Professional Documents
Culture Documents
Assigment #02 Isl
Assigment #02 Isl
2
CORSE CODE:9401
COURSE TITLE:ISLAMIYAT
SMESTER:AUTUMN 2022
SUBMITTED BY:ANAM FATIMA
umalbaneen0311@gmail.com
[COMPANY NAME]
سوال نمبر1
عقیدہ آخرت کا مفہوم اور اہمیت پر جامع نوٹ لکھیں۔
عقیدہ آخرت
تعالی کی بارگاہ میں اپنے اعمال کا حساب دینا ہے ،جس کے
ٰ اسالمی عقیدے کے مطابق ہر شخص کو موت کے بعد زندہ ہو کر ہللا
نتیجے میں وہ جہنم یا جنت (کی صورت میں سزا و جزا) سے ہمکنار ہو گا۔ اس زندگی کا نام اُخروی زندگی ہے اور اس زندگی پر
ایمان النے کا نام ایمان ِباآلخرت ہے۔
آخرت توحید و رسالت کے بعد اسالم کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ آخرت کے بارے میں تمام رسولوں اور انبیاء کی تعلیمات
ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہیں۔ جن کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ ”:یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں ہللا نے ہمیں آزمائش کے لیے
بھیجا ہے کہ کون ایمان ال کر اچھے اعمال کرتا ہے اور جس طرح ہللا نے ہمیں یہاں پیدا فرمایا اسی طرح وہ ہمیں ہماری موت کے
بعد قیامت کے دن دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا اور ہمیں ہللا کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہو گی۔ جوانبیاء کی تعلیمات
پر ایمان الیااور ان کی اطاعت کی اوراعمال صالحہ کیے وہ وہاں کامیاب ہو گا اور جس نے نافرمانی کی وہ ناکام۔ جو کامیاب ہوا
اسے نعمتوں بھری ابدی جنت ملے گی اور جو ناکام ٹھہرا وہ جہنم میں جائے گا اور دردناک سزا بھگتے گا۔“ اصل زندگی کا گھر
آخرت ہی کا گھر ہے اور دنیا اس سفر میں ایک امتحانی گزرگاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اور موت خاتمے کا نہیں بلکہ ایک
مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہونے کا نام ہے۔ بقول اقبال
اختتام زندگی
ِ موت کو سمجھے ہیں غافل
دوام زندگی
ِ صبح
ِ شام زندگی،
ہے یہ ِ
قرآن میں واضح طور پر لکھا ہے
ي بَنَانَهُ سانُ َألَّن نَ ْج َم َع ِعظَا َمهُ بَلَى قَا ِد ِرينَ َعلَى َأن ُّن َ
س ِّو َ ب اِإْل ن َ َأيَ ْح َ
س ُ
کیا انسان یہ سمجھ رہا ہے کہ ہم اس کی ہڈیوں کو جمع نہیں کر سکیں گے ؟ کیوں نہیں؟ ہم تو اس کی انگلیوں کی پور پور تک
ٹھیک بنا دینے پر قادر ہیں۔
اس سے قبل کہ ہم اس سورٔہ مبارکہ کے مضامین اور مطالب پر غور کریں‘ ضروری معلوم ہوتا ہے کہ ایمان باآلخرۃ کی اہمیت
.کے بارے میں چند تمہیدی باتیں نوٹ کر لی جائیں
قیامت اور آخرت پر ایمان کی اہمیت کا اندازہ قرآن مجید کے ہر پڑھنے والے کو بٓاسانی ہو جاتا ہے جب وہ یہ دیکھتا ہے کہ قرآن
حکیم کا شاید ہی کوئی صفحہ ایسا ہو جس میں آخرت کا ذکر خفی یا جلی انداز میں موجود نہ ہو .چنانچہ مصحف کے ہر صفحے پر
کسی نہ کسی اسلوب سے بعث بعد الموت‘ حشر و نشر‘ حساب کتاب‘ جزا و سزا اور جنت و دوزخ میں سے کسی نہ کسی کا ذکر
.الزما ً موجود ہے
جن مقامات کا مطالعہ ہم اس سلسلٔہ درس میں کر چکے ہیں اگر ہم ان کا سرسری جائزہ لیں تو بادنی ٰ تٔامل نظر آجائے گا کہ ان میں
سے ہر ایک میں آخرت کا ذکر موجود ہے .ہمارا پہال درس سورۃ العصر پر مشتمل تھا .اس میں ایک جامع اصطالح کے طور پر
’’ایمان‘‘ کا ذکر آیا‘ لیکن اس کی کوئی تفصیل نہیں تھی .البتہ دوسرے ہی درس میں‘ جو سورۃ البقرۃ کی آیت ۱۷۷پر مشتمل ہے
اور جسے ہم نے ’’ آیٔہ بر‘‘ سے موسوم کیا تھا‘ ایمانیات کی تفصیل کے ضمن میں ایمان باہلل کے فوراً بعد یوم اآلخر پر ایمان کا
ہّٰلل
کنَّ ۡالبِ َّر َم ۡن ٰا َمنَ بِا ِ َو ۡالیَ ۡو ِم ااۡل ٰ ِخ ِر ’’بلکہ حقیقی نیکی تو اس کی ہے جو ایمان الیا ہللا پر اور ِ
یوم آخر پر ‘‘.ذکر ہےَ :و ٰل ِ
اس کے عالوہ اس رکوع میں ایک جگہ یہ الفاظ آئے :اِلَ َّی ۡال َم ِ
ص ۡی ُر ﴿’’ ﴾۱۴میری ہی طرف لوٹنا ہے ‘‘.اگلی آیت کے آخر میں الفاظ
:آئے
کمۡ بِ َما ُک ۡنتُمۡ ت َۡع َملُ ۡونَ ﴿۱۵ ﴾ثُ َّم اِلَ َّی َم ۡر ِج ُع ُ
کمۡ فَاُنَبُِّئ ُ
‘‘.پھر میری ہی طرف تم سب کو آنا ہے‘ پھر میں تم سب کو جتال دوں گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے’’
ہمارا چوتھا سبق سورٔہ ٰح ٓم السجدۃ کی آیات ۳۰تا ۳۶پر مشتمل تھا‘ جس میں ِ
اہل ایمان کے لیے ان کی استقامت کا انعام جنت کی
:شکل میں دینے کا وعدہ فرمایا گیا اور اس ضمن میں ارشاد ہوا
کمۡ َو لَ ُ
کمۡ فِ ۡیہَا َما تَ َّدع ُۡونَ ﴿ؕ۳۱ کمۡ فِ ۡیہَا َما ت َۡشت َِہ ۡۤی اَ ۡنفُ ُ
س ُ ﴾ َو لَ ُ
اوراس میں تمہارے لیے وہ سب کچھ ہے جسے تمہارا جی چاہے اور تمہارے لیے وہ سب کچھ بھی ہوگا جسے تم طلب کرو’’
‘‘.گے
ٰ
کبری کے اظہار کے لیے پانچواں درس اساس القرآن سورۃ الفاتحہ پر مشتمل تھا‘ اس میں ایک عظیم آیت مبارکہ اسی حقیقت ِ
ک یَ ۡو ِم الد ِّۡی ِن ؕ﴿’’ ﴾۳جزا و سزا کے دن کا مالک
‘‘.وارد ہوئی یعنی :مٰ لِ ِ
:چھٹا سبق سورٔہ آل عمران کی آیات ۱۹۰تا ۱۹۵پر مشتمل تھا‘ اس میں آپ نے دیکھا کہ کس شدو مدکے ساتھ آخرت کا ذکر آیا
ک فَقِنَا َع َذ َ
اب النَّا ِر ض ۚ َربَّنَا َما َخلَ ۡقتَ ٰہ َذا بَا ِطاًل ۚ ُ
س ۡب ٰحنَ َ ت َو ااۡل َ ۡر ِ
سمٰ ٰو ِ ۡ
ک ُر ۡونَ فِ ۡی َخل ِ
ق ال َّ الَّ ِذ ۡینَ یَ ۡذ ُک ُر ۡونَ ہّٰللا َ قِ ٰی ًما َّو قُ ُع ۡودًا َّو ع َٰلی ُجنُ ۡوبِ ِہمۡ َو یَتَفَ َّ
ٰ
صا ٍر ﴿۱۹۲ ک َم ۡن ت ُۡد ِخ ِل النَّا َر فَقَ ۡد اَ ۡخزَ ۡیت َٗہ ؕ َو َما لِلظّلِ ِم ۡینَ ِم ۡن اَ ۡن َ﴾ربَّنَ ۤا اِنَّ َ
﴾﴿َ ۱۹۱
رب ! تو نے یہ (سلسلٔہ کون و مکاں) فضول اور بے کار پیدا نہیں کیا ہے‘ تو پاک ہے( منزہ ہے اس سے کہ کوئی بے’’
اے ہمارے ّ
ُ
مقصد اور عبث کام کرے)‘ پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے .اے ہمارے آقا!یقینا جس کوتو نے دوزخ میں ڈال دیا اسے تو
‘‘.بالکل ذلیل اور رسوا کر دیا .اور ایسے ظالموں کے لیے کوئی مددگار نہیں ہوگا
ذرا آگے چل کر الفاظ آئےَ :و اَل ت ُۡخ ِزنَا َی ۡو َم ۡالقِ ٰی َم ِۃ ؕ (آیت ’’ )۱۹۴اور (اے ہمارے ّ
رب!) ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کیجیو‘‘ .پھر
