You are on page 1of 11

‫کورس کوڈ‪2625 :‬‬ ‫کورس‪ :‬اسالم کا اقتصادی نظام‬

‫امتحانی مشق نمبر‪1 :‬‬ ‫سمسٹر‪ :‬خزاں‪2021‬‬

‫والد کانام‪ :‬محمد لطیف‬ ‫نام‪ :‬فائیزہ لطیف‬

‫پروگرام‪ :‬ایم اے اسالمیات‬ ‫رجسٹریشن نمبر‪13-PRI-18854:‬‬

‫تاریخ‪25.02.2022 :‬‬ ‫موبائل نمبر‪03345204691 :‬‬

‫ای میل ایڈریس‪makgee786@gmail.com :‬‬


‫مکمل پتہ‪c/o M Abdullah Khalid (J.Accountnat), Anti-Terrorism Court-I, :‬‬
‫‪Rawalpindi‬‬
‫سوال نمبر‪1‬۔ علم معیشت کی اقسام پر تفصیل سے بحث کیجئے؟‬
‫انسان کی بے شمار خواہشات ہیں ‪ ،‬جو دنیا میں پیدا ہوتے ہی اس کے ساتھ ہولیتی ہیں ‪ ،‬اور آخری دم تک اس کا پیچھا‬
‫نہیں چھوڑتیں ۔ قدیم زمانہ میں یہ ضرورتین بڑی سادہ اور مختصر تھیں لیکن تہذیب و تمدن کی ترقی کے ساتھ ساتھ ‪،‬‬
‫ان میں اضابہ اور نیر نگی پیدا ہوتی گئی ہے ۔ بنیادی طور پر تو ہمیں بھوک مٹانے کے لئے غذا تن ڈھانپنے کے لئے‬
‫کپڑ ا رہنے کے لئے مکان عالج کے لئے دو ا اور تعلم کے لئے کتاب درکار ہے لیکن ان کے عالوہ انسان کو بہت‬
‫سی چیزوں کی بھی ضرورت ہے جو آرام و آسائش بہم پہنچائیں اور تفریح و مسرت کا سامان مہیا کریں ‪ ،‬مثال ٹیلی‬
‫فون ‪ ،‬فریج ائیر کنڈیشنر‪ ،‬ٹیلی وژن موٹر کار وغیرہ ۔ چنانچہ ان حاجات کو پورا کر نے کے لئے انسان محنت کرتا‬
‫ہے ۔ اور دولت کماتاہے ۔اسی لئے ہم دیکھتے ہیں کہ کسان کھیتوں میں مزدور کا ر خانوں میں تاجر دکانوں میں اور‬
‫کلر ک دفتروں میں سرگرم عمل ہیں ۔ ڈاکٹر انجینئر ‪ ،‬پروفیسر وکیل ڈرائیور دھوبی ‪ ،‬نائی غرض ہر شخص اپنا اپنا‬
‫کام کر رہا ہے تاکہ آمدنی حاصل کر کے ضرورت کی چیزیں خرید سکے ۔ انسان کی اسی جدو جہد کا تعلق معاشیا ت‬
‫ہے ۔ دراصل انسان کی خواہشات بے شما ر ہین لیکن انہیں پورا کرنے کے لئے اس کے ذرائع مثال آمدنی دولت چیز‬
‫یں وغیرہ تھوڑی ہیں لہٰ ذا اسے یہ مسئلہ درپیش ہوتا ہے ۔ کہ اپنی کثیر خواہشات کو قلیل ذرائع سے کس طرح پورا کر‬
‫ے ۔ گویا اسے خواہشات میں انتخاب اور ذرائع میں کفایت کرنا پڑتی ہے ۔ انسانی طرز عمل کے اسی پہلو کے مطالعہ‬
‫کانام معاشیات ہے ۔ حاجات کی کثر ت اور وسائل کی قلت کے باعث ہی دنیا کی بیشتر آبادی کئی مسائل سے دوچار‬
‫ہے مثال غربت جہالت ناخواندگی بیماری ‪ ،‬بے روزگاری مہنگائی اور افراط زر وغیرہ (یعنی اسی صورت جب ملک‬
‫میں چیزوں کی پیداوار اور رسد)تو تھوڑی ہو لیکن زر یعنی روپے کی مقدار زیادہ ہو اور اس کے باعث قیمتوں کی‬
‫سطح بلند ہو جائے چنانچہ ماہرین معاشیات ان مسائل پر غور کرتے ہیں اور انہیں حل کر نے کے لئے معاشی‬
‫منصوبہ بندی اور معاشی ترقی پر زور دیتے ہیں ۔ ایسی تدابیر پیش کرتے ہیں جن سے ملک میں اشیاء کی پیداوار‬
‫بڑھے لوگوں کے درمیان دولت کی تقسیم منصفانہ ہو ‪ ،‬معیار زندگی بلند ہو اور ان کی ضرورتیں اچھے طریقے سے‬
‫پوری ہوں ۔ ریاست ہائے متحدہ امریکہ کینیڈا ‪ ،‬برطانیہ جرمنی فرانس جاپان اور بعج دیگر ممالک نے جدید سا نس و‬
‫ٹکنالوجی سے فائدہ اٹھا کر بہت ترقی کی ہے ‪ ،‬جس کے باعث وہاں کے لوگوں کا معیار زندگی بلند ہوگیا ہے ۔‬
‫روزمرہ زندگی کی عام ضرورتوں کے عالوہ انہیں آرام و آسائش اور عیش و عشرت کی چیزیں بھی کافی مقدار میں‬
‫میسر آتی ہیں ۔ جب کہ آیشیا ‪ ،‬افریقہ اور الطینی امریکہ کے بیشتر ممالک کا معیار زندگی آج بھی مغربی ممالک کے‬
‫اس معیار سے کمتر ہے جو انہیں صنعتی انقالب سے پہلے حاصل تھا ۔ چنانچہ نہ صرف غریب ممالک کے لوگ‬
‫پریشان حال ہیں‪ ،‬بلک وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ امیر اور غریب ممالک کے درمیان معاشی فرق بھی بڑھتا جارہا‬
‫ہے ‪ ،‬مثالً دونوں کا موازنہ کر نے کے لئے آپ ذرا غور فرمائینکہ (ورلڈ بنک کی رپورٹ ‪ 2004‬ء کے مطابق)‬
‫امریکہ میں فی کس مجموعی قومی پیداوار)‪ (Gross National Product – G.N.P‬یعنی وہان کے ایک باشندے‬
‫کی ساالنہ اوسط آمدنی ‪ (Per Capita Income)35‬ہزار ڈالر ہے اور کینیڈا کی ‪ 22‬ہزار ڈالر ‪ ،‬سوئزر لینڈ کی ‪38‬‬
‫ہزار ڈالر ‪ ،‬فرانس کی ‪ 22‬ہزار ڈالر ‪ ،‬برطانیہ کی ‪ 22‬ہزا ر ڈالر اور جاپان کی ‪ 33‬ہزار ڈالر ۔ جب کہ ان کے مقابلہ‬
‫میں پاکستان کی ‪ 410‬ڈالر ہے بھارت کی ‪ 480‬ڈالر ۔ چین کی ‪ 940‬ڈالر اور بنگلہ دیش کی صرف ‪ 360‬ڈالر۔ ان‬
‫حاالت میں ضروری ہے کہ علم معاشیا ت کے جدید اصولوں اور نظریوں سے فائدہ اٹھا کر اقتصادی ترقی کے لئے‬
‫کوشش کی جائے تاکہ اشیا ء کی پیداوار بڑھے لوگوں کو زیادہ چیزین ملیں اور خوشحال ہوجائیں ۔ معاشیا ت کے‬
‫نظریات بیان کرنے سے قبل ضروری ہے کہ معاشیات کا مفہوم اچھی طرح سمجھا لیا جائے ۔‬

