۔کیونکہ وہ جانتا ہے کہ تمہارے اندر کم زوری ہے۔ تمہ ارے‬
‫لیے تخفیف کر دی ہے(اصل تو معرکہ کف ر و ایم ان میں وہی اوپ ر واال معی ار‬
‫ہے‪ ،‬لیکن کمزوری کے ب اوجود اس معی ار ک و پ ورا کرن ا ہے) کہ تم میں اگ ر‬
‫(‪)126‬‬
‫سو(‪ )۱۰۰‬جمنے والے ہوں تو دو سو پر غالب آئیں۔"‬
‫س ے میں نے م ومن کی ح الت ق وت اور ح الت ض عف میں دش من کے‬
‫سامنے ثابت قدمی کے بارے میں یہ استدالل کیا ہے کہ ح الت ق وت میں ایم ان‬
‫مومن کو اتنی طاقت دیتا ہے کہ وہ غ یر مس لموں کے دس گن ا اف راد کے بق در‬
‫کام کر سکے‪،‬اور حالت ضعف میں ایک عام عادمی سے دو گنا زی ادہ ک ام ک ر‬
‫سکے۔‬
‫‪ -85‬بھاگنے کے جواز اور عدم جواز میں تع‪##‬داد ک‪##‬ا نہیں بلکہ اس‪##‬لحہ کی‬
‫طاقت‪ ،‬تنصیات و فوجی تربیت وغیرہ کا اعتبار ہو گا‪:‬‬
‫‪125‬‬
‫‪ -‬االنفال‪.65:‬‬
‫‪126‬‬
‫‪ -‬االنفال‪.66 :‬‬
‫‪78‬‬
‫میں نے راہ فرار اختیار کرنے کے ج واز اور ع دم ج واز کے ب ارے میں‬
‫ایسے بعض علماء کی رائے کو ترجیح دی ہے ج و یہ کہ تے ہیں کہ دش من کی‬
‫تعداد کا اعتبار نہیں کیا جائے گا کہ جب کفار مسلمانوں سے دو گن ا زی ادہ ہ وں‬
‫تو بھاگنا حرام ہو گا اور اگر دو گنا سے کم ہوں چاہے ایک شخص ہی کم ہو تو‬
‫پھ ر بھاگن ا ج ائزہو گ ا۔ بلکہ (م یری رائے میں تع داد کے بج ائے) اس لحہ کی‬
‫عمدگی‪،‬تیاری‪،‬مہارت اور دیگر صالحیتوں کا اعتبار ہو گا۔‬
‫ف رض کیج یے کہ دس ہ زار مس لمان جنگج و ہیں لیکن ان کے پ اس وہ‬
‫ٹین ک‪،‬جنگی طی ارے‪ ،‬میزائ ل اور اس لحہ کے ذخ ائر نہیں ہیں ج و دش من کے‬
‫پاس ہیں (تو نتیجہ کی ا نکلے گ ا؟) اس ل یے الزمی ہے کہ ان چ یزوں ک و بھی‬
‫ملحوظ رکھا جائے۔‬
‫‪ -86‬دشمن سے مڈبھیڑ ہونے کے بعد بھاگنا حرام ہے‪:‬‬
‫میں نے ت رجیح دی کہ نص وص ش رعیہ س ے ج و س مجھ میں آت ا ہے اس‬
‫کے مطابق وہ بھاگنا حرام ہے ج و جن گ میں ص ف بن دی اور پھ ر دش من کے‬
‫ساتھ مڈبھیڑ ہونے کے بعد ہو۔‬
‫‪ -87‬کس وقت بھاگنا واجب ہو جاتا ہے؟‪:‬‬
‫میں نے بیان کیا کہ بس ا اوق ات راہ ف رار اختی ار کرن ا واجب ہ و جات ا ہے‬
‫جبکہ امت کو تباہی سے بچانے کے لیے ایسا کرنا ضروری ہو‪:‬‬
‫خ واہ مس لمانوں کی قلت اور دش من کی ک ثرت کی وجہ س ے‪،‬ی ا ان کی‬
‫کمزوری اور دشمن کی قوت کی وجہ سے یا دشمن کے اس لحے کےمس لمانوں‬
‫کے اس لحے س ے برت ر ہ ونے کے س بب‪ ،‬جس س ے ارب اب ح ل و عق د اور‬
‫اصحاب رائے یہ سمجھیں کہ مسلمانوں کی نجات ہتھیار ڈالنے میں ہی ہے۔‬
‫‪79‬‬

‫ش‬ ‫شش‬
‫ہاد کی ذمہ داری اں‪،‬آداب‬ ‫ج‬ ‫کر‬ ‫باب م‪ :‬ل‬
‫ض‬
‫و واب ط‬

‫ض‬ ‫ش‬ ‫شش‬


‫(بابج ن م‪ :‬ل خ کر ج ہاد کی ذمہ داری اں‪،‬آداب و واب ط)‬
‫ے‪:‬‬ ‫ے وہ اں پوری امت مخ اطب ہ‬
‫‪ -88‬ج ہاں ج ہاں جگووں کو طاب ک ی ا گ ی ا ہ‬
‫میں نے ذکر کیا کہ جنگ میں کودتے وقت اسالمی ف وج کی درج ذی ل چھ‬
‫ذمہ داریاں ہیں‪:‬‬
‫‪ .1‬ثابت قدمی۔‬
‫‪ .2‬ہللا کی یاد۔‬
‫‪ .3‬ہللا اور اس کے رسول کی اطاعت۔‬
‫‪ .4‬آپس میں الجھنے سے گریز کرنا۔‬
‫‪ .5‬صبر ۔‬
‫‪ .6‬نیت ہللا کے لیےخ الص رکھن ا اور تک بر و ریاک اری س ے بچن ا ت اکہ‬
‫مشرکوں سے مشابہت نہ ہو۔‬
‫میں نے متوجہ کیا کہ ان (مذکورہ باال)چھ ذمہ داریوں ک ا پ اس رکھن ا جن‬
‫ک ا حکم س ورہ انف ال کی آیت ‪ ۴۵‬س ے ‪ ۴۷‬ت ک میں آی ا ہے(‪ )127‬اور فک ری و‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫‪- 127‬ذی ل می ں آی ت مب ر ‪ ۴۵‬ا ‪ ۴۷‬بمعہ رج مہ پ یش کی ج ا ی ہ ی ں‪:‬‬
‫ی ا أیھ ا ال ذین آمن وا إذا لقیتم فئ ة ف اثبتوا‪ ،‬واذک روا ہللا کث یرا لعلکم تفلح ون(‪ )۴۵‬وأطیع وا ہللا‬
‫‪80‬‬
‫عملی اعتبار س ے (جن گ کی ح الت میں)ان ک و اختی ار کرنامجاہ دین کے ل یے‬
‫بالخصوص اور پوری امت کے لیے بالعموم ضروری ہے۔‬
‫لہذا دشمن سے مڈبھیڑ کے دنوں میں پوری امت کو چاہیے کہ وہ‪:‬‬
‫‪ :۱‬ثابت قدمی اختیار کرے کہ اس کے قدم ڈگمگائیں نہیں۔‬
‫‪ :۲‬ہللا کے سامنے ذکر و دعا کے ساتھ گریہ و زاری کرے۔‬
‫‪ :۳‬ہللا اور اس کے رسول کی اطاعت کرے۔‬
‫‪ :۴‬گناہوں اور بری باتوں سے اجتناب کرے۔‬
‫‪ :۵‬اور مل کر ہللا کی رسی کو تھام لے‪،‬آپس کے اختالفات کو بھال دے کہ‬
‫اختالفات اور تنازعات کے نتیجہ میں ناک امی ک ا س امنا کرن ا پڑت ا ہے اور ہ وا‬
‫اکھڑ جاتی ہے۔‬
‫حالت جن گ و جہ اد میں گھ ری ہ وئی امت پ ر الزم ہے کہ وہ گن دگی کی‬
‫بج ائے پ اکیزگی‪،‬کج روی کی بج ائے راس تی‪ ،‬اور غیرس نجیدگی کی بج ائے‬
‫متانت والی زندگی کو اپنی پہچان بنائے‪،‬اور اپنی سطح ک و اتن ا بلن د ک رے ج و‬
‫جہاد کے شایان شان ہو اور ہللا کی مدد اتروا سکے۔‬
‫‪ -89‬جہاد اور مجاہدین کے آداب‪:‬‬
‫میں نے بیان کیا کہ اسالم نے ہ ر چ یز کے ل یے خ اص آداب وض ع ک یے‬
‫ہیں‪،‬زندگی کے ہر معاملے اور ہر انسان کے ل یے اس کے مط ابق آداب وض ع‬
‫کیے ہیں‪،‬اور میں نے جہاد کے متعلق اہم آداب بھی بیان کیے جن س ے آراس تہ‬
‫ہونا مجاہ دین کے ل یے ض روری ہے‪،‬یہ تم ام کے تم ا م اعلی اق دار اور حس ن‬
‫ورس وله وال تن ازعوا فتفش لوا وت ذھب ریحکم واص بروا إن ہللا م ع الص برین(‪)۴۶‬‬
‫والتکونو کالذین خرجوا من دیارھم بطرا ورئاءا الناس ویص دون عن س بیل ہللا وہللا بم ا‬
‫محیط(‪ )۴۷‬ن ت‬ ‫یعملون‬ ‫ش‬
‫ق‬ ‫قت‬
‫ق‬ ‫تث‬ ‫د من طا وں سے م اب تلہ کا چ ھ کا ی پروگرام‪:‬‬
‫اری ک فسی گروہ سے مڈ ب ھی ڑ ہ و و اب ت دم رہ و۔‬ ‫ان والو! ج ب مہ ت‬ ‫‪ :۱‬اے ای م ث‬
‫و۔(‪)۴۵‬‬ ‫اکہ نالح ی اب ہ ت‬ ‫‪ :۲‬اور ہللا کو ک رت سے ی اد کرو ف‬
‫ئ‬ ‫ت‬ ‫رداری کرے رہ و۔‬ ‫کے رسول کی رما ب ن‬ ‫‪ :۳‬اور ہللا اور اس‬
‫اری ہ وا اکھڑ ج اےتگی۔‬ ‫گے (اور اکام ہٹو ج او گے)اور مہن‬ ‫او‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫س‬‫ض‬‫پ‬ ‫ہ‬ ‫‪ :۴‬اور ج ھگڑا ن ہ کرو ورن‬
‫ق‬ ‫ج‬ ‫پ‬ ‫ن‬
‫ے۔(‪ )۴۶‬ن‬ ‫کے سا ھ ہ‬ ‫والوں ن‬‫ش‬ ‫‪ :۵‬اور صب ر کرو(ی ع ی م ب وطی سے م انب لہ میق ں ڈے رہ قو)ہللا صب ر کرے ن‬
‫ے‬ ‫ے اور لوگوں کے سام ن‬ ‫کے ہغمی ں گکل‬ ‫دولت ن ت‬ ‫ے عال وں سے طا تت وئ‬ ‫مت ہ و ج و اپ‬ ‫تطرحئ‬ ‫‪ :۶‬اور ان لوگوں کی‬
‫ے ہ وے(یت عت ی کب ر و رور و ھم ن ڈ می ں مب ت ال مت ہ و ا‬ ‫ک‬ ‫ہللا کے راست ہنسے فرو‬ ‫ے ہ وے اور ن‬ ‫مظ اہ ئرہ غکر ق‬
‫ے۔(‬ ‫ک‬ ‫گ‬
‫اور کو ی لط ا دام مت کر ا) اور ہللا ے کا روں کے کر و وں کو ھی رے می ں لے ر ھا ہ‬
‫‪)۴۷‬‬
‫‪81‬‬
‫اخالق میں شامل ہیں۔‬
‫ان آداب میں سے چند یہ ہیں‪:‬‬
‫‪ .1‬نیت کا درست رکھنا اور جذبہ صادق رکھنا کہ ہللا کی راہ میں ج و بھی‬
‫تکلیف آئے اس کی پرواہ نہ کرے۔‬
‫‪ .2‬اپنی طرف سے ذاتی طور پر کوئی ایسا عمل نہ کرے ج و پ وری ف وج‬
‫کے لیے نقصان کا باعث بنے۔‬
‫‪ .3‬فو ج سے متعلقہ ہر قسم کے عسکری رازوں کو راز ہی رکھے۔‬
‫‪ .4‬جہاد میں شریک ساتھیوں کی خدمت کرے اور ایثار سے پیش آئے اور‬
‫جہاد میں رفقا کے حقوق کا خیال رکھے۔‬
‫‪ .5‬س پہ س االر اپ نے لش کر کے ق ریب رہے اور ان س ے رس می ص الح‬
‫مشورہ کرتا رہے۔‬
‫‪ -90‬دو مخالف آرا کی صورت میں اکثریت کی رائے کو ترجیح دینا‪:‬‬
‫میں نے بیان کیا کہ اسالم کے بنیادی اصولوں میں س ے ای ک ب ڑا اص ول‬
‫شوری کا ہے‪،‬اور ہ ر جم اعت پ ر الزم ہے کہ وہ اپ نی ش ہری و عس کری ہ ر‬
‫طرح کی زندگی میں اس کا التزام کرے۔ اختالف اور ایس ی ص ورت میں جبکہ‬
‫دو آرا میں سے کسی کو بھی ترجیح دینا ن اممکن ہ و ت و اک ثریت کی رائے ک و‬
‫ترجیح دیے جانے کو میں نے راجح قرار دیا جیسا کہ رسول ہللا ﷺ نے غزوہ‬
‫احد میں کیا تھا اور جیسے بدر کے مقام پر حضرت ابوبکر ؓاور حض رت عم ؓر‬
‫سے فرمایا تھا کہ‪:‬‬
‫"لو اتفقتما على رأي ما خالفتكما‪".‬‬
‫"اگر تم دونوں کسی رائے پ ر اتف اق ک ر ل و ت و میں تمہ اری مخ الفت نہیں‬
‫(‪)128‬‬
‫کروں گا‪".‬‬
‫اس لیے کہ آپ کے ووٹ کے مقابلے میں ان دو کے ووٹ ہو ج ائیں گے۔‬
‫اور اس لیے بھی کہ آپﷺ نے بعض احادیث میں سواد اعظم (‪ )129‬کی اتب اع ک ا‬
‫ن‬
‫‪-‬مس ن د احمد‪ ،‬حدی ث مب ر ‪.17994‬‬ ‫‪128‬‬
‫‪129‬‬
‫‪-‬السواد االعظم‪ ‬عربی‪ ‬زبان میں "عظیم ترین جماعت" کو کہ تے ہیں‪ ،‬وہ جم اعت جس‬
‫میں علم ائے ح ق کی تع داد زی ادہ ہ و۔‪  ‬متع دد اح ادیث میں اختالف کی ص ورت میں‬
‫‪82‬‬
‫حکم دیا ہے۔‬
‫(‪)130‬‬

‫‪ -91‬کس وقت غیر مسلموں سے مدد طلب کرنا جائز ہو جاتاہے؟‪:‬‬


‫میں نے ترجیح دی کہ اسالمی ریاست درج ذیل شرائط کے ساتھ غیرمسلم‬
‫سے مدد حاصل کر سکتی ہے اگرچہ وہ ذمی یا معاہد نہ بھی ہو۔‬
‫‪ -1‬اس کی ضرورت پیش آ جائے۔‬
‫‪ -2‬جس سے مدد مانگی جا رہی ہے اس کی مس لمانوں کے س اتھ دوس تی‬
‫اور ان کے دشمنوں کے ساتھ دشمنی پر مکمل اطمینان ہو۔‬
‫‪ -3‬وہ اپنے مذہب یا عقیدے کا داعی نہ ہو۔‬
‫‪ -4‬وہ مرکزی قیادت کی جگہ پر نہ ہو جہاں سے مسلمانوں کو ہدایات اور‬
‫احکامات جاری کر رہا ہو‪،‬اور انہیں اپنی مرضی سے ح رکت میں الت ا‬
‫ہو۔‬
‫‪ -5‬احتیاط کے پیش نظر مناسب یہی ہے کہ صرف ضرورت و حاجت کی‬
‫جگہ پر ہی ان سے کام لیا جائے۔‬
‫‪ -92‬ہمارے زمانے میں مسلمانوں کے خالف غیرمسلموں سے مدد لینا‪:‬‬
‫میں نے مس لمانوں کے خالف کف ار س ے م دد لی نے کے ع دم ج واز ک و‬
‫ترجیح دی‪،‬خاص طور پر اس جنگ میں امریکیوں سے م دد لیناجس ے ہم ارے‬
‫زمانے میں خلیج کی جنگ کا نام دیا گیا ہے۔اس لیے کہ یہ ایس ی م دد ہے جس‬
‫میں کوئی بھی ایسی شرط نہیں پائی جا رہی جو فقہاء نے غیرمسلموں سے مدد‬
‫لینے کے لیے الزمی قرار دی ہیں‪،‬کیونکہ‪:‬‬
‫ایک تو یہ(امریکہ سے مس لمانوں کے خالف م دد مانگن ا) غیرمس لم س ے‬
‫سواد اعظم کی پیروی کرنے کا حکم دیا گیا ہے جس کا حاص ل یہ ہے کہ جب مس ائل‬
‫شرعیہ اعتقادیہ میں اختالف ہو‪ ،‬تو اس ص ورت میں اک ثر ک ا اتب اع کرن ا چ اہئے‪ ،‬اور‬
‫اکثر سے مراد خیر القرون کے صحابہ و تابعین ہیں‪ ،‬کی وں کہ اس وقت خ یر اور ح ق‬
‫کا غلبہ تھا‪ ،‬جس طرف زیادہ جماعت ہوتی تھی‪ ،‬اسی طرف خیر کا غلبہ ہ و جات ا تھ ا۔‬
‫خالصہ یہ ہوا کہ حدیث میں سواد اعظم سے خیرالقرون کے ص حابہ و ت ابعین م راد‬
‫ہیں‪ ،‬اور اختالف س ے مس ائل ش رعیہ اعتق ادیہ ک ا اختالف م راد ہے۔ اس تش ریح کے‬
‫عالوہ دیگر تشریحات بھی علماء سے منقول ہیں۔ تھانوی‪ ،‬ظفر احم د۔ ‪2005‬ء۔ ام داد‬
‫مکتبہ دارالعلوم۔ ‪.482 :4‬‬
‫االحکام۔ کراچی‪ ،‬ن‬ ‫ن‬ ‫‪130‬‬
‫‪ -‬س ن اب ن ماج ہ ‪ ،‬حدی ث مب ر ‪.3950‬‬
‫‪83‬‬
‫مسلمان کے خالف مدد مانگنا ہے۔‬
‫دوسرا یہ کہ یہ غیر مسلم بھی ایسا ہےجس سے مسلمان محفوظ نہیں ہیں۔‬
‫تیسرا یہ کہ یہ(غیرمسلم ملک امریکہ)نہ مسلمانوں کے تابع ہے اور نہ ہی‬
‫ان ک ا خ دمت گ زار ہے بلکہ حقیقت یہ ہے کہ مس لمان ان کی قی ادت اور‬
‫حکمرانی میں تابع ہو کر کام کرتے تھے؍ہیں۔‬
‫اور چوتھا یہ کہ اس طرح کے تعام ل ک و یہ ن ام دین ا (ک افر س ے م دد ک ا‬
‫حصول) ایک طرح کا دھوکہ اور حقائق کے منافی ہے‪،‬ام ر واقعہ یہ ہے کہ ہم‬
‫نے ان سے نہیں بلکہ انہوں نے ہم سے مدد لی ہے۔‬
‫جنہ وں نے اس کی اج ازت دی تھی ان کی دلی ل یہ تھی کہ اس کی‬
‫ضرورت تھی‪،‬اور ضرورت کے وقت کے استثنائی احک ام ہیں جن س ےممنوع‬
‫امور کو مب اح ہ و ج اتے ہیں۔ یہ س ب اس ام ر پ ر داللت کرت ا ہے کہ امت میں‬
‫بہت بڑا بگاڑ‪ ،‬اور کمی پائی جاتی ہے۔‬
‫جنگ ضمیں ہماری اور مغرب کی اخالقیات‪:‬‬ ‫‪ -93‬ن‬
‫می ں ے وا ح ک ی ا کہ اسالم می ں سیاست‪،‬معیشت اور علم و عمل کی طرح‬
‫جن گ بھی اخالقی ات کی ت ابع ہے۔ مغ ربی تہ ذیب میں رائج زاویہ نگ اہ کے‬
‫برعکس یہ سب امور اخالق سے جدا نہیں ہ و س کتے‪ ،‬وہ اں ت و اخالقی ات اور‬
‫جنگ میں ویسی ہی بیگانگی ہے جیسی بیگانگی اخالقیات اور علم‪،‬سیاست اور‬
‫معیش ت کے م ابین ہے۔ان کے ہ اں یہی فک ر غ الب ہے کہ‪ :‬مقاص د ذرائ ع ک و‬
‫(‪)131‬‬
‫منطقی بنا دیتے ہیں۔‬
‫مغرب آج بھی طاقت کی حقانیت پر ایمان رکھتا ہے نہ حق کی ط اقت پ ر۔‬
‫اور اس ی ک ا ای ک شاخس انہ س المتی کونس ل میں ویٹ و ک ا اص ول ہے ج و کہ‬
‫غاصب دشمن اسرائیل کے تحفظ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔‬
‫جہاں تک ہمارے ہاں جنگ ک ا تعل ق ہے ت و یہ دین و اخالق کے ت ابع اور‬
‫احکام ش ریعت کی پابن د ہے۔یہ پابن دی جن گ س ے پہلے بھی ہے‪،‬دوران جن گ‬

‫‪131‬‬
‫‪ -‬یعنی اگرکسی ملک نے کسی بھی وجہ سے یہ طے کر لیا کہ اس نے دوسرے ملک‬
‫پ ر چڑھ ائی ک رنی ہے ت و اب اس مقص د کے حص ول کے ل یے وہ کس ی قس م کی‬
‫اخالقیات کا پابند نہیں ہے۔مترجم۔‬
‫‪84‬‬
‫بھی اور جنگ کے بعد بھی۔‬
‫‪ -94‬رنگ و نسل کی برتری کا نظریہ‪:‬‬
‫میں نے اس نظریے کا بطالن واضح کیا جو تاریخ کے مختل ف ادوار میں‬
‫مغرب میں رائج رہا‪،‬اور یہ نظریہ علم یا دین کی منطقی بنیاد پر قائم نہیں ہے۔‬
‫میں نے بیان کی ا کہ نس لی برت ری کے نظ ریے کے پھیالو کی ای ک وجہ‬
‫تورات کی تعلیمات ہیں جس پر اہل مغرب ایمان رکھ تے ہیں‪،‬اور جس نے ب نی‬
‫اسرائیل کو ہللا کی برگزیدہ قوم قرار دے دیا‪،‬تو پھر اس میں ک وئی اچنبھے کی‬
‫بات نہیں کہ وہ سفید فام کی برتری کا نظریہ قبول کر لیں۔‬
‫‪ -95‬بچوں‪،‬عورتوں‪،‬بوڑھوں اور راہبوں کے قتل کا جواز‪:‬‬
‫میں نے جمہ ور کے م ذہب ک و ت رجیح دی ہے کہ اس وقت بچ وں‪،‬‬
‫عورتوں‪ ،‬بوڑھوں اور راہبوں کو قتل کرنا جائز ہے جبکہ وہ جنگجو ف وج کے‬
‫ساتھ مل کر عملی جنگ میں شریک ہوں‪،‬اس لیے کہ یہ عق ل کے زی ادہ ق ریب‬
‫ہے اور ہمارے زمانے کے زمینی حقائق سے مط ابقت رکھت ا ہے‪،‬اس ل یے کہ‬
‫ہم آج ان ص ہیونیوں (‪)132‬ک و دیکھ تے ہیں جنہ وں نے ہم اری زمین غص ب‬
‫کی‪،‬اور فلسطین میں ہمارے لوگ وں ک و بے گھ ر کی ا اس کی ف وج م ردوں اور‬
‫عورتوں دونوں جنسوں پر مشتمل ہے‪ ،‬اور عورتوں کی اس قسم سے بھی وہی‬
‫برتاؤ کیا جائے گا جو کہ ہر جنگجو سپاہی کے ساتھ کیا جاتا ہے۔‬
‫‪ -96‬نہ دشمن کا مثلہ (‪)133‬جائز ہے اور نہ ہی اس کے جانوروں کا‪:‬‬
‫‪132‬‬
‫‪ -‬صہیونیت در حقیقت لفظ صہیون سے اخذ ک ردہ ہے ص ہیون یروش لم کے ق ریب‬
‫واقع ایک پہاڑی کا نام ہے بعد ازاں پورے یروشلم کو صہیون کہا ج انے لگ ا ۔ص ہیونیت ک ا‬
‫بانی تھیروڈ ہرٹزل ایک صحافی تھا۔ صہیونیت کی ابتدا کا اصل س بب ی ورپ اور روس میں‬
‫سامی نسل کی مخالفت تھی۔ اسی مخالفت کو کم ک رنے کے ل یے کچھ س یکولر یہودی وں نے‬
‫اس سیاسی تحریک کا ٓاغاز کیا اور ایک یہودی ریاست کو اس مس ئلہ ک ا ح ل ق رار دی ا۔ اس‬
‫کے برعکس عام یہودی اس نظریہ کے قائل ہیں کہ خدا نے ان سے عہد لی ا ہے کہ وہ ای ک‬
‫مخصوص وقت تک حکومت نہیں بنائیں گے اور نہ ہی یروشلم کو بزور طاقت حاصل کریں‬
‫گے۔ یہی وہ بنی ادی اختالف ہے ج و یہودی وں اور ص ہیونیوں کے درمی ان پای ا جات ا ہے۔ان‬
‫یہودیوں کو ٓارتھوڈاکس کے نام سے جانا جاتا ہے ۔یہ یہودی اسرائیل کے وجود کے مخ الف‬
‫‪http://irak.pk/the-anti-semitic-view-of-the-zionist-state‬ئ‪/‬۔ ت‬
‫ق‬ ‫ت ن‬ ‫ن‬ ‫ہیں ۔‬
‫ن‬
‫ے۔ دی م عرب وں می ں ی ہ رسم را ج ھی کہ ج گ کے‬ ‫‪133‬‬
‫‪-‬مث لہ کرے سے مراد الش کی ب‬
‫ے حرم ی کر ا ہ‬
‫‪85‬‬
‫میں نے جنگ میں عمومی طور پر مثلہ سے ممانعت کو ت رجیح دی‪،‬یہ اں‬
‫تک کہ اگر دش من ہم ارا مثلہ ک رے ت و بھی ہم اس ک ا مثلہ نہیں ک ریں گے‪،‬اس‬
‫لیے کہ ہمیں اس س ے من ع ک رنے والی چ یز(ش ریعت) موج ود ہے جبکہ انہیں‬
‫روکنے والی کوئی چیز نہیں‪،‬بلکہ ان کے جانوروں کا مثلہ ک رنے کی بھی نہی‬
‫وارد ہ وئی ہے کہ اگ ر جنگی ض رورت ک ا تقاض ا ہ و کہ ہم انہیں ان‬
‫(جانوروں)کے گوشت سے محروم کریں تو ہم ان ک و ذبح ک ریں گے ت اکہ مثلہ‬
‫نہ ہو‪،‬اس کے بعد انہیں محروم کریں گے۔‬
‫‪ -97‬معاہدوں اور پیمانوں کی رعایت اور دھوکہ دہی و خیانت کی حرمت‪:‬‬
‫میں نے بیان کیا کہ معاہدوں کی پاس داری کرن ا اور غ داری کی ہ ر ش کل‬
‫کو حرام قرار دینا اسالم کی جنگی اخالقی ات میں س ے ہے۔اور میں نے واض ح‬
‫کیا کہ اس الم کی فض یلت اور خوبی وں میں س ے ای ک یہ ہے کہ وہ دش من کے‬
‫ساتھ اس کے عمل کی طرح کا مع املہ ک رنے کی اج ازت نہیں دیت ا‪،‬کہ ان کے‬
‫ساتھ انہیں کے پیمانے کے ساتھ مع املہ کی ا ج ائے‪،‬ان کی دھ وکہ دہی ک ا ب دلہ‬
‫دھوکہ دہی اور خیانت کا بدلہ اسی طرح کی خیانت سے دی ا ج ائے۔بلکہ اس الم‬
‫اقدار اور اصولوں پر پابندی کے ساتھ قائم رہنے کو مسلمانوں کے ل یے ف رض‬
‫گردانت ا ہے چ اہے ان ک ا دش من ان میں اف راط و تفری ط س ے ک ام لے۔ کی ونکہ‬
‫رسول ہللاﷺ کا ارشاد گرامی ہے‪:‬‬
‫"أ ِّد األمانة إلى من ائتمنك‪ ،‬وال تخن من خانك"‬
‫" ج و تمہیں ام انت دے اس کی ام انت واپس ک رو اور ج و تمہ ارے س اتھ‬
‫(‪)134‬‬
‫خیانت کرے تم اس کے ساتھ خیانت مت کرو۔"‬
‫‪ -98‬جن‪##‬گ میں تب‪##‬اہی مچ‪##‬انے س‪##‬ے بچ‪##‬نے ک‪##‬ا اص‪##‬ول‪ ،‬جن‪##‬گ میں غ‪##‬یر‬
‫ضروری درخت نہ کاٹا جائے اور نہ ہی کوئی عمارت منہدم کی جائے‪:‬‬
‫میں نے ان چیزوں کی تباہی کی حرمت کو راجح قرار دی ا جن کی لوگ وں‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ق ق‬
‫ن‬
‫ے ج اے والے د م وں کے ناک ‪،‬کان اور دیگر اعضاءکاٹ دیے جاتے تھے۔‬ ‫شمو ع پر ت ل کی‬
‫آتش‬
‫ِ‬ ‫کل و صورت کو بگاڑ دیا جاتا تھااور الش کی بے حرمتی اور پامالی کرکے اپنی‬
‫انتقام کو سردکیاجاتا تھا۔اسالم نے آکر نے دورا ِن جنگ بھی باقاعدہ اص ول و ض وابط‬
‫کا تعین کیا‪ ،‬اور مثلہ کرنے سے روک دیا۔ الجہاد االکبر۔ ‪34‬۔‬
‫ن‬ ‫‪134‬‬
‫‪-‬س ن ترمذی‪ ،‬حدیث نمبر ‪.1264‬‬
‫‪86‬‬
‫کو جنگ میں ضرورت نہیں ہ وتی‪ ،‬جیس ا کہ درخت کاٹن ا‪ ،‬کھیت وں ک و جالن ا‪،‬‬
‫گھروں کو ڈھانا‪،‬آبادی کو تباہ کرنا اور پی نے کے پ انی ک و آل ودہ کرن ا‪،‬اس کی‬
‫جنگ میں ضرورت نہیں‪ ،‬اور میں نے ان پر رد کیا جنہوں نے بخ اری کی اس‬
‫روایت سے استدالل کی ا ج وکہ آپ نے گھ روں اور نخلس تانوں ک و جالنے کے‬
‫باب میں بیان کی ہے اور اس میں ذو الخلصہ( ‪ )135‬ک و ت وڑنے اور اس ے آگ‬
‫لگانے‪ ،‬اور بنی‬
‫(‪)136‬‬
‫نضیر کے نخلستان کو آگ لگانے کا واقعہ ذکر کیا ہے۔‬
‫میں نے واض ح کی ا کہ ذی الخلص ہ ک و توڑن ا کھی تی ک و آگ لگ انے ی ا‬
‫گھروں کو جالنے کے زمرے میں نہیں آتا‪ ،‬بلکہ یہ بتوں ک و ت وڑنے کے ب اب‬
‫میں آتا ہے ج و کہ باط ل اور گمراہی وں ک ا گ ڑ ش مار ہوت ا ہے۔ اور یہ کہ ب نی‬
‫نضیر کا نخلستان جالیا جانا بذات خ ود مقص د نہیں تھ ا بلکہ جنگی ض رورتوں‬
‫کی قبیل سے اس کی ضرورت بھی مجبورا پیش آئی۔‬
‫‪ -99‬حربی کو خفیہ طریقے سے قتل کرنے کا جواز‪:‬‬
‫میں نے حربی کو خفیہ طریقے سے قتل کرنے کے ج واز ک و ت رجیح دی‬
‫ہے جیس ا کہ اس ک و اعالنیہ قت ل کرن ا بھی ج ائز ہے‪،‬اور میں نے یہ اس تدالل‬
‫کعب بن اشرف کے قتل کے واقعہ سے کیا ہے‪،‬اسے اس ل یے قت ل کی ا گی ا تھ ا‬
‫کہ اس نے نبی اکرمﷺ کے س اتھ کی ا گی ا معاہ دہ ت وڑا تھ ا اور آپ کے خالف‬
‫جنگ میں مدد دی تھی اور آپ پر ہجو کیا تھا۔‬
‫‪ -100‬ضرورت کی وجہ سے جنگ میں جھوٹ بولنا‪:‬‬
‫میں نے بیان کیا کہ جنگ میں اخالقیات کا اسالمی قانون سخت ہ ونے کے‬
‫‪135‬‬
‫‪ -‬ذوالخلصہ یمن میں ایک بت خانہ تھا جس کو کعبہ یمانیہ کہ ا جات ا تھ ا اس بت خ انہ‬
‫میں ایک بہت بڑا بت تھا جس کا نام " خلصہ " تھ ا‪ ،‬اس الم س ے پہلے کے زم انہ میں‬
‫یمن کے قبائل دوس خثعم اور بجیلہ اس بت کو پوجتے تھے اس الم ک ا زم انہ آنے کے‬
‫بعد بھی بعض قبائل میں ابھی توہم پرستی باقی تھی اور وہ ایسے بتوں اور معبدوں ک و‬
‫ہ اتھ لگ انے س ے ڈرتے تھے‪،‬آنحض رت ص لی ہللا علیہ و آلہ وس لم نے ذولخلص ہ ک و‬
‫مسمار کرنے کے لیے حضرت جریر ابن عبد ہللا بجلی ک و یمن روانہ کی ا‪،‬جنہ وں نے‬
‫جا کر ذولخلصہ اور اس کے معبد ک و منہ دم ک ر کے ٓاگ لگ ا دی۔الحم وي‪ ،‬ياقوت بن‬
‫عبد هللا‪1993 .‬م‪ .‬معجم البلدان‪ .‬بيروت‪ :‬دار صادر‪.2:383 .‬‬
‫‪136‬‬
‫‪ -‬ابن سعد‪ ،‬محمد۔‪2008‬ء۔ طبقات ابن سعد ۔ کراچی‪ :‬نفیس اکیڈمی ۔ ‪02:91‬۔‬
‫‪87‬‬
‫ساتھ واقعی بھی ہے کہ ضرورت کے بقدر احک ام الگ و کرت ا ہے‪،‬ت و وہ جن گ‬
‫میں جھوٹ کی اجازت دیتا ہے کی ونکہ جن گ دھ وکہ دہی ک ا ن ام ہے۔بلکہ میں‬
‫نے ترجیح دی کہ بسا اوق ات جھ وٹ جن گ میں نہ ص رف ج ائز ہوت ا ہے بلکہ‬
‫واجب ہو جاتا ہے‪،‬مثال کے طور پ ر ک وئی مس لمان قی دی بن ج ائے ی ا اس ک ا‬
‫دش من اس ے گرفت ار ک ر لے اور اس س ےبعض ایس ی چ یزوں کے ب ارے میں‬
‫پوچھ گچھ کرے جن کا ش مار جنگی رازوں میں ہوت ا ہ و اور ان ک ا ف اش کرن ا‬
‫مسلمانوں کو نقصان پہنچائے اور انہیں تکلیف دے (تو اس صورت میں جھوٹ‬
‫بولنا واجب ہو جاتاہے)۔‬
‫اور اگر کسی بے گناہ فرد کو بچانے کے لیے جھوٹ بولنا واجب ہے ت و‬
‫وطن اور امت کو بچانے کے لیے جھوٹ بولنا کیسا ہو گا؟‬

