Professional Documents
Culture Documents
Islamic Studies
اہم سواالت
۔انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے؟1
ہر چیزکا کوئی نہ کوئی مقصد ضرور پایا جاتا ہے۔ چاہے وہ ہمارے استعمال کا کوئی قلم ہویا ہمارے پہنے کے کپڑے ،دنیا میں پائی جانے والی ہر چیز
اپنے اندر کوئی نہ کوئی مقصد ضرور رکھتی ہے! ہللا تعالی جو ہر چیز کا جاننے واال اور ہر شیئی کو دیکھنے واال ہے ،ہم کو پیدا کیا اور اس دنیا میں
ہماری تخلیق اور ہمارے بقا کا ایک مقصد متعین کیا ہے۔
قرآن مجید
آخرت
مام مسلمانوں کا حیات بعد الموت (یعنی مرنے کے بعد کی زندگی) پرایمان ہے کہ وہ دن جب وہ ہللا سبحانہ وتعالی کے روبرو حاضر کئے جائیں گے
اور ان تمام اعمال کا حساب دیں گے جو انہوں نے اپنی دنیوی زندگیوں میں کئے ہیں۔ وہ لوگ جنہوں نے دنیوی زندگی میں اپنی خواہشات کو اپنے قابو
میں رکھا اور ہللا تعالی کی فرمانبرداری میں اپنی زندگی کے شب و روز صرف کئے ،انہیں ان کے اعمال کا بدلہ دیا جائے گا اور انہیں جنت حاصل
ہوگی جہاں وہ اپنی ابدی زندگی کے ایام گذاریں گے اور وہ لوگ جنہوں نے اپنی دنیوی زندگی کے ایام ،غفلت اور الپرواہی اور ہللا تعالی کی نافرمانی
میں گذاردئے انہیں ہمیشہ ہمیش کے لئے جہنم میں جھونک دیا جائے گا۔
ق
خَل َِي ٍء قَ ِديرٌِ ،إنَّ فِي ْ ت َواَأْلرْ ِ
ض ۗ َوهَّللا ُ َعلَ ٰى ُكلِّ ش ْ اوا ِ ہللا تعالی ہمیں اپنی مقدس کتاب قرآن مجید میں نصیحت کرتے ہوئے فرما رہا ہےَ " :وهَّلِل ِ ُم ْل ُ
ك ال َّس َم َ
ت َواَأْلرْ ِ
ض َربَّنَا َما اوا ِ ق ال َّس َم َ ت ُأِّلولِي اَأْل ْلبَا ِ
ب ،الَّ ِذينَ يَ ْذ ُكرُونَ هَّللا َ قِيَا ًما َوقُعُودًا َو َعلَ ٰى ُجنُوبِ ِه ْم َويَتَفَ َّكرُونَ فِي خَ ْل ِ ف اللَّ ْي ِل َوالنَّهَ ِ
ار آَل يَا ٍ اختِاَل ِ ض َو ْ ت َواَأْلرْ ِ ال َّس َما َوا ِ
ار"(سورۃ آل عمران ،آیت)191 ،189 : ِ َّ نال اب
َ َ
ذ ع
َ َا ن ق
ِ َ ف ك
َ َ ن ا ح
َ خَ لَ ْقتَ ٰهَ َذا بَ ِ
اطاًل ُس ْب
'آسمانوں اور زمین کی بادشاہی ہللا تعالی ہی کے لئے ہے اور ہللا تعالی ہر چیز پر قادر ہے ،آسمانوں اور زمین کی پیدائش میں اور رات دن کے ہیر پھیر
میں یقینا عقلمندوں کے لئے نشانیاں ہیں ،جو ہللا تعالی کا ذکر کھڑے اور بیٹھے اور اپنی کروٹوں پر لیٹے ہوئے کرتے ہیں اور آسمانوں و زمین کی
پیدائش میں غور وفکر کرتے ہیں اور کہتے ہین اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائدہ نہیں بنایا ،تو پاک ہے پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچالے۔'
قرٓان پاک ایک مک ّم ل ضابطٔہ حیات ہے ،جس میں زندگی کے ہر شعبے سے متعلق علم وحکمت کے اسرار پوشیدہ ہیں ،لیکن اُن اسرار و رموز تک صرف
ٓان پاک میں بیان کیا گیا ــ کہ’’ کیا تم غور نہیں کرتے‘‘ اس ٓایت کے
ب علم و حکمت ہی پہنچ سکتے ہیں۔ ایسے ہی رازوں کو جاننے کے لیے قر ِ
صاح ِ
ذریعے ہّللا پاک اپنے بندوں کو غور و فکرکی دعوت دیتا ہے ،تاکہ وہ اس پر عمل پیرا ہوکر ٓاگہی وشعورحاصل کر سکیں۔ یہاں ایک بات کا ذکر ضروری
ہے کہ کسی مخصوص شعبے سے متعلق تعلیم حاصل کرلینا ہی علم نہیں ،علم بہت وسیع معنی رکھتا ہے۔ اسی لیے علم کی پیاس کبھی نہیں بجھتی ،جیسے
جیسے انسان علم کے سمندر میں غوطہ زن ہوتاچال جاتا ہے ،ویسے ویسے ِعلم کی تشنگی بھی بڑھتی اور فکر میں وسعت پیداہوتی جاتی ہے۔تعلیم کے بغیر
