You are on page 1of 98

‫ہفتہ وار‬

‫ِط ّبی تحقیقات‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪Issue 142 – Vol. 5‬‬


‫‪06 Sep.21 – 12 Sep. 2021‬‬
‫عثمان پبلی کیشنزالہورکے زیراہمتمام شائع ہونے واال‬
‫ہفتہ وارجریدہ‬

‫‪Managing Editor‬‬
‫‪Mujahid Ali‬‬
‫‪+ 92 0333 4576072‬‬
‫تحقیقات | ‪1‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫ہفتہ وار‬
‫ویکلی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٰ‬
‫عظمی ہے!قدرکیجئے‬ ‫صحت نعمت‬

‫جلد ‪،۵‬شمار ‪۱۴۵‬‬


‫اکتوبر ‪ ۲۰۲۱‬۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر ‪۴ ۲۰۲۱‬‬

‫مجلہ آن الئن پڑھا جاتاہے ۔یوٹیوب کے ساتھ ساتھ‬ ‫مینجنگ ایڈیٹر‪:‬مجاہدعلی‬


‫مختلف سوشل میڈیا پربھی شئیرکیاجاتاہے ۔اس کے‬
‫معاون مدیر‪ :‬حافظ زبیر‬
‫عالوہ یہ پاکستان کی جامعات‪،‬تحقیقاتی ادارہ‬
‫جات‪،‬معالجین حکماء ‪،‬محققین‪،‬فارماسیٹوٹیکل انڈسٹری‬
‫ایڈیٹر ‪:‬ذاہدچوہدری‬
‫اورہرطرح کی فوڈ انڈسٹری کوبھی ای میل کیا جاتاہے‬
‫اورتارکین وطن بھی اس سے مستفید ہوتے ہیں۔اوریوں‬
‫تقریبا پورے پاکستان میں اسکی سرکولیشن کی جاتی‬
‫ہے اورآپکے کاروبار‪ ،‬پراڈکٹ ‪،‬سروسزکے فروغ‬
‫ادارتی ممبران‬
‫کابہترین ذریعہ ہے‬

‫شعبہ تحقیق وتالیفات‬ ‫حضرت موالنا حکیم زبیراحمد‬


‫رحمت ہللا ادارہ فروغ تحقیق الہور‬
‫محمدعباس مسلم‬
‫شیخ ذیشان یوایم ٹی یونیورسٹی‪/‬‬

‫برائے اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی‬ ‫ماہرانہ مشاورت‬


‫معلومات کے لئے‬ ‫حکیم زبیراحمد‬
‫ڈاکٹرواصف ُنور‬
‫‪Mujahid Ali 0333 457 6072‬‬ ‫ڈاکٹرمحمدعبدالرحمن‬
‫ڈاکٹرمحمدتحسین‬
‫‪meritehreer786@gmail.com‬‬ ‫ڈاکٹرروشن پیرزادہ‬
‫ڈاکٹرمحمدمشتاق‪/‬‬

‫عثمان پبلی کیشنز‬


‫جالل دین ہسپتال چوک اردوبازار‬
‫‪Phone: 042-37640094‬‬
‫‪Cell: 0303-431 6517 – 0333 409 6572‬‬
‫‪upublications@gmail.com‬‬
‫‪www.upublications.com‬‬

‫طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ‬


‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

‫تحقیقات | ‪2‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬

‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تفصیل‬
‫‪     ‬بچوں میں کورونا وائرس کے حوالے سے اہم حقائق‬

‫‪06/10/2021‬‬

‫یونیسف کے مطابق ‪ ،‬ناول کورونیوائرسکی عالمی وباء کے بعد ابتدائی اعداد و شمار سے‬
‫یہ ظاہر ہو رہا تھا کہ شاید بچے اور ‪ 20‬سال سے کم عمر کے نوجوان اس بیماری کی‬
‫شدید عالمات سے محفوظ ہیں۔‬
‫یہابتدائی اتفاق رائے بنیادی طور پر چین ‪ ،‬امریکہ ‪ ،‬اٹلی اور کچھ دوسرے ‪ ،‬بہتر آمدنی‬
‫والے یورپی ممالک سے اکٹھے کیے گئے اعداد و شمار پر مبنی تھا ۔‬
‫تاہم ‪،‬یونیسف کی زیرقیادت کم آمدنی والے ممالک سے اکٹھے کیے جانے والے ‪ ‬حالیہ‬
‫اعداد و شمار اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ "… بچوں اور نوجوانوں میں کوویڈ ‪ 19‬کا‬
‫پھیالو اور اسکی شدید عالمات کا زیادہ تر انحصار اس بات پر ہے کہ وہ افراد کہاں رہتے‬
‫ہیں ۔" یونیسف کے ڈیٹا کے مطابق جہاں بہتر ٓامدنی والے ممالک میں بچوں اور نوجوانوں‬
‫میں کورونیوائرس کی شرح اوسطا ‪7‬۔‪ 7‬فیصد ہے وہیں کچھ کم یا درمیانی آمدنی والے‬
‫ممالک میںیہی شرح ‪ 23‬فیصد تک پہنچ جاتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪3‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بچوں کی جسمانی صحت پر‪ ‬کورونا وائرس‪ ‬کا اثر‬
‫کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے زیادہ تر بچوں میںیا تو اکثر پائی جانے والی عالمات‬
‫بہت شدید نہیں ہوتیںیا سرے سے عالمات ہوتیں ہی نہیں۔ لیکن ایسا ہرگز نہیں ہے کہ بچے‬
‫اس وباء کی شدید عالمات سے بالکل متاثر نہیں ہو سکتے اوردنیا بھر کے سائنسدان بچوں‬
‫میں پائی جانے والی شدید عالمات کی وجوہات سمجھنے کے لیے تحقیق جاری رکھے‬
‫ہوئے ہیں۔‬
‫بچوں میں کورونا وائرس کی عالمات‬
‫بچوں میںکورونا وائرس کی پائی جانے والی عالمات کامن کولڈ ‪ ،‬فلو یا اسٹریپ جیسی‬
‫دیگر عام بیماریوں سے مشابہت رکھتیہیں۔ لیکن‪ ،‬دیکھ بھال کرنے والوں کومندرجہ ذیل‬
‫عالمات سے خاص طور پر ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے‪:‬‬
‫۔ بخار‬
‫۔کپکپاہٹ‬
‫۔ کھانسی‬
‫۔ ذائقے یا سونگھنے کی صالحیات سے محرومی‬
‫۔ گلے میں درد کی شکایت‬
‫۔ سانس لینے میں مشکل‬
‫۔ پیٹ کا خراب ہونا‬
‫۔ متلی یا الٹی کا ہونا‬
‫۔ پیٹ میں درد‬
‫۔ تھکاوٹ‬
‫۔ سر‪ ،‬پٹھوں یا جسم میں درد‬
‫۔ بھوک کی کمی یا بھوک کا نہ لگنا (خاص طور پر اگر بچے کی عمر ایک سال سے کم‬
‫ہو)‬
‫وبائیمرض کے دوران بچوں کی حفاظت اور نگہداشت کا طریقہ‬
‫‪ ‬احتیاطی اقدامات‬
‫یہ اہم اقدامات آپ کے بچے کو وائرس سے متاثر ہونے اور ممکنہ طور پر وائرس سے‬
‫بچنے میں مددگار ثابت ہو سکتے ہیں‪:‬‬
‫‪ ‬‬
‫۔ اپنے بچے میں پائی جانے والی عالمات کی مسلسل نگرانی کریں‬
‫۔ گھر سے باہر نکلتے وقت خود بھی ماسک پہنیں اور اپنے بچوں کو بھی الزمی پہنایں۔‬
‫تاہم دو سال سے کم عمر بچوں میں ماسک کا استعمال ڈاکٹر کے مشورے کے بغیر نہ‬
‫کریں۔‬
‫۔ رش کی جگہوں میں چھ‪  ‬فٹ کا سماجی فاصلہ اختیار کریں۔‬
‫۔ ہر قسم کے‪ ‬غیر ضروری جسمانی رابطے کو محدود کریں۔‬
‫۔ بچوں کو ہاتھ دھونے کا درست طریقہ ‪ ‬سکھائیں۔‬
‫تحقیقات | ‪4‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دیکھ بھال کرنے والوں کے لئے اہم نکات‬
‫۔ ہلکی عالمات کی صورت میں بچے کو گھر میں ‪ ‬قرنطین رکھیں۔ جس حد تک ممکن ہو‪،‬‬
‫بچے کی رسائی ایک کمرے تک محدود کر دیں۔‬
‫۔شدید عالمات (جیسے کہ سانس لینے میں دشواری‪ ،‬جسم میں ٓاکسیجن کی کمی اور تیز‬
‫بخار) کے لیے اپنے بچے کی مسلسل نگرانی کریں۔‬
‫۔ شدید عالمات کے ظاہر ہونے پر اپنے ڈاکٹر سے فوری رابطہ کریں اور ضرورت پیش‬
‫ٓانے پر بچے کو ہسپتال میں داخل کروائیں۔‬
‫۔ دیکھ بھال کرنے والے اپنی حفاظت کے لیے‪:‬‬
‫‪ ‬تیمارداری کے دوران ماسک کا استعال الزمی کریں۔←‬
‫دن بھر اپنے ہاتھ صابن اور پانی سے ‪ 20‬سیکنڈکے لیے دھوتے رہیں۔←‬
‫‪ ‬کورونا وائرس کی عالمات کے لیے ‪ ‬خود کی نگرانی کریں۔←‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202110-125380.html‬‬

‫گیس اور تیزابیت کا عالج کیسے ممکن ہے؟ غذائی ماہرین کی نئی‬
‫!تحقیق۔۔۔معدے کی تیزابیت سے پریشان لوگ خبرضرور پڑھیں‬
‫‪     ‬‬
‫‪05/10/2021‬‬

‫اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک) ماہرین کا کہنا ہے کہ میڈیکل سائنس میں غذأوں کی ٹھنڈی یا‬
‫گرم تاثیر کا کوئی تاثر نہیں پایا جاتا تاہم کونسی غذا کتنی مقدار میں لی جا رہی ہے یہ‬
‫ضرور معنی رکھتا ہے۔غذائی ماہرین کے مطابق مسالے دار غذأوں کا استعمال انسانی‬
‫صحت اور معدے کے لیے نہایت نقصان دہ ثابت ہوتا ہے جبکہ مسالے کے عالوہ غذأوں‬
‫میں بکرے اور گائے کا گوشت‪ ،‬مرغن‪ ،‬مسالے دار‬
‫غذائیں‪ ،‬بیج جیسے کہ السی‪ ،‬اجوائن‪ ،‬خشک میوہ جات بھی تیزابیت اور معدے میں گیس کا‬
‫سبب بنتے ہیں اور ان کا ضرورت سے زیادہ استعمال کسی دائمی بیماری کا بھی سبب بن‬
‫سکتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ غذائیں ہضم کرنے کے لیے انسانی جسم زیادہ سے زیادہ‬
‫گرمائش پیدا کرتا ہے‪ ،‬مسالے دار اور مرغن غذائیں ہضم کرنے کے لیے معدے کو زیادہ‬
‫وقت اور گرمائش میسر ہوتی ہے‪ ،‬اس عمل کے دوران معدے اور سینے کی جلن محسوس‬
‫ہونا ہی تیزابیت کہالتی ہے۔تیزابیت اور گیس سے بچنے کا عالج کیا ہے؟ماہرین کا کہنا‬
‫ہے کہ جیسے پانی ہر جلتی چیز کو بُجھاتا ہے‪ ،‬اسی طرح معدے کی تیزابیت اور گیس میں‬
‫بھی پانی اہم اور مثبت کردار ادا کرتا ہے۔غذائی ماہرین کے مطابق پانی کے عالوہ ایسی‬
‫غذأوں کا استعمال کرنا چاہیے جس سے معدے کی تیزابیت کم کرنے میں مدد ملے جیسے‬
‫کہ تربوز‪ ،‬کھیرا‪ ،‬کچی ہری سبزیاں‪ ،‬لسی‪ ،‬دودھ‪ ،‬دہی‪ ،‬ستو اور ناریل کا پانی وغیرہ۔‬

‫تحقیقات | ‪5‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین کی جانب سے تجویز کیا جاتا ہے کہ تیزابیت اور گیس کی شکایت پر شروعات ہی‬
‫میں قابو پا لینا چاہیے ورنہ یہ شکایت دائمی بھی ہو سکتی ہے۔ تیزابیت اور معدے میں‬
‫گیس سے بچنے کے لیے کھانے کے بعد سونف‪ ،‬پودینے اور االئچی کا قہوہ بے حد مفید‬
‫ثابت ہوتا ہے‬
‫۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202110-125322.html‬‬

‫ملک میں مختلف وبائیں پھوٹ پڑیں‪ ،‬طبی ماہرین کا کثیر تعداد میں‬
‫ادویات کے استعمال پر انتباہ‬

‫اکرام جنید‬
‫اکتوبر ‪04 2021‬‬

‫اس وقت پاکستان میں ڈینگی‪ ،‬کووڈ ‪ ،19‬ٹائیفائیڈ اور ملیریا سمیت متعدد انفیکشن موجود ہیں‬
‫جیسا کہ کووڈ ‪ ،19‬ڈینگی‪ ،‬ٹائیفائیڈ اور ملیریا سب ایک ہی وقت میں پھیل رہے ہیں‪ ،‬ماہرین‬
‫نے لوگوں کو مشورہ دیا ہے کہ وہ پولی فارمیسی سے گریز کریں کیونکہ اس کے سنگین‬
‫مضر اثرات ہیں اور یہ کثیر ادویات سے مزاحم وائرس یا بیکٹیریا کے ظہور کا باعث بن‬
‫سکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪6‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫واضح رہے کہ پولی فارمیسی سے مراد کم از کم ‪ 5‬ادویات کا باقاعدگی سے استعمال ہے‬
‫جو بوڑھوں اور بچوں میں عام ہے‪ ،‬اس سے منفی طبی اثرات کا خطرہ بڑھتا ہے۔‬
‫ڈان اخبار کی رپورٹ کے مطابق سائنٹیفک ٹاسک فورس برائے کووڈ ‪ 19‬کے رکن‬
‫پروفیسر ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ حاالنکہ کووڈ ‪ 19‬کچھ حد تک کنٹرول ہوگیا ہے لیکن‬
‫ڈینگی کیسز میں اضافے نے صورتحال کو پیچیدہ کردیا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ اس وقت ہمارے یہاں ڈینگی‪ ،‬کووڈ ‪ ،19‬ٹائیفائیڈ اور ملیریا سمیت متعدد‬
‫انفیکشن موجود ہیں اور یہ سب ایک ہی وقت میں پھیل رہے ہیں۔‬
‫انہوں نے مزید کہا کہ اس صورتحال میں ڈاکٹروں نے پولی فارمیسی کی پریکٹس شروع‬
‫کر رکھی ہے جو نہ صرف شدید سائیڈ ایفیکٹس کا باعث بنتی ہے بلکہ کثیر تعداد میں‬
‫ادویات سے مزاحم بیکٹیریا اور وائرس کے ابھرنے کا باعث بھی بنتی ہے۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اکرم نے کہا کہ کووڈ ‪ ،19‬ڈینگی اور ٹائیفائیڈ کی عالمات جیسی ہیں جس کی‬
‫وجہ سے متعدد ڈاکٹر ایک ہی وقت میں تمام ادویات تجویز کردیتے ہیں۔‬
‫ان کا مزید کہنا تھا کہ ایک تربیت یافتہ معالج کو ادویات تجویز کرنے کے بجائے عالمات‬
‫سے بیماری کی درست تشخیص اور شناخت کرنے یا ٹیسٹ تجویز کرنے کا اہل ہونا‬
‫چاہیے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ جیسے جیسے ڈینگی کے کیسز بڑھ رہے ہیں‪ ،‬لوگوں کو یہ بھی معلوم‬
‫ہونا چاہیے کہ ڈینگی کے مریضوں میں باالئی اور زیریں تنفس کا انفیکشن عام ہے۔‬
‫اس وقت ڈینگی کی شدت کم سے درمیانی ہے لیکن ’ہم اس موسم میں داخل ہو رہے ہیں‬
‫جب یہ جلد ہی وبائی ہو جائے گا اور جان لیوا ڈینگی ہیمرجک بخار کے کیسز بڑھیں گے‘۔‬
‫خیال رہے کہ ڈینگی ایک مچھر کے ذریعے پھیلتا ہے اور اس کے مریض کو پلیٹلیٹس کی‬
‫کمی کا سامنا ہوتا ہے جس کے نتیجے میں ٹرانسفیوژن کی ضرورت پڑتی ہے۔‬
‫اگر بروقت عالج نہ کیا جائے تو یہ بیماری جان لیوا ہیمرجک بخار میں تبدیل ہو سکتی‬
‫ہے‪ ،‬جس سے خون بہنا‪ ،‬پلیٹلیٹس کی کمی‪ ،‬بلڈ پالزما کا اخراج یا ڈینگی شاک سنڈروم‪،‬‬
‫خطرناک حد تک کم بلڈ پریشر کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫تاہم یونیورسٹی ٓاف ہیلتھ سائنسز کے وائس چانسلر ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ تحقیق‬
‫کے مطابق ڈینگی کے مریض میں خون یا پلیٹلیٹس کی منتقلی نہیں کرنی چاہیے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ جب بھی پلیٹلیٹس کی تعداد کم ہوتی ہے خون کا گاڑھا پن بڑھ جاتا ہے اس‬
‫لیے میں تجویز کرتا ہوں کہ پلیٹلیٹس کی منتقلی سے گریز کیا جائے جب تک کہ خون بہنا‬
‫شروع نہ ہو۔‬
‫ڈاکٹر جاوید اکرم کا کہنا تھا کہ میں نے ذاتی طور پر کئی مریضوں کا مشاہدہ کیا ہے جن‬
‫کے پلیٹلیٹس کی تعداد میں کمی واقع ہوئی لیکن بعد میں یہ بغیر کسی منتقلی کے دوبارہ‬
‫بڑھ گئی۔‬
‫انہوں نے یہ بھی کہا کہ پاکستان میں ٹائیفائیڈ مزاحم بیکٹیریا کی تشخیص ہوچکی ہے اور‬
‫چند سالوں میں یہ ایک سنگین مسئلہ بن سکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪7‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہاں یہ بات م ِد نظر رہے کہ سال ‪ 2018‬میں امریکی ادارہ برائے وبائی روک تھام اور‬
‫بچاؤ نے پاکستان میں دوا سے انتہائی مزاحم ٹائیفائد بخار پر ایک ایڈوائزری جاری کی تھی‬
‫جس پر زیادہ تر اینٹی بائیوٹکس نے اثر نہیں کیا تھا۔‬
‫اس ایڈوائزری سے ملکی اور بین االقوامی طبی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑ گئی تھی‪،‬‬
‫اس وقت سے ادویات کا غیر معقول استعمال روکنے کا مشورہ دیا جارہا ہے۔‬
‫پاکستان کو سال ‪ 1994‬سے ڈینگی کی وبا کے پھیالؤ کا سامنا ہے‪ ،‬گزشتہ دو دہائیوں میں‬
‫تین بڑے پھیالؤ سامنے ٓائے۔‬
‫سال ‪ 2005‬میں ‪ 6‬ہزار سے زائد کیسز اور ‪ 52‬اموات رپورٹ ہوئیں‪ ،‬سال ‪ 2011‬میں ‪21‬‬
‫ہزار سے زائد کیسز اور ‪ 350‬اموات ہوئیں جبکہ ‪ 2011‬اور ‪ 2014‬کے درمیان ملک بھر‬
‫میں لیبارٹری سے تصدیق شدہ ‪ 48‬ہزار کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ سال ‪ 2019‬میں تقریبا ً‬
‫‪ 50‬ہزار کیسز سامنے ٓائے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1169847/‬‬

‫طب کا نوبیل انعام جسمانی احساسات کو دریافت کرنے والے‬


‫ماہرین کے نام‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪04 2021‬‬

‫ایوارڈ کی رقم دونوں میں برابر تقسیم ہوگی—فوٹو‪ :‬نوبیل پرائز ٹوئٹر‬
‫اعلی ترین انعام دینے والی سویڈن کی سویڈش اکیڈمی ٓاف نوبیل نے سال ‪ 2021‬کے‬ ‫ٰ‬ ‫دنیا کا‬
‫طب کا نوبیل انعام دو امریکی سائنسدانوں کو دے دیا۔‬
‫خیال کیا جا رہا تھا کہ اس سال ممکنہ طور پر طب کا نوبیل انعام کورونا سے تحفظ کی‬
‫ویکسین بنانے والے ماہرین کو دیا جائے گا۔‬
‫ساتھ ہی یہ چہ مگوئیاں بھی تھیں کہ ممکنہ طور پر اس سال ’ایم این ٓار اے‘ ویکسین‬
‫ٹیکنالوجی دریافت کرنے والے دو ماہرین کو بھی انعام دیا جا سکتا ہے‪ ،‬تاہم ایسا نہیں ہو‬
‫سکا۔‬
‫یہ بھی پڑھیں‪ :‬طب کا نوبیل انعام کورونا ویکسین بنانے والوں کو ملنے کا امکان‬
‫سویڈش اکیڈمی ٓاف نوبیل نے ‪ 4‬اکتوبر کو طب کا انعام سان فرانسسکو کی یونیورسٹی ٓاف‬
‫کیلی فورنیا کے ڈاکٹر پروفیسر ڈیوس جولیس اور کیلی فورنیا کے اسکرپ ریسرچ انسٹی‬
‫ٹیوٹ کے پروفیسر ڈاکٹر ٓارڈم پیٹاپوٹیم کو دینے کا اعالن کردیا۔‬
‫نوبیل پرائز کی ویب سائٹ کے مطابق دونوں ماہرین کو جسمانی درج حرارت اور‬
‫احساسات کو دریافت کرنے پر انعام دیا گیا۔‬
‫تحقیقات | ‪8‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫دونوں ماہرین نے دریافت کیا کہ کس طرح انسانی جسم سورج کو تپش کو محسوس کرتا‬
‫ہے اور انسان جب ایک دوسرے سے گلے ملتے ہیں تو جسم میں کس طرح کے احساسا‬
‫ہوتے ہیں۔‬
‫ان ہی ماہرین کی دریافت کے بعد ہی بخار اور اعصاب شکن درد سمیت کئی جسمانی‬
‫بیماریوں کا عالج دریافت ہوا۔‬
‫دونوں ماہرین نے دریافت کیا کہ کس طرح ہمارا جسم محسوسات اور احساسات کو‬
‫اعصابی نظام تک پہنچا کر بیماریاں یا خوشی فراہم کرتا ہے۔‬
‫گزشتہ برس طب کا نوبیل انعام برطانیہ کے سائنسدان مائیکل ہوٹن اور امریکا کے ہاروی‬
‫آلٹر اور چارلز رائس کو مشترکہ طور پر دینے کا اعالن کیا تھا‪ ،‬تینوں سائنسدانوں کو‬
‫'ہیپاٹائٹس سی' کا مرض دریافت کرنے پر انعام دیا گیا تھا۔‬

‫طب کا نوبیل انعام کمیٹی کی جانب سے ‪ 1919‬سے دیا جا رہا ہے اور اب تک یہ انعام‬
‫‪ 114‬شخصیات کو دیا جا چکا ہے‪ ،‬جس میں سے ‪ 12‬خواتین تھیں۔ کمیٹی نوبیل انعام‬
‫جیتنے والوں کو ہر سال دسمبر میں انعامات دیتی ہے اور انعامات دینے کی تقریب سویڈن‬
‫میں ہی منعقد ہوتی ہے‪ ،‬تاہم امن کے نوبیل انعام دینے کی تقریب دوسرے ملک میں ہوتی‬
‫ہے۔گزشتہ برس تین سائسندانوں کو ایک ساتھ انعام دیا گیا تھا—فائل فوٹو‪ :‬نوبیل پرائز‬
‫ٹوئٹر‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1169875/‬‬

‫تحقیقات | ‪9‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جامد گھٹنوں میں ’تیل‘ ڈال کر گٹھیا کے عالج میں اہم پیشرفت‬

‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪October 2021 5‬‬

‫اس رنگین ایکسرے میں ‪ 87‬سالہ بوڑھے فرد کے متاثرہ گھٹنے کو دیکھا جاسکتا ہے جس‬
‫میں کرکری ہڈی بری طرح متاثر ہوئی ہے۔ اب ایک مصنوعی چکنائی والے مائع سے اس‬
‫کے عالج میں ایک اہم پیشرفت ہوئی ہے۔ فوٹو‪ :‬نیوسائنٹسٹ‬
‫اوکالہاما‪ :‬جس طرح جامد پرزوں اور مشینوں میں تیل ڈال کر انہیں رواں کیا جاتا ہے عین‬
‫اسی طرح اب ماہرین نے جوڑوں کے درد کے شکار گھٹنوں میں چکنے مائع شامل کرنے‬
‫کا ایک طریقہ دریافت کیا ہے جس سے گٹھیا کے مریضوں‪ x‬کو فائدہ ہوسکتا ہے۔‬
‫پاکستان سمیت دنیا بھر کے افراد کی بڑی تعداد گھٹنوں کے درد میں مبتال ہے اور صرف‬
‫درد کش ادویہ سے ہی تھوڑا افاقہ ہوتا ہے جس کے بعد لوگ چلنے پھرنے کے قابل‬
‫ہوجاتے ہیں۔‬
‫جامعہ اوکالہوما کے سائنسدانوں نے جوڑوں کی اینٹھن دورکرنے اور انہیں حرکت پذیر‬
‫بنانے کےلیے جوڑوں کو چکنا رکھنے والے قدرتی مائع کی طرح ایک چکنا مواد بنایا ہے‬

‫تحقیقات | ‪10‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫۔ جب اسے چوہوں پر ٓازمایا گیا تو نہ صرف اس سے متاثرہ جوڑوں میں بہتری ہوئی بلکہ‬
‫جوڑوں کے درمیان گھس جانے والی نرم کرکری ہڈی (کارٹلیج) کی افزائش بھی بڑھی۔‬
‫ہم جانتے ہیں کہ عمررسیدگی کے دوران گھٹنوں کے درمیان چکنی لجلجی ہڈیاں گھس‬
‫جاتی ہیں اور ان کی ٹوٹ پھوٹ سے شدید درد اور تکلیف پیدا ہوتی ہے۔ پھر ربڑ نما‬
‫لچکدار حصہ متاثر ہوتا جاتا ہے جس سے اندرونی سوزش اور درد بڑھتا جاتا ہے۔ اسکین‬
‫اور رپورٹ بتاتی ہے کہ ان کے درمیان چکنائی پیدا کرنے واال قدرتی مادہ بھی ختم ہونے‬
‫لگتا ہے۔‬
‫گٹھیا کی شدید کیفیت میں گھٹنوں کا ٓاپریشن کرکے ٹوٹی پھوٹی کرکری ہڈی کے ٹکڑے‬
‫ہٹاکر انہیں ہموار کیا جاتا ہے جس سے کچھ بہتری ہوجاتی ہے۔ اگر افاقہ نہ ہو تو تجرباتی‬
‫ت ساق (اسٹیم سیل) بھی ڈالے جاتے ہیں جو مریض کی چربی یا خون سے‬ ‫طور پر خلیا ِ‬
‫تیار ہوتے ہیں۔‬
‫اب اوکالہوما یونیورسٹی کے سائنسداں چوان بِن ماؤ اور ان کے ساتھیوں نے گھٹنوں کے‬
‫جوڑوں کے درمیان موجود قدرتی مائع پر توجہ کی جسے ’سائنوویئل مائع‘ کہا جاتا ہے۔‬
‫گھٹنوں کے صحتمند جوڑ کے درمیان بڑے سالمات (مالیکیول) پر مبنی مائع ہوتا ہے۔ اس‬
‫میں ہیالیورونک ایسڈ ‪ ،‬کچھ الئپڈز چکنائیاں اور لیوبریسن نامی اجزا بھی موجود ہوتے ہیں۔‬
‫لیوبریسن ذیلی اجزا پانی کے سالمات سے چپک جاتے ہیں جبکہ بقیہ چکنا مائع کارٹلیج‬
‫سے جڑا رہتا ہے۔ اس کرکری ہڈی کے عین اوپر پانی کی ایک باریک تہہ برقرار رہتی‬
‫ہے جو گھٹنوں کی حرکت میں ہڈیوں کی رگڑ کو محفوظ رکھتی ہیں۔‬
‫اب سائنسدانوں نے پی اے ایم پی ایس نامی مالیکیول کا انتخاب کیا ہے جو قدرتی چکنائی‬
‫کا متبادل مائع ہے۔ اس میں ہیالیورونک ایسڈ کی بڑی مقدار ہوتی ہے۔ تجرباتی طور پر جب‬
‫گھٹنوں کے درد میں مبتال چوہوں پر اس مصنوعی مائع کے ٹیکے لگائے گئے تو ان میں‬
‫رگڑ کی شدت کم ہوئی اور سوزش بھی گھٹی ہوئی دیکھی گئی۔‬
‫چوہوں میں مصنوعی تیل ڈالنے کے ٓاٹھ ہفتے بعد چوہوں کے کارٹلیج کے جوڑ کو خردبین‬
‫سے دیکھا گیا تو ماہرین حیران رہ گئے۔ اس موقع پر کرکری ہڈیاں دوبارہ اگنے لگی تھیں۔‬
‫ا‬
‫‪https://www.express.pk/story/2232319/9812/‬‬

‫پاکستان میں ‪ 20‬میں سے ‪ 9‬افراد ہائی بلڈ پریشر کا شکار‬


‫‪ October 4, 2021‬‬
‫ویب ڈیسک‪ ‬‬

‫تحقیقات | ‪11‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫سال ‪ 2020‬کے غیر سرکاری اعداد و شمار کے مطابق آبادی کے لحاظ سے دنیا کے‬
‫پانچویں سب سے بڑے ملک پاکستان میں ‪ 46‬فیصد سے زائد شہری ہائی بلڈ پریشر کا‬
‫شکار ہیں‬
‫طبی ماہرین کے مطابق بلڈ پریشر خون کا دباﺅ ہوتا ہے جو ہماری شریانوں کو سکیڑتا ہے۔‬
‫پاکستان ہائپر ٹینشن لیگ نامی طبی تنظیم کے مطابق ہر ‪ 20‬میں سے نو سے بھی زائد‬
‫پاکستانیوں کو ہائی بلڈ پریشر کی طبی حالت کا سامنا ہے اور ایسے شہریوں میں نوجوانوں‬
‫کا تناسب زیادہ ہو چکا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ طویل عرصے تک خون کے دباؤ کا بہت زیادہ رہنا انسان کو دل کی‬
‫مختلف بیماریوں اور گردوں کے امراض کا شکار کر دینے کے عالوہ ہیمریج اور فالج‬
‫تک جیسے طبی نتائج کی وجہ بھی بن سکتا ہے۔‬
‫یہ بھی پڑھیں‪ :‬کورونا کے باعث شدید بیمار ہونے والے افراد میں ذہنی پیچیدگیوں کا خطرہ‬
‫ڈی ڈبلیو کی رپورٹ میں سرجن عدنان طاہر نے بلڈ پریشر کے مسئلے کی وضاحت کرتے‬
‫ہوئے بتایا کہ ہائی بلڈ پریشر کی دو اقسام ہوتی ہیں‪ ،‬ابتدائی ہائپر ٹینشن اور ثانوی ہائپر‬
‫ٹینشن۔ ان کے مطابق ابتدائی ہائپر ٹینشن ہی وہ طبی شکایت ہے‪ ،‬جس کا ‪ 90‬سے ‪ 95‬فیصد‬
‫تک عوام کو سامنا ہوتا ہے۔‬
‫جبکہ پانچ سے ‪ 10‬فیصد تک واقعات میں ہائپر ٹینشن دیگر امراض‪ ،‬خاص کر گردے کی‬
‫مختلف بیماریوں کی وجہ سے الحق ہو‪ ،‬تو اسے ثانوی ہائپر ٹینشن کہتے ہیں۔تحقیق کے‬
‫مطابق پاکستان میں دوران حمل خواتین کی اموات میں سے ‪ 20‬فیصد سے زائد کیسز میں‬
‫بنیادی وجہ ہائی بلڈ پریشر ہی ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪12‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ڈاکٹرز کا کہنا ہے کہ بلڈ پریشر سے بچنے کے لیے تمباکو نوشی اور الکوحل سے پرہیز‬
‫کیا جانا چاہیے‪ ،‬کیونکہ یہ دونوں کئی طرح کے طبی مسائل کا سبب بنتے ہیں‪ ،‬اس کے‬
‫عالوہ سادہ خوراک‪ ،‬ورزش اور باقاعدگی سے واک کرنا ایسی صحت بخش عادات ہیں‪،‬‬
‫جو بہت مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔‬
‫صحت مند زندگی کے لیے روزانہ ‪ 30‬سے ‪ 60‬منٹ تک ورزش ضروری ہے‪ ،‬جسمانی‬
‫سرگرمی نہ صرف بلڈ پریشر میں کمی التی ہے بلکہ اسے معمول بنانا مزاج‪ ،‬جسمانی‬
‫مضبوطی اور توازن کے لیے بھی مفید ہے‪ ،‬اس سے ذیابیطس اور امراض قلب کا خطرہ‬
‫بھی کم ہوتا ہے‬