‫حصہ دوم‬
‫‪88‬‬

‫ساتواں باب‪ :‬جنگ کا اختتام کیسے‬


‫ہوتا ہے؟‬

‫(ساتواں باب‪ :‬جنگ کا اختتام کیسے ہوتا ہے؟)‬


‫‪ -101‬دشمن کے ساتھ دس سال سے زی‪##‬ادہ عرص‪##‬ہ کے ل‪##‬یے جن‪##‬گ بن‪##‬دی‬
‫کرنے کا جواز‪:‬‬
‫میں نے مسلمانوں کی مصلحت کے مطابق دشمن کے ساتھ دس سال س ے‬
‫زائد عرصہ کے لیے جنگ بندی کے جواز کو راجح ق رار دی ا اور میں نے ان‬
‫کا رد پیش کیا جو رسول ہللا ﷺ کی پ یروی میں دس س ال س ے زائ د م دت ک و‬
‫ناجائز سمجھتے ہیں۔‬
‫میں نے بتایا کہ رسول ہللاﷺ کا فعل اسی مدت کے وجوب پ ر داللت نہیں‬
‫کرتا‪،‬بلکہ محض جواز پر داللت کرتا ہے‪،‬اور خاص ط ور پ ر ش رعی سیاس ت‬
‫کے باب میں جو کہ جلب منفعت اور دفع مضرت کے اصول پر قائم ہے۔‬
‫‪ -102‬امن کے لیے جھکنے کی آیات منسوخ نہیں محکم ہیں‪:‬‬
‫میں نے راجح قرار دیا کہ وہ آی ا ت منس وخ نہیں ہیں ج و کف ار کی ط رف‬
‫سے صلح صفائی کا مطالبہ آنے پر اسے قبول کرنے پ ر ابھ ارتی ہیں‪،‬اور میں‬
‫نے ان پر رد کیا جنہوں نے یہ دعوی کیا کہ آیۃ السیف نے اسے منسوخ کر دیا‬
‫ہے۔‬
‫‪ -103‬قائد کی طرف سے دشمن سے صلح کا مطالبہ کرنے میں پہل کرنے‬
‫کا جواز‪:‬‬
‫میں نے قائد کی طرف سے دشمن کے ساتھ صلح کرنے کے مطالبے میں‬
‫‪89‬‬
‫پہل کرنے کے جواز کو راجح ق رار دی ا جبکہ وہ اس میں مس لمانوں کے ل یے‬
‫مصلحت سمجھے‪،‬اور یہ اس پر موقوف نہیں کہ مطالبہ کی ابت دا ان کی ط رف‬
‫س ے ہ و‪،‬جیس ا کہ ام ام ابن القیم اور عالمہ مرغین انی حنفی اور ان کے عالوہ‬
‫دیگر ائمہ کی رائے ہے۔‬
‫‪ -104‬ذلیل ہو کر ہاتھ سے جزیہ دینے کا مطلب‪:‬‬
‫میں نے ترجیح دی کہ ہللا تعالی کے فرم ان ک ا مطلب ان کی ت ذلیل اور ان‬
‫کی تحقیر کرنا نہیں‪ ،‬بلکہ وہ تفسیر مراد ہے جو امام ش افعی نے کی کہ ص غار‬
‫سے مراد ان پر اسالم کا حکم الگ و کرن ا ہے‪،‬یع نی ان ک ا اس الم کے ش ہری و‬
‫سیاسی نظام کے لیے جھکنا۔‬
‫قبول کرنا‪ :‬ئ خ‬ ‫ف‬
‫تمام کفار سے جزیہ‬
‫ت‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫‪-105‬ن‬
‫گا‪ ،‬واہ توہ قاہ ل کت اب ہ وں ی ا ب ت‬
‫می ں ے ر ی ح جدی کہ ج زی ہ مام ک ار سے ل ی ا ج اے ق‬
‫ے کہ ی ہ اسالم کے ب ی ن اال وامی عل ات می ں عمومی رخ ی ا‬ ‫رست‪،‬عربی ہ وں ی ا ع می‪،‬اس یل‬ ‫ف ف‬ ‫پ‬
‫خ‬ ‫ے۔‬ ‫کے م طاب شق ہ‬ ‫عمومی لس ہ ن ن‬
‫ے اور کسی پر اسالم می ں دا تل‬ ‫ہ‬ ‫لے کر آی ا ق‬‫ے عمومی دعوت ش خ‬ ‫کے ی‬
‫ل‬ ‫ت‬ ‫وع ب ر‬ ‫ن اسالم ب ی ن‬
‫ے ص کو مو ع دی ت ا ت ن‬
‫اس کے سا ھ‬ ‫ےجو ہ خ‬ ‫ہ‬ ‫ے اسالم ایس ش‬ ‫ے جن بر ہی قں کر ا‪،‬اس یل‬ ‫قہ وے کے یل‬
‫مال رچ کر کے‬ ‫ہ‬
‫ے اس کا رح صدر و کہ خوہ ھوڑان‬ ‫س‬
‫ت الن کرے اور ف ہ ی ب ول اخ الم کے یل‬
‫ئ‬ ‫ہ‬
‫ے جمبور‬ ‫کے د اع می ں دا ل ہ و ج اے‪،‬اور اسے اسالم می ں دا ل ہ وے کے لی‬ ‫نمسلما وں ئ‬
‫ہی ں ک ی ا ج اے نگا۔حق ق‬
‫ے کہ وہ اسالمی ری است کے حکمران‬ ‫ہ‬ ‫المت‬ ‫ع‬ ‫کی‬ ‫ات‬ ‫ب‬ ‫اس‬ ‫ت‬ ‫ت اورمج زی ہ دی ا در ی ی‬
‫ن‬ ‫ے۔ ق‬ ‫کا اب ع و طی ع ہ‬
‫‪ -106‬ج‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫نزی ہت جکی م دار کا ب دل ا‪ :‬ق‬
‫ے‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫ے‬
‫طب ت ل ی ت ب ی ت نہ‬‫ی‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ماحول‪،‬زما‬ ‫ر‬ ‫دار‬
‫ی ت تہ‬ ‫م‬ ‫کی‬ ‫ہ‬ ‫ز‬ ‫ج‬ ‫کہ‬ ‫دی‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ے‬ ‫می ں‬
‫ہ‬ ‫کب ش‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ن‬
‫گ‬ ‫ے ہ ی ں‪ ،‬ھی ک ادہ قحال خوے ہ ی فں و ک نھی ن‬ ‫ےر ن‬ ‫ل‬ ‫حاالت ھی تب د‬ ‫ت‬ ‫یک و کہ لوگوں کے‬
‫ادار۔اور پ نیسوں کی وت ریندق می ں رق ظرو ما ہ وے‬ ‫ق‬ ‫دست‪ ،‬کب ھی قمالدارہ وے ہ ی ں و قکب ھی‬
‫ش‬
‫ے می ں ب ہت ب ڑا صان ب لکہ لم امل‬ ‫ک‬
‫ے می ں ج زی ہ کی م دار کو بر رار ر ھ‬ ‫اور اس کےن م اب ل‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ے۔‬ ‫ے ج و ہللا کو اتپ س ن د‬
‫ق‬
‫ئاست کے ح وق پ امال ہ وے‬ ‫ے سے) اسالمی یر‬
‫ن‬ ‫ہ اور کب نھی و (ج ز ہ کی م دار ر رار رک‬
‫ق‬ ‫ہ‬
‫ھ‬ ‫قی خ ب‬
‫ے۔‬ ‫ب کر سی کی وت ری دقمی ں ب تہت زی ادہ گراوٹ آ ج ان‬ ‫ہں‬
‫ی ج ب ہت‬
‫کی م دار کا عی ن ہ ر ماحول اور زماے کے لوگوں کے حاالت کے‬ ‫ئ‬ ‫اس‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫تی ہ‬ ‫ہ‬ ‫ر‬
‫م طابق اج ہاد پر چ ھوڑ دی ا ج اے۔‬
‫‪90‬‬
‫‪ -107‬جنزی ہ کا معاہ دہ کون طے کرے گا؟‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫تت‬ ‫تج‬
‫گ ب ن دی کر ا ری است اور اس‬ ‫می ں ے ر ی ح دی نکہ ذ یم فوں کےٹسا ن ھ معاہ دہ قکر ا ی ا ج غ‬
‫ندہ‬ ‫ہ‬ ‫موں ی ائ ن ب ی لوں و ی رہ کا‪،‬اس یل‬ ‫ے ہ کہ ا راد‪،‬چ ھو ی ظ ی‬ ‫کے حکمران کا کام ہ‬
‫ے ایسا ا ت خ م معاہ‬ ‫ن‬ ‫مم‬
‫ے اس کی ما دگی ی ا اس کی طرف سے دس ط کرے‬ ‫وہ ی طے کرے ج و سرب راہ لکت ہ و‪،‬ی ا جس‬
‫ت ق ن‬ ‫و۔‬ ‫کا حق حاصل ہ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے والےدسا ی ر و وا ی ن می ں طے‬ ‫ش اور ی ہ معاملہ ج دی د د ی ا کے س ی اسی ز دگی کو ر ی ب دی‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ے۔‬ ‫دہ ہ‬
‫ہت‬ ‫ے کی وج ہ‪:‬‬ ‫الزمی رار دی‬ ‫ن یم وں پر ج زی ہ غ‬ ‫‪ -108‬ذ‬
‫ے ہ ی ں اور اس کی‬ ‫ے ب ی ان ک ی ا کہ ج و ی رمسلم اتسالمی ری است کے زینرسای ہ ر‬ ‫می ں ت ف‬
‫ئ‬ ‫م‬ ‫ص‬ ‫س‬
‫کے‬ ‫ث‬
‫مولی ج ضزی ہ عا د مکرست ن‬ ‫ف‬ ‫ع‬ ‫نر اسنالم ے‬ ‫طرف نسے ح ظ کی ہولت حا ل کرے ہ ی ں ان پ‬
‫ے کہ افسالم فے ا ہی ں ع کری ری ہ سے ی‬ ‫س‬ ‫ے‪،‬اسف یل‬ ‫سے کام ل ی ا ہ‬ ‫ن‬ ‫قب الکل ا صاف‬
‫خ‬
‫ن کی ح ی ث ی ت سے ی ہ دمت‬ ‫رض ک ای ہ ی ا رض عی ت ف‬ ‫ہ‬
‫ے پ یروکاروں پر ی ف‬ ‫ے۔اور اپ‬ ‫رار دی ا قہ‬
‫ت است‬ ‫س‬
‫کی۔ ا المی ری‬ ‫ذمہ داری وی ض ق‬ ‫ان کو ری است کے د اع کی ف‬ ‫دی اور‬ ‫عواقج ب رارم ن‬
‫ے جس کے فد اع می قں صرف وہ ی ت ال کرے ہ ی ں‬ ‫ی‬
‫ہ‬ ‫است‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫سی‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ج ن ی دے پر ب ی‬
‫ا‬ ‫ی‬
‫ہ‬ ‫ی‬
‫حت اور اس کی سالمت کری نپر ی ن و۔‬ ‫ہی ں اس کی اساس کی صن‬
‫ک‬ ‫ے ہاد کی ذمہ داری کو مس ما وں ت‬
‫ے‬ ‫ے‪،‬اس لی‬ ‫ہ‬ ‫ا‬‫ھ‬ ‫ر‬ ‫حدود‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫سے اس فالم ض سج ت‬ ‫ق‬ ‫اسی وج نہ‬
‫س‬
‫ے جس کے ذری عہ م لمان‬ ‫ے اور ای ک ع ب ادت ہ‬ ‫دس ریتہ جم ھا ج ا ا ہ‬ ‫کہن ی ہ ای ک قدی ی م‬
‫ص‬
‫ت ف‬ ‫ف‬ ‫ق‬ ‫ں۔‬ ‫ربشحا ل کرے ہ ی ن‬ ‫ے رب کا‬
‫پ اور غ رمس‬
‫ا‬
‫نکے د اع اور حت ظ کے‬ ‫وں پر اسالم ے ی ہ خالزم رار دی ا کہ وہ وطن‬ ‫ین‬ ‫ہر‬ ‫لم‬ ‫ی‬ ‫خ‬
‫ے م عی ن ک ی ا‬ ‫ے وہ راست ہ ا ت نی ار کری ں(ج نو استالم ے ان کے لی‬ ‫ے کے لی‬ ‫ڈا‬
‫ح ل‬ ‫صہ‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ات‬ ‫ج‬ ‫را‬ ‫ا‬
‫ت ت‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬
‫ن ج جن ج ہ‬‫ا‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫ام‬ ‫کے‬ ‫ہ‬ ‫ی ی‬‫ز‬ ‫ج‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫الح‬ ‫ط‬ ‫ا‬ ‫المی‬
‫ہ ت ج قق ص‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ے‬‫س‬ ‫اور)‬ ‫ے‬
‫المت کے سا ھ سا ھ اس‬ ‫ع‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫ھ‬ ‫ے‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫کومت‬ ‫ح‬ ‫المی‬ ‫س‬ ‫و ج زی ہ درح ی ت ا‬
‫ئ‬ ‫ج مسم ن ک ئ‬ ‫ب‬ ‫ض‬
‫ے۔‬ ‫ے و لما وں پر عا د کی گ ی ہ‬ ‫عسکری ذمہ دارینکا مالی معاو ہ ھی ہ‬
‫ف‬ ‫فئ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫مصاتل جحا ہ ج زی ہ‪:‬‬ ‫‪-109‬ن‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ص‬ ‫س‬
‫ے و مصالحا ہ ج زی ہ ک ار‬ ‫ت سا ھ لح و ص ا ی کے ی‬ ‫می ں ے ر ی ح دی نکہ م ما وں کے‬
‫ے نہ‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫اشپ خنی رض ا م ن دی سے مس ما وں لکو پ یش کرے ہ ں ن ہ اس کی واج بلم ق دار کی ع‬
‫ی ہ‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫ن ق‬ ‫ل‬
‫ے۔‬ ‫نہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫وا‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫کس‬ ‫کہ‬ ‫کی‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫اور‬
‫ص کی کہ کس پر واج ہ ن‬
‫ے‬ ‫ب‬
‫ص‬
‫ئم ی ان وے والے معاہ دے پر‬ ‫ہ‬ ‫اس سب کا دارومدار مسلما وں اور ا لن لح کے در‬
‫ہ‬
‫ح‬
‫عاملہ ارب تاب ل و‬ ‫ے کہ اسے واج ب ہی ں کہا ج اے گا ب لکہ ی ہ‬ ‫گ‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ص‬ ‫ب‬ ‫ش‬ ‫ے‪،‬اور نا لی ب ات یقہ ہ‬ ‫ہ‬‫ق‬
‫ئج ا ب سے م اصد ری عت کی ج ا آوری اور امت کی م لحت پر مب ی اج ہاد پر چ ھوڑ‬ ‫ع د کی‬
‫ف‬ ‫ف‬ ‫دی ا ج اےشگا۔‬
‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ق‬
‫ےہی ں)‬ ‫ے کہ (نج یسا کہ م ب ی ان کر چ ک‬ ‫ے اس یل‬ ‫ہ‬ ‫ادگی کی ہ‬ ‫ف ق لاور ن رعی فس یقاست کی ہ کف ق ق‬
‫ب‬ ‫م‬ ‫فق‬
‫ے۔‬ ‫ی ہ ہ ا مواز ات‪ ،‬ہ قاالولوینات‪ ،‬ہ الم اصد اور ہ المآالت پر ی ہ‬
‫‪ -110‬ج زی ہ کا سا ط ہ و ا‪:‬‬
‫‪91‬‬
‫ن‬ ‫ش‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫خ‬ ‫ن‬ ‫ن تج‬
‫می نں ے ر ی ح دی کہ ذ یمفوں کا اسالم د مشوں کے الف م لقما وں تکے سا ھ ل کر‬ ‫ق‬
‫ن‬
‫ے‪،‬اور چ و کہ‬ ‫تی ہ سا ط ہ و ج ا ا ہن‬ ‫رکت سے ج ز‬ ‫کے د اع می ں ان کی ت‬ ‫ت ال کر ا اورندار االسالم ف‬
‫ے ج اقے ہ ی نں ئاور تمسلما وں ہ ی کی‬ ‫ذمی وج می ں الزمی طور پر ب ھر ی یک‬ ‫ہ مارے زماےف می ں ت‬
‫ے ان پر سے ج زی ہ سا ط ہ و ج ا ا کو ی جع ب کی ب ات‬ ‫نطرح وطن کا د اع کرے ہ ی ں اس یل‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ے ٹن‬ ‫پ‬ ‫حت‬ ‫ہی ں۔ ف‬
‫کے ل ف کر کو ہ الکت میتں ن ہ ڈال ن ا‪:‬‬ ‫ت‬ ‫وں‬ ‫ما‬ ‫ل‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ش‬‫اور‬ ‫ا‬ ‫ھ‬
‫نچ ہ‬ ‫ی‬ ‫سے‬ ‫ہاد‬‫ئ‬ ‫ی‬
‫م ج‬ ‫مزا‬ ‫اور‬ ‫اعی‬
‫ن تج‬ ‫‪ -111‬د‬
‫ح‬
‫می ں ے ر ی ح ف ظدی کہ لڑا قی کرےق والے د فمن کےتسا ھ دئاعی و مزا م ی جق ہاد می ں‬
‫امات کا د اع کرے ہ وے دل و ج ان رب ان کر‬ ‫ش‬ ‫اور م دس م‬ ‫زمین ن اور لعزت کی ح ا تت ن‬
‫ڈال تدی ا‬ ‫ق‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫الکت‬ ‫ں‬
‫ی شہ‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ر‬ ‫ع‬ ‫ی م‬ ‫ے‬‫س‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫ورے‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫پ‬ ‫کہ‬ ‫ں‬ ‫ے ی کن اسق حد ک ت ی‬
‫ہ‬ ‫دی ائچ اہ ی‬
‫و۔اور ی ہ اسالمی ری عت کے وا عا ی‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫عم‬ ‫ے جس می ں طا تج می ں وازن ی فا ارب فہ ض‬ ‫ج ان‬
‫ے۔‬ ‫پی ہ‬ ‫را‬ ‫ل‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫اصول‬ ‫کے‬ ‫رت‬ ‫م‬ ‫ع‬ ‫د‬ ‫اور‬ ‫عت‬ ‫ف ت‬ ‫م‬ ‫لب‬ ‫ج‬ ‫کہ‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫سے‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫ہو‬
‫ت‬ ‫امام عز الدی ن ب ن پع ب دال ٹسالم رماے ہ ی ںئ کہ‪:‬‬
‫ق‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ے ن‬ ‫ن‬
‫ہ‬
‫صورت می ں واج ب و ج ا ا‬ ‫ئ‬ ‫کن اس‬ ‫غ‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ڑی برا ی‬ ‫ف‬ ‫ب‬ ‫ئ ا ب ہت‬ ‫" ج گ کے دن یچ ھ ہ‬
‫ت‬
‫ےخشکہ‬
‫ت ب ان‬ ‫گے‪ ،‬اس یل‬ ‫ے ب یر ل ہ و ج ا ی ں تق‬ ‫ے ج کب کہ ی ہ م نعلومئ ہ و ج اے مسلمان کا روں کو پ س تپ اش یک‬ ‫ہ‬
‫ے تکہ شاس می ں مسرکوں کو زیر کر کے دی ن کو ن وی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ج شان ج و ھم می ں ڈال ا ج ا ز ہ ئی اس ی‬
‫ل‬
‫ے یک و کہ (ای سی‬ ‫ص ن‬
‫ش‬ ‫نج ب نہ‬ ‫ست لی م ئکر لی ن ا وا‬
‫ض‬ ‫ے‪،‬اور جٹب پ س پنا ی حا ل ہ ہ و و ک ن‬ ‫پو ی دہ ہ‬
‫ے وہ ی ں‬ ‫ن ں ا ع نوے کا ا دی نہ ہ ق‬ ‫ہ‬ ‫ہاں ب ٹہت سی ج ا ی‬ ‫ہ‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ے سے ج ک‬ ‫ں)نڈے ر ن‬
‫ب‬ ‫پ‬
‫حالت می‬ ‫ف‬
‫مو عف ھی‬ ‫ئ‬ ‫ے کا‬ ‫ل‬ ‫ے قھ ڈے کرے اور لما وں پر دب ناو ڈا‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ل‬
‫ی‬ ‫کر)‬‫ن‬ ‫ھڑاس کال‬ ‫ق‬ ‫ث‬ ‫ی‬ ‫(ا‬
‫ق‬ ‫کو‬ ‫روں‬ ‫کا‬
‫ئ‬ ‫م‬
‫ے می ں کو ی ا دہ‬ ‫ے جس کے جی‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫مو‬ ‫کا‬ ‫صان‬ ‫حض‬ ‫ا‬ ‫ھا‬ ‫ک‬ ‫د‬ ‫دمی‬ ‫ت‬ ‫اب‬ ‫ر‬ ‫نم ن ی ت پ‬
‫ع‬ ‫مو‬ ‫ے‬ ‫س‬ ‫گاا‬ ‫ے‬
‫ل‬
‫ش‬ ‫ظ ر ہی ں آ ا۔" ن‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫ن غ‬ ‫ش‬ ‫ئ‬ ‫واز‪:‬‬ ‫ٹ‬ ‫ج‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫کو‬ ‫وں‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫د‬ ‫کے‬ ‫ان‬
‫ئ‬ ‫مال‬ ‫کا‬ ‫وں‬ ‫‪ -112‬ف مسلما‬
‫ئ‬
‫ے می ں چ ھو ی برا تیج کو بردا ت کرے کی رض‬ ‫دے‪،‬اور ب ڑی برا تی کے م اب ل‬ ‫زی ادہ ا ش‬ ‫ن‬
‫ج‬ ‫ص‬
‫کے سا ھ اس شطور پر لح کے واز کو ر ی ح دی جس کے عوض می ں‬ ‫سے نمی ں ے رکی ن ت‬
‫ے جشس کے‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫مس ما وں کے مسات ھ چک ھ ز اد ی ہ نو‪،‬اور ہ رعی س است کی وسعت کی دل‬
‫ئ ہ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ت ئی‬ ‫ل‬
‫ے کا حل ری عت‬ ‫ے ہ وے مسلما وں کا سرب راہ ی ا حکمران کسی ب ھی مس ل‬ ‫دائ رے می ں رہ‬
‫ن‬
‫ق‬ ‫ین‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ڈ‬ ‫اسالمی می ں ت‬
‫ڈھو‬
‫ن‬ ‫ک‬
‫‪ -113‬ذا ی لحت کو د ی لتحت پر م تدم ر ھ ا‪:‬‬ ‫ص‬ ‫م‬ ‫ص‬ ‫م‬
‫ن‬
‫ئمان غمی ں اس‬ ‫وں‪،‬ی اق گی س نازو سا‬ ‫ج‬ ‫ن‬ ‫ھوڑے ئ‬ ‫ہ‬ ‫ج ب ای سیظصورت ہ و کہ مسل تمان عداد می ش‬
‫پ‬ ‫ں ن‬ ‫ن‬ ‫غ‬ ‫ق‬
‫ے ب ی ر مارے‬ ‫ے بد منوں کو کو ی صان ہ چ ا ن‬ ‫وہ اپ‬
‫ن‬ ‫وں کہ غن الب ی ہی ہ نو ا ہ و کہ‬ ‫ئدر کمزور ہ ت‬
‫ے م ی دا وں می ں ج ہاد‬ ‫ےکہ وہ کھل‬ ‫کے یل‬
‫ے تج‬ ‫اس شرض سے مسلما توں کی ج ا ی ں چ ا‬ ‫ج ا ی ں گے و ن‬
‫ے کہ ان کو ہ الک‬ ‫نکو ر ی ح دی۔اس لی‬ ‫نکی ں می ں ے م رکی ن کے خسا ھ مصا نل قحت کے نج واز‬ ‫کر س‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫پ‬ ‫ن‬ ‫چ‬
‫ے کے م رادف و گا یک و کہ دی ن‬ ‫ے ھوڑ ن دی ا ب ذاتن ود دی ن کو قصان ہ چ ا ف‬ ‫ہ و نے کے یل‬
‫دی داروں اور اس کی صرت کرے والوں کی ب ا سے ہ ی مح وظ ہ و گا۔‬
92
‫‪93‬‬
‫ن‬ ‫ٹ‬
‫آ ھواں ب اب‪ :‬ج گ کے ب عد کے امور‬

