You are on page 1of 7

‫بسم اللہ الرحمن الرحیم‬

‫قرآن کی پیشن گوئیاں‬


‫۔ـ۔ـ۔‬

‫باب اول‪ :‬پیشن گوئی اور کہانت؛ مبادی مباحث‬


‫فصل اول‪ :‬پیشن گوئی؛ معنی و مفہوم‬

‫‪:‬پیش گوئی کا لغوی و اصطالحی معنی‬


‫یہ فارسی مرکب لفظ ہے۔ ”پیش“ کا معنی سامنے يا بعد میں آنے واال وقت‪ ،‬اور ”گوئی“ کا مطلب کہنا اور بتانا ہے۔‬
‫اصطالح میں اس سے مراد مستقبل قریب یا بعید میں وقوع پذیر ہونے والے کسی واقعے کی جانب مختصر اشارہ کرنا یا مفصل‬
‫بیان کرنا۔ اس ضمن میں موسم کی پیشن گوئیاں اور سیاسی حاالت و واقعات کو سامنے رکھتے ہوئے آئندہ کے سیاسی منظر‬
‫نامے کی پیشن گوئیاں کرنا ہمارے یہاں عام رائج ہے۔‬

‫پیش گوئی اور پیشن گوئی میں فرق‬


‫‪:‬عموما ً یہ لفظ دونوں طرح سے پڑھا جاتا ہے‬
‫پیش گوئی‬
‫پیشن گوئی‬
‫پیشن گوئی اور پیش گوئی کے درمیان بنیادی فرق یہ ہے کہ پیش گوئی بنیادی طور پر موسم اور معیشت کے تناظر میں‬
‫استعمال ہوتی ہے جبکہ پیش گوئی تقریبا کسی بھی تناظر میں استعمال کی جاسکتی ہے۔‬

‫پیشن گوئی کا کیا مطلب ہے؟‬


‫‪:‬پیش گوئی ایک غیر یقینی واقعہ کے بارے میں ایک بیان ہے۔ آکسفورڈ لغت نے پیش گوئی کی وضاحت کی ہے‬
‫“مستقبل کے واقعات کا حساب کتاب یا تخمینہ ‪ ،‬خاص طور پر آنے واال موسم یا مالی رجحان”‬
‫‪:‬میریریم ویبسٹر لغت میں‪ ،‬اس کو مستقبل کے کسی واقعے کے حساب کتاب یا پیش گوئی کے طور پر بیان کیا جاتا ہے‬
‫“عام طور پر مطالعہ اور تجزیہ کے نتیجے میں دستیاب متعلقہ اعداد و شمار”‬
‫ان دونوں تعریفوں سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ پیش گوئی میں ڈیٹا ‪ ،‬حساب کتاب اور تجزیہ شامل ہوتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہیں‬
‫ہوگا کہ پیش گوئی کا مطلب کسی مستقبل کے واقعے کی پیش گوئی کرنے کے لئے کسی حد تک سائنسی عمل ہوتا ہے۔ اور‬
‫جیسا کہ آکسفورڈ لغت سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ اسم زیادہ تر موسم یا کاروبار میں ہونے والے رجحان کو بیان کرنے کے لئے‬
‫استعمال ہوتی ہے۔‬
‫پیش گوئی کے معنی پیشن گوئی سے بہت ملتے جلتے ہیں۔ پیش گوئی مشاہدات‪ ،‬تجربے اور علم پر بھی ہوسکتی ہے؛ تاہم ان‬
‫کے استعمال میں کچھ خاص اختالفات ہیں۔ مثال کے طور پر ہم کسی کی خوش بخت بات کرنے والے کی پیش گوئی کا‬
‫حوالہ دینے کے لئے پیش گوئی کا استعمال نہیں کرتے ہیں۔ لیکن بعض اوقات پیش گوئی موسم اور معیشت کے ساتھ ساتھ‬
‫عام پیش گوئیاں بیان کرنے کے لئے استعمال کی جاتی ہے۔‬

‫پیش گوئیوں کی حقیقت‬


‫پیش گوئیوں سے مراد حضور ﷺ کی وہ اخبار غیب ہیں جو آپ نے بغیر مادی وسائل کے محض وحی الہی کی بنیاد پر لوگوں‬
‫کو فراہم کیں لیکن اس سے یہ کشید نہیں کیا جا سکتا کہ آپ عامل الغیب تھے جیسا کہ ہم دالئل کے ساتھ واضح کر چکے‬
‫ہیں کہ عالم الغیب صرف اللہ وحدہ ال شریک کی ذات ہے البتہ اللہ تعالی جب چاہیں اپنے انبیاء کی حسب ضرورت مختلف‬
‫غیبی اور باطنی امور سے بھی مطلع کر دیتے تھے۔ اخبار غیب اور پیش گوئی میں عموم و خصوص مطلق کی نسبت ہے یعنی‬
‫ہر پیشگوئی خبر غیب تو ہے مگر ہر خبر غیب پیشگوئی نہیں کیونکہ پیشگوئی مستقبل کے ساتھ خاص ہے جب کہ خبر غیب‬
‫‪:‬ماضی‪ ،‬حال اور استقبال مینوں کو شامل ہے۔ مثال‬
‫خبر ماضی‬
‫اس میں وہ احوال واخبار شامل ہیں جو آپ ﷺ کی بعثت سے پہلے ماضی قریب یا ماضی بعید میں وقوع پذیر ہو چکے تھے‬
‫مگر آپ نے بال مادی و ظاہری اسباب کے محض وجی انہی کے ساتھ ان سے مطلع کیا جیسے مختلف انبیا اور اقوام وملل‬
‫کے احوال و واقعات وغیرہ ہیں۔ قرآن مجید میں اس کی بے شمار مثالیں موجود ہیں۔ مثال گذشتہ بہت سے انبیاء کے واقعات‬
‫اور ان کی امتوں کے احوال وغیرہ کے متعلق آنحضرت ﷺ نے وحی کے ذریعے ہمیں مطلع کیا جن میں حضرت آدم ای کی‬
‫پیدائش ‪ ،‬جنت میں دخول پھر وہاں سے خروج وغیرہ سے متعلقہ واقعات شامل ہیں۔ حضرت ابراہیم ال ‪ ،‬حضرت موسی‬
‫القلب‪ ،‬حضرت عیسی اللہ کے تفصیلی واقعات بھی ان میں شامل ہیں۔ اسی طرح بعض اہل کتاب کے سواالت پر آپ ﷺ نے‬
‫تعالی نے ارشاد‬
‫ٰ‬ ‫ذوالقرنین (اور اصحاب کہف وغیرہ) کے واقعات پر روشنی ڈالی۔ انہیں نیبی واقعات کے پس منظر میں اللہ‬
‫‪:‬فرمایا کہ‬
‫ُنت تَ ْعل َُم َها َأن َ ْ‬
‫ت َول َا ق َْو ُم َك ِم ْن قَبْ ِل َهذَا (القرآن‪ ،‬سورۃ هود‪ ،‬آیت ‪)49‬‬ ‫يها ِإ ل َي ْ َك َما ك َ‬ ‫لك ِم ْن َأنْبَا ِء ال ْ َغ ِ‬
‫يب ن ُ ِ‬
‫وح َ‬ ‫ِت َ‬
‫ترجمہ‪” :‬یہ غیب کی خبریں ہیں جنہیں ہم تیری طرف وحی کرتے ہیں اور نہ تو اس (وحی) سے پہلے انہیں جانتا تھا اور‬
‫“نہ ہی تیری قوم۔‬