انسان کے عقل و شعور میں ادراک کی ق ّوت نہیں ہوتی۔
بـڑـیـ عـمـاـرـتـیـںـ بـنـاـنـےـ لـگـیـںـ (ـاـوـرـ اـنـ پـرـ اـتـرـ اـنـےـ لـگـیـںـ ،ـ تـوـ سـمـجـھـ لـوـ کـہـ قـیـاـمـتـ قـرـیـبـ ہـےـ)ـ ۔ـ(ـاـسـ اـسـتـفـسـاـرـکـےـ بـعـدـ)ـوـہـ شـخـصـ (ـاـجـاـزـتـ لـےـ کـرـ )ـ
رـخـصـتـ ہـوـگـیـاـ۔ـ مـیـںـ کـچـھـ دـیـرـ وـہـیـںـ رـہـاـ ۔ـ تـوـ حـضـوـرـ نـےـ مـجـھـ سـےـ پـوـچـھـاـ ،ـاـےـ عـمـرـ!ـ تـمـہـیـںـ خـبـرـ ہـےـ کـہـ سـوـاـلـ کـرـنـےـ وـاـالـ وـہـ شـخـصـ کـوـنـ تـھـاـ؟ـ
مـیـںـ نـےـ عـرـضـ کـیـاـ۔ـ ہللاـ اـوـرـ اـسـ کـاـ رـسـوـلـ ہـیـ بـہـتـرـ جـاـنـتـےـ ہـیـںـ ۔ـٓاپـ نـےـ فـرـمـاـیـاـ :ـ وـہـ جـبـرـاـئـیـلـ تـھـےـ اـوـرـ تـمـہـاـرـیـ اـسـ مـجـلـسـ مـیـںـ اـسـ لـیـےـ ٓائـےـ
استحسان عربی زبان کا لفظ ہے ،اسکا مادہ اصلی’’حسن‘‘ ہے۔باب استفعال سے حسن کا مصدر ’’استحسان‘‘ بنتا ہے۔عربی لغت میں استحسان کامطلب کسی
چیز کو خاص خوبی کی بنا پر اچھا سمجھنا ہے۔فقہ اسالمی کے دبستان حنفی میں استحسان کو ایک اہم اور ضمنی ماخذ قانون کے طورپر تسلیم کیا گیا ہے۔
فقہ کے مطالب سوجھ بوجھ،درک اور افہام کے ہیں،فقہ اسالمی سے مراد اسالمی قوانین ہیں۔اسالمی قوانین کے چار ماخذین پر امت کا ہمیشہ سے اجماع رہا
ہے۔یہ ماخذین بالترتیب اس طرح ہیں:کتاب اﷲ،سنت رسول اﷲ ﷺ ،اجماع امت اور قیاس شرعی۔اصولیین نے ان تمام ماخذین سے قانون اخذ کرنے کے
متعدد طرق مرتب کیے ہیں۔فقہ اسالمی کے چوتھے اہم ماخذ قیاس شرعی سے قوانین حاصل کرنے کا ایک طریقہ استحسان بھی ہے۔
شارع نے اجتہاد کا دروازہ کھال چھوڑا ہے جس کا نتیجہ یہ ہے کہ اسالمی قانون کی رگوں میں ہر دور میں نیا خون شامل ہوتا رہا ہے۔نئے پیش آنے والے
مسائل پر ماہرین علوم اسالمیہ فکروبحث کرتے ہیں اور انکے متعددـ حل تجویز کرتے ہیں۔’’مسائل کو حل کرنے والی متعدد آراء میں سے کسی ایک کو
‘‘معقول دلیل کی وجہ سے دیگر پر ترجیح دینا استحسان کہالتا ہے۔
:استحسان کی مختلف تعریفیں کی گئی ہیں
قطع المسئلہ عن نظائرھابما ھو قوی ۔کسی مسئلہ کو قوی وجہ سے اسکے نظائر سے الگ کر لینا۔)1
العدول عن قیاس الی قیاس اقوی العدل فی مسئلہ عن مثل ما حکم بہ فی نظائرھا ابی خالفۃ بوجہ ھو اقوی۔ایک قیاس چھوڑ کر اس سے زیادہ قوی قیاس )2
اختیار کرنا،مسئلہ کے نظائرمیں جو حکم موجود ہے کسی قوی وجہ سے اسکو چھوڑ کر اسکے خالف حکم لگانا۔
اجود تعریف االستحسان العدول بحکم المسئلہ عن نظائرھا لدلیل الشرعی۔استحسان کی سب سے بہتر تعریف یہ ہے کہ کسی مسئلہ کے فیصلے میں اسکے )3
نظائر کو دوسری دلیل شرعی کی بنا پر چھوڑ دینا۔
العدول بالمسئلہ عن حکم نظائرھاالی حکم آخر بوجہ اقوی ۔۔۔۔۔۔۔۔ھذالعدول۔کسی مسئلہ میں اسکے نظائر سے قطع نظر کر کے کسی دوسرے حکم کو کسی )4
فوری وجہ کی بنا پر دلیل بنا کر کوئی حکم لگانے کو استحسان کہتے ہیں۔
االستحسان طلب السہولہ فی االحکام فیما یبتلی فیہ الخاص والعام۔استحسان ان صورتوں میں سہولت طلب کرتا ہے جن میں خاص و عام سب مبتال ہیں۔)5
جب کسی مسئلہ میں قیاس سے زیادہ قوی دلیل موجود ہویعنی قرآن یا سنت کی نص یا اجماع تو فقہا نے صریح قیاس ترک کر کے زیادہ قوی دلیل کے )6
مطابق فتوی دیا ہے اور یہی استحسان کا مفہوم ہے۔
