You are on page 1of 28

‫میں آج آپ کی خدمت میں ایک ریئل ان کاؤنٹر لے کے حاضر ہوں ‪ .

‬یہ‬
‫ایک ناول ٹائپ اسٹوری ہے ‪ .‬میری طرف سے مکمل ہے اگر کسی کو نا‬
‫مکمل لگے وہ میری اینڈنگ کے بعد کنٹینیو کر سکتا حیا ‪ .‬مجھے بالکل‬
‫‪ .‬برا نہیں لگے گا ‪ .‬یہ جس کی اسٹوری ہے اسی کی زبانی سنتے ہیں‬

‫میں فائزہ ہوں پاکستان کے تیسرے بڑے شہر کی رہنے والی ہوں ‪ .‬ایک‬
‫وڈو الئف گزار رہی ہوں ‪ .‬ہم ‪ 6‬بہن بھائی ہاں ‪ .‬میرا نمبر پانچوان ہے ‪.‬‬
‫سب سے بڑی بہن فائقہ ‪ِ ،‬پھر آمین ‪ ،‬عمران اور اسلم بھائی ‪ِ ،‬پھر میرا‬
‫نمبر اور سب سے چھوٹا اور سب کا الڈال عامر ہے ‪ .‬امی ابو کی ڈیتھ ہو‬
‫چکی ہے ‪ ،‬عامر کے عالوہ سب بہن بھائی شادی شدہ ہاں ‪ .‬یہ بات‬
‫‪ 1998‬کی ہے مطلب آج سے ‪ 20‬سال پہلے کی ‪ .‬ہم سب بہن بھائیوں میں‬
‫‪ .‬کمو بیش ‪ 2‬سال کا فرق ہے سوائے عامر کے‬
‫میں میری عمر ‪ 30‬سال تھی اور عامر کی ‪ 26‬سال ‪ .‬عامر ایک ‪1998‬‬
‫سلجھا ہوا لڑکا ہے امی ابو کے گزر جانے کے بَ ْعد اور بھی سنجیدہ‬
‫میری شادی ‪ 1993‬میں ہوئے تھی اور اب میری ایک ‪ .‬مزاج ہو گیا ہے‬
‫بیٹی ہے ‪ 4‬سال کی ‪ .‬میرے شوہر کی زری زمیں ہاں جو ان کو اپنے‬
‫والدین سے ملی ہاں اور خود وہ ایک سرکاری افسر تھے ‪ .‬مارچ ‪1998‬‬
‫میں ایک روڈ ایکسڈینٹ میں انکی موت ہو گئی ‪ .‬جس گھر میں ہم رہتے‬
‫ہاں وہ میرے شوہر کا ذاتی گھر ہے جو اب میرے نام پے ہے ‪ .‬یہ ایک‬
‫بڑا گھر ہے جسکا ایک حصہ اپنے شوہر کی موت کے بعد کرایہ پے‬
‫دے دیا تھا تا کہ میرا گزارا ہو سکے ‪ .‬چھونکہ میں اکیلی تھی اور میرے‬
‫والیداین اور سوسرالی نہیں تھے اِس لیے مجھے اکیلے ہے اِس گھر میں‬
‫رہنا تھا ‪ .‬ایک اوپشن جو اس وقت میرے ذہن میں آئی وہ سب بہن‬
‫بھائیوں اور سوسرالی رشتے داروں نئے من لی ‪ .‬میرے شوہر کی ڈیتھ‬
‫کے ایک ہفتے بعد سب لوگوں نئے ہمدردی کی اور اپنے ساتھ چلنے کو‬
‫کہا تب میں نئے اپنے گھر میں رہنے اور کسی پے بوجھ نا بننے کے‬
‫فیصلہ کیا ‪ .‬میں نئے صرف اپنی حفاظت کے لیے عامر کو اپنے ساتھ‬
‫رہنے کے لیے کہا جو سب نئے من لیا ‪ .‬میں نئے عامر کی شادی اور‬
‫اسکی دلہن کو اپنے ساتھ رکھنے کی بھی ذمہ داری لی ‪ .‬یہ ایک ایسی‬
‫اوپشن تھی جس پے کسی کو بی اعتراض نہیں تھا اور فورا ً سے اِس پے‬
‫عمل بی ہو گیا ‪ .‬عامر عمران بھائی کے ساتھ رہتا تھا اور ان کے ساتھ‬
‫ہے اسٹور سنبھال تا تھا ‪ .‬یہ اسٹور جس جگھا تھا وہ میرے سسر کی تھی‬
‫جو انہوں نے مرنے سے پہلے میری بیٹی کے نام کر دیا تھا ‪ .‬میرے‬
‫اپنے شوہر ‪ .‬سسر کی وفات کے بَ ْعد اب اسکا کا کرایہ مجھے ملتا تھا‬
‫کے آفس سے اور انشورنس کمپنی سے ملنے والے پیسون سے میں نے‬
‫بآسانی ایک چھوٹا گھر خرید لیا اور اسے بے کیڑے پے ڈے دیا ‪ .‬عامر‬
‫اور عمران بھائی کے اپوس میں ‪ 40 : 60‬کا شیئر تھا ‪ .‬اسٹور پرائم‬
‫لوکیشن پے ہونے کی وجہ سے اسکی بہت اچھی آمدن تھی ‪ .‬یوں کل مال‬
‫کے میری الئف اپنے شوہر کے بعد بی بہت اچھی گزرنے لگی ‪ .‬پینشن‬
‫کے ‪ 4200‬روپے ‪ ،‬اپنے گھیر کے پررشن کا کرایہ ‪ 7000‬روپے ‪،‬‬
‫اسٹور کا کرایہ ‪ 10000‬روپے ‪ ،‬چھوٹی گھر کا کرایہ ‪ 3500‬روپے ‪.‬‬
‫‪ 1998‬میں اتنی انکم اپر مڈل کالس کے لوگوں کی ہوتی تھی ‪ .‬عامر کی‬
‫‪ .‬امدان اِس کے عالوہ جو کے یقینا ً ‪ 15000‬کے لگح باغ ہوتی تھی‬
‫عامر کو میرے گھیر شفٹ ہوئے ابی ‪ 3‬ماہ ہوئے تھے ‪ ،‬میں نئے اپنی‬
‫کش ذاتی نوییات کی چیزیں خاریدنی تھی جس کے لیے بازار جانا تھا‬
‫‪ .‬میں ‪ :‬عامر کل مجھے بازار لے جاؤ گے کچھ اپنی چیزیں لینی ہاں‬
‫بھائی ‪ :‬اچھا باجی میں کل دوپہر کو عمران بھائی سے چھٹی لے کے آ‬
‫‪ .‬جاؤں گا ِپھر چلے چلیں گے‬
‫میں ‪ :‬اگر تم کہو تو عمران بھائی کو میں فون کر کے کہہ دوں ؟‬
‫بھائی ‪ :‬نہیں باجی اسکی ضرورت نہیں ہے ‪ .‬ویسے میرے کمرے کی‬
‫الماری میں کچھ چیزیں پڑی ہاں ‪ ،‬ان سے میں اگر کوئی آپ کے کام اے‬
‫‪ .‬تو لے لینا ‪ .‬باقی لسٹ بنا لینا ہم بازار سے لے آئیں گے‬
‫عامر کے جانے کے بعد میں اس کے کمرے کی صفائی کر رہی تب‬
‫میرے ذہن میں اسکی الماری چیک کرنے کا خیال آیا ‪ .‬میں نئے الماری‬
‫ہیر ریموونگ کریم کے جار ‪2 2 ،‬کھولی تو اندر ایک کھانے میں‬
‫پیکٹ پیدز اور کچھ الرج سائز کی پینٹیز پڑی تھی ‪ .‬ان سب کے اُوپر‬
‫ایک لیٹر بی پرا تھا ‪ .‬میں پڑی لکھی ہوں اِس لیے شاید عامر نے میرے‬
‫لیے ہے رکھا تھا ‪ .‬میں نئے لیٹر کھوال تو اس میں یہ لکھا ہوا تھا‬

‫پیاری باجی ‪“ ،‬‬


‫آپ آدت کی وجہ سے باہر آ جا نہیں سکتی تھی اِس لیے آپ کی ضرورت‬
‫کی یہ چیزیں میں نے گھر میں ال کے رکھ لی ‪ .‬تا کہ آپکو جب بی‬
‫ضرورت پڑے آپ استعمال کر سکیں ‪ .‬میری یہ جرات اگر بری لگے تو‬
‫اور اگر اِس کے عالوہ ‪ .‬اسی کاغذ کی پچھلی طرف لکھ کے رکھ دیں‬
‫اسی طرح کی کسی چیز کی زرورت ہو تو وہ بی لکھ دیں میں ال ڈون گا‬
‫‪ ،‬اِس الماری کو وقتا فوواقتان چیک کرتی رہا کریں ‪ .‬جو باتیں سامنے‬
‫نہیں ہو سکیں گی وہ اِس الماری میں پڑے کاغذ پے کر سکیں گے ‪ .‬اپکا‬
‫”بھائی‬

