You are on page 1of 17

ASSIGNMENT#0

2
CORSE CODE:9401
COURSE TITLE:ISLAMIYAT
SMESTER:AUTUMN 2022
SUBMITTED BY:ANAM FATIMA

umalbaneen0311@gmail.com
[COMPANY NAME]
‫سوال نمبر‪1‬‬
‫عقیدہ آخرت کا مفہوم اور اہمیت پر جامع نوٹ لکھیں۔‬

‫عقیدہ آخرت‬
‫تعالی کی بارگاہ میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے‪ ،‬جس کے‬
‫ٰ‬ ‫اسالمی عقیدے کے مطابق ہر شخص کو موت کے بعد زندہ ہو کر ہللا‬
‫نتیجے میں وہ جہنم یا جنت (کی صورت میں سزا و جزا) سے ہمکنار ہو گا۔ اس زندگی کا نام اُخروی زندگی ہے اور اس زندگی پر‬
‫ایمان النے کا نام ایمان ِباآلخرت ہے۔‬
‫آخرت توحید و رسالت کے بعد اسالم کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ آخرت کے بارے میں تمام رسولوں اور انبیاء کی تعلیمات‬
‫ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہیں۔ جن کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ‪ ”:‬یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں ہللا نے ہمیں آزمائش کے لیے‬
‫بھیجا ہے کہ کون ایمان ال کر اچھے اعمال کرتا ہے اور جس طرح ہللا نے ہمیں یہاں پیدا فرمایا اسی طرح وہ ہمیں ہماری موت کے‬
‫بعد قیامت کے دن دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا اور ہمیں ہللا کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہو گی۔ جوانبیاء کی تعلیمات‬
‫پر ایمان الیااور ان کی اطاعت کی اوراعمال صالحہ کیے وہ وہاں کامیاب ہو گا اور جس نے نافرمانی کی وہ ناکام۔ جو کامیاب ہوا‬
‫اسے نعمتوں بھری ابدی جنت ملے گی اور جو ناکام ٹھہرا وہ جہنم میں جائے گا اور دردناک سزا بھگتے گا۔“ اصل زندگی کا گھر‬
‫آخرت ہی کا گھر ہے اور دنیا اس سفر میں ایک امتحانی گزرگاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اور موت خاتمے کا نہیں بلکہ ایک‬
‫مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہونے کا نام ہے۔ بقول اقبال‬
‫اختتام زندگی‬
‫ِ‬ ‫موت کو سمجھے ہیں غافل‬
‫دوام زندگی‬
‫ِ‬ ‫صبح‬
‫ِ‬ ‫شام زندگی‪،‬‬
‫ہے یہ ِ‬
‫قرآن میں واضح طور پر لکھا ہے‬

‫يب فِي ِه َولَ ِكنَّ َأ َكثَ َر النَّا ِ‬


‫س اَل يَ ْعلَ ُمونَ‬ ‫قُ ِل هللاُ يُ ْحيِي ُك ْم ثُ َّم يُ ِميتُ ُك ْم ثُ َّم يَ ْج َم ُع ُك ْم ِإلَى يَ ْو ِم ا ْلقِيَا َم ِة اَل َر َ‬
‫ان سے کہو ہللا ہی تمہیں زندگی بخشتا ہے‪ ،‬پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے۔ پھر وہی تم کو اس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے‬
‫آنے میں کوئی شک نہیں ‪ ،‬مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔‬
‫وقوع آخرت کے ایسے زوردارعقلی دالئل دیے گئے ہیں کہ سالمت ہوش گوش رکھنے واال فرد انکار کی جراءت‬ ‫ِ‬ ‫قرآن حکیم میں‬
‫وقوع آخرت کے‬
‫ِ‬ ‫نہیں کر سکتا ہاں یہ اور بات ہے کہ ہدایت تو ہللا ہی جسے چاہتاہے دیتا ہے۔یہاں ہم قرآن حکیم کے بیان کردہ‬
‫عقلی دالئل کا تذکرہ کریں گے‬
‫ش ْيًئا‬ ‫س ْوفَ ُأ ْخ َر ُج َحيًا َأ َواَل يَ ْذ ُك ُر اِإْل ن َ‬
‫سانُ َأنَّا َخلَ ْقنَاهُ ِمن قَ ْب ُل َولَ ْم يَ ُك َ‬ ‫سانُ َأِئ َذا َما ِمتُّ لَ َ‬
‫َويَقُو ُل اِإْل ن َ‬
‫انسان کہتا ہے کہا واقعی جب میں مر چکوں گا تو پھر زندہ کر کے نکال الیا جاؤں گا؟ کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے اس کو‬
‫پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟‬
‫بات بالکل واضح ہے جب ہمارا کوئی وجود نہ تھا‪ ،‬ہم کچھ بھی نہ تھے اور ہللا نے ہمیں پیدا فرما دیا‪ ،‬وجود بخشا اور ہماری اس‬
‫دنیا میں موجودگی اس بات کا ثبوت ہے تو جس طرح ہمیں ہللا نے اب پیدا فرمایا ہے اسی طرح دوبارہ بھی پیدا فرمائے گا۔ ہللا تو‬
‫خالق العلیم ہے اس کی تو کسی سے نسبت ہی کیا‪ ،‬کیا ہم کسی انسان کے بارے میں بھی یہ کہہ سکتے ہیں کہ اس نے جب ایک‬
‫کام ایک مرتبہ کر لیا ہے تو دوبارہ نہ کر سکے گا؟ یہ کمپیوٹر جو ہم اس وقت استعمال کر رہے ہیں کیا ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ‬
‫اس کے بنانے والے اسے دوبارہ نہیں بنا سکتے؟ اور اگر کوئی یہ کہے تو کیسی بے ہودہ بات ہے؟ سوچنے کی بات یہ ہے کہ‬
‫ہماری مرضی چلتی کہاں ہے۔ ہللا نے جس حال میں جہاں اور جب چاہا پیداکر دیا‪ ،‬کیا ہم اسے روک سکے؟ جب چاہتا ہے موت‬
‫دیتاہے۔ کیا ہم اسے روکنے کے لیے کچھ کر سکتے ہیں؟ کیا موت سے فرار ممکن ہے؟اور جب رب چاہے گا دوبارہ زندہ کر کے‬
‫اٹھا کھڑا کر دے گا۔ کیا ہم اسے ایسا کرنے سے روک سکیں گے؟‬
‫کوئی شخص اگر کہیں سے لکڑی لے کر دروازہ‪ ،‬میز یا کرسی بنا دے تو سادہ سی بات ہے لیکن اگر کوئي یہ کہے کہ جہاں کچھ‬
‫بھی نہیں وہاں وہ ایک لکڑی کا دروازہ کھڑا کر دے گا تو کیسا عجیب معجزہ ہے؟ یقین جانیے اگر ہم غور کریں تو انسان کی‬
‫پیدائش ایک بہت بڑے معجزے سے کم نہیں۔ سبحان ہللا۔ نطفے کی ایک بوند سے کیا مخلوق بنا دی اور اس کے اندر اپنی نسل کے‬
‫بقا کا نظام رکھ دیا۔ کیا انسان نے بھی کبھی ایسی کوئی چیز بنائي ہے جو اپنی نسل برقراررکھے۔ اور اس ماہر خالق کے بارے‬
‫میں یہ کہنا کہ وہ ہمیں موت کے بعد دوبارہ زندگی نہ بخش سکے گا کیسی حماقت ہے۔‬
‫آپ ذرا اس بات پر غور کیجیے کہ آنے والی نسلوں کے جسموں کے ذرات کہاں پڑے ہیں؟ زمین میں ہی ناں؟ تو وہ کون ہے جو‬
‫ان ذرات کو جمع کر کے ہر لمحے تخلیق کا کام کر رہا ہے؟ انسانوں‪ ،‬جانوروں‪ ،‬پرندوں‪ ،‬حشرات‪ ،‬نباتات اور نجانے کن کن‬
‫مخلوقات کے کتنے ہی ارب بچے ایک لمحے میں پیدا فرمانے واال کون ہے؟ تو جو چند ارب یا کھرب گزر گئے کیا ہللا ان کے‬
‫جسموں کے ذرات کو ایک ہی وقت میں جمع نہ کر سکے گا؟ وہ تو آج کے ترقی یافتہ انسان سے یہ فرما رہا ہے کہ جن فنگر‬
‫پرنٹس کو تم آج کمپیوٹر کے دور میں شناخت کے لیے استعمال کرتے ہو میں ان کو بھی ویسا ہی بنا دوں گا اورہر ایک کو اس کی‬
‫مکمل شناخت کے ساتھ اٹھاؤں گا۔ اتنا توسوچ لیجیے کہ جس کی دی ہوئی شناخت (فنگر پرنٹس یارجسٹریشن) کو ہم آج استعمال‬
‫کرنے کے قابل ہوئے وہ خود ہم سے بے خبر کیونکر رہ سکتا ہے۔ کیا اس کے کاغذات میں ہماری کوئی رجسٹریشن اور ہمارا‬
‫کوئی ریکارڈ نہیں ہو گا؟‬

‫ي بَنَانَهُ‬ ‫سانُ َألَّن نَ ْج َم َع ِعظَا َمهُ بَلَى قَا ِد ِرينَ َعلَى َأن ُّن َ‬
‫س ِّو َ‬ ‫ب اِإْل ن َ‬ ‫َأيَ ْح َ‬
‫س ُ‬
‫کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کر سکیں گے ؟ کیوں نہیں؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور تک‬
‫ٹھیک بنا دینے پر قادر ہیں۔‬
‫اس سے قبل کہ ہم اس سورٔہ مبارکہ کے مضامین اور مطالب پر غور کریں‘ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایمان باآلخرۃ کی اہمیت‬
‫‪.‬کے بارے میں چند تمہیدی باتیں نوٹ کر لی جائیں‬

‫قیامت اور آخرت پر ایمان کی اہمیت کا اندازہ قرآن مجید کے ہر پڑھنے والے کو بٓاسانی ہو جاتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ قرآن‬
‫حکیم کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس میں آخرت کا ذکر خفی یا جلی انداز میں موجود نہ ہو‪ .‬چنانچہ مصحف کے ہر صفحے پر‬
‫کسی نہ کسی اسلوب سے بعث بعد الموت‘ حشر و نشر‘ حساب کتاب‘ جزا و سزا اور جنت و دوزخ میں سے کسی نہ کسی کا ذکر‬
‫‪.‬الزما ً موجود ہے‬

‫جن مقامات کا مطالعہ ہم اس سلسلٔہ درس میں کر چکے ہیں اگر ہم ان کا سرسری جائزہ لیں تو بادنی ٰ تٔامل نظر آجائے گا کہ ان میں‬
‫سے ہر ایک میں آخرت کا ذکر موجود ہے‪ .‬ہمارا پہال درس سورۃ العصر پر مشتمل تھا‪ .‬اس میں ایک جامع اصطالح کے طور پر‬
‫’’ایمان‘‘ کا ذکر آیا‘ لیکن اس کی کوئی تفصیل نہیں تھی‪ .‬البتہ دوسرے ہی درس میں‘ جو سورۃ البقرۃ کی آیت ‪ ۱۷۷‬پر مشتمل ہے‬
‫اور جسے ہم نے ’’ آیٔہ بر‘‘ سے موسوم کیا تھا‘ ایمانیات کی تفصیل کے ضمن میں ایمان باہلل کے فوراً بعد یوم اآلخر پر ایمان کا‬
‫ہّٰلل‬
‫کنَّ ۡالبِ َّر َم ۡن ٰا َمنَ بِا ِ َو ۡالیَ ۡو ِم ااۡل ٰ ِخ ِر ’’بلکہ حقیقی نیکی تو اس کی ہے جو ایمان الیا ہللا پر اور ِ‬
‫یوم آخر پر‬ ‫‪‘‘.‬ذکر ہے‪َ :‬و ٰل ِ‬

‫ت عمل کا ذکر ہے جو‬


‫ہمارا تیسرا درس سورٔہ لقمان کے دوسرے رکوع پر مشتمل تھا‪ .‬اس میں ایک تو قانو ِن مجازات و مکافا ِ‬
‫‪:‬بڑے جامع الفاظ میں حضرت لقمان کی وصیت میں آیا ہے‬

‫ت بِہَا ہّٰللا ُ ؕ اِنَّ ہّٰللا َ لَ ِط ۡیفٌ َخبِ ۡی ٌر ﴿‪۱۶‬‬


‫ض یَ ۡا ِ‬
‫ت اَ ۡو فِی ااۡل َ ۡر ِ‬ ‫ص ۡخ َر ٍۃ اَ ۡو فِی ال َّ‬
‫سمٰ ٰو ِ‬ ‫ک ِم ۡثقَا َل َحبَّ ٍۃ ِّم ۡن َخ ۡر َد ٍل فَتَ ُ‬
‫ک ۡن فِ ۡی َ‬ ‫﴾ ٰیبُنَ َّی اِنَّہَ ۤا اِ ۡن تَ ُ‬
‫اے میرے پیارے بچے! (اس حقیقت کو ذہن نشین کر لے کہ) انسان کے عمل کو ( نیکی ہو یا بدی) خواہ وہ رائی کے دانے کے’’‬
‫ہم وزن ہو‘ پھر خواہ وہ کسی غار یا چٹان کے اندر (چھپ کر) کیا جائے‘ خواہ وہ آسمانوں (فضاؤں اور خالؤں) میں جا کر یا‬
‫زمین (کی گہرائیوں) میں اُ تر کر کیا جائے‘ ہللا اس کو (جزا و سزا کے دن) لے آئے گا‪ .‬بے شک ہللا بہت باریک بین ہے‘ با خبر‬
‫‘‘‪.‬ہے‬

