You are on page 1of 65

‫(ماں بیٹے کے پیار کی ایک مکمل‬

‫داستان)‬

‫یہ کہانی میری امی اور‬


‫اُنکے ڈھیلے م ّموں کے‬
‫بارے میں ہے انکا نام ہے‬
‫زبیدہ اور اُنکی عمر اس‬
‫وقت ‪ 50‬کے قریب ہے ‪،‬وہ‬
‫ایک بھرے ہوئے جسم کے‬
‫ساتھ ایک بہت ہی رسیلی‬
‫عورت ہیں ‪،‬بھرا ہوا جسم‬
‫بڑے مممے جنکو وہ ‪46‬‬
‫کے برا میں کس کے رکھتی‬
‫ہیں ‪ ،‬بھرا ہوا جسم اور‬
‫گندمی رنگ کے ساتھ ایک‬
‫مست گھریلو عورت ہیں‬
‫‪،‬گرمی ہو یا سردی وہ برا‬
‫صرف نہاتے وقت ہی اتارتی‬
‫ہیں باقی ہر وقت اُنکے‬
‫مممے اُنکے برا میں کسے‬
‫رہتے ہیں ‪،‬اُنکے مممے‬
‫کافی بڑے ہیں جنکو کس‬
‫کے رکھنا اُنکی بھی‬
‫مجبوری ہے‪,‬اسی لیے‬
‫اُنکے مممے ہر وقت برا کی‬
‫قید میں رہتے ہیں ‪،‬گرمیوں‬
‫میں اُنکے مممے کھلے‬
‫گلے سے چھپائے نہیں‬
‫چھپتے کیوں کے گال کھال‬
‫ہوتا ہے اور اُنکے مممے‬
‫کافی بڑے ہیں جو کے برا‬
‫میں کسے ہونے کی وجہ‬
‫سے اوپر تنے ہوئے ہوتے‬
‫ہیں جو کھال گال ہونے کی‬
‫وجہ سے آدھے اکثر نظر‬
‫آتے ہیں اور کام کرتے وقت‬
‫یا جھکنے پر سارے برا‬
‫سمیت آسانی سے نظر اتے‬
‫ہیں یہ نظارا میرے لیے بہت‬
‫مشکل ہوتا ہے لیکن میرا‬
‫لن کھڑا کر دیتا ہے‪،‬اسی‬
‫لیے میں بھی دل کھول کر‬
‫امی کے بڑے بھاری م ّموں‬
‫کا نظارا کرنے کا کوئی‬
‫موقع ہاتھ سے جانے نہیں‬
‫دیتا تھا‪،‬جب بھی موقع لگتا‬
‫میں اپنی ماں کے مممے‬
‫تاڑنے لگتا اور جی بھر کے‬
‫انکا نظارا کرتا لیکن آہستہ‬
‫آہستہ میری ان حرکتوں کا‬
‫امی کو بھی پتہ لگ گیا اور‬
‫انہوں نے اپنے مممے مجھ‬
‫سے چھپانے شروع کر‬
‫دئیے اور یوں میرا امی کے‬
‫م ّموں کو دیکھنے واال‬
‫سلسلہ ختم ہو گیا اور اکثر‬
‫وہ کام کرتے وقت اپنا سینا‬
‫دوپٹے سے چھپا لیتیں اور‬
‫مجھے کوئی موقع نہ ملتا‬
‫جس سے میں اُنکے مممے‬
‫تاڑ سکتا ‪،‬پھر میں نے بھی‬
‫اُنکی طرف دیکھنا چھوڑ دیا‬
‫اور انکو یہ تاثر دیا کے میں‬
‫اُنکی طرف نہیں دیکھتا اور‬
‫نہ ہی مجھے اُنکے جسم‬
‫میں کوئی دلچسپی ہے‪،‬یوں‬
‫کافی مہینے گزر گئے اور‬
‫سردیاں آ گئیں ‪،‬ہمارے گھر‬
‫کی دیوار کافی حستہ اور‬
‫خراب ہو گئی تھی ایک دن‬
‫امی نے مجھے بوال بیٹا‬
‫دیوار گرنے والی ہے کسی‬
‫مستری سے اس دیوار کو‬
‫ٹھیک کرواؤ میں نے کہا‬
‫ٹھیک ہے امی لیکن کس‬
‫مستری کو بالؤں امی نے‬
‫کہا بیٹا مجید مستری کو ہی‬
‫بالنا ہے وہی ہمارے گھر کا‬
‫کام کرتا ہے جب بھی کوئی‬
‫کام ہو میں نے کہا ٹھیک‬
‫ہے امی‪ ،‬شام کو میں‬
‫مستری مجید کی طرف گیا‬
‫اور اسے کہا کے دیوار‬
‫بنانی ہے اس نے کہا میں‬
‫کام لگا ہوں لیکن جیسے ہی‬
‫میرا کام ختم ہو گا میں بنا‬
‫دوں گا میں نے پوچھا کب‬
‫تک ‪،‬تو مستری مجید کہنے‬
‫لگا اگلے ہفتے آپکا ہی‬
