Professional Documents
Culture Documents
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 42) 18 October - 24 October 2021 - Issue 147 - Vol 5
Tibbi Tehqeeqat (Weekly 42) 18 October - 24 October 2021 - Issue 147 - Vol 5
ہفتہ 5
www.alqalam786.blogspot.com
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تفصیل
کیا ٓاپ بھی کانٹیکٹ لینسز استعمال کرتے ہیں؟ ان باتوں کا خیال رکھیں
ویب ڈیسک
اکتوبر 18 2021
ٓاپ کو چشمے سے چھٹکارہ دالنے والے کانٹیکٹ لینسز لگانے اور اتارنے کےلیے کن
باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔
کانٹیکٹ لینس کا استعمال ماضی میں صرف وہ افراد استعمال کرتے تھے جن کی بینائی
کمزور ہو لیکن اب کانٹیکٹ کا استعمال عام ہوچکا ہے ،کیا ٓاپ بھی کانٹیکٹ لینسز استعمال
کرتے ہیں؟ماہرین کہتے ہیں کہ ہمیشہ وہ لینسز استعمال کیے جائیں جو معیاری کمپنی کے
ہوں اور لینسز لگانے کے دوران ٓانکھوں میں کسی قسم کی دوا نہ ڈالیں۔
اگر ٓانکھیں سُرخی مائل ہوں یا ان سے رطوبت یا پانی خارج ہورہا ہو تو لینسز لگانے
سےگریز کریں اور کانٹیکٹ لینسز لگاتے اور اتارتے وقت ہاتھوں کو اچھی طرح دھولیں
اور سوتے وقت لینس پہن کر نہ سوئیں۔
کانٹیکٹ لینسز کو مخصوص سلوشن میں رکھیں اور اس سلوشن کو ہر تین دن بعد تبدیل
کریں۔اگر ایسا ہوتا ہے کہ کانٹیکٹ لینسز لگانے کے بعد ٓانکھوں میں چبھن ہوتی ہے ،اگر
ایسا ہو تو فوری طور پر لینسز اتار دیں کیوں کہ انفیکشن کی شکایت ہوسکتی ہے
https://urdu.arynews.tv/do-you-also-use-contact-lenses-take-care-of-
these-things/
تحقیقات | 3 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
سرد موسم میں گرتے بالوں کا مؤثر عالج
ویب ڈیسک
اکتوبر 18 2021
موسم سرما کی ٓامد ٓامد ہے ایسے موسم مرد و خواتین کو اکثر بال گرنے ،روکھے ہونے
اور بالوں میں خشکی کی شکایات درپیش ہوتی ہے جس سے وہ چھٹکارا پانے کے لیے
ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔
ہم اپنے قارئین کو سرد و خشک موسم میں بال گرنے سے روکنے اور روکھے بالوں کو
سیدھا کرنے کا طریقہ بتائے گا۔
رپورٹ کے مطابق سردیوں میں لوگوں کی اکثر تعداد نہانے کے لیے گرم پانی کا استعمال
کرتی ہے اور اس وجہ سے بھی بالوں میں خشکی بڑھ جاتی ہے۔
ہیئر ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ سردی میں خنکی زیادہ ہوتی ہے ،ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ
کھانا پینا اور موسم کی کن چیزوں کی وجہ سے بالوں میں خشکی پیدا ہوتی ہے اور گرنے
اور کس وجہ سے بالوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
ایکسپرٹس کا کہنا تھا کہ وٹامن ای کا استعمال بالوں کی چمک کو بڑھاتا ہے اس کے عالوہ
بالوں کی نیرشمنٹ (تیل لگانا) ضروری ہے ،تیل سے بالوں کو بھرنا نہیں ہے اور تیل کو
لگاکر سونا بھی نہیں ہے 30سے 35منٹ میں بالوں کو دھو لیں۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کلونجی کے دانے انسانی صحت کے لیے بے حد مفید ہیں ،ان کی
افادیت نا صرف طب بلکہ سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت شدہ ہے ،کلونجی کا تیل بالوں
کی جڑوں کو مضبوطی اور نمی فراہم کرتا ہے ،کلونجی کے نیم گرم تیل سے اگر بالوں
کی جڑوں میں مساج کیا جائے تو بال مضبوط ،لمبے گھنے اور مالئم ہو جاتے ہیں۔
تحقیقات | 4 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کلونجی کے تیل میں چند اجزا کا اضافہ کر لیا جائے تو یہ
جھڑتے بالوں کا بہترین عالج ثابت ہوتا ہے۔
:کلونجی کے تیل کو فارموال تیل بنانے کا طریقہ
کلونجی کے تیل میں کلونجی کے ہم وزن سرسوں اور زیتون کا تیل شامل کریں اور پھر
ٓادھی مقدار میں بادام اور ناریل کا تیل بھی ماللیں۔
تمام اجزا سے حاصل کردہ تیل اچھی طرح مکس کرنے کے بعد دو سے تین چمچ کلونجی
شامل کرکے کانچ کی بوتل میں ڈال لیں اور روزانہ تیز دھوپ کی تپش میں رکھیں اور شام
ہوتے ہی چھاؤں میں منتقل کردیں۔
یہ عمل ایک ہفتے تک دوہرانا ہے ،اس کے بعد تیل کو ہفتے میں کم از کم دو مرتبہ
استعمال کریں اور حیران کن نتائج پائیں۔
https://urdu.arynews.tv/effective-treatment-of-hair-loss-in-cold-weather/
نمک ہمارے کھانے کا الزمی جزو ہے لیکن ماہرین کے مطابق نمک کو معتدل مقدار میں
استعمال کرنا ضروری ہے ،اس کا زیادہ استعمال بہت سے نقصانات کا سبب بن سکتا ہے۔
طبی ماہرین کی ہدایات کے مطابق دن بھر میں 2300ملی گرام (ایک کھانے کا چمچ)
نمک ہی استعمال کرنا چاہیئے ،تاہم بیشتر افراد زیادہ مقدار میں نمک جزو بدن بناتے ہیں
اور اس کے نتیجے میں فشار خون سمیت سنگین طبی مسائل وقت کے ساتھ ابھرنے لگتے
ہیں۔
معتدل مقدار میں نمک کا استعمال مسلز کو سکون پہنچانے اور لچک برقرار رکھنے میں
مدد فراہم کرتا ہے جبکہ منرلز اور پانی کے درمیان توازن بھی قائم کرتا ہے۔
تحقیقات | 5 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
اس کے برعکس Œغذا میں زیادہ نمک کا استعمال جسم کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔
اگر آپ روز مرہ کی بنیاد پر زیادہ مقدار میں نمک استعمال کرتے ہیں تو آپ کو درج ذیل
مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔
پیٹ پھولنا
پیٹ پھولنا اور گیس بہت زیادہ نمک کے استعمال کا سب سے عام مختصر المدت اثر ہے،
نمک جسم میں پانی کے اجتماع میں مدد فراہم کرتا ہے تو زیادہ نمک کے نتیجے میں زیادہ
سیال جمع ہونے لگتا ہے ،سینڈوچ ،پیزا یا دیگر نمکین غذاؤں میں نمک بہت زیادہ ہوتا ہے۔
بلڈ پریشر بڑھنا
ویسے تو ہائی بلڈ پریشر کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں مگر ان میں ایک نمایاں وجہ بہت
زیادہ نمک کا استعمال ہے ،بلڈ پریشر کی سطح میں تبدیلی گردوں پر بھی اثرات مرتب
کرتی ہے ،بہت زیادہ نمک کے استعمال سے اضافی سیال کا اخراج بہت مشکل ہوجاتا ہے،
جس کے نتیجے میں بھی بلڈ پریشر بڑھتا ہے۔
سوجن ہونا
جسم کے مختلف حصوں کا سوج جانا بھی بہت زیادہ نمک کے استعمال کی ایک عالمت
ہوسکتی ہے۔ چہرے ،ہاتھوں ،پیروں اور ٹخنوں کے سوجنے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے،
اگر آپ کو معمول سے زیادہ سوجن کا سامنا ہو تو غور کریں کہ غذا میں زیادہ نمک تو
استعمال نہیں کر رہے۔
پیاس میں اضافہ
اگر آپ کو بہت زیادہ پیاس لگ رہی ہے تو یہ بھی نشانی ہے کہ آپ نے بہت زیادہ نمک
جزو بدن بنایا ہے۔ زیادہ نمک کے استعمال سے ڈی ہائیڈریشن کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ
جسم خلیات سے پانی کو کھینچ لیتا ہے اور بہت زیادہ پیاس لگنے لگتی ہے۔
پانی پینے سے نمک کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے اور خلیات تازہ دم ہوجاتے ہیں۔
وزن میں اضافہ
جب جسم میں پانی جمع ہوتا ہے تو جسمانی وزن بڑھنے کا امکان بھی ہوتا ہے ،اگر چند
دن یا ایک ہفتے میں اچانک کئی کلو وزن بڑھ گیا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ بہت زیادہ
نمک کا استعمال بھی ہوسکتا ہے۔
بے سکون نیند
سونے سے پہلے غذا کے ذریعے نمک کا زیادہ استعمال بے خوابی کا باعث بھی بن سکتا
ہے۔ اس کی مختلف عالمات ہوتی ہیں جیسے بے آرام نیند ،رات کو اکثر جاگ جانا یا صبح
جاگنے پر تھکاوٹ کا احساس ہونا وغیرہ۔
کمزوری محسوس ہونا
جب خون میں نمک کی مقدار بہت زیادہ ہو تو خلیات سے پانی کا اخراج ہوتا ہے اس کا
نتیجہ معمول سے زیادہ کمزوری محسوس ہونے کی شکل میں نکلتا ہے
https://urdu.arynews.tv/dangers-of-excessive-salt/
ویب ڈیسک
حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے تحفظ
فراہم کرنے والی ویکسینز uسے اس سے ملتے جلتے وائرسز uسے بھی تحفظ ملتا ہے۔
نارتھ ویسٹرن میڈیسن کی تحقیق کے نتائج سے عالمی کرونا وائرس ویکسینز تیار کرنے
میں مدد مل سکے گی جو مستقبل میں وبائی امراض کی روک تھام کرسکیں گی۔
ماہرین نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے قبل یہ واضح نہیں تھا کہ کسی ایک کرونا وائرس
سے متاثر ہونا دیگر کرونا وائرسز سے تحفظ فراہم کرتا ہے یا نہیں ،تحقیق سے ثابت ہوتا
ہے کہ ایسا ممکن ہے۔
کرونا وائرسز کی 3بنیادی اقسام انسانوں میں امراض کا باعث بنتی ہیں جن میں سارس
کوو ،1سارس کوو ( 2کووڈ کا باعث بننے والی قسم) اور تیسری مرس ہے ،مگر اس سے
ہٹ کر عام نزلہ زکام کا باعث بننے والی اقسام بھی ہیں۔
تحقیق میں کووڈ 19ویکسینز کا استعمال کرنے والے افراد کے پالزما پر جانچ پڑتال کی
گئی۔ ماہرین نے دریافت کیا کہ ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز سے سارس کوو 1اور
عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرس سے بھی تحفظ ملتا ہے۔
تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ماضی میں کرونا وائرسز سے ہونے والی بیماری سے
بھی دیگر اقسام سے ہونے والے انفیکشنز سے تحفظ مل سکتا ہے۔
ریاستی کونسل کی انٹرایجنسی ٹاسک فورس کے مطابق ترجیحی گروپس میں طبی اہل
کاروں ،بڑی تقاریب کے شرکا ،نرسنگ ہومز اور فالحی مراکز میں موجود مستحق افراد
ویب ڈیسک
محققین نے ایک تحقیق کے بعد خبردار کیا ہے کہ پروسیس شدہ غذائیں یادداشت متاثر
کرکے دماغ کو قبل از وقت بوڑھا کردیتی ہیں۔
تحقیق کاروں نے پراسیس شدہ غذاؤں کا تجربہ چوہوں پر کیا ،جس کے نتائج نے سائنس
دانوں کو بھی حیران کردیا۔
تحقیقات | 9 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق تحقیق سے پتہ چال کہ چوہوں کی یادداشت کمزور
ہوئی ،سائنس دانوں نے کہا کہ پروسیس شدہ غذائیں فوری طور پر اعصابی تناؤ اور زوال
کا ٓاغاز ہوسکتا ہے۔
لیکن جب اس میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ مالیا گیا تو پروسیس شدہ غذا کے منفی اثرات
میں کمی واقع ہوئی۔
پراسیس غذاؤں کی اصطالح ایسی چیزوں کیلئے استعمال ہوتی ہے جنہیں طویل عرصے
استعمال کرنے کے لیے خاص پیکنگ میں رکھا جاتا ہے ،جیسا کہ منجمند کباب ،پیزا،
سموسےٓ ،الو کے چپس ،ڈبل روٹی ،فاسٹ فوڈز ،مٹھائیاں ،ٹافیاں ،کیک ،نمکین اشیا اور
بریک فاسٹ سیریلز ،چکن اور فش نگٹس ،انسٹنٹ نوڈلز ،میٹھے مشروبات اور سوڈا
وغیرہ۔
واضح رہے کہ اقوام متحدہ دو سال قبل پراسیس شدہ سرخ گوشت پر پابندی عائد کرنے کی
سفارش بھی کرچکی ہے۔
میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ماہرین کی جانب سے پراسیس شدہ غذاؤں کو ماضی میں
ذیابیطس ،اور موٹاپے کی وجہ بھی قرار دیا گیا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/processed-food-declared-brain-dangerous-
researchers-warn/
ویب ڈیسک
رگوں میں خون جمنے کی 6خاموش عالمات ہیں جنہیں جان کر ٓاپ بڑے نقصان سے بچ
سکتے ہیں کئی بار رگوں میں خون کا جمنا اچھا ہوتا ہے خاص طور پر جب آپ زخمی ہو
اور خون کا بہاﺅ روکنا چاہتے ہوں۔
دوسری جانب اکثر اوقات رگوں میں خون کا جمنا یا بلڈ کالٹ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا
ہے خاص طور پر اگر وہ مسلز کے قریب شریانوں میں ہو۔
خون کا جمنا ہارٹ اٹیک اور فالج سمیت متعدد دیگر امراض کا باعث بنتا ہے جبکہ
پھیپھڑوں اور دیگر جسمانی اعضا کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
خربوزہ موسم گرما کا پھل ہے ،جس میں پانی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے ،اس کے بہت
سے فوائد ہیں خاص طور پر انسانوں کے لئے ،اس میں مختلف قسم کی بیماریوں کو ختم
کرنے کی صالحیت بھی ہے۔
اس میں مختلف قسموں کے 95فیصد کے قریب وٹامنز ہوتے ہیں ،اس میں بہت زیادہ تعداد
میں منرلز بھی ہوتے ہیں۔اس میں کیونکہ پانی بہت زیادہ مقدار میں شامل ہوتا ہے جو کہ
ہاضمہ کے لئے بہت بہتر ہوتا ہے ،اس سے ہاضمہ بالکل ٹھیک رہتا ہے ،یہ معدہ میں
موجود تیزابیت کو ختم کر دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں منرلز بہت زیادہ ہوتے
ہیں۔
یہ ہیلمٹ دماغی خلیوں تک برا ِہ راست توانائی پہنچا کر ان کی کارکردگی اور کیفیت بہتر
بناتا ہے۔ (تصاویر :ڈرہام یونیورسٹی)
ڈرہام :برطانوی کمپنی میکیولیوم لمیٹڈ نے ایک ایسا ہیلمٹ تیار کرلیا ہے جو انفرا ریڈ
لہروں کے ذریعے نہ صرف دماغ کو مضبوط بناتا ہے بلکہ مختلف دماغی بیماریوں کے
عالج میں مدد بھی کرسکتا ہے۔
اس ہیلمٹ میں انفرا ریڈ ایل ای ڈیز کی کئی قطاروں کے ساتھ 14عدد پنکھے بھی نصب
