You are on page 1of 19

‫َْ‬

‫ارض‬
‫زمین‪ ،‬دھرتی‬
‫سرزمین‪ ،‬عالقہ‬
‫زمین کو کہتے ہیں؛ نیز ہر وہ چیز جو نیچے ہو وہ ارض کہالتی ہے‬
‫اشعار‬

‫تجھ کو کتنوں کا لہو چاہیئے اے ارض وطن‬


‫جو ترے عارض بے رنگ کو گلنار کریں‬
‫کتنی آہوں سے کلیجہ ترا ٹھنڈا ہوگا‬
‫کتنے آنسو ترے صحراؤں کو گل زار کریں‬

‫فیض احمد فیض‬

‫اے ارض پاک تیری حرمت پہ کٹ مرے ہم‬


‫ہے خوں تری رگوں میں اب تک رواں ہمارا‬

‫عالمہ اقبال‬

‫ُ‬
‫ارض پاک پہ اترے‬‫خدا کرے کہ مری ِ‬
‫فصل گل جسے اندیشہء زوال نہ ہو‬
‫وہ ِ‬

‫خدا کرے کہ مرے ِاک بھی ہم وطن کے لئے‬


‫ُ‬
‫حیات جرم نہ ہو‪ ،‬زندگی وبال نہ ہو‬

‫ملی نہیں ہے ہمیں ارض پاک تحفے میں‬


‫جو الکھوں دیپ بجھے ہیں تو یہ چراغ جال‬
‫مری شناخت اگر ہو تو تیرے نام سے ہو‬
‫چشم معتبر میں رہوں‬
‫ارض شوق تری ِ‬‫اے ِ‬

‫نورعین اہلل ہے ارض وسما میں ضوفشاں‬


‫آنکھ کا تارا زمیں پر ہے فلک پر آفتاب‬
‫)نسیم(‬
‫ارض و فلک سب سرگرداں‬
‫جس کو دیکھو بارہ باٹ‬
‫)معارف جمیل(‬

‫یاں ارض وسما تارے جو آن کے جھولے ہیں‬


‫جن دیو پری آدم یا باد ببولے ہیں‬
‫)نظیر اکبر آبادی(‬

‫طہران ہو گر عالم مشرق کا جينوا‬


‫شايد کرہ ارض کي تقدير بدل جائے‬
‫عالمہ اقبال‬

‫قرض‬
‫ادا کرنا‪ ،‬کاٹنا ‪،‬دست گرداں‬
‫ُ‬
‫ادھار‪ ،‬مستعار‪ ،‬واجب االد‪ ،‬بدلہ‪ j،‬انتقام‬

‫قرض‪ ،‬بدلہ اور انتقام کے معنوں میں استعمال ہوتا ہے‬

‫وہ مال جو مدت معینہ میں واپسی کی شرط پر دیا جائے‬


‫وہ کام جس کا بدل مطلوب ہو‬
‫پہلے کی ہوئی اچھائی یا برائی‪ ،‬اچھا یا برا‬
‫؎محاورے‬

‫بنئے کا قرض گھوڑے کی دوڑ برابر ہے‬

‫چاتر کا قرض من میں نستار‬

‫فقیر‪ ،‬قرضخواہ‪ j،‬لڑکا۔ تینوں نہیں سمجھتے‬

‫ُ‬
‫اشعار‬
‫ُ‬
‫کاروبار دنیا کے‬
‫ِ‪j‬‬ ‫عجب اصول ہیں ِاس‬
‫کسی کا قرض کسی اور نے اتارا ہے‬
‫)امجد اسالم امجد(‬

‫صف دشمناں کو خبر کرو‬


‫مرے چارہ گر کو نوید ہو‘ ِ‬
‫وہ جو قرض رکھتے تھے جان پر‘ وہ حساب آج چکا دیا‬

‫)فیض‌احمد‌فیض(‬

‫اس قدر قرض ہے محبت کا‬


‫سوچتا ہوں تو ہول اٹھتا ہے‬

‫)امجد اسالم امجد(‬

‫مغ نے دی پگڑی پہ زاہد کے مجھے قرض شراب‬


‫کام سودا ہی کا ہوتا ہے خدا ساز درست‬
‫)سودا(‬

‫فلک سے ہم کو عیش رفتہ کا کیا کیا تقاضا ہے‬


‫متاع بردہ کو سمجھے ہوے ہیں قرض رہزن پر‬
‫)غالب(‬

‫کچھ دینے کا بھی دیکھ لے اے آہ ٹھکانا‬


‫کس برتے پہ تو لیتی ہے تاثیر دعا قرض‬
‫)مومن(‬

‫قرض کی پیتے تھے مے لیکن سمجھتے تھے کہ ہاں‬


‫رنگ الوے گی ہماری فاقہ مستی ایک دن‬

‫مرزا غالب‬
‫کچھ تو ہے بات جو آتی ہے قضا رک رک کے‬
‫زندگی قرض ہے قسطوں میں ادا ہوتی ہے‬

‫قمر جالل آبادی‬


‫مٹی کی محبت میں ہم آشفتہ سروں نے‬
‫وہ قرض اتارے ہیں کہ واجب بھی نہیں تھے‬

‫افتخار عارف‬

‫َْ‬
‫فرض‬
‫ذمہ داری‬
‫کار مفتوضہ‬
‫ِ‬
‫کار منصبی‬
‫ِ‬
‫کام جو خدا کے حکم سے ضروری طور پر کرنا مقرر ہوا ہو‬
‫ضروری ‪ ،‬الزمی ‪ ،‬واجب‬
‫دلیل قطعی سے ثابت ہو اور اس میں شبہ نہ ہو ‪ ،‬جیسے ‪ :‬نماز روزہ وغیرہ‪ j‬اس کا منکر کافر ہے )فقہ((‬
‫وہ عمل جو ِ‬
‫مستوجب عذاب ‪ ،‬فرمودۂ خداوندی ‪ ،‬جس کا کرنا الزمی ہو‬
‫ِ‬ ‫اور تارک‬
‫ً‬
‫تشخیص ‪ ،‬تعین ‪ ،‬اندازہ ‪ ،‬کسی چیز کا وقت مشخص کرنا ؛ (کنایۃ) نکاح‬
‫کار منصبی‬
‫ذمہ داری ‪ ،‬ڈیوٹی ‪ِ ،‬‬
‫اشعار‬

‫کیا فرض ہے کہ سب کو ملے ایک سا جواب‬


‫آؤ نہ ہم بھی سیر کریں کوہ طور کی‬

‫مرزا غالبر‬

‫فرض ہے دریا دلوں پر خاکساروں کی مدد‬


‫فرش صحرا کے لئے الزم ہوا سیالب کا‬
‫ؔ‬
‫منیر‪  ‬شکوہ آبادی‬
‫ٔ‬
‫کیا اب بھی مجھ پہ فرض نہیں دوستی کفر‬
‫وہ ضد سے میری دشمن اسالم ہو گیا‬