‫خبر حال‬
‫اس میں وہ احوال و واقعات شامل ہیں جو حضور ﷺ کی زندگی (بعد البعثت) میں پیش آئے اور آپ ﷺ نے بال اسباب و‬
‫کے محض وحی الہی کی بنا پر ان کی خبر دی مثال غزوہ موتہ کے حوالہ سے حضرت انس سے روایت )‪ (Media‬ذرائع‬
‫کرتے ہیں کہ ‪ :‬أن النبي نعى زيدا وجعفرا وابن رواحة للناس قبل أن ياتيهم خبرهم فقال‪ :‬أخذ الراية زيدا فأصيب ثم أخذ جعفر‬
‫فأصيب ثم أخذ ابن رواحة فأصيب وعيناه تذرفان حتى أخذ الراية سيف من سيوف الله حتى فتح الله عليهم " حضور نبی کریم‬
‫ﷺ نے حضرت زید ‪ ،‬حضرت جعفر پیلہ اور حضرت عبد اللہ بن رواحہ یہ کی شہادت کی خبر اس وقت صحابہ کو دے دی‬
‫تھی جب کہ ابھی ان کے متعلق کوئی خبر نہیں آئی تھی ۔ آپ ﷺ فرماتے جارہے تھے کہ اب زید ‪ ،‬جھنڈا اٹھائے ہوئے ہیں‬
‫‪ ،‬اب وہ شہید کر دیئے گئے ہیں اور اب ابن رواحہ نے جھنڈا اٹھا لیا ہے وہ بھی شہید کر دیئے گئے ہیں جب کہ آنحضرت ﷺ کی آنکھوں‬
‫سے آنسو جاری تھے ۔ (پھر فرمایا کہ اب ) باآلخر اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار خالد بن ولید ھے۔ نے جھنڈا اپنے‬
‫ہاتھ میں لے لیا ہے اور اللہ نے ان کے ہاتھ پر فتح عنایت فرمائی ۔“ حضور ﷺ اس غزوہ میں شریک نہیں تھے بلکہ حضور‬
‫یا مدینہ میں اپنے اصحاب کے درمیان بیٹھے ہوئے انہیں مدینہ سے کوسوں دور مقام موتہ میں ہونے والے معرکے کی پل پل‬
‫کی خبریں براہ راست سنا رہے ہیں لیکن اس کی بنیاد سیٹالئٹ سسٹم ‪ ،‬پرنٹ میڈیا یا کسی مصنوعی سیارہ سے رابطہ نہیں‬
‫تھا بلکہ محض وحی الہی اور اللہ مالک الملک سے رابطہ تھا۔‬

