Professional Documents
Culture Documents
مقالہ مکی
مقالہ مکی
ق ن ق ن
ن الہ: گران
ن م م الہ گار:
موال ا دمحم احمد نسع ی د مد ی دمحمنمکی
رکن،مج لس ک زل المدارس ورڈ
ب رول مب ر
پ اکست ان عالمی ہ اول
پی ای چ ڈی -عربی 51671
تخ
ن ٹ طن دس
احمد سع ی د مد ی
موال ا ڈاک ر ن
رکن مج لس ک ز المدارس ب ورڈ پ اکست ان
پی یا چ ڈی۔ عربی
تش ظ
ا ہار کر
نت
ا ساب
قق ق ت ق ش ن
ح ش
ی ت ،ث ی نوم ہن اہ ا لی م ن والیغت ،اج دار ن م ن
لک
قزما ی،عارف رب ا ی ،وث صمدا ی س ی د ا مج ددالف ا ی
ض دس سره،
ن
کے غح ور
ج ن کی ب رکت سے بر ص ی ر پ اک و ہ ن د می ں اسالم ز دہ
وا ہ
مہ ف ای مان کے اج الے ب ک
ھرے ی د عر ان کے پ ھول ک
ے ق
ک ت ق ح ن
ھ ج م
ے
ے ل کے راس ے و ی تئ وحدت کے چ ا د چ ک
ش ف
ے ش م نعرئ ت کے م اہ دے عام ہ و
ن
ے ا دھی روں می ں دا ا ی و حکمت کے چ راغ رو ن یک
اج فاالن ک ی ا
ے د ر ھ پ ہ طو ا وں کے من
ی ی فن
ے د ر ھ پ ہ طو ا وں کے من ش
ی ی سن ن
ے سے لگای ا خد م وں کو ی
ون کے پ ی اسوں کو معاف کر دی ا
ق
ت ض م دمہ
.1مو وع کا عارف:
تاریخ میں ایسے کم لوگ پیدا ہوئے ہیں ،جن کی ذات ای ک مکم ل فن ،عن وان س خن اور
موضوع تحقیق بن جائے۔ نابغہ عصر ،عبقری الشرق ،مجدد اعظم ،فقیہ ،مح دث ،عاش ق
رسول ﷺ امام احمد رضا خان ریلوی علیہ الرحمہ کی ذات فقط ایک فن یا موضوع
نہیں ،ای ک ”جہ ان عل وم و فن ون“ ہے۔ آج جب کہ خطاب ات و الق اب س ے دس ت درازی
عروج پر ہے ،عرب و عجم کے ذمہ دار علما نے آپ کے لئے جتنے القاب ک ا اس تعمال
کیا ہے ،آپ کی ذات کے لئے صد فی صد موزوں ہے۔ اعٰل ی حض رت میں ،مج دد ع رب
و عجم ہونے کی ساری خوبی اں ب درجہ اتم موج ود تھیں؛ یہی وجہ ہے کہ دنی ا بھ ر کے
محققین ،دانش ور اور ادبا ءنے امام احم د رض ا خ ان بریل وی علیہ ال رحمہ کی ذات ک و
موضوع تحقیق بنایا اور اس ذات کو ایک سبجیکٹ ”رضویات“ کے طور پر تسلیم کیا۔
ع تق ف
ت
ق تق ع ف
خ ح ض
تق ح ل
دمات کی می ی ی تض ی ص
ن ”ر وی ات ت“ امام احمد نرض ا خ ان ب ری لوی کی لمی ،کری ،ی و
ی
کے ماہ ری ن ”ماہ ری ن ر وقی قات“ کہالے ے۔ اس ت الح“ ہ ے اس عمال کی ج ا یع والی ف”اص ط کے لی
ح
رع ،لیضب ار 1989ء می ں نحریری طور پر ادارۂ ی قات امامناحمد ہ پ الحئ طور لم کی ب ہ یضں۔ ی ہ اص ط
ئ کی ش
رسول ادری قے ض ت و
نس ی ج اہ د ا موال ں ق یم ات یو ر ہ ی ن آ اب تک کردہ ع ا ر ت ا ،کراچ ی
ن
“ ”
امہ معارف ر ا (ج و اس و ت ش ن سے ی ہ اص فطالح ب ا اعدہ ماہ ق کے ب عد 1992ء عمال کی۔ اس ت ت اس
ہ
ے پ لی ب ار ”ماہ ر ن
کی ج اے گی۔ پ قرو یسر مسعود احمد ب ٹدی کے لی ل ساال ہ ھا) می ںخ اس عمال ت ن
ت ض
صاحب کا ض احمد
ف عودس م ر ڈاک ں ی ن م ھذا ت الہ ا۔م گ
ی ی ا ک عمال س ا طاب کا ات تر ی
و
صف “
ئ ی ازی کار امے اور آپ کا روغ ر وی ات ،آپ کے ام عارف ،ح ی ات ،آپ کی ن ین ات ش
می ضں کردار اج مالی طور پر پ یش کرے کی کو ش کی ج اے گی۔
ن ت: مو وع کی اہ .1
ت ٹ ن ی م ہ ض
ے کم و ے کہ ڈاک ر مس حقعود احمد صاحب ف وعنکین ا می ت نکا ا دازہعاس بض ات سے لگای ا ج ا سکت ا ہ مو
ے قروغ ب یضش اپ ی صف ز دگی ا لی ح رت ت علی ہ الرحمۃ رب العزت پر ث ی ق کے ذری ع
۔آپت ایق قک مح ق کے ب ہت سے لوگوں کو مت ا ر ک ی ا ن صرف کی اور اس دور حق ق ات می ں ج ن ن ن ر وی ت
ح
ے ۔ ا کی ی ات اور ہ ارت ع سے ہد سج ج دو ی ی ن کی ت
سچ و ق
ن ق ت ح دگی ز کی کہ ےھ صادق ت
ب ع ق ح پ ف
ئ۔ ج ٹ ے س
لوب کو م لوم ک ی ا ج ا کت ا ہ م
ے ی ا ی ہج و ا ق
نص ی قات کے یش ظ ترق ا ک
ف
م ہ
ےن ان تسے است ادہ مزی د آسان و ج اے گا وڈاک ر سعود احمد ن کے لی سے ان مح یحق ق اس فم الہ ض
ے ہ ی ں۔ روغ ر ویضات پر ی ی کام کر ا چ اہ کے خ
ص ن ت اس بٹاب ا ت ی ار مو ف وع :ض .2
تق ف حق ق
ن ا۔ کر ل تت حا ت عرق کی
ی ت ی ن حم ات ں م ات ڈاک ر م ضسعود احمد کی روغضر خ ی
و
ن ے ضی کام کو م عارف کرا شا۔ ی اعلی ح رت امام احمد ر ا ان لی ہ الرح حمۃ پر خا ک
ق ع
لوگوں می ں سلف صالحی ن کی ح ی ات پر ی ق صوصا ر وی ات کی حص ی ل کا وق ب ی دار کر ا ۔
ت ق
ض
داف: ا کے ق موض وع رن ح .3
ن ہ ان کی پ ی خ
سوا حی ضدمات کو وا ح کر ا۔ ض ن ق
تف
کردار کو فوا ح کر ا۔
ان کی ح ی ع ی شی ت
ں م ات و ر روغق
ن ف ت ق
ان کی ن ی و لمی کاوعوں کیحمقعر ت ۔
ع
عوام ال اس کو ان کے لمی و ی ی کا م سے م لق معلومات راہ م کر ا۔
ت
شخ
ئ ق حق ق ض
ت زہ: ا ج کا ات ی ہ
ض ب سا ر پ وع مو .4
اب ک, عزت کی ص ت ر ب ہت سے لوگ ق ت ع ع
ے ہی ں ۔پآپ کے محب ن اور ح یق ت پ س دن س ی دی ا لی ح ترت لیی ہ رئحتمۃ رب ال حق ق
ئ ی طرح کی ی ات کر چ ک
ن ی ف M.PhilP.H.Dقاور د گر ک ی
ق حق ق
ے ہ وے ہ ی ں،اور ان سے ج دی د م ی ن آپ ئکی خ ی ات اور نص ی ات کا م طالعہ کرے می ں گ
ل ح
ف تف ت ں۔
سے ج دی د مسا ل ا ذ کر رے ہ ن
اس موض وع کو ان ت خہابی کرےق کی و ہ ب
ے کہ خاس ئمادہ پرس ی تاور ا را ری کے ہ ہی ن ی ھی ج می رے
ق م ہ
لوگوںق کے پ اسن و تئ ی میسرن ہی ںنکہ وہ نود نکو ی ہم کام حکرسکی ںئ -قلوگوں ت
-کہیجقہاں ت ق ق
ک ہ پ ج پ ح تدور می ں مح
ےو ف ف
ے کہ ہوں ے ا ی ز دگ ی اں ی نی ئق نی ل ک ان ن کی ح ی ات نکو ہ چ ای ا ج ات نق ف
ں ا صرف اپ حنق ا ام پ ی داخ ک ی ا ب لخکہ اس ن منی ں ن ت ی ا واع ب ھی کیتں اور اسئ ن خ ی ق می ض
م عارف کروا ی ں ۔ صوصا ر وی ات کی ی ق می ں وب دمات سر ا ج ام دی ں۔
ت ن ت ق
خ ٹ ن ق ئ حق ق ش ح ی ق کا ب ی ادی سوال:
ے ی ی م الہ ب ع وان"ڈاک ر مسعود احمد کی ح ی ات و دمات" کے ےگ ے نلکھ ن ھادۃ العالمی ہ کے لی
کے اہ مت کات درجت ذی ل ہ ی ں۔ ب ی ٹادی سوال ش خ
ن خ ع ے؟عارف ک ی ا ہ حق قعود احمد کا صی ق
ن نڈاک ر مسن
ی
ےدور می ں کس سم کی ی و لمی دمات سر ا ج ام دی ہ ی ں ؟ ا ہوں ے اپ
ض ف
ہ
روغ ر وی ات می ں ان کا کردارک ی ا ر ا؟
ق ت
ف ت ق ت ف رض ہ ح
ع حق ق ت ق:
عود احمد کا طرز ح ٹی ی .5
ے۔ سا ہ مکم لی م ی
ن ن کا ش عامق ہم اور ا ح ، سادہ
ض ف سی ص
ن طرز و ق ی ن ن ڈاک ر مس
ے۔ ے بساط کے م طابق ہ ر طح پر مو وع ی ق کو ل کرے کی کو ش کی ہ آپ ےتاپ
ت ق
ق ق خ ش حدود: کی ق موض وع ر ح .6
ن ع ح ٹ ض پ ی
ئمی ں ڈاک ر مسعود احمد کی صی ت اور ی ی و لمی خ دمات کا اج مالی حاطہ کرے مو شوع زیر ب حث
کی کو ش کی ج اے گی۔
ن ت تق
ئ ت ھج: موض وع ر ح قق کا م .7
ئ ف پ ی ق
ے ان کی نص ی ف ات کا ج ائزہ ل ی ا ج اے گا ۔ م الہ می تں ح ی ق ق تکے لی
ئ ف سے است ادہ ک ی ا ج اے گا۔ الہ ج ات ن ان کی ک ب اور م ق
عم تحوالہ ات اور دی گر ح
ان کے ارمی ٹ پر ل ک ی ا ج اے گا۔ ں ک ز المدارس اہ لفست پ اکستئ خ ی م ق ی جت ئ ن
ے خگا۔ ہ
ق خ یر ن ج کرے ہ و تے ب ی نادی ما ذ سے نی ا شست ادہ کی ج ا
ض ق رآ ی آی ات تکا ق رقج مہ "ک ز االی ن
ے۔ مان" از موال ا ال اہ امام احمد ر ا ان علی ہ الرحمہ سے ک ی ا گ ی ا ہ ب
ے۔ دی م اور ج دی د ح ی ات کو ھی مد ظ ر رکھا گ ی ا ہ
ئ ت ق
ئ ق: د ت اب ذرا ع ح .8
ش ئ نٹ ن ت ی ف قس ی
م الہ ج ات ،ک ب ،سا ٹ وی رز ،ا ر ی ٹ ،سو ل م ی ڈی ا ،رسا ل و مج الت
ف ف
ث ثن واب و صول ض با ہرست
کے احوال و آ ار اب اول :ح ض رت مج دد الف ث ا نی ت ف
ب
ف صل اول :حض رت مج دد الف ث انی کا عارفخو ح ی ات
الفع ا یخکی مج ددن ہ دمات ت صل دوم :ح رت مج ثددن
ئ می خدماتفب اب دوم :مج دد الفث ان ی کی لص ف
ی فص
صل اول :مج دد الف ث اننی کی نف نی خ دمات کا تج ا فزہ ئ
صوف ی ا ہ دمات کا عار ی ج ا زہ ل دوم :مج دد الف ث ا ی کی ت
ردات
ق فب اب سوم :تمجفدد الف ا ی کے
طالب و م ناصد
کے م ق ف صل اول :ردات ث ن
خ صل بدوم :مج دد الف ا ی کے ا وال و ظ ری ات
حث
ش ن ئالصہ ف
ف ت ا ج و س ار ات
ہارس /مصادر و مراج ع .9
ث ثن ب ضاب اول
ح رت مج دد الف ا ی کے احوال و آ ار
ثن ت ف
ض
ف صل اول :حض رت مج دد الف ث انی کا عارفخو ح ی ات
صل دوم :ح رت مج دد الف ا ی کی مج ددن ہ دمات
ف
ص
ثن ت ض ل اول
ح رت مج دد الف ا ی کا عارف و ح ی ات
ف ق ثن ش عادت ّد َا ن ُد س ا ب والدت
ض ش ش نق
احمد سرہ ن دی ارو ی ن لف ا ی ی خ ع پ
عالیَرہ ُۃ ب دی ہل کے ظ ی م ی وا ح رت س ِّی ا نمج ِد ق
ن ن ق ش نسلسلئ ٔہ
ب دی َعَلْیِہئ ْحَم ِہللا ا َقِو ی کی والدت ب اسعادت ِہ د کے م ام ’’ سرہ د ‘‘ می ں 971ھ /
خ ًا ق 1563ء قکو ہ و ی۔ ُز َد ُۃ
ت س ق حل
ق ( ْب َر اْلَم ُۃ امات مکت ب ۃ ا ی ن ۃ ا ن ب ول1307ھ ص۱۲۷ما وذ )
ے۔ ب :ب درالدی ن ہ ل
اور َی ُہللارکات َر ت :اب فو الب ٓاپ َر ْحَمُۃ ِہللا َتَعاٰلی َعَلْیہ کا ام ممبن ارک :ضاحمد ،کن ی ُد ن
َتَعاٰلی َعْنہ کی اوالد ع
ٓاپ ْحَم ِہللا َتَعاٰلی َعَلْیہ امی رالمٔو ی ن ح رت س ِّی ا عمر اروِق ا ظ م ِض
می ں سے ہ ی ں ۔
خاندان
حضرت مجدد علیہ الرحمہ کے خلیفہ خواجہ محمد ہاشم کشمی نے زبیدہ القامات
(۸-۱۹۲۷ ۱۵۱۰۳۷ء) میں حضرت م مجددکا شجر ہ نسب اس طرح لکھا ہے:
شیخ احمد بن شیخ عبداالحد بن شیخ زین العابد ین بن شیخ عبدالحی بن شیخ
حبیب ہللا بن شیخ امام رفیع الدین بن شیخ نصیرالدین بن شیخ سلیمان بن شیخ
یوسف بن شیخ اسحاق بن شیخ عبداللد بن شیخ شعیب بن شیخ احمد شیخ یوسف
بن شیخ شہاب الدین فرخ شاہ کا بلی بن شیخ نصیر الدین بن شیخ محمود بن
شیخ سلیمان بن شیخ مسعود بن شیخ عبدهللا (واحد االصغر) بن شیخ عبدهللا
( داعظ اکبر ) بن شیخ ابوالفتح بن شیخ اسحاق بن شیخ ابراہیم بن شیخ ناصرین
حضرت عبد هللا بن عمر بن الخطاب رضی ہللا تعالی عنہم اجمین
شاه محمد فضل هللا (1241ھ ) عمدۃ القامات (1233ھ ) میں تحریر فرماتے ہیں
کہ :حضرت مجدد کے چودہویں جد شیخ سلطان شیخ شہاب الدین المعروف به
فرخ شاہ کابلی والی کابل تھے۔ آپ نے کئی بار ہندوستان پر لشکر کشی کی،
کفار سے جہاد کیا ،بتوں کا قلع قمع کیا اور اسالم کی ترویج و اشاعت کی بار ہا
بکثرت مال غنیمت لے کر فتح ونصرت کے ساتھ ہندوستان سے لوٹے ،آخر میں
ترک سلطنت کر کے فقر اختیار کر لیا اور سلسلہ چشتیہ میں بیعت ہو گئے ،
کوہستان کابل میں سکونت اختیار کی مخلوق کو اپنے روحانی فیوض و برکات
سے مستفیض فرماتے رہے اور یہیں انتقال فرمایا۔ شیخ ضیاء الحق علیہ
الرحمہ نے یہاں خانقاہ اور مسجد تعمیر کرائی ہے ،آج کل یہ موضوع درہ فرخ
شاہ کے نام سے مشہور ہے۔ حضرت مجدد کے پانچویں جد شیخ امام رفیع