مسائل کا حل بالعموم قیاس ہی سے حاصل ہوجاتا ہے لیکن بعض دفعہ قیاس اصول عامہ سے ٹکرا جاتا ہے،ایسے میں بعض فقہا اصول عامہ کو اختیار )7
کرتے ہیں اور اسے ہی استحسان کہتے ہیں۔
ائمہ ارنبعہ میں سے امام شافعی ؒکے عالوہ تمام ائمہ کرام،استحسان کی حجیت پر متفق ہیں،قلیل اختالف صرف تعبیرات میں پایا جاتا ہے،جن سے فرار
شافعی استحسان کی سخت مخالفت کرتے ہیں۔انہوں نے کتاب االم میں اس پر طویل بحث کی ہے اور ایک رسالہ ’’الرد علی االستحسان ‘‘ ؒ ممکن نہیں۔امام
لکھا،جس میں کہ استحسان کی تردید میں دالئل نقل کیے ہیں۔امام شافعی ؒ کتاب االم میں ایک جگہ لکھتے ہیں’’جب مجتہد استحسان کرتا ہے تو وہ گویا اپنی
سوچ سے ایک بات اختراع کرتا ہے اور اس پر قیاس کرتا ہے جبکہ اسے اپنی سوچ کی اتباع کا حکم نہیں دیا گیا‘‘۔استحسان کے قائلین اس بات
کاانکارکرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مجتہدکاقیاس اور استحسان کسی خاص دلیل شرعی کی بنا پر ہوتا ہے۔
استحسان کواس مثال سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے کہ امانت کی واپسی کے لیے ضروری ہے وہی مال ہو جو دیا گیا تھا۔اگر ایک شخص ایک ہزار کا
نوٹ امانتا َ دے کر کچھ عرصے بعد واپسی کا تقاضا کرتا ہے تو الزم ہے کہ وہی نوٹ لوٹایا جائے جو ادا کیا گیا تھا،لیکن استحسان یہ ہے کہ کوئی اور نوٹ
یا ایک سے زائد نوٹ جن کی مالیت ایک ہزار کے برابر ہو ،کی ادائگی سے امانت ادا ہو جائے گی۔امانت میں استحسان کے اس اصول کے تحت ہی
بنک،منی آرڈراور مالیتی اداروں کے دیگر معامالتـ چالئے جا سکتے ہیں۔
گویا مسائل کے آسان حل کی طرف رغبت ہی استحسان ہے۔اس سے عامۃ المسلمین کو سہولت ہوتی ہے اور دین میں آسانی کا عنصر پروان چڑھتا ہے۔اسی
:خوبی کی طرف قرآن مجید نے بھی درج ذیل آیات میں اشارہ کیا ہے
اﷲ تعالی کسی کو اسکی برداشت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتا۔Oالیکلف اﷲ نفسا َ اال وسعھا)1
اﷲ تعالی تمہارے لیے آسانی چاہتا ہے مشکل نہیں چاہتا۔Oیرید اﷲ بکم الیسر وال یرید بکم العسر)2
اﷲ تعالی نے تمہارے لیے دین میں کوئی تنگی نہیں رکھی۔Oماجعل علیکم فی دین من حرج)3
اپنی قوم کو حکم دیجئے کہ احسن امور اختیار کریں۔Oوامر قومک یاخذوا باحسننا)4
میرے ان بندوں کو خوشخبری دے دیجئے کہ وہ جو بات سنتے ہیں اس میں سے احسن کی اتباع کرتے Oفبشر عبادالذین یستمعون القول فیتبعون احسنہ)5
ہیں۔
محسن انسانیت ﷺ کا طرز عمل بھی آسانی اور سادگی کا آئینہ دار تھا،آپ ﷺ کے الفاظ سادہ اورآسان ہوتے ،وعظ مختصر اور سبق آموز ہوتا،زیادہ
سواالت کرنے سے اس لیے روکا گیا کہ اس سے مشکالت بڑھنے کا اندیشہ تھا۔ایک روایت کے مطابق آپ ﷺْ نے فرمایا’’یسر وال تعسربشر وال
تنفر‘‘ترجمہ:آسانی پیداکرو مشکل میں نہ ڈالو،اچھی خبر دو متنفر نہ کرو،ایک اور موقع پر آپ ﷺ نے فرمایا ’’جسے مسلمان اچھا سمجھیں وہ اﷲ تعالی
کے نزدیک بھی اچھا ہے‘‘۔
حضرت عمر ؓکے پاس ایک عورت کی میراث کا مسئلہ پیش کیا گیا جس نے اپنے ورثا میں شوہر،والدہ،دو سگے بھائی اور دو ماں شریک بھائی چھوڑے
تھے۔قانون وراثت کے مطابق شوہر کونصف،والدہ کو چھٹا اور ماں شریک بھائیوں کو تہائی حصہ ملتا ۔قیاس کے مطابق اس تقسیم کے بعد کچھ نہ بچتا کہ
عمر نے قیاس ترک کر کے تو سگے بھائیوں کو ماں شریک بھائیوں میں شامل کیا اور