‫‪https://www.humnews.pk/latest/352975/‬‬

‫پالک کھانے سے ٓانتوں کے سرطان میں کمی ممکن‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 4  ‬اکتوبر‪ 2021  ‬‬

‫پالک کھانے سے ٓانتوں میں جینیاتی اور غیرجینیاتی سرطان کی شرح کو روک سکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪13‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لندن‪ٓ :‬انتوں کا سرطان تیزی سے پھیل رہا ہے اور امریکہ میں چوتھا عام کینسر اور‪ ‬‬
‫موت والے کینسر میں تو دوسرے نمبر‪ x‬پر پہنچ‪ x‬چکا ہے۔ تاہم پالک کھانے سے ان کا‬
‫خطرہ کم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫اس سے قبل ٓانتوں کے سرطان اور ہرے پتے والے سبزیوں کے باہمی تعلق پر بہت غور‬
‫ہوچکا ہے۔ بعض افراد کے مطابق سبزیوں کا باقاعدہ استعمال ٓانتوں کے سرطان کا خطرہ‬
‫کم کرتے ہوئے اسے نصف کرسکتا ہے کیونکہ اس میں ریشہ (فائبر) اور دیگر اجزا‬
‫موجود ہوتے ہیں۔‬
‫اب گٹ مائیکروبس نامی جرنل میں شائع ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ پالک‪ ،‬جین ‪،‬‬
‫ٓانتوں کی صحت اور کینسر کےدرمیان ایک تعلق پایا جاتا ہے۔ اس کے لیے ماہرین نے‬
‫ایک موروثی کیفیت کا جائزہ لیا جسے ’ فیمیلیئل ایڈینومیٹس پولی پو ِسس‘ کہا جاتا ہے۔ یہ‬
‫کیفیت والدین سے بچوں تک ٓاتی ہے اور نوجوانوں میں غیرسرطانی رسولیوں کی وجہ‬
‫بنتی ہے جنہیں ٓانتوں کے ابھار یا پولِپس کہا جاتا ہے۔‬
‫اس مرض کے شکار افراد کی ٓانتوں میں بار بار گومڑیاں بنتی رہتی ہیں جنہیں سرجری‬
‫سے نکال باہر کیا جاتا ہے۔ اس طرح چھوٹی ٓانتے کے ابتدائی حصے ڈیوڈینم میں انہیں‬
‫روکنے کے لیے ایک تھراپی کی جاتی ہے جو ایک زہریال طریقہ عالج بھی ہے۔‬
‫اس ضمن میں جسے ’ فیمیلیئل ایڈینومیٹس پولی پو ِسس‘ کے شکار جانوروں پر پالک کو‬
‫ٓازمایا گیا۔ انہیں برف میں جمی پالک جانوروں کو ‪ 26‬ہفتے تک کھالئی گئی تو ٓانتوں میں‬
‫رسولیاں بننے کے عمل میں غیرمعمولی کمی دیکھنے میں ٓائی جو بڑی اور چھوٹی ٓانت‬
‫میں موجود تھے۔‬
‫تحقیق سے معلوم ہوا کہ پالک سے ٓانتوں کے بیکٹیریا کے تنوع (ڈائیورسٹی) میں اضافہ‬
‫ہوا یعنی مددگار خردنامیوں کی تعداد بڑھی اور پھر ان کے جینیاتی اظہار (ایکسپریشن)‬
‫میں بھی تبدیلی ہوئی جس سے کینسر کو روکنے میں مدد ملی۔ اسی طرح پالک کھانے سے‬
‫جانوروں میں اندرونی سوزش (انفلیمیشن) بھی کم ہوئی۔ماہرین کا خیال ہے کہ پالک کھانے‬
‫سے ان لوگوں کو بھی فائدہ ہوتا ہے جو ’ فیمیلیئل ایڈینومیٹس پولی پو ِسس‘ کے شکار نہیں۔‬
‫پالک کھانے سے ٓانتوں میں مفید بیکٹیریا بڑھتے ہیں جو سرطان کو روکتے ہیں اور‬
‫ہرخاص وعام پر اس کے مثبت اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق ‪ 10‬سے ‪ 15‬فیصد افراد میں ٓانتوں کا سرطان موروثی ہوتا ہے۔ مضر‬
‫کیمیکل اور سرطان والے ماحول میں کئی عشرے تک رہنے سے ان کے جین بدل جاتے‬
‫ہیں اور سرطان کی جانب بڑھتے ہیں۔ اس طرح پہلے غیرسرطانی رسولیوں بنتی ہیں اور‬
‫اس کے بعد سرطان پیدا ہوتا ہے۔ یہی وجہ ہے امریکن کینسر سوسائٹی نے ‪ 45‬سال سے‬
‫اوپر ہرفرد کے لیے ٓانتوں کا ٹیسٹ تجویز کیا ہے جو سرطان کی شناخت کرسکتا ہے۔‬
‫دلچسپ بات یہ ہے کہ جن افراد کو جینیاتی طور پر ٓانتوں کے سرطان کا خطرہ ہوتا ہے ان‬
‫میں بھی پالک بہت مفید ثابت ہوسکتا ہے۔‬

‫‪https://www.express.pk/story/2231944/9812/‬‬
‫تحقیقات | ‪14‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ہائی بلڈ پریشر کے مریضوں کیلئے مفید اور آسان مشورہ‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 4 2021‬‬

‫ماہرین کا کہنا کہ دنیا بھر میں ایک ارب سے زیادہ افراد بلند فشار خون کے مرض شکار‬
‫ہیں اور اگر اس کو کنٹرول نہ کیا جائے تو امراض قلب اور فالج کا خطرہ بڑھتا ہے۔‬
‫مگر اچھی خبر یہ ہے کہ بلڈ پریشر کو قدرتی طور پر یہاں تک کہ ادویات کے بغیر بھی‬
‫کم کیا جاسکتا ہے کیونکہ ورزش ہائی بلڈ پریشر کی سطح میں کمی النے کے لیے بہترین‬
‫ذرائع میں سے ایک ہے۔‬
‫اگر ٓاپ کا بلڈ پریشر پہلے ہی زیادہ ہے تو ورزش سے اسے کنٹرول کرنے میں مدد ملے‬
‫گی۔ یہ مت سوچیں کہ ٓاپ کو لمبی دوڑیں لگانا پڑیں گی یا جم جانا پڑے گا بلکہ ٓاپ کم‬
‫شدت کی ورزش سے ٓاغاز کرسکتے ہیں۔‬
‫ورزش کو روزانہ کا معمول بنانا دل کو مضبوط کرتا ہے اور اس عمل سے دل میں خون‬
‫پمپ کرنے کی صالحیت مزید بہتر ہوتی ہے۔‬
‫ماہرین صحت کے مطابق ایک ہفتے میں ‪ 150‬منٹ تک معتدل ورزش جیسے چہل قدمی یا‬
‫‪ 75‬منٹ تک سخت ورزش جیسے دوڑنا‪ ،‬بلڈ پریشر کو کم کرنے کے ساتھ دل کی صحت‬
‫کو بھی بہتر کرتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪15‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫زیادہ ورزش سے بلڈ پریشر کی سطح کو مزید کم کیا جاسکتا ہے‪ ،‬درحقیقت دن بھر میں‬
‫محض ‪ 30‬منٹ تک چہل قدمی کرنا بھی بلڈ پریشر کو معمول پر رکھنے میں مددگار ثابت‬
‫ہوسکتا ہے۔‬
‫کوئی بھی جسمانی سرگرمی جو ٓاپ کے دل اور سانسوں کی رفتار کو بڑھاتی ہے اسے‬
‫ایروبک سرگرمی کہا جاتا ہے‪ ،‬اس میں گھر کے کام‪ ،‬مثالً الن کا گھاس کاٹنا‪ ،‬باغبانی یا‬
‫فرش کی دھالئی‪ ،‬مشقت والے کھیل جیسے باسکٹ بال یا ٹینس‪ ،‬سیڑھیاں چڑھنا‪ ،‬چہل‬
‫قدمی‪ ،‬جاگنگ‪ ،‬بائیسکلنگ‪ ،‬تیراکی اور رقص شامل ہیں۔‬
‫اس کے عالوہ اگر آپ پہلے سے ہائی بلڈ پریشر کے شکار ہیں تو غذا میں نمک کا استعمال‬
‫کم کردینا چاہیے جبکہ بازار کے کھانوں کی جگہ گھر کے پکے کھانوں کو ترجیح دینی‬
‫چاہیے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/high-blood-pressure-exercise-health-benifits/‬‬

‫سر کی خشکی سے نجات کا ٓازمودہ طریقہ‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 5 2021‬‬

‫سر میں خشکی کا مسئلہ ایک ایسا معاملہ ہے جس کا ہم سب کبھی نہ کبھی ض‪xx‬رور ش‪xx‬کار‬
‫ہوتے ہیں اور اس سے چھٹکارا حاصل کرنے کے لئے کوئی شیمپو‪ x‬یا تیل استعمال ک‪xx‬رتے‬
‫ہیں۔‬
‫خشکی کو عام زبان میں س کری بھی کہ ا جات ا ہے‪ِ ،‬جل دی م اہرین کی ج انب س ے خش کی‬
‫بن نے کی س ب س ے ب ڑی وجہ ش یمپو ک ا زی ادہ اس تعمال‪ ،‬ش یمپو میں پ ائے ج انے والے‬

‫تحقیقات | ‪16‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کیمیکلز‪ ،‬ذہنی دبأو اور ہر وقت سر کو ڈھانپ کر رکھنے کو ق رار دی ا جات ا ہے‪ ،‬ب الوں ک و‬
‫صاف نہ رکھنے سے بھی سر میں ُخشکی کی افزائش ہوتی ہے۔‬
‫بالوں میں ُخشکی کی سب سے عام عالمت خ ارش اور ب الوں میں س فید فنگس ک ا پای ا جان ا‬
‫ہے‪ ،‬بعض اوقات یہ فنگس َجھ ڑ ک ر ک پڑوں پ ر بھی گ رنے لگت ا ہے ی ا کنگھی ک رنے کی‬
‫صورت میں سر سے اُکھڑتا ہے۔‬
‫ہماری نظر شاید ہی گھر میں موجود ان چیزوں کی طرف جائے جس سے یہ باآسانی ٹھیک‬
‫ہو سکتی ہے‪ ،‬آئیے آپ کو ایسی ہی چند آزمودہ چیزوں کے بارے میں بتاتے ہیں۔‬
‫لیموں کا استعمال‬
‫دو چمچ لیموں کا رس لے کر اسے سر میں لگائیں اور پھر پانی سے دھولیں‪ ،‬ایک کپ‬
‫پانی لے کر اس میں ایک چمچ لیموں کا رس شامل کریں اور سر کو شیمپو سے دھونے‬
‫کے بعد اسے لیموں والے پانی سے دھوئیں‪ ،‬لیموں میں موجو د اجزاء سرکو خشکی سے‬
‫صاف رکھتے ہیں۔‬
‫لہسن اور شہد‬
‫قدرت نے لہسن میں اہم خصوصیت رکھی ہے اور اس کے استعمال سے خشکی کا سبب‬
‫بننے والے بیکٹیریاز کا خاتمہ ہوجاتا ہے۔ لہسن کو پیس کر اس میں شہد میں شامل کرلیں‬
‫اور سر کو دھونے سے پہلے لگالیں۔ ایسا کرنے سے خشکی کی شکایت ختم ہوجائے گی۔‬
‫سیب کا سرکہ‬
‫سیب کے سرکے میں موجود اجزاء خشکی کے لئے بہت مفید ہیں اور اسے پیدا ہونے سے‬
‫بالکل روک دیتے ہیں ل ٰہذا اگر آپ اسے لگائیں تو یہ آپ کے سر کی خشکی کو بہت جلد‬
‫ختم کردے گا۔ اس کے عالوہ سر کو شیمپو اور کنڈیشنر سے دھونے کے بعد سیب کے‬
‫سرکے کے چند قطرے پانی میں ڈال کر اسے سر پر لگائیں‪ ،‬سرکے میں موجود پوٹاشیم‬
‫سر کی جلد کے لئے بہت مفید ہے اور یہ مردہ خلیوں سے سر کی جلد کو نجات دیتا ہے۔‬
‫بیکنگ سوڈا‬
‫سر کے بالوں کو گیال کر کے ان میں بیکنگ سوڈا لگانے سے سر کی خشکی دور ہو جاتی‬
‫ہے لیکن یاد رہے کہ اس دوران سر کو شیمپو سے ہر گز مت دھوئیں۔ بیکنگ سوڈا میں یہ‬
‫جادو موجود ہے کہ یہ فنگس کے خالف بہت اچھے طریقے سے کام کرتا ہے اور خشکی‬
‫بھی پیدا نہیں ہونے دیتا۔‬
‫ناریل کا تیل‬
‫رات کو ناریل کے تیل سے سر کی اچھی طرح مالش کریں اور اگلی صبح سر کو کسی‬
‫اچھی کوالٹی کے شیمپو سے دھو لیں۔‬
‫زیتون کا تیل‬
‫زیتون کا تیل سر کی خشکی کے لئے بے حد مفید ہے‪ ،‬اگر آپ ہفتے میں دو بار زیتون کی‬
‫تیل سے سر کی مالش کریں تو آپ اس مسئلے سے نجات پا سکتے ہیں‪ ،‬رات کو زیتون کا‬
‫تیل لگائیں تو سر ڈھانپ کر سوجائیں تا کہ یہ اچھی طرح جلد میں جذب ہوجائے۔‬
‫نیم کے پتے‬
‫تحقیقات | ‪17‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کچھ نیم کے پتے لے کر انہیں آدھے گھنٹے تک پانی میں ابالیں‪ ،‬اس کے بعد انہیں اچھی‬
‫طرح پیس کر یہ پیسٹ سر میں لگائیں اور ‪40‬منٹ بعد سر دھو لیں‪ ،‬ایسا کرنے سے بھی‬
‫آپ خشکی جیسی پریشانی سے نجات پا سکتے ہیں۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/proven-way-to-get-rid-of-dandruff/‬‬
‫شدید ڈپریشن کی مریضہ میں دنیا کا پہال دماغی پیوند لگادیا گیا‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫بدھ‪ 6  ‬اکتوبر‪2021  ‬‬

‫سالہ سارہ دنیا کی پہلی مریضہ ہیں جن کی دماغی سرگرمی کا نمونہ دیکھتے ہوئے ‪36‬‬
‫دماغ میں برقی پیوند لگایا گیا ہے۔ تصویر میں کھڑی ہوئی ڈاکٹر کیتھرین اور ان کے‬
‫ساتھی بھی نمایاں ہیں۔ فوٹو‪ :‬بشکریہ یونیورسٹی ٓاف کیلیفورنیا سان فرانسسکو‬
‫سان فرانسسكو‪ :‬اسے ٓاپ دماغ کا پیس میکر کہہ سکتے ہیں جسے دنیا میں پہلی مرتبہ‬
‫شدید ڈپریشن کی شکار ایک خاتون کے دماغ میں لگایا گیا ہے۔ یہ پیوند (امپالنٹ) دماغی‬
‫برقی سرگرمی پیدا کرکے برقی سرکٹ کو بدلتا ہے اور یوں ڈپریشن (یاسیت)‪ x‬کے دورے‬
‫کم ہوجاتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪18‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یونیورسٹی ٓاف کیلیفورنیا سان فرانسسکو ( یوسی ایس ایف) کے سائنسدانوں نے پہلے سارہ‬
‫نامی ایک خاتون کے دماغ میں اعصابی سرگرمی نوٹ کی جو ان میں شدید اضطراب اور‬
‫مایوسی پیدا کررہی تھی۔ اس کے بعد تحقیقی ٹیم کی سربراہ ڈاکٹر کیتھرین اسکانگوس نے‬
‫اسی بنا پر ایک چپ ڈیزائن کی۔ ڈپریشن کے موقع پر اسے پیوند کو سرگرم کیا جاتا ہے جو‬
‫ڈپریشن کی وجہ بننے والی برقی سرگرمی کو زائل کرکے مریض کو فائدہ دیتا ہے۔ اسے‬
‫ڈیپ برین اسٹیمیولیشن بھی کہا جاتا ہے جو دنیا میں اپنی نوعیت کا پہال امپالنٹ بھی ہے۔‬
‫واضح رہے کہ مریضہ سارہ ڈپریشن کی ایسی قسم سے متاثر تھیں جس کا عالج کسی دوا‬
‫سے ممکن نہیں رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ پہلی مریضہ ہیں جن کے دماغ میں محتاط‬
‫سرجری کے بعد یہ چپ لگائی گئی ہے۔ یو سی ایس ایف کی ذیلی کمپنی وائل انسٹی ٹیوٹ‬
‫فار نیوروسائن ِسس نے یہ کارنامہ انجام دیا ہے۔‬
‫وائل انسٹی ٹیوٹ کے ایک اور سائنسداں کہتے ہیں کہ یہ ٹیکنالوجی ’تیربہدف عالج‘ کی‬
‫جانب ایک اہم پیشرفت ہے۔ اس میں ڈپریشن کی شکار ایک ایسی خاتون کا دماغی احوال‬
‫معلوم کیا گیا ہے جسے قابو کرنا محال تھا۔ خاتون کے دماغ میں برقی سرگرمی کا پورا‬
‫نقشہ دیکھا گیا اور اسی لحاظ سے پیوند کا برقی سسٹم ایجاد کیا گیا۔‬
‫سالہ سارہ کے مطابق سرجری کے بعد اب وہ ‪ 15‬ماہ سے خوش اور مطمئین ہیں ‪36‬‬
‫‪https://www.express.pk/story/2232734/9812/‬‬

‫کورونا وائرس سے بچاؤ کیلیے کیپسول بھی تیار‬

‫ویب ڈیسک‬
‫‪  ‬منگل‪ 5  ‬اکتوبر‪2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪19‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫مرک اینڈ کمپنی کا بنایا ہوا یہ کیپسول کورونا وائرس کے ڈیلٹا ویریئنٹ کے خالف بھی‬
‫مؤثر ہے۔ (فوٹو‪ :‬مرک)‬
‫واشنگٹن‪ :‬دوائیں بنانے والی بین االقوامی کمپنی ’’مرک‘‘‪ x‬نے کورونا وائرس اور اس‬
‫سے پیدا ہونے والی بیماری ’’کو ِوڈ ‪ ‘‘19‬سے بچانے کےلیے ایک کیپسول تیار کرلیا ہے‬
‫جو اس بیماری کی شدت کم کرتے ہوئے اسپتال میں داخلے اور اموات کی شرح میں بھی‬
‫غیرمعمولی کمی السکتا ہے۔‬
‫دوسرے مرحلے کی طبّی ٓازمائشوں (فیز ٹو کلینیکل ٹرائلز) میں یہ کیپسول امریکا اور‬
‫دیگر ممالک کے ‪ 775‬ایسے رضاکاروں میں کامیابی سے ٓازمایا جاچکا ہے جو کورونا‬
‫وائرس کا شکار تھے۔‬

‫تمام رضاکاروں کو یہ کیپسول دن میں دو مرتبہ‪ ،‬مسلسل پانچ دن تک دیا گیا۔ اسے استعمال‬
‫کرنے واال کوئی بھی رضاکار کورونا وائرس کے باعث اسپتال نہیں پہنچا اور نہ ہی موت‬
‫کے منہ میں گیا۔‬
‫اس حوالے سے مرک اینڈ کمپنی کی پریس ریلیز میں بتایا گیا ہے کہ یہ کیپسول کورونا‬
‫کووڈ ‪ 19‬عالمی وبا کی‬
‫وائرس کے ڈیلٹا ویریئنٹ کے خالف بھی مؤثر ہے جو اس وقت ِ‬
‫سب سے بڑی وجہ بھی بنا ہوا ہے۔‬
‫مرک نے امریکا کی ’’فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‘‘ (ایف ڈی اے) کو یہ کیپسول ہنگامی‬
‫بنیادوں پر منظور کرنے کےلیے درخواست بھی دے دی ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪20‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دوسری جانب مختلف ایشیائی ممالک نے بڑی تعداد میں اس کیپسول کی ایڈوانس بکنگ‬
‫کروا لی ہے تاکہ وہ اپنے یہاں اس وبا پر جلد از جلد قابو پاسکیں۔‬
‫کورونا وائرس سے بچاؤ کی دوسری گولیوں اور کیپسولوں پر مختلف اداروں میں کام‬
‫کووڈ ‪ 19‬وبا سے لڑنے کےلیے ہمارے‬ ‫جاری ہے اور امید ہے کہ اس سال کے اختتام تک ِ‬
‫پاس نہ صرف ویکسین کی وافر مقدار موجود ہوگی بلکہ اس بیماری کو شکست دینے‬
‫کےلیے کیپسول اور گولیاں بھی دستیاب ہوں گی۔‬

‫‪https://www.express.pk/story/2232599/9812/‬‬

‫گرتے بالوں کا عالج صرف ایک بی‬

‫اکتوبر ‪06 2021 ،‬‬

‫صدیوں سے بطور غذا استعمال ہونے واال میتھی دانہ ناصرف کھانے کا ذائقہ بڑھانے بلکہ‬
‫مجموعی صحت کے لیے بھی انتہائی مفید ہے‪ ،‬میتھی دانے کو جہاں خواتین کی صحت‬
‫اور ہارمونز کے متوازن رکھنے کے لیے انتہائی اہم جز قرار دیا جاتا ہے وہیں اس کے‬
‫استعمال سے ِدنوں میں گرتے بالوں‪ ‬کا عالج بھی ممکن ہے۔‬

‫غذائی ماہرین کے مطابق موسم سرما کی سبزی میتھی کو سرد اور خشک موسم میں زیادہ‬
‫استعمال کیا جاتا ہے جبکہ میتھی دانے کا استعمال ‪ 12‬مہینے کیا جا سکتا ہے‪ ،‬اس کا‬
‫تحقیقات | ‪21‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سفوف بنا کر نیم گرم پانی کے ساتھ‪  ‬ناصرف کھانا مفید ہے بلکہ اس سے بنا قہوہ پینا بھی‬
‫بے شمار فوائد کے حصول کا ذریعہ ہے۔‬
‫ماہرین غذائیت کے مطابق میتھی دانہ غذائیت‪ ،‬فائبر اور نیوٹرا سیوٹیکل اجزا سے بھرپور‬
‫جز ہے‪ ،‬اس کے باقاعدگی سے استعمال کے نتیجے میں کئی موسمی بیماریوں سے نجات‬
‫حاصل کی جا سکتی ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق میتھی دانے میں قدرتی طور پر اینٹی الرجی خصوصیات پائی‬
‫جاتی ہیں‪ ،‬میتھی دانہ نزلہ‪ ،‬زکام‪ ،‬بے تحاشہ چھینکوں میں خصوصا ً ڈسٹ الرجی کے‬
‫شکار لوگوں اور سائنَس سے متاثرہ افراد کے لیے انتہائی مفید دوا قرار دی جاتی ہے جبکہ‬
‫اس کا‪ ‬استعمال چہرے اور بالوں پر براہ راست کرنے‪  ‬کے نتیجے میں خوبصورتی میں‬
‫اضافہ بھی کیا جا سکتا ہے۔‬
‫جھڑتے بالوں‪ ‬کے لیے میتھی دانے سے بنا ہیئر‪ x‬ماسک‬
‫ماہرین جڑی بوٹیوں کے مطابق میتھی دانہ بالوں‪ ‬کی صحت کے لیے نہایت مفید غذا ہے‪،‬‬
‫بال لمبے‪ ،‬گھنے‪ ،‬چمکدار اور مالئم بنانے کے لیے اس کے قہوے کا یا براہ راست‬
‫استعمال بھی کیا جا سکتا ہے جبکہ جھڑتے بالوں کو فوراً روکنے اور بالوں کو مضبوط‬
‫بنانے کے لیے میتھی دانے کا ہیئر ماسک بنا کر بھی لگایا جا سکتا ہے۔‬
‫‪ :‬میتھی دانے سے ہیئر‪ x‬ماسک بنانے کا طریقہ‬
‫بالوں‪ ‬سے جُڑی کئی شکایات کا فوری عالج ایک ٓاسان ترین ماسک کے ذریعے کیا جا‬
‫سکتا ہے۔‬
‫میتھی دانے سے بنے ماسک کے لیے میتھی دانے کے ‪ 2‬سے ‪ 3‬چمچ رات بھر کےلیے‬
‫سادہ پانی میں بگھو کر رکھ دیں‪ ،‬صبح اسے گرائینڈ کر کے اپنے بالوں‪ ‬کی جڑوں سے‬
‫ِسروں تک لیپ کر لیں‪ ،‬یہ ہیر ماسک زیادہ سے زیادہ صرف ‪ 25‬سے ‪ 30‬منٹ کے لیے‬
‫لگائیں اور بعد ازاں بال اچھی طرح سے دھو لیں۔‬
‫اس عمل کو ہفتے میں صرف ‪ 1‬سے ‪ 2‬بار ہی دہرائیں‪ ،‬اس ماسک کے استعمال سے‬
‫روکھے بالوں‪ ‬میں‪ ‬چند ہی دنوں میں‪ ‬جان ٓا جائے گی اور بال لمبے اور مضبوط ہونے لگیں‬
‫گے۔‬
‫صاف شفاف ‪ ،‬چمکدار جلد کے لیے میتھی دانے سے بنا فیس ماسک‬
‫ب ضرورت مرکب چہرے کے لیے‬ ‫ہیر ماسک کے لیے گرائینڈ کیے گئے مرکب سے حس ِ‬
‫ایک طرف نکال لیں‪ ،‬اب اس مرکب میں شہد‪ ،‬عرق گالب اور ایلوویرا جیل بھی شامل کر‬
‫لیں۔‬
‫اس فیس ماسک کو چہرے پر دن میں ‪ 15‬یا ‪ 20‬منٹ کے لیے لگائیں۔‬
‫اس عمل سے ِدنوں میں چہرے سے ایکنی ‪ ،‬کیل مہاسوں‪ ‬کا خاتمہ اور داغ دھبے غائب ہو‬
‫جائیں گے۔‬
‫احتیاط‬
‫جن خواتین اور مردوں‪ ‬کو ایکنی کی شکایت ہے وہ اس فیس ماسک میں شہد کے استعمال‬
‫سے گریز کریں۔‬
‫تحقیقات | ‪22‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫شہد کے بجائے لیموں کا استعمال بھی کیا جا سکتا ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/994490‬‬

‫ٓانکھوں کے سادہ ٹیسٹ سے دل کی بیماریوں کی تشخیص ممکن‬

‫‪ October 5, 2021‬‬
‫ایک نئی تحقیق سے پتہ چال ہے کہ آنکھوں کا ایک سادہ ٹیسٹ کسی شخص کے دل کی‬
‫بیماری کے خطرے کا پتہ لگاسکتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق مریضوں کی آنکھوں میں خون کے ناقص بہاؤ کے نشانات پر مریضوں‬
‫کے ریٹنا کو اٹھایا گیا ہے ۔ اور یہ دل کے مسائل کی عالمت کے طور پر استعمال کیا جا‬
‫سکتا ہے۔‬
‫محقیقین کا کہنا ہے کہ دل کی بیماری اکثر خون کی ناکافی گردش کا باعث بن سکتی ہے‬
‫اور ریٹنا میں خلیوں کے مردہ ہونے کا سبب بن سکتی ہے ۔ مردہ خلیے ریٹنا میں مستقل‬
‫نشان چھوڑ دیتے ہیں‬
‫واضح رہے کہ ریٹنا آنکھ کا وہ حصہ جو روشنی کو دماغ کے برقی سگنل میں بدلتا ہے ۔‬
‫ریٹنا میں موجود نشانات دل کی بیماریوں کی عالمات ہو سکتی ہیں‬

‫یونیورسٹی آف کیلیفورنیا سان ڈیاگو ہیلتھ کے ریٹنا سرجن اورمطالعہ کے مرکزی مصنف‬
‫ڈاکٹر میتھیو باخوم امید کرتے ہیں کہ ریٹنا اسکیمیا مریضوں کو دل کی بیماری کے‬
‫خطرے کی نشاندہی کرنے میں مدد دے سکتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪23‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یونیورسٹی کے ہیلتھ کلینک کے ڈاکٹر اب اسکین کے دوران اسکیمیا کی شناخت ہونے پر‬
‫مریضوں کو سیدھے امراض قلب کے پاس بھیجنے پر غور کرتے ہیں۔‬
‫ٓانکھوں کا یہ غیرنقصان دہ سکین صرف چند سیکنڈ لیتا ہے ۔ اکثر آپٹشین اس اسکین کو‬
‫معمول کے ٹیسٹوں میں تجویز کرتے ہیں۔ یہ ٹیسٹ وسیع پیمانے پربصارت کی‬
‫صورتحالکی تشخیص کے لیے استعمال ہوتا ہے۔‬
‫روٹین کی طبعی جانچ پڑتال میں دل کی بیماری کی باقاعدگی سے جانچ نہیں کی جاتی ہے‬
‫اور شہریوں میں عام طور پر اس وقت تک دل کی بیماریوں کی تشخیص نہیں ہوتی جب‬
‫تک کہ وہ عالمات کا شکار نہ ہوں۔‬
‫عام طور فالج دل کی بیماری کی پہلی عالمت ہو سکتی ہے۔ جو کہ دل کے دورے کے‬
‫ساتھ ساتھ ایک ہنگامی حالت سمجھی جاتی ہے‪ ،‬ہائی بلڈ پریشر اور ناکافی ورزش ان‬
‫خطرات کو بڑھا دیتے ہیں‬
‫اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ ہر سال برطانیہ میں دل کے دوروں کی وجہ سے دو الکھ افراد‬
‫اسپتال آتے ہیں ‪ ،‬جبکہ امریکہ میں ساالنہ ٓاٹھ الکھ افراد ہارٹ اٹیک کا شکارہوتے ہیں‬

‫۔‬
‫‪https://www.humnews.pk/latest/353239/‬‬

‫تحقیقات | ‪24‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫فائزر ویکسین چھ ماہ تک مؤثر‪،‬پھر بوسٹر کی ضرورت پڑ سکتی ہے‪،‬‬
‫رپورٹ‬

