You are on page 1of 99

‫وار‬

‫ہفتہ ‪5‬‬

‫ِط ّبی تحقیقات‬


‫‪Issue 142 – Vol.‬‬
‫‪Managing‬‬ ‫‪Editor‬‬
‫‪18‬ی تحقیقات‬‫‪Oct.21 – 24 Oct. 2021‬طِ ّب‬
‫ویکلی‬
‫‪Mujahid‬‬
‫شائع ہونے واال‬ ‫عثمان پبلی‪Ali‬‬
‫کیشنزالہورکے زیراہمتمام‬
‫ہفتہ وارجریدہ‬
‫طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ‬
‫‪+ 92 0333 4576072‬‬ ‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

‫تحقیقات | ‪1‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٰ‬
‫عظمی ہے!قدرکیجئے‬ ‫صحت نعمت‬

‫جلد ‪،۵‬شمار ‪۱۴۲‬‬


‫اکتوبر ‪ ۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر ‪۱۸ ۲۰۲۱‬‬

‫مجلہ آن الئن پڑھا جاتاہے ۔یوٹیوب کے ساتھ ساتھ‬ ‫مینجنگ ایڈیٹر‪:‬مجاہدعلی‬


‫مختلف سوشل میڈیا پربھی شئیرکیاجاتاہے ۔اس‬ ‫معاون مدیر‪ :‬حافظ زبیر‬
‫کے عالوہ یہ پاکستان کی جامعات‪،‬تحقیقاتی ادارہ‬ ‫ایڈیٹر ‪:‬ذاہدچوہدری‬
‫جات‪،‬معالجین حکماء ‪،‬محققین‪،‬فارماسیٹوٹیکل‬
‫انڈسٹری اورہرطرح کی فوڈ انڈسٹری کوبھی ای‬
‫میل کیا جاتاہے اورتارکین وطن بھی اس سے‬
‫مستفید ہوتے ہیں۔اوریوں تقریبا پورے پاکستان‬ ‫ادارتی ممبران‬
‫میں اسکی سرکولیشن کی جاتی ہے اورآپکے‬
‫کاروبار‪ ،‬پراڈکٹ ‪،‬سروسزکے فروغ کابہترین‬
‫حضرت موالنا حکیم زبیراحمد‬
‫ذریعہ ہے‬
‫رحمت ہللا ادارہ فروغ تحقیق الہور‬
‫شعبہ تحقیق وتالیفات‬ ‫محمدعباس مسلم‬
‫شیخ ذیشان یوایم ٹی یونیورسٹی‪/‬‬

‫برائے اشتہارات ورابطہ یاکسی بھی‬ ‫ماہرانہ مشاورت‬


‫معلومات کے لئے‬ ‫حکیم زبیراحمد‬
‫ڈاکٹرواصف ُنور‬
‫‪Mujahid Ali 0333 457 6072‬‬ ‫ڈاکٹرمحمدعبدالرحمن‬
‫ڈاکٹرمحمدتحسین‬
‫‪meritehreer786@gmail.com‬‬ ‫ڈاکٹرروشن پیرزادہ‬
‫ڈاکٹرمحمدمشتاق‪/‬‬

‫عثمان پبلی کیشنز‬


‫جالل دین ہسپتال چوک اردوبازار‬
‫‪Phone: 042-37640094‬‬
‫‪Cell: 0303-431 6517 – 0333 409 6572‬‬
‫‪upublications@gmail.com‬‬
‫‪www.upublications.com‬‬

‫طبی تحقیقات کوپڑھنے کے لئے ویب گاہ‬


‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬

‫تحقیقات | ‪2‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬

‫‪www.alqalam786.blogspot.com‬‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تفصیل‬
‫کیا ٓاپ بھی کانٹیکٹ لینسز استعمال کرتے ہیں؟ ان باتوں کا خیال رکھیں‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪ 18 2021‬‬

‫ٓاپ کو چشمے سے چھٹکارہ دالنے والے کانٹیکٹ لینسز لگانے اور اتارنے کےلیے کن‬
‫باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔‬
‫کانٹیکٹ لینس کا استعمال ماضی میں صرف وہ افراد استعمال کرتے تھے جن کی بینائی‬
‫کمزور ہو لیکن اب کانٹیکٹ کا استعمال عام ہوچکا ہے‪ ،‬کیا ٓاپ بھی کانٹیکٹ لینسز استعمال‬
‫کرتے ہیں؟ماہرین کہتے ہیں کہ ہمیشہ وہ لینسز استعمال کیے جائیں جو معیاری کمپنی کے‬
‫ہوں اور لینسز لگانے کے دوران ٓانکھوں میں کسی قسم کی دوا نہ ڈالیں۔‬
‫اگر ٓانکھیں سُرخی مائل ہوں یا ان سے رطوبت یا پانی خارج ہورہا ہو تو لینسز لگانے‬
‫سےگریز کریں اور کانٹیکٹ لینسز لگاتے اور اتارتے وقت ہاتھوں کو اچھی طرح دھولیں‬
‫اور سوتے وقت لینس پہن کر نہ سوئیں۔‬
‫کانٹیکٹ لینسز کو مخصوص سلوشن میں رکھیں اور اس سلوشن کو ہر تین دن بعد تبدیل‬
‫کریں۔اگر ایسا ہوتا ہے کہ کانٹیکٹ لینسز لگانے کے بعد ٓانکھوں میں چبھن ہوتی ہے‪ ،‬اگر‬
‫ایسا ہو تو فوری طور پر لینسز اتار دیں کیوں کہ انفیکشن کی شکایت ہوسکتی ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/do-you-also-use-contact-lenses-take-care-of-‬‬
‫‪these-things/‬‬
‫تحقیقات | ‪3‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سرد موسم میں گرتے بالوں کا مؤثر عالج‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪18 2021‬‬

‫موسم سرما کی ٓامد ٓامد ہے ایسے موسم مرد و خواتین کو اکثر بال گرنے‪ ،‬روکھے ہونے‬
‫اور بالوں میں خشکی کی شکایات درپیش ہوتی ہے جس سے وہ چھٹکارا پانے کے لیے‬
‫ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔‬
‫ہم اپنے قارئین کو سرد و خشک موسم میں بال گرنے سے روکنے اور روکھے بالوں کو‬
‫سیدھا کرنے کا طریقہ بتائے گا۔‬
‫رپورٹ کے مطابق سردیوں میں لوگوں کی اکثر تعداد نہانے کے لیے گرم پانی کا استعمال‬
‫کرتی ہے اور اس وجہ سے بھی بالوں میں خشکی بڑھ جاتی ہے۔‬
‫ہیئر ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ سردی میں خنکی زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ‬
‫کھانا پینا اور موسم کی کن چیزوں کی وجہ سے بالوں میں خشکی پیدا ہوتی ہے اور گرنے‬
‫اور کس وجہ سے بالوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔‬
‫ایکسپرٹس کا کہنا تھا کہ وٹامن ای کا استعمال بالوں کی چمک کو بڑھاتا ہے اس کے عالوہ‬
‫بالوں کی نیرشمنٹ (تیل لگانا) ضروری ہے‪ ،‬تیل سے بالوں کو بھرنا نہیں ہے اور تیل کو‬
‫لگاکر سونا بھی نہیں ہے ‪ 30‬سے ‪ 35‬منٹ میں بالوں کو دھو لیں۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ کلونجی کے دانے انسانی صحت کے لیے بے حد مفید ہیں‪ ،‬ان کی‬
‫افادیت نا صرف طب بلکہ سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت شدہ ہے‪ ،‬کلونجی کا تیل بالوں‬
‫کی جڑوں کو مضبوطی اور نمی فراہم کرتا ہے‪ ،‬کلونجی کے نیم گرم تیل سے اگر بالوں‬
‫کی جڑوں میں مساج کیا جائے تو بال مضبوط‪ ،‬لمبے گھنے اور مالئم ہو جاتے ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪4‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین کہتے ہیں کہ اگر کلونجی کے تیل میں چند اجزا کا اضافہ کر لیا جائے تو یہ‬
‫جھڑتے بالوں کا بہترین عالج ثابت ہوتا ہے۔‬
‫‪:‬کلونجی کے تیل کو فارموال تیل بنانے کا طریقہ‬
‫کلونجی کے تیل میں کلونجی کے ہم وزن سرسوں اور زیتون کا تیل شامل کریں اور پھر‬
‫ٓادھی مقدار میں بادام اور ناریل کا تیل بھی ماللیں۔‬
‫تمام اجزا سے حاصل کردہ تیل اچھی طرح مکس کرنے کے بعد دو سے تین چمچ کلونجی‬
‫شامل کرکے کانچ کی بوتل میں ڈال لیں اور روزانہ تیز دھوپ کی تپش میں رکھیں اور شام‬
‫ہوتے ہی چھاؤں میں منتقل کردیں۔‬
‫یہ عمل ایک ہفتے تک دوہرانا ہے‪ ،‬اس کے بعد تیل کو ہفتے میں کم از کم دو مرتبہ‬
‫استعمال کریں اور حیران کن نتائج پائیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/effective-treatment-of-hair-loss-in-cold-weather/‬‬

‫نمک کی زیادتی سے ہونے والے نقصانات‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪18 2021‬‬

‫نمک ہمارے کھانے کا الزمی جزو ہے لیکن ماہرین کے مطابق نمک کو معتدل مقدار میں‬
‫استعمال کرنا ضروری ہے‪ ،‬اس کا زیادہ استعمال بہت سے نقصانات کا سبب بن سکتا ہے۔‬
‫طبی ماہرین کی ہدایات کے مطابق دن بھر میں ‪ 2300‬ملی گرام (ایک کھانے کا چمچ)‬
‫نمک ہی استعمال کرنا چاہیئے‪ ،‬تاہم بیشتر افراد زیادہ مقدار میں نمک جزو بدن بناتے ہیں‬
‫اور اس کے نتیجے میں فشار خون سمیت سنگین طبی مسائل وقت کے ساتھ ابھرنے لگتے‬
‫ہیں۔‬
‫معتدل مقدار میں نمک کا استعمال مسلز کو سکون پہنچانے اور لچک برقرار رکھنے میں‬
‫مدد فراہم کرتا ہے جبکہ منرلز اور پانی کے درمیان توازن بھی قائم کرتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪5‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس کے برعکس‪ Œ‬غذا میں زیادہ نمک کا استعمال جسم کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫اگر آپ روز مرہ کی بنیاد پر زیادہ مقدار میں نمک استعمال کرتے ہیں تو آپ کو درج ذیل‬
‫مسائل کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫پیٹ پھولنا‬
‫پیٹ پھولنا اور گیس بہت زیادہ نمک کے استعمال کا سب سے عام مختصر المدت اثر ہے‪،‬‬
‫نمک جسم میں پانی کے اجتماع میں مدد فراہم کرتا ہے تو زیادہ نمک کے نتیجے میں زیادہ‬
‫سیال جمع ہونے لگتا ہے‪ ،‬سینڈوچ‪ ،‬پیزا یا دیگر نمکین غذاؤں میں نمک بہت زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫بلڈ پریشر بڑھنا‬
‫ویسے تو ہائی بلڈ پریشر کی متعدد وجوہات ہوسکتی ہیں مگر ان میں ایک نمایاں وجہ بہت‬
‫زیادہ نمک کا استعمال ہے‪ ،‬بلڈ پریشر کی سطح میں تبدیلی گردوں پر بھی اثرات مرتب‬
‫کرتی ہے‪ ،‬بہت زیادہ نمک کے استعمال سے اضافی سیال کا اخراج بہت مشکل ہوجاتا ہے‪،‬‬
‫جس کے نتیجے میں بھی بلڈ پریشر بڑھتا ہے۔‬
‫سوجن ہونا‬
‫جسم کے مختلف حصوں کا سوج جانا بھی بہت زیادہ نمک کے استعمال کی ایک عالمت‬
‫ہوسکتی ہے۔ چہرے‪ ،‬ہاتھوں‪ ،‬پیروں اور ٹخنوں کے سوجنے کا امکان بہت زیادہ ہوتا ہے‪،‬‬
‫اگر آپ کو معمول سے زیادہ سوجن کا سامنا ہو تو غور کریں کہ غذا میں زیادہ نمک تو‬
‫استعمال نہیں کر رہے۔‬
‫پیاس میں اضافہ‬
‫اگر آپ کو بہت زیادہ پیاس لگ رہی ہے تو یہ بھی نشانی ہے کہ آپ نے بہت زیادہ نمک‬
‫جزو بدن بنایا ہے۔ زیادہ نمک کے استعمال سے ڈی ہائیڈریشن کا سامنا ہوتا ہے کیونکہ‬
‫جسم خلیات سے پانی کو کھینچ لیتا ہے اور بہت زیادہ پیاس لگنے لگتی ہے۔‬
‫پانی پینے سے نمک کو حل کرنے میں مدد ملتی ہے اور خلیات تازہ دم ہوجاتے ہیں۔‬
‫وزن میں اضافہ‬
‫جب جسم میں پانی جمع ہوتا ہے تو جسمانی وزن بڑھنے کا امکان بھی ہوتا ہے‪ ،‬اگر چند‬
‫دن یا ایک ہفتے میں اچانک کئی کلو وزن بڑھ گیا ہے تو اس کی ایک بڑی وجہ بہت زیادہ‬
‫نمک کا استعمال بھی ہوسکتا ہے۔‬
‫بے سکون نیند‬
‫سونے سے پہلے غذا کے ذریعے نمک کا زیادہ استعمال بے خوابی کا باعث بھی بن سکتا‬
‫ہے۔ اس کی مختلف عالمات ہوتی ہیں جیسے بے آرام نیند‪ ،‬رات کو اکثر جاگ جانا یا صبح‬
‫جاگنے پر تھکاوٹ کا احساس ہونا وغیرہ۔‬
‫کمزوری محسوس ہونا‬
‫جب خون میں نمک کی مقدار بہت زیادہ ہو تو خلیات سے پانی کا اخراج ہوتا ہے اس کا‬
‫نتیجہ معمول سے زیادہ کمزوری محسوس ہونے کی شکل میں نکلتا ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/dangers-of-excessive-salt/‬‬

‫تحقیقات | ‪6‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کرونا وائرس ویکسین دوسرے ملتے جلتے وائرسز سے تحفظ میں‬
‫بھی معاون‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 18 2021‬‬

‫حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ کرونا وائرس سے تحفظ‬
‫فراہم کرنے والی ویکسینز‪ u‬سے اس سے ملتے جلتے وائرسز‪ u‬سے بھی تحفظ ملتا ہے۔‬
‫نارتھ ویسٹرن میڈیسن کی تحقیق کے نتائج سے عالمی کرونا وائرس ویکسینز تیار کرنے‬
‫میں مدد مل سکے گی جو مستقبل میں وبائی امراض کی روک تھام کرسکیں گی۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے قبل یہ واضح نہیں تھا کہ کسی ایک کرونا وائرس‬
‫سے متاثر ہونا دیگر کرونا وائرسز سے تحفظ فراہم کرتا ہے یا نہیں‪ ،‬تحقیق سے ثابت ہوتا‬
‫ہے کہ ایسا ممکن ہے۔‬
‫کرونا وائرسز کی ‪ 3‬بنیادی اقسام انسانوں میں امراض کا باعث بنتی ہیں جن میں سارس‬
‫کوو ‪ ،1‬سارس کوو ‪( 2‬کووڈ کا باعث بننے والی قسم) اور تیسری مرس ہے‪ ،‬مگر اس سے‬
‫ہٹ کر عام نزلہ زکام کا باعث بننے والی اقسام بھی ہیں۔‬
‫تحقیق میں کووڈ ‪ 19‬ویکسینز کا استعمال کرنے والے افراد کے پالزما پر جانچ پڑتال کی‬
‫گئی۔ ماہرین نے دریافت کیا کہ ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز سے سارس کوو ‪ 1‬اور‬
‫عام نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرس سے بھی تحفظ ملتا ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی دریافت کیا گیا کہ ماضی میں کرونا وائرسز سے ہونے والی بیماری سے‬
‫بھی دیگر اقسام سے ہونے والے انفیکشنز سے تحفظ مل سکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪7‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق کے دوران چوہوں کو کووڈ ‪ 19‬ویکسینز استعمال کر کے انہیں عام نزلہ زکام والے‬
‫کرونا وائرس سے متاثر کیا تو دریافت ہوا کہ انہیں جزوی تحفظ مال جو زیادہ ٹھوس نہیں‬
‫تھا۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس کی اقسام ‪ 70‬فیصد سے زیادہ حد تک ملتی جلتی ہیں تو‬
‫اس سے چوہوں کو تحفظ ملنے کی وضاحت ہوتی ہے‪ ،‬اگر ان کا سامنا کرونا وائرسز کی‬
‫بالکل مختلف اقسام سے ہوتا تو ویکسینز سے زیادہ تحفظ نہیں ملتا۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے یونیورسل کرونا وائرس ویکسین کے تصور کی‬
‫دوبارہ جانچ پڑتال میں مدد مل سکے گی۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/coronavirus-vaccine-helps-prevent-other-viruses/‬‬

‫چین نے موسمی زکام کی ویکسینیشن شروع کر دی‬


‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪18 2021‬‬

‫بیجنگ‪ :‬چین نے موسمی زکام کی ساالنہ ویکسینیشن مہم کا آغاز کر دیا۔‬


‫تفصیالت کے مطابق چین میں موسمی زکام کے لیے ویکسینیشن مہم شروع ہو گئی ہے‪،‬‬
‫اس مہم کے لیے ترجیحی گروپس کا تعین بھی کیا گیا ہے۔‬

‫ریاستی کونسل کی انٹرایجنسی ٹاسک فورس کے مطابق ترجیحی گروپس میں طبی اہل‬
‫کاروں‪ ،‬بڑی تقاریب کے شرکا‪ ،‬نرسنگ ہومز اور فالحی مراکز میں موجود مستحق افراد‬

‫تحقیقات | ‪8‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کے ساتھ ساتھ بچوں کی نگہداشت کے مراکز‪ ،‬کنڈرگارٹنز‪ ،‬ابتدائی و ثانوی اسکولوں کو‬
‫شامل کیا گیا ہے۔‬
‫‪ 60‬سال اور اس سے زائد عمر کے افراد‪ 6 ،‬ماہ سے ‪ 5‬سال تک عمر کے بچے‪ ،‬دائمی‬
‫بیماریوں میں مبتال مریض اور انفیکشن کے زیادہ خطرے سے دوچار افراد بھی ممکنہ‬
‫طور پر ویکسین لگوانے والے اہم افراد میں شامل ہیں۔‬
‫مقامی آبادیوں میں ترجیحی گروپس میں شامل افراد کو ویکسین لگوانے کی ترغیب دی جا‬
‫رہی ہے‪ ،‬حکام کا کہنا ہے کہ نوول کرونا وائرس کی ویکسین اور زکام کی ویکسین میں کم‬
‫از کم ‪ 14‬دن کا وقفہ درکار ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ ساالنہ فلو ویکسین موسمی زکام سے بچنے کا بہترین طریقہ ہے‪ ،‬اس‬
‫سے زکام سے ہونے والے انفیکشن اور سنگین پیچیدگیوں کے خطرات نمایاں طور پر کم‬
‫ہو جاتے ہیں‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/china-flu-vaccine/‬‬

‫پراسیس شدہ غذا دماغ خطرناک قرار؟ محققین نے خبردار کردیا‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 19 2021‬‬

‫محققین نے ایک تحقیق کے بعد خبردار کیا ہے کہ پروسیس شدہ غذائیں یادداشت متاثر‬
‫کرکے دماغ کو قبل از وقت بوڑھا کردیتی ہیں۔‬
‫تحقیق کاروں نے پراسیس شدہ غذاؤں کا تجربہ چوہوں پر کیا‪ ،‬جس کے نتائج نے سائنس‬
‫دانوں کو بھی حیران کردیا۔‬
‫تحقیقات | ‪9‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫غیر ملکی میڈیا کی رپورٹ کے مطابق تحقیق سے پتہ چال کہ چوہوں کی یادداشت کمزور‬
‫ہوئی‪ ،‬سائنس دانوں نے کہا کہ پروسیس شدہ غذائیں فوری طور پر اعصابی تناؤ اور زوال‬
‫کا ٓاغاز ہوسکتا ہے۔‬
‫لیکن جب اس میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈ مالیا گیا تو پروسیس شدہ غذا کے منفی اثرات‬
‫میں کمی واقع ہوئی۔‬
‫پراسیس غذاؤں کی اصطالح ایسی چیزوں کیلئے استعمال ہوتی ہے جنہیں طویل عرصے‬
‫استعمال کرنے کے لیے خاص پیکنگ میں رکھا جاتا ہے‪ ،‬جیسا کہ منجمند کباب‪ ،‬پیزا‪،‬‬
‫سموسے‪ٓ ،‬الو کے چپس‪ ،‬ڈبل روٹی‪ ،‬فاسٹ فوڈز‪ ،‬مٹھائیاں‪ ،‬ٹافیاں‪ ،‬کیک‪ ،‬نمکین اشیا اور‬
‫بریک فاسٹ سیریلز‪ ،‬چکن اور فش نگٹس‪ ،‬انسٹنٹ نوڈلز‪ ،‬میٹھے مشروبات اور سوڈا‬
‫وغیرہ۔‬
‫واضح رہے کہ اقوام متحدہ دو سال قبل پراسیس شدہ سرخ گوشت پر پابندی عائد کرنے کی‬
‫سفارش بھی کرچکی ہے۔‬
‫میڈیا رپورٹس میں کہا گیا ہے کہ ماہرین کی جانب سے پراسیس شدہ غذاؤں کو ماضی میں‬
‫ذیابیطس‪ ،‬اور موٹاپے کی وجہ بھی قرار دیا گیا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/processed-food-declared-brain-dangerous-‬‬
‫‪researchers-warn/‬‬

‫!جسم میں خون کے لوتھڑے بننے کی کیا عالمات ہیں؟ جانیے‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 19 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪10‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫رگوں میں خون جمنے کی ‪ 6‬خاموش عالمات ہیں جنہیں جان کر ٓاپ بڑے نقصان سے بچ‬
‫سکتے ہیں کئی بار رگوں میں خون کا جمنا اچھا ہوتا ہے خاص طور پر جب آپ زخمی ہو‬
‫اور خون کا بہاﺅ روکنا چاہتے ہوں۔‬
‫دوسری جانب اکثر اوقات رگوں میں خون کا جمنا یا بلڈ کالٹ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتا‬
‫ہے خاص طور پر اگر وہ مسلز کے قریب شریانوں میں ہو۔‬
‫خون کا جمنا ہارٹ اٹیک اور فالج سمیت متعدد دیگر امراض کا باعث بنتا ہے جبکہ‬
‫پھیپھڑوں اور دیگر جسمانی اعضا کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪11‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بلڈ کالٹ کی عالمات‬
‫بنیادی طور پر بلڈ کالٹ کی عالمات مختلف ہوسکتی ہیں جس کا انحصار اس پر ہوتا ہے‬
‫کہ جسم کے کس حصے میں ایسا ہوتا ہے‪ ،‬مثال کے طور پر ہاتھ یا ٹانگ میں بلڈ کالٹ پر‬
‫سوجن‪ ،‬شدید تکلیف‪ ،‬متاثرہ حصہ زیادہ گرم ہوجانا۔‬
‫اسی طرح دماغ میں بلڈ کالٹ کا نتیجہ فالج کی شکل میں نکلتا ہے جس کی عالمات میں‬
‫۔ بولنے میں مشکالت‪ ،‬کمزوی‪ ،‬چہرے‪ ،‬ایک ہاتھ یا ٹانگ یا‪، seizures‬بینائی میں تبدیلیاں‬
‫جسم کے ایک حصے کا سن ہوجانا یا کسی قسم کا احساس نہ ہونا‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/blood-clots-symptoms-health-tips-upd/‬‬

‫وٹامنز سے بھرپور خربوزے کے حیران کن فوائد‬


‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 19 2021‬‬

‫خربوزہ موسم گرما کا پھل ہے‪ ،‬جس میں پانی کی مقدار بہت زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬اس کے بہت‬
‫سے فوائد ہیں خاص طور پر انسانوں کے لئے‪ ،‬اس میں مختلف قسم کی بیماریوں کو ختم‬
‫کرنے کی صالحیت بھی ہے۔‬
‫اس میں مختلف قسموں کے ‪ 95‬فیصد کے قریب وٹامنز ہوتے ہیں‪ ،‬اس میں بہت زیادہ تعداد‬
‫میں منرلز بھی ہوتے ہیں۔اس میں کیونکہ پانی بہت زیادہ مقدار میں شامل ہوتا ہے جو کہ‬
‫ہاضمہ کے لئے بہت بہتر ہوتا ہے‪ ،‬اس سے ہاضمہ بالکل ٹھیک رہتا ہے‪ ،‬یہ معدہ میں‬
‫موجود تیزابیت کو ختم کر دیتا ہے اس کی وجہ یہ ہے کہ اس میں منرلز بہت زیادہ ہوتے‬
‫ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪12‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق خربوزہ کی ‪ 100‬گرام مقدار میں ‪ 32‬کیلوریز پائی جاتی ہیں‬
‫جبکہ اس پھل میں پائے جانے والے وٹامنز اور منرلز کے لحاظ سے فیٹ صفر فیصد‪،‬‬
‫کولیسٹرول‪ 0‬فیصد‪ ،‬سوڈیم ‪ 16‬ملی گرام‪ ،‬کاربو ہائیڈریٹس ‪ 8‬گرام‪ ،‬فائبر ‪ 3‬فیصد‪ ،‬پروٹین‬
‫ایک فیصد‪ ،‬وٹامن اے‪ 67‬فیصد‪ ،‬وٹامن سی‪ 61‬فیصد وٹامن بی ‪ 65‬فیصد اور میگنیشیم‪3‬‬
‫فیصد اور پانی ‪ 95.2‬گرام پایا جاتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ خربوزہ کھانے کی وجہ سے گرمی کا احساس کم ہوجاتا ہے اور بلد‬
‫پریشر کنٹرول میں رہتا ہے جس کی وجہ سے دل کی دھڑکن بھی متوازن رہتی ہے‪،‬‬
‫ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ خربوزہ بیماریوں کی جڑ قبض کی شکایت سے بھی جان چھڑانے‬
‫میں مدد فراہم کرتا ہے۔‬
‫ٓائیے اس کے مزید حیرت انگیز فوائد سے اپنے قارئین کو ٓاگاہ کرتے ہیں‪ ،‬ماہرین کا کہنا‬
‫ہے کہ خربوزہ ایسا پھل ہے۔جو چہرے کی تازگی برقرار رکھنے کےلیے انتہائی مفید ہے‬
‫اور اس میں موجود پانی جلد میں قدرتی چمک التا ہے۔ہے جبکہ خربوزے میں موجود‬
‫پروٹین جلد کو خوبصورت اور مالئم بناتے ہیں۔ خربوزے کے چھلکوں سے چہرے کا براہ‬
‫راست مساج بھی کیا جا سکتا ہے‪ ،‬اس کا گودا چہرے پر لگانے سے رنگ نکھر ٓاتا ہے۔‬
‫خربوزے کا استعمال انسانی جسم کو غذائیت اور پانی کی مقدار فراہم کر کے ہیٹ ویو کے‬
‫مضر اثرات سے بچاتا ہے۔گرمیوں میں اکثر افراد کو تیزابیت کی شکایت رہتی ہے‪90 ،‬‬
‫فیصد پانی پر مشتمل یہ پھل سینے کی جلن ختم کرنے اور تیزابیت سے بچانے میں بھی‬
‫مفید ہے۔‬
‫اس کے استعمال سے غذا َجلد ہضم ہوتی ہے اور نظام ہاضمہ کی کارکردگی بھی بہتر ہوتی‬
‫ہے۔ خربوزے کو قدیم زمانے میں جنت کا پھل بھی کہا جاتا تھا جو ہر سال اگست میں‬
‫درختوں پر پک جاتے ہیں‪ ،‬اس پھل کی میٹھاس سے لطف اندوز ہونے کے لیے ہمیں اس‬
‫کے بیج نکالنے پڑتے ہیں لیکن تربوز کے بیج کی طرح یہ بیج بھی بے کار نہیں بلکہ اپنے‬
‫اندر خصوصی فوائد سموئے ہوئے ہیں۔‬
‫ان کا استعمال طب کی دنیا میں ہوتا ہے۔ماہرین کا کہنا ہے کہ خربوزے کے بیج میں‬
‫مختلف قسم کے وٹامن موجود ہوتے ہیں جن میں بی ‪ ،9‬ب ‪ 6‬اور پی پی جبکہ طاقتور اینٹی‬
‫آکسیڈینٹس سی اور اے شامل ہیں جو انسان کے اعصابی نظام کے لیے مفید ہیں۔‬
‫ماہرین کے مطابق خربوزے کے بیج بلڈ شوگر کو کم کرنے اور کم کثافت والے‬
‫کولیسٹرول کو دور کرنے میں مدد کرتے ہیں‪ ،‬زنک کی اعلی مقدار کی وجہ سے‬
‫خربوزے کے بیج خاص طور پر مردوں کے لیے فائدہ مند ہیں‪ ،‬زنک خربوزے کے بیجوں‬
‫کو خوبصورتی کا حقیقی امرت بنا دیتا ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/muskmelon-vitamins-calories-upd/‬‬

‫دماغ مضبوط بنانے کیلیے ’انفراریڈ ہیلمٹ‘ پیش کردیا گیا‬

‫تحقیقات | ‪13‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫بدھ‪ 20  ‬اکتوبر‪ 2021  ‬‬

‫یہ ہیلمٹ دماغی خلیوں تک برا ِہ راست توانائی پہنچا کر ان کی کارکردگی اور کیفیت بہتر‬
‫بناتا ہے۔ (تصاویر‪ :‬ڈرہام یونیورسٹی)‬
‫ڈرہام‪ :‬برطانوی کمپنی میکیولیوم لمیٹڈ نے ایک ایسا ہیلمٹ تیار کرلیا ہے جو انفرا ریڈ‬
‫لہروں کے ذریعے نہ صرف دماغ کو مضبوط بناتا ہے بلکہ مختلف دماغی بیماریوں کے‬
‫عالج میں مدد بھی کرسکتا ہے۔‬
‫اس ہیلمٹ میں انفرا ریڈ ایل ای ڈیز کی کئی قطاروں کے ساتھ ‪ 14‬عدد پنکھے بھی نصب‬
‫ہیں جو ہیلمٹ کے عالوہ اسے پہننے والے کے سر کو بھی ٹھنڈا رکھتے ہیں۔‬
‫یہ ایل ای ڈیز ‪ 1,060‬نینومیٹر سے ‪ 1,068‬نینومیٹر کی انفرا ریڈ شعاعیں خارج ہوتی ہیں‬
‫جو دماغ کے اندرونی حصے تک ہر چھ منٹ میں ‪ 1,368‬جول توانائی (حرارت کی شکل‬
‫میں) پہنچاتی ہیں۔‬

‫اس ہیلمٹ کی تعارفی قیمت ‪ 7,250‬پونڈ (تقریبا ً ‪ 17‬الکھ ‪ 20‬ہزار پاکستانی روپے) رکھی‬
‫گئی ہے۔‬
‫ڈرہام یونیورسٹی‪ ،‬برطانیہ میں اس ہیلمٹ کی پائلٹ اسٹڈی ‪ 27‬رضاکاروں پر کامیابی سے‬
‫مکمل ہوچکی ہے جس کی تفصیالت ریسرچ جرنل ’’فوٹو بایو ماڈیولیشن‪ ،‬فوٹو میڈیسن‪،‬‬
‫اینڈ لیزر سرجری‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں ٓان الئن شائع ہوئی ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪14‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫بتاتے چلیں کہ اس طرح کے دماغی عالج کو ’’ٹرانس کرینیئل فوٹو بایو ماڈیولیشن‬
‫تھراپی‘‘ (بی بی ایم – ٹی) کہا جاتا ہے جس میں ایک خاص ہیلمٹ سے نکلنے والی انفرا‬
‫ریڈ شعاعوں کو مریض کے دماغ میں اندرونی حصوں تک پہنچایا جاتا ہے۔‬
‫یہ انفرا ریڈ لہریں دماغی خلیوں میں توانائی کی پیداوار کے ذمہ دار حصوں یعنی‬
‫’’مائٹوکونڈریا‘‘ تک پہنچ کر اپنی توانائی ان میں منتقل کردیتی ہیں۔‬
‫اس سے مائٹوکونڈریا کی کارکردگی کے ساتھ ساتھ دماغ میں توانائی کی کیفیت بھی بہتر‬
‫ہوتی ہے جس کے نتیجے میں دماغی صحت پر اچھا اثر پڑتا ہے۔‬
‫پائلٹ اسٹڈی کے دوران ‪ 14‬رضاکاروں کو ٓاٹھ ہفتوں تک روزانہ دو مرتبہ چھ چھ منٹ‬
‫کےلیے اصلی انفرا ریڈ ہیلمٹ استعمال کروایا گیا جبکہ ‪ 13‬رضاکاروں نے اصل ہیلمٹ‬
‫جیسا مصنوعی لیکن بے ضرر ہیلمٹ بالکل اسی طرح استعمال کیا۔‬
‫مطالعے کے اختتام پر معلوم ہوا کہ اصل ہیلمٹ استعمال کرنے والے رضاکاروں میں‬
‫حرکت‪ ،‬یادداشت اور بول چال سے متعلق صالحیتیں پہلے کے مقابلے میں نمایاں طور پر‬
‫بہتر ہوئی تھیں جبکہ اصلی جیسے نقلی ہیلمٹ استعمال کرنے والوں پر کچھ خاص فرق‬
‫نہیں پڑا۔‬
‫مطالعے میں شریک کسی بھی رضاکار نے عالج کے دوران منفی یا مضر اثرات کی‬
‫شکایت نہیں کی۔‬
‫اس انفرا ریڈ ہیلمٹ پر ایک اور تحقیق پچھلے سال امریکا میں کی گئی تھی جس میں ‪39‬‬
‫ایسے رضاکار شریک ہوئے تھے جن میں یادداشت اور اکتساب کے مسائل ابتدائی مرحلے‬
‫پر تھے‪ ،‬یعنی ان افراد میں ڈیمنشیا کا ٓاغاز ہوچکا تھا۔‬
‫اس تحقیق کے بارے میں‪ ‬جوالئی ‪ 2021‬کے ’’ایجنگ اینڈ ڈزیز‘‘ میں‪ ‬شائع شدہ‪ ‬رپورٹ‬
‫سے پتا چلتا ہے کہ تمام مریضوں کو انفرا ریڈ ہیلمٹ کے استعمال سے افاقہ ضرور ہوا‬
‫لیکن استعمال بند کرنے کے بعد ان میں ڈیمنشیا کی کیفیات دوبارہ نمودار ہونے لگیں۔‬
‫انفرا ریڈ ہیلمٹ کی ٹیکنالوجی کے موجد‪ ،‬ڈاکٹر گورڈن ڈوگل کا کہنا ہے کہ اگرچہ ابھی‬
‫انفرا ریڈ سے دماغ کو پہنچنے والے فوائد سے متعلق بہت کچھ جاننا باقی ہے لیکن اب تک‬
‫اس کے جتنے فوائد اور مثبت پہلو سامنے ٓاچکے ہیں‪ ،‬انہیں دیکھتے ہوئے اس کا استعمال‬
‫شروع کرنے میں کوئی قباحت نہیں‬
‫‪https://www.express.pk/story/2237572/9812/‬‬