‫مجھے اپنے بھائی کی یہ جرت بری نہیں لگی ‪ .‬میں نے اس کاغذ کے‬
‫پچھلی طرف صرف شکریہ لکھ کے رکھ دیا ‪ .‬ویسے تو ہم دونوں آپس‬
‫میں کافی فرینک تھے لیکن ذاتی قسم کی باتوں کو لے کبھی کوئی بات‬
‫نہیں ہوئے تھی ‪ .‬اسے آپ پردہ ‪ ،‬شرم یا ضرورت کا نا ھونا کہہ سکتی‬
‫ہیں ‪ .‬میں نے وہاں سے وہ ساری چیزیں اٹھا لی اور اپنی الماری میں‬
‫رکھ لی ‪ .‬اگلے دن عامر جب اسٹور پے جانے لگا تب میں نئے اسے یاد‬
‫دالیا کے آج بازار جانا ہے ‪ .‬گرمی کا موسم اپنی عروج پے تھا اِس لیے‬
‫‪ .‬شام کو ‪ 6‬بجای عامر گھر آیا اور مجھے ساتھ لے کے بازار چال گیا‬
‫میں نئے کچھ اپنے اور اپنی بیٹی کے کپڑے لیے وہیں ایک اچھا سا‬
‫شلوار قمیض بھائی کے لیے بی لے لیا ‪ .‬بازار میں مجھے ایک انڈر‬
‫گارمنٹس کی دکان نظر آئی میں وہاں رکی لیکن ِپھر یہ سوچ کے دوبارہ‬
‫چل پڑی کے اب میرے ساتھ میرا شوہر نہیں بلکیح میرا بھائی ہے ‪.‬‬
‫عامر نئے شاید اِس بات کو محسوس کر لیا لیکن وہ کچھ نہیں بوال ‪.‬‬
‫‪ .‬مجھے گھر چھوڑ کے وہ خود اسٹور پے چال گیا‬
‫دن نارمل ہے گزر گے ‪ 2 .‬دن بعد میں عامر کے کمرے کی صفائی ‪2‬‬
‫کر رہی تھی تو اچانک مجھے اسکی الماری چیک کرنے کا خیال آیا ‪.‬‬
‫‪ .‬میں نئے الماری کھولی تو وہاں آج ِپھر ایک نیا لیٹر پڑا تھا‬

‫پیاری باجی “‬
‫مجھے افسوس ہے کہہ آپ میری وجہ سے اپنی پسند کی انڈر گارمنٹس‬
‫اگھر مجھے آپ کے سائز کا پتہ ہوتا تو اب تک کچھ ‪.‬نہیں خرید سکی‬
‫گارمنٹس اِس الماری میں ہوتے ‪ .‬ویسے آپ کو ججکنے کی ضرورت‬
‫نہیں ہے ‪ .‬یہ باتیں صرف ہم دونوں کے درمیاں ہی رہیں گی ‪ .‬آپ مجھ‬
‫” ‪ .‬پے اعتبار کر سکتی ہیں‬

‫نا جانے مجھے عامر کی یہ حركت بری نہیں لگی ‪ .‬نا چاہتے ہوئے بھی‬
‫پہلے میں نئے اسی کاغذ کے پیچھے اپنا سائز ( ‪34‬سی ) لکھا لیکن پِھر‬
‫وہ پیپر پھاڑ کے پھینک دیا ‪ .‬کچھ دن ایسے ہے گزر گے ‪ .‬عامر سنڈے‬
‫کو چھوٹی کرتا تھا اور عمران بھائی فرائیڈے کو ‪ .‬استرحا اسٹور ‪ 7‬دن‬
‫کھال رہتا تھا ‪ .‬ہم دونوں بہن بھائی ہر فرائیڈے کو کسی نا کسی کے گھر‬
‫جاتے ‪ .‬استرحا ہمارا ملنا جلنا سب رشتے دارون کے ساتھ اچھا چل رہا‬
‫پارک‬
‫پارک وغیرہ میں بی جاتے ‪ ،‬عامر میرے ساتھ بیٹھ کے ْ‬ ‫تھا ‪ .‬ہم ْ‬
‫میں آنے والی لڑکیوں بھی بی غور لیتا ‪ .‬میں صرف مسکرا کے دیکھتی‬
‫اور کبھی کبھی پوچھ لیتی کون سی اچھی لگ رہی ہے ‪ .‬اِس سے ذیادہ‬
‫کبھی ہماری ڈائریکٹ بات نہیں ہوئے تھی ‪ .‬ایک ہفتے کے بعد میں نئے‬
‫عامر سے کہا مجھے عمران بھائی کے گھر چھوڑ دے تا کہ میں بھابھی‬
‫کے ساتھ بازار سے کچھ چیزیں لے لوں ‪ .‬عامر مجھے بھائی کے گھر‬
‫‪ .‬چھوڑ گیا ‪ ،‬میں بھابھی کے ساتھ بازار گئی اور ‪ 2‬برا لے لین‬
‫اگلے دن بھائی کے کمرے کی صفائی کرتے ہوئے ایسے ہے میں نئے‬
‫‪ .‬الماری کھولی تو اندر ‪ 3‬برا پڑی تھی اور ساتھ میں ایک لیٹر‬

‫پیاری باجی ‪ ،‬مجی سائز کا تو پتہ نہیں تھا اِس لیے ‪ 3‬سائزس میں برا “‬
‫” ‪ .‬لے آیا ہوں ‪ .‬جو آپ کو پوری ہو لے لیں‬
‫تحریر پڑھ کے بے آختیار میرے ہونٹوں پے مسکراہٹ پھیل گئی ‪ .‬میں‬
‫نئے تینوں برا اٹھا لی لیکن جواب میں کچھ نہیں لکھا ‪ .‬اگلے دن میں نئے‬
‫دوبارہ الماری کھولی تو وہاں ِپھر سے ایک نیا لیٹر پڑا تھا ‪“ .‬پیاری‬
‫باجی پتا نہیں آپ نئے غصے سے تینوں برا اُٹھائی ہاں یا چیک کرنے‬
‫کے لیے ‪ .‬برای مہربانی ‪ 2‬مجھے واپس کر دیں ‪ ،‬میں نئے دوکاندار کو‬
‫واپس کرنی ہے ‪ .‬سہی سائز کا پتہ نا ہونے کی وجہ سے ‪ 3‬سائزس میں‬
‫لے آیا تھا ‪” .‬اگھر یہ حركت بری لگی ہو تو تینوں رکھ لیں ‪ .‬خط کے‬
‫جواب کا انتظار رہے گا تا کہ میں دوکاندار کو پیسے دے سکون‬
‫عامر کا لیٹر پڑھ کے میرے ہونٹوں پے ایک بار ِپھر مسکراہٹ آ گئی ‪.‬‬
‫میں اپنے کمرے میں گئی اور ‪ 36 / 32‬کے دونوں پیسز ال کے واپس‬
‫‪ .‬الماری میں رکھ دیی ‪ .‬اور اسی کاغذ کے پیچھے لکھا‬
‫بھائی اتنی زحمت کرنے کی ضرورت نہیں ‪ ،‬میں بھابی کے ساتھ جا “‬
‫”کے یہ سب لے آئی تھی ‪ ،‬ویسے تمھارا بہت شکریا‬
‫باقی کی الئف تو نارمل ہی گزر رہی تھی ‪ ،‬وہی سونا ‪ ،‬كھانا پینا ‪،‬‬
‫رشتیدارون کے گھر انا جانا وغیرہ ‪ ،‬لیکن اب اِس میں ان لیٹرز کا اضافہ‬
‫ان لیٹرز میں کی جانے والی باتیں خالستن میرے اور بھائی ‪ .‬ہو گیا تھا‬
‫میں نئے ‪ 2‬دن کے بعد دوبارہ سے بھائی کی الماری ‪ .‬کے درمیاں تھی‬
‫دیکھی تو وہاں ‪ 2‬لیٹرز پڑے تھے ‪ .‬ایک پے میری پچھلی رائٹنگ کے‬
‫اور دوسری میں لکھا تھا ‪ .‬نیچے “واپیسی کا شکریا” لکھا ہوا تھا‬

