Professional Documents
Culture Documents
URDU Notes 9th Class
URDU Notes 9th Class
حصہ نثر:۔
مشقی سواالت
سوال الف۔ سبق میں انگریزی کی کس مثل کا ذکر ہوا ہے؟
جواب :سبق میں انگریزی کی مثل " مشرق مشرق ہے اور مغرب مغرب۔ یہ دونوں نہ ملے ہیں،نہ ملیں
گے" کا ذکر ہوا ہے۔
جواب۔ مصنف سیاہ ٹرکش کوٹ ،دستار اور بیلٹ نما قیمتی کمر بند پہن کر نواب صاحب کے ہاں گئے۔
سوال د :مصنف نے نواب صاحب کے مکان کا نقشہ کن الفاظ میں کھینچا ہے؟
جواب :کوٹھی کیا ہے کسی بڑے بادشاہ کا محل ہے۔ قیامت کی کرسی ہے۔ سامنے بہت بڑا میدان ہے۔ اس
میں سے ایک چوڑی سڑک چکر کھاتی ہوئی سیڑھیوں تک آتی ہے۔ سیڑھیوں کے بعد صحن چبوترا،
اور صحن چبوترہ کے بعد پھر سیڑھیاں ہیں۔ اور یہیں سے کئی منزلہ مردانہ مکان شروع ہوتا ہے۔ پہلی
منزل میں پرانا دقیانوسی سامان بھرا ہوا ہے۔ ان کمروں کے سامنے جو برآمدہ ہے اس میں چند ٹوٹی
پھوٹی کرسیاں ،الوارث حاجتمندں کے لئے پڑی رہتی ہیں۔ ان کرسیوں سے مجھ کو بھی واسطہ پڑا ہے
اس کا ذکر آئندہ کروں گا۔ جو بڑی سڑک چکر کھا کے محل سرا کے دروازے کو گئی ہے۔ وہ بلیرڈ روم
کے سامنے سے گزرتی ہے اور یہاں اتنی چوڑی ہو گئی ہے کہ اچھا خاصہ صحن نکل آیا ہے۔ بلیرڈ روم
کے بالکل سامنے دوسری منزل سے نیچے آنے کا زینہ اور اس کے بائیں طرف اوپر کے بڑے کمرے
کے سامنے چھوٹا سا چھجہ ہے۔ چھجہ کے اوپر نہایت خوبصورت نیچی سی منڈیر ہے۔ بس میرے
مضمون کے لئے مکان کا اسی قدر ہی نقشہ بالکل کافی ہے۔
جواب :۔ دوسرے گھوڑوں کے سائیسوں نے گھوڑے کی ٹانگ توڑ ڈالی تھی اس لیے گھوڑا پھدکتا ہوا آ یا
سوال ء :نواب صاحب کا بیٹا علی گڑھ سے کیوں واپس آ گیا تھا؟
جواب :نواب صاحب کے بیٹے نے علی گڑھ پہنچ کر ایک تار بھیجا صاحبزادہ کا تار تھا لکھا تھا کہ
کالج والوں نے تمام مالزمین اور گاڑی گھوڑوں کو بورڈنگ میں رکھنے سے انکار کردیا ہے۔ اور ہدایت
کی ہے کہ اگر اس کالج میں رہنا ہے تو صرف ایک اتالیق اور ایک نوکر کے ساتھ آکر رہو۔ ورنہ کوئی
دوسرا کالج تالش کرو۔ چونکہ صاحب زادے صاحب ان سہولیات کے بنا نہیں رہ سکتے تھے۔اس لیے
واپسی کی اجازت لی اور علی گڑھ سے واپس آ گئے۔
سوال ی :مضمون نگار نے نواب صاحب کو ان کے بیٹے کی تعلیم و تربیت سے متعلق کیا مشورہ دیا؟
جواب:۔ مضمون نگار نے نواب صاحب کو مشورہ دیا کہ میر صاحب! جب نوابی ہی کرنی ہے تو
پڑھانے سے فائدہ؟ نواب بن کر نہیں پڑھاجاتا۔ طالب علم بن کر پڑھا جاتا ہے۔ صاحب زادے صاحب کو
اگر نواب صاحب بالکل میرے سپرد کریں تو میں دو ہی برس میں دکھاؤں کہ کیا سے کیا ہو گیا۔
معانی ۔ الفاظ۔
رائے ۔1۔ تجویز۔
جملہ :آ ئندہ بجٹ میں سرکاری مالزمین کی تنخواہوں میں تیس فیصد اضافے کی تجویز پیش کی گئی۔
جملہ :اسالم ہمیں حاجت مندوں کی حاجت روائی کرنے کا حکم دیتا ہے۔
جملہ :ہمارے ہاں سالم بجا النا بھی اچھی تہذیب کی عالمت ہے۔
سوال الف۔ مصنف کو بچپن میں " سماج" کے لفظ کا کیا مفہوم سمجھ میں آ یا؟
جواب۔ بچپن میں مصنف لو لفظ " سماج" سمجھ میں ہی نہیں آ یا۔ ہوش سنبھالتے ہی یہ سننے میں آیا ،ظالم
سماج،خوف ناک سماج ،مکرو سماج اور سنگدل سماج!