‫ٹ‬
‫(آ ھواں ب اب‪ :‬ج ن گ کے ب عد کے امور) ت ق‬ ‫فق‬
‫س‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ن سی م‪:‬‬ ‫ہاء جکی ج ا ب سے د ی ا قکیق دار اال الم‪ ،‬دار الحرب اور دارالعہد می ں‬ ‫‪-114‬ن‬
‫ان‬ ‫عض‬ ‫ںےب‬ ‫م‬ ‫ے‪،‬اور‬ ‫ق‬ ‫طا‬ ‫ق‬‫ل‬‫ن‬ ‫ے ت ر ی ح دی کہ ہ سی م ح ی ت کے الک‬ ‫مفی قں‬
‫ت‬ ‫یت ف ن‬ ‫م ب نہ‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ن ی‬
‫سے ا اق ہی ں کرے‬ ‫ہ‬ ‫م‬
‫ہاءتپر رد ک یخا ت و د ی ا کے دو تی ا ی ن داروںق می ں ت سم وے ن‬ ‫ج‬
‫م‬ ‫معاصر ف ق‬
‫ے ب ی ان ک ی ا ئکہ عالم کو دو‬ ‫ی ن‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ں۔‬ ‫ی ہی‬ ‫ے‬ ‫د‬ ‫رار‬ ‫صہ‬ ‫ت ح‬ ‫کا‬ ‫خ‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ا‬ ‫حض‬ ‫اور‬ ‫راع‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ہاء‬‫ق‬ ‫اور اسے‬
‫ق‬ ‫ت‬
‫ے پر ب ڑی‬ ‫نل‬ ‫ےقاس مس‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ہ‬
‫حصوں می ں سی م فکر ق ا پ ل‬
‫ے‪،‬اور می ں ف‬ ‫عروف ھا اور آجن قھی ہ‬ ‫ے ھیئم ن‬
‫ن رار دی ا اور ب ت ای ا کہنکہ نہاء ے ی ہ سی م‬ ‫سوچ ب چ ار کےنب عد ہاء کی راے کو ا صاف پر ی‬
‫ب‬ ‫م‬
‫ن‬
‫ھڑی‪،‬اور ن ہ ہ ی نان کے زماے کے حاالت ے ا ہی ں اس پر جمبور‬ ‫ق‬ ‫ے اس سے ہی ں گ‬
‫سئ‬ ‫پ‬ ‫اپ‬
‫ق ن‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫نمی ں ان کا مر ع رآن و س ت ے۔‬ ‫ج‬ ‫ے‬‫ک ی ا‪،‬اس م ل‬
‫ے وہ آ ات ذکر ک ں ج و اس سیہم کی ان‬
‫ب اش ارہ ثکر ی ہ ی ں‪،‬اور پ ھر ان ترآ ی‬ ‫نق نج ن‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫می ں‬
‫سے چک ھ ع ب ار ی ں‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ج‬ ‫نش‬
‫ا ق ارات کے ضواز کی د ی نل کے طور پر می ں ے س ت ب وی اور آ ار صحاب ہ ی ن‬
‫ن ہ‬
‫الم‬‫داروں کی و ع نی داراالس ت‬ ‫ے دو‬ ‫ں نداروں کی ی ہ سی م( چ اہ‬
‫ن‬ ‫ی‬ ‫ل کی ں‪،‬اور وا ت ح ک ی ا تکہ د ی ا می‬
‫اور دار نالقحرب ی ا یقن ق‬
‫عہد)کت اب و س ت کی س د کے سا ھ‬ ‫ئ‬ ‫اور‬ ‫ق‬ ‫الم‪،‬حرب‬
‫ض‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫کی‬ ‫داروں‬
‫ب‬ ‫ئ‬ ‫ط‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ے جس کی ا ی د وا ح لی دال ل سے ھی و ر ی ہ‬ ‫ب ڑی م ی اور مع ول سی متہ‬
‫ئ تج‬ ‫ؒ‬ ‫ے ہ ی ں؟‬ ‫ے کہ‬ ‫نس‬ ‫‪ -115‬دار الحرب ک‬
‫ے کہ اگر کسی‬ ‫ے فکو ر ی ح ئدی تہ‬ ‫کی نرا ن‬ ‫ے امام رازی ؒاور امام ج فصاص ق‬ ‫اس ب اب ت می ت ں ئ‬
‫ملک کے لوگئمر د ہ وخج ا ی ں اور اس می ں ا ل ر کے وا ی ن ا ذ و ج ا ی ں و وہئ لک دار‬
‫م‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ہ‬
‫انلحرب ب ن ج اے گا‪ ،‬واہ اس ملک (کی سرحدی ں) دار الحرب سے ملی ہ و ی ہ وں ی ا‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ہی ں۔‬
‫عل ک ت‬ ‫ش‬ ‫ج‬
‫ے‬ ‫ر‬ ‫ق‬ ‫سے‬ ‫ئ‬ ‫دے‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫عات‬ ‫وا‬ ‫کہ‬ ‫و‬ ‫ں‬
‫ت‬ ‫ہی‬ ‫ات‬ ‫ر‬ ‫ظ‬ ‫اور‬ ‫ل‬ ‫دال‬ ‫وہ‬ ‫اد‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫اس‬
‫ھ‬
‫ے اور وہ اس‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ف مغ ہ‬
‫ل‬ ‫کا‬ ‫ار‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫آ‬ ‫صادق‬
‫ب ی‬
‫ھی‬ ‫ر‬ ‫کوں‬ ‫ل‬ ‫ہ ں‪ ،‬اور ہ ت عری یف ان م‬
‫قب ج ئ‬ ‫پ‬ ‫ہ‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫پ‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫نں اور اس‬ ‫ان کی ج گہ پر اب ض ہ و ج ا ی‬ ‫اں سے دھ کار کر ود ئ‬ ‫کے اصل ب ا ن دوں کو وہ‬ ‫ن‬ ‫ملک‬
‫امن اسالمی حاصل ن ہ ہ و‪،‬ج یساش کہ اسرا ی ل نکی ری است جس ے سرزمی ن‬ ‫وں کو غ‬ ‫ف مس‬
‫می لسں لما ث‬
‫دوں کو دیس کاال دے دی ا۔‬ ‫ن‬ ‫طی ن کا اک ر حصہ صب کر ل ی ا اور وہ اں کے ب ا‬
‫ف‬
‫ے؟‬ ‫کن ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ر‬ ‫ک‬ ‫ال‬ ‫دار‬ ‫دار جاالسالم(کب ھی) دار الحرب ی ا‬ ‫ت‬ ‫نا‬
‫‪ -116‬ک ی‬
‫ن ر ی ح دی قکہ داراالسالم ھی ھی دارالشحرب ہی ں ب ن س ئکت ا‪،‬اور اس کے‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ک‬ ‫می ں ے‬
‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ح‬
‫ے اس کے ب ا دے ب دی ل و ج ا ی ں ی ا اس می ں‬ ‫ے گا چ اہ‬ ‫داراالسالم ہ وے کا کم ب ا ی رہ‬
‫‪94‬‬
‫ق‬
‫ے گا ج ب ت ک اس می ں‬ ‫ق ت‬ ‫ح‬ ‫ئ ل‬ ‫ہن‬
‫ے کے قاحکام ب دل ج ا ی ںن ی کن ی ہ کم اس و نت ک ب ا ہ‬
‫ر‬ ‫ی‬ ‫ر‬
‫ہ‬
‫م لمان ب ا ی رہ ی ں غگے‪،‬ور ہ اس کے م طابق ا دلس داراالسالم قی رہن ت ا اگرچ ہ اس می ں‬ ‫س‬
‫ئ‬
‫مان ب ھی ب ا تی ہی ں ب چ ا۔‬ ‫ے اور ب ظ ت اہ ر اس می ں ای ک مسل ن‬ ‫صدیوں سے اسالم ا بشہ‬
‫ن‬ ‫داراال جسالم پر د من کے سلط سے وہ فدارالحرب تہی ں ب ن ج ا ا‪:‬‬ ‫‪ -117‬ن ت‬
‫ش‬ ‫س‬ ‫م‬
‫حرب ہی ں‬ ‫تمی تں ق تے ر ی ح دی بکہ حض داراالسالم پر ئکا روں کے لط سے وہ دارال ت‬
‫ن ھ د قمن‬ ‫بف ن ج ا ائ او ی کہ اس می ں عض اس قالمی احکام رائج رہ ی ں‪ ،‬ب ای ں طور کہ اس کے سا‬
‫دارالحرب ب ن ج اے کا ول‬ ‫کےن ق‬ ‫وج لڑاخ ینکرے اور اس کی زمنی ن پر اب ض ہ و ج اے‪ ،‬اس ث‬
‫ن‬ ‫مس‬ ‫ف‬
‫ے حاال کہ امت‬ ‫اع سے ب ت ی ف رار دی ت ا ہ‬ ‫ے و کہ م لما وں کو اس کے د ش‬
‫س‬ ‫ب ہت طر اک ہ ج‬
‫ے کہ داراالسالم کے ای ک ای ک بشال ت کا ھی د اع کرے۔‬ ‫پر ی ہ وا ج ب ہ‬
‫ہ‬ ‫مم‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫ے اس می ں رہ ا کن و اس‬ ‫ک داراالسالم کے لمان ب ا ن دوں کے یل‬ ‫ج وق ت ت‬
‫‪ -118‬ب‬
‫ا‪:‬‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫س‬ ‫ن‬
‫ی ب ت‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫حرب‬ ‫ل‬‫دارا‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫اال‬ ‫دار‬ ‫ک‬
‫ف‬ ‫ف‬ ‫م‬ ‫ن تج‬
‫ں ک رکے احکام‬ ‫یس ی ش‬ ‫م‬ ‫اس‬ ‫ا‬ ‫لط‬ ‫س‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫اال‬‫ق‬
‫ت ت ت‬ ‫دار‬ ‫کے‬ ‫ار‬ ‫ک‬ ‫حض‬
‫ن‬ ‫کہ‬ ‫دی‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫می ںنے ر‬
‫ے‬ ‫ن‬ ‫م‬
‫سے وہ دارالحرب ہی ں ب نن ج ا ا او ی فکہ اس کے لمان ب ا دوں کے یل‬ ‫ے اے‬
‫اس م جں ر ن ا مم‬ ‫دی‬
‫ں ب عض اسالمی‬ ‫ث ی ق‬ ‫م‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫ک‬
‫ن‬ ‫اع‬ ‫د‬ ‫کا‬‫ن‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫د‬ ‫ے‬ ‫پ‬ ‫ا‬ ‫کر)‬ ‫رہ‬ ‫اں‬
‫ن تغ‬ ‫ہ‬ ‫(و‬ ‫و‪،‬وہ‬ ‫ہ‬ ‫کن‬ ‫ہ‬ ‫ئ‬ ‫ش ئ یق‬
‫سے رہ ن ا‬ ‫ے ر ی ب دی کہ مسلما وں کو اپ ی زمی ن پر اب ت دمی ن‬ ‫غ‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ں۔‬ ‫عا ر کو ن ض‬
‫ی‬‫ر‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫ا‬
‫ے اور اپ ی مر ن ی سے(ب ی ر جمب وری کے) وہ اں سے کب ھی ب ھی ہ جئ رت ن ہ نکری ں‪،‬اور ا ہی ں‬ ‫چ اہ ی‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫پ‬
‫ج و ب ھی ت لی ف ہچ‬
‫ش‬ ‫ک‬
‫ے کو ی راس ہ کالے۔ن‬ ‫نان کے یل‬ ‫ے اس پر صب ر کری ں ی خہاں قک کہ ہللا‬
‫ض‬
‫ے پر ب ہ کرے سے ج رت کے واج ب ہ وے کی‬ ‫ہ‬ ‫کے کسی اسالمی ط‬ ‫‪ -119‬د من ش ئ‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫‪:‬‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ط‬ ‫ق ق چک ھ را‬
‫ئ‬ ‫ی ش ل فق‬
‫ےجس‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ب‬ ‫کی گ‬
‫ن‬
‫ش‬‫طرف و اس ول کی سب ت‬ ‫ج‬ ‫ئ‬ ‫ب عض مح ی ن کی خطرف سے ما قکی ہ کی‬
‫ے پر د من اب فض ہ و ج اضے اس کو چ ھوڑ دی ن ا اور د م نوں ی چ ن ہ رہ ن ا‬ ‫ن ط‬ ‫ے کہ جس‬ ‫مضی ں کہا گ ی ا ہ‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫م‬ ‫ص‬
‫ے کہ‬ ‫ےن کہ و ا ی ہ چ ا ی‬ ‫اس یل‬ ‫ے۔ ت‬ ‫ے۔می ں ے اس کاغ یح ح ہوم قوا ض ح خک ی ا ک ی ا ہ‬ ‫ہ‬ ‫مسروری ن‬
‫وروں کے سا ھ ا ی است طاعت کے‬ ‫پ‬ ‫ں‪،‬اور اص ب وں اور ب ہ‬ ‫م‬
‫ے وطن کو ش دی د جمبوری کے ب غ ی ر ن ہ چ‬ ‫ے لک می ں رہ ی ن‬ ‫لمان اپ‬
‫پن‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬‫ڑ‬ ‫ھو‬ ‫پ‬ ‫ا‬ ‫ں‪،‬اور‬ ‫ی‬‫ر‬ ‫ک‬ ‫مزاحمت‬ ‫م طابق‬
‫س‬
‫طور پر وہ لخمان اگر ا ئی‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ش‬ ‫م‬ ‫ج‬ ‫ش‬
‫ے کہ مث ال کے ن‬ ‫حالتئمراد ہ‬ ‫اور دی د ت بوری سے ا نسی ہ ت‬
‫ے ب ھی جمب ور کرے کہ مسلما وں کے ت الف لڑا ی‬ ‫ےہو ش‬
‫ے و د من ہاسے ہ چ ا غ‬ ‫زمی نشپر رہ‬
‫ہ‬
‫ے کو مس رد ہ کر کت ا و و پ ھر اس پر‬‫س‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫می ں ری نک و۔اگر وہ ج رت کے ب ی ر د من کے م طا بل‬
‫ئ‬ ‫ہ ج رت کر ا ہ فی واج ب ہ و گا۔‬
‫پن‬ ‫ن کے فعرب وں کا اسرا ی ئل می ں رہ ن ا‪:‬‬ ‫نس طی ق‬ ‫‪ -120‬ل‬
‫ض‬ ‫م‬
‫دعوت دی کہ وہ ا نی‬ ‫(اسرا ی ل)کے عرب وں کو ن ض‬ ‫ب می کںھ ے ب و ہ لس طی ن ٹ‬
‫ہ‬ ‫پ‬
‫ے ا ی مر ی سے ج رت کر ا‬ ‫ئست ی نوں‪ ،‬ی ت ی وں اور مسج دوں می ں ڈے رہ ی ں‪،‬اور ان کے یل‬
‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫ج ا ز ہی ں ہ‬
‫ے‪،‬اگر وہ اسے ھوڑ دی ں گے و وہ‬ ‫چ‬ ‫ہ‬ ‫س‬
‫ئ کا دار دار اال نالم ی ہ‬ ‫ے ان‬ ‫ے کہ ان کے یل‬ ‫فاس یل‬
‫دار الحرب ب ن ج اے گا اور مسلما وں کی مسج دی ئں ی ہودیوں کی ع ب ادت گاہ وں‬ ‫دار الک ر ی ا ن‬
‫ہ‬ ‫ت‬
‫می ں‪،‬اور مسلما وں کی امالک ہودیوں کی امالک می ں ب دی ل و ج ا ی ں گی۔‬ ‫ی‬
‫‪95‬‬
‫ف‬ ‫ش ن‬
‫ن فت‬ ‫ہ‬
‫ے جنرت واج ب فہتوے غکا قوی‪:‬‬ ‫ن خ ال بش ا ی کا اہ ل شلس نطی ن کے یل‬ ‫‪ -121‬ی‬
‫نوہ‬ ‫ف می ں فے م تہور محدث ی خ اصر قالدی ن ال ب ا ی کے اس وی کو لط رار دی ا جس می ں‬
‫ف‬
‫رت کرے‬ ‫لس طی ن پر ک ار کے سلط اور اننکے ا ت دار کی خو ہ سے اہ ل لس طی ن کے ی ہ‬
‫ے ج فت‬ ‫ن ل‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ق‬
‫ے اس کے طرات سے آگاہ فک ی ا‪ ،‬یک و کہ اس وی سے‬ ‫ت‬ ‫ں‬ ‫م‬‫ں‪،‬‬
‫ی ی خی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫د‬ ‫رار‬ ‫کو واجن بش‬
‫ے کہ طی ن کی سرزمی ن اس‬ ‫س‬ ‫ل‬ ‫ہ‬
‫ے گی و وہ دی کھ ر ا ہ‬ ‫ج‬ ‫م‬ ‫ع‬
‫ئاس واب کو ب یر ل‬ ‫ص یہ و ی د من کے‬
‫خ‬ ‫ن‬ ‫ٹ‬ ‫ے خ الی ہ و ج اے۔‬ ‫کے یل‬
‫ن‬ ‫س‬
‫‪ -122‬دار االسالم کے کسی کڑے کی یل حدگی م لما وں کے الف اعالن ج گ‬ ‫ع‬
‫ن‬ ‫غ‬ ‫ٹ‬ ‫ے‪:‬‬ ‫نہ‬
‫کڑے نکو صبئکرے کے ب عد اسے دار‬ ‫می ں ے ت رجی ح ندی کہ ندار االسالم کے کسی ش‬
‫ے ج یسا کہ‬ ‫الن ہ ت‬ ‫سےالگ کر ا مسلما ئوں کے خ الف ج ن گ‪،‬د م ی تاور لڑاخ ی کا اع‬ ‫االسالم ن‬
‫ے ج و کہ ای ک ( اری تی اور اصلیش)اع ب ار سے‬ ‫ہق‬ ‫ق‬ ‫حال‬ ‫کا‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫اسرا‬ ‫است‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ی‬ ‫غآج کی ص یہ و‬
‫ے‪ ،‬اور ای ک (ح ی ت حال کے)تاع ب ار سے د من کے زیر‬ ‫ش‬
‫ت صب دہ دار االسالم ہ‬
‫اری ہ وے ہ ی ں۔‬ ‫کام ج ق ئ‬
‫کے اح ت‬ ‫ف‬ ‫اور اس تپر دار الحرب‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫سلط دار الحرب ہ‬
‫ج‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫م‬
‫ان ات جسالمی ہور وں کا کمج ن پ تر ک ار کا سلط ا غم ہ و گ ی ا‪ :‬ت‬ ‫‪-123‬ن‬
‫ھ‬ ‫ج‬ ‫س‬ ‫ج‬
‫ئ می ں ے شر ی ح دی کہ وہ اسالمی ہور ی ں و کہ آج ا ی ار کے لط کے آگے تکی‬ ‫ی‬ ‫م‬
‫ن‬
‫االسالم مین ں ہ وتگا‪ ،‬یک و کہ ان می ں ب عض اسالمی احکام پر عملدرآمد ہ و ا‬ ‫دار ئ‬
‫ں ان کا مار ش‬ ‫ہو یہی‬
‫ب‬
‫ے اور عض اسالمی عا ر وہ اں ظ ر آے ہ ی ں اور اس وج ہ سے ھی کہ وہ دار االسالم سے‬ ‫ب‬ ‫ت‬
‫ص‬ ‫ہ‬
‫ض ق ن نف‬ ‫م ل ہ ی ں۔‬
‫ےتا جسالمی ممالک کا کم ج ہاں پر و عی وا ی نن ا ذ ہ ی ں‪:‬‬ ‫ح‬ ‫نس‬
‫ف‬ ‫‪ -124‬ای‬
‫ے‬ ‫ص‬
‫تکے ازل کردہ احکام کے م طابشق ی ل‬ ‫ج‬
‫ممالکف و ہللا‬ ‫المی ن ن‬ ‫تے ر یض ح دی خکہ وہ اخس ق‬ ‫ن می ں‬
‫ن وا ی ن ا ذکرے ہ ی ں وہ دار ناالسالم می ں ہ ی مار ہ وں‬ ‫ودسا ت ہ)‬ ‫غ‬ ‫(‬ ‫عی‬ ‫و‬ ‫ہی ں کر ن‬
‫اور‬ ‫ے‬
‫ب‬
‫ے و م لما وں کے عض ممالک کو‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫ب‬
‫ںتے ان عض لو کرے والوں کا رد ک ی ا ہ‬ ‫گے کفاور می ن‬
‫ش‬ ‫ے ہ ی ں۔‬ ‫دارال ر گردا‬
‫ت‬
‫ث‬ ‫ممالک داراالسالم مار ہ وں گے‪ :‬ن‬ ‫‪-125‬نمامتا جسالمی ت‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ج‬
‫ے ئدار‬ ‫می شں ے ر ی ح دی کہ مام اسالمی ممالک ن می ں لما وں کی اک ری ت آب اد ہش‬
‫ے کہ ئوہ اصل می ں اسالمی ممالک ہ ی ہ ی ں اور ان می ں عا ر‬ ‫االسالم بمار ہ وں نگے اس یل‬
‫ن‬ ‫ے عام ئرا ج ہ ی ں۔‬ ‫اسالم آج ھی ا نعال ی ہ اورکھل‬
‫ص‬
‫ے‬ ‫ےندار العہد ہ‬ ‫‪-126‬ن یہ وت جی ری است (اسرا ی ل) کے نسوا پورا عالم مسلما قوں کے یل‬
‫ے‬ ‫دار العہد ہ‬‫ے بمناشی ساری د ی ا ن‬ ‫ے ر ی ح دی کی ہ مارے(ہ م مسل قما وں تکے) یل‬ ‫ئں ن‬ ‫می‬
‫ے ارد گرد کی‬ ‫ہ‬ ‫ص‬
‫کے ذریئعہ اپ‬ ‫ے کہ م ان شوام م حدہ کے ورت‬ ‫نماسواے یہتو ی ری است کے‪،‬اس یل‬
‫ے‬ ‫ں‪،‬اور ضمعاہ دات اور م ور کی پ اسداری کرے ہ وے ہ مارے لی‬ ‫ب‬
‫دض ی ا کے سا ھ ہمر وط ہ ی ت ق‬
‫ج ش‬ ‫ئ‬ ‫کے ا وں کو پورا کری ں۔ ن‬ ‫ےق کہ م تان ق‬ ‫روری ہ‬
‫ری‬
‫وام م حدہ کی راردادوں کی پ اسداری کر ا ماسواے ان کے و عت کے‬
‫ہ‬ ‫‪ -127‬ا خ‬
‫ئ‬ ‫ن تج‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫وں‪:‬‬ ‫ت‬ ‫الف‬ ‫ن ق‬
‫ے کو ر ی ح دی‪،‬سواے‬ ‫می ں ے ا وام م حدہ کی رار دادوں کی پ اسداری کو واج ب رار ید‬
‫‪96‬‬
‫عم ن‬ ‫ق‬ ‫ٹ ت‬ ‫ش‬
‫ے‬ ‫مارے لی‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫راردوں‬ ‫سی‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫ن‬ ‫کہ‬ ‫وں‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫کرا‬
‫ت‬ ‫سے‬ ‫عت‬ ‫ری‬ ‫ضان کےنج و ہ مارے دی ن و‬
‫خ‬ ‫ش‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫خ‬
‫ے کسی معاہ دے پر دس ط کر ا ج ا ز ہی ں و احکام ری عت کے الف‬ ‫ج‬ ‫روری ہی ں‪،‬اور ایس‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫ہ و۔‬
‫ن‬ ‫کی کو ی ی ث ی ت جہی قں‪ ،‬کی وج ی ہ‪:‬‬ ‫ح‬ ‫حدی ث‪:‬اسالم می تں ا حادن‬ ‫‪-128‬ن‬
‫ح‬ ‫س‬ ‫م‬
‫ں ےت ہق ر اس سےت ا حاد کرے کے واز کو را ح رار دی ا جس سے لما وں کے ق‬ ‫ج‬ ‫می خ‬
‫ن‬ ‫‪:‬‬ ‫ث‬ ‫ی‬‫حد‬
‫ئ‬ ‫اس‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ے‬
‫پ یہ ت‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫رد‬ ‫ر‬ ‫ان‬ ‫و‪،‬اور‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫س‬
‫ج ک‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ع‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫ر‬ ‫می ں کسی ی‬
‫ح‬
‫ت ی ث ی ت ہی ں۔ ن‬ ‫ال حلف فيناإلسالم‪ .‬اسالم می ں ا حاد کی کو ی‬
‫ے ب ی ان‬ ‫عدم ج وازن کا اقست دالل کرے ہ ی ں۔اور می ں ن‬ ‫ف‬ ‫سے کسی کو حلی ف ب ن اے تکے ن‬
‫ے ج و زمان ہ ج اہ لی ت میشں سل در‬ ‫م‬ ‫نک ی ا کہ اس تحدی ث سے مراد ایس‬
‫ن‬ ‫ے ا حاد کی ن ی کر ا صود ہ‬ ‫س‬
‫امن اور حالت ج گ می ں اینک دوسرے کی مدد اور پ ت پ اہ ی‬ ‫ل چ لت ا ھا۔حالت ن ن‬ ‫ن‬
‫اس حدی ث سے ہ رگز مراد ہی ں۔‬ ‫کرے کے یل ح‬
‫ح‬ ‫ص‬ ‫ے لی ف ب ا ا ت‬
‫ن ن‬ ‫نہودیوں کے سا ھ ت لح کا کم‪:‬‬ ‫‪ -129‬ی‬
‫ص‬ ‫ق‬ ‫ج تج‬ ‫ص‬
‫ے کہ ا ہوں ے لح‬ ‫دی‪،‬اس یل‬ ‫م ں ے ن ہود وں کے سا ھ لح کے عدم واز کو ر ی ح‬ ‫ی‬
‫ل عام ک ی ا‪ ،‬گھروں کو مسمار‬ ‫وسالمتیی کی راہ ہ یں اخ ت ار کی ب لکہ زم ن ر ق ب ض ہ ما ا‪ ،‬ش ہر فوں کا ت‬
‫ے کی ت ائ‬ ‫ج ی ی‬ ‫ی پ‬ ‫ی ِن‬ ‫ی‬
‫ئ‬ ‫‪:‬‬ ‫د‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ل‬ ‫ص‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫اس‬ ‫رے‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ھا۔‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫ھوکا‬ ‫ب‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ف‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫کر‬ ‫حاصرہ‬ ‫ک ی ا اورلوگوں کا م‬
‫ت‬ ‫ت‬
‫ے جس می ں ا ہوں ے اسرا ی ل کے سا ھ‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫سے‬ ‫وی‬ ‫اس‬ ‫کے‬ ‫صماء ہ ق‬
‫ر‬ ‫از‬ ‫‪ - 1‬عل‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫فت‬ ‫لح فکوتحرام شرار دی ا۔‬
‫وی اور المہ الزر اءکے اسرا ی ل کے سا ھ‬ ‫ع‬ ‫مصر ی خ حسن مامون کے ت‬ ‫‪ -2‬م‬
‫اور یحق ق‬
‫ف ئ‬ ‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫ن یش ت کی ب اب ت بف یتان سے ہ بو ی ہ‬ ‫صلح کی‬
‫ن اور می ں ے ی خ ب ن ب از کے وی سے حث کی ج و حالی ہ صور حال کے موا ق راے‬
‫ے۔‬ ‫ہی ں دے سک‬
‫ت‬
‫تج‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫‪ -130‬انص طالحات می ں ب دی لی‪ :‬ف‬
‫ج‬
‫می ں ے دارالحرب اور ندارالک ر سی عض اص الحات مین ں ب دی لی کے واز کو ر ی ح‬
‫ط‬
‫ا‪،‬اور ی ہ کہ ہ می ں‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫گ‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫الزمی‬ ‫سے‬ ‫طرف‬
‫ن‬ ‫کی‬ ‫ہللا‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫م‬ ‫دی یک ون کہ ان اص طالحات کو اپ ن ا ا ہ‬ ‫ف‬
‫قض‬ ‫ن‬ ‫ن ت‬
‫ے کہ‬ ‫ے‪،‬اور اس کا ا ا بہ‬ ‫ہ‬ ‫ئحکم‬ ‫کے سا ھ ضاحسن ا داز می ں ب ات چ ی ظت کرے کا‬ ‫مخ ال ی نن ف‬
‫ے ھی کہ‬ ‫اس یل‬ ‫ص ق‬ ‫ے می ں ب ھی۔اور‬ ‫س مون فمی تں ھی ہ وناور اقہ ری پ یرا ت‬
‫ب‬ ‫احسن ا داز ن م‬
‫ض‬
‫ل‬ ‫ؓ‬
‫ے کہ ا ل اب ل لحاظ امر‬ ‫ےن کو ب ول کر ل ی ا ھا‪،‬اس یل‬ ‫مض رت عمر ے ج زی ہ کا نظ ب دنی ل کر ن‬ ‫ح‬
‫ے ہ کہ ام اور ع وا ات۔‬ ‫ہ‬ ‫مون اور مدلول چ یغز‬
‫ے‪:‬‬ ‫درست‬ ‫ا‬ ‫‪ -131‬مس مان الم کی ان ب سے امان دی ن‬
‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫غ ج‬ ‫نل‬
‫ے‪،‬ی ہی حکم‬ ‫ے کو درست رار ندی ا ہ‬ ‫ب قسے امان ید‬ ‫می ں ے مسلمان الم کی جت ا ف‬
‫مس مان عورت کے ی ب‬
‫ے۔‬ ‫ے‪ ،‬مام ہاء کے م طابق اس کا امان دی ا درست ہ‬ ‫ے ت فھی ہ‬ ‫ل‬ ‫نل ن‬
‫ے‪:‬‬ ‫ہ‬ ‫ث‬ ‫ی‬ ‫حد‬ ‫ہ‬ ‫ی‬‫ل‬ ‫ع‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫کی‬ ‫مﷺ‬ ‫کری‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫یک و کہ‬
‫"ذ َّمة المسلمين واحدة‪ ،‬يس عى بها أدن اهم‪ ،‬فمن أخف ر مس ل ًما‪ ،‬فعليه لعن ة هللا‬
‫صرْ ف وال عدل‪".‬‬ ‫والمالئكة والناس أجمعين‪ ،‬ال يقبل منه َ‬
‫‪97‬‬
‫ت‬
‫ت‬
‫ہ‬
‫ے‪ ،‬عام لمان ھی اس کا ذمہ دار و ا‬ ‫ب‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫رکہ‬ ‫"مس مان وں کی ذمہ داری ش ت‬
‫ہ‬ ‫ن ت‬ ‫ئ‬ ‫م‬ ‫ل‬
‫سی م لمان (کی دی و تی پ اہ کو نوڑ کر ) اسے ب دعہد کرے گا قاس پر ہللا کی‬ ‫ہ‬ ‫س‬ ‫ے‪،‬لہذا ج و فک ش ت‬‫ہ‬
‫ن‬ ‫س‬
‫طرف سے‪ ،‬ر توں قکی طرف سے اور ف مام م لما وں کی طرف لع ت ہ و گی۔ ی امت کے‬
‫ن‬ ‫دن ہللا ن ہ اس کینوب ہ ب ول کرے گا ن ہ دی ہ۔"‬
‫ے‪:‬‬ ‫اس ہ و جا چ اقہ ی‬ ‫ے کا حق اس‬ ‫ن‬
‫ئ‬ ‫المی ری است کے پ ن‬ ‫ے کا ح س‬ ‫ن‬ ‫‪ -132‬پناہ د نی‬
‫ے کو را ح رار دی ا اور اس کے دا رے می ں‬ ‫المی ری است کو دی‬ ‫قتا ئ ض‬ ‫می ں ے پ خاہ دی ن ن‬
‫پ‬
‫سے ی ا نھر‬ ‫سے و نی ا عام حا تج ت کی ئوج ہ ئ‬ ‫ہ‬
‫رورت کی وج ہ ش‬ ‫چک ھ وسعت دی‪ ،‬واہ وہ پ اہ ا ہا ی ئ‬
‫نمگر ی ہ قکہ کسی برا ی کا ڈر ہ و ی ا ر کا ا دی ش ہ ہ و و پ ھر برا ی کو زا ل کر ا‬ ‫کسی اچ ھی وج ہ سے ہ و‪،‬‬
‫ص‬ ‫ص‬
‫ن‬ ‫ے۔ خ‬ ‫م لحت کو حا لفکرے پر م دم ہ‬
‫غ‬ ‫‪ -133‬کنسی تکاج ر کا دار االسالم می ں دا ل ہ و ا‪:‬‬
‫س‬
‫ے کہ وہ ی روں تکو داراالسالم می ں‬
‫ص‬ ‫خمی ں ے ر ی ح دی کہ خم لم ریناست پر واج ب ہ ت‬
‫ے دا ل ہ وے کی اج ازت دے اکہ وہ اسالم کا عارف حا ل کر‬ ‫ای ک اص نمدت کےم یل‬
‫ئل ج ل سکی ں ن اور ماہ ر علماء و داع ی ِان( دی ن) کو سن سکی ں‪،‬پ ھر‬ ‫سکی ں‪،‬مسلما نوں سے‬
‫(ری است ) ا ہی ں ج اے امن می ں پ ہ چ ا دے۔‬
‫تش‬ ‫ے والے کے ح فق م ں ش‬ ‫لن‬
‫فت‬ ‫ن ک کی ری ح‪:‬‬ ‫ق ت ی‬ ‫امان ج ی‬
‫‪-134‬ن ت‬
‫کرے ئاور پ ھر حت کروا دے‬ ‫لب ف ت‬ ‫ن‬ ‫ط‬ ‫امان‬ ‫ے‬ ‫ی‬
‫ل‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫کروا‬ ‫ح‬ ‫عہ‬ ‫ل‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫کہ‬ ‫دی‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫می ں ے‬
‫ے و ان می ں‬ ‫ےقکہ می ں ے ح دال ی ہ‬ ‫ک‬
‫ک قی ہ ہ‬ ‫م‬ ‫ق‬
‫ئسے ہ ر ای خ‬ ‫اور اس کے ب عد ان ن حصوری ن می ں‬
‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫ت ہ‬ ‫ول‬ ‫کا‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫کہ‬ ‫یسا‬
‫خ‬ ‫ج‬ ‫گا‬ ‫ے‬ ‫سے کسی کو ب ھی ت ل ہی ں تک ی ا ج ا‬
‫ن‬
‫(دوسرا‬ ‫ے ہ ی ں اور ق‬ ‫ئلگا سک‬ ‫کے اح رام کا ا دازہ‬
‫س‬ ‫اسی تسے ہ م (ای ک و ) اسالم مقی ں ون ئ ن‬
‫کے ت ل کو ج ا ز ہی ں جمفھت ا سواے ناس کے جس کا ئل‬
‫ت‬
‫ئ‬ ‫ے) کہ اسالم کف قسی‬ ‫ییق ہ نمعلوم ہ و ا ہ‬
‫ئ‬ ‫ش‬
‫ے وضالےتکو دی ا ج اے‬ ‫ں( کہ کت کا ا دہ ا فمان لی‬ ‫ے می ف ق‬ ‫درست ہ و۔ مذکورہ ہی مس ل‬
‫س‬
‫ی یخ طور پر ن‬
‫ے۔ی ہ‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ں م ل نمان ہاء کی اح ی اط کی ک ی ت وا ح و ی ہ‬ ‫ےم‬ ‫م‬
‫گا) شون ب ہاے کے معا ل‬
‫ی فق‬ ‫ے ری عت اس‬
‫صاف۔‬
‫ت ق ن‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫المی اور اس‬ ‫ن‬ ‫ہ‬
‫ش‬ ‫ا‪:‬‬ ‫کر‬ ‫د‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫است‬ ‫ن‬ ‫ر‬ ‫کو‬
‫ن نی ی‬ ‫ے‬ ‫د‬ ‫امان‬ ‫‪-‬‬ ‫‪135‬‬
‫ن‬
‫سوں پر‬
‫ح ک‬ ‫ہت‬ ‫لوگوں کے حاالت کی رو ی می ں اورب‬ ‫غ‬ ‫کے‬ ‫ے‬
‫ے زما ت‬ ‫می ں ے اپن ف‬
‫س‬ ‫ھ‬
‫اس قق کو ی ل کود جم ھ‬ ‫نکہ ئ‬ ‫ے کی وج ہ سےاور تاس قڈر سے‬
‫م‬
‫ہالت اور س پرس ی نکے ن بل‬ ‫جئ غ‬
‫ے۔‬ ‫نکو ج ا ز شرار دی ا ہئ‬ ‫ے کو ری است کےقسا ھ ن یض د کرے‬ ‫ل ی ا ج ا تے گا ی روں کو امان ی ا پ اہ ید‬
‫ے کو ب ھی م ی د قو م ب ط کرے می ں ت رعا کو ی حرج‬ ‫اس معامل‬ ‫مام م بخ اح امور کی طرح ت‬ ‫ن‬
‫ے‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ھ‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫سے‬ ‫الت‬ ‫م‬ ‫عا‬ ‫وامی‬ ‫اال‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫اور‬ ‫ساس‬ ‫و‬ ‫عاملہ‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫طور‬ ‫اص‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ں‬ ‫ہ‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫پی م‬ ‫ی‬
‫م‬ ‫ہن ہ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫تف‬ ‫ے۔‬ ‫جس کی اپ شی ا می ت ہ‬
‫وی اس ب اب کے تب دل ج اے سے ب دل ج ا ا‬ ‫شاور رعی س ی است کے م ی بدان می ں ف‬
‫ے۔ئ ت‬ ‫ہ‬
‫ے‪ ،‬رعی س ی است می ں ایساکسی ھی دوسری ی لڈ سےتزی ادہخ و ا ہ‬ ‫ہ‬
‫‪ -136‬ج ب مسلمان دار الحرب می ں امن کے سا ھ دا ل ہ و ج اے و اس کی ذمہ‬
‫داری‪:‬‬
‫‪98‬‬
‫ئ ت‬ ‫خ‬ ‫ش‬ ‫ن‬
‫می ں ے زور دے کر کہا خکہ ج و کسی د من کی سرزمی ننپر امن سے دا ل ہ و خج اتے و‬
‫لوگوں پر س ی کی ج و‬ ‫ے کہ ان کے مال م ں ان ت ن ہ کرے‪ ،‬اور م ں ے ا س ب‬ ‫ا غسے چ اہ ی‬
‫ے عض خ‬ ‫ی‬ ‫ت ی‬ ‫غی سی‬
‫کے اموال‪ ،‬ون اور عزت‬ ‫تان ئ‬ ‫ے ہ ی ں اور‬ ‫م ر ی ممالک ی ا دوسرےن ی رم لم ممالک می ں رہ‬
‫حب سجم ت‬
‫امن ی ا ویزہ‬‫اور معاہ دہ ن‬ ‫وارا کرےئہ وے ق‬ ‫کے پ یمان کو پ خ‬ ‫تہللا ئ‬ ‫ے ہ ی ں۔می ں ے کہا کہ‬
‫ن‬ ‫کو الل ھ‬
‫دی گ ی چ یز کی تی مت ادا کر ا اور ہ ر‬ ‫ہ‬
‫کے بموج ب ان کی امان ت ادا کرے وے انفپ ئر ہ ر ٹری ت‬
‫ں۔ ی ہ و اس صورت می ں‬
‫ح‬ ‫ی ت‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ے جس سے توہ ا دہ ا ھا‬
‫خ ن‬ ‫اس چ یز کی اج رت ادا کرت اواج ب ہ‬
‫ہ‬
‫ے ہ ی ں کہ ک ی ا کم و گا؟‬ ‫ے ج ب کہ وہ حربی ہ وں و پ ھر ج ب وہ معاہ د وں و نآپحود ا دازہ کر سک‬
‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ت‬ ‫شت‬ ‫ق‬ ‫ے کا کم‪:‬‬ ‫الوہ خکسی دار می ں رہ‬ ‫دار االسالم کے ع ش‬ ‫‪-137‬ن‬
‫رات کو واج ب رار دی ا جس پر دد کشی اخج ا ا‬ ‫ت‬ ‫ےہ ج‬ ‫ےئ جمبور تو الچ ار ص کے یل‬ ‫می ں ے ای نس‬
‫ن‬
‫ے ص‬ ‫ےنکہ ایس‬ ‫ہ‬
‫ات گ کرخدی ا گ ی ا و‪،‬اس یل‬ ‫ش‬ ‫ہ و‪،‬اسے اذیضت پ ہ چ ا ی ج ا ی و ی اخاس پر عرصہ ح ی ن‬
‫ہ‬
‫ے ملک سے‬ ‫ے ج و اپ‬‫ے ت ص کے یل خ‬ ‫ے خن ہ کہ ا ت ی ناری‪ ،‬اور می ں ے ایس‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫طراری‬
‫غ‬ ‫کی ہ ج رت ا‬
‫سے م علشق کم کو م ت لف حصوں می ں‬ ‫ح‬
‫ے ا ت ی ار سے ل رہ ا ہ و اس ن‬
‫ک‬
‫کے ب ی ر اپ‬ ‫تکقسی جمبوری خ‬
‫کی ہ ی ں‪:‬‬
‫ے ہ ی ں) اور می ں ے چ ئار مرقطی ں ہذکرن ض‬ ‫ے(م ت لف درج ات بق ی ان یک‬ ‫سی م ک ی ا ہ‬
‫ے۔‬ ‫کے پ اس ج ا ز صد کا و ا روی ہ‬ ‫ن‬
‫ے اس‬ ‫کے یل‬ ‫سے ب اہ ر طوی ل ی ام خ‬ ‫داراالسالم ن ب‬ ‫‪ -1‬ن‬
‫ے چ وں کے دی ن کو طرے می ں ہ ڈالے۔ ن ت‬ ‫ے دی ن ہاور اپ‬ ‫‪ -2‬اپپ ن‬
‫و۔‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫کش‬ ‫دست‬ ‫سے‬ ‫داری‬ ‫ذمہ‬ ‫م‬ ‫ہ‬‫ا‬ ‫سی‬ ‫ک‬ ‫سے‬ ‫رت‬ ‫ج‬ ‫ئ‬
‫اس‬ ‫ی‬
‫ک نٹ‬ ‫ئ‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫متخ‬ ‫ن‬ ‫‪ - 3‬اپ ن‬
‫ے م لمان ب ھا ی وں کی یم و ی می ں‬ ‫ے م اسب ج گہ ن ب کرے کہ اپ‬ ‫‪ -4‬ا ی رہ ا ش کے یل‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ئ ق‬ ‫ے۔‬ ‫رہ‬
‫رد‪:‬‬
‫ق‬ ‫کا‬ ‫والوں‬ ‫ے‬
‫ی ق‬ ‫د‬ ‫رار‬ ‫حرام‬ ‫کو‬ ‫ام‬ ‫ی‬ ‫می‬ ‫دا‬ ‫ر‬ ‫ا‬
‫بہ‬ ‫سے‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫داراال‬‫ن‬ ‫‪-‬‬ ‫‪138‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ان کا رد ک ی ا ج و دارت االس‬