‫پیاری باجی کیا میں گھر میں نیکر پہن سکتا ہوں ‪ ،‬صرف نیکر ‪“ .‬‬
‫گرمی بہت ہے اِس لیے پوچھا ہے ‪ .‬اگر نا مناصب سمجھیں تو منا کر‬
‫” ‪ .‬دیں ‪ .‬مجھے برا نہیں لگے گا‬
‫یہ پڑھ کے میں مسکرای اور پین اٹھا کے اس پیپر کی پیچھے لکھا‬
‫پیحن کے ِپھر سکتے ہو ‪ .‬اگر اس میں بھی پروبلم ہو تو وہ بھی اُتار “‬
‫” ‪ .‬سکتے ہو ‪ .‬ہی ہی ہی ‪ .‬لیکن ماہا ( میری بیٹی ) کے سامنے نہیں‬

‫جب سے گرمیاں شروع ہوئیں تھی میں بھی گھر میں بنا ڈپٹی کے ہی‬
‫عامر رات کو اپنے کمرے میں نیکر پہن کے ریلکس ماحول ‪ .‬رہتی تھی‬
‫میں رہتا ‪ .‬اسکی نیکر کافی چوٹی ہوتی تھی بس آدھی رانو تک ‪ .‬لیکن‬
‫وقت اپنی رفتار سے گزر رہا تھا ‪ .‬ہفتے ‪ .‬مجھے کوئی پروبلم نہیں تھی‬
‫میں ایک یا دو دفعہ مجھے عامر کی الماری سے لیٹرز مل جاتے ‪ .‬میں‬
‫بی اسی مستی میں ان کا جواب لکھ دیتی جس مستی میں وہ لیٹر لکھتا ‪.‬‬
‫پارک میں ‪ .‬ان لیٹرز میں اکسر عامر میرا شکریہ کر رہا ہوتا‬
‫کبھی ْ‬
‫لیٹرز ‪ .‬پونڈی کرنے پے تو کبھی میری کسی سہیلی کے گھر جانے پے‬
‫کے ساتھ کبھی کبھی میرے لیے کوئی گفٹ بی ہوتا ‪ ،‬برا پینٹی ‪ ،‬ہیر‬
‫ریموونگ کریمس اور پیدز بنا مینگے مل رہے تھے ‪ .‬مجھے اِس بات‬
‫پے کوئی اعتراض بھی نہیں تھا کیوں کے یہ باتیں صرف لیٹرز کی حد‬
‫تک تھی بلکیح اگر مجھے کوئی چیز پسند نا آتی تو میں جوابی لیٹر میں‬
‫‪ .‬لکھ دیتی اور عامر اسے چینج کرا دیتا‬
‫اوکتوبر‪ 1998-‬میں میرے سسرال میں ایک شادی تھی جہاں میں عامر‬
‫کو ساتھ لے گئی ‪ .‬اس شادی سے واپس آنے کے اگلے دن الماری میں‬
‫‪.‬لیٹر تھا جس میں لکھا تھا‬

‫باجی کل آپ سج سنور کے بہت پیاری لگ رہی تھی ‪ .‬آپ میری بہن ہو‬
‫مجھے تو پیاری ہی لجو گی لیکن باقی لوگ بی آپ کو بہت گھور سے‬
‫‪ .‬دیکھ رہے تھے جسکا مطلب آپ واقعہ بہت پیاری لگ رہی تھی‬

‫یہ پڑھ کے میں نئے اس لیٹر کے جواب میں لکھا‬


‫میں ‪“ :‬مجحی بتاؤ میں کتنی خوبصورت لگ رہی تھی ؟ بھائی کی نظر‬
‫سے نہیں عام لوگوں کی نظر سے بتانا اور سچ سچ ‪ ،‬مسکی بازی کی‬
‫” ‪ .‬ضرورت نہیں‬

‫بھائی ‪ :‬آپکی آنکھوں کا کاجل آپ کی طرف کھینچ رہا تھا ‪ .‬اور آپ کے‬
‫گالبی ہونٹ نظر نہیں حتانی ڈے رہے تھے ‪ .‬اتنے پرکاشاش چہرے کے‬
‫‪ .‬ساتھ کھلے گلے میں جھانکتی سدول چھا تیان قیامت ڈھا رہی تھی‬
‫عامر کا لیٹر پڑھ کے جہاں مجھے اِس بات کی حیرت تھی کے میرا‬
‫بھائی بھی میری چھا تیان دیکھ رہا تھا وہیں اپنے اندر ایک جوان عورت‬
‫کو انگھرای لیتے محسوس کیا ‪ .‬اِس عورت کو میں اپنے شوہر کی موت‬
‫مجھے عامر کی بات پے غصہ نہیں آیا ‪ .‬کا ساتھ ہے مار چکی تھی‬
‫لیکن اگلے دن میں نئے جان بوجھ کے عامر سے سیدحی منه بات نہیں‬
‫کی ‪ .‬عامر نئے اِس بات کو فورا ً محسوس کر لیا اور جا تے جا تے‬
‫الماری میں لیٹر رکھ دیا‬

‫پیاری باجی مین اپنی بات کی آپ سے معافی چاہتا ہوں ‪ .‬میں نئے آپ “‬
‫کے سوال کا سچ سچ جواب دیا ‪ .‬اگر مجھے پتہ ہوتا آپ ناراض ہو جائیں‬
‫” ‪ .‬گی تو میں کبھی بھی آپکی بات کا سچا جواب نا دیتا‬

‫میں ‪“ :‬بھائی میں ناراض نہیں ہوں ‪ .‬بس اپنے میاں کی موت کے بعد‬
‫مجھے ان باتوں سے لگاؤ ہی نہیں رہا ‪ .‬تمھاری باتیں سن کے مجھے‬
‫صرف اِس بات پے حیرت تھی کے لوگ ایک بیوہ کو بی ایسی نظاروں‬
‫” ‪ .‬سے دیکھتے ہو گے‬

‫بھائی ‪“ :‬باجی آپ اِس دکھ کو اپنی ذات پے حاوی نا ہونے دیا کریں ‪ .‬آپ‬
‫” ‪ .‬بن سنور کے رہا کریں اور زندگی کو اچھے طریقے سے گذاریں‬

‫میں ‪ :‬بن سنور کے اپنی چھا تیان نکال رکھا کروں ‪ .‬ہی ہی ہی ‪ .‬ایک‬
‫‪ .‬بیوہ عورت کو یہ سب زیب نہیں دیتا‬

‫سندر لگتی ہاں‬


‫‪ .‬بھائی ‪ :‬باجی چھا تیان نکالے بنا بی آپ بہت ُ‬

‫میں ‪ :‬اور اگر ساتھ میں چھا تیان بھی نکل لوں تو … ‪ ( .‬نا چاہتے ہوئے‬
‫بی میں آگے بڑھ رہی تھی )‬

