Professional Documents
Culture Documents
4619 1
4619 1
سمسٹر :خزاں2022:ء
امتحانی مشق نمبر 1
کورس کوڈ 4619
نام = محمد رئیس
رجسٹریشن نمبر= 16PRI11533
سوال نمبر 1۔ سورۃ االنعام کی درج ذیل آیات کریمہ کا ترجمہ کریں اور تفسیر ابن کثیر کی
روشنی میں اس کی تفسیر کریں ۔
جواب
ترجمہ=
علَى َما فَ َّر ْطنَا فِی َها َو ُه ْم یَحْ ِملُونَ أ َ ْو َز َ
ار ُه ْم ساعَةُ بَ ْغت َة قَالُوا یَا َح ْ
س َرتَنَا َ َّللاِ ۖ َحتَّى ِإذَا َجا َءتْ ُه ُم ال َّ
اء َّقَ ْد َخس َِر الَّ ِذینَ َكذَّبُوا ِب ِلقَ ِ
َّار ْاْل ِخ َرۃُ َخی ٌْر ِللَّ ِذینَ یَتَّقُونَ ۖ أ َفَ َل ب َولَه ٌْو ۖ َولَلد ُ سا َء َما یَ ِز ُرونَ )َ (31و َما ا ْل َحیَاۃُ ال ُّد ْنیَا ِإ َّال لَ ِع ٌ ور ِه ْم ۖ أ َ َال َ ظ ُه ِعلَى ُ َ
ت َ ْع ِقلُونَ )(32
[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد ]ا خسارے میں رہے وہ لوگ جنھوں نے ہللا کی مالقات کو جھٹالیا ،یہاں تک کہ جب
ان کے پاس قیامت اچانک آپہنچے گی کہیں گے ہائے ہمارا افسوس! اس پر جو ہم نے اس میں کوتاہی کی اور وہ اپنے
بوجھ اپنی پشتوں پر اٹھائیں گے۔ سن لو! برا ہے جو وہ بوجھ اٹھائیں گے۔ ][31
ااور دنیا کی زندگی کھیل اور دل لگی کے سوا کچھ نہیں اور یقینا آخرت کا گھران لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ڈرتے
ہیں ،تو کیا تم نہیں سمجھتے۔ ][32
تفسیرابن کثیر
قیامت کو جھٹالنے والوں کا نقصان ان کا افسوس اور ان کی ندامت و خجالت کا بیان ہو رہا ہے جو اچانک قیامت کے آ
جانے کے بعد انہیں ہو گا۔ نیک اعمال کے ترک افسوس الگ ،بد اعمالیوں پر پچھتاوا جدا ہے۔ « ِفی َھا »کی ضمیر کا
مرجع ممکن ہے « ْال َحیَا ِة »ہو اور ممکن ہے « ْاْل َ ْع َما ِل »ہو اور ممکن ہے «الد ُ
َّار ْاْل ِخ َرة ُ »ہو” ،یہ اپنے گناہوں کے بوجھ
۔ گے“ ہوں ہوئے اٹھائے اوپر اپنے کرداریاں بد اپنی گے، ہوں ہوئے لدے سے
آہ! کیا برا بوجھ ہے؟ ابو مرزوق رحمہ ہللا فرماتے ہیں ”کافر یا فاجر جب اپنی قبر سے اٹھے گا اسی وقت اس کے
سامنے ایک شخص آئے گا جو نہایت بھیانک ،خوفناک اور بدصورت ہو گا اس کے جسم سے تعفن والی سڑاند کی
1
کورس :مطالعہ نصوص قرآن حکیم )4619(I -
سمسٹر :خزاں2022:ء
سخت بدبو آ رہی ہوگی وہ اس کے پاس جب پہنچے گا یہ دہشت و وحشت سے گھبرا کر اس سے پوچھے گا تو کون
ہے؟ وہ کہے گا خواب! کیا تو مجھے پہچانتا نہیں؟
یہ جواب دے گا ہرگز نہیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ تو نہایت بدصورت کریہہ منظر اور تیز بدبو واال ہے تجھ سے زیادہ
بدصورت کوئی بھی نہ ہوگا ،وہ کہے گا سن میں تیرا خبیث عمل ہوں جسے تو دنیا میں مزے لے کر کرتا رہا۔ سن تو
دنیا میں مجھ پر سوار رہا اب کمر جھکا میں تجھ پر سوار ہو جاؤں گا چنانچہ وہ اس پر سوار ہو جائے گا یہی مطلب ہے
اس آیت کا کہ ” وہ لوگ اپنے بد اعمال کو اپنی پیٹھ پر الدے ہوئے ہوں گے “۔
حضرت سدی رحمہ ہللا فرماتے ہیں کہ ”جو بھی ظالم شخص قبر میں جاتا ہے اس کی الش کے قبر میں پہنچتے ہی
ایک شخص اس کے پاس جاتا ہے سخت بدصورت سخت بدبودار سخت میلے اور قابل نفرت لباس واال یہ اسے دیکھتے
ہی کہتا ہے تو تو بڑا ہی بدصورت ہے بدبو دار ہے یہ کہتا ہے تیرے اعمال ایسے ہی گندے تھے وہ کہتا ہے تیرا لباس
نہایت متعفن ہے ،یہ کہتا ہے تیرے اعمال ایسے ہی قابل نفرت تھے وہ کہتا ہے اچھا بتا تو سہی اے منحوس تو ہے کون؟
یہ کہتا ہے تیرے عمل کا مجسمہ ،اب یہ اس کے ساتھ ہی رہتا ہے اور اس کیلئے عذابوں کے ساتھ ہی ایک عذاب ہوتا
ہے جب قیامت کے دن یہ اپنی قبر سے چلے گا تو یہ کہے گا ٹھہر جاؤ دنیا میں تو نے میری سواری لی ہے اب میں
تیری سواری لوں گا چنانچہ وہ اس پر سوار ہو جاتا ہے اور اسے مارتا پیٹتا ذلت کے ساتھ جانوروں کی طرح ہنکاتا ہوا
ہیں۔“ کے جملے اس کے آیت اس ہیں معنی یہی ہے۔ پہنچاتا میں جہنم
دنیا کی زندگانی بجز کھیل تماشے کے ہے ہی کیا ،آنکھ بند ہوئی اور خواب ختم ،البتہ ہللا سے ڈرنے والے لوگوں کیلئے
آخرت کی زندگانی بڑی چیز ہے اور بہت ہی بہتر چیز ہے تمہیں کیا ہوگیا کہ تم عقل سے کام ہی نہیں لیتے؟
سوال نمبر 2۔ سورۃ التوبة کی درج ذیل آیات کریمہ کا تر جمہ کریں اور تفسیر ابن کثیر کی روشنی میں اس کی تفسیر
کریں۔
جواب =
َّللاُ
َّللاِ ۖ َو َّ َّللاِ ۖ َال یَ ْ
ست َ ُوونَ ِعن َد َّ اّللِ َوا ْلیَ ْو ِم ْاْل ِخ ِر َو َجا َه َد فِي َ
س ِبی ِل َّ س ِج ِد ا ْل َح َر ِام َك َم ْن آ َمنَ ِب َّ سقَایَةَ ا ْل َحاجِ َو ِع َم َ
ارۃَ ا ْل َم ْ أ َ َجعَ ْلت ُ ْم ِ
