You are on page 1of 6

‫ہر ماں باپ کی خواہش ؟؟؟‬ ‫‪‬‬

‫ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ پڑھ لکھ کر قابل بن جائے؛ مگر کیاہر بچہ ماں باپ کی خواہش پر پورا اترتا ہے؟‬
‫ایسا ہرگز نہیں ہے‪ ،‬بعض بچے تو ذراسی توجہ سے اچھے اچھے نتائج حاصل کرلیتے ہیں؛ مگر کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں‬
‫جو اچھے اسکول میں پڑھنے اور ٹیوشن حاصل کرنے کے باوجود بھی پڑھنے لکھنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں‪ ،‬ایسے بچوں پر‬
‫اگر خصوصی توجہ دی جائے تو وہ دوسرے ذہین بچوں کی طرح بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔‬
‫کند ذہن بچوں کے ساتھ عام برتاؤ‪:‬‬ ‫‪‬‬
‫ُ‬ ‫ُ‬ ‫ُ‬
‫عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ کند ذہن بچوں پر خصوصی توجہ دینے کے بجائے‪ ،‬ان کے والدین یا ان کے اساتذہ انھیں مختلف‬
‫قسم کے القاب سے نوازتے رہتے ہیں‪ ،‬مثالً یہ بچہ تو الپرواہ ہے‪ ،‬نہ جانے اُس کا دھیان ہروقت کدھر رہتا ہے‪ ،‬ویسے تو یہ خوب‬
‫تر ہے‪ ،‬دوسروں کی شکایتیں بھی خوب کرتا ہے‪ ،‬کھیل کود میں بھی کسی سے پیچھے نہیں‪ ،‬لڑتا بھڑتا بھی رہتا ہے؛ مگر پڑھائی‬
‫کے وقت نہ جانے اُسے کیا ہوجاتا ہے۔‬
‫کبھی ماں اپنے دیگر رشتے داروں یا بچے کے دوستوں کے سامنے یہ فقرے بھی دہراتی نظر آتی ہے کہ اُس نے ہماری ناک‬
‫کٹوادی ہے‪ ،‬اب اگر تم فیل ہوگئے تو یاد رکھنا میں تمھیں آنٹی کے ہاں لے کر نہیں جاؤں گی‪ ،‬دیکھو شرم کرو‪ ،‬تمھارا فالں دوست‬
‫کتنے اچھے نمبر لے کر پاس ہواہے اور ایک تم ہو‪ ،‬نکمّے ‪ ،‬نکور‪ ،‬آخر تم کو کب عقل آئے گی․․․․ وغیرہ وغیرہ۔‬

‫بے جا ڈانٹ ڈپٹ کا انجام‪:‬‬ ‫‪‬‬


‫ایسی باتیں کرنے والے اساتذہ یا والدین کا شاید یہ خیال ہوتا ہے کہ اس طرح ڈانٹ ڈپٹ سے اُن کا بچہ کچھ اثر لے گا اور پڑھائی‬
‫کی طرف دھیان دے گا؛ مگر یہ سب ان کی خام خیالی ہے‪ ،‬اِن باتوں کا تو بچے کی شخصیت پر منفی اثر ہی پڑتا ہے۔ وہ جذباتی‬
‫اور عدم تحفظ کا شکار ہوجاتا ہے‪ ،‬اس کے اندر منفی صالحیتیں مختلف پہلوؤں سے اجاگر ہونا شروع ہوجاتی ہیں وہ تنہائی پسند‬
‫ہوجاتا ہے اس میں چڑچڑا پن پیدا ہوجاتا ہے۔ اکثر ایسے بچوں کو ایسے الفاظ دہراتے ہوئے پایاگیا کہ ”ہاں ہاں! میں بُرا ہوں‪ ،‬ہللا‬
‫کرے‪ ،‬میں مرجاؤں۔“‬
‫اگر بچہ کند ذہن ہے تو کیا کریں ؟؟؟‬ ‫‪‬‬
‫اگر آپ کے بچے میں مذکورہ باال خصلتیں پائی جاتی ہیں تو آپ اپنے بچے کو قصور وار مت ٹھہرائیں‪ ،‬اس کی اِس کیفیت میں‬
‫عقلی شعور کا کوئی دخل نہیں ہوتا۔ اس کا قصور صرف اتنا ہے کہ وہ تمام سوچ اور کوششوں کے باوجود کچھ نہیں کرپاتا جو آپ‬
‫کی خواہش ہے‪ ،‬ایسے بچے میں سیکھنے کی عدم صالحیت قدرتی طور پر رکاوٹ بنتی ہے اور جو چیز بچے میں قدرتی طور پر‬
‫کم پائی جاتی ہو اس کا نعم البدل مختلف طریقوں سے حاصل کیا جاسکتا ہے۔‬
‫آموزشی دشواریاں ‪:‬‬ ‫‪‬‬
‫‪ / ۱۹۶۳‬میں نیویارک میں بچوں کے والدین کا ایک اجالس ہوا جس میں ”آموزشی دشواریاں“ کی اصطالح سامنے آئی جس کا‬
‫تعلق ان بچوں سے تھا جن کی ذہنی استعداد تھی تو عام بچوں کی طرح؛ مگر ان کو اپنا سبق یاد کرنے میں عارضی ومعمولی‬
‫دشواری محسوس ہوتی تھی۔‬
‫پڑھائی کے متعلق چند دشواریاں‪:‬‬ ‫‪‬‬
‫بچوں میں پڑھائی کے متعلق پائی جانے والی آموزشی دشواریوں کی چند اقسام یہ ہیں‪:‬‬

