You are on page 1of 11

‫الف مفتوح‪ ،‬الف مکسور اور الف مضموم‬

‫الف مقصورہ اردو‪ ،‬عربی‪ ،‬فارسی‪ ،‬پینجابی‪ ،‬سندھی‪ ،‬پشتو‪ ،‬اور بلوچی حروف" تہجی کا پہال حرف۔ ہندی‬
‫میں بطور حرف علت استعمال ہوتا ہے۔‬

‫مصر کے ہیرو غلیفی خط میں "ا" بیل کے سر سے تعبیر" کیا جاتا تھا۔ قدیم مصری" زبان میں بیل کو آدا‬
‫کہتے تھے۔اس لیے ہجائی رسم" تحریر کے وقت فنیقی زبان میں اس کا نام الف ہوا۔‬

‫عربی میں الف کی دو قسمیں ہیں۔ یعنی الف ممدودہ آ اور الف مقصورہ ا ۔‬

‫الف ممدودہ کو کھینچ کر پڑھتے ہیں اور اس کے اوپر مد ہوتا ہے جیسے آپ‪ ،‬آگ‪ ،‬آمد۔ جبکہ الف‬
‫مقصورہ کو الف ممدودہ کی مانند کھینچ کر نہیں پڑھتے جیسے اگر‪ ،‬اَٹل۔‬

‫عربی میں مقصورہ اس کو کہتے ہیں جس کے بعد ہمزہ نہ ہو۔ جیسے خطایا میں عربی میں ۔ ی کے‬
‫مصطفی وغیرہ میں۔ گویا عربی میں‬
‫ٰ‬ ‫اوپر نصف الف کی صورت میں لکھتے ہیں جیسے ٰ‬
‫عیسی ۔‬
‫مقصورہ الف ساکن کو کہتے ہیں جس کے بعد ہمزہ نہ ہو مگر کھینچ کر پڑھا جائے اور دو زبر کے‬
‫برابر ہو اس کے برعکس اردو‪ ،‬کھوار اور فارسی میں الف مقصورہ متحرک بھی ہوتا ہے۔ مثال اگر‬
‫اِس ۔ اُن وغیرہ میں اور ساکن بھی ہوتا ہے‪ ،‬مثال مال ‪ ،‬سال ‪ ،‬جاال وغیرہ میں مگر مد والے حرف کی‬
‫طرح کھینچ کر نہیں پڑھا جاتا ۔ اگر الف متحرک ہو تو عربی میں اسے ہمزہ کہتے ہیں۔‬

‫عالمتی معنی[ترمیم]‬

‫عالمتی اعتبار سے الف کے معنی ہیں‪ :‬خدائے واحد‪ ،‬صیقل کی لکیر‪ ،‬راستی‪ ،‬راست بازی‪ ،‬مفرد‪ ،‬اکیال‪،‬‬
‫ایک‪ ،‬مجرد‪ ،‬ننگا‪ ،‬دلیر‪ ،‬بہادر‬

‫عدد[ترمیم]‬

‫حساب ابجد میں اس کا عدد ایک ہے۔‬

‫الف اور اس کی قسمیں‬

‫راحیل فاروق‬
‫ؔ‬
‫‪ 2‬جنوری ‪ 2019‬ء‬

‫اردو میں الف چار طرح پر پایا جاتا ہے۔ مجرد‪ ،‬مہموز‪ ،‬ہمزہ اور ممدودہ۔‬
‫الف مجرد‪:‬‬
‫ِ‬
‫یہ سادہ الف ہے جو سب سے زیادہ پائی جانے والی شکل ہے۔ الفاظ کے شروع‪ ،‬وسط" اور آخر تینوں‬
‫میں آتا ہے۔ مثالً شروع" میں‬