َّللاِ ِبأ َ ْم َوا ِل ِه ْم َوأَنفُس ِِه ْم أ َ ْع َظ ُم د ََر َجة ِعن َد َّ
َّللاِ ۖ َوأُو َلئِكَ ظا ِل ِمینَ ) (19الَّ ِذینَ آ َمنُوا َو َها َج ُروا َو َجا َهدُوا فِي َ
س ِبی ِل َّ َال یَ ْهدِي ا ْلقَ ْو َم ال َّ
ُه ُم ا ْلفَائِ ُزونَ )(20
[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد ]کیا تم نے حاجیوں کو پانی پالنا اور مسج ِد حرام کو آباد کرنا اس جیسا بنا دیا جو ہللا
اور یوم آخرت پر ایمان الیا اور اس نے ہللا کے راستے میں جہاد کیا۔ یہ ہللا کے ہاں برابر نہیں ہیں اور ہللا ظالم لوگوں
کو ہدایت نہیں دیتا۔ ][19
2
کورس :مطالعہ نصوص قرآن حکیم )4619(I -
سمسٹر :خزاں2022:ء
جو لوگ ایمان الئے اور انھواں نے ہجرت کی اور ہللا کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا
وہ ہللا کے ہاں درجے میں بہت بڑے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔ ][20
تفسیر ابن کثیر
سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہما فرماتے ہیں کہ ”کافروں کا قول تھا کہ بیت ہللا کی خدمت اور حاجیوں کے پانی پالنے
کی سعادت بہتر ہے ایمان و جہاد سے۔ ہم چونکہ یہ دونوں خدمتیں انجام دے رہے ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں۔
ہللا نے ان کا فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ پھیرنا فرمایا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تالوت ہوتے
ہوئے تم اس سے بےپرواہی سے منہ موڑ کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو ،پس تمہارا گمان بےجا ،تمہارا غرور
تعالی کے ساتھ کا ایمان اور اس کی راہ کا جہاد بڑی چیز ہے لیکن تمہارے
ٰ غلط ،تمہارا فخر نا مناسب ہے۔ یوں بھی ہللا
مقابلے می ں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا گھن کھا جاتا ہے۔
عالی نے ان کا نام
پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے آپ کو آبادی کرنے واال کہتے تھے ہللا ت ٰ
کہتے ہیں کہ سیدنا عباس رضی ہللا عنہ نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ ”تم اگر اسالم و جہاد میں تھے تو ہم بھی
تعالی کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے۔“ اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی
ٰ ہللا
بیکار ہے۔ صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین نے ان پر جب لے دے شروع کی تو سیدنا عباس رضی ہللا عنہ نے کہا
تھا کہ ” ہم مسجد الحرام کے متولی تھے ہم غالموں کو آزاد کرتے تھے ہم بیت ہللا کو غالف چڑھاتے تھے ہم حاجیوں
کو پانی پالتے تھے اس پر یہ آیت اتری۔ مروی ہے کہ یہ گفتگو سیدنا عباس رضی ہللا عنہ اور سیدنا علی رضی ہللا عنہ
میں ہوئی ہو۔ مروی ہے کہ طلحہ بن ش یبہ ،عباس بن عبدالمطلب ،علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان
کرنے لگے ،طلحہ نے کہا میں بیت ہللا کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں۔
سیدنا عباس رضی ہللا عنہ نے کہا” :می ں زمزم کا پانی پالنے واال ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد ساری
رات رہ سکتا ہوں۔“ سیدنا علی رضی ہللا عنہ نے کہا” :میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے
لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں۔“ اس پر یہ آیت اتری ،سیدنا عباس رضی ہللا عنہ
نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانی کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے
3
کورس :مطالعہ نصوص قرآن حکیم )4619(I -
سمسٹر :خزاں2022:ء
فرمایا ” :نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھالئی ہے۔“ [تفسیر ابن جریر
الطبری:16575:مرسل و ضعیف]
اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے سیدنا نعمان بن بشیر رضی
ہللا عنہ کہتے ہیں کہ ” ایک شخص نے کہا اسالم کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے
کہ میں حاجیوں کو پانی پالؤں۔ دوسرے نے اسی طرح مسجد الحرام کی آبادی کو کہا۔ تیسرے نے اسی طرح ہللا کی راہ
کے جہاد کو کہا۔ سیدنا عمر رضی ہللا عنہ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس
آوازیں بلند نہ کرو۔ یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس حاضر
اور روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی ہللا عنہ نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں خود جا کر نبی کریم صلی
سوال نمبر 3۔ سورۃ هود کی درج ذیل آیات کریمہ کا ترجمہ کریں اور تفسیر ابن کثیر کی روشنی میں اس کی تفسیر
کریں۔