الدین ،حضرت جالل الدین
بخاری کے مرید اور خلیفہ تھے ،اپنے مرشد کے ہمراہ ہندوستان تشریف الئے
،جب یہ دونوں بزرگ موضع سرائس پہنچے (جو سر ہند سے پانچ چھ کوس
ہے) تو وہاں کے باشندوں نے درخواست کی کہ جب آپ (سید جالل الدین
بخاری) دہلی رونق افروز ہوں تو سلطان فیروز شاہ سے فرما دیں کہ سرائس
سے سامانہ آنے والوں کے لیے راستہ پر خطر ہے ،کیوں کہ جنگل میں وحشی
درندے ہیں اس لیے ان دونوں موضعوں کے درمیان ایک شہر آباد کر دیا
جائے ،تا کہ جولوگ سامانہ سے مالیہ جمع کرانے سرائس آنا چاہیں تو ان کو
تکلیف نہ ہو ،دہلی پہنچ کر حضرت جالل الدین بخاری نے سلطان فیروز شاہ
سے سرائس والوں کی سفارش کر دی ،چنانچہ سلطان نے شیخ امام رفیع الدین
کے برادر کال خواجہ فتح ہللا کوحکم دیا کہ وہ اس مقام پر جاکر شہر آباد کریں،
چنانچہ موصوف دو ہزار سوار لے کر یہاں پہنچے اور قلعہ کی تعمیر شروع کر
دی لیکن یہ عجیب واقعہ پیش آیا کہ ایک دن میں قلعہ جتنا تعمیر ہوتا دوسرے
دن وہ سب منہدم پایا جاتا ،حضرت جالل الدین بخاری کو جب اس واقعہ کا علم
ہوا تو انہوں نے امام رفیع الدین کو بنام لکھا کہ وہ جا کر خود قلعہ کی بنیاد
رکھیں اور شہر میں آباد ہوں ،چنانچہ آپ نے قلعہ تع میر کیا اور یہیں متوطن
ہو گئے ،یہ قلعہ پہلے موجودہ شہر سے دور تھا ،اب آبادی کی وجہ سے شہر
کے اندر آ گیا ہے ،اس شہر کو سہرند کہا جاتا تھا ،جس کے معنی ” بیشہ شیر
(کچھار) کے ہیں ،امتداد زمانہ کی وجہ سے ہربندہ سرہند ہو گیا ،حضرت مجدد
علیہ الرحمہ کی والدت با سعادت اسی شہر میں ہوئی۔ حضرت مجدد علیہ الرحمہ
کے والد بزرگوار شیخ عبد االحد ( 1007ھ )1598اپنے زمانہ کے عارفان کامل
میں تھے۔ تحصیل علم کے دوران ہی شیخ طریقت کی طلب میں شیخ عبدالقدوس
گنگوہی ( 1537ھ944 /ء) کی خدمت میں پہنچے اور استفاضہ کیا ،مگر شیخ
موصوف نے تحصیل علم کی تلقین فرمائی ،چنانچہ آپ تحصیل علم سے فارغ ہو
کر دوبارہ حاضر ہوئے تو شیخ ممدوح کا وصال ہو چکا تھا ،اس لیے ان کے
خلف شیخ رکن الدین (م 938ھ 1575ء) نے آپ کی روحانی تربیت کی اور
قادریہ و چشتیہ سلسلوں کا خرقہ خالفت عنایت فرمایا۔ اس کے ساتھ ایک
اجازت نامہ (929ھ) مرحمت فرمایا۔ بقول پروفیسر فرمان علی :شیخ عبد االحد
تمام علوم میں مہارت رکھتے تھے اور جملہ کتب معقول و منقول بڑی صحت
اور تحقیق کے ساتھ طلبہ کو پڑھایا کرتے تھے ،فقہ اور اصول فقہ میں آپ کو
خاص ملکہ حاصل تھا ،اس کے ساتھ ساتھ طالبین حق کو علوم باطنی سے بھی
ف ن یش ثن کرتے تھے ۔ بہرہ مند مکیا ض
ت
المک ب ک اؤ ڈ ن،2007،ص14،سے(16
ش الف ا ی،ا عس ت ن
)احمد،دمحم سعود،ح رت مج دد
ُد ن ّد َا
َر ف ُۃ ن َس لی مُّر ُہو رب ْویَرت ن ث ض
داالحد تَعَلْینِہ ْحَم ب ع خ ی د جما ئ
والد ف ے ا ے اِنی ُّنلا ِس ِّدُق ی ا لف ِد ج م ا ِّی س رت
ت پ
ے۔ ٓاپ ْحَم ِہللا َتَعا تٰلی َعَلْیہ نکون راف ضتکے سا ھ سا ھ فواق ل
َر ُۃ
ل کی ا َّصمدحسے کئی علوم حاص
ِہللا ل ب ن ن َر ُۃ
َعَلْیہ سے ملی ھی ،چ ا چ ہ رماے ہ ی ں ’’ :اس ی ر کو ن ٰلی ف اَتَع
ت ِہللا والد ماج ند ْحَم ے ف ت ف ھیخاپ کی حمب ن
ے۔ ‘‘ لی ے والد زرگوار سے م ا ق و کی مازوں ل ص
ًا صو لہ ا
ہ ب ی پ س ق ق ع ب ادِت
ًال ن ئ ف ن ف ول ص ) ۶ ت (َمْبدا وَمعاد مکت ب ۃ الح ی ۃ ا ت ن ب
ص ی
کے عالوہ دوسرے اسا ذ ہ سےش ھی است ادہ ( ع ی ا دہ ضحا ل) نک ی اشمث موال قا کمال ب والد ماج د
ی ک ب ُۃ َر ش
ع م
ری ْحَم َرِہللا ُۃَتَعاٰلی َعَلْیہ سے عض ت ل کت اب ی ں پڑھی ں ،نح رت ضموال ا ی قخ ضدمحم وب ک ی ش ف
م
ہ ب
ب حدی ث پڑھی تں اور تس فدلی۔ ح رت ا ئی لول ت ق صرشی ک َر می ُۃری ْحَم ِہللا َتَعاٰلی خ
َعَلْیہ سےنک ش َعَلْیہ ّد َا
ن ھ سی ر و حدی ث کی ک ی کت اب ی ں َسف ُّرُہکےْو َرسا ھ سا سے ص ی ثدہ ب ردہ ری ِہللا َتَعاٰلی ُد ن ب د ی ْحَم ض
ع ئ
رت غ س ِّی ا مج ِد لف ا ی ُقِّد ِس الُّن اِنی ے 17سال کی عمر می ں لوِم ظپڑھی ں ۔ ح ن ف
ف ت ُد ُو پن ی۔ اہ ریُتسے ْدس ِد م پ ق
ا ت را
(َحَضرا الُق س ،حکمٔہ او اف ج اب مرکز االول ی ا الہ ور 1971ء د ر م ص)۳۲
ف
س شر د ہ لی
ت ن ض
ں زی ادہ ر سرہ ن د
داالحد کی ح ی ات میئ ت
ے والد ب زرگوار ی خ ع ب شت ح رت مجمقد علی ہ الرحمہ اپ
ے ۔ ۱۰۰۷ھ ے ھ ے اکب ر آب اد ریف لے گ ے ،چک ھ عرصہ کے لی ہ ی می ں ی م رہ
نف ت نتق
ارادے سے کے حج لی آپ ں م ھ
ن ت ی و ا ی گ و ہ ال می ں والد ئماج دث نکا ائ
ن خ
۱۰۰۸
پ ن
اص موال ا حسن ن ن ے و آپ کے قمحب ت ے ،ا خ اے راہ مقی ں دہ لی ہچ روا ہ ہ و گن ش
ے واج ہ دمحم ب ا ی ب ا خللہ علی ہ الرحمہ سے مال ات کی حری ک کی ،چ ا چ ہ
خ ت ری کن ی
م
ا ہی ں کی حری ک سے آپ واج ہ موصوف کی دمات ا رکت م ں
ب بش فق ی ف ئ ن ق ض ئ خ
فحا ر ہ وے ،واج ہ ب ا ی ب اللہ لی ہ الرحمہ ے آپ پر ب ڑی ت رما ی اور
ع
:رمای ا
ت ف
هر چ ن د اراده س ر م ب ارک در پ یش داری د امام چ ن د روز می وان ب ه
ن ف ق ش فق
ت
ے ی ا ہ ہ ،چ ه ما ع است ما ل ا اال ت، دا ت حبص راء
ہ
ت ف ت
ے ے ہ ی ں ،ل ی کن چ ن د روز کے لی ک
رممج مہ )تگوف قکہ آپ ای کتم ب ارک س ر کا ارادہنر ھ
فکن ہ و و راء کے سا ھ ر ہ ی ں ،زی ادہ دن ہی ں اس ی ہی ای ک ماہ ای ک
ت
ے؟ ہ ہ ،اس می ں ک ی ا حرج ہ
ت ف
ےہ ا کر اب ت زمان ہ لے کر جس
ےآ
ن ش خ ن
ے وہ گاریچ ا ہی ں کی اک می ں پو ی دہ ہ
ف ت ض
:ح رت دمحم وعلی ہ الرحمہ رماے ہ ی ں
ن
ت ت
صب ت اج ماع و مان ن د آن رب ی ت ن ا ل ا ں ف ق ر ه ی ق ن می دا ست که مث
ح ی ی ی ب ی
ت
ارش اد ب عد از زمان آن نسر در علی ه وعلی آله الصالۃ وال سلی مات ہ رگز ب ه وج ود ہ
ن
خ ش
صب ت ی ر الب ر رف
ش
اگر ک آرد می ا آمده است و ش کر ا ں عمت ب
ح ه چ ب
ه ه ج ی
علی ه و
صب ت محروم ن ا عادت از ارے م دی علی آلہ الصلوۃ وا سالم ش رف ن ه ش
ح ی س ب م ل
ن ن
ما دی م
ج ت س ع ص ن ض ن ف ق یق ن
ے کہ آ ح رتت لی ہللا لی ہ و لم کے عہد ن) ر ئ
مہ( ی ہ ی ر ی ی طور پر ج ا تق ا ہ
ش
ت وضار اد ہ رگز وج ود می ں ہی ں آ ی
س ص
صب تت اور رب ی ن ارکقکے ب نعد اس سمشکی ح مب ف
ع
ے کہ گو آ ح رت لی ہللا لی ہ و لم کے
ل ہشوگی ،ی ر اس عمت شکا کر نادا کر ا ہ
صب ت سے م رف ہی ں ہ وا ،ی کن اس حمب ت کی سعادت سے ب ھی رف ح
محروم ہ ی ں رہ ا۔
ف
دوسرا س ر
ق خ ض ن ن
ئدوب ارہ واج ہ دمحم ب ا ی ع
دہ لی سے سرہ د آے کے ب عد ح رت مج د و لی ہ الرحمہ
ض
دراز ک ت
عرصہ ن تلی حا ر ہ وے ،تاور ن رکت می ں دہ بشاللہ علی ہ الرح فمہ کی خ ثدمت ب اب ف
وں ب ے ،ان صح ہ صب ت ی ض ا ر نسے مست ی
وں ے دو ش ش ض ف ہ ر ے و ض ی خ کی ح
ست ومودت می ں ب ہت ا ا ہ کر دی ا ،ہزادہ دارا کوه ن ب زرگوں کے درم ی ان موا
ت
۱۶۵۹/۱۰۷۰۴ء) ے اس کمال حمب ت اور ب اہ می کمال ادب و اح رام کو ش (
تمرآ ج ہاں ب ھی صاحب عج ا ب ات زمان ہ میشں مار ئ
مرآ ال شعالم تاور فے ،خصاحب ش تک ی ا ہ
:عج ائ ب ات می ں مار کرے ہ ی ں ،واج ہ دمحم ہ ا م ک می حریر رماے ہ ی ں
ظ ق
صب ت و معامله که م ی اں ای ں پ یرو ای ں مری د دس سراہ ما ب ه ہور رس ی ده کم ای ں ش ح
کے ن ی ده و از عج ای ب روزگار است و موج ب حی رت الواالب صار
ت ن
ت و سلوک ج و ان دو وں پ یر و مری د کے درم ی ان دی کھا ک ی ا کسی اور ن ) رج مہ( ی ہ حمب ت
ے جس کو دی کھ کر آ کھ والے ئ ن ن
کے م لق ن ہ س اع
تگ ی ا۔ی ہ زما ہ کے عج ا ب ات سے ہ
حی رت زدہ رہ ج اے ہ ی ں۔
ن خ ض خ
نی ہ اس مری د کے ی االت ہ ی ں جس کو ود ح رت مج دد علی ہ الرحمہ ے می ر دمحم
عمان
ت خ
ب رہ ان پوری (م ۱۰۵۸ھ۱۹۳۸ /ء) کو ط لکھ کر ب لوای ا ھا۔
ن ع ب خ ش ن ن ش ف ت خ
صب ت ب اش د و ا ذ عض لوم و شمعارف مای د که در روز د چ کو د س ر را م ا ہ ہ وا
ح ش ش ج ق ظ
ج وان اب ل اہ ر می ود ،م ارال ی ه سرب ار ما است و مذاق دان ماره ۔
ج ت ع ب ن ت
ھ ش ب خ
ں رہ کر عض لوم و ) ر مہ( ی ت م ت ب ص
ح روز د چ وہ کہ ا ں ید ج ی کو م ا ہ ہ ج وا
ع ق ص
ے ،موصوف آپ کا ہ م
کرے ،نوہ اب ل و ان لوم و ا ہ ج تمعارف فحا ل
ش ت
ے۔ رب ی ت ی ا ہ اور مزاج اس ہ
خ ض ش ش خ
واج ہ دمحم ہ ا م ک می ،ح رت مج ددد لی ہ الرحمہ کی دمت می ں دو ب رس
ع
ے۔ سی۔اے۔ رہ
ٹ
ک ل
:اس وری ھت ا ہ
ے
ش ش ش
خ ن
دی کی دمت می ں )۔1621۔2ء(1031 ق ئ ہ ا م تک ق می) ی خ احمد سرہ
می ں (دمحم
خ م تس ت ض
ے۔حا ر ہ وے اور ری ب ا دو سال ک ل آپ کی دمت می ں رہ
ن
ات ہ ر ح ی ث ی ت کے ب ارے می ں آپ کے ب ی ا ت مہ ح الر ہ ی ل ے حض رت مج د وع اس لی
ع ض ت ق ن ت
ں۔ ح رت مج ددد علی ہ الرحمہ کے م لق سے مس د اور اب ل اقع ب ار ہ ی ن
موصوف ای ک اور وا عہ می ر دمحم عمان ( م ۱۰۵۸ھ ۱۹۳۸ /ء) کے حوالہ نق
ت
:سے ل کرے ہ ی ں
ق خ ض ن ن خ نغ خ ض
ب ش
ود د اگاه ح رت واج ہ ب ا ی ف ود ود
ق ش یعر ر ب ود ئ ر ج
ح در ش ان ای ت رت روزے ح
ش ش
ه ه
ب اللہ علی ہ الرح ضمہ ها ب ه ی وهخسا ر دروی انض ب ه صد دری ا ت ای ان ب ضه در حج رخه ن
ش ش ن
واست که ح رت ای ان را ب ی دار ک ن د ح ترت واج ہ ف ن رس ی د د خ تادم ح رت ای ان
ن
ب نہ م ب الغ ہ مام اورا تاز ب ی دار کردن م ض ع رمود د و هم چ ن اں ب ه ن ی از و شادب مام ب رون
ش ن ش ن
و ض زد ی ک آست ان ه ا ظ ار ب ی داری ح رت ای ان می ک ی د د ،له ب گذ ت ض ه ب ود خکه
ست؟ ...ضح رت واج ه ب ه خ ح رت ای ش فان ب ی دارفشق ده آوازقدادن که بیرون در کی
ان از عریش ود ب ه ا طراب ب رج تس ه ن ش
ای رت
ض
ی ا ردمحم ک د ادب ت مام گ ت ن
ش ت ن ی تب ح ه نت
ب رون آمده ب ه ا ظ ار و ا کسار مام در خ دمت س ن د۔
ت خ ت ف تخ ض ض
ج
ے کہ واج ہ ) ر مہ( ے ھ رت مج دد علی ہ الرح شمہ )حج ر ہ می ں ت پر آرامی نرمارہ ( رت
ئ ن ت ت ح ایقک روز ح
کے ک ب ی ل ع
ن رے سخت ے ،حج ن ےآ خ ب ا ی ب ا لہ ل پی ہ نالرتح خمہ ننہا دوسرےض درو وں کی طرح آپ کو ھی مد ھ ض
رت واج ہ ے ی سےت م ع ہ فدروازے پر ہچ
ن دے گر ح ض ے و ادم ے تچ ا ا کہ ح رت صاحب کو ب یندار کر ن
م
ے کے خ ن ظ ر دروازے تکے ب اہ ر آست اے کے زدی ک ح رت کے ج اگ ض ن کے سا ھ ض رما دی اتاور ن ی از و ادب
رت واج ہ ے؟ کھ
ض ح کونخ ہ
رت کی آف قکھ لی وق ( آہ ض ٹ سن کر) آواز دی کہت"ب اہ ر ت ے ھوڑی دیر می ں ح ت ف ہرن
ن
ے ی ) ت سے م طرب ا ہ ہ س
آواز نصاحب ( خ ئ کے سا ھ نرمای ا ی ر دمحم ب ا نی ح رت ت ض ے ب ڑے ادب
بٹ ئ خ ٹ ک
