You are on page 1of 162

‫ابواب بندی‬

‫مقالہ ہذا مقدمہ کے بعد چار ابواب پر مشققتمل ےےہےےے۔ مقققدمہ‬


‫موضوع تحقیق کے تعارف‪ ،‬انتخاب موضوع کے اسقباب‪ ،‬موض وع‬
‫تحقیققق کققے بنیققادی سققوال‪ ،‬موضققوع تحقیققق سققابقہ وموجققودہ‬
‫تحقیقققات کققے جققائزے حققدود تحقیققق )تحدیققد موضققوع(‪ ،‬مقاصققد‬
‫تحقیق‪ ،‬مصادر ومراجع کی نققوعیت‪ ،‬اسققلوب تحقیققق اور ابققواب‬
‫بندی کے بیان پر مشتمل ہے۔‬
‫باب اول‪ :‬معاشی نظریات کےارتقاءکو بیان کیا گیا ےےےہےےے‬
‫جو کہ دو فصول پر مشتمل ہے‬

‫ش ظظ‬
‫فصل اول‪ :‬معاشی نظریات کے ارتقاء کاپہلدور‬
‫فصل دوم‪ :‬اسلما کا معاشی ن ظرییہ‬
‫قق‬ ‫ش ظظ‬
‫ر حاضر کے معا شی ن ظر یبات کے ار ت قا‬ ‫باب دوم ق‪ :‬اس بباب میں عص ر‬
‫کا دوسرا اور ت ی سرا دور بب ییان کیا گیا ہےجوکہ دو فصول پر مشتمل‬
‫ہے‬
‫ظظ‬ ‫ش‬
‫فصل اول‪ :‬سرمایہ داراظیہ معاشی ن ظاما‬
‫ش ظظ‬ ‫ش‬
‫فصل دوم ‪ :‬اشقتراکی معاشی ن ظاما‬
‫ق‬ ‫ش‬ ‫س‬ ‫ظ‬
‫م‬ ‫ی‬ ‫ت‬
‫باب سوم‪ :‬اس بباب م ییں ا سو ییں صدی کے لم مفکرین کے ا ش تراکی‬
‫اراکو بیان کیا گیا ہےجوکہ چچارفصول پر مشتمل ہے‬
‫فصققل اول‪ :‬مولنققا عبیققد اللققہ سققندھی کققے نزدیققک جدیققد‬
‫اقتصادی نظام اشتراکیت‬
‫فصل دوم‪ :‬مولنا حسرت موہانی کے نزدیک جدید اقتصادی‬
‫نظام ظاشتراکیت‬
‫ق‬
‫ظفصل سوما‪ :‬علماہ اق بیال کے نزدیک جدید اقتصادی نظام اشتراکیت‬
‫ظ ظ‬
‫فصل چچہارما‪ :‬مولبا ح فظ الرحمن یسیوہہاروی کے نزدیک جدید اقتصادی‬
‫نظام اشتراکیت‬
‫ش‬
‫باب چہارم‪ :‬اس بباب م ییں بتیسو ییں صدی کے مسلم مفکرین کے ا ش قتراکی‬
‫اراکو بیان کیا گیا ہےجوکہ چچارفصول پر مشتمل ہے‬
‫ی‬
‫فصل اول‪ :‬مولنا اببو العلیی مودودی کے نزدیک جدید اقتصادی‬
‫نظام اشتراکیت‬
‫ظ‬
‫فصل دوم‪ :‬مولنا وح یید الدیین چان کے نزدیک جدید اقتصادی‬
‫نظام اشتراکیت‬

‫‪1‬‬
‫ٹ ظ‬ ‫ظ‬
‫ظظ‬
‫فصل سوما‪ :‬ڈاکتر بور م غ قاری کے نزدیک جدید اقتصادی نظام‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫اشتراکیت‬
‫ص‬
‫ف ل چچہارما‪ :‬مولبا م باسیین کے نزدیک جدید اقتصادی نظام‬
‫اشتراکیت‬

‫نتائج تحقیق وسفارشات اور فہارس پر مشتمل ہے۔‬ ‫خاتمہ‪:‬‬


‫فہارس میں قرآن مجید کی آیات‪ ،‬احادیث رسول صلی اللہ علیققہ‬
‫وسلم اور مصادر ومراجع کی فہرست بنا دی گئی ہے۔‬

‫باب اول‬

‫‪2‬‬
‫اس باب میں معاشی نظریات کے ارتقاء کو‬
‫بیان کیا گیا ہےجو کہ دو فصول پر مشتمل‬
‫ہے‬
‫معاشی نظریات کے‬ ‫فصل اول‪:‬‬
‫ارتقاء کاپہلدور‬
‫فصل دوم‪ :‬اسلم کا معاشی‬
‫نظریہ‬

‫بباب اول‬
‫فصل اول‬
‫معاشی نظریات کے ارتقاء کاپہلدور‬
‫انسانی سماج کی تاریخ‬

‫‪3‬‬
‫انسانی سماج کی تاریخ اوزار کی ترقی کی تاریخ ہے جوں‬
‫جوں انسان سماجی ترقققی کرتققا گیققا اس میققں پیققدا ےےہونےےے قوالقق ظے‬
‫ق‬
‫کی ظترقی نے‬ ‫اوزار ق‬ ‫ے رہے ک ظ‬ ‫کرت ظ‬ ‫سوچوں کو تبدیل‬ ‫پہ چ ظ ظ‬ ‫جدید اوزار انسانی‬ ‫ظ ظ‬
‫ے کی ترغییب اور‬ ‫ے چباس ر ھ ظن‬ ‫ظ‬
‫ے اظپنی ضرور ظ ت سے زیب ظادہ ا چپن‬ ‫ق‬
‫قانسانی سوچ کو سب سے ش چ ل‬
‫ہے بجس سے‬ ‫یا‬ ‫سا‬ ‫کا‬ ‫می‬‫ک‬ ‫با‬ ‫نی‬ ‫فراوا‬ ‫کی‬ ‫بات‬ ‫ضرور‬ ‫کی‬ ‫بدگی‬ ‫ز‬ ‫نی‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ترکییب ظدی بجس سے معا ہسر ق‬
‫معاش انسان کی ایبک اہم تریین ضرورت بین گنی معاشیات کی ایک جامع‬
‫تعریف جو روبینز) ‪ (Lionel Robbins‬نے دی تھی کچھ یوں ہے’’‬
‫م انسقانی رویقوں کقا‬ ‫کہ معاشیات ایک ایسا علم ہے جس میققں ےے ہ‬
‫مطققالعہ کرتققے ہیققں جققب ا اسققے لمحققدود خواہشققات اور ان کققے‬
‫مقابلے میں محدود ذرائع کققا سققامنا کرنققا پققڑے جبکققہ ان محققدود‬
‫ذرائع کے متنوع استعمال ہوں۔ “ ‪؎1‬‬
‫معاشرتی علوم کا ایک اہم موضوع معاشیات‬
‫معاشققیات یققا اقتصققادیات)‪ (Economics‬معاشققرتی علققوم‬
‫کی ایک اہم شاخ ہے اگرچہ معاشیات کی تحریریں کققافی زمققانے‬
‫سے ملتی ہیں مگر وہ کتاب جو باقاعدہ معاشیات کی پہلی طبققع‬
‫شدہ کتاب سمجھی جاتی ےےہےےے اڈم سققمتھ)‪ (Adam Smith‬کققی‬
‫مشہور کتاب)‪" (Wealth of nation‬دولت اقوام" ہے یہ کتاب‬
‫‪ ؎2‬میں چھپی تھی اس وقت معاشیات کو بطققور‬ ‫‪1876‬ء‬
‫علیحدہ مضمون کے شناخت نہیں کیا جاتا تھا۔مگققر ‪1876‬ء سققے‬
‫بھی پہلے مختلف جریدوں میں معاشققیات سققے متعلققق تحریریققں‬
‫موجود ہیں مثل ل‪ Thomas Munn‬کے بین القوامی تجارت سے‬
‫متعلققق مضققامین کققا تعلققق سققولہویں صققدی سققے ےےہےےے۔ معاشققی‬
‫نظریات اسلمی دور میں بھی موجود تھققے اور یونققانی دور میققں‬
‫بھی مگر علیحدہ مضمون کی حیثیت سے ترقققی ا اسققے اٹھققارویں‬
‫صدی میں ہی آکر ہوئی۔‬
‫معاشقققیات کقققو اس کقققا علیحقققدہ نقققام انگریقققزی میقققں‬
‫‪Ecnomics‬فرانسی میققں ‪Economiques sciences 1876‬ء‬
‫کے کچھ بعد مل پہلی کتاب جو باقاعدہ اسی نقام سقے چھقپی وہ‬
‫الفرڈ مارشل کی)‪ (Alfred Marshall‬کتققاب اصققول معاشققیات‬
‫پرنسپل آف اکنامکس )‪؎ 3(Principle of Economics‬تھققی ۔‬
‫جو ‪1890‬ء میں طبع ہوئی۔ مگر معاشیات کو ہم تین بنیادی ادوار‬
‫میں تقسیم کر سکتے ہیں۔ پہلے دور میں عمومققا ل یونققانی‪ ،‬رومققی‬
‫اور عربی)اسلمی( نظریات شامل سمجھے جاتے ہیققں۔ دوسققرے‬
‫دور میں چودویں صدی کے بعد سققے اٹھققارویں صققدی تققک کققے‬
‫نظریققات کققو داخققل کیققا جاتققا ےےےہےےے جیسققے تققاجرانہ نظریققات‬
‫‪ Mercantilist View‬اور تیسرا دور ہی اصل میں معاشیات کی‬
‫‪4‬‬
‫صحیح معنوں میں ترقی کا دور ہے جس میں جدید معاشیات کی‬
‫بنیاد پڑی اور معاشیات کو ایک الگ مضمون کی حیثیت دی گئی۔‬
‫اسی تیسققرے دور میققں مختلققف مکققاتب فکققر نققے جنققم لیققا۔ مثل ل‬
‫کلسیکی‪ ،‬نو کلسیکی وغیققرہ۔ معاشققی نظریققات کققا تعلققق وقققت‬
‫سے نہیں نظریات سے ہوتا ےےہےےے آج بھقی اگقر کقوئی ققدیم نظریقہ‬
‫رکھے گا تو ااسے ااسی نظریہ کا ماہر سمجھا جائے گا۔ جدید دور‬
‫کے معاشیات کو عموما ل درج ذیل مکاتب فکققر میققں تقسققیم کققی‬
‫جاتا ہے۔‬
‫کلسیکی معاشیات کی تعریف‬ ‫‪1‬۔‬
‫نیو کلسیکی معاشیات کی تعریف‬ ‫‪2‬۔‬
‫جدید معاشیات کی تعریف‬ ‫‪3‬۔‬
‫مارکسی معاشیات کی تعریف‬ ‫‪4‬۔‬

‫معاشیات کی تعریف و تاریخ‬


‫ش‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫‪ 1‬۔ کل س ییکی معیشت‬
‫پ‬ ‫شت کی ا ببق قیدا ظاس وقت ہہوئبی ب شجب معاشس ییات عی‬ ‫س ی مع ش‬
‫حدہ قم مون ہییں ھا۔‬
‫ت‬ ‫ض‬
‫کیلما یہرکیین ی عا ش یات کی عرتیفیں بجن میں عا یات کو دولت کا ع‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫"—ک‬
‫ہے‪ ،‬کی‬ ‫یا‬
‫ی گی ہ‬ ‫با‬‫د‬ ‫فرار‬ ‫لم‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ی مس‬ ‫ئ‬ ‫ظت ی‬ ‫ی‬ ‫ک قلس یی ٹ ہ ی م س‬
‫ا بب یدا اتھارہہوییں صدی کے آخر مییں ہہوبی۔ بجس کے معروف م قکریین مییں‬
‫‪Adam smith. Jean Baptiste Say,David‬‬
‫‪Recardo,Thomas Robbert Malthus, aur John Stuat‬‬
‫‪Mill.‬‬
‫ش‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫لصاہج ی قیہ ت قھا کہ م ظیڈیباں مع یشت‬ ‫ب‬ ‫س‬ ‫چ‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫جس‬ ‫ب‬ ‫ق‬
‫کی‬ ‫یش‬‫ی‬ ‫چت‬ ‫بومی‬ ‫اکا‬
‫ق‬ ‫یٹ‬‫ش کی ظ‬ ‫مار‬ ‫نے‬ ‫ین‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ہ‬
‫ہ‬ ‫ما‬ ‫ان‬ ‫یں۔‬ ‫و ی ی‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ق‬
‫ترہ‬ ‫غ‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫ع‬‫م‬
‫ے کہ ہہر چچیتز کی قایبک‬ ‫ے ھ‬ ‫ہے۔وہ ھن‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫بوازن چب ییدا ہونی ہ ہ ق‬ ‫قچچل ہنی ہ قہییں۔بجس سے ق شت مییں خود مع ش‬ ‫ی‬
‫ہے۔ عض ماس ہ بہجر ی قین قاس قدر کا‬
‫ت‬ ‫م‬ ‫قدر کی ئوبجہ ق سے یشت بچاری رہنی ق ہ‬ ‫ہے اور اشی ئ‬ ‫ققدر ہونی ہ‬
‫ظ‬
‫ے کہ رسد‬ ‫ے ظھ‬ ‫ے وقت کے جساب سے کرنے ہہ ی قیں۔ اوروہ ظ ھن‬ ‫ے گن‬ ‫تع ظیین اس چچ ظیتز چتر ضرف قکن‬
‫کی مداچلت قپہییں ہہو قنی‬ ‫سی اور طاقت ظ‬ ‫ق‬ ‫ک‬ ‫با‬ ‫ی‬ ‫کومت‬ ‫چ‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫اس‬ ‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫نی‬ ‫ی‬ ‫اچپنی طلب خود چب یدا کر ظ یل‬
‫ظ ی‬
‫کول اف تھاٹ کے ببا شنی ایبڈما سم قتھ کو سمبجھا بچا قبا‬ ‫ق‬ ‫یڈی اچب ظیا ظن ظاما خود چچلب قے۔ اس س‬‫ئ‬
‫چچا ہہ ییے۔م‬
‫ج‬ ‫س‬ ‫ق‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ک‬ ‫چچ‬
‫مب‬
‫ظشت کی ظا بب یدا ظھا بچابا‬ ‫ی‬ ‫قواما" کو لا ی کی‬ ‫ظ‬
‫ہے۔‪ 1776‬مییں ظ چھنی ظاس کی ک یاب " قدولت ا ظ‬ ‫ہ‬
‫ے ذانی م قاد کی چاطر بخو‬ ‫ہے۔ایبڈما قسمقتھ نے ییہ ح ییال چتییش ک ییا کہ شتماما لوگ اتفرادی ظ ئس طح چتر ا چپ قن‬ ‫ش ہش‬
‫بک‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫ظکوششییں کر قنے ہہییں وہ ببالواس ش‬
‫ی‬ ‫س‬ ‫ہے۔اور یبوں ا ی‬ ‫ے قابدہ م ید قہوبا ہ‬ ‫کے یلن‬ ‫ق‬ ‫سرے ق‬ ‫بورے ظمعا ب ظ‬ ‫ظ‬ ‫طہ چ ظ‬
‫ڈما سمتھ قاور دوسرے ک قل ی کی‬ ‫ق‬ ‫ہے۔ایب‬ ‫خود بخود چچل یا ر ہہ یا ہ‬ ‫شی ن ظاما ق‬ ‫کے بباعث ظ معا ش‬ ‫غیترق مر ی ظنی ہہاتھ ظ‬
‫ڈما متھ کی قک یاب "دولت اقواما"‬ ‫س‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ہے ایب‬ ‫یات کی تعریتف کی ہ ہ‬ ‫ع‬ ‫مکتببہ قکر کے م شکریین نے معاس ی‬ ‫ق‬
‫نے ہہ ی قیں کہ دولت کس‬ ‫جس مییں ہم ییہ م تظالعہ کر ظ‬ ‫ہے ب ق‬ ‫کے م ظاب بق " قمعاس ییات ایبک اینسا لم ہ‬
‫ہے۔ ؟ اور ییہ‬ ‫ب‬ ‫ق‬
‫ے ضرف ظکرنے ہہییں؟اس کی س ییم کییو کر ہہونی ہ‬ ‫ہے۔اسے کیس‬ ‫طرح چب ی قیدا کی بچانی ہ ق‬
‫ظ‬ ‫‪؎4‬‬ ‫ظ‬ ‫ہے۔؟"‬ ‫ظ‬ ‫ے ہہوبا ہ‬ ‫کہ اسکا ب بیادلہ کیس‬
‫ش‬ ‫نس‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫جے بنی سے نے اس کی‬ ‫قایبڈما سمتھ کے دوسرے رف قا مییں سے فرا یسی ماہہر معاس ییات ب‬
‫ہے۔‬ ‫تعریتف یبوں کی ہ‬

‫‪5‬‬
‫ق‬ ‫ظ ظ‬ ‫ع‬ ‫ش‬
‫ق‬
‫ے مییں سارے معاملت چتر غورو کر ک ییا بچابا‬ ‫ہے بجس مییں دولت کے سلسل‬ ‫"معاس ییات اینسا لم ہ‬
‫ہے۔"‬ ‫ہ‬
‫”‪“‘Economics is the science which treats of wealth‬‬
‫‪؎5‬‬ ‫قق‬
‫ہے۔" ‪؎6‬‬ ‫ل‬ ‫اور جے اس مل لکھق یا ہے۔ " عاشس یات دولت کی چب یداینش اور تقس ییم کا عم‬
‫ش‬ ‫ق قت ش ہ ظ‬ ‫ظ ی ظ‬ ‫ظ‬
‫م ی‬ ‫شہ‬
‫ی‬ ‫س‬
‫ب‬
‫ساک‪،‬‬‫خوراک‪ ،‬چبو ظ‬ ‫ے‪ ،‬ل مص‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ے ھ‬ ‫ل‬
‫بدگی ین‬ ‫بات ز ظ‬ ‫ضرور ی ظ ظ‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ک‬
‫نے‬ ‫ین‬ ‫ح‬ ‫ل‬ ‫کے‬ ‫صدی‬ ‫یں‬ ‫و‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫چہ‬ ‫یا‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫سےمیمرادیدا ہہو ئ‬ ‫ہ‬ ‫دولتع ف‬
‫لط‬
‫ظ‬
‫جھ‬ ‫سے‬
‫اگر ئچجہ ل ظ ی کی ماہہر ی ظین شت‬
‫رہہا ظبش و شغیترہ مگر ل فظ دولت‬
‫ئ‬ ‫ئ ی ق‬ ‫ی‬ ‫ش بچ‬ ‫ح‬‫چ‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫چب‬ ‫کچ‬ ‫ظ‬
‫یات کے ببارے مییں ییہ رابے قابم‬ ‫ع‬ ‫لوگوں نے ظمعاس ی‬ ‫لح کرنے والے ق‬ ‫سرے کا ظاص ظ ظ‬ ‫ش‬ ‫یتعنی معا‬
‫ے اس ظکا م ظالعہ‬ ‫ہے ۔اس یلن ظ‬ ‫وال قلم ہ‬ ‫ظ‬ ‫ظکر لی کہ ظمعاس ییات خودغر قضی اور دولت شچترسنی سکھانے‬
‫بک بیی تعریتف بب ییان کرنے کی ضرورت‬ ‫ئ‬ ‫پہییں کر ئبا چچا ہ یہن‬
‫ئ‬ ‫کی ا ی‬ ‫ق‬ ‫ے ظ وقت یمییں م شعاس ییات‬
‫س‬
‫ے۔ا ینس‬
‫محسوس ہہوبی‪ ،‬بجس سے پییو کل ی کی معاس ییات کی ا بب یدا ہہوبی۔‬
‫یات‬
‫ش‬
‫س‬ ‫عا‬ ‫کی‬ ‫ظ ییو کل س یی‬
‫ش‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫ظ‬ ‫شم ی‬ ‫ظپ‬
‫س‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫س‬
‫‪-1842‬‬‫ظ‬ ‫یات چتروفیسر الفریبڈ مار چچل )‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫کی معاس ق یتیات کی ا بب یدا ظ ا ظن چگل یظی یڈ قکے مش نہورس یماہہر معاس ی‬ ‫پییو کل ی ظ‬
‫نے‬ ‫‪ 1890‬مییں چھنی بجس‬ ‫ق‬ ‫ف اک یا شکس بخو‬ ‫نے اپنی ک یاب چتر ظ چ ل آ ظ‬ ‫ھی۔ قتعاس ظ ظ ف‬ ‫ع‪ 1824‬شنے کی‬
‫ی‬ ‫س‬ ‫ب‬
‫یات کے ق ق لط متییوں کو دور ک ییا ا ہوں نے معاس ییات کی خو تعریتف کی وہ کل ی کی‬ ‫پ‬ ‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ع‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫لم شمعاس ی ق‬
‫مع ی شت کی تعریتف سے مخ یلف ھی۔‬
‫‪“Political economy or economics is a study of‬‬
‫‪mankind in the ordinary business of life: it examine‬‬
‫‪that part of individual and social action which is‬‬
‫‪most closely connected with attainment and with‬‬
‫‪the use of material requisites of well being ……thus‬‬
‫‪it is on the one side a study of wealth : and on the‬‬
‫‪other, and more important‬‬ ‫ق‬ ‫‪ part of the‬ظ‪side, a‬‬ ‫ظ‬ ‫‪study‬‬
‫ش‬
‫ظ ؎‪ 7‬ظظ‬ ‫معاس ییات مییں انسان کے ان افعال کا م ظالعہ ک ییا بچا قبا"‬
‫ہے۔بخو شروزمرہ زظبدگی کے معاملت مییں چت‬
‫‪of man‬‬
‫یش آنے ہہییں۔اس مییں فرد کے ق اتفرادی اور‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫ا ب ق ہتماعی کو شسوں کے اس چپہلو کا بتھی چا ئ‬
‫ہے قکہ‬ ‫ق‬ ‫ل‬‫اس بات ق سے گہرا تع‬ ‫ظ‬ ‫کا‬ ‫جس‬ ‫ہ ب‬‫ہے‬ ‫ق‬ ‫با‬ ‫چا‬ ‫یا‬ ‫ل‬ ‫زہ‬ ‫ب‬ ‫ش‬ ‫ظج ش‬
‫ہ‬ ‫پ ب‬ ‫ب صی ب‬
‫ے ک ییا ظبچابا‬ ‫ک‬ ‫س‬
‫خوشحالی کے مادی لوازمات کس طرحعچا ل ہونے ہہییں اور ا ہییں ا تعمال مییں یس‬ ‫ہ‬
‫ہے ییہ خود‬ ‫ہے اور دوسری طرف بخو کہ ظبپہت اہہم ہ‬ ‫ہے۔ لہذا ایبک طرف ییہ دولت کا لم ہ‬ ‫ہ‬
‫ہے۔‬ ‫م ل ہ‬ ‫عہ‬ ‫ظا‬ ‫کا‬ ‫سان‬ ‫ن‬ ‫"ا‬ ‫ق‬ ‫ش‬
‫ظ ظ ظ ق ظ‬ ‫یب یظ‬ ‫تف‬
‫کی تعر ی ق‬ ‫بچد ی شبد معا س ییات ق‬
‫معاس ییات کی بچدیبد اور قبیول عاما تعریتف ل ل رو ببتز نے اچپنی نصی ییف‬
‫‪“The science which studies human behavior as a relationship‬‬
‫”‪between ends and scarce means which have alternative uses.‬‬
‫؎‪8‬‬ ‫ق‬ ‫ظ ظ‬ ‫ظ‬
‫ق ظ ہش‬
‫"سائبیس بجس مییں انسا ئنی رویبوں کا ظم ظالعہ کرنے ہہییں بجب ا ئسے لم ظحدود خواہ قسات اور ان کے‬ ‫ق‬
‫ے مییں ق محدود ذرابع کا ظسام ظیا کربا ق چتڑے بح بیکہ قان محدود ذرابع ظکے مییوع ظاستعمال ہہوں۔"‬‫م قا ببلق‬
‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ع‬
‫ہے۔ بجن ظمییں‬ ‫اس کا ت لق ت ی سرے ط بیقہ قکر سے تھا۔ اس کی بابیید بتعد کے م قکریین نے کی ہ‬
‫‪,Professor‬چتروفیسر‬‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ ظ‬
‫ظش‬ ‫ش‬
‫‪Eric Roll,tibor Scitovisky,C.E‬‬ ‫‪Furgosin‬‬
‫تف کے‬ ‫ع‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ک‬
‫یات کے بظتر کس معا قس ییات کی تعر ی‬ ‫رو ببتز نے ل یسکی اور پییو ل ی کی ماہہریین معاس ی ش‬
‫ہے اور شسایبد یپ ہی‬ ‫ہ‬ ‫لف‬ ‫ی‬ ‫خ‬
‫م‬ ‫سے‬ ‫بوں‬ ‫دا‬ ‫یات‬‫ہے۔اس کا ا لوب اور طرز دوسرے ماہہریین معا ی‬
‫س‬ ‫ہ‬
‫‪6‬‬
‫ق‬ ‫ش‬ ‫بپ ق س بمج ق‬ ‫ق‬ ‫ش‬
‫ے ہہییں۔ معاس ییات کی تعریتف ایبک‬ ‫ہے کہ ماہہر ی ظین معاس ییات اس کی تعریتف کو ہتر ھن‬ ‫وبجہ ہ ش‬
‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫ھا‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫نے‬ ‫یات‬ ‫ماہہر معا ی‬
‫س‬
‫‪“The study of political economy would be the study‬‬
‫‪of priciples on which the resources of a community‬‬
‫‪should be so regulated and administered as to‬‬
‫‪secure the communal‬‬
‫ش‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫؎‪ without waste.” 9‬ظ ‪ends‬‬
‫ش‬ ‫ظق‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫ض‬ ‫م‬ ‫‪ 1800‬میں ابڈما س ق‬
‫یت دی۔‬ ‫ی‬ ‫کی‬
‫ظ‬ ‫مون‬ ‫ظ‬ ‫قاعدہ‬ ‫با‬ ‫کو‬ ‫یات‬ ‫س‬ ‫عا‬ ‫نے‬ ‫قا‬ ‫ف‬ ‫ر‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫ظ‬ ‫اور‬ ‫تھ‬
‫ش‬
‫ہوں نے معاس ییات کو‬
‫ی‬ ‫ین معاشس ییات کہ قلئبے۔اپ‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫م‬
‫ق‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫ما‬ ‫کی‬ ‫ظ‬ ‫ابڈما س یقتھ اوری قاسمکے رف قا کلس یی‬
‫ق‬
‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫م ع‬ ‫ی‬
‫یں چب ییدائبش دولت‪،‬ضرف‬ ‫دولت قکا لم فرار دیبا۔ایبتققڈما سمتھ نے اچپ بنی ک یاب "دولت اقواما" م شی‬
‫کے ایبک ظ اور گروہ‬ ‫یات ش‬ ‫ہے۔ بتعد مییں مظع اس ی ظ‬ ‫اور س ییم دولت چتر ب قحث کی ہ‬ ‫دولت‪ ،‬شب بیادلہ دولت ظ‬ ‫ظ‬
‫نے ظ معاس ییات کو م شادی قلح و بپہبیود کا علم ئ فرار دیبا۔ بجس کی ا ببق یدا چتروف ی قسر الفرڈ مارسل نے کی ییہ‬
‫ے۔اس ظکے ش بتعد ایبک ت ی سرا دور آیبا بخو بچدیبد ماہہریین‬ ‫لوگ ییو کلس یی‬
‫ین کہلب ق‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ہ‬ ‫ا‬‫م‬ ‫ظ‬ ‫کے‬
‫ظ عا ش ظ پیات کہلئبے۔اپہوں نے وسا ئ‬
‫ہ‬ ‫یات‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫عا‬ ‫م‬ ‫کی‬
‫حدودیبت کے در قم ییان‬ ‫ل‬ ‫کی‬ ‫ق‬ ‫سات‬ ‫ہ‬ ‫خوا‬ ‫اور‬ ‫لت‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫کی‬ ‫ل‬ ‫ب‬
‫یات ظچتر اب بک‬
‫ش‬
‫عا‬
‫م‬
‫ے۔‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ظ‬
‫ب‬ ‫امساس ینی رویہ کا علم قفرار دبا۔ ان کے سرکردہ تروف ی سر راین ہل ئ‬
‫م ی ق‬ ‫س‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ب‬ ‫چ‬ ‫ق ی لک ئ‬ ‫ش ی ق‬ ‫ن‬
‫ے ہہییں۔ مگر ٓاج قبک معاس ییات کی تعریتف چتر ات قاق ظیہ ہہوسکا‬ ‫ے گن‬ ‫شمار کیب اور شم قالے ھ‬ ‫ظ‬ ‫ببے‬
‫چ‬ ‫ظ‬
‫ہے۔‬ ‫ہے یہ انسان کا معاشی م قسلہ ل ہہو سکا ہ‬ ‫ہ‬
‫ش‬
‫سش‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫مار کسی معا س ییات کی ت شعر یتف‬
‫ظ‬ ‫ظ‬
‫شٹ کہا گ ییا‬ ‫یالی سو ل ظ ق‬ ‫ی‬ ‫ے۔اپ ظہ ی ظیں ح ق‬ ‫ے بتھی داعی ق تھ ق‬ ‫ے سوسلزما کے بجی قن‬ ‫سے قچپہل‬ ‫کارل م ظارکس ظ‬
‫سب کا قمع ن ظر ذانی لک قییت جیم کرکے‬ ‫م‬ ‫ی‬‫م‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ہے۔اپہوں نے بخو ببحاویتز دییں‬
‫م‬ ‫قت‬ ‫یں۔وہ‬ ‫وہ اصلحای ھ ظی ظ‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬
‫یادوں چتر س ییم ئتھا‪،‬وہ سب ذانی ظ لکییت شکے‬ ‫ی‬
‫یت ی‬‫ت‬ ‫ب‬ ‫یہ‬‫ٹ‬ ‫با‬ ‫ساو‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫کا‬ ‫ع‬ ‫ب‬ ‫ذرا‬ ‫کے‬ ‫یداوار‬ ‫ی‬ ‫ق‬
‫چب‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫ق‬
‫اور‬ ‫دولت‬
‫لزما‬ ‫یالی سوس ق‬ ‫س‬ ‫ح‬ ‫کا۔‬ ‫دے‬ ‫یہ‬ ‫ھوس لئب قچہ عمل کو ٹبی ظ‬ ‫کا‬ ‫ے‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫چا‬ ‫نی م یت کے ظ‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫ذا‬ ‫گر‬ ‫ےم‬ ‫ھ‬ ‫ظمحالف ت‬
‫ی‬ ‫س‬ ‫ق‬ ‫ک‬
‫سے مبجھی ظبچاقنی‬ ‫سش‬ ‫ھی ک یاب ق"یبوبو چب ییا" ‪ 10‬ظ؎‬ ‫ھامس مور کی لک ظ‬ ‫ظ‬ ‫صدی مییں سر ظت‬ ‫ظ‬ ‫ں‬ ‫ب‬‫ی‬ ‫ہو‬‫کی ا ببق یدا چب ظیدر ہ‬
‫لزما ظ ٹکا چات مہ‬‫یالی سو یم ظ‬ ‫سائبیس ظمییں قب بید یظبل ک ییا ۔ح ی ظ‬ ‫ش‬ ‫ہے۔ کارل مارکس اور فریبڈرک ظ ایپنگلزنے ظ اس کو‬ ‫ہ‬
‫بڈرک ایپنگلز کی شہرہ آقاق ن شصی ییف "کییم ظییون ظشٹ ییوفسیو" کی‬ ‫ی ش‬ ‫ظ‬ ‫فر‬ ‫اور‬ ‫ارکس‬ ‫م‬ ‫کارل‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫‪1847‬‬ ‫ش‬
‫اعت چتر ہہوا۔کارل مارکس نے اشقترا قکییت کا سب سے قموتر اور مکمل قلسقہ ظچتییش ک شییا‪ ،‬ذیبل‬ ‫اس ظ‬
‫ہے۔مارکس نے سوسلزما کو‬ ‫کی تعریتف چت یقیش کی بچانی ہ‬ ‫سزما ظ‬ ‫م یش قیں کریین قکی ئ ییش کردہ مارک ظ‬
‫چت‬ ‫مق‬
‫ہے۔‬ ‫اش شتراکییت کا ا بب ظیدابی مرچلہ اور کمییوتزما اخری مرچلہ فرار دبا ہ‬
‫س‬‫ش‬ ‫ظ‬ ‫یم ق‬ ‫اور کمییوتزما کی سوچ اور اتروچ ا ظ بج‬
‫ہے۔سو لزما کا‬ ‫کار مییں فرق ظ ہ‬ ‫طرتیقہ ظ‬ ‫ہے گرل ظ‬ ‫بک ق یسی ہ‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫چ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫سو قسلزما ق‬
‫ہے۔ ییین نے اس کی وصاجت یبوں کی‬ ‫لب ہ‬ ‫ہے اور کمییوتزما کا طرتیقہ کار ات قق‬ ‫ست قا ہ‬ ‫طرتیقہ کار شار‬
‫ب‬
‫ہے۔سو لزما مییں " ہہر ایبک سے اس کی ظقا ب لییت کے م ظا بق اور ہہر ایبک کو قاس کے کاما‬ ‫ب‬ ‫ہ‬
‫ہے " ہہر ایبک سے اس کی قاببلییت کے‬ ‫ے مییں کمییوتزما ہ‬ ‫کے م ظاب بق" اور دوسرے ظمر چل‬
‫م ظاب بق اور ہہر ایبک کو اس کی ضرورت کے م ظاب بق"‪؎11‬‬
‫‪Encyclopedia Britannica “ Socialism, social and‬‬
‫‪economic doctrine that calls for public rather than‬‬
‫‪private ownership or control of property and‬‬
‫‪natural resources. According to the socialist view ,‬‬
‫‪individuals do not live or work in isolation but live‬‬
‫‪in cooperation with one another. Furthermore,‬‬
‫‪everything that people produce is in some sense a‬‬
‫‪social product, and everyone who contributes to‬‬
‫‪the production of a good is entitled to a share in it.‬‬
‫‪Society as a whole, therefore, should own or at‬‬
‫‪7‬‬
least control property for the benefit of all its
members.”
Oxford Dictionary “ A political and economic
theory of social organization which advocates that
the means of production, distribution, and
exchange should be owned or regulate by the
community as a whole.”
Professor T.N. Carver “ Socialism is the public
ownership and operation of all the means of
production.” 12؎
Professor Henry R. Seager “Socialism is a
proposed reorganization of industrial society which
would substitute for the private ownership of land
and the instruments of production public
ownership, and for the private direction and
management of industry, direction and
management through public officials.” 13؎
‫دنیا میں اس وقت جو معاشی نظام رائج ہیں وہ ایک سرمایہ‬
، ‫ دنیا میں جو کچھ کاروبار‬،‫دارانہ اور دوسرا اشتراکی نظام‬
‫تجارت یا معاملت ہو رہے ہیں وہ انھیں دو نظاموں کے تحت ہو‬
‫رہے ہیں۔اسلم کے معاشی نظریات پہلے دور سے تعلق رکھتے‬
‫ہیں اس لحاظ سے اسلم کے معاشی نظریات کا جائزہ پہلے‬
‫شامل کیاجاتا ہے۔‬

8
‫فصل دوم‬
‫اسلم کا نظریہ معاش‬
‫انسان کو اللہ تعالیی نے اشرف المخلوقات بنا کر بھیجا ہہے۔لقد‬
‫خلقنا ا لناسان فی احسن تقویم ‪) ؎1‬اور بلشبہ ہہم نے انسان کو بہترین‬
‫صورت میں پیدا کیققا(۔ انسققان اپنققے جسققم کققو زنققدہ رکھنققے کققے‬
‫لیےرزق کا محتاج ہہے۔انسان کی اولین فطری ضرورتوں میں رزق‬
‫کا شمار ہہے۔رزق ہی معاشیات کا اصل موضوع ہےجب بات‬
‫فطرت کی ہو تو اسلم جو کہ دین فطرت ہہے ۔ ایک ایسا دین جو‬
‫خالق فطرت نے اپنے پیققارے نققبی حضققرت محمققدﷺ پققر انسققان کققی‬
‫فطرت کو مدنظر رکھ کر نازل فرمایا ہہے۔جو دین کامل ہہے۔‬
‫انسان کی زندگی کے ہہر شعبے میں رہہبری و رہنمائبی کے لیے‬
‫جامع اصول و قواعد فراہم کرتا ہہے۔ کہ قرآن مجید شروع ہی‬
‫ب ِّایللعاَللممیینْ ِّ ‪ ؎2‬۔جس میں اللہ رب‬
‫اس آیت سے ہوتی ہے ۔الیللحیمدد ِّ مل ِّ لر بَ‬
‫ی سققاری مخلوقققات کققا‬ ‫ے کققہ و ےے ہ‬ ‫العزت انسان پر واضققح کرتققا ےے ہ‬
‫پرورش کرنے وال رزق دینے والہہے۔‬
‫قرآن کریم نے اس کی وضاحت یوں کی ہہے۔‬
‫﴿ووففف السسفوماَفء فرمزقكككفمم ووومففاَ كتوُوعفكدون﴾ ‪) ؎3‬اور تمھارا رزق اور جس چیز‬
‫ی کے پاس‬ ‫کا تم سے وعدہ کیا گیا ہہے آسمان میں یعنی اللہ ظ تعال ی‬
‫ی نے اپنے مخلوقات کو رزق بہم پہیچانے میں بخل‬ ‫ہیں( اللہ تعال ی‬
‫ی جس طرح لمحدود ہہیں اس طرح‬ ‫سے کام نہیں لیا ہہے۔اللہ تعال ی‬
‫اس کے کارخانہ قدرت میں رزق وسیع ہہے۔اور اس کی ذات اتنی‬
‫وسیع ہہے کہ اس نے اپنی ہہر قسم کے مخلوقات کی رزق کا‬
‫اہہتمام اس کے ماحول کے مطابق بل کسی شرط کے فرمایا ہہے۔‬
‫اس کی رزاقی سے بدترین دشمن بھی محروم نہیں ہے۔یہ انسان‬
‫ہی ہے جس نے حرص کی وجہ سے دوسققرے انسققانوں کققے رزق‬
‫کے حصول میققں روکققاوٹیں کھققڑی کققی ہہیققں۔ انسققان نققے بققذریعہ‬
‫طاقت دولت اور ذرائبع دولت پر قبضہ کیاہہے۔ طاقتور نے ہہمیشہ‬
‫کمزور کا معاشی استحصال کیا ۔ اس طرح کمزور انسانوں کققے‬
‫لیے رزق کا حصول مشکل ہہوتا گیااور وسائبل رزق محدود ہہوتے‬
‫ئ‬
‫ے۔ اگر انسان اس حرص کا مظاہہرہ نہ کر قبا‪ ،‬طاقتور کمزور کا‬ ‫گن‬
‫استحصال نققہ کرتققا توتمققام انسققانوں کققے لیققے کسققی قسققم کققے‬
‫وسائبل کی اللہ کے کارخانے میں کمی نہیں ہہے۔اس طرح لوگوں‬
‫کی ضروریات زندگی کا حصول مشکل سے مشکل ہہوتققا گیققا ۔تققو‬
‫طاقتورطبقہ نے کمزور لوگوں کو کم وسا یئبل کققے سققاتھ زنققدگی‬
‫‪9‬‬
‫گزارنے کا ہہنر سکھانا شروع کیا۔کققم وسققا یئبل کققے سققاتھ زنققدگی‬
‫گزارنے کے ہہنر کے علم کو علم معاشیات ک قہیے ہہیں۔ اٹھارہہویں‬
‫صدی تک معاشیات کو باقاعدہ علم کققا درجققہ حاصققل نققہ تھققا۔علققم‬
‫معاشیات کو باقاعدہ مضمون کی حیثیت حاصل نہ تھی۔‬
‫ظ‬
‫بیسویں صدی کے احق یتام پر بہت سے مسلم ممالک کققوآزادی‬
‫ملی تو اسلمی ادارے اور طرز حکمرانی کی احیا ہہوئبی۔اقتصادی‬
‫مسا یئب ل کققا مطققالعہ دوسققرے نظققاموں کےسققاتھ سققاتھ اسققلمی‬
‫اقتصادی نظام کے تحت ہہونے لگا۔اسلمی اقتصادی نظام کی‬
‫اہہمیت بیسویں صدی کے آخرمیں سوشلزم کے انہدام پر زیادہ‬
‫ہہوئب ی جب سوشلزم ترقی پذیر دنیا کو غربت اور استحصال سے‬
‫نجات نہ دلسکا۔تو اسلمی اقتصادی نظققام کققا تقققابلی جققا یئبزہ لیققا‬
‫جانے لگا۔ اسلمی اقتصادی نظام کققے عنققوان ‪ ،‬مضققمون پققر اس‬
‫دوران اور اس کے بعد بہت سارا لٹریچر مرتب ہہوا۔اس لحاظ‬
‫سے اسلمی معاشی ‪،‬اقتصادی نظام اصطلح جدید موضوع ہہے۔‬
‫مگر چودہ سو سال پہلے مدینہ کققی ریاسققت میققں اس کققا عملققی‬
‫اطلق ہوچکا ہے۔‬
‫سب سے پہلی بات تو یہ ہہے‪ ،‬کہ اسلم صرف اقتصادی‬
‫نظام نہیں بلکہ مکمل ضابطہ حیات ہہے۔ اسلمی اقتصادی نظام‬
‫اسلمی ضابطہ حیات کا ایک جز ہہے اسلم انسانی زندگی کے‬
‫ایک خاص پہلو سے متعلق نہیں ہہے ۔ اسلم نے زندگی کے ایک‬
‫ایک لمحے کی رہنمائبی کی ہہے۔ پیدائبش کے پہلے لمحے سے‬
‫اسلم تعلیم اذان کی صورت میں دینا شروع کر دیتا ہہے ۔ انسان‬
‫کو بتا دیا جاتا ہہے کہ تم ایک خاص مقصد کے تحت اس دنیا میں‬
‫تشریف لئبے ہو۔ جس کا تعلق روح سے ہہے۔وہ مقصد روح کی‬
‫پققاکیزگی اور ذات لفققانی سققے یکسققوئبی اورجققوڑہہے۔اور پہلققے‬
‫لمحوں ہہی میں غذا بھی فراہہم ہہو جاتی ہہے۔یعنی انسان کی‬
‫زندگی اسلمی معاشرے میں شروع دو چیزوں سے ہہوتی ہہے‬
‫علم اور غذا ۔‬
‫روح اور مادہ اسلمی معاشرے میں ایک ساتھ بڑھوتری‬
‫کرتے ہہیں اور احکامات بھققی ایققک سققاتھ اذان اور مققاں کققو دودھ‬
‫پلنے کے اور اور ریاست پر مققاں کققی دودھ کققی سققکت برقققرار‬
‫رکھنے کی پیدائبش سے شروع ہہو جاتےہہیں۔اسلمی معاشرے‬
‫میں روح اور مادہ کا سفر ایک ساتھ شروع ہہوتاہہے۔ اسلم مادہ کا‬
‫ہے۔‬‫صحیح استعمال روح سے جوڑتا ہ‬
‫اسلم کے معاشی نظام کا احتصاص‬

‫‪10‬‬
‫اب تک معلوم معاشققی نظققاموں میققں اسققلم کققے معاشققی‬
‫نظام کا اظچتصاص یہ ہہے کہ مادہ کے ساتھ ساتھ روح کی بھی‬
‫ی نے ۔دو چیزوں سے بنایا ہہے‬ ‫قدرلگاتاہہے۔ انسان کواللہ تعال ی‬
‫ہے ایک کے نہ‬ ‫جسم اور روح۔ ان دونوں کی اہہمیت ایک جیسی ہ‬
‫ہہ ونے پر انسان برقرار نھیں رہ سکتا۔یہ دونوں کام کریں تو‬
‫انسان برقرار رہ سکتا ہہے۔ان دونوں کی ضرورتیں اگرچہ الگ‬
‫الگ ہہیں مگر دونوں کا سرچشمہ ایک ہہی ہہے۔روح کے لئے اللہ‬
‫ی کققی طققرف‬ ‫ی کے احکامات ہیں اور جسم کےلئے اللہ تعققال ی‬ ‫تعال ی‬
‫سے زمین پققر رزق ےےہےےے۔اسققلمی تعلیمققات کققے مطققابق اگققر روح‬
‫پاکیزہ ہوگی تو جسم کے لئے رزق بھی پاکیزہ اور وافر ہوگی۔‬
‫یپہی عمل اسلمی اقتصادی نظام کو دوسرے اقتصادی‬
‫نظاموں سے مختلف کرتی ہہیں۔ روایبق یی اقتصادی نظام صرف‬
‫مادہ میں انسان کے ضروریات پوری کرنے کی طاقت دیکھتا ہہے۔‬
‫جبکہ اسلمی اقتصادی نظام کہتا ہہے کہ انسان کی ضرورت‬
‫صرف مادہ سے پوری نہیں ہہو سکتی جب تک روح کی تربیت‬
‫شامل نہ ہہو۔قرآن مجید میں جہاں روحانی اور اور اخلقی‬
‫معاملت کی انفرادی زندگی کے بارے میں ہہدایات دی گئیی ہہے‬
‫وہہاں اجتماعی زندگی گزارنے کے بھی ہہدایات دی گئیی ہہیں۔‬
‫انسان کی مادی زندگی کی کامیابی کا انحصار معیشت پرہہے ۔‬
‫قرآن مجید نے جہاں انسان کی زندگی کے دوسرے پہلوؤں پر‬
‫بات کی ہہے وہہاں معاشی ضروریات کوبھی نظر اندازنہییں کیاہہے۔‬
‫کیوں کہ صالح زندگی گزارنے کے لیقے م ادی وسقائبل اور اسقباب‬
‫بقدرضرورت ضروری ہہیں۔قرآن مجید کققا یققہ اسققلوب نہیققں کققہ وہ‬
‫ڈاکٹروں سے میڈیکل کی زبان میں بات کرے۔معیشت دانوں کے‬
‫ساتھ معاشی اصطلحات استعمال کرے۔یہ ایک حقیقت ہہے کہ‬
‫زندگی کے ہہر شعبے کے ماہہرین اس سے اپنے لیے ہدایات‬
‫حاصل کررہےہیں۔قرآن مجید لوح محفوظ سے ازل تک انسققانوں‬
‫کی رہنمائی کے لیے بھیجی گئی ہے۔‬
‫ا سلمی معاشیات کی تعریف‬
‫مسلمان معیشققت دانققوں نققے اس جدیققد علققم کققی تعریققف‬
‫اپنے انداز میں کی ہہے۔ اوائبل سے عصر حاضر تک چند مسلم‬
‫مفکرین کی معاشیات کی تعریف مندرجہ ذیل ہہیں۔‬
‫ابوالحسن علی بن محمد المادردی‬
‫ابو الحسن علی بن محمد المادردی ‪۴۵۰‬ھ نققے اپنققی کتققب‬
‫میں اقتصادی موضوعات پر بحث کی ہے۔مال )دولت( چونکہ‬
‫‪11‬‬
‫اقتصادیات میں اہم موضوع ہے اسی صفت کققو سققامنے رکھتققے‬
‫ےےو ئہبے ان ےےہوں نققےےے مققال کققو اقتصققادیات کققی بنیققاد قققرار دیققا ےےہےےے‬
‫اقتصادیات میں اس کی تشریح یوں کی ہے ۔‬
‫واالمومال ضبنا‪ :‬ظاھذرۃ وبطنۃ۔ فالظاھذرۃ‪ :‬مالیاکن اخفا ہ کلزرامع والثرام والوماش۔ والباطنۃ۔ ما اامکن ااحِفائہ مللن الللھذب‬
‫والفضۃ وعروض التجارامۃ۔ ‪؎4‬‬
‫مال کی دو قسمیں ہیں‬
‫اموال‬ ‫)‪(۲‬‬ ‫)‪ (۱‬اموال ظاہرہ‬ ‫مال کی دو قسمیں ہہیں ‪،‬‬
‫باطنہ‬
‫اموال ظاہرہ‪ :‬اموال ظاہہرہ سے مراد ہہے وہ مال جو چھپایا نہ‬
‫جا سکےجیسے کھیتی ‪،‬پھل‪ ،‬اور مویشی وغیرہ۔‬
‫اموال باطنہ‪ :‬اموال باطنہ سے وہ مال مراد ہہے جو چھپایا جا‬
‫سکےجیسے سونا چاندی اور سامان تجارت وغیرہ۔‬

‫امام غزالی کی رائے‬


‫امام غزالیی ‪۵۰۵‬ھ ’’اے غزیتز! ییہ ببات بچان کہ دنیاراہ آخرت کی منزل ہے‬
‫آدمی کو کھانے پینے کی حاجت ہے اور کھانا پینا بےکسب ممکن‬
‫نہیں تو کسب کے آداب بھی جاننا چاہئے۔ ‪؎5‬‬
‫شاہ ولی اللہ کی رائے‬
‫شاہ ولی اللہ محدث دہہلوی علققم معاشققیات کققی تعریققف ان‬
‫الفاظ میں کی ہہےم۔ ’’ھذومالکحۃ الباحِثۃ عن کیفیت اقامہ العمادلتا والعماونتا واللارامتفاق ثانی کے‬
‫باب میں افراد معاشرہ کے اشیا ی کے باہہمی تبادلہ ‪ ،‬ایققک دوسققرے‬
‫سے معاشی تعاون اور ذرائبع معشیت و آمدن کی حکمت سے‬
‫بحث کرنے کا نام علم معیشت ہہے۔ ‪؎6‬‬
‫ئ‬ ‫ق‬
‫ق‬ ‫ق‬
‫نے‬
‫ظ ظ‬ ‫را‬ ‫کی‬
‫ق قع قق‬
‫یال‬‫علماہ ا ق ب‬
‫کے معمولی کاروبار تر ب‬ ‫ظ‬
‫ہے۔اور اس کا قم قصد اس‬ ‫ہ‬ ‫با‬ ‫کر‬‫ق‬ ‫حث‬‫ب‬ ‫ب چ‬ ‫ظ‬ ‫بدگی‬
‫چظ‬ ‫ز‬ ‫نی‬ ‫ا‬‫س‬ ‫القن ن‬
‫ا‬ ‫صاد‬ ‫بح " لم ظ‬
‫س‬ ‫ص‬
‫ہے کہ لوگ اپ قنی امدنی قکس طرح چا ظ ل کرنے ہہییں اور اس کا ا ت قعمال کس‬ ‫امر چتر یقی قق کربا ہ‬
‫ہے اور دوسرے اعی بیار سے‬ ‫ضوع دولت ہ‬ ‫اس کا موظ ظ‬
‫بک اعی بیار سے بو ظ‬ ‫ش‬ ‫نے ہہ یعیں ۔چنس ا ی‬ ‫طرح کر‬
‫ہے۔‪؎7‬‬ ‫ہے بجس کا موضوع خود انسان ہ‬ ‫ییہ اس و تع لم کی ایبک ساخ ہ‬ ‫ی‬ ‫س‬
‫حفظ الرحمان سیوہاروی‬
‫"لغت کی زبان میں قصدواقتصاد "میانہ روی " اور "اچھے‬
‫چال چلن"کا نام ہے۔مگر علمی اصطلح میں ایسققے وسققائبل کققی‬
‫‪12‬‬
‫"دریافت "کو کہتے ہیں جققو دولققت و ثققروت کققے پیققدا کرنققے کققے‬
‫مناسب طریقے ‪،‬اس کے خرچ کے صحیح اسققتعمال اور اس کققی‬
‫ہلکت و بربادی کے "حقیقی اسباب"بتاسکیں۔‪؎8‬‬
‫ڈاکٹرنور محمد غفاری کی را ئبے‬
‫ئ‬
‫جنہیققں‬ ‫"اسلمی معاشیات ان وسا ئبل کے علققم کققا نققام ےےہےےے ظ‬
‫انسان اس ق )مال یا معاش یا ذرابع معاش(سے استفاد ظہ کرنے کے‬ ‫ق‬
‫)ا کر ییم قکی طرف سے(ام ی ظین و بگران ش بب ظیایبا گ ییا‬‫ظ‬
‫پ‬ ‫سے‬
‫ق‬ ‫ا‬ ‫یں‬‫ی‬ ‫م‬ ‫جس‬ ‫ہے۔‬
‫ہ ش ب‬ ‫با‬ ‫کر‬ ‫عمال‬‫ے قاست‬
‫یلن‬
‫ب‬ ‫م‬
‫ہے‪ ،‬شباکہ اس طرح تسریتعت کے فررہ ہج )طرتیقہ(کے م ظا بق فرد اور معاسرہ کی‬ ‫ق‬ ‫ہ‬
‫)معاشی(چابچات کی کم ییل ہہو۔" ‪؎9‬‬
‫وہ اسلمی قوانین اور احکامات جو اسققلمی معاشققیات کققی‬
‫بنیادی اکایئاں ہہیں وہ اسلم کی تسلیم شدہ ذرائبع معلومات قرآن‬
‫اور حدیث ‪،‬اجماع‪ ،‬قیاس‪،‬فقہ سے حاصل کی گئیی ہہیں‪ ،‬جو‬
‫اسلمی معاشیات میں ایک بنیادی ستون کی حیثیت رکھتا ہہے۔‬
‫اسلم کی ایک بنیادی حقیقت جس کا قققرآن مجیققد نققے بققار‬
‫بار ذکرکیا ہہے۔اللہ تعالی مالک ہہے۔ہہر چیز اللہ تعالی کی ملکیت‬
‫ہہے۔ سب کچھ اللہ تعالی نے پیدا کیا ہہےاور کوئبی کسی کا مالک‬
‫نہیں سوائبے اللہ کے۔اللہ تعالی ہہی اس کی فطرت کو بہترین‬
‫سمجھتاہہے۔بہترین ہہدایت دینے وال ہے۔ یہی سوچ اسلمی‬
‫معاشیات میں بھی سرفہرست ہہے۔تمام ذرائبع پیداوار اور وسائبل‬
‫ئ‬ ‫ئ‬
‫ے ہہیں‬ ‫ے ضروری ہہیں اللہ تعالی نے پیدا کن‬ ‫جو معاشی زندگی کے لن‬
‫اور انھیں اللہ نے ایسے قوانین فطرت پر بنایا ہہے کہ وہ انسان‬
‫کے لیے فائبدہ مند ثابت ہہوتے ہہیں۔اللہ ہہی نے انسان کو ان پر‬
‫اختیار دیا ہہے کہ وہ اس سے فائدہ اٹھائے۔‬
‫قرآن مجید کا اسلوب‬
‫قرآن مجید کا اسلوب یہ ہہے کہ یہ موضوعات کے حساب‬
‫سے مرتب نہیں جیسے کہ قرآن مجید میں سورہ طب ہہو یا‬
‫سورہ معاشیات ہہواس طرح کا اسلوب نہیں ہہے قرآن مجید میں‬
‫ہہدایات بکھرے ہہوئبے موتیوں کی طرح پڑے ہہیں کہیں انبیاعلیہ‬
‫سققلم کققے واقعققات سققنا کققر کہیققں اور کہیققں روز محشققر کققے‬
‫واقعات ‪ ،‬عبادات اور دوسرے احکام کی ہہدایات جابجا رکھ دی‬
‫گئی ہہیں‪،‬جو معاشیات سے متعلق بھی ہہیققں۔قققرآن مجیققد کقو جققب‬
‫کوئبی تلوت کرتا ہہے ‪،‬تو بپہت سارے موضوعات کو بیک وقت نئیے‬
‫ئ‬
‫ے نئیے انداز میں پیش کیا گیا ہہے کہ اس کے‬ ‫نئیے پیرائبے میں ‪،‬نن‬
‫مختلف پہلو تلوت کرنے والے اور سننے والے پر ا ٓشکارا ہہو‬

‫‪13‬‬
‫جائبےاور اس کی ذہہن نشین ہہو جائبے۔جو ایک صالح معاشرے کی‬
‫تعمیر میں ممدو معاون ثابت ہو۔‬
‫قرآن مجیممد کممے اجتممماعی‪ ،‬اقتصممادی‪،‬اور مممادی‬
‫معاملت‬
‫قققرآن مجیققد اجتمققاعی‪،‬اقتصققادی اور مققادی معملت کققو‬
‫دیکھیاہہے۔ مادی اور‬‫ق‬ ‫اخلقی اورروحانی معاملت کے تناظر میں‬
‫دنیاوی معاملت سے صرف نظر نہیں کیا گیا ہہے۔مگر ان معاملت‬
‫کو جزوی رکھا گیاہہے۔قرآن مجید نے اخلقی اور روحانی معاملت‬
‫کو مدنظر رکھا ہہے ان کو ٹھیک کرنے پر زیادہ زور دیاہہے۔قرآن‬
‫مجید نے وہ دنیاوی ضروریات پوری کرنے کےطریقے جققو انسققان‬
‫اپنے تجربے اور فکر سے خود معلوم کر سکتا ہہے نہیں ئ بتائبےہہیں۔‬
‫جیسے اوزار کیسے بنققائبے جققائبیں عمققارتیں کیسققے بنققانی جققائبیں‪،‬‬
‫قرآن مجید نے معاشیات کے باب میں بھی یہی روش اختیققار کققی‬
‫گئیی ہہے۔بجس کو معاشیات کا سب سے اہہم اور بنیادی پہلو جس کوہہم‬
‫معیاراتی یعنی ‪Normativ‬پہلو کہ سکتے ہہیں۔معیققاراتی معیشققت‪،‬‬
‫معاشی نظام کا ایک حصہ ہہے جو معاشی منصوبوں کے اثرات‬
‫کا تعین کرتا ہہے۔جیسا کہ مشہور معیشت دان پاول سموییلسن‬
‫نے اپنی کتاب میں اس کی یوں تعریف کی ہہے۔‬
‫مشمممہور معیشمممت دان پممماول سمویلسمممن کممما‬
‫معیاراتی معیشت کی تعریف‬
‫‪Normative economics incolves ethical precepts and notms of‬‬
‫‪fairness. Should unemployment be raised to ensure that price‬‬
‫‪inflation does not become too rapid? Should the United States‬‬
‫‪negotiate further agreements to lower tariffs on imports? Has the‬‬
‫?‪distribution of income in the United State become too unequal‬‬
‫‪There are no right or wrong answers to these questins because‬‬
‫‪they involve ethoics and values rather than facts. While‬‬
‫‪economic analysis can inform these debates by examining the‬‬
‫‪likely consequences of alternative politices, the answers can be‬‬
‫‪resolved only by discussions and debates over society’s‬‬
‫؎‪fundamental values. 10‬‬
‫معیاراتی معیشت ‪،‬معاشیات کا یہ وہ پہلو ہہے جس کا تعلق‬
‫اخلقی معیارات اور ئ اصولوں سے انتہائبی گہراہہے۔جو روح اور‬
‫دینی معاملت سے قایم ہہے۔قرآن مجید میں معاشیات سے متعلق‬

‫‪14‬‬
‫جو احکامات ہہیں ان میں نارمیٹیو پہلو بپہت نمایاں ہہے۔جیسا کہ‬
‫کیا کمائبیں۔کیا خرچ کریں اور کس پر خرچ کریں ‪،‬جائبز اور ناجائبز‬
‫میققں فققرق‪،‬معققاملت ریاسققت اور تجققارت کققے بنیققادی اخلق اور‬
‫اصول کیا ہہونے چا ہہ ئیییے۔جن کےبارے میں بنیادی ہہدایات دی‬
‫ہہیں‪،‬قرآن مجید نے جزوی معاشیات مققائبیکرو اکنققامکس اور کلققی‬
‫معاشیات میکرو اکنامکس دونوں کا ذکر کیا ہہے۔فرد معاشرے اور‬
‫ریاست کے لیے اپنا دائبرہ کار اور ضابطہ دیا ہہے۔ قرآن مجید نے‬
‫معاشیات کے لیققے جققو بنیققادی اصققول دی ہہیققں۔وہ مسققاوات قققائبم‬
‫ہے۔‬
‫کرنے کے ہہیں۔ ہہر چیز کا اصل مالک اللہ تعالی ہ‬
‫عالم کائنات میں انسان کی خلفت‬
‫انسان اس دنیا میں خلیفہ اور امین ہہے۔اس لیے تمام‬
‫وسائبل پر سارے انسانوں کا حق برابر ہہے۔ اس طرح کا کوئبی‬
‫بھی عمل جس سے کسی کی حق تلفی ہہوتی ہہو قران کی‬
‫تعلیمات اس کو جرم سمجھتی ہہے۔ اور اس کی اہہمیت کا اندازہ‬
‫اس بات سے بھی واضح ہہوتا ہہے کہ اللہ تعالی جو خالق کائبنات‬
‫ہہے اس نے کسی کا حق معاف کرنے کا اختیار اپنے پاس نہیں‬
‫رکھا ہہے۔ جب تک ذی حیات کسی کو اپنا حق معاف یا بدلہ ن ہیں‬
‫پاتا ہہے اللہ تعالی اسے معاف نہیں کرتا۔ انسانوں کے پاس جو‬
‫بھی مال ہہے ۔اسے قرآن مجید اللہ کی امانت قرار دیتاہہےاور جو‬
‫بھی مال جس کے پاس امانت رکھا گیا ہہے وہ اس لیے رکھا گیا‬
‫ہہے کہ وہ خود اسے اپنے استعمال میں لئبے اور باقی ان لگوں‬
‫کو پہنچائبیں جو اس سے محروم ہہیں۔‬

‫اسلمی معاشی نظام میں قرآن مجید کی رہنما‬


‫ق‬
‫آیات تبمعہ تر بحمہ‬
‫ل الل یلققهه وواذ ذك اققاروا‬ ‫ن فو ذ‬
‫ضقق ه‬ ‫مقق ذ‬
‫وا ه‬
‫ض وواب ذت وغاقق ذ‬ ‫ذ‬ ‫صیلوة ا وفان ذت و ه‬
‫شارذوا هفيِ ال وذر ه‬ ‫ت ال ص‬ ‫ذا قا ه‬
‫ضي و ه‬ ‫فوا ه و‬
‫؀‪؎11 10‬‬ ‫ن‬
‫حوذ و‬ ‫فل ه ا‬ ‫ه ك وث هي ذلرا ل صعول صك ا ذ‬
‫م تا ذ‬ ‫الل یل و‬
‫ق‬
‫تربحمہ‪:‬۔" پھر جب نماز پوری ہوجائے تو زمین میں منتشر ہوجاؤ‪،‬‬
‫اور اللہ کا فضل تلش کرو۔ )‪ (٧‬اور اللہ کو کققثرت سققے یققاد کققرو‬
‫تاکہ تمہیں فلح نصیب ہو۔‬
‫سققت ووذفاوذ و‬
‫ن ۝‪Ą‬ڮ‬ ‫س يو ذ‬ ‫و‬ ‫ذا اك ذت وققال ا ذ‬ ‫ن ۙ۝‪ Ǻ‬ال صذ هي ذ و‬
‫ن اه و‬ ‫مط و فَ‬‫ل فَلقل ذ ا‬
‫ووي ذ ل‬
‫وا ع ولققيِ الن صققا ه‬ ‫في ذ و‬
‫ف ه‬
‫‪؎12‬‬ ‫ن ۭ۝‪Ǽ‬‬ ‫ساروذ و‬ ‫خ ه‬ ‫م ا ووذ وصوزن اوذها ذ‬
‫م يا ذ‬ ‫كال اوذها ذ‬
‫ذا و‬ ‫ووا ه و‬

‫‪15‬‬
‫ق‬
‫تربحمہ‪:‬۔ " بڑی خرابی ہے ناپ تول میں کمی کرنے والوں کی۔ جن‬
‫کا حال یہ ہے کہ جب وہ لوگوں سے خود کوئی چیز نققاپ کرلیتققے‬
‫ہیں تو پوری پوری لیتے ہیں۔ اور جب وہ کسی کو ناپ کر یقا تقول‬
‫کردیتے ہیں تو گھٹا کردیتے ہیں۔‬
‫‪؎13‬‬ ‫؀‪Ḍ‬‬ ‫ن‬ ‫ساروا ال ذ ه‬
‫مي ذوزا و‬ ‫ط ووول ت ا ذ‬
‫خ ه‬ ‫س ه‬ ‫ن هبال ذ ه‬
‫ق ذ‬ ‫موا ال ذووذز و‬
‫ووا وقهي ذ ا‬
‫اور انصاف کے ساتھ وزن کو ٹھیک رکھو‪ ،‬اور تول میققں کمققی نققہ‬
‫کرو۔‬
‫ل ا هصل ا و ذ‬ ‫و‬
‫ن‬
‫جققاورة ل ع وقق ذ‬ ‫ن ت وك اققوذ و‬
‫ن ته و‬ ‫م هبال ذوباط هقق ه‬‫م ب وي ذن وك اقق ذ‬‫وال وك ا ذ‬ ‫م و‬‫وا ا و ذ‬ ‫وا ول ت وا ذك ال ا وذ‬ ‫ن ای و‬
‫من ا ذ‬ ‫يیا وي يوھا ال صذ هي ذ و‬
‫حي ذلما۔ ‪؎14‬‬ ‫م ور ه‬‫ن ب هك ا ذ‬‫كا و‬‫ه و‬ ‫ن الل یل و‬ ‫سك ا ذ‬
‫مۭ ِّا ه ص‬ ‫ف و‬ ‫وا ا ون ذ ا‬ ‫قت ال ا وذ‬
‫م ِّووول ت و ذ‬‫من ذك ا ذ‬‫ض فَ‬ ‫ت وورا ض‬
‫اے ایمان والو ! آپس میں ایک دوسرے کققے مققال نققاحق طریقققے‬
‫سے نہ کھاؤ‪ ،‬ال یہ کہ کوئی تجارت باہمی رضا منققدی سققے وجققود‬
‫میں آئی ہو )تو وہ جائز ہے( اور اپنققے آپ کققو قتققل نققہ کققرو۔ )‪(٢٥‬‬
‫یقین جانو اللہ تم پر بہت مہربان ہے۔‬
‫شۭ ِّ قول هي ذلل ص‬
‫ما‬ ‫موعاي ه و‬ ‫جعول ذونا ل وك ا ذ‬
‫م فهي ذوها و‬ ‫ذ‬ ‫مك صن یلك ا ذ‬
‫م هفيِ ال وذر ه‬
‫ض وو و‬ ‫وول و و‬
‫قد ذ و‬
‫شك ااروذ و‬
‫ن ۝‪؎15 10‬‬ ‫تو ذ‬

‫اور کھلی بات ہے کہ ہم نے تمہیں زمین میں رہنے کققی جگققہ دی‪،‬‬
‫اور اس میں تمہارے لیے روزی کے اسباب پیدا کیققے۔ )پھققر بھققی(‬
‫تم لوگ شکر کم ہی ادا کرتے ہو۔‬
‫قذرب یققى‬ ‫ذي ال ذ ا‬ ‫ل وو ل هقق ه‬ ‫سققوذ ه‬‫قققیرى فول هل یلققهه وو هللصر ا‬ ‫ل ال ذ ا‬‫ن ا وهذقق ه‬ ‫م ذ‬
‫سوذل ههه ه‬‫ه ع ویليِ ور ا‬ ‫ما ا وفوااَوء الل یل ا‬ ‫و‬
‫مققا‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ذ‬ ‫و‬ ‫ذ‬ ‫ة‬ ‫ة‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫و‬ ‫ذ‬ ‫ذ‬
‫مۭ ِّ وو و‬
‫من ذك ذ‬‫ن الغن هي واَهء ه‬ ‫ن د اوذلة ب وي ذ و‬ ‫يِ ل ي وكوذ و‬ ‫لۙ ِّ ك ذ‬ ‫سب هي ذ ه‬
‫ن ال ص‬ ‫ن وواب ذ ه‬‫سك هي ذ ه‬
‫م ی‬‫مى ووال و‬ ‫ووالويقت ی ی‬
‫ه‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫ن اللقق و‬ ‫ه ۭ ِّ ا ه ص‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫قققوا اللقق و‬ ‫وا ِّ ووات ص ا‬‫ه فوققان ذت وها ذ‬
‫م ع ون ذقق ا‬ ‫ا‬
‫ما ن ویهىك ذ‬ ‫خذ اوذه ا ِّ وو و‬ ‫ل فو ا‬‫سوذ ا‬ ‫م الصر ا‬ ‫ا ییتىك ا ا‬
‫ب ۘ۝‪؎16 Ċ‬‬ ‫قا ه‬ ‫شد هي ذد ا ال ذعه و‬‫و‬

‫اللہ نے جو کچھ اپنے رسول کققو بسققتیوں کققے رہنققے والققوں سققے‬
‫بطور فئی مال دلوا دیا سو وہ اللہ کققے لیققے ےےہےےے اور رسققول کققے‬
‫لیے اور قرابت داروں کے لیے اور یتیموں کے لیے اور مسققکینوں‬
‫کے لیے اور مسافروں کے لیے ےےہےےے تققاکہ یققہ مققال ان لوگققوں کققے‬
‫درمیان دولت بن کر نہ رہ جائے جو مال دار ہیققں اور رسققول جققو‬
‫کچھ عطا کریں وہ لے لو اور جس چیز سے روکیں اس سقے رک‬
‫جاؤ اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سخت عذاب دینے وال ہے۔‬
‫؀‪؎17 22‬‬ ‫ن‬
‫ما ت اوذع ود اوذ و‬ ‫مااَهء رهذزقاك ا ذ‬
‫م وو و‬ ‫س و‬
‫ووهفيِ ال ص‬
‫اور آسمان ہی میں تمہارا رزق بھی ہے اور وہ چیز بھی جققس کققا‬
‫تم سے وعدہ کیا جارہا ہے۔‬
‫‪16‬‬
‫؀‪؎18 20‬‬ ‫ن‬ ‫م لو ه‬
‫ه ب هیرزهقهي ذ و‬ ‫ن لص ذ‬
‫ست ا ذ‬ ‫م ذ‬
‫ش وو و‬
‫موعاي ه و‬ ‫جعول ذونا ل وك ا ذ‬
‫م فهي ذوها و‬ ‫وو و‬
‫اور اس میں تمہارے لیے بھی روزی کے سامان پیدا کیے ہیں اور‬
‫ان )مخلوقات( کے لیے بھی جنہیں تم رزق نہیں دیتے۔‬
‫ہظ‬ ‫ش ظظ‬
‫ا سلما کے معا شی ن ظاما کے ر ہتما اچاد یبث‬
‫صحیح بخاری‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 166‬حدیث مرفوع مکررات ‪3‬‬
‫متفق علیہ ‪1‬‬
‫سلیمان بن حرب‪ ،‬محمد بن طلحہ‪ ،‬طلحہ‪ ،‬مصعب بن سعد سققے‬
‫روایت کرتے ہیں وہ کہتے ہیں کہ ایک مرتبہ سعد بققن ابققی وقققاص‬
‫کے دل میں خیال آیا کہ ان کو ان کے ماتحت لوگققوں پققر )کسققب‬
‫معاش میں ان سے زیادہ کوشش کرنے کی وجققہ سققے( فضققیلت‬
‫حاصل ہے ‪ ،‬تو نبی )صققلی اللققہ علیققہ وآلققہ وسققلم( نققے فرمایققا کققہ‬
‫کمزور لوگوں کی وجہ سے مدد دی جققاتی ےےہےےے اور رزق دیققا جاتققا‬
‫ہے۔ ‪؎19‬‬
‫ابوہریرہ )رض( کہتے ہیققں کققہ رسققول اللققہ )صققلی اللققہ علیققہ وآلققہ‬
‫وسلم( نے فرمایا ‪ " :‬جو کوئی اپنے مسلمان بھائی سے فروخت‬
‫ی قیامت کققے دن اس کققے گنققاہ‬ ‫کا معاملہ فسخ کرلے تو اللہ تعال ی‬
‫معاف کر دے گا "۔‬
‫تخریج دارالدعوہ ‪ :‬سنن ابن مققاجہ‪/‬التجققارات ‪) ، (٢١٩٩) ٢٦‬تحفققة‬
‫الشراف ‪ ، (١٢٣٧٥ :‬وقد أخرجہ ‪ :‬مسند احمد )‪) (٢/٢٥٢‬صحیح (‬
‫وضاحت ‪ : ؎ ١ :‬اس کی تشریح یہ ہے کققہ ایققک آدمققی نققے کسققی‬
‫سے کوئی سامان خریدا ‪ ،‬مگر اس کو اس سامان کی ضققرورت‬
‫ختم ہوگئی یا کسی وجہ سے اس خرید پر اس کو پچھتاوا ہوگیا ‪،‬‬
‫اور خریدا ہ وا سامان واپس کردینا چاہا تو بائع نے سققامان واپققس‬
‫کرلیا ‪ ،‬تو گویا اس نے ایک مسلمان پر احسان کیا ‪ ،‬اس لئے اللہ‬
‫‪؎20‬‬ ‫ی بھی اس پر احسان کرے گا۔‬ ‫تعال ی‬
‫ابو الدرداء )رض( کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم )صلی اللہ علیققہ‬
‫وآلققہ وسققلم( کققو فرمققاتے سققنا ‪ " :‬مجھققے اپنققے ضققعیفوں اور‬
‫کمققزوروں میققں تلش کققرو‪ ،‬اس لیققے کققہ تققم اپنققے ضققعیفوں اور‬
‫کمزوروں کی )دعاؤں کی برکت کی( وجہ سے رزق دیئققے جققاتے‬
‫ہو اور تمہاری مدد کی جاتی ہے "‬
‫امام ترمذی کہتے ہیں ‪ :‬یہ حدیث حسن صحیح ہے۔‬

‫‪17‬‬
‫اد ‪ ، (٢٥٩٤) ٧٧‬سققنن‬ ‫تخریققج دارالققدعوہ ‪ :‬سققنن ابققی داود‪ /‬الج ےےے ہ‬
‫النسائی‪/‬الجہاد ‪) ، (٣١٨١) ٤٣‬تحفة الشراف ‪ ، (١٠٩٢٣ :‬و مسند‬
‫احمد )‪) (٥/١٩٨‬صحیح (‬
‫وضاحت ‪ : ؎ ١ :‬اس حدیث میں مالدار لوگوں کے لیققے نصققیحت‬
‫ہے کہ وہ اپنے سے کمتر درجے کے لوگوں کو حقیر نہ سمجھیں ‪،‬‬
‫کیققونکہ انہیققں دنیققاوی اعتبققار سققے جققو آسققانیاں حاصققل ہیققں یققہ‬
‫کمزوروں کے باعث ہی ہیں ‪ ،‬یققہ بھققی معلققوم ےےہوا کققہےے ان کمققزور‬
‫مسلمانوں کی دعائیں بہت کام آتی ہیں ‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ اللہ کے‬
‫رسول نے ان کمزور مسلمانوں کی دعا سے مدد طلب کرنے کو‬
‫کہا۔ ‪؎21‬‬
‫قال الشيخ اللبانيِ ‪ :‬صحيح‪ ،‬الصحيحة )‪ ، (779‬صحيح أبيِ داود )‬
‫‪ ، (2335‬التعليق الرغيب )‪(24 / 1‬‬
‫صحيح وضعيف سنن الترمذي اللبانيِ ‪ :‬حديث نمبر ‪1702‬‬
‫ابوہریرہ )رض( سے روایت ہے کہ نبی اکرم )صلی اللہ علیققہ وآلققہ‬
‫ی فرماتا ہے ‪ :‬میں دو شققریکوں کققا‬ ‫وسلم( نے فرمایا ‪ " :‬اللہ تعال ی‬
‫تیسرا ہوں جب تک کہ ان دونوں میں سے کوئی ایک دوسرے کے‬
‫ساتھ خیققانت نققہ کققرے‪ ،‬اور جققب کققوئی اپنققے سققاتھی کققے سققاتھ‬
‫خیانت کرتا ہے تو میں ان کے درمیان سے ہٹ جاتا ہوں "۔‬
‫‪؎22‬‬
‫تخریج دارالدعوہ ‪ :‬تفققرد بققہ أبققو داود‪) ،‬تحفققة الشققراف ‪(١٢٩٣٩ :‬‬
‫)ضعیف( )ابو حیان تیمی مجہول ہیں‪ ،‬ابن الزبرقققان نققے ابققوہریرہ‬
‫رضی‪+‬اللہ‪+‬عنہ کا ذکر کیا ہے‪ ،‬دار قطنی )‪ (٣٠٣‬میققں اور جریققر‬
‫نے ابوہریرہ رضی‪+‬اللہ‪+‬عنہ کا ذکققر نہیققں کیققا ےےہےےے‪ ،‬ملحظققہ ےےوہ ‪:‬‬
‫التلخیص الحبیر‪ ،‬و الرواء ‪( ١٤٦٨‬‬
‫صحیح بخاری‪:‬جلد اول‪:‬حدیث نمبر ‪ 2397‬حدیث مرفوع مکررات‬
‫‪ 17‬متفق علیہ ‪6‬‬
‫عمرو بن علققی‪ ،‬ابوعاصققم‪ ،‬عثمققان بققن اسققود‪ ،‬سققلیمان بققن ابققی‬
‫مسلم بیان کرتے ہیں‪ ،‬کہ میں نے ابوالمنہال سققے دسققت بدسققت‬
‫بیع صرف کے متعلق پوچھا تو انہوں نققے ک ےےاہ کققہےے میققں اور میققرے‬
‫شریک نے ایک چیز نقد اور ادھار خریدی‪ ،‬ہمققارے پققاس بققراء بققن‬
‫عازب آئے ہم نے ان سے اس کے متعلق دریافت کیا تو انہوں نے‬
‫کہا کہ میں نے اور میرے شریک زید بن ارقم نے ایسا کیا تھققا اور‬
‫ہم نے نقبی )صقلی اللقہ علیقہ وآلقہ وسقلم( سقے اس کقے متعلقق‬
‫پوچھا‪ ،‬تو آپ )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( نققے فرمایققا اگققر دسققت‬
‫بدست ہو تو لے لو‪ ،‬اگر ادھار ہو تو اس کو چھوڑ دو ۔ ‪؎23‬‬
‫‪18‬‬
‫سنن ابوداؤد‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 1310‬حدیث مرفوع مکققررات‬
‫‪ 8‬متفق علیہ ‪0‬‬
‫احمد بن حنبل‪ ،‬محمد بققن بشققیر‪ ،‬سققعید‪ ،‬قتققادہ‪ ،‬حسققن‪ ،‬حضققرت‬
‫سمرہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ )صلی اللہ علیہ وآلققہ وسققلم(‬
‫نے فرمایا جس نے بنجر زمین کے اردگرد دیقوار سقے احققاطہ بنقا‬
‫لیا وہ زمین اسی کی ہوگی۔ ‪؎24‬‬
‫سنن ابن ماجہ‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 295‬حدیث مرفوع مکررات‬
‫‪ 20‬متفق علیہ ‪0‬‬
‫ابوبکر بن ابققی شققیبہ‪ ،‬علققی بققن محمققد‪ ،‬اسققحاق بققن ابراہیققم بققن‬
‫حبیب‪ ،‬ابومعاویہ‪ ،‬اعمش‪ ،‬ابراہیم‪ ،‬اسود‪ ،‬حضققرت عائشققہ صققدیقہ‬
‫فرماتی ہیں کہ رسول اللہ )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( نے ارشققاد‬
‫فرمایا پاکیزہ ترین چیز جو مرد کھائے وہ اس کی اپنی )ہاتھ کققی(‬
‫کمائی ہے اور آدمی کی اولد بھی اس کی کمائی ہے۔‬
‫‪؎25‬‬
‫صحیح مسلم‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 1571‬حدیث مرفوع مکررات‬
‫‪ 53‬متفق علیہ ‪27‬‬
‫ابققوبکر بققن ابققی شققیبہ‪ ،‬وکیققع‪ ،‬اسققماعیل بققن مسققلم عبققدی‪،‬‬
‫عبدالمتوکل‪ ،‬حضرت ابوسعید خدری )رض( سققے روایققت ےےہےےے کققہ‬
‫رسول اللہ )صلی اللہ علیہ وآلہ وسققلم( نققے ارشققاد فرمایققا سققونا‬
‫سونے کے ساتھ چاندی چاندی کے ساتھ گنققدم گنققدم کققے سققاتھ‬
‫جو جو کے ساتھ کھجور کھجور کے سقاتھ نمققک نمققک کققے سققاتھ‬
‫برابر برابر‪ ،‬نقد بہ نقد فروخت کرو جس نے زیادتی طلب کی تو‬
‫اس نے سودی کاروبار کیققا لینققے اور دینققے وال دونققوں گنققاہ میققں‬
‫برابر ہیں۔ ‪؎26‬‬
‫سنن ابوداؤد‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 1578‬حدیث مرفوع مکققررات‬
‫‪ 9‬متفق علیہ ‪0‬‬
‫ی بن اسماعیل‪ ،‬محمد بن محبوب‪ ،‬حماد‪ ،‬سماک بن حققرب‪،‬‬ ‫موس ی‬
‫سعید بن جبیر‪ ،‬حضرت ابن عمر )رض( سے روایت ےےہےےے کققہ میققں‬
‫نقیع )ایک بازار کا نام( میں اونٹ بیچتا تھققا۔ پققس میققں دینققار کققے‬
‫بدلہ میں اونٹ بیچتا اور دینار کے بدلہ میں درہم لے لیتا اور جققب‬
‫اونٹ درہم کے بدلہ میں بیچتا تو ان دراہم کے بدلہ میں دینار لققے‬
‫م‬‫لیتا۔ غرض درہم کے بدلہ میں دینار لیتققا اور دینققار کققے بققدلہ در ےے ہ‬
‫دیتا۔ پس میں رسول اللہ )صلی اللہ علیہ وآلققہ وسققلم( کققے پققاس‬
‫آیا۔ آپ اس وقت بی بی حفصہ کے گھر میں تشریف فرمققا تھققے۔‬

‫‪19‬‬
‫میں نے عرض کیا یا رسول اللہ )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( ! ذرا‬
‫توجہ فرمائیے میں پوچھتا ہوں کہ میں نقیع کے بازار میں اونٹققوں‬
‫کا کاروبار کرتا ہوں پس اونٹ تو دینار کے بدلہ فروخت کرتا ہوں‬
‫اور ان کے بدلہ میں درہم ل ے لیتقا ہےےوں اور در ہےےم کقےےے ب دلہ میقں‬
‫بیچتا ہوں تو ان کو دینار سے لیتا ہوں۔ غرض درہم کے بققدلہ میققں‬
‫دینار لیتا ہوں اور دینار کے بدلہ میں در ہےےم دیتققا ہےےوں یققہےے سققن کققر‬
‫رسول اللہ )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( نے فرمایا اس میں کققوئی‬
‫مضائقہ نہیں بشرطیکہ اسی نرخ سے لو اور تم دونوں میں جققب‬
‫تک جدائی چیز تم دونوں کے درمیان موجود ہو۔ )یعنی جققدا ےےہونےےے‬
‫سے پہلے اس مجلس میں معاملہ طے ہوجانا چاہیے ( ‪؎27‬‬
‫صحیح بخاری‪:‬جلد اول‪:‬حدیث نمبر ‪ 2082‬حدیث مرفوع مکررات‬
‫‪ 26‬متفق علیہ ‪13‬‬
‫عبداللہ بن یوسف‪ ،‬مالک‪ ،‬نافع‪ ،‬عبققدان‪ ،‬عبققداللہ بققن عمققر )رض(‬
‫سے روایت کرتے ہیں انہوں نے بیان کیا کہ رسول اللہ )صلی اللہ‬
‫علیہ وآلہ وسلم( نے فرمایا کہ تم میں سے بعض بعض کی بیع پر‬
‫بیع نہ کرے اور جو سامان باہر سے آرہا ہو‪ ،‬جب تک بازار میں نققہ‬
‫‪؎28‬‬ ‫آجائے آگے بڑھ کر اس سے نہ ملو۔‬
‫صحیح بخاری‪:‬جلد اول‪:‬حدیث نمققبر ‪ 2380‬حققدیث متققواتر حققدیث‬
‫مرفوع مکررات ‪ 23‬متفق علیہ ‪3‬‬
‫عبداللہ بن یزید‪ ،‬سعید بن ابی ایوب‪ ،‬ابوالسققود عکرمققہ‪ ،‬عبققداللہ‬
‫بن عمر )رض( سے روایت کرتے ہیں‪ ،‬انہوں نے بیان کیا‪ ،‬کہ میققں‬
‫نے نبی )صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم( کو فرماتے ہوئے سققنا کققہ جققو‬
‫شخص اپنے مال کی حفاظت میں قتل کیا جائے وہ شہید ہے۔‬
‫‪؎29‬‬
‫سنن نسائی‪:‬جلد سوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 188‬حدیث مقطوع مکققررات‬
‫‪ 2‬متفق علیہ ‪0‬‬
‫محمد‪ ،‬حبان‪ ،‬عبداللہ‪ ،‬حماد بن سلمہ‪ ،‬یونس‪ ،‬حضرت حسن سے‬
‫روایت ہے کہ وہ اس بات کو ناگوار سمجھتے تھے کہ مزدور سققے‬
‫مزدوری مقرر کئے بغیر کام کرائیں۔ ‪؎30‬‬
‫سنن ابن ماجہ‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 601‬حدیث مرفوع مکررات‬
‫‪ 7‬متفق علیہ ‪0‬‬
‫عباس بن ولید‪ ،‬وہب بن سعید بن عطیہ‪ ،‬عبدالرحمن بن زیققد بققن‬
‫اسلم‪ ،‬حضرت عبداللہ بن عمر فرماتے ہیققں کققہ اللققہ کققے رسققول‬

‫‪20‬‬
‫)صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم(نے فرمایا مزدور کو اس کی مزدوری‬
‫اس کا پسینہ خشک ہونے سے قبل دے دو ۔ ‪؎31‬‬
‫اشممتراکیت اور سممرمایہ داری نظممام کممے درمیممان‬
‫اسلم کا متوسط معاشی نظریہ‬
‫’’اسلم نے اشتراکیت اور سرمایہ داری کے درمیان جو متوسققط‬
‫معاشی نظریہ اختیار کیا ہہے۔اس پر نظام اٹھانے کے لیے وہ سب‬
‫سے پہلے فرد اورمعاشرے میققں چنققد ایسققی اخلقققی اور عملققی‬
‫بنیادیں قائبم کرتا ہہے جو اس عمارت کو مضبوطی کے ساتھ‬
‫سنبھال سکیں۔اس غرض کے لیے وہ ہہر ہہر فرد کی ذہہنیت درست‬
‫کرکے اس میں ٹھیک وہ کیفیت پیدا کرنے کی کوشش کرتا ہہے۔جو‬
‫اس متوازن نظام کو چلنے کے چلنقے والققے افققراد میققں درکققار‬
‫ہہےوہ انفرادی و ازادی پر چند حدود عائبد کرتا ہہے۔تاکہ وہ اجتماعی‬
‫مفاد کے لیے مضرہہونے کے بجائبے مثبت طور پر مفیقد وہ مع اون‬
‫ہہو جائبیں۔وہ معاشرے میں کچھ ایسے قواعد مقرر کرتا ہہے جو‬
‫معاشی زندگی خراب کرنے والققے اسققباب کققا سققدباب کققر دیتققے‬
‫ہہیں“۔ ‪؎32‬‬
‫انسققان کققی معاشققرتی اور معاشققی رہنمققائی کققے لیققے قققرآن و‬
‫حدیث میں ہہدایات تین طریقوں سے ہیں۔‬
‫‪3‬۔ ممنوع‬ ‫‪۲‬۔ رضاکارانہ‬ ‫‪1‬۔فرائبض‬
‫فرائض‬
‫وہ احکام جن کی ادائبیگی قققرآن و حققدیث فقققہ‬ ‫فرائض‬
‫ئ‬
‫اور علماکی رو سے ہہر مسلمان پر فرض ہیں ان فرابض میں‬
‫اسلمی اقتصادی نظام کے فرائبض جیسے زکواۃی‪،‬عشر‪،‬خراج اور‬
‫اسلمی حکقومت کقے اخراجققات پقورا کرنقے کققے دوسققرے تمقام‬
‫محصققولت شققامل ہہیققں ۔ان محصققولت کققے لئققے اسققلمی نظققام‬
‫حکومت میں بیت المال کا قیام ہے۔‬
‫ب‬
‫‪ 1‬۔ پییت ا لمال‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫چ‬ ‫ظ م ظ‬
‫اسے آج‬ ‫ہے۔ ‪؎33‬‬ ‫کومت اسلمی قکا خزایہ" ہ‬ ‫ت‬
‫ب‬
‫نی "‬
‫کے لغوی عم ظ‬ ‫ظ‬ ‫بپییت المالٹ بجس‬
‫ہے۔ اسلمی ر ی ظ ظ‬
‫باست مییں شییہ مال ییات کا‬ ‫س‬
‫ھی ل ییا بچا ک یا ہ‬ ‫ظکل کےع سیییٹ بب قیک کے عنی مییں ظ‬
‫م‬ ‫ئ‬
‫ہے۔‬ ‫ق‬
‫ہے۔ ب یجس کے ئفرابض اول یین مییں غواما کی رقاہ و ئلح سا ل ہ‬ ‫بگران ا لی ق‬
‫ادارہ ہہوبا ہ ق‬
‫یت‬ ‫س‬ ‫م‬‫ہے۔"بپ ی‬ ‫عارف اسلمایبہ مییں یبوں بب ییان ہہوبی ظ ہ‬ ‫مال کیمت ظعریتف اور بار بخ اردو گدابرہ مم ش‬ ‫بپییت ال ظ‬
‫م‬
‫المال )لغوی ظ عنی ظمال یبا دولت کا ھر( گر سرعی اص ظلح مییں اس کے عنی کسی لم‬
‫ریباست کے "خزا ظنے "کے ہہییں۔‬
‫ظ‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق ظ ظ ش‬
‫سی یہ کسی ضورت م ی ظیں موبخود‬ ‫ﷺ کے ظزمانے سے قبپییت ال ظمال ک ق‬ ‫ظ‬ ‫ققابونی ظح یییییت ۔ آبح قضرت ظ‬
‫ے صحابیہ‬ ‫تھا‪ ،‬یتعنی بجب اور بجی ظیا مال عیییمت ‪،‬چح یدے یبا صدقات وغیترہ آنے ٓاپ ﷺ ا چپن‬
‫‪21‬‬
‫ق ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫قق‬
‫ب‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫ے ۔عہد پبیوی مییں مال حمع ظکرنے کی بو ببت ہہی ظیہ ق ا ٓنی تم قھی‪ ،‬لہذا اس‬ ‫کراما مییں قس ییم فرما د یپن‬
‫لوگوں کو‬
‫ظ‬ ‫ے قالگ مکان ظیہ بب ظیایبا گ ییا ‪،‬ت قببلکہ سب کچجھ مسبحد ظپبیوی مییں ڈھیتر کر دیب ظا بچابا اور سیخق‬ ‫کے یلن‬
‫ضرت عمر کے زمانے‬ ‫قی مییں رہی ۔" بباصابن طہ بپظییت المال ح ق‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫دے دیبا بچابا ‪ ،‬ہی ضورت عہد صد ظ‬ ‫پ‬
‫ی‬
‫ظح فظ الحمان یسیوہہاروی نے بپییت المال کی تعریتف قیبوں بب ییان‬ ‫ظ‬ ‫مییں وبخود مییں آیبا" ۔ ‪؎34‬‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫ف‬ ‫م‬
‫سی‬‫نی چبا ظ‬ ‫ق‬
‫باست کی مال ییا‬ ‫لمی ر ی ق‬ ‫ئ‬ ‫ہے بخو اس ق‬ ‫ے بچامع ق ہوما مییں وہ ادارہ ہ‬ ‫ہے۔" بپییت ا ظلمال ا چپن‬
‫ظ‬ ‫کی ہ‬
‫ے‬‫ہے۔البتبہ ا ظ چپن‬ ‫ے قابم ک ییا بچابا ہ ظ‬ ‫کے یل قن‬ ‫نے اور اس کے م قاصد کے حصول‬ ‫کو ببروے کار ل ظ‬
‫ے ہہییں بخو سرکاری خزاظیہ کا محفوظ‬ ‫اور عاما فہم مفہوما مییں بپییت المال اس عمارت کو بتھی کہن‬ ‫سادہ ق‬ ‫ق‬
‫ہے۔" ‪؎35‬‬ ‫ہ‬ ‫م قاما ہہوبا‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫طرح‬ ‫اس‬ ‫اجت‬‫ق‬ ‫ص‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫مال‬ ‫ا‬
‫پی ل‬ ‫یت‬ ‫ب‬ ‫نے‬ ‫مودودی‬ ‫با‬ ‫مول‬
‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ق‬ ‫"بپییت ال ش ظ‬
‫ہے‬ ‫اور مسلمابوں کا مال ش ہ‬ ‫ق‬ ‫ہے ظکہ وہ ا‬
‫س‬ ‫یں اسلما کا ییہ ظپط عی ق ینصلہ ہ‬ ‫مال کے ببارے م ی ق‬
‫ظ‬
‫کے تماما امور کی طرح بپ ی ظیت‬ ‫ہے۔م لمابوں ظ‬ ‫ش‬ ‫ق ہییں ہ‬ ‫اور کسی ظش ق ظحص کو اس ق چتر مالکایہ نضرف کا ظخ‬
‫حص‬ ‫ے۔ بجس ق‬ ‫ش‬
‫ش‬ ‫ی‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫ئ‬ ‫ہہ‬ ‫چا‬ ‫چ‬ ‫با‬ ‫المال کا اپت ظاما بتھی قوما یبا اس کے آزاد تمابیدوں کے مسورے سے ہ‬
‫ہو‬ ‫ظ‬ ‫ئ‬
‫ے‬‫ے اور بجس مضرف مییں بتھی مال ضرف ک ییا بچائبے وہ بچائبز سرعی طر تیق‬ ‫سے ب ظھی کچجھ ل ییا بچائب ظ‬
‫ت‬
‫ہے۔" ‪؎36‬‬ ‫ہ‬ ‫ے کا چبورا خق‬ ‫ے اور مسلمابوں کو اس چتر محا بسن‬ ‫سے ہہوبا چچا ہ یہن‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ق ی‬
‫بار بخ ابین چلدون مقتربحم حک ییم احمد جشیین مییں بپییت المال کے ق ییاما سے متعلق اس طرح لکھا‬
‫ق ش ق‬ ‫ہے۔‬ ‫گ ییا ہ‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫سے چتی یش ق قتر ظیہ بو اس یقدر رقم ئ کثیتر رقم آئبی کہ بجس‬ ‫ق‬ ‫قاروق اعظم‬ ‫ظ‬ ‫مال کا ق ییاما ۔اسلما مییں‬ ‫ظ‬ ‫بپییت ال‬
‫ک‬
‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ق‬
‫ے بپییت المال یبا خزایہ بب یایبا بچابا اور تیہ اس کی اببحاد ہو بی رسول ا قکے‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ے کے یلن‬ ‫ق‬ ‫کے ظر ھن‬
‫صدب یق‬ ‫ے مییں قس ییم کر دی بچا قنی تھییں‪ ،‬اببوببکر ق‬ ‫س‬ ‫چ‬
‫بک لب‬ ‫ظ‬ ‫ا‬ ‫کل‬ ‫وہ‬ ‫یں‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫نی‬ ‫ٓ‬ ‫ا‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫ر‬ ‫خو‬ ‫ب‬ ‫یں‬ ‫ظ‬ ‫زمانے م ی‬
‫ق‬ ‫ت‬ ‫پ‬ ‫ی ئ ظ قظ ی‬ ‫ت‬
‫ب‬ ‫ی‬
‫کے زمانے مییں ھی اس کا کو قبی اپت ظاما ہییں ک ییا گ ییا خو آیبا یاس کو اشی وقت لوگوں مییں س ییم‬ ‫ب‬
‫بوں ہہوئبی کہ ببجریین سے شسال‬ ‫ق‬
‫بب مییں بپعظییت ال ظمال کیکاشببحاد ی قق‬ ‫کے فر ی قظ‬ ‫سن ‪ 15‬بہ ظجری یبا اس ظ‬
‫ہ‬
‫قکردیبا ظ‬
‫لوگوں سے ظمسورہ‬ ‫اروق ا ظم نے اس ثیتر رقم کی با ببت‬ ‫تماما کا خراج چبا بچ لکاھ آیبا ظ ۔حضرت ق‬
‫کے اظبدر تقس بییم کردی چائبے۔خزایہظ‬ ‫سال ظ‬ ‫ے اسے‬ ‫ئ‬
‫طالب نے کہاظپکہ بخو رقم آب ش‬ ‫ک ییا ۔ع کلی ظابین‬
‫ظ ظ ب‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ئ‬
‫کی محالفت کی۔ ول یید بین‬ ‫نے اس ظ ق‬ ‫ہے۔غشتمان بین غ قان ظ‬ ‫ے کی کوبی ضرورت ظہییں ہ‬ ‫م ی شیں ر ھ ظن‬
‫ک‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫خزایہ اور دفتر کا بچدا بچدا حکمہ دت ھا‬ ‫کے یپہاں ظ ظ‬ ‫نے سلطایین ساما ق‬ ‫یان ک ییا کہ مییں ظ‬ ‫نے بب ی ظ‬ ‫ہہساما ظ‬
‫ہے۔حضرت قاروق اعظم نے اس رائبے قکو ئاسیحصان کی ن ظر ظسے ظ دیبکھ کر بپییت القمال کی بب ظیا‬ ‫ہ‬
‫کے‬ ‫یاب‬ ‫ک‬ ‫ساب‬ ‫اور‬ ‫ق‬ ‫نی‬ ‫گرا‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫ق‬
‫اور‬ ‫یا‬ ‫ک‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫قا‬ ‫مال‬ ‫ا‬ ‫یت‬ ‫ب‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫نہ‬‫ظ‬ ‫ب‬
‫ی‬ ‫مد‬ ‫ق‬ ‫ے‬ ‫ظ‬ ‫ل‬ ‫پہ‬ ‫سے‬ ‫ق‬ ‫سب‬ ‫اور‬ ‫ڈالی‬
‫ق‬ ‫ج‬ ‫بک معزز صحا ینی ت‬ ‫ی پی ل‬ ‫ے ع یدا ین ارقم چکو م‬
‫ے‬ ‫یاب مییں کمال ر ک ظھن‬ ‫ئ‬ ‫ک‬ ‫ساب‬
‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ج‬ ‫اور‬ ‫ے‬
‫ھ‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫خو‬ ‫ب‬ ‫۔‬ ‫یا‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫حب‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫قتیلن ب ب‬
‫ے اور اس کے افسر‬ ‫اور صدر م قاموں مییں بپییت المال قابم کن‬ ‫اور ضو ب ق ظ‬
‫بوں‬ ‫کے علوہ‬ ‫۔اس ظ‬ ‫ےظ ظ‬ ‫ھ‬
‫‪؎37‬‬ ‫ئ‬
‫بچداگایہ زیتر گرانی حکاما ا لی فرر فرمابے۔"‬ ‫م‬ ‫ع‬ ‫ب‬

‫بیت المال کے آمدن کے ذرائع‬


‫ق‬ ‫ظ‬ ‫‪ 1‬۔زکوا ۃ‬
‫زکوۃ ظارکان اسلما شمییں سے اہہم رکن ہ‬ ‫س‬
‫کے ارنکاز کو‬ ‫ہے۔ دولت ظ‬ ‫فرض ظ ہ‬ ‫ظ‬ ‫ہے اور ہہر م لمان تی چققتر ظ‬
‫ے زکو یۃ فرض کی‬ ‫نے کے یل ظن‬‫ئ‬ ‫سرے مییں دولت کی مساوی گردش کو یینی بب یا‬ ‫ق‬ ‫ے اور اور معا‬
‫ئرو کن‬
‫یوں کو ادا ک ییا‬ ‫ی‬ ‫ظ‬
‫ہے کہ ق مال داروں سے وضول ک ییا بچابے اور غرپ ب ظ‬ ‫ظ‬
‫ہے۔۔بجس ظکا طرتیقہ ییہ‬ ‫گ ئیی ہ‬
‫ہے کہ وہ اچب ظیا زائبد اور اظصاقی مال راہ ظچدا مییں خرچ کرے‬ ‫یا‬ ‫ب‬ ‫د‬ ‫کم‬‫مالدار کو ہچ‬ ‫اور‬ ‫نی‬ ‫لما‬‫س‬ ‫ے۔ا‬ ‫قبچاب‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫غ‬
‫ہے۔‬ ‫فرآن مییں ہ‬
‫حققاروذم ه ؀‪25‬۽‬ ‫ل ووال ذ و‬
‫م ذ‬ ‫م ؀‪24‬۽فَلل ص‬
‫سققااَى ىه ه‬ ‫معذالققوذ ل‬
‫حقققق ص‬
‫م و‬
‫وال ههه ذ‬ ‫يِ ا و ذ‬
‫مقق و‬ ‫"وواصلققذ هي ذ و‬
‫ن هفقق وذ‬
‫‪؎38‬‬
‫اور جن کے مال و دولت میققں ایققک متعیققن حققق ےےہےےے۔ سققوالی اور‬
‫بےسوالی کا ۔‬
‫‪22‬‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ئ‬ ‫ق‬
‫ہ‬ ‫س‬
‫ہے۔ فظ الرحمان ی یوہاروی نے زکو یۃ کی تعریتف‬ ‫ح‬ ‫فرآن مبخ یید مییں زکو یۃ کی ادابی گی کا ذکر ببار ببار آیبا ہ‬
‫ہے۔‬ ‫یبوں بب ییان کی ہ‬
‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫کے‬ ‫ظ‬ ‫بوں‬ ‫کا‬
‫م‬‫ظ‬ ‫اور‬ ‫حارت‬‫ب‬ ‫ب‬ ‫مال‬ ‫با‪،‬‬ ‫سو‬ ‫بولہ‬ ‫سات‬ ‫ق‬ ‫ھے‬ ‫ڑ‬‫سا‬
‫ئ‬ ‫بدی۔‬ ‫ق ق " ساڑھے بباون بولہ چچا‬
‫ل‬
‫بک سال چبورا گزر بچابے بو اس مال م ییں سے چچا یسواں حصہ نکال کر چدا‬ ‫ببحارنی کاروببارظ چتر اگر ا ی ق‬
‫ہے"۔ ‪؎39‬‬ ‫قکی راہ مییں دیب یا "زکو یۃ" کہلبا ہ‬
‫ہے‪،‬‬ ‫ئی‬
‫فرآن مبخ یید مییں زکو یۃ کی ادابی گی کے احکامات کو ببارببار دہہراییہ گ ییا ہ‬
‫يِ‬ ‫ل ع وقق و‬
‫ذاب ه وذ‬ ‫ۭ ِّقوققا و‬ ‫ك‬‫خورةه ا هن صققا هاققد ذونا ا هل وي ذقق و‬‫ة وصهفيِ اذل ی ه‬ ‫سقن و ل‬ ‫ح و‬ ‫يِ هیذ ههه الد ين ذويا و‬ ‫ب ل وونا فه ذ‬ ‫وواك ذت ا ذ‬
‫ن‬ ‫قققوذ و‬ ‫ل هل صققذ هي ذ و‬
‫ن ي وت ص ا‬ ‫سققا وك ذت اب اوها‬
‫يِضءۭ ِّ فو و‬
‫شقق ذ‬ ‫ل و‬ ‫ت ك اقق ص‬ ‫سققعو ذ‬ ‫يِ وو ه‬ ‫مت ه ذ‬ ‫ح و‬‫شااَاء ِّ ووور ذ‬ ‫ن او و‬‫م ذ‬‫ب ب ههه و‬ ‫صي ذ ا‬‫اا ه‬
‫ن ؀‪؎40 ١٥٦‬‬ ‫م ب ها یي یت هونا ي اؤ ذ ه‬
‫من اوذ و‬ ‫ن ها ذ‬ ‫كوة و ووال صذ هي ذ و‬ ‫ن الصز ی‬ ‫ووي اؤ ذت اوذ و‬
‫ق‬
‫تربحمہ ۔ اور ہمارے لیے اس دنیا میں بھی بھلئی لکھ دیجیے اور‬
‫آخرت میں بھقی۔ ےےہم )اس غقرض کقےےے لی ے( آپ ےےہی سقےےے رجقوع‬
‫کرتے ہیں۔ اللہ نے فرمایا ‪ :‬اپنا عذاب تو میں اسی پققر نققازل کرتققا‬
‫ہوں جس پر چاہتا ہوں۔ اور جہاں تک میری رحمت کا تعلق ےےہےےے وہ‬
‫ہر چیز پر چھائی ہوئی ےےہےےے۔ )‪ (٧٣‬چنققاچہ میققں یققہ رحمققت )مکمققل‬
‫طور پر( ان لوگوں کے لیے لکھوں گا جو تقوی اختیار کریققں‪ ،‬اور‬
‫زکیوۃ ادا کریں‪ ،‬اور جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھیں۔ )‪(٧٤‬‬
‫ن ؀‪؎41 43‬‬
‫معو الیلرك هعهي ذ و‬
‫وا و‬ ‫صیلوة و ووا یاتوا الصز ی‬
‫كوة و وواذرك وعا ذ‬ ‫ووا وقهي ذ ا‬
‫موا ال ص‬
‫وۃ ادا کقرو اور رکقوع کرنقے والقوں کقے‬ ‫اور نماز قائم کرو اور زک ی‬
‫ساتھ رکوع کرو )‪(٣٩‬‬
‫ظظ‬ ‫چ‬ ‫لک ق‬ ‫ظ‬
‫ضرف‬ ‫تر‬
‫ظ چ ق‬‫طور‬ ‫فرادی‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫ۃ‬ ‫زکو‬ ‫یں‬‫ی‬ ‫م‬ ‫کومت‬ ‫لمی‬
‫چ ظ ظ‬ ‫س‬‫ظ‬ ‫ا‬ ‫"‬ ‫یں‬ ‫ہ‬
‫ہ‬
‫ھ ی‬ ‫ے‬‫ن‬ ‫صاجب‬ ‫ہاروی‬ ‫ہ‬ ‫یو‬ ‫س‬
‫ی‬ ‫ق‬ ‫الرحمان‬ ‫فظ‬ ‫ظح‬
‫ب‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫س‬ ‫پ‬
‫ہے ۔صد یق اکبتر رضی ا تعالی‬ ‫ہ ظییں ظک ییا بچا ک یا ب لکہ اس ظکا بپییت المال مییں دا ل کربا ضروری ہ‬
‫ہے" ۔ ‪؎42‬‬ ‫عبہ کا ق ینصلہ اس ببارے باطق ہ‬
‫ش‬
‫ظ ظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫‪2‬۔ع ق‬
‫سر‬
‫ت‬
‫غرب کی زمیین‪،‬مبحاہہدیین اور عا میین کے‬ ‫ظ‬ ‫قوما مسلئمان ہہوبچائبے ظ قبو ان کی زراغنی زمیین ‪،‬‬ ‫ئ‬ ‫"اگر کوئبی‬
‫ین بخو کسی مسل شمان نے آبباد کی ہ قہو اور لوارث ز شم یین کی‬ ‫ئ‬ ‫ین۔ ظوہ اق یادہ ئ زم ی‬ ‫چصہ مییں آبی ظہہوبی زم ی ق‬
‫ہے ۔اور "عسر" اس‬ ‫ہ‬ ‫موت قچتر مسلماظبوں کے ق بنصہ مییں آبی ہوبی زمیین "عسری زمیین ق" کہلنی‬
‫ہ‬
‫ہے کو زکو یۃ کیظ طرح قزمیین کی چب ییداوار چتر وابجب ہہو شبا اور چب ییداوار ہہی ظمییں سے ظل ییا‬ ‫ح قصہ مفررہ کا باما شہ‬
‫ی‬
‫ت‬
‫ہے ع قنی‬ ‫ہے۔چنس اگر عسری زمیین ق‬
‫ہے یبا ببارانی ہ‬
‫بدی‪ ،‬بالب قیبا دریبا سے شیتراب سدہ ہ‬ ‫بچابا ہ‬
‫ہے۔ بو اس زمیین قکے چب ییداوار سے دسواں حصہ ل ییا بچابا‬ ‫ظ‬ ‫یداوار ہوکنی ہ‬‫ہ‬ ‫ے ظ چب ی ظ‬
‫ضرف ببارش کے ذر یت ع‬
‫ہے۔بو اس کی چب ییداوار سے بت یسواں حصہ ل ییا‬ ‫ا‬
‫ی ی ہ‬‫ی‬ ‫گ‬ ‫با‬ ‫د‬ ‫نی‬ ‫با‬
‫چ‬ ‫کر‬ ‫ھود‬ ‫یں‬ ‫ہے یتع ک ی‬
‫و‬ ‫ی‬ ‫نی‬ ‫ہے۔اور اگر چچا ہہی ہ‬ ‫قہ‬
‫ہے"۔ ‪؎43‬‬ ‫قبچا ہ‬
‫با‬
‫ظ‬ ‫ش چ‬
‫ہے۔‬ ‫فرآن مبخ یید مییں عسر کا کم سورت التعاما مییں ہ‬
‫فا ا اك ال ا ه‬
‫ه‬ ‫خت ول ه ل‬
‫م ذ‬
‫ل ووالصزذرع و ا‬ ‫خ و‬‫ت صوالن ص ذ‬ ‫ش ض‬ ‫معذاروذ ی‬ ‫ت وصغ وي ذور و‬ ‫ش ض‬ ‫معذاروذ ی‬
‫ت ص‬ ‫جن یل ض‬‫شا و و‬
‫ووهاوو ال صذ هيوذ ا ون ذ و‬
‫ه‬
‫ق ه‬ ‫ح ص‬ ‫وا و‬ ‫مور ووا یت ا ذ‬
‫ذآ ا وث ذ و‬ ‫ن ثو و‬
‫مره ههہ ا ه و‬ ‫م ذ‬ ‫وا ه‬‫شاب ههض ۭ ِّ ك ال ا ذ‬ ‫شاب هلها وصغ وي ذور ا‬
‫مت و و‬ ‫مت و و‬‫ن ا‬ ‫ما و‬‫ن ووالير ص‬ ‫ووالصزي ذت اوذ و‬
‫‪؎44‬‬ ‫؀‪١٤١‬‬ ‫ن‬‫سرهفهي ذ و‬‫م ذ‬ ‫ب ال ذ ا‬ ‫ح ي‬‫ه ول ي ا ه‬ ‫وا ۭ ِّ ا هن ص ه‬‫سرهفا ذ‬ ‫صاد ه هہ ڮ ووول ت ا ذ‬ ‫ح و‬ ‫م و‬ ‫ي ووذ و‬