‫اسماعیل میرٹھی‬

‫پابندئ احکام شریعت ہے وہاں فرض‬


‫رندوں کو رخ ساقی و ساغر ہوئے مخصوص‬

‫ساحر دہلویر‬

‫ان کا جو فرض ہے وہ اہل سیاست جانیں‬


‫میرا پیغام محبت ہے جہاں تک پہنچے‬

‫جگر مراد ٓابادیر‬

‫فرض برسوں کی عبادت کا ادا ہو جیسے‬


‫بت کو یوں پوج رہے ہیں کہ خدا ہو جیسے‬

‫ظہیر کاشمیری‬
‫بولے کہ تجھ کو دین کی اصالح فرض ہے‬
‫میں چل دیا یہ کہہ کے کہ آداب عرض ہے‬

‫اکبر الہ آبادی‬

‫َ ْ‬
‫طرز‬
‫٘‬ ‫ُ‬ ‫٘‬
‫ڈھنگ‪ ،‬انداز‪ ،‬خصلت‪ ،‬خو‪ ،‬شکل‪ ،‬ہیئت‪ ،‬وضع‪ ،‬ڈھنگ‪ ،‬طریقہ‪ ،‬روش‪ ،‬قاعدہ‪ ،‬دستور‪ ،‬طرح‪ ،‬مثل‬
‫اشعار‬
‫مری ہستی ہے مری طرز تمنا اے دوست‬

‫خود میں فریاد ہوں میری کوئی فریاد نہیں‬

‫جگر مراد ٓابادی‬


‫اک طرز تغافل ہے سو وہ ان کو مبارک‬
‫اک عرض تمنا ہے سو ہم کرتے رہیں گے‬

‫فیض احمد فیض‬


‫ؔ‬
‫میں ہوں کیا چیز جو اس طرز پہ جاؤں اکبر‬
‫ؔ‬ ‫ؔ‬ ‫ؔ‬
‫ناسخ و ذوق بھی جب چل نہ سکے میر کے ساتھ‬

‫اکبر الہ آبادی‬


‫عشق ہے طرز و طور عشق کے تئیں‬
‫کہیں بندہ کہیں خدا ہے عشق‬

‫میر تقی میر‬


‫کچھ طرز ستم بھی ہے کچھ انداز وفا بھی‬
‫کھلتا نہیں حال ان کی طبیعت کا ذرا بھی‬

‫اکبر الہ آبادی‬


‫گرچہ ہے طرز تغافل پردہ دار راز عشق‬
‫پر ہم ایسے کھوئے جاتے ہیں کہ وہ پا جائے ہے‬

‫مرزا غالب‬

‫ؔ‬
‫بت پرستی جس سے ہووے حق پرستی اے ظفر‬
‫کیا کہوں تجھ سے کہ وہ طرز پرستش اور ہے‬

‫بہادر شاہ ظفر‬

‫وطن‬
‫وہ جگہ جہاں کوئی شخص پیدا ہوا ہو‪ ،‬والدت گاہ‪ ،‬مولد‪ ،‬پیدائش کی جگہ‪ ،‬جنم بھومی‪ ،‬مستقل‬
‫سکونت کی جگہ اپنا دیس‪ ،‬عالقہ‪ ،‬نگر‬
‫رہنا ‪ ،‬اپنا دیس ‪ ،‬اپنا ملک ‪ ،‬جنم بومی ‪ ،‬مسقط الراس ‪ ،‬ملک دیس‬

‫محاورے‬
‫َ‬ ‫ََ‬
‫وطن سے ِنکل جانا‬
‫؎۔غریب الوطن ہونا ۔‬
‫وطن میں بے گھر = غربت اندر وطن‬
‫جال وطن ہونا‬
‫کس وطن کے ہیں‪ ،‬کس وطن میں پڑے‬
‫اشعار‬
‫خاک وطن بیچ کے کھا جاتے ہیں‬
‫لوگ جو ِ‬
‫اپنے ہی قتل کا کرتے ہیں تماشہ کیسے‬

‫)احمد‌ندیم‌قاسمی(‬
‫دل سے نکلے گی نہ مر کر بھی وطن کی الفت‬
‫میری مٹی سے بھی خوشبوئے وفا آئے گی‬

‫دلوں میں حب وطن ہے اگر تو ایک رہو‬


‫نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو‬

‫وطن کے جاں نثار ہیں وطن کے کام آئیں گے‬


‫ہم اس زمیں کو ایک روز آسماں بنائیں گے‬

‫اے اہل وطن شام و سحر جاگتے رہنا‬


‫اغیار ہیں آمادۂ شر جاگتے رہنا‬

‫ہم وطن یہ گلستاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے‬


‫اس کا ہر سود و زیاں تیرا بھی ہے میرا بھی ہے‬
‫بیزار ہیں جو جذبہ حب الوطنی سے‬
‫وہ لوگ کسی سے بھی محبت نہیں کرتے‬

‫فقط ِاس جرم میں کہالئے گنہ گار کہ ہم‬


‫ناموس وطن‪ ،‬جامہ تن مانگتے ہیں‬
‫ِ‬ ‫بہر‬
‫لمحہ بھر کو تو لبھا جاتے ہیں نعرے‪ ،‬لیکن‬
‫درد وطن مانگتے ہیں‬
‫اہل وطن‪ِ ،‬‬ ‫ہم تو اے ِ‬
‫ُ‬
‫اے نگار وطن تو سالمت رہے‬
‫ُ‬
‫تو سالمت رہے تا قیامت رہے‬

‫ّ‬
‫وطن کی مٹی گواہ رہنا گواہ رہنا‬
‫ّ‬
‫وطن کی مٹی عظیم ہے تو‪ ،‬عظیم تر ہم بنا رہے ہیں‬

‫یہ وطن تمہارا ہے‪ ،‬تم ہو پاسباں اس کے‬


‫یہ چمن تمہارا ہے‪ ،‬تم ہو نغمہ خواں اس کے‬

‫ان تازہ خداؤں ميں بڑا سب سے وطن ہے‬


‫جو پيرہن اس کا ہے ‪ ،‬وہ مذہب کا کفن ہے‬

‫رہ بحر ميں آزاد وطن صورت ماہي‬


‫ہے ترک وطن سنت محبوب الہي‬
‫دے تو بھي نبوت کي صداقت پہ گواہي‬
‫گفتار سياست ميں وطن اور ہي کچھ ہے‬
‫ارشاد نبوت ميں وطن اور ہي کچھ ہے‬

