You are on page 1of 14

‫‪ANS 01‬‬

‫‪ .5‬جاوید نامہ‬ ‫‪ .4‬ب ان گ درا‬ ‫‪1915 .3‬‬ ‫ید ‪ .2‬نادر شاہ‬ ‫‪ .1‬عالمہ س‬
‫سیلمان‬
‫‪ .10‬دعوت پر‬ ‫‪ . .9‬گوئٹے‬ ‫‪ .8‬نظم‬ ‫‪ .6‬غلَ ط تھ ا اے ‪5 .7‬‬
‫جُن وں ش اید ت را‬
‫اندازۂ صحرا‬
‫‪ .15‬انگلستان‬ ‫‪1927 .14‬‬ ‫‪ .13‬جاوید نامہ‬ ‫‪ .12‬مصر‬ ‫‪Galvanized .11‬‬
‫‪ .19‬نظمیں مختص ر ‪ .20‬بن ا حس ین کے‬ ‫‪ 3 .17‬بار اور ‪ 4‬سال ‪7 .18‬‬ ‫‪ .16‬مدینہ‬
‫ہے قافلہ‬ ‫ہیں۔‬
‫تیس را اردو مجم وعہ‬
‫ہے۔‬
‫‪ANS 02‬‬
‫‪1‬‬
‫ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا‬
‫ت نظر نہ ملی‬
‫ملی نگاہ مگر فرص ِ‬
‫ت نظ ر‪ :‬دیکھ نے کی‬
‫معانی‪ :‬اختر صبح‪ :‬ایک خاص س تارہ ج و ص بح کے وقت طل وع اور بہت روش ن ہوت ا ہے ۔ فرص ِ‬
‫مہلت ۔‬
‫مطلب‪ :‬اس نظم میں اقبال ستارہَ صبح سے مکالمہ کرتے ہیں ۔ ستارہ صبح اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خالق‬
‫کائنات نے بے شک مجھے زندگی اور چمکنے کی صالحیت تو عطا کی لیکن زندگی کے ان لمحات کو اس ق در مح دود‬
‫کر دیا کہ مناظر فطرت کا پوری طرح جائزہ لے سکوں ۔‬

‫دم ٓافتاب سے ہر شے‬


‫ہوئی ہے زندہ ِ‬
‫اماں مجھ کو ت ِہ دام ِن سحر نہ ملی‬
‫دامن سحر‪ :‬صبح کے پلو کے نیچے‪ ،‬مراد ص بح کے وقت ۔ بس اط‪ :‬اوق ات‪ ،‬حوص لہ ۔‬
‫ِ‬ ‫معانی‪ٓ :‬افتاب‪ :‬سورج کا وجود ۔ ت ِہ‬
‫مطلب‪ :‬اس لیے کہ میری طلوع ہونے کے محض چند لمحات کے بعد سورج اپ نی ت یز کرن وں کے س اتھ برٓام د ہ وا جس‬
‫کے نتیجے میں میرا وجود دھندال کر رہ گیا ۔‬

‫بساط کیا ہے بھال صبح کے ستارے کی‬


‫نفس حباب کا ‪ ،‬تابندگی شرارے کی‬
‫ک۔‬ ‫دگی‪ :‬چم‬ ‫اب‪ :‬بلبال ۔ تابن‬ ‫ود ۔ حب‬ ‫راد وج‬ ‫لہ ۔ نفس‪ :‬م‬ ‫ات‪ ،‬حوص‬ ‫اط‪ :‬اوق‬ ‫انی‪ :‬بس‬ ‫مع‬
‫مطلب‪ :‬ثابت ہوا کہ میری حیثیت بس اتنی ہی ہے جیسے کہ ہوا کسی پ انی کے بلبلے میں مقی د ہ و ی ا ای ک چنگ اری ج و‬
‫لمحے بھر کے لیے چمکے اور پھر بجھ کر رہ جائے ۔‬

‫زیور جبی ِن سحر‬


‫ِ‬ ‫کہا یہ میں نے کہ اے‬
‫غم فنا ہے تجھے‪ ،‬گنب ِد فلک سے اُتر‬
‫ِ‬
‫غم فن ا‪ :‬مٹ نے ک ا دکھ ۔ گنب د فل ک‪ :‬م راد ٓاس مان ۔‬
‫بین س حر‪ :‬ص بح ک ا ماتھ ا ۔ ِ‬
‫ِ‬ ‫مع انی‪ :‬ج‬
‫مطلب‪ :‬اقبال ستارہَ صبح کی شکایت کے جواب میں اس سے مخاطب ہو کر کہتے ہیں بے شک ت و ص بح کی پیش انی پ ر‬
‫جھومر کے مانند ہے اور طلوع ٓافتاب کے سبب تجھے اپنے فنا ہونے کا غم بھی ہے ۔سو میرا مشورہ ہے کہ آسمان سے‬
‫نیچے اتر‬

‫بلندی گردوں سے ہمر ِہ شبنم‬


‫ِ‬ ‫ٹپک‬
‫ریاض سخن کی فضا ہے جاں پرور‬
‫ِ‬ ‫مرے‬
‫ریاض سخن‪ :‬ش اعری ک ا ب اغ ۔ ج ان پ رور‪ :‬روح‬
‫ِ‬ ‫بلندی گردوں ‪ٓ :‬اسمان کی اونچائی ۔ ہمر ِہ شبنم‪ :‬اوس کے ساتھ ۔‬
‫ِ‬ ‫معانی‪:‬‬
‫رنے واال ۔‬ ‫ازہ ک‬ ‫وت‬ ‫ک‬
‫مطلب‪ :‬قطرہَ شبنم کی طرح میرے باغ سخن میں ٹپک پڑ کہ یہاں کی فضا بڑی پرسکون اور زندگی ٓام یز ہے ۔ ج ان لے‬
‫کہ میری شاعری روح میں بالیدگی پیدا کرنے کی موجب ہے ۔‬