ْس لَ ُه ْم فِي ا ْْل ِخ َر ِۃ إِ َّال ف إِلَی ِْه ْم أ َ ْع َمالَ ُه ْم فِی َها َو ُه ْم فِی َها َال یُ ْب َخ ُ
سونَ ) (15أُولَئِكَ الَّ ِذینَ لَی َ َمن كَانَ یُ ِری ُد ا ْل َحیَاۃَ ال ُّد ْنیَا َو ِزینَت َ َها نُ َو ِ
اط ٌل َّما كَانُوا یَ ْع َملُونَ )(16 ار ۖ َو َح ِب َط َما َ
صنَعُوا فِی َها َوبَ ِ النَّ ُ
[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد ]جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتا ہو ہم انھیں ان کے اعمال کا
بدلہ اسی (دنیا) میں پورا دے دیں گے اور اس (دنیا) میں ان سے کمی نہ کی جائے گی۔ ][15
یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور برباد ہوگیا جو کچھ انھوں نے اس میں کیا اور بے کار
ہے جو کچھ وہ کرتے رہے تھے۔ ][16
تفسیر ابن کثیر
سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں ”ریاکاروں کی نیکیوں کا بدلہ سب کچھ اسی دنیا میں مل جاتا ہے۔ ذرا سی
بھی کمی نہیں ہوتی۔ “ پس جو شخص دنیا میں دکھاوے کے لئے نماز پڑھے ،روزے رکھے یا تہجد گزاری کرے ،اس
کا اجر اسے دنیا میں ہی مل جاتا ہے۔ آخرت میں وہ خالی ہاتھ اور محض بےعمل اُٹھتا ہے۔
سیدنا انس رضی ہللا عنہ وغیرہ کا بیان ہے ”یہ آیت یہود و نصاری کے حق میں اتری“ ،اور مجاہد رحمہ ہللا کہتے
ہیں ”ریاکاروں کے بارے میں اتری ہے۔ “الغرض کس کا جو قصد ہو اسی کے مطابق اس سے معاملہ ہوتا ہے دنیا طلبی
کے لیے جو اعما ل ہوں وہ آخرت میں کار آمد نہیں ہو سکتے۔ مومن کی نیت اور مقصد چونکہ آخرت طلبی ہی ہوتا ہے
ہللا اسے آخرت میں اس کے اعمال کا بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے اور دنیا میں بھی اس کی نیکیاں کام آتی ہیں۔
4
کورس :مطالعہ نصوص قرآن حکیم )4619(I -
سمسٹر :خزاں2022:ء
ع َّج ْلنَا لَهُ فِی َھا َما نَشَا ُء ِل َمن نُّ ِرید ُ ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون آیا ہے۔ قرآن کریم کی آیات « َّمن َكانَ ی ُِریدُ ْال َع ِ
اجلَةَ َ
ورا ُك ًال س ْع َی َھا َو ُھ َو ُمؤْ ِم ٌن فَأُو َلـ ٰٰئِكَ َكانَ َ
س ْعیُ ُھم َّم ْش ُك ً ورا َو َم ْن أ َ َرادَ ْاْل ِخ َرة َ َو َ
س َع ٰى لَ َھا َ ث ُ َّم َج َع ْلنَا لَهُ َج َھنَّ َم یَ ْ
ص َالھَا َم ْذ ُمو ًما َّم ْد ُح ً
ع َل ٰى َب ْعض َولَ ْْل ِخ َرة ُ أ َ ْك َب ُر ْف فَض َّْلنَا َب ْع َ
ض ُھ ْم َ ورا ان ُ
ظ ْر َكی َ ظ ًطا ُء َر ِبِّكَ َمحْ ُ
ع َ
اء َر ِبِّكَ َو َما َكانَ َ
ط ِع َ
نُّ ِمدُّ ہَـ ٰٰؤُ َال ِء َوہَـ ٰٰؤ َُال ِء ِم ْن َ
یال» [17-اإلسراء ] 21-18:میں بھی اسی کا تفصیلی بیان ہے کہ ”دنیا طلب لوگوں میں سے جسے ہم ض ً دَ َر َجات َوأ َ ْك َب ُر ت َ ْف ِ
جس قدر چاہیں دے دیتے ہیں۔ پھر اس کا ٹھکانا جہنم ہوتا ہے جہاں وہ ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوتا ہے۔ ہاں جس کی
طلب آخرت ہو اور بالکل اسی کے مطابق اس کا عمل بھی ہو اور وہ ایماندار بھی تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر
دانی کی جاتی ہ ے۔ انہیں ہر ایک کو ہم تیرے رب کی عطا سے بڑھاتے رہتے ہیں تیرے پروردگار کا انعام کسی سے
رکا ہوا نہیں۔ تو خود دیکھ لے کہ کس طرح ہم نے ایک کو ایک پر فضیلت بخشی ہے۔ آخرت کیا باعتبار درجوں کے
اور کیا باعتبار فضیلت کے بہت ہی بڑی اور زبردست چیز ہے“ ۔
ث الدُّ ْنیَا نُؤْ تِ ٖه ِم ْن َھا َو َما لَهٗ فِي ْ ٰ
اال ِخ َرةِ ث ْٰ
اال ِخ َرةِ ن َِز ْد لَهٗ فِ ْي َح ْرثِ ٖه َو َم ْن َكانَ ی ُِر ْیدُ َح ْر َ اور آیت میں ارشاد ہے « َم ْن َكانَ ی ُِر ْیدُ َح ْر َ
ِم ْن نَّ ِ
صیْب» [42-الشورى” ] 20:جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم خود اس میں اس کے لیے برکت عطا فرماتے
ہیں اور جس کا ارادہ دنیا کی کھیتی کا ہو ہم گو اسے اس میں سے کچھ دے دیں لیکن آخرت میں وہ بے نصیب رہ جاتا
ہے“ ۔
سوال نمبر 4۔ سورۃ الحجر کی درج ذیل آیات کریمہ کا ترجمہ کریں اور تفسیر فی ظلل القرآن کی روشنی میں اس کی
تفسیر کریں ۔
علَى ُ
س ُر ٍر ُور ِهم ِم ْن ِغ ٍل إِ ْخ َوانا َ
صد ِ آمنِینَ )َ (46ونَ َز ْعنَا َما فِي ُ س َل ٍم ِ ون ) (45ا ْد ُخلُو َها بِ َعی ُ ٍت َو ُ إِنَّ ا ْل ُمت َّ ِقینَ فِي َجنَّا ٍ
الر ِحی ُم )َ (49وأَنَّ َ
عذَابِي ُه َو ب َو َما ُهم ِم ْن َها بِ ُم ْخ َر ِجینَ ) (48نَبِ ْئ ِعبَادِي أَنِي أَنَا ا ْلغَفُ ُ
ور َّ س ُه ْم فِی َها نَ َ
ص ٌ ُّمتَقَابِ ِلینَ )َ (47ال یَ َم ُّ
اب ْاْل َ ِلی ُم)(50
ا ْلعَذَ ُ
[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد ]بے شک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ ][45