‫‪6 October 2021‬‬


‫‪ — ‬ویب ڈیسک‬
‫ایک نئی مطالعاتی رپورٹ سے ظاہر ہوتا ہے کہ فائزر اور بائیواین ٹیک کی تیار کردہ‬
‫کووڈ ‪ 19‬کی ویکسین کی دو خوراکیں چھ ماہ تک مؤثر‪ x‬ثابت ہوتی ہیں۔ دوسری خوراک‬
‫کے بعد انسان وائرس کے اثرات سے بچا رہتا ہے اور اسپتال داخل ہونے کی ضرورت‬
‫پیش نہیں آتی۔‬
‫فائزر کے تحقیق کاروں کے عالوہ امریکہ میں قائم صحت کی دیکھ بھال سے وابستہ‬
‫ادارے‪ ،‬کائزر پرماننٹے کے تقریبا ً تین کروڑ ‪ 40‬افراد کے ریکارڈ کا جائزہ لیا گیا۔ ریکارڈ‬
‫کا یہ جائزہ دسمبر ‪2020‬ء اور اس سال اگست تک کے دورانیے سے تعلق رکھتا تھا‪ ،‬جن‬
‫کا کائزر کے جنوبی کیلی فورنیا کے ہیلتھ انشورنس اور صحت کی سہولیات فراہم کرنے‬
‫والے اداروں سے وابستہ ارکان سے تعلق تھا۔‬
‫یہ مطالعہ‪ ،‬جو پیر کے روز 'دی النسے میڈیکل جرنل' میں شائع ہوا ہے‪ ،‬اس سے یہ بھی‬
‫پتا چلتا ہے کہ ویکسین کی دوسری خوراک کے بعد یہ کم از کم چھ ماہ کے لیے ڈیلٹا‬
‫جیسے انتہائی متعدی ویرئنٹ کے خالف ‪ 93‬فی صد حد تک مؤثر ہے۔‬
‫لیکن‪ ،‬تحقیق کاروں نے اس بات کا بھی پتا چالیا ہے کہ چھ ماہ کی مدت پوری ہونے کے‬
‫ایک ماہ بعد ‪ 88‬فی صد سے کم ہو کر ‪ 47‬فی صد رہ جاتی ہے۔‬
‫یہ نئی معالعاتی رپورٹ اسی دن شائع ہوئی ہے جب ادویات سے متعلق یورپی یونین کے‬
‫ادارے نے ‪ 18‬اور اس سے زیادہ عمر کے افراد کو فائزر اور بائیو این ٹیک کی کووڈ ‪19‬‬
‫ویکسین کے بوسٹر شاٹس لگانے کی منظوری دی ہے۔ تاہم‪ ،‬یورپی یونین نے بوسٹر لگانے‬
‫یا نہ لگانے کی اجازت دینے کو رکن ملکوں کا انفرادی فیصلہ قرار دیا ہے‬
‫یورپی میڈیسن ایجنسی نے پیر کے دن ایک بیان میں کہا ہے کہ فائزر ویکسین کی بوسٹر‬
‫ڈوز کا معاملہ ‪ 18‬سال اور اس سے زیادہ عمر کے افراد کو فائزر کی دوسری خوراک‬
‫لگنے کے چھ ماہ کے بعد زیر غور الیا جا سکتا ہے۔‬
‫ادارے نے کہا ہے کہ جن حضرات کی قوت مدافعت انتہائی ناقص ہے انھیں فائزر یا‬
‫موڈرنا ویکسین کی تیسری خوراک دی جا سکتی ہے۔ یہ خوراک دوسری خوراک لگنے‬
‫کے کم از کم ‪ 28‬دن کے بعد دی جا سکتی ہے۔‬
‫یہ ہدایت نامہ ایسے میں سامنے آیا ہے جب یورپی یونین کے کچھ ارکان نے پہلے ہی‬
‫بوسٹر شاٹس لگانے کے عمل کا آغاز کر دیا ہے‪ ،‬جب کہ دیگر رکن ملک اس بات پر غور‬
‫کر رہے ہیں آیا اپنے شہریوں کو بوسٹر لگایا جائے۔‬

‫تحقیقات | ‪25‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دریں اثنا‪ ،‬پیر کو 'نیو یارک ٹائمز' نے خبر دی ہے کہ 'جانسن اینڈ جانسن' خوراک اور‬
‫ادویات کے نگران امریکی ادارے کو یہ درخواست دینے واال ہے کہ کووڈ ‪ 19‬کی سنگل‬
‫ڈوز ویکسین دیے جانے والے افراد کے لیے بوسٹر لگانے کی اجازت دی جائے۔‬
‫]اس خبر میں شامل کچھ معلومات ایسو سی ایٹڈ پریس اور رائٹرز سے لی گئی ہے [‬
‫‪https://www.urduvoa.com/a/study-pfizer-covid-19-vaccine-90-percent-‬‬
‫‪effective-for-six-months/6258458‬‬

‫فائزر ویکسین کتنی مؤثر ہے؟ نئی تحقیق‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 5 2021‬‬

‫امریکا میں ہونے والی ایک نئی تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ فائزر ویکسین کرونا کے‬
‫شدید حملے سے ‪ 6‬ماہ تک تحفظ فراہم کرنے کی صالحیت رکھتی ہے۔‬
‫سائنسی جریدے النسیٹ میں شائع شدہ تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کے مریضوں پر‬
‫تحقیق میں پتا چال ہے کہ فائزر کی دو ڈوز ڈیلٹا ویرینٹ سمیت وائرس کی شدید اقسام کے‬
‫خالف کم از کم چھ ماہ تک بے حد مؤثر رہتی ہیں۔‬
‫کلینیکل ٹرائلز سے حاصل ہونے والے ڈیٹا میں سامنے ٓایا ہے کہ ویکسین لگوانے سے‬
‫کرونا وائرس سے متاثر شخص اسپتال جانے سے بچ سکتا ہے‪ ،‬اس تحقیق کے لیے جنوبی‬
‫کیلیفورنیا کے ‪ 34‬الکھ رہائشیوں کے ریکارڈز دیکھے گئے‪ ،‬ان میں سے ایک تہائی ٓابادی‬
‫دسمبر ‪ 2020‬سے اگست ‪ 2021‬کے درمیان ویکسین کی مکمل ڈوز لگوا چکی تھی۔‬

‫تحقیقات | ‪26‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تین سے چار ماہ کی اوسط مدت کے بعد‪ ،‬ویکسین کی ڈوزز مکمل کرنے والے افراد کرونا‬
‫وائرس سے ‪ 73‬فی صد تک محفوظ تھے‪ ،‬جب کہ ‪ 90‬فی صد اسپتال میں داخل کیے جانے‬
‫کی صورت حال سے بچے ہوئے تھے۔‬
‫ویکسین کی ڈوزز مکمل کرنے والے افراد کرونا وائرس کے کسی بھی ویرینٹ سے متاثر‬
‫ہونے کے باوجود تحقیق کے دوران اسپتال داخل کیے جانے سے کافی حد تک محفوظ‬
‫تھے‪ ،‬تاہم پانچ ماہ کے دوران ڈیلٹا ویرینٹ سے حفاظت ‪ 40‬فی صد تک کم ہوئی۔‬
‫تحقیق کے نتائج یہ تجویز کرتے ہیں کہ وائرس سے زیادہ حفاظت کے لیے ویکسین کی‬
‫بوسٹر ڈوز اہم ہے‪ ،‬واضح رہے کہ اگست میں امریکی حکومت نے کمزور مدافعتی نظام‬
‫والے افراد کے لیے کرونا وائرس کی اضافی ڈوز کی اجازت دی تھی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/pfizer-corona-vaccine/‬‬

‫کرونا وائرس کا ایک اور خطرناک پہلو منظر عام پر‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 6 2021‬‬

‫نیویارک‪ :‬عالمی وبا کرونا کے باعث لگائی گئی پابندیوں نے سنگین اثرات مرتب کئے‬
‫ہیں‪ ،‬اقوام متحدہ کے ادارے نے خبردار کردیا ہے۔‬
‫اقوام متحدہ کے بہبود اطفال کے ادارے یونیسیف نے اس حوالہ سے ہالکت خیز عالمی وبا‬
‫کرونا وائرس سے بچاؤ کے لئے لگائی گئی پابندیوں کے سنگین نفسیاتی اثرات سے بیان‬
‫کئے ہیں‬

‫تحقیقات | ‪27‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یونیسیف کے مطابق دنیا بھر میں دس سے انیس برس تک کی عمر کا ہر ساتواں نوجوان‬
‫کسی نہ کسی ذہنی عارضے کا شکار ہے‪ ،‬اس عمر کے نوجوانوں میں پائے جانے والے‬
‫نفسیاتی مسائل میں ڈپریشن‪ ،‬خوف اور ذہنی بے چینی نمایاں ہیں۔‬
‫عالمی ادارے کا کہنا ہے کہ ایسے نوجوانوں کی مدد کے لیے سہولیات اور ان کے ذہنی‬
‫مسائل کے عالج کے لیے دستیاب فنڈز کی بہت کمی ہے‪ ،‬یونیسیف نے دنیا کے ممالک کو‬
‫مشورہ دیا ہے کہ نوجوانوں کے ذہنی مسائل تدارک کے لئے کا م کرنا چاہئے۔‬
‫اس سے قبل امریکا میں کوروناوائرس کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بیماری کووڈ‪ 19‬کے‬
‫حوالے سے نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا تھا کہ وبائی مریضوں کو دماغی مسائل کا بہت‬
‫زیادہ سامنا کرنا پڑتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق کوروناوائرس کے بہت زیادہ بیمار ہوکر آئی سی یو میں زیرعالج رہنے‬
‫والے مریضوں میں دماغی افعال کی محرومی کا خطرہ بہت زیادہ ہوتا ہے جن میں دماغی‬
‫ہذیان‪ ،‬کوما اور طویل المعیاد بنیادوں پر ڈیمنشیا سمیت دیگر مسائل شامل ہیں۔‬
‫امریکا کی وینڈربلٹ میڈیکل یونیورسٹی کی یہ تحقیق طبی جریدے دی النسیٹ ریسیپٹری‬
‫میڈیسین میں شائع ہوئی تھی۔ اس ریسرچ میں اسپین کے ماہرین نے بھی حصہ لیا۔ یہ‬
‫دماغی مسائل کے حوالے سے سب سے بڑی تحقیق تھی جس میں ‪ 28‬اپریل ‪ 2020‬سے‬
‫قبل ‪ 14‬ممالک کے ‪ 2088‬مریضوں پر مشاہدہ کیا گیا تھ‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/every-seventh-young-person-in-the-world-‬‬
‫‪suffers-from-mental-illness/‬‬

‫سونے سے قبل سخت ورزش نقصان دہ یا فائدہ مند؟ ماہرین نے بتادیا‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 6 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪28‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اکثر افراد کو صبح ورزش کرنے کی عادت ہوتی ہے‪ ،‬کئی ایسے بھی ہیں جو رات کو‬
‫ورزش کرنا پسند کرتے ہیں‪ ،‬حالیہ تحقیق سے یہ خیال غلط ثابت ہوا ہے اور رات کو دیر‬
‫سے ورزش کرنے کے منفی اثرات ہی سامنے ٓائے ہیں۔‬
‫کینیڈین سائنسدانوں کی جانب سے کی گئی تحقیق میں کہا گیا کہ جو لوگ سونے سے دو‬
‫گھنٹے قبل سخت ورزش کرتے ہیں انہیں نہ صرف دیر سے نیند ٓاتی ہے بلکہ ان کی نیند‬
‫متاثر بھی ہوسکتی ہے۔‬
‫ریسرچ جرنل ’’سلیپ میڈیسن ریویو‘‘ میں شائع ہونے والی اس رپورٹ سے پتا چلتا ہے‬
‫کہ جن لوگوں نے رات کو سونے سے دو گھنٹے یا اس سے بھی پہلے اپنی ورزش یا‬
‫جسمانی مشقت مکمل کرلی تھی انہیں جلدی نیند ٓائی اور وہ سکون سے سوتے رہے۔‬
‫ان کے برعکس جو لوگ رات کی ورزش یا جسمانی مشقت کے دو گھنٹے بعد یا اس سے‬
‫بھی پہلے سونے کےلیے لیٹ گئے‪ ،‬انہیں نہ صرف بہت دیر سے نیند ٓائی بلکہ رات بھر ان‬
‫کی نیند بھی متاثر رہی۔‬
‫اس تحقیق کا ٓاسان الفاظ میں مطلب یہ ہے کہ اگر ٓاپ ورزش اور جسمانی مشقت کے بہتر‬
‫فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سونے سے کم از کم دو گھنٹے پہلے انہیں مکمل کرلیں۔‬
‫کونکورڈیا یونیورسٹی کینیڈا کے سائنسدانوں نے اس تحقیق کےلیے ماضی میں جسمانی‬
‫مشقت‪ ،‬ورزش اور نیند سے متعلق کیے گئے دس سے زائد سائنسی مطالعات کا جائزہ لیا‬
‫جن میں مجموعی طور پر ‪ 194‬افراد شریک تھے جن کی عمر ‪ 18‬سے ‪ 50‬سال کے‬
‫درمیان تھی۔‬
‫اس تجزیئے کے بعد ماہرین نے خبردار کیا کہ چاہے ٓاپ باڈی بلڈنگ کرتے ہوں یا پھر‬
‫عمومی طور پر اپنی صحت بہتر رکھنا چاہتے ہوں‪ ،‬ہر صورت میں کوشش کریں کہ‬
‫سونے سے دو گھنٹے پہلے اپنی ورزش مکمل کرلی جائے‪،‬ساتھ ہی مشورہ یہ بھی ہے کہ‬
‫سونے سے پہلے سخت قسم کی ورزش سے بھی گریز کرنا چاہیے۔‬

‫تحقیقات | ‪29‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫واضح رہے کہ ٓاج کل فٹنس کلبز اور جمز رات کو دیر تک کھلے رہتے ہیں جہاں دن بھر‬
‫کی مصروفیت کے بعد‪ ،‬تھک کر ٓانے والے خواتین و حضرات ورزش کرتے ہیں تاکہ ان‬
‫کی صحت اچھی رہے اور وہ ’’فٹ‘‘ رہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/exercise-before-bed-is-harmful-experts-say/‬‬

‫یو اے ای نے اسپوتنک الئٹ ویکسین کے استعمال کی منظوری دے دی‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪6 2021‬‬
‫ماسکو‪ :‬روسی ادارے کا کہنا ہے کہ متحدہ عرب امارات نے کرونا ویکسین اسپوتنک‬
‫الئٹ کے استعمال کی منظوری دے دی۔‬

‫تفصیالت کے مطابق یو اے ای کی وزارت صحت نے روس کی تیار کردہ کرونا وائرس‬


‫ویکسین ‘اسپوتنک الئٹ’ کے استعمال کی منظوری دے دی۔‬
‫اسپوتنک الئٹ سے متعلق روسی ادارے رشین ڈائریکٹ انویسٹمنٹ فنڈ کا کہنا ہے کہ اسے‬
‫کرونا ویکسینیشن کے عالوہ بوسٹر ڈوز کے طور پر بھی استعمال کیا جا سکتا ہے۔‬
‫متحدہ امارات نے اسپوتنک الئٹ کے سنگل ڈوز کو بھی بہ طور بوسٹر ڈوز منظوری دے‬
‫دی ہے۔‬
‫یو اے ای حکام نے جنوری ‪ 2021‬میں ‪ 2‬ڈوزز پر مبنی اسپوتنک ‪ V‬ویکسین کی منظوری‬
‫دی تھی‪ ،‬یہ کرونا وائرس کے خالف رجسٹرڈ ہونے والی دنیا کی پہلی ویکسین تھی۔‬

‫تحقیقات | ‪30‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫روسی ادارے کے مطابق اسپوتنک ‪ V‬ویکسین کرونا وائرس کے خالف طویل اور زیادہ‬
‫پائیدار قوت مدافعت پیدا کرنے میں کام یاب رہی ہے‪ ،‬ویکسین کی کامیابی کو مدنظر‬
‫رکھتے ہوئے روس نے دیگر ویکسین پروڈیوسرز کے ساتھ ویکسینز کے کمبنیشن پر‬
‫مشترکہ ریسرچ شروع کر دی ہے‪ ،‬ان کمبنیشنز میں اسپوتنک ‪ V‬کو پہلے جز کے طور پر‬
‫رکھا گیا ہے۔‬
‫اس سلسلے میں مختلف ممالک میں طبی تحقیقات جاری ہیں‪ ،‬جن میں متحدہ عرب امارات‪،‬‬
‫روس‪ ،‬آذربائیجان‪ ،‬ارجنٹائن اور دیگر ممالک شامل ہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/sputnik-light-vaccine-authorized-in-uae/‬‬

‫متاثرہ پٹھوں کے عالج میں مالش ایک دوا کا کام بھی کرتی ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫جمعرات‪ 7  ‬اکتوبر‪ 2021  ‬‬

‫ماہرین کے مطابق مساج اور مالش کرنے سے پٹھوں میں بحالی کی رفتار دوگنا ہوجاتی‬
‫ہے۔‬
‫ہارورڈ‪ :‬انسان ہزاروں برس سے اینٹھن زدہ پٹھوں کو پرسکون رکھتا ٓارہا ہے۔ لیکن اب‬
‫ایک تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ مساج سے متاثرہ پٹھوں کو تیزی سے بحال رکھتا ہے‪،‬‬

‫تحقیقات | ‪31‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس عالج میں تیزی‪ٓ x‬اتی ہے‪ ،‬پٹھے مضبوط ہوتے ہیں اور تیزی سے بہتر ہوتے جاتے‬
‫ہیں۔‬
‫اس پورے عمل کو ’میکنوتھراپی‘ کہا جاتا ہے جس میں مساج‪ ،‬عضالت کی ورزش اور‬
‫انہیں حرکت دے کر چوٹ یا پٹھوں کی سنگین بیماری کا عالج کیا جاتا ہے۔ عام زندگی میں‬
‫کوئی ہمارے پاؤں دبادے تو سکون ملتا ہے‪،‬لیکن شدید اندرونی چوٹ میں مالش ایک دوا کا‬
‫کام کرتی ہے۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ ٓاج کے ایتھلیٹس بھی مساج گن سے اپنے عضالت کی چوٹ دورکرتے‬
‫ہوئے خود کو پرسکون رکھتے ہیں۔ ‪ ‬اس ضمن میں ہارورڈ کے وائس انسٹی ٹیوٹ اور جان‬
‫اے پالسن اسکول ٓاف انجینیئرنگ نے مشترکہ تحقیق کی ہے۔ اس سروے کی تفصیالت‬
‫’سائنس ٹرانسلیشنل میڈیسن‘ میں شائع ہوچکی ہے۔‬

‫‪https://www.express.pk/story/2233175/9812/‬‬

‫دنیا کی پہلی ملیریا ویکسین کیا ہے؟‬

‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪October 2021 8‬‬

‫تحقیقات | ‪32‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫یہ ملیریا ویکسین چار خوراکوں پر مش تمل ہے ج و انجکش ن کے ذریعے ‪ 6‬ہف تے س ے ‪17‬‬
‫مہینے کے بچوں کو لگائی جاتی ہیں۔‬
‫جنیوا‪ :‬گزشتہ روز عالمی ادارہ صحت نے دنیا کی پہلی ملیریا ویکسین کی منظوری دے‬
‫دی جس کی ٓازمائشیں ‪ 2019‬سے تین افریقی ممالک یعنی گھانا‪ ،‬کینیا اور مالوی میں‬
‫جاری تھیں۔‬
‫وسیع پیمانے کی ان پائلٹ ٓازمائشوں میں یہ ملیریا ویکسین ‪ 23‬الکھ سے زائد افریقی بچوں‬
‫کو استعمال کروائی جاچکی ہے جس سے بہت اچھے نتائج برٓامد ہوئے ہیں۔‬
‫ملیریا دنیا کی سب سے ہالکت خیز بیماریوں میں سے ایک ہے جو اینوفلیز مچھر کی مادہ‬
‫میں پائے جانے والے ایک طفیلیے ’’پالزموڈیم فالسیپارم‘‘ کی وجہ سے ہوتی ہے جو اس‬
‫مادہ مچھر کے کاٹنے سے انسانی خون میں منتقل ہوجاتا ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے مطابق‪ ،‬ملیریا نے ‪ 2019‬میں دنیا بھر کے ‪ 22‬کروڑ ‪ 90‬الکھ افراد‬
‫کو متاثر کیا‪ ،‬جن میں چار الکھ سات ہزار افراد موت کے منہ میں چلے گئے۔ ان میں بڑی‬
‫تعداد کم عمر بچوں کی تھی۔‬
‫‘‘اور تجارتی نام ’’موسکویرکس ‪ RTS,S/AS01‬یہ ملیریا ویکسین‪ ،‬جس کا تکنیکی نام‬
‫رکھا گیا ہے‪ ،‬برطانوی ادویہ ساز ادارے گلیکسو اسمتھ کالئن نے تیار )‪(Mosquirix‬‬
‫کروائی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪33‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس بارے میں عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے سربراہ ڈاکٹر ٹیڈروس ایڈہانوم‬
‫گیبرئیسس کا کہنا ہے کہ یہ ویکسین افریقہ میں‪ ،‬افریقی سائنسدانوں نے تیار کی ہے جو‬
‫قابل فخر بات ہے۔‬
‫ایک ِ‬
‫موسکویرکس کا مکمل کورس چار خوراکوں پر مشتمل ہے جو چھوٹے انجکشن کے‬
‫ذریعے ‪ 6‬ہفتے سے ‪ 17‬مہینے تک کے بچوں کو لگائی جاتی ہیں۔ ایسے ہر انجکشن میں‬
‫دوا کی مقدار ‪ 0.5‬ملی لیٹر ہوتی ہے۔‬
‫ملیریا ویکسین کی پہلی تین خوراکوں کے درمیان تیس تیس دن کا وقفہ ہوتا ہے جبکہ‬
‫چوتھی خوراک ان کے ‪ 18‬ماہ بعد لگائی جاتی ہے۔‬
‫بتاتے چلیں کہ یہ ویکسین ‪ 1987‬میں بنالی گئی تھی لیکن اسے طویل مرحلہ وار ٓازمائشوں‬
‫سے گزار کر‪ 34 ،‬سال بعد منظور کیا گیا ہے۔‬
‫اس ملیریا ویکسین کی کارکردگی صرف ‪ 30‬فیصد کے لگ بھگ ہے یعنی یہ ملیریا کے‬
‫باعث بیمار پڑنے اور مرنے والے افراد کی تعداد میں ‪ 30‬فیصد تک کم کرسکتی ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے مطابق‪ ،‬اگر افریقہ میں ملیریا سے بیمار پڑنے اور مرنے والوں‬
‫میں ‪ 30‬فیصد کمی بھی ہوگئی تو یہ ‪ 80‬الکھ افراد کو بیماری سے‪ ،‬جبکہ تقریبا ً ڈیڑھ الکھ‬
‫افراد کو مرنے سے بچانے کے مترادف بات ہوگی۔‬
‫البتہ افریقی بچوں میں ملیریا کے خطرناک اور ہالکت خیز وبائی پھیالؤ کو مدنظر رکھتے‬
‫ہوئے عالمی ادارہ صحت نے یہ ویکسین صرف پانچ سال تک کے بچوں کےلیے منظور‬
‫کی ہے۔‬
‫یہ صرف ’’پالزموڈیم فالسیپارم‘‘ طفیلیے سے پیدا ہونے والے ملیریا کے خالف مؤثر ہے‬
‫جو افریقہ کے عالوہ دنیا کے بیشتر عالقوں میں ملیریا سے بیماری اور اموات کی سب‬
‫سے بڑی وجہ بھی ہے۔دوسرے طفیلیے ’’پالزموڈیم ویواکس‘‘ سے ملیریا کے خالف یہ‬
‫ویکسین بالکل بھی کارگر نہیں‬
‫‪https://www.express.pk/story/2233362/9812/‬‬

‫ملیریا ویکسین ‪ :‬عالمی ادارہ صحت نے بڑا فیصلہ کرلیا‬


‫ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪  7 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪34‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫عالمی ادارہ صحت نے بچوں کے لیے ملیریا کی پہلی ویکسین سے متعلق بڑا فیصلہ‬
‫کرلیا‪ ،‬ڈبلیو ایچ او نے بچوں کے لیے ٓارٹی ایس‪ ،‬ایس ‪/‬اے ایس ‪ 01‬ملیریا ویکیسن کی‬
‫منظوری دی ہے۔‬

‫فرانسیسی خبررساں ادارے (اے ایف پی) کے مطابق عالمی ادارہ صحت کے سربراہ‬
‫ٹیڈروس ادھانوم کا کہنا ہے کہ ملیریا کی پہلی ویکسین کی دنیا بھر میں بڑے پیمانے پر‬
‫استعمال کی منظوری دے دی گئی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪35‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مچھر سے پھیلنے والی بیماری‪ ،‬جس کی وجہ سے افریقی ممالک میں بچوں سمیت دنیا‬
‫میں ساالنہ چار الکھ افراد موت کے منہ میں چلے جاتے ہیں کے خالف یہ پہلی ویکسین‬
‫ہے۔‬
‫رپورٹ کے مطابق عالمی ادارہ صحت کی جانب سے یہ فیصلہ گھانا‪ ،‬کینیا اور مالدیپ‪ ‬‬
‫میں ‪ 2019‬میں تشکیل دیے گئے ایک پائلٹ پروگرام کے جائزے کے بعد کیا۔‬
‫جہاں ویکسین کی ‪ 20‬الکھ سے زائد خوراکیں دی گئی تھیں‪ ،‬جس کو پہلی مرتبہ فارما‬
‫سیوٹیکل کمپنی گلیکسو اسمتھ کے الئن نے‪ 1987‬میں تیار کیا تھا۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے ڈائریکٹر جنرل تیدروس ایڈہانوم نے کہا کہ مذکورہ ممالک سے‬
‫حاصل ہونے والے نتائج کا جائزہ لینے کے بعد عالمی ادارہ صحت نے ملیریا کی دنیا کی‬
‫سب سے پہلی ویکسین کے وسیع طور پر استعمال کی تجویز دی ہے۔‬
‫ایک بیان میں ڈبلیو ایچ او نے کہا کہ افریقی ممالک میں بڑے پیمانے پر بچوں اور دیگر‬
‫خطوں میں معمولی سے شدید ملیریا کے پھیالؤ کو روکنے کے لیے استعمال کے بعد اس‬
‫ویکسین کی تجویز دی جا رہی ہے۔‬

‫دنیا میں مختلف بیماریوں اور جراثیم کے سدباب کے لیے کئی ویکسین موجود ہیں لیکن‬
‫عالمی ادارہ صحت کی جانب سے پہلی مرتبہ انسانی وبائی مرض کے خالف ایک ویکسین‬
‫کے وسیع پیمانے پر استعمال کی تجویز دی گئی ہے۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے گلوبل ملیریا پروگرام کے ڈائریکٹر پیڈرو ایلونسو کا کہنا تھا کہ‬
‫سائنسی نکتہ نظر سے یہ ایک بہت بڑی پییش رفت ہے۔ویکسین پانچ قسم کے وبائی جراثیم‬
‫اور ان میں سے اکثر بدترین کہالنے والے پالسموڈیم فیلسیپارم کے خالف کام کرتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪36‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دوسری جانب کہا جارہا ہے کہ افریقی بچوں تک تجویز کردہ ویکسین پہنچنے سے قبل‬
‫اگال قدم فنڈنگ کا ہوگا۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کے شعبہ امیونائزیشن‪ ،‬ویکسین اور بائیولوجیکلز کے ڈائریکٹر کیٹ او‬
‫برائین کا کہنا تھا کہ یہ اگلے اہم قدم ہوگا پھر ہم خوراک کی فراہمی کا تعین کریں گے اور‬
‫فیصلہ کریں گے کہ ویکیسن کہاں سب سے زیادہ فائدہ مند ہوگی اور وہاں تک کیسے‬
‫پہنچایا جائے‪ ،‬ڈبلیو ایچ او کے مطابق ہر دو منٹ بعد ایک بچہ ملیریا کی وجہ سے انتقال‬
‫کرجاتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/malaria-vaccine-who-approved/‬‬

‫خواتین کو زیادہ سردی جبکہ مردوں‪ ‬کو زیادہ گرمی کیوں لگتی ہے؟‬
‫سائنسدانوں نے بآالخر راز جان لیا‪ ،‬حیران کن تحقیق ٓاگئی‬

‫‪7 october,2021‬‬

‫‪ ‬‬
‫‪    ‬نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) خواتین ک و م ردوں کی نس بت زی ادہ س ردی لگ تی ہے مگ ر‬
‫کیوں؟ اب تک اس سوال کا جواب ایک راز تھا جو ب آالخر سائنس دانوں نے دری افت ک ر لی ا‬
‫ہے۔ دی سن کے مطابق اسرائیل کی تل ابیب یونیورسٹی کے تحقیق ک اروں نے بتای ا ہے کہ‬
‫خ واتین ک ا م ردوں کی نس بت زی ادہ س ردی محس وس کرن ا ارتق ائی عم ل ہے۔ خ واتین ک ا‬
‫ارتقاءکچھ اس انداز میں ہوا ہے کہ‬

‫تحقیقات | ‪37‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫وہ سردی زیادہ محسوس کرتی ہیں تاکہ جوڑے(مرد وخواتین)زیادہ وقت ایک دوسرے سے‬
‫الگ رہیں اور ان کے درمیان جھگڑے نہ ہوں۔اس تحقیق میں معلوم ہوا کہ یہ چیز پرندوں‬
‫اور ممالیہ کی دیگر کئی انواع میں بھی پائی جاتی ہے۔ ان میں بھی مادہ جانور اور پرندے‬
‫زیادہ سردی محسوس کرتے ہیں۔ یہ مادہ جانور اور پرندے نیم گرم جگہیں رہنے کے لیے‬
‫پسند کرتے ہیں جبکہ انہی انواع کے نر پرندے اور جانور مردوں کی طرح نسبتا ً ٹھنڈا‬
‫ماحول پسند کرتے ہیں۔تحقیقاتی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر ایرن لیوین کا کہناتھا کہ ”مرد اور‬
‫خواتین درجہ حرارت مختلف طریقے سے محسوس کرتے ہیں۔‬
‫یہ ان کے ارتقاءکا نتیجہ ہے۔ اس کاممکنہ سبب نر اور مادہ کو ایک دوسرے سے الگ‬
‫رکھنا ہے۔ خواتین یا مادہ پرندے اور جانور گرم اور بند جگہوں کو پسند کرتے ہیں جبکہ‬
‫مرد یا نر پرندے اور جانور کھلی اور ٹھنڈی جگہوں کو پسند کرتے ہیں۔ اس کا حتمی نتیجہ‬
‫یہ نکلتا ہے کہ مردوخواتین اور دیگر انواع کے نر اور مادہ جانور اور پرندے زیادہ وقت‬
‫ایک دوسرے سے الگ گزارتے ہیں اور اس صورت میں ان کے درمیان جھگڑے کم ہوتے‬
‫ہیں۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202110-125447.html‬‬

