Professional Documents
Culture Documents
جب انگریزوں نے اورنگ زیب عالمگیر کو للکارا 2
جب انگریزوں نے اورنگ زیب عالمگیر کو للکارا 2
برصغیر کی تاریخ کو دیکھا جائے توہمیں نظر آتا ہے کہ ایسٹ انڈیا کمپنی کے 1603میں
ہندوستان میں آنے کے بعد یہ پرائیوٹ کمپنی مسلسل فتوحات حاصل کرتی چلی گئی اور تاریخ عالم
میں پہلی بار ایسا ہوا کہ ایک پرائیویٹ کمپنی نے ایک ملک پر قبضہ کر لیا جو اس وقت اپنی مال
ودولت کی وجہ سے سونے کی چڑیا کے نام سے مغرب میں جانے جات تھا۔لیکن اسی ایسٹ انڈیا
کمپنی نے ایک موڑ پر ایسی شرمناک شکست ہوئی تھی جس نے کمپنی کا وجود ہی خطرے میں
ڈال دیا تھا۔ بہت کم لوگ جانتے ہیں کہ سراج الدولہ اور ٹیپو سلطان پر فتح حاصل کرنے سے پہلے
ایسٹ انڈیا کمپنی نے اورنگ زیب عالمگیر سے بھی جنگ لڑنے کی کوشش کی تھی لیکن اس میں
بری شکست کھانے کے بعد انگریز سفیروں کو ہاتھ باندھ کر اور دربار کے فرش پر لیٹ کر مغل
شہنشاہ سے معافی مانگنے پھر مجبور ہونا پڑا تھا۔ ساتھیوں آئیں انگریز اس ذلت آمیز شکست پر
بات کرتے ہیں۔
بات کچھ یوں ہے کہ انگریزوں نے ایسٹ انڈیا کمپنی کے قیام کے بعد ہندوستان کے مختلف عالقوں
میں اپنی تجارتی مراکز قائم کر کے تجارت شروع کر دی تھی۔ یہ تجارتی مراکز ہندوستان کے
مغربی ساحل پر واقع سورت اور بمبئی ،اور مشرق میں مدراس اور موجودہ کلکتہ شہر سے 20
میل دور دریائے گنگا پر واقع بندرگاہیں ہگلی اور قاسم بازار اہم تھے۔
انگریز ہندوستان سے ریشم ،گڑ کا شیرہ ،کپڑا اور معدنیات لے جاتے تھے۔ خاص طور پر ڈھاکے
کی ململ اور بہار کے قلمی شورے (جو باردو بنانے میں استعمال ہوتا ہے) کی انگلستان میں بڑی
مانگ تھی۔انگریزوں کے ساماِن تجارت پر ٹیکس عائد نہیں کیا جاتا تھا بلکہ ان کے کل سامان کی
قیمت کا ساڑھے تین فیصد وصول کر لیا جاتا تھا۔
مغلوں کی تجارتی پالیسی پر تنازع
اسی زمانے میں پرتگیزی اور ولندیزی تاجروں کے عالوہ کئی آزاد تاجر نے بھی ہندستان کے
تجارتی مراکز میں تجارت شروع کردی تھی۔ انھوں نے مغل حکام سے مل کر اپنے لیے وہی
تجارتی حقوق حاصل کر لیے جو انگریزوں کے پاس تھے۔
جب یہ خبر ایسٹ انڈیا کمپنی کےمین دفتر لندن میں جب پہنچی تو کمپنی کے غیظ و غضب کی انتہا
نہ رہی۔
اس موقعے پر جوزایا چائڈ جو اس وقت ایسٹ انڈیا کمپنی کا سربراہ تھا اس نے جو فیصلہ کیا وہ
عجیب ہی نہیں ،بلکہ پاگل پن کی حدوں کو چھوتا ہوا دکھائی دیتا ہے۔ انھوں نے ہندوستان میں مقیم
کمپنی کے حکام سے کہا کہ وہ بحیرۂ عرب اور خلیِج بنگال میں مغل بحری جہازوں کا راستہ کاٹ
دیں ،اور جو جہاز ان کے ہتھے چڑھے ،اسے لوٹ لیں۔یہی نہیں بلکہ 1686میں چائلڈ نے انگلستان
سے سپاہیوں کی دو پلٹنیں بھی ہندوستان بھجوا دیں اور انھیں ہدایات دیں کہ ہندوستان میں مقیم
انگریز فوجیوں کے ساتھ مل کر چٹاگانگ پر قبضہ کر لیں۔
جنِگ چائلڈ
ان کے نام کی مناسبت سے اس جنگ کو ’جنِگ چائلڈ‘ بھی کہا جاتا ہے۔
اس زمانے میں ہندوستان پر اورنگ زیب عالمگیر کی حکومت تھی اورنگ زیب کے عہد میں