سوال ب۔ "سماج " کے لفظ پر نقاد کی طرح غور کرنے سے کیا بات سامنے آئی؟
جواب۔ مصنف کہتے ہیں کہ جب ذرا عقل مند ہوئے۔تو سماج پر ایک نقاد کی طرح غور کیا تو یہ بات
سمجھ میں آ ئی کہ سماج تو ایسی چیز ہے جس کا ٹھیکہ بھی لیا جا سکتا ہے۔مگر سماج کا ٹھیکہ لینا
آسان نہیں۔بڑے دل گردے کا کام ھے کیونکہ بچہ ان ٹھیکےدار وں کے خون کا پیاسا نظر آتا ہے۔ساری
خلقت ان کے پیچھے پنجے جھاڑ کر پڑی ہوئی ہے۔
جواب :مصنف ایک خاتون افسانہ نگار جن کے ہر افسانے کے ہر صفحے پر ہر پانچ چھ سطروں کے
بعد سماج کا لفظ آ تا تھا ،ملنے گئے اور بڑی عاجزی سے کہا کہ محترمہ! آ پ کو تو ان ٹھیکےدار وں کا
اتا پتا معلوم ہو گا۔ آ پ ان میں سے کسی ایک کو اس خاکسار سے مال دیں تو ایک بوجھ میرے سینے سے
اتر جائے گا
سوال د :سماج کے بارے میں زیادہ سوچنے والوں میں زیادہ تعداد کن لوگوں کی ہے؟
جواب۔ سماج کے بارے میں زیادہ سوچنے والوں میں بیشتر تعداد کمزور ،چڑچڑے اور غمگین حضرات
کی ہے۔
سوال ھ۔ سماج کو کوسنے والوں کا کیا عالج تجویز کیا گیا ہے؟
جواب۔ مصنف کے مطابق اس قسم کے بیمار سماج حضرات کا عالج ۔۔لوہے کا ٹانک ،مچھلی کا تیل ،
فروٹ سالٹ ،ورزش اور تبدیلی آ ب و ہوا ہے۔ اور ان کے ٹانسل نکلوا دیئے جائیں اور خراب دانت
بھی ! اور ان سے زبردستی ورزش کرائی جائے۔اور انہیں ہنس مکھ حضرات کی صحبت میں رکھا
جائے۔ افاقہ ہونے کی صورت میں
سوال نمبر :2سیاق و سباق کے حوالے سے درج ذیل جملوں کی وضاحت کریں۔
جواب :وضاحت :اپنی ہر ناکامی کا ذمہ دار سماج یا معاشرے کو قرار دینا۔ دعائیں اور بد دعائیں بھی
ایسی دی جاتی ہیں جس میں لفظ سماج موجود ہوتا ہے ۔جیسے
یا ہللا مجھے سماج کی ہوا سے بچائیو یا پیسہ دیتا جا بابا ! خدا تجھے سماج سے بچائے۔
ب۔ بچپن میں جتنا شیطان سے ڈر لگتا اتنا ہی سماج سے ڈرا کرتے۔
جواب :وضاحت :جب چھوٹے تھے تو ایسے معلوم ہوتا تھا جیسے سماج ،کوئی بے ہودہ سا آ وارہ گرد
شخص ہے ،جس کا کام دن بھر لوگوں کو ڈرانا ہے چناچہ بچپن میں جتنا شیطان سے ڈر لگتا تھا اتنا ہی
سماج سے بھی ڈرا کرتے تھے۔
ج :افاقہ ہونے پر انھیں تاکید کی جائے کہ اپنی صحت برقرار رکھیں ،مبادا کہیں پھر دورہ پڑ جائے۔
سوال نمبر :3درج ذیل الفاظ و محاورات کو جملوں میں استعمال کریں۔
جواب ۔
معنی الفاظ و محاورات۔
مشقی سواالت
سوال الف .:۔ مصنف کو پرانی کار بیچنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
جواب :۔ مصنف کو پرانی کار بیچنے کی ضرورت اس لیے پیش آئی کیونکہ وہ والیت ( انگلستان) جانا
چاہتا تھا۔
جواب .:مصنف نے کار بیچنے کے لیے اشتہار دیا۔یہی طریقہ مصنف کے نزدیک بہترین طریقہ تھا۔
