Professional Documents
Culture Documents
.5جاوید نامہ .4ب ان گ درا 1915 .3 ید .2نادر شاہ .1عالمہ س
سیلمان
.10دعوت پر . .9گوئٹے .8نظم .6غلَ ط تھ ا اے 5 .7
جُن وں ش اید ت را
اندازۂ صحرا
.15انگلستان 1927 .14 .13جاوید نامہ .12مصر Galvanized .11
.19نظمیں مختص ر .20بن ا حس ین کے 3 .17بار اور 4سال 7 .18 .16مدینہ
ہے قافلہ ہیں۔
تیس را اردو مجم وعہ
ہے۔
ANS 02
1
ستارہ صبح کا روتا تھا اور یہ کہتا تھا
ت نظر نہ ملی
ملی نگاہ مگر فرص ِ
ت نظ ر :دیکھ نے کی
معانی :اختر صبح :ایک خاص س تارہ ج و ص بح کے وقت طل وع اور بہت روش ن ہوت ا ہے ۔ فرص ِ
مہلت ۔
مطلب :اس نظم میں اقبال ستارہَ صبح سے مکالمہ کرتے ہیں ۔ ستارہ صبح اپنی روداد بیان کرتے ہوئے کہتا ہے کہ خالق
کائنات نے بے شک مجھے زندگی اور چمکنے کی صالحیت تو عطا کی لیکن زندگی کے ان لمحات کو اس ق در مح دود
کر دیا کہ مناظر فطرت کا پوری طرح جائزہ لے سکوں ۔
دور حاضر اقبال کی ایک مخصوص اصطالح ہے۔ مغرب نے اپ نے افک ار کے زریعے س ے دنی ا بھ ر میں ج و گمراہی اں
پھیالئیں اور جن گمراہیوں کو لوگ راہ راست سمجھتے ہیں اور جن کی وجہ س ے دنی ا روز ب روز اخالقی اور روح انی
لحاظ سے زوال کا شکار ہوتی جا رہی ہے ،ان گمرایوں میں مبتال افراد کے ب ارے میں عالمہ اقب ال نے ب ال جبری ل میں
ا: ا تھ لکھ
تہذیب حاضر کی اسی انسانیت دشمن آزادی کو عالمہ اقبال نے بڑی تفصیل س ے ض رب کلیم ک ا موض وع بنای ا ہے۔ اس
کتاب کے پہلے حصے میں اسالم اور مسلمان کے زیر عن وان متف رق نظمیں ہیں۔ پھ ر تعلیم و ت ربیت ،ع ورت ،ادبی ات
اور سیاسیات مشرق و مغرب کے عنوانات قائم کر کے ہر عنوان کی ذیل میں اس کے مختل ف پہل وؤں پ ر متع دد نظمیں
درج کی گئی ہیں ۔ آخری حصے میں محراب گل افغان کے افکار کے زیر عن وان ای ک فرض ی ک ردار کے ن ام س ے کچھ
ئی ہیں۔ ر کی گ نظمیں تحری
ضرب کلیم کی اکثر نظمیں بے حد مختصر ہیں۔ اکثر نظمیں دو تین یا چار اشعار سے تجاوز نہیں کرتیں۔ تم ام نظمیں ہ ر
قسم کے حشو و زائد سے بلکل پاک ہیں۔ خیاالت براہ راست ط ریقے س ے اور پ ر زور الف اظ میں بی ان ک یے گ ئے ہیں۔
اگرچہ انداز بیاں میں عمدا" شعریت نہیں رکھی گئی مگر اس کے باوجود نظموں کے مطالعے س ے احس اس نہیں ہوت ا
کہ یہ غیر شاعرانہ ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے ک ان میں جذبہ ایک آگ کی طرح رواں ہے جو پڑھنے والے ک و پگھال ک ر
رکھ دیتا ہے۔ عالم اقبال کی تمام زندگی شاعران مہارت اور مطالعے کا نچوڑ اس کتاب میں موجود ہے ۔ اگرچہ اقبال اپنا
تمام نظام فکر اس سے پہلے پیش ک ر چکے تھے مگ ر اس میں بعض نظمیں ات نی واض ع ہیں کہ انہ وں نے اقب ال کے
افکار کے متعلق تمام غلط فہمیاں دور کر دی ہیں ۔ اس کتاب کے اکثر اشعار سے عالمہ اقب ال کے خی االت کی وض احت
