Professional Documents
Culture Documents
دیس میں
2006-07
حصہ اول
یہ کتاب ان مقامات کے سفر نامے پر مشتمل ہے جن کا ذکر قرآن مجید ،احادیث اور
بائبل میں کیا گیا ہے
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
انتساب
میری والدہ محترمہ کے نام جن کی ان تھک محنت
اور کاوشوں نے مجھے اس قابل بنایا کہ یہ سفرنامہ
آپ کی خدمت میں پیش کر سکوں ۔
2
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ف ہرست
ف ہرست3.......................................................................................................................
دیباچ ہ4.........................................................................................................................
روانگی برائ ے سعودی عرب4............................................................................................
جد ہ14..........................................................................................................................
مک ہ24.........................................................................................................................
جبل نور اور غار حرا48...................................................................................................
مک ہ ک ے دیگر تاریخی مقامات54.........................................................................................
سفر حج58....................................................................................................................
سفر ہجرت87................................................................................................................
مدین ہ101......................................................................................................................
مدین ہ ک ے تاریخی مقامات119.............................................................................................
بدر125........................................................................................................................
احد138........................................................................................................................
خندق144.....................................................................................................................
طائف 149....................................................................................................................
جیزان ،فیفا اور اب ہا165...................................................................................................
دمام ،الخبر اور بحرین کاز و ے188.....................................................................................
خیبر ،مدائن صالح اور تبوک195........................................................................................
مایوسی کی تعریف مایوسی کی اقسام مایوسی کی وجو ہات مایوسی دور کرن ے ک ے لئ ے چند تجاویز221..........
3
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
دیباچ ہ
سفر میرا شوق ہے۔ میں ہمیشہ سے سفر کرنے میں خاصا لطف انتتدوز ہوتتتا ہوں۔ دوران
سفر انسان اپنی روزمرہ کی زندگی سے نکل کر فطری زندگی کی طرف لوٹتا ہے۔ ش تہر
کی مصنوعی زندگی کی نسبت ہرے بھرے پہاڑوں ،سر سبز و شتاداب کھیتتوں ،لتق و دق
صحراؤں ،شوریدہ دریاؤں ،نیلے ساحلوں ،اور پتتر ستتکون جھیلتتوں کتتی زنتتدگی میتترے لئے
بہت کشش کی حامل ہے۔ رب کریم کی بنائی ہوئی یہ دنیا انسانوں کتتی بنتتائی ہوئی دنیتتا
سے بہت مختلف ہے۔ اس میں ایک سکون ہے جو ہر صتتاحب ذوق کتتو اپنتتی طتترف متتتوجہ
کرتا ہے۔
صرف یہی نہیں بلکہ سفر میں انسان دوسرے علقوں کے رہنے والے انسانوں سے ب ھی
ملتا جلتا ہے۔ ان ک تے رستتم و رواج ،قتتوانین ،ر ہن س تہن ،لئف استتٹائل اور لیتتن دیتتن کتے
طریقوں سے واقفیت حاصل کرتا ہے۔ آثار قدیمہ کے مطالعے سے قدیم دور کے انسان کی
زندگی کے انہی پہلوؤں سے آشنائی حاصل ہوتی ہے۔ اس سب میں سیکھنے کے ب ہت س تے
پہلو ہوتے ہیں جو انسان کی اپنی عملی زندگی میں کام آتے ہیں۔ شاید اسی لئے ک ہا جاتتتا
ہے کہ سفر وسیلہ ظفر۔
زیر نظر سفر نامہ میرے ان اسفار کی روداد ہے ،جو سعودی عتترب میتتں دوران قیتتام
میں نے دنیائے عرب کے مختلف حصوں کی طرف کئے۔ مجھے ان جگ ہوں کتتو دیکھن تے کتتا
جنون کی حد تک شوق تھا جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیتہ وستتلم نتے اپنتتی زنتتدگی بستتر
فرمائی۔ ان مقامات کے علوہ میں نے یہ بھی کوشش کی کہ ان مقامتتات کتتو ب ھی دیک ھا
جائے جن کا ذکر قرآن مجید اور بائبل میں کیا گیا ہے۔ اس کا مقصد حضور صلی اللہ علیہ
وسلم سے پہلے کے انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلم کی دعوتی زنتتدگی کتتا مطتتالعہ کرنتتا
تھا۔
میں نے یہ کوشش کی ہے کہ ان مقامات سے متعلق قرآنی آیات ،احادیث اور بائبل کی
آیات کے حوالے بھی ساتھ ہی فراہم کر دوں تاکہ وہ لوگ جو میری طتترح ی تہ شتتوق رکھت تے
ہوں ،اس سے استفادہ کر سکیں۔ مزید برآں ان مقامات کے سیٹلئٹ نقش تے بھہہی فراہہہم
کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ بعد میں ان مقامات کتتی ستتیاحت کرن تے وال تے آستتانی
سے انہیں تلش کر سکیں۔ اس کے لئے میں گوگل ارتھ کا شکر گتتزار ہوں۔ اس کوشتتش
میں میں کتنا کامیاب ہوا ہوں ،اس کا اندازہ آپ کے تاثرات سے ہوگا۔
محمد مبشر نذیر
میں بیرون ملک ملزمت تلش کرنے کی کوشش کر رہا تھا۔ اس ضتتمن میتتں ستتب س تے
بہتر ذریعہ انٹرنیٹ تھا۔ دسمبر 2005میں مجھے سعودی عرب کتتی ایتتک پروفیشتتنل آڈٹ
4
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
فرم کی طرف سے ای میل وصتول ہوئی جتس میتں ان ہوں نتے تتازہ تریتن ستی وی اور
انٹرویو کے وقت کا مطالبہ کیا تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے ک تہ اس فتترم میتتں میتتں ن تے کب ھی
اپلئی نہیں کیا تھا لیکن انہوں نے bayt.comسے میرا سی وی تلش کرکے مجھ ستتے ختتود
ہی رابطہ کیا تھا۔ ایک ٹیلی فونک انٹرویو کے بعدانہوں نے مجھے جتتاب آفتتر دے دی۔ مجھہہے
جدہ میں رہنا تھا۔
دوسرے لوگوں کے برعکس میرے لئے سب سے آئیڈیل جگہ ستتعودی عتترب ہی ت ھی۔ اس
کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ حرمین شریفین کی قربتتت اور ستعودی عترب کتا متاحول ہمتارے
پورے خاندان کی دینی تربیت کے لئے آئیڈیل ہے۔ بشمول پاکستان ،دنیا بھر میں بتے حیتائی
جس طرح پھیل رہی ہے ،اس سے اپنی آئندہ نسلوں کو بچانا جوئے شیر لنے کتے متتترادف
ہے۔ سعودی عرب کی ایک خوبی یہ ہے کہ یہاں اگر کوئی بے حیائی کا شتتوقین ہہہے تتتو اس
کی بے حیائی چار دیواری کے اندر محدود ہے۔ گھر سے باہر ہر خاتون اور مرد باحیا لبتتاس
میں ہی نظر آتا ہے۔ اس طرح اگر کوئی اپنی اولد کو بے حیائی س تے بچانتتا چتتاہے تتتو اس
کے لئے خاصی آسانیاں موجود ہیں۔ انہی وجو ہات کتتی بنیتتاد پتتر میتتں ن تے اس فتترم میتتں
جوائن کرنے کا فیصلہ کر لیا۔
ویزا پراسیسنگ
جنوری 2006ویزا پراسیسنگ میں گزرا۔ سعودی قوانین کے مطتتابق ان کتتا امیگریشتتن
آفس کسی کمپنی کی درخواست پر اسے مختلف قومیتوں کے لئے ویزے جاری کرتتتا ہے۔
اس میں کسی متعین شخص کا نام نہیتتں ہوتتتا۔ مثل ً ایتتک ویتتزا تیتتن پاکستتتانیوں اور چتتار
بھارتیوں کے لئے جاری ہو سکتا ہے۔ وہ کمپنی خود ہی اپنی مرضی کے تیتتن پاکستتتانی اور
چار بھارتی تلش کرکے متعلقہ سفارت خانوں کے ذریعے ان کا ویزا پراسیس کروا سکتی
ہے۔ میری فرم نے تمام ضروری کاغذات مجھے کوریئر کے ذریعے بھیج دیے تھہہے۔ پاکستتتان
میں ویزا پراسیسنگ کے لئے کسی ریکروٹنگ ایجنٹ کے ذریعے پراسیس کروانتتا ضتتروری
ہے۔ میں نے ایک دوست کتے ذریعتے الجدیتد میتن پتاور سروستز ستے رابطتہ کیتا اور اپنتے
کاغذات انہیں دے دیے۔ انہوں نے مجھے ڈگری کی تصدیق کروا کے لنے کو کہا ۔ ی تہ تصتتدیق
متعلقہ یونیورسٹی ،ہایئر ایجوکیشن کمیشن ،وزارت خارجہ ،سعودی کلچتترل ستتینٹر اور
سعودی سفارت خانے سے ہونا تھی۔
میں کراچی میں مقیم تھا اور میرا ویزا اسلم آباد ایمبیسی کا تھا۔ میں اپنی موجتتودہ
کمپنی سے چھٹی لے کر پہلے لہور گیا۔ پنجاب یونیورسٹی سے تصدیق کروانتے کتے استتلم
آباد پہنچا۔ وہاں چار جگہ سے تصدیق کروانے میں دو ہفتے نکل گئے۔ اسی پھیرے میں میتتں
نے اپنی فیملی کے کاغذات یعنی نکاح نامہ اور بچوں کے برتھ سرٹیفیکیٹ کی تصدیق بھی
کروا لی جو کہ وزارت خارجہ اور سعودی ایمبیسی سے ہونا ضروری تھی۔ تصدیق کے بعد
میں نے ڈاکومینٹس الجدید والوں کو دیے تو انہوں نے محض چتتار دن میتتں ویتتزا لگتتوا کتتر
پاسپورٹ میرے حوالے کردیا۔
اپنی موجودہ ملزمت سے استعف ٰی دینے کے بعد میرا ارادہ جلد از جلد روانگی کتتا ت ھا۔
ان دنوں ابھی حج ختم ہوا تھا اور عمتترہ کتے ویتتزوں کتتا اجتترا شتتروع نتہ ہوا ت ھا اس لئے
فلئیٹیں تقریبا ً خالی تھیں۔ میں نے سعودی ائر لئن کی ایک فلئیٹ پر سیٹ بک کتتروائی
5
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
6
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جیسے ملزم کو حوالت میں دھکیل کر دروازہ بند کیا جاتا ہے اور پانچ منٹ کے انتتدر انتتدر
جہاز پرواز کر گیا۔ یہ میرا پہل تجربہ تھا کہ فلئیٹ تاخیر کی بجتتائے وقتتت ستے پنتتدرہ منتتٹ
پہلے ہی روانہ ہو گئی تھی۔ اس سے میں نے یہ سبق حاصل کیا کہ آئندہ ہمیش تہ فلئیتتٹ ک تے
اعلن کے وقت ہی چل جاﺅں گا خواہ اس کے بعد جہاز میں بیٹھ کر تمام اردو اور انگریزی
اخبارات کا بار بار مطالعہ کرنا پڑے۔
جہاز نے ٹیک آف کیا اور شارع فیصل کے اوپر سے ہوتا ہوا ملیر ندی کتتو کتتراس کرکتے
ڈیفنس کے اوپر آگیا۔ بائیں جانب کورنگی کا علقہ تھا اور دائیں جتتانب کلفٹتتن کتتا ستتاحل
پھیل ہوا تھا۔ کورنگی کریک پر پارکو کا آئل پمپنگ اسٹیشن نظر آرہا تھا۔ ملک میں درآمد
کئے جانے والے خام تیل ) (Crude Oilکا زیادہ تر حصہ اسی اسٹیشن سے ملک ک تے وستتط
میں موجود پارکو کی آئل ریفائنری ) (Mid-Country Refineryکو بذریعہ پتتائپ لئن بھیجتتا
جاتا ہے۔ مڈ کنٹری ریفائنری کوٹ ادو کے قریب قصبہ گجرات میں واقع ہے اور ملتتک ک تے
شمالی حصے کی تیل کی ضروریات پوری کرنے کے لئے لگائی گئی ہے۔ یہ ملک کتتے ستتب
سے بڑی جدید ترین ریفائنری ہے اور ہمارے ملک کا بڑا اثاثہ ہے۔
پارکو میں نے ڈیڑھ سال ملزمت کی تھی اور ب ہت اچ ھا وقتتت گتتزارا ت ھا۔ پتتارکو کتتی
بدولت میں آئل انڈسٹری کے نشیب و فراز سے آگاہ ہوا تھا اور اسی تجربتے کتی بنیتاد پتر
مجھے کویت پیٹرولیم کے پراجیکٹ کے لئے منتخب کیا گیا تھا۔ پارکو سے میری خوشتتگوار
یادیں وابستہ تھیں۔ پمپنگ اسٹیشن کے تیل کے دیتتو ہیکتل ٹینتک اوپتتر ستے چ ھوٹے چ ھوٹے
دائرے لگ رہے تھے۔ تیل کے ٹینکوں کو کیمو فلج کرنے کے لئے ان پر مٹی کا سا رنتتگ کیتتا
جاتا ہے اور اوپر سبز رنگ کے پودے بھی بنائے جاتے ہیں تاکہ جنگ کی صورت میں دشتتمن
کے ہوائی جہازوں کو یہ نظر نہ آسکیں۔ مجھے تو ہوائی جہاز سے یہ صتتاف نظتتر آر ہے ت ھے
جس سے مجھے یہ اندازہ ہوا کہ کیمو فلج کا یہ تکلف بالکتتل ب تے کتتار ہے۔ بہرحتتال متتاہرین
دفاع اس معاملے میں مجھ سے بہتر جانتے ہیں۔
مکران ک ے ساحل
جہاز اب ڈیفنس کریک کے اوپر سے گزرتا ہوا ستاحل کتے ستاتھ ستاتھ گتوادر کتی طترف
پرواز کرنے لگا۔ نیلے سمندر میں دور دور تک پھیلے ہوئے بحری جہاز کھلونا کشتتتیوں کتتی
طرح نظر آرہے تھے۔ چونکہ جہاز خالی تھا ،اس لئے میں دائیں طرف کی کھڑکی پر آ بیٹھا
تاکہ ساحل کا نظارہ کر سکوں۔ کیماڑی پر تیل کا دیو ہیکل جہاز لگا ہوا تھا جو شاید راس
تنورا کی سعودی بندر گاہ سے تیل لے کر کیماڑی پہنچا تھا۔ یہ بھی کھلونا کشتی کی مانند
لگ رہا تھا۔ اوپر سے کنارے کے قریب سمندر کی تہہ بھی صاف نظر آرہی تھی۔جوں جتتوں
نگاہ ساحل سے دور ہوتی تھی ،تہہ غائب ہوتی جاتی اور پانی کا رنتتگ گ ہرا نیل ہوتتتا جاتتتا۔
نیلے رنگ کے چھ سات شیڈز میں بحیرہ عرب بہت خوب صورت نظر آرہا ت ھا۔ الل تہ تعتتال ٰی
کے بنائے ہوئے ایک ہی رنگ کے شیڈز تو یقینا کروڑوں میں ہوں گے لیکتتن ہمتتاری آنک تھ چ تھ
سات شیڈز سے زیادہ فرق نہیں کرسکتی۔ یہی وجہ ہے کہ کمپیوٹر کی سکرین پر کتتروڑوں
رنگوں کی موجودگی کا دعوی کیا جاتا ہے۔
جہاز کا عملہ ،جس میں ائر ہوسٹسوں کی بجائے زیادہ تر ائر ہوسٹ یعنی اسٹیورڈ تھے
،جلد از جلد کھانا سرو کرنے لگے تاکہ اس کے بعد انہیں گہری تان کر سونے کا موقع متتل
7
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جائے۔ سعودی عام طور پر اپنی لڑکیوں کے لئے ائر ہوسٹس کے پیش تے کتتو مناستتب نہیتتں
سمجھتے ،اس لئے سعودی ائر لئن میں زیادہ تر اسٹیورڈ یا غیر ملکی ائر ہوسٹسیں پتتائی
جاتی ہیں۔ جہاز کا فاصلہ اور رفتار بتانے وال میٹر ایک ہی مقام پر رکا ہوا ت ھا یعنتتی جتتدہ
2100کلومیٹر۔ میں نے ایک اسٹیورڈ کی توجہ اس طرف مبذول کروائی تو وہ بتتول ،میتتں
ابھی پائلٹ کو کہتا ہوں۔ اس کے بعد وہ دوبارہ نظر نہ آیا۔ چتتونکہ ج ہاز ختتالی ت ھا ،اس لئے
کئی مسافروں نے درمیان کتتی چتتار کرستتیوں کتتی ہتھیتتاں اوپتتر کیتتں اور لمتتبی تتتان کتتر
سوگئے۔ مجھے سونے سے زیتتادہ فطتترت ک تے منتتاظر دیکھن تے کتتا شتتوق ہے اس لئے میتتں
کھڑکی سے فطرت کا نظارہ کرتا رہا۔
کراچی کے کچھ فاصلے پر حب پاور کمپنی کا پلنٹ نظر آیا ۔ یہ برطانیہ کی ستتب ستے
بڑی الیکٹرک کمپنی انٹرنیشنل پاور کے زیر انتظام ہے۔ ان ہوں نتے استے مکمتتل طتتور پتتر
انوائرنمنٹ فرینڈلی بنایا ہوا ہے۔ چونکہ پاکستان کی حکومتوں نتے بروقتتت ڈیتتم بنتتانے کتی
بجائے تھرمل پاور پر انحصار کیا ہے اس لئے تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتوں ک تے ستتاتھ ستتاتھ
بجلی بھی مہنگی اور نایاب ہوتی جارہی ہے۔ حب سے آگے گڈانی کا شپ بریکنگ یتتارڈ ت ھا
اور اس سے آگے مکران کے حسین ساحل جہاں پہاڑوں اور سمندر کا امتزاج فطرت کتتے
شائقین کے لئے نت نئے مناظر سموئے ہوئے تھا۔
کراچی اور گوادر کے درمیان تقریبا ً اتنا ہی فاصلہ ہے جتنتا کتہ کراچتی اور ب ہاولپور کتے
درمیان۔ میں نے ان دونوں روٹس پر سفر کیا ہے۔ کراچی اور بہاولپور کے درمیان بیسیوں
چھوٹے بڑے قصبے اور شہر آتے ہیں لیکن کراچی اور گوادر کے درمیان صرف تین شہر ہیں
یعنی حب ،اورماڑہ اور پسنی۔ پنجاب میں ہر پندرہ منٹ کے فاصلے پر ایتتک قصتتبہ اور ہر
گھنٹے کے فاصلے پر لکھوں کی آبادی کا شہر آتا ہے لیکن بلوچستان میں تیتتن چتتار گھنٹتے
کے فاصلے پر جاکر ایک چھوٹا سا شہر آتا ہے جو پنجاب کے مریدکے یتتا کتتامونکے ستے بتتڑا
نہیں ہوتا۔ اللہ تعال ٰی نے جہاں پنجاب کو زرخیز زمینوں سے نتتوازا ہے و ہاں بلوچستتتان کتتو
معدنی وسائل سے مال مال کیا ہے۔
پنجاب اس لئے زیادہ ترقی کر گیا کہ وہاں کے لوگوں نے کافی حد تک جاگیردارانہ نظام
سے نجات حاصل کر لی ہے جبکہ بلوچ ابھی تک اپنتے ستترداروں س تے نجتتات حاصتتل نہیتتں
کرسکے جو گیس اور دیگر معدنی وسائل کی رائلٹی پر قابض ہو کر بیٹ ھے ہیتتں اور اپن تے
غریب مزارعوں اور ہاریوں کے علقے میں ایک پرائمری سکول بھی نہیں کھلنے دیتے۔ یہی
کیفیت اب سے پچاس سال پہلے پنجاب کی تھی لیکن اب کافی حد تک حتتالت تبتتدیل ہو
چکے ہیں جس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف تعلیم ہے۔
پندرہ منٹ کی پرواز کے بعد ہم اورماڑہ کے پاس سے گزرے۔ یہ ایک چھوٹا سا شہر ہے۔
یہاں نیوی کی ایک بڑی بیس ہے۔ فضا سے اورماڑہ کسی جام کے پیندے کتتی ماننتتد نظتتر آ
رہا تھا۔ ساحل سے صراحی کی گردن کی طرح ایک پٹی نکل ر ہی ت ھی جتو ستمندر کتے
بیچ میں پہنچ کر چوڑی ہو رہی تھی۔ یہ ایک نہایت ہی دلفریب منظر تھا۔ کچھ ہی دیتتر کتے
بعد ہم گوادر کے ساحل پر تھے جو اورماڑہ کی طتترح کتی ایتتک پتٹی پتر مشتتمل ت ھا جتو
سمندر کے اندر کسی جام کی پیندے کی طرح پھیلی ہوئی ہے۔
8
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
گوادر کے ساحل
چونکہ اس علقے میں سمندر کے ساتھ پہاڑ موجتتود ہیتتں ،اس لئے ی ہاں ستتمندر کتتافی
گہرا ہے۔ اسی لئے گوادر ڈیپ سی پورٹ کہلتی ہے اوریہاں بہت بڑے بتتڑے ج ہاز ب ھی لنگتتر
انداز ہو سکتے ہیں۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ کراچی کی بنتتدرگاہ پتتر
جو تیل کے جہاز آ کر رکتے ہیں ان میں تقریبا ً 70ہزار میٹرک ٹن خام تیل موجود ہوتتتا ہے
لیکن گوادر کی بندرگاہ پر دنیا کے سب سے بڑے تیل کے جہاز آکر رک سکتے ہیں جن میں
500000میٹرک ٹن خام تیل رکھا جاسکتا ہے۔
9
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
عمان
گوادر کے بعد ہم ساحل سے دور ہونے لگے۔ ہمارے دائیں جانب اب ایران ک تے ستتاحل ت ھے
جو خاصے دور تھے۔ بحیرہ عرب یہاں تنگ ہونا شروع ہوتا ہے اور بتتالخر آبنتتائے ہرمتتز کتتی
شکل اختیار کر لیتا ہے۔ اس کے بعد یہ پھیلتا ہے اور خلیج فارس میں تبدیل ہوجاتتتا ہے جتتو
کہ ایک بہت بڑی جھیل کے مانند ہے۔ اب ہمارے دائیں جانب ایتتران اور بتتائیں جتتانب عمتتان
کے ساحل موجود تھے۔ چونکہ ایرانی ستتاحل خاصتے دور ت ھے ،اس لئے میتں دوبتارہ بتتائیں
جانب کی کھڑکی پر آ بیٹھا۔
عرب ممالک میں عمان نسبتا ً سرسبز ملک ہے۔ یہاں سبزے سے ڈھک تے چ ھوٹے چ ھوٹے
پہاڑ نظر آرہے تھے۔ عمان سے گزر کر ہم متحدہ عرب امارات کے علقے سے گزرت تے ہوئے
سعودی عرب میں داخل ہوئے۔ ہمارے نیچے سعودی عرب کا سب سے بڑا صحرا ت ھا جتتو
’ربع الخالی‘کہلتا ہے۔ یہ سعودی عرب کے تقریبا ً 52فیصد حصے پتتر مشتتتمل ہے اور اس
میں کوئی آبادی اور سڑکیں موجود نہیں۔ یہ علقہ تیل کی دولت سے متتال متتال ہے۔ ی ہاں
صرف سعودی آرامکو کے انجینئر پوری تیاری کتے ستتاتھ بتتڑی بتتڑی ہمتتر جیپتتوں یتتا ہیلتتی
کاپٹروں میں آتے ہیں اور ان کے پیچھے ریسکیو ٹیمیں تیار بیٹھی ہوتی ہیں ۔
ربع الخالی
ربع الخالی نہایت ہی خوبصورت صحرائی مناظر پتر مشتتمل ہے۔ اس کتے جتو حصتے
شہروں کے قریب ہیں وہاں ایڈونچر پسند اپنی جیپوں میں ڈیزرٹ سفاری کتتا شتتوق پتتورا
کرتے ہیں۔ صحرا میں کہیں تو ریت کے بڑے بتتڑے ستتمندر ہیتتں جتتن کتتی لہریتتں پتتانی کتتی
لہروں کی طرح معلوم ہوتی ہیں اور کہیں سرخ ،سبز اور نیلے رنگ کے ٹیلے جابجا بک ھرے
ہوئے ہیں۔ ایک مقام تو ایسا تھا جہاں بے شمار گنبد کی شکل کے بالکل ایتک جیستے ٹیلتے
موجود تھے۔ میں اللہ تعال ٰی کی صناعی پر دنگ رہ گیا اور میرا وجود اس کی عظمتتت کتتا
تصور کرکے کانپ اٹھا۔ ربع الخالی کے بعد الباحہ کے کچھ سبز اور کچھ پیلے پہاڑ آئے ۔ یہاں
جہاز میں اعلن ہوا کہ ہم میقات کی حدود میں داخل ہونے والے ہیں ،اس لئے جو حضرات
عمرہ کا ارادہ رکھتے ہیں ،وہ احرام باندھ لیں۔ کچھ ہی دیر میں ہم میقات سے گزر کر جدہ
کی حدود میں داخل ہوئے۔
جد ہ ائر پورٹ
میں گوگل ارتھ پر جدہ کو تفصیل سے پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔ جہاز سے بالکتتل و ہی منظتتر
نظر آرہا تھا جو میں نے گوگل ارتھ پر دیکھا تھا۔ جدہ کے مشترقی جتانب ستیاہ اور ب ھورے
رنگ کی پہاڑیاں ہیں اور مغربی جانب بحیرہ احمر ہے۔ ان دو حدود کے درمیان جدہ شتتمال ً
جنوبا ً پھیل ہوا ہے۔ ائر پورٹ جدہ کے انتہائی شمال میں واقع ہے۔ ہمارے بائیں جتتانب بحیتترہ
احمر سے دو تین کریک نکل کر شہر میں آئی ہوئی تھیں اور نیل پتتانی ب ہت ہی دلفریتتب
منظر پیش کر رہا تھا۔ چند ہی منٹ میں جہاز لینڈ کرگیتتا۔ فلئیتتٹ پنتتدرہ منتتٹ پہل تے روان تہ
ہوئی تھی اور مقررہ وقت سے آدھ گھنٹا پہلے ہ ہی جتتدہ پہنتچ گئی تھ ہی۔ شتتاید ہمتارے ٹتترک
ڈرائیوروں کی طرح پائلٹ کو بھی خالی جہاز ہلکا ہلکتتا ستتا لگتتا ہہہو گتتا اور وہ استے زیتتادہ
رفتار میں اڑا کر جدہ لے آیا ہوگا۔
10
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جدہ ائر پورٹ حج اور رمضان کے مہینوں میں شاید دنیا کتا مصتتروف تریتتن ائر پتتورٹ
بن جاتا ہے۔ اب حج ختم ہوئے بھی مہینہ ہو چکا تھا اور عمرہ کے ویزوں کا شروع نہ ہوا ت ھا
اس لئے جدہ ائر پورٹ سنسان پڑا تھا۔ کراچی کے مقابلے میں اس کی عمارت نہایت ہی
گئی گزری تھی۔ مجھے یہ بالکل ملتان کے پرانے ائر پورٹ کی طتترح لگتتا۔ جتتدہ میتتں ایتتک
کی بجائے تین ائر پورٹ ہیں۔ ایک سعودی ائر لئن کے لئے ،دوسرا فارن ائر لئنتتز کتے لئے
اور تیسرا حج کی فلئٹس کے لئے۔ ان تینوں کے لئے رن وے مشترک ہے۔ان میتتں ستتعودی
ائر لئن وال ائر پورٹ نسبتا ً بہتر ہے مگر ہمارے کراچی اور لہور کے جدیتد ائر پتورٹس کتا
مقابلہ نہیں کرسکتا۔ امیگریشن وغیرہ میں بھی سعودی ائر لئن کے مستتافروں کتتی جتتان
جلدی چھوٹ جاتی ہے کیونکہ یہاں صرف ایک ائر لئن کے مسافر ہوتے ہیں جبکہ فتتارن ائر
لئنز والے ائر پورٹ پر طویل قطاروں کا سامناکرنا پڑتا ہے۔
یہاں کوئی ٹنل وغیرہ نہ تھی۔ ہمیں بتتس میتتں بٹ ھا کتتر لیتتا گیتتا۔ استتی بتتس میتتں کئی
خواتین نے بیگ سے نکال کر برقعے پہنے۔ چونکہ سعودی عرب میں پردے کی پابنتتدی کرنتتا
ضروری ہے ،اس لئے وہ خواتین جو کسی مذہبی جذبے کے بغیر برقع پہنتی ہیں ،ائر پتتورٹ
سے نکلتے ہی برقع اتار لیتی ہیں اور پھر واپسی پر ہی پہنتی لیتی ہیں۔ امیگریشن کتتاﺅنٹر
پر نہایت ہی بیزار صورت نوجوان بیٹھے تھے جنہوں نے اسی بیزاری سے پاسپورٹ پر م ہر
لگا کر ہمیں چلتا کیا۔ ایک بنگالی پورٹر کو ساتھ لے کر جب میں باہر نکل تتو ہمتارے دفتتر
کا سوڈانی ڈرائیور عادل میرے نام کا پرچہ پکڑ کر شکل پر مزاحیہ تاثرات لئے بت بنا کھڑا
تھا۔ سوڈانی لوگ بالعموم ہنسی مذاق کرتے رہتے ہیں اور خوش رہتے ہیں۔ سلم دعتتا ک تے
بعد ہم گاڑی میں بیٹھے اور دفتر روانہ ہوگئے۔
نئ ے ملک میں سیٹل ہون ے ک ے مراحل
میں نے اسی دن اپنا نیا دفتر جتوائن کیتا۔ آفتس کتے دیگتر احبتاب ستے تعتارف ہوا۔ اس
کمپنی میں مختلف ممالک سے تعلق رکھن تے وال تے افتتراد موجتتود ت ھے۔ ان میتتں مصتتری،
سعودی ،اردنی ،لبنانی،فلسطینی ،ہندوستانی اور پاکستانی افراد شامل تھے۔ میرے بتاس
جعفر صاحب کا تعلق انڈیا میں کرناٹک کے علقے سے تھا۔ انہوں نتے میتتری فرمتتائش کتے
مطابق میتترا اقتتامہ جلتتد ستے جلتتد پراستتیس کروانتے کتتا وعتتدہ کیتتا۔ ورک ویتتزا کتتو جتتب
پاسپورٹ پر endorseکیا جاتا ہے تو اس ویزے پر غیر ملکی تین ماہ کے لئے سعودی عتترب
میں رہ سکتا ہے۔ اسی مدت کے دوران اقامہ ) (Residence Permitبنوانا ہوتا ہے۔ اقامہ ملنے
کے بعد ہی غیر ملکی رہائشی مکان کرائے پر حاصل کرستتکتا ہے اور ڈرائیونتتگ لئستتنس
کے لئے اپلئی کر سکتا ہے۔
اسی شام کو میرا میڈیکل ہوا۔ اگلے دن رپورٹ ملی اور اس سے اگل تے دن آفتتس ک تے
سعودی مندوب حسن الغامدی پاسپورٹ لینے آ پہنچے۔ حسن صتاحب ایتک پانتچ فتٹ کتے
عرب بدو ہیں جو بات کرتے ہوئے الفاظ کم بولتے ہیں اور اچھلتے کتتودتے زیتتادہ ہیتتں۔ میتترا
پاسپورٹ دیکھ کر وہ کہنے لگے کہ امیگریشن والوں نے مہر صحیح طرح نہیں لگائی چنانچہ
عادل اور مجھے لے کر دوبارہ ائر پورٹ روانہ ہوئے۔ میرا خیال تھا کہ غامدی صتتاحب جتتاکر
امیگریشن والوں کی منت سماجت کریں گے اور مہر صحیح کرنے کی درخواستتت کریتتں
گے لیکن انہوں نے جاکر عربی میں انہیں کھری کھری سنائیں ۔ ایتتک امیگریشتتن آفیستتر ،
11
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جو دو دن پہلے زندگی سے بیزار بیٹھا تھا ،دوڑ کر گیا اور درست مہر لگا کر لے آیا۔
اس سے اگلے دن غامدی صاحب پاسپورٹ آفس گئے اور دو گھنٹے میں مجھے اقتتامہ ل
کر تھما دیا۔ میرے جاننے والوں نے مجھے بتایا کہ آپ ختوش قستمت ہیتتں ورنتہ ی ہاں اقتتامہ
ملنے میں ایک مہینہ لگ جاتا ہے۔ اگل دن میں نے مزید ڈاکومنٹس تیار کروانے میں لگایا اور
ویک اینڈ پر عازم مکہ ہوا ۔ جمعہ کا دن مکہ میں گزار کر ہفتے کو میں ویزا آفتتس گیتتا اور
فیملی کا ویزا حاصل کرلیا۔
اسی دن میں نے ڈرائیونگ لئسنس کتے لئے اپلئی کیتتا۔ اللتہ تعتال ٰی نتے یتہ مرحلتہ ب ھی
آسانی سے طے کروا دیا ۔ سعودی عرب میں پاکستان کے برعکس لیفٹ ہینتڈ ڈرائیتتو ہے۔
جب رائیٹ ہینڈ ڈرائیو کرنے وال شخص پہلی مرتبہ لیفٹ ہینڈ والی گاڑی میں بیٹھتتتا ہے تتتو
کئی لطیفے وجود پذیر ہوتے ہیں۔ جب میں کویت میں ت ھا تتو ان تمتام لطتائف ستے گتزر
چکا تھا۔ مجھے اچھی طرح یاد ہے کہ دفتر کی دی گئی لنسر میتتں جتتب میتتں پہلتتی مرتبتہ
میں روڈ پر نکل تو دائیں طرف دیکھ کر گاڑیوں کا انتظار کرنے لگا۔ جب کتتوئی گتتاڑی ن تہ
آئی تو خیال آیا کہ یہاں تو گاڑیاں بائیں جانب سے آتی ہیں۔ اس کے بعد میں نے انڈی کیتتٹر
دینے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں سوکھے شیشے پر وائپر چلنے لگے۔ یتہ اچ ھا ت ھا
کہ اس گاڑی کے گیئر آٹو میٹک تھے ورنہ میں پہلے کی جگہ پتتانچواں اور دوستترے کتتی جگ تہ
ریورس گیئر لگا بیٹھتا۔ یہاں اوور ٹیک بھی بائیں جانب سے کیا جاتا ہے لیکتتن کراچتتی کتتی
طرح اس کا عام طور پر کوئی خیال نہیں رکھتا اور جہاں سے جگہ ملے ،اوور ٹیکنگ کتتی
جاتی ہے۔ جب میری فیملی پاکستان سے آئی تو میں نے اپنتتی اہلیتہ کتے لئے اخلقتا ً دائیتتں
جانب کا دروازہ کھول دیا لیکن وہ اسے نظر انداز کرکتے گتتاڑی کتے گتترد گ ھوم کتتر بتتائیں
جانب کی طرف آ گئیں اور پھر اسٹیرنگ دیکھ کر واپس ہوئیں۔ بچ تے استتٹیرنگ دیک تھ کتتر
سمجھے کہ میں نے کوئی کاریگری دکھاتے ہوئے اسے اتار کر دوسری طرف لگا لیا ہے۔
کویت کے تجربے کے باعث میں ڈرائیونگ ٹیسٹ باآسانی پاس کرگیا۔ اب گ ھر ڈھون تڈنے
اور اسے سیٹ کرنے کا مسئلہ تھا جس کے لئے بہت بھاگ دوڑ درکار تھی۔ لئستتنس ملتتتے
ہی میں نے فوری طور پر ایک نسان سنی کرائے پر حاصتتل کتتی اور ان مراحتتل کتے طتے
ہونے کا شکر ادا کرنے کے لئے اسی رات مکہ جا کر دوسری بار عمرہ ادا کیا۔ جمعرات کو
دفتر سے فارغ ہوتے ہی میں مدینہ کی طرف روانہ ہوا۔
اس کے بعد میں نے ایک فلیٹ کرائے پر لیا اور اسے ضروری ستتامان س تے آراستتتہ کیتتا
اور پھر گاڑی تلش کرنے نکل کھڑا ہوا۔ یہ سب سے مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔ کتتافی ب ھاگ
دوڑ کے بعد ایتتک امریکتتن استتمبلڈ ری کنڈیشتتنڈ ٹویوٹتتا کیمتتری پستتند آئی ۔ عتتام امریکتتی
گاڑیوں کی طرح اس کی بھی ہر چیز آٹو میٹک تھی۔ پاکستان میتتں کیمتتری صتترف امیتتر
لوگ ہی افورڈ کر سکتے ہیں لیکن یہاں یہ اپر مڈل کلس کی گاڑی ہے۔ یہاں کے امیر لتتوگ
تو مرسڈیز ،لیکسس اور بی ایم ڈبلیو ہی رکھتے ہیں جن کے پتتارٹس مہنگ تے اور ری ستتیل
ویلیو بہت کم ہوتی ہے۔ اپر مڈل کلس عموما ً کیمری ،اکارڈ اور الٹیما جیستتی گتتاڑیوں اور
لوئر مڈل کلس کرول ،سوک وغیرہ کو ترجیح دیتی ہے۔ چونکہ یہاں پبلتتک ٹرانستتپورٹ کتتا
نظام پاکستان سے بھی گیا گزرا ہے اس لئے کم آمدنی والے افراد بھی بیس پچیس ستتال
پرانی گاڑیاں رکھنے کو ترجیح دیتے ہیں جو محض پانچ سے دس ہزار ریال )اس وقت کتتے
اسی ہزار سے ڈیڑھ لکھ پاکستانی روپے( میں دستیاب ہو جاتی ہیں۔
12
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
تین ہفتے میں میرے بیوی بچے بھی آپہنچے۔ گھر کو نئے سرے سے آراستہ کرنا بھی ایتتک
مشکل مرحلہ ثابت ہوا۔ سوئی دھاگے سے لے کر الماری تک اور بتتاتھ روم کتے بتترش ستے
لے کر کچن کے برتنوں تک چھوٹی چھوٹی بے شمار اشیا تھیں جن کتتو خریتتدنے میتتں ایتتک
مہینہ لگا۔ اس ایک مہینے میں ہم نے بہت بھاگ دوڑ کی ۔ روزانتہ آفتتس ستے آکتتر تیتتن چتتار
گھنٹے مارکیٹوں میں خوار ہونے سے میرا ورکنگ ڈے بارہ گھنٹ تے کتتا ہوگیتتا۔ اس محنتتت کتتا
نتیجہ یہ نکل کہ مجھ پر اعصابی تھکن سوار ہوگئی جو مسلسل کئی متتاہ تتتک ستتوار ر ہی۔
یہاں تک کہ چھ ماہ بعد اگست میں مجھے دفتر سے چھٹی ملی تو میں نے روزانتہ بتتارہ تیتترہ
گھنٹے سو کر اس تھکن سے نجات حاصل کی۔ ایک ماہ بعد ہی میں نے گھر کے قریب ہی
واقع الھلی کلب کی ممبر شپ لے لی اور وہاں اسکواش کھیلنے لگا۔ اسکواش کو میتتں
بطور شوق نہیں بلکہ بطور ضرورت کھیلتا ہوں۔
13
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جد ہ
جدہ ،ریاض کے بعد سعودی عرب کا دوسرا بڑا شہر ہے۔ یہ رقبے کے اعتبار سے ل ہور اور
آبادی کے لحاظ سے فیصل آباد کے برابر ہے۔ سعودی عرب ک تے مشتترق و مغتترب دونتتوں
جانب سمندر لگتا ہے۔ مشرق میں خلیج فارس ہے جس کی سب سے بڑی بنتتدرگاہ دمتتام
ہے اور مغرب میں بحیرہ احمر یا ریڈ سی ہے جس کی سب سے بڑی بندرگاہ جدہ ہے۔ جتتدہ
کی بندرگاہ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کے دور سے حجتتاج کتتی آمتتد و رفتتت ک تے لئے
استعمال ہوتی آرہی ہے۔ قدیم دور میں یہ ایک مچھیروں کی بستی تھی جہاں اس دور کے
چھوٹے موٹے جہاز اور کشتیاں لنگر انداز ہوتے ت ھے۔ اب یتہ ایتتک جدیتتد بنتتدرگاہ کتتی شتتکل
اختیار کر چکا ہے جتتو حجتتاج کتتی آمتتد و رفتتت کتے بتتاعث "مینتتا جتتدۃ الستتلمی ) Jeddah
" (Islamic Portکہلتی ہے۔
جدہ شہر شمال جنوبا ً تیس چالیس کلومیٹر تک پھیل ہوا ہے۔ شرقا ً غربتتا ً اس کتتا پھیلﺅ
بمشکل دس بارہ کلومیٹر ہے۔ شہر کے مشرقی کنارے پر پہاڑیوں کے ستاتھ ستاتھ ایتتک روڈ
جنوب سے شمال کی طرف چلتی ہے جسے رنگ روڈ کہا جاتا ہے۔ جنتتوب مشتترق میتتں یتہ
مکہ ،طائف اور ریاض کی طرف چلی جاتی ہے جبکہ شمال مشرق میں یہی روڈ جتتدہ ائر
پورٹ سے ہوتی ہوئی سوئے مدینہ رواں دواں ہوتی ہے اور آگے جتتاکر تبتتوک اور پ ھر اردن
تک جاتی ہے۔ اسی روڈ پر جدہ ائر پورٹ کا حج ٹرمینل بھی ہے جہاں سے عتتازمین مک تہ یتتا
مدینہ کے لئے روانہ ہوتے ہیں۔ جدہ سے تیسری سڑک جنوب میں جیزان کتتی طتترف نکلتتتی
ہے۔ یہ گاڑیوں کی سیکنڈ ہینڈ مارکیٹ ”ہراج “ سے ہ ہوتی ہ ہوئی لیتث اور پھ ہر آگتے ابہ ہا اور
جیزان کی طرف چلی جاتی ہے۔ آگے یہی روڈ یمن کے دارلحکومت صنعاء تک جاتی ہے۔
جدہ کا سٹی سینٹر ”بلد“ کہلتا ہے۔ یہ پرانا ش تہر ہے اور ی ہاں خاصتتی پرانتتی عمتتارتیں
موجود ہیں۔ یہ ہمارے کراچی کے صدر اور لہور کی انارکلی کی طتترز کتتا علقتہ ہے۔ ی ہاں
سے مکہ اور مدینہ جانے والی قدیم شاہراہیں نکلتی ہیں۔ بلد سے متتدینہ جتتانے والتتی قتتدیم
شاہراہ شہر کے بیچوں بیچ گزرتی ہوئی ایئر پورٹ س تے ہوتی ہوئی شتتمال مشتترق میتتں
مدینہ کی طرف روانہ ہوتی ہے۔ ائر پورٹ سے پہلے اس شاہراہ پر دنیا بھر کی گتتاڑیوں ک تے
شو رومز ہیں۔ ایئر پورٹ کے سعودی ایئر لئن والے ٹرمینل کے پاس فلئی اوورز کا ب ہت
بڑا جنکشن ہے۔ یہاں چار سمتوں سے آنے والی روڈز پر فلئی اوورز اس طرح تعمیتر کئے
گئے ہیں کہ کسی بھی جانب سے آ کر کسی بھی سمت جانے کے لئے سگنل کا سامنا نہیں
کرنا پڑتا۔ سیٹلئٹ تصاویر میں یہ مقام سانپوں کے بڑے سے گچ ھے کتی ماننتد محستتوس
ہوتا ہے۔ جدہ کے مشرق سے آنے والی رنگ روڈ بھی ایئر پورٹ کے پاس مدینہ روڈ میں مل
جاتی ہے۔
14
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جدہ کا نقشہ
15
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
پڑھے لکھے پاکستانی عزیزیہ میں رہتے ہیں کیونکہ یہیں پر پاکستتتان ایمبیستتی ستتکول ک تے
علوہ دیگر پاکستانی اور انڈین سکول پائے جاتے ہیں۔ شرفیہ اور بنی مالک کے علقوں کتتو
اپنے ہاں کے کتتورنگی ،لنتڈھی اور مزنتتگ پتتر قیتتاس کتتر لیجئے۔ ی ہاں زیتتادہ تتتر بلیتتو کتتالر
ملزمتیں کرنے والے پاکستانی رہتے ہیں۔سعودی عرب میں غیر ملکیوں کو کاروبتتار کرنتے
کی اجازت نہیں۔ عام طور پر غیر ملکی کسی سعودی کے نتتام ستے کاروبتتار کرتتے ہیتتں۔
اگر وہ کوئی شریف اور دیانتدار شخص ہو تو ٹھیک ہے ورنہ بعتتض لتتوگ اس میتتں نقصتتان
بھی اٹھاتے ہیں۔
مجھے یہاں یہ دیکھ کر حیرت ہوئی کہ یہاں کی پاکستانی کمیونٹی میں عتتام پاکستتتانی
معاشرے والی کوئی بات نہیں ۔ یہاں کی پاکستانی کمیونٹی نہایت ہی دیانت دار ،محنتی ،
شریف اور مصیبت میں ایک دوسرے کے کام آنے والے افراد پر مشتمل ہے۔ خاصتتا غتتور و
فکر کرنے پر یہ معلوم ہوا کہ یہاں منفی ذہنیت رکھنے والوں کی کوئی گنجتتائش نہیتتں ہے۔
ہمارے ملک میں تو ایک سے بڑھ کر ایک جعل ساز ،ٹھگ اور دھوکے باز پڑے ہوئے ہیں لیکن
اگر وہ یہاں آکر ایسا کریں تو انہیں سخت سزا ملتی ہے۔ یہی وجہ ہے ک تہ پاکستتتانیوں میتتں
سے چن چن کر محنتی اور مثبت طرز فکر رکھنے والے افتتراد ی ہاں لئے جتتاتے ہیتتں جتتس
کی وجہ سے پاکستانی کمیونٹی اچھی اچھی سی محسوس ہوتی ہے۔
یہاں کی انڈین کمیونٹی زیادہ تر کیرالہ سے تعلق رکھنے والے افراد پتتر مشتتتمل ہے۔ ان
کی اپنی تلگو اور ملیاڑم زبتتانیں ہیتتں اور یتہ ختتود کتتو عتتام ان تڈین ش تہریوں ستے ہٹ کتتر
محسوس کرتے ہیں۔ ہندی یا اردو یہ عرب ممالک میں آ کر سیکھتے ہیتتں۔ یتہ بتڑی محنتتی
کمیونٹی ہے۔ سعودی عرب میں زیادہ تر جنتترل ستتٹورز یتتا بقتالے ان ہی کتی ملکیتت ہیتتں۔
بھارت کے دوسرے علقوں سے آنے والے بھی زیادہ تر مسلمان ہی ہیں اور پاکستانیوں کے
بارے میں مثبت طرز عمل ہی رکھتے ہیں۔ یہ لوگ اپنے ملک ستے ب ھی بتتڑی محبتتت کرتتے
ہیں۔
چند فساد زدہ علقوں کے علوہ مستلمان بتالعموم انتڈیا میتں ختوش ہیتں جتس میتں
بالخصتتوص جنتتوبی ہندوستتتان جیس تے متتدراس ،بنگلتتور ،حیتتدر آبتتاد دکتتن اور کیرالتہ کتے
مسلمان نمایاں ہیں۔ دراصل ان علقوں میں اسلم مسلمان تاجروں کی کوششوں س تے
پھیل جس کے باعث ہندو کمیونٹی میں ان کے خلف نفرت کے جذبات پائے نہیں جاتے۔ یہی
وجہ ہے کہ یہاں ہندو اور مسلمان مل جل کر رہتے ہیں اور آزادی سے اپنے مذاہب پتر عمتتل
کرتے ہیں۔ اس کے برعکس شمالی اور مغربی ہندوستان ،وستتطی ایشتتیا س تے آنتے والتے
مسلمان فاتحین کی آماجگاہ بنا رہا۔ ان میں سے بعض فتاتحین نتے منتتدر گترائے اور ہنتتدو
کمیونٹی پر ظلم و ستم روا رکھا جس کے باعث ان علقتتوں میتتں مستتلمانوں ک تے خلف
نفرت پائی جاتی ہے جس کا اظہار فسادات کی صورت میں ہوتا رہتا ہے۔
پچھلے پچیس تیس سال میں بھارتی مسلمانوں میں ایک بڑی تبدیلی رونما ہوئی ہے۔
پہلے ان کی سوچ احتجاجی تھی۔ یہ ہمہ وقت ہندوﺅں کو اپنی پسماندگی کا ذمے دار قتترار
دیتے اور نفرت کی فضا برقرار رکھتے۔ ان کی سیاست بھی اسی کے گرد گھومتی ت ھی۔
بھارتی آئین میں مسلمانوں کو بہت سے خصوصی حقتوق دیتے گئے لیکتن اس کتے نتتیجے
میں انہوں نے کوئی خاص ترقی نہ کی۔ کچھ عرصہ قبل انہیں احساس ہوا کہ ترقتتی آئینتتی
حقوق سے نہیں بلکہ اپنی محنت اور تعلیم کتے ذریعتے ہی حاصتتل کتی جاستکتی ہے۔ اب
16
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
بھارتی مسلمان تعلیم کی طرف مائل ہو رہے ہیں اپنے ملک میں بھی اعل ٰی ع ہدے حاصتتل
کر رہے ہیں۔ کاش یہی بات ہمارے ملک کے پسماندہ طبقات کی سمجھ میں بھی آجائے اور
وہ احتجاج کی بجائے اپنی توانائی تعلیم کی طرف لگا دیں۔ وہ اس بات پر احتجتتاج کرتتتے
ہیں کہ ان کے علقوں میں لگنے والی فیکٹریوں میں اعل ٰی عہدوں پر دوسری زبتتان بتتولنے
والے کیوں فائز ہیں۔ جس دن انہوں نے اپنی توجہ تعلیم کی طرف کی ،صرف پندرہ بیتتس
سال کے عرصے میں وہ بھی ترقی یافتہ لسانی گروہوں کے ہم پلہ ہو جائیں گے۔
بلیو کالر ملزمتیں زیادہ تر بنگالی حضرات کے پاس ہیں۔ یہ بھی پاکستانیوں ستے بتڑی
محبت کرتے ہیں جو ان کے رویوں سے چھلکتی ہے۔ اگرچہ دونوں طرف کتتی لیڈرشتتپ نتے
اپنے مفاد کے تحت ہمیں دور کردیا لیکن عوام کے دل بہرحال ایک دوسرے کے قریب ہیں۔
دفاتر اور ہسپتالوں میں نچلے عہدوں پر بہت سے فلپائنی بھی کام کرتے ہیتتں۔ ی تہ بتتڑی
دلچسپ اور محنتی قوم ہے۔ ان کے زیادہ تر مرد موٹر مکینک اور خواتین نرس ہوتی ہیں۔
ایک کمپنی میں میرا ایک فلپائنی سے تعتتارف ہوا۔ وہ میتتری داڑ ھی دیکتھ کتتر کہنتے لگتتا،
”سب پاکستانی داڑھی ضرور رکھتے ہیں۔“ میں نے ک ہاکہ ایستتا تتتو نہیتتں ہے ۔ کہنتے لگتتا ،
”میں نے جب بھی ٹی وی پر کوئی پاکستانی دیکھا تو اس کی داڑھی ضرور ت ھی۔“ میتتں
نے اسے بتایا کہ پاکستان میں صرف مذہبی لوگ ہی داڑھی رکھتے ہیں۔
یہ بھی عجیب بات ہے کہ داڑھی صرف موجودہ دور میتتں متتذہب کتتی علمتتت بنتتی ہے۔
قدیم ادوار سے یہ مردانگی کی علمت تھی اور دنیا کی ہر قتتوم س تے تعلتتق رکھن تے وال تے
مرد ،خواہ ان کا مذہب کچھ بھی ہوتا ،داڑھی ضرور رکھا کرتے تھے۔میری اس بات س تے وہ
بہت محظوظ ہوا۔ کہنے لگا کہ میری بھی یہ خواہش ہے کہ میتں داڑ ھی رک ھوں تتاکہ میتری
مردانگی کا اظہار ہو سکے مگر ہم لوگوں کی داڑھی نکلتی ہی نہیں۔
یہاں دفاتر میں مصری بکثرت پائے جاتے ہیں۔ عرب ممالک میں مصر ایک غریب ملتتک
ہے اور یہاں تعلیم کی فراوانی ہے ،اس لئے یہ لوگ دفتری کام کر لیتے ہیں اور عربی بھی
بول لیتے ہیں۔ مجھے مصری بالکل لہوریوں بالخصوص 'بٹ بتترادری' کتتی طتترح لگتے۔ یتہ
لہوریوں کے الفاظ میں انہی کی طرح صحت مند ہوتے ہیں۔ انہی کی طرح خوش شتتکل،
خوش مزاج اور خوش خوراک ہوتے ہیں۔ پہلی ملقات میتتں اس طتترح ملت تے ہیتتں جیس تے
برسوں سے واقف ہوں۔ جو سلوک ہمارے لہوڑیے )اسے کمپوزنگ کتتی غلطتتی نتہ ستتمجھا
جائے( ’ر‘ اور ’ڑ‘ کے ساتھ کرتے ہیں ،و ہی ستتلوک مصتتری ’ج‘ اور ’گ‘ ک تے ستتاتھ کرتتے
ہیں۔ جیسے ’لہوری بکرا‘ ،ہمارے لہوریوں کے نزدیک ’لہوڑی بکڑا ‘ ہوتا ہہہے ،استتی طتترح
’جعفر ،جاویداور جدہ ‘ ،مصریوں کے نزدیک ’گعفر ،گاوید اور گدہ ‘ہوتے ہیں۔
دیگر عرب کمیونیٹیز میں شامی اور لبنانی شامل ہیں۔ یہ لوگ عموما ً بہت خوبصورت
ہوتے ہیں۔ افریقی عرب بھی یہاں کثرت سے آباد ہیں ۔ زیادہ تر محنت مزدوری کرتے ہیں۔
کھیلوں کے میدان میں افریقی یہاں بھی آگے ہیں اور سعودی فٹ بال ٹیم میں ب ہت ستتے
افریقی کھلڑی شامل ہیں۔ بعض افریقی جرائم میں بھی ملوث ہوتے ہیں ،اس لئے لتتوگ
ان کے علقوں میں ڈرتے ہوئے جاتے ہیں۔
سعودی عرب کی حکومت اپنی بڑ ھتی ہوئی بتے روزگتار نوجتتوان آبتادی کتو روزگتار
فراہم کرنا چاہتی ہے۔اس مقصتتد ک تے لئے تمتتام ستترکاری اداروں میتتں نئے ملزم صتترف
17
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
سعودی رکھے جاتے ہیں۔بینکوں پر بھی یہ پا بندی ہے کتہ وہ صترف ستعودی ملزم رکھیتں
گے۔ ان دنوں غیرملکیوں کے لئے نئے ویزوں کا اجرا بھی کافی کم کر دیا گیا ہے۔ کمپنیوں
کو بھی اس بات کا پابند کیا گیا ہے کہ وہ اگر ایک غیر سعودی کو ملزم رکھیں تو اس کے
ساتھ ایک سعودی کو بھی ملزمت دیں۔
جد ہ کا ساحل
بحیرہ احمر کا ساحل تقریبا ً دو ہزار کلومیٹر طویل ہے جس کتتا ستتترہ ستتو کلومیتتٹر حص تہ
سعودی عرب اور باقی یمن کے پاس ہے۔ یہاں جدہ ک تے علوہ ینبتتع ،جیتتزان اور ضتتباء کتتی
بندرگاہیں بھی ہیں۔ اس ساحلی پٹی کے تقریبا ً وسط میں جدہ کا شہر آبتتاد ہے۔ ی تہ اگرچ تہ
ایک جدید شہر ہے لیکن مشرق وستتطی ک تے دیگتتر بتتڑے ش تہروں ریتتاض ،دبئی اور کتتویت
جیسا ترقی یافتہ نہیں ہے۔ سڑکیں ہمارے کراچی سے زیتتادہ کھلتتی ہیتتں لیکتتن ستتگنلز کتتی
بھرمار ہے۔ شہر میں صرف تین سڑکیں ایسی ہیں جنہیں سگنل فری کہا جاسکتا ہے۔
کورنیش
18
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ساحلی سڑک ہے جو جدہ کے شمال و جنوب میں سو سو کلومیتتٹر تتتک پھیلتتی ہوئی ہے۔
کورنیش ساحل سمندر کے بالکل ساتھ ساتھ ہے۔ جدہ کے شمال میں ’ابحر“ کتتا مقتتام ہے
جہاں ایک بہت بڑی خوبصورت کریک ) (Creekموجود ہے۔ اس میں لوگ ذاتی کشتیاں اور
واٹر سکوٹر چلتے پھرتے ہیں۔ عربوں کی ایک عجیب عادت یہ ہے کہ انہیں جو مقتتام پستتند
آئے وہاں گاڑی روک کر اس میں سے قالین نکالتے ہیں اور اسے فٹ پاتھ پر بچھا کر پوری
فیملی سمیت گاﺅ تکیوں سے ٹیک لگا کر بیٹھ جاتے ہیتتں۔ چنتتانچہ کتتورنیش ک تے اکتتثر فتتٹ
پاتھوں پر سعودی فیملیاں بیٹھی نظر آتی ہیں۔ ان کے بچے وہیں کھیلتے ہیں ،خواتین باتیں
کرتی ہیں اور مرد تاش کھیلتے ہیں یا حقہ پیتے ہیں۔ابحر سے آگے ”درة العروس“ کا مقتتام
ہے۔ یہاں بہت بڑے بڑے محل تعمیر کئے گئے ہیں جن کے ذاتی ساحل ہیں۔ ان ساحلوں میں
کوئی اور مداخلت نہیں کرسکتا۔ یہ محلت لوگوں کو کرائے پر دیے جاتے ہیں۔ ان کا کم از
کم یومیہ کرایہ 1500ریا ل ہے۔ ان ساحلوں پر خواتین بے پردگتتی ک تے بغیتتر ل ہروں س تے
لطف اندوز ہو سکتی ہیں۔
درۃ العروس
جنوبی کورنیش بھی بہت دلفریب ساحلی مناظر پتتر مشتتتمل ہے۔ ی ہاں ”صتتروم“کتے
مقام پر سمندر سے کچھ فاصلے پر قدرتی جھیل بھی موجود ہے۔ ظتتاہر ہے ی تہ ستتمندری
پانی ہی ہے۔ ان جھیلوں اور سمندر کے درمیان خشکی کے قطعات ہیں جتتن پتتر کتتورنیش
بنی ہوئی ہے۔ اسی طرح کی ایک جھیل شمالی کورنیش پر درة العروس کے مقام پر بھی
ہے۔ یہ جھیلیں اپنے سندھ کی کینجھر جھیل کے مقابلے میں کوئی خاص قدرتی خوبصورتی
نہیں رکھتیں۔
جدہ کے مشرق میں "مرمہ جھیل" واقعہ ہے۔ اس جھیل کے بارے میتتں عتتام لتتوگ زیتتادہ
19
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
نہیں جانتے۔ میں نے اس جھیل کو گوگل ارتھ پر دریافت کیا اور ایک دن وہاں جا دھمکا۔ یہ
میٹھے پانی کی نہایت ہی خوبصورت جھیل ہے جس کے قدرتی مناظر بڑی حد تک کینج ھر
جھیل سے مشابہ ہیں۔
مرمہ جھیل
20
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جد ہ ک ے ریسٹورنٹس
جدہ کا ذکر مکمل نہ ہوگا اگر اس کتے ریستٹورنٹس کتا ذکتر نتہ کیتا جتائے۔ چتتونکہ یتہ ایتتک
کاسمو پولیٹن شہر ہے ،اس لئے اس میں بہت سے ممالک کے ہوٹل اور ریسٹورنٹ موجود
ہیں۔ ایسے افراد کو ،جو انٹرنیشنل کھابہ گیری کے شوقین ہوں ،میرا مشورہ ہے کہ اگتتر وہ
یہاں آئیں تو جدہ کے کثیر القومی ریستورانوں کا مزہ بھی ضرور چکھیتتں۔ ی ہاں ستتعودی،
لبنتتانی ،انڈونیشتتین ،وستتطی ایشتتیائی ،ایرانتتی ،امریکتتی ،یتتورپین ،ان تڈین اور پاکستتتانی
ریسٹورنٹس کثرت سے پائے جاتے ہیں۔
سعودی عرب کا سب سے زیادہ چلنتے وال فاستتٹ فتتوڈ ریستتٹورنٹ ”البیتتک“ ہے۔ ہر
وقت یہاں افراد کا مجمع لگا رہتا ہے۔ بعض جگہ اس کے بالکل سامنے یتتا ستتاتھ ”کتے ایتتف
سی“ بھی پایا جاتا ہے جو عموما ً خالی پڑا رہتا ہے۔ اگتتر آپ البیتتک میتتں جتتا کتتر آرڈر بتتک
کروائیں تو آپ کو تیس چالیس افراد کے بعد کا نمبر ملتا ہے لیکن دلچسپ بات یہ ہے کتتہ
آپ کی باری دس منٹ ہی میں آ جاتی ہے۔ مجھے البیک کا شرمپ )جھینگا( سینڈوچ ب ہت
پسند آیا۔
جدہ کی ”سبعین اسٹریٹ“ کو یہاں کی فوڈ اسٹریٹ کہا جاستتکتا ہے۔ ی ہاں آپ کتتو ہر
قسم کے ریسٹورنٹس ملیں گے۔ خاص طور پر زیادہ تر پاکستانی ریستوران یہیں پر واقتتع
21
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہیں جہاں تمام روایتی پاکستانی کھانے دستیاب ہیں۔ کھانے زیادہ تتتر لہہہوری استتٹائل میتتں
بنائے جاتے ہیں اور ان کے کاﺅنٹرز پر بھی عموما ً لہوریے ہی اپنتے مخصتتوص استتٹائل میتتں
توند نکالے براجمان نظر آتے ہیں۔ مجھے چونکہ کھانے پینے میں ل ہوری ک ھانے پستتند ہیتتں،
اسلئے کراچی میں اپنے چھ سالہ قیام کے دوران میں اس ذائقے کو ترس گیا تھا۔ جدہ آکتتر
مجھے دوبارہ یہ ذائقہ مل تو میری خوشی کی انتہا نہ رہی۔
جدہ میں جنوبی ہندوستان بالخصوص حیدر آباد دکن اور مدراس کے کھانے ب ھی ملتتتے
ہیں۔ ہم لوگوں کے لئے ان کا ذائقہ عجیب سا ہوتا ہے کیونکہ یہ لوگ ان کھانوں میتتں املتتی
کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔ شمالی ہندوستان اور پاکستان کے کھانوں کتتو ی تہ لتتوگ
پنجابی کھانے کہتے ہیں اور بڑے شوق سے کھاتے ہیں۔
سعودی عرب کا نظام حیات
سعودی عرب میں سلفی نقطہ نظر سے تعلق رکھنے والوں کی حکتتومت ہے۔ علمتتاء کتتا
حکومتی معاملت میں خاصا عمل دخل ہے۔ تمام مساجد سرکاری کنٹرول میں ہیں جس
کی وجہ سے یہ ہماری طرح اکھاڑے بنائے جانے سے محفتتوظ ہیتتں۔ ی ہاں کتتی مستتاجد عتتام
طور پر کویت کی طرح بہت خوبصورت نہیں ہیں۔طہارت خانے بھی بتتس گتتزارے لئق ہی
ہوتے ہیں۔ حکومت کا ایک محکمہ امر بالمعروف و نہی عن المنکتر ہہہے۔ اس کتے اہ ہل کتار
مطوع کہلتے ہیں۔ یہ سڑکوں پر گشت کرتے ہیں اور کسی ایسے شخص کتو جتس نتے ان
کے نزدیک ،قابل اعتراض حرکت کی ہو ،گرفتار کر لیتے ہیں۔
سعودی پولیس ہمارے ہاں کی نسبت کچھ بہتر ہے۔ عام طور پر یہ کسی کتتو تنتتگ نہیتتں
کرتے لیکن کبھی کبھار اگر کوئی ان کے نرغے میں آجائے تتتو اس کتتی جتتان بتتڑی مشتتکل
چھوٹتی ہے۔ ان کے آفیسرز تک انگریزی سے ناواقف ہوتے ہیں ،اس لئے اگر کتتوئی ان ک تے
قبضے میں آجائے تو اسے اس وقت تک انتظار کرنا پڑتا ہے جب تک کوئی انگریتتزی بتتولنے
وال پولیس مین نہیں آجاتا یا پھر وہ شخص اپنے کسی عربی جاننے والے س تے رابط تہ نہیتتں
کرلیتا۔
سعودی خواتین عموما ً مغربی لباس پہنتی ہیں لیکن باہر نکلتے ہوئے یہ برقع ضرور پہن
لیتی ہیں جو ”عبایہ “ کہلتا ہے جس کی وجہ سے بے حیائی نظر نہیں آتی۔ گھر کے انتتدر ی تہ
خواتین اپنے سسر ،دیور اور کزنز وغیرہ سے پردہ کرتی ہیں۔
ان کی معاشرت میں ایک اچھی چیز یہ ہے کہ شادی کے وقت ہی والدین اولد کتتو التتگ
کردیتے ہیں جس کی وجہ سے ان کے ہاں ساس بہو ،نند بھابی اور دیتتورانی جیٹ ھانی ک تے
جھگڑے کافی کم ہیں۔ ہمارے ہاں جائنٹ فیملی سسٹم کی وجہ سے آپس کے جھگڑے اتن تے
زیادہ ہوتے ہیں کہ خواتین بے چاری بس گھٹ گھٹ کر زنتتدگی گزارتتتی ہیتتں۔ جتتب وہ اپنتتی
جوانی اسی حالت میں گزار کر بڑھاپے میں داخل ہوتی ہیں تو وہ اپنی بہو کے لئے ویستتی
ہی بن جاتی ہیں جیسی ان کی ساس ان کے لئے تھی۔
حالیہ سالوں میں سعودی معاشرے میں ایتتک تبتتدیلی رونمتتا ہو ر ہی ہے۔ معاشتترہ اب
لبرل ازم کی طرف جارہا ہے۔ شخصی آزادیوں میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اب ستے چنتتد ستتال
پہلے غیر ملکی افراد اپنے کفیل کی تحریری اجازت کے بغیر شہر سے بتتاہر نہیتتں جاستتکتے
22
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
تھے لیکن اب یہ پابندی اٹھا لی گئی ہے۔ غیرملکیوں کے کاروبار کرنے پر پابندی تو عائد ہے
ہی لیکن امید ہے کہ اگلے چند سالوں میں یہ اٹھا لی جائے گی۔فیملی ستتاتھ ہہہو تتتو پتتولیس
بھی بلوجہ تنگ نہیں کرتی۔ موجودہ سعودی حکمران شاہ عبداللہ ملک کو ترقی یافتہ بنانے
کے لئے ایک وژن رکھتے ہیں۔ انہوں نے متعدد مقامات پر بڑی بڑی انڈسٹریل اسٹیٹس قائم
کی ہیں جن میں غیرملکی سرمایہ کاروں کو سرمایہ لگانے کے لئے راغب کیا جارہا ہے۔ ان
میں رابغ کا صنعتی زون بہت تیزی سے ترقی کر رہا ہے۔
23
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مک ہ
جدہ پہنچنے کے بعد میری شدید خواہش تھی کہ حرمین شریفین کی زیارت کی جائے۔ میں
سنیچر کے روز جدہ پہنچا تھا جو کہ سعودی عرب میں ہفتے کا پہل ورکنگ ڈے ہوتا ہے۔ اگتتر
میں اسی دن مکہ کا رخ کرتا تو یہ مسئلہ درپیش تھا کہ حرم کعبہ کو صحیح طور پتتر دیکتھ
نہ پاﺅں گا اور بھاگم بھاگ جدہ واپس آنا پڑے گا۔ میں حترم کعبتہ میتتں اپنتے پہلتے وزٹ کتتو
یادگار بنانا چاہ رہا تھا۔ چنانچہ میں نے مکہ حاضری کو ویک اینڈ تک موخر کیتتا اوراس ستتے
اگلے ویک اینڈ پر مدینہ جانے کا ارادہ کیا۔ اس کے بعد حاضریوں کا سلسلہ شروع ہو گیا جو
تادم تحریر جاری ہے۔ اس سفر نامے میں ان تمام اسفار کے چیدہ چیدہ واقعات بیتتان کئے
گئے ہیں۔
جدہ میں اکثر لوگ جمعرات کو عازم مکہ ہوتے ہیں۔ شام کو حرم کعبہ میں دو یتتا تیتتن
نمازیں پڑھ کر اور عمرہ کی ادائیگی کے بعد رات کو واپس گھر آ جتتاتے ہیتتں۔ بعتتض لتتوگ
باقاعدگی سے جمعہ کی نماز خانہ کعبہ میں ادا کرت تے ہیتتں۔ جتتدہ س تے مک تہ جتتانے کتے تیتتن
طریقے ہیں۔ بس ،ٹیکسی یا اپنی گاڑی کے ذریعے۔ بس کے سفر کا تو مجھے کوئی تجربتتہ
نہیں ہوسکا۔ ٹیکسی کا سفر کافی آسان ہے۔
جدہ میں ”باب مکہ “سے مکتہ جتتانے والتتی ٹیکستتیاں متتل جتتاتی ہیتتں۔ ٹیکستتی ڈرائیتتور
عموما ً عرب بدو ہوتے ہیں اور مکہ مکہ کی آوازیں لگا رہے ہوتے ہیں۔ چتتار ستتواریاں پتتوری
ہونے پر ٹیکسی چل پڑتی ہے اور فی کس دس ریال کے عوض حترم تتک پہنچتا دیتتی ہہہے۔
میں نے اپنا پہل سفر ایسی ہی ایک ٹیکسی پر کیا۔ اپنی کتتار کتے ذریعتے ستتفر ستتب ستے
آسان اور سستا ذریعہ ہے۔ چونکہ سعودی عرب میں پیٹرول بہت سستا ہے اس لئے محتتض
دس پندرہ ریال کے پیٹرول میں بڑی سے بڑی گاڑی جدہ سے مکہ جا کر واپس آجتتاتی ہے۔
اس طرح پوری فیملی کے افراد معمولی سی رقم خرچ کرکے حرم سے ہوکر واپس گھر
پہنچ جاتے ہیں۔
ہمارا یہ معمول تھا کہ ہم عمتترہ بتتالعموم جمعتترات کتتو ادا کرتتے تھہہے کیتتونکہ اگلتے دن
چھٹی ہوتی تھی۔ چونکہ جدہ میقات کی حدود کے اندر واقع ہے ،اس لئے جدہ کے رہنے والے
اپنے گھروں سے ہی احرام باندھ کر روانہ ہوتے ہیں۔ مکہ کتے تمتام اطتراف ستے آنتے والتے
راستوں پر میقات مقرر کئے گئے ہیں جہاں سے احرام باندھنا ضروری ہے۔ احرام بانتتدھتے
ہی انسان پر کئی پابندیاں عائد ہو جاتی ہیں۔
24
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
احرام
احرام دو چادروں پر مشتمل ہوتا ہے جس میں سے ایتتک د ھوتی ک تے طتتور پتتر بانتتدھ لتتی
جاتی ہے اور دوسری سینے پر لپیٹ لی جاتی ہے۔ یہ اس بات کا اعلن ہے کتہ ہم نتے اپنتے
پروردگار کے حکم پر نت نئی ورائٹی کے لباس چ ھوڑ کتتر ایتتک ستتادہ تریتتن لبتتاس اختیتتار
کرلیا ہے جس میں ہم اس کے حضور حاضری دینے کے لئے جارہے ہیں۔ چونکہ حج یتتا عمتترہ
شیطان کے خلف ایک علمتی جنگ ہے ،اس لئے اس کی یونیفارم احرام مقتترر کتتی گئی
ہے۔
میرا تعلق اگرچہ پنجاب سے ہے لیکن دھوتی باندھنا میرے لئے ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے۔
اس ائر کنڈیشنڈ لباس کو وہی سنبھال سکتا ہے جسے اس کی اچھی خاصی پریکٹتس ہو۔
چونکہ یہ لباس اب شہروں میں متروک ہوتا جا رہا ہے' اس لئے میرے لئے بھی یہ ایک مسئلہ
تھا۔ احرام میں دھوتی باندھنے کی مجبوری تھی۔ میتترے ایتتک دوستتت حتافظ عتاطف کتے
ساتھ بھی حج کے موقع پر ایسا ہی مسئلہ درپیش ہوا تھا۔ انہوں نتے اپنتے اجت ہاد ستے کتام
لیتے ہوئے ،جیسا سمجھ میں آیا ،دھوتی باندھ لی۔ جب وہ اپنے عزیزوں کے سامنے آئے تو
سب کی ہنسی نکل گئی کیونکہ ان ہوں ن تے 'خطتتائے اجت ہادی' س تے واجپتتائی ستتٹائل میتتں
دھوتی باندھ لی تھی۔
میں نے بھی جدہ میں مقیم اپنتے ایتتک کولیتتگ جمیتتل ستے د ھوتی بانتتدھنے کتا طریقتہ
دریافت کیا۔ انہوں نے کچھ ایسے فصیح و بلیغ طریقے سے کاغذ ک تے ایتتک ٹکتتڑے کتتی متتدد
سے دھوتی باندھنے کا طریقہ عملی طور پر بیان کیا جو مجھے ازبر ہوگیا۔ میتتں ن تے استتی
طریقے کو آزمایا تو حیرت انگیز طور پر دھوتی بالکل درست طریقے سے بندھ گئی۔ اس
کے ہوا میں اڑنے کا بھی کوئی احتمال نہ تھا۔ حفظ ماتقدم کے طور پر میں نے اپنی پتلون
کی بیلٹ بھی دھوتی کے اوپر باندھ لی اور اوپر کے کناروں کو بیلٹ کے گرد دو تین مرتبتتہ
فولڈ کرلیا۔ اس کے باوجود دل پوری طرح مطمئن نہ ت ھا اور میتترے اعصتتاب کستتی ب ھی
متوقع صورتحال سے نمٹنے کے لئے پوری طرح تنے ہوئے تھے۔
دو تین بار عمرہ کرنے کے بعد مجھے اس دھوتی پر پورا اعتماد ہوگیتتااور اس ک تے بعتتد
میں پوری خود اعتمادی سے اپنے دیہاتی بھائیوں کی طرح دھوتی باندھنے لگا جتتو د ھوتی
باندھ کر کبڈی کھیلنے سے لے کر سائیکل چلنے تک تمتتام کتتام کتتر لیت تے ہیتتں۔ احتترام کتتی
دوسری چادر کو سینے پر ڈالنا کوئی مسئلہ نہ تھا۔ پنجاب کی شدید سردی میتں ہم لتتوگ
اکثر گرم شال سینے پر لپیٹا کرتے تھے جسے پنجابی میں ”ُبکل مارنتتا‘ ‘کہت تے ہیتتں چنتتانچہ
میں نے دوسری چادر کو بکل مارنے کے سٹائل میں سینے پر لپیٹ لیا۔ خواتین احرام میں
عام سل ہوا لباس استعمال کرتی ہیں چنانچہ ان کے لئے کوئی مسئلہ درپیش نہیں ہوتا۔
اگرچہ یہ ایک شہری شخص کا دیہاتی لباس کے ساتھ پہل تجربہ تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ
یہ لباس بہت آرام دہ ہے۔ احرام میں اس سادہ لباس کے استعمال کی حکمت غالبا ً یہ ہے کہ
انسان علئق دنیا سے منہ موڑ کر خالصتا ً اپنے رب کے لئے نکل کھڑا ہوتا ہے۔ حج اور عمرہ
کی اصل روح اپنے رب کریم سے تعلق ہے۔ یہ تمثیلی اسلوب میں شیطان کے خلف جنگ
کا نام ہے۔ انسان دنیا چھوڑ کر مجاہدانہ لباس پہن لیتا ہے اور اپنے رب کریم ک تے حکتتم پتتر
شیطان کے خلف برسر پیکار ہو جاتا ہے۔ عملی زندگی میں انسان کو مسلستل شتیطان
25
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
کے خلف جنگ درپیش ہوتی ہے۔ حج اور عمرہ انسان کو بتاتے ہیتتں ک تہ اس کتتا روی تہ اپنتتی
عملی زندگی میں بھی شیطان کے خلف ایک دشمن ہی کا ہونا چاہیے کیونکہ وہ ہمیں اپنے
رب کریم سے دور لے جانے کی کوشش میں مسلسل مصروف ہے۔
اب ہم بیسمنٹ میں کھڑی اپنی گاڑی میں آ بیٹھے۔ میں نے ڈرائیونگ ستتیٹ ستتنبھالی۔
بکل مار کر ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھنا بھی ایک مسئلہ ہوتا ت ھا کیتتونکہ ستتعودی عتترب میتتں
سیٹ بیلٹ کی پابندی لزم ہے۔ اس کے لئے آئیڈیل طریقہ یہ ہے کہ اوپر والی چادر کتتو بغتتل
کے نیچے سے نکال کر ایک کندھا برہنہ کر دیا جائے جیسا کہ طواف ک تے دوران کرت تے ہیتتں۔
اس طرح سیٹ بیلٹ بھی بڑے آرام سے بندھ جاتی ہے اور ہاتھ ب ھی آزاد رہتتتا ہے۔ میتتری
اہلیہ نے ساتھ والی سیٹ سنبھالی اور بچیاں پچھلی سیٹ پر بیٹھ گئیں۔ میتتری بتتڑی بیتتٹی
اسماء قلم اور پیڈ سنبھال کر اس سفر نامے کے لئے نوٹس لینے کے لئے تیار ہوگئی۔ یقینتتا
اسماءکی مدد کے بغیر میں یہ سفر نامہ آپ تک نہ پہنچا سکتا۔
ہم عزیزیہ کے علقے میں واقع اپنے گھر سے نکل کر شارع فلسطین پر آئے جتتو شتترقا ً
غربا ً جدہ کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک جاتی ہے۔ اس سے گزر کر ہم رنتتگ روڈ پتتر
آگئے۔ یہاں مکہ جانے کے لئے دائیں جانب اور مدینہ جانے کے لئے بائیں جانب مڑنتتا ضتتروری
ہے۔ اس مقام پر اوور ہیڈ برج کچھ اس طرح بنے ہوئے ہیں کہ کسی بھی جانب جتتاتے ہہہوئے
کسی سگنل کا سامنا نہیں کرنتتا پڑتتتا۔ ہمتتارے گ ھر س تے حتترم مک تہ کتتا فاصتتلہ تقریبتا ً 75
کلومیٹر ہے جس پر ہمیں صرف تین سگنلز کتا ستتامنا کرنتا پڑتتتا ہے۔ دو ہمتتارے گ ھر کتے
بالکل پاس اور ایک حرم کے قریب۔ یہ فاصلہ ہم تقریبا ً 35سے 40منٹ میں طے کر لیتے
ہیں۔ حجاج کو جدہ ائر پورٹ سے لے کر حرم مکہ تک صرف ایتتک ستتگنل کتتا ستتامنا کرنتتا
پڑتا ہے جو کہ مکہ میں واقع ہے۔
چونکہ اس دن جمعرات تھی ،اس لئے رنگ روڈ پر ہزاروں گاڑیاں موجود تھیتں۔ ہمتارے
ہاں جمعرات کا دن حلوے پکانے اور مزارات پر حاضریوں کا دن سمجھا جاتا ہے لیکن اہل
جدہ اس دن ویک اینڈ کی وجہ سے عمرے کے لئے مکہ روانہ ہوتے ہیں۔ جدہ مکہ موٹر وے آٹتتھ
لین پر مشتمل ہے جن میں سے چار جانے اور چار آنے کے لۓ ہیں۔ انٹرچینج ک تے نزدیتتک ی تہ
موٹر وے ایک طرف سے پانچ چھ لین تک پھیل جاتی ہے۔ ہماری لہور اسلم آبتتاد متتوٹر وے
پر تو ہمیں دور دور تک کوئی گاڑی نظر نہیں آتی لیکن جتتدہ مک تہ متتوٹر وے پتتر ہم تہ وقتتت
گاڑیوں کا اژدھام رہتا ہے جو ایک دوسرے سے محض بیس بیس فٹ ک تے فاصتتلے پتتر 120
سے 150کی رفتار پر محو سفر ہوتی ہیں۔
جد ہ مک ہ موٹر و ے
جدہ سے مکہ جانے کے دو راستے ہیں۔ ایک جدہ مکہ متتوٹر وے اور دوستترا اولتڈ مکتہ روڈ۔ یتہ
دونوں راستے ایک دوسرے کے متوازی چلتے ہوئے مکہ تک پہنچتے ہیں۔ اب سے تقریبا ً تیتتس
سال پہلے مکہ جانے کا ایک ہی راستہ تھا ،لیکن جدید موٹر وے نے ایک اچ ھا متبتتادل فرا ہم
کیا ہے جس کی وجہ سے دونوں شہروں میں سفر کا وقت بہت کم ہوگیا ہے۔ اب اولڈ مکتتہ
روڈ کو زیادہ تر بھاری گاڑیاں استعمال کرتی ہیں جبکہ ہلکی گاڑیاں موٹر وے سے مکہ کتتی