‫کروں گا میں نے کہا ٹھیک‬
‫ہے دو تین دن بعد مستری‬
‫مجید نے مجھے فون کیا‬
‫اور کہا کے میں صبح اؤں‬
‫گا ریت اور سیمنٹ منگوا لو‬
‫میں نے کہا مستری جی‬
‫سب کچھ موجود ہے آپ آ‬
‫جاؤ صبح‪،‬دوسرے دن میں‬
‫اپنے کام پر چال گیا اور‬
‫مستری ایک مزدور لے کر آ‬
‫گیا ‪،‬شام کو میں واپس آیا تو‬
‫انہوں نے پرانی دیوار توڑ‬
‫دی اور صبح انہوں نے‬
‫دیوار بنانا شروع کرنی‬
‫تھی‪،‬امی نے مجھے بتایا کہ‬
‫اُنہوں نے آج کافی کام کیا‬
‫ہے دو دن تک دیوار بنا دیں‬
‫گے میں نے کہا ٹھیک ہے‬
‫امی ‪،‬دوسرے دن میں دوپہر‬
‫کو گھر ایا ‪،‬میں نے کام‬
‫سے آدھے دن کی چھٹی کر‬
‫لی اور گھر آ گیا تا کہ خود‬
‫کام کی نگرانی کر سکوں‬
‫‪،‬دوپہر ‪ 1‬کا ٹائم تھا گھر‬
‫پہنچتے ‪ 2‬بج گئے‬
‫تھے‪،‬خیر گھر آیا تو گھر کا‬
‫دروازہ بند تھا اور یہ‬
‫حیرانگی والی بات تھی‬
‫کیوں کے اندر مستری اور‬
‫مزدور کام کر رہے تھے تو‬
‫دروازہ کیوں بند ہے مجھے‬
‫خیال آیا کہیں مستری مجید‬
‫میری امی پر تو مزدوری‬
‫نہیں کر رہا‪،‬یہ سوچتے ہی‬
‫میں ساتھ والوں کے گھر‬
‫سے اُنکی چھت سے ہوتا‬
‫ہوا اپنے گھر آ گیا‪،‬دیوار‬
‫کے پاس سارا سامان پڑا تھا‬
‫لیکن مستری اور مزدور‬
‫غائب تھے میرا شک اور‬
‫پکا ہو گیا خیر میں آہستہ‬
‫سے امی کے کمرے کے‬
‫طرف بڑھا لیکن کمرے میں‬
‫کوئی نہیں تھا میں کچن کی‬
‫طرف گیا تو مجھے آوازیں‬
‫آئیں میں نے سمجھا لگتا‬
‫ہے مستری اور مزدور کھانا‬
‫کھا رہے ہیں خیر میں پھر‬
‫بھی آہستہ سے کچن کی‬
‫طرف گیا اور کھڑکی سے‬
‫اندر جھانکا تو میرا شک‬
‫یقین میں بدل چکا تھا‪،‬کیوں‬
‫کے میری امی فرش پر‬
‫گھوڑی بنی ہوئی تھی‪،‬شلوار‬
‫اتری ہوئی تھی اور قمیض‬
‫کندھوں تک اوپر تھی اور‬
‫مممے برا سے نکلے ہوئے‬
‫تھے اور جھول رہے‬
‫تھے‪،‬مستری مجید پیچھے‬
‫سے امی کو چود رہا تھا‬
‫تھا جب کے مزدور لن نکال‬
‫کے امی کے منہ کے‬
‫سامنے کھڑا تھا اور امی‬
‫اُسکے لن کو چوم رہی تھی‬
‫اور کبھی چومتی تو وہ امی‬
‫کی گالوں کے اوپر رگڑتا‬
‫اور لن کی ٹوپی امی کی‬
‫طرف کر دیتا تھا جسے امی‬
‫چوم رہی تھی‪،‬یہ منظر دیکھ‬
‫کر میرے چودہ طبق روشن‬
‫ہو گئے ‪،‬میری ماں دن کے‬
‫وقت مستری اور مزدور‬
‫سے چدوا رہی تھی ‪،‬پہلے‬
‫تو میں نے سوچا کہ دونوں‬
‫کو جوتیاں مار کے گھر‬
‫سے نکالتا ہوں لیکن ایک‬
‫سوچ نے مجھے روک دیا‬
‫کے اگر مستری اور مزدور‬
‫امی کو چود سکتے ہیں تو‬
‫میں کیوں نہیں‪،‬میرے والد‬
‫‪ 10‬سال پہلے بیماری کی‬
‫وجہ سے وفات پا چکے‬
‫تھے‪،‬اور اُسکے بعد امی‬
‫ایک بیوہ کی زندگی گزار‬
‫رہی تھیں‪،‬اور میں نے کبھی‬
‫بھی انکو ایسی کوئی حرکت‬
‫کرتے نہیں دیکھا تھا لیکن‬
‫آج یہ منظر دیکھ کر مجھے‬
‫پتہ چل گیا کے میری امی کو‬