‫میں باغباں ہوں ‪ ،‬محبت بہار ہے اس کی‬


‫بنا مثا ِل ابد پائیدار ہے اس کی‬
‫رح ۔‬ ‫گی کی ط‬ ‫د‪ :‬ہمیش‬ ‫ال اب‬ ‫انی‪ :‬مث‬ ‫مع‬
‫مطلب‪ :‬میں ایک باغبان کی مانند ہوں اور محبت کا جذبہ میری شاعری میں بہ ار کی حی ثیت ک ا حام ل ہے ۔ ج ان لے کہ‬
‫میرے گلستان سخن کو زوال نہیں اس کے برعکس اس کا وجود ہمیشگی کا حامل ہے ۔‬
‫‪2‬‬
‫اقبال سے قبل اردو کے دو ممتاز شاعر حالی اور اکبر اپنی شاعری کے ذریعے مسلمانوں کو مایوسی سے نج ات دالنے‬
‫اور ان میں خود اعتمادی پیدا کرنے کی کوشش کر چکے تھے لیکن مرض کی تشخیص کر لینے کے ب اوجود وہ اس ک ا‬
‫سبب نہ پہچان سکے۔ اکبر نے مسلمانوں کی تنزلی کو مذہب سے دوری اور حالی نے تقلید پرس تی اور تن گ نظ ری ک و‬
‫ت‬
‫قرار دیا لیکن ان وجوہات کے اسباب ڈھونڈنے کیلئے اقبال کے فلسفیانہ نظریہ کی ضرورت تھی۔ چن انچہ اقب ال نے مل ِ‬
‫اسالمیہ کے زوال کا سبب سُستی اور بے عملی کو قرار دیا۔ انسان ان گنت گروہوں اور فرقوں میں بٹا ہُوا ہے اور ہر ہ ر‬
‫گروہ اور فرقے کے سربراہ اسے اپنے ٓاگے سجدہ کرنے پر مجبور کر رہے ہیں۔ یہ عجیب ب ات ہے کہ س ب س ے بُ ری‬
‫گروہ بندی مذہب کے نام پر موجود ہے حاالنکہ دین پوری انسانیت کو ایک مرکز پر جمع ہونے کی دع وت دیت ا ہے اور‬
‫ہر قسم کی تفریق اور بے جا تعصب کو ختم کرتا ہے۔ اس کے بعد نسل اور برادری کی تقسیم ہے اور اس ط رح چھ وٹی‬
‫دام فریب میں جکڑ رکھا ہے اور انس ان ہے کہ‬
‫بڑی دوسری بے شمار گروہ بندیاں ہیں جنہوں نے انسانوں کو اپنے اپنے ِ‬
‫روزانہ ان سب کے ٓاگے ہزاروں سجدے کرنے میں مصروف رہتا ہے۔ اقبال نے شاعری کو قوت کا مظہر اور خودی کا‬
‫پاس بان بن انے پ ر اتن ا زور دی ا ہے کہ وہ کس ی اور ن وع کی ش اعری ک و خ واہ وہ کیس ی ہی کی وں نہ ہ و ش اعری نہیں‬
‫تعمیر و تہذیب سے منس لک ک رتے ہیں۔ وہ ادب‬
‫ِ‬ ‫سمجھتے وہ کسی بھی قسم کے فن کو افادیت و مقصدیت اور زندگی کی‬
‫برائے ادب اور شاعری کو تفریح طبع کا مشغلہ سمجھنے کے قائل نہ تھے ۔ ‪1922‬ء میں سر کا خطاب ملنے پر اس المیہ‬
‫کالج کے طلبہ کی طرف سے منعقد کی گ ئی تق ریب میں ادب ب رائے ادب کے نظ ریہ ک و قوم وں کے اخالق ک و خ راب‬
‫کرنے والی چیزوں میں سب سے خطرناک اور مہلک قرار دیا ہے۔ ان کے نزدی ک فن جب اخالقی ات اور حیاتی ات س ے‬
‫علیحدہ ہو جاتا ہے تو وہ بہت جلد مخرب االخالق بن جاتا ہے۔‬
‫خودی اقبال کے نزدیک نام ہے جذبٔہ خودداری کا‪ ،‬اپنی ذات و صفات کے پاس و احساس کا اور کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ‬
‫الالہ االہللا کا اص ل راز خ ودی ہے‪ ،‬توحی د خ ودی کی تل وار ک و ٓاب دار بن اتی ہے اور خ ودی توحی د کی حف اظت ک رتی‬
‫ہے…؎‬
‫سر نہاں ال الہ اال ہللا‬
‫خودی کا ِ‬
‫تیغ فساں ال الہ اال ہللا‬
‫خودی ہے ِ‬
‫کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحصار خودی کی پرورش و تربیت پر ہے۔ انسان کیلئے اپنے ک ل ک و‬
‫ٓاج سے بہتر بنانے کی خواہش ایک فطری خواہش ہے جسے پورا کرنے کیلئے وہ سو ت دابیر اختی ار کرت ا ہے اور انہیں‬
‫بروئے کار ال کر ایسے ایسے کارنامے سر انجام دیتا ہے جس کا اس سے پہلے کی نسلوں کے انسان تصور ت ک نہ ک ر‬
‫پائے‪  ‬تھے۔ چنانچہ ہم یہ یقین کرنے میں حق بجانب ہیں کہ ابھی انسان کے ان در ایس ی بے ان داز ص الحیتیں موج ود ہیں‬
‫جن کا تالش کیا جانا باقی ہے۔ انسان کے بارے میں ہمارے انبی ٔا‪ ،‬فلس فیوں‪ ،‬دانش وروں اور سائنس دانوں نے ہمیں یہ بتای ا‬
‫ہے کہ اس دنیا میں انسان ایک ایسی مخلوق ہے جس کی نشونما کیل ئے کائن ات کی تم ام ق وتیں اور وس ائل اس کے ت ابع‬
‫اظہار ذات کے لئے وقف کیا جا چکا‬
‫ِ‬ ‫ت قدرت کی اس شاہکار مخلوق کے‬
‫فرمان کر دئیے گئے ہیں اور یہ پورا نظام کائنا ِ‬
‫ہے لیکن انسان اپنے ان تمام اوصاف کے ساتھ فطری طاقتوں کی سجدہ گاہ بننے کی بجائے خ ود اپ نے جیس ے دوس رے‬
‫انسانوں کے ٓاگے سجدہ ریز ہو کر زوال اور انحطاط کی قوتوں سے مغلوب ہو رہ ا ہے۔ انس ان کی اس ی انحط اط پ ذیری‬
‫کے بارے میں بے شمار بیانات اقبال کی تصانیف میں بکھرے پڑے ہیں۔ اقبال کا یہ فلس فٔہ حی ات جس پ ر انہ وں نے اتن ا‬
‫زور دیا ہے اور فرد و قوم کی بقا و ترقی کی اساس ٹھہرایا ہے ج ذبات کے لمح اتی ج وش ک ا نہیں بلکہ انس ان کے نفس‬
‫اور اس کی تہذیبی زندگی پر کامل غور و فکر کا نتیجہ ہے۔‬
‫‪ANS 03‬‬
‫ضرب کلیم کی اشاعت ‪1936‬ء کے وسط میں ہوئی۔ ب ال جبری ل اور ض رب کلیم یکے بع د دیگ رے ش ائع ہ وئیں ۔ ان کے‬
‫درمیان کوئی فارسی کت اب حائ ل نہیں ہے۔ ض رب کلیم کی تم ام نظمیں ای ک خ اص ان داز بی اں میں لکھی گ ئی ہیں ۔ اس‬
‫موسی نے فرعونی قوتوں پ ر ک اری ض رب لگ ائی تھی ‪ ،‬اس‬
‫ٰ‬ ‫کتاب کے عنوان سے ظاہر ہوتا ہے کہ جس طرح حضرت‬
‫طرح عالمہ صاحب نے اس کتاب کے زریعے سے فرعونی قوتوں پ ر ای ک ک اری ض رب لگ ائی۔ یہی وجہ ہے کہ وہ وہ‬
‫تے ہیں‪-‬‬ ‫رار دی‬ ‫گق‬ ‫ر کے خالف اعالن جن‬ ‫ود ہی دور حاض‬ ‫وخ‬ ‫اب ک‬ ‫اس کت‬

