Professional Documents
Culture Documents
میل کرا دے ربا نوابزادہ
میل کرا دے ربا نوابزادہ
#رائیٹر_نوابزادہ
#بنت_حوا
نوابزادہ_شاہد
ٹريک سوٹ پہنے جوسر میں جوس بنا
رہا تھا۔
دروازے کی آواز پر مڑ کر ديکھا اور
پھر بے تاثر چہرے کے ساتھ دوبارہ
اپنے کام میں مصروف ہوگیا۔
"ھمم! کھڑوس کہیں کا" ہالہ کو اس
سے اتنی بے مروتی کی امید نہیں تھی۔
اور اب اس نے سوچ لیا تھا کہ اس
سے کوئ امید بھی نہیں رکھنی۔
وہ صوفے پر خاموشی سی آکر بیٹھ گئ
کہ .نواب شاہد گالس میں جوس لئیے
اپنی طرف آتا دکھائ ديا۔
"اب اتنا بھی بے مروت نہیں" اس نے
خود کو تسلی دی۔
مگر جیسے ہی اسے اپنے مقابل
صوفے پر بیٹھ کر غٹاغٹ جوس
چڑھاتے ديکھا۔ اپنی خوش فہمی پر
لعنت بھیجی۔
"يہاں جتنے بھی دن رہنا ہے اپنی
خدمت آپکو خود کرنی ہے ٹرے میں
کھانا سجا کر کوئ آپکو پیش نہیں کرے
گا اور نہ ہی آپ
ہماری مہمان ہیں کچن سامنے ہے
خود اٹھیں اور خود بنائیں۔"۔ گالس
خالی کرکے اٹھتے ہو ۓ وہ اچھی طرح
اسکو خوش فہمی کی دنیا سے باہر
نکال اليا
گالس کچن کاؤنٹر پہ رکھ کر غالبا ّ ّّ وہ
جوگنگ کے لئیے چال گیا تھا۔
مرتے کیا نہ کرتے وہ اٹھی اور اپنے
لئیے ناشتہ بنايا۔يہ کیا انکا احسان کم
تھا کہ انہوں نے اسے يہاں رہنے ديا
تھا۔
دماغ سے منفی سوچوں کو جھٹکتے
وہ ناشتہ بنانے لگی پھر کچھ سوچتے
ان دونوں کے لئیے بھی آملیٹ بنا ديا۔
فروزن پراٹھے پڑھے ہوۓ تھے۔ اسکا
مطلب ہے صبح پراٹھے کھاتے ہیں۔
سوچتے ہوۓ اس نے پراٹھے بھی گرم
کر لئیے۔
ابھی وہ يہ سب کرکے اور جوس کس
برتن دھو کر فارغ ہوئ تھی کہ وہ
دونوں واپس آگۓ۔ اسفند. ،نواب شاہد
سے پہلے جو گنگ کے لئیے چال گیا
تھا۔
ہالہ نے اندازہ لگايا۔
"واہ واہ کیا خوشبو آرہی ہے ،بھائ
کسی اور کے فلیٹ میں تو نہیں آگۓ۔"
آملیٹ اور پراٹھوں کی خوشبو پورے
فلیٹ میں پھیلی ہوئ تھی۔
"مسخرہ پن چھوڑو ناشتہ کرو اور
جلدی نکلو۔ سر کی دوبارہ کال نہیں آنی
چاہئیۓ۔" انہیں جوگنگ کے دوران
اپنے باس کی کال آگئ کسی کیس کی
ارجنٹ میٹنگ تھی۔
"اسالم علیکم" ہالہ کو اسفند کی خوش
مزاجی سے تھوڑی سے تقويت ملی تو
اسے کچن کی جانب آتے ديکھ کر اس
نے جھٹ سالم کیا۔
"وعلیکم سالم ارے جیتی رہو سسٹر
صبح صبح ہمارے لئیے اتنی محنت
کرنے کا شکريہ آؤ ٹیبل پر رکھتے
ہیں"
#رائیٹر_نوابزادہ
#رائیٹر_نوابزادہ
#رائیٹر_نوابزادہ
#رائیٹر_نوابزادہ
#رائیٹر_نوابزادہ
اگلے کچھ دنوں میں رحمان کا سارا نہ
صرف گینگ پکڑا جاچکا تھا اور ان
کے توسط سے بہت سے اور شرپسند