‫خون میں دماغی بیماریوں کی عالمات موجود ہوتی ہیں‪ ،‬تحقیق‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 18  ‬اکتوبر‪ 2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪15‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫خون میں کچھ خاص ٓار این اے مالیکیولز کی اضافی مقدار دماغی بیماریوں سے پیشگی‬
‫)خبردار کرسکتی ہے‬
‫برلن‪ :‬جرمن سائنسدانوں نے دریافت کیا ہے کہ خون میں پائے جانے والے کچھ خاص‬
‫’مائیکرو ٓار این اے‘ سالموں کی اضافی مقدار دماغی بیماریوں کا پیش خیمہ ہوتی ہیں۔‬
‫یہ مائیکرو ٓار این اے ہمارے جسم میں پروٹین کی پیداوار اور استحالہ (میٹابولزم) کنٹرول‬
‫کرنے کے ذمہ دار بھی ہیں۔‬
‫ابتدائی طور پر یہ تجربات چوہوں پر کیے گئے جنہیں بعد میں انسانی خون کے نمونوں پر‬
‫دوہرایا گیا تو وہی نتائج حاصل ہوئے جیسے چوہوں میں ہوئے تھے۔‬
‫مزید تصدیق کی غرض سے ‪ 132‬صحت مند رضاکاروں کے عالوہ ‪ 53‬ایسے ادھیڑ عمر‬
‫افراد کا مشاہدہ بھی کیا گیا جو ’’مائلڈ کوگنیٹیو امپیئرمنٹ‘‘‪( Œ‬ایم سی ٓائی) میں مبتال تھے۔‬
‫ایم سی ٓائی ایک ایسی کیفیت ہے جب سیکھنے اور سمجھنے کی صالحیت متاثر ہونا شروع‬
‫ہوجاتی ہے۔ یہی کیفیت ٓائندہ چند سال میں مزید شدت اختیار کرتے ہوئے کئی دماغی‬

‫بیماریوں کی بنیاد بن سکتی ہے جن میں الزائیمر‪ ،‬شیزوفرینیا (اسکیزوفرینیا) اور ڈیمنشیا‬


‫وغیرہ شامل ہیں۔‬
‫چوہوں اور انسانی خلیوں (سیل کلچرز) پر تحقیق کے دوران تین اقسام کے ایسے مائیکرو‬
‫ٓار این اے سامنے ٓائے جو دماغی خلیوں میں باہمی رابطے بننے کے عمل میں رکاوٹ ڈال‬
‫رہے تھے اور جن کی وجہ سے اکتسابی صالحیتیں متاثر ہورہی تھیں۔‬

‫تحقیقات | ‪16‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایم سی ٓائی میں مبتال افراد کے خون میں بھی ان ہی تینوں مائیکرو ٓار این ایز کی اضافی‬
‫مقدار نوٹ کی گئی۔‬
‫ریسرچ جرنل ’’ای ایم بی او مالیکیولر میڈیسن‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں ٓان الئن شائع ہونے‬
‫والی رپورٹ کے مطابق‪ ،‬ان مائیکرو ٓار این ایز پر نظر رکھتے ہوئے نہ صرف دماغی‬
‫بیماریوں کا بہت پہلے پتا چالیا جاسکتا ہے بلکہ ان کا عالج بھی ممکن ہے۔‬
‫چوہوں پر مزید تجربات کے دوران جب یہ مائیکرو ٓار این ایز بالک کردیئے گئے تو‬
‫چوہوں میں اکتسابی صالحیتیں بہتر ہوگئیں۔‬
‫واضح رہے کہ اکثر دماغی بیماریوں کی عالمات نمایاں ہوجانے کے بعد ہی ان کا پتا چلتا‬
‫ہے جس کی وجہ سے ان کے تدارک میں بھی شدید مشکالت پیش ٓاتی ہیں۔‬
‫اگر کسی طرح دماغی بیماریوں کی قبل از وقت تشخیص ممکن ہوجائے تو مختلف احتیاطی‬
‫تدابیر اختیار کرتے ہوئے انہیں مزید بڑھنے سے روکا جاسکتا ہے۔ یہ تحقیق ایسی ہی‬
‫عالمی کوششوں کا ایک حصہ ہے‬
‫‪https://www.express.pk/story/2237140/9812/‬‬

‫بچوں کو پھل سبزیوں کھالنے کے لیے نصف پلیٹ کی ترکیب ٓازمائیں‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫منگل‪ 19  ‬اکتوبر‪ 2021  ‬‬

‫تحقیقات | ‪17‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ماہرین کے مطابق اگر بچے کی پلیٹ سے روایتی کھانے کی نصف مقدار کم کردی جائے‬
‫اور اس میں پھل اورسبزیاں رکھ دی جائیں تو اس سے بہت فائدہ ہوتا ہے۔‬
‫پینسلوانیا‪ :‬امریکی ماہرین نے کہا ہے کہ اگر بچے پھل اور سبزیوں سے بھاگتے ہیں تو‬
‫اس کے لیے ایک نسخہ ٓازمائیں جس میں بچوں کی پلیٹ میں روایتی کھانا نصف کردیں‬
‫اور ٓادھی جگہ پر سبزیاں اور پھل رکھ دیں۔ اس تدبیر سے بچے پھل اور سبزیوں کی‬
‫جانب راغب ہوسکتےہیں۔‬
‫اگرچہ بچوں کی ہر غذا میں پھل اور سبزیوں کی تجویز امریکی غذائی ہدایات میں‬
‫عرصے سے شامل ہے لیکن بچے اس جانب راغب نہیں ہوتے۔ اب ماہرین مشورہ دے‬
‫رہے ہیں کہ اگر بچے کی پلیٹ میں گوشت‪ ،‬چاول‪ ،‬برگر یا پنیر ہے تو اس کی نصف مقدار‬
‫ہٹادیں اور اس کی جگہ پھل اور سبزیاں رکھ دیں۔‬
‫دوسرے طریقے میں کھانے کی مقدار تو اتنی ہی رکھی گئ لیکن جب ساتھ میں پھل اور‬
‫سبزیاں رکھی گئیں تو اس کے بھی فوائد برٓامد ہوئے۔‬
‫کھانے کی پوری مقدار کے ساتھ ساتھ پھل اور سبزیاں رکھنے سے بچے ‪ 24‬فیصد زائد‬
‫سبزیاں اور ‪ 33‬فیصد زائد پھل کھانے لگے ۔ لیکن جب روایتی کھانے کی مقدار کم‬
‫کرکےپھل اور سبزیوں کو ان کی جگہ رکھا گیا تو اس کے سب سےاچھے نتائج برٓامد‬
‫ہوئے یعنی سبزیوں کا استعمال ‪ 41‬اور پھلوں کا استعمال ‪ 38‬فیصد بڑھا۔‬
‫یہ تحقیق پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں ہیومن انجیسٹو بیہیویئر کی ماہر باربرا رولس نے‬
‫کی ہے۔ وہ کہتی ہیں کہ تحقیق کے نتائج ‪ ‬بہت حوصلہ افزا ہے۔ نئی تدبیر میں نصف پلیٹ‬
‫تحقیقات | ‪18‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کو پھلوں اور سبزیوں سے بھرنے میں اول تو کھانا ضائع نہیں ہوتا اور بچے صحت بخش‬
‫غذا کی جانب مائل ہوتے ہیں۔ اگر کوئی ناکامی ہوتی ہے تو پھلوں اور سبزیوں کو بدل کر‬
‫دیکھیں اس سے مزید فائدہ ہوسکتا ہے۔‬
‫پوری دنیا کی طرح خود پاکستانی بچے بھی پھل اور سبزیوں سے کتراتے ہیں اور اب‬
‫والدین اس طریقے پر عمل کرکے اپنے بچوں کی غذا مزید صحتمند بناسکتے ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2237401/9812/‬‬

‫کورونا وائرس ویکسین‪ u‬کے حیران کن اور مفید جسمانی فوائد سامنے‬
‫ٓاگئی ۔۔۔اب ہر کوئی بغیر کسی ڈر کے ویکسین لگوائیں!‬

‫‪07:14 pm 18/10/2021‬‬

‫‪     ‬‬
‫اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک )حال ہی میں امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق میں کہا گیا کہ‬
‫کرونا وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی ویکسینز سے اس سے ملتے جلتے وائرسز سے‬
‫بھی تحفظ ملتا ہے۔نارتھ ویسٹرن میڈیسن کی تحقیق کے نتائج سے عالمی کرونا وائرس‬
‫ویکسینز تیار کرنے میں مدد مل سکے گی جو مستقبل میں وبائی امراض کی روک تھام‬
‫کرسکیں گی۔ماہرین نے بتایا کہ ہماری تحقیق‬
‫سے قبل یہ واضح نہیں تھا کہ کسی ایک کرونا وائرس سے متاثر ہونا دیگر کرونا وائرسز‬
‫سے تحفظ فراہم کرتا ہے یا نہیں‪ ،‬تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ ایسا ممکن ہے۔کرونا وائرسز‬
‫کی ‪ 3‬بنیادی اقسام انسانوں میں امراض کا باعث بنتی ہیں جن میں سارس کوو ‪ ،1‬سارس‬
‫کوو ‪( 2‬کووڈ کا باعث بننے والی قسم) اور تیسری مرس ہے‪ ،‬مگر اس سے ہٹ کر عام‬
‫نزلہ زکام کا باعث بننے والی اقسام بھی ہیں۔تحقیق میں کووڈ ‪ 19‬ویکسینز کا استعمال‬
‫کرنے والے افراد کے پالزما پر جانچ پڑتال کی گئی۔‬
‫ماہرین نے دریافت کیا کہ ویکسینز سے بننے والی اینٹی باڈیز سے سارس کوو ‪ 1‬اور عام‬
‫نزلہ زکام کا باعث بننے والے کورونا وائرس سے بھی تحفظ ملتا ہے۔تحقیق میں یہ بھی‬
‫دریافت کیا گیا کہ ماضی میں کرونا وائرسز سے ہونے والی بیماری سے بھی دیگر اقسام‬

‫تحقیقات | ‪19‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫سے ہونے والے انفیکشنز سے تحفظ مل سکتا ہے۔تحقیق کے دوران چوہوں کو کووڈ ‪19‬‬
‫ویکسینز استعمال کر کے انہیں عام نزلہ زکام والے کرونا وائرس سے متاثر کیا تو دریافت‬
‫ہوا کہ انہیں جزوی تحفظ مال جو زیادہ ٹھوس نہیں تھا۔ماہرین کا کہنا تھا کہ کرونا وائرس‬
‫کی اقسام ‪ 70‬فیصد سے زیادہ حد تک ملتی جلتی ہیں تو اس سے چوہوں کو تحفظ ملنے کی‬
‫وضاحت ہوتی ہے‪ ،‬اگر ان کا سامنا کرونا وائرسز کی بالکل مختلف اقسام سے ہوتا تو‬
‫ویکسینز سے زیادہ تحفظ نہیں ملتا۔انہوں نے بتایا کہ ہماری تحقیق سے یونیورسل کرونا‬
‫وائرس ویکسین کے تصور کی دوبارہ جانچ پڑتال میں مدد مل سکے گی۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202110-126376.html‬‬

‫سرد موسم میں کیسے گرتےہوئے بالوں کو گرنے سے بچایا جائے؟۔۔۔‪u‬‬


‫طبی ماہرین کی نئی اور حیران کن تحقیق سامنے ٓاگئی!‬
‫‪     ‬‬
‫‪18/10/2021‬‬

‫اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک )موسم سرما کی ٓامد ٓامد ہے ایسے موسم مرد و خواتین کو اکثر‬
‫بال گرنے‪ ،‬روکھے ہونے اور بالوں میں خشکی کی شکایات درپیش ہوتی ہے جس سے وہ‬
‫چھٹکارا پانے کے لیے ہرممکن کوشش کرتے ہیں۔ہم اپنے قارئین کو سرد و خشک موسم‬
‫میں بال گرنے سے روکنے اور روکھے بالوں کو سیدھا کرنے کا طریقہ بتائے گا۔رپورٹ‬
‫کے مطابق سردیوں میں لوگوں کی اکثر تعداد نہانے کے لیے‬

‫تحقیقات | ‪20‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫گرم پانی کا استعمال کرتی ہے اور اس وجہ سے بھی بالوں میں خشکی بڑھ جاتی ہے۔ہیئر‬
‫ایکسپرٹس کا کہنا ہے کہ سردی میں خنکی زیادہ ہوتی ہے‪ ،‬ہمیں یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ کھانا‬
‫پینا اور موسم کی کن چیزوں کی وجہ سے بالوں میں خشکی پیدا ہوتی ہے اور گرنے اور‬
‫کس وجہ سے بالوں کو نقصان پہنچ رہا ہے۔ایکسپرٹس کا کہنا تھا کہ وٹامن ای کا استعمال‬
‫بالوں کی چمک کو بڑھاتا ہے اس کے عالوہ بالوں کی نیرشمنٹ (تیل لگانا) ضروری ہے‪،‬‬
‫تیل سے بالوں کو بھرنا نہیں ہے اور تیل کو لگاکر سونا بھی نہیں ہے ‪ 30‬سے ‪ 35‬منٹ میں‬
‫بالوں کو دھو لیں‬
‫۔ماہرین کا کہنا ہے کہ کلونجی کے دانے انسانی صحت کے لیے بے حد مفید ہیں‪ ،‬ان کی‬
‫افادیت نا صرف طب بلکہ سائنسی تحقیقات سے بھی ثابت شدہ ہے‪ ،‬کلونجی کا تیل بالوں‬
‫کی جڑوں کو مضبوطی اور نمی فراہم کرتا ہے‪ ،‬کلونجی کے نیم گرم تیل سے اگر بالوں‬
‫کی جڑوں میں مساج کیا جائے تو بال مضبوط‪ ،‬لمبے گھنے اور مالئم ہو جاتے ہیں۔ماہرین‬
‫کہتے ہیں کہ اگر کلونجی کے تیل میں چند اجزا کا اضافہ کر لیا جائے تو یہ جھڑتے بالوں‬
‫کا بہترین عالج ثابت ہوتا ہے‬

‫۔کلونجی کے تیل کو فارموال تیل بنانے کا طریقہ‪:‬کلونجی کے تیل میں کلونجی کے ہم وزن‬
‫سرسوں اور زیتون کا تیل شامل کریں اور پھر ٓادھی مقدار میں بادام اور ناریل کا تیل بھی‬
‫ماللیں۔تمام اجزا سے حاصل کردہ تیل اچھی طرح مکس کرنے کے بعد دو سے تین چمچ‬
‫کلونجی شامل کرکے کانچ کی بوتل میں ڈال لیں اور روزانہ تیز دھوپ کی تپش میں رکھیں‬
‫اور شام ہوتے ہی چھأوں میں منتقل کردیں۔یہ عمل ایک ہفتے تک دوہرانا ہے‪ ،‬اس کے بعد‬
‫تیل کو ہفتے میں کم از کم دو مرتبہ استعمال کریں اور حیران کن نتائج پائیں۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202110-126374.html‬‬

‫تحقیقات | ‪21‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٓانسؤوں سے رونا صحت کیلئے مفید قرار‬
‫اکتوبر ‪20 2021 ،‬‬

‫ماہرین کا کہنا ہے کہ ہفتے میں کم از کم ایک بار ُکھل کر رونا دماغی صالحیتوں کو بہتر‬
‫بناتا ہے‪ ،‬ماہرین کی جانب سے ٓانسؤوں سے رونا تجویز کیا گیا ہے کیوں کے اس کے‬
‫نتیجے میں ذہنی تنأو سے بھی نجات ملتی ہے۔‬
‫جاپان میں کی جانے والی ایک تحقیق کے نتیجے میں‪ ‬یہ بات سامنے ٓائی ہے کہ بالغ اور نا‬
‫بالغ افراد کے لیے ہفتے میں کم از کم ایک بار کھُل کر ٓانسؤوں‪ ‬سے رونا مفید ہے‪ ،‬اس کے‬
‫ب علموں اور سخت ذہنی محنت کرنے والے افراد میں پائے جانے والے‬ ‫نتیجے میں طال ِ‬
‫ذہنی اور اعصابی تنأو میں کمی واقع ہوتی ہے۔‬
‫ماہرین کی جانب سے ہنسنے‪ٓ ،‬ارام کرنے اور کافی کا ایک کپ پینے سے بہتر اور زیادہ‬
‫مٔوثر رونے کو قرار دیا گیا ہے جبکہ رونے کے دوران ٓانکھوں سے ٓانسوؤں کا بہنا‬
‫ضروری ہے۔‬
‫محققین و ماہرین برائے ذہنی امراض کا کہنا ہے کہ رونے کے لیے جذباتی فلموں کا سہارا‬
‫لیا جا سکتا ہے۔‬

‫جاپانی ماہرین کے مطابق رو لینے سے دل ہلکا اور پریشانیوں اور غموں سے لڑنے میں‬
‫بھی مدد ملتی ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1000455‬‬
‫تحقیقات | ‪22‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫السی تیل کے صحت پر حیران ُکن فوائد‬
‫اکتوبر ‪18 2021 ،‬‬

‫جس طرح ماہرین کی جانب سے السی کے بیج صحت کے لیے بے حد مفید قرار دیئے‬
‫جاتے ہیں اسی طرح السی کے تیل کا‪  ‬استعمال بھی صحت پر بے شمار فوائد کا حامل ہے۔‬
‫نیوٹریشنسٹ و غذائی ماہرین کے مطابق السی کے بیج خواتین کی صحت کے لیے نہایت‬
‫مفید ہیں‪ ،‬السی کا تیل و بیج خواتین کے پوشیدہ امراض کے عالج کے ساتھ دل کی صحت‪،‬‬
‫شفاف‪ ،‬بے داغ غیر ضروری بالوں سے پاک ِجلد‪ ،‬ذہانت سمیت مجموعی صحت کے لیے‬
‫انتہائی فائدہ مند ثابت ہوتے ہیں۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق متعدد بیماریوں کی وجہ نظام ہاضمہ کی خراب کارکردگی اور‬
‫قبض ہوتی ہے‪ ،‬السی کے بیج معدے سے جڑی تمام بیماریوں کے لیے بھی نہایت مفید ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا ہے کہ السی کے بیجوں کا ہمیشہ چبا کر یا سفوف بنا کر نیم گرم پانی یا‬
‫دودھ کے ساتھ استعمال کرنا چاہیے‪ ،‬اگر یہ طریقہ کار ناگوار گزرے تو اس کے متبادل‬
‫میں السی کے تیل کا استعمال نیم گرم دودھ کے ساتھ بھی کیا جا سکتا ہے ۔‬
‫نیم گرم دودھ میں‪ ‬السی کے تیل کے استعمال سے صحت پر ٓانے والے چند مثبت فوائد‬
‫مندرجہ ذیل ہیں جن کی طب سمیت سائنسی رپورٹس‪ u‬میں بھی تصدیق‪ u‬موجود ہے۔‬
‫غذائی ماہرین کے مطابق السی کا تیل اینٹی ٓاکسیڈنٹس اجزا سے بھرپور ہونے کے سبب‬
‫جسم میں‪  ‬موجود صحت مند یا سوزش زدہ خلیات میں مزید بگاڑ سے محفوظ رکھتا ہے‬
‫اور کینسر کی روک تھام میں‪ ‬کردار ادا کرتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪23‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫السی کا تیل اومیگا تھری فیٹی ایسڈ‪ ،‬اومیگا ِسکس سے بھرپور ہوتا ہے جو کہ انسانی جسم‬
‫میں موجود منفی کولیسٹرول کی سطح گھٹاتا ہے اور مثبت کولیسٹرول کی سطح متوازن بنا‬
‫کر جسم میں چربی کے جمنے کا عمل روکتا ہے اور جسم کو فربہ ہونے سے بچاتا ہے۔‬
‫السی کے تیل کا استعمال دل سے جڑی اہم شریانوں کو صحت مند رکھنے میں بھی مدد دیتا‬
‫ہے فراہم کرتا ہے۔‬
‫السی کا تیل فیٹی ایسڈز سے بھرپور ہونے کے سبب دل سے جڑے مسائل جیسے کہ ہارٹ‬
‫اٹیک اور فالج وغیرہ کی روک تھام میں بھی کرادار کرتا ہے اور جسم میں خون کے‬
‫جمنے ( کالٹنگ) کے خطرات کو کم کرتا ہے۔‬
‫السی کا تیل و بیج ڈائٹری فائبر سے بھر پور ہوتے ہیں جس کے نتیجے میں‪ ‬اس کے‬
‫استعمال سے‪  ‬معدے کی صحت بہتر اور کارکردگی میں اضافہ ہوتا ہے۔‬
‫السی کے تیل میں‪ ‬اومیگا تھری فیٹی ایسڈ ہونے کے سب اس کا استعمال اسکول جانے‬
‫والے بچوں کو کروایا جا سکتا ہے‪ ،‬السی کا تیل دماغی صحت بہتر بنانے کے ساتھ ذہانت‬
‫بڑھاتا ہے۔‬
‫گھر سے باہر نکلنے والی خواتین کی ِجلد سے نمی کا خاتمہ اور چہرہ بے رونق ہو جاتا‬
‫ہے‪ ،‬ایسے میں السی کا استعمال چہرے کی شادابی اور تازگی کو لوٹانے میں‪ ‬اہم کردار ادا‬
‫کرتا ہے۔‬
‫السی کے تیل میں اومیگا تھری فیٹی ایسڈز کی موجودگی بالوں کو مضبوط بناتی ہے اور‬
‫جھڑتے بالوں کو روکتی ہے‪ ،‬نئے بالوں‪ ‬کی افزائش ممکن بناتی ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/999843‬‬

‫بچوں کی صحت‪ :‬پاکستان سمیت ایشیائی ممالک میں نومولود بچوں کی‬
‫مالش جو ان کی زندگی بدل سکتی ہے‬

‫کماال تھیاگراجن‬ ‫‪‬‬

‫بی بی سی فیوچر‬ ‫‪‬‬

‫‪۲۰‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬‬
‫اکتوبر کی ایک ٹھنڈی شام کو انڈیا کے جنوبی شہر بینگلورو‪ u‬سے رینو سازینا اپنی‬
‫نومولود بیٹی کو ہسپتال سے گھر ال رہی تھیں۔ اس دوران اپنی بیٹی کو تھامے ہوئے‬
‫انھیں یہ احساس ہوا کہ وہ کتنی نازک ہے‪ ،‬اس کی شفاف جلد سے پتلی پتلی رگیں نمایاں‬
‫نظر آ رہی ہیں۔‬
‫ان کی بیٹی کی والدت پری میچور (قبل از وقت پیدائش) ہو گئی تھی۔ ‪ 36‬ماہ کے حمل پر‬
‫ہی پیدا ہونے والی اس بچی کا وزن ‪ 2.4‬کلوگرام تھا۔ رینو سازینا کے خاندان نے اس بات‬

‫تحقیقات | ‪24‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫پر زور دیا کہ وہ ایک قدیم انڈین ٹوٹکا آزمائیں جس کے ذریعے نومولود بچوں کی نشوونما‬
‫میں مدد ملتی ہے‪ ،‬یعنی روزانہ بچی کی مالش کیا کریں۔‬
‫تاہم ان کے ڈاکٹر اس بارے میں زیادہ محتاط رویہ اپنائے ہوئے تھے اور انھوں نے رینو‬
‫کو تب تک مالش نہ کرنے کا مشورہ دیا جب تک بچی کے وزن میں مزید اضافہ نہ ہو‬
‫جائے۔‬
‫رینو نے درمیانی راہ نکالی اور ابتدائی دو ہفتے تک مالش نہ کرنے کا فیصلہ کیا۔ اس‬
‫دورانیے میں ان کی بیٹی کے وزن میں انتہائی معمولی اضافہ ہوا۔ ایک ہفتے کے دوران ان‬
‫کی بیٹی کے وزن میں صرف ‪ 100‬گرام کا اضافہ ہوا اور اس کی نیند بھی متاثر رہی۔‬
‫پھر رینو نے نومولود بچوں کا خیال رکھنے والی ریٹائرڈ نرس کی خدمات حاصل کیں اور‬
‫ان سے بچوں کی روایتی مالش کا طریقہ پوچھا اور یوں ان کی بیٹی کی صحت بہتر ہونے‬
‫لگی۔ ان کی بیٹی نے نہ صرف سکون سے سونا شروع کر دیا‪ ،‬بلکہ ان کے وزن میں بھی‬
‫اضافہ ہونے لگا۔‬
‫رینو اکیلی نہیں ہیں جنھیں اس تجربے کے بعد کامیابی حاصل ہوئی ہو‪ ،‬اب تحقیق سے‬
‫حاصل ہونے والے شواہد بھی خصوصا ً جنوبی ایشیا میں بچوں کی مالش کے حیران کن‬
‫فوائد بیان کر رہے ہیں خصوصا ً وقت سے پہلے پیدا ہونے والے بچوں میں۔‬
‫تحقیق سے معلوم ہوتا ہے کہ تیل سے کی جانے والی یہ مالش جب درست انداز میں کی‬
‫جائے تو اس سے بچے کے وزن میں اضافہ ہوتا ہے‪ ،‬بچہ بیکٹیریئل انفیکشن سے بھی بچ‬
‫جاتا ہے اور بچوں کی ہالکتوں کی شرح بھی ‪ 50‬فیصد تک گر جاتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪25‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تاہم ایسے والدین جو اس تکنیک میں دلچسپی رکھتے ہیں انھیں پہلے اس حوالے سے اپنے‬
‫ڈاکٹر سے مشورہ کرنا چاہیے تاکہ یہ یقین کر لیا جائے کہ ایسا کرنا بچے کے لیے محفوظ‬
‫اور موزوں ہے۔تصویر کا ذریعہ‪GETTY IMAGES‬‬
‫ایسے خاندان جو نسل در نسل چلی آ رہی اس روایات کے مداح ہیں‪ ،‬یہ شواہد ان کے اپنی‬
‫مشاہدات کی تصدیق کرتے ہیں۔‬
‫رینو سابق ایڈورٹائزنگ ایگزیکٹیو‪ Œ‬ہیں اور ان کا تعلق شمالی انڈین ریاست اترپردیش سے‬
‫ہے جہاں پیدائش کے بعد ماں اور بچے دوںوں کی مالش کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ ان کا خاندان‬
‫اس روایت پر نسل در نسل عمل کرتا آیا ہے۔‬
‫رینو بتاتی ہیں کہ ’جب ہم بڑے ہو رہے تھے تو میری والدہ مجھے بتایا کرتی تھیں کے وہ‬
‫میری پیدائش کے بعد فوراً تندرست ہو گئی تھیں حاالنکہ میں ان کا تیسرا بچہ تھی اور‬
‫کیسے میری نشونما بہترین انداز میں ہوئی کیونکہ انھوں نے ہسپتال سے گھر آنے کے بعد‬
‫سے میری روزانہ مالش کا باقاعدگی سے آغاز کر دیا تھا۔‘‬
‫نومولود بچوں کا خیال رکھنے والی نرس نے انھیں سکھایا کہ تیل کیسے گرم کرتے ہیں‪،‬‬
‫ناریل اور بادام کے تیل کو کب استعمال کیا جا سکتا ہے اور ان کی بیٹی کی جلد پر اس تیل‬
‫کو روزانہ آدھے گھنٹے کے لیے کیسے لگایا جا سکتا ہے اور اس کے بعد کیسے گرم‬
‫پانی سے غسل دیا جاتا ہے۔‬
‫وہ کہتی ہیں کہ ’ہم نے بچی کے پیٹ کو دل کی شکل میں آہستہ آہستہ سہالنا شروع کیا اور‬
‫پھر اس طریقہ کار کو پورے جسم پر استعمال کیا۔ پھر ہم نے ان کی ٹانگوں کی ورزش‬
‫کروائی اور پاؤں کی انگلیوں کو ماتھے سے لگا کر اس بات کا یقین کیا کہ ان کے پیٹ میں‬
‫گیس موجود نہ ہو۔‘‬
‫محققین کا کہنا ہے کہ نومولود بچوں کے لیے مالش کے فوائد ان کی صحت کے لیے بڑی‬
‫عمر تک رہتے ہیں۔‬
‫سٹینوفورڈ یونیورسٹی کے سکول آف میڈیسن کے پروفیسر گیری ڈارمسٹاڈٹ کہتے ہیں کہ‬
‫جلد جسم کا سب سے بڑا عضو ہے‪ ،‬لیکن ہم اکثر اس پر دھیان نہیں دیتے کہ مجموعی‬
‫صحت کے لیے جلد کی دیکھ بھال کتنی اہم ہے۔‬
‫بنگلہ دیش اور ہندوستان کے اپنے ابتدائی سفر میں ڈارمسٹاڈٹ نے مشاہدہ کیا کہ خاندان‪،‬‬
‫خاص طور پر مائیں اور نانیاں‪ ،‬اپنے نوزائیدہ بچوں کی مالش کرنے میں کافی وقت صرف‬
‫کرتی تھیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’جب میں نے پتہ چالیا تو معلوم ہوا کہ یہ صدیوں سے کیا جا‬
‫رہا ہے‪ ،‬میں حیران ہوا اور پھر (میں نے) اس کا مطالعہ کرنا شروع کر دیا۔‘‬
‫سنہ ‪ 2008‬میں قبل از وقت پیدا ہونے والے ‪ 497‬بچوں کے مطالعے میں‪ ،‬جنھیں بنگلہ‬
‫دیش کے ایک ہسپتال میں روزانہ مساج دیا جاتا تھا‪ ،‬ڈرمسٹاٹ اور اس کے ساتھیوں نے‬
‫دیکھا کہ یہ قدیم طریقہ زندگی بچا سکتا ہے۔‬
‫وہ کہتے ہیں کہ ’ہم نے انفیکشن کے خطرے میں تقریبا ً ‪ 40‬فیصد کمی اور اموات کی شرح‬
‫میں ‪ 50-25‬فیصد کمی دیکھی جو کہ نمایاں تھی۔‘‬