طرف سفر کرتی ہیں۔
شہر کے جنوب مشرقی کونے پر جدہ رنگ روڈ پر شہر کی بندرگاہ اور ساحلی علقتتوں
26
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
سے آنے والی میرین ہائی وے بھی مل جاتی ہے۔ یہ ایلی ویٹ تڈ ) (Elevatedہائی وے ہے جتتو
ایک بیس پچیس کلومیٹر طویل پل پر مشتمل ہے۔ دونوں سڑکوں کے سنگم پر بہت ستتے
کھجور کے درخت لگے ہوئے ہیں۔ ایک کھجور کے درخت کا دیو قامت ماڈل ہے اور اس ک تے
ساتھ ایک مصنوعی قلعہ بھی بنا ہوا ہے۔ ایسے ماڈل قلعتے ستتعودی عتترب میتتں ب ہت ستے
مقامات پر سڑکوں کے درمیان بنے ہوئے ہیں۔ اس مقتتام س تے جتتدہ مک تہ متتوٹر وے شتتروع
ہوتی ہے۔
یہ روڈ قبلہ رو ہے ۔ دنیا بھی بہت سے دوسرے روڈ بھی قبلہ رو ہوتے ہیتتں لیکتتن اس روڈ
کی خصوصیت یہ ہے کہ انسان اس پر قبلے کی سمت میں سفر کرتے ہوئے سچ متتچ قبل تے
تک پہنچ جاتا ہے۔ یہ سعادت دنیا میں کسی اور روڈ کو حاصل نہیتتں ہے۔ طتتائف ،متتدینہ اور
جیزان سے آنے والے دوسرے راستے ڈائرکٹ مسجد الحرام تتتک نہیتتں پہنچت تے لیکتتن یتہ روڈ
سیدھا حرم تک جاتا ہے۔
احرام باندھ کر مکہ کی طرف سفر کرنے کا اپنا ہی مزا ہے۔ اس سفر میں انسان اپنے
رب کے دربار میں جارہا ہوتا ہے۔ دنیا میں اپنے محبوب سے ملنے کے لئے انسان کیسا ستتج
سنور کر تیار ہوتا ہے اور کیسے جوش و جتذبے کتے ستاتھ اس کتی طترف جاتتا ہے۔ ی ہاں
کائنات کے مالک سے ملنے کے لئے جس کی محبت ایک بندہ مومن کا کل اثاثہ ہے ،انستتان
محض دو چادروں میں ملبوس انتہائی سادگی بلکہ فقیری کے عالم میں حاضری دیتا ہے۔
یہ اپنے رب کریم کے حکم کے آگے محبت سے سر جھکا دینے کا نام ہے۔ اس کی لذت وہی
جانتے ہیں جو محبت کرنا جانتے ہوں۔ اب ستے چتار ہزار ستال قبتل ستیدنا ابراہیتم علیتہ
السلم نے اپنے رب کے حکم کے آگے سر جھکاتے ہوئے ایسا ہی ایک سفر کیا تھا۔ انہوں نے
اللہ تعال ٰی کے حکم کے مطابق اپنی بیوی ہاجرہ رضی اللہ عنہا اور ننھے سے اسماعیل علی تہ
السلم کو اس وادی غیر ذی زرع میں آباد کیا تھا۔ اسی سر جھکانے کی یاد اب دنیتتا ب ھر
سے لکھوں افرادآ آ کر تازہ کرتے ہیں۔
ٰم لبیک ۔ ل شریک لک لبیک ۔ ان الحمممد اس سفر کا ترانہ ”لبیک“ ہے۔ لبیک الل ّٰھ
و النعم ۃ لک و الملک ۔ ل شریک لک ۔ ”میں حاضر ہوں ،اے میتترے الل تہ ،میتتں حاضتتر
ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ بے شک تعریف ،نعمتیں اور بادشتتاہی تیتترے
ہی لئے ہے۔ تیرا کوئی شریک نہیں۔“ حج یا عمرہ دراصل حاضر ہونے ہی کا نتتام ہہہے۔ میتترے
پیارے اللہ نے مجھے بلیا اور میں چل آیا۔ یہی حج ہے۔ یہی عمرہ ہے۔
جدہ مکہ موٹر وے کے آغاز پر جدہ ختم ہو جاتا ہے۔ اس سے ذرا سا آگے ہی ایک وسیع و
عریض ریسٹ ایریتتا ت ھا۔ اس ریستتٹ ایریتتا میتتں مستتجد ،پیتتٹرول پمتتپ ،ستتپر متتارکیٹ،
ریسٹورنٹس ،ورک شاپس اور کئی سہولیات میسر تھیں۔ یہ سب کچھ کافی پرانا بنتتا ہوا
تھا۔ مجھے اپنی موٹر وے کے ریسٹ ایریا یتتاد آئے جتتو خوبصتتورتی اور ستتروس میتتں اس
ریسٹ ایریا سے بہتر تھے۔
یہاں سب سے واضح چیز میکڈانلڈ کا سائن بورڈ تھا۔ ہمارے بعتتض لوگتتوں کتتو امریکتتی
ریسٹورنٹس کے نام سے ہی خدا واسطے کا بیر ہے۔ ذرا سا جلتتوس نکتتل جتتائے تتتو ان پتتر
پتھراﺅ شروع کردیتے ہیں اور یہاں تک کہ آگ لگانے سے بھی گریز نہیں کرتے حالنکہ یہ تمام
ریسٹورنٹ مسلمانوں ہی کی ملکیت ہیں جو اپنا کاروبار چلن تے ک تے لئے انٹرنیشتتنل چیتتن
27
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
سے محض فرنچائز کے طور پر نام استعمال کرتے ہیں۔ اگر یہ غیر مسلموں کتتی ملکیتتت
بھی ہوں تو کسی بھی انسان ،خواہ وہ مسلم ہو یا غیر مسلم ،کی جان ،مال اورآبتترو کتتو
نقصان پہنچانا دین اسلم میں جرم عظیم ہے۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو اسلم کے نتتام پتتر
اسلم ہی کی خلف ورزی کر رہے ہوتے ہیں۔ آگے مکہ جا کر معلوم ہوا کہ حرم کے اطراف
میں کے ایف سی ،پیزا ہٹ ،ہارڈیز ،کوڈو اور دیگر فاسٹ فوڈ کے ریستتٹورنٹس نتہ صتترف
موجود ہیں بلکہ بہت اچھا بزنس بھی کرتے ہیں۔
مجھے اس ریسٹ ایریا کو دیکھ کر خاصی حیرت ہوئی۔ ابھی سفر شروع ہی نہیں ہوا
کہ ریسٹ ایریا آ گیا۔ پھر مجھے خیال آیا کہ دور دراز سے آنے والے حجتتاج اور زائریتتن جتتدہ
ائر پورٹ پر امیگریشن اور دیگر مراحل میں کئی گھنٹے کی خواری برداشتتت کرن تے ک تے
بعد اس ریسٹ ایریا کے مستحق ہیں۔ اس سے تھوڑا سا آگ تے ایتتک اور ریستتٹ ایریتتا ت ھا
جہاں ”طازج“ نمایاں تھا۔ یہ ایک عرب فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹ ہے۔
طازج سے ذرا سا آگے براﺅن رنگ کی پہاڑیاں ہماری منتظر تھیں۔ مج ھے پ ہاڑی ستتفر
ہمیشہ پسند رہا ہے لیکن اس سفر میں فطرت کے حسن کے ساتھ ساتھ عقیتتدت کتتا رنتتگ
بھی نمایاں تھا۔ ان پہاڑیوں پر ایک جگہ بورڈ لگا ہوا تھا۔ سیروا و سممبحوا اللم ہ ۔ ”ستتیر
کرو اور اللہ کی تسبیح بیان کرو۔“ میرے خیال میں یہ ایتتک بنتتدہ متتومن کتے ہر قستتم کتے
سفر کا مقصد تھا۔ دنیا میں جب بندہ طرح طرح کی بوقلمونیاں دیکھتا ہے تو اس کا ذ ہن
بے اختیار ان کے بنانے والے کی طرف چل جاتا ہے۔ ختتدا کتتی یتتاد اور اس کتتی پہچتتان ہی
مومن کے سفر کا مقصد ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سفر میں انسان ختتود کتتو فطتترت ک تے زیتتادہ
قریب محسوس کرتا ہے۔
موٹر وے پر جگہ جگہ عربی میں 120کے بورڈ نظر آرہے تھے جس کا مطلب ہے کہ اس
روڈ پر حد رفتار 120کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ دنیا بھر میں موٹر وے پر 120کی حتتد رفتتتار
کا معیار مقرر ہے۔ عرب ممالک میں ہمارے ہاں کی طرح قانون شکنی کی روایت تو نہیں
ہے لیکن پھر بھی تقریبا ً سبھی لوگ 140سے 160کی رفتار پر گتتاڑی چل ر ہے ت ھے۔ ی تہ
انسان کی شاید فطرت ہے کہ جب اس پر کوئی پابندی لگائی جتتاتی ہے ،تتتو وہ اس س تے
تھوڑا سا تجاوز کر ہی جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پابندیاں تھوڑی سی زیادہ لگا دی جاتی ہیتتں
تاکہ فطری تجاوز کرکے بھی انسان حدود ہی میں رہے۔
عرب بھی عجیب ڈرائیور ہوتے ہیں۔ اگتتر آپ 150کتتی رفتتتار س تے تیتتز رفتتتار لیتتن پتتر
جارہے ہوں ،تب بھی کوئی عرب اچانک 200کی رفتار سے آئے گا اور آپ کی گاڑی ستتے
چند فٹ کے فاصلے پر لئٹیں جل بجھا کر آپ کو ہٹنے کے لئے کہے گا۔ آپ کے ہٹنے سے قبل
ہی وہ روڈ کے شولڈر کا استعمال کرتے ہوئے آپ کو اوور ٹیک کر جائے گا۔
پہاڑیوں کے درمیان ”کنگ عبد العزیز میڈیکل سٹی“ کا انٹر چینج نظر آیتتا۔ ی تہ میتتں ن تے
پاکستان والی اصطلح استعمال کی ہے ورنہ اسے یہاں ”مخرج ) “(Exitک ہا جاتتتا ہے۔ اس
سے تھوڑا سا آگے کوئی ٹیلی کمیونیکیشن کی تنصیبات تھیں اور سفید رنگ کے بڑے بتتڑے
ڈش انٹینا نظر آرہہہے تھہہے۔ ٹیلتتی کتام کتا یہ ہی انقلب ہہہے جتتس کتے نتتتیجے میتتں ہ ہم لتوگ
انڈسٹریل ایج سے انفارمیشن ایج میں داخل ہوئے ہیں۔ایک عام آدمی کو بھی موبائل فون
کے ذریعے وہ سہولت میسر ہے جو دور قدیم کے بادشاہوں کو بھی حاصل نہ تھی۔ بے چارے
28
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
پرانے بادشاہ اہم ترین جنگی معلومات کے لئے بھی اپنے جاسوسوں کتے منتظتر ر ہا کرتتے
تھے جو گھوڑوں پر دنوں کا سفر کرکے معلومات لیا کرتے تھے۔ اب اس سے کہیں کم اہم
معلومات ،جیسے میچ کی تازہ ترین صورتحال ،ہر شخص کو سیکنڈز میں اپنے موبتتائل پتتر
مل جاتی ہیں۔ خدا جانے کتنے لوگ ہیتتں جتتو اس نعمتتت پتتر اس کتتا شتتکر ادا کرتتے ہیتتں۔
انفارمیشن ایج کا ایک المیہ یہ ہے کہ معلومات کے انبار میں غور و فکر اور تدبر کرنے کتتی
عادت کم ہوتی جارہی ہے۔
تھوڑا سا آگے موٹر وے پولیس کی گاڑی کھڑی تھی۔ اسے دیکھ کر سب اپنی رفتار کم
کرکے 120پر لے آئے۔ یہاں کی موٹر وے پولیس بھی ہمتتاری متتوٹر وے پتتولیس کتتی طتترح
مستعد ہے اور یہ لوگ بلوجہ کسی کو تنگ نہیں کرتے ۔ اس فورس میں زیادہ تتتر نوجتتوان
ہی بھرتی کئے گئے تھے البتہ یہ نوجوان پولیس والے اپنی توند کے سائز میں ہماری روایتتتی
پولیس کا مقابلہ کررہے تھے ۔
ان میں افریقی نسل کے پولیس مین خاصے سمارٹ اور چاک و چوبند نظر آرہے تھے۔
عرب نوجوان بالعموم کافی موٹے تازے ہوتے ہیں۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ یہ لوگ کھانے
میں پنیر کا استعمال کثرت سے کرتے ہیں۔ان کے عام نوجوان لڑکے ہمارے گوجرانوالہ اور
لہور کے اسٹینڈرڈ سائز کے پہلوانوں کے برابر ہوتے ہیں۔ ان کے دبلے پتلے لوگتتوں کتتو ب ھی
اپنے ہاں کے سیاست دانوں پر قیاس کر لیجئے۔ جدہ میں ہمارے کلب میں کثیر تعداد میتتں
عرب نوجوان آتے ہیں جو الٹی سیدھی ورزشوں کی مدد ستے اپنتتی تونتتد کتتم کرنتے کتتی
کوشش کرتے ہیں مگر میری طرح ناکام رہتے ہیں۔
اچانک روڈ کے کنارے گھنا سبزہ آگیا۔ شاید یہ کتتوئی فتتارم ہاﺅس ت ھا۔ وستتیع و عریتتض
صحرائی ماحول میں یہ سبزہ بہت ہی خوبصورت لگ ر ہا ت ھا۔ ہم لتتوگ ان صتتحراﺅں کتتو
عبور کرنے کے لئے ائر کنڈیشنڈ گاڑیاں استعمال کرتے ہیں۔ مجھے وہ لوگ یتاد آئے جتو اپنتے
رب کی پکار پر حج و عمرہ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے کے لئے اونٹ کا تکلیف دہ سفر
کرکے یہ صحرا پار کرتے تھے۔ انہیں ایسے نخلستان کیسے لگتے ہوں گے؟
نخلستان کے بعد براﺅن پہاڑیوں کے درمیان سنہرے رنگ کی وادیاں شتتروع ہوگئیں۔ ی تہ
منظر اتنا دلفریب تھا کہ بے اختیار میری زبان پر یہ حمتتدیہ گیتتت جتتاری ہوگیتتا ------تیتترے
رنگ رنگ ،تیرے رنگ رنگ ------میں جہاں بھی جاﺅں دنیتتا میتتں تیتترے جلتتوے میتترے ستتنگ
سنگ۔ شاید دنیا کا حسن دیکھ کر ہی بعض صوفیا کو وحدت الوجود کا نظریہ ایجتتاد کرنتتا
پڑا ورنہ قرآن کا یہ دعو ٰی ہے کہ ہر چیز کی تخلیق میں اپنے خالق کی نشانیاں موجود ہیں۔
سنہری وادیوں میں ریت کے جھکڑ چل رہے تھے۔ جب یہ شدید ہوں تتتو ان کتے جھٹکتے
چھوٹی موٹی گاڑی کا تتتوازن بگتتاڑ دیتتے ہیتتں۔ استتی وجتہ ستے عتترب کتے رہنتے والتے ان
صحرائی راستوں پر کم ازکم 2000سی سی کی گاڑی میں سفر کرنے کا مشورہ دیتتتے
ہیں۔ تھوڑا سا آگے ہی بحرہ کا ایگزٹ تھا۔ یہ جدہ اور مکہ کے درمیان ایک چھوٹتا ستا قصتبہ
ہے۔ روڈ پر جگہ جگہ ہورڈنگز اور بل بورڈ لگے ہوئے تھے۔ چند ایک اشیا کی ایتڈورٹائزنگ کتے
لئے تھے۔ خدا کا شکر ہے کہ سعودی عرب میں یہ چیزیں ابھی تک بے حیائی کی لعنت سے
بچی ہوئی ہیں۔ یہ ہورڈنگز پاکستان کی نسبت بڑے ستتلیقے س تے لگتتائی گئی تھیتتں اور ان
کی تنصیب میں اس بات کا خیال رکھا گیا تھا کہ ان سے ڈرائیور کی تتتوجہ ستتڑک س تے ن تہ
29
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہٹ سکے۔
بہت سی ہورڈنگز پر سعودی عرب کے نئے شاہ عبد اللہ کتتی تصتتاویر لگتتی ہوئی تھیتتں
جن میں انہیں بادشاہ بننے پر مبارکباد دی گئی تھیں۔ میں سوچنے لگا کہ ابھی کچتھ عرصتہ
پہلے ہی ان ہورڈنگز پر شاہ فہد کی تصاویر ہوتی ہوں گی۔ مجھے وہ واقعہ یاد آیتتا کتہ کتتوئی
بزرگ کسی بادشاہ کے دربار میں گئے تو فرمانے لگے” ،مجھے یہ سرائے پستتند نہیتتں آئی۔“
بادشاہ بے چارہ بہت سٹ پٹایا کہ جناب یہ میرا محل ہے کتوئی سترائے نہیتں۔ فرمتانے لگتے،
”سرائے وہ ہوتی ہے جس میں ایک شخص جائے اور دوسرا آئے۔ آپ کے محل میں آپ ک تے
دادا آ کر رہے پھر چلے گئے اور آپ کے والد اس ک تے مالتتک بن تے۔ وہ ب ھی گتتزر گئے اور آپ
اس میں رہتے ہیں۔ آپ کے بعد آپ کا بیٹا اس میں رہے گا۔ یہ سرائے نہیں تو اور کیتتا ہے۔“
حقیقت یہ ہے کہ یہ دنیا ایک بڑے سائز اور لمبی متتدت کتتی ) (Long Termستترائے ہی ہے۔
خوش نصیب ہیں وہ لوگ جو اس سرائے میں سرائے کی ہی طرح رہتے ہیں اور اپنے اصل
گھر کو نہیں بھولتے جو آخرت میں ہمارا منتظر ہے۔
بحرہ سے تھوڑا سا آگے ہی حرم کی حدود کے آغاز کے سائن بورڈز نظتتر آن تے لگ تے۔
یہاں سے ایک روڈ نکل کر مکہ کو بائی پاس کرتے ہوئے طائف اور ریاض کتتی طتترف جاتتتا
ہے۔ اس مقام پر ایک چیک پوسٹ بنی ہوئی تھی۔ سعودی پولیس کے بظاہر مستتتعد نظتتر
آنے والے اہل کار کسی کسی کے کاغذات چیک کر رہے ت ھے۔ ی تہ لتتوگ عموم تا ً فیملتتی ک تے
ساتھ جانے والے افراد کو چیک نہیں کرتے۔ چیک پوسٹ پر ایک مسجد بھی بنی ہوئی ت ھی
جس کا نام شمیسی مسجد تھا۔ اس مقام کا جدید نام شمیسی اور قدیم نتتام ”حتتدیبیہ“
ہے۔ جی ہاں ،یہ وہی مقام ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صتتحابہ نتتے
6ھ میں عمرہ کے لئے جاتے ہوئے قیام کیا تھا۔ اس کی تفصیل آگے آ رہی ہے۔
حرم کی حدود
تھوڑا سا آگے چلے تو ایک ہلکے سبز رنگ کی پہاڑی نظر آئی۔ صحرائی علقے میتتں ایس تے
خوبصورت مناظر بکثرت دیکھنے کو ملتے ہیں۔ سرسبز علقوں کی سیاحت میں تتتو ایتتک
ہی رنگ دیکھنے کو ملتا ہے لیکن صحرائی علقوں کی سیاحت میں فطرت کے بہہہہت ستتے
رنگ دیکھنے کو ملتے ہیں۔ اللہ تعال ٰی نے یہ دنیا ب ہت ہی خوبصتتورت بنتتائی ہے۔ ستتر ستتبز
کھیت جہاں انسان کو زرعی اشیاء فراہم کرتے ہیں ،وہاں لق و دق صحرا تیل ،گیس اور
دیگر معدنیات سے معمور ہوتے ہیں۔ سچ تو یہ ہے کہ فبای ٰالءربکما تکذبان۔ ”تم اپنتتے رب
کی کون کون سی نعمتوں کو جھٹلﺅ گے۔“
یہاں سے حرم کی حدود کا آغاز ہوتا ہے۔ یہ وہ مقام ہے جسے الل تہ تعتتال ٰی ک تے حکتتم ک تے
مطابق سیدنا ابراہیم علیہ الصلوة والسلم نے حرم قتترار دیتتا ت ھا۔ اخبتار مکتہ کتے مصتتنف
علمہ ازرقی لکھتے ہیں،
”سب سے پہلے حرم کی حدود مقرر کرنے والے سیدنا ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلم ت ھے۔
سیدنا ابراہیم نے سیدنا جبریل کی ہدایات کے مطابق حرم کی )حدود متعین کرنے والی (
برجیاں نصب کیں۔ پھر ان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی حتی کہ رسول اللہ صلی اللہ علی تہ
و الہ وسلم نے فتح مکہ کے سال سیدنا تمیم بن استتد خزاعتتی رضتتی الل تہ عن تہ کتتو بھیجتتا،
انہوں نے ان برجیوں کو نئے سرے سے بنایا۔ پھر ان میں کوئی تبدیلی نہ کی گئی حتتتی ک تہ
30
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ نے چار قریشیوں کو مقرر فرمایا ،جنہوں نے ان کتتی
پھر تجدید کی۔ “ )اخبار مکہ ،ازرقی :بحوالہ تاریخ مکہ مطبوعہ دارالسلم :ص (81
حرم کی حدود کے آغاز پر ایک گیٹ بنایا گیا ہے جس ک تے دونتتوں جتتانب برجیتتاں ستتی
بنی ہوئی ہیں۔ یہاں حرم کے آغاز کا بورڈ لگا ہوا ہے۔ اس سے تھوڑا آگے ایک بہت بڑا گیتتٹ
ہے جس کے کے دو بازو روڈ کے دونوں کناروں پر پھیلے ہوئے ہیں۔ اس کے اوپر پتھر کتتا بنتتا
ہوا قرآن مجید کا بہت بڑا ماڈل ہے۔ حرم کی حتتدود میتتں لتتڑائی جھگتتڑا ،شتتکار کرنتتا اور
حتی کہ یہاں کی نباتات کو نقصان پہنچانا بھی منع ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم
کی بعثت سے قبل بھی عرب اس حرمت کا پورا احتتترام کیتتا کرتتے ت ھے کیتتونکہ یتہ لتتوگ
سیدنا اسماعیل علیہ السلم کی امت ت ھے اور آپ کتتی تعلیمتتات کتتم از کتتم اس معتتاملے
میں پوری طرح زندہ تھیں۔
حرم کی حدود کے آغاز سے ہی روڈ کتے دونتتوں طتترف درختتتوں کتتی طویتتل قطتتاریں
شروع ہوگئیں جو صحرا کے پس منظر میں بہت بھلی معلوم ہو رہی تھیں۔ آگے ایک سرخ
رنگ کی وادی تھی۔ روڈ پر دونوں طرف سبحان اللہ ،الحمد لل تہ ،الل تہ اکتتبر اور استتتغفر
اللہ کے بورڈ نظر آرہے تھے۔ یہ اذکار بندہ مومن کے ہر وقت کے اذکتتار ہیتتں۔ خصوصتا ً ستتفر
میں جب انسان فطرت کے زیادہ قریب ہوتا ہے تو یتہ اذکتتار استے اپنتے پروردگتتار کتتی یتتاد
دلتے ہیں۔ اللہ تعال ٰی کی یاد قائم کرنا ہی دین کا اصل مقصود ہے۔ ہمارے ہاں ان اذکار کو
جنتر منتر کی شکل دے لی گئی ہے اور ان پر غور کئے بغیر انہیں طوطے کی طتترح زبتتان
سے ادا کیا جاتا ہے۔ اگر انسان ان پر غور و فکر کرے تو اپنے پروردگار کی قربتتت حاصتتل
کرنے کے لئے ان اذکار سے مفید کوئی چیز نہیں۔
روڈ پر ایک بہت بڑا بورڈ تھا جس پر یہ آیت لکھی ہوئی تھی۔
ان اول بیت وضع للناس للذی ببک ۃ مبارکا و ھدی للعممالمین ۔ فیمم ہ
آیات بینات مقام ابرا ہیم و من دخل ہ کان ٰامنا ۔ و لل ہ علممی النمماس
حج البیت من استطاع الی ہ سبیل ۔ )آل عمران (97-3:96
” بے شک سب سے پہل گھر جو لوگوں کی ہدایت کتے لئے بنایتتا گیتتا ،وہ مکتہ
مبارکہ میں تھا۔ اس میں روشن نشانیاں ہیں اور ابراہیم )کی نماز( کا مقتتام
ہے۔ جو بھی اس میں داخل ہو اسے امان ہے۔ اللہ کے لئے لوگتتوں پتتر لزم ہہہے
کہ وہ اس گھر کا حج کریں ،جو بھی اس کی طرف آنے کی استطاعت رکھتا
ہو۔“
یہ آیت کریمہ ،خانہ کعبہ اور مکہ مکرمہ کا ب ہترین تعتتارف ہیتتں۔ بتتائیں ہاتھ جتتدہ واپستتی
والی روڈ کے کنارے ایک بہت بڑا پارک نظر آیا جہاں بچوں کے لئے جھولے وغیرہ لگ تے ہوئے
تھے۔ یہ بہت بڑا پارک ہے۔ یہاں بہت بڑے الفاظ میں ”اسماک دانہ“ لکھا ہوا ت ھا۔ ی ہاں کتتی
مچھلی بہت مشہور ہے۔ آپ اپنی پسند کی مچھلتتی کتتا انتختتاب کیجیتے ،اس کتتی رقتتم ادا
کیجیے ،اپنی پسند کے اسٹائل میں پکوائیے اور باپردہ ہٹ میں بیٹھ کر تناول فرمتتائیے۔ اس
طرز کے مچھلی ریسٹورنٹ سعودی عرب کی شاہراہوں پر عام ہیں۔
اس پارک کے بعد اچانک ڈھلن شروع ہوگئی ۔ یہ مسلسل ڈھلن تھی جو کہ ختتتم ہونے
کا نام ہی نہ لے رہی تھی۔یوں لگ رہا تھا کہ ہم لتتوگ مسلستل گ ہرائی میتں جتارہے ہوں۔
31
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
سامنے نظر پڑی تو "حرمین ٹاورز" کے جڑواں عمارتیں نظر آئیں جو مسجد الحتترام ک تے
بالکل ساتھ واقع ہیں۔ روڈ کے کنارے ایک فیروزی رنگ کی پہاڑی نظر آئی اور اس کے بعد
مکہ کا تیسرا رنگ روڈ نظتتر آیتتا۔ اگتتر آپ ی ہاں ستے دائیتتں متتڑ جتائیں تتتو ستتیدھے منت ٰی ،
مزدلفہ ،عرفات اور پھر ہدا اور طائف کی جانب جا نکلیں گے۔
مک ہ میں داخل ہ
یہیں پر رابطہ عالم اسلمی کے ہیڈ کوارٹر کا بورڈ تھا۔ جو عرفات کی مخالف سمت میتتں
واقع ہے۔ اس انٹرچینج کے فورا ً بعد دائیں جانب ایک بہت بڑا پتتارک ہے ج ہاں کھجتتور ک تے
درخت بکثرت ہیں۔ پارک سے آگے سگنل تھا۔ یہ جدہ مکہ موٹر وے کا اختتام ت ھا۔ اس س تے
آگے اس روڈ کو ”طریق ام القر ٰی“ کہتے ہیں اور یہ سیدھی مسجد الحرام پر جا کتتر ختتتم
ہوتی ہے۔ اس چوک کو ہم لوگ ”صراحی چوک“ کہتے ہیں۔ یہاں صراحی اور مٹکے کے بہت
بڑے بڑے ماڈل نصب ہیں۔ قدیم عرب کے صحرائی ماحول میں ٹھنڈا پتتانی ایتتک ب ہت بتتڑی
نعمت تھی جس کے لئے مٹی کے ان برتنتتوں کتتی اہمیتتت غیتتر معمتتولی ت ھی۔ تمتتدن کتتی
ترقی کے ساتھ ساتھ ان کی جگہ کولر اور فریج نے لے لی ہے۔
صراحی چوک کے ساتھ ”البیک “ تھا۔ یہاں سے روڈ کے دونتوں طترف دکتانوں کتا ایتک
طویل سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ درمیان میں شارع منصتور ،طریتق ام القتر ٰی کتو قطتع
کرتی ہے ،جس پر ایک اوور ہیڈ برج بنا ہوا ہے۔ عربی میں اوور ہیڈ برج کو "کتتوبری" کہتتتے
ہیں۔ حرم کے قریب جاکر ایک اور اوور ہیڈ برج آتا ہے۔ اس برج کے اوپتتر ایتتک دوراہہہا ہہہے۔
اگر آپ دائیں طرف والی روڈ اختیار کریں تو آپ حرم کے بالکل سامنے والے بس استتٹینڈ
پر جا پہنچیں گے۔ اگر آپ بائیں طرف وال روڈ اختیار کریں تو یہ آپ کو حرم کے نیچے ایک
سرنگ میں لے جائے گا۔ اس سرنگ میں بھی دو بس استتٹاپ ہیتتں ،ج ہاں ستے الیکٹرانتتک
اور سادہ سیڑھیاں چڑھ کر حرم کے اوپر آرہی ہیتتں۔ دونتتوں صتتورتوں میتتں آپ حتترم کتے
ملک فہد گیٹ یا ملک عبدالعزیز گیٹ کے سامنے آ نکلتے ہیں۔
میں نے سرنگ وال راستہ اختیار کیا اور اپنی فیملی کو سیڑھیوں کے پاس اتارا اور ان
سے حرم کے اندر ملنے کی جگہ کا تعین کیتتا۔ اس ک تے بعتتد میتتں پارکنتتگ کتتی تلش میتتں
جانکل۔ مکہ میں بالخصوص حرم کے قریب پارکنگ تلش کرنا جوئے شیر لنے کے مترادف
ہے۔ سرنگ سے نکلتے ہی دائیں ہاتھ ایک پارکنگ پلزہ ہے جو پارکنگ کی عتتدم دستتتیابی کتا
فائدہ اٹھاتے ہوئے تیس ریال )تقریبا ً چار سو اسی روپے ( فتتی گھنٹتہ چتتارج کرتتتا ہے۔ ی ہاں
بھی پارکنگ دستیاب نہ تھی۔
مکہ کی پولیس روڈ پر پارک کی جانے والی گاڑیاں اٹھانے میں بہت مستعد واقتتع ہوئی
ہے۔ پولیس کو ایسا ہی کرنا چاہیے لیکن اس کے ساتھ پارکنگ کا معقول انتظام بھہہی ہونتتا
چاہیے۔ مکہ کے برعکس مدینہ میں پارکنگ کوئی مسئلہ نہیں ہے۔ کافی دور جاکر ایک گلتتی
میں مجھے پارکنگ ملی۔ یہاں ہر گھر کے دروازے پر انڈیا کا جھنڈا نظتتر آ رہات ھا۔ اس گلتتی
کے تمام گھر انڈین حج مشن نے کرائے پر لئے ہوئے تھے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ہمتتارے حتتج
مشن کے مقابلے پر انڈین حج مشن زیادہ منظم طریقے سے کام کرتا ہے اور عازمین حتتج
کو تمام سہولیات فراہم کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ان تڈین حکتتومت عتتازمین حتتج ک تے لئے
خصوصی سبسڈی دیتی ہے جس کی وجہ سے لوگوں کو حج کافی سستا پڑتا ہے۔ ایک غیر
32
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مسلم حکومت کی طرف سے حاجیوں کتتو اتنتی ستپورٹ اور ہمتاری مستلمان حکتتومت
حجاج کے ساتھ کیا سلوک کرتی ہے؟
میں نے گاڑی پارک کرنے کے بعد قریب کھڑے ایک پولیس والے سے اس کے بتتارے میتتں
دریافت کیا۔ ان صاحب نے بیزاری سے ”ما فی مشکل )کوئی مسئلہ نہیں(“کے الفتتاظ ک ہہ
کر جان چھڑائی۔ عرب میں آپ کو یتہ الفتاظ اکتثر ستننے میتں ملتتے ہیتں لیکتن اس کتے
باوجود بہت سے مشکلت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کتے بعتتد میتتں پنتتدرہ منتتٹ کتتا پیتتدل
فاصلہ طے کرکے واپس حرم پہنچا۔ اس مسئلے کا ایک متبادل حل یہ ہے ک تہ آپ حتترم س تے
دی پارکنگ“ میں گاڑی کھڑی کرکے وہاں سے کسی ٹیکسی وغیرہ ک تے کافی فاصلے پر ”ک ُ َ
ذریعے حرم پہنچ سکتے ہیں۔ اگر آپ نے طویل وقت کے لئے حرم میں رکنا ہو تو یتتہ نستتبتا ً
آسان حل ہے۔
مسجد الحرام
میں نے جب حرم پر پہلی نظر ڈالی تو سامنے ایک دلفریب منظر تھا۔ ستتامنے مستتجد کتتا
وسیع و عریض صحن تھا۔ مسجد الحرام کے باہر چتتاروں طتترف صتتحن ہے جتتو ستتروس
ایریا کا کام کرتا ہے۔ یہ اصطلحی مفہوم میں مسجد کا حصہ نہیں۔ یہ سفید ماربتتل کتتا بنتتا
ہوا ہے اور رات میں بہت خوبصورت منظتتر پیتتش کرتتتا ہہہے البتتہ دن میتتں اس کتتی چمتتک
آنکھوں کو خیرہ کر دیتی ہے۔ میرا مشورہ ہے کہ آپ جب بھی دن میں حرم جائیں تتتو اپن تے
ساتھ سن گلسز ضرور رکھیں۔
صحن میں زیر زمین مردوں اور خواتین کے الگ التگ ط ہارت ختانے ت ھے۔ ہر ط ہارت
خانے میں فلش کے ساتھ ساتھ ایک شاور بھی لگا ہوتا ہے تاکہ گرمتتی کتتا متتارا کتتوئی زائر
اگر غسل بھی کرنا چاہے تو اسے اس کی سہولت میسر ہوا البتتہ ی ہاں گرمیتتوں میتتں تیتتز
گرم اور سردیوں میں شدید ٹھنڈا پانی دستیاب ہوتا ہے۔ صحن میں لکتتر رومتتز ب ھی ہیتتں
جہاں آپ اپنی قیمتی اشیا رکھ کر جاسکتے ہیں۔ اس صحن کے ساتھ ہی کئی فتتائیو ستتٹار
ہوٹل تھے جن کے گراﺅنڈ فلور پر بڑی بڑی مارکیٹیں تھیں۔ یہاں چھوٹے متتوٹے ہوٹلتتوں س تے
لے کر بڑے بڑے فاسٹ فوڈ ریسٹورنٹس موجود تھے۔
33
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مسجد الحرام
میرے سامنے حرم کا "ملک فہد گیٹ" تھا جسے عربی میں "باب الملک فہد" کہتے ہیں۔
یہ دروازہ حرم کی جدید ترین توسیع میں بنایا گیا ہے جتتو کتہ 1988میتتں کتتی گئی ت ھی۔
مسجد الحرام کے 5بڑے اور 54چھوٹے دروازے ہیں ۔ بڑے دروازوں کے نام باب فہد ،باب
عبد العزیز ،باب صفا ،باب فتح اور باب عمرہ ہیں۔ ان میں س تے ہر دروازے ک تے ستتاتھ دو
مینار ہیں جبکہ باب صفا کے ساتھ ایک مینار ہے۔ اس طرح مسجد الحرام کے کل مینتتاروں
کی تعداد نو ہے۔
میرا مشورہ ہے کہ نئے عازمین اپنی سہولت کے مطابق ان میں س تے کستتی بتتڑے گیتتٹ
ہی سے داخل ہوں۔ گیٹ میں داخل ہوتے ہیں دائیں اور بائیں ستتیڑھیاں اور لفتتٹیں موجتتود
ہیں جو آپ کو فرسٹ اور سیکنڈ فلور تک لے جا سکتی ہیں۔ اگر فیملی ساتھ ہو تتتو میتتں
عام دنوں میں فرسٹ فلور کو ترجیح دیتا ہوں کیونکہ ی ہاں اس طتترح کتتا رش نہیتتں ہوتتتا
جیسا گراﺅنڈ فلور پر موجود ہوتا ہے۔ رمضان اور حج کے دنو ں میں سیکنڈ فلور بھی کھل
جاتا ہے جو دراصل مسجد کی چھت ہے۔
34
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
باب صفا )اور اب باب عبدالعزیز( کے ساتھ ہی وہیل چیئرز کا کاﺅنٹر موجتتود ہے ج ہاں
اقامہ یا پاسپورٹ دکھا کر آپ بلمعاوضہ وہیل چیئر لے سکتے ہیں۔ اگر آپ کے ساتھ کتتوئی
بزرگ ،معذور یا چھوٹے بچے ہوں تو میرا مشورہ ی تہ ہے ک تہ آپ وہیتتل چیئر لزم تا ً ل تے لیتتں
کیونکہ عمرہ میں تقریبا ً 8سے 10کلومیٹر کا فاصلہ پیدل طے کرنا ہوتا ہے جو کسی ب ھی
ضعیف شخص کے لئے خاصامشکل ہے۔ خواتین کے لئے بچوں کو اٹھا کر یہ فاصلہ طے کرنا
بھی خاصا مشکل ہے۔ باب صفا ک تے قریتتب فرستتٹ فلتتور پتتر آٹومیٹتتک وہیتتل چیئرز ب ھی
دستیاب ہیں جو تیس ریال کے عوض کرائے پتتر لتتی جاستتکتی ہیتتں۔ انہیتتں ختود ہی چلیتتا
جاسکتا ہے ۔ یہ ان لوگوں کے لئے مفید ہیں جو ضعیف ہوں اور ان کے ساتھ کوئی نوجتتوان
بھی نہ ہو۔ بڑے دروازوں میں سیڑھیوں کے ساتھ وہیل چیئر کے راستے بھی موجود ہیں۔
مسجد میں جگہ جگتہ آب زمتزم کتے کتولر رک ھے ہوتے ہیتں۔ ان کتولرز کتے ستاتھ ہی
ڈسپوزیبل گلس بھی موجود ہوتے ہیں۔ یہ مسجد کا حسن انتظتتام ہہہے ک تہ ان کتتولرز میتتں
کبھی پانی اور گلس کو کبھی ختم نہیں ہونے دیا جاتا۔ اگتتر آپ مستتجد میتتں کتتافی وقتتت
گزارنا چاہتے ہیں تو جاتے ہی آب زمزم نہ پئیں ۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ پانی زیتتادہ پینتے ستے
رفع حاجت کی خواہش زیادہ ہوتی ہے اور مسجد سے لے کتر ط ہارت ختانے تتک جتانے اور
آنے کا فاصلہ تقریبا ً ایک کلومیٹر ہے۔ زیادہ پانی پینے کی بدولت آپ کو بتار بتار طتتواف اور
سعی چھوڑ کر طہارت خانے کے چکر لگانے پڑیں گے۔ عمرہ اور دیگر عبادات سے فارغ ہو
کر آپ واپسی سے پہلے دل کھول کر آب زمزم پینے کی سعادت حاصل کر سکتے ہیں۔
مسجد میں جوتوں کو ٹھکانے لگانا بھی ایک مسئلہ ہے۔ مسجد میتتں جگ تہ جگ تہ جوتتتوں
کے ڈبے ہیں جن پر نمبر لکھے ہوئے ہیں۔ جب میں پہلی مرتبہ حتترم گیتتا تتتو 100نمتتبر ڈبتے
میں اپنے جوتے رکھ کر آگے چل گیا۔ میں خوش تھا کہ نمبر بہت آسان ہے۔ واپسی پتتر میتں
ڈھونڈ ڈھونڈ کر تھک گیا کیونکہ 100نمبر ڈبہ کہیں نظر نہ آرہا تھا۔ اس ضتتمن میتتں یتہ ب ھی
ضروری ہے کہ آپ ڈبے نمبر کے ساتھ ساتھ اس دروازے کا نمبر یا نام بھی یاد رکھیں جتتس
کے راستے پر وہ ڈبہ پڑا ہوا تھا۔ اس سلسلے میں ایک مسئلہ اور درپیش ہو جاتتتا ہے اور وہ
یہ ہے کہ آپ نے جوتا جہاں رکھ دیا ہے اب واپسی کے لئے بھی وہی راستتتہ اختیتتار کرنتتا پتتڑے
گا۔ اگر آپ فیملی کے ساتھ آئے ہیں تو آسان حل یہ ہے کہ تمام جوتے ایک لفتتافے میتتں ڈال
کر اسے ساتھ ہی رکھ لیں اور کعبہ کے قریب ترین کسی ڈبے میں یہ لفافہ ڈال کتتر اس کتتا
نمبر یاد کرلیں۔ اس طریقے سے آپ آسانی سے جس راستے سے چاہیں واپس جا ستتکیں
گے۔
کعب ۃ الل ہ
مسجد الحرام کا مرکز کعبہ ہے۔ اس مسجد کا لے آﺅٹ دنیا کی دوسری تمام مساجد سے
مختلف ہے۔ تمام مساجد عموما ً مربع یا مستطیل شکل کی بنائی جاتی ہیں اور ان کا رخ
خانہ کعبہ کی طرف ہوتا ہے۔ اس کے برعکس مسجد الحرام چونکہ کعبہ کے گرد تعمیر کی
گئی ہے ،اس لئے اس کی شکل تقریبا ً بیضوی ہے۔ اس مسجد میں صفیں بھی دائرے کتتی
شکل میں بنتی ہیں۔ ظاہر ہے ان کا رخ کعبہ کی طرف ہوتا ہے۔
35
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مطاف
کعبہ اور مسجد کی عمارت کے درمیان کھل میدان ہے جسے "مطاف" کہتے ہیتتں۔ ی ہاں
حجاج اور دیگر زائرین کعبہ کے طواف کی سعادت سے بہرہ مند ہوتے ہیں۔ مطتتاف بالکتتل
گول شکل کا نہیں ہے بلکہ تقریبا بیضوی شکل کا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ مسجد الحتترام
کی توسیع شمال و جنوب کی طرف زیادہ کی گئی ہے جبکہ مشرق اور مغرب کی طرف
اس کی زیادہ توسیع نہیں کی گئی جس کی وجہ سے مسجد بیضوی شکل اختیار کتتر گئی
ہے۔
اگر مطاف میں جگہ نہ ہو تو طواف فرسٹ یا سیکنڈ فلور پر بھی کیا جاسکتا ہے لیکتتن
یہاں پر پھیرا خاصا طویل ہوجاتا ہے۔ مطاف میں طواف کرتے ہوئے سات پھیتترے لین تے ک تے
لئے تقریبا ً ایک سے دو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنا ہوتا ہے لیکن یہی فاصلہ مسجد ک تے اوپتتر
والے فلورز پر اندازا ً سات کلومیٹر ہو جاتا ہے۔
مشہور تاریخی روایات کے مطابق کعبہ کی تعمیر متعدد مرتبہ کی گئی۔ اس کتی پہلتتی
تعمیر فرشتوں نے کی جو مرور زمانہ کے ساتھ ختم ہوگئی۔ اللہ تعال ٰی کے حکم کے مطابق
سیدنا ابراہیم علیہ الصلوة والسلم نے اسی جگہ پر اس کی دوبارہ تعمیر ستتیدنا استتماعیل
علیہ الصلوة واالسلم کی مدد سے کی۔ اس موقع پر کعبہ سادہ پتھروں کتتی عمتتارت ت ھی
جو بغیر سیمنٹ وغیرہ کے ایک دوسرے کے اوپر رکھے ہوئے ت ھے۔ اس کتتی تیستتری تعمیتتر
36
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
قریش نے کی جو سیدنا اسماعیل علیہ السلم کی اولد ہونے کے ناتے اس کے متولی تھے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے اعلن نبوت سے تقریبا ً پانتتچ ستتال قبتتل ب ھی
کعبہ کی تعمیر کی گئی تھی۔ اس موقع پر مختلف عرب قبائل نے اس میں حصتہ لیتتا۔ ہر
قبیلے کے یہ خواہش تھی کہ حجر اسود نصب کرنتے کتی ستعادت استے حاصتل ہو۔ نتوبت
کشت و خون تک جا پہنچی۔ بالخر یہ فیصلہ ہوا کہ اگلی صبح جو شخص کعب تہ میتتں داختتل
ہو گا ،اس کا فیصلہ قبول ہوگا۔ اگلے دن تمام قبائل کی خوشی کی انتہا نہ رہی جب انہوں
نے دیکھا کہ کعبہ میں سب سے پہلے داخل ہونے والے شخص محمد بن عبد اللہ )صتتلی اللتتہ
علیہ و الہ وسلم( ہیں۔ سب ہی لوگ آپ کی صداقت ،امانت اور دیانت دارانہ فیصلوں ک تے
قائل تھے۔ آپ نے اس قضیے کا فیصلہ یہ فرمایا کہ اپنی چادر بچھا کر اس پتتر حجتتر استتود
رکھ دیا اور تمام قبائل کے نمائندوں کو اس کے کنارے پکڑا دیے۔ انہوں نے چادر اٹھائی اور
آپ نے اپنے دست مبارک سے حجر اسود نصب فرمتا دیتتا۔ اس طتترح ستتب لتتوگ مطمئن
ہوگئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ اعلن نبوت سے قبل حضور صلی اللہ علیہ و الہ و
سلم کو عرب معاشرے میں کیا مقام حاصل تھا۔
قریش کی تعمیر میں کچھ رقم کم پڑ گئی تھی کیونکہ انہوں نے اس کا اہتمام کیتتا ت ھا
کہ صرف حلل کمائی ہی کعبہ کی تعمیتر میتتں استتتعمال ہوگی۔ اس وجتہ ستے کعبتہ کتی
تعمیر مکمل ابراہیمی بنیادوں پر نہ ہوسکی۔ اس کا کچھ حصہ بتتاہر رہ گیتتا جتتس کتے گتترد
دیوار بنا دی گئی۔ یہ دیوار حطیم کہلتی ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیتہ و التہ و ستتلم
کی یہ خواہش تھی کہ آپ اسے دوبارہ ابراہیمی بنیادوں پر تعمیر فرمائیں ۔
صحیحین کی روایت کے مطابق آپ نے فتح مکہ کے موقع پر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا
سے اس خواہش کا اظہار بھی کیا اور یہ بھی فرمایا کہ ” ،ابھی تمہاری قوم کتتے لتتوگ نئے
نئے مسلمان ہوئے ہیں۔ اگر ان کے مرتد ہونے کا خطرہ نتہ ہوتتا تتو میتتں ایستا کتر گزرتتا۔“
سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی خلفت کے زمانے میں شامی افواج کی ستتنگ
باری سے کعبہ کی چھت جل گئی تھی۔ آپ نے اس کی تعمیر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و
سلم کی خواہش کے مطابق ابراہیمی بنیادوں پر کی۔
آپ کی شہادت کے بعد عبد الملک بن مروان نے آپ کے کئے ہوئے اضافوں کو گتترا کتتر
اس کی صورت قریش کی تعمیر کی طرح کردی۔ بعد میں جب اسے سیدہ عائشہ رضتتی
اللہ عنہا کی حدیث معلوم ہوئی تو اسے اس کتتا افستتوس ہوا لیکتتن اس ن تے عمتتارت کتتو
ایسے ہی رہنے دیا۔ ولید بن عبد الملک ک تے دور میتتں اس ک تے حکتتم پتتر کعب تہ کتے دروازے،
پرنالے اور اندرونی ستونوں پر سونے کا کام کیا گیا۔ بعد میں کئی بادشاہوں نے کعب تہ کتتی
تعمیر کی خواہش کا اظہار کیا لیکن علماءنے اس کی ستتختی س تے مختتالفت کتتی کیتتونکہ
اس صورت میں یہ ایک کھیل بن جاتا اور جس کا جی چاہتتتا ،کعب تہ کتتو گتترا کتتر اس کتتی
تعمیر کرتا رہتا۔
کعبہ کی عمارت چونکہ مکعب نما ) (Cubicalہے ،اس لئے اسے کعبہ ک ہا جاتتتا ہے۔ اس
کے چار کونے ہیں۔ ایک تو حجر اسود وال کونتتا ہے۔ بتتاقی کونتتوں کتتو رکتتن یمتتانی ،رکتتن
شامی اور رکن عراقی کہتے ہیتتں کیتتونکہ ان کتتا رخ بتتالترتیب یمتتن ،شتتام اور عتتراق کتتی
طرف ہے۔ ہم لوگ جب پاکستان میں نماز پڑھتے ہیں تو ہمارا رخ تقریبتا ً حجتتر استتود کتتی
37
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
طرف ہوتا ہے۔ کعبہ کا طواف اس کی عمارت کو اپن تے بتتائیں ہاتھ پتتر رکھت تے ہوئے خلف
گھڑی وار ) (Anti Clock Wiseسمت میں ہوتا ہے۔ اس کے ہر پھیترے کتا آغتاز اور اختتتام
حجر اسود والے کونے سے ہوتا ہے۔ طواف کرنے والوں کتے لئے ستتنت ہے کتہ وہ ہر پھیتترے
میں حجر اسود کا بوسہ لیں۔ اگر یہ ممکن نہ ہو تودور سے اس کی طرف اشارہ کر لیتتں۔
یہ اشارہ بوسے کے قائم مقام ہوتا ہے۔
جب میں پہلی بار حرم کی زیارت سے فیض یاب ہوا تو میں باب ف ہد س تے داختتل ہوا
تھا ،اس لئے میرے سامنے رکن یمانی تھا۔ کچھ نہ پوچھئے کہ کعبہ کتی پہلتی زیتارت کتا کیتا
لطف تھا۔ اس لطف کی کیفیت کا عالم وہی جتتان ستتکتے ہیتتں جنہیتتں یتہ زیتتارت حقیقتتا ً
نصیب ہوئی ہو۔ ہمارے ہاں یہ روایت مشہور ہے کہ پہلی نظر کے وقت جو بھی دعتتا متتانگی
جائے گی وہ مقبول ہوگی۔ اس کی کتتوئی حقیقتتت نہیتتں۔ لوگتتوں نتے محتتض اپنتتی ختتوش
فہمی کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے منسوب کر دیا ہے۔کعب تہ کتتی حاضتتری
اصل میں اللہ تعال ٰی کے دربار میں حاضتتری ہے۔ اس پتتوری حاضتتری میتتں جتتب ب ھی اور
جہاں بھی کوئی دعا مانگی جائے گی ،اللہ تعتتال ٰی استے اپنتتی مشتتیت اور اپنتے قتتانون کتے
مطابق قبول فرمائے گا۔
میں طواف کرنے والوں میں شامل ہوئے بغیر گھوم کر حجر اسود کے سامنے آگیا۔ ان
دنوں صفر کا مہینہ تھا اور ابھی عمرہ کا ستتیزن شتتروع نہیتتں ہوا ت ھا ،اس لئے زیتتادہ رش
نہیں تھا لیکن یہ کم رش بھی بلمبالغہ سینکڑوں افراد پر مشتمل تھا اس لئے حجر استتود
کو بوسہ دینے کا کوئی موقع نہ تھا۔ میں نے ہاتھ اٹھا کر حجر اسود کی طرف اشارہ کیا۔ یہ
اس کے بوسے ہی کی ایک شکل تھی۔
انسان کی یہ خواہش ہے کہ جب وہ اپنے رب کے سامنے حاضر ہو تو اس کا رب مجستتم
صورت میں اس کے سامنے موجود ہو۔ وہ اس کے قدموں سے لپٹ تے ،اس ک تے ہاتھوں کتتو
چومے ،اس کے آگے سر بسجود ہو۔ اسی خواہش کے پیش نظر لوگوں نے اپنتتے معبتتودوں
کے بت بنائے۔ اصل خدا کو ہم مجسم صورت میں اس دنیا میں نہیں دیکھ سکتے ،اس لئے
اللہ تعال ٰی نے اپنے گھر کی زیارت مقرر کر دی جہاں انسان لپٹ کر اپن تے رب ک تے ستتامنے
فریاد کر سکتا ہے۔ اس کے آگے گڑگڑا سکتا ہے۔ حجر اسود کے بوسے کو اللہ تعال ٰی کا ہاتھ
چومنے کے قائم مقام قرار دیا گیا۔ ظاہر ہے ،لکھوں لوگوں کے لئے یہ تو ممکن نہیں کتتہ وہ
اسے باقاعدہ بوسہ دیں ،اس لئے ہاتھ سے اشارے کو بوسے کا قائم مقام قرار دیتتا گیتتا ہے۔
بعض لوگ اشارہ کرکے اپنے ہاتھ کو چوم رہے تھے ،اس کی کوئی حقیقت نہیں۔ سنت ی ہی
مقرر کی گئی ہے کہ ہاتھ سے صرف اشارہ کیا جائے۔
اگر طواف کرتے ہوئے کعبہ کے قریب رہا جائے تو کم چلنا پڑتا ہے لیکن ی ہاں رش زیتتادہ
ہوتا ہے۔ اس وجہ سے رک رک کر چلنے کی صورت میں وقت اتنا ہی لگتا ہے جتنا دور سے
لمبا چکر لیتے ہوئے لگتا ہے۔میں نے حجر اسود سے طواف کا آغاز کیتتا۔ حجتتر استتود وال تے
کونے کے ساتھ ہی کعبہ کا دروازہ ہے۔ کونے اور دروازے کی درمیتتانی جگ تہ کتتو ملتتتزم کہتتے
ہیں۔ یہاں لوگ لپٹ کر کھڑے تھے اور اپنے پروردگتتار کتے ستتامنے زاروقطتتار رو رہہہے تھہہے۔
کعبہ کا دروازہ زمین سے چھ فٹ سے زائد بلند ہے۔ سیاہ غلف میں سنہرے رنتتگ کتتا دروازہ
انتہائی دلکش منظر پیش کر رہا تھا۔
38
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
کعبہ کے اسی طرف سیدنا ابراہیم علیہ السلم سے منسوب پتھر ہے۔ اسے شیش تے ک تے
ایک کیس میں رکھا گیا ہے۔ میتں نتے قریتب ہو کتر اس پت ھر کتو دیک ھا ،اس پتر آپ کتے
قدموں کے نشانات بنے ہوئے تھے۔ اب میں گھوم کر حطیم کی طرف آگیا۔ یہ ایک بریکتتٹ
کی شکل کی دیوار ہے جو کعبہ کی شمال مغربی سمت میں بنائی گئی ہے۔ اس کے انتتدر
کا حصہ کعبہ میں داخل ہے۔ یہاں لوگ نوافل پڑھ رہے تھے۔ بعض لوگ طتتواف میتتں حطیتتم
کے اندر سے گزر جاتے ہیں ،یہ درست نہیں کیونکہ طواف پورے کعبہ کے گتترد ہونتتا چتتاھئیے۔
رکن شامی اور رکن عراقی کے سامنے سے گھومتا ہوا میں رکن یمانی تک آ گیتتا اور پ ھر
تھوڑی دیرمیں دوبارہ حجر اسود تک پہنچ گیا۔ یہاں پر پھر ہاتھ اٹھا کر بوسے کتا اشتارہ کیتتا
اور دوسرا پھیرا شروع کر دیا۔ میری زبان پر لبیک کا تران تہ جتتاری ت ھا اور دل میتتں اپن تے
رب کے حضور حاضری کی سی کیفیت تھی۔ یہی کیفیت قائم رکھنتتا حتتج اور عمتترے کتتی
اصل روح ہے۔
طواف
طواف کے چکر دراصل قربانی کے پھیرے ہیں۔ انسان اپنے رب کے حضور خود کو قربتتانی
کے لئے پیش کرتا ہے۔ یہ سیدنا اسماعیل علیہ السلم کی قربانی کی یتتاد ہے۔ رب کتتا بنتتدہ
پروانے کی طرح گھومتا ہوا اپنے رب کے حضتتور قربتتان ہونتتا چاہتتتا ہے۔ اگتتر خالصتتتا ً متتادہ
پرستانہ نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو یہ نقصان کا سودا نہیں ،اپنی جان کتتو اپنتتے رب
کے حضور پیش کرکے انسان وہ کچھ حاصل کر لیتا ہے جس کی قیمت ی تہ پتتوری دنیتتا متتل
کر بھی ادا نہیں کر سکتی۔
طواف
ہجوم کی وجہ سے میرے لئے اپنی نارمل رفتار پر چلنا دشتتوار ہہہو رہہہا تھہہا۔ میتتں آہستتتہ
آہستہ دائرے کے باہر کی طرف حرکت کرنے لگا۔ اب کھلی جگہ میستتر ت ھی۔ میتترے چلن تے
39
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
میں ایک ردہم پیتتدا ہونے لگتتا۔ میتتں ستتوچنے لگتتا کتہ دنیتتا میتتں دائروی حرکتتت )Circular
Movementکو ایک عجیب اہمیت حاصل ہے۔ اللہ تعال ٰی نے جو کائنات بنائی ہے ،اس میتتں (
عظیم الجثہ سیاروں اور ستاروں سے لیکر ایک چھوٹے ستے الیکتتٹران تتک ہر چیتز کستتی
مرکز کے گرد گردش کر رہی ہے۔ اپنے رب کے آگے سر بسجود کائنات کے آگے مجھے اپنی
حیثیت ایک الیکٹران کی سی معلوم ہوئی جو اپنے مرکز ) (Nucleusک تے گتترد گتتردش کتتر
رہا تھا۔ کعبہ کی موجودگی تو ایک علمتی شکل تھی ،دراصل یہ طتتواف تتتو اپنتے رب کتے
لئے تھا۔ انسان اپنے رب کو اپنی زندگی کا محور و مرکز مان کر استتی ک تے گتترد گتتردش
کرتا رہے ،یہی طواف کا سبق تھا۔ یہاں سے جانے کے بعد بھی اگر اپنا اللتہ ہی انستان کتے
فکر و عمل کا مرکز بنا رہے تو اس نے اس طواف کا حق ادا کردیا ۔
سات پھیرے کب مکمل ہوئے ،اس کا پتہ ہی نہ چل۔ مطاف میں طواف کرنے والوں ک تے
لئے خاصی جگہ چھوڑ کر پیچھے صفیں بندھی ہوئی تھیں۔ کارپٹ بچھے ہوئے ت ھے اور لتتوگ
کعبہ کی جانب منہ کئے نماز ،اذکار ،تلوت اور دعتتاﺅں میتتں مشتتغول ت ھے۔ ستتاتواں پھیتترا
مکمل کرنے کے بعد میں نے ان صفوں میتتں آ کتتر دو نفتتل ادا کئے۔ اگتتر حجتتر استتود کتتی
سیدھ میں آپ پیچھے ہٹتے جائیں تو سیدھے صفا کی طرف پہنچ جائیں گے۔ چتتونکہ مطتتاف
مسجد کی عمارت کی نسبت نشیب میں واقع ہے ،اس لئے یہاں سیڑھیاں بنی ہوئی ہیتتں۔
میں نے اپنی فیملی سے ملنے کے لئے یہی جگہ طے کی تھی۔ جب وہاں پہنچا تو معلوم ہوا
کہ یہ سب ہی فیملیوں کا میٹنگ پوائنٹ ہے۔ تھوڑی دیر میں ہم اکٹ ھے ہوگئے۔ اب صتتفا و
مروہ کی سعی کی باری تھی۔
صفا و مرو ہ
ہم لوگ حجر اسود کی سیدھ میں چلتے ہوئے صفا تک آئے۔ صفا ایک پہہہاڑی ہہہے جتتس کتتی
عظیم تاریخی و شرعی اہمیت ہے۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیتہ و التہ و ستتلم کتے دور
میں یہ اہل مکہ کے لئے اہم اعلن کرنے کے لئے ادا ہوتی تھی۔ حضور صلی اللہ علیتہ و التہ و
سلم نے بھی اپنی پہلی عام دعوت یہیں دی تھی۔ آپ نے لوگوں کتتو ی ہاں اکٹ ھا کرک تے ان
سے پوچھا ” ،اگر میں تمہیں یہ کہوں کہ پہاڑی کے دوسری طرف ایک فوج آرہی ہے تتتو کیتتا
تم اس بات پر یقین کر لو گے۔ “لوگوں نے بالتفاق کہا ” ،بالکل ،کیتتونکہ آپ ج ھوٹ نہیتتں
بولتے۔“ اس اعتماد کے بعد آپ نے انہیں اپنی رسالت کی طترف دعتوت دی۔ اس ستے یتہ
بھی معلوم ہوتا ہے کہ دعوت دین کا کام کرنے والے کا اپنا کردار اعل ٰی اخلقی صتتفات کتتا
حامل ہونا چاھئیے۔ اب صفا کے صرف چند پتھر ہی باقی رہ گئے ہیتتں جنہیتتں کچ تھ میٹریتتل
لگا کر محفوظ کر دیا گیا ہے۔
40
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
بہت سے لوگ صفا کے پتھروں پر بیٹھے تھے۔ صفا کے پہلے فلور کتی چ ھت پتر بتڑا ستا
ایک گول سوراخ ہے۔ اس کے اوپر دوسرے فلور پر ایک گنبد ہے۔ یہاں دائروی شکل میں یہ
آیت لکھی ہوئی تھی۔
ن الصفا و المروة من شعائر اللہ۔ فمتتن حتتج التتبیت او اعتمتتر فل جنتتاح علیتہ ان یطتتوف
ا ّ
بھما۔ ومن تطوع خیرا فان اللہ شاکر علیم۔ )البقرہ (2:158۔ بے شک صفا اور مروہ اللتتہ
کی نشانیوں میں سے ہیں۔ تو جو کوئی حج یا عمرہ کرے ،اس کے لئے کوئی حرج نہیں ہے
کہ وہ ان دونوں کے درمیان سعی کرے۔ اور جو اپنی طرف سے نیکی میں زیادتی کرے تتتو
اللہ تعال ٰی شاکر و علیم ہے۔“ مشرکین عتترب نتے کعبتہ کتی طتترح ی ہاں ب ھی بتتت آویتتزاں
کررکھے تھے ،اس لئے بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ خیال گزرا کہ شاید یتہ ستتعی
کوئی جاہلیت کی رسم ہے۔ اللہ تعال ٰی نے اس آیتت میتں یتہ واضتح فرمتا دیتا کتہ یتہ ستعی
جاہلیت کی رسم نہیں بلکہ اللہ کی نشانی اور سنت ابراہیمی ہے۔
میری بیٹی ماریہ اس وقت ڈیڑھ سال کی ت ھی۔ چ ھوٹے بچ تے کتتو اٹ ھا کتتر طتتواف اور
سعی خاصا مشکل کام ہے۔ بہت سے لوگوں نے تو اس کا حل یہ نکال ہے کہ وہ اپن تے بچتتوں
کو بیلٹ کی مدد سے پشت پر باندھ لیتے ہیں۔ بعض لوگ اس مقصد کے لئے وہیل چیئر کا
استعمال کرتے ہیں۔ ہمیں فوری طور پر یہی حل سوجھا کہ سعی کرنے کے لئے دو پارٹیاں
بنائی جائیں چنانچہ میری اہلیہ اسماءاور ماریہ کو لے کر صفا کے پاس بیٹ تھ گئیتتں اور میتتں
فاطمہ کو لے کر سعی کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ بعد میں معلتتوم ہوا ک تہ وہیتتل چیئر وال حتتل
زیادہ مناسب ہے۔
سعی کی حقیقت بھی طواف ہی کی طرح ہے۔ یہ بھی اللہ تعتال ٰی کتتی راہ میتتں قربتتان
ہونے کے لئے قربانی کے چکر ہیں۔ صفا و مروہ کے درمیان اب ایک ائر کنڈیشتتنڈ گیلتری بنتا
41
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
دی گئی ہے جو تقریبا ً پون کلومیٹر طویل ہے۔ یہ دو منزلہ گیلری ہے اور اس میں سے ب ہت
سے دروازے باہر اور مسجد الحرام کی طرف کھلتے ہیتتں۔ فتترش اور دیتتواروں پتتر اعل ت ٰی
درجے کے سبز و سفید ماربل کا استعمال کیا گیا ہے اور ب ہت خوبصتتورت فتتانوس چ ھت
سے لٹک رہے ہیں۔ میں سوچنے لگا کہ اب تو یہ حالت ہے ،اس وقتتت کیتتا عتتالم ہوگتتا جتتب
گرمی میں سیدہ ہاجرہ رضی اللہ عنہا نے یہاں پھیرے لئے ہوں گے۔
تقریبا ً پانچ چھ منٹ میں ہم مروہ پر پہنچ گئے۔ صتتفا کتے برعکتتس ی ہاں اب پ ہاڑی کتتی
کوئی نشانی موجود نہیں۔ صرف فرش تھوڑا سا اوپر اٹھتا ہے۔ مروہ پر پہنچ کر ایک پھیتترا
مکمل ہو جاتا ہے۔ امام حمید الدین فراہی کی تحقیق کے مطتتابق متتروہ ستتیدنا استتماعیل
علیہ السلم کی قربان گاہ ہے۔ جاوید احمد غامدی لکھتے ہیں:
”سعی اسماعیل علیہ السلم کی قربان گاہ کا طواف ہے۔ سیدنا ابراہیتم علیتہ الستلم نتے
صفا کی پہاڑی پر کھڑے ہو کر اس قربان گاہ کو دیکھا تھا اور پھر حکم کی تعمیل کے لئے
ذرا تیزی سے چلتے ہوئے مروہ کی طرف گئے تھے۔ بائیبل میں یہ واقعہ اس طرح بیتتان ہوا
ہے:
’تیسرے دن ابراہیم نتے نگتاہ کتی اور اس جگتہ کتو دور ستے دیک ھا۔ تتب ابراہیتم نتے اپنتے
جوانوں سے کہا :تم یہیں گدھے کے پاس ٹھیرو۔ میں اور یہ لڑکا ،دونوں ذرا وہاں تک جتتاتے
ہیں اور سجدہ کرکے تمہارے پاس لوٹ آئیں گے۔ )پیدائش ‘( 5-22:4
چنانچہ صفا و مروہ کا یہ طواف بھی نذر کے پھیرے ہی ہیں جو پہل تے معبتتد ک تے ستتامنے اور
اس کے بعد قربانی کی جگہ پر لگائے جاتے ہیں۔“ )قانون عبادات(
اس قربانی کے بارے میں دوسرا نقطہ نظر یہ ہے کہ یہ منی میں ہوئی تھی۔ یہاں پر دعا
کرنے کے بعد ہم نے صفا کی طرف رخ کرکے دوسرا پھیرا شروع کیتتا۔ دوران ستتعی ستتبز
نشانوں کے درمیان لوگ تیز چل رہے تھے بلکہ دوڑ رہے تھے۔ اس مقام پر حضتور نتے اپنتی
رفتار تیز کی تھی۔ صفا پر پہنچ کر اب میں اور فاطمہ بیٹھ گئے۔ میں نے ماریہ کو اٹ ھا لیتتا
اور میری اہلیہ اسماء کو لے کر سعی کے لئے نکل کھڑی ہوئیں۔
جب یہ لوگ دو پھیرے مکمل کرکے واپس پہنچے تو میں نے سوچا کہ اوپر والے فلور پتتر
رش کم ہوگا اور نسبتا ً آسانی سے سعی ہو جائے گی۔ چنانچہ ہم لوگ ستتیڑھیاں چتتڑھ کتتر
اوپر والے فلور پر چلے گئے۔ یہاں واقعی رش بہت کم تھا ،چنانچہ بڑے اطمینان سے ستتعی
مکمل ہوگئی۔ اس کے بعد ہم نے یہ معمول بنا لیا کہ ہم ایک وہیل چیئر لے لیتے اور جو بھی
تھک جاتا وہ اس پر ماریہ کو لے کر بیٹھ جاتا اور باقی افراد پیدل چلتے رہتے۔
مجھے خیال آیا کہ اگر حکومت یہاں پر متحرک بیلٹ لگتتا دے تتتو ب ہت س تے لوگتتوں کتتو
آسانی ہو جائے کیونکہ وہیل چیئر لگنے سے کئی لوگوں کے پاﺅں زخمی ہو جاتے ہیں۔ استی
طرح طواف کرنے کے لئے پہلے یا دوسرے فلور پر ایتتک بتتڑی ستتی متحتترک بیلتتٹ لگتتا دی
جائے جس پر معذور افراد کو وہیل چیئر سمیت کھڑا کردیتتا جتتائے۔ بتتس استتٹاپ اور بتتاتھ
رومز سے لے کر ان بیلٹس تک مزید بیلٹیں بھی لگا دینتتی چتتاہیئیں۔ شتتاید مستتتقبل میتتں
کسی وقت حکومت اس منصوبے پر عمل درآمد کر ڈالے۔
صفا سے شروع ہونے والی سعی کے ساتویں پھیرے کا اختتام مروہ پر ہوتا ہے۔ اس پتتر
عمرہ ختم ہو جاتا ہے اور احرام کھولنے کی اجازت ہوتی ہے۔ احتترام ک ھولنے کتے لئے ستتر
42
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
منڈوانا یا بال کٹوانا ضروری ہے۔ دور قدیم میں جب کسی کو اپنی غلمی میں لیا جاتا تتتو
اس کے بال منڈوا یا کٹوا دیے جاتے تھے۔ عمرہ کے اختتام پر یہ عمل اس بتتات کتتی علمتتت
ہے کہ بندے نے اپنے آپ کو اپنے رب کی غلمی میں مکمل طور پر دیا ہوا ہے۔
حلق یا قصر
مروہ کے دونوں فلورز پر ایک بڑا دروازہ ہے جس کے باہر بہت سے ہیئر کٹنگ سیلون ہیتتں۔
برادر مکرم ریحان احمد یوسفی کتے بقتتول اگتتر آپ نتے زیتتادہ پیستے دے کتتر ختتراب بتتال
کٹوانے ہوں تو یہاں سے کٹوائیے۔ اس سلسلے میں میری تحقیقتتات یتہ ہیتتں کتہ اگتتر آپ کتا
ارادہ سر منڈوانے کا ہو تو آپ یہاں ذوق فرما سکتے ہیں۔ ہاں اگر آپ بتتال کٹتتوانے کتتا ارادہ
رکھتے ہوں تتو پ ھر حترم ستے دور کستی حجتام کتا رخ کیجئے۔ زیتادہ ب ہتر ہے کتہ کستی
پاکستانی یا انڈین سیلون سے بتتال کٹتتوائیں ورنتہ عتترب نتتائی آپ کتے ہیئر استتٹائل کتتو نتہ
سمجھنے کے باعث اس کا بیڑا غرق کر سکتا ہے۔ ہاں اگر آپ فتتوجی ب ھائیوں کتتی طتترح
پیالہ کٹ بال رکھتے ہوں تو پھر کوئی حرج نہیں۔
مجھے فن حجامت سے کتتوئی شتتغف نہیتتں۔ ایتتک حجتتام ب ھائی ستے حاصتتل کتتی گئی
معلومات کے مطابق سر مونڈنا اس فن کی مبادیات میں سے ہے اور یہ کام اس فتتن ک تے
سیکھنے والے اپنے ابتدائی ایام میں سیکھ لیتے ہیں۔ چتتونکہ حتترم کتے قریتتب دکتتانیں اپنتتی
کمرشل اہمیت کی بنا پر بہت مہنگی ہیں ،اس لئے سیلونز کے مالک اپنی کاروباری لگتتت
کم کرنے کے لئے اناڑیوں کو بھرتی کر لیتے ہیں۔ یہ لوگ مشین کی مدد سے سر مونڈنا تتتو
با آسانی سیکھ جاتے ہیں لیکن بال کاٹنے کی ابجد سے بھی واقف نہیں ہوتے چنتتانچہ ی تہ آپ
کے بالوں کا وہی حال کرسکتے ہیں جو ایک ارنا بھینسا نازک برتنوں کی دکان کا کرتتتاہے۔
شاید اس لئے عرب نائیوں کی دکان پر ”صالون الحلقہ“ لکھا ہوتا ہے کہ آﺅ اور ٹنڈ کروات تے
چلے جاﺅ۔
باب مروہ کے باہر وسیع صحن میں طہارت خانے موجود ہیں۔ لتتوگ کہتتے ہیتتں کتہ عیتتن
اس مقام پر ابوجہل کا گھر ہوتا تھا۔ مسجد کے باہر صحن پر لتتوگ اس طتترح دھرنتتا دیتے
بیٹھے تھے جیسے ہماری سیاسی جماعتیں دھرنا دیتی ہیں۔ یہ نتہ صتترف متترد ت ھے بلکتہ ان
میں خواتین بھی تھیں۔ ان کے بچے ادھر ادھر کھیتتل ر ہے ت ھے۔ دراصتتل مستتجد ک تے انتتدر
کھانے پینے کی چیزیں لنا ممنوع ہے ،اس لئے لتوگ عبتادت ستے فتارغ ہو بتاہر آتتے ہیتتں،
دکانوں سے کھانے پینے کی چیزیں خریدتے ہیں ،صحن میں بیٹھ کر کھاتے پیتے ہیں اور پھر
عبادت کے لئے مسجد کا رخ کرتے ہیں۔
رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کی جائ ے ولدت
باب مروہ سے تھوڑے سے فاصلے پر ،بس اسٹاپ کے قریب ہی لئبریتتری کتتی وہ عمتتارت
تھی جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا گھر ہوا کرتا تھا۔ یہی آپ صلی اللہ علیہ
و الہ و سلم کی جائے پیدائش تھی۔ اس سے کچھ فاصلے پر جناب ابو طتتالب کتتا گ ھر ت ھا
جنہوں نے والدہ اور دادا کی وفات کے بعد آپ کی خدمت کی۔
43
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
میں تصور ہی تصور میں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے دور کے مکہ کو دیکھنتتے
لگا۔ آپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی ولدت ،جوانی ،سیدہ خدیجہ رضتتی الل تہ عن ہا س تے
شادی ،معاشرے میں مثبت سرگرمیوں کے فروغ سے ل تے کتتر دعتتوت دیتتن ک تے آغتتاز کتے
مراحل میری نگاہوں کے سامنے گردش کرنے لگے۔ صفا پر پہل وعظ ،مکتہ میتتں جگتہ جگتہ
دین کی دعوت ،سرداروں سے خطاب ،عام لوگتتوں ستے خطتتاب یتہ ستتب منتتاظر میتتری
آنکھوں کے سامنے گھوم گئے۔
مکہ چٹیل پہاڑوں پر مشتمل ہے۔ شدید گرمی میں یہاں کے پتھر انگاروں کی طرح تتتپ
جاتے ہیں اور ہم ننگے پاؤں زمین پر قدم نہیں رکھ سکتے۔ مجھے سیدنا بلل ،عمار ،یاسر
اور سمیہ رضی اللہ عنہم یاد آئے جنہیں ان کے بے رحم آقتتا حضتتور صتتلی اللتہ علیتہ و التہ و
سلم کی دعوت قبول کرنے کے سبب اس تپتی ریت پر لٹا کتتر ان ک تے ستتینوں پتتر دہکت تے
ہوئے پتھر رکھ دیا کرتے تھے لیکن دین کے ان جانثاروں کے پایہ استقلل میں کبھہہی لغتتزش
نہ آئی۔
44
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مروہ سے واپس آکر ہم لوگ مسجد میں داخل ہوگئے اور پہلے فلور پر جا کر عین کعبتہ
کے دروازے کے سامنے کھڑے ہوگئے۔ یہاں پر کعبہ انتہائی دلفریب منظر پیتتش کتتر ر ہا ت ھا۔
حرم میں رات کو فلڈ لئٹس کا اتنا خوبصورت نظتتام ہے کتہ اس کتے آگتے ہمتتارے کرکتتٹ
اسٹیڈیمز کی لئٹس کوئی وقعت نہیں رکھتیں۔ جب دودھیتتا لئٹ ستتیاہ و ستتنہری کعبتہ پتر
پڑتی ہے اور اس کے بیک گراﺅنڈ میں مطاف کا سفید فرش ہوتا ہے ،تو آنکھیں اس منظتتر
کو دیکھتی رہ جاتی ہیں۔ آپ نے کعبہ کی جو زیادہ تر تصاویر دیکھی ہوں گی ،وہ استتی رخ
اور اسی مقام سے لی گئی ہیں۔ اگر چہ حرم میں تصاویر کشتتی کتتی ممتتانعت ہے لیکتتن
لوگ دھڑا دھڑ اپنے موبائل فونز کی مدد سے کعبہ کی تصاویر اتار رہے ت ھے۔ ایتتک پتتولیس
مین نے انہیں اس سے منع کیا اور باز نہ آنے پر ان کے موبائل چھیتتن لئے۔ ی ہی وجتہ ہے کتہ
میں نے اس سفر نامے اور اپنی ویب سائٹ میں اپنی بجائے دوسروں کی کھینچتتی ہوئی
تصاویر کو جگہ دی ہے۔
یہاں بہت سکون تھا۔ میری اہلیہ نماز اور اذکار میں مشغول ہوگئیں۔ میں نے ریک میتتں
سے ایک قرآن مجید اٹھا لیا۔ مسجد میں ہر جگہ اس طرح کے ریک رکھے ہوئے ہیں اور ان
میں قرآن مجید مختلف زبانوں میں ترجمے کے ساتھ موجتتود ہیتتں۔مج ھے اس ریتتک میتتں
زیادہ تر فرنچ اور جرمن زبان کے ترجمے نظر آئے۔ میری یہ عتادت ر ہی ہے کتہ حترم مکتہ
45
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
میں میں اکثر قرآن مجید کی مکی سورتوں کتتی تلوت کرتتتا ہوں اور حتترم متتدینہ میتتں
مدنی سورتوں کی۔ اس طرح سیدنا ابراہیم اور حضور علیہما الصتلوة والستلم کتے ادوار
کا ایک پیارا سا نقشہ سامنے آ جاتا ہے۔ سامنے و ہی مقامتتات ہوتے ہیتتں ج ہاں اللتہ کتے یتہ
برگزیدہ رسول اور ان کے ساتھیوں کی دینی جدوجہد میں مختلف واقعات پیش آئے ہوتے
ہیں۔ میں نے قرآن کھول تو سامنے سورہ ابراہیم تھی۔ سیدنا ابراہیم علیہ الستتلم کتتی اس
دعا نے میرے سامنے وہ نقشہ کھینچ دیا جب آپ نے اپنی اولد کی ایک شاخ کتتو اس مقتتام
پر آباد کیا تھا۔ آپ کے اس اقدام کا مقصد اس دعا سے پوری طرح واضح ہوتا ہے۔
و اذ قال ابرا ہیم رب اجعل ھذا البلد آمنا و اجنبنی و بنی ان نعبممد الصممنام ۔
رب ان ھن اضللن کثیرا من الناس فمن تبعنی فان ہ منی و من عصانی فانممک
غفور رحیممم ۔ ربنمما انممی اسممکنت مممن ذریممتی بممواد غیممر ذی زرع عنممد بیتممک
المحرم ربنا لیقیموا الصلوة ،فاجعل افئدة من الناس ت ھوی الی ھم و ارزق ھم
من الثمرات لعل ھم یشکرون ۔ )ابراہیم (37-14:35
اور یاد کرو جب ابراہیم نے اپنے رب سے دعا کی” ،اے میتترے رب! اس ش تہر کتتو امتتن کتتا
گہوارہ بنا دے ،مجھے اور میری اولد کو بتوں کی عبادت سے محفوظ فرمتتا دے۔ اے میتترے
رب! ان )بتوں( نے بہت سے انسانوں کو گمراہ کر دیا ہے ،تو جو میری پیتتروی کتترے گتتا وہ
مجھ میں سے ہو گا اور جو میری نافرمانی کرے گا تو بے شک تو ہی بخشتتنے وال مہربتتان
ہے۔ اے میرے رب! میں نے اپنی اولد کتتو اس زراعتتت ستے محتتروم اس وادی میتتں تیتترے
محترم گھر کے پاس آباد کر دیا ہے تاکہ یہ نماز قائم رکھیں۔ اس لئے لوگوں کتے دلتتوں کتتو
ان کی طرف مائل کر تاکہ وہ ان کی طرف )دین کا تعلتق قتائم کرنتے کتے لئے( آئیتں اور
انہیں پھلوں سے رزق دے تاکہ یہ شکر گزار بن سکیں۔“
کافی دیر یہاں گزارنے کے بعد ہم لوگوں نے واپسی کا ارادہ کیا۔ واپستتی کتے وقتتت ہم
سے ایک غلطی ہوگئی۔ زیادہ آسان یہ تھا کہ ہم لوگ فرسٹ فلور پر ہی چلت تے ہوئے بتتاب
عبد العزیز یا باب فہد تک پہنچتے اور سیڑھیاں اتر کر باہر نکتتل جتتاتے لیکتتن ہم صتتفا ک تے
پاس کی سیڑھیاں اتر کر گراﺅنڈ فلور پر آگئے اور اپنی طرف سے شارٹ کٹ متتارنے کتتے
چکر میں ایک غلط راستے پر چل نکلے۔
تھوڑی دور جا کر احساس ہوا کہ ہم غلط آگئے ہیں۔ یہاں ہر طرف خواتین بیٹھی ہوئی
تھیں۔ میری اہلیہ کے لئے کوئی مسئلہ نہ تھا ،وہ بڑے اطمینان سے ان کتتی صتتفیں پھلنگتتتی
ہوئی بچوں کے ساتھ مطاف کی طرف نکل گئیں جبکہ میں وہیں ب تے یارومتتددگار کھہہڑا رہ
گیا۔ میں واپس مڑا تو وہاں بھی بہت سی خواتین صفیں بنا چکی تھیں۔ میرے ہاتھوں کتتے
طوطے اڑ گئے ،زندگی میں پہلی مرتبہ میں ایسی صورتحال سے دوچار ہوا تھا۔ میتترے لئے
تو مردوں کی صفیں پھلنگنا بھی ہمیشہ ایک مسئلہ رہا ہے کجتتا میتتں ختتواتین کتتی صتتفیں
پھلنگتا۔
میں اسی شش و پنج میں مبتل تھا کہ اچانک میری نظر ایک اور صاحب پر پڑی جو
میری ہی صورتحال سے دوچار تھے لیکن میترے برعکتس ان کتے چ ہرے پتر پریشتانی کتے
کوئی آثار نہیں تھے۔ یہ صاحب شکل سے پنجابی اور لہجے سے حیدر آباد دکتتن ک تے معلتتوم
ہوتے تھے۔ سر استرے کے تازہ تازہ اثر سے سفید لئٹوں میں چانتتدی کتتی طتترح چمتتک رہہہا
تھا۔ وہ بڑے اطمینان سے خواتین کی صفوں کتو پھلنگتتے ہوئے آر ہے ت ھے۔ ی ہاں زیتادہ تتتر
مصر ،شام اور سعودی عرب کی بوڑھی ختتواتین بیٹ ھی تھیتتں جنہیتتں ان صتتاحب کتتی یتہ
46
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
حرکت ایک آنکھ نہ بھائی۔ ان ہوں نتے ہاتھ اٹ ھا کتر پتوری فصتتاحت و بلغتت کتے ستتاتھ ان
صاحب کو عربی میں کوستتنے دینتے شتتروع کردیتے ۔ غالبتا ً یتہ ’ککتھ نتہ ر ہوے ‘ ٹتتائپ کتے
کوسنوں کا عربی ترجمہ تھا ۔ ان صاحب پر اس کا کوئی اثتتر ن تہ ہوا ،ان ہوں ن تے باقاعتتدہ
لڑاکا عورتوں کی طرح ہاتھ نچتا کتر ان عربتی کوستنوں کتا اردو میتں جتواب دیتا” ،اری