‫اس کے عالوہ اس رکوع میں ایک جگہ یہ الفاظ آئے ‪ :‬اِلَ َّی ۡال َم ِ‬
‫ص ۡی ُر ﴿‪’’ ﴾۱۴‬میری ہی طرف لوٹنا ہے‪ ‘‘.‬اگلی آیت کے آخر میں الفاظ‬
‫‪:‬آئے‬

‫کمۡ بِ َما ُک ۡنتُمۡ ت َۡع َملُ ۡونَ ﴿‪۱۵‬‬ ‫﴾ثُ َّم اِلَ َّی َم ۡر ِج ُع ُ‬
‫کمۡ فَاُنَبُِّئ ُ‬
‫‘‘‪.‬پھر میری ہی طرف تم سب کو آنا ہے‘ پھر میں تم سب کو جتال دوں گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے’’‬

‫ہمارا چوتھا سبق سورٔہ ٰح ٓم السجدۃ کی آیات ‪ ۳۰‬تا ‪ ۳۶‬پر مشتمل تھا‘ جس میں ِ‬
‫اہل ایمان کے لیے ان کی استقامت کا انعام جنت کی‬
‫‪:‬شکل میں دینے کا وعدہ فرمایا گیا اور اس ضمن میں ارشاد ہوا‬

‫کمۡ َو لَ ُ‬
‫کمۡ فِ ۡیہَا َما تَ َّدع ُۡونَ ﴿ؕ‪۳۱‬‬ ‫کمۡ فِ ۡیہَا َما ت َۡشت َِہ ۡۤی اَ ۡنفُ ُ‬
‫س ُ‬ ‫﴾ َو لَ ُ‬

‫اوراس میں تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے جسے تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے وہ سب کچھ بھی ہوگا جسے تم طلب کرو’’‬
‫‘‘‪.‬گے‬

‫ٰ‬
‫کبری کے اظہار کے لیے‬ ‫پانچواں درس اساس القرآن سورۃ الفاتحہ پر مشتمل تھا‘ اس میں ایک عظیم آیت مبارکہ اسی حقیقت ِ‬
‫ک یَ ۡو ِم الد ِّۡی ِن ؕ﴿‪’’ ﴾۳‬جزا و سزا کے دن کا مالک‬
‫‘‘‪.‬وارد ہوئی یعنی‪ :‬مٰ لِ ِ‬
‫‪:‬چھٹا سبق سورٔہ آل عمران کی آیات ‪ ۱۹۰‬تا ‪ ۱۹۵‬پر مشتمل تھا‘ اس میں آپ نے دیکھا کہ کس شدو مدکے ساتھ آخرت کا ذکر آیا‬

‫ک فَقِنَا َع َذ َ‬
‫اب النَّا ِر‬ ‫ض ۚ َربَّنَا َما َخلَ ۡقتَ ٰہ َذا بَا ِطاًل ۚ ُ‬
‫س ۡب ٰحنَ َ‬ ‫ت َو ااۡل َ ۡر ِ‬
‫سمٰ ٰو ِ‬ ‫ۡ‬
‫ک ُر ۡونَ فِ ۡی َخل ِ‬
‫ق ال َّ‬ ‫الَّ ِذ ۡینَ یَ ۡذ ُک ُر ۡونَ ہّٰللا َ قِ ٰی ًما َّو قُ ُع ۡودًا َّو ع َٰلی ُجنُ ۡوبِ ِہمۡ َو یَتَفَ َّ‬
‫ٰ‬
‫صا ٍر ﴿‪۱۹۲‬‬ ‫ک َم ۡن ت ُۡد ِخ ِل النَّا َر فَقَ ۡد اَ ۡخزَ ۡیت َٗہ ؕ َو َما لِلظّلِ ِم ۡینَ ِم ۡن اَ ۡن َ‬‫﴾ربَّنَ ۤا اِنَّ َ‬
‫﴾﴿‪َ ۱۹۱‬‬

‫رب ! تو نے یہ (سلسلٔہ کون و مکاں) فضول اور بے کار پیدا نہیں کیا ہے‘ تو پاک ہے( منزہ ہے اس سے کہ کوئی بے’’‬
‫اے ہمارے ّ‬
‫ُ‬
‫مقصد اور عبث کام کرے)‘ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے‪ .‬اے ہمارے آقا!یقینا جس کوتو نے دوزخ میں ڈال دیا اسے تو‬
‫‘‘‪.‬بالکل ذلیل اور رسوا کر دیا ‪.‬اور ایسے ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہوگا‬

‫ذرا آگے چل کر الفاظ آئے‪َ :‬و اَل ت ُۡخ ِزنَا َی ۡو َم ۡالقِ ٰی َم ِۃ ؕ (آیت ‪’’ )۱۹۴‬اور (اے ہمارے ّ‬
‫رب!) ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کیجیو‘‘‪ .‬پھر‬
‫تعالی نے اپنے فرماں بردار بندوں کو اِن الفاظ میں اطمینان دالیا‬ ‫ٰ‬ ‫‪:‬مزید آگے چل کر ہللا‬

‫ت ت َۡج ِر ۡی ِم ۡن ت َۡحتِہَا ااۡل َ ۡنہٰ ُر ۚ (ٓایت ‪)۱۹۵‬‬ ‫ٰ‬ ‫اَل ُ َکفِّ َرنَّ ع َۡنہُمۡ َ‬
‫سیِّ ٰاتِ ِہمۡ َو اَل ُ ۡد ِخلَنَّہُمۡ َجنّ ٍ‬

‫‪‘‘.‬میں الزما ً ان کی برائیاں ان سے دور کر دوں گا اور ان کو الزما ً اُن باغات میں داخل کروں گاجن کے دامن میں ندیاں بہتی ہیں’’‬

‫‪.‬اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ قیامت کے وقوع اور اُخروی جزا و سزا کے یقینی ہونے پر کتنا زور ہے‬

‫‪:‬اس کے بعد درس ہفتم یعنی سورۃ النور کے پانچویں رکوع میں قیامت کے دن کی ہولناکی کا نقشہ ان الفاظ میں سامنے آیا‬

‫صا ُر ﴿٭ۙ‪۳۷‬‬ ‫ب فِ ۡی ِہ ۡالقُلُ ۡو ُ‬


‫ب َو ااۡل َ ۡب َ‬ ‫﴾یَ َخافُ ۡونَ یَ ۡو ًما تَتَقَلَّ ُ‬
‫‘‘‪.‬لرزاں و ترساں رہتے ہیں اُس دن کے خیال سے جس دن دل اور آنکھیں اُلٹ جائیں گے )ہللا کے نیک اور محبوب بندے(’’‬
‫درس ہشتم یعنی سورۃ التغابن میں تو بالشک و شبہ یہ مضمون اپنے نقطٔہ عروج کوپہنچ گیا‘ چنانچہ اس سورٔہ مبارکہ کی تیسری‬
‫آیت ان الفاظ پر ختم ہوتی ہے‪َ :‬و ِالَ ۡی ِہ ۡال َم ِ‬
‫ص ۡی ُر ﴿‪’’ ﴾۳‬اور اُسی (ہللا) کی طرف لوٹ جانا ہے‘‘‪ .‬پھر ساتویں آیت میں پہلے تو منکرین‬
‫‪ :‬قیامت کا یہ اعتراض یا مغالطہ نقل کیا گیا‬

‫ؕ َز َع َم الَّ ِذ ۡینَ َکفَ ُر ۡۤوا اَ ۡن لَّ ۡن یُّ ۡب َعثُ ۡوا‬

‫‘‘‪.‬ان منکرین کو یہ مغالطہ الحق ہو گیا ہے کہ انہیں اٹھایا نہ جائے گا’’‬

‫‪:‬پھر نبی اکرمﷺ سے کہلوایا گیا‬

‫ؕ قُلۡ بَ ٰلی َو َربِّ ۡی لَت ُۡب َعثُنَّ ثُ َّم لَتُنَبَُّؤنَّ بِ َما َع ِم ۡلتُمۡ‬

‫کہہ دیجیے‪ :‬کیوں نہیں! مجھے میرے پروردگار کی قسم ہے کہ تم الزما ً اٹھائے جاؤ گے اور پھر تمہیں الزما ً جتال دیا )! اے ؐ‬
‫نبی(’’‬
‫‘‘‪.‬جائے گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے‬

‫‪:‬اور ذرا آگے چل کر فرمایا‬

‫کمۡ لِیَ ۡو ِم ۡال َجمۡ ِع ٰذلِ َ‬


‫ک یَ ۡو ُم التَّ َغابُ ِن ؕ (آیت ‪(’’ ) ۹‬جان لو کہ) وہ دن‘ جس دن وہ تمہیں جمع کرے گا جمع ہونے کے دن‘ وہ‬ ‫یَ ۡو َم یَ ۡج َم ُع ُ‬
‫‘‘!ہے اصل ہار جیت کے فیصلے کا دن‬

‫‪ :‬یعنی اُس روز جو کامیاب قرار دیا گیا وہی اصالً کامیاب و کامران ہوا‪ .‬پھر اس کامیابی کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی گئی‬

‫ٰ‬
‫ت ت َۡج ِر ۡی ِم ۡن ت َۡحتِہَا ااۡل َ ۡن ٰہ ُر ٰخلِ ِد ۡینَ فِ ۡیہَ ۤا اَبَدًا ؕ ٰذلِ َ‬
‫ک ۡالفَ ۡو ُز ۡال َع ِظ ۡی ُم ﴿‪...۹‬‬ ‫سیِّ ٰاتِ ٖہ َو یُ ۡد ِخ ۡلہُ َجنّ ٍ‬
‫﴾یُّ َکفِّ ۡر ع َۡنہُ َ‬

‫ہللا اس سے اس کے گناہ جھاڑ دے گا اور اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گاجن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی‘ یہ …’’‬
‫‘‘‪.‬لوگ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے‪ .‬یہی دراصل بڑی کامیابی ہے‬

‫انجام بد کا بیان اگلی آیت میں وارد ہوا‬


‫ِ‬ ‫‪ :‬اس کے برعکس جو ناکام قرار پائے گا اور نامراد رہے گا اس کے‬

‫س ۡال َم ِ‬
‫ص ۡی ُر ﴿‪۱۰٪‬‬ ‫ب النَّا ِر ٰخلِ ِد ۡینَ فِ ۡیہَا ؕ َو بِ ۡئ َ‬ ‫ولِٓئ َ‬
‫ک اَ ۡ‬
‫ص ٰح ُ‬ ‫﴾ َو الَّ ِذ ۡینَ َکفَ ُر ۡوا َو ک ََّذبُ ۡوا بِ ٰا ٰیتِنَ ۤا اُ ٰ‬

‫اور جن لوگوں نے کفر و انکار کا راستہ اختیار کیا اور ہماری آیات کو جھٹالتے رہے وہی لوگ دوزخ والے ہوں گے جس میں وہ’’‬
‫‘‘‪.‬ہمیشہ رہیں گے‪ .‬اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے‬

‫اس سرسری سے جائزہ سے اندازہ ہو گیا کہ اب تک ہم نے قرآن حکیم کے جن معدودے چند مقامات کا مطالعہ کیا ہے ان میں بھی‬
‫‪.‬کس قدر شدو مد کے ساتھ بعث بعد الموت‘قیام ِقیامت اور آخرت کی کامیابی اور ناکامی کا ذکر آ چکا ہے‬
‫یہاں ایک نکتہ اور بھی نوٹ کر لیا جائے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ اہم تقابل سامنے آتا ہے کہ جہاں دوسرے ایمانیات‬
‫کے لیے لفظ ایمان آیا ہے‘ وہاں آخرت کے لیے عموما ً لفظ یقین استعمال ہوا ہے ‘ جیسے سورۃ البقرۃ کے آغاز میں وحیٔ ٰالہی‬
‫‪ :‬اور کتب سماویہ پر ایمان کا ذکر تو ان الفاظ میں آیا کہ‬

‫نبی !) آپ پر‬ ‫ک َو َم ۤا اُ ۡن ِز َل ِم ۡن قَ ۡبلِ َ‬


‫ک ۚ (ٓایت ‪’’ )۴‬اور وہ لوگ جو ایمان التے ہیں اس پر بھی جو (اے ؐ‬ ‫َو الَّ ِذ ۡینَ یُ ۡؤ ِمنُ ۡونَ بِ َم ۤا اُ ۡن ِز َل اِلَ ۡی َ‬
‫‘‘‪.‬نازل کیا گیا اور اس پر بھی جو آپ سے پہلے نازل کیا گیا‬