‫معاشیات کی تعریف‪:‬۔‬
‫مختلف زمانوں میں ماہرین معاشیات نے اس علم کی مختلف تعریفیں بیان کی ہیں ۔ جنہیں تین طرح سے پیش کیا‬
‫جاسکتا ہے ۔‬
‫اول‪:‬۔ کالسیکی ماہرین معاشیات کی تعریفیں جن میں معاشیات کو دولت کا علم قرار دیا گیا ہے ان ماہرین کا ریکارڈ و‬
‫تھامس ماتھس اور جان ایس مل ۔‬
‫دوم‪:‬۔نوکالسیکی ماہرین معاشیا ت کی تعریفیں ‪ ،‬جن میں معاشیات کو مادی فالح و بہبود ‪ ،‬کا علم کہا گیا ہے ۔ ان کی‬
‫نمائندگی پروفیسر الفرڈ مارشل کی تعریف سے ہوتی ہے ۔‬
‫سوم‪:‬۔جدید ماہر معاشیات پروفیسر رابنز کی بیان کردہ تعریف جس میں یہ بتایا گیاہے کہ معاشی مسئلہ خواہشات کی‬
‫کثرت اور ذرائع کی قلت سے پیدا ہوتا ہے ۔ یہاں ہم ان پر الگ الگ بحث کرتے ہیں ۔‬
‫ایڈم سمتھ کی بیان کر دہ تعریف‬
‫اگرچہ معاشی مسائل اس وقت سے موجود ہیں ‪ ،‬جب سے انسان نے دنیا میں قدم رکھا اور مختلف زمانوں میں اہل نظر‬
‫ان پر غور فکر کرتے ہیں لیکن معاشی حقائق و نظریات کو جمع کر کے انہیں سب سے پہلے باقاعدہ ایک کتاب کی‬
‫صورت میں پیش کر نے کا کام ‪ ،‬سکاٹ لینڈ کے پروفیسر آدم سمتھ نے انجام دیا ۔ انہوں نے آج سے تقریبا سو ا دو‬
‫سوسال قبل ‪ 1776‬ء میں ایک کتاب لکھی جس کا نام تھا ‪ ،‬اقوام کی دولت کی نوعیت اور وجوہات اور وجوہات پر‬
‫تحقیقاتی مقالہ ’’ جس کے باعث انہیں معاشیات کا بانی اور باپ کہا جاتا ہے ۔ انہوں نے بتایا کہ معاشیات دولت حاصل‬
‫کرنے اور خرچ کر نے کے اصولوں کا علم ہے انہوں نے اس کتاب کو مندرجہ ذیل چار حصوں میں تقسیم کیا ۔‬
‫صرف دولت)‪ (Consumption‬پیدائش دولت)‪ ( Production‬تبادلہ دولت)‪ (exchange‬اور تقسیم دولت صرف‬
‫دولت کے ضمن میں انہوں نے یہ واضح کیا کہ کسی قوم کی دولت یعنی استعمال میں آنے والی اشیاء و خدمات‬
‫)‪(Goods and services‬کن اصولوں کے تحت خرچ ہوتی ہیں پیدائش دولت کے سلسلہ میں یہ بتایا کہ انسانی‬
‫ضرورت کی چیزیں عموما ً کن اصولوں کے تحت پیدا ہوتی ہیں ‪ ،‬تبادلہ دولت کے بارے میں یہ بیان کیا کہ لوگ اپنی‬
‫اپنی پیدا کر دہ اشیا ء و خدمات کا آپس میں تبادلہ کن اصولوں کے تحت کرتے ہیں اور تقسیم دولت کے سلسلہ میں یہ‬
‫واضح کیا کہ مختلف عاملین پیدا ئش یعنی زمین سرمایہ اور مزدور وغیرہ باہم مل کر جو اشیا ء پید ا کر تے ہیں وہ ان‬
‫میں کن اصولوں کے تحت تقسیم ہوتی ہیں معاشیات کو دولت کا علم قرار دیتے ہوئے آدم سمتھ اور ان کے اہم نو ا‬
‫مفکرین مثالً ریکارڈو نے اس بات پر زور دیا کہ انسان کی کوششیں ‪ ،‬زیادہ تر اس وجہ سے عمل میں آتی ہیں کہ وہ‬
‫دولت کمانا چاہتا ہے ۔ اور یہی خواہش اس کی روز مرہ زندگی میں غالب نظر آتی ہے ۔ آدم سمتھ نے یہ تخیل بھی‬
‫پیش کیا کہ تمام لوگ انفرادی سطح پر اپنے ذاتی مفاد کی خاطر جو کوشش کرتے ہیں وہ بالواسطہ پورے معاشرہ کے‬
‫کئے مفید ثابت ہوتی ہے ۔ اور یوں ایک غیر مرئی ہاتھ کے باعث معاشی نظام خود بخو د باقاعدگی سے چلتا رہتا ہے ۔‬
‫تنقید‪:‬۔‬
‫اگرچہ کالسیکی ماہرین معاشیات ’’ دولت ‘‘ سے مراد ایسی چیزیں لیتے تھے جو انسان اپنی ضرورتوں کے لئے‬
‫استعمال کرتاہے مثال ً خوراک پوشاک اور رہائش کی چیزیں ‪ ،‬مگر بعض لوگوں کی دولت کے لفظ سے کچھ غلط‬
‫فہمی پیدا ہوگئی ۔ چنانچہ انیسویں صدی کے مصلحین یعنی معاشرہ کی اصالح کے خواہش مندلوگوں نے معاشیات کے‬
‫بارے مین یہ رائے قائم کر لی کہ یہ خود غرضی اور دولت پر ستی سکھانے واال علم ہے اس لئے اس کا مطالعہ نہیں‬
‫کرنا چاہئے ۔ لیکن اگر ہم اس نظریہ پر غور کر یں تو معلوم ہوگا کہ معاشیات کے بارے میں یہ تصور کہ اس میں‬
‫دولت پیدا کرنے اور دولت خرچ کرنے کے متعلق مطالعہ کیا جاتا ہے قابل اعتراض نہیں ‪ ،‬کیونکہ دولت کو انسان‬
‫ایک مقصد کے طور پر حاصل نہیں کر تا بلکہ بلند تر مقصد کے لئے کماتا ہے اور وہ مقصد ہے‪:‬‬
‫انسانی فالح و بہبود ‪:‬۔‬
‫انسا ن کی خوش حالی کا دارو مدار اس بات پر ہے کہ اسے اپنی خواہشات پوری کر نے کے لئے زیادہ سے زیادہ‬
‫اور اچھی سے اچھی چیز یں ملیں اور یہ تمام چیز یں دولت سے حاصل ہوتی ہیں لہٰ ذا دولت بذات کود بری شے نہیں ‪،‬‬
‫بلکہ اس کا استعمال برایا بھال ہوسکتا ہے ۔ چنانچہ دو لت کے بارے میں غلط فہمی کو دور کرنے کے لئے معاشیات‬
‫کی از سر نو تعریف بیان کر نے کی ضرورت محسوس ہوئی ‪ ،‬جس کا ذکر ہم آگے کر تے ہیں ۔‬

‫الفر ڈ مارش (‪ 1842‬تا ‪ ) 1924‬کی بیان کردہ تعریف‪:‬۔‬


‫انیسویں صدی کے آخر میں کیمبرج یونیورسٹی (انگلستان) کے ایک ممتاز ماہر معاشیات ‪ ،‬پروفیسر الفر ڈ مارشل نے‬
‫اپنی کتاب ’’ معاشیات کے اصول )‪ ‘‘ (Principles of Economics‬بہت سی غلط فہمیوں کو دور کیا ۔‬
‫(الف) معاشیات کا تعلق انسان کی روز مرہ زندگی سے ہے اس لئے یہ بہت اہم اور مفید علم ہے ۔ (ب) علم معاشیات‬
‫کسی ایک فرد یا دوسروں سے الگ تھلگ رہنے والے آدمی کے مسائل کا جائزہ نہینلیتا ‪ ،‬بلکہ اس کا تعلق پورے‬
‫معاشرہ سے ہے ‪ ،‬جس میں لوگ مل جل کر دولت کماتے اور خرچ کرتے ہیں ۔ (ج) معاشیات ’’ دولت برائے دولت ‘‘‬
‫کا مطالعہ نہیں کرتا بلکہ اس لئے کہ دولت کی مدد سے وہ مادی لوازمات (یعنی ضرورت کی چیزیں حاصل جائین ‪،‬‬
‫جو انسانی رفاہ و بہبود میں اضافہ کرتے ہیں) ۔ انسانی کوششیں کئی قسم کی ہوتی ہیں لیکن معاشیات کا تعلق صرف‬
‫ان کوششوں سے ہے جن کے نتیجہ میں انسان کو مادی لوازمات حاصل ہوتے ہیں ۔ معاشیات کی یہ تعریف ایسی جامع‬
‫اور بامقصد ہے کہ بہت سے اعتراضات جو اس علم پر کئے گئے تھے خود بخود دور ہوگئے چنانچہ ان کے بعد چند‬
‫اور مفکرین نے بھی ‪ ،‬اپنے نظریات میں اسی بات کو واضح کیا اور اپنی تصانیف میں مادی فالح کی تصور کو‬
‫مرکزی حیثیت دی ۔ ان تمام مصنفین نے اپنے زاویہ نظر کو پیش کر کے نو کالسیکی مکتب فکر کی بنیاد رکھی ۔‬
‫پروفیسر رابنز کی بیان کر دہ تعریف‪:‬۔‬
‫پروفیسر رابنز نے معاشیات کی تعریف ان الفاظ میں پیش کی ہے ۔‬
‫’’معاشیات انسان کے اس طرز عمل کا مطالعہ کرتا ہے ‪ ،‬جو خواہشات کے بے شمار ہونے اور ذرائع کے محدود‬
‫ہونے کی بنا پر اختیار کیا جاتا ہے ۔ جب کہ یہ ذرائع مختلف طور پر استعمال ہوسکتے ہوں‘‘۔‬
‫انہوں نے اپنی اس تعریف کی بنیاد انسانی زندگی کی مندرجہ ذیل حقیقتوں پر رکھی ہے‪:‬‬
‫(اول ) انسان کی خواہشات بہت زیادہ ہیں۔‬
‫(دوم) ان خواہشات میں سے بعض زیادہ اہم ہوتی ہیں اور بعض کم اہم۔‬
‫(سوم) انسانی خواہشات کو پورا کرنے کے ذرائع (یعنی دولت یا اشیاء خدمات) تھوڑے ہیں اور‬
‫(چہارم) ہر ایک ذریعہ (یعنی روپیہ ‪ ،‬پیسہ) مختلف خواہشات پوری کر نے کے لئے استعمال ہوسکتا ہے ۔ ان چاروں‬
‫باتوں کی وضاحت آگے آئے گی ۔‬