‫امید‪ ،‬احساس‪ ،‬اجر‪ ،‬اثر ‪ ،‬امنگ‪ ،‬اٹل وغیرہ‬

‫درمیان‬

‫راز‪ ،‬سالم‪ ،‬ناراض‪ ،‬پاکستان وغیرہ‬

‫آخر میں‬

‫دعا‪ ،‬روا‪ ،‬پیدا‪ ،‬جینا‪ ،‬کھیلنا وغیرہ۔‬

‫شروع میں جب یہ الف آتا ہے تواردو" زبان کے اس قاعدے کے مطابق کہ ہر لفظ کے پہلے حرف پر‬
‫ضرور" بالضرور" حرکت ہو گی‪ ،‬متحرک ہوتا ہے۔ امید میں اس پر پیش ہے‪ ،‬احساس میں زیر‪ ،‬اجر میں‬
‫علی ٰہذا۔‬
‫زبر۔ قس ٰ‬

‫درمیان اور آخر ہر دو صورت" میں یہ ساکن ہوتا ہے۔ اور پہال ساکن یعنی مجزوم۔" اس کا مطلب یہ ہوا کہ‬
‫الف اردو میں موقوف نہیں ہو سکتا۔ یعنی یہ نہیں ہو سکتا کہ الف سے پہلے بھی کوئی ساکن حرف‬
‫موجود ہو۔ یہ جب بھی ساکن کے طور" پر آئے گا تو پہال ساکن خود ہو گا۔ بعد میں چاہے جتنے مرضی‬
‫ساکن یعنی موقوف" حروف آ جائیں۔ جیسے راست میں الف رے کے بعد پہال ساکن یعنی مجزوم ہے اور‬
‫اس کے بعد سین اور تے دو ساکن یعنی موقوف" آئے ہیں۔‬
‫الف مہموز‪:‬‬
‫ِ‬
‫یہ وہ الف ہے جو جرأت اور برأت جیسے الفاظ میں ملتا ہے۔ یہ اردو میں ہمیشہ کسی عربی االصل لفظ‬
‫کے درمیان ہی ملے گا اور اس پر زبر ہو گی۔ اس کے عالوہ اردو میں اس کی کوئی صورت نہیں۔‬

‫جرأت میں الف ساکن نہیں ہے بلکہ اس پر زبر ہے۔ ہم اس لفظ کے دو ٹکڑے کر کے اس بات کو بہتر‬
‫طور پر سمجھ سکتے ہیں‪:‬‬

‫جُر ‪ +‬اَت = جُرأت‬

‫اسی طرح برأت کا لفظ ہے جس کے معنی بری ہو جانے کے ہیں۔‬

‫مہموز کا مطلب ہے ہمزہ واال۔ یعنی وہ الف جس کے اوپر چھوٹا سا ہمزہ ہو۔‬

‫الف مہموز اردو زبان میں صرف کسی لفظ کے درمیان ہی آئے گا اور ہمیشہ اس پر زبر ہو‬
‫مدعا یہ کہ ِ‬
‫الف‬
‫الف مہموز نہ ساکن ہو سکتا ہے اور نہ اس پر زیر یا پیش وغیرہ ہو سکتی ہے۔ ساکن ہو گا تو ِ‬
‫گی۔ ِ‬
‫مجرد کی طرح لکھا جائے گا جسے ہم نے اوپر دیکھا۔ زیر یا پیش کی حرکت ہو گی تو ہمزہ کی‬
‫صورت میں لکھا جائے گا جسے ہم آگے دیکھیں گے۔‬

‫ہمزہ‪:‬‬

‫ہمزہ دراصل الف کا قائم مقام ہے جو وہاں آتا ہے جہاں الف کی آواز کسی لفظ کے درمیان ہو اور اس پر‬
‫الف مہموز کی‬
‫زیر یا پیش ہو۔ ہم نے ابھی ابھی سیکھا کہ اگر درمیان کے الف پر زبر ہو گی تو اسے ہم ِ‬
‫صورت میں لکھیں گے۔ لیکن اگر زبر یا پیش ہو گی تو پھر وہاں ہمزہ لکھا جائے گا۔‬

‫مثالً‬
‫قائم = قا ‪ +‬اِم‬

‫دائر = دا ‪ +‬اِر‬

‫مسئول = مس ‪ +‬اُول‬

‫رؤف = َر ‪ +‬اُوف‬

‫گئی = گَ ‪ +‬اِی‬

‫رائے = را ‪ +‬اِے‬

‫ب اضافی" میں اگر مضاف" کے آخر میں الف یا واؤ ہو تو قاعدے کے مطابق زیر لگانے کی بجائے‬
‫مرک ِ‬
‫ہمزہ لکھ کر بڑی یے لکھ دیتے ہیں۔ جیسے‬

