You are on page 1of 20

‫‪URDU NOTES CLASS 9TH‬‬

‫حصہ نثر‪:‬۔‬

‫( مکمل)‬ ‫۔ سبق نمبر ‪ 9‬۔ نئی اور پرانی تہذیب ۔‬

‫( مکمل )‬ ‫سبق نمبر ‪ 10‬۔ سماج ۔‬

‫( مکمل )‬ ‫۔ سبق نمبر ‪ 11‬۔ کار بکاؤ ہے ۔‬

‫( مکمل )‬ ‫۔ سبق نمبر ‪ 12‬۔ خطوط بنام مدیر ۔‬

‫۔ حصہ نظم ‪:‬۔‬

‫( مکمل)‬ ‫نظم نمبر ‪ 4‬دعا ۔ ( عالمہ محمد اقبال )‬

‫حصہ غزل ‪:‬‬

‫غزل نمبر ‪ : 4‬لگتا نہیں ہے دل میرا اجڑے دیار میں۔‬

‫( مکمل)‬ ‫( بہادر شاہ ظفر )‬


‫سبق نمبر ‪ .9‬نئی اور پرانی تہذیب کی ٹّک ر‬

‫مشقی سواالت‬
‫سوال الف۔ سبق میں انگریزی کی کس مثل کا ذکر ہوا ہے؟‬

‫جواب‪ :‬سبق میں انگریزی کی مثل " مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب۔ یہ دونوں نہ ملے ہیں‪،‬نہ ملیں‬
‫گے" کا ذکر ہوا ہے۔‬

‫سوال ب‪ :‬مصنف نے تعلیم سے فراغت کب پائی؟‬

‫جواب‪ :‬مصنف نے سنہ انیس سو (‪ )1900‬میں تعلیم سے فراغت پائی۔‬

‫سوال ج‪ :‬مصنف کون سا لباس پہن کر نواب صاحب کے ہاں گئے؟‬

‫جواب۔ مصنف سیاہ ٹرکش کوٹ ‪ ،‬دستار اور بیلٹ نما قیمتی کمر بند پہن کر نواب صاحب کے ہاں گئے۔‬

‫سوال د ‪ :‬مصنف نے نواب صاحب کے مکان کا نقشہ کن الفاظ میں کھینچا ہے؟‬

‫جواب‪ :‬کوٹھی کیا ہے کسی بڑے بادشاہ کا محل ہے۔ قیامت کی کرسی ہے۔ سامنے بہت بڑا میدان ہے۔ اس‬
‫میں سے ایک چوڑی سڑک چکر کھاتی ہوئی سیڑھیوں تک آتی ہے۔ سیڑھیوں کے بعد صحن چبوترا‪،‬‬
‫اور صحن چبوترہ کے بعد پھر سیڑھیاں ہیں۔ اور یہیں سے کئی منزلہ مردانہ مکان شروع ہوتا ہے۔ پہلی‬
‫منزل میں پرانا دقیانوسی سامان بھرا ہوا ہے۔ ان کمروں کے سامنے جو برآمدہ ہے اس میں چند ٹوٹی‬
‫پھوٹی کرسیاں‪ ،‬الوارث حاجتمندں کے لئے پڑی رہتی ہیں۔ ان کرسیوں سے مجھ کو بھی واسطہ پڑا ہے‬
‫اس کا ذکر آئندہ کروں گا۔ جو بڑی سڑک چکر کھا کے محل سرا کے دروازے کو گئی ہے۔ وہ بلیرڈ روم‬
‫کے سامنے سے گزرتی ہے اور یہاں اتنی چوڑی ہو گئی ہے کہ اچھا خاصہ صحن نکل آیا ہے۔ بلیرڈ روم‬
‫کے بالکل سامنے دوسری منزل سے نیچے آنے کا زینہ اور اس کے بائیں طرف اوپر کے بڑے کمرے‬
‫کے سامنے چھوٹا سا چھجہ ہے۔ چھجہ کے اوپر نہایت خوبصورت نیچی سی منڈیر ہے۔ بس میرے‬
‫مضمون کے لئے مکان کا اسی قدر ہی نقشہ بالکل کافی ہے۔‬

‫سوال ہ ‪ :‬گھوڑا چلنے کے بجائے پھدکتا ہوا کیوں آ یا؟‬

‫جواب‪ :‬۔ دوسرے گھوڑوں کے سائیسوں نے گھوڑے کی ٹانگ توڑ ڈالی تھی اس لیے گھوڑا پھدکتا ہوا آ یا‬
‫سوال ء ‪ :‬نواب صاحب کا بیٹا علی گڑھ سے کیوں واپس آ گیا تھا؟‬

‫جواب‪ :‬نواب صاحب کے بیٹے نے علی گڑھ پہنچ کر ایک تار بھیجا صاحبزادہ کا تار تھا لکھا تھا کہ‬
‫کالج والوں نے تمام مالزمین اور گاڑی گھوڑوں کو بورڈنگ میں رکھنے سے انکار کردیا ہے۔ اور ہدایت‬
‫کی ہے کہ اگر اس کالج میں رہنا ہے تو صرف ایک اتالیق اور ایک نوکر کے ساتھ آکر رہو۔ ورنہ کوئی‬
‫دوسرا کالج تالش کرو۔ چونکہ صاحب زادے صاحب ان سہولیات کے بنا نہیں رہ سکتے تھے۔اس لیے‬
‫واپسی کی اجازت لی اور علی گڑھ سے واپس آ گئے۔‬

‫سوال ی ‪ :‬مضمون نگار نے نواب صاحب کو ان کے بیٹے کی تعلیم و تربیت سے متعلق کیا مشورہ دیا؟‬

