You are on page 1of 13

‫کورس‪ :‬مطالعہ نصوص قرآن حکیم ‪)4619(I -‬‬

‫سمسٹر‪ :‬خزاں‪2022:‬ء‬
‫امتحانی مشق نمبر ‪1‬‬
‫کورس کوڈ ‪4619‬‬
‫نام = محمد رئیس‬
‫رجسٹریشن نمبر= ‪16PRI11533‬‬

‫سوال نمبر ‪1‬۔ سورۃ االنعام کی درج ذیل آیات کریمہ کا ترجمہ کریں اور تفسیر ابن کثیر کی‬
‫روشنی میں اس کی تفسیر کریں ۔‬
‫جواب‬
‫ترجمہ=‬
‫علَى َما فَ َّر ْطنَا فِی َها َو ُه ْم یَحْ ِملُونَ أ َ ْو َز َ‬
‫ار ُه ْم‬ ‫ساعَةُ بَ ْغت َة قَالُوا یَا َح ْ‬
‫س َرتَنَا َ‬ ‫َّللاِ ۖ َحتَّى ِإذَا َجا َءتْ ُه ُم ال َّ‬
‫اء َّ‬‫قَ ْد َخس َِر الَّ ِذینَ َكذَّبُوا ِب ِلقَ ِ‬
‫َّار ْاْل ِخ َرۃُ َخی ٌْر ِللَّ ِذینَ یَتَّقُونَ ۖ أ َفَ َل‬ ‫ب َولَه ٌْو ۖ َولَلد ُ‬ ‫سا َء َما یَ ِز ُرونَ )‪َ (31‬و َما ا ْل َحیَاۃُ ال ُّد ْنیَا ِإ َّال لَ ِع ٌ‬ ‫ور ِه ْم ۖ أ َ َال َ‬ ‫ظ ُه ِ‬‫علَى ُ‬ ‫َ‬
‫ت َ ْع ِقلُونَ )‪(32‬‬
‫[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد ]ا خسارے میں رہے وہ لوگ جنھوں نے ہللا کی مالقات کو جھٹالیا‪ ،‬یہاں تک کہ جب‬
‫ان کے پاس قیامت اچانک آپہنچے گی کہیں گے ہائے ہمارا افسوس! اس پر جو ہم نے اس میں کوتاہی کی اور وہ اپنے‬
‫بوجھ اپنی پشتوں پر اٹھائیں گے۔ سن لو! برا ہے جو وہ بوجھ اٹھائیں گے۔ ]‪[31‬‬
‫ااور دنیا کی زندگی کھیل اور دل لگی کے سوا کچھ نہیں اور یقینا آخرت کا گھران لوگوں کے لیے بہتر ہے جو ڈرتے‬
‫ہیں‪ ،‬تو کیا تم نہیں سمجھتے۔ ]‪[32‬‬
‫تفسیرابن کثیر‬
‫قیامت کو جھٹالنے والوں کا نقصان ان کا افسوس اور ان کی ندامت و خجالت کا بیان ہو رہا ہے جو اچانک قیامت کے آ‬
‫جانے کے بعد انہیں ہو گا۔ نیک اعمال کے ترک افسوس الگ‪ ،‬بد اعمالیوں پر پچھتاوا جدا ہے۔ « ِفی َھا »کی ضمیر کا‬
‫مرجع ممکن ہے « ْال َحیَا ِة »ہو اور ممکن ہے « ْاْل َ ْع َما ِل »ہو اور ممکن ہے «الد ُ‬
‫َّار ْاْل ِخ َرة ُ »ہو‪” ،‬یہ اپنے گناہوں کے بوجھ‬
‫۔‬ ‫گے“‬ ‫ہوں‬ ‫ہوئے‬ ‫اٹھائے‬ ‫اوپر‬ ‫اپنے‬ ‫کرداریاں‬ ‫بد‬ ‫اپنی‬ ‫گے‪،‬‬ ‫ہوں‬ ‫ہوئے‬ ‫لدے‬ ‫سے‬
‫آہ! کیا برا بوجھ ہے؟ ابو مرزوق رحمہ ہللا فرماتے ہیں ”کافر یا فاجر جب اپنی قبر سے اٹھے گا اسی وقت اس کے‬
‫سامنے ایک شخص آئے گا جو نہایت بھیانک‪ ،‬خوفناک اور بدصورت ہو گا اس کے جسم سے تعفن والی سڑاند کی‬

‫‪1‬‬
‫کورس‪ :‬مطالعہ نصوص قرآن حکیم ‪)4619(I -‬‬
‫سمسٹر‪ :‬خزاں‪2022:‬ء‬
‫سخت بدبو آ رہی ہوگی وہ اس کے پاس جب پہنچے گا یہ دہشت و وحشت سے گھبرا کر اس سے پوچھے گا تو کون‬
‫ہے؟ وہ کہے گا خواب! کیا تو مجھے پہچانتا نہیں؟‬
‫یہ جواب دے گا ہرگز نہیں صرف اتنا جانتا ہوں کہ تو نہایت بدصورت کریہہ منظر اور تیز بدبو واال ہے تجھ سے زیادہ‬

‫بدصورت کوئی بھی نہ ہوگا‪ ،‬وہ کہے گا سن میں تیرا خبیث عمل ہوں جسے تو دنیا میں مزے لے کر کرتا رہا۔ سن تو‬

‫دنیا میں مجھ پر سوار رہا اب کمر جھکا میں تجھ پر سوار ہو جاؤں گا چنانچہ وہ اس پر سوار ہو جائے گا یہی مطلب ہے‬

‫اس آیت کا کہ ” وہ لوگ اپنے بد اعمال کو اپنی پیٹھ پر الدے ہوئے ہوں گے “۔‬

‫حضرت سدی رحمہ ہللا فرماتے ہیں کہ ”جو بھی ظالم شخص قبر میں جاتا ہے اس کی الش کے قبر میں پہنچتے ہی‬

‫ایک شخص اس کے پاس جاتا ہے سخت بدصورت سخت بدبودار سخت میلے اور قابل نفرت لباس واال یہ اسے دیکھتے‬

‫ہی کہتا ہے تو تو بڑا ہی بدصورت ہے بدبو دار ہے یہ کہتا ہے تیرے اعمال ایسے ہی گندے تھے وہ کہتا ہے تیرا لباس‬

‫نہایت متعفن ہے‪ ،‬یہ کہتا ہے تیرے اعمال ایسے ہی قابل نفرت تھے وہ کہتا ہے اچھا بتا تو سہی اے منحوس تو ہے کون؟‬

‫یہ کہتا ہے تیرے عمل کا مجسمہ‪ ،‬اب یہ اس کے ساتھ ہی رہتا ہے اور اس کیلئے عذابوں کے ساتھ ہی ایک عذاب ہوتا‬

‫ہے جب قیامت کے دن یہ اپنی قبر سے چلے گا تو یہ کہے گا ٹھہر جاؤ دنیا میں تو نے میری سواری لی ہے اب میں‬

‫تیری سواری لوں گا چنانچہ وہ اس پر سوار ہو جاتا ہے اور اسے مارتا پیٹتا ذلت کے ساتھ جانوروں کی طرح ہنکاتا ہوا‬

‫ہیں۔“‬ ‫کے‬ ‫جملے‬ ‫اس‬ ‫کے‬ ‫آیت‬ ‫اس‬ ‫ہیں‬ ‫معنی‬ ‫یہی‬ ‫ہے۔‬ ‫پہنچاتا‬ ‫میں‬ ‫جہنم‬

‫دنیا کی زندگانی بجز کھیل تماشے کے ہے ہی کیا‪ ،‬آنکھ بند ہوئی اور خواب ختم‪ ،‬البتہ ہللا سے ڈرنے والے لوگوں کیلئے‬

‫آخرت کی زندگانی بڑی چیز ہے اور بہت ہی بہتر چیز ہے تمہیں کیا ہوگیا کہ تم عقل سے کام ہی نہیں لیتے؟‬