ے۔ “ا ھ ھڑے ہ وے اور ب اہ رنآکر ہای ت عج ز و ا کسار کے سا ھ ح رت واج ہ کی ت دمت می ں ی ھ گ
ف ئ ش ن ض ق
ے ،اس س ر سر ہ د واپس ریف لے گ ام کرے کے ب عدئح رت مج د دعلی ہ الرحمہ ق عرصہ ت
ی دہنلی می ں چک ھ ن
س ش ن ن
ے آپ کی روحا ی رنی می ں خچ ا د لگادے ۔ سرہ دض آکر ب ی خت وار اد قکا لسلہ ج اری ک ی ا اورنطال ب ان راہ حق ق
ش ل ق
ے ،ود آپ کے مر د حض رت واج ہ دمحم ب ا ی ب اللہ علی ہ نالرحمہ ے مری دی ن کو ی ت حل ہ ب گوش ہ وے گ
ت
تکی ہ دای ت کی ،اس سے ح رت مج دد علی ہ الرحمہ کے ب اط ی کماالت کا پ ہ چ لت ا آپ ہ ی کی تطرففرج وع
خ
ے ،وہ ود حریر رماے ہ ی ں :ہ
ن ن ت ق خ
سرگرمی حض رت واج ہ ا دس سره خب ه ت رب ی ت طاشل ب ان ا زما ی ب ود که معامله ما ب ه نا ت ها نف ه رس ی ده ب ود چ ت
ون خاز
ن خ ش ن ن ف
ارغ ش د د مری گردی د که ود را ئاز کار م شتتک ی د د و طالب را ب ما حواله موده رمود د که ای ن م را کار من ق
از ب خ ارا و سمر د آوردی م و در زمی ن ب رکت آ ی ن ہ د ی م۔
ت ک ن ن
ت ق ت ق خ ق ض
ہ مارے ح رت واج ہ دس سرہ طال ب ان نطری ت نکی رب ی ت می ں اس و ت ت ک سرگرم ) رجئمہ ت(
ف ت ے ج ب تنک شکہ ہ مارا معاملہ ان تہا ت ک ہی ں پ ہ چ ا ،ل ی
ماری رب ی ت سے ارغ ہ وے و دی کھا ق ہ ب ج کن ت ت مخ رہ
گ ی ا کہ آپ ے ی ت کی مام ذمہ داری اں رک کر کے طال ب ان طری ت کو ہ مارے حوالے کر دی ا
مت ن ئ ت ن ق ب ف
ے اور م ے ہ دوست ان کی ب رک زمی ن می ں اس کو ن ہ پ ہ
اور رمای ا :خ ارار اور سمر د سے م اس ی ج کو الے ھ
ب و دی ا۔
ت ق خ ت ق ض
تعلی ہ الرحمہ کے ای ک مک وب سے کے شاس ول کی صدیق واج تہ ب ا فی ب اللہ ن ن مہ حالر ہ ی لع و د ج م ترت ح
ب ت
ے ج و ا ہوں ے ی خ موصوف کو یھ ج ا ھا حریر رماے ہ ی ں ہ :ب ھی ہ و ی
ن ق مق ت ض ن ن ظ نش ن
ی ایس ه ب تود ت و وں چ د مود لب ط ہار ا ہللا مہ س
تج ض اب قس ی ادتشمآب امی ر صالح ی پ ن ن ل
وری ا
ن
ش نش ل ق ش ف
س
صب ت ما رست اده د ،ا اء ا له ب در اس عداد ی عن او نات تای ان دادن ماز م لما ن ی ه مود -ال ج رم ب ه ح
ب هرم د گرد د و وج ه لطف کا ل ی ا ب د ،والدعا۔
ت ن
ت
لب اہ ر کی ف ھی ،چ وں کہ ) رتج مہ (
ط ظ ج ن اب س ادت مآب ام ر صالح ن ی ش ا ت س
وری لمہقہللا ے ن پ ض ت ی ئی
ے مہارے پ اس س ن س
ے ان کی ی ع او ات کو م لما ی کے م ا ی تجم ھا ،اس لی اس لی ھا، ہ ت ق اض اے وق ت ن
ن ت
اء ہللا اپ ی اس عداد کے م طابق وہ ب ہرہ م ن د ہ وں گے اور کامل وج ہ اور لطف خ اص سے ش
یھ ج ا گنی ا ان ئ
ب
ان کو و از اج اے گا۔
ئ ن شت ض ق
چک ھ عرصہ ی ام کے ب عد ح رت دمحم وعلی ہ الرحمہ دہ لی سے سرہ د ریف لے آے۔
ف ت
یسر اس ر
ف تق ت ن ض
ن 1602نکے ح رت خمج دد علقی ہ الرحمہ ے دہ لی کا یسراخس ر ری ب ًا ۱۰۱۱تھ1011 /ء اور ،۱،1012
ش ن ت ش
ے دو وں ی ر ان واج ہخب ا ی ب اللہ علی ہ الرحمہ کے آ ری ای ام می ں ک ی ا ھا ،اسخ مر ب ہ مر د ب زرگوار ے اپ ن خدرم یف
وار رز دوں واج ہ دمحم عب ی د ہللا ( والدت 1601 / ۱۰۱۰ء) اور واج ہ دمحم ع ب د الله ( والدت ،
ن ف ن ت
ب
ماؤں پر ھی پ ،1601 ،1010ء) کو طلبفک ی ا اور
نی ا ،نھر ان دو وں کی ن ے رما ے کے لی ان پر وج ہ ڈال ض ن غئ ت
ے ارش اد رمای ا۔ حت فرت مج د وعلی ہ الرحمہ ے دو وں پ یر زادگان کے ام ج و کے لی
ت ے ل ڈا ہ جو ا ب اتن ہ
صی
ے ،مک وب ارسال ک ی ا ھا اس می ں اس کا لی ذکر موج ود ہ
ف ت
:رماے ہ ی ں
ہ اس ف ق ر کو ت ن مرت ہ ض رت کے در دولت کی عق ہ ب وسی کا ش رف حاصل ہ وا ،ب آخ ری مرت
ئ ب ت ج غ ب ض ی ئ ی ت ش ب فح
ے م ے( ،اب) ا قم ی د ح ی ات کم رہ گ تی بہ ت بزی ارت ہ و ی و ار اد ظرمای ا کہ نجم ھ پر عف ب دن ن البنآ گ ی ا ہ ف
ے،ے ھ ےچ آپ دودھپ ی ت ے طلب رمای ا ،اس و ت ن ے سام ح چ وںف قکےحاحوال سے ا تہر رہ ا (پ ضھر) آپ کو اپ
آپ کو وجت ہ دی ، ے ن کی موفج ودگی می ں می ں سے انن ان پبر وج ظہ دو ،ہح رت کے کم ض اس ت ی ر کو کم دی ا کہ ث
ن ب
ی نہاں ک کہ اس کا ا تر ھی اہ رئ وا ،اس کے ب عد ضح رت ے رمای ا کہ والدات کو ھی تا کہ ہ وج ہ دو،
ے کہ ح رت کی موج ودگی کی ب رکت سے اس وج ہ کے ب ھی چ ن ا ہ ئان کو ب ھی غ ائ ن
ئب ا ہ وج ہ دی گ ی ،ام ی د ہ چ چن
ے ت ا ج کا ہ ر ہ وے ہ وں گے ۔ ا ھ
ف ت خ ض ق خ
نب اللہ علی ہ الرحمہ کی ح ی ات م ب ارکہ می ں ح رت مج د وعلی ہ الرحمہ کا ی ہ آ ری س ر ھا ،دہ لی سے واج ہ ب ا ی
ئ پ یر ب زرگوار کی ہ دای ت کے م طابقفالہ ور ے ،اس فکے ب عد ہ آپ چک ھ روز سرہ ن د می ں ر تواپس آے کے ب عد ت
ت
س م ض ش ع ئ ش
صب ت سے ی ض ے عصر آپ کی ح ے اور توہ اں ثلی خم وار اد کا سلسلہ ج اری ضک ی ا ،تال ت ریئف لے نگ
ے۔ ہ وے ۔ موال ا ج مال لوی اک ر دمت ب اب رکت می ں حا ر ہ وے ھ
ت ف
چ و ھا س ر
خ ض خ ت ض
1012ھ کو دہ لی می ں ح رت تواج ہ ف ر اآل
ت مادی
ن ج خکہ ےھ ں ی م ی ہ ور ہ ال مہ حالر ہ ی لع و د ج م رت حق اب ھی
ف ن
۲۵
ن ہ ئ پ
ے۔ ی ہ چ و ھا س ر گ آپ ورا دہ لی روا ہ و ت تدمحم ب ا ی ب ال نلہ علی ہ الرحمہ کا وصال ہ و گ ی اف ،تی ہ جخ ا نکاہ ب ر الہ ور ہچ ی و
سرہ ن د واپس ہ خن پہ
سے عزی ت کے ب عد شت ت شھا ،دہ لی چ کرئمزار م ب ارک کی زی نارت ،ات حہ واش ی اور ا ل ا ہ ش
ے دہ لی ریف لے ے ،اس کے ب عد پ ا چ وی ں مر ب ہ مر د کے عرس می ں رکت کے لی ئ ریف لے گ
ے۔ ہ ن ے ،واپ سی کے ب عد پ ھر
سرہ د ی می ں رہ ت گ
ش ن خ ئ ش ت
ے اور آ ری عمر می ں ج ہا گی ر کی مزاحمت کی وج ہ سے کر ش اہ ی لے فگ
ف ت ن مر قب ہ اکب ر آب اد ری ن
ت
الب ت ہ دو ت ی
کے سا ھ چ ن د م امات می ں ج اے کا ا اق ہ وا۔
ض ف ق خ ض
ع
دمحم ب ا غی ب اللہ لی ہ الرحمہ کی وت ات (۱۰۱۲ھ ۱۲۰۳ /ء) کے ب عد ح رت دمحم لی ہ ع ت ح رتنواج ہ
ئ ت ت ن
الرحمہ ے اپ ی ب لی ی مساعی کو ی ز ر کرد ی ا ا آں کہ سرزمی ن ہ ن د کی کای ا پ لٹ گ ی۔
ن ق ن
ے ل در ے اینام کا مرکب ہی ں ،راکب ہ ج
ف ن یش ث ض
)احمد،دمحم مسعود،ح رت مج دد الف ا ی،اسالمک ب ک اؤ ڈ ن،2007،ص(22،33،
ن ت ت
شت ن ل ع ص
س
ح
داز دری ث ن َس ُّر ُہ ا ْو َر ُد ن ّد َا ض
حئرت س ِّی ا مج ِد تلف ا ی ُقِّد ِسش الُّن افِنی ی لن قلم کے ب عدٓاگرہ (ا ھ د) ف ریضف
ڑےش ا ل ڑے کے ت و ے ا ، ا رما روع ہ الےئاور درس و دریس کا سلسلئ
ب ب ع ض پ ی َر ُۃ
ے سے کے چ م َس ں ُّرُہحا ر ْوہ َروکر لم نو ح تکمت ن ٰلی َاَعَلْیہ ثکینب ارگاہ می ِہللا ن َتَع ّدا
ُد ٓاپ ْحَم ض کرام)(علماےن
ےَر ۔ ُۃح رت س ِّی ا مج ِدت فلف ضا ی ُقِّد ب ِس الشُّن اِنی کا ا شداِز شدریس ہای ت دل راب ہ وے لگ نسشی ت
ف ،ظ ہ دای ہ اور ف ،م کوۃ ت ری ت تی تاوی ،خ اری ری ن ٓاپ ْحَمت ِہللا َتَعاتٰلی َعَلْیہ ف سی رِ ب ش ی ن ھا ۔ غ
ڑھاے کے ساف ئھ سا ھ اہ ری و ع تاق پ ے۔ اس ب رنِح َمواِقف و ی رہ کن ب کی دریس رماے ھ ن
کے ت ن کے وا داور اس ھی طلب ہ ہکو وازے ۔ ف ل دی ن پ ھولوں سے ب ب اط ی اصالح کے مد ی
ع ِم ع ع کے تلی َا
طالِب تلم ت ب ی ان ن رماے ۔ ج ب کسی ف چ ے لم و ی ل نما کی ا می ےت حصول کا ج ذب ہت ب ی دار کر ف
ن
ے) اتداز می ں اس کی اصالح رماے ے و حسن َر( ع ُۃی ہت ا ھف ب می ی ا سس ی مالحظ ہ رما ض می نں ک
کے عالم چ ن ا چ ہ ثح غرت ب در الدی ن سرہ د ینَعَلْیِہ ْحَم ِہللا تال تَقِو ی َررما ُۃے ہ ی ں ’’ :می ں ج وا ی ن ن
وٓاپ ْحَم ِہللا َتَعاٰلی َعَلْیہ کمالَا مہرب ا ی سے
ض ش ے کا ذوق ن ہفپ ا ات ت ر لب ٔہ حال کی وج ہ سے پڑھ فمی ں اک
ے۔ ‘‘ ( ی ًا ص۸۹ م
رماے :ب ق الٔو اور پڑھو ،یک وں کہ ج اہ ل صو ی و ی طان کا سخ رہ ہ س
ثن َا ُمَلَّخًصا)
ن ن مج ِّد د لِف ا ئی کا ُحلی ہف م ب ارکت
ش ش ْحَمُۃ نِہللا تَتَعاٰلی َاَعَلْیہ کی ر گت گ ن دمی ما لت ب ہ س َر
ارک ھی ،پ ی ا ی ک ادہ اور بچہرنۂ م بی ن ش دی
ک
ن ی ت
ن خ ٓاپ
ہ
ت
ڑی ج ب کہ ی ی ( ع ی ے۔ ٓا ھی ں ک ادہ اور ب ک ھ اور بناری ن وب ی ورا ی ھا۔ ن ب رو دراز ،س ی اہ
ن ن ہ ت ی
ئ لب ( ع ی و ٹ) سرخ ناور ب اری ک ،دا ت خمو ی کیگ نطرح اک ) ب اری ک اور ب ل د ھی۔
داڑھی) م ب ارک توب ھ ی ، ن ی ع ی ( ش ی ۔ ے ھ کدار م چ اور ے ےہوت ای ک دوسرے نسے مل
ج ق َر ُۃ ِر ی
ٓاپ ھی ۔ ٓاپ ْحَم ِہللا َتَعاٰلی َعَلْیہ دراز د اور ت وکور)ٹ ت ت دراز جاور مرب عمک( ع نین چ ب
ے ۔ت َر ُۃ ازک سم ھ ی
مک دار ھین ں ۔ تٓاپ ْحَم صاف ناور چ ن اں أوں کی ایڑی ت ی ھی۔ پ ت کے سم پر ھی ہفی ں ھی ن
ے سے اگوار ب و ہی ں ٓا ی ھی ۔ س پ سُو( ع ی صاف س ھرے) ھ
ے کہ ی ے فی ت ُد ٰلی َعَلْیہْد ایس ِہللا َتَعاُت
(َحَضرا الُق س ،د ر م ص ُ ۱۷۱م شَلَّخ ًاًص ت)
ف ت ہت ق ت الوت ث ن َس ُّر ُہ ْووَرِق ف ُد ن ّد َا ض
بسا ت
ں تالوِت رٰا ِن کری م رماے رے ،ت س
حق رت ت س ِّی ات مج ِد لف ا ی ُقِّد ِسمکالُّن فاِنی ر میت
ے۔ اس دوران ٓای ِت سج دہ ٓا ی و ت ّمل رما ل ی ا کرے ھ ارے ب ھی او ات ی ن ت ی ن چ ار تچ ارپ ف
سے ا ر کر سج دۂ الوت رماے۔ سواری ق ُز َد ُۃ
غ ( ْب اْلَم امات صُ۲۰۷مَلَّخًصا)
سادہ کا ذ کا ھی ادب ب
ُد ن ش
ض ش ش نق
احمد سر ہ ن ندی المعروف مج ندد ن ث نسلسلئ ٔہَسعالی ہُّرُہ بْو َر دی ہ کے ظ یغم پ ی وا ح رِت س فِّی ا یتخ ت ع ن َا
ے ے ،نُچ ا ِچہ ای ک روز اپ ت ے فھ ِترامت رمائ ب
ِس اتلُّن اِنی سادہ کا ذ قکا ھی اح ن ُا ف ن ا ی ت شُقِّد ب لف
ہ
ے :م لوم و ا ع ل
ے ر آے اور رماے گ ہ ئ چ ھوے پر ب رین
ے رار و کر یچ کب ے کہ یکای غ ف رما نھ
ے۔ ے کو ی کا ذ ہ ےِ ،ا قس چ ھوے کےیچ ہ َد ُۃ ُز
( ْب اْلَم امات ص)۱۹۴
قن عمامے کا شانوکھاف ق ثن ن ُد ن
َر ُۃ ن ش ن
انداز ض
ِہللا ْحَم َعَلْی دی ب دی ہ سر ی ارو احمد خ ی ، ی ا ِف ال ِد د ج م ، ی ق نا ب ر اما ت ا ِّی س رت
ِہ
ِہللات الَقِو ی کے س م ب ارک پر
َر ُۃ
ْحَم َعَلْی ٓاپ ف ی ر
ش
عمامہ کہ ے ول م ق
ِم
لالحَق ی کے م ع
ِر ف قِہ ض ت ہ ن ن ت ِو ش
ہ و ا اور ملہ دو وں ک دھوں کے درم ی ان و ا۔ ن(ح رات ال دس 'د ر دوم صُ ۹۲مَلَّخًصا) ہ
ش
ف ق َر ُۃ ض سّن َرِت کاح ث ن َس ُّرُہ ْو ُد ن ّد َا ض
داالحد ارو ی ْحَم ب ع خ ی رت ح ن د ج ما والد کے ِنی ا ُّنلا ِس ِّدُق ی ا لف ِد ج م ا ِّی س رت ح
ے لے ج ا رہ ے سات ھ ئسرہ ن دش پَعَلْیِہ کو ٓاگرہ (الھ نپ ند) تسے ا ٓاپ نْحَم ِہللات َتَعاٰلی ن
َر ُۃ
تِہللا َتَعاٰلی تَعَلْیِہ ج ب ت