ہیں جو ہیلمٹ کے عالوہ اسے پہننے والے کے سر کو بھی ٹھنڈا رکھتے ہیں۔
یہ ایل ای ڈیز 1,060نینومیٹر سے 1,068نینومیٹر کی انفرا ریڈ شعاعیں خارج ہوتی ہیں
جو دماغ کے اندرونی حصے تک ہر چھ منٹ میں 1,368جول توانائی (حرارت کی شکل
میں) پہنچاتی ہیں۔
اس ہیلمٹ کی تعارفی قیمت 7,250پونڈ (تقریبا ً 17الکھ 20ہزار پاکستانی روپے) رکھی
گئی ہے۔
ڈرہام یونیورسٹی ،برطانیہ میں اس ہیلمٹ کی پائلٹ اسٹڈی 27رضاکاروں پر کامیابی سے
مکمل ہوچکی ہے جس کی تفصیالت ریسرچ جرنل ’’فوٹو بایو ماڈیولیشن ،فوٹو میڈیسن،
اینڈ لیزر سرجری‘‘ کے تازہ شمارے میں ٓان الئن شائع ہوئی ہیں۔
تحقیقات | 14 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
بتاتے چلیں کہ اس طرح کے دماغی عالج کو ’’ٹرانس کرینیئل فوٹو بایو ماڈیولیشن
تھراپی‘‘ (بی بی ایم – ٹی) کہا جاتا ہے جس میں ایک خاص ہیلمٹ سے نکلنے والی انفرا
ریڈ شعاعوں کو مریض کے دماغ میں اندرونی حصوں تک پہنچایا جاتا ہے۔
یہ انفرا ریڈ لہریں دماغی خلیوں میں توانائی کی پیداوار کے ذمہ دار حصوں یعنی
’’مائٹوکونڈریا‘‘ تک پہنچ کر اپنی توانائی ان میں منتقل کردیتی ہیں۔
اس سے مائٹوکونڈریا کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ دماغ میں توانائی کی کیفیت بھی بہتر
ہوتی ہے جس کے نتیجے میں دماغی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔
پائلٹ اسٹڈی کے دوران 14رضاکاروں کو ٓاٹھ ہفتوں تک روزانہ دو مرتبہ چھ چھ منٹ
کےلیے اصلی انفرا ریڈ ہیلمٹ استعمال کروایا گیا جبکہ 13رضاکاروں نے اصل ہیلمٹ
جیسا مصنوعی لیکن بے ضرر ہیلمٹ بالکل اسی طرح استعمال کیا۔
مطالعے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ اصل ہیلمٹ استعمال کرنے والے رضاکاروں میں
حرکت ،یادداشت اور بول چال سے متعلق صالحیتیں پہلے کے مقابلے میں نمایاں طور پر
بہتر ہوئی تھیں جبکہ اصلی جیسے نقلی ہیلمٹ استعمال کرنے والوں پر کچھ خاص فرق
نہیں پڑا۔
مطالعے میں شریک کسی بھی رضاکار نے عالج کے دوران منفی یا مضر اثرات کی
شکایت نہیں کی۔
اس انفرا ریڈ ہیلمٹ پر ایک اور تحقیق پچھلے سال امریکا میں کی گئی تھی جس میں 39
ایسے رضاکار شریک ہوئے تھے جن میں یادداشت اور اکتساب کے مسائل ابتدائی مرحلے
پر تھے ،یعنی ان افراد میں ڈیمنشیا کا ٓاغاز ہوچکا تھا۔
اس تحقیق کے بارے میں جوالئی 2021کے ’’ایجنگ اینڈ ڈزیز‘‘ میں شائع شدہ رپورٹ
سے پتا چلتا ہے کہ تمام مریضوں کو انفرا ریڈ ہیلمٹ کے استعمال سے افاقہ ضرور ہوا
لیکن استعمال بند کرنے کے بعد ان میں ڈیمنشیا کی کیفیات دوبارہ نمودار ہونے لگیں۔
انفرا ریڈ ہیلمٹ کی ٹیکنالوجی کے موجد ،ڈاکٹر گورڈن ڈوگل کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی
انفرا ریڈ سے دماغ کو پہنچنے والے فوائد سے متعلق بہت کچھ جاننا باقی ہے لیکن اب تک
اس کے جتنے فوائد اور مثبت پہلو سامنے ٓاچکے ہیں ،انہیں دیکھتے ہوئے اس کا استعمال
شروع کرنے میں کوئی قباحت نہیں
https://www.express.pk/story/2237572/9812/
ویب ڈیسک
پير 18 اکتوبر 2021
ویب ڈیسک
منگل 19 اکتوبر 2021
ماہرین کے مطابق اگر بچے کی پلیٹ سے روایتی کھانے کی نصف مقدار کم کردی جائے
اور اس میں پھل اورسبزیاں رکھ دی جائیں تو اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔
پینسلوانیا :امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ اگر بچے پھل اور سبزیوں سے بھاگتے ہیں تو
اس کے لیے ایک نسخہ ٓازمائیں جس میں بچوں کی پلیٹ میں روایتی کھانا نصف کردیں
اور ٓادھی جگہ پر سبزیاں اور پھل رکھ دیں۔ اس تدبیر سے بچے پھل اور سبزیوں کی
جانب راغب ہوسکتےہیں۔
اگرچہ بچوں کی ہر غذا میں پھل اور سبزیوں کی تجویز امریکی غذائی ہدایات میں
عرصے سے شامل ہے لیکن بچے اس جانب راغب نہیں ہوتے۔ اب ماہرین مشورہ دے
رہے ہیں کہ اگر بچے کی پلیٹ میں گوشت ،چاول ،برگر یا پنیر ہے تو اس کی نصف مقدار
ہٹادیں اور اس کی جگہ پھل اور سبزیاں رکھ دیں۔
دوسرے طریقے میں کھانے کی مقدار تو اتنی ہی رکھی گئ لیکن جب ساتھ میں پھل اور
سبزیاں رکھی گئیں تو اس کے بھی فوائد برٓامد ہوئے۔
کھانے کی پوری مقدار کے ساتھ ساتھ پھل اور سبزیاں رکھنے سے بچے 24فیصد زائد
سبزیاں اور 33فیصد زائد پھل کھانے لگے ۔ لیکن جب روایتی کھانے کی مقدار کم
کرکےپھل اور سبزیوں کو ان کی جگہ رکھا گیا تو اس کے سب سےاچھے نتائج برٓامد
ہوئے یعنی سبزیوں کا استعمال 41اور پھلوں کا استعمال 38فیصد بڑھا۔
یہ تحقیق پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں ہیومن انجیسٹو بیہیویئر کی ماہر باربرا رولس نے
کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ تحقیق کے نتائج بہت حوصلہ افزا ہے۔ نئی تدبیر میں نصف پلیٹ
تحقیقات | 18 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کو پھلوں اور سبزیوں سے بھرنے میں اول تو کھانا ضائع نہیں ہوتا اور بچے صحت بخش
غذا کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ناکامی ہوتی ہے تو پھلوں اور سبزیوں کو بدل کر
دیکھیں اس سے مزید فائدہ ہوسکتا ہے۔
پوری دنیا کی طرح خود پاکستانی بچے بھی پھل اور سبزیوں سے کتراتے ہیں اور اب
والدین اس طریقے پر عمل کرکے اپنے بچوں کی غذا مزید صحتمند بناسکتے ہیں۔
https://www.express.pk/story/2237401/9812/
کورونا وائرس ویکسین uکے حیران کن اور مفید جسمانی فوائد سامنے
ٓاگئی ۔۔۔اب ہر کوئی بغیر کسی ڈر کے ویکسین لگوائیں!
07:14 pm 18/10/2021
اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک )حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ
کرونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی ویکسینز سے اس سے ملتے جلتے وائرسز سے
بھی تحفظ ملتا ہے۔نارتھ ویسٹرن میڈیسن کی تحقیق کے نتائج سے عالمی کرونا وائرس
ویکسینز تیار کرنے میں مدد مل سکے گی جو مستقبل میں وبائی امراض کی روک تھام
کرسکیں گی۔ماہرین نے بتایا کہ ہماری تحقیق
سے قبل یہ واضح نہیں تھا کہ کسی ایک کرونا وائرس سے متاثر ہونا دیگر کرونا وائرسز
سے تحفظ فراہم کرتا ہے یا نہیں ،تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔کرونا وائرسز
کی 3بنیادی اقسام انسانوں میں امراض کا باعث بنتی ہیں جن میں سارس کوو ،1سارس
کوو ( 2کووڈ کا باعث بننے والی قسم) اور تیسری مرس ہے ،مگر اس سے ہٹ کر عام
نزلہ زکام کا باعث بننے والی اقسام بھی ہیں۔تحقیق میں کووڈ 19ویکسینز کا استعمال
کرنے والے افراد کے پالزما پر جانچ پڑتال کی گئی۔
ماہرین نے دریافت کیا کہ ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز سے سارس کوو 1اور عام
نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرس سے بھی تحفظ ملتا ہے۔تحقیق میں یہ بھی
دریافت کیا گیا کہ ماضی میں کرونا وائرسز سے ہونے والی بیماری سے بھی دیگر اقسام
سے ہونے والے انفیکشنز سے تحفظ مل سکتا ہے۔تحقیق کے دوران چوہوں کو کووڈ 19
ویکسینز استعمال کر کے انہیں عام نزلہ زکام والے کرونا وائرس سے متاثر کیا تو دریافت
ہوا کہ انہیں جزوی تحفظ مال جو زیادہ ٹھوس نہیں تھا۔ماہرین کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس
کی اقسام 70فیصد سے زیادہ حد تک ملتی جلتی ہیں تو اس سے چوہوں کو تحفظ ملنے کی
وضاحت ہوتی ہے ،اگر ان کا سامنا کرونا وائرسز کی بالکل مختلف اقسام سے ہوتا تو
ویکسینز سے زیادہ تحفظ نہیں ملتا۔انہوں نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے یونیورسل کرونا
وائرس ویکسین کے تصور کی دوبارہ جانچ پڑتال میں مدد مل سکے گی۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202110-126376.html
اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک )موسم سرما کی ٓامد ٓامد ہے ایسے موسم مرد و خواتین کو اکثر
بال گرنے ،روکھے ہونے اور بالوں میں خشکی کی شکایات درپیش ہوتی ہے جس سے وہ
چھٹکارا پانے کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ہم اپنے قارئین کو سرد و خشک موسم
میں بال گرنے سے روکنے اور روکھے بالوں کو سیدھا کرنے کا طریقہ بتائے گا۔رپورٹ
کے مطابق سردیوں میں لوگوں کی اکثر تعداد نہانے کے لیے
گرم پانی کا استعمال کرتی ہے اور اس وجہ سے بھی بالوں میں خشکی بڑھ جاتی ہے۔ہیئر
ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ سردی میں خنکی زیادہ ہوتی ہے ،ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کھانا
پینا اور موسم کی کن چیزوں کی وجہ سے بالوں میں خشکی پیدا ہوتی ہے اور گرنے اور
کس وجہ سے بالوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ایکسپرٹس کا کہنا تھا کہ وٹامن ای کا استعمال
بالوں کی چمک کو بڑھاتا ہے اس کے عالوہ بالوں کی نیرشمنٹ (تیل لگانا) ضروری ہے،
تیل سے بالوں کو بھرنا نہیں ہے اور تیل کو لگاکر سونا بھی نہیں ہے 30سے 35منٹ میں
بالوں کو دھو لیں
۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کلونجی کے دانے انسانی صحت کے لیے بے حد مفید ہیں ،ان کی
افادیت نا صرف طب بلکہ سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت شدہ ہے ،کلونجی کا تیل بالوں
کی جڑوں کو مضبوطی اور نمی فراہم کرتا ہے ،کلونجی کے نیم گرم تیل سے اگر بالوں
کی جڑوں میں مساج کیا جائے تو بال مضبوط ،لمبے گھنے اور مالئم ہو جاتے ہیں۔ماہرین
کہتے ہیں کہ اگر کلونجی کے تیل میں چند اجزا کا اضافہ کر لیا جائے تو یہ جھڑتے بالوں
کا بہترین عالج ثابت ہوتا ہے
۔کلونجی کے تیل کو فارموال تیل بنانے کا طریقہ:کلونجی کے تیل میں کلونجی کے ہم وزن
سرسوں اور زیتون کا تیل شامل کریں اور پھر ٓادھی مقدار میں بادام اور ناریل کا تیل بھی
ماللیں۔تمام اجزا سے حاصل کردہ تیل اچھی طرح مکس کرنے کے بعد دو سے تین چمچ
کلونجی شامل کرکے کانچ کی بوتل میں ڈال لیں اور روزانہ تیز دھوپ کی تپش میں رکھیں
اور شام ہوتے ہی چھأوں میں منتقل کردیں۔یہ عمل ایک ہفتے تک دوہرانا ہے ،اس کے بعد
تیل کو ہفتے میں کم از کم دو مرتبہ استعمال کریں اور حیران کن نتائج پائیں۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202110-126374.html
ماہرین کا کہنا ہے کہ ہفتے میں کم از کم ایک بار ُکھل کر رونا دماغی صالحیتوں کو بہتر
بناتا ہے ،ماہرین کی جانب سے ٓانسؤوں سے رونا تجویز کیا گیا ہے کیوں کے اس کے
نتیجے میں ذہنی تنأو سے بھی نجات ملتی ہے۔
جاپان میں کی جانے والی ایک تحقیق کے نتیجے میں یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ بالغ اور نا
بالغ افراد کے لیے ہفتے میں کم از کم ایک بار کھُل کر ٓانسؤوں سے رونا مفید ہے ،اس کے
ب علموں اور سخت ذہنی محنت کرنے والے افراد میں پائے جانے والے نتیجے میں طال ِ
ذہنی اور اعصابی تنأو میں کمی واقع ہوتی ہے۔
ماہرین کی جانب سے ہنسنےٓ ،ارام کرنے اور کافی کا ایک کپ پینے سے بہتر اور زیادہ
مٔوثر رونے کو قرار دیا گیا ہے جبکہ رونے کے دوران ٓانکھوں سے ٓانسوؤں کا بہنا
ضروری ہے۔
محققین و ماہرین برائے ذہنی امراض کا کہنا ہے کہ رونے کے لیے جذباتی فلموں کا سہارا
لیا جا سکتا ہے۔
جاپانی ماہرین کے مطابق رو لینے سے دل ہلکا اور پریشانیوں اور غموں سے لڑنے میں
بھی مدد ملتی ہے
https://jang.com.pk/news/1000455
تحقیقات | 22 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
السی تیل کے صحت پر حیران ُکن فوائد
اکتوبر 18 2021 ،
جس طرح ماہرین کی جانب سے السی کے بیج صحت کے لیے بے حد مفید قرار دیئے
جاتے ہیں اسی طرح السی کے تیل کا استعمال بھی صحت پر بے شمار فوائد کا حامل ہے۔
نیوٹریشنسٹ و غذائی ماہرین کے مطابق السی کے بیج خواتین کی صحت کے لیے نہایت
مفید ہیں ،السی کا تیل و بیج خواتین کے پوشیدہ امراض کے عالج کے ساتھ دل کی صحت،
شفاف ،بے داغ غیر ضروری بالوں سے پاک ِجلد ،ذہانت سمیت مجموعی صحت کے لیے
انتہائی فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔
غذائی ماہرین کے مطابق متعدد بیماریوں کی وجہ نظام ہاضمہ کی خراب کارکردگی اور
قبض ہوتی ہے ،السی کے بیج معدے سے جڑی تمام بیماریوں کے لیے بھی نہایت مفید ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ السی کے بیجوں کا ہمیشہ چبا کر یا سفوف بنا کر نیم گرم پانی یا
دودھ کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے ،اگر یہ طریقہ کار ناگوار گزرے تو اس کے متبادل
