Professional Documents
Culture Documents
پڑھائی میں دشواری
پڑھائی میں دشواری
ہر ماں باپ کی خواہش ہوتی ہے کہ ان کا بچہ پڑھ لکھ کر قابل بن جائے؛ مگر کیاہر بچہ ماں باپ کی خواہش پر پورا اترتا ہے؟
ایسا ہرگز نہیں ہے ،بعض بچے تو ذراسی توجہ سے اچھے اچھے نتائج حاصل کرلیتے ہیں؛ مگر کچھ بچے ایسے بھی ہوتے ہیں
جو اچھے اسکول میں پڑھنے اور ٹیوشن حاصل کرنے کے باوجود بھی پڑھنے لکھنے میں پیچھے رہ جاتے ہیں ،ایسے بچوں پر
اگر خصوصی توجہ دی جائے تو وہ دوسرے ذہین بچوں کی طرح بہتر نتائج حاصل کرسکتے ہیں۔
کند ذہن بچوں کے ساتھ عام برتاؤ:
ُ ُ ُ
عام طور پر دیکھا یہ گیا ہے کہ کند ذہن بچوں پر خصوصی توجہ دینے کے بجائے ،ان کے والدین یا ان کے اساتذہ انھیں مختلف
قسم کے القاب سے نوازتے رہتے ہیں ،مثالً یہ بچہ تو الپرواہ ہے ،نہ جانے اُس کا دھیان ہروقت کدھر رہتا ہے ،ویسے تو یہ خوب
تر ہے ،دوسروں کی شکایتیں بھی خوب کرتا ہے ،کھیل کود میں بھی کسی سے پیچھے نہیں ،لڑتا بھڑتا بھی رہتا ہے؛ مگر پڑھائی
کے وقت نہ جانے اُسے کیا ہوجاتا ہے۔
کبھی ماں اپنے دیگر رشتے داروں یا بچے کے دوستوں کے سامنے یہ فقرے بھی دہراتی نظر آتی ہے کہ اُس نے ہماری ناک
کٹوادی ہے ،اب اگر تم فیل ہوگئے تو یاد رکھنا میں تمھیں آنٹی کے ہاں لے کر نہیں جاؤں گی ،دیکھو شرم کرو ،تمھارا فالں دوست
کتنے اچھے نمبر لے کر پاس ہواہے اور ایک تم ہو ،نکمّے ،نکور ،آخر تم کو کب عقل آئے گی․․․․ وغیرہ وغیرہ۔
پڑھائی کے درست طریقہ کار سے عدم واقفیت کے باعث بچوں کو پڑھنے میں دشواری ہو سکتی ہے۔ جیسے پڑھنے میں
کمزوری اور ہچکچاہٹ ،ہجوں میں کمزوری اور ناقص ادائیگی وغیرہ
ماہر تعلیم ڈاکٹر ابتہاج کے مطابق طالب علم کو پڑھنے میں جو سب سے بڑی مشکل کا سامنا ہوتا ہے وہ حرف اور اس کی
آواز میں مطابقت پیدا کرنے میں ہوتا ہے۔ اس کے بعد الفاظ سے ایک کلمہ بنانے میں مشکل ہوتی ہے۔ اسی طرح ایسے الفاظ
کو یاد رکھنے اور سمجھنے میں دشواری ہوتی ہے جن کی شکل میں معمولی سا فرق ہوتا ہے۔
ہمارے ہاں والدین کو معلوم نہیں ہوتا کہ بچو ں کو پڑھائی کی عادت کس طرح ڈالی جائے۔ بچوں کا اسکول کتابوں اور اسکول
سے کام کے متعلق ابتدائی تاثربہت اہم ہوتا ہے جس کے بعد فیصلہ ہوتا ہے کہ بچوں کو پڑھنے لکھنے سے دوستی ہوگی یا
نہیں ۔ وہ اس سے خوش ہو گا یا جبری مشقت سمجھے گا۔ ہمارے لوگوں میں اکثریت کا یہ حال ہے کہ کتاب سے انہیں الرجی