ے و قوہ اں نکے ر ی نس ی ن خ سل نطان کی سر)َر ہچ َس ۔ ُّر ْو یسر ( ثھا۔ن ے ے می ں ج ضب ھا ّد َا ے ،راس ھ
ی
صاحب زادی سے ح رت مج ِد لف ا ی ُقِّد ِس ُہالُّن اِنی کا ع ِد مس ون ( ع ی س ِت کاح )
ثن کروادی ا۔ ت
ن ف ن
( ذکرۃ مج دد الف ا ی،المدی ہ ا لمی ہ ،طب وعہ م ثکت ب ہ المدی ہ،کراچ ی ص )8 ن َا م ع ل ن
ُد ن ئ ض ّد َا مج ِّد د ث لنِف اَسی ح ُّر ُہی ہ ی ْو َرں ن ُد ن ض
اما ت ا ِّی ف
س ن رت مہ اال سراج
ن اِنی ُّنل ا ِس ِّدُق ی ا لف ِد م ، یث ا ر امام ن ا ِّی س رت
ِم ح
ہ
ق ج َر ُۃ ب عح ب ف
ے۔ کے سبق ب ح ی ھ نت ے و لد م َر کے َاْل َعَلْی
َر ُۃ ِہ ٰلی ا َتَع ِہللا ْحَم ت ن ُد اب ن ب عمان ہ ا ظ م َر ا و ُۃحن ی
ع ع
ے ا ہا ی دت و حمب ت ٓاپ ت ْحَم ِہللا َتَعاٰلی َعَلْیِہ س ِّی ااماِم ا ظ م َعَلْیِہ ْحَم ِہللا ا ْک م سے ب کت
ے۔ ے ھ ض رھ
ف (ای ا)
ق خ اجَسازت و ِخال ت ن ث َا ن
لف سالسِلت طری ض ت میشں اجقازت ف حض رت تس ِّیُد ا مج ّد ِد لف ا ی ُقِّد ِسُّر ُہ الُّنْو َر اِنی کو م ت
رت ی خ ی ع وب رم ح
م اد ت س ا ے
ن
ئ ا ں م ہ رو ک ہ ہرورد س ہ و خ ال ت حاصل ھی }۱{ :سلسلئ
ق س ئ ش ح پ ص ف ی ی ب ی خ ف َر ُۃ ش
اور فادری ہ ہ ت چ ٔہ ل س ل ی{ رما ل حا ت ال و ازت
ش ا سے ش َعَلْی ٰلی ا َتَع ْحَم ری ک ی
م
ی خ } ۲ َر ُۃ ج چت ق ِہ ِہللا ض ن
ْحَم ِہللا َتَعاٰلی َعَلْیِہ سے اج ازت و ال ت
ش ن رتئ ی قخ ع ب داالحد کی تیھ ادری ض ف س ےت والد ماج د ح ص اپ می ں
صرت اہ لسل ٔہ ادری ہ می ں لی ( مف ا ات سرہ تد) کے زرگ ن حا ل ھی{}۳
ن ب س ئح ق ش ص خ ن ُۃ َر سن ق
ازت ُۃو ال ت حا ل ھی{ }۴خ لسفل ٔہ ب دی ہ ِہ ش ن ج َر ا سے ق َعَلْی ٰلی قا َتَع خ ِہللا ْحَم ادری ک در ض
ت حا نل ص فمی ںئ ح رت واج ہ دمحم ب ا ی ب ا ثلّٰلہن ب دی ْحَم ضِہللا َتَعاٰلی ّد َا
ازت و ُّرُہال ْو َر سےن اج َس َعَلْیِہ ث
لف ا ی ُقِّد ِس الُّن ناِنی ے الف ا ی ص ۹۱ف) ح رت مج جِدم ث ت رما ی ۔ (سی رت تمج دد ف
ے ب ی کری م طوں کے ذری ع ش
ن
ے ی ر وا قس ک ھ ے: ہ ا ی رما کر ِذ وں ی کا ض ی
َم َو سا ی ن سلُہللاسلوں می ں اک
َو
ے ۔ سلسلئ ٔہ ب ن دی ہ می ں ، 21سلسلئ ٔہ
’’
ص ِب
قَصَّلی َتَعاٰلی َعَلْیِہس ٰا ِلئٖہ شَسَّل سے ِا رادت حا ل ہ
س چ
سے۔ ‘‘ ادریتہ می ں 25اور ن لسل ئٔہ ٹ ت یف تہ می ں 27وا نطوں ت
(مک وب اِت اماِم رّبا ی ،کو ہ د ر سوم ،حصہ ہم ،مک وبت۸۷ج۲ص)۲۶
ق رام واح ادب کا د ن رو مرش ُد ن ّد َا
خ ش ض ن پ یَس ُّرُہ َر
ْو ث ن ض
تح ترت واجض ہ دمحم بخ ا ی ب الّٰلہ ےفپ یر و مر د لف ا ی ُقِّد ِس الُّن اِنیت اپ ل
رت س َرِّی ا ُۃمج ِد ن ق ش نح
ت
رتک تواج ہ دمحم ے اور ح ت ی ے بحد ادب و اح رم ق رما ی ا نکرے ھ ن َعَلْیِہ ن ْحَم ِہللا َرا َقِو ُۃی کا لب ق ب دی ش
ق
ے۔ ے ھ زلت کی گاہ سے خد ھ ڑی در وم ش ی ھینَسٓاپ ُّرکوُہب ْو َر ب ا نی ب الّٰلہ ب دی ضَعَلْیِہ ْحَمّد َاِہللا ا َقِو ث ن
ک روز حض رت خمج ِد لف ق ا ی ُقِّد ق ش نِس اَرلُّن ُۃاِنی حج رہ ریف می ں ت شپر ٓارام فچ ن ا چ ہ ای ت
دوسرےندروی ضوں کی خ ے شکہ ح رتئواج ہ دمحم ب ا ی ب الّٰلہ ب دی ْحَم ِہللا َتَعاٰلی پ ن
َعَلْیہ ت ےت ن ھ ت رمار تہ
رت ےح ن ے و نادمسخت دروازے پر ہچ رے کے َر ُۃ ف ال ُّرُہےْو َر۔ ج ب ٓاپن حج طرح ِن ث ہا ری َس ن ّد َا
م
ٓاپ ت ْحَم ِہللانَتَعاٰلی َعَلْیہ تے ی سے م ع
ہ ل فمج ِد لف ا َای ُقِّد نِس الُّن ہاِنی کو ب ی دار کر ا چ اہ ا نگر ن
ے ۔ ھوڑی ی دیر ب عد ے کا ا ظ ار کرے گ ک ٓاپ کے نج اگ َس ر ُّر ُہی ْو َر مرے کے ب اہ ضرمای ا دی ا ّداور ک ث
ے؟ ق ھ حض رت خمج ِد ق
دی کون ہ ٓاواز ُۃکی ٓا ف کھ لیف قب اہ ر ٓاہ ٹ سن کر َر لف ا یَر ُقِّد ُۃ ِس الُّن اِنین
ح رت واج ہ ب ا ی ب الّٰلہ ْحَم ِہللا َتَعاٰلی َعَلْیہ ے رمای ا :ی ر ،دمحم ب ا ی۔ ٓاپ ْحَم ِہللا َتَعاٰلی َعَلْیہ
ئ
ہ ک ٹ ق ض ن ین ست ہ ت خ
ے راری کے نعالم می ں )ٹ ائ ھ ھڑے وے سے طرب ا ہ ( عت ی ب م ے نی ت ن ٓاواز ن
ے۔ ھ ب اادب ے سا کے صاحب ر ھ سا کے ساری زوا ج ت ہا ٓاکر
ی گ م ب پی ع ک ی اورب اَدہُۃر قُز
غف ) ًا
ًص َّخ َل ُم ص امات ْلَم ا ْب (
ش
۱۵۳
ف ن ن ارت ت ث ن َس ُّرُہم ْو َررت کی ب ُد ن ّد َا ض
طور پر رمای ا : ک ب فار حدی ِث ت عمت کے ن ِس الُّنن اِنی ے ای غ ٹ ت ِّدلف ا ی ُق ق ح رت س ِّی ا مج ِدن ف
پ
زیَوو اَّل کساری ئکا مزوریَووں َعپر ور َرو ُہکرُہّٰللاکر ریہ ا ن ھا ،عاج َّز ے ر ا کے سا ھ ب ی ھا ا ی ک ْن ک دن می ں اپ غای ت
ے ل کے َج
َّل َع
َّز َو ہللا و ج ی ع َفَع ّٰل
ت ِہ ِل اَض فَت َم ث: ی حد صدا
َّل َّزمَو ب دوران سی ت ِا ھا۔ ن لب ہ
رب َع َج کین طرف َا
’’ ن ِق
‘‘ ( ) ْو ے ْو۔ َو سے بْنل َودیَلع طاَک رماَو اہ ے ہللا َع ُتَج اَک َو ساری کر ا ہ اک خ
َغَفْر َل ت ِلَم َت َّسن ِب ِب اِسَطٍۃ ت ِب َغْی اِسَطٍۃ ِا لٰی َی ِم ب خاْلِقَیاَمۃ ی ع تی می ں ق : وا ہ خ
طاب سے ت ب ن
ب ِر
’’
ج
لوگوں کو حھی ش دی ا و ی رے مام ان لے ا و ے ن
و ے م کو ش دی ا اور ی امت ک پ ی داپہ
ے کم دی ا گ ی ا کہ می ں اس سے ب الواس طہ ی ا ب الواس طہ جم ھ ت ک ہ چ ی ں ۔ ‘‘ اس کے ب عد جم ھ ے ظ وشس ی ل
ب ارتُتکو اہ ر ْدکر دوں ف ت۔ ُد ُو
غ (َحَضرا الُق س ،د ر م ص ُ۱۰۴مَلَّخًصا)
اعت کا ٓا از ن د ن کی اش ُد ن ّد َا
ن ق ت ن ث ی َس ُّر ُہ َر
ْو ض
ے ی ہ ن ق
ے یوں خو ی ام آگرہ کے زما ق اِنی ُّن ا ِس ُق ی ا لف ا ِّی رت
ن ش ض ل ی ِّد
ل ت ِد غ ج م س نی ح
ل
رت واج ہ دمحم ب ا ی ب ا ّٰلہ بخ دی سے َر ُۃکی کی دعوت کا ٓا از کردی ا ھا ،کن ق1008ھ می شں ح ف
ریت ن آ کے ری اک ہ
ن ِد ی ش ب ع ا۔ روع ی
رما کےش ب عد ب ا اعدہ کام خ ش ن َعَلْیِہ ْحَم ِہللا الَقِو ی سے ب ی عت
ے ف می ں نرہ کر امو ی اور دورنا د ی تکے سا تھ اپ سالوں می ں مرکز االول ی ا الہ ور اور قسرہ د ن ری ش
رادف ھا۔
ن خ ےخ کے م دعوت دیب تعال ی ہئکو خش کرش ا موت کو ن ے اس و ت صروفحرہ ن کام نمی ں قم
سے ش شالی ہ کام کر ا ھی طرے ن ے وے ْو امو ینسے خ ہ کے و َس ہ ن َا
تج اب را ہ اور اہ را ہ کومت ث
لے کر اپ ی کو ی نں ھا ل ی کن حض رت ضمج ّد ِد ن لف ا ُہللای ُقِّد ِسُّرُہ َوالُّن َر َواِنیَمے ی ہ ن طرہ مول ئ
ئب ت دا ی دورش کو پ یشِ غ ظ ر َعَلْیِہ ٰا نِلٖہ َسَّل کی م نکی ز کدگیت کے ا ج اری رکھی ں اورح ونِر ا ور َصشَّلی َتَعا تٰلی ن
ے ہ وے ب رمال کو ش کا آ از نر ر ن یھ ری َا روعث ہ نوا و مدَسی ز ُّرُہدگی ْوکو َرپ یِش ظ فرکھا۔ ج ضب دوِرخ ج ہاُد نگی ئّد
دعوت اور نلوگوں کی ِنی ے کی کی ن ن لف ا فی ُقِّدئ ِس الُّن َر ا ُۃ رمای ا۔ ح رت س ِّی ا مج ِد ت
عمال رماے۔ آپ ْحَم تِہللا َتَعاٰلی َعَلْیہ ے س تِ ب وی کی ے م ت لف ذراخ عف اس ت ِا صالح کے لین
ی ِتر (س ا۔ ی ڑھا چ روان کو
ی م پ ک حر اس ے
ع ن ی ذر کے ات و م
ف لن ش ک ب ااور ، دوں
ن ں انپ ی
مر ے پ یروی می ث
ی'ص ۱۵۷لّخًصا) ی
مج ِّد د الِف ا ی امام رب ا ی أو ڈ پ نن ب فاب المدی ہ کراچ خ
ہ ہ
ندی ن ن ت ے ہْو َر ی ب ر دی ات کی ُّرپُہہل ُد ن ّد َا ا ث ین و َس ض
ے تی ے ا ِقال سے ب ہتن ت قپ ل ے اپ ح ترت س ِّی ا مج تِد لفع ا ی ُقِّد ف ِس ت الُّن اِنی ظ پن
ے کہ می را ِا ال ن م ی یہ ا گ ا کرد اِہر ر پ ھ مج کہ ھا
ی َر ُۃ ا د رما سے ا ہ لی ٰلی ا ع ہللا
ن مۃ ح ر
ئ رمہ ح
م ٔہ ج زو ی ا
ے وِصال (ی ع ی ے ہف وج ا ئے گا ُچ ن ا ِچہ ایسا ہ ی ہ وا کہ ٓاپ ْحَم ِہللا َتَعاٰلی َعَلْیہ ان سے پہل سے پہل نتق
ے۔ ث ن گ رما ) ال ا ت
وعہ مکت ب ہ المدی ہ،کراچ ی ص )25 ن م ع ل
( ذکرۃ مج دد الف ا ی،المدی ہ ا لمی ہ ،طب ثن
خ ن ش وصال ث ن َس آ ِر ُّر ُہ ْو َر
ا ُد ن ض
سرہَو دَّل ریف ٓا قکر لوت یحنرت س ِّی ا مج دد الفت ا ی ُقِّد ِس ئ الُّن ا نِنی خ1033ھ می ں َّز نش
مالک َع ت نَج ئ سے مال ات کی ے الق نو خ
ی ے۔ خاپ الگ ھلگ) ہ خو گ ن ل ی نن( ع ی سب سے
ے ی از کردی ا۔ اسن لوِت اص ( ع ی صوصی ہا ی) می خں صرف ت سےنب گن ے مخ لوق ن ف
زادگان واج ہ شدمحم صاح ں م ن ج ھی ازت خ ف جئ ا کی ے ٓا ں م مرے) ع ک ی ی ( رے ج
چ دا خ حکو راد
ی ض ب خ ع تی
دمحم عصوم رحمۃ ہللا عاٰلی ت لی ہما ،ل اے کرام می خں سے حض رت خ واج ہ دمحم ہ اش م م شسع ی د اور ضواج ہ خ
ہ ق ع
دمحم ا م رتت واج ہ ض مۃ ہللا عاٰلی لی ہما اورہدو ای کت ش ادم۔ ح ئ می ،ح رت واج ہ ب در الدی ینن رح ن ت ق َرِک ُۃ
رت ے۔ ح ش ے خھ ض گلے ف ی ر دکن ی ضبل سے ت ال)خ ق ا ی ع ( وصال ُۃ َعَلْیہ
َر ٰلی ا َتَع خ ْحَم ِہللا
رتُہ وا ْوجَرہ دمحم ہ ان م ے۔ ث ج ب حَس ن حا ر رہ ت ک ُد ن َعَلْیہ آل ر تو ض َر واج ُۃہ ب در الدی ن ْحَم خِہللا َتَعاٰلی ن
ے و ح رت جس ِّی ا مج دد الف ا ی ُقِّد ِسُّر الُّن اِنی ے صت ہ وے گ ف ْحَم ِہللا ُدَتَعاٰلی تَعَلْیہ ر خ
ُزرمای َداُ:ۃ ’’ق عا کر ا ہ وں کہ آ ترت می ں م ای ک ج گہ مع ہ وں ۔ ‘‘ ہ
( ْب اْلَم امات ص ۲۸۲اُ۲۸۵مَلَّخًصا)
وصال م ب ارک
ن خ حق ق ف ُر
ے الِق ی ی کے سپ رد کردی ۔ ِا َّنا َو 28ص ْو الَنُمَظَّفر 1034ھ 1624 /ء کوج اِن عزیز پا
ِلّٰلِه ِا َّنۤا ِا َلْیِه ِجُع ؕ (ف )۱۵۶۔
ت ُد ُو ُت ٰر ْد
ف الُق س ،د ر م ص۲۰۸ن) (َحَضرا
ن
خ ض ن ماِز ن َج ازہ و َتد ی ن ش َر ُۃ
ہزادے ح رت واج ہ دمحم َرسع ی د ُۃعلی ہ خ ض ٓاپ نْحَم ِہللا ئَتَعاٰلی َعَلْیہ کی ماِز ج شازہ ٓاپ کے
َعَلْیِہ ن ْحَم َس
ِہللا رت واج ہ ُد ندمحم صادق ث ض مرحو م ح ہزادٔہ ت ق ر َرح َّزمۃ ال جم ی د ے پڑھافی۔ اس کے ب عد
رت س ِّی ا مج دد الف قا ی ُقِّد ت نلو می نں د ن ن کردی ا گ ی ا۔ ی نہ وہ ی م تام ھا ج ہاں ح ف ئ ہّٰللاکے پ ہ
ک ی پ ال ُّر ُہاقْو َر
ِسٹ الُّن ق اِنی ے ان ین زن دگی می ں ای کن ور د ھا ھا اور وصی ت رما ی ھی ’’ :می ری ب رمی رے
ے ب ا ا کہ می ں وہشاں ج ت کی ک ی ضاریوں میخ ں سے ای ک ک ی اری َردی کھ ُۃرہ ا ہ وںَر َّز۔ ‘‘
ہ
سامکے ن ے قکی ب ر ی ن بی
صادق ُۃَعَلْیِہ ْحَم ِہللا ال اق رت واجت ہ دمحم ث ن َر مرحوم ح ُد ن ے ہزادٔہ ض ے ( تع فی گ ب د)ئ می ں پ ل
ہ ف
اس ب
1025ھ کی د ی ن و ی او ر اس کے ب ضعد حش رت س ِّی ا مج دد الف ا ی ْحَم ِہللا َتَعاٰلی َعَلْیہ کوان
ے۔ کے پَد ُۃہلو میق ں د ن ک ی ا گ ی ا۔ اب اس رو ہ ریف کو دوب ارہ عمی ر ک ی ا گ ی ا ہ ُز
