You are on page 1of 4

‫’آل صباح‘‪ :‬کویت کے طاقتور شاہی خاندان کی کہانی جو ملک پر ‪300‬‬

‫سال سے حکومت کر رہا ہے‬


‫سعودی عرب اور عراق کے ہمسایہ خلیجی ملک کویت پر گذشتہ ‪ 300‬سال سے آل صباح خاندان کی‬
‫حکومت ہے۔ کویتی آئین کے مطابق‪ ،‬ملک کے امیر اور ولی عہد کے القابات کی جانشینی روایتی طور‬
‫پر مبارک الصباح کی اوالد تک محدود ہے۔ آج ہم جس کویت کو جانتے ہیں الصباح خاندان اس کی ترقی‬
‫کے عمل کے ساتھ ساتھ رہا ہے۔‬

‫الصباح خاندان کویت کے کسی بھی منتخب ادارے سے زیادہ طاقت رکھتا ہے اور اس خاندان کے افراد‬
‫کا حکومتی اور انتظامی عہدوں پر مکمل کنٹرول ہے۔ ملک میں امیر کو پارلیمنٹ تحلیل کرنے اور‬
‫انتخابات کروانے کا اختیار بھی حاصل ہے۔ یہاں تک کہ سیاسی معامالت پر امیِر کویت کی رائے حرف‬
‫آخر کی حیثیت رکھتی ہے‪ ،‬تاہم کویتی پارلیمان میں اپوزیشن آل صباح پر تنقید کر سکتی ہے۔‬

‫الصباح‪ :‬خاندانی تاریخ‬


‫’الصباح خاندان کی بنیاد درحقیقت امیر صباح اول جابر الصباح نے رکھی تھی جنھوں نے اٹھارویں‬
‫صدی کے وسط میں یعنی ‪ 1752‬سے ‪ 1776‬تک ملک پر حکومت کی‘۔‬

‫کویت پیڈیا کے مطابق‪ ،‬آل صباح کا تعلق ’انجا‘ سے ہے‪ ،‬جو مشرقی بحیرہ روم اور خلیج عرب کے‬
‫عالقوں میں آباد سب سے بڑا قبائلی گروہ ہے‪ ،‬یہ عدنانی عرب قبیلہ ہے جو عنزہ بن اسد بن ربیعہ بن‬
‫نضر بن مد بن عدنان کے نسب سے تعلق رکھتے ہیں۔ کویت کی تاریخ پر کتاب ’دی اوریجن آف کویت‘‬
‫کے مطابق آل صباح خاندان بنی عتبہ قبیلے سے تعلق رکھتا ہے۔‬

‫کہا جاتا ہے کہ سنہ ‪ 1710‬میں جب وسطی عرب میں شدید خشک سالی ہوئی تو آل صباح وہاں سے نقل‬
‫مکانی کر کے جنوب عالقوں کی طرف چلے گئے اور اس کے بعد انھوں نے مختلف جگہوں پر آباد‬
‫ہونے کی کوشش کی لیکن باوجوہ یہ ممکن نہ ہو سکا۔ بعد میں اس خاندان نے شمالی کویت کی طرف‬
‫نقل مکانی کی اور وہاں پانی کا بڑا ذریعہ تالش کرنے کے بعد یہ قبیلہ یہیں آباد ہو گیا۔ سفر کے اس‬
‫آخری مرحلے کو عربی میں ’اطابو اال الشمال‘ کہتے ہیں۔ کویت کے اس حصے میں آباد ہونے کے بعد‬
‫آل صباح نے اس عالقے پر حکومت کرنا شروع کر دی۔‬

‫ایک اور تاریخی حوالے کے مطابق‪ ،‬الصباح خاندان نے کویت کے شمال میں آباد ہونے سے پہلے‬
‫جنوبی ایران اور عراق کے مختلف عالقوں میں بھی پڑاؤ ڈاال اور پھر ‪17‬ویں صدی کے اوائل میں وہ‬
‫موجودہ کویت میں آباد ہوئے۔ وہاں پر ایک صباح رہنما سنہ ‪ 1762‬میں اپنی موت تک شمالی کویت پر‬
‫حکومت کی۔ الصباح خاندان کی بنیاد درحقیقت امیر صباح اول جابر الصباح نے رکھی تھی جنھوں نے‬
‫اٹھارویں صدی کے وسط میں یعنی ‪ 1752‬سے ‪ 1776‬تک ملک پر حکومت کی اور اب ان کی نسل کے‬
‫‪17‬ویں نمائندے ملک کے امیر مقرر ہوئے ہیں۔‬

‫سلطنت عثمانیہ کی جانب سے ملنے والی ایک دھمکی کے نتیجے میں کویت کو سنہ ‪ 1899‬میں‬
‫برطانوی پروٹیکٹوریٹ قرار دیا گیا تھا۔ اس وقت الصباح خاندان ہی کویت کے حکمران تھے۔ کویت نے‬
‫سنہ ‪ 1961‬میں برطانیہ سے مکمل آزادی حاصل کی تھی۔ آج کویت دنیا کا چھٹا سب سے بڑا تیل کی‬
‫دولت سے ماال مال ملک ہے۔ ملک کی مجموعی آبادی ‪ 48‬الکھ ہے جس میں سے ‪ 34‬الکھ غیرملکی‬
‫ہیں جو بسلسلہ روزگار اور دیگر وجوہات کی بنا پر وہ بستے ہیں۔‬