‫سوال نمبر‪2‬۔ شریعت کی رو سے حالل ذرائع آمدن پر نوٹ لکھیں؟‬


‫اسالم نے حصول معاش کے لئے قواعدوضوابط مرتب کیاہے‪ ،‬کسی بھی تاجریامعاشی مسابقت میں حصہ لینے والے‬
‫کوآزادنہیں چھوڑاکہ جب چاہے اورجس طرح چاہے مال حاصل کر کے اپنی تجوری بھرتاچالجائےاوردوسرے لوگ‬
‫اس میدان میں پیچھے رہ جائیں یانقصان اٹھاتے رہیں بلکہ ہرایک کوحق عطاکیاگیاکہ معاش کے لئے کوشش کرے اور‬
‫جائز قسم کا کوئی بھی ذریعہ معاش اختیار کرے جس میں دھوکہ‪ ،‬خیانت‪،‬سود‪،‬نقصان‪ ،‬رشوت‪ ،‬کاالبازاری‪،‬‬
‫قماربازی‪،‬حرام کاری اور بے ایمانی کا دخل نہ ہو۔ ساتھ ہی دو باتوں کا ضرور خیال کرنا چاہئے پہلی تو یہ کہ اگر‬
‫ذریعہ آمدنی جائزہے تو کسی بھی پیشہ وعمل کو حقیر نہیں سمجھنا چاہئے اور دوسری یہ کہ ہللا تعالی پر روزی کے‬
‫تئیں مکمل اعتماد کرکے دولت دنیا کی حرص لئے بغیر جائز طریقے سے کسب معاش میں جدوجہد کرنا چاہئے ۔ عام‬
‫طور سے حصول زر میں ناجائز ذرائع اپنانے کی اہم وجہ دنیا طلبی ہوتی ہے ۔‬
‫ان بنیادی باتوں کو ذہن میں رکھتے ہوئے مندرجہ ذیل سطور میں ان ذرائع کا ادراک کریں جو اسالمی نظام معیشت‬
‫کے خالف ہے ۔‬
‫سودی کاروبار‪:‬‬
‫سود قطعی طورپرحرام ہے ‘سود کو قرآن کریم نے اتناسنگین گناہ قراردیا ہے کہ کسی اور گناہ کو اتنا سنگین گناہ‬
‫قرار نہیں دیا‪ ،‬شراب نوشی‪ ،‬خنزیر کھانا‪ ،‬زناکاری‪ ،‬بدکاری وغیرہ کے لیے قرآن کریم میں ایسی سخت وعید نہیں آئی‬
‫جو سود کے لیے آئی ہے‪.‬‬
‫الر َبا ِإ ْن ُک ْنت ُ ْم ُمؤْ ِم ِنیْنَ فَإِ ْن لَ ْم تَ ْف َعلُ ْوا فَا ْٔ َذنُ ْوا ِب َح ْر ٍ‬
‫ب‬ ‫ی ِمنَ ِ‬ ‫چنانچہ ہللا تعالی نے فرمایا‪َ :‬یا أَیُّ َہا الَّ ِذیْنَ آ َمنُوا اتَّقُوا ہ َ‬
‫ّٰللا َو َذ ُر ْوا َما َب ِق َ‬
‫سو ِل ِہ(سورۃ البقرۃ‪)279/278:‬‬ ‫ِمنَ ہ ِ‬
‫ّٰللا َو َر ُ‬
‫ترجمہ‪ :‬اے ایمان والو! ہللا سے ڈرو اور سود کا جو حصہ بھی رہ گیا ہو اس کو چھوڑ دو‪ ،‬اگر تمہارے اندر ایمان ہے‬
‫۔اگر تم سود کو نہیں چھوڑو گے ‪ ،‬تو ہللا اور اس کے رسول کی طرف سے اعالن جنگ سن لو یعنی ان کے لیے ہللا‬
‫کی طرف سے لڑائی کا اعالن ہے‪-‬‬
‫َّللا ب ِْن‬
‫ع ْب ِد ہ ِ‬ ‫ْ‬
‫مسند امام احمد بن حنبل ‪،‬سنن دارقطنی ‪ ،‬مشکوۃ المصابیح اور زجاجة المصابیح میں حدیث پاک ہے‪ :‬عَن َ‬
‫ست ہ ٍۃ َوثَالثِ زنیَ ًۃ‪-‬‬
‫ْ‬ ‫َ‬ ‫ینَ‬ ‫َ‬ ‫ش ُّد ِم ْن ِ‬ ‫الر ُج ُل َوہ ُ َو یَ ْعلَ ُم أَ َ‬ ‫علَ ْی ِہ َو َ‬
‫سلہ َم د ِْرہَم ِربًا یَا ْٔ ُکلُہُ ہ‬ ‫صلہی ہ‬
‫َّللاُ َ‬ ‫َّللا َ‬‫سو ُل ہ ِ‬ ‫ک ِۃ قَا َل قَا َل َر ُ‬ ‫سی ِل ا ْل َم َالئِ َ‬‫غ ِ‬ ‫َح ْن َ‬
‫ظلَ َۃ َ‬
‫ترجمہ‪:‬حضرت عبد ہللا بن حنظلہ رضی ہللا عنھما (جن کے والد حضرت حنظلہ غسیل مالئکہ ہیں ) سے روایت‬
‫ہے‪،‬آپ نے فرمایا کہ حضرت رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا‪ :‬جانتے بوجھتے سود کا ایک درہم کھانا‬
‫چھتیس مرتبہ زنا کرنے سے زیادہ سخت ہے۔‬
‫اس کی سند کو شیخ البانی نے صحیح قرار دیا ہے ۔ ( تخریج مشكاۃ المصابیح‪)2754:‬‬
‫لہذا ایمان والوں کو ہر اس پیشے سے دور رہناہے جس میں سود کی آمیزش ہو ۔سودی کام پہ کسی کی مدد کرنا بھی‬
‫ویسے ہی جیسے سودی کاروبار کرنا اس لئے سود پہ کسی طرح کا تعاون بھی نہیں پیش کرنا ہے ۔‬
‫جوا کا کاروبار کرنا‪:‬‬
‫جواایک مذموم کھیل ہے اس کھیل میں ایک کوزبردست خسارہ ہوتاہے جبکہ دوسرافریق بغیرکسی محنت وتعب کے‬
‫بہت سارامال ومتاع جیت لیتاہے اس میں لوگ نہ جانے کیاکیاہارجاتے ہیں‪،‬مال و متاع‪،‬گھراوربیوی تک ہارکرشرمندگی‬
‫اٹھاتے ہیں‪،‬یہی شرمندگی اگرابتداء ہی میں محسوس کرے توپھرجواکھیلنے کی ضرورت ہی نہیں پڑے گی۔جواایک‬
‫طرح کانشہ ہوتاہے جوبمشکل ختم ہوتا ہے یہ نشہ اس وقت تک شیطان بن کراس کی کھوپڑی میں گھسارہتاہے جب‬
‫تک کہ اس کی لٹیا نہ ڈوب جائے۔یہ ایک طرح کادھوکہ اورفریب کاری ہے اسالم میں فریب کاری توممنوع ہے ہی‬
‫جواکی بھی منصوص طورپرحرمت ثابت ہے۔‬
‫یاایھاالذین ٰامنواانماالخمروالمیسرواالنصاب واالزالم رجس من عمل الشیطان فاجتنبوہ لعلکم تفلحون(المائدۃ ‪)90 :‬‬
‫ترجمہ ‪ :‬اے ایمان والو!بات یہی ہے کہ شراب اورجوااورتھان اورفال نکالنے کے پانسے کے تیریہ سب گندی باتیں‬
‫شیطانی کام ہیں ان سے بالکل الگ رہوتاکہ تم فالحیاب ہو‪.‬‬
‫جواکی حرمت کے مندرجہ ذیل مقاصدہیں۔‬
‫ٰ‬
‫‪۱‬۔اسالم چاہتاہے کہ اکتساب مال کے سلسلہ میں مسلمان سنن الہی کامتبع ہواورنتائج کو اسباب کے ذریعہ حاصل کرے‬
‫اورجواجس کی ایک قسم الٹری ہے انسان کوبخت واتفاق اورخالی آرزؤں پربھروسہ کرناسکھاتاہے جبکہ اسالم‬
‫عمل‪،‬جدوجہداوران اسباب پربھروسہ کرناسکھاتاہے جنہیں ہللا نے پیدافرمایاہے اوران کواختیارکرنے کاحکم دیاہے۔‬
‫‪۲‬۔اسالم انسان کے مال کومحترم ٹھہراتاہے اوراس کے لینے کی جائزصورت یہ ہے کہ یا توجائزطریقہ پرلین دین‬
‫ہویاکوئی شخص اپنی رضامندی سے ہبہ یاصدقہ کرے ۔رہاقمارکے ذریعہ مال حاصل کرناتووہ باطل طریقہ پرمال‬
‫کھانے کے مترادف ہے۔‬
‫‪۳‬۔اس سے جواکھیلنے والوں کے درمیان بغض وعداوت پیداہوتی ہے اگرچہ وہ زبانی طورپر رضامندی کااظہارکرتے‬
‫ہوں کیونکہ ان کامعاملہ ہمیشہ غالب اورمغلوب کے درمیان رہتا ہے اور جب مغلوب خاموشی اختیارکرتاہے تواس کی‬
‫خاموشی غیظ وغضب لئے ہوئے ہوتی ہے کیونکہ وہ نقصان اٹھاچکاہوتاہے۔‬
‫‪۴‬۔بازی ہارجانے کی صورت میں مغلوب دوبارہ جواکھیلنے پرآمادہ ہوجاتاہے اس امیدپرکہ شایداب کی بارنقصان کی‬
‫تالفی ہوگی‪،‬اسی طرح غالب کوغلبہ کی لذت دوبارہ بازی لگانے اورمزیدنفع بٹورنے پرآمادہ کرتی ہے۔‬
‫‪۵‬۔بنابریں یہ شوق جس طرح فردکے لئے خطرہ کاباعث ہے اسی طرح سماج کے لئے بھی خطرہ کاشدیدباعث ہے‪،‬یہ‬
‫ایساشوق ہے جس میں محنت اورقوت کی بربادی ہے۔‬
‫غرض یہ کہ یہ کھیل جوئے بازوں کوبالکل معطل کرکے رکھ دیتاہے جوزندگی کی محنت سے تو فائدہ اٹھاتے ہیں‬
‫لیکن اس کی ذمہ داریوں کوادانہیں کرتے۔‬