ن َّخًصا) َل ُم ، َا ۔ ص امات ْلَم ا ْب (
تف
۳۰۵ ۲۹۶ ۲۹۴
ت والد شکے م ب ارک تام ش َر ُۃ
ص
اں ھی ں ن کیض ی خل ی ہ ج سات ہزادے اور ی َرن ُۃہزادی َر َّز کے خ ض َعَلْیہ ٰلی اَتَع ِہللا ٓاپش ْحَم
دمحم صادق َعَلْیِہ ْحَم ِہللا ال اق { }۲ح رت واج ہ ہزادگان }۱{ :ح رت ضواج ہ خ ے: ہ
ض َر ُۃ م ُۃ َر
خدمحم سع ی د فْحَم ِہللا َتَعاٰلی َعَلْیہ { }۳ح رت واج ہ دمحمخ عصوم ْحَم ِہللا َتَعاٰلی َعَلْیہ { }۴ح رت
َر ُۃ ض َر ُۃ
دمحم عیسی ْحَم ِہللا َتَعاٰلی َعَلْیہ {}۶ خ ہ ج وا رت ح َعَلْیہ{ ٰلی اَتَع ِہللا دمحم رخ ْحَم ضواج ہ خ
ض ش
} ۵
ی َر ُۃ َر ُۃ
َتَعاٰلی نَعَلْیہ { }۷ح رت واج ہ دمحم یح ٰی ْحَم ِہللا نَتَعاٰلی َعَلْیہ۔ شح رت واج ہ دمحم ا رف ْحَم ِہللا ق
َر ُۃ خ ع َر ُۃ
ی ر یُۃہ ب ا و ْحَم ِہللا َتَعاٰلی لیہا { }۲بی بی دی ج ہ ب ا و ْحَم ِہللا َر ب ہزادی اں }۱{ )۱( :بی
ث
َتَعاٰلی علیہا { }۳ثب نی بی ام کل وم ْحَم ِہللا َتَعاٰلی علی ھا ت
( ذکرۃ مج دد الف ا ی،المدی ن ہ العلمی ہ،م طب وعہ مکت ب ہ المدی ن ہ،کراچ ی ص)40
فئ
ن ن خفئ ِکرام ے ث ن َس ُخَلُّرُہ ا ْو َر ُد ن ض
کے ام ی ہ ہ ی ں )۱( : خ کرام ے ا ل د چ کے اِنی ُّن
خ لا ِس ِّدُق ی ا ددالف ج م ا ِّی س رت
ح خ
م
دمحم صادق ( )۲صاحب زادہ شواج ہ دمحم سع ی د ( )۳صاحب زادہش واج ہ دمحم عصوم ()۴ صاحب زادہ واج ہ ن ض
دمحم عمان ب رہ ان پوری ( )۵یش خ ندمحم طاہ ر الہ وری ( ش )۶ی خ کری م الدی ن ب اب اح شسن خ ر یم رت ح
ن
اب دالی خ(ش )۷واج ہ س ی دشآدم َبّنوری ( )۸ی نخ ور دمحم پ ٹ ی ( )۹ی خ ب دی ع الدی ن ن( )۱۰ی خ
ض ق ق َد
رت ع ب دالہادی ب دایو ی ()۱۳ ن َر ُم ُہللاح اَل) ۱۲ ( ی ا طاَل م دی دمحم ش ار ی خ ی ) ۱۱ خطاہ ر َب ش ش
( ی
ض
الَّس م( ای ا) واج ہ دمحم ہ ا م ِک می ( )۱۴ی خ ب دالدی ن سرہ دی ِحَمُہ
ف
ثن ص
ض ل دوم :
خ ن
ح رت مج دد الف ا ی کی مج دد ہ دمات
ق ج
ئ ف نظ خ ت ئ
ے اہ ر وے ن پنر اب و ہ خ
ڑے ت ڑے ب ن ک ہ رمصدی کے تآ ر می ں ب نے اس ئالم سے آجن غ اب ت دا
ے م نصوصت ب ن دوں نکو ب یھ ج ا ج ہوں کے حامل پا ی ت ت وں ح الص مولی ع ئ ر
ین ے اک ت پ ہللا ے ل کے ے پ ان
پ س
س شالم کی لی مات کوے ِسرے سے ر و ازہ کرکے م لمانوں کخ ہ چ ای ا۔ فصدی ع ے دخی ِن ا ت
م
الم کو ب ا ل کی آمی زشخ سے پ اک ئکرے والی صوص ِص ات ط س کے آ ر می ں ر ف الکر د ا ش
ے ش10وی ں صدی ہت خ ج ریفمی ں ک دمت م ی ظ ان خ یص ات کو یُمَجِن د کہا ات ا ے۔ اس ع کی حامل ن
م ن ع یل ش ق ِّد ج ن ہ ی ن
رسول ن کو ن ب رمایُۃ ا سے ای ک ظ ن ی م عاف ِق ق ق ش "سر ہ د" کے ث ہرن ش اک ے ہ د نکے ضم ام ن
رت س ی د ا مج دد الف ا ی ی خ احمد سرہ دی ارو ی ب دی علی ہ رحم ی، ا ر امام ا ہللا پں دن
ہ
جن
سے ان تی ے۔ ت نب ح ی لق ی
ت ج ف ہ ام کے وی ِہللا ا
ے؟ ہ ک یع
ن ے وتی ہ ُمَجِّد د ُۃکی ی ن یفس س وطی ش ُل ّد
زرگخکے ُمَجِّد د ہ وے کا ب ین سی ک : ں ی ہ ے رما ہت ل ع
ح ِہللا ی م ر عی ا ی ن فامام ج ال ال ی
ج ہ ن ن ہ
دمات اور تان کے ق ے و ان ب زرگ کیند ی سے و ا ہ یعَا صلہ ان کے پم ہزمان ہ ُعل فما ئکے ب ی ان ن غ
ے ہ ی ں۔ ے الب گمان کے م طابق ا ہی ں ُمَجِّد د رار ید ے واال ا دہ دی کھ کر اپ سے لوگوں کو چ لم
ق [ ل َّتْنِبَئ ،ص]62
ُة
ل
مج دد کا ب
ت ت ت ث
ےت ہللا ععالٰیے کہ ہ تر فہ زار سال کے ب عد ج دی د دی ن کے لی ہ ن ہ
سے ی تہ اب ت و ن ا ب عض روای ات ف
ے کہ عمر ب ن ع ب دالعزیز رحثمۃن ہللات عالٰی لی ہ ہ ے۔ چ ا چ ہ علما کا ا اق ای ک مج ددمب عوث ق رما ا ہ
ے ہ ی ں۔ ک
ے آپ کو مج دد الف ا ی ہ اسی شلی ن ہ ن
ی زار سال کے مج دد آپ ی ہ ی ںف نن لی
دوسرے ہ کے ب عد
،389امام رب ا ی اؤ ڈ ن ،کراچ ی) ف ص اول، م ا ی، ا ب ر امام (ج ہان
ظ مج دد پر ای ک ظ ر ل خ ف
ے۔ ے ,وہ حدی ث ی ہ نہ مج دد کا ل ظ ای ک حدی ث سے ما وذ ہ
ان الله نعزوج ل يبنعث لهذه االمة على نرأس كل مأة س ة من
ن يج ددت لها دي ها (الس ن البی داؤد ،حدی ث مب ر )4291 :
ے ت
کرے گا ج و اس کے لی ے بندے پ ی دا ق ے ہ ر سو سال کے سرے پر ایس اس امتتکے لی عالی ت ہللا
ت
س م ن فدی ئ
ف گے۔ اس حدی ث پر اب ن حج ر ے ای ک ل کت اب ب نص ی ئ ن کو ی ا اور ازہ کرنے لرہف ی ئں ل ف
ع
ے۔ اس کے الوہ ھی ک ی ف نہ ل
من يب ثع ه ا له ل نهذه االمة " ے جس کا ام "ا وا د ا حج ة ي خ ہرما ین
ماء ے اس پر کت اب ی ں لکھی ہ ی ں۔ آ ر می ں سلی مان دوی ے ب ھی اس پر کا ی اچ ھی ب حث فعل ئ
ن ف ت
ق
ش ے۔ش رماع ی قہ
مال لی اری رح م کوۃ می ں رماے ہ ی ں کہ"اىيب ين الس ـةفمـــــن
ہ ی ت ئ ال ب دعة ويكث ر ا نلعلم ويعز اهله وي مع ال ب دعة ويكسر اهلها"مج دد کی ص
ے کہ وہ س ت کو ب دعت سے الگ کر دے گا اور علم کو ش ا ع کرے قگاش اہ دمحم ہ دای ت ،در ثہن
ق م
ال نا ی ،حصہ سوم ،طب وعہ
ہ
عزت کرے گا۔ص فاور ب دعت کا لع مع کرے گا اور ا ل ع ہ
کیع ق ل
40/41اور ا ل قلم کا پ ور ،ص ت
نش ) 461 : ه ح 1 : لد ج، اری ت لی ل ف
ة ا مر (ا گا۔ نف دے وڑ زور ن
ک ل ب دعتئ کا
ع
وہ لوم روط ی ہ ہ ی ں کہس ت ف
ے ت اوی می ں ت رماے ہت ی ں کہ مج تدد کی عالمت و پ ن ظ ع ب د ا حل ین ھ وی اپ
ے گا اور وہ ن وں کو ف و ذکی ر سے عام ع ہچ ن اور اس کی دریس و ا ا ر و اط ہ کا عالم ہ وگا
شزن ہدہ اورب دعتوں کو م ٹ اے می ں سرگرم ہ وگا۔ لی ل ن ق
، 693اور ناش عہ اللمعات ف ق ت ن ب
ارسی : حدث دہلوی اپ یت کت ابن لمعات ا ی ح عرتبی :ت ق قی خ ع ب دالحق فم ت
ت اور بندعت کا لع ت
نں رماے ہ ی ںصکہ وہ غحدی د وع صرت دیعنئاور رکوی ج وس ویمت تس ن 182ء می
ے زماے می ں ممت از ے سا ھ اپ مع کرے اور اس کی ن ی ف و ی رہ لوم اور ا الے لمہ ا ال ک
ست ک ت ئ
ج ش ہ ت
وگا۔
ے کہ ان مام عتالمات ون روط سےظ و اوپ نر ذکر و ی ی ہ ب ات ب صی رت کے سا ھ ہی ج ا ک ی ہ ہ
ن می ں ہ قوا ج ب کہ چ اروں طرف تسے ے دور ے ش۔ یک و کہ آپ کا ہور ہ دوست انتمی ں ایس آپ مج دد فھ
ے و ت می ں کام تک ی ا اور خان مام دعات می ں گھرا ہ وا ھا۔ آپنے ایس ئ ب اور ن رک و ہ ن دوست ان ک ر
نماء عصر سے قآج تک واص و
ب ت
س م ے پ ر عل ن
ات دال ی۔ آپ کے مج دد ہ و
ق چ یزوں سے امت کو ج ک ت
ک ق ل الی ف ھی پ ی خن ا ر ے و ہ دد
ل مج خ کے آپ ں۔ عوام سب نآپ کوشمج دد ہت ہ ی
ہ ے آر ے
ب
ے اس کا ای ک می س ہ ھوپ ال کی ا اہ عا یل ج ا مج ددی ہ می ں موج ود جس کا تام ” شواہئد ا نل ق ج د نی د ہ
ن ے۔( ذکرہ م ا خ ه دی ه ۲۱۷ق) ن موج ود ہ
نو ت ے آپ کو مج دد ما ا :ن ن اکاب ری ن ج ن
آپ کے مج دد ہ وے پر آپ کے زماے کے ھی اکا ب ر معاصری ن ے آپ کوب
ن
ے۔ مث الٹ مج دد ما ہ
ا
ا۔ ع بش دالحکی م س ی الکو ی
حدث دہلوی ف لح
۲۔ شی خ عضب دا ق م ن
۳۔ شی خ ل فہللا ب ر ہ ا پ وری
۴۔ ی خ حسن عر خی
رمومن ب ل ی -۵می ن
مال الدی ن فعلوی ۶۔ موال ا نج ی ق
وب حر ی ے۔ نموال ا ع ق ن
-۸موال ا حسن ی ادا ی
ن
۹موال ا می نرک ش اه
ت ۱۰۔ نموال ا ج ان دمحم الہ نوریغ
ثن ض ق ا۔ موالئا ع ب د السالم الد یوضی و ی رہ
ح ن
(علماے ہ ن د کا ش ا دار ما ی ، ۳۳۸۱ ،مزی د ی ق کت اب ،ح رت مج ددالف ا ی س ی د
ت
ئ ۳۷۲۰می ں مالحظ ہ کی ج اسک ی ہ ی ں۔) ثن زوار حسی ن ش اہ
مج د الف ا ی کے ب ارے می ں ب عد کے اکاب ری ن اور اہ ل یورپ کی راے ش
ش ف ئ ف ثن ش اہ ولی ہللا محدث دہلوی :ن
ض“ کی رح رما ی اس ت کے رسالہ "ردروا ت ا یئ حدث دہلوین قے مج ددالف اہ ولی ہللا م ث ن
ت ش
ےہیں خ ک ل
کہ ان امور کی وقج ہ ن ے ہش وے ای ک ج گہ پر ھ کے نم ا ب ب ی ان کر ئ می ں مج ضددالف ا ی ث
ان سے ف حمب ت کرے تواال ص مومن ثم نی حالت ہ وگ ی خکہ ف ددالف ا ی کی ی ہ ن سے ح رت مج غ
ب
ے۔ ( ذکرہ مج د والف ا ی س
ے اور ان سے ض و عداوت کرے واال ص اج ر و ا ق ہ ہ
ن)۳۰۶-۳۰۳
ت خ
ض تت
ک نواب صدیق حسن اں:
ع قح نف واب صد ثی ن
ت ے اور ح رت ے ھ ت لق ر ھ ث سے سن اگرتچ ہ مسلک اہ ل حدی ف
ان کا مر ب ہ ایسا ے ،اس کے ب او ود ر ماے ہ ی نں کہ :اولتی اء کرام می ں ت ج مج ددالف ن ا ی حع ی ھ
ماعت می ں کاولوت العزم یوں کا مر ب ہ۔ (رتی اض المر اض) ب
خ ت ج ے ا ب ی اء لینہم ال الم کی
س ےج یس ہن
دعت اور رو ات نو م کے آپ کہ ں ہ ے ل ان ق
سن ح ق صد
ن واب ں م اب تک ی اپ
ن ب ن کب نھ ی ی ن ی
لست ے زما نے می ںم انہ ت ب دعت کے حس ہ وستی ر ہ ظوے کی سی مب کے ا کار سےق پر ہ ی ں۔ اپ
ے اہ ر اور ب اطن ھی۔ ان کا طری ہق عالی ہ کت قاب ونس ت پر ب ف ی ھا قاور ج و ماعت کےحامام ھ ن وا جل
م ہ م
ے می ں ب ول ہی ں۔ معر ت و ب ول کے طری ع
الف و وہ ان ان دو وں پ ہنکمناصولوں کے مخ ت ن چ یز
اور سالک می ں ے ی ہ ک وب ات اصول ت ظ ی مہ می ں طالب صادق م ے کے لی نر چ کی م زلوں پ غ
ے ن ی ازی حاصل ب سے عہ م ل طا کے ات و
کب م ان ھی ب کو سی ک سے ی ت ں م والوں ے نر ب س ت
کر ت
اض المرت اض )۱۲۲۱ ق ہیضں ثہ و ک ی۔ (ری ن
ت پ
حدث پ ا ی ی: ن
ف خ ق ن ض ق ا ض ی اء ہللا م
ے۔ آپ دس سرہ کے ب ڑے ل تاءف می ں سے ھ ن یئصاحب حلکرت مرزا مظ ہر ج ان ج ا اں ت ف ا
ے۔ سی ر مظ ہری می ں آپ ھی ب ہری ظ م ر س ک ا سے ں م ان ں ھی ں با ت ی ے
ہ ی ی ی ہی ک ک ی
ت خ ت ن ث ب ہت ض
ن ن ب ن
سی ج قگہ ح رت مج ددالف ا ی کے معارف کو طور س ت غدالے ہ ی ں اور ا داز یوں ا ت ی ار کرے
ے مث ال سورۃ ال حل ۵ ۶/۵ی یر مظ ہری) ہ ی ضں :غال المج دعد (کی ج گہ پر ہ
ق ن ش رت الم لی آزاد ب لفگرامی:
ت
داالحد ف ارو ی نسرہ ن دی آپ سرہ دن اپح نی ای ک کت اب می ں ترماے ہ ی ں :موال ا ی خ احمد ب ن ع ب ف
ش
ے ب اعث خ ر ہ ی ں۔ ا سان کے ا رف ے۔ ہ ن دوست ان کے لی سے ھ کے اکاب ری ننمی ں ش لخ ق
ارش سے کی س ج ں ہ ادل ن ےس ا کے کرم کے آپف ں۔ ہ ل ی ل د ن رو ر ے و ہ ات ا م لو
غ ب ش ی ب ی ی پ ج
ے آ ت اب ہ ی ں جس کے ا وار سے م ارق و م ارب عرب ناور ع م سب سی راب ہ ی ں اور ایس
ن ن ن خ ش خ ن ظ سب م ور ہ ی ں۔ ن ظ
ع ضلوم اہف ری اور ب اط ی کے ج امع ہ ی ں اہ ر اور پو ی دہ زا وں کے زا چ ی ہ ی ں آپ کا سب امه
ع
ے۔ ( بس حة المرج ان) رت اروق ا ظ م سے ملت ا ہ حٹ ن
ن ن
ہش ش
ک ل ڈاک ٹر آر ن پ ن
: لڈ
۔ ئ تاہ ج ہا گی ر ( ش ش
ے کہ ق ی
ڈاک ر آر لڈ ا ی کت اب ( of Islamن )Preachingمینں تھت ا ہ
