You are on page 1of 1

‫(کورونا اور آپ کی ذہنی کیفیت)‬

‫دو منٹ کی تحریر ضرور‬

‫پڑھیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔‬

‫اسالم علیکم۔۔۔کورونا سے پہلے موسمی تبدیلیوں کی وجہ سے ہونے والے نزلے زکام کو کوئی بھی اہمیت نہیں دیتا تھا۔۔۔‬
‫اور عام سی دوائی یا جوشاندہ اس کا عالج ہوا کرتا تھا۔۔۔مگر کورونا وائرس نے انسانی بستیوں کو انسانی سوچوں کو ان‬
‫کے رہن سہن کو ان کے کھانے پینے کو ان کی زندگی کی رنگینیوں کو ان کے رویوں کو مکمل طور پر بدل کر رکھ دیا‬
‫ہے۔۔۔اب کسی کو بھی عام نزلہ زکام ہو جاۓ تو اسے لگتا ہے کہیں کورونا تو نہیں ہو گیا اور وہ اس چیز کو ذہنی دباؤ بنا‬
‫لیتا ہے کے اس کا کیا اثر ہو گا وہ انہی سوچوں میں گم سم رہتا ہے کے میں کسی کے سامنے کھانسا یا چھینکا تو لوگ‬
‫مجھ سے دور بھاگیں گے۔۔۔ہو سکتا ہے کے وہ عام نزلہ زکام کا مریض ہو جو دو چار دن میں ٹھیک ہو جاتا ہے پر ہو‬
‫سکتا ہے اس کا وہم کئی ہفتوں ختم نہ ہو اور وہ اسی بےچینی اور ذہنی دباؤ میں جیتا ہے جو بے چینی اور سوچ اسے‬
‫ڈپریشن میں بھی لے جا سکتی ہے۔۔۔اور ڈپریشن انسان کو عام زندگی اور ہنستی مسکراتی دنیا کو چھوڑ کر کمرے میں‬
‫بھی بند کر سکتا ہے۔۔۔اس بےچینی کی اصل وجہ کیا ہے سوشلی دباؤ‪،‬ایس اوپیز اور پروٹوکول کا خیال نہ کرنا‪،‬معمولی‬
‫نوعیت کی عالمات کو کورونا سمجھ لینا۔۔۔‬

‫اس بات میں کوئی شک نہیں کے زندگی سے ہر کسی کو پیار ہے اور جس چیز سے پیار ہو اسے چھوڑنے کو دل کس کا‬
‫کرتا ہے اب مرنا تو کوئی بھی نہیں چاہتا لیکن جینے کے لئے زندگی کے بھی کچھ قاعدے ہیں اگر آپ ان کو سیریس‬
‫نہیں لیں گے تو بگاڑ تو پیدا ہو گا۔۔۔اب کورنا ایک عالمی سازش ہے یا یہ ہللا کا عذاب ہے ان سوچوں سے نکلیں اور ایس‬
‫اوپیز پر عمل یقینی بنائیں اور ارد گرد کے لوگوں کو بھی اس کی تلقین کریں۔۔۔میڈیا پر چلنے والی خبروں کو عام خبروں‬
‫کی طرح لیں اور زیادہ نہ سوچیں ان خبروں کو زیادہ اہم سمجھ کر اپنے ذہن کو مزید دباؤ میں نہ الیئں۔۔۔اور اگر کورونا‬
‫وائرس ہو بھی جاۓ تو سب سے پہلے آپ نے گھبرانا نہیں ہے آپ بلکل ٹھیک ہو جایئں گے آپ کو ایک واقعہ سناتا ہوں‬
‫میرے ایک استاد اے محترم نے مجھے کافی دیر پہلے سنایا تھا وہ کہتے ہیں کے میں جب جوان تھا کالج کا زمانہ تھا‬
‫مجھے ٹی بی کا مرض الحق ہو گیا جب ڈاکٹر نے بتایا کے ٹی بی ہے تو جیسے میرے پاؤں کے نیچے سے زمین ہی‬
‫نکل گئی ہو ایک پل کے لئے تو مجھے ایسا محسوس ہوا کے میری زندگی کے دن تو گنے جا چکے ہیں کیوں کے اس‬
‫زمانے میں وہ مرض بڑا خطرناک سمجھا جاتا تھا عام طور پر لوگ مر بھی جایا کرتے تھےنہ ادویات میسر ہوا کرتی‬
‫تھی نہ کوئی اچھا ڈاکٹر۔۔۔میرے والد محترم نے کچھ بیمار لوگوں کی مثالیں پیش کرتے ہوے جو اس مرض سے شفایاب‬
‫ہو چکے تھے میری حوصلہ افزائی کی اس کے بعد میں نے بھی فیصلہ کر لیا کے وہ ٹھیک ہو سکتے ہیں تو میں کیوں‬
‫نہیں جس کے بعد میں نے ذہن میں خود کو تندرست سمجھنا شروع کر دیا جس کے مجھے زبردست نتایج ملنا شروع‬
‫ہوے اور میں آہستہ آہستہ عام دوائی اور مثبت سوچ کے ساتھ ٹھیک ہونا شروع ہوگیا اور آخر کار میں بلکل ٹھیک ہو گیا‬
‫آپ کے دماغ میں جو چیز آ سکتی ہے وہ ممکن بھی ہو سکتی ہے کیوں کے آپ کا دماغ ہی اصل میں آپ ہیں تو آپ بھی‬
‫ذہنی طور پر خود کو تندرست سمجھنا شروع کر دیں کورنا آپ کا کچھ نہیں بگاڑ پاۓ گا۔۔۔‬

‫‪Awais‬‬
‫‪BS Psychology‬‬
‫)‪(20103002-018; Semester 8th‬‬
‫‪Department of Psychology‬‬

You might also like