‫ے ہ ی ں یک و کہ وہ‬ ‫سے ب اہ ر طوی ل ن ی ت ئام کو حرام رار ید‬ ‫ت‬ ‫الم‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ے‬ ‫می فں‬
‫ص ح احادی ث سے‬ ‫ے ی ں ب عض یح‬ ‫ے ہ ی ں اور پا‬ ‫کے سا ھ والء (دوس ی) رار ید‬ ‫اسے ک ار ت‬
‫ے‪:‬‬ ‫است دالل کرے ہ ی ں ج یسا کہ ی ہ حدی ث ہ‬
‫المشركين‪ ".‬ت‬
‫ق‬ ‫"إني بريء من كل مسلم يقيم بين أظهر‬
‫ش‬
‫ے۔"‬ ‫"می ں ہ ر اس مسلمان سے ب ری ہ وں ج و م رکوں می ں ی ام کر ا ہ‬
‫ت‬ ‫اور ی ہ حدی ث‪َ " :‬م ْن جامع المشرك أو سكن معه فهو مثله‪".‬‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫ت ٹ‬ ‫ش‬
‫"ج و کسی م رک کے سا ھ اک ھا ہ و ی ا اس کے سا ھ سکون ت ا ت ی ار کرے و وہ اس ج یسا‬
‫ن‬ ‫م ق‬ ‫ت ئ‬ ‫ش‬ ‫ے۔"ن‬ ‫ہ یہ‬
‫توالء الزم ہی ں‬ ‫ے ہ وے کہا کہ حض ی ام سے‬ ‫ے والء کے ب ہ کا ج بوابب دی‬ ‫ت می ں ن‬
‫آ ا‪،‬اور می ں فے ان احادی ث سے ھی حث کی ن سے وہ است دالل کرے ہ ی ں‪ ،‬کہ آپ‬ ‫ج‬
‫ﷺ کے رمان‪:‬‬
‫"أنا بري ٌء من كل مسلم‪".‬‬
‫ن‬ ‫می ں ہ ر مسلخمان سے ب ری ہ وں۔‬
‫ن‬
‫ے کہ می ں اس کے ون سے ب ری ہ وں یک و کہ اس ے ان حرب یوں‬ ‫سے مراد ی ہ ہ‬
‫‪99‬‬
‫خ‬ ‫خ‬ ‫خ‬ ‫ق‬
‫ت‬ ‫ا۔‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ار‬ ‫چ‬ ‫دو‬ ‫سے‬
‫ئ‬ ‫طرے‬ ‫کے درم ی ان ا امت ا ت ی ار کر کے ود کو اس‬
‫حاالت ت ب دی ل ہ و ج ا ی ں‪،‬اور جس علت کے حت حکم‬ ‫ت‬ ‫بت‬ ‫ے کہ‪ :‬ج خ‬ ‫ئی ہ تہ‬ ‫اس خکات م طلب‬
‫ب‬ ‫ح‬
‫ے۔‬ ‫دی ا گ ی ا ہ و وہ م ہ و ج اے و وہ کم ھی م ہ و ج ا ا ہ‬
‫رہ ی ب ات اس حدی ث کی‪:‬‬
‫ت‬ ‫"من جامع مشر ًكا أو سكن معه فهو مثله"‬
‫خ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ش‬
‫ے ی ا اس کے سا ھ سکون ت ا ت ی ار کرے و وہ اس‬ ‫ج و کسی م رک کے سا ھ م ی ل ج ول رکھ‬
‫لش‬ ‫ف‬ ‫ض‬ ‫ے۔‬‫ج یسا ہ تی ہ ت‬
‫رک) سے‬ ‫ل‬
‫ے اور دوسرا (حدی ث می ں مذکور بظ‪:‬جن امع ا م ئ‬ ‫نہ‬ ‫و ای ک و ی ہ حدی ث عی ف‬
‫ے۔اور می ں ے ان احادی شث کی داللت کا ب اریتک ی ی سے ج ا زہ ل ی ا اور‬ ‫مراد اس کا والء ہ‬ ‫ض‬
‫ب‬ ‫ی‬
‫سے حث کرنی ہ ی ں‪،‬اور ان سے مراد‬ ‫ت پرست م رکیع ن خ‬ ‫وا ح ک ی اش کہ (ا سی احادی ث) ب ش‬
‫حدگی ا ت ی ار کرے سے مراد ان کے‬ ‫خ یل ن‬ ‫سے‬ ‫رکوں‬ ‫حرقب ئی نم رک ہ ی ں‪ ،‬اور ی ہ خکہ م‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫سے دوری ا ت ی ار کر ا‬ ‫ان کے ا الق ن‬ ‫اور غ‬ ‫ع ا د‪ ،‬ظ ری اتن‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫س‬ ‫م‬
‫ب ا ارہ ک ی ا اور می ں‬ ‫ربن می ں ل ہما وں کی مون ودگی کی ا ت می ت شکی ج ا ق‬ ‫ن اور می ں ے م‬
‫سے است دالل‬ ‫ام‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ح‬ ‫ک‬ ‫عد‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫مد‬ ‫رت‬ ‫ج‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫ما‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫عض)‬ ‫ے اس ر (ب‬
‫ن‬ ‫ن ب پ ن ی یی ن ت‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ض ل‬ ‫تپ‬
‫ے ۔ ( ع ی ا ا عرصہ وہ‬ ‫رت ج ع ر ؓ ہ ج رت کے سا وی ں سال مدی ہ ہچ‬ ‫ت ہح ق‬ ‫کہ‬ ‫ک‬ ‫ک یشا‪،‬ی ہاں‬
‫ف من‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫ے)‬ ‫م رکی ن ن غ ی پ ی ہ ق‬
‫ر‬ ‫ر‬ ‫ذ‬ ‫ام‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬
‫ام پ ذینر ا راد کو ب ی ہ تکہ وہ ک ر و کرات نکے مظ اہ ر‬ ‫ی ک ن می ں ے م ربی نممالک می ں ین‬
‫ن‬
‫ے اورت بقڑی‬ ‫ہ‬ ‫ع‬
‫ے ا ہی ں ا المی لی مات نپر کارب د رن‬ ‫س‬ ‫ں‪،‬اور می ں ٹ‬ ‫ےٹ کے عادی ن ہ ب ی ن‬ ‫د ھئ‬
‫کے زیر سای ہ ز دگی گزارےکی ل ی ن‬ ‫ماعت‬ ‫ی‬
‫ن قج‬ ‫ھو‬ ‫چ‬ ‫کی‬ ‫وں‬ ‫ما‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ان‬ ‫م‬ ‫در‬ ‫کے‬ ‫ی‬ ‫سوسا‬
‫ت ن‬ ‫پ‬ ‫ل ش ئ‬ ‫ئ‬‫ن قی‬
‫کے سا ھ ز دگی گزاری ں۔‬
‫ے کا ح‬ ‫ے عس ا د‪،‬اسالمی شعا ر اور ا خی ا دارن‬ ‫کی‪،‬ج ہاں وہ اغپ‬
‫کم‪:‬‬ ‫کر‬ ‫ار‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ہر‬ ‫کی‬ ‫ممالک‬ ‫لم‬ ‫م‬
‫ئ ق‬ ‫ن‬ ‫ش ی خ‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫س‬ ‫‪-139‬نی غ‬
‫ر‬
‫ے کہ اسنسے‬ ‫ے کو ج ا ز نرار دی ا اس یل‬ ‫م‬
‫می قں ے یتر ف لم‬
‫ممالک ت کی ہری ت ا ت ی ار کر ن‬ ‫ن‬ ‫ص‬
‫ے اور‬ ‫دعوت دی‬ ‫ے‪،‬اس کی ش‬ ‫ے دی ن پر چ ل‬ ‫ے جس سے وہ اپ‬ ‫مومن کو وت اور ئح ظ حا فل و ان ہن‬
‫ہ‬
‫ن‬
‫ت کے‬ ‫ے کہن ہری ن ت‬ ‫ے‪،‬اس یل‬ ‫ں مدد دےسکت ا ہ‬ ‫ے (مسلمان) ب ھا ی وں کو ع پ ہ چ اے می ض‬ ‫اپ‬
‫اور ا خ اب ات‬ ‫ے ئ‬ ‫ووٹ ڈال‬ ‫ہ‬
‫اس کی ج ڑی ں اس لک می ں م ب وط وں گی اور اسے ق‬ ‫م‬
‫س‬ ‫م‬ ‫پ‬ ‫م‬ ‫ح‬ ‫حصول سے ب ن‬
‫مان س ی اسی وت ب ن ج ا ی ں گے‪،‬‬ ‫ل تق‬ ‫سے‬ ‫ساب‬
‫ص ح ن‬ ‫اسی‬ ‫ھر‬ ‫گا‪،‬اور‬ ‫ے‬‫ل‬ ‫ق‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫ں ام ی دوار ن‬ ‫می ن ت‬
‫ے ریری ں کری ں گے اور ان کے‬
‫س‬ ‫صم ی دوارنان کی ہ مدردی حا ل کرے نکے یل ش‬ ‫(ا خ ابی)ا‬
‫م‬
‫ے کی کو ش کری ں گے۔اور اس می ں لم‬ ‫ے می ںفایئ ک دوسرے سے ب ڑھ‬ ‫قووٹ حا ل کر‬
‫ہ‬ ‫فئ‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫دہ‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫دہ‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ا لی ت کےغ یل‬
‫ہ‬
‫‪ -140‬ی ر نلم لک می ں اسالم ب ول کرے والے کا داراالسالم کی طرف ج رت‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫م‬
‫تف‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫ح‬
‫نکرے کا کم‪:‬ن‬
‫ج‬
‫ق مینں ے ہ ج رت کرے والے لوگوں کی ان ا سام کو را ح رار دی ا ج ن کی ص ی ل اب ن‬
‫ن‬ ‫ے کہ‪:‬‬ ‫دامہ ہے ب ی ان کی ہ‬
‫وری ی ا کمزوروی کی وج ہ سے کس پر واج ب ہی ں؟اور‬ ‫ے؟ جمب ن‬ ‫کس پر تواج ہ‬
‫ب‬ ‫ج رت ت‬
‫ے مگر واج ب ہی ں؟‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫حب‬ ‫ے مس‬ ‫کس کے یل‬
‫‪10‬‬
‫‪0‬‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ن اہ م‬ ‫ے کے ب ہت سے‬ ‫مارے زماے می ں اس معامل‬ ‫تج و ہ ئ‬ ‫ے‬ ‫اور می ں ٹ پ ن ی ہ‬
‫ا‬ ‫ک‬ ‫رد‬ ‫ر‬ ‫ن‬‫ان‬ ‫ے‬
‫داز کرے ہ وےفاس پر دار االقسالم کی طرف ہ ج رت کرے کو‬ ‫امور اور قب ڑی نرکاو ی ںخت ظ ر ا ت‬
‫کرے۔‬‫ن‬ ‫نی ں س ی کرے ہن ی ںس و دارال ق ر می ں ا الم ب ق‬
‫ول‬ ‫س‬ ‫ک‬ ‫ج‬ ‫ےم‬ ‫واج ب رار دی‬
‫ں ئے ب ی ان ک ی ا نکہف ہ ر وم لم پر م طل ا ہ ج رت واج ب رار دی ا دعوت اسالمی کے‬ ‫لاور می ف‬
‫ے۔ن‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫دے‬ ‫ا‬ ‫طوی ل ا می عاد‬
‫دعوی‪:‬‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫سوخ‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫آ‬ ‫کی‬ ‫دمحم‬ ‫سورہ‬ ‫‪ -141‬ن‬
‫ن‬ ‫ن ف‬ ‫ق‬
‫ے والی ی ہ‬ ‫می ں ے اس امر کو زی ادہ وز ی رار دی ا کہ سورہ دمحم کی احسان کرے ی ا دی ہ دی‬
‫آی ت‪:‬‬
‫ب َحتَّى إ َذا َأ ْث َخ ْنتث ُم وْ هُ ْم فَ ُش ُّدوا ْال َوثَ ا َ‬
‫ق‬ ‫ب الرِّ قَ ا ِ‬ ‫ض رْ َ‬ ‫"﴿فإ َذا لَقِ ْيتُ ُم الَّ ِذ ْينَ َكفَرُوْ ا فَ َ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫فَِإ َّما َمنًّا بَ ْع ُد َوِإ َّما تفِدَا ًء﴾ "‬
‫ان کی گرد وں پر وار کرو‪،‬ی ہاں ت ک کہ‬ ‫روں سے ف مڈب ھی ڑ ہ و و ض‬ ‫ب مہاری کا ت ن‬ ‫"اب ج ق‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ک‬
‫کرو‪،‬اور ب وطی سے ان کے ب دھن ب ا دھ کر‬ ‫ف‬ ‫ج ب ان کی طا ت چ ل دو و ا ہی ں گر ت ار‬
‫دو۔" ٹ ت‬ ‫ن‬ ‫کر‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫کر‬ ‫لے‬ ‫ہ‬ ‫ی ی‬‫د‬ ‫ا‬ ‫دو‬ ‫ھوڑ‬ ‫ے) احسان کر کے چ‬ ‫ہ‬ ‫رکھو‪،‬پ ھر بق عد می ں (چ ا‬
‫ے‬ ‫سے مہی ں حکرا ی‪،‬اس تیل‬ ‫ےت ت‬ ‫دوسری آینت ی ا آیتت قکے کسی حص‬ ‫ن‬ ‫ق ی ہ رآن ئکی کسی ب ھی‬
‫ئ می ں کو ی دوسری ا سی ص ہی ں ل ی ج و ی دیوں کے سا ھ عا ل کا کم ب ی ان کر ی‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫کہ رآن‬
‫کے۔‬ ‫ے اس آی ت ن ف‬ ‫ہ و سوا‬
‫رہ ی ب ات سورہ ا ال کی درج ذی ل آی ت کی‪:‬‬
‫ف‬ ‫ق‬ ‫ى ي ُْث ِخنَ فِي اَألترْ ِ‬
‫ض﴾‬
‫ت‬
‫"﴿ َما َكانَن لِنَبِ ٍّي أن يَّ ُكوْ نَ لَهُ َأ ْس َرى َحتَّ‬
‫ق‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے کہ اس کو ی دی ہ ا ھ لگی ں ج ب ک کہ ول عال ہ می ں ک ر کی‬ ‫ق ب ی ضکو ی ہ ہی ں کر ان ہ‬
‫ت‬
‫ب‬ ‫نف‬ ‫ت‬ ‫دے۔" ن‬ ‫ب‬
‫ت پر ق رب کاری ہ لگا‬ ‫طا ت‬
‫ے کہ‪:‬‬ ‫ح‬
‫نکےق کم سے حث ہی ں کر ی ب لکہ ئس اسی ری سے حث خکر ی ہ‬ ‫قو ی ہ ی دیوں‬
‫ہ‬
‫ے کہ ب کہ زمی ن پر ون ریزی و‬ ‫ج‬ ‫ے کا صد صرف اسی صورت می ں ج ا ز ہ‬ ‫ح‬ ‫ی دی ب ن ا‬
‫ے ج و سورہ دمحم کیقآی ت می ں ب ی ان کتی ا تگ ی ا ہ ن‬
‫ے۔‬
‫س‬ ‫چ کی ہ و‪،‬اور ی ہ وہ فی ق کم ہ‬
‫ئ ق‬ ‫ن‬ ‫کا) م لمان ( ی دیوں )کے سا ف ھ ق ب ادلہ کر ا‪:‬‬ ‫(کا ر د وں‬ ‫‪ -142‬ن‬
‫دی کو )رہ انکرے کو ج ا ز رار‬ ‫می ں ے م یسل یمان( ق ی دی کے) ب دئلے منی ں( کا ف ر ی ق‬
‫ت‬ ‫ت‬
‫ے‬ ‫سی مسلمان کو رہ ا ی دلوا ا کسی کا ر کے ل کرے سے ب ہ ر ہ‬ ‫ص‬
‫ے کہ ک‬ ‫ہ‬
‫ج ی فئ‬
‫ا‪،‬اس کی و ہ ہ‬ ‫دی ت‬
‫ے کہ م لمان کی حرمت ب ہت‬ ‫س‬ ‫ے اور دوسرا اس لی‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫س‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ا‬‫ح‬ ‫دہ‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫اس‬ ‫و‬ ‫ای ک‬
‫پ ن ت‬ ‫نق‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ے۔‬ ‫زی ادہ ہ‬
‫ے گا و‬ ‫اور ی ہ ج و ب ی ان ک ی ا گ ی ا کہ اس قکا ر کو ان کے حوالے کرے سے ج و ہ مئی ں ئصان ہچ‬
‫ن‬ ‫س‬
‫کرے گا ج وان سے رہ ا ی پ اے گا‪،‬ش یک وخ کہ وہ‬ ‫اس کا م اہب لہ وہ م لمان ظ‬ ‫ے کہ ن ق‬ ‫اس کا ج واب ی ہ ہ‬
‫س کا ازالہ اہ ری طور پر اسیتطرح کا ای ک ص کر‬ ‫ای ک آدمی کی طرف سے ن صان و گا ج ئ‬
‫کے سا ھ ای ک تمسلمان کو رہ ا‬ ‫گے‪،‬اور ضاس ق‬ ‫دے گا اور اس طرح وہ دو وں برابقر ہ فو ج ا ی ںن ف‬ ‫ن‬
‫ے گی‪ ،‬و اس کو زی ادہ‬ ‫تکرجے اور ا نسے ہللا کی ع ب ادت کا مو ع راہ م کرے کی ی لت ب ا ی رہ‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ے۔ ت‬ ‫ر ی ح دی ج ا قی چ اہ ی‬
‫‪ -143‬ی دیوں سے لق ب ی ن اال وامی معاہ دے اور ہ مارا مو ف‪:‬‬ ‫ع‬ ‫م‬
‫‪10‬‬
‫قت ‪ 1‬ن‬ ‫ن‬ ‫خت ن‬ ‫ن ن‬ ‫ق‬ ‫ن تج‬
‫ے اور ا ہی ں ل کرے‬ ‫کر‬ ‫ی‬ ‫ے‪ ،‬ان پرس‬ ‫ہچ ق‬ ‫ا‬ ‫پ‬ ‫آزار‬ ‫کو‬ ‫وں‬ ‫د‬ ‫کہ‬ ‫دی‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫نمی ں ے قر‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ی یت‬
‫ے اسالم کی‬ ‫ے ئی دیوں سے م عل ہ ج دی د ب یک تن اال وامی معاہ دات ی دیوں کے یل‬ ‫کی مما عت ج ی س‬
‫ے ہ یئں۔‬ ‫ات سے م طا تب جق ر ھ‬ ‫طرف سے قدی گ ی ہ دای ت‬
‫ے‪:‬‬ ‫را‬ ‫حی‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ری‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫سے م ع‬ ‫وں‬
‫ص‬
‫ح‬
‫ن‬ ‫ق‬
‫ج‬ ‫ہ‬ ‫ح‬ ‫مع ن‬
‫ل‬
‫ت‬ ‫ق ی‬ ‫ندی ت ج‬ ‫‪ -144‬ی‬
‫ے و رآن ے ی ح‬ ‫می ں ے ر ی ح دی کہ ی دیوں سے ق ب ی ادی کم و ی ہ‬
‫ے ج یسا کہ سورہ دمحم کی آی ت‪:‬‬ ‫ع ب ارات کے ذری عہ ب ی ان ک ی ا ہ‬
‫ق فَِإ َّما‬ ‫ب َحتَّى ِإ َذا َأ ْث َخ ْنتُ ُموْ هُ ْم فَ ُش ُّد ْ‬
‫واال َوثَا َ‬ ‫ب ال ِّرقَا ِ‬ ‫ضرْ َ‬ ‫"﴿فَِإ َذا لَقِ ْيتُ ْم الَّ ِذ ْينَ َكفَرُوْ ا فَ َ‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ف‬ ‫َمنًّا بَ ْع ُد َوِإ َّما فِدَات ًء﴾‬
‫ہاں ت ک کہ ج ب‬ ‫مہاری نکا روں فسے مڈب ھی ڑ و ضو ان کی گرد وں پر وار کرو‪،‬ی ن‬
‫ہ‬ ‫ت‬ ‫اب ج ب‬ ‫ق‬
‫کرو‪،‬اور م ب وطی سے ان کے ب ن دھن ب ا دھ کر رکھو‪،‬پ ھر‬ ‫ف‬ ‫ار‬ ‫ت‬ ‫گر‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫دو‬ ‫ل‬ ‫ان کی طا ت کچ‬
‫ن‬ ‫لے کر رہ ا کر دو۔" ت‬ ‫کے چق ھوڑ دو ی ا دی ہ‬ ‫سان کر ن‬ ‫ے) ا تح ق‬ ‫ب عد می ں (چ اہ‬
‫ے می ں ان کے سا ھ معاہ دہ طے کرے‬ ‫م‬
‫کے معا ل‬ ‫ت‬
‫ے ی دیوں ق‬ ‫می ں ب ی ان وا‪ ،‬و رآن خ‬ ‫ہ‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ا‪:‬‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫رر‬ ‫کا‬
‫ئ‬ ‫لت‬ ‫کے ب عد دو می ں سے کسی ای ک ص‬
‫ت‬
‫ض‬
‫ے ا ہی ںضرہ ا کر دی ا ج اے‪ ،‬اس‬ ‫ای ک ی ہ کہ ان پر احسان نکرے ہ وئےہللائکی رث ا کے یل‬
‫کی ر ا کی طلب‪،‬اور ان‬ ‫اور ہللا ن‬ ‫واب ت‬ ‫نے سواے ن‬ ‫کے عوض می ں ان سے چک ھ ہ ٹل ی ا ج ا‬
‫ے سا ھ مسلما وں کے حسن سلوک کا‬ ‫کے دلوں می ں اسالم کی حمب ت ب ھاے کے کہ وہ وہ پا‬ ‫ش‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫م اہ دہ کری ں۔‬
‫کے عوض ا ہی ں چ ھوڑ دی ا ج اے ج یسا کہ ب ی‬ ‫دوسرا ی ہ کہ ان قسے دی ہ فلےقکر مال ت‬ ‫اور ن‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫نی ا ھا۔‬ ‫نیوں فکا دی ہ ب ول کر ل‬ ‫ق‬ ‫اکرمﷺ ے ب در کے ی د‬
‫زمرے می ں ن ہ آف ا ئہ و ۔مث ال ی دصیوں کو‬ ‫سان کرشے اور دی ہ ب ول کرے کے ف‬ ‫اور تی ہ کہ ج و اح ت‬ ‫نن‬ ‫غ‬
‫ڑے ا دےو لحت‬ ‫ت‬
‫م‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫ن‬
‫ے جس کا ی صلہ بض ت‬ ‫ہ‬ ‫سے‬ ‫است‬
‫ت‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫رعی‬ ‫ق‬
‫ح‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫و‬
‫کے پ یش ظ ر ن‬
‫ا‬ ‫الم ب ا‬
‫ے ج تس سے لوگوں کی رور ی ں پوری ہ و ی ہ ی ں‬
‫ق‬ ‫مران) کر ا ہ‬ ‫احب کم ( نح قک ن‬ ‫ث‬ ‫صف‬
‫ے۔ ئ ق‬ ‫ات کا ازالہ ہ و ا ہ‬ ‫ن یقا رات و صا ن‬ ‫اور ان پر سے م‬
‫ےشکہ ی ہ عام لوگ‬ ‫ن اور می ں ے ی دیوں می ں سے ج گی مج رموں کا ت ل ج ا ز رار دیخا اس لی‬
‫وں کی ئس ی اہ‬ ‫الف د من ی ف‬ ‫کے ن ق‬ ‫ہ س‬ ‫ے لوگ ہ ی ں ج ن کی اس‬
‫الم اورہ ا ل ا الم ن‬ ‫ن‬ ‫س‬
‫ت ہی ں ہ ی ں‪ ،‬تب تلکہ ی ہ قایس‬
‫ے ان ا اب ل معا ی ج را م‬ ‫پن‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫ان‬ ‫ن‬ ‫اور‬ ‫گا‬ ‫و‬ ‫اء‬
‫ٹ تث ئ‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫ان‬ ‫سے‬ ‫ں‬ ‫ے۔ و مام ی دی ی‬
‫م‬ ‫وں‬ ‫اری خ ہ‬
‫ے۔‬ ‫سزا کا سزاوار ھہراتی ا ج ا تے گا ج قو ا ہوں ے یک‬ ‫نمی ں ق‬ ‫اور مظ الم کے ب دلے‬
‫ت‬ ‫‪ -145‬قاس زماے می ں ی دیوں کے سا ھ بقر او کا طریغ ہ‪:‬‬
‫ے سے م علق آج کی‬ ‫دات‪ ،‬امن و ج ن گ اور ی دشینوں و ی رہ کےنمعامت جل‬ ‫ن ب ی ن اال وامی تمعاہ پ ن‬
‫دی کہ ان ب ی ن‬ ‫ے ان کی رومسی نمی ں می ںسے ر ی ف ح ش‬ ‫د یق ا ج ن معاہ دات ک ت ہ چ چ کی ہ‬
‫ے‬‫ے جس‬ ‫دوں کے ناح رام می ں ہ ی آج کے لما وں اور ا الم کا م اد پو ی دہ ہ‬ ‫م‬ ‫اال وامی قمعاہ‬
‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫ہ‬ ‫ک‬
‫ارب اب ا ت دار کو لحوظ ر ھ ا چ ا ی‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ع‬ ‫ج‬ ‫خ‬
‫عدل و احسان اور ک نمزوروں کے سا ھ رحم و رمی‬ ‫دات ن کا ض ق ن‬ ‫ل‬ ‫تاص تطورجپیر وہ نمعاہن ق‬
‫ے‪ ،‬یک و کہ اسالم ان سے زی ادہ ان‬ ‫سی ا سا ی ا دار کو م ب وط کرے سے ہ‬ ‫قکے سا ھ بر او ت‬
‫ف‬ ‫ن ہت‬ ‫ف‬ ‫ے۔‬ ‫اسداری نکر ہ‬
‫ا‬ ‫ن‬ ‫ا دار کی پ‬
‫کے م اد می ں‬ ‫ی ن‬ ‫ہ‬‫ت‬ ‫الم‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫امت‬‫ن‬ ‫ی‬
‫س‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ی ہ‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫اد‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ق‬ ‫دعوت‬ ‫المی‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫ایسا‬ ‫اور‬
‫کہ ہ م مسلمان ی ہ اعالن کر دی ں کہ ہ م ی دیوں کے معاہ دات لی م ہی ں کرے یک و کہ ی ہ ہ می ں‬
‫‪10‬‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫‪2‬‬ ‫ہ خ‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ق د وں ق‬
‫ئ گوی ا‬‫ون قب ہاے کے پ ی اسے ہ ی ں اور‬ ‫ے‪،‬گوی ا کہ م ف‬ ‫کے نلہ کی ا فج ازت ہی ں دنی‬ ‫قی ی‬
‫ے حاال کہ ہ ماری اسالمی ہ می ں دو می ں سے ای ک راے کو‬ ‫ت‬
‫خی دیوں نکو تل کر ا م پر رض ہ‬
‫ج‬ ‫یت‬ ‫خ‬ ‫ت‬ ‫ح‬ ‫ے‪:‬‬ ‫ئ‬‫ا ت ی ار قکر ا ہ و ا ہ‬
‫ے ن می ں سے‬ ‫ا تی ک نرا بے صاحب کم کو چ ار ب ا وں می ں سے ای ک کا ا ت ی ار د ی ہ‬
‫ف‬ ‫ق‬ ‫ن ت‬ ‫ن‬ ‫ے۔‬‫ئ ق‬ ‫ای ک ل کر ا ھی ہ‬
‫ص‬ ‫ظ‬ ‫ت‬
‫کے‬ ‫ے ن‬ ‫ری ی ل‬ ‫اور رآن کے اہ ض‬ ‫ے ض‬ ‫سے م ع کر ی ہ‬ ‫ئے ل کرے ض‬ ‫اور دوسری را‬
‫ع‬ ‫ش‬
‫ے‪،‬ی ہ راے صحاب ہ می ں سے ح رت اب ن عمر و ح رت اب ن عغ ب اس ر ی ہللا ہم‬ ‫م طابق ہ ت‬
‫ے‪،‬ی ہی وہ‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫رہ‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ع‬ ‫اور‬ ‫ن‬ ‫ر‬ ‫س‬ ‫ن‬
‫ج قع بت ی ی‬ ‫ا‬ ‫طاء‪،‬‬ ‫صری‪،‬‬ ‫ب‬ ‫سن‬ ‫ح‬ ‫سے‬
‫ے‪ ،‬اور ی ی ت‬
‫ں‬ ‫م‬ ‫ن‬
‫ق‬ ‫ع‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫کیئہ‬
‫ے ہ ی ں۔‬ ‫ہ‬
‫ے م ب ول کرے ہ ی ںق اور را حنرار دی‬ ‫س‬
‫ے جس‬ ‫راے ہ‬
‫واز‪:‬‬ ‫ج‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ول‬ ‫ری‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫مان‬ ‫م‬
‫خ‬ ‫ت ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫ب‬
‫ل یس ج‬ ‫ج‬ ‫‪ 146‬ن ل ت‬ ‫‪-‬‬
‫ے کا ا ت ی ار‬ ‫ب اسی ری ب ولق کرے ی ا مس رد کر ت‬ ‫دی کہ م تلمان جگو کو ج ئ‬ ‫ئں تے ر ی ح ن‬ ‫می‬
‫مت‬ ‫س‬ ‫ب‬
‫ے)ی ہا تو عزی ن‬ ‫دی اخج اے ( و وہ ان ئدو وں صور وں می ںف سے کو ی ھی اینک بئول کر کت ا ہ‬
‫ے‬ ‫ذمہ ہمیتں ہ ج اے‪،‬یخ ا پ ھر اگر ا عم ی ل‬
‫ڈا‬ ‫ار‬ ‫ھ‬ ‫سے‬ ‫ئ ت‬ ‫ے اور کان ر کے‬ ‫کو ا ت ی ارنکرے اور لڑا ی ج اری رکھ‬
‫صت پر ل پ یرا ہ و اور‬ ‫ے و ھ ی ار ڈال ئکر ر ق‬ ‫ت‬ ‫کے یل ب‬
‫ے ہ ری ظ ر آ ت‬ ‫ےق اور امت ئ‬ ‫ے یل‬ ‫می فں اپ‬
‫ے‪ ،‬اس ام ی د ئکے سا ھ کہ ہللا اسے کو ی اور مو ع دے گا ۔‬ ‫ا‬
‫یس ی چ ج ق‬ ‫ال‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫د‬ ‫کی‬ ‫روں‬ ‫کا‬
‫ن‬
‫مان اور ذمی ی دیوں کو قرہ ا ی دی ا‪:‬‬ ‫م‬
‫ت‬
‫م‬
‫ف‬ ‫ن‬
‫س‬ ‫‪-147‬ن ل ت ج‬
‫ے اور‬ ‫ے حب ہ‬ ‫س‬ ‫ہ‬
‫میممں ے ر ی ح دی کہ لمانف ی دیوںف کو ر ا کروا ا عام ا راد کے یل‬ ‫م‬
‫ے ج و امت پر جمموعی طور پر‬ ‫امور می ں سے ہت‬ ‫ے‪،‬ینہ ان خرض ک ای ہ ف‬ ‫تر واج ب ہ‬ ‫فسرب راہ ف لکت پ‬
‫غ‬ ‫ہ‬
‫ے ہ ی ں اور حکمرا قوں پر اص طور پرترض عی ن وے ہ ی قں۔‬ ‫رض ک ای ہ ہ و ق‬
‫س‬ ‫م‬
‫ے ہ ی ں و ینذمی ی دشیوں ن(ی ا ی ر لم‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫س‬ ‫ش اور ج و (ح وق) م‬
‫ب‬ ‫ت لمان ی دیوں پر الگو و ق‬
‫ے کی کوتش کر ا ھی اسی‬ ‫چ‬
‫ے ان کے ی دیئوں کو ھڑا ش‬ ‫۔اس یل ق‬ ‫وں )پر ب ھی الگو ہ وے ہ ی ں‬ ‫ہری ض‬
‫ے‬ ‫ے کو ش کرے ہ ی ں‪،‬اس لی‬ ‫ے جس طرح ہ م م لمان ی دیوں کی فرہ ا ی کے لی‬
‫ئ‬ ‫س‬ ‫روری‬ ‫طرح‬
‫ں۔‬ ‫ذمہ ہ ی ف‬ ‫ہحق وق ہ ینں ج و ہ مارےغہ ی ں‪ ،‬اور وہ ی را ض ہ ی ں ج و ہ مارے خ‬ ‫ی‬ ‫کہ ان کے وہ‬
‫‪ -148‬ہ مارے زماے می ت قں مال ن یئ مت کا حکم‪ ،‬اور ی ہ کہ ک ی ا اس کے چ ار مس وج کے‬
‫شخ‬ ‫تق‬ ‫غ‬ ‫ے ج ا ینں گے؟‪:‬‬ ‫ن تس پ جاہ ی وں می ں سی م یک‬
‫مال ن ی مت کی سی م ہ ر ئص‬ ‫ن‬
‫ف ئ‬
‫ے می ں ج گ کے‬ ‫می ں ے ر ی حئدین کہ ہ خمارے زما ئ‬
‫نمال اور حاصل ش دہ نوا د کے م طابق فکی ج اے‬ ‫ے‬ ‫ےگ‬ ‫کی طرف نسے کی گ ی حم ت‪ ،‬رچ یک‬
‫ج‬ ‫ن‬
‫ے‪ ،‬یک و کہ و فوں اور‬ ‫کے حاالت اب نہی ں رہ‬ ‫شگی‪،‬اور عہد ب وی اور اس خکے ب عد کےضزماے ت‬
‫وزارتتد اع و‬ ‫ست‬ ‫ب‬ ‫دو‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ے‬ ‫رورت ہ و ہ‬
‫ی‬ ‫ات کی‬ ‫ل کروں کو ب ت ب‬
‫پن‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫خ‬ ‫ھاری ھرکم ا راج ق‬
‫ے‬ ‫ے۔ بسا او ات ان تا راج ات کی چما یلین ت ارب وں ک ہ چ ج ا ی ہ‬ ‫عسخکری امور کر ی ہ‬
‫کے امن اور ب االدس ی کو ب اہ ر سے ل ج درپ یش ہ و۔‬ ‫است ن‬ ‫ب ال صوص ج ب کہ ری ن ق‬
‫اگر ہ م اس ص رآ ی‪:‬‬
‫َّس وْ ِل َولِ ِذي ْالقُ رْ بى‬ ‫"﴿ َوا ْعلَ ُم وا َأنَّ َم ا َغنِ ْمتُ ْم ِم ْن َش ْي ٍء فَ َأ َّن هلِل ِ ُخ ُم َس هُ َولِلر ُ‬
‫ن‬ ‫ص ت‬ ‫َو ْاليَتَا َمى َو ْال َم َسا ِكي ِْن َواب ِْن ال َّسبِيغ ِْل﴾ ت‬
‫اور ج ان رکھو کہ ج و ب ھی مال ن ی مت م کو حا ل ہ و و اس کا پ ا چ واں حصہ ہللا اور رسول‬
‫‪10‬‬
‫‪3‬‬ ‫ف‬ ‫ف‬ ‫ن‬ ‫ش‬
‫ے(م ادات عامہ اور‬ ‫ہ‬ ‫کا‬ ‫روں‬ ‫ضاور ان کے ر ت ہ داروں‪،‬اور ی ت ی وں اور مسکی وں اور مسا‬
‫غ‬ ‫ے)۔‬ ‫ن‬
‫ن‬
‫ص‬ ‫ب‬ ‫ف‬ ‫ئ‬ ‫ے نہ‬ ‫رورتغم د رعای ا تکے یل‬
‫گا کہ اب خ ا راد چک ھ ھی مال نت ی مت حا ل ہی ں‬ ‫ے ف‬ ‫ہ‬
‫ت پرصور کرینں و می ں ظ رش آ ن‬
‫ے کے سا ھ جمموعی طور پر مال‬ ‫وں می ں پورا ل کر اپ ی وج اور م ت لف اسلح‬ ‫غکرے‪ ،‬یح حصمع ت‬
‫غ‬ ‫خ‬ ‫ئ‬ ‫ے۔‬ ‫ن ی مت فحا تل کر ا ہ‬
‫مال ن ی متنکا‬ ‫امر می ں ت‬‫خ‬ ‫ری‬ ‫ے‪،‬آ‬ ‫یس ی ہ‬‫عہ‬ ‫ت‬ ‫ذر‬ ‫ک‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫ں‬
‫ی ف‬ ‫م‬ ‫ع‬ ‫ذرا‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫است‬ ‫اور وج و ری‬
‫ے‪،‬ا ی‬ ‫پ‬ ‫م‬ ‫ج‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ے‪،‬اس پر شرچ کر ی ہ‬
‫ئ‬ ‫ےت و کہ وج شکو لح کر ی ہ ت‬ ‫ح تصول ری است کو ق ی و ا ہ‬
‫ے‪ ،‬و ہ ی د و قج اے اس‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫اس کی ت پر مو ود و ی ہخ‬‫ج‬ ‫پ‬ ‫دس ی باب پوری ن طا ت کے سا ھ ت‬
‫کے وں اور خ‬
‫ے اور ان می ں سے جتو ز م کھا کر اس درمعذور ہ و‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫کی دی کھئ ب ھال کر‬ ‫ت‬ ‫دان‬ ‫ا‬ ‫ن‬ ‫ئچ‬
‫ی‬ ‫ض‬ ‫س‬ ‫ن‬
‫ے۔ ت ت ن‬ ‫ہئ‬ ‫ے اسے معاو ہ د ن ی ق‬ ‫کے سا ھ کو شی روزگار ہ چ ال ک‬ ‫ج اے کہ آسا ی ن‬
‫ے ج ہی ں‬ ‫ت اورخ رض اکاروںتکی ب ی اد پر ا م ہ وے ھ‬ ‫ے عہد ب وی می ں لت تکر نرض اکاری‬ ‫اور پہل‬
‫ھ‬ ‫ج‬ ‫ک‬
‫ے‬ ‫ے و خے ی انب و ل‪ ،‬ب لکہ وہ ج ہاد خکے ت یل‬ ‫ش‬‫ہ‬ ‫ل‬
‫ےخب الی ا نج ا ا و ل پڑے‪ ،‬تواہ ہ ک‬ ‫ج بقب ھی تج ہاد ت ت‬
‫کے یل‬
‫ے واہ ا ہی ں ہ ھی ب الی ا ج ا ا‪،‬اور ہ ر ص اپ ی ب ساط کے م طابق ود کو ی ار‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ے ھ‬ ‫ہ مہ وت ت ی ار رہ‬
‫ئ ت‬
‫ت ت‬ ‫جن‬ ‫ت‬ ‫رکھت ا ھا۔‬
‫ے کو ج نی جع ب کی ب ات‬ ‫ن اس طرح ن مام مالی و شعسکری ب وج ھغ جگووں پر ہصی ہ و ا ھا اسن یل‬
‫ے کہ ج گ می ں ل کر ج و مال ن ین مت حا ل خکرے وہ ا ہی ں جگووں کا حصہ ہ و‬ ‫ئ ت‬
‫ہ‬ ‫ہی ں‬
‫ے‪،‬جس کے مصارف کی‬ ‫ے کے‪ ،‬و کہ نپف ا چ واں تحصہ ( مس)ہ‬ ‫ج‬ ‫ھوڑے غسے حص‬ ‫ے ن‬ ‫سوا ق‬ ‫ت‬
‫سورہ ا ال می قں کی۔ ت‬ ‫کے ب عد غ‬ ‫ی ی ن رآن‬ ‫ع‬
‫ش‬ ‫نف‬ ‫ع‬ ‫ے زوہ ب در ن‬ ‫ض‬
‫ت‬
‫ئا ال کی گز ہ آی ت‬ ‫مت کیت سی م سے م ل تق سورہ‬ ‫ی‬ ‫ت‬
‫ع‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫ج‬ ‫ت خ غاور ج خب ح رت عمر ؓے فمال ن ن‬
‫کے موم کی‬ ‫ے و تے اسن‬ ‫ہاد سے کام ی‬ ‫ےا‬ ‫ں ور و وض ک ی ا اور اس کی ئسی ر می ں اپ‬ ‫می‬
‫ں ج ب کہ‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫زما‬ ‫اس‬ ‫و‬ ‫ا‪،‬‬ ‫د‬ ‫کر‬ ‫حدود‬ ‫ک‬ ‫کے عالوہ ت‬ ‫داد‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ز‬ ‫سے‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫کی‬ ‫ص‬ ‫ی‬ ‫ص‬
‫ی ق‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ئ‬ ‫ج ی‬ ‫ی‬
‫ے کہ ہ م رآن‬ ‫ے ہ ی ں ہ می نں ی ہ حق حاصل ہت‬ ‫دل‬
‫خ ب گ‬ ‫ہت‬ ‫ب‬ ‫سے‬
‫غ‬ ‫ے‬‫ل‬ ‫ہ‬
‫ت‬ ‫عسکری نو مالی حاالت پ‬
‫ف کری ں ی ا‬ ‫ن کہ اس می ں حری ق ئ‬ ‫ے ہی ں‬ ‫پ‬ ‫کری‬
‫پ‬ ‫م تکی ص پر اپی ک مر ب ہ ھر ور و وض ہکری ں‪،‬اس یل ن‬
‫ے زماے می ں یش آمدہ ح ا ق کے‬ ‫ے جکہ م اس کو اپ‬ ‫مروڑ کر یشش کری ں ب لکہ اس یل‬ ‫ن‬ ‫وڑ‬
‫اسے س‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫ے ہ یغ ں۔‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫م‬‫ج‬
‫ت ق‬ ‫ش کری ں جسس می ں تم ی رہ‬ ‫ے کی کو‬ ‫م طا ق ھ‬
‫نم ھی ں و ہ می ں قمال نئی مت نکی ن سی م سے م علق دی م حکمت کو‬ ‫ب اگر ہنم ص کو اچ ھی طرح ج‬
‫ت‬
‫ے اج ہاد کرے شسے ہ می ں نطعا کونی امر ما ع تہی ں ہ و گا ج یسا کہ ہ م روایت ی‬ ‫کے تی‬
‫ل‬ ‫س‬ ‫تف ب دی ل کرے‬
‫ے زماے کے اع ب ار سے ب الکل درست ھا‬ ‫ح‬ ‫جم‬
‫ش‬ ‫ے ہ ی ں ۔ اور ب ال ن ب ہ ی ہ کم اپ‬ ‫لہم کی وج ہ سے نھ‬
‫ے ی ہ ار اد ب اری‬ ‫مارے زماے می ں درست ہی ں رہ ا۔ اور اس ب ارے می ں ہ مارے یل‬ ‫ت ی کن ہ ف‬
‫ے‪:‬‬ ‫عالی ہ ی کا ی ہ‬
‫ال قُ ِل األ ْنفَا ُل هللِ َوال َّرسُوْ ِل﴾ "‬ ‫"﴿يَ ْسَألُونَكَ َع ِن اَأل ْنفَغ ِ‬
‫ت‬ ‫چ‬
‫ں(رمض ان ‪ ۲‬ھ ؁ می ں ج ن گ‬ ‫ےہی غ‬ ‫مت کے ب ارے می ں پو ھ‬ ‫مال ن ی ت‬ ‫"لوگ آپ سے‬
‫ٹ‬
‫ے کہ اموال ن ی مت ہللا اور رسول کے‬ ‫ے)آپ کہہ دی ج ی‬ ‫ے ھ‬ ‫سواالت ا ھ رہت‬ ‫ب در کے ب عدف ی ہ ن‬
‫ے)۔"‬ ‫ہ ی ں (اصال ی صلہ ا ہی ں کے ہ ا ھ می ں ہ‬
‫‪10‬‬
‫‪4‬‬ ‫ئ‬ ‫لق ن‬
‫نسے ھی مالحظ ہ ک ی ا ج اے۔(‪)991-2/989‬‬ ‫ب‬ ‫اس ب اب ت ج و امام اب ن ا ی مت ے کہا ا‬
‫ح‬ ‫دار االسالم می ں کلیسا عمی ر کر ت‬
‫ئ‬ ‫ے کا کم‪ :‬ئ ق‬ ‫ک‬ ‫‪-149‬ن‬
‫ے ماسواے ج زیرۃ العرب‬ ‫نکی عمی ر کو تجشا ز رار دی ا ہ‬ ‫ف‬
‫ل‬
‫ےدی ار ا الم می ں یساوں‬ ‫س‬ ‫مں‬
‫ے کہ کلیسا کی‬ ‫ے)کے‪،‬اس لی‬ ‫کی‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫عی‬ ‫ا‬ ‫(ی نی ی از ق دس‪،‬ج یسا کہ امام ش‬
‫ئ ہ‬ ‫ن‬ ‫ت ع حج ن ن‬ ‫م‬
‫عمی ر سے م ع کرے والی احادی ث یح ح ہی ں سواے اس حدی ث کے‪(" :‬ال يترك‬ ‫ص‬