‫‪:‬لیکن آخرت پر ایمان کا ذکر ہوا اِن الفاظ کے ذریعے کہ‬

‫﴾ َو بِااۡل ٰ ِخ َر ِۃ ہُمۡ یُ ۡوقِنُ ۡونَ ؕ﴿‪۴‬‬

‫‘‘‪.‬اور وہ آخرت پریقین رکھتے ہیں’’‬

‫‪.‬اس سے معلوم ہوا کہ ایمان باآلخرت میں وہ گہرائی اور شدت مطلوب ہے جسے ہم ’’یقین‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں‬

‫یہ بات پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ اصولی‘ نظری اور علمی اعتبار سے ایمان اصل میں نام ہے ایمان باہلل کا‪ .‬یہی وجہ‬
‫’’ایمان مجمل‘‘ میں صرف ایمان باہلل کا ذکر ہے‬
‫ِ‬ ‫‪:‬ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ‬

‫ق بِا ْلقَ ْل ِ‬
‫ب‬ ‫َص ِد ْی ٌ‬ ‫صفَاتِ ٖہ َوقَبِ ْلتُ َج ِم ْی َع اَ ْحکَا ِم ٖہ اِ ْق َرا ٌر ِباللِّ َ‬
‫سا ِن َوت ْ‬ ‫آ َم ْنتُ بِاہّٰلل ِ َک َما ہُ َو بِا َ ْ‬
‫س َماِئ ٖہ َو ِ‬

‫میں ایمان الیا ہللا پر جیسے کہ وہ اپنے اَسماء اور صفات سے ظاہر ہے‘ اور میں نے قبول کیے اس کے جملہ احکام‘میں اقرار’’‬
‫‘‘‪.‬کرتا ہوں زبان سے اور تصدیق کرتا ہوں دل سے‬

‫تعالی کی‬
‫ٰ‬ ‫چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ ایمان باآلخرت اور ایمان بالرسالت دونوں ایمان باہلل کی فروع ہیں‪ .‬چنانچہ ایمان باآلخرت ہللا‬
‫تعالی کی صفت ِہدایت کا تکمیلی ظہور ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک‬ ‫ٰ‬ ‫صفت ِعدل کا مظہر ہے اور ایمان بالرسالت ہللا‬
‫ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اگر عملی اور اخالقی اعتبار سے غور کیا جائے تو سب سے مٔوثر ایمان ‘ ایمان باآلخرت ہے‪ .‬اس لیے‬
‫کہ اگر آخرت کا یقین ہوگا‘ مرنے کے بعد محاسبہ کے لیے جی اٹھنے کا یقین ہوگا ‘ جزا و سزا کا یقین ہوگا‘ جنت و دوزخ کا یقین‬
‫ہوگا تو انسان کے رویے میں عملی تبدیلی الزما ً آئے گی‘ اور اگر ایمان باآلخرت میں کمی رہ گئی تو ایمان باہلل بھی ذات و صفا ِ‬
‫ت‬
‫عشق رسولﷺ کے محض زبانی دعووں کی صورت‬ ‫ِ‬ ‫تعالی کی ایک علمی بحث بن کر رہ جائے گا اور ایمان بالرسالت بھی‬‫ٰ‬ ‫باری‬
‫‪ .‬اختیار کر لے گا اور رسول ہللاﷺ کی اطاعت اور اتباع کی نوبت نہیں آئے گی‬

‫اس مقام پر ضمنا ً یہ بھی جان لیجیے کہ قانونی‘ فقہی اور شرعی اعتبار سے اہم ترین ایمان‘ ایمان بالرسالت ہے‪ .‬چنانچہ ایمان‬
‫تعالی کو اُن اَسماء و صفات کے ساتھ مانا جائے جن کی خبر حضرت محمدﷺ نے دی ہے ‘اور‬ ‫ٰ‬ ‫باہلل اسی وقت معتبر ہوگا جبکہ ہللا‬
‫وزن اعمال ‘ جزا و سزا اور جنت و دوزخ کی‬
‫ِ‬ ‫ایمان باآلخرت بھی تب ہی معتبر ہوگا جب بعث بعد الموت‘ حشر و نشر‘ حساب کتاب‘‬
‫‪.‬ان تفاصیل کو مانا جائے جن کی خبر حضرت محم ٌد رسول ہللاﷺ نے دی ہے‬

‫اس بات پر زور دینے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ بدقسمتی سے کچھ عرصہ سے ہمارے یہاں خود کو مسلمان‬
‫کہالنے واال عقلیت زدہ لوگوں کاایک مختصر سا گروہ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ آخرت حقیقی اور واقعی نہیں ہے‬
‫بلکہ محض ایک نظریہ اور تصور ہے ‘جس سے اصل مقصود دنیا میں عدل و انصاف کا قیام ہے‘ چنانچہ جنت و دوزخ اور جزاو‬
‫سزا کا جو تصور قرآن مجید دیتا ہے اس سے مقصود صرف یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کی معاشرتی‘ سماجی‘ سیاسی‘ معاشی‬
‫الغرض پوری اجتماعی زندگی عدل و قسط پر قائم ہو جائے اور انسان دنیا میں امن و سکون کے ساتھ بہتر سے بہتر طریق پر‬
‫زندگی بسر کر سکے‪ .‬یہ خیال اپنی اصل کے اعتبار سے خالص گمراہی اور زندقہ ہے‪ .‬آخرت ہرگز صرف تصور اور محض نظریہ‬
‫نہیں ہے‘ بلکہ ایک واقعہ ہے جو الزما ً ظہور پذیر ہوگا‪ .‬چنانچہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف اسالیب سے اس بات پر‬
‫ق ۙ﴿‪َّ ﴾۵‬و اِنَّ الد ِّۡینَ لَ َواقِ ٌع ؕ﴿‪’’ ﴾۶‬جس (قیامت و آخرت) کا تم سے‬ ‫زور دیا گیا ہے جیسے سورۃ ٰ ّ‬
‫الذر ٰیت میں فرمایا‪ :‬اِنَّ َما ت ُۡو َعد ُۡونَ لَ َ‬
‫صا ِد ٌ‬
‫وعدہ کیا جا رہا ہے وہ بالکل برحق ہے ‘اور جزا و سزا الزما ً واقع ہو کر رہے گی‘‘‪ .‬یا جیسے سورۃ المرسالت میں فرمایا‪ :‬اِنَّ َما‬
‫ت ُۡو َعد ُۡونَ لَ َواقِ ٌع ؕ﴿‪’’ ﴾۷‬جس چیز کی دھمکی تمہیں دی جا رہی ہے وہ الزما ً واقع ہو کر رہے گی‘‘‪( .‬یعنی نری دھمکی اور خالی‬
‫دھونس نہیں ہے!)‬

‫جو لوگ آخرت کو محض ایک تصور اور نظریہ قرار دے کر یہ امید بھی کرتے ہیں کہ اس سے اس دُنیا میں عدل و قسط پر مبنی‬
‫ایک اجتماعی نظام وجود میں آ سکتا ہے‘ وہ ایک شدید مغالطے میں مبتال ہیں‪ .‬اس لیے کہ محض تصورو نظریہ سے یہ مقصد ہر‬
‫گز حاصل نہیں ہو سکتا‪ .‬انسان کی سیرت‘ اس کے کردار‘ اخالق اور اعمال و معامالت پر واقعی اور عملی اثر محض آخرت کے‬
‫تصور یا نظریہ کا نہیں بلکہ صرف یقین کے درجے تک پہنچے ہوئے ایمان ہی کا پڑ سکتا ہے‪ .‬چنانچہ اگر ایک معاشرے میں‬
‫آخرت پر قلبی یقین رکھنے والے لوگ معتدبہ تعداد میں موجود ہوں گے تو اس کی برکت سے اور اس کے نتیجے میں اس دنیا‬
‫میں مبنی بر عدل و قسط اجتماعی نظام بھی الزما ً وجود میں آئے گا‘ لیکن ایمان باآلخرت کا اصل مقصود صرف ہماری دُنیوی بہبود‬
‫نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مطلوب محاسبٔہ اُخروی میں سرخرو اور کامیاب و کامران ہونا ہے‘ اور یہ نصب العین ہماری دُنیوی فالح‬
‫رسول میں بیان ہوئی ہیں‬
‫ؐ‬ ‫وبہبود اور امن و سالمتی سے اس طرح مربوط و متعلق ہے کہ آخرت کی وہ تفاصیل جو قرآن اور حدیث ِ‬
‫نظام عدل و قسط‬
‫ِ‬ ‫اُن پر قلبی یقین اور اس کے مطابق اس دنیا میں اپنے رویے اور عمل کی اصالح و تعمیر کے بغیر نہ دنیا میں‬
‫یوم قیامت ایک اٹل اور شدنی امر ہے اور آخرت ایک حقیقت ِ‬‫قائم ہو سکتا ہے اور نہ اُخروی نجات حاصل ہو سکتی ہے‪ .‬الغرض ِ‬
‫تعالی نے اپنے رسولوں اور اپنی کتابوں کے ذریعے سے ہمیں پیشگی عطا فرما دیا‬ ‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫کبری ہے اور اس کا حتمی اور یقینی علم ہللا‬
‫تعالی کی رضا کا حصول اور اُخروی نجات بن جائے‘ جس کے لیے قرآن حکیم دو‬ ‫ٰ‬ ‫ہے‘ تا کہ ہمارے تمام اعمال کا اصل محرک ہللا‬
‫‪:‬ٹوک انداز میں ہمیں آگاہ اور متنبہ کرتا ہے‬

‫ت ۡال َج ِح ۡی ُم لِ َم ۡن یَّ ٰری ﴿‪﴾۳۶‬فَا َ َّما َم ۡن طَ ٰغی ﴿ۙ‪َ ﴾۳۷‬و ٰاثَ َر ۡال َح ٰیوۃَ الد ُّۡنیَا‬ ‫س ٰعی ﴿ۙ‪َ ۳۵‬‬
‫﴾و بُ ِّرزَ ِ‬ ‫سانُ َما َ‬ ‫ک ۡب ٰری ﴿۫ۖ‪﴾۳۴‬یَ ۡو َم یَتَ َذ َّک ُر ااۡل ِ ۡن َ‬‫ت الطَّٓا َّمۃُ ۡال ُ‬‫فَاِ َذا َجٓا َء ِ‬
‫ٰ‬ ‫ۡ‬ ‫ۡ‬ ‫ۡ‬
‫س ع َِن الہَ ٰوی ﴿ۙ‪﴾۴۰‬فَاِنَّ ال َجنَّۃَ ِہ َی ال َما ٰوی ﴿ؕ‪( ﴾۴۱‬النّ ٰ‬‫ۡ‬ ‫ۡ‬ ‫ۡ‬ ‫ۡ‬ ‫ۡ‬
‫زعت)‬ ‫﴾و اَ َّما َم ۡن َخافَ َمقَا َم َربِّ ٖہ َو نَہَی النَّف َ‬ ‫﴿ۙ‪﴾۳۸‬فَاِنَّ ال َج ِح ۡی َم ِہ َی ال َما ٰوی ﴿ؕ‪َ ۳۹‬‬

‫پس جب قیامت کا ہنگامٔہ عظیم برپا ہوگا ‘ جو کچھ انسان نے دنیا میں کیا ہے اس دن وہ اس کو یاد کرے گا‘ اور دوزخ ہر’’‬
‫دیکھنے والے کے سامنے بے نقاب کر دی جائے گی تو جس نے (دنیا میں) سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو آخرت پر مقدم‬
‫رب کے حضورکھڑا ہونے سے(یعنی محاسبہ کے لیے پیشی‬ ‫رکھا تھا‘ تو یقینااس کا ٹھکانہ تو بس دوزخ ہی ہے‘ اور جو اپنے ّ‬
‫‘‘‪.‬سے) ڈرا تھا‪ .‬اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا رہا تھا تو الریب اس کا ٹھکانہ جنت ہے‬

‫سوال نمبر‪2Ñ‬‬
‫نماز کا تعارف تحریر کریں نیز نمازسے متعلق کتاب میں موجود اصطالحات کی وضاحت کریں۔‬

‫نماز كا مختصر تعارف‬


‫نماز بندے کے لئے اپنے خالق سے رشتہ جوڑنے کا سب سے آسان اور بہترین ذریعہ ہے‪ .‬انسان کی دنیوی واخروی اور سماجی‬
‫زندگی کی کامیابی کا معیار بھی فقط نماز ہی ہے‪ .‬پانچ وقتوں کی نماز کو ایک بہنے والی ندی سے مثال دیکر هللا کے حبیب حضور‬
‫محمد صلی ہللا علیہ و سلم نے امت کو سکھایا ہے کہ جو بندہ دن میں پانچ وقت نماز ادا کرتا ہے اس كي مثال گویا اس شخص‬
‫‪.‬كي طرح ہے جو دن میں پانچ مرتبہ ندی میں غسل کرکے اپنے بدن کے میل کچیل دور کرتا ہے‬
‫اہل سنت و جماعت کے نزدیک ایمان و صحيح عقيدے کے بعد نماز تمام فرائض میں نہایت اہم واعظم ہے۔ اہمیت کا اس سے بھی‬
‫تعالی علیہ وسلم کو زمین پر بھیجے‪ ،‬جب نماز فرض کرنی منظور‬‫ٰ‬ ‫پتہ چلتا ہے کہ اﷲ عزوجل نے سب احکام اپنے حبیب صلی ہللا‬
‫ش عظیم پر بال کر اسے فرض کیا اور شب اسرا میں یہ تحفہ دیا۔‬
‫تعالی علیہ وسلم) کو اپنے پاس عر ِ‬
‫ٰ‬ ‫ہوئی تو حضور (صلی ہللا‬