‫روئے سخن = رُو ‪ +‬اے‬

‫دعائے خیر = دعا ‪ +‬اے‬

‫اگر ہائے مختفی یعنی چھوٹی گول ہ یا چھوٹی ی آخر میں ہو تو ہمزہ لکھ کر زیر دیتے ہیں۔ جیسے‬

‫ہدیِۂ نعت = ہد ‪ +‬یہ ‪ +‬اے‬


‫گرمِئ بازار = گر ‪ +‬می ‪ +‬اے‬

‫البتہ اگر بڑی یے آخر میں آئے تو صرف ہمزہ کا اضافہ کرتے ہیں کیونکہ" اضافت والی یے پہلے ہی‬
‫سے موجود ہے۔ جیسے‬

‫مئے ناب = َم ‪ +‬اے‬

‫عربی میں جب الف موقوف" ہوتا ہے تو اسے ہمزہ سے ظاہر" کرتے ہیں۔ جیسے ماء‪ ،‬شاء‪ ،‬انبیاء وغیرہ‬
‫میں۔ اردو کے مستند تلفظ اور ٹکسالی لہجے میں‪ ،‬جیسا کہ ہم نے اوپر ذکر کیا‪ ،‬الف موقوف" یعنی‬
‫دوسرے ساکن کے طور پر کبھی نہیں آتا بلکہ ہمیشہ پہال ساکن ہی ہوتا ہے۔ اس لیے اردو میں انبیا‪ ،‬اولیا‬
‫وغیرہ کو ہمزہ کے بغیر لکھا جاتا ہے۔ البتہ بعض عربی االصل تراکیب میں اس کی یادگاریں" باقی رہ‬
‫گئی ہیں۔ جیسے ان شاء ہللا‪ ،‬ماشاءہللا وغیرہ۔‬

‫الف ممدودہ‪:‬‬
‫ِ‬
‫الف ممدودہ وہ ہے جس پر مد یعنی کھنچاو"‬
‫ممدودہ کے معنی ہیں کھینچا ہوا۔ مد کے معانی ہیں کھینچنا۔ ِ‬
‫موجود ہو۔ یہ درحقیقت ایک الف نہیں بلکہ دو الف کا مجموعہ ہے۔‬

‫سا‪ ،‬کا‪ ،‬گا‪ ،‬ال‪ ،‬جا وغیرہ میں الف سے پہلے س‪ ،‬ک‪ ،‬گ‪ ،‬ل اور ج موجود" ہیں جو متحرک ہیں اور‬
‫دوسرا الف ہے جو ساکن ہے۔ اگر پہال حرف بھی الف ہی ہو تو دو الف ہو جائیں گے جن میں سے پہال‬
‫الف ممدودہ ہے اور اسے الف پر مد ڈال کر ظاہر کرتے ہیں۔‬
‫متحرک اور دوسرا" ساکن ہو گا۔ یہ ِ‬

‫ا‪+‬ا=آ‬

‫الف ممدودہ زیادہ تر الفاظ کے شروع" میں آتا ہے۔ ٭عربی االصل مثالوں میں درمیان بھی‬
‫اردو میں ِ‬
‫دیکھا جا سکتا ہے۔ البتہ آخر میں نہیں پایا جاتا۔ اس کا وزن بھی دو حروف کے برابر ہی شمار کیا جاتا‬
‫ہے نہ کہ ایک الف کے برابر۔" مثالً‬
‫آج = اَ ‪ +‬ا ‪ +‬ج‬

‫یہ سہ حرفی لفظ ہے۔ یعنی تین حروف واال۔ پہال الف متحرک‪ ،‬دوسرا مجزوم" اور تیسرا جیم موقوف۔" فاع‬
‫کے وزن پر۔‬