‫دور حاضر اقبال کی ایک مخصوص اصطالح ہے۔ مغرب نے اپ نے افک ار کے زریعے س ے دنی ا بھ ر میں ج و گمراہی اں‬
‫پھیالئیں اور جن گمراہیوں کو لوگ راہ راست سمجھتے ہیں اور جن کی وجہ س ے دنی ا روز ب روز اخالقی اور روح انی‬
‫لحاظ سے زوال کا شکار ہوتی جا رہی ہے‪ ،‬ان گمرایوں میں مبتال افراد کے ب ارے میں عالمہ اقب ال نے ب ال جبری ل میں‬
‫ا‪:‬‬ ‫ا تھ‬ ‫لکھ‬

‫ا کی ہے وہ آزادی "‬ ‫ر نے عط‬ ‫ذیب حاض‬ ‫" مجھے تہ‬


‫اری"‬ ‫اطن میں گرفت‬ ‫و آزادی ہے ب‬ ‫اہر میں ت‬ ‫" کہ ظ‬

‫تہذیب حاضر کی اسی انسانیت دشمن آزادی کو عالمہ اقبال نے بڑی تفصیل س ے ض رب کلیم ک ا موض وع بنای ا ہے۔ اس‬
‫کتاب کے پہلے حصے میں اسالم اور مسلمان کے زیر عن وان متف رق نظمیں ہیں۔ پھ ر تعلیم و ت ربیت ‪ ،‬ع ورت‪ ،‬ادبی ات‬
‫اور سیاسیات مشرق و مغرب کے عنوانات قائم کر کے ہر عنوان کی ذیل میں اس کے مختل ف پہل وؤں پ ر متع دد نظمیں‬
‫درج کی گئی ہیں ۔ آخری حصے میں محراب گل افغان کے افکار کے زیر عن وان ای ک فرض ی ک ردار کے ن ام س ے کچھ‬
‫ئی ہیں۔‬ ‫ر کی گ‬ ‫نظمیں تحری‬

‫ضرب کلیم کی اکثر نظمیں بے حد مختصر ہیں۔ اکثر نظمیں دو تین یا چار اشعار سے تجاوز نہیں کرتیں۔ تم ام نظمیں ہ ر‬
‫قسم کے حشو و زائد سے بلکل پاک ہیں۔ خیاالت براہ راست ط ریقے س ے اور پ ر زور الف اظ میں بی ان ک یے گ ئے ہیں۔‬
‫اگرچہ انداز بیاں میں عمدا" شعریت نہیں رکھی گئی مگر اس کے باوجود نظموں کے مطالعے س ے احس اس نہیں ہوت ا‬
‫کہ یہ غیر شاعرانہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے ک ان میں جذبہ ایک آگ کی طرح رواں ہے جو پڑھنے والے ک و پگھال ک ر‬
‫رکھ دیتا ہے۔ عالم اقبال کی تمام زندگی شاعران مہارت اور مطالعے کا نچوڑ اس کتاب میں موجود ہے ۔ اگرچہ اقبال اپنا‬
‫تمام نظام فکر اس سے پہلے پیش ک ر چکے تھے مگ ر اس میں بعض نظمیں ات نی واض ع ہیں کہ انہ وں نے اقب ال کے‬
‫افکار کے متعلق تمام غلط فہمیاں دور کر دی ہیں ۔ اس کتاب کے اکثر اشعار سے عالمہ اقب ال کے خی االت کی وض احت‬
‫کے لئیے سند پیش کی جاتی ہے خاص طور پر عالمہ اقبال کے نظریہ فن کے بارے میں جو کچھ اس کتاب میں کہا گی ا‬
‫ع ہیں‪-‬‬ ‫رح واض‬ ‫یط‬ ‫وعات بھی اس‬ ‫رے موض‬ ‫ود نہیں ‪ ،‬دوس‬ ‫اور کہیں موج‬

‫دیر "‬ ‫وان " تن بہ تق‬ ‫و بعن‬ ‫مثال" نظم مالحظہ ہ‬

‫اں کی تعلیم‬ ‫رک جہ‬ ‫رآں میں ہے اب ت‬ ‫یق‬ ‫اس‬

‫یر‬ ‫ا ام‬ ‫رویں ک‬ ‫ا مہ و پ‬ ‫و بنای‬ ‫ومن ک‬ ‫جس نے م‬

‫داز‬ ‫ا ان‬ ‫لک‬ ‫دیر' ہے آج ان کے عم‬ ‫'تن بہ تق‬

‫دیر‬ ‫دا کی تق‬ ‫اں جن کے ارادوں میں خ‬ ‫تھی نہ‬

‫وا‬ ‫وب‘ ہ‬ ‫دریج وہی ’خ‬ ‫اخوب‘ بت‬ ‫و ’ن‬ ‫اج‬ ‫تھ‬
‫میر‬ ‫اض‬ ‫وں ک‬ ‫ا ہے قوم‬ ‫دل جات‬ ‫کہ غالمی میں ب‬

‫عالمہ اقبال نے اس سے قبل مسلمانوں کی بے عملی اور مغربی فلسفے کے ان پ ر ہالکت آف ریں اث رات کے ب ارے میں‬
‫جو کچھ لکھا ہے وہ اس قطعے میں تمام و کمال بڑی خوبصورتی سے آگی ا ہے ۔ ض رب کلیم کی اک ثر نظم وں ک ا ان داز‬
‫یہی ہے ۔‬