‫خبر استقبال‬
‫اس میں ایسے احوال و واقعات شامل ہیں جو عہد نبوی میں مستقبل قریب یا حضور ﷺ کے بعد پیش آتے رہے یا مستقبل‬
‫‪:‬بعید تا قیامت وقوع پذیر ہوتے رہیں گے۔ ان تینوں کی بالترتیب مثالیں درج ذیل ہیں‬
‫‪١:‬۔ جنگ خیبر کے موقع پر حضور ﷺ نے فرمایا کہ‬
‫ألعطين هذه الراية غذا رجال يفتح الله على يديه يحب الله ورسوله ويحبه الله ورسوله (بخاری ‪)4210‬‬
‫تعالی فتح عطا فرما ئیں گے اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے‬ ‫ٰ‬ ‫کل میں جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھوں اللہ‬
‫“محبت رکھتا ہے اور اللہ اور اس کا رسول اس سے محبت رکھتے ہیں۔‬
‫پھر آپ نے وہ جھنڈا حضرت علی دینے کو دیا اور آپ ہی کی پیش گوئی کے عین مطابق دوسرے روز ہی خیبر فتح ہو گیا۔‬
‫اسی طرح آپ ا نے جنگ بدر کے موقع پر آغاز معرکہ سے قبل یہ پیشگوئی فرمائی کہ فالں فالں کا فرفالں فالں جگہ پر‬
‫واصل جہنم ہوگا اور آپ کی پیشگوئی چند لحات میں ہی پوری ہو گئی۔ (بخاری )‬
‫ایک عیسائی نے اسالم قبول کیا پھر وہ اسالم چھوڑ کر مرتد ہو گیا اور نبی ﷺ پر الزام تراشی کرنے لگا‪ ،‬آپ نے پیشگوئی‬
‫فرمائی کہ تجھے زمین قبول نہیں کرے گی اور من دمن ایسا ہی ہوا کہ اس کی وفات کے بعد لوگوں نے اسے دفن کیا‪ ،‬صبح‬
‫ہوئی تو زمین نے اسے باہر پھینک دیا‪ ،‬عیسائیوں نے سوچا کہ یہ محمد کا اور ان کے ساتھیوں کا کام ہے چنانچہ دوسری‬
‫مرتبہ انہوں نے خوب گہری زمین میں اسے دفن کیا مگر صبح کو پھر زمین نے اسے باہر پھینک دیا حتی کہ کئی روز اس‬
‫طرح ہوتا رہا اور وہ عیسائی سمجھ گئے کہ یہ اللہ کا عذاب ہے) کسی انسان کا کام نہیں۔ (بخاری ‪)3617‬‬
‫‪٢‬۔ قسم ثانی میں وہ پیش گوئیاں شامل ہیں جو حضور ﷺ کی وفات کے بعد پیش آتی۔ رہی ہیں مثال آپ نے حضرت فاطمۃ‬
‫الزہراء کے بارے میں یہ پیش گوئی فرمائی کہ میرے اہل بیت میں سے تم سب پہلے (فوت ہو کر ) مجھ سے مالقات کرو‬
‫گی * اور فی الواقع ایسا ہی ہوا کہ آپ کی وفات کے بعد حضرت فاطمہ شسب سے پہلے فوت ہوئیں۔ ای طرح آپ ﷺ نے‬
‫مصر‪ ،‬یمن‪ ،‬شام‪ ،‬مغرب و مشرق ‪ ،‬روم و ایران کی فتوحات بیت المقدس کی آزادی ‪ ،‬مال و دولت کی فراوانی وغیرہ کے بارے‬
‫میں جتنی پیش گوئیاں فرما ئیں تھیں وہ تمام من وعن پوری ہوئیں۔‬
‫‪ ٣‬۔ تیسری قسم موجودہ دور سے قیامت تک پر مشتمل ہے جس میں بہت کی پیشگوئیاں فی الواقع اپنے ظاہر اور حقیقی مفہوم‬
‫کے ساتھ روز روشن کی طرح واضح ہو چکی ہیں اور بہت سی ابھی واقع ہوں گی حتی کہ یہ سلسلہ قیامت کی عالمات‬
‫کبری (دجال ‪ ،‬مہدی ‪ ،‬حضرت عیسی ال وغیرہ) کے ظہور کے ساتھ قیامت پر منتج ہو گا۔‬
‫پیشگوئیوں کی تعبیر کا صحیح منہج‬
‫پیش گوئیوں کا بنیادی طور پر تین طرح کی چیزوں کے ساتھ ربط وتعلق ہے ایک قسم میں شخصیات شامل ہیں یعنی ایسی‬
‫چیزیں جو قائم بالذات (اپنا وجود رکھتی ) ہیں۔ ان میں بے جان اور جاندار دونوں طرح کی چیزیں شامل نہیں ۔ بے جان‬
‫چیزوں میں آگ‪ ،‬سونے کا پہاڑ یا سونے کا خزانہ وغیرہ شامل ہیں اور جاندار چیزوں میں غیر عاقل یعنی حیوانات وشجرات ‪،‬‬
‫دابتہ االرض‪ ،‬اور عاقل یعنی امام مہدی کا ظہور حضرت عیسی ال کا نزول ‪ ،‬دجال اور یا جوج و ماجوج کا خروج وغیرہ شامل‬
‫ہیں۔‬
‫شخصیات سے متعلقہ پیش گوئیوں کا اطالق بال تاویل و استعارہ انہی شخصیات پر کیا جائے گا جن کے اوصاف و عالمات‬
‫حضور ﷺ نے متعین کر دیئے ہیں ۔ مثال امام مہدی سے مراد ایک خاص مسلمان امام مراد ہے جس کی چند مخصوص صفات‬
‫آپ ﷺ نے متعین کر کے واضح کر دی ہیں لہذا اس سے یہ مفہوم کشید نہیں کیا جا سکتا کہ امام مہدی سے مراد ہر وہ‬
‫عادل حکمران ہے جو لوگوں کی ہدایت اور دین کی تجدید کا کام کرے! دوسری قسم میں عالقہ جات سے متعلقہ پیش گوئیاں‬
‫شامل ہیں۔ ان میں کچھ عالقہ جات پیش گوئیوں میں بالکل واضح طور پر ذکر کر دیئے گئے ہیں مثال مکہ اور مدینہ میں‬
‫دجال داخل نہیں ہو سکے گا تو اب اس سے وہی مکہ اور مدینہ دو مقدس شہر مراد ہیں جن کی طرف حضور ﷺ نے اشارہ‬
‫کیا ہے۔‬
‫البتہ کچھ عالقہ جات کو مہم اور اشاراتی انداز کے ساتھ بیان کیا گیا ۔ مثال مشرق کی طرف سے ایک لشکر آئے گا یا ٹیلوں‬
‫والی سرزمین پر جنگ ہوگی۔ اب ایسے عالقہ جات کی تعیین آثار و عالمات کے ساتھ ہی ممکن ہے لیکن اس سلسلہ میں‬
‫یہ واضح رہے کہ اگر کسی صحابی سے کسی مہم عالقے کی تعیین ہو جائے تو اسی کو ترجیح دی جائے گی۔ عالوہ از میں‬
‫ایسی مہمل پیش گوئی کی ‪ ،‬قرائن و عالمات اور علل و اسباب کے ساتھ ذاتی قیاس آرائی کرتے ہوئے اس کے حتمی انطباق‬
‫کا دعوی نہ کیا جائے۔ کیونکہ قیاس میں صواب و خطا دونوں پہلوؤں کا امکان ہوتا ہے لیکن اگر کوئی شخص اپنے ذاتی قیاس وطن کی بنا‬
‫پر کسی پیشگوئی کا حتمی انطباق کا دعوی کرتا ہے تو اس کے انطباق کے صحیح ثابت ہونے پر اس کی د علمی معراج تو‬
‫ہو سکتی ہے مگر بصورت دیگر اسی فرد واحد کی وجہ سے اس انطباق کے غلط ثابت ہونے پر پورا اسالم اعتراضات اور‬
‫شکوک و شبہات کے زد میں آئے! عالقہ جات سے متعلقہ پیش گوئیوں کے ضمن میں یہ مسئلہ بھی مدنظر رکھا جائے کہ‬
‫حضور ﷺ کے دور میں جن عالقوں کے لیے جو نام متعین تھے اور ان عالقہ جات سے کسی پیش گوئی کا کسی حیثیت سے‬
‫کوئی ربط و تعلق بھی احادیث میں اگر ملتا ہے تو اس پیشگوئی کا مصداق وہی مخصوص عالقہ اور حدود اربعہ ہے جو آپ‬
‫کے دور میں تھا خواہ بعد میں اس کی حدود یا نام میں تبدیلی واقع ہو گئی ہو ۔ مثال خراسان کے بارے میں جو پیش گوئیاں‬
‫کی گئی ہیں ان سے مراد قدیم خراسان ہے اور اس کی وہی سابقہ حدود اربعہ اس میں شامل ہیں اگر چہ آج اس خراسان‬
‫کی حدود میں کافی حد تک کمی کر دی گئی ہے لیکن قدیم جغرافیائی کتابوں ( معجم البلدان‪ ،‬فتوح البلدان وغیرہ) میں ان‬
‫کی گزشتہ حدود وغیرہ آج بھی مالحظہ کی جاسکتی ہیں۔ اسی طرح قسطنطنیہ سے متعلقہ پیش گوئیوں کا اطالق اسی‬
‫قسطنطنیہ کی سرزمین پر ہوگا جو استنبول (ترکی کا دار الحکومت) سے موسوم کیا جا چکا ہے۔ اسی طرح مدینہ طیبہ میں‬
‫کھڑے ہو کر جن سمتوں کی طرف اشارہ کر کے آپ ﷺ نے کسی واقعہ کی پیش گوئی فرمائی ہے ان سمتوں سے مدینہ ہی‬
‫کی سمتیں مراد لی جائیں گی مثال آپ ﷺ نے مدینہ سے مشرق کی طرف اشارہ کر کے پیشگوئی فرمائی ہے تو اس سے مراد‬
‫مدینہ کا مشرقی ہے نا کہ دنیا کا مشرق۔ عالوہ ازیں اگر آپ ﷺ نے کسی خاص اصطالح سے کوئی پیش گوئی فرمائی ہے تو‬
‫پہ اس سے مراد وہی قدیم اصطالح ہوگی گو آج وہی اصطالح اس کے برعکس ہو چکی ہو مثال آپ نے مغرب (یہ سمت ہونے‬
‫کے ساتھ ملک شام کے لیے بطور اصطالح مستعمل تھی) کی طرف کسی واقعہ کی پیش گوئی فرمائی تو اس سے مراد وہی‬
‫مغرب اور اہل مغرب ہیں جو آپ ﷺ کے دور میں معروف تھے اگر چہ آج وہ سارے عالقے دنیا کے مشرق میں شمار کیے‬
‫!جاتے ہیں‬
‫نیز یہ بات بھی پیش نظر رہے کہ اگر کسی سمت کو غیر محدود انداز میں استعمال کیا گیا ہے تو اسے غیر محدود ہی‬
‫معتبر سمجھا جائے گا اال یہ کہ کسی قرینے سے اس کی کوئی حد بندی متعین کی جاسکتی ہو ۔ مثال' مشرق کی سمت کا‬
‫غیر محدود استعمال کیا گیا ہے تو اس میں مشرق قریب ‪ ،‬وسطی اور بعید مینوں ہی شامل ہو سکتے ہیں۔ اس کے عالوہ‬
‫تیسری قسم میں غیر مرئیات چیزوں سے متعلقہ پیش گوئیاں شامل ہیں جنہیں غیر شخصیات سے متعلقہ پیشگوئیوں سے بھی‬
‫موسوم کیا جا سکتا ہے کیونکہ یہ چیزیں غیر محسوس و غیر مرئی ہیں اگر چہ ایک لحاظ سے فی نفسہ ان کا وجود بھی ہے‬
‫۔ مثال حضور ﷺ نے خبر دی کہ مجھے دکھایا گیا کہ فتنے اس طرح (زمین پر) گر رہے ہیں جس طرح بارش کے قطرے‬
‫گرتے ہیں ۔ حاالنکہ فتنہ ایک غیر مرئی چیز ہے اسی طرح آپ ﷺ نے قیامت کی نشانیوں میں بہت سی معنوی اور غیر‬
‫مرئی چیزوں سے ہمیں پیشگی مطلع فرما دیا ہے مثال جہالت بڑھ جائے گی‪ ،‬علم ختم ہوتا جائے گا ‪ ،‬زنا ‪،‬فحاشی اور بے‬
‫حیائی وغیرہ جیسی معنوی چیزیں بہت زیادہ بڑھ جائیں گی۔‬
‫عقل پرستوں سے مرعوب و متاثر ہو کر بہت سے نام نہاد مسلمان بھی غیر مرئی چیزوں میں نفی و تشکیک کا رویہ اپنائے‬
‫ہوئے ہیں کہ جو چیز حس وادراک سے باہر ہو ‪ ،‬ناپی‪ ،‬تولی اور گنی نہ جاسکتی ہوا سے کیسے تسلیم کیا جا سکتا ہے؟‬
‫حاالنکہ یہی عقل پرست بہت سی ایسی چیزوں کا ‪ 100%‬یقین رکھتے ہیں جو دیکھی بہنی یا محسوس نہیں کی جاسکتیں‬
‫مثال روح ایک حقیقت ہے جسے بال استثناء ہر شخص تسلیم کرنے پر مجبور ہے لیکن کسی نے روح کو دیکھا ہو؟ محسوس کیا‬
‫دعوی نہیں کر سکتا مگر اس کے باوجود روح کے وجود کو تسلیم کیا‬
‫ٰ‬ ‫ہو؟ اس سے مخاطب ہوا ہو؟ کوئی ایک شخص بھی ایسا‬
‫جاتا ہے بلکہ اخالقیات میں بہت سی مثبت اور منفی چیزوں کو تسلیم کیا جاتا ہے جب کہ ان کا ٹھوس وجود نہیں ہوتا! بہر‬
‫صورت مسلمان کی تعریف ہی یہ ہے کہ وہ آنحضرت ﷺ کی ہر بات کو بال چون و چرا تسلیم کرے خواہ اس کی عقل اسے‬
‫تسلیم کرے یا نہ کرے۔‬

‫خواب اور پیشگوئی کی تعبیر میں فرق‬


‫بعض لوگ پیشگوئیوں کے انطباق میں خواب کی تعبیر کا رویہ اپنا لیتے ہیں کہ جس طرح خواب میں کچھ اشارات اور عالمات‬
‫دکھائی جاتی ہیں اور ان کی مدد سے کسی چیز تک رسائی حاصل کی جاتی ہے جب کہ وہ مطلوبہ چیز خواب میں نظر آنے‬
‫والی چیز کے بالکل برعکس ہوتی ہے۔ ایسے ہی پیشگوئیوں میں اشارے کنائے سے کام لیا گیا ہے اور ان کی مراد الفاظ کی‬
‫حقیقت پر نہیں بلکہ تخیل پر ہوتی ہے۔ شیخ االسالم ابن تیمیہ کے بقول یہ نکتہ نظر فالسفہ اور صوفیا کا ہے جب کہ سلف‬
‫صالحین کا نکتہ نظر اس کے برعکس ہے۔ شیخ االسالم ابن تیمیہ نے فالسفہ اور صوفیا کے اس تکیہ نظر کی بھر پور تردید‬
‫کی ہے۔ عالوہ ازیں عصر حاضر میں بھی کئی لوگ اسی غلط نظریہ کا شکار ہیں۔‬