گروہوں کو پکڑا جاچکا تھا۔ جو پاکستان
میں مختلف جگہوں پر دہشتگردی کے
واقعات میں انوالو تھے۔
رحمان سے انہوں نے يہ بھی کنفیس
کروا لیا تھا کہ سرےراز کو اس رات
اسی نے مروايا تھا اور اس جرم میں
اسے پھانسی کی سزا سنائ گئ تھی۔
اسفند اور سمیعہ کی شادی طے ہوگئ
تھی۔ ہالہ کو عاصم صاحب اپنے گھر
لے آۓ تھے۔ جبکہ .نوابزادہ شاہد کا
سب نے بائیکاٹ کیا تھا کیونکہ ہالہ نے
سب کو اس شام کی تھپڑ والی بات بتا
کر رخصتی سے انکار کر ديا تھاجو ہالہ
کے چہرے کے زخم ٹھیک ہونے کے
ہفتے بعد رکھی تھی۔
مگر وہ سب جاننے کے بعد سب نے
اسکا ساتھ ديا تھا اور اسکا اپنے ہی
گھر میں داخلہ ممنوں کر ديا تھا۔
.نوابزادہ شاہد کو دو ہفتے سے ڑيادہ
ہوگۓ تھے۔ روز وہ ہالہ کو کالز کرتا
اور ڈھیروں میسجز مگر وہ کسی کا
ريپالئ نہیں کر رہی تھی۔
ايک دن تنگ آکر اس نے بہن کو فون
کیا۔
"کیوں فون کیا ہے آپ نے مجھے" وہ
غصے سے بولی۔
"يار کیا ہوگیا ہے تم سب کو بس کردو
اب۔ بھابھی بھائ سے زيادہ پیاری ہوگئ
ہے۔ ياد کرو وہ دن جب میں تمہاری
ايک بک ڈھونڈنے کے لئیے ٹريننگ
سے تھکا ہوا آيا تھا اور پھر بھی سارا
دن سڑکوں پر مارا مارا پھرتا تھا۔ وہ
دن بھی ياد کرو جب بارش میں گاڑی
خراب ہوئ تھی اور سرديوں کی بارش
میں تمہیں بھیگنے سے بچانے کے
لئیے میں ورکشاپ تک گاڑی کو دھکا
لگا کر لے گیا تھا۔ اور آج میری ايک
غلط فہمی کی تم سب اتنی کڑی سزا دے
رہے ہو۔ میں اپنی فیملی ہوتے ہوۓ تنہا
ہوگیا ہوں"
نوابزادہ شاہد نے پوری طرح پلینگ
کرکے رمشا کو گھیرا تھا اور اپنی
جذباتی ايکٹنگ پر اسکا دل کیا خود کو
آسکر دے دے۔
"اچھا بھائ بس کرو میں تو کب کا
تمہیں معاف کر چکی ہوں مگر بھابھی
کچھ سننے کو تیار ہی نہیں"۔ آخر رمشا
اسکی جذباتی باتوں کے زير اثر آ ہی
گئ۔
"تمہاری بھابھی کی تو ايسی کی تیسی
اب وہ میری پلینرگ ديکھے" يہ سب
وہ صرف وہ دل میں ہی سوچ سکا۔
"تم بس میری تھوڑی ہیلپ کردو
جیسے جیسے میں کہوں ويسے ہی
کرنا اور ہاں پلیز اسکی کوئ پکچر ہی
سینڈ کردو۔وانا سی ہر" رمشا کو اپنے
ساتھ مالتے ہوۓ آخر میں دل کے
ہاتھوں مجبور ہو کر اس نے کہا۔
"اوکے وہ تو میں ابھی کر ديتی ہوں۔
ؤ" رمشا خود بھی اپنے اوکے باۓ نا
بھائ بھابھی کو اب اکٹھے ديکھنا
چاہتی تھی۔
"بھابھی واو کتنی کیوٹ لگ رہی ہیں
آپ اس کلر میں چلیں ايک سیلفی ہو
جاۓ" وہ جو الؤنج میں بیٹھی سمیعہ
کی شادی میں پہننے کے لئیے کپڑوں
کے ڈيزائن ديکھ رہی تھی رمشا کی اس
