You are on page 1of 3

‫میں نویں جماعت میں پڑھتا تھا کہ میرے ایک ہم جماعت‪ ،‬جو ایک دور کے گاؤں کے رہنے والے

تھے‪،‬‬
‫ایک دن کسی کام سے ہمارے گھر آئے۔‬

‫گرمیوں کے دن تھے‪ ،‬میں نے لیموں والی روح افزا بنوا کر ان کی خدمت میں پیش کر دی‪ ،‬اور وہ آدھا‬
‫پونا گھنٹہ بیٹھ کر چلے گئے۔ لیکن بعد میں سکول میں کچھ چہ میگوئیاں شروع ہو گئیں۔ پتہ چال کہ‬
‫موصوف نے میرے خالف ایک مہم شروع کر رکھی ہے کہ میں اتنے دور سے اس کے گھر گیا اور اس‬
‫نے مجھے چائے تک کا نہیں پوچھا!‬

‫اس وقت جو بات میں نہیں جانتا تھا وہ یہ ہے کہ چائے ہمارے روزمرہ کے معمول میں اتنی رچ بس گئی‬
‫ہے کہ اس کے بغیر مہمانداری کا تصور ہی ممکن نہیں ہے۔‬

‫لیکن شاید بہت سے لوگوں کے لیے یہ بات حیرت انگیز ہو کہ سو ڈیڑھ سو سال پہلے کے ہندوستان میں‬
‫عام لوگوں کے چائے پینے کا کوئی تصور موجود نہیں تھا اور لوگ صبح اٹھ کر رات کا بچا کھانا کھا کر‬
‫کام کاج پر روانہ ہو جاتے تھے۔‬

‫اسی طرح اگر مہمان گھر آ جائے تو اسے لسی وغیرہ پال کر یا کھانا کھال کر بھیج دیا جاتا تھا۔‬

‫اسی طرح گھر میں مہمان آ جائیں تو چائے پیے بغیر جانے دینا پروٹوکول‪ F‬کی سخت خالف ورزی ہے‪،‬‬
‫اور اس سے بڑی توہین کوئی ہو نہیں سکتی کہ ’اس نے تو مجھے چائے تک کا نہیں پوچھا۔‘‬

‫تو پھر چائے ہمارے یہاں کیسے آئی اور کیسے کسی کرونا وائرس کی طرح معاشرے کے رگ و پے میں‬
‫سرایت کر گئی؟‬

‫اس کے ذمہ دار انگریز ہیں۔‬

‫دراصل انگریزوں نے چین سے چائے درآمد کر کے دنیا کے مختلف حصوں میں بیچنا تو شروع کر دی‬
‫تھی لیکن انہیں اس بات کا رنج تھا کہ اس پر چین کا اجارہ داری کیوں ہے۔ ‪ 1870‬میں انگلستان میں‬
‫بکنے والی ‪ 90‬فیصد چائے چین سے آتی تھی اور ظاہر ہے کہ اس کا منافع چاندی کے سکوں کی شکل‬
‫میں یورپ سے نکل نکل کر چینی تجوریاں بھر رہا تھا۔‬

‫انگریزوں نے وہ حل نکاال جسے کارپوریٹ تاریخ کی سب سے بڑی چوری کہا جاتا ہے۔ انہوں نے کے‬
‫انہوں نے ‪ 1848‬میں رابرٹ فارچیون نامی ایک جاسوس چین بھیجا جس نے چائے بنانے کا صدیوں پرانا‬
‫راز چوری کر لیا‪ ،‬اور چند برسوں کے اندر اندر اس کی مدد سے ہندوستان میں چائے اگانا شروع کر دی۔‬

‫لیکن اب بھی ایک مسئلہ تھا۔ چائے چند عشروں کے اندر اندر انگلستان کا تو قومی مشروب بن گیا‪ ،‬اور‬
‫دنیا کے دوسرے حصوں میں بھی قبولیت پا چکا تھا لیکن روایت کے مارے ہندوستانیوں نے اسے کوئی‬
‫زیادہ لفٹ نہیں کروائی‪ ،‬اور وہی اپنی لسی چھاچھ اور شربت وغیرہ بدستور پیتے رہے۔‬

‫اس کا توڑ کرنے کے لیے انگریز تاجروں نے وہ منصوبہ شروع کیا جسے برصغیر کی تاریخ کی منظم‬
‫ترین مارکٹنگ مہموں میں سے ایک سمجھا جا سکتا ہے۔‬
‫‪ 20‬ویں صدی کے آغاز میں چائے کے تاجر ہندوستان کے طول و عرض میں چائے کی پتی‪ ،‬چولھا اور‬
‫پیالیاں لے کر پھیل گئے۔ وہ محلہ محلہ پھیل گئے اور لوگوں کو چائے بنا کر مفت پالنے لگے۔‬