‫و‪:‬‬ ‫عر مالحطہ ہ‬ ‫کش‬ ‫مثال" ای‬

‫ردوں کی‬ ‫ےم‬ ‫دگی س‬ ‫مکش زن‬ ‫ز کش‬ ‫گری‬


‫ت!‬ ‫ا ہے شکس‬ ‫و اور کی‬ ‫ت نہیں ہے ت‬ ‫ر شکس‬ ‫اگ‬

‫غرض عالمہ اقبال کی اردو شاعری کے مستقل مجموعے تین ہیں ۔ بانگ درا‪ ،‬بال جبریل اور ضرب کلیم ۔ ان کے عالوہ‬
‫ارمغان حجاز کے کچھ حصے بھی اردو میں شامل ہیں ۔ اس کے عالوہ بہت سے لوگوں نے مختلف ناموں سے اقبال کا‬
‫وہ کالم مرتب کیا ہے جو ان کے رائج مجموعوں میں شامل نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں عبد الواحد معینی و محم د عب د‬
‫ہللا قریشی کی مرتبہ " باقیات اقبال" اور موالنہ غالم رس ول مہ ر اور ص ادق علی دالوری کی م رتبہ س رود رفتہ زی ادہ‬
‫مکمل ہیں ۔ مگر ان دونوں مجموعوں میں اکثر کالم مشترک ہے۔ عالوہ ازیں تقریبا" سارا کالم وہی ہے جو اقبال ک ا رد‬
‫کیا ہوا ہے ۔ فن شعر یا خیاالت کی پختگی کے اعتبار سے یہ کالم زیادہ اہم نہیں مگر اقبال کے ذہ نی ارتق اء ک ا مط العہ‬
‫کرنے کے لئیے اس کی اہمیت یقینا" بہت زیادہ ہے۔‬
‫‪ANS 04‬‬
‫عالمہ اقبال ایک ایسی شخصیت ہے جس کو دنیا شاعر مشرق کے نام سے جانتی ہے۔ دنی ا اقب ال کے تع ارف کی محت اج‬
‫نہیں ہے‪ ،‬اقبال نے دنیا کے مسلمانوں کو ایک عظیم فکر دی‪ ،‬جس سے مسلمان بیدار ہو گئے‪ ،‬اقبال کے ان در مس لمانوں‬
‫کے لئے ایک ایسا درد تھا جس نے اقبال کو بے قرار کیا‪ ،‬جس نے اقبال سے سکون چھین لیا‪ ،‬جس نے اقبال س ے ن الے‬
‫اگلوائے‪ ،‬اقبال نے پورے مشرق میں خودی و خود اعتمادی‪ ،‬عزت نفس‪ ،‬جہاں بینی‪ ،‬اور جہ اں ب انی ک ا ول ولہ پی دا کی ا‪،‬‬
‫اقبال نے نہ صرف مشرق کو اپنا کھویا ہوا وقار اور لٹی ہوئی آبرو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے جھنجھوڑا بلکہ مغرب‬
‫کے گمراہ کن تعقل اور فتنہ جو تجربہ و مشاہدہ کے سائنٹفک منہاج ک و وحی ٰالہی اور پیغم برانہ اس وہ س ے مس تنیر ک ر‬
‫کے انسانیت کے لئے فیض بخش اور حقیقی ارتقاء کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔‬
‫اقبال نے نہ صرف شاعری کی دنیا میں ایک جدید شعور کا اظہار کی ا ای ک ایس ا ش عور ج و مغ ربی تہ ذیب اور ص نعتی‬
‫تمدن کی بنیادی خامیوں سے باخبر تھا بلکہ اس سے ایک ایسے ادراک سے روشناس کرایا جو ماضی‪ ،‬حال اور مس تقبل‬
‫تینوں پر محیط تھا۔ اقبال ماضی کی تابناک شعاعوں سے ح ال کی ت اریکیوں ک و دور کرن ا چ اہتے تھے اور ای ک ایس ے‬
‫طلوع ہونے والے آفتاب کی بشارت دے رہے تھے جو ایک نئی روحانی و اخالقی تبدیلی کا نقطہ آغاز ہو گا۔‬
‫راض ملت کی دوا‬ ‫اس دور میں تعلیم ہے ام‬
‫تر‬ ‫ل نیش‬ ‫ئے تعلیم مث‬ ‫د کے ل‬ ‫ون فاس‬ ‫ہے خ‬
‫(اقبال)‬
‫عالمہ اقبال ایک ہمہ جہت شاعر ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ فقط ایک شاعر ہی نہیں‪ ،‬مفک ر اور فلس فی بھی ہیں۔‬
‫ایک ایسے مفکر جنہوں نے حیات و کائنات کے مختلف اور متنوع مسائل پر غور و فکر کیا اور برسوں کی سوچ و فکر‬
‫کے بعد شاعری اور نثر کے ذریعے حکیمانہ اور بصیرت افروز خیاالت پیش کئے۔ انھیں اقبال کی ندرت فکر کا شاہکار‬
‫کہا جا سکتا ہے‪ ،‬عالمہ اقبال نے انسان کو خودی کا درس دیا ہے‪ ،‬عالمہ اقب ال کی خ ودی‪ ،‬خ ود پرس تی نہیں ہے‪ ،‬خ ود‬
‫سوزی نہیں ہے بلکہ خود شناسی ہے یعنی خود کو پہچانا‪ ،‬یعنی خود کی معرفت حاصل کرنا‪ ،‬یعنی انسان کو اﷲ نے اس‬
‫دنیا میں کیوں بھیجا ہے کہاں جانا ہے کس لئے آیا ہے‪ ،‬اقبال کی خ ودی خانق اہی نہیں ہے اقب ال کی خ ودی خ ود شناس ی‬
‫ہے‪ ،‬معرفت نفس ہے۔‬
‫دگی‬ ‫راخ زن‬ ‫اس‬ ‫اج‬ ‫رپ‬ ‫نے من میں ڈوب ک‬ ‫اپ‬
‫و بن‬ ‫ات‬ ‫ا نہ بن اپن‬ ‫یرا نہیں بنت‬ ‫رم‬ ‫و اگ‬ ‫ت‬
‫(اقبال)‬
‫اقبال کے نزدیک خودی کے اثبات‪ ،‬پرورش اور استحکام ہی سے اسے غیر فانی بنایا ج ا س کتا ہے‪ ،‬خ ودی اپ نی پختگی‬
‫ہی سے حیات جاوداں حاصل کر سکتی ہے یعنی بے مثل انفرادیت کو اس طرح قائم و بر قرار رکھے کہ موت کا دھچکا‬
‫بھی اس کا شیرازہ نہ بکھیر سکے‪ ،‬خودی کا جوہر ہے یکتائی‪ ،‬وہ کسی دوسری خودی میں م دغم نہیں ہوس کتی‪ ،‬نہ اس‬
‫کا ظہور کسی دوسری خودی کے طور پر ہو سکتا ہے‪ ،‬نہ وہ کسی کمتر خودی میں منتق ل ہوس کتی ہے اگ ر خ ودی کی‬
‫تربیت نہیں کی گئی تو اس کا مستقبل مخدوش ہے وہ فنا بھی ہوسکتی ہے۔‬