میں السی کے تیل کا استعمال نیم گرم دودھ کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے ۔
نیم گرم دودھ میں السی کے تیل کے استعمال سے صحت پر ٓانے والے چند مثبت فوائد
مندرجہ ذیل ہیں جن کی طب سمیت سائنسی رپورٹس uمیں بھی تصدیق uموجود ہے۔
غذائی ماہرین کے مطابق السی کا تیل اینٹی ٓاکسیڈنٹس اجزا سے بھرپور ہونے کے سبب
جسم میں موجود صحت مند یا سوزش زدہ خلیات میں مزید بگاڑ سے محفوظ رکھتا ہے
اور کینسر کی روک تھام میں کردار ادا کرتا ہے۔
بچوں کی صحت :پاکستان سمیت ایشیائی ممالک میں نومولود بچوں کی
مالش جو ان کی زندگی بدل سکتی ہے
۲۰اکتوبر ۲۰۲۱
اکتوبر کی ایک ٹھنڈی شام کو انڈیا کے جنوبی شہر بینگلورو uسے رینو سازینا اپنی
نومولود بیٹی کو ہسپتال سے گھر ال رہی تھیں۔ اس دوران اپنی بیٹی کو تھامے ہوئے
انھیں یہ احساس ہوا کہ وہ کتنی نازک ہے ،اس کی شفاف جلد سے پتلی پتلی رگیں نمایاں
نظر آ رہی ہیں۔
ان کی بیٹی کی والدت پری میچور (قبل از وقت پیدائش) ہو گئی تھی۔ 36ماہ کے حمل پر
ہی پیدا ہونے والی اس بچی کا وزن 2.4کلوگرام تھا۔ رینو سازینا کے خاندان نے اس بات
پر زور دیا کہ وہ ایک قدیم انڈین ٹوٹکا آزمائیں جس کے ذریعے نومولود بچوں کی نشوونما
میں مدد ملتی ہے ،یعنی روزانہ بچی کی مالش کیا کریں۔
تاہم ان کے ڈاکٹر اس بارے میں زیادہ محتاط رویہ اپنائے ہوئے تھے اور انھوں نے رینو
کو تب تک مالش نہ کرنے کا مشورہ دیا جب تک بچی کے وزن میں مزید اضافہ نہ ہو
جائے۔
رینو نے درمیانی راہ نکالی اور ابتدائی دو ہفتے تک مالش نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس
دورانیے میں ان کی بیٹی کے وزن میں انتہائی معمولی اضافہ ہوا۔ ایک ہفتے کے دوران ان
کی بیٹی کے وزن میں صرف 100گرام کا اضافہ ہوا اور اس کی نیند بھی متاثر رہی۔
پھر رینو نے نومولود بچوں کا خیال رکھنے والی ریٹائرڈ نرس کی خدمات حاصل کیں اور
ان سے بچوں کی روایتی مالش کا طریقہ پوچھا اور یوں ان کی بیٹی کی صحت بہتر ہونے
لگی۔ ان کی بیٹی نے نہ صرف سکون سے سونا شروع کر دیا ،بلکہ ان کے وزن میں بھی
اضافہ ہونے لگا۔
رینو اکیلی نہیں ہیں جنھیں اس تجربے کے بعد کامیابی حاصل ہوئی ہو ،اب تحقیق سے
حاصل ہونے والے شواہد بھی خصوصا ً جنوبی ایشیا میں بچوں کی مالش کے حیران کن
فوائد بیان کر رہے ہیں خصوصا ً وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں میں۔
تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ تیل سے کی جانے والی یہ مالش جب درست انداز میں کی
جائے تو اس سے بچے کے وزن میں اضافہ ہوتا ہے ،بچہ بیکٹیریئل انفیکشن سے بھی بچ
جاتا ہے اور بچوں کی ہالکتوں کی شرح بھی 50فیصد تک گر جاتی ہے۔
ویب ڈیسک
اکتوبر 18 2021
مگر اکثر اوقات خون کا جمنا یا کالٹ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے خاص طور پر اگر
وہ مسلز کے قریب شریانوں میں ہو۔
خون کا جمنا ہارٹ اٹیک اور فالج سمیت متعدد دیگر امراض کا باعث بنتا ہے جبکہ
پھیپھڑوں اور دیگر جسمانی اعضا کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔
بلڈ کالٹ کی عالمات
بنیادی طور پر بلڈ کالٹ کی عالمات مختلف ہوسکتی ہیں جس کا انحصار اس پر ہوتا ہے
کہ جسم کے کس حصے میں ایسا ہوتا ہے
مثال کے طور پر ہاتھ یا ٹانگ میں بلڈ کالٹ پر سوجن ،شدید تکلیف ،متاثرہ حصہ زیادہ
گرم ہوجانا۔
اسی طرح دماغ میں بلڈ کالٹ کا نتیجہ فالج کی شکل میں نکلتا ہے جس کی عالمات میں
۔ بولنے میں مشکالت ،کمزوی ،چہرے ،ایک ہاتھ یا ٹانگ یا، seizuresبینائی میں تبدیلیاں
جسم کے ایک حصے کا سن ہوجانا یا کسی قسم کا احساس نہ ہونا۔
دل میں یہ عالمات سانس لینے میں مشکالت ،بہت زیادہ پسینے کے اخراج ،سینے میں
تکلیف جو بائیں ہاتھ تک پھیل جائے ،متلی ،سر چکرانا یا کچھ وقت کی غشی کی شکل میں
ظاہر ہوتی ہیں۔
معدے میں پیٹ کا شدید ترین درد ،ہیضہ ،قے ،قے یا فضلے میں خون کی موجودگی اس
کی عالمات ہیں۔سینے میں چاقو چبھنے جیسا درد ،ایسی کھانسی جس میں خون کا اخراج
ہو ،پسینہ ،سانس لینے میں مشکالت ،بخار ،نبض کی رفتار تیز ہوجانا ،سر چکرانا اور
غشی طاری ہونا پھیپھڑوں میں بلڈ کالٹ کی عالمات ہیں۔
https://www.dawnnews.tv/news/1170904/
تحقیقات | 31 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
وہ بہترین مشروب جو اچھی نیند کو یقینی بنائے
ویب ڈیسک
اکتوبر 18 2021
کورونا کی اقسام ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس اینٹی باڈی ردعمل کے خالف
مزاحمت کرتی ہیں ،تحقیق
ویب ڈیسک
اکتوبر 18 2021
تحقیق کے مطابق ڈیلٹا قسم پھیپھڑوں کے خلیات میں تبدیلیاں النے کے حوالے سے زیادہ
بہتر کام کرتی ہے اور متاثرہ خلیات کو صحت مند خلیات میں بھی شامل کردیتی ہے ،جس
کے نتیجے میں وہ زیادہ افراد کو بیمار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔
محققین نے بتایا کہ یہ قابل یقین ہے کہ اس طرح ڈیلٹا قسم زیادہ مؤثر انداز سے پھیلتی ہے
اور زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ جس سے بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ بڑھتا ہے۔
تحقیق میں بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ 19کے عالج کے لیے استعمال ہونے والے 4
ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس کے خالف مؤثر bamlanivimabمونوکلونل اینٹی باڈیز میں سے ایک
نہیں بلکہ وہ دیگر 2اینٹی باڈیز کے خالف بھی مزاحمت کرتی ہیں۔
اسی طرح فائزر /بائیو این ٹیک اور ایسٹرا زینیکا ویکسینز کے استعمال سے بننے والی
اینٹی باڈیز بھی اوریجنل وائرس کے مقابلے میں ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس کے خالف زیادہ مؤثر
نہیں ہوتیں۔
محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ ویکسینیشن ڈیلٹا سے بیمار ہونے پر
بیماری کی سنگین شدت سے ٹھوس تحفظ ملتا ہے مگر اینٹی باڈیز اکثر مکمل تحفظ فراہم
کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ بیماری کی سنگین شدت کے خالف ویکسینیشن کی افادیت کے پیش
نظر ویکسینیشن کی شرح بڑھانے کا ہدف جاری رکھنا چاہیے۔
ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس کے پھیلنے سے طبی نظام پر بڑھنے
والے بوجھ کی روک تھام ہوسکے گی۔
انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ ویکسینیشن سے دونوں اقسام کے خالف
کافی حد تک تحفظ ملتا ہے اور ڈیلٹا پلس ڈیلٹا سے زیادہ خطرناک قسم نہیں۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سیل رپورٹس میں شائع ہوئے
https://www.dawnnews.tv/news/1170922/
تحقیقات | 34 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ویب ڈیسک
اکتوبر 19 2021
کمپنی کی جانب سے ٓاخری مرحلے کے ٹرائل کے نتائج جاری کیے گئے ہیں
بائیو ٹیک لیبارٹری ویلنیوا نے بتایا ہے کہ اس کی تجرباتی کووڈ 19ویکسین کی افادیت
اگر ایسٹرا زینیکا سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس کے برابر ضرور ہے۔
کمپنی کی جانب سے تجرباتی ویکسین کی افادیت کا موازنہ ایسٹرا زینیکا ویکسین سے کیا
گیا تھا اور دریافت کیا کہ ویلنیوا کی ویکسین کے مضر اثرات نمایاں حد تک کم ہیں۔
ویلنیوا ان چند دوا ساز کمپنیوں میں سے ایک ہیں جو اپنی ویکسینز کا موازنہ ابھی دنیا
میں استعمال کی جانے والی ویکسن سے کررہی ہیں۔
فرانس کی اس کمپنی کو توقع ہے کہ اس کی تجرباتی ویکسین وبا کے خالف جنگ میں
مددگار ثابت ہوسکے گی۔
اس ویکسین کی تیاری کے لیے روایتی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے اور ٹرائل ٹیم کی
سربراہی کرنے والے ایڈم فن نے بتایا کہ ویکسین کی خوراکیں ان افراد کے لیے بہت
اہمیت رکھتی ہیں جن کی ابھی ویکسینیشن نہیں ہوئی ،وہ افراد ہماری ترجیح ہیں۔
تحقیقات | 35 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ان کا کہنا تھا کہ وی ایل اے 2001نامی ویکسین سے نمایاں حد تک ٹھوس مدافعتی
ردعمل متحرک ہوتا ہے اور اینٹی باڈی ردعمل سے کووڈ 19سے تحفظ کا عندیہ ملتا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ اینٹی باڈی ردعمل اگر ایسٹرا زینیکا سے زیادہ بہتر نہیں تو کم از کم اس
کے برابر ضرور ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دونوں ویکسینز بہت زیادہ مؤثر ہیں بالخصوص بیماری کی
سنگین شدت سے بچانے کے لیے ،ٹرائل میں شامل کوئی بھی رضاکار کووڈ 19کے باعث
ہسپتال میں داخل نہیں ہوا۔
کمپنی کی جانب سے ویکسین کی ٓازمائش کورونا کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا سے بھی کی
جارہی ہے۔
تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوا کہ 28دن میں 2خوراکوں میں استعمال کی جانے والی ویلنیوا
ویکسین سے بہت کم مضر اثرات جیسے انجیکشن کے مقام پر تکلیف اور بخار سامنے
ٓاتے ہیں۔
اس ٹرائل میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 4012بالغ افراد کو شامل کیا تھا اور یہ ان
ایکٹیوڈ ویکسین ہے۔
کمپنی کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ وہ ٹرائل کا ڈیٹا نومبر میں برطانوی ریگولیٹر کے
پاس جمع کرانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ 2021کے ٓاخر تک اس کی منظوری حاصل کی
جاسکے۔
کمپنی کو توقع ہے کہ وہ مارچ 2022تک یورپی یونین سے بھی ویکسین کے استعمال کی
منظوری حاصل کرلے گی۔کمپنی کی جانب سے ویکسین کے ٹرائل میں بڑی عمر کے
بچوں اور بزرگ افراد کو بھی شامل کیا جارہا ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1170925/
ویب ڈیسک
اکتوبر 19 2021
مولنو پراور‘ کورونا سے تحفظ کی پہلی گولیاں ہیں—فوٹو :جان ہاپکنز یونیورسٹی’
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اندرونی دستاویزات سے معلوم ہوا کہ عالمی ادارہ
کورونا سے تحفظ کی گولیوں کی مجموعی خوراک کی قیمت 10امریکی ڈالر یعنی
پاکستانی 1700روپے تک رکھنے کا خواہاں ہے۔
تحقیقات | 36 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ Œنے اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایا کہ عالمی ادارہ صحت
کے پروگرام ’ایکسس ٹو کووڈ 19ٹولز‘ (اے سی ٹی اے) کے دستاویزات کے مطابق امیر
ملکوں کی جانب سے کورونا ویکسین خریدے جانے کی وجہ سے غریب ممالک تاحال وبا
سے تحفظ کی دوا سے محروم ہیں ،جس کی وجہ سے انہیں سستی اور ترجیحی بنیادوں پر
دوا فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔
مذکورہ دستاویزات تاحال ڈرافٹ کی صورت میں ہیں اور انہیں ٓائندہ ماہ روم میں ہونے
والے دنیا کے امیر ممالک ’گریٹ ٹوئنٹی‘ (جی ٹوئنٹی) کے اجالس میں پیش کیا جائے گا
تاکہ امیر ممالک سے فنڈز حاصل کیے جاسکیں۔
اسی حوالے سے ’سی این این‘ نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کا منصوبہ ہے کہ دنیا کے
تمام امیر ممالک ایکسس ٹو کووڈ 19ٹولز کے منصوبے کے لیے مجموعی طور پر 22
ارب ڈالر سے زائد کی رقم عطیہ کریں تاکہ ستمبر 2022تک غریب ممالک تک کورونا
سے تحفظ کی سستی دوا اور ٹیسٹ کٹس بھجوائی جائیں۔
مذکورہ دستاویزات میں بتایا گیا کہ عالمی ادارہ صحت کی خواہش ہے کہ کورونا سے
تحفظ کی گولیوں کی مکمل خوراک کی قیمت 10ڈالر تک رکھی جائے۔
دستاویزات میں کسی گولی کا نام نہیں لکھا گیا اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ بعض
فارماسیوٹیکل کمپنیاں مزید گولیاں بنانے میں مصروف ہیں۔
عالمی ادارہ صحت کی جانب سے گولیوں کی قیمت کے تعین سے متعلق دستاویزات کی
خبر ایک ایسے وقت میں سامنے ٓائی ہے جب کہ رواں ماہ کے ٓاغاز میں دو امریکی
کمپنیوں کے کورونا سے تحفظ کی گولیوں کے حوصلہ افزا نتائج سامنے ٓائے تھے۔
https://www.dawnnews.tv/news/1170985/
برطانیہ میں کورونا کی ڈیلٹا قسم کے بعد ‘ڈیلٹا پلس’ کا پھیالؤ جاری
ویب ڈیسک
اکتوبر 20 2021
یہ قسم ایسی میوٹیشنز پر مشتمل ہے جو وائرس کو زندہ رہنے کے مواقع فراہم کرسکتا ہے
—
برطانیہ میں عالمی وبا کی وجہ بننے والے کورونا وائرس کی قسم ڈیلٹا کے نئے ویرئنٹ
’ڈیلٹا پلس’ کے کیسز میں پھیالؤ دیکھنے میں آیا ہے۔
بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق حکام کورونا وائرس کے ڈیلٹا ویرئنٹ کی نئی تبدیلی پر
کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں جو ملک میں وبا کے بڑھتے کیسز کی وجہ بن رہا ہے۔