معصوم سی فرمائش پر بے اختیار اس
پر اسے بہت پیار آيا۔
"اگر بھابھی کو پتہ چل جاۓ کے کس
مقصد سے يہ پکچر لے رہی ہوں تو يہ
ہاتھ جو میرے گرد پیار سے لپٹا ہے
میری گردن دبانے میں ايک سیکنڈ کی
دير نہ لگاۓ۔
نوابزادہ شاہد بے چینی سے انتظار کر
رہا تھا رمشا کے میسج کا۔ کتنے دن ہو
گۓ تھے اس دشمن جاں کو ديکھے
ہوۓ۔
کچھ دير بعد اسے واٹس ايپ میسج کی
ٹون سنائ دی اس نے تیزی سے میسج
اوپن کیا تو رمشا اور ہالہ کی تصوير
نظر آئ۔ الئٹ لیمن اور فیروزی ڈريس
میں وہ ہمیشہ کی طرح اسکے دل کی
دنیا تہہ و باال کر گئ تھی۔
"میسنگ يو سوئیٹ ہارٹ ٹیربلی۔"
کتنے ہی اسکی سنگت میں گزرے
يادگار لمحے اسکی نظروں کے آگے
سے گزرے۔
_________________________
"يار تجھ سے زيادہ بے مروت دوست
نہ ديکھ نہ سنا" نوابزادہ شاہد نے
اسفند کو کال کی جو اپنی شادی کی
چھٹیاں لے کر گھر گیا ہوا تھا۔ ايک دن
بعد مہندی تھی۔
"اگلی بکواس کر" اسفند کا دماغ بھی
ہالہ والی بات پر تپا ہوا تھا۔
"يار بس کر اب کیا سب کے ساتھ ساتھ
تجھ سے بھی معافی مانگوں۔وہ سب
شديد محبت میں ہو گیا تھا"
نوابزادہ شاہد نے اپنا دفاع کرنے کی
کوشش کی۔
"بیٹا اگر محبت میں ايسا کیا تھا تو پھر
رخصتی کے بعد ہم ہالہ کو نیل و نیل ہی
ديکھیں گے۔" اسفند کے طنز پر وہ
بمشکل اپنا قہقہہ روک سکا۔
"اچھا يار تو بس میرا اپنی شادی میں
آنے واال معاملہ بحال کروا ڈيڈی نے تو
سختی سے مجھے منع کیا ہے کہ میں
تیری شادی میں نظر نہ آؤں"
"خیر تجھ سے پھڈے اپنی جگہ مگر
تیرے بغیر تو میں نکاح کے پیپرز پر
سائن نہیں کروں گا۔" اسفند کی محبت
پر اسے فخر ہوا۔
"تھینکس بڈی ،مگر عالقہ غیر میں يہ
خبر نہ پہنچے"
نوابزادہ شاہد تو کتنا ڈرتا ہے ہالہ
سے۔۔۔ہاہاہاہا" اسفند کی ہنسی نے اسے
تپايا۔
"بیٹا کچھ دن بعد تجھ سے پوچھوں
گا"
__________________________
_-
"ہیلو يار میں ايک ڈريس بھیج رہا ہوں
پلیز کسی بھی طرح ہالہ نے مہندی کی
رات يہی پہنا ہو۔يہ تم پر ڈيپینڈ کرتا ہے
کہ تم نے اسے کیسے منانا ہے"۔
.نوابزادہ شاہد کے میسج نے سمیعہ کو
اچھا خاصا پريشان کیا۔
"بھائ خور تو مجنوں بنے ہو مجھے
کس بات کی سزا دے رہے ہو" رمشا
نے بے چارگی سے سوچا۔
شام میں رمشا نے ايک پارسل موصول
کیا۔
"بھابھی آپ سے ايک ريکوئیسٹ کرنی
ہے پلیز مانیں گی"
سمیعہ پارسل لے کر ہالہ کے پاس آئ۔
"ہاں سوئیٹی کیوں نہیں" ہالہ نے پیار
سے اسے کہا۔ دونوں اس وقت رمشا
کے ہی روم میں تھیں۔
میں نے نیٹ پر ايک ڈريس ديکھا تھا۔