‫جواب‪:‬۔ مضمون نگار نے نواب صاحب کو مشورہ دیا کہ میر صاحب! جب نوابی ہی کرنی ہے تو‬
‫پڑھانے سے فائدہ؟ نواب بن کر نہیں پڑھاجاتا۔ طالب علم بن کر پڑھا جاتا ہے۔ صاحب زادے صاحب کو‬
‫اگر نواب صاحب بالکل میرے سپرد کریں تو میں دو ہی برس میں دکھاؤں کہ کیا سے کیا ہو گیا۔‬

‫سوال نمبر ‪ : 2‬درج ذیل الفاظ کو جملوں میں استعمال کریں۔‬

‫معانی‬ ‫۔ الفاظ۔‬
‫رائے‬ ‫۔‪1‬۔ تجویز۔‬

‫جملہ‪ :‬آ ئندہ بجٹ میں سرکاری مالزمین کی تنخواہوں میں تیس فیصد اضافے کی تجویز پیش کی گئی۔‬

‫ضرورت مند‬ ‫۔‪2‬۔ حاجت مند۔‬

‫جملہ‪ :‬اسالم ہمیں حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیتا ہے۔‬

‫نا پسندیدگی کا اظہار کرنا‬ ‫۔‪ 3‬بل آ نا۔‬

‫جملہ‪ :‬سارہ کی امتحان میں ناکامی کی خبر سن کر والد کے چہرے پر بل آ گئے۔‬

‫سالم کرنا‬ ‫۔‪ 4‬آ داب بجا النا۔‬

‫جملہ‪ :‬ہمارے ہاں سالم بجا النا بھی اچھی تہذیب کی عالمت ہے۔‬

‫ثقافت‬ ‫۔‪ 5‬تہذیب۔‬

‫جملہ‪ :‬موئن جودڑو کی قدیم تہذیب کئی روایات لی امین ہے۔‬


‫سبق نمبر ‪ ( 10‬سماج )‬

‫سوال الف۔ مصنف کو بچپن میں " سماج" کے لفظ کا کیا مفہوم سمجھ میں آ یا؟‬

‫جواب۔ بچپن میں مصنف لو لفظ " سماج" سمجھ میں ہی نہیں آ یا۔ ہوش سنبھالتے ہی یہ سننے میں آیا ‪ ،‬ظالم‬
‫سماج‪،‬خوف ناک سماج ‪ ،‬مکرو سماج اور سنگدل سماج!‬

‫سوال ب۔ "سماج " کے لفظ پر نقاد کی طرح غور کرنے سے کیا بات سامنے آئی؟‬

‫جواب۔ مصنف کہتے ہیں کہ جب ذرا عقل مند ہوئے۔تو سماج پر ایک نقاد کی طرح غور کیا تو یہ بات‬
‫سمجھ میں آ ئی کہ سماج تو ایسی چیز ہے جس کا ٹھیکہ بھی لیا جا سکتا ہے۔مگر سماج کا ٹھیکہ لینا‬
‫آسان نہیں۔بڑے دل گردے کا کام ھے کیونکہ بچہ ان ٹھیکےدار وں کے خون کا پیاسا نظر آتا ہے۔ساری‬
‫خلقت ان کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑی ہوئی ہے۔‬

‫سوال ج ‪ :‬مصنف نے خاتون افسانہ نگار سے کیا بات پوچھی؟‬

‫جواب‪ :‬مصنف ایک خاتون افسانہ نگار جن کے ہر افسانے کے ہر صفحے پر ہر پانچ چھ سطروں کے‬
‫بعد سماج کا لفظ آ تا تھا‪ ،‬ملنے گئے اور بڑی عاجزی سے کہا کہ محترمہ! آ پ کو تو ان ٹھیکےدار وں کا‬
‫اتا پتا معلوم ہو گا۔ آ پ ان میں سے کسی ایک کو اس خاکسار سے مال دیں تو ایک بوجھ میرے سینے سے‬
‫اتر جائے گا‬

‫سوال د‪ :‬سماج کے بارے میں زیادہ سوچنے والوں میں زیادہ تعداد کن لوگوں کی ہے؟‬

‫جواب۔ سماج کے بارے میں زیادہ سوچنے والوں میں بیشتر تعداد کمزور ‪ ،‬چڑچڑے اور غمگین حضرات‬
‫کی ہے۔‬

‫سوال ھ۔ سماج کو کوسنے والوں کا کیا عالج تجویز کیا گیا ہے؟‬

‫جواب۔ مصنف کے مطابق اس قسم کے بیمار سماج حضرات کا عالج ۔۔لوہے کا ٹانک ‪ ،‬مچھلی کا تیل ‪،‬‬
‫فروٹ سالٹ ‪ ،‬ورزش اور تبدیلی آ ب و ہوا ہے۔ اور ان کے ٹانسل نکلوا دیئے جائیں اور خراب دانت‬
‫بھی ! اور ان سے زبردستی ورزش کرائی جائے۔اور انہیں ہنس مکھ حضرات کی صحبت میں رکھا‬
‫جائے۔ افاقہ ہونے کی صورت میں‬
‫سوال نمبر ‪ :2‬سیاق و سباق کے حوالے سے درج ذیل جملوں کی وضاحت کریں۔‬

‫الف۔ یا میرے ہللا مجھے سماج کی ہوا سے بچائیو۔‬

‫جواب ‪ :‬وضاحت‪ :‬اپنی ہر ناکامی کا ذمہ دار سماج یا معاشرے کو قرار دینا۔ دعائیں اور بد دعائیں بھی‬
‫ایسی دی جاتی ہیں جس میں لفظ سماج موجود ہوتا ہے ۔جیسے‬
‫یا ہللا مجھے سماج کی ہوا سے بچائیو یا پیسہ دیتا جا بابا ! خدا تجھے سماج سے بچائے۔‬