سوال ج:۔ مصنف نے کار کا ماڈل سن عیسوی کے بجائے سن ہجری کیوں بتایا؟
جواب :۔دراصل خریدار نے مصنف کو اتنا لمبا سالم کیا تھا کہ مصنف کو لگا شاید خریدار کو مذہب سے
بہت لگاؤ ہے۔اس لیے مصنف نے عیسوی کے بجائے تاریخ ہجری میں بتا ڈالی کہ شاید اسالمی کلینڈر
کی تاریخ سن کر خریدار مزید سوال نہ کرے۔
سوال د :۔ کار کی قیمت بتاتے ہوئے مصنف کی کیا کیفیت تھی؟
جواب :۔جب مصنف نے کار کی قیمت تیئس ہزار بتائی یہ جملہ مصنف نے آ دھے سانس میں کہا اور
کامیابی س اچھو کو دیکھا۔
جواب :۔مصنف نے گاہک کو مشورہ دیا کہ" :آ پ سائیکل کیوں نہیں خرید لیتے" ؟
سوال ز :۔مصنف نے معمولی قیمت پر کار کا سودا کیوں قبول کر لیا؟
جواب :۔چونکہ مصنف کی کار کا سودا کسی سے اچھے داموں نہیں طے پا سکا۔اس لی مصنف نے
معمولی قیمت پر کار کا سودا قبول کر لیا۔
جواب :۔اس سبق میں مصنف نے لہجے کے اتار چڑھاؤ اور مختلف کیفیتوں کو نمایاں کیا ہے انہوں نے
ادب کو ادب برائے ادب کے بجائے ادب برائے زندگی کے پیِش نظر رکھا ہے۔کرنل محمد خان کا انداز
بیان سادہ اور شگفتہ ہے ۔ سنجیدہ سے سنجیدہ بات بھی ظرافت کے رنگوں سے نکھرتی ہے۔ان کا فن
محض وقت گزاری کا وصیلہ نہیں بلکہ ایک سنجیدہ عمل ہے
الف :۔ یہ سوچنا تھا کہ جملہ اندیشہ شہر کو لپیٹ کر ایک کونے میں رکھ دیں۔
جواب :
وضاحت :مصنف نے لوگوں کی باتوں کا خوف اور ڈد اپنے دل سے نکال کر کار کو بیچنے کا فیصلہ
کیا۔
جواب :زیادہ تر اخبارات قارئین کے خطوط ادارتی صفحات پر شائع کرتے ہیں۔
سوال ب :ایک اردو اخبار میں ہر ماہ اوسطًا کتنے خطوط چھپتے ہیں ؟
جواب :ایک اردو اخبار میں ہر ماہ اوسطًا ڈیڑھ سو خطوط ش چھپتے ہیں۔
جواب :اخبارات مراسلت کے کالم پر احتیاط کے طور پر لکھا جاتا ہے کہ ایڈیٹر کا مراسلہ نگار کی
رائے سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
جواب :مراسالت سے عام طور پر جمہوریت کی نشوونما ہوتی ہے۔ مراسلے حکومت اور عوام کے
درمیان رابطے کا ذریعہ ہے۔ ان سے حکومتوں کو عوام کے مسائل سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔
سوال ھ :مراسلوں میں کسی ایک موضوع پر بحث کو ابالغ عامہ کی اصطالح میں کیا کہتے ہیں ؟
جواب :مراسلوں میں کسی ایک موضوع پر بحث کو ابالغ عامہ کی اصطالح میں اس عمل کو تقطیری
اثر کہا جاتا ہے۔
سوال نمبر : 2خطوط بنام مدیر سے کیا کیا فائدے حاصل ہوتے ہیں ؟
جواب :خطوط بنام مدیر سے مندرجہ ذیل فوائد حاصل ہوتے ہیں
۔ 1اخبار کا ایڈیٹر قارئین کے احساسات و جذبات سے باخبر رہتا ہے۔