کے لئیے سند پیش کی جاتی ہے خاص طور پر عالمہ اقبال کے نظریہ فن کے بارے میں جو کچھ اس کتاب میں کہا گی ا
ع ہیں- رح واض یط وعات بھی اس رے موض ود نہیں ،دوس اور کہیں موج
وا وب‘ ہ دریج وہی ’خ اخوب‘ بت و ’ن اج تھ
میر اض وں ک ا ہے قوم دل جات کہ غالمی میں ب
عالمہ اقبال نے اس سے قبل مسلمانوں کی بے عملی اور مغربی فلسفے کے ان پ ر ہالکت آف ریں اث رات کے ب ارے میں
جو کچھ لکھا ہے وہ اس قطعے میں تمام و کمال بڑی خوبصورتی سے آگی ا ہے ۔ ض رب کلیم کی اک ثر نظم وں ک ا ان داز
یہی ہے ۔
غرض عالمہ اقبال کی اردو شاعری کے مستقل مجموعے تین ہیں ۔ بانگ درا ،بال جبریل اور ضرب کلیم ۔ ان کے عالوہ
ارمغان حجاز کے کچھ حصے بھی اردو میں شامل ہیں ۔ اس کے عالوہ بہت سے لوگوں نے مختلف ناموں سے اقبال کا
وہ کالم مرتب کیا ہے جو ان کے رائج مجموعوں میں شامل نہیں ہے ۔ اس سلسلے میں عبد الواحد معینی و محم د عب د
ہللا قریشی کی مرتبہ " باقیات اقبال" اور موالنہ غالم رس ول مہ ر اور ص ادق علی دالوری کی م رتبہ س رود رفتہ زی ادہ
مکمل ہیں ۔ مگر ان دونوں مجموعوں میں اکثر کالم مشترک ہے۔ عالوہ ازیں تقریبا" سارا کالم وہی ہے جو اقبال ک ا رد
کیا ہوا ہے ۔ فن شعر یا خیاالت کی پختگی کے اعتبار سے یہ کالم زیادہ اہم نہیں مگر اقبال کے ذہ نی ارتق اء ک ا مط العہ
کرنے کے لئیے اس کی اہمیت یقینا" بہت زیادہ ہے۔
ANS 04
عالمہ اقبال ایک ایسی شخصیت ہے جس کو دنیا شاعر مشرق کے نام سے جانتی ہے۔ دنی ا اقب ال کے تع ارف کی محت اج
نہیں ہے ،اقبال نے دنیا کے مسلمانوں کو ایک عظیم فکر دی ،جس سے مسلمان بیدار ہو گئے ،اقبال کے ان در مس لمانوں
کے لئے ایک ایسا درد تھا جس نے اقبال کو بے قرار کیا ،جس نے اقبال سے سکون چھین لیا ،جس نے اقبال س ے ن الے
اگلوائے ،اقبال نے پورے مشرق میں خودی و خود اعتمادی ،عزت نفس ،جہاں بینی ،اور جہ اں ب انی ک ا ول ولہ پی دا کی ا،
اقبال نے نہ صرف مشرق کو اپنا کھویا ہوا وقار اور لٹی ہوئی آبرو دوبارہ حاصل کرنے کے لئے جھنجھوڑا بلکہ مغرب
کے گمراہ کن تعقل اور فتنہ جو تجربہ و مشاہدہ کے سائنٹفک منہاج ک و وحی ٰالہی اور پیغم برانہ اس وہ س ے مس تنیر ک ر
کے انسانیت کے لئے فیض بخش اور حقیقی ارتقاء کا ذریعہ بنانے کی کوشش کی۔
اقبال نے نہ صرف شاعری کی دنیا میں ایک جدید شعور کا اظہار کی ا ای ک ایس ا ش عور ج و مغ ربی تہ ذیب اور ص نعتی
تمدن کی بنیادی خامیوں سے باخبر تھا بلکہ اس سے ایک ایسے ادراک سے روشناس کرایا جو ماضی ،حال اور مس تقبل
تینوں پر محیط تھا۔ اقبال ماضی کی تابناک شعاعوں سے ح ال کی ت اریکیوں ک و دور کرن ا چ اہتے تھے اور ای ک ایس ے
طلوع ہونے والے آفتاب کی بشارت دے رہے تھے جو ایک نئی روحانی و اخالقی تبدیلی کا نقطہ آغاز ہو گا۔