‫ب۔ بچپن میں جتنا شیطان سے ڈر لگتا اتنا ہی سماج سے ڈرا کرتے۔‬

‫جواب‪ :‬وضاحت‪ :‬جب چھوٹے تھے تو ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے سماج‪ ،‬کوئی بے ہودہ سا آ وارہ گرد‬
‫شخص ہے ‪ ،‬جس کا کام دن بھر لوگوں کو ڈرانا ہے چناچہ بچپن میں جتنا شیطان سے ڈر لگتا تھا اتنا ہی‬
‫سماج سے بھی ڈرا کرتے تھے۔‬

‫ج ‪ :‬افاقہ ہونے پر انھیں تاکید کی جائے کہ اپنی صحت برقرار رکھیں‪ ،‬مبادا کہیں پھر دورہ پڑ جائے۔‬

‫جواب‪ :‬وضاحت ‪:‬‬


‫جو لوگ سماج کو کوستے رہتے ہیں ان کے منفی خیاالت کا عالج یہ ہے کہ ان سے زبردستی ورزش‬
‫کرائی جائے اور انھیں ہنس مکھ حضرات کی صحبت میں رکھا جائے یہ لوگ صحت مند سرگرمیوں میں‬
‫مصروف رہیں ۔امید ہے کہ اس سے کچھ افاقہ حاصل ہو گا ۔‬

‫سوال نمبر ‪ :3‬درج ذیل الفاظ و محاورات کو جملوں میں استعمال کریں۔‬

‫جواب ۔‬
‫معنی‬ ‫الفاظ و محاورات۔‬

‫دھوکے باز‬ ‫۔‪1‬۔ مکار۔‬


‫جملہ ‪:‬‬
‫ہللا پاکستان کو بھارت جیسے مکار دشمن سے محفوظ رکھے۔‬

‫بڑے حوصلے کا کام‬ ‫۔‪2‬۔ دل گردے کا کام۔‬


‫جملہ‪ :‬برے لوگوں کے درمیان نیک بختی کی زندگی گزارنا دل گردے کا کام ہے ۔‬

‫مشکل کام کرنا‬ ‫۔‪ .3‬لوہے کے چنے چبانا۔‬


‫جملہ‪ :‬مزدور کا کام لوہے کے چنے چبانے جیسا ہی ہے ۔‬
‫جانی دشمن‬ ‫۔‪4‬۔ خون کا پیاسا۔‬
‫جملہ‪ :‬۔ جائداد کے تنازعہ پر بھائی ایک دوسرے کے بخون کے پیاسے بن گئے۔‬

‫مزاح‬ ‫۔‪5‬۔ مذاق۔‬


‫جملہ‪ :‬کسی کی کمزوری کا مذاق اڑانا اچھی بات نہیں۔‬

‫خوش‪ /‬شادمان‬ ‫۔‪ 6‬مسرور۔‬


‫جملہ‪:‬۔ بچے باغ میں رنگ برنگے پھول دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔‬

‫بہت زیادہ غصہ آ نا‬ ‫۔‪ .7‬خون کھولنا۔‬


‫جملہ‪:‬۔ باپ اپنے بیٹے کے قاتل کو دیکھ کر اس کا خون کھولنے لگا۔‬

‫خدا نخواستہ‪ /‬ایسا نہ ہو‬ ‫۔‪ .8‬مبادا۔‬


‫جملہ‪:‬۔ موبائل فون کے زیادہ استعمال سے مبادا کہیں آ پ کی نظر خراب نہ ہو۔‬

‫شرمندہ‬ ‫۔‪:9‬۔ پشیمان۔‬


‫جملہ‪:‬۔ بیٹے کے غلط کاموں کی وجہ سے علی صاحب پشیمان ہو گئے۔‬

‫طلب گار‬ ‫۔‪:10‬۔ خواستگار۔‬


‫جملہ‪:‬۔ ہمیں اپنے گناہوں پر نادم ہو کر ہللا تعالٰی سے ہمیشہ معافی کے خواستگار رہیں۔‬
‫( کار بکاؤ ہے)‬ ‫سبق نمبر ‪11‬۔‬

‫مشقی سواالت‬
‫سوال الف ‪ .:‬۔ مصنف کو پرانی کار بیچنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟‬

‫جواب ‪ :‬۔ مصنف کو پرانی کار بیچنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ وہ والیت ( انگلستان) جانا‬
‫چاہتا تھا۔‬

‫سوال ب ‪:‬۔مصنف نے کار بیچنے کے لیے کیا طریقہ اختیار کیا؟‬

‫جواب ‪ .:‬مصنف نے کار بیچنے کے لیے اشتہار دیا۔یہی طریقہ مصنف کے نزدیک بہترین طریقہ تھا۔‬

‫سوال ج‪:‬۔ مصنف نے کار کا ماڈل سن عیسوی کے بجائے سن ہجری کیوں بتایا؟‬

‫جواب‪ :‬۔دراصل خریدار نے مصنف کو اتنا لمبا سالم کیا تھا کہ مصنف کو لگا شاید خریدار کو مذہب سے‬
‫بہت لگاؤ ہے۔اس لیے مصنف نے عیسوی کے بجائے تاریخ ہجری میں بتا ڈالی کہ شاید اسالمی کلینڈر‬
‫کی تاریخ سن کر خریدار مزید سوال نہ کرے۔‬

‫سوال د ‪:‬۔ کار کی قیمت بتاتے ہوئے مصنف کی کیا کیفیت تھی؟‬

‫جواب ‪ :‬۔جب مصنف نے کار کی قیمت تیئس ہزار بتائی یہ جملہ مصنف نے آ دھے سانس میں کہا اور‬
‫کامیابی س اچھو کو دیکھا۔‬

