You are on page 1of 153

‫ویکلیوار‪5‬‬

‫ویکلی‬
‫وار‬ ‫ہفتہ‬
‫ہفتہ‬

‫ط ّبیی تحقیقات‬
‫تحقیقات‬ ‫ِط ِ ّب‬
‫‪Issue 142 – Vol.‬‬
‫‪Managing‬‬ ‫‪Editor‬‬
‫‪01‬ی تحقیقات‬‫‪ November 2021 – 07‬طِ ّب‬
‫ویکلی‬
‫‪Mujahid2021‬‬
‫‪November‬‬ ‫‪Ali‬‬
‫‪+ 92 0333‬‬ ‫‪4576072‬‬
‫عثمان پبلی کیشنزالہورکے زیراہمتمام شائع ہونے واال‬
‫ہے!قدرکیجئے‬ ‫ٰ‬
‫عظمی‬ ‫صحت نعمت‬
‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫ہفتہ وارجریدہ‬
‫‪،‬شمار ‪۱۴۹‬‬‫ن‬ ‫ن جلد ‪۵‬‬
‫ومب ر ‪ ۲۰۲۱‬۔ ‪ ۰۷‬ومب ر ‪۱ ۲۰۲۱‬‬

‫مینجنگ ایڈیٹر‪:‬مجاہدعلی‬
‫معاون مدیر‪ :‬حافظ زبیر‬
‫جاتاہے ۔یوٹیوب کے ساتھ ساتھ‬ ‫ایڈیٹرآن الئن پڑھا‬
‫‪:‬ذاہدچوہدری‬ ‫مجلہ‬
‫مختلف سوشل میڈیا پربھی شئیرکیاجاتاہے ۔اس کے‬
‫عالوہ یہ پاکستان کی جامعات‪،‬تحقیقاتی ادارہ‬
‫جات‪،‬معالجین حکماء ‪،‬محققین‪،‬فارماسیٹوٹیکل‬
‫ادارتی ممبران‬
‫انڈسٹری اورہرطرح کی فوڈ انڈسٹری کوبھی ای‬
‫میل کیا جاتاہے اورتارکین وطن بھی اس سے‬
‫مستفید ہوتے ہیں۔اوریوں تقریبا پورے پاکستان میں‬
‫حضرت موالنا حکیم زبیراحمد‬
‫اسکی سرکولیشن کی جاتی ہے اورآپکے کاروبار‪،‬‬
‫رحمت ہللا ادارہ فروغ تحقیق الہور‬
‫پراڈکٹ ‪،‬سروسزکے فروغ کابہترین ذریعہ ہے‬
‫محمدعباس مسلم‬
‫وتالیفاتیونیورسٹی‬
‫تحقیقیوایم ٹی‬
‫شعبہذیشان‬
‫شیخ‬

‫ماہرانہ مشاورت‬
‫اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی‬ ‫حکیمبرائے‬
‫زبیراحمد‬
‫معلومات کے لئے‬ ‫ُ‬
‫ڈاکٹرواصف نور‬
‫ڈاکٹرمحمدعبدالرحمن‬
‫ڈاکٹرمحمدتحسین‪Mujahid Ali 0333‬‬
‫‪457 6072‬‬
‫ڈاکٹرروشن پیرزادہ‬
‫‪meritehreer786@gmail.com‬‬
‫ڈاکٹرمحمدمشتاق‬

‫عثمان پبلی کیشنز‬


‫جالل دین ہسپتال چوک اردوبازار‬
‫‪Phone: 042-37640094‬‬
‫‪Cell: 0303-431 6517 – 0333 409 6572‬‬
‫‪upublications@gmail.com‬‬
‫‪www.upublications.com‬‬

‫طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ‬


‫تحقیقات | ‪1‬‬ ‫‪ ۱www.alqalam786.blogspot.com‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪| ۱۴۹‬‬

‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تفصیل‬
‫ملک میں طبی سہولتوں کی عدم فراہمی‬

‫ایڈیٹوریل‬
‫پير‪ 1  ‬نومبر‪ 2021  ‬‬
‫صحت کی سہولتیں عوام کی رسائی سے دور ہو گئی ہیں‬

‫نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سینٹر نے ساٹھ فی صد ویکسی نیشن والے شہروں سے پابندیاں‬
‫اٹھانے کا اعالن کردیا ہے‪ ،‬ملک بھر میں ان تمام سہولیات کا تسلسل مکمل ویکسین‬
‫لگوانے اور ماسک کے الزمی استعمال سے مشروط ہے ۔ وفاقی وزیر اسد عمر کی‬
‫سربراہی میں منعقدہ اجالس میں ویکسی نیشن میں کارکردگی دکھانے والے شہروں میں‬
‫معامالت زندگی درجہ بدرجہ معمول پر النے کا فیصلہ کیا گیا۔‬
‫یہ انتہائی خوش کن اور حوصلہ افزا خبر ہے کہ پاکستان میں کورونا وائرس کے پھیالئو‬
‫میں کمی عوام کے ویکسین لگوانے میں دلچسپی اور تعاون اور حکومتی اقدامات کے‬
‫نتیجے میں سامنے آرہی ہے ‪ ،‬معموالت زندگی بحال ہونے جارہے ہیں لیکن دوسری جانب‬
‫تحقیقات | ‪2‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پاکستان بھر میں ڈنگی کیسز میں ہر گزرتے دن کے ساتھ اضافہ دیکھنے میں ٓا رہا ہے‬
‫جس کے باعث اسپتالوں میں مریضوں کے لیے جگہ کم پڑتی جا رہی ہے۔‬
‫پچھلے برسوں میں بھی ڈنگی کی تباہ کاریاں بہت زیادہ رہی ہیں‪ ،‬ان دنوں بھی ملک بھر‬
‫میں ڈنگی کے مرض میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔ صوبہ پنجاب خاص طور پر اس کا‬
‫دارالحکومت الہور ‪ ،‬صوبہ خیبر پختونخوا اور سندھ میں ڈنگی کا شکار ہونے والوں کی‬
‫تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اسپتالوں نے مزید مریضوں کو لینے سے انکار کردیا ہے۔‬
‫پنجاب کے اسپتالوں میں کورونا کے مریضوں کے بستر ڈنگی کے متاثرین کے لیے‬
‫مختص کر دیے گئے ہیں۔ اسالم ٓاباد میں ڈنگی کے کیس کے خطرناک حد تک جا پہنچنے‬
‫کے بعد انسداد ڈنگی مہم شروع کی گئی ہے۔‬
‫طبی ماہرین بھی اس بات سے اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ پہلے ہی کورونا کی وبا نے‬
‫عام ٓادمی کی کمر توڑ رکھی ہے‪ ،‬عالج معالجہ مہنگا ہے‪ ،‬ادویات کی قیمتیں بلند ہیں‪ ،‬جب‬
‫گھر میں کوئی بیمار اور بھوکا ہو تو پھر اس کی سوجھ بوجھ ختم ہو جاتی ہے۔ ادویات کی‬
‫قیمتوں میں اب تک ساڑھے تین سو فیصد تک اضافہ ہو چکا ہے اور ادویات عام ٓادمی کی‬
‫پہنچ سے دور ہو چکی ہیں‪ ،‬لوگ عالج نہ ہونے کی وجہ سے موت کے منہ میں جا رہے‬
‫ہیں۔‬
‫وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی عدم توجہی کی وجہ سے صحت کی سہولتیں عوام کی‬
‫رسائی سے دور ہو گئی ہیں۔ پاکستان میں ہیلتھ ایجوکشن کا فقدان ہے ملک کو صحت عامہ‬
‫کے حوالے سے بے شمار مسائل درپیش ہیں خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی اتائیت کو‬
‫روکنے کے لیے ٹھوس اقدامات کی ضرورت ہے اس کے عالوہ اشیاء خورونوش میں‬
‫بڑھتی ہوئی خطرناک مالوٹ سے پاکستان میں ہر سو تیزی سے پھیلنے والے التعداد‬
‫متعدی امراض لمحہ فکریہ ہیں۔ ادویات یا تو جعلی ہیں یا پھر انتہائی ناقص لیکن حکومت‬
‫کا اس طرف کوئی دھیان نہیں۔ عوام کا کوئی پرسان حال نہیں‪ ،‬ادویات کی قیمتیں کم کرنے‬
‫پر حکومت کی کوئی توجہ نہیں ہے۔‬
‫پچھلے دنوں ‪ 35‬ادویات کی قیمتوں میں اضافہ کیا گیا تھا‪ ،‬لیکن اس کے کچھ دن بعد‬
‫ادویات کی قیمتوں میں ‪ 15‬سے ‪ 150‬فیصد مزیداضافہ کر دیا گیا ہے۔ ہمارے ملک کا‬
‫غریب طبقہ ادویات کی قیمتیں ادا کرنے سے قاصر ہے‪ ،‬جس میں شوگر و کینسر سمیت‬
‫زیادہ تر ادویات جان بچانے والی ہیں۔ ادویات کی قیمتوں میں اضافے کے نوٹیفکیشن کے‬
‫بعد بیشتر ادویات ڈرگ اسٹورز اور مارکیٹ سے غائب ہوجاتی ہیں۔ یہ عمل ایک معمول بن‬
‫چکا ہے۔ ایک رپورٹ کے مطابق اس وقت ڈنگی کا ٹیسٹ پرائیوٹ لیب سے ‪ 750‬روپے‬
‫میں ہورہا ہے اور اگر مریض کو مزید تفصیالت درکار ہوں تو وہ ٹیسٹ ‪ 2900‬روپے کا‬
‫ہے‪ ،‬اگر پلیٹ لیٹس لگوانے ہیں تو کراس میچ سمیت دیگر ٹیسٹوں پر اٹھنے واال خرچہ لگ‬
‫بھگ ‪ 31‬ہزار کا ہے۔‬
‫طبی سہولتوں کی عدم فراہمی اپنی جگہ ایک مسئلہ ہے ‪ ،‬دوسری جانب پاکستان میں متعدد‬
‫بیماریوں کا پھیالئو جاری ہے ‪ ،‬اور ان کی روک تھام کے لیے حکومتی سطح پر کسی بھی‬
‫قسم کی منصوبہ بندی نظر نہیں آتی ہے۔ ملک میں ساالنہ چونسٹھ الکھ بچے جنم لیتے ہیں‪،‬‬
‫تحقیقات | ‪3‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جن میں سے ‪4‬الکھ ‪29‬ہزار بچے اپنی پہلی سالگرہ نہیں دیکھ پاتے اور یہ مائوں کی گود‬
‫میں دم توڑ دیتے ہیں۔‬
‫انھیں میں سے ‪2‬الکھ ‪90‬ہزار ‪393‬بچے پہلے ہی مہینے میں دم توڑ جاتے ہیں‪ ،‬پاکستان‬
‫میں ایک ماہ میں کم عمر ی میں جاں بحق ہونے والے بچوں کا تناسب عالمی معیار سے‬
‫کہیں زیادہ ہے بلکہ شرمناک حد تک زیادہ ہے اس کی کئی وجوہات ہیں ‪40‬فیصد بچے‬
‫ایکسپسویا‪ Acphyxya‬پری میچور پیدائش کے باعث جاں بحق ہوتے ہیں۔‪ 21‬فیصدبرتھ‬
‫اور ‪18‬فیصد انفیکشن کے باعث جاں بحق ہوجاتے ہیں جب کہ ایک سال سے کم عمر‬
‫بچوں میں سے ‪60‬فیصد تو ان پیدائشی امراض کی وجہ سے دنیا چھوڑ دیتے ہیں جن کا‬
‫ذکر ہم اوپر کر چکے ہیں جب کہ مزید‪17.7‬فیصد نمونیا اور ‪11.3‬فیصد ڈائریا کے باعث‬
‫مرتے ہیں۔‬
‫بڑی تعداد میں اسہال اور ملیریا سے مرنے والے بچے ہوتے ہیں۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے‬
‫اسہال اور ملیریا کی بیماریوں پر کوئی کنٹرول نہیں ان دونوں امراض سے مرنے والے‬
‫بچوں کا تناسب ‪1‬الکھ ‪30‬ہزار کے لگ بھگ ہے جو عالمی تناسب سے کہیں زیادہ ہے۔‬
‫پاکستان میں ہر سال ‪1‬الکھ ‪48‬ہزار سرطان کے نئے مریض سامنے ٓاتے ہیں‪ ،‬تاہم مریضوں‬
‫کی اصل تعداد کا کوئی پتہ نہیں اس بارے میں بھی ہمارے پاس جامع اور قابل اعتماد اعداد‬
‫و شمار کا فقدان ہے۔‬
‫پاکستان میں سرطان کی سب سے عام وجہ پھیپھڑوں اور منہ کا سرطان ہے۔ ان دونوں کا‬
‫تعلق سگریٹ نوشی سے ہے‪ ،‬لیکن سگریٹ نوش ہیں کہ کچھ سننے کو تیار نہیں۔ ان کے‬
‫خیال میں موت تو برحق ہے زندگی کے غموں کو سگریٹ کے مرغولوں‪ Š‬میں اڑایا جاسکتا‬
‫ہے مگر ایسا ہوتا نہیں۔ سگریٹ تو جل کر دھوئیں میں بدل جاتی ہے مگر انسانی پھیپھڑوں‬
‫پر بھی ایسے داغ چھوڑ دیتی ہے جو اسے وقت سے پہلے فرشتہ اجل کے حوالے کر دیتی‬
‫ہے۔‬
‫عالمی اداروں اور خود مقامی ماہرین کے مطابق ہیپا ٹائٹس کے پھیالئو کی دو بڑی‬
‫وجوہات ہیں۔ طبی ٓاالت کا صحیح طریقے سے جراثیموں سے پاک نہ ہونا‪ ،‬سرنجوں کا‬
‫دوبارہ استعمال اور گندا پانی اس کی بڑی وجوہات ہیں اور یہی دراصل اس کے انفیکشن کا‬
‫بڑا سبب ہے۔ بریسٹ کینسر پاکستان میں عام ہے یہ ہر سال ‪40‬ہزار خواتین کی جانیں لے‬
‫لیتا ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت اس کے پھیالئو کے بارے میں کئی مرتبہ خبردار کر چکا ہے۔ خطرے‬
‫کی گھنٹیاں ہمارے ذہنوں میں گونج رہی ہیں۔ سرطان کی ایک قسم اب بچوں کو بھی معاف‬
‫نہیں کر رہی اور نوجوان بچیاں بھی اس مرض میں مبتال ہو رہی ہیں۔‬
‫ایک اندازے کے مطابق ‪10‬کروڑ خواتین میں سے کم و بیش ‪1‬کروڑ خواتین کا اپنی زندگی‬
‫میں ایک مرتبہ کینسر میں مبتال ہونے کا اندیشہ ہے یعنی ہر ‪10‬ویں عورت یا بچی کینسر‬
‫کا شکار بن سکتی ہے چنانچہ کینسر پر بھرپور توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ پاکستان میں‬
‫بیماریوں کا پھیالئو جاری ہے لیکن ان کی روک تھام کے لیے کوئی منصوبہ بندی‬
‫حکومتی سطح پر نظر نہیں آتی ہے ۔‬
‫تحقیقات | ‪4‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دوسری جانب ملک میں پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں اور ایکس چینج ریٹ تاریخ کی بلند‬
‫سطح پر پہنچنے کے بعد عام ٓادمی سخت مشکالت سے دوچار ہے۔ پٹرول اور ڈالر کی‬
‫قیمتیں ریکارڈ سطح پر پہنچ چکی ہیں‪ ،‬جس سے مزدور طبقہ زیادہ متاثر ہو رہا ہے‪ ،‬اس‬
‫محدود ٓامدنی اور اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ٓائے روز اضافے نے نہ صرف‬
‫پسماندہ بلکہ متوسط طبقوں کو بھی متاثر کیا ہے۔‬
‫پٹرول اور ڈالر کی قیمت میں اضافے کو عام طور پر مہنگائی میں اضافے سے تعبیر کیا‬
‫جاتا ہے‪ ،‬یہی وجہ ہے کہ جب بھی ملک میں پٹرولم مصنوعات یا ڈالر کی قیمت بڑھی‪،‬‬
‫دودھ‪ ،‬دہی‪ ،‬گھی‪ ،‬تیل‪ ،‬دال سمیت بیشتر اشیا کی قیمتوں میں بھی اضافہ سامنے ٓایا۔ صرف‬
‫دال مونگ ہی ڈھائی سو روپے کلو ہے‪ ،‬اگر ہم ٓادھا کلو دال پکائیں تو باقی گھی‪ ،‬تیل‪،‬‬
‫نمک‪ ،‬مرچ بھی چاہیے‪ ،‬روٹی کے لیے ٓاٹا بھی پچھتر روپے فی کلو ہے‪ ،‬غریب ٓادمی کے‬
‫لیے تو دو وقت کی روٹی‪ ،‬کھانا مشکل ہوگیا ہے۔‬
‫اقتصادی ماہرین کے مطابق رواں مالی سال حکومت نے پٹرولیم لیوی کا ہدف چھ سو ارب‬
‫روپے رکھا ہے جب کہ بین االقوامی مارکیٹ میں بھی خام تیل کی قیمتوں میں اضافہ ہو‬
‫رہا ہے‪ ،‬ساتھ ہی یہاں ڈالر کی قیمت بھی بڑھ رہی ہے‪ ،‬اس لیے حکومت کو بھی مہنگا تیل‬
‫خریدنا پڑ رہا ہے‪ ،‬جہاں تک ڈالر کی قیمت میں اضافے کی بات ہے تو ہمیں ڈالرز کی‬
‫ضرورت ہے‪ ،‬اگرچہ ہماری ترسیالت زر اور برآمدات چار ارب ڈالر ماہانہ سے زائد ہیں‪،‬‬
‫لیکن معاشی بحالی کے نتیجے میں درٓامدات میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہو رہا ہے‪ ،‬ساتھ‬
‫ہی افغانستان کی موجودہ صورتحال کے پیش نظر بھی ڈالر کی طلب اور قیمت میں اضافہ‬
‫دیکھا گیا ہے۔‬
‫اس وقت مہنگائی ملک کا سب سے بڑا مسئلہ بن چکا ہے ‪ ،‬اور تاحال حکومت اس پر قابو‬
‫پانے میں ناکام نظر آرہی ہے ‪ ،‬دوسری جانب صحت کا شعبہ مکمل طور پر نظرانداز‬
‫کردیا گیا ہے ‪ ،‬جس کی وجہ عالج و معالجے کی سہولتیں ملک میں نہ ہونے کے برابر رہ‬
‫گئی ہیں ۔ عام آدمی کی مشکالت کو کم کرنے کے لیے حکومتی سطح پر جنگی بنیادوں پر‬
‫اقدامات اٹھانا وقت کی اہم ترین ضرورت بن چکا ہے ‪ ،‬ہم ارباب اختیار سے توقع رکھتے‬
‫ہیں کہ وہ عوام کی مشکالت کا ادراک کرتے ہوئے مسائل کا حل نکالنے کی اپنی مخلصانہ‬
‫کوششوں کو بروئے کار الئیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2242212/268/‬‬

‫بڑی عمر کے افراد کے لیے ورزش کی اہمیت‬


‫عمیر حسن‬
‫نومبر ‪01 2021 ،‬‬

‫تحقیقات | ‪5‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اکثر اوقات صرف نوجوان افراد ہی جم جانے کو ضروری سمجھتے ہیں اور جیسے ہی‬
‫لوگ بڑی عمر کے ہونے لگتے ہیں انھیں اپنی فٹنس کی فکر ختم ہوجاتی ہے اور وہ‬
‫ورزش ترک کردیتے ہیں۔ حاالں کہ حقیقت یہی ہے کہ‪60‬سال کی عمر میں بھی ورزش‬
‫کرنے سے بہت فوائد حاصل ہو سکتے ہیں۔‬
‫ایک بین االقوامی جامعہ کے تحقیقی معالعہ سے معلوم ہوا ہے کہ بڑھاپے میں بھی ِجم جا‬
‫کر مسلز بنائے جاسکتے ہیں۔ اس سوچ کو صحیح ثابت کرنے کے لیے یونیورسٹی کی‬
‫ایک ٹیم نے مردوں کے مسلز بنانے کی صالحیت کا موازنہ کیا۔ انھوں نے ‪ 60‬سال سے‬
‫زائد عمر کےافراد کو دو گروپوں میں‪ ‬تقسیم کیا۔ ایک گروپ میں‪60 ‬سال سے زائد عمر‬
‫کے وہ افرادتھے جو‪20‬سال سے مستقل ہفتے میں کم سے کم دو بار ورزش کرتے تھے‬
‫اور دوسرے گروپ میں‪ ‬وہ لوگ شامل تھے جو ورزش کرنے کا مستقل کوئی معمول نہیں‬
‫رکھتے تھے۔‬
‫ورزش اور خصوصا ً ویٹ لفٹنگ (وزن اٹھانا) کا تربیتی سیشن کروانے سے ‪48‬گھنٹے قبل‬
‫شرکاء کو ٓائسوٹوپ ٹریسر مشروب پالیا گیا اور ان کے مسلزکی بایوپسی کروائی گئی۔‬
‫وزن اٹھانے کی ورزش کے بعد ان کی دوبارہ بائیوپسی کروائی گئی تو محققین کو یہ‬
‫دیکھنے کو مال کہ ورزش کے بعد دونوں گروپوں کے شرکاء کے مسلز میں مساوی مقدار‬
‫میں‪ ‬پروٹین تیار ہو رہی تھی۔‬
‫یونیورسٹی کے لیکچرر ‪ ،‬پی ایچ ڈی کے سربراہ محقق لی برین کا کہنا تھا‪’’ ،‬ہمارا مطالعہ‬
‫واضح طور پر ظاہر کرتا ہے کہ اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ ٓاپ اپنی پوری زندگی‬

‫تحقیقات | ‪6‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫باقاعدگی سے ورزش کرنے والے نہیں رہے‪ ،‬تاہم ٓاپ جب بھی ورزش شروع کریں گے تو‬
‫ٓاپ اس سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‘‘۔‬
‫ت حال پر وضاحت دیتے ہوئے کہنا تھا ‪’’ ،‬ظاہر ہے کہ اچھی‬ ‫لی برین کا اس صور ِ‬
‫جسمانی صحت اور ورزش کے لئے ایک طویل مدتی پالن پورے جسم کی صحت کے لئے‬
‫بہترین نقطہ نظر ہے ‪ ،‬لیکن زندگی میں ‪40‬یا‪50‬سال بعد بھی ورزش کا ٓاغاز مسلز کے‬
‫کمزور ہونے کے عرصے میں تاخیر کا باعث بنےگا۔ تاہم جسمانی لحاظ سے کم عمر افراد‬
‫کو زائد عمر لوگوں‪ ‬کے مقابلے میں مسلز تیار کرنے کا زیادہ فائدہ ہوتا ہے‘‘۔‬
‫ماہرین کا اس ٹیسٹ کے نتائج سے متعلق کہنا ہے کہ‪ ،‬کسی بھی عمر میں جسمانی دبأو‬
‫پڑنے پر جسم ردعمل کا اظہار کرتا ہے۔ جب ورزش کی جاتی ہے تو مسلز پر پڑنے والے‬
‫دبأو کے حوالے سے جسم موافقت پیدا کرتا ہے۔ ایکٹین اور مائوسین نامی دو بڑے پروٹین‪،‬‬
‫مسلز کے اندر ہوتے ہیں جو ان کے سکڑنے کے ذمہ دار ہیں۔ جب ہم ورزش کرتے ہیں تو‬
‫ان پروٹین میں اضافہ ہوتا ہے‪ ،‬یہ بڑھتے اور مسلز کو مضبوط تر کرتے چلے جاتے ہیں۔‬
‫دراصل ورزش کا تنأو مسلز کے خلیوں یا ریشوں کو نقصان پہنچاتا ہے لیکن جب جسم ان‬
‫کی مرمت کرتا ہے‪ ،‬تو وہ پہلے سے کہیں زیادہ بڑے ہوجاتے ہیں اور اس طرح پٹھوں کی‬
‫تعمیرہونے لگتی ہے ۔‬
‫الفاظ دیگر یہ بھی کہا جاسکتا ہے کہ بڑی عمر میں‪ ‬بھی ایسے مسلز بنائے جاسکتے ہیں‬ ‫ِ‬ ‫بہ‬
‫جیسے کہ اتنی ہی عمر کے تربیت یافتہ ایتھلیٹس کے ہوتے ہیں۔ اس سے یہ بھی پتہ‬
‫چلتاہے کہ فٹنس حاصل کرنے کی کوئی عمر نہیں‪ ‬ہوتی‪ ،‬یہاں تک کہ کچھ نہ بھی کریںتو‬
‫صرف سیڑھیاں چڑھنا بھی فائدہ مند ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫اس حوالے سے ماہرین مزید کہتے ہیں کہ‪’’ ،‬اگر مسلز کو چیلنج کیا جائے تو وہ رد عمل‬
‫دکھاتے ہیں‪ ،‬مثال کے طور پر پہلی بار جب ٓاپ بینچ پریس کرتے ہیں تو ٓاپ کے بازو‬
‫پوری طرح اس قابل نہیں‪ ‬ہوتے کہ زائد وزن برداشت کرسکیں‪ ،‬تاہم تھوڑا بہت کرلیتے‬
‫ہیں۔ لیکن جب ٓاپ اسی مشق کا اپنا دوسرا یا تیسرا سیٹ انجام دیتے ہیں تو اس کی مشق‬
‫‪ ‬قدرے ٓاسان ہوجاتی ہے۔‬
‫اسی لئے کو ئی بھی شخص کسی بھی عمر میں باقاعدہ طور پر ورزش کا ٓاغاز کرسکتا‬
‫ہے۔ ہم سب جسمانی سرگرمی سے فائدہ اٹھا سکتے ہیں‪ ،‬تاہم ورزش کی عادت ڈالنے کے‬
‫لئے مستقل مزاجی سب سے اہم چیز ہے۔ ایک بار جب ٓاپ اپنے روزمرہ معموالت میں‬
‫ورزش کی مختلف مشقیں شامل کرنے کے عادی ہوجاتے ہیں تو ٓاپ ان کے دورانیہ اور‬
‫وزن کو اپنے حساب سے ایڈجسٹ کرسکتے ہیں۔ اس طرح ٓاپ ورزش سے بھی لطف‬
‫اندوز ہوسکتے ہیں۔‬
‫اس حوالے سے دنیا کے مختلف ممالک میں کئی تحقیقی معالعے کیے گئے ہیں اور‬
‫برطانیہ میں کی جانے والی ایک تحقیق سے پتہ چال ہے کہ ‪50‬سال سے زائد عمر کے‬
‫افراد اگر ہفتے میں‪ ‬دو تین بار معتدل ورزش کریں تو اس سے ان کا ذہن تروتازہ رہتا اور‬
‫تیزی سے کام کرتاہے جبکہ ان کی یادداشت میں بھی بہتری ٓاتی ہے۔ اس تحقیق کے‬

‫تحقیقات | ‪7‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪39‬جائزوں سے سامنے ٓایا ہے کہ باقاعدگی سے ورزش کرنے سےانسان کے دل اور‬
‫‪ ‬پٹھوں پر اچھے اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬
‫ایکسرسائز تجویز کرتے ہیں جو‪ٓ Tai Chi‬اسٹریلوی محققین اپنی تحقیق کے نتیجے میں‬
‫زیادہ سخت اور چیلنجنگ نہیں ہے۔ برٹش جرنل ٓاف اسپورٹس میڈیسن کے مطالعے‬
‫میں‪ ‬کہا گیا ہے کہ جسمانی سرگرمیوں میں اضافہ کرکے بہت سی بیماریوں جیسے‬
‫ذیابطیس ٹائپ ٹووغیرہ سے محفوظ رہا جاسکتاہے۔ برطانیہ کےالزائمر ریسرچ ادارے کے‬
‫ڈاکٹر ڈیوڈ رینالڈز کے مطابق جسمانی ورزش دماغ کی کارکردگی کو بہتر بنانے کا ایک‬
‫ذریعہ ہوسکتی ہے۔‬
‫مزید برٓاں‪ ،‬غذائیت سے بھرپور چیزیں کھانے اور تمباکو سے دور رہ کر بھی جسمانی‬
‫صحت کو بہتر رکھنے میں مدد ملتی ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1005629‬‬

‫رنگ بدل کر امراض شناخت کرنے والی نینوٹیک پٹی‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 1  ‬نومبر‪2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪8‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تصویر میں نینوٹیکنالوجی سے بنی سالئیڈ دکھائی دے رہی جس سے کینسر کے خلیات کی بآاسانی‪Š‬‬
‫شناخت کی جاسکتی ہے۔ فوٹو‪ :‬بشکریہ الٹروب یونیورسٹی‬
‫میلبورن‪  :‬اس کی تیاری میں پانچ سال لگے ہیں لیکن اب مرض الحق ہونے کی‪ ‬‬
‫صورت میں رنگ بدلنے والی سالئیڈ کو خردبین سے دیکھ کر بہت ٓاسانی سے مرض‬
‫کی شدت معلوم کی جاسکتی ہے۔‬
‫اسے نینوایم سالئیڈ کا نام دیا گیا ہے جسے پالزمون فزکس کی بنیاد ‪ ‬پر بنایا گیا ہے جس‬
‫میں چارج شدہ ذرات میں الیکٹرون کی طرح تھرتھراہٹ ہوتی ہے۔ اس میں چاندی کے‬
‫ذرات کی باریک پرت چڑھائی جاتی ہے اور ٓازاد پھرنے والے الیکٹرون کے لئے فیلڈ‬
‫بن جاتا ہے۔ جب ان پر روشنی پڑتی ہے تو وہ ایک خاص ترتیب میں ٓاجاتے ہیں۔‬
‫چاندی کی پرت میں نینوپیمانے‪ Š‬کے باریک سوراخ پر جب روشنی پڑتی ہے تو وہ خلوی‬
‫نمونے (سیمپل) سے گزرتی ہے اور یہاں کئی رنگ منتخب ہوجاتے ہیں۔ اس طرح‬
‫رنگوں کا ایک طیف بنتا ہے جو فیلڈ میں موجود ٓازاد الیکٹرون کی بنیاد پر تشکیل پاتا‬
‫ہے۔ اس طرح یہ نینوسالئیڈ جب خردبین کے نیچے رکھی جاتی ہے تو ایک طرح کا‬
‫سینسر بن جاتی ہے۔ یوں کینسر زدہ خلیات مخصوص رنگ میں دکھائی دیتے ہیں۔ اس‬
‫طرح نمونے میں مرض کی شناخت ٓاسان ہوجاتی ہے۔ اس سے نمونوں کو کوئی نقصان‬
‫نہیں پہنچتا اور بہت ٓاسانی سے کینسر زدہ خلیات (سیلز) کی شناخت ہوجاتی‪ Š‬ہے‬

‫‪https://www.express.pk/story/2241730/9812/‬‬

‫نیند کی کمی کا ایک اور نقصان سامنے ٓاگیا‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪ 1 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪9‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫نیند کی کمی کے سب سے عام نقصانات میں سستی‪ ،‬سر درد‪ ،‬ذہنی بے چینی‪ ،‬چڑچڑا پن‬
‫اور ڈپریشن شامل ہے‪ ،‬حال ہی میں ماہرین نے اس کے ایک اور طبی نقصان کی طرف‬
‫اشارہ کیا ہے۔‬
‫حال ہی میں امریکا میں کی جانے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ نیند کی کمی درست‬
‫انداز سے چلنے‪ ،‬رکاوٹوں سے بچنے اور توازن برقرار رکھنے جیسی صالحیتوں کو‬
‫متاثر کرتی ہے۔‬
‫امریکا کی یونیورسٹی ٓاف میری لینڈ اسکول ٓاف میڈیسین کی اس تحقیق میں بتایا گیا کہ‬
‫کسی شخص کی نیند اور اس کے چلنے کے انداز میں تعلق موجود ہے‪ ،‬ماہرین نے بتایا کہ‬
‫نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ چال ایک خود کار عمل نہیں اور وہ نیند کی کمی سے متاثر‬
‫ہوسکتی ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ مثالی منظرنامہ تو یہ ہے کہ ہر فرد رات کو ‪ 8‬گھنٹے کی نیند کو یقینی‬
‫بنائے مگر اگر ایسا ممکن نہ ہو تو جس حد تک ممکن ہو اس کی تالفی ہفتہ وار تعطیل کے‬
‫دوران کرنے کی کوشش کریں۔‬
‫اس سے پہلے سائنسدانوں کا خیال تھا کہ انسانوں کے چلنے کا انداز ایک مکمل خود کار‬
‫عمل ہے‪ ،‬ہم خود کو اس سمت کی جانب بڑھاتے ہیں جہاں ہم جانا چاہتے ہیں اور جسم خود‬
‫کار طور پر ذہن کی مدد سے اس پر کنٹرول حاصل کرلیتا ہے۔‬
‫مگر اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ درست نہیں‪ ،‬ہمارا دماغ راستے کے بصری یا سننے‬
‫کے اشاروں پر ردعمل ظاہر کرتا ہے اور اس کے مطابق چلنے کی رفتار کو کم یا بڑھاتا‬
‫ہے۔‬
‫مثالی دماغی طاقت کے لیے بالغ افراد کو ہر رات کم از کم ‪ 8‬گھنٹے نیند کی ضرورت‬
‫ہوتی ہے جبکہ اسکول جانے کی عمر کے بچوں کے لیے یہ دورانیہ ‪ 9‬سے ‪ 12‬گھنٹے‬
‫ہونا چاہیے اور نوجوانوں کو ‪ 8‬سے ‪ 10‬گھنٹے نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪10‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تحقیق میں برازیل کی ساؤ پاؤلو یونیورسٹی کے نیند کی شدید کمی کے شکار‬
‫طالبعلموں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی اور ‪ 14‬دن تک ان کی نیند کے دورانیے کو جاننے‬
‫کے لیے ٹریکرز کا استعمال کیا گیا۔‬
‫اوسطا ً یہ طالبعلم ہر رات ‪ 6‬گھنٹے سونے کے عادی تھے‪ ،‬گروپ کے نصف افراد کو ایک‬
‫رات تک جگا کر ایک ٹریڈ مل ٹیسٹ لیا گیا۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ نیند کی کمی کے نتیجے میں لوگوں کی چال بری طرح متاثر ہوتی‬
‫ہے‪ ،‬لڑکھڑاہٹ عام ہوتی ہے اور وہ عمومی طور پر بھی بدتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫مگر تحقیق میں یہ بھی دریافت ہوا کہ جن طالبعلموں نے ہفتہ وار تعطیل پر نیند کے‬
‫دورانیے کو کم کرنے کی کوشش کی ان کی کارکردگی اس ٹاسک میں کسی حد تک بہتر‬
‫ہوگئی۔نیند کے بیشتر ماہرین کی جانب سے اس حکمت عملی کو اپنانے کا مشورہ نہیں دیا‬
‫جاتا کیونکہ تحقیقی رپورٹس میں معلوم ہوا کہ اپنے سونے جاگنے کے وقت میں تبدیلی النا‬
‫ہارٹ اٹیک یا امراض قلب کا خطرہ نمایاں حد تک بڑھاتا ہے۔‬
‫اس سے قطع نظر اس نئی تحقیق میں جو اہم پیغام دیا گیا وہ مناسب نیند کو یقینی بنانا ہے‬
‫بالخصوص ایسے افراد جو ایسے دفاتر میں کام کرتے ہیں جہاں مختلف شفٹوں میں کام ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/lack-of-sleep-could-affect-our-walk/‬‬

‫ہوشیار! یہ عادت کم عمری میں ہی گنج پن کا شکار بنا سکتی‬


‫ہے‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪ 1 2021‬‬

‫اکثر مرد اپنے بال گرنے کی وجہ سے بے حد پریشان رہتے ہیں‪ ،‬بال گرنے کا یہ عمل‬
‫بعض اوقات نہایت کم عمری میں بھی شروع ہوجاتا ہے اور اب ایک ڈاکٹر نے اس کی‬
‫وجہ بتائی ہے۔‬
‫مردوں کے بعض اوقات ‪ 20‬اور ‪ 30‬سال کی عمر کے بعد ہی بال اس تیزی سے گرنا‬
‫شروع ہو جاتے ہیں کہ وہ گنج پن کا شکار ہو جاتے ہیں‪ ،‬ماہر جلدی امراض ڈاکٹر کرن‬
‫کے مطابق زیادہ مردوں کو کم عمری میں ہی گنج پن کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪11‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ڈاکٹر کرن کے مطابق پہلے ‪ 50‬اور ‪ 60‬سال کی عمر کے بعد مردوں میں گنج پن کی‬
‫شکایت پائی جاتی تھی۔‬
‫انہوں نے مردوں میں بال گرنے کی چند وجوہات بتائی ہیں جن میں سے ایک غذا میں‬
‫چینی کا زیادہ استعمال ہے۔‬
‫ڈاکٹر کرن کا کہنا ہے کہ کاربو ہائیڈریٹس والی غذائیں زیادہ مقدار میں کھانے‪ ،‬پروٹین‬
‫پاؤڈر کا استعمال‪ ،‬تھائی رائیڈ کا متاثر ہونا یا پھر وٹامن کی کمی بھی بال گرنے کا باعث‬
‫بن سکتی ہے۔‬
‫انہوں نے بالوں کے عالوہ جلد کی حفاظت کے لیے بھی وٹامن سی کے استعمال کا مشورہ‬
‫دیا ہے۔ وٹامن سی ایک طاقتور اینٹی ٓاکسیڈنٹ ہے جو جلد کو خراب ہونے اور جھائیاں‬
‫پڑنے سے بچاتا ہے۔‬
‫ڈاکٹر کرن کا کہنا ہے کہ غذا میں وٹامن سی سے بھرپور کھانوں کا استعمال کرنا چاہیئے‬
‫اور وٹامن سپلیمنٹس بھی لینے چاہئیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/hair-fall-in-men/‬‬

‫ایک اور ملک میں‌ ‪ 5‬سالہ بچوں کے لیے سائنوویک ویکسین کی‬
‫منظوری‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪ 1 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪12‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پنوم پن‪ :‬کمبوڈیا نے ‪ 5‬سال کی عمر کے بچوں کو چین کی سائنوویک ویکسین لگانے کا‬
‫فیصلہ کیا ہے۔‬
‫تفصیالت کے مطابق جنوب مشرقی ایشیائی ملک کمبوڈیا میں آج سے ملک بھر میں پانچ‬
‫سالہ بچوں کو سائنوویک کی کرونا وائرس ویکسین لگانے کا عمل شروع کیا جا رہا ہے۔‬
‫وزارت صحت سے جاری بیان کے مطابق کمبوڈیا کے تمام ‪ 25‬شہروں اور صوبوں میں‬
‫چھوٹے بچوں کو آج سے چینی کمپنی کی تیار کردہ ویکسین کی ‪ 2‬ڈوز دی جائیں گی۔‬
‫پہلی اور دوسری ڈوز کے درمیان ‪ 28‬دن کا وقفہ ہوگا‪ ،‬والدین یا قانونی سرپرستوں کو‬
‫بچوں کی ویکسینیشن کے لیے ان کے پیدائشی سرٹیفکیٹ‪ ،‬گھرانے کا ریکارڈ یا پاسپورٹ‬
‫ضرور ساتھ النا ہوگا۔‬
‫کمبوڈیا میں اب تک ‪ 6‬سال یا اس سے زیادہ عمر کے ‪ 1‬کروڑ ‪ 37‬الکھ افراد کو کرونا‬
‫ویکسین کی ایک ڈوز لگائی جا چکی ہے‪ ،‬یہ تعداد کمبوڈیا کی ‪ 1‬کروڑ ‪ 60‬الکھ کی آبادی‬
‫میں سے ‪ 85.6‬فی صد بنتی ہے۔‬
‫وزارت صحت کے مطابق ‪ 1‬کروڑ ‪ 30‬الکھ ‪ 50‬ہزار افراد کو دونوں مطلوبہ ڈوز لگائی جا‬
‫چکی ہیں‪ ،‬یعنی ‪ 81.6‬فی صد آبادی مکمل طور پر ویکسینیٹڈ ہو چکی ہے۔‬
‫کمبوڈیا میں ‪ 18‬الکھ ‪ 30‬ہزار افراد‪ ،‬یا ‪ 11.4‬فی صد نے تیسری یعنی بوسٹر ڈوز بھی لے‬
‫لی ہے۔‬
‫کمبوڈیا میں شہریوں کو زیادہ تر چینی کمپنیوں سائنوویک اور سائنوفارم کی تیار کردہ‬
‫ویکسین لگائی گئی ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/cambodia-sinovac-vaccine-for-kids/‬‬

‫‪ 10‬الکھ پاکستانیوں کو سگریٹ چھوڑنے کے لیے مہم کا آغاز کیا جا‬


‫رہا ہے‪،‬‬

‫عبیر مرزا‬

‫‪01/11/2021‬‬
‫‪    ‬‬
‫دنیا بھر میں تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد‪ ‬‬
‫ایک ارب سے زیادہ ہے۔‪ ‬ایسوسی ایشن فارسموکنگ الٹرنیٹوز پاکستان‬
‫اسالم آباد (یکم نومبر ‪ :)2021‬ملک بھرمیں سگریٹ نوشی کرنے والوں کی بڑھتی ہوئی‬
‫تعداد پر گہری تشویش‬

‫تحقیقات | ‪13‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کا اظہار کرتے ہوئے پاکستانیوں کو سگریٹ چھوڑنے کی ضرورت سے آگاہ کرنے کے‬
‫لیے ملک بھر میں ٓاگاہی مہم کا آغاز کر دیا گیا ہے۔‪ ‬ایسوسی ایشن فارسموکنگ الٹرنیٹوز‪Š‬‬
‫پاکستان‪ ‬ملک بھر میں سگریٹ نوشی کرنے والوں کو مشاورت اور مدد فراہم کرنے کے‬
‫لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے ذریعے ‪ 10‬الکھ تمباکو نوشی کرنے والوں کی زندگیوں سے‬
‫سگریٹ کو ہٹانے میں مدد فراہم کرے گی۔ برطانیہ میں ہر سال اکتوبر کے مہینے میں‬
‫تمباکو نوشی کرنے والے افراد کو تمباکو نوشی چھوڑنے کے لیے ایک مہم منعقد کیا جاتی‬
‫ہے۔ اس سال اس مہم کے بہت عمدہ نتائج سامنے ٓائے۔ اس سال نومبر ‪ ۲۰۲۱‬میں پاکستان‬
‫میں بھی اسی طرح کی مہم شروع کرنے کا عزم کیا گیا ہے تاکہ لوگوں میں ٓاگاہی پیدا کی‬
‫جا ئے اور ان کی صحت کو بہتر بنایا جا سکے۔ تقریبا ً تمام سگریٹ نوشی کرنے والےافراد‬
‫سگریٹ سے وابستہ خطرات کو سمجھتے ہیں لیکن ان کا استعمال اس وقت تک جاری‬
‫رکھتے ہیں جب تک کہ وہ قلبی امراض‪ ،‬کینسر یا سگریٹ کے استعمال سے وابستہ دیگر‬
‫بیماریوں کا شکار نہ ہو جائیں۔‬
‫‪ ‬ایسوسی ایشن فار سموکنگ الٹرنیٹس پاکستان‪ ‬جیسی تنظیموں اور ریگولیٹری اتھارٹیز کا‬
‫کردار ہے کہ وہ ابھی لوگوں کو سگریٹ چھوڑنے پر مجبور کریں‪ ،‬ان خیاالت کا‬
‫اظہار‪ ‬ایسوسی ایشن فارسموکنگ الٹرنیٹس‪ Š‬پاکستان‪ ‬کے بانی اور سی ای او عبیر مرزا نے‬
‫کیا۔ انہوں نے مزید کہا کہ‪ ‬ایسوسی ایشن فارسموکنگ الٹرنیٹیوز‪ Š‬پاکستان‪ ‬تمباکو کنٹرول کی‬
‫پالیسیوں اور حکومت کی طرف سے اٹھائے گئے اقدامات کی حمایت کرتی ہے‪ ،‬تاہم‬
‫گزشتہ دہائی کے دوران سگریٹ کے استعمال کے اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ان سے‬
‫مطلوبہ نتائج حاصل نہیں ہوئے۔ تازہ اعداد و شمار سے پتہ چلتا ہے کہ عالمی سطح پر‬
‫تمباکو نوشی کی شرح میں کمی کے باوجود‪ ،‬تمباکو نوشی کرنے والوں کی تعداد اب بھی‬
‫ایک ارب سے زیادہ ہے‪ ،‬جن میں سے ‪ 80‬فیصد کم اور درمیانی آمدنی والے ممالک ہیں‪،‬‬

‫تحقیقات | ‪14‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جس کی وجہ صحت عامہ کے زیادہ اخراجات ہیں۔ پندرہ ملین سے زائد سگریٹ نوشی‬
‫کرنے والے افراد کے ملک میں‪ ،‬پاکستان کو سگریٹ کے صحت عامہ پر پڑنے والے‬
‫اثرات کو روکنے میں مدد کے لیے جدید حل کی اشد ضرورت ہے۔‬

‫اس ٓاگاہی مہم کے ذریعے‪ ‬ایسوسی ایشن فارسموکنگ الٹرنیٹس‪ Š‬پاکستان‪ ‬کا مقصد سگریٹ‬
‫نوشی کے مضر صحت اثرات کے بارے میں آگاہی پیدا کرنا ہے جن سے برطانیہ‪ ،‬یورپ‬
‫اور جاپان جیسے دیگر ممالک کامیاب رہے ہیں۔‪ ‬ایسوسی ایشن فار سموکنگ الٹرنیٹیوز‬
‫پاکستان‪ ‬ہم خیال افراد کا ایک اتحاد ہے‪ ،‬جو پاکستان میں سگریٹ نوشی کی شرح کو نمایاں‬
‫طور پر کم کرنے میں مدد کرنے کے لیے تمباکو نوشی کرنے والوں اور پالیسی سازوں‬
‫کے درمیان سائنسی طور پر ثابت شدہ تمباکو نوشی کے متبادل ذرائع کو اپنانے کی وکالت‬
‫کرتا ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202111-127413.html‬‬

‫فائزر ویکسین کی تیسری خوراک کی افادیت کا ڈیٹا سامنے آگیا‬

‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪01 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬

‫تحقیقات | ‪15‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫فائزر‪ /‬بائیو این ٹیک کی کووڈ ‪ 19‬کی تیسری خوراک بیماری سے ہسپتال میں داخلے اور‬
‫موت کا خطرہ نمایاں حد تک کم کرتی ہے۔‬
‫یہ بات ویکسین کی تیسری خوراک کی افادیت پر ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے‬
‫ٓائی۔‬
‫ریسرچ انسٹیٹوٹ کی اس تحقیق میں ‪ Clalit‬امریکا کی ہارورڈ یونیورسٹی اور اسرائیل کے‬
‫ملک گیر سطح پر ویکسین کی اضافی خوراک کی افادیت کی جانچ پڑتال کی گئی۔‬
‫اسرائیل میں ساڑھے ‪ 7‬الکھ افراد کو فائزر ویکسین کا بوسٹر ڈوز دیا گیا تھا۔‬
‫تحقیق کے لیے اس ڈیٹا کی جانچ پڑتال سے ثابت ہوا کہ ویکسین کی اضافی خوراک سے‬
‫کووڈ سے منسلک خطرات میں خطرہ ‪ 2‬خوراکوں کے مقابلے میں نمایاں حد تک کم ہوجاتا‬
‫ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ اس اضافی خوراک کی ہسپتال میں داخلے کا خطرہ ‪ 93‬فیصد‪،‬‬
‫بیماری کی سنگین شدت کا امکان ‪ 92‬فیصد اور کووڈ کے باعث موت کا خطرہ ‪ 81‬فیصد‬
‫تک کم ہوجاتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق بوسٹر ڈوز سے ملنے واال تحفظ بہت زیادہ ٹھوس ہے مگر ویکسین کی‬
‫‪ 2‬خوراکیں استعمال کرنے والے افراد میں بھی بیماری سے الحق خطرہ بہت زیادہ نہیں‬
‫ہوتا۔‬
‫مثال کے طور پر ویکسین کی ‪ 2‬خوراکیں استعمال کرنے کے بعد ‪ 10‬الکھ میں سے کووڈ‬
‫سے متاثر کر ہالک ہونے والے کی تعداد صرف ‪ 44‬تھی جبکہ بوسٹر ڈوز گروپ میں یہ‬
‫تعداد محض ‪ 7‬تھی۔‬

‫تحقیقات | ‪16‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بوسٹر ڈوز استعمال کرنے والے صرف ‪ 29‬افراد کووڈ کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ ویکسین کی تیسری خوراک کووڈ کی سنگین‬
‫پیچیدگیوں کے خالف بہت زیادہ مؤثر ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی النسیٹ میں شائع ہوئے۔‬
‫اس سے قبل ستمبر ‪ 2021‬میں کمپنی نے خود بھی اپنی کووڈ ویکسین کی تیسری خوراک‬
‫کی افادیت کے نتائج جاری کی تھے۔‬
‫امریکا کے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن میں جمع رائے گئے ڈیٹا میں بتایا گیا کہ فائزر‬
‫ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے ‪ 6‬ماہ بعد تیسری خوراک دینے سے بیماری‬
‫سے تحفظ کی شرح دوبارہ ‪ 95‬فیصد ہوجاتی ہے۔‬
‫فائزر کی جانب سے ‪ 52‬صفحات پر مبنی ڈیٹا میں بتایا گیا کہ اگرچہ ایم آر این اے ویکسین‬
‫کی افادیت وقت کے ساتھ گھٹ جاتی ہے مگر بوسٹر ڈوز سے مدافعتی ردعمل اسی سطح‬
‫پر پہنچ جاتا ہے جو دوسری خوراک کے بعد نظر آتا ہے۔‬
‫یہ ڈیٹا اسرائیل میں فائزر کی تیسری خوراک کے استعمال کے نتائج پر مبنی تھا۔‬
‫کمپنی کے مطابق ویکسین کی تیسری خوراک سے لوگوں کا مدافعتی ردعمل دوبارہ اتنا‬
‫مضبوط ہوگیا جتنا دوسری خوراک کے استعمال کے بعد ہوتا ہے اور بیماری سے تحفظ‬
‫کی شرح ‪ 95‬فیصد ہوجاتی ہے۔‬
‫یہ ڈیٹا یکم جوالئی سے ‪ 30‬اگست کے درمیان اکٹھا کیا گیا تھا جب اسرائیل میں کورونا کی‬
‫قسم ڈیلٹا کے کیسز میں نمایاں اضافہ ہوا تھا۔‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171769/‬‬
‫کیا سویابین سے دمے کی شدت کم ہوسکتی ہے؟‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫منگل‪ 2  ‬نومبر‪ 2021  ‬‬

‫خمیر شدہ سویابین فوڈ سپلیمنٹ کے استعمال سے چوہوں میں سانس کی نالی میں الرجی کم‬
‫)ہوتی دیکھی گئی‬
‫اوساکا‪ :‬جاپانی سائنسدانوں نے چوہوں پر تجربات سے معلوم کیا ہے کہ خمیر شدہ‬
‫سویابین کی غذائی مصنوعات سے دمے کی عالمات اور شدت میں کمی ٓاتی ہے‪ ،‬تاہم‬
‫انہوں نے یہ بھی واضح کیا ہے کہ ان نتائج کی انسانوں میں تصدیق ہونا باقی ہے۔‬
‫تجربات کے دوران چوہوں کو خمیری سویابین سے بنا ہوا ایک غذائی سپلیمنٹ کھالیا گیا‬
‫‪ .‬جو ’’اِمیوبیلنس‘‘ کے نام سے دستیاب ہے‬