‫ت‬ ‫بجزيرة العرب دينان)" ن‬


‫تف‬ ‫ئ‬ ‫ے"‬ ‫"ج زیرہ عرب می نں دو دی نت ہی ں رہ سک‬
‫ع‬
‫ے‪،‬اور (سواے)اس م ق لی ہ حدی ث‬ ‫ی ہ حدی ث (س د کے اع ب ار سے)حسن ہ‬
‫کے‪:‬‬
‫"أخرجوا المشركين من جزيرة العرب"‬
‫عرب سے مشرکین کو نکال دو"‬ ‫"جزیرہ ن‬
‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ے کہ قم ذ یم وں کو ندی ن‪،‬عنی دہ اور‬ ‫ے کہ ہ مارے دی ن ے م پر قالزم ک ی ا قہئ‬ ‫اس یل‬
‫ہ‬ ‫س‬ ‫ب‬ ‫خ‬
‫ے والی‬ ‫ت ما و ئ‬ ‫اص طور پرش ی ن اال وامی‪ ،‬فعال ا ی اور م تامی طح پر رو‬ ‫تع ب یادات کی قآزادیتدی ں‪ ،‬ن‬
‫ہوم کی ب االدس ی ئکے ہ توے ہ و نے۔‬ ‫ئ‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫نوامنم حدہق کےخ ی ن ی‬
‫ہر‬ ‫ک‬ ‫زد‬ ‫ب د لیوں‪،‬اور ا‬
‫م‬‫ج‬ ‫ب‬
‫ے ی ہ ظ ر آی ا کہ‬ ‫کے دال ل کا ھی ج ا زہ ل ی ا وص ھغ‬ ‫والوں ئ‬ ‫ے ث‬ ‫ول ا ت ی ار کر‬
‫ص‬ ‫می ں ئے م ت ع کا غ‬
‫ح‬
‫ے‪،‬اور ی ا ھر ی ح ی ر صری ح ہ ی ں‬ ‫پ‬ ‫ج‬
‫کے دال ل ی ا و صری ح ی ر ی ح ہ ی ں و کہ اک ر دال ل کا حال ہ‬ ‫ح‬ ‫جان ت‬
‫ن‬ ‫ح ت‬ ‫ے۔‬ ‫ن کی غ مہس‬
‫کم‬ ‫عداد‬
‫ئ‬ ‫ہ‬
‫نر ت جموں کا کوم ی تعہدوں پر براج مان و ا‪:‬‬ ‫ل‬ ‫‪ -150‬ی‬
‫عہدوں‬ ‫ان‬ ‫ے‬ ‫سوا‬ ‫ے‬ ‫ق‬ ‫ح‬ ‫ھی‬ ‫ب‬ ‫کا‬ ‫وں‬ ‫ی‬ ‫ذ‬ ‫ر‬ ‫عہدوں‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫کہ‬ ‫دی‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ے‬
‫ن‬
‫س‬ ‫ہ‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫پ م‬ ‫ی ست‬ ‫غ‬ ‫ن‬ ‫جمی ں ی ن‬
‫وں‬ ‫امامت کر ا‪ ،‬ری است کی سربرا ی‪،‬م لما ت‬ ‫ج‬
‫ے‪،‬جن یسا غکہ‬ ‫الب ہ و ا ن‬
‫ہ‬ ‫یر گ ق‬ ‫ض‬ ‫کے ن پر د ق‬
‫ج‬ ‫ع‬
‫ے امور ہ ی ں۔ان کے الوہ و ری اس ی‬ ‫ات پرئ گرا ی و ی رہ ی س‬ ‫کے درم ی ان اء اور صد ٹ ن‬
‫ے ج بت کہ ان می ں اہ لی ت‪،‬دی ان ت داری اور ری است‬ ‫وں کو ب ھاش ا ج ائ ز ہئ‬ ‫عہدے ہ یف ں ان پجر یذ یم ض‬
‫ن‬ ‫ہ‬
‫روری را ط شپ ا ی ج ا ی وں۔‬ ‫ے و ا داری سی ق‬ ‫کے یل‬
‫‪ -151‬عقمومی اسالمی ومی ت( ہری ت)‪ ،‬اور دی ن اسالمی سے م سوب اسالمی‬
‫تف‬ ‫ن ومی ت‪:‬ن ق م ت‬
‫ے‪:‬‬ ‫می ں ے ان دو وں و ی وں می ں ش ریق کی ہ ق‬
‫ق‬ ‫خ‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫کے ہریوں کی ) نمی‬
‫و‬ ‫(ممالک ق‬ ‫‪ .1‬عمومی اسالمی ن‬
‫ایسا ص ت حض اسالم ب ول‬ ‫م‬ ‫م‬
‫الم کی طرف سب ت سکی ومی ت‪ ،‬اس ع ی می ں کہ ف‬ ‫‪ .2‬اسن‬
‫ے۔‬ ‫ب ج ہ‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫خ‬ ‫ش‬
‫ن‬ ‫رد‬ ‫ک‬ ‫یت‬‫ا‬ ‫کا‬ ‫ت)‬ ‫اب‬ ‫ا‬
‫شج‬ ‫امت‬ ‫مہ(‬ ‫ل ق‬ ‫م‬ ‫امت‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫کر‬
‫س‬ ‫ص‬
‫کی‪ ،‬و ی ہ ہ ر وہ ص غحا ل کر کت ا‬ ‫رہ ی ب ات اسالمیغ ری است کی ومی ت( ق ہری ت)‬
‫س‬ ‫خ‬
‫ے ی ام پ ذیر ہ و‪ ،‬واہ وہ شمسلمان ہ و ی ا ی ر م لم۔‬ ‫ے ج و دار االسالم می ں ی ر معی ن ہ مدت کے ی‬
‫ے‪:‬‬ ‫ل‬ ‫ہ ‪ -152‬ج و ذمی داراالسالم م ں رہ ت ا ے وہ اسالمی ر است کی ہری ت کا حام‬
‫ل‬
‫ہ‬ ‫ش ی‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ن تج‬
‫ے‬ ‫می ں ے ر ی ح دی کہ ذمی دار االسالم کے ہریوں می ں سے ہ ی ں اور اس دار کے لی‬
‫‪10‬‬
‫ت‬ ‫ن‬
‫ش‪5‬‬
‫ل ہ ی ں۔ و ایسا ذمی ہری ج و‬ ‫دی سی ا غ ر ملکی ہ ں ہ ں ب لکہ اس کی اصلی ش ہری ت کے حام‬
‫م ت ت‬ ‫ش‬ ‫ی ی‬ ‫ی ی‬ ‫ب‬
‫ے ل ی کن عمومی اسالمی‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫و‬‫ت‬ ‫ل‬ ‫حا‬ ‫کا‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ہر‬ ‫کی‬ ‫لک‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫المی‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫وہ‬ ‫ے‬
‫ہ ت‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫ن‬‫ر‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫الم‬‫س‬ ‫داراال‬‫ق‬
‫م‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫خ‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫م‬
‫ے۔ اور ا خالمی لک کی‬ ‫شومی ت کا حامل ہنی ں و ا کہ ی ہ لما وں کے سا ھ اصخ و ی ہ ن‬
‫ے کہ اس کا ون مسلما وں کےف ون کی طرح‬ ‫فہری ت کا حا ل ہ و ا اسے ی ہ سہولت دی ت ا نہ‬
‫مال و دولت مسل فما وں کے مال و دولت کی طرح مح وظ ہ و‪،‬اور اس‬ ‫مح وظ وق مامونسہ نو‪،‬اس کا ق‬
‫ش‬ ‫طرح مح توظ ہ وں۔‬ ‫وق م لما وں کے ح وق کی ت‬ ‫ح‬
‫کے ش‬
‫ص‬
‫ے و کسی ھی دوسرے ہری کو حا ل‬ ‫ب‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫س‬
‫ت‬ ‫یش نہ خ تہری ت اسے وہ سب ہو ی ں د ی ہ‬
‫نکے حصولنک‪،‬ری است کے‬ ‫نورٹ‬ ‫ہ یخ ں۔ ا قی کارڈ کی دسہولت سے لے کر پ ا پ‬
‫س‬
‫ن‬
‫ے اورتکام کرے کی آزادی سے‬ ‫کے عالوہ)آے ج ان‬ ‫(مکہ اور مدی ہ ق‬ ‫م ت لف ع تال وں قمی ں ش‬
‫لے کر وہ مام ح وق ج و ہرشی ت کےن وق کے طور پر ج اے ج اے ہ ی ں۔‬ ‫ح‬
‫ت‬ ‫ے کی اساس‪:‬‬ ‫ے ہری ت لی‬ ‫ذمیت جکے یل‬ ‫‪-153‬ن‬
‫غ ق‬ ‫ی‬‫ع‬ ‫خ‬
‫ے ب ی ر ا امت پ ذیر‬
‫ہ‬ ‫ن ش می ں ے ر ی ح دی کہ داراالسالم می ں کبسی اص مدت کی ی ن یک‬
‫ے ا می ت‬ ‫ے کی دار ی ا ج گہ کے یلن‬ ‫ے۔ی ہ ھی اس معامل‬ ‫ت کے حصول شکی اساس ہ‬ ‫ہ و ا ہری ن‬
‫سان کسی‬ ‫ن‬ ‫ن‬
‫ے ی ہی عام‬ ‫پ‬
‫ے‪،‬کہ ا ہ ن‬ ‫اصول ہ‬ ‫س‬ ‫س‬ ‫ے۔اور ہریق ت کے حنصول کے یل‬ ‫ش ظ رہ‬ ‫کے ی ش‬
‫ے آب اء و اج داد کے ل در ل وہ اں آب اد رے سے‬ ‫ملک کا ہری وہ اں طوی ل ا امت اور اپ‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ئ‬ ‫ے۔ ق‬ ‫ہ یب ن ت اہ‬
‫ے ش رآن ت کری م اسرا لیوں کے مصر می ں طوی ل ی ام کی وج ہ سے ا ہی ں اہ ل ی ان‬ ‫ی‬ ‫اسی یل‬
‫ے‪:‬‬ ‫مصر می ں سے مار کر ا ہ‬
‫َ‬ ‫ْ‬ ‫َأ‬
‫﴿و َج َع َل هلهَا ِشيَعًا﴾"‬ ‫"‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫َ ش‬
‫ہ‬
‫"اور (ملک )کے ب ا دوں کو گرو وں می ں ب ا ٹ دی ا۔"‬
‫‪ -154‬ذمیوں پر تجارتی ٹیکس کا اطالق‪:‬‬
‫میں نے ت رجیح دی کہ ذمی وں پ ر س ال میں ای ک م رتبہ عائ د نص ف‬
‫العشرتجارتی ٹیکس ان کے اس مال پر ہے جس کے ذریعے وہ ایک ملک سے‬
‫دوسرے ملک میں تجارت کے لیے جاتے ہیں‪،‬اور یہ ہمارے زمانے کے کس ٹم‬
‫ٹیکس کی طرح ہے۔اور میں نے بی ان کی ا کہ اس کے دوگن ا ہ ونے کی وجہ یہ‬
‫ہے کہ ذمی س ے کچھ بھی نہیں لی ا جات ا س وائے اس کے ج و اس کے اس‬
‫تجارتی مال پر لیا جاتا ہے جسے لے کر وہ ایک ملک سے دوسرے مل ک میں‬
‫جاتا ہے۔‬
‫جہ اں ت ک تعل ق ہے اس کے مل ک کے ان در تج ارتی م ال‪،‬پوش یدہ‬
‫مال‪،‬کھیتیوں اور مال مویشیوں کا تو ذمی سے ان پر کچھ نہیں وص ول کیاجات ا‬
‫بر خالف مسلمان کے‪،‬کہ اس سے مذکورہ مال کی تمام اقسام پر زک وۃ وص ول‬
‫‪10‬‬
‫‪6‬‬
‫کی جاتی ہے۔‬
‫رہی بات اس کی کہ اگر ذمی کی حالت تب دیل ہ و ج ائے اور اس س ے اس‬
‫کے ظاہری و باطنی اموال پ ر اتن اٹیکس وص ول کی ا ج انے لگے ج و مس لمان‬
‫سے وصول کی گئی زکوۃ کے مساوی ہو تو ایسی صورت میں ذمی تاجر سے‬
‫مسلمان کی طرح مال وصول کیا جا سکتا ہے‪،‬اس میں کوئی حرج نہیں۔‬
‫‪ -155‬ذمیوں کے کپڑے اور ظاہری حلیہ‪:‬‬
‫میں نے ان باتوں کی عدم صحت کو اجاگر کیا ج و امیرالموم نین حض رت‬
‫عمر ؓ اور مسلمانوں کے خلیفہ حضرت عمر بن عبدالعزیز ؒ کی ط رف منس وب‬
‫کی گئی ہیں کہ انہوں نے ذمی وں پ ر یہ ش رط عائ د ک ر رکھی تھی کہ وہ اپ نے‬
‫لباس‪،‬زین اور جوتوں میں مسلمانوں کی مشابہت نہ اختی ار ک ریں اور وہ اپ نے‬
‫(لباس کے ) درمیان میں یا کندھوں پر ایس ے مخص وص بیج ز (نش ان) لگ ائیں‬
‫جن سے وہ مسلمانوں سے الگ نظر آئیں۔‬
‫اگر یہ نسبت درست ہو تو بھی یہ کوئی دینی یا عبادات سے متعلق مع املہ‬
‫نہیں ہے‪،‬بلکہ یہ ایک ادارہ ج اتی فیص لہ ہے ج و اپ نے زم انے کے معاش رے‬
‫کے مفادات سے تعلق رکھتا ہے‪،‬اور مفاد کے ب دلنے‪،‬اور اس ے تب دیل ک ر کے‬
‫بہتر بنانے میں کوئی رکاوٹ نہیں ہے۔نیز اس وقت لوگ وں کے درمی ان ان کے‬
‫مذہب کے مطابق امتیاز رکھن ا ض روری تھ ا اور اہ ل م ذاہب اس ک و پس ند کی ا‬
‫ک رتے تھے‪،‬ت و اس میں ک وئی پریش انی والی ب ات نہیں۔کہ یہ ای ک پہچ ان ک ا‬
‫معاشرتی ذریعہ ہے جیسا کہ ہم آج ہر معاشرے میں ہر گروہ یا پیش ے ک ا ال گ‬
‫یونیفارم دیکھتے ہیں جو انہیں دوسروں سے ممتاز کرتا ہے‬
‫ن‬ ‫عمری شرطیں‪:‬‬ ‫‪-156‬ن‬
‫ض‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ش‬
‫کی خسب ئت ح رت عمر ب ن‬ ‫دیق ج نن‬ ‫ل‬ ‫مری رطوں کی عدمشصحت کو ر ی ح‬
‫ت‬
‫خ می ں ے ان ع ت‬
‫ے۔‬ ‫ے زا ن می ںش کی ہ‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫ج‬ ‫نؓ کی ق‬
‫ے اور سن کی ن رح المہ اب ن ا م ؒک ت‬ ‫طرف کی ج ا ی ہ ق‬ ‫ل‬ ‫طاب‬
‫کہ‪:‬ان رطوں کی‬ ‫ےہیں ت‬ ‫شمی ں ے اب ن ا ی م نکےث اس ول لی نم کو ہینں ک ی ا جس می تں وہ ہ‬
‫لوگوں می ں تح ی کہ اہ ل علم‬
‫ے‪ ،‬ق یک قو کہ کت ی ہ ی ای سیئب ا ی ں ن‬ ‫ہرت ہ ی انش کی س د تکا ب وتلہ‬
‫ہ‬ ‫ص‬ ‫ح‬ ‫ی‬
‫ت می ں ان کی کو ی ا ل ہی ں و ی۔‬ ‫ہور ہ و ج ا ی ہ ی ں خ فکن ی ن‬ ‫س‬ ‫م‬
‫ان م‬
‫کے درم ی غ‬
‫صب‪:‬‬ ‫کا‬ ‫ت‬ ‫ال‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫موں‬ ‫ل‬
‫ن ئ‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫غل س خ فم‬
‫م‬ ‫‪-157‬نی ت ج‬
‫ر‬
‫ری کا م صب ہی ں فسوق پ ا ج اے‬ ‫ت ی ا امامت کب ش‬ ‫کہ ی ر خ لم کو ال ی ن‬ ‫می ں ے رنی ح دی پ ن‬
‫ے کہ ی ہ ( رعی س ی است کے ہاء کے‬ ‫ے کہ ی ہ م صب ا ی سا ت می ں د ی ہ‬ ‫گا‪،‬اس یل‬
‫‪10‬‬
‫‪7‬‬ ‫ت ف ن‬ ‫ن‬
‫ﷺ نکی ن ی اب ت می ں دی ن کا ن ح ظ کرے اور اسی دی ن کے‬ ‫ک) رسول ہللا ن‬ ‫ی‬‫زد‬
‫ے۔اس طرح ی ہ م صب دو پ ہلووں سے دی ن کے‬ ‫ذر ع ن‬
‫ےد ی اوی س ی است کرے کا ام ہ‬ ‫ی‬
‫ت‬‫ے‪:‬‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ھو‬ ‫گرد گ‬
‫ف‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ظ‬ ‫‪ :۱‬دی ن کا ح‬
‫ش‬ ‫ق‬
‫‪:۲‬ٹ دتن ی ا کی ا سی س ی است کر ا و دی ن کی اساس پر ا م و اور جس کے اصول ری عت‬
‫ہ‬ ‫ج‬ ‫ی‬
‫ے ہ قوں۔ ئ‬ ‫سے پ ھو‬
‫ئ ق‬ ‫ن‬ ‫‪-158‬ن ومی ب ھا ی غچ ارہ‪:‬‬
‫ش‬
‫ئکی وج ہ سے یئہ ج ا ز رار دی ا‬ ‫ق می ں ئے (مسلم و ی ر فم لم کے) غوطنسکے م رک ہ وے‬
‫ت‬ ‫س‬
‫کہ ومی ب ھا ی چ ارے کے ل تظ کا اطالق ی رم ل تموں پر ب ھی نک ی ا ج اے۔اور ی ہ بق ھا ی چ ارہ آپس‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬‫رار دی ت ا ت‬
‫ب ت‬ ‫مدد امداد‪،‬ب اہنمی ئعاون اور ا صاف کو واج ق ئ‬ ‫دوسرے کے سا ھ ئ‬ ‫ت‬ ‫می ں ای ک‬
‫ےق ا م‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫ی‬ ‫ص‬
‫ے و ای م ئان پر ا م و ا ہ‬ ‫سا ھ کہ ائ ل ب ھا نی چ قارہ د نی ب ھان ی خچ ارہ ہ‬ ‫مان کے ق ئ‬ ‫اس ای ن‬
‫ای ماننکی ب ی اد پر ا م ب ھا ی چ ارہ وط ی‪ ،‬ومی ی ا ا سا ی ا وت ج یسی ب ھا ی چ ارے کی دی گر ا سام‬
‫ف‬ ‫سے ہی ں قروکت ا۔‬
‫ج‬
‫ل‬ ‫ل‬
‫‪ -159‬ومی ت کے مس لہ می ں ا الم س دوں اور مخ ا ی ن کے درم ی ان ا ھن کے‬ ‫ن‬ ‫پ‬ ‫س‬ ‫ئ‬
‫ق‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫سئ‬ ‫اب‪:‬‬
‫ناس ب ن‬
‫ج‬
‫ے کی ج ڑ رار دی ا ن پر ب ڑی آسا ی سے اب و پ ای ا‬ ‫اس م ل‬ ‫ے چ ار بن ی اد ی اس ب اب کو ئ‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ہ‬ ‫س می ں ش‬
‫وں۔‬ ‫ت‬ ‫درست‬ ‫م‬ ‫عزا‬ ‫اور‬ ‫و‬‫ف‬ ‫صاف‬ ‫ت‬ ‫ےب ی ی‬
‫کہ‬ ‫رط‬ ‫ج ا کت ا ہ‬
‫ے‬ ‫لک کے ن یل‬ ‫ے۔ج ب مئ‬ ‫ہج‬‫ت کا ت عارض ت‬ ‫اداری اور سب ئ‬ ‫ت‬ ‫ف ان می ں سے پ ہال سبف ب‪ :‬و‬
‫ش و دی ن کو ر ی ح دی ج اے گی یک و کہ‬ ‫ے و اداری می ں عارض آےگا‬ ‫و اداری ی ا دی ن کےب یل‬
‫ن ض‬ ‫ے۔‬ ‫ی ہ‬ ‫ن‬ ‫د‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫وب‬‫ی ح ت‬ ‫ب‬‫م‬ ‫اور‬ ‫ز‬ ‫عز‬ ‫ادہ‬ ‫ی‬ ‫ز‬ ‫سے‬ ‫ز‬‫ی‬ ‫چ‬ ‫ھی‬ ‫ے کسی ق‬ ‫مسلمان کے یل‬
‫ے۔ می ں تے واغ ح ک ی ا کہ‬ ‫کے سا فھ مالپ ہ ن‬ ‫دوسرا سب ب‪ :‬ومی تت کا س ی کولرازم‬ ‫ن‬ ‫ق‬
‫ن‬ ‫م‬ ‫خ‬
‫و تمی ت اپ ی ذات کے اع ب ار سے کسی ب ھی ق اص کرنکی حا ل ہی ں ہ وک تی ب لکہ ی رج ا ب دار‬
‫ے۔ اور ی ہ‬ ‫ھی ب ول کرے کی صالحی ت ر ھ ی ہ‬ ‫سی کو ب ن‬ ‫اور حق ی ا ب اطل می ں ن ق ک‬ ‫ہ و شی ہ‬
‫سے ض‬ ‫ہ‬ ‫س‬
‫ے ق‬
‫ئ‬ ‫ے۔ ت‬ ‫ت کا کولر و ا طعاق غرورین ہی ں ہ‬ ‫ی‬ ‫کہ ہر تی ت ی ا ومی ق‬
‫ئ‬ ‫ے۔‬ ‫ا‬ ‫ن‬
‫ب ب ج‬‫ادل‬ ‫م‬ ‫کی‬ ‫ن‬ ‫ی‬‫د‬ ‫وہ‬ ‫کہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫لو‬
‫ق‬ ‫در‬ ‫اس‬ ‫ں‬ ‫یسرا تسب ب‪ :‬می ی‬
‫م‬ ‫ت‬ ‫و‬
‫ہ‬ ‫ت‬
‫ے کہ‪ :‬ج ب ومی ت ج اہ لی عصب ی ت می ں ب دی ل و ج اے۔‬
‫ب‬ ‫ب ی تہ ہ‬ ‫س اورح چ و ھا سب ت‬
‫ے اگرچ ہ کڑوی ہ و۔‬ ‫ہ ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ات‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ح‬ ‫و‪،‬اور‬ ‫ہ‬ ‫ھی‬ ‫ہاں‬ ‫ے‬
‫ہ ج‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ھ‬ ‫م لمان ق کے سا‬
‫‪ -160‬غیرمسلموں کے ساتھ سالم میں پہل کرنا‪:‬‬
‫میں نے غیر مسلموں کے ساتھ اس صورت میں سالم میں پہ ل ک رنے ک و‬
‫ترجیح دی جبکہ صرف وہی ہوں‪،‬جیس ا کہ اس الف کی ب ڑی تع داد جن میں ابن‬
‫مسعود‪،‬حسن بصری‪،‬ابراہیم نخعی‪،‬عمر بن عبدالعزیز ش امل ہیں کی رائے ہے۔‬
‫اور میں نے واض ح کی ا کہ س الم ک رنے س ے مم انعت پ ر داللت ک رنے والی‬
‫احادیث جنگ کے دنوں‪،‬اور لڑائی میں دشمن کا سامنا کرنےپر محم ول ہیں۔(یہ‬
‫‪10‬‬
‫‪8‬‬
‫قول اختیارنے کی وجہ یہ ) حدیث ہے‪:‬‬
‫"إني راكب غدًا إلى اليهود فال تبدؤوهم بالسالم"‬
‫میں کل یہودیوں کی طرف سفر کرنے واال ہوں‪،‬تو تم انہیں س الم میں پہ ل‬
‫نہ کرنا۔‬
‫اور ان صورتوں میں تو ب درجہ اولی (س الم میں پہ ل ک رنے کی) اج ازت‬
‫ہے جبکہ کوئی ایسی وجہ ہو جو سالم کرنے کا تقاضا کرتی ہو‪،‬جیسا کہ رش تہ‬
‫داری‪،‬تعلق‪،‬پڑوس یا سفر وغیرہ۔‬
‫‪ -161‬غیرمسلم کو سالم کا جواب دینا‪:‬‬
‫میں نے اس صورت میں غیر مسلموں ک و وعلیکم الس الم کے الف اظ س ے‬
‫جواب دینا جائز قرار دی ا ہے جبکہ یہ یقی نی ہ و کہ الس الم علیکم کے الف اظ ادا‬
‫کیے گئے ہیں۔ یہ شرعی دالئ ل اور ش ریعت کے قواع د ک ا تقاض ا ہے کی ونکہ‬
‫کے نزدیک یہ عدل (وہی الفاظ لوٹ انے)کے ب اب س ے ہے جبکہ‬ ‫بقول ابن القیم ؒ‬
‫ہللا احسان (اس سے بھی اچھا جواب دینے)کا حکم دیتا ہے‪،‬ارش اد ب اری تع الی‬
‫ہے‪:‬‬
‫﴿وِإ َذا ُحيِّ ْيتُ ْم بِت َِحيَّ ٍة فَ َحيُّوا بَِأحْ َسنَ ِم ْنهَا َأوْ ُر ُّدوْ هَا﴾‬
‫اور جب تمہیں کوئی سالم کرے تو تم اس ک ا ج واب اس س ے اچھ ا دو‪،‬ی ا‬
‫ویسا ہی جواب دو۔‬
‫ت و ہللا نے اس آیت میں وہی الف اظ لوٹ انے ک و واجب‪ ،‬جبکہ اس پ ر کچھ‬
‫اضافہ کرنا مستحب قرار دیا ہے۔‬ ‫الفاظ کا ن‬
‫‪ -162‬ا صاف کی اسالمی عدالت‪:‬‬
‫میں نے آج کےاسالمی ممال ک ک و مت وجہ کی ا کہ ان پ ر واجب ہے کہ وہ‬
‫ع المی اس المی ع دالت ب رائے انص اف ق ائم ک ریں ج و اختالف اور چپقلش کی‬
‫ص ورت میں (ان کے درمی ان فیص لہ ک رے) اورتم ام اس المی ممال ک اس‬
‫(اسالمی عدالت )کا فیصلہ تس لیم ک ریں۔اور پھ ر اس ع دالت کے اس تحکام کے‬
‫لیے ضروری ہے کہ تمام اسالمی ممالک سے اسالمی فوج تیار کی جائے ج و‬
‫اس عدالت کے احکامات کو نافذ کروائے۔‬
‫‪10‬‬
‫‪9‬‬