مجھے بہت اچھا لگا اور میں نے آپکے
لئیے آرڈر دے ديا میری وش ہے کہ آج
آپ يہی پہنیں۔" رمشا نے محبت سے
اسے کہا۔
" اوہ ڈئیر تھینک يو۔ مگر اب اسک کیا
کروں جو کل ہم لے کر آۓ تھے۔" اس
نے بے چارگی سے کہا۔
"اچھا چلو دکھاؤ يہی پہنوں گی۔
خوش" اس نے محبت سے اسے کہا۔
"اوہ تھینک يو۔"
ہالہ نے پیکنگ کھولی تو اس میں بہت
ہی سٹالش ،اولیو گرين اور اوننح اور
ريڈ کے رنگوں کے امتزاج کا غرارہ
اور النگ شرٹ پر نفیس مگر ہیوی کام
ہوا تھا۔
"يہ تو برايڈل ڈريس لگ رہا ہے" ہالہ
نے الجھتے ہوۓ کہا۔
"پلیز بھابھی"
"اوکے اوکے"
ہالہ کے مان جانے پر اس نے محبت
سے اسے گلے لگايا۔ اور
نوابزادہ شاہد کو ڈن کے ساتھ وکٹری کا
نشان بھیجا۔
_____________________
يہ اسفند کی مہندی کے فنکشن کی بات
تھی۔ ہر جانب رنگ و بو کا سیالب تھا۔
سواۓ ہالہ کے سب کو بتايا جاچکا تھا
.نوابزادہ شاہد آرہا ہے اس فنکشن
میں۔
اسفند نے بڑی پس و پیش کے بعد
باالخر سب کو منا لیا تھا۔
ۓ ہالہ .نوابزادہ شاہد کے بھیجے ہو
سوٹ میں کسی رياست کی شہزادی
سے کم نہیں لگ رہی تھی۔ لمبے گھنے
بال کھلے ہوۓ ،خوبصورتی سے کئیے
گۓ میک اپ میں ،نازک سی جیولری
پہنے ،ماتھے پر ايک سائیڈ پر جھومر
لگاۓ يہاں سے وہاں پھر رہی تھی۔
سارا فنکشن اسفند کی گھر کے الن میں
ارينج کیا گیا تھا۔
پہلے لڑکی والوں نے مہندی النی تھی
پھر لڑکی والوں نے چونکہ کمبائن
فنکشن تھا سو دونوں سائیڈز نے باری
باری آنا ڈيسائیڈ کیا۔
عاصم صاحب اور نوابزادہ شاہد کی مدر
بڑے فخر سے ہالہ کا تعارف اپنی بہو
کی حیثیت سے سب میں کروا چکے
تھے۔
ہالہ سمیعہ کی بہن کے فرائض انجام
دے رہی تھی۔ سو جب لڑکے والے تھال
اٹھاۓ مہندی لے کر آۓ تو ہالہ انکو
ريسیو کرنے میں انٹرنس کے اينڈ پر
سميعہ کے گھر والوں کے ساتھ کھڑی
تھی۔ اسفند کی بہنیں اور کزنز مہدی
کے تھال پکڑے آگے تھیں جبکہ لڑکے
کو اسکے دوستوں نے النا تھا۔
ہالہ پھولوں کے تھال پکڑے کھڑی
تھی۔ جیسے ہی اسفند کی کزنز مہندی
لے کر اندر آگئیں تو انکے پیچھے دس
ہیوی بائیکس پہ اسفند کے کزنز نے
پہلے انٹری دی۔
سب لڑکے وائٹ شلوار قمیض پر ڈفرنٹ
کلرز کی واسکٹس پہنے گاگلز لگاۓ
ہوۓ تھے۔
سب نے اس منظر کو انجواۓ کیا اور
چیخیں اور تالیاں بجا کر لڑکے والوں
کی ايسی انٹری کو ايپريشیٹ کیا۔
آخر میں دو ہیوی بائکس تھیں جن میں
ايک پہ اسفند اور دوسری ہیوی بائیک
پر بیٹھے شخص کو ديکھ کر ہالہ کو
لگا اسکے چاروں جانب روشنیاں بھر
ں۔گئیں ہو
دل کے کسی کونے میں بہت شديد