اماں! تم بھی تو ہماری طرف آ جاتی ہو ،کیا ہوا اگر غلطی سے ہم یہاں آگئے۔“
ان کی قوت خود اعتمادی دیکھ کر میں دنگ رہ گیا جس کتتی میتتں اس وقتتت خاصتتی
کمی محسوس کر رہا تھا۔ میری حالت تو یہ تھی کہ کاٹو تو بدن میتتں ل ہو نہیتتں۔ میتتں نتے
فوری طور پر دل ہی دل میں انہیں اپنا نجات دہندہ قرار دیا ،لپک کر ان کتے کنتتدھوں پتتر
ہاتھ رکھے تاکہ وہ کہیں ہاتھ سے پھسل نہ جائیں اور تیزی سے ان کی پیروی شروع کی۔ ان
کے صف پھلنگنے کے نتیجے میں بننے والے خل کا میں ن تے بھرپتتور طریق تے س تے استتتعمال
کیا۔ چند سیکنڈ میں ہم اس مصیبت سے چھٹکارا پا چکے تھے۔ مجھے اصتتول ً اپن تے محستتن
کا شکریہ ادا کرنا چاہئے تھا لیکن بدحواسی میں نے پیچھے بھی مڑ کر نہ دیکھا اور سر پتتر
پاﺅں رکھ کر مطاف کی طرف بھاگا جہاں میری اہلیہ اور بچے میتتری حتتالت زار پتتر ہنتتس
رہے تھے۔ میری اہلیتہ کہنتے لگیتں ” ،ختدا کتا شتکر ادا کریتں کتہ یتہ عتترب ختواتین تھیتں ،
پاکستانی یا انڈین خواتین نہیں تھیں۔“ میں نے اس جملے کی معنویت پتتر کتتافی غتتور کیتتا
اور جب اس کا مطلب سمجھ میں آیا تو سچ مچ خدا کا شکر ادا کیا۔
باب فہد کے راستے باہر نکلنے میں ہمیں دس منٹ لگ گئے۔ باہر نکتتل کتتر ہم ن تے ایتتک
کولر سے دل کھول کر آب زم زم پیا۔ اس کے بعد میں نے اپنی فیملی کو سٹاپ پر ک ھڑا
ہونے کے لئے کہا اور خود گاڑی لنے کے چل پڑا۔ گاڑی ختتوش قستتمتی س تے وہیتتں موجتتود
تھی جہاں میں اسے چھوڑ کر گیا تھا۔ اس پر پولیس کی نظر نہیں پتتڑی ت ھی۔ میتتں استے
لے کر واپس آیا اور بال بچوں کو اس میں لد کر اپنے کزن عابد کے گھر کی طرف روانتتہ
ہو گیا جو مکہ ہی میں مقیم ہیں۔ یہاں آکر ہم نے بھ ہابی ستے قینچتتی متتانگی اور ختتود ہ ہی
پورے سر کے مختلف حصوں سے بال کاٹ کر احرام کھول۔
47
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
عابد کا گھر شارع ام القر ٰی پر حرم سے تین چار کلومیٹر کے فاصلے پتتر ہے۔ اگلتتی صتتبح
میں تن تنہا پیدل ہی سوئے حرم چل پڑا۔ راستے میں میں نے ایک بنگتتالی ریستتٹورنٹ پتتر
رک کر کافی کا گلس لیا اور پیدل چلتا گیا۔ میں نے موبائل پر اپنے دوسرے کزن ابرار کو
کال کی۔ ابرار سعودی عرب کے ابو جدائل گروپ میں ملزم تھے اور ان دنتتوں غتتار حتترا
کے بالکل نیچے جبل نور کے دامن میں ان کا سائٹ آفس تھا۔ ابتترار ن تے مج ھے حتترم کتے
باب فہد پر پہنچنے کے لئے کہا۔ تقریبا ً آدھ گھنٹے میں میں حرم پر پہنچ گیا۔ جتتب میتتں بتتاب
فہد پر پہنچا تو ابرار وہاں کھڑے دانت نکال رہے تھے۔
رسمی کلمات کے بعد ہم لوگ مسجد الحرام میں داخل ہوگئے۔ جمعہ کتی صتبح ت ھی۔
چھٹی کا دن ہونے کے باعث اکثر لوگ فجر کی نماز کے بعد محو استراحت تھے۔ ان دنتتوں
محرم کے آخری ایام تھے ۔ ابھی کچھ دن پہلے ہی حاجی رخصت ہوئے ت ھے اور عمتترہ کتتی
ادائیگی کے لئے ابھی ویزوں کا اجرا شروع نہیں ہوا تھا۔ یہ حرم کی زیارت کا آئیڈیل وقتتت
تھا۔ مجھے امید تھی کہ اس مرتبہ حجر اسود کا بوسہ نصیب ہو ہی جائے گا۔
جب ہم لوگ مطاف تک پہنچے تو واقعتا رش بہت ہی کم تھا لیکن ’قطرہ قطرہ مل کر
دریا بن جاتا ہے‘ کی سی کیفیت تھی۔ ہماری طرح کے رش سے بھاگنے والے تین چار ستتو
افراد عین اس وقت بھی وہاں موجود تھے ۔ شاید یہ مسجد الحرام کتتا کتتم ستے کتتم رش
ہوگا۔ خیر ہم نے اطمینان سے طواف کیا ،حطیم میتتں نوافتتل ادا کئے اور بتتاب متتروہ ستے
نکل کر جبل نور کی طرف روانہ ہوگئے۔ ابرار کے کیمپ پر پہنچ کر کچھ دیر سستتتانے کتے
بعد ہم جبل نور پر چڑھنے کے لئے تیار ہوگئے۔
جبل نور مکہ سے طائف اور پھر ریاض جانے والی سیل ہائی وے ک تے کنتتارے واقتتع ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے دور میں بھی یہ راستہ ہی رہا ہوگتتا۔ آپ کتے گ ھر
سے پیدل یہاں تک آٹھ دس کلومیٹر کا فاصلہ ہوگا۔ جبتتل نتتور کتتا ستتلوپ کتتافی زیتتادہ ہے۔
شروع میں اس پر چڑھتے ہوئے راستہ 45کے زاویے پر اٹھتتتا ہے اور درمیتتان میتتں جتتا کتتر
تقریبا ً 60کے زاویے پر مڑ جاتا ہے۔ پہاڑی کے درمیان تتتک روڈ بنتتا ہوا ہے ج ہاں گتتاڑی جتتا
سکتی ہے۔ آگے پیدل ٹریک ہے۔ راستے کے شروع میں ایک بورڈ لگا ہوا تھا جس پر عربی ،
انگریزی ،اردو ،فرنچ اور ایک آدھ اور زبان میں یہ تحریر درج تھی۔
”برادران اسلم! نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و ستلم نتے اس پ ہاڑی پتتر چڑھنتتا ،اس پتتر
نماز پڑھنا ،اس کے پتھروں کو چھونا ،اس کے درختوں پر گرہیں لگانا ،اس کی مٹی ،پتھر
اور درختوں کی شاخوں کو بطور یاد مشروع نہیں کہا ہے۔ اور نبی کریم صلی اللہ علیتتہ و
الہ و سلم کی سنت کی اتباع ہی میں ہم ستب کتے لئے بھلئی ہے۔ اس لئے آپ اس کتی
مخالفت نہ کریں۔ اللہ رب العالمین کا ارشاد ہے” ،اللہ کے رسول تم ستتب کتے لئے ب ہترین
نمونہ ہیں۔“
حقیقت یہ ہے کہ ہمیں دین کو اسی طرح لینا چاہیئے جیسا کہ حضتتور نتتبی کریتتم صتتلی
اللہ علیہ و الہ و سلم نے دیا ہے۔ آپ نے کبھی بھی جبل نور پر چڑھنے ،اس پر نماز پڑھنتتے ،
48
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اس کے پتھروں کو چھونے ،اس کی مٹی اور پتھر کو ساتھ ل تے جتتانے کتتا حکتتم نہیتتں دیتتا۔
صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہم سے کہیں زیتتادہ حضتتور صتتلی اللتہ علیتہ و التہ و ستتلم ستے
محبت کرنے والے تھے۔ انہوں نے بھی آپ کی زندگی میں یا آپ کے بعد ایسا نہیں کیا۔ اس
لحاظ سے یہ اعمال یقینتی طتور پتر دیتن اور شتریعت کتا حصتہ نہیتں ہیتں۔ ہاں دیتن اور
شریعت سے ہٹ کر ان کی ایک تاریخی اہمیت ضرور ہے جو کسی بھی بڑی شخصیت کے
ساتھ کسی چیز کی نسبت ہونے سے پیدا ہو ہی جاتی ہے۔
میرا اس پہاڑ پر چڑھنے کا مقصد ان جگہوں کو دیکھنا تھا جہاں حضور نبی کریم صلی
اللہ علیہ و الہ و سلم نے وقت گزارا تھا۔ ان جگہوں کو دیکھ کر حضور صلی اللہ علی تہ و ال تہ
و سلم کی حیات طیبہ اور آپ کے معمولت سامنے آتے ہیں جو آپ کی سیرت کے طتتالب
علم کی حیثیت سے میرے لئے اہمیت کے حامل ہیں۔ ان جگہوں سے آپ کی تعلق کتتی بنتتا
پر ایک جذباتی وابستگی بھی ہر مستتلمان کتتو ہوتی ہے لیکتتن اس کتتو بہرحتتال دیتتن اور
شریعت کے ساتھ خلط ملط نہیں کرنا چاہیئے۔
فروری کا مہینہ تھا اور دھوپ میں کوئی خاص گرمی نہ تھی لیکن ہمارا پستتینہ چ ھوٹنے
لگا۔ روڈ کا سلوپ بہت زیادہ تھا۔ پہاڑی ٹریک تک پہنچتے پہنچت تے ہم پستتینے ستے ن ہا چکتے
تھے۔ ابرار کا تعلق دیہاتی ماحول سے تھا۔ میں شہری ماحول سے تعلق رکھنے کے باوجود
پابندی سے اسکواش کھیلنے کا عادی ت ھا اور اس ک تے علوہ پاکستتتان ک تے شتتمالی علق تہ
جات میں ٹریکنگ میرا شوق رہا تھا۔ اس کے باوجود اس پہاڑ کی چڑھائی خاصی مشتتکل
معلوم ہو رہی تھی۔
پہاڑی ٹریک پتھروں پر مشتمل تھا۔ بعض جگہوں پر اسے سیڑھیوں کی شکل دینے کی
کوشش کی گئی تھی۔ شاید یہ ٹریک ہم پاکستانیوں ہی کو مشتتکل لتتگ ر ہا ت ھا ورنتہ بعتتد
میں ایک اور سفر میں میں نے دیکھا کہ اس ٹریک پر ترک بابے اور مائیاں قلنچیں بھرتتتے
ہوئے اوپر جارہے ہیں اور واپس آ رہے ہیں۔ تقریبا ً دو سو میٹر کی بلندی پر ایک چھپر ہوٹتل
تھا۔ اس ہوٹل کے بعد راستے نے باقاعدہ سیڑھیوں کی شکل اختیار کرلی۔ جگ تہ جگ تہ کچ تھ
افراد ہاتھ میں کشکول نما برتن لئے کھڑے تھے اور سیڑھیاں بنانے کے لئے چندہ مانتتگ ر ہے
ہیں۔ یہاں کی حکومت اس پہاڑ پر چڑھنے کی حوصلہ افزائی نہیتتں کرنتتا چتتاہتی ورن تہ یہہہاں
چیئر لفٹ لگانا کیا مشکل تھا۔ اسی وجہ سے یہ لوگ یہاں کھڑے تھے اور چنتتدے میتتں س تے
کچھ رقم سیڑھیوں پر لگا کر باقی سے اپنا خرچ نکال رہے تھے۔
49
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جبل نور
جبل نور کی چوٹی تک پہنچنے میں ہمیتتں 45منتتٹ لگتے۔ پ ہاڑوں پتتر چڑھنتے کتتا میتترا
اسٹائل یہ ہے کہ میں دس بیس قدم اٹھاتا ہوں ،پھر چند سیکنڈ رک کر سانس لیتا ہوں اور
پھر آگے چل پڑتا ہوں۔ جب ضرورت محسوس ہو تو رک کر دو تین منٹ آرام بھی کرلیتتتا
ہوں۔ اس کے باوجود ہم خاصی جلدی اوپر پہنچ گئے تھے۔ پہاڑ کی بلندی س تے دور دور تتتک
پھیل ہوا مکہ نظر آر ہا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے دور میتتں آبتتادی ی ہاں
سے کافی دور رہی ہوگی جبھی آپ نے اس پہاڑ کا انتخاب فرمایا۔ اب مکہ اور شہروں کی
طرح پھیلتا ہوا اس پہاڑ سے بھی پرے تک پھیل چکا ہے۔ سامنے البیک ریسٹورنٹ کا چمکتتتا
ہوا زرد اور سرخ رنگ کا سائن بورڈ نظر آرہا تھا۔ مکہ شہر مختلف وادیوں میں پھیل چکتتا
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ان وادیوں کو ملنے والی بہت سی سڑکیں پہاڑوں کتے بیتتچ میتتں بنتتائی
گئی سرنگوں سے گزرتی ہیں۔
اچانک میری نظر دور چمکتی ہوئی مسجد الحرام پتتر پتتڑی۔ مستتجد ک تے مینتتار پتتوری
شان کے ساتھ فضا میں ایستادہ تھے اور مسجد کا منظر یہاں سے بہت خوب صتتورت لتتگ
رہا تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم یہاں تشریف لتے ہوں گے تو شاید یہاں سے
کعبہ بھی نظر آتا ہو۔ مسجد کے بیک گراﺅنڈ میں زیر تعمیر 65منزل تہ حرمیتتن ٹتتاورز کتتی
عمارت بھی نظر آرہی تھی۔ یہ بھی ٹوئن ٹاورز بنائے جارہے ہیں۔ شاید ورلڈ ٹریڈ سنٹر کا یہ
فیشن پوری دنیا میں پھیل رہا ہے۔
50
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
غار حرا
اب ہم پہاڑی کے دوسری جانب اترنے لگے۔ یہاں باقاعدہ سیڑھیاں بنی ہوئی تھیں۔ تھوڑا
سا اترنے پر ایک غار آگیا۔ یہ پہاڑ کے آر پار جانے وال غار تھا۔ اس میتتں بتتڑی بتتڑی چٹتتانیں
ایک دوسرے سے جڑی ہوئی تھیں اور اتنا تنگ راستہ تھا کہ بمشکل جسم کو موڑ تتتوڑ کتتر
انسان رینگتا ہوا ان چٹانوں کے درمیان سے نکل سکتا ہے۔ مجھے اپنے 40انچ کے پیٹ کتے
ساتھ خاصی مشکل پیش آئی ۔ نجانے یہاں 55-50انچ سائز کے پیٹ والے عرب لوگ یہاں
سے کیسے گزر جاتے ہوں گے جن کے آگے میں خود کو خاصا سمارٹ محسوس کرتا ہوں۔
اس غار سے گزرنے کے بعد ہم پہاڑ کی دوسری جانب تھے اور ہمارے سامنے پہاڑ کی دیوار
میں غار حرا موجود تھا۔
غار حرا ایک چھوٹا سا غار ہے جس میں بمشکل ایک آدمی نمتتاز پتتڑھ ستتکتا ہے۔ ی ہاں
آگے پیچھے دو جاءنماز رکھے ہوئے تھے جن پر چار افراد نوافل ادا کر ر ہے ت ھے۔ ی ہاں ستے
بھی مسجد الحرام صاف نظر آرہی تھی۔ میں سوچنے لگا کہ بعثت سے قبتتل حضتتور نتتبی
کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبادت کے لئے اس جگہ کا انتخاب کیوں فرمایا؟
51
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مجھے سمجھ میں آیا کہ مکہ اس دور میں بھی ایک مرکزی شہر کی حیثیت رکھتا ت ھا۔
کثیر تعداد میں لوگ حج اور عمرہ کرنے کے لئے ی ہاں آیتتا کرت تے کیتتونکہ ی تہ عبتتادات ستتیدنا
ابراہیم علیہ السلم کے زمانے سے یہاں جاری تھیں۔ اس کے علوہ مکہ ایک بڑا تجارتی شہر
بھی تھا اور یمن سے شام جانے والی بین القوامی تجارتی شتتاہراہ کتتا ایتتک ا ہم جنکشتتن
تھا۔ شہر کی اس گہما گہمی کی وجہ سے آپ نے جبتتل نتتور کتتا انتختتاب فرمایتتا ہوگتتا۔ دور
جاہلیت میں بھی تنہائی میں اللہ تعال ٰی کی عبادت ایک معمول کی بات تھی اور عرب کے
بہت سے لوگ اسے اختیار کیا کرتے تھے۔ اسے اصطلحا ً "تحُنس" کا نتام دیتا گیتا ت ھا۔ بعتد
میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے اسے دین میں اعتکاف کی شکل میں جاری
فرما دیا۔
میں ان چٹانوں کو دیکھنے لگا۔ یہاں ہر طرف میرے آقا و مول ٰی صلی الل تہ علیتہ و التہ و
سلم کے مبارک ہاتھوں اور قدموں کتے نشتانات اب ب ھی موجتتود ہوں گتے۔ میتترے لئے یتہ
احساس ہی کافی تھا کہ میں اس مقام پر موجود ہوں جہاں کی فضتا میتں حضتور صتلی
اللہ علیہ و الہ و سلم نے کبھی سانس لیا ہوگا۔ میں نے حضور صلی اللہ علی تہ و ال تہ و ستتلم
پر درود بھیجا۔ درود کیا ہے؟ یہ اللہ تعال ٰی سے آپ صلی اللہ علیہ و التہ و ستلم کتے لئے دعتا
ہے۔ ظاہر ہے ہماری دعاﺅں کے کرنے یا نہ کرنے سے آپ کی شان پر کیا اثر پڑتا ہوگا۔ لیکن
یہ دعا محبت کی نشانی ہے۔
ایک سخی جب فقیر کو کچھ دیتا ہے تو فقیر جواب میں اور کچھ نہیں تو دعا کرکے ہی
اس کا جواب دیتا ہے۔ میری ذات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و ستتلم ک تے ب تے شتتمار
احسانات ہیں۔ سب سے بڑا احسان تو یہ ہے کہ آپ کے ذریع تے مج ھے اپن تے پروردگتتار کتتی
پہچان نصیب ہوئی اور میں اس کے کلم پاک کی لذت سے آشنا ہوا۔ میں اس ک تے جتتواب
میں آپ کو کچھ دینے کی اوقات نہیں رکھتا ،صرف آپ کے لئے اپن تے رب س تے دعتتا کرک تے
الفت و عقیدت کا نذرانہ ہی پیش کر سکتا ہوں۔الل ھم صل علممی محمممد و علممی ٰال
محمد کما صلیت ابرا ہیم و عل ٰی ٰال ابرا ہیممم انممک حمیممد مجیممد ۔ الل ھم بممارک
عل ٰی محمد و عل ٰی ٰال محمد کما بارکت عل ٰی ابرا ہیم و عل ٰی ٰال ابرا ہیم انممک
حمید مجید ۔
جمعہ کی نماز کا وقت قریب آرہا تھا۔ ہماری خواہش تھی ک تہ جمع تہ کتتی نمتتاز مستتجد
الحرام میں ادا کی جائے۔ چنانچہ ہم نے واپسی کا سفر شروع کیا۔ ذرا سا اوپر چتتوٹی پتتر
پہنچے اور پھر اترنا شروع کیا۔ جو فاصلہ ہم نے پینتالیس منٹ میں چڑھ کتتر ط تے کیتتا ت ھا،
اسے اترنے میں ہمیں پندرہ منٹ لگے۔ اب ہم نیچے آبادی میتتں ت ھے ج ہاں ایتتک ویتتن حتترم
جانے کے لئے تیار تھی۔ اس میں بیٹھے اور حرم جا پہنچ تے۔ اب کتتی ہم بتتاب الستتلم ستے
داخل ہوئے جو صفا و مروہ کی سعی کی گیلری کے عین درمیان میں واقع ہے۔
ہم لوگ سیدھے فرسٹ فلور پر کعبہ کے سامنے جا کر بیٹھ گئے۔ جمعہ کتتی اذان ہہہورہی
تھی۔ ایسا روح پرور منظر اس سے پہلے زندگی میں دیکھنا مجھے کبھی نصیب نہ ہوا ت ھا۔
اذان کے بعد امام صاحب نے خطبہ دیا۔ سعودی عرب میں مساجد پر حکومت کا کنتتٹرول
ہے اور جمعہ کے خطبات بھی وزارت سے تیار ہو کر آتے ہیں۔ ی تہ خطبتتات مکمتتل طتتور پتتر
اصلحی موضوعات پر مشتمل ہوتے ہیں اور آخرت کی یاد دلتے ہیں۔ الحمد للتتہ ستتعودی
عرب میں فرقہ واریت موجود نہیں ہے اور لوگ الگ الگ نقطہ نظر رکھنے کے باوجود ایتتک
52
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہی امام کے پیچھے نماز ادا کرتے ہیں۔ میں سوچتا ہوں کہ ہمارے ہاں فرقتوں کتے زیتادہ تتر
فتنے مساجد کی پرائیویٹائزیشن سے پیدا ہوئے ہیں۔
نماز کے بعد مسجد سے نکلنے کا مرحلہ تھا۔ شروع شروع میں میں اکتتثر مستتجد ستے
نکلتے ہوئے کوئی نہ کوئی غلطی کر ہی جاتا تھا۔ اس بار غلطی یہ ہوئی ک تہ میتتں ن تے انتتدر
کی بجائے باہر کی طرف سے جانے کا فیصلہ کیا۔ یہ فیصلہ مجھے خاصا مہنگتتا پتتڑا۔ ستتورج
پوری آب و تاب سے چمک رہا تھا اور سفید ماربل اس کی روشنی کتتو کستتی آئین تے کتتی
طرح منعکس کر رہا تھا۔
پہلے تو مجھے احساس نہ ہوالیکن ت ھوڑی دور جتا کتتر آنکھیتتں چنتتدھیا گئیتتں۔ اب چلنتتا
دوبھر ہو رہا تھا۔ میں نے آنکھوں کو بند کیا اور پھر تقریبا ً ایتک ملتی میتٹر کتے برابتر ایتک
آنکھ کھول کر چلنا شروع کیا۔ میرا انداز بالکل نابینا لوگوں کا سا تھا۔ آنک ھوں ستے بتتری
طرح پانی بہہ رہا تھا اور میں بن لدن گروپ کے ان انجینئرز کی جان کو رو رہا تھا جنہوں
نے حرم کے صحن میں لگانے کے لئے سفید ماربل کا انتخاب کیا تھا۔ بتتڑی مشتتکل صتتحن
سے گزر کر بس سٹاپ تک آیا اور ایک وین میں بیٹھ کر عابد کے گھر کی طرف روانہ ہوا۔
اس دن کے بعد سے میں نے مستقل ً ایک ستتن گلس اپنتتی گتتاڑی میتتں رکتھ لیتتا جتتو میتتں
صرف حرم میں ہی استعمال کرتا ہوں۔
53
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مسجد جعران ہ
54
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
حدیبیہ میں ظہر کی نماز کی ادائیگی کے بعد ہم آگے روانہ ہوئے۔مکہ ک تے تیستترے رنتتگ روڈ
سے ہم نے من ٰی کا رخ کیا۔ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ من ٰی کا پورا نقشہ دیکھ لیا جائے تاکہ حج کتتے
موقع پر کوئی پریشانی نہ ہو۔ من ٰی سے فارغ ہو کتتر ہم مستتجد جعرانتہ کتتی طتترف روانتہ
ہوئے۔ یہ مسجد طائف جانے والے سیل کبیر والے راستے پر موجود ہے۔ جعرانہ کے مقام پتتر
حرم کی حدود ختم ہو جاتی ہیں اور فٹ بال کا ایک ب ہت بتڑا استٹیڈیم نظتر آتتا ہے۔ اس
اسٹیڈیم پر نہایت کی خوبصورت قابل حرکت فلڈ لئٹس لگی ہوئی ہیں۔ جعرانہ کے ایگزٹ
سے ایک سڑک نکل کر مسجد جعرانہ کی طرف جاتی ہے جتتو ی ہاں ستے نتتو کلومیتتٹر کتے
فاصلے پر ہے۔
اس مسجد کی تاریخی اہمیت یہ ہے کہ غزوہ حنین کے بعد حضتتور صتتلی الل تہ علی تہ وال تہ
وسلم نے یہاں مال غنیمت تقسیم کیا تھا۔ پھر استتی مقتتام ستے آپ نتے احتترام بانتتدھ کتتر
عمرہ ادا فرمایا تھا۔ اسی موقع پر آپ نے قریش کے نومسلموں کی تالیف قلتتب کتتے لئے
انہیں کچھ زیادہ مال عطا فرمایا تاکہ یہ لوگ ایمان پر مضبوطی سے قتتائم ہو جتتائیں۔ اس
پر انصار کے بعض نوجوانوں کو یہ خیال آیا کہ آپ انہیں اپنے ہم قتتوم ہونے ک تے نتتاتے زیتتادہ
نواز رہے ہیں۔
اگر آپ آمرانہ انداز میں حکومت کر رہے ہوتے تو ان نوجوانوں کو سزا دیت تے لیکتتن آپ
نے اس کی بجائے انصار کو جمع کیا اور تفصیل ستے اس بتتات کتی وضتتاحت فرمتتائی کتہ
قریش کے نومسلموں کو زیادہ مال کیوں دیا گیا ہے؟ اس موقتتع پتتر آپ نتے انصتتار کتتو یتہ
خوشخبری بھی سنائی کہ ”،لوگ تو مال و دولت لے جائیں گے جبکہ تم اللہ کے رسول کتتو
اپنے ساتھ لے جاﺅ گے۔“ آپ نے یہ اعلن فرمایا کہ فتح مکہ کے بعد بھی آپ کا ٹھکتتانہ انصتتار
کے ساتھ ہی ہوگا۔ یہ ایک نہایت ہی جذباتی منظر تھا۔ انصار کتتی روت تے روت تے ہچکتتی بنتتدھ
گئی ۔ یہ خوشی کے آنسو تھے جو ظاہر کرتے تھے کہ انصار کتتو حضتتور س تے کتنتتی محبتتت
تھی۔
55
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مقام تنعیم
مدینہ جانے والے راستے پر تنعیم کے مقام پر حرم مکہ کی حدود ختم ہوتی ہیں۔ ی ہاں ایتتک
مسجد ہے جو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے موسوم ہے۔ دور قدیم سے مکہ کے رہنے والے
عموما ً عمرہ ادا کرنے کے لئے یہاں آ کر احرام باندھتے ہیں۔ ویسے تو اہل مک تہ کستتی ب ھی
جانب حرم کی حدود سے باہر جا کر احرام باندھ کر عمرہ کرنے کے لئے آسکتے ہیتتں لیکتتن
ان کی ترجیح یہی مسجد عائشہ ہوتی ہے کیونکہ یہ مسجد الحرام سے قریب تریتتن ہے اور
یہاں سے حرم تک ٹرانسپورٹ باآسانی دستیاب ہے۔
اس مسجد کی وجہ تسمیہ یہ ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا حجۃ الوداع کے موقتتع پتتر
اپنی مخصوص وجوہات کے باعث عمرہ ادا نہ کر سکی تھیں۔ حج کے بعد انہوں نے حضتتور
نبی اکرم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے اس حسرت کا اظہار کیا تو آپ نے انہیتتں ان کتے
بھائی عبد الرح ٰمن رضی اللہ عنہ کے ساتھ اس مقام تک بھیجا جہاں سے ان ہوں نتے احتترام
باندھ کر واپس کعبہ آ کر عمرہ ادا کیا۔ جب سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما نے کعبہ
کی از سر نو تعمیر کی تو سب لوگوں کو حکم دیا کہ وہ مقام تنعیم سے احرام باندھ کتتر
آ کر عمرہ ادا کریں۔
حجون ،جبل خندم ہ اور فتح مک ہ
مسجد جعرانہ سے ہم لوگ حجون کے علقے کی طرف آ نکلے۔ یہ وہی علقہ ہے ج ہاں ستے
حضور فتح مکہ کے موقع پر شہر میں داخل ہوئے تھے۔ اب یہاں بازار ہی بازار ہیں۔
صلح حدیبیہ کی شرائط کے تحت اہل مکہ اور مسلمانوں میں دس سال ک تے ل تۓ جنتتگ
بندی ہوئی۔ صرف دو سال بعد قریش کے حلیف بنو بکتتر ن تے مستتلمانوں ک تے حلیتتف بنتتو
خزاعہ پر شب خون مارا اور قریش نے ان کا ساتھ دیا۔ یہ حتتدیبیہ کتے معا ہدے کتتی کھلتتی
56
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
خلف ورزی تھی جو قریش کی جانب ستے ہوئی۔ اس کتے بعتتد اس معا ہدے کتتی کتتوئی
اہمیت باقی نہیں رہی تھی چنانچہ رسول اللتہ صتتلی اللتہ علی تہ و التہ و ستتلم نتے دس ہزار
قدوسیوں کا لشکر جرار تیار کیا اور مکہ کی طرف روانہ ہوگئے۔ اس لشکر کا ذکر بائبتتل
کی کتاب استثنا میں موجود ہے۔ سیدنا موس ٰی علیہ الصلوۃ والسلم ن تے اپنتتی وفتتات س تے
پہلے ایک خطبہ دیا جس میں آپ نے ارشاد فرمایا:
خداوند سینا سے آیا ،اور شعیر سے ان پر ظاہر ہوا ،اور کوہ فاران سے ان پر جلوہ گر ہوا،
وہ جنوب سے اپنی پہاڑی ڈھلنوں میں سے دس ہزار قدوسیوں کے ساتھ آیا۔ )کتاب استثنا
( 3-33:2
آپ کی تیاریوں کی خبر سن کر قریش کے سردار ابوسفیان مدینہ آئے اور آپ سے ی تہ
درخواست کی کہ آپ مکہ پر حملہ نہ کریں۔ ابو سفیان چونکہ حضور نبی کریتتم صتتلی الل تہ
علیہ و الہ و سلم کے سسر بھی تھے ،اس لئے انہوں نے اپنی بیٹی سیدہ ام حبیبہ رضتتی الل تہ
عنہا کی سفارش بھی کروانا چاہی جس پر وہ تیار نہ ہوئیں۔
حجون سے نکل کر ہم جبل خندمہ کی طرف سے حرم میں داخل ہوئے۔ فتتتح مک تہ ک تے
موقع پر حضور نے مختلف دستوں کو مختلف اطراف ستے مکتہ میتتں داختتل فرمایتتا ت ھا۔
سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ ،خندمہ سے داخل ہوئے۔ مکہ کے چند سرکشوں نے ان کا
مقابلہ کرنے کی کوشش کی لیکن ناکام رہے۔ مکہ بڑی آسانی س تے فتتتح ہوگیتتا۔ پتتورا مک تہ
فتح ہونے میں گنتی کے صرف چند لوگ قتل ہوئے جن ہوں نتے ستیدنا خالتد کتے دستتے کتے
سامنے مزاحمت کی تھی۔
مکہ پر حملے سے قبل ہی ابوسفیان رضی اللہ عنہ اسلم قبول کتتر چک تے ت ھے۔ رستتول
اللہ نے ان تمام لوگوں کے لئے معافی کا اعلن کر دیا جو جنتتگ میتتں مزاحمتتت نتہ کریتتں،
اپنے گھر کا دروازہ بند کرلیں ،یا کعبہ میں پناہ لے لیں یا پھر ابوسفیان کے گھر میں پناہ لتتے
لیں۔ اہل مکہ نے تیرہ سالہ دعوت میں رسول اللہ کے ساتھ جو سلوک کیا تھا وہ کسی س تے
ڈھکا چھپا نہ تھا۔ انہیں بھی اپنی زیادتیوں کا پورا احساس تھا۔ حضور نے ان سب کتو کعبتہ
کے پاس اکٹھا فرمایا اور ان سے فرمایا” ،میں تمہیں وہی ک ہوں گتتا جتتو یوستتف نتے اپنتے
بھائیوں سے کہا تھاکہ آج کے دن تم پر کوئی گرفت نہیں۔“
اس عام معافی کے نتیجے میں تمام اہل مکہ ایمان لئے۔ ان میتتں بتتڑے بتتڑے استتلم
دشمنوں ابوجہل اور امیہ بن خلف کے بیٹے عکرمہ اور صفوان بھی ایمتتان لئے۔ ان دونتتوں
حضرات نے بعد میں ساری عمتتر استتلم کتی ختتدمت میتں لگتتا دی اور روم و ایتتران کتے
خلف کئی معرکوں میں داد شجاعت دی۔
منی ،مزدلف ہ اور عرفات
مکہ کے قریب یہ تین تاریخی میدان ہیں جہاں حج ادا کیا جاتا ہے۔ اب یہ جدید مکہ کتے انتتدر
شامل ہو چکے ہیں۔ ان کا تفصیلی تذکرہ آگے حج کے باب میں آ رہا ہے۔
غار ثور
تفصیل کے لئے دیکھیے باب سفر ہجرت۔
57
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
سفر حج
اب حج کا موسم قریب آ رہا تھا۔ چونکہ سعودی عرب میں یہ میتترا پہل ستتال ت ھا اس لئے
حج کا موقع ہمیں زندگی میں پہلی مرتبہ مل رہا تھا۔ ہم کسی صورت بھی اس موقع کتتو
کھونا نہیں چاہتے تھے۔ عید الفطر کے فورا ً بعتتد عمتترے کتے زائریتتن واپتتس جتتانے لگتے اور
حرمین شریفین خالی ہونے لگے۔ ذیقعد کی آمد کے ساتھ ہی حجاج ک تے قتتافلے د ھڑا د ھڑ
جدہ پہنچنے لگے۔ ہمارا گھر چونکہ جدہ ایر پورٹ سے کچھ ہی فاصلے پتتر ت ھا اس لئے تمتتام
جہاز ہمارے گھر کے اوپر سے گزرتے ہوئے ایر پتتورٹ پتتر جتتا اترتتے۔ ایتتک دن میتتں نتے دس
منٹ تک ان جہازوں کا شمار کیا تو محض دس منٹ میں سات آٹھ جہاز اتر چکے تھے۔
ہم نے حج کی تیاریاں ڈیڑھ ماہ پہلے ہی شروع کر دیں۔ میرا تجربتہ ہہہے کتہ اگتتر مناستتب
تیاری اور پلننگ سے کسی کام کو کیا جائے تو اس میں پریشانیاں کم سے کم ہوتی ہیں۔
تیاریوں کا آغاز ہم نے منی ،مزدلفہ اور عرفات کا سروے کر کے کیا۔ گوگل ارتھ پر تفصیل
سے ایک ایک مقام کا جائزہ لیا۔ منی کے نقشے کو اچھی طرح سمجھا۔ عرفات ک تے انفتترا
اسٹرکچر کا جائزہ لیا۔ حج کے لئے ضروری ساز و سامان خریدنے کے لئے جدہ کے "بلد" کا
رخ کیا جو کہ جدہ کا "اندرون شہر" ہے۔ اس کے بازاروں کو کراچی کے صدر یا ل ہور کتتی
انارکلی پر قیاس کر لیجیے۔ اپنی شاپنگ کے دوران ہم نے ستتلیپنگ بیتگ ،ایتک عتدد خیمتہ،
سامان کھینچنے والی ٹرالی اور ماریہ کے لئے پرام خریدی۔
حج سے چار ہفتے قبل ہم لوگ مکہ گئے اور منی ،مزدلفہ اور عرفات کا تفصیلی جتتائزہ
لیا۔ میری اہلیہ کو شیطان دیکھنے کا بہت شوق تھا۔ کہنے لگیتتں" ،حتتج ک تے دنتتوں میتتں تتتو
ماریہ کو سنبھالنے کے باعث میں شیطان کے دیدار سے محروم ر ہوں گتتی ،اس لئے اب ھی
دکھا دیجیے۔" جب ہم منی پہنچے تو وہاں حج کی تیاریاں زور و شور سے جتتاری تھیتتں اور
سینکڑوں کارکن صفائی اور دیگر کاموں میں مشغول ت ھے۔ ہم لتتوگ پتتل پتتر ہی گتتاڑی
کھڑی کر کے شیطان کے دیدار کے لئے روانہ ہوئے۔ ان دنوں جمرات برج کو فائنتتل ٹتچ دیتا
جا رہا تھا۔ نئے جمرات برج کے ساتھ یہ پہل حج تھا۔
پہلے جمرات پتلے پتلے ستونوں کی شکل میں تھے جتتن پتتر چتتاروں طتترف ستے ستتنگ
باری کی جاتی تھی۔ لوگ چتتاروں طتترف ستے آتتے اور انہیتتں واپستی کتا راستتتہ نتہ ملتتتا۔
درست نشانہ لگانے کی کوشش میں حجاج بھگتتدڑ کتتا شتتکار ہوتے اور ب ہت ستتی قیمتتتی
جانیں یہاں ضائع ہوتیں۔ جدید پل کو اس طرح بنایا گیا تھا کہ لوگ ایتتک طتترف س تے آئیتتں
اور رمی کرتے ہوئے دوسری طرف ستے نکتتل جتتائیں۔ قتتدیم پتلتے ستتتونوں کتتی جگتہ اب
چوڑے چوڑے ستون بنا دیے گئے تھے۔ جمرات کو دیکھ کر میتتری اہلی تہ کتتو کتتافی مایوستتی
ہوئی کیونکہ یہ سیدھے سادے ستون تھے۔ ان کا خیال تھہہا کتہ یہہہاں پتتر شتتیطان کتتی کتتوئی
خوفناک سی صورت بنی ہو گی لیکن ایسا کچھ نہ تھا۔
58
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
قدیم جمرات
منی میں بہت سے مقامات پر منی کے خیموں کے تفصیلی نقشے دیے گئے تھے۔ ہم نتتے
ان نقشوں کا تفصیلی مطالعہ کیا تاکہ بعد میں مشکل نہ ہو۔ منی دراصل ایک ٹینٹ ستتٹی
ہے جہاں مستقل خیمے بنے ہوئے ہیں۔ آگ لگنے کے واقعتتات ک تے بتتاعث اب ان خیمتتوں کتتو
فائر پروف میٹریل سے بنایا گیا ہے۔ پہلے لوگ خیموں میں کھانا پکاتے جس ک تے بتتاعث آگ
لگ جاتی۔ اب کئی خیموں کے علیحدہ کچن بنا دیے گئے ہیں۔
منی کے بعد ہم نے مزدلف تہ کتتا رخ کیتتا۔ مستتجد مشتتعر الحتترام دیک ھی اور منتتی ستے
عرفات براستہ مزدلفہ جانے والی سڑکوں کا جائزہ لیا۔ عرفات میں مستجد نمترہ دیک ھی،
جبل رحمت دیکھا اور عرفات کے رنگ روڈ کا تفصیلی جائزہ لیا۔
مزدلفہ کے بیچوں بیچ دو چوڑی سڑکیں سیدھی عرفات کی طرف جارہی تھیں جتتس
پر "طریق المشاۃ" لکھا ہوا تھا۔ یہ پیدل حج کرنے کا راستہ تھا۔ ب ہت س تے حجتتاج س تے ہم
سے سنا تھا کہ گاڑیوں کے ذریعے حج کرنے والتے ب ہت ختتوار ہوتے ہیتتں۔ اگرچتہ منتتی ستے
عرفات تک وسیع سڑکوں کا جال بچھا ہوا ہے لیکن گاڑیوں کتتی تعتتداد کتے بتتاعث ٹریفتتک
جام ہو جاتا ہے اور کئی کئی گھنٹے کے سفر کے بعد لوگ چند کلومیٹر کا سفر کرتے ہیتتں۔
اس بنیاد پر ہم نے طے کیا کہ گاڑیوں پر انحصار کرنے کتتی بجتتائے اپنتے زور بتتازو بلکتہ زور
59
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ٹانگ پر حج کیا جائے۔ ٹانگوں کے اسٹیمنا میں اضافے کے لئے میں نے روزانہ اپنتتی اہلیتہ کتتو
چھ چھ کلومیٹر پیدل چلنا شروع کر دیا۔
جدہ میں بہت سے حج گروپ آپریٹ کرتے ہیں جو جدہ سے حجاج کو لے کتتر جتتاتے ہیتتں
اور واپس وہیں چھوڑ دیتے ہیں۔ ایک آدھ کو چھوڑ کر ان کی سروس کے بارے میں لوگوں
کے یہی تاثرات تھے کہ ان کی خدمات نہ ہی حاصل کی جائیں تو اچھا ہے چنتتانچہ ہم نتے یتہ
بھی فیصلہ کیا کہ کسی گروپ کی بجائے خود ہی حج کریں۔ بعد کے تجربے سے یہ ثابت ہوا
کہ ہمارے دونوں فیصلے درست تھے۔
آٹ ھ ذوالحج ہ
حج کی تیاریوں میں وقت کا پتہ ہی نہ چل اور سات ذوالحج کی شتتام آ پہنچتتی۔ شتتام کتتو
تمام چیزیں پیک کرکے ہم اگلی صبح روانگی کے لئے تیار ہو گئے۔ فجر کی نماز کے بعد ہم
نے ڈٹ کر ناشتہ کیا اور سوئے منی چل پڑے۔
ہمارا خیال تھا کہ جدہ مکہ روڈ پر بہت رش ہو گا لیکن یہاں خلف توقع بہت سکون تھہہہا
کیونکہ بیرون ملک سے آنے والے حاجی سات تاریخ سے پہلے ہی مکہ پہنچ چکے تھے اور جدہ
سے جانے والے گزشتہ رات بسوں کے ذریعے منی پہنتتچ چک تے ت ھے۔ ان ب تے چتتاروں ن تے 75
کلومیٹر کا فاصلہ چھ چھ گھنٹوں میں طے کیا تھا۔ اب سڑک پر بہت کم بستتیں تھیتتں۔ اس
وقت وہی سر پھرے جا رہے تھے جنہوں نے ہماری طرح اپنے بل بتتوتے پتتر حتتج کتتا ارادہ کیتتا
تھا۔
جدہ اور مکہ کے راستے میں تین چیک پوسٹیں لگا دی گئی تھیں جن میں ستے ہر ایتتک
پر بس والوں کی تفصیلی جانچ پڑتال کی جاتی تھی۔ ہمیں کسی نے نہ پوچھا ،چنتتانچہ ہم
لوگ محض پینتالیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد مکہ میں داخل ہو گئے۔ میتتں ن تے ایتتک بقتتالے
سے تیس ریال کا موبائل کارڈ خریدا جو کہ ان صاحب نے بتیس ریتتال میتتں دیتتا کیتتونکہ آج
ان کی کمائی کا دن تھا۔
مکہ کے تھرڈ رنگ روڈ پر ٹریفک جام تھا کیونکہ اب اہل مکہ منی کے لئے نکتتل آئے ت ھے۔
ہم نے سروس لین پکڑی اور کسی نہ کسی طرح ہم منی کے قریب پہنچ تے۔ روڈ س تے ہہہٹ
کر ایک طرف کسی سرکاری محکمے کی بڑی اچھی پارکنگ تھی جس میں ہمیں ختتوش
قسمتی سے جگہ مل گئی۔ یہاں گاڑی کھڑی کر کے ہم ن تے ستتامان کتتو ٹرالتتی پتتر بانتتدھا۔
ماریہ کو پرام میں بٹھایا۔ اب میں ٹرالی کھینچن تے لگتتا اور میتتری اہلیتہ متتاریہ کتتو دھکیلنتے
لگیں۔ یہ جگہ مقام سے تقریبا ً تین کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔
بے شمار حاجی جوق در جوق منی کی طرف جا رہے تھے۔ سیدنا ابراہیم علی تہ الستتلم
کی زبان سے ادا کی گئی خداوند قدوس کی پکار کو اسی رب نے پوری دنیا میتتں ایستتے
پھیلیا ہے کہ ہر سال لکھوں کی تعداد میں لوگ اس فریضے کی ادائیگی کے لئے چلے آتتتے
ہیں۔ یہ بات ظاہر کرتی ہے کہ دنیا کے انسانوں کی اکثریت اپنے رب سے کس قتتدر محبتتت
کرتی ہے۔ اگرچہ انسان کبھی اس کی نافرمانی کتر بیٹھتتا ہے لیکتن پ ھر ب ھی استی کتی
طرف رجوع کرتا ہے۔ اس دنیا میں انسان کا امتحان یہ نہیں کہ اس سے کبھی کتتوئی گنتتاہ
سر زد نہ ہو بلکہ اس کا اصل امتحان یہ ہے کہ وہ اپنے رب کے سامنے سر جھکا کر ر ہے اور
60
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
تھوڑی دیر میں ظہر کا وقت ہو گیا۔ حج کے دنوں میں نمازیں قصر اور جمع کرکے ادا
کی جاتی ہیں۔ ہمارا قیام کویتی مسجد کے قریب تھا۔ منی میں صتترف دو مستتاجد ہیتتں،
ایک مسجد خیف اور دوسری کویتی مسجد۔ مجھے رفع حاجت کی ضرورت محسوس ہو
رہی تھی۔ میں مسجد کے استنجا خانے میں پہنچا تو یہاں ہر ٹائلٹ کے سامنے طویل قطار
موجود تھی۔ میرا نواں نمبر تھا۔ اس بھیانک تجربے ک تے بتتاعث میتتں ن تے عتتزم کتتر لیتتا ک تہ
دوران حج کم سے کم کھانا اور پینا ہے تاکہ یہ مسئلہ دوبارہ درپیش نہ ہو۔
61
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ظہر و عصر کی نمازوں سے فارغ ہو کر میں واپس اپنے خیمے میں آگیا اور اب میری
اہلیہ مسجد چلی گئیتتں۔ ی ہاں کچتھ دیتتر آرام کرنتے کتے بعتتد ہم لتتوگ اذکتتار و اوراد میتں
مشغول رہے۔ اس سال میرے دو دوست عامر اور نوخیز بھی حج کر رہے تھے۔ نوخیز خان
اپنے نام کے برعکس ،طویتتل داڑ ھی والتے بھرپتتور قستتم کتے جتتوان متترد ہیتتں جتتن میتتں
لہوریوں اور پٹھانوں کی خصوصیات اکٹھی پائی جاتی ہیں۔ عتتامر کتتا تعلتتق کراچتتی ستے
ہے۔ شام کو عامر سے فون پر بات ہوئی جن کا خیمہ ہمارے قریب ہی تھ ہا۔ وہ مجھہہے اپنتے
پاس بل رہے تھے تاکہ میں انہیں منی کا نقشہ تفصیل سے سمجھا سکوں۔
میں عامر کے پاس پہنچا تو اپنے خیمے کے دروازے پر ہی اپنی ہمیشہ کی سی تشتتویش
ناک صورت کے ساتھ موجود تھے۔انہیں اس بات پر تشویش لحق تھی کہ کثیر تعتتداد میتں
افریقی خواتین نے منی کے سڑکوں کے کناروں پر قبضہ جمایا ہوا تھا جہاں وہ چولہے جلئے
مزے سے بیٹھی تھیں۔ ان کے پاس انڈے ،کافی ،چائے ،ڈبل روٹتتی ،بستتکٹ اور ک ھانے پین تے
کی بہت سے اشیا دستیاب تھیں۔ بھگدڑ کی صورت میتتں ان ہی چول ہوں میتتں آگ لتتگ کتتر
کافی نقصان کر سکتی تھی۔ میں انہیں قریب لگے ہوئے ایک نقشے کے قریب ل تے گیتتا اور
انہیں منی ،مزدلفہ اور عرفات کے طول و عرض سے آگاہ کیا جس کے نتیجے میں ان کتتی
تشویش میں کوئی خاص فرق واقع نہ ہوا۔
62
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
منی
واپس پہنچا تو نوخیز کا فون آ گیا جو اتفاق سے عامر کے خیمے میں ہی موجتتود ت ھے
اور اپنے بچوں کے باعث کافی پریشان معلوم ہو رہے تھے۔ میرے ذہن میں ایتتک آئی تڈیا پیتتدا
ہوا کہ رات کیوں نہ مزدلفہ کے قریب گزاری جائے لیکن ساتھ والے خیمے والوں نے بتایتتا کتہ
وہاں شدید ترین رش ہو گا۔ بہتر یہی ہے کہ آپ اتنی پرسکون جگہ چھوڑ کتتر نتہ جتتائیں۔ ان
کی بات بالکل درست تھی کیونکہ یہ جگہ ج ہاں ہر وقتت دس بتارہ افتراد فتی ستیکنڈ کتے
حساب سے گزر رہے تھے ،اس مقام کی نسبت بہت پتتر ستتکون ت ھی ج ہاں پچتتاس ستتاٹھ
افراد فی سیکنڈ کے حساب سے گزر رہے ہوں۔
مغرب اور عشا کی نمازوں کے بعد ہم نے بمشکل ایک دکان سے کھانا لیتتا جتتو مقتتدار
اور معیار دونوں اعتبار سے ناکافی تھا۔ ہمارا ارادہ تھا کہ جلد سے جلد سویا جتتائے کیتتونکہ
اگل دن نہایت ہی پر مشقت تھا۔ تقریبا ً ساڑھے آٹھ بجے ہم سونے ک تے لئے لیتتٹ چک تے ت ھے
جس کا ہمیں اگلے دن خاطر خواہ فائدہ ہوا۔
63
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
حج کی حقیقت
قرآن مجید میں حج کا حکم ان الفاظ میں دیا گیا ہے:
و اذن فی الناس بالحج۔ یاتوک رجال و علی کل ضامر ،یاتین من کتل فتج عمیتتق ،لیشتھدوا منتافع
لھم ،و یذکروا اللہ فی ایام معلومتتات علتتی متتا رزق ھم متتن بھیمتۃ النعتتام ،فکلتتوا من ہا ،و اطعمتتوا
البائس الفقیر ،ثم لیقضوا تفثھم ،ولیوفوا نذورھم ،ولیطوفوا بالبیت العتیق۔ )الحج (29-22:27
"لوگوں میں حج کی منادی کر دو۔ وہ دور دراز کے گ ہرے پ ہاڑی راستتوں ستے چلتتے ہوئے تم ہارے
پاس پیدل بھی آئیں گے اور ان اونٹوں پر سوار ہو کر بھی جو سفر کی وجہ سے دبلے ہو گئے ہوں
گے ،تاکہ اپنے لئے منفعت کی جگہوں پر پہنچیں اور چند متعین دنوں میں اپنے ان چوپایوں پر اللہ کا
نام لیں جو اس نے انہیں عطا کئے ہیں۔ )پھر تم ان کو ذبح کرو( تو ان میں سے خود بھی ک ھاؤ اور
تنگ دست فقیروں کو بھی کھلؤ۔ پھر چاہیے کہ یہ لوگ اپنا میتتل کچیتتل دور کریتتں اور اپنتتی نتتذریں
پوری کریں اور اس قدیم گھر کا طواف کریں۔"
جاوید احمد صاحب اپنی کتاب میزان میں بیان کرتے ہیں کہ حج دراصل تمثیتتل کتتی زبتتان
میں شیطان کے خلف جنگ ہے۔ جب اللہ تعال ٰی نے ابلیس کو راندہ درگاہ کیا تو اس نے اللہ
تعالی کو چیلنج کیا کہ وہ اس کے بندوں کو ہمیشہ گمراہ کرے گا۔ قرآن مجید کا بیان ہے ک تہ
شیطان کا یہ چیلنج قبول کر لیا گیا ہے اور اللہ کتے بنتتدے اب قیتتامت تتتک اس کتے دشتتمن
شیطان کے خلف حالت جنگ میں ہیں۔ اسی جنگ کو حج کی صورت میں ممثل کتتر دیتتا
گیا ہے۔ اللہ کے بندے اپنے پروردگار کی ندا پر دنیا کے مال و متاع اور اس کی مصتتروفیات
سے ہاتھ اٹھاتے ہیں ،پھر لبیک لبیک کہتے ہوئے میدان جنگ یعنی منی میں پہنچ جاتے ہیں اور
مجاہدین کے طریقے پر اس وادی میں ڈیرا ڈال دیتے ہیں۔
اگلے دن عرفات کے کھلے میدان میں پہنچ کر اپنے گناہوں کی معتتافی متتانگتے ہیتتں اور
اس جنگ میں کامیابی کے لئے دعا و مناجات کرتے ہیں اور اپنے امام کا خطبہ ستتنتے ہیتتں۔
تمثیل کے تقاضے سے میدان جنگ کی طرح نمازوں کو قصر اور جمع کر کے ادا کرتے ہیں
اور شام کو راستے میں مزدلفہ کے میدان میں قیام کرتے ہیتتں۔ اگل تے دن ی تہ میتتدان جنتتگ
میں اترتے ہیں اور اپنے دشمن شیطان پر سنگ باری کرتے ہیں ،اپنے جانوروں کو رب ک تے
حضور قربان کرتے ہیں اور سر منڈا کر اپنے رب کے حضور نتتذر ک تے پھیتتروں کتے لئے اس
کے اصلی معبد یعنی کعبہ اور دین ابراہیمی کی قدیم قربان گاہ مروہ پر حاضر ہوتے ہیں۔
نو ذو الحج ہ
فجر کے وقت میری آنکھ کھلی۔ ہم نے قریب ہی ہونے والتتی جمتتاعت میتتں نمتتاز ادا کتتی،
خیمہ لپیٹا ،سامان کو ٹرالی پر اور ماریہ کو پرام میں باندھا ،قریبی دکان س تے کتتافی پتتی
اور چلنے کے لئے تیار ہو گئے۔ سورج طلوع ہونے تک ہم روانہ ہو چکے تھے۔ ہم سے پہل تے ب تے
شمار لوگ عرفات کی جانب روانہ ہو چکے تھے۔ انسانوں کا ایک ختم نہ ہونے وال ریل تہ ت ھا
جو چل جا رہا تھا۔ صبح کا وقت تھا اور دسمبر کے آخری ایام۔ طائف سے آنے والی ستترد
ہوائیں منی سے گزر رہی تھیں۔ اچھی خاصی سردی ہو رہی تھی۔ عامر ک تے مشتتورے ک تے
مطابق میں نے ایک اچھا کام یہ کیا تھا کہ ایک ہلکا سا کمبتتل ستتاتھ رکتھ لیتا ت ھا۔ اب و ہی
کمبل احرام کی اوپر والی چادر کا کام دے رہا تھا۔
تھوڑی دور جا کر منی ختم ہو گیا اور مزدلفہ کا آغاز ہو گیا۔ یہاں ایک بورڈ لگتتا ہوا ت ھا
64
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جس پر لکھا تھا "عرفات ۱۱کلومیٹر" ،گویا ہمیتتں اس دن کتتل ستتترہ اٹ ھارہ کلومیتتٹر کتتا
سفر پیدل طے کرنا تھا۔ یہاں ٹریفک بری طرح جام تھا اور پیدل چلنے والے مزے سے چلے
جارہے تھے۔ ایک جیسے احرام باندھے ،سامان کو ٹرالیوں پر کھینچتے لوگ ایک ردھم میتتں
چلے جا رہے تھے۔ شیطان سے جنگ کی مماثلت سے کہیں سنا ہوا یہ نغمہ میرے کانوں میں
گونجا۔
تیز چلو غازیو ،سامنے منزل ہے وہ
ل الہ ال اللہ ،ل الہ ال اللہ
مزدلفہ کے وہ حصہ جو منی کے قریب ہے ،اس میں بھی منی کی طتترز پتتر خیمتے لگتے
ہوئے تھے۔ مجھے ان خیموں کی وجہ سمجھ میں نہ آئی۔ بعد میں کسی سے معلوم ہہہوا ک تہ
زیادہ رقم دے کر حج کرنے والے وی آئی پی حضرات کو مزدلفہ کی رات ان خیمتتوں میتتں
ٹھہرایا جاتا ہے۔ بدقستتمتی ستے ہم مستلمانوں میتں وی آئی پتی کلچتر اس بتری طترح
سرایت کر گیا ہے کہ ہم حج جیسی عبادت میتں ب ھی اس ستے چھٹکتارا نہیتں حاصتتل کتر
پاتے۔ اگر یہ خیمے آرام کی غرض سے لگائے گئے ہیں تو ان کتے مستتحق وی آئی پیتز کتی
بجائے بوڑھے اور معذور افراد زیادہ ہیں۔
65
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
تھوڑی دور جا کر خیمے ختم ہو گئے۔ افریقی خواتین پلوں کے نیچتے ب ھی اپنتے استتٹال
لگائے بیٹھی تھیں اور ہر طرح کا ناشتہ مہیا کر رہی تھیں۔ عرفات ک تے راستتتے پتتر ط ہارت
خانوں کا نظام بہت شاندار تھا۔ دو دو سو میٹر کے فاصلے پر طہارت خانے بنتے ہوئے ت ھے
جن کی مسلسل صفائی کی جا رہی تھی۔ ان کے ساتھ ہی وضتو کتی جگتہ اور پتتانی کتے
کولر بھی تھے۔ یہاں بجلی کے سوئچ بھی دیے گئے تھے تتاکہ لتوگ اپنتے موبتائل کتی بیتٹری
چارج کر سکیں اور لوگ ایسا کر رہے تھے۔
مزدلفہ کے اختتام پر ایک طویل چڑھائی شروع ہو گئی۔ یہاں لوگ تھک تھک کتر بیٹھنتے
لگے۔ اس مقام پر کسی صاحب دل نے منرل واٹر کی بوتلوں کے کریٹ رکھ دیے ت ھے اور
لوگ اپنی ضرورت کے مطابق یہاں سے پانی لے رہے تھے۔ ہم نے بھی تیتن بتوتلیں لیتں اور
آگے چل پڑے۔ چڑھائی کا اختتام پہاڑی کی چوٹی ستے کچتھ نیچتے ہی ہوا اور اب ڈھلتوان
شروع ہوئی۔ عرفات اب پانچ کلومیٹر رہ گیا تھا۔
منی اور مزدلفہ تو ایک دوسرے سے متصل ہیں لیکن عرفات منی سے کافی فاصلے پر
ہے۔ بائیں جانب بہت بڑا بس اسٹیشن تھا جہاں کئی ہزار بسیں کھڑی تھیں۔ یہ حجتتاج کتتی
نقل و حرکت کی بسیں تھیں جن کا ایک حصہ اس وقت واقعتا ً حرکت میں تھا۔ تھوڑا سا
آگے بڑھے تو ایک موڑ مڑتے ہی مسجد نمرہ سامنے نظر آنے لگی۔
66
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
67
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مسجد نمرہ
پیدل چلنے والے راستے پر سوائے ایمبولینس اور پولیس کی گتتاڑیوں کتے کستی گتاڑی
کو آنے کی اجازت نہ تھی جس کی وجہ سے اس دو سو فٹ کھلے روڈ پر لوگ چلے جا رہے
تھے۔ بہت سے لوگوں نے اپنے اپنے گروپوں کا جلتتوس ستتا بنایتتا ہوا ت ھا۔ گتتروپ کتتو اکٹ ھا
رکھنے کے لئے گروپ لیڈر نے جھنڈے اٹھائے ہوئے تھے۔ جنہیں جھنتڈا میستتر نتہ ہوا ان ہوں نتے
ڈنڈوں پر لفافے باندھ کر جھنڈے کا کام لیا ہوا تھہہا۔ ایتتک صتتاحب کتتو اور کچ تھ نہیتتں مل تتتو
انہوں نے ڈنڈے پر سرخ رنگ کا ایک لوٹا ہی باندھ رک ھا ت ھا۔ استتی قستتم کتتا جھنتڈا ہمتتاری
سیاسی جماعتوں کو اپنا لینا چاہیے۔
بلند آواز میں لوگ پڑھتے جا رہے تھے" ،لبیک اللھم لبیک ،ل شریک ل لبیک ،ان الحمد و
النعمۃ لک و الملک ،ل شریک لک۔" یہ سیدنا ابراہیم علیہ الصلوۃ والسلم کی اس صتتدا کتتا
جواب ہے جو انہوں نے بیت اللہ کی تعمیر کے ایک پتھر پر کھڑے ہو کر کی تھی۔ اب یہ صدا
پوری دنیا میں پھیل چکی ہے جس کے جواب میں اللہ کے بندے یہ دلنواز تران تہ پڑھت تے ہوئے
شیطان کے خلف جہاد کے لئے عرفات کے میدان کی طرف رواں دواں تھے۔
68
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
راستے میں ایک صاحب وہیل چیئر پر بیٹھے جا رہے تھے اور کیل کھا رہے تھے۔ انہوں نتتے
کیل کھا کر اس کا چھلکا راستے پر اچھال دیا۔ یتہ بتے حستی کتی انت ہا ت ھی۔ ایتک معتذور
شخص کو تو اس حرکت کے نتائج کا اچھی طرح اندازہ ہونتتا چتتاہیے۔ اس س تے پہلتے کتہ یتہ
چھلکا کسی اور کو وہیل چیئر پر پہنچاتا ،میں نے لپک کر اسے اٹھا لیا اور کسی ڈسٹ بتتن
کے انتظار میں ہاتھ میں لئے چلنے لگا۔ میرے ساتھ ہی دو لہوریے چلے جا ر ہے ت ھے۔ ان ہوں
نے میرے ہاتھ سے چھلکا چھین کر کیلے کی ایک ریڑھی پر رکھ دیا۔
عرفات کے رش کے باعث بعض لوگ عرفات کی حدود سے باہر ہی رکے ہوئے ت ھے۔ ی تہ
نہایت ہی غلط عمل ہے کیونکہ وقوف عرفات حج کا رکن اعظم ہے۔ اللہ کرے یہ لتتوگ بعتتد
میں کسی وقت عرفات کے اندر آگئے ہوں۔ جیسے ہی ہم عرفتات کتی حتدود کتے قریتب
پہنچے ،ہمیں اپنی اس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑا جو ہم نے اس راستے پر آ کر کتتی ت ھی۔
لوگ راستے پر صفیں بنائے بیٹھے تھے جس کے باعث راستہ تنگ ہو گیا تھا۔ اس مقام ستتے
نکلنے والے لوگ کم تھے اور گھسنے والے زیادہ جس کے نتیجے میں انتہائی درجے کی دھکم
پیل ہو رہی تھی۔ منظم انداز میں چلنے والی فوج ایک ہجوم بلکہ ریتتوڑ کتتی شتتکل اختیتتار
کر چکی تھی۔
ہجوم کی نفسیات یہ ہے کہ انسان اس موقع پر اپنے ہوش و حواس کھہہو بیٹھتتتا ہہہے اور
اگر اسے کوئی دھکا پڑتا ہے تو وہ اسے آگے والے کو منتقل کر دیتا ہے۔ اس موقتتع پتتر اگتتر
کوئی نیچے گر پڑے تو لوگ اس کا لحاظ کیے بغیر اسے روندتے ہوئے گزر جتتاتے ہیتتں۔ اگتتر
ایسی حالت میں نظم و ضبط کا دامن نہ چھوڑا جتتائے تتتو کئی قیمتتتی جتتانیں بچتتائی جتتا
سکتی ہیں۔ افسوس ہمتارے وہ حضتترات جتتو حتج کتی تربیتتت دیتتے ہیتتں ،بتالعموم فق ہی
مسائل کی جزئیات یا مخصوص دعاؤں کے حفظ تک ہی اپنتتی تربیتتت کتتو محتتدود رکھتتے
ہیں اور رش میں چلنے اور اٹھنے بیٹھنے کے آداب سے حجاج کو بہرہ ور نہیں کرتے۔
میں دو مرتبہ گرا اور میری ٹرالی کئی مرتبہ الٹی لیکن اللتہ تعتتالی کتتا کتترم یتہ ر ہا کتہ
بچت ہو گئی۔ میں اگلی جانب سے ماریہ کی پرام کے لئے ڈھال بنا ہوا ت ھا اور میتتری اہلی تہ
پچھلی جانب سے۔ قریب ہی چند پاکستانی بیٹھے تھے جنہوں نے ہماری مدد کتتی اور ہمیتتں
اپنی صفوں میں جگہ دی۔ راستے سے ہٹ کر کافی خواتین ایک جانب بیٹھی تھیں۔ میتتری
اہلیہ ان میں چلی گئیں اور میں انہی صفوں میں گھس کر بیٹھ گیا۔ یہ دھکم پیل ظہر کتتی
اذان تک جاری رہی۔
اپنے محسنوں سے تعارف ہوا۔ ان میں ایک صاحب کوٹلی آزاد کشمیر ک تے رہن تے وال تے
تھے اور دوسرے ملتان کے۔ ایک فیصل آباد کے ریاض صاحب ت ھے جتتو مکتہ میتتں ملزمتتت
کرتے تھے۔ وہ اور ان کی اہلیہ حجاج کی خدمت کرنے میں پیش پیش تھے۔
اذان کی صدا بلند ہوئی اور امام صاحب نے مختصر خطبہ کے بعتتد دو رکعتتت ظ ہر اور
دو رکعت عصر کی نمازیں پڑھائیں۔ یہاں کئی ٹرک اپنے کنٹینرز کے ساتھ ک ھڑے ت ھے جتتن
کی چھتوں پر بھی لوگ چڑھے ہوئے تھے۔ قریب ہی ایک بلنتتد ٹتتاور ت ھا جتتس پتتر حتتج کتتی
کوریج کے لئے کیمرے لگائے گئے تھے۔ نماز کے بعد دوبارہ دھکم پیل کا آغاز ہوا۔ اس مرتبتہ
اس کی شدت کئی گنا زیادہ تھی۔ ہم لوگ فورا ً اٹتھ کتتر دیتتوار کتتی طتترف چلتے گئے تتتاکہ
بپھرے ہوئے ہجوم سے خود کو بچایا جا سکے۔ بعد میں معلتوم ہوا کتہ اس دھکتتم پیتل کتے
69
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
70
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جو بھی دعا یاد آئی وہ کر ڈالی۔ یہ قبولیت کی گھڑی تھی۔ میرا سر کھڑے کھڑے ہی اپن تے
رب کے حضور سجدے کی نیت سے جھک گیا۔ یہ شکر کا مقام ت ھا جتتس نتے اس عتتاجز و
حقیر بندے کو حج کی سعادت نصیب فرمائی۔
بعض لوگ اس افراتفری میں عرفات سے نکلنا چاہتے تھے حالنکہ ایسا غتتروب آفتتتاب
کے بعد کیا جانا تھا۔ پولیس والوں نے عرفات کا گیٹ بند کر دیا جس کے نتیجے میں ہجوم
ایک جگہ رک گیا۔ اب صورتحال یہ تھی کہ آگے بڑھنے کا کوئی راستہ نہ تھا جبکہ پیچھے ستتے
آنے والوں کا دباؤ بڑھتا جا رہا تھا۔ ہم نے ایک دوسرے کے بازوؤں میں بازو ڈال کتتر زنجیتتر
بنا لی تاکہ بپھرا ہوا ہجوم خواتین پر نہ چڑھ جائے۔ یہ ترکیتتب کامیتتاب ر ہی اور اس زنجیتتر
کے ذریعے کئی مرتبہ ہم نے اس ہجوم کو روکا۔ بہت سے لتتوگ بتے چتارے اپنتے ستتامان کتو
کندھوں پر اٹھائے گھنٹوں کھڑے رہے کیونکہ اسے زمین پر رکھنے کی کوئی جگہ نہیں تھی۔
سورج غروب ہوتے ہی عرفات کا گیٹ کھول دیا گیتتا اور ہجتتوم ستترکنے لگتتا۔ میتتں نتے
71
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اپنی اہلیہ اور ماریہ کو سامان سمیت ایک چھوٹی سی چار دیواری میں کھڑا کتتر دیتتا تتتاکہ
ہجوم سے بچا جا سکے۔ اس چار دیواری میں جنریٹر لگا ہوا تھا اور تھوڑی سی جگہ تھی۔
اس جگہ ہم تقریبا ً دو گھنٹے بیٹھے رہے تاکہ ہجوم میں کچھ کمتتی واقتتع ہو تتتو ہم ب ھی جتتا
سکیں۔ یہاں ایک شتتامی بتتزرگ ستے ملقتتات ہوئی۔ ان کتے پتتاس ہلکتتی پھلکتتی فولتڈنگ
کرسیاں تھیں جو انہوں نے ہمیں پیش کیں۔ ان کی فیملی بھی اسی جنریٹر میں محصتتور
تھی۔
یہ بزرگ شام کے کسی اسکول کے ریٹائرڈ استاد ت ھے۔ انہیتتں برصتتغیر کتتی تاریتتخ ستے
کافی دلچسپی تھی لیکن عربی کے علوہ کوئی اور زبان نہ جانتے تھے۔ مج ھے ب ھی جتتس
قدر عربی آتی تھی ،ان سے گپ شپ کی۔ وہ علمہ اقبال کی خدمات سے واقف تھے اور
مغل بادشاہوں کے بارے میں بھی اچھی خاصتتی واقفیتتت رکھتتے ت ھے۔ ایستے لتتوگ عتترب
معاشرے میں بہت کم پائے جاتے ہیں جو برصغیر کے بارے میتتں اتنتتا جتتانتے ہوں۔ اس کتتی
وجہ یہ ہے کہ مختلف علوم میں برصغیر کے ماہرین نتے جتتو کتتام کیتتا ہے وہ زیتتادہ تتتر اردو،
انگریزی اور فارسی زبانوں میں ہے۔ عربی میں بہت کم کام کیا گیا ہے۔ دوستتری طتترف
اہل عرب عربی کے علوہ دیگر زبانوں سے بالعموم ناآشنا ہی ہوتے ہیں۔
ریاض صاحب تو اپنا بوری بستر سمیٹ کر اپنے اہل و عیال سمیت جلتتد ہی روان تہ ہو
گئے۔ تقریبا ً دو گھنٹے کے بعد ہم بھی اٹھے اور اپنے ساز و سامان کتتو گھستتیٹتے ہوئے بتتس
اسٹاپ تک آئے جہاں بسوں اور ویگنوں کی ایک دنیا موجود تھی مگتتر ایتتک ہی مقتتام پتتر
گھنٹوں سے ساکت کھڑی تھی۔ ان میں سے کسی گاڑی میتتں کتتوئی گنجتتائش نہیتتں ت ھی
اور لوگ چھتوں پر بھی بیٹھے تھے۔ میری اہلیہ اب کتافی ت ھک چکتی تھیتں اور ان کتے لئے
چلنا دشوار تھا۔ بھوک بھی کافی لگی ہوئی تھی۔ میں نے انہیں کہا کہ اگر ہم ی ہاں ستتاری
رات بھی بیٹھے رہیں تو سواری اور خوراک ملنا مشکل ہے۔ زیادہ مناسب یہ ہو گا کہ ہمتتت
کر کے پیدل ہی چلیں۔ اس راستے میں خوراک ملنے کا امکان بھی ہے۔ اس للچ نتے انہیتتں
پیدل چلنے پر قائل کر لیا۔
پیدل راستے پر رش اب اتنا کم تو ہو ہی چکا تھا کہ چلنا ممکن تھا۔ ستتڑک پتتر ب تے پنتتاہ
کوڑا کرکٹ پڑا ہوا تھا۔ ظاہر ہے جہاں سے لکھوں افراد گزرے ہوں وہاں ایسا ہونا تو لزم
ہے۔ ہم بھی کسی نہ کسی طرح ٹرالی اور پرام کو دھکیلتے ہوئے چلنے لگے۔ اچانک راستے
میں ایک جگہ اعلن ہونے لگا" ،چائے تیار ہے ،جو صاحبان پینا چاہیں وہ آ کر 'اپنے ختترچ' پتتر
چائے پئیں۔" ہم نے بھی ان صاحب سے کافی خریدی اور پھر چلنے لگ تے۔ مزدلف تہ ہم س تے
چھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔
راستے میں ایک جگہ کچھ بنگالی بھائی ایک بڑا سا پتیل ٹرالی پر رکھے لے جا رہے تھے۔
ہم نے انہیں روک کر ان سے دال روٹی خریدی اور بیٹھ کر کھانے لگے۔ اتنتتی شتتدید بھہہوک
میں جو مزا اس دال روٹی میں آیا ،شاید ہی کبھی آیا ہو گا۔ ہمارے قریب ہی کراچی کتتی
ایک میمن فیملی آ کر رکی۔ یہ بہادر آباد کے رہنے والے تھے۔ وہ صتتاحب ک ھانے والتتوں ستے
قیمت پر تکرار کرنے لگے۔ ان کی خواتین نے ماریہ کو بہت پیار کیا اور اسے حجتتن بتتوا کتتا
خطاب دیا۔
کھانا کھا کر ہم روانہ ہوئے۔ ہمارے ساتھ ساتھ ایک انڈین بزرگ وہیل چیئر پر جا رہے ت ھے
72
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اور ان کا سعادت مند پوتتتا انہیتتں دھکیتتل ر ہا ت ھا۔ مجتھ ستے وہ اگلتے دن کتے بتارے میتتں
استفسار کرنے لگے۔ بے چارے نہایت ہی سیدھے سادھے لوگ تھے۔ میں نے پوتے کو مشتتورہ
دیا کہ وہ اگلے دن اپنے دادا کی طرف سے رمتتی ختتود ہی کتتر آئے اور انہیتتں جمتترات کتتی
طرف نہ لے کر جائے۔
تقریبا ً ڈیڑھ گھنٹے میں ہم مزدلفہ پہنچے۔ جو لوگ بسوں میں آ ر ہے ت ھے ،ان میتتں ستے
زیادہ تر صبح فجر کے وقت مزدلفہ پہنچ پائے تھے۔ ایک جگہ جماعت ہو ر ہی ت ھی۔ ہم ن تے
بھی مغرب اور عشا کی نمازیں ادا کیں اور سونے کتے لئے مناستتب جگتہ کتتی تلش میتتں
نکل کھڑے ہوئے۔ روڈ پر بھی جگہ جگہ لوگ لیٹے تھے۔ جتتو جلتتد پہنتتچ گئے ت ھے ،انہیتتں خیم تہ
نصب کرنے کی جگہ بھی مل گئی تھی۔ اب کم از کم خیمے کی کوئی جگ تہ ن تہ ت ھی۔ ایتتک
پہاڑی کے کنارے پر ہمیں بڑی آئیڈیل جگہ ملی۔ یہاں ایک کتانٹے دار ج ھاڑی ت ھی جتتس کتے
ساتھ ہم سلیپنگ بیگ بچھا کر لیٹ گئے۔ اس جھاڑی کے باعث لوگوں کی آمد و رفت بھی
ممکن نہ تھی۔
دس ذوالحج ہ
دن بھر کی مشقت کے بعد دل کھول کر نیند آئی اور پتہ بھی ن تہ چل ک تہ کتتب صتتبح ہوئی۔
جب آنکھ کھلی تو معلوم ہوا کہ سورج نکلنے میں بیس منٹ باقی ہیں۔ جلدی جلدی وضتتو
کیا اور نماز ادا کی۔ رات کی بچی کھچی دال روٹی کھائی اور چلنے کے لئے تیتتار ہو گئے۔
نکلنے سے پہلے حوائج ضروریہ سے فراغت ضروری تھی۔ مزدلفہ کے ٹتتوائلٹس ک تے ستتامنے
طویل قطاریں لگی ہوئی تھیں۔ میرے ذہن میں ایک ترکیب آئی۔ چونکہ ہم لوگ مزدلفہ کے
کنارے پر تھے اس لئے میں نے عرفات کی جانب رخ کیا اور مزدلفہ سے بتتاہر ایتتک ٹتتوائلٹ
کا رخ کیا۔ یہ تقریبا ً خالی پڑا ہوا تھا۔
ہم ابھی چلنے ہی لگے تھے کہ ایک صاحب نے لسی کی بوتلیں ل کر دیتتں۔ پتتورا مزدلفتہ
بھی کوڑا کرکٹ سے بھرا پڑا تھا جو لکھوں لوگوں کے قیام کا نتیجہ تھا۔ میں نے سوچا کہ
قدیم زمانے میں جب لشکر کوچ کرتے ہوں گے تو ان کی باقیات سے دشمن کے جاسوس
باآسانی لشکر کی نقل و حرکت کا اندازہ لگا لیتے ہوں گے۔ ابھی ہم مزدلفہ سے نکتتل ہی
رہے کہ نوخیز خان کا فون آ گیا۔ کہنے لگے ہم صبح سے بس میں بیٹ ھے ہیتتں لیکتتن ٹریفتتک
جام کی وجہ سے چلنا مشکل ہے۔ میں نے انہیں مشورہ دیا کہ بس س تے اتتتر کتتر پیتتدل ہی
چل پڑیں۔ مزدلفہ سے منی زیادہ دور نہیں۔
73
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مزدلفہ
Mis’ar El Haram
اب ہم مشعر الحرام کے پاس سے گزر رہے تھے۔ اس مقام پر اب مستتجد بنتتا دی گئی
ہے۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر یوں کیا گیا ہے:
فاذا افضتم من عرفتتات فتتاذکروا اللتہ عنتتد مشتتعر الحتترام و اذکتتروہ کمتتا ھداکم و ان کنتتتم لمتتن
الضالین۔ )البقرۃ (2:198
"جب تم عرفات کی طرف سے نیچے اترو تو مشعر الحرام کے پاس اللہ کا ذکتتر کتترو کیتتونکہ اس
نے تمہیں ہدایت دی اور تم گمراہوں میں سے تھے۔"
غالبا ً اس آیت میں نیچے اترنے سے مراد وہ ڈھلوان ہے جس سے اتر کر انسان مزدلفہ کتتے
میدان میں داخل ہوتا ہے۔ آیت کریمہ کے حکم کے مطابق ہم نے یہاں اپنے رب کا ذکتتر کیتتا،
سبحان اللہ و بحمدہ ،سبحان اللہ العظیم۔
اس سے آگے نکلے تو کافی کی طلب محسوس ہوئی۔ ایک استتٹال ستے کتتافی لتتی۔ وہ
صاحب ساری رات کے جاگے ہوئے تھے ،بے خیالی میں کتتافی ک تے کتتپ میتتں ٹتتی بیتتگ ڈال
گئے۔ میں نے توجہ دلئی تو کہنے لگے کتہ میتتں نیتتا بنتتا دوں؟ میتتں نتے ان کتتا نقصتتان کرنتتا
مناسب نہ سمجھا اور زندگی میں پہلی اور شاید آخری مرتبتہ ٹتتی بیتتگ والتتی کتتافی پتتی۔
عجیب سا ذائقہ تھا۔
74
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اب ہم وادی محسر میں داخل ہو چکے تھے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والتتہ وستتلم اس
مقام سے تیزی سے گزرے تھے ،اس لئے ہم نے بھی رفتار کچھ تیز کر دی۔ جب ہم فیصتتل
برج کے پاس پہنچے تو اچانک ناک سے حلوہ پوری کتی خوشتتبو ٹکترائی۔ دیک ھا تتتو دونتوں
جانب عارضی طور پر پاکستانی ہوٹل بنے ہوئے تھے۔ ایک طرف توند والے ل ہوریے پوریتاں
تل رہے تھے تو دوسری طرف مانسہرہ ہزارہ ہوٹل والے خان صاحب توے پتتر پٹ ھانوں وال تے
پراٹھے بنا رہے تھے ،ایک طرف نان چنے بک رہے تھے اور ایتتک صتتاحب تتتو شتتاید بونتتگ اور
پائے کے پتیلے لئے بیٹھے تھے۔ ہمیں رات کی ٹھنڈی دال روٹی کھا لین تے پتتر کتتافی افستتوس
ہوا کہ اس کی وجہ سے ہم اس ہائی کولیسٹرول ناشتے سے محروم رہ گئے تھے۔
یہاں ایک ریڑھی سے میں نے پاکستانی کینو خریدے۔ اب میں ایک ہاتھ سے ٹرالی کھینچ
رہا تھا جس میں میں نے کینو کا لفافہ بھی تھاما ہوا تھا۔ اس موقع پر میں نتے ایتک محیتر
العقول کارنامہ سر انجام دیا اور وہ یہ تھا کہ ایک ہاتھ میں کینو لے کر اسی ہاتھ ستتے استتے
چھیل ،پھر اس کی پھاڑیاں الگ کیں اور پھر اسی ہاتھ سے اسے کھا بھی گیا۔ کیا آپ ایسا
کارنامہ سر انجام دے سکتے ہیں؟
اب ہم مزدلفہ کے آخری کونے میں تھے اور منی میتتں داختتل ہوا چتتاہتے ت ھے۔ میتتں نتے
قریب لگے نقشے سے اپنی پرسوں والی لوکیشتتن تلش کتتی اور اس جتتانب جتتانے والتتی
گلیوں کا تعین کرنے لگا۔ دو انڈین بزرگ میرے پاس کھڑے تھے۔ بے چارے بہت پریشان ت ھے
کیونکہ وہ اپنے گروپ سے بچھڑ گئے ت ھے۔ وہ مج ھے اپنتے خیمتے کتا نمتبر بتتا کتر اس کتی
لوکیشن بتانے کا کہہ رہے تھے۔ میں نے نقشہ دیکھ کر ان کے خیمے کی لوکیشن کا تعین کیا
جو یہاں سے قریب ہی تھا اور انہیں راستہ سمجھا دیا۔ اب ایتتک پنجتتابی صتتاحب ن تے مج تھ
سے اسی خدمت کے لئے کہا ،میں نے انہیں بھی لوکیشن سمجھائی۔ اس کے بعد تتتو و ہاں
مجمع لتتگ گیتتا۔ لوگتتوں نتے مج ھے نجتتانے کیتا ستتمجھا کتہ کئی پاکستتتانی ،انتڈین ،عتترب،
انڈونیشین مجھ سے اپنے اپنے خیمے کی لوکیشن سمجھنا چاہ رہے تھے اور میں کسی متتاہر
مجمع باز کی طرح اردو ،انگریزی ،پنجابی اور عربی میں تقریر جھاڑ رہا تھا۔ اس مجمتتع
بازی میں میری مداریانہ صلحیتوں کا کوئی کمال نہ تھا بلکہ یہ ان بے چاروں کی مجبتتوری
تھی کہ وہ اپنے گروپوں سے بچھڑ کر اب خیمے تلش کرتے پھر رہے تھے۔
اس سے میرے ذہن میں ایک نیا آئیڈیا پیدا ہوا۔ جدہ اور مکہ میتتں مقیتتم ب ہت ستے لتتوگ
حج کے دنوں میں حجاج کی خدمت کے لئے رضا کارانہ طور پر منتی ،مزدلفتہ اور عرفتات
جاتے ہیں۔ ان میں سے زیادہ تر لوگوں کی کوشش یہ ہوتی ہے کتہ وہ حجتتاج کتتو بلمعاوضتہ
کھانے پینے کی چیزیں فراہم کریں۔ یہ خدمت نہایت ہی عمدہ ہے لیکتتن ختتدمت کتتا دوستترا
رخ یہ بھی تھا کہ راستہ بھولے ہوئے حجاج کو راستہ سمجھایا جائے۔ اس کی طرف بہت کتتم
لوگوں نے توجہ دی ہے۔ نقشہ پڑھ کر اپنے خیمے تک پہنچنا ہر شخص کے لئے ممکن نہیں۔
حجاج کی خدمت کے لئے سرکاری طور پر بھی ہزاروں رضا کار متعین کئے جتتاتے ہیتتں
لیکن یہ لوگ صرف عربی زبان سے واقف ہوتے ہیں اور انہیں بالعموم منی کتتا زیتتادہ علتتم
بھی نہیں ہوتا۔ میں نے جب بھی کسی رضا کار سے کسی بارے میں کچھ پوچھا تو "واللتتہ!