‫نواں باب‪ :‬اسالمی ممال‪##‬ک کی ب‪#‬اہمی‬


‫لڑائیاں‬

‫(نواں باب‪ :‬اسالمی ممالک کی باہمی لڑائیاں)‬


‫‪ -163‬اسالمی ممالک کی باہم لڑائیوں کی صورتیں‪:‬‬
‫میں نے مرکزیت کی وحدت‪،‬داراالسالم کی وحدت اور خلیفہ یا بڑے ام ام‬
‫کی شکل میں قیادت کی وحدت قائم ہو جانے کے بعد اسالمی ممالک کے مابین‬
‫اندرونی لڑائی سے خبردار کیا۔اور میں نے لڑائی کی چار صورتیں بیان کیں‪:‬‬
‫‪ :۱‬عصبیت کی لڑائی۔‬
‫‪11‬‬
‫‪0‬‬
‫‪ :۲‬متنازعہ صوبائی حدود پر لڑائی۔‬
‫‪ :3‬ملک پر لڑائی اس طور پر کہ مسلم ریاست میں پڑوسی مسلمان مل ک‬
‫کی قیمت پر توسیع کی جائےاور پڑوسی ملک کو ہڑپ کر کےاس پر اپنا تسلط‬
‫قائم کیا جائے۔‬
‫‪ :۴‬مذہبی یا فرقہ وارانہ لڑائی۔‬
‫میں نے واضح کیا کہ اسالمی عقی دہ‪،‬اس المی ش ریعت اور اس المی اخالق‬
‫مذکورہ تمام صورتوں کو مسترد کرتے ہیں۔‬
‫‪ -164‬مکالمہ کرنے اور قریب النے کے اصول‪:‬‬
‫میں نے مس لمانوں کے آپس میں ل ڑائی کی ص ورتوں میں ای ک ص ورت‬
‫فرقہ یا مذہب کی بنیاد پر لڑائی بی ان کی ہے جیس ا کہ آج ع راق میں ش یعہ اور‬
‫سنیوں کے درمیان ہو رہا ہے۔اور میں نے تصدیق کی کہ اہلسنت اور اہل تش یع‬
‫آپس میں اختالف کے ب اوجود دون وں ہی اہ ل قبلہ میں س ے ہیں‪،‬اور اس میں‬
‫ص رف انہیں مس ترد ش دہ لوگ وں ک ا اس تثنا ہے جنہیں خ ود جمہ ور ش یعہ بھی‬
‫مسترد کرتے ہیں۔‬
‫اور میں نے ایسے علمی و عملی وسائل اختیار کرنے کی دع وت دی ج و‬
‫اس س یاہ تن ازعہ میں پ ڑنے س ے بچ ا س کتے ہیں۔میں نے جن اص ولوں پ ر‬
‫خصوصی توجہ دی ان میں سے اہم یہ ہیں‪:‬‬
‫‪ :۱‬ہر ایس ے ش خص کی تکف یر س ے اجتن اب کرن ا ج و الالہ اال ہللا کہ نے‬
‫واال(کلمہ گو) ہو۔‬
‫‪ :2‬غلو اختیار کرنے وال وں اور انتہاپس ندوں کی دس ترس س ے دور رہن ا‬
‫اور اہل بصیرت و حکمت اعتدال پسندوں سے وابستگی اختیار کرنا۔‬
‫‪ :۳‬درپیش مشکالت‪،‬الجھے ہوئے مسائل اور رکاوٹوں کا کھ ل ک ر اظہ ار‬
‫کرن ا‪،‬اور حکمت‪،‬ت دریج اور ب اہمی تع اون س ے ان پ ر ق ابو پ انے کی کوش ش‬
‫کرنا‪،‬اور اع دائے امت اور ان کے وس ائل و ذرائ ع کے دھ وکے س ے خ بردار‬
‫کرنا۔‬
‫‪ :۴‬امت پر مشکل گھڑی میں ل ڑائی کے ل یے تی ار رہن ا‪ ،‬ایس ے وقت میں‬
‫جبکہ امت کے کفار حریف آپس میں ایک دوسرے کو س پورٹ ک رتے ہیں اور‬
‫‪11‬‬
‫‪1‬‬
‫دوس ری ط رف اہ ل ایم ان ای ک دوس رے س ے دوری اختی ار ک رتے ہیں‪،‬ای ک‬
‫دوسرے کو ذلیل کرتے ہیں‪،‬اختالف کرتے اور لڑتے جھگرتے ہیں۔‬
‫‪ -165‬صلح سے انکار کرنے والے کے ساتھ جنگ کرنا‪:‬‬
‫میں نےاس المی ریاس ت کے خالف ناج ائز بغ اوت ک ر کے جن گ ک رنے‬
‫والوں کے ساتھ صلح کرنا اور خون ریزی سے بچنے کی کوش ش کرن ا واجب‬
‫ق رار دی ا‪،‬اور ج و ش روع میں ہی ص لح ک رنے س ے انک ار ک ر دے اور اپ نے‬
‫معاملے میں کسی کی دخل اندازی کو قبول نہ ک رے ت و امت کی ذمہ داری ہے‬
‫کہ اس کے ساتھ جنگ کرے‪،‬اور دونوں جانب عسکری قوت کے ساتھ امن قائم‬
‫کرے۔کہ ج و شمش یر ح ق کے س امنےنہیں جھکت ا وہ ح ق شمش یرکے س امنے‬
‫جھک جاتا ہے۔‬
‫‪ -166‬باغیوں کے ساتھ جنگ کرنے میں کافروں سے مدد طلب کرنا‪:‬‬
‫میں نے مسلمان ب اغیوں کے خالف جن گ میں ک افروں س ے م دد حاص ل‬
‫کرنے کے عدم ج واز ک و ت رجیح دی‪،‬کہ ہمیں مس لمانوں کی ب اہمی ل ڑائی میں‬
‫کافروں کو شامل نہیں کرنا چاہیے‪،‬اس لیے کہ وہ اپ نی ل ڑائی میں ان ام ور ک ا‬
‫خیال نہیں رکھتے جن کا ہم رکھ تے ہیں‪،‬اور ہ و س کتا ہے کہ وہ اس موق ع ک و‬
‫غنیمت جان کر اپنے(سینوں میں )چھپے بغض کی بھڑاس نکالیں۔‬
‫‪ -167‬خودسر حکمرانوں کے بارے میں امت کی پوزیشن‪:‬‬
‫میں نے امت مس لمہ ک و دع وت دی کہ وہ ایس ے ش ورائی اور ع وامی‬
‫ذرائع‪،‬میکانزم اور ادارے بنائے جو کہ امت کے مف ادات پ ر خودس ری ک رنے‬
‫کی کوشش یا اسالمی شریعت اور اس کی طرف س ے الگ و ک یے گ ئے احک ام‬
‫سے روگردانی کرنے پر حکمرانوں کے پر ک اٹیں۔اور یہ کہ (امت مس لمہ) اس‬
‫ب ابت جمہ وری اور دیگ ر نظ اموں س ے ہ ر وہ اس لوب اخ ذ ک رے جس ے وہ‬
‫ضروری سمجھتی ہے اور جو انس انیت نے سرکش وں اور ظ الموں کے خالف‬
‫کشمکش کی طویل تاریخ کے دوران دریافت کیے۔‬
‫‪ -168‬کسی بھی قوم کے خالف جب تک وہ اسلحہ نہ نک‪##‬الے محض ان کی‬
‫(مخالفانہ) رائے کی بنیاد پر لڑائی نہیں کی جائے گی۔‬
‫میں نے مسلمانوں کی جماعت کے خالف تل وار(اس لحہ)کے بغ یر بغ اوت‬
‫‪11‬‬
‫‪2‬‬
‫کرنے والے کے قتل یا اس کے ساتھ لڑائی ک رنے کے ع دم ج واز ک و ت رجیح‬
‫دی‪،‬اس ل یے کہ یہ ب اغی گ روہ امت ک ا حص ہ ہے مگ ر مخ الف رائے رکھت ا‬
‫ؒ‬
‫عبدالعزیز اور جمہور فقہاء ک ا ق ول‬ ‫علی‪،‬حضرت عمر بن‬ ‫ہے‪،‬اور یہ حضرت ؓ‬
‫ہے۔اور اس سے ہم نے یہ استدالل کیا کہ حزب اختالف کی جماعتیں بنانا جائز‬
‫ن‬ ‫اٹھائیں۔‬
‫خ‬ ‫ہے تاوقتیکہ یہ جماعتیں اپنی رائے کے حق نمیں اسلحہئنہ‬
‫پ‬ ‫قن‬
‫ئچ ھا ہی ں ک ی ا ج اے گا‪،‬ن ہ ز می کو مرے دی ا‬
‫ے والے کا ی‬ ‫سےب ھاگ‬
‫میں ق‬ ‫‪ -169‬بئاغیوں‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫ج اے گا اور ہ ی ی دی کو ل ک ی ا ج اے گا‪:‬‬
‫میں نے جنگ سے پیٹھ پھیر کر بھ اگنے والے ک ا پیچھ ا کرن ا‪،‬زخمی ک و‬
‫مرنے کے لیے چھوڑ دین ا اور قی دی کےقت ل ک رنے ک و ناج ائز ق رار دی ا‪،‬اور‬
‫ش ریعت اس المی کی رواداری‪،‬ل ڑائی ک رنے وال وں کے م ابین قی ام ع دل کی‬
‫حرص اور خون بہانے میں (اسالم کا)تنگی و سختی کرنے کا مزاج اجاگرکیا۔‬
‫‪ -170‬باغیوں میں سے مارے جانے والے کی نماز جنازہ‪:‬‬
‫میں نے ترجیح دی کہ باغیوں میں س ے ج و م ارا ج ائے اس ے غس ل اور‬
‫کفن دیا جائے گا اور اس کی نماز جنازہ ادا کی ج ائے گی چ اہے وہ خ ارجیوں‬
‫میں سے ہی ہوں‪،‬جیسا کہ حنفیہ اور شافعیہ وغیرہ کی رائے ہے۔ امام احم د بن‬
‫حنبل کے ظاہری کالم کے ب رعکس ابن ق دامہ نے بھی اس ی رائے ک و ت رجیح‬
‫دی ہے۔‬
‫‪ -171‬بغاوت کا شرعی حکم‪:‬‬
‫میں نے ترجیح دی کہ حاکم وقت کے خالف ہر بغ اوت ک و فس ق نہیں کہ ا‬
‫ین‬‫جا سکتا‪،‬اور نہ ہی ہر باغی گناہگار ہوتا ہے‪،‬ورنہ ہم ابن زبیر ؓ‪،‬حضرت حس ؓ‬
‫صالحین کو گناہگاروں میں شمار ک ریں گے۔‬ ‫ؒ‬ ‫اور ان کے عالوہ بہت سے سلف‬
‫ب رخالف کوی تی انس ائیکلو پی ڈیا کے‪،‬کہ اس میں بغ اوت کے ش رعی حکم کے‬
‫بیان میں مذکور ہے کہ بغاوت ح رام ہے اور ب اغی گناہگ ار ہیں‪،‬اور اس موق ع‬
‫پر مسئلے میں اختالف کی طرف اشارہ نہیں کیا گی ا‪،‬تھ وڑا آگے ج ا ک ر جہ اں‬
‫امام شافعی کی رائے بیان کی گئی وہاں پر اختالف کی طرف اشارہ دیا گیا ہے۔‬
‫لہذا مطلقا (حرمت کا )حکم لگانا محل نظر ہے۔‬
‫‪ -172‬باغی کون ہوتا ہے؟‬
‫‪11‬‬
‫‪3‬‬
‫میں نے ترجیح دی کہ باغی وہ ہوتا ہے جو اپنی خواہش کی پیروی کرتے‬
‫ہوئے‪،‬یا(متاع) دنیا کو ترجیح دیتے ہ وئے‪،‬ی ا تس لط ک ا ارادہ رکھ تے ہ وئے‪،‬ی ا‬
‫عصبیت کی بنا پر‪،‬یا مسلمانوں کے دشمن کے ف ریب میں آ ک ر ی ا ان س ب کے‬
‫عالوہ کس ی بھی نفس انی خ واہش ی ا دنی اوی غ رض کے ل یے ع ادل اور نی ک‬
‫حکمران کے خالف بغاوت کرتا ہے۔‬
‫‪ -173‬بغاوت قابل مذمت ہے‪،‬دونوں میں تطبیق اس طرح کی جا سکتی ہے‬
‫جیسے میں نے ترجیح دی ہے کہ مجتہد باغی کو گناہگار نہ قرار‬
‫دیا جائے‪:‬‬
‫میں نے ترجیح دی کہ بغاوت کے لفظ کو جب حرف جر (علی) کے س اتھ‬
‫متعدی بنایا جاتا ہے تو اس کا مطلب ہوتا ہے‪:‬حد س ے تج اوز کرن ا اور لوگ وں‬
‫کی جان‪،‬مال اور عزت کے ساتھ زیادتی کرنا‪ ،‬یہ ایک قسم ک ا ظلم ہے اور ظلم‬
‫ح رام ہے۔ب رخالف ش افعیہ کے م ذہب کے کہ (اس کے مط ابق) بغ اوت ک وئی‬
‫بری چیز نہیں ہے‪،‬اس لیے کہ بغاوت کرنے والےاپنے اعتقاد کے مطابق جائز‬
‫تاویل کر کے مخالفت کرتے ہیں‪،‬لیکن وہ اس تاویل میں غلطی پر ہوتے ہیں‪،‬تو‬
‫ایک طرح سے وہ معذور ہیں کہ ان میں اجتہاد کی صالحیت ہے۔‬
‫میں نے اپنی رائے پر کہ بغاوت قابل مذمت امر ہے اور مجتہد ب اغی ج و‬
‫ظلم کے خ اتمے کی نیت کرت ا ہے ی ا انح راف ک ا مق ابلہ ک رنے کی نیت کرت ا‬
‫ہے‪،‬اس کی تفصیل میں میں نے دو باتیں بیان کی ہیں‪:‬‬
‫‪ :۱‬پہلی بات یہ ہے کہ ہم ایسے شخص کو باغی یا سرکش نہ ش مار ک ریں‬
‫جو کسی فاسق یا ظالم حکم ران کے خالف اس ل یے بغ اوت پ ر اترت ا ہے ت اکہ‬
‫اس کی جگہ پر عادل یا نیک حکمران آئے۔‬
‫‪ :۲‬دوسری یہ کہ باغی کا اجتہاد کرنا‪،‬اور حسن نیت کے س اتھ ح اکم وقت‬
‫کے خالف بغاوت کرنا اس سے بغاوت کے گناہ کو ساقط کر دیت ا ہے‪ ،‬کی ونکہ‬
‫عمل کے ثواب میں نیت کا عمل دخل ہوتا ہے چاہے وہ عمل خط ا ہ و جیس ا کہ‬
‫مجتہدین کا احکام میں معاملہ ہے‪،‬کہ ان میں سے غلطی ک رنے والے ک و ای ک‬
‫اجر اور درست اجتہاد کرنے والے کو دو اجر ملتے ہیں۔‬
‫‪ -174‬بغاوت کرنا سیاسی جرم ہے‪:‬‬
‫‪11‬‬
‫‪4‬‬
‫میں نے ت رجیح دی کہ ریاس ت کے حکم ران ی ا ج ائز ص احب حکم کے‬
‫خالف بغاوت کرنا سیاسی جرائم میں سے ہے چاہے وہ اکثریت حاصل کر کے‬
‫اقتدار تک پہنچا ہو۔ماہرین قانون کی یہی رائے ہے اور یہ شریعت اسالمیہ کے‬
‫بھی مطابق ہے ج و کہ ب اغیوں اور سیاس ی مجرم وں کے س اتھ خ اص مع املہ‬
‫کرتی ہے جس میں رحم اور نرمی کا عنصر غالب ہے۔‬
‫‪ -175‬بغاوت ان جرائم میں سے نہیں ہے جن پر حد جاری ہوتی ہے‪:‬‬
‫میں نے ترجیح دی کہ بغاوت قابل حدود جرائم میں سے نہیں ہے‪،‬یعنی ہللا‬
‫کی طرف س ے اور نص وص میں طے ک ردہ س زاوں س ے خ ارج ہے جن میں‬
‫کمی بیشی نہیں کی جاسکتی‪،‬جیسا کہ چوری اور جھوٹے الزام کی حد۔‬
‫‪ -176‬باغی قاضیوں کے فیصلوں کو کالعدم نہ قرار دینا‪:‬‬
‫میں نے اس قاضی کے فیصلوں کو جائز قرار دی ا ہے جس ے ب اغیوں نے‬
‫قاض ی مق رر کی ا ہ و بش رطیکہ اس میں قاض ی بن نے کی ص الحیت ہ و‪،‬اس‬
‫کےفیصلے کو اہل عدل کے قاضی جیسا سمجھا جائے گا۔‬
‫لوگ وں س ے ض رر و تنگی ختم ک رنے کے ل یے ش ریعت اور فقہ کی‬
‫واقعیت ک ا یہی تقاض ا ہے‪،‬ایس ے قاض ی بس ا اوق ات بعض ملک وں میں ک ئی‬
‫دہائیوں یا کئی صدیوں تک قاضی کے منصب پر رہتے ہیں۔‬
‫‪ -177‬باغیوں کا ذمیوں سے مدد لینے کا حکم‪:‬‬
‫میں نے ترجیح دی کہ جب باغی گروہ ذمیوں سے مدد طلب ک رے اور وہ‬
‫ان کی مدد بھی کر دیں اور ان کے ساتھ م ل ک ر ل ڑائی ک ریں ت و ان ک ا معاہ دہ‬
‫نہیں ٹوٹتا‪،‬اس لیے کہ ذمیوں کو نہیں معلوم کہ کون حق پر ہے اور ک ون باط ل‬
‫پر‪ ،‬اس ل یے اس مع املے میں ان کے ل یے ش بہ ہ و گ ا(جس ک ا انہیں فائ دہ دی ا‬
‫جائے گا) اور ذمیوں کے ساتھ معاہدے کی اص ل یہ ہے کہ وہ ہمیش ہ کے ل یے‬
‫ہوتا ہے اس لیے اس کی حفاظت کرنا ضروری ہے‪،‬اور بغیر کسی قطعی دلی ل‬
‫کے اسے نہیں توڑا جائے گا۔‬
‫‪ -178‬شدت پسند جماعتوں کے احکام کی بحث‪:‬‬
‫میں نے شدت پس ند جم اعتوں کے احک ام س ے بحث کی ہے اور میں نے‬
‫ان کی وہ دلیلیں ذکر کی ہیں جن کو بنیاد بن ا ک ر وہ اپ نے ہی ملک وں کے ان در‬
‫‪11‬‬
‫‪5‬‬
‫اور حکومتی نظام کے خالف پرتشدد رویہ اپناتی ہیں۔ میں نے بیان کیا کہ وہ‪:‬‬
‫‪ :۱‬برسراقتدارحکومت کی تکفیر کی قائل ہیں اور ان کی بنیاد ابن تیمیہ ک ا‬
‫یہ‬
‫فت وی کہ( ہ ر اس گ روہ کے خالف جہ اد کی ا ج ائے گ ا ج و ش ریعت کے‬
‫ظاہری احکام نہیں ادا ک رے گی۔اور اس ام ر کی قائ ل ہیں کہ یہ نظ ام امت پ ر‬
‫زبردستی تھونپے گئے ہیں۔اور یہ نظام برائی کو برقرار رکھتے ہیں ۔‬
‫‪( :۲‬یہ شدت پسند جماعتیں) ہللا کی حرام ک ردہ چ یزوں ک و حالل ٹھہ راتی‬
‫ہیں۔‬
‫‪ :۳‬ان میں سے بعض جماعتیں تکفیر کرنے میں وسعت اختی ار ک رتی ہیں‬
‫اور ذمیوں کی عزتوں کو مب اح س مجھتی ہیں اور ایس ے لوگ وں ک ا خ ون بہان ا‬
‫جائز سمجھتی ہیں جنہیں ریاست نے امان دی ہوئی ہے جیسا کہ سیاح وغیرہ۔‬
‫اور میں نے بیان کیا کہ‪:‬‬
‫ان میں س ے اک ثریت ک ا مس ئلہ ان کی عقل وں میں ہے‪،‬اور یہ کہ ان کی‬
‫اچھی نیتیں ان کی اوچھی حرکتوں کو جائز نہیں کر دیتیں۔‬
‫اور میں نے ان نئے خوارج کی فقہ میں بگاڑ کے پہلو واضح کیے جو کہ‬
‫کئی پہلووں میں ظاہر ہوتا ہے‪:‬‬
‫‪ :۱‬جہاد کے احکام میں۔‬
‫‪ :۲‬غیرمسلموں خصوصا ذمیوں کے ساتھ تعلق کے احکام میں۔‬
‫‪ :۳‬برائی کو طاقت سے روکنے کے احکام میں۔‬
‫‪ :۴‬حکمرانوں کے خالف بغاوت کے احکام میں‪،‬اور‬
‫‪ :۵‬تکفیر کے احکام میں۔‬
‫اور میں نے ان میں سے ہر پہلو کے بگاڑ پر اس قدرگفتگو کی جس س ے‬
‫اچھی طرح وضاحت ہو جاتی ہے‪،‬اور پیچیدگی اور ابہام دور ہو جاتا ہے۔‬
‫ن م ن سجم ن‬ ‫‪-179‬نہاتھ سے برائی تروکنے کیق شرائط‪ :‬ئ‬
‫نمی تں ان کے‬ ‫ے‬ ‫ے عی ھ‬ ‫نکے شطا ت سے برا ی کو روک‬ ‫ف مخی ں ظے ش دت پ س ن د ج ماع وں‬
‫ے اور می ں ے چ ار رطی ں ب ی ان کی ہ ی ں ج ن پر می ں ے وج ہ دی ۔‬ ‫ل‬
‫ہم کا لش اہ ر ک ی ا ہ‬
‫اور وہ ( چ ار رطی ں ت) فی ہ ہ ی ں‪ :‬ن‬
‫‪ :۱‬اس امر کا ب اال اق حرام ہ و ا۔‬
‫‪11‬‬
‫‪6‬‬ ‫ن‬ ‫ئ ظ ہ ن غ‬
‫ن‬ ‫ا۔‬ ‫آ‬ ‫ق‬‫الب‬ ‫‪:۲‬بعمرا ی کا اہ ر و ا اورن‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬
‫ے کی ئطا ت نو ا۔‬ ‫‪ :۳‬لی طور پر اقسے ب دل‬
‫ن‬ ‫ج‬
‫ے کی وج ہ سے اس سے ب ڑی برا ی و ود می ں ہ آ ی‬ ‫‪ :۴‬اور ی ہ کہ طا ت سے برا ی کو روک‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ہ و۔‬
‫ن خ کت‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫ج‬
‫زماے کی قوہ طا ی ں و ب دی لی الے کا ا ت ی ار ر ھ ی ہ ی ں‪:‬‬
‫ح‬ ‫ے کے طری وں کی وض احت کی ج کہ ہ روک ن‬ ‫ن‪ -‬ہئمارے ن‬ ‫‪180‬‬
‫است‬‫ی ن‬ ‫ر‬ ‫اور‬ ‫کومت‬ ‫ا‬ ‫ک بت ی‬ ‫خ‬ ‫ق‬ ‫ک‬ ‫رو‬ ‫کو‬ ‫ی‬ ‫را‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫می ں‬
‫ے‬ ‫ت‬
‫ے‪،‬اور تی ہ کہ ب دی لی ال ئ‬ ‫نار ر ھ ی ہ‬ ‫سے و و نکہضمادی و ع کری طا ت کا ا ت ی‬ ‫س‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫کی ج ان ب‬
‫ے ج و کہ ہ مارے زماے می ں درج ذی ل ی ن می ں سے کو ی‬ ‫ے می کا زم کا ہ و ا روری ہ‬ ‫کے یل‬
‫ق‬ ‫ے۔‪:‬‬ ‫ای ک س فہ‬
‫ا‬ ‫ت‬‫ک‬ ‫س‬ ‫و‬ ‫ہ‬
‫ق نف‬ ‫لی ن‬
‫ئ‬ ‫ش‬ ‫وت۔‬
‫ت‬ ‫‪:۱‬م لح ا واج‪:۲،‬پ ار م تٹ( توت ا ذہ)‪ :۳،‬ئعوامی‬
‫اور جس کے پ اسئان ی ن طا وں می ں سے کو ی ب ھی ہ ہ و و اس کی ( رعا) کو تی قذمہ‬
‫ن‬ ‫ن‬
‫دوسرے کو صب ر کی ل ی ن‬ ‫ئ‬ ‫کرے‪،‬ای ک‬ ‫ب تن‬ ‫ر‬ ‫ص‬ ‫وہ‬ ‫کہ‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫ے‬ ‫سوا‬‫نہ ق‬ ‫ے‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫داری‬
‫ہ‬
‫ے ی ہاں ک کہ ان ی وں کا حا ئل و ج اے‪،‬ی ا ان می ں سے‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ک‬
‫ے آپ کو ا و می ں ر ھ‬ ‫ب‬ ‫کرے‪،‬اور ا‬ ‫ئ‬
‫ے کہ وہ بنرا ی کو ت ب دی خل کرے‪،‬اور اس پر‬ ‫ذمہ‬ ‫کے‬ ‫لے۔اس‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫کو ی ا ک پطاق ت حاص‬
‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ض ی ن‬
‫ے ان طرات سے دوچ ار‬ ‫روری ہی ں کہ اپق ی ج ان کو حکمران کی طرف سے ای ذا رسا ی ج ی س‬
‫ن‬ ‫ئ‬ ‫کرے ج ن کی وہ طا ئت ن ہ رکھت قا ہ و۔‬
‫ن‬
‫ے‪:‬ن‬ ‫طا ت سے روک ا کو یت عالج ہئی ں ہ‬ ‫‪ -181‬جنزوی برا ی وں کو م ن‬
‫ے‪ ،‬اور مارے‬‫ہ‬ ‫زوی ب دی لی کو ی الج ہی ں ہ‬‫ع‬ ‫ج‬ ‫کرات می ں‬ ‫م‬
‫ی‬
‫ئ‬ ‫ش می ں ے ت ن ب ہنک ی ا کہ ت خ‬
‫ے اف سی‬ ‫ے‪ ،‬تاس یل‬ ‫ہری ہ‬ ‫ے وہ ب ئہتکگ ت‬ ‫معا روںضکو امت داد زما ہ سے ج و ری ب الحقن ہ نو ی ہئ‬
‫وہ ب دی لی ا کار‪،‬‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ہ‬
‫ئ ر ھ ی و اور‬ ‫ے ا در گہرا نی و گی را ی‬ ‫پ‬‫ے ج و زی ادہ ج امع ہ و اور ا‬ ‫خ‬‫ہ‬ ‫ت ب فدی لی کیق رورت‬
‫اعمال‪ ،‬آداب‪ ،‬روایسات‪ ،‬ت ظ ام ہ اے ممالکن و وا ی ن کو ش امل‬ ‫ض‬ ‫م اہ ی م‪ ،‬ا دار‪ ،‬مع ی ار‪ ،‬ا الق‪،‬‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫م‬
‫ے ا در سے ب دی ل‬ ‫ے کہ ل ل رب ی ت سےلوگ اپ‬ ‫ے ی ہ روری ہ‬ ‫ہ و‪ ،‬اور اس سے ب ھی پہل‬
‫ہ وں۔‬

‫لہ‪:‬‬ ‫‪ -182‬ح مران وں کے خ الف غ اوت کا س ئ‬


‫خ‬ ‫ن‬ ‫ن م‬ ‫تب‬ ‫نک‬
‫کے کے خالف ب غ اوت‬ ‫ن‬ ‫وں‬ ‫مرا‬
‫کن‬ ‫ح‬ ‫عاصر‬ ‫ک‬
‫ج ع ل ظ ی م‬ ‫زد‬ ‫کے‬ ‫وں‬
‫خ‬ ‫ق‬ ‫ما‬ ‫د‬ ‫دت پ س ن‬‫ف‬ ‫ےش‬ ‫می ئں‬
‫الف مادی‬ ‫ت‬ ‫نکمرا وں کے‬ ‫کے ہم می ں وا ع نل کو اہ رخک ی ا‪،‬اور می ں ے ح‬ ‫ے پر ان ت‬ ‫کے مس ل‬ ‫ق‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫سے ب ردار ک ی ا‪،‬اور ہ‬ ‫غ‬ ‫ب‬
‫دت پ س د ج نماع وں کی‬ ‫ے‬ ‫م‬ ‫غ‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫اوت‬ ‫ب‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫ت‬ ‫طا‬
‫ت‬
‫کہ ق الم حک خمرا وں کے‬
‫ج ظ‬
‫ےو ت‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ان‬ ‫ب‬ ‫کو‬ ‫لت‬
‫ف‬
‫ں‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫صوص کے سات ھ ت نعام‬ ‫ت‬ ‫ان‬ ‫سے‬ ‫طرف‬
‫ی یہ‬ ‫ی‬ ‫خ‬
‫اور م طلق ہ ی ں تج قن کی ت ی ی د ی ا تصی ص دی گر‬ ‫ت‬ ‫مومی‬ ‫ع‬
‫ظ‬ ‫صوص‬ ‫ن الف ب غ اوت پتر اکسا ی ہ ی ں‪،‬کہ ی نہ‬
‫ے ج و کہ حکمرا وں تکے لم و س مخپر صب ر کی ل ی ن کر ی ہ ی ں اکہ امت‬ ‫صوص سے ہقو ی ہ‬
‫ہ‬ ‫ن‬
‫ت‬ ‫اور ون ریزی ہ و۔ ث‬ ‫ے ئ‬
‫ت‬ ‫است می ں اس حکام رہ‬ ‫ے‪،‬ری ق‬ ‫می ں قوحدت ب ا ی رتہ‬
‫ےکہ‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ے ن سے ی ہ اب ت و ا ن‬ ‫ق‬ ‫ج‬ ‫ن ھری و ی ہ‬‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ے وا عات سے‬ ‫ن دی م و ج دیخ د اری خ ایس‬
‫حکمرا وں کے الف مسلح ب اوت کرے والی ظ ی موں کی سمت می ں کام ی ابی ہی ں‬ ‫غ‬
‫‪11‬‬
‫ئ ‪7‬‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ئ‬
‫موما) نی ہ حری کی ں ا نکامی سے دوچ ار ہ و ی ں‪،‬ق (م نسلح‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ے‪،‬اور سواے تمعدودے چ ن ند تکے (ع‬ ‫غہ‬
‫ے‪ ،‬ا ارکی اور ب دام ی ہ ی اس امت کا م در ب ی‬ ‫ی ی ت‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫کے‬ ‫کوں‬ ‫ی‬
‫خ‬ ‫حر‬ ‫کی)ان‬‫ق‬ ‫اوت‬ ‫ب‬
‫ت ف‬ ‫ن‬ ‫ف‬ ‫ے۔ ن‬ ‫ے مت ون ہا ہ‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ے اور ب‬ ‫ہ‬
‫ے کا ر‬ ‫ے ہی ں ید‬ ‫‪ -183‬ک ی ا وہ مسلمان ج و ہللا کے ازل کردہ احکام کے م طابق ی صل‬
‫ن‬ ‫ث‬ ‫ں؟‬ ‫نہی ت ج‬
‫کردہ احکامات‬ ‫ازل‬ ‫کے‬ ‫ہللا‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫کام‬ ‫ر‬ ‫اک‬ ‫کے‬ ‫ممالک‬ ‫المی‬ ‫س‬ ‫ا‬
‫ت‬ ‫کہ‬ ‫دی‬ ‫ح‬ ‫ے رن‬
‫ی‬ ‫می ں ف‬
‫ن‬ ‫ن ف ق‬ ‫م‬ ‫فح‬ ‫ف ف غ‬ ‫ص‬
‫ن ر ی دہ‪ ،‬یک و تکہ‬ ‫ع‬ ‫ک‬ ‫ے ہ کہ‬ ‫ک‬
‫نں کرے ان کا ر ر انص ر اور ر عصی ت نہ‬ ‫ک‬ ‫ک‬ ‫ے ہی‬ ‫کے م طابق ی ل‬
‫ے‬ ‫ک‬
‫وہ ہللا کے رب ہ وے‪ ،‬اش الم کےف دی ن وے اور دمحمﷺ کے ب غی وے پرئای تمانف ر ھن‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫س‬
‫سا ی‬ ‫ن‬ ‫ہخ ی ں۔ل ی کن ان پر ان‬
‫مزوری اور د ی ا کی حمب ت الب آ گ ی و ض‬ ‫کی ک ق‬ ‫س غ‬ ‫ہوات‪ ،‬ن‬ ‫تکی ئ‬
‫ہ‬
‫لوگوں کو را ی‬ ‫ن‬ ‫نان کی طرح کے‬ ‫ے م ربی آ ناوں اور‬
‫ن‬ ‫وانش کی پ یروی کرے خہ وے اور اپ‬
‫کردہ‬
‫ہت سے ازلئ‬ ‫ہللا کے ب ف ن‬ ‫ہوں ے ق‬ ‫کرے اورتان کے عالوہ م ت لف وج وہ ات کی ب ا پر ا‬
‫ئ‬
‫ے۔(ت ب ت ک ان کے اس ل فکو ع ا دضمی ں ر ہی ں جم ھا ج اے‬
‫س‬ ‫ک‬ ‫عم‬
‫احکامات ت رک کر دی‬
‫ہ‬
‫کے ر پر وا حتد ی ل ن و‪ ،‬نمث ال کے طور‬ ‫ل‬ ‫ک‬ ‫ج‬ ‫ن‬
‫گا) ج ب ک کہ وہ صراحتش ا ایسا چک ھ ہ کہہ دی ں و ان ن‬
‫ے‬ ‫پرغ وہ ی قہ ک نہی ں شکہ‪ :‬اسالمی ری عت آج کے دور می ں ہی ں چ ل سک ی‪،‬اور ا سا ی ت کے لی‬
‫کت‬ ‫م ربی وا ی ن ف ری عت سے زی نادہ سود م ن د ہ ی ں۔‬
‫خ‬ ‫ح‬
‫ے‬ ‫ے کہ وہ ہ‬ ‫ات ہ‬ ‫ت‬ ‫ے ہی ں لگای ا ج ا سکت ا کہ) ی نہ اص ب‬ ‫(ان پر ک ر کا کم اس یل‬
‫ت ہ ی ں‪،‬مسج دی ں‬ ‫ے‬ ‫ے‪،‬اور ی ہ کہ ہ مش ما ئزی بں پڑھ‬ ‫است کا مذہ ب اسالم ہ‬ ‫ہت ی ں‪ :‬ریت‬
‫ت‬ ‫ت ر ج ا الے ہ ی غں۔‬ ‫ں‪،‬اور اس طرح کےت دی گر اسالمی عا‬ ‫عمی ر کرے ہ ی ت‬
‫ان میق ں سے چک ھ و اس ب ات کا اع راف ب نھی کرے ہ یت ں کہ وہن م رب تکی ب االدس ی اور‬
‫ے کہ ہ م انسالم‬ ‫ے‪،‬اور ی ہ ہی ں چ اہ‬
‫ن‬ ‫ے بس ہ ی ں) نچک ھ ہی ں کر سک‬ ‫گے(ب‬ ‫کے آحق ق‬ ‫امریکا کی طا ت ت‬
‫ص ح مع وں می ں آزاد ہی ں‬ ‫ے ممالک می ں ب ھی یح‬ ‫ے کہ ہ م پا‬ ‫ی ہ‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫کے م طابق چ لی ں‪،‬‬
‫ق‬ ‫ت‬
‫ح‬ ‫ب‬ ‫ہ ت ف ت ق‬ ‫ت‬
‫ہ‬ ‫ہ ی ں۔ ت‬
‫ی‬
‫ی ہ مام امور می ں آمادہ کرے ہ ی ں کہ م ی ر کرے و ت سوچ چ ار اور ق سے کام‬ ‫ک‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫لی ں۔‬
‫ق‬ ‫نی ار اسالم م ں دو طرح کے حکمرا وں م ں رق‪:‬‬ ‫‪ -184‬د‬
‫ےج و‬ ‫وہ‬ ‫سم‬ ‫لی‬ ‫ے د ار اس یالم م ں دو طرح کے ح مران یوں م ں ف رق ب ان ک ا‪ ،‬پ ہ‬ ‫می ں‬
‫تہ‬ ‫ی ق ن ی می ن‬ ‫ش ک‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫راف‬ ‫ن وے تکا اع ت‬ ‫ہ‬ ‫ب‬
‫سالم کے ری استش کا مذہ ب وے‪،‬اور ری عت کے وا ی ننف کا ن ع‬ ‫ہ‬ ‫ات‬
‫ہ‬
‫ے کن وہ عت کے عض لووں کو لی طور پر ا ذ کرے می ت ں کو ا ی تکر ی‬ ‫عم‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫ب‬ ‫ری‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫ے ح مران اس مس مان کی مان ن د ہ ں ج و ب عض ک رہ گ ن‬ ‫کر ی ہ‬
‫مام‬ ‫ے‬
‫س‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫کاب‬ ‫ار‬ ‫کا‬ ‫وں‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ے‪،‬ای ک‬ ‫س‬
‫ن ہ قج ت‬ ‫خ‬ ‫ت‬
‫س‬
‫بی‬
‫م‬
‫ل ی‬
‫ی‬ ‫ت‬ ‫م‬‫ج‬ ‫لس‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫مہس مان گ ن‬
‫ے‬ ‫سے ارج ہی ں رار ن ید‬ ‫ی ن‬ ‫ہ‬ ‫الم‬ ‫ا‬ ‫لت‬ ‫سے‬ ‫ا‬ ‫کن‬ ‫ں‪،‬‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ھ‬ ‫ئ‬ ‫مان‬ ‫ل‬ ‫گار‬ ‫اہ‬ ‫ت قل ت‬
‫او ثی کہ وہ ان گ ن قاہ وں کو ج اش ز ن ہ ستجم ھت ا ہ و‪،‬ی ا دی ن کی کسی الزمی چ یز کا ا کار ن ہ کر دے۔ حکمرا وں‬
‫ن شن ت‬ ‫ش‬ ‫ے۔‬ ‫ںت مار نہ و ی ہ‬ ‫ن‬ ‫سم می‬ ‫کی اک ری ت اسی ق‬
‫عت تکی اعال ی ہ د م ی کرے‬
‫ج‬ ‫ے ج تو قاسالمی نریف س‬ ‫ت ہاپ س د س ی کولرز تکی ہ‬ ‫اور دوسری سم ا‬
‫ے ہ ی ں‪،‬ہللا کی حرام کردہ‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫و‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ہذ‬ ‫سے‬ ‫ا‬ ‫ں‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ہ ی ں‪ ،‬اس کا مذاق اڑا‬
‫س ھ‬
‫م‬ ‫سجم ت‬ ‫یئ ش‬
‫ے ہ ی ں اور لم عوام کے دلوں سے دی ن‬ ‫چ یزوں کو حالل اور حالل کی گ ی ا ی اء کو حرام ھ‬
‫‪11‬‬
‫ق‬ ‫چش‬
‫ن‪8‬‬ ‫ن‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ق ہت‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫خش‬
‫دگی کرے والے‬ ‫ن‬ ‫ما‬ ‫کی‬ ‫سم‬ ‫ں۔اس‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ر‬ ‫گا‬ ‫ں‬
‫ی ل‬ ‫م‬ ‫ش‬ ‫کو‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ک‬ ‫کو‬ ‫موں‬
‫کےنسر ت‬
‫ے جس کی مزاحمت شکر ا اور ان شکے‬ ‫ے‪،‬اور ہی وہ سم ق‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫خحکمرا وںغ کی عدادن ب ہت کم ہ‬
‫سب طا ت ناور امکان کیش رط سے م روط‬ ‫ی‬
‫ے‪ ،‬کن ی ہ‬ ‫ل‬
‫ث‬ ‫الف ب اوت قکر ا واج ب ت ہ‬
‫ے ب ڑے حاد ات کو ج م ن ہ دے ج و ری عت کی طرف‬ ‫ت کا اخس عمال ایس‬
‫ے‪،‬اور ی ہ کہ طا ب ن‬
‫ہ‬
‫واپ سی می ں رکاوٹ ی ں‪ ،‬واہ اس رکاوٹ کی مدت کم و ی ا زی ادہ۔‬
‫ہ‬
‫‪11‬‬
‫‪9‬‬