‫تحقیقات | ‪17‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫نظام‬
‫ِ‬ ‫اس سپلیمنٹ میں ’ٓائسوفلیوونز‘ کہالنے والے اہم غذائی اجزاء شامل ہوتے ہیں جنہیں‬
‫ہاضمہ کے عالوہ دماغ اور ہڈیوں کےلیے بھی مفید سمجھا ہے جبکہ یہ کینسر کی بعض‬
‫اقسام کے خالف بھی مؤثر پایا گیا ہے۔‬
‫حالیہ برسوں میں کچھ تحقیقات کے دوران معلوم ہوا تھا کہ سویابین کے استعمال سے دمے‬
‫کی شدت بھی کم ہوتی ہے‪ ،‬لیکن اس حوالے سے ‪ 2015‬میں شائع ہونے والی ایک طویل‬
‫طبّی ٓازمائش بے نتیجہ ثابت ہوئی۔‬
‫اسی تسلسل میں ریسرچ جرنل ’’نیوٹریئنٹس‘‘ کے تازہ شمارے میں اوساکا یونیورسٹی کے‬
‫ماہرین کی تحقیق شائع ہوئی ہے جس میں انہوں نے بتایا کہ سویابین والے فوڈ سپلیمنٹ کے‬
‫استعمال سے چوہوں میں سانس کی نالی میں الرجی کم ہوتی دیکھی گئی۔‬
‫اس کے عالوہ‪ ،‬دمے سے متعلق خون کے سفید خلیات (اِیوسینوفلز)‪ ،‬پھیپھڑوں کی رگوں‬
‫میں سوزش اور بلغم بننے کی مقدار میں بھی کمی کا مشاہدہ ہوا۔‬
‫بظاہر ایسا لگتا ہے کہ دمہ اور سانس کی دیگر تکالیف میں خمیر شدہ سویابین میں شامل‬
‫فائبرز کوئی اہم کردار ادا کرتے ہیں۔‬
‫اس حوالے سے انہوں نے مزید محتاط اور فیصلہ کن انسانی تحقیقات کی ضرورت پر زور‬
‫دیا ہے تاکہ دمے کی صورت میں سویابین کے فوائد کی حتمی طور پر تائید یا تردید‬
‫ہوسکے‬
‫۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2242426/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪18‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انڈونیشیا میں ‪ 6‬سے ‪ 11‬سالہ بچوں میں سائنوویک کے استعمال کی‬
‫منظوری‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪ 1 2021‬‬

‫جکارتہ‪ :‬انڈونیشیا نے ‪ 6‬سے ‪ 11‬سال کی عمر کے بچوں کے لیے سائنوویک ویکسین‬


‫کی اجازت دے دی۔‬
‫تفصیالت کے مطابق انڈونیشیا کی فوڈ اینڈ ڈرگ ایجنسی نے پیر کو کہا ہے کہ اس نے چھ‬
‫سے گیارہ سال کی عمر کے بچوں کے لیے چینی کمپنی سائنوویک کی کرونا ویکسین کی‬
‫منظوری دے دی ہے۔‬
‫پیر تک انڈونیشیا میں صرف ‪ 12‬سال یا اس سے زیادہ عمر کے لوگوں کے لیے چینی‬
‫ساختہ سائنوویک ویکسین کے استعمال کی اجازت تھی‪ ،‬انڈونیشیا کی کرونا مہم کے دوران‬
‫استعمال کی جانے والی ویکسینز میں سب سے زیادہ تعداد سائنوویک ہی کی ہے‪ ،‬جو ‪20‬‬
‫کروڑ سے زیادہ ڈوزز پر مبنی ہے۔‬
‫انڈونیشی حکام کا کہنا ہے کہ بچوں کے لیے سائنوویک کے استعمال کی منظوری خوش‬
‫آئند ہے‪ ،‬ہمیں یقین ہے کہ بچوں کی ویکسینیشن ایک فوری معاملہ ہے۔‬
‫وزیر صحت بوڈی گناڈی صادقین کا کہنا تھا کہ یہ منظوری اس وقت ملی ہے جب انڈونیشیا‬
‫کو ذاتی طور پر سیکھنے کی ٹرائلز میں دو ماہ ہونے کو ہیں‪ ،‬اور اس دوران اسکولوں میں‬
‫سامنے آنے والے کیسز نسبتا ً کم رہے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪19‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫وزارت صحت کی ایک اہل کار ستی نادیہ ترمزی نے بتایا کہ بچوں کے لیے ویکسینیشن‬
‫کا آغاز اگلے برس ہی ہوگا‪ ،‬کیوں کہ انڈونیشیا کی پیڈیاٹرک ایسوسی ایشن کی مزید‬
‫سفارشات اور مزید ویکسین شاٹس کا انتظار کیا جا رہا ہے۔‬
‫واضح رہے کہ چلی اور کمبوڈیا نے بھی چھوٹے بچوں کے لیے سائنوویک کرونا ویکسین‬
‫کے استعمال کی منظوری دی ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/sinovac-in-children-indonesia/‬‬

‫والدین خبردار ‪ :‬بچوں کو خطرناک بیماریوں سے کیسے بچایا جائے؟‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪ 2 2021‬‬

‫میساچیوسٹس ‪ :‬مختلف تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ نیند ہماری یادوں کو‬
‫محفوظ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے‪ ،‬رات کی مکمل نیند سے مختلف دماغی افعال‬
‫بہتر ہوتے ہیں جو یادداشت کے لیے اہم کردارادا کرتے ہیں۔‬
‫نیند کی کمی کے سب سے عام نقصانات میں سستی‪ ،‬سر درد‪ ،‬ذہنی بے چینی‪ ،‬چڑچڑا پن‬
‫شامل ہے‪ ،‬حال ہی میں کی گئی ایک تحقیق میں ماہرین نے اس کے ایک اور طبی نقصان‬
‫کی طرف اشارہ کیا ہے۔‬
‫امریکی سائنسدانوں کے مطابق لمبی اور بھرپور نیند لینے والے بچوں کے لئے بعد کی‬
‫عمر میں موٹاپے کا خطرہ بھی کم ہوتا ہے۔‬
‫ٓان الئن ریسرچ جرنل سلیپ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق ماہرین نے‬
‫میساچیوسٹس جنرل ہاسپٹل میں ‪2016‬سے ‪ 2018‬کے درمیان پیدا ہونے والے ‪ 298‬بچوں‬
‫کو اس مطالعے کے لئے رجسٹر کیا۔‬

‫تحقیقات | ‪20‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اس تحقیق میں بچوں میں سونے جاگنے کے اوقات پر نظر رکھنے کے لئے انہیں ہلکی‬
‫پھلکی اسمارٹ گھڑیاں پہنائی گئیں۔ بچوں کے والدین سے کہا گیا کہ وہ بھی ان بچوں کے‬
‫کھانے پینے اور سونے جاگنے کے روزمرہ کے اوقات ڈائری میں مرتب کریں۔‬

‫اس دوران دیکھا گیا کہ جن بچوں نے شام ‪ 7‬بجے سے صبح‪ 8‬بجے کے درمیان سکون کی‬
‫نیند لی تو ان کا ٓائندہ دو سے تین سال میں وزن معمول کے قریب رہا۔‬

‫تحقیقات | ‪21‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین کو یہ بھی معلوم ہوا کہ شام سے صبح تک کے ان مخصوص اوقات میں ہر ایک‬
‫گھنٹے کی اضافی نیند کے نتیجے میں شیرخوار بچوں کے لئے موٹاپے کا امکان ‪ 26‬فیصد‬
‫کم ہوا۔‬

‫ڈاکٹر سوزین ریڈالئن کے مطابق یہ بچوں میں نیند اور موٹاپے کے حوالے اب تک کی‬
‫سب سے محتاط تحقیق بھی ہے کیونکہ اس میں صرف والدین کی فراہم کردہ معلومات پر‬
‫انحصار نہیں کیا گیا بلکہ بچوں پر اسمارٹ واچز کے ذریعے بھی نظر رکھی گئی۔‬
‫آپ نے اکثر دیکھا ہوگا کہ تندرست بچے اپنی زندگی کے پہلے چند مہینوں میں زیادہ تر‬
‫سوئے رہتے ہیں‪ ،‬بعض بچے گہری نیند سوتے ہیں اور شور ان کی نیند میں رخنہ نہیں‬
‫ڈالتا لیکن بعض بچوں کی ٓانکھ فوراً کھل جاتی ہے۔ لہٰ ذا بچے کو ہمیشہ ایسی جگہ سالیا‬
‫جائے جہاں شورشرابہ نہ ہو اور اگر ہو بھی تو اس کے ہونے کا امکانات بھی کم ہوں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/childrens-sleep-dangerous-diseases-parents-‬‬
‫‪beware/‬‬

‫بھارتی شراکت سے تیار کووڈ ویکسین کے ایک ملک میں استعمال کی‬
‫منظوری‬

‫ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪  2 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪22‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫امریکی بائیو ٹیکنالوجی کمپنی اور اس کے شراکت دار سیرم انسٹی ٹیوٹ ٓاف انڈیا کی‬
‫تیار کردہ کووڈ ‪ 19‬ویکسین کو انڈونیشیا میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری دے دی‬
‫گئی۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق نووا ویکس اور اس کے شراکت دار سیرم انسٹی ٹیوٹ‬
‫ٓاف انڈیا کی تیار کردہ کووڈ ‪ 19‬ویکسین کو پہلے ملک میں ایمرجنسی استعمال کی‬
‫منظوری حاصل ہوگئی ہے۔‬
‫کمپنیوں کی جانب سے ایک بیان میں بتایا گیا کہ انڈونیشیا میں ان کی کووڈ ‪ 19‬ویکسین کو‬
‫استعمال کی منظوری حاصل ہوئی۔‬
‫خیال رہے کہ نووا ویکس کی جانب سے برطانیہ‪ ،‬بھارت‪ٓ ،‬اسٹریلیا‪ ،‬فلپائن اور یورپین‬
‫میڈیسن ایجنسی کے پاس بھی ویکسین کی منظوری کے لیے درخواستیں جمع کروائی جا‬
‫چکی ہیں۔‬
‫انڈونیشیا میں یہ ویکسین سیرم انسٹی ٹیوٹ کی جانب سے تیار کر کے کوو ویکس کے نام‬
‫سے فراہم کی جائے گی‪ ،‬نووا ویکس نے بتایا کہ انڈونیشیا کو ویکسین کی پہلی کھیپ جلد‬
‫فراہم کردی جائے گی۔‬
‫انڈونیشین حکومت کے مطابق پروٹین پر مبنی ویکسین کی ‪ 2‬کروڑ خوراکیں ‪ 2021‬میں‬
‫موصول ہوں گی۔‬
‫نووا ویکس اور سیرم انسٹی ٹیوٹ نے ایک ارب ‪ 10‬خوراکیں عالمی ادارہ صحت کے زیر‬
‫تحت کام کرنے والے ادارے کوو ویکس کو فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔‬
‫ویکسین کی فراہمی کا سلسلہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایمرجنسی استعمال کی‬
‫منظوری کے بعد ‪ 2021‬میں ہی شروع ہوجائے گی اور یہ سلسلہ ‪ 2022‬میں بھی جاری‬
‫رہے گا۔‬
‫گزشتہ ماہ نووا ویکس اور سیرم انسٹی ٹیوٹ ٓاف انڈیا نے عالمی ادارہ صحت میں اس‬
‫ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری کے لیے درخواست جمع کروائی تھی۔‬
‫اس کا مقصد کم اور متوسط ٓامدنی والے ممالک میں اس ویکسین کو فراہم کرنا ہے کیونکہ‬
‫امریکا اور یورپ میں پہلے ہی فائزر‪ ،‬موڈرنا‪ ،‬جانسن اینڈ جانسن اور ایسٹرا زینیکا‬
‫ویکسینز کو عام استعمال کیا جارہا ہے۔‬
‫خیال رہے کہ ویکسین کے انسانی ٹرائل کے ٓاخری مرحلے میں دریافت کیا گیا تھا کہ یہ‬
‫ویکسین کرونا وائرس کی اوریجنل قسم سے ہونے والی بیماری سے ‪ 96‬فیصد تک تحفظ‬
‫فراہم کرسکتی ہے۔‬
‫امریکا اور میکسیکو میں ‪ 30‬ہزار افراد پر ٓاخری مرحلے کے ٹرائل کے ڈیٹا کے مطابق‬
‫این وی ایکس کو وی ‪ 2373‬نامی یہ ویکسین بیماری کی معتدل اور سنگین شدت سے ‪100‬‬
‫فیصد تحفظ فراہم کرتی ہے جبکہ اس کی مجموعی افادیت ‪ 90.4‬فیصد ہے۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/novavax-vaccine-gets-authorization/‬‬

‫تحقیقات | ‪23‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کووڈ ‪ 19‬سے بچانے والی اینٹی باڈیز کب تک برقرار رہتی ہیں؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪2 2021‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬کی وبا کو ‪ 2‬سال گزرنے کے بعد اب بھی اس کے بارے میں مختلف تحقیقات‬
‫جاری ہیں اور حال ہی میں ماہرین نے جاننے کی کوشش کی کہ اس وبا سے بچانے والی‬
‫اینٹی باڈیز جسم میں کب تک برقرار رہتی ہیں۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق برطانیہ کے کنگز کالج لندن کی تحقیق میں شامل‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈیٹا اور دیگر حالیہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ‬
‫وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی سطح میں وقت کے ساتھ کمی ٓاتی ہے مگر وائرل‬
‫ذرات اور متعدی وائرس کے خالف اینٹی باڈیز سرگرمیاں بیماری کے ‪ 10‬ماہ بعد بھی‬
‫دریافت ہوسکتی ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 38‬ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو برطانیہ میں کرونا وائرس کی پہلی‬
‫لہر کے دوران کووڈ سے متاثر ہوئے تھے‪ ،‬ان افراد کے خون کے نمونوں میں اینٹی باڈیز‬
‫کی جانچ پڑتال کی گئی۔‬
‫تحقیق میں شامل کچھ ماہرین نے ایک سابقہ تحقیق میں دریافت کیا تھا کہ اینٹی باڈی کی‬
‫سطح بیماری کے ‪ 3‬سے ‪ 5‬ہفتے بعد عروج پر پہنچ کر گھٹنا شروع ہوتی ہے‪ ،‬مگر اس‬
‫وقت یہ واضح نہیں تھا کہ اس کمی کا سلسلہ ‪ 3‬ماہ بعد بھی برقرار رہتا ہے یا نہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪24‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اب نئی تحقیق میں انہوں نے بیماری کو شکست دینے والے افراد کے نمونوں میں ‪ 10‬ماہ‬
‫بعد بھی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا۔‬
‫انہوں نے کرونا وائرس کی مختلف اقسام کے خالف اینٹی باڈیز سرگرمیوں کے شواہد بھی‬
‫حاصل کیے‪ ،‬یعنی جو مریض کرونا کی اوریجنل قسم سے متاثر ہوئے تھے‪ ،‬ان کو بھی‬
‫کرونا کی زیادہ متعدی اقسام کے خالف کسی حد تک تحفظ ملتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ ان افراد کے نمونوں میں ہونے والی اینٹی باڈی‬
‫سرگرمی ایلفا‪ ،‬گیما اور بیٹا کے خالف ہوئی مگر ان کی طاقت زیادہ نہیں تھی۔‬
‫انہوں نے وضاحت کی کہ کووڈ سے بیمار ہونے والے افراد میں وائرس کے خالف ٹھوس‬
‫اینٹی باڈی ردعمل بنتا ہے مگر یہ اثر مختلف اقسام کے خالف گھٹ جاتا ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اوریجنل وائرس کے اسپائیک پروٹین پر مبنی‬
‫ویکسینز سے بھی نئی اقسام کے خالف وسیع اینٹی باڈی ردعمل جسم میں بن سکتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/antibodies-after-covid-19/‬‬

‫بچوں کے پیٹ میں کیڑے اور اس کا عالج‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪2 2021‬‬

‫بچوں کے پیٹ کے کیڑے ان کی نشونما کو بری طرح متاثر کرسکتے ہیں‪ ،‬ان کے قد کا‬
‫بڑھنا رک سکتا ہے یا پھر وزن میں اضافہ ہونا رک سکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪25‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اگر آپ کا بچہ بہت چڑچڑا ہو رہا ہو ‪ ،‬بار بار بھوک لگتی ہو یا پھر اکثر پیٹ درد کی‬
‫شکایت کرتا ہو تو یہ عالمات آپ کے بچے کے پیٹ میں کیڑوں کی موجودگی کو ظاہر کر‬
‫رہی ہیں۔‬
‫اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں سول اسپتال کے اسسٹنٹ‬
‫پروفیسر وسیم جمالوی نے بچوں کے پیٹ میں کیڑوں سے متعلق والدین کیلئے ضروری‬
‫ہدایات دیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ان کیڑوں کی اقسام دو طرح کی ہوتی ہیں ایک وہ ہیں جو آنتوں میں‬
‫چپک جاتے ہیں اور خون چوستے رہتے ہیں‪ ،‬اور دوسری قسم کے کیڑے بچے کی جائے‬
‫پاخانہ پر خارش ہوتی ہے اور اس کی پرورش بھی ہوتی رہتی ہے۔‬
‫پروفیسر وسیم جمالوی نے بتایا کہ بچے عام طور پر مٹی کھاتے ہیں جس کی وجہ سے ان‬
‫کے پیٹ میں کیڑے ہو سکتے ہیں‪ ،‬پانی کے ذریعے بھی یہ کیڑے جسم کا حصہ بن سکتے‬
‫ہیں‪ ،‬اس کے عالوہ صفائی کا خیال نہ رکھنے کی وجہ سے بھی پیٹ میں کیڑے ہوسکتے‬
‫ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اگر ایک مرتبہ کسی بیرونی ذریعے سے یہ کیڑے جب جسم میں داخل‬
‫ہوجائيں تو اس کے بعد یہ تیزی سے تقسیم ہونا شروع ہوجاتے ہیں اور پیٹ میں اپنی تعداد‬
‫بڑھانا شروع کر دیتے ہیں جس سے بچے خون کی کمی کا شکار بھی ہوجاتے ہیں۔‬
‫بعض اوقات اگر بچے کی قوت مدافعت مضبوط ہو ۔تو اس صورت میں یہ خود بخود بھی‬
‫غائب ہو سکتے ہیں لیکن اس کا انحصار کیڑوں کی اقسام پر بھی ہوتا ہے ۔اگر پاخانے کے‬
‫ساتھ خون یا پس آرہی ہو ‪ ،‬بار بار الٹی ہو رہی ہو۔ اور اس کے ساتھ بخار بھی ہو۔ اور جسم‬
‫میں پانی کی کمی ہو رہی ہو۔ تو اس صورت میں فوری طور پر ڈاکٹر سے رجوع کرنا‬
‫بہتر ہے۔‬
‫یاد رکھیں‪ ،‬پیٹ کے کیڑوں کے لیۓ مختلف قسم کے ٹوٹکوں کا استعمال اس بیماری کی‬
‫شدت کو مذید بڑھا سکتا ہے اور اس کے خطرے کو بھی بڑھا دیتا ہے اس وجہ سے اس‬
‫حوالے سے ڈاکٹر کی ہدایات کے مطابق عالج ہی آپ کو اس سے بچا سکتا ہے۔‬
‫سندھ کے محکمہ صحت کی جانب سے اسکولوں کی بنیاد پر شروع کیے جانے والے‬
‫والے بچوں کے پیٹ کے کیڑے مارنے کی پانچ روزہ مہم کا آغاز کیا گیا ہے جس کے‬
‫تحت اسکولوں میں پہلی سے دسویں جماعت تک کے ‪ 5‬سے‪14‬سال کی عمر کے تمام‬
‫طلباء و طالبات کو دوائی پالئی جائے گگی‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/stomach-worms-treatment-05-day-campaign/‬‬

‫این آئی سی وی ڈی نے فالج کا مفت عالج شروع کردیا‬

‫‪  ‬انور خان‬
‫تحقیقات | ‪26‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫نومبر ‪2 2021‬‬
‫ض قلب (این آئی سی وی ڈی) نے پہال اسٹروک انٹروینشن‬ ‫قومی ادارہ برائے امرا ِ‬
‫پروسیجر سرانجام دے کر کارڈیک ہیلتھ کیئر میں ایک نئی تاریخ رقم کر دی ہے۔‬

‫پروفیسر عرفان لطفی (انٹروینشنل ریڈیالوجسٹ‪ ،‬این آئی سی وی ڈی) نے اپنی ٹیم کے‬
‫ہمراہ ‪48‬سالہ خاتون پر یہ کامیاب پروسیجر سرانجام دیا۔‬
‫ڈاکٹر عرفان لطفی نے بتایا کہ پروسیجر بغیر کسی پیچیدگی کے کامیابی کے ساتھ سرانجام‬
‫دیا گیا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ مریضہ صوفیہ کو آدھے گھنٹے کی دائیں طرف کی‬
‫کمزوری اور چہرے کی بے ترتیبی کے ساتھ این آئی سی وی ڈی ایمرجنسی کے شعبے‬
‫میں الیاگیا تھا اور ہم نے فوری طور پر مریضہ کا سی ٹی اسکین اور سی ٹی انجیوگرام کیا‬
‫اور بعد میں مریضہ کو کتیھ لیب میں منتقل کیا گیا۔‬
‫عالج کے دوران مریضہ کے دماغ میں اسٹنٹ ڈال کر جمے ہوئے خون کا لوتھڑا نکاال‬
‫گیا‪ ،‬ڈاکٹر لطفی نے مزید بتایا کہ عالج کے بعد مریضہ طبّی لحاظ سے بہتر ہے اور وہ‬
‫مکمل طور پر صحت یاب ہوگئی ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ فالج کے حملے کے دوران پہلے چھ گھنٹے انتہائی اہمیت کے حامل ہوتے‬
‫ہیں‪ ،‬اسی دورانیے میں خون کی جمی ہوئی گٹھلی کو انٹروینشن طریقہ کار کی مدد سے‬
‫باہر نکاال جا سکتا ہے اور مریض کافی پیچیدگیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے‬

‫ڈاکٹر عرفان لطفی نے بتایا کہ یہ تشویشناک ہے کہ پاکستان میں اموات کی دوسری بڑی‬
‫تعالی فضل و کرم سے اب این آئی سی وی‬
‫ٰ‬ ‫وجہ فالج اور مناسب آگاہی کا فقدان ہے لیکن ہللا‬
‫ڈی کراچی میں اس بالکل مفت انٹروینشنل اسٹروک ٹریٹمنٹ سے ہزاروں مریض مسفید‬
‫ہوسکے گے اور زندگی بھر کی معذوری سے بچ جائیں گے۔‬

‫تحقیقات | ‪27‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ادارے کے ایگزیکٹو‪ Š‬ڈائریکٹر پروفیسر ندیم قمر نے این آئی سی وی ڈی ٹیم کو سراہتے‬
‫اور مبارکباد دیتے ہوئے کہا کہ این آئی سی وی ڈی کراچی نے کیتھیٹر پر مبنی فالج کا‬
‫طریقہ عالج متعارف کراکے ایک نئی تاریخ رقم کی ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ این آئی سی وی ڈی کا شمار دنیا کی بہترین کارڈیک اسپتالوں میں ہوگیا‬
‫ہے‪ ،‬این آئی سی وی ڈی صوبہ سندھ بھر میں پہال کارڈیک اسپتال بن چکا ہے جہاں پر‬
‫اسٹروک انٹروینشن پروسیجر بالکل مفت سرانجام دیا جارہا ہے‪ ،‬اس پروسیجر کو بہترین‬
‫نتائج کے ساتھ سرانجام دیتے رہیں گے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/nicvd-free-treatment-for-paralysis-successful-‬‬
‫‪operation/‬‬

‫نیند کی کمی کا ایک اورخطرناک نقصان سامنے ٓاگیا۔۔۔طبی ماہرین کا‬


‫ہوشربہ انکشاف‬

‫‪01/11/2021‬‬

‫اسالم ٓاباد‪( :‬مانیٹرنگ ڈیسک) نیند کی کمی کے سب سے عام نقصانات میں سستی‪ ،‬سر‬
‫درد‪ ،‬ذہنی بے چینی‪ ،‬چڑچڑا پن اور ڈپریشن شامل ہے‪ ،‬حال ہی میں ماہرین نے اس کے‬
‫ایک اور طبی نقصان کی طرف اشارہ کیا ہے۔حال ہی میں امریکا میں کی جانے والی ایک‬

‫تحقیقات | ‪28‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں کہا گیا ہے کہ نیند کی کمی درست انداز سے چلنے‪ ،‬رکاوٹوں سے بچنے اور‬
‫توازن برقرار رکھنے جیسی صالحیتوں کو‬
‫متاثر کرتی ہے۔امریکا کی یونیورسٹی ٓاف میری لینڈ اسکول ٓاف میڈیسین کی اس تحقیق میں‬
‫بتایا گیا کہ کسی شخص کی نیند اور اس کے چلنے کے انداز میں تعلق موجود ہے‪ ،‬ماہرین‬
‫نے بتایا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ چال ایک خود کار عمل نہیں اور وہ نیند کی کمی‬
‫سے متاثر ہوسکتی ہے۔انہوں نے کہا کہ مثالی منظرنامہ تو یہ ہے کہ ہر فرد رات کو ‪8‬‬
‫گھنٹے کی نیند کو یقینی بنائے مگر اگر ایسا ممکن نہ ہو تو جس حد تک ممکن ہو اس کی‬
‫تالفی ہفتہ وار تعطیل کے دوران کرنے کی کوشش کریں۔اس سے پہلے سائنسدانوں کا خیال‬
‫‪،‬تھا کہ انسانوں کے چلنے کا انداز ایک مکمل خود کار عمل ہے‬
‫ہم خود کو اس سمت کی جانب بڑھاتے ہیں جہاں ہم جانا چاہتے ہیں اور جسم خود کار طور‬
‫پر ذہن کی مدد سے اس پر کنٹرول حاصل کرلیتا ہے۔مگر اس تحقیق سے ثابت ہوا کہ یہ‬
‫درست نہیں‪ ،‬ہمارا دماغ راستے کے بصری یا سننے کے اشاروں پر ردعمل ظاہر کرتا ہے‬
‫اور اس کے مطابق چلنے کی رفتار کو کم یا بڑھاتا ہے۔مثالی دماغی طاقت کے لیے بالغ‬
‫افراد کو ہر رات کم از کم ‪ 8‬گھنٹے نیند کی ضرورت ہوتی ہے جبکہ اسکول جانے کی‬
‫عمر کے بچوں کے لیے یہ دورانیہ ‪ 9‬سے ‪ 12‬گھنٹے ہونا چاہیے اور نوجوانوں کو ‪ 8‬سے‬
‫‪ 10‬گھنٹے نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔اس تحقیق میں برازیل کی سأو پأولو یونیورسٹی کے‬
‫نیند کی شدید کمی کے شکار طالبعلموں پر توجہ مرکوز کی گئی تھی اور ‪ 14‬دن تک ان‬
‫کی نیند کے دورانیے کو جاننے کے لیے ٹریکرز کا استعمال کیا گیا۔اوسطا ً یہ طالبعلم ہر‬
‫‪،‬رات ‪ 6‬گھنٹے سونے کے عادی تھے‬
‫گروپ کے نصف افراد کو ایک رات تک جگا کر ایک ٹریڈ مل ٹیسٹ لیا گیا۔نتائج سے‬
‫معلوم ہوا کہ نیند کی کمی کے نتیجے میں لوگوں کی چال بری طرح متاثر ہوتی ہے‪،‬‬
‫لڑکھڑاہٹ عام ہوتی ہے اور وہ عمومی طور پر بھی بدتر کارکردگی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔‬
‫مگر تحقیق میں یہ بھی دریافت ہوا کہ جن طالبعلموں نے ہفتہ وار تعطیل پر نیند کے‬
‫دورانیے کو کم کرنے کی کوشش کی‬
‫ان کی کارکردگی اس ٹاسک میں کسی حد تک بہتر ہوگئی۔نیند کے بیشتر ماہرین کی جانب‬
‫سے اس حکمت عملی کو اپنانے کا مشورہ نہیں دیا جاتا کیونکہ تحقیقی رپورٹس میں معلوم‬
‫ہوا کہ اپنے سونے جاگنے کے وقت میں تبدیلی النا ہارٹ اٹیک یا امراض قلب کا خطرہ‬
‫نمایاں حد تک بڑھاتا ہے۔اس سے قطع نظر اس نئی تحقیق میں جو اہم پیغام دیا گیا وہ‬
‫مناسب نیند کو یقینی بنانا ہے بالخصوص ایسے افراد جو ایسے دفاتر میں کام کرتے ہیں‬
‫جہاں مختلف شفٹوں میں کام ہوتا ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202111-127433.html‬‬

‫تحقیقات | ‪29‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہوشیاررہیں! یہ عادت ٓاپ کوکم عمری میں ہی گنج پن کا شکار بنا‬
‫سکتی ہیں!‬

‫‪01/11/2021‬‬
‫‪     ‬‬

‫اسالم ٓاباد‪( :‬مانیٹرنگ ڈیسک) اکثر مرد اپنے بال گرنے کی وجہ سے بے حد پریشان رہتے‬
‫ہیں‪ ،‬بال گرنے کا یہ عمل بعض اوقات نہایت کم عمری میں بھی شروع ہوجاتا ہے اور اب‬
‫ایک ڈاکٹر نے اس کی وجہ بتائی ہے۔مردوں کے بعض اوقات ‪ 20‬اور ‪ 30‬سال کی عمر‬
‫کے بعد ہی بال اس تیزی سے گرنا شروع ہو جاتے ہیں کہ وہ گنج پن کا شکار ہو جاتے‬
‫‪،‬ہیں‬
‫ماہر جلدی امراض ڈاکٹر کرن کے مطابق زیادہ مردوں‬
‫کو کم عمری میں ہی گنج پن کے مسئلے کا سامنا کرنا پڑ رہا ہے۔ڈاکٹر کرن کے مطابق‬
‫پہلے ‪ 50‬اور ‪ 60‬سال کی عمر کے بعد مردوں میں گنج پن کی شکایت پائی جاتی تھی۔‬
‫انہوں نے مردوں میں بال گرنے کی چند وجوہات بتائی ہیں جن میں سے ایک غذا میں‬
‫چینی کا زیادہ استعمال ہے۔ڈاکٹر کرن کا کہنا ہے کہ کاربو ہائیڈریٹس والی غذائیں زیادہ‬
‫مقدار میں کھانے‪ ،‬پروٹین پأوڈر کا استعمال‪ ،‬تھائی رائیڈ کا متاثر ہونا یا پھر وٹامن کی کمی‬
‫بھی بال گرنے کا باعث بن سکتی ہے۔انہوں نے بالوں کے عالوہ جلد کی حفاظت کے لیے‬
‫بھی وٹامن سی کے استعمال کا مشورہ دیا ہے۔ وٹامن سی ایک طاقتور اینٹی ٓاکسیڈنٹ ہے‬
‫جو جلد کو خراب ہونے اور جھائیاں پڑنے سے بچاتا ہے۔ڈاکٹر کرن کا کہنا ہے کہ غذا میں‬
‫وٹامن سی سے بھرپور کھانوں کا استعمال کرنا چاہیئے اور وٹامن سپلیمنٹس بھی لینے‬
‫چاہئیں‬
‫تحقیقات | ‪30‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202111-127434.html‬‬

‫انڈین اداکار پنیت راجکمار کی موت‪ِ :‬جم یا ورزش سے متعلق ان باتوں‬


‫کا خیال رکھیں‬

‫‪ ‬عمران قریشی‬
‫‪ ‬بی بی سی ہندی‬
‫‪ 2‬نومبر ‪2021‬‬

‫پنیت راجکمار کی عمر ‪ 46‬برس تھی‬


‫جنوبی انڈیا کی ریاست کرناٹک کے مشہور اداکار اور نوجوانوں میں معروف پنیت‬
‫راجکمار کی ‪ 46‬برس کی عمر میں اچانک موت نے متعدد سوال کھڑے کر دیے ہیں۔‬
‫پنیت راجکمار ایک بے حد مشہور اداکار‪ ،‬گلوکار‪ ،‬ٹی وی میزبان‪ ،‬اور فلم پروڈیوسر تھے‬
‫اور ان کے بارے میں یہ خیال عام تھا کہ وہ بے حد فٹ یا صحت مند ہیں۔‬
‫پنیت راجکمار کرناٹک کے مشہور اداکار ڈاکٹر راجکمار کے بیٹے تھے۔‬
‫ان کی اچانک موت نے ان کے مداحوں اور پوری فلم انڈسٹری کو صدمے میں ڈال دیا ہے۔‬
‫پنیت راجکمار کی موت سے دو ماہ قبل جب ستمبر میں اداکار سدھارت شکال کی اچانک‬
‫موت ہوئی تھی تب بھی لوگوں کو ایک جوان اداکار کی موت کے صدمے کے ساتھ ساتھ یہ‬
‫تحقیقات | ‪31‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سوال ذہن میں آیا تھا کہ بظاہر ایک ’بے حد فٹ شخص‘ کیسے اچانک اس دنیا سے چال‬
‫گیا؟‬
‫پنیت راجکمار کی موت کے بعد اس بات پر بھی بحث ہو رہی ہے کہ بہتر صحت اور ایک‬
‫فٹ باڈی کی خواہش میں جم جانے والے افراد کو کن کن باتوں کا خیال رکھنا چاہیے۔‬

‫پنی‬
‫ت راجکمار کو جم میں ورزش کرتے ہوئے سینے میں درد کی شکایت ہوئی تھی‪ ،‬اس وقت‬
‫انھوں نے اپنے فیملی ڈاکٹر اور مشہور ماہر قلب رامنا راؤ سے رابطہ کیا تھا۔‬
‫ڈاکٹر راؤ نے میڈیا کو بتایا کہ ’میں نے ان کی نبض اور بلڈ پریشر کا جائزہ لیا تھا تو وہ‬
‫دونوں نارمل تھے۔ میں نے ان سے پوچھا کہ انھیں اتنا پسینہ کیوں آرہا ہے تو انھوں نے‬
‫بتایا کہ جم میں انھیں بہت پسینہ آتا ہے۔ میں نے ان کی ای سی جی کروائی اور فوراً ہسپتال‬
‫جانے کے لیے کہا۔‘‬
‫وکرم ہسپتال میں کارڈیولوسجٹ ڈاکٹر رنگناتھ نائیر کے مطابق ’پنیت کو راستے میں ہی‬
‫دل کا دورہ پڑ گیا اور ان کو بچانے کی ساری کوشیشیں ناکام رہیں۔‘‬

‫تحقیقات | ‪32‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پنیت راجکمار کی موت سے ان کے شائقین بے حد صدمے میں ہیں‬
‫شری جے دیو انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیووسکیولر سائنسز اینڈ رسرچ (ایس جے آئی سی ایس‬
‫آر) کے ڈائریکٹر ڈاکٹر سی این منجو ناتھ نے بی بی سی کو بتایا‪’ ،‬جب لوگ وزن اٹھانے‬
‫جیسی ورزش کرتے ہیں تو ان کے پٹھوں میں تناؤ ہو جاتا ہے۔ وزن اٹھانے کی وجہ سے‬
‫نسوں پر دباؤ پڑتا ہے۔ ایک حد سے زیادہ ورزش دل کے والو کے لیے خطرناک ہوتی‬
‫ہے۔‘‬
‫‪ 40-25‬سال کے افراد میں ہارٹ اٹیک کے کیسز کیوں؟‬
‫‪ 2017‬میں ایس جے آئی سی ایس آر کی جانب سے دو ہزار لوگوں پر مشتمل ایک سروے‬
‫میں یہ بات سامنے آئی تھی کہ ‪ 25‬سے ‪ 40‬برس کے افراد میں ہارٹ اٹیک کے کیسز میں‬
‫اضافہ ہوا ہے۔‬
‫اس رپورٹ میں اس سے گزشتہ برس کے مقابلے میں ‪ 22‬فیصد اضافہ دیکھا گیا تھا۔‬
‫سروے میں شامل ‪ 1500‬مریضوں کا تعلق ریاست کرناٹک سے تھا جبکہ ‪ 500‬کا تعلق‬
‫انڈیا کی مختلف ریاستوں سے تھا۔‬
‫ڈاکٹر منجو ناتھ کے مطابق یہ وہ افراد تھے جن کو دل سے متعلق کوئی بیماری نہیں تھی۔‬
‫یہ افراد دل کی بیماریوں کا خدشہ بڑھانے والی عادتیں جیسے تمباکو نوشی بھی نہیں‬
‫کرتے تھے اور نہ ہی ان کی اس بیماری کی خاندانی ہسٹری تھی۔ انھیں ذیباطیس‪،‬‬
‫ہائپرٹینشن اور ہائی کولیسٹرول بھی نہیں تھا۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ@‪SIDHARTH_SHUKLA‬‬
‫ٹی وی اور فلم اداکار سدھارت شکال کی ‪ 40‬برس کی عمر میں اچانک موت ہوگئی تھی‬

‫تحقیقات | ‪33‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پنیت راجکمار کے بڑے بھائیوں اداکار شو راج کمار اور اداکار اور فلم پروڈیوسر‬
‫راگھویندر راج کمار کو بھی دل کا دورہ پڑ چکا ہے۔‬
‫اعلی ایچ ڈی کماراسوامی راجکمار خاندان کے قریبی دوست ہیں۔‬ ‫ٰ‬ ‫کرناٹک کے سابق وزیر‬
‫انھوں نے بی بی سی کو بتایا ’دونوں کو جم میں دل کا دورہ پڑا تھا۔ ان کے خاندان میں دل‬
‫کی بیماری کی ہسٹری ہے۔‘‬

‫پنیت راجکمار کو ہسپتال لے جاتے وقت دل کا دورہ پڑا تھا‬


‫کیا جم جانا خطرناک ہوسکتا ہے؟ ماہرین کیا کہتے ہیں؟‬
‫کماراسوامی کہتے ہیں کہ آج کے دور میں نوجوانوں کو جم جاکر مسلز بنانے کا جنون سا‬
‫پیدا ہو گیا ہے۔‬
‫ان کا مزید کہنا تھا ’نوجوانوں میں بغیر ڈاکٹر کی صالح کے جم جانے اور پروٹین سپلیمنٹ‬
‫کھانے کا رواج بڑھ گیا ہے۔ متعدد نوجوان جم انسٹرکٹر کے کہنے پر پروٹین کھاتے ہیں۔‬
‫زیادہ تر معامالت میں ان انسٹرکٹرز کے پاس اس طرح کی صالح دینے کی قابلیت یا‬
‫صالحیت نہیں ہوتی ہے۔‘‬
‫ایسوسی ایشن آف ہیلتھ پرووائیڈرز‪ Š‬کے ڈائریکٹر الیکزینڈر تھامس کہتے ہیں ’متعدد ِجم‬
‫انسٹرکٹر نوجوانوں کو سٹیروئڈس لینے کی صالح دیتے ہیں‪ ،‬سٹیروئڈس صحت کے لیے‬
‫اچھے نہیں ہوتے ہیں۔ انڈیا میں اس طرح کی جم کم ہیں لیکن یہ تشویش کا باعث ہے۔‘‬
‫پروٹین سپلیمنٹ کھانے سے پہلے طبی صالح ضرور لیں‬
‫عام طور پر جم جانے والے افراد پروٹین سپلیمنٹس کا استعمال کرتے ہیں‪ ،‬یہ کتنا صحیح‬
‫ہے؟‬

‫تحقیقات | ‪34‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس بارے میں ماہر غزائیت شیال کرشنا سوامی کہتی ہیں ’یہ عام خیال ہے کہ جو لوگ جم‬
‫جاتے ہیں انھیں پروٹین کھانا چاہیے۔ ایسا کرنا بالکل صحیح نہیں ہے۔ جب تک آپ کی غذا‬
‫میں پروٹین کی کمی نہ ہو تب تک ان سپلیمنٹس کو لینے کی کوئی ضرورت نہیں ہے۔ جو‬
‫افراد کھیل کے شعبے سے منسلک ہیں یعنی کھالڑی ڈاکٹروں یا اپنے کوچز کی صلح کے‬
‫بعد پروٹین لیتے ہیں۔‘‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪SANTOSH KUMAR/HINDUSTAN TIMES VIA GETTY‬‬


‫‪IMAGES‬‬

‫باہر سے اچھا دکھائی دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کا دل بھی صحت مند ہے‪ :‬ڈاکٹر‬
‫منجو ناتھ‬
‫ورزش کتنی دیر تک کرنی چاہیے؟‬
‫ڈاکٹر منجوناتھ کہتے ہیں کہ یہ زیادہ تناؤ والی ورزش کرنے سے پہلے دل کی جانچ کرانی‬
‫چاہیے۔‬
‫ان کا مزید کہنا ہے ’جم جاتے ہی ’ہائی انٹینسٹی ورک آؤٹ‘ شروع نہیں کرنا چاہیے۔ جم‬
‫جا کر ہلکی پھلکی ورزش کر کے پہلے جسم کو وارم اپ کرنا چاہیے۔ اور مشکل اور‬
‫زیادہ تناؤ والی وزرش روزانہ نہیں کرنی چاہیے۔ ایسا کرنا دل سے جڑے مسائل کی‬
‫شروعات ہو سکتا ہے۔‘‬
‫فزیوتھیراپسٹ یا ورزش کے ذریعے عالج کرنے والوں کا خیال ہے کہ جم میں ٹریننگ‬
‫کرنے کے لیے ایک معمول ضروری ہے کہ آپ کی جسمانی صالحیت کے مطابق کون‬
‫سی ورزش کرنی ہے اور کون سی نہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪35‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مینگلورو ے پی اے انسٹی ٹیوٹ آف فزیوتھیراپی کے پرنسپل سجیش رگھوناتھن کہتے ہیں‬
‫’جو لوگ زيادہ بیٹھے رہتے ہیں انھیں اس بات کی جانچ کرانی چاہیے کہ وہ بہت جلدی‬
‫تھک تو نہیں جاتے ہیں۔ بنیادی طور پر اس طرح کے جائزے کا مقصد یہ پتا لگانا ہوتا ہے‬
‫کہ ایک شخص کا جسم ورزش کرنے کے لیے فٹ ہے یا نہیں۔‘‬
‫ڈاکٹر منجو ناتھ کہتے ہیں ’تمام بنیادی احیتاط برتنے کے بعد اور شدید تناؤ والی ورزش‬
‫کرنے کے بعد اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ کہیں آپ بہت دیر تک تو اس طرح کی‬
‫ورزش نہیں کر رہے۔ باہر سے اچھا دکھائی دینے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ آپ کا دل بھی‬
‫صحت مند ہے۔‘‬

‫جم میں ورزش کرتے وقت اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ آپ اپنے جسم کی صالحیت‬
‫کے مطابق ورزش کررہے ہیں‬
‫جم میں ڈاکٹر کی کتنی ضرورت؟‬
‫ڈاکٹر منجوناتھ کا کہنا ہے کہ جم میں لوگوں کی صحت پر نظر رکھنے کے لیے ایک‬
‫ڈاکٹر ضرور ہونا چاہیے۔‬
‫اس بارے میں ان کا کہنا تھا ’میں تو یہ صالح دوں گا کہ جم میں ایسے ڈاکٹر ہونے چاہییں‬
‫جو ایمرجنسی کی صورت میں الئف سپورٹ فراہم کرنے والے آالت چال سکیں۔ اور اگر‬
‫ضرورت پڑے تو دل کو دوبارہ حرکت میں النے کے لیے ڈیفیبریلیٹر شاک دے سکیں۔‘‬
‫ڈاکٹر منجوناتھ مزید کہتے ہیں ’اگر پنیت راجکمار دس منٹ پہلے ہسپتال پہنچ گئے ہوتے‬
‫تو شاید انھیں بچایا جا سکتا تھا۔ ہمارے پاس ایسے مریض آئے ہیں جو الئن میں انتظار کر‬
‫رہے تھے اور انھیں یہ شاک دیا گیا تو وہ بچ گئے۔ اور اس کے بعد بیس سے تیس سال تک‬
‫زندہ رہے۔‘‬

‫تحقیقات | ‪36‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪-https://www.bbc.com/urdu/regional‬‬

‫ہیروئن‪ :‬کھانسی کی دوا میں استعمال سے دنیا کے ’مقبول ترین‬


‫نشے‘ تک‬
‫پیرنا پیغیبیل‬
‫بی بی سی نیوز‬

‫‪Nov 2021 02‬‬

‫ہیروئن سے کون واقف نہیں مگر کیا آپ جانتے ہیں کہ ‪19‬ویں صدی کی آخری دہائی میں‬
‫پہلی بار ایک لیبارٹری میں تیار کیے جانے کے چند برس بعد تک اسے کھانسی اور گلے‬
‫کی خراش کے لیے بنائی جانے والی ادویات میں استعمال کیا جاتا تھا۔‬
‫آج ایک صدی سے زیادہ عرصہ گزر جانے کے بعد ہیروئن دنیا کی بدنام ترین نشہ آور‬
‫اشیا میں سے ایک ہے اور اس کا استعمال غیر قانونی ہے۔ گذشتہ ‪ 20‬برس میں صرف‬
‫امریکہ میں اس کے زیادہ مقدار میں استعمال کی وجہ سے ایک الکھ ‪ 30‬ہزار سے زیادہ‬
‫افراد جان کی بازی ہار چکے ہیں۔‬
‫آخر ہیروئن کیسے وجود میں آئی اور پھر اس پر پابندی کیوں لگائی گئی؟‬
‫ہیروئن کا کیمیائی نام ڈائیسیٹیلمورفین ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪37‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہیروئن کی تیاری کے حوالے سے سب سے پرانی رپورٹ سنہ ‪ 1874‬کی ہے جب ایک‬
‫انگریز کیمیا دان سی آر اے رائٹ نے اسے لندن کے سینٹ میری ہسپتال سکول آف میڈیسن‬
‫میں مارفین سے تیار کیا۔‬
‫میڈیسن کے ماہر اور بفیلو یونیورسٹی کے پروفیسر ڈیوڈ ہرزبرگ نے بی بی سی منڈو کو‬
‫بتایا کہ ’اُس وقت افیون اور مارفین کا استعمال پہلے سے ہی ادویات میں کیا جاتا تھا اس‬
‫لیے لوگوں کو معلوم تھا کہ اوپیوائڈز بھی استعمال کیے جا سکتے ہیں۔‘‬
‫لیکن سٹینفورڈ یونیورسٹی کے سائیکاٹری کے پروفیسر کیتھ ہمفریز کا کہنا ہے کہ ’مسلسل‬
‫استعمال سے آپ ان چیزوں کے عادی اس وقت بھی ہو جاتے تھے اور اب بھی ایسا ہی ہے‬
‫اس لیے دوا ساز کمپنیاں ایسی درد کش ادویات کی تالش میں تھیں جو نشے کا باعث نہ‬
‫ہوں۔‘‬
‫سو ابتدا میں کچھ لوگوں کو لگا کہ شاید ہیروئن لوگوں کو اپنا عادی نہ بنائے اور اس کے‬
‫مضر اثرات بھی کم ہوں گے۔‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫جون ‪ 2020‬میں 'دی کنورسیشن' میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں‪ ،‬کیمیلو جوزے‬
‫سیال یونیورسٹی اور الکاال یونیورسٹی کے فارماسولوجی کے پروفیسر فرانسسکو‬
‫لوپیزمنوز اور سیسیلیو االمو گونزالیز لکھتے ہیں ’سب سے اہم دریافت یہ تھی کہ ہیروئن‬

‫تحقیقات | ‪38‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کے استعمال سے تپ دق کے مریضوں کو کھانسی میں آرام ملتا تھا اور مریض کو نیند آتی‬
‫تھی۔‘‬
‫اس کے باوجود‪ ،‬ہیروئن کی دریافت کے بعد ابتدائی برسوں میں طبی میدان میں اس کے‬
‫لیے زیادہ جوش و خروش نہیں تھا۔‬
‫پھر سنہ ‪ 1897‬میں جب جرمن دوا ساز کمپنی بائر کی تحقیقی ٹیم پروفیسر ہینرک ڈریسر‬
‫کی سربراہی میں مورفین اور کوڈین (ایک اوپیوائڈ)‪ Š‬کے ایسے متبادل کی تالش میں تھی‬
‫جو سانس کی بیماریوں میں مبتال مریضوں کے کام آ سکے تو اس کے ایک رکن نے‬
‫مورفین اور کوڈین کے بجائے ڈائیسیٹیلمورفین استعمال کرنے کا خیال پیش کیا۔‬

‫محققین نے اسے پہلے جانوروں‪ ،‬پھر بائر کمپنی کے مالزمین اور آخر میں برلن میں عام‬
‫لوگوں پر آزمایا۔‬

‫تحقیقات | ‪39‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کھانسی کا عالج‬
‫ان تجربات سے معلوم ہوا کہ ڈائیسیٹیلمورفین کھانسی کے عالج کے لیے موثر ہے اور بلغم‬
‫کے اخراج میں مدد دیتی ہے۔ اس وقت اسے ’ہیروئک ڈرگ‘ کہا گیا۔‬
‫‪ 1898‬میں‪ ،‬بائر کمپنی نے کھانسی کے لیے ایک دوا تیار کرنا شروع کی جس میں‬
‫ڈائیسیٹیلمورفین کو بنیادی جزو کے طور پر استعمال کیا گیا اور کمپنی نے اس نام 'ہیروئن'‬
‫رکھا۔‬
‫یہ دوا پاؤڈر کی شکل میں تھی اور ایک‪ ،‬پانچ‪ ،‬دس اور پچیس گرام کی مقدار میں دستیاب‬
‫تھی۔ اس کے بعد یہ شربت‪ ،‬کھانے اور چوسنے والی گولیوں کی شکل میں بھی فروخت‬
‫کے لیے پیش کی گئی۔‬

‫'دی کنورسیشن' میں‪ ،‬لوپیز منوز اور االمو لکھتے ہیں کہ کھانسی کو دبانے والی یہ دوا‬
‫تجارتی کامیابی تھی اور پوری دنیا کے لوگ اسے استعمال کر رہے تھے۔ بائرن‬
‫لیورکروسن کی دستاویزات کے مطابق ‪ 1899‬تک کمپنی ‪ 20‬سے زائد ممالک میں ہیروئن‬
‫فروخت کر رہی تھی۔‬
‫ہرزبرگ اور ہمفریز کے مطابق ہیروئن امریکہ میں عام دکانوں میں فروخت ہوتی تھی اور‬
‫اسے بچے بھی خرید سکتے تھے۔‬
‫یہاں تک کہ سنہ ‪ 1914‬تک مریضوں کو ہیروئن خریدنے کے لیے ڈاکٹر کے نسخے کی‬
‫بھی ضرورت نہیں پڑتی تھی۔‬
‫ہمفریز کے مطابق‪،‬اس وقت ہیروئن صرف کھانسی کے عالج میں ہی نہیں استعمال ہو رہی‬
‫تھی بلکہ اسے مارفین اور شراب نوشی کی لت کے عالج میں بھی استعمال کیا گیا لیکن‬
‫ڈاکٹروں نے جلد ہی اس خیال کو ترک کر دیا۔‬