ما فی معلوم ،ما ادری" کا جواب مل۔ میں نے یہ ارادہ کر لیا کہ جتنا عرصہ سعودی عتترب
میں ہوں ،انشاء اللہ آئندہ سال سے یہاں آ کر یہی خدمت انجام دیا کروں گا۔
75
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مجمع کچھ چھٹا تو ہم نے آگے بڑھنے کا ارادہ کیا۔ اب ہم منی میں داختتل ہو ر ہے ت ھے۔
منی کے آغاز سے ہی پیدل چلنے والے راستے پر کئی کلومیٹر طویل چھت بنتتا دی گئی ہے
تاکہ گرمی میں حجاج دھوپ سے محفوظ رہیں۔ یہ چھت منی کے آغاز سے لے کتتر مستتجد
الحرام تک بنائی گئی ہے۔ زیادہ اچھا ہو اگر اس چ ھت کتتو عرفتتات تتتک بنتتا دیتتا جتتائے۔ ان
دنوں سردی تھی ،اس لئے یہ چھت دن کی بجائے رات کو زیادہ کار آمد تھی۔
طریق المشاۃ سے ہٹ کر ہم لوگ گلیوں میں داخل ہوئے۔ یہ ایرانی حجاج کا علقہ تھا۔
منی میں کوشش یہ کی جاتی ہے کہ ایتتک ملتتک س تے تعلتتق رکھن تے وال تے لوگتتوں کتتو ایتتک
مخصوص علقہ دے دیا جائے۔ میں نے یہ دیکھا ہے کہ ایرانی حجاج نہایت ہی منظتتم طریق تے
سے کام کرتے ہیں۔ ان کے ہر گروپ کے پاس جھنڈا ہوتا ہے جسے لے کر گروپ لیڈر چلتا ہے
اور تمام افراد ساتھ ساتھ رہتے ہیں۔ اس علقے میں صفائی کا معیار بھی نسبتا ً بہتر تھا۔
گیارہ بجے تک ہم اپنے آٹھ ذو الحجہ والے مقام پر پہنچ چکے تھے۔ یہاں ہم نے خیم تہ نصتتب
کیا۔ اہلیہ اور ماریہ کو وہیں چھوڑ کر میں رمی کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ نوخیز اور عتتامر ک تے
پھر فون آئے۔ پوچھنے لگے کہ کہاں پہنچے ہیں۔ وہ بے چارے ابھی تک مزدلفہ سے روانہ ہی نتتہ
ہو پائے تھے اور فجر کے وقت سے بسوں میں بیٹھے تھے۔ ان کا گروپ اچھہہا تھہہا ک تہ انہیتتں
کم از کم بسیں فراہم کر دی گئی تھیں ورنہ بہت سے گروپوں ن تے ٹرانستتپورٹ کتتی رقتتم
وصول کر لی تھی اور بسیں فراہم نہ کی تھیں۔ میں نے اللہ کا شکر ادا کیا کہ میں کستتی
گروپ وغیرہ سے منسلک نہیں ہوا۔
راستے میں لوگ جگہ جگہ ایک دوستترے کتتا ستتر مونتڈنے میتتں مصتتروف ت ھے۔ افریقتتی
زائرین کا ایک گروپ رمی کر کے واپس آ رہا تھا۔ ی تہ لتتوگ کستتی فتتوج کتتی طتترح لیفتتٹ
رائٹ کرتے دندناتے ہوئے چلے آ رہے تھے۔ اس طتترح کتتی حرکتتت س تے دوستترے حجتتاج کتتو
تکلیف ہوتی ہے ،اس کا خیال کرنا چاہیے۔ مختلف گلیوں سے ہوتا میں جمرات کی طتترف
جا رہا تھا۔ اب میں پاکستانی اور انڈین حجاج کے علقے میں تھا۔
76
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
منی کے خیمے
پاکستانی حج مشن کا دفتر ایک خیمے میں قائم تھا اور اس کتے بالکتتل ستتامنے انتڈین
حج مشن کا دفتر تھا۔ میں اس منظر کو دیکھ کر خاصا محظوظ ہوا۔ پاکستان اور بھارت
ایک دوسرے سے سوکنوں کی طرح لڑتے ہیں اور ایک دوسرے کتے بغیتتر رہتتے ب ھی نہیتتں۔
ایک اچھی چیز یہ تھی کہ دونوں حج مشتتن والتتوں نتے ایتتک ایتتک خیمتہ ان لوگتتوں کتے لئے
مختص کیا ہوا تھا جو اپنے گروپ سے بچھڑ گئے ہیں۔ ایسے بزرگوں کو کتتوئی ی ہاں چ ھوڑ
جاتا ہے اور ان کے لواحقین یہاں سے انہیں لے جاتے ہیں۔
کنکریاں ہم نے صبح ہی مزدلفہ سے جمع کر لی تھیں۔ بعض لوگ یہ ضتروری ستمجھتے
ہیں کہ کنکریاں مزدلفتہ ہ ہی ستے جمتتع کتتی جتتائیں۔ اس کتتی کتتوئی دینتتی حقیقتتت نہیتتں۔
کنکریاں کہیں سے بھی جمع کی جا سکتی ہیں۔ ہاں مزدلف تہ میتتں ی تہ آستتانی ہے ک تہ و ہاں
کنکریاں بکثرت دستیاب ہیں۔
میری ٹانگوں میں آپس میں رگڑ لگنے کے باعث اب زخم ہونے لگے تھے۔ دراصتتل مجتھ
77
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
سے غلطی یہ ہوئی تھی کہ خیمے سے روانہ ہوتے وقت میں ویزلین لگانا بھول گیا تھا۔ زیادہ
پیدل چلنے والے افراد کو اس بات کا خیال رکھنا چاہیے۔ جمرات کا پل میں پہلے ہی دیک تھ
چکا تھا۔ اس سال جمرات کو تین منزلہ بنا دیا گیا تھا۔ اگلے ستتالوں میتتں حکتتومت کتتا ی تہ
ارادہ تھا کہ مزید کئی منزلیں تعمیر کی جائیں۔ شیطان کی علمتیں یعنتی جمترہ صتغری،
وسطی اور عقبہ کے ستون تہہ خانے سے نکلتے ہوئے اوپر کی منزل تک جا رہے تھے۔ اب یتتہ
ستون چوڑے بنا دیے گئے تھے جن کے دو جانب سے سنگ باری کی جارہی تھی۔ لوگ ایتتک
طرف سے آ کر دوسری جانب جارہے تھے۔ یہ پہل حج تھا جس میں جمرات کے پاس کوئی
شخص کچل کر شہید نہیں ہوا تھا۔
میں نے سب سے اوپر والی منزل کا انتخاب کیا۔ جمتترات ک تے پتتل پتتر دو طتترف س تے
چڑھائی تھی۔ پیدل لوگوں کی ٹریفک کا نظام قابل تعریف ت ھا اور رضتتا کتتار لوگتتوں کتتو
گائیڈ کر رہے تھے۔ پہلے چھوٹا شیطان آیا۔ اس کے بعد درمیانہ شیطان اور پھر بڑا شیطان۔
مجھے اپنے علوہ اپنی اہلیہ اور ماریہ کی جانب سے بھی رمی کرنا تھی جس کتتے لئے میتتں
گن کر کافی پتھر لے کر چل تھا۔
بڑے شیطان کے پاس ایک لہوری صاحب جنون کتے عتتالم میتتں ک ھڑے ت ھے اور کستتی
پنجابی ہیرو کی طرح شیطان کو للکار رہے تھے" :اوئے ایہہ وٹا اودا جیہڑا توں میرے کولوں
جھوٹ بلیا۔ ٹھاہ۔ ایہہ اودا جیہڑا توں میرے کولوں غیبت کرائی۔ ٹھاہ۔ ا ہہہ اودا جی ہڑا ۔۔۔۔۔"
انہوں نے شیطان کو ہر کنکری کے ساتھ شیطان کو وہ جرم یاد دلیا جو اس نے انہیں بہکتتا
کر کیا تھا۔ ننھے منے انڈونیشینز کو کنکریاں مارنے کے لئے جگہ نہیں مل رہی ت ھی ،چنتتانچہ
وہ یہ فریضہ اچھل اچھل کر انجام دے رہے تھے۔
رمی جمار دراصل شیطان کے خلف جنگ کا کلئمیکس ہے۔ مجاہدین کا یہ لشکر منی
میں اکٹھا ہوتا ہے ،پھر عرفات کے میدان میں جاتا ہے جتتو معبتتد کتتا قتتائم مقتتام ہے۔ پ ھر
واپس مزدلفہ آ کر پڑاؤ ڈالتا ہے۔ اس کے بعد میدان جنگ میں اترتا ہے۔ رمی جمار دراصل
شیطان پر حملہ ہے۔ چونکہ قیامت تک کے لئے انسان اور شیطان کی جنگ جاری ہے ،اس
لئے اس جنگ کو حج کی صورت میں ممثل کیا گیا ہے۔ اس جنگ کا سبق ی تہ ہے ک تہ اپنتتی
عام زندگی میں بھی اس دشمن کو کوئی موقع نہ دیا جائے اور اپنے رب ک تے ستتچے بنتتدے
بن کر رہا جائے۔ اگر کبھی شیطان اپنی کوشش میں کامیاب ہونے لگے تتتو فتتورا ً تتتوبہ کتے
ذریعے اس کی کوشش کو ناکام بنا دیا جائے۔ غلطی انسان سے ہی ہوتی ہے لیکن اللہ کے
سچے بندے کبھی اپنی غلطیوں پر قائم نہیں رہتے۔ وہ توبہ کر کے اپنے رب کی طرف پلٹتتتے
ہیں۔
78
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اب نماز کا وقت ہو چکا تھا۔ جمرات برج پر کافی جگہ ختتالی ت ھی۔ ایتتک طتترف ہونے
والی جماعت میں میں نے ظہر و عصر کی نمازیں ادا کیں اور آگے چل پڑا۔ ی ہاں س تے ی تہ
سیدھی سڑک مسجد الحرام تک جا رہی تھی۔ رمی جمار کے بعد طواف کرنا حج کتا ا ہم
ترین رکن ہے۔ چونکہ پچیس تیس کلومیٹر کا فاصلہ پیتتدل ط تے کرن تے ک تے بتتاعث ہم بتتری
طرح تھکے ہوئے تھے ،اس لئے ہم نے ارادہ کیا کہ یہ فریضہ اگلے دن انجام دیا جائے۔
اپنے خیمے میں واپس پہنچ کر میں نے قصتتر کتتر ک تے احتترام ک ھول۔ ہمتتارے خیم تے کتے
قریب ہی بہت سے اسٹال لگے ہوئے تھے ج ہاں دنیتتا ج ہان کتتی اشتتیا دستتتیاب تھیتتں۔ ایتتک
صاحب بہت سی سر مونڈنے والی مشینیں لئے بیٹھے تھے۔ جو بھی ان سے اس مشتتین کتا
پوچھتا ،وہ مشین اٹھا کر اس کے سر پر ایک "ٹک" لگا دیتے جس پر اس تے مشتتین خریتتدنا
پڑتی۔
79
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
قریبی مستقل خیموں میں ایک انڈونیشین گروپ ٹھہرا ہوا تھا۔ ی تہ اتن تے کھل تے دل ک تے
لوگ تھے کہ انہوں نے اپنے ٹوائلٹ عام لوگوں کے استعمال کتے لئے ک ھول دیتے ت ھے۔ ی ہاں
میں نے غسل کیا اور عام لباس پہن لیا۔ اس کے بعد میں لمبی تان کتتر ستتویا اور مغتترب
کے وقت آنکھ کھلی۔ شام میں نوخیز کا فون آیا۔ معلوم ہوا ک تہ وہ لتتوگ بمشتتکل مغتترب
کے وقت منی پہنچ پائے تھے۔ انہوں نے رمی رات کے وقت کی تھی۔ مغتترب اور عشتتا کتتی
نمازیں ادا کر کے ہم نے کھانا کھایا اور نیند کا فائنل راؤنڈ شروع کیا۔
گیار ہ ذوالحج ہ
صبح فجر کی نماز کے بعد ہم بیت اللہ کے لئے روانہ ہوئے۔ میں دعتتا کتتر ر ہا ت ھا ک تہ گتتاڑی
صحیح سلمت اپنی جگہ پر موجود ہو۔ جب وہاں پہنچے تو معلوم ہوا کتہ دعتتا قبتتول ہوئی
ہے۔ قریب ہی بڑی بڑی بسیں کھڑی تھیں جن کے شامی ڈرائیتتور اور کن تڈیکٹر بستتوں ک تے
اندر سوئے پڑے تھے۔ ایک ڈرائیور نے جگہ بنا کر گاڑی نکالنے میں مدد کی۔ اس وقت منتتی
سے لے کر مستتجد الحتترام تتتک ٹریفتتک بلک ت ھی اور لتتوگ کئی کئی گھنٹتے میتتں یتہ آٹتھ
کلومیٹر کا فاصلہ طے کر پا رہے تھے۔ چونکہ مجھے مکہ کے راستوں سے کچتھ واقفیتتت ہے،
اس لئے میں نے شہر کے باہر کی سڑکوں کا ایتتک طویتتل چکتتر کاٹتتا اور پنتتدرہ منتتٹ میتتں
مسجد الحرام پہنچ گیا کیونکہ اس راستے میں ہمیں صرف ایک سگنل مل ت ھا۔ اپنتتی اہلی تہ
اور ماریہ کو حرم کے نیچے سرنگ میں اتتتار کتتر میتتں پارکنتتگ کتتی تلش میتتں روانتہ ہوا۔
خلف توقع ایک گلی میں آسانی سے پارکنگ مل گئی ورنتہ پارکنتتگ پلزا والتے تتتو پچتتاس
ریال فی گھنٹہ کے حساب سے چارج کر رہے تھے۔
واپسی پر میں نے اہلیہ کے لئے شاورما اور پیپسی اور اپنے لئے کیلتے اور کینتتو خریتدے۔
ہماری ملقات مسجد کے بیرونی صحن میں ایک متعین مقام پتتر ہہہوئی۔ ناشتتتہ کرنتے کتے
بعد ہم باب عبدالعزیز سے حرم میں داخل ہوئے۔ ایک پرسکون جگہ اہلیہ کو بٹ ھا کتتر میتتں
طواف کے لئے نکل کھڑا ہوا۔ پہلے میں مطاف میں داخل ہوا جہاں لوگ ایک دوسرے میتتں
پیوست چیونٹی کی رفتار سے چل رہے تھے۔ میں نے یہاں طواف کرنا مناستتب ن تہ ستتمجھا
اور چند فٹ کا فاصلہ طے کر کے ہی باہر آ گیا۔ اب میں حرم کی چھت پر جا پہنچتتا ج ہاں
طواف کا ایک پھیرا ایک کلومیٹر کا پڑتا ہے۔ یہاں لوگ نارمتتل رفتتتار میتتں چتتل ر ہے ت ھے۔
صرف حجر اسود کے سامنے جہاں سے طواف کا پھیرا شتتروع ہوتتتا ہے ،کچ تھ Bottleneck
تھی ورنہ کوئی مسئلہ نہ تھا۔
طواف کے دوران پنجاب کے کسی گاؤں کی ایتک امتاں ستے ملقتات ہوئی جتو وہیتل
چیئر پر بیٹھی تھیں۔ وہ اپنے خاوند سے بچھڑ گئی تھیں۔ میں نے ان ستے پوچ ھا کتہ ان کتے
خاوند کے پاس موبائل ہے ،کہنے لگیں" ،ہے تے سہی پر او میرے کول اے۔" میتتں ن تے ک ہا ک تہ
پریشانی کی کوئی بات نہیں ،وہ خود کسی سے موبائل لے کر آپ سے رابطہ کر لیں گتتے۔
میں نے ان کی کرسی کو دیوار کے ساتھ ایسی جگہ لگا دیتتا ج ہاں وہ تمتتام طتتواف کرن تے
والوں کو دیکھتی رہیں اور انہیں تفصیل سے سمجھا دیا کہ اس جگہ کی کیا نشتتانیاں ہیتتں
تاکہ وہ اپنے خاوند کو بتا سکیں۔
تقریبا ً ڈیڑھ گھنٹے میں طواف کے پھیرے مکمل کر کتے میتں نیچتے پہنچتا۔ اب اہلیتہ کتی
باری تھی۔ انہوں نے نیچے سے ہی طواف شروع کیا لیکن مطتتاف کتتی بجتتائے مستتجد کتے
80
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اندر سے طواف کرتی رہیں جہاں زیادہ رش نہ تھا۔ طواف کے ساتھ ہی ہمارا حج مکمل ہو
گیا۔ اب احرام کی تمام پابندیوں ختم ہو چکی تھیں۔ عصر کی نماز تک ہم لوگ حتترم ہی
میں رہے۔
عصر کے بعد ہم واپسی کے لئے نکلے۔ پارکنگ والی گلتتی تتتک ہم لتتوگ پیتتدل ہی آئے۔
گاڑی لے کر جیسے ہی ہم روڈ پر آئے تو بہت سے لوگ پریشان کھڑے تھے جنہیتتں منتتی کتے
لئے سواری نہیں مل رہی تھی۔ ہم نے بھی مراکش کتے ایتک صتاحب اور ان کتی اہلیتہ کتتو
ساتھ بٹھا لیا۔ حرم سے منی تک پورا روڈ بلک تھا اس لئے ہم ن تے ایتتک اور ستتڑک پکتتڑی۔
جب ہم منی کے پاس پہنچے تو وہاں بھی یہی حال تھا۔ ایک عرب صاحب نے یتتہ صتتورتحال
دیکھتے ہوئے اپنی گاڑی آنے اور جانے والی سڑکوں کے درمیان موجود ٹریفک آئی لینتتڈ پتتر
چڑھائی اور زبردستی یو ٹرن لے کر واپس مڑ گئے۔ میں نے بھی ان کی تقلید کا ارادہ کیتتا
لیکن دوسری جانب موجود ٹریفک پولیس کتتی گتتاڑی دیک تھ کتتر استے پتتایہ تکمیتتل تتتک نتہ
پہنچایا۔
ان صاحبان کو منی کے قریب اتار کر ہم واپس ہوئے اور اپنی سابقہ پارکنگ جا پہنچتتے۔
ہمیں دیکھ کر شامی ڈرائیور بہت خوش ہوئے اور ہمیں کھانے کی دعوت دی۔ میتتں نتتے ان
کا شکریہ ادا کیا۔ کہنے لگے کہ اگر آپ کو جگہ کا مسئلہ ہے تو رات ہمتتاری بتتس میتتں ب ھی
سو سکتے ہیں۔ شام کے لوگ پاکستانیوں سے بہت محبت کرتے ہیتں۔ اب ہم واپتس منتتی
پہنچے۔ میں نے اہلیہ کو پل پر ہی بٹھا دیا جہاں بہت سے کویتی خواتین اپن تے بچتتوں کتتو لئے
بیٹھی ہوئی تھیں۔ ان کے مرد رمی کے لئے گئے ہوئے تھے۔ انہوں نے ہمیں فلسک میں ستتے
عربی قہوہ پیش کیا۔
اس دن کی رمی بھی کافی آسان ثابت ہوئی۔ رمی سے فارغ ہو کر میتترا ارادہ ت ھا کتہ
مغرب اور عشا کی نمازیں مسجد خیف میں ادا کی جائیں۔ جب میں مسجد میتں داختل
ہوا تو پوری مسجد میں بے شمار لوگ لیٹے ہ ہوئے تھہہے اور نمتاز کتی کتتوئی جگتہ نتہ تھ ہی۔
مجبورا ً باہر نمازیں ادا کرکے واپس ہوا۔ اہلیہ کو لے کر ہم اپنے خیمے کی جانب روانہ ہوئے۔
مجھے خیال آیا کہ آج اکتیس دسمبر ہے ،دنیا میں کتنے لوگ ہوں گے جتتو نیتتو ائر نتائٹ منتا
رہے ہوں اور رنگ رلیوں میں مصروف ہوں گے۔ اللہ تعالی کا یہاں موجود لوگتتوں پتتر کتنتتا
کرم ہے کہ یہ آج کی رات ان خرافات کی بجتتائے اس کتتو راضتتی کرن تے ک تے لئے حتتج میتتں
مصروف ہیں۔ یقینا ً اس میں ہمارا کوئی کمال نہیں ،یہ سب اللہ تعالی کا فضل ہے۔
ابھی ہم اپنے خیمے کے قریب ہی پہنچے تھے کہ ایک خاتون نے ہم ستے اپنتے خیمتے کتتی
لوکیشن پوچھی اور اس کے ساتھ ہی زار و قطار رونے لگیں۔ ان کے خاوند ظہر کے وقتتت
سے ان سے بچھڑ گئے تھے اور وہ اپنی بچی اور جیٹھ کے ہمتتراہ اپن تے خاونتتد اور خیم تے کتتو
اس وقت سے ڈھونڈ رہی تھیں۔ ہم نے انہیں تسلی دی کہ آپ کتے خاونتتد یقینتا ً خیمتے میتتں
پہنچ چکے ہوں گے اور آپ کی تلش میں ہوں گے۔ ہم آپ کو خیمے تک پہنچا دیتے ہیں۔
ہماری گفتگو سن کر کراچی کے ایک صاحب بھی آ گئے۔ لکھنو کے صاف ستھرے لہجتے
میں کہنے لگے" ،بہت سے لوگوں کو اپنے خیمے نہیں مل رہے۔ میں بھی اسی سلسلے میتتں
نکل ہوں کہ ایسے لوگوں کی مدد کی جائے۔ اگر اس فیملی کو آپ ان کے خیمے تک پہنچتتا
رہے ہیں تو میں کسی اور کی تلش میں نکلتا ہوں۔" اگر ان کی طرح کچھ اور لوگ ب ھی
81
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
82
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
حج ک ے تجربات
سفر حج سے جو تجربات مجھے حاصل ہوئے ،ان میں چند تجاویز کی شکل میتتں آپ کتتی
خدمت میں پیش ہیں تاکہ اپنے حج کے دوران آپ زحمت سے بچ سکیں۔
• حج کے دوران نظم و ضبط اور صبر و تحمل کا خیال رکھیتتں۔ یتہ قتتدم قتتدم پتتر
آپ کی مدد کرے گا۔
• اگر آپ کے ساتھ فیملی ہے تو عرفتات میتں مستجد نمترہ اور جبتل رحمتت کتے
قریب جانے کی کوشش نہ کیجیے۔
• اگر آپ کو پیدل چلنے کی عادت ہے تو بہتر ہے کہ پیدل حتتج کریتتں۔ اس س تے آپ
ٹریفک جام کے مسائل سے بچ جائیں گے۔
• آج کل ہر شخص کے پاس موبائل فون ہے۔ اگتر آپ کتو انٹرنیشتنل رومنتگ کتی
سہوت میسر نہیں بھی ہے تب بھی اپنے موبائل ستتیٹ ستتعودی عتترب ل تے آئی تے اور
یہاں سے حجاج کے لئے سستا کنکشن لے لیجیے۔ بچھڑنے کی صتتورت میتتں ی تہ ب ہت
مفید ہو گا۔
• منی میں کوئی ایسا مقام طے کر لیجیے جس تتتک ہر کتتوئی آستتانی س تے پہنتتچ
سکے۔ بچھڑنے کی صورت میں سب لوگ اسی مقام پر آ جائیں۔
• اگر آپ کو بے سہارا بوڑھے ،معذور ،بچے یا خواتین ملیں تو ان کی مدد کیجیتتے۔
اللہ تعالی آپ کی مدد کرے گا۔ انہیں ان کے ملک کے متعلقہ حج مشن کے خیمے تک
پہنچا دیجیے۔ ان کے لواحقین انہیں وہاں سے لے لیں گے۔
حج ک ے انتظامات اور جدید ٹیکنالوجی
تیس لکھ افراد کا ایک جگہ اکٹھا ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ اتنتتی غیتتر معمتتولی تعتتداد
کے لئے انتظامات بھی جب تک غیر معمولی نہ ھوں ،حجاج کو مناسب خدمات فراہم نہیں
کی جاسکتیں۔ حج کے موجودہ انتظامات کے بارے میں میری رائے یہ ہے کتہ یتہ حجتتاج کتتی
اتنی بڑی تعداد کے لئے بالکل ناکافی ہیں۔ اگرچہ ستتعودی حکتتومت حجتتاج کتتو زیتتادہ ستے
زیادہ خدمات فراھم کرنے کی کوشش کر رہی ہے لیکتتن اس میتتں اب ھی ب ہتری کتتی ب ہت
گنجائش موجود ہے۔ حج کے انتظامات کی بہتری کے لئے چند تجاویز پیش خدمت ہیں۔
موجودہ دور میں انفارمیشن ٹیکنالوجی نے زندگی کے تمام شعبوں کتتو متتتاثر کیتتا ہے۔
کوئی وجہ نہیں کہ اس ٹیکنالوجی کا استعمال حج کے انتظامات میں کرکے حجاج کو زیتتادہ
سے زیادہ سہولتیں فراہم کی جائیں۔ ستتعودی حکتتومت ،ہر ملتتک کتتی مستتلم آبتتادی ک تے
تناسب سے حجاج کا کوٹہ دنیا بھر کے ممالک میں تقسیم کرتی ہے۔ کئی حکومتیں حج کے
انتظامات اپنے پاس رکھتی ہیں جبکہ بعض حکومتیں انہیں پرائیویٹ ٹور آپریٹرز کے حتتوالے
کر دیتتی ہیتں۔ پاکستتان کتے حجتاج کتے لئۓ دونتوں طترح کتے نظتام رائج ہیتں۔ حتج کتے
انتظامات کا آغاز حجاج کی رجسٹریشن سے ہوتا ھے۔ میتری رائے میتں استی مقتام ستے
جدید ٹیکنالوجی کا استعمال شروع ہو جانا چاھئیے۔
83
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اس ضمن میں پہل قدم ہر ملک میں حج رجسٹریشن ستتنٹرز کتتا قیتتام ھے۔ نتتادرا کتے
سنٹرز کی طرز پر یہاں بتتائیو میتتٹرک ) (Biometricستتکینرز نصتتب کئے جتتائیں جتتن ک تے
ذریعے حجاج کے چہرے اور فنگر پرنٹس لے لئے جائیں۔ ان سنٹرز کی تعتتداد بہرحتتال اتنتتی
ہونی چاھئیے کہ تمام حجاج کو طویل قطاروں میں انتظار کروانے کی بجتتائے جلتتد از جلتتد
فارغ کیا جاسکے۔تمام ممالک سے یہ بائیو میٹرک ڈیٹا سعودی عرب کتے مرکتتزی حتتج ڈیٹتتا
بیس میں منتقل کر دیا جائے۔
سعودی عرب میں فی الوقت حج آپریشن جدہ اور مدینہ ائر پورٹس پر جاری رہتا ھے۔
ان ائر پورٹس پر امیگریشن کاؤنٹرز پر سکینرز نصتتب کئے جتتائیں جتتن ک تے ستتامنے س تے
گزرنے پر یہ خود بخود حاجی کی آمدورفت کو ریکارڈ کرلیں۔ جدہ سے لے کر مکہ تک تیتتن
یا چار چیک پوسٹیں قائم کی جاتی ہیں جہاں حجاج کی کسی کسی بس کو چیک کیا جاتا
ہے۔ جس بس کو چیکنگ کے لئے منتخب کیا جاتا ہے ،ان کے حجتتاج کتتو صتتبر آزمتتا انتظتتار
سے گزرنا پڑتا ہے۔ چیک پوسٹوں پر پولیس کے اہل کاروں کے پاس بھی ایسے ہی پورٹیبل
سکینر ھوں جسے وہ بس میں بیٹھے حجاج کے چہروں کے سامنے سے گزارتے جائیں۔ جس
شخص کا ڈیٹا مرکزی ڈیٹا بیس میں موجود نہ ہو گا ،سکینر اس کی نشاندہی کتتر دے گتتا۔
اس شخص کو بس سے اتار کر مزید تفتیش کتتی جتائے اور بتتس کتتو فتتورا روانتہ کتتر دیتتا
جائے۔ اس پورے عمل میں ایک دو منٹ سے زیادہ وقت درکار نہیں ہو گا۔
حج کے انتظامات میں سب سے بڑا مسئلہ وہ لتتوگ پیتتدا کرت تے ہیتتں جتتو حکتتومت کتتی
اجازت کے بغیر منی پہنچ جاتے ہیں۔ ان کی تعداد لکھوں میں ہوتی ہے۔ ان کے اجتتازت ن تہ
لینے کی بڑی وجہ اجازت دینے کا طریق کار ہے۔ اگرچہ سعودی حکومت کی طرف سے یتتہ
اجازت نامہ مفت جاری کیا جاتا ہے لیکن یہ صرف ٹور آپریٹرز کی وساطت سے جاری ہوتا
ہے۔ یہ حضرات کسی کو اجازت نامہ جاری کروانے کے لئے یہ شرط رکھتے ہیتتں کتہ ان ستے
رہائش ،کھانے اور ٹرانسپورٹ کا پورا پیکج لیا جائے ۔ پیکج کی رقم بہت زیادہ اور خدمات
کا معیار عموما بہت ناقص ہوتا ہے۔ یہ اسی طرح ہے کہ کستتی کتتو مجبتتور کیتتا جتتائے استے
نماز پڑھنے کی اجازت اسی صورت میتتں دی جتائے گتی جتتب وہ ایتک نتاقص چیتتز مہنگتے
داموں خریدے گا۔ اس شرط کا کوئی اخلقی اور شرعی جواز موجود نہیں ہے۔ ستتعودی
حکومت کو چاہئے کہ وہ اپنتے حتتج رجسٹریشتتن ستتنٹر قتتائم کتترے ج ہاں ہر آنتے والتے کتتو
رجسٹریشن کے بعد بل امتیاز حج کی اجازت دی جائے۔ منی اور عرفات کی گنجائش کتتو
مد نظر رکھتے ہوئے ایک معقول تعداد کو اجازت دینے کے بعد یہ سلستتلہ موقتتوف کتتر دیتتا
جائے اور انہیں اگلے برس یہ سعادت حاصل کرنے کے لئے کہا جائے۔
غیر قانونی انٹری روکنے کے لئے منی ،مزدلفہ اور عرفات کے گرد باؤنتڈری وال بنتتا دی
جائے۔ اس دیوار کو کئی منزلہ بنایا جاسکتا ہے۔ اس میں ہزاروں کتتی تعتتداد میتتں دروازے
بنائے جائیں تاکہ لکھوں حجاج کی آمتتد و رفتتت میتتں مشتتکل ن تہ ہو۔ ہر دروازے پتتر بتتائیو
میٹرک اسکینر ہوں جو گزرتے ہوئے حجاج کتتی آمتتد و رفتتت کتتو ریکتتارڈ کریتتں۔ ان تینتتوں
میدانوں کو زونز میں تقسیم کر دیا جائے اور ایک زون سے دوستترے زون ک تے راستتتے پتتر
اسکینر نصب ھوں جو ہر شخص کا مکمل ریکارڈ رکھ سکیں کہ کس وقت وہ کہاں پر ہے۔
حجاج کے لئے سب سے بڑا مسئلہ اس وقت درپیش ہوتتتا ہے جتتب ان کتتا کتتوئی عزیتتز
ہجوم میں گم ہو جائے۔ اس مشکل کو حل کرنے کے لئے جگہ جگہ کاؤنٹر بنائے جانے چتتاہیں
84
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جہاں کسی بھی حاجی کے کوائف بتانے پر کمپیوٹر کی مدد سے اس کی موجودہ لوکیشن
بتائی جاسکے۔ انہی کاؤنٹرز کتو قربتانی کتے کتوپن فروختت کرنتے کتے لئے استتعمال کیتا
جاسکتا ہے۔ حجاج کے پیکج میں سستی موبائل سم بھی شامل ہونی چتتاھیئے۔ آج کتتل ہر
شخص کے پاس موبائیل سیٹ ہے۔ سعودی عرب پہنچنے پر وہ یہ سم اپنے موبائیل میں لوڈ
کرلے جس کی مدد سے اس کا رابطہ اپنے عزیزوں سے قائم رہ سکتا ہے۔
انفارمیشن ٹیکنالوجی کتے علوہ زنتدگی کتے دوسترے شتعبوں میتں ہونے والتی جدیتد
ایجادات کا بھرپور استعمال بھی حج کے انتظامات کو بہتر بنا سکتا ہے۔ منتتی کتتا میتتدان،
فکس خیموں پر مشتمل ہے۔ حال ہی میں یہاں عمارتوں کی تعمیر بھی تجرباتی بنیتتادوں
پر کی گئی ہے۔ پورے منی میں خیموں کی جگہ بلند و بال عمتتارتیں تعمیتتر کتتی جاستتکتی
ہیں جن میں اپارٹمنٹ کی بجائے خیمے ہی بنائے جاسکتے ہیں۔ ان عمارتوں کی تعمیر سے
زیادہ سے زیادہ حجاج کے لئے فریضہ حج کی ادائیگی ممکن ہو سکے گی۔
ان عمارتوں کی تعمیر میں اس بات کتتا دھیتتان رکھن تے کتتی ضتترورت ہے کتہ ان میتتں
داخلے کے راستے کشادہ رکھے جائیں ،ایمر جنسی ایگزٹس موجود ہوں ،ہر عمتتارت میتتں
آگ بجھانے کا انتظام موجود ہو اور ہر منزل پر کثیر تعداد میں طہارت خانے موجود ہوں۔
ایسے افراد جو کسی ٹور آپریٹر کے بغیر حج کر رہے ہیتتں ،ان ک تے لئے ،ان کتتی تعتتداد کتے
تناسب سے عمارتیں مخصوص کی جائیں جہاں وہ اپنے خیمے لگا کر آرام سے عبتتادت کتتر
سکیں۔ ان عمارات کی ہر منزل پر بائیو میٹرک اسکینر لگے ہوں جتتو لوگتتوں کتتی آمتتد و
رفت کو مانیٹر کر رہے ھوں۔ خیموں کے موجودہ نمبرز کتتی ترتیتتب خاصتتی نتتامعقول ہے۔
اس کو نئے سرے سے ترتیب دینے کی ضرورت ہے۔
منی کے موجودہ راستے کافی تنگ ہیں۔ منی میں راستوں کو تنگ کرنے میں سب سے
بڑا کردار غیر قانونی اسٹالز کا ہے۔ ان استتٹالز کتتی ب ھی رجسٹریشتتن کتتی جتتائے اور ہر
عمارت کی ہر منزل میں ان ک تے لئے جگ تہ مخصتتوص کتتی جتتائے ۔ راستتتوں میتتں استتٹالز
لگانےسے سختی سے روکا جائے۔ عمارات کی تعمیر سے حجاج کتتی تعتتداد میتتں کئی گنتتا
اضافہ ہونے کا امکان ہے۔ اسی تناسب سے منی کتے راستتتوں کتتو ب ھی کشتتادہ کرنتے کتتی
ضرورت ہے۔ پچھلے سال تک منی کا سب سے خطرناک حصتہ جمترات کتا ایریتا ت ھا۔ اس
سال جمرات برج کی تعمیر سے یہ مسئلہ بڑی حد تک حل ہو گیتا ہے۔ یتہ ایتتک ب ہت اچ ھا
منصوبہ ہے جس کے مطابق جمرات برج کو کئی منزلہ تعمیر کرنے کا پروگرام ہے۔
مسجد الحرام سے عرفات براستہ منی و مزدلفتہ ،ٹرانستتپورٹ کتے انتظتتام میتتں ب ھی
انقلبی تبدیلیوں کی ضرورت ہے۔ اس روٹ پر ٹرین چلنے کا منصوبہ نہایت عمدہ ہے۔ منی
سے عرفات تک چار بڑے روڈ ہیں لیکن حجاج کی غیر معمولی تعداد کے باعث ان پتتر حتتج
کے ایام میں گاڑیاں بلک رہتی ہیں اور چند کلومیٹر کا فاصلہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ نئے
روڈز کی تعمیر کی بجائے زیادہ بہتر ہے کہ انہی سڑکوں کو کئی منزلہ تعمیر کیا جائے۔
بلکیج کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ڈرائیتتور حضتترات ستتڑک کتے درمیتتان میتتں بتتس روک کتتر
مسافر بٹھانے لگتے ہیں جس سے دور دور تتتک روڈ بلک ہو جاتتا ہے۔ گتاڑیوں کتتو صتترف
متعین کردہ بس اسٹاپس پر روکنے کی اجازت ہونی چاھئیے ،اس کتے لئے ضتتروری ہے کتہ
جگہ جگہ روڈ سے ہٹ کر بڑے بڑے بس استتٹاپ ب ھی تعمیتتر کئے جتتائیں۔ بیمتتار اور معتتذور
85
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
افراد کے لئے پیدل راستے کے ساتھ ساتھ ائر پورٹ کی طرز پر متحرک بیلٹ نصتب کرنتے
سے ان کے لئے کافی سہولت فراہم کی جاسکتی ہے۔ مکہ کے قریب ایک جدید اور بڑے ائر
پورٹ کی تعمیر بھی بہت ضروری ہے تاکہ جدہ اور مدینہ ائر پورٹس پتتر بتتوجھ کتتو کتتم کیتتا
جاسکے۔ جدہ مکہ قدیم روڈ کو بھی موٹر وے بنانے کی ضرورت ہے تاکہ جدہ سے مکہ حجاج
کے لئے دو راستے میسر ہوں۔
حج چونکہ ایک دینی فریضہ ہے اس لئے اسے زیادہ سے زیادہ سستا کرن تے کتتی ضتترورت
ہے تاکہ غریب لوگ بھی حرم کی زیارت کا شوق پورا کر ستتکیں۔ حتتج و عمتترہ ک تے ستتفر
میں مکہ و مدینہ کی مہنگی رہائش گاہوں کا متبادل یہ ہے کہ ان دونوں ش تہروں ک تے ختتالی
میدانوں میں کیمپنگ سائٹس قائم کی جائیں جہاں لوگ اپنے خیمے لگا کتتر رہ ستتکیں۔ ان
سائٹس میں پبلک ٹائلٹ سے لے کر دکانوں تک ہر سہولت میسر ہو اور یہاں س تے حرمیتتن
تک ائر کنڈیشنڈ بسیں چلئی جائیں۔
حجاج کے لئے حالیہ میڈیکل سہولتیں اچھی ہیں لیکن انہیں بہتر بنانے کتتی ضتترورت ہے۔
رش کی وجہ سے ایمبولینس کو مریض تک پہنچنے میں کافی وقت لگتتتا ہے۔ اس مشتتکل
کو ایمبولینس ہیلی کاپٹروں میں اضافہ کرکے حل کیا جاسکتا ہے۔
86
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
سفر ہجرت
سوئ ے مدین ہ
سعودی عرب پہنچنے کے بعد پہلے ویک اینڈ پر میں نے مکہ کا سفر کیا۔ دوسرے ویتتک اینتتڈ
پر مدینہ کا ارادہ تھا۔ اس ویک اینڈ تک مجھے ڈرائیونگ لئسنس نہ مل ستکا ت ھا۔ جتدہ ستے
مدینہ جانے کے متبادل ذرائع بس اور ٹیکسی تھے۔ بسیں عموم تا ً رات کتتو دس بج تے روان تہ
ہوتی ہیں۔ اگر میں اس پر سفر کرتا تو مدینہ جانے کے راستے کو نتہ دیکتھ پاتتتا جتتس ستے
مجھے سالوں پرانا جذباتی تعلق رہا ہے۔ ٹیکسی کا سفر خاصا مہنگا ثابت ہو سکتا تھا۔ ان
وجوہات کی بنیاد پر میں نے مدینہ کا سفر تیسرے ویک اینڈ تک موخر کیتتا۔ اس ہفتتے میتتں
مجھے خوش قسمتی سے ڈرائیونتتگ لئستتنس ب ھی متتل گیتتا۔ ستعودی عترب میتں گتاڑی
خریدنے کے لئے لئسنس کی شرط ہے۔ فوری طور پر میرے لئے یہ ممکتتن ن تہ ت ھا ک تہ میتتں
گاڑی خرید سکوں چنانچہ میں نے ایک کار کتترائے پتتر لتتی اور اس پتتر متتدینہ روانتہ ہوا۔ یتہ
ٹیکسی اور بس کی نسبت کافی سستا ذریعہ ہے۔
تقریبا ً سو کلومیٹر چلنے کے بعد یہ روڈ دو شاخوں میتتں تقستتیم ہوجتتاتی ہے۔ ایتتک روڈ
رابغ اور ینبع کے ساحلی شہروں کی طرف چلی جاتی ہے اور دوسری مدینہ اور پ ھر آگ تے
تبوک کی طرف روانہ ہوتی ہے۔ اس سے تھوڑا سا آگے جا کتتر ی تہ روڈ مک تہ س تے آن تے والتتی
موٹر وے میں مل جاتی ہے۔ مکہ سے مدینہ موٹر وے اس راستے پر بنائی گئی ہے جتتس پتتر
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے ہجرت فرمائی تھی۔اسے طریق الھجتترہ ک ہا جاتتتا
ہے۔ چونکہ قارئین کو جدہ مدینہ روڈ سے زیادہ طریق الھجرہ میں دلچستتپی ہہہوگی ،اس لئے
اس سفر نامے میں میں اپنے اس سفر کا ذکر کروں گا جو میں نے طریق الھجرہ پر کیا۔
جدہ سے مدینہ میں دو بار جدہ مدینہ موٹر وے کے راستتتے جتتا چکتتا ت ھا۔ اس راستتتے کتتا
تقریبا ً 70فیصد حصہ طریتتق الھجتترہ پتتر مشتتتمل ہے ۔ اس کتے بتاوجود مج ھے یتہ شتتدید
خواہش تھی کہ کسی دن مکہ سے مدینہ حضور نبی کریم صلی اللہ علیتہ و التہ و ستتلم کتے
نقش قدم پر سفر کیا جائے۔ ایک دن یہ خواہش اس طرح پوری ہو ئی ک تہ ہم لتتوگ علتتی
الصبح جدہ سے مدینہ کے لئے براستہ مکہ روانہ ہوئے۔ میرے ساتھ میری اہلیہ اور بچیاں تھیں۔
اسماءنے حسب روایت سفر نامے کے لئے نوٹس لینا شروع کئے۔ ہم لوگ مکتہ کتے راستتے
میں دوسرے سروس ایریا پر رکے تاکہ گاڑی کتے ٹتتائروں میتں ہوا وغیترہ چیتک کتروا لتی
جائے۔ مکینک نے یہ کہہ کر ایک کی بجائے دو ریال وصول کئے کہ صبح کتتا وقتتت ہے اور آپ
پہلے گاہک ہیں۔ ہمارے یہاں بوہنی کروانے والے کو خصوصا ً رعایت دی جاتی ہے لیکتتن ی ہاں
الٹا رواج تھا۔
مکہ کے راستے میں بہت سی سنہری وادیاں ہیں۔ ی ہاں جتب شتام کتی ستنہری د ھوپ
میں ریت چمکتی ہے تو دور دور تک سنہرا رنگ بکھرا نظر آتا ہے۔ اس کتتی تفصتتیل میتتں
سفر مکہ میں بیان کر چکا ہوں۔ یہی وادیاں صبح کے وقتتت ہلکتے پیلتے اور گتترے رنتتگ کتتا
منظر پیش کر رہی تھیں۔ تھوڑا سا آگے ایک ہورڈنگ پر موبائل فون کا عربتتی اشتتتہار ت ھا
جس میں بطور خاص یہ فیچر بیتان کیتا گیتا ت ھا کتہ اس میتں اگتر نمتاز کتا ستالنہ نظتام
87
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
الوقات سیٹ اپ کردیا جائے تو اذان کے اوقات میں باقاعدہ اذان دی سنائی دیتی ہے۔
عین ممکن ہے کہ یہ فیچر غیر مسلموں نے ڈیویلپ کیا ہو۔ یہ کمرشل سوچ کا کمال ہے
کہ اس نے مسلمانوں کی ڈیمانڈ کا اندازہ لگاتے ہوئے اس میتتں ان کتے متتذہب ستے متعلتتق
فیچر داخل کر دیا۔ مسلم ممالک میں تو شاید اس کی کتتوئی ختتاص اہمیتتت نتہ ہو لیکتتن
غیرمسلم ممالک کے سفر کے دوران یہ بڑی اہمیت کا حامل ہے جب انستتان کتتو کئی کئی
دن اذان کی آواز سننے کو نہیں ملتی۔ اسی کمرشل سوچ کا ہی نتیجہ ہے کہ دنیا بھر میتتں
سب سے زیادہ فروخت ہونے والے جائے نماز ،تسبیحیں اور ٹوپیاں چیتتن س تے بتتن کتتر آتتتی
ہیں۔
جدہ مکہ موٹر وے پر سفر کرتے ہوئے ہم لوگ مکہ میں داخل ہوئے۔ مکہ کے تیسرے رنگ
روڈ سے ہم نے بائیں جانب کا رخ کیا۔ یہ رنگ روڈ سیدھی جبتتل ثتتور س تے آ کتتر متتدینہ کتتی
طرف روانہ ہوتی ہے۔ مدینہ مکہ کے شمال میں واقع ہے اور جبل ثور جنوب میں۔ مدینہ کتتا
پرانا نام یثرب ہے۔ جب کثیر تعداد میں یثرب کے لوگوں نتے استتلم قبتتول کیتتا اور حضتتور
نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو بحیثیت حکمران یثرب آنے کی دعوت دی تو کفار
مکہ نے اس بات کو اپنے لئے ایک ممکنہ خطرہ ) (Potential Threatسمجھتے ہوئے دار الندوہ
میں مجلس مشاورت منعقد کی۔
چونکہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا اپنا خاندان بنی ہاشم مک تہ میتتں ب ہت اثتتر و
رسوخ وال خاندان تھا اس لئے یہ لوگ آپ کی ذات کتے خلف کتوئی بتڑی کتاروائی کرنتے
سے پہلے اچھی طرح سوچنا چاہتے تھے۔ فیصلہ یہ ہوا کہ ایک ٹیم جتتا کتتر حضتتور صتتلی الل تہ
علیہ و الہ و سلم کو شہید کر دے اور اس ٹیم میں ہر قبیلے کے افراد ہوں تتتاکہ بنتتی ہاشتتم
سب سے قصاص کا مطالبہ نہ کرسکیں۔ زیادہ سے زیادہ یہ لوگ دیت )قصاص کے بدلے لتتی
جانے والی رقم( کا مطالبہ کریں گے جو تمام قبائل کے لئے پورا کرنا کچھ مشکل نہ ہوگا۔
سفر ہجرت اور غار ثور
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم ،اللہ تعال ٰی کے محض نتتبی ہی نہیتتں بلک تہ اس
کے آخری رسول بھی ہیں۔ رسول اپنی قوم کے لئے آسمانی حجت کی حیتتثیت رکھتتتا ہے۔
نبی چونکہ انسانی صلحیتوں کی بنیاد پر اللہ کے دین کی دعوت دیتتا ہے اس لئے اس کتو
اس کے مخاطبین شہید بھی کر سکتے ہیں مگر رسول کی حفاظت براہ راست اللہ تعتتال ٰی
کرتا ہے کیونکہ کوئی بھی اللہ کے رسول پر غالب نہیں آسکتا۔
اللہ تعال ٰی نے خاص اہتمام کے ذریعے اپنے رسول کو یثرب کتتی جتتانب ہجتترت کرنتے کتتا
حکم دیا۔ آپ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے اس سفر کا علم بہت ہی کتتم لوگتتوں کتتو ت ھا
جن میں سیدنا ابوبکر اور سیدنا علی رضی اللہ عنہما شامل ہیں۔ کفار ن تے حضتتور صتتلی
اللہ علیہ و الہ و سلم کتے گ ھر کتا محاصترہ کتر لیتا تتاکہ آپ کتو شتہید کتر دیتا جتائے۔ اس
ایمرجنسی کی حالت میں بھی آپ نے اخلقیات کتتا اعل ت ٰی تریتتن معیتتار قتتائم کرتتے ہوئے
سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو اہل مکہ کی امانتیں واپس کرنے پر مامور فرمایا۔ ی تہ امتتانتیں
ان لوگوں کی بھی تھیں جو آپ کی رسالت کا انکار کرتے ہوئے آپ سے دشمنی پتتر اتتترے
ہوئے تھے۔
88
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اس انتظام سے فارغ ہونے کے بعد آپ نے ان لوگوں کی طرف مٹی پھینکی جو آپ کو
قتل کرنے کے ارادے سے آئے تھے۔ یہ لوگ اندھے ہو گئے اور آپ کو نہ دیکھ سکے۔ ہجرت کتتا
انتظام کرنا سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ کی ذمے داری تھی۔ آپ نے پہلے ہی سے ستتواریاں
تیار رکھی ہوئی تھیں۔ ان پر سوار ہو کتتر حضورصتتلی اللتہ علیتہ و التہ و ستتلم اور ستتیدنا
ابوبکر مدینہ کی بجائے اس کی مخالف سمت میں چل پڑے اور آکر غار ثور میں پناہ لتتی۔
کفار آپ کو تلش کرتے ہوئے یہاں بھی آ پہنچتے لیکتتن اللتہ تعتتال ٰی کتے خصوصتتی )(Divine
انتظامات کی وجہ سے آپ تک نہ پہنچ سکے۔ قرآن مجیتتد اس واقع تے کتتو اس طتترح بیتتان
کرتا ہے۔
فقدنصر ہ الل ہ اذ اخرج ہ الذین کفروا ثانی اثنیممن اذ ھممما فممی الغممار اذ یقممول
لصاحب ہ ل تحزن ان الل ہ معنا فانزل الل ہ سکینت ہ علی ہ و اید ہ بجنود لم ترو ھا و
جعل کلم ۃ الذین کفروا السفلیٰ۔ٰ و کلم ۃ الل ہ ھی العلیا ،و اللم ہ عزیممز حکیممم ۔
)توبہ (9:40
”اللہ ان )اپنے رسول کی( مدد اس وقت کر چکا ہے جب کفار نے انہیں نکال دیا تھا ،جتتب
وہ صرف دو )ساتھیوں میں سے ( ایک تھے۔ جب وہ دونوں غار میں تھے ،اس وقت وہ اپنے
ساتھی سے کہہ رہے تھے ’ ،غم نہ کرو ،اللہ ہمارے ساتھ ہے۔‘ اس وقت الل تہ ن تے ان پتتر اپنتتی
طرف سے سکون قلب نازل کیا اور ان کی مدد ایسے لشکروں سے کی جو تمہیتتں نظتتر
نہ آتے تھے۔ اس نے کفار کا قول نیچا کر دکھایا اور اللہ کا کلمہ بلنتتد کتتر دیتا۔ اور اللتہ ب ہت
زبردست اور حکمت وال ہے۔“
غار ثور میں قیام کے دوران سیدنا ابوبکر کے بیٹے عبد اللہ ،بیٹی اسماءاور غلم عامر
)رضی اللہ عنہم( آپ دونوں کو خوراک پہنچاتے رہے۔ اس سے ختانوادہ ابتتو بکتر پتتر حضتتور
صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے اعتماد کا اندازہ لگایتتا جاستتکتا ہے۔ تیتتن دن بعتتد ی تہ دونتتوں
حضرات ہجرت کے سفر پر روانہ ہوئے۔ان دونوں حضتترات ن تے یتتثرب جتتانے وال تے تجتتارتی
قافلوں والے عام راستے کی بجائے ایک علیحدہ راستہ اختیار کیا۔ اسی راستے پر اب جدید
موٹر وے طریق الھجرہ بنی ہوئی ہے جو وادی قدید کے راستے مدینہ کی طرف رواں دواں
ہوتی ہے۔ تجارتی قافلوں والے عام راستے پر مکہ سے مدینہ جانے والتتی قتتدیم ستتڑک بنتتی
ہوئی ہے جو رابغ ،جحفہ اور بدر سے ہوکر مدینہ پہنچتی ہے۔ حال ہی میں استے بھ ہی متتوٹر
وے بنا دیا گیا ہے اور اس کے مقابلے میں اب طریق الھجرہ پرانی سڑک معلوم ہوتی ہے۔
یہ موٹر وے مقام تنعیم سے شروع ہوتی ہے۔ یہ چھ لین کی موٹر وے ہے۔ جتتدہ مکتہ روڈ کتے
مقابلے میں یہاں اتنا زیادہ ٹریفک نہیں ہوتا کہ آٹھ لین کی موٹر وے بنائی جائے۔
مدین ے کا سفر ہے اور ۔۔۔۔
مقام تنعیم سے چلے تو تھوڑی دور جا کر جموم شہر آگیا۔ یہ ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ یہاں
سے دائیں جانب طائف اور بائیں جانب جدہ کے لئے راستہ نکلتا ہے۔ جموم ایک وسیع سرخ
وادی پر مشتمل ہے جس کے بیک گراﺅنڈ میں سیاہ اور سرخ پہاڑ خوبصتتورت منظتتر پیتتش
کر رہے تھے۔ یہاں ایک زرعی فارم بھی تھا۔ ایک بورڈ پتتر ”متتدینہ 405کلومیتتٹر“ لک ھا ہوا
تھا۔ دل پر ایک اضطراب کی کیفیت طاری ہوگئی۔
سنبھل جا اے دل مضطر ،مدینہ آنے وال ہے
لٹا اے چشم تر گوہر ،مدینہ آنے وال ہے
89
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جموم سے آگے جاکر ایک مقام پر حجاج گروپنگ سینٹر نظر آیتتا۔ اس وقتتت ی تہ ویتتران
پڑا ہوا تھا۔ شام ،اردن اور سعودی عرب کے شمالی علقہ جتتات ستے براستتتہ ستتڑک آنتے
والے حجاج اسی راستے سے فریضہ حج کتتی ادائیگتتی کتے لئے آتتے ہیتتں۔ بتتائیں جتتانب دور
اونچے اونچے پہاڑ نظر آ رہے تھے جن کی بلندی اس راستتتے ک تے عتتام پ ہاڑوں کتتی نستتبت
خاصی بلند تھی۔ صحرا میں ایک راستہ بنا ہوا تھا جس کے کنارے کھجور کے درخت طویل
قطار کی صورت میں لگے ہوئے تھے۔ یہاں ایک زرعی فارم بھی تھا۔ وسیع صحرا میتتں یتتہ
نخلستان بہت بھل لگ رہا تھا۔ میں نے گاڑی کا شیشہ نیچا کیا تو سہانی ہوا کا ایک جھونکا
میرے چہرے سے ٹکرایا اور مولنا احمد رضا خان کے یہ اشعار میری زبان پر جاری ہوگئے۔
بھینی سہانی صبح میں ٹھنڈک جگر کی ہے
کلیاں کھلیں دلوں کی ہوا یہ کدھر کی ہے
ہاں ہاں رہ مدینہ ہے ،غافل ذرا تو جاگ
او پاﺅں رکھنے والے یہ جا چشم و سر کی ہے
میری یہ عادت رہی ہے کہ میں اچھی چیز ہر جگہ سے لتے لیتتا ہوں اور اس عمتل میتں
کسی تعصب کو پاس بھی پھٹکنے نہیں دیتا۔ مولنا سے کئی نظریتتاتی و علمتتی اختلفتتات
کے باوجود میں ان کے وہ اشعار بڑے شوق سے پڑھتا ہوں جن میں مجھے کوئی بات قرآن
و سنت کے خلف نظر نہیں آتی۔ فن نعت گوئی میتتں مولنتتا کتتا اعتبتتار ن ہایت ہی اعلت ٰی
درجے کے شعرا میں ہوتا ہے۔
اچانک دائیں جانب اونٹوں کا ریوڑ چرتا نظر آیا۔ براﺅن رنتتگ کتتی پ ہاڑیوں کتتا ایتتک نیتتا
سلسلہ شروع ہوگیا جس میں براﺅن رنگ کتے بتے شتتمار شتتیڈ موجتتود ت ھے۔ ان صتتحرائی
پہاڑوں اور وادیوں میں انسان خود کو فطرت کے کتنا قریب محسوس کرتا ہے۔ شہر کتتی
مصنوعی زندگی انسان کو فطرت سے اور خدا سے کتنا دور لے گئی ہے۔ سڑک زگ زیتتگ
کی شکل میں پہاڑوں پر چڑھنے لگی۔ سامنے وادی میں خاصا ستتبزہ ت ھا اور عستتفان کتتا
شہر نظر آرہا تھا۔ چوٹی پر کسی قدیم عمارت کے ستون نظر آ رہے ت ھے۔ ی تہ پ ہاڑ مج ھے
اپنے اپنے سے لگے۔ دراصل ان کی صورت بالکل کلر کہار کتے پ ہاڑوں کتی ستی ت ھی جتو
موٹر وے پر اسلم آباد جاتے ہوئے دریائے جہلم کے فورا ً بعد سامنے آ جاتے ہیں ۔
عسفان اور سراق ہ بن مالک
میری نظر کے سامنے موجود سکس لین موٹر وے پتلی کچی سڑک میتتں تبتتدیل ہونے
لگی۔ گاڑیوں کے قافلوں کی جگہ اونٹوں اور گھوڑوں کے قافلوں نے لے لی۔ چشم تصتتور
میں مجھے تین افراد کا قافلہ نظر آنے لگا۔ ایک اللہ کے برگزیدہ رستتول ہیتتں ،دوستترے ان
کے بچپن کے ساتھی ابوبکر جن پر حضور سب سے زیادہ اعتماد کرت تے ہیتتں اور تیستترا ان
کا گائیڈ ہے۔ چونکہ یہ راستہ زیادہ معروف نہ تھا ،اس لئے انہیں گائیڈ کی ضرورت ب ھی پتتڑی
تھی ورنہ سیدنا ابوبکر خود تجارتی راستوں کے بہت بڑے ماہر تھے۔
یہیں عسفان کے نزدیک کسی مقام پر ان کا سامنا سراقہ بن مالک سے ہوا تھا جتتو ان
کی تلش میں تھے۔ سراقہ انہیں پہچان گئے تھے لیکن آگے بڑھتے ہوئے ان کے گ ھوڑوں کتتے
90
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
قدم زمین میں دھنس گئے۔ اس معجزے کو دیکھ کر وہ ایمتتان ل تے آئے۔ حضتتور صتتلی الل تہ
علیہ و الہ و سلم نے انہیں کسر ٰی کے کنگن پہننے کی بشارت دی جو پندرہ بیس ستتال بعتتد
اس وقت پوری ہوئی جب خلیفہ دوم عمر رضی اللہ عنہ کے دور میتتں کستتر ٰی ک تے محلت
فتح ہوئے۔
عسفان کے بعد روڈ اچانک گہرائی میں جاکر اوپر اٹھنے لگی۔ سامنے سیاہ رنگ کے پہاڑ
تھے جن پر بے شمار ٹھیکری نما پتھر پڑے ہوئے تھے۔ اصل میں یہ سیاہ رنگ انہی ٹھیکریوں
کا تھا۔ روڈ کے کنارے ’مرکز امداد حجاج ‘ تھا۔ دور پھیلتتی ہوئی ستتنہری وادی میتتں ہلکتے
سبز رنگ کے صحرائی پودے افراط سے پھیلے ہوئے ت ھے ۔ ج ہاں ستنہری وادی ختتم ہوتی
تھی وہاں سے سیاہ پہاڑ شروع ہو جاتے تھے اور بلندی تک چلے جاتے تھے۔
سامنے کی طرف ایک فصیل نما پہاڑی سلسلہ تھا جتتس کتے پ ہاڑوں میتتں اتتتار چڑ ھاﺅ
بالکل نہیں تھا۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ ایک دیو قامت دیوار کھڑی ہے اور بتتس ک ھڑی ہے۔
ایسے پہاڑی سلسلے قتتدیم زمتتانوں میتتں دفتتاع کتتی ختتدمات انجتتام دیتتے ت ھے۔ شتہر کتے
مصنوعی ماحول سے نکل کر فطرت کے ماحول میں ایسی صناعی دیکتھ کتر انستان کتا
ذہن بے اختیار خدا کی اس آیت کو یاد کر اٹھتا ہے :فبتتای ٰالءربکمتتا تکتتذبان۔ ”اے جتتن و
انس! تم دونوں اپنے رب کی کون کون سی نعمت کو جھٹلﺅ گے۔“ سامنے خلیص الکامل
کا ایگزٹ تھا ۔ اب مدینہ 305کلومیٹر دور رہ گیا تھا۔ اضطراب بڑھتا جار ہا ت ھا۔ ستتنبھل
جا اے دل مضطر ،مدینہ آنے وال ہے۔
سعودی عرب میں سڑکوں پر سفر کے دوران اکثر سبحان اللہ ،الحمتتد لل تہ ،الل تہ اکتتبر
اور ل الہ ال اللہ کے بورڈ نظر آتے ہیں۔ یہ انسان کو دوران ستتفر ختتدا کتتی یتتاد دلتتے ہیتتں۔
یہاں ایک بورڈ پر لکھا ہوا تھا” ،تعوذ من الشیطان یعنی شیطان سے پناہ متانگو۔“ حقیقتت
یہ ہے کہ شیطان ہمارا دشمن ہے لیکن ہم اس کی دشمنی کو پہچاننے کی بجتتائے اس ستتے
دوستی پر تلے ہوئے ہیں۔
خیم ہ ام معبد
اب جدہ سے آنے والی روڈ ہمارے سر کے اوپر سے گزرتی ہوئی ہم سے طریق الھجرہ پتتر آ
ملی۔ یہیں سے ایک لنک روڈ رابغ والی سڑک کی طرف جارہی تھی۔ ٹھیکری نمتتا پ ہاڑوں
پر سفر کرتے ہوئے ہم وادی قدید میں جانکلے۔ یہی وہ مقام ہے جہاں حضور صلی اللہ علی تہ
و الہ و سلم نے سفر ہجرت میں قیام فرمایا تھا۔ یہاں پر ام معبد نامی خاتون کا خیمہ ت ھا
جنہیں حضور کا میزبان بننے کا شرف حاصل ہوا تھا۔ میرے دل میں یہ شدید خواہش ت ھی
کہ اس مقام کو دیکھا جائے جہاں حضورصلی اللہ علی تہ و ال تہ و ستتلم ن تے قیتتام فرمایتتا ت ھا
چنانچہ میں نے گاڑی وادی قدید کے ایگزٹ کی طرف موڑ لی۔
91
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
وادی قدید
دور جاہلیت سے اس علقے میں بنو خزاعہ آباد تھے۔ یہ وہی قبیلہ ہے جو صلح حدیبیہ کتے
بعد مسلمانوں کا حلیف بن گیا تھا۔ بنو بکر نے ان پر شب خون مارا اور قریش نے ان کتتا
ساتھ دیا۔ یہ حدیبیہ کے معاہدے کی کھلی خلف ورزی تھی جو قریش کی جانب سے ہوئی۔
اس کے بعد اس معاہدے کی کوئی اہمیت باقی نہیں رہی تھی چنانچہ رسول اللہ صلی اللتتہ
علیہ و الہ و سلم نے دس ہزار قدوسیوں کا ایک لشکر جرار تیار کیتتا اور مک تہ کتتی طتترف
روانہ ہوگئے۔
بنو خزاعہ عرب کا ایتتک ا ہم قتتبیلہ ت ھا۔ اس قتتبیلے کتتی ختتاتون ام معبتتد اپنتتی شتتعر و
شاعری کی وجہ سے پورے علقے میں مشہور تھیں۔ حضورصلی اللہ علیہ و الہ و ستتلم اور
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ہجرت کے سفر کے دوران جب ان کے خیمے کے پاس پہنچے
تو ان کی ایک بکری وہاں موجود تھی۔ آپ نے اس کا دودھ دوہنے کتتی اجتتازت متتانگی۔ ی تہ
بکری دودھ دینے کے لئق نہ تھی لیکن آپ کی دعا سے اللہ تعال ٰی نے اس تھنوں میتتں کتتثیر
مقدار میں دودھ اتار دیا۔ ام معبد اس معجزے کو دیکھ کر بہت متاثر ہوئیں اور ان ہوں نتے
بعد میں آپ کے بارے میں ایک فی البدیہہ نظم کہی۔ بعد میں ام معبد اور ان کے شوہر نے
اسلم قبول کرلیا۔
وادی قدید ایک بہت بڑے علقے کا نام ہے جو ٹھیکری والے سیاہ پہاڑوں پر مشتتتمل ہے۔
اس میں بہت سی وادیاں شامل ہیں جن کا مجموعی نام وادی قدید ہے۔ ایک ستتنگل روڈ
وادی کے بیچ میں سے گزر رہا تھا۔ اس پر دو تین چھوٹے چ ھوٹے گتتاﺅں آئے۔ ایستتا معلتتوم
ہوتا تھا کہ وادی میں پانی کی کوئی کمی نہیں ہے اس لئے جا بجا کھجوروں کے فارم نظر
آرہے تھے۔ تھوڑا سا آگے جا کر روڈ نے ایک کچے ٹریک کی شتتکل اختیتتار کرلتتی۔ اصتتل روڈ
92
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
کہیں کہیں سے زمین میں دھنسا نظر آرہا تھا۔ ہر طرف چھوٹے چ ھوٹے پت ھر بک ھرے ہوئے
تھے۔ ایسا معلوم ہوتا تھا جیسے وہاں سیلب آیا ہو جس نے روڈ کی یہ حالت کر دی ہو۔
اچانک روڈ کے کنارے جدید طرز تعمیر پر مشتمل زرد رنگ کے چ ھوٹے چ ھوٹے کتتوارٹر
نظر آئے جس کے ساتھ پانی کی ایک بڑی سی ٹینکی تھی۔ غالبا ً یہ ارد گرد کے علقتے کتے
رہائشی مکانات اور کھجوروں کے فارمز کے لئے تعمیر کی گئی ت ھی۔ میتتری گتتاڑی زیتتادہ
اونچی نہیں اس لئے پتھر اس کے فرش سے ٹکرا رہے تھے۔ ایسی جگ تہ آن تے ک تے لئے جیتتپ
کی ضرورت تھی۔ تھوڑا آگے جاکر مجھے ایک جیتتپ پیچ ھے آتتتی نظتتر آئی جستے اصتتولی
طور پر کسی میوزیم میں ہونا چاہئے تھا۔ غالبا ً یہ 1960کتتی د ہائی کتتا کتتوئی متتاڈل ت ھا۔
میں نے معلومات حاصل کرنے کے لئے گاڑی ایک طرف روکی اور جیپ کو رکنے کا اشارہ
کیا۔ خوش قسمتی سے جیپ کتتو ایتتک پاکستتتانی چل ر ہے ت ھے۔ تعتتارف میتتں ان کتتا نتتام
ادریس معلوم ہوا۔ ان کا تعلق فیصل آباد سے تھا۔
ادریس صاحب اس وادی میں کافی عرصے سے مقیم تھے۔ وہ کسی سعودی کے فارم
پر رہتے تھے اور اس کی گاڑیاں وغیرہ چلتتے ت ھے۔ ستتعودی عتترب کتے زرعتی فتارمز پتتر
کافی پاکستانی کام کرتے ہیں۔ انہوں نے بتایا کہ اس علقے میں ہر تین چار ستتال کتے بعتتد
شدید بارش ہوتی ہے جس کے نتیجے میں سیلب آجاتا ہے۔ اس سیلب کتتی وج تہ س تے ہی
یہاں زیر زمین پانی خاصی مقدار میں موجود رہتا ہے جس کی وج تہ س تے ی ہاں کھجتتوروں
کے فارم پائے جاتے ہیں۔ سیلبی پانی بعد میں تالبوں کی شکل میں بھی اکٹھا ہو جاتا ہے۔
یہی وجہ ہے کہ دور قدیم میں لوگ اس راستے کو اختیار کرت تے ت ھے تتتاکہ طویتتل صتتحرائی
سفر میں اپنے اور جانوروں کے لئے پانی حاصل کر سکیں۔ حضتتور نتتبی کریتتم صتتلی اللتہ
علیہ و الہ و سلم بھی اسی علقے سے گزرے تھے البتہ سیلب کتے خدشتے کتے بتتاعث ستے
طریق الھجرہ کو پہاڑوں کے اوپر سے گزارا گیا ہے۔
ادریس صاحب نے ہمیں کھانے کی پرزور دعوت دی جس پر میتتں نتے معتتذرت کرلتتی۔
ظبیہ نام کا قصبہ تھا۔ یہیں ان کا فارم ہا ﺅساب ہم ان کے پیچھے روانہ ہوئے۔ تھوڑا سا آگے ُ
تھا۔ ہم ایک بقالہ )جنرل سٹور( پر رکے۔ادریس صاحب نے وہاں سے میتترے بچتتوں ک تے لئے
ڈھیروں چیزیں خرید کر دیں۔ میرے بھرپور اصرار کے باوجود انہ ہوں نتے اس کتے پیستے نتہ
لئے۔ بقالے کے مالک ایک سوڈانی صاحب تھے جن کا نام استتماعیل ت ھا۔ ان ہوں نتے عربتتی
میں ایک کتاب بھی دکھائی جس میں وادی قدید کے متعلق معلومات دی گئی تھیں۔ میں
نے وہ کتاب خریدنا چاہی لیکن ادریس صاحب نے مجھے اس کی ادائیگی نہ کرنے دی۔ اس
کتاب میں خیمہ ام معبد کی لوکیشن کے بارے میں تفصیلت درج تھیں۔ اسماعیل صتتاحب
نے اس جگہ کی نشاندہی کی جو اس مقام کے قریتتب ت ھی ج ہاں وادی قدیتتد کتتا ایگتتزٹ
واقع ہے۔
ظبیہ کے قریب آ کر طریق الھجرہ پھر ان کا شکریہ ادا کرکے ہم لوگ واپس روانہ ہوئے۔ ُ
ہمارے قریب سے گزر رہی تھی۔ ہم نے رخ مکہ کتتی طتترف کیتتا اور بیتتس کلومیتتٹر پیچھہہے
وادی قدید کے ایگزٹ کی طرف روانہ ہوئے۔ وہاں پہنچ کر ہم پھر ایگتتزٹ س تے بتتاہر نکلتے۔
اب کی ہم نے موٹر وے سے دوسری جانب کا راستہ اختیار کیا۔ میری توقع کے خلف پکی
روڈ جلد ہی ختم ہوگئی۔ مجھے اندازہ ہوا کہ ایسے ٹورز کے لے دو چیزوں کی ضرورت ہے،
ایک فور وہیل ڈرائیو جیپ اور دوسرے ایڈونچر پسند ساتھی۔ اس وقت ان دونوں ہی کتتی
93
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
کمی تھی ،لہذا ہم نے خیمہ ام معبد کی تلش کو ملتوی کیا اور دوبتتارہ طریتتق الھجتترہ پتتر
گاڑی ڈال کر مدینہ کی طرف روانہ ہوئے۔
طریق الھجرہ پر پانی کا ایک سفید ٹینکر ہمارے آگے جا رہا تھا جس میں آب زمزم تھا۔
مکہ سے آب زمزم ٹینکروں کی مدد سے مدینہ پہنچایا جاتتتا ہے ج ہاں یتہ مستتجدنبوی میتتں
اسی طرح میسر ہوتا ہے جیسا کہ مسجد الحرام میں۔ یہاں میری ڈیڑھ سالہ بیٹی ماریہ کو
نجانے کیا سوجھی کہ وہ اچھل اچھل کر مدینہ مدینہ پکارنے لگی۔ اس کی یہ پکار تقریبا ً آدھ
گھنٹہ جاری رہی۔ اس کی شکل پر خوشی کے تاثرات تھے اور وہ اپنتتی پکتتار کتتو ختتود ہی
انجوائے کر رہی تھی۔
اب ہم ایک بار پھر وادی قدید سے گزر رہے تھے لیکن اب ہمارا راستہ سیلبی ٹریک کی
بجائے طریق الھجرہ تھی۔ بائیں جانب ہمیں کچھ پ ہاڑ نظتتر آر ہے ت ھے جتتو تیتتز د ھوپ کتے
باوجود کچھ بھوت نما دکھائی دے رہے تھے۔ روڈ پر ایک بورڈ لگا ہوا تھا جو یہ بتا رہا ت ھا کتتہ
اس روڈ کو ریڈار کی مدد سے مانیٹر کیا جارہا ہے اس لئے آپ حد رفتار کتا خیتال رکھیتتں۔
جدہ مکہ روڈ کے برعکس یہاں زیادہ پولیس نہیں ہوتی اس لئے اس روڈ کو ری تڈار کتتی متتدد
سے مانیٹر کیا جاتا ہے اور جو گاڑی مسلسل 120سے زائد رفتتتار پتتر ستتفر کتترے ،استے
اگلے کسی مقام پر پولیس کی گاڑی روک کر اس کا چالن کرتی ہے۔
طریق الھجرۃ
ہم اس وقت 150کی رفتار پر تھے جو میں چالن سے بچنے کے لئے مسلسل کم زیادہ
کرتا آ رہا تھا۔ اچانک ایک گاڑی نے ہمیں اوور ٹیک کیا۔ یہ یقینا 180کی رفتار پتتر ہو گتتی۔
94
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اگر ہم کھڑے ہوتے تو اس رفتار سے گزرتی ہوئی گاڑی پر نظر جمانا بھی مشکل ہے لیکن
اس وقت وہ ہمیں آہستہ آہستہ چلتی نظر آرہی تھی۔ اس کائنات میں کوئی بھی چیز ہمیں
مطلق صورت ) (Absoluteمیں نظر نہیں آتی بلکہ اضتتافی ) (Relativeصتتورت میتتں نظتتر
آتی ہے۔ چاند زمین کے گرد سینکڑوں میل فی سیکنڈ کی رفتار سے حرکت کرتا ہے لیکتتن
ہمیں اس کی حرکت سست نظر آتی ہے کیونکہ ہماری زمین خود اتنی ہی رفتار کتتر رہ ہی
ہے۔ یہی حال اس دنیا کی زندگی کا ہے۔ ہم اس غلتتط فہمتتی میتتں مبتل ہیتتں کتہ ہ ہم آہستتتہ
آہستہ آگے بڑھ رہے ہیںلیکن حقیقت یہ ہے کہ ہم تیزی سے اپنی موت کی طتترف جتتارہے ہیتتں
جس کے بعد ہماری اصل منزل ہماری منتظر ہے۔
بھوت نما پہاڑ ہمارے بائیں جانب پیچھے رہ گئے ت ھے۔ اب ستامنے ت ہہ در ت ہہ پ ہاڑوں کتی
قطاریں تھیں۔ سامنے المساة ایگزٹ تھا اور مدینہ 254کلومیٹر باقی رہ گیا تھا۔ ستتنبھل
جا اے دل مضطر ،مدینہ آنے وال ہے۔
صحرائ ے مدین ہ
آگے بہت بڑا برساتی نالہ تھا جس پر ایک طویل پل بنا ہوا تھا۔ اس سے گتزر کتتر ہم وادی
ستارہ میں داخل ہوگئے۔ عربی میتتں ستتتارہ ،پتتردے ) (Curtainکتتو کہت تے ہیتتں۔ نجتتانے اس
وادی کی وجہ تسمیہ کیا ہوگی۔ دور دور تک پھیل ہوا صتتحرا نظتتر آ ر ہا ت ھا۔ مج ھے مولنتا
الیاس قادری کی دعائے مدینہ یاد آئی جسے میں ہمیشہ پڑھا کرتا تھا۔
یا رب محمد! میری تقدیر جگا دے
صحرائے مدینہ مجھے آنکھوں سے دکھا دے
اب صحرائے مدینہ میری آنکھوں کے سامنے ت ھا۔ برستتوں پہلتے متتانگی ہوئی دعتتا کتتی
قبولیت کا وقت اب آیا تھا۔
یہاں ایک ریسٹ ایریا بنا ہوا تھا جس کے پیٹرول پمپ سے ہم ن تے پیتتٹرول لیتتا۔ پیتتٹرول
ڈالنے والے ایک خان صاحب تھے۔ ایسی انجانی جگہوں پر اپنے پاکستانی بھائیوں کتتو دیک تھ
کر بہت خوشی محسوس ہوتی ہے۔ ان دنتتوں انٹرنیشتتنل متتارکیٹ میتں تیتل کتی قیمتتتیں
تیزی سے بڑھ رہی تھیں۔ خام تیل) Crude Oil) 73ڈالر فی بیرل تک جاپہنچا تھا۔ پاکستان
میں پیٹرول کی قیمت 58روپے فی لیٹر تک پہنچ چکی تھی لیکن سعودی عرب میں اس
کی قیمت انہی دنوں میں 90حللہ فی لیٹر سے کم کرکتے 60حللتہ )تقریبتا ً ستتاڑھے نتتو
روپے ( فی لیٹر کر دی گئی تھی جو ہمارے لئے ایک بڑی نعمت تھی۔
پاکستان کے مقابلے میں پیٹرول سعودی عرب میں چھ گنا سستتتا ت ھا۔ پاکستتتان میتتں
بھی اس وقت پیٹرول کی ایکس ریفائنری قیمت تقریبا ً 34روپتے لیتتٹر ت ھی۔ بتتاقی رقتتم
حکومت کے ٹیکس پر مشتمل تھی۔ انٹرنیشنل مارکیٹ میں تیل کی بڑھتی ہوئی قیمتتتوں
سے سعودی عرب کو بہت فائدہ ہوا تھا۔ حکومت نے اس فائدے کو عوام تک منتقتتل کرنتے
کے لئے پیٹرول ،بجلی اور فون کی قیمتوں میں کمی کی تھی۔ کاش ہماری حکومتوں کو
بھی اللہ تعال ٰی ایسی ہی توفیق دے کہ وہ ملک کو پہنچنے والے ہر فائدے کو عوام تک منتقل
کر سکیں۔
95
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
وادی ستارہ کے بعد ہم ایک اور وادی میں جا پہنچے جس کے پتھر ہلکتے گتترے رنتتگ کتے
تھے اور آنکھوں کو بہت خوبصورت دکھائی دے رہے ت ھے۔ اللتہ تعتال ٰی کتی اس صتناعی کتا
کون مقابلہ کر سکتا ہے؟ یہ وادی الفارع تھی۔ یہاں سرخ رنگ کے کچھ ایسے پہاڑ ت ھے جتتن
کے بے شمار چھوٹے چھوٹے کونے نکلے ہوئے تھے۔ سڑک کے کنارے ایتتک بتتورڈ ت ھا جتتس پتتر
بندر بنا ہوا تھا۔ اگرچہ موٹر وے کو دونوں طرف باڑھ لگا کر محفوظ کر دیا جاتا ہے لیکتتن
یہ باڑھ ظاہر ہے بندروں کے لئے کوئی حیثیت نہیں رکھتی اس لئے ڈرائیوروں کو وارننگ دی
گئی تھی کہ وہ بندروں سے محتاط رہیں جو اچانک سامنے آسکتے تھے اور تیز رفتار گتتاڑی
ان سے ٹکرا کر الٹ سکتی تھی۔ مجھے لہور اسلم آبتاد متوٹر وے کتا ایتک مقتام یتاد آیتا
جہاں ایسا ہی بورڈ تھا اور اس پر کچھوا بنا ہوا تھا۔
جدید تہذیب کی یہ خصوصیت مجھے بہت اچھی لگتی ہے کہ اس میں قتترآن ک تے اصتتول
کے مطابق انسانی جان کو بہت اہمیت دی جاتی ہے۔ جدید انداز میتتں تعمیتتر کتتی گئی ہر
موٹر وے پر ایسی بہت سی وارننگز ملتی ہیں جو معمولی سے خطرے کی بھی نشتتاندہی
کرتی ہیں۔ دنیا بھر میں انسانی جان کو اب بہت زیادہ اہمیت دی جانے لگی ہے۔ بدقسمتی
سے ہمارے برصغیر میں ابھی یتہ رجحتتان زور نہیتتں پکتتڑ ستتکا اور انستتان کتے بنتتائے ہوئے
قوانین ،رسم و رواج اور روایات ،انسانی جان پر فوقیت رکھتے ہیں۔ صرف اپنے ہاں کتتی
سڑکوں کا ہی جائزہ لیں تو کتنے لوگ بے احتیاطی کی وجہ سے ان پر جتتان دے دیت تے ہیتتں
اور بحیثیت مجموعی معاشرے کو اس کا شعور ہی نہیتتں۔ ہمتتارے معاشتترے میتتں انستتانی
جان کس قدر ارزاں حیثیت کی حامل ہے۔ کاش ہمارے لوگ قرآن کتتو پڑھیتتں جتتس میتتں
انسانی جان کے قتل کو پوری انسانیت کے قتل سے تعبیر کیا گیا ہے۔
وادی الفتتارع ک تے بعتتد اگلتتی وادی ،وادی ارن ت ھی۔ اس میتتں ہلک تے ستتبز رنتتگ ک تے
صحرائی پودے سرخ ریت کے پس منظر میں بہت بھلے لگ رہے ت ھے۔ ی ہاں ایتتک ب ہت بتتڑا
زرعی فارم بھی تھا جس کے مالک نے اس راستے کی مناسبت سے اس کتتا نتتام ”مزرعتة
الھجرہ“ رکھ دیا تھا۔ اس کے بعد وادی شللۃ الھمۃ آئی ۔ یہ گترے رنتگ کتا ایتک اونچتا نیچتا
میدان تھا جہاں کچھ بدو سفید رنگ کی بھیڑوں کو چرا رہے تھے۔ آج ب ھی ستتعودی عتترب
کی بدو آبادی کا سب سے بڑا پیشہ گلہ بانی ہے۔
لفظ ’بدو‘ ،بادیہ سے نکل ہے جس کے معنی گاﺅں کے ہیں۔ یہ بالکل ایسے ہی ہے جیس تے
پنجابی میں پنڈ سے پینڈو۔ ہمارے ہاں کے دیہاتی ،پینڈو کہے جانے پر برا مان جاتے ہیں لیکن
اس کے برعکس بدو اپنی بدویت پر فخر کرتے ہیں۔ ہمارے ہاں ہاتھ ستے کتتام کرنتے والتے
پیشوں کو جاگیر دارانہ اثرات کے باعث حقیر سمجھا جاتا ہے لیکن عرب لوگ اپن تے آبتتائی
پیشوں پر فخر کرتے ہیں اور بڑے فخر سے نام کے ساتھ ”خیاط )درزی(“” ،حمال )قلی(“
لگاتے ہیں۔ ان کا یہ طرز عمل اسلم اور انسانیت کے عین مطابق ہے۔ کتتوئی ب ھی ایستتا
پیشہ جس میں کوئی شرعی یا اخلقی قباحت نہیں ،یقینامعزز ہے۔
وادی قدید سے لے کر یہاں تک کا پورا علقہ دراصل ایک بہت بڑا آتش فشانی میتتدان )
(Volcanic Fieldہے۔ قدیم دور میتتں ی ہاں آتتتش فشتتاں پھٹتتے ر ہے ہیتتں۔ میتتں جتتن ستتیاہ
ٹھیکریوں کا ذکر کر رہا ہوں ،یہ دراصل لوے میں شامل پتھر ہیں جو لوے کی حتتدت ستے
سیاہ رنگت اختیار کر گئے ہیں۔ اس میدان کو "حرات راحت" کا نام دیا گیا ہے۔ نجانے اس
کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟
96
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
لوے کا میدان
97
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اس جگہ ٹرکوں والی لین بالکل نئی تعمیر کی گئی تھی کیونکہ ٹرکوں ک تے چلن تے س تے ی تہ
لین جلدی خراب ہو جاتی ہے۔ میں نے اس نئی لین کا بھرپور فائدہ اٹھانتتا شتتروع کیتتا۔ ہم
اب الجھیزہ کے علقے میں داخل ہورہے تھے اور مدینہ 104کلومیٹر دور رہ گیا تھا۔ ستتنبھل
جا اے دل مضطر ،مدینہ آنے وال ہے۔
پودوں نے اب گہرا سبز رنگ اختیار کرنا شروع کردیا تھا۔ الُیتمہ کے علقے س تے گزرت تے
ہوئے ہم ثنیۃ الشامۃ میں داخل ہوگئے جو کہ ایک تنگ پہاڑی درہ تھا۔ عربتتی میتتں ثنیتۃ پہہہاڑی
ٹریک کو کہتے ہیں۔ ایسے ہی ایک ٹریک سے گزر کر حضتتور صتتلی الل تہ علی تہ و ال تہ و ستتلم
مدینہ میں داخل ہوئے تھے جس کا نام "ثنیۃ الوداع" تھا۔ یہاں پہاڑ عین ہمارے سر پر ک ھڑے
تھے جن کو کاٹ کر روڈ بنائی گئی تھی۔ یہاں سلئیڈنگ کا خطرہ بھی تھا۔
غزو ہ حمرا السد
درے سے گزرنے کے بعد ہماری دائیں جانب ایک وسیع میدان آیا جو ک تہ ریتتس کتتورس ک تے
طور پر استعمال ہوتا تھا۔ اس کے بعد کون نما ستترخ پہاڑیتتاں تھیتتں جتتن کتے دامتتن میتتں
"اسماک الحمرا" کا ریسٹ ایریا تھا۔ یہاں کی مچھلی بھی مشہور ہے۔
یہ وہی مقام ہے جہاں "غزوۃ حمراء السد" ہوا تھا۔ احد کی جنگ کے بعتتد زخمتتوں س تے
چور اسلمی فوج کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوبارہ تیاری کا حکم دیا۔ خدا کے
یہ بندے ،اس کے رسول کے حکم پر اپنے زخموں کی پرواہ نہ کرتے ہوئے دوبتتارہ اٹ تھ ک ھڑے
ہوئے۔ انہوں نے مشرکین کے لشکر کتتا تعتتاقب کیتتا اور حمتتراء الستتد ک تے مقتتام تتتک آئے۔
مشرکین کی فوج نے ان کا مقابلہ نہ کیا اور رفتار تیز کرکے نکتتل گئے۔ اس لشتتکر کشتتی
نے بڑی حد تک کفار کی اس خود اعتمادی کو توڑ دیا جو احد کی جنتتگ میتتں مستتلمانوں
کو نقصان پہنچا کر پیدا ہوئی تھی۔ اسی طرح اس کے نتیجے میں مستتلمانوں کتے متتورال
اور خود اعتمادی میں اضافہ ہوا۔
98
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مدینہ اب صرف 17کلومیٹر باقی رہ گیا تھا۔ اس مقام پر مولنا الیاس قادری صتتاحب
کی نعت کا یہ شعر میری زبان پر جاری ہوگیا۔
ٹھہر جا اے روح مضطر ،نکل جانا مدینے میں
خدارا اب نہ جلدی کر ،مدینہ آنے وال ہے
مولنا اور ان کی جماعت ،دعوت اسلمی کو مدینے س تے شتتدید محبتتت ہے۔ ان کتتی
شاعری کا 99فیصد حصہ مدینے کی آرزو ،اس کی تعریف اور اس سے جذباتی تعلق پر
مشتمل ہے۔ اگر اردو اور پنجابی کی نعتیہ شاعری کا جائزہ لیا جائے تتتو اس کتتا بتتڑا حص تہ
مدینے سے متعلق ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ مکہ کو ب ھی حضتور صتلی اللتہ علیتہ و التہ و
سلم سے اتنا ہی تعلق ہے جتنا مدینہ کو ہے ،لیکن اس کے بارے میتتں ب ہت ہی کتتم اشتتعار
کہے گئے ہیں۔ مدینہ سے متعلق تمام تر شاعری کا مرکز حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم
کا روضہ انور ہوتا ہے اور آپ کی سرگرمیوں کے اصل مرکز مستتجد نبتتوی کتتو بالکتتل ہی
نظر انداز کرد یا جاتا ہے جستے آپ نتے تعمیتر فرمایتا اور استے ایتک دینتتی حیتتثیت عطتا
فرمائی۔ حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و التہ و ستتلم ن تے زیتتارت ک تے ستتفر کتتی اجتتازت
صرف تین مقامات کے لئے دی تھی :مسجد الحرام ،مسجد نبوی اور مسجد اقصتتیٰ۔ٰ اس
کے علوہ آپ نے کسی اور مقام کی طرف زیارت کے سفر سے منع فرمایتتا ت ھا۔ آپ ستے
محبت کا تقاضا یہ ہے کہ آپ کے حکم کی پابندی کرتے ہوئے آپ کی مسجد کا ہی قصد کیتتا
جائے اور اسے ہی اپنی عقیدت کا مرکز بنایا جائے۔
حرم مدین ہ
99
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
گلبی رنگ کی پہاڑیوں سے گزرتے ہوئے حرم مدینہ کی حدود کے قریب جا پہنچے۔ یہ "جبتتل
عیر" کہلتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے جبل عیر سے لے کر جبل ثور )یہ مدینہ
میں ایک پہاڑ ہے جس کا نام مکہ کے جبل ثور سے ملتا ہے( کو حرم قرار دیا۔ یہاں مکہ کی
طرح چیک پوسٹ بنی ہوئی تھی اور للمستتلمین فقتتط کتتا بتتورڈ لگتتا ہوا ت ھا۔ غالبتا ً ان ہی
پہاڑوں میں ثنیۃ الوداع ہے جس کا ذکر مدینہ کی بچیوں کے اس نغمے میں ہے جو انہوں نے
حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی تشریف آوری پر پڑھا تھا۔
طلع البدر علینا ،من ثنیۃ الوداع
وجب الشکر علینا ،ما دعا للہ داع
روڈ کے درمیان میں کھجور کے درختتت ایتتک لئن س تے لگ تے ت ھے۔ آگ تے ذی الحلیفتہ کتتا
میقات تھا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں سے حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے عمتترے
اور حج کی ادائیگی کے لئے احرام باندھا تھا ۔ اہل مدینہ کے لئے یہی میقات ہے۔ ی ہاں ایتتک
بہت بڑی مسجد بنی ہوئی ہے۔ اس مسجد میں کثیر تعداد میتتں غستتل ختتانے موجتتود ہیتتں
تاکہ حج و عمرہ پر جانے والے افراد یہاں غسل کرکے احرام باندھ سکیں۔
100
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مدین ہ
ہم اب مدین ہ میں داخل ہو ر ہے ت ھے۔ ب ہتر ہوگا ک ہ آگ ے بڑ ھن ے س ے قبل مدین ہ کا
نقش ہ ذرا تفصیل س ے بیان کردیا جائ ے۔
مدین ہ کا نقش ہ
موجودہ مدینہ ایک گول شکل کا شہر ہے جس کا مرکز مسجد نبوی ہے۔ مستتجد ک تے گتترد
ایک سڑک بنی ہوئی ہے جسے مدینہ کا پہل رنگ روڈ کہا جاتا ہے۔ اس سے چھ سات کلومیٹر
کے فاصلے پر دوسری رنگ روڈ ہے جو مدینہ شہر کا ایک چکتتر لگتتاتی ہے۔ اس ستے مزیتتد
فاصلے پر تیسری رنگ روڈ ہے جو شاہ خالد سے موسوم ہے۔ اگر آپ کسی ب ھی رنتتگ روڈ
پر سفر کریں اور کسی جانب نہ مڑیں تو آپ گھوم کر اسی مقام پتتر آ جتتائیں گتے ج ہاں
سے چلے تھے۔
تیسری رنتتگ روڈ حتترم متتدینہ کتتی باﺅنتڈری لئن ہے۔ استتی روڈ ستے مشتترقی ستتمت
ریاض ،شمالی سمت تبوک ،مغربی سمت بدر اور جنوبی جانب مکہ اور جدہ جانے والتتی
ہائی ویز نکلتی ہیں۔ دوسرا رنگ روڈ موجودہ مدینہ کی آبادی کی باﺅن تڈری لئن ہے اور پہل
رنگ روڈ مسجد نبوی کی۔ مسجد نبوی سے مختلتتف ستتمتوں میتتں ستتڑکیں دوستترے اور
تیسرے رنگ روڈ تک جاتی ہیں۔ ان کے نام مختلف صحابہ کرام جیسے سیدنا ابوبکر ،سیدنا
عمر ،سیدنا عثمان ،سیدنا علی اور سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہم کے نتتام پتتر رک ھے
گئے ہیں۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و ٰالہ وسلم کے دور کا مدینہ ،موجودہ شہر کے ستتیکنڈ رنتتگ روڈ
کے دائرے میں آباد تھا۔ اس دور میں مختلف خاندانوں کی الگ الگ بستیاں تھیں جتتو اس
پورے علقے میں ایک دوسرے سے وقفے وقفے سے پھیلی ہوئی تھیں۔ موجودہ ٹاؤن پلننتتگ
میں یہ پورا علقہ شہر کے اندر آ گیا ہے۔ اپنے تقدس سے ہٹ کر ب ھی ی تہ ش تہر عمتتدہ ٹتتاؤن
پلننگ اور فطرت کے حسن کا شاہکار ہے۔
میقات ذوالحلیفہ کے قریب ہی سیکنڈ رنگ روڈ ،طریق الھجرہ کو کراس کرتا ہے۔ی ہاں
سیاہ رنگ کے قلعے کا ایک ماڈل موجود ہے۔ ہم نے ی ہاں س تے بتتائیں جتتانب گتتاڑی متتوڑی ۔
تھوڑی دور جا کر عمر بن خطاب روڈ کا ایگزٹ تھا۔ یہاں سے دائیں مڑ کر ہم ت ھوڑی دور
چلے تو فرسٹ رنگ روڈ کا سگنل تھا جس کے دوسری طرف مستتجد نبتتوی اپنتتی ب ہاریں
دکھا رہی تھی۔ یہ مسجد کی جنوب مغربی سمت تھی اورگنبد خضرا یہاں سے صاف نظر
آ رہا تھا۔ یہاں سے اگر سیدھے چلے جائیں تو دو راستے ہو جاتے ہیتتں ،ایتتک مستتجد کتے ارد
گرد کی گلیوں میں جاتا ہے اور دوسرا مسجد کی بیسمنٹ میں۔
101
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مسجد نبوی
مسجد نبوی میں پارکنگ کا شاندار انتظام ہے۔ آپ ایک ریال فتتی گھنٹ تہ ک تے حستتاب س تے
جتنی دیر چاہے وہاں گاڑی کھڑی رکھیں۔ پارکنگ سے باہر نکلنے کے راستتتے بالکتتل قریتتب
ہی واقع ہیں اور باہر نکلتے ہی مسجد بالکل سامنے ہوتی ہے۔ دراصل یہ پارکنگ مسجد کے
صحن کے نیچے بنائی گئی ہے جو مسجد کا حصہ نہیں ہے۔ مسجد کے عین نیچے ت ہہ ختتانوں
میں ائیر کنڈیشنگ پلنٹ وغیرہ نصب کیا گیا ہے ۔
مسجد الحرام کے برعکس ،مسجد نبوی عام مسجدوں کی طتترح چوکتتور شتتکل کتتی
ہے۔ اس کے چاروں طرف مسجد کے صحن ہیں جو سروس ایریا کا کام کرتتتے ہیتتں۔ رش
کے دنوں میں یہاں صفیں بنا کر نماز بھی ادا کتتی جتتاتی ہے۔ صتتحن کتے بتتاہر جنتتوبی اور
شمالی سمت میں ہوٹلز ،ریسٹورنٹس اور مارکیٹیں ہیں۔ ہم پارکنگ کے گیتتٹ نمتتبر ایتتک
سے نکل کر اوپر آئے تو سامنے ہی گنبد خضراء پوری آب و تاب کے ساتھ چمک رہا تھا۔
102
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مسجد نبوی
قبلہ مسجد کی جنوبی سمت میں ہے۔ اس جانب مسجد تھوڑی سی آگ تے نکلتتی ہوئی
ہے۔ یہ سلطنت عثمانیہ کے زمانے کی مسجد ہے۔ سعودی دور میں دو مرتبہ اس کی توسیع
کی گئی ہے جو عثمانی دور کی مسجد سے شمال ،مشرق اور مغرب کی جانب ہے۔ اس
آگے نکلی ہوئی جنوبی دیوار میں امام صاحب کا مصل ٰی ہوتا ہے۔ حضور صتتلی اللتہ علیتہ و
الہ و سلم کی مقرر کی ہوئی مسجد اس کے اندر ہے۔ اسی کو آپ نے جنت کا حصہ قتترار
دیا ہے۔ یہ ریاض الجنۃ کہلتا ہے۔ اس کی پہچان یہ ہے کہ اس کے کارپٹ ستتبز رنتتگ ک تے ہیتتں
جبکہ پوری مسجد کے کارپٹ سرخ رنگ کے ہیں۔
ریاض الجنۃ کے بائیں جانب حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا روضہ ہے۔ یتتہ
دراصل سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کا کمرہ تھا جہاں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کتتی
وفات ہوئی اور آپ کو یہیں دفن کیا گیا۔ دیگر امہات المومنین رضی اللہ عنہن ک تے کمتترے
بھی یہیں تھے ۔ انہی کا ذکر سورة الحجرات میں ہوا ہے۔ سیدہ فاطمہ اور علتتی رضتتی الل تہ
عنہما کاگھر بھی ساتھ ہی واقع تھا۔
103
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
روضہ انور
سنہری جالیاں
اس پورے ایریا کے گرد سلطنت عثمانیہ کے زمانے میں جالیاں لگا کر اسے محفتتوظ
کر لیا گیا تھا۔ تین اطراف میں یہ جالیتتاں ستتبز ہیتتں اور جنتتوبی ستتمت میتتں ان کتتا رنتتگ
سنہری ہے۔ سنہری جالیوں میں ہی مواجہہ شریف ہے۔ یہ ان جالیوں میں تین ستتوراخ ہیتتں
104
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جن میں سے بڑے کے عین سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی قبر انتتور ہے۔
چھوٹے دونوں سوراخوں کے ستتامنے ستتیدنا ابتتوبکر و عمتتر رضتتی اللتہ عنہمتتا کتتی قتتبریں
موجود ہیں۔ یہیں ک ھڑے ہو کتتر حضتتور صتتلی الل تہ علیتہ و ال تہ و ستتلم اور آپ کتے قریتتبی
ساتھیوں کے لئے سلم پیش کیا جاتا ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے حجرات ک تے بالکتتل پیچ ھے اصتتحاب صتتفہ کتتا
چبوترہ ہے۔ یہ اب بھی ایک چبوترے کی شکل میتتں ہے جتس پتر لتتوگ عبتادت کرتتے ہیتتں۔
ریاض الجنۃ میں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے منبر و مصل ٰی نمایتتاں ہیتتں۔ آپ کتے
مصل ٰی کی جگہ سیدنا عمر بن عبتد العزیتتز رضتی اللتہ عنتہ نتے 91ھ میتتں محتتراب تعمیتر
کروائی۔ موجودہ محراب سے ذرا سا دائیں جانب حضور صلی الل تہ علی تہ و ال تہ و ستتلم کتتا
مصل ٰی ہے۔
آپ کے منبر کی جگہ اب نو سیڑھیوں وال منبر ہے۔ آپ کااصل منبر تیتتن ستتیڑھیوں کتتا
تھا اور آپ دوران خطبہ اس کی سب سے اوپر والی سیڑھی پر تشریف فرما ہوتے ت ھے۔
سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے دوسری اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ ن تے تیستتری ستتیڑھی
پر بیٹھا شروع کیا۔ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے منبر نبوی کے نیچے مزید ستتیڑھیاں بنتتوا
کر اصل منبر کو اونچا کر دیا اور بعد کے بادشاہ نچلتتی ستتیڑھیوں پتتر بیٹھت تے ر ہے۔ 654ھ
بمطابق 1256ء میں مسجد نبوی میں آگ لگ گئی اور منبر جل گیا۔ اس موقع پتتر یمتتن
کے بادشاہ مظفر نے منبر بھجوایا۔ اس کتے بعتتد منتتبر کئی مرتبتہ تبتتدیل ہوا۔ آختتری منتتبر
سلطان مراد ثالث عثمانی نے 998ھ میں بھیجتتا جتتو اب ب ھی موجتتود ہے۔ )تاریتتخ متتدینہ،
مطبوعہ دارالسلم(
ہمارے مسلمان بھائی اپنی قبضہ گروپ والی عادت سے مجبور ہونے کتے بتاعث ریتاض
الجنۃ میں بھی قبضہ کر کے بیٹھتے ہیں اور دوسرے بھائیوں کو ی ہاں نمتاز پڑھنتے کتا موقتع
نہیں دیتے اور دھکم پیل جاری رہتی ہے۔ یہی ذہنیت حجر اسود کتے بوستے میتں کتار فرمتتا
ہوتی ہے۔ کیا ہی اچھا ہو اگر ہم یہاں تھوڑی سی عبادت کرکے اپنے دوسرے بھائیوں کے لئے
جگہ خالی کردیں۔ خواتین کے لئے ریاض الجن تۃ مختلتتف اوقتتات میتتں ک ھول جاتتتا ہے۔ اس
دوران مردوں کو وہاں سے نکال کر اس کے تین اطراف میں ریگزین کی دیواریں ک ھڑی
کر دی جاتی ہیں اور انہی دیواروں کی مدد سے خواتین کی جانب سے ایک راستہ بنتتا دیتتا
جاتا ہے۔
مسجد نبوی کی تعمیر حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے متدینہ آمتد کتے فتورا ً بعتد
کی جس میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے ایتتک ٹیتتم کتتی صتتورت میتتں کتتام کیتتا۔
مسجد کی پہلی توسیع آپ نے تقریبا ً سات سال بعد خیبر سے واپسی پر کی۔ مسجد کتتے
ستون کھجور کے درختوں کے تھے۔ سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے اپنے دور خلفت میں ان
تنوں کو تبدیل کروا دیا کیونکہ یہ کھوکھلے ہو گئے تھے۔ سیدنا عمتتر اور عثمتتان رضتتی الل تہ
عنہما کے ادوار میں مسجد کی مزید توسیع کی گئی۔ ستتیدنا عثمتتان نتے قبلتہ کتتی جتتانب
بھی مسجد میں توسیع کی جو آج تک موجود ہے۔ اس کے بعد ہمیشہ شتتمال ،مشتترق اور
مغرب کی جانب مسجد میں توسیع کی گئی۔
ولید بن عبد الملک کے دور میں سیدنا عمر بن عبد العزیز رضی اللہ عنہ جو مدینہ کتتے
گورنر تھے ،نے 88ھ میں مسجد کی توسیع و تعمیر کی۔ اس کے بعد م ہدی عباستتی ک تے
دور میں 165-161ھ میں مزید توسیع کی گئی۔ مصتتر کتے ستتلطان اشتترف قاتیبتتائ نتے
105
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
888ھ میں مسجد کی مزید توسیع کتتی۔ ترکتتی ک تے ستتلطان عبتتد المجیتتد کتے دور میتتں
1265ھ بمطابق 1849ء میں مسجد نبوی کی از ستتر نتتو تعمیتتر کتتی گئی۔ ستتعودی دور
میں مسجد کی دو مرتبہ تعمیر و توسیع کی گئی۔ پہلتتی توستتیع 1375-1371ھ بمطتتابق
1955-1951ء اور دوسری 1414-1405ھ بمطابق 1994-1984ء میں کی گئی۔ ان دو
توسیعات کے نتیجے میں مسجد نبوی جدید ترین سہولیات سے آراستہ ہوگئی ہے۔ مستتجد
کے ہر ستون میں سے ایئر کنڈیشنر کا پوائنٹ دیا گیا ہے جس سے ہر وقت تازہ ٹھن تڈی ہوا
نکلتی رہتی ہے۔ پہلی سعودی توسیع کے بعد مسجد میں 28000نمازیوں کتتی گنجتتائش
تھی جو دوسری تعمیر کے نتیجے میں 268000ہو گئی اور اگر صحنوں کی گنجائش کو
مل لیا جائے تو کل 430000نمازی اب یہاں نماز ادا کتتر ستتکتے ہیتتں۔ )تاریتتخ متتدینہ ،ص
،81-66مطبوعہ دار السلم(
موجودہ مسجد نبوی کے بہت سے دروازے ہیں۔ شمالی یعنتی قبلتہ کتی مختالف ستتمت
میں تین بڑے دروازے ہیں جن میں سے درمیان وال باب فہد کہلتا ہے۔ ی تہ متتردوں ک تے لئے
مخصوص ہے اور دوسرے دو دروازے خواتین کے لئے مخصتتوص ہیتتں۔ مستتجد ک تے شتتمالی
حصے میں دائیں اور بائیں خواتین کے لئے مخصوص جگہ ہے جتتس ک تے گتترد قابتتل حرکتتت
دیواریں لگا کر پردہ کیا گیا ہے۔ مسجد کی مشرقی اور مغربی دیواروں میں بھی ختواتین
کے لئے مخصوص دروازے ہیتں۔ اس کتے علوہ مشترقی دیتوار میتں بتاب عبتد العزیتز اور
مغربی دیوار میں باب سعود مردوں کے لئے مخصوص ہے۔ عثمانی دور کتتی مستتجد میتتں
مغربی دیوار میں باب سلم اور باب صدیق ہیں جبکہ مشرقی دیوار میں باب بقیتتع ،بتتاب
جبریل اور باب نسا ہیں۔ ان میں سے باب بقیع عین مواجہہ شریف کے ساتھ واقع ہے۔ باب
جبریل اور باب نسا سے داخل ہو کر بھی سیدھا حضور صتلی اللتہ علیتہ و التہ و ستلم کتے
روضہ انور کے بالکل قریب پہنچا جاسکتا ہے۔
مسجد کے اندر دو دروازے باب عمتتر اور بتتاب عثمتتان ہیتتں۔ دراصتتل یتہ پہلتتی ستتعودی
تعمیر کے دروازے تھے جو اب مسجد کے اندر آگئے ہیں۔ ان دونوں دروازوں کے ستتاتھ تیتتن
منزلہ لئبریری قائم کی گئی ہے۔ مسجد کے درمیان میتتں کھلتتی چ ھت چ ھوڑ دی گئی ہے
جس پر چھتریاں لگی ہوئی ہیں۔ دھوپ اور گرمی میں ان چھتریوں کو کھول دیا جاتا ہے
جبکہ رات اور سردی کے دنوں میں انہیں بند کر دیا جاتا ہے۔
مسجد نبوی دنیتتا ب ھر کتے ب ہترین پروفیشتتنلز کتی محنتتت کتتا شتتاہکار ہے۔ بتے شتتمار
انجینئرز ،آرکیٹکٹس ،بڑھئی ،معمار ،مزدور ،ماربل کا کام کرنے وال تے ،الیکٹریشتتن اور ن تہ
جانے کن کن شعبوں کے ماہرین نے اس کی تعمیر میں حصہ لیا ہو گا جس کے نتیجے میتتں
یہ شاہکار سامنے آیا۔ مسجد کا پرانا حصہ عثمانی بادشاہوں کا تعمیر کتتردہ ہے۔ ان ہوں ن تے
اپنے دور میں مسجد کی تعمیر کے لئے دنیا بھر کے بہترین ماہرین کتتو اکٹ ھا کیتتا اور انہیتتں
مدینہ میں آباد کیا۔ انہیں حکم دیا گیا کہ اپنتتا فتتن اپنتتی اولد میتتں منتقتتل کردیتتں۔ جتتب یتہ
ماہرین کی یہ نئی نسل جوان ہوئی تو اس سے مسجد نبوی کتتی تعمیتتر کتتروائی گئی۔ دو
سو سال گزرنے کے بعد بھی یہ تعمیر ابھی نئی لگتی ہے۔ ستتعودی توستتیع ک تے دوران اس
حصے کو اپنی اصل حالت ہی میں رکھا گیا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ موجودہ مسجد نبوی حضور نبی کریم صتتلی الل تہ علی تہ و ال تہ و ستتلم ک تے
زمانے کے پورے مدینہ شہر پر مشتمل ہے۔ میں نے اٹلس سیرت نبوی میں شائع شتتدہ ع ہد
رسالت کے مدینہ کا نقشہ دیکھا۔ پھر مسجد نبوی کی لئبریری میں مدینہ کا متتاڈل دیک ھا۔
106
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ان کے مطابق مدینہ شہر کی تفصیل سے سیاحت کی۔ ان کتتی روشتتنی میتتں میتتں پتتورے
وثوق سے کہہ سکتا ہوں کہ یہ دعو ٰی غلط ہے۔
موجودہ مسجد نبوی زیادہ سے زیادہ محلہ بنی نجار اور ایک آدھ اور محل تے پتتر مشتتتمل
ہے۔ عہد رسالت کا مدینہ ،تقریبا ً آج کے مدینہ کے سیکنڈ رنگ روڈ کی حدود تک پھیل ہوا تھا۔
بنی معاویہ ،بنی عبد الشھل اور بنی حارثہ کے محلے مسجد نبوی اور جبل احد کے درمیان
واقع تھے۔ بنی نجار جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے ننھیتتالی رشتتتے دار ت ھے،
عین مسجد نبوی کی جگہ اور جنت البقیع کے آس پاس آباد تھے۔ بنی ظفر موجتتودہ متتدینہ