‫سوال نمبر ‪2‬۔ سورۃ التوبة کی درج ذیل آیات کریمہ کا تر جمہ کریں اور تفسیر ابن کثیر کی روشنی میں اس کی تفسیر‬
‫کریں۔‬
‫جواب =‬
‫َّللاُ‬
‫َّللاِ ۖ َو َّ‬ ‫َّللاِ ۖ َال یَ ْ‬
‫ست َ ُوونَ ِعن َد َّ‬ ‫اّللِ َوا ْلیَ ْو ِم ْاْل ِخ ِر َو َجا َه َد فِي َ‬
‫س ِبی ِل َّ‬ ‫س ِج ِد ا ْل َح َر ِام َك َم ْن آ َمنَ ِب َّ‬ ‫سقَایَةَ ا ْل َحاجِ َو ِع َم َ‬
‫ارۃَ ا ْل َم ْ‬ ‫أ َ َجعَ ْلت ُ ْم ِ‬
‫َّللاِ ِبأ َ ْم َوا ِل ِه ْم َوأَنفُس ِِه ْم أ َ ْع َظ ُم د ََر َجة ِعن َد َّ‬
‫َّللاِ ۖ َوأُو َلئِكَ‬ ‫ظا ِل ِمینَ )‪ (19‬الَّ ِذینَ آ َمنُوا َو َها َج ُروا َو َجا َهدُوا فِي َ‬
‫س ِبی ِل َّ‬ ‫َال یَ ْهدِي ا ْلقَ ْو َم ال َّ‬
‫ُه ُم ا ْلفَائِ ُزونَ )‪(20‬‬
‫[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد ]کیا تم نے حاجیوں کو پانی پالنا اور مسج ِد حرام کو آباد کرنا اس جیسا بنا دیا جو ہللا‬
‫اور یوم آخرت پر ایمان الیا اور اس نے ہللا کے راستے میں جہاد کیا۔ یہ ہللا کے ہاں برابر نہیں ہیں اور ہللا ظالم لوگوں‬
‫کو ہدایت نہیں دیتا۔ ]‪[19‬‬
‫‪2‬‬
‫کورس‪ :‬مطالعہ نصوص قرآن حکیم ‪)4619(I -‬‬
‫سمسٹر‪ :‬خزاں‪2022:‬ء‬
‫جو لوگ ایمان الئے اور انھواں نے ہجرت کی اور ہللا کے راستے میں اپنے مالوں اور اپنی جانوں کے ساتھ جہاد کیا‬
‫وہ ہللا کے ہاں درجے میں بہت بڑے ہیں اور وہی لوگ کامیاب ہیں۔ ]‪[20‬‬
‫تفسیر ابن کثیر‬
‫سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہما فرماتے ہیں کہ ”کافروں کا قول تھا کہ بیت ہللا کی خدمت اور حاجیوں کے پانی پالنے‬

‫کی سعادت بہتر ہے ایمان و جہاد سے۔ ہم چونکہ یہ دونوں خدمتیں انجام دے رہے ہیں اس لیے ہم سے بہتر کوئی نہیں۔‬

‫ہللا نے ان کا فخر و غرور اور حق سے تکبر اور منہ پھیرنا فرمایا کہ میری آیتوں کی تمہارے سامنے تالوت ہوتے‬

‫ہوئے تم اس سے بےپرواہی سے منہ موڑ کر اپنی بات چیت میں مشغول رہتے ہو‪ ،‬پس تمہارا گمان بےجا‪ ،‬تمہارا غرور‬

‫تعالی کے ساتھ کا ایمان اور اس کی راہ کا جہاد بڑی چیز ہے لیکن تمہارے‬
‫ٰ‬ ‫غلط‪ ،‬تمہارا فخر نا مناسب ہے۔ یوں بھی ہللا‬

‫مقابلے می ں تو وہ اور بھی بڑی چیز ہے کیونکہ تمہاری تو کوئی نیکی ہو بھی تو اسے شرک کا گھن کھا جاتا ہے۔‬

‫عالی نے ان کا نام‬
‫پس فرماتا ہے کہ یہ دونوں گروہ برابر کے بھی نہیں یہ اپنے آپ کو آبادی کرنے واال کہتے تھے ہللا ت ٰ‬

‫دی۔‬ ‫کر‬ ‫بیکار‬ ‫خدمت‬ ‫کی‬ ‫گھر‬ ‫کے‬ ‫تعالی‬


‫ٰ‬ ‫ہللا‬ ‫رکھا‬ ‫ظالم‬

‫کہتے ہیں کہ سیدنا عباس رضی ہللا عنہ نے اپنی قید کے زمانے میں کہا تھا کہ ”تم اگر اسالم و جہاد میں تھے تو ہم بھی‬

‫تعالی کے گھر کی خدمت اور حاجیوں کو آرام پہنچانے میں تھے۔“ اس پر یہ آیت اتری کہ شرک کے وقت کی نیکی‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬

‫بیکار ہے۔ صحابہ کرام رضوان ہللا علیہم اجمعین نے ان پر جب لے دے شروع کی تو سیدنا عباس رضی ہللا عنہ نے کہا‬

‫تھا کہ ” ہم مسجد الحرام کے متولی تھے ہم غالموں کو آزاد کرتے تھے ہم بیت ہللا کو غالف چڑھاتے تھے ہم حاجیوں‬

‫کو پانی پالتے تھے اس پر یہ آیت اتری۔ مروی ہے کہ یہ گفتگو سیدنا عباس رضی ہللا عنہ اور سیدنا علی رضی ہللا عنہ‬

‫میں ہوئی ہو۔ مروی ہے کہ طلحہ بن ش یبہ‪ ،‬عباس بن عبدالمطلب‪ ،‬علی بن ابی طالب بیٹھے بیٹھے اپنی اپنی بزرگیاں بیان‬

‫کرنے لگے‪ ،‬طلحہ نے کہا میں بیت ہللا کا کنجی بردار ہوں میں اگر چاہوں وہاں رات گزار سکتا ہوں۔‬

‫سیدنا عباس رضی ہللا عنہ نے کہا‪” :‬می ں زمزم کا پانی پالنے واال ہوں اور اس کا نگہبان ہوں اگر چاہوں تو مسجد ساری‬

‫رات رہ سکتا ہوں۔“ سیدنا علی رضی ہللا عنہ نے کہا‪” :‬میں نہیں جانتا کہ تم دونوں صاحب کیا کہہ رہے ہو؟ میں نے‬

‫لوگوں سے چھ ماہ پہلے قبلہ کی طرف نماز پڑھی ہے میں مجاہد ہوں۔“ اس پر یہ آیت اتری‪ ،‬سیدنا عباس رضی ہللا عنہ‬

‫نے اپنا ڈر ظاہر کیا کہ کہیں میں چاہ زمزم کے پانی کے عہدے سے نہ ہٹا دیا جاؤں۔ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے‬

‫‪3‬‬
‫کورس‪ :‬مطالعہ نصوص قرآن حکیم ‪)4619(I -‬‬
‫سمسٹر‪ :‬خزاں‪2022:‬ء‬
‫فرمایا‪ ” :‬نہیں تم اپنے اس منصب پر قائم رہو تمہارے لیے اس میں بھالئی ہے۔“ [تفسیر ابن جریر‬

‫الطبری‪:16575:‬مرسل و ضعیف]‬

‫اس آیت کی تفسیر میں ایک مرفوع حدیث وارد ہوئی ہے جس کا ذکر بھی یہاں ضروری ہے سیدنا نعمان بن بشیر رضی‬

‫ہللا عنہ کہتے ہیں کہ ” ایک شخص نے کہا اسالم کے بعد اگر میں کوئی عمل نہ کروں تو مجھے پرواہ نہیں بجز اس کے‬

‫کہ میں حاجیوں کو پانی پالؤں۔ دوسرے نے اسی طرح مسجد الحرام کی آبادی کو کہا۔ تیسرے نے اسی طرح ہللا کی راہ‬

‫کے جہاد کو کہا۔ سیدنا عمر رضی ہللا عنہ نے انہیں ڈانٹ دیا اور فرمایا منبر رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس‬

‫آوازیں بلند نہ کرو۔ یہ واقعہ جمعہ کے دن کا ہے جمعہ کے بعد ہم سب نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس حاضر‬

‫تعالی نے یہ آیت نازل فرمائی۔“ [عبد الرزاق فی تفسیر‪]1060:‬‬


‫ٰ‬ ‫ہوئے اور آپ صلی ہللا علیہ وسلم سے پوچھا تو ہللا‬

‫اور روایت میں ہے کہ سیدنا عمر رضی ہللا عنہ نے وعدہ کیا تھا کہ نماز جمعہ کے بعد میں خود جا کر نبی کریم صلی‬