تعالی نے اپنے فرماں بردار بندوں کو اِن الفاظ میں اطمینان دالیا ٰ :مزید آگے چل کر ہللا
ت ت َۡج ِر ۡی ِم ۡن ت َۡحتِہَا ااۡل َ ۡنہٰ ُر ۚ (ٓایت )۱۹۵ ٰ اَل ُ َکفِّ َرنَّ ع َۡنہُمۡ َ
سیِّ ٰاتِ ِہمۡ َو اَل ُ ۡد ِخلَنَّہُمۡ َجنّ ٍ
‘‘.میں الزما ً ان کی برائیاں ان سے دور کر دوں گا اور ان کو الزما ً اُن باغات میں داخل کروں گاجن کے دامن میں ندیاں بہتی ہیں’’
.اس سے بخوبی اندازہ ہو جاتا ہے کہ قیامت کے وقوع اور اُخروی جزا و سزا کے یقینی ہونے پر کتنا زور ہے
:اس کے بعد درس ہفتم یعنی سورۃ النور کے پانچویں رکوع میں قیامت کے دن کی ہولناکی کا نقشہ ان الفاظ میں سامنے آیا
ؕ قُلۡ بَ ٰلی َو َربِّ ۡی لَت ُۡب َعثُنَّ ثُ َّم لَتُنَبَُّؤنَّ بِ َما َع ِم ۡلتُمۡ
کہہ دیجیے :کیوں نہیں! مجھے میرے پروردگار کی قسم ہے کہ تم الزما ً اٹھائے جاؤ گے اور پھر تمہیں الزما ً جتال دیا )! اے ؐ
نبی(’’
‘‘.جائے گا جو کچھ تم کرتے رہے تھے
:یعنی اُس روز جو کامیاب قرار دیا گیا وہی اصالً کامیاب و کامران ہوا .پھر اس کامیابی کی وضاحت ان الفاظ میں فرمائی گئی
ٰ
ت ت َۡج ِر ۡی ِم ۡن ت َۡحتِہَا ااۡل َ ۡن ٰہ ُر ٰخلِ ِد ۡینَ فِ ۡیہَ ۤا اَبَدًا ؕ ٰذلِ َ
ک ۡالفَ ۡو ُز ۡال َع ِظ ۡی ُم ﴿...۹ سیِّ ٰاتِ ٖہ َو یُ ۡد ِخ ۡلہُ َجنّ ٍ
﴾یُّ َکفِّ ۡر ع َۡنہُ َ
ہللا اس سے اس کے گناہ جھاڑ دے گا اور اس کو ایسے باغات میں داخل کرے گاجن کے دامن میں ندیاں بہتی ہوں گی‘ یہ …’’
‘‘.لوگ ان میں ہمیشہ ہمیش رہیں گے .یہی دراصل بڑی کامیابی ہے
س ۡال َم ِ
ص ۡی ُر ﴿۱۰٪ ب النَّا ِر ٰخلِ ِد ۡینَ فِ ۡیہَا ؕ َو بِ ۡئ َ ولِٓئ َ
ک اَ ۡ
ص ٰح ُ ﴾ َو الَّ ِذ ۡینَ َکفَ ُر ۡوا َو ک ََّذبُ ۡوا بِ ٰا ٰیتِنَ ۤا اُ ٰ
اور جن لوگوں نے کفر و انکار کا راستہ اختیار کیا اور ہماری آیات کو جھٹالتے رہے وہی لوگ دوزخ والے ہوں گے جس میں وہ’’
‘‘.ہمیشہ رہیں گے .اور وہ بہت برا ٹھکانہ ہے
اس سرسری سے جائزہ سے اندازہ ہو گیا کہ اب تک ہم نے قرآن حکیم کے جن معدودے چند مقامات کا مطالعہ کیا ہے ان میں بھی
.کس قدر شدو مد کے ساتھ بعث بعد الموت‘قیام ِقیامت اور آخرت کی کامیابی اور ناکامی کا ذکر آ چکا ہے
یہاں ایک نکتہ اور بھی نوٹ کر لیا جائے کہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر یہ اہم تقابل سامنے آتا ہے کہ جہاں دوسرے ایمانیات
کے لیے لفظ ایمان آیا ہے‘ وہاں آخرت کے لیے عموما ً لفظ یقین استعمال ہوا ہے ‘ جیسے سورۃ البقرۃ کے آغاز میں وحیٔ ٰالہی
:اور کتب سماویہ پر ایمان کا ذکر تو ان الفاظ میں آیا کہ
.اس سے معلوم ہوا کہ ایمان باآلخرت میں وہ گہرائی اور شدت مطلوب ہے جسے ہم ’’یقین‘‘ سے تعبیر کرتے ہیں
یہ بات پہلے بھی عرض کی جا چکی ہے کہ اصولی‘ نظری اور علمی اعتبار سے ایمان اصل میں نام ہے ایمان باہلل کا .یہی وجہ
’’ایمان مجمل‘‘ میں صرف ایمان باہلل کا ذکر ہے
ِ :ہے کہ ہم دیکھتے ہیں کہ
ق بِا ْلقَ ْل ِ
ب َص ِد ْی ٌ صفَاتِ ٖہ َوقَبِ ْلتُ َج ِم ْی َع اَ ْحکَا ِم ٖہ اِ ْق َرا ٌر ِباللِّ َ
سا ِن َوت ْ آ َم ْنتُ بِاہّٰلل ِ َک َما ہُ َو بِا َ ْ
س َماِئ ٖہ َو ِ
میں ایمان الیا ہللا پر جیسے کہ وہ اپنے اَسماء اور صفات سے ظاہر ہے‘ اور میں نے قبول کیے اس کے جملہ احکام‘میں اقرار’’
‘‘.کرتا ہوں زبان سے اور تصدیق کرتا ہوں دل سے
تعالی کی
ٰ چنانچہ واقعہ یہ ہے کہ ایمان باآلخرت اور ایمان بالرسالت دونوں ایمان باہلل کی فروع ہیں .چنانچہ ایمان باآلخرت ہللا
تعالی کی صفت ِہدایت کا تکمیلی ظہور ہے‘ لیکن اس کے ساتھ ہی یہ بھی ایک ٰ صفت ِعدل کا مظہر ہے اور ایمان بالرسالت ہللا
ناقابل تردید حقیقت ہے کہ اگر عملی اور اخالقی اعتبار سے غور کیا جائے تو سب سے مٔوثر ایمان ‘ ایمان باآلخرت ہے .اس لیے
کہ اگر آخرت کا یقین ہوگا‘ مرنے کے بعد محاسبہ کے لیے جی اٹھنے کا یقین ہوگا ‘ جزا و سزا کا یقین ہوگا‘ جنت و دوزخ کا یقین
ہوگا تو انسان کے رویے میں عملی تبدیلی الزما ً آئے گی‘ اور اگر ایمان باآلخرت میں کمی رہ گئی تو ایمان باہلل بھی ذات و صفا ِ
ت
عشق رسولﷺ کے محض زبانی دعووں کی صورت ِ تعالی کی ایک علمی بحث بن کر رہ جائے گا اور ایمان بالرسالت بھیٰ باری
.اختیار کر لے گا اور رسول ہللاﷺ کی اطاعت اور اتباع کی نوبت نہیں آئے گی
اس مقام پر ضمنا ً یہ بھی جان لیجیے کہ قانونی‘ فقہی اور شرعی اعتبار سے اہم ترین ایمان‘ ایمان بالرسالت ہے .چنانچہ ایمان
تعالی کو اُن اَسماء و صفات کے ساتھ مانا جائے جن کی خبر حضرت محمدﷺ نے دی ہے ‘اور ٰ باہلل اسی وقت معتبر ہوگا جبکہ ہللا
وزن اعمال ‘ جزا و سزا اور جنت و دوزخ کی
ِ ایمان باآلخرت بھی تب ہی معتبر ہوگا جب بعث بعد الموت‘ حشر و نشر‘ حساب کتاب‘
.ان تفاصیل کو مانا جائے جن کی خبر حضرت محم ٌد رسول ہللاﷺ نے دی ہے
اس بات پر زور دینے کی ضرورت اس لیے محسوس ہوتی ہے کہ بدقسمتی سے کچھ عرصہ سے ہمارے یہاں خود کو مسلمان
کہالنے واال عقلیت زدہ لوگوں کاایک مختصر سا گروہ یہ باور کرانے کی کوشش کر رہا ہے کہ آخرت حقیقی اور واقعی نہیں ہے
بلکہ محض ایک نظریہ اور تصور ہے ‘جس سے اصل مقصود دنیا میں عدل و انصاف کا قیام ہے‘ چنانچہ جنت و دوزخ اور جزاو
سزا کا جو تصور قرآن مجید دیتا ہے اس سے مقصود صرف یہ ہے کہ اس دنیا میں انسان کی معاشرتی‘ سماجی‘ سیاسی‘ معاشی
الغرض پوری اجتماعی زندگی عدل و قسط پر قائم ہو جائے اور انسان دنیا میں امن و سکون کے ساتھ بہتر سے بہتر طریق پر
زندگی بسر کر سکے .یہ خیال اپنی اصل کے اعتبار سے خالص گمراہی اور زندقہ ہے .آخرت ہرگز صرف تصور اور محض نظریہ
نہیں ہے‘ بلکہ ایک واقعہ ہے جو الزما ً ظہور پذیر ہوگا .چنانچہ قرآن مجید میں متعدد مقامات پر مختلف اسالیب سے اس بات پر
ق ۙ﴿َّ ﴾۵و اِنَّ الد ِّۡینَ لَ َواقِ ٌع ؕ﴿’’ ﴾۶جس (قیامت و آخرت) کا تم سے زور دیا گیا ہے جیسے سورۃ ٰ ّ
الذر ٰیت میں فرمایا :اِنَّ َما ت ُۡو َعد ُۡونَ لَ َ
صا ِد ٌ
وعدہ کیا جا رہا ہے وہ بالکل برحق ہے ‘اور جزا و سزا الزما ً واقع ہو کر رہے گی‘‘ .یا جیسے سورۃ المرسالت میں فرمایا :اِنَّ َما
ت ُۡو َعد ُۡونَ لَ َواقِ ٌع ؕ﴿’’ ﴾۷جس چیز کی دھمکی تمہیں دی جا رہی ہے وہ الزما ً واقع ہو کر رہے گی‘‘( .یعنی نری دھمکی اور خالی
دھونس نہیں ہے!)
