You are on page 1of 1

‫جب میر تقی میر نے رعایت خاں کی نوکری چھوڑی‬

‫شاعر کو تلمیِذ رحمانی بھی کہا گیا ہے اور پیغمبر کا بھی درجہ دیا گیا ہے‪ ،‬لیکن میر‬
‫تقی میر تنہا شاعر ہیں جن کو خدائے سخن کہا جاتا ہے۔‬

‫ولی دکنی‪ ،‬سودا‪ ،‬نظیر اکبرٓابادی‪ ،‬انیس‪ ،‬غالب اور اقبال کے ہوتے ہوئے میر اردو‬
‫شاعری میں عظمت کے تنہا مسند نشین نہیں ہیں اور نہ یہ کہنا صحیح ہو گا کہ وہ اردو‬
‫کے سب سے بڑے شاعر ہیں۔ پھر بھی اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اردو کے تمام‬
‫شعرا میں سرفہرست میر ہی کا نام رہے گا۔ ڈیڑھ سو برس سے اردو کے عظیم شعراء‬
‫میر کو خراِج عقیدت پیش کرتے ٓائے ہیں اور یہ بات ایک مسلمہ حقیقت بن چکی ہے کہ‬
‫’’ٓاپ بے بہرہ ہے ہے جو معتقد میر نہیں۔‬

‫یوں تو میر کی بد دماغی کے بہت سے افسانے مشہور ہیں لیکن انہوں نے خود اپنی ٓاپ‬
‫بیتی ’’ذکِر میر‘‘ میں ایک واقعے کا ذکر کیا ہے۔ یہ ان کی جوانی کا زمانہ تھا اور وہ‬
‫رعایت خاں کے نوکر تھے لکھتے ہیں‪’’ ،‬ایک چاندنی رات میں خان کے سامنے ڈوم کا‬
‫لڑکا چبوترے پر بیٹھا گا رہا تھا۔ (خان نے) مجھے دیکھا تو کہنے لگا کہ میر صاحب‪،‬‬
‫اسے اپنے دو تین شعر ریختے کے یاد کرا دیجیے تو یہ اپنے ساز پر درست کر لے گا۔‬
‫میں نے کہا‪ ،‬یہ مجھ سے نہیں ہو سکتا۔ کہنے لگا میری خاطر سے۔ چونکہ مالزمت کا‬
‫پاس تھا۔ طوعا و کرہا تعمیل کی اور پانچ شعر ریختے کے اسے یاد کرائے۔ مگر یہ بات‬
‫میری طبِع نازک پر بہت گراں گزری۔ ٓاخر دو تین دن کے بعد گھر بیٹھ رہا۔ اس نے ہر‬
‫چند بالیا‪ ،‬نہیں گیا‪ ،‬اور اس کی نوکری چھوڑ دی۔‘‘ (بحوالہ‪ ،‬میر کی ٓاپ بیتی۔ نثار احمد‬
‫فاروقی) ‘‘‬

You might also like