کے فرسٹ رنگ روڈ کے باہر جنتتوب مشتترقی ستتمت میتتں آبتتاد ت ھے۔ بنتتی قریظتہ جنتتوب
مشرق ہی میں سیکنڈ رنگ روڈ کے آس پاس آباد تھے۔ ان سے تھوڑا ہٹ کتتر بنتتی قینقتتاع
اور بنی نضیر کے محلے اور قلعے تھے۔ قبا مسجد نبوی سے محض سات آٹتھ کلومیتتٹر کتے
فاصلے پر ہے۔ ایسا ضرور تھا کہ اس وقت کے مدینہ کے محلے ایک دوسرے سے ذرا فاصلے
پر آباد تھے اور ان میں آبادی نہ تھی جیسا کہ ہمارے ہاں کتے چ ھوٹے شتہروں اور قصتتبوں
میں ہوتا ہے۔
مسجد کے شمالی جانب بڑے بڑے ہوٹل ہیں جو بہت مہنگے ہیں۔ ان کا یومیہ کرای تہ پیتتک
سیزن میں 500ریال اور آف سیزن میں 200ریال ہوتا ہے۔ استتی طتترف فرستتٹ رنتتگ
روڈ کے باہر ایک محلہ ہے ،جو بنگالی محلہ کہلتا ہے۔ یہاں سستے کمرے مل جاتے ہیں لیکتتن
ان میں صفائی کا مناسب انتظام نہیں ہوتا۔ اسی محلتے میتتں ب ہت ستے پاکستتتانی ہوٹتتل
واقع ہیں جہاں چٹخارے دار کھانے مل جاتے ہیں۔ پاکستان ہاﺅس کی دو عمارتیں بھی یہیتتں
واقع ہے۔ مسجد کے مغربی اور جنوبی جانب مارکیٹیں ہیتتں ج ہاں ب ہت ستتی اشتتیا بتترائے
فروخت ہوتی ہیں۔ یہ کافی سستی مل جاتی ہیں۔
رسول الل ہ صلی الل ہ علی ہ و ال ہ و سلم کی قبر انور
میں نے اپنی فیملی کو خواتین کی سائیڈ پر روانہ کر دیا۔ اس کے بعد میں باب بقیتتع س تے
مسجد میں داخل ہوا ۔ میرے دائیں جانب مواجہہ شریف کی سنہری جالیاں تھیتتں۔ ان ک تے
سامنے بہت سے لوگ کھڑے درود و سلم پڑھ رہے تھے۔ ایک صاحب جو یقینتتا مطتتوع ت ھے،
جالیوں کے ساتھ کھڑے لوگوں کو کنٹرول کر رہے تھے۔ میں بھی ان ہی لوگتتوں میتتں آک ھڑا
ہوا اور سب سے پہلے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی ختتدمت میتتں ستتلم پیتتش
کیا۔ اس کے بعد سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی خدمت میں سلم پیش کرنے کا
موقع مل۔ میں خاصی دیر وہیں کھڑا درود و سلم کے نذرانے پیش کرتا رہا۔
درود دراصل حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے لئے اللہ کی رحمت کی دعا ہے۔ آپ
یقینا ہماری دعا کے محتاج نہیں لیکن ایک فقیر ،سخی کو دعا کے علوہ کیتا دے ستکتا ہے۔
مجھ اپنی ذات پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم ک تے احستتانات یتتاد آن تے لگ تے۔ اس
دنیا میں انسان کی سب سے بڑی ضرورت خدا کی پہچان ہے۔ اگر حضور صلی اللہ علیہ و
الہ و سلم کی ذات نہ ہوتی تو ہم کس طرح اپنا تعلتتق اپنتے اللتہ س تے قتتائم کتتر پتتاتے۔ دور
قدیم سے پائے جانے والے الہامی مذاہب کو تو خود انہی کے علماءنے بگاڑ دیتتا ت ھا۔ حضتتور
کی بدولت ہمیں قرآن نصیب ہوا جس میں کوئی تبدیلی نہیں کی جاسکی۔
مجھے یقین ہے اس مقام پر اللہ تعال ٰی کے انوار کی بارش ہورہی ہو گی۔ اس میں میرا
107
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
وجود عجیب سا لگ رہا تھا۔ پھر مجھے خیال آیا کتہ ستمندر میتں ناپتاک قطترہ گرنتے ستے
سمندر کو کوئی فرق نہیں پڑتا البتہ سمندر اس قطرے کو خود میں فنا کرکے پاک کر دیتا
ہے۔ یہ صوفیا کے وحدت الوجود کے فلسفے کی طرح انستتان کتتی ذات کتے ختتدا کتتی ذات
میں جا ملنے والی بات نہیں تھی۔ انسان کے گناہوں کو حتترم کتتی حاضتتری د ھو کتتر پتتاک
کردیتی ہے اور اس کے وجود کا اس طرح سے تزکیہ ہو جاتتتا ہے کتہ وہ آئنتتدہ گنتتاہوں ستے
اجتناب کرنے لگتا ہے۔
ابوبکر و عمر رضی الل ہ عن ہما
سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما صحابہ کرام میں ممتاز ترین حیثیت ک تے حامتتل ہیتتں۔
حضور کی وفات کے موقع پر سب لوگوں نے بالتفاق سیدنا ابوبکر کو خلیفتہ منتختتب کتتر
لیا۔ آپ کی پوری زندگی حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے ساتھ گزری تھی۔ بچپن کی
دوستی ،جوانی کا ساتھ ،ادھیڑ عمری میں سب سے آگے بڑھ کر قبول اسلم ،ساری عمر
کی کمائی ہوئی دولت کو حضور کے مشن پر خرچ کر دینا ،ہجرت کے سفر میں ہمرا ہی،
غزوات میں شرکت ان سب پر اگر غور کیا جائے تو آپ کی ساری عمر ہی سراپا محبت
نظر آتی ہے۔ سوا دو سال کتے دور خلفتت کتی مختصتر متدت میتں آپ نتے مرتتدین اور
مانعین زکوةکا قلع قمع کرنے کے ساتھ ساتھ قیصر و کسر ٰی کی سلطنتوں کی فتح کتتی
بنیاد بھی رکھ دی جو کہ آپ کی زندگی کا نہایت ہی حیران کن باب ہے۔آپ کی فراہم کتتی
گئی مضبوط بنیادوں پر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کسر ٰی کی سلطنت کا مکمل ختتاتمہ
کردیا اور قیصر کو ایشیا اور افریقہ سے نکال باہر کیا۔
میرے سامنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے پہلو میں یہ دونتتوں ہستتتیاں آرام
فرما تھیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی کیا شان تھی۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و ستتلم
کی دعا کے نتیجے میں اسلم لئے اور پھر زندگی دیتتن ک تے لئے وقتتف کتتردی۔ آپ کتتا دور
حکومت مسلمانوں کی تاریخ کا سب ستے تابنتتاک بتتاب ہے۔ دینتتی و دنیتتاوی اعتبتتار ستے
مسلمان آپ کے دور میں جس عروج پر پہنچے وہ پھر کبھی نصیب نہیں ہوا۔
سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہمتا کتے دور میتں کتی گئی فتوجی کتاروائی دراصتل
حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے مشن کی تکمیل ت ھی۔ تاریتتخ میتتں ایستتی ہی ایتتک
کاروائی سیدنا موس ٰی علیہ السلم کے بعد ان کے خلفاء یوشع اور کالب علیہما السلم نے
کی تھی۔ امت مسلمہ میں سیدنا ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کتتی و ہی حیتتثیت ہے جتتو
سیدنا یوشع و کالب علیہما السلم کی بنی اسرائیل میں تھی۔ فتترق ی تہ ہے ک تہ وہ دونتتوں
حضرات منصب نبوت پر فائز ہوئے لیکن حضور صلی اللہ علیہ و الہ و ستتلم پتتر نبتتوت کتتو
ختم کردیا گیا ورنہ آپ کے فرمان کے مطابق ابوبکر و عمر بھی نبی ہوتے۔
حضور صلی اللہ علیہ و الہ و ستتلم کتتی تشتتریف آوری ستے قبتتل دنیتتا میتتں شتترک کتتو
عالمگیر حیثیت حاصل تھی۔ عرب شرک کا گڑھ تھا۔ دنیا کتی ایتک ستپر پتاور ایتران کتی
حکومت بزور قوت لوگوں کو توحید سے برگشتتتہ کرکتے آگ اور دیوتتتاﺅں کتی عبتتادت پتتر
مجبور کرتی تھی۔ دنیا کی دوسری سپر پاور روم اگر چہ سیدنا عیس ٰی علی تہ الستتلم کتتی
امت ہونے کے باعث توحید کی علمبردار تھی لیکن انہوں نے اپنے دین میں شرک کو داخل
کر لیا تھا۔ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما کی اس کاروائی ک تے نتتتیجے میتتں دنیتتا ک تے بتتڑے
108
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
حصے سے مذہبی جبر کا خاتمہ ہوا۔ شرک کی آفیشل حیثیت ایسی ختم ہوئی ک تہ اس ک تے
بعد سے شرک کبھی سر نہ اٹھا سکا۔ آج بھی اگر چہ دنیا بھر کے مذاہب میں شرکیہ عقائد
و اعمال موجود ہیں لیکن کوئی سینہ ٹھونک کر شرک کا علمبردار بن کر کھڑا نہیں ہوتتتا۔
ہندوﺅں کے بڑے بڑے سکالرز بھی خود کو اہل توحید قرار دیتے ہیں۔ شرک میں ب ہت ستتی
قومیں اگرچہ مبتل ہیں لیکن اسے کوئی اپنا دین ماننے کے لئے تیار نہیں۔ دل چسپ امر یتتہ
ہے کہ اس فوجی کاروائی کے نتیجے میں وہ پورا علقہ حکومت اسلمیہ کے زیر نگیتتں آ گیتتا
جسے بائبل میں اولد ابراہیم کی میراث کہا گیا ہے۔ سیدنا یوشع اور کالب علیہمتتا الستتلم
کے دور میں بھی فوجی کاروائی اسی علقتے میتں کتی گئی ت ھی۔ )دیکھیتے بائبتل کتتاب
یشوع(
مسجد نبوی کی لئبریری اور میوزیم
اب میں عثمانی دور کی مسجد نبوی میں داخل ہوا۔ وسیع و عریض مستتجد میتتں ستتونے
کا انٹر نیشنل مقابلہ ہورہا تھا۔ ہر قوم سے تعلق رکھنے والے افتتراد دنیتتا و مافی ہا س تے ب تے
خبر سوئے پڑے تھے۔ مسجد کے اندر باب عمر اور بتتاب عثمتتان ک تے پتتاس ایتتک ستہ منزلتہ
لئبریری ہے۔ میں اس لئبریری میتتں جاگھستتا۔ ی تہ دو حصتتوں پتتر مشتتتمل ہے۔ اس میتتں
قرآن ،تفسیر ،حدیث ،سیرت ،فقہ ،اصول ،عربی زبان و ادب ،صرف و نحتتو ،سیاستتیات،
نفسیات ،معاشیات اور بہت سے موضوعات پر کثیر تعداد میں عربی کتب موجود ہیں۔
اس لئبریری کی سب سے بڑی خصوصیت اس کا مخطوطات کا سیکشن ہے جو باب
عثمان کے سیکنڈ فلور پر واقع ہے۔ یہاں سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کتے ذاتتتی نستتخے
کی نقل بھی موجود تھی ۔ اصل نسخہ استنبول کے عجائب گھر میں موجتتود ہے۔ مش تہور
روایت کے مطابق یہ وہی نسخہ ہے جس کی تلوت کرتے ہوئے آپ شہید ہوئے تھے۔ اس ک تے
علوہ ہر دور میں ہاتھ سے لکھے ہوئے قرآن وہاں موجود تھے۔
دنیا بھر کی اقوام نے اپنی آرٹسٹک صلحیتوں کا اظہار مجستتمہ ستتازی ک تے فتتن س تے
کیا۔ مسلمانوں نے اپنی تمام تر صلحیتیں فن کتابت کے لئے وقتتف کردیتتں چنتتانچہ ہمتتارے
ہاں خطاطی کے ایسے ایسے نادر نمونے موجود ہیں جن کی مثال دنیا کی کسی قتوم کتے
ہاں نہیں ملتی۔ یہاں آٹھ سو سال پہلے کا ایک قرآن موجود تھا جس پتتر بہہہت س تے رنگتتوں
سے کام کیا گیا تھا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ جو رزلٹ ہم آج جدید ترین کلرڈ لیزر پرنتتٹر کتتی
مدد سے حاصل کرتے ہیں ،وہ اس دور میں ہاتھ کے کام میں موجود ت ھا۔ قتارئین کتے ذوق
کی تسکین کے لئے میں یہاں مخطوطات اور نوادرات کی تفصیل درج کر رہا ہوں۔
• بارہویں صدی کا قرآن مجید ،خط نسخ متقتتن۔ اس میتتں آیتتت کتے
نشان کے دائرے کو سنہرے رنگ میں لکھا گیا ہے۔
• 1038ھ کا لکھا ہوا قرآن مجید۔ سنہرے اور نیلے حاشیوں کے ساتھ۔
• 1296ھ میں مولوی محمد یوسف دہلوی کے ہاتھ کا لکھا ہوا قتترآن
مجید۔ اس میں سنہرے ،نیلے اور سبز رنگ کا استعمال کیا گیا ہے۔
• بارہویں صدی ہجری کا قرآن مجید۔
109
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
110
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
111
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ریاض الجنۃ
لئبریری سے نکل کر میں ریاض الجنۃ کی طرف آیا۔ یہاں ریگزین کتتی دیتتوار لگتتی ہوئی
تھی اور اس کے اندر خواتین نوافل اور اس سے زیادہ دھکم پیل میں مصروف تھیتتں ۔ ان
کی چیخ و پکار باہر بھی سنائی دے رہی تھی۔ میں قریب ہی بیٹتھ گیتتا۔ ت ھوڑی دیتتر میتتں
خواتین کا وقت ختم ہوا ۔ انہیں واپس ان کی جگ تہ بھیجتتا گیتتا اور متتردوں ک تے لئے ریتتاض
112
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
الجنۃ کھول دیا گیا۔ میں بھی وہاں داخل ہوا اور دو نفتتل ادا کئے۔ ی ہاں ستتجدہ کرتتے ہوئے
میرے دل میں یہ دعا تھی :
مل گئے مصطفی اور کیا چاہئے
فضل رب العلءاور کیا چاہئے
ہے یہ میری جبیں اور ریاض الجنۃ کی زمیں
اب قضا کے سوا اور کیا چاہئے
ریاض الجنۃ
اسی اثنا میں عصر کی اذان ہوئی ۔ میں جماعت کے انتظار میں وہیں بیٹھا رہا۔ میری
آنکھوں کے سامنے وہ منظر گردش کرنے لگا جب سیدنا بلل رضی اللہ عنہ اذان دیتے ہوں
گے اور صحابہ کرام جوق در جوق مسجد کی طرف آتے ہوں گ تے۔ کچ تھ ہی دیتتر کتے بعتتد
حضورصلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے حجرے کا دروازہ کھلتا ہو گا اور آپ اس میں سے باہر
تشریف لتے ہوں گے اور جماعت ہوتی ہوگی۔ نماز کے بعد رسول اللہ صلی اللہ علیتہ و التہ
وسلم قرآن کی آیات تلوت کرکے سناتے ہوں گے۔ تعلیم و تعلم کا سلسلہ چلتا ہوگا۔
جو ہم بھی ہوتے واں خاک گلشن ،لپٹ کے قدموں سے لیتے اترن
چند منٹ بعد جماعت کھڑی ہوگئی۔ نماز کی سعادت حاصل کرنے کے بعتتد میتتں و ہاں
سے نکل آیا تاکہ دوسرے بھائیوں کو بھی موقع مل ستتکے۔عصتر کتی نمتاز کتے بعتد جنتتت
البقیع کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں۔ میں بھی جنت البقیع کی طرف روانہ ہوا۔ اس کی
تفصیل آگے بیان کی جارہی ہے۔
113
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
114
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ایک دوسرے ملک میں جب اپنے آبائی علقے کا کتتوئی شتتخص متتل جتتائے تتتو اس کتتی
کتنی خوشی ہوتی ہے ،اس کا اندازہ وہی لوگ کر سکتے ہیتتں جتتو اس تجرب تے س تے گتتزرے
ہوں۔ ہم لوگ اگرچہ جہلم کو 1997میں چھوڑ کتتر پہلتے ل ہور اور پ ھر کراچتتی میتتں آبتتاد
ہوگئے تھے لیکن بچپن کے محلے کی گلیاں ستتاری عمتتر نہیتتں بھولتتتیں۔ان ستے محلتے کتے
لوگوں کے بارے میں گفتگو ہونے لگی۔ اسی اثنا میں اذان ہوئی۔ ہم نے مغرب کی نماز ادا
کی ۔ وہ صاحب اپنی فیملی کے ساتھ عمرہ کی ادائیگی کے لئے آئے تھے۔ میں نے انہیں جدہ
میں اپنے گھر آنے کی بھرپور دعوت دی اور وہاں سے رخصت ہو گیا۔ اب میتتں اس ستتفر
نامے کے لئے مسجد کے طول و عرض کی پیمائش کرنے لگا تاکہ قتتارئین کتتو مستتجد کتتی
تفصیلت سے آگاہ کیا جاسکے۔
عرب بزرگ کا درس
مسجد کے درمیانی حصے میں ایک عرب بزرگ کرسی پر بیٹھے تھے اور کچھ درس دے
رہے تھے۔ طلباء زمین پر بیٹھے نوٹس لے رہے تھے۔ ب ہت ستے پاکستتتانی ب ھی ان کتے حلقتہ
درس میں بیٹھے بڑی عقیدت سے سر دھن رہے تھے اگرچہ انہیتں اس کتی کچتھ ستمجھ نتہ
آرہی تھی۔ مجھے یہ دیکھ کر امام مالک علیہ الرحمۃ کتا حلقتہ درس یتاد آگیتاجب وہ حتدیث
پڑھاتے ہوں گے تو دور دور سے آئے ہوئے طالب علتم کتس طترح ان کتا درس ستنتے ہوں
گے۔ جب میں وہاں پہنچا تو وہ بزرگ درس ختم کر رہے تھے۔ میں نے ایک طالب علم ستتے
اس کے نوٹس والی کاپی لے کر دیکھا تتتو میتتری ہنستتی نکتتل گئی کیتتونکہ وہ بتتزرگ Data
Collection & Analysisکا مضمون پڑھا رہے تھے جسے لوگ بڑی عقیدت سے ستتن ر ہے
تھے۔ غالبا ً یہ مدینہ یونیورسٹی کے پروفیسر ہوں گے جو طلبا کتتو ریستترچ ک تے طریتتق کتتار
سے آگاہ کر رہے تھے لیکن عربی سے ناواقف لوگ ان کے درس سے عقیدت کشید کر رہے
تھے۔
گنبد خضرا
مسجد کی تفصیلت کو نوٹ کرتا ہوا میں باہر آگیا اور دروازوں کتتی تفصتتیل نتتوٹ کرنتے
کے لئے میں نے مسجد کتے گتترد چکتتر لگایتتا۔ جتتب میتتں قبلتہ کتتی جتتانب پہنچتتا تتتو ستتفید
روشنیوں میں نہایا ہوا گنبد خضرا بہت بھل لگ رہا تھا۔ یہ گنبد سیدہ عائشہ رضی اللتتہ عن ہا
کے حجرے کے عین اوپر بنا ہوا ہے۔ ہماری نعتیہ شاعری اس گنبد کے تذکرے پر اپنی معراج
پر پہنچتی ہے۔ مجھے مولنا الیاس قادری کے یہ شعر یاد آئے۔
کیسا ہے پیارا پیارا ،یہ سبز سبز گنبد
کتنا ہے میٹھا میٹھا ،میٹھے نبی کا روضہ
جس وقت روح تن سے عطار کی جدا ہو
ہو سامنے خدایا ،میٹھے نبی کا روضہ
آپ کی گلیوں کے کتے مجھ سے تو اچھے رہے
ہے سکوں ان کو میسر سبز گنبد دیکھ کر
115
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
نہ صرف گنبد بلکہ اس کے سبز رنگ سے اتنی عقیدت پیدا کی جتاتی ہے کتہ ب ہت ستے
لوگ سبز چادر زمین پر نہیں بچھاتے تاکہ اس پر پتتاﺅں نتہ آئیتتں۔ ستتبز رنتتگ کتتی اشتتیا کتتو
ٹائلٹ میں نہیں لے جاتے کہ اس سے اس رنگ کی بے حرمتی ہوتی ہے۔ خدا جتتانے ی تہ لتتوگ
گھاس پر چلتے ہوئے کیا کرتے ہوں گے؟ گنبد خضرا ستے تمتام تتتر عقیتدت کتا معتاملہ اس
بنیاد پر ہوتا ہے کہ اس کی نسبت حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے قائم ہے۔
مجھے اس طرز فکر سے کچھ اختلف ہے۔ گنبد خضرا سے حضور صلی اللہ علیہ و الہ و
سلم کی نسبت یقینا قائم ہوتی اگر آپ نے اپنی وفات سے قبل اپنا عالیشان روضہ بنوایتتا
ہوتا ،اس پر سبز گنبد بنوا کر آپ حکم دیتے کہ مجھے اس میتتں دفتتن کرنتتا اور ہہہر ستتال
یہاں آکر میرا عرس منانا تاکہ دنیا کو تمہارے نبی کی شان کا پتہ چل سکے۔ یتتا چلئے ایستتا
معاملہ ہوتا کہ آپ کو اس کا موقع نہیں مل تو آپ وصیت ہی فرما دیتے اور آپ کتتے خلیفتتہ
اول اس حکم پر عمل کرتے۔ رسول اللہ صلی اللتہ علیتہ و التہ و ستتلم نتے اس کتے بالکتتل
متضاد معاملہ فرمایا۔ میتتں اپنتتی طتترف ستے کتتوئی تبصتترہ کرنتے کتتی بجتتائے آپ کتتی وہ
احادیث نقل کرتا ہوں جن پر پوری امت کا اتفاق رائے ہے۔
”جابر سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و ستلم نتے قتبروں کتو پختتہ بنتانے،
انہیں بیٹھنے کی جگہ بنانے اور ان پر عمتتارتوں کتتی تعمیتتر ستے منتتع فرمایتتا۔ “ )مستتلم ،
کتاب الصلوة(
”سیدہ ام حبیبہ اور ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم س تے
عیسائیوں کے ایک گرجا کا ذکر کیا جو انہوں نے حبشہ میں دیکھا تھا۔ آپ نے فرمایا’ ،جب
بھی ان کا کوئی نیک آدمی فوت ہوتا تو یہ اس کی قبر کو عبتتادت گتتاہ بنتتا لیتتے۔ اللتہ کتے
نزدیک یہ لوگ روز قیامت بدترین مخلوق میں سے ہوں گے۔“ )بخاری ،کتاب الصلوة(
”سیدہ عائشہ ،ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہم سے روایت ہے کتہ اپنتی زنتتدگی کتے
آخری لمحات میں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایتتا” ،الل تہ ی ہود و نصتتار ٰی پتتر
لعنت فرمائے کہ انہوں نے اپنے انبیاءکی قبروں کتو عبتادت گتتاہیں بنتا لیتتا۔‘ ‘ ستیدہ عائشتہ
رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں )” :آپ کو حجرے کے اندر اس لئے دفن کیا گیا کہ ( اگتتر آپ
کی قبر مبارک کھلی جگہ پر ہوتی تو حضور کو یہ خدشہ تھا کہ لوگ کہیں اسے عبادت کتتی
جگہ نہ بنا لیں۔ “ )بخاری ،کتاب الجنائز(
جن لوگوں کو حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی ذات ستے محبتت ہے وہ
یقینا یہ چاہیں گے کہ وہ آپ کا اس خدشہ کے مطابق آپ کی قبر انور اور روضہ مبتارک کتو
اس شرک کا مرکز نہ بننے دیں جس کو مٹانے کے لئے آپ کو اس دنیا میں بھیجتتا گیتتا۔ آپ
کی وفات کے کئی سو سال کے بعد حجرہ عائشہ پر گنبد تعمیر کیا گیا جس کا رنگ سفید
تھا۔ بعد میں کسی بادشاہ نے اس پر سبز رنگ کروایا۔ اس سے یہ صاف معلوم ہوتا ہے کتتہ
گنبد کو حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے کوئی نستتبت نہیتں ہے ۔ یتہ بعتد کتے کستی
بادشاہ کا کارنامہ ہے۔ اب اگر کوئی اور حکمران اس گنبد پر کتتوئی اور رنتتگ کتتروا دے یتتا
یہاں گنبد کے علوہ کچھ اور تعمیر کر دے تو کیا اس رنگ یا ڈیزائن کی نسبت حضور صلی
اللہ علیہ و الہ و سلم کی طرف کرنا درست ہوگی اور اس سے استی عقیتدت کتا مظتاہرہ
کیا جائے گا جس کا موجودہ گنبد اور اس کے سبز رنگ سے کیا جاتا ہے؟
اس کے برعکس حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی مسجد کو آپ سے گہری نسبت
ہے۔ آپ نے اپنے مقدس ہاتھوں سے اس کی بنیاد رکھہہی اور اس تے اپنتتی دعتتوت کتتا مرکتتز
116
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
بنایا۔ یہ عجیب بات ہے کہ ہماری پوری نعتیہ شاعری میں جو اشعار اس مسجد کتتی شتتان
میں کہے گئے ہیں ،ان کا حصہ بمشکل نصف فیصد ب ھی ن تہ ہوگتتا۔استتی چیتتز کتتو Shift of
emphasisکہتے ہیں۔ یعنی جس چیز کو حضور صلی اللتہ علیتہ و التہ و ستتلم نتے 100کتتی
حیثیت دی ،ہم نے اسے 20کر دیا اور جس چیز کتتی اہمیتتت 10ت ھی ،استے 500کردیتتا۔
شاید ایسا معلوم ہوتا ہے کہ ہندوستان بھر میں پھیلے ہوئے مزارات ہمارے ذوق کی تسکین
کے لئے ناکافی تھے اس لئے ہم نے اپنی طرف ایک اور مزار کا اضافہ مدینے میتتں کتتر لیتتا۔
اس پر غور کرنے کا مقام ہے کہ کیا حضور صلی اللتہ علیتہ و التہ و ستتلم ہمتتارے اس طتترز
عمل سے خوش ہوں گے یا ناراض؟
اخوت و مساوات
مسجد میں دنیا بھر سے آئے ہوئے افراد موجود تھے اور بغیر کستتی ذات ،بتترادری ،رنتتگ ،
نسل اور قوم کی تفریق کے ساتھ ساتھ بیٹھے تھے اور نماز ادا کر ر ہے ت ھے۔ معلتتوم نہیتتں
مسجد میں اس اخوت و مساوات کے مظاہرے کے بعد جب ہم مسجد سے باہر جتتاتے ہیتتں
تو پھر کیوں اس تفریق میں ایسے مبتل ہوتے ہیں کہ اپنی بیٹیوں کا رشتہ دوسری ذات کے
لوگوں سے کرنے میں عار محسوس کرتے ہیں۔
عشاءکی نماز کے بعد میں نتے فیملتی کتو لیتا اور ہوٹتتل پہنتچ گئے۔ میتترا تجربتہ ہے کتہ
حرمین میں آپ کے پاس دو موبائل فون ہونے چاہئیں تاکہ فیملتی ستے رابطتہ ر ہے۔ حتج و
عمرہ کی ادائیگی کے لئے یہاں کی موبائل کمپنیاں سستے داموں سم فروخت کرتی ہیں۔
جتنی رقم کی سم ہوتی ہے ،اتنا ہی بیلنس اس میں ہوتا ہے۔ موبتائل کمپنیتتوں کتے ستتیل
پوائنٹ مسجد الحرام اور مسجد نبوی کے بالکل قریب واقع ہیتتں۔ اگتتر آپ حتتج و عمتترے
کی ادائیگی کے لئے آ رہے ہیں تو اپنا موبائل سیٹ لے آئیں اور ی ہاں آکتتر ستتم خریتتد لیتتں۔
آپ کے قیام کے دوران اس کا بیلنس ختم ہو ہی جائے گا۔
کھانے کے طور پر ہم نے شاورما پر گزارا کیا جس کی کوالٹی کچھ اچھی نہ تھی۔ میتتں
نے عرب کے کئی شہروں کا شاورما کھایا لیکن ہے جو مزہ اور کوالٹی کراچی کے شاروما
میں تھا وہ کہیں نصیب نہ ہوا۔ مدینہ میں ہم لوگ عموما ً رات نہیں گزارتے تھے ۔ عام طتتور
پر ہم فجر کے بعد جدہ سے چلتے ،دس گیارہ بجے تک مدینہ پہنچتے ،وہاں سارا دن گزار کتتر
مغرب کے وقت واپس چلتے اور رات کو نو بجے تک واپس جدہ پہنتچ جتاتے۔ اس دن ہمتارا
ارادہ وہیں رکنے کا تھا کیونکہ میں اس سفر نامے کے لئے مدینہ کی تفصتتیلت اکٹ ھی کرنتتا
چاہتا تھا۔
میری اہلیہ نے مجھے یہ بتایا کہ خواتین کی طرف ب ہت بتتد نظمتتی اور ہلچتتل ر ہتی ہے۔
خواتین کے طہارت خانے بھی عموما ً بہت گندے ہوتے ہیں۔ دھکم پیل ،چیخ و پکار اور لڑائی
جھگڑا خواتین کے حصے میں عام ہے۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ مرد دنیا میں گھومتے ہیں
اس لئے بڑے اجتماعات کے آداب سے واقف ہوتے ہیں لیکن خواتین کو اس کی تربیت نہیں
دی جاتی۔خواتین کے حصے میں بطور پولیس ،افریقی خواتین تعینات ہوتی ہیں جتتو ستتب
سے بڑی سختی سے پیش آتی ہیں لیکن اتنے بڑے مجمع کو کنٹرول نہیں کرپاتیں۔
میری اہلیہ نے یہ واقعہ سنایا کہ ان کے سامنے پنجاب کی دیہاتی عورتوں نے کتتوئی چیتتز
کھا کر اس کا ریپر مسجد میں پھینک دیا۔ ایک صفائی کرنے والی افریقی خاتون ن تے آکتتر
117
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
سختی سے عربی میں ان سے باز پرس کی تو انہوں نے پنجابی میں اپنی حرکت کا جواز
پیش کرتے جواب دیا” :نی تسی شکر کرو ،اللہ نے توانوں اپنے گھر کتتی ختتدمت دا موقتتع
دتا اے۔ لوکی کنی دوروں آندے نیں پر تسی ایتھے رہندیاں او۔“)تتم شتکر کترو کتہ اللتہ نتے
تمہیں اپنے گھر کی خدمت کا موقع دیا ہوا ہے۔ لوگ کتنی دور سے آتے ہیں لیکتتن تتتم ی ہاں
رہتی ہو۔( ان کا مطلب یہ تھا کہ ہم گندگی پھیلتی رہیں اور تم شکر ادا کیا کرو ک تہ تمہیتتں
اس طرح مسجد کی خدمت کا موقع ملتا رہے۔
رات میں مسجد نبوی بند کر دی جاتی ہے اور صبح تین بجے اسے تہجد کتتے لئے ک ھول
دیا جاتا ہے۔صبح جب ہم مسجد پہنچے تو اذان ہوا ہی چاہتی تھی۔ جلتتدی ستے تیتتن رکعتتت
وتر کی نماز ادا کی ہی تھی کہ اذان ہوگئی ۔ اس کے بعد لتتوگ جتتوق در جتتوق آنتے لگتے۔
دس منٹ بعد جماعت کھڑی ہوگئی۔ نماز ستے فتتارغ ہو کتتر ہم واپتتس آگئے اور نینتتد کتتا
دوسرا راﺅنڈ شروع ہوا۔ آٹھ بجے اٹھ کر ہم پاکستان اسٹریٹ کی طتترف روان تہ ہوئے ج ہاں
سے حلوہ پوری کا ناشتہ کرنے کے بعد ہم نے مدینہ کے طول و عرض کی پیمتتائش کتتا آغتتاز
کیا۔ اس دن ہم جبل احد اور چند ایک اور مقامات تک گئے۔ دیگر مقامات ہم نتتے مختلتتف
مواقع پر دیکھے۔
118
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جنت البقیع
اب سے تقریبا ً سو سال قبل بقیع کا نقشہ بھی ہمارے پاکستان ک تے قبرستتتانوں جیستتا
تھا جہاں لوگوں نے حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے احکامات ک تے خلف پخت تہ قتتبریں
اور ان پر عالیشان عمارتیں تعمیر کی ہوئی تھیں۔ 1905ء میں ان عمتتارات کتتو گتترا دیتتا
گیا اور تمام قبور کو ایک ہاتھ کے برابر کر دیا گیا۔ یہاں یہ متعین کرنتتا ممکتتن نہیتتں ہے کتہ
کون صحابی کہاں دفن ہیں کیونکہ عہد صحابہ میں قبروں پر کتبے لگتائے جتتاتے ت ھے اور نتہ
119
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہی انہیں پختہ بنایا جاتا تھا۔ سیدنا عثمان غنی رضی اللہ عنہ کتتی قتتبر ک تے بتتارے میتتں البتتہ
روایات مشہور ہیں۔ یہ قبر ،قبرستان کے راستے کے عین بیچ میں واقع ہے۔
ی ہاں پہنتتچ کتتر مج تھ پتتر عجیتتب کیفیتتت طتتاری ہوئی۔ مج ھے یتتوں محستتوس ہوا کتہ
مسلمانوں کی چودہ ستو ستالہ تاریتخ میترے ستامنے ہے۔ ی ہاں متدفون 10000صتحابہ ،
ہزاروں تابعین ،تبع تابعین اور ان کے بعد امت کے بے شمار علماء و صالحین۔یہاں متتدفون
صحابہ میں سب سے مشہور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ ہیں۔ رسول اللہ صلی الل تہ علی تہ و
الہ و سلم کی صاحبزادیاں سیدہ زینب ،رقیہ ،ام کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہن بھی یہیں
دفن ہیں۔ امہات المومنین بھی ،سوائے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کے ،سب کی سب یہیں
ہیں۔ آپ کے صاحبزادے ابراہیم اور نواسے حسن رضی اللتہ عنہمتتا بھ ہی یہیتں ہیتتں۔ تتابعین
میں سب سے مشہور سعید بن مسیب رحمتہ اللہ علی تہ ب ھی ی ہاں ہیتتں۔ امتتام مالتتک علی تہ
الرحمۃ بھی اسی قبرستان میں دفن ہیں۔
یہاں پر کئی قبریں مزید آنے والوں کے لئے کھدی ہوئی تھیں۔ کھلی قبر پکتتار پکتتار کتتر
کہہ رہی تھی کہ اے انسان! تو جتنا چاہے زمین کے اوپر چل پ ھر ل تے ،ایتتک دن تج ھے میتترے
پاس ہی آنا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قبرستان انسان کو دنیا کی سب سے بڑی حقیقتت متتوت
کی یاد دلتا ہے اور اسے اس کی اصل منزل کی یاد دہانی کرواتا ہے۔ کتنتے ختوش نصتیب
ہیں وہ لوگ جنہیں بقیع میں صحابہ و اہل بیت کے قریب جگہ ملے۔ لیکن یہ بات طتے ہہہے کتہ
آخرت میں معاملہ انسان کے اعمال پر ہی ہوگا۔ اگتتر کستتی کتے عقتتائد و اعمتتال درستتت
نہیں تو جیسے صحابہ کرام کی زندگی میں ان کا ساتھ مفید نہیں ویسے ہی ان کتے قریتتب
قبر بھی انسان کو کچھ نفع نہیں دے سکتی۔ منافقین بھی حضور اور صحابہ کے ساتھ ر ہے
اور بقیع ہی میں دفن ہوئے لیکن ان کا انجام جہنم ہی ہوگا۔ حضتور نتبی کریتم صتلی اللتہ
علیہ و الہ و سلم یہاں اکثر رات کے آخری حصے میں تشریف لتے اور فرماتے:
” اے اہل ایمان کے شہر والو! السلم علیکم! کل )روز قیامت( تمہیں وہ سب ملنے وال ہے
جس کا تم سے وعدہ کیا گیا تھا۔ تم )اور تمہارا حساب و کتاب( قیامت تک کے لئے متتوخر
کیا جارہا ہے۔ ان شاءاللہ ہم بھی جلد ہی تمہارے پاس آنے والتے ہیتتں۔ اے اللتہ ! بقیتتع غرقتتد
میں مدفون لوگوں کی مغفرت فرما۔“
اس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و ال تہ و ستتلم اپن تے ستتفر آختترت کتتو
ہمیشہ یاد رکھا کرتے۔ کاش ہم بھی ایسا کر سکیں۔ اس قبرستان میں میں نے یہہہاں پہلتتی
مرتبہ ’لحد‘ کتتا ڈیتتزائن دیک ھا۔ ہمتتارے پاکستتتان 1میتتں قتتبر کتتا جتتو ڈیتتزائن بنایتتا جاتتتا ہے
اسے’صندوق‘ کہتے ہیں۔ یعنی قبر میں ایک چوکھٹا سا بنایا جاتا ہے اوراس میں متتردے کتتو
لٹا کر اس پر سلیں رکھ دی جاتی ہیں۔ لحد میں قبر کے اندر ایک بغلی قبر کھودی جتتاتی
ہے اور اس میں مردے کو لٹا کر اصل قبر کو مٹی سے بھر دیا جاتا ہے۔ رستتول اللتہ صتتلی
اللہ علیہ و الہ و سلم کی قبر مبارک اسی طرز کی تھی۔
مسجد قبا
حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم ہجرت فرما کر سب سے پہلے قبا میں قیام پذیر ہوئے۔ یہ
اس زمانے میں مدینہ کی نواحی بستی تھی۔یہاں کی آبادی بھی سیدنا مصتتعب بتتن عمیتتر
رضی اللہ عنہ کی دعوت کے نتیجے میں اسلم قبول کر چکی ت ھی۔ اس مقتام پتر آپ نتے
120
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ایک مسجد تعمیر فرمائی جسے قرآن مجید نے بعد میں اللہ تعال ٰی نے ایسی مسجد قتترار
دیا جس کی بنیاد تقو ٰی پر رکھی گئی ہے۔
مسجد قبا
لمسجد اسس علممی التقممو ٰی مممن اول یمموم احممق ان تقمموم فیم ہ۔ فیم ہ رجممال
یحبون ان یتط ھروا ۔ و الل ہ یحب المط ھرین ۔ )التوبہ ( 9:108
”ایک ایسی مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے ہی تقوی پر رکھی گئی ہو ،اس بات کتتی
زیادہ حقدار ہے کہ )اے نبی!( آپ اس میں )نماز کے لئے( کھڑے ہوں۔ وہاں ایسے لتتوگ ہیتتں
جو )اپنے جسم و روح کو ( پاک کرنا پسند کرتے ہیں اور اللتہ پتتاک رہنتے والتتوں کتتو پستتند
کرتا ہے۔“
مسجد قباء مکہ سے آنے والی طریق الھجرہ پر واقع ہے۔ اگر آپ مکتہ کتتی طتترف ستے
مدینہ میں داخل ہوں تو کہیں مڑنے کی ضرورت نہیں ہے۔ یہ سڑک سیدھی مسجد قبتتا تتتک
جاتی ہے۔ قبا کا علقہ نہایت ہی زرخیز اور سر سبز و شاداب ہے۔ مسجد قبا ک تے ارد گتترد
گھنا سبزہ ہے اور کھجور کے کئی فارم ہیں۔ رسول اللتہ صتتلی اللتہ علیتہ و التہ و ستتلم کتے
زمانے میں بھی یہ ایک زرعی علقہ تھا۔ احادیث کی کتب میں سیدنا رافع بن خدیج رضتتی
اللہ عنہ سے زراعت سے متعلق کئی روایات ملتی ہیں جو کہ ایک باقاعدہ زمیندار تھے۔
ہم لوگ مغرب سے کچھ دیر قبل ہی مسجد قبا جا پہنچے۔ نماز سے پہلے ہم نے قبتتا ک تے
پورے علقے کو دیکھنے کا ارادہ کیا۔ یہ پورا علقہ خاصا سر سبز و شاداب تھا۔ مستتجد ک تے
جنوب میں پانچ چھ کلومیٹر کے فاصلے پر ایک بہت بڑا پتتارک ت ھا جتتو ہمتتارے کراچتتی ک تے
121
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
سفاری پارک سے ملتا جلتا تھا۔ مغرب کے وقت ہم مسجد میں جا پہنچے اور نماز ادا کی۔
مسجد کافی بڑی اور خوبصورت تھی۔ نمازیوں کی ب ہت بتتڑی تعتتداد ی ہاں موجتتود ت ھی۔
مجھے بمشکل صحن میں جگہ مل سکی۔
ایک حدیث میں مسجد قبا میں دو رکعت نماز پڑھنے کی یہ فضیلت بیتتان کتتی گئی ہے
کہ اس سے عمرہ ادا کرنے کا ثواب ملتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و ال تہ و ستتلم ب ھی ی ہاں
نماز پڑھنے کے لئے ہر ہفتے تشریف لیا کرتے تھے۔ ظاہر ہے مقصد محض نماز کی ادائیگی
نہیں بلکہ قبا کے لوگوں کی تعلیم و تربیت رہا ہوگا۔ اس مسجد کی پہلی تعمیر رسول اللہ
صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے کی۔ دوسری تعمیر سیدنا عمر رضی اللہ عن تہ ک تے دور میتتں
ہوئی جس میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے دور میں اضافہ کیا گیتتا۔بعتتد میتتں اس کتتی
تعمیر و تجدید ہوتی رہی۔ مسجد کی موجودہ تعمیر شاہ فیصل کے دور میں 1968ء میتتں
ہوئی جس میں 1985ء میں اضافہ کیا گیا۔ اب مستتجد میتتں 20000افتتراد نمتتاز ادا کتتر
سکتے ہیں۔
مسجد قبلتین
مسجد قبلتین وہ مسجد ہے جہاں حضور نبی کریم صلی اللتہ علیتہ و التہ و ستتلم نمتتاز کتی
امامت فرما رہے تھے اور دوران نماز تبدیلی قبلہ کے احکام نازل ہوئے۔ جب حضتتور صتتلی
اللہ علیہ و الہ و سلم مدینہ میں ہجرت کرکے تشریف فرما ہوئے تو میثاق مدینہ کے مطتتابق
مدینہ کے تمام مسلم و غیر مسلم باشندوں نے آپ کو اپنتتا حکمتتران تستتلیم کتتر لیتتا۔ اللتہ
تعال ٰی نے ایک امت ہونے کا شعور پیدا کرنے کے لئے ہمیں ایک قبلے کتتی طتترف منتہ کرکتے
نماز کی ادائیگی کا حکم دیا ہے۔ سیدنا ابراہیم علیہ السلم نے کعبہ کو اپنی پوری امت کتتا
قبلہ مقرر کیا تھا۔ بنی اسماعیل ہمیشہ اس سے وابستہ ر ہے ۔ بنتتی استترائیل ب ھی شتتروع
میں اسی کی طرف منہ کرکے نماز اور قربانی کا اہتمام کرتے رہے۔ تتتورات میتتں تفصتتیل
سے خیمہ عبادت کا ڈیزائن بتایا گیا ہے اور اس کا رخ جنوب یعنی کعبہ کی طرف تھا۔ جب
سیدنا سلیمان علیہ السلم نے یروشلم میں بیت المقدس کی مستتجد تعمیتتر فرمتتائی تتتو
اس کے کچھ عرصے بعد بنی اسرائیل نے اسے اپنا قبلہ قرار دے لیا۔
122
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مسجد قبلتین
حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کتتی بعثتتت کتے وقتتت ذریتتت ابراہیتتم کتتی
دونوں شاخیں اپنے اپنے قبلے کی طرف منہ کرکے عبادت کرتے تھے اور اس کے بارے میتتں
شدید نوعیت کے تعصب میں مبتل تھے۔ اللہ تعال ٰی نتے ان دونتتوں اقتتوام کتے وہ افتتراد جتتو
حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی پیروی پر متفق ہو چکے ت ھے ،کتتی آزمتائش کتے لئے
مدینہ ہجرت کے بعد کچھ عرصے کے لئے بیت المقدس کو مستتلمانوں کتتا قبل تہ مقتترر کیتتا۔
اس سے بنی اسماعیل کے تعصب پر ضرب پڑی لیکن ثابت قدم قریشتتی صتتحابہ ن تے الل تہ
کے حکم کے سامنے تمام تعصبات کو قربان کر دیا۔ تقریبا ً ڈیڑھ برس کے بعتتد دوبتتارہ کعبتہ
کو قبلہ بنایا گیا جس کے نتیجے میں بنی اسرائیل کے وہ لوگ جو مسلمان ہو چکے ت ھے یتتا
مسلمانوں کے قریب تھے ،آزمائے گئے اور ان میں سے منافقین کا پردہ چاک ہو گیا۔ قتترآن
مجید میں اللہ تعال ٰی کا ارشاد ہے:
”نادان لوگ ضرور کہیں گے :انہیں کیا ہوا ،کہ پہلے یہ جس قبلے کی طرف منہ کرکے نمتتاز
پڑھتے تھے ،اس سے یکایک پ ھر گئے؟ )اے نتتبی!( آپ ان ستے فرمتتائیے :مشتترق و مغتترب
سب اللہ ہی کا ہے۔ اللہ جسے چاہتا ہے ،سیدھی راہ دکھا دیتتتا ہے۔ تتتو استتی طتترح ہم نتے
تمہیں ایک ”امت وسط“ بنایا ہے تاکہ تم دنیا کے لوگوں کے سامنے حق کتتی گتتواہی دو اور
رسول تم پر حق کی گواہی دیں۔ پہلے جس کی طرف تم منہ کرتے تھے ،اس کو تو ہم نے
صرف یہ آزمانے کے لئے قبلہ بنایا تھا کہ کون رسول کی پیروی کرتا ہے اور کتتون الٹتتا پ ھر
جاتا ہے۔ معاملہ تھا تو بڑا سخت ،لیکن ان لوگوں کے لئے سخت ثابت نہ ہوا جتتو الل تہ کتتی
ہدایت سے فیض یاب تھے۔ اللہ تمہارے اس ایمان کو ہرگز ضائع نہ کترے گتا۔ یقیتن جتانو وہ
لوگوں کے حق میں بہت رحیم و کریم ہے۔
یہ تمہارے منہ کا ہم بار بار آسمان کی طرف اٹھنا دیکھ رہے ہیں۔ لو ،ہم تمہیتتں استتی قبل تے
123
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
کی طرف پھیرے دیتے ہیں ،جسے تم پسند کرتے ہو۔ مستتجد الحتترام کتتی طتترف رخ پھیتتر
دو۔ تم جہاں کہیں بھی ہو ،اسی کی طرف منہ کرکے نماز پڑھا کتترو۔ یتہ ا ہل کتتتاب ختتوب
جانتے ہیں کہ یہ حکم ان کے رب کی طرف ہی سے ہے اور برحق ہے ،مگر اس کے بتتاوجود
یہ جو کچھ کر رہے ہیں ،اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔ تم ان کے پاس کوئی بھی نشانی ل تے
آﺅ ،یہ تمہارے قبلے کی پیروی نہ کریں گے اور نہ تم ان کتے قبلتے کتتی پیتتروی کتترو گتے۔ ان
میں سے کوئی گروہ بھی ایک دوسرے کے قبلے کی پیروی کرنے کے لئے تیار نہیں ہے۔ اگتتر
اس علم کے بعد جو تمہارے پاس آچکا ہے ،تم نے ان کتتی خواہشتتات کتتی پیتتروی کتتی تتتو
تمہارا شمار یقینا ظالموں میں سے ہو گا۔ )البقرہ (145-2:143
مسجد قبلتین ،مسجد نبوی سے تقریباچار پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ طبقتتات ابتتن
سعد کی روایت کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم یہاں بشر بن براءبن معتترور
کے ہاں دعوت پر تشریف لئے تھے۔ یہاں ظہر کی نماز کا وقت ہو گیا اور آپ ن تے نمتتاز ادا
کی۔ تیسری رکعت میں یہ آیات نازل ہوئیں اور آپ نے اس کے حکتتم ک تے مطتتابق اپنتتا رخ
تبدیل کیا۔ چونکہ یہ 180درجے کی تبدیلی تھی ،اس لئے لمحالہ آپ کتتو چتتل کتتر مختتالف
سمت میں آنا پڑا ہوگا اور صحابہ کو اپنی اپنی جگہ پر ہی اپنا رخ تبدیل کرنا پڑا ہوگا۔ بعتتد
ازاں اس حکم کی منادی پورے مدینہ میں کی گئی۔ بہت سی دوسری مساجد میتتں لتتوگ
نماز پڑھ رہے تھے جنہوں نے حالت نماز میں اپنا رخ تبدیل کیا۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتتتا
ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے دور کا مدینہ صرف موجتتودہ مستتجد نبتتوی تتتک
ہی محدود نہ تھا۔
ہم عصر کی نماز پڑھ کر روانہ ہوئے تھے۔ جتتب یہہہاں پہنچتے تتتو بہہہت رش تھ ہا اور لتتوگ
مسجد دیکھنے کے آ رہے تھے۔ بعض لوگ یہاں نوافل بھی ادا کررہے تھے۔ زیارت اور عبادت
کی نیت سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے صتترف تیتتن مستتاجد یعنتتی مستتجد
الحرام ،مسجد نبوی اور مسجد اقص ٰی کی طرف بطور خاص سفر کرنے کی اجتتازت دی
ہے۔ کسی اور مقام کی طرف بطور خاص عبادت کے لئے سفر کرک تے جتتانے س تے آپ ن تے
منع فرمایا ہے۔ بہت سے لوگ ان مقامات کے دیکھنے کو ”زیارت“ کا عنوان دیتے ہیتتں جتتو
کہ غلط ہے۔ان تمام مقامات کو صرف ایک تاریخی یادگار کے طتتور پتتر دیکھناچتتاہئے نتہ کتہ
کسی دینی اہمیت کے پیش نظر یہاں آنا چاہئے۔
مسجد قبلتین بھی جدید بنی ہوئی ہے۔ یہ سفید رنگ کی بہت بڑی مسجد ہے جتتس ک تے
اطراف میں گھنا سبزہ اور درختتت ہیتتں۔ ستتنا ہے پرانتتی مستتجد میتتں شتتمال اور جنتتوب
دونوں جانب محراب تھی جو یہ ظاہر کرتی تھی کتہ اس مستتجد میتتں یروشتتلم اور مکتہ ،
دونوں جانب منہ کرکے نماز پڑھی گئی ہے لیکن جدید تعمیر میں ایستتی کتتوئی بتتات نظتتر
نہیں آرہی تھی۔ یہ عام مساجد جیسی تھی۔ محض اتنا تھا کہ اس مسجد کا آرکیٹکچر بہت
خوبصورت تھا اور پوری مسجد سبز درختوں کے درمیان بہت بھلی لگ رہی تھی۔ یہ منظر
مسجد قبا سے کسی حد تک مشابہ تھا۔ ان مقامات کو دیکھنے کے بعد ہم نے واپستتی کتتی
راہ لی اور طریق الھجرہ پر سفر کرتے ہوئے ساڑھے تین گھنٹے میں جدہ پہنچ گئے۔
124
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
بدر
میدان بدر دیکھنے کی مجھے بہت عرصے سے خواہش تھی۔ اب تک ہم لوگ طریق الھجتترہ
سے مدینہ جاتے رہے تھے۔ جیسا کہ میں پہلے بیان کر چکا ہوں کہ جدہ یا مکہ سے مدینہ جتتانے
کے دو راستے ہیں۔ ایک تو وہ راستہ ہے جو اب طریق الھجرہ کہلتا ہے۔ استتی راستتتے س تے
حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے مدینہ کی طرف ہجرت فرمائی تھی۔ اس دور میں یہ
راستہ زیادہ استعمال نہیں ہوتا تھا۔ دوسرا راستہ ساحل کے ستتاتھ ستتاتھ ہے جتتو جتتدہ س تے
براستہ رابغ ،ینبع کی طرف جاتا ہے۔ بدر کے مقام سے ایک سڑک مدینہ کی طتترف نکلتتتی
ہے۔ یہ قدیم دور میں عام استعمال ہونے وال راستہ تھا۔ یتتوں ستتمجھ لیجئے ک تہ ی تہ اس دور
کی کوسٹل ہائی وے تھی جس پر تجارتی قافلے سفر کیا کرتے تھے۔
بحیرہ احمر کے ساتھ ساتھ سفر کرتے ہوئے یہ قافلے شمال کی طرف جایتتا کرتتے ت ھے۔
آخرمیں بحیرہ احمر کی دو شاخیں ہو جاتی ہیں۔ دائیں طرف کی شاخ خلیج اردن کہلتی
ہے جس کا آخری سرا 'ایلہ' اور 'عقبہ' کی بندرگاہوں تک پہنچتا ہہہے۔ یتہ قتتافلے خلیتتج اردن
کے ساتھ سفر کرتے ہوئے بحیرہ روم کی کسی بندر گاہ تتتک جایتتا کرت تے ت ھے ج ہاں یتہ اپنتتا
سامان فروخت کرتے جو آگے یورپ اور شمالی افریقہ کے ممالک میں بھیجا جاتا تھا۔ اس
دور میں موجودہ اردن ،فلسطین اور شام کا پورا علقہ ،شام ہی کہلتا تھا جو براہ راست
قیصر روم کے زیر تسلط تھا۔بائیں شاخ خلیج سویز کہلتی ہے۔ ان دونوں ک تے درمیتتان کتتا
علقہ جزیرہ نما سینا کہلتا ہے۔ یہیں پر کوہ طور واقع ہے۔
میقات جحف ہ
اس سفر میں میری والدہ ہمراہ تھیں۔ جدہ سے نکتتل کتتر ہم لتتوگ متتدینہ روڈ پتتر آگئے۔ ی تہ
سکس لین موٹر وے ہے۔ پہلے ائر پورٹ کا حج ٹرمینل آیا۔ اس کے بعد عسفان کتتا ایگتتزٹ
آیا۔ یہاں سے ایک روڈ عسفان کی طرف جارہی تھی۔ آگے ذھبان اور ثول کے قصتتبے ت ھے۔
وادی قضیمہ کے پاس پہنچ کر روڈ دو حصوں میتتں تقستتیم ہور ہا ت ھا۔ ایتتک حصتہ طریتتق
الھجرہ سے مل رہا تھا اور دوسرا سیدھا ساحل کے ساتھ ساتھ ینبع کی طتترف جار ہا ت ھا۔
ہم کوسٹل ہائی وے کی طرف ہو لئے۔ اب ہم ایک وسیع چٹیل میدان میتتں ستتفر کتتر رہہہے
تھے۔ ہمارے بائیں جانب بحیرہ احمر تھا اور دائیں جتتانب پ ہاڑیوں کتتی طویتتل قطتتار ت ھی۔
جزیرہ نما عرب کا یہ حصہ ”تہامہ“ کہلتا ہے۔ 130کلومیٹر کے فاصلے پتتر جحفتہ کتتا میقتتات
آیا۔ شمالی جانب سے مکہ آنے کے یہ دو راستے ہیں۔ جو لوگ حج یتا عمترہ کتے لئے براستتہ
مدینہ آرہے ہوں ،ان کے لئے میقات ذو الحلیفہ ہے جو مدینہ سے نکلتے ہی آجاتا ہے۔ دوستتری
طرف جو لوگ اردن ،شام اور مصر سے براستہ کوسٹل ہائی وے آرہے ہوں ،ان کا میقتتات
جحفہ ہے۔ قدیم دور میں عمالقہ کے حملوں سے تنگ آ کر قوم عاد کے کچھ افراد یہاں آبتتاد
ہوئے تھے۔
یہاں قریب ہی رابغ کا شہر تھا۔ 2005ء میں شاہ عبداللہ نتے ی ہاں دنیتتا کتی ستب ستے
بڑی بندرگاہ اور اکنامک سٹی بنانے کا اعلن کیا۔ اس وقت دنیا کی سب سے بڑ ی بندرگاہ
روٹر ڈیم کی ہے۔ رابغ کی بندرگاہ اس سے بھی دس گنا زیادہ بڑی ہو گی اور یہاں دنیا ک تے
125
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
بڑے بڑے بحری جہاز رک سکیں گے۔ اس وقت سعودی عرب میں دنیا کے سب سے زیتتادہ
تیل کے ذخائر ہیں۔ تیل کی موجودہ ڈیمانڈ اور سپلئی کے پیش نظر یہ اندازہ لگایا گیا ہے کہ
یہ ذخائر 2050ء تک ختم ہو جائیں گے۔ پچھلے پچاس سال سے سعودی عرب ایک صتارف
معاشرے ) (Consumer Societyکی حیثیت رکھتا ہے۔ یہ لوگ پوری دنیا کو تیل بیچ کر ڈالتتر
حاصل کرتے ہیں اور پھر یہ ڈالر دے کر دنیا بھر سے ضرورت زندگی کی تمام اشیاءحاصل
کرتے ہیں۔ سعودی عرب اب انڈسٹرئلئزیشن کے دور سے گزر ر ہا ہے۔ موجتتودہ حکتتومت
کی یہ کوشش ہے کہ ملک میں زیادہ سے انڈسٹری لگے تاکہ تیل ختم ہونے تک ی تہ ایتتک بتتڑی
معیشت بن سکے۔
ابوا اور سید ہ آمن ہ رضی الل ہ عن ہا
رابغ سے آگے ابواء کا ایگزٹ آیا۔ یہ جدہ سے 190کلومیٹر کے فاصتتلے پتتر ت ھا۔ یتہ و ہی
مقام ہے جہاں رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی والدہ ماجدہ سیدہ آمن تہ رضتتی الل تہ
عنہا نے وفات پائی۔ آپ مدینہ میں واقع اپنے میکتے تشتتریف لتے گئی تھیتتں۔ آپ کتے ستتاتھ
حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم بھی تھے جن کی عمر صرف چھ سال تھی۔ واپستتی پتتر
آپ بیمار ہوگئیں اور ابواءکے مقام پر آپ وفات پاگئیں۔ یہیں پر آپ کو دفن کیا گیا۔
میں نے گاڑی ابواءکی طرف موڑ لی۔ یہ اب بھی ایک چھوٹا قصبہ ہی ت ھا اور کوستتٹل
ہائی وے سے 22کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ مجھے گمان ہوا ک تہ اس دور کتتا راستتتہ شتتاید
ابواء سے گزرتا ہو لیکن تھوڑا آگے جا کتتر ستتنگل روڈ اونچتتی نیچتتی پ ہاڑیوں ستے گزرنتے
لگی۔ اب سمجھ آئی کہ اس دور کا راستہ تو یقینا موجودہ کوسٹل ہائی وے ک تے پتتاس ہی
ہوگا۔ جب سیدہ آمنہ کی طبیعت خراب ہوئی ہوگی تو قریبی قصبہ یہی ابتتواء ہوگتتا۔ قتتافلے
کے لوگ آپ کو کسی حکیم وغیرہ کو دکھانے کے لئے یہاں لئے ہوں گ تے اور یہیتتں آپ کتتی
وفات ہوئی ہو گی۔ دس منٹ میں ہم یہاں پہنچ گئے۔ یہاں ایک بقالہ سے میں نے کولڈ ڈرنک
لئے اور دکاندار سے سیدہ کی قبر کے بارے میں پوچھا۔ ان صاحب کا تعلق بنگلہ دیش سے
تھا۔ انہوں نے مجھے قبر کی لوکیشن تو بتا دی لیکن ساتھ مشورہ بھی دیا ک تہ آپ و ہاں ن تہ
جائیں کیونکہ مطوع حضرات نے عین قبر کے قریب پولیس چوکی بنائی ہے اور ی ہاں آن تے
والوں سے بڑی سختی سے پیش آتے ہیں اور ان کا اقامہ وغیرہ ضبط کر لیتے ہیں۔
126
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ابوا کا ایگزٹ
ہمارے بعض حضرات اپنی طرف سے یہ فرض کیا لیتے ہیتں کتہ ایستے مقامتات پتتر جتتو
بھی آتا ہے وہ مشرکانہ افعال کے لئے آتا ہے۔ چنانچہ وہ ہر آنے والے ستے ایتتک جیستتا ستتلوک
ہی کرتے ہیں۔ میری عربی اس وقت اتنی رواں نہیں تھی کہ میں انہیتتں ستتمجھا ستتکتا کتہ
میں یہاں کسی شرک یا بدعت کے لئے نہیں آیا اس لئے ہم نے یہی طے کیا کہ واپس ہو لیتتا
جائے۔
ہمارے مذہبی لٹریچر میں بہت سی ل یعنی اور تکلیف دہ بحثیں بھی رواج پا گئی ہیتتں۔
ان میں سے ایک بحث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے والدین کے ایمان کے بارے
میں ہے۔ ایک گروہ چند روایات کی بنیاد پر حضور صلی اللہ علیہ و التہ و ستتلم کتے والتتدین
کو کافر اور معاذ اللہ ابدی جہنمی قرار دیتا ہے اور دوسرا گروہ چند اور روایات کتتی بنیتتاد
پر انہیں اہل ایمان میں شامل کرتا ہے۔
اگر ان بحثوں کا مطالعہ کیا جائے تو ایسا معلوم ہوتتتا ہے کتہ آختترت میتتں ہمتتارے اپنتے
اعمال کا تو کوئی حساب کتاب نہیں ہوگا البتہ سب ستے پہلتے یتہ پوچ ھا جتتائے گتتا کتہ بتتتاﺅ
حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے والدین مسلمان تھے یا نہیں؟ اس معاملے میں میتترا
نقطہ نظر یہ ہے کہ ہمیں خاموشی اختیار کرنی چاہئے اور کوئی بحث نہیں کرنی چاہئے۔ ان
حضرات کے بارے میں یہ حسن ظن رکھنتتا چتتاہئے کتہ وہ دیتتن ابراہیمتتی پتتر قتتائم ہوں گتے
جیساکہ اعلن نبوت سے قبل خود حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم تھے۔ مج ھے یقیتتن ہے
کہ اگر ایسی بحث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے سامنے کی جتتاتی تتتو آپ اس
سے سخت رنجیدہ ہوتے۔ یہی رویہ آپ کے چچتتا ابوطتتالب ک تے ایمتتان کتتی بحتتث میتتں ہونتتا
چاہئے۔
ابواءسے نکل کر ہم دوبارہ کوسٹل ہائی وے پر آگئے۔ النصائف اور الرائس کے قصتتبوں
سے گزرتے ہوئے ہم وادی صفراء میں داخل ہوئے۔ یہ وادی استتم بامستتم ٰی ت ھی یعنتتی زرد
رنگ کی تھی۔ یہ وادی بہت وسیع تھی اور میتدان بتدر ستے متصتل ً واقتع ت ھی۔ ی ہاں ستے
127
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
کوسٹل ہائی وے ینبع اور ضباء سے ہوتی ہوئی اردن کی طتترف جتتارہی ت ھی اور ایتتک روڈ
مدینہ کی طرف نکل رہی تھی۔جدہ اب 265کلومیٹر پیچ ھے رہ گیتا ت ھا۔ یتہ فاصتتلہ ہم نتے
تقریبا ً پونے دو گھنٹے میں طے کیا تھا۔
اس مقام سے مدینہ جانے والی پرانی روڈ سنگل تھی اور پہاڑوں میں بل ک ھاتی ہوئی
مدینہ کی طر ف جاتی تھی۔ اب نئی روڈ بنی تھی جو کہ تھری لین موٹر وے تھی۔ یہ نہایت
شاندار کوالٹی کی روڈ تھی۔ یہ روڈ بھی پہاڑوں کے بیچ میں سے گزر رہی ت ھی لیکتتن اس
کے موڑ ایسے بنائے گئے تھے کہ 150کی رفتار پر بھی اگتر متوڑ کاٹتا جتائے تتو گتاڑی کتے
الٹنے کا کوئی خطرہ نہ تھا۔ جیسے ہی ہم پہاڑوں میں داخل ہوئے ،بدر کا ایگتتزٹ آگیتتا۔ اس
کا فاصلہ جدہ سے 300کلومیٹر اور مدینہ سے 156کلومیٹر تھا۔
بدر کا نظار ہ
بدر کے ایگزٹ سے بدر شہر کا فاصلہ محض 5کلومیٹر ت ھا۔ راستتے میتں ایتک ن ہایت ہی
خوبصورت پہاڑی نظر آئی۔ یہ سیاہ رنگ کی چٹان پر مبنی پہاڑی تھی لیکتتن یتہ چتتوٹی تتتک
ریت سے ڈھکی ہوئی تھی۔ ریت بھی صاف سنہرے رنگ کی تھی۔ اس رنتتگ کتتی ریتتت کتتا
شیڈ میں نے اس سے پہلے صرف کراچی کے مغرب میں واقع ساحلی گاﺅں "مبارک ویلج"
میں دیکھا تھا۔ چمکتی دھوپ میں ریت آنکھوں کو بہت بھلی لگ رہی ت ھی۔ انستتان جتتب
اللہ تعال ٰی کی تخلیق کو دیکھتا ہے تو حیرت سے دنگ رہ جاتا ہے۔ دور کیتتوں جتتائیے ،ہمتتارا
اپنا وجود بھی پکار پکار کر یہ گواہی دے رہا ہے کہ تبارک اللہ احسن الخالقین۔
بدر ایک چھوٹا سا صاف ستھرا اور خوبصورت شہر تھا۔ عہد رسالت میتتں ی ہاں کتتوئی
آبادی نہ تھی لیکن اب یہ ایک شہر بن گیا تھا۔ شہرمیں داخل ہوتے ہی ہمیتتں ایتتک ہستتپتال
نظر آیا۔ اس کے قریب رکی ہوئی کار میں ایک عرب فیملی بیٹھی تھی۔ میں نے مرد سے
128
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
عربی میں جنگ بدر کے مقام کے بارے میں پوچھا۔ کہنے لگ تے ،آپ میتترے پیچ ھے آ جتتائیں۔
میں سمجھا شاید انہوں نے اسی طرف جانا ہے۔ میں ان کے پیچھے ہو لیا۔ ہمیں جنتگ بتدر
کے مقام تک پہنچا کر وہ واپس ہو لئے۔ وہ صرف ہمیں وہاں چھوڑنے کے لئے آئے تھے۔
مہمان نوازی کا یہ مظاہرہ دیکھ کر میں بڑا متاثر ہوا۔ سفر میں میں نے یہ دیکھا ہے ک تہ
چھوٹے شہروں اور دیہات کے لوگ اس قسم کی مہمتتان نتتوازی کتتا بھرپتتور مظتتاہرہ کرتتے
ہیں۔ عربوں کے بارے میں ہمارے ہاں یہ عام تصور ہے کہ یہ لوگ اخلق کے اچھے نہیتتں ہہہوتے
لیکن میرا تجربہ اس کے برعکس ہے۔ ہم لوگ محض چند لوگوں کی بتتداخلقی کتتو پتتوری
قوم پر محمول کر لیتے ہیں۔ زیادہ تر عتترب ن ہایت ہی مہمتتان نتتواز اور اعلتتی اخلق کتے
حامل ہوتے ہیں۔ ہاں وہ لوگ جو حجاج اور زائرین کے گروپوں کی خدمت پر معمتتور ہوتے
ہیں ،ان میں سے بعض لوگ للچی اور خود غرض ہوتے ہیں جن کی بتتدولت پتتوری عتترب
کمیونٹی بدنام ہوتی ہے۔
جس مقام پر ہم کھڑے تھے ،وہاں شہداء بتتدر کتتی قتتبریں تھیتتں۔ ہم نتے احتتادیث میتتں
منقول ،زیارت قبور کے موقع پر پڑھی جانے والی دعتتا پڑ ھی۔ ایتتک اورگتتاڑی و ہاں آکتتر
رکی اور اس میں سے لوگ اتر آئے۔ یہاں ایک چوک سا بنا ہوا ت ھا۔ اس کتے درمیتتان میتتں
ایک بہت بڑا کتبہ نصب تھا جس پر شہداء بدر کے نام لک ھے ہوئے ت ھے۔ میتتں یتہ نتتام نتتوٹ
کرنے لگا۔ جنگ بدر میں چودہ صحابہ کرام شہید ہوئے تھے۔ ان کے نام یہ ہیں۔
129
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
.1صفوان بن وہب
.2ذوالشمالین بن عبد عمرو
.3مھجع بن صالح
.4عاقل بن کبیر
.5عبیدہ بن حارث
.6سعد بن خثیمہ
.7مبشر بن عبد المنذر
.8حارثہ بن سراقہ
.9رافع بن المعل
.10عمیر بن الحمام
.11یزید بن حارث
.12معوذ بن حارث
.13عوف بن حارث
.14عمیر بن ابی وقاص رضی اللہ عنہم۔
ان میں 6مہاجر اور 8انصار تھے۔ انصاریوں میں سے 6کا تعلق قبیلہ ختتزرج ستے اور
2کا تعلق اوس سے تھے۔ سیدنا عمیر بن ابی وقاص مشہور صحابی سعد بن ابی وقاص
کے بھائی تھے۔ عبیدہ بن حارث قریشی اور رستول اللتہ صتلی اللتہ علیتہ و التہ و ستلم کتے
رشتے دار تھے۔ آپ جنگ بدر کے پہلے شہید ت ھے جتتو انفتترادی مقتتابلوں میتتں ش تہید ہوئے۔
میرے سامنے وہ منظر گردش کرنے لگا جب قریش کی طتترف س تے عتب تہ ،شتتیبہ اور ولیتتد
میدان میں آئے۔ ان کے مقابلے پر سیدنا حمزہ ،علی اور عبیدہ رضی اللہ عن ہم نکل تے۔ عتب تہ
اور ولید بالترتیب سیدنا حمزہ اور علی کے ہاتھوں قتل ہوئے البتہ شیبہ نے ستتیدنا عبیتدہ کتو
زخمی کردیا۔ اس کے بعد اس نے سیدنا علی سے مقابلہ کیا اور مارا گیا۔ حضور صلی اللہ
علیہ و الہ و سلم کی سیرت پر بننے والی فلم The Messageمیں یہ منظر بہت خوبی سے
فلمایا گیا ہے۔
130
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
حسب روایت یہاں بھی ایک پولیس چوکی بنی ہوئی ت ھی۔ ت ھوڑی دیتتر میتتں ایتتک
پولیس مین نکل آیا اور نہایت ہی درشتگی کے ساتھ سب لوگوں کو و ہاں ستے جتتانے کتے
لئے کہا۔ ہم اس جگہ سے ہٹ کر واپس آئے۔ ایک دیوار پر جنگ بدر کا نقشہ بنا ہوا تھا۔ یہ
ایک اعل ٰی کاوش تھی۔ اس نقشے کے مطابق جہاں اب ش تہدا کتتی قتتبریں ہیتتں ،عیتتن اس
جگہ معرکہ ہوا تھا۔
مسلمانوں کا لشکر اس سے ہٹ کتتر اس جگتہ ت ھا ج ہاں اب مستتجد عریتتش ہے اور
مشرکین کا لشکر اس مقام پر تھا جہاں اب کھجور کا فارم ہاﺅس ہے۔ اسی مقام پر ایک
کنواں اور حوض بھی تھا جس کو مستتلمانوں نتے جنگتتی حکمتتت عملتتی کتے تحتتت اپنتتی
تحویل میں لے لیا تھا۔ ہم اب دائیں جانب موڑ کاٹ کر مسجد عریش کے قریتتب آگئے۔ یتتہ
ایک بہت بڑی مسجد تھی۔ عربی میں ’عریش‘ ،چھپر کو کہتے ہیں۔ اس مقتتام پتتر رستتول
اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے لئے ایک چھپر بنایا گیا تھا ج ہاں بیٹتھ کتتر آپ نتے ستتاری
رات عبادت کی تھی اور پھر دن کے وقت جنگی ہدایات جاری کی تھیں۔ چھپر کا یہ مقتتام
مسجد کے اندر کہیں ہوگا۔
131
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مسجد عریش
132
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
قوم کو الٹی میٹم دیا جاتا ہے کہ وہ اپنتتی روش کتتو چ ھوڑ دیتتں اور ایتتک الل تہ کتتی عبتتادت
کریں۔ اپنے اخلقی وجود کا تزکیہ کریں اور خدا کے دین ک تے علمتتبردار بتتن کتتر دنیتتا میتتں
رہیں۔ اگر وہ ایسا نہیں کریں گے تو ان پر اللہ تعال ٰی کا عذاب اسی دنیتا میتں آئے گتا۔ اس
کے برعکس اگر وہ رسول کی پیروی کریں گے تو اس کی جزا انہیں اس دنیا ہی میں دی
جائے گی۔ رسول ایک خاص وقت تک انہیں اپنی دعوت پہنچاتا ہے۔ جب اس قوم پر اتمتتام
حجت ہو جاتا ہے یعنی رسول کی پیروی نہ کرنے کے لئے ان کتے پتتاس ستتوائے ضتتد ،عنتتاد
اور تعصب کے کوئی عذر باقی نہیں رہتا تو ان پر اللہ کا عذاب آجاتا ہے۔
اسی اصول کے تحت اللہ تعال ٰی نے متعدد رسولوں کتتا انتختتاب کیتتا۔ ستتیدنا نتتوح ،ہود،
صالح ،شعیب ،ابراہیم اور لوط علیہم الصلوة والسلم کو اپنی قومتتوں کتتی طتترف بھیجتتا
گیا۔ ان کے نافرمانوں کو اتمام حجت کے بعد اسی دنیا میں عذاب کا شکار کیا۔ یہ عتتذاب
قدرتی آفات کی صورت میں آیا۔ اس میں اور ہماری آج کتی آفتات میتں یتہ فترق ہے کتہ
وہاں رسول کے ذریعے پہلے سے خبردار کیا گیا۔ اس لئے آج کل کی آفات کو ویستتا عتتذاب
قرار دینا درست نہیں۔
سیدنا موس ٰی علیتہ الصتتلوة والستتلم کتے ستتاتھ معتتاملہ کچتھ مختلتتف ہوا۔ ان پتتر بنتتی
اسرائیل کے لکھوں افراد ایمان لے آئے جبکہ فرعتتون اور اس کتے ستتاتھی ایمتتان نتہ لئے۔
فرعون کو بنی اسرائیل کے سامنے بحیرہ احمر میں غرق کردیا گیا۔ یہ معاملہ اتمام حجت
کی آخری شکل تھی۔ اس کے بعد ارد گرد کی اقوام میتں کستی کتے لئے اللتہ تعتال ٰی کتے
وجود ،موس ٰی علیہ السلم کی رسالت اور آخرت کے انکار کتی کتوئی گنجتائش بتاقی نتہ
رہی تھی۔ اس موقع پر اللہ تعال ٰی نے اس مقام کے ارد گرد بسنے والی اقوام پر یہ عتتذاب
موس ٰی علیہ السلم کے صحابہ کے ہاتھوں نازل کیا۔ آپ کے خلیفہ اول یوشع اور خلیفتتہ دوم
کالب علیہما السلم نے ان قوموں کو دین حق کی دعوت دی۔ جن ہوں نتے متتان لیتتا انہیتتں
امان ملی اور جنہوں نے نہ مانا ،انہیں اللہ تعال ٰی کے حکم کے مطابق تہہ تیغ کر دیا گیا۔
تورات میں اللہ تعال ٰی کا فرمان درج ہے:
”اور خداوند نے مجھ )موس ٰی( سے کہا ،میں ان ک تے لئے ان ک تے ب ھائیوں میتتں س تے تیتتری
مانند ایک رسول برپا کروں گا اور میں اپنا کلم اس کے منہ میں ڈالوں گتتااور وہ انہیتتں وہ
سب کچھ بتائے گا جس کا میں اسے حکم دوں گا۔ اگر کوئی شخص میتترا کلم ،جس تے وہ
میرا نام لے کر سنائے گا ،نہ سنے گتا تتو میتں ختود اس ستے حستاب لتوں گتا۔ “ )استتثنا
( 19-18:17
اسی فرمان کے تحت اللہ تعال ٰی نے بنی اسرائیل کے بھائیوں یعنی بنی استتماعیل میتتں
محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو رسول متعین کیا۔ آپ کی قتتوم پتتر اتمتتام
حجت کیا گیا۔ آپ پر بھی قدیم رسل کے برخلف بہت سے لوگ ایمان لے آئے۔ الل تہ تعتتال ٰی
نے اپنی سنت کے مطابق آپ کی قوم کو آپ کے صحابہ ک تے ہاتھوں ستتزا دی۔ جنتتگ بتتدر
اس عذاب کی پہلی قسط تھی۔
جنگ بدر دراصل قریش کی اس لیڈر شپ کے لئے سزائے موت کی حیثیت رک ھتی ہے
جو اللہ تعال ٰی کے مقابلے میں سرکشی پر اتر آئے تھے۔ رسول اللہ صتتلی الل تہ علی تہ و ال تہ و
سلم نے جنگ سے ایک دن پہلے اپنے مقدس ہاتھوں سے زمین پر نشتتان لگتتا دی تے ک تہ فلں
سردار یہاں مرے گا اور فلں وہاں۔ اگلے دن ایسا ہی ہوا اور ہر لیڈر عین اپن تے تعیتتن کتتردہ
133
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مقام پر قتل ہوا۔ قریش کے سردار عتبہ و شتتیبہ ،انفترادی مقتابلوں میتں ستیدنا حمتتزہ و
علی رضی اللہ عنہما کے ہاتھوں قتل ہوئے۔
جب یہ لوگ جنگ کے لئے جا رہے ت ھے تتتو ان کتے ایتتک عیستتائی غلم ت ھے جتتن کتتا نتتام
عداس رضی اللہ عنہ تھا ۔ انہوں نے اسلم قبول کر لیا تھا۔ اہل کتاب ہونے کتے بتاعث ،یتہ
اللہ تعال ٰی کے اس قانون سے اچھی طرح واقف تھے۔ انہوں نے اپنے آقا ﺅں کے پاﺅں پکڑ کر
انہیں جانے سے روکا اور بتایا کہ آپ اللہ تعال ٰی کے عذاب کتی طترف جتارہے ہیتتں۔ یتہ لتوگ
دوسرے جاہلی سرداروں کی طرح گھٹیا پن پر کبھی نہ اترے ت ھے۔ طتتائف کتے ستتفر میتتں
انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ وسلم کی مدد کی تھی۔ لیکن اپن تے قتتومی تعصتتب
کے باعث اس موقع پر انہوں نے عداس کی بتتات نتہ متتانی اور محتتض قتتومی غتترور میتتں
مقابلہ پر آ اترے جس کے نتیجے میں انہیں عذاب کا مزہ چکھنا پڑا۔
عذاب کی اس پہلی قسط کے نتیجے میں قریش کی اس لیڈر شپ کا صفایا ہوگیا جن
کے بارے میں یہ واضح تھا کہ یہ کبھی ایمان نہیں لئیں گے۔ دلچسپ بتتات یتہ ہے کتہ ابتتولہب
اس جنگ میں بیماری کا بہانہ کرکے شریک نہیں ہوا۔ اس پتتر یتہ ستتزا چیچتتک کتتی صتتورت
میں مسلط کی گئی اور اسے قبر بھی نصیب نہ ہوئی کیتتونکہ اس دور کتے عتترب چیچتتک
سے بہت ڈرتے تھے اور ایسے مریض کو ہاتھ بھی نہ لگاتے تھے۔ اس کے بعد قریش کی لی تڈر
شپ ان لوگوں کے ہاتھ میں آئی جن کے دل میں کچھ قبولیت کا رجحان باقی تھا۔ بتتالخر
یہی لوگ ایمان لے آئے۔
جنگ کے واقعات کچھ اس طرح سے تھے کہ قریش کا ایک قافلہ ابوسفیان )رضتتی الل تہ
عنہ( کی قیادت میں شام سے براستہ کوسٹل ہائی وے آ ر ہا ت ھا۔ ا ہل مکتہ اکتتثر متتدینہ پتتر
تاخت کرکے لوٹ مار کرتے رہتے تھے۔ اس لئے جوابی کاروائی یہ کی گئی کہ ان کے قتتافلے
پر حملہ کیا گیا۔ اس قافلے میں مکہ کے تمام تاجروں کا سرمایہ لگا ہوا تھا۔ انہوں نے قافلہ
بچانے کے لئے 1000کا لشکر تیار کرکے بھیج دیا۔ قافلہ تو ساحل کے ساتھ ہو کر نکل گیتتا
لیکن اس لشکر نے مسلمانوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کرنے کا عتتزم کیتتا اور پیتتش قتتدمی
جاری رکھی۔ رسول اللہ صتتلی اللتہ علیتہ و التہ و ستتلم محتتض 313جانثتتاروں کتے ستتاتھ
تشریف لئے۔ مدینہ سے آنے وال راستہ اس وقت بھی بدر کے مقام پر ساحلی شاہراہ ستتے
ملتا تھا۔ اسی مقام پر جنگ ہوئی۔
134
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اسلم اور کفر کے لشکروں میں ایک اور تین کا تناسب تھا۔ اس کے بتاوجوداس جنتگ
میں محض 14صحابہ شہید ہوئے جبکہ 70کفار قتتتل ہوئے اور 70قیتتدی بنتتائے گئے۔ قتتتل
ہونے والوں میں تمام سرکش لیڈر شامل تھے۔ باقی لوگ بھہہاگ نکلتے۔ قتترآن مجیتتد میتتں
اس جنگ کو اس طر ح بیان کیا گیا ہے۔
ُُ”بدر میں اللہ نے تمہاری مدد کی حالنکہ اس وقت تم بہت کمتتزور ت ھے۔ تتتو اللتہ ستے ڈرو
تاکہ تم شکر گزار بن سکو۔اس وقت کو یاد کرو )اے رسول!( جب تم اہل ایمان ستے ک ہہ
رہے تھے’ ،کیا تمہارے لئے یہ بات کافی نہیں ہے ک تہ الل تہ 3000فرشتتتوں س تے تم ہاری متتدد
کرے۔بے شک ،اگر تم صبر کرو اور اللہ سے ڈرو تو جس آن دشمن تم پتتر چڑ ھائی کریتتں
گے ،اسی آن تمہارا رب ) 3000نہیں بلکہ( 5000فرشتوں سے تمہاری مدد کتترے گتتا۔ ‘ی تہ
بات اللہ نے تمہیں اس لئے بتا دی ہے کہ تم خوش ہو جاﺅ اور تمہارے دل مطمئن ہو جتتائیں۔
فتح و نصرت جو کچھ بھی ہے ،اللہ کی طرف سے ہے،جو بڑی قوت والاور دانا و بینا ہے۔
)یہ مدد وہ اس لئے تمہیں دے گا (تاکہ کفر کی راہ چلنے والوں کا ایک بازو کاٹ دے ،ان کو
ایسی ذلیل شکست دے کہ وہ نامرادی کتے ستتاتھ پستتپا ہو جتتائیں۔“ ) ٰال عمتتران -3:123
( 127
سورہ انفال کا موضوع ہی جنگ بدر اور اس سے پہلتے اور بعتتد کتے واقعتتات ہیتتں۔ ارشتتاد
باری تعال ٰی ہے:
”یاد کرو وہ موقع جب کہ اللہ تم سے وعدہ کر رہا ت ھا ک تہ دونتتوں گرو ہوں میتتں ستے ایتتک
تمہیں ضرور ملے گا۔ تم چاہتے تھے کہ کمزور گروہ سے تمہارا سامنا ہو۔ مگر اللہ کا ارادہ یہ
135
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
تھا کہ اپنے ارشادات سے حق کو حق کر دکھائے اور کافروں کتتی جتتڑ کتتاٹ دے تتتاکہ حتتق،
حق ثابت ہو سکے اور باطل ،باطل خواہ مجرموں کو کتنا ہی ناگوار کیوں نہ گزرے۔ اور وہ
موقع یاد کرو جب تم اپنے رب سے فریاد کر رہے تھے ۔ جواب میں اس نے فرمایا کہ میتتں
تمہاری مدد کے لئے 1000فرشتے بھیج رہا ہوں۔ یہ بات اللہ نے اس لئے فرمائی کتتہ تمہیتتں
خوشخبری ملے اور تمہارے دل مطمئن ہوں ورنہ مدد تو جب بھی ہوتی ہے ،اللہ کی طرف
ہی سے ہوتی ہے۔یقینا اللہ زبردست اور دانا ہے۔
وہ وقت یاد کرو جب اللہ غنودگی کی شکل میں تم پر اطمینان و بے ختتوفی کتتی کیفیتتت
طاری کر رہا تھا اور آسمان سے تمہارے اوپر پانی برسا رہا تھا تتتاکہ تمہیتتں پتتاک کتترے اور
شیطان کی ڈالی ہوئی نجاست کو دور کر ڈالے۔ تمہاری ہمت بندھائے اور اس کتتے ذریعتتے
تمہارے قدم جما دے۔ اور وہ وقت جب تمہارا رب فرشتتتوں کتتو وحتتی کتتر ر ہا ت ھا ’ ،میتتں
تمہارے ساتھ ہوں ،تم اہل ایمان کو ثابت قدم رکھو ،میتتں اب ھی ان کتتافروں کتے دل میتتں
رعب ڈالے دیتا ہوں ،پھر تم ان کی گردنوں اور جوڑوں پر ضرب لگاﺅ۔‘ یتتہ اس لئے کتتہ ان
لوگوں نے اللہ اور اس کے رسول کا مقابلہ کیا اور جو الل تہ اور اس ک تے رستتول کتتا مقتتابلہ
کرے ،اس کے لئے ،اللہ نہایت ہی سخت گیر ہے۔ یہ ہے تم لوگوں کی سزا ،اب اس کا متتزہ
چکھواور تمہیں معلوم ہو کہ حق کا انکار کرنے والوں کے لئے آگ کا عذاب ہے۔۔۔۔۔۔۔
حقیقت یہ ہے کہ تم نے انہیں قتل نہیں کیا ،بلکہ اللہ نے انہیں قتل کیا۔ )اے نتتبی!( آپ ن تے ان
کی طرف ریت نہیں پھینکی بلکہ اللہ نے ان کی طرف پھینکتتی۔ )متتومنین کتے ہاتھوں کتتو
اس کام میں استعمال کرنے کا( مقصد یہ تھا کہ اللہ مومنین کو ایک ب ہترین آزمتائش ستے
کامیابی کے ساتھ گزار دے ۔ بے شک اللہ سننے اور جاننے وال ہے۔ یہ معاملہ تو تمہارے ستتاتھ
ہے ،کفار کے ساتھ یہ معاملہ ہے کہ اللہ ان کی چالوں کو کمزور کرنے والہے۔ )ان کفار ستتے
کہہ دو( اگر تم فیصلہ چاہتے ہو تو لو ،فیصلہ تمہارے سامنے آگیا۔ اب باز آجاﺅ ﺅ تو تم ہارے لئے
بہتر ہے ،ورنہ پلٹ کر اسی حماقت کا اعادہ کرو گے تو ہم بھی سزا کا اعادہ کریں گے اور
تمہاری فوج خواہ کتنی زیادہ ہو ،تمہارے کچھ کام نہ آسکے گتتی۔ب تے شتتک الل تہ متتومنین ک تے
ساتھ ہے---------
اس وقت اللہ ان پر عذاب نازل کرنے وال نتہ ت ھا ،جتتب )اے رستتول!( آپ ان کتے درمیتتان
موجود تھے اور نہ اللہ کا یہ قانون ہے کہ لوگ استغفار کر رہے ہوں اور وہ انہیتتں عتتذاب دے۔
لیکن اب وہ کیوں نہ ان پر عذاب نازل کتترے جتتب وہ مستتجد الحتترام کتتا راستتتہ روک ر ہے
ہوں۔ حالنکہ وہ اس کے جائز متولی نہیں ہیں---------
)اے رسول!( آپ ان سے کہیںکہ اگر یہ اب بھی باز آ جائیں تو جو کچتھ پہلتے ہو چکتتا ،اس
سے درگزر کر لیا جائے گا ،لیکن اگر یہ اپنی پچھلی روش کتتا اعتتادہ کریتتں گ تے تتتو گزشتتتہ
قوموں کے ساتھ جو کچھ ہو چکا ،وہ سب کو معلوم ہے---------
یاد کرو وہ وقت جب تم وادی کے اس جانب تھے اور وہ دوسری جانب پڑاﺅ ڈالے ہوئے ت ھے
اور قافلہ تم سے نیچے )ساحل( کی طرف تھا۔ اگر اس سے پہلے تمہارا مقابلہ ان سے ہوتا
تو تم ضرور پہلوتہی کر جاتے ،لیکن جو کچھ پیش آیا وہ اس لئے تھا کہ جس بات کا فیصتتلہ
اللہ کر چکا ہے ،اسے ظہور میں لے آئے تاکہ جسے ہلک ہونا ہے وہ روشتتن دلیتتل ک تے ستتاتھ
ہلک ہواور جسے زندہ رہنا ہے ،وہ روشن دلیل کے ساتھ زندہ رہے۔ یقینا اللہ سننے اور جتتاننے
وال ہے۔
اور یاد کرو وہ وقت جب) ،اے رسول!( اللہ انہیں تمہارے خواب میں تھوڑا دکھا رہا تھا۔ اگر
کہیں وہ تمہیں ان کی تعداد زیادہ دکھا دیتا تو ضرور تم لوگ ہمت ہار جاتے اور لتتڑائی کتتے
معاملے میں بحث شروع کر دیتے۔ لیکن اللہ ہی نے تمہیتتں اس ستے بچایتتا ،وہ ستتینوں کتے
حال بہتر جانتا ہے۔ اور یاد کتترو اس وقتتت کتو جتب اللتہ نتے ان کتتی نگتتاہ میتں تمہیتتں اور
تمہاری نگاہ میں انہیں کم کر دکھایا تاکہ جو بات ہونی ہے ،اللہ اسے ظہور میتتں ل تے آئے اور
136
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
آخر کار سارے معاملت اللہ ہی کی طرف رجوع کرتے ہیں۔ “ )النفال ( 44-8:5
سفر سے واپس آکر میں نے یہ آیات بار بار پڑھیں۔ ان کا مطالعہ میں پہلے بھی کر چکا
تھا لیکن یہ مقامات دیکھنے کے بعد جنگ بدر کتی صتورتحال جتس طترح واضتح ہوئی ،وہ
پہلے نہ ہو سکی تھی۔ یقینا جنگ بدر اللہ کے عذاب کی پہلی قسط تھی جو مشتترکین مکتتہ
پر نازل ہوئی۔
مسجد عریش سے نکل کر ہم واپس ہوئے۔ ی ہاں میتتری والتتدہ نتے بچتتوں کتے لئے کچتھ
کھانے پینے کے لئے لنے کو کہا۔ بدر شہر میں ایک بقالے پر گاڑی روک کر میں اتتترا۔ بقتتالے
کے مالک ایک خان صاحب تھے جن کا تعلق چارسدہ سے تھا۔ وہ پٹھانوں کی روایتی مہمان
نوازی کی روایات کے امین تھے۔ مجھے دیکھ کر بہت خوش ہوئے اور چیتتزوں کتتی قیمتتت
لینے سے انکار کر دیا۔ میں نے بصد اصرار انہیں یہ رقم دینے پر آمادہ کیتتا۔ اس ک تے بعتتد وہ
مصر ہوگئے کہ ان کے گھر چل کر ہم چائے پئیں۔ ان کی دکانتتداری کتتا وقتتت ت ھا ،اس لئے
مجھے یہ مناسب نہ لگا۔ بقالے پر ایک عرب بزرگ بھی تشریف فرما تھے۔ وہ میتترا انتتٹرویو
کرنے لگے۔ مجھے جس قدر عربی آتی تھی ،ان کے سوالوں کا جواب دیا اور بتتاقی بتتاتوں
کے لئے خان صاحب کی خدمات بطور مترجم حاصل کیں۔
بدر شہر سے نکل کر ہم پھر جدید متوٹر وے پتر آئے۔ یتہ ایتک پ ہاڑی متوٹر وے ت ھی اور
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس کے موڑ ) (Curvesاتنے شتتاندار طریق تے س تے بنتتائے گئے ت ھے کتہ
150کی رفتار سے بھی متتوڑ کتتاٹتے ہوئے ذرا ب ھی محستتوس نتہ ہوتتتا ت ھا۔ بتتدر کتے بعتتد
الحسینیہ ،الخیف ،الخرمااور الحمراءکے ایگزٹ آئے۔ یہ چھوٹے موٹے قصتتبے ہوں گتے۔ ایتتک
مقام پتتر پرانتی ستنگل روڈ ب ھی ہمیتتں اپنتے ستاتھ ستاتھ دوڑتتی نظتر آئی۔ وادی الجتتی،
المسیجد ،الفریش کے قصبوں سے گزرتے ہوئے محض 50منٹ میتتں ہم بتتدر س تے متتدینہ
جاپہنچے۔ حرم نبوی کی حدود سے قبل ہی یہ روڈ طریق الھجرہ پر جاملی اور اس کے بعد
جبل عیر کے پاس پولیس چیک پوسٹ آگئی جس سے گزر کر ہم مدینہ جا پہنچے۔
137
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
احد
مسجد نبوی سے احد پہاڑ محض دس منٹ کی ڈرائیو پر ہے۔ مسجد نبوی کے باب فہد سے
احد پہاڑ صاف نظر آتا ہے۔ یہاں سے بالکل سیدھی ایک روڈ احد تک جاتی ہے۔ ہم اس کتتی
بجائے خالد بن ولید روڈ سے روانہ ہوئے کیونکہ پارکنگ سے اس کتتا فاصتتلہ کتتم ت ھا۔ ستتیکنڈ
رنگ روڈ پر پہنچ کر ہم احد کی طرف مڑے اور اس کے دامن میں پہنچ گئے۔ یہ براﺅن رنگ
کا پہاڑ ہے۔ اس کی خوبی یہ ہے کہ اس کے متعلق حضتتور صتتلی اللتہ علیتہ و التہ وستتلم نتے
فرمایا کہ یہ مجھ سے محبت رکھتا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم یہاں اکثر تشریف
لیا کرتے تھے۔ پہاڑ کی بلندی کچھ زیادہ نہیں لیکن پھیلﺅ کافی زیادہ ہے۔ احد کے دامن میں
چھوٹی سی پہاڑی ہے جو کہ تیر اندازوں کی پہاڑی کے نام سے مشہور ہے۔ ایسا لگتا ہے کتتہ
مرور زمانہ سے یہ پہاڑی گھس کر اب کافی چھوٹی ہو گئی ہے۔
اصلح کا صحیح طریق ہ
پہاڑ کے دامن میں شہدائے احد کا قبرستان تھا جس کے گرد چار دیواری تھی ۔ کوئی قتتبر
بھی ایک ہاتھ سے زیادہ بلند نہ تھی۔ قبرستان کی دیوار پر ایک بورڈ لگتتا ہوا ت ھا جتتس پتتر
عربی ،انگریزی ،اردو اور کئی زبانوں میں زیارت قبور سے متعلق احادیث درج تھیں جن
میں قبر پرستی کی مذمت کی گئی ت ھی۔ اپنتے نقطتہ نظتتر کتتو زبردستتتی دوستتروں پتتر
مسلط کرنے کی بجائے یہ طریقہ کار نہایت ہی موثر ہے۔ اگتتر کستتی شتتخص پتتر جتتبرا ً اپنتتا
عقیدہ مسلط کیا جائے تو اس سے صرف ضد پیدا ہوتی ہے اور مختاطب اپنتے عقیتدے پتر
مزید پختہ ہو جاتا ہے۔ ایک متعصب شتتخص کتے لئے دوستترے مستتلک کتے کستتی فتترد کتتی
بات ،ایک دشمن کی بات ہوتی ہے جسے وہ صرف تعصب اور منفی ذہن ک تے ستتاتھ ستتنتا
ہے ۔
اصلح کا صحیح طریقہ یہ ہے کہ اپنی بات کی بجائے اللہ تعال ٰی اور اس کے رسول صلی
اللہ علیہ و الہ و سلم کی بات کو سامنے رکھ دیا جتائے اور فیصتتلہ اس کتے اپنتے ضتتمیر پتر
چھوڑ دیا جائے ۔ مخاطب کو خود سے مختلف کوئی مخلوق فرض کرنے کتتی بجتتائے استے
اپنا بھائی سمجھنا چاہئے اور محبت و ہمدردی کے ساتھ اس کی اصلح کی کوشتتش کرنتتا
چاہئے۔ اس کے ساتھ ساتھ اپنی غلطی اور اس کی اصلح کے امکان کو کب ھی نظتر انتداز
نہیں کرنا چاہئے۔ ہمارے مذہبی لوگ جب دوسرے سے گفتگو کرتے ہیں تتتو وہ ی تہ فتترض کتتر
لیتے ہیں کہ ہم تو حق پر ہیں ،غلطی اگر ہے تو مخاطب ہی کتے عقیتتدے یتتا عمتتل میتتں ہو
سکتی ہے۔ دعوت دین ایک دو طرفہ عمل ہے۔ اس میں مخاطب کی اصلح کے ساتھ ساتھ
اپنی اصلح بھی مد نظر ہونی چاہئے۔ عین ممکن ہے کہ مخاطب کا نقطہ نظتتر درستتت ہو
اور ہمارا غلط ہو۔ اس رویے کو امام شافعی علیہ الرحمۃ نے اس طرح بیان کیتتا ہے۔ ” ہم
اپنی رائے کو درست سمجھتے ہیں لیکن اس میں غلطی کا امکتان تستلیم کرتتے ہیتں اور
مخالف کی رائے کو غلط سمجھتے ہیں لیکن اس کے درست ہونے کا امکان تستتلیم کرتتتے
ہیں۔“
اپنا نقطہ نظر مخاطب کو پہنچانے کے بعد اس پر ڈنڈا ل تے کتتر مستتلط ہونے کتتی بجتتاۓ
138
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
139
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
لشکر کفار میں شامل نوجوان خالد بن ولید )رضی اللہ عنہ( ،جتتو اب ھی ایمتتان نتہ لئے
تھے اور جنگ حکمت عملی ) (War Tacticsکے میدان میں سپر جینئس کی حیثیت رکھتے
تھے ،واپس پلٹے اور اسی پہاڑی درے سے ہو کر اسلمی لشکر پر پیچ ھے کتتی جتتانب ستے
حملہ آور ہوئے جس سے اسلمی لشکر میں بھگدڑ مچ گئی۔ اس کا فائدہ اٹھا کتتر ستتامنے
سے بھاگنے والے کفار بھی پلٹ کر حملہ آور ہوئے۔ اب مسلمان دو طرف سے نرغ تے میتتں
آگئے اور یکایک 70صحابہ جام شہادت نوش کتترگئے جتتن میتتں ستتب ستے نمایتتاں حضتتور
صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے چچا حمزہ رضی اللہ عنہ تھے۔
پتھراﺅ کے نتیجے میں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و ستتلم کتے دنتتدان مبتتارک ب ھی شتہید
ہوئے۔ سیدنا ابوبکر اور سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہمانے جان پتتر کھیتتل کتتر آپ کتتی
حفاظت کی۔ یہ مشہور ہوا کہ حضور صلی اللہ علیہ والہ و سلم شہید ہوگئے۔ اس پتتر بعتتض
لوگوں نے ایمان ترک کرنے کا ارادہ کیا۔ کچھ دیر بعد کفار کتتا لشتتکر اگلتے ستتال بتتدر کتے
میدان کا چیلنج دے کر واپس ہوا۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے بچی کھچی طاقت
جمع کرکے ان کا پیچھا کیا لیکن اللہ تعتتال ٰی نتے ان پتتر تھکتتن ستتوار کتتردی اور وہ متتڑ کتتر
مقابلے پر نہ آئے۔
غزوہ بدر کی طرح اس جنگ میں بھی اللہ تعال ٰی کا قانون دینونت پوری طرح کارفرما
نظر آتا ہے۔ اس قانون کو ایک اسکالر اس طرح بیان کرتتے ہیتتں کتہ اگتتر ہمتتارے ستتاتھ یتہ
معاملہ ہو جائے کہ اگر ہم نماز پڑھیں تو فورا ً ہزار روپے ملیں اور اگتتر ن تہ پڑھیتتں تتتو فتتورا
ایک کوڑا پڑے تو ظاہر ہے کہ ہم میں سے کوئی نماز ترک نہ کرے گا۔ یہ معاملہ ہمتتارے ستتاتھ
نہیں ہوتا ۔ ہماری نیکیوں کی جزا اور برائیوں کی سزا ہمیتتں آختترت میتتں ملتے گتتی۔ اللتہ
140
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
تعال ٰی نے اولد ابراہیم کی دونوں شاخوں بنی اسرائیل اور بنی اسماعیل کے ستتاتھ استتی
دنیا میں یہ معاملہ کیا ہے۔
سیدنا موس ٰی علیہ السلم سے لے کر آج تک کی بنتتی استترائیل کتتی تاریتتخ اور حضتتور
صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے لیکر آج تک بنی اسماعیل کی تاریخ ،اس بات کی گواہ ہیں
کہ ان کے ساتھ بحیثیت قوم دنیا میں جزا و سزا کے معاملت کئے گئے ہیں تاکہ یہ دوستتری
قوموں کے لئے عبرت کا باعث بنیں اور انہیں آخرت پر یقین حاصل ہو۔
بنی اسرائیل جب نیکی پر کاربند ہوئے تو دنیتتا ان کتے ستتامنے مفتتتوح ہوگئی۔ ان کتتی
سلطنت عراق سے لے کر افریقہ تک پھیل گئی اور دنیتتا کتے بتتڑے بادشتتاہ ان کتے بتتاجگزار
ہوئے۔ جب انہوں نے برائی کا راستہ اختیار کیا تو نبوکد نضر سے لے کر ٹائٹس اور آخر کار
ہٹلر جیسے حکمران ان پر مسلط ہوئے جنہوں نے ان کا قتل عام کیا۔ بعینہ یہی معاملہ بنی
اسماعیل کے ساتھ ہوا۔ جب انہوں نے اللہ تعال ٰی اور اس کے رسول کی پیروی کی تو انہیں
دنیا میں اس کی جزا ملی اور اپنے سے کئی گنا بڑے لشکر ان کتے ستتامنے مفتتتوح ہوئے،
یہاں تک کہ بلوچستان سے لے کر مراکش تک کے علقے محض چند سال میں ان ک تے زیتتر
نگیں آگئے لیکن جب انہوں نے کوئی غلطی کتی تتو استتی دنیتتا میتتں انہیتتں اس کتی ستزا
بھگتنا پڑی۔
چونکہ احد میں بنی اسماعیل کے لشکر کے ایک اہم حصے نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ
و الہ و سلم کے احکامات کی خلف ورزی کتتی ت ھی ،اس لئے انہیتتں اس کتتی ستتزا فتتورا ً
ملی اور انہیں بھاری نقصان اٹھانا پڑا۔ یوں سمجھ لیجئے کہ انہیتتں اپنتتی مردانتہ آبتتادی کتے
دس فیصد حصے سے ہاتھ دھونا پڑے۔ قرآن مجید نے اسے اس طرح بیان کیا ہے:
دل شکستہ نہ ہو ،غم نہ کرو ،تم ہی غالب ہو گے اگر تم متتومن ہو۔ اس وقتتت اگتتر تمہیتتں
چوٹ لگی ہے تو اس سے پہلے ایسی ہی چوٹ تمہارے مخالف فریق کو بھی لگ چکی ہے۔
یہ تو زمانے کے نشیب و فراز ہیں جنہیں ہم لوگوں کے درمیان گردش دیتے رہت تے ہیتتں۔ تتتم
پر یہ وقت اس لئے لیا گیا کہ اللہ آزماناچاہتا تھا کہ تم میں سچے مومن کتتون ہیتتں ،اور ان
لوگوں کو چھانٹ لینا چاہتا تھا جو واقعی )حق کے( گواہ ہوں۔ کیونکہ ظتتالم لتتوگ الل تہ کتتو
پسند نہیں ہیں۔ اور وہ اس آزمتائش کتے ذریعتے مومنتوں کتو التگ چ ھانٹ کتر کفتار کتی
سرکوبی کر دینا چاہتا تھا۔
کیا تم یہ سمجھتے ہو کہ یونہی جنت میں چلے جاﺅ گے حالنکہ ابھی اللہ نے ی تہ تتتو آزمایتتا
ہی نہیں کہ تم میں سے کون وہ لوگ ہیں جو اس کی راہ میتں جتانیں لڑانتے والتے اور اس
کی خاطر صبر کرنے والے ہیں۔ تم تو موت کی تمنائیں کر رہے تھے! مگر یہ اس وقت کی
بات تھی جب موت سامنے نہ آئی ت ھی۔ لتتو اب وہ تم ہارے ستتامنے آگئی اور تتتم نتے استے
آنکھوں سے دیکھ لیا۔
محمد محض اللہ کے رسول ہیں۔ ان سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیتتں۔ پ ھر کیتا
اگر وہ فوت ہو جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاﺅں پھر جتتاﺅ گتے؟ یتتاد رک ھو!
جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا ،البتہ جو اللہ کے شکر گتتزار بنتتدے بتتن کتتر
رہیں گے ،انہیں وہ جزا دے گا۔ کوئی ذی روح اللہ کے اذن کے بغیر نہیں مر سکتا۔ متتوت کتتا
وقت تو لکھا ہوا ہے۔ ۔۔۔
اس سے پہلے کتنے ہی نبی ایسے گزر چکے ہیں جن کے ستتاتھ متتل کتتر ب ہت س تے ختتدا
پرستوں نے جنگ کی۔ اللہ کی راہ میں جو مصیبتیں ان پر پڑیں ان س تے وہ دل شکستتتہ ن تہ
141
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہوئے ،انہوں نے کمزوری نہ دکھائی ،وہ )باطل کے آگے( سرنگوں نہ ہوئے۔ ایسے ہی صابروں
کو اللہ پسند کرتا ہے۔ ان کتی دعتتا بتس ی ہی ت ھی’ ،اے ہمتتارے رب! ہمتتاری غلطیتوں اور
کوتاہیوں سے درگزر فرما ،ہمارے کام میں تیرے حدود سے جو کچھ تجاوز ہو گیتتا ہو اس تے
معاف کردے۔ ہمارے قدم جما دے اور کفار کے مقابلے میں ہماری مدد فرما۔‘ آخر کار الل تہ
نے ان کو دنیا میں )سرفرازی کی صتتورت میتتں( بتتدلہ ب ھی دیتتا اور اس ستے ب ہتر ثتتواب
آخرت میں عطا کیا۔ اللہ کو ایسے ہی نیک عمل والے لوگ پسند ہیں۔۔۔۔
اللہ نے )مدد کا( جو وعدہ تم سے کیا تھا ،وہ تو اس نے پورا کردیا۔ ابتدا میتتں اس ک تے
حکم تم ہی ان لوگوں کو قتل کر رہے تھے۔ مگر جب تم نے کمزوری دکھائی اور اپنے کام
میں باہم اختلف کیا ،اور جونہی وہ چیز اللہ نے تمہیں دک ھائی جتتس کتتی محبتتت میتتں تتتم
گرفتار تھے )یعنی مال غنیمت( ،تم اپنے امیر کے حکتتم کتتی خلف ورزی کتتر بیٹ ھے۔ اس
لئے کہ تم میں سے کچھ لوگ دنیا کے طالب تھے اور کچھ آخرت کی ختتواہش رکھت تے ت ھے۔
تب اللہ نے تمہیں کفار کے مقابلے میں پسپا کردیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے۔ اور حق یہ ہے
کہ اللہ نے پھر بھی تمہیں معاف ہی کردیا کیونکہ مومنوں پر اللہ بڑی نظر عنایت رکھتا ہے۔
یاد کرو جب تم بھاگے جا رہے تھے۔ کسی طرف پلتتٹ کتتر دیکھنتے کتتا ہوش تمہیتتں نتہ
تھااور رسول تمہارے پیچھے تمہیں پکار رہے تھے۔ اس وقت تمہاری اس روش کتتا بتتدلہ الل تہ
نے تمہیں یہ دیا کہ تمہیں رنج پر رنج دیے تاکہ آئندہ کے لئے تمہیں یہ ستتبق ملتے ک تہ جتتو کچ تھ
تمہارے ہاتھ سے جائے یا جو مصیبت تم پر نازل ہو ،اس پر ملول نتہ ہو۔ اللتہ تم ہارے ستتب
اعمال سے باخبر ہے۔
اس غم کے بعد پھر اللہ نے تم میں سے کچھ لوگوں پر ایسی اطمینان کی سی حتتالت
طاری کر دی کہ وہ اونگھنے لگے۔ ایک دوسرا گروہ جس کتے لئے ستاری اہمیتتت بتس اپنتے
مفاد ہی کی تھی ،اللہ کے متعلق طرح طرح کے جاہلنہ گمان کرنے لگا۔۔۔۔
تم میں سے جو لوگ مقابلہ کے دن پیٹھ پھیر گئے تھے ،ان کی اس لغزش کتتا ستتبب ی تہ
تھ اکہ ان کی بعض کمزوریوں کے باعث شیطان نے ان کے قدم ڈگمگتا دیتے ت ھے۔ اللتہ نتے
انہیں معاف کر دیا ،اللہ بہت درگزر کرنے وال اور بردبار ہے۔۔۔۔
جن لوگوں نے زخم کھانے کے بعد بھی اللہ اور رسول کے پکتتار پتر لبیتتک ک ہا ،ان میتں
سے جو اشخاص نیک اور پرہیزگتتار ہیتتں ،ان ک تے لئے بتتڑا اجتتر ہے۔ ) ٰال عمتتران -3:140
( 172
عجو ہ ک ھجور
احد کے دامن میں بہت سے ریڑھی والے کھڑے کھجوریں بیچ رہے ت ھے۔ ی ہاں کئی افریقتتی
خواتین نے زمین پر بہت سی اشیا کی دکتتانیں لگتتائی ہوئی تھیتتں ج ہاں وہ مکمتتل بتتاپردہ
لباس میں چیزیں بیچ رہی تھیں۔ ریڑھیوں پر جا بجا بہت سی جڑی بوٹیاں بک رہی تھیتتں۔
بیچنے والے ان جڑی بوٹیوں سے مخصوص زنانہ امراض سے لے کر دل کتتی بیمتتاریوں ک تے
علج کا دعو ٰی کر رہے تھے۔ مجھے چونکہ ان کے خواص کے بارے میں کوئی علتتم نہیتتں ت ھا
اس لئے میں نے اس طرف کوئی توجہ نہ دی۔
پورے عرب میں سب سے سستی اور اعلی کوالتتٹی کتتی کھجتتوریں متتدینہ منتتورہ میتتں
ملتی ہیں۔ ایک ریڑھی وال ”عجوہ ،عجوہ“ کی آواز لگا رہا تھا۔ اس سے معلوم ہوا کتتہ اس
کے پاس عجوہ کھجور ہے جو دوسری اقستتام کتتی کھجتتور کتتی نستتبت دوگنتتی قیمتتت پتتر
فروخت ہو رہی تھی۔ بعض روایات میں یہ بھی ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو
عجوہ بہت پسند تھی۔ میں نے بھی آدھا کلو عجوہ خریدی۔ یہ عام کھجور سے کافی چھوٹی
142
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
تھی اور اس میں گٹھلی بھی برائے نام ہی تھی۔ اس کا ذائقہ بھی بہت مختلف تھا۔ یہاں یہ
خاصی سستی دستیاب ہو گئی ورنہ مسجد نبوی کے پاس تو یہ پچاس ساٹھ ریال فی کلتتو
کے حساب سے بکتی ہے۔
یہاں سے رخصت ہو کر ہم نے گاڑی پر احد کے گرد ایک چکر لگایا۔ یہ پورا علقہ کھجور
کے فارمز سے بھرا ہوا تھا۔ درختوں پر کھجور کے زرد خوشے لٹک رہے ت ھے۔ ی تہ زرد کچتتی
کھجور پنجاب اور سندھ میں ’ڈوکے‘ کہلتی ہے۔احد کے آخری کونے پتتر متتدینہ کتتی تیستتری
رنگ روڈ گزر رہی تھی۔ ہم اس پر احد کے دوستتری طتترف آگئے۔ دوستتری جتتانب ی تہ پ ہاڑ
عمودی چٹانوں پر مشتمل تھا۔ تیسری رنگ روڈ اس کے ساتھ ساتھ چلتی ہوئی شتہر کتے
گرد گھوم رہی تھی۔ جیسا کہ میں عرض کر چکا ہوں کہ تیسری رنگ روڈ حرم متتدینہ کتتی
باﺅنڈری پر بنائی گئی ہے۔ جمعہ کی نماز کا وقت قریب تھا۔ رنگ روڈ کا چکتتر لگتتا کتتر ہم
لوگ علی بن ابی طالب روڈ پر آگئے جو سیدھی مسجد نبوی تک جا پہنچتی ہے۔
143
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
خندق
عصر کی نماز مسجد نبوی میں ادا کرکے ہم لوگوں نے غزوہ خندق کے مقام کا قصد کیتتا۔
مسجد نبوی میں ایک پاکستانی صاحب سے ،جو مدینہ ہی میں رہتے ت ھے ،میتں نتے خنتدق
کے مقام کا پوچھا۔ انہوں نے تفصیل سے راستہ سمجھا دیا۔ یہ مسجد نبوی سے محض چار
کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ یہ مقام "بئر سبع" کہلتا ہے۔ یہاں سات مساجد ہوا کرتی تھیتتں
جو مختلف صحابہ سے موسوم تھیں۔
اب اس مقام پر ان مساجد کو شہید کرکے ایک ہی بڑی مسجد کی شتتکل دی جتتارہی
تھی۔ یہاں کے مقامی لوگوں کے مطابق خندق عین اس جگتہ ک ھودی گئی ت ھی ج ہاں اب
سڑک بنی ہوئی ہے۔ ظاہر ہے جنگ کے کچھ عرصے بعد یہ خندق بند کر دی گئی ہو گئی تاکہ
عام لوگوں کو آمد و رفت میں مشکل نہ ہو۔ یہ خندق مدینہ ک تے دو اطتتراف میتتں ک ھودی
گئی تھی جہاں سے کفار کی آمد کا خطرہ تھا۔ باقی دو اطراف میں پ ہاڑ کچتھ اس طتترح
موجود ہیں کہ وہاں سے کسی بڑے لشکر کی آمد ممکن ہی نہیں۔
144
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جنگ خندق ،مدینہ پر کفار مکہ کی تیسری اور آخری چڑھائی تھی جو جنگ احد ک تے دو
سال کے بعد ہوئی۔ اس مرتبہ کفار قریش نے عرب قبتتائل کتتو مل کتتر 10000کتتا لشتتکر
تیار کیا۔ ان قبائل میں بنو غطفان ،مرہ ،اشجع ،سلیم اور اسد شامل تھے۔ کہا جاتا ہے کتہ
عرب میں اتنا بڑا لشکر پہلے کبھی نہ بنا تھا۔ اتنے بڑے اجتماع کی وجہ س تے اس جنتتگ کتتو
جنگ احزاب بھی کہا جاتا ہے یعنی لشتتکروں کتتی جنتتگ۔ ان کتتا ارادہ یتہ ت ھا کتہ اس مرتبتہ
مسلمانوں کا قلع قمع کرکے استلم کتا نتتام و نشتان مٹتتا دیتتا جتائے لیکتن ان ہوں نتے اس
حقیقت کو نظر انداز کر دیا تھا کہ ان کا مقابلہ اللہ کے رسول ستے ہے جتتو اللتہ کتے بنتتائے
ہوئے قانون کے تحت کبھی مغلوب نہیں ہو سکتے۔
اس مرتبہ سیدنا سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کے مشورے پر حضور صتتلی اللتہ علیتہ و
الہ و سلم نے خندق کھود کر دفاعی حکمت عملی اختیار کی۔ دعوت دین کے نتتتیجے میتتں
مسلمانوں کی تعداد دو سال میں اب 700سے بڑھ کر 3000ہو چکی تھی۔ ان افراد نے
دن رات کی محنت کرکے خندق کھودی۔ مشہور محقق ڈاکٹر حمید اللہ بیان کرتے ہیتتں ک تہ
دس دس افراد کی جماعت کو چالیس چالیس ہاتھ لمبی خندق کھودنے کا کام ستتپرد کیتتا
گیا۔ ان 300ٹیموں نے مل کر 6000گز یعنی تقریبا ً چھ کلومیٹر لمتتبی خنتتدق ک ھودی۔
اس سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و ستتلم کتتی انتظتتامی صتتلحیتوں کتتا انتتدازہ لگایتتا
جاسکتا ہے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ جہاد فی سبیل اللہ محض جنگ میں لڑنے ہی
کا نام نہیں بلکہ جنگ کی ہر طرح کی تیاری بھی ج ہاد کتتا حص تہ ہے۔ ج ہاد میتتں لجستتٹک
سپورٹ فراہم کرنے والے بھی اسلم کی نظر میں مجاہدین فی سبیل اللہ ہوتے ہیں لیکتتن
جہاد اسلم کے نزدیک ،ظلم کے خلف ایک منظم حکتتومت کتتی کتتاروائی ہوتی ہے ن تہ ک تہ
145
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
146
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
دراصل وہ )محاذ جنگ سے( فرار ہونا چاہتے تھے۔ اگر شہر کے اطراف سے دشتتمن گ ھس
آئے ہوتے اور اس وقت انہیں فتنے کی دعوت دی جاتی تو یہ اس میں جا پڑتے اور مشتتکل
ہی سے انہیں شریک فتنہ ہونے میں کوئی تامل ہوتا۔ ان لوگوں نے اس سے پہل تے الل تہ س تے
عہد کیا تھا کہ یہ پیٹھ نہ پھیریں گے اور اللہ سے کئے ہوئے ع ہد کتتی بتتاز پتترس تتتو ہونی ہی
تھی۔۔۔۔
درحقیقت تم لوگوں کے لئے اللہ کے رسول میں ایک بہترین نمونہ ت ھا ،ہر اس شتخص
کے لئے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کتترے۔ ستتچے مومنتتوں
نے جب حملہ آور لشکروں کو دیکھا تو پکار اٹھے’ ،یہ تو وہی چیز ہے جس کتتا الل تہ اور اس
کے رسول نے ہم سے وعدہ کیا تھا ،اللہ اور اس کے رسول کتتی بتتات بالکتتل ستتچی ت ھی۔‘
اس واقعہ نے ان کی ایمان اور سپردگی کو اور بڑھا دیا۔۔۔۔
اللہ نے کفار کا منہ پھیر دیا اور وہ کوئی فائدہ حاصتل کئے بغیتر اپنتے دل کتی جلتن لئے
یونہی پلٹ گئے اور مومنین کی طرف سے اللہ ہی لڑنے کے لئے کافی ہوگیا۔ اللہ بڑی قوت
وال اور زبردست ہے۔ پھر اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے ان حملہ آوروں کتتا ستتاتھ دیتتا
تھا ،اللہ ان کی گڑھیوں سے انہیں اتار لیا اور ان کے دلوں میں ایسا رعب ڈال دیتتا کتتہ آج
ان میں سے ایک گروہ کو تم قتل کر رہے ہو اور دوسرے گروہ کو قید کر ر ہے ہو۔ اس نتے
تم کو ان کی زمین اور ان کتے گ ھروں اور ان کتے امتتوال کتتا وارث بنتتا دیتتا اور وہ علقتہ
تمہیں دیا جہاں تم نے کبھی لشکر کشی نہ کی تھی۔ اللہ ہر چیتتز پتتر قتتادر ہے۔ )الحتتزاب
( 27-33:9
یہ جنگ 5ھ میں ہوئی۔ اس جنگ کے بعد مشرکین عرب کبھی اہل اسلم پر حملہ آور نہ
ہو سکے۔ اگلے سال یعنی 6ھ میں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم 1500جانثاروں کتتی
معیت میں عمرہ کی ادائیگی کے لئے مکہ تشتتریف ل تے گئے۔ اس موقتتع پتتر ا ہل مک تہ س تے
حدیبیہ کے مقام پر صلح ہو گئی۔ یہودی جو مدینہ پر حملے کی تیاریوں میں مصروف ت ھے،
7ھ میں جنگ خیبرکے نتیجے میں مغلوب ہوئے۔ اس کے بعد اہل مکہ نے حدیبیہ کتتے معا ہدے
کی خلف ورزی کتی اور 8ھ میتں رستول اللتہ صتلی اللتہ علیتہ و التہ و ستلم نتے 10000
قدوسیوں کے لشکر کے ساتھ مکہ فتح کر لیا۔
9ھ میں پورے عرب سے قبائل کے وفود نے آ کر اسلم قبول کیا۔ اسی سال سورہ توبہ
نازل ہوئی جس میں عرب کے مشرکین اور یہود و نصار ٰی پر حضور صلی اللہ علیہ و ٰالہ و
سلم کو نہ ماننے کے باعث اللہ تعال ٰی کے عذاب کی آخری قسط نازل ہوئی۔ مشرکین کی
سزا موت اور اہل کتاب کی سزا جزیہ مقرر کی گئی۔ مشرکین کی سزا پر وسیع پیمتانے
پر عمل درآمد نہ ہوسکا کیونکہ اہل عرب نے عذاب سے قبل ہی ایمان قبول کرلیا البتہ اہل
کتاب پر جزیہ کی سزا نافذ کی گئی اور وہ عرب میں ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مغلوب ہو کتر
رہ گئے۔
10ھ میں حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے حتتج ادا کیتتا جتتس موقتتع پتتر
پورا عرب اسلم کے زیر نگیں آچکا تھا۔اس کے بعتتد 11ھ میتتں آپ وفتتات پتتاگئے۔ آپ کتے
بعد محض دس بارہ سال کے عرصے میں قیصر و کسر ٰی کی سلطنتیں مغلتتوب ہو گئیتتں
اور اللہ تعال ٰی نے وہ پورا علقہ بنی اسماعیل کتے تستلط میتں دے دیتتا جستے تتورات میتں
اولد ابراہیم کی میراث کہا گیا ہے۔
ایسا کرنے کا مقصد یہ تھا کہ اس وقت کی متمدن دنیا کے قلتتب میتتں الل تہ تعتتال ٰی کتتی
147
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
توحید کے علمبرداروں کی حکومت قائم کی جائے تاکہ اس زمانے کی دنیا کی دیگر اقوام
جزا و سزا کے اس قانون کا کھلی آنکھوں سے مشاہدہ کر سکیں اور ان پر اللہ کی حجت
قائم ہو سکے۔ بعد میں آنے والی نسلوں کے لئے جزا و سزا کا یہ واقعتہ قتترآن مجیتتد میتتں
محفوظ کر دیا گیا ہے جس کی تاریخی حیتتثیت میتتں اس ک تے متتاننے والتتوں اور ن تہ متتاننے
والوں میں کوئی اختلف موجود نہیں۔ اس طرح پوری نسل انستتانی پتتر الل تہ کتتی حجتتت
پوری کرد ی گئی ہے۔ اب یہ انسان کی مرضی ہے کہ وہ ان واقعات کو محض تاریخ سمجھ
کر نظر انداز کر دے یا پھر اس سے آخترت کتی جتزا و ستزا کتا قتانون اختذ کرکتے اپنتی
دنیاوی زندگی کو آخرت کی تیاری پر لگا دے۔
148
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
طائف
طائف سعودی عرب کا گرمائی دارلحکتومت ہے۔ گرمیتوں میتں جتب ریتاض میتں درجتہ
حرارت 55ڈگری سینٹی گریڈ پر پہنچ جاتا ہے تو شاہی خاندان طائف میں منتقل ہو جاتتتا
ہے۔ شدید گرمی میں بھی یہاں درجہ حرارت 35ڈگری سے زیادہ نہیں بڑھ پاتا۔ ایتتک پ ہاڑی
مقام ہونے کے علوہ اس کی اپنی تاریخی اہمیت بھی ہے اور اس کا رسول اللہ صتتلی اللتتہ
علیہ و الہ و سلم کی سیرت طیبہ سے گہرا تعلق ہے۔
دور جاہلیت میں اس شہر کا شمار مکہ کے بعد عرب کے اہم تریتتن ش تہروں میتتں ہوتتتا
تھا۔ یمن سے آنے والی دو تجارتی شاہراہوں میں سے ایک پر طائف واقع تھا۔ مکہ کے کئی
رئیسوں نے یہاں اپنے فارم ہاﺅس بنائے ہوئے تھے۔ شہر میں بنتتو ثقیتتف اور بنتتو ہوازن ک تے
قبائل آباد تھے۔ اس کے اطراف میں بنو سعد آباد تھے جن کی آبتتادی طتتائف ستے لتے کتتر
مکہ کے ایک طرف سے ہوتی ہوئی حدیبیہ تک جاتی تھی۔
اس شہر کو حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم سے کئی طترح کتی نستبت ہے۔ آپ کتا
بچپن اسی شہر کے اطراف میں بنو سعد کے علقے میتتں گتتزرا۔ ان ہی ستتر ستتبز پ ہاڑیوں
میں دوڑ کر آپ بچپن سے لڑکپن کی حدود میں داخل ہوئے۔ اسی ش تہر ک تے قریتتب ستتیل
کبیر کے علقے میں آپ کی نوجوانی کی عمر میں جنگ فجار ہوئی جتتس میتتں آپ ب ھی
کسی حد تک شریک تھے۔ آپ کی دعوتی زندگی کا سب سے تکلیف دہ وقتتت ب ھی استتی
طائف میں گزرا جب یہاں کے اوباشوں نے آپ پر پتھروں کی بتتارش کتتی اور آپ ن تے اس
کے جواب میں بھی دعا ہی دی۔ غزوہ حنین اور غزوہ طائف ب ھی استتی علق تے میتتں وقتتع
پذیر ہوئے جن کے بعد کوئی بڑی جنگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و التہ و ستتلم کتتی زنتتدگی
میں سامنے نہ آئی۔
طائف کے سفر کے لئے ہم نے جمعہ کے دن کا انتخاب کیتا کیتونکہ اس دن چ ھٹی ت ھی۔
صبح فجر کے بعد نیند کا دوسرا راﺅنڈ چل کیونکہ یہاں پتتر مج ھے صتترف ایتتک ہی ہفتتہ وار
چھٹی دستیاب ہوتی تھی۔ تقریبا ً ساڑھے دس بجے آنکھ کھلی اور میں نے اپنی فیملتتی کتتو
جگایا۔ ساڑھے گیارہ بجے ہم لوگ تیار ہو کر نکل چکے تھے۔ اس وقت جمعتہ کتتی نمتتاز کتے
لئے پہلی اذان دی جارہی تھی۔ سعودی عرب میں یہ رواج ہے کہ جمعہ کی پہلتتی اذان زوال
سے قبل ہی دے دی جاتی ہے۔ زوال کے فورا ً بعد دوسری اذان ہوتی ہے اور امتتام صتتاحب
خطبہ دیتے ہیں۔ اس کے بعد نماز ہوتی ہے۔ایک بجے تک سب لوگ جمعہ کی نماز سے فارغ
ہو چکے ہوتے ہیں۔ ہمارا ارادہ یہ تھا کہ جمعہ کی نماز راستے میں ادا کریں گے۔
آدھے گھنٹے میں ہم لوگ حدیبیہ یا شمیسی کے مقام پر جا پہنچے۔ یہ وہی جگہ ہے ج ہاں
صلح حدیبیہ ہوئی تھی۔ کئی سو سال کے بعد اس مقام کا نام شمیسی پڑ گیا۔ ی ہاں س تے
طائف کے لئے ایک بائی پاس بنا ہوا ہے۔ غیر مسلم اسے کرسچن بائی پاس کہتے ہیں۔ اس
مقام سے طائف جانے کے دو راستے ہیں۔ایک راستتتہ تتتو ی ہی کرستتچن بتائی پتاس ہے اور
دوسرا راستہ حرم مکہ کی حدود کے اندر مکہ کے تیسرے رنگ روڈ سے ہوتا ہوا طائف کتتی
طرف جاتا ہے۔ مکہ میں داخل ہو کر دائیں جانب تیسرے رنگ روڈ پر مڑ جائیے۔ مزدلفہ کے
149
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
قریب ایک مقام پر دائیں جانب طائف جانے کا راستہ نکلتا ہے۔ کرستتچن بتتائی پتتاس ب ھی
اسی روڈ پر آملتا ہے۔ میرا تجربہ ہے کہ مکہ کے اندر کا راستہ نستتبتا ً جلتتد ط تے ہو جاتتتا ہے
کیونکہ کرسچن بائی پاس زگ زیگ پہاڑیوں سے گزر کر آتا ہے۔ طائف جانے کا ایک تیستترا
طویل راستہ مکہ سے براستہ سیل کبیر طائف کی طرف جاتا ہے۔
کرسچن بائی پاس
اس مرتبہ ہم نے کرسچن بائی پاس کا انتخاب کیتا۔ حتدیبیہ ستے ت ھوڑی دور چلتے ت ھے کتہ
گھنے سبزے میں ڈھکی ہوئی ایک وادی نظر آئی۔ اس ب تے آب و گیتتاہ ،وادی غیتتر ذی زرع
میں اتنا سبزہ دیکھ کر حیرت ہوئی۔ قریب جا کر معلوم ہوا کہ یہ ویسے ہی صحرائی پودے
ہیں جو کراچی اور حیدر آباد کے درمیان نظر آتے ہیں۔ یہاں یہ اتنے گھنے تھے کہ ان کے بیتتچ
میں زمین دکھائی نہ دے رہی تھی۔ غالبا ً اس کی وجہ طائف کے پہاڑوں سے آنتتے وال پتتانی
تھا۔ ذرا سی نمی ملنے پر یہ جھاڑیاں بہت تیزی سے پھیلتی ہیں۔
تھوڑا سا آگے جا کر سیاہ پہاڑ نظر آئے جنہیں چوٹی تک سنہری ریت نے ڈھانپتتا ہوا ت ھا۔
کہیں کہیں سیاہ چٹانوں کے کونے باہر نکلے ہوئے تھے۔ یہ جگہ وادی ملکان کہلتتتی ہے۔ ی ہاں
وسیع ریتلے میدان میں ہر سائز کے بے شمار اونٹ چتتر ر ہے ت ھے ۔ ان کتتی ختتوراک و ہی
صحرائی پودے تھے۔ اس علقے میں صدیوں سے یہی منظر نظر آتا تھا۔ رسول الل تہ صتتلی
اللہ علیہ و الہ و سلم کے دور میں بھی ایسا ہی منظر ہوتا ہو گتتا ج ہاں آپ اپن تے بچپتتن اور
لڑکپن میں بکریاں اور اونٹ چراتے ہوں گے۔
دور نوکیلی پہاڑیوں کا ایک سلسلہ نظر آرہا تھا۔ ان میں سے ایک پہاڑی بالکتتل شتہادت
کی انگلی کی طرح سب سے الگ تھلگ سیدھی کھڑی تھی ۔ یہ ایک نہایت ہی خوبصورت
منظر تھا۔ تھوڑا سا آگے جا کر ایک فیکٹری آئی۔ نجانے یہ کس چیز کی فیکٹری تھی۔ اس
سے تھوڑا سا آگے ایک چھوٹا سا ائر پورٹ تھا جتتو صتترف ایتتک چھپتتر اور ایتتک رن وے پتتر
مشتمل تھا۔ غالبا ً یہ پرائیویٹ ائر پورٹ تھا۔ چھپر کے نیچے ننھے منے جہاز ک ھڑے ت ھے جتتن
میں سے کئی ٹوسیٹر تھے۔ اس قسم کے جہاز میں نے اسلم آباد ائر پورٹ پر بھی دیک ھے
تھے۔ وہاں یہ عموما ً مختلف ممالک کے سفارت خانوں کی ملکیت ہوتے ہیں۔ اب ہم وادی
ام دوحہ میں داخل ہو گئے۔ ایک مسجد پر نظر پڑتے ہی میں ن تے جمع تہ کتتی نمتتاز ک تے لئے
گاڑی روک دی۔
اس روڈ پر خاصے گمراہ کن بورڈ لگے ہوئے تھے۔ ایک بورڈ پر راستے کو آگے جا کتتر بنتتد
دکھایا گیا تھا۔ میں سارا راستہ اسی شش و پنج میں گاڑی آہستہ چلتا رہا کہ کہیتتں اچانتتک
روڈ بند نہ ہوجائے۔ ایک مقام پر طائف کا بورڈ لگا ہوا تھا اور تیر کا رخ مکہ کی جانب ت ھا۔
دراصل ان دنوں طائف جانے والے اس راستے کو پہاڑ پر دو رویہ کرن تے ک تے لئے بنتتد کرن تے
کی تیاریاں کی جا رہی تھیں۔ یہ بورڈ لگا دیے گئے تھے مگر راستہ ابھی بند نہ ہوا تھا۔
ان بورڈز سے کنفیوز ہونے کے باعث میں نے کنفرم کرنا ضروری سمجھا۔ مسجد میتتں
بہت سے پاکستانی بھی نماز پڑھ رہے تھے۔ میں دوران سفر سعودی عتترب ک تے ب ہت ستے
چھوٹے بڑے شہروں سے گزرا ہوں۔ یتہ مخلتتوق مج ھے ہر مقتتام پتتر نظتتر آئی ہے۔ شتتلوار
قمیص میں ملبوس پاکستانی سعودی عرب کے ہر شہر ،ہر قصبے اور شاید ہر گاﺅں میں
پائے جاتے ہیں۔ نماز کے بعد میں نے ایک صاحب سے طائف کا راستہ کنفرم کیتتا۔ وہ ستتوچ
150
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
میں پڑ گئے۔ پھر ایک اور ساتھی سے پوچھ کر انہوں نے مجھے بتایتا کتہ ی ہی راستتہ ستیدھا
طائف جائے گا۔
مسجد کے ساتھ ایک بقالہ بھی تھا۔ اس میں داخل ہوتے ہی احساس ہوا کہ میں پنجتتاب
کے کسی گاﺅں کی ہٹی پر کھڑا ہوں۔ فرق صرف زبان کا تھا ۔ یہاں کئی عرب بتتدو شتتور
مچاتے ہوئے سامان اکٹھا کر رہے تھے۔ دو عربوں میں کسی بات پر زبردست بحث ہو رہی
تھی۔ ایک عرب دکاندار سے قیمت پر جھگڑ رہا تھا۔ یہاں کئی پنجابی دیہاتی بھی ت ھے جتتو
عربوں کے مقابلے میں بہت ڈیسنٹ نظر آرہے تھے۔ اس مستتجد میتتں ارد گتترد ک تے دی ہات
سے لوگ گروپوں کی صورت میں کھلی ہائی لکس گاڑیوں کے پیچھے بیٹھ کر بلکہ لٹک کر
نماز جمعہ کے لۓ آئے تھے۔ بچوں کے لئے کولڈ ڈرنکس لے کر میں واپس آگیا اور ہم نے اپنتتا
سفر دوبارہ شروع کیا۔
عرفات اور عکاظ کا بازار
تھوڑا سا آگے جاکر بائیں جانب ہمیں میدان عرفات نظر آیا۔ اس میدان کی خاص پہچتتان
اس میں لگا ہوا سبزہ ہے۔ حج کے دنوں میں یہاں ہر طرف سفید رنگ ہی نظر آتا ہے جتتو
حجاج کے احرام کا رنگ ہے۔ اس وقت یہ میدان ویران پڑا تھا۔ اس جانب حرم کتتی حتتدود
یہیں ختم ہوتی ہیں۔ اب ہم مکہ طائف موٹر وے پر پہنچ چکے تھے جو کہ من ٰی س تے ستتیدھی
یہاں آ رہی تھی۔ حج کے بعد اہل عرب "عکاظ" کے میدان میں جا کر خرید و فروخت کیتتا
کرتے تھے۔ یہ عرب کی سب سے بڑی تجارتی منڈی تھی جس میں پورے عرب سے تاجر آ
کر خرید و فروخت کیا کرتے تھے۔ عکاظ کا مقام طائف ریتتاض روڈ پتتر طتتائف ائر پتتورٹ
کے قریب واقع ہے۔ عکاظ کے علوہ ایک اور بڑا بازار’ذو المجاز‘ تھا جو حج ستے پہلتے لگتا
کرتا تھا اور اس سے فارغ ہو کر لوگ یہاں سے سیدھے من ٰی جا کر حج کیا کرتے تھے۔
سیل کبیر اور حرب فجار
جیسا کہ اوپر بیان کیا جا چکا ہے کہ مکہ سے طائف جانے کے دو راستے ہیں۔ ایک راستتتہ
تو یہی ہے۔ دوسرا راستہ جبل حرا سے شروع ہوتا ہے اور سیل کبیر کے راستے طائف کتتی
طرف جاتا ہے۔ یہ نسبتا ً لمبا راستہ ہے اور یہاں سے طائف تک تقریب تا ً ستتوا گھنٹتہ لگتتتا ہے۔
اس راستے میں پہاڑی سفر والی کوئی تھرل نہیں۔ میں ایک مرتبہ پہل تے اس راستتتے س تے
طائف جا چکا تھا۔ اس راستے پر خاص بات ’سیل کبیر ‘ ہے۔ ی تہ دور قتتدیم ستے ستتیلبوں
کی گزرگاہ رہی ہے۔ ان صحرائی پہاڑوں پر کئی کئی ستتال بتتارش نہیتتں ہوتی لیکتتن جتتب
ہوتی ہے تو پھر سیلب ہی آتا ہے۔ اسی وجہ سے اس کا نام سیل کبیر یعنی بڑا سیلب ہے۔
یہاں عرب کی مشہور تجارتی منڈیاں لگا کرتی تھیتں۔ استتی مقتام پتتر مشتہور ’جنتتگ
فجار‘ ہوئی تھی۔ عرب قبائل کے جنگجو مزاج کے باعث جھگڑا ہوا جو بڑھ کتتر جنتتگ کتتی
شکل اختیار کر گیا۔ اس میں ہوازن ،ثقیف اور قریش نے حصہ لیا۔ رسول الل تہ صتتلی الل تہ
علیہ و الہ و سلم کی عمر اس وقت صرف پندرہ برس تھی۔ چونکہ اس میتں قریتتش حتتق
پر تھے اس لئے آپ نے ان کا ساتھ دیا۔ آپ نے اپنے چچاﺅں کو تیر پکڑائے البتتہ ختود عملتی
جنگ میں حصہ نہ لیا۔
بالخر جنگ کا اختتام ،حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا زبیر بتتن عبتتد المطلتتب
151
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
کی کوششوں سے ایک صلح کے معاہدے سے ہوا جس میں شریک ہونے والے کئی افراد کا
نام ’فضل‘ تھا۔ اس وجہ سے یہ معا ہدہ ’حلتتف الفضتتول‘ کہلتتتا ہے۔ اپنتتی انستتان دوستتت
فطرت کے باعث حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو اس معاہدے سے اتنی خوشی ہوئی
کہ آپ فرماتے ” ،مجھے یہ معاہدہ سرخ اونٹوں کے ملنے سے زیادہ محبوب تھا۔“
مکہ سے طائف جانے کا دوسرا راستہ عرفات اور ہدا سے ہو کر طائف جاتتتا ہے۔ نبتوت
کے دسویں سال ،اپنے دعوتی سفر کے دوران حضور صلی الل تہ علی تہ و ال تہ و ستتلم استتی
راستے سے طائف تشریف لے گئے تھے۔ یہ مختصر راستہ ہے۔ اس پتتر ستتفر کرک تے تقریبتا ً
پینتیس چالیس منٹ میں طائف پہنچا جاسکتا ہے۔ یہ راستہ پ ہاڑی ای تڈونچر اور ت ھرل س تے
بھرپور ہے۔اپنے طائف کے سفر سے واپسی کتے دوران حضتتور صتتلی اللتہ علیتہ وستتلم نتے
سیل کبیر وال راستہ اختیار فرمایا تھا۔ یہاں وادی نخلہ میں آپ نے کچ تھ دیتتر قیتتام فرمایتتا
اور قرآن مجید کی تلوت فرمائی جسے جنات کے ایک گروہ نے سنا اور وہ ایمتان لتے آیتا۔
اسی واقعہ کا ذکر قرآن مجید کی سورہ احقاف میں ہے۔ جنات نے آپ سے قرآن سن کتتر
اپنی قوم میں جا کر تبلیغ کی۔ اس کے بعتتد جنتتات ک تے کئی وفتتود آپ کتتی ختتدمت میتتں
حاضر ہو کر ایمان لئے۔
مکہ طائف موٹر وے ایک طرف سے تین لین پر مشتمل تھی اور روڈ کی کوالتتٹی ب ہت
اچھی تھی۔ عرفات سے آگے نکلے تتتو ہمتتارے دونتتوں طتترف خوبصتتورت فتتارم ہاﺅستتز کتتا
سلسلہ شروع ہوگیا۔ اب ہمارے سامنے ایک بہت بڑا پہاڑی سلسلہ نظر آرہا تھا جو کہ کسی
قلعے کی فصیل کی مانند دائیں بائیں پھیل ہوا تھا۔ دس منٹ میں ہم اس فصتتیل تتتک جتتا
پہنچے۔ اس مقام کو میں نے ’ہدا‘ کے بیس کیمپ کتا خطتاب دیتا۔ اس مقتام کتی بلنتتدی
سطح سمندر سے تقریبا ً 2000فٹ ہے۔ بیس کیمپ پر موٹر وے ختم ہو جاتی ہے اور ایک
سنگل روڈ کی شکل اختیار کر جاتی ہے۔ یہ روڈ زگ زیگ انداز میں گھومتتی ہوئی فصتتیل
نما پہاڑ پر چڑھتی ہے۔پہاڑ کی چوٹی پر ’ہدا‘ کا مقام ہے جتتس کتتی بلنتتدی ستتطح ستتمندر
سے 6000فٹ ہے۔ یہ چڑھائی بیس منٹ میں طے ہوتی ہے۔ ان بیس منٹ میں مکتتہ ستتے
طائف کی جانب فاصلہ کم نہیں ہوتا لیکن انسان 4000فٹ کی بلندی کا ستتفر ط تے کتتر
لیتا ہے۔
غزو ہ حنین
بعض تاریخی روایات کے مطابق غزوہ حنین اسی بیس کیمپ کے قریب کسی وادی میتتں
ہوا تھا ۔ یہ وادی تاریخ کی کتابوں میں شہرت نہ پاسکی۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و التتہ و
سلم نے اس جنگ کا مال غنیمت مسجد جعرانہ کے مقتام پتتر تقستتیم کیتا ت ھا۔ یتہ مستتجد
سیل کبیر کے راستے کے قریب واقع ہے اس لۓ قرین قیاس یہی ہے ک تہ جنتتگ ستتیل کتتبیر
والی جانب ہوئی ہو گی۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی سرکردگی میں یہ آخری جنگ تھی جس میں
باقاعدہ مقابلہ بھی ہوا۔ اس دور کے عرب میں مکہ کے بعد طائف دوسرا بڑا شہر تھا۔ فتح
مکہ کے بعد حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم طائف کتتو فتتتح کرن تے ک تے ارادے س تے و ہاں
تشریف لے گئے۔ اب اسلمی لشکر کی تعداد 12000ہو چکی تھی جتتس میتتں فتتتح مکتہ
کے دس ہزار قدوسیوں کے علوہ مکہ کے دو ہزار نو مسلم ب ھی شتتامل ت ھے۔ اس علق تے
152
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
میں آباد بنو ہوازن ،بنو ثقیف ،بنو جشم ،بنو نضر اور بعض دوسرے چھوٹے متتوٹے قبتتائل
مقابلے پر آئے۔ اب وہ وقت نہ تھا کہ کفار کا لشکر اسلمی لشکر کے مقابلے پر زیادہ ہوتتتا۔
اب لشکر اسلم کے مقابلے میں ان کی تعداد بہت کم تھی۔ یہ جاہلیت کے پیروکاروں کتتی
عرب میں اسلم کے خلف آخری بڑی مزاحمت تھی۔
اپنے عظیم لشکر کے مقابلے میں معمولی سی قوت دیکھ کر بعض افراد یہ کہہ اٹ ھے ،
’ یہ کیا ہمارا مقابلہ کریں گے؟‘۔ یہ جملہ اللہ تعال ٰی کو پسند نہ آیا۔ چونکہ بنتتی استترائیل اور
بنی اسماعیل کا معاملہ اللہ تعال ٰی کے ہاں کچھ مختلف ہے اس لئے ان کی ہر غلطتتی کتتی
فورا اسی دنیا میں ہی پکڑ کی جاتی ہے۔ احد کی طرح یہاں بھی ایسا ہی معتتاملہ پیتتش
آیا۔ جب جنگ شروع ہوئی تو ہوازن نے تیر انتتدازی شتتروع کتتی۔ ی تہ اتنتتی ستتخت ت ھی کتہ
اسلمی لشکر میں بھگدڑ مچ گئی لیکن حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم اور چنتتد جلیتتل
القدر صحابہ ثابت قدم رہے۔
ابوسفیان رضی اللہ عنہ ،جو فتح مکہ سے قبل کفر کی ہر مزاحمت ک تے لی تڈر ت ھے ،اب
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے گھوڑے کی لگامیں تھامے سب لوگتتوں کتتو جمتتع
ہونے کے لئے کہہ رہے تھے۔ ہوازن کے تیر ان کی آنکھوں میں لگے اور ان کی آنکھیتتں شتتہید
ہوگئیں۔ اللہ تعال ٰی کی مدد آئی۔ حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم اور آپ کے جلیل القتتدر
صحابہ کی ثابت قدمی کے باعث لشکر دوبارہ اکٹھا ہوا اور اس نے ان قبائل کتتو شکستتت
دی۔ قرآن مجید میں اس کا ذکر کچھ یوں آیا ہے:
اللہ اس سے پہلے بہت سے مواقع پر تمہاری مدد کر چکا ہے جیسے حنین کتے دن۔ اس روز
تم اپنی کثرت تعداد پر اترا گئے مگر وہ تمہارے کچھ کام نہ آئی اور زمین اپنی وسعت کتتے
باوجود تم پر تنگ ہوگئی اور تم پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے۔ پ ھر الل تہ ن تے اپنتتی ستتکینت اپن تے
رسول اور مومنوں پر نازل کی اور وہ لشکر اتارے جو تمہیں نظر نہ آتے تھے۔ پھر منکرین
حق کو سزا دی کہ یہی بدلہ ہے ان لوگوں کے لئے جو حق کتتا انکتتار کریتتں۔ “ )تتتوبہ -9:24
( 26
اس جنگ کے بعد عرب کی قسمت کا فیصلہ ہوگیا کہ اب اس تے دار الستتلم بننتتا ہوگتتا۔
ایک سال کے عرصے میں ہی باقی عرب قبائل کے وفود مدینہ حاضتتر ہوئے اور ان ہوں ن تے
اسلم قبول کیا۔ صرف دو برس کے اندر مسلمان مردوں کی تعداد 12000سے بڑھ کتتر
سوا لکھ تک پہنچ گئی۔ یہ وہ لوگ ہیں جو 10ھ کے حتتج میتتں شتتریک ہوئے۔ عتترب ک تے وہ
افراد جو اس حج میں شامل نہ تھے ،اس کے علوہ ہیں۔
زید بن حارث ہ رضی الل ہ عن ہ
مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کا سفر طائف یاد آنے لگا۔ اس سفر میں آپ
کے ہمراہ صرف سیدنا زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ تھے۔ یہ واحتتد صتتحابی ہیتتں جتتن کتتا نتتام
قرآن مجید میں آیا ہے۔ ایمان لنے والوں میں سیدنا ابتتوبکر ،ختتدیجہ اور علتتی رضتتی الل تہ
عنہم کے بعد چوتھے ہیں۔ انہیں بچپن میں کسی بردہ فروش نے اغوا کرکے غلم بنا لیا تھا۔
بعد میں کئی ہاتھوں میں فروخت ہوتے ہوئے ستتیدہ ختتدیجہ رضتتی اللتہ عن ہا کتے پتتاس آئے
جنہوں نے انہیں حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی خدمت میں پیش کر دیا۔
آپ نے ان سے غلموں جیسا برتاﺅ نہ رکھا بلکہ اپنے بیٹوں جیسا سلوک کیا۔ ان کے والد
153
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
انہیں ڈھونڈتے ہوئے آپ تک آ پہنچتے اور منتہ متتانگی قیمتتت کتے عتتوض ان کتتی واپستتی کتتا
مطالبہ کیا۔ آپ نے جواب دیا ” ،زید سے پوچھ لو۔ اگر وہ جانا چاہے تو میں کوئی قیمتتت نتہ
لوں گا۔“ باپ بیٹے کی ملقات ہوئی۔ زید نتے حضتتور صتتلی اللتہ علیتہ و التہ و ستتلم کتتا در
چھوڑنے سے انکار کردیا اور والد کو بتایا کہ اتنتی محبتت آپ ب ھی مج ھے نہیتں دے ستکتے
جتنی مجھے حضور نے دی ہے۔ والد بھی مطمئن ہو کر چلے گئے۔ اس واقعہ کے بعد حضور
صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے انہیں اپنا بیٹا بنا لیا۔
عرب میں عام دستور تھا کہ منہ بولے بیٹوں کے ساتھ بالکل حقیقی بیٹتتوں وال ستتلوک
کیا جاتا۔ انہیں وراثت میں بھی حصہ ملتا جس کی وجہ سے اصل وارث محتتروم رہ جتتاتے۔
حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے زید کی شادی اپنی پھوپھی زاد بہن زینب بن جحتتش
رضی اللہ عنہا سے کی تھی۔ ان میں نبھ نہ سکی اور زیتتد کتتو انہیتتں طلق دینتتا پتتڑی۔ اللتہ
تعال ٰی کے حکم کے مطابق حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کو سیدہ زینب سے نکاح کرنا
پڑا تاکہ اس رسم کا خاتمہ کیا جاسکے۔ قرآن مجید کے مطابق منہ بتتولے بیٹتتوں ک تے ستتاتھ
اگرچہ اچھا سلوک کرنے میں کوئی حرج تو نہیں ہے لیکن انہیں اپنے اصل والد کتتی نستتبت
ہی سے پکارا جانا چاہئے۔ اس سے یہ بھی معلوم ہوا کہ جاہلنہ رسموں کے خاتمے کے لئے یہ
ضروری ہے کہ قوم کے راہنما خود ان رسموں کتو تتوڑنے کتے لئے ذاتتی اقتدام کریتں تتاکہ
لوگوں کے لئے مثال قائم کی جا سکے۔
حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کے زمانے میں یہ پ ہاڑی ٹریتتک محتتض ایتتک تنتتگ ستتا
راستہ ہوگا جس سے گھوڑے وغیرہ گزرتے ہوں گے۔ بعض روایات کے مطابق آپ پیتتدل ہی
روانہ ہوئے تھے۔ چار ہزار فٹ کی بلندی پر پہنچنا کتنا مشکل کام رہا ہوگا۔ سفر کتتی اتنتتی
صعوبتیں برداشت کرنے کے باوجود یہ اہل طائف کی بے مروتی کہیے یا سخت دلی کہ ایک
غلم کے سوا کسی کو ایمان لنے کی توفیق نہ ہوئی۔
انہوں نے محض آپ کی دعوت سے انکار ہی نہ کیا بلکہ ان کے اوباشوں نے آپ پر پت ھر
بھی برسائے۔ قریب تھا کہ اللہ تعال ٰی کا عذاب ان پر آئے ،لیکن حضورصلی اللہ علیہ و الہ و
سلم نے ان کے حق میں دعا فرمائی اور یہ امید ظاہر کی کہ ان کی نسل میں اہل ایمتتان
پیدا ہوں گے۔آپ کی اس امید کے عین مطابق صرف 11برس بعد اہل طائف نتتے استتلم
قبول کرلیا۔ ان کی نسل سے کئی مشہور لوگ پیدا ہوئے۔ فاتح سندھ محمد بن قاستتم کتتا
تعلق بھی اسی نسل سے تھا۔
افسوس جس دین کی ختاطر حضتور صتلی اللتہ علیتہ و التہ و ستلم نتے اتنتی تکتالیف
برداشت کیں اس کی آج اس کے ماننے والوں کے نزدیک قدر نہ رہی۔ اس سے دین کو تتتو
کوئی فرق نہیں پہنچتا البتہ یہ ہماری محرومی کی انتہا ہے۔
ہدا
ہم اب چڑھائی کا سفر طے کرنے لگے۔ 4000فٹ اوپر ہدا کے مقام سے کیبل کتتار بیتتس
کیمپ تک آ رہی تھی۔ یہ بھی اپنی نوعیت کا سنسنی خیز تجربتہ ہوگتا۔ نیچتے ایتتک فیملتی
پارک تھا جہاں کیبل کار کا پوائنٹ بنا ہوا تھا۔ دوسرے عرب پہاڑوں کتے بتتر عکتتس یتہ پ ہاڑ
کافی سرسبز تھا۔ راستے میں پانی کے کئی پہاڑی راستے نظر آ رہے تھے۔ ہمتتارے شتتمالی
علقہ جات کے چشموں کی طرح یہ ہر وقت تو نہ چلتے تھے البتہ بارش ک تے وقتتت ان میتتں
154
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ضرور پانی نظر آتا تھا۔ اس وقت یہ خشک تھے۔ روڈ بل کھاتی ہوئی اوپر جارہی تھی۔
میں اور میری اہلیہ تو پہاڑی سفروں کتے عتتادی ت ھے لیکتتن میتترے بچتتوں کتے لئے اپنتے
شعور میں یہ پہل تجربہ تھا۔ روڈ کے ایک طرف گہری کھائی کو دیکھ کر ان کا خون خشتتک
ہو رہا تھا جو ہر پل مزید گہری ہوتی جارہی تھی۔ اس چڑھائی کو دیکھ کر مجھے مالم جبہ
اور شوگران کی چڑھائیاں یاد آئیں۔ یہاں ان کی نسبت سبزہ کافی کم تھا لیکن روڈ ویسا
ہی تھا۔ اس روڈ کی کوالٹی بہت اچھی تھی۔ دو طرفہ ٹریک اتنا چوڑا تھہہا ک تہ تیتتن گاڑیتتاں
ایک ساتھ گزر سکتی تھیں۔ کھائی والی جانب مضبوط بلک لگے ہوئے تھے۔ ہمتتاری پ ہاڑی
سڑکوں میں اس معیار کی سڑک ’قراقرم ہائی وے ‘ ہی ہے یا پھر زلزلے سے پہلے کاغتتان
روڈ ہوا کرتی تھی۔ اب اس روڈ کو بھی دو رویہ کیا جا چکا ہے۔
ہم آہستہ آہستہ بلند ہوتے چلے جارہے تھے۔ آٹو میٹک گیئر والی گتتاڑی اب کچ تھ دشتتواری
محسوس کررہی تھی۔ میں نے پہاڑی ٹریکس کے مخصوص گیئرز میں سے پہل گیئر لگایا۔
انجن کی ریوولیشن میں اضافہ ہوا اور گاڑی ہموار ہوگئی۔ ہم 60کلومیٹر فتی گھنٹتہ کتی
رفتار سے بلندی کا سفر طے کر رہے تھے۔ چوٹی پتر پہنچنتے ستے کچتھ دیتر قبتل روڈ ڈبتل
ہوگئی۔ یہاں پہاڑ کے گرد پل بنا کر روڈ کی توسیع کی گئی تھی۔ جیسے ہی ہہہم چتتوٹی پتتر
پہنچے ،براﺅن رنگ کے ہر سائز کے بندروں کے ایک غول نے ہمارا پرجوش استقبال کیتتا۔ ی تہ
مسکین صورت بنائے روڈ کے کنارے بیٹھے تھے۔ بچے ان بندروں کو دیکھ کر بہت پتتر جتتوش
ہوگئے تھے۔ چونکہ یہ بندر روڈ کے دوسری طترف تھہہے ،اس لئے میتں یتو ٹتترن لتے کتتر اس
طرف آیا۔ یہاں چار ہزار فٹ گہرا بیس کیمپ صاف نظر آر ہا ت ھا۔ اس گ ہرائی کتا انتدازہ
اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اگر بیس کیمپ سے چوٹی تک ایک عمتتارت بنتتائی جتتائے
تو اس کی چار سو منزلیں بن سکتی ہیں۔ یہ عمارت دنیا کی موجودہ بلنتد تریتن عمتارت
سے چار گنا بلند ہو گی۔
155
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہدا کی چڑھائی
چونکہ لوگ ان بندروں کو ک ھانے پینتے کتتی اشتتیا دیتتے ہیتتں ،استتلئے یتہ ستتارا دن یہیتتں
براجمان رہتے ہیں۔ کوک کا ٹن کھولنا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔یہاں کئی لتتوگ گاڑیتتاں
روک کر اترے ہوئے تھے۔ کئی اپنے موبائل کیمروں کی متدد ستے ان کتی تصتاویر لتے ر ہے
تھے۔ کچھ خواتین بندروں کے درمیان بیٹھ کر تصاویر بنوا رہی تھیں۔ بچے ان کے آگے کھانے
پینے کی اشیا پھینک رہے تھے اور بندر انہیں جھپٹنے میں مصروف تھے۔ بعتتض عتترب لڑک تے
بھی ہاہا ہو ہو کرتے آگئے اور بندروں کو تنگ کرنے لگے۔
156
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہم پھر گھوم کر ہدا کی طرف روانہ ہوئے۔ اللہ تعال ٰی کی قتتدرت دیکھئے کتہ فصتتیل نمتتا
پہاڑ کی چوٹی پر وسیع و عریض میدان تھا جس میں کہیں کہیں چوٹیاں نکلی ہوئی تھیں۔
اس مقام کو ’ہدا‘ کہتے ہیں۔ اسی میدان میں بیس کلومیٹر کے فاصلے پر طائف کتتا ش تہر
تھا۔ وادی ہدا کی اصل خوبصورتی اس کا کنارہ ہے جس کے ساتھ ایتتک دم چتتار ہزار فتتٹ
کی گہرائی ہے۔ دور گہرائی میں سنہری ریت کے بیک گراﺅنڈ میں سیاہ مکہ روڈ نظتتر آر ہی
تھی۔ تھوڑ اسا آگے جاکر پھلوں کی بے شمار دکانیں آئیں جن میتتں ب ہت ہی ترتیتتب ستے
رنگ برنگے پھل چنے ہوئے تھے۔
ذرا سا آگے دائیں جانب ہدا رنگ روڈ نکل رہا ت ھا۔ یتہ نصتتف دائرے کتتی شتتکل کتتی روڈ
تھی جو وادی ہدا کا چکر لگا کر پھر گھوم کر مکہ طائف روڈ پر آملتی تھی۔ ہم بھی رنتتگ
روڈ پر ہو لئے۔ یہیں ایک فائیو سٹار ہوٹل تھا۔ دائیں طرف کئی روڈز نکل رہی تھیں جن پر
شوخ رنگوں کے ریزارٹ بنے ہوئے تھے۔ ایک جگہ سعودی ائر فورس کتتا کتتوئی ستتنٹر ت ھا۔
ایک روڈ کافی اوپر پہاڑوں میں جارہا تھا۔ ہم اسی پر ہولئے۔ کافی بلندی پتتر پہنتتچ کتتر روڈ
بند ہو رہا تھا۔ یہاں ایک فیملی نے خیمہ لگایا ہوا تھا۔ ہم نے بھی وہیں گاڑی روکی ۔ آسمان
پر گھنے بادل اکٹھے ہو رہے تھے۔ ہم نے گاڑی کی سن روف اور تمتتام شیشتے ک ھول دیتے۔
157
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
بچوں کو وہیں چھوڑ کر میں اور اہلیہ ہائکنگ کے لئے روانہ ہوگئے۔
وادی ہدا کو اگر سبزہ ،خوشبو ،خنکی اور گھنے بادلوں کا مجموعہ کہا جائے تو غلط نتتہ
ہوگا۔ پہاڑی ٹریک پر ہمیں بہت سے پرندے دیکھنے کو ملتے۔ زمیتتن پتتر انتتواع و اقستتام کتے
کیڑے مکوڑے نظر آرہے تھے۔ ان میں سے کئی افزائش نسل میں مشغول ت ھے۔ وادی ہدا
کی خوبصورتی کو دیکھ کر ہم نے فیصلہ کیا کہ ہم بھی خیمہ خریدیں گے اور سردیوں میں
یہاں آ کر شدید سردی اور دھوپ کو انجوائے کریں گے۔ تھوڑی دیتتر میتتں ایتتک بتتڑی ستتی
گاڑی بھی یہاں آ پہنچی۔ یہ ایک بتتڑی جتتی ایتتم ستتی ویگتتن ت ھی۔ اس نستتل کتتی ویگنیتتں
پاکستان میں نہیں پائی جاتیں۔ اس کے اندر ایک موبائل ریسٹورنٹ بنا ہوا تھا۔ ہم نتتے اس
سے کون اور کارن فلیکس لئے۔ عصر کی اذان ہو رہی تھی چنانچہ ہم مسجد کتتی طتترف
روانہ ہوئے۔
مسجد کے پاس کافی آبادی تھی۔ ماحول ہمارے شمالی علقہ جات کے کسی گاﺅں کتتا
سا تھا۔ خواتین کا مصل ٰی دوسری منزل پر تھا۔ نماز کے بعتد میتں نتے امتام صتاحب ستے
’مسجد عداس‘ کے بارے میں دریافت کیا۔ فرمانے لگے” ،وہاں جانا تو گمراہی ہے۔ رستتول
اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے صرف تین مسجدوں کی طتترف ستتفر کتتی اجتتازت دی
ہے۔“ مجھے جتنی عربی آتی تھی ،اس کا زور لگا کر میں نے انہیں سمجھانے کی کوشتتش
کی کہ اس حدیث پر میرا بھی ایمان ہے۔ میں یہ سفر ثواب یا زیارت کتتی نیتتت س تے نہیتتں
بلکہ محض سیاحت کے طور پر کر رہا ہوں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ میں رسول اللہ صلی اللہ
علیہ و الہ و سلم سے تعلق رکھنے والے مقامات کے بتتارے میتتں ایتتک کتتتاب لک تھ ر ہا ہوں۔
آدمی معقول تھے۔ میری بات ان کی سمجھ میں آگئی اور انہوں نے مجھے مسجد عتتداس
کا راستہ بتا دیا۔ قارئین کی سہولت کے لئے میں اس راستے کی تفصیل بھی لکھ رہا ہوں۔
مثنا ۃ اور مسجد عداس
ہدا سے طائف جانے والی روڈ جب طائف ہی حدود میں داخل ہوتی ہے تو ستتب ستے پہلتے
طائف کے رنگ روڈ سے واسطہ پڑتا ہے۔ یہ مکمل گول رنگ روڈ نہیں بلکہ نصف دائرے کتتی
شکل میں طائف کے گرد پھیل ہوا ہے۔ ہم لوگ رنگ روڈ سے دائیتتں جتتانب متتڑے۔ ی ہی روڈ
سیدھا ’شفا‘ کی طرف جاتا ہے۔ تھوڑی دور جا کر کنگ عبد العزیز ہسپتال آگیا۔ اس س تے
اگلے ایگزٹ سے ہم رنگ روڈ سے نکل کر بائیں جانب شہر کی طرف روانہ ہوئے۔
تھوڑا دور جا کر مثناۃ کا علقہ آگیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علی تہ و ال تہ و ستتلم کتے زمتتانے
میں طائف یہاں آباد تھا۔ روڈ کے اوپر ہی ایک قتتدیم مستتجد نظتتر آر ہی ت ھی۔ دارالستتلم
پبلشرز کی شائع کردہ ’اطلس سیرت نبوی‘ میں اسی مسجد کی تصویر دی گئی ہے اور
بتایا گیا ہے کہ یہی مسجد عداس ہے۔ میں نے قریب کھڑے ایک پانی کے ٹینکر کے پاکستانی
ڈرائیور سے مسجد کے بارے میں پوچھا۔ وہ کہنے لگا کہ اصل مسجد عداس آبادی کے انتتدر
ہے۔ چنانچہ ہم لوگ ٹینکر کے پیچھے آبادی میں داخل ہوئے۔
یہ علقہ اب طائف کا مضافاتی علقہ ہے۔ پورا علقہ میں زرعی فارم پھیل تے ہوئے ت ھے۔
آگے گلیاں تنگ تھیں اور ماحول بالکل پنجاب کے دیہات جیسا تھا۔ ہم لوگ گاڑی ایتک جگتہ
کھڑی کرکے پیدل روانہ ہوئے۔ ہمتتارے دی ہات کتتی طتترح لڑک تے ٹولیتتوں کتتی صتتورت میتتں
دیواروں بلکہ ’بنیروں‘ پر بیٹھے تھے۔ سامنے ہی ’مسجد عداس‘ تھی جو خاصی پرانتتی ہو
158
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
چکی تھی۔
روڈ کے کنارے ایک چھوٹی سی پہاڑی تھی۔ مقامی لوگوں سے میں نتے گفتگتتو کتتی تتتو
انہوں نے بتایا کہ طائف کے اوباش اس پہاڑی کے پاس چھپے بیٹھے تھے۔ جب حضتتور صتتلی
اللہ علیہ و الہ و سلم یہاں پہنچے تو انہوں نے آپ پر پتھر برسائے۔ سیدنا زید رضی اللتتہ عنتتہ
نے اپنے جسم کو ڈھال بنا کر ان پتھروں کو روکنے کی کوشش کی ۔ حضور صلی اللہ علیہ
و الہ و سلم اور سیدنا زید کافی زخمی ہو کر اس مقام پر آئے ج ہاں اب مستتجد عتتداس
ہے۔ اس زمانے میں یہاں مکہ کے رئیس عتبہ اور اس کے بھائی شیبہ کا باغ ہوا کرتا تھہہا۔ یتتہ
دونوں وہیں موجود تھے۔ یہ لوگ بھی اگرچہ اسلم دشمنی میں پیش پیش ت ھے لیکتتن ابتتو
لہب اور ابوجہل کے مقابلے میں کمینی فطرت کے مالک نہ تھے۔ اپنے شہر کے دو افراد کتتو
اس حالت میں دیکھ کر انہیں افسوس ہوا اور انہوں نے اپنے غلم ’عداس‘ کے ہاتھ آپ کتتو
انگور بھجوائے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے اپنی دعوت عداس کے ستتامنے پیتتش کتتی۔ یتہ
عتبہ کے غلم تھے اور اس باغ کی رکھوالی کیا کرتے تھے۔ مذہبا ً عیسائی تھے۔ ان کا تعلتتق
نینوا سے تھا۔ جب انہوں نے یہ بتایا تو حضور صلی اللہ علیہ و الہ و سلم نے فرمایتتا” ،وہ تتتو
میرے بھائی یونس بن متی علیہ السلم کا شہر ہے۔“ آپ کی دعوت پر عتتداس رضتتی الل تہ
عنہ فورا ً ایمان لئے ۔
جس مقام پر آپ اور زید بیٹھے تھے ،اسی مقام پر بعتتد میتتں مستتجد عتتداس بنتتا دی
گئی جو آج بھی موجود ہے۔ انہوں نے آپ کے سر اور پاﺅں کو بوسہ دیا۔ عتبہ اور شتتیبہ اس
بات پر ان سے ناراض ہوئے اور انہیں آپ سے دور رہنے اور اپنے مذہب پتتر قتتائم رہنتے کتتی
نصیحت کی۔ اس واقعہ کے پانچ سال بعد عتبہ و شیبہ جنتتگ بتتدر ک تے لئے روانتہ ہوئے۔ ا ہل
کتاب ہونے کے ناتے عداس اللہ تعال ٰی کے اس قانون سے اچھی طرح واقف تھے کتہ رستتول
کا مقابلہ کرنے والوں کو ہلک کردیا جاتا ہے۔ انہوں نے پاﺅں پکڑ کر اپنے آقتتاﺅں کتتو روکن تے
کی کوشش کی لیکن یہ لوگ مقابلے پر نکلے۔ عتبہ ،سیدنا حمزہ رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں
مارا گیا اور شیبہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے ہاتھوں۔ ابوسفیان کی زوجہ ہنتتد رضتتی الل تہ
عنہا بھی اسی عتبہ کی بیٹی تھیں۔ اپنے باپ کا انتقام انہوں نے جنگ احد میں سیدنا حمتتزہ
رضی اللہ عنہ کا کلیجہ چبا کر لیا لیکن فتح مکہ کے دن وہ اسلم لئیں۔ چونکہ انہیں رستتول
اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و سلم کی ساس ہونے کا شرف ب ھی حاصتتل ت ھا اس لئے آپ کتے
ساتھ ان کا ہنسی مذاق کئی روایات میں مذکور ہوا ہے۔
غزو ہ طائف
مقامی لوگوں نے بتایا کہ یہ پورا علقہ عتبہ و شیبہ کا باغ تھا۔ اس وقت بھی یہ علقہ دو تین
بڑے بڑے فارم ہاﺅسز پر مشتمل تھا۔ میرے سامنے حضور صلی اللہ علیہ و التہ و ستلم کتی
سیرت طیبہ کے مناظر پھر گردش کرنے لگے۔ اہل طائف کی اس بدتمیزی کے بعد جبریتتل
علیہ السلم آئے اور کہنے لگے" ،اگر آپ کہیں تو اسی پہاڑی کو اہل شہر پر گتترا کتتر انہیتتں
ہلک کردیا جائے۔" آپ نے اس سے منع فرمایا اور امید ظاہر کی کہ ان لوگتتوں کتتی نستتل
میں اہل ایمان ہوں گے۔ اس واقعہ کے ٹھیک 11برس بعدآپ نے طائف پتتر چڑ ھائی کتتی۔
اس وقت مکہ فتح ہو چکا تھا اور اہل طائف اپنے حلیف قبائل ک تے ہمتتراہ حنیتتن کتتی جنتتگ
159
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
160
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
سے تھا جنہوں نے واقعہ کربل کا بھرپور سیاسی فائدہ اٹھایا۔ اس نے بنو امیہ کتتی حکتتومت
کے خلف علم بغاوت بلند کیا اور چن چن کر قاتلین حسین کو ہلک کیتتا۔ اس س تے اس تے
بہت مقبولیت حاصل ہوئی۔ بعد ازاں اس نے عراق پر اپنا اثتتر و رستتوخ مضتتبوط کیتتا اور
پھر نبوت کا دعو ٰی کر دیا۔ جب سیدنا عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہما کی حکومت قتتائم
ہوئی تو ان کے بھائی مصعب بن زبیر رضی اللہ عنہما نے اس فتنے کا خاتمہ کیا۔
طائف کی تاریخ کے بارے میں سوچتے اور باتیں کرتے ہم لوگ مسجد ابن عباس رضی
اللہ عنہما کی طرف روانہ ہوئے۔
مسجد ابن عباس
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و ستتلم ک تے چچتتا
عباس کے بیٹے اور مشہور صحابی ہیں۔ آپ کی وفات کے وقت یہ ابھی بچے تھے۔ عبتتداللہ،
سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے خاص شاگرد تھے۔ نوجوانی کے عالم میں بتتزرگ صتتحابہ کتتی
مجلس مشاورت میں شریک ہوتے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و الہ و ستلم نتے انہیتں ’حتتبر
المۃ‘ یعنی امت کے بڑے عالم کا خطاب دیا تھا۔ آپ ستتیدنا علتتی رضتتی اللتہ عنتہ کتے دور
میں مکہ کے گورنر بھی رہے۔ بعد میں آپ نے مکہ میں رہنے ہی کو ترجیح دی۔
جب سیدنا حسین رضی اللہ عنہ کوفہ کے لئے روانہ ہوئے تو ابتتن عبتتاس ن تے انہیتتں و ہاں
جانے سے بہت منع کیا۔ یہاں تک کہ جب آپ روانہ ہوئے تو ابتتن عبتتاس ،ان کتے گ ھوڑے کتتی
لگام پکڑ کر ساتھ دوڑتے گئے اور انہیں قائل کرنے کی کوشش کرتے ر ہے۔ بعتتد ازاں ،آپ
کے اندیشے درست ثابت ہوئے اور اہل کوفہ کی بے وفائی کے باعث آپ کو کربل میں شہید
کر دیا گیا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کی پتتوری عمتتر قتترآن ستتمجھنے اورستتمجھانے میتتں
گزری۔ آخری عمر میں آپ نابینا ہوگئے۔ کسی نے آپ کو طائف شفٹ ہونے کا مشورہ دیتتا
جو آپ نے قبول کیا۔ مکہ کے سخت گتترم موستتمی حتتالت کتے مقتتابلے میتتں طتتائف ایتتک
پرفضا پہاڑی مقام ہے۔ یہیں آپ کی عمر کتے آختتری ایتتام گتتزرے اور آپ نتے وفتتات پتتائی۔
جس مقام پر آپ کی قبر تھی ،اس کے قریب آپ سے منسوب مستتجد تعمیتتر کتتی گئی۔
موجودہ طائف میں یہ مسجد ،شہر کے مرکز میں واقع ہے اور شہر کے ’فیس لینتتڈ متتارک‘
کا درجہ رکھتی ہے۔
ٹریفک میں پھنسنے کے باعث ہم لوگ نماز کے کچھ دیر بعد مسجد ابن عبتتاس پہنچتتے۔
مسجد کی وسیع و عریض پارکنگ میں گاڑی کھڑی کرکتے ہم مستتجد میتتں داختتل ہوئے۔
اتنی بڑی مساجد دنیا میں بہت کم ہوں گی۔ دوسری جماعت میں نمتتاز پڑھن تے کتتا موقتتع
مل۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہ کی قبر اب ایک بند کمرے میں واقع ہے جتتس پتتر تتتالہ
لگا ہوتا ہے۔ اس کے بعدمیں نے احادیث میں مروی زیارت قبور کے لئے پڑ ھی جتانے والتی
دعا پڑھی۔
میرے کزن ابرار ان دنوں طائف میں مقیم تھے۔ میں نے موبائل پر ان ستے مغتترب کتتا
وقت طے کیا تھا۔ ان سے بھی یہیں ملقات ہوئی۔ وہ ہمیتتں لتے کتتر قریتتب ہی بختتاریہ کتے
علقے میں واقع ایک پاکستانی ہوٹل پر لے گئے۔ یہ پٹھانوں کا ہوٹل تھا۔ یہاں کے فیملی ہال
161
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
میں بیٹھ کر ہم نے کڑاہی گوشت کا آرڈر دیا۔ جب کڑاہی چکھی تو اس کا ذائقہ پشاور کی
نمک منڈی کی کڑاہی جیسا معلوم ہوا۔
شفا
طائف کے قریب ہی شفا کا پرفضا مقام ہے۔ طائف کی طرف اپنے پہلے ستتفر کتتے دوران
ہم ’سیل کبیر‘ کے راستے طائف پہنچے تھے۔ شہر سے گزر کتتر ہہہم شتتفا کتتی جتتانب روانتہ
ہوئے ۔ طائف سے شفا تک دو رویہ فور لین موٹر وے بنی ہوئی ہے۔ جب ہم شفا کے قریتتب
پہنچے تو ایسی چڑھائی نظر آئی جتتو بالکتتل ستتیدھی ت ھی۔ روڈ کتے دونتتوں جتتانب گ ہری
کھائیاں تھیں۔ ایسا معلوم ہو رہا تھا کہ ہم ایک ایسی دیوار پر چل رہے ہیں جتتو بلنتتد ہوتی
جارہی ہے۔ چڑھائی کا اختتام شفا رنگ روڈ پر ہوا۔
وادی شفا ایک نہایت ہی خوبصورت اور پر فضا مقام ہے۔ رنگ روڈ بالکتتل گتتول شتتکل
میں وادی کے گرد بنایا گیا ہے اور تمام ہوٹل وغیرہ اس پر واقع ہیتتں۔ رنتتگ روڈ ستے اد ھر
ادھر چھوٹی سڑکیں نکلتی ہیں جو مختلف ریزارٹس تک جاتی ہیں۔ ہم لتتوگ ایتتک عتترب
ریسٹورنٹ پر رکے جہاں کے تمام ملزم پاکستانی تھے۔ میں نے یہاں سے ’مندی‘ خریتتدی۔
یہ ہماری ’سجی‘ سے ملتی جلتی ایک عرب ڈش ہوتی ہے۔ عرب لوگ سالم بکرے کو ذبتتح
کرکے اس کی کھال اتارنے کے بعد دہکتے پتھروں کے درمیان دفن کتتر دیت تے ہیتتں۔ پت ھروں
کی گرمی سے گوشت پک جاتا ہے۔ اس کے بعد اس گوشت ک تے ٹکتتڑے کتتر ک تے روٹتتی یتتا
بخاری پلﺅ کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں۔
یہاں کے ہوٹلوں میں بیٹھنے کا رواج نہ تھا۔ ہم نے ہوٹل والے سے برتتتن مستتتعار لئے اور
کھانا لیکر گھنے سبزے کے درمیان آ بیٹھے۔ ہم لوگوں کے لئے سالم بکرے کا تصور بڑا لذیذ
تھا لیکن جب یہ سامنے آیا تو بچوں نے اسے کھانے سے انکار کر دیا۔ اس کی وجہ یہ تھی کہ
سالم بکرے کا گوشت ،اس طرح صاف نہیں ہوتا جیسا کہ ہم عتتام طتتور پتتر ک ھاتے ہیتتں۔
اس میں گوشت کے علوہ چربی ،ریشہ اور وہ سب کچھ ہوتا ہے جتتو ہمتتارے قصتتاب ب ھائی
صاف کرکے دیتے ہیں۔ شاید اسی لئے یہ اسے ’مندی‘ کہتے ہیں جو پنجابی میں ’چنگی‘ کے
متضاد کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔ عرب لوگ ہڈیوں کتے علوہ یتہ ستتب کچتھ ک ھا جتتاتے
ہیں ۔ ہم نے پکے ہوئے گوشت سے یہ سب آلئشیں صاف کیتتں اور پھہہر اس تے چتتاولوں کتے
ساتھ کھایا۔ سلد اور سرکے والے اچار کے ساتھ مندی بہت لذیذ محسوس ہوئی۔
مندی کھا کر ہم وادی کے مختلف گوشوں کا جائزہ لینے لگے۔ پرفضا مقامات پر ہماری
دلچسپی ہمیشہ قدرتی ماحول سے رہی ہے۔ ایک روڈ نیچے اتر رہی تھی۔ جتتب ہم اس پتتر
گئے تو یہ نیچے ہی اترتی گئی۔ تھوڑی دیر میں ہم ایک اور سر سبز وادی میں تھے۔ ہم ن تے
یہیں ڈیرہ لگانے کا ارادہ کیا۔ بچے وادی میں کھیلنے لگے اور میں اپنی اہلیہ کے ساتھ ہائکنتتگ
میں مصروف ہوگیا۔ وادی میں ہر طرف سبزہ پھیل ہوا تھا۔ یہ ہمتتارے شتتمالی علقتہ جتتات
جیسا علقہ تو خیر نہیں تھا جہاں پہاڑ مکمتل طتور پتر ستبزے ستے ڈھکتے ہوتے ہیتں۔ البتتہ
پاکستان میں اسے زیارت سے تشبیہ دی جا سکتی ہے۔ یہاں سبزے کے بیچ پہاڑوں کا اصتتل
رنگ نمایاں تھا۔ کیمپنگ کے لئے یہ مقام آئیڈیل تھا۔
اب ہم اس وادی سے آگے روانہ ہوئے۔ بل کھاتی ہوئی سڑک اوپر چڑھتی جا رہی ت ھی۔
راستے میں ایک جگہ رک کر ہم نے عصر کی نماز ادا کی۔ سڑک کا اختتام پہاڑ کی چتتوٹی
162
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
پر ہوا جہاں ایک عرب اور ایک خان صاحب کھڑے تھے۔ مج ھے گیتتٹ نظتتر نتہ آیتتا اور میتتں
گاڑی کو سیدھا اندر لے گیا۔ یہ ان صاحب کا گھر تھا۔ میں نتے ان ستے بتتڑی معتتذرت کتی
لیکن وہ خندہ پیشانی سے پیش آئے۔ یہ صاحب طائف کے رہنے وال تے ت ھے اور ان ہوں ن تے ی تہ
گھر اپنی تفریح کے لئے بنایا تھا۔ یہ پہاڑ اور اس کے گرد و نواح کا علقہ ان ہی کتتی ملکیتتت
تھا اور خان صاحب کو انہوں نے بطور نگران یہاں ملزمت دی ہوئی تھی۔
ان صاحب کی فیملی بھی وہیں تھی۔ انہوں نے ہمیں چائے کی بھرپور دعوت دی۔ میں
نے معذرت کر لی۔ انہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ ہم لوگ نیچے اتر کر ان کتتا فتتارم ہاؤس
دیکھ آئیں جو ان کے گھر سے تقریبا ً سو فٹ کی گہرائی میں واقعہ ت ھا۔ ہم ختتان صتتاحب
کے ساتھ وہاں روانہ ہوئے۔ یہ نہایت ہی خوبصورت فارم تھا۔ اس میں بتتارش ک تے پتتانی کتتو
جمع کرنے کے لئے ایک پختہ تالب تھا جس سے موٹر کے ذریعے پانی اوپر گ ھر تتتک پہنچایتتا
جاتا تھا۔ خان صاحب نے اپنے لئے یہاں ایک کمرہ تعمیر کیا ہوا ت ھا اور طویتتل عرصتے ستے
تن تنہا یہیں مقیم تھے۔ ایسے لوگ فطرت کے ماحول میں رہتے ہوئے فطتترت کتتا حصتہ بتن
جاتے ہیں۔ یتہ لتوگ آہستتتہ آہستتہ موستم ،دریتتا ،نتتدی نتتالے ،پ ہاڑوں اور چٹتانوں کتی زبتتان
سمجھنے لگتے ہیں اور ان کے حواس بہت تیز ہو جاتے ہیں۔ آستتمان ک تے بتتدلتے ہوئے رنتتگ
سے یہ بارش کا اندازہ لگانے کی صلحیت رکھتے ہیں۔ مجھے ایسے کئی لوگ شمالی علق تہ
جات میں ہائکنگ کے دوران ملے تھے جو برسوں سے ایک ہی جگہ مقیم تھے۔
مغرب سے ذرا پہلے ہم روانہ ہوئے۔ واپسی کے سفر میں مسجد ملنے میتتں کچ تھ تتتاخیر
ہوئی ۔ بالخر ایک مسجد ملی جہاں ہم نے مغرب کی نماز ادا کتتی۔ ستتفر کتتی افراتفتتری
کے باعث میں نے مغرب و عشا کی نمازیں جمع کرنے کا ارادہ کیا۔ مغتترب ک تے بعتتد میتتں
عشا کی نماز پڑھ رہا تھا کہ ایک عرب صاحب آکتتر میتترے ستتاتھ ک ھڑے ہو گئے اور بتتولے ،
’تصلی المغرب۔ )تم مغرب پڑھ رہے ہو؟(‘ میں انہیں کیا جواب دیتا۔ وہ میتترے مقتتتدی کتے
طور پر نماز میں شامل ہوگئے۔
میں شش و پنچ میں پڑ گیا کہ میں عشا کی نماز پڑھ رہا ہوں اور یہ مغتترب کتتی۔ فق تہ
کے مطالعہ کے دوران ایسا کوئی ’مسئلہ‘ میری نظر سے نہ گزرا تھا ک تہ ایستتی صتتورتحال
میں کیا کیا جائے۔ میں نے نماز توڑی اور اپنے ساتھی سے کہا ’ ،اصلی العشتتاء۔ )میتتں تتتو
عشا کی نماز پڑھ رہا ہوں(‘۔ نماز کے دوران ان صاحب کا قہقہہ نکل گیا۔ نمتتاز تتتوڑ کتتر وہ
بولے’ ،کوئی بات نہیں ،آپ عشا پڑھیں ،میں مغرب کی نیت کرتا ہوں۔‘ اس کے بعد انہوں
نے میری امامت میں مغرب کی نماز ادا کی۔ نماز کے بعد میں نے ان ستے راستتتہ پوچ ھا،
انہوں نے تفصیل بتائی۔
واپسی پر ہم لوگ طائف رنگ روڈ کے راستے براستہ سیل کبیر واپس ہوئے۔ چونکہ اس
وقت مجھے ہدا کے راستے کے بارے میں معلومات نہ تھیتتں اس لئے یتہ ستتفر خاصتتا طویتتل
ثابت ہوا۔ ایک مقام پر جدہ کے لئے بورڈ لگا ہوا ت ھا۔ میتں ستتمجھا شتتاید یتہ جتتدہ جتتانے کتا
شارٹ کٹ ہو گا۔ ہم اس پر مڑ گئے۔ یہ ایک تنگ و تاریک پہاڑی روڈ ثابت ہوا۔ ہم مسلسل
سفر کرتے رہے اور جدہ مکہ موٹر وے کے انتظار میں رہے۔ تین گھنٹے کے بعد جب ہم بتتری
طرح تھک چکے تھے اور موٹر وے سے بالکل ہی مایوس ہو چکے تھے تو اچانتتک کہیتتں س تے
جدہ نمودار ہو گیا۔ دراصل ہم لوگ مکہ والے قدیم روڈ کی طرف سے جدہ پہنچے تھے۔
163
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
بعد میں ایک اور سفر کے دوران میتتں نتے اس راستتتے کتتو دیکھنتے کتے لئے یہیتتں ستے
طائف روانہ ہوا۔ یہ اونچے نیچے پہاڑوں سے گزرتا ہوا راستہ ہے جتتو اولتڈ مکتہ روڈ کتتو ستتیل
کبیر سے ملتا ہے۔ اس راستے پر جموم نامی قصبے کے قریب یہ مک تہ اورمتتدینہ کتتو ملن تے
والی طریق الھجرہ کے اوپر سے گزرتا ہے۔
164
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اگست میں جدہ میں شدید گرمی پڑ رہی تھی۔ میں ان دنتتوں دفتتر ستے چھٹیتاں لتے کتر
سعودی عرب میں سیٹل ہونے کی تھکن اتار رہا تھا۔ پاکستان میں عموما ً ہر سال گرمتتی
کے موسم میں ہم شمالی علقہ جات کی طرف جایا کرتے ت ھے۔ اب ی ہاں شتتمالی علق تہ
جات کہاں سے لے کر آتے چنانچہ ہم نے جنوبی علقہ جتتات ک تے ستتفر کتتا ارادہ کیتتا۔ جزیتترہ
نمائے عرب کا جنوب مغربی حصہ ،عرب کے شمالی علقے کی نستتبت کتتافی ستتر ستتبز
ہے۔ زمانہ قدیم میں یمن ،عرب کے سب سے زرخیز اور امیر ترین ممالک میں شمار ہوتتتا
تھا۔ قدیم یمن کا کافی بڑا حصہ اب سعودی عرب میں شامل ہے۔ یہ علقہ خاصا سر سبز
و شاداب ہے۔ اگرچہ سبزہ ہمارے شمالی علقہ جات جتنتتا تتتو نہیتتں لیکتتن بتتاقی عتترب کتے
مقابلے میں کافی بہتر ہے۔
ہم لوگ علی الصبح فجر کی نماز کے فورا ً بعد روانہ ہوئے۔ بچوں کو اس بتتات کتتا بہہہت
شوق تھا کہ وہ صحرا میں طلوع آفتاب کا منظر دیکھ سکیں۔ ہم لوگوں نے اکثر ساحل پر
غروب آفتاب کا منظر تو دیکھا ہی تھا لیکن موجودہ شہری زندگی میتتں طلتتوع آفتتتاب کتتا
منظر ایک خواب سا بن گیا ہے۔ یہ بتتات درستتت ہے کتہ جدیتتد شتہری ستہولیات نتے ہمیتتں
فطرت سے دور کر دیا ہے۔ جدہ رنگ روڈ سے ہم ہراج جانے والی سڑک پر مڑے۔ یتہ پرانتتی
گاڑیوں کا مرکز ہے اور یہاں بہت سے شوروم واقتع ہیتتں۔ ہراج ستے ایتک ستتڑک ستتیدھی
جیزان کی طرف نکلتی ہے۔ ہم اسی پر ہولئے۔
دور قدیم کا تجارتی راست ہ
پولیس چوکی سے ہم گزرے تو ”جیزان 852کلومیٹر“ کا بورڈ نظر آیا۔ اس کا مطلتتب ی تہ
تھا کہ ہمیں جیزان پہنچنے کے لئے کم و بیش سات آٹ تھ گھنٹ تے کتتی ڈرائیونتتگ درکتتار ت ھی۔
راستے میں آرام کرنے کا وقت خود ہم پرمنحصر ت ھا۔ ت ہامہ کتتا وستتیع ریتل میتتدان ہمتتارے
سامنے پھیل ہوا تھا۔ ہمارے دائیں جانب بحیرہ احمر کا ساحل تھا جو یہاں سے چند کلومیٹر
دور ہونے کے باعث نظر نہ آرہا تھا۔ بائیں جانب صحرائی پہاڑیوں کا سلسلہ ساتھ ساتھ چل
رہا تھا۔ یہ دور قدیم کا تجارتی راستہ تھا۔ یہاں میتترے ذ ہن میتتں ستتورة قریتتش کتے الفتتاظ
گونجنے لگے:
لی ٰلف قریش ۔ ایلف ھم رحل ۃ الشتاء و الصیف ۔ فلیعبدوا رب ھذا البیت ۔ الذی
اطعم ھم من جوع و ٰامن ھم من خوف ۔
”چونکہ قریش مانوس ہوئے۔ )یعنتی( گرمتی اور ستردی کتے موستموں میتں ستفر ستے
مانوس۔ اس لئے انہیں چاہئے کہ وہ اس گھر کے رب کی عبادت کریں جس نے انہیں ب ھوک
سے بچا کر کھانے کو دیا اور خوف سے بچا کر امن عطا کیا۔ “ )القریش (106