‫ض‬
‫دسواں ب اب‪ :‬ج ہاد اور ئامت کے عصر حا ر‬
‫کے مسا ل‬

‫ئ‬ ‫ض‬
‫(دسواں ب شاب‪ :‬ج ہاد اور امت کے عصر حا ر کے مسا ل)‬
‫ن‬ ‫ناص طالح‪:‬‬ ‫‪-185‬ن ارھاب (دہ ت گردی) (‪ )137‬كى‬
‫غ‬
‫س‬ ‫فق‬
‫ے والی اس‬ ‫آ‬ ‫در‬
‫ن‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫المی‬ ‫ا‬ ‫ماری‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬‫)‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ہاد‬ ‫ض‬‫ل‬
‫ج‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫(ز ر ظ ر کت قاب‬
‫ے ج و کہ‬ ‫ظ‬
‫ف‬
‫ل‬ ‫ی‬ ‫رآ‬
‫ق‬
‫ں‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫ن ئشی اص طیالح کی ح یق ت وا ح کی اور ب ان ک ا کہ ل ف ظ ارھاب اص‬
‫ہ‬ ‫ئ ح ی‬ ‫ت ی ی‬ ‫ق‬ ‫ے کی خ‬ ‫ن‬
‫وارد ہ وا‬ ‫ں‬
‫ی ی ن‬ ‫م‬‫ئ‬ ‫اق‬ ‫س‬ ‫کے‬ ‫کم‬ ‫ے)‬ ‫ے‬
‫لخ ین گ‬ ‫د‬ ‫(‬ ‫ے‬‫ی‬ ‫کے‬ ‫اری‬
‫ن ین‬ ‫کی‬ ‫ت‬ ‫ت ن‬ ‫طا‬ ‫اطر‬ ‫ن‬ ‫من کو ڈرا‬ ‫د ت‬
‫ن ڑھا ی کرے کا‬ ‫چ‬ ‫ہ‬
‫ے اکہ وہ لما وں ئ(کو ر والہ ب اے )ئ کی وا ش ہ کری ں اور ان پر‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫خہ‬
‫ے اور اسے ہ مارے زماے می ں مسلح امن‬ ‫ج ہ‬ ‫ز‬ ‫ا‬ ‫اب‬ ‫ه‬ ‫ار‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ں۔‬ ‫ی‬ ‫ال‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ں)‬ ‫ی‬‫م‬ ‫دل‬ ‫ال(‬ ‫ی ت‬
‫ن‬ ‫ش‬ ‫۔‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کہا ج ا‬
‫مراد( لوگوں کو) غڈرا تا‪ ،‬ان می تں‬ ‫سے‬ ‫الح‬ ‫ط‬ ‫ص‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫گردی)‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫(د‬ ‫ارھاب‬ ‫آج‬ ‫کہ‬ ‫ج‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ش ب خ‬
‫ے‪ ،‬اہ م اص طالح ی رم ن ازع ہ و ی‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫حروم‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫امن‬ ‫ں‬ ‫ی‬‫ہ‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ا‬ ‫ال‬ ‫ی‬ ‫ھ‬ ‫پ‬ ‫وف‬ ‫دہ ت اور‬
‫(‪)138‬‬
‫ے۔‬ ‫ہ‬
‫ئ‬
‫‪ -‬ق دہشتگردی کے لیے عربی زبان میں ارھاب کا لفظ استعمال ہوتا ہے لیکن ج ا ز‬ ‫‪137‬‬

‫ے اور جائز وسائل اختیار کرتے ہوئے دشمن کو ڈرانے کے لیے‬ ‫م صد کے حصول کے لی‬
‫بھی اہل زبان یہی لفظ بولتے ہیں اسی لیے مصنف کو جائز ارھاب اور ناج ائز ارھ اب‬
‫کی تقس یم کرن ا پ ڑی۔ اس کے مق ابلے میں اردو میں اس تعمال ہ ونے واال لف ظ‬
‫دہشتگردی صرف ناجائز کارروائیوں کے لیے ہی استعمال ہوتا ہے اور ک وئی بھی‬
‫دہشتگردی جائز نہیں ہوتی‪ ،‬اسی وجہ سے ہم ترجمہ میں جائز اور ناجائز ارھاب کی‬
‫اصطالح ہی استعمال کریں گے تاہم مزی د وض احت کے ل یے غیرش رعی ارھ اب کے‬
‫ساتھ بریکٹ میں دہشتگردی کا لفظ بھی لکھ دیں گے تاکہ ق ارئین ک و س مجھنے میں‬
‫آسانی ہو۔‬
‫‪138‬‬
‫‪ -‬یہ مشہور عربی قاعدے (المشاحة في االصطالح) کا ترجمہ ہے‪،‬اس کے مفہوم‬
‫‪12‬‬
‫ق‬
‫‪0‬‬ ‫ت‬ ‫س‬
‫تف‬ ‫ن‬ ‫اور مرا ب‪:‬‬ ‫ارھاب کی می ں ق‬ ‫‪ -186‬ن‬
‫ج‬
‫ش می ں ے ارھاب کی ات سام می ں سے پ ا چ کا ذکر ک ی ا ن می خں سے چک ھ ت ب اال اق‬
‫ے۔‬ ‫گردی کے زمرے می ں آ ی ) ہ ی ں اور چک ھ (کے ب ارے) می ں ا ت الف پ ای ا ج ا ا ہ‬ ‫(دہ ت ق‬
‫اور وہ ( سمشی ں ی ہ ہ ی شں)‪:‬‬
‫ش ت ن‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫ش‬
‫‪ :۱‬ہری تدہ ت گردی‪ :‬ہری دہ ت‬
‫ہری اور معا ر ی ز دگی کے‬ ‫گردی ج وکہ لوگوں خکی ن‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫خ ث‬
‫ں۔‬ ‫ہ‬
‫ن ی‬ ‫الف‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫سی‬ ‫ک‬ ‫ں‬ ‫م‬ ‫ے‬
‫ق ض نی قی‬ ‫د‬ ‫رار‬ ‫رم‬ ‫ج‬ ‫کو‬ ‫اس‬ ‫ے‪،‬‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ش‬‫ت‬ ‫اب‬ ‫ے طرہ‬ ‫یل‬
‫ن ت‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ج‬
‫ے ہا ھ‬ ‫گردی‪ :‬زمی ن پرن ب ہ ج ماے‪ ،‬وموں کو زیر کرے اور ان کی ب اگ ڈور اپ‬ ‫ش‬ ‫‪:۲‬سامرا ی د‬
‫ق ق‬ ‫ش‬ ‫۔‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫گردی‬ ‫ت‬ ‫م ں رکھ کر سامراج ی دہ‬
‫ف‬ ‫ن‬ ‫ن ن‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫ے د م وں کا لع مع کرے قاور ان کا تص ای ا‬ ‫‪:۳‬نری اس ی ارھاب (دہ ش ت گردی)‪ :‬ری است کا پا‬
‫خ‬ ‫ن‬
‫ے نہریوں ی ا ان می ں سے کسی گروہ کے الف مادی طا ت کا اس عمال‬ ‫کرے کی ستعیخ می ں اپ‬
‫ش‬ ‫ق‬ ‫وف پ ھ ی ال ا۔‬ ‫کر کے ری ا قس ی ش‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫ج‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫ے اور‬ ‫‪ :۴‬ب ی ن اال وامی د ت گردی‪ :‬ی ن اال وامی د گردی وکہ پوری د ی ا کی طح پر و ر ی ہ‬ ‫ب‬
‫ش‬ ‫ق‬ ‫ئ‬ ‫ے۔ خ‬ ‫س کا مر کب ہ و ترہ ا ہ‬ ‫آج امری کہ ج ش‬
‫‪۵‬ن‪ :‬س ی اسی دہ گردی‪ :‬کوم وں کے الف محاذ آرا ی (کے مو ع )پر س ی اسی د گردی‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ح‬ ‫ت‬
‫ق‬ ‫خ‬ ‫کر ا۔‬
‫شن‬ ‫ت‬ ‫ت ق‬ ‫ن‬
‫ے۔‬ ‫سامش اور م ت لف مراح ب کی ہ ر سم پر رو ی ڈالی ہ‬ ‫ہ‬
‫می ں ے تان م عدد ا‬
‫ق‬ ‫ت‬
‫‪ -187‬ری اس ی ارھاب(د گردی) کا کم‬ ‫ن‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫ے ب ان ک ا کہ ارھاب کی اس سم کا ح‬
‫سے‬ ‫بلئ ت‬ ‫ے‬ ‫د‬ ‫کے‬ ‫کار‬ ‫ہ‬ ‫ی‬‫طر‬ ‫اور‬ ‫دف‬ ‫کے‬
‫ن ہ‬ ‫اس‬ ‫کم‬ ‫ت‬ ‫می ں ت ی ی ن ن‬
‫ق‬ ‫ب‬‫ک‬
‫ہ‬ ‫ج‬
‫ن ہ دف اور طری ہ کار‪،‬دو قوں کے واز کی وج ہ ت شسے ج ا ز خو ا‬ ‫ے۔ش چ ا چ ہ ھی و ی ہ‬ ‫ب دل ج ا اہ‬
‫اور ا تس ہادی ( ود‬ ‫مزاحمت‬
‫ن‬ ‫ومی‬ ‫کا‬ ‫ی‬ ‫ہ‬‫ا‬ ‫ق ل سپ‬ ‫ے‬ ‫ی‬ ‫کے‬ ‫ے‬ ‫کر‬ ‫ا‬ ‫پ‬
‫ب سپ‬ ‫کو‬ ‫من‬ ‫د‬ ‫ے‪،‬ج یسا ن‬
‫کہ‬ ‫ہ‬
‫ہ‬ ‫ئ‬ ‫ج‬ ‫ک‬ ‫حم‬
‫ے‪،‬ج یسا کہ‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ز‬ ‫ا‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫ہ‬ ‫ج‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫واز‬ ‫عدم‬ ‫کے‬ ‫کار‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫طر‬ ‫اور‬ ‫دف‬ ‫ہ‬ ‫ھی‬ ‫ا۔اور‬ ‫کر‬ ‫ش‬‫ے‬‫ل‬ ‫)‬ ‫ن‬ ‫کش‬
‫ص یہ و ی دہ ت گردی۔‬
‫لیکن اگر ہدف جائز ہو اور طریقہ کار ناجائز تو یہ بھی ناجائز ارھ اب کی‬
‫قسم سے ہو گا۔اس لیے کہ اسالم اس ضابطے کا قائل نہیں ہے کہہ‪ :‬ج ائز ہ دف‬
‫ط ریقہ ک ار ک و بھی ج ائز ک ر دیت ا ہے۔ اور نہ ہی وہ کس ی اچھے مقص د ت ک‬
‫ناجائز ط ریقے س ے رس ائی ک و قب ول کرت ا ہے‪ ،‬جیس ا کہ جہ ازوں ک و س وار‬
‫شہریوں سمیت اغوا کر کے ان کے ذریعہ اپنے فریق مخ الف ک و دھمکی دین ا۔‬
‫کی تعیین میں کافی اختالف پایا جا تا ہے یہاں تک کہ ایک عرب سکالر ڈاکٹر محمد‬
‫بن حسین الجیزانی کو اس قاعدے کا معنی متعین کرنے کے لیے ایک تحقیقی مقالہ‬
‫لکھنا پڑا جو کہ "المشاحة في االصطالح‪ :‬دراسة أصولیة تطبیقیة" کے عنوان سے‬
‫مجلة األصول والنوازل کی جلد ‪ -۱‬شمارہ ‪۲‬۔ رجب ‪۱۴۳۰‬ھ– جوالئی ‪۲۰۰۹‬ء میں‬
‫شائع ہوا۔ہم نے اس مقالے سے استفادہ کرتے ہوئے المشاحة کا ترجمہ غیر متنازع‬
‫سے کیا ہے۔ دیکھیے‪/http://www.alukah.net/sharia/0/25041 :‬‬
‫‪12‬‬
‫‪1‬‬
‫اور اس ی ط رح یرغم الیوں ک و اغ وا ک ر کے قی د ک ر لین ا اور ان کے قت ل کی‬
‫دھمکی دینا۔اسی طرح سیاحوں کو قتل کرنا بھی ہے‪ ،‬یہ تمام امور غ یر ش رعی‬
‫ارھاب (یعنی دہشتگردی کے زمرے میں آتے) ہیں۔‬
‫شرعی حیثیت‪:‬‬ ‫‪-188‬نخود کش حملوں کی‬
‫ن ص ن ق ض‬ ‫ق ئ من‬ ‫ش‬
‫می فں ے ب ہتخ سی رعی اور ح ا ق پر ت جی و وہ ات کی ب ا پر یہ و ی بے کی مزاحمت‬
‫ج‬ ‫ب‬
‫ودکش حملوں کے ج واز شکو ر ی ح دی‪،‬قج ن می ں سے چ ن دج ین ہ ہ ی ں‪:‬‬ ‫ن‬ ‫ے لس طئی ن میغں‬ ‫کے یل‬
‫ق‬ ‫س‬ ‫ی‬
‫ں‪،‬اور ج ب‬‫س ن ‪ :۱‬اسرا لی اصب لف ظپرست معا رے کا ی نام‪،‬کہسوہ ن حربی ت جگو ہ ی ن ئ‬
‫ے‬ ‫ے گ اہ م لما غوں کو ل کر ا ج ات ز ہ‬ ‫ےب‬ ‫ےانیس‬ ‫کے یل‬ ‫ماعت کی ح ا ت ت‬ ‫جمن لما وں کیتب ڑی ج ت‬
‫س‬
‫وں کی سرزمی ن کو اصب وں کے ہ ا ھ سے‬ ‫ے) و لما ئ‬
‫م‬ ‫نزبردس ی(اسلحہ ن ھما دی ا تگ ی ا ہ ن‬
‫ق‬ ‫ہی ں‬
‫ہ‬ ‫س‬ ‫چ ھڑاے کے ف یلق‬
‫ت‬ ‫ے۔‬ ‫اولی ج ائ ز ہ‬ ‫ے م لما وں کا ل و ا ب درجقہ ن‬
‫ئں) سے‬ ‫‪ :۲‬اس ہی اصول ث( جمبوری تکے و تت اج اش زنامور م ب ناح ہ نو جئاے ہ ی‬
‫ے۔ ا کہ د م وں کو گز د پ ہ چ ا ی ج اے‬ ‫ب ھی ان حملوں کا ج واز اب ت ہٹو ا ہئ‬
‫ش‬ ‫ے۔‬ ‫دلوں پر رعب ب ھای ا ج ا ف‬ ‫ن خ‬ ‫اور ان کے‬
‫ےش ن می ں تاس‬ ‫ج‬ ‫ہات کو رد ک ی ا ہ‬ ‫ودکش لوں کے مخ ا ی ن کے ان‬ ‫ل‬ ‫حم‬
‫ب ف‬ ‫عم ‪ :۳‬مخی ںشے ن‬
‫ہری‪،‬عور ی ں‬
‫ن‬
‫ش‬
‫ع‬
‫دعوی ک ی ا گ ی اتاور ی ہ کہا گ ی ا کہ اس سے موما وہ عام‬
‫ل‬ ‫کے ودکت ی ہ وے نکا ن‬ ‫ل‬
‫ن ب نش‬
‫ے پری ا ی اور‬ ‫ن ی وں کے لی‬ ‫ی‬ ‫سط‬ ‫ے‪ ،‬اور ی ہ کہ ی ہ حمل‬
‫ے‬ ‫کر‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫گ‬ ‫و‬ ‫ج‬
‫ن یت ج‬ ‫ں‬ ‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ن‬‫ا‬ ‫ے‬ ‫قاور چ‬
‫ش‬ ‫ی‬
‫ن‬
‫ف‬ ‫ج‬ ‫ب‬
‫ں۔ط ن ئ‬ ‫س‬ ‫ل‬
‫ےہی‬ ‫ات دی‬ ‫ے ہ ی ں‪،‬می ں ے ان ب ہات کے واب ن‬
‫حم‬ ‫نن خ‬ ‫صان کا سب ب‬
‫ان لوں کی اج ازت می ں ے صرف ی ی ب ھا ی وں کو ئان‬ ‫خ‪ :۴‬می ں ے ب ردار ک ی ا کہ ن‬
‫ن‬
‫سوا کو ی‬
‫ے ن کی ب ا پر ان کے پ اس ان کے ن‬
‫ب‬
‫ج‬ ‫کے پ فیش ظ ر دی ہ‬ ‫نکے م نصوص حاالت ن‬
‫پ اہ گاہ ہی ں۔ می ں ے لس طی ن کے ع ئالوہ کضہی ں نھی ان ئحملوںت کی اج ازت ہی ں‬
‫ن‬
‫کے وج وب ی ا ج واز کی کو ی رورت ق ہقی ں پ ا ی ج ا ی۔‬ ‫ن‬ ‫دی‪ ،‬یک و کہ کہی ں اور ان‬
‫حق ق‬ ‫‪ -189‬ہنمارے اور ص یہ و ی وں کے درم ی ان معرکے کی ح ی ت‪:‬‬
‫ن‬ ‫می ں ے ہ مارے اور ی ہودی ن ق‬
‫ت‬ ‫اس کی ی ئ‬ ‫وں کے درضم ی ان ج گ کے اس ب اب اور ش‬
‫احت نکی جس میتں دیچیپگی اور کوک پ اے‬ ‫ن‬
‫ش‬ ‫ے کی و‬ ‫ے اہ م ط‬ ‫ت حوالے سے ای ک ای ئس‬ ‫کے‬
‫ی‬‫ن‬
‫سامی ہ ی ں ی ا ہودی‬ ‫ک‬ ‫ہ‬
‫ے کہ وہ ئ‬ ‫ے د قم ی شہی ں ر ھ‬ ‫ج اے ہ ی ں اور ی ہ کہ م اسرا ی ل سے اس یل‬
‫ے کہ ی ہودی اقہ ل کت اب ہ ی ں اور وہ ع ی دہ و ری عت می ں عیسا ی وں کی ب ہ سب ت‬ ‫ں۔اس یل‬ ‫ہی‬
‫ق‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫ح ق‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫می کے زی ادہ ری ب ہ ی ں۔‬ ‫ملت ابرا ن‬
‫ے کہ ا ہوں‬ ‫ی‬
‫ن می ں ے ب ی انق ک ی ا کہ ہ ماری ی ہود کے سا ھ ج گ کا ی سب ن‬
‫ب یہ ہ خ‬
‫ے‪،‬دھو س اور ون ریزی‬ ‫مارے اہ ل خ ان ہ کو دھت کارا‪،‬اور اسلح‬ ‫ض‬
‫ے ہ ماریتزمی نخ پر بہ ہ ک ی ا‪،‬ہ ت‬
‫ن‬ ‫ق‬ ‫کےب ل ب وے پر نود کو ئم پر زبردس ی مسلط ک ی تا ۔ ف‬
‫‪-190‬نسورہت ب ج ی اسرا ی ل می ں مذکور دو مر ب ہ ساد کا و وع پ ذیر ہ و ا‪:‬‬
‫می ں ے ر ی ح دی کہ ان آی ات کری مہ‪:‬‬
‫‪12‬‬
‫‪2‬‬
‫ض َم َّرتَي ِْن َولَتَ ْعلُ َّن ُعلُ ًّوا‬ ‫ب لَتُ ْف ِس د َُّن فِ ْي اَأْلرْ ِ‬ ‫ض ْينَا إلَى بَنِ ْي ِإ ْس َراِئ ْي َل فِ ْي ْال ِكتَ ا ِ‬ ‫"﴿وقَ َ‬
‫اس وا ِخاَل َل‬ ‫س َش ِد ْي ٍد فَ َج ُ‬ ‫َكبِ ْيرًا‪ O‬فَِإ َذا َجا َء َو ْع ُد ُأوالهُ َما بَ َع ْثنَا َعلَ ْي ُك ْم ِعبَادًا لَّنَا ُأولِ ْي بَْأ ٍ‬
‫ال َّوبَنِ ْينَ‬‫ار َو َك انَ َو ْع دًا َّم ْف ُع وْ اًل ‪ O‬ثُ َّم َر َد ْدنَ ا لَ ُك ُم ْال َك َّرةَ َعلَ ْي ِه ْم َوَأ ْم َد ْدنَا ُك ْم بِ َأ ْم َو ٍ‬
‫ال ِّديَ ِ‬
‫َو َج َع ْلنَا ُك ْم َأ ْكثَ َر نَفِ ْيرًا ‪ِ O‬إ ْن َأحْ َس ْنتُ ْم َأحْ َس ْنتُ ْم َأِل ْنفُ ِس ُك ْم َوِإ ْن َأ َس ْأتُ ْم فَلَهَ ا فَ ِإ َذا َج ا َء َو ْع ُد‬
‫ْاآل ِخ َر ِة لِيَسُوْ ُؤوا ُوجُوهَ ُك ْم َولِيَ ْد ُخلُوا ْال َم ْس ِج َد َك َم ا َدخَ لُ وْ هُ َأ َّو َل َم َّر ٍة َّولِيُتَبِّرُوْ ا َم ا َعلَ وْ‬