راض ملت کی دوا اس دور میں تعلیم ہے ام
تر ل نیش ئے تعلیم مث د کے ل ون فاس ہے خ
(اقبال)
عالمہ اقبال ایک ہمہ جہت شاعر ہیں بلکہ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ وہ فقط ایک شاعر ہی نہیں ،مفک ر اور فلس فی بھی ہیں۔
ایک ایسے مفکر جنہوں نے حیات و کائنات کے مختلف اور متنوع مسائل پر غور و فکر کیا اور برسوں کی سوچ و فکر
کے بعد شاعری اور نثر کے ذریعے حکیمانہ اور بصیرت افروز خیاالت پیش کئے۔ انھیں اقبال کی ندرت فکر کا شاہکار
کہا جا سکتا ہے ،عالمہ اقبال نے انسان کو خودی کا درس دیا ہے ،عالمہ اقب ال کی خ ودی ،خ ود پرس تی نہیں ہے ،خ ود
سوزی نہیں ہے بلکہ خود شناسی ہے یعنی خود کو پہچانا ،یعنی خود کی معرفت حاصل کرنا ،یعنی انسان کو اﷲ نے اس
دنیا میں کیوں بھیجا ہے کہاں جانا ہے کس لئے آیا ہے ،اقبال کی خ ودی خانق اہی نہیں ہے اقب ال کی خ ودی خ ود شناس ی
ہے ،معرفت نفس ہے۔
دگی راخ زن اس اج رپ نے من میں ڈوب ک اپ
و بن ات ا نہ بن اپن یرا نہیں بنت رم و اگ ت
(اقبال)
اقبال کے نزدیک خودی کے اثبات ،پرورش اور استحکام ہی سے اسے غیر فانی بنایا ج ا س کتا ہے ،خ ودی اپ نی پختگی
ہی سے حیات جاوداں حاصل کر سکتی ہے یعنی بے مثل انفرادیت کو اس طرح قائم و بر قرار رکھے کہ موت کا دھچکا
بھی اس کا شیرازہ نہ بکھیر سکے ،خودی کا جوہر ہے یکتائی ،وہ کسی دوسری خودی میں م دغم نہیں ہوس کتی ،نہ اس
کا ظہور کسی دوسری خودی کے طور پر ہو سکتا ہے ،نہ وہ کسی کمتر خودی میں منتق ل ہوس کتی ہے اگ ر خ ودی کی
تربیت نہیں کی گئی تو اس کا مستقبل مخدوش ہے وہ فنا بھی ہوسکتی ہے۔
وف ربیت یہ ہے موق رورش و ت ودی کی پ خ
وز و آتش ہمہ س دا ہ اک میں پی تخ کہ مش
(اقبال)
اقبال کا پیغام یا فلسفہ حیات کیا ہے اگر چاہیں تو اس کے جواب میں صرف ایک لف ظ ’خ ودی‘ کہہ س کتے ہیں۔ اس ل ئے
کہ یہی ان کی فکر و نظر کے جملہ مباحث کا مح ور ہے۔ اور انھ وں نے اپ نے پیغ ام ی ا فلس فہ حی ات ک و اس ی ن ام س ے
موسوم کیا ہے اور محور تک اقبال کی رسائی ذات و کائنات کے بارے میں بعض اہم سوالوں کے جواب ات کی تالش میں
ہوئی ہے ،انسان کیا ہے؟ انسانی زندگی کیا ہے؟ کائنات اور اس کی اصل کیا ہے؟ آیا یہ فی الواقع کوئی وجود رکھتی ہے
یا محض فریب نظر ہے؟ اگر فریب نظر ہے تو اس کے پس پردہ کیا ہے؟ اس طرح کے اور نہ جانے کتنے س واالت ہیں
جن کے جوابات کی جستجو میں انسان شروع سے ہی سرگرداں رہا ہے۔
اقبال کے فلسفہ خودی یا پیغام کی تخلیق کا خاص پس منظر ہے ،قیام یورپ کے زم انے میں انھ وں نے فلس فے ک ا گہ را
مطالعہ کیا تھا۔ ایران کی مختلف ادبی اور لسانی تحریکوں اور لٹریچر کو غور کی نظر سے دیکھا تھا اور اس نتیجے پر
پہنچے تھے کہ اسالمی تہذیب کی ابتری خصوصیت سے جنوبی ایش یاء میں مس لمانوں کی تب اہی کی ذمہ دار وہ فارس ی
