You are on page 1of 20

‫ہر بچہ‬
‫با صالحیت ہوتا ےہ‬
‫ہر بچہ ایک جیسا نہیں ہوتا ےہ‪ ،‬ہر پھول کی‬
‫اپنی خوشبو ہوتی ےہ‬
‫بچے کو باصالحیت بنانے کےذمہ داران‬

‫‪1‬۔ بچہ خود‬


‫‪2‬۔ بچے کےوالدین‬
‫‪3‬۔ بچے کا سکول‬

‫اپنی اوالد کا احترام کرو ان کی اچھی تربیت کرو تاکہ ہللا‬


‫تمہیں بخش دے ( رسول اکرم (ص))‬
‫بچے کی ذاتی ذمہ داریاں‬
‫۔ ہر بچہ یقین پیدا کرے کہ وہ سب کچھ کر سک تا ےہ کیونکہ یہ ہی سچ ےہ۔‬
‫۔ اپےناندر سنجیدگی پیدا کریں۔‬
‫۔ ہدف کا تعین کرے‬
‫۔ ہدف کے حصول کے لےی مضبوط ارادہ کرے‬
‫۔ ارادے کو مضبوط کرنے کے لےی چھوٹےاہداف بنائیں اور اس کی تکمیل کرے‬
‫۔ ہدف کےحصول کے معاونین کی جانیں۔‬
‫۔ والدین اور اساتید سے کوئی بات نہ چھپائیں۔‬
‫۔ خود بھی اچھے بن جائے اور اچھے دوستوں کا انتخاب کرے‬
‫۔ اپنا دن و روز کے کاموں کے لےی وقت مقرر کریں۔‬
‫۔ جب کسی بھی سبق کو نہ سمجھیں چین سے نہ بیٹھیں اسےسمجھےن کے لےی اپےن دوستوں اور اساتید سے‬
‫مدد لیں۔‬
‫۔ تمام ک تابوں کے مطالب کو سمجھےن کے لےی ِدقت کریں۔‬
‫۔رٹہ سے نفرت کریں بلکہ ہر مطلب کو سمجھیں۔‬
‫والدین کی ذمہ داریاں‬
‫۔بچے کی ذمہ داریوں کو سمجھنا اور بچے کے لےی خود عملی نموبہ بنیں کیونکہ بچہ جو سنتا ےہ وہ نہیں‬
‫کرتا ےہ بلکہ وہ کرتا ےہ جو دیکھتا ےہ ۔‬
‫۔بچےکے اندر یقین پیدا کرانا کہ وہ کرسک تا ےہ ۔‬
‫۔ بچے کو نظر میں رکھیں کہ شب و روز کیسے وقت گزارتا ےہ ۔‬
‫۔ بچے کے دوستوں پر نظر رکھے کہ اس کے دوست کیسے ہیں۔‬
‫۔ بچے کو ان اداروں میں بھیجیں جواچھی تعلیم و تربیت دے سکے۔‬
‫۔بچے کے اساتید سے ملےترہیں اور بچے کی تعلیم و تربیت کے بارے میں دریافت کرتے رہیں اور اساتید کو‬
‫بھی گھر کےحوالے بچے کی مصروفیات خامیوں اور خوبیوں سے اگاہ کریں۔ اگر کوئی مشکل ہو تو کے‬
‫تدارک کے مشاورت کریں۔‬
‫۔ بچے میں کوئی مشکل ہو تو اس وقت تک چین سے نہ بھیٹیں جب تک اس مشکل کا حل نہ نکےل۔‬
‫۔ بچے کا دوست بنیں تاکہ بچہ اپ کے خوف کی وجہ کوئی چیز نہ چھپائے۔‬
‫۔ بچے کو ذمہ دار بنائیں۔‬
‫۔ بچے کو اچھے ناموں سے پکاریں اور کبھی بھی بچوں کو اور کسی اور کو بھی گالی نہ دیں۔‬
‫۔ بچے سے کیا ہوا وعدہ الزمی پورا کرے۔‬