‫فصل دوم‪ :‬پیشن گوئی اور کہانت میں فرق‬


‫حسب ذیل ہے‬
‫ِ‬ ‫‪:‬پیش گوئی کے ساتھ ایک لفظ ”کہانت“ بھی استعمال کیا جاتا ہے۔ اس لفظ کی وضاحت‬
‫فتوی‬
‫ٰ‬ ‫کی‬ ‫کرام‬ ‫مفتیان‬ ‫کہانت باب فتح کا مـصدرـ ہے اور اس کا لغوی معنی بن دیکھے فیـصلہ کرنا ہے۔ حرمین شریفین کی‬
‫فتوی صادر کیا ہے‪ ،‬اس کی عبارت کے مطابق‬ ‫ٰ‬ ‫‪:‬کمیٹی نے کہانت پر جو متفقہ‬
‫کاہن وہ شخص ہے جو آئندہ زمانے سے متعلقہ کائنات کی خبروں کے درپے ہوتا ہے اور غیب سے باخبر ہونے اور رازوں کی”‬
‫پہچان کا دعوے دار ہوتا ےہ۔ عرب لوگ جیسے باریکیوں کے علم میں مصروف شخص کو کاہن کہتے ہیں‪ ،‬ایسے ہی جو شخص‬
‫کسی کے معاملے اور ضرورت میں جستجو کرے‪ ،‬اس پر بھی کا ہن کا اطالق کرتے ہیں۔ بعض لوگ نجومی اور طبیب کو بھی‬
‫“کاہن کہہ دیتے ہیں۔ کہانت کا اصطالحی معنی لغوی معنی سے خارج نہیں۔‬
‫فتاوی برائے کہانت جنات آسیب‪ ،‬مکتبہ بیت االسالم‪ ،‬الہور‪2015 ،‬ء‪ ،‬صفحہ ‪(172‬‬ ‫ٰ‬ ‫)‬

‫فصل سوم‪ :‬پیشن گوئی کی شرعی حیثیت‬


‫کہانت سے متعلقہ احکام‬
‫فقہا کا اس پر اجماع ہے کہ کہانت عل ِم غیب کا دعوی کرنے اور اس کے حصول کی کوشش کرنے کے معنی میں ہو تو حرام‬
‫ہے۔ جیسے‪ :‬ان کا اجماع ہے کہ کاہن کے پاس امور کے انجام کے بارے میں سوال کرنا حرام ہے اور ان کی بات کی تصدیق‬
‫‪:‬کرنا کفر ہے۔ حدیث مبارک میں ہے کہ‬
‫اس النَّب َِّي َصلَّى الل َّ ُه َعلَيْ ِه َو َسل َّ َم َع ِن الْك َُّه ِ‬ ‫َأ ُأ‬
‫ول‬‫ان ؟‪َ ،‬فقَ َال‪ِ :‬إ ن ّ َُه ْم ل َيْ ُسوا ب َِش ْيءٍ‪َ ،‬فقَال ُوا ‪ :‬يَا َر ُس َ‬ ‫قَال َْت َعاِئ َش ُة َـر ِضـ َي اللَّ ُه َعنْ ُه َما ‪َ :‬س َل نَ ٌ‬
‫خ َط ُف َها ال ْجِ ِن ّ ُّي‪ ،‬فَيُ َق ْر ِق ُر َها ِفي‬ ‫ي‬ ‫ق‬ ‫ْح‬
‫َ ِّ َ ْ‬ ‫ل‬ ‫ا‬ ‫ن‬
‫َ‬ ‫ِ‬
‫م‬ ‫ة‬ ‫م‬ ‫ِ‬
‫َ َ ُ‬ ‫ل‬‫ك‬ ‫ْ‬ ‫ل‬‫ا‬ ‫ْك‬
‫َ‬ ‫ل‬ ‫ِ‬
‫ت‬ ‫‪:‬‬ ‫م‬ ‫َ‬ ‫ل‬ ‫س‬‫و‬
‫ُّ َ ْ َ َ َّ‬‫ِ‬
‫ه‬ ‫َي‬ ‫ل‬ ‫ع‬ ‫ه‬‫َ‬ ‫ل‬ ‫ال‬ ‫ى‬ ‫َ‬ ‫ل‬ ‫ص‬
‫ّ َ ُّ َ ّ‬‫ِي‬ ‫ب‬ ‫ن‬ ‫ال‬ ‫ال‬
‫َ‬ ‫ق‬
‫َال‪َ :‬ف َ‬ ‫ُون َح ّق ًا‪ ،‬ق َ‬ ‫ِالش ْي ِء يَك ُ‬
‫ُون ب َّ‬ ‫ح ِ ّدث َ‬ ‫الل ّ َ ِه‪َ ،‬فِإن ّ َُه ْم ي ُ َ‬
‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫َأ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ِ‬ ‫ُأ‬
‫اب قراءۃ الفاجر والمنافق‪ ،‬رقم‬ ‫َ ُ‬ ‫ب‬ ‫التوحید‪،‬‬ ‫اب‬
‫َ ُ‬ ‫ت‬ ‫ك‬ ‫البخاری‪،‬‬ ‫صحيح‬ ‫(‬ ‫‪.‬‬ ‫ةٍ‬‫َ‬ ‫ْب‬
‫ذ‬ ‫َ‬ ‫ك‬ ‫ة‬ ‫ا‬‫م‬
‫ْ َئ‬‫ِ‬ ‫ن‬ ‫ِ‬
‫م‬ ‫َر‬
‫َ‬ ‫ث‬‫ْ‬ ‫ك‬ ‫يه‬ ‫ِ‬
‫ف‬ ‫ون‬
‫َ ْ ُ َ‬‫ط‬ ‫ل‬ ‫خ‬ ‫َي‬
‫ف‬ ‫‪،‬‬‫ة‬ ‫اج‬ ‫ج‬ ‫الد‬
‫َّ َ َ‬ ‫ة‬ ‫ذ ُِن َولِي ّ ِِه َ ْ َ‬
‫َر‬‫ق‬ ‫ر‬ ‫ق‬ ‫َ‬ ‫ك‬
‫الحدیث ‪)7561‬‬
‫ترجمہ‪” :‬ہم سے علی بن عبداللہ مدینی نے بیان کیا‪ ،‬کہا ہم سے ہشام بن یوسف نے بیان کیا‪ ،‬کہا ہم کو معمر نے خبر دی‪،‬‬
‫انہیں زہری نے (دوسری سند) امام بخاری رحمہ اللہ نے کہا اور مجھ سے احمد بن صالح نے بیان کیا‪ ،‬کہا ہم سے عنبسہ‬
‫یحیی بن عروہ بن‬ ‫ٰ‬ ‫بن خالد نے بیان کیا‪ ،‬کہا ہم سے یونس بن یزید ایلی نے بیان کیا‪ ،‬ان سے ابن شہاب نے‪ ،‬کہا مجھ کو‬
‫زبیر نے خبر دی کہ انہوں نے عروہ بن زبیر سے سنا کہ عائشہ ؓ نے کہا کہ کچھ لوگوں نے نبی کریم ﷺ سے کاہنوں کے‬
‫متعلق سوال کیا۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ ان کی کسی بات کا اعتبار نہیں۔ ایک صاحب نے کہا کہ یا رسول اللہ! یہ‬
‫لوگ بعض ایسی باتیں بیان کرتے ہیں جو صحیح ثابت ہوتی ہیں۔ بیان کیا کہ اس پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا کہ یہ صحیح‬
‫بات وہ ہے جسے شیطان فرشتوں سے سن کر یاد رکھ لیتا ہے اور پھر اسے مرغی کے کٹ کٹ کرنے کی طرح (کاہنوں)‬
‫“کے کانوں میں ڈال دیتا ہے اور یہ اس میں سو سے زیادہ جھوٹ مالتے ہیں۔‬
‫‪:‬اسی طرح ایک اور حدیث میں ہے کہ‬
‫اه ِليَّ ِة كُن َّا نَ َت َط ّيَ ُر ق ََال‬
‫اء كُن َّا نَفْ َعل َُها ِفي ال َْج ِ‬ ‫ول الل َّ ِه َصلَّى الل َّ ُه َعلَيْ ِه َوسلَّم َأرَأيْ َ َأ‬ ‫السل َِم ِ ّي َأن ّ َُه ق ََال ِل َر ُس ِ‬
‫ت ْشيَ َ‬ ‫َ َ َ‬ ‫َع ْن ُم َعا ِويَ َة ْب ِن ال َْحكَ ِم ُّ‬
‫ان ق ََال َفـلـَا َتْأ ِت الْك َُّه َ‬
‫ان‬ ‫ول الل َّ ِه كُن َّا نَْأ ِتي الْك َُّه َ‬ ‫ول الل َّ ِه َصلَّى الل َّ ُه َعل َْي ِه َو َسل َّ َم َذ ِل َك َش ْي ٌء َتجِ ُد ُه ِفي نَفْ ِس َك َفـلـَا يَ ُـ‬
‫ـص ّ َدـن ّ ََك ق ََال يَا َر ُس َ‬ ‫َر ُس ُ‬
‫(مسند احمد بن حنبل‪ ،‬مسند جابر بن عبداللہ‪ ،‬رقم الحدیث ‪)15110‬‬
‫ترجمہ‪” :‬حضرت معاویہ بن حکم سے مروی ہے کہ انہوں نے نبی ﷺ سے پوچھا کہ بتایے کہ ہم زمانہ جاہلیت میں جو کام‬
‫کرتے تھے مثالہم پرندوں سے شگون لیتے تھے اس کا کیا حکم ہے نبی ﷺ نے فرمایا یہ تمہارے ذہن کا ایک وہم ہوتا تھا اب‬
‫یہ تمہیں کسی کام سے نہ روکے انہوں نے پوچھا یا رسول اللہ ہم کاہنوں کے پاس بھی جایا کرتے تھے نبی ﷺ نے فرمایا اب‬
‫“نہ جایا کرو۔‬
‫کہانت اختیار کرنے والے کو کاہن کہتے ہیں۔ نیز ”الکاھن“ اس شخص کو کہتے ہیں جو تخمینے سے ماضی کے خفیہ واقعات‬
‫کی خبر دیتا ہو کاہن فال نکالنے واال‪ ،‬پیش گوئی کرنے واال‪ ،‬شگونی‪ ،‬قیافہ شناس‪ ،‬نجومی غیب کی خبر بتانے واال۔ کاہن کا‬
‫ذکربائبل میں بکثرت پیشن گوئی کرنے والے کے طور پر آیا ہے‪ ،‬عام زندگی میں اس سے جادوگر مراد لیا جاتا ہے۔قرآن کریم‬
‫میں بھی کاھن دو دفعہ جادوگر کے معنوں میں ہی آیا ہے۔‬
‫َوـ لـَا ِب َق ْو ِل ك َِاه ٍن َق ِليـلـًا َّما َت َذك َّ ُرونَالحاقة‬
‫)القرآن‪ ،‬سورۃ الحاقۃ‪ ،‬آیت ‪(42‬‬
‫“ترجمہ‪” :‬اور نہ یہ کسی کاہن کا قول ہے‪ ،‬تم لوگ کم ہی غور کرتے ہو۔‬
‫‪:‬ایک اور مقام پر ارشاد فرمایا‬
‫ون‬
‫جن ُ ٍ‬
‫َاه ٍن َول َا َم ْ‬ ‫ت َربِّ َك ِبك ِ‬ ‫َف َذكِّ ْر ف ََما َأ َ‬
‫نت ِب ِن ْع َم ِ‬
‫)القرآن‪ ،‬سورۃ الطور‪ ،‬آیت ‪(29‬‬
‫“ترجمہ‪” :‬پس اے نبیؐ‪ ،‬تم نصیحت کیے جاؤ‪ ،‬اپنے رب کے فضل سے نہ تم کاہن ہو اور نہ مجنون‬
‫‪:‬امام جالل الدین سیوطی مندرجہ آیت کی تفسیر میں لکھتے ہیں‬
‫کاہن‪ ،‬عربی زبان میں جیوتشی‪ ،‬غیب گو اور سیانے کے معنی میں بوال جاتا تھا‪ ،‬زمانہ جاہلیت میں یہ ایک مستقل پیشہ تھا‪”،‬‬
‫ضعیف االعتقاد لوگ یہ سمجھتے تھے کہ ارواح اور شیاطین سے سے ان کا خاص تعلق ہے جن کے ذریعہ یہ غیب کے خبریں‬
‫معلوم کرسکتے ہیں‪ ،‬کوئی چیز کھو گئی ہو تو بتا سکتے ہیں اگر چوری ہو گئی ہو تو چور اور مسروقہ مال کی نشان دہی‬
‫کرسکتے ہیں اگر کوئی اپنی قسمت پوچھے تو بتا سکتے ہیں ان ہی اغراض و مقاصد کے لیے لوگ ان کے پاس جاتے تھے اور‬
‫وہ کچھ نذرانہ لیکر بزعم خویش غیب کی باتیں بتاتے تھے اور ایسے گول مول فقرے استعمال کرتے تھے جن کے مختلف‬
‫“مطلب ہو سکتے تھے تاکہ ہر شخص اپنے مطلب کی بات نکال لے۔‬
‫تحت سورۃ الطور‪ ،‬آیت ‪29‬‬ ‫ِ‬ ‫)تفسیر جاللین‪ ،‬امام جالل الدین سیوطی‪،‬‬