شاعری بھی ہے جس نے افالطونی فلسفے کی موشگافیوں میں پھنس کر حیات کے سر چشموں ک و خش ک ک ر دی ا ،اس
کے بعد سکون بے عملی کو زندگی کا عین تصور کیا جانے لگا ،افراد میں خودی اور خود داری کی بُو نہ رہی اور ذلت
و نکبت موجب فجر سمجھی جانے لگی اور روگ آہستہ آہستہ پوری قوم کے رگ و پے میں سرایت کرت ا گی ا۔ اردو ادب
مستثنی نہ تھا۔
ٰ بھی اس سے
’خودی‘ کا لفظ اقبال کے پیغام یا فلسفہ حیات میں تکبر و غ رور ی ا اردو ،فارس ی کے م روجہ معن وں میں اس تعمال نہیں
ہوا ،خودی اقبال کے نزدیک نام ہے احساس غیرت مندی کا ،جذبہ خود داری کا ،اپنی ذات و ص فات کے پ اس و احس اس
کا ،اپنی انا کو جراحت و شکست سے محفوظ رکھنے کا ،حرکت و توانائی کو زندگی کی ض امن س مجھنے ک ا مظ اہرات
فطرت سے بر سر پیکار رہنے کا اور دوسروں کا سہارا تالش کرنے کے بجائے اپنی دنیا آپ پیدا کرنے کا ،ی وں س مجھ
لیجئے کہ اقبال کے نقطہ نظر سے’خودی‘زندگی کا آغاز وسط اور انج ام س بھی کچھ ہے ف رد و ملت کی ت رقی و پس تی
خودی کی ترقی و زوال پر منحصر ہے۔
خودی کا تحفظ زندگی کا تحفظ ،خودی کا استحکام زندگی کا استحکام ،ازل سے اب د ت ک خ ودی ہی کی ک ار فرم ائی ہے
اس کی کامرانیاں اور کارکشائیاں بے شمار اور اس کی وسعتیں اور بلندیاں بے کنار ہیں ،اقبال نے ان کا ذک ر اپ نے کالم
میں جگہ جگہ نت نئے انداز سے کیا ہے۔
ات ا ہے راز درون حی ودی کی خ
ات داری کائن
ِ ا ہے بی ودی کی خ
امنے دس ازل اس کے پیچھے اب
امنے دس د اس کے پیچھے نہ ح نہ ح
وئی تی ہ ارے میں بہ انے کے دھ زم
وئی ہتی ہ وں کی س تم اس کی موج س
یر مکش میں اس ے ہے یہ کش ازل س
ذیر ورت پ اک آدم میں ص وئی خ ہ
رے دل میں ہے یمن ت ا نش ودی ک خ
ل میں ہے رح آنکھ کے ت ک جس ط فل
(اقبال)
کہیں یہ ظاہر کیا ہے کہ الاِ ٰلہ اِﷲ کا اصل راز خودی ہے ،توحید خودی کی تلوار کو آب دار بن اتی ہے اور خ ودی توحی د
کی محافظت کرتی ہے۔
اں الاِ ٰلہ اِﷲ ِّر نہ اس ودی ک خ
اں الاِ ٰلہ اِﷲ غ فس ودی ہے تی خ
(اقبال)
کہیں یہ بتایا ہے کہ انسان کی ساری کامیابیوں کا انحص ار خ ودی کی پ رورش و ت ربیت پ ر ہے ،ق وت اور ت ربیت ی افتہ
خودی ہی کی بدولت انسان نے حق و باطل کی جنگ میں فتح پائی ہے۔ خودی ہی زندہ اور پائندہ ہو تو فق ر میں شہنش اہی
کی شان پیدا ہو جاتی ہے اور کائنات کا ذرہ ذرہ اس کے تصرف میں آ جاتا ہے۔
اہی ر میں شہنش و ہے فق دہ ت ودی ہے زن خ
یر کوہ فق ے کم ش رل س نجر و طغ نہیں ہے س
اب راں نای ائے بیک و ہے دری دہ ت و زن ودی ہ خ
اں و حریر ر نی ار پ و کہس دہ ت و زن ودی ہ خ
(اقبال)
بعض جگہ خودی کو فرد اور ملت کی زندگی کا مرکز خاص قرار دیا۔ اس مرکز کا قرب سارے جہاں کا حاصل اور اس
سے دوری موت کا پیغام ہے۔
دائی ےج زس وت ہے مرک ئے م وں کے ل قوم