‫والدین کی ذمہ داریاں‬
‫۔بچوں کا ایک دوسرے سے مقابلہ نہ کرائیں کیونکہ خدا نے ہر بچے کو مختلف صالحیت‬
‫عطا کیا ےہ ۔‬
‫۔والدین بچوں کے سامےن کبھی بھی لڑائی نہ کریں ۔‬
‫۔حد سے زیادہ محبت نہ کریں جس سے بچے خراب ہوتے ہیں۔‬
‫۔بچوں سے سکول کی پڑھائی‪ ،‬سکول کا ماحول ‪ ،‬اساتید کا رویہ اور سکول کے دوستوں کے‬
‫بارے میں دریافت کرتے رہیں۔‬
‫۔بچوں کے لےی گھر میں پڑھائی‪ ،‬کھیل ‪،‬گھر کے کام کاج دوستوں کے مالقات وغیرہ کا ٹائم‬
‫ٹیبل الزمی بنائیں اور اس پر عمل کرنے کے لےی بچوں کو امادہ کریں کہ سختی سے عمل ہو۔‬
‫۔اگر کوئی بچہ غلطی کرے تو سب کے سامےن بیان نہ کریں۔‬
‫۔‪ 15‬سال کےبچوں سے گھر کے معامالت میں ضرور رائے لیں تاکہ اس میں خود اعتمادی‬
‫پیدا ہو۔‬
‫۔بچوں کی حوصلہ افزائی کرتے رہیں‬
‫سکول کی ذمہ داریاں‬
‫۔ سکول کے بچے کو اپنا بچہ سمجھنا اور بچوں کو تعلیم و تربیت کے لےی اقدامات کرنا۔‬
‫۔ بچوں کی صالحیتوں کو جاچنا اور طالب علم کے تعلیمی قابلیت کا جاننا۔‬
‫۔ بچوں کی تعلیمی قابلیت کا بڑھانے کے لےی اقدامات کرنا۔‬
‫۔ بچوں میں موجود صالحیتوں کو اجاگر کرنا۔‬
‫۔ بچوں کی صالحیتوں کو پروان چڑھانے کے لےی مواقع فراہم کرنا اورمعاونت کرنا۔‬
‫۔ بچوں میں یقین پیدا کرنا کہ وہ الئق ہو سک تا ےہ۔‬
‫۔بچوں کو بھر پور تیاری کے بعد پڑھانا۔‬
‫۔ بچوں میں درجہ بندی کرنا اور ان کی استعداد کے مطابق پڑھانا۔‬
‫۔ بچوں میں رٹہ ‪ ،‬نقل اور کام چوری سے نفرت پیدا کرانا۔‬
‫۔ بچوں کو مطالب اچھی طرح سمجھانا ۔‬
‫سکول کی ذمہ داریاں‬
‫۔بچوں سے اپےن پڑھانے کے طریقہ کار کے بارے میں رائےلینا اگر بچوں کو کوئی مشکل‬
‫پیش ارہی ہو تو اس کو دور کرنا۔‬
‫۔بچے کی تعلیم و تربیت کے حوالےسے بچے کےوالدین سے مشاورت کرنا اور بچے کی کمزوریوں کو دور‬
‫کرنے کے لےی بھر پور اقدامات کرنا۔‬
‫۔ بچوں میں خود اعتمادی‪ ،‬احساس ذمہ داری‪ ،‬وقت کی پابندی‪ ،‬فرصتوں کی قدر اور سنجیدگی‬
‫پیدا کرنے کے لےیاقدامات کرنا۔‬
‫۔ بچوں میں علم کا شوق پیدا کرانا۔‬
‫۔بچوں کی تعلیمی کارکردگی کےساتھ ساتھ دیگر حرکات و سکنات پر نظر رکھنا۔‬
‫۔ بچوں کی اپس کی نفرتوں کو دور کرنا اور بھائی چارے کا ماحول بنانا۔‬