سگے بھائیوں کو دیا جائے جبکہ ان کا رشتہ مضبوط تر تھا۔حضرت ؓ
ایک تہائی ان سب میں تقسیم کر دیا ۔اسی طرح ترکہ میں پوتے کی وراثت کے بارے میں جو حل پیش کیے گئے وہ سب استحسان پر منبی ہیں۔
فقہ اسالمی میں جن قواعد کو پیش نظر رکھا گیا ہے ان میں سے بیشتر کے راستے کا اہم سنگ میل استحسان ہی ہے اور اسکی وجہ شریعت اسالمی کا وہ
:مجموعی مزاج ہے جس میں آسانی اور سہولت کا عنصر نمایاں ہے،فقہا کے چند قائدے مالحظہ ہوں جو زبان زدعام ہیں
ال ضرر وال ضرار:نقصان اٹھاؤ نہ نقصان پہنچاؤ۔(بعض روایات کے مطابق یہ حدیث نبویﷺْ کے الفاظ بھی ہیں))1
الضرورات تبیع المحظورات:ضروریات ،ممنوعات کو مباح کر دیتی ہیں(یعنی ضرورتیں ناجائز چیزوں کو بھی جائز کر دتیں ہیں))2
المشقۃ تجلب التیسیر:مشقت سہولت کی طالب ہے۔(یعنی مشقت آسانی مہیا کرتی ہے))3
استحسان کے لیے اکثر اصولیین ’’قیاس خفی‘‘کی اصطالح بھی استعمال کرتے ہیں۔دراصل قیاس کی دو اقسام ہیں،قیاس جلی یا قیاس ظاہر اور قیاس خفی۔
قیاس جلی وہ ہے جس کی طرف ذہن جلد ہی منتقل ہو جاتا ہے اور قیاس خفی وہ ہے جس کے لیے دقت نظر اور عمیق غوروفکر کی ضرورت ہو۔بعض
اوقات قیاس جلی کے مقابل کتاب و سنت ،اجماع اور ضرورت بھی ہوتی ہے،ان صورتوں میں بھی استحسان کا لفظ بوال جاتا ہے اور اس وقت اسکی تعریف
یوں کی جاتی ہے ’’کل دلیل فی مقابلۃ القیاس الظاہر نص اواجماع اوضرورۃ‘‘ہر ایسی دلیل کا نام استحسان ہے جو قیاس ظاہر کے مقابل ہو خﷺاہ نص ہو یا
اجماع ہو یا ضرورت۔
:اس طرح قیاس ظاہر سے ثابت ہونے والے حکم کو چار بنیادوں پر ترک کیا جا سکتا ہے
پہلی بنیاد :نص
دوسری بنیاد :اجماع
تیسری بنیاد :ضرورت
چوتھی بنیاد :قیاس خفی
ان سب پراستحسان کالفظ استعمال ہوتا ہے،لیکن بحث چونکہ اصولی نہیں استعمالی اس لیے فقہا اس طرف زیادہ توجہ نہیں دیتے اور قیاس خفی کو ہی
استحسان قرار دے لیتے ہیں۔
:احناف کے نزدیک استحسان کی دو بڑی قسمیں ہیں
بنطابق قیاس استحسان)1
خالف قیاس استحسان)2
بمطابق قیاس استحسان وہ قیاس ہے جس کے اثرات اس قدر زبردست ہوں کہ اپنے مخالف قیاس جلی پر غالب آجائے ۔بمطابق قیاس استحسان دراصل بہت
سے قیاسات کے درمیان ایک قیاس کو ترجیح دینے کا نام ہے،خاص طور پر اس وقت جب ایک ہی مسئلے کی متعددصورتیں باہم متعارض ہوں۔
:جب قیاس اور استحسان کا مقابلہ دلیل کی قوت کے اعتبار سے ہو تو اسکی چار قسمیں بنتی ہیں
قیاس اور استحسان دونوں قوی ہوں۔)1
دونوں ضعیف ہوں۔)2
قیاس قوی اور استحسان ضعیف ہو۔)3
استحسان قوی اور قیاس ضعیف ہو۔ )4
ان صورتوں میں ترجیح اسے حاصل ہو گی جس میں قوت پائی جائے گی چنانچہ صرف چوتھی صورت میں قائدے کے مطابق استحسان کو ترجیح ہو گی۔
فقی کی کتابوں میں اکثر مقامات پر یہ عبارت نظر آتی ہے کہ ’’ناخذ باالستحسان وترکنا القیاس‘‘ہم نے قیاس چھوڑ دیا اور استحسان اختیار کر لیا۔
:جب قیاس اور استحسان کا مقابلہ دلیل کی صحت کے اعتبار سے ہو تواسکی بھی چار قسمیں بنتی ہیں
استحسان و قیاس دونوں کے ظاہروباطن صحیح ہوں۔)1
دونوں کے ظاہرو باطن فاسد ہوں۔)2
قیاس کا ظاہر فاسد ہواور استحسان کاباطن صحیح ہو۔)3
استحسان کاباطن فاسدہواورقیاس کا باطن صحیح ہو۔)4
:قیاس کی چار قسموں کو استحسان کی چار قسموں سے ضرب دینے سے سولہ اقسام بنتی ہیں چنانچہ