‫تحقیقات | ‪26‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫علیحدہ ٹرائلز کے ذریعے ٹیم کو پتہ چال کہ باقاعدہ مساج بچے کے مائیکرو بایوم بنانے‬
‫میں مدد دیتا ہے۔ یہ بیکٹیریا کی وہ تہہ ہوتی ہے جو جلد اور آنتوں میں رہتی ہے۔ مائیکرو‬
‫بایوم ایک موثر رکاوٹ کے طور پر کام کرتے ہوئے قوت مدافعت بڑھانے میں اہم کردار‬
‫ادا کرتے ہیں جس سے انفیکشن دور رہ سکتا ہے۔‬
‫ڈارمسٹاڈٹ کہتے ہیں کہ ’جن غذائیت سے محروم بچوں کو تیل سے مالش کی گ‪ŒŒ‬ئی ان میں‬
‫ایک مائیکرو بایوم پیدا ہوا جو کہ کہیں زیادہ متنوع تھا۔ (تیل) نے جل‪ŒŒ‬د کی رک‪ŒŒ‬اوٹ کے ک‪ŒŒ‬ام‬
‫کو بہتر بنایا‪ ،‬جس سے بیکٹیریا کے لیے جلد کے ان‪ŒŒ‬در داخ‪ŒŒ‬ل ہون‪ŒŒ‬ا‪ ،‬خ‪ŒŒ‬ون کے دھ‪ŒŒ‬ارے میں‬
‫جانا اور جان لیوا انفیکشن کا باعث بننا مشکل ہو جاتا ہے۔‘‬
‫یہ نتائج قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں کی دیکھ بھال کے لیے خاص ط‪ŒŒ‬ور پ‪ŒŒ‬ر اہم تھے۔‬
‫وہ کہتے ہیں کہ ’قبل از وقت پیدا ہونے والے بچوں میں‪ ،‬جلد کی رکاوٹ (تہہ) اچھی ط‪ŒŒ‬رح‬
‫کام نہیں کرتی اور اس وجہ سے جل‪ŒŒ‬د کے ذریعے آپ ک‪ŒŒ‬ا پ‪ŒŒ‬انی ض‪ŒŒ‬ائع ہوت‪ŒŒ‬ا ہے۔ پ‪ŒŒ‬انی (جس‪ŒŒ‬م‬
‫سے) بہت تیزی سے بخارات بن کر اڑ جات‪ŒŒ‬ا ہے‪ ،‬اور اس کے س‪ŒŒ‬اتھ گ‪ŒŒ‬رمی بھی ج‪ŒŒ‬اتی ہے۔‬
‫اس طرح کے بچے کا ہائپوتھرمک ہونا آسان ہے۔‘‬
‫جب جسم کا درجہ حرارت بہت کم ہو جائے تو یہ ج‪ŒŒ‬ان لی‪ŒŒ‬وا ث‪ŒŒ‬ابت ہ‪ŒŒ‬و س‪ŒŒ‬کتا ہے۔ انھ‪ŒŒ‬وں نے‬
‫مزید کہا کہ ’ (وہ) بچہ بہت زیادہ توانائی کھو رہا ہے (گرمی کے اس نقص‪ŒŒ‬ان س‪ŒŒ‬ے ل‪ŒŒ‬ڑ رہ‪ŒŒ‬ا‬
‫ت دیگر نشوونما اور جسمانی کام کے دیگر پہلوؤں میں اس‪ŒŒ‬تعمال‬ ‫ہے)۔ وہ توانائی جو بصور ِ‬
‫ہو سکتی تھی۔‬
‫ڈارمسٹاڈٹ اور ان کی ٹیم کی ایک تحقیق میں‪ ،‬ج‪ŒŒ‬و ابھی ت‪ŒŒ‬ک ش‪ŒŒ‬ائع نہیں ہ‪ŒŒ‬وئی‪ ،‬محققین نے‬
‫شمالی بھارتی ریاست اتر پردیش میں ‪ 26،000‬بچوں کو ٹری‪ŒŒ‬ک کی‪ŒŒ‬ا ہے‪ ،‬یہ ص‪ŒŒ‬رف قب‪ŒŒ‬ل از‬
‫وقت پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچے ہی نہیں ہیں۔ ان میں س‪ŒŒ‬ے نص‪ŒŒ‬ف ک‪ŒŒ‬و س‪ŒŒ‬ورج مکھی کے‬
‫تیل سے مساج کیا گیا اور باقی آدھے کو سرسوں کے تیل سے۔‬
‫محققین نے تمام بچوں کی نش‪Œ‬وونما میں بہ‪Œ‬تری پ‪Œ‬ائی۔ وہ کہ‪Œ‬تے ہیں کہ ’اگ‪Œ‬رچہ نارم‪Œ‬ل وزن‬
‫کے ساتھ پیدا ہونے والے بچوں کی شرح اموات پر کوئی بڑا اث‪ŒŒ‬ر نہیں پ‪ŒŒ‬ڑا‪ ،‬چھ‪ŒŒ‬وٹے بچ‪ŒŒ‬وں‬
‫میں (جن کا پیدائشی وزن ‪ 1.5‬کلو سے کم تھا) ‪،‬‬
‫اموات کا خطرہ ‪ 52‬فیصد کم ہوا۔‘‬
‫دوسرے محققین کو بھی اسی طرح کے فوائد ہی ملے ہیں۔ ایک اور تحقیق سے پتہ چلتا ہے‬
‫کہ مساج ’وگس نیرو (اعصاب) کو متحرک کرتے ہیں‪ ،‬جو ایک لمبی اعصابی رگ ہے جو‬
‫دماغ اور پیٹ کو جوڑتی ہے‪ ،‬جس سے ہاضمہ بہتر ہوتا ہے اور غ‪ŒŒ‬ذائی اج‪ŒŒ‬زا ج‪ŒŒ‬ذب ہ‪ŒŒ‬وتے‬
‫ہیں۔ اس کے نتیجے میں بچوں کا وزن بڑھتا ہے۔ پیٹ کی روزانہ م‪ŒŒ‬الش ذہ‪ŒŒ‬نی تن‪ŒŒ‬اؤ اور درد‬
‫کو بھی کم کر سکتی ہے‪ ،‬جو خاص طور پ‪Œ‬ر قب‪ŒŒ‬ل از وقت پی‪ŒŒ‬دا ہ‪ŒŒ‬ونے والے نوزائی‪ŒŒ‬دہ بچ‪Œ‬وں‬
‫کے لیے اہم ہو سکتا ہے‪ ،‬جو ہسپتال میں تنہا کئی مہینے گزارتے ہیں۔‬
‫یونیورسٹی آف میامی سکول آف میڈیسن میں پی‪ŒŒ‬ڈیاٹرکس‪ ،‬س‪ŒŒ‬ائیکالوجی اور س‪ŒŒ‬ائیکائٹری کی‬
‫پروفیسر ٹفنی فیل‪ŒŒ‬ڈ کہ‪ŒŒ‬تی ہیں کہ ’ہم مش‪ŒŒ‬ورہ دی‪ŒŒ‬تے ہیں کہ وال‪ŒŒ‬دین پی‪ŒŒ‬دائش کے وقت س‪ŒŒ‬ے ہی‬
‫اپنے بچوں کی مالش شروع کر دیں۔‘ انھوں نے مختلف ممالک سے حاصل کیے گ‪ŒŒ‬ئے قب‪ŒŒ‬ل‬

‫تحقیقات | ‪27‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫از وقت پیدا ہونے والے بچوں کے مساج کے مطالعے کا جائزہ لیا ہے‪ ،‬اور وہ اسے ف‪ŒŒ‬روغ‬
‫دیتی ہیں‪ ،‬تاہم وہ والدین کو یاد بھی دالتی ہیں کہ صحیح تکنیک ہونا بہت اہم ہے۔‬
‫وہ کہتی ہیں کہ ’جلد پر درمیانہ سا دباؤ ڈال ک‪ŒŒ‬ر جل‪ŒŒ‬د ک‪ŒŒ‬و ہالن‪ŒŒ‬ا چ‪ŒŒ‬اہیے‪ ،‬لیکن بہت ہلک‪ŒŒ‬ا ہ‪ŒŒ‬اتھ‬
‫بچے کو گدگدی کر سکتا ہے۔ زیادہ تر چھوٹے بچے اس سے لطف اندوز نہیں ہوتے اور یہ‬
‫عالج نہیں ہے۔‘‬
‫ڈارمسٹاڈٹ بھی اعتدال پسند نقطہ نظر تجویز کرتے ہیں۔ وہ کہتے ہیں کہ ’ج‪Œ‬و ہم نہیں کرن‪Œ‬ا‬
‫چاہتے‪ ،‬خاص طور پر قبل از وقت پیدا ہونے والے نوزائیدہ بچوں میں‪ ،‬وہ زور س‪Œ‬ے م‪Œ‬الش‬
‫کرنا ہے۔ آپ جلد کو نقصان پہنچا سکتے ہیں اور یہ نقصان دہ ہو سکتا ہے۔‘‬
‫تی‪ŒŒ‬ل ک‪ŒŒ‬و احتی‪ŒŒ‬اط س‪ŒŒ‬ے منتخب کرن‪ŒŒ‬ا اور لگان‪ŒŒ‬ا پڑت‪ŒŒ‬ا ہے‪ ،‬اور روایت ہی ہمیش‪ŒŒ‬ہ اس کے ل‪ŒŒ‬یے‬
‫بہترین رہنما نہیں ہوتی۔ سنہ ‪ 2013‬میں جنوبی بھارت میں ‪ 194‬شیر خوار بچوں کا مط‪Œ‬العہ‬
‫کیا گیا‪ ،‬جن میں سے تقریبا ً سبھی کو ان کی مائیں مساج کرتی تھیں۔‬
‫اس مطالعہ سے پتہ چال کہ نصف سے زیادہ ماؤں نے بچے کے کانوں اور آنکھوں پر بھی‬
‫تیل لگایا۔ محققین خبردار کرتے ہیں کہ اس سے انفیکشن ہو سکتا ہے۔ انڈیا کے شہر بنگلور‬
‫کے ق‪ŒŒ‬ریب کس‪ŒŒ‬توربا می‪ŒŒ‬ڈیکل ک‪ŒŒ‬الج میں کمیون‪ŒŒ‬ٹی میڈیس‪ŒŒ‬ن میں مہ‪ŒŒ‬ارت رکھ‪ŒŒ‬نے والے ای‪ŒŒ‬ک‬
‫ایسوسی ایٹ پروفیسر اور اس مطالعے کے اہم محق‪ŒŒ‬ق نیتن ج‪ŒŒ‬وزف کہ‪ŒŒ‬تے ہیں کہ ’ہمیں اس‬
‫سے بچنے اور صحیح تکنیک پ‪ŒŒ‬ر عم‪ŒŒ‬ل ک‪ŒŒ‬رنے کے ل‪ŒŒ‬یے مزی‪ŒŒ‬د وس‪ŒŒ‬یع آگ‪ŒŒ‬اہی کی ض‪ŒŒ‬رورت‬
‫ہے۔‘‬
‫ڈارمسٹاڈٹ اور کے ساتھی سان فرانسس‪ŒŒ‬کو کی یونیورس‪ŒŒ‬ٹی آف کیلیفورنی‪ŒŒ‬ا میں ڈرمیٹ‪ŒŒ‬الوجی‬
‫کے پروفیسر پیٹر ایم ایلیاس کی تحقیق کے مطابق سورج مکھی کے بیج‪ ،‬ناری‪ŒŒ‬ل اور ت‪ŒŒ‬ل ک‪ŒŒ‬ا‬
‫تیل سب سے زیادہ فوائد دیتا ہے۔‬
‫ڈارمسٹاڈٹ کہتے ہیں کہ ’ان تیلوں میں لینولیک ایسڈ کی شرح زی‪ŒŒ‬ادہ ہ‪ŒŒ‬وتی ہے‪ ،‬ج‪ŒŒ‬و آپ ک‪ŒŒ‬ا‬
‫جسم نہیں بنا سکتا۔ اور جلد پر ایسے رسیپٹر ہوتے ہیں جو اس فیٹی ایسڈ کو خاص طور پ‪ŒŒ‬ر‬
‫جوڑتے ہیں‪ ،‬تاکہ یہ میٹابوالئز ہو جائے۔ اس بات کے ثبوت موجود ہیں کہ تی‪ŒŒ‬ل میں موج‪ŒŒ‬ود‬
‫فیٹی ایسڈ جلد کے مدافعتی نظام کو بھی متحرک کر سکتے ہیں اور بڑھا سکتے ہیں۔‘‬
‫تاہم انڈین ریاست اتر پردیش میں وسیع پیمانے پر استعمال ہونے والے سرسوں کے تیل میں‬
‫یروسک ایسڈ ہوتا ہے‪ ،‬جو سوجن یا انفلیمیش‪ŒŒ‬ن ک‪ŒŒ‬ا ب‪ŒŒ‬اعث بن س‪ŒŒ‬کتا ہے اور جل‪ŒŒ‬د ک‪ŒŒ‬و نقص‪ŒŒ‬ان‬
‫پہنچا سکتا ہے۔‬
‫خاندانوں کے لیے یہ معمول نسلوں کے رواب‪ŒŒ‬ط ک‪ŒŒ‬و مض‪ŒŒ‬بوط ک‪ŒŒ‬رنے ک‪ŒŒ‬ا ای‪ŒŒ‬ک موق‪ŒŒ‬ع بھی ہ‪ŒŒ‬و‬
‫سکتا ہے۔‬
‫مغربی انڈیا کے شہر پونے میں مقیم مصنفہ پرانجلی بھونڈے اپ‪ŒŒ‬نے ‪ 14‬م‪ŒŒ‬اہ کے بچے س‪ŒŒ‬مر‬
‫کو دن میں دو بار مساج کرتی ہیں۔ انھوں نے یہ کام اس کی پیدائش س‪Œ‬ے ہی ش‪Œ‬روع ک‪Œ‬ر دی‪Œ‬ا‬
‫تھا۔ پہلے چار مہینے تو ان کی والدہ نے اس کام میں ان کی مدد کی۔ یہ ایک ایسی سرگرمی‬
‫تھی جس سے وہ دونوں ہی لطف اندوز ہوتی تھیں۔‬
‫اب‪ ،‬جب وہ تنہا مالش ک‪ŒŒ‬رتی ہیں‪ ،‬ت‪ŒŒ‬و ان کی کوش‪ŒŒ‬ش ہ‪ŒŒ‬وتی ہے مس‪ŒŒ‬اج کے دوران بچے کے‬
‫ساتھ ان کا آنکھوں کا رابطہ برقرار رہے اور وہ اسے گ‪ŒŒ‬انے اور نظمیں بھی س‪ŒŒ‬ناتی ہیں۔ وہ‬
‫تحقیقات | ‪28‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کہتی ہیں کہ ’اس نے ہمارا رشتہ مضبوط کیا ہے۔ اور میں دیکھ رہی تھی کہ باقاع‪ŒŒ‬دہ مس‪ŒŒ‬اج‬
‫سے اس کی نیند اور اس کی جلد کیسے بہتر ہوئی ہے۔‘‬
‫تیل کی مالش سے خاندان کے بوڑھے افراد کا بھی فائدہ ہوتا ہے۔ ڈارمسٹاڈٹ کہ‪ŒŒ‬تے ہیں کہ‬
‫’ہمیں پتہ چل رہا ہے کہ یہ ب‪ŒŒ‬وڑھے لوگ‪ŒŒ‬وں کے ل‪ŒŒ‬یے بھی فائ‪ŒŒ‬دہ من‪ŒŒ‬د ہے۔ جب آپ کی عم‪ŒŒ‬ر‬
‫بڑھ جاتی ہے تو اس کے ساتھ جلد بھی زیادہ نازک ہ‪ŒŒ‬و ج‪ŒŒ‬اتی ہے۔‘ خش‪ŒŒ‬ک جل‪ŒŒ‬د پ‪ŒŒ‬ر چھ‪ŒŒ‬وٹی‬
‫موٹی ٹوٹ پھوٹ شروع ہو جاتی ہے‪ ،‬جو بیکٹیریا ک‪ŒŒ‬و ان‪ŒŒ‬در ج‪ŒŒ‬انے دی‪ŒŒ‬تی ہے اور تی‪ŒŒ‬ل اس‪ŒŒ‬ے‬
‫مالئم رکھتے ہوئے ایسا ہونے سے روکنے میں مدد دیتا ہے۔‬
‫اپنے شمالی ہندوستانی خاندان کی روایات پر عمل کرتے ہ‪ŒŒ‬وئے نہ ص‪ŒŒ‬رف س‪ŒŒ‬کینہ کی بی‪ŒŒ‬ٹی‬
‫کی صحت بہتر ہوئی ہے بلکہ ان کی اپنی بھی۔ ‪ 40‬س‪ŒŒ‬ال کی عم‪ŒŒ‬ر میں پہلی ب‪ŒŒ‬ار م‪ŒŒ‬اں بن‪ŒŒ‬نے‬
‫والی سکینہ کو حمل کے دوران ذیابیطس ہو گئی تھی اور ان کی بیٹی سیزرین سیکش‪ŒŒ‬ن کے‬
‫ذریعے پیدا ہوئی تھی۔‬
‫وہ اپنی بیٹی کا پہال مساج سیشن یاد کرتے ہوئے کہتی ہیں کہ ’وہ مساج کے بعد بغ‪ŒŒ‬یر کس‪ŒŒ‬ی‬
‫خلل کے چار گھنٹے ت‪ŒŒ‬ک س‪ŒŒ‬وتی رہی تھی ج‪ŒŒ‬و اس س‪Œ‬ے پہلے کبھی نہیں ہ‪ŒŒ‬وا تھ‪ŒŒ‬ا۔ اس س‪ŒŒ‬ے‬
‫مجھے بھی آرام کرنے کا موقع مال۔ اور اس سے مجھے لگا کہ ہو س‪ŒŒ‬کتا ہے باقاع‪ŒŒ‬دہ مس‪ŒŒ‬اج‬
‫ایک صحت مند بچپن کی کنجی ہو۔‘‬
‫٭اس تحریر کا مواد عام معلومات کے ل‪ŒŒ‬یے لکھ‪ŒŒ‬ا گی‪ŒŒ‬ا ہے اور اس‪ŒŒ‬ے کس‪ŒŒ‬ی ڈاک‪ŒŒ‬ٹر کے ط‪ŒŒ‬بی‬
‫مشورے کا متبادل نہ سمجھا جائے۔ بی بی سی ایسے افراد جو بچوں کی مالش میں دلچس‪ŒŒ‬پی‬
‫لی‪ŒŒ‬تے ہیں‪ ‬کہت‪ŒŒ‬ا‪ ‬ہے کہ وہ کس‪ŒŒ‬ی م‪ŒŒ‬اہر کی م‪ŒŒ‬دد حاص‪ŒŒ‬ل ک‪ŒŒ‬ریں کی‪ŒŒ‬ونکہ اس تکنی‪ŒŒ‬ک کے غل‪ŒŒ‬ط‬
‫استعمال سے نومولود بچوں کو نقصان بھی پہنچ سکتا ہے۔‬
‫٭انتباہ‪ :‬بی بی سی اس سائٹ پر دی گئی معلومات کے باعث کس‪ŒŒ‬ی ص‪ŒŒ‬ارف کی ج‪ŒŒ‬انب س‪ŒŒ‬ے‬
‫کیے گئے فعل یا تشخیص کا ذمہ دار نہیں ہے۔ بی بی سی ان بیرونی ویب سائٹس پر موجود‬
‫م‪ŒŒ‬واد کے ح‪ŒŒ‬والے س‪ŒŒ‬ے جواب‪ŒŒ‬دہ نہیں ہے جن کے لن‪ŒŒ‬ک اس م‪ŒŒ‬واد میں موج‪ŒŒ‬ود ہیں‪ ،‬نہ ہی ان‬
‫ویب سائٹس پر موجود کمرشل مصنوعات یا سروسز کی تائید کرتا ہے۔ اگر آپ اپنی یا اپنے‬
‫بچے کی صحت کے حوالے سے پریشان ہیں تو اپنے معالج سے رابطہ کریں۔‬
‫‪https://www.bbc.com/urdu/vert-fut-58827463‬‬

‫جسم کے مختلف حصوں میں بلڈ کالٹ کی عالمات سے واقف ہیں؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪18 2021‬‬

‫اکثر اوقات خون کا جمنا جان لیوا ثابت ہوتا ہے‬


‫کئی بار رگوں میں خون کا جمنا اچھا ہوتا ہے خاص طور پر اگر آپ زخمی ہو اور خون کا‬
‫بہاﺅ روکنا چاہتے ہو۔‬

‫تحقیقات | ‪29‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫مگر اکثر اوقات خون کا جمنا یا کالٹ جان لیوا بھی ثابت ہوسکتی ہے خاص طور پر اگر‬
‫وہ مسلز کے قریب شریانوں میں ہو۔‬
‫خون کا جمنا ہارٹ اٹیک اور فالج سمیت متعدد دیگر امراض کا باعث بنتا ہے جبکہ‬
‫پھیپھڑوں اور دیگر جسمانی اعضا کو نقصان پہنچا سکتا ہے۔‬
‫بلڈ کالٹ کی عالمات‬
‫بنیادی طور پر بلڈ کالٹ کی عالمات مختلف ہوسکتی ہیں جس کا انحصار اس پر ہوتا ہے‬
‫کہ جسم کے کس حصے میں ایسا ہوتا ہے‬
‫مثال کے طور پر ہاتھ یا ٹانگ میں بلڈ کالٹ پر سوجن‪ ،‬شدید تکلیف‪ ،‬متاثرہ حصہ زیادہ‬
‫گرم ہوجانا۔‬
‫اسی طرح دماغ میں بلڈ کالٹ کا نتیجہ فالج کی شکل میں نکلتا ہے جس کی عالمات میں‬
‫۔ بولنے میں مشکالت‪ ،‬کمزوی‪ ،‬چہرے‪ ،‬ایک ہاتھ یا ٹانگ یا‪، seizures‬بینائی میں تبدیلیاں‬
‫جسم کے ایک حصے کا سن ہوجانا یا کسی قسم کا احساس نہ ہونا۔‬
‫دل میں یہ عالمات سانس لینے میں مشکالت‪ ،‬بہت زیادہ پسینے کے اخراج‪ ،‬سینے میں‬
‫تکلیف جو بائیں ہاتھ تک پھیل جائے‪ ،‬متلی‪ ،‬سر چکرانا یا کچھ وقت کی غشی کی شکل میں‬
‫ظاہر ہوتی ہیں۔‬
‫معدے میں پیٹ کا شدید ترین درد‪ ،‬ہیضہ‪ ،‬قے‪ ،‬قے یا فضلے میں خون کی موجودگی اس‬
‫کی عالمات ہیں۔سینے میں چاقو چبھنے جیسا درد‪ ،‬ایسی کھانسی جس میں خون کا اخراج‬
‫ہو‪ ،‬پسینہ‪ ،‬سانس لینے میں مشکالت‪ ،‬بخار‪ ،‬نبض کی رفتار تیز ہوجانا‪ ،‬سر چکرانا اور‬
‫غشی طاری ہونا پھیپھڑوں میں بلڈ کالٹ کی عالمات ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪30‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کس کو خطرہ زیادہ ہوتا ہے؟‬
‫بلڈ کالٹ کا خطرہ موٹاپے کے شکار افراد‪ ،‬تمباکو نوشی کرنے والے‪ 60 ،‬سال سے زیادہ‬
‫عمر‪ ،‬مانع حمل ادویات کا استعمال‪ ،‬دائمی ورم سے جڑے کسی بیماری سے متاثر ہونا‪ ،‬دل‬
‫کی دھڑکن کی بے ترتیبی‪ ،‬ہارٹ فیلیئر‪ ،‬کینسر‪ ،‬ہاتھوں اور پیروں میں فریکچر‪ ،‬حاملہ‬
‫خواتین‪ ،‬بلڈ کالٹ کی خاندان میں تاریخ‪ ،‬چلنے سے قاصر افراد‪ ،‬بہت زیادہ وقت تک بیٹھے‬
‫رہنا اور اکثر سفر کرنے والوں میں زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫بلڈ کالٹ کی پیچیدگیاں‬
‫جسم کی کسی بھی شریان میں بلڈ کالٹ کا مسئلہ ہوسکتا ہے جو خون کی روانی کے ساتھ‬
‫پھیپھڑوں‪ ،‬دل‪ ،‬دماغ یا دیگر حصوں تک پہنچ سکتا ہے۔‬
‫یہ منتقلی سنگین پیچیدگیوں کا باعث بن سکتی ہے کیونکہ بلڈ کالٹ سے اہم اعضا کے لیے‬
‫خون کی روانی متاثر ہوسکتی ہے‪ ،‬اس کا ایک تنیجہ تو ہارٹ اٹیک اور فالج کی شکل میں‬
‫نظر ٓاتا ہے جبکہ دیگر میں درج ذیل قابل ذکر ہیں۔‬
‫پھیپھڑوں میں بلڈ کالٹ سے خون میں ٓاکسیجن کی سطح کم ہوتی ہے اور پھیپھڑوں‪ ،‬دل‬
‫اور دیگر اعضا کو نقصان پہنچتا ہے۔‬
‫گردوں میں بلڈ کالٹس سے اس عضو کو نقصان پہنچتا ہے جو گردوں کے افعال فیل ہونے‬
‫کا باعث بن سکتا ہے‪ ،‬سیال اور کچرے کے اجتماع سے دیگر پیچیدگیوں بشمول ہائی بلڈ‬
‫پریشر کا خطرہ بھی بڑھتا ہے۔‬
‫یا ڈی وی ٹی میں ہاتھ یا ٹانگ میں گہرائی میں موجود رگ میں ‪Deep vein thrombosis‬‬
‫کالٹ کا مسئلہ ہوتا ہے اور اس کے سفر کرنے پر پھیپھڑوں تک پہنچنے پر سنگین‬
‫پیچیدگیوں کا خطرہ ہوتا ہے۔‬
‫بلڈ کالٹ سے خود کو کیسے بچائیں؟‬
‫بلڈ کالٹس کا عالج خون پتال کرنے والی ادویات سے کای جاتا ہے مگر اس سے بہتر ہے‬
‫کہ ان کے بننے کے عمل کی روک تھام کی جائے۔‬
‫اس مقصد کے لیے موٹاپے کے شکار افراد کو جسمانی وزن کم کرنا چاہیے‪ ،‬تمباکو نوشی‬
‫سے گریز قابل ذکر ہیں۔‬
‫اسی طرح خاندان میں بلڈ کالٹ کی تاریخ ہونے پر ڈاکٹر سے بات کرنی چاہیے۔‬
‫ورم کش غذائیں یعنی اومیگا تھری فیٹی ایسڈز والی غذائیں‪ ،‬پھل اور سبزیاں یا وٹامن ای‬
‫سے بھرپور غذائیں بھی اس حوالے سے مددگار ثابت ہوسکتی ہیں۔‬
‫جسمانی طور پر زیادہ متحرک رہنا بھی مددگار ثابت ہوسکتا ہے کیونکہ جسمانی طور پر‬
‫زیادہ وقت بیٹھ کر گزارنا بلڈ کالٹ کا خطرہ بڑھانے والے بنیادی عناصر میں سے ایک‬
‫ہے‪ ،‬بالخصوص ٹانگوں میں بلڈ کالٹ کا خطرہ اس سے بڑھتا ہے۔‬
‫زیادہ وقت بیٹھنے سے گریز کرتے ہوئے کچھ دیر کی چہل قدمی کرنا اس مسئلے سے بچا‬
‫سکتا ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1170904/‬‬
‫تحقیقات | ‪31‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫وہ بہترین مشروب جو اچھی نیند کو یقینی بنائے‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪18 2021‬‬

‫— یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی‬


‫اگر رات کو بستر پر لیٹنے کے بعد نیند نہیں ٓاتی تو ایک عام مشروب کو پینا عادت بنانا اس‬
‫مسئلے کا حل ہوسکتا ہے۔‬
‫یہ بات چین میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔تحقیق کے مطابق رات کو‬
‫سونے سے قبل ایک گالس گرم دودھ پینا اچھی نیند کو یقینی بنانے میں مددگار ثابت ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫خیال رہے کہ عرصے سے مختلف ممالک میں یہ بات والدین بچوں کو بتاتے ٓارہے ہیں‬
‫سونے سے قبل گرم دودھ پینا اچھی نیند کا باعث بنتا ہے اور اب طبی سائنس نے بھی اسے‬
‫ثابت کیا ہے۔‬
‫نیند کے مسائل کے لیے خواب ٓاور ادویات کا استعمال ہوتا ہے مگر اس کے مضر اثرات‬
‫بشمول یادداشت کی کمزوری‪ ،‬الجھن اور مسل کی کمزوری بھی ہوتے ہیں۔‬
‫یہی وجہ ہے کہ قدرتی متبادل تالش کرنے کے لیے چین کے نیشنل نیچرل سائنس فاؤنڈیشن‬
‫کے ماہرین نے جانچ پڑتال کی۔‬

‫تحقیقات | ‪32‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے دریافت کیا کہ دودھ پیپ ٹانڈ کا قدرتی ذریعہ ہے جو بالکل اسی طرح غنودگی کو‬
‫بڑھاتا ہے جس طرح خواب ٓاور ادویات۔‬
‫گائے کے دودھ میں ایک امینو ایسڈ ٹرپٹو فان اور دیگر پیپ ٹائڈز موجود ہوتے ہیں جو تناؤ‬
‫کو کم کرنے کے ساتھ نیند کو یقینی بناتا ہے۔‬
‫ان اجزا کے ساتھ ایک انزائمے ٹرائیپسین کے امتزاج سے نیند بڑھانے والے پیپ ٹائڈز‬
‫بڑھتے ہیں۔‬
‫محققین نے ایسے مخصوص پیپ ٹائڈ کو بھی شناخت کیا جو اچھی نیند کے حصول میں‬
‫مددگار ثابت ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے اس مکسچر سے خارج ہونے والے حیاتیاتی خصوصیات کو بھی شناخت کیا جو‬
‫دودھ کو ہضم ہونے کے دوران خارج کرتے ہیں۔‬
‫چوہوں پر ٓازمائش کے دوران محققین نے دریافت کیا کہ گرم دودھ کو پینے سے وہ ‪25‬‬
‫فیصد زیادہ جلد سو جاتے ہیں جبکہ ان کی نیند کا دورانیہ بھی ‪ 400‬فیصد زیادہ بہتر ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج جریدے جرنل ٓاف ایگریکلچرل اینڈ فوڈ کیمسٹری میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1170917/‬‬

‫کورونا کی اقسام ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس اینٹی باڈی ردعمل کے خالف‬
‫مزاحمت کرتی ہیں‪ ،‬تحقیق‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪18 2021‬‬

‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫کورونا کی ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس اقسام کووڈ ‪ 19‬سے بیمار ہونے والے اور ویکسینیشن کرانے‬
‫والے افراد میں وائرس ناکارہ بنانے والی اینٹی باڈیز کے خالف اوریجنل وائرس (وہ‬
‫وائرس جو وبا کے ابتدائی مرحلے میں گردش کررہا تھا) کے مقابلے میں زیادہ مزاحمت‬
‫کرتی ہیں‪ ،‬جس کی وجہ سے وہ زیادہ خطرناک اور بہت تیزی سے عالمی سطح پر پھیل‬
‫گئیں۔یہ بات جرمنی میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬
‫جرمن پرائیمیٹ سینٹر کی اس تحقیق میں کورونا کی ان دونوں اقسام پر جانچ پڑتال کی گئی‬
‫تھی جن میں سے ڈیلٹا پلس بنیادی طور پر ڈیلٹا کی ہی ایک ذیلی قسم ہے جس میں اضافی‬
‫میوٹیشنز اسے زیادہ خطرناک بناتی ہیں۔‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ یہ دونوں اقسام پھیپھڑوں کو اوریجنل وائرس کے مقابلے میں زیادہ‬
‫مؤثر انداز سے متاثر کرتی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪33‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫تحقیق کے مطابق ڈیلٹا قسم پھیپھڑوں کے خلیات میں تبدیلیاں النے کے حوالے سے زیادہ‬
‫بہتر کام کرتی ہے اور متاثرہ خلیات کو صحت مند خلیات میں بھی شامل کردیتی ہے‪ ،‬جس‬
‫کے نتیجے میں وہ زیادہ افراد کو بیمار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔‬
‫محققین نے بتایا کہ یہ قابل یقین ہے کہ اس طرح ڈیلٹا قسم زیادہ مؤثر انداز سے پھیلتی ہے‬
‫اور زیادہ نقصان پہنچا سکتی ہے۔ جس سے بیماری کی سنگین شدت کا خطرہ بڑھتا ہے۔‬
‫تحقیق میں بھی دریافت کیا گیا کہ کووڈ ‪ 19‬کے عالج کے لیے استعمال ہونے والے ‪4‬‬
‫ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس کے خالف مؤثر ‪ bamlanivimab‬مونوکلونل اینٹی باڈیز میں سے ایک‬
‫نہیں بلکہ وہ دیگر ‪ 2‬اینٹی باڈیز کے خالف بھی مزاحمت کرتی ہیں۔‬
‫اسی طرح فائزر‪ /‬بائیو این ٹیک اور ایسٹرا زینیکا ویکسینز کے استعمال سے بننے والی‬
‫اینٹی باڈیز بھی اوریجنل وائرس کے مقابلے میں ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس کے خالف زیادہ مؤثر‬
‫نہیں ہوتیں۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ نتائج سے یہ تصدیق ہوتی ہے کہ ویکسینیشن ڈیلٹا سے بیمار ہونے پر‬
‫بیماری کی سنگین شدت سے ٹھوس تحفظ ملتا ہے مگر اینٹی باڈیز اکثر مکمل تحفظ فراہم‬
‫کرنے میں ناکام ہوجاتی ہیں۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ بیماری کی سنگین شدت کے خالف ویکسینیشن کی افادیت کے پیش‬
‫نظر ویکسینیشن کی شرح بڑھانے کا ہدف جاری رکھنا چاہیے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ایسا کرنے سے ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس کے پھیلنے سے طبی نظام پر بڑھنے‬
‫والے بوجھ کی روک تھام ہوسکے گی۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ نتائج سے معلوم ہوا کہ ویکسینیشن سے دونوں اقسام کے خالف‬
‫کافی حد تک تحفظ ملتا ہے اور ڈیلٹا پلس ڈیلٹا سے زیادہ خطرناک قسم نہیں۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سیل رپورٹس میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1170922/‬‬
‫تحقیقات | ‪34‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫فرانسیسی کمپنی کی تجرباتی کووڈ‪ 19 Œ‬ویکسین ایسٹرازینیکا جتنی مؤثر‬