‫یاد کرنے میں دشواری‬ ‫‪‬‬


‫سمجھنے میں دشواری‬ ‫‪‬‬
‫امال لکھنے میں دشواری‬ ‫‪‬‬
‫ازخود کسی تعلیمی مسئلے کو حل کرنے میں دشواری‬ ‫‪‬‬
‫بار بار پڑھنے یا کتاب لے کر بیٹھنے کے باوجود صحیح طریقے پر نہ سمجھنے میں دشواری۔‬ ‫‪‬‬
‫اب کیا کریں ؟؟؟؟‬ ‫‪‬‬
‫اگر یہ عالمتیں بہ ظاہر ایک صحت مند اور نارمل بچے میں پائی جائیں تو ایسے والدین کو چاہیے کہ ان بچوں کے ساتھ اپنے‬
‫رویہ میں مندرجہ ذیل احتیاط برتیں‪:‬‬

‫ایسے بچوں کا کسی دوسرے بچے سے موازنہ نہ کریں۔‬ ‫‪‬‬


‫بچے کو ہر وقت ڈانٹ ڈپٹ نہ کریں۔‬ ‫‪‬‬
‫ان کے بارے میں طنزیہ یا نفرت کالہجہ اختیار نہ کریں اور خاص طور پر اُن کی شخصیت کو ہرگز نظر انداز نہ‬ ‫‪‬‬
‫کریں۔‬
‫صرف تھوڑی سی توجہ‪........‬‬ ‫‪‬‬
‫تھوڑی سی توجہ سے آپ کا وہ بچہ جسے آپ کند ذہن سمجھتے ہیں‪ ،‬دوسرے بچوں کی طرح اچھی کارکردگی کا مظاہرہ کرسکتا‬
‫ہے؛ ٰلہ ذا آپ کو چاہیے کہ آپ وقت ضائع کیے بغیراسے کسی اچھے ماہر نفسیّات کو دکھائیں اور دین دار تجربہ کار بزرگ یا عالم‬
‫و مفتی سے مشورہ کریں؛ تاکہ مناسب تشخیص کے بعد بچے میں موجود آموزش کی دشواریوں کو خصوصی تراکیب کی مدد‬
‫سے اگر ختم نہیں تو کم کیا جاسکے اور آپ کا بچہ بھی تعلیمی مراحل بھرپور طریقے سے طے کرے۔ یا درکھیے! ایسا بچہ جس‬
‫کا ذکر ہم اوپر کرچکے ہیں خصوصی توجہ کا طالب ہوتا ہے‪ ،‬اگر آپ مصروف ہیں تو مصروفیات ترک کرکے اس کو خصوصی‬
‫توجہ دیں یہ آپ کا دینی اور معاشرتی فریضہ ہے۔‬
‫بچے کے کند ذہن ہونے کی ایک وجہ‪:‬‬ ‫‪‬‬
‫کئی بار ایسا ہوتا ہے کہ بچہ کے کند ذہن ہونے کی کوئی دوسری وجہ نہیں ہوتی؛ بلکہ گھر کے افراد الڈ پیار میں اس کم عمر کو‬
‫کچھ نہ کچھ ہر وقت کھالتے رہتے ہیں‪ ،‬بزرگوں نے لکھا ہے کہ کم عمر بچہ زیادہ کھائے تو اس کا حافظہ خراب ہونے کا ڈر‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫ہم لوگ ڈانٹ ڈپٹ تو کرلیتے ہیں اسے غذا یا مرغوب چیزیں دینے میں تناسب کا خیال نہیں رکھتے‪ ،‬حاالنکہ ذراسی اپنے نظام کی‬
‫تبدیلی سے ساری شکایت دور ہوسکتی تھی؛ مگر اِس کی خاطر خواہ مخواہ اسپیشلسٹ ڈاکٹروں کا چکر لگانے میں اپنا نظام‬
‫درست نہیں کرتے۔‬
‫کند ذہن بچوں کی تعلیم‪:‬‬ ‫‪‬‬
‫جو بچہ کند ذہن اور کمزور دماغ کا ہو اس کا عالج علم ہے‪ ،‬عقل پر لگے ہوئے زنگ کو علم ہی دور کرتا ہے‪ ،‬اس کی تعلیم کی‬