‫آغاز = ا‪ +‬ا‪ +‬غا ‪ +‬ز‬

‫یہ پنج حرفی" لفظ ہے۔ مفعول کے وزن پر۔‬

‫الف ممددودہ کے درمیان آنے کی مثال ہیں۔‬


‫عزت مآب جیسے الفاظ ِ‬

‫مآب = َم ‪ +‬اَ ‪ +‬ا ‪ +‬ب‬

‫یہ فعول کے وزن پر چہار حرفی لفظ ہے۔‬

‫خالصہ‪:‬‬

‫مدعا یہ کہ الف اردو میں اگر ساکن ہو تو درمیان یا آخر میں ہو گا اور ہمیشہ کسی حرکت کے بعد پہال‬
‫الف مجرد یا سادہ الف‬
‫ساکن یعنی مجزوم ہی ہو گا۔ موقوف کبھی نہیں ہو سکتا۔ اس صورت میں اسے ِ‬
‫سے ظاہر کریں گے۔ اگر متحرک ہو گا اور لفظ کے شروع" میں ہو گا تو اسے بھی سادہ ہی لکھا جائے‬
‫الف مہموز یعنی ہمزہ واال الف‬
‫گا۔ اگر کسی لفظ کے درمیان متحرک ہو گا تو زبر کی حرکت کے ساتھ ِ‬
‫لکھا جائےگا۔ پیش اور زیر کے ساتھ خود ہمزہ ڈال دیا جائے گا۔ آخر میں متحرک ہو ہی نہیں سکتا۔ دو‬
‫الف ممدودہ کے ساتھ یعنی الف پر مد ڈال کر ظاہر کیا جائے گا۔‬
‫الف اکٹھے آئیں گے تو انھیں ِ‬

‫تمت بالخیر!‬
‫کلمہ کے وسط میں استعمال[ترمیم]‬

‫کلمہ کے وسط میں الف مندرجہ ذیل حالتوں میں ان عالمات کے طور" پر استعمال ہوتا ہے۔‬

‫حرف اتصال[ترمیم]‬
‫ِ‬
‫عطف کے لیے جیسے تگاپو (تگ اور پو)‬

‫حرف اضافت[ترمیم]‬
‫ِ‬
‫موسالدھار‪ ،‬موتیابند‪ ،‬سوتیاڈاہ‪ ،‬بھیڑیا چال‬

‫مابی ِن متجانسین[ترمیم]‬

‫رنگارنگ‪ ،‬چھماچھم‪ ،‬گرماگرم‪ ،‬مارا مارا‬

‫انحصار و استیعاب[ترمیم]‬

‫سراپا (سر سے پا تک) ‪ ،‬مونہا منہ‬

‫ت فاعل[ترمیم]‬
‫عالم ِ‬
‫قاتل‪ ،‬عالم‬

‫ت جمع[ترمیم]‬
‫عالم ِ‬
‫مساجد‪ ،‬مذاہب‬
‫کلمہ کے آخر میں استعمال[ترمیم]‬

‫کلمہ کے آخر میں الف مندرجہ" ذیل حالتوں میں ان عالمات کے طور پر استعمال ہوتا ہے۔‬

‫ت تعدیہ[ترمیم]‬
‫عالم ِ‬
‫جلنا سے جالنا‪ ،‬چلنا سے چالنا‪ ،‬نکلنا سے نکالنا‬

‫ت ماضی" مطلق[ترمیم]‬
‫عالم ِ‬
‫چال‪ ،‬اُٹھا‪ ،‬سُنا‬

‫ت حالئہ تمام[ترمیم]‬
‫عالم ِ‬
‫کھال ‪ ،‬کھال ہوا‬

‫ت تذکیر[ترمیم]‬
‫عالم ِ‬
‫بھینسا‪ ،‬مرغا‪ ،‬بڑا‬

‫ت تانیث[ترمیم]‬
‫عالم ِ‬
‫ٰ‬
‫کبری‪ ،‬علیا‪ ،‬سلمہا‬ ‫ٰ‬
‫صضری‪،‬‬ ‫ماال‪ ،‬بیوا‪ ،‬رادھا‪،‬‬