کورونا وائرس کی بہت زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا ،جسے بی 1617.2کے نام سے بھی جانا
جاتا ہے ،گزشتہ برس برطانیہ میں سامنے آئی تھی۔
تاہم حالیہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں کورونا وائرس کے 6فیصد کیسز
جینیاتی طور پر وائرس کی نئی قسم کے ہیں۔
اے وائے ،4.2.جسے کچھ افراد ’ڈیلٹا پلس’ بھی کہہ رہے ہیں ،ایسی میوٹیشنز پر مشتمل
ہے جو وائرس کو زندہ رہنے کے مواقع فراہم کرسکتا ہے۔
یہ پتا لگانے کے لیے ٹیسٹ کیے جارہے ہیں کہ ڈیلٹا وائرس کی اس نئی قسم سے کتنا
خطرہ الحق ہو سکتا ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ اس کے بڑے پیمانے پر پھیلنے یا موجودہ ویکسین سے محفوظ رہنے
کا امکان نہیں ہے۔
اسے ابھی تک تشویش کا باعث بننے والی قسم یا زیر تفتیش ویرئنٹ نہیں سمجھا گیا۔
اے وائے 4.2.کیا ہے؟
دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ہزاروں مختلف اقسام یا ویرئنٹس موجود ہیں ،وائرس ہر
وقت بدلتے رہتے (میوٹیٹ ہوتے) ہیں لہذا ان کی نئی اقسام سامنے آنا کوئی حیران کن بات
نہیں ہے۔
ث تشویش قرار دیا گیا تھا جب یہڈیلٹا کی اوریجنل قسم کو مئی 2021میں برطانیہ میں باع ِ
الفا ویرئنٹ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا بھر میں پھیلنے والی کورونا وائرس کی سب سے
بڑی قسم بن گئی تھی۔
تاہم جوالئی 2021میں ماہرین نے اے وائے 4.2.کی نشاندہی کی تھی۔
ڈیلٹا کی یہ قسم تب سے آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے ،اس میں کچھ نئی تبدیلیاں شامل ہیں جو
اسپائک پروٹین کو متاثر کرتی ہیں جسے وائرس ہمارے خلیوں میں داخل ہونے کے لیے
استعمال کرتا ہے۔
ابھی تک اس بات کا کوئی عندیہ نہیں مال کہ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں یہ وائرس زیادہ
متعدی ہے لیکن یہ ماہرین ابھی اس پر تحقیق کررہے ہیں۔
عالمی وبا کے آغاز سے کورونا وائرس کی دیگر اقسام میں وائے 145ایچ اور اے
222وی میوٹیشنز پائی گئی ہیں۔سائنسدان مسلسل نئی جینیاتی تبدیلیوں کی جانچ کر رہے
ہیں جن سے کورونا وائرس گزر رہا ہے۔
ویب ڈیسک
بدھ 20 اکتوبر2021
اس ٓالے کی جسامت ایک روپے والے س ّکے جتنی ہے جبکہ یہ بہت لچک دار بھی ہے۔
(فوٹو :پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی)
پنسلوانیا :امریکی سائنسدانوں نے پسینے کے ذریعے خون میں گلوکوز کی مقدار معلوم
کرنے کےلیے ایک ایسا سینسر( uحساسیہ) ایجاد کرلیا ہے جسے اسٹیکر کی طرح کھال پر
چپکا دیا جاتا ہے۔
اسے پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر لیری چینگ اور ان کے ساتھیوں نے تیار
کیا ہے جبکہ اس کی تفصیالت ریسرچ جرنل ’’بایوسینسرز اینڈ بایوالیکٹرونکس‘‘ Œکے تازہ
شمارے میں ٓان الئن بھی شائع ہوچکی ہیں۔
واضح رہے کہ خون کی طرح پسینے میں بھی شکر (شوگر یعنی گلوکوز) موجود ہوتی ہے
لیکن اس کی مقدار خون کے مقابلے میں 100گنا کم ہوتی ہے۔
روایتی طریقے کے تحت خون میں شوگر کی مقدار معلوم کرنے کےلیے انگلی میں سوئی
چبھو کر ایک قطرہ خون نکال کر ایک خاص طرح کی چھوٹی سی پٹی (اسٹرپ) پر رکھا
جاتا ہے۔
یہ اسٹرپ ’’گلوکومیٹر‘‘ یعنی شوگر ناپنے والے ایک ٓالے میں لگا دی جاتی ہے جو اگلے
چند سیکنڈ کے دوران خون میں شکر کی مقدار معلوم کرکے اپنے اسکرین پر ظاہر کردیتا
ہے۔
انگلی میں سوئی چبھونے اور خون نکالنے سے چھٹکارا پا کر خون میں شوگر معلوم
کرنے کے عمل کو بھی تکلیف سے پاک اور ٓاسان بنایا جاسکتا ہے۔
پیش نظر بنایا گیا ہے جس کی تیاری میں ’’گریفین‘‘ Œکہالنے
ِ یہ ٓالہ بھی اسی ضرورت کے
والے ما ّدے پر نکل دھات کی پتلی تہہ چڑھا کر اسے پسینے میں گلوکوز ناپنے کے قابل
بنایا گیا ہے۔
پروفیسر لیری چینگ کہتے ہیں کہ پسینے میں گلوکوز کی بے حد کم مقدار بالکل درست
طور پر معلوم کرنا سب سے اہم مسئلہ تھا جسے ان کی ٹیم نے طویل تحقیق کے بعد
ٓاخرکار حل کرلیا۔
خون میں گلوکوز کی مقدار معلوم کرنے کےلیے اس ٓالے کو کھال پر چپکا دیا جاتا ہے۔
اگر اسے پہننے والے کو پسینہ نہیں ٓارہا ہو تو اس سے ہلکی پھلکی ورزش کروائی جاتی
ہے تاکہ پسینہ نکلے۔
یہ پسینہ اس ٓالے کے نچلے حصے میں نصب خردبینی خانوں (مائیکرو چیمبرز) میں
پہنچتا ہے جہاں نکل دھات اس میں موجود گلوکوز کے سالموں (مالیکیولز) Œکے ساتھ عمل
کرکے پسینے میں گلوکوز کی ٹھیک ٹھیک پیمائش کرتی ہے۔
پہلی مرتبہ خنزیر کا گردہ انسان میں منتقل کرنے کا کامیاب تجربہ
ویب ڈیسک
جمعرات 21 اکتوبر 2021
ستمبر 2021میں نیویارک لینگون ہیلتھ میں خنزیر کا گردہ انسانی بدن میں پیوست کیا
جارہا ہے۔ یہ گردہ ایک مردہ خاتون میں لگا کر اس کا کئی روز تک مشاہدہ کیا گیا ہے۔
فوٹو :بشکریہ جو کیروٹا ،اے پی
نیویارک :انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ uخنزیر کا گردہ کسی انسان میں لگا کر اس کا
مطالعہ کیا گیا ہے تاہم یہ گردہ ایک ایسے شخص کو لگایا گیا ہے جو فوت ہوچکا ہے۔
نیویارک یونیورسٹی میں واقع لینگون ہیلتھ ہسپتال کی ٹیم نے دیکھا کہ جب انہوں نےایک
الش میں سؤر کا گردہ لگایا تو وہ کام کرنے لگا اور انسانی بدن نے اسے بیرونی عضو
کے طور پر مسترد بھی نہیں کیا جسے ’بایو رجیکشن‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے عشروں
پرانے سوال کا جواب مال ہے کہ کیا انسان میں جانور کا عضو بالخصوص گردہ لگایا
جاسکتا ہے یا نہیں۔ اس طرح راہ کھلی ہے کہ جلد یا بدیر انسانی اعضا کی بڑھتی ہوئی
طلب کو جانوروں سے پورا کیا جاسکے گا۔ اس کی ابتدا گردے سے ہی ہوگی کیونکہ وہ
دیگر اعضا کے مقابلے میں کم پیچیدہ ہوتا ہے۔
اگرچہ خنزیرکے اعضا انسانوں میں منتقل پر ایک عرصے سے تجربات جاری ہیں۔ تاہم
اس کے گردے میں خاص شکریات (شوگرز) کی وجہ سے انسانی امنیاتی نظام انہیں
بیرونی حملہ قرار دے کر مسترد کرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ انسانی گردہ لگانے کے بعد بھی
مریض کو پوری زندگی مدافعتی نظام کو دبانے والی (امیونوسپریشن) Œدوائیں کھانا پڑتی
ہیں۔
اسی لیے خنزیر کے گردے کو کئی جنیاتی تبدیلیوں سے گزارکر اس میں انسان بیزار
شکریات کو ختم کیا گیا اور بعض تبدیلیوں کے بعد اسے ستمبر میں انسانی الش پرٓازمایا
گیا۔
گردے کو خون کی دو بڑی نالیوں سے جوڑا گیا اور وہ انسانی جسم میں کام کرنے لگا۔
اس نے صفائی کی اور پیشاب بھی بنائی۔ تجربے میں شامل ڈاکٹر رابرٹ منٹگمری کے
مطابق یہ تجربہ انتہائی کامیاب رہا ہے۔ دوسری جانب اس تحقیق سے باہر جامعہ منی سوٹا
کے ڈاکٹر اینڈریو ایڈم نے اسے ایک اہم سنگِ میل قرار دیا ہے۔
انسانی جسم میں جانوروں کے اعضا کی منتقلی کا عمل ’زینوٹرانسپالنٹیشن‘ Œکہالتا ہے۔ اس
کی ابتدا سترہویں صدی میں اس وقت ہوئی جب کتوں اور بلیوں کا خون انسانوں میں لگانے
کی کوشش کی گئی تھی۔ ڈاکٹر اینڈریو نے اسے درست سمت میں ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔
ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چمپانزی اور بندروں کے اعضا انسانوں میں کیوں نہ لگایا
جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے اعضا انسانوں سے
بہت قریب ہوتے ہیں۔ اس سے قبل سؤروں کے دل کے والو بھی انسانوں میں لگائے
جرمن ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس اقسام نے ویکسینیشن uکرانے
والے افراد میں وائرس کے خالف مزاحمت کرنے والی اینٹی باذیز کے خالف سخت
مزاحمت کرتی ہے جو ڈیلٹا ویرینٹ uکے عالمی سطح پر تیزی سے پھیلنے کا باعث بنی۔
طبی جریدے جرنل سیل رپورٹس میں شائع ہونے والی جرمن پرائیمیٹ سینٹر کی تحقیق
میں کہا گیا ہے کہ ڈیلٹا کی ذیلی قسم ڈیلٹا پلس کو اضافی میوٹیشنز دیگر کی نسبت زیادہ
ویب ڈیسک
عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کرونا سے بچاؤ کے لئے تیار کی گئی گولیوں کی
مجموعی خوراک کی قیمت کم سے کم رکھنے کا خواہاں ہے۔
ویب ڈیسک
ایسٹرا زینیکا ویکسین سے کیا گیا تھا اور دریافت کیا کہ ویلنیوا کی ویکسین کے مضر
اثرات نمایاں حد تک کم ہیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کی تجرباتی کووڈ نائنٹین ویکسین کی افادیت اگر ایسٹرا زینیکا
سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس کے برابر ضرور ہے ،کمپنی کو توقع ہے کہ اس کی
تجرباتی ویکسین وبا کے خالف جنگ میں مددگار ثابت ہوسکے گی۔
واضح رہے کہ ویلنیوا ان چند دوا ساز کمپنیوں میں سے ایک ہیں جو اپنی ویکسینز کا
موازنہ ابھی دنیا میں استعمال کی جانے والی ویکسن سے کررہی ہیں۔
کمپنی کا کہنا ہے کہ اس ویکسین کی تیاری کے لیے روایتی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا
ہے اور ٹرائل ٹیم کی سربراہی کرنے والے ایڈم فن نے بتایا کہ ویکسین کی خوراکیں ان
افراد کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں جن کی ابھی ویکسینیشن نہیں ہوئی ،وہ افراد ہماری
ترجیح ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ وی ایل اے 2001نامی ویکسین سے نمایاں حد تک ٹھوس مدافعتی
ردعمل متحرک ہوتا ہے اور اینٹی باڈی ردعمل سے کووڈ 19سے تحفظ کا عندیہ ملتا ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دونوں ویکسینز بہت زیادہ مؤثر ہیں بالخصوص بیماری کی
سنگین شدت سے بچانے کے لیے ،ٹرائل میں شامل کوئی بھی رضاکار کووڈ 19کے باعث
ہسپتال میں داخل نہیں ہوا۔
کمپنی کی جانب سے ویکسین کی ٓازمائش کرونا کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا سے بھی کی
جارہی ہے ،تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوا کہ اٹھائیس دنوں میں دو خوراکوں میں استعمال کی
جانے والی ویلنیوا ویکسین سے بہت کم مضر اثرات جیسے انجیکشن کے مقام پر تکلیف
اور بخار سامنے ٓاتے ہیں۔
اس ٹرائل میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے 4012بالغ افراد کو شامل کیا تھا اور یہ ان
ایکٹیوڈ ویکسین ہے ،کمپنی کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ وہ ٹرائل کا ڈیٹا نومبر میں
برطانوی ریگولیٹر کے پاس جمع کرانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ 2021کے ٓاخر تک اس
کی منظوری حاصل کی جاسکے۔
کمپنی کو توقع ہے کہ وہ مارچ 2022تک یورپی یونین سے بھی ویکسین کے استعمال کی
منظوری حاصل کرلے گی ،کمپنی کی جانب سے ویکسین کے ٹرائل میں بڑی عمر کے
بچوں اور بزرگ افراد کو بھی شامل کیا جارہا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/2010valneva-covid-19-vaccine/
ویب ڈیسک
۔
رپورٹ کے مطابق جینیاتی انجینئرنگ سے تیار کردہ جانور کے گردے کو ایک دماغی
لحاظ سے مردہ قرار دیے گئے مریض میں ٹرانسپالنٹ کیا گیا ہے۔
گردے میں جینیاتی تبدیلیاں اس لیے کی گئیں تاکہ انسانی جسم گردے کو فوری طور پر
مسترد نہ کرے ،ورثا سے مریضہ کو الئف سپورٹ سے اتارنے اور گردہ ٹرانسپالنٹ
کرنے کی باقاعدہ اجازت حاصل کی گئی تھی۔
ڈاکٹروں کی ٹیم کا کہنا ہے کہ گردے کی ٹرانسپالنٹیشن کے بعد مریضہ کے کریٹانین کی
سطح نارمل ہونا شروع ہوگئی تھی۔
ڈاکٹروں کی طویل عرصے سے کوشش ہے کہ انسانی جسم میں جانوروں کے اعضا کی
پیوند کاری کرسکیں لیکن مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ جب بھی ایسی کوئی کوشش ماضی
میں کی گئی تو انسانی جسم نے اسے فوری طور پر مسترد کردیا تھا۔
https://urdu.arynews.tv/585988-2/
برطانیہ میں کرونا کی مہلک قسم زور پکڑنے لگی 24 ،گھنٹوں میں 44
ہزار کیسز رپورٹ
فرید قریشی
اکتوبر 20 2021
لندن :برطانیہ میں کرونا کی ایک اور نئی خطرناک قسم تیزی سے پھیلنا شروع ہوگئی
ہے۔
اے ٓار وائی نیوز کے مطابق برطانیہ میں پھیلنے والی نئی قسم کو ماہرین نے ڈیلٹا
وائرینٹاے وائی فور پوائنٹ ٹو‘ کا نام دیا اور بتایا کہ اس نے بھی زور پکڑنا شروع کردیا
ہے۔
طبی ماہرین نے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کرونا کی تغیرشدہ قسم کے 44
ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ 223مریض ہالک بھی ہوئے۔
طبی ماہرین نے اس قسم کو گزشتہ اقسام سے خطرناک قرار دیتے ہوئے نئے وائرس کی
نگرانی شروع کر دی اور شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ سماجی فاصلے ،فیس ماسک
کے استعمال کو یقینی بنائیں۔
رپورٹ کے مطابق نیدر لینڈز میں رواں ہفتے مہلک کرونا وائرس کے نئے کیسز میں
چوالیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ روس میں کرونا سے ایک روز میں ریکارڈ
ایک ہزار سے زائد اموات رپورٹ ہوئیں ،جس کے بعد صدر نے پابندیوں کے ساتھ ایک
ہفتے کی تعطیل کا اعالن کردیا۔
ماسکو کے میئر نے اعالن کیا کہ ساٹھ سال یا اس سے زائد عمر افراد کو چار ماہ تک گھر
میں رہنا ہو گا۔ انہوں نے نئی پابندیوں کے احکامات جاری کیے اور متعلقہ اداروں کو عمل
درٓامد کی ہدایت کی ہے۔
https://urdu.arynews.tv/new-mutation-of-delta-variant-uk/
ویب ڈیسک
واشنگٹن :امریکا کے محکمہ صحت نے پانچ سے گیارہ سال تک کی عمر کے بچوں کو
ت عملی تیار کرلی۔
کرونا ویکسی نیشن لگانے کا فیصلہ کرتے ہوئے حکم ِ
خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے بدھ 20اکتوبر کو پانچ سال سے گیارہ سال
تک کی عمر کے بچوں کو کرونا سے بچاؤ کی ویکسی نیشن لگانے کا فیصلہ کیا۔
وائٹ ہاؤس ترجمان کا کہنا تھا کہ وزارت صحت کی سفارش اور تجویز کی روشنی میں
بچوں کو ویکسی نیشن لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے ،جس کے تحت پہلے مرحلے میں دو
کروڑ 80الکھ بچوں کو پہلے مرحلے میں ویکسین لگائی جائے گی۔
ترجمان وائٹ ہاؤس کے مطابق بچوں کو بڑوں کے مقابلے میں 21روز کے وقفے سے
10مائیکرو گرام کی دو خوراکیں دی جائیں گی۔
رپورٹ کے مطابق بچوں کو فائزر اور بائیو این ٹیک کی تیارہ کردہ ویکسین لگائی جائے
گی ،اس سے قبل 10سال سے زائد عمر کے بچوں کو بھی وہی ویکسین لگائی جاررہی
ہے۔
رپورٹ کے مطابق بچوں کو اسپتالوں ،اسکولوں ،ڈاکٹرز کے کلینک ،میڈیکل اسٹورز میں
ویکسین لگائی جائے گی۔
یاد رہے کہ فائزر نے 5سے 11سال کے بچوں کی ویکسینیشن کیلئے گزشتہ ماہ ٹرائلز
جمع کرانے کے بعد اس کے استعمال اجازت مانگی تھی ،جس پر ماہرین کے دو پینلز نے
بحث کرنے کا اعالن کیا تھا۔ پہال پینل فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام ٓائندہ ہفتے
جبکہ دوسرا سی ڈی سی کے تحت 2اور 3نومبر کو مالقات کریگا۔
تحقیقات | 52 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
https://urdu.arynews.tv/us-plan-vaccination-children/
ویب ڈیسک
ریاض :سعودی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی (ایس ایف ڈی اے) نے انکشاف کیا ہے کہ بچوں
کے لیے پیراسٹامول uکی خوراک میں کمی بیشی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔
عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سعودی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی نے سماجی رابطے کی
سائٹ ٹوئٹر پر پیراسٹامول دوا کی مناسب مقدار کے حوالے سے آگاہی دی اور خبردار کیا
کہ خوراک میں کمی بیشی خطرہ بن سکتی ہے۔
ایس ایف ڈی اے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ بچوں کے لیے استعمال کی جانے والی دوا
پیراسٹامول کی خوراک کا درست استعمال کیا جائے تب ہی انہیں فائدہ ہوگا۔
فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ پیراسٹامول پیناڈول ،فیواڈول ،اڈول اور ٹاینول نامی
ادویات میں بھی استعمال ہوتی ہے ،یہ دوائیں ٹیبلٹ ،سیرپ اور بالکل چھوٹے بچوں کے
لیے قطروں کی شکل میں استعمال کی جانی چاہیے۔
اتھارٹی نے ہدایت کی کہ بچوں اور بڑوں کے لیے دوا کا استعمال ڈاکٹر کے مشورے کے
بعد کیا جائے اور جتنی مقدار تجویز کی جائے اتنی ہی استعمال کی جائے بصورت دیگر
نقصان ہوسکتا ہے۔
ویب ڈیسک
اکتوبر 21 2021
لندن :برطانیہ میں کرونا وائرس معتدی ویرنیٹ ڈیلٹا پلس کے کیسز میں اضافے نے
خطرے کی گھنٹی بجادی۔
غیر ملکی میڈیا کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس کی مزید خطرناک
اور مہلک ترین اقسام بھی سامنے ٓارہی ہیں ،پہلے کرونا وائرس کی ایلفا ،بیٹا ،ڈیلٹا قسم نے
شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا اور اب ڈیلٹا پلس نے تباہی پھیالنا شروع کردی ہے۔
گزشتہ برس لندن میں کرونا کی معتدی قسم ڈیلٹا جسے بی 1617.2کے نام سے بھی جانا
جاتا ہے ،نے دنیا بھر میں بہت زیادہ لوگوں کو متاثر کیا ،اب برطانیہ میں ڈیلٹا پلس ویرئنٹ
پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔
رپورٹ کے مطابق اب تک برطانیہ میں چھ فیصد کیسز جینیاتی طور پر وائرس کی نئی
قسم کے ہیں ،جسے اے وائے .4.2اور ڈیلٹا پلس بھی کہتے ہیں۔
یہ قسم ایسی میوٹیشنز پر مشتمل ہے جو وائرس کو زندہ رہنے کے مواقع فراہم کرتی ہے،
کرونا وائرس کی اس قسم کی نشاندہی جوالئی 2021میں ہوئی تھی۔
یونیورسٹی کالج لندن کے جینیٹکس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر فرانکوئس بلوکس کا
‘کہنا ہے کہ ’ہوسکتا ہے کہ یہ 10فیصد زیادہ متعدی ہو
https://urdu.arynews.tv/delta-plus-cases-increase-in-uk/
ویب ڈیسک
اکتوبر 21 2021
ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ہمارے مضبوط جوڑوں اور ہڈیوں کا انحصار صرف دودھ پر
نہیں ہے بلکہ ہمارا بہتر طرز زندگی اور متعدد غذاؤں کا استعمال بھی ہڈیوں کی مضبوطی
کیلئے الزمی امر ہے۔
اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر
ندیم آصف نے ایسی مختلف غذاؤں کے بارے میں بتایا جو ہڈیوں اور جوڑوں کے لیے
بےحد مفید ہیں۔
انہوں نے بتایا کہ صحت مند زندگی کے لیے ہڈیوں اور جوڑوں کا مضبوط ہونا بہت
ضروری ہے ،ہڈیوں کی مضبوط نشونما کے لیے والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی غذا
میں معدنیات کا جزو الزمی دیں جس میں دودھ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔
آرتھوپیڈک سرجن کے مطابق مضبوط ہڈیوں اور جوڑوں کے لیے ضروری ہے کہ ٓاپ
وٹامن ڈی اور کیلشیم سے بھرپور غذاؤں کو اپنی روزمرہ کی خوراک میں شامل کریں ،ان
غذاؤں میں قدرتی طور پر وٹامن ڈی اور کیلشیم موجود ہوتا ہے جو ہماری صحت کے لیے
بہت ضروری ہیں۔
اس کے عالوہ وٹامن ڈی ہم سورج سے بھی حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے عالوہ وٹامن
ڈی اور کیلشیم والی غذائیوں میں دودھ ،دہی ،انڈے ،مچھلی ،پنیر اور مشروم وغیرہ شامل
ہیں۔
اکثر و بیشتر خواتین گھر یا بیوٹی پارلرز میں ٓانکھوں پر کھیروں کے قتلے رکھے ہوئے
دیکھی جاتی ہیں کیوں کہ یہ ایک تاثر عام پایا جاتا ہے کہ کھیرا جلد کو نرم ،بے داغ اور
تروتازہ بناتا ہے ،کھیروں کو ٓانکھوں پر رکھنے کے نتیجے میں کچھ فوائد بھی حاصل
ہوتے ہیں یا یہ صرف مفروضہ ہے۔
ٰ
دعوی مارکیٹ میں سیکڑوں بیوٹی کریمز اور پروڈکٹس بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے
کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوٹی پروڈکٹ میں کھیرے کا یا پھر کھیرے سے حاصل
ہونے والے غذائی اجزا کا استعمال کیا ہے اور ایسا برسوں سے ہوتا چال ٓا ر ہا ہے ،اس
سے متعلق سائنس کیا کہتی ہے یہ جاننا بھی ضروری ہے۔
السی تیل کے صحت پر حیران ُکن فوائد
تحقیقات | 56 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ٓانسؤوں سے رونا صحت کیلئے مفید قرار
صفر کیلوریز رکھنے والے کھیرے میں پانی کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے اسی لیے ِ
استعمال سے ٓانکھوں اور ِجلد پر ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے اور سکون ملتا ہے ،کھیرا
ٹھنڈے ماسک کی طرح کام کرتا ہے ،اس کی افادیت ٓانکھوں کے گرد سیاہ حلقوں اور ِجلد
پر اُس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب یہ پہلے سے مزید ٹھنڈا کر لیا گیا ہو۔
اس طرح کھیرے کے استعمال سے ٓانکھوں پر ٹھنڈی شے لگنے کے سبب خواتین ٓانکھوں
کو بند کر کے کچھ دیر کے لیے پر سکون ہو کر لیٹ جاتی ہیں اور چہرے کی ِجلد بھی
پرسکون ہونے کے سبب اس دوران کیا گیا فیشل یا چہرے پر لگایا گیا ماسک زیادہ مؤثر
ثابت ہوتا ہے ۔
فولک ایسڈ خواتین کی صحت کیلئے ناگزیر قرار
بار بار منہ سوکھنا کس بیماری کی عالمت ہے؟
ٓانکھوں پر کھیرا رکھنا سیاہ حلقوں کے لیے موثر ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟
ماہری ِن جلدی امراض و جڑی بوٹیوں کے مطابق ِجلد پر کھیرے کا استعمال مثبت ثابت ہوتا
ہے مگر واضح اور دیرپا نتائج حاصل کرنے کے لیے صرف دو قتلے رکھ لینا کافی نہیں
ہیں ،اس کا باقاعدگی سے روزانہ کی بنیاد پر استعمال الزمی ہے۔
کھیروں میں وٹامن سی ،اینٹی ٓاکسیڈینٹ اور فولک ایسڈ بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے،
وٹامن سی ٓانکھوں کے ارد گرد جلد میں نئے خلیوں کی نشوونما کو تیز کرنے میں مددگار
ثابت ہوتا ہے جبکہ فولک ایسڈ ٓانکھوں کے نیچے سوجن کو کم کرنے میں بھی کردار ادا
کرتا ہے۔گرتے بالوں کا عالج صرف ایک بیج سے
سردُ ،خشک موسم میں جھڑتے بالوں کا عالج
کھیرے کے ٹکڑے ٓانکھوں پر رکھنے کے سبب جلد میں موجود مضر صحت مادوں کا
صفایا ہوتا ہے ،یہ عمل خراب ِجلد کو نرم ،صاف شفاف بھی کرتا ہے۔
ء میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کھیرے میں وٹامن کی موجودگی کے2012
سبب یہ ٓانکھوں کے گرد سیاہ دھبوں کو کم کرتا ہے ،کھیرا جلد کی سیاہ رنگت کو بھی
ہلکاکرتا ہے بشرطیکہ اس کا استعمال روزانہ کی بنیاد پر استعمال کیا جائے۔
https://jang.com.pk/news/1000922
برطانیہ میں کورونا کیسز میں اضافہ ،ماہرین صحت کا اظہار تشویش
برطانیہ میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے پر ہیلتھ لیڈرز نے تشویش کا اظہار کیا
ہے۔ لندن سے موصولہ اطالعات کے مطابق این ایچ ایس کنفیڈریشن کا کہنا ہے کہ موسم
سرما میں بحران سے بچنے کیلئے چند کورونا پابندیاں دوبارہ لگائی جائیں۔
07:56 pm 18/10/2021
اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک )ٓاپ کو چشمے سے چھٹکارہ دالنے والے کانٹیکٹ لینسز
لگانے اور اتارنے کےلیے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔کانٹیکٹ لینس کا استعمال
ماضی میں صرف وہ افراد استعمال کرتے تھے جن کی بینائی کمزور ہو لیکن اب کانٹیکٹ
پالماریس لنگس ایسا مسل ہے جو تمام انسانوں میں نہیں پایا جاتا جو زمانہ قدیم سے ایسے
جانداروں میں موجود ہے جو ہاتھوں کی مدد سے خود کو کسی جگہ جھولتے تھے یا
درختوں پر چڑھتے تھے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں اس کا کوئی حقیقی استعمال
نہیں اور یہی وجہ ہے کہ متعدد افراد میں اب یہ موجود بھی نہیں۔ ٓاج کے عہد میں اس کی
موجودگی یا عدم موجودگی سے نہ تو کوئی مضبوطی ملتی ہے اور نہ ہی گرفت میں
بہتری ٓاتی ہے۔
جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ اب 14یا 15فیصد افراد میں یہ مسل موجود نہیں۔ان میں
بھی مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے تاہم یہ شرح افریقی ،ایشیائی اور
قدیم امریکی ٓابادیوں میں دیگر سے مختلف ہے۔اگر ٓاپ کو کالئی میں لکیر ابھری ہوئی نظر
ٓائے تو ٓاپ یقینا ً کالئی کے اس لمبے مسل کے مالک ہیں تاہم اگر ایسا نہیں ہوتا تو فکر مند
مت ہوں ،موجودہ طرز زندگی میں ہمارے لیے یہ یہ کسی کام کا نہیں کیونکہ ہمیں درختوں
پر چڑھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔کہا جاتا ہے کہ انسانی جسم میں ارتقا جاری رہا تو ٓائندہ
کئی صدیوں بعد لوگوں کے ہاتھوں میں ایسا مسل کبھی سامنے نہیں ٓائے گا۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202110-126497.html
میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کی تعداد بھی بڑھی ہے جن کی جانب سے دوسری
یا تیسری مرتبہ بیماری سے متاثر ہونے کو رپورٹ کیا گیا۔
تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ جو لوگ ویکسینیشن نہیں کراتے ان میں اوسطا ً ہر 16ماہ میں
کووڈ 19کی دوسری مرتبہ تشخیص کا امکان ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق ہم اب جانتے ہیں کہ کووڈ 19کو شکست دینے کے بعد حاصل ہونے
والی قدرتی مدافعت وقت کے ساتھ گھٹ جاتی ہے۔
ڈنمارک میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ 65سال سے کم عمر افراد کو بیماری
کے 6ماہ بعد ری انفیکشن سے 80فیصد جبکہ 65سال سے زائد عمر کے افراد کو
محض 47فیصد تحفظ حاصل ہوتا ہے۔
کورونا کی قسم ڈیلٹا کی ٓامد کے بعد صورتحال زیادہ پیچیدہ ہوگئی۔
امپرئیل کالج لندن کے امیونولوجی پروفیسر ڈینی ٓالٹمین نے بتایا کہ طبی عملے میں جو
تحقیق ہم نے کی ہے اس میں ہم نے پہلے بیمار ہونے والے اور ویکسینیشن کرانے والوں