‫ہر مکلّف یعنی عاقِ ل بالغ پر نما ز فرض عین ہے اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے۔ اور جو قصداً چھوڑ ے اگرچہ ایک ہی وقت کی‬
‫فاس ق ہے اور جو نماز نہ پڑھتا ہو قید کیا جائے یہاں تک کہ توبہ کرے اور نماز پڑھنے لگے بلکہ ائمٔہ ٰثلثہ مالک و شافعی‬
‫ہو وہ ِ‬
‫سلطان اسالم کو اس کے قتل کا حکم ہے۔‬
‫ِ‬ ‫تعالی عنہم کے نزدیک‬
‫ٰ‬ ‫و احمد رضی ہللا‬

‫نماز‪ -‬قرآن وحديث كي روشني‪ Ñ‬ميں‬


‫تعالی علیہ وسلم نماز کی اہمیت سے ماال مال ہیں ‪ ،‬جا بجا اس کی تاکید آئی اور اس کے‬
‫ٰ‬ ‫قرآن مجید و احادیث نبی کریم صلی ہللا‬
‫تارکین پر وعید فرمائی گئی‪ ،‬چند آیتیں اور حدیثیں درج ذیل ہیں‬
‫ﷲ عزوجل نے ارشاد فرمایا‬

‫ص ٰلوۃَ َو ٰاتُوا الز َّٰکوۃَ َو ْ‬


‫ار َک ُع ۡوا َم َع ال َّرا ِک ِع ۡینَ‬ ‫َواَقِ ۡی ُموا ال َّ‬
‫اور نماز قائم رکھواور ٰ‬
‫زکوۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو ۔‬
‫نماز کا مطلقا ً ترک تو سخت ہولناک ہے ہی نیز اسے قضا کرکے کرکے پڑھنے والوں کے لئے ارشاد باری تعالی ہے‬

‫صاَل تِ ِہ ْم َ‬
‫ساہُ ۡونَ‬ ‫فَ َو ۡی ٌل لِّ ْل ُم َ‬
‫صلِّ ۡینَ ۙ﴿‪﴾۴‬الَّ ِذ ۡینَ ہُ ْم ع َۡن َ‬
‫خرابی ان نمازیوں کے ليے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں۔‬
‫جہنم میں ایک وادی ہے ‪،‬جس کی سختی سے جہنم بھی پناہ مانگتا ہے‪ ،‬اس کا نام ''ویل'' ہے‪ ،‬قصداً نماز قضا کرنے والے اس‬
‫کے مستحق ہیں۔‬

‫تعالی علیہ وسلم‬


‫ٰ‬ ‫احادیث نبی کریم صلی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم ارشاد‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہما سے مروی‪ ،‬رسول اﷲ صلی ہللا‬ ‫ٰ‬ ‫حدیث ‪ :۱‬صحیح بُخاری و ُمسلِم میں ابن عمر رضی ہللا‬
‫فرماتے ہیں‪'' :‬اسالم کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے ۔اس امر کی شہادت دینا کہ اﷲ کے سوا کوئی سچا معبود نہیں اور محمد صلی ہللا‬
‫تعالی علیہ وسلم اس کے خاص بندے اور رسول ہیں ‪،‬اور نماز قائم کرنا اور زکاۃ دینا اور حج کرنا اور ما ِہ رمضان کا روزہ رکھنا۔‬‫ٰ‬
‫تعالی علیہ وسلم نے فرمایا‪'':‬پانچ‬
‫ٰ‬ ‫تعالی عنہ سے مروی ‪ ،‬کہ رسول اﷲ صلی ہللا‬
‫ٰ‬ ‫حدیث ‪ :2‬صحیح ُمسلِم میں ابو ہریرہ رضی ہللا‬
‫نمازیں اور جمعہ سے جمعہ تک اور رمضان سے رمضان تک ان تمام گناہوں کو مٹا دیتے ہیں‪ ،‬جو ان کے درمیان ہوں جب کہ‬
‫کبائر سے بچا جائے۔‬
‫تعالی عنہ سے مروی ‪،‬کہ ایک صاحب سے ایک گناہ صادر ہوا‪ ،‬حاضر ہو کرعرض‬ ‫ٰ‬ ‫حدیث ‪ :3‬صحیحین میں ابن مسعود رضی ہللا‬
‫کیا ‪ ،‬اُس پر یہ آیت نازل ہوئی۔‬
‫ک ِذ ْک ٰری لِ ٰ ّ‬
‫لذ ِک ِر ۡینَ‬ ‫ت ؕ ٰذلِ َ‬
‫سیِّ ٰا ِ‬
‫ت یُ ْذ ِہبْنَ ال َّ‬ ‫ص ٰلوۃَ طَ َرفَ ِی النَّہَا ِر َو ُزلَفًا ِّمنَ الَّ ۡی ِل ؕ اِنَّ ا ْل َح َ‬
‫س ٰن ِ‬ ‫اَقِ ِم ال َّ‬
‫نماز قائم کرودن کے دونوں کناروں اور رات کے کچھ حصہ میں بے شک نیکیاں گناہوں کو دور کرتی ہیں‪ ،‬یہ نصيحت ہے‪،‬‬
‫نصيحت ماننے والوں کے ليے۔‬

‫''انھوں نے عرض کیا‪ ،‬یا رسول اﷲ! کیا یہ خاص میرے ليے ہے؟ فرمایا‪'' :‬میری تمام اُمت کے ليے ہے ۔‬

‫تعالی علیہ وسلم) نے فرمایا‪'':‬جب‬


‫ٰ‬ ‫حدیث ‪ :4‬ابو داود نے بطریق عمرو بن شعیب عن ابیہ عن جدّہ روایت کی کہ حضور (صلی ہللا‬
‫بچے سات برس کے ہوں‪ ،‬تو اُنھیں نماز کا حکم دو اور جب دس برس کے ہو جائیں‪ ،‬تو مار کر پڑھاؤ۔‬‫تمھارے ّ‬
‫نماز کو کما حقہ خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنے سے انسان اپنے رب کے حکم کی تعمیل کرکے خدا کو راضی کرتاہے ساتھ‬
‫ہی ساتھ اپنے نفس پر مکمل طورپر قابو پاتاہے جس کی وجہ سے وہ گناہوں کی طرف بڑھنے سے خود كو روك پاتا ہے‪ .‬اسی کی‬
‫صاَل ةَ تَ ْن َه ٰى ع َِن ا ْلفَ ْحشَا ِء َوا ْل ُمن َك ِر ۗ بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے‬
‫‪،‬طرف قرآن مجید کا اشارہ ہے‪ِ .‬إنَّ ال َّ‬
‫لیکن سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم سب نمازیں تو پڑھتے ہیں پھر بھی گناہوں پر آمادہ ہوجاتے ہیں اس کے ذمہ دار ہم خود ہیں‬
‫ہم اپنے آپ سے ہی پوچھیں کہ ہماری نمازوں میں وہ طاقت وہ کیفیت پائی جاتی ہے یا نہیں؟‬

‫سوال نمبر‪3‬‬
‫بعثت ِ نبوی ﷺ سے کیا مراد ہے؟ جامع نوٹ لکھیں۔‬

‫بعثت‬
‫بعثت سے مراد جبرائیل کی حضور صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کے سامنے قراآن کی پہلی نازل ہونے والی آیت کا تالوت کرنا ہے۔ آپ‬
‫صلی ہللا علیہ وسلم کی عمر جب چالیس برس ہوچکی تھی اس وقت جبرئیل علیہ السالم سب سے پہلی وحی لیکر نازل ہوئے۔ اور‬
‫یہی سن کمال ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہی پیغمبروں کی بعثت کی عمر ہے‬

‫رسول ِ اکرم ﷺکے مقاصد ِ بعثت اور ہماری ذمہ داری‬


‫رسول ِ اکرم ﷺ جس وقت دنیا میں مبعوث ہوئے اور نبوت سے سرفراز کئے گئے وہ دور دنیا کا نہایت عجیب اور تاریک ترین‬
‫دور تھا‪ ،‬ظلم وستم‪ ،‬ناانصافی و حقوق تلفی‪ ،‬جبر وتشدد‪ ،‬خدافراموشی و توحید بیزاری عام تھی‪ ،‬اخالق وشرافت کا بحران تھا‪،‬‬
‫اور انسان ایک دوسرے کے دشمن بن کر زندگی گزارہے تھے‪ ،‬ہمدردی اور محبت کے جذبات‪ ،‬اخوت و مودت کے احساسات ختم‬
‫ہوچکے تھے‪ ،‬معمولی باتوں پر لڑائی جھگڑااور سالہاسال تک جنگ وجدال کا سلسلہ چلتا تھا‪ ،‬ایسے دور میں ٓاپ ﷺ تشریف‬
‫الئے‪ ،‬اور پھر قرٓانی تعلیمات ونبوی ہدایات کے ذریعہ دنیا کو بدال‪ ،‬عرب وعجم میں انقالب برپاکیا‪ ،‬عدل وانصاف کو پروان‬
‫چڑھایا‪ ،‬حقوق کی ادائیگی کے جذبوں کو ابھارا‪ ،‬احترام ِ انسانیت کی تعلیم دی‪ ،‬قتل وغارت گری سے انسانوں کو روکا‪،‬‬
‫عورتوں کومقام ومرتبہ عطاکیا‪ ،‬غالموں کو عزت سے نوازا‪ ،‬یتیموں پر دست ِ شفقت رکھا‪ ،‬ایثاروقربانی‪ ،‬خلوص ووفاداری‬
‫کے مزاج کو پیدا کیا‪ ،‬احسانات ِ خداوندی سے ٓاگاہ کیا‪ ،‬مقصد ِ حیات سے باخبر کیا‪ ،‬رب سے ٹوٹے ہوئے رشتوں کو جوڑا‪ ،‬جبین ِ‬
‫عبدیت کو خدا کے سامنے ٹیکنے کا سبق پڑھا یااور توحید کی تعلیمات سے دنیا کو ایک نئی صبح عطا کی‪ ،‬تاریکیوں کے دور کا‬
‫خاتمہ فرمایا‪ ،‬اسالم کی ضیاپاش کرنوں سے کائنات ِ ارضی کو روشن ومنور کردیا۔ ٓاپ ﷺ نے فرد کی اصالح کی‪ ،‬معاشرہ کو‬
‫‪ :‬سدھارا‪ ،‬اور انسانوں کی ایسی تربیت فرمائی کر چمکایاکہ بجا طور پر کہا جاگیاکہ‬

‫کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا؎‬ ‫جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے‬

‫ؔ اور بقول الطاف حسین حالی‬

‫ا ور اک نسخہ ٔ کیمیا ساتھ الیا‬ ‫اتر کر حرا سے سوئے قوم ٓایا‬

‫کھرا اور کھوٹا الگ کر دکھایا‬ ‫مس ِ خام کو جس نے کندن بنایا‬

‫پلٹ دی بس اک ٓان میں اس کی کایا‬ ‫عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل طاری‬


‫نبی اکرم ﷺ کا یقینا انسانیت پر سب سے بڑا احسان یہ بھی ہے کہ ٓاپ نے بھولی بھٹکی انسانیت کو پھر سے خدا کے در پر‬
‫س بندگی کوتازہ فرمایا۔ ٓاپ ﷺ نے یہ حیرت انگیز کارنامہ صرف ‪ 23‬سالہ مختصر مدت میں انجام دیا۔ ‪ 23‬سالہ‬ ‫پہنچایا اور احسا ِ‬
‫دور میں ٓاپ نے ساری انسانیت کی فالح وصالح اور کامیابی کا ایک ایسا نقشہ دنیا کے سامنے پیش کیاکہ ا س کی روشنی میں‬
‫ہر دور میں انقالب برپا کیاجاسکتا ہے اور اصالح وتربیت کا کام انجام دیا جاسکتا ہے۔ ٓاپ ﷺ کو ہللا تعالی جن عظیم مقاصد دے‬
‫ت مبارکہ میں جدوجہد فرمائی وہ ہمارے لئے ایک رہنمایانہ‬
‫کر دنیا میں بھیجا‪ٓ ،‬اپﷺ نے ان مقاصد کو بروئے کارالکر اپنی حیا ِ‬
‫اصول ہیں۔ قرٓان کریم میں بنیادی طور پرچارمقاصد ِ بعثت کوبیان کیا گیا ہے۔ ٓائیے ایک مختصر روشنی ان مقاصد ِ مقاصد پر‬
‫‪ :‬ڈالتے ہیں‬

