Professional Documents
Culture Documents
آل صباح
آل صباح
الصباح خاندان کویت کے کسی بھی منتخب ادارے سے زیادہ طاقت رکھتا ہے اور اس خاندان کے افراد
کا حکومتی اور انتظامی عہدوں پر مکمل کنٹرول ہے۔ ملک میں امیر کو پارلیمنٹ تحلیل کرنے اور
انتخابات کروانے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ یہاں تک کہ سیاسی معامالت پر امیِر کویت کی رائے حرف
آخر کی حیثیت رکھتی ہے ،تاہم کویتی پارلیمان میں اپوزیشن آل صباح پر تنقید کر سکتی ہے۔
کویت پیڈیا کے مطابق ،آل صباح کا تعلق ’انجا‘ سے ہے ،جو مشرقی بحیرہ روم اور خلیج عرب کے
عالقوں میں آباد سب سے بڑا قبائلی گروہ ہے ،یہ عدنانی عرب قبیلہ ہے جو عنزہ بن اسد بن ربیعہ بن
نضر بن مد بن عدنان کے نسب سے تعلق رکھتے ہیں۔ کویت کی تاریخ پر کتاب ’دی اوریجن آف کویت‘
کے مطابق آل صباح خاندان بنی عتبہ قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔
کہا جاتا ہے کہ سنہ 1710میں جب وسطی عرب میں شدید خشک سالی ہوئی تو آل صباح وہاں سے نقل
مکانی کر کے جنوب عالقوں کی طرف چلے گئے اور اس کے بعد انھوں نے مختلف جگہوں پر آباد
ہونے کی کوشش کی لیکن باوجوہ یہ ممکن نہ ہو سکا۔ بعد میں اس خاندان نے شمالی کویت کی طرف
نقل مکانی کی اور وہاں پانی کا بڑا ذریعہ تالش کرنے کے بعد یہ قبیلہ یہیں آباد ہو گیا۔ سفر کے اس
آخری مرحلے کو عربی میں ’اطابو اال الشمال‘ کہتے ہیں۔ کویت کے اس حصے میں آباد ہونے کے بعد
آل صباح نے اس عالقے پر حکومت کرنا شروع کر دی۔
ایک اور تاریخی حوالے کے مطابق ،الصباح خاندان نے کویت کے شمال میں آباد ہونے سے پہلے
جنوبی ایران اور عراق کے مختلف عالقوں میں بھی پڑاؤ ڈاال اور پھر 17ویں صدی کے اوائل میں وہ
موجودہ کویت میں آباد ہوئے۔ وہاں پر ایک صباح رہنما سنہ 1762میں اپنی موت تک شمالی کویت پر
حکومت کی۔ الصباح خاندان کی بنیاد درحقیقت امیر صباح اول جابر الصباح نے رکھی تھی جنھوں نے
اٹھارویں صدی کے وسط میں یعنی 1752سے 1776تک ملک پر حکومت کی اور اب ان کی نسل کے
17ویں نمائندے ملک کے امیر مقرر ہوئے ہیں۔
سلطنت عثمانیہ کی جانب سے ملنے والی ایک دھمکی کے نتیجے میں کویت کو سنہ 1899میں
برطانوی پروٹیکٹوریٹ قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت الصباح خاندان ہی کویت کے حکمران تھے۔ کویت نے
سنہ 1961میں برطانیہ سے مکمل آزادی حاصل کی تھی۔ آج کویت دنیا کا چھٹا سب سے بڑا تیل کی
دولت سے ماال مال ملک ہے۔ ملک کی مجموعی آبادی 48الکھ ہے جس میں سے 34الکھ غیرملکی
ہیں جو بسلسلہ روزگار اور دیگر وجوہات کی بنا پر وہ بستے ہیں۔
شیخ نواف االحمد الجابر الصباح کویت کے 16ویں امیر تھے جن کا شمار ناصرف ملک بلکہ خلیج کی
اہم سیاسی شخصیت کے طور پر ہوتا تھا۔ شیخ نواف 25جون 1937کو کویت سٹی کے فریز الشیوخ
میں پیدا ہوئے اور ان کی پرورش کویت سٹی کے داسمان پیلس میں ہوئی۔ ُاس وقت ان کے والد شیخ
احمد الجابر الصباح کویت میں برسراقتدار تھے۔ شیخ نواف ان کے پانچویں بیٹے تھے۔ انھوں نے 1950
کی دہائی میں شریفہ سلیمان الجسم الغنیم سے شادی کی جن سے ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔
شیخ نواف 16سال تک مختلف سیاسی عہدوں پر فائز رہے اور انھیں پہلی بڑی پوزیشن سنہ 1978میں
اس وقت ملی جب انھیں وزیر داخلہ بنایا گیا۔ جب عراق نے 1990میں کویت پر حملہ کیا تو وہ کویت
کے وزیر دفاع تھے۔ انادولو ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شیخ نواف کو سنہ 2006میں ولی عہد
نامزد کیا گیا تھا اور وہ مسلسل 14سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کے سوتیلے بھائی شیخ صباح
االحمد الصباح مسلسل دس سال تک امیر رہے۔ان کی وفات کے بعد شیخ نواف 29ستمبر 2020کو امیر
بنے۔ تب سے وہ تین سال تک تیل کی دولت سے ماال مال ملک کی قیادت کر رہے تھے۔ انہیں کویت اور
عرب خطے کا ’چیف ڈپلومیٹ‘ قرار دیا جاتا تھا۔
جب شیخ نواف بیمار ہوئے تو ان کی عدم موجودگی میں امیر کویت کے زیادہ تر فرائض شیخ مشعل ہی
سرانجام دے رہے تھے۔ شیخ نواف کی وفات کے بعد 83سالہ شیخ مشعل االحمد الجابر الصباح کو
کویت کا نیا امیر نامزد کیا گیا ہے۔ وہ شیخ نواف کے کزن ہیں اور امیر بننے سے پہلے وہ ولی عہد کے
عہدے پر فائز تھے۔
خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جب شیخ نواف بیمار ہوئے تو ان کی عدم موجودگی میں امیر
کویت کے زیادہ تر فرائض شیخ مشعل ہی سرانجام دے رہے تھے۔ کویتی آئین اور تخت کی جانشینی
کے قانون کے مطابق ،امیر مشعل ملک کے 17ویں حکمران اور ملکی تاریخ کے پانچویں حکمران ہیں
جنہوں نے پارلیمنٹ کے سامنے آئینی حلف اٹھایا ہے۔
کویت کے ولی عہد کی ویب سائٹ کے مطابق شیخ مشعل 1940میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے
المبارکیہ سکول سے تعلیم حاصل کی جس کے بعد وہ برطانیہ میں بھی زیر تعلیم رہے۔ سنہ 1960میں
گریجویشن کے بعد انھوں نے کویت کی وزارت داخلہ میں شمولیت اختیار کی اور وہ مختلف عہدوں پر
فائز رہے۔ نئے امیر ،جو پہلے ہی مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں ،نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ
کویت کی سکیورٹی اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے لیے معلومات اکٹھا کرنے میں صرف کیا ہے۔ شیخ
مشعل نے کویت کے سکیورٹی اور عسکری شعبوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ شیخ مشعل اپنے
پیشرو کی وفات سے قبل نائب امیر کے عہدے پر بھی فائز تھے۔ اپنی ایک تقریر میں انھوں نے کابینہ
اور پارلیمنٹ کے درمیان اتحاد قائم کرنے پر زور دیا ہے۔