‫فائزر ویکسین لگوانے سے اسپتال جانے کے ‪90‬فیصد امکانات کم‬


‫ہوجاتے ہیں‬
‫اکتوبر ‪07 2021 ،‬‬

‫تحقیقات | ‪38‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایک نئی تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ عالمی وبا کورونا وائرس سے‬
‫تحفظ فراہم کرنے کے لیے جرمن کمپنی ’با ئیو این ٹیک‘ کی جانب سے بنائی گئی ویکسین‬
‫’فائزر‘ لگنے کے بعد کورونا وائرس سے متاثر ہونے والے افراد کے اسپتال جانے کے‬
‫امکانات ‪ 90‬فیصد تک کم ہو جاتے ہیں۔‬
‫فائزر ویکسین بنانے والی جرمن کمپنی اور امریکی تحقیقاتی ادارے ’کیسر‘ کی جانب سے‬
‫کی گئی ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ فائزر کی دوسری خوراک لگنے کے‬
‫بعد اگر کوئی اس وباء سے متاثر ہوتا ہے تو مریض میں وباء کی معمولی عالمات ظاہر‬
‫ہوتی ہیں اور مریض کے اسپتال میں داخل ہونے کے امکانات میں بھی ‪ 90‬فیصد تک کمی‬
‫ٓاتی ہے۔‬
‫امریکی تحقیقاتی ادارے اور فائزر کی جانب سے ویکسین پر کی گئی تحقیق کے نتائج کے‬
‫مطابق‪  ‬فائزر ویکسین کورونا وبا کے خالف مجموعی طور پر تو فائدہ مند ثابت ہوئی ہے‬
‫مگر انسانی جسم میں اس کے اثرات وقت گزرنے کے ساتھ واضح کم ہوتے چلے جاتے‬
‫ہیں۔‬
‫تحقیق کے نتائج میں یہ بھی بات سامنے ٓائی ہے کہ‪  ‬فائزر ویکسین کی دوسری ڈوز‬
‫لگوانے کے تقریبا ً ‪ 4‬ماہ بعد ‪ 88‬فیصد اور ‪ 6‬ماہ بعد ویکسین کی افادیت کم ہو کر ‪ 47‬فیصد‬
‫رہ جاتی ہے جبکہ اس سے قبل کی جانے والی تحقیق میں یہ کہا گیا تھا کہ فائزر ویکسین‬
‫کا اثر ‪ 6‬ماہ بعد صرف ‪ 12‬فیصد رہ جاتا ہے ۔‬
‫امریکی تحقیقاتی ادارے اور فائزر ’ کیسر‘ کی جانب سے ویکسین کی دونوں ڈوز لگوانے‬
‫والے ‪ 34‬الکھ افراد کا جائزہ لیا گیاتھا۔‬
‫اس سروے کے نتائج کے مطابق ویکسین فائزر کی دوسر ی ڈوز لگنے کے‪ 30‬دن بعد ہی‬
‫اس کے اثرات اور افادیت میں کمی ٓانا شروع ہو جاتی ہے جبکہ ‪ 6‬ماہ کے اندر اندر اس‬
‫کی افادیت ‪ 90‬فیصد سے گھٹ کر ‪ 47‬فیصد رہ جاتی ہے اور اگر فائزر ویکسین لگوانے‬
‫کے ‪ 6‬ماہ بعد اگر کوئی اس وباء کا شکار ہوتا ہے تو ایسے مریض کے اسپتال جانے کے‬
‫‪ 90‬فیصد اور مرنے کے امکانات بہت کم رہ جاتے ہیں۔‬
‫محققین کی جانب سے اس تحقیق سے یہ نتائج اخذ کیے گئے ہیں‪ ‬کہ اگر فائزر کی دوسری‬
‫ڈوز لگوانے کے ٹھیک ‪ 6‬ماہ بعد ایک بوسٹر ڈوز بھی لگوالی جائے تو اس ویکسین کی‬
‫افادیت پہلے کی طرح بڑھ جاتی ہے‬

‫‪Web‬‬

‫ملٹی وٹامنز کس وقت کھانا مفید ہے؟‬


‫اکتوبر ‪08 2021 ،‬‬

‫تحقیقات | ‪39‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ بات سائنسی تحقیق سے تصدیق شدہ ہے کہ وٹامنز اور منرلز انسانی جسم کے لیے‬
‫بنیادی اجزاء کی حیثیت رکھتے ہیں اور اِن کا کھانا صحت کے لیے نہایت موزوں ثابت‬
‫ہوتا ہے۔‬

‫طبی و غذائی ماہرین کے مطابق روز مرہ کی غذا میں شامل وٹامنز اور منرلز انسانی جسم‬
‫کے لیے مطلوب مقدار کے لیے نا کافی ہوتے ہیں‪ ،‬اسی لیے اِن کا بطور سپلیمنٹس استعمال‬
‫ناگزیر قرار دیا جاتا ہے۔‬
‫صحت مند ِجلد کیلئے ضروری وٹامنز کونسے ہیں؟‬
‫گرتے بالوں کا عالج صرف ایک بیج سے‬
‫طبی ماہرین کے مطابق وٹامنز اور منرلز کی متوازن مقدار قوت مدافعت مضبوط بنا کر‬
‫متعدد بیماریوں‪ ،‬وائرل اور موسمی انفیکشنز سے بچاتی ہے‪ ،‬وٹامنز سے حاصل ہونے‬
‫والے فوائد کو مٔوثر بنانے کے لیے اِن کے استعمال کے اوقات کار بھی توجہ طلب ہیں۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق وٹامنز انسانی جسم میں جا کر مختلف اوقات میں مختلف طریقوں‬
‫سے افادیت پہنچاتے ہیں‪ ،‬کچھ وٹامنز کھانے سے قبل‪ ،‬کھانے کے بعد‪ ،‬نہار منہ یا کھانے‬
‫کے دوران لیے جاتے ہیں‪ ،‬ہر وٹامن کا انسانی جسم میں اثر انداز ہونے کا اپنا ایک طریقہ‬
‫ہوتا ہے‪ ،‬سپلیمنٹس کے طور پر لیے جانے والے وٹامنز میں کچھ ملٹی یعنی ایک کیپسول‬
‫میں ایک سے زائد وٹامنز پائے جاتے ہیں جبکہ کچھ وٹامنز واحد ہوتے ہیں جنہیں مختلف‬
‫اوقات میں لینا زیادہ سود مند ثابت ہوتا ہے۔‬
‫لیمن گراس کے استعمال سے جسم میں کیا تبدیلی ٓاتی ہے؟‬
‫ڈبل روٹی کا استعمال صحت کیلئے کتنا نقصان دہ ہے؟‬
‫ماہرین کے مطابق ملٹی وٹامنز کی ایک گولی باقی وٹامنز کے الگ الگ کھانے سے زیادہ‬
‫مٔوثر اور مفید ثابت ہوتی ہے‪ ،‬ماہرین کی جانب سے ملٹی وٹامنز کی گولی کھانے کا‬
‫صحیح وقت اور طریقہ کار مندرجہ ذیل ہے۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق ملٹی وٹامنز کے کیپسول میں انسانی صحت کے لیے ضروری‬
‫معدنیات کیلشیم‪ٓ ،‬ائرن‪ ،‬فولک ایسڈ‪ ،‬وٹامن اے‪ ،‬بی ( وٹامن بی کی مختلف اقسام)‪ ،‬سی‪ ،‬ای‪،‬‬
‫ڈی اور زنک پایا جاتا ہے۔‬
‫ملٹی وٹامنز سے بھرپور فائدہ اٹھانے کے لیے انہیں بغیر ناغہ روزانہ کھانا چاہیے۔‬
‫طبی و غذائی ماہرین کے مطابق ملٹی وٹامنز کھانے کا صحیح وقت دوپہر کے کھانے کے‬
‫دوران ہے‪ ،‬دوپہر کے کھانے سے قبل وٹامن کا کیپسول ایک سے دو گھونٹ پانی کے‬
‫ساتھ کھائیں اور جلدی سے دوپہر کا کھانا کھا لیں۔‬
‫دوپہر کا وقت ملٹی وٹامنز کو ہضم اور ان کے مکمل فوائد حاصل کرنے کا صحیح وقت‬
‫ہے۔‬
‫کیا ٓالو صرف موٹاپے کا سبب بنتے ہیں؟‬
‫سونف والے دودھ کے حیرت انگیز فوائد‬

‫تحقیقات | ‪40‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ کھانا کھانے کے ‪ 30‬منٹ بعد پانی کا زیادہ سے زیادہ استعمال الزمی‬
‫کریں‪ ،‬ملٹی وٹامنز کو ہضم کرنے اور ان کی مکمل افادیت حاصل کرنے کے لیے پانی بے‬
‫حد ضروری ہے ۔‬
‫احتیاط‬

‫ماہرین کے مطابق وٹامنز انسانی صحت کے لیے مفید ہیں مگر ان کا زیادہ استعمال‬
‫خطرناک ثابت ہو سکتا ہے‪ ،‬اپنی صحت کے مطابق وٹامنز کا انتخاب اپنے ڈاکٹر کے‬
‫مشورے سے کریں۔‬
‫ملٹی وٹامنز کا دن میں ایک سے ز یادہ کیپسول نہ کھائیں۔‬
‫پیٹ کی چربی کم کرنے میں ایلوویرا کا جادوئی کردار‬
‫اگر حاملہ خاتون کو ملٹی وٹامنز سے ہٹ کر ٓائرن کی مقدار زیادہ چاہیے ہو تو ملٹی وٹامنز‬
‫کی دن میں دو بار کیپسول لینے کے بجائے ٓائرن یا مطلوبہ وٹامنز کی مقدار اپنے معالج‬
‫کے مشورے سے بڑھا دیں۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/995389‬‬

‫کھانے کی تصویر سوشل میڈیا پر شیئر کرنے کا نقصان جانتے‬


‫ہیں؟‬

‫تحقیقات | ‪41‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪8 2021‬‬

‫ہم میں سے اکثر افراد اپنے کھانوں کی تصاویر سوشل میڈیا پر شیئر‪ x‬کرنا پسند کرتے‬
‫ہیں‪ ،‬تاہم اب ماہرین نے اس کے مضر اثرات کے بارے میں آگاہ کیا ہے۔‬

‫حال ہی میں کی جانے والی ایک نئی تحقیق کے مطابق کھانے کی تصاویر سوشل میڈیا پر‬
‫پوسٹ کرنے کی عادت صحت کے لیے مضر ثابت ہوسکتی ہے۔‬
‫امریکی یونیورسٹی آف ساؤتھ جارجیا میں کی جانے والی اس تحقیق میں کہا گیا کہ جو‬
‫افراد اپنے کھانے کی تصاویر بناتے ہیں وہ الشعوری طور پر زیادہ بھوک کا شکار ہو‬
‫جاتے ہیں اور ان میں بسیار خوری کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے جس سے ان کے اندر ایک‬
‫بعد دوسری خوراک کی طلب بڑھ جاتی ہے۔‬
‫اس حوالے سے ایک سروے میں بتایا گیا کہ ‪ 80‬اور ‪ 90‬کی دہائی میں پیدا ہونے والے‬
‫باقاعدگی سے ہوٹلنگ کے موقع پر کھانا شروع کرنے سے قبل تصاویر سوشل میڈیا پر‬
‫شیئر کرتے ہیں۔‬
‫ماضی میں کی گئی تحقیقات میں کہا گیا تھا کہ سوشل میڈیا پرکھانے کی تصاویر شیئر‬
‫کرنے کے کافی فوائد ہیں‪ ،‬مثال کے طور پر ایسا کرنے سے کھانے کا مزہ دوباال ہو جاتا‬
‫ہے۔‬
‫اس کی وضاحت کرتے ہوئے ماہرین کا کہنا تھا کہ کھانے کی تصاویر بنانے اور سوشل‬
‫میڈیا پر اپ لوڈ کرنے سے دماغ کھانے کے حوالے سے ایک نکتے پر یکسو ہوتا ہے جس‬
‫سے الشعوری طور پر کھانے کی خوشبو دماغ میں بس جاتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪42‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تاہم اب پرانی تحقیق کے برعکس نئی تحقیق میں کہا گیا کہ کھانے کی تصاویر بنانا اور‬
‫انہیں سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کرنے کے مضر اثرات انسانی جسم پر پڑتے ہیں جس سے‬
‫انسان کی اشتہا بڑھ جاتی ہے اور اس کا معدہ زیادہ خوراک طلب کرتا ہے۔‬
‫نئی تحقیق میں ماہرین نے ‪ 145‬افراد پرریسرچ کی جنہیں دو گروپوں میں تقسیم کیا گیا تھا‪،‬‬
‫انہیں کرنچی تلی ہوئی اور پنیر کی اشیا دی گئی۔ ایک گروپ کو کہا گیا کہ کھانے سے قبل‬
‫ان کی تصاویر بنائیں اور کھانے کے بعد اپنے تجربے سےمطلع کریں کہ کیا انہیں یہ اشیا‬
‫پسند آئی اور وہ مزید انہیں کھانا چاہتے ہیں۔‬
‫تحقیق میں یہ بات سامنے آئی کہ جس گروپ کو تصاویر بنانے کا کہا گیا تھا انہیں زیادہ‬
‫نمبر دیے گئے یعنی انہوں نے زیادہ کھانا کھایا۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ تصویر بنانے کے دوران دماغ کے مخصوص خلیات جو کمانڈ ارسال‬
‫کرتے ہیں ان کی جانب سے معدے کو مزید خوراک کی کمانڈ موصول ہوئی جس کی بنیاد‬
‫پر انہوں نے زیادہ کھایا جس سے ان کی کیلوریز میں اضافہ ہوا۔‬
‫ماہرین کے مطابق وہ افراد جو خوراک کا استعمال کم کرنے کے خواہاں ہیں خاص کر‬
‫مغربی کھانے انہیں چاہیئے کہ وہ کھانے سے قبل تصویر بنانے سے اجتناب برتیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/food-pictures-on-social-media/‬‬

‫وہ وٹامنز جو آپ کی جلد کو خوبصورت بنائیں‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 8 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪43‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہر انسان اپنی جلد کو خوبصورت بنانا چاہتا ہے تاہم بہت سے لوگ نہیں جانتے کہ ایسی‬
‫کون سی اشیا استعمال کی جائیں جو جلد کو صحت مند اور خوبصورت رکھیں۔‬
‫ایک عام خیال ہے کہ وٹامن سی ہماری جلد کو بہتر بنانے اور نکھارنے میں اہم کردار ادا‬
‫کرتا ہے لیکن ماہرین وٹامن سی کے عالوہ دیگر وٹامنز کو بھی ہماری جلد کے لیے مفید‬
‫قرار دیتے ہیں۔‬

‫ان وٹامنز کے بارے میں جاننا آپ کے لیے بے حد ضروری ہے۔‬


‫وٹامن اے‬
‫وٹامن اے جلد کے لیے ایک ضروری غذائیت ہے کیونکہ یہ کولیجن کی پیداوار کو‬
‫بڑھانے‪ ،‬کیراٹین کی پیداوار کو کنٹرول کرنے اور جلد کو مضبوط بنانے میں مدد کرتا‬
‫ہے‪ ،‬یہ جلد کی شفا اور جلد کی مرمت میں بھی مدد کرتا ہے۔‬
‫وٹامن اے آلو‪ ،‬پتوں والی سبزیوں‪ ،‬انڈوں‪ ،‬کدو اور گاجر وغیرہ میں پایا جاتا ہے‪ ،‬وٹامن اے‬
‫مہاسوں‪ ،‬ایکنی‪ ،‬پگمنٹیشن ‪ ،‬باریک لکیروں اور جھریوں جیسے مسائل کے عالج میں بھی‬
‫اہم کردار ادا کرتا ہے۔‬
‫وٹامن ای‬
‫وٹامن ای ایک طاقتور اینٹی آکسیڈنٹ ہے جو جلد پر سورج کے مضر اثرات کو کم کرنے‬
‫میں مدد کرتا ہے‪ ،‬یہ جلد کی سوزش کو کنٹرول کرنے میں مدد کرتا ہے۔ یہ جھریوں کی‬
‫ظاہری شکل کو کم کرنے میں بھی مدد کرتا ہے جس سے آپ کی جلد جوان محسوس ہوتی‬
‫ہے۔‬
‫گری دار میوے اور بیج (بادام‪ ،‬اخروٹ اور سورج مکھی کے بیج) وٹامن ای کا ایک بہت‬
‫بڑا ذریعہ ہیں جسے آپ اپنی خوراک میں شامل کر سکتے ہیں‪ ،‬وٹامن ای کو جلد پر کریم‪،‬‬
‫لوشن اور سیرم کی شکل میں بھی لگایا جا سکتا ہے۔‬
‫وٹامن بی کمپلیکس‬
‫وٹامن بی کمپلیکس‪ ،‬وٹامن بی کی مختلف شکلوں کا ایک گروپ ہے (وٹامن بی ‪ ،3‬وٹامن‬
‫بی ‪ ،5‬وٹامن بی ‪ 6‬وغیرہ) جو آپ کی جلد‪ ،‬بالوں اور یہاں تک کہ ناخن کی مجموعی‬
‫صحت میں مدد اور بہتری التا ہے۔ یہ جسم کو ضروری فیٹی ایسڈ کو موثر انداز میں‬
‫استعمال کرنے میں مدد کرتا ہے۔‬
‫وٹامن بی کمپلیکس گوشت‪ ،‬انڈوں‪ ،‬مچھلی‪ ،‬جھینگے‪ ،‬گری دار میووں اور بیجوں میں پایا‬
‫جاتا ہے‪ ،‬بی کمپلیکس وٹامنز عام طور پر تجویز کردہ وٹامن سپلیمنٹس میں سے ایک ہیں۔‬
‫وٹامن کے‬
‫وٹامن کے زخموں اور جہاں سرجری کی گئی ہے ان کو ٹھیک کرنے میں مدد کرتا ہے‪،‬‬
‫چند مطالعات آنکھوں کے سیاہ حلقوں کے عالج میں وٹامن کے کی اہمیت کا مشورہ دیتے‬
‫ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪44‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫وٹامن کے دیگر اجزا اور عالج کے ساتھ مل کر ایک خاص حد تک مسلسل نشانات‪ ،‬داغ‬
‫اور سیاہ دھبوں کے عالج میں بھی مدد کرتا ہے‪ ،‬یہ قدرتی طور پر پالک‪ ،‬سبز پھلیوں‪،‬‬
‫گوبھی وغیرہ میں پایا جاتا ہے۔‬
‫وٹامن ڈی‬
‫وٹامن ڈی آپ کی جلد اور بالوں کی صحت میں کلیدی کردار ادا کرتا ہے‪ ،‬یہ قدرتی غذائی‬
‫ذرائع جیسے سالمن‪ ،‬ٹونا مچھلی اور دیگر اناج میں پایا جاتا ہے‪ ،‬دن میں ‪ 10‬سے ‪ 15‬منٹ‬
‫تک اپنی جلد کو سورج کے سامنے رکھ کر وٹامن ڈی کی مناسب مقدار بھی حاصل کی جا‬
‫سکتی ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/essential-vitamins-for-skin/‬‬

‫تین سے ‪11‬سال کے بچوں کو ویکسین لگانے کی منظوری‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪8 2021‬‬

‫بیونس آئرس ‪ :‬ارجنٹائن میں کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے‪ 3‬سے‪ 11‬سال کے بچوں کو‬
‫سائنو فارم ویکسین کے ہنگامی استعمال کی منظوری دے دی گئی۔‬
‫اس حوالے سے ارجنٹائن کے وزیر صحت کارال ویزوٹی نے اعالن کردیا ہے جس کے‬
‫مطابق ملک میں‪ 3‬سے‪ 11‬برس کی عمر کے تقریبا ً‪ 60‬الکھ بچے ہیں‪ ،‬اس سال کے آخر‬
‫تک ‪ 3‬سال سے اوپر کے تمام افراد کی ٹیکہ کاری مکمل کرنے کا منصوبہ ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪45‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫صحت کے حکام نے جمعرات کو کہا کہ ارجنٹینا نے حال ہی میں اس کی منظوری دی‬
‫ہے‪ ،‬وزیر صحت کارال ویزوٹی کے ایک اعالن کے مطابق ملک میں تین سے‪ 11‬برس کی‬
‫عمر کے تقریبا ً‪ 60‬الکھ بچے ہیں۔‬
‫وزیر صحت نے کہا کہ ارجنٹینا اس سال کے آخر تک تین سال سے زائد عمر کے تمام‬
‫افراد کی ویکسینیشن مکمل کرنے کا منصوبہ بنایا جا رہا ہے۔‬
‫تعلیمی عہدیداروں نے کہا کہ انہیں امید ہے کہ اس اقدام سے ارجنٹینا میں بچے آن الئن‬
‫کے بجائے اسکولوں میں جاکر تعلیم حاصل کرسکیں گے۔‬
‫ملک گزشتہ برس کے آغاز میں کورونا کا پہال کیس درج ہونے کے بعد سے اب تک‬
‫مجموعی طور پر ‪5263219‬کیس سامنے آئے ہیں اور‪ 115379‬اموات ہوئی ہیں۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/anti-corona-vaccine-children-sinopham/‬‬

‫کووڈ کے مریضوں کے ہاتھوں اور پیروں میں عجیب نشانات کی وجہ‬


‫دریافت‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪07 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪46‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬
‫کووڈ کے مریضوں میں جلد کا ایک عام مسئلہ ممکنہ طور پر وائرس کے خالف مدافعتی‬
‫نظام کے ردعمل کا ایک اثر ہوتا ہے۔‬
‫ہاتھوں اور پیروں پر سرخ اور سوجن کی شکار جلد کے ایسے )‪ (Covid toe‬کووڈ ٹو‬
‫حصے ہوتے ہیں جن میں خارش محسوس ہوتی ہے اور کئی بار یہ مسئلہ مہینوں تک‬
‫برقرار رہتا ہے۔‬

‫عام طور پر یہ نشانی کووڈ سے متاثر ہونے کے بعد ایک سے ‪ 4‬ہفتوں کے دوران ظاہر‬
‫ہوتی ہے ہے اس کے نتیجے میں ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں سوج جاتی ہیں یا ان کی‬
‫رنگت بدل جاتی ہے۔‬
‫اب تک یہ معلوم نہیں تھا کہ کووڈ کے مریضوں کی اس عالمت کی وجہ کیا ہے مگر اب‬
‫ایک نئی تحقیق پر اس کی وجہ سامنے آئی ہے۔‬
‫طبی جریدے برٹش جرنل آف ڈرماٹولوجی میں شائع تحقیق میں اس مسئلے کے شکار ‪50‬‬
‫مریضوں کے ساتھ اس وبا سے قبل اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنے والے ‪ 13‬افراد کو‬
‫شامل کیا گیا تھا۔‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ اس مسئلے کے پیچھے جسم کا مدافعتی ردعمل ہوتا ہے جس‬
‫کے دوران بہت زیادہ مقدار میں مخصوص اینٹی باڈیز بنتی ہیں‪ ،‬جو وائرس کے ساتھ ساتھ‬
‫مریض کے خلیات اور ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ خون کی شریانوں میں موجود مدافعتی خلیات کووڈ ٹو میں بنیادی‬
‫کردار ادا کرتے ہیں۔‬
‫محققین نے کہا کہ کووڈ کے مریضوں کے اس مسئلے کے بارے میں اب تک کچھ زیادہ‬
‫معلوم نہیں تھا مگر ہماری تحقیق میں نئی تفصیالت فراہم کی گئی ہیں۔‬
‫اس سے پہلے خیال کیا جارہا تھا کہ یہ کووڈ کی غیر تصدیق شدہ عالمات میں سے ایک‬
‫ہے جس کے شکار افراد کے ہاتھوں یا پیروں میں سرخ یا جامنی رنگ کے نشانات ابھر‬
‫آتے ہیں۔‬
‫مگر اب محققین نے بتایا کہ ہاتھوں اور پیروں میں یہ نشانات اکثر بغیر عالمات والے‬
‫مریض بچوں اور نوجوانوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق مسئلے کی وجہ معلوم ہونے کے بعد اس کے عالج کے لیے زیادہ مؤثر‬
‫حکمت عملی مرتب کرنے میں مدد مل سکے گی۔‬
‫اس سے قبل مئی میں نگز کالج لندن کے پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے بتایا تھا کہ ناخنوں میں‬
‫عجیب نشان بن جانا کچھ عرصے پہلے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی ایک نشانی‬
‫ہوسکتی ہے۔‬
‫پروفیسر ٹم اسپیکٹر دنیا کی سب سے بڑی کورونا وائرس کی عالمات کی تحقیق کرنے‬
‫والی ٹیم کی قیادت کررہے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪47‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے نے بتایا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد میں صحتیابی کے بعد چند ماہ کے‬
‫اندر ہاتھوں اور پیروں کے ناخنوں پر افقی لکیریں ابھر سکتی ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ انہیں متعدد افراد سے کووڈ نیلز کی رپوورٹس زوئی کووڈ سیمپٹم اسٹڈی‬
‫ایپ میں موصول ہوئی ہیں۔‬
‫پروفیسر ٹم نے بتایا کہ ناخنوں پر اس طرح کے اثرات غیرمعمولی نہیں کیونکہ دیگر‬
‫بیماریوں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کے خیال میں کسی بیماری کے خالف نگ کے دوران پیدا ہونے واال تناؤ ناخنوں‬
‫پر اس طرح کی لکیروں کا باعث بنتا ہے۔‬
‫اس عرصے میں ناخن بڑھتے نہیں اور پروفیسر ٹم کے مطابق یہ نشان ایک درخت کی‬
‫طرح کسی ایونٹ کی نشاندہی کرتا ہے۔‬
‫برٹش ایسوسی آف ڈرماٹولوجسٹ کی صدر ڈاکٹر تانیہ بیکر نے بتایا کہ جلدی امراض کے‬
‫ماہرین نے کووڈ ‪ 19‬کے مریضوں کے ناخنوں میں افقی لکیروں کو دیکھا ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ کئی بار یہ تمام ناخنوں میں ہوتی ہے اور کئی بار یہ اثر صرف پیروں‬
‫کے انگوٹھوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق اس طرح کی لکیریں بذات خود نقصان دہ نہیں ہوتیں اور عموما ً بیماری‬
‫کے کئی ماہ بعد ابھرتی ہیں۔‬
‫پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے بتایا کہ یہ تو واضح نہیں کہ ناخنوں میں آنے والی تبدیلیوں کا تعلق‬
‫بیماری کی شدت سے ہے۔‬
‫عموما ً دیگر امراض میں بیماری کی شدت جتنی زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬ناخنوں پر نشان کا امکان‬
‫اتنا زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫پروفیسر ٹم نے بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ ناخنوں میں تبدیلیاں کووڈ ‪ 19‬کی سنگین شدت کا‬
‫اشارہ ہوں‪ ،‬مگر ابھی کچھ یقین سے کہنا مشکل ہے۔‬
‫انہوں نے وضاحت کی کہ اگر ناخنوں کی تبدیلیاں ماضی میں کورونا سے متاثر ہونے کی‬
‫نشانی ہے تو اس سے یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ لوگ ماضی میں اس بیماری کا‬
‫شکار ہوئے تھے یا نہیں۔‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1170110/‬‬

‫کووڈ کے شکست دینے کے ایک سال بعد بھی مریضوں کے دل کو‬


‫نقصان پہنچنے کا انکشاف‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪07 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪48‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬

‫کووڈ ‪ 19‬کے مریضوں کے دل کو پہنچنے واال نقصان بیماری کے ابتدائی مراحل تک ہی‬
‫محدود نہیں بلکہ اسے شکست دینے کے ایک سال بعد بھی ہارٹ فیلیئر اور جان لیوا بلڈ‬
‫کالٹس (خون جمنے یا لوتھڑے بننے) کا خطرہ ہوتا ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک‬
‫نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی اس تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ‬
‫کووڈ ‪ 19‬کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد (ایسے مریض جن کو ہسپتال میں‬
‫داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی) میں بھی یہ خطرہ ہوتا ہے۔‬

‫امراض قلب اور فالج پہلے ہی دنیا بھر میں اموات کی بڑی وجوہات بننے والے امراض ہیں‬
‫اور کووڈ ‪ 19‬کے مریضوں میں دل کی جان لیوا پیچیدگیوں کا خطرہ ہالکتوں میں نمایاں‬
‫اضافہ کرسکتا ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ کووڈ ‪ 19‬کے مابعد اثرات واضح اور ٹھوس ہیں‪ ،‬حکومتوں اور طبی‬
‫نظام کو النگ کووڈ کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے جاگنا ہوگا جس کے تباہ کن‬
‫اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪49‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ کووڈ کو شکست دینے کے بعد ‪ 12‬ماہ کے دوران ہارٹ اٹیک‪ ،‬فالج‬
‫یا دل کی شریانوں سے جڑے دیگر بڑے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں کووڈ سے متاثر ہونے والے ایک الکھ ‪ 51‬ہزار ‪ 195‬سابق فوجیوں میں دل‬
‫کی پیچیدگیوں کے ڈیٹا کا موازنہ ‪ 36‬الکھ ایسے افراد سے کیا گیا جو اس وبائی مرض کا‬
‫شکار نہیں ہوئے تھے۔‬
‫ڈیٹا کی جانچ پڑتال کے بعد دریافت کیا گیا کہ اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے‬
‫مقابلے میں کووڈ ‪ 19‬کے ایسے مریض جو ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے تھے ان میں‬
‫بیماری کو شکست دینے کے ایک سال بعد ہارٹ فیلیئر کا خطرہ ‪ 39‬فیصد اور جان لیوا بلڈ‬
‫کالٹ کا امکان دگنا بڑھ جاتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق کووڈ کے ہر ایک ہزار مریضوں میں سے ‪ 5.8‬کو ہارٹ فیلیئر اور ‪2.8‬‬
‫کو جان لیوا بلڈ کالٹس کا سامنا ہوسکتا ہے اور یہ وہ مریض ہیں جن میں بیماری کی شدت‬
‫اتنی کم تھی کہ ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔‬
‫اس کے مقابلے میں کووڈ ‪ 19‬کے باعث ہسپتال میں داخل رہنے والے مریضوں میں‬
‫کارڈک اریسٹ (اچانک حرکت قلب تھم جانے) کا خطرہ ‪ 5.8‬گنا جبکہ دل کی پٹھوں کے‬
‫ورم کا امکان لگ بھگ ‪ 14‬گنا تک بڑھ جاتا ہے۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬کے ایسے مریض جو آئی سی یو میں زیرعالج رہے ان میں سے لگ بھگ ہر ‪7‬‬
‫میں سے ایک کو بیماری کے بعد ایک سال کے اندر دل کی خطرناک پیچیدگیوں کا سامنا‬
‫ہوسکتا ہے۔‬
‫محققین ابھی تک کووڈ کے مریضوں کے دل کو پہنچنے والے نقصان کی وجوہات مکمل‬
‫طور پر جان نہیں سکے مگر ان کے خیال میں اس کی ممکنہ وجوہات میں وائرس کا براہ‬
‫راست دل کے پٹھوں کے خلیات‪ ،‬خون کی شریانوں کے خلیات‪ ،‬بلڈ کالٹس اور مسلسل ورم‬
‫ہوسکتے ہیں۔‬
‫محققین نے مزید بتایا کہ کووڈ ‪ 19‬کے بال واسطہ اثرات بشمول سماجی طور پر الگ تھلگ‬
‫ہونا‪ ،‬مالی مشکالت‪ ،‬غذائی عادات اور جسمانی سرگرمیوں میں تبدیلیاں بھی دل کی‬
‫شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے کا باعث ہیں۔‬
‫مگر انہوں نے تسلیم کیا کہ تحقیق میں شامل افراد زیادہ تر مرد اور سفید فام تھے جس کے‬
‫باعث نتائج کا اطالق تمام گروپس پر فی الحال نہیں کیا جاسکتا۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچر میں شائع ہوئے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1170130/‬‬

‫فائزر کی کووڈ ‪ 19‬ویکسین کی افادیت گھٹنے کی مزید تحقیقی رپورٹس‬


‫میں تصدیق‬

‫تحقیقات | ‪50‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪07 2021‬‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫فائزر‪ /‬بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ ‪ 19‬ویکسین سے بیماری کے خالف ملنے والے‬
‫تحفظ کی شرح ویکسینیشن مکمل ہونے کے ‪ 2‬ماہ بعد گھٹنا شروع ہوجاتی ہے‪ ،‬تاہم بیماری‬
‫کی سنگین شدت‪ ،‬ہسپتال میں داخلے اور اموات کے خالف ٹھوس تحفظ ملتا ہے۔‬
‫یہ بات حقیقی دنیا میں ہونے والی ‪ 2‬مختلف طبی تحقیقی رپورٹس میں سامنے آئی۔‬

‫اسرائیل اور قطر میں ہونے والے تحقیقی کام سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ مکمل‬
‫ویکسینیشن کے بعد بھی لوگوں کو بیماری سے بچاؤ کے لیے احتیاطی تدابیر پر عمل کرنا‬
‫چاہیے۔‬

