You are on page 1of 3

‫کیا سورج گدلے پانی کے چشمے میں ڈوبتا ہے ؟‬

‫سورۃ الکہف کی آیہ ‪ 86‬پر اعتراض کا جواب‬


‫‪ :‬سورۃ الکہف میں حضرت ذوالقرنین نے متعلق آتا ہے‬
‫"حتی اذا بلغ مغرب الشمس وجدھا تغرب فی عین حمئۃ ووجد عندھا قوما ېقلنا یا ذالقرنین اما ان تعذب و اما ان یتخذ فیھم حسنا"‬

‫سورۃ الکہف ‪86:‬‬


‫ترجمہ ‪:‬۔‬
‫حتی کہ جب وہ غروب آفتاب کی جگہ پہنچے تو انہوں نے اسے سیاہ دلدل کے چشمے میں ڈوبتے ہوئے پایا ۔ اور انہوں نے اس‬
‫کے پاس ایک قوم کو پایا ‪ ،‬ہم نے کہا اے ذوالقرنین ! تم ان کو عذاب پہنچاؤ یا ان کے ساتھ حسن سلوک کرو‬

‫سورۃ الکہف کی آیہ کو لیکر مستشرقین اور ملحدین یہ اعتراض اٹھاتے ہیں کہ قرآن نے گدلےپانی کے چشمے‪ X‬کو سورج کے‬
‫ڈوبنے کی جگہ قرار دیا ہے ۔‬

‫‪ :‬الجواب‬

‫قرآن حکیم کی اس آیہ پر مستشرقین و ملحدین کا اعتراض باطل ہے۔‬


‫کیونکہ یہ قرآن حکیم کا اعجاز ہے کہ وہ مظاہر فطرت کی تمثیلی انداز میں اس طرح منظر کشی کرتا ہے کہ اس کا اسلوب اور‬
‫انداز بیان انسان کے دل میں اتر جاتا ہے۔‬
‫اس آیہ میں بھی فطرت کے ایک مظہر کی انتہائی خوبصورت انداز میں منظر کشی کی گئی ہے۔ قرآن کی اس آیہ مبارکہ میں حقیقتا ً‬
‫سورج کے پانی میں غروب ہونے کا بیان نہیں بلکہ حضرت ذوالقرنین کے بصری مشاھدے کا بیان موجود ہے۔ جیسا کہ "وجدھا"‬
‫کے لفظ سے واضح کر دیا گیا کہ فی الحقیقت ایسا نہ تھا بلکہ حضرت ذوالقرنین نے سورج کو ایسے پایا یعنی انہوں نے ایسا دیکھا ۔‬
‫جیسے کہ کوئی بھی شخص اگر ساحل سمندر پر کھڑا ہو کر سورج غروب ہونے کے منظر کو دیکھے تو بظاہر اسے یونہی معلوم‬
‫ہو گا کہ سورج سمندر کے پانیوں میں غروب ہو رہا ہے۔ اور قرآن میں انسان کے اسی بصری مشاھدے کو مجازی طور پر بیان کیا‬
‫گیا ہے۔ اسے حقیقت پر محمول کرنا معترضین کی کم فہمی کی دلیل ہے۔‬
‫نیز اس آیہ میں سورج غروب ہونے کی جگہ کے قریب ایک قوم کے موجود ہونے کا واضح بیان ہے اور یہ حقیقت سبھی جانتے ہیں‬
‫کہ مذہبی نصوص طیبہ کی روشنی میں بھی سورج اس قدر حرارت رکھتا ہے کہ اس کے قریب کسی قوم تو دور کی بات ایک انسان‬
‫کا وجود بھی ممکن نہیں۔ لہذا اس سے بھی واضح ہوتا ہے کہ اس واقعے کو حقیقت پر محمول کرنا معترضین کی غلطی ہے‬
‫‪ :‬عالمہ غالم رسول سعیدی رحمہ ہللا ٰ‬
‫تعالی تبیان القرآن میں لکھتے ہیں کہ‬
‫یہ واقعہ ایشیائے کوچک (اناطولیہ) کے مغربی ساحل کا ہے۔وہاں تمام ساحل اس طرح کا ہے کہ چھوٹے چھوٹے خلیج پیدا ہو گئے "‬
‫ہیں اور اس طرح جزیرے نکل آئے ہیں کہ انہوں نے ساحل کو ایک جھیل یا حوض کی سی شکل دے دی ہے۔ یہ واقعہ یقینا َ اسی‬
‫ساحلی مقام کا ہے۔یہاں انہوں نے دیکھا ہو گا کہ سمندر نے جھیل کی سی شکل اختیار کر لی ہے اور ساحل کی کیچڑ سے پانی گدال‬
‫"ہو رہا ہے اور شام کے وقت اسی میں انہیں سورج ڈوبتا دکھائی دیا ۔‬
‫قرآن کے قدیم و جدید تمام مفسرین نے اس کی تفسیر میں یہی لکھا ہے کہ حقیقت میں ایسا نہ تھا بلکہ یہ انسانی آنکھ سے دکھائی‬
‫دینے والے منظر کی تصویر کشی کی گئی ہے۔‬
‫چنانچہ‬
‫۔ امام فخر الدین الرازی رحمۃ ہللا علیہ مفاتیح الغیب میں فرماتے ہیں کہ‪1‬‬
‫یہ بات دلیل سے ثابت ہو چکی ہے کہ زمین ایک کرہ کی شکل میں ہے اور آسمان اس پر محیط ہے۔اور اس میں کوئی شک نہیں کہ‬
‫سورج آسمان میں ہے۔اور اسی طرح جو کہا گیا (ووجد عندھا قوما) تو یہ معلوم ہے کہ سورج کے قریب کسی قوم کا وجود نہیں اور‬
‫اسی طرح سورج زمین سے کئی گنا بڑا ہے تو اس کا زمین کے چشموں میں سے ایک چشمے میں داخل (غروب) ہونا عقل کیسے‬
‫تسلیم کر سکتی ہے۔جب یہ ثابت ہو گیا تو پس ہم یہ کہتے ہیں کہ اس آیہ (تغرب فی عین حمئة) کی تاویل یہ ہے کہ جب حضرت‬
‫ذوالقرنین مغرب میں اس (سورج ڈوبنے کی) جگہ پہنچے اور اس کے بعد عمارات میں سے کچھ نہ پایا تو سورج کو یوں پایا گویا‬
‫کہ وہ چشمے‪ X‬میں ڈوب رہا ہو اور وہاں پر اندھیری تھی اگرچہ حقیقت میں ایسا نہیں تھا جیسا کہ سمندر میں سوار سورج کو یوں‬
‫دیکھتا ہے گویا کہ وہ سمندر میں غائب ہو رہا ہو اور جب اس نے کنارہ نہیں دیکھا تو حقیقت میں وہ سمندر کے پیچھے ڈوب رہا تھا۔‬
‫)مفاتیح الغیب جلد ‪ 21‬ص ‪(168‬‬