‫‪ .‬بھائی ‪ :‬اگر میں کچھ کہوں گا تو آپ کو برا لگے گا‬

‫‪ .‬میں ‪ :‬نہیں لگتا ‪ ،‬تم جو سمجھتے ہو وہ بتا دو‬

‫بھائی ‪ :‬آپ کی چھا تیان قیامت ہاں ‪ .‬بہت پرکاشاش اور جاز بے نظر ‪.‬‬
‫‪ .‬جو کوئی ایک بار دیکھ لی تو بس دیکھتا ہے رہ جائے‬
‫عامر کی اِس بات نے میرے تن بدن میں آگ لگا دی تھی ‪ .‬میرا ہاتھ خود‬
‫بخود اپنے ممون پے چال گیا ‪ .‬میں نے اپنی ممون کی گھوالیون کا اپنے‬
‫ھاتھوں سے احاتا کیا ‪ .‬ساتھ ہے مجھے یاد اینی لگا کیسے میرا شوہر‬
‫انسی کھیلتا تھا اور میں اِس کھیل سے کتنا لطف اندوز ہوتی تھی ‪ .‬رات‬
‫کے ‪ 10‬بج رہے تھے ‪ .‬اتنے میں عامر آ گیا ‪ .‬اس کی آمد نئے مجھے ان‬
‫خیالون سے بھی نکاال ‪ .‬میں عامر کو كھانا دی کے اپنے کمرے میں آ‬
‫گئی ‪ .‬میری سوچ کا محور اب بھی اپنے ممے اور آن سے جرا مزہ تھا ‪.‬‬
‫بستر پے کروٹیں بدلتے بدلتے ‪ 12‬بج چکے تھے ‪ .‬میرے دماغ نئے‬
‫مجھے اِس بات پے آمادہ کیا کہ عامر اب تک سو چکا ہو گا لہذا میں اب‬
‫بال خوفو خطر آگے بڑھ سکتی ہوں ‪ .‬اِس سوچ کے تحت من نئے اپنی‬
‫قمیض کھینچ کے اپنے ممون سے اُوپر کر لیا ‪ .‬ایک بار برا کے اُوپر‬
‫پِھر برا کی ہوک کھول کے اپنے سدول ‪ .‬سے ہے اپنے ممے سیحالی‬
‫ممے ہوا میں آزاد کر دیای ‪ .‬میرے کمرے میں ایک چھوٹا بلب روشن تھا‬
‫جو کے ایک معمول کی بات تھی ‪ .‬گھڑی پے نظر ڈالی تو ‪ 12 : 30‬کا‬
‫اِس لیے ‪ .‬وقت تھا ‪ .‬مجھے یقین تھا عامر اِس وقت بیخبر سو رہا ہو گا‬
‫میں اینی اپنی شلوار بی اُتار ڈی ‪ .‬اب میں اپنے خیالون من کھوئے ہوئے‬
‫ایک ہاتھ سے اپنے ممے سہال رہی تھی اور دوسرے ہاتھ کی انگلی سے‬
‫اپنی پھدی کا دانہ ‪ .‬میری آنکھیں بند تھی اور خیالون من اپنی شادی شدہ‬
‫زندگی کے ‪ 5‬سالوں کی داستان چل رہی تھی ‪ .‬آدھا گھنٹہ اسی کھیل میں‬
‫مشگھول رہنے کی وجہ سے میرا بدن اکرنے لگا اور ساتھ ہی میری‬
‫میں کافی دیر تک ایسے ہے لیتی ‪.‬پھدی نئے پانی کا سیال بی اگل دیا‬
‫سکون کے سانس لیتی رہی ‪ِ .‬پھر میں اٹھی اور اپنے کپڑے پہن کے سو‬
‫‪ .‬گئی ‪ .‬پہلے پہل میں کبھی کبھی ایسا کرتی لیکن پِھر یہ روز ہونے لگا‬
‫دن یونہی گزر رہے تھے ‪ .‬عامر اپنے لیٹرز میں کبھی کسی عورت کی‬
‫بُنڈ تو کبھی کسی کے ممون کی باتیں کرتا ‪ .‬میں بھی ان باتوں کا مزا‬
‫لیتی اور رات کو اپنے بستر پے خود کا ان اورتون کے ساتھ مقابال کرتی‬
‫‪ .‬میں اِس بات سے بے خبر تھی کہ عامر نا صرف سب کچھ جان چکا‬
‫ہے بلکیح مجھے بہت بار دیکھ بھی چکا ہے ‪ .‬اِس بات کا پتہ مجھے‬
‫اسکا لیٹر پڑھ کے ہوا‬
‫بھائی ‪ :‬باجی مجھے آپ سے ایک خاص بات پوچنی ہے ‪ .‬آپ ناراض تو‬
‫نہیں ہونگی میں ‪ :‬ناراض نہیں ہوں گی تم جو چاہو پوچھ لو‬
‫بھائی ‪ :‬باجی بات تھوڑی زیادہ ہی خاص اور ذاتی قسم کی ہے‬

‫میں ‪ :‬زیادہ سے زیادہ میرے ممون کے بارے میں ہے پوچھو گے ‪.‬‬


‫‪ .‬مجھے برا نہیں لجی گا‬

‫بھائی ‪ :‬باجی میں کافی دنوں سے دیکھ رہا ہوں آپ جنسی طور پے بہت‬
‫‪ .‬بیچین ہیں ‪ .‬مجھے سمجھ نہیں آ رہی کہ میں آپ کی کیسے مد کروں‬

‫عامر کی بات سے مجھے ایک زوردار جھٹکا لگا ‪ .‬لیکن اِس کے‬
‫‪ .‬باوجود میں نے جواب لکھا‬

‫میں ‪ :‬تم نئے کب دیکھا ؟ اور تم میری کیا مد کرو گے ؟‬

‫بھائی ‪ :‬باجی دیکھ تو میں کافی دنوں سے رہا ہوں ‪ .‬اسی لیے تو سوچ‬
‫‪ .‬سوچ کے پاگل ہو رہا ہوں کے آپ کی کیسے مدد کروں‬
‫‪ .‬میں ‪ :‬تم کیا فضول باتیں کر رہے ہو ؟ میری سمجھ میں کچھ نہیں آ رہا‬
‫عامر کی بات میں سمجھ چکی تھی لیکن مزید تشریح کے لیے (‬
‫) دحرکتے دِل کے ساتھ ِپھر سے جواب لکھ دیا‬

‫بھائی ‪ :‬باجی میں کافی راتوں سے آپ کو جنسی طور پے بیچین دیکھ رہا‬
‫‪ .‬ہوں ‪ .‬آپ کو بیچین دیکھ کے میرا دِل جلتا ہے‬
‫آپ کتنی اذیت سے گھزرتی ہیں اور میں سوائے آپ کو دیکھنے کے‬
‫‪ .‬کچھ نہیں کر پا تا‬
‫میں ‪ :‬اوہ تو تم مجھے ننگا دیکھتے ہو ؟‬

‫بھائی ‪ :‬جی باجی ‪ .‬آپ جسمانی طور پے تو ننگی ہو سکتی ہیں لیکن میں‬
‫جانتا ہوں آپ ذہنی طور پے کبھی ننگی نہیں ہو سکتی ‪ .‬حماری ماں باپ‬
‫‪ .‬کی تربیت ہی ایسی ہے‬
‫میں ‪ :‬تو تم میری کیا اور کیسے مداد کرو گے ؟‬

‫بھائی ‪ :‬یہی تو سمجحنے سے قا ثر ہوں ‪ .‬صرف ایک بات ذہن میں آتی‬
‫‪ .‬ہے کہ آپ کی شادی کرا دون‬

‫‪ .‬میں ‪ :‬نہیں ‪ ،‬مجھے شادی نہیں کرنی ‪ .‬میری بچی رل جائے گھی‬

‫بھائی ‪ :‬باجی ‪ ،‬شادی سے آپ کو ایک مرد کا ساتھ مل جائے گا جو آپ‬


‫‪ .‬کو جنسی طور پے بھی خوش رکھے گا اور ماہا کا بھی خیال رکھے گا‬

‫‪ .‬میں ‪ :‬نہیں مجھے شادی نہیں کرنی ‪ .‬میں ایسے ہی ٹھیک ہوں‬

‫بھائی ‪ :‬باجی ایسے تو آپ کو ذہنی پریشانی رہے گی اور آپ کی جسمانی‬


‫‪ .‬ضرورت بی پوری نہیں ہوا کرے گی‬

‫میں ‪ :‬مجھے کوئی پریشانی نہیں ہے ‪ .‬رہی بات جسمانی ضرورت کی تو‬
‫‪ .‬وہ میں خود ہے پوری کر لیا کروں گی‬

‫عامر کو میں نئے جواب تو دی دیا لیکن اِس بات کا احساس مجھے بَ ْعد‬
‫میں ہوا کہ میں نئے اس کے سامنے اپنی جنسی ضرورت کا اقرار کر لیا‬
‫ہے ‪ .‬خیر اب کیا ہو سکتا تھا ‪ .‬اِس کے بَ ْعد تو جیسے میں ڈھیٹ سی ہو‬
‫سم سے‬ ‫گئی تھی ‪ .‬اکثر مجھے رات کو جب نیند نا آتی تو میں اپنے ِج َ‬
‫انداز کر دیتی‬
‫ِ‬ ‫کھیلنے لگ جاتی ‪ .‬اِس دوران میں اِس بات کو بالکل نظر‬
‫بلکیح اکثر عامر مجھے دیکھ رہا ہوتا ‪ .‬کہ عامر مجھے دیکھ رہا ہو گھا‬
‫‪ .‬تھا بس میں انجان بنی رہتی‬
‫کچھ دن بَ ْعد عامر کی الماری میں لیٹر کے ساتھ ایک دبا رکھا ہوا تھا ‪.‬‬
‫میں نئے لیٹر اٹھایا تو اس میں لکھا تھا‬
‫باجی مجھے غلط نا سمجین ‪ ،‬اِس دبے میں جو ہے میں آپ کے لیے “‬
‫صرف یہی کر سکتا ہوں ‪ .‬اِس سے آپ کی ضرورت بھی پوری ہو جائے‬
‫” ‪ .‬گھی اور كفی حد تک ذہنی پریشانی بھی‬
‫میں پر تجسوس ہو کے اس دبے کی پیکنگ کھولی اور جیسے ہے دبے‬
‫کے اندر نظر پڑی میرا رنگ اُڑ گیا ‪ .‬اس دبے میں ‪ 2‬دلدو پڑے تھے ‪.‬‬
‫‪ .‬ایک سلیکون کا اور ایک شیشے کا‬
‫اِس کے ساتھ ایک اور پرچی پڑی تھی جس پہ لکھا تھا “باجی میں آپ‬
‫کے لے مرد تو نہیں ال سکتا تھا لیکن مرد کا ازو لے آیا ہوں تاکہ آپ کی‬
‫” ‪ .‬جنسی ضرورت پوری ہو سکے‬