‫ایک تحقیق اسرائیل میں ہوئی جس میں ‪ 4800‬طبی ورکرز کو شامل کیا گیا تھا۔‬
‫نتائج سے ثابت ہوا کہ ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے ‪ 2‬ماہ بعد اینٹی باڈیز‬
‫کی سطح میں تیزی سے کمی آنے لگتی ہے بالخصوص مردوں میں‪ 65 ،‬سال سے زائد‬
‫عمر کے افراد اور کمزور مدافعتی نظام کے حامل افراد میں ویکسین کی افادیت میں کمی‬
‫زیادہ نمایاں ہوتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪51‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز والی سطح پر توجہ مرکوز کی گئی تھی‬
‫اور ماہرین نے بتایا کہ خسرہ یا دیگر بیماریوں کے خالف ویکسینز کے استعمال کے بعد‬
‫اینٹی باڈیز کی سطح میں ہر سال ‪ 5‬سے ‪ 10‬فیصد کی معمولی کمی آتی ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ فائزر ویکسین کی دونوں خوراکوں کے بعد اینٹی‬
‫باڈیز کی سطح میں بہت تیزی سے نمایاں کمی آتی ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی عندیہ دیا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے کے بعد ویکسینیشن کرانے‬
‫والے افراد کو ملنے والے تحفظ کا دورانیہ زیادہ طویل ہوسکتا ہے۔‬
‫دوسری تحقیق قطر میں ہوئی جس میں ان مریضوں کی جانچ پڑتال کی گئی تھی جو‬
‫ؑ‬
‫کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہوئے۔‬ ‫ویکسنیشن کے بعد‬
‫قطر میں زیادہ تر افراد کی ویکسینیشن کے لیے فائزر ویکسین کا سہارا لیا گیا۔‬
‫محققین نے بتایا کہ فائزر ویکسین سے بیماری کے خالف ملنے واال تحفظ دوسری خوراک‬
‫کے استعمال کے پہلے ماہ بعد عروج پر ہوتا ہے اور آنے والے مہینوں میں بتدریج کمی‬
‫آتی ہے۔انہوں نے بتایا کہ ویکسینیشن مکمل ہونے کے ‪ 4‬ماہ بعد تحفظ کی شرح میں تیزی‬
‫سے کمی آتی ہے۔‬
‫مگر ان کا کہنا تھا کہ ہسپتال میں داخلے اور موت کے خالف تحفظ کی شرح ‪ 90‬فیصد‬
‫سے زیادہ رہتی ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق ویکسین کی افادیت میں کمی میں رویوں کا بھی کردار ہوسکتا ہے‬
‫کیونکہ ویکسینیشن کرانے والے افراد زیادہ میل جول رکھتے ہیں اور یہ امکان زیادہ ہوتا‬
‫ہے کہ وہ احتیاطی تدابیر پر عمل نہ کرتے ہوں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ اس طرح کے رویے سے حقیقی دنیا میں ویکسین کی افادیت میں‬
‫کمی آتی ہے جس سے بھی افادیت گھٹنے کی ممکنہ وضاحت ہوتی ہے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ یہ اس بات کا اشارہ ہے کہ ممالک کو کووڈ ‪ 19‬کی نئی لہر کے لیے‬
‫تیار چاہیے کیونکہ نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ ویکسینیشن کرانے والے افراد کو بیماری‬
‫کے خالف ملنے واال تحفظ آنے والے مہینوں میں گھٹ جائے گا‪ ،‬جس کے باعث بیماری‬
‫کی نئی لہر کا امکان بڑھتا ہے۔‬
‫دونوں تحقیقی رپورٹس کے نتائج طبی جریدے نیو انگلینڈ جرنل آف میڈیسین میں شائع‬
‫ہوئے۔‬
‫ان تحقیقی رپورٹس کے نتائج اس وقت سامنے آئے ہیں جب ‪ 5‬اکتوبر ‪ 2021‬کو امریکا‬
‫میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا تھا کہ فائزر ویکسین کی افادیت دوسری خوراک‬
‫کے استعمال کے ‪ 6‬ماہ بعد نصف ہوجاتی ہے۔‬
‫فائزر اور امریکی طبی تحقیقاتی ادارے کیسر کی جانب سے ویکسین لگوانے والے ‪34‬‬
‫الکھ افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا‪ ،‬جس سے معلوم ہوا کہ مجموعی طور پر ویکسین سے‬
‫سنگین شدت سے تحفظ ملتا ہے مگر عام بیماری کے خالف اس کی افادیت میں نمایاں کمی‬
‫ہوجاتی ہے۔تحقیق کے نتائج طبی جریدے میں شائع کیے گئے‪ ،‬جن میں بتایا گیا کہ فائزر‬

‫تحقیقات | ‪52‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کی افادیت دوسرا ڈوز لگنے کے ایک ماہ بعد ہی کم ہونا شروع ہوجاتی ہے اور ‪ 6‬ماہ بعد‬
‫اس کی افادیت نصف تک کم ہوجاتی ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1170142/‬‬

‫خبردار! سونے سے پہلے ورزش نقصان دہ ہے‪ ،‬ماہرین‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫بدھ‪ 6  ‬اکتوبر‪ 2021  ‬‬

‫اگر چست رہنا چاہتے ہیں تو سونے سے کم از کم دو گھنٹے پہلے ورزش اور جسمانی‬
‫)مشقت پوری کرلیجیے۔‬
‫اونٹاریو‪ :‬کینیڈین سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ جو لوگ سونے سے دو گھنٹہ پہلے‬
‫خوب ورزش کرتے ہیں انہیں نہ صرف دیر سے نیند ٓاتی ہے بلکہ ان کی نیند متاثر بھی‬
‫رہ سکتی ہے۔‬
‫ریسرچ جرنل ’’سلیپ میڈیسن ریویو‘‘ میں شائع ہونے والی‪ ‬اس رپورٹ‪ ‬سے پتا چلتا ہے کہ‬
‫جن لوگوں نے رات کو سونے سے دو گھنٹے یا اس سے بھی پہلے اپنی ورزش یا جسمانی‬
‫مشقت مکمل کرلی تھی انہیں جلدی نیند ٓائی اور وہ سکون سے سوتے رہے۔‬

‫ان کے برعکس‪ ،‬جو لوگ رات کی ورزش یا جسمانی مشقت کے دو گھنٹے بعد یا اس سے‬
‫تحقیقات | ‪53‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بھی پہلے سونے کےلیے لیٹ گئے‪ ،‬انہیں نہ صرف بہت دیر سے نیند ٓائی بلکہ رات بھر ان‬
‫کی نیند بھی متاثر رہی۔‬
‫ٓاسان الفاظ میں اس تحقیق کا مطلب یہ ہے کہ اگر ٓاپ ورزش اور جسمانی مشقت کے بہتر‬
‫فوائد حاصل کرنا چاہتے ہیں تو سونے سے کم از کم دو گھنٹے پہلے انہیں مکمل کرلیجیے۔‬
‫واضح رہے کہ ٓاج کل فٹنس کلبز اور جمز رات کو دیر تک کھلے رہتے ہیں جہاں دن بھر‬
‫کی مصروفیت کے بعد‪ ،‬تھک کر ٓانے والے خواتین و حضرات ورزش کرتے ہیں تاکہ ان‬
‫کی صحت اچھی رہے اور وہ ’’فٹ‘‘ رہیں۔‬
‫حالیہ تحقیق سے یہ خیال غلط ثابت ہوا ہے اور رات کو دیر سے ورزش کرنے کے منفی‬
‫اثرات ہی سامنے ٓائے ہیں۔‬
‫کونکورڈیا یونیورسٹی‪ ،‬کینیڈا کے سائنسدانوں نے اس تحقیق کےلیے ماضی میں جسمانی‬
‫مشقت‪ ،‬ورزش اور نیند سے متعلق کیے گئے ‪ 15‬سائنسی مطالعات کا جائزہ لیا جن میں‬
‫مجموعی طور پر ‪ 194‬افراد شریک تھے جن کی عمر ‪ 18‬سے ‪ 50‬سال کے درمیان تھی۔‬
‫اس تجزیئے کے بعد ماہرین نے خبردار کیا ہے کہ چاہے ٓاپ باڈی بلڈنگ کرتے ہوں یا پھر‬
‫عمومی طور پر اپنی صحت بہتر رکھنا چاہتے ہوں‪ ،‬ہر صورت میں کوشش کیجیے کہ‬
‫سونے سے دو گھنٹے پہلے اپنی ورزش مکمل کرلی جائے۔‬
‫اس کے عالوہ‪ ،‬ان کا مشورہ یہ بھی ہے کہ سونے سے پہلے سخت قسم کی ورزش سے‬
‫بھی گریز کرنا چاہیے کیونکہ یہ بھی نیند پر برا اثر ڈال سکتی ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2232921/9812/‬‬

‫ٓالودہ اور شوروالے شہر میں تین سالہ رہائش بھی دل کو متاثرکرسکتی‬
‫ہے‬
‫ویب ڈیسک‬
‫جمعـء‪ 8  ‬اکتوبر‪  2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪54‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫امراض قلب کا خطرہ بہت بڑھ جاتا‬


‫ِ‬ ‫فضائی ٓالودگی اور شور سے بالخصوص خواتین میں‬
‫ہے‬
‫کوپن ہیگن‪ :‬ایک بہت بڑے سروے سے انکشاف ہوا ہے کہ ٓالودہ اور شوروالے ایک شہر‬
‫میں صرف تین سال رہنے سے بھی دل کے دورے بلکہ ہارٹ فیل کا خطرہ ‪ 43‬فیصد تک‬
‫بڑھ سکتا ہے۔‬
‫اس کے عالوہ کئی تحقیقات سے معلوم ہوچکا ہے کہ فضائی ٓالودگی سے ڈیمنشیا‪ ،‬مردانہ‬
‫کمزوری‪ ،‬سانس کے امراض‪ ،‬توجہ اور ارتکاز میں کمی‪ ،‬بے اوالدی اور دیگر امراض‬
‫بھی بڑھنے لگتے ہیں یا ان سے متاثرہونے کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫امراض قلب کے درمیان اہم‬
‫ِ‬ ‫اب ڈنمارک کی تحقیق سے ٓالودہ اور شور بھرے شہروں اور‬
‫تعلق دریافت ہوا ہے۔ بالخصوص شہروں میں رہنے والی ‪ 22‬ہزار خواتین کو مسلسل دو‬
‫عشروں تک نوٹ کیا گیا ہے۔ ‪ ‬یہاں تک کہ شور سے بھی وہ متاثر ہوتی ہیں اور اس طرح‬
‫ان میں ہارٹ فیل کا خطرہ ‪ 43‬فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔‬
‫دوسری جانب ٓالودہ فضا اور زہریلے ذرات اور امراض کے درمیان تعلق کو بھی م ِد نظر‬
‫رکھا گیا۔ ان میں موجود پی ایم ‪ 2.5‬اور دیگر مہلک ذرات خون میں شامل ہوکر دل‪ ،‬دماغ‪،‬‬
‫پھیپھڑوں اور دیگر نظام تک پہنچ سکتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ڈھائی مائیکرون کے‬
‫ٓالودہ ذرات بزرگوں‪ ،‬بچوں اور حاملہ ماؤں کو متاثرکرسکتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪55‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کاروں سے خارج ہونے والی دوسری اہم گیس نائٹروجن ڈائی ٓاکسائیڈ ہے جو سانس کی‬
‫نالی کو متاثرکرتی ہے۔ دمے اور سانس کے مریضوں میں یہ گیس مرض کو مزید شدید‬
‫کردیتی ہیں اور الرجی کو بھی بڑھاتی ہیں۔‬
‫ہارٹ فیل ہونے کی کیفیت میں دل ٹھیک سے خون پمپ نہیں کرسکتا اور جسم میں خون‬
‫کی گردش متاثرہونے سے سانس پھولنے‪ ،‬تھکن اور کمزوری کے حملے ہوتے ہیں‪ ،‬یہاں‬
‫تک کہ مریض اپنے روزمرہ کام بھی نہیں کرسکتا ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ٓالودہ ہوا‬
‫سے شریانیں تنگ اور سخت ہوتی جاتی ہیں جبکہ دماغ بھی متاثر ہوتا ہے۔‬
‫ڈنمارک کی طویل تحقیق کوپن ہیگن یونیورسٹی نے کی ہے جس کی روداد جرنل ٓاف‬
‫امریکن ہارٹ ڈیزیز نے شائع کی ہے۔ اس میں ہزاروں خواتین کو بیس سالہ مطالعے میں‬
‫شامل کیا گیا تھا۔ ‪ 1990‬کے عشرے سے شروع ہونے والی تحقیق ‪ 2014‬میں اختتام پذیر‬
‫ہوئی جس میں مختلف عالقوں میں فضائی ٓالودگی اور شور کا ڈیٹا لیا گیا۔ پھر ان دونوں‬
‫کیفیات کی بلند مقدار کا قلبی امراض سے تعلق نوٹ کیا گیا۔‬
‫معلوم ہوا ہے کہ اگر پی ایم ‪ 2.5‬کی مقدار فی مکعب میٹر پانچ مائیکروگرام تک بڑھ جائے‬
‫تو اس سے ہارٹ فیلیئر کا خطرہ ‪ 17‬فیصد تک بڑھ سکتا ہے۔ اسی طرح نائٹروجن ڈائی‬
‫ٓاکسائیڈ کی مقدار فی مکعب میٹر میں ٓاٹھ اعشاریہ چھ مائیکروگرام پر پہنچ جائے تو ہارٹ‬
‫فیل کا خدشہ مزید ‪ 10‬فیصد بڑھ جاتا ہے۔‬
‫اب اگر کسی عالقے میں ‪ 24‬گھںٹے تک شور کی اوسط مقدار ‪ 9‬ڈیسی بیل پر پہنچ جائے‬
‫تو اس سے دل کے ناکام ہونے کا خطرہ ‪ 12‬فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔‬
‫اس طرح نائٹروجن ٓاکسائیڈ‪ ،‬ڈھائی پی ایم اور شور جیسے تینوں عوامل بڑھنے سے‬
‫مجموعی طور پر دل کے دورے کا خطرہ ‪ 40‬فیصد سے بھی بڑھ سکتا ہے‬

‫‪https://www.express.pk/story/2233504/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪56‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ادھیڑ عمری میں ہائی بلڈ پریشر سے دماغی بیماریوں کا خطرہ بڑھ‬
‫جاتا ہے‪ ،‬تحقیق‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫ہفتہ‪ 9  ‬اکتوبر‪ 2021  ‬‬

‫درمیانی عمر میں ہائی بلڈ پریشر پر قابو نہ پایا جائے تو یہ بڑھاپے میں سنگین دماغی‬
‫)مسائل کو جنم دے سکتا ہے۔‬
‫کینبرا ‪ /‬بیجنگ‪ :‬چینی اور ٓاسٹریلوی سائنسدانوں کا کہنا ہے کہ جن لوگوں کو ‪ 35‬سے‬
‫‪ 44‬سال کی عمر میں ہائپر ٹینشن (ہائی بلڈ پریشر‪ x‬یعنی بلند فشا ِر خون) کی شکایت رہتی‬
‫ہے‪ ،‬ان کےلیے بعد کی عمر میں ڈیمنشیا کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ’’یو کے بایوبینک‘‘ سے تقریبا ً ڈیڑھ الکھ افراد کی صحت سے متعلق‬
‫تفصیلی اعداد و شمار جمع کیے گئے جو ‪ 12‬سال پر محیط تھے۔‬
‫پہلے مرحلے میں کم و بیش ہر عمر کے ‪ 11,399‬افراد کے دماغی ایم ٓار ٓائی اسکینز کا‬
‫جائزہ لینے پر پتا چال کہ جو لوگ ادھیڑ عمری میں ہائی بلڈ پریشر کا شکار رہے تھے‪ ،‬ان‬
‫کے دماغ نسبتا ً چھوٹے ہوگئے تھے۔‬
‫اگلے مرحلے میں مزید تفصیلی اور محتاط تجزیئے پر انکشاف ہوا کہ ‪ 35‬سے ‪ 44‬سال‬
‫کی عمر میں ہائی بلڈ پریشر میں مبتال رہنے والوں میں ڈیمنشیا کا خطرہ اُن افراد کی نسبت‬
‫‪ 61‬فیصد زیادہ تھا جو عمر کے اس حصے میں ہائی بلڈ پریشر کا شکار نہیں تھے۔‬
‫تحقیقات | ‪57‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫واضح رہے کہ ڈیمنشیا کسی ایک دماغی بیماری کا نام نہیں بلکہ یہ دماغی خرابیوں کی‬
‫مختلف کیفیات کا مجموعی نام ہے جن میں یادداشت کی خرابی‪ ،‬سوچنے میں دشواری‪ ،‬اور‬
‫روزمرہ معموالت میں فیصلے کرنے میں مشکالت وغیرہ نمایاں ہیں۔ ڈیمنشیا کی سب سے‬
‫عام قسم الزائیمرز بیماری ہے۔‬
‫امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن کے ریسرچ جرنل ’’ہائپرٹینشن‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع‬
‫ہونے والی اس تحقیق میں سائنسدانوں نے خبردار کیا ہے کہ کم اور درمیانی عمر میں ہائی‬
‫بلڈ پریشر پر سنجیدگی سے قابو پانے کی ضرورت ہے کیونکہ اس کے طویل مدتی اثرات‬
‫بڑھاپے میں سنگین دماغی مسائل کو جنم دے سکتے ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2233921/9812/‬‬

‫کورونا سے صحتیاب مریضوں کا امراض قلب میں مبتال ہونے انکشاف‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 9 2021‬‬

‫نیو یارک ‪ :‬محققین نے دریافت کیا ہے کہ کوویڈ‪ 19‬سے صحتیاب ہونے والے مریضوں‬
‫کو کئی ماہ بعد بھی دل کے مراض الحق ہو سکتے ہے جبکہ سانس نہ لینے کی شکایت‬
‫اور کھانسی جیسی عالمات کا سامنا بھی ہوسکتا ہے۔کورونا وائرس سے جسمانی صحت‬
‫پر طویل المعیاد اثرات کے حوالے سے محققین کی جانب سے کئی ماہ سے خدشات سامنے‬
‫آرہے ہیں‪ ،‬یہاں تک معتدل حد تک بیمار افراد کی جانب سے کئی ہفتوں بلکہ مہینوں تک‬
‫عالمات کو رپورٹ کیا جاتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪58‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی‪ ‬تحقیق‪ ‬میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ کوویڈ ‪ 19‬کے‬
‫مریضوں کے دل کو پہنچنے واال نقصان بیماری کے ابتدائی مراحل تک ہی محدود نہیں‬
‫ہوتا۔‬
‫محققین کے مطابق کورونا کو شکست دینے کے ایک سال بعد بھی ہارٹ فیلیئر اور جان‬
‫لیوا بلڈ کالٹس (خون جمنے یا لوتھڑے بننے) کا خطرہ ہوتا ہے۔‬
‫ویٹرنز افیئرز سینٹ لوئس ہیلتھ کیئر سسٹم کی اس تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ‬
‫کوویڈ ‪ 19‬کی معمولی شدت کا سامنا کرنے والے افراد (ایسے مریض جن کو ہسپتال میں‬
‫داخل ہونے کی ضرورت نہیں پڑی) میں بھی یہ خطرہ ہوتا ہے۔‬
‫امراض قلب اور فالج پہلے ہی دنیا بھر میں اموات کی بڑی وجوہات بننے والے امراض ہیں‬
‫اور کوویڈ ‪ 19‬کے مریضوں میں دل کی جان لیوا پیچیدگیوں کا خطرہ ہالکتوں میں نمایاں‬
‫اضافہ کرسکتا ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ کوویڈ ‪ 19‬کے مابعد اثرات واضح اور ٹھوس ہیں‪ ،‬حکومتوں اور طبی‬
‫نظام کو النگ کوویڈ کے خطرے کو مدنظر رکھتے ہوئے جاگنا ہوگا جس کے تباہ کن‬
‫اثرات مرتب ہوسکتے ہیں۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ کوویڈ کو شکست دینے کے بعد ‪ 12‬ماہ کے دوران ہارٹ اٹیک‪ ،‬فالج‬
‫یا دل کی شریانوں سے جڑے دیگر بڑے مسائل کا خطرہ بڑھ جاتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں کووڈ سے متاثر ہونے والے ایک الکھ ‪ 51‬ہزار ‪ 195‬سابق فوجیوں میں دل‬
‫کی پیچیدگیوں کے ڈیٹا کا موازنہ ‪ 36‬الکھ ایسے افراد سے کیا گیا جو اس وبائی مرض کا‬
‫شکار نہیں ہوئے تھے۔‬
‫ڈیٹا کی جانچ پڑتال کے بعد دریافت کیا گیا کہ اس بیماری سے محفوظ رہنے والوں کے‬
‫مقابلے میں کوویڈ ‪ 19‬کے ایسے مریض جو ہسپتال میں داخل نہیں ہوئے تھے ان میں‬
‫بیماری کو شکست دینے کے ایک سال بعد ہارٹ فیلیئر کا خطرہ ‪ 39‬فیصد اور جان لیوا بلڈ‬
‫کالٹ کا امکان دگنا بڑھ جاتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق کوویڈ کے ہر ایک ہزار مریضوں میں سے ‪ 5.8‬کو ہارٹ فیلیئر اور ‪2.8‬‬
‫کو جان لیوا بلڈ کالٹس کا سامنا ہوسکتا ہے اور یہ وہ مریض ہیں جن میں بیماری کی شدت‬
‫اتنی کم تھی کہ ہسپتال جانے کی ضرورت نہیں پڑی۔‬
‫اس کے مقابلے میں کووڈ ‪ 19‬کے باعث ہسپتال میں داخل رہنے والے مریضوں میں‬
‫کارڈک اریسٹ (اچانک حرکت قلب تھم جانے) کا خطرہ ‪ 5.8‬گنا جبکہ دل کی پٹھوں کے‬
‫ورم کا امکان لگ بھگ ‪ 14‬گنا تک بڑھ جاتا ہے۔‬
‫کووڈ ‪ 19‬کے ایسے مریض جو آئی سی یو میں زیرعالج رہے ان میں سے لگ بھگ ہر ‪7‬‬
‫میں سے ایک کو بیماری کے بعد ایک سال کے اندر دل کی خطرناک پیچیدگیوں کا سامنا‬
‫ہوسکتا ہے۔محققین ابھی تک کووڈ کے مریضوں کے دل کو پہنچنے والے نقصان کی‬
‫وجوہات مکمل طور پر جان نہیں سکے مگر ان کے خیال میں اس کی ممکنہ وجوہات میں‬
‫وائرس کا براہ راست دل کے پٹھوں کے خلیات‪ ،‬خون کی شریانوں کے خلیات‪ ،‬بلڈ کالٹس‬
‫اور مسلسل ورم ہوسکتے ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪59‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین نے مزید بتایا کہ کووڈ ‪ 19‬کے بال واسطہ اثرات بشمول سماجی طور پر الگ تھلگ‬
‫ہونا‪ ،‬مالی مشکالت‪ ،‬غذائی عادات اور جسمانی سرگرمیوں میں تبدیلیاں بھی دل کی‬
‫شریانوں سے جڑے امراض کا خطرہ بڑھانے کا باعث ہیں۔‬
‫انہوں نے تسلیم کیا کہ تحقیق میں شامل افراد زیادہ تر مرد اور سفید فام تھے جس کے‬
‫باعث نتائج کا اطالق تمام گروپس پر فی الحال نہیں کیا جاسکتا‪ ،‬اس تحقیق کے نتائج طبی‬
‫جریدے جرنل نیچر میں شائع ہوئے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-patient-recovery-heart-disease-research/‬‬

‫ڈھلکی ہوئی جلد کو فلرز کے ذریعے کس طرح بحال کیا جاتا‬


‫ہے؟‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪8 2021‬‬

‫کراچی‪ :‬عمر گزرنے کے ساتھ جسم اور خاص طور پر چہرے اور گردن کی جلد ڈھلکنے‬
‫لگتی ہے تاہم اس صورتحال سے بچنے کے لیے مختلف ٹریٹمنٹس‪ x‬بھی کروائی جاسکتی‬
‫ہیں۔‬
‫تفصیالت کے مطابق‪ ‬اے آر وائی ڈیجیٹل‪ ‬کے پروگرام‪ ‬گڈ مارننگ پاکستان‪ ‬میں ڈاکٹر‬
‫شائستہ لودھی نے شرکت کی۔ ڈاکٹر شائستہ نے جھریوں زدہ ڈھلکی ہوئی جلد کو بہتر‬
‫کرنے کا طریقہ بتایا۔‬

‫تحقیقات | ‪60‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے دکھایا کہ کس طرح مختلف فلرز اور بوٹوکس کے ذریعے ڈھلکی ہوئی جلد کو‬
‫واپس اس کی جگہ پر الیا جاسکتا ہے۔‬
‫ڈاکٹر شائستہ کے مطابق بعض ٹریٹمنٹس فوری طور پر اپنا اثر دکھاتی ہیں جبکہ بعض کے‬
‫لیے کچھ وقت چاہیئے ہوتا ہے۔‬
‫نیچے ویڈیو میں ڈاکٹر شائستہ نے اپنی ٹریٹمنٹ کا طریقہ بتایا ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/face-lift-treatment-with-fillers/‬‬

‫گنجے مرد کوروناوائرس کا زیادہ شکار ہوتے ہیں؟‬

‫اکتوبر ‪09 2021 ،‬‬

‫کورونا وائرس پر کی گئی ایک تحقیق کے نتیجے میں‪ ‬یہ انکشاف سامنے ٓا یا ہے کہ عالمی‬
‫وبا کورونا وائرس سے گنجے مرد زیادہ متاثر ہوتے ہیں۔‬
‫ایک نئی تحقیق میں انکشاف کیا گیا ہے کہ عام مردوں کے مقابلے میں بالوں سے محروم‬
‫مرد اس وبا کا زیادہ شکار ہوتے ہیں۔‬
‫محققین کی جانب سے گنجے مردوں میں اس وبا کے الحق ہونے کے زیادہ خطرات اور‬
‫اموات کی شرح کی وجہ مردوں کے ہامونز کو قرار دیا گیا ہے۔‬
‫انگلینڈ کے اخبار ’دی ٹیلی گراف‘ میں شائع ہونے والی رپورٹ کے مطابق مردوں میں‬
‫پائے جانے واال ہارمون ’اینڈروجین‘ گنج پن کا سبب بنتا ہے جبکہ اینڈروجن ہارمون ہی‬
‫کورونا وائرس کو گنج پن کے شکار مردوں پر حملے میں مدد فراہم کرتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪61‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دوسری جانب محققین کا کہنا ہے کہ کورونا وائرس کا شکار خواتین کے مقابلے میں مرد‬
‫زیادہ ہیں‪ ،‬اسی سے متعلق مزید جاننے کے لیے مردوں میں پائے جانے والے ہارمون‬
‫’ٹیس ٹس اسٹیرون‘‪  ‬اور کورونا وائرس کے درمیان تعلق پر بھی‪  ‬تا حال تحقیق جاری ہے‬

‫‪https://jang.com.pk/news/995871‬‬

‫وہ چیزیں جنہیں استعمال کر کے ہم بلڈ شوگر لیول کم کرسکتے ہیں‬


‫‪Oct 07, 2021 | 19:41:PM‬‬
‫‪  ‬‬ ‫‪ ‬‬

‫نیویارک(مانیٹرنگ ڈیسک) ہمارے خون میں شوگر کا لیول دن بھر میں تبدیل ہوتا رہتا ہے‬
‫جو کہ بڑا مسئلہ نہیں ہے۔ بنیادی بات اسے کنٹرول میں رکھنا ہے تاکہ ہم بلڈشوگر لیول‬
‫بہت زیادہ بڑھ جانے سے الحق ہونے والی سنگین بیماریوں سے محفوظ رہ سکیں۔ اب‬
‫ایک ماہر نے کچھ ایسی تدابیر بتا دی ہیں جس کے ذریعے ہم اپنے جسم میں بلڈشوگر لیول‬
‫کو بہت حد تک کنٹرول میں رکھ سکتے ہیں۔دی سن کے مطابق کیری بیسن نامی اس ماہر‬
‫کا کہنا ہے کہ انار کا جوس پینا‪ ،‬باقاعدگی سے واک کرنا‪ ،‬ذہنی پریشانی سے خود کو نجات‬
‫دالنا‪ ،‬زیادہ پانی پینا اور زیادہ شوگر کی حامل غذائی اشیاءسے گریز کرنا ایسے عوامل ہیں‬
‫جن کی مدد سے ہم اپنے جسم میں بلڈشوگر لیول کم رکھ سکتے ہیں۔‬
‫کیری بیسن کا کہنا تھا کہ انار کا جوس بلڈشوگر لیول کو کم کرنے میں اس قدر مددگار‬
‫ثابت ہوتا ہے کہ جوس کا ایک گالس پینے کے محض ‪15‬منٹ بعد بلڈشوگر لیول کم ہو جاتا‬
‫ہے۔ یہ بات ذیابیطس کی پہلی اور دوسری قسم کے مریضوں پر کی جانے والی ایک تحقیق‬
‫میں ثابت ہو چکی ہے۔ اسی طرح ہمیں روزانہ ‪15‬سے ‪30‬منٹ کے لیے واک کرنی چاہیے۔‬
‫اس طرح ہمارے پٹھے خون میں موجود شوگر کو زیادہ استعمال کرتے ہیں جس کے‬
‫نتیجے میں بلڈشوگرلیول کم ہو جاتا ہے۔ صحت مند آدمی کو بھی روزانہ دو لیٹر پانی پینا‬
‫چاہیے تاہم اگر آپ کو بلڈشوگر زیادہ ہونے کا عارضہ الحق ہے تو آپ کو اس کی بہرحال‬
‫پابندی کرنی چاہیے۔ زیادہ پانی پینے سے آپ کو زیادہ پیشاب آئے گا اور اضافی شوگر آپ‬
‫“کے جسم سے نکل جائے گی۔‬
‫‪https://dailypakistan-com-pk.translate.goog/07-Oct-2021/‬‬