جو لوگ آخرت کو محض ایک تصور اور نظریہ قرار دے کر یہ امید بھی کرتے ہیں کہ اس سے اس دُنیا میں عدل و قسط پر مبنی
ایک اجتماعی نظام وجود میں آ سکتا ہے‘ وہ ایک شدید مغالطے میں مبتال ہیں .اس لیے کہ محض تصورو نظریہ سے یہ مقصد ہر
گز حاصل نہیں ہو سکتا .انسان کی سیرت‘ اس کے کردار‘ اخالق اور اعمال و معامالت پر واقعی اور عملی اثر محض آخرت کے
تصور یا نظریہ کا نہیں بلکہ صرف یقین کے درجے تک پہنچے ہوئے ایمان ہی کا پڑ سکتا ہے .چنانچہ اگر ایک معاشرے میں
آخرت پر قلبی یقین رکھنے والے لوگ معتدبہ تعداد میں موجود ہوں گے تو اس کی برکت سے اور اس کے نتیجے میں اس دنیا
میں مبنی بر عدل و قسط اجتماعی نظام بھی الزما ً وجود میں آئے گا‘ لیکن ایمان باآلخرت کا اصل مقصود صرف ہماری دُنیوی بہبود
نہیں ہے بلکہ اس کا اصل مطلوب محاسبٔہ اُخروی میں سرخرو اور کامیاب و کامران ہونا ہے‘ اور یہ نصب العین ہماری دُنیوی فالح
رسول میں بیان ہوئی ہیں
ؐ وبہبود اور امن و سالمتی سے اس طرح مربوط و متعلق ہے کہ آخرت کی وہ تفاصیل جو قرآن اور حدیث ِ
نظام عدل و قسط
ِ اُن پر قلبی یقین اور اس کے مطابق اس دنیا میں اپنے رویے اور عمل کی اصالح و تعمیر کے بغیر نہ دنیا میں
یوم قیامت ایک اٹل اور شدنی امر ہے اور آخرت ایک حقیقت ِقائم ہو سکتا ہے اور نہ اُخروی نجات حاصل ہو سکتی ہے .الغرض ِ
تعالی نے اپنے رسولوں اور اپنی کتابوں کے ذریعے سے ہمیں پیشگی عطا فرما دیا ٰ ٰ
کبری ہے اور اس کا حتمی اور یقینی علم ہللا
تعالی کی رضا کا حصول اور اُخروی نجات بن جائے‘ جس کے لیے قرآن حکیم دو ٰ ہے‘ تا کہ ہمارے تمام اعمال کا اصل محرک ہللا
:ٹوک انداز میں ہمیں آگاہ اور متنبہ کرتا ہے
ت ۡال َج ِح ۡی ُم لِ َم ۡن یَّ ٰری ﴿﴾۳۶فَا َ َّما َم ۡن طَ ٰغی ﴿َۙ ﴾۳۷و ٰاثَ َر ۡال َح ٰیوۃَ الد ُّۡنیَا س ٰعی ﴿َۙ ۳۵
﴾و بُ ِّرزَ ِ سانُ َما َ ک ۡب ٰری ﴿۫ۖ﴾۳۴یَ ۡو َم یَتَ َذ َّک ُر ااۡل ِ ۡن َت الطَّٓا َّمۃُ ۡال ُفَاِ َذا َجٓا َء ِ
ٰ ۡ ۡ ۡ
س ع َِن الہَ ٰوی ﴿ۙ﴾۴۰فَاِنَّ ال َجنَّۃَ ِہ َی ال َما ٰوی ﴿ؕ( ﴾۴۱النّ ٰۡ ۡ ۡ ۡ ۡ
زعت) ﴾و اَ َّما َم ۡن َخافَ َمقَا َم َربِّ ٖہ َو نَہَی النَّف َ ﴿ۙ﴾۳۸فَاِنَّ ال َج ِح ۡی َم ِہ َی ال َما ٰوی ﴿َؕ ۳۹
پس جب قیامت کا ہنگامٔہ عظیم برپا ہوگا ‘ جو کچھ انسان نے دنیا میں کیا ہے اس دن وہ اس کو یاد کرے گا‘ اور دوزخ ہر’’
دیکھنے والے کے سامنے بے نقاب کر دی جائے گی تو جس نے (دنیا میں) سرکشی کی تھی اور دنیا کی زندگی کو آخرت پر مقدم
رب کے حضورکھڑا ہونے سے(یعنی محاسبہ کے لیے پیشی رکھا تھا‘ تو یقینااس کا ٹھکانہ تو بس دوزخ ہی ہے‘ اور جو اپنے ّ
‘‘.سے) ڈرا تھا .اور اپنے نفس کو بری خواہشات سے روکتا رہا تھا تو الریب اس کا ٹھکانہ جنت ہے
سوال نمبر2Ñ
نماز کا تعارف تحریر کریں نیز نمازسے متعلق کتاب میں موجود اصطالحات کی وضاحت کریں۔
ہر مکلّف یعنی عاقِ ل بالغ پر نما ز فرض عین ہے اس کی فرضیت کا منکر کافر ہے۔ اور جو قصداً چھوڑ ے اگرچہ ایک ہی وقت کی
فاس ق ہے اور جو نماز نہ پڑھتا ہو قید کیا جائے یہاں تک کہ توبہ کرے اور نماز پڑھنے لگے بلکہ ائمٔہ ٰثلثہ مالک و شافعی
ہو وہ ِ
سلطان اسالم کو اس کے قتل کا حکم ہے۔
ِ تعالی عنہم کے نزدیک
ٰ و احمد رضی ہللا
صاَل تِ ِہ ْم َ
ساہُ ۡونَ فَ َو ۡی ٌل لِّ ْل ُم َ
صلِّ ۡینَ ۙ﴿﴾۴الَّ ِذ ۡینَ ہُ ْم ع َۡن َ
خرابی ان نمازیوں کے ليے جو اپنی نماز سے بے خبر ہیں۔
جہنم میں ایک وادی ہے ،جس کی سختی سے جہنم بھی پناہ مانگتا ہے ،اس کا نام ''ویل'' ہے ،قصداً نماز قضا کرنے والے اس
کے مستحق ہیں۔
''انھوں نے عرض کیا ،یا رسول اﷲ! کیا یہ خاص میرے ليے ہے؟ فرمایا'' :میری تمام اُمت کے ليے ہے ۔
سوال نمبر3
بعثت ِ نبوی ﷺ سے کیا مراد ہے؟ جامع نوٹ لکھیں۔
بعثت
بعثت سے مراد جبرائیل کی حضور صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم کے سامنے قراآن کی پہلی نازل ہونے والی آیت کا تالوت کرنا ہے۔ آپ
صلی ہللا علیہ وسلم کی عمر جب چالیس برس ہوچکی تھی اس وقت جبرئیل علیہ السالم سب سے پہلی وحی لیکر نازل ہوئے۔ اور
یہی سن کمال ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہی پیغمبروں کی بعثت کی عمر ہے
کیا نظر تھی جس نے مردوں کو مسیحا کردیا؎ جو نہ تھے خود راہ پر اوروں کے ہادی بن گئے
قرٓان کریم میں ہللا تعالی نے تین مقامات پر ٓاپﷺ کے مقاصد ِ بعثت کو بیان فرمایاہے ،پہالمقام وہ ہے جہاں حضرت ابراہیم ؑ کی
زبان سے اس کا ذکر ہوا ،ابراہیم ؑ کی یہ ٓاروز وتمنا تھی کہ نبی ٓاخر الزمان سید الرسل حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم ٓاپ ہی
کے خاندان اور نسل سے ہوں ،چناں چہ اس کے لئے ٓاپ نے جب بیت ہللا کی تعمیر فرمائی ،یہ وقت چوں کہ بڑی اہمیت کا
حامل تھا ،اس کائنات میں خدا کاپہال گھر انسانوں کے لئے ،رب اطاعت وبندگی کے لئے تعمیر کیا گیا تھا ،اس حسا س اور اہم
موقع کی نزاکت کو سمجھتے ہوئے اور کریم پروردگار کی الطاف وعنایات کو سامنے رکھ کر ٓاپ نے دعاکیَ :ربَّنَا َوا ْب َع ْث فِ ْی ِھ ْم َر ُ
س ْوالً
ک ْیم۔ ( البقرۃ’’)129:ہمارے پروردگار !ان میں ایک ک اَ ْنتَ ا ْل َع ِز ْی ُز ا ْل َح ِ ک ٰت َ
ب َوا ْل ِح ْک َمۃَ َویُ ِز ِّک ْی ِھ ْم اِنَّ َ ِم ْن ُھ ْم یَ ْتلُ ْوا َعلَ ْی ِھ ْم ٰا ٰیتِ َ
ک َویُ َعلِّ ُم ُھ ُم ا ْل ِ