اس میں سالمتی کے ساتھ بے خوف ہوکر داخل ہوجاؤ۔ ][46
[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد ]اور ہم ان کے سینوں میں جو بھی کینہ ہے نکال دیں گے ،بھائی بھائی بن کر تختوں
پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ ][47
اس میں انھیں نہ کوئی تھکاوٹ چھوئے گی اور نہ وہ اس سے کبھی نکالے جانے والے ہیں۔ ][48
میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے واال ،نہایت رحم واالہوں۔ ][49
اور یہ بھی کہ بے شک میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے۔ ][50
5
کورس :مطالعہ نصوص قرآن حکیم )4619(I -
سمسٹر :خزاں2022:ء
دوزخیوں کا ذکر کر کے اب جنتیوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ”وہ باغات ،نہروں اور چشموں میں ہوں گے“ ۔ ان کو
بشارت سنائی جائے گی کہ اب تم ہر آفت سے بچ گئے ہر ڈر اور گھبراہٹ سے مطمئن ہو گئے نہ نعمتوں کے زوال کا
اہل جنت کے دلوں میں گو دنیوں رنجشیں باقی رہ گئی ہوں مگر جنت میں جاتے ہی ایک دوسرے سے مل کر تمام گلے
شکوے ختم ہو جائیں گے۔ حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی سینے بے کینہ ہو جائیں
گے۔ چنانچہ مرفوع حدیث میں بھی ہے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن جہنم سے نجات پا کر جنت
دوزخ کے درمیان کے پل پر روک لیے جائیں گے جو ناچاقیاں اور ظلم آپس میں تھے ،ان کا ادلہ بدلہ ہو جائے گا اور
اشتر نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے پاس آنے کی اجازت مانگی ،اس وقت آپ رضی ہللا عنہ کے پاس سیدنا طلحہ
رضی ہللا عنہ کے صاحبزادے بیٹھے تھے تو آپ رضی ہللا عنہ نے کچھ دیر کے بعد اسے اندر بالیا اس نے کہا کہ شاید
ان کی وجہ سے مجھے آپ رضی ہللا عنہ نے دیر سے اجازت دی؟ آپ رضی ہللا عنہ نے فرمایا سچ ہے۔ کہا پھر تو اگر
آپ رضی ہللا عنہ کے پاس سیدنا عثمان رضی ہللا عنہ کے صاحبزادے ہوں تو بھی آپ مجھے اسی طرح روک دیں
گے؟ آپ رضی ہللا عنہ نے فرمایا ”بیشک مجھے تو ہللا سے امید ہے کہ میں اور سیدنا عثمان رضی ہللا عنہ ان لوگوں
میں سے ہوں گے ،جن کی شان میں یہ ہے کہ ان کے دلوں میں جو کچھ خفگی تھی ہم نے دور کر دی ،بھائی بھائی ہو
ایک اور روایت میں ہے کہ عمران بن طلحہ اصحاب جمل سے فارغ ہو کر علی رضی ہللا عنہ کے پاس آئے آپ رضی
ہللا عنہ نے انہیں مرحبا کہا اور فرمایا کہ ”میں امید رکھتا ہوں کہ میں اور تمہارے والد ان میں سے ہیں جن کے دلوں
کے غصے ہللا دور کر کے بھائی بھائی بنا کر جنت کے تختوں پر آمنے سامنے بٹھائے گا۔“
ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر فرش کے کونے پر بیٹھے ہوئے دو شخصوں نے کہا ،ہللا کا عہد اس سے بہت
بڑھا ہوا ہے کہ جنہیں آپ قتل کریں ان کے بھائی بن جائیں؟ آپ رضی ہللا عنہ نے غصے سے فرمایا ”اگر اس آیت سے
مراد میرے اور طلحہ جیسے لوگ نہیں تو اور کون ہوں گے؟“
6
کورس :مطالعہ نصوص قرآن حکیم )4619(I -
سمسٹر :خزاں2022:ء
اور روایت میں ہے کہ قبیلہ ہمدان کے ایک شخص نے یہ کہا تھا اور علی رضی ہللا عنہ نے اس دھمکی اور بلند آواز
اور روایت میں ہے کہ کہنے والے کا نام حارث اعور تھا اور اس کی اس بات پر آپ رضی ہللا عنہ نے غصے ہو کر
جو چیز آپ رضی ہللا عنہ کی ہاتھ میں تھی وہ اس کے سر پر مار کر یہ فرمایا تھا۔
این جرموز جو زبیر رضی ہللا عنہ کا قاتل تھا جب دربار علی رضی ہللا عنہ میں آیا تو آپ رضی ہللا عنہ نے بڑی دیر
بعد اسے داخلے کی اجازت دی ،اس نے آ کر زبیر رضی ہللا عنہ اور ان کے ساتھیوں کو بلوائی کہہ کر برائی سے یاد
کیا تو آپ رضی ہللا عنہ نے فرمایا ”تیرے منہ میں مٹی۔ میں اور طلحہ اور زبیر رضی ہللا عنہ تو ان شاءہللا ان لوگوں
میں ہیں جن کی بابت ہللا کا یہ فرمان ہے۔“ سیدنا علی رضی ہللا عنہ قسم کہا کر فرماتے ہیں کہ ”ہم بدریوں کی بابت یہ
کثیر کہتے ہیں ”میں ابو جعفر محمد بن علی کے پاس گیا اور کہا کہ میرے دوست آپ کے دوست ہیں اور مجھ سے
مصالحت رکھنے والے آپ سے مصالحت رکھے والے ہیں ،میرے دشمن آپ کے دشمن ہیں اور مجھ سے لڑائی رکھنے
والے آپ سے لڑائی رکھنے والے ہیں۔ وہللا میں ابوبکر اور عمر رضی ہللا عنہم سے بری ہوں۔“
اس وقت ابو جعفر نے فرمایا ”اگر میں ایسا کروں تو یقینا ً مجھ سے بڑھ کر گمراہ کوئی نہیں۔ ناممکن کہ میں اس وقت
ہدایت پر قائم رہ سکوں۔ ان دونوں بزرگوں یعنی سیدنا ابوبکر رضی ہللا عنہ اور سیدنا عمر رضی ہللا عنہ سے تو اے
کثیر محبت رکھ ،اگر اس میں تجھے گناہ ہو تو میری گردن پر۔“
پھر آپ نے اسی آیت کے آخری حصہ کی تالوت فرمائی ،اور فرمایا کہ ”یہ ان دس شخصوں کے بارے میں ہے