‫قرار‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪19 2021‬‬

‫کمپنی کی جانب سے ٓاخری مرحلے کے ٹرائل کے نتائج جاری کیے گئے ہیں‬
‫بائیو ٹیک لیبارٹری ویلنیوا نے بتایا ہے کہ اس کی تجرباتی کووڈ ‪ 19‬ویکسین کی افادیت‬
‫اگر ایسٹرا زینیکا سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس کے برابر ضرور ہے۔‬
‫کمپنی کی جانب سے تجرباتی ویکسین کی افادیت کا موازنہ ایسٹرا زینیکا ویکسین سے کیا‬
‫گیا تھا اور دریافت کیا کہ ویلنیوا کی ویکسین کے مضر اثرات نمایاں حد تک کم ہیں۔‬
‫ویلنیوا ان چند دوا ساز کمپنیوں میں سے ایک ہیں جو اپنی ویکسینز کا موازنہ ابھی دنیا‬
‫میں استعمال کی جانے والی ویکسن سے کررہی ہیں۔‬
‫فرانس کی اس کمپنی کو توقع ہے کہ اس کی تجرباتی ویکسین وبا کے خالف جنگ میں‬
‫مددگار ثابت ہوسکے گی۔‬
‫اس ویکسین کی تیاری کے لیے روایتی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا ہے اور ٹرائل ٹیم کی‬
‫سربراہی کرنے والے ایڈم فن نے بتایا کہ ویکسین کی خوراکیں ان افراد کے لیے بہت‬
‫اہمیت رکھتی ہیں جن کی ابھی ویکسینیشن نہیں ہوئی‪ ،‬وہ افراد ہماری ترجیح ہیں۔‬
‫تحقیقات | ‪35‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ان کا کہنا تھا کہ وی ایل اے ‪ 2001‬نامی ویکسین سے نمایاں حد تک ٹھوس مدافعتی‬
‫ردعمل متحرک ہوتا ہے اور اینٹی باڈی ردعمل سے کووڈ ‪ 19‬سے تحفظ کا عندیہ ملتا ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ اینٹی باڈی ردعمل اگر ایسٹرا زینیکا سے زیادہ بہتر نہیں تو کم از کم اس‬
‫کے برابر ضرور ہے۔‬
‫انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دونوں ویکسینز بہت زیادہ مؤثر ہیں بالخصوص بیماری کی‬
‫سنگین شدت سے بچانے کے لیے‪ ،‬ٹرائل میں شامل کوئی بھی رضاکار کووڈ ‪ 19‬کے باعث‬
‫ہسپتال میں داخل نہیں ہوا۔‬
‫کمپنی کی جانب سے ویکسین کی ٓازمائش کورونا کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا سے بھی کی‬
‫جارہی ہے۔‬
‫تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوا کہ ‪ 28‬دن میں ‪ 2‬خوراکوں میں استعمال کی جانے والی ویلنیوا‬
‫ویکسین سے بہت کم مضر اثرات جیسے انجیکشن کے مقام پر تکلیف اور بخار سامنے‬
‫ٓاتے ہیں۔‬
‫اس ٹرائل میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ‪ 4012‬بالغ افراد کو شامل کیا تھا اور یہ ان‬
‫ایکٹیوڈ ویکسین ہے۔‬

‫کمپنی کی جانب سے یہ بھی بتایا گیا کہ وہ ٹرائل کا ڈیٹا نومبر میں برطانوی ریگولیٹر کے‬
‫پاس جمع کرانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ ‪ 2021‬کے ٓاخر تک اس کی منظوری حاصل کی‬
‫جاسکے۔‬
‫کمپنی کو توقع ہے کہ وہ مارچ ‪ 2022‬تک یورپی یونین سے بھی ویکسین کے استعمال کی‬
‫منظوری حاصل کرلے گی۔کمپنی کی جانب سے ویکسین کے ٹرائل میں بڑی عمر کے‬
‫بچوں اور بزرگ افراد کو بھی شامل کیا جارہا ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1170925/‬‬

‫عالمی ادار ِہ صحت کورونا سے تحفظ کی گولیوں کو سستا رکھنے کا‬


‫خواہاں‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪19 2021‬‬
‫مولنو پراور‘ کورونا سے تحفظ کی پہلی گولیاں ہیں—فوٹو‪ :‬جان ہاپکنز یونیورسٹی’‬

‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اندرونی دستاویزات سے معلوم ہوا کہ عالمی ادارہ‬
‫کورونا سے تحفظ کی گولیوں کی مجموعی خوراک کی قیمت ‪ 10‬امریکی ڈالر یعنی‬
‫پاکستانی ‪ 1700‬روپے تک رکھنے کا خواہاں ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪36‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘‪ Œ‬نے اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایا کہ عالمی ادارہ صحت‬
‫کے پروگرام ’ایکسس ٹو کووڈ ‪ 19‬ٹولز‘ (اے سی ٹی اے) کے دستاویزات کے مطابق امیر‬
‫ملکوں کی جانب سے کورونا ویکسین خریدے جانے کی وجہ سے غریب ممالک تاحال وبا‬
‫سے تحفظ کی دوا سے محروم ہیں‪ ،‬جس کی وجہ سے انہیں سستی اور ترجیحی بنیادوں پر‬
‫دوا فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫مذکورہ دستاویزات تاحال ڈرافٹ کی صورت میں ہیں اور انہیں ٓائندہ ماہ روم میں ہونے‬
‫والے دنیا کے امیر ممالک ’گریٹ ٹوئنٹی‘ (جی ٹوئنٹی) کے اجالس میں پیش کیا جائے گا‬
‫تاکہ امیر ممالک سے فنڈز حاصل کیے جاسکیں۔‬
‫اسی حوالے سے ’سی این این‘ نے بتایا کہ عالمی ادارہ صحت کا منصوبہ ہے کہ دنیا کے‬
‫تمام امیر ممالک ایکسس ٹو کووڈ ‪ 19‬ٹولز کے منصوبے کے لیے مجموعی طور پر ‪22‬‬
‫ارب ڈالر سے زائد کی رقم عطیہ کریں تاکہ ستمبر ‪ 2022‬تک غریب ممالک تک کورونا‬
‫سے تحفظ کی سستی دوا اور ٹیسٹ کٹس بھجوائی جائیں۔‬
‫مذکورہ دستاویزات میں بتایا گیا کہ عالمی ادارہ صحت کی خواہش ہے کہ کورونا سے‬
‫تحفظ کی گولیوں کی مکمل خوراک کی قیمت ‪ 10‬ڈالر تک رکھی جائے۔‬
‫دستاویزات میں کسی گولی کا نام نہیں لکھا گیا اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ بعض‬
‫فارماسیوٹیکل کمپنیاں مزید گولیاں بنانے میں مصروف ہیں۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کی جانب سے گولیوں کی قیمت کے تعین سے متعلق دستاویزات کی‬
‫خبر ایک ایسے وقت میں سامنے ٓائی ہے جب کہ رواں ماہ کے ٓاغاز میں دو امریکی‬
‫کمپنیوں کے کورونا سے تحفظ کی گولیوں کے حوصلہ افزا نتائج سامنے ٓائے تھے۔‬

‫تحقیقات | ‪37‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫امریکی کمپنیوں مرک اور ریجبیک بائیو تھراپیوٹیکس‪ Œ‬نے یکم اکتوبر کو بتایا تھا کہ ان کی‬
‫گولیوں کے نتائج حوصلہ افزا ہیں‪ ،‬جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گولیاں کورونا کے مریضوں‬
‫میں موت کی شرح کو ‪ 50‬فیصد تک کم کردیتی ہیں۔‬
‫مذکورہ کمپنیوں کی جانب سے کورونا کے تحفظ کے لیے بنائی گئی اینٹی وائرل گولیوں‬
‫کا نام دیا گیا ہے۔ )‪‘ (Molnupiravir‬کو ’مولنو پراور‬
‫کمپنی جلد ہی گولیوں کے ہنگامی استعمال کے لیے امریکی حکومت کو درخواست دینے‬
‫کا ارادہ بھی رکھتی ہے۔‬
‫مذکورہ گولیاں کورونا سے تحفظ کے لیے بنائی جانے والی دنیا کی پہلی گولیاں ہیں اور‬
‫اس طرح کی دیگر گولیاں اور کیپسول دوسری کمپنیاں بھی بنانے میں مصروف ہیں۔‬
‫گولیاں تیار کی ہیں‪ ،‬ان کا ‪‘ (Molnupiravir) 8‬جن دو امریکی کمپنیوں نے ’مولنو پراور‬
‫بھارتی کمپنیوں سمیت دنیا کے دیگر ممالک کی فارماسیوٹیکل کمپنیوں کے ساتھ اشتراک‬
‫بھی ہے اور وہ ممکنہ طور پر بھارتی کمپنیوں کو گولیاں تیار کرنے کی ذمہ داری بھی‬
‫دے سکتی ہیں‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1170985/‬‬

‫برطانیہ میں کورونا کی ڈیلٹا قسم کے بعد ‘ڈیلٹا پلس’ کا پھیالؤ جاری‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪20 2021‬‬
‫یہ قسم ایسی میوٹیشنز پر مشتمل ہے جو وائرس کو زندہ رہنے کے مواقع فراہم کرسکتا ہے‬
‫—‬
‫برطانیہ میں عالمی وبا کی وجہ بننے والے کورونا وائرس کی قسم ڈیلٹا کے نئے ویرئنٹ‬
‫’ڈیلٹا پلس’ کے کیسز میں پھیالؤ دیکھنے میں آیا ہے۔‬
‫بی بی سی کی رپورٹ کے مطابق حکام کورونا وائرس کے ڈیلٹا ویرئنٹ کی نئی تبدیلی پر‬
‫کڑی نظر رکھے ہوئے ہیں جو ملک میں وبا کے بڑھتے کیسز کی وجہ بن رہا ہے۔‬
‫کورونا وائرس کی بہت زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا‪ ،‬جسے بی ‪ 1617.2‬کے نام سے بھی جانا‬
‫جاتا ہے‪ ،‬گزشتہ برس برطانیہ میں سامنے آئی تھی۔‬
‫تاہم حالیہ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق برطانیہ میں کورونا وائرس کے ‪ 6‬فیصد کیسز‬
‫جینیاتی طور پر وائرس کی نئی قسم کے ہیں۔‬
‫اے وائے‪ ،4.2.‬جسے کچھ افراد ’ڈیلٹا پلس’ بھی کہہ رہے ہیں‪ ،‬ایسی میوٹیشنز پر مشتمل‬
‫ہے جو وائرس کو زندہ رہنے کے مواقع فراہم کرسکتا ہے۔‬
‫یہ پتا لگانے کے لیے ٹیسٹ کیے جارہے ہیں کہ ڈیلٹا وائرس کی اس نئی قسم سے کتنا‬
‫خطرہ الحق ہو سکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪38‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ماہرین کا کہنا تھا کہ اس کے بڑے پیمانے پر پھیلنے یا موجودہ ویکسین سے محفوظ رہنے‬
‫کا امکان نہیں ہے۔‬
‫اسے ابھی تک تشویش کا باعث بننے والی قسم یا زیر تفتیش ویرئنٹ نہیں سمجھا گیا۔‬
‫اے وائے‪ 4.2.‬کیا ہے؟‬
‫دنیا بھر میں کورونا وائرس کی ہزاروں مختلف اقسام یا ویرئنٹس موجود ہیں‪ ،‬وائرس ہر‬
‫وقت بدلتے رہتے (میوٹیٹ ہوتے) ہیں لہذا ان کی نئی اقسام سامنے آنا کوئی حیران کن بات‬
‫نہیں ہے۔‬
‫ث تشویش قرار دیا گیا تھا جب یہ‬‫ڈیلٹا کی اوریجنل قسم کو مئی ‪ 2021‬میں برطانیہ میں باع ِ‬
‫الفا ویرئنٹ کو پیچھے چھوڑ کر دنیا بھر میں پھیلنے والی کورونا وائرس کی سب سے‬
‫بڑی قسم بن گئی تھی۔‬
‫تاہم جوالئی ‪ 2021‬میں ماہرین نے اے وائے‪ 4.2.‬کی نشاندہی کی تھی۔‬
‫ڈیلٹا کی یہ قسم تب سے آہستہ آہستہ بڑھ رہی ہے‪ ،‬اس میں کچھ نئی تبدیلیاں شامل ہیں جو‬
‫اسپائک پروٹین کو متاثر کرتی ہیں جسے وائرس ہمارے خلیوں میں داخل ہونے کے لیے‬
‫استعمال کرتا ہے۔‬
‫ابھی تک اس بات کا کوئی عندیہ نہیں مال کہ ان تبدیلیوں کے نتیجے میں یہ وائرس زیادہ‬
‫متعدی ہے لیکن یہ ماہرین ابھی اس پر تحقیق کررہے ہیں۔‬
‫عالمی وبا کے آغاز سے کورونا وائرس کی دیگر اقسام میں وائے ‪ 145‬ایچ اور اے‬
‫‪222‬وی میوٹیشنز پائی گئی ہیں۔سائنسدان مسلسل نئی جینیاتی تبدیلیوں کی جانچ کر رہے‬
‫ہیں جن سے کورونا وائرس گزر رہا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪39‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کچھ اقسام پریشان کن ہیں لیکن بہت سی غیر اہم ہیں تاہم مشکل کام ان لوگوں کو ڈھونڈنا‪،‬‬
‫پتا لگانا اور ان کا انتظام کرنا ہے جو اہم ہو سکتے ہیں۔‬
‫اس مرحلے پر‪ ،‬ماہرین کو نہیں لگتا کہ اے وائے‪ 4.2.‬کو پکڑا جاسکے گا لہذا ہوسکتا ہے‬
‫کہ اسے واچ لسٹ سے نکال دیا جائے۔‬
‫یونیورسٹی کالج لندن کے جینیٹکس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر فرانکوئس بلوکس‬
‫نے کہا کہ ’یہ ممکنہ طور پر کچھ زیادہ متعدی قسم ہے'۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ’الفا اور ڈیلٹا اقسام کے ساتھ جو کچھ ہم نے دیکھا اس کے مقابلے میں یہ‬
‫کچھ بھی نہیں ہے‪ ،‬جو ‪ 50‬سے ‪ 60‬فیصد زیادہ متعدی تھیں‪ ،‬فی الحال اس پر تحقیق جاری‬
‫ہے‪ ،‬ہوسکتا ہے کہ یہ ‪ 10‬فیصد زیادہ متعدی ہو’۔‬
‫پروفیسر فرانکوئس نے کہا کہ اچھا ہے کہ ہم آگاہ ہیں‪ ،‬یہ بہت اچھا ہے کہ ہمارے پاس‬
‫مشکوک چیزوں کو دیکھنے کے لیے ایسی سہولیات اور انفراسٹرکچر موجود ہے۔‬
‫انہوں نے کہا کہ ’اس مرحلے پر میں کہوں گا انتظار کریں اور دیکھو‪ ،‬گھبرائیں نہیں‪ ،‬یہ‬
‫تھوڑا زیادہ متعدی ہوسکتا ہے لیکن یہ اتنا تباہ کن نہیں ہے جیسا کہ ہم نے پہلے دیکھا تھا‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171021/‬‬

‫پسینے کے ذریعے خون میں شوگر ناپنے واال کم خرچ ٓالہ‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫بدھ‪ 20  ‬اکتوبر‪2021  ‬‬
‫اس ٓالے کی جسامت ایک روپے والے س ّکے جتنی ہے جبکہ یہ بہت لچک دار بھی ہے۔‬
‫(فوٹو‪ :‬پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی)‬
‫پنسلوانیا‪ :‬امریکی سائنسدانوں نے پسینے کے ذریعے خون میں گلوکوز کی مقدار معلوم‬
‫کرنے کےلیے ایک ایسا سینسر‪( u‬حساسیہ) ایجاد کرلیا ہے جسے اسٹیکر کی طرح کھال پر‬
‫چپکا دیا جاتا ہے۔‬
‫اسے پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی کے پروفیسر لیری چینگ اور ان کے ساتھیوں نے تیار‬
‫کیا ہے جبکہ اس کی تفصیالت ریسرچ جرنل ’’بایوسینسرز اینڈ بایوالیکٹرونکس‘‘‪ Œ‬کے‪ ‬تازہ‬
‫شمارے‪ ‬میں ٓان الئن بھی شائع ہوچکی ہیں۔‬
‫واضح رہے کہ خون کی طرح پسینے میں بھی شکر (شوگر یعنی گلوکوز) موجود ہوتی ہے‬
‫لیکن اس کی مقدار خون کے مقابلے میں ‪ 100‬گنا کم ہوتی ہے۔‬
‫روایتی طریقے کے تحت خون میں شوگر کی مقدار معلوم کرنے کےلیے انگلی میں سوئی‬
‫چبھو کر ایک قطرہ خون نکال کر ایک خاص طرح کی چھوٹی سی پٹی (اسٹرپ) پر رکھا‬
‫جاتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪40‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫یہ اسٹرپ ’’گلوکومیٹر‘‘ یعنی شوگر ناپنے والے ایک ٓالے میں لگا دی جاتی ہے جو اگلے‬
‫چند سیکنڈ کے دوران خون میں شکر کی مقدار معلوم کرکے اپنے اسکرین پر ظاہر کردیتا‬
‫ہے۔‬
‫انگلی میں سوئی چبھونے اور خون نکالنے سے چھٹکارا پا کر خون میں شوگر معلوم‬
‫کرنے کے عمل کو بھی تکلیف سے پاک اور ٓاسان بنایا جاسکتا ہے۔‬
‫پیش نظر بنایا گیا ہے جس کی تیاری میں ’’گریفین‘‘‪ Œ‬کہالنے‬
‫ِ‬ ‫یہ ٓالہ بھی اسی ضرورت کے‬
‫والے ما ّدے پر نکل دھات کی پتلی تہہ چڑھا کر اسے پسینے میں گلوکوز ناپنے کے قابل‬
‫بنایا گیا ہے۔‬
‫پروفیسر لیری چینگ کہتے ہیں کہ پسینے میں گلوکوز کی بے حد کم مقدار بالکل درست‬
‫طور پر معلوم کرنا سب سے اہم مسئلہ تھا جسے ان کی ٹیم نے طویل تحقیق کے بعد‬
‫ٓاخرکار حل کرلیا۔‬
‫خون میں گلوکوز کی مقدار معلوم کرنے کےلیے اس ٓالے کو کھال پر چپکا دیا جاتا ہے۔‬
‫اگر اسے پہننے والے کو پسینہ نہیں ٓارہا ہو تو اس سے ہلکی پھلکی ورزش کروائی جاتی‬
‫ہے تاکہ پسینہ نکلے۔‬
‫یہ پسینہ اس ٓالے کے نچلے حصے میں نصب خردبینی خانوں (مائیکرو چیمبرز) میں‬
‫پہنچتا ہے جہاں نکل دھات اس میں موجود گلوکوز کے سالموں (مالیکیولز)‪ Œ‬کے ساتھ عمل‬
‫کرکے پسینے میں گلوکوز کی ٹھیک ٹھیک پیمائش کرتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪41‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫پھر اس ٓالے کا خودکار نظام‪ ،‬پسینے میں گلوکوز کی مقدار کو ‪ 100‬سے ضرب دیتا ہے‬
‫جو اُس وقت خون میں گلوکوز کی مقدار کے برابر ہوتی ہے۔‬
‫اپنے تمام تر انتظامات سمیت‪ ،‬اس ٓالے کی جسامت ایک روپے والے س ّکے جتنی ہے جبکہ‬
‫یہ بہت لچک دار بھی ہے۔‬
‫ابتدائی تجربات میں اسے ایک بے ضرر گوند کے ذریعے ایک رضاکار کے بازو کی‬
‫کھال پر چپکا کر خون میں گلوکوز کی مقدار معلوم کی گئی جو بالکل وہی تھی جو‬
‫گلوکومیٹر کے ذریعے معلوم ہوئی تھی۔‬
‫اب ماہرین کی یہ ٹیم مزید تجربات کی تیاری کررہی ہے تاکہ اس ایجاد کو جلد از جلد بہتر‬
‫اور حتمی شکل دے کر مارکیٹ میں فروخت کےلیے پیش کیا جاسکے۔‬
‫انہیں امید ہے کہ یہ ٓالہ بہت کم خرچ ہوگا اور اس کے ذریعے خون میں گلوکوز پر‬
‫باقاعدگی سے نظر رکھنا بہت ٓاسان ہوجائے گا۔‬
‫ذیابیطس کے ان مریضوں کو اس ٓالے سے بہت فائدہ ہوگا جنہیں اپنے خون میں گلوکوز پر‬
‫روزانہ باقاعدگی سے نظر رکھنے کےلیے بار بار سوئی چبھنے کی تکلیف سے گزرنا‬
‫پڑتا ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2237868/9812/‬‬

‫پہلی مرتبہ خنزیر کا گردہ انسان میں منتقل کرنے کا کامیاب تجربہ‬

‫ویب ڈیسک‬
‫جمعرات‪ 21  ‬اکتوبر‪  2021  ‬‬

‫ستمبر ‪ 2021‬میں نیویارک لینگون ہیلتھ میں خنزیر کا گردہ انسانی بدن میں پیوست کیا‬
‫جارہا ہے۔ یہ گردہ ایک مردہ خاتون میں لگا کر اس کا کئی روز تک مشاہدہ کیا گیا ہے۔‬
‫فوٹو‪ :‬بشکریہ جو کیروٹا‪ ،‬اے پی‬
‫نیویارک‪ :‬انسانی تاریخ میں پہلی مرتبہ‪ u‬خنزیر کا گردہ کسی انسان میں لگا کر اس کا‪ ‬‬
‫مطالعہ کیا گیا ہے تاہم یہ گردہ ایک ایسے شخص کو لگایا گیا ہے جو فوت ہوچکا ہے۔‬
‫نیویارک یونیورسٹی میں واقع لینگون ہیلتھ ہسپتال کی ٹیم نے دیکھا کہ جب انہوں نےایک‬
‫الش میں سؤر کا گردہ لگایا تو وہ کام کرنے لگا اور انسانی بدن نے اسے بیرونی عضو‬
‫کے طور پر مسترد بھی نہیں کیا جسے ’بایو رجیکشن‘ کہا جاتا ہے۔ اس سے عشروں‬
‫پرانے سوال کا جواب مال ہے کہ کیا انسان میں جانور کا عضو بالخصوص گردہ لگایا‬
‫جاسکتا ہے یا نہیں۔ اس طرح راہ کھلی ہے کہ جلد یا بدیر انسانی اعضا کی بڑھتی ہوئی‬
‫طلب کو جانوروں سے پورا کیا جاسکے گا۔ اس کی ابتدا گردے سے ہی ہوگی کیونکہ وہ‬
‫دیگر اعضا کے مقابلے میں کم پیچیدہ ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪42‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اگرچہ خنزیرکے اعضا انسانوں میں منتقل پر ایک عرصے سے تجربات جاری ہیں۔ تاہم‬
‫اس کے گردے میں خاص شکریات (شوگرز) کی وجہ سے انسانی امنیاتی نظام انہیں‬
‫بیرونی حملہ قرار دے کر مسترد کرسکتا ہے۔ یہاں تک کہ انسانی گردہ لگانے کے بعد بھی‬
‫مریض کو پوری زندگی مدافعتی نظام کو دبانے والی (امیونوسپریشن)‪ Œ‬دوائیں کھانا پڑتی‬
‫ہیں۔‬
‫اسی لیے خنزیر کے گردے کو کئی جنیاتی تبدیلیوں سے گزارکر اس میں انسان بیزار‬
‫شکریات کو ختم کیا گیا اور بعض تبدیلیوں کے بعد اسے ستمبر میں انسانی الش پرٓازمایا‬
‫گیا۔‬
‫گردے کو خون کی دو بڑی نالیوں سے جوڑا گیا اور وہ انسانی جسم میں کام کرنے لگا۔‬
‫اس نے صفائی کی اور پیشاب بھی بنائی۔ تجربے میں شامل ڈاکٹر رابرٹ منٹگمری کے‬
‫مطابق یہ تجربہ انتہائی کامیاب رہا ہے۔ دوسری جانب اس تحقیق سے باہر جامعہ منی سوٹا‬
‫کے ڈاکٹر اینڈریو ایڈم نے اسے ایک اہم سنگِ میل قرار دیا ہے۔‬
‫انسانی جسم میں جانوروں کے اعضا کی منتقلی کا عمل ’زینوٹرانسپالنٹیشن‘‪ Œ‬کہالتا ہے۔ اس‬
‫کی ابتدا سترہویں صدی میں اس وقت ہوئی جب کتوں اور بلیوں کا خون انسانوں میں لگانے‬
‫کی کوشش کی گئی تھی۔ ڈاکٹر اینڈریو نے اسے درست سمت میں ایک اہم قدم قرار دیا ہے۔‬
‫ایک سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ چمپانزی اور بندروں کے اعضا انسانوں میں کیوں نہ لگایا‬
‫جائے تو اس کا جواب یہ ہے کہ ان کی تعداد بہت زیادہ ہے اور ان کے اعضا انسانوں سے‬
‫بہت قریب ہوتے ہیں۔ اس سے قبل سؤروں کے دل کے والو بھی انسانوں میں لگائے‬

‫تحقیقات | ‪43‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫’ہیپارن‘ خنزیروں کی ٓانتوں سے کشید کی‬


‫ِ‬ ‫جاچکے ہیں۔ خون پتال کرنے والی ایک دوا‬
‫جاتی ہے۔ چین میں سؤر کی جلد کے پیوند انسانوں میں کامیابی سے لگائے جاچکے ہیں۔‬
‫واضح رہے کہ گردہ ایک مردہ خاتون کو لگایا تھا گیا جس کے اقربا نے اس تجربے کی‬
‫اجازت دیدی تھی۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2237964/9812/‬‬

‫ماہرین کی کرونا کی ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس اقسام سے متعلق خوفناک‬


‫دریافت‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 20 2021‬‬

‫جرمن ماہرین نے انکشاف کیا ہے کہ ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس اقسام نے ویکسینیشن‪ u‬کرانے‬
‫والے افراد میں وائرس کے خالف مزاحمت کرنے والی اینٹی باذیز کے خالف سخت‬
‫مزاحمت کرتی ہے جو ڈیلٹا ویرینٹ‪ u‬کے عالمی سطح پر تیزی سے پھیلنے کا باعث بنی۔‬
‫طبی جریدے جرنل سیل رپورٹس میں شائع ہونے والی جرمن پرائیمیٹ سینٹر کی تحقیق‬
‫میں کہا گیا ہے کہ ڈیلٹا کی ذیلی قسم ڈیلٹا پلس کو اضافی میوٹیشنز دیگر کی نسبت زیادہ‬

‫تحقیقات | ‪44‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫خطرناک بناتے ہیں جو پھیپھڑوں کو دیگر اقسام کے مقابلے میں زیادہ تیزی سے متاثر‬
‫کرتی ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق ڈیلٹا قسم پھیپھڑوں کے خلیات میں تبدیلیاں النے کے حوالے سے زیادہ‬
‫بہتر کام کرتی ہے اور متاثرہ خلیات کو صحت مند خلیات میں بھی شامل کردیتی ہے‪ ،‬جس‬
‫کے نتیجے میں وہ زیادہ افراد کو بیمار کرنے میں کامیاب ہوگئی۔‬
‫تحقیق‪ ‬میں بھی دریافت کیاگیا کہ کوویڈ ‪ 19‬کے عالج کے لیے استعمال ہونے والے ‪4‬‬
‫ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس کے خالف مؤثر )‪ (bamlanivimab‬مونوکلونل اینٹی باڈیز میں سےایک‬
‫نہیں بلکہ وہ دیگر ‪ 2‬اینٹی باڈیز کے خالف بھی مزاحمت کرتی ہیں۔‬
‫اسی طرح فائزر‪ /‬بائیو این ٹیک اور ایسٹرا زینیکا ویکسینز کے استعمال سے بننے والی‬
‫اینٹی باڈیز بھی اوریجنل وائرس کے مقابلے میں ڈیلٹا اور ڈیلٹا پلس کے خالف زیادہ مؤثر‬
‫نہیں ہوتیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/delta-and-delta-plus-evade-the-antibody-‬‬
‫‪response/‬‬

‫کرونا سے بچاؤ کی گولی‪ ،‬قیمتوں سے متعلق اعالن‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪20 2021‬‬

‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کرونا سے بچاؤ کے لئے تیار کی گئی گولیوں کی‬
‫مجموعی خوراک کی قیمت کم سے کم رکھنے کا خواہاں ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪45‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اندرونی دستاویزات میں کہا گیا ہے کہ ادارے کی‬
‫کرونا سے تحفظ کی گولیوں کی مجموعی خوراک کی قیمت سترہ سو روپے پاکستانی یعنی‬
‫‪ 10‬امریکی ڈالر تک رکھنے کا خواہش ہے۔‬
‫غیر ملکی خبر رساں ایجنسی نے اپنی خصوصی رپورٹ میں بتایا کہ عالمی ادارہ صحت‬
‫کے پروگرام ’ایکسس ٹو کووڈ ‪ 19‬ٹولز‘ (اے سی ٹی اے) کے دستاویزات کے مطابق امیر‬
‫ملکوں کی جانب سے کرونا ویکسین خریدے جانے کی وجہ سے غریب ممالک تاحال وبا‬
‫سے تحفظ کی دوا سے محروم ہیں‪ ،‬جس کی وجہ سے انہیں سستی اور ترجیحی بنیادوں پر‬
‫دوا فراہم کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫مذکورہ دستاویزات تاحال ڈرافٹ ہیں اور انہیں ٓائندہ ماہ روم میں ہونے والے دنیا کے امیر‬
‫ممالک (جی ٹوئنٹی) کے اجالس میں پیش کیا جائے گا تاکہ امیر ممالک سے فنڈز حاصل‬
‫کیے جاسکیں۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کا منصوبہ ہے کہ دنیا کے تمام امیر ممالک ایکسس ٹو کووڈ ‪ 19‬ٹولز‬
‫کے منصوبے کے لیے مجموعی طور پر ‪ 22‬ارب ڈالر سے زائد کی رقم عطیہ کریں تاکہ‬
‫ستمبر دو ہزار بائیس تک غریب ممالک تک کرونا سے تحفظ کی سستی دوا اور ٹیسٹ‬
‫کٹس بھجوائی جائیں۔‬
‫دستاویزات میں کسی گولی کا نام نہیں لکھا گیا اور یہ بھی نہیں بتایا گیا کہ بعض‬
‫فارماسیوٹیکل کمپنیاں مزید گولیاں بنانے میں مصروف ہیں۔‬
‫عالمی ادارہ صحت کی جانب سے گولیوں کی قیمت کے تعین سے متعلق دستاویزات کی‬
‫خبر ایک ایسے وقت میں سامنے ٓائی ہے جب کہ رواں ماہ کے ٓاغاز میں دو امریکی‬
‫کمپنیوں کے کرونا سے تحفظ کی گولیوں کے حوصلہ افزا نتائج سامنے ٓائے تھے۔‬
‫مذکورہ کمپنیوں کی جانب سے کرونا کے تحفظ کے لیے بنائی گئی اینٹی وائرل گولیوں کو‬
‫’مولنو پراور‘ کا نام دیا گیا ہے۔‬
‫امریکی کمپنیوں مرک اور ریجبیک بائیو تھراپیوٹیکس‪ Œ‬نے یکم اکتوبر کو بتایا تھا کہ ان کی‬
‫گولیوں کے نتائج حوصلہ افزا ہیں‪ ،‬جن سے معلوم ہوتا ہے کہ گولیاں کرونا کے مریضوں‬
‫میں موت کی شرح کو پچاس فیصد تک کم کردیتی ہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/world-health-organization-who-wants-to-keep-‬‬
‫‪safety-pills-cheaper/‬‬

‫نئی کرونا ویکسین کی افادیت ‘ایسٹرازینیکا’ جتنی مؤثر‪ ،‬نام جانئے‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 20 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪46‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫عالمی وبا کرونا کے خالف اب تک کئی ویکسین سامنے آچکی اور مستقبل میں بھی اس‬
‫وبا سے نمٹنے‪ u‬کے لئے مزید ویکسین کے تجربات جاری ہے۔‬
‫فرانسیسی کمپنی بائیو ٹیک لیبارٹری ویلنیوا نے حال ہی میں بنائی گئی کووڈ نائنٹین ویکسین‬
‫کے تجرباتی ٹیسٹ کئے‪ ،‬کمپنی کی جانب سے تجرباتی ویکسین کی افادیت کا موازنہ‬