‫ہو مرے دم سے یونہی میرے وطن کی زینت‬


‫جس طرح پھول سے ہوتی ہے چمن کی زینت‬

‫ایمن کا نور اگر ہے تو میرے وطن میں ہے‬


‫اب تک بھی شان طور اسی اجڑے چمن میں ہے‬

‫مجھے تو خیر وطن چھوڑ کر اماں نہ ملی‬


‫وطن بھی مجھ سے غریب الوطن کو ترسے گا‬

‫وطن کی فکر کر ناداں مصیبت آنے والی ہے‬


‫تری بربادیوں کے مشورے ہیں آسمانوں میں‬

‫وطن کے جاں نثار ہیں وطن کے کام آئیں گے‬


‫ہم اس زمیں کو ایک روز آسماں بنائیں گے‬

‫دلوں میں حب وطن ہے اگر تو ایک رہو‬


‫نکھارنا یہ چمن ہے اگر تو ایک رہو‬

‫میر عرب کو آئی ٹھنڈی ہوا جہاں سے‬


‫میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے‬

‫جنت کی زندگی ہے جس کی فضا میں جینا‬


‫میرا وطن وہی ہے میرا وطن وہی ہے‬

‫محبت وطن‬
‫ِ‬ ‫اسالم میں‬

‫وطن سے محبت ایک فطری امر ہے ‪ ،‬بہت سی احادیث سے وطن کی محبت پر راہنمائی ملتی ہے ‪،‬‬
‫ہجرت کرتے وقت رسول اہلل صلی اہلل علیہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا‬
‫ْ َ َ َْ ُ َ َْ‬ ‫َْ ُْ‬ ‫َ َّ َ َ ْ اَل َّ َ ْ‬ ‫ْ َ َ َ َ َّ‬ ‫َ ْ ََ‬
‫ک ما سکنت غیر ِک۔تو کتنا پاکیزہ شہر‬ ‫ن‬‫م‬
‫ِ ِ ِ‬‫ی‬‫ن‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ر‬‫َخ‬ ‫أ‬ ‫ی‬‫م‬‫ِ‬ ‫و‬ ‫ق‬ ‫َن‬ ‫أ‬ ‫و‬ ‫ل‬‫و‬ ‫‪،‬‬‫ی‬ ‫ِل‬ ‫إ‬ ‫ک‬
‫ِ‬ ‫ب‬ ‫َح‬ ‫أ‬‫و‬ ‫د‬
‫ٍ‬ ‫ل‬‫ب‬ ‫ن‬ ‫م‬
‫تھا‪:‬ما أَطی ِ ِ‬
‫ک‬ ‫ب‬
‫ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے ! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ کرتی تو میں‬
‫تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔اس حدیث میں نبی اکرم صلی اہلل علیہ وسلم نے اپنے‬
‫آبائی وطن مکہ مکرمہ سے محبت کا ذکر فرمایا ہے ‪ِ ،‬اسی طرح حضرت انس رضی اہلل عنہ فرماتے‬
‫‪:‬ہیں‬

‫َْ َْ ْ َ ََ ََ َ ْ‬ ‫َ َ َ َ َ ْ َ َ َََ َ ٰ ُ َُ‬ ‫َّ َّ َّ‬


‫ات الم ِدینةِ‪ ،‬أَوضع ر ِاحلت ِہ‪ ،‬وإِن‬
‫ِ‬ ‫ر‬ ‫د‬ ‫ج‬ ‫ی‬‫ِل‬ ‫إ‬ ‫ر‬‫ظ‬‫ن‬‫ف‬ ‫‪،‬‬ ‫ر‬
‫ٍ‬ ‫ف‬ ‫س‬ ‫ن‬ ‫م‬ ‫م‬
‫ِ ِ‬‫د‬‫ق‬ ‫ا‬ ‫ِذ‬ ‫إ‬ ‫ان‬‫ک‬ ‫وسلم‬ ‫وآلہ‬ ‫علیہ‬ ‫اہلل‬ ‫صلی‬ ‫ی‬ ‫إِن النب‬
‫َ َ َ ِ ٰ َ َّ َ َّ َ َ ْ ُ ّ َ‬
‫کان علی دابةٍ‪ ،‬حرکہا ِمن ح‪ِِّj‬بہا۔ (بخاری)‬

‫نبی اکرم صلی اہلل علیہ وسلم جب سفر سے واپس تشریف التے ہوئے مدینہ منورہ کی دیواروں کو‬
‫دیکھتے تو اپنی اونٹنی کی رفتار تیز کر دیتے اور اگر دوسرے جانور پر سوار ہوتے تو مدینہ منورہ کی‬
‫ُ‬
‫محبت میں اسے ایڑی مار کر تیز بھگاتے تھے‬
‫س حدیث کی شرح میں حافظ ابن حجر رحمہ اہلل فرماتے ہیں ا‬
‫َْ‬ ‫اَل َ َ َ َ ْ ْ َ َ َ َ َ َ ْ ُ َ‬ ‫َ َْ‬
‫وع ّية حب الوطن والحنين إِليهِ ۔‬
‫ِ‬ ‫ر‬‫ش‬‫م‬ ‫ى‬ ‫ل‬‫ع‬ ‫و‬ ‫ِ‬ ‫ة‬‫ين‬ ‫د‬
‫ِ‬ ‫م‬ ‫ال‬ ‫ل‬‫ِ‬ ‫ض‬ ‫ف‬ ‫ى‬ ‫ل‬‫ع‬ ‫ٌ‬ ‫ة‬ ‫ل‬ ‫د‬
‫و ِفي ال ِ ِ ِ‬
‫يث‬ ‫د‬‫ح‬
‫اس حدیث میں ایک تو مدینہ کی فضیلت ثابت ہوتی ہے‪ ،‬دوسرا اپنے وطن سے محبت اور اس کے"‬
‫‪ :‬لیے تڑپنے کا جواز ثابت ہوتا ہے۔" (فتح الباری شرح صحیح البخاری‬

‫ُ ُّ َّ ُ ْ‬
‫الرسو ِل صلی الله عليه وآله‬ ‫امام سہیلی نے الروض الٔانف میں باقاعدہ یہ عنوان باندھا ہے‪ :‬حب‬
‫َ ْ َ‬
‫وسلم وطنهُ (رسول صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن کے لیے محبت)۔ اس عنوان کے تحت‬
‫امام سہیلی لکھتے ہیں کہ جب ورقہ بن نوفل نے آپ صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم کو بتایا کہ آپ کی‬
‫ً‬
‫قوم آپ کی تکذیب کرے گی تو آپ صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم نے خاموشی فرمائی۔ ثانیا جب اس نے‬
‫بتایا کہ آپ صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم کی قوم آپ صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم کو تکلیف و اذیت میں‬
‫مبتال کرے گی تب بھی آپ صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم نے کچھ نہ کہا۔ تیسری بات جب اس نے‬
‫عرض کی کہ آپ صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم کو اپنے وطن سے نکال دیا جائے گا تو آپ صلی اہلل‬
‫‪:‬علیہ وآلہ وسلم نے فورا فرمایا‬