ایسا رسول بھی بھیجنا جو انہی میں سے ہو ،جو ان کے سامنے تیری ٓایتوں کی تالوت کرے ،انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم
دے ،اور ان کو پاکیزہ بنائے ،بیشک تیری اور صرف تیری ذات وہ ہے جس کا اقتدار بھی کامل ہے ،جس کی حکمت بھی کامل۔
‘‘جس نبی کی ٓاپ نے تمنا کی تھی اس سے مراد محمد رسول ہللا ﷺ ہیں ۔ ( تفسیر ابن کثیر)2/92:نبی کریم ﷺ فرمایا کرتے
تھے کہ :میں اپنے باپ ابراہیم کی دعا کا نتیجہ ہوں ۔ (مسند ابو دأودطیالسی)1224:حضرت ابراہیم نے کائنات کی سب سے
عظیم ترین ہستی کو اپنے خاندان میں مانگ لیا ،اورہمیشہ کے لئے سعادت کو حاصل کرلیا۔
س ْوالً دوسری جگہ ہللا تعالی نے ٓاپ کے بھیجے جانے کو احسان قراردیتے ہوئے فرمایا:لَقَ ْد َمنَّ ہّٰللا ُ َعلَی ا ْل ُمْٔو ِمنِیْنَ اِ ْذ بَ َع َ
ث فِ ْی ِھ ْم َر ُ
ض ٰل ٍل ُمبِ ْین۔ ( ٰال عمران’’)164:حقیقت یہ ہے کہ ہللا ِم ْن ُھ ْم یَ ْتلُ ْوا َعلَ ْی ِھ ْم ٰا ٰیتِ ٖہ َویُزَ ِّک ْی ِھ ْم َویُ َعلِّ ُم ُھ ُم ا ْل ِ
ک ٰت َ
ب َوا ْل ِح ْک َمۃَ ِواِنْ کَانُ ْوا ِمنْ قَ ْب ُل لَفِ ْی َ
نے مٔومنوں پر بڑا احسان کیا کہ ان کے درمیان میں سے ایک رسول بھیجا جو ان کے سامنے ہللا تعالی کی ٓایتوں کی تالوت
کرے ،انہیں پاک وصاف بنائے اور انہیں کتاب اور حکمت کی تعلیم دے ،جبکہ یہ لوگ اس سے پہلے یقینا کھلی ہوئی گمراہی
‘‘ میں مبتال تھے۔
س ْوالً ِم ْن ُھ ْم یَ ْتلُ ْوا َعلَ ْی ِھ ْم ٰا ٰی ٖتہ َویُ َز ِّک ْی ِھ ْم ث فِی ااْل ُ ِّم ٖیِّنَ َر ُ
ی بَ َع َتیسری جگہ ہللا تعالی نے مقاصد ِ بعثت کو بیا ن کرتے ہوئے فرمایا:ھ َُو الَّ ِذ ْ
ض ٰل ٍل مبین۔ ( الجمعۃ ’’)2:وہی ہے جس نے امی لوگوں میں انہی میں سے ایک ک ٰت َ
ب َوا ْل ِح ْک َمۃَ ِواِنْ کَانُ ْوا ِمنْ قَ ْب ُل لَفِ ْی َ َویُ َعلِّ ُم ُھ ُم ا ْل ِ
رسول کو بھیجا جو ان کے سامنے اس کی ٓایتوں کی تالوت کریں ،اور ان کو پاکیزہ بنائیں ،اور انہیں کتاب وحکمت کی تعلیم
دیں ،جبکہ وہ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں پڑے ہوئے تھے۔ ‘‘حضرت موالنا عبد الماجد دریابادی ؒمقاصد ِبعثت کو
مختصر لیکن جامع انداز میں بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں :ذرا سا غور کرنے پرنظر ٓاجائے گا کہ رسول اعظم ﷺ کے جملہ
ک‘‘رسول کا پہال کام اپنی امت کے سامنے تالوت ِ ٓایات فرایض کمال ِ ایجاز کے ساتھ چندفقروں میں ٓاگئے ہیں۔ ’’یَ ْتلُ ْوا َعلَ ْی ِھ ْم ٰا ٰیتِ َ
ب‘‘رسول کاکام محض تبلیغ ک ٰت َہوتا ہے ،یعنی ہللا کا کالم پہنچانا ،گویا رسول کی پہلی حیثیت مبلغ ِ اعظم کی ہوتی ہے۔ ’’یُ َعلِّ ُم ُھ ُم ا ْل ِ
وپیام رسانی پر ختم نہیں ہوجاتا ،اس کاکام کتاب ِ الہی کی تبلیغ کے بعد اس کی تعلیم کا بھی ہے ،اس تعلیم کے اندر کتاب کی
شرح ،ترجمانی ،تعمیم میں تخصیص ،تخصیص میں تعمیم سب کچھ ٓاگئی ،اور یہیں سے ان کج فہموں کی بھی تردید ہوگئی
جو رسول کا منصب ( معاذ ہللا ) صرف ڈاکیہ یا قاصد سمجھتے ہیں ،گویا رسول کی دوسری حیثیت معلم ِ اعظم کی ہوئی۔
’’وا ْل ِح ْک َمۃَ ‘‘پھر رسول تعلیم محض کتا ب ہی کی نہ دیں گے بلکہ حکمت و دانائی کی تلقین بھی امت کو کریں گے ،احکام َ
ومسائل ،دین کے قاعدے اور ٓاداب ،عوام وخواص سب کو سکھائیں گے اور خواص کی رہنمائی اسرارو رموزمیں بھی کریں
گے ،گویا رسول کی تیسری حیثیت مرشد ِ اعظم کی ہوئی۔ ’’یُ َز ِّک ْی ِھ ْم ‘‘تزکیہ سے مراد دلوں کی صفائی ہے ،رسول کا کام محض
الفاظ اور احکام ِ ظاہری کی تشریح تک محدود نہیں رہے گا ،بلکہ وہ اخالق کی پاکیزگی اور نیتوں کے اخالص کے بھی فرائض
انجام دیں گے ،گویا رسول کی یہ چوتھی حیثیت مصلح ِ اعظم کی ہوئی۔
ت قرٓان
پہال مقصد:تالو ِ
ت قرٓان کی عظمت واہمیت کو عام فرمایا ،اور اس کے فوائد وبرکات سے ٓاگاہ کیا ،اورانسانوں کے رسول ہللاﷺ نے امت میں تالو ِ
ہاتھ میں خدا کا یہ عظیم کالم سوپنا جس کی وجہ سے ان انسانیت قعر ِ مذمت سے نکلی اور تالوت ِ قرٓان کا ایسا ذوق ان کو عطا
کیا کہ اس سے کسی لمحہ صحابہ کرام ؓ کو سیری حاصل نہیں ہوتی تھی ،اور خود ٓاپﷺ جب قرٓان کریم کی تالوت فرماتے کتنے
ہی پتھر دل موم ہوجاتے اور کیسے کیسے سخت مزاج انسان نرم پڑجاتے اور قرٓان کی حقانیت و عظمت کا اقرار کئے بغیر نہیں
رہتے اور بہت سے لوگ اسی قرٓان کی سماعت سے دائرہ ٔ اسالم میں داخل ہوئے۔ دنیا میں جو کچھ انقالب نظر ٓارہا ہے بالشبہ یہ
اس عظیم کتاب کی بدولت ہے جو صاحب کتاب سیدنا محمد رسول ہللا ﷺ نے بطور امانت انسانوں تک پہنچایا اور اس کے
تقاضوں کو عملی طور پر پورا کرکے دکھایا۔ قرٓان کا نزول عرب کی سرزمین پر پوا لیکن وہ پوری دنیا کے لئے اور ہمیشہ ہمیشہ
کے واسطے معجزہ ٔ نبوی بن کر ٓایا اور اس کی کرنیں سارے عالم میں پھیل گئیں اور جہاں قرٓان کا نور پہنچا وہاں اندھیریوں
کا خاتمہ ہوا اور کفر و شرک نے دم توڑدیا۔ حضرات صحابہ کرام ؓکی زندگیوں میں انقالبی اثرات اسی کالم نے پیدا کئے ،اور وہ
انسانوں کو رہبر اور رہنما بنیں بھی تو اسی قرٓان کی تعلیمات پر عمل کرکے بنیں۔ قرٓان نے ہر شعبٔہ زندگی میں مثالی انقالب بر
پا کیا۔ تالوت ِ قرٓان کی اہمیت کو بیان کرتے ہوئے ٓاپ ﷺ نے فرمایا:جو قرٓان کریم پڑھنے میں اس قدر مستغرق ہو کہ اس سے
دعا مانگنے کا موقع ملے تو ہللا تعالی نے فرمایا کہ مانگنے والوں سے زیادہ ایسے بندے کو عطاکروں گا۔ (ترمذیٓ)2869 :اپ