‫‪23‬‬
‫اللہ وہ ہے جس نے باغات پیدا کیے جن میں سققے کچققھ )بیققل دار‬
‫ہیں جو( سہاروں سے اوپر چڑھائے جاتے ہیں‪ ،‬اور کچققھ سققہاروں‬
‫کے بغیر بلند ہوتے ہیں‪ ،‬اور نخلستان اور کھیتیاں‪ ،‬جن کے ذائقققے‬
‫الگ الگ ہیں‪ ،‬اور زیتقون اور انقار‪ ،‬ج و ایقک دوسقرے سقے ملتقے‬
‫جلتے بھی ہیں‪ ،‬اور ایک دوسرے سے مختلف بھققی۔ )‪ (٧٢‬جققب یققہ‬
‫درخت پھل دیں تو ان کے پھلوں کو کھققانے میققں اسققتعمال کققرو‪،‬‬
‫اور جب ان کی کٹائی کا دن آئے تو اللہ کا حق ادا کرو‪ (٧٣) ،‬اور‬
‫فضول خرچی نہ کرو۔ یاد رکھو‪ ،‬وہ فضول خرچ لوگوں کققو پسققند‬
‫نہیں کرتا‬
‫ظ‬
‫‪ 3‬۔ خراج‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظق‬ ‫ظ‬ ‫ظ ظ ظ‬ ‫ظ‬
‫ص وہہاں کی زم یییییں مقیوحیین ک قار ہہی کے ق بن ظصہ‬
‫ممالک چتر اسلما کا علببہ ہہوگ ییا اور ظ چل ییقہ نے‬
‫ظ‬ ‫" اور ب ق‬
‫جن‬
‫ئ‬
‫ے دییں اور بجن ممالک کی ک قار سے ظلح ہہوگیی ق چ‬ ‫مییں بباقی ر ظ ہہن‬
‫اور وہ کومت اظچس ظلمی یم ظ‬
‫کے ذماہ اور‬
‫ب‬ ‫ئ‬ ‫چ‬
‫ہے۔اور ل ییقہ ان ز ییوں چتر بخو‬‫ذمی بین گ قیے۔ان کی ظ زمیین "خرا قحای" کہلنی ہ‬ ‫معہد مییں دا لل ہہوکر ق‬
‫ہے۔" ‪؎45‬‬ ‫ہے اس کو ق خراج قکہا بچابا ہ‬ ‫حصول )ما قگزاری( مفرر کردیب یا ظ ہ‬
‫ظ‬
‫ہے۔‬‫خراج کا وبخود فران مبخ یید کے اس نص کے بحت آبا ہ‬
‫قذرب یققى‬ ‫ذي ال ذ ا‬ ‫ل وو ل هقق ه‬ ‫سققوذ ه‬‫قققیرى فول هل یلققهه وو هللصر ا‬ ‫ل ال ذ ا‬‫ن ا وهذقق ه‬ ‫م ذ‬
‫سوذل ههه ه‬‫ه ع ویليِ ور ا‬ ‫ما ا وفوااَوء الل یل ا‬ ‫و‬
‫مققا‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ذ‬ ‫و‬ ‫ذ‬ ‫ة‬ ‫ة‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫و‬ ‫ذ‬ ‫ذ‬
‫مۭ ِّ وو و‬
‫من ذك ذ‬‫ن الغن هي واَهء ه‬ ‫ن د اوذلة ب وي ذ و‬ ‫يِ ل ي وكوذ و‬ ‫لۙ ِّ ك ذ‬ ‫سب هي ذ ه‬
‫ن ال ص‬ ‫ن وواب ذ ه‬‫سك هي ذ ه‬ ‫م ی‬ ‫مى ووال و‬ ‫ووالويقت ی ی‬
‫ه‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫ن اللقق و‬ ‫ه ۭ ِّ ا ه ص‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫قققوا اللقق و‬ ‫وا ِّ ووات ص ا‬ ‫و‬
‫ه فققان ذت وها ذ‬
‫م ع ون ذقق ا‬ ‫ا‬
‫ما ن ویهىك ذ‬ ‫خذ اوذه ا ِّ وو و‬ ‫و‬
‫سوذل ف ا‬‫ا‬ ‫م الصر ا‬ ‫ا ییتىك ا ا‬
‫‪؎46‬‬ ‫ۘ۝‪Ċ‬‬ ‫ب‬
‫قا ه‬ ‫شد هي ذد ا ال ذعه و‬‫و‬

‫اللہ اپنے رسول کو )دوسری( بستیوں سے جقو مقال بھقی فیققئ‬


‫کے طور پر دلوا دے‪ ،‬تو وہ اللہ کا حق ہے اور اس کے رسول کققا‪،‬‬
‫اور قرابت داروں کا‪ ،‬اور یققتیموں‪ ،‬مسققکینوں اور مسققافروں کققا‪،‬‬
‫تاکہ وہ مال صرف انہی کے درمیان گردش کرتققا نققہ رہ جققائے جققو‬
‫تم میں دولت مند لوگ ہیں۔ اور رسول تمہیققں جققو کچققھ دیققں‪ ،‬وہ‬
‫لے لو‪ ،‬اور جس چیز سے منع کریں اس سققے رک جققاؤ‪ ،‬اور اللققہ‬
‫سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ سخت سزا دینے و ال ہے۔‬

‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظق‬ ‫‪ 4‬ٹ۔ بخز ییہ‬


‫ہے۔ اسلما‬ ‫بادی ق‬ ‫س‬ ‫کے ب عد غیتر م‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ب‬ ‫قوہ ب یی‬
‫وضول ک ییا بچاباہ ہ‬ ‫سے‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫ٓ‬ ‫ا‬ ‫لم‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫نے‬ ‫کر‬ ‫یح‬ ‫کو‬ ‫لک‬ ‫سی‬‫ظ‬ ‫خو‬ ‫کس‬
‫انت لوگوں کو ا ہ ل ذماہ یبا ذمی‬ ‫ےق ق‬ ‫ے تھ‬‫لوگ بخزییہ ظد یپن‬ ‫ظ‬ ‫یول ظ قیہ کرنے والوں سے بخزییہ ل ییا بچابا تھا۔ ظبیخو‬ ‫قب ق‬
‫یں ان سے بح گی ظچدمات پہییں لی بچانی ھی ان کی بچان و مال کی‬ ‫قی ق‬ ‫م‬ ‫لے‬ ‫د‬‫ب‬ ‫کے‬
‫ب چ ب‬‫جس‬ ‫ھا۔‬ ‫ت‬ ‫با‬ ‫ظکہا ظبچا‬
‫بوری آزادی‬ ‫رسومات کی ق چ ق‬ ‫اور ش‬ ‫چ‬ ‫ہ‬
‫کومت کا ہوبا ت‬ ‫ق‬ ‫ح قاق‬
‫ص‬ ‫ظ‬ ‫ھا۔اور ان کو ا ظپنی مذ ہہبنی ع بیادات ق‬ ‫گ‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ظت کا ذماہ‬ ‫ت‬
‫سے قاس یی قیا چا ل ہہوبا تھا۔ بخزییہ ہہر‬ ‫لوں اور علموں کو بخزییہ ق‬ ‫ہہونی ھی۔ببوڑھوں‪ ،‬چبخوں‪،‬اچبا بہخوں‪،‬چبا ش‬
‫ببا قلغ مردچاور غورت سے اس کے ظمالی ح یییییت کے م ظاب بق ل ییا بچابا تھا۔فران مبخ یید مییں بخزییہ سے‬
‫ب‬ ‫ع‬
‫ہے۔‬ ‫مت لق کم ذ ی ل کے آیبت سے واصح ہ‬
‫م الل یلقق ا‬
‫ه‬ ‫حققصر و‬
‫مققا و‬‫ن و‬ ‫مققوذ و‬ ‫خققره ووول ي ا و‬
‫حفَر ا‬ ‫ن ب هققالل یلهه ووول ب هققال ذي ووذم ه اذل ی ه‬
‫من اققوذ و‬‫ن ول ي اؤ ذ ه‬ ‫وقات هالوا ال صذ هي ذ و‬
‫ة‬ ‫حت یلققيِ ي اعذط اققوا ال ذ ه‬
‫جذزي وقق و‬ ‫ب و‬ ‫ن ا اوذاتوا ال ذك هت یقق و‬‫ن ال صذ هي ذ و‬ ‫م و‬
‫حقفَ ه‬ ‫ن ال ذ و‬‫ن د هي ذ و‬‫ه ووول ي ود هي ذن اوذ و‬ ‫سوذل ا ه‬
‫ووور ا‬
‫؀‪؎47 29‬‬ ‫ن‬
‫صغهاروذ و‬ ‫م ی‬ ‫ن ي صد ض وصها ذ‬ ‫عو ذ‬
‫‪24‬‬
‫وہ اہل کتاب )‪ (٢٥‬جو نہ اللہ پر ایمان رکھتے ہیں‪ ،‬نہ یوم آخرت پر‬
‫وئی چیققزوں‬ ‫)‪ (٢٦‬اور جو اللہ اور اس کے رسول کی حرام کی ےے ہ‬
‫کو حرام نہیں سمجھتے‪ ،‬اور نہ دین حق کو اپنا دین مانتے ہیں ان‬
‫سے جنگ کرو‪ ،‬یہاں تک کہ وہ خوار ہو کر اپنے ہاتھ سے جزیققہ ادا‬
‫ظ‬
‫کریں۔‬
‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ع‬
‫‪ 5‬۔ یییمت و ظ ظفے‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫ص‬
‫اور بح یگ شسے چا لک ک قییا‬ ‫ق‬ ‫ے ہہییں بخو ک قار سے قوت قو ق لببہ‬
‫ع‬ ‫اس کو ق کہن‬ ‫اسلما مییں مال عیییمت ق‬
‫ق‬
‫ے‬‫کے ت قد ییم و تربحمہ و ظ ظبحشیبہ مییں ظل ھن‬ ‫الموال بچلد اول ق‬ ‫بچاے۔ع بید الرحمان طاہہر سوانی ک یاب ظ ق‬
‫ح‬
‫ہے ان مییں یییمت کا مس‬ ‫ع‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫کومت ظاسلمی بجن‬ ‫ہہییں۔" چ‬
‫ع‬ ‫ے ظنضرف م ی قیں ل ظنی ہ‬ ‫اموال کو ا چپن‬ ‫ظ‬ ‫ح‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫بوری کیق چبوری‬ ‫ے یییمت چچپ ظ‬ ‫ہے کہ چپہل‬ ‫ے ظضروری ہہوبا ق ق ہ‬ ‫ے کے ظ یلن‬ ‫‪ 5/1‬لین‬ ‫ہے ب ی کن ئمس ق‬ ‫‪ 5/1‬ہ‬
‫ے اور تبقیبہ چچار‬ ‫یت المال کو چہیچ‬ ‫پی‬‫ب‬ ‫مس‬ ‫ح‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫یں‬ ‫م‬
‫شس ی‬ ‫نی‬ ‫گرا‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫کومت‬ ‫چ‬ ‫باکہ‬ ‫ے‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫چا‬
‫ی ب‬‫یا‬ ‫ک‬ ‫مع‬ ‫ح‬ ‫چگہ‬‫ا یظبک ب‬
‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫ے بچابییں۔ اماما اببو ظع بی ییدہ ق مییں‬ ‫سے قمبحاہہدیین اور ل کریبوں ش مییں س ییم ک ظن‬ ‫ک‬ ‫ے قعدل و انصاف‬ ‫ظ‪ 5/4‬حص‬
‫ب‬
‫کے ئدوران قوحای قوت‬ ‫یں۔"بخو اموال مسرکیین ظ‬ ‫ظ‬ ‫ے ہہ ی ظ‬ ‫ل‬ ‫عیییمت کی تعریتف اس‬
‫یگ ئ‬ ‫سے بح‬
‫ہے بجس کے چبا بچ حصق‬
‫طرح ئ ھن‬
‫ے چابییں وہ ع‬ ‫ئ‬ ‫ے تزور چاص‬
‫ے اور ییہ‬‫ے بچائ ی ظیں گ بظ‬ ‫ے قکن‬ ‫م‬ ‫ہ‬ ‫یمت‬
‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫قکے ذر یقت ع ب‬
‫ے"۔‬ ‫ہ‬ ‫ح‬‫ی‬ ‫س‬
‫ے دوسرے لوگوں کو ھوڑکر چاص طور چتر اس کے فیین چتر خرچ ہو گ‬ ‫چ‬ ‫چ‬ ‫تماما کے تماما حص‬
‫‪؎48‬‬
‫ظ‬
‫ظ ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫فے ق‬
‫ی‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ل‬
‫ہے بخو قا قی سے‬ ‫ے ہہییں" فے ا ی قبک بچامع ل فظ ظ قہ‬ ‫تف ظ یبوں ھ ظن‬ ‫طا ہہر سوا نی فے کیمت ظعر ی ب ٹ‬
‫اموال کے‬ ‫ل‬
‫یار سے ییہ فظ تماما‬ ‫ہے ق بجس کے ظ عنیم چسل ی یا وا چنس ا ٓ با ہہ ییں‪ ،‬اس ا ع ی ب ظ‬ ‫مصدر ہ‬
‫ے قاس م ییں بح ظیگ یبا‬ ‫اموال سے م سل لماسبوں کو م ل‬ ‫بت ق‬ ‫کے‬ ‫ین‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫تر‬ ‫غ‬
‫ہ م ظ ی‬‫خو‬‫ب‬ ‫ہے۔‬ ‫با‬ ‫ے ببول ب‬
‫چا‬ ‫ص یلن‬
‫م‬
‫ین کی ا ج قتماعی شلکییت بین‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ق‬
‫ے و ا لے مال ظکی ھی ق یید عاما بہ ا لم ی ظ‬ ‫ے لن‬ ‫ئ لح کے ذر یت ع‬
‫س‬ ‫ل‬
‫نی سے تماما ظ کر یبوں اور‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫چ‬ ‫گی۔ا س‬
‫ہوگی ظ اور ئاس کی ا ٓ مد ظ‬ ‫پ‬ ‫گران‬
‫ئ‬ ‫لمی کومت اس کی ظ‬ ‫ظ‬ ‫بچا ئ ییں ظ‬
‫گی۔ ییہ حضرت ع مر ظ ر قضی ا کی‬ ‫ق‬ ‫نے‬ ‫حا‬ ‫چ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫چ‬ ‫دہ‬
‫ئ‬ ‫ب‬ ‫قا‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ظا‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ضرورت‬ ‫ئ‬ ‫کو‬ ‫ظ‬
‫بوں‬ ‫قدیب گر م سلما‬
‫ین یہظ‬ ‫م‬ ‫ہے۔ ا یبک اور راب ے ظکے ا ع ی بیار سے ا ین ق‬
‫سی ق ظیوجہ زم ی ق‬ ‫ظ ظعفرا ٓ ن سے م ی ظس ببط را ظب ے ہ‬
‫ہے بو دو بوں ضور بوں‬ ‫اماما کے ضوا قببد یبد چتر می حضر ہہوگی وہ چچا ہ ظ‬ ‫یییمت ہہوگی یہ فے ببلکہ ییہ ق‬
‫ا نے مکہ کی زم یین قکے‬ ‫ق‬ ‫ے رسول‬ ‫س‬
‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫ب‬ ‫ہے‬ ‫ہ‬ ‫ضورت بت ھی بخو ئیتز کر ک یا‬
‫س‬ ‫ب‬ ‫ظ‬ ‫لوہ کو ئب ی اور‬ ‫کے ع ق‬ ‫ق‬
‫ے ب قلکہ لی دو ضوربوں‬ ‫پہ‬ ‫چ‬ ‫ب‬ ‫یت ہ ی قیں د یپن‬ ‫پ‬ ‫مو خرالزکر ظ را ب ے کو اہہ م ی ظ ق‬ ‫ب‬
‫سا تھ ک ییا ھا۔ ا بو ع بی ییدہ‬ ‫ت‬
‫ے ہہ ییں کہ رسول ا‬ ‫بک چتر عم قل کر نے قم ییں ئ اماما کو ا ج ی ییار د یب یا ہہ ی قیں وہ ک ہ ظ ظن‬ ‫سے ک ظسی ا ی ظ ظ‬ ‫م ییں ظ‬
‫‪41‬‬ ‫ہ‬ ‫ﷺ نے یث بتر کو ظیییمت فرار ظ د یپن‬ ‫ع‬ ‫خ‬
‫کے آ یبت ق‬ ‫کے سا تھ سور ظۃ ات قال ظ ق‬ ‫ے اس ظ‬ ‫ے ہوب ظ‬ ‫کے بتمو ب عم‬
‫ے‬‫ضی ا نے ا ین سی ارا ظضی کو فے فرار د ظ ق یپن‬ ‫ضرت ع مر ر ظ‬ ‫ق‬ ‫جب ش ل فرما یبا اور ح‬
‫م‬
‫کے م ظا ب بق ل فرما یبا اس طرح قیوجہ‬ ‫عم‬ ‫‪7 59‬با ‪ 10‬فے ظ‬ ‫سورقیہ ج سر‬ ‫ہوے ظ ظ‬
‫ہ ظ‬
‫ت‬‫ب‬ ‫کے ئا ٓ یبت س ق‬ ‫ظ‬ ‫ت‬
‫ب‬ ‫ع‬
‫‪؎49‬‬ ‫ہے اور فے ھی۔ "‬ ‫اراضی یییمت ھی بب یا ب ی بچا کنی ہ‬
‫يِ‬
‫ن فه ذ‬
‫جد اوذ و‬‫م ووول ي و ه‬‫جور ا هل وي ذهه ذ‬
‫ها و‬
‫ن و‬ ‫م ذ‬‫ن و‬ ‫حب يوذ و‬ ‫م يا ه‬‫ن قوب ذل ههه ذ‬
‫م ذ‬‫ن ه‬ ‫ما و‬‫داور وواذل هي ذ و‬ ‫ن ت وب ووصؤ ا ال ص‬‫ووال صذ هي ذ و‬
‫ة‬
‫صق ل‬
‫صا و‬‫خ و‬ ‫م و‬ ‫م ووولقوذ ك و ا و‬
‫ن ب هههق ذ‬ ‫سقهه ذ‬‫ف ه‬‫ن ع وویلقيِ ا ون ذ ا‬ ‫وا ووايقؤ ذث هاروذ و‬ ‫ما ا اوذت ا ذ‬ ‫م ص‬
‫ة فَ‬ ‫ج ل‬
‫حا و‬‫م و‬ ‫صد اوذرهه ه ذ‬ ‫ا‬
‫ا‬
‫‪؎50‬‬ ‫۝‪Ḍ‬‬ ‫ن‬‫حوذ و‬ ‫فل ه ا‬ ‫م ال ذ ا‬
‫م ذ‬ ‫ك ها ا‬ ‫ل‬
‫سهه فوااولى ىه و‬ ‫ف ه‬‫ح نو ذ‬‫ش ص‬ ‫ن ي يوذقو ا‬ ‫م ذ‬‫ڵ وو و‬
‫)اور یہ مال فیئ( ان لوگوں کا حق ہے جو پہلے ہی سے اس جگہ‬
‫)یعنی مدینہ میں( ایمان کے سققاتھ مقیققم ہیققں۔ )‪ (٧‬جققو کققوئی ان‬
‫کے پاس ہجرت کے آتا ہے یہ اس سے محبت کرتے ہیققں‪ ،‬اور جققو‬
‫کچھ ان )مہاجرین( کو دیا جاتا ہے‪ ،‬یہ اپنے سققینوں میققں اس کقی‬
‫کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے‪ ،‬اور ان کققو اپنققے آپ پققر‬
‫ترجیح دیتے ہیں‪ ،‬چاہے ان پر تنگ دستی کی حالت گزر رہی ےےہ۔وےے )‬
‫‪25‬‬
‫‪ (٨‬اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہوجائیں‪ ،‬وہی‬
‫ہیں جو فلح پانے والے ہیں۔‬
‫قذرب یققى‬ ‫ذي ال ذ ا‬ ‫ل وو ل هقق ه‬ ‫سققوذ ه‬‫قققیرى فول هل یلققهه وو هللصر ا‬ ‫ل ال ذ ا‬‫ن ا وهذقق ه‬ ‫م ذ‬
‫سوذل ههه ه‬‫ه ع ویليِ ور ا‬ ‫ما ا وفوااَوء الل یل ا‬ ‫و‬
‫مققا‬ ‫ا‬ ‫ا‬ ‫ذ‬ ‫و‬ ‫ذ‬ ‫ة‬ ‫ة‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫و‬ ‫ذ‬ ‫ذ‬
‫مۭ ِّ وو و‬
‫من ذك ذ‬‫ن الغن هي واَهء ه‬ ‫ن د اوذلة ب وي ذ و‬ ‫يِ ل ي وكوذ و‬ ‫لۙ ِّ ك ذ‬ ‫سب هي ذ ه‬
‫ن ال ص‬ ‫ن وواب ذ ه‬‫سك هي ذ ه‬ ‫م ی‬‫مى ووال و‬ ‫ووالويقت ی ی‬
‫ه‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫ن اللقق و‬ ‫ه ۭ ِّ ا ه ص‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫قققوا اللقق و‬ ‫وا ِّ ووات ص ا‬ ‫و‬
‫ه فققان ذت وها ذ‬
‫م ع ون ذقق ا‬ ‫ا‬
‫ما ن ویهىك ذ‬ ‫خذ اوذه ا ِّ وو و‬ ‫لف ا‬‫و‬ ‫سوذ ا‬ ‫م الصر ا‬ ‫ا ییتىك ا ا‬
‫ۘ۝‪؎51 Ċ‬‬ ‫ب‬
‫قا ه‬ ‫شد هي ذد ا ال ذعه و‬‫و‬

‫اللہ اپنے رسول کو )دوسری( بستیوں سے جو مال بھی فیئ کے‬


‫طور پر دلوا دے‪ ،‬تو وہ اللہ کا حق ہے اور اس کے رسول کققا‪ ،‬اور‬
‫قرابت داروں کا‪ ،‬اور یتیموں‪ ،‬مسکینوں اور مسافروں کا‪ ،‬تاکہ وہ‬
‫مال صرف انہی کے درمیان گردش کرتا نہ رہ جائے جققو تققم میققں‬
‫دولت مند لوگ ہیں۔ اور رسول تمہیں جو کچھ دیں‪ ،‬وہ لے لو‪ ،‬اور‬
‫جس چیز سے منع کریں اس سے رک جققاؤ‪ ،‬اور اللققہ سققے ڈرتققے‬
‫رہو۔ بیشک اللہ سخت سزا دینے و ال ہے۔‬
‫یا‬‫‪ 6‬۔ا ق ظاع‪ :‬چاگ تر د یب ظ‬
‫ق‬ ‫ق ش‬ ‫ق‬ ‫قق‬ ‫ظ ق‬ ‫ب ی ق‬ ‫ق‬
‫اول کے ظت قد ییم و تربحمہ و بحشیبہ مییں اق ظاع کی‬ ‫الموال بچلد ق‬ ‫ظ‬ ‫ع ب ظیدالرحمان طاہہر سوانی نے ک یاب‬
‫چ‬
‫اس قبچاگ ی ئتر کا خو کومت کی‬ ‫ب‬ ‫ہے‬ ‫کے تزدیبک "اق ظاع" ظ باما م ہ‬ ‫ہے۔"اببو قع بی ییدہ ظ ظ‬ ‫وصاجت یبوں کی ظ ہ‬
‫ے سی ظ کو دے‬ ‫ک‬ ‫ہ‬ ‫ک‬
‫غواما ال یاس کی اجتماعی چیترخوا ظہی اور ان کے م قاد کو ئلخوظ ر ھن‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫طرف ئسے ظ‬
‫ے ہوب ق‬
‫کے‬ ‫تماعی م قاد ق‬ ‫ب‬
‫ہرچال اج ظ‬ ‫ے زمیین ع شظا کی گیی ہہو بپ ظ ظ‬ ‫ہے کہ اس ئمییں وہ فرد بجس‬ ‫دی بچابے وا قصح ر ہ‬
‫ہ‬
‫لک کی چب ییداوار مییں اصافہ ہونے ئکے ساتھ‬ ‫ظ‬
‫ش‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫ین سے‬
‫پ‬
‫طرح دی ہوبی ز ظم ی ظ‬ ‫ہ‬
‫ک‬
‫ہے گا اس ق‬ ‫طا بتع ر ہ‬
‫اس‬ ‫ے ییہ زمیین دی گ یی ہ‬
‫ین ظہوچا ص یاق‬ ‫ئ‬
‫ہوگا بیتز وہ حصق بجس‬ ‫رغییت کو کسی فسم کی ن ل ییف کا سام یا ہییں ہ ق‬
‫ہےگا۔اق ظاع م ی ظیں دی گیی زم ی ظ ل‬ ‫صولت ادا کربا ر ہ‬ ‫کومت کے وابجب الدا مح‬ ‫ظ‬ ‫زمیین چتر چ‬
‫ے سے‬ ‫ے وہ یہ کسی ئ لم کی لکییت ہہوگی ظیہ معاہہدہ کی یہ اس کے د یپن‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫چکومت کی ہہو شنی چچا ہ یہن‬
‫ین کا دیب یاظ‬ ‫کے ب ظباس ظیدہ کا خق مارا بچانے گا۔دوسری طرف خود چکومت کے یلن‬ ‫ری ظ‬
‫ےاس زم ی‬ ‫ظ‬ ‫باست‬
‫ہ‬
‫نی مییں اصافہ کا بباعث ہوگا۔‬ ‫ٓامد ق‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫ہے ہہییں۔‬ ‫ےر ہ‬ ‫سم اق قظاع قرسول ا ﷺٓاپ ﷺکے بتعد آ قپ ﷺ کے چل قا د یپن‬
‫چت‬ ‫اس ف ش‬
‫ہے ہہییں۔‬ ‫بجس کی شہادئییں ک یاب الموال مییں اببو ع بی ییدہ ظ ییش کرنے ر ہ‬
‫ظ‬ ‫یں کہ مترے ظتزدبک ا ق ظاع اپہیں ز یم ظیوں میں چا ئ‬ ‫ک ق‬
‫ہوں‬ ‫ہے بخو غیتر آبباد اور ق بپ ی کار ہ‬ ‫ہ‬ ‫ز‬ ‫ب‬ ‫ش‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫یدہ ہ‬ ‫اببو ع بی ی ظ‬
‫ئ‬ ‫ن‬ ‫ت‬ ‫چ‬ ‫ہ‬
‫ے کے بتعد اب چ ھر غیتر کاست ق چالتچپم ی ظیں بباقی رہ گچیی‬ ‫نے مییں کاست ہو حکن‬ ‫ئ‬ ‫یبا چترانے زما‬
‫پ‬‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫طرح اس کا معاملہ ئاماما کے ہاتھ مییں یچ چحکا ہو ہی کم‬ ‫ہ‬ ‫اس‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬
‫ان چتر کوبی ٓابباد یہ رہا ہو اور ظ‬ ‫ہوں ظ اور ظ‬ ‫ہ‬
‫ہے بجن ظہییں کسی نے کاشست ظیہ ک یا ہہو اور کوبی مس مان با عاہدہ ان کا مالک یہظ‬ ‫ب‬
‫یم ہ‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ان پ بیجر اراضی کا ہ‬
‫ہہو ۔"‬
‫ظ‬ ‫ع ق‬ ‫ق‬
‫ہے۔ " طاوس‬ ‫م یی ی ہ‬ ‫ا‬‫ب‬ ‫د‬ ‫خوالہ‬
‫ظ‬ ‫کا‬ ‫بث‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫چد‬ ‫بک‬ ‫قی‬‫ا‬ ‫نے‬ ‫یدہ‬
‫ظ‬ ‫ی‬ ‫بی‬ ‫ظ‬
‫ع‬ ‫بو‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫الموال‬ ‫یاب‬ ‫ک‬ ‫اس کے مت ق لق‬ ‫ظ‬
‫ے ہہییں کہ رسول ا قﷺنے فرمایبا ‪":‬قد ییم اور غیتر آبباد ز یییں ا اور اس کے‬ ‫رضی ا کہن‬
‫ے ہہییں۔"‬ ‫ے ہہییں بتعد ازاں وہ ت مھارے یلن‬ ‫رسول کے یلن‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫راوی نے اس چدیبث م ظلب ییہ ببق ئیایبا کہ اینسی زمیین‬ ‫ئ‬ ‫قت کرنے چتر‬ ‫ٹاببو ع بی یدہ‪ -:‬میترے دربا ق ق‬
‫ی ت‬ ‫ب ی‬
‫ان کی ملکییت ہہوبچائییں گی( اور چتھر‬ ‫کے قلوگوں مییں قس ییم کردی بچائییں گی )اور ظ‬ ‫ے میں لک‬ ‫ر‬ ‫ک‬ ‫کڑے‬ ‫ش‬
‫ہے ۔‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫رسول‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫ین‬ ‫م‬‫ز‬
‫ی ب ی‬‫باد‬ ‫ٓ‬ ‫ا‬ ‫تر‬ ‫غ‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫ی ی ہ‬ ‫یہ‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫بت‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫روا‬ ‫"دوسری‬
‫ظ‬ ‫کہ‬ ‫یں‬ ‫ہ‬
‫ہ‬
‫ھ ی‬ ‫ے‬
‫ن‬ ‫تچا یس ی‬
‫ن‬
‫‪؎52‬‬ ‫ہے"۔‬ ‫ے ہ‬ ‫چ ھر میتری طرف سے اے م لمابو! وہ ت ھارے یلن‬
‫م‬ ‫س‬
‫ظ‬
‫‪ 7‬۔ معدن )کان( اور رکاز )د فیت ظبہ(۔‬
‫‪26‬‬
‫ظ‬ ‫ظ ق‬
‫ہے۔‬ ‫اببو ع بی ییدہ نے ک یاب الموال مییں اس کی وصاجت یبوں کی ہ‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫م ظ‬
‫ہے ‪:‬اہہل غراق کہن‬
‫ے ہ ظہییں‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫لف‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫ظ‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫ما‬ ‫ع‬
‫کے ع یبت ل‬
‫یں‬ ‫م‬ ‫نی‬ ‫ہوے مال )رکاز(‬ ‫نے ہ ظ‬ ‫"زمیین مییں د ب‬
‫ظ‬ ‫ب‬
‫ہے ب ی شتز وہ مال ھی بخو زمیین مییں مدقون‬ ‫ھی‬ ‫کان‬ ‫مراد‬ ‫ق‬ ‫سے‬ ‫اس‬ ‫ہے‬ ‫فظ‬ ‫ل‬ ‫چامع‬
‫ح‬ ‫ہ‬
‫ص‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫کہ "رکاز" ایبک ب‬
‫ہے۔‬ ‫ف‬
‫ے ۔اور ان دوبوں مییں سے ہہر ا ی ظبک سم مییں سے چا ل سدہ مال چتر مس ‪ 5/1‬ہ‬ ‫مل‬
‫ے‬
‫ضرف ا ینس‬ ‫اور‬ ‫ہے۔‬ ‫صوص‬‫ح‬ ‫م‬
‫ئ‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫کے‬ ‫(‬‫مال‬ ‫کے‬‫ے ہہییں کہ "رکاز" کا ل ظفظ دفیتظبہ ) ظ‬ ‫ک ق‬
‫ن‬ ‫اہہل حبحاز‬
‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ل‬
‫ی‬ ‫ح‬ ‫ہ‬
‫نے ہہوے مال سے مس ‪ 5/1‬ل ی ظیا بچانے گا۔ ق ی کن بچہاں بک کان‬ ‫ب‬ ‫ہہی زمیین م ی قیں د‬
‫پ‬
‫ہے اظسے "رکاز" ئہییں کہا بچا سک یا۔ لہذا اس مییں سے‬ ‫ہ‬
‫ظ‬
‫ہے وہ بچداگایہ چچیتز‬‫ہ‬ ‫)معدن(کا ظ تعلق‬
‫چا ئصل ہہونے والے مال سے حمس ‪ 5/1‬پہییں ل ییا بچانے گا۔اس مییں سے ضرف زکواۃ لی‬
‫بچائییں گی۔" ‪؎53‬‬
‫ق‬
‫‪ 8‬۔ ع ظا یبا اور او قاف‬
‫ظ‬
‫ب‬ ‫ظق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫بپ‬
‫ے ش ہت‬ ‫لما مظییں امیتر لوگوں کو اچپنی دولت م ی قیں سے غریپبیوں کی مخ یا ظ‬
‫حای دور کرنےت کے یلن‬ ‫اس ق‬
‫ہے کو مرنے کے بتعد ب ھی بباعث بواب‬ ‫یا‬
‫ب ی گی ہ‬‫کہا‬ ‫یہ‬ ‫چار‬ ‫فہ‬ ‫صد‬ ‫کو‬ ‫اس‬ ‫ہے۔‬‫ہ‬ ‫نی‬‫گ‬‫ی‬ ‫دی‬ ‫یب‬ ‫زظ یقبادہ غ ی‬
‫تر‬
‫ہے۔‬ ‫بتی یا ہ‬
‫ضققوعالفا ك وث هي ذققورة ل ۭ ِّووالل یلقق ا‬
‫ه‬ ‫ه او ذ‬
‫ه ل وقق وه‬
‫ف ه‬ ‫سققلنا فوي ا ی‬
‫ضققعه و‬ ‫ح و‬ ‫ه قوذر ل‬
‫ضققا و‬ ‫ض الل یلقق و‬
‫قققره ا‬ ‫ن وذا ال صذ هيذ ي ا ذ‬
‫م ذ‬‫و‬
‫ن ؁‪؎54 ٢٤٥‬‬ ‫جعاوذ و‬ ‫و‬ ‫ا‬
‫صط ِّووا هلي ذهه ت اذر و‬ ‫ص‬
‫ض ووي وب ذ د‬
‫قب ه ا‬
‫ويق ذ‬

‫کون ہے جو اللہ کو اچھے طریقے پر قرض دے‪ ،‬تاکہ وہ اسے اس‬


‫کے مفاد میں اتنا بڑھائے چڑھائے کہ وہ بدر جہاز یا دہ ہوجائے ؟ )‬
‫‪ (١٦٤‬اور اللہ ہی تنگی پیدا کرتا ہے‪ ،‬اور وہی وسعت دیتا ےےہےےے‪ ،‬اور‬
‫اسی کی طرف تم سب کو لوٹایا جائے گا۔‬
‫ن الل یلقق و‬
‫ه ب هققهه‬ ‫يِءض فوا ه ص‬
‫ش ذ‬‫ن و‬
‫م ذ‬
‫وا ه‬
‫ق ذ‬
‫ف ا‬
‫ما ت ان ذ ه‬
‫ن ڛ وو و‬
‫حب يوذ و‬
‫ما ت ا ه‬
‫م ص‬
‫وا ه‬
‫ق ذ‬
‫ف ا‬ ‫ن ت ووناالوا ال ذب هصر و‬
‫حیلتى ت ان ذ ه‬ ‫لو ذ‬
‫‪؎55‬‬ ‫؀‪92‬‬ ‫م‬
‫ع ول هي ذ ل‬
‫تم نیکی کے مقام تک اس وقت تک ہرگز نہیں پہنچو گے جب تک‬
‫ان چیزوں میں سے )اللہ کے لیے( خرچ نہ کرو جو تمہیں محبوب‬
‫ہیں۔ )‪ (٣٢‬اور جو کچھ بھی تم خرچ کرو‪ ،‬اللققہ اسققے خققوب جانتققا‬
‫ہے‬
‫ق‬ ‫قظ‬ ‫ش‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ہے۔"بخو اس ییائبےق میفولہ ذا قنی ملکییت‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫بوں‬ ‫تف‬
‫ئ ی‬ ‫ی‬ ‫عر‬‫ت‬ ‫کی‬ ‫فف‬ ‫و‬ ‫نے‬ ‫ہاروی‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬
‫یو‬ ‫س‬
‫ی‬ ‫حمان‬ ‫ر‬ ‫ح ظ‬
‫ال‬ ‫فظ‬
‫سے نکال کر "قی ق ی ل ظا" دے دی بچابییں وہ اسلمی اص ظلح مییں "وفف" کہل قنی ہہییں قاور‬‫ی‬ ‫ی‬‫ب‬ ‫س‬
‫ے دی گئی ظی ہہو بپییت المال ظ کا خق ن ظصور ہہونی‬
‫نی بخو بپ ظ ی قیت المال کے یل قن‬
‫تماما آمد ظ‬ ‫سی‬ ‫اوققاف کی ا ی‬
‫ن‬
‫ے "وافف" حضرت عمر بین الخ ظاب رضی ا‬ ‫ہہییں۔اسلما مییں بچائبییداد غیتر میفولہ کے چپہل‬
‫ہہییں۔" ‪؎56‬‬
‫ظ‬
‫ظ‪ 9‬۔۔ ضرا یبب‬
‫ظ‬ ‫ظ ظ‬
‫ظ‬
‫ہے۔‬‫ح فظ الرحمان یس قیوہہاروی نے ضرایبب کی وصاجت یبوں کی ہ‬
‫ظ‬ ‫"زماظیہ ح ظ‬
‫ے "زکواۃ‬‫روزگاری دور کرنے کے ظ یلن‬ ‫ش‬ ‫نے‬
‫ب‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫کی‬ ‫غواما‬ ‫اور‬ ‫اماہ‬
‫ی‬ ‫ع‬‫ٹ‬ ‫قاہ‬ ‫سالی‪،‬ر‬ ‫حط‬ ‫ق‬ ‫یگ‪،‬‬ ‫ق‬ ‫ب‬
‫امداد(اعی ییا اور اہہل تروت چتر چ ق‬
‫کومت کی ظب ظچابب سے‬ ‫کس)مالی‬ ‫ی‬ ‫کے علوہ چو ب‬ ‫ق‬ ‫"‬ ‫قات‬ ‫"اور"صد‬
‫ہے۔اسلما کے دسیوری ن ظاما ظ مییں‬ ‫باما "ظضرایبب" ہق‬ ‫ے چانے ہہییں ب قان کا ظ ظ ظ‬
‫ش‬ ‫ظعایبد یکن ب ش‬
‫سم کے دوسرے محاصل اشی غرض‬ ‫ق‬ ‫ف‬ ‫اشی‬ ‫اور‬‫ظ‬ ‫ظ‬
‫مس‬ ‫ح‬ ‫قی‪،‬‬ ‫‪،‬‬ ‫فف‬ ‫سر‪،‬زکواۃ‪،‬و‬ ‫خراج‪ ،‬قبخزییہ‪،‬ع ع‬
‫سور‪،‬‬
‫ے وہ عاما‬ ‫ب‬
‫ے ہہییں کہ وہ چب بیلک کے اتفرادی اور اجتماعی کاما مییں ا یئییں اس یلن‬ ‫ے یگن‬ ‫سے مفرر یکن‬
‫‪27‬‬
‫ق‬ ‫س‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ٹ‬
‫ص‬ ‫س‬‫م‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ج‬‫مب‬ ‫پ‬
‫کس عایبد کرنےق کو بچایتز ظ ہییں ھ یا ‪،‬البتبہ اگر بپییت ظ ال ظمال کے طورہ ظببال محا ل کو‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ظ‬
‫طور چتر ظمزیبد‬
‫ظ‬ ‫ص‬ ‫ص‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫پ‬
‫ل ظسے قا لش امدنی کے ئبت غیتر چبوری یہ ہ قہو‬
‫ہ‬ ‫صحا ظ‬‫کاقی قہییں یبا ہہن ظگامی اہم ا بجتماعی قضرور ی ظبات ان م‬
‫ے بچاسکن‬
‫ے‬ ‫ہ‬
‫سکییں بوعدل و انصاف کے ساتھ ہہنگامی محا ل اعی ییا اور ا ل تروت چتر عابد یکن‬
‫‪؎57‬‬ ‫ہہییں ۔"‬
‫ی‬‫ش حظ‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫‪ 10‬۔ عسور) چ گی(‬
‫ظ ق‬
‫اور اسے خراج کی شطرح فے کی ا شیبک‬ ‫ہے ح ظ‬‫الموال مییں اس شکی تعریتف کی ہ‬ ‫ق‬ ‫قاببو ع بی قییدہ نے ک یاب‬
‫ص‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫چ‬
‫ہے بخو عا ظسر ) ح ظل عسور(‬
‫ی‬ ‫ح‬‫چ‬ ‫کے قبحت وہ عسور )دسواں حصہ ق– گی( ہ‬ ‫ہے " اشی ق‬ ‫فسم بب یایبا ہ‬
‫ہے۔اشی ) قفے( مییں گی کا وہ‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫یاب چتر قوضول کربا ہ‬‫کے ببحارنی مال و اس ب ق‬ ‫ہ‬
‫ییوں سے ان‬
‫م‬ ‫ش‬ ‫ذم‬
‫ی‬
‫ے کر وہ‬ ‫ہے۔ بجس‬ ‫ہ‬
‫ہے خو ا ظچل خرب ق کے اس ببحارنی سامان سے وضول ہوبا ہ‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫مال سا ل ہ‬
‫‪؎58‬‬ ‫اسلمی ممالک مییں دا ل ہہونے ہہییں۔"‬
‫ظظ‬ ‫قق‬ ‫ظ ظ ق‬
‫ہے کہ اس کی‬ ‫ہ‬ ‫ھا‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫اما‬ ‫ظ‬ ‫ن‬ ‫صادی‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫لما‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫یا‬ ‫ک‬ ‫نی‬‫پ‬‫ح ظفظ الرحمان یسیوہہاروی ظنے ا چ‬
‫قن‬ ‫ظ‬ ‫ش‬
‫‪؎59‬‬ ‫سروعات حضرت عمر رضی ا کے دور مییں ہہوئبی۔‬
‫ظ ظ‬
‫ظ‬
‫‪ 11‬۔اموال قا صلہ‬
‫ق‬ ‫ظ‬
‫مذکورہ بظبال امدپ قییوں کے ع شلوہ بخو ئبتھی امدنی ہہوں وہ بپییت ال ظمال کی مم قلک فرار دی‬
‫بپ ی ئیت المال کی ظ‬
‫لوارث قوت ہہو بو اس کا ق‬
‫مال‬ ‫س‬
‫بچائییں ۔ وہ اموال قاصلہ کہلنی ہہییں۔ م یل ئکونی م لمان ی قبا ذمی ظ‬
‫س‬
‫چاے بو‬
‫ھاگ ب ق‬ ‫ت‬
‫لک ب ق‬ ‫م‬ ‫م‬
‫مان مربد ہہوکر غیتر لم ظ‬ ‫ش‬ ‫ہے۔اشی طرح اگر کونی مسل‬ ‫"بپییت المال " کا خق ہ‬
‫ہے۔یبا اشی طرح سرعی طور چتر کسی کا مال ض ببط ہہوبا ہ‬
‫ہے بو وہ‬ ‫بتاس کا مال "بپییت المال" قکا خق ہ‬
‫ھی "بپییت المال " کا مال نصور ہہوگا"۔ ‪؎60‬‬
‫رضاکارانہ‬
‫وہ اعمال ہیں جققن کققی ترغیققب دی گئققی ےےہےےے‬ ‫رضاکارانہ‬
‫ایک صالح معاشی نظام کققی تشققکیل کققے لیققے جیسققے صققدقہ‬
‫خیرات وغیرہ۔‬
‫صدقات‬
‫اسلم زکواۃ کے علوہ بھی مالدار لوگوں کققو غریبققوں کققی مققالی‬
‫امداد کی ترغیب دیتا ہے بعض حالت میققں ان کققو واجققب قققرار‬
‫دیتا ہے اور بعض حالت میں مستحسققن اور مسققتحب قققرار دیتققا‬
‫ہے۔اس قسم کقے مقالی امقداد کقو "صقدقہ "کہتقے ہیقں اور اپنقی‬
‫ظ‬
‫محتلف انواع کققے اعتبققار سققے صققدقات کہلتققے ہیققں۔صققدقات کققی‬
‫ادائبیگی کی دو قسمیں ہیں ۔‬
‫صدقات انفرادی ‪:‬۔ یہ صدقہ کرنقے وال اپنققے ےےہاتھ سقےےے بلوسققطہ‬
‫کرتا ہے ۔‬
‫صدقات اجتماعی‪:‬۔اس قسم کققا صققدقہ امیققر یققا نققایب امیققر کققے‬
‫حوالے کرکے بیت المال میں جمع کیا جاتا ہے اور اجتماعی مفققاد‬
‫پر خرچ ہوتا ہے۔ اللہ تعالی نے قققران مجیققد میققں امققرا کققو باربققار‬
‫صدقہ کرنے کی ترغیب دی ہے۔‬

‫‪28‬‬
‫ن الل یلقق و‬
‫ه‬ ‫وا ڔ ا ه ص‬
‫سن ا ذ‬ ‫ٻووا و ذ‬
‫ح ه‬ ‫م ا هولى الت صهذل اك وةه‬
‫وا ب ها وي ذد هي ذك ا ذ‬ ‫ل الل یلهه ووول ت ال ذ ا‬
‫ق ذ‬ ‫سب هي ذ ه‬
‫يِ و‬ ‫وا فه ذ‬ ‫ق ذ‬
‫ف ا‬‫ووا ون ذ ه‬
‫‪؎61‬‬ ‫ن ؁‪١٩٥‬‬ ‫سن هي ذ و‬
‫ح ه‬ ‫ب ال ذ ا‬
‫م ذ‬ ‫ح ي‬ ‫يا ه‬
‫اور اللہ کے راستے میں مال خرچ کرو‪ ،‬اور اپنے آپ کو خود اپنے‬
‫ہاتھوں ہلکت میں نہ ڈالو )‪ (١٢٥‬اور نیکی اختیار کرو‪ ،‬بیشک اللققہ‬
‫نیکی کرنے والوں سے محبت کرتا ہے۔‬
‫‪؎62‬‬ ‫؀‪19‬‬ ‫حاروذم ه‬ ‫ل ووال ذ و‬
‫م ذ‬ ‫حقق فَلل ص‬
‫سااَى ىه ه‬ ‫م و‬
‫وال ههه ذ‬ ‫يِ ا و ذ‬
‫م و‬ ‫ووفه وذ‬
‫اور ان کققے مققال و دولققت میققں سققائلوں اور محققروم لوگققوں کققا‬
‫)باقاعدہ( حق ہوتا تھا‬
‫ة‬
‫سققوناب ه و‬
‫ل‬ ‫سققب ذعو و‬‫ت و‬ ‫حصبقةض ا وینب ووتق ذ‬‫ل و‬ ‫ل الل یلهه ك و و‬
‫مث و ه‬ ‫سب هي ذ ه‬
‫يِ و‬ ‫م فه ذ‬ ‫وال وھا ذ‬ ‫ن او ذ‬
‫م و‬ ‫قوذ و‬‫ف ا‬ ‫ن ي ان ذ ه‬‫ل ال صذ هي ذ و‬
‫مث و ا‬
‫و‬
‫م‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫و‬ ‫و‬ ‫ی‬ ‫ة‬ ‫فَ‬ ‫ا‬
‫سققعل ع ول هي ذقق ل‬
‫ه ووا ه‬
‫ن ي صشققاَاء ۭ ِّ وواللقق ا‬ ‫مقق ذ‬‫ف له و‬‫ضققعه ا‬ ‫ه يا ی‬ ‫حب صققةض ۭ ِّوواللقق ا‬
‫ة و‬ ‫مائقق ا‬
‫سققنب الةض فَ‬ ‫يِ كققل ا‬ ‫فه ذ‬
‫‪؎63‬‬ ‫؁‪٢٦١‬‬
‫جو لوگ اللہ کے راستے میں اپنے مققال خققرچ کرتققے ہیققں ان کققی‬
‫مثال ایسی ہے جیسے ایک دانہ سات بالیں اگققائے )اور( ےےرہ بققالی‬
‫میں سو دانے ہوں )‪ (١٧٨‬اور اللہ جس کے لیے چاہتا ےےہےےے ) ثققواب‬
‫میں( کئی گنا اضافہ کردیتا ہے‪ ،‬اللہ ب ےےہت وسققعت وال )اور( بققڑےےے‬
‫علم وال ہے۔‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ق ظ‬
‫ل‬
‫ہے بجب ع یید ا قفظر کے دن نصاب زکواۃ کے بترابتر مال‬ ‫ظ‬ ‫ہ‬
‫صدفہ قظر اس وقت ئ وابجب قہوبا قہ‬
‫ہے۔‬
‫ہ‬ ‫با‬ ‫ہو‬‫ہ‬ ‫جب‬ ‫ب‬ ‫وا‬ ‫قظر‬ ‫فہ‬ ‫چابچات اصلیبہ سے زابد موبخود ہہوبو صد‬
‫ممنوع‬
‫وہ احکام جس کی رو سققے بعققض معققاملت کققو‬ ‫ممنوع‬
‫حرام یا ممنوع قرار دیا گیا ہہے۔جیسے سود‪،‬قمار بازی‪ ،‬ذخیرہ‬
‫اندوزی وغیرہ۔سود پر سب سے زیادہ وعید و ائبی ہہے۔ جس کی‬
‫حرمت قرآن و احادیث سے ثابت ہہے۔‬
‫ا۔ سود‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫ے ہہییں۔بجس کا لغوی م قعنی زیبادہ ہہوبا‪،‬چتروان چخڑھ یا‪،‬اور شببل ظیدی قکی‬ ‫ظسود کو غربنی مشییں رببا کہن‬
‫ہے ظ۔کسی کو اس سرط چتر رقم‬ ‫ش‬ ‫سرعی اص ظلح م ی ق‬
‫ش‬ ‫یں رببا )سود( کی تعر ی شتف ییہ ہ‬ ‫ق‬ ‫ہے۔اور‬
‫چ‬ ‫چابا ہ‬ ‫ظ‬ ‫طرف ب‬
‫نے‬ ‫چ‬ ‫رو‬ ‫ئ‬ ‫‪100‬‬ ‫کو‬ ‫سی‬ ‫ک‬ ‫حص‬ ‫بک‬
‫ی ق‬ ‫ا‬ ‫ل‬‫ی‬ ‫گا۔م‬ ‫لے‬ ‫بادہ‬‫ی‬ ‫ز‬ ‫قم‬ ‫ر‬ ‫جھ‬‫کچ‬ ‫وہ‬ ‫قت‬ ‫و‬ ‫کے‬
‫ق‬ ‫سی‬ ‫ن‬ ‫وا‬ ‫کہ‬ ‫یا‬ ‫ادھار دیب‬‫ق‬
‫ب‬ ‫ق‬
‫قت ‪ 100‬کے ببحانے ‪120‬‬ ‫و‬ ‫کے‬ ‫سی‬ ‫چ‬
‫ن‬ ‫وا‬ ‫کہ‬ ‫ے‬
‫ہ‬ ‫ک‬ ‫سے‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫دے‬ ‫فرض‬ ‫ے‬‫ن‬ ‫کے‬ ‫مدت‬ ‫فررہ‬ ‫م‬
‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫ق یل‬
‫ہے۔سود‬ ‫ے ییہ سود کی ر ظقم ہ ق‬ ‫ے گن‬ ‫نے زیبادہ د یپن‬ ‫غوض بخو ‪ 20‬رو چ‬ ‫مدت کے ئ‬ ‫نے د ینگا ۔م ظفررہ ظ‬ ‫رو چ‬
‫راست بح یگ فرار دیبا‬ ‫ق‬ ‫تراہ‬ ‫ب‬ ‫سے‬ ‫رسول‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫اور‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫ا‬ ‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫نی‬ ‫گ‬ ‫کی‬
‫ظ‬ ‫عت‬ ‫ت‬ ‫ا‬‫م‬‫م‬ ‫حت‬ ‫ق‬ ‫ی ش‬‫ظ‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫لما‬ ‫س‬ ‫کی ا‬
‫تڑھا ظبا ہو بو زکواۃ اور صدقات زیبادہ کرو‪ ،‬بجس‬ ‫ہ‬ ‫ہے کہ اگر مال ب‬ ‫ہے۔ ا نے فران مبخ یید مییں فرمایبا ہ‬ ‫ہ ق‬
‫ہے گی اور مال مییں اظصافہ ہہوگا۔‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫ترکت‬ ‫ی ب‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫ال‬ ‫م‬ ‫ھارے‬ ‫م‬ ‫سے ت‬
‫ن‬
‫مق ذ‬ ‫ما ا یت وي ذت اقق ذ‬
‫م فَ‬ ‫عن ذد و الل لیهه ِّ وو و‬ ‫س فوول ي وذرب ا ذ‬
‫وا ه‬ ‫ل الصنا ه‬ ‫وا ه‬
‫م و‬‫يِ ا و ذ‬
‫ا‬ ‫ن فَرلبا ل فَي وذرب اوواا فه وذ‬‫م ذ‬
‫م فَ‬ ‫ما ا یت وي ذت ا ذ‬‫وو و‬
‫‪؎64‬‬ ‫ن ؀‪39‬‬ ‫فوذ و‬‫ضع ه ا‬ ‫م ال ذ ا‬
‫م ذ‬ ‫ك ها ا‬ ‫ل‬
‫ه الل یلهه فوااولى ىه و‬ ‫ج و‬
‫ن وو ذ‬ ‫كوةض ت ارهي ذد اوذ و‬ ‫وز ی‬

‫‪29‬‬
‫اور یہ جو تم سود دیتققے ےےہو تققاکہےے وہ لوگققوں کققے مققال میققں‬
‫شامل ہو کر بڑھ جائے تو وہ اللہ کے نزدیک بڑھتا نہیققں ےےہےےے۔ )‪(١٨‬‬
‫وۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے ارادے سے دیتققے‬ ‫اور جو زک ی‬
‫ہ و‪ ،‬تو جو لوگ بھی ایسا کرتے ہیں وہ ہیں جو )اپنے مال کو( کئی‬
‫ئ‬
‫گنا بڑھا لیتے ہیں۔‬
‫ق‬
‫ہے۔‬
‫ہ‬ ‫نی‬ ‫ہ‬
‫ہو‬ ‫یان‬ ‫بب‬ ‫بار‬ ‫بار‬
‫ی ی ب ب ی‬ ‫یں‬‫م‬ ‫ید‬ ‫بخ‬
‫م‬ ‫فران‬ ‫سود کی خرمت‬
‫م‬‫حققصر و‬‫ه ال ذب وي ذققعو وو و‬
‫ل الل یلقق ا‬ ‫ل الفَریبوا ۘ ِّ ووا و و‬
‫حقق ص‬ ‫ما ال ذب وي ذعا ه‬
‫مث ذ ا‬ ‫م وقال ا وذ‬
‫وا ا هن ص و‬ ‫ك ب ها ون صھا ذ‬‫س ذ یل ه و‬ ‫م فَ‬‫ن ال ذ و‬‫م و‬ ‫ه‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫و‬
‫ماره وه ا هلى اللققهه ِّۭ‬ ‫و‬
‫ف ۭ ِّ ووا ذ‬
‫سل و‬‫و‬ ‫ما و‬ ‫ه و‬ ‫و‬ ‫و‬ ‫و‬
‫ن صرب فَهه فان ذت ویهى فل ه‬ ‫م ذ‬ ‫ة فَ‬ ‫و‬
‫عظ ل‬ ‫موذ ه‬‫جاَوءه ه و‬ ‫ا‬ ‫ن و‬ ‫م ذ‬ ‫و‬
‫الفَریبوا ۭ ِّ ف و‬
‫ا‬ ‫ل‬
‫ن ؁‪؎65 ٢٧٥‬‬ ‫خل هد اوذ و‬
‫م فهي ذوها ی‬ ‫ب الصناره ِّ ھا ذ‬ ‫ح ا‬ ‫ص ی‬‫ك او ذ‬ ‫عاد و فوااولى ىه و‬ ‫ن و‬ ‫م ذ‬ ‫وو و‬
‫جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ )قیامت میں( اٹھیں گے تققو اس‬
‫شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگققل بنادیققا‬
‫ی‬‫ہو‪ ،‬یہ اس لیے ہوگا کہ انہوں نے کہا تھا کہ ‪ :‬بیع بھی تقو سقود ےے ہ‬
‫کی طرح ہوتی ہے۔ )‪ (١٨٤‬حالنکہ اللہ نے بیع کو حلل کیا ےےےہےےے اور‬
‫سود کو حرام قرار دیا ہے۔ لہذا جس شققخص کققے پققاس اس کققے‬
‫پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئققی اور وہ )سققودی معققاملت‬
‫سے( باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ےےہوا وہےے اسققی کققا ےےہےےے۔ )‪(١٨٥‬‬
‫اور اس ) کی باطنی کیفیت( کا معاملہ اللققہ کققے حققوالے ےےہےےے۔ اور‬
‫جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیا )‪ (١٨٦‬تققو ایسققے لققوگ‬
‫دوزخی ہیں‪ ،‬وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔‬
‫ه ل وعول صك اقق ذ‬
‫م‬ ‫قققوا الل یلقق و‬
‫ة ِّ ووات ص ا‬
‫ف ل‬
‫ضققعو و‬
‫م ی‬ ‫وا ول ت وققا ذ ك ال اققوا الفَرب ویققوا ا و ذ‬
‫ضققوعالفا ي‬ ‫ن ای و‬
‫من اقق ذ‬ ‫ي ویا وي يوھا ال صذ هي ذ و‬
‫‪؎66‬‬ ‫ن ؁‪١٣٠‬‬ ‫حوذ و‬ ‫فل ه ا‬
‫تا ذ‬
‫اے ایمان والو ! کئی گنا بڑھا چڑھا کر سود مققت کھققاؤ‪ ،‬اور‬
‫اللہ سے ڈرو تاکہ تمہیں فلح حاصل ہو‬
‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫ے شبجس سے لوگوں کو معلوما‬
‫چاص ک ییق قییت قمییں م بی یل ہہو بگ‬
‫یامت کے دن سود خور ایبک ق‬ ‫ق‬
‫ہے کہ‬ ‫ساد‬ ‫ار‬ ‫یں‬‫ی‬ ‫م‬ ‫ید‬ ‫بخ‬
‫م‬ ‫فران‬ ‫ے۔‬
‫ھ‬ ‫ہہوگا کہ یہ یلوگ دظب یا مییں سودی لیین دیین کرنے ت‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫ن‬
‫مقق و‬ ‫ن ه‬‫شققي ذط ی ا‬ ‫ه ال ص‬ ‫خب صط اقق ا‬ ‫م ال صققذ هيذ ي وت و و‬ ‫قققوذ ا‬
‫مققا ي و ا‬ ‫ن ا هصل ك و و‬ ‫موذ و‬‫قوذ ا‬ ‫ن الفَریبوا ول ي و ا‬ ‫ن ي وا ذك ال اوذ و‬‫ا ول صذ هي ذ و‬
‫م الفَرب یققوا‬ ‫حصر و‬ ‫ه ال ذب وي ذعو وو و‬
‫ل الل یل ا‬ ‫ح ص‬‫ل الفَریبوا ۘ ِّ ووا و و‬ ‫مث ذ ا‬ ‫ما ال ذب وي ذعا ه‬ ‫وا ا هن ص و‬ ‫م وقال ا وذ‬ ‫ك ب ها ون صھا ذ‬‫س ذ یل ه و‬ ‫م فَ‬ ‫ال ذ و‬
‫ن‬‫مق ذ‬ ‫مقاره وه ا هل و ى الیللقهه ۭ ِّ وو و‬ ‫ف ۭ ِّ ووا و ذ‬‫سل و و‬ ‫ما و‬ ‫ه و‬ ‫ن صرب فَهه وفان ذت ویهى فول و ه‬ ‫م ذ‬ ‫ة فَ‬ ‫عظ و ل‬ ‫موذ ه‬ ‫جااَوءه ه و‬ ‫ن و‬ ‫م ذ‬‫ۭ فو و‬
‫ا‬
‫عاد و فوااوللى ىه و‬
‫‪؎67‬‬ ‫ن ؁‪٢٧٥‬‬ ‫خل هد اوذ و‬ ‫م فهي ذوها ی‬ ‫ب الصناره ِّ ھا ذ‬ ‫ح ا‬‫ص ی‬ ‫ك او ذ‬ ‫و‬
‫جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ )قیامت میں( اٹھیں گے تققو اس‬
‫شخص کی طرح اٹھیں گے جسے شیطان نے چھوکر پاگققل بنادیققا‬
‫ی‬‫ہو‪ ،‬یہ اس لیے ہوگا کہ انہوں نے کہا تھا کہ ‪ :‬بیع بھی تقو سقود ےے ہ‬
‫کی طرح ہوتی ہے۔ )‪ (١٨٤‬حالنکہ اللہ نے بیع کو حلل کیا ےےےہےےے اور‬
‫سود کو حرام قرار دیا ہے۔ لہذا جس شققخص کققے پققاس اس کققے‬
‫پروردگار کی طرف سے نصیحت آگئققی اور وہ )سققودی معققاملت‬
‫‪30‬‬
‫سے( باز آگیا تو ماضی میں جو کچھ ےےہوا وہےے اسققی کققا ےےہےےے۔ )‪(١٨٥‬‬
‫اور اس ) کی باطنی کیفیت( کا معاملہ اللققہ کققے حققوالے ےےہےےے۔ اور‬
‫جس شخص نے لوٹ کر پھر وہی کام کیا )‪ (١٨٦‬تققو ایسققے لققوگ‬
‫دوزخی ہیں‪ ،‬وہ ہمیشہ اسی میں رہیں گے۔‬
‫ٹ‬
‫ظ‬ ‫ظ‬
‫‪ 2‬۔ بخوا یبا س بہ ظب‬
‫بازی‬
‫ہے ‪ ،‬ب ظ قخوا اور شسٹبہ ببازی ضرف ظوہ‬
‫ت‬ ‫ہ‬ ‫کی‬ ‫عت‬ ‫ت‬ ‫ا‬‫م‬‫م‬‫ق‬ ‫حت‬ ‫ش‬ ‫خوا یبا سٹبہ ببازی کی‬
‫لما نے ب ق‬ ‫ا ظس ق‬
‫ق‬ ‫ظ‬
‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ظ‬ ‫ی‬
‫یں قھی مخ قلف س ش لوں مییں ہونے‬ ‫ب‬ ‫ب‬
‫ہےم ب لکہ کاروببار اور ببحارت م ی ق‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫پ‬
‫ک‬ ‫قمت سے ہونی ش ہ‬ ‫ب‬
‫یں خو ت قد ر‬ ‫ہی ق‬
‫ب‬ ‫ق‬
‫لف س لوں مییں موخود‬ ‫ی‬
‫خوا ظ‬‫خ‬
‫م‬ ‫ب‬
‫ہے۔عہد بچہالت مییں ببحارنی ظ‬ ‫ظ‬ ‫والی قمار ببازی ھی اس مییں سا ل ہ‬ ‫ق‬
‫ے بپ یتع م ظیاببذہ‪،‬بپت یتع ملمشقبہ‪،‬بپ یتع مصارہ ق)ک ی قکریظ ظ چتھ یی ظیک کر بپ یتع کربا( وغیترہ ت ٹھی ۔ اج کے‬ ‫قت قھا بجی ظس‬
‫ے لتری‪،‬رینس‪ ،‬بخوا‬ ‫ہے بجیس‬ ‫ٹ‬ ‫ب‬ ‫ق‬
‫تر ظقی یبافبہ دور مییں ھی بخوا اور سبہ ببازی ببحارنی ن ظاما مییں موبخود ہ‬
‫وغیترہ‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ق‬ ‫ظ‬
‫ہے۔فران مبخ یید مییں اس کا ذکر یبوں‬ ‫اسلما نے بخوا کی تماما سکلوں کو خراما فرار دیبا ہ‬
‫ہے ۔‬ ‫ہ‬
‫ل‬
‫مقق ه‬
‫ن عو و‬
‫مقق ذ‬
‫س فَ‬
‫جقق ل‬ ‫ب وواذل وذزول ا‬
‫م ره ذ‬ ‫سققار وواذل ون ذ و‬
‫صققا ا‬ ‫مار ووال ذ و‬
‫مي ذ ه‬ ‫خ ذ‬‫ما ال ذ و‬ ‫وا ا هن ص و‬‫من ا وذ‬‫ن ای و‬
‫ي ویا وي يوھاال صذ هي ذ و‬
‫ن ؀‪؎68 90‬‬ ‫حوذ و‬ ‫فل ه ا‬ ‫جت ون هب اوذه ا ل وعول صك ا ذ‬
‫م تا ذ‬ ‫ن وفا ذ‬ ‫ال ص ی‬
‫شي ذط ه‬
‫اے ایمان والو ! شراب‪ ،‬جوا‪ ،‬بتوں کے تھققان اور جققوے کققے‬
‫تیرے )‪ (٦٢‬یہ سب ناپاک شیطانی کام ہیں‪ ،‬لہذا ان سے بچو‪ ،‬تاکہ‬
‫تمہیں فلح حاصل ہو۔‬
‫ظ‬ ‫ظ‬
‫اور اس کے ساقتھ ا ق عالی نے اس کی مما عت کی وجہ بتھی ببق‬
‫ہے۔‬‫ہ‬ ‫دی‬ ‫یا‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫سقره‬ ‫مققره ووال ذ و‬
‫مي ذ ه‬ ‫ضقااَوء هفقيِ ال ذ و‬
‫خ ذ‬ ‫داووة و ووال ذب وغذ و‬‫م ال ذعوقق و‬ ‫ن او ذ‬
‫ن ي يوذقهعو ب وي ذن وك اقق ا‬ ‫شي ذط ی ا‬
‫ما ي ارهي ذد ا ال ص‬
‫ا هن ص و‬
‫ن ‪ 91‬؀‬ ‫من ذت وهاوذ و‬
‫م ي‬‫ل ا ون ذت ا ذ‬
‫صیلوةه ِّ فوهو ذ‬ ‫ن ال ص‬ ‫یل‬
‫ن ذ هك ذره اللهه ووع و ه‬‫م عو ذ‬‫صد صك ا ذ‬‫ووي و ا‬
‫‪؎69‬‬
‫شیطان تو یہی چاہتا ہے کہ شراب اور ج وے کقے ذریعقے تم ےےہارےےے‬
‫درمیان دشمنی اور بغض کے بیج ڈال دے‪ ،‬اور تمہیں اللہ کی یققاد‬
‫اور نماز سے روک دے۔ اب بتاؤ کہ کیا تققم )ان چیققزوں سققے( بققاز‬
‫آجاؤ گے ؟‬

‫ظ‬
‫‪ 3‬۔اسراف اور قب بیذ یتر‬
‫ب ظ ق ق‬ ‫نے کا چکم دبق‬ ‫ظ‬
‫ے کی بل فیین‬ ‫اور اسراف سے ظچبن‬ ‫ق‬ ‫ہے‬‫ہ‬ ‫یا‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫کر‬ ‫خرچ‬ ‫طرز چتر‬‫ق‬ ‫اسلما مال کو م ظیاسب‬ ‫ق‬
‫ع‬‫م‬ ‫ظ‬ ‫ئ‬
‫ہے۔‬ ‫ہے۔اسراف اور ظ ب بیذیتر کم ی قیں مولی فرق ہ‬ ‫ظ‬ ‫یں ا ظع یدال قچنس ید کربا ہ‬ ‫ہے۔اسلما ہہر کاما م ی ئ‬ ‫کربا ہ‬
‫ے ہہییں۔ مش ی ظل اینسا ظگراں‬ ‫ے بت غیتر چد ظاع یدال سے زیبادہ خرچ کرنے کو ہن‬ ‫قاسراف کسی چچیتز کو ظصا ق تع کن‬
‫نے کو‬ ‫ے کھا ق‬ ‫دس گ ظیا زیبادہ ہہو یبا ا چپن‬ ‫ق‬ ‫یمت ل بیاس بجس کی ق ی قیمت ہہماری ضرورت کے ل بیاس سے ظ‬ ‫ق ی قق ظ‬
‫سے ببحاوز‬ ‫ے یپہاں چد ق‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ق‬
‫ے سے ظب ییار کرییں بجس ظ سے دس قادمییوں کا ھابا ب ییار ہو ک‬ ‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫ت‬
‫ے زیبادہ چ یس‬ ‫ا پن‬
‫ہے کہ کسی چچیتز کو اس طرح ا ظست قعمال یبا‬ ‫ب ی ی ہ‬‫یہ‬ ‫ظ‬ ‫تر‬ ‫یذ‬ ‫ب‬ ‫نی‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫یں‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫پ‬
‫ب ب ی‬ ‫اد‬ ‫ب‬ ‫تر‬ ‫اور‬ ‫تع‬ ‫ئ‬
‫صا‬ ‫تز‬ ‫چ‬
‫چ‬ ‫نی‬ ‫کو‬ ‫گر‬
‫ئ‬ ‫م‬ ‫ہ ظہونی ہ‬
‫ہے‬
‫ک‬ ‫ئ‬ ‫م‬ ‫ش‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫ی‬
‫ےدس ادم ئییوں کا ھابا ب ییار ک ییا‬ ‫ی‬
‫نےکہ وہ ئصا تع یبا بتر ظبباد ہوبچانے م ل دو ہمابوں کے یلن‬ ‫خرچ ئ ک ییا بچا ب‬
‫ے ہہونے کھانے کو کھوڑے دان مییں ڈال کر ظصا تع ک ییا بچانے بج ی سا کہ بتعض‬ ‫بچانے اور چبچ‬

‫‪31‬‬
‫ظ‬ ‫بب ظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫ق‬
‫دولت م ظید لوگ کرنے ہہییں ۔ فران مبخ یید مییں اسراف اور ب بیذیتر سے چن‬
‫ے کے واصح احکامات‬
‫ہہییں۔‬
‫ه ول‬
‫وا ِّ ا هن صقق ه‬ ‫وا ووول ت ا ذ‬
‫سققرهفا ذ‬ ‫شققورب ا ذ‬ ‫جد ض وصك ال اقق ذ‬
‫وا ووا ذ‬ ‫س ه‬
‫م ذ‬ ‫عن ذد و ك ا فَ‬
‫ل و‬ ‫خذ اذوا زهي ذن وت وك ا ذ‬
‫م ه‬ ‫م ا‬ ‫يِ ا ید و و‬
‫ي یب ون ه وذ‬
‫ن ؀‪؎70 31‬‬ ‫سرهفهي ذ و‬ ‫ب ال ذ ا‬
‫م ذ‬ ‫ح ي‬ ‫يا ه‬
‫اے آدم کے بیٹو اور بیققٹیو ! جققب کبھققی مسققجد میققں آؤ تققو اپنققی‬
‫خوشنمائی کا سامان )یعنی لباس جسم پر( لے کققر آؤ‪ ،‬اور کھققاؤ‬
‫اور پیو‪ ،‬اور فضول خرچی مت کرو۔ یاد رکھو کہ اللہ فضول خرچ‬
‫لوگوں کو پسند نہیں کرتا۔‬
‫فققوذلرا ؀‪27‬‬ ‫شققي ذط ی ا‬
‫ن ل هورب فَققهه ك و ا‬ ‫ن ِّۭ ووك وققا و‬
‫ن ال ص‬ ‫ن ال ص‬
‫شققي یط هي ذ ه‬ ‫وا و‬
‫خقق و‬ ‫ن ك وققان ا وذ‬
‫وا ا ه ذ‬ ‫ن ال ذ ا‬
‫مب وققذ فَرهي ذ و‬ ‫اه ص‬
‫‪؎71‬‬
‫یقین جانو کہ ج و لقوگ ب ےےےہودہےے کقاموں می ں مقال اڑاتقے ہیقں‪ ،‬وہ‬
‫شیطان کے بھائی ہیں‪ ،‬اور شیطان اپنے پروردگار کا بققڑا ناشققکرا‬
‫ہے۔‬
‫ظ ق‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫ہے۔‬‫ہ‬ ‫با‬ ‫فرما‬ ‫یں‬ ‫م‬
‫ی ی‬‫ید‬ ‫بخ‬
‫م‬ ‫فران‬ ‫عالی‬‫ات‬
‫ل ووول ت اب وذ فَذر ت وب ذذ هي ذلرا ؀‪26‬‬
‫سب هي ذ ه‬
‫ن ال ص‬
‫ن وواب ذ و‬
‫سك هي ذ و‬ ‫ه ووال ذ ه‬
‫م ذ‬ ‫ق ه‬
‫ح ص‬ ‫ت وذا ال ذ ا‬
‫قذریبى و‬ ‫ووا ی ه‬
‫‪؎72‬‬
‫اور رشتہ دار کو اس کا حق دو ‪ ،‬اور مسکین اور مسافر کققو )ان‬
‫بظ‬
‫کا حق( اور اپنے مال کو بےہودہ کاموں میں نہ اڑاؤ‬
‫ح‬ ‫ب‬
‫‪4‬۔ ل‬
‫ش ظ‬ ‫ب ظبح ک ق‬ ‫ظ‬ ‫ئ ق ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ش‬
‫ے ا ی ظبک حص‬ ‫ج‬‫ب‬
‫ے ہہییں۔ یس‬ ‫کے بچاتز مو فع چتر خرچ کرنے سے گریتز کو ل ظ ہن‬ ‫نے‬ ‫کر‬ ‫خرچ‬ ‫ق‬
‫ظ‬
‫ے مگر وہ ظ قیہ خریبدے۔‬ ‫بوں مییں گرما کچتڑے بخر یظبد س ظک‬ ‫تی ظ‬‫سرد‬ ‫ظ‬ ‫ے‬
‫ن‬‫یل‬ ‫کے‬
‫ش‬ ‫اولد‬ ‫ے‬
‫ن‬ ‫چپ ق‬ ‫ا‬ ‫کہ‬ ‫ہ‬
‫ہو‬ ‫ظاعت‬‫ق‬ ‫ظ‬ ‫کی ا ت‬
‫س‬ ‫بظ‬
‫جے کا‬ ‫ق‬ ‫ح‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ک‬
‫ے ہہییں م یل ھا ق‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫کے م ظ‬‫خ‬ ‫ح‬ ‫ب‬
‫ے مییں ئل ظکربا اور کم تر در ع ب‬ ‫ے ظکے معا ل‬ ‫نے چ ین‬ ‫لف ٹطر یق‬ ‫ظل ق‬
‫اولد کی ظبچا ظتز ضروریبات مش یل ت بل ظییم یبا‬ ‫عمال کربا‪،‬گ ظھی ییا مع ییار کے ظکچتڑے استعمال کربا‪،‬بپییوی یبا ب ظ‬ ‫کھابا است ظ‬
‫ح‬‫ب‬
‫یں ل کربا ظوغیترہ ۔ ئاسلما مییں ل‬ ‫ح‬ ‫ب‬ ‫م‬
‫حت چتر ظخرچ کرنے سے قگریتز کربا‪،‬سواری ب ظکے معا ظ ل‬
‫ے می ظ‬ ‫ح‬ ‫ب‬
‫ص ظ‬
‫ہے۔‬‫ہے۔ فران مبخ یید مییں ل کی شحت ال قاظ مییں مماتعت انی ہ‬ ‫کرنے چتر شحت وع یید ہ‬
‫ن فو ذ‬
‫ضققل هههۭ ِّ‬ ‫مقق ذ‬ ‫م الل یلقق ا‬
‫ه ه‬ ‫مققا ا ییتىھاقق ا‬
‫ن و‬ ‫ل ووي وك ذت ا ا‬
‫مققوذ و‬ ‫س هبال ذب ا ذ‬
‫خ ه‬ ‫ن الصنا و‬ ‫ماروذ و‬‫ن ووي وا ذ ا‬ ‫خل اوذ و‬ ‫ن ي وب ذ و‬‫ال صذ هي ذ و‬
‫؀‪؎73 37‬‬ ‫مههي ذلنا‬ ‫ن عو و‬
‫ذالبا ي‬ ‫فرهي ذ و‬‫ووا وع ذت ود ذونا ل هل ذك ی ه‬
‫ایسے لوگ جو خود بھی کنجوسققی کرتققے ہیققں اور دوسققروں کققو‬
‫بھی کنجوسی کی تلقین کرتے ہیں‪ ،‬اور اللہ نے ان کو اپنے فضققل‬
‫سے جو کچھ دے رکھا ہے اسے چھپققاتے ہیققں‪ ،‬اور ےےہم نققےےے ایسققے‬
‫ناشکروں کے لیے زلیل کردینے وال عذاب تیار رکھا ہے‬
‫ة‬
‫ن فهققيِ‬ ‫خل وققد وه ه ۝‪Ǽ‬ك وصل ل وي اینب وققذ و ص‬ ‫ه او ذ‬ ‫مققال و وه‬ ‫ب او ص‬
‫ن و‬ ‫س ا‬‫ح و‬ ‫مالل وصع ود صد وه ه ۙ۝‪Ą‬ي و ذ‬
‫معو و‬ ‫ال صذ هيذ و‬
‫ج و‬
‫موذقوققد وة ا ۙ۝‪Č‬ال صت هقق ذ‬
‫يِ‬ ‫ة ۭ۝‪Ć‬ن وققاار الل لیققهه ال ذ ا‬ ‫حط و و‬
‫مقق ا‬ ‫ما ال ذ ا‬ ‫ما ا ود ذیرى و‬
‫ك و‬ ‫مةه ۝‪Ć‬ڮوو و‬ ‫حط و و‬‫ال ذ ا‬
‫‪؎74‬‬ ‫وتقط صهلققعا ع ووليِ اذل وذفقـ ىد وةه ۭ۝‪Ċ‬‬

‫‪32‬‬
‫جس نے مال اکٹھا کیا ہو اور اسے گنتا رہتا ہو۔ وہ سمجھتا ےےہےےے کققہ‬
‫اسکا مال اسے ہمیشہ زنققدہ رکھققے گققا۔ ہرگققز نہیققں ! اس کققو تققو‬
‫ایسی جگہ میں پھینکا جائے گا جو چورا چورا کرنے والی ہے۔ اور‬
‫تمہیں کیا معلوم وہ چورا چورا کرنے والی چیز کیا ہے ؟ اللققہ کققی‬
‫سلگائی ہوئی آگ جو دلوں تک جا چڑھے گی۔‬
‫يِ‬
‫ن فه ذ‬
‫جد اوذ و‬‫م ووول ي و ه‬‫جور ا هل وي ذهه ذ‬
‫ها و‬
‫ن و‬ ‫م ذ‬‫ن و‬ ‫حب يوذ و‬ ‫م يا ه‬‫ن قوب ذل ههه ذ‬
‫م ذ‬‫ن ه‬ ‫ما و‬ ‫داور وواذل هي ذ و‬ ‫ن ت وب ووصؤ ا ال ص‬‫ووال صذ هي ذ و‬
‫ة‬
‫صق ل‬
‫صا و‬‫خ و‬ ‫م و‬ ‫م ووولقوذ ك و ا و‬
‫ن ب هههق ذ‬ ‫سقهه ذ‬‫ف ه‬‫ن ع وویلقيِ ا ون ذ ا‬ ‫وا ووايقؤ ذث هاروذ و‬ ‫ذ‬ ‫ما ا اوذت ا‬‫م ص‬
‫ة فَ‬ ‫ج ل‬
‫حا و‬‫م و‬ ‫صد اوذرهه ه ذ‬ ‫ا‬
‫ذ‬ ‫و‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫ا‬
‫۝‪؎75 Ḍ‬‬ ‫ن‬‫حوذ و‬ ‫فل ه ا‬
‫م ذ‬
‫م ال ا‬ ‫سهه فاولى ىهك ها ا‬ ‫و‬ ‫ف ه‬‫ح نو ذ‬‫ش ص‬ ‫ن ي يوذقو ا‬ ‫م ذ‬‫ڵ وو و‬
‫)اور یہ مال فیئ( ان لوگوں کا حق ہے جو پہلے ہی سے اس جگہ‬
‫)یعنی مدینہ میں( ایمان کے سققاتھ مقیققم ہیققں۔ )‪ (٧‬جققو کققوئی ان‬
‫کے پاس ہجرت کے آتا ہے یہ اس سے محبت کرتے ہیققں‪ ،‬اور جققو‬
‫کچھ ان )مہاجرین( کو دیا جاتا ہے‪ ،‬یہ اپنے سققینوں میققں اس کقی‬
‫کوئی خواہش بھی محسوس نہیں کرتے‪ ،‬اور ان کققو اپنققے آپ پققر‬
‫ترجیح دیتے ہیں‪ ،‬چاہے ان پر تنگ دستی کی حالت گزر رہی ےےہ۔وےے )‬
‫‪ (٨‬اور جو لوگ اپنی طبیعت کے بخل سے محفوظ ہوجائیں‪ ،‬وہی‬
‫ہیں جو فلح پانے والے ہیں۔‬
‫ق‬
‫ظ ظ ظ‬
‫‪ 5‬۔ا کی ظیاز‬
‫ظ ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق ظ‬
‫ے معنی خزا ظنے کا دولت سے چتر ہہوبا یتعنی بپہت بتڑی‬ ‫ہے بجسک‬
‫ہ‬ ‫ش‬ ‫ل‬‫ک‬‫ن‬ ‫اک بی ظیاز کتز ظ سے‬
‫ہے بجس کی زکواۃ ادا ظیہ کی‬
‫ہے۔ سرعی اص ظلح مییں کتز سے مراد وہ مال ہ‬ ‫دولت کا حمع ہہوبا ہ‬ ‫ئ‬
‫بچانے۔‬
‫‪ 6‬۔ا ج قنکار‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫یت ق ظ ش ظ‬ ‫م ظ ظ ظ‬ ‫ق‬
‫باس روکے رکھ ظیا باکہ‬ ‫ئ‬ ‫ے‬‫ن‬ ‫ا‬
‫ی ظ ظ چپ چ‬ ‫کو‬ ‫یہ‬ ‫ضرور‬ ‫یا‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫نی‬
‫قیی ق ی‬ ‫ع‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫کے‬ ‫بدوزی‬ ‫ق اجنکار کے عنی قذچیترہ ا‬
‫نے۔اس ل ظسے‬‫عم‬ ‫کی قلت ظہو ظبچاے ق او ر اس کی میوں مییں اصافہ ہوبچا‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ب شبازار مییں قاس کی رسد ظ‬
‫ظ‬ ‫یوں قمییں مص‬‫اس ییا ظکی قییم ظ‬
‫ضرورت ہہواور ذچیترہ‬
‫ہے۔اگر کسی چچیتز کی عاما لوگوں کو ق‬ ‫ہ‬ ‫با‬ ‫چا‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ہ‬
‫ہو‬ ‫فہ‬ ‫صا‬ ‫ا‬ ‫ظ‬
‫یوعی‬
‫لوگوں ظکو نکل ییف ہہو یبا وہ‬ ‫ظ‬
‫ے ئمییں اسانی سے دسی ییاب ظ‬
‫یہ قہہو بجس‬ ‫ت‬
‫قکر ظنے ظکے ی ی بیچ‬
‫سے یعاما ظ‬ ‫کی و شبجہ ق‬‫ظ‬
‫اپنی مہ یگی ظ ہہوبچانے کہ عاما لوگوں کو اس سے قصان کا چدشہ ہہو بو انسی ذچیترہ ابدوزی اسلما کی‬
‫ت‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫رو سے ممیوع ہ‬
‫ہے۔‬
‫ظ‬ ‫ق‬
‫جہ ببال احکامات س قلمی اقممنصادی قن ظاما کے ظچدوظچال واصح کرنے ہہییں ۔بجس چترعمل کرکے‬ ‫ظ‬
‫م یدر ب ظ‬
‫ہے۔‬ ‫ایبک قلحای ریباست کا ق ییاما کن ہہوسک یا ہ‬

‫‪33‬‬
‫خوالہ بچات‬
Robbins Lionel “Essay on the nature and significance of economic .1
science”(1932 {1935) (p 15 {p16)
Smith Adam “An enquiry into the nature and causes of the wealth of .2
.nations

‫ش ق‬
”Marshal Alfred “Principles of Economics .3
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ٹ‬ ‫ب‬
‫مکتببہ داب ییال‬7 ‫ چتروف ی سر اسلما اور بچدیبدمعاشی نصورات ص‬،‫ ڈاکتر‬،‫ م تع ییم‬،‫ بخوالہ صدتیقی‬.4
2015 ‫سظبہ‬
https://economicsconcepts.com/economics as a science of wealth.htm .5
https://economicsconcepts.com/economics as a science of wealth.htm .6
Marshel Alfred (1890},1.1.1–2) quoted a journel article. Retrospective .7
on the definition of economics Roger E.Backhouse and Steven G
Medema. The journal of Econmics perspective. Vol 23 No. 1 (winter
.2009) pp-224 pulished by Americian Economics Association
Robbins Lionel “Essay on the nature and significance of economic .8
science”(1932 {1935) (p 15 {p16)
By Phillip H wicksteed, “The common sense of political economy .9
including the studyof human basis of economic law” chapter one P.14
.Macmillan Co ltd London 1910
More, Thomas, Sir, on the best state of republic and the new island of .10
Utopia published in English 1551
Critique of Gotha Program by Karl Marx Part. 1 page 15, progress .11
.publishers Moscow 1970

34
‫‪An attempt to define socialism” John Martin. The Americian “ .12‬‬
‫‪Econmic Review vol. 1. No 2 (april 1911) P_348-349 published by‬‬
‫‪.Americian Economic Association‬‬
‫‪An attempt to define socialism” John Martin. The Americian “ .13‬‬
‫‪Econmic Review vol. 1. No 2 (april 1911) P_348-349 published by‬‬

‫ق‬
‫‪.Americian Economic Association‬‬
‫‪ .1‬سورۃ ال ظی ی قین ‪95/04‬‬
‫‪ .2‬سورۃ ال قابچۃ ‪1/2‬‬
‫ظ‬ ‫چب ی ش‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫ٹ ق‬ ‫‪51/22‬‬ ‫الزاریبات‬ ‫‪ .3‬بسورۃ ق‬
‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫س‬
‫‪ .4‬بخوالہ ال قادری‪ ،‬طاہہر‪ ،‬ڈاکتر‪ ،‬اقنصادیبات ا لما ص‪ ،52-51:‬منہاج ا فران لکشتز لہور‬
‫ظ‬ ‫ا‬
‫ظ‬ ‫تق ش‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ظمارچ ‪2007‬‬
‫‪ .5‬غزالی‪ ،‬اما ما بحچۃ السلما ‪،‬کییم ییا سعادت اردو ‪ ،‬ص‪ ،236:‬مترحم مولبا م سع یید احمد قس بی یدی‬
‫ظ‬ ‫ش‬ ‫بخون ‪1999‬‬
‫حدث دہہلوی‪ ،‬ولیع ا‪ ،‬ق قساہ‪ ،‬بحچۃ ال بیالعہ ج‪ ،1:‬ص‪43:‬‬ ‫‪ .6‬م ق‬
‫ظظ‬ ‫ٹ ظ‬ ‫قق‬ ‫ظظ‬ ‫ع‬
‫‪ .7‬م اق بیال ‪ ،‬ظ لماہ لم القنصاد‪ ،‬د یب بیا ق چ قجہ‬
‫‪ .8‬ی ش یسیوہہ ظاروی‪،‬ح فظ الرحمان‪ ،‬اسلما کا اقنصادی ن ظاما‪ ،‬ص‪ ،54:‬ترپییب بچدیبد ڈاکتر بور م غ قاری‬
‫ئ‬ ‫ٹ‬ ‫سظ‬ ‫ظ‬ ‫ش ظ‬ ‫ظس ظیخ الہ ید ا ظک ییڈمی کرا چ ٹحای‬
‫ی‬
‫‪ .9‬غ قاری‪ ،‬بورم‪ ،‬ڈاکتر اسلما کا معاشی ن ظاما دیبال گھ ترسٹ لببتریتری لہہور‪ ،‬دسمبتر ‪1994‬‬
‫‪Samuelson Paul A Foundation of Economic Anaylsis .10‬‬
‫‪1983, Haward University, Press‬‬
‫‪.11‬سورۃ ا بلجمعہ ظ ظ‪62/10‬‬
‫‪ .12‬سورۃ مط ف فیین ‪1-83/3‬‬
‫‪ .13‬سورۃ ر قحمن ‪55/9‬‬
‫‪ .14‬سورۃ تبفرہ ‪2/289‬‬
‫الغراف ‪7/10‬‬
‫‪ .15‬سورۃ ش‬
‫‪ .16‬سورۃ الحسر ‪59/7‬‬
‫‪ .17‬سورۃ الزاریبات ‪51/22‬‬
‫‪ .18‬سورۃ البحجر ‪15/20‬‬
‫‪ .19‬صحیح بخاری‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 166‬حدیث مرفوع‬
‫مکررات ‪ 3‬متفق علیہ ‪1‬‬
‫‪ .20‬تخریج دارالدعوہ ‪ :‬سنن ابن ماجہ‪/‬التجارات ‪، (٢١٩٩) ٢٦‬‬
‫)تحفة الشراف ‪ ، (١٢٣٧٥ :‬وقد أخرجہ ‪ :‬مسند احمد )‪(٢/٢٥٢‬‬
‫)صحیح (‬
‫‪ .21‬تخریج دارالدعوہ ‪ :‬سنن ابی داود‪ /‬الجہاد ‪ ، (٢٥٩٤) ٧٧‬سنن‬
‫النسائی‪/‬الجہاد ‪) ، (٣١٨١) ٤٣‬تحفة الشراف ‪ ، (١٠٩٢٣ :‬و‬
‫مسند احمد )‪) (٥/١٩٨‬صحیح (‬
‫‪ .22‬قال الشيخ اللبانيِ ‪ :‬صحيح‪ ،‬الصحيحة )‪ ، (779‬صحيح أبيِ‬
‫داود )‪ ، (2335‬التعليق الرغيب )‪(24 / 1‬‬
‫صحيح وضعيف سنن الترمذي اللبانيِ ‪ :‬حديث نمبر ‪1702‬‬

‫‪35‬‬
‫‪ .23‬تخریج دارالدعوہ ‪ :‬تفرد بہ أبو داود‪) ،‬تحفة الشراف ‪:‬‬
‫‪) (١٢٩٣٩‬ضعیف( )ابو حیان تیمی مجہول ہیں‪ ،‬ابن الزبرقان‬
‫نے ابوہریرہ رضی‪+‬اللہ‪+‬عنہ کا ذکر کیا ہے‪ ،‬دار قطنی )‪(٣٠٣‬‬
‫میں اور جریر نے ابوہریرہ رضی‪+‬اللہ‪+‬عنہ کا ذکر نہیں کیا‬
‫ہے‪ ،‬ملحظہ ہو ‪ :‬التلخیص الحبیر‪ ،‬و الرواء ‪( ١٤٦٨‬صحیح‬
‫بخاری‪:‬جلد اول‪:‬حدیث نمبر ‪ 2397‬حدیث مرفوع مکررات ‪17‬‬
‫متفق علیہ ‪6‬‬
‫‪ .24‬سنن ابوداؤد‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 1310‬حدیث مرفوع‬
‫مکررات ‪ 8‬متفق علیہ ‪0‬‬
‫‪ .25‬سنن ابن ماجہ‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 295‬حدیث مرفوع‬
‫مکررات ‪ 20‬متفق علیہ ‪0‬‬
‫‪ .26‬صحیح مسلم‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 1571‬حدیث مرفوع‬
‫مکررات ‪ 53‬متفق علیہ ‪27‬‬
‫‪ .27‬سنن ابوداؤد‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 1578‬حدیث مرفوع‬
‫مکررات ‪ 9‬متفق علیہ ‪0‬‬
‫‪ .28‬صحیح بخاری‪:‬جلد اول‪:‬حدیث نمبر ‪ 2082‬حدیث مرفوع‬
‫مکررات ‪ 26‬متفق علیہ ‪13‬‬
‫‪ .29‬صحیح بخاری‪:‬جلد اول‪:‬حدیث نمبر ‪ 2380‬حدیث متواتر‬
‫حدیث مرفوع مکررات ‪ 23‬متفق علیہ ‪3‬‬
‫‪ .30‬سنن نسائی‪:‬جلد سوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 188‬حدیث مقطوع‬
‫مکررات ‪ 2‬متفق علیہ ‪0‬‬
‫‪ .31‬سنن ابن ماجہ‪:‬جلد دوم‪:‬حدیث نمبر ‪ 601‬حدیث مرفوع‬
‫ظ‬ ‫چب بی ش‬ ‫شظ ظظ‬ ‫مکررات ‪ 7‬متفق علیہ ‪0‬‬
‫‪ .32‬مودودی‪ ،‬اببوالعلیی ‪،‬اسلما اور بچدیبد معاسنی ن ظریبات ص‪ 97 :‬اسلمک لک یشتز لہور‬
‫ہ‬
‫ا‬ ‫ق ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ص‬ ‫لظ ظ‬ ‫ظ‬ ‫‪1969‬‬
‫قدوسیبہ اردو ببازار‬ ‫بہ‬ ‫ت‬ ‫مک‬ ‫‪80‬‬ ‫ص‪:‬‬ ‫عات‬ ‫ل‬‫ل‬‫ا‬ ‫یاح‬ ‫ص‬
‫م ب‬ ‫با‪،‬‬ ‫مول‬ ‫ل‪،‬‬ ‫ق‬ ‫بوا‬‫ب‬ ‫ا‬ ‫یظ‪،‬‬ ‫ح‬
‫ب قی‬‫ل‬ ‫یدا‬ ‫ع‬ ‫یاوی‪،‬‬ ‫‪ .33‬ببل ی‬
‫ق‬ ‫ب‬
‫ش‬ ‫قق‬ ‫ظظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫لہہور ‪1999‬‬
‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫لما کا اقن ی شصادی ظ ن ظاما ص‪ ،229:‬ترپییب بچدیبد ق ی ل ‪،‬‬ ‫ح‬
‫اروی ‪ ،‬ح ظفظ الر ٹ ظ‬
‫ظ‬ ‫من ‪،‬اس ظ‬ ‫‪ 34‬ق‪ .‬یسیوہہ ق ظ ی‬
‫س‬
‫قاری‪ ،‬یخ الہ ظ ظیدی اک ییڈمی کرا چحای ق ق‬‫ڈاکتر بورم غ ق ق‬ ‫پبیویبب‪ ،‬بجر بج چترو ظف ی سر‬
‫لما کا اقن ی شصادی ظ ن ظاما ص‪ ،229:‬ترپییب بچدیبد نشہ ییل ‪،‬‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫س‬ ‫‪،‬ا‬ ‫من‬ ‫ح‬
‫اروی ‪ ،‬ح ظفظ ٹ ظ‬
‫الر‬ ‫‪ 35‬ق‪ .‬یسیوہہ ق ظ ی‬
‫‪ 2013‬اسلمک چب بی یی ششتزظ‬ ‫بورم غ قاری‪ ،‬سیخ الہ یدی اک ییڈمی کرا چحای‬ ‫پبیویبب‪ ،‬بجر بج بچتروف یعسر ڈاکتر ش‬
‫ظل ک‬ ‫س‬
‫‪ .36‬ئمودودی‪ ،‬ا ٹبوال لیی ‪،‬معاس ییات ا لما ص‪ 320:‬اگشت‬
‫ق‬
‫ظ‬
‫ت‬ ‫ح‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ق ی‬ ‫ا)چتراپییویبٹح (لم یی یڈ ل ہ ظ‬
‫ہور‬
‫ج‬
‫لماہ ‪ ،‬بار بخ ابین لدو ن مترحم ک ییم احمد شیین ییس اک ییڈمی‬ ‫چ‬ ‫لدون‪ ،‬ع ی ش‬ ‫چ‬
‫‪ .37‬ع بیدالر من ‪ ،‬بابین ک چم ٹ‬
‫ق‬ ‫‪2003‬‬ ‫شن‬ ‫ن‬ ‫اردو ببازار کرا چحای طتع بچدیبد یییو ی‬
‫بڈ‬‫ا‬ ‫تر‬
‫ش‬ ‫قق‬ ‫ظظ‬ ‫قق‬ ‫‪ .38‬سورۃ المعارج ظ‪24-70/25‬‬
‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫لما کا اقنصادی ن ظاما ص‪ ،249:‬ترپییب بچدیبد ی ل ‪،‬‬ ‫ش‬ ‫من ‪،‬اس‬ ‫ظ‬ ‫‪ .39‬یسیوہہ قاروی ‪ ،‬ح ظفظ الرح‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ٹ‬ ‫ظ ی‬ ‫ق‬
‫پبیویبب‪ ،‬بجر بج چتروف ی سر ڈاکتر بورم غ قاری‪ ،‬یسیخ الہ ظیدی اک ییڈمی کرا چحای‬
‫‪ .40‬سورۃ قالغراف ‪7/156‬‬
‫‪ .41‬سورۃ تبفرہ ‪2/43‬‬

‫‪36‬‬
‫ق‬
‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫قق‬ ‫ظظ‬ ‫قق‬ ‫ظ‬
‫چدیبد ی ل ‪،‬‬ ‫لما کا اقن یصادی ظ ن ظاما ص‪ ،253:‬ترپییب قب‬ ‫ش‬ ‫من ‪،‬اس ظظ‬ ‫اروی ‪ ،‬ح ظفظ الرح ٹ ظ‬ ‫‪ 42‬ق‪ .‬یسیوہہ ق ظ ی‬
‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ش‬ ‫ن‬ ‫قاری‪ ،‬شسیخ ظال ظہ یدی اک ییڈمی کرا چ ق ق‬
‫حای‬ ‫پبیویبب‪ ،‬بجر بجح ظچتروف ی سرح ڈاکتر بورم غ ق ق‬
‫ہاروی ی‪ ،‬فظ ظالر منٹ ظ‪،‬اسلما ظکظا اقنصادی ن ظاما ص‪ ،244:‬ترپییب بچدیبد ی ل ‪،‬‬
‫ظ‬ ‫ی‬ ‫‪ 43‬ق‪ .‬یسیو ہ ق ظ‬
‫ق‬ ‫پبیویبب‪ ،‬ظبجر بج چتروفیسر ڈاکتر بورم غ قاری‪ ،‬سیخ الہ یدی اک ییڈمی کرا چحای‬
‫ش‬ ‫ق ق‬ ‫ظظ‬ ‫قق‬ ‫‪6/141‬‬ ‫‪ .44‬سورۃ التعاما ظ‬
‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ش‬ ‫ح‬
‫اروی ‪ ،‬ح فظ الر ٹ ظ‬
‫لما کا اقن یصادی ظ ن ظاما ص‪ ،247:‬ترپییب بچدیبد ی ل ‪،‬‬ ‫ظ‬ ‫س‬
‫من ‪،‬ا ظ‬ ‫ظ‬ ‫‪ 45‬ق‪ .‬یسیوہہ ق ظ ی‬
‫پبیویبب‪ ،‬بجر شبج چتروف ی سر ڈاکتر بورم غ قاری‪ ،‬سیخ الہ یدی اک ییڈمی کرا چحای‬
‫‪ .46‬سورۃ ا قلحسر ‪7/59‬‬
‫ش‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫قق‬ ‫ق‬ ‫‪9/29‬‬ ‫ق‬ ‫‪ .47‬سورۃ الیوبیۃ‬
‫ب‬
‫قاسم‪ ،‬اببوع بی یید ق‪ ،‬قاماما ک یاب الموال بچلد اول ص‪ 71 :‬ت قد ییم و ترحمہ و بحشیبہ‬ ‫ق‬ ‫‪ .48‬سلما‪ ،‬بین‪ ،‬ال ق‬
‫ش‬ ‫ق‬ ‫بق‬ ‫قق‬ ‫س‬
‫قات ا لمی ا لما ابباد‬ ‫س‬ ‫ق‬ ‫ع بیدالرحمن طاہہر قسورنی ادارہ ق یی‬
‫ح‬‫ب‬
‫قاسم‪ ،‬اببوع بی قیید ق‪ ،‬قاماما ک یاب الموال بچلد اول ص‪ 75 :‬ت قد ییم و ترحمہ و بحشیبہ‬ ‫‪ .49‬سلما‪ ،‬بین‪ ،‬ال ق‬
‫ع بیدالرحمن طاہہر سورنی ادارہ ق یی قات اسلمی اسلما ابباد‬ ‫ح‬‫ب‬
‫‪.50‬‬
‫ش‬
‫ق ش‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫قق‬ ‫چ‬
‫ق‬
‫ق‬
‫‪59/7‬‬
‫ق‬ ‫سورۃ الحسر ق‬ ‫‪.51‬‬
‫‪ .52‬لما‪ ،‬بین‪ ،‬ال قاسم‪ ،‬ابوع بی یید ق‪ ،‬قاماما ک یاب الموال ب لد اول ص‪ 100 :‬ت قد ییم و ترحمہ و بحشیبہ‬ ‫ب‬ ‫س‬
‫ق ش‬ ‫بق‬ ‫قق‬ ‫قات اسلمی اسلما ابباد‬ ‫ق‬ ‫ع بیدالرحمن طاہہر قسورنی ادارہ بحق یی‬
‫قاسم‪ ،‬اببوع بی قیید ق‪ ،‬قاماما ک یاب الموال بچلد اول ص‪ 519 :‬ت قد ییم و ترحمہ و بحشیبہ‬ ‫‪ .53‬سلما‪ ،‬بین‪ ،‬ال ق‬
‫من طاہہر سورنی ادارہ ب ق یی قات اسلمی اسلما ابباد‬ ‫ح‬ ‫ح‬
‫ع بیدالر ق‬
‫‪ .54‬سورۃ تبفرہ ‪2/95‬‬
‫ظ ل ظظ ا‬ ‫ظظ‬ ‫قق‬ ‫بات ‪51/19‬‬ ‫‪ .55‬سورۃ الزار ی ظ‬
‫‪ .56‬یسیوہہاری‪ ،‬شح شفظ الرحمن‪ ،‬اسلما کااقنصادی ن ظاما ص‪ 125:‬بدوۃ ا مصن فیین اردو ببازار بچامع‬
‫ظ ل ظظ ا‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫مسبحد دہہلی ط بتع ش ظسم‬
‫‪ .57‬یسیوہہاری‪ ،‬شح شفظ الرحمن‪ ،‬اسلما کااقنصادی ن ظاما ص‪ 125:‬بدوۃ ا مصن فیین اردو ببازار بچامع‬
‫ق ش‬ ‫ق‬ ‫سم‬ ‫مسبحد دہہلی ط بتع ش‬
‫بق‬ ‫قق‬ ‫ق‬
‫قاسم‪ ،‬اببوع بی قیید ق‪ ،‬قاماما ک یاب الموال بچلد اول ص‪ 13 :‬ت قد ییم قو ترحمہ و بحشیبہ‬ ‫‪ .58‬سلما‪ ،‬بین‪ ،‬ال ق‬
‫نشہ ی ق‬ ‫ق ق‬ ‫قات قاسلمی ظ ظاسلما ابباد‬ ‫ع بیدالرحمن طا ہ ظہر سورنی ادارہ ق یی ق‬
‫ح‬‫ب‬
‫فظ ظالرحمن ظ ظ‪،‬اسلما ی شکا اقن ظصادی ن ظاما ص‪ ،261:‬ترپییب بچدیبد ق ی ل ‪ ،‬پبیویبب‪،‬‬ ‫ٹ‬ ‫ہاروی ‪ ،‬ح‬ ‫‪ 59‬ق‪ .‬ظ یسییو ہ ظ‬
‫ش‬ ‫ق ق‬ ‫بجر بج چتروف ی سر ظڈاکتر بورم غ قاری‪ ،‬سیخ قا قلہ یدی ا ظک ظییڈمی کرا چحای‬
‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ن‬ ‫ہاروی ی‪ ،‬ح فظ ظالرحمنٹ ظ‪،‬اسلما ظکا اقن ش‬
‫صادی ن ظظاما ص‪ ،265:‬ترپییب بچدیبد ی ل ‪،‬‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫‪ 60‬ق‪ .‬یسیو ہ ق ظ‬
‫پبیویبب‪ ،‬ب قجر بج چتروف ی سر ڈاکتر بورم غ قاری‪ ،‬سیخ الہ یدی اک ییڈمی کرا چحای‬
‫‪ .61‬سورۃ تبفرہ ‪2/245‬‬
‫‪ .62‬سورۃ ال عمران ‪3/92‬‬
‫‪ .63‬سورۃ قروما ‪30/39‬‬
‫فرہ ‪2/275‬‬ ‫‪ .64‬سورۃ تب ئ‬
‫‪ .65‬سورۃ المابدہ ‪5/90‬‬
‫‪ .66‬سورۃ اغراف ‪7/31‬‬
‫السرا ‪17/27‬‬ ‫‪ .67‬سورۃ ظ‬
‫‪ .68‬سورۃ اللیسا ‪4/37‬‬
‫‪/104‬‬ ‫‪ .69‬سورۃ ا ھمز‬
‫‪.70‬‬
‫‪ .71‬سورۃ السرا ‪17/27‬‬
‫‪ .72‬سورۃ ال ظسرا ‪17/26‬‬
‫‪ .73‬سورۃا للیسا ‪4/37‬‬
‫‪ .74‬سورۃ ا ھ شمز ‪4-104/2‬‬
‫‪ .75‬سورۃ الحسر ‪59/9‬‬

‫‪37‬‬
‫باب دوم‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ش ظظ‬
‫اس باب میں معا شی ن ظر یبات کے ار ت قا کا دوسرا اور تیسرا‬
‫دور بب ییان ہہوا ہ‬
‫ہے‬
‫جوکہ دو فصول پر مشتمل ہے‬
‫سرمایہ دارانہ‬ ‫فصل اول‪:‬‬
‫معاشی نظام‬
‫اشتراکی معاشی‬ ‫فصل دوم ‪:‬‬
‫نظام‬