‫َ ُ ْ َ‬
‫َٔاو مخ ِر ِج ّي؟‬

‫کیا وہ مجھے میرے وطن سے نکال دیں گے؟‬

‫‪:‬یہ بیان کرنے کے بعد امام سہیلی لکھتے ہیں‬

‫َ ْ َ َ ْ َ ٰ ُ ّ ْ َ َ َ َّ ُ َ َ َ َ َ َّ ْ‬
‫‪.‬ف ِفي هٰذا د ِليلٌ علی ح ِّ‪ِj‬ب الوط ِن و ِشدةِ مفارق ِتهِ علی الن ِ‬
‫س‬ ‫ف‬

‫ِا س میں آپ صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم کی اپنے وطن سے شدید محبت پر دلیل ہے اور یہ کہ اپنے‬
‫وطن سے جدائی آپ صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم پر کتنی شاق تھی۔‬

‫ہجرت کرتے وقت رسول اہلل صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم نے مکہ مکرمہ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا‬
‫‪:‬تھا‬

‫ْ َ َ َْ ُ َ َْ‬ ‫َْ ُْ‬ ‫َ َّ َ َ ْ اَل َّ َ ْ‬ ‫ْ َ َ َ َ َّ‬ ‫َ ْ ََ‬


‫ک ما سکنت غير ِک‬ ‫ن‬ ‫م‬
‫ِ ِ ِ‬ ‫ي‬‫ن‬ ‫و‬ ‫ج‬ ‫ر‬‫َٔاخ‬ ‫ي‬‫م‬‫ِ‬ ‫و‬ ‫ق‬ ‫َٔان‬ ‫و‬ ‫ل‬ ‫و‬ ‫‪،‬‬‫ي‬ ‫ِل‬ ‫إ‬ ‫ک‬
‫ِ‬ ‫ب‬ ‫َٔاح‬‫و‬ ‫د‬
‫ٍ‬ ‫ل‬‫ب‬ ‫ن‬ ‫م‬
‫‪.‬ما َٔاطي ِ ِ‬
‫ک‬ ‫ب‬
‫سنن الترمذی‪ ،723 :5 ،‬رقم‪ ،3926 :‬صحيح ابن حبان‪ ،23 :9 ،‬رقم‪ ،3709 :‬المعجم الکبير للطبرانی‪(،‬‬
‫)‪ ،270 :10‬رقم‪10633 :‬‬

‫ُ‬
‫ت و کتنا پاکیزہ شہر ہے اور مجھے کتنا محبوب ہے! اگر میری قوم تجھ سے نکلنے پر مجھے مجبور نہ‬
‫کرتی تو میں تیرے سوا کہیں اور سکونت اختیار نہ کرتا۔‬

‫جب حضور نبی اکرم صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم خیبر سے واپس لوٹے اور آپ صلی اہلل علیہ وآلہ‬
‫ُ‬
‫‪:‬وسلم کو ا حد پہاڑ نظر آیا تو آپ صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‬

‫َ َ َ ُ َُ َُ ُ‬
‫‪.‬هٰذا جبلٌ ي ِح ّبنا ون ِح ّبهُ‬

‫یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم بھی اس سے محبت رکھتے ہیں۔‬

‫دست مبارک سے مدینہ منورہ کی جانب اشارہ کر کے فرمایا‬


‫‪:‬اس کے بعد اپنے ِ‬
‫َ َ َُ َّ‬ ‫ّٰ َّ ّ َ ّ ُ َ َ ْ َ اَل َ َ ْ َ َ ْ ْ َ َ َ َّ ّٰ َّ َ ْ َ َ‬
‫‪.‬اللهُم! إِ ِّ‪ِj‬ني ُٔاح‪ِِّ j‬رم ما بين بتيهَا کتح ِر ِيم إِبراهِيم مکةَ‪ .‬اللهُم ب ِارک لنا ِفي ص ِ‬
‫اعنا وم‪ِِّ j‬دنا‬

‫)صحيح البخاري‪ ،1058 :3 ،‬رقم‪ ،2732 :‬صحيح مسلم‪ ،993 :2 ،‬رقم‪(1365 :‬‬

‫اے اہلل! میں اس کی دونوں پہاڑیوں کے درمیان والی جگہ کو حرم بناتا ہوں جیسے ابراہیم علیہ‬
‫ُ ّ‬
‫السالم نے مکہ مکرمہ کو حرم بنایا تھا۔ اے اہلل! ہمیں ہمارے صاع اور ہمارے مد میں برکت‬
‫عطا فرما۔‬

‫یہ اور اس جیسی متعدد احادیث مبارکہ میں حضور نبی اکرم صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم اپنے وطن‬
‫مدینہ منورہ کی خیرو برکت کے لیے دعا کرتے جو اپنے وطن سے محبت کی واضح دلیل ہے۔‬

‫حضور نبی اکرم صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم اسے‪ j‬قبول کرنے کے بعد دعا کرتے‪ :‬اے اہلل! ہمارے‬
‫پھلوں میں برکت عطا فرما۔ ہمارے (وطن) مدینہ میں برکت عطا فرما۔ ہمارے صاع میں اور‬
‫‪:‬ہمارے مد میں برکت عطا فرما۔ اور مزید عرض کرتے‬
‫ّٰ َّ َّ ْ َ َ َ ْ ُ َ َ َ ُ َ َ َ ُ َ َ ّ َ ْ ُ َ َ َ ُ َ َ َّ َ َ َ َ َّ َ ّ ْ ُ َ‬
‫الله ُّم إِن إِبراهِيم عبدک وخ ِليلک ون ِبيک‪ ،‬وإِ ِّ‪ِj‬ني عبدک ون ِبيک وإِنهُ دعاک ِلمکةَ وإِ ِّ‪ِj‬ني َٔادعوک‬
‫ْ َ َ َ َ َ َّ َ ْ َ َ‬ ‫ْ َ َ‬
‫‪ِ .‬للم ِدينةِ ِب ِمث ِل ما دعاک ِلمکةَ و ِمث ِلهِ مع ُه‬

‫)صحيح مسلم‪ ،1000 :2 ،‬رقم‪(1373 :‬‬

‫اے اہلل! ابراہیم علیہ السالم تیرے بندے‪ ،‬تیرے خلیل اور تیرے نبی تھے اور میں بھی تیرا بندہ اور‬
‫تیرا نبی ہوں۔ انہوں نے مکہ مکرمہ کے لیے دعا کی تھی۔ میں ان کی دعائوں کے برابر اور اس سے‬
‫ایک مثل زائد مدینہ کے لیے دعا کرتا ہوں (یعنی مدینہ میں مکہ سے دوگنا برکتیں نازل فرما)۔‬