‫ت عملی سے کام لے کر اُس کو اس میں لگادے۔ اِس کا طریقہ یہ‬ ‫طرف سے ہرگز غفلت نہ برتی جائے؛ بلکہ کوشش کرکے حکم ِ‬
‫ہے کہ اس کے سامنے مختلف قسم کی چیزیں پیش کرے‪ ،‬ان کے متعلق سواالت کرکے اس کی خوبیاں اور کمزوریاں بیان کرے‪،‬‬
‫تھوڑا سبق دے اور اس کو اچھی طرح ذہن نشین کرادے اور جب تک پختہ نہ ہوجائے آگے نہ بڑھائے۔ اس میں اتنی بات ضرور‬
‫ہے کہ تعلیم دینے والے کو محنت اور دماغ پاشی زیادہ کرنی پڑے گی اور وہ ایک سیر علم سکھائے گا تو پاؤبھر جتنا فائدہ ہوگا؛‬
‫لیکن ہوگا ضرور اور ایسی امید بھی کی جاسکتی ہے کہ آگے چل کر اس کا دماغ کھل جائے اور وہ ایک ذہین بچہ بن جائے۔‬
‫امید کا دامن کبھی نہ چھوڑیں ۔۔۔‬ ‫‪‬‬
‫بچوں کی حالتیں وقتا ً فوقتا ً بدلتی رہتی ہیں‪ ،‬ممکن ہے کہ جو بچہ بچپن میں کند ذہن ہو وہ آگے چل کر بے حد ذہین بن جائے اور‬
‫ذہین بچہ ایک دم کند ذہن بن جائے ٰلہ ذا ناامید ہوکر بچے کی تعلیم کو موقوف نہیں کرنا چاہیے۔‬
‫بچوں کے بگاڑ میں ماں باپ کا کردار‪:‬‬ ‫‪‬‬
‫کہتے ہیں کہ بچوں کے بگڑنے میں سب سے بڑا ہاتھ میڈیا کا ہے۔سچ ہے مگر کچھ حد تک۔کافی اور بھی عناصر ہیں جو ان کو‬
‫اس حد تک پہنچانے کے ذمے دار ہیں کہ بچہ اپنا اچھا برا پہچانے بغیر تمیز و تہذیب کی ہر حد پار کر جاتا ہے۔ان عناصر میں‬
‫ایک تو ان کے ماں باپ کی عدم توجہی شامل ہے۔جو بچوں کی ہر ضرورت تو پوری کر دیتے ہیں مگر یہ تک دیکھنا گوارا نہیں‬
‫کرتے آیا ان کے بچے ضرورت کی ان چیزوں کا استعمال کیسے کرتے ہیں۔کہیں وہ ضرورت کی ان اشیاء سے غیر ضروری کام‬
‫کرکے اپنا آپ تو غیرضروری نہیں کیے جارہے ؟‬
‫اپنی غلطی دوسروں کے سر تھوپنا‪:‬‬ ‫‪‬‬
‫اگر بچے نے کوئی غلطی کی تو ماں باپ نے بچہ سمجھ کر نظر اندازکردیاکہ بچہ ہے جب بڑا ہوجائے گا تو خود ہی‬
‫سمجھ جائے گا۔آگے چل کر پھر کسی کے ساتھ مل کر اس نے وہ غلطی دہرائی تو یہ کہہ کر اس کو نظر انداز کیا کہ‬
‫سارا قصور ساتھ والے کا ہے۔اس نے ہی ورغالیا ہے۔وہ ہی بچہ ا سکول میں کوئی غلطی کرے اس کو سزا دی جائے‬
‫تو ماں باپ خاندان میں اپنی ریپوٹیشن خراب ہونے کا خیال رکھتے ہوئے استاد کی شکایت لگانے پہنچ جاتے کہ ہم فیس‬
‫اس بات کے لیے نہیں دیتے کہ ہمارے بچوں کو سزا دو۔‬
‫پڑھائی میں دشواری کی بنیادی وجہ ‪:‬‬ ‫‪‬‬