ﷺ نے فرمایا کہ :کوئی قوم ہللا کے گھروں میں سے کسی گھر میں مجتمع ہوکر تالوت کرتی ہے تو ان پر سکینہ نازل ہوتی ہے
اور رحمت ڈھانپ لیتی ہے ،مالئکہ رحمت ان کو گھیر لیتے ہیں اور حق تعالی اس کا ذکر مالئکہ کی مجلس میں فرماتے ہیں۔
(مسلم)4873:حضرت انس سے ؓ مروی ہے کہ نبی کریم ﷺنے فرمایا :جس گھر میں قرٓان کریم کی تالوت کی جاتی ہے اس مین
فرشتے ٓاتے او رشیاطین دور ہوجاتے ہیں ،وہ اپنے اہل ( صاحب خانہ افراد) کے لئے کشادہ ہوجاتا ہے اور اس میں بھالئی کی
بہتات اور شر کی قلت ہوجاتی ہے ،اور جس گھر میں قرٓان کی تالوت نہ ہو اس میں شیاطین ٓاجاتے ہیں ،فرشتے نکل جاتے
ہیں اور وہ گھر اپنے باسیوں پر تنگ ہوجا تا ہے ،خیرکم اور شر بہت بڑھ جاتا ہے۔ ( فضائل حفظ القرٓان)131:
قرٓان کریم کو الفاظا ً پڑھنے اور تالوت کرنے کے ساتھ اس کے معانی ومطالب انسانوں کو سمجھانا یہ بھی نبی ﷺ کی عظیم
ذمہ داری رہی اور ٓاپ ﷺ نے الفاظ ِ قرٓانی کے ساتھ معانی ٔ قرٓان بھی بتالئے۔ نبی ﷺ نے مرا ِد خداوندی کو سمجھایا اور ٓایات ِ
قرٓانی کی تشریح کرکے امت کو اس کے مقصد سے ٓاگاہ کیا کہ ہللا تعالی کیا چاہتا ہے۔ اس لئے صحابہ کرام ؓ جہاں الفاظ ِ قرٓانی
کے یاد کرنے کا اہتمام کیا کرتے تھے وہیں معانی ومطالب کو بھی سمجھنے میں مصروف رہا کرتے تھے۔ قرٓان مجید کو تالوۃ
پڑھنے کے ساتھ اس کے معانی اور مضامین میں تدبر کرنا ،اس کے مفہوم میں غور و فکر کرنا ،تفاسیر قرٓان کی روشنی ،نبی
کریم ﷺ کی تشریحات اور صحابہ کرام کے عمل سے قرٓان مجید کے مقصود تک رسائی حاصل کرنے کوشش کرنا بھی ضروری
ہے ،کیوں کہ جب تک مطلوب قرٓان کو نہیں سمجھا جائے گا تو یقینی طور پر عمل ٓاوری کا جذبہ بھی نہیں ابھرے گا ،اور ہللا
تعالی کیا فرمارہاہے اس سے ٓاگہی بھی حاصل نہیں ہوگی۔ ہللا تعالی نے نہایت چونکادینے والے انداز میں کیا کہ:افالیتدبرون
القران ٔام علی قلوب ٔاقفالہا۔ (محمد )۲۴:یہ لوگ قرٓان میں غور نہیں کرتے یا ان کے دلوں پرقفل پڑے ہوئے ہیں ۔ اس لئے قرٓان ٰ
کریم کو سمجھا اس کا حق ہے۔ قرٓان مجید کی تعلیمات کے مطابق عمل کرنا بھی اہل ِ ایمان کی ذمہ داری ہے۔ قرٓان صرف پڑھ کر
یا سمجھ کر رکھ دینے کی کتاب نہیں ہے بلکہ اس کے مطابق زندگیوں کو بنانے اور سنوارنے کی ضرور ت ہے۔ قرٓان نے حالل
و حرام اور جائز و ناجائز کے لئے اصول بتائے ،اور اس کی تشریخ نبی کریم ﷺ نے فرمائی۔ قرٓان کریم میں حکم دیتے ہوئے
فرمایا گیا کہ :وھذا کتاب ٔانزلنا ہ مبارک فاتبعوہ۔ ( االنعام )155:یعنی یہ (قرٓان )مبارک کتاب جو ہم نے نازل کی اس کی اتباع کرو۔
اور ایک جگہ فرمایا کہ :اتبعوا مأاانزل الیکم من ربکم۔ ( االعراف)3 :یعنی جو کچھ تمہارے رب کی جانب سے تمہاری طرف نازل
کیا گیا اس کی اتباع کرو۔
چوتھا کام ٓاپ ﷺ کا امت کو حکمت کی تعلیم دینا ہے۔ حکمت سے مراد رسول ہللا ﷺ کی سنت ہے۔ ( تفسیر ابن کثیرٓ)3/251:اپ
ﷺ کی ذات ِ گرامی میں انسانوں کے لئے ہر اعتبار سے اسوہ ونمونہ موجود ہے۔ ٓاپ ﷺ کی تمام تر تعلیمات انسانیت کے لئے
سعادت وکامیابی کی عالمت ہیں۔ ٓاپﷺ نے جو کچھ فرمایااس پر عمل پیرا ہونے میں ہی فالح دارین پوشیدہ ہے۔ اسی لئے ٓاپﷺ
نے اپنی امت کو سنت کی تعلیمات سے نوازااور طریقہ ٔ زندگی کے اصول وٓاداب بتالئے۔ ہللا تعالی نے ٓاپ ﷺ کی اتباع ہر اپنی
ک ْم ُذنُ ْوبَ ُ
ک ْم۔ ( ٓال عمران ( )31: محبت کو موقوف رکھا ہے۔ چناں چہ ا رشاد ہے :قُ ْل اِنْ ُک ْنتُ ْم ت ُِحبُّ ْونَ ہّللا َ فَاتَّبِ ُع ْونِ ْی یُ ْحبِ ْب ُ
ک ُم ہّللا ُ َویَ ْغفِ ْرلَ ُ
اے پیغمبر ! لوگوں سے ) کہہ دو کہ اگر تم ہللا سے محبت رکھتے ہو تو میری اتباع کرو ،ہللا تم سے بھی محبت کرے گا اور
تمہاری خاطر تمہارے گناہ معاف کردے گا۔ مفسرین نے لکھا ہے کہ :ہللا و رسول ﷺ کی محبت کی عالمت یہ ہے کہ دونوں کی
اطاعت کی جائے۔ اور لکھا ہے کہ :نبی کریم سے محبت کی عالمت ٓاپ ﷺ کی سنتوں سے محبت کرنا ہے۔ ( تفسیر قرطبی :
) 5/92نبی کریم ﷺ کا ارشا ہے کہ:جو شخص میری سنت سے محبت رکھتا ہے در حقیقت وہی مجھ سے محبت رکھتا ہے ،اور
جو مجھ سے محبت کرے گا وہ میرے ساتھ جنت میں ہوگا۔ (مشکوۃ )1/383:
ٓاخر ت کی بات
ٓاپ ﷺ نے ان چار بنیادی مقاصد کے تحت انسانیت کی تعمیر و ترقی کا کام انجام دیا اور ایک بگڑے ہوئے معاشرہ اور تباہی کے
ت قرٓانی پر
دہانے پر جاچکی دنیا کو سنوارااور بہتر سے بہتر انداز میں ان کی تربیت فرمائی۔ تالوت ِ قرٓان کا شوق پیدا کیا ،تعلیما ِ
عمل پیرا ہونے کا مزاج بنایا ،دلوں میں موجود خرابیوں کی اصالح ،نفرت وعداوت ،حسد وبغض ،اور بہت ساری بیماریوں
سے نجات پانے کی فکر بیدار کی ،اور اتباع و پیروی ،اطاعت وفرماں برداری کا جذبہ کوٹ کوٹ کے دل وجان میں بھر دیا کہ
جس کے نتیجہ میں ہللا تعالی نے ان کو کامیاب وکامران فرمایا۔ قیامت تک ٓانے والی انسانیت کے لئے یہ چار چیزیں بنیادی
حیثیت رکھتی ہیں کہ اس کی روشنی میں خود کو سنوارنے اور معاشرہ کو سدھارنے کی کوشش کی جائے۔ امت میں تالوت ِ
قرٓان کا مزاج پیدا کیاجائے جو برکتوں اور رحمتوں کا ذریعہ ہے ،معانی قرٓان کو سمجھتے ہوئے مطالبات ِ قرٓان کو پوراکرنے
کی دعوت دی جائے جس کے بغیر کوئی چارہ نہیں ۔ مردہ دلوں کو زندہ کرنے ،اور روح کی بیماریوں کا عالج کروانے کے
لئے اہل ہللا سے رجوع ہونے اور ہللا کے نیک بندوں کی صحبت سے فائدہ اٹھانے کی تلقین بھی ضروری ہے ،جس سے ذات کی