‫باب دوم‪ :‬اسالم اور اس کے متعلقات کی پیشن گوئیاں‬


‫فصل اول‪ :‬قرآن؛ ایک الہامی کتاب‬
‫جس کو اللہ تعال ٰی نے اپنے بندوں پر رحم فرماتے ہوئے آخری نبی محمد صلی اللہ علیہ وسلم پر نازل فرمایا جو ابتدائے آفرینش سے لے کر‬
‫تک پیدا ہـوـنے والی تمام اشیاء‪ 4‬کو محیط ہے‪ .‬قرآن پاک وہ واحد کتاب ہے جس کے اندر انسان کی جملہ ضروریات‪ ,‬خواہشات‪,‬‬
‫جذبات‪ ,‬احساسات اور نفسیات کو مد نظر رکھتے ہوئے تکمیل کے ذرائع ‪,‬طریقے‪ ,‬اور حدود کو متعینکردیا گیا ہے تاکہ انسان‬
‫‪.‬ان حدود کی پاسداری کرے اور دنیا و آخرت میں کامیابی و کامرانی سے ہمکنار ہو‬
‫قرآن میں جدید سے جدید تر علوم و فنون‪ ,‬اشخاص و افراد‪ ,‬افکارونظریات‪ ,‬انسان کے قلبی و نفسیاتی‪ ,‬حاالت و کوائف اور‬
‫تمام اجتماعی تحریکات کی تمثیلیں بیان کرتے ہوئے ہرچیز کی تصویر پیش کردی گئی ہے تاکہ ہر دور کے تقاضے کے مطابق‬
‫عالم انسانیت کی رنہمائی ہو سکے‪ .‬اس لحاظ سے جدید سے جدید تر اور مشکل سے مشکل تر حاالت میں اس کتاب حکمت‬
‫خصوص ا رہبری وپیشوائی کرنے کی زبردست صالحیت موجود ہے‪ .‬اللہ کا خود فرمان‬‫ً‬ ‫عموما اور اہل اسالم کی‬
‫ً‬ ‫میں بنی نوع کی‬
‫ہے۔‬

‫ترجمہ ‪":‬یقینًا ہـمـ نے تمہاری جانب کتاب نازل فرمائی ہے جس میں تمہارے لئے ذکرـ ہے‪,‬کیا پھر بھی تم عقل نہیں رکھتے؟ "(االنبیاء‪: 4‬‬
‫‪)10‬‬

‫‪.‬اور دوسری جگہ ارشاد باری تعال ٰی ہے‬

‫ترجمہ‪":‬اور ہم نے تمہارے اوپر وہ کتاب نازل کی جو ہر چیز کی واضح کرنے والی ہے"(النحل‪)89:‬‬
‫مد نظر‬ ‫العلمین نے اپنے بندوں کی فطرت کو ّ‬
‫بالشبہ قرآن مجید ایک کامل و مکمل الریب اللہ کی کتاب ہے جس کو رب ٰ‬
‫رکھتے ہوئے تھوڑا تھوڑا نازل فرمایا تاکہ ہر بات اچھی طرح ذہن میں بیٹھ جائے ‪ .‬جیسا کہ قرآن مجید کے اندر اللہ تعال ٰی‬
‫‪.‬خود فرماتاہے‬