‫شیخ نواف االحمد الجابر الصباح کویت کے ‪16‬ویں امیر تھے جن کا شمار ناصرف ملک بلکہ خلیج کی‬
‫اہم سیاسی شخصیت کے طور پر ہوتا تھا۔ شیخ نواف ‪ 25‬جون ‪ 1937‬کو کویت سٹی کے فریز الشیوخ‬
‫میں پیدا ہوئے اور ان کی پرورش کویت سٹی کے داسمان پیلس میں ہوئی۔ ُاس وقت ان کے والد شیخ‬
‫احمد الجابر الصباح کویت میں برسراقتدار تھے۔ شیخ نواف ان کے پانچویں بیٹے تھے۔ انھوں نے ‪1950‬‬
‫کی دہائی میں شریفہ سلیمان الجسم الغنیم سے شادی کی جن سے ان کے چار بیٹے اور ایک بیٹی ہے۔‬
‫شیخ نواف ‪ 16‬سال تک مختلف سیاسی عہدوں پر فائز رہے اور انھیں پہلی بڑی پوزیشن سنہ ‪ 1978‬میں‬
‫اس وقت ملی جب انھیں وزیر داخلہ بنایا گیا۔ جب عراق نے ‪ 1990‬میں کویت پر حملہ کیا تو وہ کویت‬
‫کے وزیر دفاع تھے۔ انادولو ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق شیخ نواف کو سنہ ‪ 2006‬میں ولی عہد‬
‫نامزد کیا گیا تھا اور وہ مسلسل ‪ 14‬سال تک اس عہدے پر فائز رہے۔ ان کے سوتیلے بھائی شیخ صباح‬
‫االحمد الصباح مسلسل دس سال تک امیر رہے۔ان کی وفات کے بعد شیخ نواف ‪ 29‬ستمبر ‪ 2020‬کو امیر‬
‫بنے۔ تب سے وہ تین سال تک تیل کی دولت سے ماال مال ملک کی قیادت کر رہے تھے۔ انہیں کویت اور‬
‫عرب خطے کا ’چیف ڈپلومیٹ‘ قرار دیا جاتا تھا۔‬

‫جب شیخ نواف بیمار ہوئے تو ان کی عدم موجودگی میں امیر کویت کے زیادہ تر فرائض شیخ مشعل ہی‬
‫سرانجام دے رہے تھے۔ شیخ نواف کی وفات کے بعد ‪ 83‬سالہ شیخ مشعل االحمد الجابر الصباح کو‬
‫کویت کا نیا امیر نامزد کیا گیا ہے۔ وہ شیخ نواف کے کزن ہیں اور امیر بننے سے پہلے وہ ولی عہد کے‬
‫عہدے پر فائز تھے۔‬

‫خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق جب شیخ نواف بیمار ہوئے تو ان کی عدم موجودگی میں امیر‬
‫کویت کے زیادہ تر فرائض شیخ مشعل ہی سرانجام دے رہے تھے۔ کویتی آئین اور تخت کی جانشینی‬
‫کے قانون کے مطابق‪ ،‬امیر مشعل ملک کے ‪17‬ویں حکمران اور ملکی تاریخ کے پانچویں حکمران ہیں‬
‫جنہوں نے پارلیمنٹ کے سامنے آئینی حلف اٹھایا ہے۔‬
‫کویت کے ولی عہد کی ویب سائٹ کے مطابق شیخ مشعل ‪ 1940‬میں پیدا ہوئے تھے۔ انھوں نے‬
‫المبارکیہ سکول سے تعلیم حاصل کی جس کے بعد وہ برطانیہ میں بھی زیر تعلیم رہے۔ سنہ ‪ 1960‬میں‬
‫گریجویشن کے بعد انھوں نے کویت کی وزارت داخلہ میں شمولیت اختیار کی اور وہ مختلف عہدوں پر‬
‫فائز رہے۔ نئے امیر‪ ،‬جو پہلے ہی مختلف عہدوں پر فائز رہ چکے ہیں‪ ،‬نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ‬
‫کویت کی سکیورٹی اور انٹیلیجنس ایجنسیوں کے لیے معلومات اکٹھا کرنے میں صرف کیا ہے۔ شیخ‬
‫مشعل نے کویت کے سکیورٹی اور عسکری شعبوں کی ترقی میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ شیخ مشعل اپنے‬
‫پیشرو کی وفات سے قبل نائب امیر کے عہدے پر بھی فائز تھے۔ اپنی ایک تقریر میں انھوں نے کابینہ‬
‫اور پارلیمنٹ کے درمیان اتحاد قائم کرنے پر زور دیا ہے۔‬

You might also like