۔ 2خطوط سے خود اخبار اور مدیر کا محاسبہ ہوتا رہتا ہے اور قارئین کی تنقید اسے راہ راست پر رکھتی
ہے۔
۔ 3مراسالت سے جمہوریت کی نشوونما ہوتی ہے اور اس سے لوگ حدود کے اندر رہ کر اپنی رائے کا
اظہار کر سکتے ہیں۔
۔ 4قارئین کو مکتوبات سے رہنمائی حاصل ہوتی ہے اور ان کی معلومات میں اضافہ ہوتا ہے۔
۔ 5شکایات کا موجب بننے والے افسران اور محکموں کی اصالح ہوتی ہے۔
سوال نمبر : 3قارئین کو خط تحریر کرتے ہوئے کن امور کا خیال رکھنا چاہیے ؟
جواب :قارئین کو خط تحریر کرتے ہوئے مندرجہ ذیل باتوں کا دھیان رکھنا چاہیے۔
۔ 1قومی مفاد کے خالف تو نہیں۔
۔ 2ذاتی اغراض کے لیے تو نہیں لکھا گیا۔
۔ 3کسی گروہ یا طبقے کے جذبات کو مجروح تو نہیں کیا گیا۔
۔ 4مشکوک مقاصد کے لیے تو تحریر نہیں کیا گیا۔
۔ 5انداز بیان ناشائستہ تو نہیں۔
.شعرنمبر 1
..ہے یہی میری نماز ،ہے یہی میرا وضو
میری نواؤں میں ہے میرے جگر کا لہو۔
حوالہ متن
دعا نظم۔
شاعر۔ عالمہ اقبال
تشریح۔ :اقبال جب 32ء میں گول میز کانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو وہاں سے فراغت کے
بعد انھوں نے ہسپانیہ کا دورہ بھی کیا ۔ تاریخی اعتبار سے ہسپانیہ جن دنوں مسلمان سالطین کے زیر
نگیں رہا تو اس کی عظمت انتہائی عروج پر پہنچ گئی تھی ۔ مسلمان سالطین نے قرطبہ کو اپنا
دارالحکومت قرار دیا تھا ۔ یہ نظم عالمہ نے قرطبہ کی جامع مسجد میں بیٹھ کر تخلیق کی ۔ یہ مسجد
مسلمانوں کے زوال کے بعد عیسائی حکمرانوں نے گرجا میں تبدیل کر دی تھی ۔ اس المیے کے اثرات
اقبال کی اس نظم میں جا بجا موجود ہیں ۔ چنانچہ وہ کہتے ہیں کہ عشق حقیقی جب اپنی انتہا پر پہنچتا ہے
تو جگر کا لہو بھی ٓاہ و فریاد میں ڈھل جاتا ہے ۔ یہی ٓاہ و فریاد میری نماز اور وضو کا روپ دھار گئی
ہے ۔
شعر نمبر.2
.صحبِت اہِل صفا ،نور و حضور و سرور
سرخوش و ُپرسوز ہے اللہ لِب ٓابجو
تشریح۔ :اس شعر میں اقبال کہتے ہیں کہ صاف و پاکیزہ محبت سے قلب انسان جال پاتا ہے ۔ محبوب کی
حضوری کے ساتھ کیف و سرور کی وہ صورت ملتی ہے ۔ بالکل اسی طرح جیسے نہر کے کنارے اللے
کا پھول لہراتا رہتا ہے اور ندی کی لہریں اس کو ہمیشہ تازگی ،سرخوشی اور سوز بخشتی رہتی ہیں ۔
شعر نمبر3
راِہ محبت میں ہے کون کسی کا رفیق
ساتھ مرے رہ گئی ،ایک مری ٓارزو
تشریح :عالمہ محمد اقبال اس شعر میں فرماتے ہیں کہ محبت کی راہیں اس قدر سنگالخ ہوتی ہیں کہ اس
میں انتہائی قربت رکھنے والے عزیزو اقربا بھی ساتھ چھوڑ جاتے ہیں ۔ چنانچہ اقبال کے مطابق کہ
محبت میں کوئی بھی کسی کا ساتھ نہیں دے سکتا ۔ محض عشق کا جذبہ ہی ٓارزو میں ڈھل کر انسان کو
اس کی منزل تک پہنچانے کا اہل ہوتا ہے ۔