‫ت صفت[ترمیم]‬
‫عالم ِ‬
‫اونچا‪ ،‬جھوٹا‪ ،‬نیچا‬

‫ت تکبیر[ترمیم]‬
‫عالم ِ‬
‫ٹوکرا‪ ،‬مٹکا‬
‫حرف الحاق[ترمیم]‬
‫ِ‬
‫ڈورا‪ ،‬بلما‪ ،‬جوڑا‬

‫حرف ندا[ترمیم]‬
‫ِ‬
‫ناصحا‪ ،‬خدایا‬

‫حرف ندیہ[ترمیم]‬
‫ِ‬
‫حسرتا‪ ،‬دردا‬

‫حرف فاعلی[ترمیم]‬
‫ِ‬
‫دانا‪ ،‬بینا‪ ،‬شنوا‬

‫حرف کثرت[ترمیم]‬
‫ِ‬
‫خوشا‪ ،‬بہت اچھا‬

‫اَ الف مفتوح[ترمیم]‬

‫حرف نفی[ترمیم]‬
‫ِ‬
‫اَٹل‪ ،‬اَچھوت‪ ،‬اَ ِمٹ‪ ،‬اَ َمر‬

‫حرف ندا[ترمیم]‬
‫ِ‬
‫اَجی‪ ،‬اَبے‬
‫سابقہ بمعنی کثرت[ترمیم]‬

‫اَچپل‬

‫حرف تفصیل[ترمیم]‬
‫ِ‬
‫اشرف‪ ،‬اکبر‬

‫اُ الف مضموم[ترمیم]‬

‫دور کا اشارہ[ترمیم]‬

‫اُدھر‪ ،‬اُس‬

‫سابقہ بمعنی اوپر[ترمیم]‬

‫اُٹھنا‪ ،‬اُکھڑنا‪ ،‬اُگلنا‬

‫سابقہ بمعنی نیچے[ترمیم]‬

‫اُلٹ‬

‫اِ الف مکسور[ترمیم]‬

‫قریب کا اشارہ[ترمیم]‬

‫اِدھر‪ ،‬اِتنا‬

‫بدل[ترمیم]‬

‫اِبن راصل میں "بنو" تھا‬


‫ت مصدر[ترمیم]‬
‫عالم ِ‬
‫اِنتضار (عربی) [‪]1‬‬

‫مزید دیکھیے[ترمیم]‬

‫اگال حرف‪ :‬ب‬

‫حوالے[ترمیم]‬

‫↑ فیروز" اللغات ا‬

‫ف ابجد کی طرف بڑھتے ہیں۔‬

‫علم االعداد میں حرف تہجی کی تختی حرف ابجد کی طرز پر پڑھی جاتی ہے جیسے ابجد ھوز حطی‬
‫کلمن وغیرہ۔ یہاں ہر حرف کو ایک مخصوص عدد دیا گیا ہے۔ سب سے پہلے آپ اس تختی کے مطابق‬
‫ان حروف کے اعداد کو ذہن نشین کرلیں۔‬

‫الف = ‪ ،1‬ب = ‪ ،2‬ج = ‪ ،3‬د = ‪ ،4‬ھ = ‪ ،5‬و = ‪ ،6‬ز = ‪ ،7‬ح = ‪ ،8‬ط = ‪ ،9‬ی = ‪ ،10‬ک = ‪ ،20‬ل =‬
‫‪ ،30‬م = ‪ ،40‬ن = ‪ ،50‬س = ‪ ،60‬ع = ‪ ،70‬ف = ‪ ،80‬ص = ‪ ،90‬ق = ‪ ،100‬ر = ‪ ،200‬ش = ‪،300‬‬
‫ت = ‪ ،400‬ث = ‪ ،500‬خ = ‪ ،600‬ذ = ‪ ،700‬ض = ‪ ،800‬ظ = ‪ ،900‬غ = ‪1000‬۔‬

‫یہ بھی واضح رہے کہ مد‪ ،‬حمزہ اور کھڑا زبر جسے چھوٹا الف بھی کہتے ہیں اس کا عدد شمار نہیں‬
‫ہوتا جیسے آصف کا پہال لفظ الف تصور ہوگا اور ٰالہی میں ل کے بعد ہ لیا جائے گا۔‬

‫ہم یہاں حرف ابجد کو بہت سہل انداز میں بیان کر رہ‬

You might also like