‫ئ‬
‫بباب دو یم‬
‫فصل اول‬

‫ظ‬ ‫نظام‬
‫ظ‬
‫سرمایہ دارانہ معاشی‬
‫بت ک ق‬ ‫ک یی ٹ‬ ‫ظ‬ ‫ظ ظظ‬
‫ب‬
‫ے ہہییں۔ خو ق کہ‬ ‫ق‬
‫مارکییٹ اکا شبومی ھی ہن‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫ی‬ ‫ی‬
‫ےا گریتزی مییں لزما ظ ظاور فری‬‫چ‬ ‫ب‬ ‫سرماییہ دارایہ ن ظاما بجس‬
‫ے ئچتر سروع ہہوئبی۔اس کی ا بب یدا‬ ‫ظاما کے ظچا تم‬ ‫چاگ ی ٹترداری ن ق‬ ‫یی‬ ‫ہے۔ ی ی ظ ٹ یب ب‬
‫ک‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫بورپ‬ ‫یہ‬ ‫اب غروج چتر ہ‬ ‫ق ق‬
‫بورپ مییں‬ ‫ہ‬
‫ہے سےہوبی اور بتعد ظمییں ی‬ ‫لزما کہا بچا قبا ب ہ‬ ‫ی‬
‫ل ک یی ٹ‬ ‫ی‬
‫ی‬ ‫ی‬‫چ‬ ‫ے مر ظکی یا ی‬
‫داری بجس‬ ‫سرماییہ‬ ‫بب ظ‬
‫ظ‬ ‫حار قنی ظ ق‬
‫ترگ‬ ‫ٹ‬
‫مصنف شترن ب ئ‬ ‫ضتع قنی ات قلب نے اس ظکو ظ ابڈشتر ی ل ی لزما مییں ب بچپید ی ظ ظل کر دیبا۔ ایبک‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫ی‬‫چ‬ ‫ب‬ ‫ٹ‬
‫ے۔‬ ‫ے سال ہہا سال لگ گن‬ ‫ے کے یلن‬ ‫ے ہہییں۔ "سرماییہ داراظیہ ن ظاما کو موبخودہ چالت مییں ہ چین‬ ‫لکھن‬
‫‪38‬‬
‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظق‬ ‫ق‬
‫ظ‬ ‫ل‬ ‫پہ‬
‫چ‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ق‬ ‫پہ‬ ‫ق‬
‫ے ششت ھی گر ‪19‬وییں صدی ظکے قآ ئخر سے ی کر لی عا می بح یگ‬ ‫اس کے ارت ظقا کی رق یار ظ چ قل‬
‫قبک اس نے چیترت اتگیتز ترقی کرلی اور اس کا نسلط ساری دب ییا چتر قابم ہہو گ ییا"‪؎1‬‬
‫ہے۔‬ ‫ھی‬ ‫ا ظ سا یکلو یڈبا تر یت ٹی ی ظ کا میں سرمایہ داری کی ق عرتف بوں لک‬
‫ہ‬ ‫ت ی ی‬ ‫ی‬ ‫ن ن چب ی ی ب یی ین ی‬
‫‪Encyclopedia Britannicaِّ “Capitalism, also called free‬‬
‫‪Market Economy or free enterprise economy‬‬
‫‪,economic system, dominant in the western world‬‬
‫‪since the breakup of feudalism,in which most of‬‬
‫‪the means of production are privately owned and‬‬
‫‪production is guided and income distributed largely‬‬
‫”‪through the operation of markets.‬‬
‫‪Oxford Dictionary “Economic system by which‬‬
‫‪ownership of capital or wealth, the production and‬‬
‫‪distribution of goods, and rewards of labor are‬‬
‫”‪entrusted to , and effected by, private enterprize.‬‬
‫ق‬ ‫ظ‬
‫ہے۔ ق‬ ‫عالمی اردو انسا ین لو چب ییڈیبا مییں اس کی تعریتف یبوں ہ‬‫ک‬
‫ظ‬ ‫ش‬ ‫ق‬
‫ظظ‬
‫نے بچاگ ی قترداری ن ظاما کی قبچگہ‬ ‫جس‬‫ب‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫حای عاشس یانی نسک یی‬ ‫ظ‬ ‫")ک یی چی یی ٹیلزما( سرمایہ داری۔۔۔۔۔شما ب‬
‫ظ‬ ‫م ی‬ ‫ئ‬ ‫ی ظ‬
‫ہے۔قدر‬ ‫یداوار کی ببجی ملکییت اور ا بخرنی مزدور نظکی اسیحمصال چتر ہ‬ ‫یاد ذرابع چب ی ظ‬ ‫ی‬ ‫لی۔سرماییہ داری کی بتی‬
‫زائبد کا حصول سرمایہ دارا ظ‬
‫غرصاہ بتعد‬ ‫صوص‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ح‬ ‫می‪،‬‬ ‫ہے۔ چب ی ظیداوار کی ببد ظ‬ ‫ہ‬ ‫اضول‬ ‫یادی‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ت‬‫ب‬ ‫کا‬‫ظ‬ ‫یداوار‬ ‫ی‬ ‫چب‬ ‫یہ‬ ‫ی‬
‫ق‬
‫بسبمبججران ش قسدیبد ببیتروزگاری‪ ،‬غواما کی غر ببت اور م قاببلہ ببازی ‪ ،‬بجیگییں سرماییہ داری ن ظاما کا ظچاصاہ‬
‫‪؎2‬‬ ‫ھی بچانی ہہییں۔"‬
‫ہے۔‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ا ظ سائب ی کلو یڈبا ٓاف سوسل سائب سز میں ک یی چی یی یلزما کی عرتف اس طرح ہہو ئ‬
‫ق‬ ‫ٹ‬ ‫ظ‬ ‫ش‬
‫ہ‬ ‫ت ی‬ ‫ی ی‬ ‫ن ن چب ی ی‬
‫‪“Capitalism is the economic and political system‬‬
‫‪that in its industrial or “full” first developed in‬‬
‫‪England in the late eighteenth century . Thereafter,‬‬
‫‪it spread over Europe, North America, Australia,‬‬
‫؎‪New Zealand, and South Africa . 3‬‬
‫ق‬ ‫ش ٹ ظ ک یی ٹ‬
‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫بخوزف اے سییم چثتر نے چی یی لزما کی تعریتف یبوں کی‬
‫ی‬
‫ظ‬
‫نے‬ ‫"کسی عا ش شسرے کو اس و ق ظقت سرمایہ دارا ظظیہ مع ی ششت کا چامل عاشسرہ کہا چاقباہے بح یکہ اس ظ ق‬
‫ظ ب ہ ب‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ے م عاشی لئبچہ ق عمل کو ب‬
‫ے‬‫کے یت شی بیچ‬ ‫اس‬ ‫ہو۔‬‫کے رہہ ظتمائبی کے ش چ ظترد کر رکھا ہ‬ ‫ش‬ ‫فراد‬ ‫ا‬ ‫باری‬ ‫ب‬ ‫کارو‬ ‫جی‬ ‫ب‬ ‫م‬
‫ظ‬
‫ن‬ ‫ا چپ‬
‫ی‬ ‫م‬ ‫ئ‬ ‫ب‬
‫ب‬ ‫ظ‬
‫ہے کہ سرماییہ دارا قیہ ق شت مییں اول ظغیتر جی چب ییداواری قذرابع ل‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫س‬
‫مییں ییہ ظ کہا بچا ک قیا ہ‬
‫زمیین‪،‬کائییں‪ ،‬ضتعنی چبلظبٹ اور ان سے متعلقہ دیبگر سازوسامان وغیترہ ببجی ملکییت ہہونے ہہییں۔‬
‫‪؎4‬‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫بورپ سے ہہوئبی۔ چخودہہوییں صدی‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫طرح سرماییہ داراظیہ ن ظاما کی ا ببق یدا بتھی‬ ‫کی‬ ‫ظاما‬ ‫ن‬ ‫چاگتردارا ظ‬
‫یہ‬
‫سے ل ییکر سولہویں صدی ق‬ ‫ب ی‬
‫ہے۔اشی دور سے‬ ‫ظ‬ ‫عاز کا زما ظ‬
‫یہ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ا‬
‫ٓ‬ ‫کے‬ ‫بد‬ ‫چد‬ ‫دور‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫بورپ‬ ‫یہ‬ ‫ظ‬ ‫ش‬
‫زما‬ ‫کا‬ ‫بک‬ ‫ق‬ ‫ظ ظظ ی‬
‫ہ‬ ‫ی ہ ی ظ شب ی‬ ‫ظاما کے ظ‬
‫ہوا۔مخ یلف ساظئبیسی علوما مییں ا ظہہل‬ ‫ظ‬ ‫سروع ہ‬
‫قظ‬ ‫کا ئسفر‬ ‫ہی‬ ‫گا‬
‫ظئ ظئ ظ ظ‬ ‫ٓ‬ ‫ا‬ ‫غورو‬ ‫س‬ ‫اور‬ ‫ے‬‫م‬ ‫ت‬ ‫چا‬ ‫ش‬ ‫ق‬ ‫چاگیتردارایہ ظن ق‬ ‫بظ‬
‫ے ب یی‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬
‫ہ‬ ‫ب‬
‫معرب نے ترقی سروع کی۔ اور بیی بیی جعراق ییابی دریباقیوں نے ا ل معرب کے یلن‬
‫‪39‬‬
‫ظ‬ ‫ق ق‬ ‫ظ ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ے اور قچاما‬ ‫یوعات فروجت کرسکن‬ ‫ے ملک کی مص ظ ظ‬ ‫چہاں وہ ا چپن‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫م ظیڈیبوں کے دروازے وا کئیے‬
‫ے۔ ق‬
‫تماما‬ ‫یاہ اصافے کے موا فع مل ق‬ ‫حارت میں نے چب ظ‬ ‫یداوار چاصل کرسکییں۔بجس‬
‫ل‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ق ی‬ ‫سے بب‬ ‫ظ‬ ‫چب ی ٹ‬
‫ے گی۔ بجس سے بتڑے بتڑے ببحارنی‬ ‫ظ‬ ‫کے ا یبدر اور بباہہر ببحارت بتڑ ق ھ قن‬ ‫بورپ‬ ‫ب‬
‫لوگ نک‬ ‫ق‬ ‫خود ہ یہو ئ‬ ‫کے بباو‬ ‫شرکاوبوں ہ ظ ش‬
‫عاش کی‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫ظ‬ ‫سے‬ ‫یات‬ ‫ی ئ س فص ب ق‬ ‫نی‬ ‫با‬ ‫ر‬ ‫اور‬ ‫تروں‬ ‫ش‬ ‫ب ظی‬‫چاگ‬ ‫بج‬ ‫یدر‬ ‫بب‬ ‫ے۔‬ ‫ب‬ ‫سروع‬ ‫قشہر آبباد ہوبا ش‬
‫حارت‪،‬ضت ظعت اور بچدیبد لمی و‬ ‫ے۔ خوب بب ق ق‬
‫بلش مییں شہروں کا رخ کرکے آبباد ہہوبا قسروع ہہوب ظ ب‬
‫ہوکار اور‬ ‫ہ‬
‫بورژوا ط بیقہ ق عنی سوداگر‪،‬سا ظ‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫ت‬ ‫ل‬‫سرح ییل‬ ‫ظ‬ ‫ے۔اس ظبئی ظی ببحارت کا‬ ‫ین یگن‬ ‫سرگرم بییوں کا قمرکز ب ق‬ ‫ہادبنی ظ‬
‫کی گن ھی۔ترقی کے اس س ظفر مییں‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫تڑ‬ ‫گے‬ ‫ٓ‬ ‫ا‬ ‫بدر‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫جن‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ے۔‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫حار‬ ‫جری‬ ‫اور‬ ‫فہ‬ ‫ا ہ ل خر‬
‫ئ‬ ‫ب ٹھ‬ ‫بک ئبب ظ ظ‬
‫بدگی کو‬ ‫چ‬
‫بوں کی اس نسما‬ ‫داری اور ل ی سابیظپن ظاما ئنے طرح طرح ظکی رکاوئییں چابل ک ی‬
‫بورپ ان قب بیاہ‬ ‫بک‬ ‫یں۔صد ظ یخر ق‬ ‫ٓ‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫صدی‬ ‫ٹ‬ ‫یں‬ ‫و‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫تڑا۔سو‬ ‫ا‬‫ب‬ ‫لڑ‬ ‫تر‬ ‫حاذوں‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫یں‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫ے‬‫ن‬ ‫ق‬ ‫کے‬ ‫نے‬
‫بچاگیتر ظ‬
‫دور ظ ظکر‬
‫ی ظ‬ ‫ق ی‬ ‫چ‬ ‫م ظ چ‬ ‫ی‬ ‫یل‬
‫گا۔اس‬
‫نے ل ک ق‬ ‫ان رکاوبوں سے ٓازاد ہہو ظ ظ ظ‬ ‫ئ‬ ‫نے ئل ظگا ظ۔ببورژوا ط بقیقہ‬ ‫ظ‬ ‫کن ن ظظاموں کے ن ظ ظسلط سے آزاد ہہو‬
‫ے‬‫ے "سرماییہ دارایہ ن ظاما" ہن‬ ‫ے ن ظاما کی ا بب یدا ہوبی۔ بجس‬ ‫ہ‬ ‫چترانے بچاگیترداراظیہ ن ظاما کی بچگہ ایبک بن‬
‫ہہییں۔‬
‫ظظ‬
‫ے ہہییں۔‬ ‫اس ظبئیے ن ظاما کے دو حص‬
‫ظ ٹ ب ک یی ٹ‬ ‫ق ق‬
‫‪1‬۔ ببحارنی سرماییہ داری )مرکی یا ی ل ی لزما( ‪Mercantile capitalism‬‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫چ‬
‫ظ ٹ ب ک یی ٹ‬ ‫ظ‬
‫ق‬
‫‪2‬۔ ضتعنی سرماییہ داری )ابڈشتر ی ل چی یی یلزما( ‪Industrial capitalism‬‬
‫ظ ٹ ب ک یی ٹ‬ ‫ق ق‬
‫‪Mercantile‬‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ی‬‫چ‬
‫‪ 1‬۔ ببحار نی سرما ییہ داری )مر کی یا ی ل ی لزما(‬
‫‪capitalism‬‬
‫ٹ ق‬ ‫ٹ‬ ‫ہ ش‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ ظظ‬
‫نے قبا بخر‬ ‫چ‬
‫سے ہوا۔سروع مییں ھو ظنے ھو ق‬‫چ‬ ‫چ‬ ‫چ‬ ‫ق‬
‫اشی ببحارنی سرماییہ داری ظ‬ ‫یہ دارایہ ن ظاما کا آعاز‬ ‫یداما ہ یہو ئ‬ ‫سر‬
‫یداوار تھی۔ کاریبگر ظاچپنی چب ییداوار سے گھر کی ک قالت کر سک یا ظتھا‬ ‫ی ق‬ ‫ق‬ ‫چب‬ ‫ع‬ ‫ب‬ ‫حدود ظذرا ئ‬
‫ئ م‬ ‫کی‬ ‫جن‬ ‫ب‬ ‫ے‬ ‫ب‬ ‫چب ی‬
‫چ‬ ‫م‬ ‫ق‬
‫اس کے چباس زابد سرماییہ ہییں ہو قبا ھا کہ بجس کی ب شتی ییاد چتر وہ دوسرے لوگوں کو لزما رکاھ کر اپنی‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫پ‬
‫ہروں مییں روزگار کے ظموا فع بتڑ ظھے ظاور کچجھ‬ ‫جب ش ق‬ ‫چال بب ب ببدلی ب ظ‬ ‫ئ‬ ‫ے۔ ییہ ضورت‬ ‫ظ‬ ‫چب ییداوار بتڑھا سظک‬
‫نی مدد‬ ‫چ‬
‫سے ا ظہوںعنے اپ ق‬ ‫پ‬ ‫ضرورت سے زابد ٓامدن ش بچحانے کا ظمو شفع م ی سر آیبا بجس ظ‬ ‫ظ‬ ‫کاریبگروں کو اچپنی‬
‫ع‬ ‫چ‬ ‫ب‬ ‫چظ‬
‫گروں نے اپنی یلیحدہ بحما یییں‬ ‫سروع کی۔خوشحال کار ی ق‬ ‫ش‬ ‫ے ملزما ظرکاھ کر اپنی چب ییداوار بتڑ قھانی‬ ‫کے یلن‬
‫ک‬ ‫بب ظ‬
‫عاما‬
‫سے ظ ش‬ ‫جس‬ ‫ق‬ ‫سی ق محصوص چب ییداوار مییں ق ببحارت ق سروع ک ئرکے ایبک ط بیقہ ظ بین قگ ییا۔ ب‬ ‫اور‬ ‫لی‬ ‫یا‬
‫ے کو اچپنی ا قتر‬ ‫ے۔بجس سے ظاس ظبا بخر طیبق‬ ‫ش‬ ‫حت ہہوگی‬ ‫کے ماب ق‬ ‫ظ‬ ‫ےق‬ ‫اور وہ ظ اس طیبق‬ ‫ظ‬ ‫کاریبگروں کا ظ ظچات مہ ہہوا‬
‫ہروں کا شنظم و نسق ان کے ہہاتھ‬ ‫فع م ی سر آیبااور ش ظ‬ ‫ے م ققادات کو بح فظ کا مو ق ظ‬ ‫رسوخ ظ قبتڑھانےاور ا چپن‬
‫ب‬
‫اداروں یپہاں بک کہ س ییاست اور قابونتمییں ش ظل د ئل سروع کر دی۔ ییہ شماحای‬ ‫چ‬ ‫عم‬ ‫ق ظ‬ ‫ٓایبااور شمخ ی قلف‬
‫جس کا‬ ‫یں۔سود کا کاروببار ب‬ ‫ب‬
‫شی ب بیدیبل قییاں قابون‪،‬رسم و قرواج قاور روایبات قچتر ھی ا شتر ابداز ہہوب ی ظ‬ ‫و معا‬
‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫گ‬ ‫ی‬ ‫ظ‬
‫ے ظکے قاتررسوخ سے ان لس یان کی چبارلیمیٹ‬ ‫خراما فرار دیبا تھا۔اس ط بق‬ ‫خرچ محالف ئتھا قاور اسے ظ ٹ‬ ‫چ ظ‬
‫کے سرماییہ‬ ‫ق‬ ‫گ‬ ‫ب‬
‫داروں ظ‬ ‫ی‬ ‫ا۔مر ظکی یا ی ل سرماییہ داری سے ان لس ظیان قکے سرما ی قیہ‬ ‫سےیبا ظ‬ ‫نے اس کو قبچابز فرار د‬
‫ے مییں ا ٓئبی‬ ‫اس ئوقت دتکھن‬ ‫ق‬ ‫قی‬ ‫تر‬ ‫تز‬ ‫تی‬ ‫گ‬ ‫ا‬ ‫ترت‬ ‫چ‬
‫ی ی ی‬ ‫یں‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫یہ‬ ‫سرما‬ ‫اس‬ ‫ظ‬ ‫ہوا۔‬ ‫ہ‬ ‫فہ‬ ‫ا‬‫ص‬ ‫ہت بیتزی‬ ‫ق‬
‫مییں بپ ظ‬
‫داری قابم ظکی۔ییہ واچد چب ییداوار‬ ‫ظ‬ ‫صتر ابچارہ ظ‬ ‫کے سرماییہ داروں نےت "اون" کی ببحارت چ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫قبتجب ان لس یان‬ ‫گ‬
‫کوں کو بترآ ظمد کی ب قچا ئنی ھی۔ اون سے چا ل ہہونے ق والے م یا ئفع سے وہ اس‬ ‫ل‬
‫ق ھی بخو دوسرے ق ق‬‫م‬
‫یاں قابم کی اور دوسرے ق ئکوں ئسے ببحارت بتڑھابی۔ اس کی‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫کم‬ ‫قابل ہہو ئ‬
‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ے کہ ببحارنی ظ چیی‬ ‫ش‬ ‫ب‬ ‫ب‬
‫کومت کی‬ ‫ہے ق۔ ب قخو ‪ 1600‬م ی قیں قابم ہ ظہوبی۔اس دور مییں قچ ق‬ ‫نی‬ ‫م‬
‫چ‬ ‫ک‬ ‫با‬ ‫بڈ‬ ‫ا‬ ‫شٹ‬ ‫ی‬
‫م کم ن‬‫ا‬ ‫ظ‬ ‫یال‬ ‫لسک‬ ‫ک‬
‫ل‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ئ ی ی ٹ ہ‬ ‫چ‬
‫ق‬
‫حت وہ محصوص کوں ظمییں بب قحارنیتابچارہ‬ ‫ےب ق‬ ‫س‬
‫یوں کو رابل چچارتر دیبا بچابا تھا‪ ،‬ج ظ ک‬ ‫ق‬ ‫ی‬
‫طرف ق ئسے ق ی ی‬
‫ہ‬ ‫پ‬
‫ھی۔ان ظ ٹکوں مییں دوسری ظ ظ یییوں کو ببح قارت کی ابچازت ہییں ہونی ق ھی۔‬ ‫ی‬ ‫چ‬ ‫کم‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫عم‬ ‫ب‬ ‫نی ق‬ ‫داری ق ظابم ککرم ظ‬
‫حت‬‫ب ق‬ ‫کے‬ ‫ظ‬ ‫جس‬ ‫با۔‬
‫ی ی ب‬
‫ت‬
‫ظ‬ ‫ٓ‬ ‫ا‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫حت‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫ظاما‬ ‫ق قن‬ ‫داری‬
‫م‬
‫یہ‬‫ی‬ ‫سرما‬ ‫ل‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫یا‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫مر‬ ‫یاما‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫کا‬ ‫نی‬ ‫اینشٹ ا ظبڈیبا ک چمی ظ‬
‫ے‬‫نے را سن‬ ‫ےظ ا قھوں ق ظ‬ ‫ق‬ ‫کے حصول کے یلن‬ ‫اسق قتصد ئ‬ ‫ق‬ ‫شٹ ابڈیبا چینی نے کاما کا آ ظعاز ک ی ح ظ‬
‫یا۔‬ ‫این‬
‫نی قا لوں کی‬ ‫ق‬ ‫حار‬ ‫نی‬ ‫چ‬ ‫ا‬ ‫وہ‬ ‫سے‬ ‫چہاں‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ک‬ ‫تر‬ ‫عم‬ ‫ے‬ ‫ع‬ ‫ق‬ ‫گی‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫بیوط‬ ‫ص‬ ‫م‬ ‫تر‬ ‫تروں‬ ‫بخز‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ب‬ ‫ظ‬ ‫ٓ‬ ‫ا‬ ‫یں‬
‫پ بب ق‬ ‫ب ٹ ق‬ ‫ی‬ ‫ق ل‬ ‫قی ق چ‬ ‫ق‬ ‫میظ ظ‬
‫دوسرے ئبا بخروں قمییں‬ ‫سے ظ ئ ظ ق ظ‬ ‫ے بجس ظ ئ‬ ‫دوسرے بب قحارنی بچہازوں کو لو پن‬ ‫ق‬ ‫ظح قاظت کرنے اور سا قتھ ساتھ‬
‫س‬
‫ے جعراتق ییابی را یوں‬ ‫ب‬ ‫ے پن‬ ‫دارومدار ب ن‬ ‫کا‬ ‫داری‬ ‫ظ‬ ‫یہ‬ ‫ی‬ ‫سرما‬ ‫ظ‬ ‫نی‬ ‫ظ‬ ‫حار‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫طرح‬ ‫نے۔اشی‬ ‫ظ‬ ‫ل‬ ‫ہراس چتھ یی‬ ‫خوف و ہ ق ق‬ ‫ق‬
‫کی بلش‪،‬ببحارنی ابچارہ داری‪،‬علموں کی خریبد و فروجت اور سم یدری لوٹ مار چتر ھی۔ اس دور‬ ‫ظ‬

‫‪40‬‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ق ظ ق ظ‬
‫پ‬
‫کے قلوہ چب ییداوار مییں کچجھ ہییں‬ ‫ع‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫گ‬ ‫ت‬ ‫پ‬
‫ظ‬ ‫کےق چباس اون ق‬ ‫ھی۔ ان لس یان ق‬ ‫ق‬ ‫ظ‬
‫قمییں چب ییداوار چتر ظ اپنی بو ظبجہ ہییں‬
‫یں ان کے اون‬ ‫م‬‫ق‬ ‫یان‬ ‫س‬ ‫یدو‬
‫ی ق ب ظب ظ تی ی ظ‬ ‫ہہ‬ ‫بو‬ ‫نی‬ ‫کر‬ ‫حارت‬ ‫ظ‬ ‫تھ‬
‫ب ئ بب‬ ‫ا‬‫س‬ ‫کے‬ ‫یان‬ ‫س‬
‫ش‬ ‫یدو‬ ‫ہہ‬ ‫تھا۔ اینشٹ ابڈیبا ظک چمینی بجب‬
‫بدی دپنی ظخو ا گریتز افر قی ع قلموں کو امریبکہ‬ ‫ظ‬ ‫کی کھچیت ظیہ ہہو ئنے ئکی وبجہ بسے اس ییا کے ببحا قبے چچا‬
‫اور ڈچ‬ ‫تزی ع ق‬
‫ے چترت چگ ی ق‬‫ق‬ ‫دوسرے ک قنی بخزابر مییں ی پیچ کر قچاصل کرنے۔ا ظینشٹ ا شبڈیبا چینی سے چپہل‬
‫م‬ ‫ک‬
‫ق‬ ‫ظاور‬
‫چ‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫ے ظت ل قات‬
‫ی‬
‫ل ببادساہ اور امرا ظ کے ساتھ ا بچ ھ‬
‫ھ‬
‫ظ‬ ‫کے‬ ‫ئ‬ ‫ے۔ان ق‬ ‫ہے ھ‬ ‫ہہقتیدوس یان مییں ظبب کم ظ‬
‫حارت کرر چ ہ ظ‬
‫ے چتڑے‬ ‫چالت ی ق لن‬ ‫ے ش ظحت‬ ‫داری قابم کرنےکے ظ یلن‬ ‫ق‬
‫ے۔ اینشٹ ابڈیبا چی قنی کو اپنی ابچارہ ق‬ ‫ھ‬
‫ظ‬
‫یں ببحارنی ظا ٹبچارہ داری بو ک ییا چبورے ملک کو ظ علما بب ظیا ل ییا۔ اور ہہ یدوس یان سے‬ ‫م‬ ‫ال‬ ‫س‬ ‫سو‬ ‫تڑھ‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ک‬ ‫ب‬ ‫ظ ئ ی ٹ‬ ‫کاور ی‬
‫ڈ‬
‫ہے۔‬ ‫چ‬
‫ھرببوں ڈالر کا قابدہ ا ھایبا۔مکی یا ی ل سرماییہ داری مییں اینشٹ ابڈیبا ینی کا اہم کردار ہ‬ ‫ت‬
‫ٹ ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظٹ‬
‫ب‬ ‫ی‬ ‫یت‬ ‫ک‬
‫مرکی یالزما کی تعریتف انسا ین لو چب ییڈیبا بتر ییی ینکا کے م ظا بق‬
‫‪Encyclopedia‬‬ ‫‪Britannica‬‬ ‫‪“Mercantilism,‬‬
‫‪economic theory and practice common in Europe‬‬
‫‪from the 16th to 18th century that promoted‬‬
‫‪governmental‬‬ ‫‪regulation of a nation’s for the‬‬
‫‪purpose of augmenting state power at the expense‬‬
‫‪of rival national powers. It was the economic‬‬
‫‪counterpart of political absolutism. Its 17th century‬‬
‫‪publicist most notably Thomas Mun in England,‬‬
‫‪Jean Baptiste Colbert in france and Ontnio Serra in‬‬
‫‪Italy, never, however, used the term themselves‬‬
‫‪it was given currency by the Scottish economist‬‬
‫ظ‬
‫‪Adam Smith in his wealth of nations (1776).‬‬
‫ظ‬
‫ضت ق‬
‫ہت زیبادہ سرماییہ مع ہہوا۔بجس ئسے ع ظنی‬ ‫ح‬ ‫ب‬ ‫ق‬
‫سے ان لس یان کے ہہا ظتھ بپ‬ ‫ق‬ ‫گ‬ ‫داری‬ ‫یہ‬ ‫ا‬‫م‬ ‫سر‬ ‫ل‬ ‫ظمرکظیٹیایب‬
‫نے‬ ‫ے ق ق‬ ‫یداوار کو ببدل دیبا۔ اس سرماب ظ‬ ‫ع‬ ‫ب‬ ‫اظت ققلب کا پہ یبہ قبتز ہہوا۔ ظبئنی ظ ئیی یا حادات نے ذرا ئ‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫چب‬ ‫ئ‬ ‫ب بب‬ ‫چ ی ی‬
‫ض ظ م ی قیں آی۔ ضتعنی تر ظقی‬ ‫ے۔بجس سے ضت ظعت وبخود‬ ‫قانگل قسق یان مییں یاببحادات ظکے ق ذرائبع چب ییدا ک ظن‬
‫ے کا سببب بپنی اور اس سے دب ییا مییں تعنی سرماییہ داری کا ا ٓعاز‬ ‫ببحارنی سرماییہ داری کے چا تم‬
‫ہوا۔‬ ‫ہ‬
‫ظ‬
‫ق‬
‫ٹ ظ‬
‫‪INDUSTRIAL CAPITALISM‬‬ ‫ضتعنی ظ سرما ییہ داری‬
‫ظ‬
‫سے ہہوی۔ اس ایببحاد‬ ‫ی‬ ‫ضتعقنی ات ظققلب کی ا ببق‬
‫کے سی ییم ا ببجن ٹکے اببحاد ظ‬ ‫واٹ ظ‬ ‫مز‬ ‫ی‬
‫ی‬ ‫ج‬‫‪ 1750‬مییں ب‬ ‫ٹ‬ ‫یدا ظ‬ ‫ظ‬ ‫ٹ‬
‫یں‬ ‫ے نےق لے لی‪ ،‬ظاتکھارہہوییںض ظاور ق ات ی شسوییں صدی م ی ظ‬ ‫یں انسانی چپتھون قکی بچگہ کوئبل‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫بوں‬
‫ظ‬ ‫ی‬ ‫تر‬ ‫کے بتعد ق ییک‬
‫بیوں اور دیپہابو قں سے ن ل کر تع ظنی شہروں ئکو آبباد کربا‬ ‫نے قزم یی ظ ظ قیداری چچھوڑ کر ف ظص‬ ‫لوگوں ظ‬ ‫ب شجب‬
‫ہ‬
‫کے ظاخر مییںظ ہوبی۔اس‬ ‫یں صدی‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫گ‬ ‫ق‬
‫قسروع ک ییا ۔ عنی ات ق قلب کی ا بب یدا ان لس ظیان‬ ‫ت‬ ‫ض‬
‫سےشترہو ی ظ‬‫ق‬
‫اور کارظچابوں نے شماخول یتکسر‬ ‫ظ‬ ‫عت‬ ‫ظ ت‬‫ض‬ ‫گر‬ ‫م‬ ‫نے‬ ‫کر‬ ‫ظ‬ ‫با‬ ‫ی‬ ‫نی اوزار سے چچت یزییں بب یا ش‬ ‫ظ‬ ‫قت لوگ گ ئھروں چتر دس‬ ‫قو‬
‫ظ‬ ‫چ‬ ‫ی‬ ‫س‬
‫یوں نے و تع پ یتمانے چ ظتر چب ییداوار د ظیب یا سروع ک ییا۔‬ ‫س‬‫ی‬ ‫م‬
‫تڑی بتڑی یٹ‬ ‫ظ‬ ‫ٹ‬ ‫چ‬ ‫ب‬ ‫ظ‬
‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ٹ‬ ‫س‬ ‫ے والی ب‬ ‫ے سے چ ل قن‬ ‫ب بضید ی قل کردیبا کوبل‬
‫ہے کی تعت نے بتڑا اہم کردار‬ ‫ض‬ ‫تعنی سرماییہ داری کی ا بب یدا مییں ی ییم ا بجن اور پیکس یا ی ل اور لو ہ‬
‫ی‬ ‫ب‬
‫ق‬ ‫اداظ ک ییا۔‬
‫ق‬
‫ظ‬
‫بات زبدگی‬ ‫ی‬ ‫ے اور شاچپظنی ظق‬
‫ضرور‬ ‫ھ‬ ‫ے ت‬ ‫ہ ق‬
‫ن‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫بیوں‬ ‫ص‬ ‫ف‬ ‫اور‬ ‫پہات‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫د‬ ‫لوگ‬‫ق‬ ‫ے‬ ‫ل‬ ‫ضتعقنی دور سے چپہ‬
‫مدن‬ ‫ظ‬ ‫ے زظبدگی بپ ق م ک ت‬ ‫نے تھ‬ ‫زراعت ق‬
‫ہت ش ل ھی کییوبکہ آ ظ‬ ‫ت‬
‫ق‬ ‫ے۔عاما آدمی کے ش یلن‬ ‫سےت چبوری ظ کر ئ ق‬
‫ے‬‫ے۔ چب ییداوار ان کے ا چپ ٹن‬
‫چ‬‫چ‬
‫نے ھ‬
‫گ‬ ‫کے سکار ہہو ظ‬ ‫لت قاور قبپت یتماریبوں ق‬ ‫ھی۔ غزابی ق‬
‫ی‬
‫ظبپہت محدود ظ ظ‬
‫ے ھروں یبا دیپہات کے ھونے‬ ‫خوراک‪،‬کچتڑوں‪،‬فرپ چیجر اور اوزار کی ہہونی ھی۔ زیبادہ تر چچت یزییں ا چپن‬
‫‪41‬‬
‫ظ‬ ‫ق ق‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ق‬
‫ہے اور قولد کا‬ ‫لو‬ ‫ق‬
‫ے۔‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫نے‬ ‫کر‬ ‫با‬ ‫یا‬‫ظ‬ ‫کے‬ ‫ر‬ ‫ک‬ ‫عمال‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ین‬ ‫ش‬ ‫م‬ ‫شی‬ ‫سادہ‬ ‫با‬ ‫اوزار‬ ‫کے‬ ‫تھ‬ ‫یں ہ ظہا‬
‫ق م ہ‬ ‫ی‬ ‫بب‬ ‫ظ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫دو قکان م ی ق‬
‫۔اس کے‬ ‫لی‬ ‫ق‬ ‫قی‬ ‫تر‬ ‫ہت‬ ‫بپ‬ ‫کو‬ ‫عت‬ ‫تب‬ ‫ض‬ ‫سے‬ ‫ظ‬ ‫ٹ‬
‫جس‬ ‫ب‬ ‫ہوا۔‬ ‫ہ‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫دور‬ ‫اس‬
‫چ ظ ئ ئ ی‬ ‫تر‬ ‫نے‬ ‫تما‬
‫قپ ی‬‫چ‬ ‫تع‬‫ی‬ ‫س‬ ‫و‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫عمال ا پ‬ ‫اس ت‬
‫ش‬ ‫س‬ ‫ٹ‬ ‫ح‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫س‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫ظ‬
‫ے ذرابع م یل کویبلہ‪ ،‬ی قییم ا بجن‪ ،‬ب لی ظاور چبترول کا ا ق تعمال سروع‬ ‫قت کے بن‬ ‫علوہ ایب یدھن ظاور طا ق‬
‫عمالت مییں آ ئشبییں بجن ظ ظسے کم شوقت م یظیں کم افراد کے ساتھ بپ ظہت زیبادہ‬ ‫ے مس یییییں است ق ق‬ ‫ہہوا۔ا ینس‬
‫ے ظکی مشیین بوغیترہ مواص ٹلت ئاور آمدورقت یکے‬ ‫ب‬
‫چب ییداوار ظچا ئ ل قکی بچا ش کنی ھی۔م یل کچتڑا تین‬ ‫س‬ ‫ص‬
‫ظ‬
‫لے ٹبجری ظ ظبچہاز‪،‬آبو ظمو ب بباب ظل‪،‬اور ریبڈ ئیبو اببحاد‬ ‫ے وا ق ظ‬ ‫چ‬
‫سے چ لن‬ ‫ھاپ‬ ‫ظ‬ ‫ے م یل ریبل‪ ،‬بت‬ ‫ق‬‫ی‬ ‫ے طر ت‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫بالک‬
‫ب‬
‫ظ‬
‫ے۔ مزدوری اور کاما کرنے ق کے بئیے ظطر تیق‬ ‫ہہو ئ ظب ق ق ق‬
‫۔سابیس کو‬ ‫ض ظیک قتری ظ قن ظاما نے جیم ل ی قیا ق ق‬ ‫ے قی‬
‫زماما قاق یدار با بخروں‬ ‫ق‬ ‫نے لگا۔ تعنی ات ققلب سے‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫سے زیبادہ استعمال ک ییا بچا‬ ‫ضتعنی ظترقی مییں زیبادہ ظم ق ق‬
‫الک یپ ہی ط بیقہ تھا اور ش قعمل و‬ ‫سے ض عت کاروں کو یی قل ہہوا۔بخو ب ظبورژوا یقہ ظتھا۔سرمایہ کا م ظ ظ‬
‫ت‬ ‫ی‬ ‫طب ظ ق‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ادب ترتبت‬
‫ض ظببل ی قیت اور پ ظییمی صلج قییت کے اشتراک‬ ‫نے ئسرماییہ‪،‬قنی قا‬ ‫ظ ظ ق‬ ‫ھا۔اس‬
‫ظ‬ ‫ت‬ ‫با‬‫ی‬ ‫ھا‬ ‫چ‬‫چ‬ ‫قہ‬ ‫ی‬
‫طب‬ ‫ہی‬ ‫پ‬‫ی‬ ‫ھی‬ ‫چظ‬
‫ے ہہییں۔‬ ‫ک‬
‫ے عنی سرماییہ داری ہن‬ ‫ت‬ ‫سے ضتعت اور کاروببار کا ایبک ب قییا ن ظاما قابم ک ییا بجس‬
‫ظظ‬
‫سرماییہ داراظیہ ن ظاما کے آگے دو فسمییں ہہییں۔‬
‫ظ‬ ‫ظ‬
‫‪ ، 1‬فری مار کییٹ اکا بومی ‪Free Market Economy‬‬
‫ٹ ظ‬ ‫ظ‬
‫ب‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫یت‬ ‫ک‬‫ی‬
‫انسان لو چب ییڈیبا بتر یی ینکا کے م ظا بق‬
‫‪Encyclopedia‬‬ ‫‪Britannicaِّ “Free‬‬ ‫‪market,‬‬ ‫‪an‬‬
‫‪unregulated system of economic exchange , in‬‬
‫‪which taxes,quality controls,quotas,tarrifs, and‬‬
‫‪other forms of centralized economic interventions‬‬
‫‪by the government either do not exist or are‬‬
‫‪minimal.‬‬
‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ٹ‬ ‫ظ‬ ‫ش‬
‫ہے۔‬
‫ہ‬ ‫بج‬ ‫را‬ ‫یں‬‫ییہ طرز مع ی شت امر ینکا‪ ،‬بترطاب ینہ‪ ،‬اشتریبل ییا‪ ،‬ک ی ی ی‬
‫م‬ ‫ترہ‬ ‫غ‬ ‫و‬ ‫یڈا‬ ‫ی‬
‫ظ‬
‫‪،2‬مرببوط مارکییٹ اکابومی ‪Coordinated Market Economy‬‬
‫‪Management Dictionary‬‬
‫‪“Coordinated market economy is the economy‬‬
‫‪where the management (The industrialist) handles‬‬
‫‪the various issues it faces in its operation through‬‬
‫‪different channels,and takes long term view in any‬‬
‫”‪situation rather than just market oriented view.‬‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫مع ش‬
‫ٹ‬
‫نی‪ ،‬بچاچبان‪ ،‬سک ظیڈ یییویین کوں ڈتمارک‪،‬سویبڈن‪ ،‬فن ل یی یڈ‪ ،‬ای ل یی یڈ‪،‬اور اشتریبا‪،‬‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ل‬‫م‬ ‫یت‬ ‫م‬ ‫بخر‬ ‫شت‬ ‫ییہ ٹطرز ی‬
‫ئ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ہے۔‬ ‫سو یبتزرل یی یڈ وغیترہ مییں رابج ظ ہ‬
‫ظظ‬
‫سر ظماییہ داراظیہ ن ظاما کے حصوص ییات‬
‫‪1‬۔ ببجی ملکییت کا خق‬
‫زادی سعی کا خق‬ ‫‪2‬۔ ٓا‬
‫عم ظ‬ ‫ق ظظ‬
‫‪3‬۔ذانی ت فع کا مجرک ل ہہوبا‬

‫‪42‬‬
‫ق‬ ‫ق‬
‫‪4‬۔م قاببلہ اور مساتبفت‬
‫ظ‬ ‫ق‬
‫‪5‬۔ابچیتر اور مسا بخر کے حفوق کا فرق‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫قق‬
‫‪6‬۔ارت قا کے قظری اس بیاب چتر اغتماد‬
‫ظ‬
‫‪7‬۔ر ظیباست کی عدما مداچلت‬
‫ظ‪ 1‬۔ ببجی ملکییت کا خق۔‬
‫گ ق‬ ‫ش‬ ‫ظظ‬
‫یں۔اس‬‫ظ‬ ‫کے قگرد قھومنی ہہ ی‬ ‫ساری معاشی سرگرم ی ظیاں اس‬ ‫ظ‬ ‫ہے۔‬‫چان ہ ظ‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫ظاما‬ ‫ن‬ ‫اس‬
‫ظ‬ ‫یت‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ظ ببجی م‬
‫مکم ظ‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ک‬ ‫ظ‬
‫ہے۔ ب قخو افراد‬ ‫نے اور م قحدود کرنے ک قا ل اجی ی ظیار ہہوبا ہ ق‬ ‫ن ظاما مییں ظتماما قافراد کو بچابییداد بب ظیانے ظچتھ ییل ظ‬
‫ہے۔ہہر ئفسم کی چچیتز خواہ وہ شذانی ا شستعمال‬ ‫نی ہ‬ ‫یں۔سرکاری مداظچ ظلت پہییں ہہو ظ‬ ‫ق‬ ‫ےگ ہہ ی‬ ‫بخو چچاہہییں بب یا شسکن‬
‫یداوار ہہوں م یل مشیین۔‬ ‫ترے‪ ،‬بترین شفر یپ چیجر ‪،‬سواری ظ وغیترہ یبا شذرا شبع چب ی ظ‬ ‫کی ہہوں م یل ظ ھر‪،‬ک چ ظ‬
‫ح‬ ‫ی‬‫چ‬ ‫کم‬
‫ق‬
‫ادی اس ییا کے علوہ غ ی ٹتری ظمادی اس ییا م قیل یییوں کے ظصص سرماییہ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫الت‪،‬زمیین‪ ،‬چاماظ مال وغیترہ ئم ق‬
‫ہدے وغیترہ اور ان‬ ‫اور ببحارنی بتمعا ہ ق‬ ‫ق‬ ‫ی‬
‫کے سر مقیکقییٹ ظ‬ ‫پ‬ ‫ف‬
‫ے م لف سم ظ‬ ‫ی‬ ‫خ‬ ‫ے خر قیبدے گ شن‬ ‫کاری قکے یلن‬
‫م‬
‫ی‬ ‫ک‬ ‫ل‬
‫ہے۔‬ ‫سب فسم کے یییوں کو واربوں یبا دوسرے افراد کو ی ل کرنے کا خق ھی ہہوبا ہ‬
‫‪ 2‬۔ آ زادی سعی کا خق۔‬
‫م ظ ظ ظظ‬ ‫ش‬ ‫ٹ‬ ‫ظ ظ‬ ‫ی ظ ظ‬
‫ئ‬ ‫ک‬ ‫ق‬ ‫چ‬‫چ‬
‫ے ذرابع کو ظبجس‬ ‫نے بتڑے تگروہ کی س ل ظمییں ل تکر ا چپن ق‬ ‫ظ‬ ‫تعنی افراد کا ییہ ق قکہ فردا فردا یبا ھو ش‬‫خ‬
‫ت‬ ‫ظم ییدان مییں چچاہہییں استعمال کرییں اس قکوشش کے ی ظی بیچ‬
‫صان دوبوں‬ ‫لے فع یبا ق ق‬ ‫ق‬ ‫نے وا‬ ‫ے مییں ہہو ش‬
‫ہے کہ اچپنیق چب ییداوار قاور اس ییا کی قب ی ظیاری کو بجس قدر چچاہہییں‬ ‫بوری آزادی ہ قہونی ہ‬ ‫ظ‬ ‫یں۔ان کو چ‬ ‫ق‬ ‫کے ہقہ ی‬
‫ٹ‬ ‫اپ ہی‬
‫ے آدمییوں سے چ قچاہہییں‬ ‫ب‬
‫ے ئ ہہییں‪ ،‬جین‬ ‫کرسکن‬ ‫ے مال ظکی بخو قییمت چچاہہ یسیں مفرر‬ ‫ے ہہییں‪ ،‬ا چپن‬ ‫سکظن‬‫بتڑا اورگھ یا ظ‬
‫ش‬ ‫س‬
‫داریباں چچاہہییں قبیول‬ ‫سرابط اور بخو ذماہ ظ‬ ‫ق‬ ‫ے مییں بخو‬ ‫کے ق ل ل‬ ‫اروببار ش‬ ‫ئ‬ ‫ےک‬ ‫یں‪،‬ا ئ چپن‬
‫ظ‬ ‫ا بخرت چتر یبا پیظخواہ چتر کاما ل ی‬
‫اور مس یا بخر‪،‬مالک اور شبوکر ئکے تدرم ییان‬ ‫ب‬
‫ے چچاہہییں بب یابییں۔ ببابع اور مشتری‪ ،‬اچیتر ظ‬ ‫کرییں اور بخو صا ق بن ط‬
‫ب‬ ‫ب‬ ‫ش‬
‫لت آ ظزادایہ طے ہہو ظ‬ ‫ظ‬
‫اور جن سرابط چتر ظ ھی شان‬ ‫ت‬
‫ب‬
‫ے‪،‬‬‫ئ‬ ‫نے چچا یہہیین‬
‫ش‬ ‫ئ‬ ‫سارے ئمعام ظ ظ ہ ق‬ ‫ہ‬
‫کاروببار ہکے چد بک‬
‫ظک قے بباہ ظمی معام‬
‫ہوبچابییں باقذ ظ ہوبتاعچچا ہہ یییے۔ہہر ظحص کوبی ھی کاروببار کرنے یبا چتی یشہ‬ ‫لت طے ق‬
‫ب‬ ‫ہے۔اپنی ل قییمی اہہلییت‪ ،‬ذہہنی ص ظلج ی ظ‬ ‫چ‬ ‫مکم‬
‫مہارت کے ب ل‬
‫ب‬ ‫یت اور ق‬ ‫چ‬ ‫م‬ ‫ش‬ ‫یں ل آزاد ہہوبا ہ‬ ‫اجی ی قیار کرنے م ی ش‬
‫ہے۔ہہر ایبک اپنی مرضی اور قا ب لییت کے‬ ‫س‬
‫یں ظ چچاہہے ظسا ل ہہو ک یا ہ‬ ‫ظ‬
‫ے شم ی م ق‬‫جس س بعن‬ ‫ببو‬
‫نے چتر ب ظ‬‫ب‬
‫ہے۔‬ ‫ے چتی یشہ ییحب کرنے مییں آزاد ہ‬
‫ظ‬
‫ے ظ یلن‬ ‫م ظا بق ا ق چپنظ‬
‫‪ 3‬۔ ذا نی ت فع کا م ظجرک عمل ہہو با۔‬
‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظظ‬ ‫ظقائبدے ق‬
‫ے بتی ییادی‬ ‫یداواری ب قتڑھوتری قکے یلن‬ ‫ظ‬ ‫کی طمع اور ظم ظیا ئ فع کی ام یید ن ظاما ظت ظسرماییہ داری م یظیں یچب‬
‫ہے قاور اس کو‬
‫ظ‬ ‫ک‬ ‫عمیں ققظرنی مو ب قخود ہہوبا ہ‬ ‫ہے۔ قابدے کی طمع اور فع کی اطم یید ہہر ا قنسان م ی‬ ‫کردار اداعمکرنی ہ ق‬
‫ے ہہییں کہ‬ ‫ے ہہ ی قیں اور ہن ظ‬ ‫ن‬ ‫ب یپ‬ ‫د‬ ‫فرار‬ ‫ظ‬ ‫ل‬ ‫ین‬ ‫ی‬ ‫ر‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫بپ‬ ‫کو‬ ‫مع‬ ‫اور‬ ‫لچ‬ ‫ل‬ ‫دار‬ ‫یہ‬ ‫رما‬
‫ظ ی‬ ‫س‬ ‫ہے۔‬ ‫ھار ہ‬
‫با‬ ‫سعی و ل چتر ابت‬
‫ظ‬ ‫ت‬ ‫عم‬
‫فع ظ کے‬ ‫ت‬ ‫ہے۔‬ ‫نے چتر چم ب قیور کربا ق ہ‬‫ش‬ ‫ق‬ ‫ہے بخو انسان کو ظزیبادہ سے زیبادہتکاما کر‬
‫ب‬ ‫جرک ل ہ بظ‬ ‫ق‬ ‫یپ ہی ظ واچد م‬
‫چہد ھی اشی قدر ظکم ہہونی بچانی ہہییں اور فع قکی‬ ‫ے آدمی کی چمیت اور بچدو ب ق‬
‫ت‬ ‫امکابات بجس ظقدر کم ہ ظہو گ‬
‫بادہ اور بپہتر‬ ‫ش‬ ‫ب‬
‫بادہ ہہونے چتر چمیت اور بچدوبچہد ھی زیبادہ ہہو ب ظ‬
‫ع‬ ‫ت‬
‫ب‬ ‫ہے۔ ہہر حص زیبادہ سے ز ی‬ ‫چانی ب ظ ہ‬ ‫ق‬ ‫ام یید ز ی‬
‫خود بخود ق بتڑھے گی اور قاس ئ کا مع ییار ھی ا شلی‬ ‫طرح چب ییداوار‬ ‫بپ‬
‫اور ذرائبع ئاستعمال مییں آنے قبچا ظئتی ظیں گ ظ‬
‫ے۔ اس ییا‬ ‫ل‬ ‫ب‬‫گا۔اس وسا ئ‬‫ظ‬
‫بہ‬ ‫ک‬
‫ھے‬
‫طرف بتڑ ق‬ ‫کیبا چا ئ‬
‫ین ق‬
‫ہ‬ ‫سے ہعتر ی ق‬
‫ق ق‬
‫س‬ ‫ظسے ا لی ظ ب ین ئ س مم‬
‫تماما‬ ‫گا۔اور‬ ‫ب‬ ‫ہو‬ ‫تر‬
‫ضرورت کی فراہہمی کا دابرہ و یتع سے و تع تر ہوبا بچانے گا۔ اس ظطرح ذانی قفع و ل لچ انسان‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ظ‬
‫سے م قاد عاماہ کا وہ کاما لے گا بجس چتر اسے کسی اور وبجہ سے بچمبیور پہییں ک ییا بچاسک یا۔‬

‫ق‬ ‫ق‬
‫ق‬
‫‪ 4‬۔ م قا ببلہ اور مسا تبفت‬
‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ک ق‬ ‫ظظ‬
‫ہے بخو قظری ظطور ظچتر ظبوازن قابم کرنی‬ ‫ل‬‫ظ‬ ‫ے ہہیں کہ یپ ہی وہ عم‬
‫ن‬ ‫چامی‬ ‫کے‬ ‫داری‬ ‫یہ‬ ‫سرما‬
‫ظ‬ ‫ظاما‬ ‫ب‬
‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ہ ی‬ ‫ظی‬
‫ہے۔ بخو ن ظاما سرماییہ داری مییں زیبادہ سے زیبادہ م یا فع خوری‪ ،‬ل لچ اور خود غرضی کو ب‬
‫نے بچا چد‬ ‫ہ‬
‫‪43‬‬
‫ق‬ ‫ظ قظ ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬
‫ف‬ ‫ہ‬
‫یں ایبک ہی سم کی‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫م‬‫ق‬ ‫بازار‬
‫ب‬ ‫بک‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫جب‬‫ب‬ ‫ہے۔‬ ‫قظری‬
‫ی پ بی ظ ظ ہ ظ‬ ‫ظاما‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫یہ‬ ‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫نی‬ ‫ے سے قروک‬ ‫ق قبک بتڑ ھن‬
‫جہ سے‬ ‫لے اور خریبدار موبخود ق ہہوں بو م قا ٹ قببل‬
‫ے کی و ب ق‬ ‫ت‬ ‫س ظارےظ ب ییار کرنے والے قاور پ چین‬
‫ے وا ظ‬ ‫قچچ ییتزیمق بپ ظ‬
‫ہت ب‬
‫ہے۔بوازن‬ ‫گ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫یں خود بخود م یاسب مع ییار چتر ٓابچا ظنی ہہییں۔اور فع یہ ظ‬
‫ہے یہ ظھی ظیا ہ‬ ‫چد سے بتڑھ یا ق ہ‬ ‫ی ق‬
‫ققائب ق یم ہہوبا ہ ظق‬
‫فصا کی وبجہ سے‬ ‫ے کی‬ ‫ے والے قاور کاما کر شنے والے م ققا ببل‬ ‫طرح کاما قلین‬ ‫ق‬ ‫اشی‬ ‫ہے۔‬‫ظ‬
‫ہے۔بنسرط ییہ کہ کسی فسم کی ابچارہ داری ظیہ ہہو۔‬ ‫ا بخربوں اور پیخواہہوں کی م قدار مییں بوازن چب ییدا ہہوبا ہ‬
‫ظ‬ ‫ق‬
‫‪ 5‬۔ ا بچ یتر اور مسق یا بخر کے حفوق کا فرق۔‬
‫ظ ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ظ‬
‫گروپ بین بچاتنے‬ ‫صح‬ ‫وا‬ ‫دو‬ ‫یں‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫اس‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫ھی‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫یہ‬ ‫بت‬ ‫ض‬ ‫صو‬ ‫ح‬ ‫بک‬ ‫ظ‬ ‫ا‬ ‫ظ‬ ‫کی‬‫ظ ظ ظاما سرمایہ داری ظ‬
‫ظ‬ ‫ی‬
‫یاد تر کاروبار شسروع کر ظ‬ ‫ہ‬ ‫ظ ی‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ت ی‬ ‫ی‬ ‫ن‬
‫یں۔اور آخر قبک ئاس ق فع یبا‬ ‫نے ظہہ ی قظ‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫ی چ‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫صان‬ ‫ہ ی ق‬ ‫ت‬ ‫با‬
‫ق‬ ‫فع‬ ‫خو‬ ‫ب‬ ‫الک‬ ‫م‬ ‫بک‬ ‫ی‬ ‫یں۔ا‬ ‫ظہہ ی ق‬
‫ل‬‫ع‬‫ت‬
‫لزما جن کو فع یبا قصان سے کو بی ش ق‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫یں۔ دوسرے مزدار یبا م ق‬ ‫ت ظ قصان قکے‬
‫ب‬ ‫ق‬ ‫نے ہہ ی‬ ‫ظ‬ ‫دار ہو‬ ‫ذماہ ق‬ ‫ظ‬ ‫پ‬
‫س‬ ‫ہییں ہہوبا۔وہ الچب قیا وقت بتچ‬
‫کی ایبک طے قسدہ‬ ‫‪،‬میت ظو قا ب لییت کاروکببار قمییں ہا ظ قتعمال کر مکےب اس ظ‬
‫ے ا بخرت کا ح قدار‬ ‫ہے گر اچیتر ا چپن‬ ‫عض دفعہ کاروببار ببال ل ب بیاہ ہو بکچابا ہ‬ ‫یں۔ ش ق‬ ‫ے ہہ ی ق‬ ‫بخرت لے ین‬ ‫ٹا ق‬
‫کاروببار سے ن ل کر قدوسرے کاروببار مییں ا ظبخرت چتر‬ ‫ظ‬
‫ہے کہ اس ظ‬ ‫ہے اور قاس چتر اب یا اتر چتڑبا ہ‬ ‫بھہربا ش ہ‬
‫کی ییہ بوغییت‬ ‫ے ہہییں کہ م ظ‬
‫عاملہ‬ ‫ن‬ ‫سرماییہ داری ظن ظاما کے ظچامی ہک‬ ‫ہے۔ بجس چتر ق‬ ‫کاما ظ ب ظ ی ہ‬
‫یا‬ ‫ب‬‫کرد‬ ‫سروع‬
‫ق‬ ‫ظ‬
‫صاف کاروببار کا م یا ظفع مس قیابچیتر کا حصہ‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬
‫ظ‬ ‫ہے ظکہ قازروبے ان‬ ‫بات ع ظییاں ہوبچانی ظ ہ‬ ‫خود بخود ییہ ب ق ق‬ ‫سے‬
‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫قدار‬ ‫کا‬
‫ی ح‬ ‫ے‬‫ن‬ ‫ل‬ ‫بخرت‬ ‫ا‬ ‫یاسب‬ ‫یم‬ ‫تر‬ ‫چ‬‫ب‬ ‫ا‬ ‫ہے۔‬ ‫قل یی ہ‬ ‫یا‬ ‫لے‬ ‫ظ‬ ‫مول‬ ‫خظرات‬ ‫تماما‬ ‫کی‬ ‫بار‬ ‫ب‬ ‫کارو‬ ‫خو‬ ‫ب‬ ‫ہے۔‬ ‫ہ‬
‫ق کاروببار مییں ت فع و ت قصان سے ظ قیہ ہہو۔ابچیتر کا کاما اس کی ا بخرت کی‬ ‫اور اس ا بخرت کا تعل‬
‫بخرت مییں ک قمی‬‫ہے۔ اس ق ظکے ا ق‬ ‫ہے۔بخو طے ظشسدہ ا ظبخرت ہہو وہ اس کا خق بین ب شچابا ہ ظ‬ ‫ق‬ ‫جب ہظ‬ ‫مو ش ب ظ ظ‬
‫قظری قابون کے بحت ہہو قنی‬ ‫بخرت مییں کمی بت یسی شان ق‬ ‫ق‬
‫ق‬ ‫صان کی بتی ییاد چتر پ قہییں بب شلکہ ا‬ ‫بت یسی ت فع و ت ق ق‬
‫بت‬
‫ہے۔ قروزگار کے موا فع‬ ‫تماما اس ییا کی قییمقیوں مییں کمی یسی ہہونی ہ‬ ‫دوسری ق‬ ‫ق‬ ‫ہے بجس کے بحت‬ ‫ہ‬
‫جب روزگار قکے موا فع ز یقبادہ ہہوں اور‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫یں‪،‬اور‬‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫ہ‬ ‫نی‬ ‫ق‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫کم‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫ئ‬ ‫بخر‬ ‫ق‬ ‫ا‬ ‫بو‬ ‫ادہ‬ ‫ب‬
‫ی‬ ‫ز‬ ‫روزگار‬ ‫ق‬ ‫نے‬
‫ق‬ ‫ب‬ ‫اور‬ ‫ہوں‬ ‫کم ہ‬
‫ہے کہ ا بخرئییں کم سے‬ ‫یں۔ ہممشس ظیابچیتر کی ققظری خوا ہہش ق ہ ظہونی ہ‬ ‫نے روزگار کم بو ا بخرئییں زیبادہ ہہونی ہہ ی ظ‬ ‫ب‬
‫ہوںسماور ا ب ظچیتر زیبادہ سے زیبادہ کے خواہسم ید ہہونے ہہییں۔اس نصاد سے ان کے درم ییان‬ ‫کم ہ ش‬
‫ہے۔‬ ‫ک‬
‫ایبک کش قظری ہ‬

‫ق‬ ‫ظ‬ ‫قق‬


‫یاب چتر ا غتماد‬
‫ظس ب ظ‬
‫‪ 6‬۔ ار ت قا کے قظری ا‬
‫ق‬ ‫سرمایہ داری ظ ظ ظاما میں م ظ‬
‫ان ئکو‬ ‫اضول‬ ‫ہی‬ ‫ہے۔ اور یپ‬ ‫ہ‬ ‫با‬ ‫ہو‬‫ہ‬ ‫تر‬‫چ‬ ‫ق‬
‫یداوار‬ ‫چب‬
‫ق ی ی‬‫بادہ‬ ‫ز‬ ‫لگت‬ ‫کم‬ ‫صار‬ ‫ب‬‫ا‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫فع‬ ‫یا‬ ‫ن ق ش ظی‬
‫ح‬ ‫ظ‬ ‫ی‬
‫کے ظب ن‬
‫ے‬ ‫سے بچدیبد تر ق ظ ظمش یثتری‪،‬چاما ظ ئمال کیق ب ظتڑی م قدار کم سے کم ق قییمت قچتر حصول اور قق‬
‫کاروببار ظ‬ ‫بچد ظ ی ئبد ق‬
‫قظری‬ ‫کے ظ‬ ‫ہے ۔ ییہ ارت ظقا ظ‬‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ہ‬ ‫لب مییں م بی یل رکھ یا‬ ‫ین کی ط ق‬‫تمات کے قبیے ظقوا قئ ی ظ‬ ‫ے طرتیفوں اور پ ظت ظ ی ظ‬ ‫پن‬
‫ت‬
‫داری ب ب ظظاما کی ابدرونی م طق‬ ‫ب‬‫ظ‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫ت‬ ‫چ‬
‫سرماییہ ظ‬ ‫لت یبا بد ببیتر کا یی بی قچہ ظ ہییں ہوبا ب ببلکہ ش ش‬ ‫ظ‬ ‫نی مدا‬ ‫اس بیاب کظ ب‬
‫سی ببظیترو ق‬
‫ہ‬
‫گے مییں‬ ‫ظ‬
‫ہے۔قظرت ظ ظکے قوائیین ان جی کوشسوں کو ظ خود بخود ایبکعمدھا ق‬ ‫تسے ییہ قخود بخود قہوبا ہ‬
‫ل کو ا بجتماعی‬ ‫و‬ ‫عی‬
‫ظ‬ ‫فرادی س‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ان‬ ‫کہ‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫ییوں‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫چا‬ ‫کے‬ ‫ظاما‬ ‫ن‬ ‫داری‬ ‫یہ‬ ‫ی‬ ‫سرما‬ ‫ے ہہییں تبفول ظ‬ ‫ق چ قھرو د یظپن ش‬
‫ظ‬
‫تماعی منصوبیہ بب یدی سے‬ ‫ب‬ ‫ک‬ ‫ب‬ ‫ل‬
‫ی‬ ‫ہ‬
‫ترقی اور خو حالی کا کاما قظرت آپ ہی ظ آپ لے نی‬
‫ہے۔ خو سی اج ظ‬ ‫اقپظنی ظ قخونی شکے ساقتھ ظپہیں ہہوس قک یا۔یہ قظرت کی می ظنصویہ ہ بب ظ‬
‫ہے بخو غیتر محسوس طور چتر عمل‬ ‫ہ‬ ‫یدی‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ہے۔‬ ‫مییں آنی ہ‬
‫ظ‬
‫‪ 7‬۔ر یباست کی عدما قمدا چلت‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ ظظ‬
‫چ‬ ‫پ‬ ‫چ‬ ‫چ‬‫ظ‬ ‫ف‬
‫سرماییہ دارایہ ن ظاما م ی ظیں ہہر سم کے کاروببار مییں ظکومت کا کاما مدا لت ہییں کومت ظکا کاما‬
‫فرادی ظآزادی عمل زیبادہ سے ظزیبادہ محفوظ ہہو‬ ‫ق‬ ‫کرے بجن مییں ات‬ ‫ظ‬
‫چالت ق چب یئیدا ظ‬ ‫ے‬‫ہے کہ ا ینس‬‫ییہ ہ‬
‫ے۔اور‬ ‫ہ‬
‫کےظ زور سے چبورا کرابا چچا یہن‬ ‫ے۔معاہہدوں کو قابون‬ ‫ہ‬ ‫ن‬
‫ے۔اسے امن اور ق ظم قایم کربا چچا یہن‬ ‫س ظک‬
‫ب‬ ‫ح‬ ‫حم‬
‫ے۔ریباست کا کاما ییہ‬ ‫لک کے کاروببار کو بچحابا چچا ہ ظیہن ظ ظ‬
‫سے ملک ظاور م ظ‬ ‫مزا میوں ظ‬ ‫ب‬‫ببیترونی ظلوں اور ظ‬
‫ہے کہ منصف‪ ،‬گران اور محافظ کے چدمات اببحاما دے۔ سرماییہ دارایہ ن ظاما کے چامییوں کا‬ ‫ہ‬
‫‪44‬‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ئ ٹ‬
‫ضورت مییں ہہوس ظک یا‬ ‫ظ‬ ‫ہے۔کہ مذکورہق ببال اضولوں چتر سوساپنی کی ق ظلح و بپہبیود قکا کاما اشی‬ ‫دغوی ییہ ہ ظ‬
‫نے‬ ‫جب کہ افراد کو ببل ق ییدو بب ظید کے ظآزاداظیہ کاما کرنے کے موا فع چاصل ہہوں۔ قظرتق ظ ق‬ ‫ہے ب ق ظ‬
‫ہش‬
‫ت‬ ‫ظ‬ ‫چ‬ ‫م‬
‫ہے کہ بجب وہ سب ل ب ل کر کاما کر ی قیں بو یی بیچہ‬ ‫ھی‬ ‫ک‬ ‫ر‬ ‫گی‬ ‫ی‬ ‫ہہ‬ ‫ا‬ ‫ہم‬ ‫ہ‬ ‫سی‬ ‫ن‬‫ی‬ ‫ا‬ ‫ق‬
‫بک‬ ‫ا‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫ین‬ ‫ئ‬ ‫قوا‬ ‫شی‬ ‫معا‬
‫ہظ‬ ‫ظ‬ ‫ی ئ ی‬ ‫ی‬
‫ے بو وہ زیبادہ‬ ‫ہے۔ بجب ا ظفراد کو قاچپنی س ش شعی کا زیبادہ ئسے زیبادہ ئم ظیا فع مل‬ ‫ظ ہ‬ ‫نی‬ ‫ہو‬‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ل‬‫ھ‬ ‫ت‬‫ب‬ ‫کی‬ ‫سب‬ ‫یں‬ ‫می‬
‫چ‬
‫سوں کو قبتروبے قکار لب قے گا۔اس سے‬ ‫ین کوش ظ‬ ‫ے اپنی بپہت ظر ی ق‬ ‫سے زیبادہ دولت چب ییدا کرنے کے یلن‬
‫ہے۔ببازار شمییں‬ ‫ق‬ ‫ہ‬
‫قدار م ی قیں ب ییار ہوبا ہ‬‫سے وا ظفر م ب ظ‬ ‫سے اچچھا قمال وا قفر ی ق‬ ‫ق‬ ‫ے ا چچھ‬
‫ے‬ ‫سب ق لوگوں کے ظ یلن‬
‫یں۔اس ییا کا‬ ‫ہ‬ ‫نی‬ ‫چا‬ ‫ا‬
‫ٓ‬ ‫تر‬ ‫یدال‬ ‫ا‬ ‫خود‬ ‫ب‬ ‫خود‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫یم‬ ‫ق‬ ‫بو‬ ‫ہے‬ ‫با‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫بلہ‬
‫ہ‬
‫چ ئب ٹ ی ظ‬ ‫ع‬ ‫ق‬ ‫ی ق‬
‫ع‬ ‫ظ ہ‬ ‫بجب با بخروں اور ص ظ ق ی ق ب‬
‫قا‬ ‫م‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫یاغوں‬
‫ہے کہ سوسا بنی کی ضروریبات‬ ‫ہوبا قر ہہ یا ہ‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ہ‬
‫ہے۔ اور خود ہی م لوما‬ ‫مع ییار اپ سے اپ ببل ئید ٹہہوبا بچا قبا ہ‬
‫ہ‬ ‫ظ‬
‫ک ییا ہہییں۔بجس سے سوسابنی کی تماما ضروریبات چبوری ہہونی رہنی ہہییں۔‬
‫ظ‬ ‫ظ ظظ‬
‫سرما ییہ دارا یہ ن ظاما کی خو بب ییاں‬
‫ش‬
‫شی ظآزادی‬‫‪ .1‬ظمعا ظ‬
‫‪ .2‬ظخودکار ن قظاما ش‬
‫بواع و اف قساما اس ییا قاور ظچدمات‬ ‫ئ‬ ‫‪ .3‬ا‬
‫س‬
‫ین ا تعمال‬ ‫بپ‬
‫ذرابع کا ہتر ی ق‬ ‫‪ .4‬ش‬
‫یداواری قوت‬ ‫ظ‬ ‫‪ .5‬موع چب ی‬
‫تر‬
‫‪ .6‬ا لی مع ییار زبدگی‬
‫‪ .7‬ظا ئعلی یکارکردگی چتر مراعات‬
‫‪ .8‬بنی اببحادات‬
‫ش‬
‫ق‬ ‫ش ظ‬ ‫‪ . 1‬معا شی آ زادی‬
‫ص‬ ‫ش‬ ‫ہ ظ‬ ‫ش ظظ ظ ظ‬
‫ہے کہ ظہہر شحص ظکو معاشی آزادی چا ل ق ہ قہونی‬ ‫ظ‬
‫یہ‬ ‫نی‬ ‫خو‬
‫چ ظ ب ی چ ہظ‬ ‫ہم‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫سب‬‫ق‬ ‫کی‬ ‫سرماییہ دارایہ ن ظ ق‬
‫ظاما‬
‫ے۔ چب ییداواری قوبوں‬ ‫س‬
‫مکم‬ ‫ہے۔ ب ہتہر شحص کو اجی ی قیار ہہوبا ہ‬
‫ہے کہ وہ اپنی آمدنی اپنیظ مرضی سے خرچ کر ق ک‬ ‫ہ‬
‫ہے۔‬ ‫کو کسی ھی کاروببار اور ببحارت مییں سرماییہ کاری کرنے کی ل آزادی ہہونی ہ‬
‫ظظ‬ ‫ظ‬
‫‪ 2‬۔ خود کار ن ظاما۔‬
‫ظ‬ ‫قق‬ ‫ظظ‬ ‫ظ ظ‬ ‫ظظ‬
‫ہے بخو رسد و طلب کی قوبوں مییں خودکار‬
‫ہ‬ ‫ظاما‬ ‫ن‬ ‫کار‬ ‫خود‬ ‫نی‬ ‫خو‬ ‫دوسری‬ ‫کی‬ ‫ظاما‬ ‫داری ن‬
‫بوازن ققائبم کرقبا ہے۔ ب‬ ‫ق‬ ‫سرما یقیہ‬
‫ہ‬ ‫طر تیق‬
‫ے سے‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ش‬
‫‪ 3‬۔ا بواع ظو ا فساما ا س ییا اور ظچدمات‬
‫ظ‬ ‫ق‬
‫ے کی بچائبے‬
‫ے کی بچائبے اور چب ییداوار کس کے ق یلن‬
‫ے کہ چب یقیداوار ک ییا ہہو‪ ،‬چب ییداوار کیس‬
‫تماما بتی ییادی ق ینصل‬
‫ہ‬ ‫سرمشاییہ دار شکی قس‬
‫صارف کے ذوق کو اہمییت دیب یا ہ‬
‫ہے۔ لہذہ‬ ‫یں۔ہہر سرماییہ دار ق ہ ق‬ ‫ظ‬ ‫ے ہہونے شہہ ی‬
‫ہے۔‬ ‫مع ی شت ئکو کثیتر تعداد مییں اس ییا قاور چدمات مہ ییا ہہونی رہنی ہ‬
‫عمال‬ ‫ت‬ ‫‪ 4‬۔ذرا تع کا بپہ قتر یین ا س‬
‫ظ ش‬ ‫ظ‬ ‫ق ق‬ ‫ق‬ ‫ق ق ق‬
‫ئ‬ ‫س‬ ‫ق‬ ‫ئ‬
‫وساب ظل ظکا است ق‬
‫عمال بپہتریین طح چتر ہہوگا بجس مییں قدرنی وسابل کے ص ییاع کا چدشہ‬ ‫ظتماما قدرنی ظ‬
‫پہییں بجب م یا فع کمابا واچد م قصد ہہو گا۔‬

‫ق‬ ‫ش‬
‫‪ 5‬۔مو تر چب ییداواری قوت‬
‫ظ ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظق‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ ظظ‬
‫فرو ق‬
‫جت کار‬ ‫اور‬ ‫یدگان‬ ‫ک‬ ‫یدا‬
‫ی‬ ‫چب‬ ‫ق‬ ‫لف‬‫ی‬ ‫خ‬
‫م‬ ‫ق‬ ‫سے‬ ‫جہ‬
‫بظ‬ ‫و‬ ‫کی‬ ‫نے‬ ‫ہ‬
‫ہو‬ ‫بلہ‬
‫ظ‬ ‫ب‬ ‫قا‬ ‫م‬ ‫حت‬ ‫یں‬
‫یق ش‬ ‫م‬ ‫ظاما‬ ‫سرماییہ دارایہ ن‬
‫م‬ ‫چظ ش‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫س‬
‫ے شحت حین کرنے ہہییں۔اور اپنی اس ییا قبیول‬ ‫ایبک دوسرے چتر بفت لے بچانے کے یلن‬

‫‪45‬‬
‫ظظ ق ق‬ ‫بپ ق ک ق‬ ‫ظ ظ‬
‫ص‬
‫ے ہہییں۔لہذا قنی ترقی ان کی چب ییداواری لجییت کو‬
‫ے ان کا مع ییار قہتر ر ھن‬‫ع شاما بب قیانے کے یلن‬
‫ہے۔‬ ‫ہے۔بجس سے چب ییداوار بتڑھنی ہ‬
‫موتر کرنی ہ‬
‫ظ‬ ‫‪ 6‬۔ا ع‬
‫ق‬
‫بدگی‬
‫ظ ظ‬
‫ز‬ ‫یار‬‫ی‬ ‫ع‬‫م‬ ‫لی‬
‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ش ش ق‬ ‫ش‬ ‫ق‬ ‫ظ‬
‫ہے۔بجس سے‬
‫ہ‬ ‫نی‬ ‫چا‬ ‫ٓ‬ ‫ا‬
‫ی ی ب‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫بد‬ ‫خر‬ ‫قوت‬ ‫کی‬ ‫سب‬ ‫ہوکر‬‫ہ‬ ‫نی‬ ‫ساما اس ییا ظکی فراونی ظسے اس ییا سق‬
‫ا ظبواع و اف ق‬
‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫ب‬
‫غریبب اور میوسط افراد مع ییار زبدگی ب ل ید ہونی ہ‬
‫‪ 7‬۔ا علی کارکردگی چتر مراعات‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظق‬ ‫سرمایہ داراظیہ ظ ظ ظاما میں اع‬
‫ہے۔‬
‫ہ‬ ‫با‬ ‫چا‬
‫ب‬ ‫بوازا‬ ‫سے‬ ‫عامات‬‫ت‬ ‫ا‬ ‫دوسرے‬ ‫اور‬ ‫قد‬ ‫ت‬ ‫کو‬ ‫ترمزدور‬ ‫چ‬ ‫کارکردگی‬ ‫لی‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫ی‬
‫یت قکے م ظاب بق معاوظصاہ ب مل‬
‫ے۔‬ ‫یب م‬‫ی‬ ‫ل‬‫ص‬
‫ق ج‬‫ظ‬ ‫اور‬ ‫کارکردگی‬
‫ظ‬ ‫کے‬ ‫ق‬ ‫اس‬ ‫کو‬ ‫مزدور‬ ‫ہر‬‫ہ‬ ‫کہ‬ ‫ق‬ ‫ہے‬ ‫ہ‬ ‫لب‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫بجس‬
‫ہے۔ بجس سے مجموعی‬ ‫ہ‬ ‫نی‬ ‫ل‬ ‫غی‬ ‫تر‬ ‫کی‬ ‫نے‬ ‫کر‬ ‫عمال‬‫ت‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫یت‬ ‫جی‬ ‫ل‬ ‫ص‬ ‫ین‬ ‫ر‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫بت ظ ظ ی ق‬‫بپ‬ ‫کو‬ ‫مزدور‬ ‫سے‬ ‫جس‬ ‫ب‬
‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫با‬ ‫ہ‬
‫ہو‬ ‫فہ‬ ‫ا‬‫ص‬ ‫ا‬ ‫ھی‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫یداوار‬
‫ی‬ ‫چب‬
‫حادات‬ ‫‪ 8‬۔ ظ ئنی ا ی‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ظ ظ ئ‬ ‫پ بب‬
‫ظظ‬ ‫ی‬ ‫ئ‬ ‫ظ‬ ‫ئ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫سرمایہ دارا ظ‬
‫نی پ ظنی اببحادات کی کاقی گیبحا ظنش ہہو قنی ہ ظ‬
‫ہے۔اس ن قظاما قکے بحت‬ ‫ظ‬ ‫پ‬ ‫یں‬‫ی‬ ‫م‬ ‫ظاما‬ ‫ن‬ ‫یہ‬ ‫ی‬
‫ہے ق ب ق‬
‫جس‬ ‫ے طرتی ققہ کار دریباقت کربا ر ہہ یا ش ہ‬
‫ے یپن‬
‫ہ‬
‫کے یلن‬
‫ق‬ ‫ی‬ ‫سرما ی ظیہ دارٹبزی ی ظبادہ بسے ب زیبادہ م یا قفع کے حصول ظ ئ‬
‫ے اببحادات ہونے ہہییں۔اس طرح معاشی ترقی‬ ‫ہے اور پ ظن‬‫یالو ہحای و ہخود ق مییں انی م ہع ش‬ ‫سے یپنی ک‬
‫ہے۔‬ ‫نی‬ ‫ہ‬
‫ہو‬ ‫ص‬
‫بیوط‬ ‫م‬ ‫شت‬ ‫ی‬ ‫اور‬ ‫ہے‬ ‫با‬ ‫ہو‬ ‫موار‬ ‫ہ‬ ‫ے یراس ق‬
‫بہ‬ ‫کے یلن‬
‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ظ‬ ‫ظ‬
‫سرما ییہ داری ن ظاما کی ظچا م ی ظیاں‬
‫ب‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫کارل مارکس کے م ظاب بق " سرماییہ ن ظاما مییں اچپنی قب بیا ہہی کے ی پیج ہہییں"‬
‫ظظ‬
‫سرماییہ داراظیہ ن ظاما کی چح ییدہ چح ییدہ ظچام ییاں ذیبل ہہییں۔‬

‫ق‬
‫‪ 1‬۔ مزدور کا ا سیحصال‬
‫ق چظ ق‬ ‫ق‬ ‫کی سب سے تڑی ظ‬ ‫ظ ظظ‬
‫ہے۔ مزدور ظا ظپنی اوقات ظ‬
‫کار‬ ‫ہ‬ ‫صال‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫مزدور‬ ‫چامی‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظاما‬ ‫ب‬ ‫سرما یظیہ دارایہ‬
‫ح‬
‫سے کم پیخواہہییں چباقنے ہہییں۔ان کے چب ییداواری صلجییت سے پیخواہہییں کم ہہونے‬
‫کے نسببت ش‬
‫ک‬
‫چتر ان کی قگزر بنسر مش ل سے ہہونی ہ‬
‫ہے۔‬
‫ق‬
‫ق‬
‫‪ 2‬۔ ط بی قا نی بچدو بچہد‬
‫ظ‬ ‫ققظ‬ ‫ق‬ ‫ق ظ‬ ‫ق‬
‫ہ‬ ‫ق‬
‫ے م یتیں ہونے ہہ ی شیں۔بح بیکہ بباقی لوگت زبدگی ق‬
‫کی بتی ییادی‬ ‫ظ‬ ‫ے کے ق بنص‬ ‫دار طیبق‬‫دولت ‪ ،‬وسائبل سرماییہ ق‬
‫ے مییں معاسرہ چدو چی ققحصوں مییں قس شییم ہہوبچابا ہ‬
‫ہے۔‬ ‫یں۔بجس کے ق ی ی بیچ‬
‫س‬ ‫س‬ ‫م‬ ‫ہونے ہہ ی‬ ‫شہول ییات سے مجروما ظ ہ‬
‫مراعات یبافقبہ۔ لہذہ ل ل دو ط بیفوں کی آچنس کی ج لش سے معیشت چتر بترے‬ ‫شمجروما اور ق‬
‫اترات چتڑنے ہہییں۔‬
‫ق‬
‫نے مسرف م قا ببلہ‬
‫‪3‬۔ ب‬
‫ساعت‬ ‫سرمایہ داری ظ ظاما ابک نے سرف ققابلہ ہے۔ ا ش قنہار بازی قاور دوسرے ظ شسروا ش‬ ‫ظ‬
‫ت‬ ‫ن‬ ‫بچ ظ م ظ م ب ب ی ہ ظ س ظ ب‬ ‫ن ش ی‬ ‫ی‬
‫ب‬ ‫ب‬
‫ہے۔ بجس کا بوبچھ ھی‬ ‫نی شہ‬ ‫ہ‬
‫ے قکے خرچ ہو شظ‬ ‫مصیوعات کو پ چین ش‬‫اداروں چتر ق کث یقتر سرماییہ اپنی ق‬ ‫ق‬ ‫ظکے‬
‫اس اس ظنہار ببازی قاور نسرواساعت ٹکی و ب قجہ سے‬ ‫۔‬ ‫ہے‬ ‫با‬ ‫چا‬
‫ب‬ ‫ڈال‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫یوں‬ ‫ی‬
‫ی‬ ‫ق‬ ‫تر‬
‫طب ق چ م‬‫ے‬‫ق‬ ‫ی‬ ‫بب‬
‫ٹ‬ ‫غر ی‬
‫چ‬ ‫پ‬ ‫ق‬ ‫ہ‬
‫ے کے‬ ‫ی‬ ‫چ‬ ‫س‬
‫تڑے سرماییہ دار کا م قاببلہ ہییں کر ک یا بجس سے ھونے ط بق‬ ‫باری ب ق‬ ‫ظ‬ ‫ے کا کارو ب ق‬ ‫چچھونے ط بق‬
‫ی‬
‫ہے۔‬‫کاروببار چتر بتڑا سرماییہ دار ق بنصہ کر ل یی یا ہ‬
‫‪46‬‬
‫ش‬ ‫ظ‬
‫ب‬
‫‪ 4‬۔ ا ظصا قی چب ییداوار‪ /‬معا شی بجران‬
‫ق‬ ‫ق‬
‫نی‬ ‫چا‬ ‫لی‬ ‫کر‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫قدار‬
‫ق‬
‫بادہ‬ ‫ز‬ ‫یداوار‬ ‫کی‬ ‫یا‬
‫ظ ش‬
‫ا‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫با‬ ‫ہ‬
‫ہو‬ ‫ھی‬ ‫سرمایہ دارا ظظیہ ظ ظ ظاما میں کبتھی تھار ا ی ظسا بت‬
‫ب ق‬ ‫ظ‬ ‫قی‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫چب‬
‫ی ق ی‬ ‫س‬ ‫ظ‬ ‫ہ‬ ‫ق‬
‫پ‬‫ی م پ ن ظ ی ظ کب ئ ن‬
‫ہ‬
‫ہے۔کچجھ کاروببار جیم ہونے لگن‬
‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬
‫نے وال کوبی ہییں ہوبا یبوں م یا فع قکم ہوبا ہ‬ ‫ہے۔ گر ا ہییں خریبد ق‬ ‫ہ‬
‫ہے۔‬ ‫نے روزگاری بتڑھنی ہ‬ ‫ہے۔ اور ب‬ ‫ہہییں ۔سرماییہ کاری سکڑنی ہ‬
‫ش ق‬
‫‪ 5‬۔ معا شی ا بار چخڑھاو‬
‫ق‬ ‫ظ مع ش‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ ظ‬ ‫ظ ظظ‬
‫سرماییہ ظدارایہ ی ق‬
‫شت کو ابار‬ ‫ق‬ ‫سے‬
‫ظ‬ ‫جہ‬ ‫و‬ ‫ق‬
‫کی‬ ‫نے‬‫ظ‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫خودکار‬ ‫ق‬ ‫یں‬ ‫ظ‬
‫ظ ی‬‫م‬ ‫قظرت‬ ‫نی‬ ‫چ‬
‫پ‬ ‫ا‬ ‫ظاما‬ ‫سرماییہ دارایہ ن‬
‫ی‬ ‫ت یق ظ‬ ‫مسیح ب‬
‫ہے۔‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ہے۔خو غیتر کم اور غیتر ینی کی ک قییت چب ییدا کربا ہ‬ ‫نے روزگاری کا سام یا کربا چتڑبا ہ‬ ‫چخڑھاؤ اور ب‬

‫ق ق‬ ‫ظ ق‬
‫ش‬ ‫ظ‬
‫‪ 6‬۔ غ یتر میوازن تر قی‬
‫ظظ‬ ‫ق‬ ‫ظ بظ ش‬ ‫ق‬
‫لے س ظع ب ظ‬
‫یوں کو ن ظر‬ ‫ظ‬
‫ہے۔ کم م یا فع وا ق ق‬ ‫ظ‬ ‫سے زیبادہ م ظیا فع بحش ئ س بعن‬
‫ے مییں لظگایبابب یبچابا ہظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظتماما وسائب قل کو زیبادہ‬
‫ی‬
‫ہے۔ ییہ ترقی اچپنی قظرت‬ ‫ہے۔اس ن ظاما مییں اس چتر کوبی چح ییک ایب یڈ لیس پہییں ہ‬ ‫ابداز ظک ییا بچا قبا ہ‬
‫ہے۔‬
‫ہ‬ ‫یوازن‬ ‫مییں غیتر م‬
‫ظق‬ ‫ظ‬
‫ظ‬
‫‪ 7‬۔ ر قاہ عاماہ کا ف قدان‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫بادہ م ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ ظظ‬
‫ظ‬
‫ہے یہ کہ رقاہ عاماہ۔ابواع و افساما‬ ‫صول‬ ‫ح‬ ‫کا‬ ‫فع‬ ‫یا‬ ‫ق‬ ‫ز‬ ‫بادہ‬ ‫ز‬ ‫صد‬ ‫م‬ ‫واچد‬ ‫کا‬ ‫ظاما‬ ‫ن‬ ‫شسرماییہ دارایہ‬
‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫ظ ق ی ی‬
‫ے۔‬ ‫ہے ظیہ کہ رقاہ عاماہ کے یلن‬
‫ہ‬ ‫نی‬ ‫چا‬ ‫کی‬
‫چ ب‬ ‫تر‬ ‫ضرورت‬ ‫کی‬ ‫یٹ‬ ‫کی‬ ‫ار‬‫م‬ ‫یداوار‬
‫اس ییا کی چب ی‬
‫ق‬
‫‪ 8‬۔ا بچارہ دار یبوں کا ق ییاما‬
‫ظ‬ ‫ظ ظ ق‬ ‫ظ قظق‬ ‫ظ‬ ‫ظ ظ‬
‫لک کے ابدر‬ ‫ہے۔کہ اس سے م ش‬ ‫سرماییہ دارا قیہ ئن ظاما قکو اس ببات چتر شحت پیق یید کا قسام یا ق ئکربا چتڑبا ق ہ‬
‫ہے۔ بئجب ک ظسی سے کی رسد ظچتر‬ ‫یم ہہونی ہ‬ ‫ق‬ ‫چارہ داری اس وقت قا‬ ‫ٹ‬ ‫ظ‬ ‫ہے۔ ا ب‬ ‫نی ہ‬ ‫ظ‬ ‫ابچارہ ظداری قابم ہہو‬
‫م‬‫ک‬
‫فرما‪،‬ادارہ یبا چینی‬ ‫مکم‬
‫فرما‪،‬ادارہ یبا ک چینی کو شل کثترول ہہو اور قاس کے م قا ببل‬ ‫م‬ ‫ق‬
‫یں کونی اور کم ظ‬ ‫ے می ظ‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫کق ظ‬
‫سی‬
‫یٹ‬ ‫چ‬
‫‪،‬ادارہ یبا ینی مارک ی ظ‬
‫ظ‬ ‫ہ‬
‫اپنی رسد شاور قییمت چتر اس سے کی رسد کے قا ب ل یہ ہو اور شوہ واچد فرما‬
‫کی ئرسد چ ٹتر اس فرما‪،‬ادارہ یبا ک چمینی‬
‫سے ظ‬
‫ئ‬ ‫کرے۔ اس سے مارکییٹ مییں اس ظ‬ ‫ق‬ ‫کو اشی سے کی ق ئ‬
‫رسد‬
‫ق‬
‫ہے۔اور ظ اس ا ظبچارہ داری کا بابچاتز قابدہ اتھا شکر مارکییٹ مییں ظ اس‬ ‫ہ‬
‫کی ش ابچارہ داری قایم ہوبچانی ظ ہ‬
‫ص‬ ‫ن‬‫ی‬ ‫ی‬ ‫چ‬
‫سے کی رسد کم یبا زیبادہ قکرنے اور اپنی مرضی کی قیمت وضول کی چبوز شن چا ل کرنے چتر‬ ‫ق‬
‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫با‬ ‫چا‬ ‫ین‬
‫ب ب ب‬ ‫بب‬ ‫س‬ ‫کا‬ ‫صال‬ ‫اس ح‬
‫ی‬

‫فصل دوم‬
‫‪47‬‬
‫ظ‬ ‫سش‬ ‫معاشی نظام ظ‬ ‫ظ‬ ‫اشتراکی‬ ‫ظ‬
‫ے ساتب سی ظسو لزما شکی اص ظلح اور چترانے‬ ‫ی‬ ‫ئ‬ ‫ق‬
‫ظ‬
‫ے شاشتراکی ن ظریبوں کے ظ یلن‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ظ‬
‫نے ا چپن‬ ‫لز‬ ‫"مارکس اور ایپ ظنگ‬ ‫ش‬
‫ظ‬
‫ھی۔ ظح یق قیالی سوسلزما قسے ان کی مراد‬ ‫لزما کی اص ظلح وضع ظ کی قق‬ ‫ے ح ییالی سوس ق‬ ‫سوسلزما کے یلن‬
‫ہے ہہ ی ظیں۔ییہ‬ ‫ہ‬ ‫ے بخو یبورپ کے ظم ق ظکریین وق ئیا قوق یا چتییش قکرنے ر‬ ‫نے ظتھ‬ ‫ب‬ ‫شما بحای اصلح شکے وہ ضو‬ ‫ظ‬
‫ق‬
‫ان کریین‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ئ‬ ‫ظ‬ ‫پ‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫ے۔ ب لکہ ظ ظ‬ ‫ے شگ یے ھ‬ ‫کے معروضی چالت سے اچذ ہییں کن‬ ‫سرےکا ع‬ ‫نے ظمعا ش‬ ‫منصو ب‬
‫داری ن ظاما کے‬ ‫کے بترعکس سائبیسی سوسلزما سرما ق قییہ ظ‬ ‫ق‬
‫متط ظت ق‬ ‫ے۔اس‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ھ‬ ‫ت‬ ‫کس‬ ‫سوں‬ ‫ہ‬‫ہ‬ ‫خوا‬ ‫نی‬ ‫کے ظذا‬
‫ل‬ ‫ب‬ ‫ظ‬ ‫ت‬
‫حای ارت قا ببا حصوص سرماییہ‬ ‫ھا۔اس قکے اضول شما‬
‫ے۔ سائبیسی سوشس‬ ‫ے ت‬ ‫ضی چالت گکا لزمی اور قی یی بظیچہ ئ ئ‬ ‫معرو ظ ظ‬
‫مراد وہ شما بحای‬ ‫ظ‬ ‫سے‬ ‫لزما‬ ‫ئ‬ ‫ھ‬ ‫ن‬‫گق‬ ‫ے‬‫ن‬ ‫ک‬ ‫چذ‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫ے‬ ‫ع‬ ‫م ل‬ ‫ظا‬ ‫ہرے‬ ‫کے‬ ‫ظاما‬ ‫ظ ظداری ن‬
‫تماما ذرابع ش ق۔۔۔ زمیین‪ ،‬قم قعدب ییات ‪،‬‬ ‫یداوار کے‬ ‫جس م ی قیں چب ی ظ‬ ‫ہے۔ ب‬ ‫ظاما ظ ظ ہ ٹ‬ ‫نکار ظ‬
‫ق‬
‫یں۔اور‬ ‫نے ہ یہ‬ ‫سرے قکے مشترکہ مل ییت ہہو ق‬ ‫ترہ۔۔۔ عا ش ق ظ‬ ‫ظ‬ ‫غ‬ ‫و‬ ‫حارت‬ ‫یک‪،‬‬ ‫ظ‬ ‫بب‬ ‫ظ‬
‫باں‪،‬‬ ‫تر‬ ‫ک‬‫ی‬‫ی‬ ‫نے‪،‬‬ ‫چا‬
‫قت‬ ‫ک‬ ‫ظ‬ ‫ح‬
‫ب یی‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ق‬
‫کے ظم ظظاب بق س ییم کی بچانی‬ ‫سنی کاما کر قنے قوالوں کی ل قی چمیت قش‬ ‫یداوار بجسمائ ظنی اور ذشہہ‬ ‫ان کی کچب ی ظ‬
‫جس مییں‬ ‫ہے ب ظ‬ ‫تراکی ن ظاما ہ‬
‫ہے۔اس شسے مراد وہ اش ق‬ ‫گ‬
‫ہے۔ م قییو قتزما ساب سی سو ظلزما کاق ا ظ ل قدما ہ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫ہے کہ اس ییا ضرف کے استعمال کا چپ یتماظیہ افراد کی‬ ‫ہ‬ ‫نی‬ ‫چا‬ ‫تڑھ‬
‫ظ پ بق ب‬ ‫نی‬ ‫ا‬ ‫بوں‬ ‫یداواردو‬ ‫ی‬ ‫چب‬ ‫اور‬ ‫یں‬
‫ی ق‬ ‫ئ‬ ‫قو‬ ‫یداواری‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫چب ی‬
‫ہے۔" ‪؎1‬‬ ‫ہ‬
‫چمیت ہییں ہوبا ب لکہ ان کی ضرورت ہوبا ہ‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫پ‬
‫ش‬‫ظ‬
‫یالی سو سلزما کی ا ببق یدا‬
‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ح‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ب ق ی‬ ‫ظ‬
‫بک و ظقت‬ ‫ہے ظکہ شما بحایقت ق ظن ظاما کی ارت ققا مییں ا شی ق‬‫ہ‬ ‫با‬ ‫ہ‬
‫ہو‬ ‫لوما‬ ‫ع‬‫م‬ ‫تر‬
‫ظچ‬ ‫نے‬ ‫کر‬ ‫عہ‬
‫ظ م ل ظ‬ ‫ظا‬ ‫ظ‬ ‫کا‬ ‫بخ‬ ‫بار‬ ‫حای‬ ‫شما‬ ‫نی‬ ‫سا‬ ‫ان‬
‫کا معاسرنی زتبدگی‬ ‫ق‬
‫سان محسوس ہکرنے ظلگا ظکہ س ییم دولت ش‬ ‫نے قچتر ان‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫ب‬ ‫ظ‬ ‫غورو ظ کر کر ش‬ ‫اینسا آیبا کہ عس ییاشی ظ‬
‫ص‬
‫ے ظمعاشی ا لح ھی‬
‫ہ‬ ‫ہ‬
‫ظ‬
‫درست اور موار ببشیانے کے ش یلن‬‫ہ‬ ‫سربی کو ق ظ‬
‫س‬‫ل‬ ‫ش‬ ‫ہے۔ن ظاما معا‬
‫ع‬ ‫ق‬ ‫ظسے گہرا ت لق م ظ ہ‬
‫ہے قکہ‬ ‫ہ‬
‫اغروں‪ ،‬قییوں‪،‬اور دانسوروں کی ہم قیشہصخواہش رہی ہ‬ ‫ہے۔ کروں‪ ،‬ئلما اور س ظ‬ ‫ظضروری ہ‬
‫دظب ییا ایبک انسی بچگہ بین بچابے بچہاں انسان ایبک دوسرے کے ساتھ ظ ظلح و قامن کے ساتھ‬ ‫ی‬
‫یں۔ ایبک دوسرے قکے د ق قکاھ ظدرد بباظبٹ ظسک ی قیں۔ایبک این قسا ن ظاما قا ئبم ظہہو بچائبے‬ ‫بدگی بنظسر کر سک ی ظ‬ ‫ز ظ‬
‫قبتخو انسابوں کے قظلح اور ہبیود کے تماما ت قاضوں اور ضروربوں کو چبوراظ ظکربا ہو۔اس خواہش کی‬
‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫بپ‬
‫صدیبوں ظ ظسےقدب یظیا کے ذہہظیین لوگ اس‬ ‫ت‬ ‫ہے اور‬ ‫ہ‬ ‫بوں سے بچدوبچہد کر رہہا‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ے انسان صد‬ ‫ق کم ییل کے یلن‬
‫نی لسقییوں قنے دولت ظکی‬ ‫یں اقلطون اور ارس طو کے علوہ ب ھی یبوبا ش‬ ‫ہے ہہییں ۔بجن م ی ق‬
‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬ ‫ت چ قتر لکھ ر‬
‫ہے ظبجس سے ریباست م ظعاشی چچیترہ دسیییوں سے محفوظ‬ ‫یش کی ظ‬ ‫ظ‬
‫قس ییم قکی کوبی یہ ظکوب ظی این ظسی ببخو یظتز چت ی‬
‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬
‫ہے۔انسانی دب ییا قکو بجیت بب یانے کا خواب جن لوگوں نے د یتکھا ان مییں سب سے‬ ‫رہ ظسکنی ہ ق‬
‫چپہل باما سر تھامس مور کا تھا۔‬
‫ٹ‬ ‫ق‬
‫سر تھامس مور ) یبو بو چب ییا(‬
‫ہے۔تھامس مور بجس قعہد مییں چب ییدا‬
‫ق‬
‫ل‬ ‫بجس کی ظ قک یاب "‪ ؎Utopia" 2‬کو عال گتر ششہرت چاص‬
‫ظ‬ ‫ظش ہ ش‬ ‫م قی‬ ‫ہ ق‬ ‫ق ی‬
‫ساط ال یاظب ینہ کا آعاز ہہو گ ییا تھا۔ امریبکہ‬ ‫ظ‬ ‫چ‬ ‫یں‬
‫ظ ی ق ی چن‬ ‫م‬ ‫بورپ‬ ‫ھا۔‬ ‫ت‬ ‫دور‬ ‫ین‬‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ر‬‫ت‬ ‫ہم‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫کی بار ق‬
‫بخ‬ ‫ق‬
‫ہہوا وہ انگلس یان ظ‬
‫ک‬
‫ے ل ئگییں۔بچاگیترداری اور ل ی قسای‬ ‫ظ‬
‫ظ ظاشی دور مییں دریباقت ہہوا قتھا۔چچ ظھاچبا چاہ شیہ قکا آ ظعاز ہہوا۔ظک یا بئییں ھچین‬
‫نے بترطابوی کل ی سا کو چباچبابے روما سے آزاد ک ییا تھا۔‬ ‫ے۔ ہ قہ ئتری ہسیم ظ‬ ‫ہے ظتھ‬ ‫قن قظاما ظدرہہم ظ قبترہہم ہہور ہ‬
‫دولت کی مساوی‬ ‫یں‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬
‫خودمخ یار چخرچچچاف ان ظل یی یڈلقابم ظکرکے خود سربتراہ بب یا۔ا ینس‬ ‫گ‬
‫ق‬
‫ظ‬
‫م‬ ‫اخول م ی ظ‬‫ے ظم ظ ظ‬ ‫م‬ ‫تا یقبک ق‬
‫بدگی ظکو لوج کرکے‬ ‫نے گی کییوبکہ ذانی لک قییت کی رواج ٹنے ن ظاما ز ظ‬ ‫س ییم قکی بد ببت یرییں سو ھی بچا ق‬
‫‪ 1478‬با ‪ 1535‬کی "یبوبو چب ییا" بخو ایبک فر ظضی س ییاح شکے‬ ‫ئ‬ ‫مور‬
‫ک‬ ‫ل‬ ‫ھامس‬ ‫ت‬ ‫ھا۔اشی دور مییں سر‬ ‫ظرکاھ ظدیبا ت ظ ظ‬
‫ساوات چتر ینی ایبک م یالی‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ہے بجس م ی ظیں م‬ ‫ضورت مییں ھی گنی ہ‬ ‫مے شکی‬ ‫ضی سفر با ظ ظ‬
‫ق‬ ‫ئ‬ ‫فر ش‬
‫یں۔س یید س ببط جشن‬ ‫بدگی گزار قنے ہہ ی ٹ‬ ‫ز‬
‫ب ب ظ ش‬ ‫کی‬ ‫تر‬
‫ظ‬ ‫ترا‬ ‫سب‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫جس‬
‫ہ ب قی‬ ‫ہے۔‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫گ‬ ‫کی‬ ‫سی‬ ‫ق‬
‫ک‬ ‫ظر‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫کی‬ ‫سرے‬ ‫م ظعا‬
‫ش‬
‫"سر تھامس مور نے اپنی م ہور ک یاب ظ ق"یبوبو چب ییا"مییں ایبک‬ ‫چ‬ ‫ق‬ ‫ل‬‫ع‬‫ت‬ ‫م‬
‫ت‬
‫ہے۔ ئ ق‬
‫ظ‬ ‫نے اس کے ق ق لکھاق ہ‬ ‫ظ ظ‬
‫ق‬
‫ے ظ دور اق یادہ بخزیترے مییں‬ ‫ے ق اس س ییاح کا گزر ایبک ا ینس‬ ‫ے ئھ‬ ‫ضی س ییاح کے ببجرببات لم بی ید شکن‬ ‫ظ‬ ‫فر ق‬
‫ے۔"‬ ‫ہے تھ‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫گزار‬ ‫بدگی‬ ‫ز‬ ‫سے‬ ‫ین‬ ‫ھ‬
‫چ ی‬‫چ‬ ‫و‬ ‫راما‬ ‫ا‬
‫ٓ‬ ‫لوگ‬ ‫ھااور‬ ‫ت‬ ‫ج‬ ‫ب‬‫را‬ ‫سرہ‬ ‫عا‬‫م‬ ‫کا‬ ‫طرز‬ ‫شٹ‬ ‫من‬ ‫ییو‬ ‫ک‬ ‫چہاں‬ ‫ب‬ ‫ھا۔‬ ‫ت‬ ‫ہہوا‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫؎‬ ‫‪3‬‬ ‫یاب‬ ‫ک‬ ‫کی‬ ‫ل‬ ‫ی‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫ی‬‫چ‬ ‫تھامس کام‬
‫ق ظ‬ ‫ظ ٹ‬
‫‪Cityof the‬‬ ‫‪Sun‬‬ ‫‪Thomas‬‬ ‫‪Campanella‬‬
‫یں۔ان نصاپ ییف مییں‬ ‫‪ ؎Oceana‬ہہیترتگین ققاببل ذکر ہہ ی ق ق‬ ‫ش‬ ‫‪ Harrington‬شکی” ‪ 4‬ق‬ ‫ظ ظ ظ‬ ‫ظاور‬
‫ئ‬ ‫قت‬
‫اپہوں نے فرضی معاسروں کی نصویتر کسی کر کے دولت کی مساوی س ییم اور ذرابع چب ییداوار‬
‫‪48‬‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ظ ش‬
‫ہے اگرچجہ ئان کے‬ ‫ے لزمی ظ فرار دیبا ہ ق‬ ‫ق‬
‫کے یلن‬ ‫ش‬ ‫ظ‬ ‫یاشی اسیحکاما‬ ‫یت ہہ قو قبامعاشی اور س ی ظ‬ ‫ظریباست ظکی ظملک ی ق‬
‫ے کہ کسی‬ ‫ین اور دانسور واف عی ظاس ح ییال ظمییں م ب ظی ی قل ہہو گن‬ ‫ق‬ ‫م‬
‫ے تگر اس دور مییں کر ی‬ ‫م‬ ‫ت‬
‫ح ییالت ئفرضی ھ‬
‫ئ‬
‫فرق جیم ہو بچابے۔‬ ‫ہ‬ ‫ئ‬ ‫ٹ‬ ‫ق‬
‫طرح ذرابع چب ییداوار کی ح ظیس ییم اس طرح کی بٹچا ظبے کہ قامیتر اور غر ی ظبب کا ظ‬
‫یٹ اور یکیتھولک نے مذہہبنی بجیگییں لڑییں اس دور‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫صدی مذہہبنی ب گوں کا دور رہہا‪،‬چترونس‬
‫ظ‬ ‫سولہوییں ش ظ‬
‫سوچ دھ یدل گیی ئ۔شترہہوییں ظصدی قکے وسط م ی ظیں ہہابنس لک ظ اور روسو‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬
‫ق‬ ‫م‬ ‫چت‬ ‫یں معاشی باہ ظمواری کی ظ ظ‬ ‫می ظ‬
‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫ئ‬
‫نی س ییاشی کریبن کو‬ ‫ہے کہ ظمعر ش‬ ‫ہوبا ہ‬ ‫بدازہآرا ئ‬ ‫سے ا‬ ‫ےانع ق‬ ‫نے ییش کن‬ ‫بتنے قمعاہہدہ ع ظمرا ظنی کے خو ن ب قظر ی ظ‬
‫نے باینس ییا اور امر ی ظبکہ کے‬ ‫ئ‬ ‫کر‬ ‫یاں‬ ‫شی‬ ‫ب‬ ‫یاس‬
‫ق‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫ئ‬ ‫بدگی‬ ‫ظ‬ ‫ھی ا بب یدانی انسابوں کی شماحای ز‬
‫ی‬ ‫ح‬
‫جب مذہبنی گوں کا‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫سروع ہوبی ب ق‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬
‫ق‬
‫ل چتر غورو کربب‬ ‫ے۔ان مساب ظ‬ ‫تڑی قمدد ملی تھ ق ظ‬ ‫سے ب ش‬ ‫ظ‬
‫چالت ق‬ ‫ق‬
‫ھا۔وہ دولت کی‬ ‫ہوا۔ اش قتراک یقیت کے قییوں کا نصب العیین عموما اچلقی ظیبا مذہہبنی ت ظ‬ ‫س‬ ‫ل‬ ‫تم قاخول جیم ہ ظ‬
‫یں۔۔اتیستوییں صدی‬ ‫ظ‬ ‫ے قتعھی کہ لوگ جسد و ش ل لچ ئکی وبجہ سے آ قچنس م ی قیں ظیہ ق لڑ ی‬ ‫قس ییم ا ظینسی کربا چ شچا ق ہہن‬
‫کی ھی آمیتزش‬ ‫ب‬ ‫لی کے سا ئتھ ساتھ ا شچلقی ظع یاضر‬ ‫قتکے آعاز مییں اشتراکی ت شل یتمات مییں معاشی مساب‬
‫سییٹتسابمن‪،‬را ب شترٹ‬ ‫ئ‬ ‫م‬
‫ھی۔ اشی دورظ مییں ظسوس ظلزما قکے بپہت سے ق لغ چب ییدا ہہوبے م یقل ی‬
‫ب‬
‫تڑے سوق‬ ‫ب‬
‫فوں مییں ھی ق ب ق‬ ‫ش‬ ‫لوہ مزدور چل‬
‫ظ‬ ‫ش‬ ‫چارلس قورقتیتر وغیترہ ابکی بجریترییں درم ی شیاظیہ ط بی شقہ کے ع ظ‬ ‫ق‬ ‫اوویین‪ ،‬چ‬
‫شٹ دانسور ظچم قیت کسوں کے ط بی قا ظ قنی بچدوبچہد‬ ‫س‬ ‫سو‬ ‫تر‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫سے‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫ان‬ ‫گر‬ ‫م‬ ‫ھی۔‬ ‫ق‬ ‫نی‬ ‫چا‬ ‫تڑھی‬
‫س‬ ‫ظظ ل ش‬ ‫ظ ی‬ ‫ت‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫سے چ‬
‫یم کرکے‬ ‫ےج ظ‬ ‫سرماییہ داری بظاما ظ کو سو ق لشٹ ات ق شلب کے ذر ق یت ع‬ ‫ے۔اور یہ ق ق‬ ‫یہ ئ ھ ظ‬ ‫ق‬ ‫کے خق م یظ ظیں‬ ‫ش‬
‫نے‬ ‫ع‬‫م‬ ‫س‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫س‬
‫فول ظمن قصو ب‬ ‫کے ظ ب‬ ‫اگر سو قلزما ش‬ ‫ے۔ ب لکہ ان کا قح ی ئیال ھا کہ ئ‬ ‫ےق ھ‬ ‫شٹ ن ظاما قابم کربا چچا ہن‬ ‫سو ل ئ‬
‫ے بو سوسلزما خود بخود ئقاب ظم ہہو‬ ‫ے کو دل ییلوں سے ظقابل کردیبا بچاب ظ‬ ‫ے بچائبییں اور سرماییہ دار طیب شق‬ ‫قب ی ئیار کن‬
‫شی مساوات کا ح ییال چتییش کرنے مییں سب سے چپہل باما‬ ‫دور مییں معا ق‬ ‫بچاب ظے ئگی۔ اس ق‬
‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫با‬ ‫ا‬
‫ٓ‬ ‫کا‬ ‫‪1825‬‬ ‫با‬ ‫سییٹ سابمن ‪1760‬‬ ‫ی‬
‫سیظیٹ سا ئب من‬
‫ی‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ش‬ ‫ش‬
‫ے م ظقکر ہہییں بجس نے‬ ‫ہے۔اور عال بیا"ظ چپہل ظ‬ ‫با‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ییوں‬ ‫بی پ‬ ‫با‬ ‫کے‬ ‫ق‬ ‫لزما‬ ‫ظ‬ ‫س‬‫ظ‬ ‫سو‬ ‫جن‬ ‫ش‬ ‫چ‬ ‫کر‬ ‫شمار‬ ‫بجس کا‬
‫ہ ش‬ ‫ت‬ ‫ع‬
‫طبی یتعات‪ ،‬لم ا ظلخ ییات‪ ،‬قس ی ظیات‪،‬بار ئ بخ‪،‬س ییا ظس ییات اورق معاس ییات کو بوع انسانی اور شماج کے‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫طوط ‪ 1803 " ؎5‬قمییں‬ ‫سے خ ظ‬ ‫سییٹ ئسابمن نے چپہلی ک یاب " بجیییوا ظ ظ‬ ‫لمکظالعہ مییںظ مدن ظر رکھا۔ ق ی‬
‫بک ہی ھا۔‬ ‫ت‬ ‫ہ‬ ‫ض‬ ‫م‬ ‫ت‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ظ‬ ‫ش‬ ‫ھی۔ان خ طوط کے بت ظعد‬
‫ان سب کا ظقس ظ ہمون ا یظ ق‬ ‫ے۔ ظ‬ ‫اس کنی ئاور رسالےظ ھ‬
‫ی‬ ‫ک‬ ‫س‬ ‫ن‬‫ظ‬ ‫ش ظ ش‬
‫ھا۔ییہ چپہل‬ ‫عت کی بتی ی ئیاد چتر کرنے کاچ خواہش م ید ت ق ظ‬ ‫ت‬ ‫ض‬ ‫لق سابیس اور ش‬ ‫ض قی ظ‬ ‫سرے کی از ظسر بو‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫وہ معا‬
‫ب‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ش ظ‬
‫یں‬
‫ے می ظ‬ ‫یداوار کو کومت کے ق بنص‬
‫چ‬ ‫ئ‬ ‫ظ‬ ‫لب کے آ ظبار ظدقی کھ ظ کر ذرابع چب ی‬ ‫نے عنی ات ق ظ ئ‬ ‫حص ھا ج ہوں ق‬
‫ے‬‫کومت کو رواج د یپن‬ ‫ہہب‪،‬ب ییا ل قسقہ یح ییات اور بیی طرز ظ‬ ‫ے مذ ش‬ ‫نے چتر زور دیبا۔ییہ تماما عمر ایبک بن‬ ‫ہہو ش‬
‫ترٹ‬ ‫ہے۔ را ب ق‬ ‫ہم بباما م ہ‬ ‫ہ‬ ‫بک اور ٹ ا‬ ‫س‬
‫ٹ‬ ‫ظ‬ ‫ترٹ اوویین ظسو ظ لزما ظ کی قبار بخ کا ا ی‬ ‫ہے۔ را ب ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫شش مییں ر ہ‬ ‫کی کو ظ‬
‫چ‬ ‫ی‬
‫اوویین خود ایبک کارچایہ دار ب ھا۔اس ظنے پییو ل یی یارکتسکاٹ ل یی یڈ مییں پیکس یا ی ئ ل لییں چ ل کر بوبجہ‬ ‫ظ‬ ‫ت‬ ‫ظ‬
‫دس سال سے‬ ‫دوست ھی۔اس کی ل م ی ظیں کوبی ق‬
‫م‬
‫ب‬ ‫ہت م ظیا فع بحش اور ان قسان‬ ‫چا ل کی بخو ظپکہ بپ ق‬
‫ص‬
‫ے ظکا رواج تھا۔را ب ظترٹ‬ ‫قت کم عمر چبخوں سے قکاما ق لین‬ ‫لزما ظ ہ ی ظیں تھا۔ بج ی سا کہ اس و ق‬ ‫کم عمر م ظ‬
‫ماخول کا علما‬ ‫ق‬ ‫با۔اس کا قرا شخ غق ییدہ تھا کہ انسان‬ ‫ق‬ ‫ھا‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫تڑہ‬ ‫ب‬ ‫کا‬ ‫لح‬ ‫ص‬ ‫ا‬ ‫کے‬
‫ظ‬ ‫یارک‬ ‫پ ل‬ ‫ییو‬ ‫نے‬ ‫اوویین‬
‫ہ‬ ‫چ‬ ‫چ‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫بی‬ ‫ہ‬
‫اس کا‬ ‫ت‬ ‫ے ماخول مییں ہو بو‬ ‫ترورش اور ل ییم و تربپ ظییت ا قھ‬ ‫ماخول اگر اچچھا ہو انسان کیع چ ظ‬ ‫ق‬ ‫ہے۔‬ ‫ہ‬
‫ب‬
‫خراب ہو بو اس کا اس کا کردار ھی‬ ‫ہ‬ ‫اگر‬ ‫ماخول‬ ‫کا‬ ‫سان‬ ‫ا‬ ‫کس‬ ‫تر‬ ‫کے‬ ‫ہے۔اس‬ ‫ظ‬ ‫با‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫لح‬‫ق‬ ‫کردارصا‬
‫ظ‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬
‫ہے کہ اس کے ماخول‬ ‫ق ہ‬ ‫ضروری‬ ‫ے‬‫ن‬ ‫کے‬ ‫ظ‬ ‫لح‬ ‫ص‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫کردار‬ ‫کے‬ ‫سان‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫ہے۔لہذا‬ ‫با‬ ‫ہو‬‫ہ‬ ‫خراب‬
‫کے‬ ‫بکہ‬ ‫امر‬ ‫تر‬ ‫اضولوں‬ ‫کے‬ ‫می‬ ‫ہ‬ ‫امداد با ہ‬ ‫یل‬
‫نے‬ ‫ین‬ ‫و‬ ‫او‬ ‫ترٹ‬ ‫را‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫‪1825‬‬ ‫ے۔‬ ‫ب‬ ‫کی اصلح کی ہچا ئ‬
‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫چ‬ ‫ب‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫رباست اظبڈباظبا ب میں ابک ک ییو ٹنی ظیا ئ‬
‫ی‬ ‫ظ‬
‫چہاں زمیین مشقترکہ ملک ظییت تھی۔بجس کا باما ہہارمنی‬ ‫ب‬ ‫ی‪،‬‬ ‫ب‬ ‫م پ بب ظ‬ ‫ی یم ی‬
‫ساری‬ ‫الوں مییں باکاما ہوا۔ اور اسظ کی ظ ق‬ ‫ہ‬ ‫س‬ ‫جھ‬ ‫ھی‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫یہ‬ ‫صو‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫یہ‬ ‫کا‬
‫ظ‬ ‫ین‬ ‫و‬ ‫او‬ ‫گر‬ ‫ھا۔‬ ‫ک‬ ‫یگ(ر‬ ‫ی)ا ہہ ظ‬
‫کچ‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫دولت ظصائبع ہہوئبی۔اوظویین نے ساری عمر مزدوروں کی ظظچدمت م ی ظیں ظگزاری کاس نے اچپنی ظ بوبجہ‬ ‫ق‬
‫ے چتر مرکوز ر قھی۔اشی شموضوع‬ ‫امداد بباہہتمی کے کاروببار کوفروغ د شیپ ظن‬ ‫عاون ‪،‬مزدور یبو قئیین اور ظ‬ ‫ظشما بحای ت ظ‬
‫سی ا بب یدای سوسلشٹ‬ ‫نس‬ ‫ہے ب قخو ا ی ظ‬ ‫ب‬
‫بک ۔ ظ قببااترفرا ی ظ ظ‬ ‫‪ 1772‬با ‪ 1837‬ظنے ھی لقکھا ہ‬ ‫س‬ ‫چقلترس چ ظچارلس ظ ظقوریتر ش‬
‫یاری اور اتفرادی آزادی چتر زور‬ ‫م ظ‬ ‫خ‬ ‫خود‬ ‫قامی‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫خو‬ ‫ب‬ ‫۔‬ ‫ھا‬ ‫ت‬ ‫یں‬ ‫یق‬ ‫م‬ ‫ییوں‬ ‫بپظ‬ ‫با‬ ‫کے‬ ‫لزما‬ ‫یالی سو‬ ‫قی اور ح یق ظ‬ ‫ظ‬
‫ی‬ ‫ت‬ ‫ے وال لس‬
‫ہے قکہ اس ظسے‬ ‫چدیبد قپہذیبب کی ظسا ظجت انسی ہ‬ ‫ظ‬ ‫اس کا ح ییال ھا کہ ظ ب‬ ‫ظدغر یپببت‪ ،‬نے روزگاری‪ ،‬نہا ئ‬
‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫قی‬ ‫ن‬
‫زادی کو ا بجتماعی زبدگی‬ ‫ظ‬ ‫ٓ‬ ‫ا‬ ‫فرادی‬ ‫ت‬ ‫ا‬ ‫ہے۔وہ‬ ‫ہ ش ہ‬‫با‬‫و‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫فہ‬ ‫صا‬ ‫ا‬ ‫یں‬ ‫م‬
‫ق ی‬ ‫کاھ‬ ‫د‬ ‫اور‬ ‫ی‬ ‫پ ظ‬ ‫ب‬ ‫ظ بسج ق ق‬
‫یال تھا کہ لوگ ظ متظم ا ظشقتراکیق شماج شم ی قیں بپہقتر زبدگی گزار ی ظیں گے‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫ھا۔‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ت‬ ‫م ظییں مضمر ظ ظ مب ھ یا‬
‫کے‬ ‫تراکی شماج بب یانے ظ‬ ‫ظ‬ ‫ش‬ ‫ا‬ ‫تماعی‬ ‫فرادی ظ چابدان کی اکابی مییں۔ قوریتر نے ا ب‬ ‫بت ظات‬ ‫یس‬ ‫ب ظت‬
‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ج‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫ظ‬
‫ے ہہییں بخو م قدوب ینہ مییں سک ظیدر اعظم‬ ‫قلبتر)قل کس یبوبانی زببان مییں محصوص صف بب ظیدی کو کہن‬
‫‪49‬‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ظ ظ‬ ‫ظ‬ ‫ئ قت ظ‬ ‫ظ‬
‫ے‬‫تراکی وچدبوں کے یلن‬ ‫نے قکے اش ق‬ ‫ش‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫کے زمانے مییں ظرابج ظ ھی قور ی قتر قنے ییہ ا تص لح ا چپن‬
‫ے م ظنصو ب‬ ‫ق‬
‫عمارت بچہاں‬ ‫ہے۔ ظقلبکس ظکی ترپییب ییہ ھی کہ ‪ 1600‬افراد چتر مستم ظل ایبک ا بجتماعی ظ ق‬ ‫ہ ظق‬ ‫کی‬ ‫عمال‬ ‫قاست‬
‫ے والوں کی بحملہ ضروربوں اور‬ ‫ہ‬
‫ہوگا۔ اس کے ع ظلوہ عمارت مییں ر ہن‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ہ‬
‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ظ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ظاما م‬ ‫فرا ہاہپتمی بت‬ ‫یاما ش و طعاما ظکا‬ ‫ئ‬ ‫قی‬
‫اردگرد چچارسو ایبکڑ زمیین ہہوگی‬ ‫ت ق ئ ظ‬ ‫کے‬ ‫عمارت‬ ‫ق‬ ‫گی۔اس‬
‫ض‬
‫ٹ‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫ٹ‬ ‫ذماہ‬ ‫کی‬ ‫ین‬ ‫م‬
‫ئ ی‬ ‫ھی‬ ‫کی‬ ‫سوں‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫س‬ ‫ٓا‬
‫ظ‬ ‫ق‬
‫گی۔اور ظاشی زم ی ظ‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ع‬‫ت‬ ‫چ‬‫چ‬ ‫ظ‬
‫ین اور‬
‫ت‬ ‫ب‬ ‫نی یییں ھی قاب ئم ہہو ق ظ ظ‬ ‫زراعت کی بچابےگی اور قھونی ظمو ق‬ ‫ب‬ ‫ظ ظ‬ ‫بجس قمییں‬
‫پ‬
‫ضرورئ یظبیں چبوری کی بچانے گی۔ہہر ل کس کی ظ ییم‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ضتع ظیوں ٹسے ل ظکس کے ہہر ممبتر کی تماما‬ ‫ق‬
‫ت‬ ‫یاک ک چمی ظنی ئ کے ظ‬
‫یں بن طور حصہ دار‬ ‫ش‬ ‫ارکان اس پ ظ ظ ییم م ی‬ ‫ظ‬ ‫ہوگی۔اور قل کس کے‬ ‫ش‬ ‫اضولوں چتر ہ‬ ‫بشچایتیییٹ س ظ‬
‫ہے۔اگر‬ ‫ظ‬
‫سرط ش ہ‬ ‫ظ‬
‫ضروری ظ‬ ‫نے مییں سرکت کا اتجساس پہایبت ق‬ ‫کے ٹمنصو ب‬ ‫ے۔ ئقوربر ظ‬ ‫ب‬
‫سریبک ہہو گ‬
‫سے‬ ‫ت‬ ‫ب‬
‫ہوبچاظببے کہ ق ییکتری یبا زرعی زمیین مییں ٹوہ ٹ‬ ‫مزدور کو معلوما ہ‬
‫اور بچا قسانی ق‬ ‫ظ‬ ‫ہے بو وہ ش‬ ‫ھی حصہ دار ہ‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫چب‬ ‫ص‬ ‫ظ‬
‫جس کے بباس یدے ہہر ا ظ قعی بیار‬ ‫کس کی شعمارت درا ظ ق ل ایبک کوا ییییو ہ ظہو ل ہ ہہوگا ب ق‬ ‫ظ‬ ‫گا۔قل‬
‫ب‬ ‫ب‬ ‫کاما کرے ظ‬
‫یں اجی ییارظ کرییں بجب مرضی ہو شاسے ترک کرکے دوسرا اجی ییار‬ ‫ے خو ہتر ق یبا چتی یشہ چچاہہ ی ق‬ ‫ہ‬ ‫سے آ ظزاد ئہہو گ‬
‫بدگی کی وبجہ سے معاسرے ظکا سارا ماخول باور ئمزاج‬ ‫اس ا ظجتماعی ز‬ ‫ب‬ ‫کرییں۔قور ئبر کا دغوی تھا ظکہ ق‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫حاصمت کے ببحابے‬ ‫دوسرے سے م ظ ق‬ ‫ظ‬ ‫کے چاطر ایبک ش‬ ‫ے ذانی م قاد ق‬ ‫نے گا لوگ ظ ا چپن‬ ‫بدل بچا ق‬ ‫ب ق‬
‫نےظ ایتمانی کی‬ ‫ے۔ظیہ دوسرے کو ت ق قصان کی سظازسییں ہہوبگی ظیہ ببددیباپنی اور بظ‬ ‫ظدوسنی اور تعاون ئکر یب یگ‬
‫ق‬ ‫ظ‬
‫ے کا عم ٹلی‬ ‫صور دیبا۔قورئبر کی ظز ظبدگی مییں اس کے لسق‬ ‫ظ‬ ‫نے گی۔‪ Phalanx‬کا ن‬ ‫ظ‬ ‫ضرورت چتییش ظآ‬
‫ظ‬ ‫ئ‬
‫اورس ظوکتر‬ ‫ے والے البترٹ بترشسس بییین لق‬ ‫کے ما پن‬ ‫‪ 1840‬مییں قوربر ظ‬
‫م‬ ‫عم‬
‫نے پہییں د یتکھا مگر‬ ‫لق اس ظ‬ ‫ظ‬ ‫ا ظط‬
‫ہے۔دوسرے سو لشٹ قی‬ ‫بٹ نے امریبکہ مییں اس کو شلی طور لگو ظک ییا ظ گر باکاما ر ہح ق‬ ‫کو ظنس ییڈر ظ‬
‫بجن‬
‫‪ 1830‬اور ‪ 1840‬کے عسروں مییں فرانس مییں مزا منی کردار ادا ک ییا ان مییں لوینس‬ ‫نے‬ ‫ہوں‬
‫ترے بخوزف چترودون‬ ‫ب ظیک ‪،‬لونس اگ قن ظ‬
‫ے ببلبک ‪ ,Luis Auguste Blanque‬اور چبا ی ق‬ ‫ی س‬ ‫بل‬
‫‪1858Robe‬‬ ‫‪Pierre joseph Prodhon.Luis‬با ظ‬ ‫ظ‬
‫‪balnc. 1771‬‬
‫‪ rt owen S.T.Simon‬لوینس ببل یک ‪ Luis Blanc‬بجس نے ‪ 1839‬م ی ظیں‬
‫‪.The‬بجس مییں اس نے‬ ‫ھی‬ ‫ابک ق یاب لک‬
‫ئ‬ ‫ق ئ ئ‬ ‫‪Organization‬‬
‫ش‬ ‫س‬ ‫ش‬ ‫‪of‬‬ ‫چ ق ظ‬
‫‪Labour‬‬ ‫ی کظ‬
‫مزدوروں کی‬ ‫ے بچاب ییں قبجس چتر ق ش‬ ‫ایبک منصوبیہ ییش ک ییا کہ کومنی اخرابچات چتر سو ظ ل ورکساچنس قابم کن‬ ‫چت‬
‫شٹ‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫لداری ہہو بخو کہ ہہر ایبک یلن‬ ‫عم‬
‫ے روزگار عکے صامن ہوں۔اس طرح آہشبہ آہشبہ سو ل ق‬ ‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ش‬
‫ے‬‫ےگا۔ اس کے بتر کس ‪ Luis aguste blanque‬لوینس اگسن‬
‫ی‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫م ظعاسرہ قابم ہہو بچاب ظ‬
‫ال یظ ل مییں ٹرہہا۔اس ٹکا‬ ‫ح‬ ‫بک ایبک اینسا ات قل ب قنی ظتھا۔بخو‬
‫چ‬ ‫چ‬
‫جہ سے ‪ 33‬س ق‬
‫چ‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫سرکش شسرگرم ظییوں کی و‬
‫پ‬ ‫س‬ ‫ظ‬ ‫چ‬ ‫ببل ق‬
‫نے ئ چ ھونے‬ ‫ق‬ ‫ھو‬ ‫چ‬ ‫صہ‬ ‫چ ق ظ بن‬ ‫تر‬ ‫کومت‬ ‫نی۔‬ ‫ظ‬ ‫کق‬ ‫س‬ ‫ٓ‬ ‫ا‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫لزما‬ ‫سو‬ ‫تر‬ ‫غ‬
‫یک ت ی‬ ‫ب‬ ‫ے‬‫ن‬ ‫صہ‬ ‫ٹ چ ق بن‬‫تر‬ ‫کومت‬ ‫کہ‬ ‫ھا‬ ‫ت‬ ‫ٹدغوہ‬
‫بت قابم کرییں‬ ‫ضی آمر ی ئ‬ ‫ے۔بجب ییہ کومت چتر ظق ب ظنصہ کر کے قعارق‬ ‫چ‬ ‫ظ‬ ‫ںگ ش‬ ‫ے گروہ ظکریب ش‬ ‫بوں مییں بپن‬ ‫بکڑ ی ق‬
‫ے ابانے ض ببط کرکے بتڑے کارچابوں کو چکومنی ق بنصہ مییں ل ئییں گے۔‬ ‫ظ‬ ‫گے بو امیتروں سے ا بک‬
‫ل ییکن ان کی سوچ عملی بچاماہ یہ ہن کی۔‬
‫س‬ ‫پ‬
‫چ‬ ‫ظ‬
‫ظ‬
‫شن‪ ،‬ظ ببارممبپنی‬
‫ق‬
‫ہال‪،‬ول ییم ت ظھامچی ق ق‬ ‫ج‬ ‫ب‬ ‫ظ‬
‫بپ‬ ‫ان م ظقکرین کے علوہ بت‬
‫چارلس ہ ظ ق‬ ‫چ ق‬ ‫ے‬‫س‬ ‫ی‬ ‫یں‬ ‫ہ‬
‫ش ی‬‫ہ‬ ‫باما‬ ‫ارے‬ ‫س‬ ‫ظ‬ ‫ہت‬ ‫ھی‬
‫ش‬ ‫یظ ق ظ ق ظ‬ ‫ظ‬
‫ے بت غیتر ترقی با کن‬ ‫نے اچپنی ن ظصا قپ ییف ییہ قبا ببت کربا چچاہہا کہ اشقترا قکییت کا کوی طرتیقہ اجی ی ظیار یکن‬ ‫بجنہوں‬
‫داری‬ ‫یہ‬ ‫سرما‬ ‫ظ‬ ‫سے‬ ‫نے‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫ظہے۔یہ ب ظبخوتزییں ا قت قلنی ظیہ تھ ظیں ببلکہ ق اصلحای تھیں اور ان عم‬
‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫شی ظ ق‬ ‫ہ‬ ‫ص‬
‫ی‬ ‫ظ ہظاما ق ییاہ پہ ییں ہہوبا ب ب‬
‫یداوار بتڑھانے ظکے چاطر‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫چب‬ ‫اور‬
‫ظ‬ ‫ی‬ ‫گ‬ ‫کارکرد‬ ‫ل"‬ ‫ی‬ ‫ہے۔م‬ ‫ہ‬ ‫با‬ ‫ہو‬
‫ظ‬ ‫بیوط‬ ‫م‬ ‫اور‬ ‫لکہ‬ ‫ظ ب‬ ‫ی‬ ‫ن بب‬
‫ماخول‬ ‫بدرس ٹ‬ ‫مزدوروں ظکو کارظچانے مییں حصہ دار بب ظیابا یبا ظ بان ظ مییں ببونس تقس ییم قکربا یبا ق ییکٹتری ظکے ا ش‬ ‫ظ ش‬
‫ان ح ییالی سو لسیوں‬ ‫طرح کی ببخویتظزییں سش‬ ‫اس‬ ‫یں‬ ‫می کے ابجمی ی ق‬ ‫خو ظسگوار بب ظیابا اور ق اشی طرح امداد بباہہ ق‬
‫نے چت ی ظیش کی تھییں۔بچہاں قبک ذانی ملکییت کا تعلق ہہو شسایبد ہہی کو ح ییالی سو ئ لشٹ اینسا ق ہ ظہو کہ‬
‫اس اس کا قکوبی چل ظیہ تقتھا ی کہ‬ ‫ت‬
‫اس نے اس کی ظ ظمذمت ظیہ کی ظ ہہو بترا بتھل ظیہ کہا ہہو مگر کسی کے چب ق‬ ‫ق‬
‫ی‬ ‫م‬ ‫س‬ ‫کرے اور کیس‬ ‫ق‬
‫ذانی ل ق ییت کے ن ظ ظ‬ ‫م‬
‫کیجو ظبجہ ییہ قھی کہ قذانی لکییت کی سیخ‬ ‫ب‬ ‫ے؟ا س‬ ‫ش‬ ‫سوخ‬ ‫ظاما کو کون می ظ‬ ‫ق ک‬
‫ے۔وہ قشماییہ داری‬ ‫ظ‬
‫ت‬
‫اضر ھ‬ ‫ے ئسے ق ق ق‬ ‫م‬
‫ہے ظاسے ھ بن‬ ‫ق‬ ‫ہ‬
‫ق‬
‫یادی رسبہ‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ظ ظاور ط بی قانی بچدو ب شچہد قکی ظپت ظ ییم مییں بخو‬
‫اور اچلق ی قیات کے‬ ‫صادات قکا چل مع یشت شکے قابون کے ظ ببحابےح ییغ ق ققل ظ‬ ‫ن ظاما کے م قعاشی ن ق‬
‫ے۔ان کے سوسلزما کا مجرک زبدگی کی ق قیییں پہییں تھییں ببلکہ‬ ‫نے تھ‬ ‫لش کر ق‬ ‫اضولوں مییں ظب ہ ش‬
‫ان کی ظب ییک خواہسات ھییں ۔‬ ‫ت‬
‫ش‬ ‫ظ ظ‬ ‫ٹ‬
‫سا ئب یی یی قک سو سلزما کی ا ببق یدا‬
‫‪50‬‬
‫ش‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظق‬ ‫ظ‬ ‫یظ‬ ‫ظ‬
‫س‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫گ‬
‫با۔ ح ی ظیالی سو ظلزما کا‬ ‫یں ب بید ی ل یکر ظدگ ی ظ ش‬ ‫کارل مارکس ظاور فریبڈریبک اپن لز نے اس کو ات لبنی سابیس م ی ظ‬ ‫ظ ق‬
‫قاق نصی ییف‬ ‫ش‬ ‫ٓ‬ ‫ہرا‬ ‫ش‬ ‫لز‬ ‫پن‬ ‫ا‬ ‫بڈرک‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫فر‬ ‫اور‬ ‫ظ‬ ‫ارکس‬ ‫م‬ ‫کارل‬ ‫جب‬ ‫ہے‬
‫ہئ ب‬ ‫سن‬ ‫وہ‬ ‫یہ‬
‫ی‬ ‫ہوا‬‫ہ‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫ظ‬
‫‪1847‬‬
‫م ییی یی ٹ ی‬ ‫سن‬ ‫ظ‬
‫مہ‬ ‫چاکت‬
‫س‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ہ‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫قس‬
‫سابیسی سو لزما کے‬ ‫نی بجریبک ظ‬ ‫تڑے بظ‬ ‫ہوا۔وہکی ات قل ب‬ ‫مزدوروں‬ ‫ساعت ہوبی اور ق‬ ‫ئیو" ‪ 6‬ظ؎ کی ا س ٹ‬ ‫" مییونشٹ ظ‬
‫لوگ‬ ‫دوست‬ ‫سان‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫یک‬ ‫ہ‬ ‫یم‬ ‫ق شج‬ ‫دور‬ ‫کا‬ ‫یوں‬ ‫لس‬ ‫سو‬ ‫یالی‬ ‫ی۔‬ ‫ب‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫ل‬ ‫چ‬ ‫دور مییں ظ دا‬ ‫ق‬
‫ظ شظ‬ ‫ن‬ ‫بپ‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ظ چ ظ حی‬
‫س‬ ‫ن‬ ‫ب‬ ‫ت‬
‫تڑے بتڑے خوستما‬ ‫کے ب ش‬ ‫صلح اور ہبیود ظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫ے۔ج ہوں ئ نے اپنی ظ مبجھ کےلم ظاب بقمسنمعاسرے کی ا‬ ‫ظھ‬
‫نے کی کوشش کی۔ان‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ظ‬
‫کش نصو شیتر د ھا ظ‬ ‫ےدکی بت‬ ‫تڑی‬
‫سان ظکو بد کش عم ب لک ق قکی ب ظ‬ ‫نےبتبب یابے ظ قاور ان ظ‬ ‫منصو ب‬
‫ہے۔کییوظبکہ‬ ‫ق ت ہ‬ ‫ر‬ ‫ق‬
‫اما‬ ‫ک‬ ‫با‬ ‫گر‬ ‫م‬ ‫کی‬ ‫شش‬
‫ظ‬ ‫کو‬ ‫ھی‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫د‬ ‫ل‬
‫مسنق ی یپ‬ ‫س‬ ‫لی‬ ‫کو‬ ‫بوں‬ ‫و‬ ‫ص‬‫ن‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫ے‬
‫ب حق یی ق چپ ش ن ظ ظ‬‫ن‬ ‫ا‬‫ق‬ ‫نے‬ ‫عض‬ ‫سے‬ ‫مییں‬
‫ے۔ گر کون کہ‬ ‫م‬ ‫ےق ھ‬ ‫ہ‬
‫ب شل کی راہ متعیین کرعبا چچا ہن‬ ‫کے‬ ‫وہ قچال کی شماحای قیوں ش کو ظر ا ئبداز کر‬
‫س‬ ‫ئ‬
‫ہے کہ کارل‬ ‫ہ‬ ‫ھا‬ ‫ت‬ ‫چان‬ ‫ق‬ ‫ظ شب‬‫لم‬ ‫طالب‬ ‫ہر‬ ‫ہ‬ ‫کا‬ ‫لزما‬ ‫۔سو‬
‫ب‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫گ‬ ‫گاں‬ ‫ہے ظ کہ ان کی ییہ کوششییں ئ ظرایبی‬
‫گ‬ ‫ی‬ ‫سک یا ہ‬
‫اس کوشماج کی سابیس مییں ب بید ی ل ک ییا۔ شک قارل مارکس نے اش شتراکق ی ظ‬ ‫ق‬
‫سب سے‬ ‫ش‬
‫ی‬ ‫ی‬ ‫ح‬
‫یت ظکا‬
‫ق‬ ‫م‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫چت‬ ‫ق‬ ‫ارکس‪ ،‬اپمکمن لز ظق ظ‬ ‫ق‬ ‫م ش‬
‫یا۔کارل مارکس سے ب ل اشتراکییت حض معاسرنی لسقہ ظکی یییت‬ ‫موتر ق اورت ل لسقہ مییش ک ی‬
‫کے ذرائب قع کی مساویباظیہ بتی ییادوں چتر‬ ‫یداوار‬ ‫چب‬ ‫کی‬ ‫یت جقیم ک ظرکے دولت اور اس‬ ‫ل‬ ‫نی‬ ‫ذا‬ ‫خو‬‫قتر قکھنی ق ھی۔ ب‬
‫ق‬ ‫ش ی‬ ‫ش‬ ‫ی‬ ‫ک‬
‫بوط اور بچامع‬ ‫کےساتھ ساتھ ایبک مر ب ظ‬ ‫ش‬ ‫ش‬ ‫کارل مارکس نے اشقتراکییت کو معیشت‬ ‫ش‬ ‫ظ ظقس ییم تھا۔ل ییکن‬
‫ن ظاما ح ییات قکی ظح یییییت قدی ۔بخو قضرف عاما آدمی کی ظمعاظشی مظ ظشکلت کا چتل ہہی پہییں ببلکہ‬
‫ب‬ ‫مکم‬
‫ہے۔‬ ‫اس کے ساتھ اچلق اور پہذیبب و تمدن کا ایبک ل قلسقہ اور ن ظاما ح ییات ھی ہ‬

‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ق‬
‫کارل مارکس ک ی کر کے چح ییدہ چح ییدہ نکات‬
‫ماد ی ظبت چنس ظید‬
‫ظ‬ ‫بت چ س ظیدی ق ق"مٹتریبلزما" با "مش‬ ‫ق ق ظ‬
‫بوں مییں اور ظچتھر ان کے‬ ‫کے ر ظحبحا ظ‬ ‫ظ‬ ‫یت چن ظس ظیدی"‬ ‫یا‬
‫ی لی‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ماد‬ ‫ے‬‫ق‬ ‫تماما لس‬ ‫ق‬
‫غوا ل‬‫م‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫ماب قحت ذ ی لی ق رشحب یحابوں مییں ش س ییم ہہییں۔مادیبت چنس ید کریین‬ ‫ب‬
‫نے م ظاہہر قظرت اور قظری ق‬ ‫ادے با کائبظ‬
‫سی حمیتر الع ظفول‬
‫ظ‬ ‫ک‬ ‫ماورہ‬ ‫سے‬
‫ظ‬ ‫یات‬ ‫ی‬ ‫ے کی اور م‬ ‫ہکی قبو بج ینہہ وہ نسر بح مادی اس ییا کے ظ ذر یت ظع‬
‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫کے مسببب الس بیاب ہ ظہونے کا انکار ک ییا۔ ماد ی‬ ‫ہظسنی‬
‫ے اور‬ ‫بک زبدہ ر ہن‬ ‫بت چن ظس یدوں کے تزدگ ی ظ‬ ‫ش‬ ‫ظ‬
‫مادی چچت یزییں ظم یل خوراک‪ ،‬ل بی قاس‪ ،‬ھر وغیترہ لزما ظہہییں۔‬ ‫ے‬
‫ضروریبات چبوری کر ظنے کے ظ ن‬ ‫زبدگی کی ظ‬
‫ہے اور زبدگی کو‬ ‫یا‬ ‫ک‬ ‫لش‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫نے یلاچپظنی زظبدگی کے ظسایبل کا چ‬ ‫سان‬ ‫ا‬ ‫ہی‬ ‫ہ‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫مادیبت چ س ظ قید قکر تر چچ‬
‫ی ہ‬ ‫قم ق‬
‫مارکس ظمادیبت چنس ظ قید ق لسقی تھا۔ ظکارل مارکس ظمادہ کو سب کچجھ‬ ‫ہے۔ کارل ق‬
‫ن‬
‫با‬ ‫یا‬‫اور قترقی با ظ چفقبہ بب ظ‬ ‫شہ ن‬
‫س قل‬
‫ک‬ ‫پ‬ ‫ت‬ ‫ی ہ‬ ‫ی‬
‫کی وصاجت ی قبوں کی‬ ‫ظ‬ ‫اس‬ ‫نے‬ ‫اس‬ ‫ظ‬ ‫ھا۔‬ ‫ت‬ ‫یا‬ ‫ھ‬ ‫ر‬ ‫یں‬ ‫ہ‬ ‫ین‬
‫چ ی چ یعم ی‬ ‫ف‬ ‫ی‬ ‫تر‬ ‫تز‬
‫ظ‬ ‫چ‬ ‫سی‬ ‫ظ‬ ‫ک‬ ‫وہ‬ ‫لوہ‬ ‫ع‬ ‫کے‬ ‫ادہ‬ ‫م‬ ‫ہے‬ ‫ہ‬ ‫مبجھ یا‬
‫ب‬ ‫ع‬
‫ے 'عیین؛ کا باما دیبکر ظ وہ ازاد قا ل مییں ب بعید ی ل‬ ‫ل ق ی قکے ظم ظاب بق غور و قکر ظ کا ظل ظبجس‬ ‫گ‬ ‫ہ‬
‫ی‬ ‫ہے۔" ہ ین ح‬ ‫کردبق‬‫ہ‬
‫کے بتر ظ قکس‬ ‫ہے م ی قترے تزدیبک ظاس ش‬ ‫ہ‬ ‫ہرمن )چالق ظ بب یا ظنے وال( ظ‬ ‫ظ‬ ‫ہ‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫یا‬
‫ی‬ ‫ب‬‫د‬ ‫قی‬ ‫ہے۔ ق‬ ‫ہ‬ ‫یا‬ ‫ی‬ ‫ظ‬
‫ہے۔اور بخو قکر کی سکل اجی ییار‬ ‫ع‬ ‫یعینیق مادی کے علوہ اور کچجھ پہییں بجس‬
‫ے انسانی دماغ مت کس کربا ہ‬
‫ہے۔" ‪؎7‬‬ ‫کر یلینی ہ‬ ‫ق‬
‫بچد ل ییا نی ماد یبت‬
‫ق‬ ‫ظ ق ی ظ حق ق‬ ‫ظ ق ق ظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ظ ش‬
‫ی‬ ‫ق‬ ‫ب‬
‫صد ہییں ب لکہ باگزیتر بار جی ق یفت فرار‬ ‫ب‬ ‫پ‬ ‫م‬ ‫م‬
‫مارکس نے ش اشتراکییت ظکے ق ییاما کو حض ایبک ظاچلقی‬
‫با۔اس کے ظمتعل ظق کارل‬ ‫مارکس ظنے بچدلی قطرتی ققہ ظ کار اچب ظیا ی ق‬
‫ے ق‬ ‫نے کے یلن‬ ‫دیبا۔اس قکو با ببت کر‬
‫ی‬
‫ص‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ئ‬
‫کے فروغ کا چیح نصور اور ان قسابوں کے‬
‫ص‬ ‫ہے۔" کاب ظیات اس کے ارت قا‪،‬انساپییت ق‬ ‫ق‬ ‫مارکس لکھ یا ہ ق‬
‫سک یا چت ہ‬
‫ہے ظ۔ ظبخو‬ ‫فوں سے چاعم ل ک ییامبچاس‬ ‫ظدماغ مییں اس ارت قا قکا قاتعکاس ضرف بچدل ییات کے طرتی‬
‫ل ییش ن ظر‬ ‫س‬ ‫ل‬ ‫بدگی اور موت کے ترقی چنس ظید اور زوال چبذیتر قب بیدیبلییوں کے لوں اور رد لوں کو‬
‫عم‬
‫زک ق‬
‫‪؎8‬‬ ‫ہے۔"‬ ‫ر ھنی ہ‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ہے۔ بجس سے مراد م ظحالف‬ ‫ل‬ ‫ک‬ ‫سے‬ ‫"‬ ‫فظ"‬ ‫ل‬ ‫نی‬
‫ظ ن ی ہت ظ‬ ‫‪Dialego‬‬
‫ئ‬ ‫ق‬ ‫پہبو ظ‬
‫با‬ ‫‪ " Dialectics‬ی‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫بچدلییت "‬
‫م‬
‫ہے۔ عنی بچدلییت کے عنی دو‬ ‫کی دل ییلوں مییں نصاد کے لو نکال کر اسے قابل کر دیب یا ہ‬
‫چ‬
‫‪51‬‬
‫ق ہ ق‬ ‫کے قہہیں جس سے یہ ظ حا ئ‬ ‫ٓاشد ظ ییوں کے درم یان اینسی بات چ یت ظ‬
‫ہے کہ ایبک‬ ‫ہ‬ ‫نی‬ ‫ہ‬ ‫ر‬ ‫قی‬ ‫با‬
‫ب‬ ‫ش‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫گ‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ب جی‬ ‫ی‬ ‫شم‬
‫کرے ق اور اس ق کے ببالکل‬ ‫ظ‬ ‫بد‬ ‫ترد‬
‫یت یاخشبہ کی ی ظ‬ ‫کی‬ ‫اس‬ ‫کر‬ ‫با‬ ‫چ‬ ‫قص‬ ‫یں‬ ‫م‬
‫ی ظ ی‬ ‫اس‬ ‫دوسرا‬ ‫اور‬ ‫ے‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫بات‬ ‫بک‬
‫ع ی ئ ب‬ ‫ا‬ ‫حص‬
‫ہے۔اور‬ ‫ی س بمج ق ت ہ‬ ‫ق‬ ‫نی‬ ‫ی‬ ‫ل‬
‫ی‬ ‫کر‬ ‫یار‬ ‫ی‬ ‫ج‬ ‫ا‬ ‫ضورت‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫ب جی‬‫چ‬ ‫بات‬ ‫ق‬ ‫نی‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫کرے۔‬ ‫بات‬ ‫دوسری‬ ‫بتر کس کوب قی‬
‫بق‬ ‫چپہ ظ‬ ‫ب‬
‫ے کہ اس‬ ‫ے م قھ‬ ‫قی ییہ ھن‬ ‫ہے۔عہد ق ققد ییم کے لچپس ظظ‬ ‫بپہ ظ ہ‬ ‫با‬ ‫چا‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫باں‬ ‫تما‬
‫قظ ی‬ ‫لو‬ ‫کا‬ ‫حادلہ‬ ‫ل یمب‬ ‫اور‬ ‫بلہ‬ ‫اس م یظیں م ب‬
‫قا‬
‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ح‬ ‫چ‬
‫ہے۔‬ ‫یں مددبت لنی ہ‬ ‫ے می ظ‬ ‫فت بک ب چین‬
‫ظ‬ ‫یں نصاد قکے لو ن ئکال کر ق یی ق‬ ‫ظ‬ ‫یالت یاور د ی لوں قم ی‬ ‫سے ح ی ظ‬
‫کے شب یحث کا ابداز ھی بقچدلییت‬ ‫ق‬ ‫فراط ق‬ ‫ہے۔ ظ ق ظ‬ ‫س‬ ‫سے رابج ہ‬ ‫کے وقت ظ‬ ‫یت سوفس ظا ظپییوں اور شفراطق ظ‬ ‫س‬ ‫چد ق‬
‫ے چظتر کی‬ ‫ے کی ن ئسر بح بچدل قییانی طر تیق‬ ‫ے قلس قق‬ ‫کے ظمشہور ق ش لس یقی ہہ ینگل نے بتھی ا ئچپن‬ ‫بکہلل یبا قتھا۔ بخرمنی ظ‬
‫ق‬
‫قت خرف ٓاخر ظیہ‬ ‫ظ‬
‫ہے۔ "اب کوبی ظظق ییفت‪ ،‬کوب ظیظصدا قف ظ‬
‫ح‬
‫ے ظکی ن قسر ظ بح یبوں ہ‬ ‫ہے۔ ہہ ینگ شل کے لسق‬ ‫ہ‬
‫ہے۔ ق ظ‪؎9‬‬ ‫ہے اور ہور ر ینی ہ‬ ‫ہے۔ہہر وبخود ایبک ظ ہور ہ‬ ‫ہوگی‪،‬ہہر سے ظہہر ادارہ ہہر حح ق ی قیال ت غیتر ئچبذیتر ہ قق‬ ‫گ‬ ‫ہ‬
‫ہ‬
‫اس مییں ت غیتر و‬ ‫ہے ق‬ ‫اور ظکچجھ ت ظسے کچجھ ہہو ظرہی ہ‬ ‫ہ‬ ‫ہے‬ ‫یہت ظارت قا ہ‬ ‫فت مابل ب‬ ‫ل کے ح ییال مییں ق ی ق‬‫ی‬ ‫ق"ہ بن ق‬ ‫ی‬
‫ہے۔اور‬ ‫ہ‬ ‫چ‬ ‫ی‬ ‫عم‬
‫بک" ہوبا ہ ئ‬ ‫کےسلہغ ظیترل"ام ق یی ظ‬ ‫ہے۔ عنی ق"ایبک" قاپنی قی کر‬ ‫نی ہ‬ ‫بتبید ی لی ترد یقبد کے لظ تسے ہہو ظ‬
‫ہے۔ قہہر ق ظب نی‬ ‫یت ہ ظ‬ ‫ہی‬ ‫ہ‬ ‫یا‬ ‫ہ چت ی ل بت ق‬
‫س‬ ‫ظ‬ ‫یہ‬ ‫ہے۔‬ ‫با‬ ‫ہو‬ ‫ظ‬
‫ہ‬ ‫ین"‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ئ‬ ‫"‬ ‫کر‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫"دو"‬ ‫تر‬ ‫"دو" ی‬
‫غ‬ ‫ہے۔اور ظ چ ھر ق‬ ‫پہہوبا ظ ہ‬ ‫چ ھر "دو" ہ‬
‫فت‬ ‫ی‬ ‫ح‬
‫ہے۔ عنی ق ی یت ظ‬ ‫ہے اور ایبک بیی متزل کی ییش جییمہ ینی ہ‬
‫ئ‬
‫تزل گکی قی ظکرنی ہ‬
‫ت‬ ‫م قظتزل چ لی م‬
‫‪ (Dialectical‬ع قنی‬ ‫ق‬ ‫نے ظ )‪Struggle of Ideas‬‬ ‫ہے۔ ہ قہ ین ل ظ‬ ‫ظمیجرک ہ‬
‫ظ‬
‫ح ییالت کا بچدلی ب یازعیبہظ ظکا ن ظرتییہ ییش ک ییا۔ان کے م ظاب بق "بچدلی ظا ظ ہہ یگ" کی ئیین متزلییں ہہونی‬ ‫ظ‬ ‫چت‬ ‫ق‬ ‫ظ‬
‫ہی اس کی‬ ‫نے کے اظبدر ہ ق‬ ‫ی‬ ‫ظر‬ ‫ن‬ ‫ہر‬ ‫ہ‬ ‫گر‬ ‫ہے م‬ ‫ہ‬ ‫(‬ ‫)‬ ‫ہہییں چپہلی مظتزل قایبک ن ظرییہ ھ ی سس ق‬
‫ت‬ ‫ے اظپٹنی تھ‬
‫‪Thesis‬‬
‫ق‬
‫ے ہہییں۔اسس ی ظی تقھیسس اور‬ ‫‪ (Anti‬ق کہن‬ ‫‪ Thesis‬ظ‬ ‫ش‬ ‫سس‬ ‫ی‬ ‫ہے ٹ بجس‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫صد بتقتھی موبخود ہہونی‬ ‫ظ‬
‫ے ی ھیسس )‬ ‫ہے بجس‬ ‫با‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫ہور‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫کا‬ ‫سے‬ ‫ظ‬ ‫سری‬ ‫ی‬ ‫ت‬
‫ق‬
‫بک‬ ‫ظ‬ ‫ا‬ ‫سے‬ ‫کر‬ ‫ب‬ ‫لی‬ ‫اظپنی ھیسس کے داچ‬ ‫ٹ‬
‫ق ہ‬ ‫ظ‬ ‫ظ یظ‬ ‫ک ق‬
‫بک ظبئیے‬ ‫س ق‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫اور‬ ‫ہے‬ ‫ظ‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫با‬ ‫کر‬ ‫قی‬ ‫نے کی ت‬
‫ٹ‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ظر‬ ‫ظ‬ ‫ن‬ ‫ے‬‫ل‬ ‫پہ‬ ‫چ‬ ‫ق‬ ‫یہ‬ ‫ی‬ ‫ظر‬ ‫ظ‬ ‫ن‬ ‫یا‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ہر‬ ‫ہ‬ ‫یں۔‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫‪ (Synthesis‬ہ‬ ‫ظ‬ ‫ظظ‬
‫ظ‬ ‫پ‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ک‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫چ‬ ‫چت‬
‫ہے۔ییہ دا لی نصاد ییہس ییایتبدرونی کراو ھی جیم ہییں ہہو کنی کییوبکہ‬ ‫نے کا ییش جییمہ ہ ظہونی ہ‬ ‫ن ئظر ظ ی‬
‫ہے۔اوراس ظ ی ظیس کو )‪Absolute Idea or‬‬ ‫ھس‬ ‫کابیات کی خرکت کا ابحصار اشی چقتر ہ‬
‫ظب ظ‬ ‫ق‬ ‫گ‬ ‫ہ‬
‫بک‬ ‫ے تزد ی ق‬ ‫ہے۔ا ک‬ ‫ے کا مرکز ‪ Idea‬ہ‬ ‫ے ہہییں۔ ہ ین ل کے لسق‬ ‫‪ (Ultimate reality‬کہن‬
‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ے ظ ح ییال چب ییدا ہہوبا‬ ‫ے قم ظاب بق سب سے چپہل‬ ‫ہے۔ا بک‬ ‫‪ Ultimate‬ہ( گ ہ‬ ‫ظ‬ ‫‪ reality‬ظق ظ‬ ‫ظ‬ ‫)‪idea‬‬
‫ق‬ ‫گ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫س‬
‫ارکس نے مادی ل ق‬
‫نے ہن ل کے‬ ‫ہے۔مارکس ق ق‬ ‫ل ظسے مستعار لی ہ‬ ‫ے کی بتی ییاد ظ ہن ظ‬ ‫ہے۔ م ق ق‬ ‫ہق‬
‫فت شکو بچدل ییانی‬ ‫با۔مارکس بتھی حق یی م یش‬ ‫اس ظ ظکے قکری ن ظاما کو رد ظکر ق د ی ق‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫گر‬ ‫ہے م‬ ‫ہ‬ ‫ا‬‫ی‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫قول‬ ‫ظ‬ ‫بو‬ ‫کو‬ ‫کار‬ ‫ق‬ ‫قہ‬‫ظ‬ ‫طرتی‬
‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫ت‬ ‫چ‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ظ‬
‫خرکت‬ ‫ہے۔گویبا ییہ لنیح ق ق‬ ‫یں عنی ایبک ہہییییت اپنی ق قی کرکے بییق ظہہیی ہیت ا قجی ییار کرنی ہ‬ ‫ے ہہ ی ظ‬
‫ت‬ ‫قما ظ پن‬
‫ی‬
‫ی‬
‫ہے۔مارکس کے م ظا ب ظق ق فت‬ ‫ب‬ ‫ہ‬
‫گے بتڑھنی ہہے۔خو لمی یاہی ہوبا ہ‬ ‫ب‬ ‫ظ‬
‫قی ظسے گزر کر آ ق ظ‬ ‫نصاد اور‬
‫خرکت و قتمو ظمادہ کی‬ ‫ہے۔اور ظ‬ ‫س‬ ‫ل‬ ‫ت‬ ‫ی‬
‫‪ (Matter‬چتر ہ ظ ظ‬ ‫ق‬ ‫ے کی اساس ظ مادہ ) ب ظ‬ ‫ہے۔ عنی ان کے ق‬ ‫ظمادہ ہ‬
‫ہے۔اور دب ییا خودکار قظری قابون )‬ ‫ہ‬ ‫ب‬
‫ہے۔ان کے م ظا بق مادہ ہی ح ییال کو چجیم دیب یا ہ یت ظ‬ ‫قظرت ہ‬
‫جب‬ ‫ب‬ ‫ل رہہا ہ ق‬
‫ارکس کے م بتظا بق ب ظ ئ‬ ‫ظ‬
‫ہے۔ عنی م‬ ‫‪ Natural‬ق ‪(Autonomas‬چپچتر ظ چ ق‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫‪ Law‬ش ظ‬
‫سے عض بنی‬ ‫ہے بو اس ظ ئکے ا شبدر ظ ظ‬ ‫ظاما ظترقی قکے غروج بباما چتر ہ شیچ بچا ظ ظبا ہ‬ ‫شی ن ق ق‬ ‫ایبک معا ق ق‬
‫ب‬
‫ے معا ئشیتن ظاما وخود ظ ظمییں‬ ‫ئچب ییداواری قوئییں ت قا قصا کر قنی ہہییں کہ مروبجہ معاشی ن ظاما ببدلک قکر بن‬ ‫ق‬
‫یں "کوبی ب ظھی شما بحای ن ظاما‬ ‫بوں ل ھن‬ ‫ع‬
‫چ‬ ‫ظ‬
‫ے ہہ ی ظ‬ ‫ہے۔مارکس اسق کے مت لق ی ق ق‬ ‫ق‬ ‫سلہ چچلظپیا ر ہہ یا ق ہ‬ ‫ق‬ ‫ےاور ی قیہ سل‬ ‫آب ق‬
‫مکانی طور ق چتر فروغ یہ چبا چ ظکی‬ ‫یداواری قوئییں ا ش ق‬ ‫ہاس بوقت بک ب بیاہ ظہ ی ظیں ہوبا بجب بک کہ تماما چب ی ق‬ ‫ہ‬
‫ے اس وقت قبک چترانے‬ ‫موزوں ہہو۔اور ظبئی ظے بترتر چب ییداواری ر سن‬ ‫ق‬ ‫ے ییہ ن قظاما‬ ‫ہوں جن کے ظ یلن‬ ‫شق‬
‫ے‬‫ے بجب بک کہ چترانے شماج کے چدود مییں ان کے وخود کے یلن‬ ‫ب‬ ‫چگہ پ ظہییں ین‬
‫ل‬
‫چ‬ ‫ب‬ ‫کی‬ ‫یوں‬ ‫رس‬
‫مادی چالت بخبہ یہ ہوں۔" ‪؎10‬‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫ق‬ ‫قش‬ ‫ق‬
‫س‬ ‫ق‬ ‫ت‬
‫ے بچدل ییانی‬ ‫کے یل قن‬ ‫کی ن ک ییل ق‬ ‫ہے کہ مارکس ظ ب ھی ہہ ین ظگل کی طرح ارت قا قق‬ ‫گ‬ ‫جس طرح ظاوچتر بب ییان ہمہو چحکا ہ ہ‬ ‫ب ق‬
‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫یا‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫د‬ ‫فرار‬ ‫اس‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫کی‬ ‫ق‬
‫قا‬ ‫ت‬ ‫ار‬ ‫کو‬ ‫مادہ‬ ‫لکہ‬ ‫ب‬
‫ب‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫پ‬ ‫کو‬ ‫یال‬ ‫ح‬ ‫طرح‬ ‫کی‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫وہ‬ ‫گر‬ ‫ہے‬ ‫ی ہ‬ ‫ظ‬ ‫با‬ ‫یا‬ ‫ب‬ ‫چ‬ ‫ا‬ ‫کو‬ ‫ار‬ ‫ک‬ ‫قہ‬ ‫طرتی‬
‫ق‬ ‫ی‬ ‫ظ ظ‬
‫ضرف ہ ظہ ینگلی‬ ‫ہے۔ " م ی ہترا بگچدل ییانی طرظتیقہ ظیہ ظ‬ ‫یع ہ‬ ‫یا‬ ‫ک‬ ‫ن‬ ‫یا‬ ‫ی‬ ‫بب‬ ‫بوں‬ ‫ی ی‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫قاظ‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫چپ‬ ‫ا‬ ‫نے‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫مارکس‬ ‫کارل‬
‫ق‬
‫یں ق قغور و ظقکر کا‬ ‫قی ی ح‬ ‫م‬ ‫یال‬ ‫ح‬ ‫کے‬ ‫ل‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫کس‬ ‫تر‬ ‫ظب‬ ‫راست‬ ‫تراہ‬ ‫ب‬ ‫کے‬ ‫ظ‬ ‫اس‬ ‫ہے‬ ‫ظ ہ‬ ‫لف‬ ‫ی‬ ‫خ‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫ے‬‫ق‬ ‫ظطر تی‬
‫ہے ق قیعدب ییا کا‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫یں س ش‬ ‫یال" ظکے ظباما سے آزاد قا ل ظم ی ظ‬ ‫ع‬ ‫ق‬
‫ے وہ "ح یح ق‬ ‫عم‬
‫ے بکبدل کر دیب یا ہ‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫زبدہ ظل بجس‬
‫ص‬
‫ہے۔اس کے بتر کسق ‪،‬‬ ‫سل ہ ظ ظ‬ ‫م‬
‫ہے۔اور ق ظ قی دب ییا "ح ییال"کی ضرف ظببیترونی ظہری ظ‬ ‫ا لی چالق ہ‬
‫ہے بجشکا اتعکاس انسانی ذہہن م ییں ہہوبا‬ ‫مادی کے علوہ کچجھ ہییں ہ‬ ‫پ‬ ‫یالق ق‬ ‫میتری راے ظ مییں عش ی‬
‫ین ح ی ظ‬ ‫ک‬
‫ہے ۔" ‪؎11‬‬ ‫ہے۔ اور بخو قکر کی س لییں اجی ییار کربا ہ‬ ‫ہ‬
‫‪52‬‬
‫ظ‬ ‫ٹ‬ ‫ظ ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫چظ‬
‫ئ‬
‫قظرت کو بچدل ییات کی کسو قنی ظچتر چترکاھ ق قکر بچدیبد سا شبیس‬ ‫نے‬ ‫ہوں‬ ‫پ‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫کے‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫صد‬ ‫کی‬ ‫بات‬
‫ظ‬ ‫ق‬ ‫یل‬ ‫چت ن ی‬ ‫اپ ب‬
‫نی‬
‫ے بوابائبی کا ب ظبدلؤ‪،‬ح ییاقب ییات اور ڈارون کا قابون ارت قا‪ ،‬ش ظق‬
‫مذکورہ سواہہد‬ ‫یش کی ہہییں۔ بجی ئ ظس‬ ‫سے ظ ی ی ش‬
‫ظ‬ ‫یں‬ ‫ل‬‫یا‬ ‫ش‬ ‫م‬
‫ہے اور ہہر سے ت غیتر چبذیتر‬ ‫ب‬
‫ساکن ہییںہ ب لکہ ظاس م ی ظیں خرکت ہ‬ ‫پ‬ ‫سے اپہوں نے ظبا ظببت ک ییا کہ کابیات‬
‫ق‬
‫م‬ ‫پہایبت اہ‬ ‫ظ‬ ‫ہے۔مارکس کا ق‬
‫ہے۔ان کے‬ ‫ہ‬ ‫یت ظو اقاد ظیبت کا چا ق ل‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫قہ ق بچدل ظییانی مادیبت‬ ‫ق‬ ‫س‬ ‫ل‬ ‫ظ ہ‬
‫حض لظ قسق ییاظیہ پہییں قہہو ئنے ببلکہ ان کے عملی‬ ‫ش ی‬
‫کے ظچالت و وافعات م‬ ‫قا‬ ‫ت‬ ‫ار‬ ‫کے‬ ‫ق‬
‫چپہ یلو بتھی ہہونے ہہیں یت ظنی قلسقی د ظ‬ ‫شماج‬ ‫بک‬ ‫تزد‬
‫ضرف قبسر بح وقتع بث ظیتر ہہی کر ظنےظ قآبے ہہ ی قیں بح بیکہ اص ظل‬ ‫کی‬ ‫یا‬ ‫ب‬
‫ہے۔کارل م یارکس لکھق‬ ‫ظی ع‬
‫ہے۔ " لسقییوں نے مخ یلف طرتیفوں سے دب ییا‬ ‫یا‬
‫ظ ہ‬ ‫ظ‬ ‫ے کال یی ہ‬ ‫کاما اس کو ببد لن‬ ‫ق‬
‫ہے دب ییا کو ببدل یا" ‪؎12‬‬ ‫ہے کن کاما ہ‬ ‫چت‬
‫کی ت بثقیتر ییش کی ہ‬ ‫ع‬
‫عم ظ‬ ‫ہ‬
‫ہے۔‬ ‫بچدل ییانی مادیبت کی سب سے بتڑی اہمییت اس کی لی اقادیبت ہ‬
‫ہہ یس ٹیار ینکل ما یث ٹتر یبالزما‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ ق ی‬
‫بک انسی ساب قیس بجس کے‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ارکسق ظکے م ظا ق اس نے بار بخ کو ظسائبیس کی ق‬
‫ق‬ ‫ب‬
‫ی‬ ‫ش‬ ‫ضورت ظ دی۔ا ق ی‬ ‫یں اور بجس کے ظابق ماضی اور مسنق بی‬ ‫ب‬ ‫م ظ‬
‫ہے۔ی اس‬ ‫ظ ہق‬ ‫نی‬ ‫ک‬ ‫س‬ ‫چا‬ ‫کی‬ ‫بح‬ ‫سر‬ ‫کی‬ ‫بوں‬ ‫دو‬ ‫ل‬ ‫ہ‬‫ہ‬ ‫ین‬
‫ی ق یظ‬ ‫ظ‬ ‫ئ‬ ‫قوا‬ ‫ے‬
‫ن‬ ‫ا چپ‬
‫ب‬ ‫قن‬
‫ک‬ ‫م ب‬ ‫ق‬
‫ے اس لسق ق‬
‫ے ہہییں۔مارکس شنے بار قبخ کو‬ ‫‪ ”Historical‬ہن‬ ‫‪ Materialism‬ظ‬ ‫ےق کو ظ “ ق ئ ش‬ ‫ت‬ ‫ی ظلن‬
‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫ترداری‪،‬سرماییہ داری اور اشتراکییت قابم‬
‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ادوار مییں ظ س ییم قک ییا ا یبب یدابی ق ا ظشتراکییت‪،‬دورعلمی‪،‬بچاگ ی ظ‬ ‫چبا بچ ئ‬
‫ہے خو مادی‬ ‫بک ییہ ببال چل وہی ئ ہ‬ ‫ہے۔ مارکس کے تزد ق ی ظ‬ ‫ہ ظہوبچانے گی۔انسانی بار بخ کا قا ظبون ک قییا ہ‬
‫ادی دب ظییا کی تماما چچتظ یزییں ا ظیبک عالمگ قیتر قابون مییں ب کڑی ظہہوب ظی ہہ ی ظیں‪ ،‬اور‬ ‫ہے۔بجس طرح م ق‬ ‫دب ییا کا ہ‬
‫کے تماما ظخواص ش اور افعال طاہہر ہقہونے ہہییں۔ اشی طرح انسانی ز ظبدگی کا‬ ‫تاشی کے قم ظظاب بق ان ظ‬
‫ہے کہ انسان‬ ‫ہے۔بجس کا مم ظ ظلب ہ‬ ‫ہے۔انسان بن ظظاہہر ظسغور اور ارادہ رکھ یا ہ ق‬ ‫ہ‬ ‫بون‬ ‫بک ق قا ظ‬ ‫ب ھی ا ی ظ ظ‬
‫ارادہ ظکی‬
‫ہے۔ گر انسان کے ق ی‬ ‫ع‬ ‫ہے کرسک یا ہ‬ ‫ضی سے بخو ق چ ظچا ب ہ‬ ‫ہے۔اور اچپنی مر ظ‬ ‫بک خودمخ یار محلوق ہ ظ‬ ‫اح ی ق ق‬
‫بک قباربجی‬ ‫یں یی قچارحای چالت کا کس ہ‬ ‫پ‬ ‫ظ‬ ‫ق قظ ییفت‬
‫ہے۔ا ی چ ظ‬ ‫یں کہ وہ انسان م ی ح‬ ‫اس ظکے سوا ظ کچجھ ہ ی ق‬
‫ہے۔ کارل ظمارکس ا قپنی ک یاب‬ ‫سرگرمییوں کا ش ق قی سببب ہ‬ ‫ہے قبخو انسانی زبدگی کی تماما ظ‬ ‫قابون ہ‬
‫پ‬
‫ہے۔"انسان قکا سغور قان کے وبخود ق قکو معیین ظ ہییں کر ظبا ببلکہ ان‬ ‫مییں اس شچتر پ ق بنضرہ اس طرح ک ییا ہ ش‬
‫کے ظچاص متزل مییں‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ہے۔ ارت قا‬ ‫ین ہوبا ہ‬ ‫ہ‬ ‫کے معاسرنی وبخود سے ق قان کے سغور کا تع ی ش ق‬ ‫ش‬
‫سے یبا اشی ببات کو قابونی اص ظلح مییں‬ ‫یوں ق‬ ‫ٹ‬ ‫یداواری رس‬ ‫کے چب ییداواری قوئییں موبخود چب ی ش ق‬ ‫معاسرے ق‬
‫یں چب ی ق‬
‫یداواری‬ ‫کے چدود م ی ش‬ ‫یں بجن ظ‬ ‫یت کے ر شس قیوں سے بکرانی ہہ ی ق ق‬ ‫ہے۔کہ ملک ی ق‬ ‫ق ی قبوں کہا بچا قسک یا ہ‬
‫ت‬ ‫ک‬
‫فروغ کی س قلییں ھی‬ ‫ے چب ییداواری ظ ققوبوں کے‬ ‫ے بخو چ قپہل‬ ‫ت‬
‫قوئییں اب بک ل کر ر ہہی ھی۔ ییہ ر قسن‬ ‫عم‬
‫ش‬ ‫ب‬
‫ہے۔‬ ‫لب کا دور ق ظسروع ہہوقبا ہ‬ ‫ے ببیتڑیباں بین بچانے ہہییں بب شما ئحای ات ق ظ‬ ‫کے یلن‬ ‫ق‬ ‫بتعد شمییں ظان‬
‫ے مییں قت غیتر چب ییدا کرنی ہہییں۔‬ ‫شی ظبتی ییاد مییں ب بید ی ل ییاں د ی قتر یبا قسویترسارے زبتردست ش ببالبی ڈھا چبچ‬ ‫ب‬ ‫معا ق‬
‫ے ت غ ئ ی ظترات کا ٹم ظالعہ کر ٹنے و ققت چب ییداوار قکے معاشی چالت کی مادی ب بیدیبلی مییں بجس کی‬ ‫ا نیس‬
‫ہے۔" ‪؎13‬‬ ‫ط بت عی سابیس سے ھ ییک ھ ییک ت بثیتر کی بچا کنی ہ‬
‫س‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ت‬
‫ظ ظ‬ ‫ی ق‬ ‫ق ی‬ ‫ظ‬
‫ے ہہتییں کہ انسابوں کے درم یکیان لوٹ‬ ‫ے کہ اگر ہہم بار بخ مییں ییہ دتکھن‬ ‫ک اس کے معنی ییہ ہہوئب ق‬
‫سوٹ کو‬ ‫ہے۔کہ لوٹ ئ ھ‬ ‫ھی مو ظبخود ہ‬ ‫ہے۔بو اشی مییں اس ببات کا ق ب ظخوابظ ب ظ‬ ‫چاری ر ہہی ق ہ‬ ‫ھسوٹ ب ظ ق‬
‫ئ‬
‫ے ہہوبے‬ ‫ے کہ بخو قا قبون انسا ظنی زبدگی کو درہہم بترہہم کن‬ ‫ہے۔اور وہ ییہ ہہ ق‬ ‫کس طرح جیم ک ییا بچا سک یا ہ ٹ‬
‫ے سے ا تعمال کربا۔‬ ‫س‬ ‫ہے قاس کو معلوما کرکے اسے ھ ییک طر یق‬
‫ت‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫ق‬
‫ط بی قا نی بچدو بچہد‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫ہے۔اور اگر‬ ‫ظہ‬ ‫قت‬ ‫طا‬ ‫ق‬ ‫بک‬‫ی‬ ‫ا‬ ‫بدر‬
‫ظ‬
‫ا‬ ‫کے‬ ‫ق‬ ‫ان‬ ‫ق‬ ‫طو‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫ہ‬ ‫با‬ ‫ہو‬ ‫طرح طوظق قان کی قب بیا ہہی دیبکھ کر ا ظ ظبدازہ ظ ہ‬ ‫بجس ق‬
‫ب‬ ‫ظ‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ئ‬ ‫س‬ ‫م‬
‫عمال ک ییا بچابے بو ہی ظطوقان ظخو آج‬ ‫ے اپ ظ ت ق‬ ‫کے یلن‬ ‫ئ‬ ‫سے ق یید اغرض ظ‬ ‫اس طاقت کو قاببو مییںیپلکر ا ظ ظ‬
‫بدگی‬ ‫ز‬ ‫نی‬ ‫سا‬ ‫ن‬‫ا‬ ‫طرح‬
‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ہے۔اشی‬ ‫ہ‬ ‫یا‬ ‫ک‬ ‫س‬ ‫حا‬ ‫چ‬ ‫ی‬
‫ق‬ ‫ہ‬ ‫چ‬ ‫دے‬ ‫ب‬ ‫قا‬
‫ظ‬ ‫ہت‬ ‫بپ‬ ‫کو‬ ‫یت‬ ‫ی‬ ‫پ‬ ‫ہے ہی ان ظسا‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫قب بیا ہہی کا سببب‬
‫صیح‬ ‫ی‬
‫اس قابون کو موڑ کر چ‬ ‫ے ہہییں کہ اگر ق‬ ‫بدازہ ئ کرسکن‬ ‫مییں اس کے قابون قکی ہہول ظیاک ییاں دیبکھ کر ہہم شا‬
‫ظ‬
‫ہے۔مارکس ق کا ییہ‬
‫ت‬
‫ظ‬ ‫دوں کا سببب بین سک یا ہ‬ ‫ے بت یسمار قاب ق‬ ‫موڑ دیبا بچاے بو وہ زبدگی کے یلن‬ ‫سمت چتر ق ق‬ ‫ق ظ‬
‫ے چتر‬ ‫ق‬
‫ہے۔اس طرح مارکس اس ی ی بیچ‬ ‫‪ (Class‬لبا ظ ہ‬ ‫کہ‬ ‫قاچپ ظبون ط بی ققانی ظبچدو ب ظچہد ق) ی‪ Struggle‬ظ‬
‫ظ‬ ‫ت‬ ‫چ‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ک‬
‫ے چ ظتر ھی‬ ‫جب زبدگی ببا ل ل ا بب یداب ظی مر ل‬ ‫ےظ کہ تماما قانسا چنیبچجھبار قبخ یسوا اس زمکانے کے ق ب ی‬ ‫ظ چہیچ‬
‫ہے۔مارکس کے ح ییال مییں انسانی‬ ‫ہ‬ ‫بخ‬ ‫بار‬ ‫کی‬ ‫سوٹ‬ ‫ھ‬ ‫لوٹ‬ ‫بخ‬ ‫بار‬ ‫لی‬ ‫تماما‬ ‫کی‬ ‫یت‬ ‫‪،‬ان پ ی‬
‫سا‬
‫‪53‬‬
‫ش‬ ‫ظ ظف ٹ‬ ‫ظ‬ ‫ق ی‬ ‫ق ی ق ق‬
‫سروعات مارکس اس‬ ‫یس‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫م‬
‫ی‬ ‫ک‬
‫ہے۔ قمییون یشٹ ق ینی یو کی ق ی‬ ‫چہد کی قبار بخ کا ہ‬
‫ب‬
‫شماج کی بار بخ قط بی قانی بچدو ب‬
‫"اج ق‬
‫ہے۔ آزاد اور‬ ‫نی بچدوبچہد کی ظبار بخ ہ ظ‬ ‫قا‬
‫ط بب ظ‬ ‫ی‬ ‫بخ‬ ‫بار‬ ‫کی‬
‫ق‬ ‫خوں‬ ‫ا‬ ‫شم‬
‫ظ‬ ‫تماما‬ ‫بک‬ ‫نے ہہییں‬ ‫سے کر چب‬
‫ظببات ق ی ش‬
‫ظ‬ ‫م‬
‫علما‪ ،‬چبترنشیین‪ ،‬ییین‪ ،‬ظبچاگیتردار اور زرعی علما‪،‬اس یادتاور کار ی گر غرض ییہ کر تطالم اور لوما بترابتر‬ ‫ب‬ ‫ی‬‫ی‬ ‫ل‬
‫ے بب ظیدوں ق اور ظ ک ئب ھی چنس چتردہ ایبک‬ ‫ہے۔ک ب ظھی کھل‬ ‫ئ‬ ‫کے چلف صف آرا ر ہ‬ ‫ایبک دوسرے ق‬
‫شماج‬
‫سرے سے ق‬ ‫ے ظ‬ ‫اس لڑابی کا قابب قحاما ییہ ئرہہا کہ یبا بو پن‬ ‫ہے۔اور ہہر ببار ق‬ ‫دوسرے قسے لڑ ئنے ر ہ ظ‬ ‫ظق‬
‫ے‬ ‫ت‬
‫ے۔"مارکس نے چترزور طر یق‬‫ق ی‬ ‫ہ‬ ‫ق‬
‫ے ایبک ساتھ ب ب قیاہ ہوب‬ ‫ی‬
‫لے ط بق‬ ‫ہ‬ ‫ت‬
‫کی ات لنی عم شیتر ہوبی یبا لڑ قنے ق وا ی ظ‬ ‫ق‬
‫سے ییہ بببات با ببت کی کہ تماما باربجی قب بیدیبل ییاں دراصل ط بی قانی بچدوبچہد کی بار بخ ہہییں۔‬
‫‪(The history of all hitherto society is the history of‬‬
‫)‪class struggle‬‬ ‫؎‪14‬‬

‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ظظ‬


‫ن ظر ییہ قدر زا ب د‬
‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ق ظ‬ ‫ظظ‬ ‫قق‬
‫مارکس اس لوٹ‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ظ‬
‫ے‬
‫ع‬ ‫ت‬
‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ذر‬ ‫کے‬ ‫جس‬ ‫ب‬ ‫ہے۔‬ ‫ظہ‬ ‫د"‬ ‫ب‬ ‫زا‬ ‫قدر‬ ‫"‬ ‫ن‬ ‫بو‬ ‫ا‬‫ق‬ ‫ا‬
‫ق‬ ‫ک‬ ‫ظاما‬
‫نش ی‬ ‫ق‬ ‫صادی‬ ‫مکارکس کے ا ظق ظن‬
‫چاری‬
‫بک سارے ان ظسانی بار بخ مییں ب ق‬ ‫اس کے شتزد ی ق‬ ‫ہے۔خو ظ‬ ‫ب‬ ‫ھسوٹ کے ن ظ ظظاما کی نسر بحصکربا ہ‬
‫ے کو کچجھ چاصل کر قبا‬ ‫ے ئ یلن‬ ‫ہے یبا ا چپن‬‫ظ ہ‬ ‫با‬ ‫کما‬ ‫ظ‬
‫جھ‬ ‫کچ‬ ‫خو‬ ‫ب‬ ‫سان‬ ‫ن‬ ‫ا‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫ہ‬ ‫یہ‬ ‫ی‬ ‫نے ظ قکا چا قل‬ ‫ی‬ ‫ہے۔اس ب ظظر‬ ‫ر ہہی ہ ظ ظ‬
‫یں لبا‬ ‫ظ‬ ‫ے بخو شحص چمیت کرکے کوبی چچیتز و ب ظ‬
‫خود م ی‬ ‫ہے۔اس یل ظن‬ ‫ہے وہ انسانی چمیت کا یتی بیچہ ہہوبا ہ‬ ‫ہ‬
‫ے۔اس ئ کا م ظلب ییہ ہہوا کہ بخو لوگ خود چمیت‬ ‫ن‬ ‫الک‬ ‫م‬ ‫کا‬ ‫اس‬ ‫ق‬ ‫وہ‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬‫ہ‬ ‫ق‬ ‫خ‬ ‫کا‬ ‫ہے۔اس‬
‫ہے۔اور بخو لوگ دوسروں کو‬
‫بپ‬
‫ہے ہہییں وہ بو گویبا اچپ قنی چمظیت کی بچائبز کمابی لے رہہا ہ ظ‬
‫ظ‬
‫ر‬ ‫کر‬ ‫ل‬ ‫کر ہکے چاص‬
‫ہ‬
‫دولت چاص قل‬ ‫ظ‬ ‫مزدور رکاھ کر ان سے کوئبی کا ما ظکرانے ہہ ی ظیں ئاور ظ چ ئتھر اس کاما کے م ظیا فع سے‬ ‫ق‬
‫ہے۔بخو کچجھ دوسروں نے کمایبا تھا‬ ‫ہ‬ ‫ا‬‫ہ‬‫ہ‬ ‫ر‬ ‫لے‬ ‫دہ‬‫ب‬ ‫ا‬‫ق‬ ‫ز‬ ‫ب‬ ‫چا‬‫ب‬ ‫با‬ ‫سے‬ ‫یت‬ ‫م‬
‫چ‬ ‫کی‬ ‫دوسروں‬ ‫با‬
‫یل ق‬ ‫گو‬ ‫وہ‬ ‫یں‬
‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫ہ‬ ‫ق‬ ‫نے‬ ‫کر‬
‫ے ہہییں۔‬ ‫اس چتر ق بنصہ کر ین‬
‫ظ‬ ‫ش‬ ‫ظ ظ‬ ‫ٹ‬
‫سا ئب یی یی قک ا ش قترا کییت کے ا ہہم حصا ئب ص‬
‫ظ‬ ‫ظظ‬ ‫ش‬
‫کارل مارکس کے چتییش کردہ اشقتراکی ن ظاما کے چح ظید حصوص ییات جشب ذیبل ہہییں۔‬
‫ظ‬ ‫ظ ق‬
‫ظ‬ ‫‪ 1‬۔ ببجی ملکییت کا چا ت مہ‬
‫ظ ق‬ ‫ئ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫ہے۔ اس‬ ‫یت کا چات مہ ہق‬‫ظا ظشقتراکی اقن ظصادی ق ن ظاماق کی اول یین حصوض یبت ذرابع چب ییداوار کی جی لک ی ظ‬
‫م‬ ‫ب‬‫ب‬
‫کے علوہ کسی چچیتز کی ملکییت پہییں رکاھ سک یا۔ کسی کو‬ ‫ن ظاما م ی قیں فرد ذانی ا ظستعمال کے ظسامان ق‬
‫بتھی ذانی کاروببار کرنے کی ابچازت پہییں ہہونی۔‬
‫‪ 2‬۔ چب ییداواری وسا ئب ل کی ملکییت‬
‫قظ ٹ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬‫ق‬
‫قاس اق قنصادی ن ظظاما ظمییں تماما ذرائبع چب ییداوار ظ ق ظ بجیسا کہ ق ییکتریباں‪،‬زمیین‪،‬معدب ییات‪،‬‬
‫ظ‬
‫ببحارت‪،‬تعمیترات‪ ،‬بب یییک وغیترہ چکومت کی ملکییت اور اپت ظاما مییں ہہونی ہہییں ۔‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ش‬
‫قق‬ ‫‪ 3‬۔ معا شی منصو بیہ بب یدی‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ش‬ ‫ق‬ ‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ظظ‬
‫چاص منصوبیہ قبب یدی‬ ‫ق‬
‫عمال‪ ،‬چب ییداوار شاور اس ییا ضرف کی س یییمق ایبک ظظ‬ ‫ت‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫کا‬ ‫ل‬ ‫ب‬ ‫وسا‬ ‫قومی‬ ‫ق‬
‫یں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ظاما‬ ‫ق‬
‫ن‬ ‫اس‬
‫ی‬‫ق‬ ‫ط‬ ‫ظ‬ ‫ہ‬
‫حت‬‫ن ق ب ق‬‫کے‬ ‫ظاما‬ ‫کے‬ ‫یوں‬ ‫ظ م‬ ‫کو‬ ‫لب‬ ‫ظ‬ ‫و‬ ‫رسد‬ ‫کو‬ ‫یا‬ ‫ا‬ ‫یں‬ ‫م‬
‫ل ق ی سی‬ ‫قاظ‬ ‫ا‬ ‫ہے۔دوسرے‬ ‫ہ‬ ‫نی‬ ‫ہو‬
‫ق‬ ‫حت‬ ‫ظپ ب‬ ‫کے‬
‫ے بترفرار رکھا بچابا‬‫ہے۔ لب و رسد کے بوازن کو مرکزی منصوبیہ بب یدی کے ذر یت ع‬ ‫ط‬ ‫ہییں رکھا بچابا ہ‬
‫ہے۔‬ ‫ہ‬

‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬


‫ت‬
‫‪ 4‬۔ ٓا مد پییوں م ییں ھوڑا فرق‬
‫‪54‬‬
‫ظ ق‬ ‫ظ‬
‫ہے۔ بجس سے آمدظپ ظییوں کے ظغتر قم ظنص ظقایہظ‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ظہہر فرد کو ظ قاس قکی ضرورت کے م ظا بق معاو ظصاہ ل یا ہ ظ ق‬
‫ظ ظ ظ ظ ق ئ ی‬
‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫با‬ ‫ہو‬‫ہ‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ا‬‫ق‬ ‫ظاما‬ ‫ن‬ ‫یہ‬ ‫قا‬ ‫ص‬‫من‬ ‫سے‬ ‫مہ‬ ‫فرق کا چات مہ ہہوبا ہ‬
‫ہے۔ آمدنی‪ ،‬ظسود اور ذانی م یا فع کے چات‬
‫ظ‬ ‫ظ‬
‫‪ 5‬۔ ضرور یبات ز بدگی کی فرا ہہمی‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظظ‬ ‫ش‬
‫اشقتراکی ن قظاما مییں ہہر فرد کو اس کی صلجییت کے م ظاب بق روزگار اورمعاوضے چکومت کی ذماہ‬
‫ہے۔‬‫داری ہہونی ہ‬
‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ی ظت ٹ ظ‬
‫سا یی قک ا ش ترا ک ی قیت کے قوا یبد‬
‫‪ 1‬۔ذرا ئب ع کا بپہ قتر ا ستعمال‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫چکومت کی چامع ظ صویہ ظیدی کے ا ش یا اور ظ‬
‫ضرورت ظکے م ظا ظب ب قق کی بچانی‬
‫چدمات کی چب ییداوار ظ‬
‫ئ‬ ‫ئ‬ ‫سی ظ‬ ‫ش ق ب ق ق من ب ظ ظ بب‬
‫ہے۔‬ ‫چ‬
‫اور ققابدہ وسابل کا بتڑے پ یتمانے چتر ص ییاع کا چات مہ ہ‬ ‫ہے۔اشتراکی قاقن قصادی ظن ظظاما کا ایبک‬
‫ہے۔‬ ‫مہ‬ ‫چا‬‫ظ‬ ‫ل‬ ‫ا ش قہنہارات اور حارنی بد یوا ییوں کا مکم‬
‫ہ‬ ‫ت‬ ‫بغ پ‬ ‫بب‬ ‫س‬
‫ظ ق‬ ‫ق‬
‫ظ‬ ‫ق‬
‫‪ 2‬۔ار نکاز دولت کا چا ت مہ‬
‫ت‬
‫ب‬ ‫ئ‬ ‫ظ‬ ‫عاو ظ‬ ‫ق‬
‫بک کو اقب ظ‬
‫سے اس کی ضروریبات چممبوری ظ ہہونی ق‬
‫ہوں کوبی ھی آمد ظنی‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫ہے بجس ق ظ‬
‫ہ‬ ‫ق‬ ‫یا‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫صاہ‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫یا‬ ‫ہہر ا ی ظ‬
‫ذریتعہ پہییں ہہوبا سوائبے پیخواہ کے بجس سے ییہ کن پہییں ہہوچبابا کہ دولت کا چح ید‬ ‫ق‬ ‫کا‬ ‫نے‬ ‫ترھا‬
‫بق‬
‫ہ‬
‫ہہا ھوں مییں ارنکاز ہو۔‬ ‫ت‬
‫ظ ق‬ ‫ق‬
‫مہ‬ ‫‪ 3‬۔ا سیحصال کا چا‬
‫ق ت ظ‬
‫ش‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ئ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫اس ن ظاما ظم ی قیں ذا قنی م ظیا فع کمانے کا کوبی ذریتعہ ہییں بجس سے کمزور کے ا یحصال اور معاشی‬
‫س‬ ‫پ‬
‫قق‬ ‫ہے۔‬
‫ظ ق‬
‫لوٹ ما کا چات مہ ہہوبا ہ‬
‫ظ‬
‫ق‬‫ظ ظ ظ ت‬
‫ق‬
‫‪ 4‬۔دولت کے غ یتر منص قا یہ س ییم کا چا ت مہ‬
‫ق ظ‬ ‫ظ‬
‫ظ‬ ‫ظ‬‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫اشش ق‬
‫پ‬ ‫دولت کا حصول قکرا ی ق‬
‫یہ‪ ،‬ظ ظسود قاور ذانی م یا فع کے ظ موا ظفع ظ ہ ی ظ ظ‬
‫یں‬ ‫ق‬ ‫صادی ن ظاما م ی ظیں ظ‬ ‫ا‬ ‫تراکی‬
‫ق‬
‫قن ش‬
‫ہے۔ بجس سے غیتر منص قایہ با‬ ‫ہے اور مفررہ پیخواہ چبابا ہ‬‫سرے کا ہہر فرد بوکر ہہوبا ہ‬ ‫ہہونے۔م ظعا ق ق‬
‫ظ‬
‫ہے۔‬ ‫بترابتری کا چات مہ ہہوبا ہ‬
‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ق‬
‫‪ 5‬۔ ضرور یبات ز بدگی کی فرا ہہمی‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظظ‬ ‫قق‬ ‫ش‬
‫ہ‬ ‫چ‬ ‫اشقتراکی اقنصادی ن ظاما مییں ہہر فرد کو ضرور ظیبات ظزبدگی کی ظفرا ظ‬
‫می کومت کی ذماہ داری ہونی‬ ‫ہ‬‫ہ‬
‫ہے۔ ییہ چکومت کی ذماہ داری ہ‬
‫ہے کہ ہہر فرد کو ضروریبات زبدکی فراہہم کرے۔‬
‫ش ب ظ‬ ‫ہ‬
‫ٹ‬ ‫چ‬‫چ‬
‫‪ 6‬۔ معا شی بجرا بوں سے ھنکارہ‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظظ‬ ‫ش‬‫قق‬ ‫ش‬
‫بادہ چب ییداوار‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ہے بجس سے ز‬
‫ہ‬ ‫نی‬
‫ق‬ ‫ضرورت کے م ظظاب بق ہہو‬ ‫اشقتراکی اقنظ قصادی قن ظاما اس ییا کی شچب ییداوار قومی ظ‬
‫ہی پہییں ہہوبا‪ ،‬مزیبد ییہ کہ سودی ن ظاما ظیہ‬ ‫بازار کا خظرہ چب ییدا ہ ق‬
‫ئ‬ ‫ہے۔معا ق قشی کساد ب‬ ‫مکان جیم ہہوبچابا ہ‬ ‫کا ا ظ‬
‫ہے۔‬ ‫ہہونے کی وبجہ سے ملک اور اقنصادی مسابل سے مبترا ہوبا ہ‬
‫ہ‬
‫ق‬
‫نے روزگاری کا ظچا ت مہ‬
‫‪7‬۔ ب‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ مع ش‬ ‫ظ‬
‫ک‬
‫نے کے بحت ر ھا‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ق‬ ‫عم‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫شت ہونے کی قویبجہ سے چب ییداوار ل کو ایبک و تع م ظنصو ب‬ ‫م قنصوبیہ بب ید‬
‫ے۔‬‫ہے کہ مسیخق لوگوں کو روزگار فراہہم کر سک‬
‫ہ‬ ‫نی‬ ‫ہ‬
‫ہو‬ ‫ظ‬ ‫ل‬ ‫ب‬ ‫اس‬ ‫کومت‬ ‫چ‬ ‫سے‬ ‫جس‬ ‫ہے ب‬ ‫بچابا ہ‬
‫ق ظ‬
‫ت‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫یب ظ ٹی ظ‬
‫سا ی یی قک ا ش قترا کییت کے قصا بات‬
‫۔ا زادی کا ظچا ت مہ‬
‫‪ٓ 1‬‬
‫‪55‬‬
‫ق‬ ‫قق‬ ‫ق‬ ‫ق ظ‬ ‫ظظ‬
‫اور س ییاشی طاقت‬
‫ہے۔اقنصادی ق‬ ‫ہ‬ ‫با‬ ‫ہ‬
‫ہو‬ ‫لوک‬ ‫س‬ ‫سا‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ب‬
‫ج‬ ‫لمی‬‫ع‬ ‫تھ‬ ‫ا‬‫س‬‫ظ‬ ‫کے‬ ‫ق‬
‫دمی‬ ‫ٓ‬ ‫ا‬ ‫یں‬‫ی‬ ‫م‬ ‫ظاما‬ ‫ن‬ ‫‪1‬۔ اس‬
‫ہ‬ ‫مکم‬ ‫عم‬ ‫گق‬ ‫ہ‬ ‫چ‬
‫ہے۔‬‫ہ‬ ‫نے‬ ‫ہو‬ ‫جروما‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫سے‬ ‫ل‬ ‫و‬ ‫یار‬ ‫ق‬ ‫زادی‬ ‫ا‬
‫ٓ‬ ‫فراد‬ ‫ا‬ ‫ہے۔‬
‫ہ‬ ‫نی‬ ‫ہو‬ ‫باس‬ ‫چ‬ ‫کے‬ ‫کومت‬
‫لچ‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ ق‬ ‫ظ‬ ‫کاما م ییں ظعدما د ح چسنی ق‬
‫ق‬ ‫ش‪ 2‬ق۔ ق‬
‫چ‬ ‫ل‬
‫یں قوہ د ح چسنی پہییں رہ‬ ‫ظ‬
‫عم‬ ‫ع‬
‫ے سے یافراد کی کاما م ی ظ‬
‫کے چا تم‬‫اش قتراکی اق ظن ئصادی ن ظاما مییں ت قذانی م یا فع ظ ق‬
‫جے۔اببحادات اور دریباقیوں چتر م کوس ل‬ ‫چبا قنی کہ وہ بیے کاما کے طر یفوں اور دریباقیوں چتر سو چ‬
‫ہے۔‬ ‫چتڑبا ہ‬

‫خوالہ بچات‬
‫‪ .1‬بحققوالہ صققدیقی ‪ ،‬نعیققم‪ ،‬محمققد ڈاکققٹر ‪ ،‬پروفیسققر اسققلم اور‬
‫جدید معاشی تصورات ص‪ 86:‬مکتبہ دانیال لہور ‪2015‬‬
‫‪ .2‬جاویققد ‪،‬یاسققر‪،‬عققالمی ااردو انسققائیکلوپیڈیا جلققد اول ص‪817:‬‬
‫الفیصل ناشران و تاجران کتب غزنی سٹریٹ ااردو بازار لہور‬

‫‪ .1‬حسن‪،‬سبط‪،‬سید‪ ،‬موسی سے مارکس تک ص۔‪ 8‬مکتبہ دانیال‬


‫لہور‪1977،‬‬
‫‪More,Thomas,Sir. utopia,Cassele and Company .2‬‬
‫‪Limited London,Paris@ Melbourne,1895‬‬
‫‪https://books.google.com.pk/books/about/The_Cit‬‬
‫?‪y_of_the_Sun.html‬‬
‫=‪id=pbufutSKJrMC&printsec=frontcover&source‬‬
‫=‪kp_read_button&redir_esc=y#v=onepage&q&f‬‬
‫‪false‬‬
‫‪Companella,Thomas, City of the Sun,Published .3‬‬
‫‪.by library of Alexandra‬‬
‫‪Harrington,James, The Common Wealth of .4‬‬
‫‪Oceana,London,George Routledge and Sons,‬‬
‫‪.Glasgow and New York,1887‬‬
‫‪Simon-Saint,Letters from an inhibatant of .5‬‬
‫‪Geneva to His Contompararies,Oxford University‬‬
‫‪.Press.1976‬‬
‫‪Marx,Karl and Frerick Engels Manifesto of the .6‬‬
‫‪Communist Party, 1848‬‬

‫‪56‬‬
‫شظ‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ک ظق ظق ظ‬ ‫ل ظ‬ ‫ظ ظ‬
‫‪ .7‬مارکس‪،‬کارل‪،‬ایپن ظگلز‪،‬فریبڈریبک‪ ،‬ی ظین‪،‬ولدمیتر‪ ،‬مار سی کرو لسقہ ص ‪391‬مترحم مرزا اس قاق‬
‫ی‬
‫شظ‬ ‫ق‬ ‫ک ظق ظق ظ‬ ‫لما رسول ایب ظیڈ ش ظتز‪،‬لہہور۔‬ ‫چخوھدری ع ظ‬
‫یظ‬ ‫بب ییگ۔‬
‫ب‬ ‫ی‬
‫‪ .8‬مارکس‪،‬کارل‪،‬اپن ظ لز‪،‬فریبڈریبک‪ ،‬ی ظین‪،‬ولدمیتر‪ ،‬مار سی کرو لسقہ ص ‪54‬مترحم مرزا اس قاق‬‫ل‬ ‫گ‬
‫ب بب ییگ۔ چخوھدری علما رسول ایب ظیڈ شتز‪،‬لہہور۔‬
‫‪ .9‬بخوالہ حسن‪،‬سبط‪،‬سید‪ ،‬موسی سے مارکس تک ص۔‪ 260‬مکتبہ‬
‫ک ظق ظق ظ‬ ‫ل ظ‬ ‫دانیال لہور‪ ،‬ظ ظ‬
‫‪1977‬‬
‫ب‬ ‫ق‬
‫ین‪،‬ولدمیتر‪ ،‬مار سی کرو لسقہ ص ‪35‬مترحم مرزا‬ ‫‪ .10‬ش ظ مارکس‪،‬کارل‪،‬ایپنگلز‪،‬ظفریبڈریبک‪ ،‬یی‬
‫ظ‬ ‫ظ‬
‫رسول ایب یڈ شتز‪،‬ل ہ‬
‫شظ‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ہور۔ ظق ظق ظ‬ ‫چخوھدری علما ل ظ‬‫اس قاق بب ییگ۔ ظ ظ‬
‫‪.11‬مارکس‪،‬کارل‪،‬ایپ ظنگلز‪،‬فریبڈریبک‪ ،‬ی ظین‪،‬ولدمیتر‪ ،‬مار سی کرو لسقہ ص ‪42‬مترحم مرزا اس قاق‬
‫ک‬ ‫ی‬
‫ق‬ ‫ک ظق ظق ظ‬ ‫رسول ایب ظیڈ شتز‪،‬ل ظہہور۔‬ ‫لما ظ‬ ‫بب ییگ۔ چخوھدری ع ی ظ‬
‫ب‬
‫ین‪،‬ولدمیتر‪ ،‬مار سی کرو لسقہ ص ‪33‬مترحم مرزا‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫گ‬
‫‪ .12‬ش ظ مارکس‪،‬کارل‪،‬اپن لز‪،‬فریبڈریبک‪ ،‬ی‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ہور۔‬ ‫چخوھدری ظ ظعلما رسول ایب ظ ظیڈ شظتز‪،‬ل ہ‬ ‫اس قاق بب ییگ۔ ی ظ‬
‫ب‬ ‫ق‬ ‫ک ق ق ظ‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫گ‬
‫ین‪،‬ولدمیتر‪ ،‬مار سی کرو لسقہ ص ‪35‬مترحم مرزا‬ ‫ظ‬ ‫‪ .13‬ش ظ مارکس‪،‬کارل‪،‬اپن ظلز‪،‬فریبڈریبک‪ ،‬ی‬
‫اس قاق بب ییگ۔ چخوہہدری علما رسول ایب ظیڈ شتز‪،‬لہور۔‬
‫ہ‬
‫‪Marx,Karl,Fredrick‬‬ ‫‪Engels,‬‬ ‫‪Communist .14‬‬
‫‪Manifesto‬‬ ‫‪Section‬‬ ‫‪1._1.Pulished‬‬ ‫‪by‬‬ ‫‪Jaico‬‬
‫‪Publishing House,Mumbai‬‬

‫باب سوم‬
‫‪57‬‬
‫اس باب میں انیسویں صدی کے مسلم مفکرین کی‬
‫اشتراکیت سے متعلق آراء کو بیان کیا گیا ہے۔ اس‬
‫ضمن میں ان علماء کرام کے حالت زندگی پر‬
‫تفصیلی روشنی ڈالی گئی ہے‪ ،‬کیونکہ ان کی فکر کی‬
‫تشکیل میں ان حالت کا اہم کردار ہے۔‬

‫ظ‬
‫جوکہ چار فصول پر مشتمل ہے‬
‫ظ‬
‫مول با ظع بی یید ا س یدھی‬ ‫ظ‬
‫فصل اول ‪ :‬ظ‬ ‫ص‬
‫مول با جسرت مو ہہا قنی‬ ‫ظف ل ئ‬
‫دوما‪:‬‬
‫علماہ ظ م ا ق بیال‬ ‫ظفصل سو یم‪:‬‬
‫مول ح فظ الر حمن یسیو ہہاروی‬ ‫فصل چچہارما‪:‬‬

‫ئ‬
‫بباب سو یم‬
‫فصل اول‬
‫مولنہ عبید اللہ سندھی کے نزدیک جدید‬
‫اقتصادی نظام ر اشتراکیت‬
‫مولنہ عبید اللہ سندھی کا تعارف اوراقتصادی‬
‫نظام‬
‫تحریقک اوزادی ہنقد کقے مجا ےےہد امقام انقلب مولنقا عبیقداللہےے‬
‫سندھی کے ابتدائی ایام زندگی ان کی مختصر سوانح حیات جققو‬
‫انہوں نے ہندوستان روانہ ہونے سے پہلے مکققہ معظمققہ میققں خققود‬

‫‪58‬‬
‫قلمبند کی ہیں۔ اس میں اپنی سوانح حیققات کققی شققروعات اپنققے‬
‫خاندان کے تعارف سے کرتے ہیں اور اپنی زندگی کے چیدہ چیققدہ‬
‫حالت بتاتے ہیں۔" میں ضلع سیالکوٹ کے ایک گاؤں )چیققانوالی (‬
‫میں پیدا ہوا۔ میں عموما سلمان فارسی کے اتبققاع میققں اپنققا نققام‬
‫عبیداللہ بن اسلم لکھا کرتا ہوں۔مگر بعققض عققرب دوسققتوں کققے‬
‫اصرار سے والد کی طرف منسوب کرکے لکھنققا پققڑا تققو عبیققدللہ‬
‫بن ابی عائشہ لکھا۔میری بڑی ہمشیرہ کانام "جیونی" تھا۔میں نققے‬
‫ارادہ کر لیا ہے کہ اگر کسی نے اس سے زیادہ تصققریح کققے لیققے‬
‫کہا تو عبیداللہ بن راماین بن راے لکھققوں گققا۔میققرے بققاپ دادا کققا‬
‫پورا نام رام سنگھ ولد جسپت رائے ولد گلب رائے ےےہےےے۔ میققں بققہ‬
‫شب جمعہ قبل صققبح ‪ 12‬محققرم ‪ 1289‬ہجققری‪ 10،‬مققارچ ‪1872‬‬
‫پیدا ہوا۔میرا باپ چارماہ پہلے فوت ہوچکاتھا۔دو سال بعد دادا بھی‬
‫مر گیا تو میری والدہ مجھے ننیال میققں لققے اوئققی۔یققہ ایققک خققالص‬
‫سکھ خاندان تھا۔میرے نانا کی ترغیب پرہی میققرا والققد سققکھ بققن‬
‫گیا تھا۔ " ‪؎1‬‬
‫حصول علم‬
‫"میرے دو ماموں جام پور ضلع ڈیرہ غازی خان میں پٹققواری‬
‫تھے۔جب نانا فوت ہوا تو ہم ان کے پققاس چلققے اوئققے۔میققری تعلیققم‬
‫‪ 1878‬سے جام پور کققے اردو مققڈل سققکول میققں شققروع ےےوہئی۔‬
‫ار‬
‫‪ 1887‬میں مڈل کی تیسققری جمققاعت میققں پڑھتققا تھقا۔کققہ اظ ےے ہ‬
‫اسلم کے لیے گھر چھوڑ دیققا۔اس دوران دو سققال کققے لیققے میققں‬
‫ضلع سیالکوٹ میں رہا۔ اس لیے ایک سال اپنی جماعت سے‬
‫پیچھے رہ گیا۔ورنہ اپنے سکول میں شروع ےےہی سققےےے ممتققاز طققالب‬
‫علم مانا جاتا تھا۔‪ 1884‬میں مجھے سکول کققے ایققک اریققہ سققماج‬
‫لڑکے کے ےےہاتھ سققےےے "تحفتققہ الہنققد"ملققی۔میققں اس کققے مسلسققل‬
‫مطالعہ میں مصروف رہا اور بالتدریج اسلم کی صداقت پر یقین‬
‫بڑھتا گیا۔ہمارے قریب کے پرائمققری سققکول )کققوٹلہ مغلں( سققے‬
‫چند ہندو دوست بھی مل گئے جو میققری طققرح تحفتققہ الہنققد کققے‬
‫گرویدہ تھے انہی کی توسط سے مجھے مولنا اسمعیل شہید کی‬
‫تقویت الیمان ملی‪،‬اس کے مطالعہ پر اسلمی توحید اور پرانکققو‬
‫شرک اچھی طرح سمجھ میں اوگیا۔‬
‫وکی"کققی کتققاب‬ ‫اس کققے بعققد مولققوی محمققد صققاحب "لک ےے ہ‬
‫"احوال الخرہ"پنجابی ایک مولوی صاحب سے ملی۔اب میققں نققے‬
‫نماز سیکھ لی اور اپنا نام تحفتققہ الہنققد کققے مصققنف کققے نققام پققر‬
‫عبیداللہ خود تجویز کیا۔احوال الخرہ کا باربققار مطققالعہ اور تحفتققہ‬

‫‪59‬‬
‫ی‬‫الہند کا وہ حصہ جس میں نو مسلموں کےحالت لکھققے ہیققں۔ی ےے ہ‬
‫دو چیزیں جلدی اظہار اسلم کا باعث بنی۔ورنہ اصلی ارادہ یہ تھ ا‬
‫کہ جب کسی ہائی سکول میں اگلے سال تعلیم کے لیققے جاؤںگققا‬
‫تو اس وقت اظہار اسلم کروںگا۔ ‪ 15‬اگست ‪ 1887‬عیسققوی کققو‬
‫توکل علی اللہ نکل کھڑا ہوا۔میققرے سققاتھ کققوٹلں مغلں کققا ایققک‬
‫رفیق عبدا لقادر تھا۔ہم دونوں عربی مدرسہ کے ایقک طققالب علققم‬
‫کے ساتھ کقوٹلہ رحیقم شقاہ ضققلع مظفققر گقڑہ میقں پہنچقے ‪ 9‬ذی‬
‫الحجہ ‪ 1304‬ہجری کو میری سنت تطہیر ادا ےےوہئی۔اس کقے چنقد‬
‫روز بعد جب میرے اعزہ تعققاقب کرنققے لگققے تققو میققں سققندہ کققی‬
‫طرف روانہ ہوگیا۔عربی صرف کی کتابیں میققں نققے راسققتے میققں‬
‫‪؎2‬‬ ‫اسی طالب علم سے پڑھنا شروع کردی تھی۔"‬
‫علوم دینیہ کا حصول‬
‫"اللہ کی خاص رحمت سے جس طرح ابتدا کققی عمققر میققں‬
‫اسلم کی سمجھ اوسان ہوگئی۔اسی طرح کققی خققاص رحمققت کققا‬
‫اثر یہ بھی ہے کہ سندھ میں حضرت حافظ محمد صدیق صاحب‬
‫)بھرچونڈی والے( کی خدمت میں پہنققچ گیققا۔جققو اپنققے وقققت کققے‬
‫جنید اور سید العارفین تھے۔چند ماہ میں ان کی صحبت میں ر ےےےہ۔اےے‬
‫اس کا فائدہ یہ ہوا کققہ اسققلمی معاشققرت میققرے لیققے اس طققرح‬
‫طبیعت ثانیہ بن گئی۔ جس طرح ایک پیدائشی مسلمان کی ہوتی‬
‫ہے۔حضرت نے ایک دن میرے سققامنے اپنققے لوگققوں کققو مخققاطب‬
‫فرمایا )غالبا مولنا ابواحسن امروٹی جن کققا ذکققر اوگققے اوئققے گققا(‬
‫اس مجمع میں موجود تھے کہ عبیداللہ نے اللہ کے لیے ہم کو اپنا‬
‫ماں باپ بنایا ہے۔ اس کلمہ مبارکہ کی تاثیر خاص طور پر میققرے‬
‫وں اور‬ ‫دل میں محفوظ ہے۔ میں انہیں اپنا دینققی بققاپ سققمجھتا ےے ہ‬
‫محض اس لیے سندھ کو مستقل وطن بنایا یا بققن گیققا۔ میققں نققے‬
‫قادری راشدی طریقے میں حضرت سے بیعت کرلی تھی۔اس کا‬
‫ت کققم‬ ‫نتیجہ یہ محسوس ہوا۔کققہ بققڑے سققے بققڑے انسققان سققے ب ےے ہ‬
‫مرعوب ہوتا ہوں۔تین چققار مقاہ بعققد میقں طققالب علمققی کققے لیققے‬
‫رخصت ہوا۔مجھے بتایا گیا ہے کہ حضرت نے میرے لیے خاص دعا‬
‫فرمائی۔"خدا کرے کققہ عبیققداللہ کققا کسققی راسققخ عققالم سققے پققالا‬
‫پڑے۔" میرے خیال میں خدا نے یہ دعا قبول فرمقائی اور اللقہ رب‬
‫العزت نے محض اپنے فضققل سققے مجھققے حضققرت مولنققا شققیخ‬
‫الہند کی خدمت میں پہنچادیا۔‬
‫"بھرچونڈی" سے رخصت ہو کر میں اس طققالب علققم کققے‬
‫ساتھ ریاست ب ہےےاولپور کققی دی ےےہاتی مسققاجد میققں ابتققدائی عربققی‬

‫‪60‬‬
‫اں‬
‫کتابیں پڑھتا ر ےےہ۔اےےاس نقققل و حرکققت میققں دیققن پققور پہنچققا۔ ج ےے ہ‬
‫سیدالعارفین کے خلیفہ اول مولنا ابوالسراج غلم محمد صققاحب‬
‫رہتے تھے۔ ہدایتہ النحو تک کتابیں میں نے یہاں مولققوی عبققدالقادر‬
‫صاحب سے پڑھے۔حضرت خلیفہ صاحب نے میری والدہ کققو خققط‬
‫لکھوایا۔ وہ اوگئ ی اور واپس لے جانے کے لیے بہت زور لگایققا مگققر‬
‫میں بحمدا للہ ثابت قدم رہا)یققہ غلققط ےےہےےے کققہ میققری والققدہ دیوبنققد‬
‫پہنچی( شوال ‪ 1305‬ہجری میں دین پ ور متصقل خ ان پ ور سقے‬
‫کوٹلہ رحیم شاہ چل اویا۔ اور مولوی خدا بخش صاحب سققے کققافیہ‬
‫پڑھا۔یہی ایک نوارد طقالبعلم سقے ہندوسققتانی مقدارس عربیقہ کقا‬
‫حال معلوم ہوا اور میں سٹیشن مظفر گققڑہ سققے ریققل پققر سققوار‬
‫ہوکر سیدھا دیوبند پہنچا۔ صققفر ‪ 1306‬ہجققری کققو میققں دارلعلققوم‬
‫میں داخل ہوا۔تخمینہ پانچ مہینے تک میں قطققبی تققک متطققق کققے‬
‫رسائل متفرق اساتذہ اور شرح جامی مولنا حکیم محمققد حسققن‬
‫صاحب سے پققڑی۔ایققک فاضققل اسققتاد کققی مہربققانی سققے طریقققہ‬
‫مطالعہ سیکھ لیا اور محنت سے ترقی کا راستہ کھل گیا۔ حکمت‬
‫و منظق کی کتابیں جلدی ختققم کرنققے کققے لیققے چنققد مققاہ مولنققا‬
‫احمد حسن کانپوری کے مدرسے میں چل گیققا۔ اور پھققر چنققد مققاہ‬
‫مدرسہ عالیہ رحم پور میں رہ کر مولوی ناظر دیقن صقاحب سقے‬
‫کتابیں پققڑھ لیققں۔ اس طققرح صققفر ‪ 1307‬ہجققری کققو پھققر دیوبنققد‬
‫‪؎3‬‬ ‫واپس آ گیا۔ "‬
‫دارالعلوم دیوبند سے علمی استفادہ‬
‫"دیوبند دو تین مہینے تک مولنا حققافظ احمققد صققاحب سققے‬
‫پرھتا رہا۔اس کے بعد مولنا شیخ الہند کققے درس میققں شققامل ےےوہ‬
‫گیا۔‪ 1307‬ہجری کو ےےہدایہےے‪،‬تلویققح ‪ ،‬مطققول‪ ،‬شققرح عقائققد‪ ،‬مسققلم‬
‫واےے‬
‫الثبوت میں امتحققان دیققا اور امتیققازی نمققبروں میققں کامیققاب ےےہ ۔‬
‫مولنا سید احمد صاحب دہلوی مدرس اول نے میرے جوابات کی‬
‫ب ےےہت تعریققف کققی۔ےے فرمایققا"اگققر اس کققو کتققابیں ملیققں تققو شققاہ‬
‫عبدالعزیز ثانی ہوگا" رمضان شریف میں ایک اصول فقہ کا ایققک‬
‫رسالہ لکھا۔ جسے شیخ الہند رح نققے پسققند فرمایققا۔شققوال ‪1307‬‬
‫واےےجققامع‬
‫ہجری سے تفسیر بیضاوی اور دورہ حدیث میں شققریک ےےہ ۔‬
‫ترمذی مولنا شیخ الہند سققے پڑ ےےہی اور سققنن ابققو داود کققےےے لیققے‬
‫حضرت مولنا رشید احمد صاحب کی خققدمت میققں گنگققوہ پہنچققا۔‬
‫حدیث کی باقی کتابیں مولوی عبدالکریم صاحب پنجابی دیوبندی‬
‫سے جلدی جلدی ختم کرلیں۔مجھے یاد ےےہےےے کققہ سققنن نسققائی اور‬
‫سنن ابن ماجہ میں نے چار چار دن میں پڑھی تھیں اور سققراجی‬
‫دو گھنٹہ میں ختم کرلیں۔‬
‫‪61‬‬
‫شوال ‪ 1308‬سے سیدالعارفین کے دوسققرے حلیفققہ مولنققا‬
‫ابوالحسن تاج محمود صاحب کے پاس امروٹ ضلع سققکھر میققں‬
‫چل گیا۔ انہوں نے اپنے مرشد کا وعدہ پققورا کردکھایققا۔ میققرے لیققے‬
‫بمنزلہ باپ کے تھے۔میققرا نکققاح سققکھر کققے اسققلمیہ سققکول کققے‬
‫ماسٹر مولوی محمد عظیم خان یوسفزی کی لڑکقی سقے کرایققا۔‬
‫میری والدہ کو بلیا وہ میرے پاس اوخیر وقت تک میققرے طققرز پققر‬
‫رہیں۔ میرے مطالعے کے لیے بہت بڑا کتب خانہ جمع کیققا۔میققں ان‬
‫کے ظل عاطفت میں ‪1315‬ہجری تک اطمینان سے مطالعہ کرتا‬
‫رہ ا۔ اس کے علوہ مولنققا رشققیدالدین صققاحب العلققم الثققالث کققی‬
‫صحبت سے مستفید ہوا۔ میں نققے ان کققی کرامققتیں دیکھققی۔ ذکققر‬
‫اسماالحسنہ میں نے انہی سے سیکھا وہ دعوت توحید و جہاد کے‬
‫ایک مجدد تھے۔ حضرت مولنا ابوالتراب رشقیداللہ ص احب العلقم‬
‫الرابع سے علمی صحبتیں رہیں۔وہ علققم الحققدیث کققے بققڑے جیققد‬
‫علما اور صاحب تصانیف ۔ ان کے ساتھ قاضی فتح محمدصققاحب‬
‫‪؎4‬‬ ‫کی علمی صحبت بھی ہمیشہ یادرہےگی۔"‬
‫ہندوستان کی مختصرتاریخ‬
‫مولنققا عبیققداللہ سققندھی کققے افکققار اور نظریققات پرجدیققد‬
‫اقتصادی نظام کے اثرات پر بحث کرنے سے پہلققے ضققروری ےےہےےے‬
‫کہ مختصرا برصققغیر کققی تاریققخ اور شققاہ ولققی اللققہ کققی فکققر کققا‬
‫تعارف اور عبیداللہ سندھی کا اس سے نسبت کا جائزہ لیا جققائے‬
‫کیونکہ اس سے عبیداللہ سققندھی کققے نقطققہ نظققر کققو سققمجھنے‬
‫میققں اور ان پققراس سلسققلے میققں ےےےہونےےے والققے اشققکالت اور‬
‫اعتراضات کو سمجھنے میں اوسانی ہوگی۔ ہندوستان میں اورنققگ‬
‫زیب عالمگیر تک ایک مظصبوط اور مستحکم سیاسی و اقتصادی‬
‫نظام قائم تھا۔ہندوستان کے تمام اقوام اور مققذاہب رواداری کققے‬
‫ی تھیققں۔معققروف صققحافی مجیققد سققالک اپنققی کتققاب‬ ‫سققاتھ رہ ر ےے ہ‬
‫"مسلم ثقافت ہندوستان میں " رقم طراز ہیققں "ہندوسققتان میققں‬
‫کم و بیش ایک ہزار سال تک مسلمانوں کو اقتدار شاہانہ حاصققل‬
‫رہا لیکن انہوں نے ہر دور میں ہندؤں کی مذہبی اوزادی کو تسققلیم‬
‫کیا ان کو پوجا پاٹ اور دوسری دھارمققک‪ ،‬رسققوم کققی بجققا اووری‬
‫سے کبھی نہ روکا ان کے مندروں کی حفاظت کی بلکققہ ان کققے‬
‫اں‬‫قیام کے لیے جاگیریں عطا کی۔"اور مزید رقم طراز ہیققں۔"ج ےےے ہ‬
‫تک جبر و اکراہ کا تعلق ہے انہوں نققے کبھققی اس امققر کققا تصققور‬
‫بھی نہیں کیا کہ اپنی رعایا کو زبردستی اسلم کققا حلقققہ بگققوش‬
‫بنائیں۔‬

‫‪62‬‬
‫ہندوسققتان میققں ہزار ےےےا ہقققدیم منققدروں کققا وجققود اوج بھققی‬
‫مسقلمانوں اورمسقلمان سقلطین کقی راواداری کقا ش اہد عقادل‬
‫ہے۔"عوام الناس کو بل رنگ و نسل و مذہب عدل و انصقاف مقل‬
‫رہ ا تھا۔ ایک بہترین سیاسی و اقتصادی نظام کام کر رہا تھا۔ جس‬
‫کے نتیجے میققں ہندوسققتان معاشققی لحققاظ سققے پققوری دنیققا کققی‬
‫تجارت میں اہم کردار ادا کر رہا تھا اور "سونے کی چڑیققا" کہلتققا‬
‫تھا۔ لیکن اورنگ زیب عالمگیر کے نظقام کقا اسققتحکام اس وقققت‬
‫برقرار نہ رہ سکا جب صنعتی انقلب نے انگڑائی لی اور دنیا کقے‬
‫گوشے گوشے میں انقلب برپا کیا۔ جس نے قوموں کی معاشققی‬
‫اور سماجی زندگی بدل ڈالی ۔ " ‪؎5‬‬
‫اس وقت کے حالت کے متعلق "پاکستان برطانوی غلمققی‬
‫سققے امریکققی غلمققی تققک" میققں روشققن نققدیم صققاحب لکھتققے‬
‫وریت‪،‬قققوم پرسققتی‪،‬‬ ‫ہیں۔"دنیققا بھققر میققں سققائنس ‪ ،‬صققنعت‪ ،‬جم ےے ہ‬
‫روشن خیالی اور انسانی حقوق سے مزین ایک جدیققد سققماج کققا‬
‫خمیر تیار ہو رہا تھا گویا عالمگیر کا دور ہندوستان سمیت سققاری‬
‫دنیا میں تبدیلیوں کے عمل کا فیصلہ کن دور تھا اگر اس دور کققو‬
‫تاریخی عمل کی کسوٹی پر رکھ کر دیکھا جائے تو یوں عققالمگیر‬
‫تاریخ کا ایک بہت بڑا مجرم بن کر سامنے اوتا ہے۔کیققونکہ اس نققے‬
‫دنیا کے بدلتے ہوے حالت کا اندازہ نہ کرکے ہندوستان کققو اصققول‬
‫ارتقا کی صلیب پر چڑھا دیا اسی طرح مشرق وسطی ‪ ،‬وسطی‬
‫اشیا اور افریقہ سے جیو پولیٹیکل حققالت کققے پیققش نظققر جامققد‬
‫ہندوسققتان متققذکرہ تمققام علقققوں کققی شکسققتگی‪ ،‬غلمققی اور‬
‫پسماندگی کا باعث بن گیا۔" ‪؎6‬‬
‫مغربی اقوام کا ہندوستان کی طرف رخ کرنا‬
‫ہندوستان نئیے حالت کی تبدیلیوں کو اپنانے کے لیے تیار نہ‬
‫تھا پرانے ڈگر پر چل رہا تھا۔ نئے عصققری تقاضققوں سققے نققا اوشققنا‬
‫‪،‬علمی تحقیق و جستجو اور تخلیق کے عمل سے بققے ب ےےہرا اپنققےےے‬
‫حال میں مست و مگن تھا ‪ ،‬مغربی اقوام صققنعت و ٹیکنققالوجی‬
‫کی میدان اتنی اوگے بڑھی کہ جب مغربی اقوام نے ہندوستان کققا‬
‫رخ کیا تو ان کے مقابلے کے لیے نہ تو ہندوستان کے پاس حکمت‬
‫عملی تھی نہ طاقت کہ وہ ان کا مقابلہ کرتی ‪،‬رفتہ رفتققہ مغربققی‬
‫اقوام نے سیاسی نظام میں دخیل ہوکر معاشی مراعات حاصققل‬
‫کی اور دیکھتے ہی دیکھتے اس فرسققودہ نظققام کققو اپنققے قبضققے‬
‫میں کیا اور مکمل معاشی و اقتصادی نظققام کققو کنققٹرول کرکققے‬
‫ہندوسققتان کققو سیاسققی اور معاشققی غلم بنققا لیققا ۔ اس طققرح‬