‫‪:‬قرٓان میں مقاصد ِ بعثت کا تذکرہ‬

‫قرٓان کریم میں ہللا تعالی نے تین مقامات پر ٓاپﷺ کے مقاصد ِ بعثت کو بیان فرمایاہے‪ ،‬پہالمقام وہ ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ کی‬
‫زبان سے اس کا ذکر ہوا‪ ،‬ابراہیم ؑ کی یہ ٓاروز وتمنا تھی کہ نبی ٓاخر الزمان سید الرسل حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم ٓاپ ہی‬
‫کے خاندان اور نسل سے ہوں ‪ ،‬چناں چہ اس کے لئے ٓاپ نے جب بیت ہللا کی تعمیر فرمائی‪ ،‬یہ وقت چوں کہ بڑی اہمیت کا‬
‫حامل تھا‪ ،‬اس کائنات میں خدا کاپہال گھر انسانوں کے لئے‪ ،‬رب اطاعت وبندگی کے لئے تعمیر کیا گیا تھا‪ ،‬اس حسا س اور اہم‬
‫موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اور کریم پروردگار کی الطاف وعنایات کو سامنے رکھ کر ٓاپ نے دعاکی‪َ :‬ربَّنَا َوا ْب َع ْث فِ ْی ِھ ْم َر ُ‬
‫س ْوالً‬
‫ک ْیم۔ ( البقرۃ‪’’)129:‬ہمارے پروردگار !ان میں ایک‬ ‫ک اَ ْنتَ ا ْل َع ِز ْی ُز ا ْل َح ِ‬ ‫ک ٰت َ‬
‫ب َوا ْل ِح ْک َمۃَ َویُ ِز ِّک ْی ِھ ْم اِنَّ َ‬ ‫ِم ْن ُھ ْم یَ ْتلُ ْوا َعلَ ْی ِھ ْم ٰا ٰیتِ َ‬
‫ک َویُ َعلِّ ُم ُھ ُم ا ْل ِ‬
‫ایسا رسول بھی بھیجنا جو انہی میں سے ہو‪ ،‬جو ان کے سامنے تیری ٓایتوں کی تالوت کرے‪ ،‬انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم‬
‫دے‪ ،‬اور ان کو پاکیزہ بنائے‪ ،‬بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے‪ ،‬جس کی حکمت بھی کامل۔‬
‫‘‘جس نبی کی ٓاپ نے تمنا کی تھی اس سے مراد محمد رسول ہللا ﷺ ہیں ۔ ( تفسیر ابن کثیر‪)2/92:‬نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے‬
‫تھے کہ ‪ :‬میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا کا نتیجہ ہوں ۔ (مسند ابو دأودطیالسی‪)1224:‬حضرت ابراہیم نے کائنات کی سب سے‬
‫عظیم ترین ہستی کو اپنے خاندان میں مانگ لیا‪ ،‬اورہمیشہ کے لئے سعادت کو حاصل کرلیا۔‬

‫س ْوالً‬ ‫دوسری جگہ ہللا تعالی نے ٓاپ کے بھیجے جانے کو احسان قراردیتے ہوئے فرمایا‪:‬لَقَ ْد َمنَّ ہّٰللا ُ َعلَی ا ْل ُمْٔو ِمنِیْنَ اِ ْذ بَ َع َ‬
‫ث فِ ْی ِھ ْم َر ُ‬
‫ض ٰل ٍل ُمبِ ْین۔ ( ٰال عمران‪’’)164:‬حقیقت یہ ہے کہ ہللا‬ ‫ِم ْن ُھ ْم یَ ْتلُ ْوا َعلَ ْی ِھ ْم ٰا ٰیتِ ٖہ َویُزَ ِّک ْی ِھ ْم َویُ َعلِّ ُم ُھ ُم ا ْل ِ‬
‫ک ٰت َ‬
‫ب َوا ْل ِح ْک َمۃَ ِواِنْ کَانُ ْوا ِمنْ قَ ْب ُل لَفِ ْی َ‬
‫نے مٔومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے ہللا تعالی کی ٓایتوں کی تالوت‬
‫کرے‪ ،‬انہیں پاک وصاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے‪ ،‬جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی ہوئی گمراہی‬
‫‘‘ میں مبتال تھے۔‬

‫س ْوالً ِم ْن ُھ ْم یَ ْتلُ ْوا َعلَ ْی ِھ ْم ٰا ٰی ٖتہ َویُ َز ِّک ْی ِھ ْم‬ ‫ث فِی ااْل ُ ِّم ٖیِّنَ َر ُ‬
‫ی بَ َع َ‬‫تیسری جگہ ہللا تعالی نے مقاصد ِ بعثت کو بیا ن کرتے ہوئے فرمایا‪:‬ھ َُو الَّ ِذ ْ‬
‫ض ٰل ٍل مبین۔ ( الجمعۃ ‪’’)2:‬وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک‬ ‫ک ٰت َ‬
‫ب َوا ْل ِح ْک َمۃَ ِواِنْ کَانُ ْوا ِمنْ قَ ْب ُل لَفِ ْی َ‬ ‫َویُ َعلِّ ُم ُھ ُم ا ْل ِ‬
‫رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی ٓایتوں کی تالوت کریں ‪ ،‬اور ان کو پاکیزہ بنائیں ‪ ،‬اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم‬
‫دیں ‪ ،‬جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ ‘‘حضرت موالنا عبد الماجد دریابادی ؒمقاصد ِبعثت کو‬
‫مختصر لیکن جامع انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ‪:‬ذرا سا غور کرنے پرنظر ٓاجائے گا کہ رسول اعظم ﷺ کے جملہ‬
‫ک‘‘رسول کا پہال کام اپنی امت کے سامنے تالوت ِ ٓایات‬ ‫فرایض کمال ِ ایجاز کے ساتھ چندفقروں میں ٓاگئے ہیں۔ ’’یَ ْتلُ ْوا َعلَ ْی ِھ ْم ٰا ٰیتِ َ‬
‫ب‘‘رسول کاکام محض تبلیغ‬ ‫ک ٰت َ‬‫ہوتا ہے‪ ،‬یعنی ہللا کا کالم پہنچانا‪ ،‬گویا رسول کی پہلی حیثیت مبلغ ِ اعظم کی ہوتی ہے۔ ’’یُ َعلِّ ُم ُھ ُم ا ْل ِ‬
‫وپیام رسانی پر ختم نہیں ہوجاتا‪ ،‬اس کاکام کتاب ِ الہی کی تبلیغ کے بعد اس کی تعلیم کا بھی ہے‪ ،‬اس تعلیم کے اندر کتاب کی‬
‫شرح‪ ،‬ترجمانی‪ ،‬تعمیم میں تخصیص‪ ،‬تخصیص میں تعمیم سب کچھ ٓاگئی‪ ،‬اور یہیں سے ان کج فہموں کی بھی تردید ہوگئی‬
‫جو رسول کا منصب ( معاذ ہللا ) صرف ڈاکیہ یا قاصد سمجھتے ہیں ‪ ،‬گویا رسول کی دوسری حیثیت معلم ِ اعظم کی ہوئی۔‬
‫’’وا ْل ِح ْک َمۃَ ‘‘پھر رسول تعلیم محض کتا ب ہی کی نہ دیں گے بلکہ حکمت و دانائی کی تلقین بھی امت کو کریں گے‪ ،‬احکام‬ ‫َ‬
‫ومسائل‪ ،‬دین کے قاعدے اور ٓاداب‪ ،‬عوام وخواص سب کو سکھائیں گے اور خواص کی رہنمائی اسرارو رموزمیں بھی کریں‬
‫گے‪ ،‬گویا رسول کی تیسری حیثیت مرشد ِ اعظم کی ہوئی۔ ’’یُ َز ِّک ْی ِھ ْم ‘‘تزکیہ سے مراد دلوں کی صفائی ہے‪ ،‬رسول کا کام محض‬
‫الفاظ اور احکام ِ ظاہری کی تشریح تک محدود نہیں رہے گا‪ ،‬بلکہ وہ اخالق کی پاکیزگی اور نیتوں کے اخالص کے بھی فرائض‬
‫انجام دیں گے‪ ،‬گویا رسول کی یہ چوتھی حیثیت مصلح ِ اعظم کی ہوئی۔‬

‫ت قرٓان‬
‫پہال مقصد‪:‬تالو ِ‬
‫ت قرٓان کی عظمت واہمیت کو عام فرمایا‪ ،‬اور اس کے فوائد وبرکات سے ٓاگاہ کیا‪ ،‬اورانسانوں کے‬ ‫رسول ہللاﷺ نے امت میں تالو ِ‬
‫ہاتھ میں خدا کا یہ عظیم کالم سوپنا جس کی وجہ سے ان انسانیت قعر ِ مذمت سے نکلی اور تالوت ِ قرٓان کا ایسا ذوق ان کو عطا‬
‫کیا کہ اس سے کسی لمحہ صحابہ کرام ؓ کو سیری حاصل نہیں ہوتی تھی‪ ،‬اور خود ٓاپﷺ جب قرٓان کریم کی تالوت فرماتے کتنے‬
‫ہی پتھر دل موم ہوجاتے اور کیسے کیسے سخت مزاج انسان نرم پڑجاتے اور قرٓان کی حقانیت و عظمت کا اقرار کئے بغیر نہیں‬
‫رہتے اور بہت سے لوگ اسی قرٓان کی سماعت سے دائرہ ٔ اسالم میں داخل ہوئے۔ دنیا میں جو کچھ انقالب نظر ٓارہا ہے بالشبہ یہ‬
‫اس عظیم کتاب کی بدولت ہے جو صاحب کتاب سیدنا محمد رسول ہللا ﷺ نے بطور امانت انسانوں تک پہنچایا اور اس کے‬
‫تقاضوں کو عملی طور پر پورا کرکے دکھایا۔ قرٓان کا نزول عرب کی سرزمین پر پوا لیکن وہ پوری دنیا کے لئے اور ہمیشہ ہمیشہ‬
‫کے واسطے معجزہ ٔ نبوی بن کر ٓایا اور اس کی کرنیں سارے عالم میں پھیل گئیں اور جہاں قرٓان کا نور پہنچا وہاں اندھیریوں‬
‫کا خاتمہ ہوا اور کفر و شرک نے دم توڑدیا۔ حضرات صحابہ کرام ؓکی زندگیوں میں انقالبی اثرات اسی کالم نے پیدا کئے‪ ،‬اور وہ‬
‫انسانوں کو رہبر اور رہنما بنیں بھی تو اسی قرٓان کی تعلیمات پر عمل کرکے بنیں۔ قرٓان نے ہر شعبٔہ زندگی میں مثالی انقالب بر‬
‫پا کیا۔ تالوت ِ قرٓان کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ٓاپ ﷺ نے فرمایا‪:‬جو قرٓان کریم پڑھنے میں اس قدر مستغرق ہو کہ اس سے‬
‫دعا مانگنے کا موقع ملے تو ہللا تعالی نے فرمایا کہ مانگنے والوں سے زیادہ ایسے بندے کو عطاکروں گا۔ (ترمذی‪ٓ)2869 :‬اپ‬
‫ﷺ نے فرمایا کہ ‪:‬کوئی قوم ہللا کے گھروں میں سے کسی گھر میں مجتمع ہوکر تالوت کرتی ہے تو ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے‬
‫اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے‪ ،‬مالئکہ رحمت ان کو گھیر لیتے ہیں اور حق تعالی اس کا ذکر مالئکہ کی مجلس میں فرماتے ہیں۔‬
‫(مسلم‪)4873:‬حضرت انس سے ؓ مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا ‪:‬جس گھر میں قرٓان کریم کی تالوت کی جاتی ہے اس مین‬
‫فرشتے ٓاتے او رشیاطین دور ہوجاتے ہیں ‪ ،‬وہ اپنے اہل ( صاحب خانہ افراد) کے لئے کشادہ ہوجاتا ہے اور اس میں بھالئی کی‬
‫بہتات اور شر کی قلت ہوجاتی ہے‪ ،‬اور جس گھر میں قرٓان کی تالوت نہ ہو اس میں شیاطین ٓاجاتے ہیں ‪ ،‬فرشتے نکل جاتے‬
‫ہیں اور وہ گھر اپنے باسیوں پر تنگ ہوجا تا ہے‪ ،‬خیرکم اور شر بہت بڑھ جاتا ہے۔ ( فضائل حفظ القرٓان‪)131:‬‬