‫ترجمہ‪":‬اور ہم نے قرآن کو تھوڑا تھوڑا کرکے اس لیے اتارا تاکہ آپ اسے ٹھہر ٹھہر کر سنائیں اور ہم نے اسے بتدریج رہ کر‬
‫"اتارا‬
‫)االسراء‪(104: 4‬‬
‫الع لمین نے قرآن مجید کو نازل کرنے کے ساتھ ساتھ اس کی حفا ظت کا بھی ذمہ خود لیا ہے‪,‬جس کا‬ ‫اور پھر اللہ رب ٰ‬
‫‪:‬اندازہ قرآن کی اس آیت سے لگاسکتے ہیں‬
‫ترجمہ‪":‬بے شک ہم نے اس قرآن کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں"(الحج‪)9:‬‬
‫العلمین کا اتارا‬
‫اور قرآن مجید عربی زبان میں نازل ہواہے جس کا تذکرہ نزول کے سلسلے یوں بیان کیا گیاہے‪.‬ترجمہ‪":‬یہ قرآن اللہ رب ٰ‬
‫ہـوـاـ ہے‪,‬اسے جبرئیل امین نے تیرے دل پر اتارا ہے تاکہ تو ڈرانے واالـ ہـوجائے‪ ,‬واـضح نہایت بلیغ عربی زبان میں ہے"(الشعراء‪ 192: 4‬تا‬
‫‪)195‬‬
‫‪:‬اور دوسری جگہ ارشاد فرمایا‬
‫ترجمہ‪” :‬یہ (قرآن) پوری نوع انسانی کے لئے وضاحت (نامہ) ہے اور اللہ والوں کے لئے ہدایت و موعظت ہے۔“(آل‬
‫عمران‪)138:‬‬
‫رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل عرب کی حالت انتہائی ناگفتہ بہ تھی‪ ,‬اس وقت وہاں کے ظالموں میں‬
‫سرکشی‪ ,‬مے نوشی‪ ,‬رہزنی اور قتل و خونریزی عادت ثانیہ بن چکی تھی‪ .‬انسان کی جان و مال اور عزت وآبرو کی کوئی‬
‫قیمت نہ تھی‪ ,‬اخالق ناپید تھا‪ ,‬انسانیت دم توڑ چکی تھی‪ ,‬کوئی ایسی برائی نہیں جو ان کے اندر نہ پائی جاتی تھی‪,‬‬
‫گناہوں اور ظلمتوں کی شب دیجور میں نیکی کا کوئی خیال نہ تھا‪,‬لیکن اللہ کی رحمت جوش میں آئی‪,‬اس نے گمراہوں کے‬
‫لئے آسمان سے ہدایت نازل فرمائی اور ان ہی میں سے ایک خاص ہستی کو رسالت کے لئے چن لیا‪ .‬قرآن مجید میں اللہ‬
‫تعال ٰی فرماتاہے ‪ .‬ترجمہ‪":‬وہی جس نے ناخواندہ لوگوں میں ان ہی لوگوں میں سے ایک رسول بھیجا جو ان پر اس کی آیتیں‬
‫پڑھ کر سناتا ہے اور ان کو پاک کرتا ہے اور انہیں کتاب و حکمت کی باتیں سناتا ہے یقینًا یہ اس سے پھلے کھلی گمراہی‬
‫میں تھے‪(.‬الجمعہ ‪)2:‬‬
‫قرآن مجید ذـہن وـ فکر‪ ,‬عقیدہ وـ عمل کے اندر ایسا مطالعہ پیش کرنا چاہتا ہے جو عین منشاء‪ 4‬ال ٰہی ہے‪.‬ترجمہ‪":‬اور ہم نے آپ کی‬
‫طرف ذکر(قرآن) نازل کیا تاکہ لوگوں کی جانب جو نازل کیا گیا ہے آپ اسے کھول کھول کر بیان کردیں‪,‬شاید کہ وہ غور و‬
‫فکر کریں"(النحل‪ )44:‬یہ قرآن انسان کو ضاللت و گراہی کے عمیق غار سے صراط مستقیم کی جانب التا ہے‪ ,‬یہی وہ قرآن‬
‫ہے جس کو جنات نے بھی سنا تو بے اختیار پکار اٹھے "ہم نے ایک نہایت دلنواز کالم سنا جو ہدایت کی رہنمائی کرتا ہے‬
‫اس لئے ہم اس پر ایمان الئے" یہی وہ قرآن ہے جو راہ راست کی بھی رہنمائی کرتا ہے ‪.‬اللہ کا فرمان ہے‪.‬ترجمہ‪":‬یقینًا یہ‬
‫قرآن وہ راستہ ہے جو بہت ہی سیدھا ہے"(بنی اسرائیل ‪)9:‬‬
‫الغرض قرآن کریم کے اندر اس طرح کی بہت سی آیتیں ہیں لیکن ہمارے اندر وہ یقین موجود نہیں جس کا قرآن ہم سے‬
‫متقاضی ہے‪ .‬قرآن ہمیں تدبّر و تفک ّر کی تعلیمات سے روشناس کراتا ہے‪,‬ہم اس کی تعلیمات پر دھیان نہیں دیتے‪,‬قرآن ہمیں آپس میں اتحاد‬
‫واتفاق کا ماحول پیدا کرنے کی دعوت دیتاہے ‪ ,‬ہم اس کی دعوت پر عمل نہ کرکے نا اتفاقی پر تلے ہوئے ہیں ‪ .‬آج ہیں‬
‫قرآن کی دعوت پر لبّیک کہتے ہوئے اس کی تعلیمات پر غور و فکر کرکے عمل کرنے کی ضرورت ہے‪.‬اگر ہم سر اٹھا کر‬
‫جینا چاہتے ہیں‪,‬ٹھیک اسی طرح جیسے ہمارے اسالف نے سر اٹھا کر دو چیزوں (کتاب و سنت) کو اپنا کر جیا کرتے‬
‫تھے ‪,‬ہم عزت و شرافت‪,‬امن و آشتی اور حاکمیت و ملوکیت کی زندگی گزارنا چاہتے ہیں تو ہمیں قرآنی آیات و احکامات کو‬
‫کما حقہ بجا النا ہوگا‪,‬قرآن کو سینے سے لگانا ہوگا اور قرآنی تعلیمات سے خود سیراب ہونا ہوگا اور پیاسی دنیا کو بھی‬
‫سیراب کرنا ہوگا۔‬