ابوبکر ،عمر ،عثمان ،علی ،طلحہ ،زبیر ،عبدالرحمٰ ن بن عوف ،سعد بن ابی وقاص ،سعید بن زید اور عبدہللا بن مسعود
رضی ہللا عنہم اجمعین ،یہ آمنے سامنے ہوں گے تاکہ کسی کی طرف کسی کی پیٹھ نہ رہے۔“
نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے صحابہ رضوان ہللا علیہم اجمعین کے ایک مجمع میں آ کر اسے تالوت فرما کر
فرمایا یہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے۔ وہاں انہیں کوئی مشقت ،تکلیف اور ایذاء نہ ہو گی ۔ [ضعیف]
7
کورس :مطالعہ نصوص قرآن حکیم )4619(I -
سمسٹر :خزاں2022:ء
بخاری و مسلم میں ہے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے ہللا کا حکم ہوا ہے کہ میں خدیجہ رضی ہللا عنہا
کو جنت کے سونے کے محل کی خوشخبری سنا دوں جس میں نہ شور و غل ہے نہ تکلیف و مصیبت۔ یہ جنتی جنت
حدیث میں ہے ان سے فرمایا جائے گا کہ اے جنتیو تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ پڑو گے اور ہمیشہ زندہ
رہو گے کبھی نہ مروگے اور ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ بنو گے اور ہمیشہ یہیں رہو گے کبھی نکالے نہ
اح ِمینَ » [-23المؤمنون ” ]118:اے نبی کریم صلی ہللا علیہ ار َح ْم َوأَنتَ َخی ُْر َّ
الر ِ اور آیت میں ہے کہ « َوقُل َّر ِّ ِ
ب ا ْغ ِف ْر َو ْ
اح ِمینَ » ہوں۔ اور میرے عذاب بھی نہایت وسلم آپ صلی ہللا علیہ وسلم میرے بندوں سے کہہ دیجئیے کہ میں «أ َ ْر َح ُم َّ
الر ِ
سخت ہیں “۔ اسی جیسی آیت اور بھی گزر چکی ہے ،اس سے مراد یہ ہے کہ ” مومن کو امید کے ساتھ ڈر بھی رکھنا
چاہیئے “۔
حضور صلی ہللا علیہ وسلم اپنے صحابہ رضوان ہللا علیہم اجمعین کے پاس آتے ہیں اور انہیں ہنستا ہوا دیکھ کر فرماتے
ہیں جنت دوزخ کی یاد کرو ،اس وقت یہ آیتیں اتریں ۔ [مجمع الزوائد:11107:ضعیف]
یہ مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے آپ صلی ہللا علیہ وسلم بنو شیبہ کے دروازے سے صحابہ رضی ہللا عنہم کے پاس
آ کر کہتے ہیں میں تو تمہیں ہنستے ہوئے دیکھ رہا ہوں یہ کہہ کر واپس مڑ گئے اور حطیم کے پاس سے ہی الٹے پاؤں
پھرے ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ ابھی میں جا ہی رہا تھا ،جو جبرائیل علیہ السالم آئے اور فرمایا کہ ”جناب باری
ارشاد فرماتا ہے کہ ” تو میرے بندوں کو نامید کر رہا ہے؟ انہیں مرے غفور و رحیم ہونے کی اور میرے عذابوں کے
چھوڑ دیں اور اگر ہللا کے عذاب کو معلوم کر لیں تو اپنے آپ کو ہالک کر ڈالیں ۔ [تفسیر ابن جریر
الطبری:21213:مرسل]
8
کورس :مطالعہ نصوص قرآن حکیم )4619(I -
سمسٹر :خزاں2022:ء
سوال نمبر 5۔ سورۃ الکہف کی درج ذیل آیات کریمہ کا ترجمہ اور تشریح قلمبند کریں۔
ع ْن َها ِح َوال ت كَا َنتْ لَ ُه ْم َجنَّاتُ ا ْل ِف ْرد َْو ِس نُ ُزال )َ (107خا ِلد َ
ِین ِفی َها َال َی ْبغُ َ
ون َ إِ َّن الَّذ َ
ِین آ َمنُوا َوع َِملُوا ال َّ
صا ِل َحا ِ
حْر قَ ْب َل أَن تَنفَ َد َك ِل َماتُ َر ِبي َولَ ْو ِجئْ َنا بِ ِمثْ ِل ِه َمدَدا ) (109قُ ْل
ت َر ِبي لَ َن ِف َد ا ْل َب ُ )(108قُل لَّ ْو ك َ
َان ا ْلبَ ُ
حْر ِمدَادا ِل َك ِل َما ِ
صا ِلحا َو َال یُش ِْر ْك َان َی ْر ُجو ِل َقا َء َر ِب ِه فَ ْل َی ْع َم ْل َ
ع َمل َ ِإنَّ َما أ َ َنا َبش ٌَر ِم ْثلُ ُك ْم یُو َحى ِإلَ َّي أَنَّ َما ِإلَ ُه ُك ْم ِإ َلهٌ َو ِ
اح ٌد ۖ فَ َمن ك َ
ِب ِع َبا َد ِۃ َر ِب ِه أ َ َحدا)(110
[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد ] بے شک وہ لوگ جو ایمان الئے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ان کے لیے فردوس
کے باغ مہمانی ہوں گے۔ ][107
ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے ،وہ اس سے جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔ ][108
کہہ دے اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی بن جائے تو یقینا سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ
میرے رب کی باتیں ختم ہوں ،اگرچہ ہم اس کے برابر اور سیاہی لے آئیں۔ ][109
کہہ دے میں تو تم جیسا ایک بشر ہی ہوں ،میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمھارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے،
پس جو شخص اپنے رب کی مالقات کی امید رکھتا ہو تو الزم ہے کہ وہ عمل کرے نیک عمل اور اپنے رب کی عبادت
میں کسی کو شریک نہ بنائے۔ ][110
تفسیر
ہللا پر ایمان رکھنے والے ،اس کے رسولوں کو سچا ماننے والے ،ان کی باتوں پر عمل کرنے والے بہترین جنتوں میں