‫دونوں تھریرین پڑھ کے میں کافی دیر تک وہیں بیٹھی یہ سوچتی رہی‬
‫کے اِس دبے کو لے جاؤں یا رحنے دوں ‪ .‬میرے دِل اور دماغ میں ایک‬
‫بالخر میں اِس نتجے پے پونحچی کے ایک ‪ .‬جھنگ سی چل رہی تھی‬
‫میں وہیں عامر کے بیڈ پہ بیٹھ ‪ .‬بار ٹرائی کر کے واپس رکھ دوں گی‬
‫گئی اور آنکھیں بند کر کے اپنے شوہر کے لنڈ کے بارے میں سوچنے‬
‫لگی ‪ .‬آہستہ آہستہ میرے ہاتھ اپنے ممون اور پھدی پے چلے گے ‪ .‬میں‬
‫نے اپنی قمیض اوپر کر کے ممے ننگے کی اور شلوار کھسکا کے‬
‫گھٹنوں تک کر لی اور اپنے ممے اور پھدی سہالنے لگی ‪ .‬جب میں‬
‫گھرم ہو گئی تو میں نے شیشے کا لنڈ اٹھایا اور اپنی پھدی پہ پھیر نے‬
‫لگی ‪ .‬مجھے نشہ سا ہو رہا تھا ‪ .‬اسی نشے میں میں نے لنڈ کو اپنی‬
‫پھدی میں گھسا لیا اور اندر باہر کر کے مزہ لینے لگی ‪ .‬ایک تویل‬
‫منٹ کے کھیل ‪2‬عرصے کے بَ ْعد میری پھدی میں کچھ گیا تھا ‪ .‬میں‬
‫سے ہی فارغ ہو گئی ‪ .‬پرسکون ہونے کے لے میں ایسے ہے لیتی رہی ‪.‬‬
‫شیشے کا لنڈ ابھی بھی میری پھدی میں ہی تھا ‪ .‬جب میں نے لنڈ باہر‬
‫نکاال تو میرا دِل کیا اسے دوبارہ اندر لے لوں ‪ .‬میں نے اب سلیکون واال‬
‫لنڈ ٹرائی کرنے کا سوچا ‪ .‬میں نے اپنی ٹینجن موڑ کے ایک ہاتھ سے‬
‫پکڑ لی اور بالکل وہی اسٹائل بنا لیا جس طرح میرا شوہر مجھے چودتا‬
‫تھا ‪ .‬دوسرے ہاتھ سے میں نے سلیکون واال لنڈ اٹھایا اور اپنی پھدی میں‬
‫گھسانے لگی ‪ .‬مجھے ایسا لگ رہا تھا جیسے میں جنت میں ہوں ‪ .‬بہت‬
‫سرور اور نشہ تھا ‪ .‬کافی دیر تک مزہ لیتی رہی میں اب تک ‪ 2‬باڑ فارغ‬
‫ہو چکی تھی ‪ .‬اتنے میں ماہا کے رونے کی آواز آئی وہ سو کے اٹھ‬
‫چکی تھی ‪ .‬اِس لیے میں نے اپنے کپڑے درست کی اور دونوں لنڈ دیبے‬
‫‪ .‬میں رکھ کے اپنے ساتھ ہی لے آئی‬
‫اس دن جب عامر گھر آیا تو میں نے اس سے کوئی بات نہیں کی ‪ .‬ہتا کہ‬
‫بہت ضروری باتیں کرنے سے بھی گھریز کیا ‪ .‬اگلے دن عامر کی‬
‫‪ .‬الماری میں نیا لیٹر پڑا تھا جس پے لکھا تھا‬

‫بھائی ‪ :‬باجی کیا آپ مجھ سے ناراض ہیں ؟‬

‫! میں ‪ :‬میں تم سے کیوں ناراض ہوں گی‬

‫بھائی ‪ :‬تو پھر آپ مجھ سے سہی سے بات کیوں نہیں کر رہی ؟‬

‫میں ‪ :‬بس ویسے ہے ‪ .‬یہ بتاؤ تم نے جو چیزیں مجھے ڈی ہیں وہ کھا ں‬


‫‪ .‬سے اور کتنے کی لی ہیں‬
‫بھائی ‪ :‬باجی ‪ ،‬حماری اسٹور پے ایک سیلز میں آتا ہے ‪ ،‬میں نے اس‬
‫سے کہا تھا ہماری ایک گاہک کو چاہئے ‪ .‬اس نے ‪ 1500‬میں یہ دونوں‬
‫‪ .‬ال کے دے دے‬

‫میں ‪ :‬فضول چیزوں پے اتنے پیسے خرچ کرنے کی کیا ضرورت تھی‬
‫؟‬

‫بھائی ‪ :‬کام کی چیزیں فضول تو نہیں ہوتی ‪ .‬اگر آپ کو کوئی ناپسند ہے‬
‫‪ .‬تو واپس کر دیں ‪ .‬دونوں رکھنا چاہیں تو دونوں رکھ لیں‬

‫‪ .‬میں ‪ :‬اچھا سوچوں گی اِس بارے میں‬

‫‪ .‬بھائی ‪ :‬باجی ایک بیٹ کہنی ہے‬

‫‪ .‬میں ‪ :‬ہاں کہو‬

‫بھائی ‪ :‬باجی ‪ ،‬نومبر کا آخری ہفتہ چل رہا ہے ‪ .‬سردی بہت بڑھ گئی ہے‬
‫‪ .‬اب کمرے کا دروازہ بند کر لیا کریں ‪ .‬اتنی سردی میں کپڑے اُتار کے‬
‫‪ .‬لیٹنے سے آپ بیمار ہو جائیں گی‬

‫میں ‪ :‬دروازہ بند کر لوں گی تو تمہیں کیسے پتہ چلے گا اندر تمھاری‬
‫‪ .‬بہن کیا کر رہی ہے‬
‫بھائی ‪ :‬مجھے کوئی فرک نہیں پڑتا ‪ .‬ایک تو مجھے پتہ ہے آپ کیا‬
‫‪ .‬کریں گی اور دوسرا آپ میری بہن ہیں‬

‫میں ‪ :‬فرک تو پڑے گا ‪ .‬ابھی ایک ننگی عورت دیکھنے کو مل جاتی ہے‬
‫‪ .‬دروازہ بند ہو گھا تو ِپھر یہ نظارے کھا ں دیکھنے کو ملین گے‬

‫بھائی ‪ :‬باجی ایسی باتیں نا کریں ‪ .‬مجھے جب طلب ہو گی تو میں کسی‬


‫‪ .‬اور کو دیکھ لوں گا‬

‫میں ‪ :‬کوئی اور تمہیں کچھ نہیں دکھا ئے گی ‪ .‬ایک بات پوچھوں سچ سچ‬
‫‪ .‬بتانا‬

‫‪ .‬بھائی ‪ :‬باجی آپ کچھ بھی پوچنے کا حق رکھتی ہں‬

‫میں ‪ :‬اورت کی سب سے چھپی ہوئی چیز اسکی پھدی ہوتی ہے اور تم‬
‫سم کیسا‬‫میری پھدی دیکھ چکے ہو ‪ .‬سچ سچ بتاؤ کیسی لگی ؟ اور باقی ِج َ‬
‫) لگا ؟ ( میں نے لفظ پھدی جان بوجھ کے استعمال کیا تھا‬

‫بھائی ‪ :‬باجی سچ بولنے لگا ہوں ‪ .‬آپ ناراض نا ھونا ‪ .‬باجی آپ بہت‬
‫خوبصورت ہو ہر لحاظ سے ‪ .‬جتنی آپ اُوپر سے پیاری ہیں اتنی ہی‬
‫نیچے سے بھی ‪ .‬آپ کے ممے بہت پرکشش ہیں ‪ .‬آپکی پھدی بالوں کی‬
‫بغیر تو قیامت لگتی ہے ‪ .‬اور جب آپ الٹی لیٹتی ہیں تو آپ کی بُنڈ پے‬
‫‪ .‬اتنا پیار آ تا ہے کہ دِل چاہتا ہے فورا ً چوم لیا جائے‬
‫میں ‪ :‬تو چوم لیتے تمھارا کسی نئے ہاتھ تو نہیں پکڑا تھا یا تمہارے‬
‫‪ .‬ہونٹوں پے چومنے کی پابندی ہے‬

‫بھائی ‪ :‬باجی آپ میری بہن ہیں ‪ .‬اگھیر آپ کی جگھا کوئی اور ہوتی تو‬
‫‪ .‬اب تک ناجانے کیا کچھ ہو جاتا‬