‫قماربازہمیشہ اپنے رب کی عائدکردہ ذمہ داریوں سے غفلت برتتاہے نیزاپنے نفس اپنے خاندان اوراپنی ملی ذمہ‬
‫داریوں سے بھی بے پرواہ ہوجاتاہے۔‬
‫ایسے لوگوں سے کچھ بعیدنہیں کہ وہ اپنے دین‪،‬اپنی عزت اوراپنے وطن کوبھی اپنے مفاد کی خاطربیچ دیں۔(اسالم‬
‫میں حالل وحرام)‬
‫الٹری بھی جواہی کی ایک قسم ہے مگربعض لوگوں نے اسے ضرورتاًجائزقراردیاہے یہ ان کی بڑی بھول ہے اس‬
‫میں کوئی شک نہیں کہ الٹری جواکی ایک قسم ہی ہے اورجب یہ متحقق ہے کہ الٹری جواکی قسم ہے توپھراس کی‬
‫حرمت پرکوئی کالم نہیں۔اسکے ذریعہ کمائی ہوئی دولت بھی حرام ہوگی‪،‬اس کی بدولت آدمی ہللا کے عتاب سے نہیں‬
‫بچ سکتا۔‬
‫شراب کا پیشہ اختیار کرنا‪:‬‬
‫شراب کو”ام الخبائث“کہاگیاہے کیونکہ آدمی شراب کی حالت میں کچھ بھی کرسکتاہے زنا کاری کاارتکاب کرسکتاہے‪،‬‬
‫کسی کی حرمت پرڈاکہ زنی کرسکتاہےاوروہ خودکشی بھی کرسکتاہے۔مشہورواقعہ ہے‪،‬ایک آدمی کوتین کاموں میں‬
‫سے کسی ایک کااختیاردیاگیاچاہے وہ شراب نوشی کرے یازناکری کرے یاایک آدمی کوموت کی گھاٹ اتاردے۔اس‬
‫نے تین کام میں شراب نوشی کوپسندکیااوروہ جب پی لیاتونشہ کی حالت میں زناکاری کابھی ارتکاب کرلیااورآدمی کو‬
‫بھی قتل کردیا۔اوریہ حقیقت ہے کہ اس سے بہت ساری خرابیوں کے دروازے کھل جاتے ہیں‪ ،‬بیماریاں بھی وقوع‬
‫پذیرہوتی ہیں‪،‬رسول اکرم ﷺنے ہللا کی طرف سے شراب کی حرمت کااعالن کردیاہے ‪ :‬ك ُّل ُمس ِك ٍر َخمر ‪َ .‬و ُك ُّل ُمس ِك ٍر‬
‫حَرام(صحیح مسلم‪)2003:‬‬
‫ہرنشہ آورچیزخمر(شراب)ہے اورہرنشہ آورحرام ہے۔‬
‫یر و ث َمنهُ(صحیح الجامع‪)1746 :‬‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ْ‬ ‫الخمر ‪ ،‬و ح ہَر َم ال َم ْیتَةَ و ثمنَھا ‪ ،‬و ح ہَر َم ِ‬
‫الخن ِز َ‬ ‫َ‬ ‫إِنہ هللاَ ح ہَر َم‬
‫ترجمہ‪ :‬ہللا نے شراب حرام کیاہے ‪،‬مرداراوراس کی قیمت کوبھی حرام قراردیا‪،‬سوراوراس کی قیمت کوحرام قرار دیا‬
‫ہے۔‬
‫َ‬ ‫َ‬
‫وحاملھا ‪ ،‬و المحمولة إلی ِه ‪ ،‬وآ ِك َل‬ ‫َ‬ ‫ِ‬ ‫وعاصر َها ‪ ،‬و ُم ْعتَ ِص َرها ‪،‬‬
‫َ‬ ‫وشاربَھا ‪ ،‬وساقِیَھا ‪ ،‬وبائِعَھا ‪ ،‬و ُم ْبتَا َ‬
‫عھَا ‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫الخمر ‪،‬‬
‫َ‬ ‫لعن هللاُ‬
‫ثَ َمنِھا(صحیح الجامع‪)5091 :‬‬
‫ترجمہ‪ :‬ہللا تعالی نے شراب پہ‪ ،‬اس کے پینے والے‪،‬پالنے والے۔اسے نچوڑنے والے‪،‬جس کے لیے نچوڑی گئی‪،‬اس‬
‫کے بیچنے والے‪،‬خریدنے والے‪،‬اٹھانے والے‪،‬جس کی طرف اٹھائی گئی ہو‪،‬اوراس کی قیمت کھانے والے سب پرلعنت‬
‫فرمائی ہے۔‬
‫شراب پینے سے جہاں اسالمی نقطہ نظرسے بہت ساری خرابیاں ہوتی ہیں وہیں طبی نقطہ نظرسے بھی آدمی‬
‫متعددخرابیوں اوربیماریوں کاشکارہوتاہے مثالً۔محنت کرنے کی صالحیت ولیاقت ختم ہونے لگتی ہے۔مالی حالت خراب‬
‫ترہوجاتی ہے۔خون کی رفتارکافی تیزہوجاتی ہے۔دل کی دھڑکن بندہوجاتی ہے۔آدمی اپناہوش کھوبیٹھتاہے اوراسے کسی‬
‫چیزکاعلم نہیں رہ جاتا۔آدمی کے اندرگھبراہٹ پیداہوجاتی ہے۔خاندانی انتشاربڑھ جاتاہے۔دل سے متعلق امراض‬
‫نمودارہوجاتے ہیں اوراسی شراب کے استعمال سے کینسربھی ہوجاتاہے۔‬
‫زناکاری کا دهندا کرنا‪:‬‬
‫زناکاری ایک بدترین کام ہے‪،‬اسالم نے اس فعل کوناجائزاورحرام بتالیا‪،‬جوبھی اس کا ارتکاب کرے گااس پراسالمی‬
‫قانون کی روسے حدجاری کی جائیگی۔‬
‫اگروہ شادی شدہ ہے توسنگسارکیاجائے گااورغیرشادی شدہ ہے تواسے سوکوڑاماجائیگا اورایک سال کے لئے‬
‫شہربدرکیاجائے گایہ قرآن کاحکم ہے۔‬
‫الزانیۃوالزانی فاجلدواکل واحدمنھماماءۃجلدۃ(النور‪)2:‬‬
‫ترجمہ‪:‬زناکارعورت اورمردمیں سے ہر ایک کوسوکوڑے لگاؤ۔‬
‫دوسری جگہ زناکاری پرضرب کاری لگاتے ہوئے قرآن گویاہے۔‬
‫والتقربوالزنی فانہ کان فاحشۃوساء سبیال(االسراء ‪)32:‬‬
‫ترجمہ‪ :‬خبردارزناکے قریب بھی نہ بھٹکناکیونکہ وہ بڑی بے حیائی ہے اوربہت ہی بری راہ ہے۔‬
‫اوررسول ہللا ﷺنے اس کی مذمت کرتے ہوئے فرمایا‪:‬‬
‫ط َع َر َج َع إلیه اإلیمانُ (صحیح أبي داود‪)4690:‬‬‫ظلہ ِة ‪ ،‬فإذا انقَ َ‬
‫ج منه اإلیمان ُ‪ ،‬كان علیه كال ُّ‬ ‫إذا زنى الرج ُل َخ َر َ‬
‫ترجمہ ‪ :‬جب آدمی زناکاارتکاب کرتاہے تواس کے دل سے ایمان خارج ہوجاتاہے گویااس کے اوپرسایہ کی طرح‬
‫رہتاہے اورجب اس سے بازآجاتاہے توایمان اسکی طرف لوٹ جاتاہے۔آج زنا کے الئسنس والے اڈے چلتے ہیں ‪ ،‬اس‬
‫سے خطیر رقم حاصل کی جاتی ہے ۔ میں مسلمانوں کو اس سنگین و بھیانک جرم کو بطور پیشہ اختیار کرنے سے‬
‫دور رہنے کی صالح دیتا ہو۔ زنا کاری سے جیسے دنیا اور آخرت تباہ ہوتی ہے ویسے ہی اس کی کمائی سے دونوں‬
‫جہاں برباد ہوجائے گا۔‬
‫یتیم کا مال ہڑپنا‪:‬‬
‫رسول ہللا ﷺنے یتیم کی اچھی پرورش وپرداخت کرنے کی تلقین کی اوراس کی اچھی طرح خبرگیری کرنے والے‬
‫کوجنت کی بشارت سنائی‪،‬ساتھ ہی ان لوگوں کے لئے وعیدبھی سنائی جویتیم کے مال پرناجائزقبضہ جمانے کی‬
‫تعالی نے اس سے منع کیاہے‬‫ٰ‬ ‫کوشش کرتے ہیں‪،‬ان کامال ہڑپ کرانہیں گھرسے بے گھر کردیتے ہیں حاالنکہ ہللا‬
‫‪:‬والتقربوامال الیتیم االبالتی هی احسن حتی یبلغ اشدہ(االنعام‪)152:‬‬
‫ترجمہ ‪ :‬اور یتیم کے مال کے پاس نہ جاؤمگر ایسے طریقے سے جو کہ مستحسن ہے یہاں تک کہ وہ اپنے سن رشد‬
‫کو پہنچ جائے۔‬
‫َ‬
‫ج بینھما شیئ ًا ‪(.‬صحیح‬
‫وفر َ‬
‫والوسطى ‪ ،‬ہ‬
‫سبہاب ِة ُ‬
‫وأشار بال ہ‬
‫َ‬ ‫َ‬ ‫ہ‬
‫الیتیم في الجن ِة هكَذا ‪.‬‬
‫ِ‬ ‫اوررسول ہللا ﷺنے فرمایا‪:‬أنا َوكاف ُل‬
‫البخاري‪)5304:‬‬
‫ترجمہ‪ :‬کہ میں اوریتیم کی پرورش وپرداخت کرنے واالجنت میں ایسے رہوں گاجیسے میرے ہاتھ کی شہادت کی‬
‫انگلی اوردرمیانی انگلی۔‬
‫سوال نمبر‪3‬۔ معاہدہ اجرت کے صحیح ہونے کی قانونی شرائط کیا ہیں؟ تفصیل سے بیان کریں۔‬
‫انسانی دنیا میں واحد رسول اکرم ﷺ کی ذات اقدس ہے جو ہر پہلو سے کامل و اکمل ہے۔اور جو دین آپ ﷺ پر نازل‬
‫نظام زندگی آسمان اور زمین کے‬ ‫ِ‬ ‫کیا گیا وہ بھی کامل واکمل ہے۔ پوری انسانیت کی فالح و بہبود کے لیے جو بہترین‬