ہے۔ مطالعہ کرنا پہاڑ جیسا مشکل کام لگتا ہے۔ زیادہ کتابیں پڑھنے والے کو احمق سمجھا جاتا ہے۔ ان کے طرح طرح کے نام
رکھے جاتے ہیں ۔ کتابچی ،کتابی کیڑاوغیرہ ۔ ایسے ماحول میں بچوں کو پڑھانا والدین کی خصوصی مگر سمجھدار توجہ
مانگتا ہے۔
ماہر تعلیم نے جب اپنے بچے کو اسکول میں داخل کروایا تو سختی سے منع کیا کہ اسے پڑھنے کے لئے نہ کہا جائے
ِ ایک
بلکہ اس کے سامنے خود کتاب لے کر پڑھنا شروع کر دیں ۔ اسے یہ احساس نہ ہو یہ کوئی کام ہے جسے مشقت سمجھ کر
کرنا ہے۔ یا کوئی ڈیوٹی ہے جسے انجام دینا ہے اور جو اس عمر میں اس پر الگو کر دی گئی ہے ۔ان کا کہنا ہے کہ جس وقت
ہم چاہتے ہیں کہ وہ اپنا ہوم ورک کرے ،ہم اس کی کتابیں خود لے کر بیٹھ جاتے ہیں۔ اس کی کلر پنسل سے کچھ نہ کچھ بنانے
میں مصروف ہو جاتے ہیں او ررنگ بھرنا شروع کر دیتے ہیں۔ بچہ خود بخود متوجہ ہوجاتا ہے۔ ہم سے کتابیں لے کر سبق
دہرانے لگتا ہے اور ورک شیٹ نکال کر کام کرنا شروع کر دیتا ہے۔ ہم صرف رہنمائی کرتے ہیں۔
بچہ جب ٹی وی دیکھ رہا ہو یا اپنے من پسند کھیل میں مگن ہو یا دوسرے بچوں کے ساتھ کھیل رہا ہو تو اس کو اسکول کا کام
کرنے کے لئے ہرگز نہ کہا جائے ورنہ اسے یہ تاثر ملے گا کہ اسکول کا کام لطف اندوزی کی بجائے ناگوار کام ہے۔ ہمارے
ہاں والدین کا خاص وتیرہ ہے کہ جب بچہ اپنا من پسند کھیل کھیل رہا ہوتا ہے توانہیں اسکول کا کام یاد آجاتا ہے۔ خوشی کے
لمحات اس سے زبردستی چھین لئے جاتے ہیں اور پڑھنے بٹھا دیا جاتا ہے۔اس طرح بچہ کتاب سے دشمنی پال لیتا ہے۔ اس
وقت بچے کو کتابیں زہر لگتی ہیں۔ دشمن محسوس ہوتی ہیں اور ہم اسے اپنی کامیابی سمجھتے ہیں۔
والدین اگر اسکول کے ابتدائی دنوں میں یہ رویہ اختیار نہ کریں تو بچوں کی کتابوں اور پڑھائی سے دوستی ہو سکتی ہے اور
آگے جا کر پڑھائی جب مشکل ہو جاتی ہے اور تقریبا ً ہر بچے کی پڑھائی پر توجہ میں کمی آنے لگتی ہے تو بھی پڑھائی میں
بچہ دلچسپی لیتا ہے اور مزے سے اپنا کام کرتا ہے۔ گھر میں اگر کتابیں موجود ہوں اور بڑے ان کتابوں کو پڑھتے ہوں تو
بچوں کے لئے یہ کافی ہے۔ والد صاحب اگر کاروبار میں مصروف ہیں ،والدہ گھر کے کام میں مگن ہیں اور آپ بچوں پر
توجہ نہیں دے رہیں تو یہ صورتحال بھی پڑھائی میں بچوں کی دلچسپی کم کر دیتی ہے لیکن ناسمجھ والدین بچے کو پیسے