‫اگر اس پر کسی کو ہیروئن کے بیوپاریوں کا طریقۂ کار یاد آ جائے تو بےجا نہیں ہے کیوں کہ چائے کا‬
‫اہم جزو کیفین ہے اور کیفین اس حد تک نشہ آور مرکب ہے کہ اگر کوئی اس کا عادی ہو جائے تو پھر‬
‫بغیر چائے پیے اس کا گزارا نہیں ہوتا بلکہ سر میں درد شروع ہو جاتا ہے۔‬

‫یہی نہیں‪ ،‬بلکہ چائے کے بیوپاریوں نے کپڑے کی ملوں‪ ،‬کوئلے کی کانوں اور دوسرے عوامی مقامات پر‬
‫چائے کے کھوکھے قائم کر لیے اور وہاں سے چائے بیچنے لگے۔‬

‫اس دوران ہندوستان کے طول و عرض میں ریلوے کا جال بچھ چکا تھا۔ دیکھتے ہی دیکھتے ریلوے‬
‫سٹیشنوں پر ’ہندو پانی‪’ ‘،‬مسلم پانی کی آوازوں کے ساتھ ساتھ ’گرم چائے‘ کی آوازیں لگنا شروع ہو گئیں۔‬

‫اس مہم کا خاطر خواہ اثر ہوا اور ‪ 1940‬کے آتے آتے چائے اتنی عام ہو گئی کہ موالنا ابوالکالم آزاد کو‬
‫’غبار خاطر‘ لکھتے وقت اس پر خاصے صفحے کالے کرنا پڑے۔‬ ‫ِ‬ ‫‪ 1944‬میں اپنی کتاب‬

‫موالنا کا ذکر آیا ہے تو ایک ’بدعت‘ کی وضاحت ناگزیر ہے۔ وہ لکھتے ہیں کہ ہندوستان کے لوگ چائے‬
‫نہیں پیتے‪ ،‬چائے کے نام پر سیال حلوہ کھاتے ہیں۔‬

‫یہ بات بڑی حد تک درست ہے‪ ،‬اس کا اندازہ مجھے یونیورسٹی کے زمانے میں ہوا‪ ،‬جب ایک چینی میرا‬
‫دوست بن گیا۔ ان کا نام چو ژوان جا تھا جو ریڈیو چائنا کی پشتو سروس سے وابستہ تھے اور اس زبان‬
‫میں مہارت حاصل کرنے کی غرض سے پاکستان آئے ہوئے تھے۔‬

‫وہ چائے کی پتیاں ساتھ لے کر آئے تھے اور بار بار کیتلی ابال کر پیتے رہتے تھے۔ ایک بار وہ میرے‬
‫کمرے میں تشریف الئے۔ مجھے چونکہ چائے سے منسلک مہمان داری کا تجربہ ہو چکا تھا‪ ،‬اس لیے اس‬
‫کے ازالے کے لیے انہیں االئچی والی دودھ پتی بنا کر اس توقع پر پیش کی کہ وہ داد دیے بغیر نہ رہ‬
‫سکیں گے۔‬

‫چینی بےحد وضع دار ہوتے ہیں۔ چو صاحب نے بھی ایک گھونٹ لیا‪ ،‬پھر کچھ سوچ کر مارے مروت کے‬
‫دو تین اور چسکیاں بھی لیتے گئے‪ ،‬لیکن پھر پوچھے بغیر نہ رہ سکے کہ ’یہ کیا چیز ہے؟‘‬

‫میں نے کہا‪’ ،‬چائے ہے‪ ،‬اور کیا۔‘‬

‫یہ سن کر چو نے میری طرح دیکھا‪ ،‬پھر چائے کی پیالی میں جھانکا اور مایوسی سے سر ہالتے ہوئے‬
‫پیالی میز پر رکھ دی۔ کچھ دیر چپ رہ کر بڑی سنجیدگی سے گویا ہوئے‪’ ،‬ہم لوگ پانچ ہزار سال سے‬
‫چائے پی رہے ہیں‪ ،‬ہمیں کبھی اس کے اندر دودھ اور چینی ڈالنے اور یہ دوسری چیزیں ڈالنے کا خیال‬
‫نہیں آیا۔ اگر میں چین واپس جا کر لوگوں کو بتاؤں کہ یہاں چائے کے ساتھ یہ سلوک ہوتا ہے تو وہ کیا‬
‫سوچیں گے؟‘‬

‫اور میں سوچتا رہ گیا کہ اگر کسی کو چائے نہ تو مسئلہ‪ ،‬دو تو مسئلہ۔ بندہ آخر کرے تو کیا کرے؟‬

You might also like