بھی اصالح ہوگی اور معاشرہ کی بھی۔ اور سنتوں سے زندگیوں کو روشن کرنے کیا جائے ،گھر اور ماحول میں سنت کی
تعلیمات کو عام کرنے کی کوشش ومحنت کو عام کیا جائے تاکہ مسلمان اپنے نبی ﷺ کے اسوہ وعمل کو انسانوں اور دنیا والوں
کے سامنے اچھے انداز میں پیش کرسکیں۔
سوال نمبر4
فتح مکہ کے واقعہ پر مفصل نوٹ لکھیں۔
فتح مکہ
فتح مکہ (جسے فتح عظیم بھی کہا جاتا ہے)[ ]1عہد نبوی کا ایک غزوہ ہے جو 20رمضان سنہ 8ہجری بمطابق 10جنوری سنہ
630عیسوی کو پیش آیا ،اس غزوے کی بدولت مسلمانوں کو شہر مکہ پر فتح نصیب ہوئی اور اس کو اسالمی قلمرو میں شامل کر
لیا گیا۔ اس غزوہ کا سبب قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خالف ورزی تھی جو ان کے اور مسلمانوں کے درمیان میں ہوا
تھا ،یعنی قریش مکہ نے اپنے حلیف قبیلہ بنو دئل بن بکر بن عبد منات بن کنانہ (اس کی ایک خاص شاخ جسے بنو نفاثہ کہا جاتا
ہے) نے بنو خزاعہ کے خالف قتل و غارت میں مدد کی تھی اور چونکہ بنو خزاعہ مسلمانوں کا حلیف قبیلہ تھا اس لیے اس
حملے کو قریش مکہ کی جانب سے اس معاہدہ کی خالف ورزی سمجھا گیا جو مسلمانوں اور قریش کے درمیان میں ہوا تھا ،یہ
معاہدہ "صلح حدیبیہ" کے نام سے معروف ہے۔ اسی معاہدہ کی خالف ورزی کے جواب میں محمد بن عبد ہللا نے ایک عظیم الشان
لشکر تیار کیا جو دس ہزار مجاہدین پر مشتمل تھا؛ لشکر آگے بڑھتا رہا یہاں تک کہ مکہ پہنچ گیا اور بغیر کسی مزاحمت کے مکہ
میں پر امن طریقے سے داخل ہو گیا سوائے ایک معمولی سی جھڑپ کے جس کا سپہ ساالر خالد بن ولید کو اس وقت سامنا ہوا
جب قریش کی ایک ٹولی نے عکرمہ بن ابی جہل کی قیادت میں مسلمانوں سے مزاحمت کی اور پھر خالد بن ولید کو ان سے قتال
کرنا پڑا جس کے نتیجے میں بارہ کفار مارے گئے اور باقی بھاگ گئے ،جبکہ دو مسلمان بھی شہید ہوئے۔
جب محمد بن عبد ہللا مکہ میں داخل ہوئے اور لوگوں کو اطمینان ہو گیا تو کعبہ کے پاس آئے اور اس کا طواف کیا۔ اثنائے طواف
ق ا ْلبَا ِط ُل ِإنَّ ا ْلبَا ِط َل َكانَ «جا َء ا ْل َح ُّ
ق َو َز َه َ کعبہ کے ارد گرد موجود بتوں کو اپنے پاس موجود تیر سے گراتے اور پڑھتے جاتےَ :
ق َو َما يُ ْبدُِئ ا ْلبَا ِط ُل َو َما يُ ِعيدُ»" ] 3[ ،جاء الحق و زھق الباطل ان الباطل کان زھوقا" (ترجمہ :حق آن پہنچا و«جا َء ا ْل َح ُّ
َ زَ هُوقًا»[]2
اور باطل مٹ گیا اور یقینا ً باطل ایسی ہی چیز ہے جو مٹنے والی ہے) اور پڑھتے "جاء الحق وما يبدئ الباطل وما يعيد" (ترجمہ:
حق آچکا ہے اور باطل میں نہ کچھ شروع کرنے کا دم ہے ،نہ دوبارہ کرنے کا)۔ کعبہ میں بتوں کی تصویریں آویزاں اور ان کے
مجسمے نصب تھے محمد بن عبد ہللا نے ان کو بھی ہٹانے اور توڑنے کا حکم دیا جس کی تعمیل کی گئی ،جب نماز کا وقت ہوا تو
محمد بن عبد ہللا نے بالل ابن رباح کو حکم فرمایا کہ کعبہ کے اوپر چڑھ جائیں اور اذان دیں؛ بالل کعبہ کے اوپر چڑھے اور اذان
دی۔
فتح مکہ کے بعد ایک کثیر تعداد حلقہ بگوش اسالم ہوئی جن میں سرفہرست سردار قریش و کنانہ ابو سفیان اور ان کی بیوی ہند
بنت عتبہ ہیں۔ اسی طرح عکرمہ بن ابو جہل ،سہیل بن عمرو ،صفوان بن امیہ اور ابوبکر صدیق کے والد ابو قحافہ کے اسمائے
گرامی قابل ذکر ہیں۔
پس منظر
مشرکین مکہ کے اتحادی قبیلہ بنو بکر نے مسلمانوں
ِ صلح حدیبیہ دس سال کے لیے ہوئی تھی مگر 630ء کے بالکل شروع میں
کے اتحادی قبیلہ بنو خزاعہ پر حملہ کیا اور کئی آدمی قتل کر دیے۔ اس دوران مکہ کے مشرک قریش نے چہرے پر نقاب ڈال کر
بنو بکر کی مدد بھی کی مگر یہ بات راز نہ رہ سکی۔ یہ صلح حدیبیہ کا اختتام تھا۔ مسلمان اس وقت تک بہت طاقتور ہو چکے
تھے۔ ابوسفیان نے بھانپ لیا تھا کہ اب مسلمان اس بات کا بدلہ لیں گے اس لیے اس نے صلح کو جاری رکھنے کی کوشش کے
طور پر مدینہ کا دورہ کیا۔ ابوسفیان اپنی بیٹی ِام حبیبہ کے گھر پہنچا ،جو اسالم لے آئی تھیں اور محمد بن عبد ہللا کی زوجہ تھیں۔
جب اس نے بستر پر بیٹھنا چاہا تو محمد بن عبد ہللا ِام حبیبہ نے بستر اور چادر لپیٹ دی اور ابوسفیان کو بیٹھنے نہ دیا۔ اس نے
حیران ہو کر پوچھا کہ بستر کیوں لپیٹا گیا ہے تو محمد بن عبد ہللا ام حبیبہ نے جواب دیا کہ 'آپ مشرک ہیں اور نجس ہیں اس لیے
میں نے مناسب نہ سمجھا کہ آپ محمد بن عبد ہللا کی جگہ پر بیٹھیں۔۔[ ]4جب ابوسفیان نے صلح کی تجدید کے لیے محمد بن عبد
ہللا سے رجوع کیا تو انہوں نے کوئی جواب نہیں دیا پھر اس نے کئی بزرگوں کی وساطت سے کوشش کی مگر کامیاب نہیں ہوا۔
سخت غصے اور مایوسی میں اس نے تجدی ِد صلح کا یکطرفہ اعالن کیا اور مکہ واپس چال گیا۔[ ]5قبیلہ بنو خزاعہ نے محمد بن
عبد ہللا سے فریاد کی تو انہوں نے مکہ فتح کرنے کا فیصلہ کیا۔ بنو خزاعہ نے اپنے ایک شاعر عمرو ابن خزاعہ کو بھیجا تھا
جس نے دردناک اشعار پڑھے اور بتایا کہ وہ 'وتیرہ' کے مقام پر رکوع و سجود میں مشغول تھے تو قریش نے ان پر حملہ کر دیا
اور ہمارا قت ِل عام کیا۔ محمد بن عبد ہللا نے اس کو کہا کہ ہم تمہاری مدد کریں گے۔ محمد بن عبد ہللا نے روانگی کا مقصد بتائے
صلح حدیبیہ ابھی قائم
ِ بغیر اسالمی فوج کو تیار کیا اور مدینہ اور قریبی قبائل کے لوگوں کو بھی ساتھ مالیا۔ لوگوں کے خیال میں
تھی اس لیے کسی کے گمان میں نہ تھا کہ یہ تیاری مکہ جانے کے لیے ہے۔ محمد بن عبد ہللا نے مدینہ سے باہر جانے والے