ردی د می ں ے ج و ت عی ع ا د کی ن عہد می ں ای ک س یق عالم ی خ احمد مج د د امی ھ
ص
کے ش خ1628-1605ش) ت
سی ے کئ ن فق لوگوں ن ان ھا ن ل حا رسوخ اری ب در ت قو اس کو عوں ی ے۔ ھن طور پر من ہور ق اص
ے ر اے ے اور اس نمدت می ں ا ٹ ہوں ے اپ رس وہ ی دقرہ ں ی د کرا دی ا دو ب ت ب نہاے سے ا ہیس ن
ز داں می ں سے ی کڑوں ب ت پرس وں کو حل ہ ب گوش اسالم ب ال ی ا۔ (ڈاک رار ب لڈ Preaching،
یت )Of Islamی ن ئ
ھ ن ل
ی
ا سا لو پ ی ڈی ا آف ر ج ن ای ڈ ا کس: ک ی
ٹ ن ئ
ہ ت ت
ے تکہ ہ ندوست ان می ں س ر وی ں صدین می ںن ھ ن ی ش ک ی
ےم ع کس می ں ئہ ئاسی طرح ا جسا لو پن ی ڈی ا آف ر چ ن ای ڈ نا ق
ے کہ ا ہوں ئ ک ہ ت یروان ق ل ک
ن ا ے
ھ
س
ے عالمن ،ن کا تام ی خ احمد مج دئدکھا احق ی ی گ
ے د کر
ت د خ کق
ت
این
ی س
ے یھد ا ہ کے سا ھی وں می ں ک ی سو ب ت پر وں کو م لمان ب ال ی ا۔ (ا سا ی لو پ ی ڈی ا آف ر چ ن
ای ن ڈا کس)
اثبات النبوۃ
مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی(971ھ1564 /ء تا 1034ھ1624/ء) کی کتاب ہے۔
بعض تذکروں میں اس کا نام تحقیق النبوۃ بھی لکھا ہے
اثبات النبوۃ مجدد الف ثانی کی سب سے پہلی اور قدیم ترین تصنیف ہے
اثبات النبوہ ایک مقدمہ اور دو مقابلوں پر مشتمل ہے مقدمہ میں دوبحثیں ہیں جن کی
تفصیل اس طرح ہے
مقدمہ :پہلی بحث نبوت کے معنی کی تحقیق میں
دوسری بحث :معجزہ میں
پہال مقالہ اس کے دو مسلک ہیں پہال مسلک بعثت اور نبوت کی حقیقت
دوسرا مسلک خاتم االنبیا صلی ہللا علیہ وسلم کی نبوت کے اثبات میں
دوسرا مقالہ فالسفہ کی مذمت میں اور ان کے علوم کی ممارست اور ان کتابوں کے
مطالعے سے جو نقصان حاصل ہوتا ہے اس کے بیان میں
(ج ہان امام ربانی مجدد الف ثانی شیخ احمد سرہندی ،اقلیم پنجم صفحہ ، 69امام ربانی
فاؤنڈیشن کراچی پاکستان )
ف
رد روا ض ت
ن ثت ث ن پہ ف
مج دد الف ا یشکی لی تارسی نص ی ف ہ
ے۔ اس رسالے کا ام اک ر ذکروں
ب
ے۔ ت می ں رد مذہ ب ی عہ ھی آ ا ہ
زمان ہ نص ی ف
مجدد الف ثانی کی یہ تیسری تصنیف ہے جو آپ نے نقشبندیہ سلسلہ میں بیعت ہونے
سے پہلے لکھی تھی رسالہ فارسی زبان میں ہے اور رسالہ اثبات النبوۃ کے بعد
اور رسالہ تہلیلیہ سے پہلے لکھا گیا۔ 1002ھ میں تحریر کیا گیا۔ یہ اس زمانے کی
تصنیف ہے جب مغل دربار میں شیعہ عناصر کا زور بڑھ رہا تھا اور سلطان وقت اکبر
بادشاہ دین اور ارباب دین سے سخت عداوت رکھتا تھا۔ مجدد الف ثانی نے اس فتنہ کے
خاتمے کا تاریخی بیڑا اٹھایا۔ آپ نے روافض سے مناظرے کیے۔ یہ رسالہ رد روافض
بھی انھی کوششوں کا ایک حصہ ہے۔
وجہ تصنیف
خراسان کے روافض نے حضرات صحابہ کے خالف فتنہ سب و شتم برپا کیا تو
علمائے ماوراء النہر نے ان کے خالف جہاد و قتال کے لزوم کا فتوی صادر
کیا۔ 1001ھ میں عبد المومن خان ابن عبد ہللا خان ازبک والی توران نے مشہد و سبزوار
کا محاصرہ کیا اور ان کو خوب سزا دی۔ مشہد کے شیعوں نے علمائے ماوراء النہر
کے ایک رسالے کا جواب لکھا جس میں شیخین اور صحابہ کرام پر زبان طعن دراز
کی گئی۔ یہ رسالہ آپ کے پاس آیا تو آپ نے اس کا جواب موجودہ رسالہ کی صورت
میں لکھا۔ اکبری و جہانگیری دور میں مرزا غیاث بیگ اور اس کی نور نظر نور جہاں
کی بدولت رافضیت خوب پروان چڑھی۔ امرا سے لے کر عوام تک اس کے اثرات
دکھائی دینے لگے۔
شاہ ولی ہللا کی رائے
شاہ ولی ہللا دہلوی نے بھی لکھا کہ اس فتنہ روافض کو ختم کرنا مسلمانوں کی گردنوں
پر حضرت مجدد الف ثانی کا احسان ہے۔ درحقیقت یہ رسالہ رافضی علماء کے اس
تردیدی رسالہ کا رد بلیغ ہے۔ پہلے علماء ماوراء النہر کا فتوٰی نقل کرتے ہیں پھر شیعہ
حضرات کا جواب اور اس کے جواب میں علمائے ماوراء النہر کی تائید میں دالئل و
براہین سے اسالمی عقائد و نظریات کو ثابت کرتے ہیں۔(رسائل مجدد الف ثانی۔صفحہ
110غالم مصطفے مجددی:قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش روڈ الہور)
عنوانات مضامین
اس رسالے کے مضامین کے بعض عنوانات یہ ہیں:
بعض شیعہ فرقوں اور ان کے عقائد کا بیان
حضرت علی کرم ہللا وجہہ کے خلیفہ اول ہونے کے بارے میں نص کا وجود
ثابت نہیں
حضرت ابوبکر کی خالفت پر حضرت علی کرم ہللا وجہہ الکریم کا راضی ہونا
رسالے کے آخری حصے میں اہلبیت رضی ہللا عنہم کے مناقب و محاسن اور
مدائح وفضائل کو بھی بیان کیا گیا ہے۔
(جہان امام ربانی جلد 5صفحہ 72پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد امام ربانی
فاؤنڈیشن کراچی پاکستان)
شف
مکا ات ع ی ن ی ہ ثن ش
ت ن
مج دد الف ا ی ی خ احمد سرہ دی(971ھ1564 /ء ا 1034ھ1624/ء) کی
ے۔ کت اب
شت ت ت ہث ن
ے ج و آپ کے ب عض ہخ سی حریروں پر م منل ف ای ن الف ا فی کی ی ہ تصن ی خمج فدد ن
ق ف ی ل حم
کن ا ہی ں آپ کے امور لی ہ اور زب دۃ الم امات ل اء ے وظ کر شلی شھی ن
ی
ن کت ابی صورت می ں کج ا ضکر دی ا اور اس طرحث ن دمحم ہ ا م ک ئمی ے
ب ض ف خ کے مصن ق
ے سے چ ا ل ی ا ی ہ خرسالہ ح رت مج دد الف ا ی ہ
ب ای ک گراں در ذ ی رہ کو ا ع و ش
ے کہ عض ن تا گ ی ا اور ی ال ہ
1051شھ می ںت روع ک ی کے وصال کے ب عد ش
لے کا ام دمحم ہ ا م می مر ب کرے ہ ی ں تاس لی ک لومات ج یسا کہ مع
ے اس رسا ن ن خ ت
اس کا امذکروں می ں ض ے ب عض ہ ے ی ع ی ی تہ ج و 1053ھ ب ن ت ا ہ غ ھی اری ی ش
ب
ف
کے ب عض مض امی ن ح رت مج دد ے اس رسالے ئ ہ ش ا آ ھیت
ات ی ہ ب
ی ب ن ث مکا
ے ب
ے ہ ی نں اور عض ایس ل می ں آچ ک ی کے مک وب ات ری ث ن
ف اور د گر رسائ ت بالف ا جی ض
ھی ہ ی ں و ح رت مج دد الف ا ی کے اب ت دا ی ذکروںت فمی ں ہی فں ہ ی ں ئاس
صو ی ان ہ مسا ل ہ
ے جس سے می ں مخ رق ق سے ی ہ رسالہ ب ہت ہ ی اہ م ہ لحاظ ش
ق م ن م ف
ے اور یک و کہ ی ہ کسی ای ک صوص و ت اور م ام اور مکا ات کا ب ی ان لت ا ہ
ع
ن
ب ن ب ن لک ئ
عض م درج تات ہت پراے م لوم ے رسالے کے غ اس فلی ن ےے تں ھ پر ہی
ن ثگ ًال ش
ے کہ ی ہ ا دراج
ت ہ وضے ہ یخ ں م ق مکا ہ مب ر ن 5اس ب ات کی مازی کر اہ ہ
ح رتنواج ہ ب ا ی ب اللہ کی ز ئ دگی می ں ک ی ا گ ی ا ی ہ رسالہ پ لی مر ب ہ ادارہ مج ددی ہ
کراچ ی ے 1384ھ می ں ش ا ع ک ی ا
ن ف ن یش ٹ ف ف
ص
ن
ج ہان امام رب ا ی ج لد 5حہ 83پرو یسر ڈاک ر دمحم مسعود احمد امام رب ا ی اؤ ڈ ن(
)کراچ ی پ اکست ان
پہال دفتر دار المعرفت کے تاریخی نام سے موسوم ہے۔ اس میں 313مکتوبات ہیں۔
اس دفتر کو خواجہ یار محمد جدید بدخشی طالقانی ،جو امام ربانی مجدد الف ثانی
کے مرید تھے ،نے 1025ھ میں جمع کیا۔ اس جلد کے مکاتیب کی تعداد امام
ربانی مجدد الف ثانی کے حکم پر اصحاب غزوہ بدر کی تعداد کے مطابق 313
رکھی گئی۔ اسی سال آپ کے فرزند اکبر خواجہ محمد صادق سرہندی کا وصال ہوا۔
ان کے تین عریضے بنام مجدد اس جلد میں بطور ضمیمہ منقول ہیں۔
دوسرا دفتر نورا لخالئق کے تاریخی نام سے موسوم ہے۔ اس میں 99مکاتیب ہیں۔
اس دفتر کو خواجہ عبد لحئی بن خواجہ چاکر حصاری نے خواجہ محمد
معصوم کے حکم پر 1028ھ کو جمع کیا۔ اس کے مکتوبات کی تعداد اسماء ہللا
الحسنٰی کے مطابق 99رکھی گئی۔
تیسرا دفتر ثالث کے تاریخی نام سے موسوم ہے۔ اس میں 114مکتوبات ہیں۔ اس .1
دفتر کو خواجہ محمد ہاشم کشمی ب رہان پوری نے 1031ھ میں مرتب کیا۔ اس
کے مکتوبات کی تعداد قرآن کریم کی سورتوں کی تعداد کے مطابق 114رکھی
گئی تھی لیکن تکمیل کے بعد چند اور مکاتیب ملے۔ اب عام طور پر اس جلد میں
124مکتوبات پائے جاتے ہیں۔ مختلف مطبوعہ ایڈیشنوں میں ان کی تعداد بھی
مختلف ہے لیکن خواجہ محمد معصوم کی تصریح کے مطابق اس کا نسخہ مرتبہ
موالنا نور احمد امرتسری میں اس کی تعداد 124ہی ہے۔
(البینات شرح مکتوبات ،شارح ابو البیان محمد سعید احمد مجددی ،مقدمہ از
پروفیسر محمد اقبال مجددی صدر شعبہ تاریخ ،اسالمیہ کالج الہور سول
الئنز ،الہور۔ ص)58-57
تحریری تشریحات
مکتوبات امام ربانی کے بعض دقیق مسائل کی فہم و تفہیم کے حوالے سے مجدد الف
ثانی کے حین حیات ہی سواالت کا سلسلہ شروع ہو گیا تھا۔ آپ نے نہ صرف ان مشکل
مطالب کی تشریح فرمائی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بعض حاسدین اور کم فہم اصحاب کے
ان مکتوبات پر کیے جانے والے اعتراضات کے مدلل جوبات بھی مرحمت فرمائے۔ آپ
کے حاالت پر دو معاصر کتب زبدۃ المقامات اور حضرات القدس میں بھی اس کی
جھلکیاں ملتی ہیں۔
آپ کے وصال کے بعد فہم و تفہیم کی یہ ان کوششوں میں اولین کردار آپ کے
صاحبزادگان کی تشریحات کی صورت میں سامنے آیا۔
آپ کے فرزند خواجہ محمد سعید نے اپنے مکتوبات میں کئی مقامات پر آپ کے کالم
کی توضیحات پیش کی ہیں۔
آپ کے دوسرے صاحبزادے خواجہ محمد معصوم نے بھی مکتوبات معصومیہ میں
بڑے اہتمام سے مکتوبات امام ربانی اور دیگر معارِف مجدد الف ثانی کی توضیحات
پیش کی ہیں۔
اس کے عالوہ یہ حضرات شیخین مکتوبات امام ربانی کے فہم و تفہیم کے حوالے سے
درس مکتوبات کا بھی خاص اہتمام فرماتے تھے۔
ان حضراِت شیخین کے بعد انہی کے فرزندان گرامی نے اپنے اپنے مجموعہ مکتوبات
میں یہی اہتمام کیا۔ شیخ عبد االحد وحدت کے مجموعہ مکاتیب گلشن وحدت ،محمد
نقشبند ثانی حجۃ ہللا کے مکتوبات وسیلۃ القبول الی ہللا و الرسول ،خواجہ عبیدہللا مروج
الشریعت کے مکتوبات خزینۃ المعارف اور خواجہ سیف الدین کے مکتوبات سیفیہ میں
بھی مکتوبات امام ربانی کے بعض مشکل مقامات کی تشریحات ملتی ہیں۔ شیخ عبد
االحد وحدت جو خواجہ محمد سعید کے فرزند اور امام ربانی مجدد الف ثانی کے پوتے
تھے ،آپ نے شرح کلمات قدسی آیات تالیف کی۔
( عمدۃ المقاما ت ،حاجی محمد فضل ہللا قندھاری (بسال 1233ھ) الہور1355ھ)
البینات شرح مکتوبات کے نام سے محمد سعید احمد مجددی نے پہلی اردوشرح لکھی
جو مئی 2002ء میں طبع ہوئی جسے تنظیم االسالم پبلیکیشنزگوجرنوالہ نے شائع کیا۔
( عالمی ادارہ تنظیم االسالم » » Blog Archiveالبینات شرح مکتوبات امام ربانی
مجددالف ثانی رحمتہ ہللا علیہ -جلد دوم)
درس مکتوبات
مجدد الف ثانی کے صاحبزادگان خواجہ محمد سعید و خواجہ محمد معصوم مکتوبات
امام ربانی کو سمجھانے کا بڑا اہتمام فرماتے بالخصوص خواجہ محمد معصوم مکتوبات
امام ربانی کے ساتھ ہی ساتھ مکتوبات معصومیہ کا مدرسہ سرہند میں باقاعدہ درس
ارشاد فرماتے۔(0نتائج الحرمین ،موالنا محمد امین بدخشی ،جلد سوم ،خطی مخزونہ
کتاب خانہ انڈیا آفس لندن نمبر 652۔)