‫۔ بچوں کی تعلیم کےساتھ ساتھ تربیت پر بھی بھر پور زور دینا۔‬
‫۔ بچوں کو مختلف علوم سےاشنائی دینا۔‬
‫تعلیمی مہارتیں‬
‫طالب کو فقط سند نہ دی جائے بلکہ علمی مہارتیں دی جائیں تو وہ‬
‫عظیم علوم حاصل کر سک تا ےہ ۔‬
‫نظام تعلیم‬
‫رائج ِ‬
‫نظام تعلیم طالب علم کو فقط سند دیتا ےہ نہ کہ علم۔‬‫٭رائج ِ‬
‫نظام تعلیم طالب علم کو کسی بھی علم یا ک تب میں کسی بھی درجے میں موجود تمام مطالب کو‬ ‫٭ رائج ِ‬
‫سمجھے بغیر بھی اگےل درجے میں منتقل کرتا ےہ ۔‬
‫نظام تعلیم کسی کالس میں چند ک تب کے امتحان میں ناکامی کی صورت میں بھی اگلی‬ ‫٭ موجودہ ِ‬
‫کالسونمیں منتقل کرتا ےہ۔‬
‫نظام تعلیم طالب علم میں علم کی تشنگی نہیں پیدا کرتا ےہ بلکہ نمبر اور پوزیشن کی تشنگی و‬
‫٭ موجودہ ِ‬
‫خواہش پیدا کرتا ےہ ۔‬
‫نظام تعلیم طالب علم‪ ،‬اساتید اور والدین کو رٹہ سسٹم پر مجبور کرتا ےہ ۔‬
‫٭ موجودہ ِ‬
‫نظام تعلیم میں وہی طالب علم کامیاب ہیں جن کے والدین سکول کی پڑھائی کے عالوہ دیگر‬ ‫٭ رائج ِ‬
‫اقدامات کرتے ہیں جیسے والدین خود پڑھاتے ہیں ‪ ،‬ٹیوشن‬
‫پڑھاتے ہیں یابہن بھائیوں میں سے کوئی پڑھاتا ےہ ۔‬
‫نظام تعلیم طالب علم کی سمجھےن کی صالحیت کو مدنظر نہیں رکھتا ےہ ۔‬ ‫٭ رائج ِ‬
‫نظام تعلیم کے مسائل کا تداریک‬
‫رائج ِ‬
‫٭اصل ہدف طالب علم کو سند دینا نہیں بلکہ علم دینا رکھا جائے‬
‫٭ علوم کے بیادی تا حتمی درجات کی درجہ بندی کی جائے۔‬
‫٭ طالب کا امتحان علوم کے درجات میں ہر درجے کی مکمل تعلیم دیےن کے بعد لیا جائے ناکامی کی صورت‬
‫میں اسی درجے کی تعلیم دوبارہ دی جائے ۔‬
‫٭ طالب علم میں نمبراور پوزیشن کی تشنگی کے بجائے علم کی تشنگی پیدا کی جائے ۔‬
‫٭طالب میں رٹہ سسٹم سے نفرت پید ا کرائی جائے اور ہر علم کے مطالب کو اچھی طرح سمجھےن کے لےی امادہ‬
‫کیا جائے۔‬
‫٭ سکول میں پریٹ کا وقت اتنا رکھا جائے کہ استاد ہی کسی بھی علم کے کسی بھی درجے کو پڑھائے اور‬
‫کالس میں ہی اسے یاد کرائے اور لکھوائے اور استاد ہی طالب علم میں اس کی مہارت پید اکرے نہ کہ والدین‬
‫۔‬
‫٭ طالب علم کی سمجھےن کی صالحیت کو مدنظر رکھا جائے اور سمجھےن کی صالحیت کے مطابق ہی اسے‬