راستوں پر نگرانی بھی کروائی تاکہ یہ خبریں قریش کا کوئی جاسوس باہر نہ لے جائے۔ محمد بن عبد ہللا نے دعا بھی کی کہ اے
خدایا آنکھوں اور خبروں کو قریش سے پوشیدہ کر دے تاکہ ہم اچانک ان کے سروں پر ٹوٹ پڑیں۔[ 10 ]6رمضان 8ھ کو روانگی
ہوئی۔ کسی کو معلوم نہ تھا کہاں جانا ہے۔ ایک ہفتہ میں مدینہ سے مکہ کا فاصلہ طے ہو گیا۔ مکہ سے کچھ فاصلہ پر 'مرالظہران'
کے مقام پر لشک ِر اسالم خیمہ زن ہو گیا۔ لوگوں کو معلوم ہو چکا تھا کہ مکہ کا ارادہ ہے۔
جنگ
جنگ تو ہوئی نہیں مگر احوال کچھ یوں ہے کہ مر الظہران کے مقام پر محمد بن عبد ہللا نے تاکید کی کہ لشکر کو بکھیر دیا جائے
ش مکہ یہ سمجھیں کہ لشکر بہت بڑا ہے اور بری طرح ڈر جائیں اور اس طرح شاید بغیر خونریزی اور آگ جالئی جائے تاکہ قری ِ
کے مکہ فتح ہو جائے۔ یہ تدبیر کارگر رہی۔ مشرکین کے سردار ابوسفیان نے دور سے لشکر کو دیکھا۔ ایک شخص نے کہا کہ یہ
شاید بنو خزاعہ کے لوگ ہیں جو بدلہ لینے آئے ہیں مگر اس نے کہا کہ اتنا بڑا لشکر اور اتنی آگ بنو خزاعہ کے بس کی بات
نہیں۔ اس کے بعد ابوسفیان محمد بن عبد ہللا سے امان پانے کے لیے لشک ِر اسالم کی طرف محمد بن عبد ہللا کے چچا عباس کی
پناہ میں چل پڑا۔ کچھ مسلمانوں نے اسے مارنا چاہا مگر چونکہ عباس بن عبدالمطلب نے پناہ دے رکھی تھی اس لیے باز آئے۔
رات کو قید میں رکھ کر صبح ابوسفیان کو محمد بن عبد ہللا کی خدمت میں پیش کیا گیا۔ محمد بن عبد ہللا نے ابو سفیان کو دیکھا تو
فرمایا 'کیا ابھی اس کا وقت نہیں آیا کہ تو یہ سمجھے کہ ایک خدا کے عالوہ اور کوئی خدا نہیں ہے؟' ابوسفیان نے کہا کہ اگر
خدائے واحد کے عالوہ کوئی خدا ہوتا تو ہماری مدد کرتا۔ یہ دیکھ کر کہ اس نے ایک خدا کو تسلیم کیا ہے ،محمد بن عبد ہللا نے
پوچھا کہ 'کیا اس کا وقت نہیں آیا کہ تم جانو کہ میں خدا کا پیغمبر ہوں؟' اس پر ابوسفیان نے کہا کہ 'مجھے آپ کی رسالت میں
تردد ہے' اس پر ان کو پناہ دینے والے عباس بن عبد المطلب سخت ناراض ہوئے اور کہا کہ اے ابوسفیان اگر تو اسالم نہ الیا تو
تمہاری جان کی کوئی ضمانت نہیں۔ اس پر ابوسفیان نے اسالم قبول کر لیا۔ مگر محمد بن عبد ہللا نے اسے رہا نہ کیا بلکہ ایک
جگہ رکھ کر مسلمانوں کے دستوں کو اس کے سامنے گزارا۔ وہ بہت مرعوب ہوا اور عباس بن عبد المطلب کو کہنے لگا کہ 'اے
عباس تمہارے بھتیجے نے تو زبردست سلطنت حاصل کر لی ہے'۔ محمد بن عبد ہللا عباس بن عبد المطلب نے کہا کہ 'اے ابوسفیان
یہ سلطنت نہیں بلکہ نبوت ہے جو خدا کی عطا کردہ ہے'۔ اس کے بعد محمد بن عبد ہللا عباس بن عبد المطلب نے محمد بن عبد ہللا
کو کہا کہ 'اے ہللا کے رسول۔ ابوسفیان ایسا شخص ہے جو ریاست کو دوست رکھتا ہے اسے اسی وقت کوئی مقام عطا کریں' اس
پر محمد بن عبد ہللا محمد بن عبد ہللا نے فرمایا کہ 'ابوسفیان لوگوں کو اطمینان دال سکتا ہے کہ جو کوئی اس کی پناہ میں آجائے
گا امان پائے گا۔ جو شخص اپنے ہتھیار رکھ کر اس کے گھر میں چال جائے اور دروازہ بند کر لے یا مسجد الحرام میں پناہ لے لے
وہ سپا ِہ اسالم سے محفوظ رہے گا'۔[ ] 7اس کے بعد ابوسفیان کو رہا کر دیا گیا جس کا فائدہ یہ ہوا کہ اس نے مکہ جا کر اسالمی
لشکر کی عظمت بتا کر ان لوگوں کو خوب ڈرایا۔
محمد بن عبد ہللا محمد بن عبد ہللا نے لشکر کو چار دستوں میں تقسیم کیا اور مختلف سمتوں سے شہر میں داخل ہونے کا حکم دیا
اور تاکید کی کہ جو تم سے لڑے اس کے عالوہ اور کسی سے جنگ نہ کرنا۔۔[ ]8چاروں طرف سے شہر گھر گیا اور مشرکین کے
پاس ہتھیار ڈالنے کے عالوہ کوئی راستہ نہ رہا۔ صرف ایک چھوٹے گروہ نے لڑائی کی جس میں صفوان بن امیہ بن ابی خلف اور
عکرمہ بن ابی جہل شامل تھے۔ ان کا ٹکراؤ محمد بن عبد ہللا خالد بن ولید کی قیادت کردہ دستے سے ہوا۔ مشرکین کے 28افراد
انتہائی ذلت سے مارے گئے۔[ ]9لشکر اسالم انتہائی فاتحانہ طریقہ سے شہ ِر مکہ میں داخل ہوا جہاں سے آٹھ سال پہلے محمد بن
عبد ہللا کو ہجرت کرنا پڑی تھی۔ کچھ آرام کے بعد محمد بن عبد ہللا مجاہدین کے ہمراہ کعبہ کہ طرف روانہ ہوئے۔ کعبہ پر نظر
پڑتے گھوڑے پر سواری کی ہی حالت میں حج ِر اسود کو بوسہ دیا۔ محمد بن عبد ہللا تکبیر بلند کرتے تھے اور لشک ِر اسالم محمد
بن عبد ہللا کے جواب میں تکبیر بلند کرتے تھے۔ کعبہ میں داخل ہونے کے بعد محمد بن عبد ہللا نے تمام تصاویر کو باہر نکال دیا
جن میں محمد بن عبد ہللا ابراہیم علیہ السالم کی تصویر بھی شامل تھی اور تمام بتوں کو توڑ دیا۔ بتوں کو توڑنے کے لیے محمد
بن عبد ہللا نے محمد بن عبد ہللا علی بن ابوالعاص کو اپنے مبارک کاندھوں پر سوار کیا اور بتوں کو اپنے ہاتھوں سے بھی توڑتے
رہے۔ یہاں تک کہ کعبہ کو شرک کی تمام عالمتوں سے پاک کر دیا۔
نتائج
فتح مکہ ایک شاندار فتح تھی جس میں چند کے عالوہ کوئی قتل نہ ہوا۔ فتح کے بعد محمد بن عبد ہللا نے سب کو عام معافی دے
ِ
دی۔ کافی لوگ مسلمان ہوئے۔ محمد بن عبد ہللا نے ان سے شرک نہ کرنے ،زنا نہ اور چوری نہ کرنے کی تاکید پر بیعت لی۔ اور
انہیں اپنے اپنے بتوں کو توڑنے کا حکم دیا۔ مکہ کی فتح عرب سے مشرکین کے مکمل خاتمے کی ابتدا ثابت ہوئی۔
پیش منظر
مکہ کی فتح کے بعد محمد بن عبد ہللا نے سابقہ مشرکین کو مکہ کے اطراف میں بتوں کو توڑنے کے لیے بھیجا۔ مکہ کے فتح
فتح مکہ کے اگلے ہی ماہ غزوہ حنین پیش آیا۔