خواجہ محمد معصوم کے بعض بزرگ خلفاء بھی مکتوبات امام ربانی کا درس دیتے
تھی۔ ان میں سے چند نمایاں نام حسب ذیل ہیں:
خواجہ محمد معصوم کے ان خلفاء کے عالوہ خواجہ محمد زبیر سرہندی جو محمد
نقشبند ثانی حجۃ ہللا کے فرزند اور خواجہ محمد معصوم کے پوتے تھے ،آپ مکتوبات
امام ربانی کے درس کا اہتمام فرماتے۔ 1119ھ میں جب آپ نے الہور میں کافی دیر تک
قیام کیا تو یہاں مجالس سکوت کے عالوہ مکتوبات امام ربانی کے درس کا بھی
خصوصی التزام کیا۔ آپ اپنی باطنی توجہ سے اس کے مطالب سامعین پر
بھی القاء کرتے تھے۔
(روضۃ القیومیہ ،کمال الدین محمد احسان)
معروف ترک خطاط اور عالم مستقیم زادہ سعد الدین سلیمان نقشبندی نے 1162-1165ھ
کو مکتوبات معصومیہ کا ترجمہ ترکی زبان میں کیا۔ عالوہ ازیں نقشبندیہ سلسلہ کے
افکار پر ترکی زبان میں آپ کی کئی قابل توجہ کتابیں ترکی کے مختلف کتب خانوں
میں موجود ہیں۔
عربی تراجم
عربی ترجمہ مکتوبات امام ربانی از شیخ محمد مراد شامی
ابتدائی چند مکاتیب کا عربی ترجمہ نیشنل میوزیم کراچی میں ہے جو بارہویں
صدی ہجری کی کتابت معلوم ہوتی ہے۔
تعریب المکتوبات الصوفیہ ،مترجم شیخ یونس نقشبندی۔ یہ عربی ترجمہ محکمہ
اوقاف بغداد کے کتب خانہ میں موجود ہے۔
مکاتیب الشیخ احمد النقشبندی ،مترجم نا معلوم۔ یہ عربی ترجمہ بھی محکمہ
اوقاف بغداد کے کتب خانہ میں موجود ہے۔(الکشاف عن مخطوطات خزائن
االوقاف ،محمد اسعد اطلس ،ص)148-136
الدرر المکنونات النفیسہ ،مترجم شیخ محمد مراد بن عبدہللا قازانی
مکی
تصوف عربی زبان کے لفظ صوف سے مشتق ہے۔ صوف ایک ایسی چیز ہے
جو پہلے پہلے مسلمان صوفیہ بطور لباس استعمال کرتے تھے "۔ لفظ تصوف
کے اشتقاق سے متعلق عالمہ شبلی نعمانی نے لکھا ہے کہ "تصوف کا لفظ
اصل میں "سین " سے ہے اور اس کا مادہ " سوف " تھا جس کے معنی
یونانی زبان میں "حکمت " کے ہیں۔
تصوف اور صوفی کی ابتداء:
تصوف کی ابتداء جناب نبی کریم کے زمانے سے ہوئی ہے لیکن اس وقت
صوفی اور تصوف کے الفاظ کا استعمال نہ تھا۔ حضور عالم کی مبارک
زندگی میں دین اسالم کی ابتداء اور تکمیل ہوئی ہے۔ تابعین کے دور میں
حضرت اویس قرنی رحمہ ہللا ،سعید ابن المسیب رحمہ ہللا اور حضرت حسن
بصری رحمہ ہللا تصوف میں خاص مقام رکھتے تھے ۔ تصوف اور صوفی
کے الفاظ خیر القرون میں رائج ہو چکے تھے ذیل میں چند شواہد ذکر کیے
جاتے ہیں :امام حسن بصری رحمہ ہللا (م 110ھ) فرماتے ہیں :میں نے دوراِن
طواف ایک صوفی کو دیکھا اور اسے کچھ دینا چاہا مگر اس نے لینے سے
انکار کیا اور کہنے لگا میرے پاس چار دانگ پڑے ہیں وہ میرے لیے کافی
ہیں۔
(۔ جیالنی ،شیخ عبد القادر ،سید ،غنیۃ الطالبین ،جدید ترتیب ،عبد المجید
صدیقی ،المیزان ،الہور ،
)2004' 597امام سفیان ثوری رحمہ ہللا (م 161ھ)
فرماتے ہیں کہ ابو ہاشم صوفی (م 150ھ) ہی کی وجہ سے میں ریاء کی
باریکیاں جان سکا(الہجویری ،علی بن عثمان ،کشف المحجوب فارسی ،تاجران
کتب،الہور 2006/ءص)13۔
صوفیاء کے نزدیک تصوف کا مفہوم:
شیخ عبد القادر جیالنی فرماتے ہیں " صوفی کا لفظ " مصافات " سے ہے جس
کے معنی اس آدمی کے ہیں جس کو ہللا نے صاف کر لیا ہو ۔
(ابن تیمیہ ،احمد بن عبد الحلیم ،االستقامة ،تحقیق ،محمد رشاد سالم ،جامع ابن
مسعود ،مدینہ منورہ2013 ،ء،ص )251
یعنی قلبی صفائی حاصل کرنے کا نام تصوف ہے۔۔ علی بن عثمان ہجویری
فرماتے ہیں کہ حضرت مرتعش فرما یا کرتے تھے کہ تصوف نیک خصائل
کا نام ہے
(خطیب بغدادی ،ابو بکر احمد بن علی بن ثابت ،الزهد والرقاق ،دار البشائر
االسالمیہ ،بیروت1425 ،ھ 2003/ء ،ج ،1ص)66
حضرت سلطان باہو لکھتے ہیں " صاحب تصوف آنست که بالهام ہمہ سخن
کالم هللا باخدا باشد "
(محمد ذوقی شاہ ،سید ،حقیقت تصوف ،الکتاب ،الہور1399 ،ھ1978/ء ،ص
)12
" صاحب تصوف وہ ہے جو الہام کے ذریعے ہللا تعالٰی کی تمام باتوں کا
ادراک رکھتا ہے "۔ ابو علی روز باری فرمایا کرتے تھے " الصوفي من لبس
الصوف على الصفا و اذاق الهوى وطعم الجفا و لزم طريق المصطفى و كانت
الدنيا منه القفا "
( -مهاروی ،امام بخش ،خواجه ،مخزن ،چشت چشتیہ اکیڈمی ،فیصل آباد ،
1409ھ 1987 /ء ،ص)12
صوفی وہ ہے جو صفائے قلب کے ساتھ لباس پوشی کرتا ہے اور ہوائے
نفسانی کو سختی کا مزہ چکھاتا ہے ،شریعت مصطفی میں تم کو الزم کر لیتا
ہے اور دنیا کو پس پشت ڈال دیتا ہے۔
شریعت پر عمل کرنا ہی تصوف ہے:
درجہ باال تمام اقوال اس بات پر داللت کرتے ہیں کہ اصل صوفی وہ ہے جو
اپنے آپ کو شریعت کا پابند بناتا ہے۔ تزکیہ نفس اس کا مطمح نظر ہوتا ہے۔
قلب کی صفائی اس کی غرض ہوتی ہے ،ریاکاری اور نمود و نمائش سے
اسے سخت نفرت ہوتی
ہے اور ہللا تعالی کی رضا اس کا مقصود ہوتا ہے ۔ عالمہ قرطبی نے ابن
العربی کا ایک قول نقل کیا ہے "قال ابن العربی :وهو شعار المتقين و لباس
الصالحين و اشارة الصحابة والتابعين ،و اختيار الزهاد و العارفين ،وهو يلبس
لينا و خشينا و جيدا و اليه نسب جماعة من الناس الصوفية ،النه لباسهم في
الغالب "
(گنج شکر ،فرید الدین ،ملفوظات ،مرتب بدر الدین اسحاق ،مترجم پروفیسر
محمد معین الدین ،نفیس اکیڈ می طبع سوم ،الہور 1983،ء ،ص128۔)
ابن العربي فرماتے ہیں کہ (اونی لباس پہنا) متقین کا شعار اور صالحین کا
لباس ہے اور صحابہ کرام اور تابعین کی زینت ہے ،زاہدین اور عارفین کا
انتخاب ہے ۔ وہ عام ،کھر درا ،اچھا ،راحت نہ دینے واال اور معمولی سالباس
زیب تن کرتے تھے اور اسی کی طرف لوگوں کی ایک جماعت صوفیہ
منسوب ہے ،اور یہ ان کے اکثر اوقات کے لباس کی وجہ سے ہے۔
قرآن وسنت کی اتباع کرنا ہی تصوف ہے :
خیر القرون کے بعد رفتہ رفتہ عباد و زباد میں پھر کچھ ایسے لوگ داخل ہو
گئے جو سنت طریقہ سے منحرف ہو کر بدعات میں مبتال ہونے لگے چنانچہ
مسلمانوں میں مختلف فرقے پیدا ہو گئے اور ہر فرقے میں کچھ لوگ عباد و
زہاد کے نام سے معروف ہو گئے۔اس وقت وہ لوگ جو اہل سنت والجماعت
کے عقیدے پر قائم تھے اور شریعت وسنت کی مکمل پابندی کے ساتھ اعمال
باطنہ کی تکمیل کی طرف زیادہ متوجہ تھے ۔ وہ اہل تصوف " کے نام سے
موسوم ہوئے اور دوسری صدی ہجری کے ختم ہونے سے پہلے ہی یہ انکا
برین ومشائخ اہل تصوف کے نام سے مشہور ہو گئے جو ظاہری شریعت و
سنت پر مکمل طور پر عمل کرنے کے ساتھ ساتھ اپنی ایک ایک سانس کی
حفاظت اور ذکر الہی میں مشغول رہنے کا اہتمام کرنے والے اور غفلت کے
ہر خطرے سے بچنے والے تھے۔ امام قشیری رحمہ ہللا فرماتے ہیں " پھر
مسلمانوں میں بھی بدعات پیدا ہوئیں اور ہر فرقہ اپنی طرف یہ کہہ کر بالنے
لگا کہ ہم میں بھی درویش موجود ہیں ان کی طرف رجوع کرو۔ اس وقت
امتیاز پیدا کرنے کے لئے ان خواص اہل سنت کو اہل تصوف " کے نام سے
ممتاز کر دیا گیا جوہللا تعالی کے ساتھ تعلق میں اپنے ایک ایک لمحے کی
حفاظت کرتے تھے اور اہل تصوف کے ساتھ ان کے نام کی شہرت دوسری
صدی ہجری سے پہلے ہی ہوگئی تھی "
(۔ سلطان باہو ،عین العارفین ،متن مع اردو ترجمہ ،مترجم ،پروفیسر ڈاکٹر
نسیم ،حق باہو منزل ،الہور 1998،ء ،ص 50۔)
امام قشیری رحمہ ہللا کی اس تشریح سے ثابت ہوا کہ اہل تصوف اور صوفی
کے نام سے سلف صالحین کے زمانے میں وہی لوگ معروف ہوئے جو
شریعت وسنت کے پیر و اور بدعات سے مکمل اجتناب کرنے والے تھے۔
خالی زہد وریاضت والے جو متبع سنت نہ تھے وہ لوگ اس نام سے موسوم نہ
تھے بلکہ ان سے امتیاز پیدا کرنے کے لئے اس نام کا استعمال شروع کیا گیا
اور علماء اور صوفیاء کے اوصاف میں بجز اس کے کوئی فرق نہیں تھا کہ
زمانہ نبوت کے بعد ضعف قومی کے سبب اعمال ظاہرہ و باطنہ میں یکساں
کمال اور بیک وقت دونوں میں اشتعال ممکن نہ رہا تو علماء کرام نے تعلیم و
تعلم ،تصنیف و تالیف اور علمی موشگافیوں کو اپنے عمل کا موضوع بنایا اور
اس کے لئے مدارس قائم کئے ۔ صوفیاء کرام نے باطنی اعمال و احوال کی
درستگی اور اس پہلو سے مسلمانوں کی اصالح وارشاد کو اپنا دائرہ عمل
بنالیا تو انہوں نے اس کے لئے خانقاہیں آباد کر لیں۔ یہ صرف ایک تقسیم کار
کا اصول تھا ،ان میں باہمی اختالف کا کوئی پہلو نہ تھا کیونکہ اہل مدارس
اپنے باطنی اعمال و احوال سے غافل نہ تھے اور اہل خانقاہ احکام ظاہر ہ
شرعیہ سے ناواقف یاان کی حیثیت گرانے والے نہ تھے۔
یہ 20صفحات پر مشتمل ہے اس میں کلمہ طیبہ کی تشریح تصوف کے رنگ میں
کی گئی ،کلمہ طیبہ کے جزو ثانی کا تعلق رسالت محمدیہ سے ہے اس لیے اس کی
وضاحت میں رسول اکرم کے فضائل ،معجزات اور اخالق و فضائل کا بھی ذکر
ہے۔ ( ردو نثر میں سیرت رسول ،ڈاکٹر انور محمود خالد ،اقبال اکیڈمی پاکستان الہور
1989ء)
عربی زبان میں ہے اس کا تاریخی نام معارف ال الہ اال ہللا محمد الرسول ہللا 1010ھ ہے
رسالہ تہلیلہیہ اکبری دور کے اس زمانے میں لکھا گیا جبکہ اکبری عہد کی بدعات
زوروں پر تھی اور بادشاہ اپنی عمر کی آخری حصے میں پہنچ کر دین الہی کے نفاذ
میں متشدد ہو گیا تھا رسالہ تہلیلیہ کے مضامین حسب ذیل ہیں
شرح رباعیات
مجدد الف ثانی کی تالیف ہے اس میں آپ نےرباعیات خواجہ باقی باہلل کی تشریح و
توضیح کی۔
مکمل نام
تشریح و توضیح رباعیات کے اس مجموعہ کاپورا نام ’’شرح رباعیات خواجہ باقی
باہلل‘‘ ہے۔
تشریح در تشریح
خواجہ باقی باہلل نے اپنی رباعیات کی تشریح اپنے قلم سے بھی کی تھی اس میں بہت
سے الفاظ جملے اور مقوالت تشریح طلب تھے جنہیں مجدد الف ثانی نے وضاحت کے
ساتھ لکھ دیا مجدد الف ثانی نے اپنے حواشی و تعلیقات میں قرآنی آیات احادیث اور
اقوال صوفیاء کرام اور اشعار سے بڑی پر کاری سے کام لیا اور تشریح کا حق ادا کر
دیا آیا صوفیا نہ نقطہ نظر سے یہ تشریحات بہت اہم ہیں
عرصہ تصنیف
یہ پہلی تصنیف ہے جو مجدد الف ثانی نے خواجہ باقی باہلل سے بیعت کرنے کے بعد
لکھی ہے یہ رسالہ 1013ھ میں تالیف ہوا شاہ ولی ہللا دہلوی نے بھی شرح رباعیات کی
شرح لکھی ہے جو کشف الغین فی شرح رباعیتین کے نام سے مطبع مجتبائی دہلی
سے 1310ھ میں شائع ہوئی تھی
مضامین کتاب
اس کے مضامین اس طرح ہیں
سریان و احاطہ کا مفہوم
ادارہ مجددیہ کراچی نے 1386ھ اصل فارسی متن مع اردو ترجمہ کے شائع کیا( جہان
امام ربانی جلد 5صفحہ 75پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد امام ربانی فاؤنڈیشن
کراچی پاکستان
معارف لدنیہ