اصول نمبر 1۔جس قیاس کا ظاہروباطن دونوں صحیح ہوں اسکو دلیل کی صحت کے لحاظ سے استحسان کی تمام صورتوں پر ترجیح حاصل ہو گی۔
اصول نمبر2۔جس قیاس کا ظاہروباطن فاسد ہوگا وہ قبول نہ ہو گا۔
اصول نمبر 3۔جس استحسان کاظاہرو باطن صحیح ہواسکو اس قیاس پر ترجیح ہوگی جس کا ظاہر صحیح اور باطن فاسد ہو یا ظاہر فاسداور باطن صحیح ہو۔
اصول نمبر 4۔جس استحسان کا ظاہروباطن دونوں فاسد ہوں وہ مردودہوگا۔
:اس طرح باہمی تعارض کے نتیجے میں سولہ میں سے چار صورتیں باقی رہیں گی
استحسان کاظاہر صحیح اور باطن فاسد اور قیاس کا ظاہر فاسد اور باطن صحیح۔)1
استحسان کاظاہرفاسداورباطن صحیح اور قیاس کا ظاہر صحیح اورباطن فاسد)2
استحسان کا ظاہر صحیح اور باطن فاسد اور قیاس کا ظاہر صحیح اور باطن فاسد)3
استحسان کاظاہرفاسداورباطن صحیح اور قیاس کا ظاہرفاسداورباطن صحیح)4
ان چاروں میں سے صرف دوسری صورت میں استحسان کوترجیح ہو گی باقی تمام صورتوں میں قیاس کو ہی ترجیح دی جائے گی۔
استحسان قیاس کی مثال یوں دی جاسکتی ہے کہ اگر زید کی اجازت کے بغیر بکر نے زید کا قرض ادا کر دیا تویہ بکر کی طرف سے زید کے لیے ہدیہ یا
عطیہ سمجھا جائے گا،اب بکر کو اس مطالبے کا حق حاصل نہ ہوگا۔اس اصول کی روشنی میں اگر ایک فرد دوسرے کو ڈالرزدے کہ میرے بیوی بچوں پر
خرچ کرنا اورخرچ کرنے واال ڈالروں کی بجائے روپے خرچ کرے اورڈالرز اپنے پاس محفوظ رکھے تو قانون کی رو سے وہ خرچ ہدیہ،تحفہ یا عطیہ
سمجھا جائے گااور ڈالرز کی واپسی واجب االدا ہوگی ،یہ قیاس ظاہر ہوا۔جبکہ استحسان کی رو سے ڈالرز کی مالیت کے برابر روپوں کے خرچ سے ڈالرز
کی ادائگی ہو چکی چنانچہ مالی معامالتـ میں دقت سے بچنے کے لیے یہاں استحسان کا حکم لگایا جائے گا۔
گویاقیاس جلی کی طرح قیاس خفی(استحسان )سے بھی فقہااسنتباط کرتے ہیں اور اسکو قیاس کی ہی ایک قسم کہتے ہیں۔جس طرح قیاس جلی میں اشتراک
علت کی بنا پرایک کا حکم دوسرے پر لگایا جاتا ہے اس طرح استحسان میں علت دقیق کے اشتراق کی صورت میں ایک کا حکم دوسرے پر ثابت کیا جاتا
ہے،جس طرح مذکورہـ مثال میں روپے کا حکم ڈالرز پر ثابت کیا گیا،مارکیٹ میں ان کے چلن کی علت دقیق کے اشتراک کے باعث۔
:ایسا قیاس جو استحسان کے خالف ہو اسے ’’خالف قیاس استحسان ‘‘کہا جاتا ہے،اسکی تین قسمیں ہیں
استحسان بالنفس)1
استحسان باالجماع)2
استحسان بالضرورۃ)3
استحسان بالنفس:بعض معامالتـ میں شارع نے خود استحسان کیا ہے،اسکی متعدد امثال کتاب اﷲ تعالی اور سنت رسول اﷲ ﷺْ میں موجود ہیں،ایسا
استحسان ’’استحسان بانفس‘‘کہالتا ہے۔مثالَ
استحسان بالقرآن:مرنے کے قریب وصیت نامہ لکھنا۔
استحسان بالسنۃ:بیع السلم،یعنی قیاس کی رو سے کسی معدومـ چیز کا سودا ممنوع ہے،لیکن خالف قیاس آپ ﷺ نے اسکی اجازت مرحمت فرمائی اور ارشاد
فرمایا’’جو بیع سلم کو اختیار کرے تو وہ مال کا اندازہ کر لے اور مدت مقرر کر کے کسی سے معاملہ کرے‘‘۔روزہ دار کا بھول کر کھا لینے سے قیاس
کے مطابق روزہ ٹوٹ گیا لیکن حدیث نبوی ﷺ کے مطابق نہیں ٹوٹا یہ ’’خالف قیاس استحسان ‘‘ہے جو سنت نبویﷺ سے ثابت ہے۔
استحسان باالجماع:یعنی اجماع کی وجہ سے قیاس کو ترک کر دینا۔فقہ حنفی میں مصالحہ مرسلہ اور فقہ حنبلی میں استصحاب اور استصالح کے ذیل کی