‫حضرت ابو ہریرہ رضی اہلل عنہ بیان کرتے ہیں کہ اس کے بعد آپ صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم کسی‬
‫چھوٹے بچے کو بال کر وہ پھل دے دیتے۔‬

‫نے فرمایا کہ وطن کی مٹی ‪a‬۔ وطن سے محبت کا ایک اور انداز یہ بھی ہے کہ حضور نبی اکرم‪6‬‬
‫ٰ‬
‫بزرگوں کے لعاب اور رب تعالی کے حکم سے بیماروں کو شفا دیتی ہے۔ حضرت عائشہ صدیقہ رضی‬
‫‪:‬اہلل عنہا روایت کرتی ہیں‬

‫َ َْ َ ُْ ٰ‬ ‫َُْ ْ َ‬ ‫ْ‬ ‫َ َ َُ ُ ْ َ‬ ‫َّ َّ َّ‬


‫اﷲ تربهُ َٔار ِضنا‪ِ ،‬ب ِريقةِ بع ِضنا يشفی‬ ‫م‬‫س‬ ‫ب‬ ‫‪:‬‬‫يض‬
‫ِ ِ ِ ِ ِ ِ‬ ‫ر‬‫م‬ ‫ل‬‫ل‬ ‫ول‬ ‫ق‬‫ي‬ ‫ان‬‫ک‬ ‫وسلم‬ ‫ه‬ ‫وآل‬ ‫ه‬ ‫علي‬ ‫ه‬ ‫الل‬ ‫صلی‬ ‫ي‬ ‫إِن النب‬
‫َ ُِ َ ْ َ ّ َ‬
‫‪.‬س ِقيمنا ِبإِذ ِن ر ِّ‪ِj‬بنا‬

‫)صحيح البخاري‪ ،2168 :5 ،‬رقم‪ ،5413 :‬صحيح مسلم‪ ،1724 :4 ،‬رقم‪(2194 :‬‬

‫حضور نبی اکرم صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم مریض سے فرمایا کرتے تھے‪ :‬اﷲ کے نام سے شروع‪ ،‬ہماری‬
‫زمین (وطن) کی مٹی ہم میں سے بعض کے لعاب سے ہمارے بیمار کو‪ ،‬ہمارے رب کے حکم سے‬
‫شفا دیتی ہے۔‬

‫۔ سیدہ عائشہ رضی اہلل عنہا روایت کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ کوئی شخص مکہ مکرمہ سے آیا اور‪7‬‬
‫بارگاہ رسالت مآب صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم میں حاضر ہوا۔ سیدہ عائشہ رضی اہلل عنہا نے اس‬
‫ِ‬
‫ُ‬
‫سے پوچھا کہ مکہ کے حاالت کیسے ہیں؟ جواب میں اس شخص نے مکہ مکرمہ کے فضائل بیان‬
‫چشمان مقدسہ آنسٔووں سے تر ہوگئیں۔‬
‫ِ‬ ‫کرنا شروع کیے تو رسول اﷲ صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم کی‬
‫‪:‬آپ صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا‬
‫اَل ُ َ ّ ْ َ َ ُاَل ُ‬
‫‪ .‬تش ِّ‪ِj‬وقنا يا ف ن‬

‫اے فالں! ہمارا ِاشتیاق نہ بڑھا۔‬

‫ُ‬
‫‪:‬جب کہ ایک روایت میں ہے کہ آپ صلی اہلل علیہ وآلہ وسلم نے اسے‪ j‬فرمایا‬

‫َ ُْ ُْ َ َ ُ‬
‫‪.‬د ِع القلوب ت ِق ّر‬

‫)شرح الزرقانی علی الموطا‪ ،288 :4 ،‬السيرة الحلبية‪(283 :2 ،‬‬

‫دلوں کو ِاستقرار پکڑنے دو (یعنی ِانہیں دوبارہ مکہ کی یاد دال کر مضطرب نہ کرو)۔‬
‫پاکستان کیسے بنا‬

‫ؒ‬
‫بانی پاکستان قائداعظم محمد علی جناح نے کہا تھا کہ ”پاکستان اسی روز وجود میں آگیا تھا جس‬
‫روز پہال شخص یہاں مسلمان ہوا تھا“‪....‬ظاہر ہے جب برصغیر میں پہلے شخص نے کلمہ پڑھا تو‬
‫یہاں ایک تہذیب‪ ،‬ثقافت اور دین کی بنیاد پختہ ہو گئی۔ کلمہ گو افراد کے نام ‪ ،‬آداب اور معاشرت‬
‫بدل گئی۔ پہلے شخص کے کلمہ پڑھنے سے ہندو اور مسلم میں جو نظریاتی لکیر قائم ہوئی‬
‫‪،‬درحقیقت وہی فرق بعد ازاں مطالبہ پاکستان اور قیام پاکستان کی وجہ بنا۔ قیام پاکستان کی‬
‫علمی و تحقیقی وجوہات اور دانشمندانہ تجزئیے اپنی جگہ ‪ ،‬مگر ہندو مسلم معاشرت میں متعصب‬
‫رویے ہی تھے‪ ،‬جن کی وجہ سے برصغیر میں ایک ہزار سال تک مسلمان اور ہندو اکٹھے رہے‪ ،‬مگر‬
‫دریا کے دو کناروں کی طرح کبھی مل نہ پائے۔ تاریخ کے ہر دور میں ہندو اور مسلم کا فرق نمایاں رہا‪،‬‬
‫ہندو محلے‪ ،‬مسلم محلے‪ ،‬ہندو حلوائی اور مسلم حلوائی‪ ،‬ہندو پانی اور مسلم پانی کی تقسیم اتنی‬
‫ٰ‬
‫مضبوط تھی کہ اکبر کے دین الہی سے نیشنلسٹ کانگریسی علماءتک کوئی اسے ختم نہ کر سکا۔‬