‫ایسٹرا زینیکا ویکسین سے کیا گیا تھا اور دریافت کیا کہ ویلنیوا کی ویکسین کے مضر‬
‫اثرات نمایاں حد تک کم ہیں۔‬
‫کمپنی کا کہنا ہے کہ اس کی تجرباتی کووڈ نائنٹین ویکسین کی افادیت اگر ایسٹرا زینیکا‬
‫سے زیادہ نہیں تو کم از کم اس کے برابر ضرور ہے‪ ،‬کمپنی کو توقع ہے کہ اس کی‬
‫تجرباتی ویکسین وبا کے خالف جنگ میں مددگار ثابت ہوسکے گی۔‬
‫واضح رہے کہ ویلنیوا ان چند دوا ساز کمپنیوں میں سے ایک ہیں جو اپنی ویکسینز کا‬
‫موازنہ ابھی دنیا میں استعمال کی جانے والی ویکسن سے کررہی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪47‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫کمپنی کا کہنا ہے کہ اس ویکسین کی تیاری کے لیے روایتی ٹیکنالوجی کا استعمال کیا گیا‬
‫ہے اور ٹرائل ٹیم کی سربراہی کرنے والے ایڈم فن نے بتایا کہ ویکسین کی خوراکیں ان‬
‫افراد کے لیے بہت اہمیت رکھتی ہیں جن کی ابھی ویکسینیشن نہیں ہوئی‪ ،‬وہ افراد ہماری‬
‫ترجیح ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ وی ایل اے ‪ 2001‬نامی ویکسین سے نمایاں حد تک ٹھوس مدافعتی‬
‫ردعمل متحرک ہوتا ہے اور اینٹی باڈی ردعمل سے کووڈ ‪ 19‬سے تحفظ کا عندیہ ملتا ہے۔‬
‫انہوں نے یہ بھی بتایا کہ دونوں ویکسینز بہت زیادہ مؤثر ہیں بالخصوص بیماری کی‬
‫سنگین شدت سے بچانے کے لیے‪ ،‬ٹرائل میں شامل کوئی بھی رضاکار کووڈ ‪ 19‬کے باعث‬
‫ہسپتال میں داخل نہیں ہوا۔‬
‫کمپنی کی جانب سے ویکسین کی ٓازمائش کرونا کی زیادہ متعدی قسم ڈیلٹا سے بھی کی‬
‫جارہی ہے‪ ،‬تحقیق میں یہ بھی ثابت ہوا کہ اٹھائیس دنوں میں دو خوراکوں میں استعمال کی‬
‫جانے والی ویلنیوا ویکسین سے بہت کم مضر اثرات جیسے انجیکشن کے مقام پر تکلیف‬
‫اور بخار سامنے ٓاتے ہیں۔‬
‫اس ٹرائل میں برطانیہ سے تعلق رکھنے والے ‪ 4012‬بالغ افراد کو شامل کیا تھا اور یہ ان‬
‫ایکٹیوڈ ویکسین ہے‪ ،‬کمپنی کی جانب سے مزید بتایا گیا کہ وہ ٹرائل کا ڈیٹا نومبر میں‬
‫برطانوی ریگولیٹر کے پاس جمع کرانے کا ارادہ رکھتی ہے تاکہ ‪ 2021‬کے ٓاخر تک اس‬
‫کی منظوری حاصل کی جاسکے۔‬
‫کمپنی کو توقع ہے کہ وہ مارچ ‪ 2022‬تک یورپی یونین سے بھی ویکسین کے استعمال کی‬
‫منظوری حاصل کرلے گی‪ ،‬کمپنی کی جانب سے ویکسین کے ٹرائل میں بڑی عمر کے‬
‫بچوں اور بزرگ افراد کو بھی شامل کیا جارہا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/2010valneva-covid-19-vaccine/‬‬

‫تحقیقات | ‪48‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫جانور کے اعضا کو انسانی جسم نے قبول کرلیا‪ ،‬کامیاب تجربہ‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 20 2021‬‬


‫جانوروں کے ذریعے ویکسینز کا تجربہ سائنسدانوں کی جانب سے اکثر کیا جاتا ہے لیکن‬
‫اب انسانی جسم میں جانور کے اعضا کی پیوندکاری کا بھی کامیاب تجربہ کرلیا گیا۔‬
‫امریکی اخبار نیویارک ٹائمز اور سی بی ایس نیوز کے مطابق انسانی جسم میں پہلی مرتبہ‬
‫کامیابی کے ساتھ جانور کے گردے کی پیوندکاری کی گئی ہے‪ ،‬کامیاب تجربہ کرنے والی‬
‫ٹیم کی قیادت ڈاکٹر رابرٹ منٹگمری نے کی۔‬
‫ماہرین کا خیال ہے کہ اس جانور کے بعد اب دوسرے جانوروں کے اعضا بھی انسانوں‬
‫میں لگانا ممکن ہوسکے گا۔‬
‫نیویارک یونیورسٹی لنگون میں ہونے والے اس ٓاپریشن کرنے والی ٹیم کے سربراہ ڈاکٹر‬
‫رابرٹ منٹگمری کے مطابق جانور کے گردے کو انسانی جسم نے قبول کرلیا اور دفاعی‬
‫نظام نے مزاحمت بھی نہیں۔‬

‫ڈاکٹر رابرٹ منٹگمری‬


‫ٰ‬
‫دعوی کیا کہ جس مریض کو جانور کا گردہ لگایا گیا اس نے قدرتی طور پر‬ ‫انہوں ںے‬
‫پیشاب بھی کیا جو کامیابی کی واضح عالمت ہے‬

‫تحقیقات | ‪49‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫۔‬
‫رپورٹ کے مطابق جینیاتی انجینئرنگ سے تیار کردہ جانور کے گردے کو ایک دماغی‬
‫لحاظ سے مردہ قرار دیے گئے مریض میں ٹرانسپالنٹ کیا گیا ہے۔‬
‫گردے میں جینیاتی تبدیلیاں اس لیے کی گئیں تاکہ انسانی جسم گردے کو فوری طور پر‬
‫مسترد نہ کرے‪ ،‬ورثا سے مریضہ کو الئف سپورٹ سے اتارنے اور گردہ ٹرانسپالنٹ‬
‫کرنے کی باقاعدہ اجازت حاصل کی گئی تھی۔‬
‫ڈاکٹروں کی ٹیم کا کہنا ہے کہ گردے کی ٹرانسپالنٹیشن کے بعد مریضہ کے کریٹانین کی‬
‫سطح نارمل ہونا شروع ہوگئی تھی۔‬
‫ڈاکٹروں کی طویل عرصے سے کوشش ہے کہ انسانی جسم میں جانوروں کے اعضا کی‬
‫پیوند کاری کرسکیں لیکن مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ جب بھی ایسی کوئی کوشش ماضی‬
‫میں کی گئی تو انسانی جسم نے اسے فوری طور پر مسترد کردیا تھا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/585988-2/‬‬

‫برطانیہ میں‌ کرونا کی مہلک قسم زور پکڑنے لگی‪ 24 ،‬گھنٹوں‌ میں‌ ‪44‬‬
‫ہزار کیسز رپورٹ‬

‫‪ ‬فرید قریشی‬
‫اکتوبر ‪ 20 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪50‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫لندن‪ :‬برطانیہ میں کرونا کی ایک اور نئی خطرناک قسم تیزی سے پھیلنا شروع ہوگئی‬
‫ہے۔‬
‫اے ٓار وائی نیوز کے مطابق برطانیہ میں پھیلنے والی نئی قسم کو ماہرین نے ڈیلٹا‬
‫وائرینٹاے وائی فور پوائنٹ ٹو‘ کا نام دیا اور بتایا کہ اس نے بھی زور پکڑنا شروع کردیا‬
‫ہے۔‬
‫طبی ماہرین نے مطابق گزشتہ چوبیس گھنٹوں کے دوران کرونا کی تغیرشدہ قسم کے ‪44‬‬
‫ہزار سے زائد نئے کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ ‪ 223‬مریض ہالک بھی ہوئے۔‬
‫طبی ماہرین نے اس قسم کو گزشتہ اقسام سے خطرناک قرار دیتے ہوئے نئے وائرس کی‬
‫نگرانی‪  ‬شروع کر دی ‪ ‬اور شہریوں کو متنبہ کیا ہے کہ وہ سماجی فاصلے‪ ،‬فیس ماسک‬
‫کے استعمال کو یقینی بنائیں۔‬
‫رپورٹ کے مطابق نیدر لینڈز میں رواں ہفتے‪  ‬مہلک کرونا وائرس کے نئے کیسز میں‬
‫چوالیس فیصد اضافہ ریکارڈ کیا گیا جبکہ روس‪  ‬میں کرونا سے ایک روز میں ریکارڈ‬
‫ایک ہزار سے زائد اموات رپورٹ‪  ‬ہوئیں‪ ،‬جس کے بعد صدر نے پابندیوں کے ساتھ ایک‬
‫ہفتے کی تعطیل کا اعالن کردیا۔‬
‫ماسکو کے میئر نے اعالن کیا کہ ساٹھ سال یا اس سے زائد عمر افراد کو چار ماہ تک گھر‬
‫میں رہنا ہو گا۔ انہوں نے نئی پابندیوں کے احکامات جاری کیے اور متعلقہ اداروں کو عمل‬
‫درٓامد کی ہدایت کی ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/new-mutation-of-delta-variant-uk/‬‬

‫پانچ سے گیارہ سال کے بچوں کو کرونا سے محفوظ رکھنے کے لیے‬


‫بڑا فیصلہ‬

‫تحقیقات | ‪51‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪21 2021‬‬

‫واشنگٹن‪ :‬امریکا کے محکمہ صحت نے پانچ سے گیارہ سال تک کی عمر کے بچوں کو‬
‫ت عملی تیار کرلی۔‬
‫کرونا ویکسی نیشن لگانے کا فیصلہ کرتے ہوئے حکم ِ‬
‫خبرایجنسی کی رپورٹ کے مطابق امریکا نے بدھ ‪ 20‬اکتوبر کو پانچ سال سے گیارہ سال‬
‫تک کی عمر کے بچوں کو کرونا سے بچاؤ کی ویکسی نیشن لگانے کا فیصلہ کیا۔‬
‫وائٹ ہاؤس ترجمان کا کہنا تھا کہ وزارت صحت کی سفارش اور تجویز کی روشنی میں‬
‫بچوں کو ویکسی نیشن لگانے کا فیصلہ کیا گیا ہے‪ ،‬جس کے تحت پہلے مرحلے میں دو‬
‫کروڑ ‪ 80‬الکھ بچوں کو پہلے مرحلے میں ویکسین لگائی جائے گی۔‬
‫ترجمان وائٹ ہاؤس کے مطابق بچوں کو‪  ‬بڑوں کے مقابلے میں ‪ 21‬روز کے وقفے سے‬
‫‪ 10‬مائیکرو گرام کی دو خوراکیں دی جائیں گی۔‬
‫رپورٹ کے مطابق بچوں کو فائزر اور بائیو این ٹیک کی تیارہ کردہ ویکسین لگائی جائے‬
‫گی‪ ،‬اس سے قبل ‪ 10‬سال سے زائد عمر کے بچوں کو بھی وہی ویکسین لگائی جاررہی‬
‫ہے۔‬
‫رپورٹ کے مطابق بچوں کو اسپتالوں‪ ،‬اسکولوں‪ ،‬ڈاکٹرز کے کلینک‪ ،‬میڈیکل اسٹورز میں‬
‫ویکسین لگائی جائے گی۔‬
‫یاد رہے کہ ‪ ‬فائزر نے ‪ 5‬سے ‪ 11‬سال کے بچوں کی ویکسینیشن کیلئے گزشتہ ماہ ٹرائلز‬
‫جمع کرانے کے بعد اس کے استعمال اجازت مانگی تھی‪ ،‬جس پر ماہرین کے دو پینلز نے‬
‫بحث کرنے کا اعالن کیا تھا۔ پہال پینل فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے زیر اہتمام ٓائندہ ہفتے‬
‫جبکہ دوسرا سی ڈی سی کے تحت ‪ 2‬اور ‪ 3‬نومبر کو مالقات کریگا۔‬
‫تحقیقات | ‪52‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/us-plan-vaccination-children/‬‬

‫بچوں کیلئے ‘پیراسٹامول’ دوا سے متعلق خطرناک انکشاف‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 21 2021‬‬

‫ریاض‪ :‬سعودی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی (ایس ایف ڈی اے) نے انکشاف کیا ہے کہ بچوں‬
‫کے لیے پیراسٹامول‪ u‬کی خوراک میں کمی بیشی نقصان کا باعث بن سکتی ہے۔‬
‫عرب میڈیا کی رپورٹ کے مطابق سعودی فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی نے سماجی رابطے کی‬
‫سائٹ ٹوئٹر پر پیراسٹامول دوا کی مناسب مقدار کے حوالے سے آگاہی دی اور خبردار کیا‬
‫کہ خوراک میں کمی بیشی خطرہ بن سکتی ہے۔‬
‫ایس ایف ڈی اے نے ٹوئٹر پر لکھا کہ بچوں کے لیے استعمال کی جانے والی دوا‬
‫پیراسٹامول کی خوراک کا درست استعمال کیا جائے تب ہی انہیں فائدہ ہوگا۔‬
‫فوڈ اینڈ ڈرگ اتھارٹی کا کہنا ہے کہ پیراسٹامول پیناڈول‪ ،‬فیواڈول‪ ،‬اڈول اور ٹاینول نامی‬
‫ادویات میں بھی استعمال ہوتی ہے‪ ،‬یہ دوائیں ٹیبلٹ‪ ،‬سیرپ اور بالکل چھوٹے بچوں کے‬
‫لیے قطروں کی شکل میں استعمال کی جانی چاہیے۔‬

‫اتھارٹی نے ہدایت کی کہ بچوں اور بڑوں کے لیے دوا کا استعمال ڈاکٹر کے مشورے کے‬
‫بعد کیا جائے اور جتنی مقدار تجویز کی جائے اتنی ہی استعمال کی جائے بصورت دیگر‬
‫نقصان ہوسکتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪53‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/dangerous-discovery-of-paracetamol-for-‬‬
‫‪children/‬‬
‫برطانیہ میں کرونا کی قسم ’ڈیلٹا پلس‘ کے کیسز میں اضافہ‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪ 21 2021‬‬

‫لندن ‪ :‬برطانیہ میں کرونا وائرس معتدی ویرنیٹ ڈیلٹا پلس کے کیسز میں اضافے نے‬
‫خطرے کی گھنٹی بجادی۔‬
‫غیر ملکی میڈیا کے مطابق وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کرونا وائرس کی مزید خطرناک‬
‫اور مہلک ترین اقسام بھی سامنے ٓارہی ہیں‪ ،‬پہلے کرونا وائرس کی ایلفا‪ ،‬بیٹا‪ ،‬ڈیلٹا قسم نے‬
‫شدید جانی و مالی نقصان پہنچایا اور اب ڈیلٹا پلس نے تباہی پھیالنا شروع کردی ہے۔‬
‫گزشتہ برس لندن میں کرونا کی معتدی قسم ڈیلٹا جسے بی ‪ 1617.2‬کے نام سے بھی جانا‬
‫جاتا ہے‪ ،‬نے دنیا بھر میں بہت زیادہ لوگوں کو متاثر کیا‪ ،‬اب برطانیہ میں ڈیلٹا پلس ویرئنٹ‬
‫پھیلنا شروع ہوگیا ہے۔‬
‫رپورٹ کے مطابق اب تک برطانیہ میں چھ فیصد کیسز جینیاتی طور پر وائرس کی نئی‬
‫قسم کے ہیں‪ ،‬جسے اے وائے ‪ .4.2‬اور ڈیلٹا پلس بھی کہتے ہیں۔‬
‫یہ قسم ایسی میوٹیشنز پر مشتمل ہے جو وائرس کو زندہ رہنے کے مواقع فراہم کرتی ہے‪،‬‬
‫کرونا وائرس کی اس قسم کی نشاندہی جوالئی ‪ 2021‬میں ہوئی تھی۔‬
‫یونیورسٹی کالج لندن کے جینیٹکس انسٹی ٹیوٹ کے ڈائریکٹر پروفیسر فرانکوئس بلوکس کا‬
‫‘کہنا ہے کہ ’ہوسکتا ہے کہ یہ ‪ 10‬فیصد زیادہ متعدی ہو‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/delta-plus-cases-increase-in-uk/‬‬

‫تحقیقات | ‪54‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ہڈیوں اور جوڑوں کی مظبوطی کیلیے بہترغذائیں کون سی ہیں؟‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪ 21 2021‬‬

‫ماہرین صحت کا کہنا ہے کہ ہمارے مضبوط جوڑوں اور ہڈیوں کا انحصار صرف دودھ پر‬
‫نہیں ہے بلکہ ہمارا بہتر طرز زندگی اور متعدد غذاؤں کا استعمال بھی ہڈیوں کی مضبوطی‬
‫کیلئے الزمی امر ہے۔‬
‫اس حوالے سے اے آر وائی نیوز کے پروگرام باخبر سویرا میں آرتھوپیڈک سرجن ڈاکٹر‬
‫ندیم آصف نے ایسی مختلف غذاؤں کے بارے میں بتایا جو ہڈیوں اور جوڑوں کے لیے‬
‫بےحد مفید ہیں۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ صحت مند زندگی کے لیے ہڈیوں اور جوڑوں کا مضبوط ہونا بہت‬
‫ضروری ہے‪ ،‬ہڈیوں کی مضبوط نشونما کے لیے والدین کو چاہیے کہ اپنے بچوں کی غذا‬
‫میں معدنیات کا جزو الزمی دیں جس میں دودھ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔‬
‫آرتھوپیڈک سرجن کے مطابق مضبوط ہڈیوں اور جوڑوں کے لیے ضروری ہے کہ ٓاپ‬
‫وٹامن ڈی اور کیلشیم سے بھرپور غذاؤں کو اپنی روزمرہ کی خوراک میں شامل کریں‪ ،‬ان‬
‫غذاؤں میں قدرتی طور پر وٹامن ڈی اور کیلشیم موجود ہوتا ہے جو ہماری صحت کے لیے‬
‫بہت ضروری ہیں۔‬
‫اس کے عالوہ وٹامن ڈی ہم سورج سے بھی حاصل کرسکتے ہیں اور اس کے عالوہ وٹامن‬
‫ڈی اور کیلشیم والی غذائیوں میں دودھ‪ ،‬دہی‪ ،‬انڈے‪ ،‬مچھلی ‪ ،‬پنیر اور مشروم وغیرہ شامل‬
‫ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪55‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ڈاکٹر ندیم آصف کا کہنا تھا کہ ہڈیوں کی مظبوطی کیلئے سبز پتوں والی سبزیاں جیسے‬
‫پالک اور ساگ وغیرہ کیلشیئم‪ ،‬اینٹی آکسائیڈنٹس اور وٹامن کے اور سی کے حصول کا‬
‫اچھا ذریعہ ہے‪ ،‬ان سبزیوں کو اکثر کھانا ہڈیوں کو مضبوط بنانے کے ساتھ جسمانی‬
‫مدافعتی نظام بھی طاقتورکرتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/bone-strength-better-food-health-tips/‬‬

‫کیا واقعی کھیرا سیاہ حلقوں کا خاتمہ ممکن بناتا ہے؟‬


‫اکتوبر ‪21 2021 ،‬‬

‫اکثر و بیشتر خواتین گھر یا بیوٹی پارلرز میں ٓانکھوں پر کھیروں کے قتلے رکھے ہوئے‬
‫دیکھی جاتی ہیں کیوں کہ یہ ایک تاثر عام پایا جاتا ہے کہ کھیرا جلد کو نرم‪ ،‬بے داغ اور‬
‫تروتازہ بناتا ہے‪ ،‬کھیروں کو ٓانکھوں پر رکھنے کے نتیجے میں کچھ فوائد بھی حاصل‬
‫ہوتے ہیں یا یہ صرف مفروضہ ہے۔‬

‫ٰ‬
‫دعوی‬ ‫مارکیٹ میں سیکڑوں بیوٹی کریمز اور پروڈکٹس بنانے والی کمپنیوں کی جانب سے‬
‫کیا جاتا ہے کہ انہوں نے اپنی بیوٹی پروڈکٹ میں کھیرے کا یا پھر کھیرے سے حاصل‬

‫ہونے والے غذائی اجزا کا استعمال کیا ہے اور ایسا برسوں سے ہوتا چال ٓا ر ہا ہے‪ ،‬اس‬
‫سے متعلق سائنس کیا کہتی ہے یہ جاننا بھی ضروری ہے۔‬
‫السی تیل کے صحت پر حیران ُکن فوائد‬
‫تحقیقات | ‪56‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ٓانسؤوں سے رونا صحت کیلئے مفید قرار‬
‫صفر کیلوریز رکھنے والے کھیرے میں پانی کی زیادہ مقدار پائی جاتی ہے اسی لیے‬ ‫ِ‬
‫استعمال سے ٓانکھوں اور ِجلد پر ٹھنڈک محسوس ہوتی ہے اور سکون ملتا ہے‪ ،‬کھیرا‬
‫ٹھنڈے ماسک کی طرح کام کرتا ہے‪ ،‬اس کی افادیت ٓانکھوں کے گرد سیاہ حلقوں اور ِجلد‬
‫پر اُس وقت مزید بڑھ جاتی ہے جب یہ پہلے سے مزید ٹھنڈا کر لیا گیا ہو۔‬
‫اس طرح کھیرے کے استعمال سے ٓانکھوں پر ٹھنڈی شے لگنے کے سبب خواتین ٓانکھوں‬
‫کو بند کر کے کچھ دیر کے لیے پر سکون ہو کر لیٹ جاتی ہیں اور چہرے کی ِجلد بھی‬
‫پرسکون ہونے کے سبب اس دوران کیا گیا فیشل یا چہرے پر لگایا گیا ماسک زیادہ مؤثر‬
‫ثابت ہوتا ہے ۔‬
‫فولک ایسڈ خواتین کی صحت کیلئے ناگزیر قرار‬
‫بار بار منہ سوکھنا کس بیماری کی عالمت ہے؟‬
‫ٓانکھوں پر کھیرا رکھنا سیاہ حلقوں کے لیے موثر ثابت ہوتا ہے یا نہیں؟‬
‫ماہری ِن جلدی امراض و جڑی بوٹیوں کے مطابق ِجلد پر کھیرے کا استعمال مثبت ثابت ہوتا‬
‫ہے مگر واضح اور دیرپا نتائج حاصل کرنے کے لیے صرف دو قتلے رکھ لینا کافی نہیں‬
‫ہیں‪ ،‬اس کا باقاعدگی سے روزانہ کی بنیاد پر استعمال الزمی ہے۔‬
‫کھیروں میں وٹامن سی‪ ،‬اینٹی ٓاکسیڈینٹ اور فولک ایسڈ بھرپور مقدار میں پایا جاتا ہے‪،‬‬
‫وٹامن سی ٓانکھوں کے ارد گرد جلد میں نئے خلیوں کی نشوونما کو تیز کرنے میں مددگار‬
‫ثابت ہوتا ہے جبکہ فولک ایسڈ ٓانکھوں کے نیچے سوجن کو کم کرنے میں بھی کردار ادا‬
‫کرتا ہے۔گرتے بالوں کا عالج صرف ایک بیج سے‬
‫سرد‪ُ ،‬خشک موسم میں جھڑتے بالوں کا عالج‬
‫کھیرے کے ٹکڑے ٓانکھوں پر رکھنے کے سبب جلد میں موجود مضر صحت مادوں کا‬
‫صفایا ہوتا ہے‪ ،‬یہ عمل خراب ِجلد کو نرم‪ ،‬صاف شفاف بھی کرتا ہے۔‬
‫ء میں کی جانے والی ایک تحقیق کے مطابق کھیرے میں وٹامن کی موجودگی کے‪2012‬‬
‫سبب یہ ٓانکھوں کے گرد سیاہ دھبوں کو کم کرتا ہے‪ ،‬کھیرا جلد کی سیاہ رنگت کو بھی‬
‫ہلکاکرتا ہے بشرطیکہ اس کا استعمال روزانہ کی بنیاد پر استعمال کیا جائے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1000922‬‬

‫برطانیہ میں کورونا کیسز میں اضافہ‪ ،‬ماہرین صحت کا اظہار تشویش‬

‫اکتوبر ‪20 2021 ،‬‬

‫برطانیہ میں کورونا وائرس کے کیسز میں اضافے پر ہیلتھ لیڈرز نے تشویش کا اظہار کیا‬
‫ہے۔‪ ‬لندن سے موصولہ اطالعات کے مطابق‪  ‬این ایچ ایس کنفیڈریشن کا کہنا ہے کہ موسم‬
‫‪ ‬سرما میں بحران سے بچنے کیلئے چند کورونا پابندیاں دوبارہ لگائی جائیں۔‬

‫تحقیقات | ‪57‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫این ایچ ایس کنفیڈریشن نے مزید کہا کہ پالن بی کے تحت عوامی اور بند مقامات پر ماسک‬
‫کی پابندی الزمی کی جائے۔ پالن بی کے تحت ہی گھر سے کام کرنے کی اجازت دی‬
‫جائے جبکہ بڑے اجتماعات میں شرکت کے لیے ویکسین پاسپورٹ متعارف کرایا جائے۔‬
‫کوسی کوارٹنگ بزنس سیکریٹری کا کہنا ہے کہ ابھی پالن بی پر عمل کرنے کا وقت نہیں‬
‫‪ ‬آیا ہے۔ لوگ کورونا سے محفوظ رہنے کےلیے بوسٹر لگوائیں۔‪Œ‬‬
‫ادھر میڈیا رپورٹ کے مطابق برطانیہ میں مسلسل ‪ 7‬روز سے روزانہ ‪ 40‬ہزار سے زائد‬
‫افراد کورونا میں مبتال ہورہے ہیں۔‬
‫اس رپورٹ میں مزید بتایا گیا ہے کہ کورونا سے متاثر ہوکر اسپتال میں داخل ہونےوالوں‬
‫کی شرح ‪ 10‬فیصد بڑھی ہے۔‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1000588‬‬
‫کیا ٓاپ بھی کانٹیکٹ لینسز استعمال کرتے ہیں؟ تو پھر ضرور ان باتوں‬
‫کا خیال رکھیں!‬

‫‪07:56 pm 18/10/2021‬‬
‫‪     ‬‬
‫اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک )ٓاپ کو چشمے سے چھٹکارہ دالنے والے کانٹیکٹ لینسز‬
‫لگانے اور اتارنے کےلیے کن باتوں کا خیال رکھنا ضروری ہے۔کانٹیکٹ لینس کا استعمال‬

‫ماضی میں صرف وہ افراد استعمال کرتے تھے جن کی بینائی کمزور ہو لیکن اب کانٹیکٹ‬

‫تحقیقات | ‪58‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کا استعمال عام ہوچکا ہے‪ ،‬کیا ٓاپ بھی کانٹیکٹ لینسز استعمال کرتے ہیں؟ماہرین کہتے ہیں‬
‫کہ ہمیشہ وہ لینسز استعمال کیے‬
‫جائیں جو معیاری کمپنی کے ہوں اور لینسز لگانے کے دوران ٓانکھوں میں کسی قسم کی‬
‫دوا نہ ڈالیں۔اگر ٓانکھیں سُرخی مائل ہوں یا ان سے رطوبت یا پانی خارج ہورہا ہو تو لینسز‬
‫لگانے سےگریز کریں اور کانٹیکٹ لینسز لگاتے اور اتارتے وقت ہاتھوں کو اچھی طرح‬
‫دھولیں اور سوتے وقت لینس پہن کر نہ سوئیں۔کانٹیکٹ لینسز کو مخصوص سلوشن میں‬
‫رکھیں اور اس سلوشن کو ہر تین دن بعد تبدیل کریں۔اگر ایسا ہوتا ہے کہ کانٹیکٹ لینسز‬
‫لگانے کے بعد ٓانکھوں میں چبھن ہوتی ہے‪ ،‬اگر ایسا ہو تو فوری طور پر لینسز اتار دیں‬
‫کیوں کہ انفیکشن کی شکایت ہوسکتی ہے‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202110-126381.html‬‬

‫ہاتھوں کے مسلز کا ہمارے ماضی سے کیا تعلق ہے؟ حیران کن‬


‫انکشاف !‬
‫‪20/10/2021‬‬
‫‪     ‬‬
‫اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک )کیا ٓاپ کو لگتا ہے کہ ہاتھوں پر بنی لکیریں یا مسلز ہمارے‬
‫مستقبل کے بارے میں ظاہر کرتی ہیں؟ جی نہیں بالکل بھی نہیں بلکہ یہ لکیریں یا مسلز‬
‫مستقبل کے بارے میں معمولی سی معلومات بھی نہیں دیتیں۔اس‪ Œ‬بات کی کیا وجہ ہے کہ‬

‫تحقیقات | ‪59‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کچھ لوگوں کے ہاتھوں پر دیگر کے مقابلے میں بہت کم لکیریں یا مسلز ہوتے ہیں؟ لیکن‬
‫کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جن کے‬
‫ہاتھوں میں یہ مسلز موجود نہیں‪ ،‬اس کا کیا راز ہے؟۔یہ بات جاننے کیلئے اپنے ہاتھ کو میز‬
‫کی سطح پر اس طرح رکھیں کہ ہتھیلی اوپر ہو اور پھر انگوٹھے سے چھوٹی انگلی کو‬
‫چھوتے ہوئے سطح سے ہاتھ کو ہلکا سے اٹھالیں۔کیا ٓاپ کو کالئی کے درمیانی حصے میں‬
‫مسل یا سخت سفید ریشہ دار نس کو ابھرتے ہوئے دیکھ رہے ہیں؟‬
‫اگر ٓاپ دیکھ رہے ہیں تو ٓاپ ان اکثریتی افراد میں ہیں جن میں یہ پالماریس لنگس نامی‬
‫مسل موجود ہے۔اور اگر لکیر نظر نہیں ٓارہی تو ٓاپ دنیا کے ان ‪ 14‬یا ‪ 15‬فیصد افراد میں‬
‫شامل ہیں جن میں یہ مسل موجود نہیں۔ تو یہ دلچسپ کیوں ہے؟ درحقیقت اس سے انسانوں‬
‫میں ارتقائی مراحل کو ثابت کرنے میں مدد ملتی ہے۔‬

‫پالماریس لنگس ایسا مسل ہے جو تمام انسانوں میں نہیں پایا جاتا جو زمانہ قدیم سے ایسے‬
‫جانداروں میں موجود ہے جو ہاتھوں کی مدد سے خود کو کسی جگہ جھولتے تھے یا‬
‫درختوں پر چڑھتے تھے۔اس کا مطلب یہ ہے کہ انسانوں میں اس کا کوئی حقیقی استعمال‬
‫نہیں اور یہی وجہ ہے کہ متعدد افراد میں اب یہ موجود بھی نہیں۔ ٓاج کے عہد میں اس کی‬
‫موجودگی یا عدم موجودگی سے نہ تو کوئی مضبوطی ملتی ہے اور نہ ہی گرفت میں‬
‫بہتری ٓاتی ہے۔‬
‫جیسا اوپر درج کیا جاچکا ہے کہ اب ‪ 14‬یا ‪ 15‬فیصد افراد میں یہ مسل موجود نہیں۔ان میں‬
‫بھی مردوں کے مقابلے میں خواتین کی تعداد زیادہ ہے تاہم یہ شرح افریقی‪ ،‬ایشیائی اور‬
‫قدیم امریکی ٓابادیوں میں دیگر سے مختلف ہے۔اگر ٓاپ کو کالئی میں لکیر ابھری ہوئی نظر‬
‫ٓائے تو ٓاپ یقینا ً کالئی کے اس لمبے مسل کے مالک ہیں تاہم اگر ایسا نہیں ہوتا تو فکر مند‬
‫مت ہوں‪ ،‬موجودہ طرز زندگی میں ہمارے لیے یہ یہ کسی کام کا نہیں کیونکہ ہمیں درختوں‬
‫پر چڑھنے کی ضرورت نہیں پڑتی۔کہا جاتا ہے کہ انسانی جسم میں ارتقا جاری رہا تو ٓائندہ‬
‫کئی صدیوں بعد لوگوں کے ہاتھوں میں ایسا مسل کبھی سامنے نہیں ٓائے گا۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202110-126497.html‬‬

‫حاملہ خواتین میں ٓاپریشن سے بچوں کی پیدائش کا خطرہ بڑھانے والی‬


‫اہم وجہ دریافت‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪20 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪60‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫— یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫حمل کے دوران ڈپریشن اور ذہنی بے چینی یا انزائٹی سے ٓاپریشن سے بچے کی پیدائش کا‬
‫خطرہ بڑھ سکتا ہے۔یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬
‫مشی گن یونیورسٹی کی تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ مزاج اور ذہنی بے چینی سے منسلک‬
‫امراض کو پہلے ہی حاملہ خواتین میں بچے کے کم پیدائشی وزن اور قبل از وقت پیدائش‬
‫سے جوڑا جاتا ہے۔‬
‫مگر اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ اس کے نتیجے میں حاملہ خواتین میں ٓاپریشن سے‬
‫بچوں کی پیدائش کا امکان بھی بڑھ جاتا ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ نتائج سے اس بات کی اہمیت کا پھر اعادہ ہوتا ہے کہ حاملہ خواتین میں‬
‫ڈپریشن اور انزائٹی امراض کی بہتر شناخت اور عالج کی ضرورت‪ Œ‬ہے۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ یہ سمجھنا بھی انتہائی ضروری ہے کہ کس طرح مزاج سے جڑے‬
‫ذہنی امراض ٓاپریشن سے بچوں کی پیدائش کا خطرہ بڑھاتے ہیں‪ ،‬جس کے ماں اور‬
‫نومولود پر مختصر اور طویل المعیاد اثرات پہلے ہی ثابت ہوچکے ہیں۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 2008‬سے ‪ 2017‬کے دوران ‪ 15‬سے ‪ 44‬سال کی خواتین کے ہاں ‪ 3‬الکھ‬
‫‪ 60‬ہزار بچوں کی ہسپتال میں پیدائش کے ڈیٹا کا تجزیہ کیا گیا۔‬
‫ان میں سے ‪ 24‬فیصد خواتین کے ہاں پہلے بچے کی پیدائش ہوئی تھی۔‬
‫محققین کے مطابق حمل کے دوران ڈپریشن اور انزائٹی کے ماں اور بچے پر متعدد منفی‬
‫اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪61‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے کہا کہ ٓاپریشن سے پہلے بچے کی پیدائش کے بعد زیادہ امکان یہی ہوتا ہے کہ‬
‫اگلی بار بھی بچے کی پیدائش اسی طریقے سے ہوگی‪ ،‬جبکہ اس طریقہ کار سے متعدد‬
‫خطرات بشمول بلڈ کالٹس کا امکان‪ ،‬انفیکشن اور دیگر جڑے ہوئے ہیں۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ ذہنی امراض اور ٓاپریشن سے بچے کی پیدائش کے درمیان تعلق کو‬
‫واضح کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت ہے اور یہ سمجھنا ہوگا کہ ایسا کیوں ہوتا‬
‫ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے ہیلتھ افیئرز میں شائع ہوئے۔ٓ‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171064/‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬ویکسینیشن سے دوبارہ بیماری کا خطرہ کم ہونے کا انکشاف‬


‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪20 2021‬‬

‫— مختلف تحقیقی رپورٹس میں یہ بات سامنے ٓائی‬


‫کورونا وائرس ویکسینز سے بیماری کے سنگین اثرات سے تحفظ تو ملتا ہی ہے مگر اس‬
‫کے ساتھ ساتھ ری انفیکشن کا امکان بھی کم ہوجاتا ہے۔یہ بات اس حوالے سے ہونے والی‬
‫مختلف تحقیقی رپورٹس میں سامنے ٓائی۔تحقیق میں بتایا گیا کہ برطانیہ میں کووڈ ‪ 19‬کیسز‬

‫تحقیقات | ‪62‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫میں اضافے کے ساتھ ساتھ ایسے افراد کی تعداد بھی بڑھی ہے جن کی جانب سے دوسری‬
‫یا تیسری مرتبہ بیماری سے متاثر ہونے کو رپورٹ کیا گیا۔‬
‫تحقیق میں عندیہ دیا گیا کہ جو لوگ ویکسینیشن نہیں کراتے ان میں اوسطا ً ہر ‪ 16‬ماہ میں‬
‫کووڈ ‪ 19‬کی دوسری مرتبہ تشخیص کا امکان ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق ہم اب جانتے ہیں کہ کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے کے بعد حاصل ہونے‬
‫والی قدرتی مدافعت وقت کے ساتھ گھٹ جاتی ہے۔‬
‫ڈنمارک میں ہونے والی ایک تحقیق میں بتایا گیا کہ ‪ 65‬سال سے کم عمر افراد کو بیماری‬
‫کے ‪ 6‬ماہ بعد ری انفیکشن سے ‪ 80‬فیصد جبکہ ‪ 65‬سال سے زائد عمر کے افراد کو‬
‫محض ‪ 47‬فیصد تحفظ حاصل ہوتا ہے۔‬
‫کورونا کی قسم ڈیلٹا کی ٓامد کے بعد صورتحال زیادہ پیچیدہ ہوگئی۔‬
‫امپرئیل کالج لندن کے امیونولوجی پروفیسر ڈینی ٓالٹمین نے بتایا کہ طبی عملے میں جو‬
‫تحقیق ہم نے کی ہے اس میں ہم نے پہلے بیمار ہونے والے اور ویکسینیشن کرانے والوں‬
‫میں عالمات والی بیماری کو دریافت کیا‪ ،‬ہمارے خیال میں یہ تعداد ہمارے اندازوں سے‬
‫زیادہ عام ہے۔‬
‫برطانیہ کے ادارے او این ایس کی جانب سے ‪ 6‬اکتوبر ‪ 2021‬کو جاری ڈیٹا میں بتایا گیا‬
‫کہ جوالئی ‪ 2020‬سے ستمبر ‪ 2021‬کے دوران جو ‪ 20‬ہزار ‪ 262‬برطانوی شہری کووڈ‬
‫‪ 19‬سے متاثر ہوئے ان میں سے ‪ 296‬دوسری مرتبہ اس بیماری کے شکار ہوئے۔‬
‫مگر ری انفیکشن کا خطرہ مئی ‪ 2021‬کے بعد سے زیادہ بڑھ گیا ہے جب برطانیہ میں‬
‫کورونا کی قسم ڈیلٹا کو غلبہ حاصل ہوا۔‬

‫تحقیقات | ‪63‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫امریکا میں مختلف ریاستوں کی جانب سے ری انفیکشنز کی شرح کو ٹریک اور رپورٹ‬
‫کرنے کا سلسلہ شروع ہوا ہے‪ ،‬جس سے اس خیال کو تقویت ملتی ہے کہ ڈیلٹا سے کووڈ‬
‫سے دوبارہ متاثر ہونے کا خطرہ زیادہ ہے۔‬
‫اوکالہاما‪ ،‬جہاں کی ٓابادی ‪ 39‬الکھ ہے‪ ،‬وہاں ستمبر میں ‪ 5229‬افراد میں دوبارہ کووڈ کی‬
‫تشخیص ہوئی اور یہ شرح مئی کے بعد سے ‪ 350‬فیصد زیادہ بڑھ گئی ہے۔‬
‫امریکا کے سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن (سی ڈی سی) نے ری انفیکشن کی جو‬
‫تعریف کی ہے اس کے مطابق سابقہ تشخیص کے ‪ 90‬دن یا اس کے بعد دوبارہ لیبارٹری‬
‫سے تصدیق کیس کو ری انفیکشن تصور کیا جائے گا۔‬
‫ساؤتھ ہیمپٹن یونیورسٹی کے پبلک ہیلتھ کی ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈاکٹر نسرین الوان نے‬
‫بتایا کہ برطانیہ میں کووڈ کے کیسز کی شرح میں اضافے کے ساتھ ہم میں سے بیشتر ان‬
‫بچوں اور بالغ افراد سے واقف ہیں جو دوبارہ اس بیماری کے شکار ہوئے‪ ،‬کئی کیسز میں‬
‫تو ری انفیکشن کا دورانیہ پہلی بیماری کے کچھ عرصے بعد کا ہی ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ہم اب بھی ری انفیکشن کا خطرہ بڑھانے والے عناصر کے بارے میں‬
‫کچھ زیادہ نہیں جانتے ہیں۔‬
‫اس سوال کے جواب کے لیے یالے یونیورسٹی اسکول ٓاف میڈیسین کے پروفیسر جیفری‬
‫ٹاؤنسینڈ اور ان کے ساتھیوں نے تصدیق شدہ ری انفیکشن کیسز اور دیگر کورونا وائرسز‬
‫کے امیونولوجیکل ڈیٹا کا تجزیہ کیا۔‬
‫تمام تر عناصر کو مدنظر رکھتے ہوئے وہ وقت کے ساتھ کووڈ ‪ 19‬سے دوبارہ بیمار ہونے‬
‫کے خطرے کا ماڈل تیار کرنے میں کامیاب ہوئے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے دی النیسٹ مائیکروبی میں شائع ہوئے جس میں عندیہ دیا‬
‫گیا کہ مدافعتی تحفظ گھٹنے کے بعد ری انفیکشن کا امکان بڑھتا ہے بالخصوص اس وقت‬
‫جب ٓاس پاس کیسز کی شرح زیادہ ہو۔‬
‫پروفیسر جیفری نے بتایا کہ اگر کووڈ کی روک تھام کے لیے کچھ نہ کیا جائے تو یعنی‬
‫فیس ماسک یا سماجی دوری کا خیال نہ رکھا جائے‪ ،‬کوئی ویکسین نہ ہو تو ہمیں ‪ 3‬ماہ‬
‫سے ‪ 5‬سال کے دوران دوبارہ بیمار ہونے کی توقع کرنی چاہیے۔‬

‫ان کا کہنا تھا کہ اگر کسی بھی عمر کے گروپ میں یہ بیماری پھیلنے لگے تو یہ ہر عمر‬
‫کے گروپس میں پھیل سکتی ہے۔‬
‫انہوں نے مزید کہا کہ نتائج سے یہ عندیہ ملتا ہے کہ اگر ٓاپ کی ویکسینیشن نہیں ہوئی تو‬
‫ٓاپ کو ویکسینز کا استعمال کرنا چاہیے‪ ،‬چاہے ٓاپ کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہی کیوں نہ ہو پھر‬
‫بھی ویکسینیشن کرائیں کیونکہ اس سے تحفظ کا عرصہ بڑھ جائے گا‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171046/‬‬

‫تحقیقات | ‪64‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫حقیقی دنیا میں بچوں میں فائزر ویکسین کی افادیت کا ڈیٹا سامنے ٓاگیا‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪21 2021‬‬

‫— یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫فائزر‪ /‬بائیو این ٹیک کی تیار کردہ کووڈ ‪ 19‬ویکسین ‪ 12‬سے ‪ 18‬سال کی عمر کے بچوں‬
‫کو بیماری کے بعد ہسپتال میں داخلے سے بچانے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہے۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬
‫یو ایس سینٹرز فار ڈیزیز کنٹرول اینڈ پریونٹیشن کے زیرتحت ہونے والی تحقیق میں‬
‫دریافت کیا گیا کہ ‪ 12‬سے ‪ 18‬سال کی عمر کے بچوں کو کووڈ سے متاثر ہونے پر ہسپتال‬
‫میں داخل ہونے سے بچانے کے لیے فائزر ویکسین ‪ 93‬فیصد مؤثر ہے۔‬
‫تحقیق میں اس عمر کے بچوں میں ویکسین کی افادیت کی شرح میں معمولی فرق بھی‬
‫دریافت کیا۔‬
‫سے ‪ 15‬سال کے لیے یہ ویکسین ‪ 91‬فیصد جبکہ ‪ 16‬سے ‪ 18‬سال کے بچوں میں ‪12 94‬‬
‫فیصد تک مؤثر ثابت ہوئی۔‬
‫اس تحقیق میں جون سے ستمبر کے دوران ‪ 16‬ریاستوں کے ‪ 19‬بچوں کے ہسپتالوں میں‬
‫زیرعالج ‪ 464‬مریضوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے ‪ 179‬کووڈ ‪ 19‬جبکہ ‪ 285‬دیگر‬
‫وجوہات کے باعث ہسپتال میں داخل ہوئے۔‬

‫تحقیقات | ‪65‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس دورانیے میں امریکا میں ڈیلٹا کا پھیالؤ بڑھ چکا تھا اور مریضوں کی اکثریت (‪72‬‬
‫فیصد) پہلے سے کم از کم کسی ایک بیماری کے شکار تھے اور ‪ 68‬فیصد اسکول جارہے‬
‫تھے۔‬
‫ایسے مریضوں کی ویکسینیشن کو مکمل سمجھا گیا جن میں کووڈ ‪ 19‬کی تشخیص دوسری‬
‫خوراک کے استعمال کے ‪ 14‬یا اس سے زیادہ دن بعد ہوئی۔‬
‫ایسے مریض جن میں بیماری کی تشخیص ویکسین کی دوسری خوراک کے استعمال کے‬
‫‪ 14‬دن کے اندر ہوئی انہیں تجزیے کا حصہ نہیں بنایا گیا۔‬
‫کووڈ کے باعث ہسپتال میں زیرعالج ‪ 179‬میں سے ‪ 97‬فیصد کی ویکسینیشن نہیں ہوئی‬
‫تھی اور بہت زیادہ بیمار بھی وہ بچے تھے جو ویکسین شدہ نہیں تھے۔‬
‫فائزر ویکسین کے ٹرائل میں دریافت کیا گیا تھا کہ یہ ‪ 12‬سے ‪ 15‬سال کی عمر کے بچوں‬
‫کے بیماری سے ہسپتال میں داخلے سے بچانے کے لیے ‪ 100‬فیصد مؤثر ہے۔‬
‫اب امریکا میں حقیقی دنیا کے تجزیے میں بھی دریافت ہوا کہ یہ ویکسین ‪ 12‬سے ‪ 18‬سال‬
‫کی عمر کے بچوں میں یہ خطرہ کم کرنے کے لیے بہت زیادہ مؤثر ہے۔‬

‫محققین نے بتایا کہ نتائج سے بچوں کو کووڈ ‪ 19‬کے سنگین اثرات سے بچانے کے لیے‬
‫ویکسینیشن کی اہمیت کا اعادہ ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے مزید کہا کہ اس ڈیٹا سے عندیہ ملتا ہے کہ اس عمر کے گروپ میں ویکسینیشن‬
‫کی شرح بڑھانے سے کووڈ ‪ 19‬سے زیادہ بیمار ہونے کے خطرے کو کم کیا جاسکتا ہے۔‬
‫خیال رہے کہ پاکستان میں بھی اس عمر کے بچوں کے لیے فائزر ویکسین کا استعمال کیا‬
‫جارہا ہے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171065/‬‬

‫سموگ‪ ،‬دل اور پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ نفسیاتی مسائل میں اضافے کا‬
‫سبب‬

‫‪21 October,2021 12:09 pm‬‬

‫الہور‪( :‬دنیا نیوز) سموگ دل اور پھیپھڑوں کے ساتھ ساتھ دماغی صالحیت کے لیے بھی‬
‫تباہ کن ہے۔ ٓالودگی میں معمولی اضافہ بھی ڈیمینشیا کا خطرہ بہت زیادہ بڑھا دیتا ہے۔‬
‫کورونا‪ ،‬ڈینگی اور سموگ کے باعث نفسیاتی مسائل بہت زیادہ بڑھ گئے۔‬
‫سموگ کا سیزن شروع ہوتے ہی دل اور سانس کے امراض میں مبتال افراد کو تو خاص‬
‫احتیاط برتنے کی تلقین کی جاتی ہے لیکن شاید بہت کم احباب جانتے‬
‫تحقیقات | ‪66‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ہوں گے کہ اِسے دماغی صحت کے لیے بھی تباہ کن قرار دیا جاتا ہے۔ ماہرین کے مطابق‬
‫فضا میں آلودہ ذرات کا ایک مائیکرو گرام فی کیوبک میٹر اضافہ ڈیمینشیا کا خطرہ ‪16‬‬
‫فیصد تک بڑھا دیتا ہے۔‬
‫اِس تناظر میں تو الہور کے شہریوں کو بہت زیادہ احتیاط برتنے کی ضرورت ہے کہ ملک‬
‫بھر میں ٓالودگی کی سب سے زیادہ شرح عمومی طور پر الہور میں ہی ریکارڈکی جاتی‬
‫ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق کورونا اور ڈینگی کی وجہ سے بھی نفسیاتی امراض میں خوفناک حد‬
‫تک اضافہ ہو رہا ہے۔‬
‫‪https://urdu.dunyanews.tv/index.php/ur/Health/625061‬‬

‫کینو کا جوس نہار منہ پینے کے حیرت انگیز فوائد‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪22 2021‬‬

‫طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ کینو کا جوس جلد کی خوبصورتی اور کئی بیماریوں میں مفید‬
‫ہے‪ ،‬نہار منہ کینو کا جوس پینے سے انسان کئی بیماریوں سے محفوظ رہتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪67‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق کے مطابق کینو کا جوس ڈی ہائیڈریشن کا شکار افراد کے لیے بہت فائدہ مند ہے۔‬

‫انسانوں کو ہر سال قدرت کی جانب سے دیا جانے واال یہ پھل وٹامن سی سمیت دیگر‬
‫قدرتی اجزا کی دولت سے ماال مال ہے جس کے چھلکے میں بھی وہ فوائد پوشیدہ ہیں جن‬
‫میں سے کچھ کے بارے میں ٓاپ جانتے ہوں گے۔‬
‫کینو میں موجود مختلف قدرتی اجزا جیسے پوٹاشیم‪ ،‬وٹامن بی‪ ،‬اینٹی ٓاکسائیڈ دماغی صحت‬
‫اور افعال کو بہتر بنانے کے لیے بہت مفید ہیں کیونکہ پوٹاشیم دماغ کی جانب جانے والے‬
‫خون کے بھاؤ کو بڑھاتے ہیں جس سے اعصابی سرگرمیاں بڑھ جاتی ہے‪ ،‬اسی طرح‬
‫وٹامن بی بڑی عمر کی وجہ سے ٓانے والی دماغی تنزلی کی روک تھام کے امراض سے‬
‫محفوظ رکھتا ہے جبکہ یہی وٹامن ذہنی امراض سے بھی محفوظ رکھتے ہیں۔‬
‫حاملہ خواتین کے لیے فائدہ مند‬
‫کینو میں قدرتی طور پر وٹامن بی اور فولک ایسڈ موجود ہوتے ہیں جو حمل کے دوران‬
‫خواتین کے لیے بہت ضروری ہوتے ہیں۔ واضح رہے کہ فولک ایسڈ کی کمی بچوں کے‬
‫پیدائشی وزن میں کمی کا باعث بنتی ہے۔‬
‫عالوہ ازیں ماہرین کا ماننا ہے کہ کینو کا استعمال خون کی شریانوں کی صحت‪ ،‬معدے کو‬
‫مضبوط بنانے اور موسمی امراض سے لڑنے میں بھی مدد فراہم کرتا ہے۔‬
‫سن ہونے کا عالج‬‫ہاتھ پاؤں ُ‬
‫حال ہی میں ہونے والے سروے میں ماہرین کے سامنے یہ بات ٓائی کہ وہ عمر رسیدہ افراد‬
‫جن کے ہاتھ اور پیر اکثر سُن ہوجاتے ہیں اُن کے لیے کینو کا جوس بہت زیادہ فائدہ مند‬
‫ثابت ہوسکتا ہے۔‬
‫ماہرین کے مطابق اگر بڑی عمر کے لوگوں کو تین ماہ تک روزانہ ایک گالس کینو کا‬
‫جوس پالیا جائے تو ہاتھ پاؤں سُن ہونے کا مسئلہ حل ہوسکتا ہے کیونکہ کینو کا رس خون‬

‫تحقیقات | ‪68‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کی مقدار کو بڑھا دیتا ہے۔ ہاتھ پیر سُن ہونے کا مسئلہ خون کی کمی کی وجہ سے پیش ٓاتا‬
‫ہے۔‬
‫دل کی بیماریوں کے لیے مفید‬
‫طبی اور حکمت سے وابستہ ماہرین کے مطابق کینو میں موجود وٹامن سی کی وافر مقدار‬
‫دل کی شریانوں کو سخت ہونے سے محفوظ رکھتی ہیں جس کی وجہ سے کوئی بھی‬
‫امراض قلب سے محفوظ رہتا ہے۔‬‫ِ‬ ‫شخص‬
‫بلڈ پریشر کے لیے مفید‬
‫ماہرین کے مطابق وٹامن سی خون کو پتال کرتا ہے جس سے روانی بحال ہوتی ہے اور‬
‫اس کی وجہ سے بلڈپریشر کی کمی یا زیادتی کا مرض بھی ختم ہوتا ہے۔‬
‫کینسر سے حفاظت‬
‫ماہرین کے مطابق کینو میں موجود اینٹی ٓاکسیڈینٹس خلیات اور ڈی این اے کو ٹوٹ پھوٹ‬
‫سے محفوظ رکھتے ہیں۔ واضح رہے کہ ٓانتوں کے سرطان کا مرض بھی ان کی کمی کی‬
‫وجہ سے ہوتا ہے۔‬
‫زہریلے مادوں کا اخراج‬
‫ماہرین کے مطابق روزانہ ایک گالس اورنج جوس جسم کے اندر موجود زہریلے اور فاسد‬
‫مادوں کو ختم کرتا ہے۔‬
‫خون کی روانی کے لیے مفید‬
‫کینو کا استعمال نہ صرف خون کو پتال کرتا ہے بلکہ اس کی روانی کو بھی بہتر بناتا ہے۔‬
‫خون کے خلیات کی افزائش‬
‫کینو یا اُس کا جوس انسانی جسم میں موجود سرخ خلیات (ریڈ سیلز) کی پیداوار میں اضافہ‬
‫کرتا ہے جس کی وجہ سے جسم میں نیا خون پیدا ہوتا ہے۔‬
‫نوٹ‪ :‬ذیابیطس کے مرض میں مبتال افراد اپنے طبیب سے مشورے کے بعد ہی کینو کا‬
‫جوس استعمال کریں‬

‫‪https://urdu.arynews.tv/586486-2/‬‬

‫کووڈ ‪ 19‬سے صحت یاب ہونے والے افراد کو مختف ذہنی مسائل کا‬
‫سامنا‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪23 2021‬‬

‫حال ہی میں ایک تحقیق سے علم ہوا کہ کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہونے والے افراد‬
‫کو طویل عرصے بعد بھی مختلف دماغی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔بین االقوامی‬
‫تحقیقات | ‪69‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ویب سائٹ کے مطابق امریکا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کووڈ ‪19‬‬

‫کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی تنزلی یعنی ذہنی دھند کا سامنا مہینوں‬
‫تک ہوسکتا ہے۔‬
‫النگ کووڈ یا اس بیماری کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں‪،‬‬
‫جن میں سے ایک ذہنی دھند بھی ہے۔ اس سے متاثر افراد کو مختلف دماغی افعال کے‬
‫مسائل‬
‫بشمول یادداشت کی محرومی‪ ،‬ذہنی الجھن‪ ،‬توجہ مرکوز کرنے میں مشکل‪ ،‬سر چکرانے‬
‫اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکالت وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫ایشکن اسکول ٓاف میڈیسین کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں‬
‫بشمول ایسے افراد جن کو اسپتال میں داخل نہیں ہونا پڑا‪ ،‬ان کو طویل المعیاد بنیادوں پر‬
‫دماغی افعال کی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم رجسٹری کے مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور‬
‫دریافت ہوا کہ لگ بھگ ایک چوتھائی افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا تھا۔‬
‫تحقیق کے مطابق اگرچہ اسپتال میں زیرعالج رہنے والے مریضوں میں کووڈ کو شکست‬
‫دینے کے بعد ذہنی دھند کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر زیادہ بیمار نہ ہونے والے لوگوں کو‬
‫بھی دماغی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫ماہرین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہونے کے کئی ماہ بعد بھی‬
‫مریضوں کو دماغی تنزلی کا سامنا بہت زیادہ تعداد میں ہورہا ہے۔ انہوں نے بتایا کہ اسپتال‬
‫میں زیر عالج رہنے والے افراد کو اہم دماغی افعال کے مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫ماہرین کا کہنا تھا کہ یہ پیٹرن ابتدائی رپورٹس سے مطابقت رکھتا ہے جن میں بتایا گیا کہ‬
‫کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے کے بعد لوگوں کو مختلف ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/covid-19-and-mental-health/‬‬
‫تحقیقات | ‪70‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کووڈ ‪ 19‬سے متاثرہ بچوں کو ایک اور نقصان کا سامنا‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 23 2021‬‬

‫بچوں کو کووڈ ‪ 19‬الحق ہونے کے خطرات کم ہوتے ہیں مگر حال ہی میں ایک تحقیق‬
‫سے علم ہوا کہ کووڈ ‪ 19‬سے متاثرہ بچوں میں اینٹی باڈیز بننے کا امکان کم ہوتا ہے۔‬
‫ٓاسٹریلیا میں ہونے والی ایک تحقیق کے مطابق کرونا وائرس کی معمولی شدت سے متاثر‬
‫ہونے والے بچوں میں بیماری کو شکست دینے کے بعد اینٹی باڈیز بننے کا امکان بہت کم‬
‫ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 57‬بچوں اور ‪ 51‬بالغ افراد کا جائزہ لیا گیا تھا جن میں کووڈ ‪ 19‬کی‬
‫تشخیص ہوئی تھی۔ ان سب میں کووڈ کی شدت معمولی تھی یا عالمات ظاہر نہیں ہوئی‬
‫تھیں۔‬
‫ماہرین کی جانچ پڑتال سے صرف ‪ 37‬فیصد بچوں میں بیماری کے خالف مزاحمت کرنے‬
‫والی اینٹی باڈیز کو دریافت کیا گیا جبکہ بالغ افراد میں یہ شرح ‪ 76‬فیصد رہی۔‬
‫ماہرین کے مطابق دونوں گروپس میں وائرل لوڈ لگ بھگ یکساں تھا مگر پھر بھی بچوں‬
‫میں اینٹی باڈیز بننے کی شرح بالغ افراد کے مقابلے میں کم تھی۔ تحقیق میں یہ بھی دریافت‬
‫کیا گیا کہ بچوں کے جسم میں خلیاتی مدافعتی ردعمل بھی اس طرح نہیں بنا جیسا بالغ افراد‬
‫میں دیکھنے میں ٓایا۔‬
‫اس تحقیق میں شامل تمام افراد ‪ 2020‬میں اس بیماری سے متاثر ہوئے تھے۔‬

‫تحقیقات | ‪71‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ماہرین نے بتایا کہ اس وقت گردش کرنے والے کرونا کی قسم (ڈیلٹا) سے متاثر بچوں میں‬
‫بھی ایسا ہو رہا ہے‪ ،‬اس بارے میں ابھی تحقیق کرنے کی ضرورت ہے۔‬
‫اسی طرح یہ سمجھنے کے لیے بھی تحقیقی کام کی ضرورت ہے کہ ٓاخر بچوں میں کرونا‬
‫وائرس سے متاثر ہونے کے بعد اینٹی باڈی ردعمل بننے کا امکان کم کیوں ہوتا ہے۔‬
‫انہوں نے مزید کہا کہ اب اینٹی باڈیز نہ بننے کی وجہ سے بچوں میں ری انفیکشن کا‬
‫خطرہ زیادہ ہوتا ہے یا نہیں‪ ،‬یہ بھی ابھی معلوم نہیں۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/antibodies-in-kids-effected-from-covid-19/‬‬

‫کورونا ویکسین کے چار نمایاں فوائد‬

‫‪ ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪ 24 2021‬‬

‫ریاض‪ :‬سعودی وزارت صحت نے مکمل کورونا ویکسینیشن کے چار نمایاں فوائد بتائے‬
‫ہیں۔‬
‫عرب میڈیا کے مطابق مملکت کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ کورونا ویکسین کی دونوں‬
‫خوراکیں لگوانے سے ناصرف موجودہ کورونا وائرس بلکہ اس کی نئی قسموں سے بھی‬
‫حفاظت ہوتی ہے۔‬
‫سعودی وزارت کے مطابق مکمل ویکسینیشن سے معاشرہ بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ صحت‬
‫بہتر رہتی ہے جبکہ معاشرے میں اس مرض کے خالف قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪72‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫سعودی حکومت نے مملکت میں ویکسین کی چار اقسام کی منظوری دی ہے جن میں‬

‫فائزربائیونٹیک‪ ،‬اسٹرازائینکا‪ Œ،‬جانس اینڈ جانس اور موڈرنا شامل ہیں۔‬


‫مملکت کے تمام ریجنز میں ویکسینیشن سینٹرز قائم کیے گئے ہیں جہاں سعودی شہریوں‬
‫اور تارکین کو مفت ویکسین لگائی جاتی ہے‪ 18 ،‬برس اور اس سے زائد عمر کے افراد‬
‫کے لیے بوسٹر ڈوز کی بھی منظوری دی گئی ہے۔سعودی عرب میں کورونا سے بچاو‬
‫کےلیے منظور شدہ چاروں ویکسین کی دوخوراکوں کو الزمی قرار دیا ہے‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/four-notable-benefits-of-corona-vaccine/‬‬

‫کورونا ویکسین کے چار نمایاں فوائد‬

‫ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪  24 2021‬‬

‫دنیا بھر میں ٓاج انسداد پولیو کا عالمی دن منایا جارہا ہے‪ ،‬اس وقت پولیو کا مرض دنیا‬
‫میں صرف ‪ 2‬ممالک پاکستان اور افغانستان میں موجود ہے۔‬
‫عالمی ادارہ برائے صحت ڈبلیو ایچ او کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں پولیو کے کیسز میں‬
‫‪ 99.9‬فیصد کمی ٓاچکی ہے لیکن کرونا وبا کی وجہ سے ہونے والے تعطل سے خدشہ ہے‬
‫کہ پولیو وائرس کہیں ایک بار پھر سر نہ اٹھا لے۔‬
‫کرونا وبا کے ٓاغاز سے پولیو مہمات تعطل کا شکار رہیں اور دنیا سے پولیو کے خاتمے‬
‫کا ہدف پورا نہ ہوسکا۔‬

‫تحقیقات | ‪73‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪It’s #WorldPolioDay‬‬
‫‪Polio cases are down 99.9% since 1988, but the #COVID19 pandemic‬‬
‫‪has set back vaccinations and placed this incredible progress at risk.‬‬
‫‪Let’s strengthen our efforts to #EndPolio and ensure that progress‬‬
‫‪against this virus is not lost. pic.twitter.com/FK2hzYqOA7‬‬
‫‪— World Health Organization (WHO) (@WHO) October 24, 2021‬‬
‫پاکستان میں پچھلے کچھ سالوں میں انسداد پولیو وائرس کے حوالے سے ڈرامائی تبدیلیاں‬
‫دیکھنے میں ٓائی ہیں۔‬
‫اینڈ پولیو پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں پولیو کیسز کی بلند ترین شرح‬
‫سنہ ‪ 2014‬میں دیکھی گئی جب ملک میں پولیو وائرس کے مریضوں کی تعداد ‪ 306‬تک‬
‫جا پہنچی تھی۔‬
‫یہ شرح پچھلے ‪ 14‬سال کی بلند ترین شرح تھی۔ اس کے بعد پاکستان پر سفری پابندیاں بھی‬
‫عائد کردی گئیں تھی۔ اسی سال پڑوسی ملک بھارت پولیو فری ملک بن گیا۔‬
‫تاہم اس کے بعد عالمی تنظیموں کے تعاون سے مقامی سطح پر پولیو کے خاتمے کے لیے‬
‫ہنگامی اقدامات اٹھائے گئے جس کے بعد سنہ ‪ 2015‬میں یہ تعداد گھٹ کر ‪ 54‬اور سنہ‬
‫‪ 2016‬میں صرف ‪ 20‬تک محدود رہی۔‬
‫سنہ ‪ 2017‬میں پولیو کے ‪ 8‬کیسز ریکارڈ کیے گئے‪ ،‬سنہ ‪ 2018‬میں ‪ 12‬جبکہ ‪ 2019‬میں‬
‫ایک بار پھر پولیو کی شرح میں اضافہ دیکھا گیا اور ‪ 147‬پولیو کیسز ریکارڈ ہوئے۔‬
‫سال ‪ 2020‬میں ملک میں ‪ 84‬پولیو کیسز رپورٹ ہوئے جبکہ رواں برس اب تک صرف‬
‫ایک پولیو کیس رپورٹ ہوا جو بلوچستان میں سامنے ٓایا۔‬
‫گزشتہ برس کرونا وائرس کی وجہ سے پولیو مہمات متاثر ضرور ہوئیں تاہم اس کے بعد‬
‫انسداد پولیو کی نئی حکمت عملی اپنائی گئی جس کے بعد سے صورتحال میں نمایاں بہتری‬
‫ٓائی‪ ،‬نئی انسداد پولیو حکمت عملی کورونا کی پہلی لہر کے بعد تیار کی گئی‪ ،‬پولیو کی‬
‫پہلی لہر کے بعد ملک میں بھرپور انسداد پولیو مہم چالئی گئیں۔‬
‫پہلی لہر کے بعد روٹین ایمونائزیشن پر خصوصی توجہ دی گئی‪ ،‬سیکیورٹی فورسز کے‬
‫تعاون سے دور دراز عالقوں میں روٹین ایمونائزیشن پرتوجہ دی گئی جبکہ انسداد پولیو‬
‫ٹیکے کی دوسری ڈوز سے بچوں کی قوت مدافعت میں نمایاں اضافہ ہوا۔‬
‫چند روز قبل ملک بھر کے سیوریج کے پانی کے ٹیسٹ کے بعد چاروں صوبوں کے بڑے‬
‫شہروں کی سیوریج پولیو فری نکلی جبکہ گلگت بلتستان کے گٹرز میں پولیو وائرس کی‬
‫تصدیق نہیں ہوئی۔‬
‫عالمی ادارہ صحت نے انسداد پولیو کے لیے پاکستان کی کوششوں کا اعتراف کرتے ہوئے‬
‫اس بات کا امکان ظاہر کیا ہے کہ پاکستان بہت جلد پولیو فری ملک بن جائے گا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/world-polio-day-2021/‬‬

‫کرونا وائرس کے خالف ایک اور نئی ویکسین‪ ،‬حوصلہ افزا نتائج‬
‫تحقیقات | ‪74‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫‪  ‬ویب ڈیسک‬

‫اکتوبر ‪24 2021‬‬

‫دعوی کیا ہے کہ اس کی ویکسین کے‬ ‫ٰ‬ ‫پیرس‪ :‬فرانسیسی دوا ساز کمپنی والنیوا نے‬
‫ابتدائی نتائج حوصلہ کن ہیں‪ ،‬جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ویکسین کرونا کی تمام اقسام‬
‫سے تحفظ فراہم کرتی ہے۔‬
‫بین االقوامی ویب سائٹ کے مطابق والنیوا کی جانب سے اپنی ویکسین کے تیسرے ٹرائل‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا گیا ہے کہ ویکسین اینٹی باڈیز بنانے میں ‪ 95‬فیصد‬ ‫کے جاری اعداد و شمار میں‬
‫تک کام کرتی ہے۔‬
‫کمپنی کے مطابق تیسرے مرحلے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ والنیوا ویکسین کرونا کی‬
‫تمام اقسام پر اثر انداز ہوتی ہے اور ٹرائل کے دوران کوئی بھی مریض نہ تو وبا کا شکار‬
‫ہوا اور نہ ہی کسی کو ویکسین کے برے اثرات کی وجہ سے اسپتال لے جانا پڑا۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی ہے کہ والنیوا ویکسین بھی برطانوی کمپنی کی ویکسین ایسٹرا زینیکا جتنی‬ ‫کمپنی کا‬
‫مؤثر ہے جب کہ اس کے منفی اثرات باقی ویکسینز کے مقابلے نہ ہونے کے برابر ہیں۔‬