‫ان سب باتوں میں ‪ 10‬سے زیادہ دن گزر گے تھے ‪ .‬مجھے بھی اب‬
‫عامر سے جنسی باتیں کرنے میں مزہ آنے لگا تھا ‪ .‬اِس دوران ہم نے‬
‫اپنے خاندان کی تقریبا ً ہر عورت کے بارے میں گندی باتیں کی ‪ .‬انکی‬
‫پھد یون کے بارے میں اندازے لگائے ‪ .‬کون کب اور کیسے ُچدواتی‬
‫ھوگی ‪ ،‬اِس ٹاپک پے خود خیالی کی ‪ِ .‬پھر ایک دن عامر نے وہ بات‬
‫بھی پوچھ لی جسکی مجھے کافی دنوں سے توقع تھی‬

‫بھائی ‪ :‬باجی کیا آپ نے ٹرائی کیا ؟‬

‫میں ‪ :‬کیا ٹرائی کرنا تھا ؟‬

‫‪ .‬بھائی ‪ :‬وہی جو میں نئے آپ کو دیا تھا‬

‫میں ‪ :‬اچھا وہ جو ‪ 2‬لنڈ دیے تھے ‪ .‬وہ کہا ں پے ٹرائی کرنے تھے ؟ (‬
‫میں نے جان بوجھ کے اسے تنگ کرنے کے لیے لکھ دیا )‬
‫بھائی ‪ :‬باجی جس چیز کے سکون کے لیے بنے ہیں اسی میں لے کے‬
‫‪ .‬ٹرائی کرنا تھا‬
‫‪ .‬میں ‪ :‬ٹرائی بھی کی اور مزے بھی لی رہی ہوں‬
‫بھائی ‪ :‬آپ کو کونسا زیادہ پسند ہے ؟‬
‫‪ .‬میں ‪ :‬مجھے تو اصلی واال پسند ہے‬
‫بھائی ‪ :‬اصلی تو سب کو ہی پسند ہوتا ہے ‪ .‬آپ بتائیں شیشے واال پسند آیا‬
‫‪ .‬یا سلیکون واال‬
‫میں ‪ :‬اوہ اچھا تو تمہیں بھی اصلی پسند حی…تم بھی ایسے ہو ‪ .‬ہی ہی‬
‫حی… ‪ .‬ویسے مجھے دونوں پسند اے ‪ ،‬میں دونوں کے ساتھ کھیلتی‬
‫‪ .‬ہوں‬
‫بھائی ‪ :‬باجی میں ایسا نہیں ہوں ‪ .‬اس کا مطلب ہے میں آپ کے لیے سہی‬
‫‪ .‬چیز الیا ہوں‬
‫میں ‪ :‬بھائی چیز تو سہی الئے ہو لیکن اپنے ہاتھ سے پھدی کا پانی تو‬
‫‪ .‬نکل جاتا ہے لیکن پوری تسلی نہیں ہوتی‬
‫بھائی ‪ :‬باجی جو آدمی اپنا ہاتھ دے گھا وہ ساتھ ہی ساتھ اپنا لنڈ بھی دے‬
‫دے گھا ‪ .‬اِس لیے کسی پے اعتبار نہیں کیا جا سکتا‬
‫‪ .‬میں ‪ :‬مجھے یقین ہے تم اس کا بھی کوئی نا کوئی َحل نکا ل لو گے‬
‫بھائی ‪ :‬باجی ‪ ،‬اِس کام کے لیے بہت اعتباری آدمی چاہئے جس پے نا‬
‫‪ .‬ح مجھے بھی اعتبار ہو‪s‬صرف آپکو اعتبار ہو بلک‬
‫میں ‪ :‬مجھے تو دنیا میں ایسا کوئی آدمی نظر نہیں آ رہا جس پے ایک‬
‫‪ .‬ہے وقت میں ہم دونوں اعتبار کر لیں‬
‫بھائی ‪ :‬ہاں باجی ‪ .‬دنیا میں مجھے بھی کوئی ایسا دکھائی نہیں دیتا ‪ .‬باقی‬
‫بچتے ہیں ہم دو ‪ .‬اور ہمیں خود پے بھی اعتبار ہے اور ایک دوسرے پر‬
‫‪ .‬بھی‬
‫‪ .‬میں ‪ :‬ہاں مجھے بھی تم پے اعتبار ہے‬
‫‪ .‬بھائی ‪ :‬لیکن باجی میرے لیے یہ کام بہت مشکل ہے‬
‫‪ .‬میں ‪ :‬عامر ایک بات تو بتاؤ‬
‫بھائی ‪ :‬جی باجی پوچین‬
‫میں ‪ :‬تمارا لنڈ کھڑا ہو جائے تو تم کیا کرتے ہو ؟‬
‫‪ .‬بھائی ‪ :‬کرنا کیا ہے ؟ کچھ بی نہیں کرتا‬
‫‪ .‬میں ‪ :‬تو وہ نارمل کیسے ہوتا ہے‬
‫‪ .‬بھائی ‪ :‬خود ہے نارمل ہو جاتا ہے‬
‫میں ‪ :‬وہ کیسے ؟ میری پھدی تمہارے دے ہوئے ‪ 2 2‬لنڈ سے بھی نارمل‬
‫‪ .‬نہیں ہوتی‬
‫‪ .‬بھائی ‪ :‬باجی وہ لنڈ میرے تو نہیں ہیں‬
‫‪ .‬میں ‪ :‬ہاں تمھارا لنڈ تو تمہارے پا س ہی ہے ‪ .‬ہا ہا ہا‬
‫ہماری ان باتوں میں پُورا دسمبر گزر گیا ‪ .‬اور اب نوبت یہاں تک پہنچ‬
‫چکی تھی کے عامر ڈائریکٹ میری پھدی اور بُنڈ کی باتیں بھی کر لیتا‬
‫تھا ‪ .‬ایک رات میں اپنے کھیل میں مگھن تھی ‪ ،‬کمرے کا دروازہ بند تھا‬
‫‪ .‬مجھے لگا شاید عامر دروازے کے پیچھے سے جھانک رہا ہے ‪ .‬میں‬
‫نے بالکل انجان بن کے اپنا کا ایم جارری رکھا ‪ .‬اگلی صبح عامر کے‬
‫جانے کے بَ ْعد اسکی الماری میں میں نئے لیٹر رکھ دیا جس پے لکھا تھا‬
‫میں ‪ :‬عامر تم رات کو میری کمرے میں اے تھے ؟ خیریت تھی ؟ کسی‬
‫چیز کی طلب ہو رہی تھی ؟‬

‫بھائی ‪ :‬جی باجی آیا تھا ‪ .‬آپ مصروف تھی اِس لیے واپس آ گیا ‪ .‬طلب تو‬
‫کسی چیز کی نہیں تھی بس میری ایک شرٹ نہیں مل رہی تھی ‪ .‬اسکا‬
‫‪ .‬پوچنے آیا تھا‬

‫‪ .‬میں ‪ :‬تو دستک دے کر اندر آ جاتے میں تھوڑی دیر رک جاتی‬

‫بھائی ‪ :‬میں نئے سوچا آپ فارغ ہو جائیں تب ہی اندر جاؤں لیکن آپ کی‬
‫مصروفیت تھوڑی طویل ہو گئی تھی اور مجھے سردی لگنے لگ گئی‬
‫‪ .‬تھی اِس لیے میں واپس اپنے کمرے میں آ گیا تھا‬

‫میں ‪ :‬عامر تم ٹھیک تو ہو نا ‪ .‬ننگی عورت کو دیکھ کے گرمی چرحنے‬


‫‪ .‬کی بجای تمہیں سردی لگ رہی تھی‬

‫‪ .‬بھائی ‪ :‬جی باجی میں ٹھیک ہوں‬

‫میں ‪ :‬تو پِھر کیا ہوا تھا ‪ .‬رکای کیوں نہیں ‪ .‬شو تو پُورا دیکھتے ‪ .‬ہی ہی‬
‫‪ .‬ہی‬
‫بھائی ‪ :‬باجی اگر ‪ 2‬منٹ بھی اور رکتا تو شاید ِپھر واپس جانے کے‬
‫بجای میں اندر آ چکا ہوتا ‪ .‬اور جو کا ایم آپ سہی سے نہیں کر پا رہی‬
‫‪ .‬تھی وہ میں کر دیتا‬

‫‪ .‬میں ‪ :‬عامر کیا سچ میں تم ایسا کر دیتے‬

‫بھائی ‪ :‬جی باجی ‪ .‬ٹا نگھین اُٹھے آپ بہت پرکشش لگ رہی تھی ‪ .‬جب‬
‫‪ .‬دِل نے زیاد زور دیا تو میں وہاں سے واپس آ گیا‬