شعر نمبر.4
.میرا نشیمن نہیں درگہ میر و وزیر
میرا نشیمن بھی تو ،شاِخ نشیمن بھی تو
تشریح۔ :عالمہ صاحب بہت خوب صورت انداز میں اپنی دلی خواہش کا اظہار کرتے ہوئے خدائے
عزوجل سے مخاطب ہو کر اس شعر میں فرماتے ہیں کہ میرے دل میں امیروں اور وزیروں کے لیے
کوئی گنجائش نہیں ۔ میرے لیے تو تو ہی سب کچھ ہے ۔ منزل بھی تو اور راہ منزل بھی ۔
شعر نمبر5
.تجھ سے گریباں مرا مطلِع صبِح نشور
تجھ سے مرے سینے میں ٓاتِش ہللا ہو
معانی :مطلع :جہاں سے صبح پھوٹتی ہے ۔ نشور :دوبارہ زندہ ہو کے اٹھنے کی صبح ۔
تشریح :اس شعر میں شاعر عالمہ اقبال ہللا تعالٰی سے محبت کا دم بھرتے ہوئے کہتے ہیں ک اے خدا تو
نے میرے سینے میں عشق حقیقی کی جو ٓاگ روشن کی ہے وہ قیامت کے روز بھڑکنے والی ٓاگ سے کم
نہیں ۔ غالبًا اس کی وجہ یہ ہے کہ میرا دل ہللا ہو کی حرارت کی ٓاماجگاہ بنا ہوا ہے ۔
شعر نمبر.6
.تجھ سے مری زندگی سوز و تب و درد و داغ
تو ہی مری ٓارزو ،تو ہی مری جستجو
تشریح :عالمہ اقبال ہللا تعالٰی سے اپنے عشق کا اظہار کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے موالئے کائنات
تیرے ہی دم سے میری زندگی سوز و درد اور داغ کے عالوہ روشنی کا مظہر بنی ہوئی ہے ۔ تو ہی ہے
جو میرے عشق میں ٓارزو بن کر بسا ہوا ہے اور یہی جذبہ جستجو کا حامل بن جاتا ہے ۔
شعر نمبر7
..پاس اگر تو نہیں ،شہر ہے ویراں تمام
تو ہے تو ٓاباد ہیں اجڑے ہوئے کاخ و کو
تشریح :اس شعر میں شاعر عالمہ اقبال اپنی کیفیت بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ اے مالک دو جہاں! یہ
تیری یاد ہی ہے جس کے بغیر ہر سو ویرانی ہی ویرانی نظر ٓاتی ہے اور جب مجھے تیری قربت کا
احساس ہوتا ہے تو اجڑے ہوئے محالت اور سنسان گلی کوچے بھی ٓاباد و درخشاں نظر ٓاتے ہیں ۔ مراد
یہ کہ قرب الٰہ ی سے انسان عظمت و بلندی سے ہم کنار ہوتا ہے ۔ اس کے برعکس عشق الٰہ ی اور اس کی
معرفت نہ ہو تو پورا ماحول اجاڑ و سنسان بن کر رہ جاتا ہے ۔
شعر نمبر.8
.پھر وہ شراِب کہن مجھ کو عطا کر ،کہ میں
ڈھونڈ رہا ہوں اسے توڑ کے جام و سبو
معانی :شراِب کہن :پرانی شراب یعنی اولین مسلمان کے جذبات اور ایمان ۔
تشریح:اس شعر میں عالمہ اقبال ہللا تعالٰی سے مخاطب ہو کر دعا کرتے ہیں کہ اے مالک میں نے جدید
تہذیب کے تمام لوازمات سے قطع تعلق کر لیا ہے ۔ مجھے وہی جذبہ عشق سے نواز دے جو میرے
اسالف کا ورثہ ہے کہ سب کچھ چھوڑ کر میں تو عشق الٰہ ی میں جذب ہو جاؤں۔ اور محض تیری تالش
میں مصروف ہوں ۔
شعر نمبر.9
.چشِم کرم ساقیا ،دیر سے ہیں منتظر
جلوتیوں کے سبو ،خلوتیوں کے کدو