‫ہللا علیہ وسلم سے یہ بات دریافت کر لوں گا۔ [صحیح مسلم‪1879:‬۔‪]111‬‬

‫سوال نمبر ‪3‬۔ سورۃ هود کی درج ذیل آیات کریمہ کا ترجمہ کریں اور تفسیر ابن کثیر کی روشنی میں اس کی تفسیر‬
‫کریں۔‬
‫ْس لَ ُه ْم فِي ا ْْل ِخ َر ِۃ إِ َّال‬ ‫ف إِلَی ِْه ْم أ َ ْع َمالَ ُه ْم فِی َها َو ُه ْم فِی َها َال یُ ْب َخ ُ‬
‫سونَ )‪ (15‬أُولَئِكَ الَّ ِذینَ لَی َ‬ ‫َمن كَانَ یُ ِری ُد ا ْل َحیَاۃَ ال ُّد ْنیَا َو ِزینَت َ َها نُ َو ِ‬
‫اط ٌل َّما كَانُوا یَ ْع َملُونَ )‪(16‬‬ ‫ار ۖ َو َح ِب َط َما َ‬
‫صنَعُوا فِی َها َوبَ ِ‬ ‫النَّ ُ‬
‫[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد ]جو کوئی دنیا کی زندگی اور اس کی زینت کا ارادہ رکھتا ہو ہم انھیں ان کے اعمال کا‬
‫بدلہ اسی (دنیا) میں پورا دے دیں گے اور اس (دنیا) میں ان سے کمی نہ کی جائے گی۔ ]‪[15‬‬
‫یہی لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آگ کے سوا کچھ نہیں اور برباد ہوگیا جو کچھ انھوں نے اس میں کیا اور بے کار‬
‫ہے جو کچھ وہ کرتے رہے تھے۔ ]‪[16‬‬
‫تفسیر ابن کثیر‬
‫سیدنا ابن عباس رضی ہللا عنہ فرماتے ہیں ”ریاکاروں کی نیکیوں کا بدلہ سب کچھ اسی دنیا میں مل جاتا ہے۔ ذرا سی‬
‫بھی کمی نہیں ہوتی۔ “ پس جو شخص دنیا میں دکھاوے کے لئے نماز پڑھے‪ ،‬روزے رکھے یا تہجد گزاری کرے‪ ،‬اس‬
‫کا اجر اسے دنیا میں ہی مل جاتا ہے۔ آخرت میں وہ خالی ہاتھ اور محض بےعمل اُٹھتا ہے۔‬
‫سیدنا انس رضی ہللا عنہ وغیرہ کا بیان ہے ”یہ آیت یہود و نصاری کے حق میں اتری“‪ ،‬اور مجاہد رحمہ ہللا کہتے‬
‫ہیں ”ریاکاروں کے بارے میں اتری ہے۔ “الغرض کس کا جو قصد ہو اسی کے مطابق اس سے معاملہ ہوتا ہے دنیا طلبی‬
‫کے لیے جو اعما ل ہوں وہ آخرت میں کار آمد نہیں ہو سکتے۔ مومن کی نیت اور مقصد چونکہ آخرت طلبی ہی ہوتا ہے‬
‫ہللا اسے آخرت میں اس کے اعمال کا بہترین بدلہ عطا فرماتا ہے اور دنیا میں بھی اس کی نیکیاں کام آتی ہیں۔‬

‫‪4‬‬
‫کورس‪ :‬مطالعہ نصوص قرآن حکیم ‪)4619(I -‬‬
‫سمسٹر‪ :‬خزاں‪2022:‬ء‬

‫ع َّج ْلنَا لَهُ فِی َھا َما نَشَا ُء ِل َمن نُّ ِرید ُ‬ ‫ایک مرفوع حدیث میں بھی یہی مضمون آیا ہے۔ قرآن کریم کی آیات « َّمن َكانَ ی ُِریدُ ْال َع ِ‬
‫اجلَةَ َ‬
‫ورا ُك ًال‬ ‫س ْع َی َھا َو ُھ َو ُمؤْ ِم ٌن فَأُو َلـ ٰٰئِكَ َكانَ َ‬
‫س ْعیُ ُھم َّم ْش ُك ً‬ ‫ورا َو َم ْن أ َ َرادَ ْاْل ِخ َرة َ َو َ‬
‫س َع ٰى لَ َھا َ‬ ‫ث ُ َّم َج َع ْلنَا لَهُ َج َھنَّ َم یَ ْ‬
‫ص َالھَا َم ْذ ُمو ًما َّم ْد ُح ً‬
‫ع َل ٰى َب ْعض َولَ ْْل ِخ َرة ُ أ َ ْك َب ُر‬ ‫ْف فَض َّْلنَا َب ْع َ‬
‫ض ُھ ْم َ‬ ‫ورا ان ُ‬
‫ظ ْر َكی َ‬ ‫ظ ً‬‫طا ُء َر ِبِّكَ َمحْ ُ‬
‫ع َ‬
‫اء َر ِبِّكَ َو َما َكانَ َ‬
‫ط ِ‬‫ع َ‬
‫نُّ ِمدُّ ہَـ ٰٰؤُ َال ِء َوہَـ ٰٰؤ َُال ِء ِم ْن َ‬
‫یال‪» [17-‬اإلسراء‪ ] 21-18:‬میں بھی اسی کا تفصیلی بیان ہے کہ ”دنیا طلب لوگوں میں سے جسے ہم‬ ‫ض ً‬ ‫دَ َر َجات َوأ َ ْك َب ُر ت َ ْف ِ‬
‫جس قدر چاہیں دے دیتے ہیں۔ پھر اس کا ٹھکانا جہنم ہوتا ہے جہاں وہ ذلیل و خوار ہو کر داخل ہوتا ہے۔ ہاں جس کی‬
‫طلب آخرت ہو اور بالکل اسی کے مطابق اس کا عمل بھی ہو اور وہ ایماندار بھی تو ایسے لوگوں کی کوشش کی قدر‬
‫دانی کی جاتی ہ ے۔ انہیں ہر ایک کو ہم تیرے رب کی عطا سے بڑھاتے رہتے ہیں تیرے پروردگار کا انعام کسی سے‬
‫رکا ہوا نہیں۔ تو خود دیکھ لے کہ کس طرح ہم نے ایک کو ایک پر فضیلت بخشی ہے۔ آخرت کیا باعتبار درجوں کے‬
‫اور کیا باعتبار فضیلت کے بہت ہی بڑی اور زبردست چیز ہے“ ۔‬
‫ث الدُّ ْنیَا نُؤْ تِ ٖه ِم ْن َھا َو َما لَهٗ فِي ْ ٰ‬
‫اال ِخ َرةِ‬ ‫ث ْٰ‬
‫اال ِخ َرةِ ن َِز ْد لَهٗ فِ ْي َح ْرثِ ٖه َو َم ْن َكانَ ی ُِر ْیدُ َح ْر َ‬ ‫اور آیت میں ارشاد ہے « َم ْن َكانَ ی ُِر ْیدُ َح ْر َ‬
‫ِم ْن نَّ ِ‬
‫صیْب‪» [42-‬الشورى‪” ] 20:‬جس کا ارادہ آخرت کی کھیتی کا ہو ہم خود اس میں اس کے لیے برکت عطا فرماتے‬
‫ہیں اور جس کا ارادہ دنیا کی کھیتی کا ہو ہم گو اسے اس میں سے کچھ دے دیں لیکن آخرت میں وہ بے نصیب رہ جاتا‬
‫ہے“ ۔‬
‫سوال نمبر ‪4‬۔ سورۃ الحجر کی درج ذیل آیات کریمہ کا ترجمہ کریں اور تفسیر فی ظلل القرآن کی روشنی میں اس کی‬
‫تفسیر کریں ۔‬