قدیم زمانے کی بین القوامی تجارت عرب کے راستے ہوا کرتتتی ت ھی۔ دنیتتا میتتں ایتتک
جانب ہندوستان اور چین کتے ممالتتک ت ھے جتتو اپنتتی زرعتتی اور صتتنعتی پیتتداوار کتے لئے
مشہور تھے۔ دوسری جانب روم کی عظیم بازنطینی سلطنت ہوا کرتی تھی۔ دنیتتا کتے ان
165
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
دونوں کناروں کے درمیان سمندری راستے ابھی پوری طرح دریافت نہ ہوئے تھے۔
ہندوستان اور چین کے ساحلوں سے بحری جہاز مال بھر کر یمتتن تتتک آیتتا کرتتے۔ یہ ہاں
عرب ان سے مال خرید لیتے۔ یہ مال عرب لے کر شام تک جایا کرتے ،جہاں بحیرہ روم کے
راستے آنے والے رومی تاجروں کو وہ یہ متتال فروختتت کرتتے۔ اس کتے بتتدلے وہ کچتھ متتال
رومی تاجروں سے خریدتے اور یمن ل کر ہندی اور چینی تاجروں کو بیتتچ دیت تے۔ یمتتن اور
شام کے یہ سفر بحیرہ احمر کے ساتھ ساتھ تجارتی شاہراہ پتتر ط تے ہوتے جتتو اب کوستتٹل
ہائی وے کہلتی ہے۔ صرف مکہ کے پاس جاکر قافلے سمندر سے کچھ دور ہوتے کیونکہ مکتتہ
پورے عرب کا مرکز ہوا کرتا تھا۔اس دور میں ایران کی ساسانی ستتلطنت خلیتتج فتتارس
کے راستے ہونے والی تجارت پر اپنا قبضہ جما چکی ت ھی اس لئے بحیتترہ احمتتر وال راستتتہ
انتہائی اہمیت اختیار کر گیا تھا۔
اس دور کا عرب بہت سے قبائل پر مشتمل تھا۔ ان میں سے کئی قبتتائل کتتا پیشتہ ہی
لوٹ مار اور راہزنی تھا۔ یہ قبائل تجارتی قتافلوں کتتو لتتوٹ لیتتا کرتتے ت ھے۔ قتتبیلہ قریتتش
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے جد امجد قصی بن کلب ک تے زمتتانے تتتک پتتورے حجتتاز
میں منتشر تھا۔ قصی نے انہیں مکہ میں اکٹھا کیا اور اطراف عرب ستے آنتے والتے حجتاج
کی خدمت کا بہترین نظام قائم کیا۔مکہ میتتں حتتج تتتو ستتیدنا ابراہیتتم و استتماعیل علیہمتتا
الصلوة والسلم کے زمانے سے ہی شروع ہو چکا تھا۔ قریش کتتی ان کاوشتتوں ک تے نتتتیجے
میں پورے عرب میں ان کی عزت بڑھتی گئی لیکن قریش کی مالی حالت کچھ اچھی نتتہ
تھی۔ ان کا گزارا حج کے موقع پر کی جانے والی کمائی پر ہی ہوتا جو پورے سال ک تے لئے
ناکافی تھی۔ ان پر اکثر فاقوں کی نوبت آجاتی اور بعض افراد فاقوں سے جان دے دیتے۔
قصی کے پوتے اور حضور صلی اللتہ علیتہ وستتلم کتے پتتردادا ہاشتتم کتتو بیتتن القتتوامی
تجارت میں حصہ لینے کا خیال آیا۔ انہوں نے اپنے تین بھائیوں کتتو ستتاتھ ملیتتا اور یمتتن اور
شام کے درمیان تجارت شروع کی۔ انہوں نے گرمی کتے موستتم میتتں شتتام اور ستتردیوں
میں یمن کا سفر کرنا شروع کیا۔ عرب قبائل ،حرم سے ان کے تعلتتق ک تے بتتاعث ان کتتا
احترام کرتے تھے چنانچہ ان کے قافلوں کو راہزنوں سے کوئی خطرہ پیتتش نتہ آیتتا۔ ان کتتی
تجارت چمکتی گئی اور قریش کی غربت دور ہوگئی۔
مختلف ممالک کی طرف سفر کرنے اور ان کے لوگوں سے ملنے کے باعث ان کا ذہنی
افق ) (Exposureوسیع ہوتا گیا اور معاملہ فہمی اور فراست میں ان کتتا کتتوئی ہم پل تہ ن تہ
رہا۔ یہ لوگ اس دور کا رسم الخط بھی دوسرے ممالک ستے لتے آئے جتو بعتد میتں قترآن
لکھنے کے لئے بھی استعمال ہوا۔ قریش میں تعلیم عام ہوئی اور ان میں پڑھے لکھے لوگ
دوسرے قبائل کی نسبت زیادہ ہونے لگے۔ایک روایت کے مطابق ،عرب کتتی ستترداری جتتو
پہلے حمیر والوں کے پاس تھی ،اب قریش کے پاس آگئی۔ اس سورہ میں ان ہی احستتانات
کا ذکر کیا گیا ہے اور قریش کو یہ تلقین کی گئی ہے کہ انہیں چاہئے ک تہ وہ اپن تے آبتتاﺅ اجتتداد
ابراہیم و اسماعیل اور ان کے بنائے ہوئے گھر کے خدا کی عبادت کیا کریں اور شترک کتی
غلظت سے خود کو بچائیں۔
ٍ انسان بڑا ہی ناشکرا واقع ہوا ہے۔ جب اسے مشکل پیش آتی ہے تتتو وہ اپنتے رب کتتی
طرف رجوع کرتا ہے لیکن جب اسے خوشحالی عطا ہوتی ہے تو وہ اس کی نافرمتتانی پتتر
166
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اتر آتا ہے۔ ایسا ہی قریش کے ساتھ ہوا۔ اس خوشحالی نے انہیں الل تہ تعتتال ٰی کتے گ ھر کتے
خادم ہونے باوجود اس سے غافل کر دیا۔ جب اللہ نے اپنے آخری رسول کو ان کتتی طتترف
مبعوث کیا تو یہ لوگ مقابلے پر کھڑے ہو گئے۔ ان کتے صتتالح عناصتتر جتتب ایمتتان لئے تتتو
انہوں نے ان کا جینا حرام کر دیا۔ بالخر اللہ تعال ٰی نتے ان پتتر اپنتتا عتتذاب مستتلمانوں کتتی
تلواروں کی صورت میں مسلط کر دیا ۔
سنگل رو ڈ اور لیفٹ ہین ڈ ڈرائیو
مکہ اور مدینہ کی طرح جیزان جانے والی سڑک موٹر وے نہیں تھی۔ یہ ایتتک کتتافی چتتوڑی
سنگل روڈ تھی لیکن اس کی کوالٹی بہت بہتر تھی۔ پاکستان میں سنگل روڈز کی کوالٹی
عام طور پر خراب ہی ہے۔ ایستتی اچ ھی ستتنگل روڈ میتتں ن تے پاکستتتان میتتں صتترف دو
مقامات پر دیکھی ہے :ایک حیدر آباد اور دادو کے درمیان اور دوسری جھنگ اور کتتبیر وال
کے درمیان۔ موٹر ویز پر سفر کے بعد مجھے سنگل روڈ پر گاڑی چلنا عجیب سا لتتگ ر ہا
تھا۔
اس موقع پر مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ جن ممالک میں سڑک کتے دائیتتں جتتانب
چلنے کا اصول ) (Keep Rightاپنایا جاتا ہے ،ان میتتں گتتاڑیوں کتے استتٹیرنگ بتتائیں جتتانب
کیوں ہوتے ہیں۔ اس کے برعکس ) (Keep Leftوالے ممالک میں اسٹیرنگ دائیں جانب ہوتے
ہیں۔ اسٹیرنگ کے دائیں بائیں ہونے سے ڈبل روڈ پر تو کتوئی ختاص فترق نہیتں پڑتتا لیکتن
سنگل روڈ پر یہ بہت نمایاں ہو جاتا ہے۔ اگلی گاڑی کو اوور ٹیک کرنتے کتے لئے انستتان کتتو
دوسری جانب کے ٹریک پر آنا پڑتا ہے۔ اس موقع پر اگر ڈرائیور روڈ کے درمیان کی طرف
ہو تو اوور ٹیکنگ کافی آسان ہو جاتی ہے ورنہ دوسری سمت سے آنے والی گتتاڑی صتتحیح
طور پر نظر نہیں آتی۔اس سڑک پر بھی ہم آستتانی ستے 120ستے 140کتتی رفتتتار پتتر
سفر کر رہے تھے۔ اللہ تعال ٰی نے جانوروں کی نسبت انسان کتتو ی تہ صتتلحیت دی ہے ک تہ وہ
تجربے سے سیکھتا ہے اور اپنی بنائی ہوئی چیز کو بہتر بناتا جاتا ہے۔ کاش انسان یہی روی تہ
اپنے اخلق و کردار کے بارے میں بھی اختیار کر سکے۔
صحرا میں طلوع آفتاب
تھوڑی دور جاکر سورج طلوع ہو گیا۔ ہمارے شرقی جانب پہاڑیوں کے درمیان سے ستتورج
آہستہ آہستہ بلند ہوا اور پھر ہوتا چل گیا۔ یہ منظر غروب آفتتتاب س تے ب ہت مشتتابہت رکھتتتا
تھا۔ فرق صرف سورج کے گرنے اور چڑھنے کا تھا۔ انسان کی زندگی میں بھی یہ مراحتتل
آتے ہی رہتے ہیں۔ کبھی اس پر زندگی آسان ہو جاتی ہے۔ وہ زندگی کے مسائل ستتے نمٹتتتا
ہوا کامیابی کا زینہ طے کرکے چڑھتا جاتا ہے۔ پھر اس کا زوال شروع ہوتا ہے اور وہ مسائل
کا شکار ہو کر گرتا چل جاتا ہے۔
انسان کی پوری زندگی عتتروج و زوال کتے فلستتفے کتتی عملتتی تعتتبیر نظتتر آتتتی ہے۔
دراصل یہ اللہ تعال ٰی کی طرف سے شکر اور صبر کا امتحان ہوتا ہے۔ کامیتتابی ک تے وقتتت
شکر اور مصیبت کے وقت صبر ،یہی انسان کی اصل کامیابی کا راستہ ہے جتتو استتے اس
کی اصل زندگی یعنی آخرت میں ملے گی۔رسول اللتہ صتتلی اللتہ علیتہ وستتلم کتی پتتوری
زندگی اسی صبر و شکر کا عملی نمونہ پیش کرتی ہے۔
167
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہمارے دائیں بائیں اونٹوں کے بہت سے باڑے شتتروع ہہہو گئے۔ ستتنہری ،ستتفید اور ستترخ
رنگ کے ہر سائز کے اونٹ بہت خوبصورت نظر آ رہے تھے۔ اللتہ تعتال ٰی نتے انستان کتی ہر
ضرورت کی تکمیل کا اہتمام کیا ہے۔ اس کے صتتحرائی ستتفر کتے لئے اونتتٹ پیتتدا کئے اور
پھر اسے عقل دی کہ وہ اس سے بہتر سواریاں بنا سکے۔ یہ سب چیزیں انسان کو اس کے
مالک کا شکر ادا کرنے کی ترغیب دیتی ہیں۔ خوش نصیب ہیں وہ جو اس ترغیب پر اپنتتے
مالک کا واقعی شکر ادا کرتے ہیں۔
شعیب ہ اور ہجرت حبش ہ
اب ہمیں سمندر کی جانب بجلی اور پانی کا ایک پلنٹ نظر آنے لگا۔ دور افق پر اس کتتا
سفید دھواں پھیل رہا تھا۔ پورے سعودی عرب میں ساحل کے ساتھ یہ پلنٹ لگے ہوئے ہیں
جہاں سے بجلی اور سمندر کا صاف شدہ پانی ملک بھر میں سپلئی کیا جاتا ہے۔ یہ مقتتام
شعیبہ کہلتا ہے۔ اسی مقام پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایتتک بنتتدرگاہ
ہوا کرتی تھی۔ اہل مکہ کے ظلم کی چکی میں پستے ہوئے مظلوم مستتلمانوں کتتو حضتتور
صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعال ٰی کی اجازت سے حبشہ ہجرت کی اجازت دے دی۔ یہ لوگ
مکہ سے نکل کر شعیبہ آئے اور یہاں سے کشتیوں پر بیٹھ کر ایتھوپیا کے ساحل پر جا اترے۔
وہاں سے یہ حضرات دارالحکومت ”اکسوم“ پہنچ کر وہیں آباد ہوگئے۔
قریش نے عمرو بن عاص )رضی اللہ عنہ( ،جو بعد میتں استلم لئے ،کتی قیتادت میتں
ایک وفد وہاں کے بادشاہ نجاشی کے پتتاس بھیجتتا۔ نجاشتتی ن تے مستتلمانوں کتتو بلیتتا۔ اس
موقع پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بڑے بھائی سیدنا جعفر رضی اللہ عنہ نے تفصیل سے
اپنے دین کی دعوت نجاشی کے سامنے پیش کی۔ نجاشی ایک انصاف پستتند بادشتتاہ ت ھا۔
اس نے مسلمانوں کو واپس کرنے سے انکار کردیا۔ یتہ لتتوگ طویتتل عرصتہ یہیتتں ر ہے۔ ان
میں سے بہت سے لوگ بعد میں مدینہ ہجرت کر گئے۔ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم
نے اطراف عالم کے بادشاہوں کو خط لکھ کر اللہ تعال ٰی کی جانب سے الٹی میٹتتم دیتتا تتتو
صرف نجاشی ہی تھے جو ایمان لئے۔ جب انہوں نے وفات پائی تو ان کی نماز جنازہ ختتود
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں پڑھائی۔
ہجرت حبشہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی دین حق کے لئے قربانیوں کی ایک عظیتتم
داستان ہے۔ ہم ان لوگوں کا حق ادا نہیں کر سکتے جنہوں نے اپنی جان پر سختیاں جھیتتل
کر اس دین کو اس کی اصل حالت میں ہم تک پہنچایا۔
بعد میں ایک موقع پر ہم لوگ شعیبہ کتتا ستتاحل دیکھنتے کتے لئے گئے۔ پتتاور پلنتتٹ کتے
قریب یہ ساحل نہایت ہی دلفریب نظاروں پر مشتمل تھا۔ اس مقام پر بعض لوگ سمندر
میں غوطہ خوری کا شوق پورا کرتے ہیں۔ شعیبہ کے بعد ہمیں ایتتک عجیتتب قتتدرتی منظتتر
دیکھنے کو مل۔ ریت پہاڑوں کی چوٹیوں تک پھیلی ہوئی تھی اور چوٹیاں دھنتتد میتتں لپتتٹی
ہوئی تھیں۔ حقیقت ہے کہ اللہ تعال ٰی کی صناعی کو دیکتھ کتر انستان دنتگ رہ جاتتا ہہہے اور
اس کی زبان پر یہی جاری ہوتا ہے کہفبای ٰالءربکما تکذبان ۔
سمندر س ے ن ہر
مکہ سے جیزان آنے والی سڑک یہاں ہم سے آملی۔ عین ممکن ہے کتہ قریتتش کتے تجتتارتی
168
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
قافلے بھی یہیں سے مکہ کے لئے مڑتے ہوں گے۔ اب ہم ”لیث“ کی حدود میں داخل ہو رہے
تھے۔ یہ ایک چھوٹا سا صاف ستھرا ساحلی شہر تھا۔ گاڑی کا میٹر 130کا ہندسہ دکھا ر ہا
تھا۔ میری گاڑی میتتں میتتل بتتتانے وال میتتٹر نصتتب ہے ،اس لئے میتتں ی ہاں ان میلتتوں کتتو
کلومیٹرز میں تبدیل کرکے لکھ رہا ہوں۔ لیث ،جدہ سے 208کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ ہم
یہ فاصلہ دو گھنٹے میں طے کرکے یہاں پہنچے تھے۔ اس لئے آرام ضروری تھا۔
سمندر سے نہر
گوگل ارتھ پر میں لیث کو تفصیل سے پہلے ہی دیکھ چکا تھا۔ یہاں ہمتتارے لئے ایتتک نئی
چیز تھی۔ یہاں بہت سے زرعی فارمز موجود تھے اور ستتمندر ستے ایتتک ن ہر نکتتال کتتر ان
فارمز تک پہنچائی گئی ہے۔ اس پانی کو ٹریٹ کر کے پودوں کے لئے قابتتل استتتعمال بنایتتا
جاتا ہے۔ اس نہر کے باعث لیث ہرا بھرا نظر آرہا تھا۔ ہم سیدھے ساحل تک گئے جہاں ایتتک
خوبصورت پارک بنا ہوا تھا۔ بچے یہاں جھول جھولنے لگے اور ہم لوگ گ ھر س تے ستتاتھ لئے
ہوئے برگر اور پراٹھے کھانے لگے۔ کچھ دیر بعد ہم نہر کی طترف گئے ۔یہ ہاں گھنتے ستاحلی
جنگلت تھے جو بالکل کراچی کے ہاکس بے اور سینڈزپٹ کے جنگلت سے مشابہ تھے۔ ایک
بہت بڑی کریک بھی یہاں موجود تھی۔ کچھ دیر یہاں گزار کر ہم نے اپنا سفر دوبارہ شروع
کیا۔
عبرت دلن ے وال ے ڈھانچ ے
169
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
لیث کے بعد ہمیں ریت کے سمندر نے آلیا۔ ایک طویل میدان میں بس ریت ہی ریت پھیلی
ہوئی تھی۔ ایک چھپر جو شدید گرمی سے بچنے کے لئے مقامی لوگوں نے تعمیر کیتتا تھہہا ،
نصف سے زائد ریت میں دفن ہو چکا تھا۔ شاید اس علقے میں ریت کے طوفان آتے ہوں
گے۔سڑک کے ساتھ جابجا گاڑیوں کے ڈھانچے پڑے ہوئے تھے۔ یہ حادثوں میں تباہ شدہ گاڑیاں
تھیں۔ شاید انہیں عبرت کے لئے روڈ کے کنارے چھوڑ دیا گیا تھا۔
مجھے اس میں عبرت کے دو پہلو نظر آئے :ایک تو غیر محتاط ڈرائیونتتگ کتتا انجتتام اور
دوسرا غیر محتاط زندگی کے لئے موت کی وارننگ۔ انسان اگتتر ستتفر میتتں غیتتر محتتتاط
ڈرائیونگ کرے تو اس کا انجام ایکسیڈنٹ اور پھر موت کی صورت میں نکلتا ہے۔ دوسری
طرف اگر انسان غیر محتاط زندگی گزارے تو پھر اچانک موت آکتتر استے اس کتتی اصتتل
زندگی کی طرف لتے جتتاتی ہے جتتو اس کتے غیتتر محتتتاط رویتے کتے بتتاعث اس کتے لئے
خوشگوار نہیں ہوتی۔ جتو لتوگ ذمتہ داری ستے اپنتتی زنتدگی دیتن اور اخلق کتے مطتابق
گزارتے ہیں ،ان کی اصل زندگی یعنی آخرت بہت خوشگوار ہو گی۔
مل بانٹ کر ک ھان ے کی برکت
ہم اب ”حمدانہ “سے گزر کر ”مظلئف“ کے قصبے میں داخل ہورہے تھے۔ یتہ ستتب چھ ہوٹے
چھوٹے قصبے تھے۔ میں ان لوگوں کی معیشت کے بارے میں سوچنے لگا۔ ستتعودی عتترب
کا صرف مشرقی صوبہ تیل کی دولت سے مال مال ہے لیکن اس دولتت کتو بیتچ کتر جتو
آمدنی حاصل ہوتی ہے وہ پورے ملک کے عوام پر خرچ کی جاتی ہے جس ستے پتورے ملتتک
میں خوشحالی آتی ہے۔ انسان اگر مل بانٹ کتتر ک ھائے تتتو ستتب لوگتتوں کتتی ضتتروریات
پوری ہو سکتی ہیں لیکن قوم پرستی کے تنگ نظریے نے انستتان کتتو محتتدود کتتر دیتتا ہے۔
چھوٹے چھوٹے گروہ اللہ تعال ٰی کی دی ہوئی دولت پر قابض ہیں۔ وہ اسے اپنے مفاد کتتے لئے
خرچ کرتے ہیں اور زمین کے دوسرے حصوں پر موجود ان کے ب ھائی اس ستے محتتروم رہ
جاتے ہیں۔
مصنوعی کریک
اب ہم ”قنفذہ“ کے مقام پر پہنچ چکے تھے۔ یہ بھی ایک خوبصورت چھوٹا سا شتہر ت ھا۔ ہم
شہر کے اندر داخل ہوئے۔ یہاں بھی لیث کی طرح ساحلی پارک تھا جو زیادہ خوبصورت ن تہ
تھا۔ ہلکے سبز رنگ کابحیرہ احمر کا پانی نہایت دلفریب منظر پیتتش کتر ر ہا ت ھا۔ ستمندر
سے شہر میں ایک مصنوعی کریک بنائی گئی تھی جو کہ ایک بہت بڑی نہر کا منظر پیتتش
کر رہی تھی۔ اس کی چوڑائی ہمارے پنجاب اور سندھ کی نہروں سے تین گنا زیتتادہ ت ھی۔
دور سمندر میں مچھلیوں کے ٹرالر ک ھڑے ت ھے۔ پتتورے کتتا پتتورا ستتاحل ب ہت ترتیتتب ستے
مصنوعی طور پر تراشا گیا تھا۔ ساحل پر مصنوعی دائرے بنائے گئے ت ھے جتتن میتتں پتتانی
آکر کھڑا ہوا تھا۔ شہر سے ہم نے کھانے پینے کی اشیا لیں اور آگے روانہ ہو گئے۔
گول ک ھیت
اب ہمیں بہت سے فارم ہاﺅسز نے آلیا بلکتہ زیتتادہ درستتت یتہ ہے کتہ ہم نتے انہیتتں جتتا لیتتا۔
سعودی عرب کے فارم ہاﺅسز کی ایک عجیب بات یہ ہے کہ یہ بالکل گتتول شتتکل کتے ہوتے
ہیں۔ ایسا ان کے آبپاشی کے نظام کی وجہ سے ہے۔ ہمارے یہاں تو پانی بکثرت پایا جاتا ہہہے
170
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اس لئے اسے ضائع بھی بہت کیا جاتا ہے۔ یہاں چونکہ پانی کی قلت ہے اس لئے آبپاشی کے
لئے ایک خاص میکنزم اختیار کیا جاتا ہے۔
گول کھیت
پانی کا ایک بہت بڑا پائپ ہوتا ہے جس کے دونوں جانب پہی تے لگ تے ہوتے ہیتتں۔ درمیتتان
سے یہ پائپ پانی کے مرکزی ذخیرے سے جڑا ہوتا ہے۔یہ پائپ اپنتے مرکتتز کتے گتترد گتتردش
کرتا ہے۔ موٹر چل کر پانی اس پائپ میں لیا جاتا ہے جو اس میں موجود ستوراخوں ستے
باریک دھاروں کی شکل میں باہر گرتا ہے۔ یہ پائپ اپنے پہیوں پر حرکت کرت تے ہوئے پتتورے
فارم کو سیراب کرتا ہے۔ چونکہ یہ حرکت دائروی ہوتی ہے اس لئے فتتارم کتتا ڈیتتزائن ب ھی
دائروی شکل کا ہوتا ہے۔ گوگل ارتھ کی سیٹلئٹ تصاویر میں یہ فارم سبز رنتتگ ک تے ب ہت
سے گول دائروں کی شکل میں نظر آتے ہیں۔
دائر ے والی کریک
سبزے میں سے گزر کر ہم ایک خشک دریا تک جا پہنچے۔ اس کے دونوں کناروں پر چھوٹے
چھوٹے شہر آباد تھے جیسا کہ ہمارے تمام دریاﺅں پر ہے۔ اس کے بعد ریت کی جگہ سرمئی
رنگ کے پتھروں نے لے لی۔ یہاں روڈ سمندر کے بالکل قریب آ چکی تھی۔ سمندر کا پتتانی
ایک کریک کی شکل میں موجود تھا جس کے نیلے پانی کو دیکھ کر مجھے اپنے سندھ کتتی
کینجھر جھیل یاد آگئی جہاں ہم کراچی سے تقریبا ً ہر مہینے جایا کرتے تھے۔ اس کریک کتتے
بعد ایک اور کریک تھی جو بالکل نصف دائرے کی شکل کی تھی۔ ساحل کا کٹتتاﺅ قتتدرتی
طور پر نصف دائرے کی شکل کا تھا اور بہت خوبصتتورت نظتتر آر ہا ت ھا۔ اللتہ تعتتال ٰی کتتی
صناعی واقعی بہت حسین ہے۔ تبارک الل ہ احسن الخالقین ۔
تھوڑی دور جا کر ہمیں ایک جیسے بے شمار مکانات نظر آئے جتتن پتتر شتتوخ رنتتگ کئے
گئے تھے۔ تیز گلبی ،سرخ ،طوطے وال سبز ،کھلتا ہوا نیل ،یہ تمام رنگ بہت بھلے لگ ر ہے
تھے۔ دیہاتی کہیں کے بھی ہوں ،ان کا مزاج ملتا جلتا ہے۔ انہیتتں عمومتا ً شتوخ رنتتگ زیتادہ
پسند ہوتے ہیں۔ ان مکانات کے ساتھ ایک مسجد بھی تھی جس پتر استی قستم کتے رنتگ
کئے گئے تھے۔ میں نے زندگی بھر اتنی ٹیکنی کلر مسجد نہیں دیکھی۔ اگل شہر ذھبان ت ھا۔
اس کے فورا ً بعد ”القحمہ“ کا قصبہ تھا۔ ہم اب 540کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چک تے ت ھے۔
171
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
بھوک بھی لگ رہی تھی اور ظہر کا وقت بھی ہو رہا تھا۔ ہم نے ایک اچ ھا ستتا ریستتٹورنٹ
دیکھ کر گاڑی روک دی۔
اس ریسٹورنٹ کے صحن میں گھنا سبزہ اور پھول اگے ہوئے ت ھے۔ غالبتا ً رات کتتو ی ہاں
بار بی کیو ہوتا ہوگا۔ ہم فیملی ہال میں جا بیٹھے۔ یہ ایک عتترب ہوٹتتل ت ھا۔ ایتتک شتتوکیس
میں مچھلیاں سجی تھیں۔ میں نے ’رہو‘ سے ملتی جلتی تین مچھلیتتاں پستتند کیتتں اور ان
کے تکے بنانے کا آرڈر دیا۔ فش تکہ کے ساتھ چاول بھی ساتھ آئے۔ عتترب لتتوگ بکتتروں کتتی
طرح مچھلی کو بھی سالم ہی پکاتے ہیں۔ میتتری فیملتتی کتتو آنک ھوں والتی مچھلتتی ستے
خاصی کراہت محسوس ہوئی۔ کھانا مزیدار تھا لیکن اسماءکو پسند نہ آیا۔ اس کا دل چاہ
رہا تھا کہ پاکستانی کھانے ملیں۔ میں نے جب اسے یہ بتایا کہ یہاں پاکستانی ہوٹل نہیں ہوتے
تو اس نے اسے سخت نا انصافی قرار دیا۔
ہم باہر نکلے تو سخت لو چل رہی تھی اور ریت اڑ رہی تھی۔ قریب ہہہی مستتجد تھہہی۔
وہاں جا کر ہم نے نماز ادا کی اور پھر اپنا سفر شروع کیا۔ تھوڑی دور جا کر ہم ”الدرب“
کے قصبے میں داخل ہوئے۔ اب ہم 627کلومیٹر کا فاصلہ طے کر چکے تھے۔ یہاں سے ایتتک
روڈ جیزان اور دوسری ابہا کی طرف نکل رہی تھی۔ ہمارا ارادہ چونکہ پہل تے جیتتزان جتتانے
کا تھا اس لئے ہم اس طرف روانہ ہوئے۔
ریت کا طوفان
تھوڑی دور جاکر ریت کا طوفان شدت اختیار کتتر گیتتا۔ اس وقتتت و ہی کیفیتتت ت ھی جتتو
سردیوں میں لہور میں دھند کے باعث ہوتی ہے۔ چند فٹ کے فاصلے پر بھی کچھ نظر نہ آ
رہا تھا۔ تمام گاڑیوں کی لئٹیں جل رہی تھیں اور سب لوگ 60کی رفتار س تے ستتفر کتتر
رہے تھے۔ ریت پوری قوت سے گاڑی سے ٹکرا رہی تھی اور تیز ہوا چل ر ہی ت ھی۔ کتتافی
دیر ہم آہستہ آہستہ سفر کرتے رہے۔ پورا علقہ پوٹوہار کی طرح اونچا نیچا تھا لیکن پہاڑیوں
کی بلندی کچھ زیادہ نہ تھی۔ روڈ کے دونوں طرف جا بجا فارم ہاﺅس نظر آرہے ت ھے۔ پہل تے
”ام خشب“ کا شہر آیا اور اس کے بعد ”صبیہ“۔ اس کے بعد ”ظتتبیہ “ کتتا قصتتبہ ت ھا۔ ی ہاں
سے کچھ ہی دیر کے بعد ہم جیزان میں داخل ہو چکے تھے۔
جیزان
اپنی منزل پر پہنچ کر سب سے تکلیف دہ مرحلہ ہوٹل کی تلش ہوتتتا ہے۔ ایستتا ہوٹتتل جتتو
اپنے ماحول اور قیمت کے لحاظ سے مناسب ہو ،تلش کرنا کافی مشتتکل کتتام ہے اور وہ
بھی اس وقت جب آپ 850کلومیٹر کا سفر طے کرکے تھکن س تے چتتور ہوں۔ ستتعودی
عرب میں ہوٹلوں کے علوہ فرنشڈ اپارٹمنٹ بھی یتتومیہ کتترائے پتتر ملت تے ہیتتں ۔ہمیتتں ب ھی
بالخر ایک اپارٹمنٹ پسند آ گیا۔ کچھ دیر آرام کرنے کے بعتتد ہم ستتاحل کتتی جتتانب روانتہ
ہوئے تاکہ غروب آفتاب کا منظر دیکھ سکیں۔ یہاں کوئی خاص منظر نہ تھا۔ پانی گرے رنگ
کا تھا۔ مغرب کے وقت ہم روانہ ہوئے اور ایک بہت بڑی مسجد میں نماز ادا کتتی۔ اس ک تے
بعد فیملی کے لئے ایک ترک ریستتٹورنٹ ستے کھانتتا پیتتک کروایتتا اور اپنتے اپتتارٹمنٹ میتتں
واپس آگئے۔
جیزان جنوب کی جانب سعودی عرب کا آخری شہر ہے۔ یہ ایک چھوٹا ستتا جدیتتد ش تہر
172
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہے۔ یہ یمن کے بارڈر کے بالکل قریب ہے۔ یمن کا دارلحکومت صنعاءیہاں س تے محتتض تیتتن
سو کلومیٹر کے فاصلے پر ہے۔ صنعاءسے سو کلومیٹر کے فاصلے پر ”سد متتآرب )Ma'arib
“ (Damکے مشہور تاریخی آثار ہیں جو یمن میں سیاحوں کے لئے سب سے زیادہ کشتتش
رکھتے ہیں۔
جیزان شہر ،سعودی عرب کے صوبہ جیزان کا دارالحکتومت ب ھی ہے۔ اس کتی آبتادی
ایک لکھ کے لگ بھگ ہے۔ یہ 1934میں سعودی عرب میں شامل ہوا۔ اس شہر کے قریب
ہی جزائر فراسان ہیں جو سیاحت کے لئے مشہور ہیں۔ افسوس ہہہم لتتوگ ان جتتزائر کتتی
سیر نہ کر سکے۔
صوبہ جیزان سعودی عرب کا زرعتتی علقتہ ہے۔ ی ہاں کتتی انجیتتر اور آم مشتہور ہیتتں۔
سعودی عرب میں آموں کی بہت ورائٹی کھانے کو ملی۔ بغیر کسی تعصب کے میں یہ کہہ
سکتا ہوں کہ دنیا بھر میں نمبر ون کوالٹی کا آم ،پاکستان کا ہے۔ پاکستانی آم بالخصتتوص
چونسا ،انور ریٹول اور دوستہری ی ہاں ستتب ستے مہنگتتا بکتتتا ہے۔ اس کتے بعتتد انتڈیا کتے
الفانسو کا نمبر ہے۔ یمنی یا سعودی آم سستا ملتا ہے لیکن اس کی کوالٹی اور ذائقہ بھی
پاکستانی آم کے مقابلے میں کچھ نہیں۔
جیزان کا کلچر سعودی سے زیادہ یمنی ہے۔ ہم لوگ چونکہ غیر عرب ہیتتں اس لئے اس
میں زیادہ فرق محسوس نہیں کرسکے۔ لوگوں کی شکلوں میں یمنی نقوش نمایاں تھے۔
سعودی عرب اور یمن میں سرحدی تنازعہ پایا جاتا ہے۔ یمن ،جیزان ،نجران ،عصتتیر اور
الباحہ کے سعودی صوبوں پر دعو ٰی کرتا ہے۔ اس مسئلے پر دونوں ممالک کے متتابین ایتتک
جنگ بھی ہو چکی ہے۔
پہلی جنگ عظیم کے وقت یہ علقے سلطنت عثمانیہ کا حصہ ت ھے۔ جنتتگ ک تے بعتتد جتتب
سلطنت عثمانیہ کے حصے کئے گئے تو 1918میں شمالی یمن آزاد ملک بن گیتتا۔ جنتتوبی
یمن پر برطانیہ نے اپنا قبضہ رکھا جو کہ 1967میں آزاد ہوا۔ 1970میں جنوبی یمن ن تے
کمیونزم کا نظام اختیار کرلیا۔ 1990میں یہ دونوں ممالک متحد ہو کر موجودہ یمن کتتی
شکل اختیار کر گئے۔شاید انہوں نے اس حقیقت کا ادراک کر لیا ہو گا کہ اتفاق میں برکت
ہے۔
فیفا ماؤنٹین
صبح ہم دوبارہ فجر کے بعد روانہ ہوئے۔ اب ہماری منزل ”فیفا ماؤنٹین“ تھی۔ پہلے تو ہمارا
ارادہ یہیں کسی پاکستانی ہوٹل سے ناشتہ کرنے کا تھا لیکن اس میں دیر ہو جتتاتی کیتتونکہ
یہاں اتنی جلدی ہوٹل نہیں کھلتے۔ غلطی سے میں ائر پورٹ میں گھستے گھستے بچا۔ پ ھر
ایک پولیس والے سے فیفا کا راستتہ پوچ ھا تتو اس نتے ن ہایت خنتدہ پیشتانی ستے تفصتیل
بتائی۔ کچھ دو رجا کر ہم پھر غلط راستتے پتر متڑ گئے۔ میتں نتے ایتک پاکستتانی ٹیکستی
ڈرائیور سے فیفا کا راستہ پوچھا تو اس نے ہمیں صحیح راستے پر ڈال۔
اب ہم واپس ’صبیہ‘ کی طرف جار ہے تھے۔ صبیہ سے ہم شرقی جتتانب متتڑے اور فیفتتا
کی طرف روانہ ہوگئے۔ فیفا کے بارے میں میں نے پہلی مرتبہ ایک ٹورازم بروشتتر پتتر پڑ ھا
تھا کہ یہ سعودی عرب کے بلند ترین پہاڑ ہیں۔ اس کے بعد میں نے انتتٹر نیتتٹ پتتر فیفتتا ک تے
173
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
بارے میں سرچ کیا تو اس کی کچھ تصاویر ہاتھ لگیں جو فیفا کتے رہنتے والتے ایتتک انجینئر
ماجد الفیفی نے انٹر نیٹ پر رکھی تھیں۔ میں نے ان سے ای میل پتتر رابط تہ کیتتا اور فیفتتا
کے بارے میں معلومات طلب کیں۔ انہوں نے پرجوش طریق تے س تے جتتواب دیتتا اور مج ھے
راستے اور موسم وغیرہ کی تفصیل بتائی۔ ان کے مشورے پر ہی میں نے یتہ ستتفر اگستتت
کے مہینے میں رکھا تھا۔
صبیہ سے آگے عیلنی کے مقام پر میں نے ایک پاکستانی سے کسی ہوٹل کے بارے میتتں
پوچھا۔ انہوں نے ایک انڈین ہوٹل کا بتایا جہاں سے ہم نے ناشتہ لیا اور آگتے روانتہ ہوئے۔ اگل
شہر ”دائر“ تھا۔ یہ فیفا کا بیس کیمپ تھا۔ یہاں سے اصل چڑ ھائی شتتروع ہو ر ہی ت ھی۔
فیفا کی بلندی 11000فٹ ہے۔ یہاں ایک چیک پوسٹ بھی بنی ہوئی تھی۔ ہم ن تے اس پتتر
موجود فوجی سے فیفا کا راستہ پوچھا تو جواب مل” ،رح سیدھا“ یعنی سیدھے چلے جتتاﺅ۔
پتہ نہیں عربی میں یہ ’سیدھا‘ کہاں سے آگیا۔ شاید ان ہوں ن تے ی تہ ہم پاکستتتانیوں س تے ہی
سیکھا ہے۔
تت ہ پانی
چیک پوسٹ کے فورا ً بعد ”عین الحارة“ کا بورڈ لگا ہو اتھا۔ یہاں گرم پانی کے چشمے تھے۔
اس نام کا اگر پنجابی یا کشمیری زبان میں ترجمہ کیا جائے تو یہ ”تتہ پانی“ بنتتے گتتا۔ اس
نام کے کئی مقامات کشمیر میں موجود ہیں۔ ایک مرتبہ راول کوٹ سے کتتوٹلی آت تے ہوئے
راستے میں ،ہجیرہ کے بعد ہم تتہ پانی کے مقام سے گزرے ت ھے۔ ی ہاں ب ھی گتترم پتانی کتے
چشمے تھے۔ کراچی میں بھی منگھو پیر کے مقام پر گرم چشمے موجود ہیں۔
عین الحارہ یا تتہ پانی کے فورا ً بعد چڑھائی شروع ہو گئی۔ فیفا ماﺅنٹین کے علق تے کتتو
زیادہ ترقی نہیں دی گئی۔ یہاں روڈ اچھی کوالٹی کا نہ تھا۔ چڑھائی متتالم جبتہ یتتا شتتوگران
جیسی تھی لیکن روڈ بہت گیا گزرا تھا۔ کوئی بھی پ ہاڑی ستتڑک بنتتاتے ہوئے اس بتتات کتتا
خیال رکھا جاتا ہے کہ سڑک کا زاویہ ایک خاص حد سے زیادہ اونچا نہ ہونے پتتائے لیکتتن ی ہاں
تو 45درجے کے اٹھان بھی موجود تھی۔ اس پر مستزاد یہ کتہ چڑھنتے کتے فتتورا ً بعتتد ایتتک
اسپیڈ بریکر آ جاتا تھا۔ میں نے گاڑی کو سب سے بڑے گیئر میں ڈال اور چڑھنا شروع کیا۔
پہاڑ کے گرد گھومتے گھومتے ہم بالخر چوٹی پر جا پہنچے۔ چوٹی پر فیفا کا قصتتبہ ت ھا جتتو
کافی گنجان آباد تھا۔
فیفا کا پورا پہاڑ بالکل ہمارے شمالی علقہ جات وال منظر پیش کتتر ر ہا ت ھا۔ ارد گتترد
کے پہاڑ بھی گھنے سبزے سے ڈھکے ہوئے تھے۔ افسوس اس دن ب ھی نیچتے ڈستٹ استٹارم
کے آثار تھے ،اس لئے زمین سے لے کر بلندی تک مٹی دھنتد کتی شتکل میتں پھیلتی ہوئی
تھی جس کی وجہ سے منظر بہت واضح نہ تھا۔ اوپر سے نیچے تتتک پ ہاڑ پتتر استتٹیپس کتتی
صورت میں کھیت بنائے گئے تھے۔ پورے فیفا میں کوئی باقاعدہ ہوٹل نہ تھا البتہ لوگتتوں نتے
چھوٹے موٹے کمرے بنا رکھے تھے جنہیں وہ گھنٹوں کے حساب سے کرائے پر دیتے تھے۔ میں
نے ایسے ایک دو منی ہوٹل دیکھے لیکن ان کے بتتاتھ روم گنتتدے اور کتترائے ب ہت زیتتادہ ت ھے
چنانچہ ہم نے یہاں رکنے کا ارادہ ترک کر دیا۔
مملکت سبا
174
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
جنوبی جانب یمن کا بارڈر تھا اور یمنی علقہ سامنے نظتتر آر ہا ت ھا۔ ہم کتتافی دیتتر وہیتتں
گھومتے رہے۔ ہماری طرح کچھ اور ایڈونچر پسند عرب یہاں آئے ہوئے تھے جو ڈیویلپ تڈ علق تہ
نہ ہونے کے باعث مایوس ہو کر ادھر ادھر گھوم رہے تھے۔ اچانک میترے موبتائل پتر دو تیتن
SMSآئے۔ دیکھنے پر معلوم ہوا کہ سعودی عرب کی موبائل کمپنی ”موبائلی“ کے ستتگنلز
ختم ہوگئے ہیں اور انٹرنیشنل رومنگ پر یمن کے ”سبا نیٹ“ کتے ستتگنل آ ر ہے ہیتتں۔ ستتبا
نیٹ کمپنی ہمیں یمن آمد پر خوش آمدید کہہ رہی تھی۔ فیفا ،سعودی عرب اور یمتتن ک تے
مابین ایک بفر زون کی حیثیت رکھتا ہے۔
یمن قدیم عرب کا سب سے متمدن علقہ ر ہا ہے۔ بعتض روایتات کتے مطتابق صتنعاء
سیدنا نوح علیہ السلم کے بیٹے سام نے آباد کیا۔ زمانہ قدیم میں یہاں سبائی تہذیب پتتروان
چڑھی۔ اس تہذیب کے بارے میں میں یہاں پر سید ابو العل ٰی مودودی کتتی تفہیتتم القتترآن
اور وکی پیڈیا سے حاصل کی گئی معلومات کا خلصہ لکھ ر ہا ہوں۔ ستتبا عتترب کتے ایتتک
قدیم شخص کا نام تھا جس کی اولد سے کندہ ،حمیر ،ازد ،اشعریین ،خثعم ،بجیلہ ،عاملہ،
جذام ،لخم اور غسان نامی قبائل پیدا ہوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے تک
یہ تمام قبائل پورے عرب میں منتشر ہو چکے تھے۔ سبائی ت ہذیب اپنتے وقتتت کتتی متمتتدن
دنیا کی امیر ترین تہذیبوں میں شمار ہوتی ت ھی۔ اس کتتی دولتتت کتتو ضتترب المثتتل کتتی
حیثیت حاصل ہو چکی تھی۔ بائبل میں بھی اس قوم کی خوشحالی کا ذکر ہوا ہے۔ زبتتور
میں ایک دعا ہے:
”اسی کی عمر دراز ہو۔ سبا کا سونا اسے دیا جائے۔ لوگ اس کتے حتتق میتتں ہمیشتہ دعتتا
کرتے رہیں۔ اور دن بھر اسے برکت دیتے رہیں۔“ )زبور ( 27:51
”سبا اور رعمہ کے سوداگر تیرے ساتھ تجارت کرتے تھے اور تیتترے ستتامان ک تے عتتوض ہر
طرح کے نفیس مسالے ،قیمتی پتھر اور سونا دیتے تھے۔ “ )حزقی ایل ( 72:22
سبا کا وطن جزیرہ نمائے عرب کا جنوب مغربتتی کتتونہ ت ھا۔ ان کتتی ستتلطنت موجتتودہ
یمن میں عدن کی بندرگاہ سے لے کر سعودی عرب کے صوبہ جیتتزان ،نجتتران ،عصتتیر اور
الباحہ تک پھیلی ہوئی تھی۔ آغاز میں یہ ایک آفتاب پرست قوم تھی۔ ستتیدنا ستتلیمان علی تہ
الصلوة والسلم کے زمانے میں یہاں کی ملکہ بلقیس آپ کے ہاتھ پتتر ایمتتان لئی ت ھی۔ آپ
نے اس ملکہ سے نکاح کر لیا۔ قرآن مجید نے سورة نمل میں یہ واقع تہ پتتوری تفصتتیل س تے
بیان کیا ہے۔
اس زمانے میں یہ قوم ایک خدا پر ایمان لے آئی۔ بعد میں ان میں پ ھر شترک کتا غلبتہ
ہوا۔ان کا سب سے بڑا دیوتا المقہ یعنی چاند بن گیا۔ ان کے بادشاہوں نے خود کو ختتدا اور
بندے کے درمیان وسیلہ قرار دینا شروع کیا اور ’مکرب‘ کا لقب اختیار کیا۔ 650ق م ک تے
بعد ان کے ہاں سیکولر ازم کو فروغ حاصل ہوا ۔ اس زمانے میں انہوں نے مآرب کتتو اپنتتا
مرکز بنایا۔ غالبا ً اسی زمانے میں مآرب ڈیم بنایا گیا جس سے مملکت سبا کا شتتمار دنیتتا
کی امیر ترین اقوام میں ہونے لگا۔
100ق م کے لگ بھگ ان پر قبیلہ حمیر کے لتتوگ حکمتران ہوئے جن ہوں نتے چتار ستتو
سال حکومت کی۔ 300ء کے بعد ان کا زوال شروع ہوا اور رستتول الل تہ صتتلی الل تہ علی تہ
وسلم کے زمانے تک یہ قوم اپنا نام و نشان ک ھو چکتتی ت ھی اور ان کتتی جگتہ قریتتش کتتو
175
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
176
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
تھا ان کے کفران نعمت کا بدلہ جو ہم نے انہیں دیا۔ اور ناشکرے انسان کے سوا ایسا بتتدلہ
ہم اور کسی کو نہیں دیتے۔
اور ہم نے ان کے اور ان کی بستیوں کے درمیان ،جنہیں ہم ن تے برکتتت دی ت ھی ،نمایتتاں
بستیاں بسا دی تھیں اور ان میں سفر کی مسافتیں ایک اندازے سے رکھ دی تھیتتں۔ چلتتو
پھرو ان راستوں میں رات دن پورے امن کے ستاتھ۔ مگتر ان ہوں نتے ک ہا’ ،اے ہمتتارے رب!
ہمارے راستوں کی مسافت لمبی کر دے۔‘انہوں نے اپنے اوپر ظلتم کیتا ۔ آختر کتار ہ ہم نتے
انہیں افسانہ بنا کر رکھ دیا اور انہیں بالکل ہی تتر بتر کر ڈال۔ یقینا اس میں نشانیاں ہیتتں
ہر اس شخص کے لئے جو بڑا صابر و شاکر ہو۔ “ )السبا ( 19-34:15
ان آیات سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعال ٰی کو اس بات پر کتتوئی اعتتتراض نہیتتں ہے کتہ
اس کے بندے اس کی نعمتوں سے لطف انتتدوز ہوں۔ اس کتتا مطتتالبہ صتترف نعمتتتوں پتتر
شکر ادا کرنے کا ہے۔ سبا کے اس عروج و زوال کو بیان کرنے کا مقصد صتترف ی تہ ہے ک تہ
انسان کو بتایا جائے کہ اگر وہ اپنے رب کا شکر گزار بندہ نہ بنے تو پھر اس کی کامیابی کو
ناکامی میں بدل دیا جاتا ہے۔ یہ عین ممکن ہے کہ اس دنیا میں ایسا نہ ہو لیکن انسان کتتی
اصل زندگی یعنی آخرت میں ایسا ضرور ہو گا۔
اب ہا
کچھ دیر ادھر ادھر گھوم کر ہم واپس ہوئے۔ اترتے ہوئے پھر گاڑی کو ستتب س تے بتتڑے گیئر
پر رکھنا پڑا۔ پہاڑی سفر کے دوران ،مسلسل اترائی میں ہمیشہ بتتڑا گیئر استتتعمال کرنتتا
چاہئے ورنہ بریک کا استعمال زیادہ ہو جاتا ہے اور بریکیں گرم ہو کر کام چھوڑ دیتتتی ہیتتں۔
واپسی پر چوکی پر ہمیں روکا گیا اور اقامہ چیک کرنے کے علوہ ساتھ گاڑی کی ڈگی بھی
چیک کی گئی۔ شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یمنی لوگ اس راستے سے انستتانوں اور اشتتیاء
کی سمگلنگ وغیرہ کرتے ہوں گے۔ اس کے بعد ہم واپس صبیہ کی طرف روانہ ہوئے۔ صتتبیہ
سے ہم واپس جدہ کی طرف روانہ ہوئے۔ ”درب“ کے مقام سے ہم ن تے اپنتتا رخ ”اب ہا“ کتتی
طرف کر لیا جو یہاں سے محض ایک سو کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔
درب سے ابہا کا راستہ بالکل ایسا ہی تھا جیسا کہ ہمارے شمالی علقہ جات کے راستتتے
ہیں۔ روڈ کے ایک طرف اونچے اونچے پہاڑ تھے اور دوسری طرف دریا۔ ہمارے دریتتاﺅں کتتے
برعکس یہ دریا خشک پڑا تھا۔ ہم نے اسے ”دریائے ابہا“ کا خطاب دیا۔ عرب کے تمام دریتتا
ایسے ہی شدت پسند ہیں۔ اعتدال سے بہنا تو ان ہوں نتے ستتیکھا ہی نہیتتں۔ یتہ ستتارا ستتال
خشک پڑے رہتے ہیں لیکن جب بتتارش ہوتی ہے تتتو پ ھر ان میتتں ستتیلب ہی آ جاتتتا ہے۔
مسلسل ڈرائیونگ کے باعث مجھے اب کافی کی طلب ہو رہی تھی۔ ایک پیٹرول پمتتپ پتتر
شیشوں سے بنی ہوئی خوب صورت کافی شاپ سے میں نے کافی لتتی۔ بچتتوں کتتو کولتڈ
ڈرنک لے کر دیے اور پھر چل پڑا۔ ہمارے پاکستان میں صرف چائے کا رواج ہے۔ گتتوادر ک تے
ساحلوں سے لے کر کے ٹو کے بیس کیمپ تک ہر مقام پر چائے دستیاب ہو جاتی ہے لیکتتن
کافی بڑے شہروں میں بھی صرف مخصوص مقامات پر دستیاب ہوتی ہے۔ سعودی عرب
میں کافی ہر جگہ میسر ہے۔
تھوڑی دور جتتاکر روڈ ٹتتوٹی ہوئی ت ھی۔ پ ہاڑوں پتتر نئی روڈ کتتی تعمیتتر جتتاری ت ھی۔
عارضی طور پر ایک روڈ دریا کے بیچ میں سے گزاری گئی ت ھی۔ ہم ب ھی اس ستے دریتتا
میں اتر گئے۔ یہاں ڈھیر سارے بندر ایک غول کی صورت میتتں بیٹ ھے ت ھے۔ متتاریہ کتتو بنتتدر
177
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
بہت پسند ہیں۔ وہ انہیں دیکھ کر شور مچانے لگتتی۔ بنتتدر اچ ھل کتتود ر ہے ت ھے۔ مج ھے یتہ
خطرہ لحق ہوا کہ کہیں کوئی سر پھرا ہماری گاڑی میں نہ آ گھس تے۔ ان میتتں ایتتک بتتزرگ
بندر بھی تھا جو بڑی سنجیدہ صورت بنائے بیٹھا تھا۔ تمام بندر اس کا بڑا احترام کتتر ر ہے
تھے اور اس کے احکامات پر عمل کر رہے تھے۔ کچھ دیر یہاں رکنے کے بعد ہم روان تہ ہوئے۔
اب مسلسل چڑھائی کاسفر تھا۔ ہم آہستہ آہستتتہ بلنتتدی کتتی طتترف جتتارہے ت ھے۔ اب ہا اب
قریب آتا جارہا تھا۔
مجھے چونکہ مختلف مقامات کو ایک دوسرے سے تشبیہ دینے کا بہت شوق ہے اس لئے
یہ چڑھائی مجھے بالکل مال کنڈ کی چڑھائی جیسی لگی۔ درگئی سے نکلتے ہی مال کنڈ کتا
درہ آجاتا ہے جس کے بیچوں بیچ سرنگ بھی بنی ہوئی ہے۔ درہ اب ہا پتتر ایتتک کتتی بجتتائے دو
سرنگیں تھیں۔ کافی اوپر جاکر پہاڑ کو کاٹ کر سڑک بنانے کی بجائے پہاڑ کے گرد ایک پل
بنا دیا گیا تھا۔ اگر ایسا ممکن ہو جائے کہ ہر مقام پر پہاڑ پر گول گھومتے ہوئے پل بنتا دیتے
جائیں تو پہاڑ کو ڈائنامیٹ سے اڑانے کی ضتترورت ہی نتہ پیتتش آئے گتتی جتتس کتے بتتاعث
پہاڑوں میں لینڈ سلئیڈنگ ہوتی رہتی ہے۔ مجھے چوں کہ سول انجینئرنگ کی ابجد کتتا ب ھی
علم نہیں اس لئے انجینئر حضرات سے ان کے فن میتتں اس من تہ متتاری پتتر معتتذرت کرتتتا
ہوں۔
آخر کار ہم ابہا جا پہنچے جو طائف کی طرح انتہائی بلنتتدی پتتر واقتتع ایتتک وستتیع وادی
میں واقع ہے۔ اس کی سطح سمندر سے اوسط بلندی تقریبا ً 8000فٹ ہے۔ یہاں موستتم
178
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
خنک تھا۔ سعودی عرب کی شدید گرمی میتتں جتتب ش تہروں میتتں درج تہ حتترارت 55اور
صحراﺅں میں 80درجے سینٹی گریڈ تک پہنچ جاتا ہے ،ابہا کا درج تہ حتترارت 25س تے نہیتتں
بڑھ پاتا۔ ہم ابہا رنگ روڈ پر چل پڑے۔ تھوڑی دورجا کر ہمیں ایک سبز رنگ کی پہاڑی نظتتر
آئی جس پر دائرے کی صورت میں پودے لگائے گئے تھے۔ یہ مقام ’جبل اخضتتر‘ کہلتتتا ہے
اور پہاڑی پر پودے مصنوعی طور پر ترتیب سے لگائے گئے ہیں۔ یتہ ایتتک بتتڑا پکنتتک ستتپاٹ
ہے۔ اس وقت ہمیں بہت بھوک لگ رہی تھی ،اس لئے ایک پاکستانی سے ہم ن تے پاکستتتانی
ہوٹل کے بارے میں پوچھا اور سیدھے وہیں روانہ ہوئے۔ ہوٹل پر پہنچ کر نان پتائے کھ ہانے کتے
بعد ہم واپس جبل اخضر کی طرف روانہ ہوئے۔
جبل اخضر
پہاڑ پر انٹری کی ٹکٹ 25ریال تھی۔ اوپر پہنچے تتتو ایتتک وستتیع پارکنتتگ ت ھی ج ہاں فتتٹ
پاتھوں پر لوگ قالین بچھائے بیٹھے تھے۔ ایک طرف چیئر لفتتٹ کتتا پتتوائنٹ ت ھا ج ہاں ستے
چیئر لفٹ پوری وادی ابہا کا چکر لگا رہی تھی۔ آسمان پر گھنے بادل تھے۔ سعودی عتترب
آکر ہم لوگ بارش کو ترسے ہوئے تھے۔ ہم نے بارش کی بہت دعتتا کتتی لیکتتن ستتوائے چنتتد
بوندوں کے اور کچھ نصیب نہ ہوا۔کچھ دیر وہاں گزار کر ہم ش تہرکا چکتتر لگتتانے نکل تے ۔ ی تہ
چھوٹاسا جدید شہر تھا۔ ستتعودی عتترب ک تے تمتتام ش تہر ہی جدیتتد نظتتر آتتے ہیتتں کیتتونکہ
حکومت عوام پر رقم خرچ کرتی ہے۔
مغرب کی نماز کے بعد ہم واپس آئے۔ اندھیرے میں جبل اخضر بہت خوبصورت نظتتر آ
رہا تھا جس پر سبز رنگ کی لئٹیں لگائی گئی تھیں۔ پاکستانی ہوٹل ک تے قریتتب ہی ایتتک
فرنشڈ اپارٹمنٹ میں ہمیں بمشکل جگہ ملی۔ اپارٹمنٹ کی ریسپشن پر ابہا کے بارے میں
کئی بروشر ملے۔ ایک بروشر میں پورے سال میں کئے جانے والے ثقتتافتی پروگرامتتز کتتی
تفصیل دی گئی تھی۔ رات کو اچھی خاصی سردی تھی اس لئے اے سی کی ضتترورت ن تہ
تھی۔ صبح اٹھ کر ہم لوگ ناشتے کے لئے روانتہ ہوئے۔ ل ہوری چنتے کتے ستاتھ پراٹ ھے ب ہت
مزیدار معلوم ہوئے۔ میں نے ہوٹل کے مالک سے ابہا کے تفریحتتی مقامتتات ک تے بتتارے میتتں
پوچھا۔ انہوں نے ’وادی سودہ‘ جانے کا مشورہ دیا۔ میں نے نقشہ نکتتال کتتر وادی ستتودہ کتتا
مقام متعین کیا۔ اب ہمتتارا واپستتی کتتا ارادہ ت ھا اور ستتودہ جتتانے ستے ہمیتتں 50کلومیتتٹر
اضافی سفر طے کرنا پڑتا۔ خیر ہم آئے ہی اسی مقصد ک تے لئے ت ھے ،چنتتانچہ نکتتل ک ھڑے
ہوئے۔
نجران
ہم لوگ اب ابہا کے رنگ روڈ پر آگئے۔ یہاں سے ایک سڑک ’خمیس مشیط‘ کی طرف نکل
رہی تھی جو ابہا سے آگے ایک اور پہاڑی شہر ہے۔ ہمارے پاس اتنا وقتت نتہ ت ھا کتہ ی ہاں کتا
سفر بھی کرتے اس لئے اسے اگلے ٹور کے لئے رکھا اور آگے روانہ ہو گئے۔ خمیتتس مشتتیط
سے دوسو کلومیٹر کے فاصلے پر نجران ہے جو عتترب کتتا مش تہور تتتاریخی ش تہر ہے۔ ع ہد
رسالت میں یہ شہر عیسائیت کا مرکز تھا۔ جب حضور صلی اللہ علیتہ وستتلم کتتی دعتتوت
یہاں پہنچی تو یہ لوگ ایک وفد کی صورت میں مدینہ حاضر ہوئے۔ رستتول الل تہ صتتلی الل تہ
علیہ وسلم نے ان سے بہت اچھا سلو ک کیا اور ان کے رہنے کا انتظتتام مستتجد نبتتوی میتتں
کیا۔ ان کو اللہ تعال ٰی کے آخری دین کی دعوت دینے ک تے لئے ستتورہ آل عمتتران کتتی آیتتات
179
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
نازل ہوئیں۔ سیدہ مریم رضی اللہ عنہا اور سیدنا عیسی علیہ الصلوة والسلم کتتی ستتیرت
اور دعوت کو تفصیل سے بیان کرنے کے بعد ان پر اتمام حجت ک تے لئے آیتتت مبتتاہلہ نتتازل
ہوئی:
اللہ کے نزدیک عیس ٰی کی مثال آدم کی سی ہے کہ اللہ نے اسے مٹی سے پیدا کیا اور حکتتم
دیا کہ )زندہ( ہو جا اور وہ ہوگیا۔ یہ اصل حقیقت ہے جو تمہیں تم ہارے رب کتتی جتتانب س تے
بتائی جارہی ہے تو تم شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔ یہ علم آ جانے کے بعتتد اگتتر کتتوئی
آپ سے اس معاملے میں بحث کرے تو آپ فرمائیے :آﺅ ہم اور تتتم ختتود ب ھی آ جتتائیں اور
اپنے بال بچوں کو بھی لے آئیں اور خدا سے دعا کریں کہ جتتو جھوٹتتا ہو اس پتتر ختتدا کتتی
لعنت ہو۔۔۔۔
اے اہل کتاب! آﺅ ایسی بات کی طرف جو تمہارے اور ہمارے مابین مشترک ہے ک تہ ہم الل تہ
کے سوا کسی کی بندگی نہ کریں اور اس کے ساتھ کسی کو شتتریک ن تہ ٹھہرائیتتں۔اور ہم
میں سے کوئی کسی اور اللہ کے سوا اپنا رب نہ بنائے۔ “) ٰال عمران ( 64-3:60
چونکہ یہ لوگ اھل کتاب تھے اور اللہ تعالی کے اس قانون سے واقف تھے کتہ وہ اپنتے
رسول کے مقابلے میں کسی کو کامیاب نہیں ہونے دیتا اس لتۓ یتہ مقتابلے پتر نتہ آۓ
اور جزیہ دینا قبول کیا۔
وادی سود ہ
آدھ گھنٹے میں ہم سودہ میں داخل ہوگئے۔ بلمبالغہ یہ مقام ہمارے سفر کتتی معتتراج ت ھی۔
اتنی خوبصورت وادی میں نے اب تک سعودی عرب میں نہ دیکھی ت ھی۔ حقیقتتی معنتتوں
میں اگر عرب کے مقامات کی بلحاظ قدرتی حسن درجہ بندی کی جتتائے تتتو وادی ستتودہ
پہلے نمبر پر آئے گی۔ وادی کے دونوں جانب سبزے سے ڈھکے ہوئے پہاڑ تھے جو چوٹی ستتے
لے کر نشیب تک آر ہا تھا۔ ایک جانب ابہا انٹر کانٹی نینٹل ہوٹل تھا۔
وادی میں انسانی قد کے برابر بہت سے پودے تھے۔ مج ھے ان پتتودوں ک تے درمیتتان ہل
چل محسوس ہوئی۔ غور کرنے پر معلوم ہوا کہ ان کے درمیان ب ہت ستتی فیملیتتاں بیٹ ھی
ہیں۔ بہت سے لوگوں نے یہاں کیمپ لگائے ہوئے تھے اور ان میں بیٹھے انجوائے کر رہے تھے۔
وادی میں فرنشڈ اپارٹمنٹ بھی تھے۔ ہمیں افسوس ہوا کہ ہم نے خواہ مخواہ ہی رات اب ہا
میں گزاری۔ اگر اس جگہ کا پہلے علم ہوتا تو رات یہیں گزارتے۔ موستتم میتتں د ھوپ کتتی
تمازت اور ہوا کی خنکی دونوں موجود تھیں۔
180
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
میں سوچنے لگا کہ انسان اتنی کثیر تعداد میں ایسے مقامات پر کیتتوں آت تے ہیتتں۔ دنیتتا
میں کسی ب ھی حستتین مقتام کتتو دیکتھ لیجئے ،ستتیاحوں کتے غتتول کتے غتتول ستتفر کتی
صعوبتیں برداشت کرکے پہنچ رہے ہوتے ہیں۔ سبزہ ،پانی ،موستتم کتتی خنکتتی ،د ھوپ کتتی
تمازت انسان کو اپنی طرف متوجہ کرتی ہیں۔ ہمارے پاکستان میتتں لتتوگ جتتوق در جتتوق
شمالی علقہ جات کا سفر کرتے ہیں۔اہل مغرب اس معاملے میں بہت بتتاذوق واقتتع ہوئے
ہیں۔ یہ لوگ سارا سال بچت کرتے ہیں اور سالنہ چھٹیوں میں کسی نہ کسی حسین مقام
کی طرف روانہ ہوتے ہیں۔
کافی غور کرنے پر مجھے معلوم ہوا کہ انسان میں فطری طتتور پتر جنتت کتی شتتدید
خواہش ہے۔اگر کسی بھی انسان سے یہ پوچھا جائے کہ جناب اگر آپ کتتو ایس تے مقتتام پتتر
رکھا جائے جہاں بہترین باغتتات ہوں ،ان میتتں نہریتتں رواں دواں ہوں ،آپ کتتو ب ہت اچ ھے
ساتھی میسر ہوں ،نیک شریک حیات ہو ،پیارے پیتتارے بچ تے ہوں ،مزیتتدار ک ھانے اور پ ھل
ہوں ،کوئی غم نہ ہو ،کوئی بیماری نہ ہو ،ہر طرف خوشی ہی خوشی ہو اور موت بھہہی نتہ
ہو تو کیا آپ وہاں رہنا پسند کریں گے؟ ہر نارمل انسان کا جواب اثبتتات میتتں ہہہی ہہہو گتتا۔
اسی جذبے کے تحت ہر شخص اپنی دنیا کو جنتتت بنانتتا چاہتتتا ہے اور اس کتے لئے بھرپتتور
محنت کرنے کو تیار نظر آتا ہے۔
یہ بات تو طے ہے کہ اس دنیا کا ڈیزائن ایسا ہے کہ اس کو جنت نہیں بنایا جاسکتا۔ ی ہاں
آرام کے ساتھ دکھ بھی ہوں گے۔ نعمتوں کے ساتھ تکالیف بھی ملیں گی۔ پ ھول ک تے ستتاتھ
کانٹے بھی ہوں گے۔ یہ دنیا جنت کی بعض نعمتوں اور جہنم کے بعض مستتائل کتتا مجمتتوعہ
181
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہے۔اس دنیا کے خالق نے انسان کو ہمیشہ سے بتتتا دیتتا ہہہے ک تہ ان نعمتتتوں اور مستتائل کتتو
انسان کی اصل زندگی میں الگ کیا جائے گا۔ اگر انسان نعمتوں والی زندگی چاہتا ہے تتتو
اس کے لئے کوئی کڑی شرط نہیں ہے۔ اسے صرف اتنا کرنا پڑے گا کہ وہ خالق کائنتتات کتتا
نافرمان اور سرکش بندہ بن کر نہ رہے۔ ایسا نہیں ہے ک تہ وہ ہر عیتتب س تے بالکتتل پتتاک ہو
جائے۔ اس سے غلطیاں بھی ہوں گی ،کوتاہیاں بھی ہوں گی لیکن اس کے بعد کیا وہ اپنتتے
معبود کے سامنے سرکشی پر اترتا ہے یتا تتوبہ کتے ذریعتے اپنتی کوتتاہیوں کتتو د ھونے کتی
کوشش کرتا ہے؟ یہ اصل امتحان ہے جس کا بدلہ جنت کے سوا کچھ نہیں۔ دنیا میتتں جنتتت
کے یہ نمونے انسان کو یہی درس دیتے ہیں۔
لوگوں کے لئے مرغوبات نفس یعنی عورتیں ،اولد ،سونے چاندی کتے ڈھیتتر ،چیتتدہ گ ھوڑے
)سواریاں( ،مویشی اور زرعی زمینیں بڑی خوش آئند بنا دی گئی ہیں۔ مگر یہ ستتب دنیتتا
کی چند روزہ زندگی کے مال و اسباب ہیں۔ حقیقت میں جو بہتر ٹھکانہ ہے ،وہ تو الل تہ ک تے
پاس ہے۔ آپ کہیے’ ،میں تمہیں ایسی چیز نہ بتا دوں کہ اس سے زیادہ اچھی چیتتز کیتتا ہے۔
جو لوگ تقو ٰی کی روش اختیار کریں ،ان کے لئے ان کے رب کے پاس باغ ہیتتں ،جتتن ک تے
نیچے نہریں بہتی ہیں ،وہاں انہیں ہمیشگی کی زندگی نصیب ہو گی ،پتتاکیزہ شتتریک حیتتات
ان کے رفیق ہوں گے اور اللہ کی رضا سے وہ سرفراز ہوں گے۔“ ) ٰال عمران ( 16-3:14
کافی دیر یہاں کے موسم اور ماحول سے لطف اندوز ہو کر ہم روانہ ہوئے۔ اب ہمتتاری
منزل جدہ تھی لیکن واپسی کے لئے ہم نے کوسٹل ہائی وے کی بجائے پہاڑی راستتتہ اختیتتار
کیا۔ یہ راستہ پہاڑوں میں سے گزرتتتا ہوا تنومتتا ،الجرشتتی ،البتتاحہ ،اور حبتتوب کتے راستتتے
طائف آ نکلتا ہے۔ طائف تک کا یہ سفر تقریبا ً 650کلومیٹر طویل ہے۔ اگتتر ی ہاں متتوٹر وے
ہوتی تو یہ محض چار پانچ گھنٹے کی ڈرائیو تھہہی لیکتتن یتہ ایتتک اچھ ہی کوالتتٹی کتتی پہ ہاڑی
سڑک تھی۔ یہ فاصلہ شاہراہ قراقرم کے راستے اسلم آبتتاد س تے گلگتتت ک تے مستتاوی ت ھا۔
پاکستان میں یہ سفر بارہ تیرہ گھنٹے میں طے ہوتا ہے جبکہ اس راستے سے ابہا سے طتتائف
کا سفر ہم نے آٹھ گھنٹے میں طے کیا۔
ہم لوگ سودہ سے روانہ ہوئے۔ تھوڑی دور جاکر روڈ کے قریب ایک گہہہری کھہہائی تھہہی۔
ہم وہیں رک گئے اور کھائی کا نظارہ کرنے لگے۔ یہ اتنی گہری جگہ تھہہی کتہ کھہہائی کتتی تہہہہ
صاف نظر نہ آ رہی تھی۔ یہاں ایک افریقی عرب رنگ برنگے ڈبوں میں کوئی رنگ برنگتتی
چیز بیچ رہا تھا۔ میں نے اس سے طائف کا راستہ کنفرم کیتتا اور اس چیتتز ک تے بتتارے میتتں
پوچھا۔ معلوم ہوا کہ یہ حلوے ہیں۔
چار پٹ ھان
تھوڑا سا آگے چلے۔ اب ہم ایک سر سبز وادی میں تھے۔ اچانک ایک جانب سے چتتار پٹ ھان
نمودار ہوئے۔ بھاری بھرکم شلوار قمیص پر انہوں نے بڑی بڑی پگڑیاں باندھی ہوئی تھیں۔
ایک لمحے کو ایسا محسوس ہوا کہ ہم شاید دیر یا سوات کی کسی وادی میں ہیں کیونکہ
منظر بالکل وہی تھا۔ ایک بورڈ سے معلوم ہوا کہ یہ وادی زبنہ ہے۔ یتہ ایتک ستر ستتبز وادی
تھی اور مخصوص پہاڑی انداز میں سٹیپ بائی سٹیپ کھیت نظر آر ہے تھے۔ یہاں پت ھروں
کا بنا ہوا ایک مینار بھی تھا۔
عرب ٹورازم
182
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
کچھ ہی دیر میں ہم ابہا طائف ہائی وے پر جا نکلے۔ راستے میں ہمیتتں ایتتک عجیتتب منظتتر
دیکھنے کو مل۔ بے شمار لوگ اپنی جی ایم سی جیپوں کی چھت پر خیمے باندھے ابہا کتتی
طرف جارہے تھے۔ اس علقے میں جی ایم سی سب سے مقبول جیپ تھی۔ اس کتے بعتتد
ٹویوٹا پراڈو کا نمبر تھا۔ پورے عرب سے کثیر تعتتداد میتتں لتتوگ گرمیتتوں میتتں اب ہا کتتا رخ
کرتے ہیں اور کیمپنگ سے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ اگرچہ سعودی عرب ٹورسٹ ویزا جتتاری
نہیں کرتا لیکن متحدہ عرب امارات ،کویت ،قطر ،بحریتتن اور عمتتان س تے ہزاروں ستتیاح
اس مقام پر آتے ہیں۔ ان چھ ممالک کے رہائشیوں کے لئے دوسرے ملک جانے پر ویتتزا کتتی
کوئی پابندی نہیں ہے۔
اگر سارک ممالک بھی عقل سے کام لیں اور آپس میں بغیتتر ویتتزا انتتٹری کردیتتں تتتو
یہاں ٹورازم کو بہت فروغ مل سکتا ہے کیونکہ پاکستان ،بھارت ،نیپال اور سری لنکا میتتں
جتنے مقامات سیاحوں کی کشش کے لئے موجود ہیں اتنے شاید پوری دنیتتا میتتں ن تہ ہوں۔
ٹور ازم کو فروغ صرف امن سے ملتا ہے۔ امن کا فائدہ صرف ایک ملک کو نہیں بلکہ سب
کو ملتا ہے۔ افسوس ہمارے خطے میں اختلفات کو امن سے زیادہ اہم سمجھا جاتا ہے۔
اب ہمارے ایک جانب عمودی چٹانیں نظر آ رہی تھیں۔ تھوڑی دور جا کر ایتتک چڑ ھائی
آئی جو بالکل سیدھی تھی۔ یتہ عجیتتب و غریتتب چڑ ھائی ت ھی جتتو بالکتتل ستتیدھی ت ھی۔
عموما ً پہاڑوں پر چڑھنے والی روڈ زگ زیگ انداز میں گھومتی ہوئی اوپر جاتی ہے۔ لیکتتن
یہ تو بالکل سیدھی سڑک تھی جو کئی کلومیٹر تک بس اوپر ہی اوپر جارہی ت ھی۔ بلنتتدی
پر پہنچ کر بندروں نے ہمارا استقبال کیا ۔ بچوں کی ختتواہش کتے مطتتابق میتتں نتے گتتاڑی
روک دی۔ یہاں اور لوگ بھی رکے ہوئے تھے۔ حسب روایت یہ اپنے بزرگ بندر کے ساتھ ت ھے
جو ایک نوجوان کو کسی بات پر سرزنش کر رہا تھا۔ نوجتتوان بنتتدر بتتڑی فرمانبردارستے
سر جھکائے اس کی کھری کھری باتیں سن رہا تھا۔ ایک بندر گاڑی کے بونٹ پر بیٹھا ت ھا۔
کئی بندریاﺅں کے بچے ان کے سینے سے لٹکے دودھ پی رہے تھے۔ لوگ انہیں کھانے پینے کتتے
لئے دیتے ہیں ،اسی لئے یہ سارا دن سڑک کے کنارے بیٹھے رہتے ہیں۔
الباح ہ
آگے تنوما اور جرشی کے شہر آئے۔ یہ دونوں شہر وادیوں کے عین درمیان واقع ت ھے۔ ی ہاں
کے لوگوں کا پیشہ کھیتی باڑی ہی تھا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس پورے سفر میں ہم جس
شہر یا قصبے سے گزرے وہاں ہم نے پاکستانی ضرور دیکھے۔ 450کلومیٹر کا طویل سفر
طے کرنے کے بعد ہم الباحہ پہنچے۔ بچوں کو اب بھوک لگ رہی تھی لیکن شہر میتتں عصتتر
کی اذان ہو رہی تھی جس کے باعث تمام ہوٹل بند ہو ر ہے ت ھے۔ یتہ شتہر صتتوبہ البتتاحہ کتتا
دارلحکومت ہے۔ شہر خاصا ترقی یافتہ نظر آ رہا تھا۔ الباحہ سے طائف جانے کے دو راستے
ہیں۔ ہم نے وہاں چند پاکستانیوں سے بہتر اور مختصر راستے کے بارے میں پوچھا تو انہہہوں
نے ہمیں ایک راستے کے بارے میں بتایا۔ وقت بچانے ک تے لئے ہم ی ہاں ن تہ رک تے اور ستتیدھے
چلتے رہے۔ پندرہ منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہم ہائی وے پر ایک مستتجد کتے قریتتب جتتا پہنچتے۔
وہاں عصر کی نماز ادا کی ۔ مسجد کے ساتھ واقع ایک ہوٹل سے برگر اور کولڈ ڈرنتک لئے
اور پھر چل پڑے۔ ہماری کوشش یہ تھی کہ مغرب تک ہم طائف پہنچ جائیں۔
183
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اب ہمارا گزر وادی بوا سے ہوا۔ یہ مقام مجھے کریم آباد سے آگ تے درہ خنجتتراب جیستتا
لگا۔ کمی صرف دریا کی تھی۔ میری اہلیہ کہنے لگیں” ،آپ ہر مقام کو پاکستان کے کسی
مقام سے تشبیہ دیتے ہیں ،اگر کوئی اور یہ سفر کرے اور اسے اس کے برعکتتس احستتاس
ہو تو وہ آپ کو کیا کہے گا۔“ میں نے کہا ” ،میں محض اپنا احساس بیان کرتا ہ ہوں۔قتارئین
میں سے اگر بالفرض کوئی ایسا ایتڈونچر پستتند پیتتدا ہوجتتائے جتتو پاکستتتان کتے ان تمتتام
مقامات کا سفر بھی کرے اور پھر سعودی عرب آکتتر یتہ مقامتتات ب ھی دیک ھے تتتو میتتری
کوئی ذمہ داری نہیں کہ اسے بھی بالکل یہی احساس ہوگا۔“ وادی بوا سے آگ تے کھجتتوروں
کے باغات اور کھیت پھیلے ہوئے تھے۔ اب ہم لمحہ بہ لمحہ طائف کے قریب ہوتے جارہے تھے۔
184
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
185
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اس علقے کے لوگوں کا پیشہ اب بھی گلہ بانی ہے۔ بہت سے مقامات پتر جتانوروں کتے
ریوڑ بھی نظر آئے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ و ٰالہ وسلم کی گلہ بانی کی یاد دلیا کرتتتے
تھے۔ آپ کا ارشاد ہے کہ بشمول آپ کے تمام انبیاء نے گلہ بانی کا پیشہ اختیار فرمایتتا ت ھا۔
کچھ دیر یہاں رک کر ہم نے تصاویر کھینچیں۔ اس کے بعد واپس ہوئے اور طائف کی جانب
روانہ ہوئے۔
طائف کے قریب پہنچ کر ٹریفک بہت زیادہ ہو گئی اور گاڑیوں کتتی طویتتل قطتتار چلنتے
لگی۔ یہ بھی شکر ہے کہ ہم سب 70-60کی رفتار سے جا رہے تھے۔ ستتنگل روڈ کتتی وج تہ
سے اوور ٹیک کا کوئی موقع نہ تھا۔یہاں کچھ دیر لگی۔ بالخر ہم طائف جتتا پہنچتے۔ طتتائف
میں ہمارا رکنے کا کوئی پروگرام نہ تھا۔ شہر سے گزر کر ہم وادی ہدا جا پہنچ تے اور و ہاں
سے نیچے اترنے لگے۔ اب اندھیرا ہو چکا تھا۔ اس دن جمعہ تھا اور ب ہت س تے لتتوگ طتتائف
میں دن گزار کر واپس مکہ اور جدہ جارہے تھے۔
اس وقت یہ 4000فٹ گہری اترائی بہت خوبصورت منظر پیش کر رہی تھی۔پہاڑ کتی
چوٹی سے لے کر نیچے تک لئٹوں کی ایک حرکت کرتی ہوئی قطار تھی۔یہ بالکل ایسا ہی
منظر تھا جیسا کہ ہمارے ہاں تقریبات وغیرہ پر عمارتوں پتتر متحتترک لئٹیتتں لگتتائی جتتاتی
ہیں۔بل کھاتی ہوئی سڑک پر لئٹیں حرکت کر رہی تھیں۔ میں نے گاڑی کو بڑے گیئر میتتں
ڈال تاکہ یہ زیادہ اسپیڈ نہ پکڑ سکے اور بریکوں کا استعمال کم سے کم کیا جائے۔ آختتر کتتار
ہم نیچے جاپہنچے۔ کچھ ہی دیر میں ہم مکہ میں تھے۔ شہر کے اندر سے گزرتے ہوئے ہم جتدہ
186
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہائی وے پر آگئے اور دس گھنٹے کے طویل سفر کے بعد بالخر جدہ پہنچ گئے۔
187
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
نومبر کے مہینے میں مجھے ایک دفتری کام سے "الخبر" جانا پتتڑا جتتو ستتعودی عتترب کتے
مشرقی صوبے میں واقع ہے۔ خبر اور دمام دونوں جڑواں شہر ہیں جن کے درمیان محض
بیس کلومیٹر کا فاصلہ ہے۔ ان کے قریب ہی "ظ ہران" کتتا علقتہ ب ھی ہے ج ہاں ستتعودی
آرامکو کے ہیڈ کوارٹرز ہیں۔ یہ خطہ اور اس کا سمندر تیل کی دولت سے مال مال ہے اور
دنیا کا تیل کا سب سے بڑا ذخیرہ بھی اسی علقے میں واقع ہے۔
اس سفر میں میرے ساتھ ایک کولیگ محمد فوزی سلم بھی الخبر جا رہے تھے۔ ہمیتتں
وہاں تین کمپنیوں کا انفارمیشن سسٹمز آڈٹ کرنا تھا۔ میرا پروگرام صتترف ایتتک دن کتتا
تھا۔ میں کام شروع کروا کے شام کو واپس جدہ آ جاتا جبکہ فتتوزی نتے و ہاں تیتتن دن رک
کر تفصیلی آڈٹ کرنا تھا۔ فوزی کا تعلق مصر سے ہے اور کمپیوٹر سافٹ وئیر ستے انہیتں
جنون کی حد تک عشق ہے۔ وہ ہر طرح کے سافٹ وئیر کی معلومات کا چلتا پھرتا ذخیتترہ
ہیں اور ہمیں جب بھی کسی بھی سافٹ وئیر کی ضرورت پڑتی ہے ،ہم انہہہی س تے پتتوچھ
لیتے ہیں اور نوے فیصد معاملت میں وہ ہمارا مسئلہ حل کر دیتے ہیں۔
ہماری فلئیٹ صبح سات بجے کی تھی چنانچہ میں پانتتچ بجتے بیتتدار ہہہوا ،اس کتے بعتتد
فوزی کے موبائل پر فون کر کے انہیں جگایا ،غسل کیا ،سوٹ پہنا ،وتتتر کتتی تیتتن رکعتتتیں
ادا کیں ،کافی کا ایک کپ پیا ،اہلیہ کو خدا حافظ کہا اور روانہ ہو گیتتا۔ مج ھے ٹیکستتی کتتا
سفر نجانے کیوں ناپسند ہے۔ پھر اس پر مستزاد صتتبح صتتبح ک ہاں س تے ٹیکستتی ڈھون تڈتا،
چنانچہ میں اپنی ہی گاڑی پر ائر پورٹ روانہ ہو گیا۔ ابھی فجر کی جماعت ہونے میں کچ تھ
وقت تھا اور میرا ارادہ تھا کہ فجر کی نماز ائر پورٹ پر ادا کروں۔
ائر پورٹ پہنچ کر میں عام پارکنگ کتی بجتائے غلطتی ستے ایتک اور پارکنتگ میتں جتا
گھسا۔ وہاں پہنچ کر اندازہ ہوا کہ یہ پہلی پارکنگ س تے ب ہتر ہےکیتتونکہ ی ہاں ستتارا دن گتتاڑی
چھت کے اندر محفوظ طریقے سے کھڑی رہتی۔ لیپ ٹاپ کمپیوٹر کے علوہ کوئی ستتامان
میرے پاس نہ تھا۔ ائر پورٹ میں داخل ہوتے ہی میں سیدھا آٹو میٹک چیتتک ان مشتتین ک تے
پاس گیا اور اس سے بورڈنگ پاس کیا۔ اگر آپ کے پاس اضافی سامان نہ ہو تتتو چیتتک ان
کاؤنٹر پر جانے کی بجائے آپ مشین سے بھی بورڈنگ پاس حاصتتل کتتر ستتکتے ہیتتں۔ میتتں
واپسی کا بورڈنگ پاس بھی اسی وقت حاصل کر چکا تھا۔
تھوڑی دیر میں محمد فوزی بھی جھومتے جھامتے آ پہنچ تے۔ عتتام مصتتریوں کتتی طتترح
فوزی بھی وسیع و عریض وجود اور چ ہرے ک تے مالتتک ہیتتں۔ جتتدہ ائر پتتورٹ پتتر ٹنتتل کتتی
سہولت نہ تھی چنانچہ بس کے ذریعے ہم لوگ جہاز تک پہنچے۔ کثیر تعتتداد میتں مصتری اور
سعودی ایگزیکٹوز دمام جا رہے تھے۔ سعودی تو زیادہ تر اپنتے قتتومی لبتتاس "تتتوپ" میتتں
ملبوس تھے جبکہ مصریوں نے ایک سے بڑھ کر ایک سوٹ پہن رک ھے ت ھے۔ بلشتتبہ مصتتری
نہایت ہی خوش لباس قوم ہے۔ اس کے برعکس سعودی عرب کے لوگ اپنے کلچر کو بہت
اہمیت دیتے ہیں اور اپنے لباس اور زبان پر اصرار کرتے ہیں۔ عربوں کے بتارے میتں ہمتتارے
188
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہاں "عیاش" لوگوں کا تصور ہے جو بالکل غلط ہے۔ میرے اندازے کے مطتتابق عربتتوں ک تے
عیاش لوگوں کا تناسب ہماری قوم کی نسبت کافی کم ہے۔ دراصل لوگوں نے دولتمنتتدی
کے ساتھ عیاشی کا تصور منسوب کر لیا ہے جو کہ بالکل غلط ہے۔ بہت سے دولتمند ایسے
ہیں جو اللہ تعالی کو نہیں بھولتے اور اس کے حکم کے مطابق زندگی بسر کرتے ہیں۔
ہماری قسمت میں ایک چھوٹتتا بوئنتتگ 737ج ہاز ت ھا۔ پتتی آئی اے کتے ایستے ج ہازوں
دونوں طرف تین تین نشستیں ہوتی ہیں لیکن ی ہاں ایتتک لئن میتتں پانتتچ نشستتتیں تھیتتں
جس کی بدولت جہاز کھل کھل لگ رہا تھا۔ میں حسب عادت کھڑکی والی طرف بیٹھ گیا۔
فوزی کی سیٹ پیچھے تھی۔ دور مکہ کی جانب سے پہاڑیوں کے درمیان سورج طلتتوع ہو
رہا تھا۔ تھوڑی دیر میں یہ سورج بادلوں کے درمیان چھپ گیا۔ صبح کے ستتفر میتتں ایس تے
بہت سے خوبصورت مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
تھوڑی دیر میں جہاز کی فاصلہ اور رفتار بتانے والی اسکرین آن ہو گئی۔ دمتتام 1205
کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ بذریعہ سڑک یہ فاصلہ 1400کلومیٹر کے قریب ہے۔ جتتدہ س تے
دمام تک موٹر وے بنی ہوئی ہے جس کی بدولت یہ فاصلہ بارہ گھنٹے میں طے کیا جا ستتکتا
ہے۔ ہم چونکہ زیادہ رقم خرچ کرکے جہاز پر جا رہے تھے اس لئے یہ فاصلہ ڈیتتڑھ گھنٹ تے میتتں
طے ہونا تھا۔ اس دنیا کا یہ اصول ہے کہ زیادہ رقم خرچ کرو تو زیادہ س تہولیات ملتتتی ہیتتں۔
یہی اصول اصلی دنیا یعنی آخرت میں بھی کار فرما ہے کہ زیادہ نیکیاں کرو تو جنت میتتں
زیادہ سہولیات دستیاب ہوں گی۔
جہاز میں فلئیٹ سیفٹی کا حسب معمتتول بتتور کتتر دین تے وال لیکچتتر شتتروع ہو گیتتا۔
سعودی ائر لئنز کی فلئیٹوں میں یہ لیکچر بذریعہ اسکرین دیا جا ر ہا ت ھا۔ ہم لتتوگ دنیتتا
میں اپنی حفاظت کے بارے میں کس قدر فکر مند ہیں لیکتتن اصتتل زنتتدگی یعنتتی آختترت
میں جہنم سے حفاظت سے اکثر اوقات غفلت برت جاتے ہیں۔ خوش نصیب ہیتتں وہ لتتوگ
جو دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت کی سیفٹی کا بھی خیال رکھتے ہیں۔