‫تحقیقات | ‪40‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لت لگنے کا خطرہ‬
‫تاہم‪ ،‬اس کے تجارتی پیمانے پر استعمال کے آغاز کے ساتھ ہی انتباہی خیاالت موجود تھے‬
‫کہ ہیروئن کی لت لگ سکتی ہے۔‬
‫میکسیکو میں ہیروئین کی پیداوار‬
‫یونیورسٹی آف نارتھ فلوریڈا میں تاریخ اور طب کے پروفیسر ڈیوڈ کورٹ رائٹ کا کہنا ہے‬
‫کہ ‪ 1900‬اور ‪ 1906‬کے درمیان شائع ہونے والے طبی ادب میں ’متعدد مضامین منتبہ‬
‫کرتے ہیں کہ اس دوا میں اپنی لت لگانے کی صالحیت ہے۔‘ییل یونیورسٹی کے سکول آف‬
‫میڈیسن کے مطابق‪’ ،‬ڈاکٹروں اور ادویات فروخت کرنے والوں کو جلد ہی احساس ہو گیا‬

‫کہ مریض ضرورت سے زیادہ خوراک لے رہے ہیں اور اس کے عادی ہوتے جا رہے‬
‫ہیں۔‘‬
‫کورٹ رائٹ کے مطابق‪ ،‬تاہم‪ ،‬ان اثرات کے باوجود‪ ،‬ہیروئن ان مریضوں میں لت کا باعث‬
‫نہیں بن رہی تھی جو اسے کھانسی کے عالج کے طور پر استعمال کرتے تھے۔‬
‫کورٹ رائٹ کے مطابق ’‪ 20‬ویں صدی کے آغاز میں بیماری کے لیے مارفین‪ ،‬افیون یا‬
‫ہیروئن کا استعمال کرنے والے ‪ 350‬افراد میں سے صرف چھ ہیروئن کے عادی تھے جو‬
‫کہ ‪ 1.7‬فیصد کے برابر تھا۔‘‬
‫‪A‬ان کے مطابق ‪20‬ویں صدی کے اوائل میں زیادہ تک نشئی مارفین کے عادی تھے۔‬
‫تو ہیروئن پر پابندی کیوں لگائی گئی؟‬
‫ماہرین کے مطابق اس کی بڑی وجہ ‪ 1910‬کی دہائی میں ہیروئن کا جرائم پیشہ افراد میں‬
‫مقبول ہونا تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪41‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کورٹ رائٹ کے مطابق ’امریکہ میں ہیروئن کے غیر طبی استعمال کے ابتدائی شواہد سنہ‬
‫‪ 1910‬سے ملتے ہیں اور یہ وہ وقت بھی تھا جب منشیات کے بارے میں تنازع شروع ہوا‬
‫تھا۔‘‬
‫لیکن پھر ہیروئن جرائم کی دنیا میں کیسے آئی؟‬
‫’ہیروئن کے ایک سو سال‘ نامی کتاب کے ایک باب میں کورٹ رائٹ کہتے ہیں کہ ’کہانی‬
‫یہ ہے کہ ملک کی جیل میں کچھ قیدیوں کو کھانسی کی دوا کے طور پر ہیروئن ملی۔ اس‬
‫کے بعد باقی قیدیوں میں یہ بات پھیل گئی کہ یہ ایک اچھی نشہ آور چیز ہے اور پھر یہ‬
‫افواہ جیل کے باہر بھی پھیل گئی۔‘‬
‫تاہم ان کا کہنا ہے کہ ’ہیروئن کے بارے میں یہ افواہ صرف ایک نہیں بلکہ کئی مقامات‬
‫سے آتی دکھائی دیتی ہے۔‘‬
‫اس کے عالوہ بلیک مارکیٹ میں ہیروئن کوکین کے مقابلے میں ارزاں نرخ پر دستیاب تھی‬
‫اور افیون کے مقابلے میں اسے حاصل کرنا آسان تھا کیونکہ افیون کی امریکہ میں درآمد‬
‫پر ‪ 1909‬میں پابندی لگا دی گئی تھی۔کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬
‫ییل یونیورسٹی سکول آف میڈیسن کا کہنا ہے کہ سنہ ‪ 1912‬تک نیویارک میں نوجوان اسے‬
‫تفریحی نشے کے طور پر استعمال کر رہے تھے۔‬
‫بائر نے اپنی دوا کو غیرقانونی طور پر فروخت کی جانے والی ہیروئن سے الگ رکھنے‬
‫کی کوشش کی لیکن اس کے باوجود کئی امریکی طبی اداروں نے سنہ ‪ 1916‬سے اس کا‬
‫استعمال ترک کر دیا۔‬
‫آخر کار ہیروئن پر پابندی لگا دی اور مئی ‪1940‬‬
‫سنہ ‪ 1924‬میں امریکی کانگریس نے ِ‬
‫میں بائر نے اپنی اس دوا کی تیاری بھی ہمیشہ کے لیے بند کر دی۔‬
‫‪20‬ویں صدی میں دنیا کے بہت سے ممالک ہیروئن کے خالف ایکشن میں آئے اور اب دنیا‬
‫کے بیشتر ممالک میں ہیروئن رکھنا‪ ،‬بیچنا یا خریدنا ایک جرم ہے۔‬
‫‪https://www.bbc.com/urdu/science-59062068‬‬

‫نووا ویکس کووڈ ویکسین کو پہلے ملک میں ہنگامی استعمال کی‬
‫منظوری حاصل‬

‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪01 2021‬‬

‫— انڈونیشیا میں اس ویکسین کی منظوری دی گئی‬

‫تحقیقات | ‪42‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫نووا ویکس اور اس کے شراکت دار سیرم انسٹیٹوٹ ٓاف انڈیا کی تیار کردہ کووڈ ‪19‬‬
‫ویکسین کو پہلے ملک میں ایمرجنسی استعمال کی منظوری حاصل ہوگئی ہے۔‬
‫کمپنیوں کی جانب سے ایک بیان میں بتایا گیا کہ انڈونیشیا میں ان کی کووڈ ‪ 19‬ویکسین کو‬
‫استعمال کی منظوری حاصل ہوئی۔‬
‫خیال رہے کہ نووا ویکس کی جانب سے برطانیہ‪ ،‬بھارت‪ٓ ،‬اسٹریلیا‪ ،‬فلپائن اور یورپین‬
‫میڈیسین ایجنسی کے پاس بھی ویکسین کی منظوری کے لیے درخواستیں جمع کرائی‬
‫جاچکی ہیں۔‬
‫انڈونیشیا میں یہ ویکسین سیرم انسٹیٹوٹ کی جانب سے تیار کرکے کوو ویکس کے نام سے‬
‫فراہم کی جائے گی۔‬

‫نووا ویکس نے بتایا کہ انڈونیشیا کو ویکسین کی پہلی کھیپ جلد فراہم کردی جائے گی۔‬
‫انڈونیشین حکومت کے مطابق پروٹین پر مبنی ویکسین کی ‪ 2‬کروڑ خوراکیں ‪ 2021‬میں‬
‫موصول ہوں گی۔‬
‫نووا ویکس اور سیرم انسٹیٹوٹ نے ایک ارب ‪ 10‬خوراکیں عالمی ادارہ صحت کے‬
‫زیرتحت کام کرنے والے ادارے کوو ویکس کو فراہم کرنے کا وعدہ بھی کیا ہے۔‬
‫ویکسین کی فراہمی کا سلسلہ عالمی ادارہ صحت کی جانب سے ایمرجنسی استعمال کی‬
‫منظوری کے بعد ‪ 2021‬میں شروع ہوجائے گی اور یہ سلسلہ ‪ 2022‬میں ھبی جاری رہے‬
‫گا۔‬

‫تحقیقات | ‪43‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫گزشتہ ماہ نووا ویکس اور سیرم انسٹیٹوٹ ٓاف انڈیا نے عالمی ادارہ صحت میں اس ویکسین‬
‫کے ہنگامی استعمال کی منظوری کے لیے درخواست جمع کرائی تھی۔‬
‫اس کا مقصد کم اور متوسط ٓامدنی والے ممالک میں اس ویکسین کو فراہم کرنا ہے کیونکہ‬
‫امریکا اور یورپ میں پہلے ہی فائزر‪ ،‬موڈرنا‪ ،‬جانسن اینڈ جانسن اور ایسٹرا زینیکا‬
‫ویکسینز کو عام استعمال کیا جارہا ہے۔‬
‫خیال رہے کہ ویکسین کے انسانی ٹرائل کے ٓاخری مرحلے میں دریافت کیا گیا تھا کہ یہ‬
‫ویکسین کورونا وائرس کی اوریجنل قسم سے ہونے والی بیماری سے ‪ 96‬فیصد تک تحفظ‬
‫فراہم کرسکتی ہے۔امریکا اور میکسیکو میں ‪ 30‬ہزار افراد پر ٓاخری مرحلے کے ٹرائل‬
‫کے ڈیٹا کے مطابق این وی ایکس کو وی ‪ 2373‬نامی یہ ویکسین بیماری کی معتدل اور‬
‫سنگین شدت سے ‪ 100‬فیصد تحفظ فراہم کرتی ہے جبکہ اس کی مجموعی افادیت ‪90.4‬‬
‫فیصد ہے۔‬
‫اس ٹرائل کے مطابق مجموعی طور پر کورونا کی مختلف اقسام کے خالف ویکسین کی‬
‫افادیت ‪ 90‬فیصد سے زیادہ ہے۔‬
‫یہ ویکسین ‪ 2‬خوراکوں میں استعمال کی جائے گی اور اسے ‪ 8‬مقامات پر تیار کیا جائے گا‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171820/‬‬

‫کورونا کو شکست دینے والے افراد میں اینٹی باڈیز کب تک برقرار‬


‫رہتی ہیں؟‬

‫ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪01 2021‬‬

‫— یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬

‫تحقیقات | ‪44‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کورونا وائرس کی وبا کو اب ‪ 2‬سال مکمل ہورہے ہیں مگر اب بھی اس بیماری کے بارے‬
‫میں کافی کچھ معلوم نہیں ہوسکا اور مریضوں میں بننے والی اینٹی باڈیز کے حوالے سے‬
‫بھی کافی کچھ جاننا باقی ہے۔‬
‫جیسے ابھی تک یہ واضح نہیں کہ کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے والے افراد کا مدافعتی نظام‬
‫کتنے عرصے تک اینٹی باڈیز بناتا ہے۔‬
‫اب ایک نئی تحقیق میں اس کا جواب کسی حد تک دیا گیا ہے۔‬
‫ایک اچھی خبر تو یہ ہے کہ بیماری سے متاثر افراد میں صحتیابی کے بعد وائرس کے‬
‫خالف مزاحمت کرنے والی اینٹی باڈیز کم از کم ‪ 10‬مہینے تک موجود ہوتی ہیں۔‬
‫برطانیہ کے کنگز کالج لندن کی تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارے ڈیٹا اور‬
‫دیگر حالیہ تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوتا ہے کہ وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کی‬
‫سطح میں وقت کے ساتھ کمی ٓاتی ہے مگر وائرل ذرات اور متعدی وائرس کے خالف‬
‫اینٹی باڈیز سرگرمیاں بیماری کے ‪ 10‬ماہ بعد دریافت ہوسکتی ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 38‬ایسے افراد کو شامل کیا گیا تھا جو برطانیہ میں کورونا کی پہلی لہر‬
‫کے دوران کووڈ سے متثر ہوئے تھے۔‬
‫ان افراد کے خون کے نمونوں میں اینٹی باڈیز کی جانچ پڑتال کی گئی۔‬
‫اس تحقیق میں شامل کچھ ماہرین کی ایک سابقہ تحقیق میں دریافت کیا تھا کہ اینٹی باڈی کی‬
‫سطح بیماری کے ‪ 3‬سے ‪ 5‬ہفتے بعد عروج پر پہنچ کر گھٹنا شروع ہوتی ہے‪ ،‬مگر اس‬
‫وقت یہ واضح نہیں تھا کہ اس کمی کا سلسلہ ‪ 3‬ماہ بعد بھی برقرار رہتا ہے یا نہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪45‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اب نئی تحقیق میں انہوں نے بیماری کو شکست دینے والے افراد کے نمونوں میں ‪ 10‬ماہ‬
‫بعد بھی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا۔‬
‫انہوں نے کورونا کی مختلف اقسام کے خالف اینٹی باڈیز سرگرمیوں کے شواہد بھی حاصل‬
‫کیے‪ ،‬یعنی جو مریض کورونا کی اوریجنل قسم سے متاثر ہوئے تھے‪ ،‬ان کو بھی زکورونا‬
‫کی زیادہ متعدی اقسام کے خالف کسی حد تک تحفظ ملتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے دریافت کیا کہ ان افراد کے نمونوں میں ہونے والی اینٹی باڈی‬
‫سرگرمی ایلفا‪ ،‬گیما اور بیٹا کے خالف ہوئی مگر ان کی طاقت زیادہ نہیں تھی۔‬
‫انہوں نے وضاحت کی کہ کووڈ سے بیمار ہونے والے افراد میں وائرس کے خالف ٹھوس‬
‫اینٹی باڈی ردعمل بنتا ہے مگر یہ اثر مختلف اقسام کے خالف گھٹ جاتا ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ اس سے عندیہ ملتا ہے کہ اوریجنل وائرس کے اسپائیک پروٹین پر مبنی‬
‫ویکسینز سے بھی نئی اقسم کے خالف وسیع اینٹی باڈی ردعمل جسم میں بن سکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر مائیکرو بائیولوجی میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171829/‬‬

‫تازہ مچھلی کی پہچان میں مددگار طریقے‬


‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪02 2021‬‬

‫مچھلی تو ایسی غذا ہے جو لگ بھگ ہر ایک کو ہی پسند ہوتی ہے‪ ،‬اب چاہے تل کر‬
‫کھائیں یا سالن یا کسی اور شکل میں۔‬

‫تحقیقات | ‪46‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مچھلی کا گوشت بہت مزیدار اور صحت کے لیے متعدد فوائد کا حامل ہوتا ہے۔‬
‫مگر جب پکانے کے لیے مچھلی خریدی جائے تو آپ کو کیسے علم ہوگا کہ وہ کھانے کے‬
‫لیے بہتر اور تازہ ہے؟‬
‫آسان الفاظ میں کیسے اپنے سامنے رکھے ڈھیر میں سے کھانے کے لیے اچھی مچھلی کو‬
‫کیسے منتخب کیا جائے ؟‬
‫تو یہ اتنا زیادہ مشکل بھی نہیں۔‬
‫بس چند عام چیزوں کا خیال رکھنا اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫مچھلی کی بو‬
‫اکثر افراد کو مچھلی کی بو پسند نہیں ہوتی مگر ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ اس بات کو یقینی‬
‫بنانے کا بہترین طریقہ ہے کہ ٓاپ جو مچھلی کھارہے ہیں وہ تازہ ہے یا نہیں۔‬
‫اچھی مچھلی کی بو زیادہ بری نہیں ہوتی بلکہ معتدل ہوتی ہے‪ ،‬اس کے مقابلے میں اگر‬
‫بہت بری بو آرہی ہے تو یہ پہلی نشانی ہے کہ یہ مچھلی باسی ہے یا کیمیکلز سے محفوظ‬
‫کی گئی ہے‪ ،‬ایسی بو اکثر اسے پکانے کے بعد بھی برقرار رہنے کا امکان ہوتا ہے۔‬
‫ٓانکھیں جھوٹ نہیں بولتی‬
‫جی ہاں واقعی مچھلی کی ٓانکھیں جھوٹ نہیں بولتی‪ ،‬یہ سننے میں تو عجیب لگ سکتا ہے‬
‫مگر حقیقت ہے۔ مچھلی خریدے ہوئے اس کی ٓانکھوں کو دیکھیں۔‬
‫تازہ مچھلی کی آنکھیں کلیئر‪ ،‬چمکدار اور پوری ہوتی ہیں‪ ،‬جبکہ ان میں دھندال پن اس چیز‬
‫کی عالمت ہے کہ اسے وہاں رکھے بہت دیر ہوچکی ہے اور وہ باسی یا خراب ہے۔‬
‫مستحکم ساخت‬
‫تازہ مچھلی کا جسم اندر اور باہر سے ٹھوس یا مستحکم ہوتی ہے‪ ،‬جلد میں چمک ہوتی‬
‫ہے۔‬
‫جب انگلی سے جسم کو دبایا جائے تو اندر جانے واال حصہ اسپرنگ کی طرح واپس اصل‬
‫شکل میں ٓاجاتا ہے جبکہ جلد بھی ڈھیلی نہیں ہوتی۔‬
‫اس کے مقابلے میں باسی مچھلی کی رنگت مدھم ہوتی ہے اور گوشت نرم اور پلپال ہوتا‬
‫‪،‬ہے‬
‫مجموعی جائزہ‬
‫جب مچھلی خریدنے لگے تو دیکھیں کہ اس کا رنگ ماند نہ ہو‪ٓ ،‬انکھوں میں سفید لیئر نہ‬
‫ہو جبکہ گلپھڑے اور دم فریش ہو۔‬
‫یہ بھی یقینی بنائیں کہ اس کا جسم ہلکا سا پھسلن واال ہو اور گوشت کی رنگت بدلی ہوئی نہ‬
‫ہو۔ تازہ مچھلی کے گوشت کا رنگ شوخ گالبی رنگ کا ہوتا ہے اور اس کے ٹکڑے‬
‫کرتے ہوئے خون بھی خارج ہوتا ہے۔‬
‫گلپھڑے‬
‫مچھلی کے گلپھڑے صاف اور شوخ سرخ رنگ کے ہونے چاہئے‪ ،‬مچھلی عمر بڑھنے‬
‫سے گلپھڑے کا رنگ مدھم اور بھورا ہونے لگتا ہے‪ ،‬جبکہ ان میں بو واضح عالمت ہے‬
‫کہ یہ مچھلی کھانے کے الئق نہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪47‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171831/‬‬

‫پاکستان میں یومیہ ‪ 1200‬بچے سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں‪ ،‬رپورٹ‬
‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪02 2021‬‬

‫یومیہ ‪ 5‬ہزار پاکستانی سگریٹ نوشی کی وجہ سے ہسپتال داخل ہوتے ہیں‪ ،‬رپورٹ—فائل‬
‫فوٹو‪ :‬اے ایف پی‬
‫ایسوسی ایشن فارسموکنگ الٹرنیٹوز پاکستان نے کہا ہے کہ وہ ملک بھر میں سگریٹ‬
‫نوشی کرنے والوں کو مشاورت اور مدد فراہم کرنے کے لیے ڈیجیٹل پلیٹ فارم کے‬
‫ذریعے ‪ 10‬الکھ تمباکو نوشی کرنے والوں کی زندگیوں سے سگریٹ کو ہٹانے میں مدد‬
‫فراہم کرے گی۔‬

‫تنظیم کے مطابق عالمی سطح پر تمباکو نوشی کی شرح میں کمی کے باوجود‪ ،‬تمباکو‬
‫نوشی کرنے والوں کی تعداد اب بھی ایک ارب سے زیادہ ہے‪ ،‬جن میں سے ‪ 80‬فیصد کم‬
‫اور درمیانی آمدنی والے ممالک کے افراد ہیں اور اسی وجہ سے ہی صحت عامہ کے‬
‫زیادہ اخراجات ٓا رہے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪48‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دستیاب اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں ‪ 2017‬میں تمباکو نوشی کی وجہ سے تقریبا‬
‫‪ 163,360‬افراد ہالک ہوئے‪ ،‬جب کہ تمباکو نوشی کی وجہ سے ہی روزانہ ‪ 5000‬پاکستانی‬
‫ہسپتالوں میں داخل ہوتے ہیں۔‬
‫یہ بھی پڑھیں‪ :‬تمباکو نوشی چھوڑنے کے ‪12‬مددگار طریقے‬
‫تنظیم کے اعداد و شمار کے مطابق ‪ 6‬سے ‪ 15‬سال کی عمر کے ‪ 1200‬پاکستانی بچے‬
‫روزانہ سگریٹ نوشی شروع کرتے ہیں جب کہ ‪ 5‬میں سے ‪ 2‬تمباکو نوشی کرنے والوں‬
‫نے ‪ 10‬سال کی عمر سے پہلے سگریٹ پینا شروع کر دیتے ہیں۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ تقریبا تمام سگریٹ نوشی کرنے والےافراد سگریٹ سے وابستہ‬
‫خطرات کو سمجھتے ہیں لیکن ان کا استعمال اس وقت تک جاری رکھتے ہیں جب تک کہ‬
‫وہ قلبی امراض‪ ،‬کینسر یا سگریٹ کے استعمال سے وابستہ دیگر بیماریوں کا شکار نہ ہو‬
‫جائیں۔‬
‫ایسوسی ایشن فار سموکنگ الٹرنیٹیوز‪ Š‬ایسے افراد کا اتحاد ہے جو پاکستان میں سگریٹ‬
‫نوشی کی شرح کو نمایاں طور پر کم کرنے کے لیے کوشاں ہے‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202111-127413.html‬‬

‫کریں‪8‬‬ ‫وجوہات جو پورا سال کھجور کھانا عادت بنانے کی اہمیت ظاہر‬
‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪02 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪49‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫—کھجور کھانا سنت نبوی ہے‬
‫کھجور کھانا سنت نبوی صلی ہللا علیہ و آلہ وسلم ہے اور کہا جاتا ہے کہ یہ پھل چھ ہزار‬
‫قبل مسیح سے کاشت کیا جارہا ہے۔‬
‫یہ چند سب سے میٹھے پھلوں میں سے ایک ہے اور اس کی متعدد اقسام ہوتی ہیں‪ ،‬وہ سب‬
‫ہی صحت کے لیے بھی فائدہ مند ہیں۔‬
‫کھجور میں فائبر‪ ،‬پوٹاشیم‪ ،‬کاپر‪ ،‬مینگنیز‪ ،‬میگنیشم اور وٹامن بی سکس جیسے اجزا شامل‬
‫ہوتے ہیں جو کہ متعدد طبی فوائد کا باعث بنتے ہیں۔‬
‫اچھی بات یہ ہے کہ کھجوروں کا پورا سال استعمال کیا جاسکتا ہے چاہے وہ تازہ پھل کی‬
‫شکل میں ہو یا خشک یا ڈرائی شکل میں۔‬
‫دونوں ہی شکلوں میں یہ پھل صحت کے لیے مفید ثابت ہوتا ہے۔‬
‫یہاں طبی سائنس کے تسلیم شدہ وہ فوائد جانیں جو کھجور کھانے سے آپ کو حاصل‬
‫ہوسکتے ہیں۔‬
‫بہترین غذائی اجزا سے بھرپور‬
‫کھجوریں غذائیت کے لحاظ سے بہترین پھل ہے‪ ،‬جس کی ‪ 100‬گرام مقدار میں ‪277‬‬
‫کیلوریز‪ 75 ،‬گرام کاربوہائیڈریٹس‪ 7 ،‬گرام فائبر‪ ،‬پوٹاشیم کی روزانہ درکار مقدار کا ‪20‬‬
‫فیصد حصہ‪ ،‬میگنیشم کی روزانہ درکار مقدار کا ‪ 14‬فیصد حصہ‪ ،‬کاپر کی روزانہ درکار‬
‫مقدار کا ‪ 18‬فیصد حصہ‪ ،‬مینگنیز کی روزانہ درکار مقدار کا ‪ 15‬فیصد حصہ‪ٓ ،‬ائرن کی‬
‫روزانہ درکار مقدار کا ‪ 5‬فیصد حصہ اور وٹامن بی ‪ 6‬کی روزانہ درکار مقدار کا ‪ 12‬فیصد‬
‫حصہ جسم کو ملتا ہے۔‬
‫اس سے ہٹ کر بھی کھجوریں اینٹی ٓاکسائیڈنٹس سے بھرپور ہوتی ہیں جو متعدد طبی فوائد‬
‫کا باعث ہے۔‬
‫پیٹ بھرے رکھنے میں مددگار‬
‫کھجوروں میں حل ہونے والے غذائی فائبر کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬جو پانی کو اپنی‬
‫جانب کھینچتا ہے‪ ،‬جس کے باعث پیٹ بھرنے کا احساس دیر تک برقرار رہتا ہے۔‬
‫فائبر سے بھرپور غذائیں جیسے کھجور پانی کے اجتماع سے کھانے کی اشتہا پر کنٹرول‬
‫اور پیٹ بھرے رکھنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔‬
‫قوت مدافعت کے لیے بہترین‬
‫تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ کھجوروں سے مدافعتی نظام متحرک ہوتا ہے‪ ،‬جس‬
‫کی وجہ اس میں موجود مختلف اجزا ہیں۔‬
‫اس کے عالوہ کھجوروں میں فینولک مرکبات اور کیروٹینز کے ساتھ ساتھ وٹامنز کی‬
‫مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جو مدافعتی نظام کو مضبوط بنانے میں کردار ادا کرسکتے ہیں۔‬
‫چینی کی اشتہا ختم ہونا‬
‫چینی یا اس سے بنی اشیا میں کاربوہائیڈریٹس کی مقدار زیادہ ہوتی ہے جس کے باعث ان‬
‫کے استعمال سے بلڈ شوگر کی سطح بہت تیزی سے اوپر جاتی ہے اور پھر نیچے ٓاتی‬

‫تحقیقات | ‪50‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہے‪ ،‬جو طویل المعیاد بنیادوں پر ذیابیطس‪ ،‬جسمانی وزن میں اضافے اور دیگر مسائل کا‬
‫خطرہ بڑھتا ہے۔‬
‫اس کے مقابلے میں کھجوروں میں قدرتی مٹھاس زیادہ ہوتی ہے جو منہ میٹھا کرنے کی‬
‫خواہش کی تشکین بھی کرتی ہے جبکہ یہ صحت کے لیے فائدہ مند پھل بھی ہے۔‬
‫قبض سے ریلیف‬
‫غذائی فائبر سے بھرپور غذائیں جیسے کھجور صحت بخش غذا کا اہم حصہ ہوتی ہیں۔‬
‫ماہرین کی جانب سے روزانہ ‪ 20‬سے ‪ 30‬گرام فائبر روزانہ جزوبدن بنانے کا مشورہ دیا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ غذائی فائبر کا استعمال بڑھانے سے ٓانتوں کے افعال‬
‫درست ہوتے ہیں اور قبض کا خطرہ کم ہوتا ہے۔‬
‫دل کے لیے فائدہ مند‬
‫کھجوریں پوٹاشیم کے حصول کا بہترین ذریعہ ہے‪ ،‬ایک ایسا ضروری منرل جو جسم میں‬
‫سیال اور الیکٹرو الئٹ توازن کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے۔‬
‫پوٹاشیم عصبی نظام‪ ،‬نبض اور بلڈ پریشر کو ریگولیٹ کرنے میں مدد فراہم کرتا ہے‪،‬‬
‫ماہرین کے مطابق پوٹاشیم سے بھرپور غذا بلڈ پریشر کی سطح میں کمی التی ہے جس‬
‫سے امراض قلب بشمول ہارٹ اٹیک اور فالج کا خطرہ کم ہوتا ہے۔‬
‫ٓانکھوں کے امراض سے تحفظ‬
‫کھجوروں میں ایسے مرکبات موجود ہیں جو عمر بڑھنے سے الحق ہونے والے ٓانکھوں‬
‫کے امراض کی روک تھام میں مدد ملتی ہے۔‬
‫اور لیوٹین کے حصول کا ‪ zeaxanthin‬تحقیقی رپورٹس سے ثابت ہوا ہے کہ کھجوریں‬
‫کیروٹنز کی ایسی اقسام ہیں جو ٓانکھوں کے ٹشوز میں ہوتی ہیں اور‬ ‫ٰ‬ ‫اچھا ذریعہ ے‪ ،‬جو‬
‫اینٹی ٓاکسائیڈنٹس خصوصیات سے لیس ہوتی ہیں۔‬
‫یہ مرکبات عمر کے ساتھ ٓانے والے ٓانکھوں کے پٹھوں کی تنزلی اور موتیا سے تحفظ‬
‫فراہم کرسکتے ہیں۔‬
‫اعصابی نظام اور جسمانی توانائی‬
‫کھجوروں میں بی وٹامنز بشمول بی ‪ ،1‬بی ‪ ،2‬بی ‪ 3‬اور دیگر کی معتدل مقدار ہتی ہے جس‬
‫سے روزانہ درکار وٹامن بی کے حصول میں مدد ملتی ہے۔‬
‫بی وٹامنز کاربوہائیڈریٹس‪ ،‬پروٹینز اور چکنائی کو میٹابوالئز کرنے کا کام کرتے ہیں‪،‬‬
‫جسم کو ان غذائی اجزا سے توانائی حاصل ہوتی ہے۔‬
‫یہ وٹامنز اعصابی نظام کے صحت مند افعال میں اہم کردار ادا کرتے ہیں‪ ،‬جب جسم کو ان‬
‫وٹامنز کی کمی کا سامنا ہوتا ہے جسمانی توانائی میں کمی‪ ،‬کمزوری‪ ،‬تھکاوٹ اور توجہ‬
‫مرکوز کرنے میں مشکالت کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫مضبوط ہڈیوں کی کنئجی‬
‫جب ہڈیوں کی صحت کی بات ہو تو سب سے پہلے جس منرل کا خیال ٓاتا ہے وہ کیلشیئم‬
‫ہے‪ ،‬کیلشیئم کے حصول کے ساتھ ساتھ اسے جذب کرنا بھی بہت اہمیت رکھتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪51‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کیلشیئم اور فاسفورس ایسے ‪ 2‬منرلز ہیں جو اکھٹے مل کر ہڈیوں کی صحت کو تحفظ فراہم‬
‫کرتے ہیں اور اکٹھے استعمال کرنے پر ان کے جذب ہونے کی شرح بڑھاتے ہین۔‬
‫کھجوروں میں کیلشیئم‪ ،‬میگنیشم اور زنک کے ساتھ فاسفورس جیسے منرلز موجود ہیں‪،‬‬
‫جس سے ہڈیوں کی صھت کو بہتر بنانے اور ہڈیوں کے امراض کی روک تھام میں مدد مل‬
‫سکتی ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171873/‬‬

‫بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنا نہایت ضروری کیوں؟‬


‫نومبر ‪03 2021 ،‬‬

‫ہائی بلڈ پریشر یا ہائپر ٹینشن سے مراد شریانوں کے خالف بڑھتاخون کا دبأو ہےجو وقت‬
‫گزرنے کے ساتھ ساتھ خون کی نالیوں کو نقصان پہنچاتا ہےاور دل‪ ،‬گردوں کی بیماریوں‬
‫کے ساتھ ساتھ اسٹروک کا سبب بھی بن سکتا ہے۔اس مرض کی برسوں تک کوئی خاص‬

‫عالمات ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے‪ ‬طبی ماہرین بلڈ پریشر کو ’’ خاموش قاتل‘‘ قرار‬
‫دیتے ہیں۔‬
‫مرکز برائے تحفظ امراض اور روک تھام(سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن ) کی‬
‫جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق‪75،‬ملین امریکی ہائی بلڈپریشر‬
‫کے مرض میں مبتال ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪52‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫نارمل بلڈ پریشر ‪80‬سے ‪120‬ملی میٹر مرکیوری ہونا چاہئے لیکن ہائی بلڈ پریشر یا ہائیپر‬
‫ٹینشن کے دوران اس سطح میں اضافہ ہوجاتا ہے۔‬
‫یہاں کچھ ایسی احتیاطی تدابیرکے بارے میں بات کرلیتے ہیں ‪ ،‬جن کو اپنا کر بلڈ پریشر‬
‫کی سطح کو معمول پر رکھا جاسکتاہے۔‬
‫بڑھتے وزن پر کنٹرول‬
‫وزن میں کمی النا بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے والے سب سے مٔوثر طریقوں میں سے ایک‬
‫طریقہ ہے۔‬
‫عورتوں اور مردوں میں یہ تناسب کم یا زیادہ ہوسکتا ہے‪ ،‬وزن میں کمی کے عالوہ ٓاپ کو‬
‫‪ ‬اپنی ویسٹ الئن پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔‬
‫مردوں کی ویسٹ الئن اگر ‪40‬انچ سے زیادہ ہوجائے تو یہ خطرے کی عالمت ہے جبکہ‬
‫خواتین میں اگر یہی ویسٹ الئن ‪35‬انچ سے زیادہ ہو تو ان کے لیے خطرہ بڑھنے لگتا ہے۔‬
‫باقاعدگی سے ورزش‬
‫ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہفتے بھر میں ‪150‬منٹ اور دن‬
‫بھر میں ‪30‬منٹ جسمانی ورزش کے لیےمختص کردیں۔باقاعدگی سے ورزش کرنے کا‬
‫معمول ٓاپ کے بلڈ پریشر کی سطح میں ‪5‬سے‪ 8‬ملی میٹر ٓاف مرکیوری ایچ جی کمی النے‬
‫کا باعث بنےگی۔‬
‫ایسی ایروبک ایکسرسائز جن کے ذریعے انسان بلڈ پریشر کی سطح کم کرسکتا ہے ان میں‬
‫‪ ‬واکنگ ‪ ،‬جاگنگ‪،‬سائیکلنگ‪ ،‬سوئمنگ اور ڈانسنگ شامل ہیں۔‬
‫اسی طرح ماہرین کے مطابق بلڈ پریشر کے مریضوں‪ Š‬کے لیے ہفتے میں دو دن اسٹرینتھ‬
‫‪ ‬ٹریننگ بھی ضروری ہے جس کے لیے مریض کو معالج سے رابطہ کرنا چاہیے ۔‬
‫متوازن غذا‬
‫بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنے یا بڑھانے میں غذأوں کا کردار بے حد اہم ہے۔ اس لیے‬
‫ایسی غذائیں جن میں پوٹاشیم‪ ،‬میگنیشیم‪ ،‬فائبر کے ساتھ سوڈیم کی کم مقدار ہو وہ بلڈ پریشر‬
‫کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔‬
‫پھل‪ ،‬سبزیوں‪ ،‬لو فیٹ ڈیری مصنوعات‪ ،‬سیچوریٹڈ فیٹ اور کم ‪ (Whole grain) ،‬اناج‬
‫‪ mm Hg‬کولیسٹرول پر مشتمل ڈائٹ پالن پر عمل کر کےانسان بلڈ پریشر کی سطح‪11‬‬
‫تک کم کرسکتا ہے۔‬
‫درج ذیل نکات پر عمل کرکےٓاپ ایک صحت بخش ڈائٹ پالن کو اپنی زندگی کا حصہ‬
‫بناسکتے ہیں۔‬
‫سب سے پہلےٓاپ اپنے کھانے کی عادات پر روشنی ڈالیں مثالً ٓاپ کیا کھاتے ہیں ؟ کتنا ‪1-‬‬
‫کھاتے ہیں؟ اور کب کھاتے ہیں؟ یہ سب مانیٹر کریں ۔‬
‫پوٹاشیم کی مقدار بلڈ پریشرپر اثر انداز ہوتی ہے ل ٰہذا‪ ‬اپنے معالج سے پوٹاشیم لیول ‪2- ‬‬
‫کےبارے میں بات کریں کہ ٓاپ کے لیے کیا بہترین ہے اور کیا نہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪53‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کوئی بھی غذا خریدتے وقت اس کے اندر موجود غذائی اجزاء اور ان کی مقدار کا بغور ‪3-‬‬
‫مطالعہ کریں۔‬
‫‪ ‬بلڈ پریشر قابو میں رکھنے کے لیے بہترین غذائوں کا استعمال کریں۔ ‪4-‬‬
‫جن غذأوں کے ذریعے انسان بلڈ پریشر قابو میں رکھ سکتا ہے ان میں ہرے پتوں والی‬
‫سبزیاں‪ ،‬لہسن‪ ،‬چقندر‪ ،‬گاجر اور پھلوں میںکیال‪ ،‬تربوز‪ ،‬اسٹرابیری اور بلیو بیریز جبکہ‬
‫‪ ‬خشک میوہ جات میں پستہ شامل ہیں۔‬
‫اس کے عالوہ زیتون کا تیل‪ ،‬بغیر باالئی واال دودھ اور دہی کا استعمال بھی مفید ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1006635‬‬

‫نہار منہ اُبال ہوا انڈا کھانا کیوں ضروری ہے؟‬


‫نومبر ‪01 2021 ،‬‬

‫ایک صحت مند ناشتے کو دن کی اہم غذا کہنا غلط نہ ہوگا‪ ،‬ناشتہ چھوڑنا ناصرف وزن میں‬
‫اضافے کا سبب بنتا ہے بلکہ آپ کی یادداشت کو بھی متاثر کرتا ہے۔‬
‫ایک صحت مند ناشتے کیلئے صبح سویرے ابال ہوا انڈا بہترین انتخاب ہوسکتا ہے۔‬
‫روزانہ ایک انڈا کھانے کے بے شمار فوائد ہیں۔ صبح نہار منہ ایک انڈا کھانے سے سارا‬
‫دن انسان چست و توانا رہتا ہے جبکہ بہت دیر تک بھوک کا احساس بھی نہیں ہوتا۔ اس کے‬
‫عالوہ روزانہ ایک انڈا وزن کم کرنے میں بھی معاون ثابت ہوتا ہے۔‬
‫روٹین اور صحت مند فیٹ سے بھرپور انڈوں میں کیلوریز کی مقدار بہت کم ہوتی ہے۔‬
‫‪ ‬نہار منہ اُبال ہوا انڈا کھانے کے فوائد‪:‬‬
‫تحقیقات | ‪54‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پھل‪ ،‬سبزیاں‪ ،‬پانی اور دودھ جیسی قدرتی اشیا کا شمار ان چیزوں میں ہوتا ہے جو انسانی‬
‫جسم کے ’میٹابولزم‘ کو مضبوط بناتی ہیں۔‬
‫انڈوں میں موجود پروٹین جسم میں ضروری امینو ایسڈ کو پورا کرنے میں مددگار ثابت‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫چونکہ انڈوں میں پروٹین زیادہ ہوتے ہیں اس لیے یہ میٹابولزم کے عمل کو‪  ‬بڑھانے میں‬
‫مدد کر سکتے ہیں۔‬
‫انڈوں میں کیلوریز کم ہوتی ہیں ‪ ،‬اس کی زردی میں صرف ‪ 78‬کیلوریز ہوتی ہیں۔ تاہم‪ ،‬اگر‬
‫آپ کچھ اضافی پاؤنڈ تیزی سے کم کرنا چاہتے ہیں تو‪  ‬صبح کے صحت بخش کھانے کے‬
‫لیے آپ اپنے ناشتے میں دو سے چار انڈے شامل کر سکتے ہیں‪ ،‬جن میں ‪ 240‬سے کم‬
‫کیلوریز ہوتی ہیں‬
‫انڈوں میں دو ایسے ضروری اینٹی آکسیڈنٹس ہوتے ہیں جو ٓانکھوں کی بینائی بہتر کرنے‬
‫میں معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔‪  ‬یہ اینٹی آکسیڈنٹس ٓانکھوں کی بینائی کو الٹرا وائلٹ شعائیں‬
‫سے ہونے والے نقصان سے بچاتے ہیں۔ اس کے عالوہ انڈے کم عمری میں موتیا ہونے‬
‫کے امکانات کو بھی کم کرتے ہیں۔‬
‫دماغی صحت کو برقرار اور صحتمند بنانے کیلئے بھی انڈوں کا استعمال بہت ضروری‬
‫ہے‪ ،‬انڈوں میں وٹامنز اور منرلز کی بہترین مقدار ہوتی ہے‪ ،‬انڈے میں موجود ضروری‬
‫وٹامنز اور معدنیات دماغی خلیات‪ ،‬یادداشت‪ ،‬اعصابی نظام اور میٹابولزم کے کام کو‬
‫برقرار رکھتے ہیں۔‬
‫انڈے پروٹین کا پاور ہاؤس ہیں‪ ،‬انڈوں کی زردی میں زنک اور سیلینیم ہوتا ہے۔ یہ دونوں‬
‫معدنیات قوت مدافعت بڑھانے کے لیے بہت اہم ہیں۔ اگرچہ انڈے کی زردی کولیسٹرول‬
‫بھی بڑھا سکتی ہے لیکن پھر بھی انسانی جسم کیلئے ایک دن میں کم از کم ایک مناسب‬
‫طریقے سے پکا ہوا انڈا کھانا الزمی ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1005643‬‬

‫تازہ اور بہترین اور مچھلی کیسے خریدنی ہے؟ یہ باتیں یاد رکھیں‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪ 3 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪55‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫مچھلی کے بارے میں مشہور ہے کہ یہ ان غذاؤں میں شامل ہے جو بہت صحت مند‬
‫کہالتی ہیں‪ ،‬یہ ایک ایسی غذا ہے جو لگ بھگ ہر ایک انسان کو ہی پسند ہوتی ہے‪ ،‬اب‬
‫چاہے تل کر کھائیں یا سالن یا کسی اور شکل میں تناول فرمائیں۔‬
‫ایسے دور میں جب پھل‪ ،‬سبزیاں‪ ،‬گوشت اور بعض دیگر غذائیں غیر قدرتی طریقہ سے‬
‫پیدا کی جارہی ہیں‪ ،‬مچھلی کی افادیت اور بھی بڑھ گئی ہے اور اس میں کسی قسم کی‬
‫کوئی تبدیلی نہیں ٓائی۔‬
‫اعلی اور بہتر قرار‬
‫ٰ‬ ‫ماہرین صحت مچھلی کے گوشت کو دیگر جانوروں کے گوشت سے‬
‫دیتے ہیں اور سب سےاچھا اور مکمل کھانا وہی ہے جس میں مچھلی بھی شامل ہو۔‬
‫مچھلی کا گوشت بہت مزیدار اور صحت کے لیے متعدد فوائد کا حامل ہوتا ہے مگر جب‬
‫پکانے کے لیے مچھلی خریدی جائے تو آپ کو کیسے علم ہوگا کہ وہ کھانے کے لیے بہتر‬
‫اور تازہ ہے؟‬
‫آسان الفاظ میں کیسے اپنے سامنے رکھے ڈھیر میں سے کھانے کے لیے اچھی مچھلی کو‬
‫کیسے منتخب کیاجائے‪ ،‬تو یہ اتنا زیادہ مشکل بھی نہیں۔ بس چند عام چیزوں کا خیال رکھنا‬
‫اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪56‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اکثر افراد کو مچھلی کی بو پسند نہیں ہوتی مگر ماہرین کا ماننا ہے کہ یہ اس بات کو یقینی‬
‫بنانے کا بہترین طریقہ ہے کہ ٓاپ جو مچھلی کھارہے ہیں وہ تازہ ہے یا نہیں۔‬

‫اچھی مچھلی کی بو زیادہ بری نہیں ہوتی بلکہ معتدل ہوتی ہے‪ ،‬اس کے مقابلے میں اگر‬
‫بہت بری بو آرہی ہے تویہ پہلی نشانی ہے کہ یہ مچھلی باسی ہے یا کیمیکلز سے محفوظ‬
‫کی گئی ہے‪ ،‬ایسی بو اکثر اسے پکانے کے بعدبھی برقرار رہنے کا امکان ہوتا ہے۔‬
‫جی ہاں واقعی مچھلی کی ٓانکھیں جھوٹ نہیں بولتی‪ ،‬یہ سننے میں تو عجیب لگ سکتا ہے‬
‫مگر حقیقت ہے۔ مچھلی خریدے ہوئے اس کی ٓانکھوں کو دیکھیں۔‬
‫تازہ مچھلی کی آنکھیں کلیئر‪ ،‬چمکدار اور پوری ہوتی ہیں‪ ،‬جبکہ ان میں دھندال پن اس چیز‬
‫کی عالمت ہے کہ اسے وہاں رکھے بہت دیر ہوچکی ہے اور وہ باسی یا خراب ہے۔ تازہ‬
‫مچھلی کا جسم اندر اور باہر سے ٹھوس یامستحکم ہوتی ہے‪ ،‬جلد میں چمک ہوتی ہے۔‬
‫جب انگلی سے جسم کو دبایا جائے تو اندر جانے واال حصہ اسپرنگ کی طرح واپس اصل‬
‫شکل میں ٓاجاتا ہے جبکہ جلد بھی ڈھیلی نہیں ہوتی۔ اس کے مقابلے میں باسی مچھلی کی‬
‫رنگت مدھم ہوتی ہے اور گوشت نرم اور پلپال ہوتاہے۔‬
‫جب مچھلی خریدنے لگے تو دیکھیں کہ اس کا رنگ ماند نہ ہو‪ٓ ،‬انکھوں میں سفید لیئر نہ‬
‫ہو جبکہ گلپھڑے اور دم فریش ہو۔یہ بھی یقینی بنائیں کہ اس کا جسم ہلکا سا پھسلن واال ہو‬
‫اور گوشت کی رنگت بدلی ہوئی نہ ہو۔ تازہ مچھلی کے گوشت کا رنگ شوخ گالبی رنگ‬
‫کا ہوتا ہے اور اس کے ٹکڑے کرتے ہوئے خون بھی خارج ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪57‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مچھلی کے گلپھڑے صاف اور شوخ سرخ رنگ کے ہونے چاہئے‪ ،‬مچھلی عمر بڑھنے‬
‫سے گلپھڑے کا رنگ مدھم اور بھورا ہونے لگتا ہے‪ ،‬جبکہ ان میں بو واضح عالمت ہے‬
‫کہ یہ مچھلی کھانے کے الئق نہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/fresh-fish-to-buy-helpful-ways/‬‬

‫کرونا وبا کے خالف ایک اور بڑی کامیابی مل گئی‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪3 2021‬‬

‫کرونا وبا کے خالف ایک اور پیش رفت‪ ،‬سائنسدانوں نے کووڈ اور اس کی اقسام کے‬
‫خالف نئی اینٹی باڈی شناخت کرلی۔‬
‫کرونا وبا کے آغاز سے ہی طبی ماہرین کی جانب سے مسلسل تحقیق جاری ہے‪ ،‬ان‬
‫تحقیقات کے حوصلہ افزا نتائج آئے روز خبروں کی زینت بنتے رہتے ہیں‪ ،‬اب طبی ماہرین‬
‫ایک ایسی اینٹی باڈی کو شناخت کرنے میں کامیاب ہوئے جو کرونا وائرس اور اس کی‬
‫مختلف اقسام سے ہونے والی بیماری کی شدت کو محدود رکھ سکتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪58‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫امریکا کی ڈیوک یونیورسٹی اور نارتھ کیروالئنا یونیورسٹی کے ماہرین نے اس اینٹی باڈی‬
‫کو شناخت کیا اور اس کی ٓازمائش جانوروں پر کی اور اب اس تحقیق کے نتائج جاری‬
‫کئے۔محققین پُر امید ہے کہ اینٹی باڈی کے باعث موجودہ وبا کے دوران اس بیماری کا‬
‫عالج ہوسکتا ہے اور یہ مستقبل کی وباؤں کے لیے بھی کارٓامد ہوسکے گی۔‬
‫تحقیقی ٹیم نے یہ اینٹی باڈی دو ایسے مریضوں کے خون کے تجزیے کے دوران شناخت‬
‫کی تھی جن میں سے ایک ‪ 2000‬کی دہائی میں سارس کوو ‪ 1‬وائرس سے متاثر ہوا تھا‬
‫اور دوسرا اب کووڈ ‪ 19‬کا شکار ہوا۔‬
‫ان دونوں مریضوں میں موجود ‪ 17‬سو اینٹی باڈیز میں سے محققین نے ‪ 50‬اینٹی باڈیز کو‬
‫دریافت کیا جو سارس کوو ‪ 1‬اور سارس کوو ‪ 2‬وائرسز کو جکڑ سکتی ہیں۔‬
‫مزید تجزیے سے دریافت ہوا کہ ان سب میں سے ایک اینٹی باڈی انسانوں میں پائے جانے‬
‫والے کرونا وائرسز کے ساتھ ساتھ جانوروں میں موجود متعدد کرونا وائرسز کو جکڑنے‬
‫کی صالحیت رکھتی ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ یہ اینٹی باڈی کورونا وائرس کو ایسے مقام پر جکڑتی ہے جو متعدد‬
‫میوٹیشنز اور اقسام کی گزرگاہ ہے۔جانوروں پر اس اینٹی باڈی پر ٓازمائش کے دوران دیکھا‬
‫گیا کہ یہ مؤثر طریقے سے بیماری کو بالک کرسکتی ہے یا بیماری کے اثر کو کم کر‬
‫سکتی ہے۔‬
‫انہوں نے دریافت کیا کہ یہ اینٹی باڈی دونوں ایسا کرسکتی ہے‪ ،‬یعنی جب جانوروں کو‬
‫بیمار ہونے والے یہ اینٹی باڈی دی گئی تو اس سے انہیں کووڈ کی مختلف اقسام سے تحفظ‬
‫مال۔محققین کا کہنا تھا کہ اس دریافت سے یونیورسل ویکسین کی تیاری میں مدد مل سکے‬
‫گی‪ ،‬اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسین میں شائع ہوئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/another-major-victory-against-the-corona-‬‬
‫‪epidemic/‬‬
‫تحقیقات | ‪59‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٓالہ سماعت بیٹری کے بغیر کام کرتا ہے‬
‫یہ ٴ‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫منگل‪ 2  ‬نومبر‪2021  ‬‬

‫اس ٓالے نے ٓاواز کو برقی سگنلوں میں تبدیل کیا جو ریکارڈ کرکے سننے پر اصل ٓاواز‬
‫جیسے محسوس ہورہے تھے۔ (فوٹو‪ :‬اے سی ایس نینو)‬
‫شنگھائی‪ :‬ہواژونگ یونیورسٹی ٓاف سائنس اینڈ ٹیکنالوجی‪ ،‬چین کے سائنسدانوں نے‬
‫ٓالہ سماعت (ہیئرنگ ڈیوائس) تیار کرلیا ہے جسے اپنا کام کرنے کےلیے کسی‬ ‫ایک ایسا ٴ‬
‫بیٹری کی کوئی ضرورت نہیں۔‬
‫ریسرچ جرنل ’’اے سی ایس نینو‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع ہونے والی رپورٹ کے‬
‫مطابق‪ ،‬اس ٓالے کا پروٹوٹائپ تیار کرلیا گیا ہے جسے مصنوعی کان پر کامیابی سے ٓازمایا‬
‫بھی جاچکا ہے۔‬
‫ٓالہ سماعت دراصل اندرونی کان کے اہم ترین حصے ’’صدف گوش‘‘ (کوچلیا) کی جگہ‬ ‫یہ ٴ‬
‫لیتا ہے جو ٓاواز کی لہروں کو برقی اشاروں میں تبدیل کرکے دماغ تک بھیجتا ہے؛ اور اس‬
‫طرح ہمیں سننے کے قابل بناتا ہے۔اس ٓالے میں ’’بیریم ٹیٹانیٹ‘‘ نامی ما ّدے کے نینو‬
‫ذرّات استعمال کیے گئے ہیں جن سے ٓاواز کی لہریں ٹکراتی ہیں تو وہ ’’پیزوٹرائبو‬