میں عالمات والی بیماری کو دریافت کیا ،ہمارے خیال میں یہ تعداد ہمارے اندازوں سے
زیادہ عام ہے۔
برطانیہ کے ادارے او این ایس کی جانب سے 6اکتوبر 2021کو جاری ڈیٹا میں بتایا گیا
کہ جوالئی 2020سے ستمبر 2021کے دوران جو 20ہزار 262برطانوی شہری کووڈ
19سے متاثر ہوئے ان میں سے 296دوسری مرتبہ اس بیماری کے شکار ہوئے۔
مگر ری انفیکشن کا خطرہ مئی 2021کے بعد سے زیادہ بڑھ گیا ہے جب برطانیہ میں
کورونا کی قسم ڈیلٹا کو غلبہ حاصل ہوا۔
ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی بھی عمر کے گروپ میں یہ بیماری پھیلنے لگے تو یہ ہر عمر
کے گروپس میں پھیل سکتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اگر ٓاپ کی ویکسینیشن نہیں ہوئی تو
ٓاپ کو ویکسینز کا استعمال کرنا چاہیے ،چاہے ٓاپ کووڈ 19سے متاثر ہی کیوں نہ ہو پھر
بھی ویکسینیشن کرائیں کیونکہ اس سے تحفظ کا عرصہ بڑھ جائے گا
https://www.dawnnews.tv/news/1171046/
ویب ڈیسک
اکتوبر 21 2021
محققین نے بتایا کہ نتائج سے بچوں کو کووڈ 19کے سنگین اثرات سے بچانے کے لیے
ویکسینیشن کی اہمیت کا اعادہ ہوتا ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ اس ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ اس عمر کے گروپ میں ویکسینیشن
کی شرح بڑھانے سے کووڈ 19سے زیادہ بیمار ہونے کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔
خیال رہے کہ پاکستان میں بھی اس عمر کے بچوں کے لیے فائزر ویکسین کا استعمال کیا
جارہا ہے
https://www.dawnnews.tv/news/1171065/
سموگ ،دل اور پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل میں اضافے کا
سبب
الہور( :دنیا نیوز) سموگ دل اور پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ دماغی صالحیت کے لیے بھی
تباہ کن ہے۔ ٓالودگی میں معمولی اضافہ بھی ڈیمینشیا کا خطرہ بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔
کورونا ،ڈینگی اور سموگ کے باعث نفسیاتی مسائل بہت زیادہ بڑھ گئے۔
سموگ کا سیزن شروع ہوتے ہی دل اور سانس کے امراض میں مبتال افراد کو تو خاص
احتیاط برتنے کی تلقین کی جاتی ہے لیکن شاید بہت کم احباب جانتے
تحقیقات | 66 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ہوں گے کہ اِسے دماغی صحت کے لیے بھی تباہ کن قرار دیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق
فضا میں آلودہ ذرات کا ایک مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر اضافہ ڈیمینشیا کا خطرہ 16
فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔
اِس تناظر میں تو الہور کے شہریوں کو بہت زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کہ ملک
بھر میں ٓالودگی کی سب سے زیادہ شرح عمومی طور پر الہور میں ہی ریکارڈکی جاتی
ہے۔
ماہرین کے مطابق کورونا اور ڈینگی کی وجہ سے بھی نفسیاتی امراض میں خوفناک حد
تک اضافہ ہو رہا ہے۔
https://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Health/625061
ویب ڈیسک
طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کینو کا جوس جلد کی خوبصورتی اور کئی بیماریوں میں مفید
ہے ،نہار منہ کینو کا جوس پینے سے انسان کئی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔
تحقیقات | 67 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
تحقیق کے مطابق کینو کا جوس ڈی ہائیڈریشن کا شکار افراد کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔
انسانوں کو ہر سال قدرت کی جانب سے دیا جانے واال یہ پھل وٹامن سی سمیت دیگر
قدرتی اجزا کی دولت سے ماال مال ہے جس کے چھلکے میں بھی وہ فوائد پوشیدہ ہیں جن
میں سے کچھ کے بارے میں ٓاپ جانتے ہوں گے۔
کینو میں موجود مختلف قدرتی اجزا جیسے پوٹاشیم ،وٹامن بی ،اینٹی ٓاکسائیڈ دماغی صحت
اور افعال کو بہتر بنانے کے لیے بہت مفید ہیں کیونکہ پوٹاشیم دماغ کی جانب جانے والے
خون کے بھاؤ کو بڑھاتے ہیں جس سے اعصابی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہے ،اسی طرح
وٹامن بی بڑی عمر کی وجہ سے ٓانے والی دماغی تنزلی کی روک تھام کے امراض سے
محفوظ رکھتا ہے جبکہ یہی وٹامن ذہنی امراض سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔
حاملہ خواتین کے لیے فائدہ مند
کینو میں قدرتی طور پر وٹامن بی اور فولک ایسڈ موجود ہوتے ہیں جو حمل کے دوران
خواتین کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ فولک ایسڈ کی کمی بچوں کے
پیدائشی وزن میں کمی کا باعث بنتی ہے۔
عالوہ ازیں ماہرین کا ماننا ہے کہ کینو کا استعمال خون کی شریانوں کی صحت ،معدے کو
مضبوط بنانے اور موسمی امراض سے لڑنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔
سن ہونے کا عالجہاتھ پاؤں ُ
حال ہی میں ہونے والے سروے میں ماہرین کے سامنے یہ بات ٓائی کہ وہ عمر رسیدہ افراد
جن کے ہاتھ اور پیر اکثر سُن ہوجاتے ہیں اُن کے لیے کینو کا جوس بہت زیادہ فائدہ مند
ثابت ہوسکتا ہے۔
ماہرین کے مطابق اگر بڑی عمر کے لوگوں کو تین ماہ تک روزانہ ایک گالس کینو کا
جوس پالیا جائے تو ہاتھ پاؤں سُن ہونے کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے کیونکہ کینو کا رس خون
https://urdu.arynews.tv/586486-2/
کووڈ 19سے صحت یاب ہونے والے افراد کو مختف ذہنی مسائل کا
سامنا
ویب ڈیسک
حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ 19سے متاثر ہونے والے افراد
کو طویل عرصے بعد بھی مختلف دماغی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔بین االقوامی
تحقیقات | 69 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ 19
کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی تنزلی یعنی ذہنی دھند کا سامنا مہینوں
تک ہوسکتا ہے۔
النگ کووڈ یا اس بیماری کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں،
جن میں سے ایک ذہنی دھند بھی ہے۔ اس سے متاثر افراد کو مختلف دماغی افعال کے
مسائل
بشمول یادداشت کی محرومی ،ذہنی الجھن ،توجہ مرکوز کرنے میں مشکل ،سر چکرانے
اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکالت وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔
ایشکن اسکول ٓاف میڈیسین کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں
بشمول ایسے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا ،ان کو طویل المعیاد بنیادوں پر
دماغی افعال کی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق میں ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم رجسٹری کے مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور
دریافت ہوا کہ لگ بھگ ایک چوتھائی افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا تھا۔
تحقیق کے مطابق اگرچہ اسپتال میں زیرعالج رہنے والے مریضوں میں کووڈ کو شکست
دینے کے بعد ذہنی دھند کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر زیادہ بیمار نہ ہونے والے لوگوں کو
بھی دماغی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
ماہرین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ کووڈ 19سے متاثر ہونے کے کئی ماہ بعد بھی
مریضوں کو دماغی تنزلی کا سامنا بہت زیادہ تعداد میں ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسپتال
میں زیر عالج رہنے والے افراد کو اہم دماغی افعال کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پیٹرن ابتدائی رپورٹس سے مطابقت رکھتا ہے جن میں بتایا گیا کہ
کووڈ 19کو شکست دینے کے بعد لوگوں کو مختلف ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
https://urdu.arynews.tv/covid-19-and-mental-health/
تحقیقات | 70 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کووڈ 19سے متاثرہ بچوں کو ایک اور نقصان کا سامنا
ویب ڈیسک
بچوں کو کووڈ 19الحق ہونے کے خطرات کم ہوتے ہیں مگر حال ہی میں ایک تحقیق
سے علم ہوا کہ کووڈ 19سے متاثرہ بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کا امکان کم ہوتا ہے۔
ٓاسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی معمولی شدت سے متاثر
ہونے والے بچوں میں بیماری کو شکست دینے کے بعد اینٹی باڈیز بننے کا امکان بہت کم
ہوتا ہے۔
اس تحقیق میں 57بچوں اور 51بالغ افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں کووڈ 19کی
تشخیص ہوئی تھی۔ ان سب میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا عالمات ظاہر نہیں ہوئی
تھیں۔
ماہرین کی جانچ پڑتال سے صرف 37فیصد بچوں میں بیماری کے خالف مزاحمت کرنے
والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا جبکہ بالغ افراد میں یہ شرح 76فیصد رہی۔
ماہرین کے مطابق دونوں گروپس میں وائرل لوڈ لگ بھگ یکساں تھا مگر پھر بھی بچوں
میں اینٹی باڈیز بننے کی شرح بالغ افراد کے مقابلے میں کم تھی۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت
کیا گیا کہ بچوں کے جسم میں خلیاتی مدافعتی ردعمل بھی اس طرح نہیں بنا جیسا بالغ افراد
میں دیکھنے میں ٓایا۔
اس تحقیق میں شامل تمام افراد 2020میں اس بیماری سے متاثر ہوئے تھے۔
ویب ڈیسک
ریاض :سعودی وزارت صحت نے مکمل کورونا ویکسینیشن کے چار نمایاں فوائد بتائے
ہیں۔
عرب میڈیا کے مطابق مملکت کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسین کی دونوں
خوراکیں لگوانے سے ناصرف موجودہ کورونا وائرس بلکہ اس کی نئی قسموں سے بھی
حفاظت ہوتی ہے۔
سعودی وزارت کے مطابق مکمل ویکسینیشن سے معاشرہ بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ صحت
بہتر رہتی ہے جبکہ معاشرے میں اس مرض کے خالف قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔
ویب ڈیسک
دنیا بھر میں ٓاج انسداد پولیو کا عالمی دن منایا جارہا ہے ،اس وقت پولیو کا مرض دنیا
میں صرف 2ممالک پاکستان اور افغانستان میں موجود ہے۔
عالمی ادارہ برائے صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پولیو کے کیسز میں
99.9فیصد کمی ٓاچکی ہے لیکن کرونا وبا کی وجہ سے ہونے والے تعطل سے خدشہ ہے
کہ پولیو وائرس کہیں ایک بار پھر سر نہ اٹھا لے۔
کرونا وبا کے ٓاغاز سے پولیو مہمات تعطل کا شکار رہیں اور دنیا سے پولیو کے خاتمے
کا ہدف پورا نہ ہوسکا۔
کرونا وائرس کے خالف ایک اور نئی ویکسین ،حوصلہ افزا نتائج
تحقیقات | 74 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
ویب ڈیسک
دعوی کیا ہے کہ اس کی ویکسین کے ٰ پیرس :فرانسیسی دوا ساز کمپنی والنیوا نے
ابتدائی نتائج حوصلہ کن ہیں ،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ویکسین کرونا کی تمام اقسام
سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔
بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق والنیوا کی جانب سے اپنی ویکسین کے تیسرے ٹرائل
ٰ
دعوی کیا گیا ہے کہ ویکسین اینٹی باڈیز بنانے میں 95فیصد کے جاری اعداد و شمار میں
تک کام کرتی ہے۔
کمپنی کے مطابق تیسرے مرحلے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ والنیوا ویکسین کرونا کی
تمام اقسام پر اثر انداز ہوتی ہے اور ٹرائل کے دوران کوئی بھی مریض نہ تو وبا کا شکار
ہوا اور نہ ہی کسی کو ویکسین کے برے اثرات کی وجہ سے اسپتال لے جانا پڑا۔
ٰ
دعوی ہے کہ والنیوا ویکسین بھی برطانوی کمپنی کی ویکسین ایسٹرا زینیکا جتنی کمپنی کا
مؤثر ہے جب کہ اس کے منفی اثرات باقی ویکسینز کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہیں۔
والنیوا کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ویکسین کا تیسرا ٓازمائشی پروگرام ایک
ایسے وقت میں کیا گیا جب کہ برطانیہ میں کرونا کی خطرناک قسم ڈیلٹا عروج پر تھی۔
کمپنی کے مطابق ویکسین لگوانے والے کسی بھی شخص میں کرونا کی تشخیص نہیں
ہوئی جب کہ ان میں اینٹی باڈیز بننے کی گنجائش 95فیصد تک بڑھ گئی تھی۔
دوران سفر ٓانے والے چکروں اور متلی سے نجات حاصل کرنے کا
ٓاسان طریقہ
23/10/2021
بہت سے لوگ بس یا کار یا پھر گھومتے جھولے میں بیٹھنے سے چکر اور متلی کا شکار
ہوجاتے ہیں لیکن کچھ ٓاسان ٹپس پر عمل کرکے اس سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔
روزمرہ غذا میں کھمبیوں کی ایک مخصوص اور نپی تلی مقدار ہی ڈپریشن کے خالف