‫ابو ریحان البیرونی نے‪ 1030‬ءمیں اپنی کتاب”کتاب الہند“ میں لکھا کہ ”ہندو دین میں ہم سے کلی‬
‫مغائرت رکھتے ہیں۔ غیروں کو یہ لوگ ملیچھ (ناپاک) کہتے ہیں اور ان کو نا پاک سمجھنے کی وجہ‬
‫سے ان سے ملنا جلنا ‪ ،‬شادی بیاہ کرنا‪ ،‬ان کے قریب جانا‪ ،‬ان کے پاس بیٹھنا اور ساتھ کھانا بھی جائز‬
‫نہیں سمجھتے“۔ مغلیہ عہد میں اکبر اعظم نے ہندوﺅں کو بڑے بڑے منصبوں اور عہدوں پر فائز‬
‫ٰ‬ ‫ٰ‬
‫کیا ‪ ،‬ہندو عورتوں کو حرم میں داخل کیا ‪ ،‬حتی کہ نیا دین ‪،‬دین الہی متعارف کروایا‪ ،‬اس کے باوجود‬
‫میں لکھتا ہے کہ ”اکبر"‪ "The Continent of Circe‬بنگالی نژاد ہندو نرادسی چودھری اپنی کتاب‬
‫کے بڑے بڑے جرنیل ‪ ،‬وزراءاور حکام جب اس کے دربارسے لوٹتے تو بغیر نہائے‪ ،‬یعنی مسلم حکومت‬
‫کی غالظت سے اپنے آ پ کو پاک کئے بغیر کھانا کھانے کے لئے نہیں بیٹھتے تھے‪ ،‬کیونکہ ایک‬
‫مسلمان بادشاہ کی صحبت انہیں ناپاک کر دیتی تھی“‪....‬پھر انگریز عہد میں جدید تعلیم بھی ہندو‬
‫ذہنیت کو تبدیل نہ کر سکی۔ مشہور ہندو لیڈر بال گنگا دھر تلک‪1897‬ءمیں بمبئی جیل میں نظر‬
‫بند تھے تو انہوں نے حکومت ہند کو درخواست دی کہ ”ان کا کھانا برہمن باورچی پکایا کرے“۔ کہیں‬
‫مسلم باروچی کے ہاتھ کا کھانا کھا کر وہ ناپاک نہ ہو جائے۔‬
‫ہندو تعصب کا جو مشاہدہ گیارہویں صدی میں البیرونی نے کیا ‪،‬وہی بیسویں صدی میں بھی نظر‬
‫آتا ہے۔ ‪15‬مارچ‪ 1939‬ءکے روزنامہ انقالب میں خبر تھی کہ ایک ہندو سیٹھ ہرداس گوروداس اور ان‬
‫کی سیٹھانی نے جی آئی پی ریلوے میں سکینڈ کالس کے چار برتھ مخصوص کروائے‪ ،‬راستے میں‬
‫ایک سٹیشن پر جگہ نہ ہونے پر عملے نے ایک مسلمان مسافر کواس ڈبے میں جگہ دےدی۔ یہ‬
‫بات سیٹھ کے لئے ناقابل قبول تھی ‪ ،‬مسلمان کو دیکھ کر اس کا پارہ چڑھ گیا۔ گھر پہنچ کر سیٹھ‬
‫ٰ‬
‫نے ریلوے کے خالف پانچ ہزار روپے ہر جانے کا دعوی کر دیا۔ مقدمہ عدالت میں پیش ہوا تو سیٹھ‬
‫نے دلیل دی کہ ایک مسلمان کے ڈبے میں آ جانے سے ان کا کھانابھر شٹ ہو گیا چنانچہ وہ رات‬
‫بھر بھوکے رہے۔ایسا ہی ایک واقعہ مشتاق احمد وجدی کے ساتھ بھی پیش آیا ۔وہ اپنی سوانح‬
‫عمری ”ہنگاہوں میں زندگی “ میں رقمطراز ہیں کہ زندگی میں ریل کا پہال سفر کیا تو ایسا تلخ سبق‬
‫مال کہ آج تک نہیں بھوال۔ بنارس جانا تھا بھائی صاحب انٹر کا ٹکٹ دال کر گاڑی تک پہنچا گئے‬
‫ُ‬
‫‪،‬ڈبے میں داخل ہوا تو بیٹھنے کو جگہ نہ تھی۔ ِادھر ا دھر نگاہ ڈالی تو ایک سیٹ پر ترکاری کی ٹوکری‬
‫ُ‬
‫رکھی تھی‪ ،‬بال سوچے سمجھے اس کو اٹھا کر نیچے رکھ دیا اور بیٹھ گیا ۔ گاڑی ہندوﺅں سے بھری‬
‫ہوئی تھی ‪،‬ابھی سانس بھی لینے نہیں پایا تھا کہ سب مشتعل ہو گئے۔ جن بابو جی کی ٹوکری تھی‪،‬‬
‫ُ‬
‫ا نہوں نے ڈانٹنا شروع کر دیا اور مرنے مارنے پر آمادہ ہو گئے‪ ،‬دوسرے مسافر بھی اس میں شامل ہو‬
‫َ‬
‫گئے۔ میں نے معذرت کی توآخر کسی نے بچ بچاﺅ کرایا اور یہ فیصلہ کیا کہ آٹھ آنے کی ترکاری ہو‬
‫گی‪ ،‬اس کے دام ادا کرواور ترکاری خود لے جاﺅ ‪ ،‬اس لئے کہ ایک مسلمان کا ہاتھ لگ جانے سے‬
‫ترکاری نا پاک اور بھر شٹ ہو گئی تھی ۔‬
‫مشہور ادیب ممتاز مفتی نے بھی ایسے ہی تلخ تجربے کا تذکرہ اپنے مضمون ”رام دین“ میں کیا ہے‬
‫کہ ‪ 1934‬ءکے لگ بھگ ان کا تبادلہ گورنمنٹ سکول دھرم سالہ میںہو گیا۔‬
‫ممتاز مفتی اس سکول کے اکلوتے مسلمان استاد تھے۔ ایک روز انہوں نے ایک طالبعلم سے کہا کہ‬
‫مجھے ایک گالس پانی دو‪ ،‬لڑکا بڑے ادب سے سر جھکائے کھڑا رہا۔ انہوں نے دوبارہ کہا تو لڑکا بڑے‬
‫َ‬
‫ادب سے بوال‪”:‬ماسٹر جی میں آپ کو پانی نہیں پال سکتا “۔ممتاز مفتی نے حیرت سے پوچھا کیوں؟‬
‫لڑکے نے کہا مہاراج میرا دھرم بھرشٹ ہو جائے گا۔ ہندوﺅں کا مسلمانوں کے ساتھ حقارت کا رویہ‬
‫چند انفرادی معامالت نہیں اور نہ ہی ہندوستانی مسلمانوں تک محدود تھا‪ ،‬بلکہ وہ تو مسلمانوں‬
‫سے نفرت کرتے تھے ۔‬
‫آسٹرین نژاد نو مسلم محمد اسد‪ j‬اپنی خود نوشت ”بندہ صحرائی“ میں لکھتے ہیں کہ‪1933‬ءمیں‬