سے طرح طرح کی سہولتیں دینے کی کوشش کرتے ہیں اور انہیں ٹیوشن وغیرہ سے مدد لینے کا عادی بناتے ہیں تاکہ بعد میں
بچوں کو الزام دے سکیں کہ ہم نے تو کوئی کمی نہیں چھوڑی ،ہر خواہش پوری کی لیکن بچے نے پڑھنے لکھنے کی ہماری
خواہش پوری ہی نہیں کی۔
یاد رکھئے! پڑھائی لکھائی ایسی چیز نہیں جو دوسروں کی خواہش پر کی جا سکے۔ ہر فرد اپنی خواہش سے پڑھتا ہے۔ حقیقت
یہ ہے کہ بچوں سے پہلے والدین کی تربیت ضروری ہے۔ انہیں پڑھائی سے زیادہ اچھے گریڈ اور ڈگریوں کی خواہش ہوتی
ہے۔ان کے بچے جب امتحان دے دیتے ہیں تووہ ان کی کتابیں کاپیاں ردی والے کو دے دیتے ہیں۔ ہمارا معاشرہ نیم پڑھے
لکھوں کا معاشرہ ہے۔ ہر بچے کا اپنا انداز ہوتا ہے۔ سب بچے نہ تو ڈاکٹر ہوتے ہیں نہ ہی انجینیئر۔ ہر بچے کا رجحان الگ
ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ خالہ کا بیٹا ریاضی میں ماہر ہے تو ہمارا بیٹا بھی ہو۔ممکن ہے کہ وہ پولٹری مہارت حاصل کرنے
میں دلچسپی رکھتا ہو ۔ ابتدائی عمر میں ان کی دلچسپی کو درست سمت دینا والدین کی ذمہ داری ہے۔ جتنا شوق والدین بننے کا
ہوتا ہے اتنا ہی بچوں کے مستقبل کے لئے فکر مند ہونا بھی ضروری ہے ۔
جب بچوں کو ہوم ورک میں وقفہ دیا جاتا ہے تو ان کی توانائیاں دوبارہ چارج ہو جاتی ہیں۔ اگر آپ کا بیٹا ریاضی کی
پریشانیوں کی وجہ سے الجھن میں پڑا ہو تو اسے ٓارام کا مشورہ دے۔ یہ اس کی ضرورت ہے ،لیکن جب وہ ہوم ورک پر
واپس جانے لگے تو اس سے پوچھیں کہ کیا اسے مدد چاہیے۔
اپنے بچے کی تعلیمی سطح سے آگاہ رہنے کے لیے پورا سال اساتذہ کے ساتھ اچھے رابطے میں رہیں۔ والدین اساتذہ کی
میٹنگز کو مت چھوڑیں ،جہاں اساتذہ آپ کو یہ بتا سکتے ہیں کہ کالس روم میں کیا ہو رہا ہے اور آپ کے بچے کو کامیاب
ہونے میں کس طرح مدد مل سکتی ہے۔
بچے کے امتحانات کی تاریخوں کو دیکھیں ،تاکہ گھر میں ان کی مدد کرسکیں۔ خاص طور پر جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے
ہیں تو ان کا ہوم ورک واقعی مشکل ہونا شروع ہو جاتا ہے۔
اس بات کو یقینی بنائیں کہ آپ کے بچے اپنے کام کو صحیح طریقے سے لکھ رہے ہیں۔ انہیں روزانہ ہوم ورک لکھنےکی
ترغیب دیں ،اس سے بچوں اور ٓاپ کو اپنے روزمرہ کے فرائض جاننے میں مدد ملیں گی۔
لیکن اگر بچے کو ہوم ورک اسائنمنٹس سمجھنے یا اسے مکمل کرنے میں مستقل دشواری ہوتی ہو تو آپ کو اسے ڈاکٹر کو
دکھانا ہوگا ،کیونکہ وہ کسی بھی پریشانی میں مبتال ہو سکتا ہے (جیسے سیکھنے میں دشواریوں ،یا سماعت کی دشواریاں