‫چدائی کی ضرورت تھی اور‬
‫اُنکے اندر کی عورت اب‬
‫بھی جوان اور زندہ‬
‫تھی‪،‬خیر میں امی کی چدائی‬
‫دیکھنے لگا مستری مجید‬
‫زور زور سے امی کی‬
‫چدائی کر رہا تھا اور مزدور‬
‫لن امی کے منہ پر رگڑ رہا‬
‫تھا‪،‬مستری مجید کی عمر‬
‫اس وقت ‪ 40‬کے قریب ہو‬
‫گی اور مزدور کوئی ‪30‬‬
‫سال کا ‪،‬خیر امی مزے سے‬
‫گھوڑی بنے چدوا رہی‬
‫تھی‪،‬مستری نے امی کے‬
‫کولہے پکڑے ہوئے تھے‬
‫اور جھٹکے مار رہے تھا‬
‫وہ جیسے ہی جھٹکا مارتا‬
‫تھپ کی آواز نکلتی جیسے‬
‫ہی تیزی سے جھٹکے مارتا‬
‫تو تھپ تھپ ہونے لگتی یہ‬
‫آوازیں مجھے مدہوش کر‬
‫رہی تھیں اور میں اپنی ہی‬
‫امی کو چدتا دیکھ کر مزے‬
‫لے رہا تھا خیر مستری‬
‫مجید امی کی ُچوت کے اَندر‬
‫ہی فارغ ہو گیا اور مزدور‬
‫کو بوال آ جا لیکن جلدی کر‬
‫کام بھی کرنا ہے ‪،‬امی کی‬
‫ُچوت مستری کے سفید پانی‬
‫سے بھر گئی تھی امی نے‬
‫ایک کپڑے سے اپنی ُچوت‬
‫صاف کی اور مزدور کے‬
‫لیے پھر گھوڑی بن‬
‫گئی‪،‬مزدور کا لن کوئی ‪7‬‬
‫انچ لمبا ہو گا اس نے ایک‬
‫ہی جھٹکے سے سارا لن‬
‫میری ماں کی پُھدی میں اُتار‬
‫دیا تھا اور امی کی اہ نکل‬
‫گئی اور آنکھیں بند کر کے‬
‫چدنے لگی مزدور نے امی‬
‫کے جھولتے ہوئے بڑے‬
‫مممے پکڑ لیے اور‬
‫جھٹکے مارنے لگا ‪،‬اُسکے‬
‫جھٹکوں سے بھی تھپ تھپ‬
‫کی آوازیں آ رہی تھیں‬
‫مستری مجید سگریٹ لگا‬
‫کے بیٹھ گیا اور اُنکی طرف‬
‫دیکھنے لگا‪،‬جیسے ہی‬
‫مزدور امی کی ُچوت میں‬
‫فارغ ہوا میں واپس اسی‬
‫راستے جس سے آیا تھا‬
‫باہر گلی میں آ گیا اور آ کے‬
‫دروازہ کھٹکھایا مستری‬
‫مجید نے دروازہ کھوال‬
‫مزدور بھی اتنی دیر میں‬
‫باہر آ چکا تھا لیکن امی‬
‫کچن میں ہی تھیں ‪،‬سالم دعا‬
‫کے بعد میں نے کام کا‬
‫پوچھا اور مستری کہنے لگا‬
‫بس لگے ہوئے ہیں جلدی‬
‫ہی ختم ہو جائے گا‪ ,‬میں نے‬
‫دل میں کہا میری ماں کی‬
‫پُھدی میں لگے ہوئے تھے‬
‫یا کام میں لگے ہوئے تھے‬
‫‪ ،‬خیر میں امی کی طرف گیا‬
‫اور سالم کیا امی نے کہا بیٹا‬
‫آج جلدی آ گئے میں نے کہا‬
‫ہاں آج آدھی چھٹی لے لی‬
‫امی نے کہا ٹھیک ہے بیٹا‬
‫کھانا کھا لو ‪،‬اس دن کے‬
‫بعد اب میرے دل میں امی‬
‫کو چودنے کی خواہش بڑھ‬
‫گئی تھی اور میں ہر وقت‬
‫یہی سوچتا رہتا کے کیسے‬
‫امی کی چدائی کرو ‪،‬خیر‬
‫کُچھ دنوں بعد مجھے ‪3‬‬
‫چھٹیاں ملیں اور امی نے‬
‫کہا بیٹا الہور چلتے ہیں میں‬
‫نے داتا دربار سالم کرنا‬
‫ہے‪،‬میں بھی فارغ تھا میں‬
‫نے سوچا چلو اسی بہانے‬
‫الہور گھوم آتے ہیں ‪،‬میں‬
‫نے امی سے کہا ٹھیک ہے‬
‫امی چلتے ہیں‪،‬اگلے دن ہم‬
‫الہور آ گئے اور سالم کر‬
‫کے اور گھوم پھر کے ہوٹل‬
‫میں آ گئے جہاں ہم نے رات‬
‫گزارنی تھی‪,‬ہوٹل میں آ کے‬