‫محمد اسد کوہ ہمالیہ کے دامن میں واقع جو گندر سنگھ ریلوے سٹیشن پر پہنچے تو معلوم ہوا کہ‬
‫یہاں سے گاڑی دو گھنٹے بعد پٹھان کوٹ جائے گی ‪،‬چنانچہ ہم قریبی مانوس بازاروں اور گلیوں میں‬
‫گھومنے لگے۔ اس مٹر گشت کے دوران ہمیں ایک دکان پر گرما گرم دودھ کے کڑھاﺅ نظر آئے‪ ،‬اس‬
‫نے ہماری بھوک کو جگادیا۔ ہم دکان پر پہنچے تو دکاندار نے دودھ سے بھرا ہوا لکڑی کا پیالہ پکڑا‬
‫ہوا تھا اور وہ ایک آوارہ کتے کو دودھ پال رہا تھا ‪ (....‬مجھے یہ منظر دلی طور پر اچھا لگا )‪ ....‬جب میرے‬
‫دوست نے اسے پنجابی میں بتایا کہ ہم بھی دودھ پینا چاہتے ہیں تو اس نے اسی پیالے کو ‪،‬جس سے‬
‫َ‬
‫وہ کتے کو دودھ پال رہا تھا ‪،‬پانی سے کھنگاال اور دیوار میں بنے ہوئے طاقچے کی طرف اشارہ کیا ‪،‬میں‬
‫نے اپنے دوست سے اشارے کا مطلب پوچھا تو اس نے جواب دیا کہ وہ ہندو ہے ‪ ،‬ہم ہندو نہیں‪ ،‬اس‬
‫لئے ناپاک ہیں۔ وہ کسی ایسے برتن کو ہاتھ نہیں لگائے گا‪ ،‬جس میںہم جیسے لوگ کچھ پئیں گے۔‬
‫ُ‬
‫وہ چاہتا تھا کہ ہم خود طاق سے گالس اٹھائیں اور وہ کڑچھے سے اس میں دودھ ڈالے۔ یہ سنتے ہی‬
‫میرا چہرہ غصے سے سرخ‪ j‬ہو گیا کہ وہ اپنے ہاتھ سے کتے کو دودھ پال رہا تھا‪ ،‬مگر ہمیں ناپاک‬
‫سمجھ کر برتن کو ہاتھ نہیں لگانا چاہتا تھا۔ میرے سخت غصیلے چہرے اور تندو تیزلہجے کو‬
‫َ‬ ‫ُ‬
‫دیکھ کر دکاندار نے گالس اٹھایا۔ م یں نے گالس اس سے چھین لیا ‪ ،‬کڑچھا لیا ‪ ،‬گالس کو لبالب‬
‫دودھ سے بھرا اور اسے دوبارہ دودھ کے کڑھاﺅ میں ڈال دیا اور سارے دودھ کو ناپاک کر دیا۔ گالس کو‬
‫َ‬
‫دور پھینکتے ہوئے م یں نے جیب سے سو روپے کا نوٹ نکاال جو پورے کڑھاﺅ کی قیمت سے زیادہ‬
‫تھا‪ ،‬اسے دکاندار کو دے مارا۔ ذات پا ت اور پاک و ناپاک کے ہندو تصور کا میرا یہ اولین مجادلہ تھا“۔‬
‫ہندو کی یہ تنگ نظری ہی تھی کہ ہندوستان میں مسلمان ایک ہزار سال سے زیادہ اکٹھے رہے‪،‬‬
‫مگرایک قوم نہ بن سکے‪ ،‬ان کے درمیان افکار حیات کے ساتھ ساتھ اطوار حیات کا فرق موجود رہا۔‬
‫‪ 1897‬ءمیں پیسہ اخبار نے البیرونی کے خیاالت کی تصدیق کرتے ہوئے لکھا کہ ”زمانہ جانتا ہے کہ‬
‫مسلمان بے چاروںکو اتنی نفرت اور اس قدر گریز کبھی ہندوﺅں سے نہیں رہا ‪ ،‬جس قدر ہندوﺅں کو‬
‫مسلمانوں سے رہا۔ ہزاروں شہادتیں دے سکتا ہوں کہ اگر مسلمان کا سایہ بھی ہندو پر پڑ جائے تو‬
‫گویا وہ ناپاک ہو جاتا ہے۔ ہاتھ کی پکی ہوئی چیز کھانا تو درکنار ‪،‬مسلمانوں کی چھوئی ہوئی چیز‬
‫بھی نجس خیال کرتے ہیں۔ ذرا سامیل جول رکھنے یا مسلمانوں کو اپنے گھروں میں گھسنے کی‬
‫اجازت دینے سے بھی عارکرتے ہیں“۔ پکے کانگرسی رہنماڈاکٹر انصاری اپنے کانگرسی دوستوں کے‬
‫حوالے سے لکھتے ہیں کہ جب بہت سے کانگرسی لیڈر ان کے ہاں آئے تو ”میرے باورچی خانے سے‬
‫کھانا پک کر ان کمروں میں بھیج دیا جاتاتھا ۔ کانگریس ورکنگ کمیٹی کے سبزی خور ممبران تمام‬
‫کھانوں کو بالیٹوںمیں بھروا کر اپنے خدمتگاروں سے جمنا میں بہا دیتے اور چوری سے جو کھانا‬
‫چاندی والوں کے یہاں سے پکا ہو ا آتا‪ ،‬وہ کھاتے تھے۔ اسی طرح احرار اسالم کے قائد چودھری افضل‬
‫حق لکھتے ہیں کہ ”ہندو اور سکھ حلوائی اس خیال سے کہ مسلمانوں کا ہاتھ لگنے سے وہ پلید نہ‬
‫ہو جائیں‪،‬مسلمان خریداروں سے اپنے ہاتھ سے پیسے بھی نہیں لیتے تھے۔اس غرض کے لئے وہ‬
‫ایک لکڑی کی ڈوئی کا استعمال کرتے تھے‪ ،‬اس کا دستہ خود حلوائی تھام لیتا اور مسلمان سے کہتا‬
‫َ‬
‫کہ وہ اس کے پیالے میں پیسے ڈال دے۔ جب م یں اس ڈوئی کے پیالے میں پیسے ڈال رہا تھا تو بد‬
‫قسمتی سے دکاندار کو میر اہاتھ لگ گیا۔ اس سے دکاندار الل بھبھو کا ہو گیا اور اس نے مجھے‬
‫َ‬
‫ایک ہی سانس میںہزاروں گالیاں سنا ڈالیں۔ ایک ساعت کے لئے میں بالکل بھونچکا ہو کر رہ گیا‬
‫اور بے حس و حرکت کھڑا رہا ۔ یہ واقعہ اس وقت رونما ہوا جب ملک میں کوئی بھی سیاسی یا‬
‫سماجی تحریک نہیں تھی اور مسلمان روزمرہ ایسی ذلتیں برداشت کرتے رہتے تھے“۔‬