وغیرہ۔
بچوں کو سکھاتے ہوئے اور ہوم ورک کرتے ہوئے اپنی محبت کا اظہار کریں۔ مثال کے طور پر کتابیں ،رسالے اور اخبارات
پڑھیں ،خطوط ،فہرستیں اور ای میل لکھیں۔ اسے بتائیں کہ سیکھنا ایک اہم عمل ہے۔
درج ذیل دیے جانے والے نکات پر عمل کرکے اس پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
1۔۔ بچے کی حالت کی جتنی جلدی تشخیص ہوگی اسی قدرپڑھنے کی دشواریوں پر قابو پانا ممکن ہوگا۔ جب آپ یہ جان لیں
گے کہ بچے کو مشکل کہاں درپیش ہے تو اس کے بعد میں پیدا ہونے والے بہت سے مسائل سے بچ جائیں گے۔
2۔۔ والدین کو اپنے بچوں کے مسائل کی نوعیت کو سمجھنا چاہیے اور ان کو دور کرنے میں اسکول کے ساتھ تعاون کرنا
چاہیے۔
3۔۔ سیکھنے اور سمجھنے کے لیے موزوں ماحول فراہم کرنا جو ہر طرح کے خلفشار اور تناؤ سے پاک ہو۔ پڑھنے میں
دشواری کی قسم کے مطابق ہر بچے کے لیے موزوں عالج معالجے کے خاص پروگرام کی بنیاد پر اس معاملے میں سکول
کے ساتھ تعاون کرنا چاہئے۔
اساتذہ کا کردار:
بچوں کے بگاڑ میں اساتذہ کا کردار:
مخصوص ٹیچرز جن کو وہ اپنی فطرت کے حساب سے آئیڈئالئیز کرتے ہیں ان کی بے جا سپورٹ صرف اس لیے کہ وہ ہمیشہ
ان کے آئیڈیل بنے رہیں۔وہ بچوں کی کسی بھی غلط بات کو غلط نہیں کہتے نہ ان کو اس عمل سے روکنے کی ہمت کرتے ہیں جو
ان کی زندگی کو کسی بڑی مشکل میں ڈال سکتے ہیں اور باآلخر وہ پڑھائی سے دور ہوکر پڑھائی میں دشواریوں کا سامنا
کرسکتے ہیں۔
نتیجہ:
یوں بچے اور شہہ پاجاتے ہیں اور ہمیشہ اسی راستے کو درست قرار دیتے ہیں کہ ان کے آئیڈل ٹیچر کی نظر میں بھی وہ عمل
درست ہے اور سب سے بڑھ کر ایسا ماحول ذمے دار ہے جو ان کو یہ سب چیزیں آسان کر کے دیتا ہے۔
کنویں کے مینڈک:
مگر آج کل اساتذہ کو صرف نصابی تعلیم دینے تک ہی محدود کر دیا گیا۔تربیت کا نام ونشان تعلیمی اداروں سے مٹانے والی
سکول انتظامیہ ہی ہے۔جن کا رویہ دیکھ کر آج کل پرائیویٹ سکولز میں بس نصابی تعلیم ہی پر توجہ دینے اور خود کو سراہے
ٰ
اعلی اسٹینڈرڈ اور جانے پر خوش ہونے والے ہی ان ادراروں میں نمبر ون بنتے جارہے ہیں کیوں کہ وہ اپنے نام نہاد معیار اور
انتظامیہ سے وابستگی کے حوالے سے وہاں براجمان رہتے ہیں۔جب کہ ایک مخلص اور قابل استاد اپنی ذمے داری سے دغا نہیں
کرتا وہ انتظامیہ کی طرف سے ہر بار کسی نئی سزا کا مستحق ٹھہرتا ہے۔ جہاں تک گھر اور محلے کی بات ہے وہ ہر ایک کے