‫‪63‬‬
‫ققاےے‬
‫مسلمانوں کقے سققاڑھے اوٹقھ سقو سققالہ تاریققخ کقا خقاتمہ ےےہو گی ۔‬
‫پروفیسر محمد سرور ہندوستان میں مسلمانوں کی تاریخ کو دو‬
‫ادوار میں اس طرح تقسیم کرتے ہیں۔‬
‫"سلطان محمود غزنوی سے شروع کرکے امیر تیمققور کققے‬
‫حملہ تک ہندوسقتانی تاریققخ کقا پہلا دور ےےہےےے اور امیققر تیمققور سقے‬
‫بہادر شاہ ظفر تک دوسققرا دور اور دوسققرے دور میققں عققالم گیققر‬
‫ی‬‫کے بعد تنزل شروع ہوا عمومققا تنققزل شققروع ےےہونےےے کققے بعققد ےے ہ‬
‫" اس دور کی مسلمانوں‬ ‫قوموں کا فلسفہ معین ہوتا ہے۔ ‪؎7‬‬
‫کے حالت نہ صرف سیاسی طور پر خراب تھے بلکہ وہ اخلقققی‬
‫طور پر بھی زوال پذیر تھے۔آراما طلبی‪ ،‬عیققش و عشققرت‪ ،‬خققود‬
‫غرضی‪ ،‬بے ایمانی اور اس طرح کی ساری بیماریاں مسققلمانوں‬
‫میں گھر کر چکی تھیں ‪،‬مسلمان ہر طرح کققی برائیققوں میققں پققڑ‬
‫چکےتھے"‬
‫شاہ ولی اللہ‬
‫برصغیرکی ملت اسلمی کے بلشققبہ جلیققل تریققن عققالم اور‬
‫عبقری مفکر ہیں۔‬
‫"اپنے زمانہ میں دلی کے بادشاہوں کو کسری اور قیصر کققا‬
‫نمونہ جانتے تھے اس لیے ان کے سارے نظام کو بدلنا اپنا نصققب‬
‫العین بتاتے رہے‪ ،‬مگر عملی پروگققرام فقققط داخلققی انقلب سققے‬
‫شروع کیا تھا وہ امرائ ے سقلطنت میقں اپنقا فکقر پھیل کقر نظقام‬
‫سلطنت درست کرنا چاھتے تھے۔" اس طرح شاہ ولی اللققہ نققے "‬
‫فک کل نظام" )یعنی تمام فرسودہ نظاموں کو ختققم کققردو( )دی‬
‫ہول سسٹم ڈسٹراے( کققا نظریققہ دیققااور ایققک نیققا اور صققحت منققد‬
‫عصری تقاضوں کے مطابق سیاسی نظام قائم کرنققے کققا نظریققہ‬
‫دیا۔اس مقصد کے لیے انہوں نے "سائنٹیفک یعنی حکیمانہ اساس‬
‫وضع کی اور ایققک اوزاد اور مسققتحکم سیاسققی نظققام کققے اصققول‬
‫بیان کئے۔" ‪ ؎8‬شاہ ولی اللہ تحریک اپنے دور کے نظام حکومت‬
‫کی اصلح کرکے اسے عصری تقاضوں کے مطابق ڈھالنا چققاھتے‬
‫وچکی‬ ‫تھے۔اس نظام میں جو سیاسی و اقتصادی خرابیاں پیققدا ےے ہ‬
‫تھیں ‪ ،‬جس کی وجہ سے پورا معاشرہ فرسودہ رسوم و روایققات‬
‫میں پڑگیا تھا۔ تعلیمی نظام کی فرسودگی انتہا پر تھی۔انہوں نققے‬
‫تعلیمی نظام کققی فرسققودگی کققی طققرف تققوجہ دل کققر علمققی و‬
‫عقلی علوم کی حصول کی طرف رہنمائی کی۔ انہوں نے بققدلتے‬
‫وں‬
‫دور کے تقاضوں سے ہم اوہنگ نظام پیش کیا۔ اس کے لیے ان ےےے ہ‬
‫نے عملی کوششققیں بھققی کیققں ۔ سیاسققی عققدم اسققتحکام ختققم‬
‫‪64‬‬
‫کرنققے کققے لیققے اس وقققت حکققومت کققے خلف مرہٹققوں کققی‬
‫سرکوبی کے لیے احمد شاہ ابدالی کو دعوت دی اور مرہٹوں کققو‬
‫شکست دی۔ لیکن حکمران اپنی توانائیاں کھو چکی تھیں ان میں‬
‫موجودہ حالت کی فہم و ادراک کی صلحیت مفقود تھی"‬
‫شاہ ولی اللہ کی تحریک آزادی‬
‫شاہ ولققی اللققہ کققی تحریققک جققو ہندوسققتان کققے نظققام میققں‬
‫موجود خرابیوں کے خلف تھیں اب اس کی توجہ انگریققزوں کققی‬
‫ریشہ دوانیوں پر مرکوز ہوئی ۔شاہ ولی اللہ کی تحریک کققی ابتققدا‬
‫مقاصد عصری تقاضوں کے مطققابق موجققود بوسققیدہ نظققام میققں‬
‫تبدیلیاں تھیں مگر انگریزوں نے جب سیاسی نظام پر قبضققہ کققر‬
‫لیا تو یہ تحریک‪ ،‬تحریک اوزادی میں تبدیل ہو گئققی۔ انگریققزوں کققا‬
‫اثر رسوخ ختم کرنے پر لگ گئے۔لہذا شاہ ولی اللہ کی وفات کققے‬
‫بعد اس کے بیٹے شاہ عبدالعزیز نے انگریزوں کے عمل دخل کے‬
‫خلف باقاعدہ فتوی دے کر عملققی جدوج ےےدہ کققا اوغققاز کققر دیققا۔اس‬
‫فتوی میں شاہ عبدالعزیر نے مسلمانوں اور ہنققدووں دونققوں کققی‬
‫انگریزوں کے سامنے بے بسی کققا ذکققر کیققا ےےہےےے۔ شققاہ عبققدالعزیز‬
‫نےانگریققزوں کققے ظلققم و جققبر کققے خلف ہندوسققتان کققے تمققام‬
‫باشققندوں کققو اوزاد کرانققے کققا نظریققہ دیققا۔ اور ان کققے نزدیققک‬
‫دارالسلم ہونے کے لیے مسققلمانوں کققی اوبقادی کققا ہونققا ضققروری‬
‫نہیں بلکہ ایک اوزاد سیاسی اقتدار کے ذریعققے شققعائر اسققلم کققی‬
‫اوزادی بھی ضروری ہے۔شاہ عبققدالعزیز کققا عملققی طققور پققر زوال‬
‫پذیر سیاسی نظام کے خلف جدوجہد وقت کے ساتھ اوگے بڑھتققا‬
‫رہا۔ مگر وسائل اور عوامی شعور کی کمی اور حکمققران طبقققے‬
‫کی نااہلی کی وجہ سے انگریزوں کی بالدسققتی کققو روکققا نققہ جققا‬
‫سکا۔اس تحریک نے اوزادی کققے حصققول کققے لیققے انگریققزوں کققے‬
‫خلف سخت جدوجہد کی جس کے نتیجے میں انگریققزوں نققے ان‬
‫پر ہولناک مظالم ڈھائے۔مسققلمانوں کققو سققخت اذیققتیں دی گئیققں۔‬
‫حریت کے ان متوالوں نے بہادری اور قربانی کی تاریخ رقم کی۔‬
‫مولنا عبیداللہ سندھی شاہ ولی اللہ کی سیاسی‬
‫و فکری تحریک‬
‫مولنا عبیداللہ سندھی شاہ ولی اللہ کققی سیاسققی و فکققری‬
‫تحریک کی ‪ 1857‬کے بعد مختلققف مراحققل کققا یققوں نقشققہ پیققش‬
‫کرتے ہیں۔‬

‫‪65‬‬
‫’’دہلی کی تاریخ کا ایک ورق یاد دلتققے ہیققں جققب سققلطنت‬
‫جاری تھی تو عالمگیر کے دور میں ملققت کققا سققنبھالنے والققے دو‬
‫امام پیدا ہوتے ہیں امام ابوالرضققا محمققد اور عبققدالرحیم‪ ،‬دونققوں‬
‫بھائی شیخ وجیہہ الدین عمری کی اولد ہیں‪،‬اور امام محمد باقی‬
‫کے تربیت یافتہ بزرگوں کے زیر اثر رہ کر اول و العزمققی ا وچکققی‬
‫ہے۔امام عبدالحیم دہلوی کے صاحبزادے ہیں ہمارے ائمہ امام ولی‬
‫اللہ دہلوی۔ پہل دور انہوں نے خود چلیققا‪ ،‬دوسققرا امققام عبققدالعزیز‬
‫بن امام ولی اللہ نے چلیا۔یہ ‪ 27‬ذی قعدہ‪ 1246،‬ھ میں بققالکوٹ‬
‫میں ختم ہوگیا‪،‬امام عبدالعزیز کے بعققد امققام محمققد اسققحاق اور‬
‫محمد یعقوب نے تحریک کو اوگے بڑھایا مگر کمزوری نہ گئققی تققو‬
‫اسے عثمانی سققلطنت سققے مل دیققا۔بققڑی جنققگ میققں ترکققی کققی‬
‫شکست اور خلفت کے خاتمے پر یہ پروگرام بھی شکسقت کھقا‬
‫گیا پھر یہ کام دلی کی ایک دوسری جماعت کققے سققپرد کیققا۔ جققو‬
‫امام امداد اللہ کے ماتحت مولنققا قاسققم کققی رہنمققائی میققں کققام‬
‫کرتی رہی‪،‬اوخری شکست سے پہلے ہی دہلی کی مفتوح ہونے پققر‬
‫یہ تحریک منتشر ہو کر دو حصوں میں بٹ گئی تھی۔‬
‫‪(Cooperative‬‬ ‫نمبر ایک "‪ -/‬علی گڑہ پارٹی کو اپریٹیو )‬
‫سر سید اس کے لیڈر تھے۔‬
‫‪( Non Cooperative‬‬ ‫ٹ‬
‫اپریییو )‬ ‫نمبر ‪ -"2‬دیوبند نان کو‬
‫مولنا قاسم اور مولنا محمود الحسن اس کے حامل تھے۔"‬
‫‪؎9‬‬
‫کی رائے‬ ‫معروف مصنف قاضی جاوید‬
‫معروف مصنف قاضی جاوید شققاہ ولققی اللققہ کوتاریققخ کققے‬
‫اوئینے میں اعتدال پیدا کرنے والے مفکر کے طور پر دیکھتے ہیں‬
‫‪،‬ازادی فکر اور روایت پرستی کققے متعلققق ان کققے فکققر کققو اس‬ ‫و‬
‫طرح بیان کیا ہے۔‬
‫"ولی الہی فکر کے مختلف پہلووں کی اہمیت کو نظر انداز‬
‫ار‬
‫کرنا محال ہے لیکن اس کی ترکیبی انداز فکر کا اہم ترین اظ ےے ہ‬
‫م اوہنگققی پیققدا‬
‫غالبا اوزادی فکر اور روایت پرسققتی کققے درمیققان ےے ہ‬
‫کرنے کی کاوشوں میں ہوا ہے۔اب عام طور پر یہ امر تسلیم کیققا‬
‫جاتا ہے کہ جنوبی ایشیا کے مسلم فکر کی تاریخ میں ولی ال ےےےیہ‬
‫نظام کی اہمیت فکری اوزادی کی ضرورت کققا اثبققات کرنققے میققں‬
‫منحصر ہے۔اور یہ کہ شاہ ولی اللققہ نققے اوزادی فکققر کققی اہمیققت و‬
‫ضرورت پر اصرار کرکے جدید مسلم قیاسی فکر میں گراں قدر‬

‫‪66‬‬
‫اضافہ کیا ہے۔ علمہ اقبال نے انہیں نئی روح کی بیداری کو اولین‬
‫طور پر محسوس کرنے وال قرار دیا ہے۔" ‪؎10‬‬

‫شاہ ولی اللہ کی اعتدال پسند فکر‬


‫مو صوف مزید شاہ ولی اللہ کی اعتدال پسند فکر پر مزید‬
‫لکھتے ہیں۔‬
‫"حقیقت یہ ہے بحیثیت مفکر شاہ ولی اللہ کی عظمت کققا‬
‫راز وجودی اور شققہودی فلسققفوں میققں تطققبیق پیققدا کرنققے میققں‬
‫مضمر نہیں۔ نہ ہی انہیں امتیازی مقام محض اس لیے حاصل ےےےہےےے‬
‫کققہ ان ےےہوں نققےےے راسققخ العتقققادی کققے دفققاع کققے لیققے خققود راسققخ‬
‫العتقادی سے نبرد اوزما ہوتے ہوئے ایک معتققدل نقطققہ نظققر پیققش‬
‫کیا اور یوں جنوبی ایشیا کے مسلمانوں کے مختلف گروہوں کققے‬
‫درمیان اتحاد و ابلغ کی بنیاد فراہم کی ہمارے ممدوح کی اہمیت‬
‫و عظمت اس سے بققڑھ کققر ےےہےےے اس کققا راز نسققل انسققانی کققے‬
‫ت ےےذہیبی ارتقققا اس کققے محرکققات‪ ،‬درجققات اور عققروج و زوال کققا‬
‫گہری بصیرت اور فلسفیانہ ژوف نگققاہی سققے تجزیققہ کرنققے میققں‬
‫مضمر ہے۔مزید براں شاہ صققاحب نققے اس تجزیققے کققے حاصققلت‬
‫مربوط نظریے کی صورت میں پیققش کئققے ہیققں۔اگرچققہ سققماجی‬
‫ارتقا کے اس تصور کی اساس اور صورتی ڈھققانچہ ابققن خلققدون‬
‫سے مستعمار ہے تققاہم اس میققں ب ےےہت سققےےے ایسققے تصققورات کققا‬
‫ت‬ ‫اضافہ کیا گیا ہے جو ابن خلدون کققے ےےہاں موجققود نہےےیققں تھققا ب ےے ہ‬
‫دھندلے اور غیر واضح تھے۔مشرق وسطی کی اسلمی سققلطنت‬
‫کے زوال میں ابن خلدون جیسے عظیم الشان مفکر کو جنم دیققا‬
‫اور جنوبی ایشیا کی اسلمی سلطنت کققے زوال میققں شققاہ ولققی‬
‫اللہ کو پیدا کیا۔حقیقت یہ ہے کہ دونققوں دانشققور اپنققی اپنققی جگققہ‬
‫نہایت فلسفیانہ ژوف نگاہی کققے حامققل اور واجققب الحققترام ہیققں‬
‫ابن خلدون کے مقابلے میں شاہ ولی اللہ نے سققماجی ارتقققا کققے‬
‫عمل میں معاشیات کو بنیادی عامل قققرار دیققا ےےہےےے۔ اس طققرح وہ‬
‫جدید طرز احساس کے بہت قریب اوگئے ہیں بلشبہ یہ امر بققاعث‬
‫تعجب ہے کہ اٹھارہویں صدی کے جنوب ایشققیا میققں صققوفیانہ اور‬
‫الہیاتی پس منظر کا حامل یہ دانشور سماجی ارتقا کے عمل ک و‬
‫محض الہیاتی یا اخلقی حوالے سققے دیکھنققے کققے بجققائے اصققرار‬
‫کرتا ہے کہ پیداواری قوتیں‪،‬ذرائع اور دولت کی تقسیم اس عمققل‬
‫میں بنیادی کردار ادا کرتققی ےےہےےے۔بقققول سققید سققلیمان نققدوی شققاہ‬
‫صاحب کی دوربیققن نگقاہ سیاسققیات و اقتصققادیات کققے ان باریققک‬
‫‪67‬‬
‫گوشوں تک پہنچ گئی تھی ابنائے عصققر جققن کققے سققمجھنے سققے‬
‫بھی قاصر تھے۔حقیقت یہ ہے کہ یہ نقطہ نظققر شققاہ کققو سققماجی‬
‫ارتقا کے اس نظریے کے قریب تر لے اویققا ےےہےےے جققو ان کققے کققم و‬
‫بیش ایک صدی بعد کارل مارکس نے پیققش کیققا تھققا۔چنققانچہ شققاہ‬
‫ولی اللہ واضح انداز میں یہ تصور پیش کرتے ہیں کققہ معیشققت وہ‬
‫اساس ہے جس میں تہذیب و تمدن کی بلند و بال عمققارت وجققود‬
‫میں اوتی ہے لہذا صحت مند معاشی نظام صحت مند ت ےےہذیب کققےےے‬
‫لیے رگ جاں کی حیثیت رکھتا ےےہےےے۔بسقا اوققات وہ سقماجی ارتققا‬
‫کے عمل کی اخلقی تعبیر کو درست تسلیم کرتققے ہیققں تققاہم ان‬
‫کے نزدیک اخلق کا منبققع شققعور نہیققں ‪ ،‬اخلقققی اقققدار کققا تعیققن‬
‫صورت حال سے ہوتا ہے اور مقادی صقورتحال کققی تشققکیل میققں‬
‫معاشیات بنیاد کا کام دیتی ہے۔" ‪؎11‬‬
‫" شاہ ولی اللہ کے عمرانی فلسفے کو قاضققی جاویققد یققوں‬
‫بیان کرتے ہیں۔" اس فلسقفے کقے نمای اں خصوصقیت یقہ ےےہےےے کقہ‬
‫اس میققں تصققوریت پسققندانہ نظریققے کققو مسققترد کردیققا گیققا‬
‫ہے‪،‬قوموں کے عروج و زوال کو مذہب اور اخلقققی پابنققدی یقا ان‬
‫سے گریز کا نتیجہ سمجھنے کے بجائے اس کے ٹھوس مققادی اور‬
‫معاشققرتی اسققباب تلش کئققے گئققے ہیققں۔شققاہ صققاحب اس جدیققد‬
‫سائنسی نقطہ نظر کققو اولیققن طققور پققر پیققش کیققا ےےہےےے کققہ اخلق‬
‫شعور یا کسی ماورای وجدان کا ماحصل نہیں ہوتے‪ ،‬بلکققہ ان کققا‬
‫تعین گردوپیش کے ماحول سے ہوتا ہے اور مققاحول کققی تشققکیل‬
‫میں مذہب‪،‬اخلق یا نظریہ حیات بنیادی کردار ادا نہیں کرتے بلکہ‬
‫ذا سققماجی‬ ‫معاشیات کو اس سلسلے میں اہمیققت حاصققل ےےہےےے ل ےے ہ‬
‫اور ت ےےہذیبی ارتقققا کققےےے لیققے متققوازن اور منصققفانہ معاشققی نظققام‬
‫نا گزیر ہے ‪،‬معاشیات‪،‬اخلقیات‪،‬نفسیات اور عمرانیققات میققں ربققط‬
‫تلش کرنا ایک ازحد معنققی خیققز اور غیققر معمققولی انکشققاف تھققا‬
‫انسانی فکر کے نشونما میں یہ شاہ ولی اللہ کا قابل قدر اضققافہ‬
‫ہے۔" ‪؎12‬‬
‫مولنمما عبیممداللہ سممندھی کممی قرانممی علمموم پممر‬
‫تحقیق‬
‫مولنققا عبیققداللہ سققندھی کققی قرانققی علققوم پققر تحقیققق اور‬
‫اسلم کی سمجھ شاہ ولی اللہ کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونے کا‬
‫نتیجہ ہے۔ مولنا عبیداللہ سندھی نے شاہ ولققی اللققہ کققی تعلیمققات‬
‫کی روشنی میں عصر حاضر کے لیے ایک مربوط نظام پیش کیققا‬
‫اور ہمہ گیر تبدیلی کا نظریہ عملققی ترتیققب کققے سققاتھ پیققش کیققا۔‬
‫‪68‬‬
‫مولنا عبیداللہ سندھی افکار ولی ال ےےہی کققےےے ترجمققان ہیققں۔مولنققا‬
‫عبیداللہ سندھی کے نظریات کقی اسققاس قققرآن و سققنت پقر ےےہےےے‬
‫مگر اس کی تعبیرات افکار شاہ ولی اللہ سے متققاثر ہیققں۔ مولنققا‬
‫عبید اللہ سندھی کے اس بیان سے اندازہ ہوتا ہے کہ وہ شاہ ولققی‬
‫اللہ کے افکققار کققا کققس قققدر گ ےےہرا ادراک رکھتققےےے تھققے اوران کققا‬
‫عصری تقاضوں سے کس طرح مطابقت کرتے تھے۔‬
‫"میرا ذاتی تجربہ یہ ہے کہ یورپ کققا فلسققفہ سققمجھنے کققے‬
‫لیے اور انقلبی سیاست پر قابلیت سے غققور کرنققے کققے لیققے یققا‬
‫اپنی قومی اور مذہبی خودی قائم رکھنے کے لیے اس امققام کققی‬
‫کتابوں کی بے حققد ضققرورت ےےہےےے اس کققا جققبر )خل بھرنققا( کققوئی‬
‫دوسرا مصنف نہیں کر سکتا‪ ،‬میں سفارش کرتا ےےہوں کققہےے تفسققیر‬
‫میں فتح الرحمان اگرچہ فارسی ترجمہ ہے‪ ،‬ضققرور پڑھایققا جققائے‬
‫وہ اس قدر فوائد پر مشتمل ہے کہ کوئی تفسیر اس کا بدل نہیں‬
‫ہوسکتی‪ ،‬نحوی علموں نے جس قدر عربققی گرائمققر کققا بققے جققا‬
‫استعمال کرکے قرآن کو سمجھنے میں تشکیک پیدا کققر دی ےےہےےے‪،‬‬
‫ل سققنت کققی‬ ‫ی ا ےے ہ‬
‫فتح الرحمان اس سے نجات دلتا ہے۔ ایسققا ےے ہ‬
‫فقہ مجتہدانہ سمجھنے میققں مسققوی مققدد دیتققا ےےہےےے اس کققے بعققد‬
‫ازالتہ الخفققا دور اول کققی تاریققخ کققا فلسققفہ اور اصققول سیاسققت‬
‫سققکھلتی ےےہےےے۔البققدوالبازغہ نیچققرل حکمققت سققکھاتی ےےہےےے اور اس‬
‫اصول کی تشریح میں بے نظیر کتاب ہے کیونکہ فطققرت انسققانیہ‬
‫ادیان الہیا کا معیار بنائی گئی ہے‪ ،‬الخیر الکثیر فلسفہ الہیققات کققو‬
‫کتاب و سنت کی شرح میں استعمال کرنے کے قابققل بناتققا ےےہےےے۔"‬
‫‪؎13‬‬
‫فہم قرآن میں عبیداللہ سندھی شاہ ولی اللہ کو‬
‫اپنا مربی مانتے تھے‬
‫قرآن حکیم کی حقانیت سمجھنے کے لیققے مولنققا عبیققداللہ‬
‫سندھی شاہ ولی اللہ کی تعلیمات کو ضروری تصور کرتے ہیققں۔"‬
‫شاہ صاحب کے اس فکر کے بدولت ہی ہم نے سققمجھا کققہ قققرآن‬
‫جامع المم ہے اور وہ صرف ایک گروہ یا قوم کی تاریخ کققے بیققان‬
‫تک محدود نہیں۔ بے شک اس نے زیادہ تر بنی اسققرائیل کققے انبیققا‬
‫کا ہی ذکر کیا لیکن یہ مصلحت اور ضرورت وقققت کققا تقاضققا تھققا‬
‫یقینال فکر بھی انسانیت کی طرح غیر محدود ہوتا ہے لیکققن جققب‬
‫اسے دوسروں کو سنانے کے لیے خاص الفققاظ اور حققروف میققں‬
‫قید کرنا پڑتا ہے تو مخاطبین کی رعققایت سققے اسققے ایققک خققاص‬
‫زمان اور مکان کے ساتھ مخصوص کرنا ہوتا ہے‪ ،‬قرآن کے پیرایہ‬

‫‪69‬‬
‫بیان کرنے کی خصوصیت بھی اسی بنیاد پققر ےےہےےے لیکققن اس کققے‬
‫باوجود بین السطور مفہوم کی عالمگیریت اور جمققاعیت نمایققاں‬
‫ہے اور اگر اودمی قرآن کے مطالعہ میں تققدبر و تعمققق سققے کققام‬
‫لے تو اس پر واضح ہوجائے گا کہ کل نوع انسانی قرآن میققں اپنققا‬
‫مافی الضمیر اور مقصد پاسکتی ہے۔" ‪؎14‬‬
‫شاہ ولی اللہ محدث دہلویی کا حکیم و صدیق ہونا‬
‫"ہمارے نزدیک شاہ ولی اللہ حکیم و صدیق ہیں جن ےےےہوں نققےےے‬
‫سارے ادیان ‪،‬مذاہب اور شریعتوں کا اصلحا ایققک ہونققا ثققابت کیققا‬
‫اور پھر ان بنیادی اصولوں کا تعین بھی کیا جو ہر دین کا مقصود‬
‫حقیقی تھا اور ہر مذہب اور شریعت ان کو پورا کرنققا اپنققا فققرض‬
‫مولنا عبیداللہ شاہ ولی اللہ کی اہمیققت اور‬ ‫سمجھتی رہی۔" ‪؎15‬‬
‫مقام کو اس طرح بیان کرتے ہیں۔‬
‫"شاہ ولی اللہ ایققک بققے نظیققر اور عظیققم شخصققیت ہیققں وہ‬
‫امام ابو حنیفہ‪،‬امام مالک‪ ،‬امام شافعی اور امام غزالی سے کققم‬
‫نہیں۔عام طور پر ہمارے ہاں یہ دستور سا ہوگیا ہے کہ سققلف کققے‬
‫مقابلے میں بعد میں اونیوالوں کا مرتبہ کم سققمجھا جاتققا ےےہےےے اس‬
‫اں تققک‬ ‫لیے اس طرح کا تقابل کرنا اچھا نہیں معلوم ہوتا ورنہ ج ےے ہ‬
‫اصل حقیقت کا تعلق ےےہےےے شققاہ ولققی اللققہ صققاحب بققڑے امققام اور‬
‫مفکر ہیں۔وہ ایک نئی زنققدگی‪ ،‬جدیققد سوسققائٹی اور نئققے افکققار و‬
‫اقدار کے بانی ہیں۔" ‪ ؎16‬مولنا عبیداللہ سندھی شاہ ولی اللہ کو‬
‫ی فکققر کققو‬ ‫اپنا امام مانتے ہیں اور اپنی فکر کی اساس ولققی ال ےے ہ‬
‫قرار دیتے ہیں۔" میں شاہ ولی اللہ کے سققوا کسققی کققو اپنققا امققام‬
‫نہیں مانتا پہلے جو گزر گئے کیا شاہ صاحب ان کو نہیں مانتے اب‬
‫اگر وہ ان ائمہ کو مانتے ہیں تو میں ان کا انکار نہیققں کرتققا لیکققن‬
‫میرے ذہن کی اساس شاہ ولی اللہ کا فکر ہے اس کے سوا میققں‬
‫کسی کو نہیں مانتا تصوف میں اس قسم کے رحجققان ذہنققی کققو‬
‫"توحید فی الشیخ" کہتے ہیں اس کا مطلب یققہ ہوتققا ےےہےےے کققہ میققں‬
‫صرف شیخ کو مانتا ہوں اب جن جن چیقزوں کقو شققیخ مانتققا ےےہےےے‬
‫اس کے واسطے سے میں انہیں مانتا ہوں اس قسم کے رحجققان‬
‫ذھنی میں یقینا خرابیاں بھی ہیققں لیکققن اس کققا سققب سققے بققڑا‬
‫فائدہ یہ ہے کہ اس سے قوت عمل کو غیر معمققولی محققرک ملتققا‬
‫‪؎17‬‬ ‫ہے اور ذہن مقصد پر مرکوز ہوجاتا ہے۔"‬
‫مولنا عبید اللہ سندھی کا قرآنی شعور‬

‫‪70‬‬
‫مولنا عبیداللہ سندھی قرانی شعور اور اس کی حکمت کو‬
‫سمجھنے کے لیے شاہ ولی اللہ کی فکر کو مشعل راہ سققمجھتے‬
‫ہیں۔ اور بیان کرتے ہیں۔‬
‫"میری طبیعت کی افتاد یہ ہے کہ میں کسی چیز کو سمجھ‬
‫بغیر قبول نہیں کرتا جو چیز سمجھ جاتا ہوں اس پققر فققورا عمققل‬
‫شروع کرتا ہوں مجھ یقین ہے کہ قرآن اللہ کی کتاب ہے اور شاہ‬
‫ولی اللہ صاحب کو میں اپنا امام مانتا ےےہوں چنققانچہےے شققاہ صققاحب‬
‫کی کتابوں کے ذریعے قرآن کے جو جو حصے میققں سققمجھتا گیققا‬
‫ان پر عمل کرتا گیا۔'' ‪؎18‬‬
‫شاہ ولی اللہ کی جامعیت پر اظہار خیال کرتے ےےہوےےے مولنققا‬
‫عبیداللہ سندھی فرماتے ہیں۔‬
‫"علت اور معلول کے تسلسل کا اثبات حکمت کی بنیاد ہے‬
‫علت اور معلول میں لزوم ضروری ہےاب ایققک علققت ناقصققہ ےےہےےے‬
‫اور دوسققری علققت تققامہ‪ ،‬علققت تققامہ چھققوٹی چھققوٹی علتققوں کققا‬
‫مجموعہ ہوتی ہے۔شاہ صاحب کا کہنا ہے کققہ خققود اس علققت تققامہ‬
‫کے اندر معلول ہوتا ہے جب تک معلول‪،‬علت تامہ سے بققاہر نہیققں‬
‫او تا وہ "سر الوجود" کہلتا ہے‪ ،‬اگقر "سقرالوجود" کقی حکمققت کقو‬
‫سمجھ لیا جائے تو برطانوی فلسفی ہیوم کی طققرح انسققان اس‬
‫غلطی کا شکار نہیں ہوتا کہ علت اور معلول میں تلزم نہیں بلکہ‬
‫محض قرآن ہے‪ ،‬یعنی یہ ضروری نہیں کہ ایک علت کا ہر بار ایققک‬
‫ہی معلول ہو بس ایسا ہوتا ہے کہ ان چیزوں کے ملنے سققے فلں‬
‫چیز وجود میں اذجاتی ہے لزمی نہیں کہ ایسا ہمیشققہ ےےہو‪ ،‬ہےےمققارے‬
‫علما معجزات کے ثبوت میں ی ےےہی دلیققل دیتققےےے ہیققں اب علققت اور‬
‫معلول کے تلزم کو مانے بغیر نہ خدا کی کوئی حقیقت رہتی ےےےہےےے‬
‫اور نہ حکمت کقی اسققاس محکققم ہوسققکتی ےےہےےے لیکقن اگققر "سققر‬
‫الوجود" کو سمجھ لیا جاے تو پھر علت اور معلول کے تلزم کے‬
‫انکار کی ضرورت نہیں رہتی‪ ،‬موجودہ سائنسی فکر یہی ہے۔"‬
‫‪؎19‬‬
‫"حکیققم دو طریقققوں سققے اپنققے مققاحول اور کائنققات کققو‬
‫سمجھتاہے ایک طریقہ تو یہ ےےہےےے کققہ وہ نیچقے سققے بحقث شقروع‬
‫کرے اور اس وجود کی اوخری حد تک جہاں تک کہ اس کققی عقققل‬
‫کی دسترس ہوسکتی ہے پہنچے‪ ،‬یققہ اسققتقرا ےےہےےے‪ ،‬ارسققطو اسققی‬
‫اصول کا طابع تھا‪ ،‬جزیات سے کلیات تک اسی طرح پہنچققا جاتققا‬
‫ہے‪،‬ماحول اور کائنات کے ادراک کا دوسرا طریقہ یہ ہے کققہ ذھققن‬
‫اوپر سے نیچے کی طرف اے یعنی پہلے ذہن میں ایققک جققامع اور‬
‫‪71‬‬
‫عمومی تصور ہو اور اس کے مطابق کائنات کی ایک ایک چیز کو‬
‫پرکھققا جققائے یققہ اشققراقی طریقققہ ےےہےےے۔ ان دو طریقققوں۔اسققتقرا و‬
‫اشراقیت ‪ ،‬میں سے محض ایک طریقے پر کاربند ہونا یہ حکمققت‬
‫کا کمال نہیں ‪،‬کمال حکمت یہ ہے کہ اودمی نیچے سے بحققث کرتقا‬
‫کرتققا اوپققر پہنچققے اور اوپققر سققے بحققث کرتققے کرتققے نیچققے اے‬
‫ی‬‫یعنی‪،‬اپنے اندر استقرا اور اشراقیت دونققوں کقو جمقع کقرے ی ےے ہ‬
‫مذہب اور حکمت کی جامعیت ہے شاہ ولی اللہ دونققوں طریقققوں‬
‫کے جامع ہیں یہ ہے حکمت کا کمال۔" ‪؎20‬‬
‫ی سے‬
‫مولنا عبیداللہ سندھی کی فکر ولی الہ ی‬
‫رہنمائی‬
‫مولنا عبید اللہ سندھی قرانی تعلیمققات کققو شققاہ ولققی اللققہ‬
‫کی فکر کی روشنی میں پیش کرنے کو اپنققی زنققدگی کققا مقصققد‬
‫بتاتے ہیں۔‬
‫"میری زندگی کا مقصد صرف یہ ہے کہ میں شاہ ولققی اللققہ‬
‫صاحب کی عقلیت ان کی اجتماعیت‪ ،‬اقتصادیات کو قرانی فکققر‬
‫میں شامل کردوں قرآن کے بارے میں یہ ک ےےہا جاسققکتا ہےےےےے کققہ وہ‬
‫مجمققوعہ ےےہےےے خطبققات کققو مختلققف موقعققوں پققر نققازل ےےوہئے ان‬
‫خطبات میں کسی مثبت و مربققوط فکققری نظققام کققا تعیققن کرنققا‬
‫بظاہر مشکل ہے لیکن وہ خطبات جققس ذات اقققدس کققے ذریعققے‬
‫صدور پذیر ہوئے وہ تو ایققک وحققدت اور مرتققب و منظققم تھققی اب‬
‫اگر قرآن مجید کا شاہ ولی اللہ کی فکری نظام کی روشنی میں‬
‫مطالعہ کیا جائے تو قرآن کی حکمت ایک معین مرتب شکل میں‬
‫ہمارے سامنے اوجا تی ہے۔"‬
‫"ہم شاہ صاحب کا تعارف ایک امام کے طور پر کراتے ہیققں‬
‫اگققر اس نققے اپنققی عقلمنققدی کوشققاہ صققاحب کققی انسققانیت کققی‬
‫فلسفی کے تابع کرلیا تو وہ قرآن کو اوسانی سققے سققمجھ سققکے‬
‫گا اور تمام مشکلت کے حل کرنے میں شاہ صققاحب اسققے مققدد‬
‫دیں گے یوں ایک مسققلمان اوج کققی دنیققا میققں اسققلم کققا نققام لققے‬
‫سکے گا ورنہ قوموں میں جو مققروج اسققلم ےےہےےے وہ ختققم ےےوہ چکققا‬
‫ہے‪،‬اس کا سیاسیات میں کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔" ‪؎21‬‬
‫مولنا عبید اللممہ سممندھی کمما شمماہ ولممی اللممہ کممے‬
‫افکار پر اصرار‬

‫‪72‬‬
‫مولنا عبیداللہ سقندھی شقاہ ولقی اللقہ کقے افکقار پقر اپنقے‬
‫اصرار کی وجہ یوں بیان کرتے ہیں۔‬
‫وں تققو‬‫"یہ جو میں شاہ ولی اللہ صاحب پر اتنا اصرار کرتا ےے ہ‬
‫اس کی یہی وجہ ہے اور اس میں یہی حکمت ےےہےےے اگققر یققہ میققری‬
‫بات ہوتی اور اس کی پشت پر کوئی فکری سلسلہ ‪ ،‬روایت اور‬
‫فکری اثاثہ نہ ہوتا تو ہر شخص اسے میری اپچ کہہ کر ماننے سے‬
‫انکار کرسکتا ہے‪ ،‬میقں اپنققی اس فکقر کقی اسقاس اور اس کققی‬
‫تشریحات کی شاہ صاحب کی کتابوں میں نشاندہی کرتا ہوں اب‬
‫ٹ دھرمققی‬ ‫اگر کوئی مسلمان اسے نہیققں مانتققا تققو وہ اس کققی ےے ہ‬
‫ہوگی‪،‬ہاں یہ مجھےتسلیم ہے کہ شاہ صاحب کققی کتققابوں میققں یققہ‬
‫فکر مرتب اور مدون شققکل میققں نہیققں ےےہےےے بققات یققہ ےےہےےے کققہ اس‬
‫زمانے میں اور ان حالت میں اس قسم کی ترتیققب و تققدوین کققا‬
‫کوئی امکان نہ تھا مجھے اس کے ماننے میں کوئی تامل نہیں کققہ‬
‫شاہ صاحب کی کتابوں میں ب ہےےت کچققھ بھرتققی بھققی ہےےےےے مثل یققہ‬
‫ہوسکتاہے کہ دو تین سو صفحے کی ایک کتققاب ےےوہ اور اس میققں‬
‫چار پانچ صفحے میرے کام کے ہوں شاہ صاحب کے ہاں بہت سی‬
‫باتیں ایسی بھی ہیں جو ٹھیک نہیں ہیں میرا کام یہ ےےہےےے کققہ میققں‬
‫اپنے فکر کی شاہ صاحب کی کتقابوں میقں طقالبعلموں کقے لیقے‬
‫‪؎22‬‬ ‫نشاندہی کروں۔"‬
‫مولنمما عبیممداللہ سممندھی کمماحجتہ البممالغہ سممے‬
‫استفادہ کرنا‬
‫مولنا عبیققداللہ سققندھی حجتققہ البققالغہ سققے اسققتفادہ کرنققے‬
‫والوں کے متعلق لکھتے ہیں۔‬
‫"میں پچاس سال سے حجتہ البالغہ کا مطالعہ کققر ر ہےےا ےے ہوں‬
‫شروع شروع میں اس کا کچھ حصہ سققمجھا تھققا اور کچققھ حصققہ‬
‫نہیں سمجھا تھا لیکن جو چیز میں سمجھ گیا اور وہ میرے نزدیک‬
‫محقق تھی اس پر میں نے عمل کرنا شروع کردیا جو چیققز میققں‬
‫نہیں سمجھ سکا تھا اسے میں نے چھوڑ دیا۔پھر جوں جوں علمی‬
‫استعداد ترقی کرتی گئی اور میرے مطالعہ کققا دائققرہ وسققیع ہوتققا‬
‫گیا حجتہ البالغہ کے جو مشکل مباحث تھے وہ اوہستہ اوہستہ صققاف‬
‫ے‪،‬اخر میں جب میں روس گیا تققو پھققر کہیققں جققاکر میققں‬
‫ہوتے گئ و‬
‫وا‬
‫حجتہ البالغہ کو پورا سمجھ سکا ہوں ماسکو سے ترکی ہوتققا ےے ہ‬
‫جب میں مکہ معظمہ پہنچا تو وہاں کے قیام میں میققں نققے حجتققہ‬
‫البالغہ کے اصولوں پر سارے قرآن کو حل کیاہم فلسققفروں کققی‬
‫ساری باتیں سنتے اور ان کے علوم و افکار کا احاطہ کرتققے ہیققں‬
‫‪73‬‬
‫ہر فلسفی کی تعلیم کو بغیر کسی تعصب اور خوف کققے پڑھتققے‬
‫ام کققی‬
‫ہیں پھر انبیا کے طریقے کو واضح کرتققے ہیققں وحققی و ال ےے ہ‬
‫مدد سے حکما کے افکار کو جانچتے‪،‬ان کی اصلح کرتققے اور ان‬
‫کی کوتاہیوں کو دور کرتے ہیں ہندوستان کی اسلمی ذہنیققت نققے‬
‫شاہ ولی اللہ کے ہاتھوں یہ انقلب ہوا اس ذہنی انقلب کو سمجھ‬
‫بغیر کوئی دیوبندی حجتہ البالغہ سمجھ نہیں سکتا ےےہاں یقہےے ممکقن‬
‫کہ اساتذہ کی صحبت میں بیٹھنے سے وہ غیققر شققعوری طققور پققر‬
‫حجتہ اللہ کو ماننے لگ جققائے‪ ،‬حجتققہ اللققہ کققے حکیمققانہ فکققر کققو‬
‫صحیح طور پر سمجھنے کے لیے مولنا محمد قاسققم کققو توسققط‬
‫‪؎23‬‬ ‫ضروری ہے۔"‬
‫مولنا عبیداللہ سندھی بتاتے ہیں کہ حجتقہ اللقہ البقالغہ سقے‬
‫کون مستفید ہوسکتا ہے۔‬
‫اں‬‫" ایک متدین حجتہ اللہ پڑھ کر انقلبققی نہیققں ہوسققکتا ےے ہ‬
‫ایک لدینی انقلبی ہو اسے حجتہ اللہ پڑھا کر دین کا معتقققد بنایققا‬
‫جا سکتاہے بات یہ ہے کہ یہ انقلبی انقلب کے لیققے تققو اوخققر دیققن‬
‫کو چھوڑتا ہے بے شک یہ لدینی ہے لیکن انقلبققی تققو ےےہےےے چنققانچہ‬
‫ایک انقلبی کو متدین بنایا جاسکتا ےےہےےے لیکققن ہمققارے متققدین بققراہ‬
‫راست انقلبی بننے سے رہے۔" ‪؎24‬‬
‫مولنا عبیداللہ سندھی پققر سوشققلزم کققے اثققرات کققا جققائزہ‬
‫لینے سے پہلققے ان کققے اقتصققادی شققعبے میققں شقاہ صققاحب کققے‬
‫اقتصادی پروگرام سے متعلق خیالت انہوں نے اس طرح قلمبنققد‬
‫کئے ہیں۔‬
‫"شاہ صققاحب کققا مجققوزہ اقتصققادی پروگققرام موجققودہ تمققام‬
‫اقتصادی پروگراموں سے بہتر ہے پس یورپ اور ایشیا میں جتنے‬
‫بھی اقتصادی پروگرام چلنے کققے لیققے انقلبققات ےےوہئے‪ ،‬وہ سققب‬
‫کے سب شاہ صاحب کے مجوزہ انقلب سے کم درجے کے ہیققں۔"‬
‫‪؎25‬‬
‫مولنا عبیداللہ سندھی کممی سوشمملزم کممے بممارے‬
‫میں رائے‬
‫مولنا عبیداللہ سقندھی سوشقلزم کقو انسقانی زنقدگی کقی‬
‫ترقی کی طرف ایک قدم قرار دیتے ہیں اور شققاہ ولققی اللققہ کققی‬
‫فکر کو اس کا حاکم بنانا چاہتے ہیں۔‬

‫‪74‬‬
‫"میرے نزدیک سوشلزم مادی زندگی کا ایک ریاضققی نظققام‬
‫ہے مجھے ریاضی سے بچپن ہی سے بڑی دلچسپی رہی ےےہےےے میقں‬
‫جب ابتدائی جماعتوں میں پڑھتا تھا اپنے سققے اونچققی جمققاعتوں‬
‫کی ریاضی کے سوال حل کر لیا کرتا تھا میرے اس ریاضی پسند‬
‫ذہنیت نے مجھے حقائق پسققند بنققا دیققامیرے نزدیققک سوشققلزم یققا‬
‫کمیونزم زندگی کی بنیادی ضرورتوں کققا ایققک ریاضققی نظقام ےےہےےے‬
‫انسانی زندگی میں یہ منزل ضققروری ےےہےےے جققس طققرح تعلیققم اور‬
‫تعلیمی تربیت کی اساس علم ریاضی ہونی چاہیے اسی طرح ا وج‬
‫انسانی اجتماعیت سوشلزم کے بغیققر منظققم نہیققں ہوسققکتی جققو‬
‫شخص اوج سرے سے سوشلزم کا انکار کرتققا ےےہےےے وہ میققرے فکققر‬
‫سے استفادہ نہیں کرسکتا‪ ،‬میں تو یہ کہونگا کہ سوشلزم کا انکار‬
‫کرنے وال مجھ سے نہیں‪ ،‬میں سوشققلزم کققے اصققولوں پققر اپنققے‬
‫اجتماع کی تنظیم کرنا چاہتا ہوں اور اس کے اوپر شققاہ ولققی اللققہ‬
‫کے فلسفے کو حاکم بنانے کی دعوت دیتا ہوں‪ ،‬شاہ صاحب کا یہ‬
‫فلسفہ انسانیت عامہ کا حامل ہے یققہ پققوری کائنققات اور اس کققے‬
‫ماورا جو عالم ہے ان سب کو ایک رشتہ فکر میں جمع کرتا ےےےہےےے‬
‫یہ ساری کثرت کو ایک وحدت عطا کرتققا ےےہےےے تققم اس نظققر سققے‬
‫دیکھو تو تمہیں سوشلزم یا کمیققونزم مققذہب کققے خلف دیکھققائی‬
‫نہیں دے گققا میققرے نزدیققک ایسققا سققمجھنا غلطققی ےےہےےے سوشققلزم‬
‫انسانی زندگی کا ترقی کققی طققرف ایققک قققدم ےےہےےے ب ہےےت ا ےےہم اور‬
‫ضروری قدم اس سے اوگے بھی انسانیت کے اور مقام ہیں شققاہ‬
‫ولی اللہ کا فکر زندگی کی اخری وسعتوں کققو اپنققی دامققن میققں‬
‫‪؎26‬‬ ‫لے لیتا ہے۔"‬
‫مولنا عبید اللہ سندھی کا روس کی طرف سفر‬
‫مولنا عبید اللہ سققندھی جقن حقالت میقں روس گیقا تھقا وہ‬
‫مایوس کن تھے۔اس کققی بققائیس ‪ 22‬سققال سققے جققاری جدوج ےےدہ‬
‫اوزادی کققی تحریققک ناکققامی سققے دوچققار ےےوہئی تھققی۔روس میققں‬
‫اشتراکیوں کی انقلب کی کامیابی کے لیے قربققانیوں اور مردانققہ‬
‫وار جدوجہد دیکھ کر مولنا عبید اللہ سندھی نے عملققی طققور ےےرہ‬
‫کسی قوم کو ایک نظام قائم کرنے کے لیے سققر دھققڑ کققی بققازی‬
‫لگا کر جان و مال سب کچھ قربان کرنقے کقا جقذبہ دیکھقا۔جقس‬
‫سے عبیداللہ سقندھی کقا عقیققدہ اس پقر اور راسقخ ےےہوا کقہےے "اس‬
‫قرآن پققر عمققل کرکققے مسققلمان اس سققے بققڑا انقلب کرسققکتے‬
‫ہیں"۔پروفیسر محمد سرور نے مولنققا عبیققداللہ سققندھی کققا بیققان‬
‫اس طرح قلمبند کیاہے۔‬

‫‪75‬‬
‫" مولنا کہنے لگققے۔ڈاکققٹر صققاحب ! یققہ زمققانہ میققرے لیققے‬
‫ایت ذلققت اومیققز اور‬ ‫انتہائی ذہنی کشمکش کققا تھققا۔ اس طققرح ن ےے ہ‬
‫مکمل شکست کھانے کے بعد پہلے عقیدہ پر میرا یقیققن کققس رخ‬
‫رہ سکتا تھا میں بالکل مایوس ہونے کے قریب تھا اور اس وقققت‬
‫کوئی عقیدہ اور کوئی امید ایسی نظر نہیں اوتی تھی ‪ ،‬جس سققے‬
‫کہ ڈھارس بنتی‪،‬بیس بائیس برس کی کوششوں کا حاصل پوری‬
‫ناکامی کی صورت میں اونکھققوں کققے سققامنے تھققا۔ یقہ اضققطراب‪،‬‬
‫ی ‪ ،‬ایققک‬ ‫پریشانی اور مایوسی کی حالت معلوم نہیں ایک ہفتہ ر ےے ہ‬
‫مہینہ رہی یا چند ماہ رہی۔بہرحال جب میں افغانستان سققے روس‬
‫کی طرف چل اور راستے میں نئی زندگی کققے اوثققار نظققروں کققے‬
‫سامنے اوتققے گئققے تققو اوہسققتہ اوہسققتہ میققں شققک اور مایوسققی کققی‬
‫اندھیروں میں امید کی روشنی دیکھنے لگا‪،‬مجھے ماسکو پہنچنے‬
‫میں ایک دو ماہ لگےراستے خراب تھےاور سواری کا خاطر خواہ‬
‫انتظام نہ تھا۔ ہمیں دوران سفر میں بڑی مشکلت کا سامنا کرنققا‬
‫پڑا سفر کی ان تکلیفوں کا ایک فائدہ یہ ہوا کہ بیس بائیس برس‬
‫کی جدوجہد کی ناکامی کی وجہ سے جو ذہنقی پریش انیاں تھیقں‪،‬‬
‫انہوں نے زیادہ اذیت نہ دی۔دن رات کی سفر کققی الجھنققوں میققں‬
‫دماغ کو اتنی فرصت ہی نہ ملی کہ وہ ان پریشانیوں کققی طققرف‬
‫توجہ کرسکے۔روس کو دیکھ کر اور روسی انقلبیوں کو نئی دنیققا‬
‫کی تعمیر میں مردانہ وار مصروف عمل پا کر م اسلم‪ ،‬اس کی‬
‫تعلیمات اس کی تاریخ میں روشنی کی ایک نئی کققرن نظققر اوئققی‬
‫اور مجھے اس حقیقت کا علم ہوا کہ جو انقلب اوج روس میں ہو‬
‫رہا ہے۔ وہی انقلب کبھی اسلم نے بھی کیا تھا اور قرآن مجیققد‬
‫بھی تاریخ انسققانی کققے اسققی قسققم کققی انقلب کققی کتققاب ےےہےےے‬
‫میری خوش قسمتی تہی کہ شاہ ولی اللہ کو جن سققے مققج پہلققے‬
‫سے دلچسپی اور عقیدت تھی‪ ،‬میں نے قرآن کی اس طرح کققی‬
‫تفسیر کرنے وال پایا۔روشنی کی اس کرن نے میققرے دمققاغ میققں‬
‫ایک انقلب پیدا کر دیا اور میری مایوسیاں اوہستہ اوہسققتہ اوس اور‬
‫اامید میں بدلنے لگیققں۔ی ےےہاں سققےےے میققری زنققدگی کققا ایققک نیققا دور‬
‫شروع ہوتا ہے۔مجھےقرآن میں ایک نئی دنیا نظققر اوئققی اور میققرے‬
‫دل میں یہ عقیدہ راسخ ہوگیا کہ اوج جو انقلب روس کققے انقلبققی‬
‫کرسکتے ہیں‪،‬اس قرآن پر عمققل کرکققے مسققلمان اس سققے بققڑا‬
‫انقلب کرسکتے ہیں۔یہ خیال محض میرے اپنے دماغ کی ایجاد نققہ‬
‫تھا کہ میں اسے اپچ کہہ کر ٹال دیتا‪،‬میں نے شاہ ولی اللہ کو اس‬
‫خیال کا ترجمان اور شارخ پایااور شاہ ولی اللہ سے بعد میں اونے‬
‫والے اور ان سے بھی پہلے کے بزرگوں اور ااستادوں کا سلسققلہ‬

‫‪76‬‬
‫ایسا ہے کققہ کققوئی معقققول مسققلمان ان سققے انکققار کرنققے کققی‬
‫جرأت نہیں کرسکتا۔" ‪؎27‬‬
‫مولنمما عبیممد اللممہ سممندھی کمما دلممی میممں خطبممہ‬
‫صدارت‬
‫اپنے اس خطبہ صدارت میں مولنا ایک جگہ فرماتے ہیں ۔‬
‫" دہلی یورپ سے شکست کھا گئی۔اناللہ انققا الیققہ راجعققون۔‬
‫یورپ اپنے تغلب سے چار تحریکوں کا تعارف کراتا ہے۔‬
‫ا۔ لبرلزم‬
‫‪2‬۔ انڈسٹرلزم‬
‫‪3‬۔ ملٹری ازم اور اخر میں‬
‫‪4‬۔ سوشلزم جس میں مذہب کو قطع خارج کردیا گیا ہے۔‬
‫" مولنا کے نزدیققک ان چقار تحریکققوں کقو کسققی نقہ کسقی‬
‫شکل میں اپنائے بغیر چارہ نہیں اور وہ وطن کققی سققر زمیققن پققر‬
‫قدم رکھنے سے لیکر اب تک یہی کہتے ا و رہے تھے۔ چنانچہ اوپ نے‬
‫اپنی اس اوخری تقریر میں بھی فرمایا۔‬
‫" لبرلزم کو ہم امام عبدالعزیز دہلوی کی صققراط مسققتقیم‬
‫جانتے ہیں۔ انڈسٹری اور ملٹری ازم یورپ کا قبول کرتے ہیں اور‬
‫سوشلزم میں ہمارے امام ولی اللہ ہیں جو فلسفہ اور اکنققامکس‬
‫میں بہت عالی مرتبہ ہیں اس لیققے امققام ولققی اللققہ کققا سوشققلزم‬
‫اسلم پر منطبق ےےہےےے۔ مختصققرال یقہ کققہ یقورپ کققی اوپققر کققی چقار‬
‫تحریکیں جن سے ہم یققورپ کققے تغلققب کققی وجققہ سققے متعققارف‬
‫ہوئے‪ ،‬ان میں سے اوخر میں ہم تک اونیوالی تحریک سوشلزم ےےےہےےے۔‬
‫یقینال اسے بھی ہمیں اپنانا ہے لیکن اس میں سققے چققونکہ مققذہب‬
‫کو خارج کر دیا گیا ہے اس لیے اس کا مداوا ہمیں یقوں کرنقا ےےہےےے‬
‫کہ امام ولی اللہ نے اسلم کو جس طرح پیش کیقا ےےہےےے‪ ،‬اس کقی‬
‫مدد سے سوشققلزم اور اسققلم میققں مطقابقت پیققدا کریقں۔مولنقا‬
‫ظ ‪؎28‬‬
‫ش‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫سندھی ان میں کوئی بنیادی تناقص نہیں مانتے"‬
‫مول با ع بی ییدا س ظیدھی کے م ظا ب بق لد یتیییت سو سلزما کی اساس پہ ییں‬
‫مولنا عبیداللہ سندھی لدینیققت کققو سوشققلزم کققی اسققاس‬
‫نہیں سمجھتے وہ اسے ایک ریاضی نظام کہتے ہیققں اورکمیققونزم‬
‫میں مذہب کقے انکققار کقی وجقہ وہ مقارکس کققی اس وققت کققی‬
‫موجود حالت کے اثر کی وجہ گردانتے ہیں ۔مولنا سققندھی کہتققے‬
‫ہیں۔‬

‫‪77‬‬
‫" کہ جہاں کوئی فکر نشونما پاتا ہے ‪ ،‬اس جگہ کے اثرات‬
‫اس میں ضرور اوجاتے ہیں ۔فکر خل میں نہیں‪ ،‬مادی ماحول میققں‬
‫‪؎29‬‬ ‫پروان چھڑتا ہے"۔‬
‫کمیونزم کے لدین ہونےسے متعلق پروفیسر محمققد سققرور‬
‫نے عبیداللہ سققندھی کققی توجی ےےہات منققدجہےے ذیققل اقنباسققات میققں‬
‫کچھ یوں پیش کی ہے۔‬
‫"کارل مارکس یہودی النسققل تھققا۔اور ی ےےہودی صققدیوں سققےےے‬
‫طرح طرح کے مظالم کا نشانہ بنتے چلققے اورےےہےےے تھققے۔یققہ مظققالم‬
‫زیادہ تر مذہب اور قوم کے نام پر ہوتے تھے۔ مققارکس مفکققر تھققا۔‬
‫اس کے ضمیر نققے انسققانیت کققے دکھققوں کققو محسققوس کیققا اور‬
‫ی تھققی ‪ ،‬اس کققے‬ ‫محنت کش غریب عوام پقر جققو کچققھ گققزر ر ےے ہ‬
‫اسباب و محرکات ڈھونڈے۔اوخرکار اس نے انسانیت کے تمام الم‬
‫و مصائب کا جو حل تجویز کیا‪ ،‬اس کے لیے یہ بالکل فطری امققر‬
‫تھا کہ اس میں سے وہ مذہب اور قققوم کققو خققارج کردیتققا‪،‬کیققونکہ‬
‫اس کے فطرت میں یہ بات داخققل تھققی انسقانیت پققر سققب سققے‬
‫بڑھ کر مظالم مذہب اور قوم کے نام سے ہوئے ہیں"۔ ‪؎30‬‬
‫" اشتراکیت کی اس بین القومیت میققں قققومی و شخصققی‬
‫اور ارضی و مقامی موثرات کی کارفرمائی کے ذکر میققں مولنققا‬
‫ودی اور پنققڈت‬ ‫نے کہا کہ کارل مارکس ی ےےہودی النسققل تھققا۔ےےاور ی ےے ہ‬
‫کبھی مذہب سے جدا نہیں ہوسققکتے کیققونکہ ان میققں ہزارہاسققال‬
‫سے مذہب صرف عقیدہ نہیں کہ اس کا تعلق صرف ذہن سے ےےےوہ‬
‫بلکہ وہ ایک نسلی چیز ہے جو ان کے خققون میققں رچ بققس کققر ان‬
‫کے وجود کا ایک حصہ بن گیا ہے۔اب یہودیوں کققے سققاتھ صققدیوں‬
‫سے یورپ میں جو کچھ ہو رہا تھا ‪،‬اس کا اثر مققارکس کققو لزمققا‬
‫ورثے میں مل اس کے خاندان نے گو عقیدتا تو یہودیت کو چھققوڑ‬
‫ن کققو اوزاد نہیققں‬‫دیا تھققا لیکققن نسققل تققو وہ ی ےےہودیت سققےےے اپنققے ذ ےے ہ‬
‫کراسققکتا تھققااور یققہ نسققلی ی ےےےہودیت اپنققےےے سققاتھ یہودیققوں کققی‬
‫اذیتیں‪،‬ذلتیں ‪،‬اور معلوم نہیں کیا کیا کچققھ لئققی تھققی۔ ان حققالت‬
‫میں مارکس کی اس بین القققوامی اشققتراکیت میققں قققومیت اور‬
‫‪؎31‬‬ ‫مذہب کا بار پانا مشکل تھا۔"‬
‫اس وقت روس میں پادری طاقت میں تھققے۔روسققی عققوام‬
‫پوری طرح پققادریوں کققے گرفققت میققں تھققی۔ گریققک چققرچ جسققے‬
‫روسی عوام مانتے تھے حد سے زیققادہ قققدامت پرسققت اور تققوہم‬
‫پرست تھا۔ روسی گرجے زار کققی مققدد سققے پققوری طققاقت میققں‬
‫تھے اور حکومت میں دخیل تھے۔ اشققتراکیوں کققو پققادری ناقابققل‬
‫قبول تھے ان کو خوف تھا کہ اگر پادری اس تحریک میں اوگئے تو‬
‫‪78‬‬
‫وہ عوام میں پہلے سے موجود اثر رسوخ کی وجہ سے تحریک پر‬
‫قبضقہ کرلینگقے اور تحریقک کقا ج و مقصقد تھ ا اس کقو نقص ان‬
‫پہنچائیں گے۔ اس لیے اشتراکیت مذہب مخالف بنی۔" مولنا کہتے‬
‫زاروں‬ ‫تھے کہ علوہ ازیں روسیوں نے اپنے اوپ کو لدینی بنا کر ےےے ہ‬
‫بلؤں سے بچا لیا۔روسی اپنی نئی دنیا اور اس میں اپنے لئے نئی‬
‫زندگی بنانا چاہتے تھقے۔اب اگققر وہ دیقن کقا سقرے سقے انکقار نقہ‬
‫کرتے تو ظاہر ہے کہ انہیں کسی نققہ کسققی دیققن کققو ضققرور ماننققا‬
‫پڑتا۔اس کے معنی یہ تھے کہ اہل مذہب کے کسی نہ کسی طبقے‬
‫کو وہ اپنا سردار اور قائد بناتے اور پھر معاملہ وہی کا وہی رہتققا۔"‬
‫‪؎32‬‬
‫مولنا عبیداللہ سندھی مارکسزم کو لدین نہیں‬
‫سمجھتے تھے‬
‫مولنا عبیداللہ سندھی مارکسزم کو لدین نہیں بلکہ نیا دین‬
‫کے شکل میں دیکھتے ہیں۔ جس کا ذکر پروفیسققر محمققد سققرور‬
‫نے اس طرح کیا ہے۔‬
‫"مولنا نے فرمایا ‪ ،‬روسی ان معنوں میں لدینی نہیں ‪ ،‬جن‬
‫معنوں میں ہم لدینی کو لیتے ہیققں۔ ےےہم لدینققی سققےےے بققالعموم یققہ‬
‫مراد لیتے ہیں کہ جس کے سامنے کوئی نصب العیققن نققہ ےےہ۔وےے جققو‬
‫کسی مثبت اخلقی قدر کو نہ مانتا ہو‪ ،‬جقس کقی زنقدگی محقض‬
‫اپنی مادی اور سفلی خواہشات ہوں۔روسی ان معنوں میں ہر گز‬
‫ہر گز لدینی نہیں۔انکے اپنے انسانی نصب العین ہیں‪،‬اپنی اخلقی‬
‫قدریں ہیں۔ایک اعلی مقصد کے لیے انہوں نے انقلب کیققا اور اب‬
‫وہ اسی مقصد کو حاصل کرنے میققں مصققروف جدوج ہےےد ہےےےےے۔ تققم‬
‫یوں کہہ سکتے ہو کہ وہ ایک نئے دین کی طرح ڈال رہے ہیققں۔اگققر‬
‫وہ پرانے دینوں کو جس شکل میں کہ وہ ان کققے سققامنے موجققود‬
‫تھے‪،‬مان لیتے تو کیا ان کی زندگی اس پرانے ڈھرے پققر بدسققتور‬
‫نہ چلتی رہتی اور یہ جو وہ نئی دنیا کی تعمیر کر رہے ہیں اس کققا‬
‫‪؎33‬‬ ‫انہیں کہاں موقع ملتا۔ "‬
‫مولنا عبید اللہ سندھی اور ان کے شاگرد‬
‫مولنا عبیداللہ سندھی سققےانکے شققاگرد پروفسققر محمققد‬
‫سرور نے دین اور لدینی سے متعلق سوال کیا۔‬
‫"کہ حضرت ہم لوگوں کے دلوں اور دماغوں میں مذہب کا‬
‫جو تصور نقش ہے‪،‬اسے کھرچے بغیر نئی دنیا کققی تعمیققر میققرے‬
‫نزیک ناممکن ہے۔سوال یہ ےےہےےے کققہ اس تصققور کققو کیسققے کھرچققا‬
‫‪79‬‬
‫جائے۔تو اس کی صورت کیا‪،‬صرف یہی نہیں کہ لدینی تصققور کققو‬
‫اپنایا جائے۔اس کے بعد ہی کہیں ہمارے ذہنوں اور دمققاغوں سققے‬
‫ماضی کے تمام فرسودہ‪ ،‬جمققود پسققند اور ترقققی دشققمن اثققرات‬
‫نکل سکیں گے۔ مولنا نے فرمایا کہ دین جسے تم دیققن کہتققے ےےوہ‬
‫اور لدینی جسے تم لدینی کو نام دیتے ہو‪ ،‬یہ اصطلحات تمھاری‬
‫اپنی ہے۔اوج کے مسلمان جس دین کو مانتے ہیں اور اسے سینوں‬
‫سے لگائے ہوے ہیں ‪،‬میرے نزدیک وہ دین نہیں‪،‬وہ انکا اپنا خاندانی‬
‫اثاثہ اور باپ دادا کا ترکہ ہے۔اور ظاہر ہے کہ انسان کو اپنے مققاں‬
‫باپ کی چیز سے محبت ہوتی ہے اس لیے اس محبت کققو اسققلم‬
‫سے محبت کا نام دینا ٹھیک نہیں ۔یہ محبققت اسققلم کققے اصققولوں‬
‫سے نہیں ‪،‬اپنے مفادات سے ہوتی ہے۔‬
‫مولنا کہنے لگے کہ میں روسی اشتراکیوں کے عام اودمیوں‬
‫کا نہیں کہتا لیکن جہاں تک ان کے ذی فہم اور عقلمنققد افققراد کققا‬
‫تعلق ہے‪ ،‬میرے نزدیک ان کو لدینی کہنا زیادتی ہے۔ہاں جققس کققو‬
‫تم دین کہتے ہو اسے وہ نہیں مانتے لیکن جہاں تک دین کی اصققل‬
‫روح اور زندگی میں اس کی کارفرمائی کققا تعلققق ےےہےےے‪،‬تققم انہیققں‬
‫‪؎34‬‬ ‫لدینی نہیں کہہ سکت ظ‬
‫ے۔"‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ٹ‬ ‫ظ‬
‫مول با ع بی ییدا س ظیدھی کا کمییو نسیو ں کا ظچدا کے و بخود سے ا نکار چتر پ بنضرہ‬
‫مولنا عبیداللہ سندھی سے پروفیسر محمقد سقرورکا خ دا‬
‫کے وجود سے متعلق کمیونسٹوں کے اعتراض کا پوچھا ۔‬
‫"ایک دن میں نے مولنا کی خدمت میں خدا کے تصور کققے‬
‫بارے میں کمیونسٹوں کا یہ اعتراض پیش کیا ‪ :‬کمیونسققٹ کہتققے‬
‫ہیں کہ جب تم خدا کے وجود کا عقل سے ادراک نہیققں کرسققکتے‬
‫تو اس کے معنی یہ ہوئے کہ جققس کققو تققم خققدا سققمجھتے ےےہو‪ ،‬وہےے‬
‫محض تمھارے اپنے دماغ کی تخلیق ہے۔یعنی تم نے ایک خیال کققو‬
‫وضع کیا اور اسے اپنققا خققدا بنالیققا۔اس خیققال کققے احکققام کققو جققو‬
‫دراصل تمھارے اپنے احکام تھے‪،‬خدا کے احکققام سققمجھ لئققے اور‬
‫ےےےہےے کققر منققوانے پققر تققل گئققے۔چنققانچہ‬‫انہیققں خققدا کققے احکققام ک ہ‬
‫)کمیونسٹوں کے اعتراض کے بموجب( جققن بققاتوں کققو خققدا کققی‬
‫باتیں کہتا ہے‪ ،‬وہ دراصل اس کققی اپنققی بققاتیں ےےہوتی ہےےیققں۔وہ اپنققی‬
‫باتوں کو خدا کی باتیں کہہ کر انہیں اوسققانی سققے انسققانوں سققے‬
‫منواسکتا اور اس طرح وہ اپنی حکومت قائم کرنے میں کامیققاب‬
‫ہو جاتا ہے۔نبی کے بعد اس جانشین اوتے ہیں اور انکے جانشققینوں‬
‫کققے جانشققین۔ اس طققرح بادشققاہت وجققود میققں ا وتققی ےےےہےےے۔ اور‬
‫بادشاہوں کا سلسلہ اوگے چلتا ہے۔یہ لوگ مذہب کو اپنی استبدادی‬
‫‪80‬‬
‫حکومتوں کے استحکام کے لیے اولہ کار بناتے ہیں اور یوں مققذہب‬
‫اور استبداد ایک ہوجاتے ہیں۔مولنا بڑی خاموشی سققے یققہ سققنتے‬
‫رہے۔پھر اوپ نے کہا جہاں تک اس اعتراض کققا نقلققی یعنققی مققذہب‬
‫کے سند پر مبنی روایتی دلیلوں کے ذریعے جواب دینے کققا تعلققق‬
‫ہے تو یہ چنداں مشکل نہیققں۔ اور اس اعققتراض کققی رو میققں بققے‬
‫شمار دلیلیں دی جا سکتی ہیں۔لیکن اس کا عقلققی جققواب میققرے‬
‫نزدیک یہ ہے ‪:‬۔ انسان کے اندر ایک لطیفقی نقورانی ےےہےےے جقس کقا‬
‫فطری میلن و انجذاب اللہ تعالی کی اس تجلی کی طققرف ہوتققا‬
‫ہے جو اس کائنات میں جلوہ گققر ےےہےےے۔اب اس لطیفققہ نققورانی کققے‬
‫اندر سے جو علوم نکلتے ہیققں‪ ،‬وہ دراصققل اس تجلققی کققا فیضققان‬
‫ہوتے ہیں۔ اس طرح "حلقوم عبداللہ " کققی بققات "گفتققہ اللققہ" ےےوہ‬
‫‪؎35‬‬ ‫جاتی ہے"۔‬
‫مادہ پرستی پر مولنا ع بیدالرزاق ملیح ٓابادی ک ے بب ییان‬
‫چتر تبصرہ‬
‫کمیونزم کی مادہ پرستی کے متعلققق عبیققداللہ سققندھی نققے‬
‫ایک نشست میں اس طرح گفتگو فرمائی ہے۔‬
‫"مولنا ملیح اوبادی کے تبصرے ہی کے ذیل میں یہ بات چھڑ‬
‫گئی کہ نئے تعلیم یافتہ مسققلمان کققے ذہنققوں میققں برسققوں سققے‬
‫اسلم کی ایک ایسی صورت داسخ ہوچکی ہے جو اس قدر بقول‬
‫شخصیت "روحانی اور غیر مادی " ہے کہ جققب وہ مجبققور ےےوہ کققر‬
‫کمیونزم یا اشتراکیت کے زیر اثر اجتماعی یا سیاسی کام کرنققے‬
‫کے لیے کوئی مادی اساس ڈھونڈتے ہیں تو وہ لمحالہ اس نتیجے‬
‫پر پہنچتے ہیں کہ یہ مادی اساس اور اسلم دو الققگ الققگ چیزیققں‬
‫ہیققں۔اور ان کققا استحصققال اور تظققابق ناممکنققات میققں سققے ےےہےےے۔‬
‫چنانچہ ملیح اوبادی صاحب کا یہ کہنا کہ شاہ ولققی اللققہ کققے اسققلم‬
‫کے بجائے نئی تعمیر کے لیے کسی مققادی اسققاس کققی ضققرورت‬
‫ہے نوجوانوں کے اس رحجان فکر کی ترجمانی ہے۔اس پر مولنا‬
‫سندھی کے وہ شاگر جو لہور سے اوئے ہوئے تھے‪،‬کہنققے لگققے کققہ‬
‫اب تو خود یورپ کے فلسفی زندگی کی مادی اسققاس کققا انکققار‬
‫کر رہے ہیں اور وہ زندگی کی اساس غیر مقادی فکققر یقا روح کقو‬
‫مانتے تھے۔مولنا سندھی نے موصوف کو بیچ ہی میققں ٹھققوک دیققا‬
‫اور فرمانے لگققے۔ مولققوی صققاحب ! بققات یققہ نہیققں مققادہ اور روح‬
‫ہمارے نزدیک دو الگ حقیقققتیں نہیققں‪ ،‬کثققافت جققب لطققافت میققں‬
‫تبدیل ہوجاتی ہے تو وہ روح ےےہےےے۔دراصققل یققہ ایققک حقیقققت کققی دو‬
‫منزلیں ہیں۔خدا ناخواستہ یہ دو الگ الگ منفرد چیزیں نہیں ۔ےےہم یققہےے‬
‫‪81‬‬
‫مانتے ہیں کققہ یقہ لطققافت اور کثققافت بقاہم لزم وملققزوم ہیققں۔اور‬
‫انہیں ایک دوسرے سے الگ نہیں کیا جاسکتا مثل میرا یہ بدن ہے۔‬
‫اس بدن کا تصور روح کے بغیر ممکن نہیں اس طرح اگققر کققوئی‬
‫شخص اس بدن کا انکققار کققرے اور اس کققے انققدر جققو روح ےےہےےے ‪،‬‬
‫اسے اس سے الگ اور قائم بالذات سمجھے تو میققرے نزدیققک وہ‬
‫عقققل منققد نہیققں۔یققوں سققمجھو ‪ ،‬بققدن شققریعت ےےےہےےے اور روح‬
‫دین‪،‬شریعت کے بغیر دین کا مادی وجود ممکققن نہیققں‪ ،‬جققو ایسققا‬
‫تصور رکھتا ہے وہ محض خیال کی دنیا میں رہتا ہے۔اسے اس دنیا‬
‫سے اور اس کے کاروبار سے کوئی تعلققق نہیققں ‪،‬وہ ایسققا انسققان‬
‫ہے جس کا سا دنیا میں کوئی کققام نہیققں لیکققن اسققی طققرح اگققر‬
‫کوئی شخص شریعت ےےہی کققو سققب کچققھ مققان لققےےے اور اس کققی‬
‫ذہنیت بھی اسی طرح کی بن جائے تو پھقر وہ اس کقی شقریعت‬
‫)مولنا نے بڑے غصے سے کہا ( اس قابل ےےہےےے کققہ میققں اسققے اوگ‬
‫میں جھونک دوں۔مولنا سندھی برابر گفتگو فرما رہے تھے۔کہنققے‬
‫لگے۔ مولوی صاحب !یورپ کققے بعققض افققراد تققوہم پرسققتوں کققی‬
‫دلدہی اور تسکین کے لیققے اکققثر اس طققرح کققے نظریققات واضققع‬
‫کرتے رہتے ہیں کہ مادہ محض ایک خیال ےےہےےے۔اصققل چیققز روح ےےہےےے۔‬
‫زندگی کی مادی اساس نہیں ہے۔یورپ کققے ان متفلسققفوں کققی‬
‫باتیں ہم مشرقی لے اڑتے ہیققں اور اپنققے ےےہاں انکققا خققوب اشققتہےےار‬
‫دیتققے ہیققں ۔اس سققے ہوتققا یقہ ےےہےےے کققہ توہمقات کققی زنجیریققں اور‬
‫مضققبوط ہوجققاتی ہیققں۔روح کققے نققام سققے ےےہم مققادی زنققدگی کققےےے‬
‫مسائ ل کو حل کرنے اور اپنے مادی مققاحول کققو بققدلنے سققے بققے‬
‫‪؎36‬‬ ‫توجہ ہوجاتے ہیں۔ اصل چیز تو روح ہے۔"‬
‫مولنا سندھی کے نزدیک سوشلسٹ تحریک کممی‬
‫قربانیاں‬
‫مولنققا عبیققد اللققہ سققندھی سوشلسققٹ تحریققک اور روسققی‬
‫عوام کی اس سلسلے میں قربانیوں کققو قققدر کققی نگققاہوں سققے‬
‫دیکھتے ہیں لیکن وہ اس کے لیے تصور خدا کا انکار ضروری نہیں‬
‫سمجھتے ہیں ۔وہ سجھتے ہیں کہ ایک مزدور اپنققی خوشققحالی اور‬
‫اوزادی کے لیے جدوجہد دینی فکر کی روشنی میں بہتر انداز میں‬
‫کرسکتا ہے۔‬
‫"دنیا میں مستقبل مزدور اور کاشت کققار کققا ےےہےےے۔جققو لققوگ‬
‫مزدوروں اور کاشتکاروں کو منظم کرکے انہیققں اپنققے سققاتھ لققے‬
‫سکیں گے‪،‬سیاسی قیادت ان کی ہوگی۔ اب صورتحال یققہ ےےہےےے کققہ‬
‫کاشتکاروں اور مزدوروں کو منظقم کرنقے والقی تحریقک کقا ج و‬

‫‪82‬‬
‫مرکز ہے وہ لدینی نظام فکر کا علققم بققردار ےےہےےے۔اس مرکققز میققں‬
‫بڑی جان ہے‪ ،‬بڑی فکری توانائی ہے اس کے کارکن بھققی عظققم‬
‫و ہمت ‪،‬بہادری و جرات اور صدق و یقین میققں اپنققی نظیققر نہیققں‬
‫رکھتے میں دین کو مانتا ہوں اور دین کو مققانتے ےےوہئے مققزدوروں‬
‫ےےہےے جققانے والققے‬
‫اور کاشتکاروں کو اپنے ساتھ رکھنا چاہتا ہوں۔ یا ب ہ‬
‫ہیں۔میرے نزدیک اب اس کو روکنا اور پہلققے کققی سققی حققالت پققر‬
‫مطمئن یا قمنع رکھنا ناممکنات میں سے ہے۔یہ لوگ اٹھ کر رہیں‬
‫گے۔ہم چاہیں یا نہ چاہیں انہیں دبانا اب ممکن نہیں۔ "‬
‫‪؎37‬‬

‫ظ‬
‫فصل دوما‬

‫‪83‬‬
‫مولنا حسرت موہانی تعارف اوراقتصادی‬
‫فکر‬
‫مولنققا حسققرت مو ےےہانی ہےےندوسققتان کققی پہلققی قققانون سققاز‬
‫اسمبلی میں بحیثیت ممبر قانون ساز اسمبلی اوئیققن س شققازی کققے‬
‫وقت ہندوستان میں سوشلسٹ نظام رائج کرنے اور سوسلشٹ ببلک‬
‫ظ‬
‫ےکا مطالبہ کرنے والے ‪ ؎1‬اور ‪ 1921‬میں سب سے پہلے‬ ‫مییں ر ہہن‬
‫ہندوستان کو مکمل اوزادی کا مطالبہ کرنے والققے ‪ ؎2‬ہندوسققتانی‬
‫لیققڈر اور جنققگ اوزادی ‪ 1857‬کققے بعققد مسققلمانوں میققں پہلاور‬
‫بال گنگا تلک اس‬ ‫ہندوستان میں دوسرا سیاسی قیدی تھا۔‪؎3‬‬
‫سے پہلے جیل گئے تھے۔ جققس کققاپورا نققام سققید فضققل الحسققن‬
‫تخلص حسرت پیدائش کا مقام اتر پردیش کے ظلع انققاو قصققبہ‬
‫موہان تھا۔ سید خاندان کے چشم و چراغ تھے۔ انکا سلسلہ نسققب‬
‫حضرت امام علی موسی رضا سے ملتا ۔حضرت امققام رضققا کققے‬
‫اولد میں سے سید محمود نیشا پوری اپنے بیٹے سید منتخب کے‬
‫ساتھ نیشاپور )ایران( سے تققرک وطققن کرکققے ہندوسققتان قصققبہ‬
‫موہان میں سکونت پذیر ہوے‪ ،‬اس کے متعلق مظفر حنفی اپنققی‬
‫کتاب مییں لکھتے ہیں" کچھ لوگوں کا خیال ہے کہ یہ بستی موہن‬
‫ان‬‫نام کے ایک جوگی نے بسای ت ےےہی ‪ ،‬اس لیققےےے اس کققا نققام مو ےے ہ‬
‫لیکن حقیقت یہ کہ اسے امام موسی کاظم کققے اولد‬ ‫پڑا۔ ‪؎4‬‬
‫میں سے ایک بزرگ سققید محمققد نیشقاپوری نقے ابققاد کیقا تھقا۔ یقہ‬
‫بزرگ نیشا پور )ایران( کے قریب ایک مقام موہان میں پیدا ےےےہوےےے‬
‫ت ۔اور اپنققے بیٹققے سققید منتخققب کققے سققاتھ ‪ 19/1218‬کققے دوران‬
‫شہنشاہ التمش کے دور میں ہجرت کرکے ہندوسققتان اوگئققے تھققے۔‬
‫جہاں انہوں نے اپنے جائے سکونت کا نام بھی اپنے آبائبی وطققن‬
‫کی یاد تازہ رکھنے کی غرض سے موہان ہی رکھا۔‬
‫مولنا حسرت کی ولدت‬
‫گھر‬‫کی نانی کے ظ‬ ‫ص‬‫حسرت کی ولدت ‪1298‬ھ بتم ظاب بق ؁‪ 1881‬ظ ان ظ ظ‬
‫دری کہا جاتا تھا۔ جسرت کاچبورا باما س یید ف ل جشیین والد س ییدااظہر‬
‫ہوئی جسے بارہ ق‬
‫حسرت کے والد چونکہ زمینوں کے‬ ‫جشن دادا کا س یید مہر جشن تھا۔ ‪؎5‬‬
‫سلسلے میں موہان سے زیقادہ تقر ب اہر ر ےےہا کرتقےےے تھقے اس لیقے‬
‫حسرت کی ابتدائی زندگی انکی نانی اور والققدہ کققے سققاتھ زیققادہ‬
‫بسر ہوئی۔ اور لطف کققی بققات یقہ ےےہےےے کققہ اس زمقانے میقں جققب‬
‫مردوں کی تعلیم خاص تھی حسرت کے ننہیال میں عورتوں کققی‬
‫تعلیم پر خصوصی تققوجہ دی جققاتی تھققی۔ حسققرت کققی والققدہ اور‬
‫بلکہ‬ ‫نانی دونوں اردو اور فارسی کی سمجھ رکھتی تھی ‪؎6‬‬

‫‪84‬‬
‫شققعروادب سققے بھققی خاصققا لگققائو تھققا۔یققہ دونققوں حسققرت کققو‬
‫دلچسپ کہانیاں سناتی تھیں۔ حسرت کے گھر کا مققاحول مققذہبی‬
‫تھا۔ بچپن سے صوم و صلواۃ کے پابند تھے زندگی بھققر مققذہب پققر‬
‫سختی سے کاربند رہے۔ اس وقت اشققراف میققں یققہ رواج تھققا کققہ‬
‫بچوں کی ابتدائی تعلیم کا انتظام گھر کیا جاتققا تھققا۔اور اس بچققے‬
‫کققے سققاتھ غریققب پڑوسققیوں کققے بچققوں کققو بھققی لکھنققا پڑھنققا‬
‫سیکھنے بٹھائے جاتے تھے۔ حسرت کو پڑھانے والققے اسققاتذہ میققں‬
‫غلم علی‪،‬عبدالرحمان عرف میاں جی بلقی‪ ،‬اور مولققوی اصققغر‬
‫علی قابل ذکر ہیں۔‪ ؎7‬میاں جی بلقی سے خاص طور پر گ ےےہرےےے‬
‫اثرات قبول کئے۔ میاں جی بلقققی اس دور میقں جققب سودیشققی‬
‫تحریک کا کسی نے سوچا بھی نہیققں تھققا غیققر ملکققی کققپڑے کققے‬
‫استعمال کو کفر سمجھتے تھے‪ ،‬ہمیشہ ہاتھ کے بنققے ےےہوےےے کققپڑے‬
‫استعمال کرتے تھے۔ مولوی اصغر علی کا کققردار بھققی دلچسققپ‬
‫تھا ہمیشہ ایک رنگ کے کپڑے پہنتاتھا اسققی وجققہ سققے یققک رنگققے‬
‫مولوی کے نام سے مشہور ہوئے۔‬
‫مولنا حسرت کی ابتدائی تعلیم‬
‫را‬
‫حسرت کققی شخصققیت میققں مشققرقیت‪،‬تصققوف سققے گ ےے ہ‬
‫لگاو‪،‬شعروادب سے دلچسپی اس کی نانی‪،‬والققدہ اور بچپققن کققے‬ ‫ٔ‬
‫اساتذہ کی دین تھی۔گھر پر تعلیم کے دوران قرآن ختم کرنے کے‬
‫بعد سکندر نامہ‪،‬بہار دانش‪،‬اخلق محسنی‪ ،‬اور انشائے ابوالفضل‬
‫جیسی ادبی اور علمی کتابیں گھر پر چھوٹی عمر میں پڑھ لیققں۔‬
‫اس طرح ابتدائی تعلیم ختم کرنققے کققے بعققد حسققرت کققو ‪1890‬‬
‫میں موہان کے مڈل سکول میں داخل کیا گیا۔حسرت ایققک ذہیققن‬
‫طالبعلم ثابت ہوا۔ ‪ 1894 ؎8‬میں جب انکی عمر ‪ 13‬برس تھی‬
‫انہوں نے ایک امتحان مو ےےہان کققےےے سققکول سققے دیققا اور دوسققرے‬
‫امتحان کے لیے ساتھ کے گاوں جھلوتر میں اپنے اسققتاد لچھمققی‬
‫نراین کے ساتھ گئے اس طرح انہوں نے اردو اور ہندی میں بیققک‬
‫وقت دو امتحان دیئے۔ دونوں امتحانققات کققو نققہ صققرف درجققہ اول‬
‫میں پاس کیا بلکہ پققورے صققوبے میققں اول اوئققے۔اور انہیققں وظیفققہ‬
‫بھی مل۔ اس کے بعد حسرت انگریزی تعلیم کے غرض سے فتح‬
‫پور ہسوہ چلے گئے کیونکہ موہان میں ہائی سکول نہیں تھققا۔ فتققح‬
‫پور )ہسوہ( جہاں حسرت کے والقد مقوروثی جائیقداد کقے انتظقام‬
‫کے غرض سےاکثر قیام کرتے تھے۔‬
‫مولنا حسرت کی شخصیت‬
‫حسرت کی شخصیت کی تشکیل میں علققی گققڑھ کالققج کققا‬
‫نمایاں کردار ہے۔ حسرت نے اپنی قابلیت کققی دھققاک علققی گققڑھ‬
‫‪85‬‬
‫کالققج میقں بھقی ققائم رکھقی وہ ب ےےہت جلقد کالقج کققےےے ممتقاز اور‬
‫ہردلعزیز طالب علم بنے۔ انہوں نے یونین کے جلسوں میققں بار ےےےا ہ‬
‫انگریزی اور اردو میں تقریریں کیں۔جن کققی کالققج کققے سققیکٹری‬
‫نققواب محسققن الملققک نققے بھققی تعریققف کققی۔پرفیسققر مجنققوں‬
‫گورکھپوری نے حسرت کی کالج کی زنققدگی کققو ان الفققاظ میققں‬
‫ذکر کیا ہے۔‬
‫" یہاں یہ کہ دینا شاید بے موقع نققہ ےےہو کققہےے کالققج کققے جتنققے‬
‫اعزاز تھے وہ سب حسرت کو حاصققل تھققے۔انجمققن اردوے معلققی‬
‫کے معتمد وہ تھے‪ ،‬یونین کے سیکٹری وہ تھے‪،‬فوڈ مانیٹر وہ تھققے۔‬
‫فوڈ مانیٹر کی حیثیت سے ان ےےہوں نققےےے جققس دیققانت داری اور بققے‬
‫لگ فرض شناسی کا ثبوت دیا اس کا نقش ہر ایققک دل پققر ثبققت‬
‫تھا" ‪؎9‬‬
‫حسرت کالج کے انجمققن اردوے معلققی کققے بققانی ممققبروں‬
‫میں تھے۔ اس کی بنیاد سید سجاد حیدر یلدرم نققے رکھققی تھققی۔‬
‫یلدرم کے بعد حسرت اس کے ناظم مقرر ہوئے۔‬
‫مولنا کی سیاسی خدمات‬
‫بی اے کرنے سے پیشتر ہی انہوں نے ملکی سیاسققت میققں‬
‫دلچسپی لینی شروع کی تھی‪ ،‬حسرت کی فطققرت میققں شققروع‬
‫ہی سے حق گوئی اور حریت پسندی تھی۔عملی زندگی میں اوکققر‬
‫حسرت تحریک اوزادی کے پرجققوش سققپاہی‪،‬مخلققص اور حققق گققو‬
‫سیاستدان‪،‬خدا رسیدہ صوفی‪ ،‬بے باک اور نققڈر صققحافی‪،‬عققروض‬
‫دان‪،‬تققدوین کقا‪،‬تققذکرہ نگققار‪،‬شقارح غقالب اور ایققک صققاحب عمققل‬
‫مسلم اشتراکی تھققی۔ ان کققے سیاسققی خققدمات اور جنققگ اوزادی‬
‫میں سرفروشانہ کردار کا اعققتراف مہاتمققا گانققدہی‪،‬مولنققا محمققد‬
‫علقی جقوہر‪،‬سققبھاش چنقدر ب ےےہوس‪،‬پنقڈت ن ےےہرو‪ ،‬مولنققا ابقوالکلم‬
‫ازاد‪،‬ڈاکٹر راجندر پرشاد‪،‬ڈاکٹر ذاکققر حسققین اور دیگققر صققف اول‬
‫ت‬‫کے قومی رہنماؤں نے کیا ہے۔حسرت کے ادبی کارناموں پر ب ےے ہ‬
‫ساری کتابیں لکھی گئی ہیققں۔وہ ریققس المتغزلیققن بققن کققر دنیققائے‬
‫شاعری پر چھائے رہے اور اپنی اس حق گوئی اور سیاست میققں‬
‫استقامت پر سید الحرار کہلئے۔علی گڑھ سے فارغ طلباکو اس‬
‫وقت حکومت کی نوکری میں ہاتھوں ہاتھ لیا جاتا تھا۔بی اے پاس‬
‫کرتے ہی حسرت کو وکٹوریہ کالج گوالیار میں ریاضی اور عربققی‬
‫حسرت‬ ‫کے پرفیسر کی پوسٹ کی پیش کش کی گئی۔‪؎10‬‬
‫چاہتے تو کوئی دوسری سرکاری نوکری بھی اسققے مققل سققکتی‬
‫تھی۔ لیکن حسرت ارادہ کرچکے تھے کہ سیاست اور صحافت کو‬
‫نہ چھوڑیں گے اور ملک و قوم کققی خققدمت کققو اپنققی زنققدگی کققا‬
‫‪86‬‬
‫نصب العین بنایا۔اور بی اے کی نتیجے کا انتظار کئے بنا ہی علققی‬
‫گڑھ سے اردومیں معلی کے نام سے ایققک ماہنققامہ جققاری کرنققے‬
‫علی گڑھ میں بحیثیت‬ ‫کے لیے ڈیکلریشن جمع کرادیا۔‪؎11‬‬
‫اڈیٹر اردوکے معلی رہائش اختیار کیا۔ حسرت نے کالج میققں چققار‬
‫سال تک طالب علموں کی انداز فکر کو بدلنے کی جققو کوشققش‬
‫کققی اس کققے تسلسققل کققو برقققرار رکھنققے اور اپنققے سیاسققی‬
‫ار کققا طققاقتور‬
‫خیالت‪،‬ادبی مسلک اور مذہبی اعتقادات کققے اظ ےے ہ‬
‫وسیلہ کو اپنے اختیار میں رکھا۔ تاکہ اس طرح اپنے نصب العیققن‬
‫کا حروف میں برملہ اظہار کرسکے۔ اس رسققالے کققا پہل شققمارہ‬
‫جولئی ظ‬
‫‪ 1903‬میں شائع ہوا۔‬
‫ش‬
‫ق ئ‬ ‫جسر ت مو ہ ظہا نی اور ا ش قترا کییت‬
‫چ‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫ظق‬ ‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ق لی‬
‫ے اشتراکی ظ ظ کومت ظ ققایم‬ ‫روس م یتیں یین کی سربترا ظہی مییں اکیوبتر ‪ 1917‬مییں ات قلب کے ذر یت ع‬ ‫چ‬
‫داری ن ظاما کا قچات مہ‬ ‫ظ‬ ‫یہ‬‫ترداری ق‪ ،‬زمیین داری شاور سرما ی‬ ‫ظ‬ ‫سے بچاگ ی‬ ‫ظ‬ ‫غواما نے ظ ظملک ظ‬ ‫ق‬ ‫ہہو چ کی ھی روشی ش‬
‫بب‬ ‫یں مر ئ‬ ‫کے باترات چبوریق دب ییا م ی ق ش‬ ‫لب ظ‬ ‫ان کی ظبچگہ ق اشتراکی نبتظاما کا ت قاذک ییا شاس ات ق چپ ظ‬ ‫کرکے ق‬
‫ہ‬ ‫ت‬
‫نے‬‫بک م یاتر ہو ک ظ‬ ‫ے اور وہ ب ظو قخوان بتڑی چد ظ‬ ‫ے ہہ یدوس قیان مییں ھی اس کے قاترات ق چہیچ‬
‫ظ‬ ‫ت‬
‫ہے ھ‬ ‫ہہور ظ ہ‬
‫ے‬‫امدیبد قہن‬ ‫ش‬ ‫ے ہہ یدوس قیان مییں ات قلب روس کو خوش‬ ‫بک مییں ظسرگرماظ قھ‬ ‫بخو بح یگ ازادی کی بجر ی ق‬
‫ے‬ ‫ت‬
‫کے س ییاشی چبیتر و مرسد ھ‬ ‫ب‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ہ‬
‫سے بتڑے قومی رشہتما ظ ظ‬
‫ے خو جسرت ظ‬ ‫لوکماب ینہ لک ق ھ‬ ‫ق‬ ‫والے سب ظ ق‬
‫کے طرز عمل سے‬ ‫ظ‬ ‫بدگی‬ ‫ز‬ ‫بوری‬ ‫چ‬ ‫کی‬ ‫ان‬ ‫ھا‬ ‫ت‬‫ئ‬ ‫ل‬ ‫عم‬ ‫قظری‬ ‫ق‬ ‫با‬ ‫ہو‬
‫ق‬ ‫ہ‬
‫ک‬‫تر‬ ‫یا‬ ‫م‬ ‫سے‬ ‫لب‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫شجسرت کا اس ات ظ‬
‫ے ان کے دلئ و ظدماغ نے بچشلد اس ق‬ ‫ت‬
‫کے‬
‫ک‬ ‫ل‬
‫ے اس لن‬ ‫ے قھ‬ ‫نی مزاج ر ھن‬
‫ی‬ ‫ح‬‫ب‬ ‫ہے کہ وہ ات قل ب ش‬ ‫شبا ببت ہ ق‬
‫م‬
‫ے غزلوں کے اسعار ظسے ل یا‬ ‫ے گسن‬ ‫ق‬
‫یوتک ی ل ئمییں ق ییاما کے دوران ھ‬ ‫ئ‬ ‫جس کا‬ ‫اترات کو قبیول ک ییا ب ش‬
‫؁‪ 1925‬کے اوا ظ ظخر ظمییں‬ ‫ظ‬ ‫کی‬ ‫نی بجریتر دس ق ٹی ییاب ظ ظیہ ظ ہ ظ‬
‫ہو‬ ‫ظ‬ ‫کو‬ ‫نی‬ ‫گ‬ ‫ھی‬ ‫لزماپ ب تر ل‬ ‫س‬ ‫ہے جسرت ش شکی سو‬
‫ق‬ ‫ک‬ ‫ظ‬ ‫چ چ‬
‫پہ‬ ‫ہ‬
‫نس‬ ‫ت‬ ‫ہ‬
‫شٹ چبارنی کی کا فرنس کا اتع قاد بتہوا اس کا فر ق‬ ‫ت‬ ‫ن‬ ‫ییو‬ ‫م‬ ‫با‬ ‫بڈ‬ ‫ا‬ ‫ال‬ ‫لی‬ ‫سے‬ ‫ق‬ ‫سوں‬ ‫ظ‬ ‫ش‬‫کو‬ ‫کی‬ ‫سرت‬
‫سرت کی کمییوتزما کی طرف بچھکاو کا سببب ھی معلوما ہہوبچابا‬
‫ظ‬ ‫ی‬
‫ج‬ ‫سے‬ ‫بہ‬ ‫یال‬ ‫ب‬ ‫ق‬
‫ق‬
‫ن‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫بہ‬ ‫ط‬ ‫خ‬ ‫کردہ‬ ‫یش‬
‫ی‬ ‫جمییں چت‬
‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ٹ‬ ‫ظ‬ ‫ے۔‬ ‫خوش م بیلغ بین گن‬ ‫ہے بجس کے عد وہ تر ب‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫بتظ چ ق ق‬ ‫ہ‬
‫جسرت کا خط ببہ ا سنق بیال یبہ چپہلی ال ا بڈ یبا کمییو نشٹ چبار نی کان چبور متع قدہ‬
‫؁‪1925‬‬
‫دعا‬ ‫و‬ ‫یہ‬ ‫کر‬ ‫) ‪ ( ١‬شس‬
‫ق ظ‬ ‫ظ ق‬ ‫ظ‬ ‫ق قق ی ٹ‬ ‫دوسیواسنق یالبہ ک یمینی کی ظ بچابب سے مییں اپ صاج ب ق‬
‫یوں ی قکا قیہ ظدل سے چیتر م قدما کربا ہقہوباور سب‬ ‫ح‬ ‫یں شسامل کربا قچا ہہق یاہہوں کہ ہہ ظیدوسق‬ ‫ب ی‬
‫یان مییں ق ی قی اخوت و مساوات کی بخو بجر ی قبک اج‬ ‫ظ ظ‬ ‫چ‬ ‫کو قاس دعا م ی ش ظ‬
‫چ‬ ‫بپ‬ ‫ہ‬
‫ہے اس کو چاطر خواہ کام یقیا قبنی چا ل ہو اور ہت ئ ب لد ییہ بجریبک‬ ‫ق‬ ‫ص‬ ‫سروع کی چانی‬ ‫بباقاعدہ طورچتر م‬
‫صادی بجریبک بین بچانے۔‬ ‫لک یییچتھ ییل بکر ہہ ظیدوسق ہیان کی واچد س ییاشی اور اق ظ‬ ‫سارے م‬
‫ظ ظ ن ہف‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ہے‬ ‫ہ‬ ‫ق‬ ‫) ‪ ( ٢‬کمییو قتزما کےش باما سے گھ بترانے کی ق بب یا علط مییوں چتر‬
‫ظ‬ ‫س کاروں اور ا‬ ‫ق‬ ‫ک ظ‬
‫کے اضول اور‬ ‫ف‬ ‫بک‬
‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ہے اس بجر‬ ‫ہ‬ ‫مزدوروں کی قبجریبک‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫کا‬
‫ب‬ ‫بک‬ ‫ی‬ ‫جر‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫کی‬ ‫تزما‬ ‫ظمییو‬
‫ظ‬ ‫ہ‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ع‬ ‫ظ‬ ‫ہ‬
‫ہ‬ ‫م‬ ‫ح‬
‫ییوں کی بب ظیا چتر‬ ‫قاصد سے بہور ا ل ہہ ید موما اہت قاق کرنے ہہییں البتبہ عض ضر ق بح علط م‬ ‫غراض و م ظ‬ ‫ظاک ظ‬
‫چالظبکہ ییہ علط‬ ‫ہی ش ا‬‫یں‬ ‫ہ‬ ‫نے‬ ‫ق‬ ‫ترا‬ ‫ب‬ ‫ھ‬ ‫ئ‬ ‫گ‬ ‫لوگ‬ ‫ئ‬ ‫کے‬ ‫عت‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫ظ یت‬‫ط‬ ‫می‬ ‫ہ‬ ‫و‬ ‫اور‬ ‫مزور‬ ‫ک‬ ‫عض‬ ‫ت‬ ‫سے‬ ‫باما‬ ‫کے‬ ‫تزما‬ ‫مییو‬
‫ب‬
‫ت‬
‫دوسرے ببد خواہہوں کی چ ھ ییل ظنی ہہونی ہہونی قہہ ی قیں م یل عض لوگ‬ ‫ت‬ ‫داروں اور ظ‬ ‫فسہبجم ی قیاں سب‬
‫ح‬ ‫ظ‬ ‫سرماییہ ظ‬ ‫ظ‬
‫اس کے سوا‬ ‫فتس بمج ق‬ ‫چالبکہ اس ظکی ق یی ئ‬
‫م‬
‫تزی و فساد لزما و ظ لزوما ہہییں‬ ‫ش‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫ے ہہ ی ظیں کہ کمییوتزما اور خوتر‬ ‫م ھن‬
‫ے ہہییں اور‬ ‫اور ق کچجھ ظپہییں کہ ہہم لوگ عدما نسدد کو ضرف ضرورت و مص ظلحت قکی بب یا چتر قبچا ظتز ھن‬
‫ے بیتز بت ظعض احقمق یبا‬ ‫لزما پہییں فرارد یپن‬ ‫چالت مییں ب قن طور اضول ظ‬ ‫طرح ق اس کو ہہرک ظ‬ ‫شمہاتماگابدھی تکی‬
‫چالبکہ وافعہ ییہ‬ ‫یں‬ ‫ہ‬‫ہ‬ ‫تز‬ ‫چ‬ ‫ق‬ ‫ہی‬ ‫ہ‬ ‫بک‬ ‫ا‬ ‫بوں‬ ‫ترا"دو‬ ‫م‬ ‫سو‬ ‫ق‬
‫ترا‬ ‫ب‬ ‫خو‬ ‫ب‬ ‫"‬ ‫اور‬ ‫تزما‬ ‫ییو‬ ‫کہ‬ ‫یں‬ ‫ہ‬
‫ہ‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ت‬‫ب‬ ‫ھی‬ ‫سرتر لوگ یہ ب‬
‫چ ی ی ش بظ‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ی س ی‬ ‫م‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫بک ذانی بجس کوا ظگریتزی مییں‬ ‫ظ‬ ‫پہاں بچابداد اور م قلکییت ٹکی دو قف مییں مفرر ہہییں یا‬ ‫ہہمارے ی ش ا‬ ‫کہ‬
‫ہس ظی ک ق‬‫ہے‬
‫ح‬ ‫ش‬
‫ے ہہییں ل ھڑی‪ ،‬ھتری‪ ،‬لوبا‪ ،‬نشتر‪ ،‬کچتڑے‪ ،‬مکان وغیترہ دوسری صی بجس کو‬ ‫ب‬ ‫چ‬ ‫چ‬ ‫گ‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫چتر ل ہن‬
‫‪87‬‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ ظ‬ ‫شا‬ ‫ئ ش ظ ق‬ ‫ظ‬
‫ئ‬ ‫عم‬ ‫ک‬ ‫بٹ کہن‬
‫ے ہہ ی قیں م یل زمیین‪ ،‬کارچانے اور مییونشٹ اضول کا ل ذانی بچاب ییداد‬ ‫اب ظگریتزی م ی قیں چتراپییو ی‬
‫ش‬
‫ہے۔‬ ‫چتر پہییں ہہوبا ضرف حصی چتر ہہوبا ہ‬

‫ش ظ‬ ‫ضول‬ ‫ا‬ ‫ہہمارے ا‬‫ظ‬ ‫ق‬ ‫قت ظ) ‪( ٣‬‬


‫حم س یلی ئ‬
‫اضولوں مییں قسرماییہ داری اور شتحصی بچائب ییداد ظکی‬ ‫ہہمارے‬ ‫کہ‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫چ‬
‫ب‬ ‫جھ‬ ‫مب‬ ‫یہ‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫قص ییل ظ ئکا مو ظفع پ‬
‫ہے کہ زم ی ظین ب ظھی ہہوا اور چبانی‬ ‫ہ‬ ‫نی‬
‫ق‬ ‫ادا کی بچا‬ ‫ق‬ ‫بوں بتھی‬ ‫م ظلق گیبحانش پہییں زببان غواما مییں ییہ ببات ی ظ‬
‫اس کو انسان ج ظشب‬ ‫ہے بجس چتر کسی قکی مل ییت قپہییں مفررہہوسکنی۔ البتقبہ ظ‬ ‫ظکی طرح عطیبہ ظ ال ظہ ی ئی ہ‬
‫ن‬ ‫ک‬ ‫ئ‬
‫ے اور‬ ‫یں ببد ظمی کو رو ظک ق ظن‬ ‫ظ‬ ‫ہے ق اور اس بباب م ی‬ ‫ے است ظعمال کرسک یا ہ‬ ‫ظ‬ ‫کے کلن‬ ‫ے قابدے ق ئ‬ ‫ضرورت ا چپن‬ ‫ظ‬
‫ے کل معامل کا اپت ظاما‬ ‫غرض سے ہہر م ظقاما کے لوگ ا چپن‬ ‫ظ‬ ‫کی‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫ق ھ‬ ‫ر‬ ‫یم‬ ‫قا‬ ‫کے‬ ‫ظ‬ ‫اراما‬ ‫باچپنی ازادی و‬
‫ہے۔‬ ‫ے ہہییں اشی کا باما سوویبٹ گورت مٹ ہ‬ ‫حمہوری اضولوں چتر خود کرسکن‬
‫ق‬ ‫ق ظ‬
‫ق ق‬ ‫ٹ ٹ ش‬ ‫ظ‬ ‫قاصد‬ ‫م‬ ‫و‬ ‫غراض‬ ‫ہہمارے ظ اص ی ئ‬ ‫ت‬ ‫)‪ (٤‬ٹ‬
‫پہ‬
‫ہے ہہماری اس چ لی‬ ‫عم‬
‫بٹ کانسنی ق پییوسن سے مل یا بچل یا ہ‬ ‫ہہماری چبارنی چتکا ق ی لی لبچہ ل بخو سوو ی ظ‬ ‫ظظ ظ‬
‫قاصد ییہ ہہییں کہ‪ :‬ق ئ ظ‬ ‫کاتفرنس مییں ییش ہہوکر چباس ہہوگا ہہمارے اغراض و م‬
‫ئ‬ ‫ظ‬
‫سوراج یتعنی ازادی کامل ئکا کل بچاتز ذریتغوں سے قایم ہہوبا )‪ ٢‬ظ( سوراج‬ ‫ظ‬ ‫یان مییں‬ ‫( ئہہ ظیدوسق ظ‬ ‫)‪ ١‬ق‬
‫ک‬
‫بٹ قر چب بیلک ش قکی ہو بچہاں مییوتزما کے‬ ‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ت‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫یت سوو ی ظ‬ ‫نے چتر ییہ د ھئیا کہ ااس سوراج کی ظ ہہیی ق‬ ‫عم‬
‫کے قایم ہو‬
‫نے قبک کاستکاروں اور مزدوروں کی‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫کےمنقا میمیںہو ہہ ظ‬ ‫نے۔ )‪ ٣‬ظ( سوراج‬ ‫ظکل اضولوں چتر ل ک ییاممبچا ش‬
‫حماعت کے‬ ‫ب ظ‬ ‫یاشی‬ ‫س‬ ‫ہر‬ ‫کی‬ ‫یان‬ ‫س‬ ‫یدو‬ ‫ص‬ ‫اس‬ ‫اور‬ ‫با‬ ‫کر‬ ‫شش‬ ‫ازادی کی ہشہرق کن کو‬ ‫لح و‬‫ق ق ا‬
‫ہ ی‬ ‫ق ی‬ ‫ظ‬ ‫ک‬ ‫ئ‬ ‫عم‬ ‫ق‬
‫مذکورہ ببال ا ظغراض ظ ظکی‬ ‫ہہمارے‬
‫تراک ل کو بچاتز ر ھ یا بجس چد بک وہ بحماعت ظ ب‬ ‫قساتھ اس چد بک اش ظ‬
‫کے ااضولوں کی ا ش شساعت کا سامان کربا اور حمہور کواچب ظیا ہہم ح ییال بب یابا‬ ‫قبائب یید کرے ۔ ) ق‪ (٤‬کمییوتزما ق ظ‬
‫ے۔‬ ‫باکہ سوراج کے ق ییاما کے ساتھ قورا ان چتر عمل سروع ہہو سک‬
‫ہے‬ ‫ہ‬ ‫) ‪ ( ٥‬ق ہہماری بحماعت ضرف ہہ ظیدو سق یان ظکی بحماعت‬
‫ئ‬ ‫ظ‬
‫ہے کہ کم قازکم قی الحال قہہماری بحماعت کا داترہ عملظ ضرف‬ ‫ہ‬ ‫اس قمو فع قچتر ییہ بب ییان کردیب ظیاضروری‬
‫ہم ح ییالی کا‬ ‫ہ‬
‫ہہمدردی و ظ‬
‫ضرف ا‬ ‫ہہمارا تعلق ظ‬ ‫سے ٹ ظت شس یظ‬ ‫ظ‬ ‫ہے دیبگرممالک کی ا بحماغ قیوں‬ ‫ہ‬ ‫ہہ ظیدوس یان بک محدود‬
‫کے حصوص ظا ہہم عضر قضرور ہہییں‬ ‫موما اور ت ی سری ابتر ی ل ئ‬ ‫عم کے ع ق‬ ‫اس راہ مییں ہہم ان ئسب‬ ‫ہے ظ‬ ‫قہ‬
‫ے ہہییں اور یہ وہ ہہماری کونی مالی اعابت کرنے ہہییں۔‬ ‫ظ‬ ‫مابحت ہییں یہ ہم ان کو کونی لی مد د یپن‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫پ‬
‫ک ظ‬
‫ش‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ہہب‬ ‫مذ‬ ‫اور‬ ‫تزما‬ ‫) ‪ ( ٦‬مییو‬
‫بتعض بد قباطن لوگ کمییوتزما چتر یہ یپیبحا ہمت گانے ہہییں کہ وہ لزمی طور چترمذ ہہب دس‬ ‫پ‬ ‫ب‬ ‫ظ‬
‫ہے‬ ‫من ہ‬ ‫ظق‬ ‫ل‬ ‫ی‬ ‫ب ب‬
‫رواداری ظکو م ظ قیاسب‬ ‫جے کی ظ‬ ‫ے م ظییں اپنہا در ظچ ب‬ ‫ہے کہ ہہم لوگ مذ ہہب ظکے معا مل‬ ‫ہ‬ ‫سچال ظ قبکہ وافعہ شییہ ظ‬
‫ہوں یبا‬ ‫ہ‬ ‫یدو‬ ‫ہہ‬ ‫وہ‬ ‫خواہ‬ ‫ہے‬ ‫ل‬ ‫دا‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫فر‬ ‫ہہمارے‬ ‫وہ‬ ‫نے‬ ‫ما‬ ‫کو‬ ‫ظ‬
‫اضولوں‬ ‫ش‬ ‫ہہمارے‬ ‫حص‬ ‫ے ہہییں بخو ئش‬ ‫ن‬ ‫بمج‬
‫س‬ ‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ظ ی‬ ‫ھ‬
‫حص ہہو یبا لمذ ہہب ببال قاظ دیبگر ہہم ہہر مذ ہہب کے وبخود کو ن ل ییم‬ ‫ت‬
‫مسل قمان‪ ،‬عیسانی ہہویبا ببودہ‪ ،‬مذہہبنی ش‬
‫ظ‬
‫ہے۔‬ ‫ہ ب‬
‫کرنے ہہییں ظہہمارے تزدیبک لمذہبنی ھی ایبک مذ ہہب ہ‬
‫قق‬ ‫ق‬ ‫) ‪ ( ٧‬کمییو تزما اور ا سلما‬
‫ظ‬ ‫ظ‬
‫ہہمارے بتعض مسل ظمان ل ییڈر ببلوبجہ ش کامییوتزما کو اسلما کے چلف ببق یا ظنے ہہ ی قیں چالظبکہ حق ییظفت شچال‬
‫کے ش چتلف بو ا قسلما کا ق ینصلہ ظسایبد‬ ‫ظ‬ ‫ہے م یل ظ کم ازکم سرما ظییہ ظکاری‬ ‫لف‬ ‫چ‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫ل‬ ‫بالک ظ‬
‫ہ‬ ‫بکمییونسنی غق یدے سے بت ش‬ ‫ق‬ ‫ٹ‬
‫ہے کہ ظچلق‬ ‫ہی ہ‬ ‫زکولۃ کا میسا ب ھی زیبادہ تر یپ‬ ‫ق‬ ‫صہ‬ ‫ی‬ ‫فر‬
‫جب قبک ابک شحص بتھی بتھوکا رہے ناس وقت ق‬ ‫اور‬ ‫ہے‬‫ہ‬ ‫حت‬ ‫ش‬ ‫بادہ‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ز‬ ‫ھی‬ ‫ی‬
‫نے ظکا‬ ‫چظ‬ ‫کر‬ ‫یش‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫کو‬ ‫مالداروں‬ ‫بک‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫چدا مییں ب ظ‬ ‫ظ ئ‬
‫ہے اور ل ییقہ‬ ‫ہی چتر دیبا گ ییا ہ‬ ‫ہے فران ظمییں تماز ظکے بتعد سب ظسے زیبادہ زورچزکولۃ ہ ق‬ ‫ق پہییں ئ ہ‬ ‫کونی خ ظ‬
‫اول نے ادانے زکولۃ سے انکارٹ کرنے والوں کے چلف بچہاد کا ق کم دیبا تھا۔‬
‫بی‬ ‫ص‬
‫) ‪ ( ٨‬زکو لۃ درا ل ا یبک ی کس ہ‬
‫ہے بخو سرما ییہ چتر ل ییا بچا با ہ‬
‫ہے‬
‫‪88‬‬
‫ئ ہظ‬ ‫ظ‬ ‫ٹ‬ ‫ب ئ‬ ‫ظ‬
‫ب‬ ‫ق‬ ‫ی‬‫ی‬ ‫ب‬ ‫ص‬ ‫ظ‬
‫ہے‬ ‫ق‬
‫بورپ مییں زیتر بحث ہ‬ ‫ئ‬ ‫ل یمییاقق کے ببحانے ا ل سرماییہ قچتر ئکس لگانے کا مس یلہ ہیوز ممالک ی‬
‫ے کہ رقم ق زکولۃ کا تعیین‬
‫ہے اس لن‬ ‫رواجپ ا بب یدانے قعہد ہہی سے بچاری ہ‬ ‫ظ‬ ‫لما مییں اس کا‬
‫ق‬
‫کن اس ظ‬
‫ظ ظ‬
‫ہے‬ ‫ل‬ ‫ب‬
‫ہےبت ب لکہیپکل سرماییہ کا چچا یسواں ظحصہ فرار چبایبا ہ ظ‬‫سالیہ م یا فع کے لحاظق سے ہییں ک ییابچاظبا ہ‬
‫ے‬
‫ہے کہ سود خوار ضرف ا چپن‬ ‫نے کا ق ھی ہی سببب ہ‬ ‫خراما ئہہو ا ٹ‬
‫علوہ بت ئرییں سود ظکے ظ ط عی ظ‬
‫ہے اور ییہ ببات اضول اسلما کے اس طرح‬ ‫کے قابدہ ات ظھایباکربا ہ‬ ‫سر ظمانے سے بت غیتر چمیت ک ظ‬ ‫ظ‬
‫ہے۔ ش‬ ‫چ‬
‫ہے بجس طرح اضول مییوتزما کے لف ظ ہ‬ ‫م یاقی ہ‬
‫ہے۔‬ ‫ل‬ ‫) ‪ ( ٩‬ک ییو ظتزما س یاست کی بپہ قتر یین اور ا خر قتر یین سک‬
‫ش‬
‫ق‬ ‫ہ ظ ق‬ ‫ٹی‬ ‫ظ‬ ‫ی ئ‬ ‫ظ ظ م ش ی‬
‫ک‬
‫ین س ل‬ ‫ے ظمعلوما ہہوگا کہ کم قییوتزما چبال یی کس ئکی ظ ا ئخر تریین‬
‫عم اور ظ قبپہتر ی ظ‬ ‫غرص ییکہ بجس ح ییی ی ئیت سے دتکھ ظن‬
‫ہے‬
‫فرسودہ چتروگراما کو ترک کرکے کونی پنی راہ ل اجی ییار کربا ہ‬ ‫ے ظ ق‬
‫یں ا چپن‬‫ق‬ ‫ے اگر ہہم ی‬
‫ہے اور اس لن‬
‫ظ‬ ‫ق ہ‬
‫‪؎12‬‬ ‫ہے۔"‬ ‫ین اور اخر تریین ہ‬ ‫بپ‬ ‫ب‬
‫بواشی کو کییوں یہ ظکرییں خو ہتر ی ظ‬
‫قق‬ ‫شٹ ہہونے کا دغو ظی‬ ‫ق‬ ‫ن‬ ‫جسرت کا ک شمییو‬
‫ق‬ ‫ی‬ ‫ظ‬
‫ے ہہییں کہ موبخودہ س ییاشی مع ظی قدات چتر جسرت‬ ‫یں لکھن‬ ‫ع بیدالسکور اچپنی ک یاب جسرت موہہانی م ی ظ‬
‫ہوں چپہل‬
‫ے‬ ‫اور مییں کم ظییونشٹ ہ ق‬ ‫ظ‬ ‫ہے‬ ‫ہ‬ ‫صب العیین‬ ‫ظ‬ ‫ن‬ ‫سوال ک ییال یگ ییا بخواب مل کہ ازادی کام ظل ظم ی ش ظترا‬‫ق‬ ‫ظت ی شس ظ‬
‫سے‬
‫ک‬ ‫ی‬ ‫س‬ ‫ی‬ ‫ت‬
‫لشٹ تھا کن ؁‪ 1925‬سے مییں نے لزما کو چیتربباد کہا اور مییوتزما کو اچب یا مسلک فراردیبا۔‬ ‫ی‬ ‫ی‬
‫‪؎13‬‬ ‫"‬