سلطنت کی سرحدیں کابل سے ڈھاکہ تک اور کشمیر سے پانڈی چری تک 40الکھ مربع کلومیٹر
کے رقبے پر پھیلی ہوئی تھیں۔ یہی نہیں ،اورنگ زیب کی فوجیں دکن کے سلطانوں ،افغانوں اور
مرہٹوں سے لڑ لڑ کے اس قدر تجربہ کار ہو چکی تھیں وہ اس وقت دنیا کی کسی بھی فوج سے
ٹکرا سکتی تھیں۔
اس وقت مغل فوج کی شان و شوکت کی کوئی مثال نہ تھی ۔ د ہلی کی فوج تو ایک طرف رہی،
صرف بنگال کے صوبہ دار شائستہ خان کے فوجیوں کی تعداد 40ہزار سے زیادہ تھی۔ ایک
اندازے کے مطابق مغل فوج کی کل تعداد نو الکھ سے بھی زیادہ تھی اور اس میں ہندوستانی ،عرب،
افغان ،ایرانی ،حتٰی کہ یورپی تک شامل تھے۔
جب لندن سے مغلوں کے خالف طبِل جنگ بجا تو بمبئی میں تعینات کمپنی کے سپاہیوں نے مغلوں
کے چند جہاز لوٹ لیے۔
اس کے جواب میں سیاہ فام مغل امیر البحر سیدی یاقوت نے ایک طاقتور بحری بیڑے کی مدد سے
بمبئی کا محاصرہ کر لیا۔
سیدی 20ہزار سپاہی لے کر بمبئی پہنچ گیا اور آتے ہی آدھی رات کو ایک بڑی توپ سے گولے
داغ کر سالمی دی۔ انگریزوں نے بھاگ کر قلعے میں پناہ لی۔ افراتفری کے عالم میں گوری اور
کالی عورتیں ،آدھے کپڑے نیم برہنہ پہنے ہوئے ،صرف بچے اٹھائے ہوئے بھاگی چلی جا رہی
تھیں۔'
سیدی یاقوت نے قلعے سے باہر کمپنی کے عالقے لوٹ کر وہاں مغلیہ جھنڈا گاڑ دیا ،اور جو سپاہی
جو سپاہی مقابلے کے لیے گئے انھیں کاٹ ڈاال ،اور باقیوں کو گلے میں زنجیریں پہنا کر بمبئی کی
گلیوں سے گزارا گیا۔
14ماہ طویل محاصرہ
رفتہ رفتہ نہ صرف سمندر پار سے انگریز تاجر ،سپاہی ،پادری ،معمار اور دوسرے ہنرمند یہاں آ
کر آباد ہونے لگے ،بلکہ ہہت سے ہندوستانیوں نے بھی یہاں رہائش اختیار کر لی اور شہر کی آبادی
تیزی سے پھیلنے لگی۔
اب یہی آبادی بھاگ کر قلعے میں پناہ گزین تھی اور قلعہ سیدی یاقوت کے نرغے میں تھا۔ جلد ہی
اشیائے خورد و نوش ایک ایک کر کے ختم ہونے لگیں۔ دوسری طرف بیماریوں نے ہلہ بول دیا اور
قلعے میں محصور انگریز بمبئی کے مسموم موسم کا شکار ہو کر یکے بعد دیگرے مرنے لگے۔
ایک اور سانحہ یہ گزرا کہ کمپنی کے مالزم آنکھ بچا کر بھاگ نکلتے تھے اور سیدھے جا کر
سیدی یاقوت سے جا ملتے تھے۔ یہی نہیں ،بلکہ ہیملٹن کی گواہی کے مطابق ان میں سے کئی مذہب
تبدیل کر کے مسلمان بھی ہو گئے۔
سیدی اگر چاہتے تو حملہ کر کے قلعے پر قبضہ کر سکتے تھے ،لیکن انھیں امید تھی کہ جلد ہی
قلعہ پکے ہوئے آم کی طرح خود ہی ان کی جھولی میں آ گرے گا ،اس لیے انھوں نے دور سے گولہ
باری ہی پر اکتفا کی۔
یہ صورِت حال ملک کے مشرقی حصے میں بھی پیش آئی جہاں بنگال کے صوبے دار شائستہ خان
کے دستوں نے ہگلی کے مقام پر ایسٹ انڈیا کمپنی کے قلعے کو گھیرے میں لے لیا اور آمد و رفت
کے تمام راستے مسدود کر دیے۔
بنگال کا محاصرہ تو جلد ہی ختم ہو گیا اور دونوں فریقوں نے صلح کر لی ،لیکن بمبئی میں یہ سلسلہ
15ماہ تک دراز ہو گیا۔ آخر انگریزوں کی ہمت جواب دے گئی اور انھوں نے اپنے دو سفیر اورنگ
زیب کے دربار میں بھجوا دیے تاکہ وہ شکست کی شرائط طے کر سکیں۔
انگریز سفیر اورنگ زیب کے دربار میں معافی مانگتے ہوئے۔ یہ تصویر فرانسیسی مصور رینال