لیے ایک سا ہونا قطع ممکن نہیں۔لیکن ہاں اگر ان بچوں کوا سکولز میں تعلیم کے ساتھ بہتر تربیت دی جائے تو کافی حد تک اس
بڑھتی ہوئی بے راہ روی اور پڑھائی سے عدم دلچسپی کو ختم کیا جا سکتا ہے۔کیوں کہ کہتے ہیں بچہ ماں باپ سے بڑھ کر اپنے
استاد کی بات کو اہمیت دیتا ہے بشرطیکہ وہ استاد تعلیم سے بے انتہا پیار کرتا ہے ،محض کنویں کا مینڈک نہ ہو۔۔۔
پڑھنے میں دشواری کا عالج:
طلبا کے سامنے صاف اور تیز آواز سے بات کرنا اور زبان پر کوئی غلط لفظ النے سے اجتناب ضروری ہے۔
اسی طرح حروف کی قریب کی آوازوں کے مابین تمیز کرنے کی تربیت کرنا ،جیسے لمبے اور مختصر سروں کے
درمیان تمیز کرنا اور پھر جملوں کی تشکیل کے لیے حروف کوجوڑنے کی تربیت دینا۔
الفاظ اور پھر جملوں کی تشکیل کے لیے حرفوں کو مربوط کرنے کی تربیت کرنا ،پھر لفظ کو پڑھنا اور اسے معنی
سے جوڑنا جو نوٹ بک پر ہو یا بورڈ پر ،اساتذہ کے ذریعے واضح اور پڑھنے کے قابل بنانا۔
بچے کو گھر یا کالس روم میں ایسی مشقیں دینا جو پڑھنے کے عمل کے دوران دماغ کو مشغول کرنے پر مرکوز ہوں۔
اس کے عالوہ ایسی سرگرمیاں جو بصری ادراک ،بصری میموری ،سمعی ادراک اور سمعی میموری پر منحصر ہوں۔
اسپیڈ ریڈنگ کی مشق کرنے کی کوشش کرنا ،جہاں مخصوص وقت میں پڑھنے کے لیے کسی متن کا انتخاب کیا جا
سکتا ہے۔
تعلیم کے لیے موزوں ماحول فراہم کرنا اور ہرایسی چیز سے بچوں کو دور رکھنا جوالجھن کا سبب بنےاور ان کی
توجہ کو خراب کرے۔
بچوں کی حوصلہ افزائی کرکے انہیں اونچی ٓاواز میں پڑھنے پر تیار کرنے سے بھی دشواری پر قابو پایا جا سکتا ہے۔
طلبا کے سامنے صاف اور تیز آواز سے بات کرنا زبان پر کوئی غلط لفظ النے سے اجتناب کرنا۔
ایسا نصاب اختیار کرنا جس میں بچے مگن ہوجائیں اور انہیں پڑھنے میں دلچسپی پیدا ہوجائے۔
پیچیدگیوں سے دور براہ راست سواالت پوچھنا۔ بچوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور انہیں ہمت دالنا تاکہ وہ بلند آواز سے
حصہ لیں اور پڑھیں۔
طلبا کے لیے واضح الفاظ اور پڑھے جانے کے قابل عبارتیں لکھنا۔
بچوں کے والدین کے ساتھ رابطے میں رہنا۔ انہیں بچوں کی کمزوری کے بارے میں آگاہ کرنا ،والدین سے بات چیت
کرنا۔
کمزور بچوں کو تعلیم دینے میں صبرکا دامن تھامے رکھنا ،چیخنا یا ڈانٹنا اور جلدی نتائج کا انتظار کرنا درست نہیں
کیونکہ اس میں وقت لگ سکتا ہے۔