دائی ا ہے خ ودی کی وخ زت احب مرک وص ہ
ائی ہید کبری ر ذرہ ش ائی ہ ود نم وخ یز ہے مح رچ ہ
دائی ودی میں ہے خ یر خ وت تعم دگی م ود زن بے ذوق نم
(اقبال)
خودی کے اوصاف میں اقبال کے بے شمار بیانات ،ان کی تص انیف میں بکھ رے پ ڑے ہیں اور بے ش مار ایس ے اش عار
ہیں جن میں خودی کا والہانہ تذکرہ آیا ہے۔ اقبال کا یہ فلسفہ حیات یا پیغام خودی جس پر انہ وں نے اتن ا زور دی ا ہے اور
فرد و قوم کی بقا و ترقی کی اساس ٹھہرایا ہے ،جذبات کے لمحاتی جوش کا نہیں بلکہ انسان کے نفس اور اس کی تہذیبی
زندگی پر کامل غور و فکر کا نتیجہ ہے۔ بعض مقامات پر خودی اور خدا کے وجود ک و الزم و مل زوم بت ا ک ر وج ود کی
تعریف یہ کی ہے کہ جوہر خودی کی نمود کا دوسرا نام وجود ہے۔ اس لئے انسان کو اپنے وجود کا ثبوت دینے کے لئے
خودی کی نمود سے غافل نہیں رہنا چاہئے ،خودی کی بھر پور نمود انسان کو امر بنا دیتی ہے۔
خودی کو زندہ و پائندہ رکھنے اور اسے توانا و طاقتور بنانے کے عوامل کا تذکرہ تھا۔ اس کے بعد خودی کی تربیت کی
ارتقائی منزلیں زیر بحث آتی ہیں یہ تین ہیں ،اطاعت ،ضبط نفس اور نیابت اِ ٰلہی ،اطاعت س ے م راد ف رائض کی ادائیگی
اور شریعت ٰالہیہ کی عملی تائید ہے۔ جو شخص ان س ے بھاگت ا ہے وہ گوی ا ِ
دین محم دی ص کے آئین کے خالف ورزی
کرتا ہے اور اس کی حدود سے باہر قدم رکھتا ہے ،ضبط نفس سے مراد ،نفسانی خواہشوں اور ذاتی اغراض پر قابو پان ا
ہے چونکہ انسان کے نفس میں خوف اور محبت کے دو عنصر ایسے ہیں جو اسے راہ راست سے اکثر ہٹا دیتے ہیں اس
لئے ضروری ہے کہ اس پر کڑی نظر رکھی جائے ،نفس کو مغلوب ہونے سے بچایا جائے۔
اعلی منصب پر فائز ہ و جات ا
ِ جب اطاعت و ضبط نفس کی منزلوں سے کسی فرد کی خودی کامیاب گزر جاتی ہے تو وہ
ہے ج و تخلی ق انس انی ک ا مقص ِد خ اص ہے ،نی ابت اور جس حص ول کے ل ئے انس ان روز اول س ے س رگرم عم ل اور
مزاحمتوں سے بر سر پیکار ہے۔
ے پہلے دیر س ر تق ا کہ ہ د اتن ر بلن وک ودی ک خ
ا ہے ا کی یری رض ات وچھے بت ود پ ےخ دے س دا بن خ
(اقبال)
عالمہ اقبال کے فلسفہ حیات یا پیغام کی تخلیق اس طور پر کرسکتے ہیں کہ فرد کی طرح ملت کی بھی خودی ہوتی ہے،
چنانچہ فرد کی خودی کی تربیت و استحکام کے س اتھ س اتھ الزم ہے کہ ملت کی خ ودی ک و بھی م رتب و مس تحکم بنای ا
جائے۔ اس کی صورت یہ ہے کہ فرد اپنی خودی کو ملت کی خودی میں اس طرح خم ک ر دے ی ا اس ک ا ت ابع بن ا دے کہ
ملت کی خودی کو فرد کی خودی پر فضیلت حاصل ہو جائے کہ ذاتی اغراض و مفادات پ ر ملت کے اغ راض و مف ادات
کو ترجیح دی جائے اور مقدم سمجھا جائے ،ایسا کرنے سے فرد کی خودی مجروح نہیں ہ وتی ،تق ویت حاص ل ک ر لی تی
ہے ،اس میں جماعت کی سی قوت پیدا ہو جاتی ہے اور جماعت میں مزید پختگی آ جاتی ہے۔