‫فصل دوم‪ :‬قرآن کی پیش گوئیاں؛ موضوعاتی خاکا‬


‫قرآن حکیم کے اعجاز کی ایک روشن دلیل اور بیّن بُرہان یہ ہے کہ اس نے گذشتہ اقوام و ملل کے ان صحیح حاالت و‬
‫واقعات کو بیان کیا ہے جن کے علم و ادراک کا کوئی ذریعہ پیغمبر علیہ السالم کے پاس موجود نہ ہو۔ ظاہر ہے کہ گذشتہ‬
‫‪ :‬زمانہ کے واقعات کا علم آپ ﷺ کو تین ہی ذریعوں سے ہو سکتا ہے اور ان تینوں ذرائع کی آپ ﷺ سے نفی کی گئی ہے‬
‫‪:‬الف) یہ کہ جملہ واقعات آپ ﷺ کے سامنے پیش آئیں۔ اس کی نفی قرآن مجید نے یوں کی ہے کہ‬
‫الش ِه ِدي َۡنۙ۔ َول ٰـ ِكن َّاۤ اَن َۡش ۡانَا ق ُُروۡنًا َفتَ َط َ‬
‫او َل َعلَي ِۡه ُم ال ُۡع ُم ُ ۚ‌ر َو َما كُن َۡت ثَا ِويًا ِفىۡۤ اَه ِۡل َمدۡيَ َن‬ ‫َو َما كُن َۡت ب َِجا ِن ِب ال َۡغ ۡرب ِ ِّى اِ ۡذ َقـ َضـيۡنَاۤ اِل ٰى ُمو َۡسى اـلۡـاَم َۡر َو َما كُن َۡت ِم َن ّ ٰ‬
‫ٮهمۡ ِ ّمنۡ ن ّ َِذي ٍۡر ِ ّمنۡ َقبۡلِ َك ل ََعل َّ ُه ۡم‬‫اديۡنَا َول ٰـ ِكنۡ َّرح َۡم ًة ِ ّمنۡ ّ َربّ َِك ِلتُن ِۡذ َر َقو ًۡما ّ َماۤ اَتٰ ُ‬ ‫َ‬ ‫َ‬ ‫ن‬ ‫ذ‬
‫ۡ‬ ‫ِ‬ ‫ا‬ ‫ِجا ِن ِب ُّ‬
‫الطو ِۡر‬ ‫ۡت ب َ‬ ‫علَي ِۡهمۡ اٰي ٰ ِتنَاۙ َول ٰـ ِكن َّا كُن َّا ُمر ِۡسلِي َۡن۔ َو َما كُن َ‬
‫تَـتۡلُوۡا َ‬
‫يَ َت َذك َّ ُرو َۡن‬
‫)القرٓان‪ ،‬سورۃ القصص‪ٓ ،‬ایت نمبر ‪(46 ،45 ،44‬‬
‫موسی کو احکام سپرد‬ ‫ٰ‬ ‫ترجمہ‪” :‬اور (اے پیغمبر) تم اس وقت (کوہ طور کی) مغربی جانب موجود نہیں تھے جب ہم نے‬
‫کیے تھے اور نہ تم ان لوگوں میں سے تھے جو اس کا مشاہدہ کر رہے ہوں۔ بلکہ ان کے بعد ہم نے بہت سی نسلیں پیدا‬
‫کیں‪ ،‬جن پر طویل زمانہ گزر گیا۔ اور تم مدین کے بسنے والوں کے درمیان بھی مقیم نہیں تھے کہ ان کو ہماری آیتیں پڑھ کر‬
‫موسی کو)‬ ‫ٰ‬ ‫سناتے ہو‪ ،‬بلکہ (تمہیں) رسول بنانے والے ہم ہیں۔ اور نہ تم اس وقت طور کے کنارے موجود تھے جب ہم نے (‬
‫پکارا تھا‪ ،‬بلکہ یہ تمہارے رب کی رحمت ہے (کہ تمہیں وحی کے ذریعے یہ باتیں بتائی جارہی ہیں) تاکہ تم اس قوم کو‬
‫“خبردار کرو جس کے پاس تم سے پہلے کوئی خبردار کرنے واال نہیں آیا‪ ،‬شاید وہ نصیحت قبول کرلیں۔‬
‫‪:‬ب) ان جملہ واقعات کو پڑھتے‪ ،‬ان کی نفی اس طرح کی گئی ہے‬
‫ب َول َا الۡاِي َۡم ُ‬
‫ان‬ ‫ۡت تَد ِۡرىۡ َما الۡ ِكتٰ ُ‬ ‫َما كُن َ‬
‫الشوری‪ ،‬آیت ‪(52‬‬ ‫ٰ‬ ‫سورۃ‬ ‫القرآن‪،‬‬ ‫)‬
‫“ترجمہ‪” :‬تمہیں اس سے پہلے نہ یہ معلوم تھا کہ کتاب کیا ہوتی ہے اور نہ یہ کہ ایمان کیا ہے۔‬
‫پیغمبر اسالم آن واقعات کو کسی سے سنتے؛ اس سے بھی قرآن میں نفی کی گئی ہے‬ ‫ِ‬ ‫‪:‬ج)‬
‫ۡت َول َا َقو ُۡم َك ِمنۡ َقب ِۡل ٰه َذا‌‌ۛؕ فَاصۡ ِبرۡ‌‌ۛؕ اِ َّن ال َۡعا ِقبَ َة ِلل ُۡمتّ َ ِقي َۡن (القرآن‪ ،‬سورۃ ھود‪،‬‬ ‫ۡت تَعۡل َُم َهاۤ اَن َ‬ ‫ل َۡك ِمنۡ اَنۡۢبَٓا ِء الۡ َغي ِۡب نُو ِۡحي َۡهاۤ اِلَي َ ‌‬
‫ۡكۚ َما كُن َ‬
‫ٓایت نمبر ‪)49‬‬
‫ترجمہ‪(” :‬اے پیغمبر) یہ غیب کی کچھ باتیں ہیں جو ہم تمہیں وحی کے ذریعے بتا رہے ہیں۔ یہ باتیں نہ تم اس سے پہلے‬
‫“جانتے تھے‪ ،‬نہ تمہاری قوم۔ لہذا صبر سے کام لو اور آخری انجام متقیوں ہی کے حق میں ہوگا۔‬
‫اہل کتاب نہ ہونے کے باعث گذشتہ اقوال و ملل کے واقعات سے قطعا ً‬ ‫ِ‬ ‫قریش مکہ‬ ‫ِ‬ ‫قرآن مجید کی اس تصریح کے مطابق‬
‫ملک شام کا سفر کیا ہے۔ ایک مرتبہ اپنے چچا ابو طالب کے‬ ‫ِ‬ ‫ناآشنا تھے۔ آپ ﷺ امی تھے اور صرف دو مرتبہ آپ نے‬
‫ہمراہ عہ ِد طفولیت میں؛ اور دوسری مرتبہ عہ ِد شباب میں اور وہ بھی چند روز کے واسطے؛ باقی عمر کا سارا حصہ اپنی قوم‬
‫قریش ہی میں بسر ہوا۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ قریش جس طرح آپ کی اہمیت کے منکر نہ تھے اس طرح ان واقعات کے متعلق قریش میں سےکسی کوبھی‬
‫کبھی یہ کہنے کی جرات نہ ہوئی کہ یہ واقعات آپ فالن شخص سے شن کر بیان کرتے ہیں۔ اب قرآن پاک کے ارشاد فو‬
‫جہا الیہ سے خود بخود واضح ہو جاتا ہے کہ اس میں واقعات کے بیان کا سر حبشہ مجروحی الہی کے اور کچھ نہیں ہے پس‬
‫قرآن مجید کے معجزات اسالیب میں سے ایک اسلوب یہ بھی ہے کہ اس نے گذشتہ قوموں کے واقعات ان کے نیک و بد‬
‫اعمال کے ثمرات و نتایج کو یاد دالکر آنیوالے انسانوں کو حیرت و بصیرت کا سامان بنا گیا ہے۔ یہاں پر یہ بات بھی ملحوظ‬
‫خاطر رنی چاہئے کہ قرآن حکیم کا اصل مقصد افوس بنی آدم اور بنی نوع انسان کے عقائد و اعمال و اخالق کی اصالح کرتا‬
‫ہے۔ اس کا مقصد ایہ کو بیان کرتا نہیں یہی وجہ ہے کہ وہ واقعات کے بیان کرتے ہیں تاریخی اسلوب بیان کے در پہ نہیں‬
‫ہوتا اور نہ وہ ایک مورخ کی حیثیت سے کسی واقعہ کے جال بعزار کو بیان کرتا ہے بلکہ وہ ان کی بعض اجزاء کو معرض‬
‫بیان میں التا ہے جو عبرت و نصیحت کیلئے ضروری ہیں اور واقعات تخصص بھی ان کی اختیار و اقوام کے بیان کرتاہے جن‬
‫کے اسمار اور کچھ اجمالی حاالت سے اس وقت اکثر لوگ واقف تھے اور مین کے بارے میں بہت سے غلط واقعات مشہور اور‬
‫بحث کے موضوع تھے۔ غیر معروف توادرات سے قرآن پاک تعرض نہیں کرتا کیونکہ اس سے بجائے اعتبار و تذکر سیر طبیعت‬
‫نفس واقع میں الجھ کر رہ جاتی ہے اور یہ قرآن کے مقصد کے بالکل خالف ہے نیز واقعات کے بیان کرنے سے اس غرض‬
‫چونکہ خوابیدہ قوائے نکر یہ کو بیدار کرنا اور عقائد و اعمال کی صالح کرنا ہے اور اس غرض کے پورا کرنے کے لئے ضروری‬
‫ہے کہ مختلف اہلوا دیے پیرایوں نے طبعی رجحانات کو حقائق کی طرف بار بار متوجہ کیا جائے اس لئے قرآن پاک حسب‬
‫موقع و عمل ان واقعات قصص کو تکرار کے ساتھ بیان کرتا ہے بگزار واقعات اسی لئے ہے کہ مقصد واقعات کی تفصیل و‬
‫تشریح نہیں بلکہ افادی پہلو میں عبرت پذیر می کا سامان پیدا کیا جائے۔‬