‫وف‬ ‫ربیت یہ ہے موق‬ ‫رورش و ت‬ ‫ودی کی پ‬ ‫خ‬
‫وز‬ ‫و آتش ہمہ س‬ ‫دا ہ‬ ‫اک میں پی‬ ‫تخ‬ ‫کہ مش‬
‫(اقبال)‬
‫اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لف ظ ’خ ودی‘ کہہ س کتے ہیں۔ اس ل ئے‬
‫کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا مح ور ہے۔ اور انھ وں نے اپ نے پیغ ام ی ا فلس فہ حی ات ک و اس ی ن ام س ے‬
‫موسوم کیا ہے اور محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض اہم سوالوں کے جواب ات کی تالش میں‬
‫ہوئی ہے‪ ،‬انسان کیا ہے؟ انسانی زندگی کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے‬
‫یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیا ہے؟ اس طرح کے اور نہ جانے کتنے س واالت ہیں‬
‫جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے ہی سرگرداں رہا ہے۔‬
‫اقبال کے فلسفہ خودی یا پیغام کی تخلیق کا خاص پس منظر ہے‪ ،‬قیام یورپ کے زم انے میں انھ وں نے فلس فے ک ا گہ را‬
‫مطالعہ کیا تھا۔ ایران کی مختلف ادبی اور لسانی تحریکوں اور لٹریچر کو غور کی نظر سے دیکھا تھا اور اس نتیجے پر‬
‫پہنچے تھے کہ اسالمی تہذیب کی ابتری خصوصیت سے جنوبی ایش یاء میں مس لمانوں کی تب اہی کی ذمہ دار وہ فارس ی‬
‫شاعری بھی ہے جس نے افالطونی فلسفے کی موشگافیوں میں پھنس کر حیات کے سر چشموں ک و خش ک ک ر دی ا‪ ،‬اس‬
‫کے بعد سکون بے عملی کو زندگی کا عین تصور کیا جانے لگا‪ ،‬افراد میں خودی اور خود داری کی بُو نہ رہی اور ذلت‬
‫و نکبت موجب فجر سمجھی جانے لگی اور روگ آہستہ آہستہ پوری قوم کے رگ و پے میں سرایت کرت ا گی ا۔ اردو ادب‬
‫مستثنی نہ تھا۔‬
‫ٰ‬ ‫بھی اس سے‬
‫’خودی‘ کا لفظ اقبال کے پیغام یا فلسفہ حیات میں تکبر و غ رور ی ا اردو‪ ،‬فارس ی کے م روجہ معن وں میں اس تعمال نہیں‬
‫ہوا‪ ،‬خودی اقبال کے نزدیک نام ہے احساس غیرت مندی کا‪ ،‬جذبہ خود داری کا‪ ،‬اپنی ذات و ص فات کے پ اس و احس اس‬
‫کا‪ ،‬اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا‪ ،‬حرکت و توانائی کو زندگی کی ض امن س مجھنے ک ا مظ اہرات‬
‫فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تالش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا‪ ،‬ی وں س مجھ‬
‫لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے’خودی‘زندگی کا آغاز وسط اور انج ام س بھی کچھ ہے ف رد و ملت کی ت رقی و پس تی‬
‫خودی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔‬
‫خودی کا تحفظ زندگی کا تحفظ‪ ،‬خودی کا استحکام زندگی کا استحکام‪ ،‬ازل سے اب د ت ک خ ودی ہی کی ک ار فرم ائی ہے‬
‫اس کی کامرانیاں اور کارکشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں‪ ،‬اقبال نے ان کا ذک ر اپ نے کالم‬
‫میں جگہ جگہ نت نئے انداز سے کیا ہے۔‬
‫ات‬ ‫ا ہے راز درون حی‬ ‫ودی کی‬ ‫خ‬
‫ات‬ ‫داری کائن‬
‫ِ‬ ‫ا ہے بی‬ ‫ودی کی‬ ‫خ‬
‫امنے‬ ‫دس‬ ‫ازل اس کے پیچھے اب‬
‫امنے‬ ‫دس‬ ‫د اس کے پیچھے نہ ح‬ ‫نہ ح‬
‫وئی‬ ‫تی ہ‬ ‫ارے میں بہ‬ ‫انے کے دھ‬ ‫زم‬
‫وئی‬ ‫ہتی ہ‬ ‫وں کی س‬ ‫تم اس کی موج‬ ‫س‬
‫یر‬ ‫مکش میں اس‬ ‫ے ہے یہ کش‬ ‫ازل س‬
‫ذیر‬ ‫ورت پ‬ ‫اک آدم میں ص‬ ‫وئی خ‬ ‫ہ‬
‫رے دل میں ہے‬ ‫یمن ت‬ ‫ا نش‬ ‫ودی ک‬ ‫خ‬
‫ل میں ہے‬ ‫رح آنکھ کے ت‬ ‫ک جس ط‬ ‫فل‬
‫(اقبال)‬
‫کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ الاِ ٰلہ اِﷲ کا اصل راز خودی ہے‪ ،‬توحید خودی کی تلوار کو آب دار بن اتی ہے اور خ ودی توحی د‬
‫کی محافظت کرتی ہے۔‬
‫اں الاِ ٰلہ اِﷲ‬ ‫ِّر نہ‬ ‫اس‬ ‫ودی ک‬ ‫خ‬
‫اں الاِ ٰلہ اِﷲ‬ ‫غ فس‬ ‫ودی ہے تی‬ ‫خ‬
‫(اقبال)‬
‫کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحص ار خ ودی کی پ رورش و ت ربیت پ ر ہے‪ ،‬ق وت اور ت ربیت ی افتہ‬
‫خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے۔ خودی ہی زندہ اور پائندہ ہو تو فق ر میں شہنش اہی‬
‫کی شان پیدا ہو جاتی ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تصرف میں آ جاتا ہے۔‬
‫اہی‬ ‫ر میں شہنش‬ ‫و ہے فق‬ ‫دہ ت‬ ‫ودی ہے زن‬ ‫خ‬
‫یر‬ ‫کوہ فق‬ ‫ے کم ش‬ ‫رل س‬ ‫نجر و طغ‬ ‫نہیں ہے س‬
‫اب‬ ‫راں نای‬ ‫ائے بیک‬ ‫و ہے دری‬ ‫دہ ت‬ ‫و زن‬ ‫ودی ہ‬ ‫خ‬