‫کورونا مریض کے جسم پر عجیب سے نشانات کیوں پڑتے ہیں؟‬


‫ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪  9 2021‬‬


‫تحقیقات | ‪62‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کوویڈ‪ 19‬کے مریضوں میں جلد کا ایک عام مسئلہ ممکنہ طور پر وائرس کے خالف‬
‫مدافعتی نظام کے ردعمل کا ایک اثر ہوتا ہے۔‬
‫متاثرہ مریض کے ہاتھوں اور پیروں پر سرخ اور سوجن کی شکار (کوویڈ ٹو) جلد کے‬
‫ایسے حصے ہوتے ہیں جن میں خارش محسوس ہوتی ہے اور کئی بار یہ مسئلہ مہینوں‬
‫تک برقرار رہتا ہے۔‬
‫عام طور پر یہ نشانی کوویڈ سے متاثر ہونے کے بعد ایک سے چار ہفتوں کے دوران ظاہر‬
‫ہوتی ہے اس کے نتیجے میں ہاتھوں اور پیروں کی انگلیاں سوج جاتی ہیں یا ان کی رنگت‬
‫بدل جاتی ہے۔ اب تک یہ معلوم نہیں تھا کہ کوویڈ کے مریضوں کی اس عالمت کی وجہ‬
‫کیا ہے مگر اب ایک نئی تحقیق پر اس کی وجہ سامنے آئی ہے۔‬
‫طبی جریدے برٹش جرنل آف ڈرماٹولوجی میں شائع تحقیق میں اس مسئلے کے شکار ‪50‬‬
‫مریضوں کے ساتھ اس وبا سے قبل اس طرح کے مسائل کا سامنا کرنے والے‪ 13‬افراد کو‬
‫شامل کیا گیا تھا۔‬
‫محققین نے دریافت کیا کہ اس مسئلے کے پیچھے جسم کا مدافعتی ردعمل ہوتا ہے جس‬
‫کے دوران بہت زیادہ مقدار میں مخصوص اینٹی باڈیز بنتی ہیں جو وائرس کے ساتھ ساتھ‬
‫مریض کے خلیات اور ٹشوز پر حملہ آور ہوجاتی ہیں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ خون کی شریانوں میں موجود مدافعتی خلیات کوویڈ ٹو میں بنیادی‬
‫کردار ادا کرتے ہیں۔ محققین نے کہا کہ کوویڈ کے مریضوں کے اس مسئلے کے بارے‬
‫میں اب تک کچھ زیادہ معلوم نہیں تھا مگر ہماری تحقیق میں نئی تفصیالت فراہم کی گئی‬
‫ہیں۔‬
‫اس سے پہلے خیال کیا جارہا تھا کہ یہ کوویڈ کی غیر تصدیق شدہ عالمات میں سے ایک‬
‫ہے جس کے شکار افراد کے ہاتھوں یا پیروں میں سرخ یا جامنی رنگ کے نشانات ابھر‬
‫آتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪63‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مگر اب محققین نے بتایا کہ ہاتھوں اور پیروں میں یہ نشانات اکثر بغیر عالمات والے‬
‫مریض بچوں اور نوجوانوں میں زیادہ نظر آتے ہیں۔ ماہرین کے مطابق مسئلے کی وجہ‬
‫معلوم ہونے کے بعد اس کے عالج کے لیے زیادہ مؤثر حکمت عملی مرتب کرنے میں مدد‬
‫مل سکے گی۔‬
‫اس سے قبل مئی میں نگز کالج لندن کے پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے بتایا تھا کہ ناخنوں میں‬
‫عجیب نشان بن جانا کچھ عرصے پہلے کورونا وائرس سے متاثر ہونے کی ایک نشانی‬
‫ہوسکتی ہے۔‬
‫پروفیسر ٹم اسپیکٹر دنیا کی سب سے بڑی کورونا وائرس کی عالمات کی تحقیق کرنے‬
‫والی ٹیم کی قیادت کررہے ہیں۔ انہوں نے نے بتایا کہ کورونا وائرس سے متاثر افراد میں‬
‫صحت یابی کے بعد چند ماہ کے اندر ہاتھوں اور پیروں کے ناخنوں پر افقی لکیریں ابھر‬
‫سکتی ہیں۔‬
‫پروفیسر ٹم نے بتایا کہ انہیں متعدد افراد سے کوویڈ نیلز کی رپورٹس زوئی کوویڈ سیمپٹم‬
‫اسٹڈی ایپ میں موصول ہوئی ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ناخنوں پر اس طرح کے اثرات‬
‫غیرمعمولی نہیں کیونکہ دیگر بیماریوں میں بھی ایسا ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کے خیال میں کسی بیماری کے خالف نگ کے دوران پیدا ہونے واال تناؤ ناخنوں‬
‫پر اس طرح کی لکیروں کا باعث بنتا ہے۔ اس عرصے میں ناخن بڑھتے نہیں اور پروفیسر‬
‫ٹم کے مطابق یہ نشان ایک درخت کی طرح کسی ایونٹ کی نشاندہی کرتا ہے۔‬
‫برٹش ایسوسی آف ڈرماٹولوجسٹ کی صدر ڈاکٹر تانیہ بیکر نے بتایا کہ جلدی امراض کے‬
‫ماہرین نے کووڈ ‪ 19‬کے مریضوں کے ناخنوں میں افقی لکیروں کو دیکھا ہے۔ انہوں نے‬
‫بتایا کہ کئی بار یہ تمام ناخنوں میں ہوتی ہے اور کئی بار یہ اثر صرف پیروں کے‬
‫انگوٹھوں میں دیکھنے میں آتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق اس طرح کی لکیریں بذات خود نقصان دہ نہیں ہوتیں اور عموما ً بیماری‬
‫کے کئی ماہ بعد ابھرتی ہیں۔ پروفیسر ٹم اسپیکٹر نے بتایا کہ یہ تو واضح نہیں کہ ناخنوں‬
‫میں آنے والی تبدیلیوں کا تعلق بیماری کی شدت سے ہے۔‬
‫عموما ً دیگر امراض میں بیماری کی شدت جتنی زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬ناخنوں پر نشان کا امکان‬
‫اتنا زیادہ ہوتا ہے۔ پروفیسر ٹم نے بتایا کہ ہوسکتا ہے کہ ناخنوں میں تبدیلیاں کووڈ ‪ 19‬کی‬
‫سنگین شدت کا اشارہ ہوں‪ ،‬مگر ابھی کچھ یقین سے کہنا مشکل ہے۔‬
‫انہوں نے وضاحت کی کہ اگر ناخنوں کی تبدیلیاں ماضی میں کورونا سے متاثر ہونے کی‬
‫نشانی ہے تو اس سے یہ جاننے میں مدد مل سکتی ہے کہ لوگ ماضی میں اس بیماری کا‬
‫شکار ہوئے تھے یا نہیں۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/corona-patients-red-spots-on-hands-and-feet-‬‬
‫‪covid19/‬‬

‫تحقیقات | ‪64‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بغیر ماسک ہوٹلنگ کرنے والوں کے لئے وارننگ‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪9 2021‬‬

‫جاپان‪ :‬دنیا بھر میں جوں جوں ویکسی نیشن کا عمل جاری ہے‪ ،‬معموالت زندگی بحال‬
‫ہورہی ہیں تاہم ماہرین نے اب بھی خبردار کردیا ہے۔‬
‫کرونا وبا کے آغاز سے ہی فیس ماسک کا استعمال الزمی قرار دیا گیا تھا‪ ،‬محققین کا کہنا‬
‫تھا کہ فیس ماسک پہننا وائرس سے بچاؤ میں ستر فیصد کارآمد ہوتا ہے‪ ،‬اب نئی تحقیق نے‬
‫اس بات پرثبت مہر لگادی ہے۔‬
‫جاپانی محققین کا کہنا ہے کہ ساتھیوں کے ساتھ کھانے یا پینے کی محفل کے دوران ماسک‬
‫بالکل نہ پہننے سے کرونا وائرس انفیکشن کا خطرہ ایسی صورتحال کی نسبت تقریبا ً چار‬
‫گنا زیادہ بڑھ جاتا ہے جب لوگ گروپ میں اکٹھے کھانا کھانے سے ہی پرہیز کرتے ہوں۔‬

‫محققین نے ایسے ‪ 753‬بالغ افراد سے سروے کیا جنہیں ویکسین کا ٹیکہ نہیں لگا تھا اور‬
‫انہوں نے ٹوکیو میں بخار یا دیگر عالمات کے حوالے سے طبی امداد حاصل کی تھی۔‬

‫تحقیق سے ثابت ہوا کہ ایسے افراد جو عالمات ظاہر ہونے سے قبل کھانے یا پینے کے‬
‫‪،‬لیے گروپوں کی صورت میں باہر گئے اور اس دوران ماسک بالکل نہیں پہنا‬
‫اُن کے کرونا وائرس ٹیسٹ کا نتیجہ مثبت آنے کی شرح اور عالمات نمودار ہونے سے‬
‫قبل باہر اکٹھے کھانے پینے ہی سے اجتناب کرنے والے افراد کی نسبت ‪ 3.92‬گنا زیادہ‬
‫تھی۔‬
‫تحقیقات | ‪65‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫گروپوں کی صورت میں باہر جانے والے ایسے افراد جنہوں نے کھانے یا پینے کے لیے‬
‫کچھ مواقع پر ماسک اتارنے کے عالوہ اس دورانیے میں زیادہ تر وقت ماسک پہنے رکھا‪،‬‬
‫اُن میں انفیکشن کی شرح گروپ کی شکل میں کھانے پینے کے لیے گھر میں رہنے کو‬
‫ترجیح دینے والے افراد سے مختلف نہیں تھی۔‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/meals-without-wearing-a-mask-increases-the-‬‬
‫‪risk-of-covid-infection/‬‬

‫پاکستانی خواتین بریسٹ کینسر کی عالمات کے باوجود ڈاکٹرز سے‬


‫رجوع نہیں کرتیں‬
‫‪ ‬انور خان‬
‫اکتوبر ‪ 9 2021‬‬

‫پاکستان سمیت دنیا بھر میں‪ ‬اکتوبر کا مہینہ خواتین میں چھاتی کے سرطان کے خالف‬
‫شعور اجاگر کرنے کے لیے منایا جاتا ہے‪ ‬تاکہ اس مرض سے متعلق آگاہی فراہم کر کے‬
‫خواتین کو اس بیماری سے بچایا جاسکے۔‬
‫ماہرین صحت کے مطابق پاکستان میں عموما ً خواتین اس مرض کی عالمات کے باوجود‬
‫ڈاکٹروں سے رجوع نہیں کرتیں‪ ،‬جس کی وجہ سے یہ سرطان خطرناک صورت حال‬
‫اختیار کر لیتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪66‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫چھاتی کا سرطان عموما ً خواتین میں پایا جاتا ہے‪ ،‬ماہرین صحت کے مطابق ہر سال‬
‫پاکستان میں ہزاروں خواتین اس مرض کی تشخیص سے متعلق آگاہی نہ ہونے کی وجہ‬
‫سے زندگی کی بازی ہار جاتی ہیں۔‬
‫ماہرین صحت کہتے ہیں کہ کسی بھی قسم کی شکایت کی صورت میں خواتین کو اپنے‬
‫معالج سے فوری رجوع کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔‬
‫ماہرین صحت کے مطابق ہر ‪ 10‬میں ‪ 9‬خواتین کو اس مرض کی شکایات کا سامنا ہوتا‬
‫ہے‪ ،‬اس کے لیے ضروری ہے کہ خواتین فوری طور اپنے معالج کے مشورے پر عمل‬
‫کریں تاکہ ابتدائی مرحلے ہی میں کسی خطرناک صورت حال کو کنٹرول کیا جا سکے۔‬
‫ماہرین صحت کے مطابق ابتدائی شکایت کی صورت میں چھاتی کا کینسر قابل عالج ہے‪،‬‬
‫اور بر وقت تشخیص و عالج مریض کو خطرناک صورت حال سے بہ آسانی نکالنے میں‬
‫مدد گار ثابت ہوتا ہے۔‬
‫یاد رہے کہ پاکستان سمیت دنیا بھر میں اکتوبر کا مہینہ چھاتی کے سرطان کے خالف‬
‫آگاہی کے طور منایا جاتا ہے‪ ،‬تاکہ خواتین کو اس مرض سے بچایا جا سکے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/breast-cancer-pakistani-women/‬‬

‫بچوں کے لنچ باکس میں کیسی غذائیں رکھنی چاہئیں؟ والدین متوجہ‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪10 2021‬‬

‫بچوں کی ذہنی وجسمانی نشونما کے لیے ہر چند گھنٹوں بعد بہترین خوراک کا انتخاب‬
‫بہت ضروری ہے‪ ،‬والدین اس بات کا خیال رکھ کر بچوں کی صحت بہتر‪ x‬بنا سکتے ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪67‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسی طرح ناصرف گھر میں بچوں کے کھانوں پر خصوصی توجہ ہونی چاہیے بلکہ‬
‫اسکول جاتے بچوں کے لیے لنچ باکس میں اچھی غذاؤں کا ہونا بھی ضروری ہے‪ ،‬عموما ً‬
‫اسکول میں فروخت ہونے والی اشیاؤں کی طرف بچے زیادہ راغب ہوتے ہیں‪ ،‬والدین کو‬
‫اس جانب بھی دھیان دینا ہوگا۔‬
‫ایک طبی رپورٹ کے مطابق بچے اپنی روزانہ کی کیلوریز کا ‪ 35‬سے ‪ 40‬فیصد اسکول‬
‫کے وقت میں کھاتے ہیں اس دوران یہ دیکھنا الزمی ہے کیلوریز صحت مند ہیں یا نہیں‬
‫ہیں۔‬
‫والدین اسکولوں کی انتظامیہ کے ساتھ صرف بچوں کے امتحان میں نمبروں کے حوالے‬
‫سے ہی رابطے میں نہ رہیں بلکہ یہ بھی معلوم کریں کہ بچے غیرمعیاری اشیا تو نہیں کھا‬
‫رہے۔‬
‫بچوں کی صحت حساس ہوتی ہے اس لیے تھوڑی سی غلط چیز بھی مسائل باعث بن سکتی‬
‫ہے خصوصا ً ایک ایسے وقت میں جب ہر طرف وبا کا خوف پھیال ہے۔‬
‫کھانے کا معیار‬
‫رپورٹ میں بتایا گیا کہ بچوں کے ٹفن یا لنچ باکس میں چیزیں کم میٹھی ہوں‪ ،‬کم چکنائی‬
‫دودھ کی مصنوعات‪ ،‬پھل‪ ،‬سبزیاں‪ ،‬صحت مند نمکین اشیا جیسے خشک میوہ جات وغیرہ‬
‫شامل ہوں۔‬
‫غور طلب باتیں‬
‫کالس میں ہونے والی پارٹیوں میں میٹھی اشیا کی حوصلہ شکنی کی جائے‪ ،‬بچوں کو‬
‫خوراک کی اہمیت سمجھائی جائے‪ ،‬اساتذہ بھی بچوں کی روزمرہ خوراک کے حوالے سے‬
‫بات کریں۔ جنک‪ ،‬فاسٹ فوڈ یا میٹھی چیزیں کبھی کبھی ہی کھائی جائیں تو بہتر ہے‪،‬‬
‫روزانہ ان کا استعمال صحت کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/what-foods-should-be-kept-in-the-childrens-‬‬
‫‪lunch-box-parents-are-attracted/‬‬

‫کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں اضافہ‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪10 2021‬‬

‫دنیا بھر میں سنہ ‪ 2020‬کے دوران کرونا وائرس کی وجہ سے ذہنی امراض میں ڈرامائی‬
‫اضافہ ہوا‪ ،‬ان امراض میں اینگزائٹی اور ڈپریشن سرفہرست ہیں۔‬
‫حال ہی میں کی جانے والی ایک نئی طبی تحقیق میں کرونا وائرس کی وبا سے دنیا بھر‬
‫میں ذہنی صحت پر مرتب اثرات کی جانچ پڑتال کی گئی‪ ،‬تحقیق میں بتایا گیا کہ ‪ 2020‬میں‬
‫دنیا بھر میں اینگزائٹی کے اضافی ‪ 7‬کروڑ ‪ 60‬الکھ جبکہ ڈپریشن کے ‪ 5‬کروڑ ‪ 30‬الکھ‬
‫کیسز ریکارڈ ہوئے۔‬
‫تحقیقات | ‪68‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تحقیق سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ کرونا وائرس کی وبا نے دنیا بھر میں لوگوں کی ذہنی‬
‫صحت کو بری طرح متاثر کیا ہے جبکہ مردوں یا معمر افراد کے بجائے نوجوان اور‬
‫خواتین زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔‬

‫آسٹریلیا کی کوئنز لینڈ یونیورسٹی کی اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ ہمارا ماننا‬
‫ہے کہ وبا کے سماجی اور معاشی نتائج سے خواتین سب سے زیادہ متاثر ہوئی ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ خواتین کے سب سے زیادہ متاثر ہونے کی ممکنہ وجہ یہ ہے کہ‬
‫اسکولوں کی بندش یا خاندان کے اراکین کے بیمار ہونے پر خواتین گھروں کی ذمہ داریاں‬
‫سنبھالتی ہیں‪ ،‬جبکہ ان کی تنخواہیں بھی کم ہوتی ہیں‪ ،‬بچت کم ہوتی ہے اور مردوں کے‬
‫مقابلے میں مالزمت میں تحفظ کم ملتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ گھریلو تشدد نے بھی اس حوالے سے اہم کردار ادا کیا۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ نوجوانوں پر بھی تعلیمی اداروں کی بندش سے منفی اثرات مرتب ہوئے‬
‫ہیں اور وہ دیگر پابندیوں کے باعث اپنے دوستوں اور ساتھیوں سے رابطے بھی برقرار‬
‫نہیں رکھ سکے‪ ،‬جبکہ کسی بھی اقتصادی بحران میں نوجوانوں کے بیروزگار ہونے کا‬
‫خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫طبی جریدے جرنل النسیٹ میں شائع اس تحقیق میں یکم جنوری ‪ 2020‬سے ‪ 29‬جنوری‬
‫‪ 2021‬کے دوران شائع ہونے والی ‪ 48‬تحقیقی رپورٹس کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں مختلف‬
‫ممالک میں کرونا کی وبا سے قبل اور اس کے دوران اینگزائٹی اور ڈپریشن سے جڑے‬
‫امراض کی شرح کی جانچ پڑتال کی گئی۔‬
‫تحقیقی ٹیم نے جائزہ لیا کہ کرونا وائرس کی وبا کے دوران انسانی نقل و حمل کم ہونے‬
‫اور روزانہ کیسز کی شرح سے ذہنی صحت میں کیا تبدیلیاں ہوئیں۔‬

‫تحقیقات | ‪69‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس کے بعد تمام تر تفصیالت کو استعمال کرکے ایک ماڈل کو تشکیل دیا گیا تاکہ وبا سے‬
‫قبل اور بعد میں عالمی سطح پر ذہنی صحت کے امراض کی شرح کے درمیان فرق کو‬
‫دیکھا جا سکے۔‬
‫اس میں ایسے ممالک کو بھی شامل کیا گیا جہاں ذہنی صحت کے حوالے سے کوئی بھی‬
‫سروے انفارمیشن وبا کے دوران دستیاب نہیں تھی۔‬
‫تمام تر عناصر اور تخمینوں کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیقی ٹیم نے تخمینہ لگایا کہ ‪2020‬‬
‫کے دوران ڈپریشن سے جڑے امراض کے ‪ 24‬کروڑ ‪ 60‬الکھ جبکہ اینگزائٹی کے ‪37‬‬
‫کروڑ ‪ 40‬الکھ کیسز دنیا بھر میں ریکارڈ ہوئے۔‬
‫سنہ ‪ 2019‬کے مقابلے میں ڈپریشن سے جڑے امراض کی شرح میں ‪ 28‬فیصد اور‬
‫اینگزائٹی کے کیسز کی شرح میں ‪ 26‬فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا۔‬
‫تحقیق کے مطابق ڈپریشن سے جڑے امراض کے دو تہائی جبکہ اینگزائٹی کے ‪ 68‬فیصد‬
‫اضافی کیسز خواتین میں سامنے آئے جبکہ نوجوان معمر افراد کے مقابلے میں زیادہ متاثر‬
‫ہوئے‪ ،‬بالخصوص ‪ 20‬سے ‪ 24‬سال کے نوجوان زیادہ متاثر ہوئے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ کرونا کی وبا سے ذہنی صحت کے سسٹمز پر دباؤ پر بہت زیادہ بڑھ‬
‫گیا جو پہلے ہی کیسز کی بھرمار سے نمٹنے میں جدوجہد کا سامنے کر رہے ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ہمیں سنجیدگی سے یہ جانچ پڑتال کرنی چاہیئے کہ آگے بڑھنے کے لیے‬
‫ہمیں بنیادی ذہنی صحت کی ضروریات پر کس طرح کے ردعمل کا اظہار کرنا چاہیئے‪،‬‬
‫ہمیں توقع ہے کہ نتائج سے ان فیصلوں کی رہنمائی مدد مل سکے گی جو آبادی کی ذہنی‬
‫صحت کے لیے مددگار ثابت ہوں گے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/mental-illness-during-covid-19/‬‬

‫بچوں میں کووڈ ‪ 19‬کے اثرات کے حوالے سے ایک اور تحقیق‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪10 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪70‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫حال ہی میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ بچوں میں کووڈ ‪ 19‬کا خطرہ بالغ افراد‬
‫جتنا ہی ہوتا ہے تاہم ان میں عالمات کم ظاہر ہوتی ہیں۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ لگ‬
‫بھگ بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے مگر عالمات ظاہر ہونے کا امکان کم ہوتا ہے۔‬
‫امریکا میں ہونے والی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ امریکی ریاست یوٹاہ اور نیویارک‬
‫شہر میں بالغ افراد اور بچوں میں کرونا وائرس سے متاثر ہونے کا خطرہ ملتا جلتا ہوتا ہے‬
‫مگر بچوں میں اکثر بیماری کی عالمات ظاہر نہیں ہوتیں۔‬
‫تحقیق کے مطابق ہر عمر کے بچوں میں کرونا وائرس سے بیمار ہونے کا خطرہ لگ بھگ‬
‫بالغ افراد جتنا ہی ہوتا ہے۔‬
‫یہ تحقیق ستمبر ‪ 2020‬سے اپریل ‪ 2021‬کے دوران ہوئی جس میں ایک یا اس سے زائد‬
‫تعداد والے بچوں پر مشتمل ‪ 310‬مختلف گھرانوں کے ‪ 12‬سو ‪ 36‬افراد کو شامل کیا گیا‬
‫تھا۔‬
‫تحقیق میں ان گھرانوں میں کووڈ ‪ 19‬کے کیسز کا جائزہ لیا گیا اور نتائج سے معلوم ہوا کہ‬
‫ایک گھر کے اندر کسی فرد کے کووڈ سے متاثر ہونے پر دیگر میں بیماری کا خطرہ ‪52‬‬
‫فیصد تک بڑھ جاتا ہے۔‬
‫جب انہوں نے کووڈ کے مریضوں کی عمر کے گروپ کا تجزیہ کیا تو دریافت ہوا کہ ہر‬
‫عمر کے ایک ہزار افراد میں بیماری کا خطرہ لگ بھگ ایک جیسا ہی ہوتا ہے۔‬
‫یعنی ‪ 4‬سال کے ایک ہزار بچوں میں ‪ 5 ،6.3‬سے ‪ 11‬سال کی عمر کے ‪ 12 ،4.4‬سے ‪17‬‬
‫سال کی عمر کے بچوں میں ‪ 6‬اور بالغ افراد میں ‪ 5.1‬میں اس بیماری کا خطرہ ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق نتائج سے عندیہ ملتا ہے کہ بچوں اور بالغ افراد میں کرونا وائرس کی‬
‫شرح لگ بھگ ایک جیسی ہوتی ہے اور اس سے بچوں میں ویکسی نیشن کی افادیت اور‬
‫محفوظ ہونے کی برق رفتاری سے جانچ پڑتال کی ضرورت ظاہر ہوتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪71‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں جب یہ جائزہ لیا گیا کہ مختلف عمر کے افراد میں عالمات ظاہر ہونے کی شرح‬
‫کیا ہے تو انہوں نے دریافت کیا کہ ‪ 4‬سال سے کم عمر ‪ 52‬فیصد بچوں میں کووڈ سے‬
‫متاثر کے بعد عالمات ظاہر نہیں ہوتیں‪ 5 ،‬سے ‪ 11‬سال کے گروپ میں یہ شرح ‪ 50‬فیصد‪،‬‬
‫‪ 12‬سے ‪ 17‬سال کے گروپ میں ‪ 45‬فیصد جبکہ بالغ افراد میں محض ‪ 12‬فیصد تھی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/covid-19-impacts-on-children/‬‬

‫روزانہ دہی کھانا کیسا؟ جانئے پوشیدہ فوائد‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 10 2021‬‬

‫دہی دنیا بھر میں سب سے زیادہ استعمال ہونے والی مقبول ترین غذاﺅں میں سے ایک‬
‫ہے‪ ،‬بچوں کے ساتھ ساتھ بڑوں میں بھی پسندیدہ دہی کو سپر فوڈ سمجھا جاتا ہے کیا آپ‬

‫دہی کے روزانہ استعمال کے حیرت انگیز فوائد جانتے ہیں نہیں تو کوئی بات نہیں‪ ،‬ہم آپ‬
‫کو چند فوائد بتادیتے ہیں۔‬
‫ہاضمے کے لئے اکثیر‬
‫دہی ایک زبردست پروبائیوٹک (ایک ایسا جزو ہے جس میں زندہ بیکٹیریا ہوتے ہیں)۔ یہ‬
‫نظام ہاضمہ کو بہتر‬
‫ِ‬ ‫اچھے اور فائدہ مند بیکٹیریا آنتوں کی سرگرمیوں کو بہتر بنانے‪،‬‬
‫کرنے اور پیٹ کی بیماریوں کا عالج کرنے کے لیے جانے جاتے ہیں۔‬
‫ہڈیوں کو مضبوط میں معاون‬

‫تحقیقات | ‪72‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دہی میں چکنائی اور کیلوریز انتہائی کم مقدار میں پائی جاتی ہیں‪ ،‬ایک کپ دہی میں صرف‬
‫‪120‬کیلوریز ہوتی ہیں‪ ،‬دہی میں دیگر ضروری‬
‫غذائی اجزا جیسے کہ پروٹین بھی پایا جاتا ہے جسے انسانی پٹھوں کی نشونما کے لیے‬
‫انتہائی مفید قرار دیا جاتا ہے۔‬
‫ت مدافعت بڑھانے کا اہم ہتھیار‬ ‫قو ِ‬
‫دہی کا باقاعدہ استعمال ہمارے مدافعتی نظام کو بڑھاتا ہے اور ہمارے جسم کو مختلف قسم‬
‫کے انفیکشن سے بچاتا ہے‪ ،‬دہی معدے کے انفیکشن‪ ،‬سانس کے مسائل جیسے عام نزلہ‪،‬‬
‫زکام اور یہاں تک کہ کینسر کے خالف مؤثر طریقے سے لڑتا ہے‪ ،‬دہی میں پائے جانے‬
‫والے میگنیشیم‪ ،‬سیلینیم اور زنک بھی قوت مدافعت کو بہتر بناتے ہیں۔‬
‫اس میں بی کمپلیکس وٹامنز‪ ،‬فاسفورس‪ ،‬پوٹاشیم اور میگنیشیم بھی ہوتا ہے اور یہ میٹابولزم‬
‫کو بہتر بناتا ہے۔‬
‫جلد صاف کرے‬
‫معدے کے بعض مسائل کی وجہ سے بہت سے لوگ مہاسوں کا شکار ہوتے ہیں‪ ،‬دہی‬
‫چہرے کی خوبصورتی کا ایک بہترین جزو ہے کیونکہ اس میں لییکٹک ایسڈ ہوتا ہے جو‬
‫ایکفولیئٹر کا کام کرتا ہے اور یہ ہماری ِجلد کے تمام مردہ خلیوں اور داغوں کو صاف کرتا‬
‫ہے۔‬
‫ض قلب سے بچاؤ میں معاون‬ ‫ہائی بلڈ پریشر اور امرا ِ‬
‫باقاعدگی سے دہی کا استعمال ہائی بلڈ پریشر کو کنٹرول کرتا ہے جو دل کی بیماریوں کے‬
‫لیے ایک بڑا خطرہ ہے‪ ،‬اس طرح‪ ،‬دہی دل کے امراض کے خطرے کو کم کرنے کا باعث‬
‫بھی بنتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/how-to-eat-yogurt-daily/‬‬

‫ڈپریشن کے شکار مریضوں کے لیے منفرد عالج متعارف‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 10 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪73‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ابوظبی ہیلتھ سروسز کمپنی (ایس ای ایچ اے) نے ڈپریشن کے شکار مریضوں کے لیے‬
‫منفرد عالج متعارف کروادیا۔‬
‫عرب میڈیا کے مطابق ابوظبی ہیلتھ سروسز کمپنی (ایس ای ایچ اے) نے دیگر طریقہ عالج‬
‫سے خاطر خواہ فائدہ حاصل نہ کرنے والے ڈپریشن کا شکار بالغ افراد کے عالج کے لیے‬
‫ناک سے سانس لینے واال اسکیٹامین اسپرے متعارف کروادیا۔‬
‫اسکیٹا مین دماغ میں ان نئے رسیپٹرز پر اثر انداز ہوتا ہے جو روایتی طور پر ڈپریشن کے‬
‫عالج کے لیے دی جانے والی ادویات سے متاثر ہوتے ہیں۔‬
‫کنسلٹنٹ سائیکاٹرسٹ اور ایس ای ایچ اے میں صحت کونسل کی سربراہ ڈاکٹر ناہیدہ نیاز‬
‫احمد کا کہنا ہے کہ اسکیٹا مین اسپرے نے مریضوں پر بہتر نتائج کا مظاہرہ کیا ہے۔‬
‫اعلی معیار کے عالج کی فراہمی ہمارا‬ ‫ٰ‬ ‫انہوں نے کہا کہ ایس ای ایچ اے میں مریضوں کا‬
‫ہمیشہ سے مقصد رہا ہے‪ ،‬ہماری تجربہ کار ماہر نفسیات کی ٹیم اور ماہرین نفسیات ہر‬
‫مریض کے لیے موزوں اور مربوط عالج کا طریقہ کار فراہم کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔‬
‫ڈاکٹر ناہیدہ نیاز کے مطابق حال ہی میں اس طریقہ عالج سے مستفید ہونے والے متعدد‬
‫مریضوں نے اسکیٹا مین کے استعمال سے صحت یابی کے بعد اپنے خیاالت کا اظہار کیا‬
‫ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ایک تیس سالہ شخص جو گزشتہ چھ سالوں سے ڈپریشن کا شکار تھا اس‬
‫کا کہنا تھا کہ تمام طریقہ عالج کی ناکامی کے بعد اسکیٹا مین اسپرے کا استعمال شروع کیا‬
‫جس سے خیاالت اور طرز زندگی میں مثبت اثرات محسوس ہوئے۔‬
‫اسی طرح ایک ‪ 20‬سالہ خاتون جو ڈپریشن کی وجہ سے کئی بار خودکشی کا بھی سوچ‬
‫چکی تھیں‪ ،‬انہوں نے کہا کہ اسکیٹا مین سے ذہنی حالت بہتر ہوگئی ہے اور ان کے‬
‫خودکشی کے خیاالت میں نمایاں کمی ٓائی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/583731-2/‬‬

‫تحقیقات | ‪74‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫فیس ماسک کے بغیر ‪ 2‬میٹر کی دوری کورونا وائرس سے بچاؤ کیلئے‬
‫ناکافی قرار‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪10 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫نئے کورونا وائرس سے ہونے والی بیماری کووڈ ‪ 19‬کی روک تھام کے لیے ویکسینز کا‬
‫استعمال دنیا بھر میں جاری ہے مگر اب بھی اس وبا پر مکمل قابو پانا آسان نہیں۔‬
‫اور اس وقت تک فیس ماسک کا استعمال ضروری ہوگا کیونکہ یہ وائرس بہت آسانی سے‬
‫ایک سے دوسرے میں منتقل ہوسکتا ہے۔‬
‫بالخصوص چار دیواری کے اندر فیس ماسک کے استعمال کے بغیر ‪ 2‬میٹر کی سماجی‬
‫دوری کووڈ ‪ 19‬کے پھیالؤ کی روک تھام کے لیے کافی نہیں۔‬
‫یہ بات کینیڈا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی۔‬
‫میک گل یونیورسٹی کی اس تحقیق میں یہ بھی بتایا گیا کہ چار دیواری کے اندر فیس‬
‫ماسک کا استعمال ہوا میں موجود وائرل ذرات سے بیمار ہونے کا خطرہ ‪ 67‬فیصد تک کم‬
‫کرسکتا ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ فیس ماسک کا استعمال اور ہوا کی نکاسی کا اچھا نظام کورونا کی‬
‫زیادہ معتدل اقسام کے پھیالؤ کی روک تھام کے لیے انتہائی اہم ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪75‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫انہوں نے کہا کہ خاص طور پر اس وقت جب موسم سرما کا آغاز ہورہا ہے اور فلو سیزن‬
‫بھی شروع ہونے واال ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ چار دیواری کے اندر ‪ 2‬میٹر کی دوری کووڈ ‪ 19‬کے پھیالؤ کو‬
‫روکنے کے لیے کافی نہیں اور اس صورت میں جب وہ کوئی دفتر یا ایسا مقام ہو جہاں‬
‫لوگ کچھ وقت کے لیے اکٹھے ہوتے ہوں۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ ایسے مقامات جہاں لوگوں نے فیس ماسک نہیں پہن رکھا ہوتا‬
‫وہاں ‪ 70‬فیصد سے زیادہ وائرل ذرات ‪ 30‬سیکنڈ کے اندر ‪ 2‬میٹر سے زیادہ دور پھیل‬
‫جاتے ہیں۔‬
‫اس کے مقابلے میں فیس ماسک کا استعمال کیا گیا تو ایک فیصد سے بھی کم وائرل ذرات‬
‫‪ 2‬میٹر سے زیادہ دور جاتے ہیں۔‬
‫تحقیق کے لیے ماہرین نے سیال اور گیسوں کے بہاؤ کی جانچ پڑتال کے لیے ماڈلز کا‬
‫استعمال کرکے ایک کمپیوٹر پروگرام تیار کیا گیا جو چار دیواری کے اندر کھانسی کے‬
‫دوران خارج ہونے والے ذرات کی دوری کی پیمائش کرسکے۔‬