کے بعد ارد گرد کے مشرکین پریشان ہو گئے اور ایک اتحاد قائم کیا جس وجہ سے ِ
سوال نمبر5
والدین کے احترام سے متعلق اسالمی تعلیمات پر جامع نوٹ لکھیں۔
تعالی نے سب سے پہلے اپنی بندگی و اطاعت کا حکم ارشاد فر ما یا ہے کہ میرے عالوہ) سورۃ االسراء(ٰ اس ٓایت کریمہ میں ہللا
کسی اور کی بندگی ہر گز مت کرنا ،اس کے بعد فر ما یا کہ اپنے والدین کے ساتھ حس ِن سلوک سے پیش ٓأو۔اوالد کو یہ سوچنا
چاہیے کہ والدین نہ صرف میرے وجود کا سبب ہیں ،بلکہ ٓاج میں جو کچھ بھی ہوں ،ان ہی کی برکت سے ہوں ،والدین ہی ہیں جو
اوالد کی خاطر نہ صرف ہر طرح کی تکلیف دکھ اور مشقت کو برداشت کرتے ہیں،بلکہ بسا اوقات اپنا ٓارام و راحت اپنی خوشی و
خواہش کو بھی اوالد کی خاطر قربان کردیتے ہیں ۔
جب بچہ پیدا ہو تا ہے تو اس کی پرورش کے لیے باپ محنت و مشقت برداشت کرتا ہے ،سردی ہو یا گر می ،صحت ہو یا بیما ری،
ب معا ش کی صعوبتوں کو برداشت کر تا ہے اور ان کے لیے کما کر التا ہے ،ان کے اوپر خرچ کرتا وہ اپنی اوالد کی خاطر کس ِ
ہے ،ماں گھر کے اندر بچے کی پرورش کرتی ہے ،اسے دودھ پالتی ہے ،اسے گرمی و سردی سے بچانے کی خاطر خود گرمی و
سردی برداشت کرتی ہے ،بچہ بیما ر ہوتا ہے تو ماں باپ بے چین ہو جا تے ہیں ،ان کی نیندیں حرام ہو جاتیں ہیں ،اس کے عالج
و معالجے کی خا طر ڈاکٹروں کے چکر لگاتے ہیں ۔
تعالی کو
ٰ انس سے روایت ہے کہ رسول ہللاﷺ نے ارشاد فرمایا’’:جس نے اپنے والدین کو راضی کرلیا،اس نے یقینا ً ہللا حضرت ؓ
راضی کرلیا اور جس نے اپنے والدین کو ناراض کیا،اس نے یقینا ً ہللا کو ناراض کیا‘‘۔ٓاپﷺ نے فرمایا :جتنے بھی گناہ ہیں ،ان
تعالی مٔوخرنہیں فرماتا،بلکہٰ تعالی جس کی چاہے سزا کو قیامت تک مٔوخر فرماتا،لیکن والدین کی نافرمانی کی سزا ہللا
ٰ میں سے ہللا
والدین کے نافرمان کو ہللا دنیا ہی میں جلد سزا سے دوچار فرماتا ہے۔(ابن جوزی)
دیاہے’’:وبِا ْل َوالِ َد ْی ِن ِإ ْح َ
سانًا‘‘ یعنی ان کے ساتھ انتہائی تواضع و انکساری اور ا َ حسن سلوک کا حکم
ِ تعالی نے والدین کے ساتھ
ٰ ہللا
کرام و احترام کے ساتھ پیش ٓائے ،بے ادبی نہ کرے ،تکبر نہ کرے ،ہر حال میں ان کی اطاعت کرے ۔
اسالم نے والدین کے ادب و احترام اور ان سے حسن معاشرت کی جو تعلیم دی ہے ،دنیا کے کسی مذہب میں اس کی نظیر نہیں
ملتی
ا ّم المٔومنین حضرت عا ئشہ صدیقہ رضی ہللا عنہا سے روایت ہے ،وہ فر ما تی ہیں کہ ایک شخص رسول ہللا ﷺ کی خدمت میں
حاضر ہوا ،اس کے ساتھ ایک بوڑھا ٓادمی بھی تھا ،نبی کریم ﷺ نے پوچھا کہ یہ بوڑھا کون ہے؟ اس شخص نے کہا کہ یہ میرا
باپ ہےٓ ،اپﷺ نے فرمایا :ان کے ٓاگے مت چلنا ،مجلس میں ان سے پہلے مت بیٹھنا ،ان کا نام لے کر مت پکارنا ،انہیں برا بھال
مت کہنا۔(معجم االوسط ،طبرانی)
تعالی نے فر ما
ٰ بڑھا پے میں جب والدین کی کوئی با ت نا گوار گزرے تو ان سے کیسے گفتگوکی جا ئے ،اس کے بارے میں ہللا
یا ﴿ :ان سے خوب ادب سے با ت کر نا ،اچھی بات کر نا ،لب ولہجہ میں نر می اور الفا ظ میں تو قیر و تکریم کا خیا ل رکھنا ۔
(سورۃ االسراء)
حضرت عبد ہللا بن عمر ؓو فر ما تے ہیں کہ رسول ا ہلل ﷺ نے ارشاد فر ما یا :ہللا کی رضا مندی والدین کی رضا مندی میں ہے اور
تعالی نے جہاں والدین کے ساتھ حسن سلوک کا حکم دیا ہے ،وہیں ٰ ہللا کی ناراضی ماں باپ کی ناراضی میں ہے۔ (شعب االیمان)ہللا
ان کے لیے دعا کرنے کی تعلیم بھی ارشاد فرمائی ہے؛ چناں چہ ارشاد خداوندی ہے ﴿ :اے میرے پروردگار! تو میرے والدین پر
رحم فر ما،جیسا کہ انہوں نے بچپن میں (رحمت و شفقت کے ساتھ) میری پرورش کی ہے۔(سورۃ االسراء )ہر نماز کے بعدوالدین
تعالی نے قرٓان کریم میں دی ہے ،اے میرے
ٰ کے لیے دعا کرنے کا معمول بنالیں ،دو بہت ٓاسان دعائیں جن کی تعلیم خود ہللا
پروردگار ! روزحساب تو میری ،میرے والدین کی اور تمام ایمان والوں کی بخشش فرما۔(سورۃ االبراہیم)۴۱ :
والدین کے ساتھ حسن سلوک رزق و عمر میں اضافے کا سبب ہے ،حضرت انس ؓ فر ماتے ہیں کہ حضور اقدس ﷺ نے فرمایا:
جو شخص یہ چاہتا ہے کہ ہللا اس کی عمر دراز کردے اور رزق میں اضافہ فرمائے تو اسے چاہیے کہ وہ اپنے والدین کے ساتھ
بھالئی کا معاملہ کرے اور رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔ (شعب االیمان)ایک حدیث میں حضور اقدس ﷺنے فر ما یا :
تم اپنے والدین کے ساتھ حسن سلوک کرو تمہا ری اوالد تمہارے ساتھ حسن سلوک کرے گی۔(المعجم أالوسط)
والدین یا ان میں کوئی ایک فوت ہوجائیں اور زندگی میں ان کے ساتھ حس ِن سلوک میں کوتاہی ہوئی ہو تو اس کے تدارک کا طریقہ
حضور اقدس ﷺ نے سکھایا۔حضرت ابواسید ؓ کہتے ہیں کہ ہم حضور اکرم ﷺکی خدمت میں بیٹھے تھے کہ ایک شخص ٓایا اور
عرض کیا کہ ماں باپ کی وفات کے بعد بھی کوئی چیز ایسی ہے جس کے ذریعے ان سے حسن سلوک کروں؟ توٓاپ ﷺ نے
فرمایا! ان کے لیے رحمت کی دعا کر نا ،ان کے لیے مغفرت کی دعا کر نا ،ان کے بعد ان کی وصیت کو نا فذکر نا اور اس صلٔہ
رحمی کو نبھا نا جو صرف ماں باپ کے تعلق کی وجہ سے ہو ،ان کے دوستوں کا اکرام کر نا ۔(سنن ابودأود)
مختصر یہ کہ اسالمی معاشرے میں ماں باپ کی خدمت،ان کی اطاعت و فرماں برداری اور ان سے حس ِن سلوک کو بنیادی اہمیت
حاصل ہے۔اسالم نے والدین کے ادب و احترام اور ان سے حسن معاشرت کی جو تعلیم دی ہے،دنیا کے کسی مذہب میں اس کی
نظیر نہیں ملتی۔