‫نہا کے کھانا کھایا اور لیٹ‬
‫گئے امی نے ایک مہندی‬
‫رنگ کی شلوار قیض پہنی‬
‫تھی اور میرے ساتھ ہی بیڈ‬
‫پر لیٹی تھیں‪،‬باتوں باتوں‬
‫میں ‪،‬میں نے امی سے‬
‫پوچھا امی آپکو ابو کی کمی‬
‫محسوس ہوتی ہے امی‬
‫کہنے لگیں ہاں بیٹا بہت‬
‫كمی ہوتی ہے‪ ،‬ہر عورت‬
‫کے لیے اسکا شوہر ہی‬
‫اسکا سب کچھ ہوتا ہے‬
‫‪،‬میں نے امی سے پوچھا‬
‫امی آپ اور ابو نے بس‬
‫ایک ہی اوالد پیدا کی زیادہ‬
‫کیوں نہیں‪،‬امی کہنے لگیں‬
‫بیٹا تیری پیدائش کے بعد‬
‫تیرے ابو بیمار ہو گئے‬
‫تھے اور اُسکے بعد وہ اس‬
‫قابل نہیں رہے تھے اس‬
‫لیے‪،‬میں نے پوچھا امی پھر‬
‫آپ نے یہ سارا وقت کیسے‬
‫گزارا‪،‬امی نے سوچتے‬
‫ہوئے کہا بیٹا وقت گزار ہی‬
‫لیا ‪،‬اور تیرا بھی بہت آسرا‬
‫تھا مجھے ‪،‬اگر تم نہ ہوتے‬
‫تو میرا وقت بہت مشکل‬
‫کٹتا‪،‬لیکن تم ہو تو مجھے‬
‫کوئی غم نہیں‪ ,‬میں نے کہا‬
‫امی پھر بھی عورت کو‬
‫ایک مرد کی ضرورت ہوتی‬
‫ہے اور اگر مرد نہ ہو تو‬
‫عورت مجبور ہو جاتی ہے‬
‫کسی اور مرد کی طرف‬
‫دیکھنے کو ‪،‬یہ میں نے‬
‫اندھیرے میں تیر چالیا تھا‬
‫‪،‬امی نے میری طرف‬
‫دیکھتے ہوئے کہا بیٹا وہ‬
‫اور عورتیں ہیں جو‬
‫دوسرے مردوں کو دیکھتی‬
‫ہیں میں نے کبھی اپنے‬
‫شوہر کے عالوہ کسی مرد‬
‫کا سوچا بھی نہیں اور نہ ہی‬
‫مجھے ضرورت ہے‪،‬یہ سفید‬
‫جھوٹ تھا جو امی بول رہی‬
‫تھیں‪،‬میں نے امی سے کہا‬
‫امی آپ بھی عورت ہیں‬
‫آپکی بھی ضرورت ہے میں‬
‫سمجھتا ہوں ‪،‬یہ ایک قدرتی‬
‫عمل ہے ‪،‬عورت کو مرد کی‬
‫اور مرد کو عورت کی‬
‫ضرورت ہوتی ہے ‪،‬امی‬
‫کہنے لگیں بیٹا یہ بات تو‬
‫سچ ہے لیکن میں کیا کرتی‬
‫تیرے ابو تو بہت پہلے ہی‬
‫بیمار ہو گئے تھے میری‬
‫زنگی اُنکے بغیر بڑی‬
‫مشکل سے کٹی‪،‬میں نے کہا‬
‫امی میں سمجھ سکتا ہوں‬
‫لیکن امی آپ نے بھی صبر‬
‫نہیں کیا‪،‬امی اٹھ کے بیٹھ‬
‫گئیں اور کہنے لگیں کیا‬
‫مطلب صبر نہیں کیا‪،‬میں نے‬
‫کہا امی آپ مستری مجید‬
‫کے آگے جھکیں ہوئی تھیں‬
‫جب میں نے آپکو کچن میں‬
‫دیکھا تھا ‪،‬یہ سن کر امی کا‬
‫رنگ ایک دم پھیکا پڑھ گیا‬
‫اُنہوں نے آہستہ سے پوچھا‬
‫بیٹا تمہیں کیسے پتہ‬
‫چال‪،‬میں نے کہا امی میں‬
‫نے خود دیکھا تھا آپکو‬
‫دونوں کے ساتھ ‪،‬امی کے‬
‫چہرے پہ شرمندگی اور‬
‫پریشانی صاف ظاہر تھی‬
‫‪،‬امی نے کہا بیٹا تم نے اس‬
‫وقت کچھ بوال کیوں‬
‫نہیں‪،‬میں نے کہا امی میں‬
‫بھی ایک مرد ہوں مجھے‬
‫پتہ ہے عورت کو مرد کی‬
‫ضرورت ہوتی ہے اور مرد‬
‫کو عورت کو ‪،‬جذبات کے‬
‫ہاتھوں انسان مجبور ہو جاتا‬
‫ہے‪،‬آپ نے یہ جان بوجھ کر‬
‫نہیں کیا آپ بھی اپنی‬
‫جسمانی خواہشات کے‬
‫ہاتھوں مجبور تھیں اس لیے‬
‫میں نے دیکھا اور واپس‬
‫چال گیا اور کچھ نہیں بوال‬