‫سوال ھ ‪:‬۔گاہک نے مصنف کو کتنی رقم کی پیشکش کی؟‬

‫جواب ‪:‬۔ گاہک نے مصنف کو تین ہزار روپے کی پیشکش کی۔‬

‫سوال و ‪:‬۔مصنف نے اتنی کم قیمت بتانے پر گاہک کو کیا مشورہ دیا؟‬

‫جواب ‪ :‬۔مصنف نے گاہک کو مشورہ دیا کہ‪" :‬آ پ سائیکل کیوں نہیں خرید لیتے" ؟‬
‫سوال ز ‪:‬۔مصنف نے معمولی قیمت پر کار کا سودا کیوں قبول کر لیا؟‬
‫جواب‪ :‬۔چونکہ مصنف کی کار کا سودا کسی سے اچھے داموں نہیں طے پا سکا۔اس لی مصنف نے‬
‫معمولی قیمت پر کار کا سودا قبول کر لیا۔‬

‫سوال خ ‪:‬۔اس سبق کے بارے میں آپ کا مجموعی تاثر کیا ہے؟‬

‫جواب ‪ :‬۔اس سبق میں مصنف نے لہجے کے اتار چڑھاؤ اور مختلف کیفیتوں کو نمایاں کیا ہے انہوں نے‬
‫ادب کو ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کے پیِش نظر رکھا ہے۔کرنل محمد خان کا انداز‬
‫بیان سادہ اور شگفتہ ہے ۔ سنجیدہ سے سنجیدہ بات بھی ظرافت کے رنگوں سے نکھرتی ہے۔ان کا فن‬
‫محض وقت گزاری کا وصیلہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے‬

‫سوال نمبر ‪:2‬۔درج ذیل جملوں کی وضاحت کریں۔‬

‫الف ‪:‬۔ یہ سوچنا تھا کہ جملہ اندیشہ شہر کو لپیٹ کر ایک کونے میں رکھ دیں۔‬
‫جواب ‪:‬‬
‫وضاحت ‪ :‬مصنف نے لوگوں کی باتوں کا خوف اور ڈد اپنے دل سے نکال کر کار کو بیچنے کا فیصلہ‬
‫کیا۔‬

‫ب ۔چوتھے روز ہم نے فرنگ کو پرواز کر جانا ہے۔‬


‫جواب ‪:‬‬
‫وضاحت ‪ :‬مصنف نے چوتھے روز انگلستان جہاز کی پرواز سے جانا تھا۔‬

‫ج ‪:‬ہم نے ایک سہ روز کریش پروگرام بنایا۔‬


‫جواب ‪:‬‬
‫وضاحت ‪ :‬مصنف نے تین دن مختصر مگر جامع منصوبہ بنایا۔‬

‫د ‪:‬اس متشرع سالم کے جواب میں ہم نے صرف وعلیکم السالم کہا ۔‬


‫جواب ‪:‬‬
‫مصنف نے شرعی سالم کا جواب وعلیکم السالم کہا۔‬

‫ہ ‪ :‬جی تو چاہا کہ سالم کا دمدار ستارہ بنا کر پیش کروں۔‬


‫جواب ‪:‬‬
‫وضاحت‪ :‬سالم کو طول دینے سے تشبیہ دی گئی ہے۔‬

‫و ‪ :‬شاید شعائر اسالم احترام میں مزید موشگافی نہ کرے۔‬


‫جواب ‪:‬‬
‫وضاحت ‪ :‬ہمیں اسالم کے اصولوں میں چھان بین یا نقتہ چینی سے پرہیز کرنا چاہیے۔‬
‫ز ‪ :‬ہمیں اپنے پھالئے ہوئے دام تزویر میں پھنس گئے۔‬
‫جواب ‪:‬‬
‫وضاحت ‪ :‬جو جال کسی کو دھوکا دینے کے لیے پھیالیا گیا تھا ۔ اس میں مصنف خود ہی پھنس گیا۔‬

‫ح ‪:‬افسوس کہ ہمارے گاہک کو کار کی ماروائی صفات میں دلچسپی نہ تھی ۔‬


‫جواب ‪:‬‬
‫وضاحت ‪ :‬مصنف کو افسوس تھا کہ گاہک کو کار کی خوبیوں میں کوئی دلچسپی نہ تھی۔‬

‫ط ‪ :‬یہ جملہ ہمارے منہ سے اضطرارا نکال۔‬


‫جواب ‪:‬‬
‫وضاحت ‪ :‬مصنف بھت پریشان تھا جب اس کے منہ سے یہ جملہ نکال۔‬

‫ی ‪ :‬کار چند قدم چل کر اور بوڑھی ہو چکی تھی۔‬


‫جواب ‪:‬‬
‫وضاحت ‪ :‬یہ جملہ مصنف نے طنزیہ اس وقت کہا جب مولوی صاحب کے نزدیک کار تھوڑی اور چل‬
‫کر مزید پرانی ہو چکی تھی۔‬
‫سبق نمبر ‪12‬۔ خطوط بنام مدیر‬
‫مشقی سواالت‬
‫سوال الف ‪ :‬زیادہ تر اخبارات قارئین کے خطوط کن صفحات پر شائع کرتے ہیں ؟‬

‫جواب ‪ :‬زیادہ تر اخبارات قارئین کے خطوط ادارتی صفحات پر شائع کرتے ہیں۔‬

‫سوال ب‪ :‬ایک اردو اخبار میں ہر ماہ اوسطًا کتنے خطوط چھپتے ہیں ؟‬

‫جواب ‪ :‬ایک اردو اخبار میں ہر ماہ اوسطًا ڈیڑھ سو خطوط ش چھپتے ہیں۔‬

‫سوال ج ‪ :‬اخبارات مراسلت کے کالم پر احتیاط کے طور پر کیا لکھا جاتا ہے ؟‬

‫جواب ‪ :‬اخبارات مراسلت کے کالم پر احتیاط کے طور پر لکھا جاتا ہے کہ ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی‬
‫رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔‬

‫سوال د ‪ :‬مراسالت سے کس رحجان کی نشوونما ہوتی ہے ؟‬

‫جواب ‪ :‬مراسالت سے عام طور پر جمہوریت کی نشوونما ہوتی ہے۔ مراسلے حکومت اور عوام کے‬
‫درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ ان سے حکومتوں کو عوام کے مسائل سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔‬

‫سوال ھ ‪ :‬مراسلوں میں کسی ایک موضوع پر بحث کو ابالغ عامہ کی اصطالح میں کیا کہتے ہیں ؟‬

‫جواب ‪ :‬مراسلوں میں کسی ایک موضوع پر بحث کو ابالغ عامہ کی اصطالح میں اس عمل کو تقطیری‬
‫اثر کہا جاتا ہے۔‬

‫سوال نمبر ‪ : 2‬خطوط بنام مدیر سے کیا کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں ؟‬

‫جواب ‪ :‬خطوط بنام مدیر سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں‬
‫۔‪ 1‬اخبار کا ایڈیٹر قارئین کے احساسات و جذبات سے باخبر رہتا ہے۔‬
‫۔‪ 2‬خطوط سے خود اخبار اور مدیر کا محاسبہ ہوتا رہتا ہے اور قارئین کی تنقید اسے راہ راست پر رکھتی‬
‫ہے۔‬
‫۔‪ 3‬مراسالت سے جمہوریت کی نشوونما ہوتی ہے اور اس سے لوگ حدود کے اندر رہ کر اپنی رائے کا‬
‫اظہار کر سکتے ہیں۔‬
‫۔‪ 4‬قارئین کو مکتوبات سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے اور ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔‬
‫۔‪ 5‬شکایات کا موجب بننے والے افسران اور محکموں کی اصالح ہوتی ہے۔‬

‫سوال نمبر ‪ : 3‬قارئین کو خط تحریر کرتے ہوئے کن امور کا خیال رکھنا چاہیے ؟‬

‫جواب ‪ :‬قارئین کو خط تحریر کرتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کا دھیان رکھنا چاہیے۔‬
‫۔‪ 1‬قومی مفاد کے خالف تو نہیں۔‬
‫۔‪ 2‬ذاتی اغراض کے لیے تو نہیں لکھا گیا۔‬
‫۔‪ 3‬کسی گروہ یا طبقے کے جذبات کو مجروح تو نہیں کیا گیا۔‬
‫۔‪ 4‬مشکوک مقاصد کے لیے تو تحریر نہیں کیا گیا۔‬
‫۔‪ 5‬انداز بیان ناشائستہ تو نہیں۔‬

‫سوال نمبر ‪ : 4‬قارئین ‪ ،‬مدیر کو کس نوعیت کے خط لکھتے ہیں۔‬

‫جواب ‪ :‬قارئین ‪ ،‬مدیر کو مندرجہ ذیل نوعیت کے خط لکھتے ہیں۔‬


‫۔‪ 1‬اخبارات کے مندرجات ‪ ،‬خبروں ‪ ،‬اداریوں ‪ ،‬فیچروں ‪ ،‬مضمونوں ‪ ،‬تصویروں اور کارٹونوں کی‬
‫تعریف کی جاتی ہے یا ان پر نکتہ چینی کی جاتی ہے۔‬
‫۔‪ 2‬اخبار کی پالیسی پر رائے زنی کی جاتی ہے۔‬
‫۔‪ 3‬عام ملکی یا غیر ملکی ‪ ،‬تہذیب ‪ ،‬اقتصادی ‪ ،‬سیاسی ‪ ،‬تعلیمی ‪ ،‬انتظامی اور اخالقی معامالت و وسائل‬
‫پر بحث کی جاتی ہے۔‬
‫۔‪ 4‬انفرادی ‪ ،‬گروہی یا اجتماعی شکایات کا اظہار کیا جاتا ہے۔‬
‫۔‪ 5‬نئے نظریات ‪ ،‬تصورات اور معامالت سامنے الئے جاتے ہیں۔‬
‫دعا ‪ -‬مسجد قرطبہ میں لکھی گئی‬
‫( اشعار کی تشریح)‬

‫‪.‬شعرنمبر ‪1‬‬
‫‪..‬ہے یہی میری نماز‪ ،‬ہے یہی میرا وضو‬
‫میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو۔‬
‫حوالہ متن‬
‫دعا‬ ‫نظم۔‬
‫شاعر۔ عالمہ اقبال‬

‫معانی‪ :‬قرطبہ‪ :‬سپین کا ایک شہر‬

‫تشریح۔ ‪ :‬اقبال جب ‪32‬ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو وہاں سے فراغت کے‬
‫بعد انھوں نے ہسپانیہ کا دورہ بھی کیا ۔ تاریخی اعتبار سے ہسپانیہ جن دنوں مسلمان سالطین کے زیر‬
‫نگیں رہا تو اس کی عظمت انتہائی عروج پر پہنچ گئی تھی ۔ مسلمان سالطین نے قرطبہ کو اپنا‬
‫دارالحکومت قرار دیا تھا ۔ یہ نظم عالمہ نے قرطبہ کی جامع مسجد میں بیٹھ کر تخلیق کی ۔ یہ مسجد‬
‫مسلمانوں کے زوال کے بعد عیسائی حکمرانوں نے گرجا میں تبدیل کر دی تھی ۔ اس المیے کے اثرات‬
‫اقبال کی اس نظم میں جا بجا موجود ہیں ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ عشق حقیقی جب اپنی انتہا پر پہنچتا ہے‬
‫تو جگر کا لہو بھی ٓاہ و فریاد میں ڈھل جاتا ہے ۔ یہی ٓاہ و فریاد میری نماز اور وضو کا روپ دھار گئی‬
‫ہے ۔‬