خواہش تھی اس ستم گر کو آج ديکھنے
ک ی۔
وائٹ شلوار قمیض پر الیو گرين
واسکٹ پہنے گاگلز لگاۓ وہ بھی کسی
رياست کے شہزادے سے کم نہیں لگ
رہاتھا۔
اس نے اپنی بائیک بالکل ہالہ کے پاس
روکی اور پھر اس سے اتر کر اسے
نظر بھر کر ديکھا۔
ۓ مائ لیڈی" ہلکے سے اسکے "ہا
ۓ وہ بوال۔پاس سے گزرتے ہو
جبکہ ہالہ تو ابھی تک اس ساحر کی
مسکراہٹ کے سحر سے نہیں نکل پائ
تھی۔
جس قدر وہ ہرٹ ہوئ تھی ابھی اتنی
جلدی وہ اسکو معاف کرنے کے حق
میں نہیں تھی۔
وہ اسٹیج کے پاس کھڑی مٹھائ کی
چیزيں ارينج کرتی اسٹیج پر پہنچا رہی
تھی کہ اسکے واٹس ايپ میسج کی ٹون
آئ۔ اس نے میسج اوپن کیا تو.نوابزادہ
شاہد کا میسج تھا۔
" وانا ٹیک يو ٹو نائٹ ٹو آ پلیس وير
نو ون کڈ سی اس اينڈ آئ کڈ ٹیل يو ہاؤ
مچ آؤ لو يو " اور ساتھ ڈھیر سارے
ہارٹس اور کسنگ اموجی تھے۔ ہالہ
کے گال دہک اٹھے اس نے غیر
اختیاری طور پر جونہی نظر اٹھا کر
سامنے ديکھا۔ تو اسٹیج پر اسفند کے
ساتھ بیٹھے .نوابزادہ شاہد سے نظر
ملی جو اسکے بلشنگ فیس کو ديکھ
رہا تھا۔ اسے اپنی طرف ديکھتے پايا تو
اپنی شرارتی مسکراہٹ سمیت اسے
آنکھ ماری۔ ہالہ نے بے اختیار رخ پھیر
کر اپنے دھڑ دھڑ کرتے دل کو سنبھاال۔
Keep enjoying and
commenting....
[22/05, 1:30 pm] Nawab Zada:
میل_کروا_دے_ربا#
Final seen
Last Episode
#رائیٹر_نوابزادہ
مہندی کی رسم کے بعد جیسے ہی
گروپ فوٹوز کا سلسلہ شروع ہوا اسفند
نے عاصم صاحب اور انکی فیملی کو
آنے کو کہا۔
عاصم صاحب اور انکی بیگم سميعہ اور
اسفند کے ساتھ صوفوں پر بیٹھ گۓ۔
جبکہ ہالہ اور رمشا صوفے کے پیچھے
چلي گئیں۔ ہاال نے شکر کیا کہ نواب
شاہد نہیں تھا وہاں۔ مگر يہ شکر
تھوڑی دير کا تھا۔
جیسے ہی فوٹو گرافر پکچر لینے لگا
اسفند نے اسے روک کر ادھر ادھر
ديکھا کہ دائیں طرف سے .نواب شاہد
آتا دکھائ ديا۔
ہالہ جز بز ہوئ جب .نواب شاہد اسکے
دائیں طرف آيا کیونکہ اسکے بائیں
طرف رمشا کھڑی تھی۔
ابھی فوٹوگرافر تصوير لینے ہی واال تھا
کہ ہالہ کو اپنی کمر پر.نواب شاہدکا ہاتھ
سرسراتا محسوس ہوا۔ اسکی تو سانس
سینے میں اٹک گئ۔
"بھابھی پلیز تھوڑا سا سمائل کريں۔"
فوٹوگرافر بھی انکا جاننے واال تھا جس
کو پتہ تھا کہ ہالہ .نواب شاہد کی
منکوحہ ہے۔
"ہالہ نے ايک غصیلی نظر.نواب شاہد
پر ڈالی جو سامنے ديکھتا شرارتی انداز
میں مسکرا رہا تھا۔
ہالہ نے ايک سیکنڈ میں کچھ سوچا اور
اپنا پاؤں اندازے سے آگے کرکے اپنی
ہیل کے نیچے .نواب شاہد کا پاؤں زور
سے دبايا۔