ہمیں فائدہ پہنچاتی ہے۔ (فوٹو :انٹرنیٹ)
پنسلوانیا :امریکی طبّی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ جو لوگ روزانہ صرف 4.9گرام
کھمبی (مشروم) کھاتے ہیں ،وہ ڈپریشن سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔
پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں ماہرین کی یہی تحقیقی ٹیم پہلے یہ دریافت کرچکی ہے کہ
کھمبیاں کھانے سے کینسر کا خطرہ کم رہ جاتا ہے۔
ویب ڈیسک
اتوار 24 اکتوبر2021
اناردل کے لیے مفید ہے اور بلڈ پریشر قابو میں رکھنے کے ساتھ ساتھ بے شمار
طبی فوائد رکھتا ہے۔
لندن :انار کے خوش نما دانے گویا چھوٹے یاقوت کی مانند دکھائے دیتے ہیں۔ اپنے
ذائقے اور فوائد کی وجہ سے یہ پھل دنیا بھر میں مشہور ہے لیکن اسے کھولنے اور
چھیلنے کی وجہ سے لوگ الجھن محسوس کرتے ہیں۔ تاہم ان میں صحت کا ایک خزانہ
پوشیدہ ہے۔
انار میں ریشوں (فائبر) کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جبکہ طرح طرح کے اینٹی ٓاکسیڈنٹس
ماہرغذائیات
ِ اسے انتہائی صحت بخش بناتے ہیں۔ پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ
ڈاکتر پینی ِکرس کہتی ہیں کہ انار کے شوخ رنگ کو ہی دیکھ لیجئے جو پولی فینول نامی
رنگت کی وجہ سے سرخ ہوتا ہے۔
پولی فینولزاینٹی ٓاکسیڈنٹس کی طرح کام کرتے ہیں اور جسم میں عمررسیدگی سے لڑنے
کے ساتھ ساتھ اندرونی سوزش (انفلیمیشن) کم کرتے ہیں۔ ایک کپ اناردانوں میں 72
تحقیقات | 79 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
کیلوریز پائی جاتی ہیں۔ 16گرام کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں اور تین گرام فائبر یعنی
ریشہ ہوا ہے۔ اس کے عالوہ فولیٹ ،وٹامن کے اور پوٹاشیئم کی بڑی مقدار اس میں موجود
ہوتی ہے۔
موسم سرما کے جواہر بھی کہا جاتا ہے۔ قدیم تہذیب میں اسے خوشحالی، ِ ایران میں انار کو
فراوانی اور زرخیزی کا پھل بھی کہا جاتا رہا ہے۔
انار میں موجود پیونیسک ایسڈ ہے جو ایک طرح کا فیٹی ایسڈ ہے اور اپنے اندر بہت مفید
طبی خواص رکھتا ہے۔ اپنے خواص کی بنا پر یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اہم طبی
فوائد رکھتا ہے۔ اینٹی انفلیمیٹری خواص کی بنا پر جوڑوں کے درد کے مریض اسے
استعمال کرکے اپنے مرض کی شدت کم کرسکتےہیں۔
بعض تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ دل کے لیے یہ پھل بہت مفید ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے
کہ یہ سوزش کم کرتا ہے اور شریانوں کو ہموار اور وسیع رکھتا ہے۔ تاہم ماہرین نے کہا
ہے کہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔
انار کھانے سے بلڈ پریشر قابو رکھنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ 2017میں 8اہم
تحقیقات ،سروے اور کلینکل ٹرائلز کئے گئے جس میں کئی مریضوں کو انار کا رس پالیا
گیا ۔ معلوم ہوا کہ انارکا جوس بلڈ پریشر قابو میں رکھنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتا ہے۔
اس کے عالوہ یہ دل کا خیال بھی رکھتا ہے۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ رس کی
معمولی مقدار بھی بہت مفید اثرات رکھتی ہے۔
تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگرٓاپ بلڈ پریشر کے مریض ہیں اور اسے کم کرنے کی
دوائیں کھاتے ہیں تو انار کا رس بلڈ پریشر غیرمعمولی طور پر کم کرسکتا ہے۔ اسی طرح
بعض افراد کو انار کا رس پی کر بد ہضمی کی شکایت بھی ہوسکتی ہے جس سے بچنا
ضروری ہے۔
https://www.express.pk/story/2238770/9812/
اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی وزارت صحت نے مکمل کورونا ویکسینیشن کے چار
نمایاں فوائد بتائے ہیں۔عرب میڈیا کے مطابق مملکت کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ
کورونا ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوانے سے ناصرف موجودہ کورونا وائرس بلکہ اس
کی نئی قسموں سے بھی حفاظت ہوتی ہے۔سعودی وزارت کے مطابق مکمل ویکسینیشن
سے معاشرہ بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ صحت بہتر رہتی ہے جبکہ معاشرے
میں اس مرض کے خالف قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔سعودی حکومت نے مملکت
میں ویکسین کی چار اقسام کی منظوری دی ہے جن میں فائزربائیونٹیک ،اسٹرازائینکاŒ،
جانس اینڈ جانس اور موڈرنا شامل ہیں۔مملکت کے تمام ریجنز میں ویکسینیشن سینٹرز قائم
کیے گئے ہیں جہاں سعودی شہریوں اور تارکین کو مفت ویکسین لگائی جاتی ہے18 ،
برس اور اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے بوسٹر ڈوز کی بھی منظوری دی گئی ہے۔
سعودی عرب میں کورونا سے بچاو کےلیے منظور شدہ چاروں ویکسین کی دوخوراکوں
کو الزمی قرار دیا ہے۔
https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202110-126809.html
ہمارے جسم کو مناسب طریقے سے کام کرنے کے لیے مختلف قسم کے وٹامنز اور منرلز
کی ضرورت ہوتی ہے ،کسی بھی وٹامن کی کمی مختلف مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ ہماری
ِجلد اور بالوں کو کچھ وٹامن اور معدنیات کی بھی ضرورت ہوتی ہے ،وٹامن ڈی کو
ہمارے جسم کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔
ِجلد اس کی پیداوار کا قدرتی ذخیرہ ہے ،سورج کی روشنی کی کمی اور ناقص خوراک
وٹامن ڈی کی کمی کی دو عام وجوہات ہیں۔ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ِجلد کے بہت سے
مسائل جیسے خشک ِجلد کا باعث بن سکتی ہے۔
وٹامن ڈی میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات بھی ہوتی ہیں ،اس کی کمی ِجلد پر کیل مہاسوں
کا سبب بن سکتی ہے اور ساتھ ہی اس کی کمی جھریوں اور باریک لکیروں کی ظاہری
شکل کا باعث بن سکتی ہے۔
سورج کی روشنی جسم میں وٹامن ڈی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے ،خاص طور
پر ہائی ایس پی ایف سنسکرین کے بغیر۔ تاہم کئی غذائی ذرائع ایسے ہیں جو غذائیت سے
بھرپور ہوتے ہیں جنہیں آپ متبادل کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں جیسے انڈے کی
زردی ،بعض مچھلیاں (سالمن ،سارڈینز ،ٹونا) ،اور وٹامن ڈی سے بھرپور دیگر غذائیں۔
:آپ کی صحت مند اور چمکتی ہوئی ِجلد کیلئے وٹامن ڈی کے کچھ فوائد
وٹامن ڈی سوزش کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے ،یہ ہلکے سے درمیانے درجے کی
سوزش کے طور پر کام کرتا ہے۔
وٹامن ڈی میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ِجلد
کو جراثیم اور نقصان دہ کیمیکل سے بچاتا ہے۔
وٹامن ڈی ماحولیاتی نقصانات کو کم کرتا ہے ،یہ ایک اینٹی آکسیڈینٹ کے طور پر
کام کرتا ہے اور ہمیں قبل از وقت بوڑھا ہونے سے بچاتا ہے۔
وٹامن ڈی میں نمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ ہماری ِجلد کو پانی کی کمی سے
محفوظ رکھتا ہے۔
یہ مدافعتی نظام کے خلیوں کی پیداوار کو بڑھا کر ِجلد کی قوت مدافعت کو بڑھاتا
ہے
https://jang.com.pk/news/1002207
ویب ڈیسک
اکتوبر 22 2021
یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — کووڈ 19کو شکست دینے والے متعدد
افراد کو دماغی تنزلی جسے ذہنی دھند یا برین فوگ بھی کہا جاتا ہے ،کا سامنا مہینوں تک
ہوسکتا ہے۔
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔
النگ کووڈ یا اس بیماری کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں،
جن میں سے ایک ذہنی دھند بھی ہے ،جس سے متاثر افراد کو مختلف دماغی افعال کے
مسائل بشمول یادداشت کی محرومی ،ذہنی الجھن ،توجہ مرکوز کرنے میں مشکل ،سر
چکرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکالت وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔
ایشکن اسکول ٓاف میڈیسین کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں
بشمول ایسے افراد جن کو ہسپتال داخل نہیں ہونا پڑا ،ان کو طویل المعیاد بنیادوں پر دماغی
افعال کی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق میں ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم رجسٹری کے مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور
دریافت ہوا کہ لگ بھگ ایک چوتھائی افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا تھا۔
مگر ہسپتال میں داخل نہ ہونے والے افراد میں بھی یہ خطرہ ہوتا ہے اور تحقیق میں ہسپتال
میں زیرعالج رہنے والوں میں یہ شرح 37فیصد اور زیادہ بیمار نہ ہونے والے افراد میں
یہ شرح 16فیصد تک ریکارڈ ہوئی۔
محققین نے بتایا کہ کووڈ 19اور دماغی تنزلی کے درمیان تعلق سے مریضوں کے طویل
المعیاد عالج کے حوالے سے سواالت ابھرتے ہیں ،خطرہ بڑھانے والے عناصر کو
شناخت کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت Œہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئے
https://www.dawnnews.tv/news/1171209/
ویکسین اینٹی باڈیز بنانے میں 95فیصد کردار ادا کرتی ہے ،نتائج—فائل فوٹو :اے ایف پی
ٰ
دعوی کیا ہے کہ اس کی ویکسین کے ابتدائی نتائج فرانسیسی دوا ساز کمپنی ’والنیوا‘ نے
حوصلہ کن ہیں ،جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ویکسین کورونا کی تمام اقسام سے تحفظ فراہم
کرتی ہے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ’والنیوا‘ کی جانب سے اپنی ویکسین کے تیسرے
ٰ
دعوی کیا ہے کہ ویکسین اینٹی باڈیز بنانے میں 95 ٹرائل کے جاری اعداد و شمار میں
فیصد کام تک کام کرتی ہے۔
کمپنی کے مطابق تیسرے مرحلے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ’والنیوا‘ ویکسین کورونا کی
تمام اقسام پر اثر انداز ہوتی ہے اور ٹرائل کے دوران کوئی بھی مریض نہ تو وبا کا شکار
ہوا اور نہ ہی کسی کو ویکسین کے برے اثرات کی وجہ سے ہسپتال لے جانا پڑا۔
ٰ
دعوی ہے کہ ’والنیوا‘ ویکسین بھی برطانوی کمپنی کی ویکسین ’ٓاسٹرزینیکا‘ کمپنی کا
جتنی موثر ہے جب کہ اس کے منفی اثرات باقی ویکسینز کے مقابلے نہ ہونے کے برابر
ہیں۔
بڑھتی عمر کے ساتھ دماغ کو تیز رکھنے کا ٓاسان نسخہ جان لیں
ویب ڈیسک
اکتوبر 24 2021
یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی
ہر اچھی چیز کی طرح نیند بھی اسی وقت بہترین ہوتی ہے جب سونے کا دورانیہ
بہت کم یا زیادہ نہ ہو۔درحقیقت عمر بڑھنے کے ساتھ جو لوگ بہت کم یا بہت
زیادہ سونے کے عادی ہوتے ہیں ان میں دماغی تنزلی کا خطرہ درست وقت تک
نیند کے مزے لینے والوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔
تحقیقات | 86 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔
ناقص نیند اور الزائمر امراض دونوں دماغی تنزلی سے منسلک ہیں اور ان دونوں کے
اثرات کو ایک دوسرے سے الگ کرنا چیلنج سے کم نہیں۔
واشنگٹن یونیورسٹی اسکول ٓاف میڈیسین کی اس تحقیق میں متعدد معمر افراد کے دماغی
افعال کا جائزہ کئی سال تک لیا گیا جبکہ الزائمر سے متعلق پروٹینز اور نیند کے دوران
دماغی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔
محققین نے اہم ڈیٹا اکٹھا کیا جس سے نیند ،الزائمر اور دماغ افعال کے پیچیدہ تعلق کو
سمجھنے میں مدد ملے گی۔
الزائمر معمر افراد میں دماغی تنزلی کا باعث بننے واال اہم ترین وجہ ہے جو 70فیصد
ڈیمینشیا کیسز کا باعث بنتا ہے۔
ناقص نیند اس بیماری کی ایک عام عالمت ہے اور اس کے بڑھنے کی رفتار کو تیز
کردیتی ہے۔
محققین نے بتایا کہ نیند کا دورانیہ دماغی کارکردگی کو وقت کے ساتھ مستحکم رکھنے
کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔
تحقیق میں 100معمر افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں الزائمر کے ابتدائی ٓاثار دریافت
ہوئے تھے اور دریافت ہوا کہ 6سے 8گھنٹے کی نیند دماغی افعال کو مستحکم رکھتے
ہیں۔
کووڈ سے حاملہ خواتین پر مرتب ہونے والے Œایک عجیب اثر کا انکشاف
ویب ڈیسک
اکتوبر 24 2021
میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل کی تحقیق میں 38ایسی خواتین کا جائزہ لیا گیا تھا جو حمل کے
دوران کورونا وائرس سے متاثر ہوئی تھیں۔
ان میں سے 50فیصد کے بطن میں لڑکے تھے ،بیشتر خواتین میں کووڈ 19کی شدت
معمولی یا معتدل تھیں۔
محققین نے جلد ماں بننے والی ان خواتین میں بیماری سے بننے والی اینٹی باڈیز کی جانچ
پڑتال خون کے نمونوں اور ہونے والے بچوں میں ٓانول کے ٹشوز کے ذریعے کی گئی۔