‫تحقیقات | ‪60‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫الیکٹرک ایفیکٹ‘‘ کہالنے والے ایک قدرتی مظہر کے تحت اس ٓاواز کو بجلی کے‬
‫سگنلوں میں تبدیل کرتے ہیں۔‬
‫واضح رہے کہ صدف گوش کا ناکارہ ہوجانا یا درست طور پر کام نہ کرنا بہرے پن‬
‫(سماعت سے محرومی) کی ایک اہم وجہ ہے جو بالخصوص عمر رسیدہ افراد کو متاثر‬
‫کرتی ہے۔‬
‫یہ پروٹوٹائپ بالکل ابتدائی نوعیت کا ہے جسے حقیقی انسانی کان میں نصب ہونے کے‬
‫قابل بنانے کےلیے ابھی بہت کام کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫مصنوعی کان پر ٓازمائشوں کے دوران اس ٓالے نے ‪ 170‬ہرٹز فریکوینسی والی ٓاواز کو‬
‫برقی سگنلوں میں تبدیل کیا جنہیں ریکارڈ کرکے سنا گیا تو لگ بھگ اصل ٓاواز جیسے ہی‬
‫تھے۔‬
‫امید ہے کہ اس طریقے پر ایسے مصنوعی صدف گوش (کوچلیا) بنائے جاسکیں گے جنہیں‬
‫بجلی کے عالوہ مرمت اور دیکھ بھال کی ضرورت بھی نہیں ہوگی۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2242775/9812/‬‬

‫امیر ممالک کی ٓالودگی سے غریب ملکوں میں ‪ 20‬الکھ افراد ہالک‬


‫ہوئے‪ ،‬تحقیق‬
‫ویب ڈیسک‬
‫‪Nov 2021 3‬‬
‫معیار زندگی‪ ،‬غریب ملکوں ہر سال نوزائیدہ بچوں سمیت ‪40‬‬
‫ِ‬ ‫امیر ملکوں میں عوام کا بلند‬
‫الکھ جانوں کا خراج وصول کررہا ہے۔‬
‫ٹوکیو‪ :‬جاپانی سائنسدانوں نے تخمینہ لگایا ہے کہ امیر ممالک کےلیے اشیائے صرف کی‬
‫تیاری سے پیدا ہونے والی ٓالودگی‪ 2010 ،‬کے دوران غریب ملکوں میں ‪ 20‬الکھ قبل از‬
‫وقت اموات کی یقینی وجہ بن چکی ہے۔‬
‫یہ تحقیق دنیا کے امیر ترین ممالک کے گروپ ’’جی ‪ ‘‘20‬پر کی گئی ہے جس میں ‪19‬‬
‫ملکوں کے عالوہ ‪ 27‬یورپی ملکوں کا اتحاد ’’یورپین‪ Š‬یونین‘‘ بھی شامل ہیں۔‬
‫معیار زندگی بھی اوسط اور کم‬
‫ِ‬ ‫جی ‪ 20‬ممالک نہ صرف امیر ہیں بلکہ وہاں عام شہری کا‬
‫ٓامدنی والے ملکوں کے شہریوں سے کہیں زیادہ بلند ہے جسے برقرار رکھنے کے تقاضے‬
‫بھی بہت زیادہ ہیں۔‬
‫سُوکوبا‪ ،‬جاپان میں ماحولیاتی تحقیق کے قومی ادارے سے وابستہ کیسوکی نانسائی اور ان‬
‫کے ساتھیوں نے دنیا بھر میں اشیائے صرف (کنزیومر پروڈکٹس)‪ Š‬کی تیاری سے پیدا‬

‫تحقیقات | ‪61‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ہون‬
‫ے والی فضائی ٓالودگی ’’پی ایم ‪ ‘‘2.5‬اور ان اشیائے صرف کے استعمال سے متعلق‬
‫صرف ایک سال (‪ )2010‬کےلیے دنیا بھر سے اعداد و شمار جمع کیے۔‬
‫واضح رہے کہ فضائی ٓالودگی کے وہ ذرّات جن کی جسامت ‪ 2.5‬مائیکرومیٹر یا اس سے‬
‫بھی کم ہو‪ ،‬انہیں ماحولیات کی اصطالح میں ’پی ایم ‪ ‘2.5‬کہا جاتا ہے۔‬
‫یہ ذرّات لمبے عرصے تک ہوا میں معلق رہ سکتے ہیں اور ہوا کے ساتھ ہزاروں میل ُدور‬
‫تک پہنچ سکتے ہیں۔ اسی بناء پر یہ ماحول کے ساتھ ساتھ انسانی صحت کےلیے بھی شدید‬
‫خطرناک ثابت ہوتے ہیں۔‬
‫اندازہ ہے کہ ہر سال دنیا بھر میں ‪ 40‬الکھ اموات کی وجہ یہی ’پی ایم ‪ٓ ‘2.5‬الودگی بنتی‬
‫ہے جبکہ ان مرنے والوں کی اکثریت غریب ملکوں سے تعلق رکھتی ہے۔‬
‫اس تحقیق میں‪ ،‬جو دراصل ایک ’ماڈلنگ اسٹڈی‘ ہے‪ ،‬ماہرین نے ‪ 199‬ملکوں میں پی ایم‬
‫‪ٓ 2.5‬الودگی کے ذرائع اور اس ٓالودگی سے ہالکتوں (قبل از اموات) کا تفصیلی جائزہ لیا۔‬
‫انہیں معلوم ہوا کہ ایک ملک کی پی ایم ‪ٓ 2.5‬الودگی‪ ،‬پڑوسی ملکوں تک پھیل کر وہاں بھی‬
‫سنگین مسائل کو جنم دے سکتی ہے۔ مثالً بھارت میں ہر سال بڑے پیمانے پر فضائی‬
‫ٓالودگی سے پاکستانی پنجاب کا وسیع عالقہ شدید مسائل کا شکار ہوتا ہے۔‬
‫اسی مسئلے کا دوسرا پہلو زیادہ تشویشناک ہے‪ :‬امیر ممالک میں استعمال ہونے والی‬
‫اشیائے صرف کی بڑی تعداد غریب ملکوں میں بنوائی جاتی ہے تاکہ پیداواری اخراجات‬
‫کم سے کم رکھے جاسکیں۔‬

‫تحقیقات | ‪62‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫معیار زندگی بہتر بناتی ہیں‬
‫ِ‬ ‫وہ اشیائے صرف‪ /‬مصنوعات‪ ،‬امیر ممالک میں شہریوں کا‬
‫مگر اُن کی تیاری سے خارج ہونے والی ٓالودگی‪ ،‬غریب ملکوں میں صحت اور ماحول کے‬
‫مسائل کو بد سے بدتر بنا دیتی ہے۔‬
‫ٓان الئن ریسرچ جرنل ’نیچر کمیونی کیشنز‘ کے‪ ‬تازہ شمارے میں شائع ہونے والی اس‬
‫رپورٹ‪ ‬کے مطابق‪ 2010 ،‬کے دوران ٓالودگی سے ہونے والی ‪ 19‬الکھ ‪ 83‬ہزار قبل از‬
‫وقت اموات کی وجہ یہی ’غیرمقامی فضائی ٓالودگی‘ تھی۔ ایسی بیشتر اموات اوسط اور کم‬
‫ٓامدنی والے ملکوں میں ہوئیں۔‬
‫اگرچہ پی ایم ‪ٓ 2.5‬الودگی کے باعث مرنے والوں کی اوسط عمر ‪ 65‬سال تھی لیکن‪،‬‬
‫ماہرین نے اندازہ لگایا ہے کہ ان میں ‪ 78,600‬نوزائیدہ اور دودھ پیتے بچوں کی اموات‬
‫بھی شامل ہیں جو ٓالودگی کی وجہ سے جان کی بازی ہار گئے۔‬
‫یہ رپورٹ مرتب کرنے والے سائنسدانوں نے جی ‪ 20‬ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ اپنے‬
‫یہاں اشیائے صرف کا غیر ضروری استعمال بند کردیں تاکہ ان کی پیداوار سے خارج‬
‫ہونے والی فضائی ٓالودگی‪ ،‬غریب ملکوں میں اموات کی کم سے کم وجہ بنے۔‬

‫‪https://www.express.pk/story/2243054/9812‬‬

‫ت مدافعت بڑھائیں‬
‫کورونا وائرس‪ :‬سونف‪ ،‬زیرہ‪ ،‬ہلدی پاؤڈر سے قو ِ‬
‫نومبر ‪03 2021 ،‬‬

‫تحقیقات | ‪63‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پاکستان سمیت ُدنیا کے کئی ممالک کورونا وائرس کی چوتھی لہر کا سامنا کررہے ہیں‪،‬‬
‫ایسے میں ماہرین کچھ ایسے اقدامات بتارہے ہیں جو ہم اپنی قوت مدافعت کو بڑھانے اور‬
‫صحت مند رہنے کے لیے اٹھا سکتے ہیں۔ یہ آسان نسخہ‪ ،‬جس میں سونف‪ ،‬زیرہ اور ہلدی‬
‫پاؤڈر شامل ہے جس سے قوت مدافعت بڑھنے میں مدد ملے گی۔‬
‫کورونا وائرس کی چوتھی لہر کے دوران‪ ،‬ہمارے لیے یہ بہت ضروری ہے کہ ہم اپنی‬
‫صحت کا خصوصی طور پر خیال رکھیں اور ایسی غذاؤں کا استعمال کریں جن سے‬
‫ت مدافعت بڑھے اور ہم کورونا وائرس سے بچ سکیں۔‬ ‫ہماری قو ِ‬
‫ت‬
‫یہاں ماہرین کی جانب سے ایک ٓاسان نسخہ بتایا گیا ہے جس کے استعمال سے ہم اپنی قو ِ‬
‫مدافعت بڑھاتے ہوئے کورونا وائرس سے بچ سکتے ہیں۔‬
‫‪:‬نسخہ بنانے کیلئے درکار اجزاء‬
‫‪‬‬ ‫سونف‬
‫‪‬‬ ‫ہلدی پاؤڈر‬
‫‪‬‬ ‫زیرہ‬
‫‪‬‬ ‫لونگ‬
‫‪‬‬ ‫ثابت دھنیا‬
‫‪‬‬ ‫اجوائن‬
‫‪‬‬ ‫ادرک پاؤڈر‬
‫‪:‬طریقہ‬
‫ایک پین میں آدھا چائے کا چمچ سونف‪ ،‬ایک چوتھائی چائے کا چمچ زیرہ‪ ،‬ایک چوتھائی‬
‫‪ ‬چائے کا چمچ اجوائن اور ایک چوتھائی چائے کا چمچ ثابت دھنیا لیں۔‬
‫‪ ‬اس کے بعد ان تمام اجزاء کو ‪ 7‬سے ‪ 10‬منٹ تک بھونیں اور انہیں ٹھنڈا ہونے دیں۔‬
‫ٹھنڈا ہونے کے بعد ان اجزاء کو گرائنڈر میں ڈال کر باریک پاؤڈر بنا لیں اور پھر اُس میں‬
‫ایک چوتھائی چائے کا چمچ ہلدی پاؤڈر اور ایک چوتھائی چائے کا چمچ ادرک پاؤڈر شامل‬
‫کرکے اچھی طرح مکس کرلیں۔‬
‫اُس کے بعد اس پاؤڈر کو کسی جار میں رکھ دیں‪ ،‬اس پاؤڈر کا آدھا چمچ روزانہ سونے‬
‫ت مدافعت‬ ‫سے پہلے نیم گرم پانی میں شامل کرکے کرکے پی لیں‪ ،‬اس سے ٓاپ کی قو ِ‬
‫مضبوط ہوگی اور ٓاپ کورونا وائرس سے بچ سکیں گے۔‬
‫‪:‬فوائد‬
‫‪:‬اجوائن اور زیرہ‬
‫نظام ہاضمہ کے لیے مفید ہیں اور قوت مدافعت بڑھانے میں مدد‬ ‫ِ‬ ‫اجوائن اور زیرہ آپ کے‬
‫کرتے ہیں۔ یہ بلڈ شوگر کو کنٹرول کرنے اور بیکٹیریا سے لڑنے میں مدد کرتے ہیں۔‬
‫‪:‬ہلدی‬
‫ہلدی ایک اینٹی بیکٹیریل مسالہ ہے‪ ،‬یہ جسم کی اینٹی آکسیڈنٹ صالحیت کو بڑھاتا ہے اور‬
‫کسی بھی قسم کے انفیکشن سے لڑنے میں مدد کرتا ہے۔‬
‫‪:‬لونگ اور سونف‬
‫تحقیقات | ‪64‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لونگ اور سونف قوت مدافعت بڑھانے اور نظام ہاضمہ کو بہتر رکھنے میں بھی مدد دیتے‬
‫ہیں۔ اگر آپ کا نظام ہاضمہ اچھا ہے تو انفیکشن سے لڑنا آسان ہو جاتا ہے اور یہ اجزاء‬
‫اسی میں مدد دیتے ہیں۔‬
‫‪:‬ادرک کا پاؤڈر‬
‫ادرک کے پاؤڈر میں جنجرول ہوتا ہے جو کہ دواؤں کی خصوصیات رکھتا ہے۔ یہ بلڈ‬
‫شوگر کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے اور دائمی بدہضمی کا بھی عالج کرتا ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1006626‬‬

‫غذا میں سوڈیم کی کمی کیسے ممکن بنائی جائے؟‬


‫نومبر ‪04 2021 ،‬‬

‫غذا میں سوڈیم کی کم مقدار بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔‬
‫اگر بلڈ پریشر کے مریض ہیں توٓاپ کی غذا میں سوڈیم کی معمولی سی کمی بھی دل کی‬
‫‪ ‬صحت میں بہتری کا سبب بن سکتی ہے۔‬
‫بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنے یا بڑھانے میں غذأوں کا کردار بے حد اہم ہے۔‬
‫پھل‪ ،‬سبزیوں‪ ،‬لو فیٹ ڈیری مصنوعات‪ ،‬سیچوریٹڈ فیٹ اور کم ‪ (Whole grain) ،‬اناج‬
‫‪ mm Hg‬کولیسٹرول پر مشتمل ڈائٹ پالن پر عمل کر کےانسان بلڈ پریشر کی سطح‪11‬‬
‫تک کم کرسکتا ہے۔‬
‫سوڈیم کی کمی کیسے ممکن بنائی جائے؟‬
‫اپنی دن بھر کی غذا میں سوڈیم کی مقدار کم کرنے کے لیے درج ذیل نکات پر غور کریں۔‬
‫تحقیقات | ‪65‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کسی بھی غذا کو استعمال کرنے سے قبل سوڈیم کی مقدار چیک کرنا ہرگز نہ بھولیں ۔‪1- ‬‬
‫ایسے مشروبات اور غذأوں کا استعمال کریں جن میں سوڈیم کی کم مقدار پائی جاتی ہو۔ ‪2-‬‬
‫پروسیسڈ غذأوں کا استعمال کم کردیں کیونکہ عام طور پر قدرتی غذأوں کی تیاری میں‪3- ‬‬
‫سوڈیم کی مقدار کم پائی جاتی ہےجبکہ پروسیسنگ کے دوران غذأوں میں سوڈیم شامل کیا‬
‫جاتا ہے۔‬
‫کھانے میں ذائقے کے لیے نمک کااستعمال بہت اہم ہےاور ایک چمچ نمک میں سوڈیم ‪4- ‬‬
‫کی مقدار ‪2300‬ملی گرام ہوتی ہے۔ اس لیے نمک کا استعمال کم کریں۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1007100‬‬

‫بے خوابی اور فالج کے درمیان گہرے تعلق کا انکشاف‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعرات‪ 4  ‬نومبر‪ 2021  ‬‬

‫بے خوابی اور ہیمریج فالج کے درمیان ایک گہرے تعلق کا انکشاف ہوا ہے۔‬
‫سویڈن‪ :‬اب تک بے خوابی( نیند کی کمی) اور کئی بیماریوں کے درمیان برا ِہ راست تعلق‬
‫کا انکشاف ہوچکا ہے ۔ اب امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن سے وابستہ سائنسدانوں کا‬

‫تحقیقات | ‪66‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اصرار ہے کہ مسلسل بے خوابی سے عین اسی طرح کا فالج ہوسکتا ہے جو تمباکونوشی‬
‫اور بلند بلڈ پریشر سے الحق ہوتا ہے۔‬
‫فالج کی ایک قسم نازک دماغی رگ (یا رگوں) میں خون کا جمع ہونا ہے جس سے رگ‬
‫جریان خون‬
‫ِ‬ ‫غبارے کی طرح پھول جاتی ہے۔ پھر یہ رگ پھٹ جاتی ہے اور ہیمریج یا‬
‫الحق ہوجاتا ہے جو کئی مرتبہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ طبی زبان میں اسے انٹرکرینیئل‬
‫انیوریزم بھی کہا جاتا ہے‪ .‬۔‬
‫دنیا بھر میں تین فیصد بالغان اس عمل سے گزرتے ہیں لیکن خوش قسمتی سے صرف‬
‫ڈھائی فیصد کیسز میں رگ پھٹ پڑتی ہے جسے ہم ایک قسم کا فالج کہہ سکتے ہیں۔ اس‬
‫میں رگ سے خون بہہ کر دماغ اور کھوپڑی کےدرمیان جمع ہوتا رہتا ہے اور اکثر جان‬
‫لیوا ہوتا ہے۔‬
‫اسٹاک ہوم میں واقع کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ کی ڈاکٹر سوسانہ الرسن اور ان کے ساتھیوں‬
‫نے کہا ہے کہ سگریٹ نوشی اور ہائی بلڈ پریشر کے عالوہ دیگر کئی وجوہ میں بے‬
‫خوابی بھی شامل ہے جو اس خطرے کو بڑھاسکتی ہے۔‬
‫معاملہ کچھ یوں ہوا کہ سائنسدانوں نے ‪ 6300‬اور پھر ‪ 4200‬کیس ایسے دیکھے جن کا‬
‫جینیاتی تعلق تھا۔ یعنی جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے جریا ِن خون واال فالج ہوا تھا۔ محتاط‬
‫اندازے کےبعد معلوم ہوا کہ ‪ 24‬فیصد جین کا تعلق اس جین سے نکال جو نیند کی کمی کی‬
‫وجہ بنتے ہیں۔‬
‫اس سے قبل بے خوابی اور ہیمریج کے درمیان تعلق سامنے نہیں ٓایا تھا۔ تاہم اس تحقیق‬
‫سے اتنا ضرور پتا چال ہے کہ خراب نیند سے فالج کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔ تاہم ماہرین نے‬
‫اس پر مزید تحقیق پر زور دیا ہے۔‬
‫تاہم ‪ 2016‬میں ہی امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک سائنسی جائزے کے بعد‬
‫کہا گیا تھا کہ نیند کی کمی اور خرابی نیند سے بلڈ پریشر میں اضافہ ضرور ہوسکتا ہے۔‬
‫اب سائنسداں اس پر ایک بڑے سروے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں‬

‫‪https://www.express.pk/story/2243292/9812/‬‬

‫وہ عام عادتیں جو آپ کے دل کیلئے نقصان کا باعث ہیں‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪ 3 2021‬‬


‫دل کی بیماریوں کی اہم وجوہات میں غیر صحت بخش خوراک‪ ،‬ورزش سے جی چرانا ‪،‬ذیا‬
‫بطیس‪ ،‬ہائی بلڈ پریشر اور سگریٹ نوشی شامل ہیں اس کی عالمات میں سینے میں شدید‬
‫درد کی کیفیت ہوتی ہے اور آہستہ آہستہ درد پورے جسم تک پھیلنے لگتا ہے۔‬
‫اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ چند سالوں کے دوران دل کی بیماریوں اور ہارٹ اٹیک‬
‫سے ہونے والی اموات میں تیزی سے اضافہ ہوا ہے جوانتہائی قابل تشویشناک بات ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪67‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫امراض قلب دنیا بھر میں اموات کی چند بڑی وجوہات میں سے ایک ہیں جس کے دوران‬
‫دل کے‪  ‬پٹھوں‪ ،‬والو یا دھڑکن میں مسائل پیدا ہوجاتے ہیں۔‬
‫خون کی شریانوں میں مسائل جیسے ان کا اکڑنا‪ ،‬ناقص غذا‪ ،‬جسمانی سرگرمیوں سے‬
‫دوری اور تمباکو نوشی کو امراض قلب کی عام وجوہات سمجھا جاتا ہے جبکہ ہائی بلڈ‬
‫پریشر‪ ،‬انفیکشن وغیرہ بھی یہ خطرہ بڑھاتے ہیں۔ مگر ہوسکتا ہے کہ ٓاپ کو علم نہ ہو کہ‬
‫چند بظاہر بے ضرر عادات بھی دل کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہیں۔‬
‫زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنا ‪ ‬‬
‫کیا ٓاپ ورزش کرتے ہیں؟ زبردست! مگر اپنا زیادہ وقت بیٹھ کر گزارتے ہیں تو یہ ضرور‬
‫مسئلے کا باعث ہے۔ درحقیقت ٓاپ کو پورا دن جسمانی طور پر متحرک رہ کر گزارنا‬
‫چاہیے‪ ،‬چاہے کچھ وقت کی چہل قدمی ہی کیوں نہ ہو۔‬
‫اگر ٓاپ ایسی مالزمت کرتے ہیں جس میں زیادہ وقت ڈیسک پر کام کرتے ہوئے گزرتا ہے‬
‫تو ہر گھنٹے بعدمعمولی چہل قدمی خون کی گردش کو بڑھاتی ہے‪ ،‬چاہے ٓاپ کمرے سے‬
‫باہر نکل کر واپیس ہی کیوں نہ ٓائے یہ فائدہ ہوتا ہے۔‬
‫اپنی عمر کو کم سمجھنا‬
‫اپنے دل کو صحت مند رکھنے کے لیے درمیانی عمر کا انتظار مت کریں‪ ،‬ورزش‪ ،‬صحت‬
‫بخش غذا‪ ،‬بلڈ پریشر‪ ،‬کولیسٹرول اور بلڈ شوگر کے نمبروں پر نظر رکھیں۔‬
‫غذا کا خیال نہ رکھنا‬
‫اگر سبزیاں کھانا مشکل لگتا ہے تو بہتر ہے کہ زیتون کے تیل‪ ،‬گریوں‪ ،‬پھل‪ ،‬اناج‪ ،‬مچھلی‪،‬‬
‫انڈے وغیرہ کااستعمال دل کو صحت مند رکھنے میں مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔ اس کی وجہ‬
‫ان میں صحت کے لیے مفید چکنائی‪ ،‬فائبر اور غذائی اجزاء ہیں اور ان کا ذائقہ بھی بہترین‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪68‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اپنی صحت پر نظر نہ رکھنا‬
‫کیا ٓاپ بتاسکتے ہیں کہ ٓاپ کا کولیسٹرول لیول کیا ہے؟ بلڈ پریشر کیا ہے؟ کوئی اندازہ نہیں‬
‫تو یہ خطرناک ہے۔یہ ایسے خاموش قاتل ہیں جو ہوسکتا ہے کہ جان لیوا حد تک زیادہ ہوں‬
‫مگر ٓاپ کو علم ہی نہ ہو‪ ،‬تو اپنا تحفظ کریں۔ ‪20‬سال کی عمر کے بعد سے ان دونوں کے‬
‫ہر سال یا ‪ 2‬سال بعد ٹیسٹ یقینی بنائیں۔‬
‫کمر کی پیمائش نہ کرنا‬
‫توند کی چربی دل کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہوتی ہے تو کمر کی پیمائش ہر چند ماہ‬
‫کرنا عادت بنالیں۔ اگر خواتین کی کمر کا حجم ‪ 35‬انچ جبکہ مردوں کا ‪ 40‬انچ سے زیادہ ہو‬
‫تو یہ خطرے کی گھنٹی ہے۔اس کے لیے چربی گھالنے کے لیے کام کریں‪ ،‬درحقیقت‬
‫جسمانی وزن میں معمولی کمی بھی دل کے لیے فائدہ مند ہوتی ہے۔‬
‫مزاج پر توجہ نہ دینا‬
‫جب ٓاپ مایوسی محسوس کررہے ہوں تو ایسے کام کرنا مشکل ہوتا ہے جو ٓاپ کے لیے‬
‫فائدہ مند ہوتے ہیں جیسے‪  ‬ورزش۔ اگر چند ہفتوں سے زیادہ یہ کیفیت طاری رہے تو ڈاکٹر‬
‫سے مشورہ کریں جن کے مشورے سے تھراپی‪ ،‬ورزش‪  ‬اور ادویات (اگر ضرورت ہو تو)‬
‫سے ذہنی صحت بہتر ہوسکتی ہے جس سے اپنا خیال رکھنے کے لیے توانائی بڑھتی ہے۔‬
‫ارگرد لوگوں کے سگریٹ کا دھواں نظرانداز کرنا‬
‫ویسے تو تمباکو نوشی بھی دل اور خون کی شریانوں کو نقصان پہنچاتی ہے‪ ،‬مگر ان کے‬
‫ارگرد موجود افراد کو بھی اس کا دھواں نقصان پہنچا سکتا ہے۔‬
‫نیند کے دورانیے کا خیال نہ رکھنا‬
‫ایک تحقیق کے دوران لوگوں کو ‪ 88‬گھنٹے تک سونے نہیں دیا گیا جس کے نتیجے میں‬
‫بلڈ پریشر اوپر گیا جو کہ کوئی زیادہ حیران کن امر نہیں تھا مگر جب ان افراد کو ہر رات‬
‫صرف ‪ 4‬گھنٹے تک سونے کی اجازت دی گئی تو دل کی دھڑکن کی رفتار بڑھ گئی جبکہ‬
‫ایسے پروٹین کا ذخیرہ جسم میں ہونے لگا جو امراض قلب کا خطرہ بڑھاتا ہے‬

‫‪Web‬‬

‫روس کی سنگل ڈوز ویکسین کی بڑی افادیت منظر عام پر‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪4 2021‬‬

‫کرونا وبا کے خالف روس کی سنگل ڈوز ویکسین کی بڑی افادیت سامنے آئی ہے۔‬
‫طبی جریدے دی النسیٹ میڈیکل جرنل میں جاری ٹرائلز کے نتائج کے مطابق روس کی‬
‫ایک خوراک والی اسپوٹنک الئٹ ویکسین استعمال میں محفوظ اور ٹھوس مدافعتی ردعمل‬
‫پیدا کرتی ہے بالخصوص ان افراد میں جو پہلے ہی کووڈ نائنٹین کا سامنا کرچکے ہوں۔‬
‫تحقیقات | ‪69‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫یہ بات اس ویکسین کے پہلے اور دوسرے مرحلے کے ٹرائلز کے نتائج میں سامنے ٓائی‪،‬‬
‫یہ دو خوراکوں والی اسپوٹنک وی ویکسین کا ایک خوراک واال ورژن ہے جس کو پہلے‬
‫ہی روس میں استعمال کیا جارہا ہے۔‬
‫گمالیا انسٹیوٹ کے ماہرین نے اس ویکسین کو تیار کیا ہے‪ ،‬مگر پہلی بار کسی معروف‬
‫طبی جریدے میں اس پر ہونے والی ابتدائی تحقیق کے نتائج شائع ہوئے ہیں جس کا مقصد‬
‫اسے دیگر ممالک کو فروخت کرنا ہے۔‬
‫‪ ‬‬
‫ان ماہرین نے سینٹ پیٹرزبرگ کے ‪ 18‬سے ‪ 59‬سال کی عمر کے ‪ 110‬رضاکاروں کو‬
‫ٹرائلز کا حصہ بنایا تھا جن کو یہ ویکسین جنوری ‪ 2021‬میں استعمال کرائی گئی تھی‪ ،‬ان‬
‫رضاکاروں میں ویکسین کے مضر اثرات اور مدافعتی نظام کے ردعمل کی جانچ پڑتال کی‬
‫گئی تھی۔‬
‫ٹرائل میں دریافت ہوا کہ یہ ویکسین کرونا وائرس کی اصل قسم کو ناکارہ بنا دیتی ہے‬
‫جبکہ الفا اور بیٹا اقسام کے خالف اس کی افادیت معمولی سی کم ہوتی ہے۔‬
‫روس نے پہلے بتایا تھا کہ تحقیق سے ثابت ہوا ہے کہ اسپوٹنک الئٹ کرونا کی قسم ڈیلٹا‬
‫کے خالف ‪ 70‬فیصد تک مؤثر ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ اسپوٹنک الئٹ نہ صرف پرائمری ویکسینیشن کے لیے زیرغور الیا‬
‫جانا چاہیے بلک یہ بوسٹر ڈوز کے طور پر بھی کارٓامد ہتھیار ثابت ہوسکتی ہے۔‬
‫حال ہی میں روس کے وزیر صحت نے بھی وزارت صحت کو ڈیلٹا قسم کے پھیالؤ کے‬
‫مدنظر اسپوٹنک الئٹ کو صرف بوسٹر کے طور پر استعمال کرنے کا مشورہ دیا تھا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/sputnik-light-produces-strong-level-of-‬‬
‫‪antibodies-against-covid-19/‬‬

‫تحقیقات | ‪70‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کرونا وائرس انسانی دماغ کو متاثر کرتا ہے یا نہیں؟ نئی تحقیق میں بڑا‬
‫ٰ‬
‫دعوی‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪4 2021‬‬

‫کم وبیش دو سال سے پوری دنیا میں تباہی مچانے والے ‘کرونا وائرس’ پر ہزارہا تحقیق‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا گیا ہے۔‬ ‫ہوچکی‪ ،‬اب نئی تحقیق میں بڑا‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا گیا ہے کہ کووڈ نائنٹین کا‬ ‫طبی جریدے جرنل سیل میں شائع تحقیق کے نتائج میں‬
‫باعث بننے واال کرونا وائرس انسانی دماغ کے خلیات کو متاثر نہیں کرسکتا۔‬
‫تحقیقی نتائج سابقہ رپورٹس سے مختلف ہیں جن میں عندیہ دیا گیا تھا کہ کرونا وائرس ناک‬
‫کے راستے دماغی خلیات کو متاثر کرسکتا ہے۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا گیا کہ وائرس ناک میں موجود‬ ‫بیلجیئم اور جرمنی کے ماہرین کی اس تحقیق میں‬
‫معاون خلیات سسٹینٹاکولر کو تو متاثر کرسکتا ہے مگر وہ حس شامہ سے منسلک سنسری‬
‫نیورونز (او ایس این ایس) کو متاثر نہیں کرسکتا۔‬
‫جرمنی کے میکس پالنک ریسرچ کے ماہر پیٹر مومبیٹرز تحقیق کو انتہائی اہم فرق قرار‬
‫دیتے ہوئے کہا کہ اگر کرونا او ایس این ایس کو متاثر کرتا ہے تو وہاں سے وہ دماغ تک‬
‫با ٓاسانی سے پہنچ سکتا ہے اور دماغ کی زیادہ گہرائی میں جاکر طویل المعیاد نقصان پہنچا‬
‫سکتا ہے‬

‫تحقیقات | ‪71‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس کے مقابلے میں اگر وائرس صرف سسٹینٹاکولرخلیات کو متاثر کرتا ہے تو اس سے‬
‫ہونے واال نقصان زیادہ دیرپا نہیں ہوتا‪ ،‬اس سے کووڈ کے مریضوں میں سونگھنے کی‬
‫حس سے محرومی کی بھی وضاحت ہوتی ہے۔‬
‫ایک تخمینے کے مطابق ہر ‪ 10‬میں سے ایک فرد کے لیے یہ مسئلہ طویل المعیاد یا مستقل‬
‫بھی ہوسکتا ہے‪ ،‬محققین کا کہنا تھا کہ اس کی ممکنہ وجہ او ایس این ایس کے ٹکڑے ہونا‬
‫ہے چاہے ان کو نقصان نہ بھی پہنچے۔‬
‫مگر محققین نے النگ کووڈ کے مریضوں میں موجود دیگر ذہنی و اعصابی عالمات‬
‫جیسے تھکاوٹ اور ذہنی دھند کا جائزہ نہیں لیا‪ ،‬ان کا کہنا تھا کہ اس میں کسی کو شک‬
‫نہیں کہ مرکزی اعصابی نظام اس بیماری سے متاثر ہوتا ہے‪ ،‬مگر سوال یہ ہے کہ ایسا‬
‫براہ راست وائرس سے ہوتا ہے یا اس کا کوئی بال واسطہ میکنزم ہے‪ ،‬جیسے خون میں‬
‫ورم کا ردعمل یا عالج وغیرہ۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/0411does-coronavirus-affect-the-brain/‬‬

‫بے خوابی اور فالج کے درمیان گہرا تعلق ثابت‬

‫نومبر ‪04 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪72‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سگریٹ نوشی اور ہائی بلڈ پریشر کے عالوہ دیگر کئی وجوہ میں بے خوابی بھی شامل ہے‬
‫‪.‬جو اس خطرے کو بڑھا سکتی ہے‬
‫نیند کی کمی (بے خوابی) اور کئی بیماریوں کے درمیان برا ِہ راست تعلق ثابت ہے۔ لیکن‬
‫اب امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن سے وابستہ سائنس دانوں کا کہنا ہے کہ مسلسل بے خوابی‬
‫سے عین اسی طرح کا فالج ہوسکتا ہے جو تمباکو نوشی اور ہائی بلڈ پریشر سے الحق ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫سائنس ڈیلی کے مطابق فالج کی ایک قسم نازک دماغی رگ (یا رگوں) میں خون کا جمع‬
‫ہونا ہے جس سے رگ غبارے کی طرح پھول جاتی ہے۔ پھر یہ رگ پھٹ جاتی ہے اور‬
‫ہیمریج یا جریا ِن خون الحق ہوجاتا ہے جو کئی مرتبہ جان لیوا ثابت ہوتا ہے۔ طبی زبان میں‬
‫اسے انٹرکرینیئل انیوریزم بھی کہا جاتا ہے۔‬
‫دنیا بھر میں تین فیصد بالغان اس عمل سے گزرتے ہیں لیکن خوش قسمتی سے صرف‬
‫ڈھائی فیصد کیسز میں رگ پھٹ پڑتی ہے جسے ہم ایک قسم کا فالج کہہ سکتے ہیں۔ اس‬
‫میں رگ سے خون بہہ کر دماغ اور کھوپڑی کےدرمیان جمع ہوتا رہتا ہے اور اکثر جان‬
‫لیوا ہوتا ہے۔‬
‫اسٹاک ہوم میں واقع کیرولنسکا انسٹی ٹیوٹ کی ڈاکٹر سوزانہ الرسن اور ان کے ساتھیوں‬
‫نے کہا ہے کہ سگریٹ نوشی اور ہائی بلڈ پریشر کے عالوہ دیگر کئی وجوہ میں بے‬
‫خوابی بھی شامل ہے جو اس خطرے کو بڑھاسکتی ہے۔‬
‫سائنس دانوں نے ‪ 6300‬اور پھر ‪ 4200‬کیس ایسے دیکھے جن کا جینیاتی تعلق تھا۔ یعنی‬
‫جریان خون واال فالج ہوا تھا۔ محتاط تجزیے کے بعد معلوم‬‫ِ‬ ‫جینیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے‬
‫ہوا کہ ‪ 24‬فیصد جین کا تعلق اس جین سے نکال جو نیند کی کمی کی وجہ بنتے ہیں۔‬
‫اس سے قبل بے خوابی اور ہیمریج کے درمیان تعلق سامنے نہیں ٓایا تھا۔ تاہم اس تحقیق‬
‫سے اتنا ضرور پتا چال ہے کہ خراب نیند سے فالج کا خدشہ بڑھ سکتا ہے۔ تاہم ماہرین نے‬
‫اس پر مزید تحقیق پر زور دیا ہے۔‬
‫میں ہی امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کی جانب سے ایک سائنسی جائزے کے بعد کہا ‪2016‬‬
‫گیا تھا کہ نیند کی کمی اور خرابی نیند سے بلڈ پریشر میں اضافہ ضرور ہوسکتا ہے۔ اب‬
‫سائنس دان اس پر ایک بڑے سروے کا ارادہ بھی رکھتے ہیں‬
‫‪https://www.aaj.tv/news/30270581/‬‬

‫ڈبلیو ایچ او نے بھارتی کووڈ ویکسین کی ہنگامی استعمال کی منظوری‬


‫دے دی‬
‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪03 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪73‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫— بھارت میں اس کی منظوری جنوری ‪ 2021‬میں دی گئی تھی‬


‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے بھارت کی تیار کردہ کووڈ ‪ 19‬ویکسین کووایکسین‬
‫کی ہنگامی استعمال کی منظوری دے دی ہے۔‬
‫اس ویکسین کو بھارت میں جنوری ‪ 2021‬میں استعمال کی منظوری انسانی ٹرائل کے‬
‫تیسرے مرحلے کے دوران دی گئی تھی۔‬
‫اسے تیار کرنے والی کمپنی بھارت بائیو ٹیک کی جانب سے جاری ڈیٹا کے مطابق بیماری‬
‫سے تحفظ کے لیے ویکسین کی افادیت ‪ 78‬فیصد ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے ماہرین کے پینل کی جانب سے اکتوبر میں اس ویکسین کے حوالے‬
‫سے مزید ڈیٹا مانگا گیا تھا۔‬
‫اس ویکسین کی منظوری کی درخواست عالمی ادارے کے پاس جوالئی ‪ 2021‬میں جمع‬
‫کرائی گئی تھی۔‬
‫عالمی ادارے کی جانب سے ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دیتے ہوئے کہا گیا‬
‫کہ یہ ویکسین ‪ 2‬خوراکوں میں ‪ 4‬ہفتوں کے وقفے میں استعمال کرائی جائے گی۔‬
‫عالمی ادارے کے مطابق یہ ویکسین ‪ 18‬سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو استعمال‬
‫کرائی جائے گی۔‬
‫ڈبلیو ایچ او نے بتایا کہ ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے ‪ 14‬دن بعد بیماری‬
‫کے خالف اس کی افادیت ‪ 78‬فیصد ہے۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کے مطابق یہ ویکسین غریبت متوسط ٓامدنی والے ممالک کے لیے بہت زیادہ‬
‫موزوں ہے جس کی وجہ اس کو محفوظ کرنے کی ضروریات کا ٓاسان ہونا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪74‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بیان میں کہا گیا کہ حاملہ خواتین پر اس ویکسین کے حوالے سے دستیاب ڈیٹا زیادہ نہیں‬
‫اور اس حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کی منظوری کے بعد اس ویکسین کو کوویکس‪ Š‬پروگرام کے تحت مختلف‬
‫ممالک میں فراہم کیا جاسکے گا۔‬
‫بیان کے مطابق ویکسینیشن ہی وبا کے خاتمے کا سب سے مؤثر طبی ٹول ہے۔‬
‫یہ پہلی ویکسین ہے جسے مکمل طور پر بھارت میں تیار کیا گیا اور اسے ڈبلیو ایچ او کی‬
‫منظوری حاصل ہوئی۔‬
‫اب تک عالمی ادارے کی جانب سے ایسٹرا زینیکا‪ ،‬فائزر‪ ،‬موڈرنا‪ ،‬جانسن اینڈ جانسن‪،‬‬
‫سائنو فارم اور سائنو ویک ویکسینز کو ہنگامی استعمال کی منظوری دی جاچکی ہے۔‬
‫جوالئی ‪ 2021‬میں بھارت بائیو ٹیک کی جانب سے جاری نتائج میں بتایا گیا تھا کہ یہ‬
‫ویکسین کووڈ ‪ 19‬کی سنگین شدت سے تحفظ فراہم کرنے کے لیے ‪ 93‬فیصد مؤثر ہے اور‬
‫کورونا کی قسم ڈیلٹا کے خالف ‪ 65‬فیصد تک مؤثر ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171942/‬‬

‫نیند کی کمی طالبعلموں کی ذہنی صحت کے لیے نقصان دہ‬


‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪02 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫نیند کی کمی طالبعلموں کی ذہنی صحت کو متاثر کرتی ہے بالخصوص لڑکیوں میں ذہنی‬
‫امراض کا خطرہ زیادہ بڑھ سکتا ہے۔‬
‫یہ بات برازیل میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬
‫فیڈرل یونیورسٹی ٓاف ماٹو گروسو کی تحقیق میں یونیورسٹی میں زیرتعلیم ‪ 11‬سو سے‬
‫زیادہ مردوں اور خواتین کو شامل کیا گیا تھا۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت ہوا کہ جن طالبعلموں کی جانب سے ڈپریشن کی عالمات کو‬
‫رپورٹ کیا گیا ان میں نیند کی کمی کا امکان دیگر کے مقابلے میں لگ بھگ ‪ 4‬گنا زیادہ‬
‫ہوتا ہے۔تحقیق کے مطابق ‪ 55‬فیصد طالبعلموں کو دن کے اوقات میں شدید غنودگی کے‬
‫مسئلے کا سامنا تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪75‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫خواتین میں نیند کی کمی اور دن کے وقت شدید غنودگی جیسے مسائل کی شرح مردوں‬
‫کے مقابلے میں خواتین میں زیادہ ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ تعلیمی ضروریات کے باعث تناؤ کا سامنا کرنے والے طالبعلموں میں‬
‫نیند کے مسائل کا امکان زیادہ ہوتا ہے جس سے تعلیمی کارکردگی اور صحت بھی متاثر‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ نیند کے مسائل طالبعلموں کے نقصان دہ ہوتے ہیں جس سے ان کی‬
‫تعلیمی زندگی پر متعدد منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ان اثرات میں توجہ مرکوز کرنے میں ناکامی‪ ،‬غیر حاضری کی زیادہ‬
‫شرح اور دیگر قابل ذکر ہیں۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے اینالز ٓاف ہیومین بائیولوجی میں شائع ہوئے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171886/‬‬

‫کورونا عالج کیلیے نئی دوا منظور‬


‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪  4 2021‬‬
‫دنیا بھر میں تباہی مچانے والے کورونا وائرس سے بچاؤ میں بڑی پیشرفت سامنے ٓا‬
‫گئی۔‬

‫تحقیقات | ‪76‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫برطانیہ نے کورونا کے عالج کے لیے ایک نئی دوا کی منظوری دے دی ہے جو پانی کے‬
‫ذریعے لی جا سکتی ہے۔ اس دوا کو انقالبی (گیم چینجر) قرار دیا جا رہا ہے اور یہ کورونا‬
‫سے ہونے والی اموات کے خطرے میں ‪ 50‬فیصد کمی الئے گی۔‬
‫برطانیہ میں اینٹی وائرل دوا کے استعمال کی منظوری دیدی گئی کورونا عالمات کی‬
‫صورت میں مریض کو نئی دوا دن میں دوبار دی جائےگی۔‬
‫برطانوی میڈیا کے مطابق بنیادی طور پر اینٹی وائرل ٹیبلیٹ فلو کے مریضوں کیلئے تیار‬
‫کی گئی تھی۔ برطانوی وزیر صحت ساجد جاوید کہتے ہیں ’’مولنوپراور‘‘ کورونا کیخالف‬
‫گیم چینجرثابت ہوگی۔‬
‫برطانیہ پہال ملک ہے جہاں کورونا کیخالف اینٹی وائرل دوا استعمال ہوگی‪ ،‬ٹیبلیٹ پانی‬
‫کے ساتھ لی جائے گی۔ کلینکل ٹرائل میں دوا لینے والے مریضوں‪ Š‬میں اموات کی شرح‬
‫نصف ہوگئی اور اسپتال داخل کرانے کی شرح بڑی حد تک کم رہی۔‬
‫برطانوی میڈیا کے مطابق گولی کورونا کی نئی اقسام کےخالف بھی مؤثر ثابت ہوگی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/new-drug-approved-for-corona-treatment/‬‬

‫سندھ میں کرونا ویکسین کی ‪ 76‬ہزار سے زائد خوارکیں ضائع‪،‬‬


‫ٓاسٹرازینیکا اور فائزر بھی شامل‬
‫‪  ‬انور خان‬
‫نومبر ‪4 2021‬‬

‫کراچی‪ :‬صوبہ سندھ میں ‪ 76‬ہزار سے زائد کرونا ویکسین کی خوراکیں ضائع ہوئیں‪ ،‬جن‬
‫میں سب سے زیادہ ٓاسٹرزینیکا کی خوراکیں شامل ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪77‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اے ٓار وائی نیوز کو صوبائی محکمہ صحت کے ذرائع سے ملنے والی اطالع کے مطابق‬
‫صوبے میں ‪ 76‬ہزار ‪ 935‬انسداد کورونا کی ویکسین خوراکیں ضائع ہو گئیں۔‬
‫ذرائع نے بتایا کہ یہ خوراکیں صوبے بھر میں قائم مختلف سینٹرز پر رکھی گئیں تھیں‪ ،‬جو‬
‫حکام اور عملے کی غفلت کیوجہ سے ضائع ہوگئیں۔‬
‫محکمہ صحت کے ذرائع نے انکشاف کیا کہ سب سے زیادہ ٓاسٹرازینیکا کی ‪ 23‬ہزار ‪96‬‬
‫خوراکیں ضائع ہوئیں‪ ،‬دوسرے نمبر پر سائنو ویک کی ‪ 22‬ہزار ‪ 675‬خوراکیں ضائع‬
‫ہوئیں۔‬

‫ذرائع نے بتایا کہ سائنو فارم کی ‪ 17‬ہزار ‪ ،675‬پاک ویک کی ‪ 7‬ہزار ‪ 876‬خوراکیں ضائع‬
‫ہوئیں‪ ،‬کین سائنو ویکسین کی ‪ 2‬ہزار ‪ ، 675‬موڈرنا ویکسین کہ ‪ 1‬ہزار ‪ ، 675‬فائزر‬
‫ویکسین کی ‪ 1‬ہزار ‪  178‬اور سب سے کم روسی ویکسین اسپوٹنک کی ‪ 85‬خوراکیں‬
‫ضائع ہوئیں۔‬
‫ذرائع نے بتایا کہ ویکسین ضائع ہونے کی کئی وجوہات ہیں‪ ،‬جن میں سب سے اہم‬
‫مخصوص درجہ حرارت کا نہ ہونا‪ ،‬انجیکشن میں بھرتے وقت زمین پر گر جانا‪ ،‬ویکسین‬
‫لگاتے ہوئے متعلقہ شخص کی طبیعت خراب ہونا سمیت دیگر عوامل شامل ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/more-than-76-thousand-covax-doses-wasted/‬‬

‫کویت کرونا کو شکست دینے میں‌ کامیاب‪ ،‬آخری مریض بھی صحت یاب‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪5 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪78‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کویت سٹی‪ :‬محکمہ صحت کے اقدامات اور شہریوں کے تعاون سے کویت کے فیلڈ اسپتال‬
‫میں داخل ٓاخری مریض کو بھی گھر جانے کی اجازت دے دی گئی ہے۔‬
‫کویتی میڈیا رپورٹ کے مطابق کویت میں حکومت اور محکمہ صحت کے سخت اقدامات‬
‫کے بعد کرونا کیسز میں مسلسل کمی ٓائی اور اب سے کچھ دیر قبل ٓاخری مریض کو بھی‬
‫اسپتال سے گھر جانے کی اجازت دے دی گئی۔‬
‫کویت کے فیلڈ اسپتال کے ڈپٹی ڈائریکٹر ڈاکٹر فوزی الخواری نے ٓاخری مریض کی‬
‫طبیعت بہتری اور اُسے گھر جانے کی اجازت دینے کا اعالن کیا۔‬
‫رپورٹ کے مطابق کویت کے عالقے مشرف میں قائم نمائشی ہالز کو کرونا فیلڈ اسپتال میں‬
‫تبدیل کردیا گیا تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪79‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اس اسپتال میں سیکڑوں مریضوں کا عالج کیا گیا‪ ،‬چار ماہ قبل ایک مریض کو الیا گیا‬
‫جس کو جوالئی سے اکتوبر کی ‪ 31‬تاریخ تک انتہائی نگہداشت وارڈ میں رکھا گیا تھا۔‬
‫کرونا انفیکشن کی شرح میں کمی اور روبہ صحت ہونے کے بعد گھر جانے کی اجازت‬
‫دی گئی۔‬
‫ادا کیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ سنگ میل قومی کامیابی کے قیام اور عمل میں تعاون کی وجہ‬
‫سے حاصل کرنا ممکن ہوا۔‬
‫انہوں نے وزیر صحت شیخ ڈاکٹر باسل الصباح کی کاوشوں کو بھی سراہا۔‬
‫ڈائریکٹر ڈاکٹر محمد الحمیدان نے طبی‪ ،‬نرسنگ‪ ،‬تکنیکی اور انتظامی عملے اور‬
‫فارماسسٹ کے ارکان کو مبارکباد اور تشکر کا پیغام بھیجا کہ ان کی زبردست کوششوں‬
‫اور مریضوں کے لیے فکرمندی اور بحران کے دوران ان کے اہل خانہ کے جذبات کا‬
‫خیال رکھا۔‬
‫الحمیدان نے وزیر صحت کے تمام حکام کا شکریہ بھی ادا کیا۔ جنہوں نے اس وبا پر قابو‬
‫لیلی العنزی اور ان تمام‬‫پانے میں مدد کی۔ انہوں ٹیکنیکل ڈیپارٹمنٹ کی ڈائریکٹر ڈاکٹر ٰ‬
‫لوگوں کی کارکردگی کو بھی سراہا جنہوں نے کرونا کے دوران میڈیکل اسٹاف کی ہر‬
‫ممکن مدد کی۔‬

‫تحقیقات | ‪80‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ڈاکٹر محمد الحمیدان نے مملکت میں مقیم شہریوں سے اپیل کی کہ وہ احتیاطی تدابیر پر‬
‫عمل جاری رکھیں تاکہ کرونا وبا پر مستقبل بنیادوں پر قابو پایا جاسکے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/589668-2/‬‬

‫کووڈ ویکسین وائرس کی نئی قسم کے خالف کم مؤثر‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪ 5 2021‬‬

‫کرونا وائرس کی نئی اقسام سے ویکسین کی افادیت کم ہوتی دکھائی دی ہے‪ ،‬ماہرین کا‬
‫کہنا ہے کہ میو قسم‪ ،‬ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خالف زیادہ مزاحمت رکھتی‬
‫ہے۔بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق جاپانی ماہرین کے ایک گروپ کا کہنا ہے کہ‬
‫کرونا وائرس کی تبدیل شدہ قسم میو ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز کے خالف زیادہ‬
‫مزاحمت رکھتی ہے۔‬
‫ٹوکیو یونیورسٹی کے شعبہ میڈیکل سائنس کے ایسوسی ایٹ پروفیسر ساتو کے کی زیر‬
‫قیادت گروپ نے اپنی تحقیق دی نیو انگلینڈ جرنل ٓاف میڈیسن میں شائع کی ہے۔‬
‫ماہرین نے میو کی خصوصیات کا حامل ایک وائرس مصنوعی طور پر تیار کیا اور فائزر‬
‫بیون ٹیک ویکسین لگوا چکنے والے افراد کے خون کے نمونوں میں اینٹی باڈیز کے‬
‫خالف اس کی حساسیت کا جائزہ لیا۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ تبدیل شدہ وائرس میو‪ ،‬اصل وائرس کے مقابلے میں ان کے خالف‬
‫‪ 9.1‬گنا زیادہ مزاحم تھا‪ ،‬گویا ویکسین سے بننے والی اینٹی باڈیز اس کے خالف کم مؤثر‬
‫تھیں۔گروپ کا کہنا ہے کہ ویکسین کے اینٹی باڈی بنانے کے عالوہ بھی مختلف اثرات‬
‫تحقیقات | ‪81‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہوتے ہیں‪ ،‬اور ویکسین کی تاثیر کم ہونے کا جائزہ لینے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت‬
‫ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/vaccine-against-coronavirus-variant/‬‬