‫یہ عام ہندو ہی کا معاملہ نہ تھا‪ ،‬یہ تفریق ہندوﺅں کے تمام طبقوں میں پائی جاتی تھی ۔ انڈین‬
‫جرنلسٹس ایسوسی ایشن نے‪4‬مئی‪1912‬ءکو پہلی ”ایوننگ پارٹی“ روزنامہ پیسہ اخبار کے دفتر میں‬
‫ترتیب دی‪ ،‬جس میں‪19‬ہندو اور مسلمان مدیران و جرائد و اخبارات شریک تھے۔ تقریب کے اختتام پر‬
‫ُ‬
‫تمام صاحبان اٹھ کر ایک باالئی کمرے میں چلے گئے اور ہندوﺅں اور مسلمانوں نے علیحدہ‬
‫ُ‬
‫علیحدہ میزوں پر مٹھائی‪ ،‬میوہ جات و دیگر اشیائے خورونوش کا لطف اٹھایا۔ اس ضمن میں سب‬
‫سے دلچسپ وہ اشتہار ہے جو الہور ہائی کورٹ کے رجسٹرار ٹی بی کرے کوئن نے ہائی کورٹ کے‬
‫احاطے میں چند دکانیں کرایہ پر دینے کے سلسلے میں ‪9‬اپریل‪1935‬ءکو شائع کروایا تھا‪ ،‬ان دکانوں‬
‫میں ”ہندو حلوائی“اور”مسلمان حلوائی“ کے لئے علیحدہ علیحدہ ٹینڈر طلب کئے گئے تھے۔‬
‫ہندوﺅ ں اور مسلمانوں میں یہ تفریق شروع سے تھی اور ہمیشہ رہی۔ درحقیقت ہندوانہ تعصب ہی‬
‫تھا‪ ،‬جس نے مطالبہ پاکستان اور قیام پاکستان کی راہ ہموار کی۔ یہ تعصب قیام پاکستان سے ختم‬
‫نہیں ہو گیا ‪،‬بلکہ تاحال ہندوستان میں نمایاں ہے۔ پنجاب یونیورسٹی میں شعبہ تاریخ کے استاد‬
‫پروفیسر محمد اسلم نے ‪ 1995‬ء میںاپنا ”سفر نامہ ہند“ تحریر کیا ‪،‬اور اس میں لکھا کہ مجھے منماڑ‬
‫سے اورنگ آباد جانا تھا‪ ،‬اس لئے یہیں اتر گیا۔ ٹرین کے آنے میں ابھی تین گھنٹے باقی تھے۔ دن بھر‬
‫َ‬
‫کے سفر نے مجھے یوں بھی تھکا دیا تھا‪ ،‬م یں رات کا کھانا تناول کرنے ریلوے کے ریستوران میں گیا۔‬
‫اتفاق سے ایک مسافر جو ٹرین میں میرے برا بر والی سیٹ پر سفر کر چکا تھا وہاں موجود تھا۔ میں نے‬
‫ویجیٹیرین کھانے کا آرڈر دیا‪ ،‬اس نے بھی کھانا منگوایا۔ ہم آمنے سامنے میز پر بیٹھ گئے تھے۔ اس‬
‫نے اپنی ہتھیلی پر ایک گالس سے پانی ڈاال اور اسے‪ j‬اپنے سامنے میز پر اس انداز سے گرایا کہ اس‬
‫کے اور میرے درمیان پانی کی دیوار حائل ہو گئی ۔اس طرح وہ ایک مسلمان کے مسموم اثرات سے‬
‫اپنے کھانے کو محفوظ کرنے میںکامیاب ہو گیا“۔‬
‫تاریخی نظریات میں ایک تصور یہ بھی ہے کہ ہندو¶ں اورمسلمانوں کے درمیان کھانے کی میز کی‬
‫یہ لکیر ہی آخرکار بعد ازاں سرحد کا روپ دھار گئی ہے ۔جب تک روےے اور تعصبات رہیں گے‪،‬‬
‫سرحدیں بنتی رہیں گی۔ مشہور ہندو انقالبی رہنما ایم این رائے نے اپنی کتاب ”اسالم کا تاریخی کردار“‬
‫میں لکھا ہے کہ دنیا کا کوئی مہذب معاشرہ تاریخ اسالم سے اتنا ناواقف نہیں اور دین محمد سے اتنا‬
‫متنفر نہیں‪ ،‬جتنا ہندو معاشرہ ہے۔ ہمارے قومی نقطہ نظر کا نمایاں ترین رویہ دھرمی استعمار ہے‬
‫اور یہ رویہ جس قدر دین محمد کے ضمن میں گھناﺅنا ہے‪ ،‬اس قدر کسی اور دین کے بارے میں‬
‫نہیں“۔ اچھوت رہنما ڈاکٹر امبید کرنے لکھا ہے کہ مسلمان ہندوستان میں حق انفرادیت‬
‫اورتشخص کے لئے کوشاں رہے ۔پروفیسر بار کر کا خیال ہے کہ یہ ممکن ہے کہ قومیں ذات سے نا‬
‫آگاہی اور غفلت کے عالم میں صدیاں بسر کر دیں۔ ان کے افراد کو شعور ہی میسر نہ ہو کہ ان کی‬
‫ایک روحانی قومی اساس ہے ۔ مسلمانوں کے ساتھ بھی کچھ ایسا ہی ہوا۔ وہ غافل بھی رہے اس‬
‫امر سے کہ ان کی ایک روحانی قومی اساس ہمیشہ موجود رہی ہے۔ یہی باعث ہے کہ انہوں نے اپنا‬
‫حق قومیت بہت دیر کے بعد جتایا ‪،‬لیکن اس دیر سے آگاہی کا یہ مطلب نہیں کہ وہ ایک روحانی‬
‫اساس رکھنے والی قوم کی صورت میں کوئی وجود نہیں رکھتے تھے“۔ ہندو¶ں نے فطری تعصب سے‬
‫برصغیر میں مسلمانوں کی انا مذہبیت اور سماجی رویوں پر زد لگا لگا کر انہیں جگایا اور جب‬
‫ؒ‬
‫مسلمان بیدار ہوئے اور انہیں قائد اعظم جیسا رہنما مال تو وہ برصغیر جس میں پہلے ہندو پانی اور‬
‫مسلم پانی‪ ،‬ہندو محلہ اور مسلم محلہ ‪ ،‬ہندو شہر اور مسلم شہر اور پھر ہندو صوبہ اورمسلم صوبہ‬
‫نمودار ہوا‪ ،‬وہاں ہندو ملک اور مسلم ملک کا قیام تاریخی ارتقاءہی کا نتیجہ ہے۔ ہندو تعصب کی‬
‫چھوٹی چھوٹی لکیروں نے مل کر ایک بڑی سرحد‪ j‬قائم کر دی اور یوں ہندوﺅں کا ہندوستان ‪ ،‬مسلمانوں‬
‫کا پاکستان وجود میں آگیا۔‬

You might also like