‫پڑھائی کے درست طریقہ کار سے عدم واقفیت کے باعث بچوں کو پڑھنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ جیسے پڑھنے میں‬
‫کمزوری اور ہچکچاہٹ‪ ،‬ہجوں میں کمزوری اور ناقص ادائیگی وغیرہ‬
‫ماہر تعلیم ڈاکٹر ابتہاج کے مطابق طالب علم کو پڑھنے میں جو سب سے بڑی مشکل کا سامنا ہوتا ہے وہ حرف اور اس کی‬
‫آواز میں مطابقت پیدا کرنے میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد الفاظ سے ایک کلمہ بنانے میں مشکل ہوتی ہے۔ اسی طرح ایسے الفاظ‬
‫کو یاد رکھنے اور سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے جن کی شکل میں معمولی سا فرق ہوتا ہے۔‬

‫کیا بچہ کتاب سے دوستی کرے گا ؟؟؟‬ ‫‪‬‬

‫ہمارے ہاں والدین کو معلوم نہیں ہوتا کہ بچو ں کو پڑھائی کی عادت کس طرح ڈالی جائے۔ بچوں کا اسکول کتابوں اور اسکول‬
‫سے کام کے متعلق ابتدائی تاثربہت اہم ہوتا ہے جس کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ بچوں کو پڑھنے لکھنے سے دوستی ہوگی یا‬
‫نہیں ۔ وہ اس سے خوش ہو گا یا جبری مشقت سمجھے گا۔ ہمارے لوگوں میں اکثریت کا یہ حال ہے کہ کتاب سے انہیں الرجی‬
‫ہے۔ مطالعہ کرنا پہاڑ جیسا مشکل کام لگتا ہے۔ زیادہ کتابیں پڑھنے والے کو احمق سمجھا جاتا ہے۔ ان کے طرح طرح کے نام‬
‫رکھے جاتے ہیں ۔ کتابچی ‪ ،‬کتابی کیڑاوغیرہ ۔ ایسے ماحول میں بچوں کو پڑھانا والدین کی خصوصی مگر سمجھدار توجہ‬
‫مانگتا ہے۔‬

‫بچوں کے سا منے انکی کتابیں پڑھنا ‪:‬‬ ‫‪‬‬

‫ماہر تعلیم نے جب اپنے بچے کو اسکول میں داخل کروایا تو سختی سے منع کیا کہ اسے پڑھنے کے لئے نہ کہا جائے‬
‫ِ‬ ‫ایک‬
‫بلکہ اس کے سامنے خود کتاب لے کر پڑھنا شروع کر دیں ۔ اسے یہ احساس نہ ہو یہ کوئی کام ہے جسے مشقت سمجھ کر‬
‫کرنا ہے۔ یا کوئی ڈیوٹی ہے جسے انجام دینا ہے اور جو اس عمر میں اس پر الگو کر دی گئی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جس وقت‬
‫ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنا ہوم ورک کرے‪ ،‬ہم اس کی کتابیں خود لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کی کلر پنسل سے کچھ نہ کچھ بنانے‬
‫میں مصروف ہو جاتے ہیں او ررنگ بھرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بچہ خود بخود متوجہ ہوجاتا ہے۔ ہم سے کتابیں لے کر سبق‬
‫دہرانے لگتا ہے اور ورک شیٹ نکال کر کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ہم صرف رہنمائی کرتے ہیں۔‬