،امثال اسی قبیل سے تعلق رکھتی ہیں جہاں فالح عامہ کی خاطر قیاس کو ترک کر دیا جاتا ہے
استحسان بالضرورۃ:ضرورت کو معیار بنا کرقیاس ترک کر دینا اور اس سے کوئی مفید پہلو اختیارکرنا ’’استحسان بالضرورۃ ‘‘ہے۔اسکی مثال کوئیں میں
نجاست کا گر جانا ہے،جس کے بعد قیاس کا تقاضا تھا کہ سارا پانی نکال لیا جاتالیکن ’’استحسان بالضرورۃ‘‘کے تحت کوئی خاص مقدار میں پانی کے
اخراج سے کوئیں کا پاک ہو جانا ہے۔
اسالم اگر دین جامد ہوتا تو زمانے کے نہ ختم ہونے والے صحرا میں وقت کی تیز رفتار آندھیوں سے بہت پیچھے ہڈیوں کے ڈھانچے کی مانند ناکام مسافر
کا پتہ دیتا یا پھر دیگر مذاہب کی طرح اسکے ماننے والے مردہ الش کو اپنے کندھوں پر اٹھائے لیے کسی ایسی قبر کے گڑھے کی تالش میں ہوتے جس
کے تعویز پر لگی تعارفی سل آئے دن مردہ کی تاریخ وفات کو تازہ کرتی رہے جو کہ ناممکنات عالم میں سے ہے۔دین اسالم کی یہی خوبی کہ اسکے اندر
انسانی رویوں کو سہولت بہم پہنچانے کے لیے بہت گنجائش موجود ہے ،اسکو ہنوززندہ رکھے ہوئے ہے۔اس اندھیری دنیا کو صبح ہدایت سے روشناس
کرانے والے سورج کی ایک ٹھنڈی کرن ’’استحسان ‘‘بھی ہے۔
۔عباد الرحمن کی نشانیاں تحریر کریں5
تعالی کے تمام بندے شامل ہیں خواہ وہ ایمان کی حالت میں ہوں یا نہیں ٰ باد کا لفظ عبد سے نکال ہے جس کا مطب بندے کا ہے اس میں ہللا
تعالی کی صفت مبالغہ ہے مطب کہ بہت بہت زیادہ رحم فرمانے واال ہے ایسا مہربان کہ اس نے ٰ الرحمان ر۔ح۔م یعنی رحم کے مادے سے نکال ہے یہ ہللا
اپنی عطا کے دروازے کھول رکھے ہیں بس اس کو راضی رکھنے اور لینے کا سلیقہ آنا چاہئیے
تعالی نے اپنے خاص بندوں کے لیے مختص کیا ہے جو بڑے نصیب والوں کو ہی ملتا ہے مگر اسکی کچھ ٰ ٰ
الرحمن وہ خاص درجہ ہے جو ہللا مگر عباد
تعالی کے سامنے سر تسلیم خم کرتے ہیں ٰ ٰ
تعالی نے فرمایا ان میں شامل ہیں جو ہللا صفات ہیں جن کا ذکر ہللا
- Ayat No 131سورة البقرة Surat No 2 :
ت ِلرَبِّ ۡال ٰعلَ ِم ۡینَ ﴿۱۳۱
ال لَ ٗہ َرب ُّٗۤہ اَ ۡسلِمۡ ۙ قَا َل اَ ۡسلَمۡ ُ
﴾اِ ۡذ قَ َ
جب کبھی بھی انہیں ان کے رب نے کہا ،فرمانبردار ہو جا ،انہوں نے کہا ،میں نے رب العالمین کی فرمانبرداری کی ۔
سورۃ الحجرات قرآن مجید کی 49ویں سورت جو حضرت محمد ﷺ کی مدنی زندگی میں نازل ہوئی۔ اس سورت میں 2رکوع اور 18آیات ہیں۔سورۃ
الحجرات کےمضامینـ اورتفاسیر بالماثور کےمطالعہ سے پتہ چلتاہے کہ سورۃ الحجرات ایک ہی دفعہ نازل نہیں کی گئی بلکہ حسب ضرورت اس کانزول
کئی حصوں او رمختلف اوقات میں ہوا اس سورت کااجمالی موضوع اہل ایمان اورمسلمانوں کے ان امور کی اصالح ہے جن کا تعلق ان کے باہمی معامالتـ
او رمجمتع اسالمی سے ہوتاہے۔ ابتدائی پانچ آیتوں میں ان کو وہ ادب سکھایا گیا ہے جو انہیں ہللا اور اس کے رسول کے معاملے میں ملحوظ رکھنا چاہیے۔
پھر یہ ہدایت دی گئی ہے کہ ہر خبر پر یقین کر لینا اور اس پر کوئی کارروائی کر گزرنا مناسب نہیں ہے۔ اگر کسی شخص یا گروہ یا قوم کے خالف کوئی
اطالع ملے تو غور سے دیکھنا چاہیے کہ خبر ملنے کا ذریعہ قابل اعتماد ہے یا نہیں۔ قابل اعتماد نہ ہو تو اس پر کارروائی کرنے سے پہلے تحقیق کر لینا
چاہیے کہ خبرصحیح ہے یا نہیں۔ اس کے بعد بتایا گیا ہے کہ اگر کسی وقت مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو اس صورت میں دوسرے مسلمانوں