‫والنیوا کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ ویکسین کا تیسرا ٓازمائشی پروگرام ایک‬
‫ایسے وقت میں کیا گیا جب کہ برطانیہ میں کرونا کی خطرناک قسم ڈیلٹا عروج پر تھی۔‬
‫کمپنی کے مطابق ویکسین لگوانے والے کسی بھی شخص میں کرونا کی تشخیص نہیں‬
‫ہوئی جب کہ ان میں اینٹی باڈیز بننے کی گنجائش ‪ 95‬فیصد تک بڑھ گئی تھی۔‬

‫تحقیقات | ‪75‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کمپنی نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی ویکسین میں ان ایکٹویٹ کی پرانی ٹیکنالوجی کا‬
‫استعمال کیا گیا ہے‪ ،‬جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسین میں پہلے سے ہی مردہ کرونا وائرس‬
‫شامل ہے جو کہ انسانی جسم میں داخل ہوکر وائرس کی پیدائش کو ناکام بناتا ہے۔‬
‫کمپنی کے مطابق یہی ٹیکنالوجی پولیو اور فلو ویکسین میں استعمال کی جاتی رہی ہے۔‬
‫اہم ترین ٹرائل کے حوصلہ افزا نتائج ٓانے کے بعد کمپنی جلد ہی برطانوی حکومت کو‬
‫ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت کی درخواست دے گی جب کہ کمپنی یورپین یونین‬
‫کے ڈرگ ریگولیٹر ادارے کو بھی درخواست دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔‬
‫کمپنی کو امید ہے کہ برطانوی حکومت ڈیٹا کی بنیاد پر رواں برس کے اختتام یا پھر‬
‫‪ 2022‬کے ٓاغاز تک ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت دے گی جب کہ یورپین یونین‬
‫مارچ ‪ 2022‬تک ویکسین کے استعمال کی اجازت دے گا۔‬
‫‪https://urdu.arynews.tv/valneva-vaccine-trial/‬‬

‫دوران سفر ٓانے والے چکروں اور متلی سے نجات حاصل کرنے کا‬
‫ٓاسان طریقہ‬
‫‪     ‬‬
‫‪23/10/2021‬‬

‫بہت سے لوگ بس یا کار یا پھر گھومتے جھولے میں بیٹھنے سے چکر اور متلی کا شکار‬
‫ہوجاتے ہیں لیکن کچھ ٓاسان ٹپس پر عمل کرکے اس سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪76‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ڈاکٹرز کے نزدیک جب انسان کا ذہن اور کان کا اندرونی حصہ بیرونی حرکت ایک جیسے‬
‫محسوس نہ کر سکیں یا پھر جب اندرونی کان ٓاپ کی حرکت کوجان لے لیک ‪ ‬اور ٓاپ کی‬
‫ٓانکھیں گاڑی کے اندر لگی ہوں تو ٓانکھ دماغ‬
‫کو پیغام بھیجتی ہے کہ ٓاپ ساکن ہیں اس طرح ٓانکھ اور کان کے درمیان یہ تضاد متلیاور‬
‫چکروں کا باعث بن جاتا ہے تاہم لیکن کچھ ٓاسان ٹپس پر عمل کرکے اس سے نجات‬
‫حاصل کی جا سکتی ہے۔ ادرک کا استعمال‪ :‬امریکی ماہرین طب کا کہنا ہے کہ اس‬
‫پریشانی کا ٓاسان ترین حل ادرک ہے جس کے لیے سفر سے ایک گھنٹہ قبل تھوڑا سا‬
‫ادرک کھالیں اس سے سفر کے دوران متلی ٓانا بند ہوجائے گی۔ انگلی کے دبأو یا رسٹ بینڈ‬
‫سے‪:‬‬
‫سفر کے دوران ’’موشن سک‘‘ نیس کے شکار مریض اپنی کالئی کے گرد سی بینڈ باندھ‬
‫لیں جو کالئی کے اندر کی طرف دبأو ڈالتا ہے جس متلی ٓانا بند ہوجاتی ہے۔ امریکا میں کی‬
‫جانے والی کئی تحقیقات نے اس طریقہ کو مٔوثر قرار دیا ہے۔ اسکوپو المائین لگائیں‪:‬‬
‫مختلف جڑی بوٹیوں سے تیار کردہ اسکوپو المائین کو سفر کرنے سے کچھ گھنٹے قبل‬
‫کان کے پیچھے لگا لیا جائے جس سے نکلنے والے کیمیکل متلی اور چکر کو روکتے ہیں‬
‫اور اس کا اثر ‪ 72‬گھنٹے تک رہتا ہے۔ الرجی کے عالج والی ادویات‪ :‬ڈاکٹرز کا کہنا ہے‬
‫کہ اینٹی الرجی ادویات جسیے ڈراما مائین اور بینا ڈرل کا استعمال بھی اس بیماری میں‬
‫ٓارام دیتا ہے تاہم اس سے غنودگی طاری ہو سکتی ہے۔ اس کے عالوہ اس بیماری کا شکار‬
‫افراد کچھ ہلکے پھلکے کریکرز اور کاربونیٹیڈ پانی سفر کے دوران استعمال کرتے رہیں‬
‫جس سے معدہ نارمل رہے گا جب کہ کوشش کریں کہ کار کی اگلی سیٹ پر بیٹھیں اور‬
‫سفر کے دوران پیچھے کی جانب نہ دیکھں‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202110-126712.html‬‬

‫کھمبیاں کھائیے‪ ،‬ڈپریشن بھگائیے‬


‫ویب ڈیسک‬
‫جمعـء‪ 22 ‬اکتوبر‪  2021 ‬‬

‫روزمرہ غذا میں کھمبیوں کی ایک مخصوص اور نپی تلی مقدار ہی ڈپریشن کے خالف‬
‫ہمیں فائدہ پہنچاتی ہے۔ (فوٹو‪ :‬انٹرنیٹ)‬
‫پنسلوانیا‪ :‬امریکی طبّی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ جو لوگ روزانہ صرف ‪ 4.9‬گرام‬
‫کھمبی (مشروم) کھاتے ہیں‪ ،‬وہ ڈپریشن سے بھی محفوظ رہتے ہیں۔‬
‫پنسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی میں ماہرین کی یہی تحقیقی ٹیم پہلے یہ دریافت کرچکی ہے کہ‬
‫کھمبیاں کھانے سے کینسر کا خطرہ کم رہ جاتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪77‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کھمبیاں کھانے سے ڈپریشن‬
‫سے بچاؤ کے بارے میں بھی‬
‫کچھ شواہد مل چکے تھے‬
‫لیکن ان کی تصدیق ہونا باقی‬
‫تھی۔یہ جاننے کےلیے انہوں‬
‫نے ایک اور مطالعہ کیا جس‬
‫میں ‪ 24,699‬امریکی شریک‬
‫تھے۔ مطالعے کے شرکاء‬
‫سے ان میں کھانے پینے کی‬
‫عادات اور بیماریوں سے‬
‫متعلق سواالت کیے گئے‬
‫تھے۔کھانے میں کھمبیوں کے‬
‫استعمال اور ڈپریشن میں تعلق‬
‫کو مدنظر رکھتے ہوئے جب‬
‫انہوں نے ان معلومات کا‬
‫جائزہ لیا تو پتا چال کہ جو‬
‫لوگ روزمرہ غذا میں کھمبیاں‬
‫استعمال نہیں کرتے تھے یا ان کی بہت معمولی مقدار اپنی غذا میں شامل رکھا کرتے تھے‪،‬‬
‫ان میں ڈپریشن کی شکایت تقریبا ً ایک جیسی تھی۔‬
‫البتہ اوسطا ً ‪ 4.9‬گرام کھمبی روزانہ استعمال کرنے والوں میں ڈپریشن کی شکایت خاصی‬
‫کم تھی۔‬
‫سائنسدانوں کو امید تھی کہ روزمرہ استعمال میں کھمبیوں کی مقدار بڑھنے کے ساتھ ساتھ‬
‫ڈپریشن کے واقعات میں بھی کمی ٓائے گی لیکن ایسا نہیں ہوا۔‬
‫اس کے برعکس‪ Œ،‬انہیں معلوم ہوا کہ روزانہ زیادہ مقدار میں کھمبیاں کھانے والوں میں‬
‫ڈپریشن کی کیفیت ویسی ہی تھی جیسی کھمبیاں استعمال نہ کرنے والوں میں دیکھی گئی‬
‫تھی۔‬
‫خالف توقع ہے لیکن ماہرین کا کہنا ہے کہ اس سے‬ ‫ِ‬ ‫اگرچہ یہ دریافت حیرت انگیز اور‬
‫ظاہر ہوتا ہے کہ روزمرہ غذا میں کھمبیوں کی بہت زیادہ مقدار بھی مفید نہیں ہوتی بلکہ‬
‫ایک مخصوص اور نپی تلی مقدار ہی ڈپریشن کے خالف ہمیں فائدہ پہنچاتی ہے۔اس تحقیق‬
‫کی تفصیالت ’’جرنل ٓاف ایفیکٹیو ِڈس ٓارڈرز‘‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں ٓان الئن شائع ہوئی‬
‫ہیں جبکہ یہ ماہرین اپنا کام مزید ٓاگے بڑھاتے ہوئے‪ ،‬ڈپریشن میں کھمبیوں کے فوائد کو‬
‫زیادہ محتاط انداز میں کھنگالنے کی تیاری کررہے ہیں۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2238656/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪78‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انار کے طبی فوائد بے شمار‬

‫ویب ڈیسک‪ ‬‬
‫‪ ‬اتوار‪ 24 ‬اکتوبر‪2021 ‬‬

‫اناردل کے لیے مفید ہے اور بلڈ پریشر قابو میں رکھنے کے ساتھ ساتھ بے شمار‬
‫طبی فوائد رکھتا ہے۔‬
‫‪ ‬لندن‪ :‬انار کے خوش نما دانے گویا چھوٹے یاقوت کی مانند دکھائے دیتے ہیں۔ اپنے‬
‫ذائقے اور فوائد کی وجہ سے یہ پھل دنیا بھر میں مشہور ہے لیکن اسے کھولنے اور‬
‫چھیلنے کی وجہ سے لوگ الجھن محسوس کرتے ہیں۔ تاہم ان میں صحت کا ایک خزانہ‬
‫پوشیدہ ہے۔‬
‫انار میں ریشوں (فائبر) کی بڑی مقدار پائی جاتی ہے جبکہ طرح طرح کے اینٹی ٓاکسیڈنٹس‬
‫ماہرغذائیات‬
‫ِ‬ ‫اسے انتہائی صحت بخش بناتے ہیں۔ پینسلوانیا اسٹیٹ یونیورسٹی سے وابستہ‬
‫ڈاکتر پینی ِکرس کہتی ہیں کہ انار کے شوخ رنگ کو ہی دیکھ لیجئے جو پولی فینول نامی‬
‫رنگت کی وجہ سے سرخ ہوتا ہے۔‬
‫پولی فینولزاینٹی ٓاکسیڈنٹس کی طرح کام کرتے ہیں اور جسم میں عمررسیدگی سے لڑنے‬
‫کے ساتھ ساتھ اندرونی سوزش (انفلیمیشن) کم کرتے ہیں۔ ایک کپ اناردانوں میں ‪72‬‬
‫تحقیقات | ‪79‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کیلوریز پائی جاتی ہیں۔ ‪ 16‬گرام کاربوہائیڈریٹس پائے جاتے ہیں اور تین گرام فائبر یعنی‬
‫ریشہ ہوا ہے۔ اس کے عالوہ فولیٹ‪ ،‬وٹامن کے اور پوٹاشیئم کی بڑی مقدار اس میں موجود‬
‫ہوتی ہے۔‬
‫موسم سرما کے جواہر بھی کہا جاتا ہے۔ قدیم تہذیب میں اسے خوشحالی‪،‬‬ ‫ِ‬ ‫ایران میں انار کو‬
‫فراوانی اور زرخیزی کا پھل بھی کہا جاتا رہا ہے۔‬
‫انار میں موجود پیونیسک ایسڈ ہے جو ایک طرح کا فیٹی ایسڈ ہے اور اپنے اندر بہت مفید‬
‫طبی خواص رکھتا ہے۔ اپنے خواص کی بنا پر یہ ذیابیطس کے مریضوں کے لیے اہم طبی‬
‫فوائد رکھتا ہے۔ اینٹی انفلیمیٹری خواص کی بنا پر جوڑوں کے درد کے مریض اسے‬
‫استعمال کرکے اپنے مرض کی شدت کم کرسکتےہیں۔‬
‫بعض تحقیقات سے ثابت ہوا ہے کہ دل کے لیے یہ پھل بہت مفید ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے‬
‫کہ یہ سوزش کم کرتا ہے اور شریانوں کو ہموار اور وسیع رکھتا ہے۔ تاہم ماہرین نے کہا‬
‫ہے کہ اس ضمن میں مزید تحقیق کی ضرورت ہے۔‬
‫انار کھانے سے بلڈ پریشر قابو رکھنے میں بہت مدد مل سکتی ہے۔ ‪ 2017‬میں ‪ 8‬اہم‬
‫تحقیقات‪ ،‬سروے اور کلینکل ٹرائلز کئے گئے جس میں کئی مریضوں کو انار کا رس پالیا‬
‫گیا ۔ معلوم ہوا کہ انارکا جوس بلڈ پریشر قابو میں رکھنے میں انتہائی مددگار ثابت ہوتا ہے۔‬
‫اس کے عالوہ یہ دل کا خیال بھی رکھتا ہے۔ ایک اور اچھی بات یہ ہے کہ رس کی‬
‫معمولی مقدار بھی بہت مفید اثرات رکھتی ہے۔‬
‫تاہم ماہرین خبردار کرتے ہیں کہ اگرٓاپ بلڈ پریشر کے مریض ہیں اور اسے کم کرنے کی‬
‫دوائیں کھاتے ہیں تو انار کا رس بلڈ پریشر غیرمعمولی طور پر کم کرسکتا ہے۔ اسی طرح‬
‫بعض افراد کو انار کا رس پی کر بد ہضمی کی شکایت بھی ہوسکتی ہے جس سے بچنا‬
‫ضروری ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2238770/9812/‬‬

‫کورونا ویکسین کےفوا ئد سے متعلق حیران کن تحقیق سامنے ٓاگئی۔۔‬


‫!جنہوں نے ویکسین نہیں لگوائی وہ فوری یہ خبر پڑھ لیں‬
‫‪     ‬‬
‫‪24/10/2021‬‬

‫اسالم ٓاباد(مانیٹرنگ ڈیسک) سعودی وزارت صحت نے مکمل کورونا ویکسینیشن کے چار‬
‫نمایاں فوائد بتائے ہیں۔عرب میڈیا کے مطابق مملکت کی وزارت صحت کا کہنا ہے کہ‬
‫کورونا ویکسین کی دونوں خوراکیں لگوانے سے ناصرف موجودہ کورونا وائرس بلکہ اس‬
‫کی نئی قسموں سے بھی حفاظت ہوتی ہے۔سعودی وزارت کے مطابق مکمل ویکسینیشن‬
‫سے معاشرہ بھی محفوظ ہوجاتا ہے۔ صحت بہتر رہتی ہے جبکہ معاشرے‬

‫تحقیقات | ‪80‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫میں اس مرض کے خالف قوت مدافعت میں اضافہ ہوتا ہے۔سعودی حکومت نے مملکت‬
‫میں ویکسین کی چار اقسام کی منظوری دی ہے جن میں فائزربائیونٹیک‪ ،‬اسٹرازائینکا‪Œ،‬‬
‫جانس اینڈ جانس اور موڈرنا شامل ہیں۔مملکت کے تمام ریجنز میں ویکسینیشن سینٹرز قائم‬
‫کیے گئے ہیں جہاں سعودی شہریوں اور تارکین کو مفت ویکسین لگائی جاتی ہے‪18 ،‬‬
‫برس اور اس سے زائد عمر کے افراد کے لیے بوسٹر ڈوز کی بھی منظوری دی گئی ہے۔‬
‫سعودی عرب میں کورونا سے بچاو کےلیے منظور شدہ چاروں ویکسین کی دوخوراکوں‬
‫کو الزمی قرار دیا ہے۔‬
‫‪https://dailyausaf.com/science-and-health/news-202110-126809.html‬‬

‫صرف ہڈیوں کے لئے وٹامن ڈی جلد کے لئے بھی مفید‬

‫اکتوبر ‪24 2021 ،‬‬

‫ہمارے جسم کو مناسب طریقے سے کام کرنے کے لیے مختلف قسم کے وٹامنز اور منرلز‬
‫کی ضرورت ہوتی ہے‪ ،‬کسی بھی وٹامن کی کمی مختلف مسائل پیدا کر سکتی ہے۔ ہماری‬
‫ِجلد اور بالوں کو کچھ وٹامن اور معدنیات کی بھی ضرورت ہوتی ہے‪ ،‬وٹامن ڈی کو‬
‫‪ ‬ہمارے جسم کے لیے انتہائی اہم سمجھا جاتا ہے۔‬
‫ِجلد اس کی پیداوار کا قدرتی ذخیرہ ہے‪ ،‬سورج کی روشنی کی کمی اور ناقص خوراک‬
‫وٹامن ڈی کی کمی کی دو عام وجوہات ہیں۔ جسم میں وٹامن ڈی کی کمی ِجلد کے بہت سے‬
‫مسائل جیسے خشک ِجلد کا باعث بن سکتی ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪81‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫وٹامن ڈی میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات بھی ہوتی ہیں‪ ،‬اس کی کمی ِجلد پر کیل مہاسوں‬
‫کا سبب بن سکتی ہے اور ساتھ ہی اس کی کمی جھریوں اور باریک لکیروں کی ظاہری‬
‫‪ ‬شکل کا باعث بن سکتی ہے۔‬
‫سورج کی روشنی جسم میں وٹامن ڈی پیدا کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے‪  ،‬خاص طور‬
‫پر ہائی ایس پی ایف سنسکرین کے بغیر۔ تاہم کئی غذائی ذرائع ایسے ہیں جو غذائیت سے‬
‫بھرپور ہوتے ہیں جنہیں آپ متبادل کے طور پر استعمال کر سکتے ہیں جیسے انڈے کی‬
‫زردی‪ ،‬بعض مچھلیاں (سالمن ‪ ،‬سارڈینز‪ ،‬ٹونا) ‪ ،‬اور وٹامن ڈی سے بھرپور دیگر غذائیں۔‬
‫‪:‬آپ کی صحت مند اور چمکتی ہوئی ِجلد کیلئے وٹامن ڈی کے کچھ فوائد‬
‫‪‬‬ ‫وٹامن ڈی سوزش کو کم کرنے میں مدد کرتا ہے‪ ،‬یہ ہلکے سے درمیانے درجے کی‬
‫سوزش کے طور پر کام کرتا ہے۔‬
‫‪‬‬ ‫وٹامن ڈی میں اینٹی بیکٹیریل خصوصیات پائی جاتی ہیں جس کی وجہ سے یہ ِجلد‬
‫کو جراثیم اور نقصان دہ کیمیکل سے بچاتا ہے۔‬
‫‪‬‬ ‫وٹامن ڈی ماحولیاتی نقصانات کو کم کرتا ہے‪ ،‬یہ ایک اینٹی آکسیڈینٹ کے طور پر‬
‫کام کرتا ہے اور ہمیں قبل از وقت بوڑھا ہونے سے بچاتا ہے۔‬
‫‪‬‬ ‫وٹامن ڈی میں نمی ہوتی ہے جس کی وجہ سے یہ ہماری ِجلد کو پانی کی کمی سے‬
‫محفوظ رکھتا ہے۔‬
‫‪‬‬ ‫یہ مدافعتی نظام کے خلیوں کی پیداوار کو بڑھا کر ِجلد کی قوت مدافعت کو بڑھاتا‬
‫ہے‬
‫‪https://jang.com.pk/news/1002207‬‬

‫تحقیقات | ‪82‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی مسائل کا سامنا‬
‫ہونے کا انکشاف‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪22 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی — کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے والے متعدد‬
‫افراد کو دماغی تنزلی جسے ذہنی دھند یا برین فوگ بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬کا سامنا مہینوں تک‬
‫ہوسکتا ہے۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬
‫النگ کووڈ یا اس بیماری کے طویل المعیاد اثرات ماہرین کے لیے چیلنج بنے ہوئے ہیں‪،‬‬
‫جن میں سے ایک ذہنی دھند بھی ہے‪ ،‬جس سے متاثر افراد کو مختلف دماغی افعال کے‬
‫مسائل بشمول یادداشت کی محرومی‪ ،‬ذہنی الجھن‪ ،‬توجہ مرکوز کرنے میں مشکل‪ ،‬سر‬
‫چکرانے اور روزمرہ کے کام کرنے میں مشکالت وغیرہ کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫ایشکن اسکول ٓاف میڈیسین کی اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں‬
‫بشمول ایسے افراد جن کو ہسپتال داخل نہیں ہونا پڑا‪ ،‬ان کو طویل المعیاد بنیادوں پر دماغی‬
‫افعال کی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم رجسٹری کے مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور‬
‫دریافت ہوا کہ لگ بھگ ایک چوتھائی افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا تھا۔‬

‫تحقیقات | ‪83‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق کے مطابق اگرچہ ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے مریضوں میں کووڈ کو شکست‬
‫دینے کے بعد ذہنی دھند کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر زیادہ بیمار نہ ہونے والے لوگوں کو‬
‫بھی دماغی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہونے کے کئی ماہ بعد بھی‬
‫مریضوں کو دماغی تنزلی کا سامنا بہت زیادہ تعداد میں ہورہا ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے افراد کے اہم دماغی افعال کے مسائل کا‬
‫سامنا ہوتا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ یہ پیٹرن ابتدائی رپورٹس سے مطابقت رکھتا ہے جن میں بتایا گیا کہ کووڈ‬
‫‪ 19‬کو شکست دینے کے بعد لوگوں کو مختلف ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫اسی تحقیقی ٹیم نے اپریل ‪ 2021‬میں ایک الگ تحقیق میں بتایا تھا کہ کووڈ کے ہر ‪ 3‬میں‬
‫سے ایک مریض کو ذہنی صحت سے جڑی طویل المعیاد عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں اپریل ‪ 2020‬سے مئی ‪ 2021‬تک ‪ 740‬کووڈ مریضوں کے ڈیٹا کو شامل کیا‬
‫گیا تھا جن میں ڈیمینشیا کی تاریخ نہیں تھی‪ ،‬ان افراد کی اوسط عمر ‪ 49‬سال تھی۔‬
‫ہر مریض کے دماغی افعال کا تجزیہ کیا گیا تھا اور محققین نے دماغی تنزلی کی شرح کی‬
‫جانچ پڑتال کی۔‬
‫محققین نے دریافت کی کہ ‪ 15‬فیصد کو بات چیت کی روانی میں مسائل کا سامنا تھا‪16 ،‬‬
‫فیصد کو دماغ کے ایگزیکٹیو‪ Œ‬فنکشننگ کے مسائل کا سامنا ہوا‪ 18 ،‬فیصد کی دماغی‬
‫تجزیہ کرنے کی رفتار سست ہوگئی‪ 20 ،‬فیصد کی فہرستیں تجزیہ کرنے کی صالحیت‬
‫متاثر ہوئی‪ 23 ،‬فیصد کی یادداشت پر اثرات مرتب ہوئے جبکہ ‪ 24‬فیصد کو دیگر ذہنی‬
‫مسائل کا سامنا ہوا۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ پسپتال میں زیرعالج رہنے والے مریضوں میں توجہ‪ ،‬زبان کی روانی‬
‫اور یادداشت جیسے افعال میں تنزلی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔‬

‫مگر ہسپتال میں داخل نہ ہونے والے افراد میں بھی یہ خطرہ ہوتا ہے اور تحقیق میں ہسپتال‬
‫میں زیرعالج رہنے والوں میں یہ شرح ‪ 37‬فیصد اور زیادہ بیمار نہ ہونے والے افراد میں‬
‫یہ شرح ‪ 16‬فیصد تک ریکارڈ ہوئی۔‬
‫محققین نے بتایا کہ کووڈ ‪ 19‬اور دماغی تنزلی کے درمیان تعلق سے مریضوں کے طویل‬
‫المعیاد عالج کے حوالے سے سواالت ابھرتے ہیں‪ ،‬خطرہ بڑھانے والے عناصر کو‬
‫شناخت کرنے کے لیے مزید تحقیق کی ضرورت‪ Œ‬ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل جاما نیٹ ورک اوپن میں شائع ہوئے‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171209/‬‬

‫تحقیقات | ‪84‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫کورونا سے تحفظ کی نئی ویکسین ’والنیوا‘ کے حوصلہ افزا نتائج‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪23 2021‬‬

‫ویکسین اینٹی باڈیز بنانے میں ‪ 95‬فیصد کردار ادا کرتی ہے‪ ،‬نتائج—فائل فوٹو‪ :‬اے ایف پی‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے کہ اس کی ویکسین کے ابتدائی نتائج‬ ‫فرانسیسی دوا ساز کمپنی ’والنیوا‘ نے‬
‫حوصلہ کن ہیں‪ ،‬جن سے معلوم ہوتا ہے کہ ویکسین کورونا کی تمام اقسام سے تحفظ فراہم‬
‫کرتی ہے۔‬
‫خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق ’والنیوا‘ کی جانب سے اپنی ویکسین کے تیسرے‬
‫ٰ‬
‫دعوی کیا ہے کہ ویکسین اینٹی باڈیز بنانے میں ‪95‬‬ ‫ٹرائل کے جاری اعداد و شمار میں‬
‫فیصد کام تک کام کرتی ہے۔‬
‫کمپنی کے مطابق تیسرے مرحلے کے نتائج سے معلوم ہوا کہ ’والنیوا‘ ویکسین کورونا کی‬
‫تمام اقسام پر اثر انداز ہوتی ہے اور ٹرائل کے دوران کوئی بھی مریض نہ تو وبا کا شکار‬
‫ہوا اور نہ ہی کسی کو ویکسین کے برے اثرات کی وجہ سے ہسپتال لے جانا پڑا۔‬
‫ٰ‬
‫دعوی ہے کہ ’والنیوا‘ ویکسین بھی برطانوی کمپنی کی ویکسین ’ٓاسٹرزینیکا‘‬ ‫کمپنی کا‬
‫جتنی موثر ہے جب کہ اس کے منفی اثرات باقی ویکسینز کے مقابلے نہ ہونے کے برابر‬
‫ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪85‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسی حوالے سے ’بی بی سی‘ نے بتایا کہ والنیوا کی جانب سے جاری بیان میں بتایا گیا کہ‬
‫ویکسین کا تیسرا ٓازمائشی پروگرام ایک ایسے وقت میں کیا گیا جب کہ برطانیہ میں کورونا‬
‫کی خطرناک قسم ’ڈیلٹا‘ عروج پر تھی۔‬
‫کمپنی کے مطابق ویکسین لگوانے والے کسی بھی شخص میں کورونا کی تشخیص نہیں‬
‫ہوئی جب کہ ان میں اینٹی باڈیز بننے کی گنجائش ‪ 95‬فیصد تک بڑھ گئی تھی۔‬
‫کمپنی نے یہ بھی واضح کیا کہ ان کی ویکسین میں ’انئیکٹیویٹ‘ کی پرانی ٹیکنالوجی کا‬
‫استعمال کیا گیا ہے‪ ،‬جس کا مطلب یہ ہے کہ ویکسین میں پہلے سے ہی مردہ کورونا‬
‫وائرس شامل ہے جو کہ انسانی جسم میں داخل ہوکر وائرس کی پیدائش کو ناکام بناتا ہے۔‬
‫کمپنی کے مطابق یہی ٹیکنالوجی پولیو اور فلو ویکسین میں استعمال کی جاتی رہی ہے۔‬
‫اہم ترین ٹرائل کے حوصلہ افزا نتائج ٓانے کے بعد کمپنی جلد ہی برطانوی حکومت کو‬
‫ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت کی درخواست دے گی جب کہ کمپنی یورپین یونین‬
‫کے ڈرگ ریگولیٹر ادارے کو بھی درخواست دینے کی منصوبہ بندی کر رہی ہے۔‬
‫کمپنی کو امید ہے کہ برطانوی حکومت ڈیٹا کی بنیاد پر رواں برس کے اختتام یا پھر‬
‫‪ 2022‬کے ٓاغاز تک ویکسین کے ہنگامی استعمال کی اجازت دے گی جب کہ یورپین یونین‬
‫مارچ ‪ 2022‬تک ویکسین کے استعمال کی اجازت دے گا۔‬
‫مذکورہ ویکسین سے قبل ’فائز‪ ،‬موڈرینا‪ٓ ،‬اسٹرزینیکا‪ ،‬سائنو ویک‪ ،‬جانسن اینڈ جانسن اور‬
‫اسپوٹنک سمیت بھارت کی ویکسینز کا استعمال جاری ہے جب کہ حال ہی میں کورونا سے‬
‫تحفظ کی پہلی گولیوں کے بھی حوصلہ کن نتائج سامنے ٓائے تھے۔‬
‫والنیوا‘ فرانسیسی کمپنی ہے‪ ،‬تاہم وہ ویکسین کی تیاری برطانوی ریاست اسکاٹ لینڈ میں’‬
‫کرنے کا ارادہ رکھتی ہے اور اس نے ویکسین کا ٹرائل بھی برطانیہ میں ہی کیا تھا۔‬
‫مذکورہ ویکسین کے ٹرائل میں ‪ 18‬سے ‪ 55‬سال کے افراد پر ٓازمائش کی گئی اور ہر فرد‬
‫کو ‪ 28‬دن کے اندر دو ڈوز دیے گئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171257/‬‬

‫بڑھتی عمر کے ساتھ دماغ کو تیز رکھنے کا ٓاسان نسخہ جان لیں‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪24 2021‬‬
‫یہ بات ایک طبی تحقیق میں سامنے آئی‬
‫ہر اچھی چیز کی طرح نیند بھی اسی وقت بہترین ہوتی ہے جب سونے کا دورانیہ‬
‫بہت کم یا زیادہ نہ ہو۔درحقیقت عمر بڑھنے کے ساتھ جو لوگ بہت کم یا بہت‬
‫زیادہ سونے کے عادی ہوتے ہیں ان میں دماغی تنزلی کا خطرہ درست وقت تک‬
‫نیند کے مزے لینے والوں کے مقابلے میں کم ہوتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪86‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬

‫ناقص نیند اور الزائمر امراض دونوں دماغی تنزلی سے منسلک ہیں اور ان دونوں کے‬
‫اثرات کو ایک دوسرے سے الگ کرنا چیلنج سے کم نہیں۔‬
‫واشنگٹن یونیورسٹی اسکول ٓاف میڈیسین کی اس تحقیق میں متعدد معمر افراد کے دماغی‬
‫افعال کا جائزہ کئی سال تک لیا گیا جبکہ الزائمر سے متعلق پروٹینز اور نیند کے دوران‬
‫دماغی سرگرمیوں کی جانچ پڑتال کی گئی۔‬
‫محققین نے اہم ڈیٹا اکٹھا کیا جس سے نیند‪ ،‬الزائمر اور دماغ افعال کے پیچیدہ تعلق کو‬
‫سمجھنے میں مدد ملے گی۔‬
‫الزائمر معمر افراد میں دماغی تنزلی کا باعث بننے واال اہم ترین وجہ ہے جو ‪ 70‬فیصد‬
‫ڈیمینشیا کیسز کا باعث بنتا ہے۔‬
‫ناقص نیند اس بیماری کی ایک عام عالمت ہے اور اس کے بڑھنے کی رفتار کو تیز‬
‫کردیتی ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ نیند کا دورانیہ دماغی کارکردگی کو وقت کے ساتھ مستحکم رکھنے‬
‫کے لیے بہت اہمیت رکھتا ہے۔‬
‫تحقیق میں ‪ 100‬معمر افراد کو شامل کیا گیا تھا جن میں الزائمر کے ابتدائی ٓاثار دریافت‬
‫ہوئے تھے اور دریافت ہوا کہ ‪ 6‬سے ‪ 8‬گھنٹے کی نیند دماغی افعال کو مستحکم رکھتے‬
‫ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪87‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫تحقیق میں بتایا گیا کہ اگر کوئی فرد ساڑھے ‪ 5‬گھنٹے سے کم وقت سونے کا عادی ہوتا‬
‫ہے تو اس کی دماغی کارکردگی متاثر ہوتی ہے اور یہی ایسے افراد کے ساتھ بھی ہوتا ہے‬
‫جن کی نیند کا دورانیہ ساڑھے ‪ 7‬گھنٹوں سے زیادہ ہو۔‬
‫تحقیق کے مطابق نیند کا کم دورانیہ ہی نہیں بلکہ زیادہ سونے سے بھی دماغی تنزلی کی‬
‫رفتار تیز ہوجاتی ہے‪ ،‬اس سے عندیہ ملتا ہے کہ نیند کا دورانیہ نہیں بلکہ معیار کنجی ہے۔‬
‫یعنی ایسی نیند جس کے دوران لوگ نیند کے چاروں مراحل سے ہر رات ‪ 4‬سے ‪ 6‬بار‬
‫گزریں۔‬
‫چونکہ ہر سائیکل کا دورانیہ ‪ 90‬منٹ کا ہوتا ہے تو بیشتر افراد کو اس ہدف کے حصول‬
‫کے لیے ‪ 7‬سے ‪ 8‬گھنٹے کی مسلسل نیند کی ضرورت ہوتی ہے۔‬
‫نیند کے اولین ‪ 2‬مراحل میں اپنے ردہم کو گھٹانا شروع کرتا ہے‪ ،‬دھڑکن اور سانس کی‬
‫رفتار سست ہوتی ہے‪ ،‬جسمانی درجہ حرارت گھٹ جاتا ہے اور ٓانکھوں کی حرکت تھم‬
‫جاتی ہے۔‬
‫اس سے اگلے مرحلے کی تیاری ہوتی ہے یعنی گہری نیند کی‪ ،‬یہ وہ وقت ہوتا ہے جب‬
‫دماغ دن بھر کی بھاگ دوڑ سے جسم پر مرتب اثرات کی مرمت شرع کرتا ہے اور جسم‬
‫خلیاتی سطح پر خود کو بحال کرتا ہے۔‬
‫ٓاخری مرحلہ وہ ہوتا ہے جب ہم خواب دیکھتے ہیں جس کے لیے ریپڈ ٓائی موومنٹ سلیپ‬
‫کی اصطالح بھی استعمال ہوتی ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل برین میں شائع ہوئے۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171317/‬‬