‫‪،‬امی ہاتھ جوڑتے ہوئے‬
‫کہنے لگیں بیٹا مجھے‬
‫معاف کر دو مجھ سے‬
‫غلطی ہو گئی آئندہ میں‬
‫کبھی ایسا نہیں کروں گا‬
‫‪،‬میں نے کہا امی کوئی بات‬
‫نہیں یہ انسانی ضرورت ہے‬
‫میں سمجھتا ہوں ‪،‬امی آپ‬
‫بھی بہت خوبصورت عورت‬
‫ہیں کوئی بھی مرد آپکو‬
‫انکار نہیں کر سکتا وہ مرد‬
‫بہت خوش قسمت ہو گا‬
‫جسکو آپ جیسی عورت‬
‫اپنے ساتھ یہ موقع دے‬
‫‪،‬امی اب تھوڑا مطمئن ہو‬
‫گئیں تھیں اور کہنے لگیں‬
‫ہاں بیٹا میں ہر مرد کو‬
‫گھاس نہیں ڈالتی ‪،‬لیکن یہ‬
‫مجید شروع سے ہی میرا‬
‫بڑا تابعدار ہے اس لیے میں‬
‫نے اُسکے ساتھ کیا اور‬
‫پہلے بھی کئی بار کر چکی‬
‫ہوں‪،‬امی اب فری اور‬
‫اطمینان سے بات کر رہی‬
‫تھیں‪،‬میں نے کہا اچھا جی‬
‫مستری مجید کافی عرصے‬
‫سے میری امی کے مزے‬
‫لے رہا ہے ‪،‬امی نے ہنستے‬
‫ہوئے کہا چپ بیشرم اور‬
‫زور سے ہنسنے لگیں‪،‬میں‬
‫نے لوہا گرم سمجھتے‬
‫ہوئے کہا امی اس دن تو‬
‫مجید مستری کا مزدور بھی‬
‫ساتھ تھا آپ دونوں کے‬
‫ساتھ کر رہی تھیں‪،‬امی نے‬
‫کہا ہاں مجید نے مجھے‬
‫اسکا کا بوال تھا کے یہ بھی‬
‫میری طرح آپکا راز رکھے‬
‫گا اور یہ بات صرف ہمارے‬
‫بیچ رہے گی ‪،‬اس لیے میں‬
‫نے مزدور کو بھی دے دی‬
‫‪،‬امی نے یہ سوچے بغیر‬
‫بول دیا تھا ‪،‬میں نے ہنستے‬
‫ہوئے کہا امی کیا دے دی‬
‫‪,‬امی کو اب خیال آیا کے‬
‫اُنہوں نے کیا بول دیا امی‬
‫شرما گئیں اور کہنے لگیں‬
‫شرم نہیں آتی عدنان اپنی‬
‫ماں کو شرمندہ کرتے ہوئے‬
‫اور مجھے پتہ ہے تو بھی‬
‫میری چھاتی کو دیکھتا تھا‬
‫بیشرم شرم نہیں آتی ‪،‬میں‬
‫نے کہا امی آپکی چھاتی ہے‬
‫ہی اتنی پیاری کہ میں خود‬
‫کو روک نہیں پاتا تھا اور‬
‫جب آپکے مممے قمیض‬
‫کے گلے سے نظر آتے‬
‫تھے تو میں پاگل ہو جاتا‬
‫تھا‪،‬امی ہنستے ہوئے کہنے‬
‫لگیں بیشرم جن سے دودھ‬
‫پی کے بڑ ا ہوا ہے اُنھیں‬
‫ہی حوس سے دیکھتا ہے‬
‫میں نے کہا امی مجھے‬
‫معاف کے دیں غلطی ہو گئی‬
‫امی کہنے لگیں بیٹا کوئی‬
‫بات نہیں سب مردوں کو‬
‫میرے مممے بہت اچھے‬
‫لگتے ہیں مجھے پتہ ہے وہ‬
‫میرے مممے گھورتے ہیں‬
‫اگر تم دیکھتے ہو تو کیا ہے‬
‫تم میرے بیٹے ہو ‪،‬امی اب‬
‫پوری طرح اطمنان اور‬
‫خوشی سے باتیں کر رہی‬
‫تھیں‪،‬میں نے ایک اور‬
‫چھکا مارتے ہوئے کہا امی‬
‫میں نے تو آپکو ننگا بھی‬
‫دیکھا اور وہ بھی دو مردوں‬
‫کو دیتے ہوئے‪،‬امی کہنے‬
‫لگیں کیا دیتے ہوئے‪،‬میں‬
‫نے کہا امی آپکی پُھدی اور‬
‫کیا امی ہنسنتے ہوئے کہنے‬
‫لگیں بہت بیشرم ہو تم ‪،‬میں‬
‫نے کہا امی پُھدی کو پُھدی‬
‫ہی بولیں گے اور کیا ‪،‬امی‬
‫نے بوال ہاں یہ تو ہے ‪،‬میں‬
‫نے کہا امی میں نے آپکے‬
‫مممے تو اس دن دیکھ لیے‬
‫لیکن آپکی پُھدی نہیں دیکھ‬