کو کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ پھر مسلمانوں کو ان برائیوں سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے جو اجتماعی زندگی میں فساد برپا کرتی ہیں اور جن کی
وجہ سے آپس کے تعلقات خراب ہوتے ہیں۔ ایک دوسرے کا مذاق اڑانا ،ایک دوسرے پر طعنـ کرنا ،ایک دوسرے کے برے برے نام رکھنا ،بد گمانیاں
کرنا ،دوسرے کے حاالت کی کھوج کرید کرنا ،لوگوں کو پیٹھ پیچھے ان کی برائیاں کرنا ،یہ وہ افعال ہیں جو بجائے خود بھی گناہ ہیں اور معاشرے میں
تعالی نے نام بنام ان کا ذکر فرما کر انہیں حرام قرار دے دیا ہے۔ اس کے بعد قومی اور نسلی امتیازات پر ضرب لگائی گئی ہے ٰ بگاڑ بھی پیدا کرتےہیں۔ ہللا
جو دنیا میں عالمگیر فسادات کے موجب ہوتے ہیں۔ قوموں اور قبیلوں اور خاندانوں کا اپنے شرف پر فخر و غرور ،اور دوسروں کو اپنے سے کمتر
تعالی نے ایک
ٰ سمجھنا ،اور اپنی بڑائی قائم کرنے کے لیے دوسروں کو گرانا ،ان اہم اسباب میں سے ہے جن کی بدولت دنیا ظلم سے بھر گئی ہے۔ ہللا
مختصر سی آیت فرما کر اس برائی کی جڑ کاٹ دی ہے کہ تمام انسان ایک ہی اصل سے پیدا ہوئے ہیں اور قوموں اور قبیلوں میں ان کا تقسیم ہونا تعارف
کے لیے ہے نہ کہ تفاخر کے لیے ،اور ایک انسان پر دوسرے انسان کی فوقیت کے لیے اخالقی فضیلت کے سوا اور کوئی جائز بنیاد نہیں ہے۔ آخر میں
دعوی نہیں ہے بلکہ سچے دل سے ہللا اور اس کے رسول کو ماننا ،عمالً فرمانبردار بن کر رہنا ،اور ٰ لوگوں کو بتایا گیا ہے کہ اصل چیز ایمان کا زبانی
خلوص کے ساتھ ہللا کی راہ میں اپنی جان و مال کھپا دینا ہے۔ حقیقی مومن وہی ہیں جو یہ روش اختیار کرتے ہیں۔ رہے وہ لوگ جو دل کی تصدیق کے
بغیر محض زبان سے اسالم کا اقرار کرتے ہیں اور پھر ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں کہ گویا اسالم قبول کر کے انہوں نے کوئی احسان کیا ہے ،تو دنیامیں
ان کا شمار مسلمانوں میں ہو سکتا ہے ،معاشرے میں ان کے ساتھ مسلمانوں کا سا سلوک بھی کیا جا سکتا ہے ،مگر ہللا کے ہاں وہ مومن قرار نہیں پا
االعلی مودودی � کی تصیف ہے جسے ٰ سکتے۔ زیر تبصرہ کتاب ’’ اسالم کے معاشرتی آداب ‘‘ عالم اسالم کے عظیم اسالمی اسکالر مفسر قرآن سید ابو
انہوں نے سورۃ الحجرات کی روشنی میں انتہائی عام فہم انداز میں عامۃ الناس کے لیے مرتب کیا تھا۔یہ کتاب دراصل ان کی تفسیر ’’ تفہیم القرآن ‘‘ سے
اخذ شدہ جسے عامۃ الناس کے استفادے کے لیے اسالمک سروسز سوسائٹی نے الگ سے شائع کیا گیا ہے ۔ (راسخ)
:ترجمہ :ہللا کا دین آسمان اور زمین میں ایک ہی ہے اور وہ دین اسالم ہے۔ جیسا کہ ہللا تعالیٰ کا ارشاد ہے
:کہ جو شخص اسالم کے عالوہ کوئی اور دین اختیار کرے گا تو وہ اس سے قبول نہیں کیا جائے گا۔ مزید ارشاد ہے
:شرح
دین اسالم ہی برحق دین ہے ،اس کے عالوہ کوئی دین قبول نہیں کیا جائے گا۔ آج یہودی اور عیسائی اپنے اپنے دین کی دعوت دیتے ہیں اور اسے برحق
سمجھتے ہیں جبکہ ہم مسلمان دین اسالم کی دعوت دیتے ہیں جو یقینا ً برحق ہے۔ کسی بھی دین کی دوسرے ادیان پر ترجیح اور فوقیت ثابت کرنے کے لیے
چار باتوں کو دیکھا جائے گا۔ جو دین ان چار باتوں پر پورا اترے تو وہی قابل قبول اور سب کے لیے الئق عمل ہو گا اور اسی کی دعوت دینا بھی درست ہو
:گا۔ وہ چار باتیں یہ ہیں