معانی :جلوتیوں کے سبو :ظاہر شراب پینے والے کا برتن مراد سب کے سامنے نماز روزہ اور عبادت
کرنے والے ۔ خلوتیوں کے کدو :چھپ کے پینے والوں کے برتن ،چھپ کر عبادت کرنے والے بزرگ ۔
تشریح :اس شعر میں اقبال خدا سے تمام مسلمانوں کے مختلف طبقوں کے لیے دعا کرتے ہوئے کہتے
ہیں ک کہ اے ہللا سب تیری ہی عبادت کرتے ہیں وہ جو چھپ کر یا وہ جو سب کے سامنے وہ سب تیری
نظر کرم اور نظر رحمت کے طلب گار اور محتاج ہیں ۔وہ تم سے آ س لگائے بیٹھے ہیں۔تو ان کے حال
پر رحم فرما اور مدد فرما۔
شعر نمبر10
.تیری خدائی سے ہے میرے جنوں کو گلہ
اپنے لیے المکاں میرے لیے چار سو
تشریح :اس شعر میں عالمہ کا لہجہ قدرے تبدیل ہو گیا ہے ۔ یہاں وہ مالک حقیقی سے گلہ مند نظر ٓاتے
ہیں کہ وہ خود تو المکاں ہے اور افالک و کائنات پر اس کی اجارہ داری ہے جب کہ انسان کو اپنا نائب بنا
کر بھیجنے کے باوجود زمین کے ایک مختصر عالقے تک محدود کر دیا ہے ۔ مراد یہ ہے کہ خدا کے
المحدود اختیارات کا تو کوئی ٹھکانہ نہیں جب کہ انسان تو محض بے اختیار ہے ۔
شعر نمبر.11
.فلسفہ و شعر کی اور حقیقت ہے کیا
حرِف تمنا ،جسے کہہ نہ سکیں ُر وبرو
تشریح :اس شعر میں عالمہ اقبال فرماتے ہیں کہ فلسفہ اور شعر کی تعریف مختصرًا اتنی ہی ہے کہ ان
کی وساطت سے اپنی دلی تمنا کا اظہار کھل کر نہیں کیا جا سکتا بلکہ یہاں بھی عالمتوں کا سہارا لیا
جارہا ہے
مشقی سواالت
سوال الف۔ عالمہ اقبال نے اس نظم میں کس آ رزو کا اظہار کیا ہے؟
سوال ب۔ عالمہ اقبال کی نظم دعا کے دوسرے شعر میں کس طرف اشارہ کیا گیا ہے؟
جواب۔ عالمہ اقبال کی نظم دعا میں عشق حقیقی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ جو لوگ ہللا
تعالٰی کی معرفت حاصل کر لیتے ہیں ۔ان پر کیف و سرور کی ایسی حالت طاری ہو جاتی ہے کہ وہ دنیا
کی لذتوں سے دست کشت ہو جاتے ہیں۔اور اپنا سارا وقت یاد اٰل ہی میں بسر کر دیتے ہیں۔
جواب۔ مرکزی خیال۔ نظم میں عشق حقیقی کا تذکرہ ہے کہ ہللا سے پختہ تعلق اس طرح سے قائم کرو کہ
اس سے تعلق قائم کرنے میں آ پ کی مکمل کوشش ہو۔ ہللا تعالٰی سے عشق انسان کو ہمیشہ پھول کی مانند
تروتازہ رکھتا ہے۔جن کے دل ہللا تعالٰی کی یاد سے منور ہو جاتے ہیں انہیں دنیاوی آ سائش کی کوئی پروا
نہیں رہتی۔ہللا کی یاد سے یر جگہ منور ہو جاتی ہے ہللا تعالٰی سے دعا اور فریاد ہے کہ وہ اپنا کرم اور
محبت ان لوگوں کو عطا فرمائے جو سب کچھ چھوڑ کر اس کی راہ پر چل رہے ہیں۔
سوال د :عالمہ اقبال اپنی نظم (دعا) میں کیا پیغام دینا چاہتے ہیں؟
جواب۔ عالمہ اقبال نے اپنی نظم دعا میں یہ پیغام دینا چاہتے ہیں کہ خدا سے محبت آور عشق ہر مشکل کا