‫شعر نمبر‪.2‬‬
‫‪.‬صحبِت اہِل صفا‪ ،‬نور و حضور و سرور‬
‫سرخوش و ُپرسوز ہے اللہ لِب ٓابجو‬

‫تشریح۔ ‪ :‬اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ صاف و پاکیزہ محبت سے قلب انسان جال پاتا ہے ۔ محبوب کی‬
‫حضوری کے ساتھ کیف و سرور کی وہ صورت ملتی ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے نہر کے کنارے اللے‬
‫کا پھول لہراتا رہتا ہے اور ندی کی لہریں اس کو ہمیشہ تازگی‪ ،‬سرخوشی اور سوز بخشتی رہتی ہیں ۔‬
‫شعر نمبر‪3‬‬
‫راِہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق‬
‫ساتھ مرے رہ گئی‪ ،‬ایک مری ٓارزو‬

‫تشریح‪ :‬عالمہ محمد اقبال اس شعر میں فرماتے ہیں کہ محبت کی راہیں اس قدر سنگالخ ہوتی ہیں کہ اس‬
‫میں انتہائی قربت رکھنے والے عزیزو اقربا بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ چنانچہ اقبال کے مطابق کہ‬
‫محبت میں کوئی بھی کسی کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ محض عشق کا جذبہ ہی ٓارزو میں ڈھل کر انسان کو‬
‫اس کی منزل تک پہنچانے کا اہل ہوتا ہے ۔‬

‫شعر نمبر‪.4‬‬
‫‪.‬میرا نشیمن نہیں درگہ میر و وزیر‬
‫میرا نشیمن بھی تو‪ ،‬شاِخ نشیمن بھی تو‬

‫تشریح۔ ‪ :‬عالمہ صاحب بہت خوب صورت انداز میں اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے خدائے‬
‫عزوجل سے مخاطب ہو کر اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میرے دل میں امیروں اور وزیروں کے لیے‬
‫کوئی گنجائش نہیں ۔ میرے لیے تو تو ہی سب کچھ ہے ۔ منزل بھی تو اور راہ منزل بھی ۔‬

‫شعر نمبر‪5‬‬
‫‪.‬تجھ سے گریباں مرا مطلِع صبِح نشور‬
‫تجھ سے مرے سینے میں ٓاتِش ہللا ہو‬

‫معانی‪ :‬مطلع‪ :‬جہاں سے صبح پھوٹتی ہے ۔ نشور‪ :‬دوبارہ زندہ ہو کے اٹھنے کی صبح ۔‬

‫تشریح‪ :‬اس شعر میں شاعر عالمہ اقبال ہللا تعالٰی سے محبت کا دم بھرتے ہوئے کہتے ہیں ک اے خدا تو‬
‫نے میرے سینے میں عشق حقیقی کی جو ٓاگ روشن کی ہے وہ قیامت کے روز بھڑکنے والی ٓاگ سے کم‬
‫نہیں ۔ غالبًا اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا دل ہللا ہو کی حرارت کی ٓاماجگاہ بنا ہوا ہے ۔‬
‫شعر نمبر‪.6‬‬
‫‪.‬تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ‬
‫تو ہی مری ٓارزو‪ ،‬تو ہی مری جستجو‬

‫تشریح‪ :‬عالمہ اقبال ہللا تعالٰی سے اپنے عشق کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے موالئے کائنات‬
‫تیرے ہی دم سے میری زندگی سوز و درد اور داغ کے عالوہ روشنی کا مظہر بنی ہوئی ہے ۔ تو ہی ہے‬
‫جو میرے عشق میں ٓارزو بن کر بسا ہوا ہے اور یہی جذبہ جستجو کا حامل بن جاتا ہے ۔‬

‫شعر نمبر‪7‬‬
‫‪..‬پاس اگر تو نہیں ‪ ،‬شہر ہے ویراں تمام‬
‫تو ہے تو ٓاباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کو‬

‫معانی‪ :‬کاخ و کو‪ :‬گلی کوچے ۔‬

‫تشریح‪ :‬اس شعر میں شاعر عالمہ اقبال اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے مالک دو جہاں! یہ‬
‫تیری یاد ہی ہے جس کے بغیر ہر سو ویرانی ہی ویرانی نظر ٓاتی ہے اور جب مجھے تیری قربت کا‬
‫احساس ہوتا ہے تو اجڑے ہوئے محالت اور سنسان گلی کوچے بھی ٓاباد و درخشاں نظر ٓاتے ہیں ۔ مراد‬
‫یہ کہ قرب الٰہ ی سے انسان عظمت و بلندی سے ہم کنار ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس عشق الٰہ ی اور اس کی‬
‫معرفت نہ ہو تو پورا ماحول اجاڑ و سنسان بن کر رہ جاتا ہے ۔‬

‫شعر نمبر‪.8‬‬
‫‪.‬پھر وہ شراِب کہن مجھ کو عطا کر‪ ،‬کہ میں‬
‫ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو‬

‫معانی‪ :‬شراِب کہن‪ :‬پرانی شراب یعنی اولین مسلمان کے جذبات اور ایمان ۔‬

‫تشریح‪:‬اس شعر میں عالمہ اقبال ہللا تعالٰی سے مخاطب ہو کر دعا کرتے ہیں کہ اے مالک میں نے جدید‬
‫تہذیب کے تمام لوازمات سے قطع تعلق کر لیا ہے ۔ مجھے وہی جذبہ عشق سے نواز دے جو میرے‬
‫اسالف کا ورثہ ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر میں تو عشق الٰہ ی میں جذب ہو جاؤں۔ اور محض تیری تالش‬
‫میں مصروف ہوں ۔‬
‫شعر نمبر‪.9‬‬
‫‪.‬چشِم کرم ساقیا‪ ،‬دیر سے ہیں منتظر‬
‫جلوتیوں کے سبو‪ ،‬خلوتیوں کے کدو‬