‫علَى ُ‬
‫س ُر ٍر‬ ‫ُور ِهم ِم ْن ِغ ٍل إِ ْخ َوانا َ‬
‫صد ِ‬ ‫آمنِینَ )‪َ (46‬ونَ َز ْعنَا َما فِي ُ‬ ‫س َل ٍم ِ‬ ‫ون )‪ (45‬ا ْد ُخلُو َها بِ َ‬‫عی ُ ٍ‬‫ت َو ُ‬ ‫إِنَّ ا ْل ُمت َّ ِقینَ فِي َجنَّا ٍ‬
‫الر ِحی ُم )‪َ (49‬وأَنَّ َ‬
‫عذَابِي ُه َو‬ ‫ب َو َما ُهم ِم ْن َها بِ ُم ْخ َر ِجینَ )‪ (48‬نَبِ ْئ ِعبَادِي أَنِي أَنَا ا ْلغَفُ ُ‬
‫ور َّ‬ ‫س ُه ْم فِی َها نَ َ‬
‫ص ٌ‬ ‫ُّمتَقَابِ ِلینَ )‪َ (47‬ال یَ َم ُّ‬
‫اب ْاْل َ ِلی ُم)‪(50‬‬
‫ا ْلعَذَ ُ‬
‫[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد ]بے شک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے۔ ]‪[45‬‬
‫اس میں سالمتی کے ساتھ بے خوف ہوکر داخل ہوجاؤ۔ ]‪[46‬‬
‫[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد ]اور ہم ان کے سینوں میں جو بھی کینہ ہے نکال دیں گے‪ ،‬بھائی بھائی بن کر تختوں‬
‫پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے۔ ]‪[47‬‬
‫اس میں انھیں نہ کوئی تھکاوٹ چھوئے گی اور نہ وہ اس سے کبھی نکالے جانے والے ہیں۔ ]‪[48‬‬
‫میرے بندوں کو خبر دے دے کہ بے شک میں ہی بے حد بخشنے واال‪ ،‬نہایت رحم واالہوں۔ ]‪[49‬‬
‫اور یہ بھی کہ بے شک میرا عذاب ہی دردناک عذاب ہے۔ ]‪[50‬‬

‫تفسیر ابن کثیر‬

‫‪5‬‬
‫کورس‪ :‬مطالعہ نصوص قرآن حکیم ‪)4619(I -‬‬
‫سمسٹر‪ :‬خزاں‪2022:‬ء‬
‫دوزخیوں کا ذکر کر کے اب جنتیوں کا ذکر ہو رہا ہے کہ ”وہ باغات‪ ،‬نہروں اور چشموں میں ہوں گے“ ۔ ان کو‬

‫بشارت سنائی جائے گی کہ اب تم ہر آفت سے بچ گئے ہر ڈر اور گھبراہٹ سے مطمئن ہو گئے نہ نعمتوں کے زوال کا‬

‫ڈر‪ ،‬نہ یہاں سے نکالے جانے کا خطرہ نہ فنا نہ کمی۔‬

‫اہل جنت کے دلوں میں گو دنیوں رنجشیں باقی رہ گئی ہوں مگر جنت میں جاتے ہی ایک دوسرے سے مل کر تمام گلے‬

‫شکوے ختم ہو جائیں گے۔ حضرت ابوامامہ فرماتے ہیں جنت میں داخل ہونے سے پہلے ہی سینے بے کینہ ہو جائیں‬

‫گے۔ چنانچہ مرفوع حدیث میں بھی ہے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ مومن جہنم سے نجات پا کر جنت‬

‫دوزخ کے درمیان کے پل پر روک لیے جائیں گے جو ناچاقیاں اور ظلم آپس میں تھے‪ ،‬ان کا ادلہ بدلہ ہو جائے گا اور‬

‫پاک دل صاف سینہ ہو کر جنت میں جائیں گے ۔ [صحیح بخاری‪]6535:‬‬

‫اشتر نے سیدنا علی رضی ہللا عنہ کے پاس آنے کی اجازت مانگی‪ ،‬اس وقت آپ رضی ہللا عنہ کے پاس سیدنا طلحہ‬

‫رضی ہللا عنہ کے صاحبزادے بیٹھے تھے تو آپ رضی ہللا عنہ نے کچھ دیر کے بعد اسے اندر بالیا اس نے کہا کہ شاید‬

‫ان کی وجہ سے مجھے آپ رضی ہللا عنہ نے دیر سے اجازت دی؟ آپ رضی ہللا عنہ نے فرمایا سچ ہے۔ کہا پھر تو اگر‬

‫آپ رضی ہللا عنہ کے پاس سیدنا عثمان رضی ہللا عنہ کے صاحبزادے ہوں تو بھی آپ مجھے اسی طرح روک دیں‬

‫گے؟ آپ رضی ہللا عنہ نے فرمایا ”بیشک مجھے تو ہللا سے امید ہے کہ میں اور سیدنا عثمان رضی ہللا عنہ ان لوگوں‬

‫میں سے ہوں گے‪ ،‬جن کی شان میں یہ ہے کہ ان کے دلوں میں جو کچھ خفگی تھی ہم نے دور کر دی‪ ،‬بھائی بھائی ہو‬

‫کر آمنے سامنے تخت شاہی پر جلوہ فرما ہیں۔“‬

‫ایک اور روایت میں ہے کہ عمران بن طلحہ اصحاب جمل سے فارغ ہو کر علی رضی ہللا عنہ کے پاس آئے آپ رضی‬

‫ہللا عنہ نے انہیں مرحبا کہا اور فرمایا کہ ”میں امید رکھتا ہوں کہ میں اور تمہارے والد ان میں سے ہیں جن کے دلوں‬

‫کے غصے ہللا دور کر کے بھائی بھائی بنا کر جنت کے تختوں پر آمنے سامنے بٹھائے گا۔“‬

‫ایک اور روایت میں ہے کہ یہ سن کر فرش کے کونے پر بیٹھے ہوئے دو شخصوں نے کہا‪ ،‬ہللا کا عہد اس سے بہت‬

‫بڑھا ہوا ہے کہ جنہیں آپ قتل کریں ان کے بھائی بن جائیں؟ آپ رضی ہللا عنہ نے غصے سے فرمایا ”اگر اس آیت سے‬

‫مراد میرے اور طلحہ جیسے لوگ نہیں تو اور کون ہوں گے؟“‬

‫‪6‬‬
‫کورس‪ :‬مطالعہ نصوص قرآن حکیم ‪)4619(I -‬‬
‫سمسٹر‪ :‬خزاں‪2022:‬ء‬
‫اور روایت میں ہے کہ قبیلہ ہمدان کے ایک شخص نے یہ کہا تھا اور علی رضی ہللا عنہ نے اس دھمکی اور بلند آواز‬

‫سے یہ جواب دیا تھا کہ محل ہل گیا۔‬

‫اور روایت میں ہے کہ کہنے والے کا نام حارث اعور تھا اور اس کی اس بات پر آپ رضی ہللا عنہ نے غصے ہو کر‬

‫جو چیز آپ رضی ہللا عنہ کی ہاتھ میں تھی وہ اس کے سر پر مار کر یہ فرمایا تھا۔‬

‫این جرموز جو زبیر رضی ہللا عنہ کا قاتل تھا جب دربار علی رضی ہللا عنہ میں آیا تو آپ رضی ہللا عنہ نے بڑی دیر‬

‫بعد اسے داخلے کی اجازت دی‪ ،‬اس نے آ کر زبیر رضی ہللا عنہ اور ان کے ساتھیوں کو بلوائی کہہ کر برائی سے یاد‬

‫کیا تو آپ رضی ہللا عنہ نے فرمایا ”تیرے منہ میں مٹی۔ میں اور طلحہ اور زبیر رضی ہللا عنہ تو ان شاءہللا ان لوگوں‬

‫میں ہیں جن کی بابت ہللا کا یہ فرمان ہے۔“ سیدنا علی رضی ہللا عنہ قسم کہا کر فرماتے ہیں کہ ”ہم بدریوں کی بابت یہ‬

‫آیت نازل ہوئی ہے۔“‬

‫کثیر کہتے ہیں ”میں ابو جعفر محمد بن علی کے پاس گیا اور کہا کہ میرے دوست آپ کے دوست ہیں اور مجھ سے‬

‫مصالحت رکھنے والے آپ سے مصالحت رکھے والے ہیں‪ ،‬میرے دشمن آپ کے دشمن ہیں اور مجھ سے لڑائی رکھنے‬

‫والے آپ سے لڑائی رکھنے والے ہیں۔ وہللا میں ابوبکر اور عمر رضی ہللا عنہم سے بری ہوں۔“‬