ودی ردو خ کن گ ود ش اعت خ در جم
ودی ردو خ رگ چمن گ ل ،ب ار گ
ِ ن
ود دت ش دعا وح ثرت ہم م ک
پختہ چوں وحدت شود ملت شود
انفرادی اور اجتمائی خودی کی تربیت و تنظیم اور استحکام و اس تقالل کے ل ئے عہ د حاض ر کی س اری ملت وں میں ملت
اسالمیہ ہی موزوں ترین ہے اور اس وقت دنیا میں جتنے آئین م روج ہیں ان س ب میں آئین اس المی یع نی ق رآن مجی د ہی
ایک ایسا آئین ہے جس کے تحت فرد اور جماعت کی خودی اط اعت اور ض بط نفس کی م نزلوں س ے کامی اب گ زر ک ر
کامیابی حاصل کی جا سکتی ہے ،فرد قوم کی خودی پر اظہار خیال کرتے ہوئے یہ بتایا ہے کہ مسلمان اور ملت اسالمیہ
کی خودی کی شرائط اور فتوحات دوسروں کی خ ودی س ے بہت مختل ف ہیں اور اس اختالف ک ا س بب یہ ہے کہ اس ک ا
مزاج دوسری قوموں کے مزاج سے مختلف ہے۔
ا نہ کر رب ک وام مغ
ِ اس اق ر قی نی ملّت پ اپ
خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ہاشمی
اگر مسلمانوں نے ترکیب رسول ہاشمی اپنائی ہوتی تو آج مسلمانوں کی یہ حالت نہ ہوتی ،مس لمانوں نے اپ نی خ ودی ک و
نہیں پہچانا اس لئے دوسروں کی تقلید کی اور مسلمان اس حالت پر پہنچے کہ آج مسلمان مظلوم ہے ،ہمارا قُ دس ُمب ارک
امریکی پِٹھو اسرائیل کے ہاتھوں پائمال ہوتا جا رہا ہے اور مسلمان ابھی بھی سوئے ہوئے ہیں ،مسلمانوں کا قتل ع ام ہ و
رہا ہے ،مسلمان ممالک ویران کئے جا رہے ہیں اور ہم ذاتی اغراض میں اُلجھے ہوئے ہیں۔ کسی ک و اقت دار کی بھ وک،
کسی کو گھر کی بھوک ،جب تک مسلمانوں کا صفایا ہ و ج ائے گ ا تب ت ک ہم س وئے رہیں گے ،کب ت ک ہم مغ رب کی
غالمی کریں گے اور یہی مغرب والے مسلمان کومسلمان سے لڑاتے ہیں۔
اگر مسلمان خود شناس اور متحد ہوتے تو اہل مغرب کی مجال نہ ہوتی کہ پیغمبر اس الم ص کی ش ان میں ت وہین ک رتے،
اے کاش اقبال کی آرزو پوری ہوتی کہ ملت اسالمیہ میں خودی کا مقام حاصل ہو جائے اور ہم مسلمان آباد ،خوشحال اور
روح اقبال خوش ہو جاتی ،اقب ال کس ی خ اص عالقے ی ا ملت ک ا ش اعر نہیں ہے وہ پ ورے ع الم
ِ امن امان میں رہتے اور
انس انیت ک ا ش اعر ہے اور اس ک ا پیغ ام ص رف مس لمانوں کے ل ئے نہیں بلکہ س ب کے ل ئے ہے۔
یرا روال دے ام و رون د دل ک ر درد من ہ
ا دے اید انہیں جگ ڑے ہیں ش وپ وش ج بے ہ
(اقبال)
ANS 05
لوح بھی تو ،قلم بھی تو ،تيرا وجود الکتاب
گنبد آبگينہ رنگ تيرے محيط ميں حباب
تشریح:
اے میرے محبوب ﷺ آپ سب کچھ ہیں۔ یعنی سب کچھ آپ ہی کے وجود مسعود کی بدولت عالم وجود میں آیا۔ اگر آپ نہ
ہوتے تو نہ لوح ہوتی نہ قلم ہوتا ،اور نہ کتاب ہوتی۔ اور آپ ﷺ کی شان کا اندازہ اس بات سے ہو سکتا ہے کہ یہ آسمان
جس کے ط ول و ع رض ک ا کچھ پتہ نہیں ہے ،آپ ﷺ کے محی ِط وج ود کے س امنے اس کی حقیقت ایس ی ہے جیس ے
سمندر کے مقابلہ میں ایک بلبال!