‫میں ‪ :‬عامر میرے بھائی ‪ ،‬کیا واقعہ ہی تم میرا ساتھ ڈے سکتے ہو ؟‬

‫‪ .‬بھائی ‪ :‬باجی ساتھ تو ڈے سکتا ہوں لیکن بہت دَر لگتا ہے‬

‫میں ‪ :‬دَر کس بیٹ کا میری جان ؟‬

‫بھائی ‪ :‬باجی اِس بات کا ہے کہیں آپ کی پھدی میں نقلی لنڈ کی بجا‬
‫‪ .‬وائے اپنا اصلی لنڈ نا گھسا بیٹھو ں‬
‫میں ‪ :‬عامر میں نے تمھاری بات پے بہت گھور کیا ہے اور مجھے لگتا‬
‫ہے اگر تم میرا ساتھ دو تو زندگی کی یہ کمی بی پور ہو سکتی ہے ‪ ( .‬یہ‬
‫) جواب میں نئے ‪ 2‬دن بَ ْعد لکھا تھا‬

‫بھائی ‪ :‬باجی لیکن اگر کسی دن جوش میں میں ہوش کھو بیٹھا اور اپنا لنڈ‬
‫‪ .‬آپکی پھدی میں غصہ دیا تو کیا ھوگا‬

‫میں ‪ :‬میرے بھائی میرے پاس اس کا َحل ہے تم بے فکر رہو ‪ .‬میرا کام‬
‫‪ .‬ہوتے ساتھ ہے میں تمہیں بھی پرسکون کر دیا کروں گی‬
‫بھائی ‪ :‬لیکن باجی وہ کیسے ؟‬

‫میں ‪ :‬میرے بھائی ‪ .‬میں شادی شدہ اورت ہوں ‪ .‬مجھے پتہ ہے مرد کو‬
‫سکون کیسے دیتے ہیں ‪ .‬اِس کے لیے لنڈ پھدی میں گھسانا ضروری‬
‫‪ .‬نہیں ہوتا‬
‫بھائی ‪ :‬باجی میں آپکی پھدی کو ہاتھ لگاؤں گھا تو آپ کو برا تو نہیں‬
‫‪ .‬لگے گھا‬

‫میں ‪ :‬میں نے پچھال پُورا مہینہ اِس بارے میں سوچا ہے ‪ .‬جب تم مجھے‬
‫ننگا دیکھ ہی چکے تو اب ِپھر کیا پردہ ‪ .‬ایک بات تو بتاؤ ‪ .‬کیا تم بھی‬
‫مٹھ مارتے ہو ؟‬

‫بھائی ‪ :‬باجی میں مٹھ نہیں مارتا بس آپ کو پیار کرنے کو بہت دِل کرنے‬
‫‪ .‬لگ گیا ہے‬

‫‪ .‬میں ‪ :‬حم م م… تو میرے سونے کا دِل کرتا ہے‬

‫بھائی ‪ :‬باجی کونسا ایسا مرد ہے جو ننگی عورت دیکھے اور اسکا دِل نا‬
‫‪ .‬کرے‬

‫میں ‪ :‬چلو ٹھیک ہے اب جب بھی دیکھو تو جو مرضی کر لینا ‪ .‬لیکن‬


‫کرو گے کیسے ؟‬

‫بھائی ‪ :‬باجی روشنی میں تو شاید میں آپ کے پس بھی نا آ سکون ‪ .‬یہ‬


‫‪ .‬سب اندھیرے میں ہے ہو سکتا ہے‬
‫میں ‪ :‬تو پِھر بتاؤ کہاں جائیں ‪ .‬میں الئٹ اوف کروں گی تو ماہا در جائے‬
‫‪ .‬گی‬

‫بھائی ‪ :‬میرے خیال میں گیسٹ روم سہی رہے گا ‪ .‬میں صحن میں ایک‬
‫سبز رنگ کا بلب لگا دیتا ہوں جب آپ کا دِل کرے تو اسے جال دینا ‪ ،‬اس‬
‫‪ .‬رات ‪ 12‬بجے ہم گیسٹ روم میں مل سکیں گے‬
‫عامر کو میں نے سوچنے کا کہہ دیا ‪ .‬میری جسمانی خواہش مجھے‬
‫عامر کے پاس جانے کو مجبور کر رہی تھی جب کہ دلوں دماغ مجھے‬
‫اسی شش و پنج میں ‪ 2‬دن گزر گے ‪ . .‬ایسا کرنے سے روک رہے تھے‬
‫انہی دنوں میں عامر نے ایک سبز رنگ کا چھوٹا بلب صحن میں لگا دیا‬
‫تھا ‪ .‬جسکا مطلب تھا وہ صرف میرے مثبت اشارے کا منتظر تھا ‪ .‬وہ ‪2‬‬
‫راتیں میں نئے بہت کش مکش میں گزاری ‪ .‬ان ‪ 2‬راتوں میں میں نے‬
‫اپنی پھدی میں بہت بار لنڈ ڈَاال اور پانی نکاال ‪ .‬ہر بار ایسا کرنے سے‬
‫میری مرد کے ساتھ کی خواہش اور برحتی جاتی ‪ 2 .‬دن بَ ْعد رات کو‬
‫عامر کے آنے سے پہلے میں نے سبز بلب جال دیا‬

‫‪Us raat 12 bje men guest room men chali gae lakin bjay‬‬
‫‪samne bethnay ya letnay k men aik konay men chup gae.‬‬
‫‪Mujh men jurat nahi ho rahi thi apne bhai ka samna krnay‬‬
‫‪ki. Is leay men chup k dekhnay lagi. Theek 12 bje aamir‬‬
‫‪apnay kamray say nikla or sbz bulb bnd kia. Phir guest‬‬
‫‪room men aa gaya. Us k hath men aik kmbl bhi tha. Woh‬‬
‫‪chup chap ander aya or sofay pay beth gaya. 10 minute‬‬
‫‪yun hi guzar gay men bhi chupi usay dekhti rahi. Phir‬‬
‫‪aamir ne kambl khola or sofay pe late gaya. Jb mujhay‬‬
‫‪yaqeen ho gaya kh aamir so gaya hay men wahan say‬‬
chup chap bina koe awaz keay nikli or apnay kamray men
aa gae. Mera dil buht zoron say dhark raha tha. Dharktay
dil k sath men apnay bed pay aa gae or aamir k baray men
sochnay lagi.
Aglay din Aamir ki almari men aik letter para tha jis pay
likha tha,
“Piari Baji Men samajh sakta hoon ap jis do rahay pay
han. Aik taraf apki jismani zrorat or khawhish hay to
dosri taraf men. Lakin men apko poora tahafuz ka yaqeen
dila raha hoon. Jesa ap chahen gi or jis had tk chahen gi
utna he hoga. Men apka shoher to nahi bn sakta lakin apki
ezat ki poor hifazat kron ga.”
“Bhai mujhay tm pay aitbar hay”
Mujhay apnay bhai pay poora aitbar tha lakin phir bhi aik
jijhak thi. Jo mard aik nangi lust men dobhi orat ko dekh
kr bhi khud ko qaboo men rakhay hoa tha. Is bat nay
mujhay agli rat dobara say aamir ki taraf janay pay
majboor kia. Rat ko aamir k anay say pehlay men nay
sabz bulb jla dia. Amir rat ko 10 bjay gher aya or khana
kha k apnay kamray men chala gaya. Men bhi apnay
kamray men aa k let gae. 11:30 ka time ho raha tha jb
meri ankh khul gae or aik extra kamble lay k guest room
ki taraf chal parri. Guest room men sofay pay takia rakh k
kamble lay k let gae. Theek 12 bjay mujhay apnay pass
kisi k honay ka ahsas hoa men smajh gae aamir he hoga.
Men sota ban k leti rahi.
Aamir kuch der meray pass betha raha phir kambal men
hath dal k mera hath pakar lia. Wo bhi jijhak raha tha.
Aamir nay meray hath ko choomna shru kia. Wo meri
unglion ko apnay honton pay pher raha tha. Us ki herkat
nay mujhay garam krna shru kr dia. 5 minute bad aamir
meray sir ki taraf aya or dosra hath meray gallon pay
phernay laga. Wo kabhi meri ankhon py hath pherta to
kabhi meray honton pay. Thorri he der men wo aor agay
berha or hath ko garden or phir meray seenay pay lay aya.
Aik bar meray mammon pay hath pher k inki golaion ka
ahata kia aor dobara meray honton pay ungli phernay lga.
Men byhiso herkat leti hoe thi or ab shidat say chah rahi
thi k aamir kisi b terha mujhay skoon dila day. Meri
khawahish ki fori takmeel bhi ho gae. Aamir nay meray
gallon ko choom lia. Jb meri taraf say koe herkat nahi hoe
to us ka bhi hosla berh gay gaya or wo mujhay musalsal
choomnay laga. Kabhi gallon say to kabhi ankhon say. 2 3
minute baad wo hoa jo shaid hum dono nay kabhi nahi
socha tha. Aamir nay meray honton ki aik bar chooma or
peechay ho gaya. Wo shaid mera response dekh raha tha.
Jb koe herkat nahi hoe to wo dobara agay berha or meray
nichlay hont ko apnay honton men lay k choosnay or
chattnay laga. Meri berdash k tmam zabt toot gay or men
b uska sath denay lagi. Hum dono aik dosray men doob
gay thay. Meray is response ka Amir pay bhi asar hoa
uski kissing men bhi shidat aa gae. Hmari herkaton ki
waja say kambal adha nechay ghir chukka tha. Amir nay
meray mammon ko sehlana or dbana shru kr dia. Men
buht madhosh ho gae thi. Amir aik lmhay k leay pechay
hata or meri kameez ko oper krna chah. Men nay uski
madad ki or Kameez ko apnay kandhon tk opper kr lia.
Amir dobara jhuka or meray honton k sath apnay hont
mila leay. Aik hath say us nay meri bra bhi ooper kr di or
meray nipples say khelnay laga. Men buht excited ho
chuki thi is leay men nay apnay dono hathon ki unglian
Amir k balon men phernay lagi. Amir meray honton ko
chor k ab meray nipples ki taraf matwajha hoa or unhen
chattnay laga. Meri unglian abhi bhi us k balon men thi.
Josh men nay aik hath apni phudi pay rakha to tangon ko
zor say bhench lia. Meri yeh gher iradi herkat shaid Amir
ko is taraf matwajha kr gae. Amir nay mera aik nipple
hath men dosra munh say pakara hoa tha. Dosray hath ko
meri phudi pay lay aya or apnay hath k dbao say mujhay
apni tangen kholnay ka kaha.