‫درمیان ہمیشہ کے لیے جو ہوسکتا تھا وہ آپ ﷺ اور قرآن کے ذریعے ہللا نے عطا کیا ہے۔ آپ ﷺ نے پوری زندگی‬
‫انسانیت کو پستی سے نکال کر بلندیوں تک پہنچانے کا جو بہترین فریضہ انجام دیا اس کی کوئی نظیر ملنی مشکل ہے۔‬
‫آپ ﷺ کی مثالی طرز زندگی اور کمال طرز حکمرانی نے خطہ یثرب کو دنیا کی سب سے بہترین فالحی ریاست میں‬
‫بدل کر رکھ دیا۔امت مسلمہ پر الزم ہے کہ اس اولین اسالمی فالحی ریاست کے تمام پہلوں کو ہمہ وقت سامنے‬
‫رکھےتاکہ ان مشکل ترین حاالت میں ہم اْسو ٴہ حسنہ کی روشنی میں اپنے مسائل حل کر سکیں۔‬
‫آج ہم اگر قومی و بین االقوامی سطح پر معاشی زندگی کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں استحصالی نظام نظر آتا ہے‪ ،‬خود‬
‫طرز عمل وہ بنیادی ناسور ہے جو عظیم اسالمی اقدر کی تخلیق ‪،‬ارتقاء اور استحکام کے‬ ‫ِ‬ ‫غرضانہ اور مفاد پرستانہ‬
‫طرز عمل اور زندگی میں حرص‪ ،‬اللچ‪ ،‬بخل و کینہ‪،‬بغض و عداوت‪ ،‬خود غرضی اور‬ ‫ِ‬ ‫لیے رکاوٹ ہے۔ جب انسانی‬
‫مفاد پرستی او ر ان جیسے پہلووں غالب ہو جائیں توفالح الناس کی خاطر سول سوسائٹی اور معاشرے سے انفاق فی‬
‫سبیل ہللا‪ ،‬نفع بخشی اور دوسری عظیم اقدار مفقود ہوجاتی ہیں۔الزمی طور پر اس کے نتیجے میں ارتکاز دولت کا‬
‫رجحان بڑھ جاتا ہے‪ ،‬عام آدمی معاشی کسمپرسی کا شکار ہوجاتا ہے۔نتیجے کے طورپوری معاشرت میں زندگی عدم‬
‫ت طیبہ کی‬ ‫توازن کا شکار ہوجاتی ہے اور ایسے میں خونی انقالب بھی برپا ہوتے ہیں۔ہم نے رسول اکرمﷺ کی سیر ِ‬
‫روشنی میں صرف معاشی انقالب اور پہلوؤں پرگفتگو کرنی ہے جو ایک اسالمی فالحی ریاست کے قیام میں مددگار‬
‫ثابت ہو سکتے ہیں۔اور الزمی بھی ہیں۔اسالم کا اقتصادی و معاشی نظام ہمہ گیر ہے۔ اس میں بہت ساری تفصیالت‬
‫ہیں۔ آپ ﷺ کی زندگی معیشت کے تمام پہلووں کا احاطہ کرتی ہے۔ ان میں درجہ ذیل امور و پہلووں بہت اہم ہیں۔‬
‫معشیت اسالمی کا تصوراتی پہلو‪ ،‬معیشت و معاشرت کا باہمی تعلق‪ ،‬فالحی معیشت کا قیام‪ ،‬اخالق حسنہ اور معیشت کا‬
‫باہمی تعلق اور معیشت و ریاست کا تعلق‪ ،‬پھر ملکیت و عدم ملکیت‪ ،‬جائز نفع خوری‪ ،‬ارتکاز دولت‪ ،‬مفادعامہ اور ان‬
‫جیسے کئی پہلووں ہیں جن کا سیرت رسول کی روشنی میں تفصیلی مطالعہ و تذکرہ کیا جاسکتا ہے ۔تاہم تنگی داماں‬
‫کی وجہ سے ان تمام پہلووں پر مدلل اجمالی روشنی ڈالی جائی گے ۔‬
‫کوئی بھی نظام زندگی کا وجود اس وقت تک نہیں آسکتا جب تک اس کے پس منظر میں کوئی واضح‬
‫نظریہ‪،‬تصوراورضابطہ موجود نہ ہو۔ اسالم کا معاشی نظام بھی ان بنیادی نظریات و تصورات اور تعلیمات پر مبنی‬
‫ہے جو قرآن و سنت سے میسر آتے ہیں۔نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم‬
‫نےاسالمی معاشی نظام کے بنیادی تصورات اور تعلیمات عطا فرمائیں جو ہر دور کے لیے رہنماء اصول کا درجہ‬
‫رکھتی ہیں۔اور ان کو آسانی سے نافذ العمل کیا جاسکتا ہے۔ مثال کے طور پر‬
‫(‪ )1‬معاشی سرگرمیوں کی اَہمیت کا اِدراک‬
‫نبی اکرم ﷺ کی حیات طیبہ میں معاشی سرگرمیوں کی اہمیت واضح نظر آتی ہے۔آپ ﷺ نے احسن طریقے سے نفع‬
‫مند مال کمانے کی تعریف فرمائی ہے۔‬
‫بخاری شریف میں روایت ہے۔حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا ‪:‬‬
‫”وہ مال کتنا ہی اچھا ہے جو کسی نیک و پارسا انسان کے پاس ہو۔” (بخاری ‪ ،‬األدب المفرد ‪ ،112 :‬رقم ‪)299 :‬‬
‫تعالی ہے‪:‬‬
‫ٰ‬ ‫اسی طرح قرآن کریم میں ارشاد باری‬
‫ً‬ ‫َ‬ ‫سفَھَا َء أَ ْم َوالَ ُك ُم الہتِي َجعَ َل ه‬
‫َّللاُ ل ُك ْم قِیَاما‪(.‬النساء‪)5 : 4 ،‬‬ ‫َوالَ ت ُ ْؤتُواْ ال ُّ‬
‫”اور احمقوں کو تم اپنا (یا ان کے) مال سپرد نہ کرو جنہیں ہللا نے تمہاری معیشت کی استواری کا سبب بنایا ہے۔”‬
‫اس حدیث مبارکہ اور آیت کریمہ سے واضح اشارہ ملتا ہے کہ انسانی حیات کی استواری میں مال و دولت بنیادی‬
‫معاون و مددگار ہوتے ہیں۔‬
‫(‪ )2‬مسئلہ معاش اور نیکی و بدی‬
‫آپ ﷺ نے مسئلہ معاش کو براہ راست انسانی زندگی میں نیکی اور بدی کا ایک فیصلہ کن عامل قرار دیا ہے۔امام‬
‫بیہقی نے یہ حدیث نقل کی ہے۔حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ‪:‬‬
‫”ممکن ہے غربت و افالس (کا رد عمل) کفر کی حد تک پہنچ جائے۔” ( بیہقی‪ ،‬شعب اإلیمان‪ ،‬مكتبة الرشد للنشر‬
‫والتوزیع بالریاض ‪ ، 12 : 9 ،‬رقم ‪)6188 :‬‬
‫اسی طرح آپ صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے زندگی کے اعتدال کو بھی معتدل معاشی سرگرمیوں سے مشروط قرار دیا‬
‫۔ارشاد نبوی ﷺ ہے۔‬
‫“خرچ میں اعتدال آدھی معیشت ہے۔” (‪ .‬بیہقی‪ ،‬شعب اإلیمان‪ ،‬مكتبة الرشد للنشر والتوزیع بالریاض‪ 2003 ،‬م ‪:8 ،‬‬
‫‪ ،503‬رقم ‪)6148 :‬‬
‫ب معاش کی پابندی کا تصور‬‫(‪ )3‬کس ِ‬
‫آپ ﷺ کے دیے ہوئے تصور معیشت میں ہر شخص کو اپنی استطاعت اور طاقت کے مطابق فکر معاش اور کسب‬
‫معاش کرنا الزم ہے۔غفلت اور سستی کی اجازت قطعا نہیں ہے۔حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے رزق‬
‫الکبری میں ہے۔‬
‫ٰ‬ ‫حالل کے حصول کو فرض قرار دیا ہے۔سنن‬
‫”رزق حالل کی تالش فرض عبادت کے بعد (سب سے بڑا) فریضہ ہے۔” ( بیہقی‪ ،‬السنن الکبری‪ ، 211 : 6 ،‬رقم ‪:‬‬
‫‪)11695‬‬
‫اسی طرح سنن ابن ماجہ میں ہے۔‬
‫”بے شک سب سے پاکیزہ (رزق ) جو تم کھاتے ہو وہ تمہارے ہاتھوں کی کمائی ہے”۔ (ابن ماجہ‪ ،‬السنن‪ ،‬کتاب‬
‫التجارات‪ ،‬باب ما للرجل من مال‪ ،768 : 2 ،‬رقم ‪)2290 :‬‬
‫ایک اور حدیث امام ابن حنبل نے نقل کی ہے۔‬
‫”حضور نبی اکرم صلی ہللا علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ تم اپنی روزی کو زمین کے پوشیدہ خزانوں میں تالش‬
‫کرو۔”( أحمد بن حنبل‪ ،‬فضائل الصحابہ‪ ،313 : 1 ،‬رقم ‪)431 :‬‬
‫آپ ﷺ کے ارشاد پر غور کیا جائے کہ زمین کے پوشیدہ خزانوں میں رزق تالش کیا جائے ۔ تو غور کیا جائے کہ ہللا‬
‫نے مملکت پاکستان میں کتنے پوشیدہ خزانے چھپارکھے ہیں۔ ان تمام خزانوں سے ہمارا رزوق وابستہ ہے۔‬