‫دوسرا مقصد‪ :‬تعلیم ِ قرٓان‬

‫قرٓان کریم کو الفاظا ً پڑھنے اور تالوت کرنے کے ساتھ اس کے معانی ومطالب انسانوں کو سمجھانا یہ بھی نبی ﷺ کی عظیم‬
‫ذمہ داری رہی اور ٓاپ ﷺ نے الفاظ ِ قرٓانی کے ساتھ معانی ٔ قرٓان بھی بتالئے۔ نبی ﷺ نے مرا ِد خداوندی کو سمجھایا اور ٓایات ِ‬
‫قرٓانی کی تشریح کرکے امت کو اس کے مقصد سے ٓاگاہ کیا کہ ہللا تعالی کیا چاہتا ہے۔ اس لئے صحابہ کرام ؓ جہاں الفاظ ِ قرٓانی‬
‫کے یاد کرنے کا اہتمام کیا کرتے تھے وہیں معانی ومطالب کو بھی سمجھنے میں مصروف رہا کرتے تھے۔ قرٓان مجید کو تالوۃ‬
‫پڑھنے کے ساتھ اس کے معانی اور مضامین میں تدبر کرنا‪ ،‬اس کے مفہوم میں غور و فکر کرنا‪ ،‬تفاسیر قرٓان کی روشنی‪ ،‬نبی‬
‫کریم ﷺ کی تشریحات اور صحابہ کرام کے عمل سے قرٓان مجید کے مقصود تک رسائی حاصل کرنے کوشش کرنا بھی ضروری‬
‫ہے‪ ،‬کیوں کہ جب تک مطلوب قرٓان کو نہیں سمجھا جائے گا تو یقینی طور پر عمل ٓاوری کا جذبہ بھی نہیں ابھرے گا‪ ،‬اور ہللا‬
‫تعالی کیا فرمارہاہے اس سے ٓاگہی بھی حاصل نہیں ہوگی۔ ہللا تعالی نے نہایت چونکادینے والے انداز میں کیا کہ‪:‬افالیتدبرون‬
‫القران ٔام علی قلوب ٔاقفالہا۔ (محمد ‪)۲۴:‬یہ لوگ قرٓان میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پرقفل پڑے ہوئے ہیں ۔ اس لئے قرٓان‬ ‫ٰ‬
‫کریم کو سمجھا اس کا حق ہے۔ قرٓان مجید کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنا بھی اہل ِ ایمان کی ذمہ داری ہے۔ قرٓان صرف پڑھ کر‬
‫یا سمجھ کر رکھ دینے کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کے مطابق زندگیوں کو بنانے اور سنوارنے کی ضرور ت ہے۔ قرٓان نے حالل‬
‫و حرام اور جائز و ناجائز کے لئے اصول بتائے‪ ،‬اور اس کی تشریخ نبی کریم ﷺ نے فرمائی۔ قرٓان کریم میں حکم دیتے ہوئے‬
‫فرمایا گیا کہ ‪:‬وھذا کتاب ٔانزلنا ہ مبارک فاتبعوہ۔ ( االنعام ‪)155:‬یعنی یہ (قرٓان )مبارک کتاب جو ہم نے نازل کی اس کی اتباع کرو۔‬
‫اور ایک جگہ فرمایا کہ ‪:‬اتبعوا مأاانزل الیکم من ربکم۔ ( االعراف‪)3 :‬یعنی جو کچھ تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل‬
‫کیا گیا اس کی اتباع کرو۔‬

‫تیسرا مقصد‪ :‬تزکیہ ٔ نفس‬


‫نبی اکرم ﷺ کا تیسرا مقصد دنیا میں بھیجے جانے کا یہ ہے کہ ٓاپ ﷺ انسانوں کے دلوں کوپاک صاف کریں ‪ ،‬ان کے دلوں‬
‫میں کفر وشرک کی جو گندگیاں اور اخالق واعمال کی خرابیاں ہیں ان کو نکال باہر کریں ‪ ،‬اور دلوں کو اس قابل بنائیں کہ وہ‬
‫یاد ِ الہی کا مسکن اور محبت ِ رسول ﷺ کا مرکز بن سکے۔ چناں چہ ٓاپﷺ نے جہاں معاشرہ کی اجتماعی اصالحی کوششیں‬
‫کیں وہیں انفرادی طور پر بھی دلوں کی اصالح کا اہتمام فرمایا۔ خداکی حضوری کا احساس پیداکیا‪ ،‬رو ِز قیامت کی بازپرس کی‬
‫فکر پیداکی‪ ،‬ہللا تعالی کے حاضر وناظر ہونے کا خیال دلوں میں راسخ کروایا۔ یہی نتیجہ تھا کہ معمولی درجہ کا گناہ بھی سرزد‬
‫ہوجاتا یا تنہائیوں میں کسی جرم کا ارتکاب کرلیتے تو فوری رسالت ماب ﷺ کے حضور حاضر ہوکر اس کی تالفی کروالیتے تاکہ‬
‫ٓاخرت کے سخت ترین عذاب سے حفاظت ہوجائے۔ انسانی معاشرہ کو ٓاالئشوں اور گندگیوں سے عمومی طو رپر بچانا ہو تو فرداً‬
‫فرداً انسانوں کی اصالح ضروری ہے‪ ،‬اور یہ ہر انسان کے دل کی اصالح پر موقوف ہے ؛ اسی لئے سب سے پہلے دل کو درست‬
‫کرنا ضروری ہے کیوں کہ دل ہی تمام جسم کا سردار اور سارے اعضا ء میں مرکزی حیثیت رکھتا ہے۔ نبی کریم ﷺ نے‬
‫فرمایا‪:‬جسم ِ انسانی میں ایک گوشت کا لوتھڑا ہے اگر وہ درست ہو تو سارا جسم صحیح ہوگا اور اگر وہ خراب ہو جائے تو جسم‬
‫سارا فسا د میں مبتال ہوجائے گا‪ ،‬غور سے سنو ! وہ دل ہے۔ ( بخاری ‪ :‬حدیث نمبر؛‪)51‬اس کے لئے ٓاپ ﷺ نے امت کو اس‬
‫بات کی تعلیم دی کہ ہمیں سب سے پہلے ہمیں اپنے دل کو برائیوں سے پاک کرنا ضرور ی و الزم ہے تاکہ اچھی طرح قلب میں‬
‫محسنات جا گزیں ہوں۔ جوچیزیں انسان کو ہالک کرنے والی اور دین ودنیا میں نقصان کا باعث ہوتیں ہیں جیسے ‪ :‬حسد‪ ،‬کینہ‪،‬‬
‫کذب‪ ،‬غیبت‪ ،‬بغض‪ ،‬عناد اورطمع وبخل ان تمام سے بہت اہتمام کے ساتھ بچنے کی تعلیم دی۔ دل کی اصالح یقینا سارے اعمال‬
‫میں انقالبی روح پیدا کرنے والی ہے ا سی لئے اس کی بڑی اہمیت اور تاکید بھی احادیث و ٓایات میں ٓائی ہیں ۔‬

‫چوتھا مقصد‪ :‬تعلیم ِ حکمت‬

‫چوتھا کام ٓاپ ﷺ کا امت کو حکمت کی تعلیم دینا ہے۔ حکمت سے مراد رسول ہللا ﷺ کی سنت ہے۔ ( تفسیر ابن کثیر‪ٓ)3/251:‬اپ‬
‫ﷺ کی ذات ِ گرامی میں انسانوں کے لئے ہر اعتبار سے اسوہ ونمونہ موجود ہے۔ ٓاپ ﷺ کی تمام تر تعلیمات انسانیت کے لئے‬
‫سعادت وکامیابی کی عالمت ہیں۔ ٓاپﷺ نے جو کچھ فرمایااس پر عمل پیرا ہونے میں ہی فالح دارین پوشیدہ ہے۔ اسی لئے ٓاپﷺ‬
‫نے اپنی امت کو سنت کی تعلیمات سے نوازااور طریقہ ٔ زندگی کے اصول وٓاداب بتالئے۔ ہللا تعالی نے ٓاپ ﷺ کی اتباع ہر اپنی‬
‫ک ْم ُذنُ ْوبَ ُ‬
‫ک ْم۔ ( ٓال عمران ‪( )31:‬‬ ‫محبت کو موقوف رکھا ہے۔ چناں چہ ا رشاد ہے ‪:‬قُ ْل اِنْ ُک ْنتُ ْم ت ُِحبُّ ْونَ ہّللا َ فَاتَّبِ ُع ْونِ ْی یُ ْحبِ ْب ُ‬
‫ک ُم ہّللا ُ َویَ ْغفِ ْرلَ ُ‬
‫اے پیغمبر ! لوگوں سے ) کہہ دو کہ اگر تم ہللا سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو‪ ،‬ہللا تم سے بھی محبت کرے گا اور‬
‫تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ ‪ :‬ہللا و رسول ﷺ کی محبت کی عالمت یہ ہے کہ دونوں کی‬
‫اطاعت کی جائے۔ اور لکھا ہے کہ ‪:‬نبی کریم سے محبت کی عالمت ٓاپ ﷺ کی سنتوں سے محبت کرنا ہے۔ ( تفسیر قرطبی ‪:‬‬
‫‪ ) 5/92‬نبی کریم ﷺ کا ارشا ہے کہ‪:‬جو شخص میری سنت سے محبت رکھتا ہے در حقیقت وہی مجھ سے محبت رکھتا ہے‪ ،‬اور‬
‫جو مجھ سے محبت کرے گا وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ (مشکوۃ ‪)1/383:‬‬

‫ٓاخر ت کی بات‬

‫ٓاپ ﷺ نے ان چار بنیادی مقاصد کے تحت انسانیت کی تعمیر و ترقی کا کام انجام دیا اور ایک بگڑے ہوئے معاشرہ اور تباہی کے‬
‫ت قرٓانی پر‬
‫دہانے پر جاچکی دنیا کو سنوارااور بہتر سے بہتر انداز میں ان کی تربیت فرمائی۔ تالوت ِ قرٓان کا شوق پیدا کیا‪ ،‬تعلیما ِ‬
‫عمل پیرا ہونے کا مزاج بنایا‪ ،‬دلوں میں موجود خرابیوں کی اصالح‪ ،‬نفرت وعداوت‪ ،‬حسد وبغض‪ ،‬اور بہت ساری بیماریوں‬
‫سے نجات پانے کی فکر بیدار کی‪ ،‬اور اتباع و پیروی‪ ،‬اطاعت وفرماں برداری کا جذبہ کوٹ کوٹ کے دل وجان میں بھر دیا کہ‬
‫جس کے نتیجہ میں ہللا تعالی نے ان کو کامیاب وکامران فرمایا۔ قیامت تک ٓانے والی انسانیت کے لئے یہ چار چیزیں بنیادی‬
‫حیثیت رکھتی ہیں کہ اس کی روشنی میں خود کو سنوارنے اور معاشرہ کو سدھارنے کی کوشش کی جائے۔ امت میں تالوت ِ‬
‫قرٓان کا مزاج پیدا کیاجائے جو برکتوں اور رحمتوں کا ذریعہ ہے‪ ،‬معانی قرٓان کو سمجھتے ہوئے مطالبات ِ قرٓان کو پوراکرنے‬
‫کی دعوت دی جائے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ مردہ دلوں کو زندہ کرنے‪ ،‬اور روح کی بیماریوں کا عالج کروانے کے‬
‫لئے اہل ہللا سے رجوع ہونے اور ہللا کے نیک بندوں کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کی تلقین بھی ضروری ہے‪ ،‬جس سے ذات کی‬
‫بھی اصالح ہوگی اور معاشرہ کی بھی۔ اور سنتوں سے زندگیوں کو روشن کرنے کیا جائے‪ ،‬گھر اور ماحول میں سنت کی‬
‫تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش ومحنت کو عام کیا جائے تاکہ مسلمان اپنے نبی ﷺ کے اسوہ وعمل کو انسانوں اور دنیا والوں‬
‫کے سامنے اچھے انداز میں پیش کرسکیں۔‬

‫سوال نمبر‪4‬‬
‫فتح مکہ کے واقعہ پر مفصل نوٹ لکھیں۔‬

‫فتح مکہ‬
‫فتح مکہ (جسے فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے)[‪ ]1‬عہد نبوی کا ایک غزوہ ہے جو ‪ 20‬رمضان سنہ ‪ 8‬ہجری بمطابق ‪ 10‬جنوری سنہ‬
‫‪ 630‬عیسوی کو پیش آیا‪ ،‬اس غزوے کی بدولت مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو اسالمی قلمرو میں شامل کر‬
‫لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خالف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا‬
‫تھا‪ ،‬یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا‬
‫ہے) نے بنو خزاعہ کے خالف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس‬
‫حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خالف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا‪ ،‬یہ‬
‫معاہدہ "صلح حدیبیہ" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی خالف ورزی کے جواب میں محمد بن عبد ہللا نے ایک عظیم الشان‬
‫لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ‬
‫میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کا سپہ ساالر خالد بن ولید کو اس وقت سامنا ہوا‬
‫جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ بن ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال‬
‫کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے‪ ،‬جبکہ دو مسلمان بھی شہید ہوئے۔‬

‫جب محمد بن عبد ہللا مکہ میں داخل ہوئے اور لوگوں کو اطمینان ہو گیا تو کعبہ کے پاس آئے اور اس کا طواف کیا۔ اثنائے طواف‬
‫ق ا ْلبَا ِط ُل ِإنَّ ا ْلبَا ِط َل َكانَ‬ ‫«جا َء ا ْل َح ُّ‬
‫ق َو َز َه َ‬ ‫کعبہ کے ارد گرد موجود بتوں کو اپنے پاس موجود تیر سے گراتے اور پڑھتے جاتے‪َ :‬‬
‫ق َو َما يُ ْبدُِئ ا ْلبَا ِط ُل َو َما يُ ِعيدُ»‪" ] 3[ ،‬جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا" (ترجمہ‪ :‬حق آن پہنچا‬ ‫و«جا َء ا ْل َح ُّ‬
‫َ‬ ‫زَ هُوقًا»[‪]2‬‬
‫اور باطل مٹ گیا اور یقینا ً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے) اور پڑھتے "جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد" (ترجمہ‪:‬‬
‫حق آچکا ہے اور باطل میں نہ کچھ شروع کرنے کا دم ہے‪ ،‬نہ دوبارہ کرنے کا)۔ کعبہ میں بتوں کی تصویریں آویزاں اور ان کے‬
‫مجسمے نصب تھے محمد بن عبد ہللا نے ان کو بھی ہٹانے اور توڑنے کا حکم دیا جس کی تعمیل کی گئی‪ ،‬جب نماز کا وقت ہوا تو‬
‫محمد بن عبد ہللا نے بالل ابن رباح کو حکم فرمایا کہ کعبہ کے اوپر چڑھ جائیں اور اذان دیں؛ بالل کعبہ کے اوپر چڑھے اور اذان‬
‫دی۔‬