مجدد الف ثانی کی معرفت و تصوف کی ایک کتاب ہے۔
دیگر نام
اس رسالے کا کا دوسرا نام نام علوم الہامیہ بھی ہے یہ رسالہ فارسی زبان میں ہے اس
میں مجدد الف ثانی نے اپنے معارف خاصہ اور سلوک و طریقت کو بیان کیا ہے اس کا
حصہ 1015ھ سے 1516ھ ہللا کا ہے
عنوانات
معارف لدنیہ میں ہر مضمون کو معرفت کا عنوان دیا گیا جن کی مجموعی تعداد 41ہے
کچھ عنوانات یہ ہیں
لفظ ہللا میں حروف تعریف کے اجماع کی حکمت
حقیقت محمدی سے مراد صوفیہ اور متکلمین میں معرفت کے متعلق اختالف
(حضور انور صلی ہللا علیہ وسلم کے فضائل (رسائل مجدد الف ثانی۔صفحہ
،259غالم مصطفے مجددی:قادری رضوی کتب خانہ گنج بخش روڈ الہور)
اشاعت
رسالہ پہلی مرتبہ حافظ محمد احمد علی خان شوق نے مطبع احمدی رام پور سے شائع
کیا اس کے بعد ادارہ مجددیہ کراچی نے شائع کیا جس میں فارسی متن کے ساتھ اردو
ترجمہ بھی شامل ہے۔
( جہان امام ربانی جلد 5صفحہ 77پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد امام ربانی
فاؤنڈیشن کراچی پاکستان)
مبداء و معاد
یہ رسالہ ہللا مجدد الف ثانی کے علوم و معارف پر مشتمل ہے ۔
فارسی زبان میں لکھا گیا اس رسالے میں میں اسرار و رموز کے لطیف اشارے ہیں ہیں
رسالہ میں 1008ھ سے 1018ھ تک کہ بعض کشف وحقائق بیان کیے اس رسالہ کے
مضامین متفرق مسودات کی شکل میں تھے جنہیں آپ کے خلیفہ محمد صدیق بدخشی
نے 1019ھ میں مرتب کیا اس کے مضامین کو (منہا) کا عنوان دے کر الگ الگ کر دیا
جن کی کل تعداد 61ہے اور ہر (منہا) معرفت کے اسرار کا خزانہ ہے جو مجدد الف
ثانی کے صوفیانہ خیاالت کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے اس کے مطالعے سے معلوم
ہوتا ہے کہ مجدد پاک محی الدین ابن عربی کے عقائد و نظریات کو کس نگاہ سے
دیکھتے ہیں رسالہ کی عبارات میں عربی جملے اور اشعار بکثرت استعمال ہوئے اور
ان میں ایک شان دآلویزی پائی جاتی ہے۔
(جہان امام ربانی جلد 5صفحہ 80پروفیسر ڈاکٹر محمد مسعود احمد امام ربانی
فاؤنڈیشن کراچی پاکستان)
تف ثن
ب اب سوم :مج دد الف ا ی کے ردات ف
ق تف ص
کے م طالب و م ناصد
ثن ردات اول: ل ف
ق
صل دوم :مج دد الف ا ی کے ا وال و ظ ری ات
ف
ق تف
صل اول :ردات کے م طالب و م اصد
ملف ظ ثن
مج دد الف ا ی کے و ات
حضرت مجددالف ثانی رحمتہ ہللا علیہ نے اپنی تصانیف عالیہ
خصوصا مکتوبات امام ربانی میں بے شمار ایسی باتیں ارشاد
فرمائی ہیں ۔ کہ چند لفظوں میں بہت کچھ فرما گئے۔ کوزے میں
دریا کو سمودیا ۔ حضرت شیخ مصلح الدین سعدی رحمۃ ہللا علیہ
(المتوفی ۱۳۹۲ ۱۹ء نے صرف اخالقیات پر فصاحت و بالغت کا
کمال دکھایا تھا لیکن حضرت مجددالف ثانی رحمتہ ہللا علیہ نے
شریعت و طریقت کے مسائل کو پند نصائح کی شکل میں جتنے
فصیح و بلیغ انداز سے پیش کیا ہے۔ اس کی نظیر شاید ہی کسی
دوسرے بزرگ کی تصانیف میں پائی جاتی ہو۔ تبلیغ دین کی خاطر
چند ارشادات قارئین کرام کی خدمت میں پیش کرنے کی سعادت
حاصل کرتا ہوں۔
انسان کی پیدائش سے مقصود اس کی عاجزی اور انکساری ہے۔
جب تک انسان قلبی مرض میں مبتال ہے اس وقت تک اس
کی کوئی عبادت نافع نہیں ہے۔
انبیائے کرام نے وحدت وجود کی نہیں بلکہ وحدت معبود
کی دعوت دی تھی۔
شریعت تمام دنیوی واخروی سعادتوں کی ضامن ہے۔
شریعت کا مقصود نفسانی خواہشات کو زائل کرنا ہے۔
صاحب شریعت کی پیروی کے بغیر نجات محال ہے۔
سعادت دارین کی دولت سرور کونین کی متابعت پر موقوف ہے
آدمی کو کھانے پینے کے لیے نہیں بلکہ عبادت کے لیے پیدا
کیا گیا ہے۔
شریعت کی پیروی اور نبی کی اطاعت نجات اخروی کی
ضامن ہیں۔ دین متین سے فساد کے لزومات کو دفع کرنا
ضروریات دین سے ہے۔
شریعت و طریقت ایک دوسری کا عین ہیں۔
توحید وجودی تنگ کو چہ ہے جبکہ شاہراہ اور ہے۔
فتوحات مدینہ نے ہمیں فتوحات مکیہ سے بے نیاز کر دیا ہے۔
دواللت فصوص سے نہیں بلکہ نصوص سے ہوتی ہے۔
مذہب اہل سنت و جماعت کی بال برابر مخالفت بھی خطر
ناک ہے۔
کتاب وسنت کے وہی معنی معتبر
ہیں جو علماء اہل سنت نے سمجھے ھیں۔
جو مذہب سے جدا ہوئے وہ گمراہی اور خرابی میں جا پڑے گا
اہل سنت و جماعت ہی ناجی گروہ ہے
اس نعمت عظمی کا شکر ادا کرنا چاہیے کہ ہللا تعالٰی نے ہمیں
ناجی گروہ میں داخل
سب سے بدترین فرقہ وہ ہے جو صحابہ کرام سے بغض وعناد
رکھتا ہے۔
صحابہ کرام پر طعن کرنا قرآن مجید اور شریعت محمدیہ پر طعن
کرنا ہے۔
صحابہ کرام کی پیروی کا پابند صرف اہل سنت و جماعت کا گروہ
ہے۔
صحابہ کرام میں عیب نکالنا پیغمبر خدا کی ذات میں عیب نکالنے
کے مترادف ہے۔
۔ بعض صحابہ میں عیب نکالنا سب کی متابعت سے محروم ہوتا
ہے
صحابہ کے معاملے میں زبان کو سنبھالنا اور انہیں اچھے لفظوں
سے یاد کرنا چاہیے۔
تمام صحابہ کرام کی پیروی ضروری ہے کیونکہ اصول میں دو
سب متفق تھے۔
صحابہ شریعت کے تابع تھے اور ان کا اجتہادی اختالف حق کی
سربلندی کے
لیے تھا۔
تمام صحابہ کرام افضلیت صدیق اکبر پر متفق تھے۔
خلفائے راشدین کی افضلیت ترتیب خالفت کے لحاظ سے ہے۔
علماء کی سیاہی قیامت میں شہیدوں کے خون سے وزنی ہوگی
سادات سے حضور ﷺ کی قرابت کے باعث محبت رکھنی
چاہیے۔
علماء حق کی نظر صوفیہ کی نظر سے بلند تر ہے۔
علماء ہی شریعت کے حامل ہیں انہیں ترجیح دینے میں شریعت کا
احترام ہے۔
لوگوں کی نجات علماء کے ساتھ وابستہ ہے۔
علمائے آخرت کے کالم کی برکت سے توفیق عمل بھی مل جاتی
ہے۔
حقیقت سے واقف کار علماء کی دعا و توجہ کا طالب رہنا چاہیے۔
چائیے۔ حالل و حرام کے معاملے میں ہمیشہ دین دار علماء کی
جانب رجوع کرنا
تمام نصیحتوں کا خالصہ یہ ہے کہ دین داروں اور شریعت کی
پابندی کرنے
والوں سے میل جول رکھا جائے۔
دنیا کی رغبت رکھنا علماء کے چہرے کا بد نما داغ ہے۔
دولت کے حریص یعنی دنیا دار علماء کی صحبت زہر قاتل ہے۔
علماء ہی بہترین مخلوق ہیں اور علماء ہی بدترین مخلوق ہیں۔
بہتر ہے گمراہ فرقے علمائے سوء کی کارگزاری کا زندہ ثبوت
ہیں۔
جسم کو زندہ کرنے کی نسبت قلب کو زندہ کر دیا عظیم الشان امر
ہے
پیر حق تعالٰی کی بارگاہ تک پہنچنے کا ایک وسیلہ ہے۔
ہللا والوں یعنی علمائے آخرت کی صحبت کبریت احمر ہے۔
صوفیا کے علوم و معارف اگر کتاب وسنت کے مطابق ہیں تو
مقبول ور نہ مردود ہیں۔
اولیاء ہللا کے ساتھ بغض وعنا درکھناز ہر قاتل ہے۔
ہللا تعالٰی جس کو برباد کرنا چاہئے اسے بزرگوں پر طعن و تشفیع
میں مبتال کر دیتا ہے۔
ناقص پیر کی صحبت زہر قاتل اور اس کی طرف رجوع کرنا
مہلک ہے۔
شدید ریاضتوں سے بھی وہ بات میسر نہیں آتی جو بزرگوں کی
صحبت سے مل
جاتی ہے۔
دنیا دار صوفیا سے ایسے بھا گو جیسے شیر سے بھاگتے ہیں۔
جس علم سے عمل مقصود ہے۔ اس کا کفیل علم فقہ ہے۔
دشمنان دین سے قولی جہاد کرنا جہاد اکبر ہے۔
اسالم کی عزت کفر اور کافروں کی ذلت میں ہے۔
کفار کے ساتھ جہاد کرنا اور ان پرسختی کرنا ضروریات دین سے
ہے۔
کفار کے ساتھ سخت رویہ اختیار کرنا خلق تعظیم میں داخل ہے۔
جس قد راہل کفر کی عزت ہوگی اس قدر اسالم کی ذلت ہے۔
مسلمان رہنے کے لئے کفر اور کافری سے بیزار رہنا ضروری
ہے۔
فقیر کی نظر میں خدا کے دشمنوں سے بیزاری کے برابر کوئی
عمل نہیں ۔
فقیر کی تمنا ہی ہے کہ ہللا اور رسول ﷺ کے دشمنوں پر
سختی کی جائے۔
ت ض ق ف ت غ
مج ددی ،الم مصط ی ،ذکرہ مج ددی ن اسالم،الہ ور ،ادری ر وی ک ب خ ان ہ(،
)،2001ص213/217،
قئ ن ثن
مج دد الف ا ی کےع ا د و ظ ری ات
نجات آخرت کا حاصل ہونا صرف اسی پر موقوف ہے کہ تمام افعال و اقوال و اص ول و
فروع میں اہلسّنت و جماعت (اکثر ہم ہللا تعالٰی ) کا اتباع کیا جائے اور ص رف یہی ف رقہ
جنتی ہے اہلسّنت و جماعت کے سوا جس قدر فرقے ہیں سب جہنمی ہیں۔ آج اس بات ک و
کوئی جانے یا نہ جانے کل قیامت کے دن ہر ایک شخص اس بات ک و ج ان لے گ ا مگ ر
اس وقت ک ا جانن ا کچھ نف ع نہ دے گ ا ۔ (مکت وب ٦٩جل د اّو ل مطب ع ن و لکش ور لکھن ؤ
،٨٦چشتی)
نبی کریم صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم ہللا کے نور سے ہیں
حضور اقدس صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم کی خلقت کسی بشر کی خلقت کی طرح نہیں بلکہ
عالم ممکنات میں کوئی چیز بھی حضور اکرم صلی ہللا علیہ وسلم کے ساتھ کچھ مناسبت
نہیں رکھتی ۔ کیونکہ حضور صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم کو ہللا عزوجل نے اپنے نور سے
پیدا فرمایا ہے۔ (مکتوب ١٠٠جلد سوم صفحہ )١٨٧
رسول اکرم صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم کا سایہ نہیں تھا
عالم امکان کو (جو تحت الثرٰی سے عرش تک کی جملہ موج ودات و کائن ا ت ک ا محی ط
ہے) جس قدر دقت نظر کے ساتھ دیکھا جاتا ہے حضور ان ور ص لی ہللا علیہ و آلہ وس ّلم
کا وجود پاک اسکے اندر نظر نہیں آتا ۔ سرکار دوعالم صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم اس ب زم
امکان سے باال تر ہیں۔ اسی لئے حضور اکرم صلی ہللا علیہ و آلہ وس ّلم ک ا س ایہ نہ تھ ا۔
(مکتوب ١٠٠جلد سوم صفحہ ،١٨٧چشتی)
عقیدہ علم غیب
جو علم غیب ہللا عزوجل کے ساتھ مخص وص ہے اس پ ر وہ اپ نے خ اص رس ولوں ک و
مطلع فرمادیتا ہے ۔
(مکتوب ٣١٠جلد اول )٤٤٦
شیخ مجدد الف ثانی رحمۃ ہللا علیہ کا مسلک پرتصّلب و تشدد
جو شخص تمام ضروریات دین پرایم ان رکھ نے ک ا دع وٰی ک رے لیکن کف رو کف ار کے
ساتھ نف رت و ب یزاری نہ رکھے وہ درحقیقت مرت د ہے۔ اس ک ا حکم من افق ک ا حکم ہے۔
جب تک خدا عزوجل اور رسول صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم کے دشمنوں کے ساتھ دش منی
نہ رکھی ج ائے اس وقت ت ک خ دا و رس ول ص لی ہللا علیہ و آلہ وس ّلم کے س اتھ محبت
نہیں ہوسکتی ۔ یہیں پر یہ کہنا ٹھیک ہے ع توّٰل ی بے تبّر ٰی نیست ممکن ۔
(مکتوب ٢٦٦جلد اول صفحہ )٣٢٥
اہلبیت اطہار رضی ہللا عنہم کی محبت کے بغیر ایمان مکمل نہیں
حضور اقدس صلی ہللا علیہ و آلہ وسّلم کے اہ ل بیت ک رام کیس اتھ محبت ک ا ف رض ہون ا
نِص قطعی س ے ث ابت ہے ۔ ہللا عزوج ل نے اپ نے ح بیب ص لی ہللا علیہ و آلہ وس ّلم کی
دعوت الی الحق و تبلیغ اسالم کی اجرت امت پر یہی قرار دی کہ حض ور ص لی ہللا علیہ
و آلہ وسّلم کے قرابت داروں کیساتھ محبت کی جائے ۔ ُقل َّال َاْس َئُلُک ْم َع َلْیِہ َاْج ًرا ِاال اْلَم َو َّدَۃ
ِفْی اْلُقْر ٰب ی ۔ (مکتوب ،٢٦٦جلد اول صفحہ )٣٢٦