‫پایا‪ ،‬یہ میرا آخری پتہ تھا‬
‫اسی پتے پر سب کچھ تھا‬
‫اگر یہ لگ جاتا تو سمجھو‬
‫بازی میری ‪،‬امی کہنے لگیں‬
‫بیٹا مممے میرے تو بہت بار‬
‫تم نے دیکھے ہیں ہاں لیکن‬
‫میری پُھدی نہیں دیکھی‬
‫‪،‬اپنی ماں کے منہ سے لفظ‬
‫پُھدی سن کر میرا لن مچل‬
‫گیا اور اٹھنا شروع ہو گیا‬
‫‪،‬امی بھی آہستہ آہستہ کھل‬
‫رہیں تھیں اور جذبات میں‬
‫بہہ رہی تھیں‪،‬میں نے کہا‬
‫امی خوش قسمت ہے وہ‬
‫مرد جس نے آپکی پُھدی‬
‫ماری ہے ‪،‬امی نے کہا ہاں‬
‫بیٹا جس جس نے بھی‬
‫میری پھدی ماری ہے اس‬
‫نے یہی کہا ہے کہ خوش‬
‫قسمت ہوں جو آپ جیسی‬
‫گھریلو عورت چودنے کو‬
‫ملی‪،‬میں نے امی کا ہاتھ‬
‫پکڑتے ہوئے کہا امی آپ‬
‫نے کسی سے پیسے بھی‬
‫لیئے یا نہیں‪،‬امی کہنے‬
‫لگیں بیٹا میں اپنی پُھدی‬
‫فری میں کیوں دوں ہاں میں‬
‫پیسے لیتی ہوں لیکن زیادہ‬
‫پیسے لیتی ہوں تا کہ وہی‬
‫میری پُھدی مار سکے‬
‫جسے میری قدر ہے مفت‬
‫میں کیوں بانٹوں اپنی پُھدی‬
‫اور عزت ‪،‬میں نے امی کے‬
‫قریب ہوتے ہوئے کہا امی‬
‫آپ بھی تو مزہ لیتی ہیں‬
‫چاہے پیسے لے کے‪،‬امی‬
‫نے کہا بیٹا مفت کی چیز کی‬
‫کوئی قدر اور عزت نہیں‬
‫ہوتی اس لیئے‪،‬میں نے کہا‬
‫امی اگر آپکا بیٹا آپکی پُھدی‬
‫مارنا چاہے تو آپ پیسے‬
‫لیں گی ‪،‬امی نے مجھے‬
‫ہلکا سا تھپڑ مارتے ہوئے‬
‫کہا چل بدمعاش میں تیری‬
‫ماں ہوں‪ ،‬تجھ سے پیسے‬
‫تھوڑے ہی لوں گی‪،‬یہ‬
‫سیدھی سیدھی اجازت تھی‬
‫کے امی راضی ہیں ‪،‬میں‬
‫نے بنا کوئی موقع ضائع‬
‫کیے بغیر امی کے ہونٹوں‬
‫پر اپنے ہونٹ رکھ دیے امی‬
‫نے میرا ساتھ دیا اور میرے‬
‫ہونٹ چوسنے لگیں امی کے‬
‫منہ میں منہ ڈال کر چوسنے‬
‫کا مزہ کا الگ تھا اب یہ‬
‫وہی سمجھ سکتا ہے جس‬
‫نے یہ کیا ہے‪،‬امی نے‬
‫مجھے کہا بیٹا میرے کپڑے‬
‫اُتار دو امی نے بازو اوپر‬
‫کیا میں اُنکی قمیض اُتار دی‬
‫اور حسب معمول انکا برا‬
‫اُنکے بھاری م ّموں کو‬
‫کسے ہوئے تھا‪،‬میں نے‬
‫پیچھے سے انکا برا بھی‬
‫کھول دیا‪،‬جیسے ہی برا کھال‬
‫امی کے مممے نیچے آ گئے‬
‫اور جھولنے لگے ‪،‬جیسے‬
‫ہی میں نے امی کے مممے‬
‫پکڑے تو امی کہنے لگیں‬
‫بیٹا ماں سمجھ کر میرا لحاظ‬
‫مت کرنا بلکہ ایک عورت‬
‫کی طرح مجھے اور میرے‬
‫جسم کو استمعال کرو اور‬
‫صحیح بیدردی سے میری‬
‫ُچوت مارو کے مجھے مزہ آ‬
‫جائے ‪،‬میں نے امی کے‬
‫مممے زور سے دباتے‬
‫ہوئے کہا امی آپ فکر نہ‬
‫کریں میں آپکو ماں ہونے‬
‫کی کوئی رعایت نہیں دوں‬
‫گا ‪،‬امی نیچے لیٹ گئیں اور‬
‫میں نے اُنکے مممے‬
‫مسلنے ‪،‬دبانے ‪،‬دبوچنے‬
‫‪،‬نوچنے ‪،‬کھینچنے اور‬
‫رگڑنے لگا اُن کے منہ سے‬
‫ہلکی سسکیاں نکلنے لگیں‬
‫میں اُنکے مممے اپنے‬
‫پورے زور سے مسل رہا‬
‫تھا امی کو مزہ آ رہا تھا‬