ہوں گے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ جب تم ہللا سے جنت مانگو تو جنت الفردوس کا سوال کرو۔ یہ سب سے اعلی سب
بخاری] 2790: ہیں۔ [صحیح بہتی نہریں کی جنتوں اور سے اسی ہے، جنت عمدہ سے
یہی ان کا مہمان خانہ ہو گی۔ یہ یہاں ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ نہ نکالے جائیں ،نہ نکلنے کا خیال آئے ،نہ اس سے بہتر
کوئی اور جگہ ،نہ وہ وہاں کے رہنے سے گھبرائیں کیونکہ ہر طرح کے اعلی عیش مہیا ہیں۔ ایک پر ایک رحمت مل
رہی ہے۔ روز بروز رغبت ومحبت ،انس والفت بڑھتی جا رہی ہے اس لیے نہ طبیعت اکتاتی ہے نہ دل بھرتا ہے بلکہ
روز شوق بڑھتا ہے اور نئی نعمت ملتی ہے۔
حکم ہوتا ہے کہ ہللا کی عظمت سمجھانے کے لیے دنیا میں اعالن کر دیجئیے کہ اگر روئے زمین کے سمندروں کی
سیاہی بن جائے اور پھر ہللا کے کل مات ،ہللا کی قدرتوں کے اظہار ،ہللا کی باتیں ،ہللا کی حکمتیں لکھنی شروع کی جائیں
تو یہ تمام سیاہی ختم ہو جائے گی لیکن ہللا کی تعریفیں ختم نہ ہوں گی۔ گو پھر ایسے ہی دریا الئے جائیں اور پھر الئے
جائیں اور پھر الئے جائیں لیکن ناممکن کہ ہللا کی قدرتیں ،اس کی حکمتیں ،اس کی دلیلیں ختم ہو جائیں۔ چنانچہ ہللا
ّٰللاِ ا َِّن
ت َكلِمٰ تُ ه ش َجـ َرة ا َ ْق َال ٌم َّو ْالبَحْ ُر یَ ُمد ُّٗہ ِم ْن بَ ْعد ِٖہ َ
س ْبعَةُ ا َ ْب ُحر َّما نَ ِفدَ ْ تعالی جل شانہ کا فرمان ہے « َولَ ْو ا َ َّن َما فِي ْاالَ ْر ِ
ض ِم ْن َ ٰ
ع ِزی ٌْز َح ِك ْی ٌم » [ 31-لقمان ] 27 :یعنی روئے زمین کے درختوں کی قلمیں بن جائیں اور تمام سمندروں کی سیاہیاں بن
ّٰللاَ َ
ه
9
کورس :مطالعہ نصوص قرآن حکیم )4619(I -
سمسٹر :خزاں2022:ء
جائیں پھر ان کے بعد سات سمندر اور بھی الئے جائیں لیکن ناممکن ہے کہ کلمات ٰالہی پورے لکھ لیے جائیں۔ ہللا کی
عزت اور حکمت ،اس کا غلبہ اور قدرت وہی جانتا ہے۔ تمام انسانوں کا علم ہللا کے علم کے مقابلہ میں اتنا بھی نہیں جتنا
سمندر کے مقابلے میں قطرہ۔ تمام درختوں کی قلمیں گھس گھس کر ختم ہو جائیں ،تمام سمندروں کی سیاہیاں ختم ہو
جائیں لیکن کلمات ٰالہی ویسے ہی رہ جائیں گے جیسے تھے ،وہ ان گنت ہیں ،بےشمار ہیں۔
کون ہے جو ہللا کی صح یح اور پوری قدر و عزت جان سکے؟ کون ہے جو اس کی پوری ثنا و صفت بجا ال سکے؟
بیشک ہمارا رب ویسا ہی ہے جیسا وہ خود فرما رہا ہے۔ بیشک ہم جو تعریفیں اس کی کریں ،وہ ان سب سے سوا ہے
اور ان سب سے بڑھ چڑھ کر ہے۔ یاد رکھو جس طرح ساری زمین کے مقابلے پر ایک رائی کا دانہ ہے اسی طرح
جنت کی اور آخرت کی نعمتوں کے مقابل تمام دنیا کی نعمتیں ہیں۔
سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی ہللا عنہما کا فرمان ہے کہ یہ سب سے آخری آیت ہے جو نبی کریم صلی ہللا علیہ
وسلم پر اتری۔ حکم ہوتا ہے کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم لوگوں سے فرمائیں کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں ،تم بھی
انسان ہو ،اگر مجھے جھوٹا جانتے ہو تو الؤ اس قرآن جیسا ایک قرآن تم بھی بنا کر پیش کر دو۔ دیکھو میں کوئی غیب
داں تو نہیں ،تم نے مجھ سے ذوالقرنین کا واقعہ دریافت کیا ،اصحاب کہف کا قصہ پوچھا تو میں نے ان کے صحیح
واقعات تمہارے سامنے بیان کر دئیے جو نفس االمر کے مطابق ہیں۔ اگر میرے پاس ہللا کی وحی نہ آتی تو میں ان
گزشتہ واقعات کو جس طرح وہ ہوئے ہیں ،تمہارے سامنے کس طرح بیان کر سکتا؟ سنو تمام تر وحی کا خالصہ یہ ہے
کہ تم موحد بن جاؤ۔ شرک کو چھوڑ دو۔ میری دعوت یہی ہے جو بھی تم میں سے ہللا سے مل کر اجر و ثواب لینا چاہتا
ہو ،اسے شریعت کے مطابق عمل کرنے چاہئیں اور شرک سے بالکل بچنا چاہیئے۔ ان دونوں ارکان کے بغیر کوئی عمل
ہللا کے ہاں قابل قبول نہیں ،خلوص ہو اور مطابقت سنت ہو۔
ایک شخص نے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ بہت سے نیک کاموں میں باوجود مرضی ٰالہی کی
تالش کے میرا ارادہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ل وگ میری نیکی دیکھیں تو میرے لیے کیا حکم ہے ،آپ خاموش رہے اور یہ
آیت اتری ،یہ حدیث مرسل ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:23427:مرسل ] سیدنا عبادہ بن صامت رضی ہللا عنہ سے
زکوة کرتا ہے ،ہللا کی رضا مندی بھی
ایک شخص نے سوال کیا کہ ایک شخص نماز ،روزہ ،صدقہ ،خیرات ،حج ٰ
ڈھونڈتا ہے اور لوگوں میں نیک نامی اور بڑائی بھی۔ آپ رضی ہللا عنہ نے فرمایا اس کی کل عبادت اکارت ہے ،ہللا
تعالی فرما دیتا ہے کہ یہ سب اسی دوسرے
ٰ تعالی شرک سے بیزار ہے ،جو اس کی عبادت میں اور نیت بھی کرے تو ہللا
ٰ