‫ظ‬ ‫ش‬ ‫ب ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬


‫س‬
‫جسرت مو ہہا نی کا مول با ازاد کے مضمون چتر پ بنضرہ تعیوان " سو لزما اور مول با‬
‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ ظظ‬ ‫ق‬
‫ق ب ی‬ ‫ازاد" ظ ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫چظ‬ ‫ق‬
‫گی اور مولبا اببوالکلما‬ ‫سرت کی قکمییوتزما کے سا شتھ وانس ش‬ ‫نی ک یاب "ت ظقدون ظر" مییں ج ظظ‬ ‫ئ‬ ‫پ‬ ‫ا‬ ‫نے‬
‫ک‬
‫تر‬ ‫جشن اچ‬
‫ح‬
‫ے ایبک ضظمون "اسلما کا ن ظاما اجتماعی اور زکوہ کی سرعی یییییت "چتر جسرت کا‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ے شگن‬ ‫کے ھ‬ ‫ل‬
‫س‬ ‫قازاد ب ظ‬
‫ی‬ ‫ہے۔‬ ‫ضرہ تعیوان "سو ظ لزما اور مولبا ازاد" چ ھابا‬
‫چ‬
‫ظ چ ل ہک ق‬ ‫س‬ ‫پ بن ش‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ے شہہییں کہ‪:‬‬ ‫مولبا ازاد" کے ظزیتر غیوان وہ ھن‬ ‫"سو لزما اور ظ‬
‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ح‬ ‫ش‬
‫قاظ مییں واصح‬ ‫ی‬ ‫انب ال ٹ‬ ‫موضوف نے زکو یۃ کی سرعی یییییت ٹکو یبتڑی خوبنی کے ساتھ ظ‬ ‫ی‬ ‫ٹ‬ ‫"۔۔۔۔۔مولبا‬
‫وضول‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫اشی طرح کا کس ظبجس ٹ‬ ‫ی‬ ‫ظ‬ ‫ب‬‫ش‬ ‫ک‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫اج کل ا کم ظ کس ظ‬ ‫طرح ش ظ‬ ‫ی‬
‫ی‬ ‫ب‬ ‫ظ‬ ‫ش‬ ‫ہے بب قال ل ظ ق‬ ‫کسی ہ‬ ‫ب‬‫ہے کہ "زکو یۃ ایبک ئ‬ ‫ک ییا ق ہ‬
‫ہ‬ ‫ظ‬
‫ہے بنس اس کی قادا ی گی کا طرتیقہ ییہ ظیہ ھا ٹکہ ہہر حص خود اچب یا کس نکالے اور خود ہی خرچ‬ ‫ت‬ ‫بکتییابچابا ہ‬
‫وضول کرکے‬ ‫ے ہہرشحص سے ظ‬ ‫ے کلکتتروں کے ذر ی یت ع‬ ‫کومت ا چپ ظن‬ ‫ظ‬ ‫چ‬ ‫کہ‬ ‫ھا‬ ‫ت‬ ‫یہ‬ ‫لکہ‬ ‫ب‬‫ب‬ ‫لے‬ ‫ا‬ ‫ڈ‬ ‫ھی کر‬
‫ص‬ ‫ک‬ ‫ب‬ ‫بح ی‬
‫ہے کہ "مس قلمابوں کی خوب‬ ‫ک‬ ‫چ‬
‫بپییت المال مییں مع کرے"۔ مولبا نے ییہ ھی ب ظبال ل یح ظ ل ھا ظ ہ‬
‫ق‬
‫ہے دیبدہ‬
‫ت‬ ‫نے کی بچگہ خود ہہی خرچ کر ڈالنی م ہ‬ ‫ظ‬
‫مال کو خوالے قکر ا‬
‫تی ظ‬ ‫سی امیین زاکو یۃ یبا ظبپییت ال ق‬ ‫حماعتچ ک ش‬ ‫ق‬
‫ب ظ‬
‫خواب دہ ہوگی"۔ گر بعحب‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫ہے اور ق یی ظیا ع ظیدا اس کی‬ ‫دانشبہ کم سریتعت سے ابجراف کرنی ہ‬ ‫ظ‬
‫ضولوں مییں‬ ‫کےا‬ ‫لزما‬ ‫مولبا نے اسلما اور سوشس‬ ‫یں‬ ‫ے ی‬
‫م‬ ‫دوسرے حص‬ ‫مضمون مذکور کے‬ ‫ہے کہ ظ ق‬ ‫ظ ہ‬
‫یت ظ‬ ‫ئ‬ ‫ظ‬ ‫م‬
‫طرح بچاتز رکھا کہ ان ظم ی قیں سے ا ی شبک عنی اسلما‬ ‫ق‬ ‫کس‬ ‫ظ‬ ‫تر‬
‫چ‬ ‫یا‬ ‫بب‬ ‫ظ‬ ‫اس‬ ‫حض‬ ‫ادعا‬ ‫کا‬ ‫لف‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫ا‬ ‫یادی‬ ‫قبتظی ظ ی‬
‫خ‬ ‫ٹ‬ ‫ع‬‫م‬ ‫ظ‬ ‫ش‬ ‫ظ‬ ‫خ‬ ‫م‬
‫کے ق کو‬ ‫کے م ظا بق ا ئح لف شت چظ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫فرادی لکییت کے ق کو ب ی ظتز جسما شنی و دماعی استعداد‬ ‫ب‬
‫ی‬ ‫انتس ق‬
‫م‬ ‫ش‬ ‫س‬ ‫ت‬
‫دوسری عنی سو ق لزما ضرف حصی ظ لکییت ظیبا چتراپییویبٹ چتراچترنی کے شلف‬
‫س‬ ‫پ‬ ‫م‬ ‫ہے اور ٹ ظ ظ‬ ‫ل ییم کرس ظبای ہ‬
‫ہے علوہ بترییں سو ش لزما‬ ‫لف ظ ہییں ق ہ‬ ‫کے ہہرگز ہہرگز قچ ق‬ ‫یت ق‬ ‫ل ش چتراچترنی‪ ،‬ا خفرادیبت لک ینس‬ ‫ت‬ ‫ہے چتر‬ ‫ظقہ‬
‫ہے ظ ظکہ دربجہ مع یشت‬ ‫یا‬ ‫ہہ‬ ‫چا‬ ‫ضرور‬ ‫یا‬‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ا‬ ‫بہ‬ ‫ت‬ ‫ل‬ ‫ہے۔ا‬ ‫با‬ ‫کر‬ ‫ییم‬ ‫ل‬ ‫ھی‬ ‫کو‬ ‫ق‬ ‫کے‬ ‫ظ‬ ‫شت‬ ‫ی‬ ‫ع‬ ‫م‬ ‫لف‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫اح‬
‫ہ‬ ‫چ‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫ٹ‬ ‫ئ‬
‫یہ ظروسوییہ ظکے ن ظاما کو چاصل ہوہ‬ ‫م‬ ‫ح‬
‫لکہ سوساپ شنی یبا کومت ظہورئ ی ظ‬ ‫چ‬ ‫ب‬
‫ہوت ب‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬
‫فراد کو ظیہ‬ ‫کے تع ی قین کا خق ا ظ‬
‫ب‬
‫ہے وریہ جن‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫پ‬ ‫ئ‬ ‫ن‬
‫ہے کہ مولبا نے ظا ھی بک سو لزما کا م ظالعہ عاتر ظر سے ہییں ک ییا‬ ‫س‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫معلوما ہہو قبا‬
‫ہ‬ ‫ہ‬
‫کے متعلق‬ ‫دولت اور وسابل دولت ق‬ ‫ق‬
‫ے ہہییں ان قکو ق‬
‫ظ‬ ‫کے متعلق ظخود چتییش کر چچ ظک‬ ‫وہ زکو یۃ ق‬ ‫س‬ ‫اضولوں کو‬ ‫ظ‬
‫بتھی ضرور ل ییم ئکرنے جن کو ا ظہییں کے ال قاظ مییں بیہ ت غیتر ی ل اس ظطرح ییش کرنے ہہییں کہ‬
‫ظ‬ ‫ش‬ ‫چت‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ق‬ ‫پ‬ ‫ب‬ ‫ن‬
‫ہے کہ ہہر ظ شحص‬ ‫ہ‬ ‫ومیت کے متعلق ییہ طرب یق م ظیاسب پہییں‬ ‫چ‬ ‫ظ‬ ‫"دولت اور وسابل ق دولت‬ ‫ظظ‬
‫ہے خرچ کر‬ ‫ظ‬ ‫ش‬ ‫دولت کو چا ل کرکے ب ق‬ ‫ص‬ ‫ف‬
‫اتفرادی طورچتر ب ظجس ئ‬
‫جس طرح چچاش ہ‬ ‫ب‬ ‫اور‬
‫ظ‬ ‫یت ٹکرے ظ ظ‬ ‫سم کی چم ئ‬
‫سے وہ‬
‫ق‬ ‫ہرت حص ق‬ ‫ے ن ظاما حمہوریبت روسوییہبحکے مابحت ہ‬ ‫ے کہ سوساپنی ا چپن‬
‫ہ‬
‫ڈا ظلے ببلکہ ییہ ہہوبا چچا ہہین‬
‫صاجب‬
‫ق‬ ‫یں مع کرے اور چ ھر قہہر ت‬ ‫یت المال م ی ش‬
‫ح‬ ‫ہے دولت کو بپ ی ظ‬ ‫ل ہ‬ ‫چم ظیت لے کہ بجس شکا وہ ا ہ ق‬
‫چمیت کے دربجہ مع ی شت کو مفرر کرکے اس کی ضرورت اور یییت کے م ظا بق بباقاعدہ س ییم‬
‫ب‬ ‫ی‬‫ی‬
‫‪89‬‬
‫ہے اور بجس کی‬ ‫ل‬ ‫ظکردے یپ ہی طربق کار وہ ہے بجس تر بحمہوریہ روسو یہ روس اسظ وققت عام‬
‫ہ‬ ‫ی ظ‬ ‫ی‬ ‫چ‬ ‫ہ‬ ‫ی‬
‫ہے کہ اس کے اضول اسلما کے چلف پہییں ببلکہ عیین م ظاب بق ہہییں"۔‬ ‫ی ہ‬ ‫نسببت ہہمارا دغو‬
‫ی‬ ‫ظ‬
‫ظظ‬ ‫‪؎14‬‬
‫ظ‬ ‫ق‬
‫ا ببجمن قتر قی چ س ظ‬
‫یاد‬ ‫ی‬ ‫ت‬‫ب‬ ‫کی‬ ‫ین‬
‫ٹی ق‬‫ف‬ ‫ن‬ ‫ص‬‫م‬ ‫ید‬
‫ق ش‬ ‫ٹ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ٹ‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ن ظ‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫گ‬ ‫ب‬
‫؁‪ 1935‬مییں ظ شبحاد ظہیتر ڈاکتر جییو قنی ہوش ‪ ،‬ب ڈاکتر قم قلک را ج اب ظید ‪ ،‬چترمود ظسیینکگ چی یا‪ ،‬ڈاکتر دیین م با ظبیتر‬
‫ظ‬
‫کے قساتھ مل کر ظ ابجمن ترقی چنس ظید ظ ظمصن فیین ظ کی بتیق ی ظیاد ر ئھی وہہییں اس ظکا یمینی‬ ‫بہ‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ل‬ ‫نے ہہ ظیدوسق یانی ط‬
‫ق‬ ‫ٹ‬ ‫ظ‬
‫کے بتی ییاد چتر‬ ‫ئ‬ ‫ے اس‬ ‫نے دسیحط کن‬ ‫گرامی م ظصن شفیین‬ ‫ظ‬ ‫ک‬ ‫کے ظبامی‬ ‫ظ‬ ‫فییسیو ب ییار ہہوا بجس چ بتر ہہ ظیدوس یان ظ‬
‫نس ق ھیو مییں یظسی چ قتر ییم چح ید کی صدارت م ی ظیں ظہہونی۔ بجن‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫ل‬ ‫فر‬ ‫کات‬ ‫پہلی ق ق‬ ‫ظ‬ ‫؁‪ 1936‬مییں اس ابجمن کی چ‬
‫سرت ح قصو قض یبت‬ ‫ق‬ ‫یں‬ ‫م‬ ‫ان‬ ‫ا‬‫ی‬ ‫قدما‬ ‫تر‬ ‫ث‬ ‫خ‬ ‫ا‬‫ک‬ ‫بک‬ ‫جر‬ ‫ید‬ ‫نے ترقی چ س ظ‬ ‫ق‬ ‫ساغروں‬ ‫ق‬ ‫تڑے اد ی یوں اور ش‬
‫ب‬ ‫ج‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ل ذکر ہہیں وہ قترقی چ س ظ‬ ‫ب ق ب پب‬
‫ے ابجمن ترقی چنس ظید‬ ‫ے ظتھ‬ ‫یال ہہو گ ظن‬ ‫سےق ہہی ہہم ح ی ظ‬ ‫کے اظعاز ق‬ ‫ش‬ ‫بک‬ ‫ی‬ ‫جر‬ ‫ب‬ ‫ید‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫سےظ قا ب‬ ‫ظ‬
‫ے ال قاظ مییں یبوں بب ییان‬ ‫ے ابچلس مییں اس کی سرکت اور تفریتر کو شبحاد نے ا چپن‬ ‫مصن فیین کے چپہل‬
‫ئ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ہے۔‬ ‫ک ییا ظ ہ‬
‫ی‬ ‫ل‬ ‫ق‬
‫دن تفریتر کا مو فع دیبا بچانے ی ظکن ہہم قکام ییاب‬ ‫ے ہہی ئ ق‬ ‫ے قکہ ا ظپہییں چپہل‬ ‫"مول ظبا جسرت ظموہہانی مضر ت یھ‬ ‫ظظ‬
‫ق‬
‫ے ئگزرگ تریین ق اور‬ ‫دن ہم ا چپن‬ ‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ے ہی‬ ‫ہ‬ ‫پہ‬
‫ےظ چ ل‬ ‫ے ظھ‬ ‫ت‬ ‫ظ‬ ‫ہ‬
‫کا قتفرنس قکرنے کے کچجھ داو ی یچ بو اخر بچان ہی ق گن‬
‫ظ‬ ‫پ‬ ‫ظ‬
‫ق‬
‫ے ان کی ظ ظتفریتر‬
‫ظ‬
‫س‬
‫ے ا ق ق لن‬ ‫ے ھق‬ ‫ت‬ ‫یں چچا ہن‬ ‫ہ‬ ‫ق‬
‫پ‬
‫کردیب یا ظ ہ ی ق‬ ‫ین کو ببلوا کر مح قل کی روب ئق کو ج ظیم ظ‬ ‫ش‬ ‫بپہتریین مفرر ی‬
‫ن‬ ‫ص‬ ‫م‬ ‫پہ‬ ‫ت‬ ‫چ‬ ‫ہ‬
‫ے بو ترقی چنظس ید ظ فیین‬
‫بورے ات ظقاق چکا اظہارک ییا اپہوں ظ‬
‫مولبا نے اپنی فریتر قمییں ل ظ‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫کے ابچلس مییں ہونی ق‬ ‫دوسرے دن ساما ظ‬
‫ع‬
‫ق‬
‫نےطکہا‬ ‫ہہ ئ‬ ‫چ‬ ‫سے‬ ‫ق‬ ‫قاصد‬ ‫م‬ ‫کے‬ ‫ق‬
‫اس‬ ‫اور‬ ‫مے‬ ‫ا‬ ‫ب‬ ‫لن‬ ‫ق‬ ‫ا‬ ‫کے‬ ‫بک‬ ‫کی ب ی‬
‫جر‬
‫ے اسے سامراجییوں اور لم‬ ‫ب‬ ‫ازادی کی بجریبک ئکی تر بحمانی کرنی چچا ین‬ ‫ظ‬ ‫کہ ظہہمارے ادب کو قومی ظ ظ‬
‫ے اس مییں غواما ظ قکے د قکاھ سکھ‪ ،‬ان ظکی ظ بپہقتریین‬ ‫فت کر ظنی چچا ئ ہہین‬ ‫لے ظ امیتروں کی محال ظ‬ ‫نے وا ق‬ ‫ش‬ ‫ظکر‬
‫قوت مییں اصافہ ہہو ظاور‬ ‫جس سے ان ظکی ات ظقلبنی ظ ظ‬ ‫ےب‬ ‫ہ‬
‫اس طرح اظہار کربا چچا ہین‬ ‫اورظتظت م ہیاوں چکا ظ ظ ق‬ ‫خواہ قسوں‬ ‫ہ‬
‫چ‬ ‫چ‬ ‫یاب ئبب یا قک ی ق‬ ‫س‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫م‬
‫یالت کو ھ چیانے‬ ‫ےح ی ظ‬ ‫یں مولبا ظنے ا چپظن‬ ‫وہ میحد اورص ظم ہوکر ا ظپنی ات لبنی بچدوبچہد کو ظکام ی ق‬
‫یں اقپہوں ظنے کہا ئکہ محض‬ ‫ق‬ ‫ے ہہی پت یہ‬ ‫کے قابل بو ظتھ‬ ‫ے ش‬ ‫کی بب یا چتر اس چتر چتردہ ڈا لن‬ ‫حت ظ‬ ‫قیبا قکسی م ل ظ‬
‫سے‬ ‫ے ا ظق‬ ‫ئ‬ ‫ہ‬
‫ہ‬ ‫ق‬
‫بب کو سو شلزما اور مییوتزما کی ھی ظ فیین کرنی چچا ین‬ ‫ل‬‫ب‬ ‫ب‬ ‫ک‬ ‫س‬ ‫ہے بچدیبد اد ی ظ‬ ‫قی ظہییں ہ ظ‬ ‫پ‬ ‫یدی کا‬ ‫ظترقی چ س ظ‬
‫ئ‬ ‫ظ‬ ‫ق ن‬
‫تزما مییں قط عی کونی ن ظصاد‬ ‫مق ق ظ‬ ‫ییو‬ ‫ک‬ ‫اور‬ ‫لما‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫کہ‬ ‫کی‬ ‫شش‬ ‫کو‬ ‫ظ‬ ‫کی‬ ‫نے‬ ‫ھا‬
‫ئ یس ب‬ ‫ج‬ ‫مب‬ ‫س‬ ‫یہ‬ ‫نے‬ ‫ہوں‬ ‫ظ‬ ‫پ‬ ‫ا‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫چ ی‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫چا‬ ‫با‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫نی‬ ‫ب‬ ‫ا ظت قل‬
‫ہے کہ ساری دب ییا‬ ‫ہوری نصب العظیین اس کا می قاضی ظ ہ‬ ‫ش‬ ‫م‬ ‫ح‬ ‫بک ا لمیظ‬ ‫ق‬ ‫ان قکے ظ ظتزد ی‬ ‫ش‬ ‫ہے‬ ‫پہییں س ہ‬
‫سب سے‬ ‫بدگی کی ہہ ئ‬ ‫نے کیظ کوشش کرییںظپچخوبکہ ظموبخودہ دور م ی قیں یز ظ‬ ‫مییں م ظ لمان‪ ،‬اشتراکی ن ظاما قایم ئکر ق ق‬
‫ے۔‬ ‫یالت کی ترو بج قکربا چچا ین‬ ‫یں ح ی ئ‬ ‫ے ترقی چنس ید ادپبیوں کو ا ہ ی ظ‬ ‫ی‬ ‫ہے اس لن‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫ضرورت یپ ظہی‬ ‫ظ‬ ‫بتڑ ی‬
‫ق‬ ‫ش‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫اس فسم کی ببات ک ہی‬ ‫ے ہہونے کچجھ ظ ظ‬ ‫ہے اور ہہیسن‬ ‫ی ہ‬ ‫یا‬ ‫ک‬ ‫ذکر‬ ‫کا‬ ‫ساغری‬ ‫نی‬ ‫پ‬ ‫چ‬
‫ق‬ ‫ا‬ ‫خود‬ ‫نے‬ ‫با‬ ‫مول‬ ‫یں‬ ‫ا ی‬
‫م‬ ‫خر‬
‫ئ‬ ‫چت‬
‫ے ییہ نصب العیین ییش‬ ‫ق‬ ‫جب مییں ادپبیوں کے ش سا من‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫گے۔۔۔ ب ظ‬ ‫ق‬
‫پ‬
‫ے ہوں ظ‬ ‫کہ۔۔۔۔۔"اپ سو چجن‬
‫ہوں قبو ظخود قاس تر عم‬
‫ساغری مییں ا س فسم کی ظکونی‬ ‫ظ‬ ‫تری‬ ‫م‬
‫ہ ہ ئ ی‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫ہر‬ ‫ظ‬ ‫طا‬ ‫ا۔‬ ‫ب‬ ‫کر‬
‫ق‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ییوں‬ ‫چل یی بک‬ ‫ل‬ ‫کررہہا ہ ظ‬
‫ہ‬ ‫ہ‬‫ہ‬ ‫ظ‬
‫اس طرف بوبجہ کرنی چظچا ظ ین‬ ‫ہ‬ ‫پ‬
‫ے اپ شکی زبدگی کے ظزیبادہ اہم ئاور ظسیبخ ییدہ‬ ‫کن ا چ کو ئ‬ ‫نی۔ ظ‬ ‫بات ہییں ہو ق‬ ‫ب ساب‬
‫ئ‬
‫ے چاص‬ ‫ے اور مییں ا قس کاتفر ظنس مییں سریبک ہہونے کے لن‬ ‫طرف بوبجہ کربا چچا ہہین‬ ‫ئ‬ ‫کی‬ ‫ل‬ ‫م‬
‫بت کا اعلن کروں بشخو اپ‬ ‫کے ان م قاصد کی طرقداری اور حما ی ظ‬ ‫ے ظایبا ہ قہوں کہ اپ ظ‬ ‫طور ق چ ظترح اشی لن‬
‫ساغری‬
‫ظ ئ‬ ‫یں ہہییں‬ ‫حض دل بپہلنے ظکی چچتز ی ق‬
‫ی‬ ‫ے گاظ وہ م ظ‬ ‫کاما پہییں ظ چچل‬ ‫ق‬ ‫کی ب یلیق ہہو چترانی ببابوں سے ق‬
‫ے‬‫اپ کو میتری ت قل یید کرنے کی ضرورت پہییں ببلکہ مییں خود اس فسم کے پن‬ ‫ے مییں ق ظ‬ ‫کے معا مل‬ ‫ق ق‬
‫ی‬ ‫ح‬ ‫ب‬ ‫ظ‬
‫ظ ق‬ ‫گا۔۔۔۔ ظ" ق‬ ‫اپ کی چبوری طرح مدد کروں ظ‬ ‫قق‬
‫ادب کی یل ق م ی ظیں‬
‫ظ‬ ‫ترقی چنس ید ظ‬
‫بورے اترے‬ ‫ب‬ ‫کےبت چ ب‬ ‫ے ئقول‬ ‫نی کی ت ظفریتر ق سے ظ ہہمارا دل بتڑھا اور مولبا ا چپن‬ ‫ش‬ ‫سرت موہہا‬ ‫جب ا ب قب‬ ‫مولبا ج‬ ‫ظ‬
‫جب ھی ا من چتر وہ‬ ‫ج‬ ‫ک‬ ‫نے‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫صدر‬ ‫کے‬ ‫اس‬ ‫ت‬ ‫سر‬ ‫با‬ ‫مول‬ ‫بو‬ ‫نی‬ ‫ب‬
‫پ‬ ‫ساخ‬ ‫کی‬ ‫ق‬ ‫من‬ ‫ج‬ ‫کا ظپ ی ب‬
‫یں‬ ‫م‬ ‫چیور‬
‫ھ‬ ‫ب ظق‬ ‫چ‬
‫ج‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ت‬
‫ے‬‫قاب سے ظڈ ک‬ ‫ترست ق چہرے مذ ہہب کی ت ق ق‬ ‫کے کروہ ر بجعت چ ئ‬ ‫ے جن ق‬ ‫نے ھ‬ ‫ضراتقتحملہ ق کر ظ‬ ‫ح ق‬
‫ے قاور اپہییں‬ ‫ے ہہر وقت سیتظبہتشچتر ہہوقبچانے تھ‬ ‫تیموہہانی ظبجریبک کے لن‬ ‫ل‬ ‫سر‬ ‫ق‬ ‫قج‬ ‫با‬ ‫مول‬ ‫بو‬ ‫ے‬
‫ھ‬ ‫نے‬ ‫ہہو ق‬
‫صور کے‬ ‫حدہ محاذ کے ن ظ‬ ‫طرح ادب ظمییں ھی می ش‬ ‫ب‬ ‫ے ظ کن مولبا قس ییاست کی ق‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫ے ھ‬ ‫ت‬ ‫خواب ق د یپن‬ ‫ما ظظبہ بوڑ ق‬
‫ب‬
‫س‬ ‫ظ‬ ‫ت‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬
‫شٹ یبا کمییونشٹ‬ ‫ادبنی بجر یقتبک م یببجیں حض سو ل ظ‬
‫م‬
‫ہہمارے ح ییال مییں تر ققی چن قس ید ئ‬ ‫ق ئ‬ ‫ظشحت مییفر ظ ق ھ‬
‫ے‬
‫سے وطنی ازادی اور‬ ‫ے ق بچگہ ھی ا ظپمن ان ظ‬ ‫کے ل شن‬ ‫ت‬ ‫بپہییں ببلکہ مخ ی قلف غ قاکبد ظ کے لوگوں‬
‫ے ئمییں‬ ‫یت مییں ظ ہ ی ظیں۔ مول قبا اس معا مل‬ ‫ق‬ ‫ش‬ ‫نی ھی اشترا ئک ی‬ ‫ظال ب قبہ کر‬ ‫ق‬ ‫ے کا م‬ ‫بت مقییں تیفیین ر ھ ظن‬ ‫ظح قمہور ی‬
‫ے ییہ‬ ‫ے اشتراکی ہہوبا ضروری تھا ہہمارے لن‬ ‫ے قان کے تزدیبک ترقی چنس ید کے لن‬ ‫ظ‬ ‫ت‬
‫ا ظپنہا چنس ید ظ ھ‬ ‫ظ‬
‫ضروری پہییں ھا"۔ ‪؎15‬‬ ‫ت‬
‫‪90‬‬
‫مولنا حسرت کے آخری ایام‬
‫‪ 1946‬میں حسرت بیک وقت یوپی اسمبلی اور مکرز کققی‬
‫دستور ساز اسققمبلی کققے رکققن منتخققب ےےوہئے۔دونققوں جگققہ اپنققی‬
‫فطری اوزاد پسندی سے عققوامی مفقادات کققی دفققاع کرتققے رےےہےےے۔‬
‫‪9‬دسقققمبر ‪ 1946‬کقققو ہندوسقققتان کقققی دسقققتور سقققاز اسقققمبلی‬
‫)پارلیمنٹ(کققی پہلققی نشسققت ےےوہئی۔تققو مسققلم لیققگ نققے اس کققا‬
‫بائیکاٹ کیا۔قائد اعظم محمد علی جناح کا مطالبہ تھا کہ پاکستان‬
‫کے لیے الگ دستور سقاز اسققمبلی قققائم کققی جقائے۔حسقرت اس‬
‫وا تققو‬‫فیصققلے کققے خلف تھققے۔جققب ملققک کققا تقسققیم کققا اعلن ےے ہ‬
‫حسرت مسلم لیگ سے کنارہ کش ہوئے۔حسرت ملک کی تقسیم‬
‫نہیں چاہتے تھے بلکہ مسلمانوں کے حق وق کقی تحفقظ کقے لیقے‬
‫ایسا دستور چققاہتے تھققے جققس میققں مسققلم اکققثریت کققے صققوبے‬
‫وںےےحسققرت کققی یققہ اورزو پققوری نققہ‬ ‫اندرونی طور پر خود مختار ےےہ ۔‬
‫ہوسکی اور ملک دولخت ہوا۔‪؎16‬‬
‫ق لک ئ‬
‫حسرت نے اپنی زندگی میققں‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ق‬
‫ہے ۔ حسرت‬ ‫متعدد تیرہ حج کئے۔کہییں دس‪ ،‬گ ییارہ اور بیترہ بک کی تعداد ھی گنی ہ‬
‫کی طبیعت ‪ 1949‬سے خراب ےےہونےےے لگققی ان ےےہوں نققےےے اوخققری بققار‬
‫‪ 1951‬میں سفر حج کیا اسی سفر کے دوران انہیں اپنی زنققدگی‬
‫کے اختتام کا احساس ہوا۔مولنققا جمققال احمققد فرنگققی جققو سققفر‬
‫میں حسرت کے ساتھ تھے لکھتے ہیں "مدینہ طیبققہ میققں دو تیققن‬
‫دفعہ کی حاضری کے بعد انہوں نے واپسی کا قصد ظققاہر کیققا۔اور‬
‫مجھ سے فرمایا کققہ وہ کراچققی اور ل ہےےور ہےےوتےےے ےےوہئے لکھنوپہنققچ‬
‫جائیں گے۔ کیونکہ اب انہیں زیادہ دن جینا نہیں۔ حققج سققے واپسققی‬
‫پر حسرت کققانپور گئققے اور و ےےہاں سققےےے فققورا" لکھنققو چلققے گئققے۔‬
‫زندگی کے اخری ایام انہوں نے اپنے مرشد کے اوستانے پققر یعنققی‬
‫فرنگی محل میں گققزارے۔‪ 13‬مئققی ‪ 1951‬اتققوار کققے دن اس دار‬
‫فانی سے کوچ کر گئے۔بعد نماز مغرب نمازجنققازہ فرنگققی محققل‬
‫کے قبرستان میں ادا کی گئی اور وہیں دفن ہوئے۔ "‬
‫‪؎17‬‬
‫اقتصادی نظام میں مولنا حسرت کی تعلیمات کا‬
‫خلصہ‬
‫الغرض مولنا حسرت موہانی کی تعلیمققات کققا خلصققہ اس‬
‫طرح ہے کہ مولنا کا استدلل عملی نکتہ نگققاہ سققے شققروع ہوتققا‬
‫ہے کہ سماجی زندگی کی اقتصادی ناہمواری بڑی حد تک قدرتی‬
‫ہے اور قرآن اس کو تسلیم کرتا ہے۔قققرآن نققے اس بققات پققر زور‬
‫دے کر پابندیاں اور میزان قائم کئے ہیں ہر فرد کو روز گار کققا‬
‫پورا حققق ےےہےےے اور معاشققرے سققے اس کققی سققفارش کرنققا عیققن‬

‫‪91‬‬
‫اقتصای عدل و انصاف کے مترادف ہے۔ معاشققی مسققاوات جققس‬
‫پر قرآن نے زور دیا ہے یہ ہے کہ سب کققو روز گققار کققے مواقققع‬
‫فراہم کئے جائیں۔ اس بناء پر دولت کی اجققارہ داری اور اس کققا‬
‫چند ہاتھو ں میں ارتکاز قانونا ل ناجائز قرار دیا گیا ہے۔ زکویۃ کققو‬
‫ایک ادارے کی شکل دینا اس امر کی اہمیت پر دللققت کرتققا ےےہےےے‬
‫کہ کسی کو یہ حق نہیں پہنچتقا کقہ وہ اپنقی اور اپنقے کنبقے کقی‬
‫ضروریات سے زیادہ مال جمع کرے۔وہ اپنی ضروریات سققے زیققادہ‬
‫جو منافع جمع کرتا یا جائیداد بناتا ےےہےےے اس سققے معاشققرے کققی‬
‫فلح وبہبود کےلئے خزانہ عامرہ کی نظر کر دینا چاہیے۔‬

‫فصل سوم‬
‫علمہ اقبال کے نزدیک جدید اقتصادی نظام‬
‫اشتراکیت‬
‫علمہ اقبال تعارف اور اقتصادی فکر‬
‫نظریہ پاکستان کے خالق ڈاکٹر سر علمققہ محمققد اقبققال ‪9‬‬
‫نومبر ‪ 1877‬؁ کو سیالکوٹ کے شہرشیخ نور محمد کے گھر پیدا‬
‫ہوئے تھے ‪ ،‬جو کہ کشمیری النسل ‪،‬اٹھققارہویں صققدی کققے آخققر یققا‬
‫انیسویں صدی کے اوائبل میں کشمیر سے ہجرت کر کے‬
‫سیالکوٹ آے۔ شیخ نور محمققد کشققمیر کققے سققپرو برہمنققوں کققے‬

‫‪92‬‬
‫نسل سے تھے۔مغل بادشاہ اورنگزیب عالمگیر کققے ع ےےدہ میققں ان‬
‫کققے جققد نققے اسققلم قبققول کیققا۔بزرگققوں نققے کشققمیر چھققوڑا تققو‬
‫سیالکوٹ آ بسے۔ شیخ نور محمد کے والد شیخ محمد رفیققق نققے‬
‫محلہ کھٹیکاں میں ایک مکان آباد کیا۔بعد میں شققیخ محمققد رفیققق‬
‫اس جگہ کو چھوڑ کر بازار چوڑیگراں آ بسے۔ جو اب اقبال بققازار‬
‫کہلتاہے ۔ شیخ نور محمد دیندار انسان تھے۔سققیالکوٹ کققے علمققا‬
‫کے سققاتھ دوسققتانہ مراسققم تھققے۔اقبققال جققب پڑھققائی کققے عمققر‬
‫کوپہنچے تونور محمد ان کو محلہ شوالہ کے مسققجد کققے مقدرس‬
‫‪؎1‬‬ ‫مولنا ابو عبداللہ غلم حسن کے پاس لے گئے۔‬
‫ابتدائی تعلیم‬
‫تقریبا لسال بھر اسی مدرسے میں پڑھتے رہے کہ ایققک دن‬
‫شہ ر کے مشہور عالم دین مولنققا میققر حسققن اسققی مسققجد کققے‬
‫مدرسے آئے وہاں پر انکی نظر اقبال پر پڑی اسکے تیققز نظققروں‬
‫نے اقبال میں سعادت اور عظمت پائی پوچھا کہ یہ کققس کقا بچقہ‬
‫ہے۔ معلوم ہوا کہ یہ انکے قریبی دوست شیخ نور محمد کے بیٹققے‬
‫ہیں تو وہاں سے اٹھ کر انکے گھر چلے گئے۔ مولنا نے زور دیکر‬
‫سمجھایا کہ اپنے بیٹے کو مدرسے تک محدود نہ کرو اس کے لئے‬
‫یہ جدید تعلیم بھی ضروری ہے۔ انکواپنے مکتب میں بھققی جققانے‬
‫کی خواہش کا اظہار کیا جققو کققہ شققیخ نققور محمققد کققے گھققر کققے‬
‫قریب کوچہ میر حسام الدین میں تھا کہ وہ ان کو پڑھققائے شققیخ‬
‫نور محمد کچھ دن تک ان کو ٹالتے ر ہے مگر جب اصرار بڑھا تو‬
‫اقبال کو میر حسن کے حوالے کرنا پڑا۔ یہاں اقبال تین سال تک‬
‫اردو‪ ،‬فارسققی۔ عربققی ادب پڑھتققے رےےہےےے۔ اسققی دوران سققید میققر‬
‫حسن نے اسکاچ مشن سکول میں پڑھانا شققروع کیققا‪ ،‬سققید میققر‬
‫حسن کا شمار ان استادوں میں تھا جققو اپنققی زنققدگی کققا مقصققد‬
‫پڑھنا‪ ،‬پڑھانا بنا لیتے ہیں‪ ،‬اور شاگرد ان کو مرشد مقانتے۔ حقافظ‬
‫قرآن تھے۔ ‪؎2‬‬

‫شاعری کی ابتدا‬
‫اسی زمانہ میں اقبال نے باقاعدہ شاعری کا آغاز کیققا‪ ،‬یققوں‬
‫تو شاعری سے انکی نسبت بچپن سقے تھقی مگققر اس کقے لیقے‬
‫سنجیدہ نہیں تھے کوئی بھی چیز محفوظ نہیں کرتققے تھققے۔لیکققن‬

‫‪93‬‬
‫اب وہ باقاعدہ ایک مسققتند شققاعر کققے طققور پققر سققنجیدگی سققے‬
‫اشعار کہنے لگے۔اس وقت پققورے برصققغیر میققں داغ کققا طققوطی‬
‫بولتا تھا۔اردو پر داغ کی گرفت انتہاکی تھی اور اسی گرفت کققی‬
‫خواہش میں اقبال نے شاعری میں داغ کققی شققاگردی کققی۔مگققر‬
‫واےےکققہ اس‬
‫داغ کو اقبال کی خدا داد صلحیت کا جلد ےےہی انققدازہےے ےےہ ۔‬
‫ہیرے کو تراشا نہیں جا سکتا اس کو یہ کہہ کر فارغ کیا کہ اصلح‬
‫کی گنجائش نہیں ۔ استاد اور شاگرد دونوں اس مختصر ملقققات‬
‫کو یقاد کرتقے رےےہےےے۔اقبقال کقو س اری عمقر داغ کقی اس مختصقر‬
‫شاگردی پر فخر رہا اور داغ کو بھی ۔ ‪؎3‬‬
‫حصول علم کے لیے انگلینڈ کا سفر‬
‫سر ارنلڈ نے اقبال میں جو علمی تحقیق کققا مققادہ ڈال تھققا‬
‫اس نے اور اسکی دوستی نے انہیققں انگلسققتان جققانے پققر مجبققور‬
‫کیا۔ یکم اکتوبر ‪ 1905‬کو یورپ جانے کے لیے رخصت لی۔ اقبال‬
‫اعلی تعلیم کے لئے کینیڈا یا امریکہ جانا چاہتے تھققے۔ مگققر اقبققال‬
‫کے مربی و مشفق استاد سققر ارنلققڈ تھققامس نققے انگلسققتان اور‬
‫جرمنی کا مشورہ دیا۔‪ 25‬دسمبر ‪ 1905‬کو اقبال انگلستان چلققے‬
‫گئققے ۔ ان چققار سققالوں میققں کققالجوں میققں تققدریس کققے دوران‬
‫مندرجہ ذیل تراجم اور تالیفات مرتب کیں۔‬
‫‪1‬۔نظریققہ توحیققد مطلققق‪،‬پیققش کققردہ شققیخ عبققدلکریم الجیلققی‬
‫)انگریزی(‬
‫‪2‬۔اسقققٹبس )‪(Stubs‬کقققی تصقققنیف ‪ ،‬ارلقققی پلنچنٹقققس )‪Early‬‬
‫‪(Plantagenets‬۔ کی اردو میں تلخیص و ترجمہ‬
‫‪3‬۔واکر کی تصنیف ‪،‬پلیٹیکل اکانومی)‪(Political Economi‬۔ کی‬
‫اردو میں تلخیص و ترجمہ ‪؎4‬‬
‫‪4‬۔ علم ال قتصاد‬
‫پہلی تین تحریریں انگریزی سے اردو تلخیص و ترجمققہ ہیققں‬
‫اور اوخری کتاب اقبال نے خود معاشیات پر لکھی ۔ اور ‪ 1908‬تک‬
‫اقبققال انگلسققتان اور جرمنققی میققں رےےہےےے۔انگلسققتان میققں کیمققبرج‬
‫یونیورسٹی سے فلسفہ کی تعلیققم حاصققل کققی۔ اس زمققانے میققں‬
‫اقبال کو انگلستان کے بعض بڑے بققڑے عققالموں سققے ملنققے اور‬
‫انکے خیالت سننے کققا موقققع مل۔ شققیخ عبققدالقادر بیرسققٹر اٹ ل‬
‫سابق مدیر مخزن لکھتے ہیں"اقبال کققو اپنققی علمققی منققازل طققے‬
‫کرنے اچھے اچھے رہبر ملے اور بڑے بڑے علماسققے سققابقہ پققڑا‬
‫ان لوگوں میں کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر میک ٹیگرٹ ‪/‬بققراون‬
‫نکلسن اور سققارلی قابققل ذکققر ہیققں۔پروفیسرنکلسققن تققو ہمققارے‬
‫‪94‬‬
‫شکریہ کے خاص طور پر مستحق ہیں کیونکہ انہوں نے اقبال کے‬
‫مشہور فارسی نظم اسرار خودی کا انگریزی ترجمہ کرکے اور‬
‫اس پر دیباچہ اور حواشی لکھ کر یورپ و امریکہ کو اقبققال سققے‬
‫روشناس کیا۔ " ‪؎5‬‬
‫جدیممد اقتصممادی نظممام کمما اقبممال کممے شخصممیت‬
‫پراثر‬
‫ہم اقبققال کققے وسققیع خیققالت اور اس کققے اثققرات کققا اس‬
‫مختصر باب میں احاطہ نہیں کر سکتے۔ جیسا کہ ہمارے مقالے کا‬
‫تعلق ہے برصغیر کے مسلم مفکریققن اور جدیققد اقتصققادی نظققام‬
‫کے اثرات کا اقبال کے شخصیت پر کیا ہیں اسکا جققائزہ لینققا ےےہےےے۔‬
‫اشراکیت اوغاز میں ایک اقتصادی یا معاشققی نظریققے اور حصققول‬
‫حقوق کے لیے لئحہ عمل تھا۔لیکققن کققارل مققارکس ‪ ،‬اینگلققز اور‬
‫انکے رفقا کار نے اس کی تعمیر مضبوط کرنے کے لیے حیققات و‬
‫کایینات کی ایک ہمہ گیر نظریاتی اساس قائم کققر دی۔ جققس نققے‬
‫اشتراکیوں کے نزدیک تمام ادیان اور فلسفوں کی جگققہ لققے لققی۔‬
‫اشتراکیت نے تاریخ عالم پر نظر ڈال کر اس کا ثبققوت پیققش کیققا‬
‫کققہ مققذہبی اسققتبداد نققے ہمیشققہ سیاسققی اور معاشققی ظلققم کققی‬
‫معاونت کی ہے۔جیسا کہ پچھلے باب میں اس کققو واضققح کیققا گیققا‬
‫ہے۔اشتراکیوں کو اپنققے پروگققرام پققر عمققل دراومققد کرنققے کققا پہل‬
‫واےےروس دنیققا کققے‬ ‫کامیاب موقع روس میں لینن کی قیادت میں ےےہ ۔‬
‫کل رقبے کا پانچواں حصہ پر ۔اس وسیع خطے میققں انسققانی اور‬
‫مادی وسائل کی کوئی کمققی نہیققں تھققی۔ اس وسققیع خطققے میقں‬
‫ر‬
‫جب اس پروگرام پققر عمققل دراومققد شققروع ےےہوا توزنققدگی کققےےے ےے ہ‬
‫شعبے میں نئے نئے تجربے ہونے لگے ۔ ہر شعبہ نئے سانچے میققں‬
‫ڈالنققے کققے بنققا پققر اپنققے حققالت میققں نققہ ر ےےےہ۔اےےدنیققا کققے ےےےرہ‬
‫سیاستدان‪،‬مفکقر اور ےےہر س وچنےےے وال اس نئقے تجربقے کقا بغ ور‬
‫جائزہ لینے پر مجبور ہوا۔اسکے موافققق یققا مخققالف رائققے بنققا لققی۔‬
‫م‬‫انقلب روس بیسویں صدی کا ےےہی نہےےیققں انسققانی تاریققخ کققے ا ےے ہ‬
‫ترین کا واقعہ تھا۔‬
‫اقبال اورنظام ر اشتراکیت‬
‫اقبال اور اشتراکیت کے متعلق اب تک بہت کچھ لکھا گیققا‬
‫ہے۔کچھ حمایت میں کچھ مخالفت میں۔ایک طبقے نے اقبققال کققو‬
‫اشتراکی قرار دیاہے تو دوسرا طبقہ اسے اشتراکی قرار دینے کا‬
‫سخت مخالف ہے۔اشتراکیت مخالف طبقہ اسققے اسققلمی شققاعر‬
‫قرار دینے کی بھر پور کوشش کرتا ہے۔اقبال اور اشققتراکیت کققے‬

‫‪95‬‬
‫متعلق اب تک جو کچھ لکھا گیا ہے وہ زیادہ ردعمل کققے طققور پققر‬
‫لکھا گیا ہے۔ جققس میققں سققنجیدگی اور گہرائققی فکققر کققے بجققائے‬
‫جذب اتیت کا عنصرزیادہ ہے۔جو اقبال کا دفاع کرنققے میققں ایققک حققد‬
‫تک ناکام رہے ہیں۔اس لیے کہ اقبال کے مذہبی فکر کو ایک حربے‬
‫کے طور پر استعمال کرکے انہیں اشتراکیت سے دور رکھنے کی‬
‫کوشش کی گئی ہے۔ انہوں نے اقبال کی فکر کا غالب حصققہ جققو‬
‫شاعر انسانیت کا ہے جس میں انسانی دردمندی مکمل طور پققر‬
‫حاوی ہے کو یکسر نظر انداز کیا ہے‪،‬اقبال بنیادی طور پر انسققان‬
‫دوست شاعر تھے‪،‬اور چاہتے تھے کہ بنی نققوع انسققان ان دکھققوں‬
‫ار جقا بجققا انکققی شققاعری میقں‬‫سے نجات پائے‪ ،‬ان باتوں کا اظ ےے ہ‬
‫نظر اوتا ہے‪،‬وہ ایک انقلبی شاعر تھے‪،‬ان کا نظریہ شاعری حرکی‬
‫ہے۔اور وہ جدلیت کو پسند کرتے تھققے۔اقبققال پققر اشققتراکیت کققے‬
‫سےق اخذ کیا جا سکتا ہے۔‬ ‫اثرات کا جائزہ انکی تحریروں ق‬
‫ظ‬
‫تع‬ ‫ش‬ ‫ق‬
‫علماہ ا ق بیال کا ا ش قترا کییت سے ا ظہار ل قی‬
‫ل‬
‫اقبال نے پہلی دفعہ اشتراکیت کققے متعلققق اپنققی سققوچ کققو‬
‫قلمبند کیا ہے وہ ‪ 23‬جون ‪ 1923‬کو روزنامہ زمیندار میققں انقلب‬
‫کے سابق اڈیٹر شمس الدین حسن کے مضققمون کققا جققواب ےےہےےے۔‬
‫شمس الدین حسن نے اس مضمون میں یہ موقف اختیار کیا تھا‬
‫کہ اشتراکیت کققی حمققایت کققوئی جققرم نہیققں کیققونکہ اقبققال بھققی‬
‫اشتراکی خیالت رکھتے ہیں انہوں نے لکھا۔‬
‫"بالشویک نظام حکومت کارل مارکس کے فلسفہ سیاسققت‬
‫م زبقان‬ ‫کا لب لباب ہے۔اور کارل مارکس کے فلسفے کو عقام ف ےے ہ‬
‫میں سوشلزم اور کمیونزم کہا جاتا ہے۔ان حالت میں اگققر کققوئی‬
‫تھوڑی سی عقل کا مالک بھی سر محمققد اقبققال کققی "حضققر راہ‬
‫"اور "پیام مشرق "کققو بغققور دیکھققے تققو وہ فققوراا لاس نققتیجے پققر‬
‫پہنچققے گققا کققہ علمققہ اقبققال یقینققا ل ایققک اشققتراکی قےےہی نہےےی ظققں بلکققہ‬
‫مبلغ اعلی بھی ہیں۔ ظ " چب ییاما م ظ ش ظسرق " مییں "فسمت باماہ ق‬
‫سرماییہ‬ ‫اشتراکیت ظکے ئ ق‬
‫ق‬ ‫ک‬ ‫ل‬ ‫ظ‬ ‫ن‬ ‫ق‬ ‫ظ‬
‫یوان سے کو چمنضر شی مییں ھییں ہہییں ان سے طع‬ ‫ظ‬ ‫کے غ‬
‫ظ‬ ‫"اور "بوانے ظوقت"‬ ‫ظ ظدارو مزدور ظ‬
‫م‬
‫غزل کا لع ملخ طہ ہہو‪:‬‬ ‫ش‬ ‫ن ظرکرکے ص فچہ ‪ 156‬ظ ظکی‬
‫ش‬ ‫ق‬
‫بیتر و س ظیاں و ج بیجر و سمشیتر ما ارزو شدست‬
‫دست ق‬ ‫س‬
‫ظ ئ‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫بامن م ییاکہ م لک س بثیترما ارزو ش‬ ‫ب ش‬
‫ہے کہ علماہ اق بیال ایبک اپنہانی‬ ‫س‬ ‫ہ‬ ‫س‬
‫خودگی مییں کسی کو ق ہو ک یا ہ‬ ‫ب‬
‫ے اسعار ش قکی مو ظ‬ ‫ک ییا ا ظینس‬ ‫ظ‬
‫ے والے اشتراکی ہییں ہہییں "اس مضمون کے لکھنے کی وجہ یہ‬ ‫پ‬ ‫ح ییالت ر کھن‬
‫تھی کہ ان دنقوں ل ےےہور کققےےے ایققک عقدالت میقں ایقڈورڈ کالقج کققے‬
‫پروفیسر غلم حسین پققر ‪ 1923‬میققں بالشققوک سققازش کققا ایققک‬
‫ققاےےپروفیسققر صققاحب ملزمققت چھققوڑ کققر رسققالہ‬ ‫مقدمہ چل ر ےےہا تھ ۔‬
‫انقلب کی پالیسیوں میں شریک رہے تھے۔رسالہ انقلب ےےہی کققےےے‬
‫‪96‬‬
‫ققدین‬ ‫ققمس ال ق‬ ‫ققدیر ش ق‬ ‫ایک سرگرم اشتراکی اور انقلب ظکے سابق م ظ‬
‫حسن ن ظے مضمون لکھا تھا۔ "زم ی شی ظیدار اح ب ظیار"مییں مذکورہ ظببال مضمونئ چچھ چیا ئبو علماہ اق بیال‬
‫یں علماہ‬ ‫ے ظہہ ی ق‬ ‫ے گن‬ ‫صوب کن‬ ‫اپ سے ظ "ببالسو ی قبک ح یظپیالت" من ق‬ ‫کو کسی نے ظ اظطلع دی کہ ظ‬
‫ت‬ ‫ع‬
‫مذکورہ ببال م مون ظیہ گزرا ھا اور ا ہییں اس وقت شبک م ظلوما یہ ھا کہ مبجھ‬ ‫ق‬ ‫ت‬ ‫ض‬ ‫موضوف کی ن ظر ظ سے‬
‫ظ‬ ‫ش‬
‫نے والے کون ہہییں بپم ظہرچال "بباظلسویبک ح ییالت " سے‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫کر‬ ‫ظ‬ ‫صوب‬ ‫ن‬ ‫م‬
‫ظ‬ ‫یالت‬ ‫ئ‬ ‫ی‬ ‫ح‬ ‫بک‬ ‫ی‬ ‫سو‬ ‫سے ببال‬
‫ظ‬
‫ے ا ظہوں نے شببل باچیتر اشی روز ذ ی ل کا ل مون مدیتر "زم یی یدار " کے‬ ‫ض‬ ‫م‬ ‫ص‬ ‫ق‬ ‫ب‬ ‫ئ‬ ‫پ‬ ‫ظاعلن بترات کے لن‬
‫‪؎6‬‬ ‫ے روز اح بیار مییں سا تع ہہوا "۔‬ ‫باما ارسال ک ییا بخو ا گل‬
‫لک ق‬ ‫ظ‬ ‫ق‬
‫ظ‬ ‫یں‪:‬‬ ‫ہ‬
‫ھ ی‬ ‫ہ‬ ‫ے‬‫ن‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫خط‬ ‫نی‬ ‫خوا‬ ‫ب‬ ‫کا‬ ‫یال‬ ‫علماہ ا ظ ب‬
‫ق‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ت‬
‫اور‬ ‫کے اح بیار م ی مظیں یبا کسی ئ‬ ‫ہے یکہ ک اسی صاجب نے شاپ ظ‬ ‫دوست قسے سظپیا ہ‬ ‫ت‬ ‫بک ظ‬ ‫م یظیں نے ا ب ھی ا ی ظ‬
‫ب‬
‫ے‬‫سوب کن‬ ‫تری طرف ببالسویبک ظح ییالت ی ظ‬ ‫ئ‬ ‫بک ہییں د ظتکھا (م ی‬ ‫ظ‬ ‫ک‬
‫اح بیار م ی ظیں )م ی شیں نے ظاح بیار ا ھی‬
‫نے کے‬ ‫ب ق‬ ‫چا‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫چارج‬ ‫سے‬ ‫لما‬ ‫س‬ ‫ا‬ ‫ترہ‬ ‫دا‬ ‫بک‬ ‫یظ‬ ‫تزد‬ ‫ترے‬ ‫یق‬ ‫م‬ ‫یا‬ ‫ھ‬ ‫ر‬ ‫ق‬ ‫ہہ ی قیں چخوبکہ ببالسویبک ح ییالت‬
‫ہے‬ ‫غ‬
‫ہے۔ مییں م ق قلمان ہوں میترا ق ییدہ ق ہ‬ ‫ہ‬ ‫س‬ ‫ظ‬
‫ے اس مبجر ظیتر کی تردیبد م ی ظترا فرض ق ہ‬ ‫ہے ئاس وا سط‬ ‫ترادف ہ‬ ‫م‬
‫ب‬ ‫ق‬
‫صادی امراض کا بپ قہتریین‬ ‫ہے۔کہ ا ظنسانی بحماغیوں کے اقن ق‬ ‫ہ‬ ‫نی‬ ‫ب‬
‫ب ی چ ی‬ ‫تر‬ ‫ین‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫ترا‬ ‫و‬ ‫ل‬ ‫ق‬ ‫دل‬
‫ظ‬ ‫یدہ‬ ‫ی ق قی‬ ‫غ‬ ‫یہ‬ ‫اور‬
‫پ‬ ‫ق‬ ‫یں ش‬ ‫ب‬
‫کاری کی قوت بجب ظچد ا شع یدال‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫یہ‬ ‫ی‬ ‫سرما‬ ‫کہ‬ ‫یں‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫سک‬ ‫م‬
‫ئ ی‬ ‫اس‬ ‫ہے‬ ‫ی ظ ی ہ‬ ‫ا‬ ‫ی‬ ‫ک‬ ‫تز‬ ‫خو‬
‫ق‬ ‫ب‬ ‫نے‬
‫ئ‬ ‫فران‬ ‫علجق‬
‫ہے قکن دب ییا کو ظاس کے مضر ا ئترات‬ ‫ی‬ ‫کی ظلعیت ہ‬ ‫سم ظ‬ ‫ف‬
‫ے ایبک ش‬ ‫نے بو دب ییا کے ظلن‬ ‫سے ظببحاوز کربچا ظ‬
‫شی ن ظاما قسے اس ظقوت کو چارج کردیبا بچا ظنے بجک ی ظسا‬ ‫سے شببحات قدلنے کا قطرب یق ظیہ قپہییں کہ معا ظ‬
‫ے‬ ‫بدر ر ظ ھن‬ ‫نے اس ظ ظقوت ق کو م یاسب چدود ظکے ا ظ‬ ‫بکظ ببخویتز کرنےہہییں فران کر ییم ظ‬ ‫کہ ببولسو ی ئ ق‬
‫ہے۔ ظاور ققظرت ظ انسانی کو‬ ‫یا‬
‫ق ب بعم بت ی ی ن ش ی ک ی ہ‬ ‫تز‬ ‫خو‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ظاما‬ ‫ا‬ ‫ک‬ ‫ترہ‬ ‫غ‬ ‫و‬ ‫ۃ‬ ‫زکو‬ ‫اور‬ ‫با‬ ‫ر‬ ‫خرمت‬ ‫تراث‪،‬‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ئ‬ ‫بون‬ ‫ا‬‫ق‬ ‫ق‬ ‫ے‬‫مکے لکن‬
‫باعاقبیت ابدینش اور‬ ‫بورپ کیح ق ق‬ ‫عمسوزما ی‬ ‫ہے روشی ببو ل‬ ‫ے ہونے ہی طرب یق ق ظا ب ل ل ھی ہ‬ ‫پ‬ ‫ی‬ ‫ہ‬ ‫خوظ ر ھن‬ ‫ظل ظ‬
‫ہے کہ‬ ‫ہے کن ق ی قفت یہ‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫چ‬
‫تردست رد ظ ل ظت ہ‬ ‫خودغرض سرماییہ داری کے لفش ایبک ظز ب ظ‬
‫ہی‬ ‫یدال یکی راہ ہ و ہ‬ ‫ش‬ ‫ع‬ ‫ا‬ ‫یں۔‬ ‫ی‬ ‫ہ‬
‫ہ‬ ‫چہ‬ ‫ی‬
‫ب‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫کا‬ ‫یط‬ ‫ی‬ ‫فر‬ ‫ت‬ ‫ظ‬ ‫و‬ ‫فراط‬ ‫ا‬ ‫بوں‬ ‫دو‬ ‫سوزما‬ ‫ل‬ ‫بو‬ ‫ب‬ ‫روشی‬ ‫یہ داری اور ئ‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ا‬‫م‬ ‫سر‬ ‫کی‬ ‫ق‬ ‫عرب‬
‫ظ‬
‫م‬
‫ق‬ ‫فران نے ہہم کو ق یانی ہے اور جس کا میں نے اوتر ا ش‬ ‫ق‬ ‫ب‬
‫ہے سر ی ظتعت حقہ‬ ‫ی ہ‬ ‫یا‬ ‫ک‬ ‫ذکر‬ ‫سارۃ‬ ‫چ‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫ہ‬ ‫بب‬ ‫خو‬ ‫ہے‬ ‫ہ‬
‫لوب ظیہ‬ ‫ق‬
‫حماعت کو مع‬ ‫ب‬ ‫بک بحماعت دوسری‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫ہے کہ سرماییہ داری ئ کی بب ظیا چتر ا‬ ‫ہ‬ ‫اسلماہ کا م قصود ییہ‬
‫ترے غق ییدے کی رو سے و ہہی راہ قاسان اور قا ب شبل‬ ‫ے می ظ‬ ‫ے اور اس مدع ظا شکے ح شصول کے لن‬ ‫کر سک‬
‫عم‬
‫لما سرماییہ قکے ئقوت کو م قعا ئشی‬ ‫ہےعاس ظ ظ‬ ‫ہے ب ظجس کا اظپتکساف ق سارع ظعلیبہ الس ظلما ظنے ک ییا ہ‬ ‫ظظل ہ‬
‫ے ہہونے ا ظسے قایم‬ ‫سا ظنی چتر ق ایبک ق یمیق ن ظر ڈا لن‬ ‫ظاما سے چارج ہییں ئکربا ببلکہ قظرت ش ان ظ‬ ‫قرنکھق‬
‫نے سے ظییہ‬ ‫ہ‬
‫ہے بظجس چتر ل چبیترا ہو ظ‬ ‫عم‬ ‫با‬‫کر‬ ‫تز‬ ‫خو‬ ‫ب‬‫ب‬ ‫ظاما‬ ‫ظ‬ ‫شی‬ ‫عا‬ ‫ق‬ ‫سا‬ ‫ی‬ ‫ا‬ ‫بک‬ ‫ا‬ ‫ے‬
‫ن‬ ‫ہہمارے‬ ‫اور‬ ‫ہے‬ ‫یا‬
‫ہ‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫ن‬ ‫ی‬ ‫ل‬ ‫ظ‬ ‫ہ‬
‫ہے ظکہ مسلما قبوں نے‬ ‫ہ‬ ‫سوس‬ ‫ے اف ق‬ ‫ے م ظیاسب چدود سے ظ ببحاوز پہییں کرسکنی بمجھ‬ ‫قوت کبتھی ا ق ق چپن‬
‫یہ قان ب ظکو مع ظلوما ظہہوبا کہ اس ظچاص اعی بیار سے‬ ‫صادی چپہلو کا م ظا عہ پہییں ک یا ور ظ‬ ‫اسلما قکے ا ظ‬
‫اشی ت‬ ‫ق‬ ‫ی‬ ‫ص‬ ‫ب‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫ل‬ ‫ق‬ ‫تڑی ت‬ ‫ک ظ قن‬
‫طرف‬ ‫کی‬ ‫عمت‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫یں‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫با۔‬ ‫خوا‬ ‫ا‬ ‫ہ‬ ‫ب‬ ‫م‬ ‫ع‬ ‫ت‬ ‫ہے قا چیم پ‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫یدہ‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫غ‬ ‫ترا‬ ‫ی‬ ‫م‬‫ظ‬ ‫ہے۔‬ ‫ہ‬ ‫عمت‬ ‫ا شسلما ینی ب‬
‫ہ ق‬ ‫پ‬ ‫ہ‬ ‫ص‬ ‫ی‬ ‫ف‬ ‫ظ‬
‫ے‬‫دوسرے قکے اخوان ہییں ہوسکن‬
‫ہ‬ ‫ک‬ ‫ظ‬
‫یں ایبک‬ ‫ہے کییوبکہ چکپہسی سم کے افراد چیح معیوں م ی ق‬ ‫اسارہ ق ہ‬
‫ساوات کا‬ ‫ے ہو اور اس م ق‬ ‫بک ظ دوسرے ممکے ظساتھ مساواتمیہ ر ھن‬ ‫ق‬ ‫بک وہ ہہر لو سے اش یس ظ‬ ‫بجب ظ‬
‫پ‬ ‫ظ‬
‫کی قوت کو‬ ‫ش‬ ‫کاری‬ ‫ئ‬ ‫یہ‬ ‫ی‬ ‫سرما‬ ‫صود‬ ‫ق‬ ‫کا‬ ‫جس‬ ‫یں‬
‫ظ ق ظ یظ ب‬ ‫ہ‬ ‫کن‬ ‫کے‬ ‫ظاما‬ ‫ظ ن‬ ‫ل‬ ‫سو‬
‫ک‬
‫ے‬ ‫س‬ ‫ظنی‬ ‫ا‬ ‫بک‬ ‫حظصول بت ی ی‬
‫ا‬ ‫تر‬ ‫غ‬
‫ہے‬ ‫اس تکبہ ق قکو ن ظر ابداز ظکرکے ظاج الما و مصابب قکا ظسکار ظ ہ‬ ‫ہے یبور ق‬ ‫بدر ر ظھ یا ظ ہ‬ ‫م یاسب چدود کے ا ظ‬
‫ے قابونق ظوحضع‬ ‫ے ممالک مییں ا ینس‬ ‫ے ظا چپن‬ ‫ہے بپنی بوع قانسان کی تماما قوئییں ا چپن‬ ‫ارزو ہ‬ ‫میتری مدلی ق‬
‫ساوات کی یلیق‬ ‫ب‬ ‫بال م ق‬ ‫ئ‬
‫کے ا ببدر ر ظکاھ ظکر مذکورہ ب ظ ق‬ ‫یاسببتچدود ظ‬ ‫کر قییں بجن کا م بقصو د قسرماییہ کی قوت کو م ق‬
‫ظ‬
‫نے سے‬ ‫ے موخودہ ن ئظاما کے ت قانص ببجر ب‬ ‫ہے کہ ود روشی قوما ھی ظ ا چپن‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫ےتی فیین ظ‬ ‫و بول یید ہہو۔ اور مجھ‬
‫نے چتر بچمبیور ہہوبچانے گی بجس کے اضول اساشی‬ ‫خوع کر‬ ‫ے ن ظاما اکی طرف ر ب‬ ‫لوما کرکے کسی ا ینس‬ ‫م قع‬
‫ق‬ ‫چ‬ ‫ق‬ ‫م‬ ‫ظ‬
‫ے ہہوں گے موبخودہ ضورت مییں رو یسیوں کا‬ ‫ے ب لن‬ ‫چالص اسلما ہہوں ظگے ان سے لن‬ ‫ظ‬ ‫ی قبا قبو‬
‫س‬
‫خواہ ک ی سا ہہی مجمود کییوں یہ ہہو ان کےطرب یق لل ی ٹسے کسی ظم لمان کو‬ ‫عم‬ ‫ظ‬ ‫ین‬ ‫ع‬ ‫صب‬ ‫صادی‬
‫ک‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫س‬ ‫ب‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ق ی‬ ‫ال‬
‫س‬ ‫ہ‬
‫ن‬ ‫اقن‬
‫ہہمدردی ہہییں ہو کنی ظ ہہ یدو قس شیان اور د قی گر ممالک کے م ل ئمان خو یبورپ کی چبو ین ل ظا ینکا تمی قچتڑھ کر‬
‫اس زمانے مییں فران‬ ‫کہ‬ ‫ہے‬ ‫لزما‬ ‫ے‬ ‫ن‬ ‫کے‬ ‫ق‬ ‫ان‬ ‫یں‬ ‫ہ‬ ‫ہ‬ ‫نے‬ ‫چا‬ ‫ہو‬ ‫ہ‬ ‫تر‬ ‫یا‬ ‫ظ‬ ‫م‬ ‫قورا‬ ‫سے‬ ‫ظعرنی ظح قیالت ق‬
‫لت کا چل باس‬
‫ش‬
‫ہے کہ ظوہ اچپنی تماما مشک ق‬
‫ق‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬ ‫ل‬
‫ین‬ ‫ف‬ ‫ی‬ ‫ت‬ ‫ے‬‫ھ‬ ‫ج‬
‫م‬ ‫ی‬
‫یم کی یا ق صادی تعل ییم تر ن ظر ظعائتر ڈالیں ب‬ ‫ب‬ ‫ظ‬ ‫کرم ی ب‬
‫ہ‬ ‫ی‬ ‫ظی‬ ‫چ‬ ‫قن ئ‬ ‫ق‬
‫ج‬ ‫م‬ ‫ئ‬ ‫ا‬ ‫ل‬ ‫س‬ ‫ل‬ ‫ہ‬
‫ے‬ ‫گے لہور کی یثبتر قیبوئیین کے لمان ممبتر ببا ب حصوص اس طرف بوبجہ کرییں ھ‬
‫ج‬ ‫م‬ ‫م‬ ‫ق‬
‫م‬ ‫ق‬ ‫یں چبائییں‬ ‫اک یاب م ی ظ‬
‫ہے کہ وہ کونی اینسا طرب یق‬ ‫ے ام یید ہ‬ ‫ہے گر ظھ‬ ‫ہہمدردیع ہ‬ ‫قاصد کے ساتھ دلی ق ظ‬ ‫کےاغراض و م ظ ق‬ ‫ان ظ‬
‫ہ‬ ‫ظ‬
‫عمل یبا نصب العیین اجی ییار یہ کرییں گے خو فرانی ل ییم کے م یاقی ہو۔‬ ‫ت‬ ‫ب‬ ‫ظ‬

‫‪97‬‬
‫‪؎7‬‬
‫"اس خط کققے متعلققق مققاہر اقبالیققات عققتیق صققدیقی اپنققی‬
‫کتاب ِّاقبال۔جادو گر ہندی نژاد میں لکھتے ہیں کققہ اس مراسققلے‬
‫کو خطوط اقبال میں تمام و کمال نقل کرنے کے بعد رفیع الدین‬
‫ہاشمی کے ذہن میں قدرتی طور پر یہ سوال تو پیدا ہوا ہوگققا کققہ‬
‫بل مضمون پڑے ہوئے اقبال نے اسی روز اور اسی لمحے اڈیققٹر‬
‫زمیندار کو خط لکھ کر اس کی تردید کیوں ضققروری سققمجھی ‪،‬‬
‫اور تردید بھی اتنی مفصققل لیکققن اس کققا جققواب ڈھونققڈنے کققی‬
‫انہوں نے ارادی یا غیر ارادی طور پر کوئی کوشش نہیں کی۔عبققد‬
‫السلم خورشید نققے بھققی اپنققی ضققخیم کتققاب میققں سرگزشققت‬
‫ل میں اس مراسلے کے طویل اقتباسات تققو درج کئققے لیکققن‬ ‫اقبا و‬
‫انہوں نے بھی اس سققوال کققا جققواب تلش کرنققے کققی ضققرورت‬
‫نہیں سمجھی۔ ان دونوں حضرات کی گریز کی وجہ شقاید یقہ ےےہےےے‬
‫کہ اس کے جواب سے اقبال کے فکر و عمل کی دورنگققی ظققاہر‬
‫‪؎8‬‬ ‫ہونے کا امکان تھا۔‬
‫ے تھے‬
‫اقبال نے اپنی زندگی کے دو خانے بنا رک ھ‬
‫اقبال نے اپنی زندگی کے دو خانے بنققا رکھققے تھققے۔ایققک کققا‬
‫تعلق فکر سے تھا اور دوسرے کا عمل سے۔ فکر کے دنیا میں وہ‬
‫جس درجہ اوزاد ت عمل کے دنیا میں اس سققے شققدید تققر بنققدش‬
‫بھی انہوں نے اپنے اوپققر عائققد کققر رکھققی تھققی‪ ،‬اور کققوئی بھققی‬
‫ایسا اقدام کرنے پر وہ خود کو اومادہ نہیں کققر سققکتے تھققے جققس‬
‫سے حکومت کی چشم ابرو پر شکن پڑنے کققا بھققی احتمققال ےےوہ‬
‫سکتا ہو۔اپنی زندگی کے موخرالذکر خانے کو محفوظ رکھنے کی‬
‫اقبال نے ارادی طور پر کوشش کی کہ ان کققے قققارئین کققا حلقققہ‬
‫وسیع نہ ہونے پائے۔اسی کے پیش نظر انہوں نے اردو کی جگہ پر‬
‫فارسی زبان کو اپنے اظہار خیال کا ذریعہ بنایا۔ ‪ 1923‬کققے لنققدن‬
‫کے ایک جلسے میں تقریر کرتے ہوے اقبال نے اردو کی جگققہ پققر‬
‫فارسی زبان کو اختیار کرنے کی وجہ بتاتے ہوے کہا تھا۔‬
‫" اردو کو چھوڑ کر فارسققی میققں شققعر کہنققا شققروع کرنققے‬
‫ات پیققش کققی‬ ‫سققے متعلققق مختلققف لوگققوں نققے مختلققف توجی ےے ہ‬
‫ہیں‪،‬مناسب معلوم ہوتا ہے کہ اوج میں یہ راز بھی بتا دوں کہ میں‬
‫نے کیوں فارسی زبان میں شعر کہنے شروع کئے بعض اصققحاب‬
‫یہ خیال کرتے ہیں کہ فارسی زبان میں نے اس لیے اختیار قکی کہ‬
‫نچ ظ جائے۔چالظبکہ میتر ا قم قصد اس‬
‫وسیع قحلقے ظمیں پہ ظ‬ ‫میرے خیالت قزیادہ‬
‫ے میتری‬ ‫ت‬
‫ے ق والے چپبپ ظہت کم ھ‬ ‫ظکے ببالک قل بترعکس تھا ظ ۔۔۔۔۔ ہہ یدوظس ظیان مییں قارشی بچا پن‬
‫ظ‬
‫‪؎9‬‬ ‫غرض ییہ تھی کہ مییں بخو ح ییالت بباہہر چپہیچحابا چچا ہہق یا ہہوں وہ کم ازکم چلق‬
‫ے قبک ہ چیحییں"‬
‫‪98‬‬
‫اقبال کے زندگی کے اول الذکر پہلو‬
‫اقبال کے زنققدگی کققے اول الققذکر پہلققو نققے ان سققے ایسققی‬
‫نظمیں کہلئی جن کی بنا پر ایڈیٹر زمیندار نققے ان کققو اشققتراکی‬
‫ہی نہیں بلکہ اشتراکیت کا مبلغ اعلی گردانا اور موخرالقذکر پہلقو‬
‫نے اس دعوے کی فوری تردید پر انہیں مجبور کیا۔ یہ واقعہ جققس‬
‫زمانے میں پیش اویا وہ تھا بھی ہماری تاریخ کا انت ےےائہی نققازک دور۔‬
‫انقلب روس سققے قبققل برطققانوی سققامراج کققو ہندوسققتان کققی‬
‫شمال مغربی سرحد پر روس کے عزائم منڈلتے نظر اوتے تھققے۔‬
‫انقلب کے بعد اس کی جگہ بالشوزم کے ہوائے نے لے لققی تھققی۔‬
‫‪ 1923‬میں اقبال کو جب اعلنیہ اشتراکی کہا گیا تھققا‪ ،‬اس وقققت‬
‫ہندوستان میقں اشقتراکی خیققالت کققے نشقونما کقا اور اشقتراکی‬
‫طرز کی مزدور یونینوں کے اوغاز کا زمانہ تھا۔دوسری طرف بیققن‬
‫القوامی کمیونسٹ تنظیم نے ہندوسققتان میققں کمیونسققٹ پققارٹی‬
‫کی تنظیم کا کام برطانوی کمیونسٹ پارٹی کققے سققپرد کیققا تھققا۔‬
‫حالت کی اس روش کو حکومت انتہائی پر تشققویش اور غضققب‬
‫ناک نظروں سے دیکھ رہی تھی۔ داروگیر کا سلسلہ بھققی شققروع‬
‫ہ وگیا تھا۔ لہور میں بھی بالشوک سازش کا ایققک مقققدمہ شققروع‬
‫تھا۔ان حالت میں سراسیمہ ہو کر اقبال کا اشتراکیت سققے اپنققی‬
‫ار کرنققا ان‬ ‫برآت ہی کا نہیں بلکہ اس سے شققدید اختلف کققا اظ ےے ہ‬
‫کی آفتاد طبع کے عین مطابق تھا۔حکققومت کققو بھققی اقبققال کققے‬
‫اشتراکی ہونے کققا اور اشققتراکیت کققے مبلققغ ےےہونےےے کققا اگققر یقیققن‬
‫ہ وجاتا تو ان کی زندگی کققے اس پہلققو پققر سققرے سققے پققانی پھققر‬
‫سکتا تھا‪،‬جس کی تعمیر میں انہوں نے اپنی عوامی مقبولیت کققو‬
‫بھی داو پر لگا دیا تھا۔اور ان کی وہ نائٹ ےےڈہ بھققی خطققرے میققں‬
‫پڑسکتی تھی‪،‬جس کے حصول پر ابھققی چققھ مہینققے بھققی ابھققی‬
‫اور کچھ ایسی ہی رائے کا اظہار‬ ‫پورے نہیں ہوئے تھے۔ " ‪؎10‬‬
‫ایققک اور مققاہر اقبالیققات جمیققل اخققتر نققے اپنققی کتققاب اقبققال اور‬
‫اشتراکیت میں کی ۔ اقبال نے یہ خققط حققالت کققے مطققابق جققس‬
‫وجہ سے بھی عجلت میں لکھققا ‪ ،‬جققس پققر اسققے زیققادہ غققور و‬
‫خوض کا موقع نہ مل مگر اس کے ذہن میققں ایققک خققاکہ اس کققے‬
‫متعلق موجود تھا۔‬
‫اقبال اورکمیونزم‬
‫اقبال کمیونزم کومن و عن کسی صورت تسلیم نہیں کققر‬
‫سکتے کیونکہ وہ ایک راسخ العقیدہ مسلمان تھےاور کمیونزم کے‬

‫‪99‬‬
‫پیروکار الحاد کے داعی تھے۔اقبال نے اسلمی طققرز زنققدگی کققے‬
‫بارے میں اظہار خیال اپنے مشہور خطبققہ صققدارت میققں جققو ‪29‬‬
‫دسمبر ‪ 1930‬کو اولہ اوباد میققں منعقققدہ اول انققڈیا مسققلم لیققگ کققے‬
‫اجلس میں کیا۔‬
‫" اسققلم انسققانی وحققدت کققو روح اور مققادے کققی ناقابققل‬
‫مققوافقت ثنققویت میققں تقسققیم نہیققں کرتققا‪ ،‬اسققلم میققں خققدا اور‬
‫کائنققات‪ ،‬روح اور مققادہ‪،‬کلیسققا اور ریاسققت‪ ،‬ایققک دوسققرے سققے‬
‫نامیاتی رشتوں میں مربوط ہے۔یورپ میں بلتحقیق روح اور مادہ‬
‫کی ثنویت کو قبول کرلیا۔اول انڈیا مسلم لیگ کے اس اجلس کققو‬
‫خطاب کرنے کے لیے اوپ نے ایک ایسے شخص کا انتخاب کیا ہے‬
‫وا‬
‫جو اسلم سے بحیثیت ایک ایسی زندہ قوت کے مایوس نہیں ےےے ہ‬
‫جس نے انسانی زاویہ نگاہ کو اسکی جغرافیائی حد بندیوں سققے‬
‫اوزاد کرنے کی اہلیت موجود ہے۔جو یہ اعتقاد رکھتا ےےہےےے کققہ مققذہب‬
‫افراد اور ریاستوں کی زندگی میں انتہائی اہمیت کققی قققوت ےےہےےے۔‬
‫اور اوخر میں جو یہ یقین رکھتا ہے کققہ اسققلم خققود تقققدیر ےےہےےے اور‬
‫کسی دیگر تعبیر کے تابع نہیققں ےےہو سققکتا ۔ےےل ےےذہہ اسققلم کققا مققذہبی‬
‫نصب العین اس کے تخلیق کردہ سماجی نظام سے ایک نامیققاتی‬
‫نسبت رکھتا ہے۔ایک کے رد کرنے سے دوسرے کا استرداد بالخر‬
‫ئ‬ ‫ق‬ ‫‪؎11‬‬
‫ق‬
‫لزم اوئےگا۔"‬
‫ا ق بیال کا روشی غواما کے مذ ہہب سے متعلق رانے‬
‫مذہب سے متعلق سر فرانسس ینگ ہسبنڈ کققو ایققک کھلققے‬
‫خط میں اس طرح اظہار خیال کیا ۔جو سهول اینققڈ ملققٹری گققزٹ‬
‫واےے "میقں ذاتقی‬
‫لہور کے ش مارہ ‪ 30‬ج ولئی ‪ 1931‬میقں شقائع ےےہ ۔‬
‫طور پر اس پر یقین نہیں رکھتا کہ روسی فطری طور پر بے دین‬
‫لوگ ہیں۔اسکے برعکس میں سمجھتا ہوں کہ مققردوزن مضققبوط‬
‫مققذہبی رحجانققات رکھتققے ہیققں۔اور روسققیوں کققی موجققودہ منفققی‬
‫رحجان لمحدود وقت تک نہیں رےےہےےے گققی۔سققماج کققا کققوئی نظققام‬
‫دہریت پر استوار نہیں ہو سکتا ۔جیسے ہی اس ملک میققں حققالت‬
‫پرسکون ہونگے اور اس کے عوام کو سوچنے کا موقع ملے گا وہ‬
‫اپنے نظام کو ایک مثبت بنیاد فراہم کرنے پر مجبور ہونگے۔"‬
‫‪؎12‬‬
‫اقبال اور سوشلزم‬
‫"ایک اخبار نویس نے اقبال سے اس کی وضاحت چققاہی تققو‬
‫اقبال نے کہااسلم سوشلسٹ طرز کا مققذہب ےےہےےے۔ قققرآن مطلققق‬
‫سوشلزم اور ذاتی ملکیت کے درمیان اعتدال کققی تعلیمققات دیتققا‬
‫ہے۔روس نے ہنر مند مزدور کی ترقی کو تسلیم کیا ہے۔میں ذاتی‬
‫‪100‬‬
‫طور پر سمجھتا ہوں کقہ عصقر حاضقر اس میقں بنیقادی تبقدیلیاں‬
‫لئققے گققا جسققےاوپ سققامراج یققا بالشققوزم کہتققے ہیققں۔علقققائی‬
‫سلطنتوں کقے دن گقزر چکقے ہیقں ۔بالش وزم میقں بھقی مطلقق‬
‫سوشلزم کے معنوں میں ترمیم ہونے لگی ۔ممکن ہے کہ معاشی‬
‫نقطہ نگاہ میں بنیادی فرق کی بنا پر روس اور برطانیہ ا وپس میں‬
‫برسر پیکار ہو جائیں۔ایسی صورت میں یہ واضح کہ صحیح سوچ‬
‫رکھنے والوں کی ہمدردیاں حق و صداقت کے ساتھ ہونگی ۔ " ‪؎13‬‬
‫اقبال نے اپنے پہلققے زمینققدار اخبققارکے مراسققلے میققں بالشققویک‬
‫خیالت رکھنے والے کو خارج از اسلم قرار دیا ہے جبکہ بعد میں‬
‫انہوں نے اسلم کو ایک سوشلسققٹ طققرز کققا مققذہب ک ےےہا ہےےےےے۔اور‬
‫معاشی نقطہ نگاہ سے برطانیہ کے بجائے روس کی حمایت کرتققا‬
‫ہے ۔حقیقت یہ ہے کہ اقبال سوشلزم کو مستحسن نظققروں سققے‬
‫دیکھتے ہیں۔اقبال ہی برصققغیر کققے پہلققے شققاعر تھقے جن ےےہوں نقےےے‬
‫سوشلزم کو اپنی فکر کا موضوع بنایا۔‬

‫اقبال کے نزدیک اشتراکیت کی مذہب دشمنی‬


‫اقبققال اشققتراکیت کققی مققذہب دشققمنی کققے علوہ اسققکے‬
‫معاشی نظام سے پوری طرح متفق تھے۔اگققر وہ متفققق نققہ ےےہوتےےے‬
‫تواس نے اس انداز میں اشققتراکیت کققو پیققش نققہ کیققا ہوتققا۔اقبققال‬
‫سرمایہ داری اور ملوکیت دونوں کے مخالف تھے۔ دولت کے غیققر‬
‫مساوی تقسیم کے سخت خلف تھے۔وہ ایک ایسے معاشرے کققے‬
‫متمنی تھے۔جس میں امیر و غریب ذات پات‪،‬طبقات نہ ہوں سب‬
‫م جققز مسققئلہ‬ ‫انسان برابر ہوں۔ اشتراکیت کققے تعلیققم کققا ایققک ا ےے ہ‬
‫ملکیقت زمیقن ےےہےےے۔اشقتراکی اس بقات پقر متفقق ہیقں کقہ نظقام‬
‫سرمایہ داری میں محنت کشوں سے ناجائز فائققدہ حاصققل کرنققے‬
‫کی یہ بدترین صققورت ےےہےےے۔ زمیققن کققے متعلققق قققرآن کریققم میققں‬
‫ارشقاد ےےہےےے کقہ "الرض اللقہ" زمیقن اللقہ کقی ےےہےےے۔"اللقہ مقا فقی‬
‫السموات و ما فی الرض" زمین و اسمان میققں جققو کچققھ ےےہےےے وہ‬
‫اللہ ہی کا ہے۔اقبال زمین کققے معققاملے میققں قققومی ملکیققت کققے‬
‫قائل ہیں۔ کاشتکار سے ملت کا خزانہ تو بجا طور پققر پیققداوار کققا‬
‫کچھ حصہ طلب کر سکتا ہے۔لیکن کسی ناکردہ کار مالک کققا اس‬
‫پر کوئی حققق نہیققں۔اقبققال انسققانی زنققدگی کققا مقصققود جسققمانی‬
‫ترقی نہیققں بلکققی روحققانی ترقققی سققمجھتے ہیققں۔ان کققے نزدیققک‬
‫اشتراکیت نے قدیم لغو طریقوں اور اداروں کی تخریقب کقا کقام‬
‫بہت کامیابی سے کیا ہے۔جس مذہب کی تنسیخ کققی ےےہےےے وہ قابققل‬
‫‪101‬‬
‫تنسیخ ہی تھا۔اور اس کے ساتھ ایسا ہی ہونققا چققاہیے تھققا۔اس نققے‬
‫سققلطانی اور امیققری اور سققرمایہ داری کققا خققاتمہ کیققا جققس نققے‬
‫انسانوں کو درجہ حیوانیت پر ل پھینکا تھا۔ لیکققن روٹققی ‪،‬کققپڑا اور‬
‫مکان انسان کا مقصود حیات نہیں ہے۔انسان کے ارتقا کے مدارج‬
‫لمتناہی ہیں۔اقبال اسی لیے فرماتے ہیں کہ یہ انقلب اسققلم کققے‬
‫ساتھ وابستہ ہو سققکتا ےےہےےے۔ مگققر خققدا اور انسققانی روح کققے جققو‬
‫صحیح عقائد ہیں وہ اگر اشتراکیت میں شامل کر دیئے جائیں تو‬
‫وہ عین اسلمی بن جا تی ہے۔ خواجہ غلم السیدین کے نام خققط‬
‫‪ 17‬اکتوبر ‪ 1936‬میں اقبال لکھتے ہیں۔‬
‫سوشلزم کے معترف روحانیت کے مخالف ہیں‬
‫"سوشلزم کے معققترف ےےہر جگققہےے روحققانیت کققے مققذہب کققے‬
‫مخالف ہیں۔اور اس کو افیون تصور کرتققے ہیققں۔لفققظ افیققون اس‬
‫ضمن میں سب سے پہلے کارل مارکس نے استعمال کیا تھا۔میں‬
‫مسلمان ہوں اور انشاللہ مسلمان مروں گا۔ میققرے نزدیققک تاریققخ‬
‫وں‪،‬‬‫انسانی کی تعبیر سراسر غلط ہے۔روحانیت کققا میققں قائققل ےے ہ‬
‫مگر روحانیت کے قراونی مفہوم کا‪ ،‬جققس کققی تشققریح میققں نققے‬
‫اپنی تحریروں میں جا بجا کققی ےےہےےے۔ اور سققب سققے بققڑھ کققر اس‬
‫فارسی مثنوی میں جو عنقریققب اوپ کققو ملققے گققی۔جقو روحققانیت‬
‫میرے نزدیک معذب ےےہےےے ی ےےہی افیقونی خ واص رکھتقا ہےےےےے۔اس کقی‬
‫تردید میں نے جا بجا کی ہے۔باقی رہا سوشلزم‪ ،‬سو اسققلم خققود‬
‫ایک قسم کا سوشلزم ہے جس سے مسققلمان سوسققائٹی نققے اوج‬
‫تک بہت کم فائدہ اٹھایا ہے۔" ‪؎؎14‬‬

‫اقبال کا راسخ العقیدہ ہونا‬


‫اقبال ایک راسخ العقیققدہ مسققلمان تھےاور اسققلم کققو ایققک‬
‫مکمل ضابطہ حیات مانتےاور پیش کرتے تھے۔سوشلزم جو تمققام‬
‫انسانوں میں مساوات کا داعی ہے۔ اسقلم ن ے انس ان ک و جقس‬
‫مساوات کی یقین دہانی کرائی ہے اس کو افضل سقمجھتے ہیقں۔‬
‫اسی لیے اسلم کو ایک قسم کا سوشلزم قرار دیا ہے۔اقبال نققے‬
‫ور میققں‬ ‫اسلم میں مساوات کی وضاحت ‪ 21‬مارچ ‪ 1932‬کو ل ےے ہ‬
‫اول انڈیا مسلم کانفرنس کے سققالنہ اجلس کققی صققدارت کرتققے‬
‫ہوئے اس طرح کی ہے۔‬
‫"ایشیا کے لیے محال ہے کہ جدید مغربی سرمایہ داری کو ‪،‬‬
‫جققس کققے سققاتھ اسققکی بققے لگققام انفرادیققت مربققوط ےےےہےےے‪،‬‬
‫کاحقہ‪،‬سمجھ سکے۔ جس دیققن کققی اوپ نمائنققدگی کرتققے ہیققں وہ‬
‫‪102‬‬
‫فرد کی قدروقیمت کو تسلیم کرتا ہے۔اور اسے ایسی تربیت دیتا‬
‫ہے کہ وہ اپنا سب کچھ خدا کی خدمت کے لیے وقف کر دے۔اس‬
‫کے ممکنات تاحال ختم نہیں ہوئے۔یہ اب بھی ایک نیا عالم تخلیق‬
‫کر سکتا ہے۔ جس میں کسقی انسقان کققا سقماجی رتبققہ اس کقی‬
‫ذات پات‪ ،‬اس کے رنگ یا اس کی ذاتی اومدنی سے متعیققن نہیققں‬
‫کس قسققم‬ ‫ق‬ ‫ہے کہ وہ‬
‫ئ‬ ‫ی‬ ‫منحصر ہوتا ٹ‬ ‫ہوتا بلکہ اس کا تشخص اس پر ظ‬
‫نےہہییں ‪ ،‬بجس‬ ‫ی‬ ‫ب‬
‫جس مییں غریبب ئ امیتروں چتر کس عابد کر ق‬ ‫کی ظ ظ‬
‫ک‬ ‫س‬‫کرتا ہے۔ ب ش‬ ‫زندگی ش بسر ظ‬
‫ہے بجس‬ ‫ب‬
‫نی ہ‬
‫ظ‬ ‫مییں انسانی معاسرے کی بتی ییاد م ٹساوات ش کم کے ببحاقنے مساوات روح چتر ر ھی بچا‬
‫ب‬
‫ہے‬ ‫بت ہ‬‫ظ‬ ‫جس مییں ملکییت ایبک اما‬ ‫مییں ایبک اچچھوت سل ظان ظکی ئ یتینی سے سادیظپکرسک یام ہ‬
‫ہےس ب ق‬
‫ص‬
‫ظاوربچہاں سرماییہ کو اس طرح افزانش کی ابچازت ہییں ل کنی کہ وہ دولت کے ا ل چالق چتر‬
‫ق‬ ‫علببہ چاصل کرے "۔ ‪؎15‬‬
‫ق‬
‫علمہ اقبال کا ملکییت سے متعلق مو فف‬
‫اقبال نے انقلب روس سے پندرہ سال پہلے اپنی کتاب علم‬
‫القتصاد میں چب ییداوار اور دولت کے حصہ دار کے بباب مییں ملکیت کے متعلق‬
‫ق‬
‫ہے اس پر کارل مارکس کی چھاپ ہے وہ ملکیت سے‬ ‫با‬
‫ی ہ‬ ‫د‬ ‫فف‬ ‫جو مو‬
‫متعلق اس میں اس طرح رقم طراز ہیں۔‬
‫"تمدن انسانی کی ابتدائی صورت میققں ملکیققت یققا جائیققداد‬
‫شخصی کققاوجودمطلق نققہ تھققا۔ محنققت کققی پیققداوار میققں حسققب‬
‫ضرورت سب کاحصہ تھا۔ہر شے ہر شخص کققی ملکیققت تھققی۔اور‬
‫کوئ ی خاص فرد یہ دعوی نہیقں کققر سقکتا تھقا کققہ یقہ خققاص شقے‬
‫میری ملکیت ہے۔اور یہ کسی اور کققی نہیققں۔نققہ کہیققں افلس کققی‬
‫شکایت تھی نہ چوری کا کھٹکا تھا۔ قبائققل انسققان مققل کققر گققزارہ‬
‫کرتے تھے اور امن و صلح کاری کے ساتھ اپنے دن کاٹتے تھے۔یققہ‬
‫مشارکت جو اس ابتدائی تمدن میں انسان کققا اصققول معاشققرت‬
‫تھی۔ہمارے ملک کے اکثر دیہاتوں میں اس وقققت بھققی کسققی نققہ‬
‫کسی شکل میں مروج ہے۔ زمانہ حال کے بعض فلسفی اس بات‬
‫پر مصر ہیں کہ تمدن کی یہی صورت سب سے اعلی اور افضققل‬
‫ہے۔ "‬
‫جائیداد شخصی تمام برائیوں کا سر چشمہ ۔لہذہ اقوام دنیا‬
‫کی بہبودی اسی میں ےےہےےے کققہ ان بققے جققا امتیققازات کققو یققک قلققم‬
‫موقوف کر کے قدیمی و قدرتی اصول مشارکت فققی الشققیا کققو‬
‫مروج کیا جائےاور کچھ نہیں تو ملکیتی زمیققن کققی صققورت میققں‬
‫ہی اس اصول پر عمل دراومققد کیققا جققائے کیققونکہ ےےہر شققےےے کسققی‬
‫خاص فرد یا قوم کی محنت کا نتیجہ نہیں ہے‪ ،‬بلکہ قدرت کا ایققک‬
‫مشترکہ عطیہ ہے۔جققس پققر قققوم کققے ےےرہ فققرد کققو مسققاوی حققق‬
‫ی بحقث مقڑی‬ ‫ملکیت حاصل ہے۔ حال کقی علمقی بحثقوں می ں ےے ہ‬

‫‪103‬‬
‫م اس‬ ‫دلچسپ اور نتیجہ خیز رہی ہے۔لیکن اس کا مفصققل ذکققر ےے ہ‬
‫ابتدائی کتاب میں نہیں دینا چاہتے۔‬
‫"اقبققال اور اشققتراکیت زمیققن کققی مشققترکہ ملکیققت کققے‬
‫معاملے پر متفققق ہیققں۔دونققوں اس کققو سققرمایہ داری نظققام میققں‬
‫محنت کشوں سے تجاویز فائدہ حاصل کرنے کققا بققدترین صققورت‬
‫سمجھتے ہیں۔جس کے جواز کا ازروئے انصققاف کققوئی پہلققو نہیققں‬
‫‪؎16‬‬ ‫نکلتا"۔‬
‫اقبال کا اشتراکیت کممے نظممام کممے سمماتھ متفممق‬
‫ہونا‬
‫اقبال اشتراکیت سے اس بات پر اتفاق کرتے ہیں ۔‬
‫"کہ زمین اللہ کی پیدا کی ہوئی ہے اور اس کی حیثیت پانی‬
‫اور ہوا کی سی ہے۔جس پر کسی کی کوئی شخصی ملکیت نہیں‬
‫ہے۔زمین انسان کی محنققت کققے بغیرزیققادہ رزق پیققدا نہیققں کرتققی‬
‫مگر ازروئے انصاف محض افزائش سے حاصل شدہ فائققدہ اسققی‬
‫ل چلیققا‪ ،‬اوبیققاری کققی اور فصققل کققی‬ ‫کو ملنا چققاہیئے جققس نققے ےے ہ‬
‫نگہ داشت کی ۔ زمین کا غیر حاضققر مالققک جققس نققے زمیققن سققے‬
‫پیداوار حاصل کرنے میں کسی قسم کی محنت نہیں کی پھققر وہ‬
‫کس حق سے کثیر حصے کا طالب ہو سکتا ہے۔زمین کی ملکیققت‬
‫کے بارے میں اسلمی فقہا میں کم و بیش اختلف رہا ےےہےےے۔قققرآن‬
‫کریم میں اس بارے میں جو اشارے ملتے ہیں اس کی ےےرہ کسققی‬
‫نے اپنے سوچ کے مطابق تشریح کی ہے جققو ایققک دوسققرے سققے‬
‫مختلف ہے اور اس بارے میں احادیث بھی بظقاہر بقاہم موافقق‬
‫نہیں ہیں۔اس لیے ہر شخص اپنے مطلب کی احادیث لققے لیتققا ےےہےےے‬
‫اور جو اس کی مخالف معلوم ہوتی ہے اس کو ضعیف کہہ کر رد‬
‫کر دیتا ہے یا ان کی تاویل پیش کر دیتا ہے۔قققرآن کریققم میقں جقو‬
‫زمین سے متعلق اشارے ہیں وہ کچھ اس طرح کے ہیققں۔ "الرض‬
‫اللہ" زمین اللہ کی ہے۔جو شخص زمین میں شخصی ملکیققت کققو‬
‫درست نہیں سمجھتا اس کققے نزدیققک اس کققا مطلققب یققہ ےےہےےے کققہ‬
‫زمین کے معاملے میں ذاتی ملکیت جائز نہیں ہے۔اس کا مخققالف‬
‫کہتا ہے کہ قرآن تو بار بار یہ کہتا ہے کہ "وما فی السققماوات ومققا‬
‫فی الرض"زمین و اوسمان میں جو کچققھ ےےہےےے وہ اللققہ ہےےی کققا ےےہےےے۔‬
‫انسان نے کسی چیز کو پیدا نہیں کیا اس لیققے وہ کسققی چیققز کققا‬
‫مالک حقیقی نہیں ہو سکتا ۔سب کچھ اللہ کے ےےہونےےے کققے بققاوجود‬
‫اسی اسلم نے باقی تمام چیزوں پر ذاتی ملکیت کو تسققلیم کیققا‬
‫ہے۔ فقہ اسلمی کا ایققک وسققیع حصققہ ملکیققت کققے جھگققڑوں کققے‬
‫چکانے پر مشتمل ہے۔زمیققن کققے ذاتققی ملکیققت کققے مخققالف اس‬
‫‪104‬‬
‫اویت سے استفادہ کرتے ہیں "لی س الاناس ان ا م ا س عا" جس چیز سے‬
‫متعلق انسان نے محنت نہیں کی اس پققر اسققکا ذاتققی حققق نہیققں‬
‫بنتا"۔‬
‫یورپ کی جنگ آزادی‬
‫اقبال نے ‪ 1923‬کے وسط میققں فارسققی کققا مجمققوعہ کلم‬
‫پیام مشرق شائع کیا۔ اس کے دیباچے میں لکھتے ہیں۔ کہ "یققورپ‬
‫کی جنققگ عظیققم )‪ 1914‬تققا ‪(1918‬ایققک قیققامت تھققی جققس نققے‬
‫ذیب و‬ ‫پرانی دنیا کے نظام کو پہلو سے فنا کر دیققا ےےہےےے‪،‬اور اب ت ےے ہ‬
‫تمدن کے خاکستر سے فطرت زندگی کی گہرایوں میں ایققک نیققا‬
‫ادم اور اس کے رہنے کے لیے ایک نئی دنیا تعمیر کر رہی ہے۔"‬
‫ور کققا پیغققام‬‫اس اقتباس میں اقبال جس نئے ادم کے ظ ےے ہ‬
‫دے رہا ہے وہ روس کے انقلب میں اسے نظر اویا۔ اس سے پہلققے‬
‫‪ 1921‬میں حضر راہ کہی تھی۔حضر راہ میں ملنے والے خیققالت‬
‫کو اقبال نے پیام مشرق ‪1922‬میں لکھی گئی میں اور وضاحت‬
‫سے بیان کی ہیں۔پیام مشققرق میققں ملنققے والققے خیققالت روسققی‬
‫انقلب کے زیر اثر ہیں۔ حضر راہ میں لکھی گئی اس نظققم میققں‬
‫اتھوں‬ ‫پہلی جنگ عظیم کے اثققرات‪ ،‬انقلب روس‪،‬یونققانیوں کققے ےے ہ‬
‫ترکقققوں کقققی شکسقققت‪،‬شقققریف حسقققین کقققی ترکقققوں سقققے‬
‫بغاوت‪،‬وسطی ایشیا میققں انقور پاشقا کققی ناکققامی اور لینققن کققی‬
‫کامیابی سب کا عکس اس میں موجود ہے۔حالت حاضرہ پر نکتققہ‬
‫افرینیاں ہیں زمانہ حال کی سیاست پراقبال کا معنی خیز تبصققرہ‬
‫ہے۔ حضر راہ کے ساتویں اٹھویں اور اخری بند میں اقبال نے جو‬
‫خیالت پیش کیے ہیں وہ اشتراکی سوچ سے مماثل ہیں۔‬
‫اقبال کا سرمایہ درانہ نظا م کی مخالفت کرنا‬
‫اقبال نے اس نظققم میقں سققرمایہ داری نظقام کقے مکقارانہ‬
‫چالوں سے مزدور کو خبردار کیا ہے۔ کہ کققس طققرح سققرمایہ دار‬
‫مزدور کا استحصال کر رہے ہیں۔کس طرح بھی اسققے بققدل بققدل‬
‫کر لوٹ مار کا جال بچھایا ہے۔اقبال مزدور کوخبردار کرتا ےےہےےے کققہ‬
‫غفلت میں مت پڑو جاگو اور اپنے حق کے لیے لققڑو۔ بنققدہ مققزدور‬
‫کو جو تعلیمات اقبال دے رہا ہے وہی تعلیمات اشتراکیت کے بھی‬
‫ہیں۔اقبال کقے نزدیقک سقرمایہ داری نظقام کقے جقو اجزاہیقں ا ن‬
‫کےمتعلققق اسققلم کققی تعلیمققات قریققب قریققب و ےےےہی ہےےیققں جققو‬
‫اشتراکیت کے ہیں۔اشتراکیت کے مطققابق مققزدور جققو دولققت اور‬
‫منافع کا اصل پیدا کرنے وال ہے اس کو اپنی محنت کا پورا صققلہ‬
‫نہیں ملتا۔سرمایہ دار اسے اتنی اجرت دیتا ہے کہ وہ مشکل سقے‬
‫‪105‬‬
‫اپنی پیٹ پققال سققکے۔سققرمایہ دار نققے اس استحصققال کققو جققاری‬
‫رکھنے کے لیے طققرح طققرح کققی افیققون دی ےےہےےے۔سققب کققا مقصققد‬
‫انسانوں کو طبقوں میں تقسیم کرکے استحصال کو جاری رکھنا‬
‫ہے۔انسانیت کے اس تقسیم کو اشتراکیت بنیاد سققے ختققم کرنققے‬
‫کی تعلیم دیتا ہے۔اقبال بھی اس تقسیم کے خلف ہے جو اسققلم‬
‫کے مطابق بھی درست نہیں۔‬
‫ٓادم کے بیٹے ایک ہی بدن کے اعضاء ہیں‬
‫ی درخققت‬ ‫ادم کے بیٹے ایک ہی بدن کے اعضا ہیں۔یققہ ایققک ےے ہ‬
‫کے شاخیں‪،‬پتے و پھول ہیں۔دماغ اگر سوجھ بوجھ پیدا کرنققے وال‬
‫ہے تو یہ فطرت کا عطا کردہ ہے۔اگر پاوں زمین کھسنے کو ہے تو‬
‫یہ بھی فطرت کی وجہ سے ہے۔ ایک کام بتانے وال ہے ایققک کققام‬
‫کرنے وال ایاز کا کام محمود سے نہیں ہونا کہ یہ تققو نہیققں دیکھتققا‬
‫کہ زندگی کے کاموں کی تقسیم سے زندگی کا کانٹا سراپا چمقن‬
‫بن جا تا ہے۔کومٹ کے نزدیک یہ انسان کسی غیر مری خققدا کققی‬
‫پیداوار نہیں۔بلکہ اسی فطرت کی پیداوار ہے جققو ہمققارے اردگققرد‬
‫موجود ہے۔فطرت نے تقسیم کار کیا ہے دماغ کو سوچنے پر لگایا‬
‫ہے اور پاوں کققو چلنققے پققر۔ انسققانوں میققں جققو فققرق ےےہےےے وہ بھققی‬
‫فطری ہے۔اس فرق کققی وجققہ سقے حسقد اور کقش مکققش نہیققں‬
‫ہونی چاہیے کیونکہ یہ سب فطری ہیں۔‬
‫اقبال کے نزدیک تشدد امیز انقلب کی اہمیت‬
‫ققاےےیے کققہ اقبققال‬
‫ان اشعار سے یہ غلط فہمققی نہیققں ےےہونی چ ہ‬
‫تشدد امیز انقلب کے حامی تھے۔ جیسا کہ اشتراکی چققاہتے ہیققں۔‬
‫ان اشعار سققے اقبققال کققی موجققودہ صققورت حققال پققر شققدید بققے‬
‫اطمینانی کا اظہار ہوتا ہے۔یہ معلوم کرنے کے لیققے کققہ اقبققال کققو‬
‫کس طرح کا معاشرہ مقصود ہے ۔ اس کے لیے اقبققال کققے تمققام‬
‫علمی کام کو پیش نظر رکھنا ضروری ہے۔جن میں سرمایہ داری‬
‫نظققام کققی خرابیققوں اور صققنعتی اور زرعققی محنققت کشققوں کققی‬
‫تکالیف کا ذکر ہے۔اس میں اقبال کارل مارکس اور اس کے پیرو‬
‫کاروں سے متفق نظر اتا ہے۔ مگر جب سققرمایہ داری نظققام کققے‬
‫بدل کا مسئلہ زیر غور اوتا ہے تو وہ کارل مارکس کقے عقیقدے کقا‬
‫انکار کرتے ہیں۔اور قرآن ہی کو تمام سماجی برائیوں کے خاتمے‬
‫کے لیے اکسیر کا درجہ دیتے ہیں۔اقبال کے نزدیک خققدا فرشققتوں‬
‫کے ذریعے انسان کو جو پیغام دے رہا ےےہےےے وہ درحقیقققت اسققلمی‬
‫انقلب کا ایک حصہ ہےجس کا اقبال خواہش منققد تھققا۔ یققہ انقلب‬
‫ایک ایسے معاشرے کو قائم کرے گا جو محنت کش کققی محنققت‬
‫امیروں کو غصب نہیں کرنے دے گا‪،‬اور ایسی سلطانی جمہور کا‬
‫‪106‬‬
‫باعث بنے گا جس میں سرمایہ داری کا مکرو فریب نہ ہوگا بلکققہ‬
‫اس میں مساوات اور انصاف کا ایسا نظام قائم ہو گا جس کی‬
‫مثال اسلم نے اپنے ابتدا میں قائم کی تھی۔جہاں امیققر سققلطنت‬
‫بھی عوام کا ہم رنگ اورحقوق و فرائض میں ان کے برابققر تھققا۔‬
‫اس میں تمام استحصالی قوتیں ختم ہو جققائیں گققی جققس طققرح‬
‫اں کاشققتکار کققی‬ ‫اسلم نے زمانہ جاہلیت کققی ختققم کققی تھیققں۔ج ےے ہ‬
‫محنت ناکردہ کار مالک ہڑپ نہ کر سکے گا۔‬