‫گھر سے محروم اور پارک میں سونے واال ارب پتی کیسے بنا؟ سچی‬
‫کہانی‬

‫ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪  5 2021‬‬

‫پارک کی بنچ پر سونے واال رومانیہ نژاد امریکی شہری ای کامرس سے منسلک ہوکر‬
‫ارب پتی بن گیا۔‬
‫محنت میں عظمت ہے والی کہاوت تو سب سے سن رکھی ہوگی اور یقینا ً اپنی آنکھوں سے‬
‫اس کا نمونہ بھی دیکھا ہوگا‪ ،‬آج ہم بھی ایسی ہی ایک سچی کہانی اپنے قارئین کی نظر‬
‫کررہے ہیں جو رومانیہ کے شہری کی ہے۔‬
‫نک مکوٹا نامی ‪ 37‬سالہ شخص جو آج امریکا میں ایک کامیاب کاروباری شخصیت کی‬
‫حیثیت سے جانے جاتے ہیں ‪ 16‬برس قبل ‪ 500‬ڈالر لیکر ‪ 21‬سال کی عمر میں بہتر‬
‫مستقبل کی تالش میں یورپی ملک رومانیہ سے امریکا تنہا منتقل ہوئے تھے۔‬
‫امریکی شہر الس اینجلس پہنچے تو ایئرپورٹ سے ان کے مطلوبہ مقام پر ‪ 100‬ڈالر‬
‫ٹیکسی کا کرایہ لگ گیا جس کے بعد ان کی جیب میں کل ‪ 400‬ڈالر بچے اور اتنی رقم میں‬

‫تحقیقات | ‪82‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہیں اپنی رہائش اور کھانے کا بندوبست اس وقت تک کرنا تھا جب تک کوئی مناسب‬
‫نوکری کا مل جائے۔‬
‫اس رقم میں انہیں کہیں چھوٹا سا فلیٹ بھی نہ مال جس کے باعث وہ نک مکوٹا نے کئی‬
‫راتیں پارک کی بنچ پر سو کر گزاری یہاں تک کہ انہیں گاڑیاں پارک کرنے کی نوکری‬
‫مل گئی اور وہ چھوٹا فلیٹ کرائے پر لینے کےلیے پیسے بچانے لگے۔‬
‫اس دوران نک نے اپنی انگریزی بھی کافی بہتر کرلی تھی جس کی بدولت انہیں رئیل‬
‫اسٹیٹ ایجنٹ کا الئسنس مل گیا‪ ،‬جس کے بعد انہوں نے بطور بروکر کام کیا اور ‪2013‬‬
‫میں ای کامرس پر جز وقتی کام شروع کیا تاکہ آمدنی میں اضافہ ہوسکے۔‬
‫رومانیہ نژاد امریکی شہری نے پہلے ماہ ہی ‪ 3‬سے ‪ 4‬ہزار ڈالر کمائے تو احساس ہوا کہ‬
‫ای کامرس پر فل ٹائم کرکے زیادہ بہتر مستقبل بناسکتے ہیں جس کے بعد انہوں نے رئیل‬
‫اسٹیٹ ایجنٹ کی مالزمت چھوڑی اور ای کامرس پر فل ٹائم الیکڑانک کی اشیاء فروخت‬
‫کرنے لگے اور دیکھتے ہی دیکھتے ان کی قسمت بدل گئی اور آج وہ ایمازون‪ ،‬ای بے اور‬
‫وال مارٹ جیسی کئی ای کامرس ویب سائٹس پر متعدد اسٹورز کے مالک ہیں۔‬
‫نک مکوٹا جن کے پاس چھوٹے سے فلیٹ کا کرایہ نہیں تھا وہ آج امریکا اور رومانیہ میں‬
‫‪ 100‬سے زائد فلیٹس اور ‪ 4‬بیش قیمتی گاڑیوں کے مالک بن چکے ہیں‪ ،‬آج ان کی آمدنی‬
‫کروڑوں ڈالرز میں ہوتی ہیں۔‬
‫نک نے غیر ملکی میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ وہ گریجوشن کے بعد رومانیہ‬
‫سے نکلے تھے تاکہ اپنا مستقبل بہتر بناسکیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ان کے والد ایک کمپنی نے اکاؤنٹنٹ جب کہ والدہ ایک اسکول میں ٹیچر‬
‫کے فرائض انجام دیتی ہیں۔‬
‫نک مکوٹا نے والدین اور بھائیوں کےلیے علیحدہ علیحدہ فلیٹس خرید کر انہیں بطور تحفہ‬
‫دئیے ہیں۔‬
‫غیر ملکی میڈیا رپورٹ کے مطابق رومانیہ نژاد امریکی شہری نک مکوٹا نے گفتگو‬
‫کرتے ہوئے اپنی مرحوم دادی کا شکریہ ادا کیا جن کے دئیے ہوئے ‪ 500‬ڈالر کی مدد سے‬
‫وہ اس مقام تک پہنچے ہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/homeless-man-who-slept-on-park-benches-‬‬
‫‪becomes-millionaire/‬‬

‫ابو ظہبی کووڈ ‪ 19‬کے مریضوں کو انفیکشن سے بچانے والی دوا‬


‫خریدے گا‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪ 5 2021‬‬


‫تحقیقات | ‪83‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ابو ظہبی‪ :‬متحدہ عرب امارات کے دارالحکومت نے ابو ظہبی ایسٹرا زینیکا کمپنی کی‬
‫دوائی اے زیڈ ڈی ‪ 7442‬خریدنے کا اعالن کیا ہے‪ ،‬یہ دوائی کووڈ ‪ 19‬کے ایسے‬
‫مریضوں کو انفیکشن سے محفوظ رکھنے کے لیے پر تیار کی گئی ہے جنہیں کسی طبی‬
‫وجہ سے ویکسین نہیں لگائی جاسکی۔‬
‫مقامی میڈیا رپورٹ کے مطابق اماراتی دارالحکومت ابوظہبی نے ایسٹرا زینیکا کمپنی کی‬
‫دوائی اے زیڈ ڈی ‪ 7442‬خریدنے کا اعالن کیا ہے‪ ،‬یہ خریداری ضروری میڈیکل ٓاالت‬
‫فراہم کرنے والے متحدہ عرب امارات کے گروپ پرچیزنگ ادارے رافد کے تعاون سے‬
‫کی جائے گی۔‬
‫یہ دوائی کووڈ ‪ 19‬کے انتہائی خطرے کے حامل ایسے مریضوں کو انفیکشن سے محفوظ‬
‫رکھنے کے لیے خصوصی طور پر تیار کی گئی ہے جنہیں کسی طبی وجہ سے ویکسین‬
‫نہیں لگائی جاسکی۔‬
‫ابو ظہبی نے اے زیڈ ڈی ‪ 7442‬کے حصول کے لیے رافد کے ذریعے ایک ہموار سپالئی‬
‫چین قائم کی ہے جو رافد ڈسٹری بیوشن سنٹر کے ذریعے اس دوائی کی خریداری‪ ،‬ذخیرہ‬
‫کرنے اور تقسیم کرنے میں سہولت کار کا کردار ادا کرے گا۔‬
‫ابو ظہبی محکمہ صحت کے انڈر سیکریٹری ڈاکٹر جمال محمد الکعبی کا کہنا ہے کہ‬
‫انسانی جانوں کے کووڈ ‪ 19‬سے تحفظ کے لیے متحدہ عرب امارات نے بے مثال کوششوں‬
‫کا سلسلہ جاری رکھا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ استعمال کے لیے منظور کیے جانے پر یہ دوا قوت مدافع سے محروم‬
‫مریضوں کی مدد کرے گی جو طبی وجوہات اور محدود خود کار قوت مدافعت کی وجہ‬
‫سے ویکسین حاصل نہیں کر سکے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/abu-dhabi-to-purchase-azd7442/‬‬

‫تحقیقات | ‪84‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫گرمی میں اضافے سے گردے کی بیماریاں بھی بڑھنے لگیں‪ ،‬تحقیق‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعرات‪ 4  ‬نومبر‪ 2021  ‬‬

‫امراض گردہ میں مبتال ہونے والوں کی تعداد‬


‫ِ‬ ‫پندرہ سال کے دوران گرمی میں اضافے سے‬
‫)بھی ‪ 7.4‬فیصد زیادہ ہوگئی۔‬
‫ریو ڈی جنیرو‪ :‬ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث گرمی بڑھنے کی وجہ سے گردوں کی‬
‫بیماریوں میں مبتال ہونے والے افراد کی تعداد بھی نمایاں طور پر بڑھ چکی ہے۔‬
‫یہ انکشاف برازیل میں ‪ 2000‬سے ‪ 2015‬کے دوران گردوں کی بیماریوں کے باعث‬
‫اسپتال میں داخل ہونے والے ‪ 27‬الکھ سے زیادہ مریضوں کی معلومات کھنگالنے کے بعد‬
‫ہوا ہے‪ ،‬جبکہ اس تحقیق میں بتدریج بڑھتے ہوئے درجہ حرارت کو بھی مدنظر رکھا گیا‬
‫تھا۔‬
‫ماہرین کو معلوم ہوا کہ پندرہ سال کے دوران درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ سے‬
‫گردوں کی بیماریوں میں مبتال ہوکر اسپتال پہنچ جانے والوں کی تعداد میں ‪ 7.4‬فیصد‬
‫اضافہ ہوا۔‬

‫تحقیقات | ‪85‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اگر اعداد و شمار کی بنیاد پر بات کی جائے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اس پورے عرصے‬
‫میں گردوں کے امراض میں مبتال ہونے والے برازیلی شہریوں کی تعداد میں ‪ 202,000‬کا‬
‫اضافہ ہوا۔‬
‫یہ تحقیق ٓاسٹریلوی اور برازیلی سائنسدانوں کی ٹیم نے کی ہے جس کی سربراہی موناش‬
‫یونیورسٹی کے ڈاکٹر یومنگ گئو کررہے تھے۔‬
‫ڈاکٹر گئو کا کہنا ہے کہ یومیہ اوسط درجہ حرارت میں صرف ایک ڈگری سینٹی گریڈ‬
‫اضافے سے گردوں کے امراض میں بھی ایک فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔‬
‫ریسرچ جرنل ’’دی لینسٹ ریجنل ہیلتھ – امریکا‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں ڈاکٹر گئو اور ان‬
‫کے ساتھیوں نے برازیل کے ‪ 1816‬اسپتالوں میں روزانہ بنیادوں پر داخل ہونے والوں کے‬
‫پندرہ سالہ اعداد و شمار حاصل کیے۔‬
‫واضح رہے کہ ‪ 2017‬میں بھی ایسی ہی ایک دس سالہ تحقیق ’’دی لینسٹ‘‘ میں شائع‬
‫ہوئی تھی‪ ،‬جس میں تخمینہ لگایا گیا تھا کہ اس عرصے میں گردوں کے امراض کی وجہ‬
‫امراض گردہ میں مبتال افراد کی تعداد میں‬
‫ِ‬ ‫سے دنیا بھر میں ‪ 26‬الکھ اموات ہوئیں جبکہ‬
‫بھی ‪ 26.6‬فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔‬
‫نئی تحقیق اس کی تصدیق کرتے ہوئے یہ بھی بتاتی ہے کہ اوسط درجہ حرارت میں اضافہ‬
‫ت حال کو سنگین بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔‬ ‫کس طرح اس صور ِ‬
‫‪https://www.express.pk/story/2243459/9812/‬‬

‫اس پودے میں قدرتی اور طاقتور درد کش دوا موجود ہے‬

‫جمعـء‪ 5  ‬نومبر‪  2021  ‬‬


‫ویب ڈیسک‬

‫سامووا نامی ملک اور دیگر خطوں میں عام پایا جانے واال یہ پودا دردکش دوا کا قدرتی‬
‫متبادل بن سکتا ہے۔‬
‫لندن‪ :‬ماہرین نے برسوں سے طبی طور پر استعمال ہونے والے ایک مشہور پودے میں‪ ‬‬
‫ایسے اجزا دریافت کئے ہیں جو اسے بہترین اور طاقتور پین کلر بناتے ہیں۔ یہاں تک کہ‬
‫اس کی افادیت سوزش اور درد کم کرنے والی بہترین دوا ٓائبیوپروفِن جیسی ہی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪86‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫میٹالیفی نامی یہ پودا ایک چھوٹے سے دورافتادہ ملک سامووا میں عام پایا جاتا ہے اور‬
‫سینکڑوں برس سے روایتی عالج میں استعمال ہوتا رہا ہے۔ اس پودے کا حیاتیاتی نام‬
‫سائکوٹریا انسیولیرم ہے جس کے پتے اب تک پیس کر استعمال کیا جاتا رہا تھا۔ اس سے‬
‫جلد کے انفیکشن‪ ،‬سوجن‪ ،‬بخار اور درد دور کیا جاتا ہے۔‬
‫سامووا کے ایک سائنسداں سیسیائی مولیمو ساماسونی نے اس ‪ ‬پودے پر پی ایچ ڈی کیا ہے۔‬
‫انہوں ںے اپنے طویل مطالعے میں اس پر کئی انداز سے تحقیق کی ہے۔ اس میں سب سے‬
‫بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ جسم سے اضافی فوالد نکال باہر کرتا ہے۔ جب اس کے اجزا‬
‫زندہ خلیات پر ڈالے گئے تو اس سے امنیاتی خلیات مضبوط ہوتے ہیں اور سائٹوکائن نامی‬
‫مددگار کیمیکل کا افراز بڑھ جاتا ہے۔‬
‫دس سالہ تحقیق کے بعد اس میں اندرونی جسمانی سوزش کم کرنے والے اجزا پر سب سے‬
‫زیادہ اتفاق ہوا ہے۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق پودا دیگر امراض کے عالج میں بھی مدد‬
‫دے سکتا ہے۔ کہتے ہیں کہ دماغ میں فوالد حد سے زائد جمع ہونے سے الزائیمر اور دیگر‬
‫امراض پیدا ہوتے ہیں اور یوں فوالد کھینچ کر یہ پودا الزائیمر جیسی ہولناک بیماری میں‬
‫بھی مفید ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫اب ایک اور سائنسداں ڈاکٹر اینڈریو مونکاسکی نے پودے میں شامل کمپاؤنڈ کا جینیاتی‬
‫امراض قبل سے وابستہ‬
‫ِ‬ ‫مشاہدہ کیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ مرکب موٹاپے‪ ،‬ذیابیطس اور‬
‫جین سے عمل کرتا ہے۔ اسی طرح دو سرگرم حیاتیاتی اجزا بھی ہیں‪  ‬جو سوزش کم کرنے‬
‫اور دماغ کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‬
‫یہ تحقیق پی این اے ایس جرنل میں شائع ہوئی ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2243551/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪87‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کووڈ ‪ :19‬عالمی ادارہ صحت نے یورپ میں فروری تک مزید پانچ الکھ ہالکتوں کا خدشہ‬
‫ظاہر کر دیا‬

‫‪Nov 2021 5‬‬

‫براعظم یورپ میں کورونا وائرس کے متاثرین کی بڑھتی تعداد کے‬ ‫عالمی ادارہ صحت نے ِّ‬
‫ش نظر خبردار کیا ہے کہ یورپ ایک مرتبہ پھر کورونا وائرس کی وبا کا مرکز بن رہا‬ ‫پی ِ‬
‫ہے۔‬
‫ایک پریس کانفرنس کے دوران یورپ میں عالمی ادارہ صحت کے سربراہ ہانس کلوگ نے‬
‫کہا کہ ب ِّراعظم میں فروری تک پانچ الکھ مزید اموات ہو سکتی ہیں۔‬
‫انھوں نے اس کی ذمہ داری ناکافی تعداد میں ویکسین لگوائے جانے پر عائد کی۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ہمیں اپنی حکمت عملی کو بدلنا ہو گا‪ ،‬بجائے اس کے کہ ہم کورونا کے‬
‫بڑھنے پر اقدامات کریں‪ ،‬ہمیں ابتدا میں ہی ایسی صورتحال پیدا ہونے سے روکنا ہو گا۔‬
‫حالیہ مہینوں میں یورپ بھر میں ویکسین لگانے کی شرح میں کمی دیکھی گئی ہے۔‬
‫اگرچہ سپین میں ‪ 80‬فیصد تک لوگوں کو دو بار ویسکین لگائی جا چکی ہے مگر یہ تعداد‬
‫فرانس اور جرمنی میں نسبتا ً کم ہے اور بالترتیب ‪ 68‬اور ‪ 66‬فیصد رہی۔‬
‫اسی طرح وسطی اور مشرقی یورپ کے کچھ ممالک میں یہ تعداد اور بھی کم ہے۔‬
‫اعداد و شمار کے مطابق اکتوبر ‪ 2021‬تک روس میں فقط ‪ 32‬فیصد افراد کو مکمل طور‬
‫پر ویکسین لگائی گئی تھی۔‬

‫تحقیقات | ‪88‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ہانس کلوگ نے عالمی ادارہ صحت کے یورپی خطے میں اس صورتحال کی ذمہ داری‬
‫عوامی صحت کے اقدامات میں نرمی کیے جانے پر عائد کیے ہیں۔‬
‫اس خطے میں اب تک ڈبلیو ایچ او نے ‪ 14‬الکھ اموات ریکارڈ کی ہیں۔‬
‫ڈبلیو ایچ او کے تکنیکی اُمور کی سربراہ ماریا وین کرکوف کا کہنا ہے کہ گذشتہ چار‬
‫ہفتوں کے دوران ’ویکسین اور آالت کی وافر فراہمی‘ کے باوجود یورپ میں متاثرین کی‬
‫تعداد ‪ 55‬فیصد بڑھی ہے۔‬
‫ان کے ساتھی ڈکٹر مائیک ریان کا کہنا ہے کہ یورپ کی صورتحال دنیا کے لیے خطرے‬
‫کی گھنٹی ہے۔‬
‫جرمنی میں گذشتہ ‪ 24‬گھنٹوں کے دوران ‪ 34‬ہزار کورونا متاثرین سامنے آئے جو کہ ایک‬
‫ریکارڈ تعداد ہے۔‬
‫اگرچہ جرمنی میں کووڈ متاثرین کی تعداد برطانیہ کے یومیہ مثبت ٹیسٹس کی تازہ ترین‬
‫تعداد ‪ 37‬ہزار سے کم ہے تاہم طبی حکام وبا کی چوتھی لہر کے حوالے سے پریشان ہیں‬
‫کہ اس کی وجہ سے زیادہ تعداد میں اموات ہو سکتی ہیں اور نظام صحت پر دباؤ بڑھ سکتا‬
‫ہے۔‬
‫گذشتہ ‪ 24‬گھنٹوں میں وہاں ‪ 165‬اموات ہوئی ہیں جبکہ گذشتہ ہفتے اموات کی تعداد ‪126‬‬
‫تھی۔‬
‫جرمنی میں آر کے آئی انسٹیٹیوٹ سے منسلک لوتھر ویلر کا کہنا ہے کہ اگر ابھی ہم اس‬
‫سے نمٹنے کے لیے اقدامات نہیں کریں گے تو یہ چوتھی لہر مزید نقصان لے کر آئے گی۔‬
‫جرمنی میں ویکسین نہ لگوانے والوں میں سے ‪ 30‬الکھ کے قریب لوگوں کی عمریں ‪60‬‬
‫برس سے اوپر ہیں اور وہ بطور خاص خطرے کی زد میں ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪89‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫لیکن ہانس کلوگ نے نشاندہی کی ہے کہ متاثرین کا بڑھنا جرمنی تک محدود نہیں ہے۔‬
‫ہالکتوں میں سب سے ڈرامائی انداز میں اضافہ گذشتہ ہفتے روس اور یوکرین میں دیکھا‬
‫گیا جہاں بالترتیب ‪ 8100‬اور ‪ 3800‬افراد ہالک ہوئے۔‬
‫ان دونوں ممالک میں ویکسین لگانے کی شرح بہت سست ہے۔ یوکرین نے اعالن کیا کہ‬
‫وہاں گذشتہ ‪ 24‬گھنٹوں کے دوران ‪ 27‬ہزار ‪ 377‬نئے متاثرین سامنے آئے ہیں‬
‫رواں ہفتے رومانیہ میں ‪ 24‬گھنٹوں کے دوران سب سے زیادہ ‪ 591‬اموات ریکارڈ ہوئیں‬
‫جبکہ ہنگری میں کورونا انفیکشن کے روزانہ سامنے آنے والے متاثرین کی تعداد گذشتہ‬
‫ہفتے کی نسبت دگنی ہو کر ‪ 6268‬ہو گئی ہے۔ وہاں صرف پبلک ٹرانسپورٹ اور ہسپتالوں‬
‫میں ماسک پہننا ضروری ہے۔‬
‫ڈاکٹر ریان نے کہا کہ ’اس وقت بظاہر ہم شدت سے یہ کہے جا رہے ہیں کہ عالمی وبا ختم‬
‫ہو گئی ہے اور بس کچھ مزید لوگوں کو ویکسین لگانا باقی ہے۔ لیکن ایسا ہے نہیں۔‘‬
‫رواں ہفتے ڈچ حکومت نے کہا کہ وہ عوامی مقامات پر ماسک پہننے اور سماجی فاصلے‬
‫کی پابندیاں دوبارہ نافذ کرے گی کیونکہ وہاں ہسپتالوں میں لوگوں کے داخلے کی شرح‬
‫رواں ہفتے ‪ 31‬فیصد تک بڑھ گئی ہے۔‬
‫لٹویا میں پیر سے تین ماہ کے لیے ہنگامی حالت نافذ کی جا رہی ہے کیونکہ یہاں کورونا‬
‫پھیلنے کی شرح ریکارڈ سطح پر ہے۔‬
‫کروشیا میں جمعرات کو ‪ 6310‬نئے کورونا متاثرین سامنے آئے ہیں جو یہاں اب تک کی‬
‫سب سے بڑی تعداد ہے۔‬
‫سلوواکیہ میں نئے متاثرین کی دوسری بڑی تعداد سامنے آئی ہے جبکہ جمہوریہ چیک میں‬
‫موسم بہار کی صورتحال پر لوٹ آئی ہے۔‬
‫ِ‬ ‫انفیکشنز کی تعداد دوبارہ‬

‫تحقیقات | ‪90‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انگلینڈ کے نائب میڈیکل افسر پروفیسر جوناتھن وان ٹیم نے بدھ کو بتایا کہ بہت سے لوگ‬
‫یہ سمجھتے ہیں کہ وبا ختم ہو چکی ہے۔‬
‫پھر بھی وہ ممالک جہاں ویسکین لگانے کی شرح زیادہ ‪،‬ہے وہاں انفیکشن کی شرح اب‬
‫بھی نسبتا ً کم ہے۔‬
‫اٹلی میں ‪ 12‬سال سے زیادہ عمر کے لوگوں کو ویکسین لگانے کی شرح سب سے زیادہ‬
‫ہے لیکن وہاں بھی گذشتہ ہفتے نئے متاثرین کی شرح ‪ 16‬اعشاریہ چھ رہی۔‬
‫پرتگال میں ستمبر کے بعد پہلی بار کورونا کے نئے متاثرین کی تعداد ایک ہزار سے‬
‫بڑھی ہیں۔‬
‫سپین اُن چند ممالک میں سے ہے جہاں مرض پھیلنے کی شرح میں اضافہ نہیں ہوا ہے۔‬
‫بدھ کو وہاں ‪ 2287‬نئے متاثرین سامنے آئے تھے‬
‫‪https://www.bbc.com/urdu/world-59173567‬‬

‫پاکستان میں ‪ 40‬فیصد ٓابادی وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے‪ ،‬طبی‬


‫ماہرین‬
‫‪05 November,2021 09:38 am‬‬

‫اسالم ٓاباد‪( :‬دنیا نیوز) پاکستان میں ‪ 40‬فیصد ٓابادی وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے۔ طبی‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد سردیوں کی دھوپ سے فائدہ‬
‫اٹھائیں۔‬

‫تحقیقات | ‪91‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پاکستان میں ‪ 40‬فیصد ٓابادی وٹامن ڈی کی کمی کا شکار ہے‪ ،‬قوت مدافعت میں کمی کیساتھ‬
‫ہڈیوں کی کمزوری اور جوڑوں کے درد کا بڑا سبب ہے‪ ،‬خواتین وٹامن ڈی کی کمی سے‬
‫سب زیادہ متاثر ہیں۔‬
‫طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ شہریوں کی اکثریت کوعلم نہیں ہوتا کہ وہ وٹامن ڈی کی کمی کا‬
‫شکا رہیں‪ ،‬ایسے میں درد کی ادویات کھانے سے پہلے ٹیسٹ ضروری ہے۔‬
‫ڈاکٹرز کا مشورہ ہے کہ وٹامن ڈی کی کمی کے شکار افراد سردیوں کی دھوپ سے فائدہ‬
‫اٹھائیں اور روزانہ ایک سے دو گھنٹے دھوپ میں ضرور بیٹھیں۔‬
‫‪https://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Health/627177‬‬

‫کورونا وائرس سے جڑا ایک اسرار ماہرین نے جان لیا‬

‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪04 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫کورونا وائرس کی وبا کو لگ بھگ ‪ 2‬سال ہوچکے ہیں جس کے دوران الکھوں افراد ہالک‬
‫ہوئے مگر یہ اب تک معمہ ہے کہ اس وائرس کے کونسے پروٹینز ہوتے ہیں جو شریانوں‬
‫کو شدید نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں‪ ،‬جس کے نتیجے میں ہارٹ اٹیک یا فالج کا‬
‫خطرہ بھی بڑھتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪92‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مگر اب پہلی بار طبی ماہرین اس وائرس کے ‪ 29‬میں سے ‪ 5‬ایسے پروٹینز کو شناخت‬
‫کرنے کے قابل ہوگئے ہیں جو خون کی شریانوں کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتے ہیں۔‬
‫یہ انکشاف ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓایا جس کے نتائج طبی جریدے ای الئف میں‬
‫شائع ہوئے۔‬
‫محققین کو توقع ہے کہ ان پروٹینز کی شناخت سے ایسی ادویات کو تیار کرنے میں مدد مل‬
‫سکے گی جس سے شریانوں کو پہنچنے واال نقصان کم کرنے میں مدد ملے گی۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ہم نے وبا کے دوران لوگوں میں خون کی شریانوں اور بلڈ کالٹس کے‬
‫بہت زیادہ کیسز دیکھے‪ ،‬مثال کے طور پر کووڈ کے مریضوں میں ہارٹ اٹیک اور فالج‬
‫وغیرہ۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ہمارا یہ خیال تھا کہ کووڈ نظام تنفس کی بیماری ہے مگر حقیقت تو یہ ہے‬
‫کہ کورونا وائرس کے مریضوں میں ہارٹ اٹیک یا فالج کا امکان ‪ 3‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ تمام شواہد سے ثابت ہوتا ہے کہ یہ وائرس خون کی شریانوں کو‬
‫بہت زیادہ نقصان پہنچاتا ہے‪ ،‬اسی وجہ سے ہم جاننا چاہتے تھے کہ وائرس میں موجود‬
‫کونسے پروٹینز اس نقصان کا باعث بنتے ہیں۔‬
‫ٰ‬
‫نوول کورونا وائرس کافی حد تک سادہ وائرس ہے جو ‪ 29‬مختلف پروٹنز پر مشتمل ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫محققین نے کووڈ کے ہر پروٹین کا ٓار این اے کو استعمال کیا ہر ٓار این اے سیکونس کو‬
‫انسانی خون کے خلیات میں داخل ہونے پر ردعمل کی جانچ پڑتال کی۔‬
‫اس طرح وہ ‪ 5‬کورونا وائرس پروٹینز کو شناخت کرنے کے قابل ہوگئے جو خون کی‬
‫شریانوں کو نقصان پہنچاتے ہیں۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ جب کورونا وائرس جسم میں داخل ہوتا ہے تو یہ ‪ 29‬پروٹین بنا کر ایک‬
‫نئے وائرس کو تشکیل دیتا ہے‪ ،‬یہ وائرس ‪ 29‬نئے پروٹینز تیار کرتا ہے اور یہ سلسلہ ٓاگے‬
‫بڑھتا چال جات ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ اس عمل کے دوران ہماری خون کی شریانوں نالیوں کی طرح‬
‫ہوجاتی ہیں اور بلڈ کالٹنگ کا عمل بڑھ جاتا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ہم نے ‪ 29‬پروٹینز میں سے ایک ہر ایک کے اثرات کا جائزہ لیا اور ‪5‬‬
‫مخصوص پروٹینز کو شناخت کرنے میں کامیاب رہے جو خون کے خلیات کو بہت زیادہ‬
‫نقصان پہنچاتے ہیں اور ان کے استحکام اور افعال کو متاثر کرتے ہیں۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہم نے ایک کمیوٹیشنل ماڈل بھی تیار کیا تاکہ کورونا وائرس پروٹینز کا‬
‫تجزیہ اور شناخت کرسکیں جو دیگر ٹشوز پر اثرات مرتب کرتے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ان پروٹینز کی شناخت سے ممکنہ طو رپر ایسی دوا کو دریافت کرنے‬
‫میں مدد مل سکے گی جو وائرس کی سرگرمیوں کو روکنے کے لیے استعمال ہوسکے گی‬
‫یا خون کی شریانوں کے نقصان کو کم از کم کرسکیں گے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1172008/‬‬
‫تحقیقات | ‪93‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫والدین ہوشیار ‪ :‬بچوں میں موبائل فون کا استعمال کتنا خطرناک ہے؟‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪ 5 2021‬‬

‫موبائل فون کا مسلسل استعمال یوں تو ہر عمر کے افراد کے لیے خطرے کا باعث ہوتا‬
‫ہے مگر سات سال سے کم عمر بچوں پر اس کے انتہائی مضراثرات مرتب ہوتے ہیں جس‬
‫کے نقصان کا اندازہ مستقبل میں جاکر ہوتا ہے۔‬
‫کم عمر بچوں میں موبائل فون کی لت نے انہیں بیک وقت ذہنی اور جسمانی طور پر ایسے‬
‫رویے کا حامل بنا دیاہے جو دانشمندی کی بجائے مشینی انداز میں زندگی بسر کرنے پر‬
‫یقین رکھتے ہیں‪ ،‬اس رویے میں انسانی جذبات اور احساسات کی اہمیت بھی بتدریج کم‬
‫ہوتی جارہی ہے۔‬
‫اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں موٹیویشنل اسپیکر ڈاکٹر‬
‫جاوید اقبال نے والدین کو خبردار کرتے ہوئے انہیں اہم اور مفید مشورے دیئے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ بہت چھوٹی عمر میں موبائل اور ٹیبلٹ کا استعمال بچوں کی نشوونما پر‬
‫منفی اثرات مرتب کرتا ہے اور وہ بہت سی ایسی جسمانی اور ذہنی سرگرمیوں میں ٹھیک‬
‫سے حصہ نہیں لے پاتے جو زندگی کے اس موقع پر ْان کے لیے ضروری ہوتی ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ بچوں کی نفسیات اور جذبات پر موبائل کے اثرات جس شکل میں رونما ہو‬
‫رہے ہیں اس کے سبب بچوں کی معصومیت‪ Š‬جارحیت میں تبدیل ہوتی جا رہی ہے۔ اس‬
‫جارحیت نے والدین اور بچوں کے رشتوں میں ایسی پیچیدگیاں پیدا کردی ہیں جو اُن کی‬
‫نشوو نما پر منفی اثرات مرتب کر رہی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪94‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ڈاکٹر جاوید اقبال نے بتایا کہ بہت چھوٹی عمر میں موبائل فون کے استعمال کی وجہ سے‬
‫بچے بہت سی ایسی جسمانی اور ذہنی سرگرمیوں میں ٹھیک سے حصہ نہیں لے پاتے جس‬
‫میں تعلیم و تدریس سے لے کر کھیل کود تک متعدد سرگرمیاں شامل ہیں۔‬
‫انہوں نے کہا کہ میرے نزدیک بچوں کے لیے موبائل فون اور ٹیبلٹ کا استعمال شروع‬
‫طرز عمل اور مختلف‬
‫ِ‬ ‫کرنے کی صحیح عمر‪ 14‬سال ہے لیکن اس کا انحصار بچوں کے‬
‫چیزوں میں دلچسپی سے ہے۔ یہ عمر کا وہ حصہ ہوتا ہے جب بچے نو بلوغت میں داخل‬
‫ہو رہے ہوتے ہیں اور فطری طور پر اپنے لیے زیادہ ٓازادی کا تقاضا کرتے ہیں۔‬
‫لہذا والدین کیلئے انتہائی ضروری ہے کہ بچوں کے ہاتھوں میں موبائل دینے سے قبل ان‬
‫کو الزمی احتیاط کے سلسلے میں ضروری معلومات حاصل کرنی چاہئے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/mobile-phone-use-in-children-bad-effects/‬‬

‫مچھلی کھانے کی عادت جان لیوا دماغی امراض کا خطرہ کم کرے‬

‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪04 2021‬‬
‫— یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬

‫مچھلی کھانے کی عادت دماغ کی جان لیوا بیماریوں کا خطرہ نمایاں حد تک کم کردیتی‬
‫ہے۔یہ بات فرانس میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬

‫تحقیقات | ‪95‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫طبی جریدے جرنل نیورولوجی میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ مچھلی کھانے اور دماغی‬
‫شریانوں کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق موجود ہے۔‬
‫دماغی شریانوں کو نقصان پہنچنے سے ڈیمینشیا اور فالج جیسے امراض کا خطرہ بڑھتا‬
‫ہے۔بورڈیوکس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ‪ 3‬شہروں پر ہونے والی ایک تحقیق کے ڈیٹا‬
‫کا تجزیہ کیا گیا جس میں دماغی شریانوں کے امراض اور ڈیمینشیا کے تعلق کا جائزہ لیا‬
‫گیا تھا۔‬
‫محققین نے ‪ 65‬سال سے زائد عمر کے ‪ 1623‬افراد کے ایم ٓار ٓائی اسکینز کا تجزیہ کیا جن‬
‫میں فالج‪ ،‬دل کی شریانوں سے جڑے امراض یا ڈیمینشیا کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔‬
‫ان افراد سے غذائی عادات کے حوالے سے سوالنامے بھی بھروائے گئے تھے۔‬
‫ان افراد کو ‪ 4‬گروپس میں تقسیم کیا گیا‪ ،‬ایک گروپ ہفتے میں ایک بھی مچھلی نہ کھانے‬
‫والوں پر مشتمل تھا‪ ،‬دوسرا ہفتے میں ایک بار‪ ،‬تیسرا ہفتے میں ‪ 2‬سے ‪ 3‬بار جبکہ چوتھا‬
‫‪ 4‬یا اس سے زیادہ بار مچھلی سے لطف اندوز ہونے والوں پر مشتمل تھا۔‬
‫محققین نے پھر ہر گروپ میں شامل افراد میں خون کی شریانوں کے امراض کی عالمات‬
‫کا موازنہ کیا۔‬
‫انہوں نے دریافت کیا کہ زیادہ مچھلی کھانے والے افراد میں شریانوں کو نقصان پہنچنے‬
‫کی نشانیاں دیگر کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہیں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ‪ 65‬سے ‪ 69‬سال کی عمر میں مچھلی کے استعمال اور خون کی‬
‫شریانوں کے امراض کا تعلق زیادہ ٹھوس ہوتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ہم میں سے بیشتر افراد میں ڈیمینشیا کا خطرہ مختلف جییاتی اور‬
‫ماحولیاتی عناصر کے باعث بڑھتا ہے‪ ،‬طرز زندگی کے عناصر اور دماغی صحت کے‬
‫درمیان تعلق کو سمجھنا اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ تحقیق سے عندیہ مال ہے کہ جو غذا دل کے لیے مفید ہوتی ہے وہ دماغ‬
‫کے لیے بھی صحت بخش ہوتی ہے‪ ،‬جبکہ بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کنٹرول کرنا‪،‬‬
‫تمباکو نوشی نہ کرنا‪ ،‬الکحل سے گریز اور متحرک طرز زندگی سب عمر بڑھنے کے‬
‫ساتھ دماغی صحت کو بہتر بناتے ہیں۔‬
‫اس سے قبل امریکا کی ساﺅتھ ڈکوٹا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ آئلی مچھلی کھانا‬
‫مختلف امراض کا خطرہ کم کردیتا ہے۔‬
‫ڈھائی ہزار سے زائد معمر افراد پر ہونے والی تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا کہ جو‬
‫لوگ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز زیادہ مقدار میں استعمال کرتے ہیں ان میں جلد موت کا‬
‫خطرہ ‪ 34‬فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔‬
‫ایسے فراد میں ہارٹ اٹیک یا فالج کا خطرہ ‪ 39‬فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ کولیسٹرول لیول میں اضافہ خون کی شریانوں سے جڑے امراض کا‬
‫خطرہ بڑھانے واال اہم ترین عنصر ہے۔انہوں نے مزید بتایا کہ ہائی کولیسٹرول لیول ہارٹ‬
‫اٹیک یا فالج جیسے امراض کا خطرہ بڑھا کر جلد موت کا باعث بنتا ہے‪ ،‬تاہم اومیگا تھری‬
‫فیٹی ایسڈز اس حوالے سے تحفظ فراہم کرتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪96‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا کہ آئلی مچھلی کھانا ہارٹ اٹیک‪ ،‬فالج‪ ،‬امراض قلب اور‬
‫مختلف امراض سے موت کا خطرہ کم کرتی ہے۔‬
‫اس سے قبل برگھم اینڈ ویمن ہاسپٹل کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ہفتے میں کم از کم دو بار‬
‫مچھلی کھانا جوڑوں کے امراض سے ہونے والی تکلیف اور درد میں کمی النے کا باعث‬
‫بنتا ہے۔‬
‫اسی طرح اس عادت کے نتیجے میں جوڑوں کی سوجن اور اکڑنے کی شکایت بھی کم‬
‫ہوتی ہے۔تحقیق کے مطابق جتنا زیادہ مچھلی کھائیں گے اتنا ہی اس مرض میں مبتال ہونے‬
‫کا امکان کم ہوتا جائے گا۔‬
‫گزشتہ سال الزائمر سوسائٹی کی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ اومیگا تھری فیٹی ایسڈ دماغ‬
‫کے لیے فائدہ مند جز ہے اور مچھلی کے ذریعے اسے جسم کا حصہ بنایا جاسکتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق مچھلی میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کی مقدار کافی زیادہ ہوتی ہے جو‬
‫کہ ذہن اور دماغی افعال کے لیے اہم ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1172011/‬‬

‫کووڈ سے متاثر ماؤں کا دودھ ان کے بچوں کو اس بیماری سے بچانے‬


‫میں مددگار‪ ،‬تحقیق‬
‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪04 2021‬‬

‫— یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫کووڈ ‪ 19‬کا شکار ہونے والی خواتین اپنے دودھ کے ذریعے وائرس کو ناکارہ بنانے والی‬
‫اینٹی باڈیز بچوں تک منتقل کرتی ہیں۔‬
‫یہ بات اٹلی میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬
‫یہ بات پہلے ہی ثابت شدہ ہے کہ ماں کے دودھ میں ایسی مخصوص اینٹی باڈیز ہوتی ہیں‬
‫جو شیر خوار بچوں کو بیماریوں سے تحفظ فراہم کرتی ہیں۔‬
‫حالیہ تحقیقی رپورٹس میں یہ عندیہ سامنے ٓایا تھا کہ کووڈ کا سامنا کرنے والی یا‬
‫ویکسینیشن کرانے والی خواتین دودھ کے ذریعے بچوں میں بیماری سے تحفظ فراہم کرنے‬
‫والی اینٹی باڈیز منتقل کرتی ہیں۔‬
‫بامبینو گیسو چلڈرنز ہاسپٹل کی اس تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ بیماری کو شکست دینے‬
‫والی خواتین بریسٹ فیڈنگ کے ذریعے بچوں میں زیادہ متحرک مدافعتی ردعمل متحرک‬
‫کرنے میں مدد فراہم کرتی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪97‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ‪ 2‬ماہ کی عمر میں ماں کا دودھ پینے والے شیر خوار‬
‫بچوں کے لعاب دہن میں ایسی اینٹی باڈیز ہوتی ہیں جو کورونا وائرس کے خالف مزاحمت‬
‫کرتی ہیں۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ہم نے پہلی بار ثابت کی ہے کہ ماں بھی اپنے نومولود بچوں کا‬
‫مدافعتی نظام دودھ سے منتقل ہونے والی اینٹی باڈیز سے متحرک کرتی ہیں۔‬
‫مگر نتائج سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ لعاب دہن میں موجود اینٹی باڈیز کورونا وائرس کا‬
‫سامنا ہونے پر بیمار ہونے سے تحفظ ملتا ہے یا نہیں۔‬
‫نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی میں بچوں کے امراض کی ماہر ڈاکٹر ٹینا ٹان نے اس بارے میں‬
‫بتایا کہ ایسا ممکن ہے کہ اس سے ناک یا ٓانکھوں کے راستے داخل ہونے پر وائرس سے‬
‫تحفظ میں مدد ملتی ہے۔‬
‫مگر انہوں نے مزید کہا کہ بچوں میں وائرس سے تحفظ دینے والی اینٹی باڈیز کی منتقلی‬
‫کا بہترین ذریعہ حمل کے دوران ویکسینیشن کرانا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جاما نیٹ ورک میں شائع ہوئے جس میں ایسے ‪22‬‬
‫نومولود بچوں کا جائزہ لیا گیا تھا جن کی مائیں زچگی کے وقت کورونا وائرس سے متاثر‬
‫تھیں۔ان میں سے صرف ایک بچے میں پیدائش کے بعد کووڈ کی تصدیق ہوئی جبکہ ایک‬
‫چند دن بعد اس سے متاثر ہوا۔محققین نے دریافت کیا کہ جب ان بچوں کی عمر ‪ 2‬ماہ ہوئی‬
‫تو جن کو ماں کا دودھ مل رہا تھا‪ ،‬ان کے لعاب دہن میں کورونا کے اسپائیک پروٹین کو‬
‫جکڑنے والی اینٹی باڈیز موجود تھیں۔‬
‫مگر جن بچوں کو ڈبے کا دودھ پالیا جارہا تھا ان میں ایسا دریافت نہیں ہوا‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1172009/‬‬

‫تحقیقات | ‪98‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بچوں میں کان کے اندرونی آپریشن سے قوت سماعت کی محرومی ختم‬
‫کی جاسکتی ہے‪ ،‬ماہرین‬
‫نومبر ‪04 2021 ،‬‬

‫ڈاؤ یونیورسٹی اوجھا کیمپس کراچی میں قوت سماعت سے محروم بچوں کو آلہ سماعت‬
‫کے حوالے سے آگاہی اور تربیت دی گئی۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ پیدائشی طور پر قوت سماعت سے محروم بچوں میں کان کے‬
‫اندرونی آپریشن کے ذریعے آلہ نصب کرکے قوت سماعت کی محرومی کو ختم کیا جاسکتا‬
‫ہے۔‬
‫ورک شاپ میں ملک بھر سے ای این ٹی سرجنز نے شرکت کی۔‬
‫ماہرین نے ڈیٹا شیئر کرتے ہوئے بتایا کہ پاکستان میں ‪ 14‬سے ‪ 15‬فیصد لوگ قوت‬
‫سماعت سے محرومی کا شکار ہیں جن میں ‪ 2.5‬سے ‪ 3‬فیصد بچے پیدائشی طور پر‬
‫سماعت سے محروم ہیں۔‬
‫ماہرین نے بچوں میں قوت سماعت سے محرومی کی بڑی وجہ خاندانی شادی قرار دی‬
‫ہے۔‬
‫ڈأو یونیورسٹی اوجھا کیمپس کے شعبہ ناک‪ ،‬کان اور حلق (ای این ٹی) کے سربراہ‬
‫پروفیسر ڈاکٹر اقبال خیانی نے جیو نیوز سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا کہ قوت سماعت سے‬
‫محروم ‪ 3‬سے ‪ 4‬سال کی عمر تک کے بچوں میں دماغ کی کڑیاں کھلی ہوتی ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1007257‬‬

‫رات کی رانی کے صحت سے متعلق کرشماتی فوائد‬


‫نومبر ‪05 2021 ،‬‬

‫رات کی رانی ایک چھوٹا سا خوشبو دار پھول ہے لیکن آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ‬
‫یہ ناصرف خوبصورت ہے بلکہ اس میں صحت کے مختلف فوائد بھی ہیں۔‬
‫اس پودے میں اینٹی آکسیڈینٹ‪ ،‬اینٹی سوزش اور اینٹی بیکٹیریل خصوصیات ہیں۔ یہاں‬
‫ماہرین ان چھوٹے سفید پھولوں کے صحت سے متعلق کچھ فوائد بتارہے ہیں۔‬
‫‪:‬رات کی رانی کے حیرت انگیز فوائد‬

‫‪:‬خشک کھانسی‬

‫تحقیقات | ‪99‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫رات کی رانی کے چند پتّے لیں اور اُنہیں پیس لیں۔ اب اس کا رس نکال کر شہد کے ساتھ‬
‫پانی میں ڈال کر پی لیں‪ ،‬ایسا کرنے سے خشک کھانسی سے نجات مل جاتی ہے۔‬
‫‪:‬نزلہ زکام‬
‫رات کی رانی کے پتّوں اور پھولوں کو پانی میں اُبالیں اور پھر اُس میں تُلسی کے چند پتّے‬
‫بھی شامل کرلیں‪ ،‬اس کو اتنا پکائیں کہ یہ قہوہ بن جائے اور پھر اُس قہوے کو پی لیں‪،‬‬
‫‪  ‬موسم سرما میں روزانہ یہ قہوہ پینے سے ٓاپ کو نزلے زکام کی شکایت نہیں ہوگی۔‬
‫‪:‬بخار‬
‫گرام چھال اور ‪ 2‬گرام پتے تلسی کے ‪ 3-2‬پتوں کے ساتھ لیں۔ اسے پانی میں ابالیں اور ‪3‬‬
‫دن میں دو بار پی لیں۔‬
‫‪:‬بے چینی‬
‫رات کی رانی کا تیل ڈپریشن‪ ،‬ذہنی تناؤ اور بےچینی کو دور کرنے کے لیے استعمال کیا‬
‫جاتا ہے۔ یہ دماغ میں سیرٹونن کی سطح کو بڑھانے اور موڈ کو منظم کرنے میں مدد دیتا‬
‫ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1007592‬‬

‫بچوں میں بڑھتی انزائٹی کے مسئلے پر کیسے قابو پایا جائے؟‬


‫نومبر ‪06 2021 ،‬‬
‫دور جدید میں انزائٹی صرف بڑوں کا ہی مسئلہ نہیں رہا بلکہ اکثر بچے بھی اس کا شکار‬
‫ِ‬
‫ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪100‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ٓاج کے اکثر بچے بھی کسی نہ کسی وجہ سے نظر نہ ٓانے والی یا غیرمحسوس انزائٹی میں‬
‫مبتال رہتے ہیں اور اس فکرمندی کے بچوں کے مزاج اور طویل مدت میں مجموعی‬
‫شخصیت پر انتہائی منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ انزائٹی کے شکار بچوں کا دل اُن باتوں میں نہیں لگتا‪ ،‬جن میں عام بچے‬
‫عموما ً خوشی محسوس کرتے ہیں۔‬
‫برطانیہ کی ریڈنگ یونیورسٹی کی پروفیسر کیتھی کریسویل کی حالیہ تحقیق میں کچھ ایسی‬
‫ت حال سے نکالنے میں معاون و مددگار‬ ‫ترکیبیں بتائی گئی ہیں‪ ،‬جو بچوں کو اس صور ِ‬
‫‪ ‬ہوتے ہیں۔‬
‫کچھ بھی بالجواز نہیں ہوتا‬
‫بچے سے یہ کہنا کہ’ اُس کا خوف بالجوازہے‘ اور ’ویسا ہونے واال نہیں‘ ُدرست حکم ِ‬
‫ت‬
‫عملی نہیں ہے‪ ،‬اس سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ اس کے بجائے یہ تسلیم کریں کہ بچہ جس‬
‫خوف کو محسوس کر رہا ہے وہ ُدرست ہے‪ ،‬اُس سے بچے کو مدد ملے گی۔‬
‫بچوں کو مجبور نہ کریں بلکہ ان کی مدد کریں‬
‫بچے کوکسی ایسی چیز کا سامنا کرنے کے لیے مجبور نہ کریں جس سے وہ بہت زیادہ‬
‫ت حال میں درست حکمت عملی یہ ہوگی کہ ٓاپ اس کی مدد‬ ‫خوف زدہ ہوجاتا ہے۔ اس صور ِ‬
‫کریں کہ وہ ٓاہستہ ٓاہستہ اس خوف سے نبردٓازما ہونا سیکھے۔‬
‫بچوں کو سمجھیں‬
‫اگر بچے کی انزائٹی زیادہ بڑا مسئلہ بنتی جا رہی ہے تو والدین کے لیےضروری ہےکہ وہ‬
‫اپنے بچوں کے خوف کی کیفیت کو سمجھیں‪ ،‬نہ کہ ان سے پوچھیں کہ وہ خوف زدہ تو‬
‫محسوس نہیں کر رہے۔‬
‫بچوں کو موقع دیں‬