‫فتح مکہ کے بعد ایک کثیر تعداد حلقہ بگوش اسالم ہوئی جن میں سرفہرست سردار قریش و کنانہ ابو سفیان اور ان کی بیوی ہند‬
‫بنت عتبہ ہیں۔ اسی طرح عکرمہ بن ابو جہل‪ ،‬سہیل بن عمرو‪ ،‬صفوان بن امیہ اور ابوبکر صدیق کے والد ابو قحافہ کے اسمائے‬
‫گرامی قابل ذکر ہیں۔‬

‫پس منظر‬
‫مشرکین مکہ کے اتحادی قبیلہ بنو بکر نے مسلمانوں‬
‫ِ‬ ‫صلح حدیبیہ دس سال کے لیے ہوئی تھی مگر ‪630‬ء کے بالکل شروع میں‬
‫کے اتحادی قبیلہ بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور کئی آدمی قتل کر دیے۔ اس دوران مکہ کے مشرک قریش نے چہرے پر نقاب ڈال کر‬
‫بنو بکر کی مدد بھی کی مگر یہ بات راز نہ رہ سکی۔ یہ صلح حدیبیہ کا اختتام تھا۔ مسلمان اس وقت تک بہت طاقتور ہو چکے‬
‫تھے۔ ابوسفیان نے بھانپ لیا تھا کہ اب مسلمان اس بات کا بدلہ لیں گے اس لیے اس نے صلح کو جاری رکھنے کی کوشش کے‬
‫طور پر مدینہ کا دورہ کیا۔ ابوسفیان اپنی بیٹی ِام حبیبہ کے گھر پہنچا‪ ،‬جو اسالم لے آئی تھیں اور محمد بن عبد ہللا کی زوجہ تھیں۔‬
‫جب اس نے بستر پر بیٹھنا چاہا تو محمد بن عبد ہللا ِام حبیبہ نے بستر اور چادر لپیٹ دی اور ابوسفیان کو بیٹھنے نہ دیا۔ اس نے‬
‫حیران ہو کر پوچھا کہ بستر کیوں لپیٹا گیا ہے تو محمد بن عبد ہللا ام حبیبہ نے جواب دیا کہ 'آپ مشرک ہیں اور نجس ہیں اس لیے‬
‫میں نے مناسب نہ سمجھا کہ آپ محمد بن عبد ہللا کی جگہ پر بیٹھیں۔۔[‪ ]4‬جب ابوسفیان نے صلح کی تجدید کے لیے محمد بن عبد‬
‫ہللا سے رجوع کیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا پھر اس نے کئی بزرگوں کی وساطت سے کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا۔‬
‫سخت غصے اور مایوسی میں اس نے تجدی ِد صلح کا یکطرفہ اعالن کیا اور مکہ واپس چال گیا۔[‪ ]5‬قبیلہ بنو خزاعہ نے محمد بن‬
‫عبد ہللا سے فریاد کی تو انہوں نے مکہ فتح کرنے کا فیصلہ کیا۔ بنو خزاعہ نے اپنے ایک شاعر عمرو ابن خزاعہ کو بھیجا تھا‬
‫جس نے دردناک اشعار پڑھے اور بتایا کہ وہ 'وتیرہ' کے مقام پر رکوع و سجود میں مشغول تھے تو قریش نے ان پر حملہ کر دیا‬
‫اور ہمارا قت ِل عام کیا۔ محمد بن عبد ہللا نے اس کو کہا کہ ہم تمہاری مدد کریں گے۔ محمد بن عبد ہللا نے روانگی کا مقصد بتائے‬
‫صلح حدیبیہ ابھی قائم‬
‫ِ‬ ‫بغیر اسالمی فوج کو تیار کیا اور مدینہ اور قریبی قبائل کے لوگوں کو بھی ساتھ مالیا۔ لوگوں کے خیال میں‬
‫تھی اس لیے کسی کے گمان میں نہ تھا کہ یہ تیاری مکہ جانے کے لیے ہے۔ محمد بن عبد ہللا نے مدینہ سے باہر جانے والے‬
‫راستوں پر نگرانی بھی کروائی تاکہ یہ خبریں قریش کا کوئی جاسوس باہر نہ لے جائے۔ محمد بن عبد ہللا نے دعا بھی کی کہ اے‬
‫خدایا آنکھوں اور خبروں کو قریش سے پوشیدہ کر دے تاکہ ہم اچانک ان کے سروں پر ٹوٹ پڑیں۔[‪ 10 ]6‬رمضان ‪8‬ھ کو روانگی‬
‫ہوئی۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہاں جانا ہے۔ ایک ہفتہ میں مدینہ سے مکہ کا فاصلہ طے ہو گیا۔ مکہ سے کچھ فاصلہ پر 'مرالظہران'‬
‫کے مقام پر لشک ِر اسالم خیمہ زن ہو گیا۔ لوگوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ مکہ کا ارادہ ہے۔‬

‫جنگ‬
‫جنگ تو ہوئی نہیں مگر احوال کچھ یوں ہے کہ مر الظہران کے مقام پر محمد بن عبد ہللا نے تاکید کی کہ لشکر کو بکھیر دیا جائے‬
‫ش مکہ یہ سمجھیں کہ لشکر بہت بڑا ہے اور بری طرح ڈر جائیں اور اس طرح شاید بغیر خونریزی‬ ‫اور آگ جالئی جائے تاکہ قری ِ‬
‫کے مکہ فتح ہو جائے۔ یہ تدبیر کارگر رہی۔ مشرکین کے سردار ابوسفیان نے دور سے لشکر کو دیکھا۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ‬
‫شاید بنو خزاعہ کے لوگ ہیں جو بدلہ لینے آئے ہیں مگر اس نے کہا کہ اتنا بڑا لشکر اور اتنی آگ بنو خزاعہ کے بس کی بات‬
‫نہیں۔ اس کے بعد ابوسفیان محمد بن عبد ہللا سے امان پانے کے لیے لشک ِر اسالم کی طرف محمد بن عبد ہللا کے چچا عباس کی‬
‫پناہ میں چل پڑا۔ کچھ مسلمانوں نے اسے مارنا چاہا مگر چونکہ عباس بن عبدالمطلب نے پناہ دے رکھی تھی اس لیے باز آئے۔‬
‫رات کو قید میں رکھ کر صبح ابوسفیان کو محمد بن عبد ہللا کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ محمد بن عبد ہللا نے ابو سفیان کو دیکھا تو‬
‫فرمایا 'کیا ابھی اس کا وقت نہیں آیا کہ تو یہ سمجھے کہ ایک خدا کے عالوہ اور کوئی خدا نہیں ہے؟' ابوسفیان نے کہا کہ اگر‬
‫خدائے واحد کے عالوہ کوئی خدا ہوتا تو ہماری مدد کرتا۔ یہ دیکھ کر کہ اس نے ایک خدا کو تسلیم کیا ہے‪ ،‬محمد بن عبد ہللا نے‬
‫پوچھا کہ 'کیا اس کا وقت نہیں آیا کہ تم جانو کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں؟' اس پر ابوسفیان نے کہا کہ 'مجھے آپ کی رسالت میں‬
‫تردد ہے' اس پر ان کو پناہ دینے والے عباس بن عبد المطلب سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ اے ابوسفیان اگر تو اسالم نہ الیا تو‬
‫تمہاری جان کی کوئی ضمانت نہیں۔ اس پر ابوسفیان نے اسالم قبول کر لیا۔ مگر محمد بن عبد ہللا نے اسے رہا نہ کیا بلکہ ایک‬
‫جگہ رکھ کر مسلمانوں کے دستوں کو اس کے سامنے گزارا۔ وہ بہت مرعوب ہوا اور عباس بن عبد المطلب کو کہنے لگا کہ 'اے‬
‫عباس تمہارے بھتیجے نے تو زبردست سلطنت حاصل کر لی ہے'۔ محمد بن عبد ہللا عباس بن عبد المطلب نے کہا کہ 'اے ابوسفیان‬
‫یہ سلطنت نہیں بلکہ نبوت ہے جو خدا کی عطا کردہ ہے'۔ اس کے بعد محمد بن عبد ہللا عباس بن عبد المطلب نے محمد بن عبد ہللا‬
‫کو کہا کہ 'اے ہللا کے رسول۔ ابوسفیان ایسا شخص ہے جو ریاست کو دوست رکھتا ہے اسے اسی وقت کوئی مقام عطا کریں' اس‬
‫پر محمد بن عبد ہللا محمد بن عبد ہللا نے فرمایا کہ 'ابوسفیان لوگوں کو اطمینان دال سکتا ہے کہ جو کوئی اس کی پناہ میں آجائے‬
‫گا امان پائے گا۔ جو شخص اپنے ہتھیار رکھ کر اس کے گھر میں چال جائے اور دروازہ بند کر لے یا مسجد الحرام میں پناہ لے لے‬
‫وہ سپا ِہ اسالم سے محفوظ رہے گا'۔[‪ ] 7‬اس کے بعد ابوسفیان کو رہا کر دیا گیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے مکہ جا کر اسالمی‬
‫لشکر کی عظمت بتا کر ان لوگوں کو خوب ڈرایا۔‬
‫محمد بن عبد ہللا محمد بن عبد ہللا نے لشکر کو چار دستوں میں تقسیم کیا اور مختلف سمتوں سے شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا‬
‫اور تاکید کی کہ جو تم سے لڑے اس کے عالوہ اور کسی سے جنگ نہ کرنا۔۔[‪ ]8‬چاروں طرف سے شہر گھر گیا اور مشرکین کے‬
‫پاس ہتھیار ڈالنے کے عالوہ کوئی راستہ نہ رہا۔ صرف ایک چھوٹے گروہ نے لڑائی کی جس میں صفوان بن امیہ بن ابی خلف اور‬
‫عکرمہ بن ابی جہل شامل تھے۔ ان کا ٹکراؤ محمد بن عبد ہللا خالد بن ولید کی قیادت کردہ دستے سے ہوا۔ مشرکین کے ‪ 28‬افراد‬
‫انتہائی ذلت سے مارے گئے۔[‪ ]9‬لشکر اسالم انتہائی فاتحانہ طریقہ سے شہ ِر مکہ میں داخل ہوا جہاں سے آٹھ سال پہلے محمد بن‬
‫عبد ہللا کو ہجرت کرنا پڑی تھی۔ کچھ آرام کے بعد محمد بن عبد ہللا مجاہدین کے ہمراہ کعبہ کہ طرف روانہ ہوئے۔ کعبہ پر نظر‬
‫پڑتے گھوڑے پر سواری کی ہی حالت میں حج ِر اسود کو بوسہ دیا۔ محمد بن عبد ہللا تکبیر بلند کرتے تھے اور لشک ِر اسالم محمد‬
‫بن عبد ہللا کے جواب میں تکبیر بلند کرتے تھے۔ کعبہ میں داخل ہونے کے بعد محمد بن عبد ہللا نے تمام تصاویر کو باہر نکال دیا‬
‫جن میں محمد بن عبد ہللا ابراہیم علیہ السالم کی تصویر بھی شامل تھی اور تمام بتوں کو توڑ دیا۔ بتوں کو توڑنے کے لیے محمد‬
‫بن عبد ہللا نے محمد بن عبد ہللا علی بن ابوالعاص کو اپنے مبارک کاندھوں پر سوار کیا اور بتوں کو اپنے ہاتھوں سے بھی توڑتے‬
‫رہے۔ یہاں تک کہ کعبہ کو شرک کی تمام عالمتوں سے پاک کر دیا۔‬
‫نتائج‬
‫فتح مکہ ایک شاندار فتح تھی جس میں چند کے عالوہ کوئی قتل نہ ہوا۔ فتح کے بعد محمد بن عبد ہللا نے سب کو عام معافی دے‬
‫ِ‬
‫دی۔ کافی لوگ مسلمان ہوئے۔ محمد بن عبد ہللا نے ان سے شرک نہ کرنے‪ ،‬زنا نہ اور چوری نہ کرنے کی تاکید پر بیعت لی۔ اور‬
‫انہیں اپنے اپنے بتوں کو توڑنے کا حکم دیا۔ مکہ کی فتح عرب سے مشرکین کے مکمل خاتمے کی ابتدا ثابت ہوئی۔‬

‫پیش منظر‬
‫مکہ کی فتح کے بعد محمد بن عبد ہللا نے سابقہ مشرکین کو مکہ کے اطراف میں بتوں کو توڑنے کے لیے بھیجا۔ مکہ کے فتح‬
‫فتح مکہ کے اگلے ہی ماہ غزوہ حنین پیش آیا۔‬
‫کے بعد ارد گرد کے مشرکین پریشان ہو گئے اور ایک اتحاد قائم کیا جس وجہ سے ِ‬