‫اں و حریر‬ ‫ر نی‬ ‫ار پ‬ ‫و کہس‬ ‫دہ ت‬ ‫و زن‬ ‫ودی ہ‬ ‫خ‬
‫(اقبال)‬
‫بعض جگہ خودی کو فرد اور ملت کی زندگی کا مرکز خاص قرار دیا۔ اس مرکز کا قرب سارے جہاں کا حاصل اور اس‬
‫سے دوری موت کا پیغام ہے۔‬
‫دائی‬ ‫ےج‬ ‫زس‬ ‫وت ہے مرک‬ ‫ئے م‬ ‫وں کے ل‬ ‫قوم‬
‫دائی‬ ‫ا ہے خ‬ ‫ودی کی‬ ‫وخ‬ ‫زت‬ ‫احب مرک‬ ‫وص‬ ‫ہ‬
‫ائی‬ ‫ہید کبری‬ ‫ر ذرہ ش‬ ‫ائی ہ‬ ‫ود نم‬ ‫وخ‬ ‫یز ہے مح‬ ‫رچ‬ ‫ہ‬
‫دائی‬ ‫ودی میں ہے خ‬ ‫یر خ‬ ‫وت تعم‬ ‫دگی م‬ ‫ود زن‬ ‫بے ذوق نم‬
‫(اقبال)‬
‫خودی کے اوصاف میں اقبال کے بے شمار بیانات‪ ،‬ان کی تص انیف میں بکھ رے پ ڑے ہیں اور بے ش مار ایس ے اش عار‬
‫ہیں جن میں خودی کا والہانہ تذکرہ آیا ہے۔ اقبال کا یہ فلسفہ حیات یا پیغام خودی جس پر انہ وں نے اتن ا زور دی ا ہے اور‬
‫فرد و قوم کی بقا و ترقی کی اساس ٹھہرایا ہے‪ ،‬جذبات کے لمحاتی جوش کا نہیں بلکہ انسان کے نفس اور اس کی تہذیبی‬
‫زندگی پر کامل غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ بعض مقامات پر خودی اور خدا کے وجود ک و الزم و مل زوم بت ا ک ر وج ود کی‬
‫تعریف یہ کی ہے کہ جوہر خودی کی نمود کا دوسرا نام وجود ہے۔ اس لئے انسان کو اپنے وجود کا ثبوت دینے کے لئے‬
‫خودی کی نمود سے غافل نہیں رہنا چاہئے‪ ،‬خودی کی بھر پور نمود انسان کو امر بنا دیتی ہے۔‬
‫خودی کو زندہ و پائندہ رکھنے اور اسے توانا و طاقتور بنانے کے عوامل کا تذکرہ تھا۔ اس کے بعد خودی کی تربیت کی‬
‫ارتقائی منزلیں زیر بحث آتی ہیں یہ تین ہیں‪ ،‬اطاعت‪ ،‬ضبط نفس اور نیابت اِ ٰلہی‪ ،‬اطاعت س ے م راد ف رائض کی ادائیگی‬
‫اور شریعت ٰالہیہ کی عملی تائید ہے۔ جو شخص ان س ے بھاگت ا ہے وہ گوی ا ِ‬
‫دین محم دی ص کے آئین کے خالف ورزی‬
‫کرتا ہے اور اس کی حدود سے باہر قدم رکھتا ہے‪ ،‬ضبط نفس سے مراد‪ ،‬نفسانی خواہشوں اور ذاتی اغراض پر قابو پان ا‬
‫ہے چونکہ انسان کے نفس میں خوف اور محبت کے دو عنصر ایسے ہیں جو اسے راہ راست سے اکثر ہٹا دیتے ہیں اس‬
‫لئے ضروری ہے کہ اس پر کڑی نظر رکھی جائے ‪،‬نفس کو مغلوب ہونے سے بچایا جائے۔‬
‫اعلی منصب پر فائز ہ و جات ا‬
‫ِ‬ ‫جب اطاعت و ضبط نفس کی منزلوں سے کسی فرد کی خودی کامیاب گزر جاتی ہے تو وہ‬
‫ہے ج و تخلی ق انس انی ک ا مقص ِد خ اص ہے‪ ،‬نی ابت اور جس حص ول کے ل ئے انس ان روز اول س ے س رگرم عم ل اور‬
‫مزاحمتوں سے بر سر پیکار ہے۔‬
‫ے پہلے‬ ‫دیر س‬ ‫ر تق‬ ‫ا کہ ہ‬ ‫د اتن‬ ‫ر بلن‬ ‫وک‬ ‫ودی ک‬ ‫خ‬
‫ا ہے‬ ‫ا کی‬ ‫یری رض‬ ‫ات‬ ‫وچھے بت‬ ‫ود پ‬ ‫ےخ‬ ‫دے س‬ ‫دا بن‬ ‫خ‬
‫(اقبال)‬
‫عالمہ اقبال کے فلسفہ حیات یا پیغام کی تخلیق اس طور پر کرسکتے ہیں کہ فرد کی طرح ملت کی بھی خودی ہوتی ہے‪،‬‬
‫چنانچہ فرد کی خودی کی تربیت و استحکام کے س اتھ س اتھ الزم ہے کہ ملت کی خ ودی ک و بھی م رتب و مس تحکم بنای ا‬
‫جائے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ فرد اپنی خودی کو ملت کی خودی میں اس طرح خم ک ر دے ی ا اس ک ا ت ابع بن ا دے کہ‬
‫ملت کی خودی کو فرد کی خودی پر فضیلت حاصل ہو جائے کہ ذاتی اغراض و مفادات پ ر ملت کے اغ راض و مف ادات‬
‫کو ترجیح دی جائے اور مقدم سمجھا جائے‪ ،‬ایسا کرنے سے فرد کی خودی مجروح نہیں ہ وتی‪ ،‬تق ویت حاص ل ک ر لی تی‬
‫ہے‪ ،‬اس میں جماعت کی سی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور جماعت میں مزید پختگی آ جاتی ہے۔‬
‫ودی‬ ‫ردو خ‬ ‫کن گ‬ ‫ود ش‬ ‫اعت خ‬ ‫در جم‬
‫ودی‬ ‫ردو خ‬ ‫رگ چمن گ‬ ‫ل ‪،‬ب‬ ‫ار گ‬
‫ِ‬ ‫ن‬
‫ود‬ ‫دت ش‬ ‫دعا وح‬ ‫ثرت ہم م‬ ‫ک‬
‫پختہ چوں وحدت شود ملت شود‬
‫انفرادی اور اجتمائی خودی کی تربیت و تنظیم اور استحکام و اس تقالل کے ل ئے عہ د حاض ر کی س اری ملت وں میں ملت‬
‫اسالمیہ ہی موزوں ترین ہے اور اس وقت دنیا میں جتنے آئین م روج ہیں ان س ب میں آئین اس المی یع نی ق رآن مجی د ہی‬
‫ایک ایسا آئین ہے جس کے تحت فرد اور جماعت کی خودی اط اعت اور ض بط نفس کی م نزلوں س ے کامی اب گ زر ک ر‬
‫کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے‪ ،‬فرد قوم کی خودی پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ مسلمان اور ملت اسالمیہ‬