‫ظ‬
‫ص‬
‫ف ل چچہارما‬
‫مولنا حفظ الرحمان سیوہاروی کے نزدیک‬
‫اقتصادی نظام اشتراکیت‬
‫"جب ایک قوم اقتصادی اعتبار سے پسماندہ ہو تققو یقینققا ل یققہ‬
‫بری‬ ‫ایک المیہ ہوتا ہے‪ ،‬لیکن جب یہ قققوم حقیقققی قائققدین کققی ر ےے ہ‬
‫سے بھی محروم ےےہو جققائےےے‪ ،‬اور پھققر اخلق و کققردار کققے اعتبققار‬
‫سے بھی رو بہ زوال ہو جائے تو المیہ سنگین تر ہو جاتا ہے۔ جہاں‬
‫یہ تینوں کیفیتیں اکھٹی ہو جائیں تو وہاں بے اطمینانی‪ ،‬مایوسی ‪،‬‬
‫ور‬
‫بد امنی اور سیاسی خرابیاں ایسققے ذیلققی المیققے از خققود ظ ےے ہ‬
‫‪؎1‬‬ ‫پذیر ہوجاتے ہیں"۔‬
‫پسماندہ قوموں کا حال‬
‫"ہمارا ملک ایسی ہی صورت حال سے دوچار ہے یہ کیفیققت‬
‫صرف ہماری نہیں ہے بلکہ اکثر پسماندہ قومیں کم و بیققش اسققی‬
‫طرح زندگی کے دکھ جھیل رہی ہیں۔ اس تناظر میں ایققک طققرف‬
‫جمہوریت کی علمبردار اور دوسری طقرف سوشقلزم کقی موی د‬
‫قققوتیں اپنققے اپنققے نظریققے کققے حامققل نظققاموں کققے قیققام اور‬
‫استحکام کے لئے تگ و دو کر رہی ہیں‪ ،‬مگققر اس سلسققلے میققں‬
‫اسلمی ممالک اور با لخصوص پاکستان کا اپنا ایک تشخص ےےہےےے‬
‫کققہ ی ہےےاں مغربققی طققرز جمہےےوریت کققی حققامی قققوتیں جم ےےہوری‬
‫جدوجہد سے اپنے فکر کے مطابق اسلم کا انقلبققی نظققام رائققج‬
‫کرنے کی کوشش کر رہی ہیں۔‬
‫استعماری قوتوں سے آزادی حاصل کرنا‬
‫"اس وقت مسلمان دیگر اقتصققادی نظققاموں اور اس کققام‬
‫میں برابر برابر بٹے ہوئے ہیں۔ لیکن مسلمانوں کا ایک گروہ ایسققا‬

‫‪107‬‬
‫بھی ہے جققس نققے انقلبققی ذرائققع سققے اسققتعماری قوتققوں سققے‬
‫آزادی حاصل کی اور اپنققے مسققتعمراتی ماضققی سققے مکمققل اور‬
‫فوری قطع تعلق کر کے سوشلزم کو اپنا لیا اور اسققلم پققر قققائم‬
‫رہتے ہوئے اسققے ایققک نئققے نقام سققے متعققارف کروایققا‪" ،‬اسققلمی‬
‫سوشلزم" یا اسلمی اشتراکیت" ‪؎2‬‬
‫اسلمی اشتراکیت کیا ہے؟‬
‫اسققلمی اشققترکیت اور اس کےتصققورکا کققوئی واحققد اور‬
‫مکمل نظریہ موجود نہیں ہے۔ اسلمی اشتراکیت کا ہر علمبردار‬
‫اس کے بارے میں الگ الگ خیالت رکھتققا ےےہےےے اور اس تصققور کققو‬
‫مختلف معنوں میں استعمال کرتا ہے‪ ،‬لیکققن اس کققے بقاوجود ان‬
‫سب کا منتہا ایک ہی ہے کہ معاشرہ میں ایک انسان پققر دوسققرے‬
‫ی‬‫انسان کققا استحصققال ختققم ہوسائنسققی اشققتراکیت کققا بھققی ی ےے ہ‬
‫مقصد ہے اس لیے سائنسی یا مارکسی اشتراکیت اور اسققلمی‬
‫م اصقول پقر‬ ‫اشقتراکیت کقے دعقوے داروں کقا اس بنیقادی اور ا ےے ہ‬
‫ی مقصققد کققو کققس‬ ‫کوئی نظریاتی اختلف نہیققں ‪ ،‬لیکققن اس اعلقق ی‬
‫طرح حاصل کیا جا سکتا ‪ ،‬یہاں سے نظریاتی اختلف شروع ہوتققا‬
‫ہے۔‬
‫سائنسی اشترکیت کا نظریہ‬
‫"سائنسققی اشققتراکیت کققا نظریققہ اس استحصققال کققو ختققم‬
‫کرنے کا حتمی طریقہ یہ بتاتا ہے کہ وسائل پیقداوار کقی شخصقی‬
‫ملکیت کو یکسر ختم کر کہ انہیں اجتمققاعی ملکیققت کققی تحویققل‬
‫میں دے دیا جائے۔ اجتماعی ملکیت سے مراد یہ نہیں ےےہےےے کققہ ےےرہ‬
‫قسم کی نجی ملکیت ختم کر دی جائے بلکققہ اس کققا مطلققب یققہ‬
‫ہے کہ صرف پیداواقر کے ذرائع کو قومی ملکیت قرار دیا جائے۔‬
‫مارکسی نظریے کے مطابق صرف اسی اسققاس پققر معاشققرتی‬
‫پیداوار کا ایسا اشتراکی نظام ققائم کیقا جاسقکتا ےےہےےے جقس میقں‬
‫ایک انسان پر دوسرے انسان کا استحصال ناممکن العمل ےےےوہ"۔‬
‫‪؎3‬‬
‫من سیوہاروی کی رائے‬
‫مولنا محمد حفظ الرح ی‬
‫من سیوہاروی نققے شققریعت کققے روایققاتی‬ ‫محمد حفظ الرح ی‬
‫ڈھانچے کے اندر اسلمی سوشلزم کے تخیل کو پروان چڑھققانے‬
‫کی کوشش کی۔ ان کے نزدیک بعض نظریققے نئققی اصققطلحوں ‪،‬‬
‫جدید تعبیروں اور مخصوص ماحول کققے اثققرات کققے پیققش نظققر‬
‫اگرچہ پہلے نظریوں کے مقابلے میققں ظققاہری چمققک دمققک نہیققں‬
‫رکھتے لیکن عملی تجربہ میں ان کی افادیت بہت زیادہ‪ ،‬ان کققی‬

‫‪108‬‬
‫پذیرائی بہت دقیع اور نظام معیشت میں ان کققی درسققت کققاری‬
‫ی‬‫بے حد موزوں ثابت ہوتی ےےہےےے۔لہذاکسققی عملققی نظققام میققں و ےے ہ‬
‫نظریے قابل قدر جگہ پانے کے مسققتحق ہیققں جققو تعققبیری نقطققہ‬
‫نظر سے مسحور کن نظر نہ آتے ہوں مگققر عملققی دائققرہ میققں‬
‫اس قدر مفید اور ہمہ گیر ہوں کہ اگر ان کودلیل راہ بنایا جققائے‬
‫تو بل شبہ وہ ایک صالح معاشی نظام اور امن عالم کے کفیل ےےےوہ‬
‫سکتے ہیں۔ اور تمام انسانوں کی خوشققحالی اورامققن و عققافیت‬
‫کے راہنما بن سکتے ہیں۔‬
‫معاشرے میں صالح معاشی نظام‬
‫"کائنات ہست و بود میں "ایققک صققالح معاشققی نظققام" کققی‬
‫اس لیے ضرورت پیش آتی ہے کہ ہر ایک انسان میققں یققہ فطققری‬
‫ی کی بخشی ہوئی فائققدہ‬ ‫جذبہ موجود ہے کہ اس کو خدائے تعال ی‬
‫اٹھانا چاہیے مگر یہ انفرادی جذبہ جب زندگی کی کشققمکش اور‬
‫وسائل حیات کی کشمکش میں ایک دوسرے سققے ٹکراتققاہے تققو‬
‫ی کی جانب سے تمققام کائنققات‬ ‫قانون فطرت جو کہ خدائے تعال ی‬
‫پر حاوی ہے۔ ہر ایک انسان کو اجتماعی زنققدگی بسققر کرنققے پققر‬
‫ت اجتماعی بغیققر کسققی ایسققے نظققام‬ ‫مجبور کرتا ہے لیکن یہ حیا ه‬
‫کے متصور نہیں ہو سکتی جب تک ان کے درمیان ایسققا تعققاون و‬
‫اشتراک موجود نہ ہو جس کققی بنیققاد عققدل و حققق معیشققت کققی‬
‫مساوات پر قائم ہو۔ تاکہ وہ "صالح معاشی نظققام" کےلیققے کلیققد‬
‫ی عققالم جققود‬ ‫بن سکے اور اس قسم کا تعاون و اشتراک جب ےے ہ‬
‫ب ذیققل اصققول کققار‬ ‫میں آسکتا ہے کققہ نظققام معیشققت میققں حسقق ه‬
‫فرماہوں"۔ ‪؎4‬‬
‫اقتصادی نظام معیشت کے اصول‬
‫اقتصادی نظام نظام معیشت کے اصولدرج ذیل ہیں‪:‬‬
‫وہ نظام ہر متعلقہ فرد کی معاشی زندگی کا کفیل ہو اور‬ ‫‪1‬۔‬
‫اپنے دائرہ عمل میں کسی بھی فققرد کققو معاشققی زنققدگی‬
‫سے محروم نہ رکھتاہو۔‬
‫ایسے اسباب و وسائل کققا قلققع قمققع کرتققا ےےوہ جققو معاشققی‬ ‫‪2‬۔‬
‫دستبرد کا موقعہ مہیا کر کققے افققراد انسققانی کققے درمیققان‬
‫ظلم و استبداد کققی راہیققں کھققولتے اور معاشققی نظقام کققے‬
‫فساد کا موجب بنتے ہوں۔‬
‫اسباب دولت کو کسی خاص فرد یا محققدود جمققاعت کققے‬ ‫‪3‬۔‬
‫اندر سمٹ آنے اور اس فرد یا جماعت کققو نظققام معیشققت‬
‫پر قابض ہونے سے باز رکھتا ہو تاکہ معاشققی نظققام کائنققات‬
‫‪109‬‬
‫انسان کی فلح کی بجائے مخصوص طبقققوں کققے اغققراض‬
‫کا آلہ کار بن کر رہ جائے۔‬
‫محنت اور سرمایہ کے درمیان صحیح توازن قائم کرتا او ر‬ ‫‪4‬۔‬
‫ایک کو دوسرے کی حدود پر غاصبانہ دستبردار سے بچاتا‬
‫ہو۔ ‪؎5‬‬
‫اسلم اور اشتراکیت کے اقتصادی نظام میں‬
‫فرق‬
‫مولنا سیوہاروی کے مطابق اسلمی نظام اقتصادی اور‬
‫اشتراکی نظام اقتصادی کے درمیان جن امور میں اتفاق‬
‫ب ذیل ہیں‪:‬‬ ‫ہے وہ حس ه‬
‫اکتناز یا احتکار یا جمع دولت اور مخصوص طبقے میں‬ ‫‪1‬۔‬
‫دولت کی تحدید ‪ ،‬نہ یہ جائز قراردیتا ہے نہ وہ۔ دونوں ان ہر‬
‫دو امور کو باطل اور اقتصادی زندگی کےلیے تباہ کن‬
‫سمجھتے ہیں۔‬
‫دونوں ضروری سمجھتےہیں کہ اقتصادی نظام کی اساس‬ ‫‪2‬۔‬
‫و بنیاد عام معاشی مفاد پر قائم ہو اور ہر شخص کو‬
‫معاش سے حصہ ملے اور کوئی شخص بھی اس سے‬
‫محروم نہ رہے۔‬
‫ی کہ اقتصادی نظام کے دائرہ میں تمام‬ ‫دونو ں کا یہ دعو ی‬ ‫‪3‬۔‬
‫انسانی دنیا جغرافیائی ‪،‬طبقاتی اور نسلی امتیازات سے‬
‫یکسر جدا ہو کر یکساں اور برابر حیثیت میں شمار ہو۔‬
‫ان دونوں کے درمیان اس میں بھی اتفاق ہے کہ جماعتی‬ ‫‪4‬۔‬
‫حقوق انفرادی حقوق پر مقدم ہوں۔‬
‫ان دونوں کے درمیان یہ بھی مسللم ہے کہ معاشی‬ ‫‪5‬۔‬
‫دستبرد کے ذریعہ حاکم و محکوم اور غلم و آقا کا‬
‫سسٹم قائم نہ ہو سکے اور قائم شدہ کو مٹا دیا جائے۔‬
‫اسلم اور اشتراکیت کے اقتصادی نظام میں‬
‫اساسی اختلف‬
‫یہ وہ امور ہیں جن میں دونوں اقتصادی نظام ہم آہنگ نظر‬
‫آتے ہیں لیکن دو امر ایسے ہیں کہ جن میں ان دونوں کے‬
‫درمیان بنیادی اور اساسی اختلف ہے اور ان ہر دو امور میں‬
‫ایک دوسرے کے ساتھ کسی طرح مطابقت پیدا نہیں کی جا‬
‫سکتی اور یہ اختلف اس وقت اور زیادہ وضاحت کے ساتھ‬
‫رونما ہو جاتاہے جبکہ سوشلزم کا آخری درجہ"کمیونزم" کی‬
‫‪110‬‬
‫شکل میں سامنے آتا ہے اور جس کا تجربہ آج کل روس میں‬
‫کیا جا رہا ہے۔‬
‫اقتصادی نظام میں مولنا سیوہاروی کی‬
‫تعلیمات کا خلصہ‬
‫مققن سققیوہاروی کققی تعلیمققات کققا‬
‫الغرض مولنا حفققظ الرح ی‬
‫خلصہ اس طرح ہے کہ مولنا کا استدلل عملی نکتققہ نگققاہ سققے‬
‫شروع ہوتا ہے کہ سماجی زندگی کققی اقتصققادی نققاہمواری بققڑی‬
‫حد تک قدرتی ہے اور قرآن اس کو تسلیم کرتا ہے۔قرآن نققے اس‬
‫بات پر زور دے کر پابندیاں اور میزان قائم کئے ہیں ہر فرد کققو‬
‫روز گار کا پورا حق ہے اور معاشرے سے اس کی سفارش کرنا‬
‫عین اقتصای عدل و انصاف کے مققترادف ےےہےےے۔ معاشققی مسققاوات‬
‫جس پر قرآن نے زور دیا ہے یقہ ےےہےےے کقہ سقب کققو روز گققار کقے‬
‫وۃ کو ایک ادارے کی شکل دینققا اس‬ ‫مواقع فراہم کئے جائیں۔ زک ی‬
‫امر کی اہمیت پر دللت کرتا ہے کہ کسی کو یہ حققق نہیققں پہنچتققا‬
‫کہ وہ اپنی اور اپنے کنبے کقی ضقروریات سقے زیقادہ مقال جمقع‬
‫کرے۔وہ اپنی ضروریات سے زیادہ جو منافع جمع کرتا یققا جائیققداد‬
‫بناتا ہے اس سے معاشرے کی فلح وبہبود کےلئے خزانہ عققامرہ‬
‫کی نظر کر دینا چاہیے۔ قرآن اسی وجہ سے ایک ایسا اقتصققادی‬
‫نظام قائم کرنا چاہتاہے جس میں دولت مند رضا کارانہ طور پققر‬
‫اں‬
‫اتنے بڑے بڑے ٹیکس ادا کریں جن سے معیار زندگی میققں ج ےے ہ‬
‫تک ممکن ہو امتیاز ختم ہو جائے۔‬
‫اسلم کا بنیادی مقصد طبقاتی امتیاز کو ختم‬
‫کرنا ہے‬
‫اسلم کا مستقل مقصد یہ ہے کہ وہ طبقاتی امتیاز کققو کققم‬
‫سے کم کر دے حالنکہ اسلمی نجی تجارت وسققرمایہ کققاری اور‬
‫لمحدود فیاضی کا مرکب ہے۔ اگر اصول زکویۃ کی صققحیح تاویققل‬
‫یہی ہے تو پھر اللہ نے اس کی اجازت کیوں دی کہ لوگ ثروت و‬
‫افلس کے تفاوت کے ساتھ پیدا ہوں۔ مولناسیوہاروی نے اس کققا‬
‫ی اور غریققب و امیقر کقی‬ ‫ی و اعلق ی‬ ‫یہ جواز پیش کیقا ےےہےےے کقہ ادنق ی‬
‫آفرینش کے ذریعے اللہ لوگوں کا امتحان لیتققاہے کقہ یقہ دیقک کققہ‬
‫صاحب ثروت ایثار کر کے کس طققرح اپنققے معاشققرتی فرائققض‬
‫کی ذمہ داریوں سے عہدہ برآ ےےہوتےےےہیں۔ بعینققہ ایققک شققخص جققس‬
‫میں کاروبققار کققی زیققادہ صققلحیت ےےہےےے یققا زیققادہ ذہنققی اور دمققاغی‬
‫قابلیت کا مالک ہے وہ صرف اپنے ہی لیے نہیں کماتققا بلکققہ اپنققی‬
‫پوری قوم کے لیے کماتا ہے۔‬

‫‪111‬‬
‫خصوصی اجارہ داری کا خاتمہ‬
‫سققرمایہ داری کققا ان معنققوں میققں کققہ ذرائققع پیققداوار کققی‬
‫خصوصی اجارہ داری یا دولت صرف چند ہاتہوں میں رہے قققرآن‬
‫سخت خلف ہے ۔ برعکس اس کے عوام الناس کققی فلح وبہبققود‬
‫کے لیے چند باصققلحیت افققراد کققا دولققت اور سققرمایہ پیققدا کرنققا‬
‫اخلقی بنیاد پر ہے اور اس طرح مققالی چیققرہ دسققتیوں مثل ل سققود‬
‫خققوری‪ ،‬ناجققائز منققافع خققوری‪ ،‬سققٹہ بققازی اور قمققار بققازی کققو‬
‫اپنےنظام سے خارج کر دیتاہے۔‬
‫اسلمی سوشلزم ایک دوسمتی حرکت ہے‬
‫مولنا سیوہاروی کے مطابق اس کا مطلب یہ نہیں ہے کققہ‬
‫غیر مستحق یا معاشرے کے کم مستعد افراد کو یہ حققق حاصققل‬
‫ہے کہ وہ حوصلہ مند اور جفا کش طبقے کی مساعی آمدنی اور‬
‫خیرات سے طفیلیوں کی طرح چمٹققے رہیققں۔ جققس طققرح دولققت‬
‫اور صلحیت صاحب ثروت کے لئے خداونقدی امتحقان ےےہےےے اسقی‬
‫طرح افلس و اقتصادی ناہمواری مفلسوں اور نققاداروں کےلئققے‬
‫بھی ایک امتحان ہے جنہیں اس طرح جدوجہد کرنے‪ ،‬کمققانے اور‬
‫م کیققا‬‫اقتصادی اور معاشرتی سیڑہی پر چڑھنققے کققا موقققع فرا ےے ہ‬
‫جاتاہے۔ اس لیے اسلمی سوشققلزم ایققک دو سققمتی حرکققت ےےہےےے‬
‫جس میں اہل ثروت سخت ایثارانہ فیاضی سے آگققے بڑھتققے ہیققں‬
‫اور نادار انتھک کوشش اور محنت سے اس خلیققج کققو پققر کرنققے‬
‫‪؎6‬‬ ‫میں لگے رہتےہیں جو طبقات کو تقسیم کرتی ہے"۔‬
‫اسلمی ریاست کا قائد ایک خلیفہ کی حیثیت‬
‫رکھتا ہے‬
‫اسی طرح اسلم سیاسی ڈھانچہ کی اسققتحقاقی حققاکمیت‬
‫کے تصور کی بھی نفی کرتققا ےےہےےے۔ اسققلم کققی دینققی ریاسققت کققا‬
‫قائدنہ شہنشاہ ہوتا ہے‪ ،‬نہ آمرانہ جمہوریہ کا صدر ہوتاہے۔ اس کققی‬
‫حیثیت خلیفہ کی ہوتی ہے جو سطح ارض پر اللہ کققے نققائب کققی‬
‫خدمت انجام دیتا ہے۔ خلیفہ کی اطاعت و فرمانبرداری قققوم پققر‬
‫اسی وقت تک عائد ہوتی ہے جب تک کققہ مققذکور الصققدر قققرآن‬
‫سققنت کققے احکامققات بجققا لتققاہے۔ وہ اس بققات کققا پابنققد ےےہےےے کققہ‬
‫مجلس شویری کے ذریعے‪ ،‬جو بحیثیت مجموعی قوم کی پختققہ‬
‫فہم و دانش کی نمائندگی کرتی ہے‪ ،‬اتفققاق رائققے حاصققل کققرے۔‬
‫ی اور اپنققے مشققیروں کققی آراء‬ ‫اس کا فرض ہے کہ وہ احکام اعل ی‬

‫‪112‬‬
‫پر سختی سے عامل رہے۔ اس مثالی کردار کو پہلے چار خلفائے‬
‫راشدین اور ااموی خلیفہ عمر بن عبدالعزیز نے پورا کیا۔‬

‫اسلمی ریاست میں اقتصادی ڈھانچہ کا انتظام‬


‫اسلمی ریاست میں اقتصققادی ڈھققانچہ کققا انتظققام خلفققت‬
‫کے قانونی حدود میں آتا ہے‪ ،‬جو زمینققوں کققا معقققول انتظققام یققا‬
‫زمیققن دار اور مققزارع کققے مققابین حکققم کققا کققام سققر انجققام دے‬
‫سکتاہے۔وہ نجی ملکیت کی انتہائی حد مقرر کر سکتا ہے‪ ،‬دولققت‬
‫کی مکرر تقسیم کے سلسلہ میں مداخلت کر سققکتاہے۔ قققانون‬
‫شریعت کے مطابق ٹیکس لگا سکتا ہے‪ ،‬سود خوری ‪ ،‬قمار بازی‬
‫یا دوسرے ناجائز استحصال کے طریقققوں کققو غیققر قققانونی قققرار‬
‫دے سکتا ہے۔ صققنعت و تجققارت اور دولققت کققے دوسققرے ذرائققع‬
‫پیداوار کی ترقی کے لیے ترغیبات مہیا کر سکتاہے۔‬
‫دور جدید کا اقتصادی نظام‬
‫دور جدید کی اقتصادیات کے سلسلہ میں مولنا سققیوہاروی‬
‫ادارہ ہائے امداد باہمی کو سرمایہ دارانہ بنکاری کے مقابلہ میققں‬
‫کام کرنے کا موقع دینے کقی سقفارش کرتقے ہیقں کیقونکہ م ؤخر‬
‫الذکر ممنوع سود خققوری پققر قققائم ہیققں۔انہیققں اسققلم میققں قابققل‬
‫انتقال اور ناقابل انتقالی ملکیت کی اجازت نظر آتققی ےےہےےے‪ ،‬لیکققن‬
‫نجی ملکیت کے حققدود مقققدار محققدود ہیققں۔ قققومی دولققت کققے‬
‫ایسے ذرائع مثل ل کانیں یا ذرائع مواصلت حکققومت کققی تحویققل‬
‫میں ہونے چاہییں۔ صنعت و حرفت نجی ملکیت میں ہو سکتی ہے‬
‫لیکن سرمایہ دار اور مزدور طبقے کے مابین اقتصادی تعلقات‬
‫پر ریاست کو پورا اختیار ہونا چاہیے تاکہ استحصال کے امکانات‬
‫بالکل مفقود ہو جائیں اور مزدور طبقہ کی فلح و بہبود یقینی ہو‬
‫‪؎7‬‬ ‫جائے"۔‬
‫مارکسیت کے پانچ عناصر‬
‫الغرض مولنا کققے مطققابق اسققلم کققا مارکسققیت کققے پانققچ‬
‫عناصر سے اس کا اشتراک ہے‪ :‬کسی مخصوص وممتاز طبقققہ‬
‫کے ہ اتہ وں میں سرمایہ کے ارتکققاز کققی ممققانت ‪،‬تمققام انسققانوں‬
‫کےلیققے مواقققع کققی مسققاوات اوران کققے معاشققرت فلح وبہبققود‬
‫کےلیے ریاست کی جانب سققے اقتصققادی ڈھققانچہ کققی تنظیققم ‪،‬‬
‫انفرادی کی بجائے اجتماعی سماجی مفاد کو ترجیققح ‪ ،‬سققماجی‬

‫‪113‬‬
‫انقلب کے ذریعے ایسے طبقاتی نظام کو روکنا یا منسوخ کرنققا‬
‫جو استحصال کرنے والوں اور استحصققال کققے شققکار ‪ ،‬صققاحبان‬
‫ثروت اور نادروں یا حاکموں اور محکوموں پر مشتمل ہو۔‬

‫خوالہ بچات‬
‫‪ .1‬سندھی ‪ ،‬عبیداللہ‪ ،‬مولنا ذاتی ڈائققرئ ص‪ 9:‬ادبسققتان مققوچی‬
‫دروازہ لہور ‪1946‬‬
‫‪ .2‬سندھی ‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا ذاتققی ڈائققرئ ص‪ 10-12:‬ادبسققتان‬
‫موچی دروازہ لہور ‪1946‬‬
‫‪ .3‬سندھی ‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا ذاتققی ڈائققرئ ص‪ 12-14:‬ادبسققتان‬
‫موچی دروازہ لہور ‪1946‬‬
‫‪ .4‬سققندھی ‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا ذاتققی ڈائققرئ ص‪14-17:‬ادبسققتان‬
‫موچی دروازہ لہور ‪1946‬‬
‫‪ .5‬سالک ‪ ،‬عبدالمجید‪ ،‬مسققلم ثققافت ہندوسققتان میقں ص‪،410:‬‬
‫ناظم ادارہ ثقافت اسلمیہ لہور ‪2011‬‬
‫‪ .6‬ندیم ‪ ،‬روشن‪ ،‬پاکستان برطانوی غلمی سے امریکققی غلمققی‬
‫تک ص‪ 5:‬لہور تخلیقات‬
‫‪ .7‬سرور‪ ،‬محمد‪ ،‬پروفیسر ‪ ،‬مولنققا عبققداللہ سققندھی خطبققات و‬
‫مقالت ص‪ 213 :‬سندھ ساگر اکیڈمی لہور ‪1996‬‬
‫‪ .8‬سرور‪ ،‬محمد‪ ،‬پروفیسر ‪ ،‬مولنققا عبققداللہ سققندھی خطبققات و‬
‫مقالت ص‪ 213 :‬سندھ ساگر اکیڈمی لہور ‪1996‬‬
‫‪ .9‬سرور‪ ،‬محمد‪ ،‬پروفیسر ‪ ،‬مولنققا عبققداللہ سققندھی خطبققات و‬
‫مقالت ص‪162-163 :‬سندھ ساگر اکیڈمی لہور ‪1996‬‬
‫ور تخلیقققات‬
‫ذیب ص‪ 243:‬ل ےے ہ‬ ‫‪ .10‬جاوید ‪ ،‬قاضی ہندی مسلم ت ےے ہ‬
‫‪1995‬‬
‫ور‬
‫ذیب ص‪ 248-249:‬ل ےے ہ‬ ‫‪ .11‬جاویققد ‪ ،‬قاضققی ہنققدی مسققلم ت ےے ہ‬
‫تخلیقات ‪1995‬‬
‫ور تخلیقققات‬
‫ذیب ص‪257:‬ل ےے ہ‬ ‫‪ .12‬جاوید ‪ ،‬قاضی ہندی مسققلم ت ےے ہ‬
‫‪1995‬‬
‫‪ .13‬سرور‪ ،‬محمد‪ ،‬پروفیسر ‪ ،‬مولنا عبداللہ سققندھی خطبققات و‬
‫مقالت ص‪94-95 :‬سندھ ساگر اکیڈمی لہور ‪1996‬‬

‫‪114‬‬
‫‪ .14‬سندھی‪ ،‬عبیداللہ‪ ،‬مولنا‪ ،‬شقعور و آگقاہی )آفقادات عبیقداللہ‬
‫سقققندھی( ص‪ 17-18:‬مرتقققب سقققید مطلقققوب زیقققدی مکقققی‬
‫دارالکتب لہور ‪1994‬‬
‫‪ .15‬سندھی‪ ،‬عبیداللہ‪ ،‬مولنا‪ ،‬شقعور و آگقاہی )آفقادات عبیقداللہ‬
‫سندھی( ص‪ 18:‬مرتب سید مطلققوب زیققدی مکققی دارالکتققب‬
‫لہور ‪1994‬‬
‫‪ .16‬سققندھی‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا‪،‬آفققادات و ملفوظققات ص‪186:‬‬
‫ور‬
‫مرتققب پروفیسققر محمققد سققرور سققندھ سققاگر اکیققڈمی ل ےے ہ‬
‫‪1996‬‬
‫‪ .17‬سققندھی‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا‪،‬آفققادات و ملفوظققات ص‪192:‬‬
‫ور‬
‫مرتققب پروفیسققر محمققد سققرور سققندھ سققاگر اکیققڈمی ل ےے ہ‬
‫‪1996‬‬
‫‪ .18‬سققندھی‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا‪،‬آفققادات و ملفوظققات ص‪198:‬‬
‫ور‬
‫مرتققب پروفیسققر محمققد سققرور سققندھ سققاگر اکیققڈمی ل ےے ہ‬
‫‪1996‬‬
‫‪ .19‬سققندھی‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا‪،‬آفققادات و ملفوظققات ص‪332:‬‬
‫ور‬
‫مرتققب پروفیسققر محمققد سققرور سققندھ سققاگر اکیققڈمی ل ےے ہ‬
‫‪1996‬‬
‫‪ .20‬سندھی‪ ،‬عبیداللہ‪ ،‬مولنا‪،‬آفادات و ملفوظات ص‪332-333:‬‬
‫ور‬
‫مرتققب پروفیسققر محمققد سققرور سققندھ سققاگر اکیققڈمی ل ےے ہ‬
‫‪1996‬‬
‫‪ .21‬سققندھی‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا‪،‬آفققادات و ملفوظققات ص‪336:‬‬
‫ور‬
‫مرتققب پروفیسققر محمققد سققرور سققندھ سققاگر اکیققڈمی ل ےے ہ‬
‫‪1996‬‬
‫‪ .22‬سندھی‪ ،‬عبیداللہ‪ ،‬مولنا‪،‬آفادات و ملفوظات ص‪206-207:‬‬
‫ور‬
‫مرتققب پروفیسققر محمققد سققرور سققندھ سققاگر اکیققڈمی ل ےے ہ‬
‫‪1996‬‬
‫‪ .23‬سققندھی‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا‪،‬آفققادات و ملفوظققات ص‪331:‬‬
‫ور‬
‫مرتققب پروفیسققر محمققد سققرور سققندھ سققاگر اکیققڈمی ل ےے ہ‬
‫‪1996‬‬
‫‪ .24‬سققندھی‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا‪،‬آفققادات و ملفوظققات ص‪217:‬‬
‫ور‬
‫مرتققب پروفیسققر محمققد سققرور سققندھ سققاگر اکیققڈمی ل ےے ہ‬
‫‪1996‬‬
‫‪ ،‬امالی عبیدیہ ص‪ 37:‬ترتیققب‬ ‫‪ .25‬سندھی‪ ،‬عبیداللہ‪ ،‬مولنا‬
‫و تدوین شیخ بشیر احمد لدھیانی‬

‫‪115‬‬
‫‪ .26‬سندھی‪ ،‬عبیداللہ‪ ،‬مولنا‪،‬آفادات و ملفوظات ص‪192-193:‬‬
‫ور‬
‫مرتققب پروفیسققر محمققد سققرور سققندھ سققاگر اکیققڈمی ل ےے ہ‬
‫‪1996‬‬
‫سندھی‪ ،‬عبیداللہ‪ ،‬مولنا‪،‬آفققادات و ملفوظققات ص‪-168:‬‬ ‫‪.27‬‬
‫‪ 167‬مرتب پروفیسر محمد سرور سندھ ساگر اکیڈمی لہور‬
‫اپریل ‪2014‬‬
‫‪ .28‬سندھی‪ ،‬عبیداللہ‪ ،‬مولنا‪،‬آفادات و ملفوظات ص‪161-162:‬‬
‫مرتب پروفیسر محمد سرور سندھ ساگر اکیڈمی لہور اپریل‬
‫‪2014‬‬
‫‪ .29‬سققندھی‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا‪،‬آفققادات و ملفوظققات ص‪163:‬‬
‫مرتب پروفیسر محمد سرور سندھ ساگر اکیڈمی لہور اپریل‬
‫‪2014‬‬
‫‪ .30‬سققندھی‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا‪،‬آفققادات و ملفوظققات ص‪162:‬‬
‫مرتب پروفیسر محمد سرور سندھ ساگر اکیڈمی لہور اپریل‬
‫‪2014‬‬
‫‪ .31‬سققندھی‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا‪،‬آفققادات و ملفوظققات ص‪163 :‬‬
‫مرتب پروفیسر محمد سرور سندھ ساگر اکیڈمی لہور اپریل‬
‫‪2014‬‬
‫‪ .32‬سققندھی‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا‪،‬آفققادات و ملفوظققات ص‪164:‬‬
‫مرتب پروفیسر محمد سرور سندھ ساگر اکیڈمی لہور اپریل‬
‫‪2014‬‬
‫‪ .33‬سققندھی‪ ،‬عبیققداللہ‪ ،‬مولنققا‪،‬آفققادات و ملفوظققات ص‪164:‬‬
‫مرتب پروفیسر محمد سرور سندھ ساگر اکیڈمی لہور اپریل‬
‫‪2014‬‬
‫‪ .34‬سندھی‪ ،‬عبیداللہ‪ ،‬مولنا‪،‬آفادات و ملفوظات ص‪181-180:‬‬
‫مرتب پروفیسر محمد سرور سندھ ساگر اکیڈمی لہور اپریل‬
‫‪2014‬‬
‫‪ .35‬سندھی‪ ،‬عبیداللہ‪ ،‬مولنا‪،‬آفادات و ملفوظات ص‪182-181:‬‬
‫مرتب پروفیسر محمد سرور سندھ ساگر اکیڈمی لہور اپریل‬
‫‪2014‬‬
‫‪ .36‬سندھی‪ ،‬عبیداللہ‪ ،‬مولنا‪،‬آفادات و ملفوظات ص‪159-158:‬‬
‫مرتب پروفیسر محمد سرور سندھ ساگر اکیڈمی لہور اپریل‬
‫‪2014‬‬
‫‪ .37‬سقققندھی‪ ،‬عبیقققداللہ‪ ،‬مولنقققا‪،‬آفقققادات و ملفوظقققات ص‪:‬‬
‫ور‬
‫‪170‬مرتب پروفیسر محمد سرور سندھ ساگر اکیققڈمی ل ےے ہ‬
‫اپریل ‪2014‬‬
‫فصل دوم‬
‫‪116‬‬
‫‪ .1‬لری ‪ ،‬احمققر حسققرت مو ےےےہانی حیققات اورکارنققامےےے ص‪134:‬‬
‫اترپردیققش ااردو اکققادمی ادبسققتان نظققام گورکھپققور لکھنئققو‬
‫اشاعت اول ‪1973‬‬
‫‪.2‬‬
‫‪ .3‬حنفی‪ ،‬مظفر حسرت موہانی ص‪ 11:‬نیشنل بک ٹرسٹ انڈیا‬
‫‪1989‬‬
‫‪ .4‬حنفی‪ ،‬مظفر حسرت موہانی ص‪ 14:‬نیشنل بک ٹرسٹ انققڈیا‬
‫‪1989‬‬
‫‪ .5‬حنفی‪ ،‬مظفر حسرت موہانی ص‪ 15:‬نیشنل بک ٹرسٹ انققڈیا‬
‫‪1989‬‬
‫انی ص‪ 9:‬سققاھیتہ اکققادمی نئققی‬ ‫‪ .6‬خان‪ ،‬حبیب‪ ،‬ایم ‪،‬حسرت مو ےے ہ‬
‫دہلی‬
‫‪ .7‬حنفی‪ ،‬مظفر حسرت موہانی ص‪ 15:‬نیشنل بک ٹرسٹ انققڈیا‬
‫‪1989‬‬
‫‪ .8‬حنفی‪ ،‬مظفر حسرت موہانی ص‪ 16:‬نیشنل بک ٹرسٹ انققڈیا‬
‫‪1989‬‬
‫انی ص‪ 7:‬ایجوکیشققن‬ ‫‪ .9‬عبدالشققکور منتخبققہ کلم حسققرت مو ےےے ہ‬
‫پبلشر لکھنئو ‪1986‬‬
‫‪ .10‬لری ‪ ،‬احمققر حسققرت مو ےےےہانی حیققات اورکارنققامےےے ص‪81:‬‬
‫اترپردیققش ااردو اکققادمی ادبسققتان نظققام گورکھپققور لکھنئققو‬
‫اشاعت اول ‪1973‬‬
‫‪ .11‬عبدالشکور منتخبہ کلم حسرت موہانی ص‪ 13:‬ایجوکیشققن‬
‫پبلشر لکھنئو ‪1986‬‬
‫‪ .12‬عبدالشکور منتخبہ کلم حسرت موہانی ص‪ 13:‬ایجوکیشققن‬
‫پبلشر لکھنئو ‪1986‬‬
‫‪ .13‬انصققاری‪ ،‬رضققا‪ ،‬محمققد‪ ،‬مفققتی ‪ ،‬مرتبققہ ‪،‬انتخققاب خطبققات‬
‫انی ص‪ 93-95:‬اتققر پردیققش ااردو اکققادمی لکھنئققو‬ ‫حسرت مو ےے ہ‬
‫‪1988‬‬
‫انی ص‪21-22:‬‬ ‫‪ .14‬عبدالشقققکور منتخبقققہ کلم حسقققرت مو ےےےےے ہ‬
‫ایجوکیشن پبلشر لکھنئو ‪1986‬‬
‫‪ .15‬حسن‪ ،‬اختر‪،‬نقد و نظر حسن پبلشرز اینققڈ بققک پرومققوٹرس‬
‫حیدرآباد ‪1986‬‬
‫‪ .16‬ظہیر‪ ،‬سجاد‪ ،‬روشنائی صققفحہ ‪ ،107‬پرائققم ٹققائم پبلیکشققنز‬
‫ماڈل ٹاون لہور ‪2006‬‬
‫‪ .17‬لری ‪ ،‬احمققر حسققرت مو ےےہانی حیققات اورکارنققامےےے ص‪129:‬‬
‫اترپردیققش ااردو اکققادمی ادبسققتان نظققام گورکھپققور لکھنئققو‬
‫اشاعت اول ‪1973‬‬
‫‪117‬‬
‫‪ .18‬لری ‪ ،‬احمققر حسققرت مو ےےہانی حیققات اورکارنققامےےے ص‪136:‬‬
‫اترپردیققش ااردو اکققادمی ادبسققتان نظققام گورکھپققور لکھنئققو‬
‫اشاعت اول ‪1973‬‬

‫بباب سوما‬ ‫ص‬


‫ظ‬
‫ظ‬ ‫ش‬ ‫ی‬‫ب‬ ‫چب‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ل سوما‬ ‫ف ق‬
‫ل ظ ل ییک یشتز لہہور‬ ‫ش‬ ‫اور ‪ 45‬س ییگچب ی ی‬ ‫‪ .1‬ا قق بیال ‪ ،‬بچاویبد‪ ،‬ز ظبدہ رود ص‪61:‬‬
‫ہور‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫م‬
‫ش‬ ‫ظ‬
‫‪ .2‬ا قق بیال ‪ ،‬بچاویبد‪ ،‬زبدہ رود ص‪ 65:‬س یگ ی ل لی قک یشتز ل ہ‬
‫‪ .3‬ا قق بیال‪ ،‬م‪ ،‬علماہ‪ ،‬بباعظبگ ق قدرا ‪ ،‬د یب بیاچجہ از یسیخ ع بیدال قادر ببچب ییترش شتر ظایبٹ ل سا بق مدیتر محذن‬
‫ب‬ ‫ٹ‬
‫‪ .4‬ا قق بیال‪ ،‬م‪ ،‬علماہ‪ ،‬ظلم القنصاد ‪،‬ص‪ 6:‬ی شس ظیگ قم ییل ب ل ییک ٹشتز لہہور ‪2004‬‬
‫‪ .5‬اق بیال‪ ،‬م‪ ،‬علماہ‪ ،‬ببابگ درا ‪ ،‬د یب بیاچجہ از سیخ ع بیدال قادر ببیترشتر ایبٹ ل ساب بق مدیتر محذن‬
‫‪ .6‬اخققتر‪ ،‬جمیققل ‪ ،‬اقبققال اور اشققتراکیت ص‪ 30:‬انٹرنیشققنل ااردو‬
‫فاونڈیشن نئی دہلی‬
‫‪ .7‬ہاشققمی‪ ،‬رفیققع الققدین‪ ،‬خطققوط اقبققال ص‪ 155:‬اقبققال صققد ی‬
‫پبلیکیشنز نئی دہلی ‪1977‬‬
‫‪ .8‬صدیقی‪ ،‬عتیق‪ ،‬اقبال جادوگر ہندی نژاد ص‪ 103:‬مکتبہ جققامعہ‬
‫لمیٹڈ اگست ‪1980‬‬
‫‪ .9‬صدیقی‪ ،‬عتیق‪ ،‬اقبال جادوگر ہندی نققژاد ص‪ 104-103:‬مکتبققہ‬
‫جامعہ لمیٹڈ اگست ‪1980‬‬
‫‪.10‬صدیقی‪ ،‬عتیق‪ ،‬اقبال جادوگر ہندی نژاد ص‪ 105-104:‬مکتبققہ‬
‫جامعہ لمیٹڈ اگست ‪1980‬‬
‫‪Sherwani, Ahmed, Latif speeches, writing and .11‬‬
‫‪statements of Iqbal P: 3 Iqbal academy Pakistan‬‬
‫‪2015‬‬
‫‪Sherwani, Ahmed, Latif speeches, writing and .12‬‬
‫‪statements of Iqbal P: 247 Iqbal academy‬‬
‫‪Pakistan 2015‬‬
‫‪.13‬صدیقی‪ ،‬عتیق‪ ،‬اقبال جادوگر ہندی نژاد ص‪ 113-112:‬مکتبققہ‬
‫جامعہ لمیٹڈ اگست ‪1980‬‬
‫‪.14‬رحمقققن‪ ،‬ایقققس اے‪ ،‬جسقققٹس‪ ،‬اقبقققال اور سوشقققلزم ص‪44:‬‬
‫فردوس پبلیکیشنز دہلی اپریل ‪1979‬‬
‫‪.15‬رحمقققن‪ ،‬ایقققس اے‪ ،‬جسقققٹس‪ ،‬اقبقققال اور سوشقققلزم ص‪43:‬‬
‫ظ‬ ‫‪ 1979‬چب ی ش‬ ‫ی‬ ‫م‬ ‫ظ‬
‫پبلیکیشنز ق دہلی اپریل‬‫ع ق‬ ‫فردوس‬ ‫ق‬
‫ہ‬ ‫ب‬
‫‪.16‬اق بیال‪ ،‬م‪ ،‬علماہ‪ ،‬لم القنصاد ‪،‬ص‪ 137:‬س یگ ی ل ل ییکشتز لہور ‪2004‬‬

‫‪118‬‬
‫بباب سوما‬ ‫ص‬
‫ظ‬
‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ق‬ ‫ف ل چچہارما ظ‬
‫‪ .1‬یسیوہہاروی ‪،‬ح ظفظ الرحمان‪،‬اسلما کا اقق قنصادی ظن ظظاما‪ ،‬مک قتببہ رحما ظب ینہ لہہور ‪1990‬ص۔‪31‬۔‬
‫‪ .2‬یسیوہہاروی ‪،‬ح ظفظ الرحمان‪،‬اسلما کا ا قق قنصادی ظ ظن ظاما‪ ،‬مکقتببہ رحما ظب ینہ لہہور ‪1990‬ص۔‪32‬‬
‫‪ .3‬یسیوہہاروی ‪،‬ح ظفظ الرحمان‪،‬اسلما کا ا قق قنصادی ظ ظن ظاما‪ ،‬مکقتببہ رحما ظب ینہ لہہور ‪1990‬ص۔‪33‬‬
‫‪ .4‬یسیوہہاروی ‪،‬ح ظفظ الرحمان‪،‬اسلما کا ا قق قنصادی ظ ظن ظاما‪ ،‬مکقتببہ رحما ظب ینہ لہہور ‪1990‬ص۔‪34‬‬
‫‪ .5‬یسیوہہاروی ‪،‬ح ظفظ الرحمان‪،‬اسلما کا ا قق قنصادی ظ ظن ظاما‪ ،‬مکقتببہ رحما ظب ینہ لہہور ‪1990‬ص۔‪40‬۔‬
‫‪ .6‬یسیوہہاروی ‪،‬ح ظفظ الرحمان‪،‬اسلما کا ا قق قنصادی ظ ظن ظاما‪ ،‬مکقتببہ رحما ظب ینہ لہہور ‪1990‬ص۔‪42‬‬
‫‪ .7‬یسیوہہاروی ‪،‬ح ظفظ الرحمان‪،‬اسلما کا ا قق قنصادی ظ ظن ظاما‪ ،‬مکقتببہ رحما ظب ینہ لہہور ‪1990‬ص۔‪44‬‬
‫‪ .8‬یسیوہہاروی ‪،‬ح فظ الرحمان‪،‬اسلما کا اقنصادی ن ظاما‪ ،‬مکتببہ رحماب ینہ لہہور ‪1990‬ص۔‪31‬۔‬

‫باب چہارم‬
‫اس باب میں بیسویں صدی کے مسلم مفکرین کی اشتراکیت‬
‫سے متعلق آراء کو بیان کیا گیا ہے‬
‫جوکہ چار فصول پر مشتمل ہے‬
‫ظفصل اول ‪:‬‬
‫ظ‬
‫ی مودودیی‬
‫مولنا ابو اعل ی‬
‫ظ‬ ‫ص‬
‫ظف ل ئ‬
‫دوما‪ :‬مول با و ح یید الد یین چان‬
‫ڈاکٹر نور محمد غفاری‬ ‫ظفصل سو یم‪:‬‬
‫مولنا محمد طاسین‬ ‫فصل چچہارما‪:‬‬

‫‪119‬‬
‫فصل اول‬
‫ی مودودی کےنزدیک جدید‬ ‫مولنا ابو اعل ی‬
‫اقتصادی نظام ر اشتراکیت‬
‫ی مودودی کاتعارف‬ ‫مولنا ابو اعل ی‬
‫ابققوالعلی مققودودی پیققدائش ‪25‬سققتمبر ‪ 1903‬اورنققگ اوبققاد‬
‫ریاسققت حیققدر اوبققاد ہندوسققتان وفققات ‪ 22‬سققتمبر ‪ 1977‬بفلققو‬
‫نیویققارک امریکققہ مشققہور عققالم دیققن‪،‬مفسققر قققرآن اور جمققاعت‬
‫اسلمی کے بانی بیسویں صدی کے موثر ترین اسلمی مفکریققن‬
‫میں سے ایک تھے۔ ان کی فکر سوچ اور تصانیف نققے پققورے دنیققا‬
‫کے اسلمی تحاریک کے ارتقا میں گہرا اثر ڈال ہے۔ اسلم کی‬
‫دنیا بھر میں پذیرائی سید ابوالعلی مودودی اور شیخ حسن البنا‬
‫)اخوان المسققلمون کققے بققانی( کققی فکققر کققا ےےہی نققتیجہےے ےےہےےے۔سققید‬
‫ابوالعلی مودودیؒ کا پاکستانی سیاست میققں بھققی بققڑا کققردادر‬
‫تھا۔ حکومت پاکستان نے قادیانی فرقہ کو غیر مسلم قققرار دینققے‬
‫پر پھانسی کی سزا سنائی مگر بعد میں عالمی دبققاو پققر اس پققر‬
‫عمل دراومد نہ ہوسکا۔ ‪؎1‬‬
‫کا مذہبی گھرانہ‬ ‫مولناسید ابواعلی مودودیی‬
‫سید ابواعلی مودودیؒ ایک مذہبی گھرانققے میققں پیققدا ےےوہئے۔‬
‫اوپ کے اوباواجداد میققں ایققک مشققہور بققزرگ خققواجہ قطققب الققدین‬
‫مودود چشتی گزرے تھے جو خواجہ معین الدین چشققتی اجمیققری‬
‫کے شیخ الشققیوخ تھققے۔ سققید مققودودیؒ کققا خانققدان ان ےےہی خققواجہےے‬
‫چشتی مودود سے منسوب ہوکر ہی مودودی کہلتققا ےےہےےے۔مققودودی‬
‫نے ابتدائی تعلیم گیارہ برس کی عمر تک گھر پققر اپنققے والققد کققی‬
‫نگرانی میں حاصل کی۔ بعد میں انہیں مدرسہ فرقانیہ اورنگ اوباد‬
‫میں بققراہ راسققت اوٹھققویں کلس میققں داخققل کیققا گیققا ی ےےہاں انہےےیققں‬
‫سائنس کے مضامین کیمیا‪،‬طبیعات‪،‬ریاضی وغیققرہ سققے واقفیققت‬
‫ےےوہئی اور جدیققد معلومققات میققں وسققعت پیققدا ےےوہئی۔‪ 1914‬میققں‬
‫مودودی نے مولوی کا امتحان پاس کیا۔ مودودی کے والد محققترم‬
‫پیشے سے وکیل تھے‪ ،‬مگر مذہبی رحجققان زیققادہ ےےہونےےے کققی وجققہ‬
‫سے اپنے پیشے پر زیادہ توجہ نہیں دے پارہے تھے۔جققس کققی وجققہ‬
‫سے انکی مالی حالت اچھی نہ تھی۔ ‪؎2‬‬
‫مولنا مودودی کا حصول علم‬

‫‪120‬‬
‫جس کی وجہ سے مودودی کو حیدراباد میققں مولققوی عققالم‬
‫کے کلس میں داخل کرکے خودبھوپال چلے گئے۔ حیدر اوبققاد میققں‬
‫مققودودی چققھ مققاہ تققک دارالعلققوم میققں پڑھتققے رےےہےےے اس وقققت‬
‫دارلعلوم کے صدرمولنا حمیدالدین فراہی تھے۔ اسی دوران انہیں‬
‫ایک دن اطلع ملی کہ والد محترم پر فالج کا سخت حملہ ہوا ہے۔‬
‫لہذا رواجی تعلیم کا سلسلہ رک گیققا۔ مققودودی کققے والققد محققترم‬
‫ترکے میں کوئی جائیداد یا قابل ذکر مالی اثاثہ چھوڑکر نہیں گئے‬
‫تھے۔ جس کی وجہ سے مودودی پر کم عمری میں اپنققی کفققالت‬
‫کی ذمہ داری اون پڑی۔ ڈیڑھ دو سال میققں انہیققں انققدازہ ہوگیققا کققہ‬
‫کچھ کرنے کے سوا گزارہ مشکل ہے۔ ان کا گھرانہ مققذہبی‪ ،‬پڑھققا‬
‫لکھا اور باشعور تھا۔ ‪؎3‬‬
‫ش‬
‫مولنا مودودی کی مع یشت چتر متعدد تصانیف‬
‫اس سلسققلے میققں مققودودی کققی لکھققی ےےےوہئی کتققابوں‬
‫سققود‪،‬معاشققیات اسققلم‪،‬اسققلم اور ضققبط ولدت‪،‬مسققئیلہ ملکیققت‬
‫زمین‪ ،‬میں جدید اقتصادی نظام کے مقابل اسلم کققا نقطققہ نظققر‬
‫پیش کیا ہے۔ مودودی نے اپنی تصنیف "اسلم اور جدیققد معاشققی‬
‫نظریات " میققں لققبرل ازم‪ ،‬کیققپیٹلزم‪ ،‬سوشققلزم اور فاشققزم کققا‬
‫ناقدانہ جائزہ لیا ہے۔ ‪ ،‬کمیونزم کی اب تققک مختلققف تعققبیریں اور‬
‫تعریفیں کی گئی ہیں۔خیالی سوشلزم سے سائنسٹفک سوشققلزم‬
‫تک مختلف نظریے پیش کئے گئے مودودی اس سے اس طرح‬
‫تعرض کرتے ہیں۔‬
‫"سوشلزم کے اصل معنی ہیں "اجتماعیت"اور یققہ اصققطلح‬
‫اس انفرادیت )‪ (Individualism‬کے مقابلے میں بنائی گئی تھی‬
‫ققاےےاس نققام کققے‬ ‫جس پر جدید سرمایہ داری کا نظام تعمیققر ےےہوا تھ ۔‬
‫تحت بہت سقارے نظریقے اور مسققلک کقارل مقارکس سقے پہلقے‬
‫پیش کئے جانے شروع ہوگئے تھے ۔جن کا مشترکہ مقصققد یققہ تھققا‬
‫کققہ کققوئی ایسققا نظققام زنققدگی بنایققا جققائے۔جققس میققں بحیققثیت‬
‫مجموعی پورے اجتماع کا فائدہ ہو۔لیکن وہ سب کاغذ پققر رہ گئققے۔‬
‫مارکس نے اوکر اس طلب عام کققا جققواب ایققک خققاص قسققم کققے‬
‫سوشلزم میں دیا۔جسے "ساینٹیفک سوشلزم" "مارکسققزم " اور‬
‫"کمیونزم" وغیرہ کے مختلف ناموں سے موسوم کیققا جاتققا ےےہےےے"۔‬
‫‪؎4‬‬
‫ظ‬ ‫ظ‬
‫کارل مارکس مول با مودودی کا مو ضوع ببحث‬
‫سوشلزم کے نام سے جو نظریات پیش کیے جاتے رےےہےےے ان‬
‫وا جققو "سققاینٹیفک‬ ‫میں کارل مارکس کققا نظریققہ کققافی مقبققول ےے ہ‬
‫سوشلزم‪،‬کمیونزم‪،‬مارکسزم " کے ناموں سے موسققوم کیققا گیققا۔‬
‫‪121‬‬
‫مودودی نے اسی کو موضوع بحث بنایا ےےہےےے "کیققونکہ زمیققن میققں‬
‫جڑ اسی نے پکڑی"مودودی نے کارل مققارکس کققے نظریققات کققو‬
‫موضوع بحث بنایا ہے۔کیونکہ انہیققں نظریققات کققے صققرف نظققری‬
‫پہلو نہیں بلکہ عملققی پہلققو پققر بھققی بحققث کرنققی تھققی۔ مققودودی‬
‫سوشلزم کو سرمایہ داری کے ردعمل کققے طققور پققر نہیققں دیکققھ‬
‫رہے ہیں بلکہ وہ اسے تاریخ کا تکرار سمجھ رےےہےےے ہیققں۔ان کققا کہنققا‬
‫ہے کہ جاگیرداری نظام کے خققاتمے کققے بعققد بققورژوا طبقققے کققے‬
‫پیش کردہ فطقری اصقولوں میقں بنیقادی خامیقاں نہیقں تھیقں۔جقو‬
‫بورژوا حضرات سرمایہ داری کی تائید میں پیش کیا کرتققے تھققے۔‬
‫خامیاں ان فطری اصولوں کے ساتھ غلط اصققولوں کققی اومیققزش‬
‫اور شدت میں تھیں۔ جس طرح بورژوا اسی طققرح سوشلسققٹوں‬
‫نے بھی سرمایہ داری کے خلف انتہاؤں کققو چھققوا۔ مققودودی نققے‬
‫اس تاریخ کے تکرار اور مغربی معاشرے کی عکاسی اور انتہاؤں‬
‫کا ذکر اپنی کتاب مییں اس طرح کرتے ہیں۔‬
‫ی‬
‫" مغربی ذہن اور کیریکٹر نے اس دور میں بھی اپنی ان ےےے ہ‬
‫کمزوریوں کا اظہار کیا جو اس سے پہلے کققے زمققانوں میققں اس‬
‫سے ظاہر ہو چکی تہیں‪،‬اور اسی بے اعتدالی کی ڈگر پر بعد کی‬
‫تاریخ بھی اگے بڑہی جس پر وہ پہلے سے بٹھک کر جا پڑی ت ےےےہی۔ےے‬
‫پہ لے جس مقققام پققر مالکققان زمیققن اور اربققاب کلیسققا اور شققاہی‬
‫خاندان تھے‪،‬اب اسی ےےہٹ دھرمققی اور ظلققم و زیققادتی کققی جگققہےے‬
‫بققورژوا طبقققہ نققے سققنبھالی اور پہلققے حققق طلققبی اور شققکوہ و‬
‫شکایت اور غصہ و اختجاج کقے جقس مققام پقر ب ورژوا حضقرات‬
‫کھڑے تھے‪،‬اب اس جگہ محنققت پیشققہ عققوام او کھققڑے ےےوہئے پہلققے‬
‫جققس جققاگیرداری نظققام کققے مطمئققن طبقققے نققے اپنققے بققے جققا‬
‫امتیققازات اور اپنققے نققاروا "حقققوق" اور اپنققی ظالمققانہ قیققود کققی‬
‫حمایت میں دین اور اخلق اور قوانین فطرت کی چند صققداقتوں‬
‫کو غلط طریقے سے استعمال کرکے محروم طبقوں کا منققہ بنققد‬
‫‪؎5‬‬ ‫کرنے کی کوشش کی تھی"۔‬
‫ب‬‫ق‬ ‫شس ق ی‬
‫سو لزما بار بخ کا کرار‬
‫"اب بعینققہ و ےےہی حرکققت سققرمایہےے داری نظققام کققے مطمئققن‬
‫طبقوں نے شروع کر دی اور پہلے جس طرح غصے اور ضققد اور‬
‫جنجھلہٹ میں اوکر بققورژوا لوگققوں نققے جققاگیرداروں اور پققادریوں‬
‫کی اصقل غلطیقوں ک و سقمجھنے اور ان کقا ٹھیقک ٹھیقک تقدارک‬
‫ت سققا زور ان صققداقتوں‬ ‫کرنے کی بجائے اپنی نبرد اوزمائی کا ب ےے ہ‬
‫کے خلف صققرف کردیققا جققن کققا سققہارا ان کققا حریققف لیققا کرتققے‬
‫تھے‪،‬اسی طرح اب محنت پیشہ عوام اور ان کے لیڈروں نے بھی‬

‫‪122‬‬
‫غیض و غضب میں نظرو فکر کا توازن کھو دیا اور بورژوا تمققدن‬
‫کی اصقل خرابیقوں اور غلطیقوں پ ر حملقہ کرنقے کقے بجقائے ان‬
‫فکری اصققولوں پققر ہلققہ بققول دیققا جققن پققر ابتققدائے اوفرینققش سققے‬
‫انسانی تمدن و معیشت کی تعمیر ہوتی چلی او رہی تھی۔متوسط‬
‫طبقوں کے لوگ تو اپنی کمزوریوں اور برائیوں کققے بققاوجود پھققر‬
‫کچھ ذہین اور تعلیم یافتہ ہوتے ہیں‪،‬اس لیے انہوں نے شکایت اور‬
‫ضد کے جوش میں بھی تھوڑا بہت ذہنی توازن برقرار رکھققا تھققا۔‬
‫لیکققن صققدیوں کققے پسققے اور دبققے ےےوہئے عققوام ‪،‬جققن کققے انققدر‬
‫علم‪،‬ذہانت‪،‬تجربہ ہر چیز کی کمی تھی‪،‬جب تکلیفوں سے بےقرار‬
‫اور شکایات سے لبیریز ہو کر بھپر گئے تو بققات کققو قبققول کرنققے‬
‫سے پہلے عقل و حکمت کے ترازو میں تول کر اسے دیکققھ لینققے‬
‫کا کوئی سوال ان کے سامنے نہ ر ےےہ۔اےےان کققو سققب سققے بققڑھ کققر‬
‫اپیل اس مسلک نے کیا جس نے سب سے زیادہ شدت کے سققاتھ‬
‫ان کقققی نفقققرت اور ان کقققے غصقققے اور ان کقققے انتققققام کقققے‬
‫‪؎6‬‬ ‫تقاضےپورے کئے۔"‬
‫مودودی مغربی تاریخ کومزیبد یوں بیان کرتے ہیں۔‬
‫" ایک اور بات جو مغربی ممالک کی تاریخ و تمدن و تہذیب‬
‫اور داستان افکار و اعمال میں اودمی کو نمایاں طور پر نظر اوتی‬
‫ہیں۔ وہ پیہم کش مکش ‪،‬نزاع اور جدال ہیں۔ایک گروہ زندگی کققے‬
‫میدان پر قابض ےےوہ کقر اخلق کققو ‪ ،‬مقذہب کقو‪،‬ققانون کقو‪ ،‬رسقم‬
‫ورواج کو‪ ،‬اور تمدن کے سارے نظام کققو ایققک رخ پققر کھینققچ لققے‬
‫جاتا ہے یہاں تک کہ دوسرے گروہوں کے سققاتھ بققے انصققافی کققی‬
‫انتہا ہو جاتی ہے۔پھر ان مظلوم گروہوں میں سے کوئی ایققک ااٹققھ‬
‫کر اس ظالم گروہ سے گھققت جققا تققا ےےہےےے اور اس کققے غلققط کققے‬
‫سققاتھ اس کققے صققحیح پققر بھققی خققط نسققخ پہیققر دیتققا ےےہےےے اور‬
‫فکروعمل کے پورے نظام کو پہلی انتہا سقے کھینقچ کقر دوسقری‬
‫انتہا کی طرف لے جاتا ہے۔اس کے بعد شکوہ و شکایت سے گزر‬
‫ٹ‬ ‫کر نوبت ایققک تیسققری بغققاوت تققک پہنچققتی ےےہےےے اور ضققد اور ےے ہ‬
‫دھرمی کا طوفان پھر جھوٹ کے ساتھ سچ کو بھی بہا لے جاتققا‬
‫ہے اور اگلوں سے بھی بڑھ کر ایک اور انتہا پسندانہ نظام قائم‬
‫ہوجاتا ہے۔ اس طوفان کی تباہ کاریاں دیکھ کققر اس کققے مقققابلے‬
‫میں ایک جوابی طوفان اٹھ کھڑا ہوتا ہے اور وہ بھی اپنے حریققف‬
‫سے کچھ کم انتہا پسند نہیں ہوتا۔ اس کھینچ تققان کققی وجققہ سققے‬
‫مغرب کی تاریخ اودمی کو کچھ اس طرح سققفر کرتققی نظققر اوتققی‬
‫ہے جیسے ایک شرابی لڑکھڑاتا ہوا بخط منحنی چل رہا ہو‪،‬نققہ کققہ‬
‫ایک ہوشمند انسان سویا علی صراط مستقیم جا رہا ہو۔ہیگققل اور‬

‫‪123‬‬
‫مارکس بے چارے اس منظر کقو دیکقھ کقر یقہ سقمجھ بیٹھ ے کقہ‬
‫‪؎7‬‬ ‫انسانی تمدن کی ارتقا کی فطری چال یہی ہے"۔‬
‫ش‬
‫مولنا مودودیی کی سو سلزما کے اضولوں پر تنقید‬
‫لیکن در حقیقت یہ سب کچھ نتائج ہیں صرف ایک چیز کققے‬
‫اور وہ یہ ہے کہ اہل مغرب مققدت ےےا ہئے دراز سققے بغیققر ےےا ہدی وال‬
‫کتاب منیر زندگی بسر کر رہے ہیققں ان اقتباسققات سققے مققودودی‬
‫کی مغربی ذہن پر تنقید اور سوشققلزم کققے متعققدد مسققالک میققں‬
‫مارکسزم کی عوامی پذیرائی کی وجہ بھی بتادی ہے۔ اوگققے چققل‬
‫کر مودوی نے سوشلزم اور اس کے اصولوں کھڑی تنقید کی ہے‬
‫اور اسے ایک غیر فطری نظام قرار دیا ےےہےےے۔اور اس کققی وہ اپنققی‬
‫کتاب مییں اس طرح رقم‬
‫ق‬ ‫ظظ‬
‫طراز ہیں۔ ق ظ‬ ‫ق‬ ‫ش‬
‫سو سلزما کے حفوق ملکییت کے ن ظر ییہ چتر پیق یید‬
‫" اس نئے مسلک کے مصنفوں نققے اپنققے حملققے کققی ابتققدا‬
‫"حقوق ملکیت " سے کی۔ انہوں نے کہا کہ اصل خرابی کی جققڑ‬
‫یہی بل ہے۔پہننے کے کپڑے‪ ،‬استعمال کے برتن‪،‬گھر کا فرنیچر اور‬
‫اس طققرح کقی دوسققری چیزیقں انفقرادی ملکیقت میقں رہیققں تقو‬
‫مضائقہ نہیں مگر یہ زمین اور مشین اور اولت اور دوسری ایسی‬
‫چیزیں جن سے دولت کی پیداوار ہوتی ہے‪ ،‬ان پققر تققو افققراد کققے‬
‫مالکانہ حقوق ہرگز قائم نہیں رہنے چاہئیے۔اس لیے کققہ جققب ایققک‬
‫ققدا ک ظققرے‬ ‫مالک ہوگا قتوت دولققت پی ش‬ ‫ب‬
‫شخص ان میں سے کسی چیز کا‬
‫ح‬
‫گا۔ئدولت پیدا کر ئےگا تو جمع کرےگا‪ ،‬مع کرے گا بو چ ھر کچجھ زمیین یبامشیین خریبد کر‬
‫ظ‬
‫چب ییدانش دولت کے ذرا تع مییں اظصافہ کرے گا۔ یہ تو وہ بنیادیں ہیں جن پر قدیم‬
‫وتی‬ ‫ترین زمانہ سے انسانی معیشت و تمدن کی عمارت تعمیر ےے ہ‬
‫چلی ا ورہی ہے۔ایسی چیز کے اکھاڑ پھینکنے کققا فیصققلہ اوخققر یققوں‬
‫سرسری طور پر کیسے کر ڈال جقائے ‪ ،‬ج واب میقں فقی البقدیہہ‬
‫ایک پوری تاریخ گھڑ دی گئی کققہ انسققانیت کققے اوغققاز میققں ذرائققع‬
‫پیداوار پر انفرادی ملکیت کے حققوق ےےہی نہےےیقں‪،‬یققہ تقو بعقد میقں‬
‫طاقتور طبقوں نے اپنی خودغرضی سے قائم کر لیے۔کہا گیا‪ ،‬ان‬
‫حقوق کو سارے مذہب‪ ،‬تمام اخلقی نظام‪ ،‬دنیا بھر کققے قققوانین‬
‫ہمیشہ سے مانتے رہے ہیں۔ان میں سے کسی نے بھی یققہ نظریققہ‬
‫اختیار نہیں کیا کہ معیشققت و تمققدن کققی وہ صققورت بجققائے خققود‬
‫غلط ہے جو ذرائع پیداوار کی انفرادی ملکیت سے بنتی ہے۔جواب‬
‫میں ایک لمحہ کے تامل کققے بغیققر دعققوی کققر دیققا گیققا کققہ مققذہب‬
‫اخلق اور قانون تو ہر زمانے کے غالب طبقوں کے اولققہ کققار رےےہےےے‬
‫ہیں‪ ،‬پیدائش دولت کے ذرائع پر جن طبقات کا اجارہ قائم ےےوہ گیققا‬
‫انہیں اپنے اس اجارے کققو محفققوظ اور مضققبوط کرنققے کققے لیققے‬
‫‪124‬‬
‫کچھ نظریات ‪ ،‬کچھ اصولوں اور کچھ رسموں اور ضابطوں کققی‬
‫ظ ‪ ؎8‬ق ظ‬ ‫حاجت لحق ہ قوتی "۔‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ش‬
‫ی‬ ‫س‬
‫سو لزما کی ط بی قا نی بح یگ کے ن ظر ییہ چتر پ ق یید‬
‫اعتراض ہوا کہ ان حقوق کو مٹانے اور ختم کرنے کققے لیققے‬
‫تو ایک ایسی سخت نزاع برپا کرنی پڑے گی جس میققں ےےرہ قققوم‬
‫کے مختلف عناصر اوپس ہی میں گھٹ جائیں گے اور قریہ بہ قریہ‬
‫اور بستی بستی میں طبقاتی جنگ بھڑک ااٹھی ہو گی۔جواب میں‬
‫کچھ دیر نہ گزری تھی کہ ایک پورا فلسفہ تاریخ گھڑ کر رکققھ دیققا‬
‫ی‬‫گیا جس میں ثابت کیا گیا کہ انسانی تمدن کا تو سققارا ارتقققا ےے ہ‬
‫طبقاتی جنگ کے ذریعے سے ہوا ہے۔اس راستہ کے سوا ارتقا کققا‬
‫اور کوئی راستہ نہیں ہے۔پھر اعتراض ہوا کہ اپنے ذاتققی نفققع کققے‬
‫لیے کام کرنا تو انسان کی فطرت میں پیوست ہے اور ہر انسان‬
‫ماں کے پیٹ سے یہی میلن لئے ہوئے پیدا ہوتا ہے۔ایک ماحول کو‬
‫بدل کر دوسرا مققاحول پیققدا کققردو اس کققا دمققاغ دوسققری طققرح‬
‫ن دوسققرے قسققم کققے جققذبات کققی‬ ‫سوچنے لگققے گققا‪ ،‬اس کققا ذ ےے ہ‬
‫اوماجگاہ بن جائےگا‪ ،‬اس کے نفس سے کچھ اور ہی میلنققات کققی‬
‫تراوش شروع ہوجائےگی جب تک انفرادی ملکیت کا نظققام قققائم‬
‫ے۔ ‪؎9‬‬
‫ہے‪ ،‬لوگ "انفرادی الذھن" ہ ظوجاینگ ق ظ‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ق‬ ‫ش‬
‫سو سلزما کے ا بجتماعی ملکییت کے ن ظر ییہ چتر پیق یید‬
‫پوچھا گیا انفرادی ملکیت ختم کرکے واخر سارا معاشی کاروبققار‬
‫چلیقققا کیسقققے جائےگقققا؟ ۔جقققواب مل‪،‬تمقققام ذرائقققع پیقققداوار‬
‫)زمین‪،‬کارخانے‪،‬اور ہر قسم کے تجارتی اور صنعتی ادارے( افراد‬
‫کے قبضے سے نکال کر قومی ملکیت بنققا دیئققے جققائیں گققے‪،‬جققو‬
‫ی میققں ان کققا منققافع‬‫لققوگ ان اداروں میققں کققام کریققں گققے ان ےے ہ‬
‫تقسققیم ہوجققائیں گققے‪ ،‬اور ان کققارکنوں کققے ووٹققوں سققے ےےہی وہےے‬
‫اتھ میققں اس سققاری‬ ‫منتظمیققن منتخققب ےےہوا کرینگققےےے جققن کققے ےے ہ‬
‫معیشت کا انتظام ہوگا۔ ‪؎10‬‬
‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫ش‬
‫سو سلزما اور کمییو تزما م ییں فرق‬
‫سوال اٹھا کہ جو لوگ اس وقت زمینوں‪،‬کارخققانوں اور دوسققرے‬
‫ذرائع پیداوارکے مالک ہیں ان کی ملکیت ختم کرنے اور اجتماعی‬
‫ملکیت قائم کرنقے کقی صقورت کیقا ےےہوگی ؟ اس سقوال کقےےے دو‬
‫مختلف جواب دیئے گئے۔ایققک مسققلک والققوں نققے جققواب دیققا اس‬
‫تغیر کے لیے جمہوری طریقے استعمال کئققے جققائیں گققے‪ ،‬رائ ظققے‬
‫ق‬
‫قبضہ ق کیا جا ئے گااور قابون‬
‫ت‬‫ب‬ ‫ق‬ ‫سیاسی اقتدارض ظ ق‬
‫پر‬
‫ئ‬
‫عامہ کو ہموار کرک یے‬
‫ے سے ببق‬
‫چال ت مییں‬ ‫عض‬ ‫)‬ ‫کو‬ ‫بوں‬
‫ئ‬ ‫حار‬‫ب‬ ‫ب‬ ‫اور‬ ‫یوں‬‫ع‬ ‫ت‬ ‫اور‬ ‫یدادوں‬
‫ق‬ ‫ی‬ ‫ب‬ ‫چا‬
‫ب‬ ‫زرعی‬ ‫بج‬ ‫یدر‬ ‫سازی کے ذر یت ع‬
‫ببلمعاوظصاہ بتعض مییں معاوظصاہ ادا کرکے ( ا بجتماعی ملکییت بب ظیال ییا بچانے گایپ ہی لوگ بح ظیگ کے‬
‫‪125‬‬
‫قق ئ‬ ‫ظ ظ‬ ‫ش‬ ‫ئ‬
‫ت‬‫ب‬ ‫س‬
‫ک‬
‫ہے اور ظ ھی کبتھار ان کے م قسلک کو ار ظت قانی‬
‫ہ‬ ‫یا‬
‫ی‬ ‫گ‬ ‫ہ‬
‫ہو‬ ‫صوص‬ ‫ح‬ ‫م‬ ‫فظ‬ ‫ل‬ ‫کا‬‫"‬ ‫شٹ‬ ‫ے ش ببالعموما" سو قل‬
‫لن‬
‫ب‬
‫یں۔دوسرے م ظسلک والوں نے کہا کہ حمہوری طرتیفوں سے پہییں‬ ‫ظ‬ ‫ی‬ ‫ق‬ ‫"سو قسلزما "بتھی کہن‬
‫ےہہ‬
‫ق‬ ‫ق‬ ‫ئ‬
‫ہے۔ نادار اور محنت پیشہ افراد‬ ‫ے بو ات قلبنی طرتیقہ کار باگزیتر ہ‬ ‫ہہوسک یا اس کے لن‬
‫کو منظم کیا جائے گا۔ملکیت رکھنے والے طبقققوں کققے خلف ےےرہ‬
‫ممکن طریقے سے جنگ کی جققائےگی۔بققورژوا حکققومت کققا تحتققہ‬
‫الٹ دیا جائے گا۔مزدوروں کی ڈکٹیٹرشققپ قققائم کققی جققائے گققی۔‬
‫مالکان زمین سے ان کی زمینیں اور کارخانہ داروں سے ان کققے‬
‫کارخانے اور تاجروں سے ان کققی تجققارتیں زبردسققتی چھیققن لققی‬
‫جائیں گی۔جو مزاحمت کرے گا اسے فنا کے گھاٹ اتار دیا جققائے‬
‫گا۔سارے طبقات کو ختم کرکے ایک طبقہ )یعنی اپنققے ےےہاتھ سققےےے‬
‫کام کرکے روٹی کمققانے وال طبقققہ(بنققا دیققا جققائے گققا۔اور ازروئققے‬
‫قانون یہ چیز حرام کققر دی جققائے گققی کققہ ایققک شققخص دوسققرے‬
‫شخص یا اشخاص سے اجرت پققر کققام لققے اور اس کققام کققا نفققع‬
‫کھائے۔پھر جب یہ انقلب مکمل ہو جققائے گققا۔سققرمایہ دار طبقققات‬
‫کے ازسرنو جققی اٹھنققے کققا کققوئی خطققرہ بققاقی نققہ رہےگققا تققو یققہ‬
‫ڈکٹیٹرشپ اوپ سے اوپ )خققدا جققانے کققس طققرح(سققوکھ کققر جققڑ‬
‫جائے گی اور خود بخود )نہ معلوم کیسے(ایک ایسا نظم اس کی‬
‫جگہ لے لےگا جس میں حکومت اور جبر کے بغیر سققارے شققعبے‬
‫لوگوں کی باہمی رضامندی‪،‬مشاورت اور تعاون سے چلتے رہیققں‬
‫گے۔اس دوسرے مسلک کا نام "انقلبی سوشلزم" ےےہےےے۔اسققی کققو‬
‫"بالشققوزم"کققے نققام سققے بھققی یققاد کیققا جاتققا ر ہےےا ہےےےےے اسققی کققو‬
‫"مارکسزم"بھی کہتے ہیں۔مگر اب دنیققا اس کققو "کمیققونزم"کققے‬
‫مشہور و معروف نام سے جانتی ہے۔" ‪؎11‬‬
‫اس سے یققہ بققات سققامنے اوئققی کققہ طریقققہ کققار کققے علوہ‬
‫سوشلزم اور کمیونزم میں کوئی فققرق نہیققں ےےہےےے۔یعنققی اس کققے‬
‫متعلق جو بققات کققی جققائے گققی طریقققہ کققار کققے علوہ "ارتقققائی‬
‫وگیےے‬
‫اشتراکیت" اور "انقلبی اشتراکیت " پققر یکسققاں منطبققق ےےہ ۔‬
‫یہاں بھی مودودی نے فروعیات سے بچنے اور اصولیات پر توجہ‬
‫مرکوز کی ہے۔اور مغربی ذھن پر تنقید کرتققے ےےہوےےے مزیققد لکھتققے‬
‫ہیں کہ۔‬
‫"ستر اسی سال تک سوشلزم کققا یققہ نیققا مسققلک اپنققے بققے‬
‫شمار شاخوں اور اپنے مختلف القسققام مققذاہب فکقر کققے سقاتھ‬
‫یورپ اور اس کے زیر اثر ملکوں میں پھیلتا رہا ابتدا میں یہ چنققد‬
‫سر پھروں کی ایک نرالی اپچ تھی جس کققے مقققدمات اور دلائققل‬
‫اور نتائققج ‪ ،‬سققب قطعققی محمققل تھققے اور صققرف غضققب نققاک‬

‫‪126‬‬
‫مزدوروں ہی نے اس کو )علم و عقل کی بنا پر نہیں بلکہ بھڑکققے‬
‫‪؎12‬‬ ‫قظ‬ ‫ق‬ ‫ظ‬
‫مقبولیت حاصل ہورہی تھی"۔‬ ‫ہوئے جذبات کی بنا پر‬
‫ی‬ ‫ہ‬ ‫ظ‬
‫مول با مودودی کی معر بنی ذ ہن چتر پ ق یید‬
‫"لییکن مغربی ذہہن کی دلچسپ کمزوریوں میں سے ایک یہ بھی‬
‫ایت لغققو‬ ‫ہے کہ وہ اپچ کو بہت پسند کرتا ہے‪ ،‬خصوصا جبکققہ وہ ن ےے ہ‬
‫ہو۔اور اس کا پیش کرنے وال بے دھققڑک اور بققے جھجھققک ےےوہ کققر‬
‫بڑے سے بڑے مسلمات کو کاٹتا چل جائے اور اپنی دعوی کو ذرہ‬
‫سائنٹیفک طریقے سے اتنا مرتققب کققر لققے کققہ ان کققے انققدر ایققک‬
‫"سسٹم " پیدا ہوجائے۔ یہ خصوصیات اس "ساینٹفیک سوشققلزم"‬
‫میں بدرجہ اتقم پقائی جقاتی ےےہےےے۔اسققی وجقہ سققے نچلققی متوسققط‬
‫طبقے کے بہت سے ذہین لوگ اور خ ود ب ورژوا طبققہ میقں سقے‬
‫بعض خبطی اور بعض ہوشیار لوگ اس مسلک کی طرف متققوجہ‬
‫ہو گئے۔" ‪؎13‬‬
‫ظ‬ ‫ظ‬
‫مول با مودودی کے تزد یبک سوشلزم کے فوائد اور‬
‫نقصان‬
‫سوشلزم کے ان مسلمہ اصولوں کو بیان کرنے کے بعد مققودودی‬
‫انقلب روس کے تناظر میں سوشلزم کے فوائد اور نقصانات پر‬
‫بحث کرتے ہیں اور کمیونزم کے حامیوں اور مخالفین دونوں کی‬
‫بے اعتدالیوں پر تنقید کرتے ہیقں۔فرمقاتے ہیقں۔ "اس کقے ح امی‬
‫ت سققی ایسققی چیققزوں کققو داخققل‬ ‫اس کے نفع کققے پہلققو میققں ب ےے ہ‬
‫کردیتے ہیں جو دراصل اشتراکیت کا منافع نہیں ہے بلکہ قابل اور‬
‫مستعد لوگوں کے ہاتھ میں انتظام ہونے کے ثمرات ہیں۔دوسققری‬
‫طرف اس کے مخالف اس کے نقصان کے پہلو میں بہت سی ان‬
‫خرابیققوں کققو رکققھ دیتققے ہیققں جققو بجققائے خققود اشققتراکیت کققے‬
‫نقصانات نہیں بلکہ ظالم اور تنگ نظر افراد کے برسراقتدار اونققے‬
‫کے نتائج ہیں۔" ‪ ؎14‬مودودی نے اشتراکیت کے فوائد اور نقصانات‬
‫بیان کی ہیں۔‬
‫سوشلزم کےفوائد‬
‫پہل فائدہ‬
‫"غیر متعلق چیزوں کو الگ کر کے جب ہم اصل اشققتراکیت‬
‫کے اس کارنامے پر نگاہ ڈالتے ہیں جو روسی تجربے کے بدولت‬
‫ہمارے سامنے اویا ہے تو نفع کے خانے میں ہم کو یہ چیزیققں ملققتی‬
‫ہیں افراد کے قبضہ سے زمین ‪ ،‬کارخانے اور تمام کاروبققار نکققال‬
‫لینے کا یہ فائدہ ہوا کہ اشیا کی لگققت اور ان کققے بققازاری قیمققت‬
‫کے درمیان کو منافع پہلقے زمینقدار ‪ ،‬کارخ انہ دار اور تقاجر لیتقے‬
‫‪127‬‬
‫تھے وہ اب حکومت کے خزانے میں اونے لگا‪ ،‬اور یہ ممکن ےےوہ گیققا‬
‫کہ اس منافع کققو اجتمققاعی فلح کققے کققاموں پققر صققرف کیققا جققا‬
‫سکے۔ "‬
‫دوسرافائدہ‬
‫تمام ملک کے ذرائع پیداوار ایک ہی نظم و نسق کققے قبضققہ‬
‫میں اوجانے سے یہ ممکن ہوگیا کہ ایک طرف ایک سوچے سققمجھ‬
‫منصوبے کے مطابق ان سب کو زیادہ سے زیادہ ترقققی دینققے اور‬
‫زیادہ سے زیادہ مفید طریقے سے اسققتعمال کرنققے کققی کوشققش‬
‫کققی جققائےاور دوسققری طققرف سققارے ملققک کققی ضققروریات کققو‬
‫سامنے رکھ کر انہیں پورا کرنے کی منظم تدابیر عمل میں لئققی‬
‫جائیں۔‬
‫تیسرا فائدہ‬
‫سارے وسائل دولت پر ققابض ےےوہ کقر جقب حکقومت ایقک‬
‫جامع منصوبہ بندی کے مطابق ان کو چلنے لگی تو اس کے لیققے‬
‫یہ بھی ممکن ہو گیا کہ ملک کے تمام قابل کار اودمیققوں کققو کققام‬
‫پر لگائے اور یہ بھی کہ وہ ان کو ایک سوچی سمجھی سکیم کے‬
‫مطابق تعلیم و تربیققت دیکققر اس طققرح تیققار کققرے کققہ اجتمققاعی‬
‫معیشت کے لیے جن پیشوں اور خدمات کققے لیققے جتنققے اودمققی‬
‫درکار ہیں اتنے ہی وہ تیار کئے جاتے رہیں۔‬
‫چوتھا فائدہ‬
‫اوپر نمبر ایک میققں زراعققت‪،‬صققنعت اور تجققارت کققے لیققے‬
‫اتھ میققں اوگیققا‬‫جس منافع کا ذکر کیا گیا ہے وہ جب حکومت کے ےے ہ‬
‫تو وہ اس قابل ےےوہ گئققی کققہ اس منققافع کققا ایققک حصققہ " سوشققل‬
‫انشورنس" کے انتظام پر صرف کرے۔ اس کا مطلققب یققہ ےےہےےے کققہ‬
‫تمام ملک میں جو لوگ کام کرنے کے قابل نہ ہوں‪ ،‬یا عارضی یا‬
‫مسققتقل طققور پققر ناقابققل کققار ہوجققائیں ‪ ،‬یققا بیمققاری‪،‬زچگققی اور‬
‫دوسرے مختلف حالت کی وجہ سے جن کققو مققدد کققی ضققرورت‬
‫پیش اوئے ان کو ایک مشترکہ فنڈ سے مدد دی جائے۔" ‪؎15‬‬
‫سوشلزم کےنقصانات‬
‫"کوئبی شک نہیں کہ بے قید معیشت سے جو بیماریققاں پیققدا‬
‫ی علج کیققا مگققر روس‬ ‫ہوئی تھیں‪،‬اس اوپریشن نے ان کا خوب ےے ہ‬
‫کو اس کی قیمت کیا دینی پققڑی ؟ اور پچھلققی بیمققاریوں کققو دور‬
‫کرنے کے لیے دوسری کیققا بیماریققاں اس نققے مقول لیققں؟ اب ذرا‬
‫اس کا جائزہ بھی لے لیں"‪-‬‬

‫‪128‬‬
‫پہل نقصان‬
‫افراد کے قبضہ سے زمینوں ‪ ،‬کارخانوں اور دوسرے ذرائع‬
‫پیداوار کو نکالنا اور ان ساری چیزوں کو اجتماعی ملققک بنققا دینققا‬
‫بحرحال کوئی کھیل نہ تھا کہ بس ہنسی خوشی انجام پققا گیققا ےےہ۔وےے‬
‫ہر شخص خود ہی قیاس کرسکتا ہے کققہ اپ لکھققوں اودمیققوں کققو‬
‫ان کی چھوٹی بڑی املک سے زبردستی بے دخققل کرنققے پققر تققل‬
‫جائیں۔تو وہ بااوسانی اس فیصلے کے اوگے سر تسققلیم خققم نققہ کققر‬
‫ی‬ ‫دیں گے۔یہ کام جب اور جہاں بھی ہوگا سخت کشت و خققون ےے ہ‬
‫سے ہوگا۔ اندازہ کیا گیا ہے کہ اس سکیم کو عمل میقں لنقے کققے‬
‫لیے تقریبا اانیس لکھ اودمیوں کو موت کے گھاٹ ااتارا گیققا‪ ،‬بیققس‬
‫لکھ اودمیوں کو مختلف قسم کی سققزائیں دی گئیققں‪،‬اور چققالیس‬
‫پچاس لکھ اودمیوں کو ملک چھوڑ کر دنیابھر میں تتر بتر ےےوہ جانققا‬
‫پڑا۔ صرف ایک اجتماعی زراعت کی سکیم نافذ کرنققے کققے لیققے‬
‫لکھققوں چھققوٹے چھققوٹے اور متوسققط زمینققداروں )انگلققش میققں‬
‫کولکس لکھنا ہے۔(کو جس بے دریغ طریقے سے فنا کیا گیققا اس‬
‫پر تو خود روس کے پرجوش حامی بھی چیخ ااٹھے۔‬
‫دوسرا نقصان‬
‫جو لوگ تمام دنیا کے مسلم مققذہبی‪ ،‬اخلقققی اور قققانونی‬
‫اصولوں کے مطابق اپنی املک کے جائز مالک ہوں ۔ مزیققد بققراں‬
‫اپنی اس سکیم کو ہر قسم کے بے دردی شقاوت ظلققم‪ ،‬جھققوٹ‬
‫اور فریب سے نافذ کرنے کے لیققے اوپ مجبققور ےےہونگےےے کققہ سققرے‬
‫ر ظلققم‬ ‫سے ایک نیا ہی نظریہ اخلق واضع کریں جس کے تحت ےے ہ‬
‫و جبر اور ہر بےدردی اور سنگدلی کا ارتکاب جائز ےےہ۔وےے ی ےےہی وجققہےے‬
‫ہے کہ اشتراکی لیڈروں اور کارکنوں نے اپنققے پیققش نظققر انقلب‬
‫کو عمل میققں لنققے کققے لیققے خققدا اور مققذہب کققے خلف سققخت‬
‫پروپیگنڈا کیا ‪ ،‬اور بورژوا طبقہ کققے سققاتھ سققاتھ مسققلمانوں اور‬
‫عیسائیوں کے مذہبی طبقوں کو بھی بڑی سختی سے کچل‪ ،‬اور‬
‫اخلق کا ایک اور نیا نظریہ پیدا کیا جو لینن کے الفاظ میں یہ ہے۔‬
‫" ہم ہر اس اخلق کو رد کرتے ہیں جو عالم بال کے کسی تصققور‬
‫پر مبنی ہو یا ایسے خیالت سے محفوظ ہو جو طبقاتی تصورات‬
‫سے ماورا ہیں ہمارے نزدیک ہمارے نزدیک اخلق قطعی اور قلی‬
‫طور پر طبقاتی جنگ کا طابع ہے۔ہر وہ چیز اخلقا لبلکل جققائز جققو‬
‫پرانے نفع اندوز اجتماعی نظققام کققو مٹققانے کققے لیققے اور محنققت‬
‫پیشہ طبقوں کو متحد کرنے کے لیے ضروری ہو۔ ہمارا اخلق بس‬
‫یہ ہے کہ ہم خوب مضبوط اور منظم ہوں اور نفع گیر طبقوں کے‬
‫خلف پورے شعور کے ساتھ جنگ کریں۔ ہم یہ مانتے ہی نہیققں کققہ‬
‫‪129‬‬
‫م اس فریققب کققا‬ ‫اخلق کے کچھ اذلی و ابدی اصول بھی ہیققں۔ ےے ہ‬
‫پردہ چاک کرکے رہیں گے۔اشتراکی اخلق اس کے سوا کچھ نہیں‬
‫ہیں کہ مزدوروں کی مطلق العنققان حکققومت کققو مضققبوطی کققے‬
‫ساتھ قائم کرنے کے لیے جنگ کی جائے۔"ناگزیر ہے کققہ اس کققام‬
‫میں ہر چال‪،‬فریب‪ ،‬غیققر قققانونی تققدبیر‪ ،‬خلیققے ب ےےہانےےے اور جھققوٹ‬
‫سے کام لیا جائے۔"‬
‫تیسرا نقصان‬
‫ہم خود اپنے ملک میں اپنی اونکھوں سے دیکھ چکے ہیں کہ‬
‫ایققک طققرف عققالم اخلقیققات کققے بنققد ڈھیلققے ہوجققاتے ہیققں‪ ،‬اور‬
‫دوسری طرف مختلققف ضققروریات زنققدگی پققر سققرکاری کنققٹرول‬
‫نافذ کر دیا جاتا ہے‪ ،‬تو رشوت‪ ،‬خیققانت اور غبققن کققا سلسققلہ بققے‬
‫تحاشا چل پڑتا ہے۔ زندگی کی جو ضرورت بھی پرمٹ‪ ،‬ل ئسنس‬
‫‪ ،‬راشن کارڈ یا کوٹہ ملنے پققر موقققوف ہےےو جققاتی ہےےےےے۔ اسققی کققے‬
‫معاملے میں پبلک کو ےےہر طققرح تنققگ ہےےونققا پڑتققا ےےہےےے اور سققرکاری‬
‫اودمیوں کے وارے نیارے ہونے لگتے ہیں۔ اب خود اندازہ کر لیجیققے‬
‫کہ جہاں ایک طرف سققارے ےےہی اخلقققی مسققلمات کققی جڑیققں ہےےل‬
‫ڈالی گئیں ہوں‪ ،‬اوراخلق کا یہ اصول لوگوں کو ذہن نشین کر دیا‬
‫گیا ہو کہ جو کچھ مفید مطلققب ےےہےےے و ہےےی حققق اور صققدق ےےہےےے اور‬
‫ملک کے رہنماووں نے خققود ظلققم و سققتم کرکققے اس نئققے اخلق‬
‫اں ضققرورت‬ ‫کے شاندار نمونے دکھا دیئے ہوں۔دوسری طققرف ک ےے ہ‬
‫کی صرف چند چیزیں ہی نہیں بلکہ ملک کی پوری معاشی دولت‬
‫اورسققارے وسققائل زنققدگی سققرکاری کنققٹرول میققں ہےےوں‪ ،‬و ےے ہاں‬
‫رشققوت‪ ،‬خیققانت‪ ،‬غبققن اور مققردم اوزاری کققی کیسققی کچققھ گققرم‬
‫بازاری ہو گی۔یہ معاملہ صرف قیاس کی حقد تقک نہیقں ےےہےےے۔روس‬
‫کے "اہنی پردے" سے چھن چھن کر جقو خققبریں وقتققا فوقتققا بقاہر‬
‫اں اعمققال حکققومت‬ ‫اوجاتی ہے ان میں سے ایک یہ بھی ہے کہ و ےے ہ‬
‫اور مختلققققف معاشققققی اداروں کققققے اربققققاب انتظققققام نققققے‬
‫"بدکرداری"کرپشن" کا ایک اچھا خاصا سخت مسئلہ پیدا کققر دیققا‬
‫ہے۔درحقیت وہاں اس مسئلے کا پیدا ہونققا قابققل تعجققب نہیققں ےےہےےے‬
‫بلکہ نہ ہونا تعجب کے قابل ہوتا۔‬
‫چوتھا نقصان‬
‫انفرادی ملکیتقوں کقو ختققم کرکققے اجتمقاعی ملکیقت کقے‬
‫اصول پر ملک کے معاشی نظام کو کامیابی کے ساتھ چلنے کے‬
‫لیے سب سے بڑھ کر جس چیز کققی ضققرورت ےےہےےے وہ یققہ ےےہےےے کققہ‬
‫لوگوں کے اندر سے خودغرضی اور ذاتی نفع کی طلب نکال دی‬
‫ن پققر مجمققوعی بھلئققی‬ ‫جائے اور ان صفات کے بجائے ان کے ذ ےے ہ‬
‫‪130‬‬
‫کے لیے کام کرنے کا جذبہ اتنا غالب کر دیا جائے کہ و ےےہی ان کققےےے‬
‫اندر اصل محرک کے عمل بن جائے۔اشتراکیوں کا دعققوی یققہ تھققا‬
‫کہ انسانی فطرت اور جبلت اور موروثی میلنات محققض بققورژوا‬
‫فلسفہ و سققائنس کققے ڈھکوسققلے ہیققں اس نققام کققی کققوئی چیققز‬
‫م ذاتققی نفققع طلققبی اور خققود‬ ‫انسان کے انققدر موجققود نہیققں ےےہے ےے‬
‫ےے۔ ہ‬
‫غرضققی کققے میلنققات لوگققوں کققے انققدر سققے نکققال ڈالینگققے اور‬
‫ماحول کے تغیر سے اجتماعی ذہنیت ان میں پیققدا کققر دیققں گققے۔‬
‫لیکن اس بے بنیاد دعوی کو عملققی جققامع پہنققانے میققں اشققتراکی‬
‫حضرات قطعی ناکام ہو چکققے ہیققں۔وہ اپنققے ملققک کققے عققوام اور‬
‫اپنے نظام معیشققت و تمققدن کققے کارفرمققاؤں اور کققارکنوں میققں‬
‫حقیقی اجتماعی ذہنیت اس مقدار سے ایک ماشہ بھر بھی زیادہ‬
‫تی‬ ‫نہیں بڑھا سکے۔جتنی ہر سوسائٹی کے لوگوں میں موجققود ر ےے ہ‬
‫ہے۔وہ ان کے اندر سے خودغرضی و نفع طلبی کققو نکققال دینققا تققو‬
‫ار کققر اوخرکققار‬‫درکنار اسے کم بھی نہ کرسکے‪،‬بلکہ انہیں تھققک ےے ہ‬
‫اسے سیدہی طرح تسلیم کرنا پڑا اور لوگوں سے کام لینققے کققے‬
‫لیے ان کی خودغرضی ہی کو اپیل کرنا پڑا ۔‬
‫اس حد تک تو خیر وہ بورژوا نظام زندگی کے برابققر رےےہےےے‬
‫مگر جس چیز نے ان کو بورژوا نظام سے بھی زیادہ خرابی میں‬
‫مبتل کیا وہ یہ ہے کہ جب انہوں نے افراد کی نفع طلققبی کققے لیققے‬
‫زراعققت ‪ ،‬صققنعت‪ ،‬تجققارت اور دوسققرے فائققدہ منققد کاروبققار کققے‬
‫فکری راستے بند کردئیے اور مصنوعی پروپیگنڈا کے ذریعے سے‬
‫اس نفع طلبی کے صاف اور سید اور معقول مظاہر کو خوامخوا‬
‫معیوب ٹھہ رایققا‪،‬تققو یققہ جققذبہ انققدر دب گیققا‪ ،‬اور انسققان کققے تمققام‬
‫وکر‬ ‫دوسرے دبے ہوئے جذبات کی طرح اس نے بھققی منحققرف ےے ہ‬
‫اپنے ظہور کے لیقے ایسقی راہیقں نکقال لیقں ج و سوسقائٹی کقی‬
‫جڑیں اندرہی اندر کھوکھلی کر رہی ہیں۔اشتراکی معاشققرے میققں‬
‫رشققوت‪ ،‬خیققانت ‪ ،‬چققوری ‪ ،‬غبققن‪،‬اور اسققی طققرح کققی دوسققری‬
‫اں اگققر کققوئی‬ ‫برائیوں کے بڑھنے میں اس چیز کا بڑا دخل ہے۔و ےے ہ‬
‫چیز ممنوع ہے تو صرف یہ کہ ایک اودمی اپنی کمائی ہوئی دولققت‬
‫کو مزید دولت پیدا کرنے والے کسی کاروبار میں لگائے۔‬
‫پانچواں نقصان‬
‫اس قققدر کشققت و خققون اور اکھققاڑ پچھققاڑ اور اتنققے بققڑے‬
‫پیمانے پر دین و اخلق اور انسانیت کی بربادی جس غققرض کققے‬
‫لیے برداشت کی گئی تھی وہ یہ تھی کققہ اشققیا کققی لگققت اور ان‬
‫کققی بققازاری قیمققت کققے درمیققان جققو منققافع صققرف زمینققدار اور‬
‫کارخققانہ دار اور تققاجر طبقققے کھققا جققاتے ہیققں وہ چنققد مخصققوص‬
‫‪131‬‬
‫طبقوں کے جیققب میققں جققانے کققے بجققائے پققوری سوسققائٹی کققے‬
‫خزانے میققں اوئققے اور سققب پققر برابققری کققے سققاتھ یققا کققم از کققم‬
‫انصاف کے ساتھ تقسیم ہو۔ یہی انفرادی ملکیتوں کو ختم کرنققے‬
‫کی اصل غرض تھی اور یہی اگر حاصل ہوتی تو اسققے اجتمققاعی‬
‫ملکیت کا اصلی فائدہ کیا جا سکتا تھا۔مگر کیقا واقعققی یقہ مقصققد‬
‫پورا ہوا ؟‬
‫ذرہ تجربہ کرکےدیکھئے کہ انفرادی ملکیتوں کو ختم کرنے‬
‫سے زراعت‪،‬صنعت اور تجارت کقے جقو منقافع اجتمقاعی خزانقے‬
‫میں اورہے ہیں وہ تقسیم کس طرح ہوتے ہیں۔ حکققومت کققے تمققام‬
‫شعبوں اور معاشی کاروبار کے تمام اداروں میں ادنققی ملزمیققن‬
‫اور اعلی عہدیداروں کے درمیان معاوضوں میں اتنا ہی فرق ےےےہےےے‬
‫جتنا کسی بورژوا سوسائٹی میں پایا جاتققا ےےہےےے۔ ایققک طققرف عققام‬
‫کارکن کی تنخواہ اور اس کی زندگی کا معیار امریکہ و انگلسققتان‬
‫کققی مققزدوروں کققی نسققبت ب ہےےت پسققت ہےےےےے اور ہندوسققتان اور‬
‫پاکستان کے معیار سے اگر کچھ اونچا ہے تو کچھ بہت زیادہ نہیں‬
‫دوسققری طققرف ڈائریکققٹروں اور منیجققروں اور حکققومت کققے‬
‫عہدیداروں اور فوجی افسققرون اور ایکققٹروں اور ایکٹرسققوں اور‬
‫مصنفین و مولفین وغیرہ کققی اومققدنیاں بڑھتققے بڑھتققے کئققی کئققی‬
‫لکھ روبل سالنہ تک پہنچ گئی ہیں۔گویا اگر پوری طققرح نہیققں تققو‬
‫ایک بڑی حد تک یہ تجققارتی اور صققنعتی منققافع اونچققے اور نیچققے‬
‫طبقوں کے درمیان اسی نامساوی طریقے سے تقسیم ہو رہا ہے۔‬
‫جس طرح پہلے محنققت پیشققہ مققزدوروں اور بققورژوا لوگققوں کققے‬
‫درمیان ہوتا تھا۔پھر اشتراکی انقلب بھرپا کرنے کققے لیققے محنققت‬
‫پیشہ عقوام اور بقورژوا لوگقوں کقے درمیقان نفقرت اوربغقض اور‬
‫انتقام کی جو عالمگیر اوگ بھڑکائی گئققی اس نققے تمققام دنیققا کققے‬
‫غیر اشتراکی معاشروں کو روس کا مخالف بنا دیا اور اس بنا پر‬
‫روس مجبور ہو گیقا کقہ انفقرادی ملکیتقوں کقو ختقم کقر کقے ج و‬
‫اتھوں میققں‬ ‫تجارتی و صنعتی منافع اس میں بورژوا طبقوں کے ےے ہ‬
‫جانےسے بچایا تھا اس کا ایک بڑا حصہ جنگی تیاریوں پققر صققرف‬
‫کردے۔ ان دو بڑی بڑی مدوں میں کھپ جانے کے بعد اس منققافع‬
‫کا جتنا حصہ محنت پیشہ کے نصیب میں اویا ہے وہ بققس و ہےےی ےےہےےے۔‬
‫جو "سوشل انشورنس" کے کام میں صرف ہوتا ہے۔‬

‫چھٹا نقصان‬

‫‪132‬‬
‫اجتمققاعی ملکیققت‪ ،‬اجتمققاعی نظققم و نسققق اور اجتمققاعی‬
‫منصوبہ بندی کو رائققج کرنققے کققے لیققے جققان و مققال اور مققذہب و‬
‫اخلق اور انسققانیت کققی جققو اکھققٹی بربققادی روس کققو برداشققت‬
‫کرنی پڑی وہ تو گویا اس تجربے کے اوغاز کی لگت تھی مگر اب‬
‫ل روس کققو‬ ‫روبعمل اوجانے کے بعد روزمرہ کی زندگی میققں وہ ا ےے ہ‬
‫کیا دے رہا ہے اور ان سے کیا لے رہا ہے‪ ،‬اس کا بھی ذرہ مققوازنہ‬
‫کیجئے۔ وہ جو کچھ انہیں دیتا ہے وہ یہ ہے کہ " ہر شخص کے لیققے‬
‫اتنے روزگار کا انتظام ہو گیا ہے جس سے وہ دو وقت کققی روٹققی‬
‫اور تققن ڈھققانپنے کققو کققپڑا اور سققر چھپققانے کققو جگققہ پاسققکےاور‬
‫اجتماعی طور پر اس امر کا بھی انتظام ہو گیا ہے کہ برے وقت‬
‫پر اودمی کو سہارا مل سکے۔بس یہی دو اصل فائدے ہیں جو اس‬
‫نئے نظام نے باشندگان ملک کو دیئے۔اب دیکھئے اس نے لیا کیا۔‬
‫انفرادی ملکیت کی بجائے اجتماعی ملکیت کققا نظققام قققائم‬
‫کرنے کے لیے ناگزیر تھا کہ یہ کام وہی پارٹی اپنے ےےہاتھ میققں لققےےے‬
‫جو اس نظریہ کو لے کر اٹھی تھققی‪،‬یعنققی کمیونسققٹ پققارٹی‪،‬اس‬
‫پارٹی کا نظریہ یہ خود بھی تھا ‪ ،‬اور خود اس کام کا تقاضا بھققی‬
‫یہی تھا کہ ایک زبردست ڈکٹیٹر شپ قائم ہو جققو پققورے زور کققے‬
‫اتھوں‬ ‫ساتھ انفرادی ملکیت کققے نظققام کققو تققوڑ دے اور سققخت ےے ہ‬
‫وگئی اور‬ ‫سے نیا نظام رائج کر دے۔ چناچہ یہ ڈکٹیٹر شققپ قققائم ےے ہ‬
‫اس کو کارکنوں کی ڈکٹیٹرشپ کا نام دیا گیققا۔ لیکققن ےےرہ شققحص‬
‫جانتا ہے کہ روس کے مزدوروں اور کاشتکاروں اور مختلف شعبہ‬
‫ہائے زندگی کے کارکنوں کی ساری اوبادی کمیونسٹ پققارٹی میققں‬
‫شامل نہیں ہے۔ شاید اس اوبادی کققے پانققچ فققی صققدی لققوگ بھققی‬
‫پارٹی کے ممبر نہ ےےہونگےےے۔پققس ظققاہر میققں تققو نققام یققہ ےےہےےے کققہ یققہ‬
‫مزدوروں کی ڈکٹیٹرشپ ہے‪ ،‬مگر حقیقت میں یققہ مققزدوروں پققر‬
‫کمیونسٹ پارٹی کی ڈکٹیٹرشپ ہے۔ اور یہ ڈکٹیٹرشپ بھی کچققھ‬
‫ہلکی پھلکی سی نہیں۔ اجتماعی ملکیت کے معنی یہ ہے کہ ملققک‬
‫کققے تمققام زمینققدار ختققم کردیئققے گئققے اور ایققک واحققد ل شققریک‬
‫زمیندار سارے ملک کی زمین کا مالک ہو گیا سققارے کارخققانہ دار‬
‫اور تجار اور مستاجر بھی ختققم ےےوہ گئققے اور ان سققب کققی جگققہ‬
‫ایسے سرمایہ دار نے لے لی جو ذرائع پیداوار کی ہر قسم اور ہر‬
‫صورت پر قابض ہو گیا۔ اور پھر اسی کققے ےےہاتھ میققں پققورےےے ملققک‬
‫کی سیاسی طاقت بھی مرکوز ہوگئی۔ یہ ےےہےےے کمیونسققٹ پققارٹی‬
‫کی ڈکٹیٹرشپ۔" ‪؎16‬‬
‫ش‬
‫سو سلزما کا رجعت پسند طبقہ‬

‫‪133‬‬
‫اس نے جاسوسی کا ایک وسققیع نظققام قققائم کققر رکھققا ےےہےےے۔‬
‫جس کے بے شمار کارکن ہر ادارے ‪،‬ہر گھر اور ہر مجمعققے میققں‬
‫"رجعت پسندوں" کو سققونگھتے پھرتققے ہیققں۔اس جاسوسققی کققے‬
‫پراسرارجال نے شوہروں اور بیویوں تک کے درمیان شک و شققبہ‬
‫کی دیوار حائل کر دی ہے۔ حتی کہ مقاں بقاپ کقے خلف خقود ان‬
‫کی اولد تک سے جاسوسی کی خدمت لینے میں دریغ نہیققں کیققا‬
‫گیا ہے۔روس کی پولیس اور سی ای ڈی کا "محتققاط " نظریققہ یققہ‬
‫ہے کہ اگر بھول چھوک سے چند سو یا چنققد ےےہزار بققےےے گنققاہ اودمققی‬
‫پکڑے اور مار ڈالے جائیں تو یہ اس سے بہتر ہے کققہ چنققد گنہگققار‬
‫اتھوں سققے جققوابی انقلب بھرپققا ےےوہ‬ ‫چھققوٹ جققائیں اور ان کققے ےے ہ‬
‫جائے۔اسی لیے وہ ہر فیکٹری ہر کان ہےےر دفققتر اور ہےےر ادارےےے میققں‬
‫دیکھتے رہتے ہیں کہ کون سا مققزدور یققا کققارکن ملققک کےیققا خققود‬
‫اپنے ادارے کے انتظام پر ناک بھوں چھڑاتا ہے یا کسی قققوم کققی‬
‫بے اطمینانی کا اظہار کرتا ہے۔ اس طرح کا کوئی فعل کرنققا تققو‬
‫درکنار ‪ ،‬جس پر شبہ ہوجققائے کققہ وہ ایسققے جراثیققم رکھتققا ےےہےےے وہ‬
‫بھی اچانک گرفتار کر لیا جاتا ہے۔چونکہ یہ اوئے دن کا معمول ےےہےےے‬
‫اس لیے جب کوئی کارکن رات کو اپنے گھر نہیققں پہنچتققا تققو اس‬
‫کی بیوی خود یہ سمجھتی ہے کہ پکڑا گیا۔دوسری دن وہ اس کققی‬
‫ی اوپ پققولیس کققے دفققتر میققں پہنچققانی‬ ‫ضرورت کی چیزیں اوپ ےے ہ‬
‫شروع کر دیتی ہے۔اور ان کا قبول کر لیا جانا یہ معنی رکھتا ےےےہےےے‬
‫کہ اس کا قیاس صحیح تھا وہ کققوئی سققوال کققرے تققو دفققتر سققے‬
‫اسے کوئی جواب نہیں ملتا۔ ایک روز یکا یک ایسا ہوتا ہے کققہ اس‬
‫ی اس امققر کققی اطلع‬ ‫کا بھیجا ہوا پارسل واپس اوجاتا ہے بس ی ےے ہ‬
‫واےےاب اگققر وہ نیققک بخققت خققود‬ ‫ہے کہ اس کا خاوند لینن کو پیارا ےےہ ۔‬
‫بھی اسی انجام سے دوچار ہونا نہ چاہتی ہو تو اس کا فرض ےےےہےےے‬
‫کہ ایک اچھی کامریڈنی کی طرح اس معاملے کی بھاپ تققک منققہ‬
‫سے نہ نکالے اور دوسرا کوئی ایسا خاوند ڈھونققڈے جققو "رجعققت‬
‫‪؎17‬‬ ‫پسندی" کے شبہ سے بالتر ہو۔ "‬
‫مولنا مودودیی نے نظام اشتراکیت کممو اجتممماعی‬
‫ظلم قرار دیا‬
‫مودودی اشتراکیت کققو ظلققم اجتمققاعی کققی بققدترین شققکل‬
‫قرار دیتے ہیں۔ وہ پوری سوسائٹی کو یرغمال بنانے کی قیمت پر‬
‫قائم ہونے والے معاشی مساوات کو نظام عدل نہیں بلکہ "ظلققم‬
‫اجتماعی کی بدترین شققکل قققرار" دیتققے ہیققں۔مققودودی نققے اپنققی‬
‫کتاب مییں اس کی وضاحت یوں کی ہے۔‬