‫سوال نمبر‪5‬‬
‫والدین کے احترام سے متعلق اسالمی تعلیمات پر جامع نوٹ لکھیں۔‬

‫والدین کا ادب و احترام اور اُن سے ُح ِ‬


‫سن سلوک‬
‫اسالم کے عائلی نظام اور معاشرتی زندگی میں خاندان کو بنیادی اکائی قرار دیتے ہوئے اسے بنیادی اہمیت اور کلیدی مقام دیا گیا‬
‫ہے۔خاندان میں ایک مظہر والدین کا وجود ہے۔ارشا ِد ربانی ہے‪ :‬اور تیرے رب نے یہ حکم دیا ہے کہ بجزو(ہللا)اس کے کسی کی‬
‫عبادت مت کرو اور اپنے ماں باپ کے ساتھ حس ِن سلوک سے پیش ٓاو ‪ ،‬اگر وہ یعنی ماں باپ تیری زندگی میں بڑھاپے کو پہنچ‬
‫جائیں ‪ ،‬چاہے ان میں ایک پہنچے یا دونوں (اورا ن کی کوئی بات تجھے ناگوار گزرے تو ) ان سے کبھی ”اُف “ بھی مت کہنا اور‬
‫نہ انہیں جھڑکنا اور ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ‪ ،‬اور ان کے سامنے شفقت سے انکساری کے ساتھ جھکے رہنا اور یوں‬
‫دعا کر تے رہنا ‪:‬اے ہمارے پروردگار ! تو ان پر رحمت فرما‪ ،‬جیسا کہ انہوں نے بچپن میں مجھے پاال ہے(صرف ظاہر داری نہیں‪،‬‬
‫دل سے ان کا احترام کرنا ) تمہارا رب تمہارے دل کی بات خوب جا نتا ہے اور اگر تم سعادت مند ہو تو وہ توبہ کرنے والے کی‬
‫خطائیں کثرت سے معاف کرنے واال ہے۔‬

‫تعالی نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فر ما یا ہے کہ میرے عالوہ) سورۃ االسراء(‬‫ٰ‬ ‫اس ٓایت کریمہ میں ہللا‬
‫کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا ‪ ،‬اس کے بعد فر ما یا کہ اپنے والدین کے ساتھ حس ِن سلوک سے پیش ٓأو۔اوالد کو یہ سوچنا‬
‫چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں‪ ،‬بلکہ ٓاج میں جو کچھ بھی ہوں‪ ،‬ان ہی کی برکت سے ہوں ‪ ،‬والدین ہی ہیں جو‬
‫اوالد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف دکھ اور مشقت کو برداشت کرتے ہیں‪،‬بلکہ بسا اوقات اپنا ٓارام و راحت اپنی خوشی و‬
‫خواہش کو بھی اوالد کی خاطر قربان کردیتے ہیں ۔‬

‫جب بچہ پیدا ہو تا ہے تو اس کی پرورش کے لیے باپ محنت و مشقت برداشت کرتا ہے ‪ ،‬سردی ہو یا گر می ‪،‬صحت ہو یا بیما ری‪،‬‬
‫ب معا ش کی صعوبتوں کو برداشت کر تا ہے اور ان کے لیے کما کر التا ہے‪ ،‬ان کے اوپر خرچ کرتا‬ ‫وہ اپنی اوالد کی خاطر کس ِ‬
‫ہے ‪ ،‬ماں گھر کے اندر بچے کی پرورش کرتی ہے ‪،‬اسے دودھ پالتی ہے‪ ،‬اسے گرمی و سردی سے بچانے کی خاطر خود گرمی و‬
‫سردی برداشت کرتی ہے ‪،‬بچہ بیما ر ہوتا ہے تو ماں باپ بے چین ہو جا تے ہیں ‪ ،‬ان کی نیندیں حرام ہو جاتیں ہیں‪ ،‬اس کے عالج‬
‫و معالجے کی خا طر ڈاکٹروں کے چکر لگاتے ہیں ۔‬

‫تعالی نے جہاں اپنا شکر ادا کر نے کا حکم دیا‬


‫ٰ‬ ‫غرض والدین اپنی راحت و ٓارام کو بچوں کی خاطر قربان کر تے ہیں‪،‬اس لیے ہللا‬
‫تعالی فرماتا ہے‪ :‬میرا شکر ادا کرو اور اپنے‬
‫ٰ‬ ‫ہے‪ ،‬وہیں والدین کی شکرگزاری کا بھی حکم ارشاد فر مایا ہے ‪،‬سو رٔہ لقمان میں ہللا‬
‫والدین کا شکر ادا کرو‪ ،‬میری طرف لوٹ کر ٓانا ہے۔‬

‫حسن سلوک کو بنیادی اہمیت حاصل ہے‬


‫ِ‬ ‫اسالمی معاشرے میں ’’ماں باپ‘‘کی خدمت‪،‬ان کی اطاعت و فرماں برداری اور‬
‫اسالمی تعلیمات میں والدین کی اطاعت و فرماں برداری‪،‬ان کی خدمت اور ان سے حس ِن سلوک کی سخت تاکید ملتی ہے۔حضرت‬
‫ابوامامہ سے روایت ہے کہ ایک شخص نے رسول اکرمﷺ سے دریافت کیا کہ اوالد پر والدین کا کیا حق ہے؟ٓاپﷺ نے فرمایا‪،‬وہ‬
‫ؓ‬
‫تمہاری جنت اور دوزخ ہیں۔(سنن ابن ماجہ)یعنی تم ان کی خدمت و اطاعت اور ان سے حسن سلوک اوران کی رضا و فرماں‬
‫برداری کی بدولت جنت حاصل کرسکتے ہو اور ان سے بدسلوکی اور نافرمانی تمہیں جنت سے جہنم میں لے جانے کا سبب بنے‬
‫گی۔‬
‫حضرت ابوہریرہؓ سےروایت ہے کہ رسول ہللا ﷺ نے فرمایا‪ :‬اس کی ناک خاک ٓالود ہوئی(وہ ذلیل و رسوا‪،‬ناکام و نامراد ہوا) اس‬
‫کی ناک خاک ٓالودہ ہوئی۔ اس کی ناک خاک ٓالودہ ہوئی۔ عرض کیاگیا‪:‬اے ہللا کے رسول ﷺ! کس کی؟ ٓاپ ﷺ نےفرمایا‪ ،‬جس نے‬
‫ماں باپ میں سےکسی ایک کو یا دونوں کو بڑھاپےکی حالت میں پایا اور پھر ان کی خدمت کرکے جنت میں داخل نہ ہوا۔(صحیح‬
‫مسلم)‬

‫تعالی کو‬
‫ٰ‬ ‫انس سے روایت ہے کہ رسول ہللاﷺ نے ارشاد فرمایا‪’’:‬جس نے اپنے والدین کو راضی کرلیا‪،‬اس نے یقینا ً ہللا‬ ‫حضرت ؓ‬
‫راضی کرلیا اور جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا‪،‬اس نے یقینا ً ہللا کو ناراض کیا‘‘۔ٓاپﷺ نے فرمایا ‪:‬جتنے بھی گناہ ہیں ‪،‬ان‬
‫تعالی مٔوخرنہیں فرماتا‪،‬بلکہ‬‫ٰ‬ ‫تعالی جس کی چاہے سزا کو قیامت تک مٔوخر فرماتا‪،‬لیکن والدین کی نافرمانی کی سزا ہللا‬
‫ٰ‬ ‫میں سے ہللا‬
‫والدین کے نافرمان کو ہللا دنیا ہی میں جلد سزا سے دوچار فرماتا ہے۔(ابن جوزی)‬

‫دیاہے‪’’:‬وبِا ْل َوالِ َد ْی ِن ِإ ْح َ‬
‫سانًا‘‘ یعنی ان کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور ا‬ ‫َ‬ ‫حسن سلوک کا حکم‬
‫ِ‬ ‫تعالی نے والدین کے ساتھ‬
‫ٰ‬ ‫ہللا‬
‫کرام و احترام کے ساتھ پیش ٓائے‪ ،‬بے ادبی نہ کرے ‪ ،‬تکبر نہ کرے ‪ ،‬ہر حال میں ان کی اطاعت کرے ۔‬

‫اسالم نے والدین کے ادب و احترام اور ان سے حسن معاشرت کی جو تعلیم دی ہے‪ ،‬دنیا کے کسی مذہب میں اس کی نظیر نہیں‬
‫ملتی‬
‫ا ّم المٔومنین حضرت عا ئشہ صدیقہ رضی ہللا عنہا سے روایت ہے ‪ ،‬وہ فر ما تی ہیں کہ ایک شخص رسول ہللا ﷺ کی خدمت میں‬
‫حاضر ہوا‪ ،‬اس کے ساتھ ایک بوڑھا ٓادمی بھی تھا‪ ،‬نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے کہا کہ یہ میرا‬
‫باپ ہے‪ٓ ،‬اپﷺ نے فرمایا‪ :‬ان کے ٓاگے مت چلنا ‪ ،‬مجلس میں ان سے پہلے مت بیٹھنا ‪ ،‬ان کا نام لے کر مت پکارنا‪ ،‬انہیں برا بھال‬
‫مت کہنا۔(معجم االوسط‪ ،‬طبرانی)‬

‫تعالی نے فر ما‬
‫ٰ‬ ‫بڑھا پے میں جب والدین کی کوئی با ت نا گوار گزرے تو ان سے کیسے گفتگوکی جا ئے‪ ،‬اس کے بارے میں ہللا‬
‫یا‪ ﴿ :‬ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ‪ ،‬اچھی بات کر نا ‪ ،‬لب ولہجہ میں نر می اور الفا ظ میں تو قیر و تکریم کا خیا ل رکھنا ۔‬
‫(سورۃ االسراء)‬

‫حضرت عبد ہللا بن عمر ؓو فر ما تے ہیں کہ رسول ا ہلل ﷺ نے ارشاد فر ما یا ‪ :‬ہللا کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور‬
‫تعالی نے جہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے‪ ،‬وہیں‬ ‫ٰ‬ ‫ہللا کی ناراضی ماں باپ کی ناراضی میں ہے۔ (شعب االیمان)ہللا‬
‫ان کے لیے دعا کرنے کی تعلیم بھی ارشاد فرمائی ہے؛ چناں چہ ارشاد خداوندی ہے‪ ﴿ :‬اے میرے پروردگار! تو میرے والدین پر‬
‫رحم فر ما‪،‬جیسا کہ انہوں نے بچپن میں (رحمت و شفقت کے ساتھ) میری پرورش کی ہے۔(سورۃ االسراء )ہر نماز کے بعدوالدین‬
‫تعالی نے قرٓان کریم میں دی ہے‪ ،‬اے میرے‬
‫ٰ‬ ‫کے لیے دعا کرنے کا معمول بنالیں‪ ،‬دو بہت ٓاسان دعائیں جن کی تعلیم خود ہللا‬
‫پروردگار ! روزحساب تو میری‪ ،‬میرے والدین کی اور تمام ایمان والوں کی بخشش فرما۔(سورۃ االبراہیم‪)۴۱ :‬‬

‫والدین کے ساتھ حسن سلوک رزق و عمر میں اضافے کا سبب ہے‪ ،‬حضرت انس ؓ فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا‪:‬‬
‫جو شخص یہ چاہتا ہے کہ ہللا اس کی عمر دراز کردے اور رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ‬
‫بھالئی کا معاملہ کرے اور رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ (شعب االیمان)ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺنے فر ما یا ‪:‬‬
‫تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو تمہا ری اوالد تمہارے ساتھ حسن سلوک کرے گی۔(المعجم أالوسط)‬

‫والدین یا ان میں کوئی ایک فوت ہوجائیں اور زندگی میں ان کے ساتھ حس ِن سلوک میں کوتاہی ہوئی ہو تو اس کے تدارک کا طریقہ‬
‫حضور اقدس ﷺ نے سکھایا۔حضرت ابواسید ؓ کہتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺکی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص ٓایا اور‬
‫عرض کیا کہ ماں باپ کی وفات کے بعد بھی کوئی چیز ایسی ہے جس کے ذریعے ان سے حسن سلوک کروں؟ توٓاپ ﷺ نے‬
‫فرمایا! ان کے لیے رحمت کی دعا کر نا ‪ ،‬ان کے لیے مغفرت کی دعا کر نا‪ ،‬ان کے بعد ان کی وصیت کو نا فذکر نا اور اس صلٔہ‬
‫رحمی کو نبھا نا جو صرف ماں باپ کے تعلق کی وجہ سے ہو‪ ،‬ان کے دوستوں کا اکرام کر نا ۔(سنن ابودأود)‬

‫مختصر یہ کہ اسالمی معاشرے میں ماں باپ کی خدمت‪،‬ان کی اطاعت و فرماں برداری اور ان سے حس ِن سلوک کو بنیادی اہمیت‬
‫حاصل ہے۔اسالم نے والدین کے ادب و احترام اور ان سے حسن معاشرت کی جو تعلیم دی ہے‪،‬دنیا کے کسی مذہب میں اس کی‬
‫نظیر نہیں ملتی۔‬

You might also like