‫پڑھائی کے لیے نامناسب وقت ‪:‬‬

‫بچہ جب ٹی وی دیکھ رہا ہو یا اپنے من پسند کھیل میں مگن ہو یا دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہو تو اس کو اسکول کا کام‬
‫کرنے کے لئے ہرگز نہ کہا جائے ورنہ اسے یہ تاثر ملے گا کہ اسکول کا کام لطف اندوزی کی بجائے ناگوار کام ہے۔ ہمارے‬
‫ہاں والدین کا خاص وتیرہ ہے کہ جب بچہ اپنا من پسند کھیل کھیل رہا ہوتا ہے توانہیں اسکول کا کام یاد آجاتا ہے۔ خوشی کے‬
‫لمحات اس سے زبردستی چھین لئے جاتے ہیں اور پڑھنے بٹھا دیا جاتا ہے۔اس طرح بچہ کتاب سے دشمنی پال لیتا ہے۔ اس‬
‫وقت بچے کو کتابیں زہر لگتی ہیں۔ دشمن محسوس ہوتی ہیں اور ہم اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔‬

‫حل کیا ہے ؟‬ ‫‪‬‬

‫والدین اگر اسکول کے ابتدائی دنوں میں یہ رویہ اختیار نہ کریں تو بچوں کی کتابوں اور پڑھائی سے دوستی ہو سکتی ہے اور‬
‫آگے جا کر پڑھائی جب مشکل ہو جاتی ہے اور تقریبا ً ہر بچے کی پڑھائی پر توجہ میں کمی آنے لگتی ہے تو بھی پڑھائی میں‬
‫بچہ دلچسپی لیتا ہے اور مزے سے اپنا کام کرتا ہے۔ گھر میں اگر کتابیں موجود ہوں اور بڑے ان کتابوں کو پڑھتے ہوں تو‬
‫بچوں کے لئے یہ کافی ہے۔ والد صاحب اگر کاروبار میں مصروف ہیں ‪ ،‬والدہ گھر کے کام میں مگن ہیں اور آپ بچوں پر‬
‫توجہ نہیں دے رہیں تو یہ صورتحال بھی پڑھائی میں بچوں کی دلچسپی کم کر دیتی ہے لیکن ناسمجھ والدین بچے کو پیسے‬
‫سے طرح طرح کی سہولتیں دینے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں ٹیوشن وغیرہ سے مدد لینے کا عادی بناتے ہیں تاکہ بعد میں‬
‫بچوں کو الزام دے سکیں کہ ہم نے تو کوئی کمی نہیں چھوڑی ‪ ،‬ہر خواہش پوری کی لیکن بچے نے پڑھنے لکھنے کی ہماری‬
‫خواہش پوری ہی نہیں کی۔‬

‫دوسروں سے موازنہ نہ کریں ۔‬ ‫‪‬‬

‫یاد رکھئے! پڑھائی لکھائی ایسی چیز نہیں جو دوسروں کی خواہش پر کی جا سکے۔ ہر فرد اپنی خواہش سے پڑھتا ہے۔ حقیقت‬
‫یہ ہے کہ بچوں سے پہلے والدین کی تربیت ضروری ہے۔ انہیں پڑھائی سے زیادہ اچھے گریڈ اور ڈگریوں کی خواہش ہوتی‬
‫ہے۔ان کے بچے جب امتحان دے دیتے ہیں تووہ ان کی کتابیں کاپیاں ردی والے کو دے دیتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ نیم پڑھے‬
‫لکھوں کا معاشرہ ہے۔ ہر بچے کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ سب بچے نہ تو ڈاکٹر ہوتے ہیں نہ ہی انجینیئر۔ ہر بچے کا رجحان الگ‬
‫ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ خالہ کا بیٹا ریاضی میں ماہر ہے تو ہمارا بیٹا بھی ہو۔ممکن ہے کہ وہ پولٹری مہارت حاصل کرنے‬
‫میں دلچسپی رکھتا ہو ۔ ابتدائی عمر میں ان کی دلچسپی کو درست سمت دینا والدین کی ذمہ داری ہے۔ جتنا شوق والدین بننے کا‬
‫ہوتا ہے اتنا ہی بچوں کے مستقبل کے لئے فکر مند ہونا بھی ضروری ہے ۔‬