‫میں کبھی اُنکے مممے‬
‫کھینچتا اور کبھی اُنکے‬
‫موٹے نپلز کو اپنے‬
‫انگوٹھوں سے رگڑتا‬
‫‪،‬مجھے بہت مزا آ رہا تھا‬
‫جن م ّموں کو پی کے اور‬
‫دیکھ دیکھ کے میں جوان‬
‫ہوا تھا آج میرے ہاتھوں‬
‫میں ننگے میرے سامنے‬
‫تھے‪،‬میں اپنی ساری حسرت‬
‫آج نکالنا چاہتا تھا‪،‬اسی‬
‫لیئے میں اپنی ماں کے‬
‫مممے بڑے زور اور‬
‫بیدردی سے مسل رہا‬
‫تھا‪،‬کافی دیر بعد جب امی‬
‫کے مممے سرخ ہو گئے تو‬
‫میں نیچے کی طرف گیا اور‬
‫اُنکی السٹک والی شلوار کو‬
‫اتارنا چاہا اُنہوں نے اپنی‬
‫گانڈ اٹھائی اور میں نے‬
‫اُنکی شلوار اتار دی امی اب‬
‫بلکل ننگی میرے سامنے‬
‫لیٹی ہوئی تھیں‪،‬اُنکی بھری‬
‫ہوئی گوری رانیں اور ایک‬
‫بھاری چوڑی بھری ہوئی‬
‫کالے بالوں والی پُھدی‬
‫میرے سامنے تھی ‪،‬بال‬
‫تھوڑے بڑے تھے جس کی‬
‫وجہ سے اُنکی پُھدی بالوں‬
‫کے نیچے ڈھکی ہوئی‬
‫تھی‪،‬میں امی کے ہونٹوں‬
‫پے کس کرتے ہوئے کہا‬
‫امی آپکی پُھدی تو جنگل‬
‫بنی ہوئی ہے‪،‬امی نے آہستہ‬
‫سے کہا مجھے پتہ ہی نہیں‬
‫تھا کے میں اپنے بیٹے سے‬
‫چدنے والی ہوں نئی تو میں‬
‫جنگل صاف کر لیتی اب‬
‫جیسی بھی ہے کام چالو‬
‫گھر جاتے ہی میں صاف کر‬
‫لوں گی‪،‬میں نے کہا ٹھیک‬
‫ہے امی ‪،‬میں امی کی گردن‬
‫سے اُنکے جسم کو چاٹتے‬
‫ہوئی اُنکی رانوں پر آ گیا‬
‫جیسے ہی میری زبان اُنکی‬
‫ران کو لگی اُنہوں نے اپنی‬
‫ٹانگیں کھول دیں‪،‬میں اُنکی‬
‫ُچوت بھی چاٹنا چاہتا تھا‬
‫لیکن بالوں کی وجہ سے‬
‫میں نے اُنکی پُھدی کے‬
‫ہونٹ کھولے اور اپنی زبان‬
‫اندر ڈال دی اور اوپر سے‬
‫نیچے چوسنے اور چاٹنے‬
‫لگ گیا‪،‬امی کے منہ سے‬
‫سسکیاں تیزی سے نکلنے‬
‫لگیں وہ اپنی ٹانگوں کو‬
‫ہالنے لگیں میں اور تیزی‬
‫سے اپنی زبان اُنکی پُھدی‬
‫میں پھیرنے لگا وہ اور‬
‫زیادہ مچلنے لگیں‪،‬تھوڑی‬
‫دیر چوسنے کے بعد میں‬
‫نے اپنے کپڑے اتارے اور‬
‫لن امی کے ہاتھ میں دے دیا‬
‫جسے وہ مسلنے لگیں‬
‫اُنکے ہاتھ لگتے ہی میرا لن‬
‫اور تن گیا اور مچلنے لگا‬
‫میں نے امی کا سر پکڑ کے‬
‫لن کی طرف دبایا امی نے‬
‫اپنا منہ کھول کے لن اندر‬
‫لے لیا اور چوسنے لگیں‪،‬لن‬
‫چسوانا اور وہ بھی اپنی ماں‬
‫سے ‪،‬میں مزے کی ایک‬
‫عجیب دنیا میں تھا اور امی‬
‫بھی بہت نفاست سے میرا ‪8‬‬
‫انچ کا لن چوس رہی‬
‫تھیں‪،‬مجھے بہت زیادہ مزہ‬
‫آ رہا تھا‪،‬تھوڑی دیر‬
‫چوسنے کے بعد امی کہنے‬
‫لگیں بیٹا مجھ سے اور‬
‫صبر نہیں ہوتا یہ موٹا لن‬
‫سارا ایک ہی جھٹکے میں‬
‫میری پُھدی میں ڈال دو‪،‬امی‬
‫نے لیٹ کے ٹانگیں اٹھا لیں‬
‫میں نے لن امی کی پُھدی پہ‬
‫سیٹ کیا اور ایک ہی‬
‫جھٹکے میں سارا لن اُنکی‬
‫پُھدی میں اُتار دیا‪،‬اُنکی‬
‫پُھدی بہت زیادہ گیلی تھی‬
‫کیوں کے چوسنے کی وجہ‬