‫اس وقت ابو جعفر نے فرمایا ”اگر میں ایسا کروں تو یقینا ً مجھ سے بڑھ کر گمراہ کوئی نہیں۔ ناممکن کہ میں اس وقت‬

‫ہدایت پر قائم رہ سکوں۔ ان دونوں بزرگوں یعنی سیدنا ابوبکر رضی ہللا عنہ اور سیدنا عمر رضی ہللا عنہ سے تو اے‬

‫کثیر محبت رکھ‪ ،‬اگر اس میں تجھے گناہ ہو تو میری گردن پر۔“‬

‫پھر آپ نے اسی آیت کے آخری حصہ کی تالوت فرمائی‪ ،‬اور فرمایا کہ ”یہ ان دس شخصوں کے بارے میں ہے‬

‫ابوبکر‪ ،‬عمر‪ ،‬عثمان‪ ،‬علی‪ ،‬طلحہ‪ ،‬زبیر‪ ،‬عبدالرحمٰ ن بن عوف‪ ،‬سعد بن ابی وقاص‪ ،‬سعید بن زید اور عبدہللا بن مسعود‬

‫رضی ہللا عنہم اجمعین‪ ،‬یہ آمنے سامنے ہوں گے تاکہ کسی کی طرف کسی کی پیٹھ نہ رہے۔“‬

‫نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے صحابہ رضوان ہللا علیہم اجمعین کے ایک مجمع میں آ کر اسے تالوت فرما کر‬

‫فرمایا یہ ایک دوسرے کو دیکھ رہے ہوں گے۔ وہاں انہیں کوئی مشقت‪ ،‬تکلیف اور ایذاء نہ ہو گی ۔ [ضعیف]‬

‫‪7‬‬
‫کورس‪ :‬مطالعہ نصوص قرآن حکیم ‪)4619(I -‬‬
‫سمسٹر‪ :‬خزاں‪2022:‬ء‬
‫بخاری و مسلم میں ہے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں مجھے ہللا کا حکم ہوا ہے کہ میں خدیجہ رضی ہللا عنہا‬

‫کو جنت کے سونے کے محل کی خوشخبری سنا دوں جس میں نہ شور و غل ہے نہ تکلیف و مصیبت۔ یہ جنتی جنت‬

‫سے کبھی نکالے نہ جائیں گے ۔ [صحیح بخاری‪]3820:‬‬

‫حدیث میں ہے ان سے فرمایا جائے گا کہ اے جنتیو تم ہمیشہ تندرست رہو گے کبھی بیمار نہ پڑو گے اور ہمیشہ زندہ‬

‫رہو گے کبھی نہ مروگے اور ہمیشہ جوان رہو گے کبھی بوڑھے نہ بنو گے اور ہمیشہ یہیں رہو گے کبھی نکالے نہ‬

‫جاؤ گے ۔ [صحیح مسلم‪]2837:‬‬

‫ع ْن َھا ِح َو ًال» [‪-18‬الكھف‪ ” ]108:‬وہ تبدیلی مکان کی خواہش ہی نہ کریں گے نہ‬


‫اور آیت میں ہے «خَا ِلدِینَ فِی َھا َال َی ْبغُونَ َ‬

‫ان کی جگہ ان سے چھنے گی “۔‬

‫اح ِمینَ » [‪-23‬المؤمنون‪ ” ]118:‬اے نبی کریم صلی ہللا علیہ‬ ‫ار َح ْم َوأَنتَ َخی ُْر َّ‬
‫الر ِ‬ ‫اور آیت میں ہے کہ « َوقُل َّر ِّ ِ‬
‫ب ا ْغ ِف ْر َو ْ‬

‫اح ِمینَ » ہوں۔ اور میرے عذاب بھی نہایت‬ ‫وسلم آپ صلی ہللا علیہ وسلم میرے بندوں سے کہہ دیجئیے کہ میں «أ َ ْر َح ُم َّ‬
‫الر ِ‬

‫سخت ہیں “۔ اسی جیسی آیت اور بھی گزر چکی ہے‪ ،‬اس سے مراد یہ ہے کہ ” مومن کو امید کے ساتھ ڈر بھی رکھنا‬

‫چاہیئے “۔‬

‫حضور صلی ہللا علیہ وسلم اپنے صحابہ رضوان ہللا علیہم اجمعین کے پاس آتے ہیں اور انہیں ہنستا ہوا دیکھ کر فرماتے‬

‫ہیں جنت دوزخ کی یاد کرو ‪ ،‬اس وقت یہ آیتیں اتریں ۔ [مجمع الزوائد‪:11107:‬ضعیف]‬

‫یہ مرسل حدیث ابن ابی حاتم میں ہے آپ صلی ہللا علیہ وسلم بنو شیبہ کے دروازے سے صحابہ رضی ہللا عنہم کے پاس‬

‫آ کر کہتے ہیں میں تو تمہیں ہنستے ہوئے دیکھ رہا ہوں یہ کہہ کر واپس مڑ گئے اور حطیم کے پاس سے ہی الٹے پاؤں‬

‫پھرے ہمارے پاس آئے اور فرمایا کہ ابھی میں جا ہی رہا تھا‪ ،‬جو جبرائیل علیہ السالم آئے اور فرمایا کہ ”جناب باری‬

‫ارشاد فرماتا ہے کہ ” تو میرے بندوں کو نامید کر رہا ہے؟ انہیں مرے غفور و رحیم ہونے کی اور میرے عذابوں کے‬

‫المناک ہونے کی خبر دیدے “ ۔ [تفسیر ابن جریر الطبری‪:21214:‬ضعیف]‬

‫تعالی کی معافی کو معلوم کرلیں تو حرام سے بچنا‬


‫ٰ‬ ‫اور حدیث میں ہے کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا اگر بندے ہللا‬

‫چھوڑ دیں اور اگر ہللا کے عذاب کو معلوم کر لیں تو اپنے آپ کو ہالک کر ڈالیں ۔ [تفسیر ابن جریر‬

‫الطبری‪:21213:‬مرسل]‬

‫‪8‬‬
‫کورس‪ :‬مطالعہ نصوص قرآن حکیم ‪)4619(I -‬‬
‫سمسٹر‪ :‬خزاں‪2022:‬ء‬
‫سوال نمبر ‪5‬۔ سورۃ الکہف کی درج ذیل آیات کریمہ کا ترجمہ اور تشریح قلمبند کریں۔‬
‫ع ْن َها ِح َوال‬ ‫ت كَا َنتْ لَ ُه ْم َجنَّاتُ ا ْل ِف ْرد َْو ِس نُ ُزال )‪َ (107‬خا ِلد َ‬
‫ِین ِفی َها َال َی ْبغُ َ‬
‫ون َ‬ ‫إِ َّن الَّذ َ‬
‫ِین آ َمنُوا َوع َِملُوا ال َّ‬
‫صا ِل َحا ِ‬
‫حْر قَ ْب َل أَن تَنفَ َد َك ِل َماتُ َر ِبي َولَ ْو ِجئْ َنا بِ ِمثْ ِل ِه َمدَدا )‪ (109‬قُ ْل‬
‫ت َر ِبي لَ َن ِف َد ا ْل َب ُ‬ ‫)‪(108‬قُل لَّ ْو ك َ‬
‫َان ا ْلبَ ُ‬
‫حْر ِمدَادا ِل َك ِل َما ِ‬
‫صا ِلحا َو َال یُش ِْر ْك‬ ‫َان َی ْر ُجو ِل َقا َء َر ِب ِه فَ ْل َی ْع َم ْل َ‬
‫ع َمل َ‬ ‫ِإنَّ َما أ َ َنا َبش ٌَر ِم ْثلُ ُك ْم یُو َحى ِإلَ َّي أَنَّ َما ِإلَ ُه ُك ْم ِإ َلهٌ َو ِ‬
‫اح ٌد ۖ فَ َمن ك َ‬
‫ِب ِع َبا َد ِۃ َر ِب ِه أ َ َحدا)‪(110‬‬
‫[ترجمہ محمد عبدالسالم بن محمد ] بے شک وہ لوگ جو ایمان الئے اور انھوں نے نیک اعمال کیے ان کے لیے فردوس‬
‫کے باغ مہمانی ہوں گے۔ ]‪[107‬‬
‫ان میں ہمیشہ رہنے والے ہوں گے‪ ،‬وہ اس سے جگہ بدلنا نہ چاہیں گے۔ ]‪[108‬‬
‫کہہ دے اگر سمندر میرے رب کی باتوں کے لیے سیاہی بن جائے تو یقینا سمندر ختم ہوجائے گا اس سے پہلے کہ‬
‫میرے رب کی باتیں ختم ہوں‪ ،‬اگرچہ ہم اس کے برابر اور سیاہی لے آئیں۔ ]‪[109‬‬
‫کہہ دے میں تو تم جیسا ایک بشر ہی ہوں‪ ،‬میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمھارا معبود صرف ایک ہی معبود ہے‪،‬‬
‫پس جو شخص اپنے رب کی مالقات کی امید رکھتا ہو تو الزم ہے کہ وہ عمل کرے نیک عمل اور اپنے رب کی عبادت‬
‫میں کسی کو شریک نہ بنائے۔ ]‪[110‬‬