‫تحقیقات | ‪101‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بچوں کو کسی بھی مسئلے کا حل بتانے کے بجائے والدین کو چاہیے کہ وہ ان کی بات کو‬
‫سنیں اور سمجھنے کی کوشش کریں کہ وہ اپنے خوف یا فکرمندی‪ ،‬جس کی وجہ سے اُن‬
‫میں انزائٹی پیدا ہوتی ہے‪ ،‬اس کو اچھی طرح بال جھجک بیان کریں۔ ممکن ہے کہ ان کا‬
‫خوف غلط فہمی کی وجہ سے ہو۔‬
‫درجہ بہ درجہ ٓاگے بڑھیں‬
‫ٓاپ بچے سے یہ پوچھ سکتے ہیں کہ اس کے ساتھ ماضی میں ایسے کیا واقعات پیش ٓائے‬
‫‪ ‬ہیں کہ وہ سوچ کر خوفزدہ ہوجاتا ہے۔‬
‫ٓاپ کو مختلف قسم کے سواالت ٓاہستہ ٓاہستہ اور درجہ بدرجہ کرنے ہوں گے۔ پھر اس طرح‬
‫کے سواالت کریں کہ اگر ایسا ہوا تو وہ اس سے کس طرح نمٹے گا۔‬
‫‪ ‬بچوں کے ساتھ گفتگوکریں‬
‫اگر کسی ڈرامے یا فلم کو دیکھتے ہوئے کوئی خوف زدہ کرنے واال منظر ٓائے تو ٓاپ‬
‫بچے سے پوچھیں کہ اس خطرے سے کس قسم کی بد ترین بات یا حادثہ ہو سکتا ہےاور‬
‫پھر یہ بھی پوچھیں کہ اس منظر میں بہترین بات کیا ہو سکتی ہے۔‬
‫امکان اس بات کا ہے کہ بچہ اپنے ٓاپ کو ان دو انتہائی باتوں کے درمیان کہیں پائے گا۔‬
‫بہتری ایک بتدریج عمل ہے‬
‫ریڈنگ یونیورسٹی سے وابستہ والدین کے ایک جوڑے کو یہ سکھایا گیا کہ وہ اپنے بچے‬
‫کو ‪10‬اقدامات ایسے سکھائیں جن کی مدد سے وہ اپنے خوف کی وجہ پر قابو پا سکے۔‬
‫والدین کو اپنی نظر نتائج پر نہیں بلکہ بچے کی کوششوں پر رکھنی چاہیے۔ہر کوشش پر‬
‫بچے کی تعریف کریں اور انعام بھی دیں‪ ،‬اس طرح والدین جب بچے کی کوششوں کو‬
‫‪ ‬سراہیں گےتو ان میں پیچیدہ حاالت سے نمٹنے کا حوصلہ پیدا ہوگا۔‬
‫ت عملی‬
‫حکم ِ‬
‫بعض اوقات بچوں کا فکرمند ہونا یا گھبرانا معمول کی بات ہوتی ہے‪ ،‬لیکن اگر ان کی‬
‫گھبراہٹ ان کو کافی پریشان کرتی ہے جس کی وجہ سے وہ روز مرّہ کا کام بھی نہیں‬
‫کرسکتے ہیں تو پھر مشاورت کرنا بہتر ہو گا۔ ایسی صورت میں کتابیں پڑھیں‪ ،‬جن میں ان‬
‫مسائل کے بارے میں بہتر حکمت عملی بیان کی گئی ہو یا اپنے ڈاکٹر سے رجوع کریں۔‬
‫ضروری سمجھیں تو ڈاکٹر سے ’کاگنیٹو بیہیویئرل تھراپی‘ کے بارے میں دریافت کریں۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1007971‬‬

‫سانس کی خرابی کی تشخیص عالمات ظاہر ہونے سے قبل کیسے کی‬


‫جائے؟‬
‫نومبر ‪06 2021 ،‬‬

‫تحقیقات | ‪102‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اب زیادہ وزن والے یا موٹاپے کا شکار افراد میں سانس کی خرابی‪  ‬کی تشخیص کسی قسم‬
‫کی واضح عالمات ظاہر ہونے سے پہلے بھی کی جاسکتی ہے۔‬
‫ایک نئی تحقیق کے نتائج کے مطابق‪  ‬کارڈیو پلمونری ایکسرسائز ٹیسٹنگ (سی پی ای ٹی)‬
‫جسے ایرگو اسپیرومیٹری بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬اس ورزش کو زیادہ وزن اور موٹے افراد میں‬
‫سانس کی خرابی کی ابتدائی شناخت کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے۔‬
‫یہ تحقیق برازیل کے محققین نے کی ہے‪ ،‬اس تحقیق کے بنیادی نتائج ورزش کے دوران‬
‫موٹاپےکےجسم پر اثرات سے اخذ کیے گئے‪  ‬جوکہ (سی پی ای ٹی) کے دوران سامنے‬
‫‪ٓ ‬ائے۔‬
‫جرنل میں شائع کیا گیا ہے۔‘‪’PLOS ONE‬اس تحقیق کے نتائج کو‬
‫اس تحقیق کا حصّہ بننے والے موٹے افراد اہم وینٹیلیٹری ردعمل غیر تبدیل شدہ تھا۔‬
‫ایک(‪، VCO2‬مثال کے طور پر‪ ،‬موٹے افراد کے گروپ میں پر منٹ وینٹیلیشن کا تناسب‬
‫اوسطا ً ‪ 25.4‬سامنے ٓایا جبکہ مناسب وزن والے)منٹ میں خارج ہونے والی ہوا کا حجم‬
‫افراد کے لیے اوسطا ً ‪ 25.6‬ہے۔‬
‫لہٰ ذااس تحقیق سے یہ پتا چلتا ہے کہ موٹاپے کا شکار افراد میں کسی بھی قسم کی ظاہری‬
‫عالمات سامنے ٓانے سے پہلے سانس کی خرابی کے امکان کو ابتدائی اسٹیج پر تشخیص‬
‫کیا جاسکتا ہے۔‬
‫کی ایپیڈیمولوجی اور ہیومن موومنٹ لیبارٹری)‪ (UNIFESP‬ساؤ پالو کی وفاقی یونیورسٹی‬
‫کے سربرا ہ وکٹر زونیگا ڈوراڈوکا کہنا ہے کہ کارڈیو پلمونری ایکسرسائز ٹیسٹنگ (سی‬

‫تحقیقات | ‪103‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پی ای ٹی) موٹاپےکا شکار افراد کی صحت کےمسائل کے کئی ممکنہ مسائل کو سامنے ال‬
‫سکتی ہے اور اس میں کافی تشخیصی اور قبل از تشخیصی صالحیت ہےجس کے بارے‬
‫میں پہلے کسی کو علم نہیں تھا۔‬
‫انہوں نے مزید کہا کہ تحقیق میں یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ اگر وینٹیلیٹری کارکردگی کو‪ ‬‬
‫تبدیل کیا جائےتو اس کی وجہ سےابتدائی سانس کی خرابی ہونے کا امکان ہے۔‬
‫ڈوراڈو نے وضاحت کرتے ہوئے کہا کہ یہ ٹیسٹ کسی مخصوص عارضے یا بیماری کی‬
‫تشخیص نہیں کرتا ہے لیکن اسے ابتدائی مرحلے میں سانس کی خرابی کی تشخیص اور‬
‫اس کی وجوہات کی نشاندہی میں مدد کے لیے استعمال کیا جا سکتا ہے‪ ،‬تاکہ مریض کو‬
‫زیادہ تفصیلی معائنے کے لیے ماہر کے پاس بھیجا جا سکے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1007987‬‬

‫پپیتے کے پتوں سے ڈینگی کا عالج ممکن ہے ؟‬


‫نومبر ‪06 2021 ،‬‬

‫ڈینگی بخار جس کی وجہ سے ایک بار پھر سے ملک بھر میں لوگ متاثر ہورہے ہیں اور‬
‫کئی افراد‪ ‬اس مہلک بخار کی وجہ سے جاں بحق ہوچکے ہیں۔ڈینگی میں مبتال افراد کو‬
‫پپیتے کے پتوں کا جوس یا جوشاندہ پالنے کا مشورہ دیا جاتا ہے کیونکہ لوگوں کی اکثریت‬

‫تحقیقات | ‪104‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کا ماننا ہے کہ پپیتے کے پتوں کا جوس یا رس ڈینگی بخار میں مبتال افراد کے خون میں‬
‫پلیٹلیٹس بڑھانے کا سبب بنتا ہے ۔‬
‫دوسری جانب ڈاکٹروں کے مطابق پپیتے کے پتوں کا جوس پالنے سے ڈینگی بخار میں‬
‫کمی یا پلیٹلیٹس بننے کی کوئی سائنسی توجیح ابھی تک سامنے نہیں ٓائی۔‬
‫لیکن حیران کن طور پر دی ایشین پیسیفک جرنل ٓاف ٹراپیکل بائیو میڈیسن میں ‪ 2011‬میں‬
‫چھپنے والی تحقیق کے مطابق پپیتے کے پتوں میں ایسے اجزا پائے جاتے ہیں جو کہ‬
‫ڈینگی سے متاثرہ مریضوں کے جسم میں ڈینگی وائرس کی افزائش کو روک دیتے ہیں۔‬
‫یہ تحقیق جو کہ قائد اعظم یونیورسٹی اسالم ٓاباد‪ ،‬نیوکلیئر انسٹیٹیوٹ ٓاف فوڈ اینڈ ایگریکلچر‬
‫ترناب‪ ،‬پی سی ایس ٓائی ٓار‪ ،‬پشاور یونیورسٹی اور اور لیڈی ریڈنگ اسپتال پشاور کے‬
‫ماہرین نے کی اور نا صرف ایشین پیسفک جرنل ٓاف ٹراپیکل بائیو میڈیسن بلکہ کئی‬
‫امریکی جرائد میں بھی شائع ہوئی ہے۔‬
‫دعوی ہے کہ پپیتے کے پتوں میں ایسے کئی اجزا‬ ‫ٰ‬ ‫پاکستانی بائیو ٹیکنالوجی کے ماہرین کا‬
‫موجود ہیں جو کہ ڈینگی سے متاثرہ فرد کے جسم اور خون میں ڈینگی وائرس کی افزائش‬
‫کو روک دیتے ہیں جس کے نتیجے میں خون میں پلیٹلیٹس کی تعداد بڑھنا شروع ہوجاتی‬
‫ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ خیال غلط ہے کہ پپیتے کے پتوں کے رس میں موجود کئی جزو‬
‫پلیٹلیٹس کو بڑھاتا ہے بلکہ ان کے مطابق پپیتے کے پتوں کے جوس میں موجود اجزاء‬
‫ڈینگی وائرس کی تعداد کو بڑھنے سے روک دیتے ہیں اور انہیں اس حد تک کم کردیتے‬
‫ہیں کہ پلیٹلیٹس دوبارہ بڑھنا شروع ہو جاتے ہیں۔‬
‫اسی طریقے سے انٹرنیشنل جرنل ٓاف ہیلتھ سائنسز اینڈ ریسرچ کے ایک ٓارٹیکل کے‬
‫مطابق پپیتے کے پتوں میں ایسے کئی اجزاء شامل ہیں جن میں کارپین نامی کیمیکل بھی‬
‫شامل ہے جو کہ ڈینگی بخار کے خالف مریضوں میں قوت مدافعت پیدا کرتا ہے۔‬
‫تاہم ان تمام ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سلسلے میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے تاکہ پپیتے‬
‫کے پتوں میں پائے جانے والے اجزاء کو بہتر طور پر سمجھا جا سکے اور ان سے اس‬
‫مرض کی دوا بنانے کی کامیاب کوششیں کی جائیں۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1007993‬‬

‫بلڈ پریشر ’’ خاموش قاتل‘‘ قرار۔۔۔۔بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنا‬


‫نہایت ضروری کیوں؟‬

‫‪     04/11/2021‬‬

‫تحقیقات | ‪105‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک )ہائی بلڈ پریشر یا ہائپر ٹینشن سے مراد شریانوں کے خالف‬
‫بڑھتاخون کا دبأو ہےجو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ خون کی نالیوں کو نقصان پہنچاتا‬

‫ہےاور دل‪ ،‬گردوں کی بیماریوں کے ساتھ ساتھ اسٹروک کا سبب بھی بن سکتا ہے۔اس‬
‫مرض کی برسوں تک کوئی خاص عالمات ظاہر نہ ہونے کی وجہ سے طبی ماہرین بلڈ‬
‫پریشر کو ’’ خاموش ق ات ل ‘‘ قرار دیتے ہیں۔‬
‫مرکز برائے تحفظ امراض اور روک تھام (سینٹر فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریوینشن) کی‬
‫جانب سے جاری کی جانے والی ایک رپورٹ کے مطابق‪75،‬ملین امریکی ہائی بلڈپریشر‬
‫کے مرض میں مبتال ہیں۔نارمل بلڈ پریشر ‪80‬سے ‪120‬ملی میٹر مرکیوری ہونا چاہئے لیکن‬
‫ہائی بلڈ پریشر یا ہائیپر ٹینشن کے دوران اس سطح میں اضافہ ہوجاتا ہے۔یہاں کچھ ایسی‬
‫احتیاطی تدابیرکے بارے میں بات کرلیتے ہیں ‪ ،‬جن کو اپنا کر بلڈ پریشر کی سطح کو‬
‫معمول پر رکھا جاسکتاہے‬
‫۔بڑھتے وزن پر کنٹرول‪:‬وزن میں کمی النا بلڈ پریشر کو کنٹرول کرنے والے سب سے‬
‫مٔوثر طریقوں میں سے ایک طریقہ ہے۔عورتوں اور مردوں میں یہ تناسب کم یا زیادہ‬
‫ہوسکتا ہے‪ ،‬وزن میں کمی کے عالوہ ٓاپ کو اپنی ویسٹ الئن پر بھی نظر رکھنی ہوگی۔‬

‫مردوں کی ویسٹ الئن اگر ‪40‬انچ سے زیادہ ہوجائے تو یہ خطرے کی عالمت ہے جبکہ‬
‫خواتین میں اگر یہی ویسٹ الئن ‪35‬انچ سے زیادہ ہو تو ان کے لیے خطرہ بڑھنے لگتا ہے۔‬
‫باقاعدگی سے ورزش‪ Š:‬ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ ہفتے‬
‫بھر میں ‪150‬منٹ اور دن بھر میں ‪30‬منٹ جسمانی ورزش کے لیےمختص کردیں۔‬
‫باقاعدگی سے ورزش کرنے کا معمول ٓاپ کے بلڈ پریشر کی سطح میں ‪5‬سے‪ 8‬ملی میٹر‬
‫ٓاف مرکیوری ایچ جی کمی النے کا باعث بنےگی۔ایسی ایروبک ایکسرسائز جن کے‬

‫تحقیقات | ‪106‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ذریعے انسان بلڈ پریشر کی سطح کم کرسکتا ہے ان میں واکنگ ‪ ،‬جاگنگ‪،‬سائیکلنگ‪،‬‬
‫سوئمنگ اور ڈانسنگ شامل ہیں۔ اسی طرح ماہرین کے مطابق بلڈ پریشر کے مریضوں کے‬
‫لیے ہفتے میں دو دن اسٹرینتھ ٹریننگ بھی ضروری ہے جس کے لیے مریض کو معالج‬
‫سے رابطہ کرنا چاہیے ۔ متوازن غذا‪ :‬بلڈ پریشر کو کنٹرول میں رکھنے یا بڑھانے میں‬
‫غذأوں کا کردار بے حد اہم ہے۔ اس لیے ایسی غذائیں جن میں پوٹاشیم‪ ،‬میگنیشیم‪ ،‬فائبر کے‬
‫ساتھ سوڈیم کی کم مقدار ہو وہ بلڈ پریشر کم کرنے میں مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔‬

‫اناج (‪ ، )Whole grain‬پھل‪ ،‬سبزیوں‪ ،‬لو فیٹ ڈیری مصنوعات‪ ،‬سیچوریٹڈ فیٹ اور کم‬
‫کولیسٹرول پر مشتمل ڈائٹ پالن پر عمل کر کےانسان بلڈ پریشر کی سطح‪mm Hg 11‬‬
‫تک کم کرسکتا ہے۔درج ذیل نکات پر عمل کرکےٓاپ ایک صحت بخش ڈائٹ پالن کو اپنی‬
‫زندگی کا حصہ بناسکتے ہیں۔‪ -1‬سب سے پہلےٓاپ اپنے کھانے کی عادات پر روشنی ڈالیں‬
‫مثالً ٓاپ کیا کھاتے ہیں ؟ کتنا کھاتے ہیں؟ اور کب کھاتے ہیں؟ یہ سب مانیٹر کریں ۔‪-2‬‬
‫پوٹاشیم کی مقدار بلڈ پریشرپر اثر انداز ہوتی ہے ل ٰہذا اپنے معالج سے پوٹاشیم لیول‬
‫کےبارے میں بات کریں کہ ٓاپ کے لیے کیا بہترین ہے اور کیا نہیں۔‪ -3‬کوئی بھی غذا‬
‫خریدتے وقت اس کے اندر موجود غذائی اجزاء اور ان کی مقدار کا بغور مطالعہ کریں۔‪-4‬‬
‫بلڈ پریشر قابو میں رکھنے کے لیے بہترین غذائوں کا استعمال کریں۔ جن غذأوں کے‬
‫ذریعے انسان بلڈ پریشر قابو میں رکھ سکتا ہے ان میں ہرے پتوں والی سبزیاں‪ ،‬لہسن‪،‬‬
‫چقندر‪ ،‬گاجر اور پھلوں میںکیال‪ ،‬تربوز‪ ،‬اسٹرابیری اور بلیو بیریز جبکہ خشک میوہ جات‬
‫میں پستہ شامل ہیں۔ اس کے عالوہ زیتون کا تیل‪ ،‬بغیر باالئی واال دودھ اور دہی کا استعمال‬
‫بھی مفید ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202111-127649.html‬‬

‫میٹالیفی پودے میں موجود‪ ‬قدرتی اور طاقتور ۔۔ پاکستانیوں کیلئے بڑی‬


‫خبر‬

‫‪05/11/2021‬‬
‫‪     ‬‬
‫‪ ‬لندن(نیوز ڈیسک)ماہرین نے برسوں سے طبی طور پر استعمال ہونے والے ایک مشہور‬
‫پودے میں ایسے اجزا دریافت کئے ہیں جو اسے بہترین اور طاقتور پین کلر بناتے ہیں۔‬
‫یہاں تک کہ اس کی افادیت سوزش اور درد کم کرنے والی‬
‫بہترین دوا ٓائبیوپروفِن جیسی ہی ہے۔ میٹالیفی نامی یہ پودا ایک چھوٹے سے دورافتادہ ملک‬
‫سامووا میں عام پایا جاتا ہے اور سینکڑوں برس سے روایتی عالج میں استعمال ہوتا رہا‬
‫ہے۔ اس پودے کا حیاتیاتی نام سائکوٹریا انسیولیرم ہے جس کے پتے اب تک پیس کر‬

‫تحقیقات | ‪107‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫استعمال کیا جاتا رہا تھا۔ اس سے جلد کے انفیکشن‪ ،‬سوجن‪ ،‬بخار اور درد دور کیا جاتا ہے۔‬
‫سامووا کے ایک سائنسداں سیسیائی مولیمو ساماسونی نے اس پودے پر پی ایچ ڈی کیا ہے۔‬
‫انہوں ںے اپنے طویل مطالعے میں اس پر کئی انداز سے تحقیق کی ہے۔ اس میں سب سے‬
‫بڑی خاصیت یہ ہے کہ یہ جسم سے اضافی فوالد نکال باہر کرتا ہے۔ جب اس کے اجزا‬
‫زندہ خلیات پر ڈالے گئے تو اس سے امنیاتی خلیات مضبوط ہوتے ہیں اور سائٹوکائن نامی‬
‫مددگار کیمیکل کا افراز بڑھ جاتا ہے۔دس سالہ تحقیق کے بعد اس میں اندرونی جسمانی‬
‫سوزش کم کرنے والے اجزا پر سب سے زیادہ اتفاق ہوا ہے۔ لیکن سائنسدانوں کے مطابق‬
‫پودا دیگر امراض کے عالج میں بھی مدد دے سکتا ہے۔‬
‫کہتے ہیں کہ دماغ میں فوالد حد سے زائد جمع ہونے سے الزائیمر اور دیگر امراض پیدا‬
‫ہوتے ہیں اور یوں فوالد کھینچ کر یہ پودا الزائیمر جیسی ہولناک بیماری میں بھی مفید ثابت‬
‫ہوسکتا ہے۔اب ایک اور سائنسداں ڈاکٹر اینڈریو مونکاسکی نے پودے میں شامل کمپأونڈ کا‬
‫امراض قبل سے‬
‫ِ‬ ‫جینیاتی مشاہدہ کیا ہے۔ معلوم ہوا ہے کہ یہ مرکب موٹاپے‪ ،‬ذیابیطس اور‬
‫وابستہ جین سے عمل کرتا ہے۔ اسی طرح دو سرگرم حیاتیاتی اجزا بھی ہیں جو سوزش کم‬
‫کرنے اور دماغ کی حفاظت کرسکتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ اس پر مزید تحقیق کی‬
‫ضرورت ہے۔یہ تحقیق پی این اے ایس جرنل میں شائع ہوئی ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202111-127700.html‬‬

‫ہیپاٹائٹس‪:‬ہر کچھ سیکنڈ میں ایک شخص کی موت ۔۔ ‪ ،‬بری خبر۔۔‬

‫‪05/11/2021‬‬
‫‪   ‬‬
‫ہے ویسے ہی خطرناک بیماریاں اور وائرسز بھی جنم لے رہے ہیں۔ ایک ایسی ہی بیماری‬
‫کا نام ہیپاٹائٹس ہے۔پاکستان‬
‫سمیت دنیا بھر میں ٓاج ہیپاٹائٹس سے بچأو اور اس کے خالف ٓاگہی کا عالمی دن منایا جا‬
‫رہا ہے۔ ہیپا ٹائٹس ایک مہلک مرض ہے اور دنیا بھر میں اس کے مریض موجود ہیں جو‬
‫اس بیماری کے خالف جنگ لڑ رہے ہیں۔بین االقوامی اعداد و شمار کے مطابق دنیا بھر‬
‫میں ہر تیس سیکنڈز میں مرنے والے لوگ ہیپاٹائٹس کے باعث موت کے منہ میں چلے‬
‫جاتے ہیں۔عالمی ادارہ صحت کے مطابق دنیا بھر میں لوگوں کو موت کے منہ میں‬
‫پہنچانے والی‪ ،‬ٹی بی کے بعد ہیپاٹائٹس دوسری بڑی اور خطرناک بیماری ہے۔ دنیا بھر‬
‫میں ‪ 35‬کروڑ سے زائد افراد اس مرض کا شکار ہیں اور اور ان میں سے کئی زیادہ تو‬
‫عالج سے ہی محروم بتائے گئے ہیں ۔اقوام متحدہ کا کہا ہے کہ دنیا بھر میں ساالنہ ‪ 4‬الکھ‬
‫کے قریب افراد اس مرض کے باعث موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان ہیپاٹائٹس کے مریضوں کا شکار‬
‫دوسرا بڑا ملک ہے‪ ،‬صرف پاکستان میں ہر سال ڈیڑھ الکھ سے زائد افراد ہیپاٹائٹس کا‬

‫تحقیقات | ‪108‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫شکار ہوکر انتقال کر جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس مرض کی صرف ‪ 2‬اقسام بی اور سی کے‬
‫ہی ڈیڑھ کروڑ مریض موجود ہیں۔ڈاکٹرز کے مطابق ہیپاٹائٹس کے مرض سے بچنے کے‬
‫لیے احتیاط ہی بہترین طریقہ ہے جس سے ٓاپ خود کو اس موذی مرض سے بچا سکتے‬

‫ہیں‪ ،‬استعمال شدہ سرنجوں کا دوبارہ استعمال‪ ،‬گندا پانی‪ ،‬غیر معیاری اور ناقص غذا‬
‫ہیپاٹائٹس کا سبب بننے والی بڑی وجوہات ہیں۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202111-127762.html‬‬

‫سوئی کے بغیر ویکسین لگانے واال روبوٹ‬

‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪ ‬ہفتہ‪ 6  ‬نومبر‪2021  ‬‬

‫واٹرلویونیورسٹی‪ Š‬کی اسٹارٹ اپ کمپنی نے کسی سوئی کے بغیر ویکسین لگانے واال ‪100‬‬
‫فیصد خودکار روبوٹ بنالیا ہے۔ فوٹو‪ :‬واٹرلویونیورسٹی‬
‫ٹورنٹو‪ ،‬کینیڈا‪ :‬سوئی کے خوف سے ویکسین سے‬
‫بھاگنے والے لوگ اب مطمئین ہوجائیں کہ ایک روبوٹ‬
‫انہیں سوئی کی تکلیف کے بغیر ویکسین لگاسکتا ہے۔‬
‫اس روبوٹ کا نام کوبی رکھا گیا ہے جسے یونیورسٹی‬
‫ٓاف واٹرلو کے سائنسدانوں نے تیار کیا ہے۔ اسے کووڈ‬
‫‪ 19‬کے تناظر میں بنایا گیا ہے کیونکہ ویکسی لگوانے‬

‫تحقیقات | ‪109‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کا عمل جاری ہے اور مزید کچھ عرصے جاری رہے گا۔ کوبی روبوٹ اسے ٓاسان بنادیتا‬
‫ہے اور بہت تیزی سے لوگوں کو ویکسین لگاتا ہے۔‬

‫یونیورسٹی میں واقع اسٹارٹ اپ ’کوبایونکس‘ نے اسے بنایا ہے جسے کئی افراد‬
‫پرکامیابی سے ٓازمایا گیا ہے۔ اس کا اصول بہت سادہ ہے پہلے سے رجسٹرشدہ افراد کسی‬
‫ایسے شفاخانے جاتے ہیں جہاں یہ روبوٹ موجود ہوتا ہے۔ ویکسین لگوانے کے لیے‬
‫روبوٹ کیمرے کے تھری ڈی سینسر مریض کی شناختی عالمت کو پڑھتے ہیں۔‬
‫اس تصدیق کے بعد روبوٹ بازو اندر بھری ویکسین سے ایک خوراک کھینچتا ہے۔ پھر وہ‬
‫مریض کے بازو کو دیکھ کر تھری ڈی نقشہ بناتے ہیں۔ اس دوران مصنوعی ذہانت ( اے‬
‫ٓائی) واال سافٹ ویئر ویکسین لگانے کی مناسب ترین جگہ کی شناخت کرتا ہے۔ اس کے‬
‫بعد روبوٹ بازو انسانی جلد سے مس ہوتا ہے اور بال سے بھی باریک سوراخ کے ذریعے‬
‫ویکسین کو ایک پریشر سے اندر داخل کردیتا ہے۔ لیکن اس عمل کی مزید تفصیالت بیان‬
‫نہیں کی گئی ہیں۔ شاید وہ کوئی کاروباری راز ہوسکتی ہے۔‬
‫کوبایونکس کمپنی کے شریک سربراہ ٹِم لیسویل نے کہا ہے کہ اگلے دوبرس میں ویکسین‬
‫روبوٹ مارکیٹ میں عام دستیاب ہوگا ۔ یہ روبوٹ بہت تیزی سے انسانوں کی بڑی تعداد کو‬
‫ویکسین لگا سکے گا۔ دوسری جانب دورافتادہ عالقوں میں اپنی خدمات انجام دے سکے گا‬
‫جہاں مناسب طبی عملے کا شدید فقدان ہوتا ہے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2243901/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪110‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کووڈ ‪ 19‬کے عالج کیلیے فائزر کی نئی دوا ‪ 89‬فیصد مؤثر‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫‪06 Nov 2021‬‬

‫لووڈ کی یہ طبّی ٓازمائشیں یورپ‪ ،‬شمالی و جنوبی امریکا‪ ،‬افریقہ اور ایشیا میں کی‬
‫پیکس ِ‬
‫)گئیں۔‬
‫واشنگٹن‪’ :‬مرک‘ کے بعد فائزر نے بھی کو ِوڈ ‪ 19‬کا عالج کرنے والی گولی پیش کردی‬
‫ہے جو اس بیماری کی شدت قابو میں رکھتے ہوئے اسپتال میں داخلے اور موت کے‬
‫امکان کو ‪ 89‬فیصد کم کرتی ہے۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬کی نئی دوا‪ ،‬جسے‬ ‫گزشتہ روز فائزر کی ایک‪ ‬پریس ریلیز‪ ‬میں بتایا گیا ہے کہ ِ‬
‫لووڈ‘‘ کا نام دیا گیا ہے‪ ،‬طبّی ٓازمائشوں میں ان کی توقعات سے زیادہ مؤثر اور‬
‫’’پیکس ِ‬
‫کامیاب ثابت ہوئی۔‬
‫لووڈ کی یہ‪ ‬طبّی ٓازمائشیں‪ ‬یورپ‪ ،‬شمالی و جنوبی امریکا‪ ،‬افریقہ اور ایشیا میں کی‬
‫پیکس ِ‬
‫کووڈ ‪ 19‬کے تین ہزار مصدقہ مریض بطور رضاکار بھرتی کرنے کا‬ ‫گئیں جن کےلیے ِ‬
‫منصوبہ تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪111‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تاہم ‪ 2100‬رضاکاروں سے غیرمعمولی حد تک امید افزا نتائج پر مزید بھرتیاں روک دی‬
‫گئیں۔‬
‫طبّی ٓازمائشوں کے مروجہ طریقے ’’ڈبل بالئنڈ‘‘ پر عمل کرتے ہوئے‪ ،‬نصف رضاکاروں‬
‫لووڈ‘‘ کی ایک ایک‬
‫کو پانچ دن تک روزانہ بارہ بارہ گھنٹے کے وقفے سے ’’پیکس ِ‬
‫خوراک (گولی یا کیپسول کی شکل میں) کھالئی گئی۔‬
‫غیرمعمولی طور پر کامیاب ٓازمائشوں کے بعد فائزر کا کہنا ہے کہ اب اس دوا کو ہنگامی‬
‫حاالت کے تحت ایف ڈی اے سے جلد از جلد منظور کروانے (ایمرجنسی یوز اپروول) کی‬
‫تیاری جاری ہے‪ ،‬جس کی درخواست ٓائندہ چند دنوں میں دے دی جائے گی‬
‫‪https://www.express.pk/story/2244059/9812/‬‬

‫کیمیکل جو موت کا پیغام بن رہے ہیں‬

‫‪  ‬سید عاصم محمود‬


‫اتوار‪ 31  ‬اکتوبر‪2021  ‬‬

‫روزمرہ استعمال کی ان گنت اشیا میں پائے جانے والے صحت دشمن کیمیائی مادوں کا‬
‫معلومات افروز احوال‬

‫تحقیقات | ‪112‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫امریکی شہر نیویارک میں واقع)‪(NYU Langone Health‬این وائی یو لینگون ہیلتھ‬
‫جدید طبی تحقیق کا مشہور ادارہ ہے۔‬
‫ادارے میں پروفیسر لیونارڈ ٹرسنڈین امراض اطفال‪ ،‬ماحولیاتی اور انسانی صحت کے ماہر‬
‫ہیں۔پچھلے دنوں ان کی زیرنگرانی‪ Š‬ہوئی ایک تحقیق نے امریکا میں خاصی ہلچل مچا دی۔‬
‫نامی مصنوعی کیمیکل ہر سال ایک)‪ ( phthalates‬اس رپورٹ نے انکشاف کیا کہ تھلیٹس‬
‫الکھ سے زائد امریکیوں کی جانیں لے لیتے ہیں۔جبکہ الکھوں بچوں اور بڑوں کو بیمار کر‬
‫ڈالتے ہیں۔اس چشم کشا طبی تحقیق کے بعد امریکا اور یورپ میں عوام اپنی حکومتوں‬
‫سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ تھلیٹس کے استعمال پہ پابندی عائد کر دی جائے۔‬
‫انسان ساختہ کیمیائی مادے‬
‫پچھلے پچاس ساٹھ برس کے دوران دنیا بھر میں رنگ برنگ بیماریاں وجود میں ٓا چکیں۔‬
‫ماہرین طب کی رو سے ان کے پیدا ہونے کی مختلف وجوہ ہیں۔مثال کے طور پہ ضرورت‬
‫سے زیادہ کھانا‪ ،‬حرکت میں بہت کمی ٓا جانا‪ ،‬غذائیت بخش کھانے نہ کھانا اور نیند پوری‬
‫نہ لینا۔اب طبی تحقیق سے انکشاف ہو رہا ہے کہ انسان ساختہ کیمیکل کا بھی امراض جنم‬
‫دینے میں اہم کردار ہے۔پچھلے پچاس سال سے انسان کی روزمرہ زندگی میں کئی اقسام‬
‫کے مصنوعی کیمیکل داخل ہو چکے۔یہ عام اشیا سے لے کر غذا میں شامل ہیں۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے مطابق اس وقت امراض قلب دنیا میں سب سے زیادہ انسانوں کی‬
‫جان لیتے ہیں۔اس کے بعد فالج‪ ،‬امراض تنفس‪ ،‬پیدایشی بیماریوں اور دیگر امراض مثالً‬
‫کینسر‪ ،‬ذیابیطس ‪،‬موٹاپے وغیرہ کا نمبر ٓاتا ہے۔اب جدید طبی سائنس انکشاف کر رہی ہے‬
‫کہ یہ سبھی بیماریاں جنم دینے میں مصنوعی کیمیکل بھی کچھ نہ کچھ کردار ادا کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫وجہ یہ ہے کہ خاص طور پہ جب انسانی جسم میں مصنوعی کیمیکل بڑی تعداد میں جمع‬
‫ہو جائیں تو وہ ہمارے سبھی نظاموں میں گڑبڑ پیدا کر دیتے ہیں۔گویا جب انسان کے بدن‬
‫میں مسلسل یہ مصنوعی کیمیکل داخل‬
‫ہوتے رہیں تو وہ ٓاخر کار کسی نہ کسی بیماری میں مبتال ہو جاتا ہے۔جیسے انسان مسلسل‬
‫سگریٹ پیتا رہے تو اس کے پھیپھڑے گل سڑ جاتے ہیں۔اسی طرح کیمیکل انسانی جسم‬
‫میں جمع ہوتے رہیں تو انسان کا کوئی نہ‬
‫کوئی قدرتی نظام خراب ہو جاتا ہے۔یہی خرابی پھر نیا مرض پیدا کر ڈالتی ہے۔‬
‫بنیاد خام تیل‬
‫انسان ساختہ مصنوعی کیمیکلوں‪ Š‬میں ایک اہم گروہ ’’تھیلٹس‘‘ کہالتا ہے۔یہ کیمیکل تھالک‬
‫)‪( naphthalene‬سے بنتے ہیں۔تھالک تیزاب بذات خود نفتھاتھلین)‪(phthalic acid‬تیزاب‬
‫نامیاتی مرکبات سے بنایا جاتا ہے۔اور خود یہ دونوں )‪( ortho-xylene‬یا ٓارتھوزیلین‬
‫مرکب خام تیل (ٓائل) سے بنتے ہیں۔گویا تھلیٹس کیمیکلز کی بنیاد خام تیل ہے۔ چونکہ خام‬
‫تیل انسانی صحت کے لیے خطرناک ہے‪ ،‬اسی لیے اس سے بنی اشیا بھی انسانی صحت پر‬
‫مضر اثرات ضرور مرتب کرتی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪113‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫استعمال عام ہے۔ )‪( plasticizers‬عالمی سطح پہ صنعتوں میں تھلیٹس کا بطور پالسٹائزر‬
‫مطلب یہ کہ یہ کیمیکل پالسٹکس سے بنائی گئی اشیا میں شامل کیے جاتے ہیں۔مقصد یہ‬
‫ہوتا ہے کہ وہ اشیا لچک دار‪،‬صاف شفاف اور مضبوط ہو سکیں۔تھلیٹس پی وی سی‬
‫کو نرم کرنے کے لیے بھی استعمال ہوتے ہیں۔ پی وی سی) ‪( polyvinyl chloride‬‬
‫پلمبنگ‪،‬الیکٹریکل‪ Š‬انسولیشن‪،‬چمڑے کی مصنوعات تیار کرنے ‪،‬فلورنگ اور کئی دیگر‬
‫چیزیں بنانے میں مستعمل ہے۔‬
‫دنیا بھر میں انسان روزانہ ایسی کئی اشیا استعمال کرتے ہیں جن کی تیاری میں تھلیٹس‬
‫‪‘‘ (Everywhere‬برتی جاتی ہیں۔اسی لیے انھیں ’’ہر جگہ ملنے والے کیمیکل‬
‫کا خطاب مل چکا۔مگر ان کیمیائی مادوں کی خرابی یہ ہے کہ ٓاہستہ ٓاہستہ )‪chemicals‬‬
‫اپنے ذرات خارج کرتے رہتے ہیں۔یہی ذرات اگر انسانی جسم میں مجتمع ہو جائیں تو‬
‫مختلف طبی خلل اور امراض پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔‬
‫پاکستان کی نسبت امریکا میں قوانین پہ سختی سے عمل درٓامد ہوتا ہے۔وہاں تمام کارخانے‬
‫اور صنعتیں قانون کے مطابق چلتی ہیں۔پاکستان میں قوانین پہ عموما ً عمل نہیں ہوتا۔اور‬
‫کسی بھی طرح پیسا کمانے کو انسانی بھالئی پہ ترجیح دی جاتی ہے۔اس باعث پاکستان میں‬
‫مختلف اشیا کی تیاری میں تھیلٹس عام استعمال ہوتے ہیں۔چناں چہ یہ مصنوعی کیمیکل ہر‬
‫سال الکھوں ہم وطنوں کی جانیں لے رہے ہیں۔مرنے والوں اور ان کے لواحقین کو عام‬
‫طور پر پتا ہی نہیں چل پاتا کہ تھلیٹس مقتول کی موت کے ذمے دار ہیں۔‬
‫صنعتی شعبے میں مستعمل‬
‫تھلیٹس کے گروہ میں پچیس چھبیس کیمیکل شامل ہیں۔بعض بکثرت استعمال ہوتے ہیں۔‬
‫دیگر کا استعمال کم ہے۔ہر کیمکل شدت و تیزی میں مختلف ہے۔چونکہ ان کیمیکلوں کی‬
‫تعداد کافی زیادہ ہے‪ ،‬اس لیے تقریبا ً ہر صنعتی شعبے میں مستعمل ہیں۔مثالً دوائیں تیار‬
‫کرتے ہوئے ان کے اوپر جو کوٹنگ کی جاتی ہے‪ ،‬اس میں تھلیٹس استعمال ہوتے ہیں۔‬
‫دنیا بھر میں کروڑوں لوگ غذائیت بخش ادویہ کھاتے ہیں۔ان میں تھیلٹس گاڑھا پن کنٹرول‬
‫کی تیاری میں انھیں استعمال کیا جاتا ہے۔)‪(Gel‬کرنے کی خاطر شامل کیے جاتے ہیں۔جیل‬
‫گوند‪،‬کیڑے مار ادویہ‪،‬عمارتیں بنانے کا میٹریل‪،‬میک اپ اشیا(یعنی نیل پالش‪ ،‬موائسچر‪،‬‬
‫ہئیر اسپرے‪ ،‬پرفیوم وغیرہ)‪ ،‬صابن اور کپڑے دھونے کا پائوڈر‪ ،‬پیکنگ میں استعمال‬
‫ہونے واال میٹریل‪،‬بچوں کے کھلونے‪،‬دیواروں پہ ہونے واال پینٹ‪ ،‬سیاہی (انک)‪ ،‬ڈبہ بند‬
‫غذائیں‪،‬ملبوسات‪ ،‬ٹائلیں‪ ،‬غذائیں لپیٹنے والی فلم… ان تمام مصنوعات کی تیاری میں‬
‫تھیلٹس مصنوعی کیمیکل مستعمل ہیں۔یہ الیکٹرونکس اشیا اور میڈیکل ٓاالت میں بھی ملتے‬
‫ہیں۔‬
‫ایک رپورٹ کی رو سے ہر سال دنیا میں‪75‬الکھ ٹن تھیلٹس تیار کیے جاتے ہیں۔ پالسٹک‬
‫سے بنی اشیا میں ‪10‬سے ‪60‬فیصد حصہ انہی کیمیکلز کا ہوتا ہے۔بنیادی مسئلہ یہی ہے کہ‬
‫ان پالسٹک اشیا سے تھلیٹس کے ذرات رفتہ رفتہ الگ ہو کر ماحول یعنی مٹی‪،‬ہوا اور پانی‬
‫میں شامل ہوتے رہتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪114‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ کیمیکل پھر ناک‪،‬کان اور منہ کے ذریعے انسانی جسم میں داخل ہو سکتے ہیں۔مثالً‬
‫سانس لینے سے یا غذا میں شامل ہو کر۔بچے اکثر اشیا چھو کر منہ میں انگلیاں ڈالتے ہیں۔‬
‫اس لیے ان کے بدن میں بکثرت تھیلٹس جمع ہو سکتے ہیں۔یہی وجہ ہے‪،‬یہ کیمیکل سب‬
‫)‪(immune system‬سے زیادہ بچوں کے لیے خطرناک ہیں۔ویسے بھی ان کا نظام مامون‬
‫سب سے کمزور ہوتا ہے اور وہ سبھی مصنوعی کیمیکلوں کے مضر اثرات کا مقابلہ نہیں‬
‫کر پاتا۔اس باعث وہ جلد بیمار ہو جاتے ہیں۔‬
‫پروفیسر لیونارڈ ٹرسنڈین نے اپنی تازہ ترین تحقیق سے یہ تشویش ناک نتیجہ نکاال ہے کہ‬
‫جس انسان کے جسم میں تھیلٹس کی مقدار زیادہ ہو جائے‪ ،‬وہ کسی نہ کسی بیماری میں‬
‫مبتال ہو کر جلد مر سکتا ہے۔ٓاج ہم پاکستانی معاشرے میں بھی دیکھ رہے کہ ادھیڑ عمر تو‬
‫ایک طرف‪ ،‬نوجوان بھی اچھے بھلے صحت مند ہوتے ہیں کہ اچانک بیمار پڑ کے چل‬
‫بستے ہیں۔ ان کی موت سبھی کو ہ ّکا ب ّکا کر دیتی ہے۔ایسی اچانک اموات جنم دینے میں‬
‫تھیلٹس کا کردار ہو سکتا ہے۔‬
‫پچھلے دس برس کے دوران دنیا بھر کی یونیورسٹیوں اور طبی مراکز سے منسلک ماہرین‬
‫نے تحقیق کی ہے کہ تھیلٹس انسانی جسم کے کن کن نظاموں اور اعضا پہ مضر اثرات‬
‫ڈالتے ہیں۔ان تحقیقات کے نتائج درج ذیل‬
‫ہیں۔‬
‫چربی کا کردار‬
‫اور کولیسٹرول)‪(fat‬جدید تحقیق سے افشا ہو چکا کہ انسان کے جسم میں چربی یا چکنائی‬
‫کا جمع ہونا انتہائی نقصان دہ ہے۔اسی خرابی سے دل کی بیماریاں‪،‬ہائی بلڈ پریشر اور‬
‫ذیابیطس جیسے موذی امراض جنم لیتے ہیں۔‬
‫ماہرین نے تجربات و تحقیق سے جانا ہے کہ تھیلٹس میں شامل کئی کیمیکل انسانی بدن میں‬
‫چربی اور کولیسٹرول جذب کرنے کا نظام خراب کر دیتے ہیں۔اس خرابی کے بعد ہمارا‬
‫جسم زائد چربی اور کولیسٹرول سے چھٹکارا حاصل نہیں کر پاتا۔زیادہ چربی پھر انسان کو‬
‫موت کے منہ میں لے جانے والی بیماریوں میں گرفتار کرا دیتی ہے۔‬
‫تحقیق سے پتا چال ہے کہ جب انسانی جسم میں تھیلٹس کی مقدار زیادہ ہو جائے تو وہ‬
‫ہمارے جسم میں چربی ذخیرہ کرانے والے نظام پہ قبضہ کر لیتے ہیں۔ وہ پھر اسے ہدایت‬
‫دیتے ہیں کہ جسم میں چربی جمع کرتے‬
‫رہو… انسان چاہے جتنی مرضی حرکت کرے یا ورزش کرتا رہے۔یہی وجہ ہے‪ ،‬بہت‬
‫سے مردوزن دن میں مسلسل حرکت کرتے رہتے ہیں پھر بھی موٹے دکھائی دیتے ہیں۔‬
‫ایسے مردوزن میں دراصل چربی ذخیرہ کرنے واال نظام خراب ہو جاتا ہے۔ اور دور جدید‬
‫میں اس خرابی کے ذمے دار تھیلٹس ہو سکتے ہیں۔‬
‫یاد رہے‪ ،‬شریانوں اور وریدوں میں جب چربی جم جائے تو یہ خون کا بہائو متاثر کرتی‬
‫ہے۔اسی خرابی سے پھر دل اور شریانوں کی طبی خرابیاں جنم لیتی ہیں۔جب دل میں خون‬
‫پہنچانے والی شریانوں میں چربی جمع‬

‫تحقیقات | ‪115‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہو جائے اور کبھی خون کے بہائو میں رکاوٹ ٓائے تبھی ہارٹ اٹیک انسان کو ٓا دبوچتا ہے۔‬
‫بعض اوقات یہ کیفیت جان لیوا ثابت ہوتی ہے۔‬
‫ذیابیطس‬
‫انسان جب کھانا کھائے تو معدے کے تیزاب غذا کو شکر(شوگر)میں‪ Š‬بدل دیتے ہیں۔یہ شکر‬
‫پھر خون میں شامل ہونے لگتی ہے۔تب ہمارا جسم ایک ہارمون‪ ،‬انسولین خارج کرتا ہے۔‬
‫اس ہارمون کے حکم پہ جسمانی خلیے شکر استعمال کرنے لگتے ہیں تاکہ توانائی پیدا کر‬
‫سکیں۔‬
‫ذیابیطس مرض میں ہمارا بدن مطلوبہ انسولین نہیں بنا پاتا یا پھر انسولین اپنی ذمے داریاں‬
‫ادا نہیں کر پاتی۔ چناں چہ شکر خون میں بدستور موجود رہتی ہے۔اگر یہ کیفیت مسلسل‬
‫رہے تو انسان کئی بیماریوں کا نشانہ بن جاتا ہے جیسے امراض قلب‪،‬گردے کی بیماریاں‬
‫اور بینائی کا متاثر ہونا۔‬
‫تحقیق سے پتا چال ہے کہ انسانی جسم میں تھلیٹس کی کثرت ہو تو وہ پتے سے انسولین کا‬
‫اخراج متاثر کرنے لگتے ہیں۔تب مصنوعی کیمیکلز کی بدولت پتہ کم انسولین خارج کرتا‬
‫ہے۔ انسولین کی مقدار کم ہونے سے خون میں شکر موجود رہتی ہے اور انسان ذیابیطس‬
‫اور دیگر بیماریوں میں مبتال ہو جاتا ہے۔چونکہ بڑی عمر کے مردوزن کے بدن میں‬
‫تھلیٹس زیادہ ہوتے ہیں لہذا وہی ذیابیطس کا زیادہ شکار بھی بنتے ہیں۔‬
‫ہائی بلڈ پریشر‬
‫دل کی نالیوں اور شریانوں میں چربی جمع ہونے سے ہی ہائی بلڈ پریشر یا ہائپرٹینشن کے‬
‫طبی خلل بھی انسان کو چمٹ جاتے ہیں۔اس کیفیت میں دل کی نالیاں سکڑ جاتی ہیں۔جبکہ‬
‫دل معمول کے مطابق خون پمپ کرتا رہتا ہے۔چونکہ خون کو سکڑی نالیوں سے گذرنے‬
‫کا راستہ کم ملتا ہے لہذا نالیوں کی دیواروں پہ دبائو بڑھ جاتا ہے۔یہ کیفیت پھر انسان میں‬
‫درد وسوزش کی کیفیات پیدا کرتی اور ہائی بلڈ پریشر کہالتی ہے۔‬
‫جب ہائی بلڈ پریشر مسلسل رہے تو انسان نہ صرف دل کی بیماریوں میں مبتال ہوتا بلکہ‬
‫اس پہ فالج بھی گر سکتا ہے۔اس کیفیت میں مبتال مردوزن سانس لینے میں دشواری‬
‫محسوس کرتے ہیں۔ان کے سر میں درد رہنے لگتا ہے۔اکثر نکسیر پھوٹ جاتی ہے۔چونکہ‬
‫انسانی جسم میں چربی اور شکر کی مقدار بڑھانے میں تھیلٹس کا کردار عیاں ہو چکا لہذا‬
‫ہائی بلڈ پریشر بھی یہی کیمکل پیدا کر سکتے ہیں۔‬
‫نظام مامون‬
‫کورونا وائرس پھیپھڑے خراب کر کے سانس کا مرض پیدا کرتا ہے۔امراض تنفس دنیا میں‬
‫انسان کو قبر میں اتارنے والی چوتھی بڑی بیماریاں ہیں۔یہ امراض بنیادی طور پر کمزور‬
‫مامون نظام کی وجہ سے جنم لیتی ہیں۔‬
‫ہمارے بدن میں مختلف اقسام کے انسان دوست خلیے اور سالمات ہمیں خطرناک‬
‫جراثیم‪،‬وائرسوں اور دیگر مضر صحت خرد نامیات سے بچاتے ہیں۔ان خلیوں و سالمات کا‬
‫نیٹ ورک مامون نظام کہالتا ہے۔تحقیق سے پتا چال ہے کہ انسانی جسم میں اگر تھیلٹس اور‬