‫بچوں کی ہوم ورک میں مدد کب اور کیسے کی جائے؟‬ ‫‪‬‬


‫اس کے لیے حکمت عملی مرتب کریں۔‬ ‫‪‬‬
‫کچھ بچے پہلے مشکل کاموں سے نمٹنا چاہتے ہیں‪ ،‬جب ان کی ذہنی توانائی سب سے زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬جبکہ کچھ‬
‫بچے پہلے آسان کاموں کو نمٹانے کو ترجیح دیتے ہیں ۔‬

‫بچوں کو وقفہ لینے کی اجازت دیں۔‬ ‫‪‬‬

‫جب بچوں کو ہوم ورک میں وقفہ دیا جاتا ہے تو ان کی توانائیاں دوبارہ چارج ہو جاتی ہیں۔ اگر آپ کا بیٹا ریاضی کی‬
‫پریشانیوں کی وجہ سے الجھن میں پڑا ہو تو اسے ٓارام کا مشورہ دے۔ یہ اس کی ضرورت ہے‪ ،‬لیکن جب وہ ہوم ورک پر‬
‫واپس جانے لگے تو اس سے پوچھیں کہ کیا اسے مدد چاہیے۔‬

‫دیگر تدابیر‪:‬‬ ‫‪‬‬


‫بچے کے اساتذہ سے رابطہ رکھیں۔‬ ‫‪‬‬

‫اپنے بچے کی تعلیمی سطح سے آگاہ رہنے کے لیے پورا سال اساتذہ کے ساتھ اچھے رابطے میں رہیں۔ والدین اساتذہ کی‬
‫میٹنگز کو مت چھوڑیں‪ ،‬جہاں اساتذہ آپ کو یہ بتا سکتے ہیں کہ کالس روم میں کیا ہو رہا ہے اور آپ کے بچے کو کامیاب‬
‫ہونے میں کس طرح مدد مل سکتی ہے۔‬

‫امتحانات کی تاریخیں‪:‬‬ ‫‪‬‬

‫بچے کے امتحانات کی تاریخوں کو دیکھیں‪ ،‬تاکہ گھر میں ان کی مدد کرسکیں۔ خاص طور پر جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے‬
‫ہیں تو ان کا ہوم ورک واقعی مشکل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔‬

‫ہوم ورک کا شیڈول بنائیں‬ ‫‪‬‬

‫اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے بچے اپنے کام کو صحیح طریقے سے لکھ رہے ہیں۔ انہیں روزانہ ہوم ورک لکھنےکی‬
‫ترغیب دیں‪ ،‬اس سے بچوں اور ٓاپ کو اپنے روزمرہ کے فرائض جاننے میں مدد ملیں گی۔‬

‫اگر کام میں دشواری ہو تو کیا کریں ؟‬ ‫‪‬‬


‫اگر کوئی خاص کام آپ کے بچے کے لیے دوسروں کی نسبت زیادہ پریشانی کا باعث بن رہا ہے تو اساتذہ کو ایک نوٹ‬
‫بھیجیں جس میں ان مشکالت کی نشاندہی کریں۔‬

‫لیکن اگر بچے کو ہوم ورک اسائنمنٹس سمجھنے یا اسے مکمل کرنے میں مستقل دشواری ہوتی ہو تو آپ کو اسے ڈاکٹر کو‬
‫دکھانا ہوگا‪ ،‬کیونکہ وہ کسی بھی پریشانی میں مبتال ہو سکتا ہے (جیسے سیکھنے میں دشواریوں‪ ،‬یا سماعت کی دشواریاں‬
‫وغیرہ۔‬