‫تفسیر‬
‫ہللا پر ایمان رکھنے والے‪ ،‬اس کے رسولوں کو سچا ماننے والے‪ ،‬ان کی باتوں پر عمل کرنے والے بہترین جنتوں میں‬
‫ہوں گے۔ بخاری و مسلم میں ہے کہ جب تم ہللا سے جنت مانگو تو جنت الفردوس کا سوال کرو۔ یہ سب سے اعلی سب‬
‫بخاری‪] 2790:‬‬ ‫ہیں۔ [صحیح‬ ‫بہتی‬ ‫نہریں‬ ‫کی‬ ‫جنتوں‬ ‫اور‬ ‫سے‬ ‫اسی‬ ‫ہے‪،‬‬ ‫جنت‬ ‫عمدہ‬ ‫سے‬

‫یہی ان کا مہمان خانہ ہو گی۔ یہ یہاں ہمیشہ کے لیے رہیں گے۔ نہ نکالے جائیں‪ ،‬نہ نکلنے کا خیال آئے‪ ،‬نہ اس سے بہتر‬
‫کوئی اور جگہ‪ ،‬نہ وہ وہاں کے رہنے سے گھبرائیں کیونکہ ہر طرح کے اعلی عیش مہیا ہیں۔ ایک پر ایک رحمت مل‬
‫رہی ہے۔ روز بروز رغبت ومحبت‪ ،‬انس والفت بڑھتی جا رہی ہے اس لیے نہ طبیعت اکتاتی ہے نہ دل بھرتا ہے بلکہ‬
‫روز شوق بڑھتا ہے اور نئی نعمت ملتی ہے۔‬
‫حکم ہوتا ہے کہ ہللا کی عظمت سمجھانے کے لیے دنیا میں اعالن کر دیجئیے کہ اگر روئے زمین کے سمندروں کی‬
‫سیاہی بن جائے اور پھر ہللا کے کل مات‪ ،‬ہللا کی قدرتوں کے اظہار‪ ،‬ہللا کی باتیں‪ ،‬ہللا کی حکمتیں لکھنی شروع کی جائیں‬
‫تو یہ تمام سیاہی ختم ہو جائے گی لیکن ہللا کی تعریفیں ختم نہ ہوں گی۔ گو پھر ایسے ہی دریا الئے جائیں اور پھر الئے‬
‫جائیں اور پھر الئے جائیں لیکن ناممکن کہ ہللا کی قدرتیں‪ ،‬اس کی حکمتیں‪ ،‬اس کی دلیلیں ختم ہو جائیں۔ چنانچہ ہللا‬
‫ّٰللاِ ا َِّن‬
‫ت َكلِمٰ تُ ه‬ ‫ش َجـ َرة ا َ ْق َال ٌم َّو ْالبَحْ ُر یَ ُمد ُّٗہ ِم ْن بَ ْعد ِٖہ َ‬
‫س ْبعَةُ ا َ ْب ُحر َّما نَ ِفدَ ْ‬ ‫تعالی جل شانہ کا فرمان ہے « َولَ ْو ا َ َّن َما فِي ْاالَ ْر ِ‬
‫ض ِم ْن َ‬ ‫ٰ‬
‫ع ِزی ٌْز َح ِك ْی ٌم ‪» [ 31-‬لقمان‪ ] 27 :‬یعنی روئے زمین کے درختوں کی قلمیں بن جائیں اور تمام سمندروں کی سیاہیاں بن‬
‫ّٰللاَ َ‬
‫ه‬
‫‪9‬‬
‫کورس‪ :‬مطالعہ نصوص قرآن حکیم ‪)4619(I -‬‬
‫سمسٹر‪ :‬خزاں‪2022:‬ء‬
‫جائیں پھر ان کے بعد سات سمندر اور بھی الئے جائیں لیکن ناممکن ہے کہ کلمات ٰالہی پورے لکھ لیے جائیں۔ ہللا کی‬
‫عزت اور حکمت‪ ،‬اس کا غلبہ اور قدرت وہی جانتا ہے۔ تمام انسانوں کا علم ہللا کے علم کے مقابلہ میں اتنا بھی نہیں جتنا‬
‫سمندر کے مقابلے میں قطرہ۔ تمام درختوں کی قلمیں گھس گھس کر ختم ہو جائیں‪ ،‬تمام سمندروں کی سیاہیاں ختم ہو‬
‫جائیں لیکن کلمات ٰالہی ویسے ہی رہ جائیں گے جیسے تھے‪ ،‬وہ ان گنت ہیں‪ ،‬بےشمار ہیں۔‬
‫کون ہے جو ہللا کی صح یح اور پوری قدر و عزت جان سکے؟ کون ہے جو اس کی پوری ثنا و صفت بجا ال سکے؟‬
‫بیشک ہمارا رب ویسا ہی ہے جیسا وہ خود فرما رہا ہے۔ بیشک ہم جو تعریفیں اس کی کریں‪ ،‬وہ ان سب سے سوا ہے‬
‫اور ان سب سے بڑھ چڑھ کر ہے۔ یاد رکھو جس طرح ساری زمین کے مقابلے پر ایک رائی کا دانہ ہے اسی طرح‬
‫جنت کی اور آخرت کی نعمتوں کے مقابل تمام دنیا کی نعمتیں ہیں۔‬
‫سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی ہللا عنہما کا فرمان ہے کہ یہ سب سے آخری آیت ہے جو نبی کریم صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم پر اتری۔ حکم ہوتا ہے کہ آپ صلی ہللا علیہ وسلم لوگوں سے فرمائیں کہ میں تم جیسا ہی ایک انسان ہوں‪ ،‬تم بھی‬
‫انسان ہو‪ ،‬اگر مجھے جھوٹا جانتے ہو تو الؤ اس قرآن جیسا ایک قرآن تم بھی بنا کر پیش کر دو۔ دیکھو میں کوئی غیب‬
‫داں تو نہیں‪ ،‬تم نے مجھ سے ذوالقرنین کا واقعہ دریافت کیا‪ ،‬اصحاب کہف کا قصہ پوچھا تو میں نے ان کے صحیح‬
‫واقعات تمہارے سامنے بیان کر دئیے جو نفس االمر کے مطابق ہیں۔ اگر میرے پاس ہللا کی وحی نہ آتی تو میں ان‬
‫گزشتہ واقعات کو جس طرح وہ ہوئے ہیں‪ ،‬تمہارے سامنے کس طرح بیان کر سکتا؟ سنو تمام تر وحی کا خالصہ یہ ہے‬
‫کہ تم موحد بن جاؤ۔ شرک کو چھوڑ دو۔ میری دعوت یہی ہے جو بھی تم میں سے ہللا سے مل کر اجر و ثواب لینا چاہتا‬
‫ہو‪ ،‬اسے شریعت کے مطابق عمل کرنے چاہئیں اور شرک سے بالکل بچنا چاہیئے۔ ان دونوں ارکان کے بغیر کوئی عمل‬
‫ہللا کے ہاں قابل قبول نہیں‪ ،‬خلوص ہو اور مطابقت سنت ہو۔‬
‫ایک شخص نے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم سے دریافت کیا تھا کہ بہت سے نیک کاموں میں باوجود مرضی ٰالہی کی‬
‫تالش کے میرا ارادہ یہ بھی ہوتا ہے کہ ل وگ میری نیکی دیکھیں تو میرے لیے کیا حکم ہے‪ ،‬آپ خاموش رہے اور یہ‬
‫آیت اتری‪ ،‬یہ حدیث مرسل ہے۔ [تفسیر ابن جریر الطبری‪:23427:‬مرسل ] سیدنا عبادہ بن صامت رضی ہللا عنہ سے‬
‫زکوة کرتا ہے‪ ،‬ہللا کی رضا مندی بھی‬
‫ایک شخص نے سوال کیا کہ ایک شخص نماز‪ ،‬روزہ‪ ،‬صدقہ‪ ،‬خیرات‪ ،‬حج ٰ‬
‫ڈھونڈتا ہے اور لوگوں میں نیک نامی اور بڑائی بھی۔ آپ رضی ہللا عنہ نے فرمایا اس کی کل عبادت اکارت ہے‪ ،‬ہللا‬
‫تعالی فرما دیتا ہے کہ یہ سب اسی دوسرے‬
‫ٰ‬ ‫تعالی شرک سے بیزار ہے‪ ،‬جو اس کی عبادت میں اور نیت بھی کرے تو ہللا‬
‫ٰ‬
‫کو دے دو مجھے اس کی کسی چیز کی ضرورت نہیں۔ [تفسیر ابن جریر الطبری‪:16/40:‬ضعیف] حضرت ابو سعید‬
‫خدری رضی ہللا عنہ کا بیان ہے کہ ہم نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم کے پاس باری باری آتے‪ ،‬رات گزارتے‪ ،‬کبھی آپ‬
‫کو کوئی کام ہوتا تو فرما د یتے۔ ایسے لوگ بہت زیادہ تھے۔ ایک شب ہم آپس میں کچھ باتیں کر رہے تھے رسول‬
‫مقبول صلی ہللا علیہ وسلم تشریف الئے اور فرمایا یہ کیا کھسر پھسر کر رہے ہو؟ ہم نے جواب دیا‪ ،‬یا رسول ہللا ہماری‬
‫توبہ ہے ہم مسیح دجال کا ذکر کر رہے تھے اور دل ہمارے خوفزدہ تھے۔ آپ صلی ہللا علیہ وسلم [سنن ابن‬