تھوڑی دیر بعد جہاز ٹیک آف کر گیا۔ اب ہمتتارے بتائیں جتانب ابحتتر کریتتک نظتتر آ ر ہی
تھی۔ یہ واٹر اسپورٹس کا مقام ہے جہاں لوگ پانی میں واٹر اسکوٹرز اور چھوٹی لنچتتوں
کے ذریعے لطف اندوز ہوتے ہیں۔ انشاء اللہ جنت میں ایسے مقتتام بکتتثرت ہوں گ تے ج ہاں
لوگ دودھ ،شہد اور جنت کے پانی کے دریاؤں میں لطف اندوز ہوا کریں گے۔
درۃ العروس کے مقام کے اوپر سے گزرتے ہوئے ہم دمتتام کتتی طتترف متتڑ گئے۔ ہمتتارے
نیچے سے پہلے جدہ مدینہ روڈ گزرا اور پھر مک تہ متتدینہ ہائی وے۔ اب نیچ تے ستتیل کتتبیر کتے
سیلبی پانی کا راستہ نظر آ رہا تھا جس میں لوگوں نے کھیت اگائے ہوئے تھے۔ بادل گ ہرے
ہوتے جا رہے تھے جو جہاز سے چند سو فٹ نیچے ہوں گے۔ مجھے اپنا استتکردو س تے استتلم
آباد کا سفر یاد آیا جب ایسا ہی منظر تھا لیکن چند سو فٹ نیچے بادلوں کتتی جگ تہ بتترف
پوش چوٹیاں اور گلیشیر نظر آ رہے تھے۔ ہم لوگ نانگا پربت کے پاس سے گزرے ت ھے جتتو
جہاز کی نسبت بلند تھی اور ہمیں جہاز سے بھی اسے دیکھنے کے لئے اوپر دیکھنا پڑا تھا۔
بادلوں کی کثرت دیکھ کر میرے ذہن اللہ تعالی کی تخلیقی قتوت کتی طترف چل گیتا۔
اللہ تعالی جب کوئی چیز تخلیق کرتا ہے تو اس کے جلل کی بدولت وہ چیز بنتی ہی چلتتی
جاتی ہے۔ دور بادلوں میں ایک جھیل سی نظر آ رہی تھی جتتو کتہ یقینتا ً ایتتک ستتراب ت ھا۔
189
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ایسے ہی سراب صحراؤں میں بھی نظر آتے ہیں۔ یہ دنیا بھی استتی قستتم کتتا ستتراب ہے
جسے بعض لوگ اصل زندگی سمجھ بیٹھتے ہیں۔
اب ہم ریاض کے علقے سے گزر رہے تھے جہاں زمین پر گتول کھیتت نظتر آ ر ہے ت ھے۔
کچھ دیر کے بعد ہم ریاض دمام ہائی وے کے اوپر سے گزرتے ہوئے دمام ائر پتتورٹ پتتر لین تڈ
کر گئے جو شہر سے ساٹھ کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ لینڈ کرتے ہی ایتتک خوشتتگوار حیتترت
نے ہمارا استقبال کیا۔ ائر پورٹ پر موسل دھار بارش ہو رہی تھی۔ جدہ میں رہتے ہوئے ہم
لوگ بارش کو ترس گئے تھے جو یہاں ہمیتتں دستتتیاب ہو ر ہی ت ھی۔ عتترب کتے مشتترقی
علقوں میں نومبر سے لے کر جنوری تک اچھی خاصی بارش ہو جاتی ہے۔
ائر پورٹ پر فوزی سے دوبارہ ملقات ہوئی۔ میں نے انہیں کہا کہ وہ اپنا سامان لتتے کتتر
رینٹ اے کار کے کاؤنٹرز پر آ جائیں۔ سعودی عرب کے اکثر شہروں میتتں ائر پتتورٹ ش تہر
سے کافی دور ہوتے ہیں جس کی وجہ سے ٹیکسی والے بہت زیادہ رقم وصول کرت تے ہیتتں۔
اگر آپ کرائے پر گاڑی لے لیں تو یہ کافی سستی پڑتی ہے۔ اس کا سب سے بتتڑا فتتائدہ ی تہ
ہوتا ہے کہ آپ ٹیکسی والوں کے نخروں سے بھی بچ جاتے ہیتتں اور اپنتتی آزادی ستے جہ ہاں
چاہے جا سکتے ہیں۔
رینٹ اے کار والے سب سے پہلے بڑی اور مہنگی گاڑیاں کرائے پر اٹھاتے ہیتتں اور ستتب
سے آخر میں چھوٹی گاڑیاں نکالتے ہیں۔ میں چونکہ تین دن پہلے ہی ایک چ ھوٹی کتتار بتتک
کر چکا تھا اس لئے مجھے ایک ننھی منی سی ہونڈا سوک دستیاب ہو گئی۔ ظاہر ہے ج ہاں
شیور لیٹ کیپریس کا شمار بھی درمیانی گاڑیوں میں کیا جتتائے و ہاں ستتوک تتتو چ ھوٹی
گاڑی ہی کہلئے گی۔
190
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
الخبر کی کورنیش
میں دمام اور الخبر میں پہلی مرتبہ آیا تھا۔ چونکہ میں گوگل ارتھ ک تے ذریع تے ش تہر کتتا
تفصیلی مطالعہ کر چکا تھا اس لئے راستے کا تعین کرنے میں کوئی دشواری نہ ہوئی اور
ہم باآسانی خبر کی کورنیش پر جا پہنچے جہاں گلف میریڈین ہوٹل تلش کرنے میتتں ہمیتتں
کوئی مسئلہ درپیش نہ ہوا جو ہمارے دفتر کے قریب ہی تھا۔ پہنچے سے قبل میتتں ن تے ی ہاں
کے کولیگ محمد علی صاحب کتتو موبتتائل ک تے ذریع تے اطلع دے دی ت ھی ،وہ ب ھی یہیتتں آ
پہنچے اور ہمیں اپنی گاڑی کے پیچھے لگا کر دفتر ل تے گئے۔ دفتتتر میتتں اختتتر صتتاحب ستے
ملقات ہوئی جن کا تعلق راولپنڈی سے تھا۔ اختر صاحب ہمیں کلئنٹ کے دفتتاتر میتتں ل تے
گئے۔ دوپہر میں ہم نے چائنا ٹاؤن کا رخ کیا جو خبر کا سب سے بہترین چتائینز ریستٹورنٹ
ہے۔ فوزی کے لئے چائینیز کھانا کھانے کتا یتہ پہل موقتع تھ ہا۔ انہیتں یتہ کتافی پستند آیتا البتتہ
جھینگے کھانے کے باعث انہیں متلی کی سی کیفیت پیدا ہو گئی کیتتونکہ وہ ستتی فتتوڈ ک تے
عادی نہ تھے۔
شام میں کام سے فارغ ہوتے ہی ہم بحرین کاز وے کی طرف روانہ ہوئے۔ بحریتتن کتتاز
وے دراصل ایک پل ہے جو خبر اور بحرین کے جزیروں کے درمیان تعمیر کیتتا گیتتا ہے۔ اس
پل کی لمبائی تقریبا ً تیس کلومیٹر ہے۔ یہ پل سمندر پر تعمیر کیا گیا ہے۔ ختتبر ک تے اوقتتات
بھی عجیب و غریب ہیں۔ خبر اور جدہ کے سورج کے طلوع و غروب کے اوقات میتتں ایتتک
گھنٹے کا فرق ہے۔ اس حساب سے یہاں ساڑھے چار بجے ہی مغرب کی اذان ہو گئی۔ ی ہی
وجہ ہے چند کلومیٹر دور بحرین میں وقت ایک گھنٹہ آگے ہے۔
191
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
بحرین سعودی عرب کے مشرقی ساحل سے پینتیس کلومیٹر کے فاصلے پتتر ایتتک بتتڑا
جزیرہ ہے جو کہ آزاد ملک کی حیثیت رکھتا ہے۔ ارد گرد کے چھوٹے موٹے جزائر بھی بحرین
کی ملکیت ہیں۔ یہ عرب ممالک میں پہل ملک ہے جس نے مغربی کلچر کتتو اپنایتتا۔ بحریتتن
کے جزائر اپنے فطری حسن کے باعث سیاحوں کے لئے بہت کشش رکھتے ہیں۔
بحرین کاز وے پر داخل ہونے کے بیس ریال وصول کئے گئے۔ فوزی نے امریکن سستتٹم
کے تحت مجھے دس ریال دینا چاہے لیکن میں نے انکار کر دیا۔ میں نے کہا کہ میں ی تہ رقتتم
آپ کے موبائل سے کال کر کے وصول کتتر لتتوں گتتا۔ بحریتتن ستے پہلتے دو چ ھوٹے چ ھوٹے
مصنوعی جزیرے آتے ہیں جو کہ سعودی عرب اور بحرین کا بارڈر ہے۔ ان میتتں س تے ایتتک
جزیرہ بحرین میں اور دوسرا سعودی عرب میں واقع ہے۔ دونتتوں جتتزائر پتتر ایتتک جیستے
ٹاور تعمیر کیے گئے تھے جن میں سے سعودی ٹاور سبز اور بحرینتتی ٹتتاور ستترخ رنتتگ کتتا
تھا۔
192
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
مغرب کی اذان ہوئے پندرہ منٹ گزر چکے تھے چنانچہ ہم نتے جزیترے کتی مستتجد میتتں
جلدی جلدی نماز ادا کی۔ اب اندھیرا چھا چکا تھا۔ ہم نے گتتاڑی ایتتک جگتہ ک ھڑی کتتی اور
پیدل ہی جزیرے کے طول و عرض کی پیمائش کرنے لگے۔ ان جزائر پر ستتبزہ بالخصتتوص
اگایا گیا تھا۔ بارش سے دھل کر یہ سبزہ نکھرآیا تھا۔ ہم ساحل پتتر جتتا پہنچ تے۔ آستتمان پتتر
چودھویں کا چاند چمک رہا تھا جس کا عکس سمندر کے پرسکون پانی میں پڑ کر جھلمل
رہا تھا۔ یہ منظر دیکھ کر فوزی پر رومانٹک موڈ طاری ہونے لگا۔ مجھے کہنے لگ تے" ،مستتٹر
مبشر! آپ جانتے ہیں کہ یہ منظر خواتین کے لئے بڑی کشش رکھتا ہے اور وہ اس متتاحول
میں بہت رومانٹک ہو جاتی ہیں۔" میں چونکہ اس معاملے میں بالکل ہی نابلد ت ھا اس لئے
یہ میری معلومات میں اضافہ تھا۔
ان جزائر کی سب سے بڑی خصوصیت ان کا سکون تھا۔ ہمارے پاس چونکہ پاستتپورٹ
نہ تھے اس لئے ہم بحرین میں داخل ہونے سے قاصر تھے۔ گاڑیاں امیگریشن پلزا سے لگی
ہوئی تھیں۔ لوگ گاڑی میں بیٹھے بیٹھے امیگریشن آفیسر کو اپنے اور گتتاڑی ک تے کاغتتذات
پکڑاتے جو ان پر مہر وغیرہ لگا کر واپس کر دیتا۔ یہی عمل بحرینی پلزا پتتر دوہرایتتا جاتتتا
جس کے بعد مملکت بحرین کا آغاز ہو جاتا۔ بحرین کا دارلحکومت مانامہ یہاں ستتے پنتتدرہ
کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ بہت سے لوگ جنہیں دمتتام کتتی فلئیتتٹ نہیتتں ملتتتی ،وہ بحریتتن
میں آ اترتے ہیں اور بذریعہ کاز وے خبر یا دمام پہنچ جاتے ہیں۔
کافی دیر یہاں گزار کر ہم واپسی کے لئے روانہ ہوئے۔ ہمارا ارادہ تھا کہ کچھ وقتتت ختتبر
193
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
کی کورنیش پر بھی گزارا جائے۔ یہاں سے کاز وے کتتی لئٹتتس ن ہایت ہی دلفریتتب منظتتر
پیش کر رہی تھیں۔ میں نے پکا ارادہ کیا کہ کبھی کھلے وقت میں فیملی کے ساتھ ی ہاں کتتا
سفر کروں گا۔ عشا کی نماز ،جو کہ سوا چھ بجے ہی ہو گئی ،ادا کرنے ک تے بعتتد میتتں ن تے
فوزی کو ان کے ہوٹل پر اتارا۔ اسی دوران موبائل پر میری بات یونی لیور کے ایک سابقہ
کولیگ نوید سے ہو گئی جو یہیں مقیم تھے۔ ان کی پرزور دعوت پر میتتں ائر پتتورٹ جتتاتے
ہوئے ان کی طرف گیا جہاں دس منٹ گپ شپ کرکے اور جوس پی ک تے میتتں ائر پتتورٹ
کی طرف روانہ ہو گیا۔ لیٹ ہونے کے باوجود میں جہاز میں وقت پر داخل ہوا کیتتونکہ میتتں
اپنا بورڈنگ پاس صبح ہی جدہ سے حاصل کر چکا تھا۔ رات گیارہ بجے کے قریب میں اپنتتے
گھر واپس آ پہنچا۔
194
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
195
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہوئے۔
اسی اثنا میں میری اہلیہ بھی مسجد کی پارکنگ میں پہنچ چکی تھیں۔ سفر پر روانگی
سے پہلے ہمیں کچھ شاپنگ کرنا تھی۔ ہم لوگ مسجد نبوی کے پاس ہی واقع شاپنگ سینٹر
میں چلے گئے جہاں اہلیہ نے اپنے لئے ایک اضافی برقعہ خریدا ،میں نے ایک چ ھتری خریتتدی
اور ایک منی چینجر سے اردنی دینار ،مصری پاؤنڈ اور امریکی ڈالتتر حاصتتل کئے جتتن کتتی
ضرورت ہمیں سعودی عرب سے نکل کر پڑ سکتی تھی۔
خیبر کا راست ہ
اب ہم مدینہ سے تبوک جانے والی سڑک پر روانہ ہوئے۔ ایک پیٹرول پمتتپ س تے ٹینکتتی فتتل
کروا کر جب ہم شہر سے باہر نکلے تو پہل بورڈ نظر آیتتا :خیتتبر 170کلومیتتٹر۔ متتدینہ س تے
خیبر تک روڈ ،سنگل لیکن اچھی کوالٹی کی تھی۔ راستے میں کئی مقامات پر ساتھ چلنے
والے پہاڑ قریب آ کر راستے کو تنگ کر دیتے۔ اس جگہ جب قریب سے کوئی ٹرک گزرتا تو
اس کی ہوا کا پریشر مجھے اسٹیرنگ پر محسوس ہوتا۔ ایسی جگہ پر چھوٹی گتتاڑی التتٹ
بھی سکتی ہے۔
گمشد ہ اونٹ اور گواچی گاں
راستے میں کئی جگہ بورڈ لگے ہوئے تھے جن پتر گمشتدہ اونٹتوں کتی اطلع کتے لئے ہیلتپ
لئن دی ہوئی تھی۔ جانور خواہ کوئی بھی ہو اس کے مسائل ایتتک ستے ہوتے ہیتتں۔ مج ھے
اس سے پنجابی کا "گواچی گاں" کا محاورہ یاد آ گیا۔ ہمارے دیہات میتتں جتتب کستتی کتتی
گائے بھینس کھل کر غائب ہو جاتی ہے تو ایک کہرام برپا ہو جاتا ہے۔ سعودی عرب چتتونکہ
ہماری نسبت کافی ترقی یافتہ ملک ہے اس لئے اس مسئلے کے حل کے لئے انہوں نے ایتتک
محکمہ بنا دیا ہے۔ جس کسی کا اونٹ گم ہو جائے وہ اس نمبر پر اطلع کرے اور جو ب ھی
کسی شتر بے مہار کو دیکھے وہ بھی اسی نمبر پر اطلع کرے۔ اس محکمے کے لوگ آ ّ کتتر
اونٹ کو پکڑ لیں گے اور اس کے مالک کے حوالے کر دیں گے۔ دوسرے سعودی محکمتتوں
کی طرح اس محکمے کی سروس کیسی ہے ،اس کا کوئی تجربہ مجھے نہ ہو سکا کیتتونکہ
میں نے اونٹ پالنے کا شوق کبھی نہیں پال۔
196
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
خیبر کا راستہ
ڈیڑھ گھنٹے میں ہم لوگ خیبر جا پہنچے۔ خیبر کا پتتورا علق تہ آتتتش فشتتانی چٹتتانوں پتتر
مشتمل ہے جسے عربی میں "حرات خیبر" ک ہا جاتتتا ہے۔ پتتانی کتتی موجتتودگی اور آتتتش
فشانی مادے کے باعث یہاں کی زمین بہت زرخیز ہے۔ جب ہم لوگ شہر میتتں داختتل ہوئے
تو عصر کی نماز کا وقت تھا۔ ہائی وے پر ایک مسجد کے قریتتب گتتاڑی ک ھڑی کتتی۔ ی ہاں
ایک بس رکی ہوئی تھی جس میں شامی زائرین کا ایک قافلہ عمرہ کی ادائیگی کتتے بعتتد
اپنے وطن واپس جا رہا تھا۔ ایک شامی اماں ،مسجد کی سیڑھیوں پر بیٹھی ،دنیا و مافیہا
سے بے خبر ،سوٹے لگا رہی تھیں۔
وضو کر کے میں مردوں کی جانب اور میری اہلیہ ماریہ سمیت خواتین کی جانب چلی
گئیں۔ مسجد کی پہلی جماعت تو چکی تھی۔ اب ہم لوگ دوسری جماعت میتتں نمتتاز ادا
کر رہے تھے۔ شام کے ایک صاحب نے امامت کی۔ ان لوگوں کے ہاں رواج ہے ک تہ نمتتاز ک تے
بعد سب لوگ ایک دوسرے سے مصافحہ کرتے ہیں۔ مجھ سے مل کتر یتہ لتوگ ب ہت ختوش
ہوئے کیونکہ میں ان میں واحد پاکستانی تھا۔ میں نے ان لوگوں س تے خیتتبر ک تے قلع تے ک تے
بارے میں پوچھا لیکن انہیں اس کا علم نہ تھا۔ باہر ایک صفائی کرن تے وال تے بنگتتالی ب ھائی
سے میں نے اس کا راستہ دریافت کیا تو انہوں نے راستہ سمجھا دیا۔
197
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
خیبر ایک چھوٹا سا قصبہ تھا۔ بازار ہمارے چھوٹے شہروں کے بتازاروں جیستا ت ھا۔ شتہر
کے مرکزی چوک میں صراحیوں کا ڈیزائن بنایا گیا تھا۔ یہاں بدوؤں کی آبادی تھی۔ یہ لوگ
عموما ً بہت خوش اخلق ہوتے ہیں۔ میں نے راستے میں ایک بدو سے قلعتے کتے بتارے میتں
معلوم کیا تو وہ اپنی گاڑی آگے لگا کر ہمیں وہاں تک چھوڑ کر آئے۔
خیبر کا قلع ہ
خیبر کی قدیم آبادی کچے مکانات کے کھنڈرات پر مشتتتمل ت ھی۔ ہمتتوار کئے گئے پت ھروں
کو مٹی اور گارے کی مدد سے ایک دوسرے کے اوپر جتوڑا گیتا ت ھا اور ان پتر کھجتور کتے
تنوں اور پتوں کی مدد سے چھت ڈالی گئی تھی۔ پورے علقے میں کھجور ک تے درختتت ہر
جانب پھیلے ہوئے تھے جن پر ادھ پکی کھجوروں کے خوشے لٹتتک ر ہے ت ھے۔ کھن تڈرات کتتی
گلیوں میں بعض مقامات پر ہمارے دیہات اور کچی آبادیوں کی طرح چ ھتیں بنتتا دی گئی
تھیں جن کے اوپر سے مکانات کے بال خانے ملے ہوئے ت ھے۔ اکتتثر مکانتتات کتتی چ ھتیں گتتر
چکی تھیں مگر ان کی دیواریں سلمت تھیں۔ مکانات ایک پہاڑی کے دامن میں واقع تھے۔
پوری پہاڑی کے گرد محکمہ آثار قدیمہ والوں نے باڑ لگا کر اس تے محفتتوظ کتتر دیتتا ت ھا اور
یہاں داخلہ ممنوع تھا۔ پہاڑی کی چوٹی پر مرحب کا قلعہ نظر آ رہا تھا۔
198
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
خیبر کے کھنڈرات
قدیم دور میں جب بنی اسرائیل پر اللہ تعال ٰی کے دو عتذاب ،پہلتے نبتو کتد نضتر اور
پھر ٹائٹس جیسے ظالم فاتحین کی صورت میں نازل ہوئے تو یہ لوگ جلوطنی پر مجبتتور
ہوئے۔ ان مواقع پر یہود کے بعض قبائل فلسطین سے نکل کر شتمالی عترب کتے مختلتف
حصوں میں پھیل گئے۔ ان لوگوں نے عبرانی تہذیب اور ثقافت کو چھوڑ کر عربتتی ت ہذیب
اور زبان اختیار کر لی۔ متمدن دنیا سے تعلق رکھنے کے باعث انہیتں ب ہت ستے ایستے ہنتر
آتے تھے جن کی بدولت ان کی معیشت مضبوط ہوئی اور آہستہ آہستتتہ ی تہ اس مقتتام پتتر آ
گئے کہ انہوں نے عرب قبائل کو سودی قرضوں کے جال میں پھنسا لیا۔
بنی اسرائیل میں اپنی نسلی مفاخرت کے باعث ایک غلط نظریہ پروان چڑھ گیتتا ت ھا۔
یہ لوگ خود کو متمدن اور دوسروں کو وحشی ) (Gentilesقرار دینے لگے۔ ان کتے نزدیتتک
اپنے لوگوں سے سود لینا گناہ اور دوسروں سے سود لینتتا جتائز ٹ ھہرا۔ ستود کتے علوہ ان
میں دوسری برائی یہ در آئی کہ ان لوگوں نے جادو ٹونے کا کاروبتتار ب ھی شتتروع کتتر لیتتا۔
خداوند واحد کی توحید سے وابستہ ہونے کے باوجود ان میں طرح طرح کے شرکیہ عقائد و
افعال سرایت کرنے لگے۔ ان کے نیک لوگوں نے اصلح کتتی کتتافی کوشتتش کتتی لیکتتن ان
کی بات پر کسی نے کان نہ دھرا۔
عرب کے یہود اس بات سے آگاہ تھے ک تہ ان کتتی معیشتتت استتی صتتورت میتتں قتتائم رہ
سکتی ہے جب عرب کے دیگر قبائل ایک دوستترے س تے محتتاذ آرائی کتتا راستتتہ اختیتتار کئے
رکھیں۔ یہود کے مختلف قبائل ،مختلف عتترب قتتبیلوں ک تے حلیتتف بتتن گئے اور انہیتتں ایتتک
دوسرے سے جنگ پر اکسانے لگے۔ ان جنگوں میں یہود کے قبائل ایتتک دوستترے س تے ب ھی
لڑتے رہے۔ یثرب کے مشہور قبائل اوس و خزرج کی جنگ میں یہودی قبیلے بنو قینقتتاع نتے
خزرج اور بنو نضیر اور بنو قریظہ نے اوس کا ساتھ دیا تھا۔
199
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و ٰالہ وسلم کی مدینہ تشریف آوری کتے بعتتد میثتتاق متتدینہ کتے
تحت تمام یہودی قبائل نے آپ کو مدینہ کا حکمران تسلیم کر لیا تھا۔ انہیں مکمتتل متتذہبی
آزادی دی گئی تھی۔ اسی معاہدے کے مطابق ان پر یہ لزم تھا ک تہ متتدینہ پتتر کستتی حملتے
کی صورت میں یہ لوگ مسلمانوں کے ساتھ مل کر مدینہ کا دفاع کریں گے۔ ان لوگوں نے
اس معاہدے کی بارہا خلف ورزی کی اور بدر و احد کی جنگوں کے دوران مسلمانوں کے
خلف سازشوں میں مصروف رہے۔ کئی مرتبہ ان کتے اوباشتتوں ن تے مستتلم ختتواتین ستے
چھیڑ چھاڑ کا سلسلہ جاری رکھا جس پر نوبت قتل و ختتون تتتک پہنتتچ گئی۔ ان کتتی ان ہی
حرکتوں کے باعث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و ٰالہ وسلم نے ان کے دو قبائل بنتتو قینقتتاع اور
پھر بنو نضیر کو جل وطن کر دیا تھا۔ بنو نضیر نے اپنی جلوطنی سے قبل رسول اللتہ کتتو
شہید کرنے کی سازش بھی کی تھی۔
مدینہ سے جلوطن ہو کر ان لوگوں کی اکثریت خیبر میں آباد ہو گئی۔ یہاں پر ب ھی ی تہ
لوگ سازشوں سے باز نہ آئے اور مدینہ پر حملے کی تیاری کرنے لگے۔ انہوں نے خیتتبر میتتں
سات قلعے بنائے جن میں مرحب پہلوان کا قلعہ سب سے بڑا اور مضبوط تھا۔
6ھ میں صلح حدیبیہ کے بعد ،مسلمانوں اور مشرکین مکہ میں جنگ نہ کرنے کتتا معاہہہدہ
ہوا۔ اب یہود کی شرپسندی کافی بڑھ چکی تھی۔ اس لئے رسول اللہ صلی الل تہ علی تہ و ٰال تہ
وسلم نے پندرہ سو کے لشکر جرار کے ساتھ خیبر پر حملہ کیا اور سوائے مرحب کے قلع تے
کے ،ان کے تمام قلعے بھی فتح ہو گئے۔ قلعہ مرحب جو کو پہاڑی پر بنا ہوا تھا اور اس کے
گرد پتھروں کی فصیل تھی ،فتح کرنا ایک مشکل کام تھا۔ مسلمانوں کی کئی جمتتاعتوں
نے اسے فتح کرنے کی کوشش کی لیکن کامیاب نہ ہو سکے۔ بالخر رسول اللتہ صتتلی اللتہ
علیہ و ٰالہ وسلم نے فرمایا" ،کل میں اس شتتخص کتتو جھنتڈا دوں گتتا جتتو اللتہ اور اس کتے
رسول سے محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔"
سب صحابہ اسی اشتیاق میں رہے کہ شاید وہ ختتوش نصتتیب میتتں ہی ہوں۔ اگلتے دن
لشکر کا جھنڈا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے حوالے کیا گیا۔ آپ نے اپنی بے مثال شتتجاعت
کے ذریعے یہ قلعہ ایک ہی دن میں فتح کر لیا اور مرحب پہلوان جو جنگی امور کا مانا ہوا
ماہر تھا ،آپ کے ہاتھوں قتل ہوا۔
200
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
خیبر کا قلعہ
میں اس قلعے کو دیکھنے لگا۔ زمین سے تقریبا ً ستتومیٹر بلنتتد پ ہاڑی پتتر واقتتع یتہ قلعتہ
دیکھنے ہی میں ناقابل تسخیر لگ رہا تھا۔ اس کے ہر جانب سے پہاڑی کا ستتلوپ 60س تے
75ڈگری کے زاویے پر تھا۔ اگر کوئی فوج اس پر حملہ کرتی تو قلعے سے اس پر پتھروں
اور تیروں کی بارش کی جاسکتی تھی۔ اس قلعے کو فتح کرنا سیدنا علی رضی اللتہ عنتہ
کی غیر معمولی ذہانت اور جنگی مہارت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
یہود انبیا کرام کے ساتھ تعلق کی ایک طویل تاریخ رکھت تے ہیتتں۔ انہیتتں ی تہ اچ ھی طتترح
معلوم تھا کہ وہ اللہ کے رسول کے مقابلے میں کبھی کامیاب نہیں ہو سکتے۔ لیکتتن ان کتتی
سرکشی اس حد تک بڑھ چکی تھی کہ انہوں نے اللہ کے رسول کتا مقتابلہ کیتا اور مغلتتوب
ہوئے۔ اس کی سزا انہیں یہ دی گئی کہ ان پر مغلوبیت اور مسلمانوں کے ماتحت رہنتے کتتا
عذاب مسلط کیا گیا۔ ارد گرد کے یہود نے فتح خیبر سے مرعوب ہو کر صتتلح کتتر لتتی۔ ان
علقوں میں موجودہ حائل ،الُعل اور تیماء کے علقے شامل ہیں۔
یہ لوگ اس علقے میں سیدنا عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے دور تک آبتتاد ر ہے۔ معا ہدے
کے تحت ان پر لزم تھا کہ اپنی فصلوں کا نصف اسلمی حکتتومت کتتو بطتتور ختتراج دیتتں
گے۔ مسلمانوں نے ان سے عدل و انصاف کا ایسا سلوک کیا کہ جو صتتاحب ب ھی ان س تے
خراج وصول کرنے جاتے ،وہ فصل کے بالکل برابر دو حصے کر کے انہیں کہتے کہ جتتو پستتند
ہو ،وہ رکھ لو۔ یہود کے معقول لوگ اس پر کہتے کہ اسی انصاف پر زمیتتن و آستتمان قتتائم
ہیں۔ اس حسن سلوک کے باوجود یہ لوگ یہاں پر بھی اپنتتی سازشتتوں اور مکتتاریوں ستے
باز نہ آئے جس کی پاداش میں انہیں خیبر سے بھی سیدنا عمر رضتتی اللتہ عنتہ کتے زمتتانے
میں جل وطن کیا گیا۔
201
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
عل کا راست ہ
ال ُ
خیبر سے نکل کر ہم لوگوں نے ایک بدو صاحب سے "الُعل" جانے والتتی ستتڑک کتتا پوچ ھا۔
اپنی مہمان نوازی کے باعث وہ کافی دیر ہمیں اپنے پیچھے لگا کر اس روڈ تتتک چ ھوڑ آئے۔
یہاں سے الُعل شہر اب 150کلومیٹر کے فاصلے پر تھا جسے سوا گھنٹے میں طتے کتتر کتے
ہم لوگ الُعل شہر جا پہنچے۔
یہ سڑک اب سیدھی ساحلی شہر "الوجہ" کی طرف جا رہی تھی۔ "العل" جانے کے لئے
ایک سڑک شہر کے اندر جا رہی تھی۔ یہاں چند پولیس والے قالین بچ ھائے آرام فرمتا ر ہے
تھے۔ یکایک انہیں اپنی ڈیوٹی کا خیال آیا اور انہوں نے ہمیں روک کتتر کاغتتذات طلتتب کئے۔
میرے پاس اقامہ نہ تھا کیونکہ وہ میں نے اپنی کمپنی کو دے کتتر ان س تے پاستتپورٹ لتے لیتتا
تھا۔ اس پر انہوں نے کافی غور و ختتوض کیتتا اور میتترا پاستتپورٹ اور ڈرائیونتتگ لئستتنس
دیکھ کر جانے کی اجازت دے دی۔ یہ پہل موقع تھا جب فیملی کی موجودگی میتتں پتتولیس
والوں نے چیکنگ کی ہو۔
مدائن صالح ہوٹل
العل شہر میں دو ہی اچھے ہوٹل ہیں :العرق ہوٹل اور مدائن صالح ہوٹل۔ میں جدہ ہی سے
مدائن صالح ہوٹل میں بکنگ کروا چکا تھا۔ راستے میں ایک خان صاحب سے مدائن صالح
ہوٹل کا راستہ پوچھا اور شہر کی گلیوں سے گھہہوم کتتر ہہہم ہوٹتتل تتتک پہنتتچ گئے۔ پہلتے ہہہم
غلطی سے ہوٹل کے سامنے ایک شادی ہال میں جتتا گھستے اور پ ھر درستتت راستتتے ستے
ہوٹل میں داخل ہوئے۔ یہ ایک منزلہ خوبصورت اور صاف ستھرا ہوٹتتل تھ ہا۔ چیتتک ان کرنتے
کے بعد ہم کمرے میں داخل ہوئے۔ ہوٹل والوں سے گپ شپ پر معلوم ہوا کتہ غیتتر ملکتتی
زیادہ تر یہاں سردیوں کے موسم میں آتے ہیں جبکہ گرمیوں میں سعودی فیملیاں ہی یہاں
کا رخ کرتی ہیں۔ان سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ہوٹل کے چیف کک پاکستانی ہیں لیکتتن ی ہاں
ہمیں کوئی پاکستانی یا چائینز کھانے دستیاب نہ ہو سکے چنانچہ بخاری چتتاولوں پتتر گتتزارا
کیا اور جلد ہی سو گئے۔
صبح اٹھ کر نماز کے بعد کانٹی نینٹل ناشتہ کر کے ہم لوگ ہوٹل سے نکلنے کتے لئے تیتتار
ہوگئے۔ ہوٹل کے باہر کا منظر نہایت ہی دلفریب تھا۔ سامنے کھلی وادی میتتں دور دور تتتک
سبزہ اور کھجور کے درختتت نظتتر آ ر ہے ت ھے۔ ان کتے بیتتک گراؤنتڈ میتتں عجیتتب و غریتتب
شکلوں والے پہاڑ نمایاں تھے۔ ہوٹل کے دوستانہ اسٹاف سے میتتں ن تے شتتیر ک تے مقتتبروں )
(Lion Tombsاور مدائن صالح کے راستتتے معلتتوم کتتر لیتے ت ھے۔ اس استتٹاف میتتں ایتتک
لہوریے صاحب بھی تھے۔
202
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہوٹل سے نکل کر ہم لوگ لئن ٹامبز کی طرف روانہ ہوئے۔ یہ ہوٹل سے دو کلومیٹر ک تے
فاصلے پر تھے اور راستہ کچا تھا۔ سامنے عجیب و غریب انداز میں کٹ تے ہوئے پ ہاڑ نظتتر آ
رہے تھے۔ کچھ انگلی نما چٹانیں تھیں تو کچھ ایسی چٹانیں تھیں جیسے ب ہت س تے بھوتتتوں
نے سر اٹھا رکھے ہوں۔ ایک چٹان کی شکل تو بالکل اونٹ کے سر جیسی تھی۔ یہاں کچے
مکانات کے کھنڈرات تھے جیسے ہم خیبر میں دیکھ آئے تھے۔ لئن ٹامبز کے گرد باڑ لگتتا دی
گئی تھی جس کے باعث اندر جانا ممکن نہ تھا۔
ابھی ہم واپس آ ہی رہے تھے کہ میرے موبائل پر مدائن صالح ہوٹل والوں کا فون آ گیا۔
وہ بڑی معذرت سے یہ بتا رہے تھے کہ غلطی سے انہوں نے ناشتے کی رقم بل میتتں شتتامل
نہیں کی۔ ہم ہوٹل واپس ہوئے اور انہیں ناشتے کی رقم ادا کتتر کتے العل شتہر کتتی طتترف
روانہ ہو گئے۔ شہر سے ہم نے پیٹرول کی ٹنکی فل کروائی۔ پمپ پر ایک پاکستانی صاحب
تھے جو کھاریاں سے تعلق رکھتے تھے۔ یہاں سے ہم لوگ مدائن صالح کی جانب روانہ ہوئے
جو صرف بیس کلومیٹر کے فاصلے پر تھا۔ سید مودودی صاحب کے 1959کے سفر نامے
میں مدائن صالح کا فاصلہ العل سے تیس میل بتایا گیا ہے جو کسی طور پر ب ھی درستتت
معلوم نہیں ہوتا۔ عین ممکن ہے کہ ان کے سفر کے وقت کوئی اور طویل راستتتہ ہو لیکتتن
اب یہ محض بیس کلومیٹر کا فاصلہ تھا۔
مدائن صالح ک ے آثار
مدائن صالح کا پورا راستہ عجیب و غریب چٹانوں سے بھرا ہوا تھا۔ ایستتا منظتتر میتتں ن تے
203
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اپنے طویل سفروں میں پہلے کبھی نہ دیکھا تھا۔ ایک وسیع صحرا تھا اور اس میں جا بجتتا
پتھریلی چٹانیں گویا رکھی ہوئی تھیں۔ انہی چٹانوں کو اندر سے ک ھود کتتر قتتوم ثمتتود نتے
اپنے گھر تیار کیے تھے۔
آثار کے گیٹ پر ایک چوکی بنی ہوئی تھی جس میں خلف توقع ایک نہایت ہی ختتوش
اخلق پولیس مین موجود تھے۔ انہوں نے بڑی خوش اخلقی س تے ہمتتارا استتتقبال کیتتا اور
اجازت نامہ طلب کیا۔ اس کے علوہ پاسپورٹ اور گاڑی کے کاغذات طلب کتتر ک تے ان کتتا
اندراج کیا اور ہمارے لئے گیٹ کھول دیا۔ گیٹ پر آثار کتتا ایتتک نقشتہ ب ھی بنتتا ہوا ت ھا۔ ان
پتھریلی چٹانوں کے بیچ میں جہاں جہاں قوم ثمود اور نبطی قوم کے آثار تھے ،اس کے ارد
گرد باڑ لگا کر پورے علقے کو محفوظ کر لیا گیا تھا۔
مدائن صالح کے پورا علقے پر ایک کچا رنگ روڈ بنایا گیا جس پر کار آسانی س تے چتتل
سکتی تھی۔ اس رنگ روڈ کو قوم ثمود اور نبطی قوم کی مختلف عمارتوں ک تے درمیتتان
سے گزارا گیا تھا۔ گاڑی کو روڈ پر کھڑا کر کے پیدل ان عمارتوں تک جایتتا جتتا ستتکتا ت ھا۔
ان عمارتوں میں قصر االصانع ،قصر الفرید اور قصر البنت زیادہ مشہور تھیں۔ ی تہ محلت
بھی عام عمارتوں کی طرح تھے لیکن ان سے بڑے تھے۔ بتتاقی عتتام لوگتتوں کتتی رہائشتتی
عمارتیں ہوں گی۔ وہاں لکھے گئے کتبوں کے مطابق یہ نام ماہرین آثار قدیمہ کے دیے ہوئے
ہیں۔ اس علقے کا قدیم نام "الحجر" ہے۔
ان گھروں کی سب سے اہم خصوصیت یہ ہے کہ یہ گھر پہاڑوں کتتو ک ھود کتتر بنتتائے گئے
تھے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ قوم ثمود کی انجینئرنگ کتنی ترقی یافتہ تھی۔ ہر گھر ک تے
دروازے پر نہایت ہی خوبصورت گیٹ بنایا گیا تھا جو کہ دراصل پہاڑ ہی میں کھودا گیا ت ھا۔
میرا اندازہ ہے کہ قوم ثمود نے یہ گھر کھودے ہوں گے اور ان کے کئی ہزار سال بعد جب یتتہ
علقہ نبطی قوم کے زیر اثر آیا تو انہوں نے اپنے دارالحکتتومت پیتتٹرا کتتی طتترح ی ہاں ب ھی
گیٹ بنا کر اپنے فن کا مظاہرہ کیا ہو گا۔ بعض دروازوں پر مختلف شتتکلوں ک تے مجستتمے
بھی کھدے ہوئے تھے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ یہاں بنا کچھ بھی نہیں تھا بلکہ ستتب کچ تھ ک ھود
کر بنایا گیا تھا۔ میں نبطیوں کے آرٹ کی داد دیے بغیر نہ رہ سکا۔
204
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ایک عام سے گھر میں داخل ہونے کے بعد میں نے قصر البنت کا رخ کیا۔ دروازے زمین
سے کافی بلند تھے۔ غالبا ً اتنی بلندی پر گھر بارش اور ستتیلب کتے بتتاعث بنتتائے گئے ہوں
گے۔ اس دور میں لکڑی کی سیڑھی استعمال کی جاتی ہو گتی جتس کتی جگتہ اب لتوہے
کی سیڑھی لگا دی گئی تھی۔ دروازے کے اندر داخل ہوتے ہی ان کا ڈرائنگ روم تھا۔ بعض
گھروں میں یہ ڈرائنگ روم دروازے سے ایک فٹ گہرا کھودا گیا تھا اور بعض گھروں میں یہ
ایک چبوترے کی شکل میں ایک فٹ بلنتد ت ھا۔ دیتواروں میتں جتا بجتا مختلتف ستائز کتے
طاقچے کھودے گئے تھے جو سامان رکھنے کے کام آتے ہوں گے۔
ڈرائنگ روم کے اندر دو مزید کمرے کھودے گئے تھے۔ شاید ایک بیڈ روم کے طور پتتر اور
دوسرا سامان کے کمرے کے طور پر استعمال ہوتا ہو گا۔ دیواریں ،فرش اور چھت کستتی
آلے سے رگڑ کر بالکل ہموار کر دی گئی تھیں۔ ایسا ہی آرکتتی ٹیکچتتر تمتتام عمتتارتوں کتتا
تھا۔ فرق صرف اتنا تھا کہ بعض جگہ طاقچوں کی تعداد زیادہ اور بعض عمارتوں میں کتتم
تھی۔ ظاہر ہے ہر عمارت کے مکین نے اپنی ضرورت کے مطابق طاقچے بنائے ہوں گے۔
205
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
قصر البنت
قصر البنت سے باہر بہت سی بھوت نما چٹانیں نظر آ رہی تھیں جو آثار کی حدود سے
باہر تھیں۔ ان میں انگلی نما اور سر نما چٹانیں نمایاں تھیں۔ اب ہم نبطیوں کے کنتتویں )
(Nabatean Wellکے قریب پہنچ چکے تھے۔ اس کے گرد گرل لگا کر اسے محفوظ کتتر دیتتا
گیا تھا۔ یہاں لکھے ہوئے ایتتک کتبتے کتے مطتابق اس علقتے میتں ستاٹھ کتے قریتب کنتویں
دریافت ہوئے ہیں۔
میں نے کنویں کے اندر جھانکا تو حیران رہ گیا۔ ہمارے پنجاب میتتں کنتتویں زمیتتن ک ھود
کر نکالے جاتے ہیں اور کنویں کی تکمیل کے بعد اس میں اینٹیں لگا کر انہیں پختتہ کتتر لیتتا
جاتا ہے۔ یہاں صورتحال الٹ تھی۔ یہ کنواں چٹان کو بالکل گولئی میں کاٹ کر کھودا گیتتا
تھا۔ اس کنویں کو دیکھ کر معلوم ہوتا تھا کہ یہاں زمیتتن میتں شتتاید پتتانی نتہ ہو بلکتہ اس
کنویں میں بارش کا پانی ذخیرہ کیا جاتا ہو گا۔ عین ممکن ہے کہ دونوں طتترح ک تے پتتانیوں
سے فصلوں کو سیراب کیا جاتا ہو۔ قریب ہی علقے میں ہمیتں کھیتت اور کھجتوروں کتے
باغات بھی نظر آ رہے تھے۔
قوم ثمود پر عذاب
اب مجھ پر عجیب سی کیفیت طاری ہونے لگی۔ اکبر الہ آبادی کے ایک شتتعر ک تے مطتتابق
ان آثار کی کھدائی سے کلچر تو منوں کے حساب سے دریافت کیا جا رہا ہے لیکتتن عتتبرت
کی طرف کسی کا دھیان نہیں جاتا۔ اس علقے میں دنیا کی دو متمدن قتتومیں یک تے بعتتد
دیگرے آباد رہیں اور پھر نیست و نتتابود ہو گئیتتں۔ افستتوس اس ستے کتتوئی عتتبرت نہیتتں
پکڑتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و ٰالہ وسلم جب تبوک کے سفر کے دوران یہاں س تے گتتزرے
تو آپ نے صحابہ کرام کو ثمود کے انجام پر عتتبرت دلئی اور فرمایتا کتہ ی ہاں ستے جلتتدی
206
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
گزر جاؤ کیونکہ یہ سیر گاہ نہیں بلکہ عبرت کا مقام ہے۔ میرے ذہن میں قرآن مجید کتتی ان
آیات کا مفہوم گردش کرنے لگا جو قوم ثمود سے متعلق ہیں:
اور ثمود کی طرف ہم نے ان کے بھائی صالح کو بھیجتتا۔ ان ہوں نتے ک ہا' ،اے میتتری قتتوم! اللتہ کتتی
بندگی کرو ،اس کے سوا تمہارا کوئی خدا نہیں۔ تمہارے پاس تمہارے رب کی کھلی دلیل آ گئی ہے۔
یہ اللہ کی اونٹنی تمہارے لئے ایک نشانی کے طور پر ہے۔ لہذا اسے چھوڑ دو کہ خدا کتتی زمیتتن میتتں
چرتی پھرے۔ اس کو کسی برے ارادے سے ہاتھ نہ لگانا ورنہ ایک درد ناک عذاب تمہیں آ ل تے گتتا۔ یتتاد
کرو اس وقت کو جب اللہ نے تمہیں قوم عاد کے بعد اس کتتا جانشتتین بنایتتا۔ تمہیتتں زمیتتن میتتں یتہ
مرتبہ دیا کہ تم اس کے وسیع میدانوں میں عالیشان محل بناتے ہو اور اس کے پ ہاڑوں کتو مکانتات
کی صورت میں تراشتے ہو۔ اس کی قدرت کے کرشموں سے غافل نہ ہو جاؤ اور زمین میں فساد
برپا نہ کرو۔'
اس کی قوم کے سرداروں نے جو بڑے بنے ہوئے تھے ،کمزور طبقے کے ان لوگوں ستے ،جتتو ایمتتان
لے آئے تھے ،کہا' ،کیا تم واقعی جانتے ہو کہ صالح اللہ کا پیغمبر ہے؟' انہوں نے جواب دیا' ،ب تے شتتک!
جس پیغام کے ساتھ انہیں بھیجا گیا ہے ہم اس پر ایمان رکھتے ہیں۔' ان بڑائی کے دعتتوے داروں ن تے
کہا' ،جس چیز پر تم ایمان رکھتے ہو ،ہم اس کے منکر ہیں۔'
پھر انہوں نے اس اونٹنی کو مار ڈال اور پوری سرکشی ک تے ستتاتھ اپنتے رب ک تے حکتتم کتتی خلف
ورزی کر بیٹھے اور بولے' ،اے صالح! لے آؤ وہ عذاب جس کتتی تتتم ہمیتتں دھمکتتی دیتتے ہو اگتتر تتم
واقعی رسول ہو۔' آخر کار انہیں ایک دہل دینے والی آفت نے آ لیا۔ اور وہ اپنے گ ھروں میتتں اونتتدھے
پڑے رہ گئے اور صالح یہ کہتے ہوئے ان کی بستیوں سے نکل گئے کہ' ،اے میری قوم! میں نے تو اپنتتے
رب کا پیغام تمہیں پہنچا دیا اور تمہاری بہت خیر خواہی کی۔ مگر میں کیا کروں کہ تمہیں اپنے خیتتر
خواہ پسند ہی نہیں ہیں۔' )العراف (79-7:73
قوم ثمود دراصل قوم عاد کے ان لوگوں کی نستتل میتتں س تے ت ھی جتتو ستتیدنا ہود علیتہ
الصلوۃ والسلم پر ایمان لئے تھے۔ یہ لوگ اس علقے میں آ کر آبتتاد ہوئے جتتو اب متتدائن
صالح یا الحجر کہلتا ہے۔ ان کا زمانہ اب سے تقریبا ً چھ ہزار سال قبل کا تھا۔
قوم ثمود بھی دوسری اقوام کی طتترح شتترک کتتا شتتکار ہو گئی ت ھی۔ جتتب ان کتے
رسول سیدنا صالح علیہ الصلوۃ والسلم نے انہیں اللہ کے دین کی دعوت دی تتتو ان ہوں نتے
آپ سے اس کی کوئی نشانی طلب کی۔ آپ نے ان کی فرمائش پر اللہ کتتی طتترف س تے
ایک اونٹنی بطور نشانی پیش کی جو کہ پتھریلی چٹان سے نمودار ہوئی ت ھی۔ اس کھلتتی
نشانی کے بعد بھی انہوں نے آپ کو جھٹلیا جس کے نتیجے میں اس قوم کو تباہ کر دیا گیا
کیونکہ رسول کی آمد کسی قوم کے لئے روئے زمین پر قیامت صغری برپتتا کتتر دین تے ک تے
مترادف ہوا کرتی ہے۔ ان لوگوں نے اپنے رسول کا انکار کیا جس کتتی پتتاداش میتتں انہیتتں
اسی دنیا میں سزا دے کر قیامت تک کے لئے آنے والی نسلوں کے لیے باعث عبرت بنا دیتتا
گیا۔ ان کی اس داستان عبرت کو دنیا کی سب سے زیادہ پڑھی جانے والی کتب بائبل اور
پھر قرآن کا حصہ بنا کر ہمیشہ کے لیے محفتتوظ کتتر دیتتا گیتتا۔ اب یتہ ہر انستتان کتتی اپنتتی
مرضی ہے کہ وہ انہیں محض قصے کہانیاں سمجھ کر نظر انتتداز کتترے ،یتا ان ستے تتاریخی
معلومات کشید کرے یا پھر عبرت حاصل کر کے ان سے اپنتتی موجتتودہ زنتتدگی کتتو اصتتل
زندگی کے لیے سنوارنے کی کوشش کرے۔
207
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
قوم ثمود کے تقریبا ً ساڑھے تین ہزار سال بعد بعد اس علقے پر نبطیوں کی حکتتومت
قائم ہوئی۔ یتہ لتتوگ ستتیدنا استتماعیل علیتہ الصتتلوۃ والستتلم کتتی اولد ستے ت ھے۔ ان کتتا
دارالحکومت موجودہ اردن کے علقے میں واقع تھا جس کا نتتام "پیتتٹرا ) "(Petraت ھا۔ ان
کا دوسرا بڑا شہر یہی مدائن صالح تھا۔ ان کی تاریخ کو کسی قدر تفصیل س تے میتتں ن تے
پیٹرا کے باب میں بیان کیا ہے۔
208
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
نبطیوں کا کنواں
حجاز ریلو ے
اب ہم لوگ آثار کے شمال کی طرف ہو لیے۔ یہاں کی قابل دید چیز مدائن صالح کا ریلوے
اسٹیشن تھا۔ انیسویں صدی میں ریل کی ایجاد کے بعد ترکی کی عثمانی حکومت کی یتہ
خواہش تھی کہ ایک ریلوے لئن دمشق سے لے کر مدینہ تک بچھائی جائے جس تے آگ تے مک تہ
تک لے جایا جائے۔ بالخر بیستتویں صتتدی کتے آغتتاز میتتں یتہ ریلتتوے لئن بچ ھائی گئی۔ اس
ریلوے کو "حجاز ریلوے" کا خطاب دیا گیا۔ اس لئن کو بچھانے کے لئے تتترک حکتتومت ن تے
دنیا بھر کے مسلمانوں سے چندے کی اپیل کی۔ ہندوستان کے مسلمانوں نے بڑھ چتتڑھ کتتر
اس چندے میں حصہ لیا کیونکہ یہ حرمین شریفین کے نام پر مانگا گیا ت ھا۔ صتترف پنجتتاب
سے ہی پیر جماعت علی شاہ صاحب نے لکھوں روپے کا چندہ اکٹھا کتتر ک تے بھیجتتا جتتو آج
کے اربوں روپے کے برابر ہے۔
209
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
حجاز ریلوے کا پہل فیز 1907میں مکمل ہوا جس کے نتیجے میتتں دمشتتق س تے متتدینہ
تک کا فاصلہ جو ڈیڑھ مہینے میں طے ہوتا تھا ،اب محض چار دن کتتا رہ گیتتا۔ یتہ ریلتتوے لئن
دمشق سے عمان ،تبوک اور مدائن صالح کے راستے مدینہ پہنچتی تھی۔ مدینہ سے مکہ تک
کا دوسرا فیز کبھی مکمل ن تہ ہو ستتکا۔ اس کتے ٹھیتتک ایتتک ستتو ستتال بعتتد 2007میتتں
سعودی حکومت نے مکہ سے مدینہ تک ریلوے لئن بچھانے کا اعلن کیا ہے۔
عربوں میں ترکوں کے خلف ایک عمومی نفرت پائی جاتی تھی۔ اس کی وجہ ترکتتوں
کا عربوں سے امتیازی سلوک تھا۔ عثمانی ترکوں نے عربوں کی عباسی سلطنت کو ختم
کر کے اپنی حکومت کی بنیتتاد رک ھی ت ھی۔ ستتلطنت عثمتتانیہ ،جتتو ستتولہویں صتتدی ستے
انیسویں صدی تک تقریبا ً چار سو سال تک دنیا کی سپر پاور کتے رتبتے پتتر فتتائز رہ چکتتی
تھی ،بیسویں صدی کے اوائل میں یورپ کے مرد بیمار کا خطاب حاصل کتتر چکتتی ت ھی۔
اس ریلوے لئن کے نتتتیجے میتتں دمشتتق ستے متتدینہ تتتک ہزاروں عربتتوں کتے ہوٹلتتوں اور
سراؤں کا کاروبار بھی ختم ہوا جو حجاج کی وجہ سے قائم تھا۔
ان تمام عوامل کے ساتھ ساتھ برطانوی حکومت نے بھی اس علق تے میتتں ترکتتی کتتی
حکومت کے خلف سازشوں کا جال بچھا دیا تھا۔ لرنس آف عریبیا کا کتتردار ب ھی استتی
سے متعلق ہے۔ کرنل لرنس نتے اس علقتے میتتں ایتتک عظیتتم بغتتاوت منظتتم کتتی جستے
"عرب بغاوت ) "(Arab Revoltکا نام دیا گیا جس کتتی قیتتادت اس وقتتت کتے مکتہ کتے
گورنر شریف حسین کر رہے تھے۔ اس موضوع پر ایک فلم بھی بنی ہے۔
210
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ترکی کی حکومت نے اپنے پاؤں پر خود کلہاڑی ماری جب انہوں نے پہلتتی جنتتگ عظیتتم
میں جرمنی کا ساتھ دیا۔ جرمنی کی شکست کے بعد انگریزوں نے ترکی کے حصے بخترے
کرنے شروع کیے جس کے نتیجے میں سعودی عرب ،اردن ،شام اور لبنان کتتی حکومتتتیں
وجود پذیر ہوئیں۔ اسی دور میں دور دراز سے یہودیوں کو بھی ل کر فلستتطین میتتں آبتتاد
کیا گیا اور اسرائیل کی بنیاد بھی رکھی گئی جسے دوسری جنگ عظیم ک تے بعتتد باقاعتتدہ
آزاد ملک کا درجہ دیا گیا۔
نجد کے سعودی حکمرانوں اور حجاز کے ہاشمی خاندان کے درمیان بھی اس دور میں
جنگیں ہوئیں جس کے نتیجے میں ہاشمی خاندان کی حکومت صرف اردن تک محتتدود ہو
گئی اور نجد کے ساتھ ساتھ حجاز کا علقہ بھی سعودی خاندان کے زیر نگیتتں آ گیتتا۔ اردن
کے موجودہ شاہ عبداللہ ،شریف حسین کے پڑپوتے ہیں۔
211
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
ہندوستان کے مسلمان بڑے ہی خوش فہم واقع ہوئے ہیں۔ انہوں نے 1919میں ترکتتی
کی ملوکیت کو بچانے کے لئے تحریک شروع کی جس پر خلفت کا لیبل لگا ہوا ت ھا۔ اس
تحریک کے ساتھ ساتھ بعض عاقبت نا اندیشوں کے زیر اثتتر تحریتتک ہجتترت شتتروع ہوئی۔
لکھوں مسلمان اپنا گھر بار اونے پونے بیچ کر افغانستان ہجتترت کتتر گئے جتتس ن تے انہیتتں
قبول کرنے سے انکار کر دیا۔ یہ بے چارے لٹے پٹ تے واپتتس آئے اور طویتتل عرصتے تتتک اپن تے
پاؤں پر کھڑے نہ ہو سکے۔ ہندوستانی مستلمانوں کتی پتوری تاریتخ ایستی ہی عتاقبت نتا
اندیشیوں سے بھری پڑی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ ہم اپنی بے وقوفیوں کو بھی دوستتروں
کی سازش سے تعبیر کرتے ہیں۔
عرب بغاوت میں حجاز ریلوے کی پٹریوں کو اکھاڑ دیتتا گیتتا ت ھا۔ اب اس ک تے نشتتانات
صرف ریلوے اسٹیشنز کی صورت میں موجود ہیں جنہیں سعودی حکومت نے آثتتار قتتدیمہ
کے طور پر محفوظ کر لیا ہے۔ مدائن صالح کے ریلتتوے اسٹیشتتن کتتا ڈیتتزائن ہمتتارے قتتدیم
اسٹیشنز جیسا تھا۔ یہ تنگ گیج کی پٹری تھی جس پر ریلوے کتتی تیتتن ویگنتتز کتتی باقیتات
اب بھی موجود تھیں۔ ایک طرف ریلوے ورکشاپ بھی تھی جس میتں ایتک صتحیح ستالم
انجن کھڑا ہوا تھا جو بالکل ہمارے قدیم سیاہ کوئلے کے انجنز جیسا ت ھا۔ اس پتتر اس کتتی
تاریخ پیدائش 1906بھی لکھی ہوئی تھی۔ ایک طرف کوئلے کا ذخیرہ کرنے والے ڈرم بھی
پڑے ہوئے تھے۔ اس انجن کا سائز ہمارے سیاہ انجنز سے چھوٹا تھا۔
کچھ دیر پلیٹ فارم پر گھومنے کے بعتد ہم واپتس ہوئے۔ اب ہم قصتر الخریمتات کتے
قریب سے گزر رہے تھے۔ یہ بھی قوم ثمود اور نبطیوں کے ّآثار تھے۔ کچھ آگے جا کتتر ہمیتتں
دو عظیم الشان اژدھے نظر آئے۔ یہ ایک جیسی دو چٹانیں تھیتتں جتتن ک تے من تہ اژد ھے کتتی
مانند تھے۔ ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ دو اژدھے منہ بند ساتھ ساتھ کھڑے ہیں۔
212
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
گیٹ سے باہر نکلے تو دائیں جانب ایک فارم ہاؤس پر نظر پڑی۔ گیٹ کے پولیس وال تے
ہمارے قریب آئے اور عربی میں کہنے لگے کہ آپ فارم میں چلے جائیں ،یہہہاں اچھہہی قستتم
کی انجیر دستیاب ہو جائے گی۔ چونکہ وہاں کوئی ذی روح ہمیں نظر نہ آ رہا تھا چنانچہ ہم
نے واپسی کتی ٹ ھانی۔ بتاہر میتن روڈ پتر نکلتے تتو ایتک بقتالے پتر نظتر پتڑی جتس میتں
وزیرستان کے ایک خان صاحب براجمان تھے۔ خان صاحب سے کچھ دیر گپ شپ کر کتتے
اور پانی کی بوتل خرید کر ہم مدائن صالح سے روانہ ہو گئے۔
کچ ھو ے اور ہات ھی والی چٹانیں
مین روڈ پر ایک چٹان بالکل کچھوے کی مانند نظر آ رہی تھی۔ مشہور زمتتانہ ہاتھی والتتی
چٹان بھی اس کے قریب ہی واقع تھی۔ چٹانوں والے علقے ستے نکتتل کتتر ہم ایتتک کھلتتی
وادی میں جا نکلے۔ اس دن جمعہ تھا۔ میں کسی مسجد کی تلش میں ت ھا جتتو میتتن روڈ
پر ہی مل جائے تاکہ جمعہ کی نماز ادا کر کے سفر آگے جاری رکھا جائے۔
اب روڈ تھا اور ہم تھے۔ 160کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتتتار ستے ستتفر طتے کرتتے ہوئے
چالیس منٹ میں ہم مدینہ تبوک ہائی وے پر جا نکلتے۔ ی ہاں ستے العل ستے آنتے والتی روڈ
سیدھی حائل کی طرف جا رہی تھی۔ ہم نے ایگزٹ پکڑا اور تبوک کی جتتانب اپنتتا رخ کتتر
لیا۔ ساتھ ہی ایک مسجد نظر آ رہی تھی۔ میں نے وہاں گاڑی روک دی۔ جمعہ کی نمتتاز کتتا
وقت ہو رہا تھا لیکن اس مسجد میں شاید جمعہ ن تہ ہوتتتا ت ھا۔ اس لئے ظ ہر کتتی نمتتاز ادا
کرنے کے بعد ہم لوگ آگے روانہ ہوئے۔
صحرا میں دھوپ بہت تیز تھی اور روشنی ریت سے ٹکرا کر آنکھوں کو خیرہ کر ر ہی
تھی۔ میں نے اپنی اہلیہ سے سن گلسز کا پوچھا تو انہوں نے کہیں سے چشمہ برآمد کر کے
میری آنکھوں پر ٹکا دیا۔ یتہ استی ڈیتزائن کتا چشتمہ ت ھا جتو ہمتارے لڑکتے لگتا کتر متوٹر
سائیکلوں پر ہیرو بنے پھرتے ہیں۔ عام حالت میں تتتو میتتں استے قطعتا ً استتتعمال نتہ کرتتتا
لیکن اب مجبوری تھی چنانچہ میں نے خود کو ایسا ہی چھچ ھورا ہیتترو فتترض کتتر لیتتا اور
چشمہ لگا لیا۔ ناک پر یہ چشمہ عجیب سی سرسراہٹ پیدا کتتر ر ہا ت ھا جتتس کتتی مج ھے
بالکل عادت نہ تھی۔ میرا دل چاہ رہا تھا کہ گاڑی کی چھت میں کوئی کن تڈا ہو جتتس س تے
دھاگا باندھ کر اس چشمے کو ناک سے کچھ اوپر اٹھا دیتتا جتتائے تتتاکہ ی تہ نتتاک پتتر عجیتتب و
غریب سرسراہٹ پیدا نہ کرے لیکن بھل ہو ٹویوٹا کمپنی کا جنہوں نے گاڑی کی چھت میتتں
ایسی کوئی چیز نہ لگائی تھی۔ اب ایک بالکل سفید رنگ کا صحرا شروع ہو چکا تھا۔
213
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
بشکریہ www.nationalgeography.com
تیماء
منزلوں پر منزلیں مارتے ایک گھنٹے میں ہم تیماء جا پہنچے۔ اس نام سے نجانے کیوں قیمہ
کھانے کو دل چاہ رہا تھا لیکن جس ہوٹل پر ہم رکے وہاں ستتوائے عتترب ک ھانوں ک تے کچ تھ
دستیاب نہ تھا چنانچہ ہمیں رز بخاری یا بخاری پلؤ پر ہی گتتزارا کرنتتا پتتڑا۔ ی تہ پلؤ ہمتتارے
تڑکے والے چاولوں کی بگڑی ہوئی شکل ہے۔ اگر تڑکے والے چاولوں ستے نمتتک ،متترچ اور
دوسرے مصالحے غائب کر دیے جائیں تو باقی یہ بخاری پلؤ بچتا ہے۔
214
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
میں تو بخاری پلؤ کے نام ہی سے الرجک تھا اس لئے اپنے لئے پھل وغیتترہ خریتتدنے کتے
لئے میں ساتھ واقع منی سپر مارکیٹ میں جا گھسا جہاں ایک عتترب ،عربتتی لبتتاس زیتتب
تن کیے نہایت ہی فصیح و بلیغ پنجابی میں فون پر تقریر فرما رہے تھے۔ میں نے کیلتتے اور
سیب خریدے۔ انہوں نے مجھے نجانے کیا سمجھا کہ مجھ ستے عربتتی بتتولنے لگتے۔ میتتں نتے
جب ٹھیٹھ پنجابی میں جواب دیا تو وہ بڑے خوش ہوئے۔
تیماء ایک صاف ستھرا چھوٹا سا شہر تھا۔ یہاں کتی ختتاص بتتات "مشتتکیزہ چتتوک" ت ھا
جہاں ایک مشکیزے کی شکل کا فوارہ لگایا گیا تھا۔ اس کے علوہ ایتتک گلتتوب چتتوک ب ھی
تھا جہاں زمین کا ایک گلوب بنا ہوا تھا اور اس کے ارد گرد خوبصورت پارک بنایا گیتتا ت ھا۔
میرا مشاہدہ ہے کتہ ستعودی عترب کتے چ ھوٹے شتہر کتافی خوبصتورت بنتائے جتاتے ہیتں۔
مشکیزے چوک پر ایک پاکستانی صاحب کھڑے تھے اور ٹرکوں سے لفٹ ک تے طتتالب ت ھے۔
میں نے اہلیہ سے مشورہ کر کے فیصلہ کیا کہ انہیں ساتھ بٹھا لیاجائے لیکن اس سے قبل کتتہ
ہم ان تک پہنچتے ،ایک ٹرک رک گیا اور انہیں اپنے ساتھ بٹھا لیا۔
تاریخی اعتبار سے عہد رسالت میں تیماء میں بھی یہودی آباد تھے جنہوں نے فتح خیتتبر
کے بعد خود ہی سرنڈر کر دیا تھا اور رسول اللہ صلی الل تہ علی تہ و ٰال تہ وستتلم کتتی اطتتاعت
قبول کر لی تھی۔ اب ہمارا رخ مغرب کی جانب ہو چکا تھا اور ہم تبوک کی جتتانب رواں
215
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
دواں تھے۔ الُعل سے اگر ایک روڈ حجاز ریلوے کے ساتھ ساتھ بنا دی جاتی تو تبوک تتتک کتتا
فاصلہ تقریبا ً ڈیڑھ سو کلومیٹر کم ہو جاتا لیکن اب ہمیں انگریزی حرف Uکی طرح سفر
کرنا پڑا تھا۔
آبپاشی کا نظام
ایک سفید کریسیڈا ہمارے پیچھے آ رہی تھی جس کا فاصلہ نہ تو ہم سے کتتم ہو ر ہا ت ھا
اور نہ ہی زیادہ۔ کچھ دیر کے بعد ان صاحب کو جوش آیا اور وہ ہمیں کراس کر گئے۔ کچتتھ
دیر کے بعد ہم نے انہیں کراس کر لیا۔ وہ شاید یہ سمجھے کہ ہم ان سے ریس لگا رہے ہیں،
چنانچہ وہ پھر ہمیں کراس کر گئے۔ میں نے جان بوجھ کر رفتار آہستہ کتتر لتتی تتتاکہ ان کتتی
غلط فہمی دور ہو سکے۔ کافی دیر بعد ہم انہیں کراس کرنے لگے تو ان ہوں نتے بریتتک لگتتا
کر اور فلیش جل کر ہمیں خبردار کیا۔ دراصل ان کے آگے ایک پولیس کی گاڑی جتتا ر ہی
تھی۔ میں نے بھی رفتار کم کر لی۔
تھوڑی دور جا کر "عرعر" کا ایگزٹ آ گیا۔ یہاں سے ایک روڈ "دومۃ الجندل" اور عرعر
کی طرف جا رہی تھی۔ عرعر ایک سرحدی شہر ہے جتتو اردن اور عتتراق کتی ستترحد پتتر
واقع ہے۔ دومۃ الجندل ایک قدیم تاریخی شہر ہے۔ عہد رسالت میں ی ہاں ایتتک بتتڑا تجتتارتی
میلہ لگا کرتا تھا جس میں یمن ،مکہ اور شام سے آنے والے تجتتارتی قتتافلوں کتتا متتال بکتتا
کرتا تھا۔ یہی سڑک اردن اور عراق کی سرحد کے ساتھ ساتھ سفر کرتی ہوئی کویت اور
پھر آگے قطر ،عرب امارات اور عمان تک جاتی ہے۔
تبوک
عصر کے بعد ہم تبوک کے قریب جا پہنچے۔ اب روڈ کے دونتتوں طتترف گتتول کھیتتت نظتتر آ
رہے تھے۔ اس وقت انہیں پانی دیا جا رہا تھا۔ آبپاشی کے اس نظام کو دیکھنے کا یتتہ میتترے
لئے پہل موقع تھا۔ لوہے کی ایک طویل گرل تھی جتتس پتر پتائپ لگتے ہوئے ت ھے اور پتانی
فوارے کی صورت میں دونوں طرف گر رہا تھا۔ اس گرل کے نیچے پہی تے لگ تے ہوئے ت ھے۔
جب یہ گرل گردش کرتی ہے تو گولئی کی صورت میں پورے کھیت کو سیراب کتتر دیتتتی
ہے۔ یہی وجہ ہے کہ سعودی عرب میں کھیتتت گتتول شتتکل کتے ہ ہوتے ہیتتں۔ یتہ نظتتام ہمتتارے
آبپاشی کے نظام سے بدرجہا بہتر ہے۔ اس میں پانی کا درست استتتعمال کیتتا جاتتتا ہے اور
اسے بلوجہ ضائع نہیں کیا جاتا۔
ہمارے پاکستان میں ایک بڑی برائی یہ ہے کہ پانی کو نہایت ہی بے دردی سے ضتتائع کیتتا
جاتا ہے۔ لوگ نل کھلے چھوڑ کر بند کرنا بھول جاتے ہیں۔ اس کا نتتتیجہ ی تہ نکتتل ر ہا ہے کتہ
ہمارے زیر زمین پانی کے ذختتائر دن بتتدن کتتم ہہہوتے جتتا رہہہے ہیتتں۔ دریتتاؤں کتے پتتانی کتتی
مینجمنٹ کا نظام ایسا ہے کہ کبھی تو ہم خشک سالی کا شتتکار ہو جتتاتے ہیتتں اور کب ھی
216
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
سیلب کا۔ اگر ہم نے مناسب تعداد میں ڈیم نہ بنائے تو باقی پاکستان کا انجتتام ب ھی و ہی
ہو گا جو دریائے ہاکڑہ کے خشک ہونے کے بعد چولستان کا ہوا تھا۔ ہمتتارے کھیتتت صتتحراؤں
میں تبدیل ہو جائیں گے اور ہم پانی کی بوند بوند کو ترسیں گے۔
پانی دینے کے باعث اب ہماری ناک سے گیلی مٹی کی بھینی بھینی خوشتتبو ٹکتترا ر ہی
تھی۔ دونوں طرف کھیت اور سبزہ اور روڈ پر چارہ لے جانے والی گاڑیوں کے بتتاعث ایستتا
معلوم ہو رہا تھا کہ ہم پنجاب کے کسی دیہاتی روڈ پر سفر کر رہے ہیں۔ ان ہی کھیتتتوں ک تے
درمیان سفر کرتے ہوئے ہم تبوک شہر میں داخل ہوگئے۔
ایک پیٹرول پمپ سے ہم نے ٹنکی دوبارہ فل کروائی۔ پمپ والے صاحب پاکستانی تھے۔
ان سے میں نے اس مقام کا دریافت کیا جہاں غزوہ تبوک کے دوران رسول اللہ صتتلی الل تہ
علیہ و ٰالہ وسلم نے قیام فرمایا تھا۔ اس مقام پتتر بعتتد میتتں مستتجد بنتتا دی گئی ت ھی جتتو
مسجد رسول کہلتی تھی۔ انہوں نے مجھے راستہ ستتمجھا دیتتا۔ اب ہم ان کتے بتتتائے ہوئے
راستے پر ہو لیے۔ پہلے مسجد ابوبکر آئی۔ روایت ہے کہ یہاں سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ نے
قیام فرمایا تھا۔ اس کے بعد ہم مسجد رسول پر پہنچ گئے۔ سادہ سی مسجد تھی اور اس
پر محکمہ اوقاف کا بورڈ لگا ہوا تھا جس میں اس مسجد کو آثار قدیمہ میں شتتامل قتترار
دیا گیا تھا۔ مسجد کی موجودہ تعمیر 1409ھ یا 1989ء کی تھی۔ مسجد کے قریب ہی وہ
چشمہ تھا جسےاللہ تعال ٰی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و ٰالہ وسلم کی دعا پر جاری فرمایتتا
تھا۔ آپ نے تبوک اور اس کے گرد و نواح کے لئے پانی کی دعا فرمائی تھی۔ یہ دعتتا پتتوری
ہوئی اور اب تبوک ایک زرعی علقہ ہے۔
غزو ہ تبوک
ہجرت کے نویں سال جب مکہ ،طائف اور عرب کا بیشتر حصہ اسلمی حکتتومت کتے زیتتر
نگیں آ چکا تھا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و ٰالہ وسلم نے خطوط لکھ کر صحابہ کرام رضتتی
اللہ عنہم کے لئے ان علقوں کو متعین فرما دیا ت ھا ج ہاں ان ہوں ن تے فتتوجی کتتاروائی کتے
ذریعے شرک کی حکومت کا ختتاتمہ کرنتتا ت ھا۔ ان ہی ستتلطنتوں میتتں شتتمال کتتی غستتانی
سلطنت بھی تھی۔ یہ سلطنت موجودہ اردن کے علقوں کے علوہ تبتتوک تتتک پھیلتتی ہوئی
ت ھی اور قیصتتر روم کتتی بتتاجگزار ت ھی۔ اس کتتا حکمتتران شتترحبیل اگرچ تہ ا ہل کتتتاب
عیسائیوں سے تعلق رکھتا تھا مگر نہایت ہی بدتمیز شخص تھا۔ اس نے رسول الل تہ صتتلی
اللہ علیہ و ٰالہ وسلم کے قاصد کو شہید کروا دیا تھا جس پر جنگ موتہ ہوئی جتتس کتتا ذکتتر
آگے آ رہا ہے۔
رومی افواج قبیلہ بنو غسان کو مل کر مدینہ پر حملہ کرنے کے تیاریتتاں کتتر ر ہی تھیتتں۔
شدید گرمی اور خشتک ستتالی کتے دن ت ھے اور ا ہل متتدینہ کتی پتورے ستال کتی محنتتت
کھجوروں کی فصل کی صورت میں تیار تھی۔ اس موقع پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و ٰالہ
وسلم نے آگے بڑھ کر رومی افواج کا مقابلہ کرنے کا ارادہ فرمایا۔ اس مقتابلے کتی اہمیتت
کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتا ہے کہ رومی افواج کی تعداد لکھوں میتتں ت ھی اور اگتتر وہ
اپنے مقصد میں کامیاب ہو جاتیں تو حق کی وہ شمع جو حضور صلی اللہ علیہ و ٰالہ وستتلم
نے 22برس کی جدوجہد سے روشن کی تھی ،بجھنے کا امکان تھا۔
حضور صلی اللہ علیہ و ٰالہ وسلم نے اپنے جانثاروں کے سامنے یہ معاملہ رکھا۔ اس موقتتع
پر صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے بڑھ چڑھ کر ایثار کیا۔ سیدنا عثمان غنی اور عبدالرح ٰمن
217
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
بن عوف رضی اللہ عنہما نے بڑی بڑی رقمیں اور اونٹ پیش کیے۔ سیدنا عمتتر رضتتی اللتہ
عنہ اپنے گھر کا آدھا سامان لے آئے۔ انہیں امید تھی کہ شاید آج وہ سیدنا ابوبکر رضتتی الل تہ
عنہ سے نیکی میں آگے بڑھ جائیں لیکن جب سیدنا ابوبکر رضی اللہ عنہ اپنتتا پتتورا ستتامان
اٹھا لئے تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ میں کبھی ابوبکر س تے نیکتتی میتتں آگ تے
نہیں بڑھ سکوں گا۔ خواتین نے اپنے زیور اتار کر دے دیے ،غریب صحابہ نے محنت متتزدوری
سے جو کمایا ل کر پیش کر دیا اور بہت سے جانثار صحابہ اپنی پکی ہوئی فصل چھوڑ کتتر
شدید گرمی کے موسم میں مدینہ آ پہنچے۔
ان میں بہت سے ایسے بھی تھے جن کے پاس سواری تک نہیں تھی۔ ان ہوں ن تے حضتتور
صلی اللہ علیہ و ٰالہ وسلم سے عرض کی کہ اگر اسلحہ اور سواری کا انتظتتام ہو جتتائے تتتو
ہماری جانیں قربان ہونے کے لئے حاضر ہیں۔ جن کو سواریاں نہ مل سکیں وہ اس پر روتے
تھے کہ ہم اس سعادت سے محروم رہ گئے۔ اس موقع پر منافقین بھی تھے جو حیلے ب ہانے
سے پیچھے رہنا چاہتے تھے۔
مسجد ابوبکر مسجد رسول
تیس ہزار کا لشکر جرار لے کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ و ٰالہ وسلم روانہ ہوئے۔ سامان
کی اس قدر قلت تھی کہ صرف دس ہزار کو سواری میسر آ سکی ت ھی اور لتتوگ بتتاری
218
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
باری اونٹوں پر سوار ہوتے تھے۔ قیصر روم ،اہل کتاب ہونے کے ناطے ،یہ اچھی طرح جانتتتا
تھا کہ اللہ کے رسول کا مقابلہ کرنا اس کے بس کی بات نہیں ہے۔ رسول کے ستتاتھ مقتابلے
میں اسے کبھی غلبہ نصیب نہ ہو گا۔ اس نے جب سنا کتہ رستتول اللتہ صتتلی اللتہ علیتہ و ٰالتہ
وسلم خود مقابلے کے لئے تشریف ل رہے ہیں تو اس نے اپنی فوجیں ہٹا لیں۔
اس فتح بلجنگ کا نتیجہ یہ نکل کہ عربتتوں کتتی چ ھوٹی چ ھوٹی ریاستتتیں جتتو روم اور
مدینہ کی سلطنتوں کے درمیان بفر اسٹیٹس کی حیثیت رک ھتی تھیتتں ،استتلمی حکتتومت
کی مطیع ہو گئیں۔ دومۃ الجندل ،ایلہ اور موجودہ اردن کے عیسائی حکمرانوں نے جزیہ دے
کر اسلمی حکومت کے تحت رہنا قبول کر لیا۔ اس فتح کے بعد منافقین کو بھی بے نقاب
کر دیا گیا اور ان کی اکثریت نے سچے دل سے اسلم قبول کر لیا۔
اس غزوہ میں منافقین کے علوہ تیتتن صتتاحب ایمتتان صتتحابہ اپنتتی سستتتی کتے بتتاعث
شریک نہ ہو سکے تھے۔ حضور صلی اللہ علیہ و ٰالہ وسلم نے منافقین کا عذر تو قبول کر لیا
لیکن اللہ تعال ٰی کے حکم سے ان تین اصحاب کو یہ سزا دی گئی کہ ان کا سماجی بائیکاٹ
کر دیا گیا۔ ان حضرات سے دشمن بادشاہوں نے رابطہ کیا کہ تم ہم سے آ ملو لیکن ان کتتا
اخلص ایسا تھا کہ انہوں نے یہ پیشکش مسترد کر دی۔ اللہ تعال ٰی کو ان کتتی یتہ ادا ایستتی
پسند آئی کہ اس نے ان کی توبہ قبول کر کے ان کی سزا معاف کر دی۔
مسجد سے نکل کر ہم لوگ میتتن روڈ پتتر آئے۔ ی ہاں حجتتاز ریلتتوے کتتا تبتتوک کتتا ریلتتوے
اسٹیشن ہمارے سامنے تھا۔ شہر سے نکل کر ہم لوگ اردن کی طرف جتتانے والتتی ستتڑک
پر آئے۔ مجھے سعودی عرب کے سرحدی قصبے کے نتام کتا علتم نہیتں ت ھا البتتہ اردن کتے
سرحدی قصبے کا علم تھا۔ پولیس چوکی پر میں نے ایک پولیس والے سے اس کتتا پوچ ھا
تو انہوں نے خندہ پیشانی سے راستے کی تفصیلت کا بتا دیا۔
قرآن مجید اور رسول اللہ صلی الل تہ علی تہ و ٰال تہ وستتلم کتتی ستتیرت طیب تہ ستے متعلتتق
مقامات ،کا سفر میں اب مکمل کر چکا تھا۔ اب ہمارے سفر کا دوسرا مرحلہ شتتروع ہو
رہا تھا جس میں اردن اور مصر کے مقامتتات شتتامل ت ھے۔ اس کتتی تفصتتیلت اس ستتفر
نامے کے دوسرے حصے میں ملحظہ فرمائیے۔
219
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
سفر نامے
قرآن اور بائبل ک ے دیس میں
مکہ کے دیگر تاریخی جبل نور اور غار حرا مکہ جدہ روانگی برائے سعودی عرب
احد بدر مدینہ کے تاریخی مقامات مدینہ سفر ہجرت سفر حج مقامات
خیبر ،مدائن دمام ،الخبر اور بحرین کاز وے جیزان ،ابہا اور فیفا طائف خندق
مادبہ ،جبل نیبو جنگ موتہ اور ڈیڈ سی روانگی برائے اردن پیٹرا صالح اور تبوک
قاہرہ جزیرہ نما سینا مصر کا بحری سفر عقبہ اور بپتسمہ سائٹ
مصر سے سعودی عرب براستہ اردن اسکندریہ
مذہبی معاملت
کتاب الرسالہ :امام شافعی کی اصول فقہ پر پہلی کتاب کا اردو ترجمہ و تلخیص
دیباچہ مقدمہ حصہ اول :تعارف باب :1تعارف باب :2البیان باب :3اسلمی قانون کا
باب :6ناسخ و باب :5خاص اور عام باب :4قرآن کی زبان علم حصہ دوم :کتاب اللہ
باب :7اللہ اور اس کے رسول کے احکامات کو قبول کرنے منسوخ احکامات حصہ سوم :سنت
باب باب :9روایات باب :8اللہ اور اس کے رسول کی بیان کردہ ممانعتیں کی ذمہ داری
باب :12 باب :11اجماع :10خبر واحد حصہ چہارم :اجماع ،قیاس ،اجتہاد اور اختلف رائے
باب :14اختلف رائے باب : 13اجتہاد قیاس
ای ڈورٹائزنگ کا اخلقی پ ہلو س ے جائز ہ | دین کا مطالع ہ معروضی طریق ے پر
کیجی ے | ر ہبانیت | دو ہر ے معیارات | فارم اور اسپرٹ | دین میں اضاف ے
| گنیش جی کا جلوس | صوفیاء کی دعوتی حکمت عملی | عقل اور
عشق | اسلم ن ے غلمی کو ایک دم ختم کیوں ن ہ کیا؟ | سور ہ توب ہ ک ے
شروع میں بسم الل ہ کیوں ن ہیں ہے ؟ | کیا رسولوں پر ایمان ضروری ہے؟
| مک ہ اور مدین ہ حرم کیوں ک ہلت ے ہیں؟ | مرد کا وراثت میں حص ہ دوگنا کیوں
ہے؟ | متشاب ہات کیا ہیں؟ |
عقائد و نظریات
الحاد جدید ک ے مغربی اور مسلم معاشروں پر اثرات
مسلم معاشروں میں الحاد کا فروغ یورپ میں الحاد کی تحریک الحاد کی تعریف
مغربی اور مسلم معاشروں پر الحاد کے اثرات
الحاد ،اکیسویں صدی اور ہماری ذمہ داریاں الحاد کی سائنسی بنیادوں کا انہدام
کائنات :خدا کی ایک نشانی | Quranic Concept of Human Life Cycle | A
| Dialogue with Atheismکیا عقل ک ے ذریع ے خدا کی پ ہچان ممکن ہے؟ | کیا
ٓاخرت کا عقید ہ معقولیت رک ھتا ہے؟ | خدا ک ے جسم س ے کیا مراد ہے؟ | خدا
ٓتا؟ | تقدیر کا مسئل ہ؟ بعض لوگ خدا ک ے منکر کیوں ہیں؟ نظر کیوں ن ہیں ا
| محمد رسول الل ہ کی رسالت کا ثبوت کیا ہے؟ | Empirical Evidence of God’s
| Accountability
معاشرتی معاملت
220
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
اسلم اور نسلی و قومی امتیاز | دین دار افراد ک ے لئ ے معاش اور روزگار
ک ے مسائل | موٹر و ے کی ٹریفک | جنریشن گیپ | ساس اور ب ہو کا
مسئل ہ |
ہماری شخصیت
اپنی شخصیت اور کردار کی تعمیر کیس ے کی جائ ے؟
تخلیقی فطری رجحان ذہانت ذہنی پختگی علمی سطح طرز فکر اور مکتب فکر
قوت ارادی اور خود اعتمادی احساس ذمہ داری صلحتیں
للچ اور قناعت شجاعت و بہادری انصاف پسندی کامیابی کی لگن بخل و سخاوت
مایوسی و غصہ و جارحیت جنسی جذبہ عادات و خصائل فنی اور پیشہ ورانہ مہارت
محبت و نفرت خوشی و غمی تشویش کی صورت میں رویہ
ٹیم اسپرٹ صبر و شکر قوت برداشت ترجیحات حیرت و تجسس خوف اخلص
قانون کی پاسداری عصبیت قائدانہ صلحیتیں خود غرضی خود انحصاری
خوش احساس کمتری و برتری چستی ایثار جسمانی صحت ظاہری شکل و شباہت
خطرات کے بارے میں رویہ ابلغ کی صلحیتیں اخلقی معاملہ فہمی انتہا پسندی
جوش و ولولہ غیبت جذبات و احساسات کا طریق اظہار پسندیدگی اور ناپسندیدگی
خود آگہی
221
قرآن اور بائبل کے دیس میں
متعلقہ موضوعات پر مزید تحریروں کے لئے دیکھیے &http://www.mubashirnazir.org/Ethics%20
%20Religion.htm
222