‫‪134‬‬
‫"درحقیقت یہ ظلم اجتماعی کی وہ بدترین صورت ےےےہےےے جققو‬
‫کبھی کسی نمرود‪،‬کسی فرعون اور کسی چنگیز خققان کققے دور‬
‫ی تھققی۔اوخققر اس چیققز کققو کققون صققاحب عقققل‬ ‫میققں بھققی نققہ ر ےے ہ‬
‫اجتماعی عدل سققے تعققبیر کرسققکتا ےےہےےے کققہ ایققک شققخص یققا چنققد‬
‫اشخاص بیٹھ کر اپنا ایققک اجتمققاعی فلسققفہ تصققنیف کققرے ‪ ،‬پھققر‬
‫حکققومت پققر زبردسققتی قبضققہ کرکققے اور اس کققے غیققر محققدود‬
‫اختیارات سے کام لیکر اس فلسفے کو ایک پورے ملک کے رہنے‬
‫والے کروڑوں افراد پر زبردستی مسلط کردیں۔لوگوں کے اموال‬
‫ضبط کریں‪،‬زمینوں پر قبضہ کریں‪،‬کارخققانوں کققو قققومی ملکیققت‬
‫بنائیں‪،‬اور پورے ملک کو ایک ایسے جیل خانے میں تبدیل کردیں۔‬
‫جس میں تنقید ‪،‬فریاد‪،‬شکایت‪ ،‬استغاثے اور عققدالتی انصققاف کققا‬
‫ہر دروازہ لوگوں کے لیے مسدود ہو۔ملک کے اندر کققوئی جمققاعت‬
‫نہ ہو‪،‬کوئی تنظیم نہ ہو‪،‬اور کوئی پلیٹ فارم نہ ےےوہ جقس پقر لقوگ‬
‫زبان کھول سکیں‪ ،‬کوئی پریس نہ ہو جس میں لوگ اظہار خیققال‬
‫کرسکیں‪،‬اور کوئی عدالت نہ ےےہو جسققکا دروازہےے انصققاف کققے لیققے‬
‫کھٹکھٹا سکیں۔ بالفرض اس طریقے سے اگر معاشی دولت کی‬
‫مسققاوی تقسققیم ےےےہو بھققی سققکےےے‪ ،‬دراوں حلنکققہ اوج تققک کققوئی‬
‫اشتراکی نظام ایسا نہیں کر سکتاہے۔تب بھققی کیققا عققدل محققض‬
‫معاشی مساوات کا نام ےےہےےے ؟میققں یققہ سققوال نہیققں کرتققا کققہ اس‬
‫نظققام کققے حققاکموں اور محکومققوں کققے درمیققان بھققی معاشققی‬
‫مساوات ہے کہ نہیں ؟میں یہ نہیں پوچھتا کہ اس نظام کققا ڈکٹیققٹر‬
‫اور اس کے اندر رہنے وال ایک کسان کیا اپنے معیار زندگی میں‬
‫مساوی ہیققں؟میقں صقرف یقہ پوچھتقا ےےہوں کقہےے اگققر ان سققب کقے‬
‫درمیان واقعی پوری معاشی مساوات قائم بھی ہو جائے تو کیققا‬
‫اس کا نام اجتماعی عدل ہوگا؟ کیا عدل ی ہےےی ہےےےےے کققہ ڈکٹیققٹر اور‬
‫اس کے ساتھیوں نے جو فلسفہ گھڑا ہے۔اس کو تو وہ پولیس اور‬
‫فوج اور جاسوسی نظام کی طاقت سے بالجب سققاری قققوم پققر‬
‫مسلط کر دینے میں بھی اوزاد ہو۔ مگققر قققوم کققا کققوئی فققرد اس‬
‫فلسفے پر ‪ ،‬یا اسکی تنقید کے کسی چھوٹے سے چھوٹے جققزوی‬
‫وں؟‬ ‫عمل پر محض زبان سے ایک لفظ نکالنے تک میں اوزاد نققہ ےے ہ‬
‫کیا یہ عدل ہے کہ ڈکٹیٹر اور اس کے چند مٹھی بھققر حققامی اپنققے‬
‫فلسققفے کققی ترویققج کققے لیققے تمققام ملققک کققے ذرائققع و وسققائل‬
‫وں‪،‬‬ ‫استعمال کرنے اور ہر قسم کی تنظیمات بنانے کے حقققدار ےے ہ‬
‫مگر ان سے مختلف رائے رکھنققے والققے دو اودمققی بھققی مققل کققر‬
‫کوئی تنظیم نہ کر سکے‪ ،‬کسی مجمع کو خطاب نہ کرسکیں اور‬
‫کسی پریس میں ایک لفظ بھی شائع نہ کراسکے؟ کیققا یققہ عققدل‬
‫ہے کہ تمققام زمینققداروں اور کارخققانہ داروں کققو بققے دخققل کرکققے‬
‫‪135‬‬
‫پورے ملک میں ایک ہی زمیندار اور کارخانہ دار رہ جائے جس کققا‬
‫اتھ‬‫نام حکومت ہو اور وہ حکومت چند گنققے چنققے اودمیققوں کققے ےے ہ‬
‫میں ہو‪ ،‬اور وہ اودمی ایسی تمام تدابیر اختیار کققر لیققں جققن سققے‬
‫پوری قوم بالکل بے بس ہو جائے اور حکومت کققے اختیققارات کققا‬
‫اتھوں میققں چل جانققا‬ ‫ان کے ےےہاتھ سققےےے نکققل کققر دوسققروں کققے ےے ہ‬
‫قطعی ناممکن ہو جائے؟ انسان اگر محض پیٹ کا نام نہیققں ےےہےےے‪،‬‬
‫اور انسانی زندگی اگر صققرف معققاش تققک محققدود نہیققں ےےہےےے‪ ،‬تققو‬
‫محض معاشی مساوات کو عدل کیسے ک ہےےا جققا سققکتا ہےےےےے ؟ اور‬
‫خود ڈکٹیٹر اور اس کققے سققاتھی بھققی اپنققے معیققار زنققدگی میققں‬
‫لوگوں کے برابر ہو کر رہیں تب بھی اس ظلم عظیم کے ذریعے‬
‫سے یہ مساوات قائم کرنا اجتماعی عدل قرار نہیں پا سکتا۔ بلکہ‬
‫یہ ‪ ،‬جیسا کہ ابھی میں اوپ سے عرض کر چکققا ےےہوں‪ ،‬وہےے بققدترین‬
‫اجتماعی ظلم ہے جس سے تاریخ انسانی کبھی اس سققے پہلققے‬
‫اوشنا نہ ہوئی تھی"۔ ‪؎18‬‬
‫قظق‬ ‫ی‬
‫اسلمی سوشلزم چتر مودود ی کی پیق یید‬
‫"یہ دستور جب تک موجود ہے اس وقت تققک کققوئی شققخص‬
‫خواہ کتنی ہی کوشش کققرے مسققلمانوں کققو ےےرہ گققز اس دھققوکے‬
‫میں نہیں ڈال سکتا کہ جو اشققتراکیت اس نققے کسققی جگققہ سققے‬
‫مستعار لے لی ہے وہی عین اسلم ہے یققا وہ "اسققلمی سوشققلزم‬
‫"ہے۔اسلم کے اس دستور میققں فققرد اور معاشققرے کققے درمیققان‬
‫ایسا توازن قائم کیا گیا ہے کہ نققہ فققرد کققو وہ اوزادی دی گئققی ےےہےےے‬
‫جس سے وہ معاشرے کے مفققاد کققو نقصققان پہنچققا سققکے اور نققہ‬
‫معاشرے کو یہ اختیارات دیے گئے ہیں کہ وہ فرد سے اس کققی وہ‬
‫اوزادی سلب کرسکے جو اس کی شخصققیت کققے نشققو ونمققا کققے‬
‫‪؎19‬‬ ‫لیے ضروری ہے۔"‬

‫فصل دوم‬
‫مولنا وحید الدین خان کا تعارف‬
‫مولنا وحیدالدین خان نے کارل مارکس اور اس کے نظریات کققو‬
‫موضوع بحث بنایا ہے۔ان کے مطابق مارکسزم سرمایہ داری کققے‬
‫خلف یورپی ذہن کا ردعمققل ےےہےےے۔ وہ اپنققی کتققاب میققں اس طققرح‬
‫لکھتے ہیں۔" مارکس انیسویں صدی کی دوسری دہائی میققں پیققدا‬
‫ہوا۔ اور اس کے اوخر میں اس کی وفات ےےوہئی‪ ،‬یقہ زمقانہ صققنعتی‬
‫انقلب کے انتہائی عروج کا زمانہ تھا۔بھاپ اور بجلققی سققے چلنققے‬
‫‪136‬‬
‫والی مشینوں کی ایجقاد نقے بیشقمار انسقانوں کقو روزگقار سققے‬
‫محروم کرکے صنعت و تجارت کو پورا میققدان تھققوڑے سققے مققل‬
‫مالکوں اور کارخانہ داروں کے حوالہ کر دیا تھا۔ایسققا معلققوم ہوتققا‬
‫تھا گویا چند لوگ سرمایہ دار اور باقی تمام لوگ ان کققے خریققدار‬
‫ن کققو شققدید‬ ‫بن کر رہ گئے ہیں۔اس صورتحال نققے یققورپ کققے ذ ےے ہ‬
‫طور پر متاثر کیا۔اس کے حل کے لیے مختلف تدبییر سوچی جانے‬
‫لگی۔ بالخر مارکس پیدا ےےہوا جققس نققےےے سققرمایہ داری کققے خلف‬
‫یورپی ذہن کے ردعمل کو ایک فلسفہ کی شکل میققں مرتققب کققر‬
‫ڈال۔یہ فلسفہ دراصل استحصال کی ایک نئی شکل تھی جققس کققا‬
‫مطلب خود مارکس کے لفظوں میں یقہ تھقا کقہ ب ے دخقل کرنقے‬
‫‪؎1‬‬ ‫والے طبقوں کو بے دخل کر دیا جائے۔‬
‫ذاتی ملکیت کا خاتمہ‬
‫"اشتراکیوں کے نظریہ کو ایک جملہ میں یوں ادا کرسققکتے‬
‫ہیں "ذاتی ملکیت کا خ اتمہ " ی ہ م ارکس اور اینگقز کقے مشقہور‬
‫کمیونسٹ مینی فیسٹو کا ایک فقرہ ہے۔یہ ذاتی ملکیت کققا خققاتمہ‬
‫یقا دوسققرے لفظققوں میقں "سقماجی ملکیققت کققا نظقام"معمققولی‬
‫اختلفات کے سققاتھ اس زمققانے میققں عققام طققور پققر انسققان کققے‬
‫معاشی مسائل کا حل سمجھا جانے لگققا ےےہےےے۔اگرچققہ ان نظریققات‬
‫کے درمیان مختلف مسائل میں بہت سے اختلفات ہیں اور اکققثر‬
‫اوقات یہ ایققک دوسققرے کققے تردیققد بھققی کرتققے رہتققے ہیققں مگققر‬
‫وجوہات سب میں مشترک ہیں وہ یہ کہ یہ تمققام نظریےاجتمققاعی‬
‫ملکیت کے نظام پر یقین رکھتے ہیں اور زنققدگی کققے بققارے میققں‬
‫اس فلسفہ کو کسی نا کسی شکل میں تسلیم کرتے ہیں گو جققو‬
‫مارکس اور اس کے ہم خیال مفکرین نے اپنے نظریے کققی تائیققد‬
‫میں مرتب کیا تھا۔یہ مختلف جماعتیں نہیں ہیں بلکہ زیققادہ صققحیح‬
‫الفاظ میں یہ ایک تحریک کے مختلف فرقے ہیں جو بعققض جزیققی‬
‫یا عملی مسائل میں اختلف کی وجہ سے الگ الگ ٹکققڑوں میققں‬
‫بٹ گئے ہیققں۔ان صققفحات میققں مارکسققزم کققو سققامنے رکققھ کققر‬
‫گفتگو کرونگا۔ مارکسزم ان سب کا خلصہ اور اس کقے بعقد جقو‬
‫افکار پیدا ہوئے ان سب کی اصل ہے‪ ،‬اس لیے مارکسزم پققر جققو‬
‫گفتگققو ےےےہوگی وہےے بققڑی حققد تققک ماضققی اور حققال کققے دوسققرے‬
‫سوشلسٹ نظریات پر بھی اس طرح چسپاں ہوگی جس طققرح‬
‫وہ خود مارکس کی تعلیمققات پققر چسققپاں ےےوہئی ےےہےےے۔مققارکس نققے‬
‫کوئی بات نئی نہیں کہی ہے‪ ،‬لینققن کقے الفقاظ میقں "اس نقے ان‬
‫سوالوں کے جوابات فراہم کئے ہیں جن پر اس سے پہلققے ممتققاز‬
‫لوگققوں نققے دمققاغ سققوزی کققی تھققی۔مققارکس کققی تعلیمققات‬
‫‪137‬‬
‫فلسققفہ‪،‬معاشققیات اور سوشققلزم کققے بققڑے بققڑے نمائنققدوں کققی‬
‫تعلیمات کا براہ راست نتیجہ اور اس سلسققلے کققی اگلققی کھققڑی‬
‫ہے‪،‬انیسویں صدی میں جرمن فلسفہ‪،‬انگریزی علم معاشیات اور‬
‫فرانسیسی سوشلزم کے روپ میں یورپ کے مادی ذہن نے جققو‬
‫چیزیں تحلیق کی تھیں مارکس نے ان کققو نئققی ترتیققب اور مزیققد‬
‫قوت استدلل کے ساتھ اکٹھا کققر دیققا ےےہےےے۔جققس نققے اس مظلققوم‬
‫طبقہ کی چیخ بھی شامل ہے جس کو یورپ کے صققنعتی انقلب‬
‫نے جنم دیا تھا۔" ‪؎2‬‬
‫مولنا وحید الدین خان کی رائے‬
‫مولنققا وحیدالققدین خققان فرمققاتے ہیققں کققہ مارکسققزم جققن‬
‫ی اصققول شخصققی‬ ‫اصولوں پر مسایل کققا حققل پیققش کرر ےے ہاےےے ی ےے ہ‬
‫حکومت کے خلف جم ےےہوریت اپنققانےےے کققے لیققے اختیققار کئققے گئققے‬
‫تھے۔"مارکسی تشخیص کے مطابق اس خرابی کققی جققڑ دراصققل‬
‫نجی ملکیت کا قانون ہے جس کی وجہ سے ایققک شققخص کققو یققہ‬
‫موقع ملتا ہے کہ وہ دولت کققے خزانققوں کققو اپنققی ملکیققت بنققا کققر‬
‫دوسروں کو اس سے محروم کققردے اور اس طققرح سققماج کققے‬
‫اندر ایک ایسی حیثیت حاصل کرے جہاں سب کچھ اس کے لیققے‬
‫ہو اور دوسرے کے لیے کچھ بھی نہ ہو۔ اس کا حل یہ ہے کہ نجی‬
‫ملکیت کا خاتمہ کردیا جائے اور رزق حاصل کرنے کے ذرائققع کققو‬
‫سارے عوام کی ملکیت بنا دیا جائے۔ اس طرح رزق کے خزانققوں‬
‫پر چند افراد کی اجارہ داری خود بخود ختم ہو جائیگی اور زمیققن‬
‫کی دولت اور جو کچھ اس زمین پر ہے وہ زمین پر بسققنے والققے‬
‫تمام انسانوں کو ملنے لگے گققی ‪ ،‬کمیققونزم کققے اس ضققمن کققے‬
‫پیچ جو فلسفہ کام کر رہا ےےہےےے ٹھیققک ی ےےہی فلسققفہےے اس سققے پہلققے‬
‫شخصی حکومتوں کے خلف جمہوریت کے نققام سققے اختیققار کیققا‬
‫گیا تھا‪ ،‬اس وقت یہ نظریققہ پیققش کیقا گیققا کقہ سیاسققی اختیققارات‬
‫اتھ‬‫زندگی میں اصل فیصلہ کن حیثیت رکھتے ہیں‪ ،‬یہ جس کققے ےے ہ‬
‫میں ہوں وہ دوسروں کو اپنا غلم بنا لیتا ہے‪ ،‬وہ سماج کققے تمققام‬
‫اداروں کو سماج کی خدمت کرنے کے بجائے اپنی خدمت کرنققے‬
‫پر مجبور کرتا ہے ‪ ،‬اس لیے تمام پبلک کققو حقیقققی معنققوں میققں‬
‫اوزاد کرنے کے لیے ضروری ہے کہ سیاسی اختیارات چنققد لوگققوں‬
‫کے ہاتھ میں نہ ہو بلکہ سارے عوام کے ہاتھ میں ہوں۔ ان ےےہوں نققےےے‬
‫کہا کہ سیاسی اختیارات سارے عوام کا حق ےےہےےے اس لیققے شققاہی‬
‫ونی‬ ‫خاندان کے چند افراد کے بجائے سارے عوام کی حکققومت ےےے ہ‬
‫‪؎3‬‬ ‫چاہیے ۔‬

‫‪138‬‬
‫جمہوری طرز حکومت کے حامی حضرات‬
‫لوگوں پر جو مظالم ہو رہے ہیں اور ایک محققدود طبقققہ کققو‬
‫زندگی میں جو ترجیحات حاصل ہوگئیں ہے وہ اسققی لیققے ےےہےےے کققہ‬
‫اختیارات پر چند افرادکا قبضہ ہے۔ اگر اختیارات تمام لوگوں کققے‬
‫قبضہ میں دے دیئے جائیں تو یہ ظلم خود بخود ختم ےےوہ جائےگققا ۔‬
‫جان کالوین )‪ 1509‬ـــ ‪(1564‬جمہوری طرز حکققومت کققا حققامی‬
‫تھا ۔ اس کا خیال تھا کہ اس قسم کی حکومت میں مخالفت اور‬
‫ی تققو حققاکم‬ ‫باہمی کشمکش ختم ہوجائیگی۔کیققونکہ خققود عققوام ےے ہ‬
‫ےےہونگےےے ‪ ،‬پھققر کققون مخققالفت کریگققا‪ ،‬کققون کققس پققر ظلققم کریگققا‪،‬‬
‫دوسرے لفظوں میں یوں ک ےےاہ جاسققکتاہےےے کققہ اشققتراکی حضققرات‬
‫معاشی اختیارات کو سماج کی ملکیت بنا دینا چققاہتے ہیققں اور وہ‬
‫لوگ سیاسی اختیارات کو سماج کی ملکیت بنانے کے علمبردار‬
‫‪ ،‬یققہ تحریققک بققڑے زور و شققور کققے سققاتھ سققترہویں صققدی میققں‬
‫فرانس سے اٹھی اور بالخر ساری دنیا پر چھا گئققی۔کیقا سیاسقی‬
‫واےے اس‬ ‫اختیارات کو عوامی ملکیت بنانے کا یققہ اصققول کامیققاب ےےہ ۔‬
‫کے جواب میں ہمیں کچھ کہنے کی ضرورت نہیں‪ ،‬۔جمہوریت کی‬
‫ناکامی کی تفصیلت سے اشتراکی لیٹریچر بھرا ہوا ےےےہےےے۔ انگلققس‬
‫نے اس مسئلے پر بحث کرتققے ہوئےلکھققا ےےہےےے "روسققو کققا معا ےےہدہےے‬
‫عمرانی ایک خونی حکومت )رایققن اف ٹیققرر انگلققش میققں لکھنققا‬
‫ہے(کی شکل میں ظاہر ہوا۔" لینن نے کہا ہے " جب جاگیرداری کا‬
‫تختہ الٹ گیا اور اوزاد سرمایہ دارانہ سماج خدا کی زمین پر قققائم‬
‫ہوگیققا تققو یققہ ظققاہر ےےوہئے دیققر نققہ لگققی محنققت کشققوں کققے لیققے‬
‫جبرواستحصال کا ایک نیا نظام لئی ہے۔" جب ایسا ہے تققو کیققوں‬
‫نہ ہم سمجھے کہ کارل مارکس کی "معاشی جمہوریت" کقا بھقی‬
‫وہی انجام ہوگا جو اس سے پہلے روسو کی" سیاسی جمہوریت"‬
‫کا ہوچکا ہے۔جب دونوں کا فلسفہ ایک ہے اور دونوں جگہ حصول‬
‫مقصد کے لیے یکساں طریقہ کار اختیار کیا گیا ہے تو ا وخر دونوں‬
‫کا انجام ایک دوسرے سے مختلف کیوں ہوگققا‪ ،‬جققب دونققوں کققی‬
‫منطق ایک ہے تو دونوں کا نتیجہ بھی ایک ہی ظاہر ہونقا چقاہیے۔"‬
‫‪؎4‬‬
‫مارکسزم کے مفکرین کی رائے‬
‫موجودہ جمہوری نظام کے متعلق مارکسققی مفکریققن بققڑے‬
‫زور شور کے ساتھ یہ بات کہتے ہیں مگر حقیقققت یققہ ےےہےےے کققہ یققہ‬
‫بات جمہوریت سے زیادہ اس نظام پر صادق اوتی ہے جس کققو یققہ‬
‫وریت‬ ‫حضرات جمہوریت کے بعد لنا چاہتے ہیں جس طققرح جم ےے ہ‬
‫اختیارات کو ایک مخصوص گروہ کے ہاتھ میققں مرتکققز کرتققی ےےہےےے‬
‫‪139‬‬
‫اسی طققرح سوشققلزم بھقی تمقام اختیققارات کققو ایققک مخصقوص‬
‫پارٹی کے ہاتھ میں دے دیتققا ےےہےےے‪ ،‬پھققر "مققزدوروں کققی حکققومت‬
‫کس لیے۔"کیا یہ ظلم پر عذاب عظیم کا اضافہ نہیں ہے ؟‬
‫"ٹھیک اسی طرح مارکسقزم ن ے ک ےےاہ کقہےے سقماج کقے انقدر‬
‫طبقات کی بنیاد یہ ہے کہ معاش حاصققل کرنققے کققے ذرائققع عققوام‬
‫کے بجائے چند لوگوں کے ہاتھ میں چلے جائیں‪،‬جو مالققک بققن کققر‬
‫اس پر قبضہ کر لیں اور بقیققہ لققوگ انکققی ملزمققت اور مققزدوری‬
‫کرتے رہیں ۔اس لیے اس نے نعققرہ لگایققا کققہ "ذرائققع پیققداوار عققام‬
‫لوگوں کا حق ہے‪ ،‬ان پر سارے عوام کا قبضہ ہونققا چققاہیے۔" مگققر‬
‫ٹھیک وہی سوال یہاں بھی پیدا ہوتاہے جو سیاسی جمہوریت کققے‬
‫سلسلہ میں پیقدا ےےہوا تھ ۔اےےیعنقی یقہ کقہ نظقری اعتبقار سقے ذرائقع‬
‫پیداوار کو ساری عوام کی ملکیت کہہ دینققے سققے فققی الواقققع وہ‬
‫سارے عوام کی ملکیت نہیں بن جاتے بلکہ اس کققے انتظققام کققے‬
‫لیے چند لوگوں کو مقرر کرنا ہوگا جو مفاد عامہ کے مطابق ان‬
‫کی پیدائش اور تقسیم کا بندوبست کریں مارکسققزم نققے ک ےےاہ یققہےے‬
‫چند لوگ محنت کش طبقہ کے نمائندے ہونگے جو سب کے مفقاد‬
‫کے مطابق ذرائع پیداوار کا انتظام کریں گےیہ نئے الفاظ اور نئے‬
‫ی تھققی‬ ‫عنوان کے ساتھ ٹھیک وہی بات ہے جو جم ےےہوریت نققےےے ک ےے ہ‬
‫البتہ اس میں چند لوگوں کیا دائرہ اختیار بہت بڑھا دیققا گیققا ےےہےےے۔وہ‬
‫سیاست کے ساتھ اوبادی کے ایک ایک شخص کےمعاش کے بھققی‬
‫ذمہ دار ہیں۔جم ےےہوریت میققں اپنققےےے منتخققب نمائنققدوں "کققو صققرف‬
‫سیاسی خداوند بنایا تھققا ‪،‬مارکسققزم نققے سیاسققی خداونققدی کققے‬
‫ساتھ انہیں ان داتا کقا مقققام بھققی دے دیقا ۔ مارکسققی نظریقہ کقا‬
‫خلصہ یہ ہے کہ تنظیم معاشیات کققا کققام سققرمایہ کققے ےےہاتھ سققےےے‬
‫نکل کر سیاست کے ہاتھ میققں چل جققائے یققہ سققانپ کققو مققار کققر‬
‫اژدھا کو زندہ لکھنا ہے۔ یہ نظریہ مسئلہ کققو حققل نہیققں کرتققا بلکققہ‬
‫‪؎5‬‬ ‫اس کو اور پییچیدہ بنا دیتا ہے۔‬
‫ی‬
‫کارل مارکس کا دعو ی‬
‫کارل مارکس جس کا دعوی تھا کہ اس نے انسققانی تاریققخ‬
‫کا قانون دریافت کیاہے۔ جس سے انسانی تاریققخ کققے ماضققی اور‬
‫مستقبل کو معلوم کیا جاسکتا ہے۔ مارکس کے نزدیققک یققہ بالکققل‬
‫وہی ہے جو مادی دنیا کا ہے وہ کہتے ہیں کہ جس طرح مادی دنیققا‬
‫کی تمام چیزیں ایک عالمگیر قانون میققں جھکققڑی ےےوہئی ہیققں اور‬
‫اسی کے مطابق ان کے تمققام خققواص و افعققال ظققاہر ےےہوتےےے ہیققں‬
‫اسی طرح انسان کی زندگی کا بھی ایک قانون ہے۔انسان بظققاہر‬
‫شقعور اور ارادہ رکھتقا ےےہےےے۔جقس کقا مطلقب ےےہےےے کقہ انسقان ایقک‬
‫‪140‬‬
‫خودمختار اور اوزاد مخلوق ہے وہ اپنے مرضی سے جققو چققاہے کققر‬
‫سکتا ہے مارکس کے نزدیک انسان کے ارادہ کی حقیقت اس کے‬
‫سوا کچھ نہیں کہ وہ انسان میں خارجی حققالت کققا عکققس ہیققں ۔‬
‫مولنا وحیدالدین خان فرماتے ہیں کہ مارکسققزم جققب عمققل کققی‬
‫واےے اس کققے‬
‫کسوٹی پر پرکھا گیققا تققو سققارا فلسققفہ غلققط ثققابت ےےہ ۔‬
‫متعلق رقم طراز ہیں۔ ‪؎6‬‬
‫کارل مارکس نے تاریخ کممو سممائنس کممی صممورت‬
‫دی ہے‬
‫"مارکس کا یہ کہنا کہ اس نے تاریخ کو سائنس کی صقورت‬
‫دی ہے۔دراصل اسی سوال کا جواب ہے۔مارکس نے اسققی سققوال‬
‫پر غور کیا کہ ہمارا موجققودہ سققماج اس حققالت پققر کیققونکر پہنققچ‬
‫گیا ۔اس میں تبدیلی کیوں ہوتی رہتی ہے اور اوئندہ اس میققں کققس‬
‫قسم کی تبققدیلی کققا امکققان ےےہےےے۔ وہ اپنققے مطققالعہ کققے بعققد اس‬
‫نتیجے پر پہنچا کہ جس طققرح بیرونققی دنیققا کققے واقعققات اتفققاقی‬
‫طور پر نہیں ہوتے ‪،‬اسی طققرح سققماج میققں بھققی کققوئی تبققدیلی‬
‫محض اتفاق سے نہیں ہوجاتی۔اس کے پیچ خاص اصقول کارفرمقا‬
‫ہوتے ہیں۔جس طرح نیوٹن اور اوئن سٹائن نے کائنات کققی حرکققت‬
‫کے قوانین معلققوم کرنققے کققی کوشققش کققی اور اس کققے اصققول‬
‫مرتب کئے اسققی طققرح مققارکس نققے تاریققخ انسققانی کققا مطققالعہ‬
‫کرکے وہ "سائنٹیفک اصول" دریافت کئے جو سماج کی تبققدیلیوں‬
‫میں کام کرتے ہیں۔ اس نققے ک ےےاہ کققہےے ہمققاری سوسققائٹی میققں جققو‬
‫تبدیلی ہوتی رہتی ہے وہ چند خاص اصولوں اور قوانین کققی پابنققد‬
‫ہے ٹھیک اسی طرح کائنات کی دوسری چیزیں خاص قوانین کی‬
‫پابند ہے۔یہ دونوں قوانین ایک ہی نوعیت کے ہوتے ہیققں۔یققہ قققوانین‬
‫جققو ہمققارے اطققراف کققی سققاری کائنققات اور ہمققاری سوسققائٹی‬
‫ی کققا نققام‬
‫دونققوں پققر یکسققاں حیققثیت سققے صققادق اوتققے ہیققں ان ےے ہ‬
‫مارکسی فلسفہ یا کائنات کا مارکسی نقطہ نظر ہے۔‬
‫دوسرے لفظوں میں مارکس کا نقطہ نظر یہ ےےہےےے کققہ عققالم‬
‫مادی اور عالم انسانی دونوں ایک ہی قسم کے قانون کققے پابنققد‬
‫ےےہےےے۔‪ ،‬اب اس اسققلوب کققو خققواہ چٹققانوں کققو سققمجھنے کققے لیققے‬
‫استعمال کیا جائے۔خواہ بینکروں اور مل مالکوں کی دنیا پر اسے‬
‫چسپاں کیا جائے۔مارکس اور انگلزکی عظمت کققا راز یققہ ےےہےےے کققہ‬
‫انہوں نے سائنس کی اس بنیادی اسلوب کققو انسققانی سققماج پققر‬
‫بھققی اس طققرح منطبققق کیققا جققس طققرح ان سققے پیشققتر یققہ‬
‫جمادات‪،‬نباتات وغیرہ پر استعمال کیا جا رہا تھا۔ انہوں نے تاریخی‬

‫‪141‬‬
‫واقعات اقتصادی مواد اور فلسفیانہ نظریوں کو جو کہ تاریخ کققے‬
‫دامن میں صدہا سال سے جمع ہورہے تھے‪،‬ٹھیک طرح مرتب کیا۔‬
‫تول‪،‬کلیے قائم کئے اور انسان کققے بققاہمی تعلقققات کققے ان تمققام‬
‫قوانین کو دریافت کیا جس کے بغیر یہ سماجی زندگی ایک الجھا‬
‫‪؎7‬‬ ‫ہوا معمہ نظر اوتی تھی۔"‬
‫کارل مارکس کاقول ہے کممہ انسممانی سممماج ایممک‬
‫سائنس ہے‬
‫اس طرح مققارکس نققے ک ےےہا کققہےے انسققانی سققماج کققی ایققک‬
‫سائ نس ہے جس کے اپنققے قققوانین ہیققں ۔مققارکس نققے یققہ قققوانین‬
‫مرتب کئے اور ان کو استعمال کرکققے مسققتقبل کققے سققماج کققے‬
‫بارے میں بہت سی پیشنگوئیاں کرنے کی جرات کی جس طققرح‬
‫فلکیققات کققا ایققک عامققل سققیاروں کققی گققردش کققے بققارے میققں‬
‫پیشنگوئی کرتا ہے۔ میں نے یہاں "جرات" کا لفظ اسققتعمال کیققا‬
‫ہے۔ کیونکہ جو شخص ہمیں یہ بتائے کہ اوئندہ کیققا ےےہونےےے وال ےےہےےے وہ‬
‫قدرتی طور پر اس کا بھی ذمہ دار ہوتا ےےہےےے کققہ حققالت اس کققے‬
‫الفاظ کو غلط نہ قققرار دے‪ ،‬وقققت اس شققخص کققے نظریققے کققے‬
‫صحیح یا غلط ہونے کا امتحان ہوتا ہے جو مستقبل کے بارے میقں‬
‫کچھ کہنے کی جرات کرتا ہے‪ ،‬مثال کے طور پر اگر ایک شخص‬
‫ی‬
‫اگر یہ اعلن کرے کہ زمین جس قانون کے تحت گردش کر ر ےےے ہ‬
‫ہے وہ میں نے معلوم کر دیا ہے اور اس قانون کے مطابق یہ ہوگا‬
‫کہ زمین ایک سو ایک دن میں چاند سققے ٹکققرا جققاےگی ۔ تققو اس‬
‫وگی‬ ‫شخص کے دعوے کے غلط ہونے کے لیے اتنی بققات کققافی ےے ہ‬
‫کہ ایک سو ایک دن گزرنے کے بعد بھی زمین کی گردش حسب‬
‫دستور جاری رہے اور وہ چاند سے نہ ٹکراے ۔اس طققرح مققارکس‬
‫کا یہ نظریہ کہ زندگی کے واقعات طبی سققائنس کققی طققرح ایققک‬
‫ہیں خققود بخققود غلققط ثققابت‬ ‫لزمی قانون کے تحت پیش اوتے‬
‫ہوجائےگا اگر مستقبل کے واقعات ان پیشنگوئیوں کی تصدیق نہ‬
‫کریں جو مارکس نے اپنے نظریے کققے مطققابق ماضققی میققں کققی‬
‫تھیں۔ممکن ہے مققارکس کققی زنققدگی میققں اس کققے نظریققے کققی‬
‫صحت یا عدم صحت کے بارے میں فیصلہ نہ کیا جاسکتا ےےہ۔وےےمگققر‬
‫اب سو برس گزرنے کے بعد تو خود زمققانہ ایققک ایسققی بنیققاد ےےہےےے‬
‫جس کی روشنی میں جانچ کر ایک معمولی اودمی بھی مارکس‬
‫‪؎8‬‬ ‫کے نظریے کے صحیح یا غلط ہونے کا فیصلہ کرسکتا ہے۔"‬

‫‪142‬‬
‫مولنا کے نزدیک مارکسزم تضممادات کمما مجممموعہ‬
‫ہے‬
‫مولنا وحیدالدین نے مارکسزم کا بغور مطالعہ کیققا اور اس‬
‫کو تضادات کا مجموعہ قرار دیا ہے۔ "سوشلزم اور اسلم " میققں‬
‫مولنا وحید الدین خان ما رکسزم کے تضادات پققر ان کققی کتققاب‬
‫سے چند اقتباسات پیش خدمت ہیں۔"مارکسققی سوشققلزم ‪،‬ایققک‬
‫اعتبار سے ‪،‬تضاد فکر کا دوسرا نام ہے۔ایک طرف اس کا کہنا ہے‬
‫کہ سرمایہ دارانہ نظام میں استحصال اس لیے قائم ہے کہ ذرائققع‬
‫و وسائل کچھ افراد کے ہاتھ میققں ےےہےےے۔مگققر دوسققری طققرف اس‬
‫کی تجویز یہ ہے کہ ذرائع و وسائل کققو مزیققد اضققافے کققے سققاتھ‬
‫مرتکز کرکے ایک محدود تققر طبقققہ )کمیونسققٹ حکمرانققوں( کققے‬
‫حوالے کر دی جائے۔یہ فکری تضاد گو ایک داخلی شہادت ہے جو‬
‫مارکس کے پورے فکر کو غلط اور بے معنی ثابت کققر دیتققا ےےہےےے۔"‬
‫‪؎9‬‬
‫"مارکس نے انگلستان میں سرمایہ داری نظام کی تشققریح‬
‫کرتے ہوئے ایک جگہ لکھا تھا کہ انگلستان پہل ملک ےےہےےے جققس نققے‬
‫مشققین کققی بنققی ےےوہئی چیزیققں دنیققا کققے دوسققرے حصققوں میققں‬
‫پہنچائیں اور اس طرح جو نفع ےےہوا اس سققےےے مققزدوروں کققو بھققی‬
‫حصہ مل۔بلکہ بعض ماہر مزدوروں اور سققوتی کققپڑے کققے صققنعت‬
‫میققں کققام کرنققے والققوں کققا معیققار زنققدگی دوسققرے ممالققک کققے‬
‫مزدوروں سے کافی بڑھ گیا۔اور یہ طبقہ اپنے کو سققرمایہ داروں‬
‫کی لوٹ کسققوٹ سققے وابسققتہ کرنققے لگققا۔ لینققن نققے بتایققا کققہ یققہ‬
‫صورت ہر اس سرمایہ دار ملک میں پیش اوتی ہے جو سامراجی‬
‫دور میں داخقل ہوجاتقا ہےاور مقزدور جقو خوشقحال ہوجقاتے ہیقں‬
‫)خاص طور پر اس گروہ کے لیڈر ( وہ موقع پرست بن جاتے ہیں‬
‫اور موقع ملنے پر اپنے پورے طبقہ کی طرف سققے مققل مققالکوں‬
‫سے سمجھوتا کرلیتے ہیں۔کس قدر عجیب ہے یہ تاویل جس کققے‬
‫ذریعے تاریخ کے مادی نظریہ کی صفائی پیش کققی گئققی ےےہےےے اور‬
‫سرمایہ داری نظام کققے خلف طبقققاتی لڑائققی جققاری رکھنققے کققا‬
‫بہانہ تلش کیا گیا ہے۔ ‪؎10‬‬
‫ی‬
‫مارکسزم کا دعو ی‬
‫ایک طرف مارکسزم کا دعوی ےےہےےے کققہ سققرمایہ داری نظقام‬
‫تاریخ کے اقتصادی سفر کا ایقک مخصقوص منقزل ےےہےےے جقس کقی‬
‫ترقی سے محنت اور سققرمایہ کققا تضققاد زیقادہ نمایققاں ہوجاتقا ےےہےےے‬
‫دوسری طرف یہ بھی دعوی ہے کہ اسی عمل سے یہ تضققاد کققم‬
‫‪143‬‬
‫ہوجاتا ہے۔گویا رات کے اونے سے کبھی تاریکی اوتی ہے اور کبھققی‬
‫رات اوتی ہےتو روشنی اور بڑھ جاتی ہے ۔مارکسزم کے تضاد کققو‬
‫رفع کرنے کی کوشش میں اس کے اندر مزید تضادوں کا اضققافہ‬
‫کردینا یہی لینن کا وہ سب سے بڑا فکقری کارنقامہ ےےہےےے جقس کققو‬
‫مارکسی تعلیمات سے جوڑنے کے لیے "مارکسزم لینن ازم(کققے‬
‫اصطلح وضع کی گئی اور کہا گیا " ایک کمیونسققٹ مصققنف نققے‬
‫لکھا ہے"لینن ازم کو نہ ماننا خود مارکسزم کا انکار کرنا ہے۔" ‪؎11‬‬

‫ی‬
‫روسی کمیونسٹوں کا دعو ی‬
‫روزا لکسمبرگ نے اسی قسم کے واقعات کو سامنے رکھ‬
‫کققر ک ہےےا ہےےےےے"روسققی کمیونسققٹوں کققا دعققوی ےےہےےے کققہ ان ےےہوں نققےےے‬
‫سوشلسٹ خیالت کے ذخیرہ میں کئی سچائیوں کا اضافہ کیا ہے‬
‫مگر یہ سققچائیاں دراصققل وہ غلطیققاں ہیققں جققو انہیققں روس میققں‬
‫حالت کے تحت مجبورا کرنی پڑی تھیں ۔" لینققن کققے تخیققل کققے‬
‫اس نقص سے اگر قطع نظر کر لیقا جقائے جققب بھققی یقہ تخیقل‬
‫اس کے خلف جاتی ہے۔یقہ دراصقل اشقتراکی فلسقفہ کقی پقوری‬
‫بنیاد کو دھا ررہی ہے۔ مارکس نے ماضی کے تمام قققوانین کققو یققہ‬
‫کہہ کر رد کر دیا تھا کہ کققوئی قققانون ایسققا نہیققں ہوسققکتا جققو ےےرہ‬
‫زمانہ اور ہر قسم کے حالت کے لیے درست ہو ۔اس نقے ک ےےاہتھ ا‬
‫کققہ ‪:‬انسققانی سوسققائٹی میققں جققب بھققی اس قسققم کققے غیققر‬
‫سائنسٹیف ک نقطہ نظر سے کام لیا جاتا ہے تو ہمیشہ تباہی کا منہ‬
‫دیکھنا پڑتا ہے کیونکہ "تمام عقیدے ایک خقاص زمقانے کقی طبققہ‬
‫داری زندگی کا عکس ہوتے ہیققں اور بعققد کققے حققالت میققں جبکققہ‬
‫زندگی کی سابق نوعیت بدل چکی ہوتی ہے وہ عقیدے بھققی بققے‬
‫کار ہوجاتے ہیں ‪،‬بلکہ ترقی کے راستے میں حائل ہوتے ہیں "مگر‬
‫مارکسزم کے متعلق ان کا دعوی تھا کہ اس نے انسان کققو قققوم‬
‫پرستی اور فرسودہ عقیدوں سے ہمیشہ کے لیے نجات دلدی ہے۔‬
‫اس نے ساری کائنات کا تجزیہ کرکے نا صرف حققال کققی‬
‫مکمل اور صحیح تصویر پیش کی ہے بلکہ مستقبل کی راہ عمققل‬
‫بھی بتا دی ہے مگر بعد کے تجربات سے یہ دعوی غلط ثابت ےےےوہ‬
‫گیا۔مارکس نے جن حالت کے پیش نظر انسانیت کے مسققئلہ پققر‬
‫غور کیا تھا وہ حالت ہی بدل گیے ۔ سرمایہ داری نظام سامراجی‬
‫نطققام کققے مرحلققہ میققں پہنققچ گیققا اور مققل مققالکوں کققے خلف‬
‫م اوہنگققی میققں‬
‫مزدوروں کی ناقبل صلح کشمکش موافقت اور ےے ہ‬
‫تبدیل ہوگئی۔ اس طرح جب حققالت بققدل گئققے تققو خققود مققارکس‬
‫‪144‬‬
‫منطق کے مطابق وہ حل بھی ب ے معنقی ہوگیقا جقو گقزرے ےےہوےےے‬
‫حالت کے لیے اس کے اندر رہ کر سوچا گیا تھا۔اس صورت حققال‬
‫میں مارکسیوں کی وہ تمام تنقیققدیں جققو ان ےےہوں نققےےے ماضققی کققے‬
‫فلسقفوں کقو غلقط ثقابت کرنقے کقے لیقے ان پقر کقی تھقی خقود‬
‫مارکسزم پر چسپاں کر دی ۔ مگر مارکسققی حضققرات یققہ مققاننے‬
‫کے لیے تیار نہ تھے کہ اشتراکی پیغمبر کققا حققل کبھققی بققے کققار‬
‫بھی ہو سکتا ہے‪،‬اس قسم کے تمام تضادات کو رفع کرنققے کققے‬
‫لیے انہوں نے برجستہ ایک نئی تعبیر ایجاد کر لی۔ انہوں نے ک ےےےا ۔ہ‬
‫‪؎12‬‬

‫سوسائٹی کے ارتقا ءکا سائنیٹفک نقطہ نظر‬


‫" سوسائٹی کقے ارتق ا کقا سقائینٹفک نقطقہ نظقر‪ ،‬دوسقرے‬
‫تمققام سققاینٹفک علققوم کققی طققرح تجربققہ ‪،‬تققاریخی حقققائق اور‬
‫اطراف کی دنیا پر مبنی ہے جو ہم کو گھیرے ہوئے ہیققں‪،‬جوتاریققخ‬
‫ترقی کرتی ہے انسان زیادہ تجربات حاصققل کرتققے ہیققں ۔اس کققے‬
‫مطابق مارکسزم بھققی ہمیشققہ ترقققی کرتققی ر ہےےتی ہےےےےے اور نئققے‬
‫حقائق اور دلیل میں اوتے ہیں ‪ ،‬ان پر ان کا انطباق ہوتا رہتا ےےےہےےے۔"‬
‫کہ لینن ازم مارکسزم سے انحراف نہیققں بلکققہ اس کققی ترقیقافتہ‬
‫شکل ہے۔"دوسرے لفظوں میققں جققس طققرح کیمیققا اور طققب اور‬
‫فلکیات وغیرہ ساینٹفک علوم ہیں۔ٹھیک ہی طرح انسققانی سققماج‬
‫کی بھی ایک سائنس ہے۔کیمیا اور طبیعققات طبعققی سققائنس ےےہےےے‬
‫حیوانققات اور طققب وغیققرہ حیاتیققاتی سققائنس ےےےہےےے۔اسققی طققرح‬
‫مارکسزم معاشرتی سائنس ہے۔جس طرح وہ دوسرے علوم میں‬
‫انسان تجربہ اور مشاہدہ کے ذریعے ننئے نئے حقائق دریافت کرتا‬
‫ہے اور اس کو ترقی دیتا ہے اسی طققرح سققماج کققے بققارے میققں‬
‫مارکس کا فلسفہ بھی حالت اور تجربات کے ساتھ ترقققی کرتققا‬
‫رہتا ہے۔یہ توجیہہ پیش کرکققے مارکسققی حضققرات خققوش ہیققں کققہ‬
‫انہوں نے ہمیشہ کے لیے اپنی مشکل حل کر لقی مگقر سقوال یقہ‬
‫ہے کہ اگر انسانیت کا علم بھی طبعی علوم کی طرح ایک علققم‬
‫ہے جو ہمیشہ تجربات اور مشاہدات سے بدلتا رہے گا تقو پھققر اوپ‬
‫طبقاتی جنگ اور ذاتی ملکیت کے تنسیخ کے حل کو جو انیسویں‬
‫صدی میں سوچا گیا تھا کس دلیل کی بنا پر اسے بیسویں صدی‬
‫کے نسل پر مسلط کرنا چاہتے ہیں ۔جب اوپ خققود یققہ تسققلیم کققر‬
‫رہے ہیں کہ انسانیت کا حقیقی علم اور اس کے لیے ابدی قققانون‬
‫‪145‬‬
‫ابھی تک دریافت نہیں کیققا جققا سققکا ےےہےےے۔انسققان اپنققے تجربققہ اور‬
‫مطالعہ سے ہمیشہ اس کی طرف بڑھتققا رےےہےےے گققا۔ایسققی حققالت‬
‫میں اپ کے لیے یہ تو جائز ہے کہ لیبارٹریوں اور کتب خانوں میں‬
‫اوپ اوخری علم تک پہنچنے کی کوشش جاری رکھیں ۔مگر اوپ کققو‬
‫کیا حق ہے کقہ دوران تحقیقق میقں جقو ناتم ام معلوم ات اوپ کقو‬
‫حاصل ہوجققائیں‪ ،‬آ پ انسققانی زنققدگی میققں ان کققا ہولنققاک تجربققہ‬
‫شروع کر دیں ۔کیا انسانی زندگی بھی کققو مققردہ لش ےےہےےے جققس‬
‫کو مارکسی کالج کے طالب علموں کے حوالے کر دیا جائے تققاکہ‬
‫وہ اپنے تجربات کے لیے اس کی چیر پھاڑ کرتے رہیققں ۔اشققتراکی‬
‫لیٹریچر پورا کا پورا اسی قسم کی تضادات سے بھرا ہوا ہے۔‬
‫‪؎13‬‬
‫مشہور مفکر سٹالن کا نظریہ‬
‫"اب اگر سوسائٹی کے مشترکہ ملکیت کے کارخققانے قققائم‬
‫کئے جائیں تو اس میں کققام کرتققے ہوےسققب کےجققذبات یکسققاں‬
‫ہونگے‪،‬نہ کوئی مالک ہوگا نہ کوئی مزدور ۔ہر شققخص یققہ سققمجھ‬
‫گا کہ وہ ایک بڑے خاندان کا ممبر ہے ۔منافع میققں سققب کققو اپنققی‬
‫محنت کا پورا حصہ ملے گا اور باہمی نفققرت اور اونققچ نیققچ پیققدا‬
‫ہونے کے امکانات ہمیشہ کے لیققے ختققم ہوجققائیں گققے۔اس بنققا پققر‬
‫اشتراکیوں کا یہ دعوی ہے کہ انسققان کققے تمققام اخلقققی برائیققاں‬
‫اس کے معاشرتی ماحول کے خرابیوں سے وجود میققں اوتققی ےےہےےے‬
‫اور اگر نظام معیشت کو درست کر دیا جائے تو اس کققے تحققت‬
‫رہنے والے انسان تمام اخلقی بیماریوں سے پاک ہوجققائیں گققے ۔‬
‫سٹالن نے کہا ےےہےےے "معاشققرتی ترقققی مققزدور طبقققہ کققو سققماجی‬
‫انقلب کے قریققب لققے اوئققے گققی اور نققتیجہ کققے طققور پققر مققزدور‬
‫سرمایہ دارانہ نظریات سے تمام رشتے منقطع کر لےگا۔"ی ےےےہی وہےے‬
‫نظریہ ہے جس کے ذریعے سے مارکس اور اس کے پیققرو اپنققے‬
‫"اجتماعی ملکیت"کے حل کو صحیح ثابت کرتے ہیں ‪،‬اس نظریے‬
‫کے معنی یہ ہیں کہ اودمی کی اپنی کوئی ہستی نہیں ۔جققس طققرح‬
‫صابن کے کارخانہ میں صابن سانچے میں ڈھلتے ہیں ‪،‬اسی طرح‬
‫ادمی اپنے ماحول کے کارخانہ میں ڈھلتا ےےہےےے ۔وہ سقوچ کقر کققوئی‬
‫کام نہیں کرتا‪،‬بلکہ جو کچھ کرتا ےےہےےے اسققی کققے مطققابق سققوچنے‬
‫لگتا ہے۔مارکس نے اس اصول کو ایک مشکل حل کرنے کے لیققے‬
‫تو لے لیا ہے ‪،‬مگر پھر فققورا سققوال پیققدا ےےہوا کققہےے کیققا فققی الواقققع‬
‫انسانی فکر معاشی حالت سے الگ کوئی چیز نہیں ہے ۔مارکس‬
‫ایک طرف تو اپنے اپ کو مصلح کے بجائے سائنسدان کی حیثیت‬
‫سے پیش کرتا ہے ‪،‬دوسری طرف یہ نعرہ بھی لگاتا ہے کہ "دنیققا‬

‫‪146‬‬
‫کے مزدورو متحد ہوجاؤ"یہ الفاظ یقین پیشنگوئی نہیں ہے بلکہ یہ‬
‫لوگوں کو دعوت عمققل ےےہےےے۔ اگققر مققارکس کققے نزدیققک اشققتراکی‬
‫انقلب ناگزیر تھا تققو اس نققے لوگققوں سققے اس انقلب کققے لیققے‬
‫‪؎14‬‬ ‫جدوجہد کی تلقین کیوں کی۔‬
‫مارکسزم کا بنیادی نقطہ نظر‬
‫مولنا وحید الدین خان نے مارکسزم کے بنیادی نقطہ "قدر‬
‫زائد" جس کققے ذریعققے کققارل مققارکس نققے انسققان کققی معاشققی‬
‫ناہمواری کی تشریح کی ہے پرتبصرہ کرتے ہوے لکھا ےےہےےے۔کققہ "یققہ‬
‫صورت حال جو ہم دنیا میں دیکھتے ہیں کہ بہت سے لوگ غریب‬
‫اور کچھ لوگ امیر بنے ہوے ہیں۔اور جہاں اجناس کا لین دین قدر‬
‫تبادلہ کے نقطہ نظر سے ہو سماج وہ سرمایہ دارانہ سققماج ک ےےا ہ‬
‫جائے گا۔ "مندرجہ بال اقتباسات میققں مولنققا وحیدالققدین خققان نققے‬
‫مارکسزم میں نظریہ کے اعتبار سے جو غلطیاں پائی جققاتی ہیققں‬
‫ان پر بحث کی ہے ۔ ‪؎15‬‬

‫فصل سوئم‬
‫ڈاکٹر نور محمد غفاری کے نزدیک اقتصادی‬
‫نظام اشتراکیت‬
‫اسلم اور اشتراکیت میں تضاد‬
‫ڈاکٹر نور محمد غفاری لکھتے ہیں کہ اسلم اور اشققتراکیت‬
‫میں تضاد کی نوعیت کیققا ےےہےےے؟ اور کیققا ان میققں مفققاہمت ممکققن‬
‫ہے؟ جہان تک اس قول کا تعلق ہے کققہ اسققلم اور اشققتراکیت دو‬
‫متضاد نضام ہیں لہذا ان میں اتحاد و مفاہمت کی کققوئی صققورت‬
‫پیدا نہیں ہو سکتی۔ اس کے بارے میں ہم کہ سکتے ہیققں کققہ اس‬
‫نو‬‫کی تہہ میں منطقی اعتبققار سققے دو واضققح غلطیققاں۔ ایققک ذ ےے ہ‬
‫فکر کی دوسرے یہ کہ اس میں بعض اجراء کو خواہ مخواہ ا‬
‫کققل‬
‫فرض کر لیا گیا ہے۔ ‪؎1‬‬

‫‪147‬‬
‫ی میں رائج اسلوب فکر کی غلطیاں‬
‫ن وسط ی‬
‫قر ر‬
‫ذہن اور اسلوب فکر کی غلطی کے معنی ی ہ ہیقں کقہ کچقھ‬
‫لوگ بیسوی صدی میں ان اصطلحوں میں سققوچنے کققے عققادی‬
‫ی میں رائج تہیں اس ذ ےےہن کققی خصوصققیت یققہےے‬ ‫ہیں جو قرن وسط ی‬
‫ہے کہ اس سے بہرہ مند حضرات کسی بھی مسئلہ پر معروضی‬
‫انداز میں غور نہیں کرتے یا کسی بھی مسئلہ کو اس لئق نہیققں‬
‫سمجھتے کہ فی نفسہ اس پر غور و تامل ہونا چققاہیے۔ یققہ حقققائق‬
‫کی تشریح ان کے نزدیک کسی بھققی حقیقققت کققے بجققائے خققود‬
‫کوئی حقیقت نہیں‪ ،‬ان کی حیثیت کا تعین محققض فرسققودہ‪ ،‬غیققر‬
‫واقعی اور کوتاہ نظری پر مبنی چلتے ہوے جملققوں سققے ےےوہ پاتققا‬
‫ہے‪ ،‬یہ دور سائنس اور جانچ پرکھ کا ہے۔‬
‫اسلم کا نظام فکر و عمل‬
‫اسلم کے نظام فکر و عمل میں اس کققو انققدر سققمو لینققے‬
‫ل فکققر بغیققر‬ ‫کے معنی یہ ہیں کہ ایک طرف تو ہمارے ہاں کققے ا ےے ہ‬
‫کسی احساس اور مرعوبیت کے معاشرہ کققے اقتصققادی اشققکال‬
‫کو ایک معروضی اشکال کی حیثیت سے تسلیم کریں اور یہ بات‬
‫پورے شرح الصدر کے ساتھ مان لیں کہ انسققان اور انسققان کققے‬
‫درمیان یہ غیر انسانی اور غیر اسلمی تقسیم پققائی جققاتی ےےہےےے۔‬
‫جسے اسلم کے تخلیقی مزاج اور اجتہاد کی روشنی میں ہمیققں‬
‫‪؎2‬‬ ‫حل کرنا ہے۔‬
‫اسلمی معاشرے کے بنیادی اصول‬
‫اقتصادی روح کے لیے ہمیں ماخذ و سر چشمہ کققی حیققثیت‬
‫سے صرف اسلم کی طرف دیکھنا ہو گا اور اس کا رشتہ اسلم‬
‫کے نظریہ توحید‪ ،‬عدل و اخوت کے سققاتھ جوڑنققا ےےہو گققا ۔ےے جققدلی‬
‫مادیت کے ساتھ نہیں یعنی ہمیں یہ بتانا ہو گا کہ نظریہ توحید کی‬
‫اگر کوئی عملی تعبیر ہم اس دور میں پیش کر سکتے ہیں‪ ،‬تو وہ‬
‫اس کے سوا اور کیا ہو سققکتی ےےہےےے‪ ،‬اسققی لیققے ذرائققع دولققت کققو‬
‫صرف اسی حد تک قومیانہ چاہیے جس حد تک مصالح ملی کققے‬
‫نکتہ نگاہ سے ضروری ہو کیوں کہ اسلم نی آزادی دیتا ہے کققہ وہ‬
‫اجتماعی مصلحتوں کو نقصان پہنچائے اور نہ اجتماعیت کققے اس‬
‫تجاوز کو گوارا کرتا ہے‪ ،‬کققہ جققس سققے فققرد کققی تققگ و تققاز اور‬
‫حریت فکر متاثر ہو ۔ اس لیققے اسققلم کققی راہ خیققر مصققلحت اور‬
‫توازن کی راہ ہے۔‬
‫مولنا ڈاکٹر محمد نور غفاری‬

‫‪148‬‬
‫مولنا ڈاکٹر محمد نور غفاری اسلم اور اشتراکیت کققو اس‬
‫طرح بیان کرتے ہیققں "سققرمایہ دارانققہ نظققام اور سوشققلزم کققے‬
‫حالیہ جدید نطاموں سے قبل اسلم نے بھی انسان کے معاشققی‬
‫مسائل کا حل دیا ےےہےےے۔ یققہ حققل وہ نسققخہ کیمیققا ےےہےےے جققو اللققہ نققے‬
‫ےےےےےہن کی ااپچ یا اختراع نہےےیققں‬
‫حضورﷺ پرنازل فرمایا کسی انسانی ذ‬
‫بلکہ وحی الہی کی روشنی میں تجویز شدہ ایک نسخہ ہے‪ ،‬جققس‬
‫کے استعمال سے انسان کے معاشققی مسققائل کققا علج فطرتققی‬
‫ققاےےے۔ اس حققل کققی بنیققاد اسققلم نققے‬ ‫اصولوں کققے مطققابق ےےہو جات ہ‬
‫مندرجہ ذیل اصولوں پر رکہی ہے"‬
‫ر نو کے اصول‬
‫معاشرے کی تعمی ر‬
‫اسی ڈھنگ سے ہمیں مسلمانوں کققو یقیققن دلنققا ہوگققا کققہ‬
‫عدل اور جذبی اخوت کو جو ہماری معاشرت کے بنیققادی اصققول‬
‫ہیں اگر کسی سانچے میں ڈھالنےکی کوشش کریں گققے تققو اس‬
‫کے نتیجے میں یہی اقتصادی حل آپ کے سامنے آئے گا کہ ذرائع‬
‫پیداوار کو ملی مصالح کے تابع رکھا جائے اور کسققی مخصققوص‬
‫گرو یا خاندان کو موقع نہ دیا جائے کہ وہ ان پر قابض ےےہونےےے کققی‬
‫وجہ سے استحصال کر سکے ‪ ،‬معاشرہ کی تعمیر نو کے سلسلہ‬
‫‪؎3‬‬ ‫میں دو باتیں اور بہت اہم ہیں۔‬
‫اول۔ یہ کہ ذرائع دولت کو صرف اسققی حققد تققک قومیققانہ چققاہے‬
‫جس حد تک مصالح ملی کے نکتققہ نگققاہ سققے ضققروری ےےوہ‬
‫کیونکہ اسلم نہ آزادی دیتا ہے کققہ وہ ‪ ،‬جققدلی مققادیت کققے‬
‫ساتھ نہیں یعنی ہمیں یہ بتانا ہو گا کہ نظریہ توحید کی اگر‬
‫کوئی عملی تعبیر ہم اس دور میں پیش کر سکتے ہیں‪ ،‬تو‬
‫وہ اس کے سوا اور کیققا ہےےو سقکتی ےےہےےے‪ ،‬اسققی لیققے ذرائقع‬
‫دولت کو صرف اسی حد تک قومیانہ چاہیے جس حققد تققک‬
‫مصالح ملی کے نکتہ نگاہ سے ضروری ہو کیوں کہ اسلم‬
‫آزادی نہیں دیتققا کققہ وہ اجتمققاعی مصققلحتوں کققو نقصققان‬
‫پہنچائے اور نہ اجتماعیت کے اس تجاوز کو گوارا کرتا ہے‪،‬‬
‫کہ جس سے فرد کی تگ و تاز اور حریت فکر متقاثر ےےہو ۔ےے‬
‫اس لیے اسلم کی راہ خیر مصلحت اور توازن کی راہ ہے۔‬
‫دوم۔ اس حقیقت کو ہمیشہ یاد رکھنا چاہیے کہ اقتصادی مسققئلہ‬
‫ہماری پوری زندگی کا صققرف ایققک پہلققو ےےہےےے اسققے ہمیققں‬
‫بہرحال حل ضرور کرنا ہے‪ ،‬مگر ہمارے معاشرے کی بنیاد‬
‫اور اٹھان کا اندازہ وہی غیر مققادی اور اسققلم ےےہےےے ہمققاری‬
‫زندگی کی تعمیر نو میں معاشرہ انہی روحانی اخلقی اور‬
‫دینی قدروں کا غماز ہو گا ‪ ،‬جققو اس کققا طققلرہ امتیققاز ےےہےےے‪،‬‬
‫‪149‬‬
‫جس کا مطلب یہ ہے کہ تہذیب و تمدن کا جو ایققوان ےےےمہ‬
‫تعمیر کرنا چاہتے ہیں اس میں بنیاد سے لے کققر دروبققام‬
‫اور بالئی منزل تک ہر چیز اسلمی ہو گققی ۔ یعنقی صقرف‬
‫اقتصادی اشکال کے حل تک ہم اس حقیقت سے اسققتفادہ‬
‫کریں گے کہ ذرائع پیداوار پر غور ہونا چاہئے۔‬
‫نورمحمد غفاری کے نزدیک سوشلزم کا فلسفہ‬
‫م‬
‫پروفیسققر نققور محمققد غفققاری لکھتققے ہیققں کققہ جققب ےے ہ‬
‫سوشلزم کے فلسفہ کے فقققط معاشقی پہلقو سققے بحققث‬
‫کرتققے ہیققں اور دنیققا کققے دوسققرے غیققر اسققلمی نظققام‬
‫معاشی کے مقابلہ میں اس کو پیش نظر لتے ہیں تو اس‬
‫وقت ہم کو اس حقیقت ثابتہ کے اظہار میں کوئی بققاک‬
‫نہ ہونا چاہیے کہ اس میں شک نہیں کہ اقتصادی نظام کے‬
‫بہت سے امور ہیں ۔ ‪؎4‬‬
‫اسلم اور سوشلزم‬
‫اسققلم اور سوشققلزم بققاہم متقققارب نظققر آتققے ہیققں ۔ اور‬
‫سرمایہ دارانہ نظام کے خلف دونوں ہم آہنققگ ہیققں اگرچققہ‬
‫طریقہ کار میں اختلف ہے مگر اسلم اور سوشققلزم کققے‬
‫مابین حسب ذیل امور میں اتفاق ہے۔‬
‫اکتناز و احتکار یا جمع دولققت کققا مققذموم طریقققہ کققار اور‬ ‫‪1‬۔‬
‫مخصوص طبقہ میں دولت کی تحدید ناجائز قرار دیتققا ےےہےےے‬
‫ر دو امققور کققو باطققل اور اقتصققادی‬ ‫اور نہ وہ دونققوں ان ےے ہ‬
‫زندگی کے لیے تباہ کن سمجھتے ہیں۔‬
‫دونوں ضروری سمجھتے ہیں کہ معاشی نظققام اسققاس و‬ ‫‪2‬۔‬
‫بنیاد عام معاشی مفاد پر قائم ہو اور ہر شخص کو معاش‬
‫سے حصہ ملے‪ ،‬اور کوئی بھی محروم المعیشت نہ ہو۔‬
‫ی ہے کققہ اقتصققادی نظققام کققے دائققرہ میققں‬ ‫دونو ںکا یہ دعو ی‬ ‫‪3‬۔‬
‫تمققام انسققانی دنیققا جغرافیققائی ‪ ،‬طبقققاتی‪ ،‬اور نسققلی و‬
‫خاندانی امتیازیات سے یققک سققر جققدا ےےوہ کققر یکسققاں اور‬
‫برابر حیثیت میں شمار ہو۔‬
‫دونوں اس بققات پققر بھققی متفققق ہیققں کققہ جمقاعتی حقققوق‬ ‫‪4‬۔‬
‫انفرادی حقوق پر بھی مقدم ہیں۔‬
‫دونوں کے ہاں یہ مسلم ہے معاشققی دسققتبرد کققے ذریعققے‬ ‫‪5‬۔‬
‫حاکم و محکوم‪ ،‬غلم و آقا کا سسٹم نہ ہو سققکے اور اس‬
‫طرح قائم شدہ سسٹم کو ہمیشہ کے لئے مٹایا جانا چاہیے۔‬

‫‪150‬‬
‫اسلم اور سوشلزم جائز ذاتی ملکیت کا احترام کرتا ہے ۔‬ ‫‪6‬۔‬
‫البتہ سوشققلزم پیققداوار اور تقسققیم کققے بنیققادی ذرائققع کققو‬
‫اجتماعی ملکیت اور جمہوری نظام کے تحت ل کر ناجائز‬
‫انفتاع کققو ختققم کرنققا چاہتققا ےےہےےے۔ اور یققہ کققہ معاشققرے کققے‬
‫م صققنعتوں اور‬ ‫مجمققوعی مفققاد کققے پیققش نظققر تمققام ا ےے ہ‬
‫شعبوں کا انتظام جمہوری حکومت کرے۔ ‪؎5‬‬

‫معاشی مسائل کے حل کے لیے بنیادی اصول‬


‫انسان کے معاشی مسائل کا علج فطرتی اصولوں کے‬
‫مطابق ہو جاتاہے۔ اس حل کی بنیاد اسلم نے مندرجہ ذیل‬
‫اصولوں پر رکھی ہے"‬
‫‪1‬۔ بنیادی ضروریات زندگی سے تعلق رکھنے والی اشیاء اور‬
‫ذرائع کسققی فققرد یققا کسققی مخصققوص جمققاعت کققی نجققی‬
‫ملکیت نہیں بن سکتے بلکہ وہ تمام انسققانوں کققی مشققترکہ‬
‫جائیداد ہیں اور ہر انسان کو حق حاصل ہے کہ وہ ان اشققیاء‬
‫یا ذرائع سے ‪،‬جتنا چاہے نفع حاصققل کقر کققے اپنقی حاجقات‬
‫ےےےےےے۔ نبی کریم ﷺ نےے اپنی ایققک حققدیث مبققارکہ‬ ‫کی تسکین کر‬
‫میں ان مشترکہ اشیاء کے بیان میں فرما دیا ہے‪:‬النفاَس شفرکاَء ففی‬
‫ثلثا‪ :‬الاَء والکلء والناَر‬
‫"تمام انسان تین اشیا میں برابر کے شریک ہیں وہ اشیا یققہ ہیققں‪:‬‬
‫آگ ‪،‬سبزہ ‪ ،‬پانی" بظاہر اس حدیث مبارکہ میں بیان کققردہ اشققیاء‬
‫ان اشیاء کا دائرہ کار اور احاطہ کا اندازہ کریں تو پتققہ چلتققاہے کققہ‬
‫یہ تقریب ا ل ان تمام اشیاء کو شامل ہیں جققن کققا تعلققق انسققان کققی‬
‫بنیادی ضروریات زندگی سے ہے۔ چند اہم امور قابل توجہ ہیں‪؎6 :‬‬
‫‪1‬۔آگ‬
‫آگ سے مراد صرف وہ آگ نہیں جو انسان جلتا اور اسے‬
‫سے مختلف قسم کے فوائد حاصل کرتا ہے بلکہ اس سے مراد‬
‫توانائی اور حرارت کا ہر وہ ذریعہ جو انسان کا ذریعہ حرارت‬
‫ہے وہ مراد ہے۔ اور چونکہ یہ بنیادی ضروریات زندگی سے ہے‬
‫اس لیے کوئی مخصوص فرد یا گروہ اس کا اجارہ دار نہیں ہو‬
‫سکتا۔‬
‫‪2‬۔سبزہ‬

‫‪151‬‬
‫سبزہ سے مراد ہر وہ چیز جو زمین سققے پیققدا ےےوہ اس میققں‬
‫گھاس سے لے کر ےےہر وہےے انققاج اور نباتققات بھققی شققامل ےےہےےے جققو‬
‫انسان کی ضروریات کے ساتھ ساتھ انسان کے پالتو جققانوروں‬
‫کی بھی ضروریات پوری کرتققی ہیققں۔ اور سققاتھ ہےےی سققاتھ ہےےر وہےے‬
‫شکار بھی شامل ہے جو انسان کو ابتققداء سققے ےےہی سققبزہےے کققی‬
‫طرف مائل کرتا رہا ہے۔‬
‫‪3‬۔پانی‬
‫پانی سے مراد یہاں صرف پینے کا پانی ےےہی نہےےیققں بلکققہ اس‬
‫حدیث میں پانی تمام پانیوں اور پانی کے تمام قسم کققے شققکار‬
‫اور اور ان کے اندر قیمتی معدنیات کے لیے آیا ہے پانی کا شققکار‬
‫مچھلی آج بھی لکھوں انسانوں کققا ذریعقہ معقاش ےےہےےے اور اسقے‬
‫روز بروز وسعت ہو رہی ہے۔ اور تمققام ممالققک پققانی کققی بققدولت‬
‫سے مال مال ہیں۔ انہوں نے اسے ترقی یافتہ بنیادوں پر چلنے کا‬
‫پروگرام بنایا ہے اور اپنے اپنققے ملققک میققں محکمققہ مققاہی پققروری‬
‫قائم کر رکھی ہیں۔‬
‫پانی نباتات کی پیدائش کاذریعہ‬
‫پانی سے مراد پانی جو ہر قسم کی نباتات کی پیدائش‬
‫کاذریعہ اور بذریعہ آبی مخلوقققات کھققانے اور تجققارت کرنققے کققا‬
‫بہترین وسیلہ ہے ۔ اور ساتھ ہےےی سققاتھ ہےےر وہےے قیمققتی اشققیاء جققو‬
‫پانی سے برآمد ہوتی اور بے شمار فوائدکا سبب بنتی ےےہےےے۔ اور‬
‫ساتھ ہی ساتھ پانی ہر قسم کی فصلوں کی پیداوار ور انسققان‬
‫اور جانوروں کے پینے کےلیے بھی استعمال ہوتا ہے پققانی اصققل‬
‫حیات ہے۔‬
‫پانی ذریعہ آبپاشی ہے‬
‫پھر پانی ذریعہ آبپاشی ہے جس سے کہیتوں کققی سققیرابی‬
‫ہ وتی ہے۔ انسان حیققوان اسققے پیتققے ہیققں پققانی تققو اصققل حیققات‬
‫ہےارشاد باری ہے‬
‫‪؎7‬‬ ‫﴿وووجوعملوناَ فمون الموماَفء ككسل وشميءء وحيي﴾‬
‫)اور پانی سے ہم نے چیزوں کو زندگی بخشی(‬
‫یہ تینوں چیزیں کسی انسان یا کسی جماعت کی ذاتی‬
‫ملکیت نہیں ہے بلکہ یہ سب انسانوں کی مشترکہ ہیں اور اللہ‬
‫ی نے تو یہ تعلیم دی ہے کہ اس کائنات کی تمام چیزیں اللہ‬ ‫تعال ی‬
‫کی ملکیت ہے۔ البتہ کسی ملک یا علقہ کی حکومت صرف ان‬
‫کے استعمال کو تمام انسانوں کے لئے ممکن بنانے کے لئے‬
‫‪152‬‬
‫نگرانی کے فرائض انجام دے سکتی ہے۔ یہ نگرانی مفت بھی‬
‫ہو سکتی ہے۔ اور معمولی حق خدمت وصول کر کے بھی کر‬
‫سکتی ہے۔‬
‫مال و دولت اور ذرائع کا مالک حقیقی اللہ ہے‬
‫اسلم نے انسان کو درس دیا ہے کہ دراصل مال و دولت‬
‫اور ذرائع دولت کا مالک حقیقی اللہ کی ذات ہے جیسا کہ ارشاد‬
‫ی ہے‪:‬‬ ‫باری تعال ی‬
‫‪؎8‬‬ ‫ت الثسفورىَ﴾‬
‫ض وووماَ بوفميَفنوفكهوماَ وووماَ ومت و‬
‫﴿لوه ماَ فف السسماَوا ف‬
‫ت وووماَ فف املومر ف‬ ‫وو‬ ‫كو‬
‫)اسی کی ملک ہے جو کچھ بھی آسمانوں اور زمین میں اور ان‬
‫دونوں کے درمیان ہے اور جو کچھ زمین کے بھی نیچے ہے(‬
‫ی نققے ان تمققام چیققزوں کققی اسققتعمال کققی‬ ‫انسان کققو اللققہ تعققال ی‬
‫اجازت اس صور ت میں دی ےےہےےے کققہ وہ خققود کققو اللققہ کققا خلیفققہ‬
‫سمجھتے ہوئے ان تمام اشیاء میں تصرف کرے۔ اور سب کو اس‬
‫میں شریک رکھے۔ اور اگر کوئی فرد یا اگروہ مفلوس الحققال ےےوہ‬
‫تو اس پر اللہ کے خلیفہ کی حیثیت سے اس مال خرچ کیا جائے۔‬
‫ی ہے۔‬‫ارشاد باری تعال ی‬
‫‪؎9‬‬ ‫ي﴾‬ ‫ف‬ ‫ف ف‬
‫ووأونمفكقوُا سماَ وجوعلوككمم كممستومخلوف و‬
‫)اور جس مال میں اس نے دوسروں کا جانشین بیان ہے اس‬
‫میں سے خرچ کرو(‬
‫انسان کے معاشی مسائل کے حل کی تین‬
‫مجوزہ اسلمی صورتیں‬
‫ت حریققص‬
‫اسلم انسا ن کے معاشی مسائل کے حل کا ب ےے ہ‬
‫ہے وہ ان مسائل کو حل کیے بغیر نہیں چھوڑتا۔ اسلم نے معاشی‬
‫مسائل کے حل کی تین صورتیں تجویز کی ہیں۔‬
‫پہلی صورت‬
‫فرد معاشی مسئلہ کے حل کا خود ذمہ دار ہے‬
‫اسلم نے تمام انسانوں کو تعلیم دی ہے کہ ہر عاقل بالغ‬
‫اور صحت مند کو آدمی کو چاہیے کہ وہ اپنے معاش کے لیے‬
‫دوڑدہوب کر تا رہے۔ کوئی بھی ایسا آدمی جو اپنا معاشی‬
‫مسئلہ خود حل کرنے کے قابل ہو تو اس کو حل کرنا چاہیے نہ کہ‬
‫ہاتھ پاؤں توڑ کر بیٹھا رہے۔ قرآن مجید میں ہے کہ‬
‫‪؎10‬‬ ‫ضفل اللسفه﴾‬
‫ض ووابمفتوفغكوُا فممن فو م‬
‫صولةك وفاَنمفتوفشكروا فف املومر ف‬ ‫ضيَ ف‬
‫ت ال س‬ ‫ف‬
‫﴿فوفإوذا قك و‬
‫‪153‬‬
‫) پھر جب نماز پوری ہوچکے تو زمین پر چلو پھرو اور اللہ کی‬
‫روزی تلش کرو(‬
‫اسی طرح نبی کریم ﷺ کا ارشاد گرامی‬
‫ےےےےےےےہےےے‬
‫عن اب ہریرہ رامض ا عنہ قال قال رامسومل ا‪ :‬انا من النومب ذنومب لتاکفرھذا صلوومۃ ول الصیام ول الللجح ول‬
‫العممرۃ‪ ،‬قالوم فا یکفرھذا ی رامسومل ا ! قال الھم ف طلب الھم ف طلب العمیشۃ ‪) ؎11‬حضرت ابو‬
‫ےےےےےہﷺ ارشاد فرمایا ‪:‬یقینا ل گناہےےوں‬ ‫ہریرہ سے روایت ہے کہ رسول الل‬
‫میں بعض گناہ ایسے ہیں جن کی بخشش نہ نمققاز سققے‪ ،‬نققہ روزہ‬
‫سے ‪ ،‬نہ حج سے اور نہ ہی عمققرہ سققے ہےےوتی ہےےےےے۔ صقحابہ کقرام‬
‫رضی اللہ عنہ سے عرض کیا اے اللہ کریم کے رسول کریم! پھققر‬
‫ےےےےے فرمایققا‪:‬رزق کققی طلققب‬ ‫ےےے آپ ﷺ نقق‬ ‫انہیں کیا عمل بخشواتا ہےےےےے؟‬
‫میں غم و فکر کرنا"‬
‫دوسری صورت‬
‫فرد کی کفالت کا معاشرہ ذمہ دار ہے‬
‫اگر خدانخوستہ معاشرہ میں کوئی ایسا فرد یا گھرانققہ ےےوہ‬
‫جو اپنی کفالت خود نہ کر سکتاہو ‪ ،‬تو اسلم نے اسقے افرادکققی‬
‫کفالت کی ذمہ دار اہل معاشرہ پر عائد کی ہے۔ فرمان نبوی ہے‬
‫)لیس الوممن من الیذ یششبع وجارامہ جائع( ‪؎12‬‬
‫تیسری صورت‪ :‬فرد کے معاشی مسئلہ کا حل‬
‫اسلمی ریاست کی ذمہ داری ہے‪:‬‬
‫اگر کچھ ایسے افراد ہوں جو یقینا ل بہت کم ہو ں گے جو‬
‫اپنی کفالت نہ کر سکیں اور معاشرہ بھی ان کی کفالت کا‬
‫بوجھ اٹھانے سے قاصر ہو تو ایسے افراد کی کفالت کا ذمہ‬
‫داری پھر ریاست اسلمی کا فرض ہے ۔ ارشاد نبوی ہے کہ‬
‫‪" ؎13‬امیر نگران ہے اوراپنے رعایا کے‬ ‫)امام راماع ومسشئومل وعن عریتہ(‬
‫بارے میں جواب دہ ہو گا۔‬
‫خلصہ بحث‬
‫اسلم نے انسققان کققے معاشققی مسققئلہ کققے حققل کققو کققس‬
‫قدراہمیت دی ہے اور اس کے لیے کس حکمت عملی سققے کققام‬
‫لینےکی تاکید کی ہے۔ اگر آپ اس ساری بحث کو سمیٹنا چققاہیں‬
‫تو آپ کہہ سکتے ہیں کہ‪:‬‬
‫‪1‬۔ اسلم نے ےےہر فققرد کققو اللققہےے کریققم کققے خزانققوں سققے خققود‬
‫محنت کر کے کمانے اور اپنا معاشی مسئلہ حل کرنققے کققی‬

‫‪154‬‬
‫تلقین کی ہے ‪،‬بشرطیکہ یہ فردعاقل ‪ ،‬بالغ اور تندرست و‬
‫توانا ہو‪ ،‬طالب علم یا کسی دینی خدمت پر مامورنہ ہو۔‬
‫اگر ہر فرد خود کمانے کا اہل نہیں توپھر اسلم کے نظا م‬ ‫‪2‬۔‬
‫نفقات کے تحت اس کی معاشققی کفققالت کققی ذمققہ داری‬
‫اس کے والدین اور اقارب کے ذمققہ ےےہےےے اور یققو ں اس کققا‬
‫معاشی مسئلہ حل کرنا ہوگا۔‬
‫اگر ےےہر فقرد خقود نقہےے کمقا سققکے‪ ،‬نقہ اس کقے اقققارب اور‬ ‫‪3‬۔‬
‫اسلمی معاشرہ اس کققی کفققالت کققر کققے اس کققا معاشققی‬
‫مسئلہ حل کرے تو پھر اسلمی ریاسققت کققی زمققہ داری ےےوہ‬
‫گی کہ اس شخص کی معاشی کفالت کرے۔‬
‫‪4‬۔ اسلمی ریاست کی ایک ذمققہ داری یققہ بھققی ےےہو گققی کققہےے وہ‬
‫قابل کار افراد کو روزی کمانے اور یوں اپنا معاشی مسققئلہ‬
‫حل کرنے کے مواقع میسر کرے۔ پیداوار اور ذرائع پیققداوار‬
‫کسی ایک فرد مخصوص جماعت کے قبضققہ میققں نققہ رہنققے‬
‫دے‪ ،‬کیونکہ ایسا قبضہ افراد کے لیے روزی کمانے کققی راہ‬
‫میں رکاوٹ ہو گا۔‬
‫سوشققلزم نققے فققرد کققی ضققروریات زنققدگی کققا پققورا کرنققا‬
‫ریاست کی ذمہ داری قرار دے کر اچھا اقدام کیققا ےےہےےے‪ ،‬مگققر اس‬
‫کے معاوضہ میں اس نے فرد کی تمقام آزادیقاں چھیققن کققر اسققے‬
‫مشین کا بے حس پرزہ بنانے کی کوشش کققی ےےہےےے سققے گریققس‬
‫صرف اس لیے کیا جاتا ہےکہ وہ کام کرے۔‬
‫اس سلسلے میں سب سے بڑی ناکامی فرمایہ دارانہ نظققام کققی‬
‫ہ وتی ہے۔ ان نے "آزادی کاروبار" کا پر فریب نعققرہ لگققا کققر تمققام‬
‫ذرائع پیداوار کو چند سرمایہ داروں کی قبضہ میں چلے جانے کققا‬
‫موقع فراہم کیا ہے اور یوں بقیہ افراد کققی روزی کمققانےکے لیققے‬
‫محتاجی اور پریش انی کقا شقکار کقر دیقا ےےہےےے۔ وہ چنقد مٹھقی بھقر‬
‫سرمایہ داروں کے رحم وکرم پر زندگی گزارتے ہیں۔‬
‫الغرض سرمایہ دار انہ نظام انسان کے معاشی مسققئلہ کققے حققل‬
‫کا ادہورا خواب دکھاتا ےےہےےے۔ سوشققلزم اس کققی تعققبیر بتققانے کققی‬
‫کوشش کرتا ہے اور اسلم نے اس کی عملی صورت دکھائی ہے۔‬
‫‪؎14‬‬
‫فصل چہارم‬
‫علمہ محمد طاسین کے نزدیک اقتصادی‬
‫نظام اشترکیت‬
‫‪155‬‬
‫شخصی ملکیت‬
‫علمہ طاسققین کققے نزدیققک کسققی شققخص کققی ملکیققت کققا‬
‫مف ہےےوم و مطلققب بھققی یہےےی ہےےےےے کققہ اس شققخص سققے انتفققاع و‬
‫استفادے کے حق میں اس شخص کو دوسروں کے مقابلے میققں‬
‫ترجیح و تخصیص حاصل ےےہےےے۔ قققرآن مجیققد کققے مطققابق شخصققی‬
‫انفرادی ملکیت کا اصل سبب وہ حقیقی فلسفہ و ہ مفید اثققرات‬
‫ہیں جو کسی شخص کی سعی و محنت سے وجود میں آتققے اور‬
‫کسی قدرتی شے کے ساتھ قائم ہو جاتے ہیں ۔پھققر اس سققے یققہ‬
‫بھی واضح ہوت ہے کہ‪:‬‬
‫کسی شققے کققے متعلققق کسققی شققخص کققی ملکیققت اس‬
‫وقت تک قائم رہتی ےےہےےے جققب تققک اس شققے کققے سققاتھ اس کققی‬
‫محنت کے اثرات قائم رہتے ہیں۔چنانچہ اگر کسی وقت یققا کسققی‬
‫طرح سے وہ اثرات زائل و ختم ہو جائیں تو یہ شخصی ملکیت‬
‫بھی زائل اور ختم ہو جاتی ہے اور وہ شے اپنی سابقہ حالت کی‬
‫طرف لوٹ جققاتی ےےہےےے اور اس سققے انتفققاع کققا حققق بھققی سققب‬
‫‪؎1‬‬ ‫انسانوں کے لیے عام اور یکساں ہو جاتاہے۔"‬
‫اسلم زمین کی انفرادی ملکیت کو واضح طور پر تسلیم‬
‫کرتا ہے اور ا پنے تصور کے تحت اسے جائز قرار دیتا ہے۔ خواہ وہ‬
‫شے اشیائے صرف میں سے ہو یا ذرائع پیداوار میں سے اور‬
‫ابتدائی طورپر اس کی بنیاد انسانی سعی و محنت کے مفید‬
‫اثرات پر رکھتا ہے مگر ایسی انفرادی ملکیت جو اجتماعی‬
‫فائدے اور نقصان پہنچائے ناجائز ہے۔‬
‫قدرتی اشیاء کی ملکیت‬
‫زمین کققے علوہ جققو بققاقی اشققیا ہیققں ان کققی ملکیققت بھققی‬
‫وتی‬‫محض قبضہ سے حاصل نہیں ہوتی بلکققہ اس صققورت میققں ےے ہ‬
‫ہے جب اس شے میں ایسا تصرف و ردوبدل کیا جائے جس سے‬
‫اس شے کی قدرتی افادتی میں مزید ایک نئی افادیت رونمققا ےےوہ‬
‫جائے۔مثال کوئی شخص قدرت طور پر بنے ہوئے جنگل کققے گقرد‬
‫ی کققر کققے دوسققروں کققو‬ ‫باڑ لگا کر اس کے ذاتی تصرف کا دعققو ی‬
‫اس میں تصرف سے روک نہیں سکتا۔ ہاں اگر اس نے خققود ایققک‬
‫ایسا خطہ بنا یا ہو جس میں اس نے اپنی محنت اور سرمایہ کققے‬
‫ساتھ مختلف جانداروں کی بھی پرورش کی ےےہو تققو وہےے اس میققں‬
‫ی کر کے دوسروں کو اس میں تصرف سققے‬ ‫ذاتی تصرف کا دعو ی‬
‫روک سکتاہے۔‬
‫زمین کی انفردی اور اجتماعی ملکیت‬
‫‪156‬‬
‫ملکیت زمین کے حوالے سے علمہ محمد طاسین کا جو‬
‫نظریہ و فکر ہے وہ یہ ہےکہ‪:‬‬
‫اں انسققانوں کققی عمققومی مصققلحت کققا تحفققظ زمیققن کققی‬ ‫" ج ےے ہ‬
‫انفرادی ملکیت سقے ہوتققا و ےےہاں شققریعت اسقلمی نقےےے انفقرادی‬
‫ملکیت کو جائز ٹھہرایا اور جہاں اس مصلحت کا تحفظ اجتماعی‬
‫ملکیت سے ہو سکتا تھا وہاں شریعت نققے اجتمققاعی ملکیققت کققو‬
‫جائز اور ضقروری ققرار دیقا ےےہےےے۔غقرض یقہ کقہ اصقل اور بالقذات‬
‫مقصو د نہ انفرادی ملکیت ہے اور نہ اجتمائی ملکیت بلکہ اصققل‬
‫مقصود انسانوں کی منفعت ومصلحت ہے اور یہ دونققوں اس کققا‬
‫ذریعہ و وسیلہ ہیں۔مثل ل‬
‫کسی قوم ‪ ،‬قبیلے یا خاندان کے افراد مل کققر اگققر کسققی‬
‫بے کار زمین کو کار آمد اور قابل کاشت بناتے ہیققں تققو اسققلمی‬
‫وتی‬‫ملکیت کی رو سے وہ زمین ان افراد کی اجتماعی ملکیت ےےے ہ‬
‫ہے۔ اور اس کا فائدہ ان سب کے لیے مخصوص ہوتا ےےہےےے ۔ جیسققے‬
‫کہ شرکت کے طریقہ پر بہت سے لوگوں کا مل کققر تجققارت کققر‬
‫‪؎2‬‬ ‫کے اس سے اجتماعی فائدہ حاصل کرنا۔‬
‫فرد و اجتماع‬
‫اسلم کے نزدیک اجتمققاع ایققک بامقصققد ہیققت ےےہےےے اس کققے‬
‫ےےہےے بتاتققا ےےہےےے کققہ فققرد و اجتمققاع کققے‬
‫مقاصد اور مزاج کا مطالعہ ی ہ‬
‫مابین کسی ٹکراؤ کی گنجائش نہیققں۔ اسققلمی اجتمققاعیت افققراد‬
‫ہی کے مقاصد کی تکمیل کا ذریعہ ہے۔ افراد اس کے ذریعے اپنے‬
‫ی‬ ‫مشترکہ مقاصد حاصل کرنے کی کوشققش کرتققے ہیققں۔افققراد ےے ہ‬
‫اجتماع کا اصل سرمایہ ہیں۔ ا جتماع کا فرض ےےہےےے کققہ وہ اپنققے ےےرہ‬
‫فرد کی دستگیری کرتے اور ان کے درمیان فیصلوں میں عدل و‬
‫قسط پر قائم رہے۔ ان کے تمام معاملت کو بل تفریققق اسققلمی‬
‫طریقوں سے حل کرنے کی پوری کوشش کرے۔‬
‫محدود ملکیت زمین‬
‫اس حوالے سے علمہ محمد طاسین کا نظریہ ہےکہ‬
‫اسلم میں کسققی فققرد کققی نجققی ملکیققت میققں کتنققی زمیققن ےےوہ‬
‫سکتی ہے اس کا ذکر پیمائش کے ساتھ نہیں ملتا۔لہذا اگققر کہیققں‬
‫مفاد عامہ کے تحت زمینوں کی شخصققی و نجققی ملکیققت کققی‬
‫تحدیدکر دی جائے تو ایسا اہل رائے کے مشورہ سققے کرنققا بلکققہ‬
‫جائز ہے۔مثل ل اگر کسی ملک کی غذائی ضروریات پوری کرنےکے‬
‫لیے حکومتی سطح پر زمین تو بہت ہے مگر اس کو کاشققت کققے‬
‫اس سے اسققتفادہ کرنققا حکققومت کققے بققس سققے بققاہر ےےہےےے تققو وہ‬
‫‪157‬‬
‫محنتی افراد کو اس کی نجی ملکیت عطا کر کے ملکققی غققذائی‬
‫ضروریات کو پورا کر سکتی ہے۔‬
‫افراد کی ملکیتی تحدید‬
‫مطلب یہ ہے کققہ اجتمققاعی مفققاد کےلیققے ضققروری ےےوہ تققو‬
‫نمائندہ حکومت زمین کے متعلق افراد کی ملکیت کی تجدید کققر‬
‫سکتی ہے اور عدل کے تقاضقوں کققے مطقابق لوگقوں سققے زائققد‬
‫زمین لی جائے اگر وہ اسققلمی اصققولوں کققے مطققابق اس زمیققن‬
‫کے صحیح مالک ہو ں تقو ا ن کققی مرضقی اور رواج کققے مطقابق‬
‫اس کا معاوضہ دیا جائے اور اگر اسلمی اصولوں کے مطابق نققہ‬
‫ہو تو کوئی معاوضہ نہ دیا جائے ۔ اسلمی اصولوں سے مققراد کققہ‬
‫زرعی زمین جو اس کے پاس ہو کاشت کر سکتاہو اور اتنققی ےےوہ‬
‫جتنی وہ کاشت کر سققکتاہو ضققرورت سققے زیققادہ ےےہو تققو دوسققرےےے‬
‫ضرورت مند کو بل معاوضہ مفت کاشت کےلیے دے دے۔‪؎3‬‬
‫اسلم کا اشتراقی معاشی نظام‬
‫اس ضمن میققں یقہ خققوبی واضققح ےےہےےے کققہ کیققونکہ اشققتراکی‬
‫معاشی نظام اگرچہ اشیائےصققرف ذاتققی اسققتعمال کققی چیققزوں‬
‫کے بارے میں افراد و اشخاص کققی انفققرادی ملکیققت کققو تسققلیم‬
‫کرتا ہے اور قانونی تحفظ دیتاہے لیکن ذرائع پیققدا وار اور وسققائل‬
‫آمدنی کی نجی اور شخصی ملکیت کققا قطعققی طققور پققر انکققار‬
‫کرتا ہے۔ اور ان کو صرف اجتماعی قرار دیتا ہے۔ اور اسققے اپنققی‬
‫خصوصیت میں سے ایک خصوصیت بتایا ہے۔ لیکن چققونکہ اسققلم‬
‫کسی سرمایہ کو عامل پیداوار نہیں بلکہ صقرف انسقانی محنققت‬
‫کو ‪،‬خواہ وہ دماغی ہو یا جسققمانی عامققل پیققدائش دولققت تسققلیم‬
‫کرتا ہے۔ اس کی وجہ سے اسلمی معاشی نظام سققرمایہ دارانققہ‬
‫نظام سے بنیادی طور پر جدا ہوتاہے۔ اور دوسرے پہلو سے نظام‬
‫اشتراکیت سے جزوی طور پر مشابہ ہو جاتاہے۔ ‪؎4‬‬
‫قرآن و ل محدود انفرادی ملکیت‬
‫محمد طاسین کی رائے یہ ہے ‪ :‬حقیقت میں قرآن پقاک ن ے‬
‫سرمایہ داری کی بھر پور مذمت کی ہے۔ قرآن پاک نے دولققت کققا‬
‫ڈھیر جو ہمیشہ لمحدود انفرادی ملکیت کی شکل میں ہوتققا ےےہےےے‬
‫جمع کرنے سے منع کیا ہے اور ایسا کرنے والققوں کققو دکققھ والققے‬
‫عذاب کی خبر سنائی ہے۔ اس لئے قرآن پاک دولققت جمققع کرنققے‬
‫اور انفرادی ملکیت بنانے کی اجازت نہیں دیتا‪ ،‬بلکہ مققذمت کرتققا‬
‫ہے۔ ‪؎5‬‬
‫ارشاد ربانی ہے‪:‬‬
‫‪158‬‬
‫ف‬ ‫ف‬ ‫ف ف‬ ‫ف‬
‫صفيدوون وعفمن‬ ‫﴿وياَ أويفوهفاَ السفذيون آومنكفوُا إفسن وكثييا مفون املومحبوفاَفر وواليرمهبوفاَن لويَوفأمكككلوُون أوممفووُاول النسفاَفس فباَلموباَطففل وويو ك‬
‫ب أولفيَ فءم )‪ (34‬يو فموُوم‬ ‫ض فةو وول يفمنففكقوُنوفهففاَ فف ف س فبفيَفل اللسففه فوفبشش فركهم بفع فوذا ء‬
‫و م م و‬ ‫و‬ ‫ب ووالمف س و ك و‬
‫ف‬ ‫س‬ ‫ف‬ ‫ف سف‬
‫وس فبيَفل اللسفه ووال فذيون يومكن فكزوون ال فذوه و‬
‫ف‬
‫كميومففىَ وعلوميَفوهففاَ فف ف نفوفاَفر وجوهنسفوم فوفتكمك فووُىَ فبفوفاَ فجبوففاَكهكهمم ووكجنفكفوُبفككهمم ووظككهففوُكركهمم وه فوذا ومففاَ وكنوفمزكمت ف فلونمفكففسفككمم فوفكذوقكوُا ومففاَ‬
‫ككمنتكمم تومكنفكزوون﴾ ‪؎6‬‬
‫)اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کققر رکھتققے ہیققں اور اللققہ‬
‫کی راہ میں اسے خرچ نہیں کرتے‪ ،‬سو ان کو اس دن کی یعنققی‬
‫قیمت کے دن کی خوشخبری سنا دیں جس دن ان پر دوزخ کققی‬
‫آگ بھڑکائی جقائے گقی۔ اور پھقر اس آگ سقے ان کقے مقات اور‬
‫کروٹیں کو داغا جائے گا‪ ،‬سو اب اس کا مزہ چکھو(‬
‫قرآن و قومی ملکیت‬
‫محمد طاسین یہ لکھتے ہیں کہ کیا قرآن میں قومی ملکیت‬
‫کا تصور ہے؟ اس سوال کا جواب دینے سے پہلے یہ تحقیققق کققر‬
‫لی جائے کہ کیا قرآن میں ملکیت کا تصور ہے بھی کہ نہیں۔ اگر‬
‫قرآن میں سرے سے قومیت کا تصور ہی نہیں تو قققومی ملکیققت‬
‫کا تصور ڈھونڈنا محض وقت ضائع کرنا ہوگا۔ دراصل حقیقققت یقہ‬
‫ہے کہ قرآن میں قومیت کا تصور بھی ہے اور قومی ملکیققت کققا‬
‫اری زبققان‬ ‫ی کا فرمان ہے کہ ہم نققے قققرآن کققا تم ےے ہ‬
‫بھی ۔ اللہ تعال ی‬
‫میں آسان بنا دیا ہے تاکہ یہ لوگ نصیحت پکڑیں۔ قرآن پققاک میققں‬
‫اجتماعی معیشت ‪ ،‬قومی دولت اور مساوات کا تصور ملتققا ےےےہےےے۔‬
‫پورے قرآن پاک میقں کہیققں بھققی سققرمایہ دارانققہ یقا جقاگیردارانہ‬
‫نظام جس کی بنیاد ل محدود انفرادی ملکیت پر ہوتی ہے اختیققار‬
‫کرنے کو نہیں کہا گیا‪ ،‬مگر یہ لوگ انفرادی ملکیت کققا پرچققار کققر‬
‫‪؎7‬‬ ‫کے پاکستان میں یہودیت کا فروغ چاہتے ہیں۔‬

‫‪159‬‬
‫خوالہ بچات‬
‫‪Jamat.org‬‬‫ظ‬ ‫‪ . 1‬ق۔‬
‫ق‬ ‫ع‬
‫تعارف ببا نی بحماعت س یید ا ببو ا ل لی مودودی ‪ ،‬بحماعت ا سلمی چبا کس یان‬
‫‪http://jamaat.org/ur/bani_intro.php#page_top‬‬
‫‪Jamat.org‬‬‫ظ‬ ‫‪ .2‬ق‬
‫تعارف ببا نی بحماعت س یید ا ببو ا لعلی مودودی ‪ ،‬بحماعت ا سلمی چبا کسق یان‬
‫‪http://jamaat.org/ur/bani_intro.php#page_top‬‬

‫ظ‬
‫‪Jamat.org‬‬ ‫‪ . 3‬ق۔‬
‫ق‬ ‫ع‬‫ل‬
‫تعارف ببا نی بحماعت س یید ا ببو ا لی مودودی ‪ ،‬بحماعت ا سلمی چبا کس یان‬
‫‪http://jamaat.org/ur/bani_intro.php#page_top‬‬
‫‪ . 4‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬اسلم اور جدید معاشی نظام‪ ،‬ص۔‪45‬‬
‫اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ششم ‪1969‬‬
‫‪ . 5‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬اسلم اور جدید معاشی نظام‪ ،‬ص۔‪43‬‬
‫اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ششم ‪1969‬‬
‫‪ . 6‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬اسلم اور جدید معاشی نظام‪ ،‬ص۔‪44‬‬
‫اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ششم ‪1969‬‬
‫‪ . 7‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬اسلم اور جدید معاشی نظام‪ ،‬ص۔‪ 90‬تا‬
‫ق‬ ‫‪ 91‬اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ششم ‪1969‬‬
‫‪ . 8‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬اسلم اور جدید معاشی نظام‪ ،‬ص۔‪ 45‬با‬
‫‪46‬اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ششم ‪1969‬‬
‫‪ . 9‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬اسلم اور جدید معاشی نظام‪ ،‬ص۔‪47‬‬
‫اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ششم ‪1969‬‬
‫‪ . 10‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬اسلم اور جدید معاشی نظام‪ ،‬ص۔‪48‬‬
‫اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ششم ‪1969‬‬
‫‪ . 11‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬اسلم اور جدید معاشی نظام‪ ،‬ص۔‪48‬‬
‫اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ششم ‪1969‬‬
‫‪ . 12‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬اسلم اور جدید معاشی نظام‪ ،‬ص۔‪50‬‬
‫اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ششم ‪1969‬‬
‫‪ . 13‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬اسلم اور جدید معاشی نظام‪ ،‬ص۔‪51‬‬
‫اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ششم ‪1969‬‬
‫‪ . 14‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬اسلم اور جدید معاشی نظام‪ ،‬ص۔‪52‬‬
‫اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ششم ‪1969‬‬
‫‪ . 15‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬اسلم اور جدید معاشی نظام‪ ،‬ص۔‬
‫‪53‬تا ‪ 55‬اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ششم ‪1969‬‬

‫‪160‬‬
‫‪ . 16‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬اسلم اور جدید معاشی نظام‪ ،‬ص۔‬
‫‪55‬تا ‪ 64‬اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ششم ‪1969‬‬
‫‪ . 17‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬اسلم اور جدید معاشی نظام‪ ،‬ص۔‪67‬‬
‫اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ششم ‪1969‬‬
‫‪ . 18‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬معاشیات اسلم مرتب پروفیسر‬
‫خورشید احمد‪ ،‬ص۔‪ 313‬اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ‪2013‬۔‬
‫‪ . 19‬مودودی سیدابواعلی‪،‬مولنا‪ ،‬معاشیات اسلم مرتب پروفیسر‬
‫خورشید احمد‪ ،‬ص۔‪ 317‬اسلمک پبلیکشنز لمیٹیڈ‪،‬لہوراشاعت ‪2013‬۔‬
‫بباب چچہارما‬ ‫ص‬
‫ظ‬
‫ظ ش‬ ‫ف لظ دوما‬
‫س‬
‫چان‪،‬وح ییدالدیین‪،‬مول ظبا‪،‬سو شلزما اور اسلما ص۔‪28‬‬ ‫‪.1‬‬
‫س‬ ‫ظ‬
‫‪ .2‬ظچان‪،‬وح ییدالدیین‪،‬مول ظبا‪،‬سو ش لزما اور اسلما ص۔‪18‬‬
‫‪ .3‬ظچان‪،‬وح ییدالدیین‪،‬مول ظبا‪،‬سو شسلزما اور اسلما ص۔‪60‬‬
‫‪ .4‬ظچان‪،‬وح ییدالدیین‪،‬مول ظبا‪،‬سو شسلزما اور اسلما ص۔‪67‬‬
‫‪ .5‬ظچان‪،‬وح ییدالدیین‪،‬مول ظبا‪،‬سو شسلزما اور اسلما ص۔‪69‬‬
‫ین‪،‬مولبا‪،‬سوسلزما اور اسلما ص۔‪73‬‬ ‫‪ .6‬چان‪،‬وح ییدالد ی س ٹ‬
‫ورکس ج۔‪1‬ص۔‪76‬‬
‫س‬‫‪ .7‬مظارکس‪،‬کارل‪ ،‬ل ییکی ی ظیڈ ش‬
‫س‬
‫ین‪،‬مولبا‪،‬سو لزما اور ا لما ص۔‪21‬‬ ‫‪ .8‬چان‪،‬وح ییدالد ی س ٹ‬
‫ورکس ج۔‪1‬ص۔‪21‬‬
‫س‬ ‫‪ .9‬م ظارکس‪،‬کارل‪ ،‬ل ییک ی ظ ش‬
‫یڈ‬ ‫ی‬
‫س‬
‫ین‪،‬مولبا‪،‬سو لزما اور ا لما ص۔‪37‬‬‫‪ .10‬چان‪،‬وح ییدالد ی س ٹ‬
‫ورکس ج۔‪1‬ص۔‪85‬‬
‫س‬ ‫‪ .11‬ظمارکس‪،‬کارل‪ ،‬ل ییک ی ظ ش‬
‫یڈ‬ ‫ی‬
‫‪ .12‬چان‪،‬وح ییدالدیین‪،‬مول ظبا‪،‬سو ش لزما اور اسلما ص۔‪40‬ق‬
‫‪ .13‬ظظچان‪،‬وح ییدالدیین‪،‬مول ظبا‪،‬سو شسلزما اور اسلما ص۔‪34‬با ‪37‬‬
‫‪ .14‬ظچان‪،‬وح ییدالدیین‪،‬مول ظبا‪،‬سو شسلزما اور اسلما ص۔‪43‬‬
‫‪ .15‬چان‪،‬وح ییدالدیین‪،‬مولبا‪،‬سوسلزما اور اسلما ص۔‪138‬‬

‫بباب چچہارما‬ ‫ص‬


‫ظ‬
‫ق‬ ‫ش‬ ‫ق‬ ‫ٹ ظ‬ ‫ف ظل ظ سوما ظ‬
‫‪ .1‬ظغ ظقاری‪ ،‬ظبورم‪،‬ڈاک ٹتر ا ظت ققلبنی معا شس ییات ص۔‪12‬مکقتببہ ادارہ اسلم ییات لہہور سن ط ‪1986‬‬
‫مکتببہ ادارہ اسلم ییات لہہور سن ط ‪1986‬‬ ‫‪ .2‬ظغ ظقاری‪ ،‬ظبورم‪،‬ڈاک ٹتر ا ظت ققلنی معا شس ییات ص۔‪ 15‬ق‬
‫‪ .3‬ظغ ظقاری‪ ،‬ظبورم‪،‬ڈاک ٹتر ا ظت ققل ببنی معا شس ییات ص۔‪17‬مک قتببہ ادارہ اسلم ییات لہہور سن ط ‪1986‬‬
‫ادارہ اسلم ییات لہہور سن ط ‪1986‬‬
‫مکتببہ ق‬ ‫‪ .4‬ظغ ظقاری‪ ،‬ظبورم‪،‬ڈاک ٹتر ات ظ ققلبنی معاس ی شیات ص۔‪ 18‬ق‬
‫ہ‬
‫‪ .5‬غ قاری‪،‬بورم‪،‬ڈاکتر ات قلبنی معاس ییات ص۔‪18‬با ‪19‬مکتببہ ادارہ ا لم ییات لہور سن ط‬
‫س‬
‫ق‬ ‫ش‬ ‫ٹ ظق‬ ‫‪ 1986‬ظ‬ ‫ظظ‬
‫ہ‬
‫‪ .6‬غ ظقاری‪،‬بورم‪،‬ڈاکتر ات قلبنی معاس ییات ص۔‪19‬مکتببہ ادارہ اسلم ییات لہور سن ط ‪1986‬‬
‫‪ .7‬الت بی ییا ‪21/30‬‬
‫‪161‬‬
‫‪ .8‬سورۃ طہ ‪20/2‬‬
‫‪ .9‬سورۃ الحدیبد۔‪57/7‬‬
‫ق‬ ‫سورۃ ا بلجم بمعہ ‪10/62‬‬
‫‪ .10‬ل ش‬
‫‪.11‬ا ہیس قمی‪ ،‬ظجمع شالزوایبد ج۔‪4‬۔بباب الکشب والیبحارہ ظ‬
‫ن یص ت ق‬ ‫ظ‬ ‫تمان‬ ‫ال‬ ‫عب‬ ‫قی‬ ‫قی‪،‬‬ ‫‪.12‬البی ینہ‬
‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ی‬ ‫ی‬ ‫س‬
‫‪.13‬ریباض الصالحیین‪،‬بباب امرولۃ امور ببالزقق بتر عایبا ھم و چ ھم بخوالہ ببحاری و مسلم‬

‫ظ‬ ‫بباب چچہارما‬ ‫ص‬


‫ظ‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ظب‬ ‫ظظ‬ ‫ف ل چچہارما‬
‫ہ‬
‫چداما ا قفران لہور‬ ‫ل‬ ‫ج‬ ‫س‬ ‫ظ‬
‫‪ .1‬طاسیین ‪،‬م‪،‬مروبجہ ظ ظن ظاما زم یی ظیداری اور ا لما ص۔‪،38‬مرکزی ا ببجمن ظ ظ‬
‫چداما ال ظفران ل ہ قہور‬
‫ب‬‫‪ .2‬طاسیین ‪،‬م‪،‬مروبجہ ظن ظظاما زم یی ظیداری اور اسلما ص۔‪ 40‬ق‪،‬مرکزی ا من ب‬
‫ل‬ ‫ج‬
‫‪،‬مرکزی ا من چداما ا فران‬ ‫طاسیین ‪،‬م‪،‬مروبجہ ن ظاما زم یی یداری اور اسلما ص۔‪22‬با ‪ 25‬ظ‬ ‫ہ‬
‫‪.3‬‬
‫ق‬ ‫ظب‬ ‫ظظ‬ ‫ہور‬ ‫ل‬
‫‪ .4‬طاسیین ‪،‬م‪،‬مروبجہ ظ ظن ظاما زم یی ظظیداری اور اسلما ص۔‪،44‬مرکزی ا بببجمن ظظچداما ال قفران لہہور‬
‫ین ‪،‬م‪،‬مروبجہ ن ظاما زم یی یداری اور اسلما ص۔‪،40‬مرکزی ا جمن چداما الفران لہہور‬ ‫‪ .5‬طاس ی ق‬
‫ظ‬ ‫‪9/34‬‬ ‫یہ‬
‫ق‬ ‫ظ‬ ‫ب‬ ‫ب‬ ‫ظ‬ ‫ظ‬ ‫‪ .6‬سورۃ ال ب‬
‫یو‬
‫ظ‬
‫طاسیین ‪،‬م‪،‬مروبجہ ن ظاما زم یی یداری اور اسلما ص۔‪،55‬مرکزی ا جمن چداما الفران لہہور‬

‫‪162‬‬

You might also like