‫‪10‬‬
‫کورس‪ :‬مطالعہ نصوص قرآن حکیم ‪)4619(I -‬‬
‫سمسٹر‪ :‬خزاں‪2022:‬ء‬
‫ماجہ‪،4204:‬قال الشیخ اْللباني‪:‬ضعیف ] نے فرمایا‪ ،‬میں تمہیں اس سے بھی زیادہ دہشت ناک بات بتاؤں؟ وہ پوشیدہ‬
‫شرک ہے کہ انسان دوسرے انسان کو دکھانے کے لیے نماز پڑھے۔‬
‫مسند احمد میں ہے‪ ،‬ابن غنم کہتے ہیں‪ ،‬میں اور ابودرداء جابیہ کی مسجد میں گئے‪ ،‬وہاں ہمیں سیدنا عبادہ بن صامت‬
‫رضی ہللا عنہ ملے‪ ،‬بائیں ہاتھ سے تو انہوں نے میرا داہنا ہاتھ تھام لیا اور اپنے داہنے ہاتھ سے ابودرداء رضی ہللا عنہ‬
‫کا بایاں ہاتھ تھام لیا اور اسی طرح ہم تینوں وہاں سے باتیں کرتے ہوئے نکلے۔ آپ رضی ہللا عنہ فرمانے لگے‪ ،‬دیکھو‬
‫اگر تم دونوں یا تم میں سے جو بھی زندہ رہا تو ممکن ہے اس وقت کو بھی وہ دیکھ لے کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ‬
‫وسلم کی زبان سے قرآن سیکھا ہوا بھال آدمی حالل کو حالل اور حرام کو حرام سمجھنے واال اور ہر حکم کو مناسب‬
‫جگہ رکھنے واال آئے اور اس کی قدرو منزلت لوگوں میں ایسی ہو جیسی مردہ گدھے کی سر کی۔ ابھی یہ باتیں ہو رہی‬
‫تھیں کہ سیدنا شداد بن اوس رضی ہللا عنہما اور سیدنا عوف بن مالک رضی ہللا عنہما آ گئے اور بیٹھتے ہی شداد رضی‬
‫ہللا عنہا نے فرمایا‪ ،‬لوگو مجھے تو تم پر سب سے زیادہ اس کا ڈر ہے جو میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے‬
‫سنا ہے یعنی پوشیدہ خواہش اور شرک کا۔ اس پر عبادہ رضی ہللا عنہما اور ابودرداء رضی ہللا عنہما نے فرمایا‪ ،‬ہللا‬
‫معاف فرمائے‪ ،‬ہم سے نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ہے کہ اس بات سے شیطان مایوس ہو گیا ہے کہ اس‬
‫جزیرہ عرب میں اس کی عبادت کی جائے۔ ہاں پوشیدہ شہوات تو یہی خواہش کی چیزیں عورتیں وغیرہ ہیں لیکن یہ‬
‫شرک ہماری سمجھ میں تو نہیں آیا جس سے آپ ہمیں ڈرا رہے ہیں۔‬
‫حضرت شداد رضی ہللا عنہما فرمانے لگے‪ ،‬اچھا بتاؤ تو ایک آدمی دوسروں کے دکھانے کے لیے نماز‪ ،‬روزہ‪ ،‬صدقہ‪،‬‬
‫خیرات کرتا ہے۔ اس کا حکم تمہارے نزدیک کیا ہے؟ کیا اس نے شرک کیا؟ سب نے جواب دیا‪ ،‬بیشک ایسا شخص‬
‫مشرک ہے۔ آپ رضی ہللا عنہما نے فرمایا‪ ،‬میں نے خود رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے سنا ہے کہ جو شخص‬
‫دکھاوے کے لیے نماز پڑھے وہ مشرک ہے‪ ،‬جو دنیا کو دکھانے کے لیے روزے رکھے وہ مشرک ہے‪ ،‬جو لوگوں میں‬
‫اپنی سخاوت جتانے کے لیے صدقہ خیرات کرے وہ بھی مشرک ہے۔ اس پر عوف بن مالک رضی ہللا عنہما نے کہا‪ ،‬کیا‬
‫یہ نہیں ہوسکتا کہ ایسے اعمال میں جو ہللا کے لیے ہو‪ ،‬ہللا اسے قبول فرمالے اور جو دوسرے کے لیے ہو‪ ،‬اسے رد‬
‫کر دے؟ شداد رضی ہللا عنہما نے جواب دیا‪ ،‬یہ ہرگز نہیں ہونے کا۔ میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے سنا ہے‬
‫کہ جناب باری عزوجل کا ارشاد ہے کہ میں سب سے بہتر حصے واال ہوں‪ ،‬جو بھی میرے ساتھ کسی عمل میں دوسرے‬
‫کو شریک کرے‪ ،‬میں اپنا حصہ بھی اسی دوسرے کے سپرد کر دیتا ہوں۔ اور نہایت بےپرواہی سے جز کل سب کو‬
‫چھوڑ دیتا ہوں۔ [مسند احمد‪:4/125:‬ضعیف ]‬
‫اور روایت میں ہے کہ شداد بن اوس رضی ہللا عنہما ایک دن رونے لگے‪ ،‬ہم نے پوچھا‪ ،‬آپ کیسے رو رہے ہیں؟‬
‫فرمانے لگے ایک حدیث یاد آ گئی اور اس نے رال دیا۔ میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم سے سنا ہے‪ ،‬مجھے اپنی‬
‫امت پر سب سے زیادہ ڈر شرک اور پوشیدہ شہوت کا ہے۔ میں نے دریافت کیا کہ یا رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کیا‬
‫آپ کی امت آپ کے بعد شرک کرے گی؟ آپ صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا‪ ،‬ہاں سنو وہ سورج چاند‪ ،‬پتھر‪ ،‬بت کو نہ‬