‫ابن کثیر میں ہے ‪2‬۔ تفسیر‬

‫اس سے مراد یہ ہے کہ انتہائے مغرب میں پہنچ کر انہیں سورج کا منظر یوں دکھائی دیا کہ وہ بحر محیط میں ڈوب رہا ہے ۔ بلکل"‬
‫یہی کیفیت ہر اس شخص کی ہوتی ہے جو ساحل پر کھڑے ہو کر سورج کا نظارہ کرتا ہے۔اسے سورج یوں دکھائی دیتا ہے گویا وہ‬
‫"پانی میں ڈوب رہا ہو ۔ حاالنکہ سورج چوتھے فلک میں ہے اور وہاں سے جدا کبھی نہیں ہوتا ۔‬
‫)ابن کثیر جلد ‪ 3‬ص ‪(179‬‬
‫تفسیر البحر المحیط میں ہے ‪3‬۔‬

‫چشمے میں غروب ہونے کا معنی یہ ے کہ آنکھ سے دیکھنے میں ایسے معلوم ہوتا ہے کہ سورج پانی میں غروب ہو رہا ہے ۔"‬
‫"حقیقت میں ایسا نہیں ہے۔‬
‫)البحر المحیط الجزء السادس‪ X‬ص ‪(151‬‬

‫۔ تبیان القرآن میں ہے‪4‬‬

‫اسے ایسا دکھائی دیا کہ سورج ایک گدلے حوض میں ڈوب رہا ہے۔ یہ ظاہر ہے کہ سورج کسی مقام میں بھی ڈوبتا نہیں۔ لیکن ہم"‬
‫سمندر کے کنارے کھڑے ہو کر دیکھتے ہیں تو ایسا ہی دکھائی دیتا ہے کہ ایک سنہری تھالی آہستہ آہستی سمندر میں ڈوب رہی‬
‫"ہے۔‬
‫))تبیان القرآن جلد ‪ 7‬ص ‪205‬‬
‫۔ تفسیر الخازن میں ہے‪5‬‬
‫اس سے مراد یہ ہے کہ آنکھ سے دیکھنے میں (ایسا معلوم ہوتا ہے کہ سورج پانی میں ڈوب رہا ہے)"‬

‫)تفسیر الخازن جلد ‪ 4‬ص ‪(195‬‬


‫اسی طرح دیگر تمام تفاسیر میں یہی مفہوم موجود ہے۔‬
‫قرآن کے برعکس حضرت کعب بن االحبار کی ایک روایت میں آتا ہے کہ تورات میں لکھا ہے کہ سورج کے غروب ہونے کی‬
‫جگہ گدلے پانی کا چشمہ ہے۔‬
‫یہ روایت تفسیر طبری‪ ،‬ابن کثیر‪ ،‬بیضاوی‪ ،‬درمنثور‪ ،‬معالم التنزیل‪ ،‬تفسیر عبد الرزاق‪ ،‬تفسیر البحر المحیط‪ ،‬قرطبی وغیرہ میں‬
‫موجود ہے۔‬
‫حضرت کعب بن االحبار یہود کے ربی تھے جو کہ یہود مدینہ میں تورات کے سب سے بڑے عالِم تھے اور انہیں یہود کی تاریخ پر‬
‫بڑا عبور حاصل تھا ۔ صحابہ کرام رضوان ہللا اجمعین بھی ان سے بنی اسرائیل کے متعلق معلومات حاصل کیا کرتے تھے۔‬
‫پس معلوم یہ ہوا کہ یہ واقعہ حضرت ذوالقرنین کے مشاھدے کا بیان ہے اور‬
‫اس میں فی الحقیقت سورج کے گدلے پانے کے چشمے میں غروب ہونے کا بیان موجود نہیں اور اسے حقیقت پر محمول کرنا‬
‫درست نہیں۔‬

You might also like