‫علم دیا جائے۔‬
‫مسائل کے حل کی حکمت علمی‬
‫٭ سکول انتظامیہ نے کالس ون اور ٹو کے لےی سب سے تجربہ کار ‪ ،‬محنتی اور اہل ٹیچر‬
‫کا انتخاب کیا ےہ ۔‬
‫٭اردو ‪ ،‬انگلش اور ریاضی کے مضامین کے بنیادی سے حتمی درجات کی درجہ بندی کی‬
‫ےہ ۔‬
‫٭ اردو ‪ ،‬انگلش اور ریاضی کے پریٹ کا دورانیہ ایک ایک گھنےٹ کا کیا ےہ تاکہ استاد جو‬
‫پڑھائے وہ کالس میں یاد اور لکھوا بھی لیں ۔‬
‫٭ ان درجات کو پڑھانے کے لےی دورانیہ بھی مقرر کیا ےہ ۔‬
‫٭طالب کی سمجھےن کی صالحیت کے حساب سے درجہ بندی بھی کی ےہ تاکہ طالب علم‬
‫کی سمجھےن کی صالحیت کے مطابق مقررہ وقت میں تعلیم دی جا سکے ۔‬
‫ٹائم ٹیبل‬
‫٭پریٹ کا دورانیہ ایک ایک گھنےٹ کا رکھا گیا ےہ اور ہر گھنےٹ کےبعد‬
‫‪10‬منٹ کا وقفہ ہوگا‬
‫٭ معلمہ کوشش کریں کہ دوران کالس طالب پاس کے لےی نہ جائیں‬
‫کیونکہ ہر گھنےٹ کے بعد ‪10‬منٹ کا وقفہ ےہ۔‬
‫٭ اسالمیات میں موجود مطالب کو اچھی طرح زبانی یاد(اذبر)کرایا‬
‫جائے گا۔‬
‫امتحان کا طریقہ کار‬
‫٭ ہر درجے کےمضمون (ٹاپک) کے بعد طالب کا امتحان ہوگا۔ جیسے اردو میں‬
‫حروف تہجی کی پہچان کے بعد امتحان‪ ،‬الفاظ کے توڑ نے کا امتحان‪ ،‬الفاظ کے‬
‫جوڑ نے کا امتحان وغیرہ۔‬
‫٭ اگر اک ثر طالب ناکام ہوئے ہوں تو اس مضمون کو دوبارہ پڑھایا جائے۔‬
‫٭ اگر فقط چند طالب کے ساتھ مسئلہ ہو تو ان طالب پر الگ توجہ بھی دیں۔‬
‫٭ کسی بھی درجے کے مطالب میں مکمل دسترس دیےئ بغیر طالب کو اگےل‬
‫درجے میں منتقل نہیں کیا جائے گا۔‬
‫معلمہ کی ذمہ داریاں‬
‫معلمہ کا ہدف‬
‫طالب علم کی کمزوریوں کا ذمہ دار‬
‫سچا ٰ‬
‫دعوی‬

‫ہمارا ہدف طالب کو باصالحیت علمی شخصیت معلم اور‬


‫سکول نےبنانا ےہ نہ کہ والدین کی ذاتی محنت اور‬
‫اقدامات سے بنائے گ ےئ طالب پر فخر کرنا ےہ اور جھوٹا‬
‫دعوی کرنا ےہ کہ یہ معلم اور سکول کی محنت ےہ‬‫ٰ‬
‫دعا‬
‫خدایا ہماری دعا ےہ کہ ہمیں اپےن مقصد میں کامیابی عطا‬
‫فرما اور ہماری نصرت فرما۔‬

‫خدایا ہمیں اپ کی ان امانتوں کواپ تک ہی کامل کر کے‬


‫پہنچانے کی توفیق عطا فرما۔‬

‫خدایا ہمیں خائنین میں شمار نہ فرما۔‬


‫شکریہ‬
‫جزاک ہللا‬

You might also like