‫معانی‪ :‬جلوتیوں کے سبو‪ :‬ظاہر شراب پینے والے کا برتن مراد سب کے سامنے نماز روزہ اور عبادت‬
‫کرنے والے ۔ خلوتیوں کے کدو‪ :‬چھپ کے پینے والوں کے برتن ‪ ،‬چھپ کر عبادت کرنے والے بزرگ ۔‬

‫تشریح‪ :‬اس شعر میں اقبال خدا سے تمام مسلمانوں کے مختلف طبقوں کے لیے دعا کرتے ہوئے کہتے‬
‫ہیں ک کہ اے ہللا سب تیری ہی عبادت کرتے ہیں وہ جو چھپ کر یا وہ جو سب کے سامنے وہ سب تیری‬
‫نظر کرم اور نظر رحمت کے طلب گار اور محتاج ہیں ۔وہ تم سے آ س لگائے بیٹھے ہیں۔تو ان کے حال‬
‫پر رحم فرما اور مدد فرما۔‬

‫شعر نمبر‪10‬‬
‫‪.‬تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ‬
‫اپنے لیے المکاں میرے لیے چار سو‬

‫تشریح‪ :‬اس شعر میں عالمہ کا لہجہ قدرے تبدیل ہو گیا ہے ۔ یہاں وہ مالک حقیقی سے گلہ مند نظر ٓاتے‬
‫ہیں کہ وہ خود تو المکاں ہے اور افالک و کائنات پر اس کی اجارہ داری ہے جب کہ انسان کو اپنا نائب بنا‬
‫کر بھیجنے کے باوجود زمین کے ایک مختصر عالقے تک محدود کر دیا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ خدا کے‬
‫المحدود اختیارات کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں جب کہ انسان تو محض بے اختیار ہے ۔‬

‫شعر نمبر‪.11‬‬
‫‪.‬فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا‬
‫حرِف تمنا‪ ،‬جسے کہہ نہ سکیں ُر وبرو‬

‫تشریح‪ :‬اس شعر میں عالمہ اقبال فرماتے ہیں کہ فلسفہ اور شعر کی تعریف مختصرًا اتنی ہی ہے کہ ان‬
‫کی وساطت سے اپنی دلی تمنا کا اظہار کھل کر نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہاں بھی عالمتوں کا سہارا لیا‬
‫جارہا ہے‬
‫مشقی سواالت‬

‫مندرجہ ذیل سواالت کے مختصر جوابات لکھیں۔‬

‫سوال الف۔ عالمہ اقبال نے اس نظم میں کس آ رزو کا اظہار کیا ہے؟‬

‫جواب۔ عالمہ اقبال نے اس نظم میں اپنی اس آ رزو کا‬


‫اظہار کیا ہے کہ اے ہللا! اگرچہ میری زندگی میں بہت کٹھن حاالت ہیں لیکن میری زندگی سوزودرد‬
‫کے عالوہ بھی پر رونق ہے مصیبت بھی راحت فزا ہو گئ ہے۔تیری آرزو رہنما ہو گئ ہے۔شاعر ہللا‬
‫تعالٰی کی محبت کے طالب ہیں۔اور آ رزو کر رہے ہیں کہ اے ہللا ہر وہ شخص جو تیرے ذکر میں مگن ہو‬
‫جاتا ہے تو محبت سے سرشار ہر شخص کو اپنی قربت عطا فرما۔‬

‫سوال ب۔ عالمہ اقبال کی نظم دعا کے دوسرے شعر میں کس طرف اشارہ کیا گیا ہے؟‬

‫جواب۔ عالمہ اقبال کی نظم دعا میں عشق حقیقی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جو لوگ ہللا‬
‫تعالٰی کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں ۔ان پر کیف و سرور کی ایسی حالت طاری ہو جاتی ہے کہ وہ دنیا‬
‫کی لذتوں سے دست کشت ہو جاتے ہیں۔اور اپنا سارا وقت یاد اٰل ہی میں بسر کر دیتے ہیں۔‬

‫سوال ج‪ :‬عالمہ اقبال کی نظم دعا کا مرکزی خیال لکھیں۔‬

‫جواب۔ مرکزی خیال۔ نظم میں عشق حقیقی کا تذکرہ ہے کہ ہللا سے پختہ تعلق اس طرح سے قائم کرو کہ‬
‫اس سے تعلق قائم کرنے میں آ پ کی مکمل کوشش ہو۔ ہللا تعالٰی سے عشق انسان کو ہمیشہ پھول کی مانند‬
‫تروتازہ رکھتا ہے۔جن کے دل ہللا تعالٰی کی یاد سے منور ہو جاتے ہیں انہیں دنیاوی آ سائش کی کوئی پروا‬
‫نہیں رہتی۔ہللا کی یاد سے یر جگہ منور ہو جاتی ہے ہللا تعالٰی سے دعا اور فریاد ہے کہ وہ اپنا کرم اور‬
‫محبت ان لوگوں کو عطا فرمائے جو سب کچھ چھوڑ کر اس کی راہ پر چل رہے ہیں۔‬

‫سوال د‪ :‬عالمہ اقبال اپنی نظم (دعا) میں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟‬

‫جواب۔ عالمہ اقبال نے اپنی نظم دعا میں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ خدا سے محبت آور عشق ہر مشکل کا‬
‫حل ہے۔اور جو لوگ ہللا سے تعلق استوار رکھتے ہیں ان کے لیے یہ دنیا کوئی معنی نہیں رکھتی۔‬