‫‪11‬‬
‫کورس‪ :‬مطالعہ نصوص قرآن حکیم ‪)4619(I -‬‬
‫سمسٹر‪ :‬خزاں‪2022:‬ء‬
‫پوجے گی بلکہ اپنے اعمال میں ریا کاری کرے گی۔ پوشیدہ شہوت یہ ہے کہ صبح روزے سے ہے اور کوئی خواہش‬
‫سامنے آئی‪ ،‬روزہ چھوڑ دیا [مسند احمد‪:4/124:‬ضعیف ]۔‬
‫تعالی کا فرمان ہے میں تمام شریکوں سے بہتر ہوں۔ میرے ساتھ جو‬
‫ٰ‬ ‫رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ ہللا‬
‫بھی کسی کو شریک کرے‪ ،‬میں اپنا حصہ بھی اسی کو دے دیتا ہوں۔ [سلسلة احادیث صحیحه البانی‪،2764:‬صحیح ] اور‬
‫روایت میں ہے کہ جو شخص کسی عمل میں میرے ساتھ دوسرے کو مال لے‪ ،‬میں اس سے بری ہوں اور اس کا وہ پورا‬
‫عمل اس غیر کے لیے ہی ہے۔ [مسند احمد‪:2/301:‬صحیح ] ایک اور حدیث میں ہے‪ ،‬مجھے تمہاری نسبت سب سے‬
‫زیادہ ڈر چھوٹے شرک کا ہے‪ ،‬لوگوں نے پوچھا‪ ،‬وہ چھوٹا شرک کیا ہے؟ فرمایا ریاکاری۔ قیامت کے دن ریاکاروں کو‬
‫جواب ملے گا کہ جاؤ جن کے لیے عمل کئے تھے‪ ،‬انہی کے پاس جزا مانگو۔ دیکھو پاتے بھی ہو؟ [مسند‬
‫احمد‪:5/428:‬صحیح ]‬
‫ابوسعید بن ابو فضالہ انصاری صحابی رضی ہللا عنہما سے روایت ہے‪ ،‬فرماتے ہیں‪ ،‬میں نے رسول ہللا صلی ہللا علیہ‬
‫تعالی تمام اگلوں پچھلوں کو جمع کرے گا‪ ،‬جس دن کے آنے میں کوئی شک شبہ نہیں‪ ،‬اس دن‬
‫ٰ‬ ‫وسلم سے سنا کہ جب ہللا‬
‫ایک پکارنے واال پکارے گا کہ جس نے اپنے جس عمل میں ہللا کے ساتھ دوسرے کو مالیا ہو‪ ،‬اسے چاہیئے کہ اپنے‬
‫تعالی ساجھے سے بہت ہی بے نیاز ہے۔ [مسند‬
‫ٰ‬ ‫اس عمل کا بدلہ اس دوسرے سے مانگ لے کیونکہ ہللا‬
‫احمد‪:3/466:‬حسن ] سیدنا ابوبکر رضی ہللا عنہما فرماتے ہیں‪ ،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ہے‪ ،‬ریاکار کو‬
‫عذاب بھی سب کو دکھا کر ہو گا اور نیک اعمال لوگوں کو سنانے والے کو عذاب بھی سب کو سنا کر ہو گا [مسند احمد‬
‫‪:5/45‬صحیح لغیرہ ] ابو سعید خدری رضی ہللا عنہما سے بھی یہ روایت مروی ہے۔ [مسند احمد‪:3/40:‬صحیح ] سیدنا‬
‫ابن عمر رضی ہللا عنہما فرماتے ہیں کہ نبی کریم صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ہے‪ ،‬اپنے نیک اعمال اچھالنے والے‬
‫تعالی ضرور رسوا کرے گا‪ ،‬اس کے اخالق بگڑ جائیں گے اور وہ لوگوں کی نگاہوں میں حقیر و ذلیل ہو گا۔ یہ‬
‫ٰ‬ ‫کو ہللا‬
‫بیان فرما کر سیدنا عبدہللا رضی ہللا عنہما رونے لگے۔ [مسند احمد‪:2/162:‬صحیح ]‬
‫انس رضی ہللا عنہما راوی ہیں کہ محمد مصطفی صلی ہللا علیہ وسلم نے فرمایا ہے‪ ،‬قیامت کے دن انسان کے نیک‬
‫اعمال کے مہر شدہ صحیفے ہللا کے سامنے پیش ہوں گے۔ جناب باری عزوجل فرمائے گا‪ ،‬اسے پھینک دو‪ ،‬اسے قبول‬
‫وتعالی جہاں تک ہمارا علم‬
‫ٰ‬ ‫کرو‪ ،‬اسے قبول کرو‪ ،‬اسے پھینک دو۔ اس وقت فرشتے عرض کریں گے کہ اے ہللا تبارک‬
‫ہے ہم تو اس شخص ک ے اعمال نیک ہی جانتے ہیں‪ ،‬جواب ملے گا کہ جن کو میں پھینکوا رہا ہوں یہ وہ اعمال ہیں جن‬
‫میں صرف میری ہی رضا مندی مطلوب نہ تھی بلکہ ان میں ریاکاری تھی۔ آج میں تو صرف ان اعمال کو قبول کروں گا‬
‫جو صرف میرے لیے ہی کئے گئے ہوں۔ [الدر المنثور للسیوطی‪:4/460:‬ضعیف ]‬
‫ارشاد ہے کہ جو دکھاوے سناوے کے لیے کھڑا ہوا ہو‪ ،‬وہ جب تک نہ بیٹھے ہللا کے غصے اور غضب میں ہی رہتا‬
‫یعلی کی حدیث میں ہے‪ ،‬رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم فرماتے ہیں‪ ،‬جو‬
‫ٰ‬ ‫ہے۔ [مجمع الزوائد‪:10/223:‬ضعیف ] ابو‬
‫شخص لوگوں کے دیکھتے ہوئے تو ٹھہر ٹھہر کر اچھی کر کے نماز پڑھے اور تنہائی میں بری طرح جلدی جلدی بے‬
‫ابویعلی‪:5117:‬ضعیف ] پہلے بیان ہو چکا ہے‬
‫ٰ‬ ‫دلی سے ادا کرے‪ ،‬اس نے اپنے پروردگار عزوجل کی توہین کی۔ [مسند‬

‫‪12‬‬
‫کورس‪ :‬مطالعہ نصوص قرآن حکیم ‪)4619(I -‬‬
‫سمسٹر‪ :‬خزاں‪2022:‬ء‬
‫کہ اس آیت کو امیر معاویہ رضی ہللا عنہما قرآن کی آخری آیت بتاتے ہیں۔ [ضعیف ] لیکن یہ قول اشکال سے خالی نہیں‬
‫کیونکہ سورة الکہف پوری کی پوری مکے شریف میں نازل ہوئی ہے اور ظاہر ہے کہ اس کے بعد مدینے میں برابر‬
‫دس سال تک قرآن کریم اترتا رہا تو بظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ معاویہ رضی ہللا عنہ کا مطلب یہ ہو کہ یہ آیت آخری ہے‬
‫یعنی کسی دوسری آیت سے منسوخ نہیں ہوئی۔ اس میں جو حکم ہے وہ آخر تک بدال نہیں گیا۔ اس کے بعد کوئی ایسی‬
‫ا َ ْعلَ ُم »۔‬ ‫کرے « َوہللاُ‬ ‫وتغیر‬ ‫تبدیلی‬ ‫میں‬ ‫اس‬ ‫جو‬ ‫اتری‬ ‫نہیں‬ ‫آیت‬
‫ایک بہت ہی غریب حدیث حافظ ابوبکر بزار رحمہ ہللا اپنی کتاب میں الئے ہیں کہ رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم نے‬
‫صا ِل ًحا َو َال یُ ْش ِر ْك ِب ِع َبادَ ِة َر ِبِّ ِه أ َ َحدًا [ »الکھف‪، ] 110 :‬‬ ‫فرمایا ہے کہ جو شخص آیت «فَ َمن َكانَ َی ْر ُجو ِلقَا َء َر ِبِّ ِه فَ ْل َی ْع َم ْل َ‬
‫ع َم ًال َ‬
‫تعالی اسے اتنا بڑا نور عطا فرمائے گا جو عدن سے مکے شریف تک‬
‫ٰ‬ ‫کو رات کے وقت پڑھے گا‪ ،‬ہللا‬
‫پہنچے۔ [مستدرک حاکم‪:2/371‬ضعیف ]‬

‫‪13‬‬

You might also like