‫آئندہ آنیوالے واقت کی پیشنگوئیاں‬


‫قرآن حکیم نے جس طرح گذشتہ اقوام و ملل کے صحیح حاالت اور واقعات بیان کئے ہیں اس طرح آئندہ آنے والے واقعات اور‬
‫حوادث کی پیشین گوئیاں بھی کی ہیں اور وہ قرآن میں ایک دو نہیں بلکہ بکثرت ہیں جو حرف بحرف پوری ہوئیں۔‬
‫دنیا میں کسی امر کو ثابت کرنے کے لئے واقعات اور حقائق سے بڑھ کر کوئی اور قومی شہادت نہیں‪ i‬ہوسکتی۔ ایک شخص‬
‫جو طبیب ماہر ہونے کا مدعی ہے وہ اپنے اس دعوی کے ثبوت میں ان العالج اور اپنے امراض کی صحت سے مایوس ہو‬
‫جانے والے مریضوں کو پیش کرتا ہے جن کو اس کے عالج سے صحت اور شفا حاصل ہوتی ہے۔ ایک انجینئر اپنے بنائے ہوئے‬
‫آالت‪ ،‬انجن اور مشینوں کو پیش کرتا ہے۔ ایک خوش نویس اپنے لکھے ہوئے کتبہ کو سامنے التا ہے۔ ایک شاعر اپنے قصیدہ‬
‫کو اپنی شاعری کے کمال کے ثبوت میں پیش کرتا ہے۔ اس طرح قرآن حکیم کے معجزہ ہونے کے ثبوت میں قرآن حکم کی‬
‫وہ پیشن گوئیاں بھی ہیں جو آئندہ آنے والے واقعات کے متعلق کی گئی ہیں اور چودہ صدیوں کا طویل زمانہ شہادت دے رہا‬
‫صبح صادق کی روشنی کی طرح دیدۂ بصیرت کے نور کی‬ ‫ِ‬ ‫نزول قرآن پاک کے بعد سے آج تک وہ پیشن گوئیاں بھی‬ ‫ِ‬ ‫ہے کہ‬
‫‪:‬افزائش رہی ہیں۔ قرآن پاک میں جو پیشن گوئیاں کی گئی ہیں ان میں چند باتیں خاص طور پر ملحوظ رہیں‬
‫الف) اوال ً ہر پیشن گوئی نہایت جزم و یقین کے ساتھ کی گئی ہے؛ ان میں کاہنوں اور نجومیوں کی پیشن گوئیوں کی طرح کا‬
‫ابہام نہیں ہے۔‬
‫ب) پیشن گوئیاں انسانی نقطہ نگاہ سے ایسے ناسازگار حاالت و کوائف میں کی گئی ہیں کہ آثار و عالمات کے اعتبار سے ان‬
‫کے پورا ہونے کا ضعیف سا بھی احتمال نہیں ہوسکتا تھا۔‬
‫د) پیشن گوئیاں حرف بحرف صحیح ثابت ہوئیں اور بہت سے لوگ قرآن پاک کے اس اعجاز کو دیکھ کر حلقہ بگوش اسالم‬
‫ہوتے رہے ہیں۔‬

‫‪:‬عہ ِد مستقل کا قطعی علم کسی انسان کو نہیں۔ اس اصول کو قرآن میں اس انداز میں بیان کیا گیا ہے‬
‫ۡت‌ؕ‬ ‫ب غ ًَدا‌ ؕ َّو َما تَد ِۡرىۡ نَـف ٌۡسۢ ِبا ِ َّى اَر ٍۡض تَ ُمو ُ‬ ‫اع ِ‌ة ۚ َويُن َ ِ ّز ُل الۡ َغي َ ‌‬
‫ۡث ۚ َويَعۡل َُم َما ِفى الۡاَر َۡحا ِ‌م ؕ َو َما تَد ِۡرىۡ نَف ٌۡس ّ َماذَا تَك ِۡس ُ‬ ‫اِ َّن الل ّ ٰ َه ِعن َۡد ٗه ِعل ُۡم ّ َ‬
‫الس َ‬
‫علِيۡمٌ َخ ِبي ٌۡر (القرآن‪ ،‬سورۃ لقمان‪ ،‬آیت ‪)34‬‬ ‫اِ ّ َن الل ّ ٰ َه َ‬ ‫ً‬
‫ترجمہ‪” :‬یقینا (قیامت کی) گھڑی کا علم اللہ ہی کے پاس ےہ‪ ،‬وہی بارش برساتا ےہ‪ ،‬اور وہی جانتا ےہ کہ ماؤں کے پیٹ‬
‫میں کیا ہے‪ ،‬اور کسی متنفس کو یہ پتہ نہیں ہے کہ وہ کل کیا کمائے گا اور نہ کسی متنفس کو یہ پتہ ہے کہ کونسی زمین‬
‫“میں اسے موت آئے گی۔ بیشک اللہ ہر چیز کا مکمل علم رکھنے واال‪ ،‬ہر بات سے پوری طرح باخبر ہے۔‬
‫رسل پر غیب کا اس قدر حصہ ظاہر فرماتا‬ ‫علم غیب کا مالک صرف رب العالمین ہے۔ رب العالمین ہی اپنے برگزیدہ انبیاء و ُ‬
‫رہا ہے جس کی ان کو ضرورت ہوتی یا جس کی ضرورت ان کی صداقت و رسالت کے یقین دالنے کے لئے ضروری سمجھی‬
‫گئی۔‬
‫غيۡ ِبهٖۤ ا ََح ًدا۔ اِلَّا َم ِن ارۡتَ ٰضى ِمنۡ َّر ُسو ٍۡل َفاِن ّ َٗه يَسۡل ُُك ِمنۡۢ بَي ِۡن ي َ َدي ِۡه َو ِمنۡ َخلۡ ِف ٖه َر َص ًدا‬ ‫عل ٰى َ‬ ‫علِ ُم الۡ َغي ِۡب َفل َا يُظ ِۡه ُر َ‬ ‫ٰ‬
‫)القرآن‪ ،‬سورۃ الجن‪ ،‬آیت ‪(26‬‬
‫ترجمہ‪” :‬وہی سارے بھید جاننے واال ہے‪ ،‬چنانچہ وہ اپنے بھید پر کسی کو مطلع نہیں کرتا۔ سوائے کسی پیغبر کے جسے اس‬
‫“نے (اس کام کے لیے) پسند فرما لیا ہو۔ ایسی صورت میں وہ اس پیغمبر کے آگے اور پیچھے کچھ محافظ لگا دیتا ہے۔‬
‫نبی کے معجزات کا انکار کرنے والے اور شکوک و اوہام کے دامن میں گرفتار تو بہت پائے جاتے ہیں مگر مستقبل کے واقعات‬
‫ناقابل انکار شہادت‬ ‫ِ‬ ‫کے اطالع کی صحیح تاویل ایسے لوگ بھی نہیں کر سکتے۔ کیونکہ کسی واقعہ کی شہادت ایک مضبوط اور‬
‫تسلیم کی جاتی ہے۔ قرآن پاک میں جن پیش آنے والے واقعات کی پیشن گوئیاں کی گئی ہیں وہ سب حرف بحرف پوری‬
‫ہوئیں اور تمام واقعات ظہور پذیر ہوتے اور یہ اس کے کالم اللہ ہونے کی کھلی دلیل ہے۔‬
‫قرآن مجید میں ایسی ہی بیشمار پیش گوئی کا اگر موضوعاتی اشاریہ بنائیں تو درج ذیل قسم کی پیشن گوئیاں قرآن میں ملتی‬
‫‪:‬ہیں‬
‫فصل سوم‪ :‬قرآن کی پیش گوئیاں؛ اسالم سے متعلق‬

‫قرب قیامت اور اخالقی اقدار سے متعلق پیشن گوئیاں‬


‫ِ‬ ‫باب سوم‪:‬‬
‫فصل اول‪ :‬قرآن کی پیش گوئیاں؛ قرآن سے متعلق‬

‫فصل دوم‪ :‬قرآن کی پیش گوئیاں؛ حضرت محمد ﷺ سے متعلق‬

‫ِ‬
‫غزوات نبی اور سے اسالمی فتوحات سے متعلق‬ ‫فصل سوم‪ :‬قرآن کی پیش گوئیاں؛‬

You might also like