کو دے دو مجھے اس کی کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری:16/40:ضعیف] حضرت ابو سعید
خدری رضی ہللا عنہ کا بیان ہے کہ ہم نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس باری باری آتے ،رات گزارتے ،کبھی آپ
کو کوئی کام ہوتا تو فرما د یتے۔ ایسے لوگ بہت زیادہ تھے۔ ایک شب ہم آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے رسول
مقبول صلی ہللا علیہ وسلم تشریف الئے اور فرمایا یہ کیا کھسر پھسر کر رہے ہو؟ ہم نے جواب دیا ،یا رسول ہللا ہماری
توبہ ہے ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے اور دل ہمارے خوفزدہ تھے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم [سنن ابن
10
کورس :مطالعہ نصوص قرآن حکیم )4619(I -
سمسٹر :خزاں2022:ء
ماجہ،4204:قال الشیخ اْللباني:ضعیف ] نے فرمایا ،میں تمہیں اس سے بھی زیادہ دہشت ناک بات بتاؤں؟ وہ پوشیدہ
شرک ہے کہ انسان دوسرے انسان کو دکھانے کے لیے نماز پڑھے۔
مسند احمد میں ہے ،ابن غنم کہتے ہیں ،میں اور ابودرداء جابیہ کی مسجد میں گئے ،وہاں ہمیں سیدنا عبادہ بن صامت
رضی ہللا عنہ ملے ،بائیں ہاتھ سے تو انہوں نے میرا داہنا ہاتھ تھام لیا اور اپنے داہنے ہاتھ سے ابودرداء رضی ہللا عنہ
کا بایاں ہاتھ تھام لیا اور اسی طرح ہم تینوں وہاں سے باتیں کرتے ہوئے نکلے۔ آپ رضی ہللا عنہ فرمانے لگے ،دیکھو
اگر تم دونوں یا تم میں سے جو بھی زندہ رہا تو ممکن ہے اس وقت کو بھی وہ دیکھ لے کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ
وسلم کی زبان سے قرآن سیکھا ہوا بھال آدمی حالل کو حالل اور حرام کو حرام سمجھنے واال اور ہر حکم کو مناسب
جگہ رکھنے واال آئے اور اس کی قدرو منزلت لوگوں میں ایسی ہو جیسی مردہ گدھے کی سر کی۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی
تھیں کہ سیدنا شداد بن اوس رضی ہللا عنہما اور سیدنا عوف بن مالک رضی ہللا عنہما آ گئے اور بیٹھتے ہی شداد رضی
ہللا عنہا نے فرمایا ،لوگو مجھے تو تم پر سب سے زیادہ اس کا ڈر ہے جو میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے
سنا ہے یعنی پوشیدہ خواہش اور شرک کا۔ اس پر عبادہ رضی ہللا عنہما اور ابودرداء رضی ہللا عنہما نے فرمایا ،ہللا
معاف فرمائے ،ہم سے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس بات سے شیطان مایوس ہو گیا ہے کہ اس
جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے۔ ہاں پوشیدہ شہوات تو یہی خواہش کی چیزیں عورتیں وغیرہ ہیں لیکن یہ
شرک ہماری سمجھ میں تو نہیں آیا جس سے آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں۔
حضرت شداد رضی ہللا عنہما فرمانے لگے ،اچھا بتاؤ تو ایک آدمی دوسروں کے دکھانے کے لیے نماز ،روزہ ،صدقہ،
خیرات کرتا ہے۔ اس کا حکم تمہارے نزدیک کیا ہے؟ کیا اس نے شرک کیا؟ سب نے جواب دیا ،بیشک ایسا شخص
مشرک ہے۔ آپ رضی ہللا عنہما نے فرمایا ،میں نے خود رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص
دکھاوے کے لیے نماز پڑھے وہ مشرک ہے ،جو دنیا کو دکھانے کے لیے روزے رکھے وہ مشرک ہے ،جو لوگوں میں
اپنی سخاوت جتانے کے لیے صدقہ خیرات کرے وہ بھی مشرک ہے۔ اس پر عوف بن مالک رضی ہللا عنہما نے کہا ،کیا
یہ نہیں ہوسکتا کہ ایسے اعمال میں جو ہللا کے لیے ہو ،ہللا اسے قبول فرمالے اور جو دوسرے کے لیے ہو ،اسے رد
کر دے؟ شداد رضی ہللا عنہما نے جواب دیا ،یہ ہرگز نہیں ہونے کا۔ میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے سنا ہے
کہ جناب باری عزوجل کا ارشاد ہے کہ میں سب سے بہتر حصے واال ہوں ،جو بھی میرے ساتھ کسی عمل میں دوسرے
کو شریک کرے ،میں اپنا حصہ بھی اسی دوسرے کے سپرد کر دیتا ہوں۔ اور نہایت بےپرواہی سے جز کل سب کو
چھوڑ دیتا ہوں۔ [مسند احمد:4/125:ضعیف ]
اور روایت میں ہے کہ شداد بن اوس رضی ہللا عنہما ایک دن رونے لگے ،ہم نے پوچھا ،آپ کیسے رو رہے ہیں؟
فرمانے لگے ایک حدیث یاد آ گئی اور اس نے رال دیا۔ میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے سنا ہے ،مجھے اپنی
امت پر سب سے زیادہ ڈر شرک اور پوشیدہ شہوت کا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کیا
آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی؟ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ،ہاں سنو وہ سورج چاند ،پتھر ،بت کو نہ
11
کورس :مطالعہ نصوص قرآن حکیم )4619(I -
سمسٹر :خزاں2022:ء
پوجے گی بلکہ اپنے اعمال میں ریا کاری کرے گی۔ پوشیدہ شہوت یہ ہے کہ صبح روزے سے ہے اور کوئی خواہش
سامنے آئی ،روزہ چھوڑ دیا [مسند احمد:4/124:ضعیف ]۔