‫تحقیقات | ‪116‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دیگر کیمیکل کی کثرت ہو جائے تو وہ مامون نظام سے منسلک خلیے اور سالمے مار‬
‫ڈالتے ہیں۔چناں چہ مامون نظام کمزور ہو کر جراثیم اور وائرسوں کا مقابلہ نہیں کر پاتا۔‬
‫گویا پچھلے پچاس برس سے کیمکلوں کے ماحول میں زندگی گذارنے کی وجہ سے انسان‬
‫کا مامون نظام مسلسل کمزور ہو رہا ہے۔یہی وجہ ہے‪ ،‬جب کورونا وائرس امریکا سے لے‬
‫کر چین تک انسانوں میں پھیل گیا تو اسے کہیں مزاحمت کا سامنا نہیں کرنا پڑا۔اس نے ہر‬
‫جگہ خوفناک تباہی مچا دی۔گویا تھیلٹس اور دوسرے کیمیکلز نے وائرس کو کھل کھیلنے‬
‫کا موقع عطا کر دیا۔‬
‫افرازی نظام‬
‫ہمارے جسم میں مختلف غدود اور اعضا ہارمون خارج کرتے ہیں۔یہ پورا نظام ’’افراز‬
‫اور غدہ )‪(thyroid‬کہالتا ہے۔غدہ درقیہ)‪‘‘(Endocrine system‬سسٹم‬
‫اس کے اہم رکن ہیں۔ان کے عالوہ ہماری ہڈیاں‪ ،‬گردے‪،‬دل ‪،‬جگر اور)‪(adrenals‬برگردہ‬
‫اعضائے تولید بھی متفرق ہارمون خارج کرتے ہیں۔پیدائش سے لے کر موت تک یہ‬
‫ہارمون انسان کی نشوونما کرتے اور ہمیں صحت مند رکھنے میں بنیادی کردار ادا کرتے‬
‫ہیں۔‬
‫افرازی نظام میں کوئی گڑبڑ ہو جائے تو انسان کی صحت متاثر ہوتی ہے۔کئی جدید طبی‬
‫تحقیقات سے منکشف ہو چکا کہ تھیلٹس اس نظام کو خاص طور پہ نشانہ بناتے ہیں۔وہ‬
‫خصوصا ً تولیدی اعضا سے ہارمونوں کا اخراج کم یا زیادہ کر دیتے ہیں جو جسم میں‬
‫متفرق اہم فعل انجام دیتے ہیں۔اس باعث نشوونما پاتے لڑکے لڑکیوں کی بڑھوتری پہ منفی‬
‫اثرات مرتب ہوتے ہیں۔وہ درست طریقے سے بالغ نہیں ہو پاتے اور ان میں کوئی نہ کوئی‬
‫کمی رہ جاتی ہے۔حتی کہ بعض بچوں میں تولیدی اعضا صحیح طریقے سے نہیں بن پاتے۔‬
‫جبکہ تولیدی ہارمونوں کا توازن بگڑنے کی وجہ سے بالغ مرد وخواتین میں جنسی رویّہ‬
‫بدل جاتا ہے۔ان میں خواہش بہت کم رہ جاتی ہے۔‬
‫مختلف تجربات اور تحقیق سے یہ بھی افشا ہوا کہ تھیلٹس کی وجہ سے دنیا بھر کے‬
‫مردوں میں بانجھ پن بڑھ رہا ہے۔یہ کیمیکل ان میں تولیدی مادے کی افزائش کم کر دیتے‬
‫ہیں۔نیز اس کی کوالٹی بھی خراب کر ڈالتے ہیں۔اسی باعث تھیلٹس سے زیادہ متاثر مرد‬
‫بچے پیدا کرنے کے قابل نہیں رہتے۔مردانہ و نسوانی تولیدی اعضا پہ تھیلٹس اور دیگر‬
‫انسان ساختہ کیمیائی مادوں کے پورے اثرات جاننے کی خاطر دنیا بھر میں تحقیقات جاری‬
‫ہیں۔‬
‫بعض تجربات سے افشا ہوا ہے کہ یہ کیمیکل خواتین کے تولیدی نظام پر بھی منفی اثر پیدا‬
‫کرتے ہیں۔مثال کے طور پہ پچھلے چند عشروں سے دنیا بھی میں لڑکیاں جلد جوان ہونے‬
‫لگی ہیں۔جدید تحقیق سے افشا ہوا ہے‬
‫کہ گرم غذا کی فراوانی اور ٓازادانہ ماحول عام ہونے کے عالوہ تھیلٹس جیسے انسان‬
‫ساختہ کیمیائی مادے کے بہت زیادہ استعمال ہونے سے بھی اس تبدیلی نے جنم لیا۔گویا یہ‬
‫کیمیکل مرد وعورتوں میں تولیدی ہی نہیں بلوغت پانے کا نظام بھی خراب کر رہے ہیں۔‬
‫یہی وجہ ہے‪ ،‬اب ماضی کی نسبت جلد بچے بچیاں نوجوان ہو جاتے ہیں۔یاد رہے‪ ،‬بچپن‬
‫تحقیقات | ‪117‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اور لڑکپن میں لڑکے لڑکیوں میں تولیدی ہارمونوں کی افزائش بہت کم ہوتی ہے۔مگر‬
‫تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ دور جدید کی قباحتوں کے باعث ان میں ہارمونوں کی‬
‫افزائش بڑھ رہی ہے۔ ابھی تک اس تبدیلی کے منفی عواقب پوری طرح سامنے نہیں ٓائے۔‬
‫تولیدی بیماریاں‬
‫یہ واضح رہے کہ انسان میں افرازی نظام اور اس سے منسلک تولیدی سسٹم بہت حساس‬
‫نوعیت کے ہیں۔یہی وجہ ہے‪ ،‬مصنوعی کیمیائی مادوں کی وجہ سے ان میں تھوڑی سی‬
‫بھی تبدیلی ٓا جائے تو صحت وتندرستی کا قدرتی نظام بگڑ جاتا ہے۔ اسی خرابی کی وجہ‬
‫سے دنیا بھر میں بستے مردوں اور خواتین کے افرازی و تولیدی نظام میں ایسی خرابیاں‬
‫جنم لے رہی ہیں جو پہلے زمانے میں عنقا تھیں۔انھیں پیدا کرنے میں مصنوعی کیمیکلز کا‬
‫بھی بڑا ہاتھ ہے۔‬
‫لڑکیوں میں جنم لینے )‪(Polycystic Ovary Syndrome‬پولی سسٹک اووری سائنڈروم‬
‫والے ایک طبی خلل ہے۔یہ خلل چمٹ جانے سے لڑکی میں تولیدی ہارمونوں کا فطری‬
‫نظام گڑبڑا جاتا ہے اور وہ مرادانہ ہارمون‪ ،‬اینڈروجن زیادہ بنانے لگتا ہے۔اس خرابی کے‬
‫باعث لڑکی کے چہرے پہ بال نکل ٓاتے ہیں۔ماہورای باقاعدہ نہیں رہتی۔اور‪ Š‬شادی کے بعد‬
‫وہ حاملہ نہیں ہو پاتی۔تحقیق سے پتا چال ہے کہ تھیلٹس کی وجہ سے لڑکیوں میں یہ سنگین‬
‫طبی خلل جنم لینے کی شرح بڑھ رہی ہے۔انسان کے ماحول میں پائے جانے والے دیگر‬
‫مصنوعی کیمیائی مادے بھی یہ خلل پیدا کرنے کے ذمے دار ہیں۔‬
‫خواتین سے مخصوص ایک اور بیماری ہے۔اس میں)‪(Endometriosis‬اینڈومیٹریوسیس‬
‫رحم کے استر کو جنم دینے والی بافتیں بیض دانی اور فیلوپی ٹیوبوں پر بھی نمودار ہونے‬
‫لگتی ہیں ۔یہ ایک غیر قدرتی عمل ہے۔اس مرض میں ماہواری تکلیف سے ٓاتی ہے اور‬
‫عورت بانجھ بھی ہو سکتی ہے۔تحقیق سے منکشف ہوا ہے کہ جب سے روزمرہ زندگی‬
‫میں تھلیٹس کا استعمال بڑھا ہے‪ ،‬پہلے کے مقابلے میں خواتین کی اکثریت اس بیماری میں‬
‫مبتال ہونے لگی ہے۔‬
‫زمانہ حمل میں تبدیلیاں‬
‫امریکا اور یورپ میں ماہرین طب نے اس امر پہ تحقیق کی ہے کہ دوران حمل تھیلٹس‬
‫پرورش پاتے بچوں کی نشوونما پر کس قسم کے اثرات مرتب کرتے ہیں۔ان تحقیقات سے‬
‫بھی تشویش ناک نتائج سامنے ٓائے۔معلوم ہوا کہ جن خواتین کے بدن میں تھیلٹس اور دیگر‬
‫مصنوعی کیمیائی مادوں کی مقدار زیادہ ہو‪ ،‬ان کے بچے کمزور پیدا ہوتے ہیں۔نیز ان میں‬
‫حمل کا دوارنیہ بھی بڑھ جاتا ہے جو ایک غیر فطری بات ہے۔‬
‫مختلف تجربات سے یہ بھی پتا چال ہے کہ تھیلٹس اور دیگر کیمیکل لڑکوں کے جسم میں‬
‫زیادہ جمع ہو جائیں تو ان میں جلد بلوغت لے ٓاتے ہیں۔جبکہ یہ کیفیت زمانہ حمل میں نر‬
‫طبی خلل پیدا کر دیتی ہے۔اس خلل میں مبتال)‪ (Cryptorchidism‬بچے میں کرپٹورچڑڈزم‬
‫لڑکے بچے پیدا نہیں کر پاتے۔تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ ساٹھ ستر سال پہلے دنیا کے‬
‫لڑکوں میں یہ طبی خلل جنم لینے کی شرح ‪1‬سے ‪3‬فیصد تھی۔ٓاج ‪7‬سے ‪10‬فیصد لڑکے اس‬
‫کا نشانہ بننے لگے ہیں جو ایک فکرانگیز تبدیلی ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪118‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مردوں سے مخصوص ایک طبی خلل ہے۔اس طبی کیفیت )‪(Hypospadias‬ہائپوسپاڈیاس‬
‫میں مثانے سے پیشاب النے والی ٹیوب کا راستہ بدل جاتا ہے اور قدرتی حالت میں نہیں‬
‫رہتا۔یہ غیر فطری کیفیت حمل کے دوران ہی جنم لیتی ہے۔دنیا بھر میں پیدا ہونے والے ہر‬
‫‪250‬بچوں میں سے ایک بچے کو یہ حالت متاثر کرتی ہے۔یہ خرابی سرجری سے درست‬
‫کرنا پڑتی ہے۔قابل ذکر بات یہ کہ ہمارے ماحول میں انسان ساختہ کیمیائی مادوں کے‬
‫بڑھتے دخل کی وجہ سے اب زیادہ بچے اس طبی خلل میں مبتال ہونے لگے ہیں۔خاص‬
‫طور پہ جن مائوں کے بدن میں تھلیٹس کی مقدار زیادہ ہو‪ ،‬ان میں دوران حمل بچے کو‬
‫کوئی نہ کوئی پیدائشی بیماری چمٹنے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫زمانہ حمل کے دوران بچے کی دماغی نشوونما پر بھی تھیلٹس اثرانداز ہوتے ہیں۔چناں چہ‬
‫ان کی وجہ سے نوزائیدہ بچوں میں دماغی خلل پیدا ہوسکتے ہیں۔مثال کے طور پہ تحقیق‬
‫سے پتا چال ہے کہ جن بچوں کے ماں باپ کے جسموں میں تھیلٹس کی مقدار زیادہ ہو‪ ،‬ان‬
‫کے بچے جارحانہ اور غصیال مزاج رکھتے ہیں۔وہ جوان ہو کر ڈپریشن کے مریض بن‬
‫جاتے ہیں۔عموما ً معاشرہ دشمن سرگرمیوں میں ملوث رہتے ہیں۔‬
‫ایک تحقیق سے افشا ہوا کہ ماں میں اگر تھیلٹس کی مقدار زیادہ ہو تو اس کی بیٹیاں‬
‫جارحانہ مزاج کی حامل ہوتی ہیں۔تاہم اس کے بیٹوں میں یہ کیفیت نہیں پائی گئی۔یہ‬
‫انکشاف بھی ہوا کہ جن والدین کے بدن میں تھیلٹس زیادہ ہوں‪ ،‬ان کے بچوں کا ٓائی کیو‬
‫لیول کم ہوتا ہے۔گویا وہ کم ذہین ہوتے ہیں۔نیز وہ کسی بات پہ توجہ مرکوز نہیں کر پاتے۔‬
‫ان کا موڈ ٓاسانی سے خراب ہو جاتا ہے۔وہ اجنبیوں سے بات چیت کرنے میں دشواری‬
‫محسوس کرتے ہیں۔‬
‫ماہرین طب اب تحقیق کر رہے ہیں کہ تھیلٹس بالغ مردوزن پہ کس قسم کے نفسیاتی اثرات‬
‫مرتب کرتے ہیں۔ابتدائی نتائج نے منکشف کیا ہے کہ جن بالغوں میں تھلیٹس کی زیادتی ہو‪،‬‬
‫وہ عموما ً چھوٹے چھوٹے مسائل سے پریشان ہو جاتے ہیں۔ان میں صبر وبراشت کامادہ کم‬
‫ہوتا ہے۔وہ عام طور پہ مثبت نہیں منفی رویّہ دکھاتے ہیں۔‬
‫درقیہ کے امراض‬
‫درقیہ ہمارے جسم کا ایک اور اہم غدہ ہے۔یہ تین ہارمون خارج کرتا ہے جو ہمارے جسم‬
‫‪:‬میں مختلف افعال انجام دیتے ہیں۔ان کی تفصیل یہ ہے‬
‫میں یہ ہارمون حرارے (کیلوریز) جالنے میں جسم )‪ (metabolic system‬نظام استحالہ‬
‫کی مدد کرتے ہیں۔اسی لیے پورے بدن کی بافتوں پر اثرانداز ہوتے ہیں۔ ہمیں بھوک لگنا‪،‬‬
‫کھانے کا ہضم ہونا‪ ،‬اور ٓانتوں کو صحت مند رکھنا…ان تمام افعال میں یہ ہارمون حصہ‬
‫لیتے ہیں۔ان کی مدد ہی سے ٓانتیں کھانا بہ ٓاسانی ہضم کرتی ہیں۔نیز خلیے کھانے سے پیدا‬
‫ہوئی شکر جذب کرتے ہیں۔درقیہ کے ہارمون چربی تحلیل کرنے میں جسمانی نظام کی مدد‬
‫کرتے ہیں۔اور کولیسٹرول کی سطح کم کرنے میں بھی کام ٓاتے ہیں۔‬
‫یہ ہارمون دل کے عضالت مضبوط بناتے ہیں۔اس باعث ہمارے دل کی دھڑکن میں بہتری‬
‫ٓاتی ہے۔سانس لینے میں بھی انسان کے مددگار بنتے ہیں۔ان کی مدد سے ٓاکسیجن انسانی‬

‫تحقیقات | ‪119‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جسم میں ٓاسانی سے جذب ہوتی ہے۔اس طرح خون کی روانی میں رکاوٹ نہیں ٓاتی اور‬
‫جسم کا درجہ حرارت معمول پہ رہتا ہے۔‬
‫غدہ درقیہ کے ہارمون انسان کی نشوونما میں اہم کردار ادا کرتے ہیں۔پلتے بڑھتے بچے‬
‫بچیوں کے قد میں میں اضافہ کرتے ہیں۔انسانی دماغ کے خلیوں کو تندرست وتوانا بناتے‬
‫ہیں۔جدید تحقیق سے انکشاف ہوا ہے کہ زمانہ حمل اور زندگی کے ابتدائی چند برسوں تک‬
‫بچے کی دماغی نشوونما میں درقیہ کے ہارمون سرگرمی سے حصّہ لیتے ہیں۔‬
‫یہ ہارمون انسان میں تولید کی صالحیت برقرار رکھتے ہیں۔نیند النے میں معاون بنتے ہیں۔‬
‫دیکھا گیا ہے کہ جس انسانی جسم میں درقیہ کے ہارمون زیادہ تعداد میں بننے لگیں تو‬
‫انسان میں کثرت سے خیاالت پیدا ہوتے ہیں۔تاہم وہ اس حالت میں توجہ مرکوز کرنے کی‬
‫کچھ صالحیت کھو بیٹھتا ہے۔خواتین میں خواہش اور ماہواری کے اعمال پہ یہ ہارمون‬
‫کافی اثرانداز ہوتے ہیں۔‬
‫پچھلے دس سال کے دوران تحقیقات سے پتا چال ہے کہ اگر انسانی جسم میں تھلیٹس کی‬
‫زیادتی ہو تو درقیہ سے ہارمونوں کے اخراج کا قدرتی نظام متاثر ہو جاتا ہے۔کبھی ہارمون‬
‫ضرورت سے زیادہ بننے لگتے ہیں۔کبھی ان کی تعداد بہت کم ہو جاتی ہے۔یہ قدرتی نظام‬
‫بگڑنے سے انسان مختلف عوارض کا نشانہ بن جاتا ہے۔ مثالً اس کا موڈ خراب رہنے لگتا‬
‫ہے۔ڈپریشن بھی حملہ ٓاور ہوتا ہے۔ہاتھ پیر میں درد رہتا ہے۔انسان اگر درقیہ کے مسائل کی‬
‫وجہ سے ایسی عالمات کا شکار ہو تو اس خرابی کی وجہ تھیلٹس ہو سکتے ہیں۔‬
‫تھیلٹس سے بچاؤکے طریقے‬
‫خوش قسمتی سے انسان جب تھیلٹس والی اشیا استعمال کرنا چھوڑ دے تو یہ کیمیکل رفتہ‬
‫رفتہ جسم سے نکل جاتے ہیں۔چناں چہ ان کیمیائی مادوں سے بچنے کے گر درج ذیل ہیں۔‬
‫٭…پالسٹک والے ڈبوں کے بجائے گالس‪،‬سرامک‪،‬اسٹین لیس اسٹیل یا لکڑی کے ڈبوں‬
‫میں غذائیں محفوظ کریں۔یہ ممکن نہ ہو تو غذا پہلے ٹھنڈی کر لیں۔پھر پالسٹک ڈبوں میں‬
‫محفوظ کیجیے۔‬
‫٭…پالسٹک برتن پہ رکھ کر کوئی غذا مائکروویو اوون میں گرم نہ کریں۔اس طرح‬
‫پالسٹک میں شامل تھیلٹس پگھل کر غذا میں شامل ہو جاتے ہیں۔‬
‫٭…غیر خوشبو دار صابن‪ ،‬لوشن اور کپڑے دھونے والے ڈیٹرجنٹ استعمال کریں۔‬
‫٭…ڈبہ بند غذائوں کے بجائے تازہ سبزیاں و پھل کھائیے۔‬
‫٭…وقتا ً فوقتا ً ہاتھ دھوئیے تاکہ کیمیکل دھل جائیں۔‬
‫٭…ایسے ائر ریفریشنر نہ خریدیں جن پہ لیبل ‪6 ،3‬اور ‪ 7‬لکھا ہو۔ان میں تھلیٹس ہوتے‬
‫ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2241556/9812/‬‬

‫گردے کی بیماری کیوں بڑھنے لگیں؟ تہلکہ خیز رپورٹ منظر عام پر‬

‫تحقیقات | ‪120‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪ 6 2021‬‬

‫ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث گرمی بڑھنے کی وجہ سے گردوں کی بیماریوں میں مبتال‬
‫افراد کی تعداد میں ‪ 7.4‬فیصد اضافہ ہوگیا ہے۔‬

‫یہ تحقیق ٓاسٹریلوی اور برازیلی سائنسدانوں کی ٹیم نے کی ہے جس کی سربراہی موناش‬


‫یونیورسٹی کے ڈاکٹر یومنگ گئو کررہے تھے۔‬
‫ریسرچ جرنل ’’دی لینسٹ ریجنل ہیلتھ امریکا‘‘ کے تازہ شمارے میں ڈاکٹر گئو اور ان‬
‫کے ساتھیوں نے برازیل کے ‪ 1816‬اسپتالوں میں روزانہ بنیادوں پر داخل ہونے والوں کے‬
‫پندرہ سالہ اعداد و شمار حاصل کیے۔‬
‫یہ انکشاف برازیل میں ‪ 2000‬سے ‪ 2015‬کے دوران گردوں کی بیماریوں کے باعث‬
‫اسپتال میں داخل ہونے والے ‪ 27‬الکھ سے زیادہ مریضوں کی معلومات جانچنے کے بعد‬
‫ہوا ہے۔‬
‫ماہرین صحت دنگ رہ گئے کہ پندرہ سال کے دوران درجہ حرارت میں اضافے کی وجہ‬
‫سے گردوں کی بیماریوں میں مبتال ہوکر اسپتال پہنچ جانے والوں کی تعداد میں ‪ 7.4‬فیصد‬
‫اضافہ ہوا ہے۔‬
‫ڈاکٹر گئو کا کہنا ہے کہ یومیہ اوسط درجہ حرارت میں صرف ایک ڈگری سینٹی گریڈ‬
‫اضافے سے گردوں کے امراض میں بھی ایک فیصد اضافہ ہوجاتا ہے۔‬
‫واضح رہے کہ ‪ 2017‬میں بھی ایسی ہی ایک دس سالہ تحقیق ’’دی لینسٹ‘‘ میں شائع‬
‫ہوئی تھی‪ ،‬جس میں تخمینہ لگایا گیا تھا کہ اس عرصے میں گردوں کے امراض کی وجہ‬

‫تحقیقات | ‪121‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫امراض گردہ میں مبتال افراد کی تعداد میں‬
‫ِ‬ ‫سے دنیا بھر میں ‪ 26‬الکھ اموات ہوئیں جبکہ‬
‫بھی ‪ 26.6‬فیصد اضافہ ہوگیا تھا۔‬
‫نئی تحقیق اس کی تصدیق کرتے ہوئے یہ بھی بتاتی ہے کہ اوسط درجہ حرارت میں اضافہ‬
‫ت حال کو سنگین بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہا ہے۔‬ ‫کس طرح اس صور ِ‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/why-is-kidney-disease-on-the-rise/‬‬

‫ٰ‬
‫دعوی‬ ‫کورونا وائرس ‪ :‬فائزر کمپنی کا اپنی دوا سے متعلق بڑا‬
‫ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪  6 2021‬‬

‫امریکی دوا ساز کمپنی فائزر نے کورونا کے سدباب کے لیے بنائی گئی گولی کے بارے‬
‫دعوی کیا ہے کہ اس کے استعمال سے موت کے امکانات میں ‪ 89‬فیصد کمی واقع‬ ‫ٰ‬ ‫میں‬
‫ہوسکتی ہے۔‬
‫ترجمان فائزر نے اپنے ایک حالیہ بیان میں کہا ہے کہ کورونا وائرس کے عالج کے لیے‬
‫پہلی اینٹی وائرل گولی کے کلینیکل ٹرائل سے ظاہر ہوتا ہے کہ یہ انتہائی مؤثر دوا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪122‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫فرانسیسی خبر رساں ادارے اے ایف پی کے مطابق کورونا وائرس سے شدید متاثر ہونے‬
‫والے افراد کے لیے پیکسلووڈ نامی دوا ‪ 89‬فیصد مؤثر ہے۔‬
‫فائزر نے کہا ہے کہ کلینیکل ٹرائل کے دوسرے اور تیسرے مرحلے میں نتائج اتنے اچھے‬
‫ٓائے ہیں کہ اب مزید تجربے کے لیے نئے لوگوں کو نہیں شامل کیا جائے گا۔‬

‫پہلی اینٹی وائرل گولیوں کے لیے فائزر اپنا ڈیٹا فوڈ اینڈ درگ ایڈمنسٹریشن کو جمع کرائے‬
‫گی۔ فائزر کے سی ای او البرٹ بورال کا کہنا ہے کہ وبائی مرض کی تباہی کو روکنے کے‬
‫لیے ٓاج کی خبر عالمی کوششوں میں ایک حقیقی گیم چینجر کی حیثیت رکھتی ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہماری اینٹی وائرل دوا اگر حکام کی جانب‬
‫سے منظور ہوتی ہے تواس میں نہ صرف مریضوں کی زندگیاں بچانے اور کورونا وائرس‬
‫کے انفیکشن کی شدت کو کم کرنے بلکہ ہسپتالوں میں داخلے کی شرح کو کم کرنے کی‬
‫بھی صالحیت ہے۔‬
‫متعدد دوا ساز کمپنیاں کورونا وائرس کے عالج کے لیے نگلنے والی دوا پر کام کر رہی‬
‫ہیں۔ فائزر نے مارچ ‪2020‬میں اپنی دوا تیار کرنا شروع کی تھی۔‬
‫دیگر دواساز کمپنیاں بھی کورونا وائرس کے خالف موجود اینٹی وائرل دوائیوں پر تجربے‬
‫کر رہی ہیں تاہم فائزرپہلی دواساز کمپنی ہے جس نے خصوصی طور پر یہ دوا تیار کی‬
‫ہے۔‬
‫اگر یہ دوا واقعی میں مؤثر ثابت ہوتی ہے تو یہ ممکنہ طور پر انفیکشن کے ابتدائی‬
‫مرحلے میں فائدہ مند ہوگی۔جمعرات کو برطانیہ نے کورونا وائرس کے عالج کے لیے‬
‫اینٹی وائرل دوا (گولی) کے استعمال کی اجازت دی تھی‪ ،‬برطانیہ اس دوا کی اجازت دینے‬
‫واال پہال ملک بن گیا ہے۔‬
‫برطانوی وزیر صحت ساجد جاوید نے کہا تھا کہ برطانیہ نے وائرس کے خالف لڑنے‬
‫والی دوا کے استعمال کی اجازت دے دی ہے جو کورونا کے عالج کے لیے گھر لے جائی‬
‫جا سکتی ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ یہ شدید غیر محفوظ اور کمزور مدافعتی نظام والے لوگوں کے لیے گیم‬
‫چینجر ہوگا‪ ،‬جو جلد اس کے ذریعے اپنا عالج کروا سکیں گے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/pfizer-company-medicine-clinical-trials-corona-‬‬
‫‪virus/‬‬

‫کرونا وائرس سے موت کا خطرہ بڑھانے واال جین دریافت‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪ 6 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪123‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫برطانوی ماہرین نے کووڈ ‪ 19‬کے مریضوں میں موت کا خطرہ بڑھانے واال جین دریافت‬
‫کیا ہے‪ ،‬یہ جین ‪ 60‬سال سے کم عمر کووڈ مریضوں میں موت کا خطرہ دگنا بڑھا دیتا‬
‫ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق طبی ماہرین نے انسانی جسم کے اندر ایک ایسے جین‬
‫کو دریافت کیا ہے جو ممکنہ طور پر کووڈ ‪ 19‬کے مریضوں کی موت اور پھیپھڑوں کے‬
‫افعال فیل ہونے کا خطرہ بڑھاتا ہے۔‬
‫ٓاکسفورڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق کے نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کیوں کچھ افراد میں‬
‫دیگر کے مقابلے میں اس بیماری کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔‬

‫تحقیق میں بتایا گیا کہ جین کا یہ ورژن کروموسوم کے خطے میں ہوتا ہے جو ‪ 60‬سال‬
‫سے کم عمر کووڈ مریضوں میں موت کا خطرہ دگنا بڑھا دیتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق یہ مخصوص جین ایل زی ٹی ایف ایل ‪ 1‬دیگر جینز کی سرگرمیوں کو‬
‫ریگولیٹ کرنے کا کام کرتا ہے اور وائرسز کے خالف پھیپھڑوں کے خلیات کے ردعمل‬
‫کے عمل کا بھی حصہ ہوتا ہے۔‬
‫جین کی یہ قسم سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کے خلیات میں وائرس کو جکڑنے میں بھی‬
‫مدد فراہم کرتا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ جین مدافعتی نظام پر اثرات مرتب نہیں کرتا جو‬
‫بیماریوں سے لڑنے کے لیے اینٹی باڈیز بنانے کا کام کرتا ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ جن افراد میں جین کی یہ قسم ہوتی ہے ان میں ویکسینز کا ردعمل‬
‫معمول کا ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ بیماری کے خالف پھیپھڑوں کا ردعمل‬
‫انتہائی اہمیت رکھتا ہے‪ ،‬یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس وقت زیادہ تر طریقہ عالج میں‬
‫وائرس کے خالف مدافعتی نظام کے ردعمل بدلنے میں توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪124‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر راغب علی کا کہنا ہے کہ اگرچہ کووڈ ‪ 19‬کا خطرہ بڑھانے‬
‫والے متعدد عناصر ہیں مگر جن افراد میں جین کی یہ قسم ہوتی ہے ان میں بیماری سے‬
‫موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫ایک اور طبی ماہر ڈاکٹر سائمن بیڈی نے بتایا کہ اگرچہ تحقیق میں اس جین کے ممکنہ‬
‫کردار کے حوالے سے مناسب شواہد دیے گئے ہیں مگر اس دریافت کی تصدیق کے لیے‬
‫مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/gene-found-in-humans-linked-to-covid-19/‬‬

‫باقاعدگی سے مچھلی کھانے کا حیران کن فائدہ‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫نومبر ‪6 2021‬‬

‫پیرس‪ :‬حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا ہے کہ مچھلی کھانے اور دماغی‬
‫شریانوں کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق موجود ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق فرانس میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ‬
‫مچھلی کھانے کی عادت دماغ کی جان لیوا بیماریوں کا خطرہ نمایاں حد تک کم کردیتی‬
‫ہے۔‬
‫طبی جریدے جرنل نیورولوجی میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ مچھلی کھانے اور دماغی‬
‫شریانوں کے خطرے میں کمی کے درمیان تعلق موجود ہے‪ ،‬دماغی شریانوں کو نقصان‬
‫پہنچنے سے ڈیمینشیا اور فالج جیسے امراض کا خطرہ بڑھتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪125‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بورڈیوکس یونیورسٹی کی اس تحقیق میں ‪ 3‬شہروں پر ہونے والی ایک تحقیق کے ڈیٹا کا‬
‫تجزیہ کیا گیا جس میں دماغی شریانوں کے امراض اور ڈیمینشیا کے تعلق کا جائزہ لیا گیا‬
‫تھا۔‬
‫ماہرین نے ‪ 65‬سال سے زائد عمر کے ‪ 16‬سو ‪ 23‬افراد کے ایم ٓار ٓائی اسکینز کا تجزیہ‬
‫کیا جن میں فالج‪ ،‬دل کی شریانوں سے جڑے امراض یا ڈیمینشیا کی کوئی تاریخ نہیں تھی۔‬
‫ان افراد سے غذائی عادات کے حوالے سے سوالنامے بھی بھروائے گئے تھے۔‬
‫ان افراد کو ‪ 4‬گروپس میں تقسیم کیا گیا‪ ،‬ایک گروپ ہفتے میں ایک بھی مچھلی نہ کھانے‬
‫والوں پر مشتمل تھا‪ ،‬دوسرا ہفتے میں ایک بار‪ ،‬تیسرا ہفتے میں ‪ 2‬سے ‪ 3‬بار جبکہ چوتھا‬
‫‪ 4‬یا اس سے زیادہ بار مچھلی سے لطف اندوز ہونے والوں پر مشتمل تھا۔‬
‫ماہرین نے پھر ہر گروپ میں شامل افراد میں خون کی شریانوں کے امراض کی عالمات‬
‫کا موازنہ کیا۔ انہوں نے دریافت کیا کہ زیادہ مچھلی کھانے والے افراد میں شریانوں کو‬
‫نقصان پہنچنے کی نشانیاں دیگر کے مقابلے میں بہت کم ہوتی ہیں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ‪ 65‬سے ‪ 69‬سال کی عمر میں مچھلی کے استعمال اور خون کی‬
‫شریانوں کے امراض کا تعلق زیادہ ٹھوس ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ ہم میں سے بیشتر افراد میں ڈیمینشیا کا خطرہ مختلف جینیاتی اور‬
‫ماحولیاتی عناصر کے باعث بڑھتا ہے‪ ،‬طرز زندگی کے عناصر اور دماغی صحت کے‬
‫درمیان تعلق کو سمجھنا اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ تحقیق سے عندیہ مال ہے کہ جو غذا دل کے لیے مفید ہوتی ہے وہ دماغ‬
‫کے لیے بھی صحت بخش ہوتی ہے‪ ،‬جبکہ بلڈ پریشر اور کولیسٹرول کو کنٹرول کرنا‪،‬‬
‫تمباکو نوشی نہ کرنا‪ ،‬الکحل سے گریز اور متحرک طرز زندگی سب عمر بڑھنے کے‬
‫ساتھ دماغی صحت کو بہتر بناتے ہیں۔‬
‫اس سے قبل امریکا کی ساﺅتھ ڈکوٹا یونیورسٹی کی تحقیق میں بتایا گیا کہ ٓائلی مچھلی کھانا‬
‫مختلف امراض کا خطرہ کم کردیتا ہے۔‬
‫ڈھائی ہزار سے زائد معمر افراد پر ہونے والی تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا کہ جو‬
‫لوگ اومیگا تھری فیٹی ایسڈز زیادہ مقدار میں استعمال کرتے ہیں ان میں جلد موت کا‬
‫خطرہ ‪ 34‬فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔‬
‫ایسے افراد میں ہارٹ اٹیک یا فالج کا خطرہ ‪ 39‬فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔ ماہرین کا کہنا تھا‬
‫کہ کولیسٹرول لیول میں اضافہ خون کی شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے واال‬
‫اہم ترین عنصر ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ ہائی کولیسٹرول لیول ہارٹ اٹیک یا فالج جیسے امراض کا خطرہ‬
‫بڑھا کر جلد موت کا باعث بنتا ہے‪ ،‬تاہم اومیگا تھری فیٹی ایسڈز اس حوالے سے تحفظ‬
‫فراہم کرتا ہے۔‬
‫تحقیق کے دوران دریافت کیا گیا کہ ٓائلی مچھلی کھانا ہارٹ اٹیک‪ ،‬فالج‪ ،‬امراض قلب اور‬
‫مختلف امراض سے موت کا خطرہ کم کرتی ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/eating-more-fish-good-for-brain/‬‬
‫تحقیقات | ‪126‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫فائزر کی اینٹی وائرل دوا‪ Š‬کووڈ کی سنگین شدت بچانے کیلئے بہت زیادہ‬
‫مؤثر‬

‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪05 2021‬‬
‫کمپنی کی جانب سے ٹرائل کے نتائج جاری کیے گئے — اے پی فوٹو‬

‫فائزر وہ پہلی کمپنی ہے جس نے جرمنی کی بائیو این ٹیک کے ساتھ مل کر اولین کووڈ‬
‫‪ 19‬ویکسین کو متعارف کرایا تھا جو بیماری کی روک تھام کے لیے ‪ 90‬فیصد سے زیادہ‬
‫مؤثر قرار دی گئی ہے۔‬
‫اب فائزر نے کووڈ ‪ 19‬کے عالج کے لیے منہ کے ذریعے کھائے جانے والی اینٹی وائرل‬
‫دوا کے ٹرائل کے نتائج کا اعالن کیا ہے جس کے مطابق وہ کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہونے پر‬
‫ہسپتال میں داخلے یا موت کے خطرے سے بچانے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہے۔‬
‫کمپنی کی جانب سے جمعے کو اس اینٹی وائرل دوا کے ٹرائل کے نتائج کو جاری کیا گیا‬
‫جس کے مطابق بیماری کی عالمات ظاہر ہونے کے ‪ 3‬دن کے اندر اس کو استعمال کرنے‬
‫سے ہسپتال میں داخلے یا موت کا خطرہ ‪ 89‬فیصد تک کم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫یہ نتائج اس وقت جاری ہوئے ہیں جب ‪ 4‬نومبر کو مرک کمپنی کی کووڈ ‪ 19‬دوا کو‬
‫برطانیہ میں ہنگامی استعمال کی منظوری دی گئی۔‬

‫تحقیقات | ‪127‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫فائزر کی اس تحقیق میں کووڈ ‪ 19‬کے ‪ 12‬سو سے زیادہ ایسے مریضوں کو شامل کیا گیا‬
‫تھا جن میں بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ تھا تاہم اس مرحلے پر وہ معمولی یا‬
‫معتدل شدت کا سامنا کررہے تھے۔‬
‫ان مریضوں میں بیماری کی شدت بڑھانے والے عناصر (کم از کم ایک) جیسے موٹاپے یا‬
‫بڑھاپے کو مدنظر رکھا گیا تھا۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ جن افراد کو عالمات تشکیل پانے کے ‪ 3‬دن کے اندر فائزر کی یہ‬
‫دوا دی گئی ان میں سے صرف ‪ 0.8‬فیصد کو ہسپتال جانا پڑا جبکہ کوئی بھی ‪ 28‬دن کے‬
‫دوران ہالک نہیں ہوا۔‬
‫اس کے مقابلے میں پلیسبو گروپ کے افراد میں یہ شرح ‪ 7‬فیصد رہی جبکہ ان میں سے ‪7‬‬
‫ہالک بھی ہوگئے۔‬
‫اسی طرح جن مریضوں کو بیماری کی عالمات ابھرنے کے ‪ 5‬دن کے اندر اس دوا کا‬
‫استعمال کرایا گیا ان میں سے صرف ایک فیصد کو ہسپتال کا رخ کرنا پڑا جبکہ پلیسبو‬
‫گروپ میں یہ شرح ‪ 6.7‬فیصد تھی۔‬
‫اینٹی وائرل ادویات کو جس حد تک ممکن ہو جلد استعمال کرانے کی ضرورت ہوتی ہے‬
‫تاکہ ان کی افادیت بہتر ہوسکے۔‬
‫فائزر پروگرام کی سربراہ اینا لیزا اینڈرسن نے بتایا کہ ہم نے دوا کی بہت زیادہ افادیت کو‬
‫دریافت کیا چاہے عالمات کے ‪ 5‬دن بعد بھی اس کا استعمال ہی کیوں نہ کرایا جائے‪ ،‬اس‬
‫کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے پاس لوگوں کے عالج کا وقت ہے۔‬
‫کمپنی کی جانب سے دوا کے مضر اثرات کی تفصیالت نہیں بتائی گئیں مگر اس کا کہنا تھا‬
‫کہ ‪ 20‬فیصد افراد کو کسی قسم کے مضر اثر کا سامنا ہوا۔‬
‫فائزر کے چیف ایگزیکٹیو البرٹ بورال نے ایک بیان میں بتایا کہ ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے‬
‫کہ ہماری اینٹی وائرل دوا مریضوں کی زندگیاں بچانے کی صالحیت رکھتی ہے‪ ،‬جس سے‬
‫کووڈ ‪ 19‬کی شدت کم کی جاسکتی ہے اور ہر ‪ 10‬میں سے ‪ 9‬مریضوں کے ہسپتال میں‬
‫داخلے کی روک تھام کی جاسکتی ہے۔‬
‫کمپنی نے بتایا کہ توقع ہے کہ ‪ 2021‬کے ٓاخر تک ایک الکھ ‪ 80‬ہزار سے زیادہ کورسز‬
‫تیار ہوسکیں گے جبکہ یہ تعداد ‪ 2022‬کے ٓاخر تک ‪ 5‬کروڑ تک ہوسکتی ہے۔‬
‫کمپنی کی جانب سے ٹرائل کے عبوری نتائج کو ریگولیٹری‪ Š‬اداروں کے پاس جمع کرانے‬
‫کی منصوبہ بندی کی جارہی ہے۔‬
‫یہ کورس ‪ 3‬گولیوں پر مشتمل ہے جن کا استعمال میں دن میں ‪ 2‬بار کرایا جاتا ہے۔‬
‫یہ دوا کورونا وائرس کے ایسے انزائمے بالک کرنے کے لیے ڈیزائن کی گئی ہے جن کو‬
‫وہ اپنی نقول بنانے کے لیے استعمال کرتا ہے۔‬
‫کمپنی کی جانب سے اس دوا کی تحقیق ایسے افراد پر بھی کی جارہی ہے جو کووڈ کے‬
‫مریض تو نہیں مگر ان میں بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے اور یہ بھی‬
‫دیکھا جارہا ہے کہ کیا یہ دوا لوگوں کو بیمار ہونے سے بچاسکتی ہے یا نہیں‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1172045/‬‬
‫تحقیقات | ‪128‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کووڈ ویکسینز کی بیماری کی سنگین شدت سے تحفظ کے مزید شواہد‬


‫سامنے ٓاگئے‬
‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪05 2021‬‬
‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی —ویکسینیشن کرانے والے افراد میں کووڈ‬
‫‪ 19‬کے بریک تھرو انفیکشن (ویکسین کے استعمال کے بعد بیمار ہونے والے افراد کے‬
‫لی‬

‫ے استعمال ہونے والی اصطالح) کی صورت میں سنگین پیچیدگیوں یا موت کا خطرہ‬
‫ویکسین سے دور رہنے والوں کے مقابلے میں نمایاں حد تک کم ہوتا ہے۔‬
‫نئی تحقیقی رپورٹس میں اس بات کی تصدیق کی گئی۔ ‪2‬‬
‫ان میں سے ایک تحقیق ‪ 7‬الکھ ‪ 80‬ہزار امریکی فوجیوں پر کئی ماہ سے جاری ہے جس‬
‫میں دریافت کیا گیا کہ امریکا میں استعمال ہونے والی تینوں ویکسینز سے بیماری کی‬
‫سنگین شدت اور موت کے خطرے سے ٹھوس تحفظ ملتا ہے‪ ،‬مگر بیماری کی معمولی‬
‫شدت اور بغیر عالمات والی بیماری کے خالف ویکسین کی افادیت میں کمی ٓاتی ہے۔‬
‫طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع تحقیق میں بتایا گیا کہ بریک تھرو انفیکشن سے موت‬
‫کا خطرہ بڑھتا ہے مگر ویکسینیشن سے لوگوں کو کورونا کی قسم ڈیلٹا کی لہر کے دوران‬
‫دوبارہ بیماری پر موت سے تحفظ مال۔‬

‫تحقیقات | ‪129‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ فائزر‪ ،‬موڈرنا اور جانسن اینڈ جانسن ویکسینز کی بیماری سے تحفظ‬
‫کے حوالے سے افادیت وقت کے ساتھ گھٹ جاتی ہے‪ ،‬مگر بیماری کا خطرہ بڑھنے کے‬
‫ساتھ ساتھ ویکسینز موت سے تحفظ کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہوتی ہیں۔‬
‫دوسری تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ویکسین استعمال نہ کرنے والے افراد کا کووڈ سے‬
‫متاثر ہونے پر ہسپتال میں وینٹی لیٹر پر پہنچنے یا موت کا خطرہ ویکسینیشن مکمل کرانے‬
‫کے بعد بیماری کا سامنا کرنے والے افراد سے بہت زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں امریکا کے ‪ 21‬ہسپتالوں میں مارچ سے جوالئی کے دوران زیرعالج رہنے‬
‫والے ساڑھے ‪ 4‬ہزار سے زیادہ مریضوں کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ہسپتال میں زیرعالج ‪ 84.2‬فیصد مریض وہ تھے جن کی‬
‫ویکسینیشن نہیں ہوئی تھی جبکہ ‪ 91‬فیصد اموات بھی ان افراد کی ہی ہوئی۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل ٓاف دی امریکن میڈیکل ایسوسی ایشن میں شائع‬
‫ہوئے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ہم اب مکمل پراعتماد ہیں کہ کووڈ سے متاثر ہونے پر بھی ویکسین‬
‫ٓاپ کی مدد کرتی ہے‪ ،‬جو افراد کووڈ کا شکار بھی ہوتے ہیں ان میں بیماری کی شدت اتنی‬
‫نہیں ہوتی جتنی ویکسین استعمال نہ کرنے والے افراد میں ہوسکتی ہے۔‬
‫اس سے قبل اکتوبر ‪ 2021‬میں سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) کے‬
‫زیرتحت ہونے والی تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ بیماری کے مقابلے میں ویکسینز کووڈ ‪19‬‬
‫سے تحفظ کے لیے زیادہ مؤثر ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں مختلف امریکی ریاستوں میں ‪ 2‬ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے ‪ 2‬الکھ‬
‫ایک ہزار سے زائد افرد کے ڈیٹا کو اکٹھا کیا گیا جن میں سے ‪ 7‬ہزار کو منتخب کیا گیا۔‬
‫تحقیق میں یہ تجزیہ کیا گیا کہ ویکسین استعمال کرنے والے ایسے افراد کتنے ہیں جو کووڈ‬
‫‪ 19‬سے منسلک پیچیدگیوں کے باعث بیماری کے ‪ 3‬ماہ بعد تک ہسپتال میں زیرعالج‬
‫ہوئے جبکہ موڈرنا یا فائزر ویکسینز استعمال کرنے والے افراد میں یہ شرح کتنی ہے۔‬
‫تحقیق ٹیم نے دریافت کیا کہ ویکسینز استعمال نہ کرنے والے افراد میں ویکسینیشن کرانے‬
‫والوں کے مقابلے میں ہسپتال میں داخلے کا خطرہ ‪ 5‬گنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ڈیٹا سے ایسے ٹھوس شواہد ملتے ہیں کہ ویکسینیشن سے کووڈ سے‬
‫ملنے واال تحفظ قدرتی بیماری کے پیدا ہونے والی مدافعت کے مقابلے بہت زیادہ طاقتور‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا کہ ‪ 65‬سال سے زائد عمر کے افراد میں قدرتی بیماری کے‬
‫مقابلے میں ویکسینز ہسپتال میں داخلے کا خطرہ کم کرنے میں ‪ 20‬گنا زیادہ مؤثر ہیں۔‬
‫تحقیق کے نتائج لیبارٹری کے شواہد سے مطابقت رکھتے ہیں جن کے مطابق ویکسینز‬
‫سے وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز زیادہ شرح میں بنتی ہیں‪ ،‬جبکہ قدرتی بیماری‬
‫سے پیدا ہونے والی اینٹی باڈیز کی شرح بیماری کی معتدل یا معمولی شدت کے نتیجے میں‬

‫تحقیقات | ‪130‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ Morbidity and Mortality‬مختلف ہوتی ہے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے‬
‫میں شائع ہوئے ‪Weekly Report‬‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1172058/‬‬

‫کووڈ کے مریضوں میں موت کا خطرہ بڑھانے واال جین دریافت‬


‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪05 2021‬‬
‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬

‫طبی ماہرین نے انسانی جسم کے اندر ایک ایسے جین کو دریافت کیا ہے جو ممکنہ طور‬
‫پر کووڈ ‪ 19‬کے مریضوں کی موت اور پھیپھڑوں کے افعال فیل ہونے کا خطرہ بڑھاتا‬
‫ٰ‬
‫دعوی برطانیہ میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓایا۔‬ ‫ہے۔یہ‬
‫ٓاکسفورڈ یونیورسٹی کی تحقیق کے نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کیوں کچھ افراد میں‬
‫دیگر کے مقابلے میں اس بیماری کی شدت زیادہ ہوتی ہے۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ جین کا یہ ورژن کروموسوم کے خطے میں ہوتا ہے جس کو ماہرین‬
‫نے ‪ 60‬سال سے کم عمر کووڈ مریضوں میں موت کا خطرہ دگنا بڑھا دیتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق یہ مخصوص جین ایل زی ٹی ایف ایل ‪ 1‬دیگر جینز کی سرگرمیوں کو‬
‫ریگولیٹ کرنے کا کام کرتا ہے اور وائرسز کے خالف پھیپھڑوں کے خلیات کے ردعمل‬
‫کے عمل کا بھی حصہ ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪131‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جین کی یہ قسم سانس کی نالی اور پھیپھڑوں کے خلیات میں وائرس کو جکڑنے میں بھی‬
‫مدد فراہم کرتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ مگر یہ جین مدافعتی نظام پر اثرات مرتب نہیں کرتا جو بیماریوں‬
‫سے لڑنے کے لیے اینٹی باڈیز بنانے کا کام کرتا ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ جن افراد میں جین کی یہ قسم ہوتی ہے ان میں ویکسینز کا ردعمل‬
‫معمول کا ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ نتائج سے ثابت ہوتا ہے کہ بیماری کے خالف پھیپھڑوں کا ردعمل انتہائی‬
‫اہمیت رکھتا ہے‪ ،‬یہ اس لیے بھی اہم ہے کیونکہ اس وقت زیادہ تر طریقہ عالج میں وائرس‬
‫کے خالف مدافعتی نظام کے ردعمل بدلنے میں توجہ مرکوز کی جاتی ہے۔‬
‫کیمبرج یونیورسٹی کے ڈاکٹر راغب علی نے ایک بیان میں بتایا کہ اگرچہ کووڈ ‪ 19‬کے‬
‫خطرہ بڑھانے والے متعدد عناصر ہیں مگر جن افراد میں جین کی یہ قسم ہوتی ہے ان میں‬
‫بیماری سے موت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫ایک اور طبی ماہر ڈاکٹر سائمن بیڈی نے بتایا کہ اگرچہ تحقیق میں اس جین کے ممکنہ‬
‫کردار کے حوالے سے مناسب شواہد دیئے گئے ہیں مگر اس دریافت کی تصدیق کے لیے‬
‫مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے نیچر جینیٹکس جرنل میں‬
‫شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1172061/‬‬

‫ت قلب سے لیکر خوبصورت بالوں تک مچھلی کے تیل کے فوائد‬


‫صح ِ‬
‫نومبر ‪07 2021 ،‬‬

‫تحقیقات | ‪132‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫صحت مند ترین غذاؤں میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز ہیں جس کی بہت سے لوگوں کی‬
‫خوراک میں کمی ہے اور حقیقت میں یہ کافی غذائیت سے بھرپور اور غذائیت بخش ہے۔‬
‫خاص طور پر‪ ،‬مچھلی اور دیگر سمندری غذاؤں میں پائے جانے والے اومیگا ‪ 3‬ایسڈز کو‬
‫پراسیس شدہ تیل کہا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے‪ ،‬مچھلی کے تیل کو اکثر خوراک میں شامل‬
‫کرنے کی سفارش کی جاتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪133‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫مچھلی کا تیل‪ ،‬مچھلی کی مخصوص اقسام کے ٹیشوز سے حاصل کیا جاتا ہے۔ اسے آپ‬
‫کی روزمرہ کی خوراک کے حصے کے طور پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔‪  ‬حالیہ برسوں‬
‫میں مچھلی کے تیل کے فوائد کے بارے میں بہت ساری تحقیق سامنے ٓائی ہیں۔‬
‫‪:‬مچھلی کے تیل کے حیرت انگیز فوائد‬
‫ض قلب کے خطرے کو روکنے میں مدد کرتا ہے‬ ‫‪:‬امرا ِ‬
‫قابل ذکر فوائد میں سے ایک اس کی دل کی صحت کو فروغ دینے اور‬ ‫مچھلی کے تیل کے ِ‬
‫دل کی بیماریوں سے بچانے کی صالحیت ہے۔ اومیگا ‪ ،3‬اومیگا ‪ 6‬فیٹی ایسڈ کے منفی‬
‫اثرات کو متوازن کرنے میں بھی مدد کرتا ہے۔ اومیگا ‪ 6‬کھانے کی مصنوعات جیسے‬
‫انڈے‪ ،‬مرغی اور اناج میں پایا جاتا ہے۔ جسم میں اومیگا ‪ 6‬کی بہت زیادہ مقدار خون کو‬
‫زیادہ گاڑھا بنا سکتی ہے جس سے دل کی بیماریوں جنم لیتی ہیں۔ جسم میں اومیگا ‪ 3‬کی‬
‫مناسب مقدار کی موجودگی اس کو کنٹرول کرنے میں مدد دیتی ہے۔‬
‫‪:‬دمہ‬
‫دمہ ایک ایسا مرض ہے جو سانس لینے میں دشواری پیدا کرتا ہے اور کھانسی‪ ،‬خرخراہٹ‬
‫اور سانس کی قلت کا باعث بنتا ہے۔ اگرچہ کچھ لوگوں کے لیے دمہ ایک معمولی مسئلہ‬
‫ہے لیکن دوسروں کے لیے یہ ایک بڑا مسئلہ ہوسکتا ہے جو روزمرہ کی سرگرمیوں میں‬
‫مداخلت کرتا ہے اور جان لیوا دمہ کا دورہ پڑ سکتا ہے۔ چونکہ اومیگا ‪ 3‬ایئر ویز کی‬
‫سوزش میں مدد کرتا ہے‪ ،‬ماہرین کا خیال ہے کہ اس ضروری ایسڈ سے بھرپور غذا دمہ‬
‫کے مریضوں کے لیے فائدہ مند ہو سکتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪134‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪:‬ڈپریشن اور بے چینی سے نجات‬
‫متعدد مطالعات میں بتایا گیا ہے کہ ڈپریشن میں مبتال افراد کے خون میں اومیگا ‪ 3‬کی‬
‫سطح کم ہوتی ہے‪ ،‬اس لیے ڈپریشن میں مبتال افراد کے لیے تجویز کیا جاتا ہے کہ وہ‬
‫اومیگا ‪ 3‬فیٹی ایسڈ کی مقدار میں اضافہ کریں‪ ،‬اومیگا ‪ 3‬کچھ اینٹی ڈپریشن کی تاثیر کو‬
‫بہتر بنانے میں بھی مدد کرتا ہے۔‬
‫‪:‬بالوں کی صحت بہتر کرتا ہے‬
‫چونکہ اومیگا ‪ 3‬میں سوزش کی خصوصیات ہوتی ہیں‪ ،‬اس لیے مچھلی کا تیل بالوں کی‬
‫نشوونما کو فروغ دینے میں مدد کرتا ہے اور یہ ِگرتے بالوں کو بھی روکتا ہے۔ اس کے‬
‫عالوہ‪ ،‬چونکہ اومیگا ‪ 3‬ایک صحت مند چکنائی ہے‪ ،‬اس لیے یہ سر کی ُخشکی کو روکتا‬
‫ہے۔‬
‫‪:‬وزن کم کرتا ہے‪ ‬‬
‫اگرچہ وزن کم کرنا آسان کام نہیں ہے‪ ،‬محققین نے پایا ہے کہ مچھلی کا تیل اور دیگر‬
‫اومیگا ‪ 3‬سے بھرپور ذرائع دراصل سوزش کو کم کرکے‪ ،‬ورزش کو بہتر بنانے‪ ،‬پٹھوں‬
‫کی بحالی میں مدد کرکے وزن میں کمی کو فروغ دینے میں مددگار کردار ادا کرسکتے‬
‫ہیں‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1008325‬‬