!اس دین کے نبی کا اعالن ہو کہ میں سب کا نبی ہوں ،اس لیے میرا کلمہ پڑھو (1):
اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی کا کلمہ نجات کے لیے پڑھا جاتا ہے۔ اگر بروز قیامت اعمال میں کوتاہی کی وجہ سے عذاب جہنم کا خدشہ ہو تو شفاعت وہی نبی
کرے گا جس کے کہنے پر انسان نے کلمہ پڑھا ہو۔ ایسا نہ ہو کہ انسان شفاعت کی امید رکھے اور وہ نبی کہے کہ میں نے تو تمہارے لیے نبوت کا اعالن
نصاری کے نبی کا دائرہ محدود تھا جو خاص قوم اور مخصوص عالقوں پر مشتمل تھا لیکن ٰ ہی نہیں کیا تھا بلکہ میری نبوت کا دائرہ تو محدود تھا۔ یہود و
ہمارے پیغمبر کا دائرہ نبوت محدود نہیں بلکہ ہمارے نبی حضرت محمد رسول ہللا صلی ہللا علیہ وسلم کی نبوت تمام لوگوں کے لیے عام ہے اور آپ صلی
ہللا علیہ وسلم کا اعالن ہے کہ میں سب کا نبی ہوں۔
․﴾قُلْ ٰ ٓياَيُّهَا النَّاسُ اِنِّ ْي َرسُوْ ُل هللاِ اِلَ ْي ُك ْم َج ِم ْيعًا﴿
)االعراف(158 :
ترجمہ( :اے پیغمبر) کہہ دیجیے! اے لوگو میں تم سب کی طرف ہللا کا رسول بنا کر بھیجا گیا ہوں۔
ق كَافَّةً
خَل ِ .وُأرْ ِس ْل ُ
ت ِإلَى ْال ْ َ
اس کی وجہ یہ ہے کہ لوگ ایک نبی کا کلمہ پڑھ لیں اور دوسرا نبی آ جائے تو اب ال محالہ دوسرے نبی کا کلمہ پڑھنا پڑے گا۔ تو جب تک وہ نبی آخری نہ
ہو یہ خدشہ بہر حال رہے گا کہ اس نبی کی تعلیمات منسوخ ہوتی ہیں یا باقی رہتی ہیں؟! اس لیے آج کے دور میں اس نبی کو دیکھیں جو آخری ہو تاکہ یہ
خدشہ ہی ختم ہو جائے اور ایسا نبی صرف ہمارے نبی پیغمبر اسالم حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم ہیں۔
َ ﴾.ما َكانَ ُم َح َّم ٌد َأبَا َأ َح ٍد ِّم ْن رِّ َجالِ ُك ْم َو ٰل ِك ْن َّرسُوْ َل هللاِ َو َخاتَ َم النَّبِ ٖيّنَ ۭ َو َكانَ هللاُ بِ ُكلِّ ش ْ
َي ٍء َعلِ ْي ًما﴿
)االحزاب(40:
ترجمہ :محمد(صلی ہللا علیہ وسلم )تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں لیکن ہللا کے رسول اور آخری نبی ہیں ا ور ہللا تعالیٰ ہر چیز کو جاننے
والے ہیں۔
ترجمہ :میں خاتم النبیین ہوں ،میرے بعد کوئی نبی پیدا نہیں ہو گا۔
ب ِّم َّما نَ َّز ْلنَا ع َٰلى َع ْب ِدنَا فَاْتُوْ ا بِسُوْ َر ٍة ِّم ْن ِّم ْثلِ ٖه َوا ْد ُعوْ ا ُشهَد َۗا َء ُك ْـم ِّم ْن ُدوْ ِن هللاِ اِ ْن ُك ْنتُ ْم ٰ
ص ِدقِيْنَ ﴿ ﴾واِ ْن ُك ْنتُ ْم فِ ْي َر ْي ٍ
َ
)البقرۃ(23 :
ترجمہ :اگر تم اس قرآن کے بارے میں ذرہ بھی شک میں ہو جو ہم نے اپنے بندے پر نازل کیا ہے تو اس جیسی کوئی ایک سورت بنا الؤ اور اگر سچے ہو
تو ہللا کے سوا اپنے سارے مددگار بال لو۔
تعالی کی جانب سے ہے اور نبی کی سچائی پر دلیل ہے۔ کیونکہ ضابطہ ٰ جب امت قرآن مجید کی مثل النے سے عاجز ہے تو یہ دلیل ہے کہ قرآن مجید ہللا
تعالی کی طرف سے ہوتی ہے۔
ٰ ہے کہ جس چیز کی مثل انسان نہ بنا سکیں تو وہ چیز ہللا
اس کی وجہ یہ ہے کہ نبی پر ایمان الیا جاتا ہے تاکہ نبی کی الئی ہوئی شریعت پر نبی کے بتائے ہوئے طریقے کے مطابق عمل کر سکیں۔ جب نبی کی
الئی ہوئی تعلیمات اور ان کے مطابق اس نبی کا طریقہ ہی موجود نہ ہو تو اس نبی کا کلمہ پڑھنے واال شخص عمل کیسے کرے گا؟! اور آج اگر کسی نبی
کی تعلیمات ہیں تو وہ صرف ہمارے نبی حضرت محمد صلی ہللا علیہ وسلم ہیں۔
ان چار باتوں سے معلوم ہوا کہ آج دین اسالم ہی برحق دین ہے۔