تعالی کا فرمان ہے میں تمام شریکوں سے بہتر ہوں۔ میرے ساتھ جو
ٰ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہللا
بھی کسی کو شریک کرے ،میں اپنا حصہ بھی اسی کو دے دیتا ہوں۔ [سلسلة احادیث صحیحه البانی،2764:صحیح ] اور
روایت میں ہے کہ جو شخص کسی عمل میں میرے ساتھ دوسرے کو مال لے ،میں اس سے بری ہوں اور اس کا وہ پورا
عمل اس غیر کے لیے ہی ہے۔ [مسند احمد:2/301:صحیح ] ایک اور حدیث میں ہے ،مجھے تمہاری نسبت سب سے
زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے ،لوگوں نے پوچھا ،وہ چھوٹا شرک کیا ہے؟ فرمایا ریاکاری۔ قیامت کے دن ریاکاروں کو
جواب ملے گا کہ جاؤ جن کے لیے عمل کئے تھے ،انہی کے پاس جزا مانگو۔ دیکھو پاتے بھی ہو؟ [مسند
احمد:5/428:صحیح ]
ابوسعید بن ابو فضالہ انصاری صحابی رضی ہللا عنہما سے روایت ہے ،فرماتے ہیں ،میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ
تعالی تمام اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا ،جس دن کے آنے میں کوئی شک شبہ نہیں ،اس دن
ٰ وسلم سے سنا کہ جب ہللا
ایک پکارنے واال پکارے گا کہ جس نے اپنے جس عمل میں ہللا کے ساتھ دوسرے کو مالیا ہو ،اسے چاہیئے کہ اپنے
تعالی ساجھے سے بہت ہی بے نیاز ہے۔ [مسند
ٰ اس عمل کا بدلہ اس دوسرے سے مانگ لے کیونکہ ہللا
احمد:3/466:حسن ] سیدنا ابوبکر رضی ہللا عنہما فرماتے ہیں ،رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ہے ،ریاکار کو
عذاب بھی سب کو دکھا کر ہو گا اور نیک اعمال لوگوں کو سنانے والے کو عذاب بھی سب کو سنا کر ہو گا [مسند احمد
:5/45صحیح لغیرہ ] ابو سعید خدری رضی ہللا عنہما سے بھی یہ روایت مروی ہے۔ [مسند احمد:3/40:صحیح ] سیدنا
ابن عمر رضی ہللا عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ہے ،اپنے نیک اعمال اچھالنے والے
تعالی ضرور رسوا کرے گا ،اس کے اخالق بگڑ جائیں گے اور وہ لوگوں کی نگاہوں میں حقیر و ذلیل ہو گا۔ یہ
ٰ کو ہللا
بیان فرما کر سیدنا عبدہللا رضی ہللا عنہما رونے لگے۔ [مسند احمد:2/162:صحیح ]
انس رضی ہللا عنہما راوی ہیں کہ محمد مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ہے ،قیامت کے دن انسان کے نیک
اعمال کے مہر شدہ صحیفے ہللا کے سامنے پیش ہوں گے۔ جناب باری عزوجل فرمائے گا ،اسے پھینک دو ،اسے قبول
وتعالی جہاں تک ہمارا علم
ٰ کرو ،اسے قبول کرو ،اسے پھینک دو۔ اس وقت فرشتے عرض کریں گے کہ اے ہللا تبارک
ہے ہم تو اس شخص ک ے اعمال نیک ہی جانتے ہیں ،جواب ملے گا کہ جن کو میں پھینکوا رہا ہوں یہ وہ اعمال ہیں جن
میں صرف میری ہی رضا مندی مطلوب نہ تھی بلکہ ان میں ریاکاری تھی۔ آج میں تو صرف ان اعمال کو قبول کروں گا
جو صرف میرے لیے ہی کئے گئے ہوں۔ [الدر المنثور للسیوطی:4/460:ضعیف ]
ارشاد ہے کہ جو دکھاوے سناوے کے لیے کھڑا ہوا ہو ،وہ جب تک نہ بیٹھے ہللا کے غصے اور غضب میں ہی رہتا
یعلی کی حدیث میں ہے ،رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں ،جو
ٰ ہے۔ [مجمع الزوائد:10/223:ضعیف ] ابو
شخص لوگوں کے دیکھتے ہوئے تو ٹھہر ٹھہر کر اچھی کر کے نماز پڑھے اور تنہائی میں بری طرح جلدی جلدی بے
ابویعلی:5117:ضعیف ] پہلے بیان ہو چکا ہے
ٰ دلی سے ادا کرے ،اس نے اپنے پروردگار عزوجل کی توہین کی۔ [مسند
12
کورس :مطالعہ نصوص قرآن حکیم )4619(I -
سمسٹر :خزاں2022:ء
کہ اس آیت کو امیر معاویہ رضی ہللا عنہما قرآن کی آخری آیت بتاتے ہیں۔ [ضعیف ] لیکن یہ قول اشکال سے خالی نہیں
کیونکہ سورة الکہف پوری کی پوری مکے شریف میں نازل ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد مدینے میں برابر
دس سال تک قرآن کریم اترتا رہا تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ رضی ہللا عنہ کا مطلب یہ ہو کہ یہ آیت آخری ہے
یعنی کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہوئی۔ اس میں جو حکم ہے وہ آخر تک بدال نہیں گیا۔ اس کے بعد کوئی ایسی
ا َ ْعلَ ُم »۔ کرے « َوہللاُ وتغیر تبدیلی میں اس جو اتری نہیں آیت
ایک بہت ہی غریب حدیث حافظ ابوبکر بزار رحمہ ہللا اپنی کتاب میں الئے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے
صا ِل ًحا َو َال یُ ْش ِر ْك ِب ِع َبادَ ِة َر ِبِّ ِه أ َ َحدًا [ »الکھف، ] 110 : فرمایا ہے کہ جو شخص آیت «فَ َمن َكانَ َی ْر ُجو ِلقَا َء َر ِبِّ ِه فَ ْل َی ْع َم ْل َ
ع َم ًال َ
تعالی اسے اتنا بڑا نور عطا فرمائے گا جو عدن سے مکے شریف تک
ٰ کو رات کے وقت پڑھے گا ،ہللا
پہنچے۔ [مستدرک حاکم:2/371ضعیف ]
13