‫سوال نمبر‪4‬۔ مسئلہ ملکیت زمین میں اسالم کا نقطہ نظر کیا ہے نیز زمین کی اقسام اور ان کے احکام پر روشنی‬
‫ڈالیں؟‬
‫اسالم دولت کی شخصی اور انفرادی ملکیت کے حق کو تسلیم کرتا ہے۔اسالم میں اس صریح اور واضح حق کے تسلیم‬
‫کئے جانے میں کوئی شبہ نہیں بلکہ انسانی زندگی کے بنیادی حقوق اور اصول کے ساتھ معاشی نظام کی بنیاد ہے۔ اس‬
‫طرح ضرورت کی جائیداد اور زمین سے بڑھ کر مال میں تجارت‪،‬اجارہ‪ ،‬رہن‪،‬ہبہ وصیت اور وراثت کے ذرائع تصرف‬
‫زرمبادلہ کے ساتھ تجارتی وسعت اور کائنات ارض میں شخصی انفرادی ملکیت کے اصول کو‬ ‫اور اس طرح بین االقوامی ِ‬
‫تس لیم کرتے ہوئے بین االقوامی انسانی حقوق کی ضمانت میں اپنا کردارادا کرتا ہے بلکہ مال کی حفاظت میں مارے جانے‬
‫پر اُس کو شہادت کا مرتبہ دیتا ہے۔ اُس کے مال کی چوری کرنے والے مرد اور عورت کو حدو ِد اسالمی میں ہاتھ کاٹنے‬
‫کی سزا دیتا ہے اسالم کے نظام حیات میں غصب کردہ مال ملعون ہے اور اس مال کو واپس مالک تک پہنچانے کی ذمہ‬
‫داری ریاست کے فرائض میں قرار دیتا ہے۔ جان مال عزت آبروکی حفاظت اور امن کے ساتھ معاشرہ میں رہنے کا حق‬
‫اور ضمانت اسالم ہی میں ہے۔ انفرادی ملکیت کا حق اور اُس کے تحفظ و حفاظت کیلئے قانون سازی کے ذرائع عدالتی‬
‫انصاب بھی فراہم کرتا ہے۔اسالم ہر فرد کو حرص اور اللچ و طمع سے منع کرتا ہے۔یہ اخالقی حکم ہے تاہم شرعی‬
‫طورپر حالل ذرائع سے تجارت یا محنت مزدوری سے مال کو جمع کرنا اور جائیداد یا بیلنس کو قائم کرناجائز قرار دیتا‬
‫ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ اسالم کے اس اجتماعی معاشی نظام سے ملک میں خوشحالی کا باب بھی کھلتا ہے۔‬
‫غریبوں مسکینوں اور بیواﺅں کو وظائف دئیے جاتے ہیں اور معاشرہ کے محروم لوگوں کیلئے امیر کے مال میں حق دینا‬
‫قانون اسالمی کی روشنی میں امیر‬
‫ِ‬ ‫زکوۃ و صدقات اور خیرات کے ذرائع اُن تک پہنچانے کا احساس اسالم دیتا ہے بلکہ‬
‫کے مال میں غریب و مستحقین تک زکوۃ پہنچانا قانونا ً شرعا ً اور اخالقا ً حکم میں آتا ہے۔ کسی تاجر یا محنت کش کا مال‬
‫کو جمع کرنا اور حالل ذرائع سے اُس کو محفوظ کرتے ہوئے جائیداد یا صنعت کی شکل میں قائم کرنا کوئی معیوب عمل‬
‫گردش دولت کا نظام قائم ہوتا ہے۔ سودی بنکوں میں پیسے رکھ کر کمانا حرام‬ ‫ِ‬ ‫نہیں ہے بلکہ اس عمل سے معاشرے میں‬
‫ہے جبکہ مال کو تجارت میں لگا کر یا صنعتوں کو قائم کرکے یا زرعی اراضی خرید کر پیداواری اجناس کیلئے مزارعین‬
‫اور مزدوروں کو روزگار دینا عبادت قرار دیاگیا ہے۔ان خزانوں سے زکوۃ کی رقم اور دیگر ٹیکسوں کے ذرائع مالیاتی‬
‫نظام میں حکومت و عوام کیلئے نظام کار چالنے میں معاونت ملتی ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام میں ذاتی ملکیت کے حق کو‬
‫نظام معیشت میں‬
‫ِ‬ ‫حدود و قیود عائد کئے بغیر سرمایہ دار کو سانپ بنادیا گیا ہے جو خزانے پر بیٹھا ہے جبکہ اسالمی‬
‫سرمایہ دار کو ذاتی ملکیت کے حق کو تسلیم کرتے ہوئے حدود و قیود عائد کئے ہیں جس میں شرعی احکامات سے اُس‬
‫کے مال میں سے زکوۃ عشر‪،‬صدقہ الفطر‪ ،‬قربانی اور اتفاق فی سبیل ہللا کیلئے صدقات و خیرات کا حکم دیا گیا ہے اور‬
‫اسالمی ریاست میں مختلف ٹیکسوں کے نفاذ سے معاشرہ کو متوازن بنایا گیا ہے جس سے بیت المال کا قیام عمل میں ال‬
‫کر محروم و مستحقین تک اُن کا حق پہنچانا ریاست کی ذمہ داری ہے۔اس طرح اسالم سرمایہ دار کی ملکیت کے حق کو‬
‫تسلیم کرتے ہوئے اُس کو اصل حقیقت سے آشنا کراتا ہے کہ یہ مال اور اُس کی جان اپنی نہیں بلکہ اس کا اصل مالک و‬
‫اعلی بلکہ اقتدار وحدہ ال شریک ذات‬‫ٰ‬ ‫تعالی کی ذات ہے جس کا اقتدار ازلی اور ابدی ہے وہی مقتدر‬
‫ٰ‬ ‫خالق رب العالمین ہللا‬
‫ُ‬
‫ہے۔ ہللا وحدہ ال شریک ذات باری عزوجل نے انسان کو اپنا نائب بنا کر عبوری دور کیلئے دنیا میں ان کو انفرادی ملکیت‬
‫کا حق دیکر خود مختار بنایا ہے۔ تاہم ہللا کی ذات کے عالوہ کوئی بھی شخص اپنی جان اور مال و ملک و عزت کا حقیقی‬
‫مالک نہیں بلکہ اُسے تمام حق ملکیت دی گئی ہے جس میں اس پر اُس مال کی زکوۃ اور اپنی جان پر عبادات کا حکم دیکر‬
‫تعالی کے ہاں موت‬‫ٰ‬ ‫زندگی کی عمارت کو قائم کیا ہے۔ وہ زندگی جب تک ہے وہ مال اس کا ہے جب وہ اپنی جان واپس ہللا‬
‫کے ذریعے پہنچا دیتا ہے تو پھر اُس کا مال اُس کی مرضی پر نہیں بلکہ رب ذوالجالل کے حکم سے ورثا میں تقسیم‬
‫کردیاجاتا ہے۔اس تقسیم کا حکم اُس نے کیا ہے جو اُس کے مال کا حقیقی مالک ہے۔‬
‫ہمارے عالقے کی زمینیں بعض نہری ہیں اور بعض پر ٹیوب ویل یا رہٹ لگایا گیا ہے۔ اب پوچھنا یہ ہے کہ بسا‬
‫اوقات ایسا ہوتا ہے کہ فصل زیادہ عرصہ بارش سے سیراب ہوتی ہے اور ٹیوب ویل وغیرہ سے سیراب کرنے کی‬
‫ضرورت کم پیش آتی ہے‪ ،‬اور بعض دفعہ ٹیوب ویل وغیرہ کا پانی زیادہ لگایا جاتا ہے اور بارش یا تو کم ہوتی ہے یا‬
‫بالکل نہیں ہوتی تو ان مختلف صورتوں میں عشر کس حساب سے نکاال جاۓ گا؟ ہرصورت میں نصف عشر ہی دیا‬
‫جاۓ گا یا اس میں کوئی تفصیل ہے ؟‬