‫سوال ہ‪ :‬عالمہ اقبال کی اس نظم کا پس منظر کیا ہے؟‬

‫جواب۔ ‪ :‬اقبال جب ‪ 32‬ء میں گول میزکانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو وہاں سے فراغت کے‬
‫بعد انھوں نے ہسپانیہ کا دورہ بھی کیا ۔ تاریخی اعتبار سے ہسپانیہ جن دنوں مسلمان سالطین کے زیر‬
‫نگیں رہا تو اس کی عظمت انتہائی عروج پر پہنچ گئی تھی ۔ مسلمان سالطین نے قرطبہ کو اپنا‬
‫دارالحکومت قرار دیا تھا ۔ یہ نظم عالمہ نے قرطبہ کی جامع مسجد میں بیٹھ کر تخلیق کی ۔ یہ مسجد‬
‫مسلمانوں کے زوال کے بعد عیسائی حکمرانوں نے گرجا میں تبدیل کر دی تھی ۔ اس المیے کے اثرات‬
‫اقبال کی اس نظم میں جا بجا موجود ہیں ۔‬

‫غزل ‪ :‬بہادر شاہ ظفر‬


‫اشعار کی تشریح‬
‫مشقی سواالت۔‬

‫سوال الف‪ :‬بادشاہ ہونے کے باوجود بہادر شاہ ظفر کی اس غزل میں بے بسی کیوں؟‬

‫جواب‪ :‬بادشاہ ہونے کے باوجود بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے گرفتار کر کے برما کے دارالحکومت‬
‫رنگون میں نظر بند کر دیا تھا مغل شہزادوں کو بادشاہ کی‬
‫آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا۔یہ اور اس طرح کے کئی صدمات تھے جنھوں نے آ خری عمر میں‬
‫بادشاہ کو الچار کر دیا تھا انھوں رنگون میں انتہائی بے بسی کے عالم میں انتقال کیا۔یہی وجہ ہے کہ‬
‫بادشاہ ہونے کے باوجود بہادر شاہ ظفر کی اس غزل میں بے بسی نمایاں ہے۔‬

‫سوال ب‪ :‬چوتھے شعر میں ‪ ٫‬زندگی کی شام ہو گئی' سے کیا مراد ہے؟‬

‫جواب‪ :‬بہادر شاہ ظفر کی زندگی غم و الم سے بھری ہوئی تھی اور عمر کے آخری ایام تو انہیں گن گن‬
‫کے گزارنے پڑے۔چنانچہ ہہ اندازہ ہو گیا تھا ک ان کی زندگی کی شام ہونے والی ہے۔ چونکہ بہادر شاہ‬
‫ظفر کے سامنے ان کی زندگی کی شادمانی اور آ زادی ختم ہونے والی ہے اس لیے انھیں تنہائی اور قید‬
‫ستاتی ہے مگر وہ خود کو کہتے ہیں کہ اب میری زندگی کے دن ختم ہو چکے ہیں۔ میری موت کا پیغام آ‬
‫گیا ہے اور موت ہی میری پریشانیوں اور تکالیف سے نجات اور رہائی کا باعث ہے‬

‫سوال ج‪ :‬غزل کے آ خری شعر میں شاعر نے اپنی کس حسرت کا ذکر کیا ہے؟‬

‫جواب‪ :‬غزل کے آ خری شعر میں شاعر نے اپنی جس حسرت کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہر محب وطن‬
‫کی طرح شاعر کی بھی خواہش اور حسرت تھی کہ موت کے بعد ان کی آ خری آ رام گاہ ان کا وطن‬
‫عزیز ہو‬
‫سوال د‪ :‬دوسرے شعر میں شاعر کی ' بلبل" اور " صیاد" سے کیا مراد ہے؟‬

‫جواب‪ :‬دوسرے شعر میں شاعر کی بلبل سے مراد بہادر شاہ ظفر خود ہیں۔ جبکہ صیاد انھوں نے‬
‫انگریزوں کو کہا ہے۔‬

‫سوال ھ‪ :‬غزل کے مقطع میں کوئے یار سے کیا مراد ہے؟‬

‫جواب‪ :‬غزل کے مقطع میں کوئے یار سے مراد محبوب کی گلی ہے۔‬

‫سوال ء‪ :‬بہادر شاہ ظفر نے اجڑے دیار سے کیا مراد لی ہے؟‬

‫جواب‪ :‬بہادر شاہ ظفر نے اجڑے دیار سے مراد ویران بستی لی ہے۔‬

‫سوال نمبر ‪ :2‬مندرجہ ذیل تراکیب کے معنی لکھیں اور جملوں میں استعمال کریں۔‬

‫معنی۔‬ ‫الفاظ و تراکیب۔‬


‫جہان فانی۔‬ ‫۔‪1‬۔ عالم ناپائیدار۔‬
‫جملہ‪ :‬اے ہللا اس عالم ناپائیدار میں ہمیں ثابت قدم رکھنا۔‬

‫لمبی عمر‬ ‫۔‪2‬۔ عمر دراز۔‬


‫جملہ ‪:‬‬
‫ہللا تعالٰی سے دعا ہے کہ وہ ہمارے وطن عزیز کو ہمیشہ قائم و دائم رکھے‬

‫بہار کا موسم‬ ‫۔‪3‬۔ فصل بہار۔‬


‫جملہ‪ :‬رمضان المبارک کا مہینہ مسلمانوں کے لیے ایمان و اعمال کی فصل بہار ہے‬

‫عیب دار دل‬ ‫۔‪ :4‬دل داغ دار۔‬


‫جملہ‪ :‬دل داغ دار محبوب کی یاد میں کھویا رہا۔‬

‫قبر کا گوشہ‬ ‫۔‪ :5‬کنج مزار۔‬


‫جملہ‪ :‬جب وقت نزع آ ئی تو کنج مزار چلے گئے۔‬

‫محبوب کی گلی‬ ‫۔‪ :6‬کوئے یار‬


‫جملہ‪ :‬جو گزرے کوئے یار سے تو بہت دوست یاد آ ئے۔‬

You might also like