عالم آب و خاک ميں تيرے ظہور سے فروغ
ذرہ ريگ کو ديا تو نے طلوع آفتاب
تشریح:
اس کائنات کو آپ ﷺ ہی کے ظہور سے فروغ حاصل ہ وا ہے۔ آپ ﷺ ہی کے ق دموں کی ب رکت س ے ذرہ ری گ (بالل
اروق
ِ حبشی) دنیا میں آفتاب (س یدنا بالل) بن ک ر چمک ا۔ آپ ﷺ ہی کی کفش ب رداری ک ا یہ ن تیجہ تھ ا کہ امیرالموم نین ف
اعظم حضرت بالل کو "سیدنا بالل" کہتے تھے۔ آپ ﷺ ہی کی نگ اہ کیمی ا اث ر ک ا فیض تھ ا کہ حض رت اس امہ ابن زی د
اسالمی فوج کے سپہ ساالر مقرر ہوئے جو ایک غالم کے بیٹے تھے۔
شوکت سنجر و سليم تيرے جالل کی نمود
فقر جنيد و بايزيد تيرا جمال بے نقاب
تشریح:
سلطان سنجر اور سلطان سلیم آپ ﷺ کی شان جالل ،اور حضرت جنید اور حضرت با یزی د آپ ﷺ کی ش ان جم ال کے
مظہر ہیں۔ جن کا حال درج کرتاہوں-:
سلطان سنجر سے زیادہ شان و شوکت واال بادشاہ شاید ہی مشرق کوئی اور گزرا ہو۔ چنانچہ اس کی عظمت و سطوت ک ا
کچھ اندازہ اس بات سے ہو س کتا ہے کہ جب حض رت ام ام غ زالی اس کے درب ار میں تش ریف الئے ت و اس کی ش ان و
شوکت دیکھ کر اُن کے بدن میں رعشہ طاری ہ و گی ا۔ اگ رچہ س لطان نے ان کی انتہ ائی تعظیم و تک ریم کی۔ تخت ش اہی
سے اتر کر استقبال کیا۔ اور اپنے برابر مسند پر جگہ دی۔ لیکن اس کے باوجود ہیبت کا اثر دور نہ ہوا ،ت و ام ام ص احب
نے اس قاری سے جو ان کے ہمراہ تھا ،درخواست کی کہ مجھے کوئی آیت سناؤ۔ قاری چونکہ موقع شناش تھ ا اس ل یے
بکاف عَبࣿد َٗہ کیا ہللا اپنے بندے کے لیے کافی نہیں ہے۔ تب جا ک ر ان ک ا دل ق ابو میں آی ا۔
ٍ س ہّٰللا ُ
اس نے یہ آیت پڑھی َما لَیࣿ َ
اور حواس بجا ہوئے۔ اس کے بعد پھر امام صاحب نے سلطان کی فرمایش پر ایک عالمانہ تقریر ارشاد فرمائی۔
سلطان سلیم اول سلطنت عثمانیہ کے نامور ت رین س الطین میں س ے گ ذراہے۔ ۱۵۱۲ء میں تخت نش ین ہ وا ،اور ۱۵۲۰ء
میں صرف آٹھ سال حکومت کرنے کے بعد وفات پائی۔ لیکن اس قلیل مدت میں اس نے سلطنت کی واعت کو دو چن د ک ر
دیا۔ یعنی دیار بکر ،آرمینیہ ،کردستان ،شام ،مصر ،اور حجاز کو سلطنت عثمانیہ میں شامل کر لیا۔ حجاز کی فتح کے بعد
اُس کو "خادم الح رمین الش ریفین" ک ا لقب حاص ل ہ و گی ا۔ اور آخ ری عباس ی خلیفتہ المتوک ل علی ہّٰللا نے ج و ق اہرہ میں
زیر سایہ اپنی زندگی گذارر رہا تھا ،خالفت کے تمام حقوق اسے تفویض کر دی ئے۔ چن انچہ س لطان
مملوک سالطین کے ِ
سلیم پہال عثمانی سلطان ہے ،جو خلیفتہ المسلمین اور خادم حرمین شریفین کے لقب سے ملقب ہوا۔
حضرت جنید بغدادی جو صوفیا کے طبقہ ثانیہ سے تعلق رکھتے ہیں اور سید الطائفہ کے لقب س ے مش ہور ہیں ،بالش بہ
ت شہرت کی وجہ س ے محت اج تع ارف نہیں ہے۔ تیس ری ص دی کے ش روع
اولیائے کبار میں سے ہیں اور ان کا نام غائی ِ
میں بغداد میں پیدا ہوئے جہاں ان کے وال دین نے ج و ای ران النس ل تھے مس تقل س کونت اختی ار ک ر لی تھی۔ ج ونی میں