‫نیز جو زمینیں نہر سے سیراب ہوتی ہیں اور حکومت اس کا مالیہ لیتی ہے ان میں عشر واجب ہے یا نہیں؟‬

‫نصف عشر سے متعلق ذیل میں کچھ ضابطے لکھے جاتے ہیں جن سے آپ کے تمام سواالت کے‬
‫ِ‬ ‫ب عشر اور‬
‫وجو ِ‬
‫‪:‬جوابات واضح ہو جائیں گے‬

‫اگر کوئی زمین بارانی ہے‪ ،‬یعنی وہ بارش سے سیراب کی جاتی ہے تو اس زمین پر عشر (پیداوار کا دسواں حصہ)‬
‫واجب ہوگا۔‬

‫اگر کوئی زمین دریا یا نہر سے سیراب کی جاتی ہے تو اس میں عشر (پیداوار کا دسواں حصہ) واجب ہوگا۔‬

‫نصف عشر (پیداوار کا بیسواں حصہ) واجب ہو‬


‫ِ‬ ‫کنویں یا تاالب یا ٹیوب ویل سے سیراب کی جاتی ہے تو اس زمین میں‬
‫گا۔‬

‫اگر کوئی زمین بارانی بھی ہے اور کنویں یا نہر یا تاالب وغیرہ سے بھی سیراب کی جاتی ہے تو سیراب کرنے‬
‫نصف عشر کے واجب ہونے میں اسی کا اعتبار ہو گا‪ ،‬یعنی اگر بارش سے‬
‫ِ‬ ‫میں جس کا تناسب زیادہ ہو گا عشر یا‬
‫نصف عشر واجب‬
‫ِ‬ ‫زیادہ عرصہ سیراب ہوئی تو عشر واجب ہو گا اور اگر ٹیوب ویل وغیرہ سے زیادہ سیراب ہوئی تو‬
‫ہو گا۔‬

‫نصف عشر واجب ہو گا۔‬


‫ِ‬ ‫جس زمین کی آب پاشی بارش اور کنویں یا نہر ‪ ،‬دونوں طریقوں سے برابر ہو تو اس میں‬