‫محققین نے دریافت کیا کہ ہوا کی نکاسی‪ ،‬فرد کے بیٹھنے یا کھڑے ہونے کا انداز اور فیس‬
‫ماسک پہننے سے وائرل ذرات کے پھیالؤ کی روک تھام میں نمایاں اثرات مرتب ہوئے۔‬
‫کھانسی کو ہوا کے ذریعے پھیلنے والے وائرسز کے اہم ترین ذرائع میں سے ایک قرار دیا‬
‫جاتا ہے اور محققین کے مطابق تحقیق سے یہ سمجھنے میں مدد ملے گی کہ وائرل ذرات‬
‫کسی ذریعے سے کیسے اپنے ارگرد پھیلتے ہیں اور پالیسی سازوں کو فیس ماسک کے‬

‫تحقیقات | ‪76‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫حوالے سے فیصلے کرنے میں مدد مل سکے گی۔اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے بلڈنگ‬
‫اینڈ انوائمنٹ میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1170330/‬‬

‫بالوں سے محروم ہورہے ہیں؟ تو اس کی حیران کن وجہ جان لیں‬


‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪10 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫عمر بڑھنے کے ساتھ اکثر مردوں کو بالوں سے محرومی کا سامنا ہوتا ہے مگر ایسا کیوں‬
‫ہوتا ہے؟‬
‫اور اب امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں اس سوال کا ممکنہ جواب سامنے‬
‫آیا ہے۔‬
‫طبی ماہرین میں یہ خیال پایا جاتا ہے کہ ٹشوز اور اعضا بشمول بالوں کو معمول پر‬
‫رکھنے والے اسٹیم سیلز عمر بڑھنے کے ساتھ بتدریج مرنے لگتے ہیں‪ ،‬جسے بڑھاپے کی‬
‫جانب سفر کا ایک ناگزیر عمل بھی قرار دیا جاتا ہے۔‬
‫مگر نارتھ ویسٹرن یونیورسٹی کی تحقیق میں ایک حیران کن دریافت سامنے آئی یا کم از‬
‫کم جانوروں میں عمر کے اضافے سے بالوں پر مرتب اثرات کو جانا گیا۔‬
‫اس تحقیق کے مطابق عمر بڑھنے کے ساتھ بالوں کو برقرار رکھنے والے اسٹیم سیلز اس‬
‫اسٹرکچر سے فرار ہوجاتے ہیں جہاں وہ مقیم ہوتے ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں ایسے ‪ 2‬جینز کو شناخت کیا گیا جو عمر بڑھنے کے ساتھ بالوں پر اثرات‬
‫مرتب کرتے ہیں جس سے اسٹیم سیلز کو اپنی جگہ سے منتقل ہونے کی روک تھام سے‬
‫بالوں کو گرنے سے روکنے کے لیے حکمت عملی مرتب کرنے میں مدد مل سکے گی۔‬
‫اسٹیم سیلز چوہوں اور انسانوں میں بالوں کی نشوونما میں اہم ترین کردار ادا کرتے ہیں۔‬
‫محققین کا بیشتر سائنسدانوں کی طرح خیال تھا کہ عمر بڑحنے کے ساتھ اسٹیم سیلز کے‬
‫مرنے لگتے ہیں جس کے نتیجے میں بال پہلے سفید اور پھر بتدریج گنج پن کا سامنا ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫اس مقصد کے لیے انہوں نے انسانی بالوں کے غدود کو چوہوں کے کانوں میں نصب کیا‬
‫اور پھر اس کی جانچ پڑتال کی گئی۔‬

‫تحقیقات | ‪77‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اس جانچ پڑتال میں یہ حیران کن انکشاف ہوا کہ عمر بڑھنے کے ساتھ جب چوہے کے بال‬
‫سفید اور گرنے لگے تو اسٹیم سیلز اپنی مخصوص جگہوں سے فرار ہونے لگے۔‬
‫ان خلیات نے اپنی ساخت تبدیل کرکے ان غدود سے فرار کو ممکن بنایا اور باہر نکل کر‬
‫اپنی معمول کی ساخت پر آئے اور کہیں اور چلے گئے۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ اگر ہم نے خود یہ مشاہدہ نہیں کیا ہوتا تو کبھی بھی اس پر یقین نہیں‬
‫کرتے‪ ،‬اس عمل نے تو ہمارے ذہنوں کو گھما کر رکھ دیا تھا۔‬
‫یہ اسٹیم اپنی جگہ سے نکلنے کے بعد سیلز مدافعتی نظام میں کہیں گم ہوجاتے ہیں۔‬
‫اس دریافت کے بعد محققین یہ شناخت کیا کہ کونسے جینز اس عمل کو کنٹرول کرتے ہیں‬
‫اور انہوں نے ‪ 2‬کو دریافت کیا جو بالوں کے غدود کے معمر خلیات میں کم متحرک‬
‫ہوجاتے ہیں۔‬
‫اسٹیم سیلز کو اپنی جگہ مقید رکھنے کے لیے ان کا کردار گھٹنے لگتا ہے۔‬
‫اب یہ محققین معمر چوہوں میں بالوں کے اسٹیم سیلز کو تحفظ دینے کے طریقوں پر کام‬
‫کرنے کی منصوبہ بندی کررہے ہیں۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ یہ غیرمتوقع قدرتی عمل ہمیں بتاتا ہے کہ ہمیں جانداروں کے بارے‬
‫میں بہت کچھ جاننا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل نیچر ایجنگ میں شائع ہوئے۔‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1170327/‬‬

‫تحقیقات | ‪78‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ذہنی اُلجھنوں سے بھرا ِدماغ‪،‬بیماریوں کا مرکز‪ ‬‬
‫تحریر ‪ :‬ڈاکٹر فخر عباس‪ ‬‬
‫‪ 10-10-2021‬‬

‫عالمی ادارہ صحت کا کہناہے کہ ‪ ‬‬


‫دماغی امراض میں ڈپریشن اور‬
‫شیزو فرینیا زیادہ عام ہیں‬

‫تحقیقات | ‪79‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫دماغی کمزوری یا بیماری کے سبب‬
‫بہت سی اعصابی‪ ،‬نفسیاتی اور‬
‫جسمانی بیماریاں جنم لیتی ہیں‬
‫ٓا ج منائے جانے والے ورلڈ مینٹل ہیلتھ ڈے کے حوالے سے خصوصی تحریر‬

‫متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ ہنسی ذہنی پریشانی اور مسائل‬
‫سے نجات کا سب سے بہترین راستہ ہے‬

‫پاکستان سمیت دنیا بھر میں ٓا ج دماغی صحت کا دن منایا جارہا ہے جس کا مقصد لوگوں‬
‫کو ذہنی امراض اور دماغی صحت کے حوالے سے ٓاگہی دینا ہے۔ ایک محتاط اندازے کے‬

‫تحقیقات | ‪80‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مطابق پوری دنیا میں ہر چار میں سے ایک شخص اپنی زندگی کے دوران کسی نہ کسی‬
‫طرح کی ذہنی بیماری کا شکار رہتاہے۔ عالمی ادارہ صحت کا کہناہے کہ اس وقت لگ‬
‫بھگ پچاس کروڑ افراد ذہنی صحت کی پریشانی کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں ‪،‬جو دنیا‬
‫ئے کا صحت کا ایک بڑا مسئلہ بنا ہوا ہے۔‬
‫دماغی صحت کا دن سب سے پہلے ‪ 1992‬میں منایا گیا تھا۔ یہ ذہنی صحت سے متعلق عام‬
‫مسائل کے بارے میں شعور اجاگر کرنے ‪ ،‬بدنامی کے خالف جنگ اور ان لوگوں کے لئے‬
‫بہتر حاالت اور عالج کے لئے مہم چالنے کے لئے تشکیل دیا گیا ہے ۔یہ دن منانے میں‬
‫شامل افراد اور تنظیموں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے اور اب ٓاسٹریلیا جیسے بہت سے‬
‫ممالک میں تو دماغی صحت کا ہفتہ بھی منایا جاتا ہے ۔‬
‫یہ حقیقت ہے کہ ہمیں خود اپنی ذہنی صحت کی دیکھ بھال کرنے کی ضرورت ہے۔ ماہرین‬
‫کہتے ہیں اگر انسان کسی وجہ سے ذہنی طورپر صحت مند نہ ہو تو اس کے اثرات پورے‬
‫بدن پر مرتب ہوتے ہیں کیونکہ دماغ ہی انسان کے سارے جسمانی نظام کو کنٹرول کرتا‬
‫ہے۔ دماغی کمزوری یا بیماری کے سبب بہت سی اعصابی‪ ،‬نفسیاتی اور جسمانی بیماریاں‬
‫جنم لیتی ہیں۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کا کہناہے کہ دماغی امراض میں ڈپریشن اور شیزو فرینیا زیادہ عام‬
‫ہیں ۔ دنیا بھر میں ہر سال ذہنی امراض میں مبتال ‪ 8‬الکھ افراد اپنی زندگی کا خاتمہ کر‬
‫لیتے ہیں۔ اس کے باوجود دنیا بھر میں ذہنی بیماریوں کے عالج معالجے پر بہت کم رقم‬
‫خرچ کی جاتی ہے۔ پاکستان ایسوسی ایشن ٓاف مینٹل ہیلتھ کے مطابق پاکستان میں تقریبا ً ‪15‬‬
‫الکھ افراد ذہنی امراض کے مسائل سے دو چار ہیںجو کل ٓابادی کا ‪ 8‬فیصد ہے۔‬
‫ذہنی مرض کا سب سے بڑامسئلہ یہ ہے کہ مریض کو اس بیماری کے احساس کے بجائے‬
‫عجیب بے چینی و اضطراری کی کیفیت الحق رہتی ہے۔ پاکستان میں عمومی طور پر‬
‫الحق ہونے والے ذہنی و نفسیاتی امراض میں اینگزائٹی ‪،‬فکر‪ ،‬تشویش‪ ،‬اعصابی دبائو‪،‬‬
‫احساس کمتری‪ ،‬الزائیمر‪ ،‬تنہائی پسندی‪ ،‬بے خوابی ‪ ،‬خراٹے لینا ‪ ،‬نیند کے دوران سانس کا‬
‫رُکنا‪ ،‬پاگل پن‪،‬رعشہ ‪،‬حسد‪ ،‬حافظے کی کمزوری‪ ،‬کسی قسم کا فوبیا‪ ،‬خود اعتمادی کا‬
‫فقدان‪ ،‬منفی خیاالت کا تسلط ‪،‬افسردگی ‪ ،‬ذہنی اضمحالل‪ ،‬ذہنی تنائو ‪ ،‬سردرد اور در ِد‬
‫شقیقہ‪ ،‬شیزوفرینیا‪ ،‬فرسٹریشن ‪ ،‬احساس محرومی‪ ،‬فالج و لقوہ‪ ،‬مرگی‪ ،‬وہم اور ہسٹیریا‬
‫وغیرہ شامل ہیں۔ مختلف نفسیاتی و ذہنی مرض میں مبتالافراد کو بھوک یا تو لگتی ہی نہیں‬
‫یا پھر سوچ و فکر میں ایسے پریشان ہوتے ہیں کہ خوراک کی طرف توجہ ہی نہیں دیتے۔‬
‫بعض مریضوں کو نیند ٓاتی ہی نہیں یا پریشان کن خیاالت کی وجہ سے بہت دیر سے ٓاتی‬
‫ہے‪ ،‬رات کو بار بار ٓا نکھ کھل جاتی ہے اور بے چینی کی کیفیت ہوتی ہے۔‬
‫اگرچہ تھکن اور کمزوری مختلف جسمانی بیماریوں کی عالمت ہے مگر ذہنی مریض‬
‫بغیر کسی وجہ کے اپنے ٓاپ کو بہت کمزور محسوس کرتے ہیں اور جلدی تھک جاتے‬
‫ہیں۔ مریض اپنے حلیے اور لباس کی صفائی کا خیال نہیں رکھتے۔ چہرے پر اداسی‪،‬‬
‫پریشانی‪ ،‬اضطراب یا وحشت ٹپکتی ہے۔اکثر نفسیاتی بیماریاں مریض کی گفتگو سے ہی‬
‫پہچان لی جاتی ہیں۔ کچھ خاموش ہو جاتے ہیں‪ ،‬جواب نہیں دیتے اور بہت سے لوگ‬
‫تحقیقات | ‪81‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مختصر جواب دیتے ہیں۔ کچھ ایسے ہیں جن کی گفتگو بے ربط ہوتی ہے۔ کچھ بیماریوں‬
‫میں مریض بغیر سوچے سمجھے مسلسل بولنا شروع ہو جاتے ہیں۔ اس کے عالوہ نیند میں‬
‫بولنا‪ ،‬جھنجھالہٹ‪ ،‬بالوجہ غصہ ‪ ،‬عضالتی تنائو‪ ،‬گیس کی بیماری‪ ،‬سانس کی تکلیف‪ ،‬سر‬
‫کا درد‪ ،‬کمر اور جوڑوں کا درد‪ ،‬یہ سب بھی نفسیاتی اور دماغی بیماریوں کی عالمات ہو‬
‫سکتی ہیں۔ انسان کے ذہنی و جذباتی عوامل اس کے جسم پر اثر انداز ہو کر بہت سے‬
‫پیچیدہ ذہنی ‪ ،‬جسمانی و نفسیاتی امراض کا باعث بنتے ہیں۔‬
‫جدید ایجادات کی وجہ سے بھی انسانی قدروں میں بڑھتا زوال‪ ،‬سماجی روابط میں کمی‬
‫اور تنہائی کی کیفیت ذہنی صحت کو تیزی سے تباہ کر رہی ہے اور ان وجوہات کی بنا پر‬
‫زندگی سے خوشیاں مفقود ہو رہی ہیں۔ بڑے شہروں میں دیر سے سونے کے باعث نیند کی‬
‫کمی بھی جھنجھالہٹ‪ ،‬غصہ ‪ ،‬ڈپریشن‪ ،‬عضالتی تنائواور ان جیسے دیگر کئی عوارض کا‬
‫باعث بنتی ہے۔‬
‫ذہنی و نفسیاتی صحت برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم دن میں ‪8‬گھنٹے کی‬
‫نیند الزمی لیں تاکہ دن بھر کی جسمانی و دماغی تھکاوٹ دور ہو سکے۔کھانا ٓارام و سکون‬
‫سے کھائیں۔غصہ‪ ،‬حسد اور کینہ جیسی منفی عادات سے احتراز برتیں‪ ،‬غصے کے دوران‬
‫‪،‬ہمیشہ ضبط سے کام لیں‬
‫گھر کے اندر‪ ،‬کام کی جگہ اور راستے میں ملنے جلنے والوں سے ہمیشہ خوش اسلوبی‬
‫سے ملیں اور محبت و رواداری کو اپنا شعار بنا ئیں۔ چھوٹی موٹی باتوں کو درگزر کریں۔‬
‫ہر بات کو اپنے ذہن پر سوار مت کریں‪ ،‬اگر کوئی ناموافق بات سنیں یا نظر ٓائے تو اسے‬
‫بھالنے کی کوشش کریں‪ ،‬چھوٹوں سے پیار و محبت اور بڑے افراد کا ادب کریں‪ ،‬پانے‬
‫کی طلب رکھنے کے بجائے محبت بانٹنے والے بنیں ‪ ،‬اللچ اورحرص و ہوس سے گریز‬
‫کریں‪ ،‬ہر قسم کے نشے سے دور رہیں ‪،‬احساس کمتری کو کبھی خود پر غالب نہ ٓانے‬
‫دیں ‪ ،‬عبادت ٰالہی کے ساتھ ساتھ مراقبہ یعنی خاموشی و یکسوئی سے ارتکاز حاصل‬
‫کریں ۔ورزش کی عادت اپنائیں جو ذہنی و جسمانی صحت کے لیے اکسیر کی حیثیت‬
‫رکھتی ہے۔‬

‫زندگی گزارنے کے لیے ہمیشہ پر امید اور مثبت انداز سوچ اختیار کریں۔ واہمے اور‬
‫ناامیدی کی کیفیت انسانی دماغ کو کمزور کر دیتی ہے اوراس طرح انسان بیماریوں کا گڑھ‬
‫بن جاتا ہے۔ ہنسی خوشی زندگی ذہنی و جسمانی صحت کے لیے بہت ضروری ہے۔‬
‫یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ جسم چاہے جتنا بھی مضبوط ہو اگر دماغی طور پر کمزور ہو تو‬
‫دنیا میں ٓاگے بڑھنے یا روشن مستقبل کا تصور تک ممکن نہیں مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ‬
‫اکثر ذہنی مایوسی ہمارے کنٹرول سے باہر ہوتی ہے جیسے کسی پیارے کی موت‪،‬‬
‫مالزمت ختم ہوجانا یا مالی مشکالت۔‬
‫اس سے ہٹ کے۔۔ کیا ٓاپ کو معلوم ہے کہ روزمرہ کی زندگی میں ہماری چھوٹی چھوٹی‬
‫عادات بھی ہمارے مزاج پر اندازوں سے زیادہ اثرات مرتب کرتی ہیں۔‬
‫ایسی ہی چند عادات کا تذکرہ کرتے ہیں جو ذہنی صحت کے لیے مضر ثابت ہوتی ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪82‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جھک کر چلنا۔ہماری ذہنی حالت ہمارے چلنے کے انداز پر مرتب ہوتی ہے ۔ایک تحقیق‬
‫کے مطابق جب لوگ چلنے کے دوران اپنے کندھوں اور کمر کو جھکا لیتے ہیں تو انہیں‬
‫چڑچڑے پن یا ناخوشگوار مزاج کا تجربہ ہوتا ہے۔ اس طرح چلنے کے عادی افراد ذہنی‬
‫طور پر مثبت تجربات کی بجائے منفی چیزوں کو زیادہ یاد رکھتے ہیں جو بتدریج ان کی‬
‫ذہنی صحت کو نقصان پہنچانے کا باعث بنتا ہے اور الزائمر جیسے امراض کا خطرہ بڑھ‬
‫جاتا ہے۔‬
‫ورزش نہ کرنا۔اگر ٓاپ ہفتہ بھر میں ‪ 3‬روز بھی جسمانی طور پر زیادہ متحرک ہوں تو‬
‫مایوسی کا خطرہ ‪ 19‬فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔ لندن کالج یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے‬
‫مطابق جسمانی تحریک اور مایوسی کے درمیان واضح تعلق موجود ہے۔ٓاسان الفاظ میں جو‬
‫لوگ جسمانی طور پر زیادہ متحرک نہیں ہوتے ان میں مایوسی کا خطرہ بھی زیادہ ہوتا ہے‬
‫جبکہ ورزش یا کسی قسم کی جسمانی سرگرمی رکھنے والے افراد اس ذہنی عارضے سے‬
‫کافی حد تک محفوظ رہتے ہیں۔‬
‫ٹال مٹول کی عادت ۔کسی کام کے دوران ٓاپ اسے کرنے کی بجائے ٹال مٹول سے کام لیتے‬
‫ہیں جس کی وجہ خوف یا یہ پریشانی ہوتی ہے کہ ٓاپ کو ناکامی کا منہ نہ دیکھنا پڑے ۔‬
‫اس عادت کو مستقل طور پر اپنا لینے کے نتیجے میں متعدد ذہنی امراض ٓاپ کو اپنا شکار‬
‫بناسکتے ہیں اور یہ کسی کام میں ناکامی سے زیادہ اعصاب شکن ثابت ہوتی ہے۔‬
‫زندگی کو بہت زیادہ سنجیدگی سے لینا۔اگر ٓاپ اپنے روزمرہ کے ہر مسئلے کو زندگی اور‬
‫موت کا مسئلہ بنالیتے ہیں تو بہت جلد کسی ماہر نفسیات سے عالج کراتے نظر ٓائیں گے۔‬
‫درحقیقت متعدد طبی تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ ہنسی ذہنی پریشانی و‬
‫مسائل سے نجات کا سب سے بہترین راستہ ہے۔ درحقیقت ہنسی ذہنی پریشانی اور مایوسی‬
‫کی سب سے بہترین دوا ہے اور اچھا امر یہ ہے کہ اس کے لیے ٓاپ کو پیسے بھی خرچ‬
‫نہیں کرنا پڑتے ہیں۔‬
‫نیند سے دوری‪ ‬۔نیند دماغی صحت کے لیے سب سے اہمیت رکھتی ہے۔ ذہنی اور جذباتی‬
‫صالحیتیں اور جسمانی افعال سب نیند کے نتیجے میں دوبارہ تازہ دم ہوجاتے ہیں اور اس‬
‫کے بغیر ذہنی نظام مسائل کا شکار ہونے لگتا ہے اور ڈیمنیشیا سمیت دیگر امراض جڑ‬
‫پکڑنے لگتے ہیں جو عین ممکن ہے دور نوجوانی میں تو زیادہ تکلیف دہ نہ ہو مگر‬
‫بڑھاپے کی شاہراہ پر قدم رکھنے کے بعد وہ ٓاپ کو بری طرح دبوچ لیں ۔‬
‫کبھی تنہا نہ ہونا۔بچوں‪ ،‬کام‪ ،‬شادی اور دیگر سرگرمیوں کے نتیجے میں ٓاپ کو کبھی تنہا‬
‫رہنے کا موقع ہی نہیں ملتا۔ اپنے لیے کچھ وقت تنہائی میں گزارنا ذہنی تنائو میں کمی کے‬
‫لیے بہت اہمیت رکھتا ہے اب چاہے وہ ایک منٹ‪ 10 ،‬منٹ یا ایک گھنٹہ ہی کیوں نہ ہو‪،‬‬
‫اس کے بغیر ٓاپ جو بھی کام کرتے ہیں مایوسی اور ذہنی تشویش جیسے عوارض ٓاپ کو‬
‫گرفت میں لئے چلے جاتے ہیں اور زیادہ سنگین امراض کا باعث بن جاتے۔‬
‫سوشل میڈیا کا بہت زیادہ استعمال۔‬
‫اگر تو ٓاپ کسی سے رابطے کے لیے زبان کی بجائے ایس ایم ایس‪ ،‬فیس بک اور دیگر‬
‫سوشل میڈیا کا استعمال زیادہ کرتے ہیں یا ان کو ہی ترجیح دیتے ہیں تو درحقیقت ٓاپ‬
‫تحقیقات | ‪83‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اچھے دوستوں سے ہمیشہ ہی محروم رہیں گے‪ ،‬جبکہ فیس بک وغیرہ کے فرینڈز تفریح‬
‫کے لیے تو ہوسکتے ہیں مگر ان سے دل کی باتیں نہیں کی جاسکتیں جس سے لوگوں کو‬
‫سمجھنے میں مدد ملتی ہے بلکہ درحقیقت یہ سائٹس انسانی جذبات اور تجربات کا گال‬
‫گھونٹ دیتے ہیں‪ ،‬جس سے لوگوں کی ذہنی صالحیتوں اور لوگوں کے ساتھ گھلنے ملنے‬
‫میں دلچسپی کم ہوجاتی ہے۔‬
‫موبائل فون کے بغیر زندگی لگتی ہو مشکل‪ ‬۔کیا ٓاپ کو یاد ہے کہ ٓاخری بار کونسا دن تھا‬
‫جب ٓاپ اپنے موبائل سے مکمل طور پر دور رہے تھے؟ کچھ یاد نہیں تو یہ کوئی اچھی‬
‫عالمت نہیں۔ سائنسی تحقیق کے مطابق موبائل جیسے ڈیوائسز نے انسانوں کو اپنا دیوانہ بنا‬
‫رکھا ہے اور ہم انہیں ہمیشہ ٓان رکھ کر درحقیقت اپنے جسم کو کبھی حقیقی ٓارام کرنے‬
‫نہیں دیتے جس کی وجہ سے ہمارے جسم و ذہن ماضی کی طرح توانائی سے بھرپور نہیں‬
‫رہتے‪ ،‬یہی چیز ٓاگے بڑھ کر مایوسی یا ذہنی پریشانیوں کا گڑھ بن کر رہ جاتی ہے۔‬
‫بیک وقت کئی کام کرنا یا ملٹی ٹاسکنگ‪ ‬۔ہر انسان کی خواہش ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت‬
‫کئی کام ایک ساتھ کرلے تاکہ وقت کی بچت ہوسکے بلکہ کئی بار تو نادانستہ طور پر یہ ہم‬
‫ایسا ہی کررہے ہوتے ہیں جیسے فیس بک پر سرفنگ کے دوران ٹی وی دیکھنا اور‬
‫موبائل فون پر مسلسل ایس ایم ایس کرنا وغیرہ۔ ایک تحقیق کے مطابق اگرچہ لوگوں کو‬
‫لگتا ہے کہ بیک وقت کئی کرنے سے وہ زیادہ بہتر ورکر بن جاتے ہیں مگر حقیقت میں‬
‫ایسا ہوتا نہیں بلکہ یہ لوگوں کو ذہنی طور پر تنائو کا شکار کردیتا ہے جبکہ ہمارے تعلقات‬
‫بھی ایک وقت میں کئی چیزوں پر توجہ مرکوز کرنے کے نتیجے میں متاثر ہوتے ہیں۔‬
‫بالشبہ دین حق اسالم ہمارے تمام ذہنی مسائل کا حل پیش کرتا ہے اور دین کی راہ پر چلنے‬
‫والے نفسیاتی مسائل سے کم ہی دو چار ہوتے ہیں ۔ اس پر عمل پیرا ہونے سے نہ صرف‬
‫ہم اخالقی ‪ ،‬روحانی سیاسی اور معاشی زندگی میں عروج حاصل کر سکتے ہیں بلکہ‬
‫جسمانی سطح پر صحت و توانائی کی دولت سے بھی بہرہ ور ہو سکتے ہیں۔انسان کا ایک‬
‫مقصد حیات ہے جس نے اس مقصد کو پہچان لیا وہ کامیاب ہے۔ وہ احکامات خداوندی پر‬
‫عمل کرتا ہے‪ ،‬اپنے وجود سے محبت کرتا ہے دیگر انسانوں کی قدر کرتا ہے‪ ،‬ہمیشہ‬
‫خوش اورمطمئن رہتا ہے۔ کبھی محرومی اور مایوسی کے اندھیروں میں نہیں کھوتا‬
‫کیونکہ وہ جانتا ہے کہ اس کائنات کی تخلیق اس کے لیے کی گئی ہے اس کی تمام تر‬
‫نعمتوں کو اس کے لیے پیدا کیا گیا ہے۔ اس کی ہر خوبصورتی‘ شادمانی اور کامرانی اس‬
‫کے لیے وقف کر دی گئی ہے اور ان تمام نعمتوں کو حاصل کرنے کے لیے اسے عقل کا‬
‫نور عطا کیا گیا ہے۔‬
‫‪https://mag.dunya.com.pk/index.php/health/3815/2021-10-10‬‬

‫ویکسینیشن کووڈ ‪ 19‬کی سنگین شدت سے تحفظ کے لیے بہت زیادہ‬


‫مؤثر‪ ،‬تحقیق‬

‫تحقیقات | ‪84‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪11 2021‬‬
‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬

‫ویکسینیشن کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہونے پر بیماری کی زیادہ شدت سے بچانے کے لیے بہت‬
‫زیادہ مؤثر ہے چاہے کورونا کی ڈیلٹا قسم کا سامنا ہی کیوں نہ ہو۔‬
‫یہ بات فرانس میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬
‫اس تحقیق میں ویکسینز سے بیماری سے بچاؤ کی بجائے بیماری کی سنگین کی روک تھام‬
‫اور موت پر توجہ مرکوز کی گئی تھی۔‬
‫اس مقصد کے لیے ‪ 2‬کروڑ ‪ 20‬الکھ افراد کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تھا جن کی عمریں ‪50‬‬
‫سال سے زیادہ تھیں۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ جو لوگ ویکسینیشن کراتے ہیں ان میں بیماری سے ہسپتال‬
‫میں داخلے یا موت کا خطرہ ‪ 90‬فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔‬
‫تحقیق کے نتائج امریکا‪ ،‬برطانیہ اور اسرائیل میں ہونے والی تحقیقی رپورٹس کی تصدیق‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫مگر اس تحقیق میں شامل ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ اب تک کی سب سے بڑی تحقیق ہے۔‬
‫اس تحقیق کے لیے ڈیٹا اکٹھا کرنے کا عمل دسمبر ‪ 2020‬سے جاری تھا جب فرانس میں‬
‫کووڈ ‪ 19‬ویکسینیشن کی مہم کا ٓاغاز ہوا تھا۔‬
‫محققین نے ویکسینیشن کرانے والے ایک کروڑ ‪ 10‬الکھ افراد کا موازنہ ایک کروڑ ‪10‬‬
‫ویکسینیشن نہ کرانے والے افراد سے کیا گیا۔‬

‫تحقیقات | ‪85‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق کے لیے ‪ 20‬جوالئی تک ویکسینیشن کرانے والے افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے ‪ 14‬دن بعد کووڈ ‪19‬‬
‫کی سنگین شدت کا خطرہ ‪ 90‬فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔‬
‫نامی ادارے کے زیرتحت ہوئی تھی جو فرانسیسی حکومت کے ساتھ ‪ Epi-Phare‬یہ تحقیق‬
‫مل کر کام کرتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق ویکسینیشن کورونا کی قسم ڈیلٹا کے خالف بھی بہت زیادہ مؤثر ثابت‬
‫ہوتی ہے‪ 75 ،‬سال یا اس سے زائد عمر کے افراد کو ویکسینیز سے ‪ 84‬فیصد جبکہ ‪50‬‬
‫سے ‪ 75‬سال کے افراد کو ‪ 92‬فیصد تک تحفظ ملتا ہے۔‬
‫مگر یہ خیال رہے کہ ڈیلٹا سے تحفظ کا ڈیٹا صرف ایک مہینے کا تھا کیونکہ فرانس میں‬
‫جون ‪ 2021‬میں کورونا کی اس قسم نے دیگر کو پیچھے چھوڑ دیا تھا۔‬
‫محققین نے بتایا کہ تحقیق میں اب اگست اور ستمبر کے نتائج کو بھی شامل کیا جائے گا۔‬
‫تحقیق میں ایسٹرا زینیکا‪ ،‬فائزر‪ /‬بائیو این ٹیک اور موڈرنا ویکسینز استعمال کرنے والے‬
‫افراد کے ڈیٹا کو دیکھا گیا تھا اور جانسن اینڈ جانسن ویکسین کو شامل نہیں کیا گیا جس کی‬
‫منظوری فرانس میں کافی عرصے بعد دی گئی تھی۔‬
‫نتائج سے یہ عندیہ بھی مال کہ تحقیق کے دورانیے کے دوران ‪ 5‬ماہ تک ویکسینیشن سے‬
‫بیماری کی سنگین شدت کے خالف ملنے واال تحفظ کم نہیں ہوا۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1170421/‬‬

‫ایسٹرا زینیکا کی کووڈ ‪ 19‬سے بچانے اور عالج کرنے والی دوا مؤثر‬
‫قرار‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪11 2021‬‬

‫یہ بات کمپنی کی جانب سے ٓاخری مرحلے کے ٹرائل کے نتائج میں بتائی‬
‫گئی ۔ایسٹرا زینیکا کی اینٹی باڈی دوا کووڈ ‪ 19‬کی سنگین بیماری کے خطرے کو کم از کم‬
‫‪ 50‬فیصد تک کم کر سکتی ہے۔یہ بات کمپنی کی جانب سے اے زی ڈی ‪ 7442‬نامی دوا‬
‫کے ٓاخری مرحلے کے ٹرائل کے نتائج جاری کرتے ہوئے بتائی گئی۔‬