حضرت سری سقطی کے ہ اتھ پ ر بیعت کی ،اور زہ د و تق ٰ
وی کی ب دولت طبقۂ ص وفیا میں بہت بلن د م رتبہ حاص ل کی ا۔
ٰ
المقتدی بہ جنی دُ۔ ای ک دن خلیفہ بغ داد نے اپ نے کس ی چنانچہ حضرت شبلی کا قول ہے کہ اصامنا فی ٰھذا العلم و مرجعنا
مصاحب کو بے ادب ،کہہ کر پکارا ،تو اس نے کہا اب مجھ سے بے ادبی کا ص دور نہیں ہ و س کتا ،کی ونکہ میں نص ف
روز تک حضرت جنید کی خدمت میں رہ چکا ہوں۔ ۲۳۱ھ میں وفات پائی۔
اولی سے تعلق رکھتے ہیں۔ دوسری صدی کے آخ ر میں پی دا ہ وئے تھے۔ اور ۲۳۱ھ میں
حضرت بایزید بسطامی ،طبقہ ٰ
وفات پائی۔ طبقہ صوفیاء میں اتباع شریعت کے لیے ان کا نام ضرب المث ل ہ و گی ا ہے۔ ان ک ا یہ مق ولہ بہت مش ہور ہے،
جس میں خود ان کی شخصیت منعکس ہے۔ االستقامتہ فوق الکرامتہ یع نی ش ریعت اس المیہ پ ر اس تقامت دکھان ا ،ک رامت
دکھانے سے بڑھ کر ہے۔ یا یوں سمجھو کہ سب سے بڑی کرامت جو ایک مسلمان سے ظاہر ہو س کتی ہے یہ ہے کہ وہ
اتباع شریعت میں کامل ہو۔
شوق ترا اگر نہ ہو ميری نماز کا امام
ميرا قيام بھی حجاب ،ميرا سجود بھی حجاب
تشریح:
اگر آپ ﷺ کی محبت ،یعنی آپ ﷺ کی اتباع کا جذبہ ارکان شریعت کی بجا آوری کا محرک نہ ہو ،تو ک وئی عب ادت ہّٰللا
ِ
کی بارگاہ میں مقبول نہیں ہو سکتی۔
تيری نگاہ ناز سے دونوں مراد پا گئے
عقل غياب و جستجو ،عشق حضور و اضطراب
تشریح:
یہ آپ ﷺ ہی کا تو فیض ہے کہ عقل اور عشق دونوں اپنی اپنی مراد پا گ ئے۔ عق ل ،غی اب و جس تجو کی ط الب تھی ،یہ
دولت اُسے مل گئی۔ اور عشق حضور و اضطراب کا آرزو مند تھا ،یہ نعمت اُسے عطا ہو گئی۔
واضح ہو کہ ذات عقل کا یہ تقاضہ ہے کہ اس میں غیاب اور جستجو (مقصد سے دور رہنا اور تالش کرنا) کا رن گ پای ا
ج ائے۔ اور ذات عش ق اس کی مقتض ی ہے کہ اس میں حض ور اور اض طراب کی کیفیت پ ائی ج ائے۔ یع نی آپ ہی کی
ت نوعیہ نصیب ہوئی۔
بدولت ہر شئے کو اس کی صور ِ
حضور و اضطراب ،غی اب و جس تجو کی ض د ہے۔ اس ی ل یے عق ل عش ق کی ض د ہے اور اس ی ل یے دون وں کی تق دیر
جُداگانہ ہے۔ چنانچہ اقبال خود کہتے ہیں؎
عقل ،گویا آستاں سے دور نہیں
اس کی تقدیر میں حضور نہیں
عقل ،غیاب یعنی دور رہنے کی حالت سے مطمئن ہو سکتی ہے لیکن عش ق مطمئن نہیں ہ و س کتا ،وہ حض ور ک ا ط الب
ہے ،وہ تو محبوب کو بے پردہ آمنے سامنے دیکھنا چاہتا ہے۔
تيرہ و تار ہے جہاں گردش آفتاب سے
طبع زمانہ تازہ کر جلوئہ بے حجاب سے
تشریح:
اے میرے آقا! جلوۂ آفتاب سے مادی اشیاء منور ہو سکتی ہیں لیکن انسانی قلوب من ور نہیں ہ و س کتے۔ بالف اظ دگ ر م ادہ
پرستی کی وجہ سے یہ دنیا روحانیت سے محروم ہو گئی ہے۔ اس لیے میں آپ ﷺ سے التجا کرتا ہ وں کہ آپ ﷺ اپ نے
روحانی فیض سے اس دور میں بھی دنیا کو منور کر دیجئے۔