‫اور اپنے پانی سے اُنکی‬
‫پُھدی بہت زیادہ گیلی اور‬
‫چکنی ہو گئی تھی اسی لیے‬
‫میرا لن آسانی سے اُنکی‬
‫پُھدی کے آر پار ہو گیا‪،‬پک‬
‫کی آواز کے ساتھ لن امی‬
‫کی ُچوت میں اتر گیا ‪،‬میں‬
‫رک گیا اور امی سے کہنے‬
‫لگا امی آپکی ُچوت میں جو‬
‫سرور اور لذت مجھے ملی‬
‫ہے کسی عورت کی ُچوت‬
‫میں نہیں ملی امی نے‬
‫آنکھیں کھول کر کہا بیٹا‬
‫میں نے بھی بہت لن لیئے‬
‫لیکن ایسا مزہ اور نشہ‬
‫مجھے کسی لن نے نہیں دیا‬
‫بیٹا مار میری پھدی اور‬
‫اسکا کچومر نکال دے‬
‫بیٹا‪،‬میں نے لن نکاال اور‬
‫ایک اور زوردار جھٹکے‬
‫سے سارا لن پھر ڈال دیا‬
‫اور جھٹکے مارنے لگا‬
‫‪،‬امی کے مممے ہر جھٹکے‬
‫پر جھول رہے تھے اور‬
‫مجھے دیکھ کر بہت ہی مزہ‬
‫آ رہا تھا‪،‬امی بھی ہر‬
‫جھٹکے پر اہ اہ ائی ائی کر‬
‫رہی تھیں ‪،‬لن روانی اور‬
‫آسانی سے پک پک کی آواز‬
‫کے ساتھ امی کی پُھدی میں‬
‫جا رہا تھا اُنکی پُھدی بہت‬
‫ہی زیادہ گرم تھی جس سے‬
‫مجھے اور بھی زیادہ مزہ آ‬
‫رہا تھا ‪،‬میں نے اُنکے‬
‫جھولتے ہوئے مممے پکڑ‬
‫لیے اور جھٹکے مارنے لگا‬
‫امی کہنے لگیں بیٹا زور‬
‫سے مسلو میرے مممے‬
‫زور سے کھینچو میرے‬
‫بڑے مممے میں پورے زور‬
‫سے اُنکے مممے مسلنے‬
‫لگا اور امی کی چدائی جاری‬
‫رکھی ‪،‬امی کے منہ سے اہ‬
‫اہ بہت تیزی سے نکلنے‬
‫لگی اُنکے مممے سرخ ہو‬
‫چکے تھے لیکن وہ آنکھیں‬
‫بند کرکے اپنے بیٹے سے‬
‫مزے سے چدوا رہی تھیں‬
‫‪،‬میں رکا لن نکاال اور امی‬
‫کو الٹا لٹا لیا اُنکی موٹی گانڈ‬
‫اب اوپر نکل ائی تھی میں‬
‫نے اُنکی ٹانگیں کھول کے‬
‫لن پُھدی پر رکھا اور‬
‫جھٹکے سے لن پھر اُنکی‬
‫پُھدی میں ڈال دیا ‪،‬اس جگہ‬
‫پر لن پورا نہیں جا رہا تھا‬
‫لیکن مجھے بہت زیادہ مزہ‬
‫ضرور آ رہا تھا آخری‬
‫جھٹکوں پر تھپ تھپ کی‬
‫اور امی کی اہیں پورے‬
‫کمرے میں گونج رہی تھیں‬
‫میں نے امی کو بتا دیا میں‬
‫فارغ ہونے واال ہوں‪،‬امی‬
‫نے کہا بیٹا میں بھی فارغ‬
‫ہونے والی ہوں آخری‬
‫جھٹکے اور زور سے مارو‬
‫میری پھدی میں‪،‬زوردار‬
‫جھٹکے اور اس گرم ُچوت‬
‫میں‪،‬میں زیادہ دیر ٹک نہ‬
‫پایا اور لن کا سارا پانی اپنی‬
‫ماں کی پُھدی میں نکال‬
‫دیا‪،‬امی بھی جھٹکوں سے‬
‫فارغ ہو گئیں اور اونچی‬
‫اونچی سانسیں لینے‬
‫لگیں‪،‬میں فارغ ہو کے سائڈ‬
‫پر گر گیا اور سانس لینے‬
‫لگا‪،‬امی کہنے لگیں ہاں‬
‫عدنان کیسی ہے میری ُچوت‬
‫مزہ ایا اپنی ماں کو چودنے‬
‫کا میں نے کہا امی میں بتا‬
‫نہیں سکتا کتنا مزہ آیا ہے‬
‫آپکی پُھدی میں‪،‬بہت ہی گرم‬
‫اور مضبوط پُھدی ہے‬
‫آپکی‪،‬امی مجھے پیار سے‬
‫کہنے لگیں بیٹا آج کے بعد‬
‫یہ ُچوت تیری ہے کسی اور‬
‫کو نہیں دوں گی‬
‫ختم شُد‬

You might also like