Men nay tangen khol di lakin apna hath nahi hatya. Amir
merya hath pay apna hath lay aya or meri unglion k
dermian men say meri phudi ko tatolnay laga. Phir us nay
mera hath hata k meri phudi pay hath phera. Yeh uska
pehla sex encounter tha is leay usay yeh nahi pata tha k
kesay krtay hen. Men nay Amir ki aik ungli pakari or
phudi ki lakeer men phernay lagi. Jald he Amir smajh
gaya kia krna hay. Amir nay meri shalwar men hath dala
or meri phudi tk lay gaya. Ab sb kuch ayan ho chukka tha
is leay man nay khud he kamar utha k apni shalwar
neechay kr di or phir peron men say nikal di. Amir meri
phudi k danay ko sehla raha tha aor wo pani pani hoay ja
rahi thi. Josh men man nay aik hath nechay kia or Amir k
Lun pay phernay lagi. Amir abhi tk pooray kapron men
tha. Man apni manzil k qareeb puhanch rahi thi. Is leay
men nay Amir ka narra pakar k khench dia jis say uski
shalwar utar gae. Man nay dobra hath agay kia or Amir k
tanay ho lun ko pakar lia. Mera hath lgnay say Amir aik
bar chonk gaya or oper ko ho k meray chehray ki taraf
dekhnay ki koshish ki. Meri ankhen band thi is leay man
apnay ridham lagi rahi or uski muth marnay lagi. Kamray
men adhera tha is leay hum aik dosray ko dekh nahi pa
rahay thay lakin apnay hathon say sari baten kr rahay
thay. Itnay lambay arsay tk tarsnay k bad aj aik mard k
sath ki waja say men farigh honay lagi.
Farigh honay pr man nay Amir ka hath pakar lia lakin
mera hath abhi tk Amir k lun pay tha. Sansen bhan honay
pay Amir pechay hatnay lga lakin lun mazbooti say pakra
honay ki waja say wo wahan say ja nahi saka. Amir nay
mera kam kr dia tha ab meri bari thi. Man dobra say uski
muth marnay lagi lakin mujhay yeh thorra mushkil kam
laga. Tb he Amir nay mera hath pakar k lun chornay k
signal dia. Is muth marnay k 30 seconds men nay soch lia
k jahan itna kuch ho gay wahan ab intercourse bhi ho jay
to koe nuqsan nahi. Men nay Amir ka hath pakar k apni
tangon k beech men anay ka signal dia. Amir aik wafadar
bachay ki terha mera hukam mantay hoay sofay pay meri
tangon k beech men aa gaya. Man nay apni tangen khol k
usay bethnay ki jagah di. Amir ka lun abhi tk meray hath
men tha. Man nay danista tor pay usay nahi chorra tha
kahin wo bhag na jay. Dosray hath say Amir ka hath
pakar k usay apnay ooper jhukaya or uska lun apni phudi
pay set kia. Bay akhtiar Amir k munh say nahi nikal gaya.
Lakin man kuch na booli bush uska lun pakaray rakha or
dosray hath say usay apni taraf khenchti rahi. Thori si jido
jehad k baad Amir ki raza mandi meri phudi pay perrnay
walay dbao say mehsoos hoe. Choonkeh Amir ka yeh
pehli dafa tha is leay gili phudi or lun sahi jagha na honay
ki waja say lun slip ho gaya. Men nay abhi tk Amir ka lun
nahi chorra tha. Mujhay pata tha Amir ko meri phudi ka
sorakh nahi milay ga is leay man nay apni kamar ko thora
oper uthaya or lun ko phudi ki mori pay set kr k Amir ko
signal dia. Amir nay jesay he thorra sa dbao dala uska lun
meri phudi men janay laga. Phudi gili honay ki waja say
lun baray aram say ander ja raha tha. Adha lun ander
dalnay k baad Amir pechay ko hata or phir say dbao dala.
Aisa do teen dfa krnay say uska sara lun meri phudi men
ghum ho gaya. Man nay apni kamar nechay ki aor Amir
ko dono banhon say pakar k apnay oper lita lia. Kuch der
choomnay chatnay k baad Amir nay cycle chlani shru kr
di. Men itni purjosh thi k jald he farigh ho gae. Or amir ko
aik bar phir say jakarr lia. Amir kuch der ruka raha or phir
say shru ho gaya. Ab ki bar us nay apnay hath churra leay
thay. Wo lagatar dhakay mar rha tha. Qareeb qareeb 2
minute he guzray hon gay jb us k munh say siskari nikli
or lun sy pani. Mera bhai meray ander he farigh ho raha
tha. Man nay bhi koe aitraz nahi kia. Bus chup chap maza
leti rahi. Farigh honay k baad Amir peechay hata to man
uth bethi andheray men hath mara to meri shalwar hath
lag gae. Man chup chap uthi or isi halat men apnay
kamray men chali gae. Amir kb apnay kamray men gaya
mujha nahi maloom.
Agli subha Amir mera samna keay bina he gher say nikal
gaya. Uski almari men letter parra tha.
Bhai: Baji men mazrat khaw hoon. Men had say guzar
gaya. Men buht sharminda hoon. Ab iska khamiaza hum
dono ko bhugtna parray ga. Agar hmal ther gaya to hum
dono phans jain gay.
Amir ka letter perh k men sanjedgi say sochnay lagi k
hum kia kr chukay hen. Buht der sochnay k baad men nay
khat ka jawab likha.
Men: Galti meri hay. Men khud pay qaboo nahi rakh saki
warna tum pay mujhay poora aitbar hay. Maafi mujhay
mangni chaheay. Meri waja say tmen bhi preshani hoe.
Lakin itmenan rakho man sub sanbhal loon gi. Mujhay
pata hay hamal say kesay bachna hay. Aik zroori baat,
yeh sb raat k andheray men hoa aik khawb ki terha hay.
Aisay khawb he rehna chaheay. Khawb to buht bar dekha
ja sakta hay.
Akhri line man nay jaan boojh k likhi thi. Men sirf 2 raten
he sabar kr pae or phir say sabz bulb roshan kr dia. Us
raat meri herat men izafa ho gaya keon k jb men nay amir
ki shalwar uteri or uska lun pakra to us pay pehlay say he
condom cherha hoa tha. Men nay shidat jazbat say Amir
ko apnay oper lita lia. Us rat say shru hoa silsila aj tk jari
hay. Amir ki shadi krnay men 3 saal guzar gay. 2001 men
Amir ki shadi ho to shadi walay din Amir nay pehli bar
din ki roshni men mujhay chowdha. Amir ki shadi k din
say aj tk wo apni BV ko apni dosri BV smajhta aa raha
hay. Ap soch rahay hon gay pehli BV kon hay yaqeenan
wo men he hoon.

THE END

You might also like