‫کووڈ سے حاملہ خواتین پر مرتب ہونے والے‪ Œ‬ایک عجیب اثر کا انکشاف‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪24 2021‬‬

‫یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬


‫کورونا وائرس کی وبا سے جڑا ایک اسرار اب تک ماہرین کی سمجھ نہیں ٓاسکا ہے کہ‬
‫خواتین اور لڑکیوں کے مقابلے میں مرد اور لڑکوں میں کووڈ ‪ 19‬کی شدت سنگین ہونے‬
‫کا خطرہ زیادہ کیوں ہوتا ہے۔اب امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں اس کی‬

‫تحقیقات | ‪88‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایک ممکنہ وجہ سامنے ٓائی ہے اور وہ دونوں صنفوں کے ابتدائی مدافعتی ردعمل کا‬
‫مختلف ہونا ہے۔‬

‫میساچوسٹس جنرل ہاسپٹل کی تحقیق میں ‪ 38‬ایسی خواتین کا جائزہ لیا گیا تھا جو حمل کے‬
‫دوران کورونا وائرس سے متاثر ہوئی تھیں۔‬
‫ان میں سے ‪ 50‬فیصد کے بطن میں لڑکے تھے‪ ،‬بیشتر خواتین میں کووڈ ‪ 19‬کی شدت‬
‫معمولی یا معتدل تھیں۔‬
‫محققین نے جلد ماں بننے والی ان خواتین میں بیماری سے بننے والی اینٹی باڈیز کی جانچ‬
‫پڑتال خون کے نمونوں اور ہونے والے بچوں میں ٓانول کے ٹشوز کے ذریعے کی گئی۔‬
‫نتائج سے معلوم ہوا کہ جن خواتین کے ہاں لڑکوں کی پیدائش متوقع تھی انہوں نے بیماری‬
‫کے بعد لڑکیوں کے مقابلے وائرس سے تحفظ فراہم کرنے والی اینٹی باڈیز کی کم مقدار کو‬
‫بیٹوں میں منتقل کیا۔‬
‫اسی طرح جن خواتین کے ہاں لڑکوں کی پیدائش متوقع تھی ان میں بیماری کے بعد بننے‬
‫والی اینٹی باڈیز کی تعداد لڑکیوں کو جنم دینے والی خواتین کے مقابلے میں کافی کم تھی۔‬
‫محققین نے بتایا کہ اس سے ماں اور بچے کے مدافعتی نظام کے حوالے سے چند اشارے‬
‫ملتے ہیں۔‬
‫نتائج سے ممکنہ عندیہ ملتا ہے کہ مردوں اور خواتین کا کووڈ ‪ 19‬کے حوالے سے‬
‫مدافعتی ردعمل کتنا مختلف ہوتا ہے۔‬
‫تحقیق کے مطابق لڑکوں میں وائرس سے بظاہر ورم کا ردعمل تشکیل پاتا پے جو لڑکیوں‬
‫میں نظر نہیں ٓاتا۔‬
‫تحقیقات | ‪89‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫محققین نے بتایا کہ ورم ممکنہ طور پر ماں کی کورونا وائرس اینٹی باڈیز کو پطن میں‬
‫موجود بچے میں منتقل کرنے کی صالحیت متاثر ہوتی ہے۔‬
‫تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ لڑکوں سے حاملہ خواتین کے ٓانول میں ورم کو بڑھانے والے‬
‫جیز زیادہ متحرک ہوتے ہیں جبکہ لڑکیوں والی حاملہ خواتین میں ایسا نہیں ہوتا۔‬
‫محققین کا کہنا تھا کہ اس طرح کا ردعمل اس بات کی اہمیت ظاہر کرتا ہے کہ ماں کو‬
‫وائرل انفیکشن ہونے پر ٓانول اور ہونے والے بچوں کا تحفظ کتنا ضروری ہ۔‬
‫محققین نے اس سے ملتے جلتے مدافعتی ردعمل کا مشاہدہ کووڈ ‪ 19‬سے متاثر مردوں میں‬
‫بھی کیا ہے۔‬
‫کی ایک تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ متاثرہ مردوں میں سائٹوکائین نامی پروٹینز ‪2020‬‬
‫کی سطح بہت زیادہ بڑھ جاتی ہے جو ورم کو بڑھاتا ہے‪ ،‬اسی وجہ سے ان میں بیماری‬
‫کی سنگین شدت کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫اس نئی تحقیق میں شامل ماہرین نے بتایا کہ نتائج سے کچھ اشارے ملتے ہیں کہ مردوں‬
‫میں قوت مدافعت کا ٓاغاز ممکنہ طور پر ماں کے بطن میں ہی ہوجاتا ہے۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے جرنل سائنس میں شائع ہوئے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171332/‬‬

‫کیا کورونا کی نئی قسم ڈیلٹا پلس زیادہ متعدی ہے؟‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪24 2021‬‬

‫تحقیقات | ‪90‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫ٰ‬
‫دعوی ابتدائی شواہد میں سامنے ٓایا‬ ‫— یہ‬
‫کورونا کی قسم ڈیلٹا کی ذیلی قسم اے وائے ‪ 4.2‬ممکنہ طور پر ڈیلٹا سے زیادہ متعدی ہے۔‬
‫دعوی ابتدائی شواہد میں سامنے ایا۔یوکے ہیلتھ سیکیورٹی ایجنسی (یو کے ایچ ایس اے)‬ ‫ٰ‬ ‫یہ‬
‫کی جانب سے اس حوالے سے بیان جاری کیا گیا جس میں اس قسم (جو ڈیلٹا پلس سے‬
‫زیادہ جانی جاتی ہے) کو وی یو ٓائی ‪ 210‬سی ٹی ‪ 01‬کا ٓافیشل نام بھی دیا گیا۔‬
‫ڈیلٹا پلس کو برطانیہ میں سب سے پہلے جوالئی ‪ 2021‬میں دریافت کیا گیا تھا مگر یہ سب‬
‫سے پہلے بھارت میں نمودار ہوئی تھی۔‬
‫اس قسم کے کیسز امریکا اور کینیڈا میں بھی دریافت ہوئے ہیں۔‬
‫یو کے ایچ ایس اے کے ڈیٹا سے ثابت ہوتا ہے کہ کورونا کی یہ قسم اس وقت برطانیہ میں‬
‫‪ 6‬فیصد کیسز کا باعث ہے اور اس تعداد میں مسلسل اضافہ ہورہا ہے۔‬
‫یو کے ایچ ایس اے کی چیف ایگزیکٹیو‪ Œ‬ڈاکٹر جینی ہیریس نے بتایا کہ وائرسز میں اکثر‬
‫میوٹیشنز ہوتی ہیں تو وبا کے چلتے کورونا کی نئی اقسام کا ابھرنا غیرمتوقع نہیں‪ ،‬اس‬
‫سے یہ شواہد ملتے ہیں کہ وبا ابھی ختم نہیں ہوئی۔‬
‫بیان میں کہا گیا کہ کورونا کی اس قسم کے حوالے سے مزید تحقیق کی ضرورت ہے کہ‬
‫یہ ڈیلٹا سے زیادہ متعدی ہے یا نہیں۔‬
‫لندن کالج یونیورسٹی کے جینیٹکس انسٹیٹوٹ کے ڈائریکٹر فرانسوئس بیلوکس نے بتایا کہ‬
‫اے وائے ‪ 4.2‬ابھی زیادہ پھیال نہیں تو اگر وہ ‪ 10‬فیصد زیادہ متعدی ہو بھی تو اس کے‬
‫نتیجے میں اضافی کیسز کی تعداد بہت کم ہوگی۔‬

‫تحقیقات | ‪91‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫انہوں نے کہا کہ اگر یہ قسم واقعی زیادہ متعدی ہے تو کیسز کے پھیالؤ کا فرق اس طرح‬
‫کا نہیں ہوگا جس طرح ڈیلٹا کے پھیلنے سے ہوا‪ ،‬جو اس وقت گردش کرنے والی تمام‬
‫اقسام سے بہت زیادہ متعدی تھی۔‬
‫خیال رہے کہ اسپائیک پروٹین کورونا وائرس کے باہری حصے میں ہوتا ہے جو وائرس‬
‫کو خلیات میں داخل ہونے میں مدد فراہم کرتا ہے۔‬
‫تاہم کیمبرج یونیورسٹی کے پروفیسر روی گپتا کے مطابق یہ میوٹیشنز زیادہ تشویش کا‬
‫باعث نہیں‪ ،‬اے ‪ 222‬وی کو ڈیلٹا میں بھی دیکھا گیا اور اس سے وائرس پر بہت زیادہ اثر‬
‫نہیں ہوتا۔‬
‫انہوں نے مزید بتایا کہ وائے ‪ 145‬ایچ کو ایال اور دیگر اقسام میں بھی دیکھا گیا جو بظاہر‬
‫اینٹی باڈیز پر اثرات مرتب کرتی ہے مگر یہ اثر معمولی یا معتدل ہوتا ہے۔‬
‫پروفیسر روی گپتا کے مطابق نئی قسم پر توجہ مرکوز کرتے ہوئے ایک اہم نکتے کے‬
‫نظر انداز کیا جارہا ہے اور وہ یہ ہے کہ زیادہ عمر کے بچوں کی ویکسینیشن سست روی‬
‫سے ہورہی ہے۔‬

‫انہوں نے کہا کہ برطانیہ میں جو ابھی ہورہا ہے اس کے لیے ہم وائرس کو ذمہ دار قرار‬
‫نہیں دے سکتے‪ ،‬ایسا اس لیے ہورہا ہے کیونکہ ہم اس کے پھیالؤ کو روکنے مین ناکام‬
‫ہوگئے ہیں اور اس لیے بھی کیونکہ بچے اس وائرس کے سامنے ویکسینیشن نہ ہونے کی‬
‫وجہ سے کمزور ہیں۔‬
‫انہوں نے یہ بھی بتایا کہ ایسا ڈیلٹا کی باالدستی کی وجہ سے بھی ہورہا ہے جو ایلفا کے‬
‫مقابلے میں مدافعتی ردعمل پر حملہ آور ہونے کی زیادہ بہتر صالحیت رکھنے قسم ہے۔‬
‫پروفیسر روی گپتا کے مطابق کورونا کی یہ قسم ویکسین سے حاصل ہونے والے دفاع‬
‫سے گزر سکتی ہے‪ ،‬تو ویکسینز سے بیماری سے جزوی تحفظ ملتا ہے مکمل نہیں‪،‬‬
‫ویکسینیشن کا مقصد بیماری کی سنگین پیچیدگیوں سے تحفظ فراہم کرنا ہے‪ ،‬تو میوٹیشنز‬
‫کے بارے میں فکرمند ہونے کی بجائے قابو سے باہر پھیالؤ کے بارے میں سوچنا چاہیے‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171333/‬‬

‫کووڈ کے طویل المعیاد اثرات سے زندگی کس حد تک متاثر ہوسکتی‬


‫ہے؟‬
‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪25 2021‬‬

‫— یہ بات ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے آئی‬

‫تحقیقات | ‪92‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫ایسے افراد جن کو کورونا وائرس کو شکست دینے کے بعد النگ کووڈ کا سامنا ہوتا ہے‪،‬‬
‫ان میں عالمات کا تسلسل کم از کم ایک سال تک برقرار رہ سکتا ہے‪ ،‬جس کے باعث ان‬
‫کی کام کرنے کی صالحیت‪ ،‬جسمانی سرگرمیوں شرکت‪ ،‬دوسروں سے بات چیت‪ ،‬دماغی‬
‫افعال اور زندگی کے مجموعی معیار پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں۔‬
‫یہ بات امریکا میں ہونے والی ایک نئی طبی تحقیق میں سامنے ٓائی۔‬
‫ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم کے ماہرین نے پہلی مرتبہ النگ کووڈ کے مریضوں پر مرتب‬
‫اثرات کی جانچ پڑتال کی اور ایسے عناصر کی تفصیالت بیان کیں جن کی وجہ سے‬
‫عالمات کی شدت بڑھ سکتی ہے۔‬
‫تحقیق کے لیے مارچ ‪ 2020‬سے مارچ ‪ 2021‬کے دوران ماؤنٹ سینائی کے پوسٹ کووڈ‬
‫کیئر سینٹر میں زیر عالج رہنے والے ‪ 156‬مریضوں کے ڈیٹا کا جائزہ لیا گیا تھا۔‬
‫ان مریضوں نے کووڈ کا سامنا کیا تھا اور تحقیق کے وقت تک ویکسینیشن نہیں کرائی‬
‫تھی۔‬
‫ان افراد سے بیماری کے پہلے دن سے لے کر ‪ 351‬دن بعد تک عالمات کے تسلسل اور‬
‫ان کی شدت بڑھانے والے عناصر سے متعلق سرویز فارم بھروائے گئے۔‬
‫انہیں کہا گیا کہ وہ تھکاوٹ‪ ،‬سانس لینے میں مشکالت‪ ،‬معتدل اور سخت جسمانی‬
‫سرگرمیوں کو مکمل کرنے کی اہلیت‪ ،‬دماغی افعال‪ ،‬معیار زندگی سے جڑی صحت‪،‬‬
‫انزائٹی‪ ،‬ڈپریشن‪ ،‬معذوری اور کووڈ سے قبل اور بعد میں مالزمت کی حیثیت کی تمام تر‬
‫تفصیالت بیان کرنے کا کہا گیا۔‬
‫سب سے زیادہ عام عالمت تھکاوٹ تھی جس کا سامنا ‪ 82‬فیصد مریضوں کو ہوا‪ ،‬جس کے‬
‫بعد دماغی دھند (‪ 67‬فیصد)‪ ،‬سردرد (‪ 60‬فیصد)‪ ،‬نیند متاثر ہونے (‪ 59‬فیصد) اور سر‬
‫چکرانے (‪ 54‬فیصد) قابل ذکر تھیں۔‬
‫محققین نے دماغی تنزلی کی رپورٹ کی شدت کا زیادہ تفصیلی جائزہ لیا اور دریافت ہوا کہ‬
‫‪ 60‬فیصد سے زیادہ النگ کووڈ کے مریضوں کے دماغی افعال میں کسی حد تک متاثر‬
‫ہوئے ہیں‪ ،‬جیسے مختصر مدت کی یادداشت کمزور ہوئی‪ ،‬ناموں کو یاد رکھنے میں‬
‫مشکالت‪ ،‬فیصلہ سازی اور روزمرہ کی منصوبہ بندی کے مسائل کا سامنا ہوا۔‬
‫افراد نے کووڈ سے قبل اور بعد میں مالزمت کے حوالے سے سواالت کے جواب ‪135‬‬
‫دیئے اور دریافت ہوا کہ کووڈ سے قبل ‪ 102‬افراد کل وقتی مالزمت کررہے تھے مگر‬
‫بیماری کے بعد یہ تعداد ‪ 55‬رہ گئی۔‬
‫مزید گہرائی میں جانے پر ماہرین نے ان ممکنہ عناصر کو شناخت کیا جو النگ کووڈ ی‬
‫عالمات کی شدت بدتر کرنے کا باعث بنتے ہیں۔‬
‫ان میں سب سے بڑا عنصر جسمانی سرگرمیوں کی سطح گھٹ جانا تھا جس کو ‪ 86‬فیصد‬
‫مریضوں نے رپورٹ کیا جس کے بعد تناؤ (‪ 69‬فیصد)‪ ،‬ڈی ہائیڈریشن (‪ 49‬فیصد) اور‬
‫موسمیاتی تبدیلیاں (‪ 37‬فیصد) قابل ذکر ہیں۔‬
‫اس تحقیق کے نتائج طبی جریدے امریکن جرنل ٓاف فزیکل اینڈ ری ہیبیلیٹشن میڈیسین میں‬
‫شائع ہوئے۔‬
‫تحقیقات | ‪93‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫اس سے قبل ماؤنٹ سینائی کے ہی ایشکن اسکول ٓاف میڈیسین کی ایک حالیہ تحقیق میں‬
‫بتایا گیا تھا کہ کووڈ ‪ 19‬کو شکست دینے والے متعدد افراد کو دماغی تنزلی جسے ذہنی‬
‫دھند یا برین فوگ بھی کہا جاتا ہے‪ ،‬کا سامنا مہینوں تک ہوسکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں دریافت کیا گیا کہ کووڈ کے متعدد مریضوں بشمول ایسے افراد جن کو‬
‫ہسپتال داخل نہیں ہونا پڑا‪ ،‬ان کو طویل المعیاد بنیادوں پر دماغی افعال کی تنزلی کا سامنا‬
‫ہوسکتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں ماؤنٹ سینائی ہیلتھ سسٹم رجسٹری کے مریضوں کا جائزہ لیا گیا اور‬
‫دریافت ہوا کہ لگ بھگ ایک چوتھائی افراد کو یادداشت کے مسائل کا سامنا تھا۔‬
‫تحقیق کے مطابق اگرچہ ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے مریضوں میں کووڈ کو شکست‬
‫دینے کے بعد ذہنی دھند کا خطرہ زیادہ ہوتا ہے مگر زیادہ بیمار نہ ہونے والے لوگوں کو‬
‫بھی دماغی تنزلی کا سامنا ہوسکتا ہے۔‬
‫محققین نے بتایا کہ ہم نے دریافت کیا کہ کووڈ ‪ 19‬سے متاثر ہونے کے کئی ماہ بعد بھی‬
‫مریضوں کو دماغی تنزلی کا سامنا بہت زیادہ تعداد میں ہورہا ہے۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے افراد کے اہم دماغی افعال کے مسائل کا‬
‫سامنا ہوتا ہے۔‬
‫ان کا کہنا تھا کہ یہ پیٹرن ابتدائی رپورٹس سے مطابقت رکھتا ہے جن میں بتایا گیا کہ کووڈ‬
‫‪ 19‬کو شکست دینے کے بعد لوگوں کو مختلف ذہنی مسائل کا سامنا ہوتا ہے۔‬

‫تحقیقات | ‪94‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اسی تحقیقی ٹیم نے اپریل ‪ 2021‬میں ایک الگ تحقیق میں بتایا تھا کہ کووڈ کے ہر ‪ 3‬میں‬
‫سے ایک مریض کو ذہنی صحت سے جڑی طویل المعیاد عالمات کا سامنا ہوتا ہے۔‬
‫اس تحقیق میں اپریل ‪ 2020‬سے مئی ‪ 2021‬تک ‪ 740‬کووڈ مریضوں کے ڈیٹا کو شامل کیا‬
‫گیا تھا جن میں ڈیمینشیا کی تاریخ نہیں تھی‪ ،‬ان افراد کی اوسط عمر ‪ 49‬سال تھی۔‬
‫ہر مریض کے دماغی افعال کا تجزیہ کیا گیا تھا اور محققین نے دماغی تنزلی کی شرح کی‬
‫جانچ پڑتال کی۔‬
‫محققین نے دریافت کی کہ ‪ 15‬فیصد کو بات چیت کی روانی میں مسائل کا سامنا تھا‪16 ،‬‬
‫فیصد کو دماغ کے ایگزیکٹیو‪ Œ‬فنکشننگ کے مسائل کا سامنا ہوا‪ 18 ،‬فیصد کی دماغی‬
‫تجزیہ کرنے کی رفتار سست ہوگئی‪ 20 ،‬فیصد کی فہرستیں تجزیہ کرنے کی صالحیت‬
‫متاثر ہوئی‪ 23 ،‬فیصد کی یادداشت پر اثرات مرتب ہوئے جبکہ ‪ 24‬فیصد کو دیگر ذہنی‬
‫مسائل کا سامنا ہوا۔‬
‫انہوں نے بتایا کہ ہسپتال میں زیرعالج رہنے والے مریضوں میں توجہ‪ ،‬زبان کی روانی‬
‫اور یادداشت جیسے افعال میں تنزلی کا امکان زیادہ ہوتا ہے۔‬
‫مگر ہسپتال میں داخل نہ ہونے والے افراد میں بھی یہ خطرہ ہوتا ہے اور تحقیق میں ہسپتال‬
‫میں زیرعالج رہنے والوں میں یہ شرح ‪ 37‬فیصد اور زیادہ بیمار نہ ہونے والے افراد میں‬
‫یہ شرح ‪ 16‬فیصد تک ریکارڈ ہوئی۔‬
‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171408/‬‬
‫موڈرنا کووڈ ویکسین ‪ 6‬سے ‪ 11‬سال کے بچوں میں محفوظ اور مؤثر‬
‫قرار‬

‫ویب ڈیسک‬
‫اکتوبر ‪25 2021‬‬

‫کمپنی نے ٹرائل کے ابتدائی نتائج جاری کیے‬


‫موڈرنا نے ‪ 6‬سے ‪ 11‬سال کی عمر کے بچوں پر اپنی کووڈ ‪ 19‬ویکسین کے ٹرائل کے‬
‫نتائج کا اعالن کیا ہے۔کمپنی کے مطابق اس کی تیار کردہ ایم ٓار این اے ویکسین ‪ 6‬سے ‪11‬‬
‫سال کی عمر کے بچوں میں ٹھوس مدافعتی ردعمل کو متحرک کرتی ہے جس کی سطح‬
‫لگ بھگ نوجوانوں اور بالغ افراد میں بننے والے مدافعتی ردعمل جتنی ہوتی ہے۔‬
‫یہ ٹرائل کے دوسرے‪ /‬تیسرے مرحلے کے ابتدائی نتائج ہیں جن سے ثابت ہوتا ہے کہ‬
‫ویکسین بچوں کو استعمال کرانے کے لیے محفوظ ہے۔‬

‫اس ٹرائل میں ‪ 4573‬صحت مند بچوں کو شامل کیا گیا تھا جن میں سے ویکسین اور پلیسبو‬
‫استعمال کرنے والے گروپس کو بنایا گیا۔ویکسین گروپ میں شامل بچوں کو ‪ 50‬مائیکرو‬
‫گرام کی ‪ 2‬خوراکیں ‪ 28‬دن کے وقفے سے استعمال کرائی گئی تھیں۔‬
‫تحقیقات | ‪95‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬

‫نتائج سے ثابت ہوا کہ دوسری خوراک کے استعمال کے ایک ماہ بعد بچوں میں ٹھوس‬
‫مدافعتی ردعمل بن گیا۔ٹرائل میں جو مضر اثرات بچوں میں نظر ٓائے وہ معمولی یا معتدل‬
‫تھے جن میں تھکاوٹ‪ ،‬سردرد‪ ،‬بخار اور انجیکشن کے مقام پر تکلیف قابل ذکر ہے۔‬
‫اب کمپنی کی جانب سے یہ ڈیٹا دنیا بھر میں ریگولیٹری اداروں کو پاس جمع کرانے کے‬
‫بعد اس عمر کے بچوں کے لیے ویکسین استعمال کرنے کی اجازت طلب کی جائے گی۔‬
‫یہ نتائج اس وقت سامنے ٓائے ہیں جب ‪ 22‬اکتوبر کو فائزر کی جانب سے ‪ 5‬سے ‪ 11‬سال‬
‫کے بچوں میں ویکسین ٹرائل کے نتائج جاری کیے گئے تھے۔‬
‫تحقیق میں ‪ 5‬سے ‪ 11‬سال کے بچوں میں ویکسین محفوظ اور بیماری سے بچانے کے لیے‬
‫‪ 90.7‬فیصد تک مؤثر ثابت ہوئی۔‬
‫فائزر کی جانب سے اب اس ڈیٹا کو یو ایس فوڈ اینڈ ڈرگ ایڈمنسٹریشن کے پاس جمع کرایا‬
‫جارہا ہے تاکہ اس عمر کے بچوں کے لیے ویکسینیشن کی منظوری حاصل کی جاسکے۔‬
‫اس تحقیق میں ‪ 5‬سے ‪ 11‬سال کی عمر کے ‪ 2268‬بچوں کو شامل کیا گیا تھا جن کو ‪3‬‬
‫ہفتوں کے وقفے کے دوران پلیسبو یا کم مقدار میں ویکسین کی ‪ 2‬خوراکیں استعمال کرائی‬
‫گئی تھیں۔‬
‫ویکسین کی ہر خوراک کی مقدار نوجوانوں اور بالغ افراد کو دی جانے والی ویکسین کی‬
‫مقدار سے دو تہائی کم تھی۔‬
‫تحقیق میں پلیسبو استعمال کرنے والوں میں ‪ 16‬جبکہ ویکسین شدہ بچوں میں کووڈ کے ‪3‬‬
‫کیسز رپورٹ ہوئے جن کو مدنظر رکھتے ہوئے محققین نے تخمینہ لگایا کہ کم مقدار والی‬
‫خوراک والی ویکسین اس عمر کے گروپ میں لگ بھگ ‪ 91‬فیصد تک مؤثر تھی۔‬

‫‪https://www.dawnnews.tv/news/1171409/‬‬

‫تحقیقات | ‪96‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫مکمل اناج کا استعمال ذیابیطس سے بھی بچاتا ہے‪ ،‬تحقیق‬

‫‪  ‬ویب ڈیسک‬
‫پير‪ 25 ‬اکتوبر‪2021 ‬‬

‫چھلکے سمیت گندم اور جو وغیرہ کو ’مکمل اناج‘ کہا جاتا ہے‪ ،‬جس کی خوبیاں ہر نئی‬
‫تحقیق کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔‬
‫ہیلسنکی‪ :‬فن لینڈ کے طبّی ماہرین نے دریافت کیا ہے کہ مکمل اناج (ہول گرین) کے‬
‫استعمال سے ذیابیطس کے خطرے میں کمی واقع ہوتی ہے جو ٓانے والے برسوں میں‬
‫تشخیص‪ ،‬ادویہ اور دوسرے متعلقہ حوالوں سے اخراجات میں بچت کا باعث بھی بنتی‬
‫ہے۔‬
‫ریسرچ جرنل ’نیوٹریئنٹس‘ کے‪ ‬تازہ شمارے‪ ‬میں شائع ہونے والی یہ تحقیق یونیورسٹی ٓاف‬
‫ایسٹرن فن لینڈ اور فنّش انسٹی ٹیوٹ فار ہیلتھ اینڈ ویلفیئر کے ماہرین نے مشترکہ طور پر‬
‫انجام دی ہے۔‬
‫کہا )‪‘ (whole grain‬بتاتے چلیں کہ چھلکے سمیت گندم اور جو وغیرہ کو ’مکمل اناج‬
‫جاتا ہے‪ ،‬جس کی خوبیاں ہر نئی تحقیق کے ساتھ بڑھ رہی ہیں۔‬

‫تحقیقات | ‪97‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬


‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫اس تحقیق میں بتایا گیا ہے کہ اگر روزمرہ غذا میں تقریبا ً ‪ 100‬گرام مکمل اناج شامل رہے‬
‫تو ذیابیطس کے خطرے کو بھی لگ بھگ دس سال تک ٹاال جاسکتا ہے۔‬
‫ذیابیطس الحق ہونے کی صورت میں ذیابیطس کے عالج معالجے اور دواؤں سے متعلق‬
‫اخراجات میں بھی بتدریج اضافہ ہوتا رہتا ہے جو بہت سے دوسرے معاشی مسائل کو جنم‬
‫دے سکتا ہے۔‬
‫ان کا کہنا ہے کہ اگر صرف یورپ کے رہنے والے تمام لوگ مکمل اناج کا استعمال شروع‬
‫کردیں تو اس سے ایک عشرے میں ‪ 100‬کروڑ یورو کی بچت ممکن ہے۔‬
‫‪https://www.express.pk/story/2239860/9812/‬‬

‫ض قلب سے دور رکھتی ہے‬


‫مونگ پھلی فالج اورامرا ِ‬
‫‪ ‬ویب ڈیسک‬
‫منگل‪ 26  ‬اکتوبر‪ 2021  ‬‬

‫جاپان میں ‪ 74‬ہزار مردوزن پر تحقیق سے معلوم ہوا ہے کہ روزانہ مٹھی بھر مونگ پھلی‬
‫امراض قلب کے خطرات کم ہوسکتے ہیں۔‬
‫ِ‬ ‫کھانے سے بھی فالج اور‬
‫ض قلب سے اموات کا سلسلہ ہوش ربا رفتار‬‫اوساکا‪ :‬پاکستان سمیت دنیا بھر میں امرا ِ‬
‫سے ٓاگے بڑھ رہا ہے اور اب خبر یہ ٓائی ہے کہ روزانہ مونگ پھلی کے چار یا پانچ دانے‬
‫کھانے سے بھی بہت فرق پڑسکتا ہے۔‬
‫تحقیقات | ‪98‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬
‫ویکلی طِ ّبی تحقیقات‬
‫لیکن یہ تحقیق جاپان میں ہوئی اور اس ضمن میں ایشیائی افراد کو اس سے فائدہ ہوسکتا‬
‫ہے۔ لیکن ضروری ہے کہ مونگ پھلی کھانے کو معمول کا حصہ بنایا جائے۔‬
‫یہ تحقیق امریکی ہارٹ ایسوسی ایشن کی ویب سائٹ شائع کی گئی ہے جس میں کہا گیا ہے‬
‫کہ اگر روزانہ مونگ پھلی کے پانچ دانے کھائے جائیں تو خون کےلوتھڑے بننے اور فالج‬
‫کے اثرات و خطرات میں ‪ 20‬فیصد تک کمی واقع ہوسکتی ہے۔ جبکہ دل کی نالیوں کی‬
‫تنگی کا خطرہ ‪ 13‬فیصد تک کم ہوسکتا ہے جن میں خود فالج اور دل کی بیماریاں بھی‬
‫شامل ہیں۔‬
‫اچھی بات یہ ہے کہ مونگ پھلی کھانے سے مرد اور عورت پر اس کے یکساں مثبت‬
‫اثرات مرتب ہوتے ہیں۔ اس طرح ہم مونگ پھلی کو ایک جادو بھری غذا کہہ سکتے ہیں‬
‫جس کی تھوڑی سی مقدار بھی بہت مفید ثابت ہوسکتی ہے۔‬
‫اوساکا یونیورسٹی گریجویٹ اسکول ٓاف میڈیسن سے وابستہ سماجی ادویہ کے ماہر‬
‫پروفیسر ساٹیو ٓائکی ہارا اور ان کے ساتھیوں کا اصرار ہے کہ مونگ پھلی مونوسیچیوریٹڈ‬
‫فیٹی ایسڈز‪ ،‬پولی ان سیچیوریٹڈ فیٹی ایسڈز‪ ،‬معدنیات‪ ،‬وٹامن‪ ،‬فائبر سے بھرپور ہوتی ہیں‬
‫اور یہ سب ملکر بلڈ پریشر‪ ،‬جلن اور مضر کولیسٹرول سے محفوظ رکھتی ہیں۔ اس سے‬
‫قبل امریکی سروے سے بھی یہی ثبوت ملے ہیں۔‬
‫تاہم یہ نیا سروے ‪ 74,793‬مردوخواتین پر کیا گیا ہے جن کی عمرین ‪ 45‬سے ‪ 74‬برس‬
‫تھی اور انہیں ایک طویل مطالعے کے لیے جاپانی پبلک ہیلتھ سینٹر نے بطور رضاکار‬
‫بھرتی کیا تھا۔ اوسط ‪ 15‬برس تک تمام افراد کا جائزہ لیا گیا اور انہیں مونگ پھلیاں کھانے‬
‫کو بھی کہا گیا تھا۔‬
‫ان میں سے جن افراد نے محض مٹھی بھر مونگ پھلیاں کھانے کو بھی معمول بنایا ان میں‬
‫دونوں اقسام کے فالج یعنی اشکیمک اور ہیمریج کا خطرہ ‪ 87‬فیصد کم دیکھا گیا جبکہ دل‬
‫کے امراض کا خدشہ بھی ٹل گیا۔‬
‫واصح رہے کہ امریکن ہارٹ ایسوسی ایشن پہلے ہی کہہ چکی ہے کہ ‪ 40‬سال سے عمر‬
‫کے ہر فرد کے لیے ضروری ہے کہ وہ روزانہ ‪ 10‬بڑےچمچے بھر مونگ پھلی کھائیں۔‬
‫اس سے وہ نہ صرف کولیسٹرول اور بلڈ پریشر سے محفوظ رہیں گے بلکہ خود جان لیوا‬
‫امراض قلب سے بھی دور رہیں گے۔‬ ‫ِ‬ ‫فالج اور‬

‫‪https://www.express.pk/story/2240016/9812/‬‬

‫تحقیقات | ‪99‬‬ ‫جلد ‪، ۵‬شمارہ ‪ ۱۸ | ۱۴۷‬اکتوبر ‪۲۰۲۱‬۔ ‪ ۲۴‬اکتوبر‪|۲۰۲۱‬ہفتہ وار طبی‬

You might also like