‫کمپنی کی تیار کردہ یہ دوا ‪ 2‬اینٹی باڈیز کے امتزاج پر مبنی ہے جو ایسے افراد کے خون‬
‫کی مدد سے تیار کی گئی ہے جو ماضی میں کووڈ ‪ 19‬کے شکار رہ چکے ہیں۔‬
‫کمپنی کی یہ اپنی طرز کی پہلی دوا ہے جو ٓاخری مرحلے کے ٹرائلز میں کووڈ ‪ 19‬سے‬
‫تحفظ اور عالج میں مؤثر ثابت ہوئی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪86‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کمپنی کی جانب سے پہلے ہی اس دوا کی منظوری کے لیے فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن‬
‫کے پاس درخواست اگست میں دوا کے ابتدائی ٹرائل کے نتائج کے بعد جمع کرائی جاچکی‬
‫ہے۔‬
‫اگست میں جس ٹرائل کے نتائج جاری کیے گئے تھے اس میں ایسے ‪ 5197‬افراد کو شامل‬
‫کیا گیا تھا جو کووڈ سے متاثر نہیں ہوئے تھے۔‬
‫نتائج سے ثابت ہوا ہے کہ اس دوا سے عالمات والی بیماری سے متاثر ہونے کا خطرہ ‪77‬‬
‫فیصد تک کم ہوجاتا ہے جبکہ کسی بھی رضاکار میں سنگین بیماری کا کیس ریکارڈ نہیں‬
‫ہوا۔‬
‫اب کمپنی کا کہنا ہے کہ نئے ڈیٹا کو بھی طبی انتظامیہ کے پاس جمع کرایا جائے گا۔‬
‫ایسٹرا زینیکا کی جانب سے جاری نئے نتائج میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬کی عالمات‬
‫ظاہر ہونے کے ‪ 7‬دن کے اندر اس دوا کا استعمال بیماری کی سنگین شدت یا موت کا‬
‫خطرہ ‪ 50‬فیصد تک کم ہوجاتا ہے۔‬
‫اس دوا کا استعمال ‪ 407‬مریضوں کو کرایا گیا تھا جن میں سے ‪ 18‬میں کووڈ ‪ 19‬کی شدت‬
‫سنگین ہوئی یا ہالک ہوگئے۔‬
‫کمپنی نے بتایا کہ اگر یہ دوا عالمات ظاہر ہونے کے ‪ 5‬دن کے اندر دی جائے تو کووڈ کی‬
‫سنگین شدت کا خطرہ ‪ 67‬فیصد تک گھٹ جاتا ہے۔‬
‫ٹرائل میں اس ٹائم الئن کی جانچ پڑتال ‪ 253‬افراد میں کی گئی تھی جن میں سے ‪ 9‬بہت‬
‫زیادہ بیمار یا ہالک ہوئے۔‬

‫تحقیقات | ‪87‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسی طرح کمپنی نے ‪ 13‬ممالک میں کووڈ کی معمولی سے معتدل شدت کا سامنا کرنے‬
‫والے ‪ 822‬بالغ افراد پر بھی دوا کی ٓازمائش کی جارہی ہے۔‬
‫کمپنی کے مطابق دوا لوگوں میں محفوظ ثابت ہوئی ہے مگر کسی قسم کے مضر اثرات‬
‫کے بارے میں کوئی تفصیالت جاری نہیں کی گئیں۔‬
‫ایسٹرا زینیکا کی جانب سے ٹرائل میں شامل افراد کی مانیٹرنگ ‪ 15‬ماہ تک جاری رکھی‬
‫جائے گی تاکہ معلوم ہوسکے کہ لوگوں کو ملنے واال تحفظ کتنے عرصے تک برقرار رہتا‬
‫ہے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1170415/‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬سے متاثر حاملہ خواتین میں پیچیدگیوں کا خطرہ بڑھ جاتا ہے‪،‬‬
‫تحقیق‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪10 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫کورونا وائرس کی عالمات والی بیماری کا سامنا کرنے والی حاملہ خواتین میں ایمرجنسی‬
‫ڈیلیوریز اور پیدائش کے بعد پیچیدگیوں کا خطرہ بغیر عالمات والی مریض خواتین کے‬
‫مقابلے میں زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫‪ Anesthesiology 2021‬یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی جس کے نتائج‬
‫کانفرنس کے دوران پیش کیے گئے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ کی عالمات والی بیماری کا سامنا کرنے والی‬
‫حاملہ خواتین کے ہاں پیدا ہونے والے بچوں کو آکسیجن سپورٹ اور آئی سی یو یونٹ میں‬
‫داخلے کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق کووڈ ‪ 19‬جسم پر بہت زیادہ شدید اثرات مرتب کرنے واال مرض ہے‬
‫بالخصوص ایسے مریض جن میں عالمات ظاہر ہوں اور یہ ممکن ہے کہ حاملہ خواتین‬
‫میں ان اثرات کی شدت زیادہ بڑھ جائے‪ ،‬جن کو پہلے ہی بچے اور اپنے لیے زیادہ‬
‫آکسیجن کی ضرورت ہوتی ہے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کی عالمات والی بیماری کا سامنا کرنے والی ہر ‪10‬‬
‫میں سے ‪ 6‬حاملہ خواتین کو ایمرجنسی حاالت کا سامنا ہوتا ہے جبکہ بغیر عالمات والی‬
‫مریض خواتین میں یہ شرح ‪ 46.5‬فیصد ہے۔تحقیق کے مطابق عالمات والی بیماری کا‬
‫سامنا کرنے والی حاملہ خواتین میں مختلف پیچیدگیوں جیسے بچے کی حرکت کم ہوجانا یا‬
‫زچگی کی جانب پیشرفت سست یا رک جانا کا خطرہ بھی بڑھ جاتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪88‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اس تحقیق کے لیے ‪ 16‬سے ‪ 45‬سال کی عمر کی کووڈ کی شکار ‪ 101‬حاملہ خواتین کا‬
‫جائزہ لیا گیا تھا جن میں مارچ سے ستمبر ‪ 2020‬کے دوران بچے کی پیدائش ہوئی تھی‬
‫اور ایک تہائی میں عالمات ظاہر ہوئی تھیں۔کووڈ کی عالمات کا سامنا کرنے والی خواتین‬
‫کی تعداد تھی جن میں سے ‪ 10‬میں سے ‪ 4‬کو بخار یا کھانسی‪ 26 ،‬فیصد کو سانس لینے‬
‫میں مشکالت اور ‪ 16‬فیصد کو مسلز کی تکلیف یا ٹھنڈ لگنے جیسی عالمات کا سامنا ہوا۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ ان خواتین (‪ 64.5‬فیصد) میں آپریشن سے بچے کی پیدائش کا امکان‬
‫بغیر عالمات والی خواتین (‪ 62‬فیصد) کے مقابلے میں تھوڑا زیادہ یوتا ہے جبکہ اس‬
‫بیماری سے محفوظ خواتین میں یہ شرح صرف ‪ 31.7‬فیصد ہے‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ ان خواتین میں آکسیجن کی کمی ممکنہ طور پر آپریشن سے زچگی‬
‫میں کردار ادا کرتی ہے اور یہ بھی امکان ہے کہ ڈاکٹر کی جانب سے بیماری کی‬
‫پیچیدگیوں کو مدنظر رکھتے ہوئے آپریشن ک‬

‫‪Web‬‬

‫پاکستان میں ڈینگی‪ :‬مہلک بخار سے بچیں کیسے اور ہو جائے تو‬
‫کریں کیا؟‬
‫‪ 10‬اکتوبر ‪2019‬‬
‫تحقیقات | ‪89‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫مادہ مچھر کو حاملہ ہونے کے بعد اپنے انڈوں کے لیے انسانی خون کی ضرورت پڑتی‬
‫ہے‬
‫پاکستان کے مختلف شہر ایک مرتبہ پھر ڈینگی کی لپیٹ میں ہیں۔ یہ مرض وبائی شکل‬
‫اختیار کر چکا ہے اور کراچی سے لے کر پشاور تک متعدد شہروں میں ہزاروں افراد اس‬
‫کا شکار بن چکے ہیں۔‬
‫ڈینگی کا مرض کیسے پھیلتا ہے‪ ،‬اس کے لیے احتیاطی تدابیر کیا ہیں اور مرض الحق‬
‫ہونے کی صورت میں کیا کرنا چاہیے‪ ،‬اس حوالے سے بی بی سی نے طبی ماہرین کی‬
‫رائے جاننے کی کوشش کی۔‬
‫ڈینگی کیسے پھیلتا ہے؟‬
‫پاکستان اور پوری دنیا میں ڈینگی پھیالنے واال مچھر ایڈیِز ایجپٹی ہے۔ دھبے دار جلد واال‬
‫یہ مچھر پاکستان میں مون سون کی بارشوں کے بعد ستمبر سے لے کر دسمبر تک موجود‬
‫رہتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق یہ مچھر ‪ 10‬سے ‪ 40‬ڈگری سینٹی گریڈ کے درجۂ حرارت میں پرورش‬
‫پاتا ہے اور اس سے کم یا زیادہ درجۂ حرارت میں مر جاتا ہے۔‬
‫ڈینگی مادہ مچھر کے کاٹنے سے پیدا ہوتا ہے۔ نر سے مالپ کے مادہ کو انڈے دینے کے‬
‫لیے پروٹین کی ضرورت پڑتی ہے اور وہ یہ پروٹین حاصل کرنے کے لیے انسانی خون‬
‫چوستی ہے جس سے ڈینگی کا انفیکشن پھیلتا ہے۔‬
‫ایڈیِز ایجپٹی مچھر کے انڈوں اور الروے کی پرورش صاف اور ساکت پانی میں ہوتی ہے‬
‫جس کے لیے موافق ماحول عام گھروں کے اندر موجود ہوتا ہے۔‬
‫مچھروں کی یہ قسم ‪ 10‬سے ‪ 40‬ڈگری سینٹی گریڈ درجۂ حرارت میں زندہ رہ سکتی ہے‬

‫تحقیقات | ‪90‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫احتیاطی تدابیر‬
‫پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن کے سابق جنرل سیکریٹری ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا ہے کہ‬
‫ملیریا اور ڈینگی میں فرق اس مرض کا مہلک ہونا ہی ہے جبکہ اس کے لیے ماسوائے‬
‫احتیاطی تدابیر کوئی مخصوص عالج موجود نہیں ہے۔‬
‫طبی ماہرین کے مطابق ڈینگی کے مرض سے بچاؤ کے لیے سب سے اہم چیز یہ ہے کہ‬
‫کسی بھی جگہ پانی جمع نہ ہونے دیا جائے۔ ماہرین کے مطابق عام طور پر لوگوں کی‬
‫توجہ صرف گندے پانی کی جانب جاتی ہے لیکن صاف پانی بھی اس مرض کو پھیالنے کا‬
‫سبب بن سکتا ہے۔‬
‫ڈاکٹر شیر شاہ سید کہتے ہیں کہ مچھر دانیوں اور سپرے کا استعمال الزمی کرنا چاہیے‬
‫کیونکہ ایک مرتبہ یہ مرض ہوجائے تو اس وائرس کو جسم سے ختم ہونے میں دو سے‬
‫تین ہفتوں تک کا وقت لگ سکتا ہے۔‬
‫انھوں نے بتایا کہ بارش کے بعد اگر گھروں کے آس پاس یا الن‪ ،‬صحن وغیرہ میں پانی‬
‫جمع ہو تو اسے فوراً نکال کر وہاں سپرے کرنے سے ڈینگی سے بچاؤ ممکن ہے۔‬
‫ڈاکٹر شیر شاہ سید کا کہنا تھا کہ ’صفائی کو قائم رکھ کر اگر مچھروں کی افزائش کا‬
‫ماحول ہی ختم کر دیا جائے تو اس مرض کا خاتمہ ممکن ہے اور ترقی یافتہ ممالک نے‬
‫اسی طرح اس مرض پر قابو پایا ہے۔‘‬
‫ڈینگی کی تصدیق کیسے ہو؟‬
‫ڈاکٹر ندا ابرار کے مطابق ڈینگی بخار کی تصدیق این ایس ون یا پی سی آر نامی خون کے‬
‫تجزیوں سے ہوتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪91‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ان کا کہنا تھا کہ سرکاری ہسپتال عموما ً این ایس ون ٹیسٹ کرتے ہیں جبکہ پی سی آر‬
‫ٹیسٹ مہنگا ہونے کی وجہ سے عام طور پر نہیں کیا جاتا۔‬
‫ڈینگی بخار کی عالمات‬
‫ڈاکٹر ندا کے مطابق اس مرض کی عالمات میں تیز بخار کے ساتھ جسم خصوصا ً کمر اور‬
‫ٹانگوں میں درد اور شدید سر درد شامل ہیں۔‬
‫اس کے عالوہ مریض کو متلی اور قے کی شکایت ہوتی ہے‪ ،‬جسم پر سرخ نشان پڑ جاتے‬
‫ہیں اور اس کے مسوڑھوں یا ناک سے خون بھی آ سکتا ہے۔‬
‫بخار کے دوران ڈینگی کے مریض پر غنودگی طاری ہو سکتی ہے اور ساتھ ہی اسے‬
‫سانس لینے میں دشواری کا سامنا بھی ہو سکتا ہے۔‬
‫ڈینگی کا وائرس خون کے بہاؤ اور دل کی دھڑکن کو بھی متاثر کرتا ہے اور اس سے‬
‫فشار خون یا بلڈ پریشر اور دل کی دھڑکن بھی متاثر ہو سکتی ہے۔‬
‫ِ‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪RAFI UR REHMAN‬‬


‫اس مچھر کے الروا صاف پانی میں پھلتے پھولتے ہیں‬
‫ڈینگی ہو جائے تو کیا کیا جائے؟‬
‫‪11‬۔ ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ ڈینگی کے مریض کو زیادہ سے زیادہ آرام کرنا چاہیے‬
‫‪2‬۔ مریض کو‪ ‬پانی وافر مقدار میں استعمال کروایا جائے۔ یہ اس لیے اہم ہے کیونکہ اس‬
‫کے نتیجے ہسپتال میں داخل لوگوں کی تعداد میں کمی الئی جا سکتی ہے۔ آپ پانی کے‬
‫عالوہ پھلوں کے جوس‪ ،‬او آر ایس وغیرہ پی سکتے ہیں۔ تاہم کاربونیٹڈ ڈرنکس کے‬
‫استعمال سے اجتناب کرنا چاہیے۔‬

‫تحقیقات | ‪92‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪3‬۔ خون پتلی کرنے والی ادویات‪ ‬ایسپرن‪ ،‬آئبوپروفن اور اینسیڈ کے استعمال سے اجتناب‬
‫کریں۔‬
‫‪4‬۔‪ ‬مریض کو سی بی سی اور ایف بی سی ٹیسٹ دہرانے چاہیں۔ ان کو کتنی مرتبہ دہرانہ‬
‫ہے اس بات کا تعین مریض پہلے خون کے ٹیسٹ کے بعد خون میں سفید خلیوں یعنی وائٹ‬
‫بلڈ سیلز‪ ،‬پلیٹلیٹس اور ہیماٹوکرٹ کی مقدار کیا جاتا ہے۔‬
‫ان ٹیسٹوں کو دہرانے سے آغاز میں سیٹ کیے گئے لیولزکے حساب سے عالج کا تعین کیا‬
‫جاتا۔ اگر مرض پہلے مرحلے میں ہو تو اس مریض کو یہ ٹیسٹ روزانہ کی بنیادوں پر‬
‫دہرانے کا کہا جاتا ہے۔‬
‫ڈینگی سے کیسے بچا جائے‬
‫روم کولر کا استعمال کم کریں اور اس میں کھڑا پانی فوری طور پر خشک کر دیا جائے۔‬
‫آرائشی گملوں‪ ،‬گاڑی کے خراب ٹائر‪ ،‬پارکس یا چھتوں پر کسی بھی برتن وغیرہ میں پانی‬
‫نہ کھڑا ہونے دیا جائے۔‬
‫بارش کا پانی کسی بھی جگہ جمع نہ ہونے دیا جائے جبکہ ایئرکنڈیشنر سے خارج ہونے‬
‫والے پانی کی نکاسی کا مناسب بندوبست کیا جائے‬
‫مچھر مار سپرے کروایا جائے خصوصی طور پر کونوں کھدروں اور فرنیچر کے نیچے‬
‫سپرے الزمی کروایا جائے۔ مچھر دانیوں اور مچھر بھگانے والے لوشن کا استعمال کریں‬

‫‪،‬تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬


‫پانی کے برتن جیسے کہ بالٹی‪ ،‬لوٹا‪ ،‬ٹینکی‪ ،‬گلدان‪ ،‬پرنالوں‪ ،‬نالیوں‪ ،‬پرانے ٹائروں اور‬
‫صاف پانی کے برتنوں کو ڈھانپ کر رکھا جائے یا پانی انڈیل دیا جائے۔‬

‫تحقیقات | ‪93‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ڈینگی کے بارے میں مفروضے اور حقائق‬


‫ڈینگی ایک متعدی مرض ہے؟‬
‫یہ بات صرف مفروضہ ہے کیونکہ ڈینگی مچھروں کے ذریعے ہی پھیلتا ہے یہ کسی فرد‬
‫سے برا ِہ راست نہیں لگ سکتا۔‬
‫تاہم اگر کوئی عام مچھر کسی ڈینگی کے مریض کو کاٹے تو اس میں بھی ڈینگی وائرس‬
‫منتقل ہو جاتا ہے اور یہ مچھر ایک ڈینگی مچھر جتنا ہی موذی ثابت ہو سکتا ہے۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ ڈینگی کے مریضوں کو خاص طور پر مچھر دانیوں میں رکھا جاتا ہے۔‬
‫پلیٹ لٹس میں کمی کا مطلب ڈینگی ہے؟‬
‫یہ بات صرف مفروضہ ہے۔ اس حوالے سے متعدد عارضے ہیں جو اسی قسم کی تصویر‬
‫پیش کرتے ہیں۔‬
‫تاہم کیونکہ ڈینگی ہماری معاشرے میں وبا کی شکل اختیار کر گیا ہے‪ ،‬اس لیے پلیٹ لیٹس‬
‫میں کمی کے حوالے سے ایک حد تک شک کرنا صحیح ہے۔‬
‫‪ .8‬مچھر مار سپرے کروایا جائے خصوصی طور پر کونوں کھدروں اور فرنیچر کے‬
‫نیچے سپرے الزمی کروایا جائے‬
‫ڈاکٹر ندا ڈار بتاتی ہیں کہ پیلٹ لیٹس کی مقدار کم ہونے کے باوجود زیادہ تر مریضوں میں‬
‫اس کی ٹرانسفیوژن یعنی انھیں مصنوعی طور پر پلیٹ لیٹس نہیں دی جاتیں۔‬
‫ٹرانسفیوژن صرف مندرجہ ذیل صورتحال میں دی جاتی ہے‪:‬‬
‫‪ . 1‬جب ان کی تعداد ‪ 10‬ہزار سے کم ہو جائے‬
‫‪. 2‬جب پلیٹ لیٹس کی تعداد ‪ 10‬سے ‪ 20‬ہزار کے درمیان ہو اور جسم کے کسی حصے‬
‫سے خون آنے لگے۔‬

‫تحقیقات | ‪94‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ . 3‬جسم کے کسی بھی حصہ سے بہت زیادہ خون آنے لگے چاہے لیٹلیٹس کی مقدار جتنی‬
‫بھی ہو‬
‫پپیتے کا جوس ڈینگی کا عالج ہے؟‬
‫ڈاکٹر ندا ڈار اس بات کو صرف ایک مفروضہ گردانتی ہیں اور کہتی ہیں کہ پپیتے کے‬
‫جوس سے ڈینگی کا عالج ممکن نہیں ہے۔‬
‫تاہم کیونکہ ڈاکٹروں کی جانب سے ڈینگی کے مریض کو جوس اور پانی زیادہ مقدار میں‬
‫پینے کا کہا جاتا ہے اس لیے یہ مفروضہ ہمیں اس جسم میں پانی کی ایک مخصوص مقدار‬
‫برقرار رکھنے میں مدد کر تا ہے۔‬
‫ڈینگی زندگی میں صرف ایک بار ہوتا ہے؟‬
‫نہیں‪ ،‬یہ غلط ہے۔ ڈینگی وائرس کی چار مختلف اقسام ہیں‬
‫یہ سچ ہے کہ اگر کسی کو ایک قسم کا ڈینگی وائرس حملہ آور ہوا ہے تو اس بات کا امکان‬
‫کم ہو گا کہ آپ دوبارہ اسی قسم کے وائرس کا شکار ہوں‬
‫تاہم ساتھ ہی ڈینگی وائرس کی کسی دوسری اور زیادہ خطرناک قسم کا شکار ہونے کے‬
‫امکانات بھی بڑھ جاتے ہیں۔‬
‫یہ تحریر سنہ ‪ 2019‬میں شائع کی گئی تھی اور اسے قارئین کی معلومات کے لیے دوبارہ‬
‫شائع کیا جا رہا ہے۔‬
‫‪https://www.bbc.com/urdu/science-49945371‬‬

‫آکیسجن کی کمی سے کون سے امراض جنم لیتے ہیں؟‬

‫‪ ‬ڈاکٹر حکیم وقار حسین‪ ‬‬


‫‪ ‬جمعرات‪ 7  ‬اکتوبر‪2021  ‬‬

‫بند کمر ے میں دماغی مشقت کرنے والے کم محنت کے ساتھ زیادہ تھکن کا شکار ہوجاتے‬
‫ہیں ۔‬
‫ہوائے نسیم ( ٓاکسیجن) کی کمی مختلف امراض کا سبب بنتی ہے۔ امراض کا اظہار عالمات‬
‫سے ہوتا ہے۔‬
‫اعراض کبھی اس قدر سادہ ہوتے ہیں مثالً حلق کی خرابی ‪ ،‬نزلہ زکام وغیرہ کے مرض کا‬
‫پہچاننا ٓاسان ہوتا ہے‪ ،‬گاہے اتنے پیچیدہ ہوتے ہیںکہ معالج کے ذہن میں تین ‪ ،‬چار امراض‬
‫کا خیال ٓاتا ہے۔ ان کے درمیان فرق کر کے اصل مرض تک پہنچنا ’ فرق االمراض‘‬
‫کہالتاہے۔ مثالً وائرس اور پھپھوندی کہ دونوں کی موجودگی کمزوری ‪ ،‬خراش‪ ،‬جسم پر‬
‫دورحاضر میں امراض کا سبب معلوم کرنے کیلئے‬ ‫داغ دھبے وغیرہ کا سبب بنتے ہیں۔ ِ‬
‫’سوائ استحالہ‘ میٹابولک خرابی کا سبب‬
‫ِ‬ ‫مختلف لیب ٹیسٹ کا طریقہ تو معلوم ہو گیا مگر‬
‫معلوم کرنا اب بھی ٓاسان نہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪95‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫مر‬
‫ض ٓاکسی ڈیٹو اسٹریس‪ ،‬جس کی عالمت ذیابیطس ہے‪ ،‬اس کی کئی وجوہات ہیں‬
‫مثالًورزش نہ کرنا‪ ،‬اس بنا پر جسم میں ہوائے نسیم کی ضروری مقدار اعضاء تک نہیں‬
‫پہنچتی لہذا وہ اپنا فعل درست طورپر انجام نہیں دے پاتے اور خون سے شکر کی مقدار‬
‫جذب نہیں ہوتی ‪ ،‬یوں شکر خون ہی میں رہتی ہے اور ناپنے میں زیادہ ٓاتی ہے۔‬

‫اکثر جگہ دیکھا جاتا ہے کہ دروازے کھڑکیاںگرمی یا کسی اور وجہ سے بند رکھی جاتی‬
‫ہیں‪ ،‬اس کے نتیجے میں خون میں ٓاکسیجن ( ہوائے نسیم ) کی مقدار کم ہوجاتی ہے‪ ،‬اگر‬
‫ایسی جگہ رہنے والے حضرات چہل قدمی کا انتظام نہ کریں تو کسی بھی مرض میں مبتال‬
‫امراض سر ‪ ،‬معدے‬
‫ِ‬ ‫ہوجاتے ہیں‪ ،‬جیسے دمہ ‪ ،‬دل کے امراض ‪ ،‬شوگر ‪ ،‬ہائی بلڈ پریشر ‪،‬‬
‫کے امراض وغیرہ کیونکہ ایک جانب چلنے پھرنے سے اجتناب تو دوسری طرف ٓاکسیجن‬
‫ت طب میں ورزش چلنے پھرنے سے‬ ‫ویسے بھی رہنے کی جگہ پر کم ہوجاتی ہے۔کلیا ِ‬
‫جہاں دوران خون میں معاونت ملتی ہے وہاں خلیات کو ٓاکسیجن پہنچانے ‪ ،‬ہاضمے اور‬
‫ت مدافعت بڑھانے میں بھی بہت مدد ملتی ہے۔‬
‫قو ِ‬
‫کم ٓاکسیجن والے کمرے میں رہنےوالے کو شوگر کیوں ہوتی ہے؟‬
‫پاکستان میں ‪ 11.77‬فیصد مرد حضرات شوگر کا شکار ہیںان میں ‪ 7‬فیصد وہ ہیں جو دفاتر‬
‫میں کام کرتے ہیںاور ‪ 4‬فی صد وہ ہیں جو ورزش نہیں کرتے بلکہ تلی ہوئی غذا ء کا زیادہ‬
‫استعمال کرتے ہیں۔ دفاتر یا گھر میں بیٹھے ہوئے انسان ٓاکسیجن کی بہت قلیل مقدار حاصل‬
‫کرتا ہے اور اگرروشن دان یا کھڑکی نہ ہو یا بند ہو تو صرف ٓاکسیجن کی مقدار کم جذب‬

‫تحقیقات | ‪96‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہوتی ہے بلکہ اور حضرات کی سانس سے خارج ہونے والی دخانی ہوا (کاربن ڈائی‬
‫ٓاکسائیڈ) بھی سب ایک دوسرے کی جذب کر رہے ہوتے ہیں۔‬
‫ثابت ہو چکا ہے کہ ٓاکسیجن کی کمی اعضاء کو پورا فعل انجام نہیں دینے دیتی اور‬
‫استحالہ (میٹابولزم) کی خرابی زیادہ نمودار ہوتی ہے‪ ،‬اور جب انسان بند کمر ے میں‬
‫دماغی مشقت کا کام کرتا ہے تو تھکتا بھی زیادہ ہے اور کم محنت کرنے کے باوجود سر‬
‫درد یا بھاری پن کا شکار ہو جاتا ہے۔‬
‫اس عادت کا تجربہ اس طرح کیا جا سکتا ہے کہ ایک بند روشن دان والے کمرے میں کام‬
‫میں مشغول رہیں اور دوسرے ہفتے باہر کھلی فضاء میں وہی کام کریں۔ اس ہفتے تھکاوٹ‬
‫کم ‪ ،‬کام زیادہ اور سر کا بھاری پن ‪ ،‬سر درد وغیرہ نہیں ہو گا ۔ جب دماغ پر کسی قسم کا‬
‫اسٹریس ٓاتا ہے تو ایک محرکہ ( ہارمون) کا افرازہوتا ہے جسے کارٹیسول کہتے ہیں۔ یہ‬
‫کام کرنے کے لیے توانائی بڑھاتا ہے۔ ساتھ ہی خون میں شکر کے انجذاب کو کم کرتا ہے‬
‫تاکہ زیادہ شکر پیدا ہو اور شکر توانائی پیدا کرتی ہے اس شکر کو گلوکوز بھی کہتے ہیں‪،‬‬
‫نتیجتا ً خون میں شکر کی وافر مقدار رہتی ہے۔ ٓالہ سے تصدیق کرنے پر معمول سے زیادہ‬
‫شوگر پائی جاتی ہے۔‬
‫شوگر کی وجوہات میں فرق کیسے کریں؟‬
‫شوگر کی بہت ساری وجوہات ہیں‪ ،‬عام طور پر لبلبہ کے بیٹا خلیات کی پَسر ہمتی وجہ بن‬
‫کر سامنے ٓاتی ہے مگر جو ادویہ بیٹا خلیات کو چست کرتی ہیں ‪ ،‬ان کے استعمال سے‬
‫پہلے ’سی۔پیپ‘ خون میں ٹیسٹ کرالینا چاہیے۔‬
‫(‪ )1‬اگر یہ ٹیسٹ درست ہے تو انسولین رزسٹینٹ کی طرف دھیان دینا چاہیے۔‬
‫(‪ )2‬معدے کی خرابی اگر شوگر کی وجہ ہے تو بھوک کی کمی‪ ،‬خوراک دیکھ کر متلی‬
‫محسوس ہوتی ہے۔‬
‫(‪ )3‬اگر ورزش کی کمی شوگر کی وجہ ہے تو پیٹ پھوال ہوا دکھے گا ۔‬
‫(‪ )4‬اگر لبلبہ کے بیٹا خلیات کی وجہ سے شوگر ہے تو گنجا پن‪ ،‬ہاتھ پاؤں میں سوئیاں‬
‫(نمب نیس) ‪ ،‬لبلبہ کے مقام پر کبھی کبھی چبھتا ہوا دردمحسوس ہوگا۔‬
‫(‪ )5‬اگر دماغی مشقت شوگر کی وجہ بنی ہو تو ٓانکھوں پر تھکاوٹ‪ ،‬جسمانی الغری عیاں‬
‫ہوگی۔‬
‫(‪ )6‬خون کی کمی سے بھی شوگر کی مقدار زیادہ ٓاتی ہے‪ ،‬اس صورت میں خون گاڑھا‬
‫نکلتا ہے‪ ،‬اگر سوئی سے تھوڑا خون نکاال جائے تو معلوم ہوجاتا ہے۔‬
‫بند کمرے میں بیٹھنے‪ x‬والے اشخاص امراض سے کیسے بچیں؟‬
‫( ‪ ) 1‬ایک گھنٹہ کام کریں اور ٓادھا گھنٹہ تازہ ہوامیں گہرا سانس لیں۔‬
‫( ‪ ) 2‬دفتر سے فارغ ہو کر دھیان بٹائیںتاکہ کارٹیسول کا افراز کم ہو۔‬
‫( ‪ ) 3‬سبزیوں کا استعمال کم کریںتاکہ جسم میں پانی کی مقدار رہے۔ یاد رہے کہ پانی جب‬
‫مستحیل (اجزاء میں ٹوٹتا ہے) تو ٓاکسیجن اور ہائیڈروجن پیدا ہوتی ہے‪ٓ ،‬اکسیجن جسم میں‬
‫جدب ہوتی ہے اور ہائیڈروجن ریح کے ذریعے یا ڈکاروں سے خارج ہوجاتی ہے۔‬
‫( ‪ ) 4‬چھے سے ٓاٹھ گھنٹے بغیر مداخلت کے نیند لیں۔‬
‫تحقیقات | ‪97‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫(‪ )5‬عود یا صندل کی خوشبو سونگھیں کہ یہ دماغ کو تازہ کرتی ہیں۔‬
‫گل سرخ کا روغن ماتھے پر ملیں ‪ ،‬یہ نیند بھی‬ ‫( ‪ ) 6‬اگر نزلہ یا زکام کا خوف نہ ہو تو ِ‬
‫بہتر کرتا ہے اور ناک کے خلیات کو تراوٹ بخشتا ہے۔‬
‫( ‪ ) 7‬پیٹ بھر کر کوئی خوراک استعمال نہ کریں‪ ،‬کیونکہ جب چلنا پھرنا کم ہو تو معدے‬
‫کا فعل‪ 45‬فیصد ہوتا ہے‪ ،‬یوں بول ریح اور دیگر غیر موزوں کیفیات جنم لیتی ہیں۔‬
‫( ‪ ) 8‬وٹامن ڈی حاصل کریں‪ ،‬ویسے سورج کی روشنی اس وٹامن کا بہترین سرچشمہ ہے‪،‬‬
‫ورنہ کیپسول کا استعمال ہفتہ میں ایک بار کریں (خوراک ‪)200,000i.u‬۔‬
‫بند کمرے میں کام کرنے والوں کے لئے ایک نسخہ‬
‫ایسے حضرات جنہیںبندکمرے وغیرہ میں زیادہ کام کرنا ہوتا ہے‪ ،‬انہیں ایسی بوٹیاں‬
‫استعمال کرنی چاہئیںجو دماغ کے خلیات کو تازہ دم رکھیں مثالً اسگندھ‪ ،‬اسطوخودوس ‪،‬‬
‫مقدار‬
‫ِ‬ ‫میتھی دانہ ‪ ،‬االئچی خورد کا سفوف رات سونے سے پہلے ہمراہ ٓاب نیم گرم کھائیں۔‬
‫خوراک کا تعین عمر‪ ،‬وزن کے اعتبار سے کریں۔‬

‫‪https://www.express.pk/story/2233140/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪98‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪۴ | ۱۴۵‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔۔ ‪ ۱۰‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬

You might also like