‫ذیابطیس اور تمباکو نوشی پاکستان میں ساالنہ ساڑھے پانچ الکھ جانیں‬
‫لے رہے ہیں‪ ،‬ماہرین‬
‫محمد وقار بھٹی‬
‫نومبر ‪07 2021 ،‬‬

‫ذیابطیس اور تمباکو نوشی پاکستان میں نہ صرف ساالنہ ‪566,000‬‬


‫افراد کی ہالکتوں کا سبب بن رہے ہیں بلکہ ان دونوں کے نتیجے‬
‫میں ساالنہ دو الکھ سے زائد افراد اپنی ٹانگیں کٹنے کے نتیجے میں‬
‫معذور بھی ہوجاتے ہیں۔اس بات کا انکشاف ملکی اور غیرملکی‪Š‬‬
‫ماہرین صحت نے نیشنل ایسوسی ایشن آف ڈائبٹیز ایجوکیٹرز آف‬
‫پاکستان (نیڈپ) کی ساالنہ فٹ کانفرنس کے اختتامی روز خطاب‬
‫کرتے ہوئے کیا۔‬

‫تحقیقات | ‪135‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کانفرنس سے انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے صدر پروفیسر اینڈریو بولٹن کے عالوہ‬


‫برطانوی ماہرین ذیابطیس ڈاکٹر ڈیوڈ چینے‪ ،‬لبنان سے ڈاکٹر ولیم عقیقی‪ ،‬تنزانیہ سے ڈاکٹر‬
‫جی عباس‪ ،‬نیڈپ کے صدر ڈاکٹر سیف الحق‪ ،‬ڈاکٹر زاہد میاں‪ ،‬پروفیسر عبدالباسط سمیت‬
‫ملکی اور غیر ملکی ماہرین صحت نے بھی خطاب کیا۔‬
‫کانفرنس کے اختتامی سیشن میں بہترین تحقیق کرنے والے طلبہ و طالبات کو نقد انعامات‬
‫‪ ‬سے بھی نوازا گیا۔‬
‫اس موقع پر ماہرین کا کہنا تھا کہ ذیابطیس کے نتیجے میں پاکستان میں ساالنہ چار الکھ‬
‫افراد جاں بحق ہو رہے ہیں جبکہ سگریٹ نوشی اور تمباکو کے استعمال سے ساالنہ ایک‬
‫الکھ ‪ 66‬ہزار افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ذیابطیس کے مرض میں مبتال افراد جو اسموکنگ کرتے ہیں ان میں‬
‫ٹانگیں کٹنے کی شرح بہت زیادہ ہے اور اگر ایسے افراد دل کے دورے اور فالج سے بچ‬
‫بھی جائیں تو ان میں ٹانگیں کٹنے کا خطرہ پھر بھی زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت سے وابستہ ماہر شہزاد عالم کا کہنا تھا کہ دنیا کے کئی ممالک کے‬
‫علماء نے اب تمباکو نوشی اور اس کے استعمال کو حرام کہنا شروع کردیا ہے کیونکہ اس‬
‫کے نتیجے میں دنیا بھر کے عالوہ صرف پاکستان میں ایک الکھ ‪ 66‬ہزار افراد موت کے‬
‫منہ میں چلے جاتے ہیں جبکہ دوسری جانب ذیابطیس کے مرض میں مبتال افراد کی جانب‬
‫سے سگریٹ نوشی کے نتیجے میں نہ صرف دل کے دورے اور فالج بلکہ ٹانگیں کٹنے‬
‫کی شرح میں بھی اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪136‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے صدر پروفیسر اینڈریو بولٹن کا کہنا تھا کہ یورپ میں‬
‫زیابطیس کے مریضوں‪ Š‬میں پاؤں کے زخموں کی شرح محض دو فیصد ہے جب کہ ترقی‬
‫پذیر ممالک بشمول پاکستان میں پاؤں کے زخموں کی شرح ‪ 10‬فیصد سے زائد ہے جس‬
‫کے نتیجے میں ہر سال الکھوں افراد اپنی ٹانگیں کٹنے کی وجہ سے معذور ہو جاتے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ترقی پذیر ممالک کو اپنے عوام کی آگاہی اور صحت کی معلومات میں‬
‫اضافے کے لیے پروگرام شروع کرنے چاہیے ہیں‪ ،‬جبکہ دوسری جانب ٹیلی میڈیسن‬
‫سمیت جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے مریضوں کو ذیابطیس کی پیچیدگیاں اور اس کے‬
‫نتیجے میں ہونے والی ہالکت اور معذوری سے بچایا جا سکتا ہے۔‬
‫نیڈپ کے صدر ڈاکٹر سیف الحق نے اس موقع پر بتایا کہ ان کی ایسوسی ایشن پورے ملک‬
‫میں تین سو سے زائد ایسے کلینک قائم کرنے جا رہی ہے جہاں پر شوگر کے مریضوں‬
‫کے پاؤں میں ہونے والے زخموں کا عالج کیا جاسکے گا‪ ،‬لیکن اس طرح کے کلینکس کی‬
‫تعداد تین ہزار سے زائد ہونی چاہیے تاکہ پورے ملک میں موجود شوگر کے مریض ان‬
‫سے استفادہ کرسکیں۔‬
‫ڈائیبیٹک فٹ انٹرنیشنل کے نائب صدر پروفیسر زاہد میاں نے اس موقع پر شوگر کے‬
‫مریضوں کو مشورہ دیا کہ وہ روزانہ اپنے پیروں کا معائنہ کریں‪ ،‬ناخنوں کو کاٹنے کی‬
‫تربیت حاصل کریں‪ ،‬ننگے پیر چلنے سے گریز کریں جبکہ گرم پانی سے بھی اپنے پیروں‬
‫کو محفوظ رکھیں تاکہ ان کے پیروں کو زخموں سے بچایا جا سکے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1008436‬‬

‫تحقیقات | ‪137‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انسانی جسم میں درجنوں نئی اور قدرتی اینٹی بایوٹکس کی دریافت‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫اتوار‪ 7  ‬نومبر‪ 2021  ‬‬
‫موجودہ اینٹی بایوٹکس کے خالف خطرناک جراثیم کی بڑھتی ہوئی مزاحمت ایک سنگین‬
‫عالمی مسئلہ بنتی جارہی ہے۔‬
‫پنسلوانیا‪ :‬امریکی سائنسدانوں نے انسانی جسم میں قدرتی طور پر پائے جانے والے‬
‫ایسے درجنوں نئے ’پیپٹائیڈ‘ مرکبات دریافت کیے ہیں جنہیں استعمال کرتے ہوئے طاقتور‬
‫ضد حیوی ادویہ (اینٹی بایوٹکس) بنائی جاسکیں گی‬

‫۔‬
‫واضح رہے کہ اینٹی بایوٹکس کے خالف جرثوموں (بیکٹیریا) میں بڑھتی ہوئی مزاحمت‬
‫ایک سنگین طبّی مسئلے کی صورت اختیار کرتی جارہی ہے جسے حل کرنے کےلیے‬
‫ماہرین ہر ممکن طریقہ ٓازمانے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔‬
‫ایسی ہی کوششوں میں یونیورسٹی ٓاف پنسلوانیا کے سیزر ڈی ال فیونتے نونیز اور ان کے‬
‫ساتھیوں نے مصنوعی ذہانت اور طاقتور کمپیوٹروں کی مدد سے اب تک دریافت شدہ تمام‬
‫انسانی پروٹینز کا ڈیٹابیس کھنگاال۔‬

‫تحقیقات | ‪138‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تالش کا مقصد ایسے نئے پیپٹائیڈز دریافت کرنا تھا جو ممکنہ طور پر جراثیم کش‬
‫خصوصیات رکھتے ہوں۔ طبّی زبان میں انہیں ’’اینٹی مائیکروبیئل پیپٹائیڈز‘‘ یا مختصراً‬
‫کہا جاتا ہے۔ )‪’’‘‘ (AMPs‬اے ایم پیز‬
‫پہلے مرحلے میں انہیں ‪ 2,603‬نئے ’’امیدوار‘‘ اے ایم پیز ملے۔ مزید تفصیلی اور محتاط‬
‫مطالعے کے بعد‪ ،‬ان میں سے ‪ 55‬ایسے اے ایم پیز شناخت ہوئے جن میں جراثیم کش‬
‫خصوصیات کا امکان سب سے زیادہ محسوس ہوا۔‬
‫ان پیپٹائیڈز کو بیماریاں پھیالنے والے بیکٹیریا کی ٓاٹھ سخت جان اور ڈھیٹ اقسام کے‬
‫خالف ٓازمایا گیا تو ان میں سے ‪ 35‬پیپٹائیڈز نے جراثیم کش خصوصیات کا عملی مظاہرہ‬
‫بھی کیا۔‬
‫یہی نہیں بلکہ جسم کے مختلف حصوں میں قدرتی طور پر پائے جانے والے دوسرے‬
‫پیپٹائیڈز کے ساتھ مل کر ان اے ایم پیز کی جراثیم کش صالحیت میں ‪ 100‬گنا اضافہ ہوگیا۔‬
‫چوہوں پر مزید تجربات میں ان نئے دریافت شدہ اے ایم پیز نے نہ صرف موجودہ طاقتور‬
‫اینٹی بایوٹکس سے بھی بہتر کارکردگی دکھائی‪ ،‬بلکہ ان کے استعمال پر کوئی منفی اور‬
‫زہریلے ضمنی اثرات (سائیڈ ایفیکٹس) بھی سامنے نہیں ٓائے۔‬
‫ریسرچ جرنل ’’نیچر بایومیڈیکل انجینئرنگ‘‘‪ Š‬کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں نونیز اور ان کے‬
‫ساتھیوں نے بتایا ہے کہ نئے پیپٹائیڈز کسی بھی خطرناک جرثومے کی جھلی (میمبرین)‬
‫پھاڑ کر اسے ہالک کردیتے ہیں۔‬
‫پیپٹائیڈز کے حملے کے خالف بیکٹیریا اپنی اگلی نسلوں میں بھی مزاحمت پیدا کرنے کے‬
‫قابل نہیں ہو پاتے۔‬
‫مطلب یہ کہ ان پیپٹائیڈز کو استعمال کرکے ایسی نئی ضد حیوی ادویہ (اینٹی بایوٹکس)‬
‫بنائی جاسکیں گی جو موجودہ اینٹی بایوٹکس سے زیادہ مؤثر ہوں گی‪ ،‬جبکہ خطرناک‬
‫جراثیم ان کے خالف مزاحمت بھی پیدا نہیں کر سکیں گے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2244052/9812/‬‬

‫مچھلی کا تیل استعمال کرنے کے وہ فوائد جن سے آپ بے خبر تھے‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪7 2021‬‬

‫مچھلی اور دیگر سمندری جانوروں میں پائے جانے والے اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کو‬
‫ماہرین انسانی صحت کے لیے مفید اور بہت سی بیماری سے نجات کا سبب قرار دیتے‬
‫ہیں‪ ،‬اسی وجہ سے تیل کو خوراک میں شامل کرنے کی شفارش کی گئی ہے۔‬
‫م‪ŠŠ‬اہرین طب کہ‪ŠŠ‬تے ہیں مچھلی ک‪ŠŠ‬ا تی‪ŠŠ‬ل ص‪ŠŠ‬حت کیل‪ŠŠ‬ئے نہ‪ŠŠ‬ایت مفی‪ŠŠ‬د ہے‪ ،‬جس کی م‪ŠŠ‬دد س‪ŠŠ‬ے‬
‫کولیسٹرول کو کم کی‪Š‬ا جاس‪Š‬کتا ہے‪ ،‬کی‪Š‬ونکہ اس میں موج‪Š‬ود اومیگ‪ŠŠ‬اتھری انس‪Š‬انی جس‪ŠŠ‬م کے‬

‫تحقیقات | ‪139‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫مدافعتی نظام کو مضبوط بناتے اور نزلہ زکام‪،‬کھانس‪ŠŠ‬ی س‪ŠŠ‬ے محف‪ŠŠ‬وظ رکھ‪ŠŠ‬نے میں بھی م‪ŠŠ‬دد‬
‫دیتے ہیں۔‬
‫امراض قلب سے بچانے میں معاون ہے سبزیوں میں‬ ‫ِ‬ ‫ماہرین کا کہنا ہے کہ مچھلی کا تیل‬
‫اس تیل کو استعمال کرنے سے کولیسٹرول کو کم کرنے میں مدد ملتی ہے‪ ،‬جس سے ہارٹ‬
‫اٹیک کا خطرہ کم ہوجاتا ہے۔‬
‫مچھلی کے تیل میں ایسی چکنائی پائی جاتی ہے جو انسانی جسم کیلئے بہت ضروری ہے‪،‬‬
‫یہ تیل ہمارے جسم کے نظام کو درست رکھتا ہے‪ ،‬سردیوں میں مچھلی کا تیل پینا زیادہ‬
‫فائدے مند ہے‪ ،‬اسے پینے سے جسم کو ایسی توانائی حاصل ہوتی ہے جس سے مدافعتی‬
‫نظام مضبوط اور متحرک ہوجاتا ہے۔‬
‫اب تک عالمی سطح پر مچھلی کے فوائد سے متعلق متعدد تحقیقات سامنے ٓاچکی ہیں‪ ،‬جن‬
‫امراض قلب‪ ،‬سانس کی بیماری‪ ،‬ذہنی تناؤ‪ ،‬بے‬‫ِ‬ ‫میں بتایا گیا ہے کہ تیل کے استعمال سے‬
‫چینی‪ ،‬مٹاپے سے نجات اور بالوں کو صحت مند بنایا جاسکتا ہے۔‬
‫ہارٹ اٹیک کے خطرات میں کمی‬
‫ماہرین کے مطابق مچھلی کے تیل میں اومیگا تھری اور اومیگا ‪ 6‬فیٹی ایسڈ شامل ہیں‪ ،‬جو‬
‫جسم کے منفی اثرات کو متوازن کرنے میں مدد دیتا‪ ،‬خون کو گاڑھا بناتا اور خون میں‬
‫موجود چکنائی (کولیسٹرول) کی شرح کو کم کرتا ہے۔ ان تمام چیزوں کی زیادتی کے‬
‫باعث کوئی بھی شخص عارضہ قلب کا شکار ہوسکتا ہے۔‬
‫سانس کے مرض کے لیے مفید‬
‫طبی ماہرین اور طبیب کہتے ہیں کہ مچھلی کے تیل کے استعمال سے سانس لینے میں‬
‫دشواری ‪ ،‬سینے میں بلغم‪ ،‬کھانسی کم یا ختم ہوجاتی ہے کیونکہ اس میں اومیگا ‪ 3‬شامل‬
‫ہے جو ایئرویز کی سوجن کم کرنے میں مدد دیتی ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪140‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ذہنی تناؤ اور بے چینی کا خاتمہ‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ تیل میں شامل اومیگا تھری فیٹی ایسڈز ڈپریشن کو کم کرنے میں‬
‫معاون ہے۔‬
‫بالوں کی صحت بہتر کرتا ہے‬
‫یہ بات تو ٓاپ جانتے ہی ہیں کہ بالوں کے ‪ ‬صحت مند ہونے کے لیے سیاہ پن اور ان کا‬
‫گھنا ہونے کے لیے اومیگا تھری کی ضرورت‪ Š‬ہوتی ہے‪ ،‬مچھلی کے تیل میں اومیگا تھری‬
‫فیٹی ایسڈز شامل ہیں‪ ،‬جو بالوں کو لمبا‪ ،‬گھنا‪ ،‬مضبوط‪ ،‬چمکادار اور سیاہ بناتے ہیں۔‬
‫مٹاپے سے نجات‬
‫ماہرین نے بتایا کہ مچھلی کے تیل کے استعمال کے ساتھ اگر ورزش باقاعدگی کے ساتھ‬
‫کی جائے تو اس سے اضافی وزن یعنی مٹاپے سے نجات حاصل کی جاسکتی ہے۔‬
‫یہ تیل حاصل کیسے کیا جاتا ہے؟‬
‫یہ تیل مچھلی کے مخصوص اقسام کے ٹیشوز سے حاصل کیا جاتا ہے‪ ،‬جسے باقاعدہ‬
‫پروسیس کرنے کے بعد خوراک کے لیے قابل استعمال بنایا جاتا ہے تاکہ یہ روزمرہ کی‬
‫خوراک کے حصے کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔‬

‫یاد رہے کہ مارکیٹ میں مچھلی کے تیل کے بنے ہوئے کیپسول اور گولیاں بھی دستیاب‬
‫ہیں‪ ،‬اُن کا استعمال بھی بالکل اُسی طرح مفید ہے۔ اگر کوئی کھانوں میں یہ تیل استعمال‬
‫نہیں کرسکتا تو وہ کیپسول کھاسکتا ہے۔‬
‫نوٹ‪ :‬کسی بھی بیماری میں مبتال افراد اپنے طبیب سے مشورے کے بعد تیل کو استعمال‬
‫کریں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/590179-2/‬‬

‫ذیابیطس اور تمباکو نوشی سے پاکستان میں ساالنہ ‪ 5‬الکھ ‪ 66‬ہزار‬


‫اموات کا انکشاف‬

‫‪ ‬انور خان‬
‫نومبر ‪ 7 2021‬‬

‫کراچی‪ :‬طبی ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ پاکستان میں ساالنہ پانچ الکھ ‪ 66‬ہزار افراد‬
‫ذیابیطس اور تمباکو نوشی کی وجہ سے موت کو گلے لگا لیتے ہیں۔‬
‫اے ٓار وائی نیوز کے مطابق اس ب‪Š‬ات ک‪Š‬ا انکش‪Š‬اف ملکی اور غ‪Š‬یرملکی‪ Š‬م‪Š‬اہرین ص‪Š‬حت نے‬
‫نیشنل ایسوسی ایشن آف ڈایبٹیز ایجوکیٹرز آف پاکستان (نیڈپ) کی س‪ŠŠ‬االنہ فٹ ک‪ŠŠ‬انفرنس کے‬
‫اختتامی روز خطاب کرتے ہوئے کیا۔ماہرین نے بتایا کہ ذیابیطس اور تمباکو نوشی پاکس‪ŠŠ‬تان‬
‫میں نہ ص‪ŠŠ‬رف س‪ŠŠ‬االنہ ‪ 566,000‬اف‪ŠŠ‬راد کی ہالکت‪ŠŠ‬وں ک‪ŠŠ‬ا س‪ŠŠ‬بب بن رہے ہیں بلکہ ان دون‪ŠŠ‬وں‬
‫تحقیقات | ‪141‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫عادتوں کے نتیجے میں میں ساالنہ دو الکھ سے زائد افراد اپ‪ŠŠ‬نی ٹ‪ŠŠ‬انگیں کٹ‪ŠŠ‬نے کی‪ŠŠ‬وجہ س‪ŠŠ‬ے‬
‫معذور بھی ہوجاتے ہیں۔‬
‫کانفرنس سے انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے صدر پروفیسر اینڈریو بولٹن کے عالوہ‬
‫برطانوی ماہرین ذیابیطس ڈاکٹر ڈیوڈ چینے‪ ،‬لبنان سے ڈاکٹر ولیم عقیقی‪ ،‬تنزانیہ سے ڈاکٹر‬
‫جی عباس‪ ،‬نیڈپ کے صدر ڈاکٹر سیف الحق‪ ،‬ڈاکٹر زاہد میاں‪ ،‬پروفیسر عبدالباسط سمیت‬
‫ملکی اور غیر ملکی ماہرین صحت نے بھی خطاب کیا۔‬
‫اس موقع پر ماہرین کا کہنا تھا کہ ذیابیطس کے نتیجے میں پاکستان میں ساالنہ چار الکھ‬
‫افراد جاں بحق ہو رہے ہیں جبکہ سگریٹ نوشی اور تمباکو کے استعمال سے ساالنہ ایک‬
‫الکھ ‪ 66‬ہزار افراد اپنی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ مقررین کے مطابق ذیابیطس کے‬
‫مرض میں مبتال تمباکو نوشی کرنے والوں میں ٹانگیں کٹنے کی شرح بہت زیادہ ہے اور‬
‫اگر ایسے افراد دل کے دورے اور فالج سے بچ بھی جائیں تو ان کی ٹانگیں شوگر کی وجہ‬
‫سے بہت زیادہ خراب ہوجاتی ہیں۔‬
‫عالمی ادارہ صحت سے وابستہ ماہر طب شہزاد عالم کا کہنا تھا کہ دنیا کے کئی ممالک‬
‫کے علما نے اب تمباکو نوشی اور اس کے استعمال کو حرام قرار دینا شروع کردیا ہے‬
‫کیونکہ اس کے نتیجے میں ساالنہ الکھوں اموات ہورہی ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ تمباکو نوشی کی وجہ سے ذیابیطس کی بیماری بھی عام ہوتی جارہی‬
‫ہے‪ ،‬جس سے ہارٹ اٹیک ‪ ،‬فالج اور ٹانگوں سے معذور افراد کی شرح میں بھی اضافہ‬
‫ہورہا ہے۔‬
‫انٹرنیشنل ڈائبٹیز فیڈریشن کے صدر پروفیسر اینڈریو بولٹن کا کہنا تھا کہ یورپ میں‬
‫ذیابیطس کے مریضوں میں پاؤں کے زخموں کی شرح محض دو فیصد ہے جب کہ ترقی‬
‫پذیر ممالک بشمول پاکستان میں پاؤں کے زخموں کی تعداد دس فیصد سے زائد ہے جس‬
‫کے نتیجے میں ہر سال الکھوں افراد اپنی ٹانگیں کٹنے کی وجہ سے معذور ہو جاتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪142‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے زور دیا کہا ترقی پذیر ممالک کو عوامی آگاہی اور صحت کی معلومات میں‬
‫اضافے کے لئے پروگرام شروع کرنے چاہیے جبکہ دوسری جانب ٹیلی میڈیسن سمیت‬
‫جدید ٹیکنالوجی کا استعمال کر کے مریضوں کو ذیابطیس کی پیچیدگیاں اور اس کے‬
‫نتیجے میں ہونے والی ہالکت اور معذوری سے بچایا جا سکتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/590227-2/‬‬

‫کوسٹا ریکا بچوں کیلئے کورونا ویکسین الزمی قرار دینے واال پہال ملک‬
‫بن گیا‬

‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪06 2021‬‬

‫‪:‬اب کوسٹا ریکا میں کورونا ویکسین عام ٹیکوں کی طرح لگائی جائے گی—فوٹو‬
‫‪aguascalientesdailypost‬‬
‫اگرچہ امریکا سمیت دنیا کے متعدد ممالک میں کم عمر بچوں کو کورونا ویکسین لگانے‬
‫کی اجازت دے دی گئی ہے‪ ،‬تاہم وسطی امریکی ملک کوسٹا ریکا وہ پہال ملک بن گیا‪،‬‬
‫جس نے بچوں کے لیے ویکسینیشن الزمی قرار دے دی۔‬
‫پاکستان میں بھی ‪ 12‬سال سے زائد عمر کے بچوں کو کورونا ویکسین لگانے کی اجازت‬
‫دی گئی اور زیادہ تر ممالک میں بڑھتی عمر کے افراد کی ویکسینیشن جاری ہے۔‬
‫تاہم بعض امریکا سمیت کئی ممالک میں ‪ 5‬سال کی عمر کے بچوں کو بھی ویکسین لگانے‬
‫کی اجازت دی گئی ہے۔‬
‫لیکن اب کوسٹا ریکا دنیا کا وہ پہال ملک بن گیا ہے‪ ،‬جس نے بچوں کی ویکسینیشن الزمی‬
‫قرار دے دی ہے۔‬
‫برطانوی نشریاتی ادارے ’بی بی سی‘ کے مطابق کوسٹا ریکا کی حکومت نے امریکی‬
‫کمپنی فائزر کے ساتھ بچوں کو ویکسین لگانے کا معاہدہ کرلیا‪ ،‬جس کے تحت ‪ 5‬سال سے‬
‫زائد عمر کے بچوں کو الزمی ویکسین لگائی جائے گی۔‬
‫کوسٹا ریکا حکام کے مطابق مارچ ‪ 2022‬سے کورونا کی ویکسین کو الزمی ویکسینیشن‬
‫کی فہرست میں شامل کرلیا جائے گا۔‬
‫ملک میں پہلے ہی بچوں کو متعدد موذی امراض سے تحفظ کی ویکسین لگائی جا رہی ہیں‬
‫اب بچوں کو کورونا سے تحفظ کی فائزر ویکسین بھی دی جائے گی۔‬
‫تحقیقات | ‪143‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫معاہدے کے تحت کوسٹا ریکا کی حکومت ‪ 15‬الکھ ڈوز ‪ 5‬سال سے زائد عمر بچوں کے‬
‫لیے خریدے گی جب کہ باقی ‪ 20‬الکھ ڈوز بالغ افراد کو لگانے کے لیے خریدے جائیں‬
‫گے۔‬
‫حکومت کے مطابق اس وقت تک کوسٹا ریکا میں مجموعی طور پر ‪ 70‬فیصد ٓابادی کو‬
‫ایک ڈوز لگ چکا ہے جب کہ ‪ 55‬فیصد لوگ مکمل طور پر ویکسینیشن کروا چکے ہیں۔‬
‫کوسٹا ریکا کی حکومت نے ویکسین کو بچوں کے لیے ایک ایسے وقت میں الزمی قرار‬
‫دیا ہے جب کہ حال ہی میں امریکی حکومت نے ‪ 5‬سال سے زائد عمر کے بچوں کو فائزر‬
‫ویکسین لگانے کی اجازت دی تھی۔‬
‫کوسٹا ریکا کے عالوہ دنیا کے کسی بھی ملک نے تاحال بچوں کے لیے کورونا کی‬
‫ویکسین کو الزمی قرار نہیں دیا‪ ،‬البتہ وبا سے تحفظ کے لیے ویکسینیشن کو ضروری‬
‫قرار دے رکھا ہے۔‬
‫پاکستان سمیت زیادہ تر ممالک میں اب اسکول جاتے بچوں کو بھی ویکسین لگائی جا رہی‬
‫ہے اور اب خیال کیا جا رہا ہے کہ کوسٹا ریکا کی طرح دیگر ممالک میں بچوں کے لیے‬
‫کورونا ویکسین کو الزمی قرار دیں گے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1172106/‬‬

‫تحقیقات | ‪144‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫وٹامن ڈی کی کمی اور موت کے خطرے میں تعلق دریافت‬
‫ویب ڈیسک‬
‫نومبر ‪07 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫وٹامن ڈی کی کمی کچھ افراد کی قبل از وقت موت کا باعث بن سکتی ہے۔یہ بات برطانیہ‬
‫میں ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔طبی جریدے دی النسیٹ ڈائیبیٹس اینڈ‬
‫اینڈوکرینولوجی میں شائع تحقیق میں ایسے جینیاتی شواہد پیش کیے گئے جن سے وٹامن‬
‫ڈی کی کمی اور موت کے درمیان ایک تعلق کا عندیہ مال۔کیمبرج یوییورسٹی کی تحقیق کا‬
‫مقصد یہ جاننا تھا کہ کیا جینز وٹامن ڈی کی سطح میں کردار ادا کرتے ہیں۔‬
‫اس مقصد کے لیے ‪ 33‬تحقیقی رپورٹس کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔‬
‫یہ درمیانی عمر کے ‪ 3‬الکھ ‪ 86‬ہزار سے زیادہ افراد کا ڈیٹا تھا جن کی مانیٹرنگ مختلف‬
‫تحقیقی رپورٹس میں اوسطا ً ساڑھے ‪ 9‬سال تک کی گئی اور ان میں ٓاغاز میں خون کی‬
‫شریانوں سے جڑے امراض کی تاریخ نہیں تھی۔‬
‫ان میں سے ‪ 33‬ہزار ‪ 546‬افراد میں امراض قلب اور ‪ 18‬ہزار ‪ 166‬میں فالج کا سامنا ہوا‬
‫جبکہ ‪ 27‬ہزار ‪ 885‬ہالک ہوگئے۔‬
‫ان کیسز میں وٹامن ڈی کے کردار کے بہتر موازنے کے لیے جینیاتی پراسیس کو اپنایا گیا۔‬
‫محققین نے وٹامن ڈی کی زیادہ سطح اور امراض قلب‪ ،‬فالج یا موت کے درمیان کوئی تعلق‬
‫دریافت نہیں کیا۔‬
‫مگر جو افراد وٹامن ڈی کی کمی کے شکار تھے ان کے جینیاتی تجزیے سے ایسے ٹھوس‬
‫شواہد ملے جن سے وٹامن ڈی کی زیادہ سطح اور موت کے خطرے میں کمی کے درمیان‬
‫تعلق ثابت ہوتا ہے۔درحقیقت وٹامن ڈی کی ‪ 10‬نانو میٹر فی لیٹر سطح سے کسی بھی وجہ‬
‫سے موت کا خطرہ ‪ 30‬فیصد تک کم ہوتا ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ تجزیے سے وٹامن ڈی کی کم سطح اور موت کے خطرے میں کمی‬
‫کے درمیان تعلق کا عندیہ ملتا ہے۔‬
‫انہوں نے تسلیم کیا کہ تحقیق کسی حد تک مھدود تھی یعنی اس کے نتائج درمیانی عمر کے‬
‫افراد پر مبنی تھے جو سب کے سب یورپی نژاد تھے۔مگر انہوں نے زور دیا کہ وٹامن ڈی‬
‫جسم کے لیے انتہائی اہم جز ہے جس کی مناسب سطح کا خیال رکھا جانا چاہیے۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1172155/‬‬

‫کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے فائزر نے دوا تیار کر لی‪ 90 ،‬فی‬


‫ٰ‬
‫دعوی‬ ‫صد‪ ‬مؤثر ہونے کا‬

‫تحقیقات | ‪145‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫نومبر ‪2021 ,05‬‬
‫ویب ڈیسک‬
‫میامی کے ایک ہسپتال میں ایک ہیلتھ کئیر ورکر کرونا ویکسین سرنج میں بھر رہا ہے۔‬
‫فوٹو اے پی‬

‫دوا ساز کمپنی فائزر نے جمعے بتایا ہے کہ کرونا وائرس سے بچاؤ کے لیے اس کی‪— ‬‬
‫تجرباتی اینٹی وائرل دوا کے استعمال سے ان بالغ افراد کے اسپتال میں داخل ہونے کی‬
‫شرح اور اموات میں ‪ 90‬فی صد کے لگ بھگ کمی ہوئی ہے‪ ،‬جنہیں اس وائرس سے‬
‫زیادہ خطرہ تھا۔‬
‫اس وقت کوویڈ‪ 19-‬میں مبتال زیادہ تر مریضوں کا عالج انجکشن کے ذریعے کیا جات‪ŠŠ‬ا ہے۔‬
‫ایک اور دوا ساز کمپنی میرک نے سب سے پہلے اس وبا کے عالج کے ل‪ŠŠ‬یے گولی‪ŠŠ‬اں تی‪ŠŠ‬ار‬
‫کی ہیں‪ ،‬جس کے نتائج بہتر رہے ہیں۔ امریکہ ک‪ŠŠ‬ا ف‪ŠŠ‬وڈ این‪ŠŠ‬ڈ ڈرگ ایڈمنسٹریش‪ŠŠ‬ن ک‪ŠŠ‬ا ادارہ اس‬
‫دوا کی منظوری سے پہلے اس کا جائزہ لے رہا ہے جب کہ جمعرات کے روز برطانیہ نے‬
‫اسے استعمال کے لیے منظور کر لیا ہے۔‬
‫فائزر نے کہا ہے کہ وہ فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کو اپنی دوا کی جلد از جلد منظوری‬
‫کے لیے کہے گا۔ تاہم‪ ،‬اس پر فیصلہ ہونے میں کچھ ہفتے یا مہینے لگ سکتے ہیں۔‬
‫پچھلے سال وبائی مرض کے آغاز کے بعد سے دنیا بھر میں طبی ماہرین اس کے عالج‬
‫کے لیے ایک ایسی دوا کی تالش میں تھے جسے گھر پر استعمال کیا جا سکے‪ ،‬تاکہ‬
‫مریض کو اسپتال لے جانے کی ضرورت نہ پڑے۔‬

‫کرونا وائرس کے عالج کے لیے میرک کمپنی کی تیار کردہ دوا ایف ڈی اے کے زیر غور‬
‫ہے۔‬
‫پٹس برگ یونیورسٹی میں متعدی امراض کے سربراہ ڈاکٹر جان میلرز نے‪ ،‬جو فائزر کے‬
‫مطالعے میں شامل نہیں تھے‪ ،‬کہا ہے کہ کرونا وائرس کے عالج کے لیے گولیوں کی‬
‫شکل میں دوا کی تیاری ایک بہت اہم پیش رفت ہے۔‬
‫جمعہ کو‪ ،‬فائزر نے ‪ 775‬بالغوں پر اپنی دوا کے استعمال سے متعلق ابتدائی نتائج جاری‬
‫کیے ہیں۔ ان افراد کو بیماری کی عالمات ظاہر ہونے کے فوراً بعد ایک اور اینٹی وائرل‬
‫کے ساتھ یہ دوا دی گئی تھی۔ ایک مہینے کے بعد مرتب کیے جانے والے نتائج کے مطابق‬
‫اس کے استعمال سے مرض کی عالمتوں اور اسپتال جانے کی شرح میں ‪ 89‬فی صد کمی‬
‫ہوئی اور اس دوران کوئی مریض ہالک نہیں ہوا۔‬
‫فائزر کے چیف سائنٹیفک آفیسر ڈاکٹر میکیل ڈولس ٹن نے ایک انٹرویو میں بتایا کہ یہ ایک‬
‫غیر معمولی دوا ہے۔ اس کی افادیت تقریبا ً ‪ 90‬فی صد ہے اور یہ موت سے ‪ 100‬فی صد‬
‫تحفظ فراہم کرتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪146‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اعلی حکام اس بات پر زور دیتے رہتے ہیں کہ ویکسین اس وبا‬ ‫ٰ‬ ‫امریکہ میں صحت کے‬
‫سے حفاظت کا ایک بہترین طریقہ ہے۔ لیکن الکھوں بالغ امریکیوں‪ Š‬نے ابھی تک ویکسین‬
‫نہیں لی اور وہ اس کی مسلسل مخالفت کر رہے ہیں‪ ،‬جب کہ دنیا بھر میں ایسے افراد کی‬
‫تعداد کروڑوں میں ہے۔ کرونا وائرس کی دوا کی دریافت سے وائرس کا پھیالؤ روکنے اور‬
‫اس میں مبتال افراد کے آسان عالج میں مدد ملے گی۔‬
‫فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن نے میرک کمپنی کی تیار کردہ کرونا وائرس کی دوا کا جائزہ‬
‫لینے کے لیے اس مہینے کے آخر میں ایک اجالس بالیا ہے۔ میرک نے ستمبر میں بتایا تھا‬
‫کہ اس کی دوا کے استعمال سے مریضوں کے اسپتال میں داخلے اور اموات میں ‪ 50‬فی‬
‫صد تک کمی ہوئی ہے۔ تاہم کئی ماہرین نے ان دعوؤں پر سوال اٹھائے ہیں۔‬
‫ڈاکٹر میلورس کا کہنا ہے کہ فائزر اور میرک کی دواؤں کی افادیت میں نمایاں فرق ہے۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے۔ تاہم اس بارے‬ ‫فائزر نے ‪ 90‬فی صد جب کہ میرک نے ‪ 50‬فی صد افادیت کا‬
‫میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‬
‫یہ دوا پہلے پہل ‪ 2003‬میں اس وقت دریافت ہوئی تھی جب ایشیا میں سارس وائرس پھیال‬
‫ہوا تھا۔ پچھلے سال کمپنی کے محققین نے اس دوا کو کرونا وائرس پر آزمانے کا فیصلہ‬
‫کیا کیونکہ دونوں وباؤں کے وائرسز میں کافی مماثلت تھی۔‬
‫اس سے قبل امریکہ نے کوویڈ‪ 19-‬کے عالج کے لیے ایک اور اینٹی وائرل دوا‬
‫ریمڈیسیوائر کی منظوری دی ہے جو وائرس کے خالف لڑائی میں انسانی جسم کے‬
‫مدافعتی نظام کی مدد کرتی ہے۔ لیکن وہ دوا صرف شریان میں لگائے جانے والے انجکشن‬
‫کی صورت میں اسپتال یا کلینک میں ہی دی جاتی ہے اور اس کی رسد بھی محدود ہے۔‬
‫کرونا وائرس کے عالج کے لیے دوا بنانے کے اعالن کے بعد فائزر کے شیئرز میں‬
‫جمعے کے روز ‪ 8‬فی صد اضافہ دیکھا گیا ہے‬

‫‪Web‬‬

‫انجیکشن سے ڈرنے والے افراد کے لئے بڑی خوشخبری۔۔۔سائنسدانوں‬


‫نے بہترین حل نکال لیا‬
‫‪07/11/2021‬‬
‫‪     ‬‬
‫اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک)ماہرین نے ایسا روبوٹ تیار کرلیا جو بغیر سوئی‬
‫کے ویکسین لگا سکے گا‪ ،‬سوئی سے خوفزدہ افراد کے لیے یہ روبوٹ نہایت مددگار ثابت‬
‫ہوسکتا ہے۔بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق اس روبوٹ کا نام کوبی رکھا گیا ہے جسے‬
‫یونیورسٹی ٓاف واٹرلو کے سائنسدانوں نے تیار کیا ہے‪ ،‬اسے کووڈ ‪ 19‬کے تناظر میں بنایا‬
‫تحقیقات | ‪147‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫گیا ہے کیونکہ ویکسین لگوانے کا عمل جاری ہے اور مزید کچھ عرصے جاری رہے گا۔‬
‫کوبی روبوٹ اسے ٓاسان بنادیتا ہے اور بہت تیزی سے لوگوں کو ویکسین لگاتا ہے۔‬
‫یونیورسٹی میں واقع اسٹارٹ اپ ’کوبایونکس‘ نے اسے بنایا ہے جسے کئی افراد‬
‫پرکامیابی سے ٓازمایا گیا ہے۔اس کا اصول بہت سادہ ہے‪ ،‬پہلے سے رجسٹرشدہ افراد کسی‬
‫ایسے شفا خانے جاتے ہیں جہاں یہ روبوٹ موجود ہوتا ہے۔‬
‫ویکسین لگوانے کے لیے روبوٹ کیمرے کے تھری ڈی سینسر مریض کی شناختی‬
‫عالمت کو پڑھتے ہیں۔اس تصدیق کے بعد روبوٹ بازو اندر بھری ویکسین سے ایک‬
‫خوراک کھینچتا ہے‪ ،‬پھر وہ مریض کے بازو کو دیکھ کر تھری ڈی نقشہ بناتے ہیں۔اس‬
‫دوران مصنوعی‪ Š‬ذہانت ( اے ٓائی) واال سافٹ ویئر ویکسین لگانے کی مناسب ترین جگہ کی‬
‫شناخت کرتا ہے۔ اس کے بعد روبوٹ بازو انسانی جلد سے مس ہوتا ہے اور بال سے بھی‬
‫باریک سوراخ کے ذریعے ویکسین کو ایک پریشر سے اندر داخل کردیتا ہے۔‬
‫اس عمل کی مزید تفصیالت بیان نہیں کی گئی ہیں۔کوبایونکس‪ Š‬کمپنی کے شریک سربراہ ٹِم‬
‫لیسویل نے کہا ہے کہ اگلے ‪ 2‬برس میں ویکسین روبوٹ مارکیٹ میں عام دستیاب ہوگا‪ ،‬یہ‬
‫روبوٹ بہت تیزی سے انسانوں کی بڑی تعداد کو ویکسین لگا سکے گا۔دوسری جانب دور‬
‫افتادہ عالقوں میں اپنی خدمات انجام دے سکے گا جہاں مناسب طبی عملے کا شدید فقدان‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202111-127910.html‬‬

‫کورونا کے منکرین میں اضافہ ہو رہا ہے‪ ،‬جرمن انٹیلی جنس‬


‫سربراہ‬
‫تحقیقات | ‪148‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫جرمنی کی داخلی انٹیلی جنس سروس کے سربراہ نے حکام کو متنبہ کیا ہے کہ ملک‬
‫میں کورونا وبا کے منکرین کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ جرمنی کو اس وقت کورونا وبا‬
‫کی چوتھی لہر کا سامنا ہے۔‬

‫‪    ‬‬
‫جرمنی کی داخلی انٹیلی جنس کے سربراہ کا یہ بیانن ایک ایسے وقت میں سامنے ٓایا‬
‫ہے‪ ،‬جب ایک انتہا پسند تنظیم '' ُکویرڈینکن‘‘ نے ہفتہ چھ نومبر کو الئیپزگ شہر میں‬
‫ایک مظاہرے کی منصوبہ بندی کر رکھی ہے۔ یہ تنظیم کورونا کی حقیقت سے انکاری‬
‫ہے اور ویکسینیشن کی بھی مخالفت کرتی ہے۔‬

‫دوسری جانب یورپ کے ٓابادی کے لحاظ سے سب سے بڑے ملک جرمنی میں کورونا‬
‫انفیکشنز کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ برلن حکام نے اسے وباء کی چوتھی لہر‬
‫قرار دیا ہے۔‬
‫انٹیلی جنس سربراہ کا انتباہ‬
‫انٹیلی جنس محکمے کے سربراہ اشٹیفان کرامر نے کہا کہ روز بروز دائیں بازو کے‪ ‬‬
‫حلقے کے افراد کی جانب سے لوگوں کی بے عزتی کرنے‪ ،‬مذاق اڑانے‪ ،‬مارپیٹ‬
‫کرنے کے ساتھ ساتھ غیر معمولی جارحانہ مزاج کا مظاہرہ تھیورنگیا سمیت کئی‬
‫دوسری ریاستوں میں بھی سامنے ٓایا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪149‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کورونا پابندیوں کے خالف نکالی گئی احتجاجی ریلی میں اٹھایا گیا بینر‬

‫کرامر کے مطابق دائیں بازو کے افراد میں یہ جارحانہ رویہ بوسٹر لگانے کے اعالن‬
‫کے بعد مزید شدید ہو سکتا ہے۔ اس وقت دائیں بازو کے افراد کا ایسا منفی رویہ‬
‫سارے ملک میں برداشت سے باہر ہوتا جا رہا ہے۔‬
‫اشٹیفان کرامر کے مطابق دائیں بازو کے افراد کی جانب سے کورونا وباء کی چوتھی‬
‫لہر کے تناظر میں بوسٹر کی فراہمی پر بھی خفگی سامنے ٓائی ہے اور الئپزگ شہر‬
‫میں چھ نومبر کا مظاہرہ اسی رویے کا عکاس ہے۔‬
‫موومنٹ الئپزگ‬
‫ہفتہ چھ اکتوبر کو جرمن ریاست سیکسنی کے سب سے بڑے شہر الئپزگ میں ایک‬
‫مقامی تنظیم 'موومنٹ الئپزگ‘ نے ایک مظاہرے کا انتظام کیا۔ یہ تنظیم ویکسین مخالف‬
‫ہے۔ یہ مظاہرہ حکومت کی جانب سے الئپزگ میں انسداد کورونا کے لیے حالیہ نافذ‬
‫کردہ اقدامات کے خالف کیا جا رہا ہے۔‬
‫اس مظاہرے میں شرکت کے لیے منتظمین نے تین ہزار افراد کے شریک ہونے کا‬
‫بتایا تھا لیکن اب اس ریاست کے قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کورونا انفیکشنز‬
‫کی بڑھتی تعداد کے تناظر میں مظاہرے میں صرف ایک ہزار افراد کو شریک ہونے‬
‫کی اجازت دی ہے۔ سیکسنی کی ریاست تھیورنگیا کی ہمسایہ ہے‪ ،‬جہاں ُکویرڈینکن‬
‫نامی انتہا پسند تنظیم سر گرم ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪150‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انٹیلی جنس حکام نے واضح کیا ہے کہ دائیں بازو کے مظاہروں کے جواب میں بھی‬
‫ویکسین کے حامیوں نے احتجاج کی منصوبہ بندی کی ہے اور پولیس نے خود کو‬
‫ایک بڑی کارروائی کے لیے بھی تیار کر رکھا ہے۔‬

‫سترہ جون کو جرمن دارالحکومت میں کورونا منکرین کے مظاہرے میں سابقہ جرمن‬
‫حکومت کا جھنڈا بھی لہرایا گیا تھا‬
‫ُکویرڈینکن‬
‫انتہا پسند ُکویرڈینکن نامی احتجاجی تحریک بنیادی طور پر ان افراد کی قائم کردہ ہے‪،‬‬
‫جو کھلے عام کورونا وباء اور حفاظتی اقدامات (ماسک لگانے اور سماجی فاصلے‬
‫وغیرہ) کے منکر ہیں۔ اس تنظیم میں دائیں بازو کے سرگرم اراکین شامل ہیں اور یہ‬
‫مسلسل ویکسین مخالف مہم کا سلسلہ جاری رکھے ہوئے ہیں۔‬
‫اسی تنظیم نے وباء کی شدت کے دوران کئی ویکسین مخالف مظاہروں کا انتظام بھی‬
‫کیا تھا۔ ان میں بعض مظاہروں میں تشدد بھی دیکھا گیا تھا۔ اب اس تنظیم نے کورونا‬
‫بوسٹر کی مخالفت بھی شروع کر دی ہے۔ دائیں بازو کی اس تنظیم کے اراکین‬
‫تھیورنگیا ریاست میں خاصے متحرک ہیں۔‬
‫ع ح‪/‬ا ا (ڈی پی اے)‬

‫‪‬‬ ‫تاریخ‪06.11.2021 ‬‬

‫تحقیقات | ‪151‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://www.dw.com/ur/%DA‬‬
‫‪%A9%D9%88%D8%B1%D9%88%D9%86%D8%A7-%DA%A9%DB‬‬
‫‪%92-%D9%85%D9%86%DA%A9%D8%B1%DB%8C%D9%86-‬‬
‫‪%D9%85%DB%8C%DA%BA-‬‬

‫کووڈ کے عالج کے ليے آزمائشی گولی ’پيکس لووڈ‘ نوے فيصد‬


‫موثر‬
‫‪06.11.2021‬‬

‫کورونا کی وبا سے نمٹنے کے ليے اب تک حفاظتی ٹيکے دستياب تھے مگر يہ‬
‫صورتحال جلد تبديل ہو رہی ہے۔ ميرک کے بعد اب فائزر کی بھی ايک گولی کلينيکل‬
‫ٹرائلز کے مرحلے ميں ہے اور حوصلہ بخش نتائج سامنے آ رہے ہيں۔‬
‫‪    ‬‬

‫کووڈ انيس کے عالج کے ليے امريکی دوا ساز کمپنی فائزر کی گولی کلينيکل ٹرائلز‬
‫ميں کافی موثر ثابت ہوئی ہے۔ فائزر نے کورونا کی وبا کے خالف جنگ ميں اسے‬
‫ايک بڑی پيش رفت قرار ديا ہے۔ فائرز کمپنی کی گولی کا نام 'پيکس لووڈ‘ ہے اور‬

‫تحقیقات | ‪152‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫آزمائش ميں يہ گولی کووڈ انيس کے بالغ مريضوں ميں ہسپتال تک پہنچنے يا موت‬
‫کے امکانات کو ‪ 89‬فيصد تک گھٹانے ميں کامياب ثابت ہوئی ہے‬
‫اس سے قبل ميرک نامی کمپنی کی ايک گولی کووڈ انيس کے عالج کے ليے دستياب‬
‫ہے۔ ميرک کی گولی نزلے زکام کے عالج کی گولی ہے‪ ،‬جسے نئے نام کے ساتھ‬
‫مارکيٹ کيا جا رہا ہے۔ دوسری جانب فائزر کی گولی کو خصوصی طور پر کووڈ‬
‫انيس کے انسداد ہی کے ليے تيار کيا گيا ہے۔ اس وقت يہ گولی کلينيکل ٹرائلز کے‬
‫آخری مراحل ميں ہے اور کمپنی نے کہہ ديا ہے کہ اسے آزمائش کے ليے مزيد افراد‬
‫درکار نہيں ہيں۔ کمپنی کے مطابق آزمائش کے نتائج جلد ہی امريکی 'فوڈ اينڈ ڈرگ‬
‫ميں جمع کرا ديے جائيں گے۔ )‪‘ (FDA‬ايڈمنسٹريشن‬
‫فائزر کے چيف آپريٹنگ آفيسر ايلبرٹ بوروال نے کہا‪'' ،‬آزمائش کے نتائج سے صاف‬
‫ظاہر ہوتا ہے کہ اگر اس گولی کو ريگوليٹرز نے منظور کر ليا‪ ،‬تو يہ مريضوں کی‬
‫جان‪ ،‬انفيکشن کی شدت ميں کمی اور ہر دس ميں سے نو افراد کو ہسپتال تک پہنچنے‬
‫سے روکنے ميں معاون ثابت ہو سکتی ہے۔‘‘ ايلبرٹ بوروال نے ايک امريکی نشرياتی‬
‫ادارے کو بتايا کہ امکان ہے کہ ڈيٹا ايف ڈی اے کو پچيس نومبر سے قبل ہی جمع‬
‫کرا ديا جائے۔‬
‫کلينيکل ٹرائلز ميں شمالی و جنوبی امريکا‪ ،‬يورپ اور ايشيا سے ‪ 1,219‬مريضوں‬
‫کے ڈيٹا کا جائزہ ليا گيا۔ مريضوں ميں کووڈ کی عالمات ظاہر ہونے کے بعد چند کو‬
‫'پيکس لووڈ‘ دی گئی اور چند کو نہيں۔ دوا بارہ گھنٹے کے وقفے سے پانچ دنوں تک‬
‫دی گئی۔ جنہيں کوئی دوا نہيں دی گئی تھی‪ ،‬ان ميں دس مريض جان کی بازی ہار‬
‫گئے۔ جنہيں فائزر کی 'پيکس لووڈ‘ دی گئی‪ ،‬ان ميں سے ايک بھی شخص مرا نہيں۔‬
‫امريکی صدر جو بائيڈن نے اعالن کيا ہے کہ حکومت نے نئی دوا کی کئی ملين‬
‫خوراکوں کا آڈر دے ديا ہے۔ ان کے بقول کورونا کی وبا سے نمٹنے ميں يہ گولی‬
‫ايک اہم ہتھيار ثابت ہو گی۔‬
‫اس وقت فائزر اور ميرک کے عالوہ سوئس فارماسوٹيکل کمپنی روشے بھی ايک‬
‫‪ ‬آزمائشی گولی پر کام کر رہی ہے‬
‫‪https://www.dw.com/ur/%DA%A9%D9%88%D9%88%DA%88-%DA‬‬
‫‪%A9%DB%92-%D8%B9%D9%84%D8%A7%D8%AC-‬‬

‫تحقیقات | ‪153‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱ | ۱۴۹‬نومبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۷‬نومبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬

You might also like