نتائج سے معلوم ہوا کہ جن خواتین کے ہاں لڑکوں کی پیدائش متوقع تھی انہوں نے بیماری
کے بعد لڑکیوں کے مقابلے وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی کم مقدار کو
بیٹوں میں منتقل کیا۔
اسی طرح جن خواتین کے ہاں لڑکوں کی پیدائش متوقع تھی ان میں بیماری کے بعد بننے
والی اینٹی باڈیز کی تعداد لڑکیوں کو جنم دینے والی خواتین کے مقابلے میں کافی کم تھی۔
محققین نے بتایا کہ اس سے ماں اور بچے کے مدافعتی نظام کے حوالے سے چند اشارے
ملتے ہیں۔
نتائج سے ممکنہ عندیہ ملتا ہے کہ مردوں اور خواتین کا کووڈ 19کے حوالے سے
مدافعتی ردعمل کتنا مختلف ہوتا ہے۔
تحقیق کے مطابق لڑکوں میں وائرس سے بظاہر ورم کا ردعمل تشکیل پاتا پے جو لڑکیوں
میں نظر نہیں ٓاتا۔
تحقیقات | 89 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
محققین نے بتایا کہ ورم ممکنہ طور پر ماں کی کورونا وائرس اینٹی باڈیز کو پطن میں
موجود بچے میں منتقل کرنے کی صالحیت متاثر ہوتی ہے۔
تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لڑکوں سے حاملہ خواتین کے ٓانول میں ورم کو بڑھانے والے
جیز زیادہ متحرک ہوتے ہیں جبکہ لڑکیوں والی حاملہ خواتین میں ایسا نہیں ہوتا۔
محققین کا کہنا تھا کہ اس طرح کا ردعمل اس بات کی اہمیت ظاہر کرتا ہے کہ ماں کو
وائرل انفیکشن ہونے پر ٓانول اور ہونے والے بچوں کا تحفظ کتنا ضروری ہ۔
محققین نے اس سے ملتے جلتے مدافعتی ردعمل کا مشاہدہ کووڈ 19سے متاثر مردوں میں
بھی کیا ہے۔
کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ متاثرہ مردوں میں سائٹوکائین نامی پروٹینز 2020
کی سطح بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جو ورم کو بڑھاتا ہے ،اسی وجہ سے ان میں بیماری
کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔
اس نئی تحقیق میں شامل ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے کچھ اشارے ملتے ہیں کہ مردوں
میں قوت مدافعت کا ٓاغاز ممکنہ طور پر ماں کے بطن میں ہی ہوجاتا ہے۔
اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع ہوئے
https://www.dawnnews.tv/news/1171332/
ویب ڈیسک
اکتوبر 24 2021
ٰ
دعوی ابتدائی شواہد میں سامنے ٓایا — یہ
کورونا کی قسم ڈیلٹا کی ذیلی قسم اے وائے 4.2ممکنہ طور پر ڈیلٹا سے زیادہ متعدی ہے۔
دعوی ابتدائی شواہد میں سامنے ایا۔یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی (یو کے ایچ ایس اے) ٰ یہ
کی جانب سے اس حوالے سے بیان جاری کیا گیا جس میں اس قسم (جو ڈیلٹا پلس سے
زیادہ جانی جاتی ہے) کو وی یو ٓائی 210سی ٹی 01کا ٓافیشل نام بھی دیا گیا۔
ڈیلٹا پلس کو برطانیہ میں سب سے پہلے جوالئی 2021میں دریافت کیا گیا تھا مگر یہ سب
سے پہلے بھارت میں نمودار ہوئی تھی۔
اس قسم کے کیسز امریکا اور کینیڈا میں بھی دریافت ہوئے ہیں۔
یو کے ایچ ایس اے کے ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ کورونا کی یہ قسم اس وقت برطانیہ میں
6فیصد کیسز کا باعث ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔
یو کے ایچ ایس اے کی چیف ایگزیکٹیو Œڈاکٹر جینی ہیریس نے بتایا کہ وائرسز میں اکثر
میوٹیشنز ہوتی ہیں تو وبا کے چلتے کورونا کی نئی اقسام کا ابھرنا غیرمتوقع نہیں ،اس
سے یہ شواہد ملتے ہیں کہ وبا ابھی ختم نہیں ہوئی۔
بیان میں کہا گیا کہ کورونا کی اس قسم کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ
یہ ڈیلٹا سے زیادہ متعدی ہے یا نہیں۔
لندن کالج یونیورسٹی کے جینیٹکس انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر فرانسوئس بیلوکس نے بتایا کہ
اے وائے 4.2ابھی زیادہ پھیال نہیں تو اگر وہ 10فیصد زیادہ متعدی ہو بھی تو اس کے
نتیجے میں اضافی کیسز کی تعداد بہت کم ہوگی۔
انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں جو ابھی ہورہا ہے اس کے لیے ہم وائرس کو ذمہ دار قرار
نہیں دے سکتے ،ایسا اس لیے ہورہا ہے کیونکہ ہم اس کے پھیالؤ کو روکنے مین ناکام
ہوگئے ہیں اور اس لیے بھی کیونکہ بچے اس وائرس کے سامنے ویکسینیشن نہ ہونے کی
وجہ سے کمزور ہیں۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایسا ڈیلٹا کی باالدستی کی وجہ سے بھی ہورہا ہے جو ایلفا کے
مقابلے میں مدافعتی ردعمل پر حملہ آور ہونے کی زیادہ بہتر صالحیت رکھنے قسم ہے۔
پروفیسر روی گپتا کے مطابق کورونا کی یہ قسم ویکسین سے حاصل ہونے والے دفاع
سے گزر سکتی ہے ،تو ویکسینز سے بیماری سے جزوی تحفظ ملتا ہے مکمل نہیں،
ویکسینیشن کا مقصد بیماری کی سنگین پیچیدگیوں سے تحفظ فراہم کرنا ہے ،تو میوٹیشنز
کے بارے میں فکرمند ہونے کی بجائے قابو سے باہر پھیالؤ کے بارے میں سوچنا چاہیے
https://www.dawnnews.tv/news/1171333/
اس سے قبل ماؤنٹ سینائی کے ہی ایشکن اسکول ٓاف میڈیسین کی ایک حالیہ تحقیق میں
بتایا گیا تھا کہ کووڈ 19کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی تنزلی جسے ذہنی
دھند یا برین فوگ بھی کہا جاتا ہے ،کا سامنا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں بشمول ایسے افراد جن کو
ہسپتال داخل نہیں ہونا پڑا ،ان کو طویل المعیاد بنیادوں پر دماغی افعال کی تنزلی کا سامنا
ہوسکتا ہے۔
اس تحقیق میں ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم رجسٹری کے مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور
دریافت ہوا کہ لگ بھگ ایک چوتھائی افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا تھا۔
تحقیق کے مطابق اگرچہ ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے مریضوں میں کووڈ کو شکست
دینے کے بعد ذہنی دھند کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر زیادہ بیمار نہ ہونے والے لوگوں کو
بھی دماغی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔
محققین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ کووڈ 19سے متاثر ہونے کے کئی ماہ بعد بھی
مریضوں کو دماغی تنزلی کا سامنا بہت زیادہ تعداد میں ہورہا ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے افراد کے اہم دماغی افعال کے مسائل کا
سامنا ہوتا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ پیٹرن ابتدائی رپورٹس سے مطابقت رکھتا ہے جن میں بتایا گیا کہ کووڈ
19کو شکست دینے کے بعد لوگوں کو مختلف ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔
ویب ڈیسک
اکتوبر 25 2021
اس ٹرائل میں 4573صحت مند بچوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے ویکسین اور پلیسبو
استعمال کرنے والے گروپس کو بنایا گیا۔ویکسین گروپ میں شامل بچوں کو 50مائیکرو
گرام کی 2خوراکیں 28دن کے وقفے سے استعمال کرائی گئی تھیں۔
تحقیقات | 95 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
نتائج سے ثابت ہوا کہ دوسری خوراک کے استعمال کے ایک ماہ بعد بچوں میں ٹھوس
مدافعتی ردعمل بن گیا۔ٹرائل میں جو مضر اثرات بچوں میں نظر ٓائے وہ معمولی یا معتدل
تھے جن میں تھکاوٹ ،سردرد ،بخار اور انجیکشن کے مقام پر تکلیف قابل ذکر ہے۔
اب کمپنی کی جانب سے یہ ڈیٹا دنیا بھر میں ریگولیٹری اداروں کو پاس جمع کرانے کے
بعد اس عمر کے بچوں کے لیے ویکسین استعمال کرنے کی اجازت طلب کی جائے گی۔
یہ نتائج اس وقت سامنے ٓائے ہیں جب 22اکتوبر کو فائزر کی جانب سے 5سے 11سال
کے بچوں میں ویکسین ٹرائل کے نتائج جاری کیے گئے تھے۔
تحقیق میں 5سے 11سال کے بچوں میں ویکسین محفوظ اور بیماری سے بچانے کے لیے
90.7فیصد تک مؤثر ثابت ہوئی۔
فائزر کی جانب سے اب اس ڈیٹا کو یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے پاس جمع کرایا
جارہا ہے تاکہ اس عمر کے بچوں کے لیے ویکسینیشن کی منظوری حاصل کی جاسکے۔
اس تحقیق میں 5سے 11سال کی عمر کے 2268بچوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو 3
ہفتوں کے وقفے کے دوران پلیسبو یا کم مقدار میں ویکسین کی 2خوراکیں استعمال کرائی
گئی تھیں۔
ویکسین کی ہر خوراک کی مقدار نوجوانوں اور بالغ افراد کو دی جانے والی ویکسین کی
مقدار سے دو تہائی کم تھی۔
تحقیق میں پلیسبو استعمال کرنے والوں میں 16جبکہ ویکسین شدہ بچوں میں کووڈ کے 3
کیسز رپورٹ ہوئے جن کو مدنظر رکھتے ہوئے محققین نے تخمینہ لگایا کہ کم مقدار والی
خوراک والی ویکسین اس عمر کے گروپ میں لگ بھگ 91فیصد تک مؤثر تھی۔
https://www.dawnnews.tv/news/1171409/
ویب ڈیسک
پير 25 اکتوبر2021
چھلکے سمیت گندم اور جو وغیرہ کو ’مکمل اناج‘ کہا جاتا ہے ،جس کی خوبیاں ہر نئی
تحقیق کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔
ہیلسنکی :فن لینڈ کے طبّی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ مکمل اناج (ہول گرین) کے
استعمال سے ذیابیطس کے خطرے میں کمی واقع ہوتی ہے جو ٓانے والے برسوں میں
تشخیص ،ادویہ اور دوسرے متعلقہ حوالوں سے اخراجات میں بچت کا باعث بھی بنتی
ہے۔
ریسرچ جرنل ’نیوٹریئنٹس‘ کے تازہ شمارے میں شائع ہونے والی یہ تحقیق یونیورسٹی ٓاف
ایسٹرن فن لینڈ اور فنّش انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ ویلفیئر کے ماہرین نے مشترکہ طور پر
انجام دی ہے۔
کہا )‘ (whole grainبتاتے چلیں کہ چھلکے سمیت گندم اور جو وغیرہ کو ’مکمل اناج
جاتا ہے ،جس کی خوبیاں ہر نئی تحقیق کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔
جاپان میں 74ہزار مردوزن پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ روزانہ مٹھی بھر مونگ پھلی
امراض قلب کے خطرات کم ہوسکتے ہیں۔
ِ کھانے سے بھی فالج اور
ض قلب سے اموات کا سلسلہ ہوش ربا رفتاراوساکا :پاکستان سمیت دنیا بھر میں امرا ِ
سے ٓاگے بڑھ رہا ہے اور اب خبر یہ ٓائی ہے کہ روزانہ مونگ پھلی کے چار یا پانچ دانے
کھانے سے بھی بہت فرق پڑسکتا ہے۔
تحقیقات | 98 جلد ، ۵شمارہ ۱۸ | ۱۴۷اکتوبر ۲۰۲۱۔ ۲۴اکتوبر|۲۰۲۱ہفتہ وار طبی
ویکلی طِ ّبی تحقیقات
لیکن یہ تحقیق جاپان میں ہوئی اور اس ضمن میں ایشیائی افراد کو اس سے فائدہ ہوسکتا
ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ مونگ پھلی کھانے کو معمول کا حصہ بنایا جائے۔
یہ تحقیق امریکی ہارٹ ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ شائع کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے
کہ اگر روزانہ مونگ پھلی کے پانچ دانے کھائے جائیں تو خون کےلوتھڑے بننے اور فالج
کے اثرات و خطرات میں 20فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ جبکہ دل کی نالیوں کی
تنگی کا خطرہ 13فیصد تک کم ہوسکتا ہے جن میں خود فالج اور دل کی بیماریاں بھی
شامل ہیں۔
اچھی بات یہ ہے کہ مونگ پھلی کھانے سے مرد اور عورت پر اس کے یکساں مثبت
اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم مونگ پھلی کو ایک جادو بھری غذا کہہ سکتے ہیں
جس کی تھوڑی سی مقدار بھی بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔
اوساکا یونیورسٹی گریجویٹ اسکول ٓاف میڈیسن سے وابستہ سماجی ادویہ کے ماہر
پروفیسر ساٹیو ٓائکی ہارا اور ان کے ساتھیوں کا اصرار ہے کہ مونگ پھلی مونوسیچیوریٹڈ
فیٹی ایسڈز ،پولی ان سیچیوریٹڈ فیٹی ایسڈز ،معدنیات ،وٹامن ،فائبر سے بھرپور ہوتی ہیں
اور یہ سب ملکر بلڈ پریشر ،جلن اور مضر کولیسٹرول سے محفوظ رکھتی ہیں۔ اس سے
قبل امریکی سروے سے بھی یہی ثبوت ملے ہیں۔
تاہم یہ نیا سروے 74,793مردوخواتین پر کیا گیا ہے جن کی عمرین 45سے 74برس
تھی اور انہیں ایک طویل مطالعے کے لیے جاپانی پبلک ہیلتھ سینٹر نے بطور رضاکار
بھرتی کیا تھا۔ اوسط 15برس تک تمام افراد کا جائزہ لیا گیا اور انہیں مونگ پھلیاں کھانے
کو بھی کہا گیا تھا۔
ان میں سے جن افراد نے محض مٹھی بھر مونگ پھلیاں کھانے کو بھی معمول بنایا ان میں
دونوں اقسام کے فالج یعنی اشکیمک اور ہیمریج کا خطرہ 87فیصد کم دیکھا گیا جبکہ دل
کے امراض کا خدشہ بھی ٹل گیا۔
واصح رہے کہ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ 40سال سے عمر
کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزانہ 10بڑےچمچے بھر مونگ پھلی کھائیں۔
اس سے وہ نہ صرف کولیسٹرول اور بلڈ پریشر سے محفوظ رہیں گے بلکہ خود جان لیوا
امراض قلب سے بھی دور رہیں گے۔ ِ فالج اور
https://www.express.pk/story/2240016/9812/