‫کی خودی کی شرائط اور فتوحات دوسروں کی خ ودی س ے بہت مختل ف ہیں اور اس اختالف ک ا س بب یہ ہے کہ اس ک ا‬
‫مزاج دوسری قوموں کے مزاج سے مختلف ہے۔‬
‫ا نہ کر‬ ‫رب ک‬ ‫وام مغ‬
‫ِ‬ ‫اس اق‬ ‫ر قی‬ ‫نی ملّت پ‬ ‫اپ‬
‫خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی‬
‫اگر مسلمانوں نے ترکیب رسول ہاشمی اپنائی ہوتی تو آج مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی‪ ،‬مس لمانوں نے اپ نی خ ودی ک و‬
‫نہیں پہچانا اس لئے دوسروں کی تقلید کی اور مسلمان اس حالت پر پہنچے کہ آج مسلمان مظلوم ہے‪ ،‬ہمارا قُ دس ُمب ارک‬
‫امریکی پِٹھو اسرائیل کے ہاتھوں پائمال ہوتا جا رہا ہے اور مسلمان ابھی بھی سوئے ہوئے ہیں‪ ،‬مسلمانوں کا قتل ع ام ہ و‬
‫رہا ہے‪ ،‬مسلمان ممالک ویران کئے جا رہے ہیں اور ہم ذاتی اغراض میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ کسی ک و اقت دار کی بھ وک‪،‬‬
‫کسی کو گھر کی بھوک‪ ،‬جب تک مسلمانوں کا صفایا ہ و ج ائے گ ا تب ت ک ہم س وئے رہیں گے‪ ،‬کب ت ک ہم مغ رب کی‬
‫غالمی کریں گے اور یہی مغرب والے مسلمان کومسلمان سے لڑاتے ہیں۔‬
‫اگر مسلمان خود شناس اور متحد ہوتے تو اہل مغرب کی مجال نہ ہوتی کہ پیغمبر اس الم ص کی ش ان میں ت وہین ک رتے‪،‬‬
‫اے کاش اقبال کی آرزو پوری ہوتی کہ ملت اسالمیہ میں خودی کا مقام حاصل ہو جائے اور ہم مسلمان آباد‪ ،‬خوشحال اور‬
‫روح اقبال خوش ہو جاتی‪ ،‬اقب ال کس ی خ اص عالقے ی ا ملت ک ا ش اعر نہیں ہے وہ پ ورے ع الم‬
‫ِ‬ ‫امن امان میں رہتے اور‬
‫انس انیت ک ا ش اعر ہے اور اس ک ا پیغ ام ص رف مس لمانوں کے ل ئے نہیں بلکہ س ب کے ل ئے ہے۔‬
‫یرا روال دے‬ ‫ام‬ ‫و رون‬ ‫د دل ک‬ ‫ر درد من‬ ‫ہ‬
‫ا دے‬ ‫اید انہیں جگ‬ ‫ڑے ہیں ش‬ ‫وپ‬ ‫وش ج‬ ‫بے ہ‬
‫(اقبال)‬
‫‪ANS 05‬‬
‫لوح بھی تو ‪ ،‬قلم بھی تو ‪ ،‬تيرا وجود الکتاب‬
‫گنبد آبگينہ رنگ تيرے محيط ميں حباب‬
‫تشریح‪:‬‬
‫اے میرے محبوب ﷺ آپ سب کچھ ہیں۔ یعنی سب کچھ آپ ہی کے وجود مسعود کی بدولت عالم وجود میں آیا۔ اگر آپ نہ‬
‫ہوتے تو نہ لوح ہوتی نہ قلم ہوتا‪ ،‬اور نہ کتاب ہوتی۔ اور آپ ﷺ کی شان کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ یہ آسمان‬
‫جس کے ط ول و ع رض ک ا کچھ پتہ نہیں ہے‪ ،‬آپ ﷺ کے محی ِط وج ود کے س امنے اس کی حقیقت ایس ی ہے جیس ے‬
‫سمندر کے مقابلہ میں ایک بلبال!‬
‫عالم آب و خاک ميں تيرے ظہور سے فروغ‬
‫ذرہ ريگ کو ديا تو نے طلوع آفتاب‬
‫تشریح‪:‬‬
‫اس کائنات کو آپ ﷺ ہی کے ظہور سے فروغ حاصل ہ وا ہے۔ آپ ﷺ ہی کے ق دموں کی ب رکت س ے ذرہ ری گ (بالل‬
‫اروق‬
‫ِ‬ ‫حبشی) دنیا میں آفتاب (س یدنا بالل) بن ک ر چمک ا۔ آپ ﷺ ہی کی کفش ب رداری ک ا یہ ن تیجہ تھ ا کہ امیرالموم نین ف‬
‫اعظم حضرت بالل کو "سیدنا بالل" کہتے تھے۔ آپ ﷺ ہی کی نگ اہ کیمی ا اث ر ک ا فیض تھ ا کہ حض رت اس امہ ابن زی د‬
‫اسالمی فوج کے سپہ ساالر مقرر ہوئے جو ایک غالم کے بیٹے تھے۔‬
‫شوکت سنجر و سليم تيرے جالل کی نمود‬
‫فقر جنيد و بايزيد تيرا جمال بے نقاب‬
‫تشریح‪:‬‬
‫سلطان سنجر اور سلطان سلیم آپ ﷺ کی شان جالل‪ ،‬اور حضرت جنید اور حضرت با یزی د آپ ﷺ کی ش ان جم ال کے‬
‫مظہر ہیں۔ جن کا حال درج کرتاہوں‪-:‬‬
‫سلطان سنجر سے زیادہ شان و شوکت واال بادشاہ شاید ہی مشرق کوئی اور گزرا ہو۔ چنانچہ اس کی عظمت و سطوت ک ا‬
‫کچھ اندازہ اس بات سے ہو س کتا ہے کہ جب حض رت ام ام غ زالی اس کے درب ار میں تش ریف الئے ت و اس کی ش ان و‬
‫شوکت دیکھ کر اُن کے بدن میں رعشہ طاری ہ و گی ا۔ اگ رچہ س لطان نے ان کی انتہ ائی تعظیم و تک ریم کی۔ تخت ش اہی‬
‫سے اتر کر استقبال کیا۔ اور اپنے برابر مسند پر جگہ دی۔ لیکن اس کے باوجود ہیبت کا اثر دور نہ ہوا‪ ،‬ت و ام ام ص احب‬
‫نے اس قاری سے جو ان کے ہمراہ تھا‪ ،‬درخواست کی کہ مجھے کوئی آیت سناؤ۔ قاری چونکہ موقع شناش تھ ا اس ل یے‬
‫بکاف عَبࣿد َٗہ کیا ہللا اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے۔ تب جا ک ر ان ک ا دل ق ابو میں آی ا۔‬
‫ٍ‬ ‫س ہّٰللا ُ‬
‫اس نے یہ آیت پڑھی َما لَیࣿ َ‬
‫اور حواس بجا ہوئے۔ اس کے بعد پھر امام صاحب نے سلطان کی فرمایش پر ایک عالمانہ تقریر ارشاد فرمائی۔‬
‫سلطان سلیم اول سلطنت عثمانیہ کے نامور ت رین س الطین میں س ے گ ذراہے۔ ‪۱۵۱۲‬ء میں تخت نش ین ہ وا‪ ،‬اور ‪۱۵۲۰‬ء‬