‫جس زمین کی آب پاشی پر کچھ محنت لگتی ہو یا کچھ خرچ کرنا پڑتا ہے‪ ،‬جیسے چاہی زمینوں میں یا نہری زمینوں‬
‫میں جن کے پانی کی قیمت حکومت کو ادا کرنی پڑتی ہے تو ان میں بھی پیداوار کا بیسواں حصہ ادا کرنا واجب ہوگا۔‬

‫سوال نمبر‪5‬۔ تعین اجرت کے متعلق قرآن مجید اور احادیث کی تعلیمات بیان کیجئے؟‬
‫ب ہدایت ہے‪ ،‬جس کے فضائل اور اہمیت بیان کرنے کے لیے دفتر کے دفتر درکار ہیں۔ اس موقع پر‬ ‫قرآن مجید کتا ِ‬
‫ہمیں اس عظیم الشان کتاب کے فضائل بیان کرنا مقصود نہیں بلکہ اس کی جو ناقدری ایک خاص الئن سے عام ہوتی‬
‫وتعالی کاارشاد ہے‪:‬وال تشتروا ٰبایتی ثمنا ً قلیالً۔(مفہوم) اور‬‫ٰ‬ ‫جا رہی ہے اس پر توجہ مبذول کرانا مقصود ہے۔ہللا سبحانہ‬
‫نہ لو میری آیتوں پر مول تھوڑا۔(البقرہ‪ )41:‬اس سے بعض کج فہموں نے یہ نتیجہ نکال لیا کہ مذکورہ آیت میں تھوڑی‬
‫قیمت لینے کو منع کیا گیا ہے لیکن اگر زیادہ یا منہ مانگی قیمت ملے تو حق یعنی قرآن مجید کا سودا کیا جا سکتا ہے۔‬
‫خیال رہے اس آیت سے مراد یہ ہے کہ حق کے مقابلے میں دنیا کے تمام خزانے‪،‬نہایت قلیل اور بہت تھوڑے ہیں‪ ،‬ان‬
‫کی کوئی حیثیت ہی نہیں‪ ،‬اس لیے ہمیں حق پر ترجیح نہیں دینی چاہیے۔ اس مسئلے سے متعلق متعدد احادیث بھی وارد‬
‫ت از خروارے‪:‬‬ ‫ہوئی ہیں۔ مش ِ‬
‫حضرت عمران بن حصین رضی ہللا عنہ سے روایت ہے‪ ،‬میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کو ارشاد فرتے‬
‫تعالی سے ہی سوال کرنا چاہیے‪ ،‬عنقریب ایسے‬ ‫ٰ‬ ‫ہوئے سنا‪’’:‬جو شخص قرآن مجید پڑھے‪ ،‬اسے قرآن کے ذریعے ہللا‬
‫لوگ آئیں گے جو قرآن پڑھیں گے اور س کے ذریعے لوگوں سے سوال کریں گے‘‘۔(ترمذی‪’)2917:‬مسند احمد‘ میں‬
‫ایک روایت ہے‪ ،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا‪ ’’:‬قرآن پڑھو اور اس میں غلو نہ کرو اور اس سے‬
‫اعراض نہ کرو‪ ،‬اسے کھانے کمانے کاذریعہ نہ بناؤ اور نہ ہی اس سے بہت سے دنیوی فوائد حاصل کرو‘‘۔(مسند‬
‫بریدہ سے روایت ہے‪ ،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے ارشاد‬ ‫ؓ‬ ‫)’مشکوۃ‘ میں حضرت‬
‫ٰ‬ ‫احمدابن حنبل‪444/5 :‬‬
‫فرمایا‪’’:‬جو شخص قرآن مجید اس لیے پڑھے کہ اس کے ذریعے لوگوں سے کھائے‪ ،‬وہ قیامت کے دن اس حالت میں‬
‫مشکوۃ المصابیح‪)2217 :‬‬ ‫ٰ‬ ‫آئے گا کہ اس کے چہرے پر صرف ہڈی ہوگی‪ ،‬گوشت نہیں ہوگا‘‘۔(‬
‫مشکوۃ عالمہ‬ ‫ٰ‬ ‫شارح‬
‫ِ‬ ‫یہ چند احادیث کا ذکر ہوا‪ ،‬اب ان کی تشریح کرنے والے علماے کرام میں سے ایک مشہور عالم‬
‫دہلوی کا کالم مالحظہ ہو‪ ،‬فرماتے ہیں‪’’:‬ان احادیث میں ان لوگوں کے لیے سخت تنبیہ اور وعید ہے جو‬ ‫ؒ‬ ‫نواب قطب‬
‫قرآن کریم کو بھیک مانگنے کا ذریعہ بناتے ہیں۔ یوں تو یہ بات بطور خود انسانی شرف کے خالف ہے کہ کوئی‬
‫ت سوال دراز کرے اور اسے حاجت روا‬ ‫شخص اپنے خدا کو چھوڑ کر اپنے ہی جیسے ایک انسان کے سامنے دس ِ‬
‫قرآن کریم‬
‫ِ‬ ‫قرآن کریم کو ذریعہ بنایا جائے۔ اس لیے فرمایا جا رہا ہے کہ‬ ‫ِ‬ ‫قرار دے‪ ،‬چہ جاے کہ اس قبیح فعل کے لیے‬
‫ت سوال دراز کرو‪ ،‬اپنے اخروی اور دنیوی امور میں جو چاہے اس‬ ‫تعالی کے آگے دس ِ‬
‫ٰ‬ ‫پڑھ کر صرف ہللا سبحانہ و‬
‫سے مانگو‪ ،‬لوگوں کے آگے ہاتھ نہ پھیالؤ‪ ،‬کیوں کہ وہ خود اسی ذات کے محتاج ہیں‪ ،‬وہ تمھاری کیا حاجت پوری‬
‫کریں گے۔(مظاہر حق جدید‪)72/3:‬‬
‫ممکن ہے مذکورہ باال تفصیل سے معلمین و مدرسین کی تنخواہ پر بھی کسی کو شبہ ہونے لگے‪ ،‬تو اس کے ازالے‬
‫معلمین قرآن کے لیے وظائف اور تنخواہیں‬ ‫ِ‬ ‫دور خالفت میں‬ ‫کے لیے عرض ہے کہ خلفاے راشدین نے اپنے اپنے ِ‬
‫مقرر فرما کر اس مسئلے کو بے غبار کر دیا ہے۔(دیکھیے کتاب الخراج البی یوسف‪ )۷۸۱ :‬اور خلفاے راشدین کا یہ‬
‫فعل ہمارے لیے حجت ہے‪ ،‬اس لیے کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کا ارشا ِد گرامی ہے‪:‬تم میری سنت کو الزم پکڑو‬
‫اور میرے بعد ہدایت یافتہ خلفاے راشدین کی سنت کو الزم پکڑو‪ ،‬اسے ڈاڑھوں سے مضبوط پکڑے رہو اور دین میں‬
‫نئی باتیں ایجاد کرنے سے بچو کیوں کہ دین میں پیدا کی گئی ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی‬
‫ہے۔(ابوداؤد‪)4607:‬اسی لیے ائمہ ثالثہ امام احمد بن حنبل ‪،‬امام مالک‪ ،‬امام شافعی رحمہم ہللا اور متاخرین فقہاے‬
‫احناف کے نزدیک یہ اجرت بالشبہ جائز ہے۔ (شرح مسلم للنووی‪)224/2:‬‬
‫ہے‪’’:‬تعلیم قرآن وغیرہ پر اجرت لینے کو جن متاخرین نے جائز قرار دیا‬ ‫ِ‬ ‫اردو کی مشہور تفسیر ’معارف القرآن‘ میں‬
‫ہے اس کی علت ایک ایسی دینی ضرورت ہے جس میں خلل آنے سے پورے دین کا نظام مختل ہو جاتا ہے‪ ،‬اس لیے‬
‫ختم‬
‫اس کو ایسی ہی ضرورت کے مواقع میں محدود رکھنا ضروری ہے۔ اس لیے ُمردوں کو ایصا ِل ثواب کے لیے ِ‬
‫قرآن کرانا یا کوئی دوسرا وظیفہ پڑھوانا اجرت کے ساتھ‪ ،‬حرام ہے کیوں کہ اس پر کسی دینی ضرورت کا مدار نہیں‬
‫اور اجرت لے کے پڑھنا حرام ہوا تو اس طرح پڑھنے اور پڑھانے والے دونوں گنہگار ہوئے‪ ،‬اور جب پڑھنے والے‬
‫کو کوئی ثواب نہ مال تو میت کو کیا پہنچے گا؟ایصا ِل ثواب کے لیے قبر پر قرآن پڑھوانا‪ ،‬اجرت دے کر ختم کرانا‬
‫اسالف امت سے کہیں منقول نہیں‪ ،‬اس لیے بدعت ہے۔(معارف القرآن‪)208/1 :‬‬ ‫ِ‬ ‫ؒ‬
‫تابعین اور‬ ‫صحابہ و‬
‫ؓ‬
‫عدم جواز پر اتفاق ہے۔ دارالعلوم دیوبند نے‬ ‫ختم قرآن پر بھی برصغیر کے جمہور علماء کا ِ‬ ‫اسی طرح تراویح میں ِ‬
‫فتوی ’معاوضہ علی التراویح کی شرعی حیثیت‘ کے نام سے اپنی ویب سائٹ پر‬ ‫ٰ‬ ‫اہتمام سے اس مسئلے پر مستقل‬
‫آویزاں کر رکھا ہے‪ ،‬جسے‪ www.afif.in‬پر بھی دیکھا جا سکتا ہے۔نیز اس مسئلے میں علماے دیوبند اکیلے نہیں‬
‫ب فکر‬ ‫ب فکر کا مسئلہ نہیں رہ جاتا۔ بریلوی مکت ِ‬ ‫بلکہ بریلوی علماء بھی اس پر متفق ہیں‪،‬اس طرح یہ کسی خاص مکت ِ‬
‫حافظ قرآن کو‬ ‫ِ‬ ‫کے مشہور عالم موالنا مفتی امجد علی قادری صاحب لکھتے ہیں کہ آج کل اکثر رواج ہو گیا ہے کہ‬
‫اجرت دے کر تراویح پرھواتے ہیں‪ ،‬یہ ناجائز ہے‪،‬دینے واال اور لینے وال دونوں گنہگار ہیں۔اجرت صرف یہی نہیں‬
‫کہ پیش ترمقرر کر لیں کہ یہ لیں گے یہ دیں گے بلکہ اگر معلوم ہے کہ یہاں کچھ ملتا ہے اگر چہ اس سے طے نہ ہو‬
‫ا‪ ،‬یہ بھی نا جائز ہے کیوں کہ المعروف کا المشروط [معروف مشروط کے حکم میں ہے]۔ ہاں اگر کہہ دیں کہ کچھ‬
‫بہار شریعت‪:‬‬
‫نہیں دوں گا یا نہیں لوں گا پھر پڑھے اور حافظ صاحب کی خدمت کریں تو اس میں حرج نہیں ہے۔( ِ‬
‫‪) 35/4‬نیز اہ ِل حدیث علماء کا بھی یہی موقف ہے‪ ،‬جیسا کہ مزید شدت کے ساتھ موالنا عبد ہللا امرتسری صاحب رقم‬
‫طراز ہیں کہ ’’اجرت پر قرآن مجیدتراویح میں سننا یا اجرت پر قرآن مجید سنانا ‪،‬بالکل جائز نہیں بلکہ ایسے شخص‬
‫ہوتی۔‘‘(فتاوی اہ ِل حدیث‪ -)643/1:‬اس قدر واضح تصریحات کے باوجود بعض لوگ یہ‬ ‫ٰ‬ ‫کے پیچھے تراویح ہی نہیں‬
‫حیلہ کیا کرتے ہیں کہ تراویح میں قرآن سنانے والے کو کسی فرض نماز کا امام بنا دیا جائے تو اس کی اجرت دینا‬
‫درست ہو جاتا ہے‪ ،‬جب کہ موالنا اشرف علی تھانوی صاحب نے اس طرح کے ایک سوال کے جواب میں دو ٹوک‬
‫ختم‬
‫فتوی اس وقت ہے جب امامت ہی مقصود ہو‪ ،‬حاالں کہ یہاں مقصود ِ‬ ‫ٰ‬ ‫الفاظ میں ارشاد فرمایا ہے کہ ’’یہ جواز کا‬
‫ختم قرآن]ہے اور یہ محض حیلہ دیانات میں ہے‪،‬جو کہ معاملہ بین العبد وبین ہللا ہے‪ ،‬حیل‬ ‫تراویح [یعنی تراویح میں ِ‬
‫نفس تراویح میں امامت پر اجرت کے‬ ‫الفتاوی‪)485/1:‬یعنی ِ‬
‫ٰ‬ ‫مفی ِد جواز واقعی کو نہیں ہوتے‪ ،‬لہٰ ذا یہ ناجائز ہوگا۔ (امداد‬
‫ختم قرآن پر بھی حلت آجاے گی‪ ،‬ایسا نہیں ہے بلکہ ختم قرآن پر اجرت بہ ہرحال حرام ہی رہے گی۔دوسرے مقام‬ ‫سبب ِ‬
‫پر موصوف رقم طراز ہیں کہ ’’بعض حفاظ کی عادت ہے کہ اجرت لے کر قرآن مجید سناتے ہیں‪ ،‬جب کہ طاعت پر‬
‫اجرت لینا حرام ہے‪،‬اسی طرح دینا بھی حرام ہے۔ بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم نے پہلے سے نہیں ٹھہرایا‪ ،‬لیکن نیت تو‬
‫دونوں کی یہی ہے اور نیت بھی خطرہ و خیال میں نہیں‪ ،‬بلکہ مرتبۂ عزم میں۔ اگر کسی طور سے معلوم ہو جائے کہ‬
‫یہاں کچھ وصول نہ ہوگا تو ہر گز ہرگز وہاں پڑھیں نہیں الخ۔‘‘(دیکھیے اصالح الرسوم‪ )148-145:‬جو لوگ یہ کہتے‬
‫ہیں کہ تراویح میں اگر پہلے سے اجرت متعین نہ کی جائے تو پھر دینے میں کوئی حرج نہیں‪ ،‬موالنا خلیل احمد‬
‫صاحب سہارنپوری وغیرہ نے بھی وضاحت کی ہے کہ ’’اجرت دے کر قرآن سننا شرعا ً جائز نہیں ‪،‬لینے واال دینے‬
‫تعین اجرت سنایا جائے اور ختم قرآن کے بعد بطور تبرع دیا جائے تو اصح قول‬ ‫ِ‬ ‫واال دونوں گنہگار ہیں اور اگر بغیر‬
‫مفتی اول مفتی عزیز‬
‫ِ‬ ‫فتاوی مطاہر علوم‪ )48/1:‬نیز دارالعلوم دیوبند کے‬
‫ٰ‬ ‫کی بنا پر یہ صورت بھی نا جائز ہے ‘‘۔ (‬
‫الرحمن صاحب عثمانی فر ماتے ہیں کہ’’ اجرت پر قرآن شریف پڑھنا درست نہیں ہے اور اس میں ثواب نہیں ہے اور‬
‫بہ حکم’ المعروف کا لمشروط‘ جن کی نیت لینے دینے کی ہے وہ بھی اجرت کے حکم میں ہے اور نا جائز ہے۔اس‬
‫قیام‬
‫حالت میں صرف تراویح پڑھنا‪ ،‬اور اجرت کا قرآن شریف نہ سننا بہتر ہے اور صرف تراویح ادا کر لینے سے ِ‬
‫(فتاوی دارا لعلوم‪ )246/4:‬اور دارالعلوم دیوبند ہی کے سابق مفتی ‪ ،‬مفتی‬ ‫ٰ‬ ‫رمضان کی فضیلت حاصل ہو جاے گی۔‬
‫محمود حسن گنگوہی صاحب لکھتے فرماتے ہیں ’’ تراویح میں قرآن سنانے پر اجرت لینا اور دینا جائز نہیں ‪،‬دینے‬
‫والے اور لینے والے دونوں گنہگار ہوں گے اور ثواب سے محروم رہیں گے‪ ،‬اگر بال اجرت سنانے واال نہ ملے تو‬
‫وی محمودیہ‪)171/7:‬پاکستان کے مشہور عالم‪،‬‬ ‫’الم تر کیف‘ [یعنی جو سورتیں یاد ہوں ان]سے تراویح پڑھیں۔( فتا ٰ‬
‫مفتی رشی د احمد لدھیانوی صاحب نے تو یہاں تک لکھا ہے کہ ’’خدمت کے نام سے نقد یا کپڑے وغیرہ دینا بھی‬
‫معاوضہ ہی ہے اور اجرت طے کر نے کی بہ نسبت زیادہ قبیح ہے‪ ،‬اس لیے کہ اس میں دو گنا ہ ہیں؛ایک قرآن‬
‫ت اجرت کا گناہ [کہ ایسا کرنے والے اسے اجرت ماننے کو بھی تیار نہیں‬ ‫سنانے پر اجرت کا گناہ اور دوسرا جہال ِ‬
‫دور حاضر کے مشہور عالم موالنا خالد سیف ہللا رحمانی کا یہ کہنا بالکل درست‬ ‫الفتاوی ‪ِ )514/3:‬‬
‫ٰ‬ ‫ہوتے]۔(احسن‬
‫معلوم ہوتا ہے کہ ’’ہمارے زمانے میں ایک عام رواج سا ہوگیا ہے کہ حفاظ صاحبان اپنے قرآن کی قیمت لگاتے‬
‫ختم تراویح پر دی جاتی‬ ‫طور اجرت ’نذرانہ‘ کے نام سے ِ‬ ‫ِ‬ ‫پھرتے ہیں ‪،‬باضابطہ ایک رقم طے کرتے ہیں جو ان کو بہ‬
‫ہے‪،‬بسا اوقات اس کے لیے طویل اسفار کرتے ہیں اور اپنے وطن ‪،‬شہر ‪،‬قریہ پر ایسی جگہ کو ترجیح دیتے ہیں جہاں‬
‫ختم قرآن ’شرعی ضرورت ‘نہیں ہے‪،‬یہ محض ایک‬ ‫طرز عمل ہے۔تراویح میں ِ‬ ‫ِ‬ ‫زیادہ پیسہ ملیں ‪،‬یہ انتہائی نامناسب‬
‫ایسی سنت ہے کہ تراویح کی ادائیگی کے لیے یہی کافی ہے کہ’الم ترکیف‘سے ’سورۃ الناس‘تک پڑھ کر نماز کی‬
‫تکمیل کر لی جائے۔(جیسا کہ)اگر لوگوں میں تعب وتھکن اور قرآن کی طرف سے بے توجہی ہو تو فقہاء نے اسی کو‬
‫بہتر قرار دیا ہے کہ تھوڑا ہی قرآن پڑھا جائے‪،‬تکمیل نہ کی جائے۔اب ظاہر ہے کہ ایک ایسی بات کے لیے قرآن‬
‫فروشی کی کیوں کر اجازت دی جا سکتی ہے‪،‬اس لیے راقم الحروف کی رائے یہی ہے کہ ایسا کرنا ہرگزدرست‬
‫نہیں۔یہ بات شریعت کی روح سے ہم آہنگ نہیں معلوم ہوتی کہ ایک سنت کے لیے‪ ،‬جس کا ترک کردینا بھی فقہاء کی‬
‫تصریحات کے مطابق‪،‬حاالت کے اعتبار سے قبیح نہیں‪،‬ایک نادرست عمل کوروا رکھا جائے اور اس کے لیے حیلے‬
‫کی راہ دریافت کی جائے‘‘۔‬

You might also like