‫بچوں کے لیے اچھی مثال بنیں۔‬ ‫‪‬‬

‫بچوں کو سکھاتے ہوئے اور ہوم ورک کرتے ہوئے اپنی محبت کا اظہار کریں۔ مثال کے طور پر کتابیں‪ ،‬رسالے اور اخبارات‬
‫پڑھیں‪ ،‬خطوط‪ ،‬فہرستیں اور ای میل لکھیں۔ اسے بتائیں کہ سیکھنا ایک اہم عمل ہے۔‬

‫پڑھنے میں دشواریوں پر کیسے قابو پایا جائے؟‬ ‫‪‬‬

‫درج ذیل دیے جانے والے نکات پر عمل کرکے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‬

‫‪ 1‬۔۔ بچے کی حالت کی جتنی جلدی تشخیص ہوگی اسی قدرپڑھنے کی دشواریوں پر قابو پانا ممکن ہوگا۔ جب آپ یہ جان لیں‬
‫گے کہ بچے کو مشکل کہاں درپیش ہے تو اس کے بعد میں پیدا ہونے والے بہت سے مسائل سے بچ جائیں گے۔‬

‫‪ 2‬۔۔ والدین کو اپنے بچوں کے مسائل کی نوعیت کو سمجھنا چاہیے اور ان کو دور کرنے میں اسکول کے ساتھ تعاون کرنا‬
‫چاہیے۔‬

‫‪ 3‬۔۔ سیکھنے اور سمجھنے کے لیے موزوں ماحول فراہم کرنا جو ہر طرح کے خلفشار اور تناؤ سے پاک ہو۔ پڑھنے میں‬
‫دشواری کی قسم کے مطابق ہر بچے کے لیے موزوں عالج معالجے کے خاص پروگرام کی بنیاد پر اس معاملے میں سکول‬
‫کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔‬

‫اساتذہ کا کردار‪:‬‬
‫بچوں کے بگاڑ میں اساتذہ کا کردار‪:‬‬ ‫‪‬‬
‫مخصوص ٹیچرز جن کو وہ اپنی فطرت کے حساب سے آئیڈئالئیز کرتے ہیں ان کی بے جا سپورٹ صرف اس لیے کہ وہ ہمیشہ‬
‫ان کے آئیڈیل بنے رہیں۔وہ بچوں کی کسی بھی غلط بات کو غلط نہیں کہتے نہ ان کو اس عمل سے روکنے کی ہمت کرتے ہیں جو‬
‫ان کی زندگی کو کسی بڑی مشکل میں ڈال سکتے ہیں اور باآلخر وہ پڑھائی سے دور ہوکر پڑھائی میں دشواریوں کا سامنا‬
‫کرسکتے ہیں۔‬
‫نتیجہ‪:‬‬ ‫‪‬‬
‫یوں بچے اور شہہ پاجاتے ہیں اور ہمیشہ اسی راستے کو درست قرار دیتے ہیں کہ ان کے آئیڈل ٹیچر کی نظر میں بھی وہ عمل‬
‫درست ہے اور سب سے بڑھ کر ایسا ماحول ذمے دار ہے جو ان کو یہ سب چیزیں آسان کر کے دیتا ہے۔‬
‫کنویں کے مینڈک‪:‬‬ ‫‪‬‬
‫مگر آج کل اساتذہ کو صرف نصابی تعلیم دینے تک ہی محدود کر دیا گیا۔تربیت کا نام ونشان تعلیمی اداروں سے مٹانے والی‬
‫سکول انتظامیہ ہی ہے۔جن کا رویہ دیکھ کر آج کل پرائیویٹ سکولز میں بس نصابی تعلیم ہی پر توجہ دینے اور خود کو سراہے‬
‫ٰ‬
‫اعلی اسٹینڈرڈ اور‬ ‫جانے پر خوش ہونے والے ہی ان ادراروں میں نمبر ون بنتے جارہے ہیں کیوں کہ وہ اپنے نام نہاد معیار اور‬
‫انتظامیہ سے وابستگی کے حوالے سے وہاں براجمان رہتے ہیں۔جب کہ ایک مخلص اور قابل استاد اپنی ذمے داری سے دغا نہیں‬
‫کرتا وہ انتظامیہ کی طرف سے ہر بار کسی نئی سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ جہاں تک گھر اور محلے کی بات ہے وہ ہر ایک کے‬
‫لیے ایک سا ہونا قطع ممکن نہیں۔لیکن ہاں اگر ان بچوں کوا سکولز میں تعلیم کے ساتھ بہتر تربیت دی جائے تو کافی حد تک اس‬
‫بڑھتی ہوئی بے راہ روی اور پڑھائی سے عدم دلچسپی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔کیوں کہ کہتے ہیں بچہ ماں باپ سے بڑھ کر اپنے‬
‫استاد کی بات کو اہمیت دیتا ہے بشرطیکہ وہ استاد تعلیم سے بے انتہا پیار کرتا ہے‪ ،‬محض کنویں کا مینڈک نہ ہو۔۔۔‬
‫پڑھنے میں دشواری کا عالج‪:‬‬ ‫‪‬‬
‫طلبا کے سامنے صاف اور تیز آواز سے بات کرنا اور زبان پر کوئی غلط لفظ النے سے اجتناب ضروری ہے۔‬ ‫‪‬‬
‫اسی طرح حروف کی قریب کی آوازوں کے مابین تمیز کرنے کی تربیت کرنا‪ ،‬جیسے لمبے اور مختصر سروں کے‬ ‫‪‬‬
‫درمیان تمیز کرنا اور پھر جملوں کی تشکیل کے لیے حروف کوجوڑنے کی تربیت دینا۔‬
‫الفاظ اور پھر جملوں کی تشکیل کے لیے حرفوں کو مربوط کرنے کی تربیت کرنا‪ ،‬پھر لفظ کو پڑھنا اور اسے معنی‬ ‫‪‬‬
‫سے جوڑنا جو نوٹ بک پر ہو یا بورڈ پر‪ ،‬اساتذہ کے ذریعے واضح اور پڑھنے کے قابل بنانا۔‬
‫بچے کو گھر یا کالس روم میں ایسی مشقیں دینا جو پڑھنے کے عمل کے دوران دماغ کو مشغول کرنے پر مرکوز ہوں۔‬ ‫‪‬‬
‫اس کے عالوہ ایسی سرگرمیاں جو بصری ادراک‪ ،‬بصری میموری‪ ،‬سمعی ادراک اور سمعی میموری پر منحصر ہوں۔‬
‫اسپیڈ ریڈنگ کی مشق کرنے کی کوشش کرنا‪ ،‬جہاں مخصوص وقت میں پڑھنے کے لیے کسی متن کا انتخاب کیا جا‬ ‫‪‬‬
‫سکتا ہے۔‬
‫تعلیم کے لیے موزوں ماحول فراہم کرنا اور ہرایسی چیز سے بچوں کو دور رکھنا جوالجھن کا سبب بنےاور ان کی‬ ‫‪‬‬
‫توجہ کو خراب کرے۔‬
‫بچوں کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں اونچی ٓاواز میں پڑھنے پر تیار کرنے سے بھی دشواری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔‬ ‫‪‬‬
‫طلبا کے سامنے صاف اور تیز آواز سے بات کرنا زبان پر کوئی غلط لفظ النے سے اجتناب کرنا۔‬ ‫‪‬‬
‫ایسا نصاب اختیار کرنا جس میں بچے مگن ہوجائیں اور انہیں پڑھنے میں دلچسپی پیدا ہوجائے۔‬ ‫‪‬‬
‫پیچیدگیوں سے دور براہ راست سواالت پوچھنا۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انہیں ہمت دالنا تاکہ وہ بلند آواز سے‬ ‫‪‬‬
‫حصہ لیں اور پڑھیں۔‬
‫طلبا کے لیے واضح الفاظ اور پڑھے جانے کے قابل عبارتیں لکھنا۔‬ ‫‪‬‬
‫بچوں کے والدین کے ساتھ رابطے میں رہنا۔ انہیں بچوں کی کمزوری کے بارے میں آگاہ کرنا‪ ،‬والدین سے بات چیت‬ ‫‪‬‬
‫کرنا۔‬
‫کمزور بچوں کو تعلیم دینے میں صبرکا دامن تھامے رکھنا‪ ،‬چیخنا یا ڈانٹنا اور جلدی نتائج کا انتظار کرنا درست نہیں‬ ‫‪‬‬
‫کیونکہ اس میں وقت لگ سکتا ہے۔‬

You might also like