‫میں صرف آٹھ سال حکومت کرنے کے بعد وفات پائی۔ لیکن اس قلیل مدت میں اس نے سلطنت کی واعت کو دو چن د ک ر‬
‫دیا۔ یعنی دیار بکر‪ ،‬آرمینیہ‪ ،‬کردستان‪ ،‬شام‪ ،‬مصر‪ ،‬اور حجاز کو سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا۔ حجاز کی فتح کے بعد‬
‫اُس کو "خادم الح رمین الش ریفین" ک ا لقب حاص ل ہ و گی ا۔ اور آخ ری عباس ی خلیفتہ المتوک ل علی ہّٰللا نے ج و ق اہرہ میں‬
‫زیر سایہ اپنی زندگی گذارر رہا تھا‪ ،‬خالفت کے تمام حقوق اسے تفویض کر دی ئے۔ چن انچہ س لطان‬
‫مملوک سالطین کے ِ‬
‫سلیم پہال عثمانی سلطان ہے‪ ،‬جو خلیفتہ المسلمین اور خادم حرمین شریفین کے لقب سے ملقب ہوا۔‬
‫حضرت جنید بغدادی جو صوفیا کے طبقہ ثانیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور سید الطائفہ کے لقب س ے مش ہور ہیں‪ ،‬بالش بہ‬
‫ت شہرت کی وجہ س ے محت اج تع ارف نہیں ہے۔ تیس ری ص دی کے ش روع‬
‫اولیائے کبار میں سے ہیں اور ان کا نام غائی ِ‬
‫میں بغداد میں پیدا ہوئے جہاں ان کے وال دین نے ج و ای ران النس ل تھے مس تقل س کونت اختی ار ک ر لی تھی۔ ج ونی میں‬
‫حضرت سری سقطی کے ہ اتھ پ ر بیعت کی‪ ،‬اور زہ د و تق ٰ‬
‫وی کی ب دولت طبقۂ ص وفیا میں بہت بلن د م رتبہ حاص ل کی ا۔‬
‫ٰ‬
‫المقتدی بہ جنی دُ۔ ای ک دن خلیفہ بغ داد نے اپ نے کس ی‬ ‫چنانچہ حضرت شبلی کا قول ہے کہ اصامنا فی ٰھذا العلم و مرجعنا‬
‫مصاحب کو بے ادب‪ ،‬کہہ کر پکارا‪ ،‬تو اس نے کہا اب مجھ سے بے ادبی کا ص دور نہیں ہ و س کتا‪ ،‬کی ونکہ میں نص ف‬
‫روز تک حضرت جنید کی خدمت میں رہ چکا ہوں۔ ‪۲۳۱‬ھ میں وفات پائی۔‬
‫اولی سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسری صدی کے آخ ر میں پی دا ہ وئے تھے۔ اور ‪۲۳۱‬ھ میں‬
‫حضرت بایزید بسطامی‪ ،‬طبقہ ٰ‬
‫وفات پائی۔ طبقہ صوفیاء میں اتباع شریعت کے لیے ان کا نام ضرب المث ل ہ و گی ا ہے۔ ان ک ا یہ مق ولہ بہت مش ہور ہے‪،‬‬
‫جس میں خود ان کی شخصیت منعکس ہے۔ االستقامتہ فوق الکرامتہ یع نی ش ریعت اس المیہ پ ر اس تقامت دکھان ا‪ ،‬ک رامت‬
‫دکھانے سے بڑھ کر ہے۔ یا یوں سمجھو کہ سب سے بڑی کرامت جو ایک مسلمان سے ظاہر ہو س کتی ہے یہ ہے کہ وہ‬
‫اتباع شریعت میں کامل ہو۔‬
‫شوق ترا اگر نہ ہو ميری نماز کا امام‬
‫ميرا قيام بھی حجاب ‪ ،‬ميرا سجود بھی حجاب‬
‫تشریح‪:‬‬
‫اگر آپ ﷺ کی محبت‪ ،‬یعنی آپ ﷺ کی اتباع کا جذبہ ارکان شریعت کی بجا آوری کا محرک نہ ہو‪ ،‬تو ک وئی عب ادت ہّٰللا‬
‫ِ‬
‫کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہو سکتی۔‬
‫تيری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے‬
‫عقل غياب و جستجو ‪ ،‬عشق حضور و اضطراب‬
‫تشریح‪:‬‬
‫یہ آپ ﷺ ہی کا تو فیض ہے کہ عقل اور عشق دونوں اپنی اپنی مراد پا گ ئے۔ عق ل‪ ،‬غی اب و جس تجو کی ط الب تھی‪ ،‬یہ‬
‫دولت اُسے مل گئی۔ اور عشق حضور و اضطراب کا آرزو مند تھا‪ ،‬یہ نعمت اُسے عطا ہو گئی۔‬
‫واضح ہو کہ ذات عقل کا یہ تقاضہ ہے کہ اس میں غیاب اور جستجو (مقصد سے دور رہنا اور تالش کرنا) کا رن گ پای ا‬
‫ج ائے۔ اور ذات عش ق اس کی مقتض ی ہے کہ اس میں حض ور اور اض طراب کی کیفیت پ ائی ج ائے۔ یع نی آپ ہی کی‬
‫ت نوعیہ نصیب ہوئی۔‬
‫بدولت ہر شئے کو اس کی صور ِ‬
‫حضور و اضطراب‪ ،‬غی اب و جس تجو کی ض د ہے۔ اس ی ل یے عق ل عش ق کی ض د ہے اور اس ی ل یے دون وں کی تق دیر‬
‫جُداگانہ ہے۔ چنانچہ اقبال خود کہتے ہیں؎‬
‫عقل‪ ،‬گویا آستاں سے دور نہیں‬
‫اس کی تقدیر میں حضور نہیں‬
‫عقل‪ ،‬غیاب یعنی دور رہنے کی حالت سے مطمئن ہو سکتی ہے لیکن عش ق مطمئن نہیں ہ و س کتا‪ ،‬وہ حض ور ک ا ط الب‬
‫ہے‪ ،‬وہ تو محبوب کو بے پردہ آمنے سامنے دیکھنا چاہتا ہے۔‬
‫تيرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے‬
‫طبع زمانہ تازہ کر جلوئہ بے حجاب سے‬
‫تشریح‪:‬‬
‫اے میرے آقا! جلوۂ آفتاب سے مادی اشیاء منور ہو سکتی ہیں لیکن انسانی قلوب من ور نہیں ہ و س کتے۔ بالف اظ دگ ر م ادہ‬
‫پرستی کی وجہ سے یہ دنیا روحانیت سے محروم ہو گئی ہے۔ اس لیے میں آپ ﷺ سے التجا کرتا ہ وں کہ آپ ﷺ اپ نے‬
‫روحانی فیض سے اس دور میں بھی دنیا کو منور کر دیجئے۔‬

You might also like