‫ت‬ ‫ن ت ت ئ‬ ‫ف‬ ‫ئ‬ ‫بن‬ ‫تَ ْتبِ ْيرًا﴾ ن‬


‫ف ہ م ے کت اب می ںق ی اسرا ی ل کو ی ہ ی صلہ س ا دی ا ھا کہ م روے زمی ن پر دو مر ب ہ ب ڑا‬
‫کے‬ ‫پہ ت‬ ‫پ‬ ‫ص‬
‫گے( ‪ ۴‬ت) ھر ج ب ان می نں سےنلی مر ب ہ ن‬ ‫نطا تق حا لئکرو ت‬ ‫ساد مچ او گے اور ب ڑی‬
‫ے‬ ‫وعدے کے پورا ہ وے کا و قت آے گگا تو ہ م م ئپر زبردست ج گ کرے والے پا‬
‫بن‬
‫ے‬ ‫ہ‬ ‫گےاورم ی ہ وعدہ پوراپ ہ نو کر ر ق‬ ‫ت‬ ‫ے جا یں‬ ‫ے چل‬ ‫دے مسلط کری ں گے ج و عالف توں می ں ھس‬
‫ے کا مو عہ‬ ‫کی طرف)(‪)۵‬پ ھر ہت م ہی تں ان پر لٹ‬ ‫ے صحاب ہ کرام کی خ وحات‬ ‫ہ‬ ‫گا(اش ارہ‬
‫ں گے(‬ ‫دی ں گے تاور مال اور اوالد کی وب ریت پ‬
‫ل کری ں گے‪،‬اور مہاری عداد ب ڑھا دی خ‬ ‫ل ی ن‬ ‫خ‬ ‫خ‬
‫ے اچ ھا کرو گے اور اگر ب دی کا روی ہ ا ت ی ار کرو‬ ‫ے یل‬ ‫‪ )۶‬پ تھر اگر م ن تاچ ھا رویتہ ا ت ی ار کرو گے و ود پا‬
‫ت‬ ‫ش‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫گے و اس کا ی ج ہ ب ھگ و گے۔‬
‫مہارے‬ ‫ئ ت‬ ‫پ ھر ج ب دوسرے وعدہ کا و خت آے گا کہ ج ب ( مہارےخ د من)‬
‫ے اور‬ ‫ے دا ل ہ وے ھ‬ ‫چ تہرے ب گاڑ دی قں گے اور مسج د می ں دا ل ہ وں گے جس طرح پہل‬
‫( مہارا) سارا ا ت دار ت ب اہ کر دی ں گے۔"‬
‫میں مذکور دو مرتبہ وقوع پذیر ہونے واالفس اد بپ ا ہ و چک ا‪،‬اور ہللا تع الی‬
‫نے ہر دومرتبہ انہیں سزا دی‪،‬اور ان پر شکس ت‪،‬اس یری‪ ،‬ذلت‪ ،‬اور ان ب ابلیوں‬
‫کے ہاتھوں تباہی لکھ دی جنہوں نے ان کی سلطنت ک و ص فحہ ہس تی س ے مٹ ا‬
‫دیا اور ان کی کتاب مقدس کو جال دی ا اور ان کے ہیک ل ک و تہس نہس ک ر کے‬
‫رکھ دیا‪،‬اسی طرح رومیوں کی فیصلہ کن ض ربیں جنہ وں نے فلس طین میں ان‬
‫کے وجود کو اٹل موت کا پ روانہ ج اری ک ر دی ا اور انہیں زمین میں در بہ در‬
‫کر دیا ۔ان سب سے بڑھ کر زی ادہ س خت س زا اور کی اہو س کتی ہے؟ جیس ا کہ‬
‫ض ُأ َم ًما﴾"‬ ‫ارشاد باری تعالی ہے‪َ ﴿" :‬وقَطَّ ْعنَاهُ ْم فِ ْي اَأْلرْ ِ‬
‫"اور ہم نے ان کو مختلف گروہوں میں بانٹ دیا۔"‬
‫﴿وِإ َّن عُدتُّ ْم ُع ْدنَا﴾"‬ ‫اور یہ بات واضح ہے کہ وہ آج ہللا تعالی کے ارشاد‪َ " :‬‬
‫"اگر تم نے پھر سرکشی کی تو ہم تمہیں سزا دیں گے۔"‬
‫میں بیان ک ردہ ق انون الہی کی عملی تص ویر بن گ ئے ہیں۔ اور لیج یے وہ‬
‫‪12‬‬
‫‪3‬‬
‫فساد مچانے‪،‬اور تک بر و سرکش ی ک رنے کی ط رف ل وٹ آئے ہیں‪،‬اور ہللا کی‬
‫سنت ہے کہ انہیں دوب ارہ ایس ی س زا دے ج و انہیں ڈرائے اور س بق س کھائے‬
‫اور انہیں اپنی ذات کی پہچان عطا کرے۔‬
‫میں نے بعض ان مفسرین کا رد کیا جنہوں نے یہ ق ول اختی ار کی ا کہ پہال‬
‫فساد زمانہ نب وت میں بپ ا ہ وا تھ ا اور دوس را فس اد اب ان کی ط رف س ے کی ا‬
‫ج انے واال تک بر و سرکش ی ہے‪،‬اور میں نے متع دد اس باب س ے اس ق ول کی‬
‫کمزوری کو آشکار کیا۔‬
‫نمکالمے کا ہے یا ٹکراو کا؟‬ ‫عیسائیوں سے ہمارا تعلق‬ ‫‪ -191‬ن‬
‫خ‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫چ‬
‫اب‬ ‫ے کی ا می ت ب ینان کی اص طور پر اہ ل کت ن‬ ‫ے ا دازسے نمکالمہنکر ظ‬ ‫ئھ‬ ‫می تں ے ا‬
‫کے ہوں قے لمضک ی ا اور ایسا ضکرے والے ی ہود ہ ی ں۔می ں ے‬ ‫ج‬
‫ع‬ ‫کے سا ھ‪،‬ماسواے ان ت ق‬ ‫ئ‬
‫سے‬ ‫ی‬
‫ا‪،‬اور ح رتن سی ؑ اور ان کیت کت اب ض‬ ‫عتیسا ی وں کے ب ارے می ں رآن کا مو ف وا ح ک ی ق‬
‫م علق اس کی ب ی ان کردہ عظ ی م اور دی ن کی اصل اور ب ا ی رہ ج اے والی وحی کی صدیق وا ح‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫کی۔‬
‫ن‬ ‫ج‬ ‫ہ‬
‫دار االنسالم کے ا در اور ب اہ ر‬ ‫ن‬ ‫ے‬ ‫الم‬ ‫س‬‫ا‬ ‫کہ‪:‬‬ ‫ا‬ ‫ی‬‫د‬ ‫واب‬ ‫کا‬ ‫سوال‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ی ت‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ں‬ ‫م‬
‫ئی‬ ‫اور‬
‫ا؟اور ی ہ کہ رسول ہللاﷺ ےن ا ہی ںئ اسالم کی طرف‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫او‬
‫تب ق ی‬ ‫ر‬ ‫یسا‬ ‫ک‬ ‫ھ‬ ‫سا‬ ‫کے‬ ‫وں‬ ‫کے عیسا ی‬
‫ت‬ ‫ص‬
‫نلکہ اس کے‬ ‫ک ہی ں آ ی ب‬ ‫ے کی وب ت (نلح ) حدی ب ی ہ ت‬ ‫دی‪،‬اور ان کے سا ھ م اب ل‬ ‫دعوت‬
‫نمی ں ) ا نسالم ے ان کے سا ھ ج ن گ کرے می ںنپ ہل‬ ‫ش آی ا جس‬ ‫ی‬ ‫بن عد غ زوہ موت ہ و ت ب وک (پ‬
‫ن‬
‫ہیئ ں کی ج ب ت ک کہ ا ہوں ے پ ہل ہی ں کر دی۔(ان کی طرف سے پ ہل ہی ں‬
‫ن‬ ‫ہ و ی)‬
‫رسول جہللاﷺ اور ان کے ب عد صحاب ہ ے ج ہاد روم یک وں ک ی ا؟‬ ‫‪-192‬ن ت‬
‫کے‬ ‫رسول تہللاﷺ ناور نانتکے ب عد صحاب ہق قکرام ؓ کا رو یم نوں ت‬ ‫ے ر ی ح دی کہ ن‬ ‫ت منی ں ن‬
‫لکہ توہ درح ی ت ای ک شوآب ادخی ا ی‬ ‫ئ‬ ‫ب‬ ‫ے‪،‬‬‫ھ‬ ‫ی‬ ‫صرا‬ ‫وہ‬ ‫کہ‬ ‫ھا‬ ‫ں‬ ‫ہ‬
‫ن ی‬ ‫ے‬ ‫ی‬
‫ل‬ ‫اس‬ ‫حض‬ ‫م‬ ‫ا‬ ‫گ کر‬ ‫سا ھ ج ت‬
‫ج‬ ‫ی‬ ‫س ن‬
‫ک‬ ‫ت‬
‫مارے زماے کی زب ان می ں ای کن ا تسی ایم پ ا ر ھی و زمی ن پر سر ی ا ت ی ار‬
‫ن‬ ‫ت ھی‪،‬ہ سخت‬ ‫تل ط ق‬
‫ڈے سے ہئا ک ی ھی۔‬ ‫کر ی اور وموں کو میسوج ب تروت کے ڈ ش‬
‫ت‬
‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ے م رک دا رے‪:‬‬ ‫نسالمی نیحی عاون ئکے یل‬ ‫‪ -193‬ا‬
‫ب‬
‫ن می ں ے لما وں اور یسا ی وں کے ما ی ن درج ذی ل چ ار ب ی ادی دا روں می ں عاون‬ ‫ع‬ ‫س‬ ‫م‬
‫خ ف‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫کرے کی دعوت دی‪:‬‬
‫ن‬ ‫ت‬
‫کے درم ی ان م رکات پر وج ہ دی ا‪ ،‬اور ام ی ازی و ا ت ال ی امور‬ ‫مارے ناور اہ ل کت فاب ن‬ ‫ئہ ت ف ق‬ ‫‪:۱‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ا۔‬ ‫کر‬ ‫وکس‬ ‫ر‬ ‫پ‬ ‫کات‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫کی ب ج ا‬
‫ک سا ھ کھڑے ہ و ئ ا۔‬ ‫ے ای ن‬ ‫ے کے یل‬ ‫کے م اب ل‬ ‫‪ :۲‬الحاد اور اب ا ی ت پ س ن خدی ف‬
‫ح‬
‫صوص لس طی ن مینں عدل و ا صاف کے مسا ل اور کمزوروں و‬ ‫‪ :۳‬دن ی ا ب ھر می ں اور ب ال‬
‫ت‬
‫ے ای ک سا ھ کھڑے ہ و ا۔ اور‬ ‫مظ لوموں کی مدد کے یل‬
‫‪12‬‬
‫ت‬
‫‪4‬‬ ‫ن‬
‫رواداری اور رمی کی روح کو ٹعام کر ا۔‬
‫ن‬
‫ے‬
‫ب ئ‬
‫ا‬ ‫کی‬ ‫دت‬ ‫‪ :۴‬صب‪،‬سختی اور ش‬
‫ت‬ ‫ت س جت‬ ‫ع ئ‬
‫عاون ت فکی راہ میت ں رکاو ی ں‪:‬‬ ‫نیسا ی وںن کے سا ھ ئ جم ھوے اور ب اہ می حق ق‬ ‫‪ -194‬ع‬
‫ہ‬
‫کے درنم ی ان ٹی ا م و عاون کی راہ می ں‬ ‫ی‬ ‫ع‬
‫می ئں ے ٹ لما وں اور یسا ی وں ن‬ ‫س‬ ‫م‬
‫ادی شرکاو ی ں م ن درج ہ ذی ل ہ ی ں‪:‬‬ ‫سے مت ن ب ہ ک ی ا‪،‬اور ی ہ پئ ا ی غ‬
‫ب‬ ‫چ‬ ‫رکاو وں‬ ‫حا ل ئ‬
‫ن‬
‫ن ت۔ ش ش‬ ‫‪( :۱‬عیسا یئ وں کی ج ا ب سے)اسرا ین ل کی ی رمئ روط حمای‬
‫‪( :۲‬عیسا ی وں نکی ج ان ب سے) ئمسلماصوں کو عیسا ی ب ن اے کی کو ی ں ۔‬
‫ل‬ ‫چ‬
‫ی روح۔‬ ‫سی نوں می ں پھ ی ہ و خی ی ب ن‬ ‫کے ی‬ ‫‪ :۳‬ان ف‬
‫خ ‪ :۴‬ا نسالمو وب ی ا ع ی ا الم سے وف ھا ا اور دوسروں می ں ا الم کے ب ارے می ں‬
‫س‬ ‫ک‬ ‫س‬
‫ت‬
‫وف پ ھ ی ال ا۔اور ب ب س ن ن‬
‫الم کو کق نھی ھی لی م ہ کر ا۔ ئ ت ن‬ ‫‪ :۵‬اس ض‬
‫ئ‬ ‫ں‪:‬‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫کو‬ ‫سے‬ ‫ت‬ ‫س‬
‫ی‬ ‫م‬ ‫کا‬ ‫ن‬ ‫وا‬ ‫عی‬ ‫‪ -195‬و‬
‫م‬ ‫یئ ض ق ن‬ ‫ی مس حی غ‬ ‫ن‬
‫ے و عی وا ی ن کا یس حی تتخسے کو ی‬ ‫ےگ‬ ‫ے ب ی ان ک ی ا سکہ یحی م رب سےقب نرآمد یک‬ ‫ت ع نمی ں ت‬
‫ی‬
‫ے‪،‬ب لکہ وا ی ن کے اصول خ اور ان ث کے ار ی مصادر‬
‫ش‬ ‫ہ‬‫لق مح قہیق ں ج ڑ ا یسا کہ ھا جخ ا ر ا ق‬
‫ہ‬ ‫م‬‫ج‬ ‫ج‬
‫ے کہ‬ ‫ت دہ ہ‬ ‫ق‬ ‫ات ب ال ا ت نالف اب ف‬ ‫سے ب ہ وبی وا ئف ہ ی ں۔اور ی ہ بق ن‬ ‫ئ‬ ‫کے ی ن اس امر‬
‫ے ان وا ی ن کی ب ہ سب ت ہ اسالمی زی ادہ‬ ‫ہ مارے ممالک می ں عیسا ی ت اور عیسا ینوں کے یل‬
‫ے۔ای ک طرف اس کے دی ی اصولوں کی وج ہ سے اور دوسری طرف اس ماحول‬ ‫موزوں ہ‬
‫پ‬ ‫ج‬
‫ج‬ ‫ٹ ی لن‬ ‫ے۔ ق‬ ‫انس کے گردو فیشض کا ہ‬
‫ل‬ ‫م‬
‫کی وج ہ سے غ و‬
‫ے کا واز‪:‬‬ ‫ساوی ش نکس ی‬ ‫ن ر موں سے ری ہ زکوۃ (کی م دار) کے‬ ‫‪ -196‬ی‬
‫زکوۃ کی‬ ‫ہ‬ ‫دوں سے ف ر ض‬ ‫ف‬ ‫ا‬ ‫لم‬ ‫مران کا اسالمی ملک کے غ مرمس‬ ‫ح‬ ‫مان‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ے‬ ‫ق می ں‬
‫نی ن‬ ‫ی‬
‫ٹ‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫تج‬ ‫ج‬ ‫ل ٹ ی کل ن‬
‫ے کی‬ ‫دی‪،‬اور اسے ت کا ل خ کس کا ام دی‬ ‫ے کے واز کو ر ی ح ش‬ ‫م دار کے م تساوی کس ی‬
‫ے‬‫اج ازت دی اکہ ای ک دار اور ای ک وطن کے ب ا ن دوں کا ب ج ٹ اور ا راج ات ای ک ج ی س‬
‫ہ وں۔‬
‫ن‬ ‫ق ئ ست‬ ‫س‬ ‫غ‬
‫ے؟ ی ز اس آی ت ﴿اَل‬ ‫‪ -197‬ک ی ا مسلمان اور ی رم لم کے درم ی ان مودت ا م ہ و ک ی ہ‬
‫س ْولَهُ﴾ کا‬ ‫تَ ِج ُد قَ ْو ًما يُؤ ِمنُ ْونَ بِاهللِ َوا ْليَ ْو ِم اآلخ ِر يُ َواد ُّْونَ َمنْ َحا َّدهللاَ َو َر ُ‬
‫غ‬ ‫نم ط ن ن‬
‫لب‪ :‬ت‬
‫چ‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫م‬
‫ے‬‫ن ا سا ی عا ل کی تو جج ہ سے م لمان ون ی ر لم کے درم ی ان مودت اور ا ھ‬ ‫ںے‬ ‫ت ع قمی ئ ت‬
‫کی اس آی ت کے اس‬ ‫ناور می ں ے سورہ مج ادلہ غ‬ ‫ف لق ا م وے کے امکان کو ر ی ح دی‬ ‫ہ‬
‫ب‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ص‬ ‫م‬
‫نکہ اسضالم ی ر لم سے کسی ھی‬ ‫ہت سوں ے ی ہ است دالل ک ی ا‬ ‫ہوم کی یح ح کی جسق ئسے ب ن‬
‫ے وا ح کنی ا کہ سورہ مج تادلہ کی ی ہ‬ ‫ے۔می تں خ‬ ‫مودت ا م تکرے سے روکت ان ہ‬ ‫صورت می غں‬
‫س‬ ‫م‬ ‫ج‬
‫ے ی ر لم کے سا ھ خمودت سے ہی ں روک تی و واہ لما وں کے سا ھ پرامن‬ ‫ش‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫آی قت ایس‬
‫ےج و‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫رو‬ ‫سے‬ ‫مودت‬ ‫کی‬ ‫ص‬ ‫ے‬‫س‬ ‫ا‬
‫ب ی‬ ‫لکہ‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ت‬ ‫ہ‬‫ر‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫سے‬ ‫ے‬‫طری‬
‫﴿ َم ْن َحا َّد هللاَ َو َرسُوْ لَهُ﴾‬
‫ن‬ ‫ین‬
‫ش‬ ‫ت‬ ‫ت‬ ‫کرے۔‬ ‫ق ن‬ ‫گ‬ ‫ج‬ ‫سے‬ ‫رسول‬ ‫کے‬ ‫اس‬
‫غ‬ ‫اور‬ ‫ہللا‬ ‫ی‬ ‫ع‬
‫اگر اسالم می ں ی رمسلم کی مودت م طل ا مم وع ہ و ی و ری عت ای ک مسلمان کو کت ابی‬
‫‪12‬‬
‫‪5‬‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن‬
‫عورت سے ش ادیق ئکرے کی تاج ازت ن ہ دی ی حاال کہ اسالم کی ظ ر می ں زوج ی ت مودت و‬
‫ے۔ و اس آی ت‪:‬‬ ‫رحمت کی اساس پر ا م ہ‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫﴿ َم ْن َحا َّد هللاَ َنو َرسُوْ لَهُ﴾‬
‫ن‬ ‫ت‬
‫ں‪،‬اور ہللا اور است کے‬ ‫ش‬
‫ے وانلے د من ہ ی ن‬ ‫سے مراد م نسلما وں کے سا ھ ج گ کر‬
‫مم‬ ‫ک‬
‫ے دوس ی اور‬ ‫ے کن ہی ں کہ ان د م وں کے یل‬ ‫ے والے کسی مومن کے یل‬ ‫رسول پر ا ظی مان ر ھ‬
‫حمب ت کا ا ہار کرے۔‬
‫ارى َأ ْولِيَا َء﴾ "سے مراد‪:‬‬ ‫ص َ‬ ‫ت "﴿اَل تَت َِّخ ُذ ْو تا ا ْليَ ُه ْو َد َوالنَّ َ‬ ‫‪ -198‬آی‬
‫ش‬ ‫ن تج‬
‫می ں ے ر ی ح دی کہ ہللا عالی کے اس ار اد‪:‬‬
‫ْض‬
‫ْض هُ ْم وْ لِيَ ا ُء بَع ٍ‬ ‫َأ‬ ‫َأ‬
‫صا َرى وْ لِيَا َء بَع ُ‬ ‫"﴿يَا َأيُّهَا الَّ ِذ ْينَ آ َمنُوْ ا اَل تَتَّ ِخ ُذوا ْاليَهُوْ َد َوالنَّ َ‬
‫ت‬ ‫َو َم ْن يَّتَ َولَّهُ ْم ِّم ْن ُك ْم فَِإنَّهُ ِم ْنهُ ْم﴾‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫ن ق‬ ‫ن ن‬
‫صرا ی وں کو اتپ ا اب تل اع ماد سا ھی اور دوست نہ ب او‪،‬وہ‬ ‫اے ای مان والو! ی ہودیوں اور ت‬
‫ک‬ ‫ع‬ ‫ص‬
‫ے دی ن و‬ ‫ئی ں سے ج و ان سے (اپ‬ ‫ے ہ ی ں‪ ،‬م م‬ ‫ل لق ر ھ ش‬ ‫دوسرے سے ا ن‬
‫ک‬ ‫ع‬
‫آپقس می ں ای ک ت‬
‫خ‬
‫ئ‬ ‫ے نگا وہ ا ہی ں می ں مار ک ی ا ج اے گا۔"‬ ‫ع ی دہ کے الف) ق ر ھ‬
‫ل‬
‫ے کہ مسلمان کی کسی ب ھی ی ہودی ی ا عیسا ی سے کسی‬ ‫سے مراد ی ہ ہی ں ہ‬ ‫ب می ں والی ت ت‬
‫ن‬ ‫ن‬ ‫ن‬ ‫ے۔‬ ‫ھی صورت می ں دوس ی حرام ہ‬
‫ے کہ‬ ‫ں‪،‬اس لی‬ ‫ہ‬ ‫درست‬ ‫ا‬ ‫کر‬ ‫دالل‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ر‬ ‫ے‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫حرام‬ ‫کے‬ ‫مودت‬ ‫ف‬
‫یش ن‬ ‫پ س‬ ‫اور اس آی ت سےض‬
‫نو س ب اق اور ان آی ات کے انت زول کی‬ ‫ے کہ س ی اق‬ ‫ے ئروری ہ‬ ‫کے یل‬ ‫ت کے نہم‬ ‫آی ش ن‬
‫ش‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫س‬
‫ے کہ‬ ‫ب ا ارہ کر تی ہ‬ ‫اس ج ا ی ش‬ ‫والی آی ت‬ ‫کے ب عد آقے ف‬ ‫رو ی نمی ں ا ہی ں نجم ھا ج اے‪،‬اس ت‬
‫ہت‬ ‫ن‬
‫ےب‬‫ھ‬ ‫ں‬
‫ق پ ص ی ن‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫وز‬ ‫سی‬ ‫ی‬‫ا‬ ‫کی‬ ‫اع‬ ‫د‬ ‫ت‬ ‫و‬ ‫وت‬ ‫ے‪،‬اور‬ ‫ھ‬ ‫صاری مسلما وں کے د من‬ ‫ی ہود و ن ف ق‬
‫ے‬ ‫سے م ا ی ن اور وہ لوگ قن کے دلوں می ں مرض ھا فان کا رب حاش ل کرت ت‬ ‫ج‬
‫ے اور اپ‬
‫ے۔اور‬ ‫کی مواالت (طر ن داری)کی کو ش کرے ھ‬
‫ب‬ ‫ماعت کی ی نمت پر انن‬ ‫دی ن‪،‬امت اور ج ئ‬
‫حث ہی ں کرے گا کہ ی ہ امت کی‬ ‫ب‬
‫خ‬ ‫اس بتارے می ں تکو ی ھی ا صاف کرے واال خ ن‬
‫ے‬ ‫ح‬
‫ے‪،‬اور اص طور پر اس مر ل‬ ‫ت‬ ‫ے طرک اک ہ‬ ‫وحدت اور آپستکے رب ط کے یل‬ ‫ب االدس ی‪،‬اس کی ش‬
‫ن‬
‫می ں ج ب ی ہ امت ک ی ل پ ا رہ ی ھی اور اس کی ب ی اد ر ھی ج ا رہ ی ھی۔‬
‫ے‪:‬‬ ‫گ‬
‫اور مذکورہ ا لی آی ت ی ہ ہ‬
‫ص ْيبَنَا دَاِئ َرةٌ‬ ‫ار ُعوْ نَ فِ ْي ِه ْم يَقُوْ لُ وْ نَ ن َْخ َش ى َأ ْن تُ ِ‬ ‫"﴿فَتَ َرى الَّ ِذ ْينَ فِ ْي قُلُ وْ بِ ِه ْم َّم َرضٌ ي َُس ِ‬
‫ُص بَحُوْ ا َعلَى َم ا َأ َس رُّ وْ ا فِ ْي َأ ْنفُ ِس ِه ْم‬ ‫ح َأوْ َأ ْم ٍر ِّم ْن ِع ْن ِد ِه فَي ْ‬ ‫ْأ‬
‫فَ َع َس ى هللاُ َأ ْن يَ تِ َي بِ ْالفَ ْت ِ‬
‫نَ ا ِد ِم ْينَ ‪َ O‬ويَقُ وْ ُل الَّ ِذ ْينَ آ َمنُ وْ ا َأهُؤال ِء الَّ ِذ ْينَ َأ ْق َس ُموْ ا بِاهللِ َج ْه َد َأ ْي َم انِ ِه ْم ِإنَّهُ ْم لَ َم َع ُك ْم‬
‫ت َأ ْع َمالُهُ ْم فََأصْ بَحُوا خَا ِس ِر ْينَ ﴾"‬ ‫َحبِطَ ْ‬
‫"آپ دیکھیں گے جن کے دل روگی ہیں (ج و من افق ہیں اور ب رائے ن ام ایم ان‬
‫رکھتے ہیں)وہ انہیں کی خاطر ساری دوڑ دھوپ ک رتے ہیں‪،‬اور کہ تے ہیں کہ‬
‫ہمیں یہ ڈر ہے کہ کہیں ہم زد میں نہ آ جائیں‪ ،‬تو قریب ہے کہ ہللا مسلمانوں ک و‬
‫‪12‬‬
‫‪6‬‬
‫فتح عطا فرمائے یا اپنی طرف سے ک وئی بھی فیص لہ فرم ائے‪،‬ت و اس وقت یہ‬
‫لوگ اپنی رازدارانہ(اور سازشی) باتوں پر کف افس وس مل تے رہ ج ائیں گے‪(.‬‬
‫‪)۵۲‬‬
‫اہل ایمان کو صاف وارننگ‪ :‬ایمان والے (ان منافقوں کے بارے میں) پوچھ تے‬
‫ہیں کہ یہی ہیں وہ لوگ جو کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہ تے ہیں کہ ہم تمہ ارے‬
‫ساتھ ہیں؟ (انہیں معلوم ہو جانا چاہیے)کہ ان کے اعم ال س ب اک ارت گ ئے اور‬
‫یہ صرف گھاٹے میں رہیں گے۔"‬
‫تو اس آخری آیت سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ہمیں ایسے دھوکے باز موق ع‬
‫پرست منافقوں کی جماعت کا سامنا ہے جو اپ نی جم اعت س ے غ داری ک رتے‬
‫ہیں اوراپنی جم اعت کے دش منوں کی طرف داری ک رتے ہیں اور اپ نی جم اعت‬
‫والوں کے سامنے جھوٹی قسمیں کھاتے ہیں‪:‬‬
‫"﴿ َويَقُوْ ُل الَّ ِذ ْينَ آ َمنُوْ ا َأهَُؤال ِء الَّ ِذ ْينَ َأ ْق َس ُموْ ا بِاهللِ َج ْه َد َأ ْي َمانِ ِه ْم ِإنَّهُ ْم لَ َم َع ُك ْم﴾ "‬
‫"ایم ان والے (ان من افقوں کے ب ارے میں) پوچھ تے ہیں کہ یہ ی ہیں وہ‬
‫لوگ جو کڑی کڑی قسمیں کھا کر کہتے ہیں کہ ہم تمہارے ساتھ ہیں۔"‬
‫اور اس میں کوئی تعجب کی بات نہیں کہ جو دشمنوں کی طرفداری کرے‬
‫اور اپنی امت کی قیمت پر ان دشمنوں ک ا س اتھ دے ت و ایس ا ش خص غ دار اور‬
‫مرتد ہے‪ ،‬اور ہللا تعالی کے ارشاد‪:‬‬
‫ن‬ ‫ت‬ ‫"﴿ت َو َم ْن يَت ََولَّهُ ْم ِّم ْن ُك ْم فَِإنَّهُ ِم ْنهُ ْم﴾"‬
‫خ‬ ‫ق‬ ‫ن‬
‫ے گا وہ ا ہی ں می ں‬ ‫ے دی ن و ع ی دہ کے الف) علق رکھ‬ ‫ئمی ں سے ج و ان سے (اپ‬ ‫"م‬ ‫ش‬
‫مار ک ی ا ج اے گا"۔‬
‫کا بھی یہی مطلب ہے۔‬
‫میں نے ت رجیح دی کہ جس ے دین کی بنی ادی دع وت یع نی ہللا پ ر ایم ان‬
‫النا‪،‬آخرت میں ہمیش ہ رہن ا اور ب دلہ ملن ا‪،‬اور نی ک اعم ال کرن ا‪ ،‬اس الم کی یہ‬
‫دعوت رغبت آمیز طریقے سے صحیح طرح نہ پہنچی ہو کہ اس پر حجت ق ائم‬
‫ہ و س کتی ہ و ت و ہللا اس ک ا اج ر ض ائع نہیں ک رے گ ا اور اس کی محنت ک و‬
‫رائیگاں نہیں جانے دے گا۔‬
‫لیکن ایسا شخص جسے دعوت پہنچی ہو‪،‬اور اس پر یہ آشکار ہو چک ا ہ و‬
‫‪12‬‬
‫‪7‬‬
‫کہ یہی حق ہے پھ ر بھی دنی ا کی محبت اور خ واہش کی پ یروی ک رتے ہ وئے‬
‫اس سے عناد رکھے اور دشمنی کرے تو ہللا کی ط رف س ے ق رآن میں ج و یہ‬
‫وعید آئی ہے یہ اسی کے لیے ہے۔‬
‫ارى َحتَّى تَتَّبِ‪َ #‬ع ِملَّتَ ُه ْم﴾" کی‬ ‫ضى َع ْن َك ا ْليَ ُه ْ‬
‫‪#‬و ُد َواَل النَّ َ‬
‫ص‪َ #‬‬ ‫﴿ولَنْ ت َْر َ‬
‫‪ -199‬آیت‪َ " :‬‬
‫درست تفہیم‪:‬‬
‫میں نے اس آیت کی درست تفہیم واضح کی جس کے صحیح فہم نہ ہ ونے‬
‫کی وجہ سے مسلمانوں کے ساتھ تعلقات میں غلط فہمی پی دا ہ وئی‪،‬اور میں نے‬
‫بیان کیا کہ مطلق رضا اس وقت تک پ وری نہیں ہ وتی جب ت ک ہم ان کی ملت‬
‫کی پ یروی نہ ش روع ک ر دیں‪،‬اور یہ اپ نی ملت کے س اتھ ج ڑی ہ وئی اور اس‬
‫کے مفادات کا خیال رکھ نے والی ہ ر امت ک ا مع املہ ہے۔اور پھ ر یہ کہ ان ک ا‬
‫راضی نہ ہونا ہمارے ایک دوسرے کو سمجھنا اور باہم میل ج ول رکھ نے میں‬
‫حائل نہیں ہو سکتا‪،‬اس لیے کہ ہمارا مقصد کسی بھی چیز س ے پہلے ہللا تع الی‬
‫کی رضاحاصل کرنا ہے۔‬
‫‪ -200‬مسلمانوں کے مشرقی بت پرست مذاہب سے تعلقات‪:‬‬
‫میں نے بت پرستی کرنے والے مذاہب سے متعلق اسالم کا موقف بیان کیا‬
‫کہ اسالم کا موقف یہ ہے کہ سب کو اسالم کی طرف دعوت دی جائے‪،‬اور ج و‬
‫قائل ہو کر اپنی مرضی اور آزادی سے دعوت قبول کرلے تو وہ مسلمانوں میں‬
‫شمار ہو گا‪،‬اور جو اسالم کی دعوت قبول نہ کرے اور مسلمانوں کے ساتھ امن‬
‫سے نہ رہے تو ہمارا اس پر کوئی اختیار نہیں۔اور ج و ش خص ص رف دع وت‬
‫اسالمی کے مقابلے پر اتر آئے اور مسلمانوں سے جن گ ک رے ت و ہم بھی اس‬
‫سے قتال کریں گے اگرچہ اسالم ایسی ہ ر جن گ کی حوص لہ اف زائی کرت ا ہے‬
‫جو بغیر لڑائی اور خونریزی کے ختم ہو جائے۔‬
‫میں نے اگلے م رحلے میں مش رقی ممال ک میں پ ائے ج انے والے ب ڑے‬
‫مذاہب کے ساتھ مکالمے کی دعوت دی جیسا کہ ہندومت اور بدھ مت کہ ان کو‬
‫ہمارے ممالک میں کوئی دلچسپی نہیں جیسا کہ اہل مغ رب ک و ہے‪،‬مزی د ب رآں‬
‫ہمیں اور انہیں مشرقیت بھی آپس میں جوڑتی ہے۔‬
‫‪ -201‬مخالفین کے ساتھ رواداری کلچر کا فروغ‪:‬‬
‫‪12‬‬
‫‪8‬‬
‫میں نے اس ناپسندیدہ تعصب سے خبردار کیا جس سے آدمی اپنے عقیدے‬
‫یا نظریے میں بند ہو کر رہ جاتا ہے اور باقی سب کو اپنا دشمن س مجھنے لگت ا‬
‫ہے‪،‬ان سے برائی کا اندیش ہ رکھت ا ہے اور ان کے ل یے دل میں ب رے ج ذبات‬
‫رکھتا ہے۔میں نے بیان کیا کہ اسالم نے اص ل اور واض ح رواداری کلچ ر کے‬
‫ذریعے نظ ری تص ورات اور عملی مش کالت س ے بحث کی ہے‪،‬اور میں نے‬
‫ذکر کیا کہ اسالمی رواداری کلچر بارہ نظریاتی و فک ری س تونوں پ ر ق ائم ہے‬
‫جو کہ درج ذیل ہیں‪:‬‬
‫‪ .1‬تکثیریت یا تنوع کے مظہر کا اقرار۔‬
‫‪ .2‬اختالف ک ا وق وع ہللا کی مش یت س ے ہے ج و کہ اس کی حکمت س ے‬
‫مربوط ہے۔‬
‫‪ .3‬مختلف مذاہب کے پیروکاروں کا آخرت میں ہللا نے تن تنہا حس اب لین ا‬
‫ہے۔‬
‫‪ .4‬اسالم بشریت کو ایک خاندان کی مانن د س مجھتا ہے ج و کہ تخلی ق کے‬
‫اعتبار سے ایک رب اور نسب کے اعتبار سے ایک ب اپ س ے وابس تہ‬
‫ہے۔‬
‫‪ .5‬اسالم انسان کا احترام بحیثیت انسان کے کرتا ہے۔‬
‫‪ .6‬اسالم امن پسند غیرمسلموں کے ساتھ نیکی اور انصاف کا برتاو کرنے‬
‫کی تلقین کرتا ہے۔‬
‫‪ .7‬ہللا کی تمام مخلوق کے ساتھ رحم کا اصول اپناتا ہے۔‬
‫‪ .8‬اپنے پیروکاروں کی ایسی تربیت کرتا ہے کہ وہ اپنے ارد گرد کے ہ ر‬
‫شخص کے لیے بھالئی اور سالمتی کا سرچشمہ بن جائیں۔‬
‫‪ .9‬انہیں اچھے انداز سے جواب دیں۔‬
‫‪( .10‬اسالم) اس بات ک و تس لیم کرت ا ہے کہ لوگ وں کے درمی ان دش منیاں‬
‫کوئی دائمی امر نہیں ہے ۔‬
‫‪ .11‬وہ اچھے انداز سے مکالمہ کرنے کی دعوت دیتا ہے۔‬
‫‪ .12‬اور رواداری کا اعلی درجہ یہ ہے کہ وہ مخالفین کو اپنے دین یا مذہب‬
‫کے مطابق کسی چیز کے حالل ہونے کا عقیدہ رکھ نے کی آزادی دیت ا‬
‫‪12‬‬
‫‪9‬‬
‫ہے۔( سختی یا تنگی نہیں کرتا) اور حسن معاشرت‪،‬معامالت میں نرمی‬
‫کے برتاو‪،‬پڑوس کی رعایت اور نیکی‪،‬رحم اور احسان جیسے انس انی‬
‫احساسات میں وسعت جیسے امور میں رواداری کی روح کو عام کرت ا‬
‫ہے۔اور اس رواداری کے مظاہر قرآن کی آی ات اور رس ول ہللاﷺ اور‬
‫صحابہ و تابعین کے اہل کتاب سے معامالت میں عیاں ہیں۔‬
‫‪ -202‬جہادی تنظیموں کا حکومتوں سے ٹکراو اور اس کے اثرات‪:‬‬
‫میں نے جہاد اور امت کے آج کے مس ائل پ ر ب ات ک رتے ہ وئے وہ س ب‬
‫ذک ر کی ا ج و جہ ادی تنظیم وں (ی ا وہ تنظیمیں ج و ان کے حکم میں ہیں) نے‬
‫برسراقتدار حکومتوں کے خالف جن گ‪،‬افس ران ب اال ک و قت ل ک رنے کے ل یے‬
‫مختلف طریقے اپنانے اور حکومتی کمپنیوں ک و تب اہ ک رنے ک ا اعالن کی ا۔اور‬
‫میں نے واضح کی ا کہ س ختی اور م زاحمت کے ذریعہ مقص د حاص ل نہیں ہ و‬
‫سکتا‪،‬اور میں نے ش دت پس ند جم اعتوں کی وجہ س ے متع دد س طح پ ر ہ ونے‬
‫والے (درج ذیل ) نقصانات ذکر کیے‪:‬‬
‫ذاتی سطح پر نقصان‪،‬بذات خود اسالمی دعوت کی س طح پ ر نقص ان‪ ،‬اور‬
‫ملکی سطح اور پوری امت مسلمہ کی سطح کےنقصان سے بھی آگے ب ڑھ ک ر‬
‫پورے اسالمی دھارے پر کاری ضرب کا موقع فراہم کرنا۔‬
‫میں نے جماعت اسالمی کی بہادر اور روش ن مث الیں دیں اور انہیں ش دت‬
‫ترک کرنے اور حکومت کے ساتھ مسلح مڈبھیڑ کے اسلوب س ے ب از آنے اور‬
‫جہاد کے راستے میں ہونے والی غلطیوں کا جائزہ لینے کی دعوت دی۔‬
‫‪ -203‬اس زمانے میں امت پر واجب جہاد‪:‬‬
‫میں نے اس زم انے میں امت پ ر واجب جہ اد کی تین اقس ام س ے تع رض‬
‫کیا۔‬
‫‪ :۱‬پہلی قسم‪ :‬استعمار سے آزادی کے لیے جہاد ہے جس میں سر فہرس ت‬
‫فلس طین کی آزادی ہے‪،‬اور مس جد اقص ی اور اس س رزمین میں امت کے‬
‫مقدسات کو بچانے کے لیے جس میں ہللا نے تمام جہانوں کے ل یے ب رکت رکھ‬
‫دی ہے‪ ،‬اور اہل فلسطین سے محاصرے اور ظلم کے خاتمے کے لیے فلسطین‬
‫سےمتعلق یہ خاص فریضہ دنیا بھر کے تمام مسلمانوں کو شامل ہے۔‬
‫‪13‬‬
‫‪0‬‬
‫ایسے ہی ان دیگر ممالک میں بھی کمزوروں کی مدد کرنا واجب ہے ج و‬
‫کہ دشمنوں کے خالف جنگ آزادی لڑ رہی ہیں‪،‬مث ال کے ط ور پ ر ع راق ج و‬
‫ام ریکی قبض ے کی م زاحمت ک ر رہ ا ہے اور افغانس تان اور کش میر۔ان کے‬
‫مسلمان ہونے اور زمین پر کمزور ہونے کی وجہ سے دنیا بھ ر کے مس لمانوں‬
‫پر ان کی مدد کرنا واجب ہے۔ان مسلمانوں کی خاطر( دیگ ر )مس لمانوں کی کم‬
‫سے کم ذمہ داری یہ ہے کہ مسلمانوں کے دشمنوں کو س ہولیات نہ دیں ج و کہ‬
‫نہ صرف برائی اور زی ادتی پ ر تع اون میں ش امل ہے بلکہ دش من ک افروں کی‬
‫ن‬ ‫ف ن‬ ‫کے زمرے میں آتا ہے۔‬ ‫طرفدادری(والء) ق‬
‫ت‬ ‫ب‬
‫ے‬ ‫ے اور وہئ ی ہ کہ صری ح ک ری ہ ن ظت ام کو ب دی ل کر تے کے یل‬
‫ہاد کی ای ک سم اور ھی ہ‬
‫‪ :۲‬جئ‬
‫م‬ ‫ن‬ ‫س‬ ‫ب‬
‫ے۔ج یسا کہ ا ہاپ س د س ی کولر حکو ی ں۔لیکن‬ ‫ج ہاد ک ی ا ج اے ج و کہ عض م لم ممالک می ں را ج ہ‬
‫یہ عمل تبدیلی کے پرامن ذرائع اختیار کر کے کیا جاتا ہے جس کی ابت دا ع وام‬
‫میں شعور پیدا کرنے‪،‬اور ان کو ایمانی و فکری اعتبار سے چارج کرنے س ے‬
‫ہوتی ہے تاکہ وہ حکومتوں پر اثرانداز ہو کر انہیں تبدیلی پر آمادہ کر سکیں۔‬
‫‪ :۳‬جہاد کی اقسام میں سے تیس ری قس م اق وام ع الم میں تم ام زب انوں میں‬
‫دعوت اسالمی کی تبلیغ کرنا ہے جس سے ان پر دعوت اسالمی کی حقیقت‪،‬اس‬
‫کے اصول اور اہداف واضح ہ وں‪،‬اس کے مخ الفین کی غل ط فہمی اں دور ہ وں‬
‫اور ان کے اشکاالت کا ازالہ ہو۔آج کے دور میں ہماری امت س ے مطل وب اس‬
‫جہاد کا دسواں حصہ بھی امت نے ادا نہیں کیا۔‬
‫‪ -204‬جہاد ذریعہ ہے نہ کہ مقصد‪:‬‬
‫میں نے متنبہ کیا کہ اسالم میں جہ اد کچھ اہ داف اور مقاص د کے حص ول‬
‫کا ذریعہ ہے نہ کہ وہ بذات خود مقص د ہے‪،‬اور جہ اد ک ا پہال مقص د یہ ہے کہ‬
‫ہللا ک ا کلمہ بلن د ہ و‪،‬یع نی ظ اہر ہ و نہ نہ پوش یدہ رہے‪،‬س نا ج ائے نہ کہ ن ابود‬
‫ہو‪،‬عام ہو نہ کہ مخفی رہے‪،‬قوی ہو نہ کہ ضعیف اور غالب ہو نہ کہ مغلوب۔‬
‫‪ -205‬عصر حاضر میں اقدامی جہاد‪:‬‬
‫میں نے ترجیح دی کہ اقدامی جہ اد(جس میں دش من پ ر اس کے گھ ر میں‬
‫حملہ کیا جاتا ہےاور جس کی مسلمانوں کو ماضی میں ضرورت پیش آتی رہی‬
‫تاکہ سرکش طاقتوں کو اسالم کی طرف دعوت کے راستے سے ہٹا سکیں) اس‬
‫‪13‬‬
‫‪1‬‬
‫کی آج میں ضرورت نہیں رہی‪،‬اس لیے کہ زمین پر آباد اق وام ت ک کلمہ اس الم‬
‫پہنچ انے ک ا اب ص رف یہی متعین راس تہ نہیں ہے‪،‬بلکہ دنی ا ت ک کلمہ اس الم‬
‫پہنچانے کے لیے ہمارے سامنے مختلف ذرائع اور چینل ز آ گ ئے ہیں جیس ا کہ‬
‫ری ڈیو سٹیش نز‪ ،‬ٹی وی چینل ز اور ع المی معلوم ات ک ا نیٹ ورک(ان ٹرنیٹ)۔یہ‬
‫غیرمعمولی ذرائع کے لیےمجاہدین کی زبردست فوج کی ضرورت ہے ج و کہ‬
‫علم و معرفت اور بیان و ابالغ کی تربیت سے لیس ہو۔‬

You might also like