نے 1780میں بنائی تھی
ان سفیروں کے نام جارج ویلڈن اور ابرام نوار تھے۔ یہ کئی ماہ کی بےسود کوششوں کے بعد باآلخر
ستمبر 1690کو آخری طاقتور مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے دربار تک رسائی حاصل
کرنے کامیاب ہو گئے۔
دونوں اس حال میں پیش ہوئے کہ دونوں کے ہاتھ مجرموں کی طرح سے بندھے ہیں ،سر سینے پر
جھکے ہیں ،اور حلیہ ایسا ہے کہ کسی ملک کے سفارتی نمائندوں کی بجائے بھکاری لگ رہے ہیں۔
دونوں سفیر مغل شہنشاہ کے تخت کے قریب پہنچے تو عمال نے انھیں فرش پر لیٹنے کا حکم دیا۔
سخت گیر ،سفید ریش بادشاہ نے انھیں سخت ڈانٹ پالئی اور پھر پوچھا کہ وہ کیا چاہتے ہیں۔
دونوں نے پہلے تو گڑگڑا کر ایسٹ انڈیا کمپنی کے جرائم کا اعتراف کیا اور معافی کی درخواست
کی ،پھر کہا کہ ان کا ضبط شدہ تجارتی الئسنس پھر سے بحال کر دیا جائے اور سیدی یاقوت کو
بمبئی کے قلعے کا محاصرہ ختم کرنے کا حکم دیا جائے۔
ان کی عرضی اس شرط پر قبول ہوئی کہ انگریز مغلوں سے جنگ لڑنے کا ڈیڑھ الکھ روپے
ہرجانہ ادا کریں ،آئندہ فرماں برداری کا وعدہ کریں اور بمبئی میں ایسٹ انڈیا کمپنی کا صدر جان
چائلڈ ہندوستان چھوڑ دے اور دوبارہ کبھی یہاں کا رخ نہ کرے۔
انگریزوں کے پاس یہ تمام شرائط سر جھکا کر قبول کرنے کے عالوہ کوئی چارہ نہ تھا ،سو انھوں
نے تسلیم کر لیں اور واپس بمبئی جا کر سیدی یاقوت کو اورنگ زیب کا خط دیا ،تب جا کر اس نے
محاصرہ ختم کیا اور قلعے میں بند انگریزوں کی 14مہینوں بعد گلوخالصی ہوئی۔
ہیملٹن نے لکھا ہے کہ جنگ سے قبل بمبئی کی کل آبادی 700سے 800کے درمیان تھی ،لیکن
جنگ کے بعد ' 60سے زیادہ لوگ نہیں بچے تھے۔ بقیہ تلوار اور طاعون کی نذر ہو گئے۔'
داغ مٹانے کی کوشش
آنے والے برسوں میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے ہر ممکن کوشش کی کہ اس خجالت آمیز جنگ کے
واقعات کو انگلستان کے عوام تک نہ پہنچنے دیا جائے۔ چنانچہ کمپنی کے پادری جان اوونگٹن نے
چھ سال بعد جب اس جنگ کا احوال لکھا تو اس نے تمام تر ملبہ مغلوں کی وعدہ خالفی پر ڈال دیا۔
اس پر کمپنی نے اسے 25پاؤنڈ کا انعام بھی دیا جو اس زمانے میں خاصی بڑی رقم تھی۔
اوونگٹن اپنی کتاب میں جگہ جگہ انگریزوں کی بےجگری کا احوال بیان کرتا ہے جنھوں نے دس
گنا بڑے دشمن کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ یہی نہیں ،وہ دعوٰی کرتا ہے کہ اس جنگ میں انگریزوں کو
نہیں بلکہ سیدی یاقوت کو شکست ہوئی تھی۔ مزید یہ کہ اس نے مغل دربار میں انگریز سفیروں کے
برتاؤ کا ذکر بھی سرے سے گول کر دیا ہے۔
ہیملٹن نے کتاب تو لکھی لیکن اسے شائع ہوتے ہوئے 40برس بیت گئے۔ اس دوران پلوں کے نیچے
سے اس قدر پانی بہہ چکا تھا کہ اسے کچھ زیادہ توجہ نہیں مل سکی۔
یہاں ایک دلچسپ سوال اٹھتا ہے کہ اگر اورنگ زیب انگریزوں کو معافی نہ دیتے اور انھیں
ہندوستان سے نکال باہر کرتے تو آج برصغیر کی تاریخ کیا ہوتی؟
اور پھر وہ وقت بھی آیا جب 1857میں ایسٹ انڈیا کمپنی نے آخری مغل بادشاہ بہادر شاہ ظفر کو
گرفتار کر لیا