حل ہے۔اور جو لوگ ہللا سے تعلق استوار رکھتے ہیں ان کے لیے یہ دنیا کوئی معنی نہیں رکھتی۔
جواب۔ :اقبال جب 32ء میں گول میزکانفرنس میں شرکت کے لیے لندن گئے تو وہاں سے فراغت کے
بعد انھوں نے ہسپانیہ کا دورہ بھی کیا ۔ تاریخی اعتبار سے ہسپانیہ جن دنوں مسلمان سالطین کے زیر
نگیں رہا تو اس کی عظمت انتہائی عروج پر پہنچ گئی تھی ۔ مسلمان سالطین نے قرطبہ کو اپنا
دارالحکومت قرار دیا تھا ۔ یہ نظم عالمہ نے قرطبہ کی جامع مسجد میں بیٹھ کر تخلیق کی ۔ یہ مسجد
مسلمانوں کے زوال کے بعد عیسائی حکمرانوں نے گرجا میں تبدیل کر دی تھی ۔ اس المیے کے اثرات
اقبال کی اس نظم میں جا بجا موجود ہیں ۔
سوال الف :بادشاہ ہونے کے باوجود بہادر شاہ ظفر کی اس غزل میں بے بسی کیوں؟
جواب :بادشاہ ہونے کے باوجود بہادر شاہ ظفر کو انگریزوں نے گرفتار کر کے برما کے دارالحکومت
رنگون میں نظر بند کر دیا تھا مغل شہزادوں کو بادشاہ کی
آنکھوں کے سامنے قتل کیا گیا۔یہ اور اس طرح کے کئی صدمات تھے جنھوں نے آ خری عمر میں
بادشاہ کو الچار کر دیا تھا انھوں رنگون میں انتہائی بے بسی کے عالم میں انتقال کیا۔یہی وجہ ہے کہ
بادشاہ ہونے کے باوجود بہادر شاہ ظفر کی اس غزل میں بے بسی نمایاں ہے۔
سوال ب :چوتھے شعر میں ٫زندگی کی شام ہو گئی' سے کیا مراد ہے؟
جواب :بہادر شاہ ظفر کی زندگی غم و الم سے بھری ہوئی تھی اور عمر کے آخری ایام تو انہیں گن گن
کے گزارنے پڑے۔چنانچہ ہہ اندازہ ہو گیا تھا ک ان کی زندگی کی شام ہونے والی ہے۔ چونکہ بہادر شاہ
ظفر کے سامنے ان کی زندگی کی شادمانی اور آ زادی ختم ہونے والی ہے اس لیے انھیں تنہائی اور قید
ستاتی ہے مگر وہ خود کو کہتے ہیں کہ اب میری زندگی کے دن ختم ہو چکے ہیں۔ میری موت کا پیغام آ
گیا ہے اور موت ہی میری پریشانیوں اور تکالیف سے نجات اور رہائی کا باعث ہے
سوال ج :غزل کے آ خری شعر میں شاعر نے اپنی کس حسرت کا ذکر کیا ہے؟
جواب :غزل کے آ خری شعر میں شاعر نے اپنی جس حسرت کا ذکر کیا ہے وہ یہ ہے کہ ہر محب وطن
کی طرح شاعر کی بھی خواہش اور حسرت تھی کہ موت کے بعد ان کی آ خری آ رام گاہ ان کا وطن
عزیز ہو
سوال د :دوسرے شعر میں شاعر کی ' بلبل" اور " صیاد" سے کیا مراد ہے؟
جواب :دوسرے شعر میں شاعر کی بلبل سے مراد بہادر شاہ ظفر خود ہیں۔ جبکہ صیاد انھوں نے
انگریزوں کو کہا ہے۔
جواب :غزل کے مقطع میں کوئے یار سے مراد محبوب کی گلی ہے۔
جواب :بہادر شاہ ظفر نے اجڑے دیار سے مراد ویران بستی لی ہے۔
سوال نمبر :2مندرجہ ذیل تراکیب کے معنی لکھیں اور جملوں میں استعمال کریں۔